سید مودودی نمبر نہایت دل چسپ اور اہم معلومات سے پُر ہے۔ میں مولانا مودودی کی علمی وسعت کا ہمیشہ قائل رہا ہوں‘ مگر اُن کی صاحبزادی سیدہ حمیرا مودودی صاحبہ کا مضمون پڑھ کر‘ مولانا مودودی کی شخصیت اور ان کی بیگم صاحبہ کی شخصیت نے دل پر گہرا اثر کیا۔ سیدہ حمیرا کے قلم اور اندازِ تحریر میں اپنے محترم والد کی جھلک ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
ترجمان کے خصوصی شمارے میں‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے آپ نے کیا اچھا مواد یکجا کر دیا ہے۔ ان شاء اللہ یہ دستاویز ہم طالب علموں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور اہلِ علم بھی اس سے فیض یاب ہوںگے۔
اشاعت ِ خاص‘ مولانا مودودیؒ کی مجتہدانہ بصیرت اور مجاہدانہ تڑپ کی نہایت طاقت ور پکار ہے۔
اشاعت ِ خاص دوم‘ اشاعت خاص اول (اکتوبر ۲۰۰۳ئ) کی طرح ایمان پرور ہی نہیں‘ بلکہ تحرک آفرین بھی ہے۔ اس کے مضامین‘ ایک خادم دین کی سرفروشانہ زندگی کی وہ پرتیں ہمارے سامنے کھولتے ہیں کہ مولانا محترم کی شخصیت سے مرعوبیت کے بجاے ایمان اور جہاد کی راہوں پر چلنے کا بے پناہ جذبہ اور حوصلہ ملتا ہے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد کے دونوں مضامین وسعت مطالعہ اور دانش ورانہ گہرائی کا مظہر ہونے کے ساتھ مستقبل کا نقشۂ کار بھی مہیا کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیدہ حمیرا مودودی صاحبہ کا مضمون اس اشاعت کی جان ہے‘ جو اپنے قاری کو آبدیدہ بھی کرتا ہے اور پُرعزم بھی بناتا ہے۔ انھوں نے جس خوب صورتی‘ حلاوت اور راست کلامی سے مضمون کو بُناہے‘ وہ مدتوں روح کو تازگی اور زندگی کو روشنی دیتا رہے گا۔ دوسرے مضامین بھی بہت شان دار ہیں‘ خصوصاً میاں طفیل محمد‘ ڈاکٹر مالک بدری‘ جلال الدین عمری‘ خالد علوی‘ حسن صہیب‘ ثروت جمال‘ ہارون الرشید کے مضامین--- رفیع الدین ہاشمی کی پیش کش سے مولانا محترم کے قلمی آثار کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ایک خاص چیز جو ان اشاعتوں سے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ تحریک سے وابستہ خواتین کا اسلوبِ بیان اور طرزِ پیش کش‘ ہمیں خوداعتمادی اور تشکر کی وادیوں میں سجدۂ شکر بجا لانے کی دعوت دیتی ہے۔میں مدیر اشاعتِ خاص کو ان کی اس عظیم کاوش پر قلب کی گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتی ہوں۔
اشاعت ِ خاص نے نہ صرف مولانا مودودیؒ کی شخصیت کی خوب صورتی کو آشکارا کیا ہے‘بلکہ ایک ایسا لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے کہ جس پر عالم حضرات دادِ تحقیق دیں اور اہلِ عمل‘ دعوت کو وسعت عطا کریں۔
مضامین پڑھ کر سالارِ قافلہ کی عظمت اور کاروانِ عزیمت کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا ہے۔
مضامین پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ اتنی عظیم شخصیت اور مردِ مومن کی علما نے جو مخالفت کی‘ اس کے محرکات‘ تعصبات یا گوناگوں اسباب پر بھی دو تین مقالات ہونے چاہییں تھے‘ کیونکہ یہ ایک زندہ موضوع ہے‘ جس میں آج بھی یک طرفہ طور پر مختلف علما کی جانب سے دل آزار تحریریں پڑھنے اور تقریریں سننے کو ملتی ہیں۔ مجلسِ عمل کے سیاسی تقاضے اپنی جگہ لیکن علمی موضوع کی اہمیت کے اپنے مطالبات ہیں۔
اتنے خوب صورت تحفے پر مبارک باد! اس جامع نمبر نے واقعی ایک تاریخی خدمت انجام دی ہے۔ تمام ہی مضامین روح پرور‘ دل کی گہرائیوں پر اثر ڈالنے اور خیالات کی دنیا میںہلچل پیدا کرنے والے ہیں۔
اشاعت ِ خاص ایک خوش آیند دستاویز ہے‘ تاہم اس چیز کی وضاحت ہوجاتی تو اچھا تھا کہ مولانا مودودیؒ ایک عادلانہ معاشی نظام کا کیا نقشۂ کار پیش کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایک فرسودہ سماجی ڈھانچے کو وہ کن بنیادوں پر نئے سرے سے‘ اسلامی تعلیمات کے زیرسایہ پروان چڑھانا چاہتے ہیں؟ آیندہ ان موضوعات پر مقالات کا انتظار رہے گا۔ عبدالرشید ارشد کے مضمون‘ ص ۱۳۹ میں بیرون بھاٹی گیٹ کو غلطی سے بیرون موچی گیٹ لکھا گیا ہے‘ اس کی تصحیح کر لی جائے۔
اشاعت ِ خاص کے دونوں حصے‘ مولانا مودودیؒ کی علمی و عملی جدوجہد کا متاثر کن تذکرہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس برگزیدہ بندے کی محبت اور تذکرے کو ہمارے اعمال حسنہ میں شامل فرمائے۔
خصوصی اشاعت اول میں مدیر ترجمان کا مضمون ’’یادیں ان کی‘ باتیں میری‘‘ بہت خوب ہے اور صاحبِ مضمون نے حتی الامکان اپنی یادوں کے سبھی دریچے وا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تاہم ایک جگہ پائی جانے والی فروگزاشت کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے--- اپنے مرحوم والد ماجد کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل‘ مولانا نے جو ادارہ دارالاسلام قائم کیا تھا‘ اس کے پہلے پانچ بنیادی افراد میں والد صاحب بھی شامل تھے‘‘ (ص ۱۹۳)۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ادارہ دارالاسلام کی تاسیس کے لیے جن حضرات کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی‘ ان میں ۱۲ حضرات بنفس نفیس شریک ہوئے تھے جن میں پروفیسر خورشید صاحب کے والد گرامی (نذیراحمد قریشی مرحوم) بھی شامل تھے۔ اس اجتماع کی پوری روداد ترجمان القرآن‘ جلد۱۳‘عدد۱ کے صفحہ ۱۵ اور ۱۶ پر مولانا مرحوم کے قلم سے درج ہے۔ مولانا نے رپورٹ کے آخری حصہ میں تحریر فرمایا ہے: ’’۱۷ سے ۱۹ شعبان تک تین روز مسلسل اجتماع رہا… پانچ اشخاص نے اپنے آپ کو رکنیت کے لیے پیش کر کے باقاعدہ حلف لیاجن کے نام یہ ہیں: ۱-مستری محمد صدیق صاحب ۲- سید محمد شاہ صاحب ۳- عبدالعزیز شرقی صاحب ۴-صدرالدین اصلاحی صاحب ۵- ابوالاعلیٰ مودودی‘‘۔ (ایضاً)
٭ بروقت توجہ دلانے اور تصحیح پر میں آپ کا ممنون ہوں۔ (مدیر)
مدیر ترجمان نے ’’اشارات‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) میں لکھا ہے کہ ’’قائداعظمؒ نے کانگریس کی قیادت سے پچاس سال چومکھی لڑائی لڑی اور بالآخر پاکستان حاصل کر کے رہے‘‘(ص ۲۰)‘ یعنی قائداعظم نے یہ معرکہ سر کیا۔ تاریخی طور پر تو ۱۹۰۶ء سے ۱۹۴۷ء تک بھی ۵۰ سال نہیں بنتے‘ جب کہ محمدعلی جناح مرحوم نے تشکیل آل انڈیا مسلم لیگ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا‘ بلکہ نومبر ۱۹۱۳ء میں انھوں نے مسلم لیگ میں شرکت کے لیے درخواست دی تھی۔ اس طرح ۱۹۱۳ء سے ۱۹۴۷ء تک کے عرصے کو ۳۴ سال ہی شمار کیا جاسکتا ہے۔
٭ میں ممنون ہوں کہ آپ نے ایک تسامح پر متوجہ کیا۔ یہ درست ہے کہ قائداعظمؒ مسلم لیگ میں ۱۹۱۳ء میں شریک ہوگئے تھے لیکن کانگریس سے کش مکش ۱۹۳۵ء میں انگلستان سے واپس آنے کے بعدشروع ہوئی۔ اس سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس اپنے اختلافات کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں تعاون کر رہے تھے۔ مجھے جو بات کہنا چاہیے تھی وہ یہ تھی کہ قائداعظم محمدعلی جناح ؒنے مسلمانوں کے حقوق کے لیے تمام عرصہ جدوجہد کی‘ البتہ کانگریس سے نزاع کا عرصہ دس بارہ سال پر ہی محیط تھا۔ (مدیر)
دیارِ غیر میں وطن سے رابطے اور جماعت سے تعلق کی واحد اور بہترین صورت ترجمان القرآن ہے۔ اسی حوالے سے چند معروضات پیش ہیں: ۱- ’’اشارات‘‘ نہایت جامع اور اہم موضوع پر ہوتے ہیں‘ تاہم اگر یہ مختصر ہوں تو اور بھی زیادہ موثر ہوسکتے ہیں۔ پھر ان میں ملک کے گوناگوں مسائل بھی زیربحث آنے چاہییں۔ ۲- ’’شذرات‘‘ کا سلسلہ خوش آیند ہے‘ لیکن ان کا بوجھ مدیر ترجمان پر ڈالنے کے بجاے دیگر اہلِ قلم کو ہاتھ بٹانا چاہیے۔ ۳-ڈاکٹر انیس احمد بڑے الجھے اور نازک موضوعات کے جواب دیتے ہیں‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں‘ البتہ بعض جگہ وہ واضح موقف اختیار کرنے کے بجاے بات کو مبہم رہنے دیتے ہیں‘ جو مناسب نہیں۔ ۴- ’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ اور ’’یادرفتگاں‘‘ کا سلسلہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔