’اسلام کی حقیقی تعلیمات ہماری بنیاد‘ انصاف ہمارا راستہ اور ترقی و کامیابی ہماری منزل ہے‘ اس جلی بینر تلے مراکش کی اسلامی جماعت ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کا پانچواں اجتماع عام ہوا۔ ہرچار سال بعد ہونے والے اس اجتماع میں پارٹی کے انتخابات بھی ہوتے ہیں اور اہم پالیسیوں کا اعلان بھی۔ ۱۱‘ ۱۲اپریل ۲۰۰۴ء کو رباط میں ہونے والے اس اجتماع میں پہلی بار عالمِ اسلام سے بھی قائدین کو مدعو کیاگیا۔ محترم قاضی حسین احمد مہمانِ خصوصی تھے۔
افتتاحی اجلاس میں بیرونی مہمانوں کے علاوہ ملک کی تمام پارٹیوں کی قیادت‘ تمام غیرملکی سفرا اور حکومتی ذمہ داران کو بھی مدعو کیا گیا۔ یہ اجتماع رباط کے مدخل پر واقع ایک وسیع و عریض سپورٹس سنٹر میں ہوا۔ ملک بھر سے آئے شرکا کے قیام و طعام اور پروگرام کے لیے مختلف بڑے ہال اور خیمے سجائے گئے تھے۔
انصاف و ترقی پارٹی کے پہلے سربراہ عبدالکریم خطیب کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۲۱ء ہے۔ ان کا شمار مراکش کی تحریک آزادی کے اہم کارکنان و قائدین میں ہوتا ہے۔ اسلام کو مکمل نظامِ حیات کے طور پر سمجھنے کے بعد وہ مسلسل اس نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے مؤسسین اور رہنمائوں سے ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ ۱۹۶۹ء میں‘ سیدمودودی رحمہ اللہ‘ مراکش میں اسلامی یونی ورسٹی کی تاسیسی کانفرنس میں شرکت کے لیے رباط گئے‘ تو ان کے گھر بھی تشریف لے گئے تھے۔
انھوں نے پہلے بھی پارٹی کی قیادت کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی جو کارکنان کو قبول نہ ہوئی۔ لیکن اب ۸۳ سال کی عمر میں قویٰ زیادہ مضمحل ہوگئے تو حالیہ اجلاس میں ان کی سرپرستی میں‘ ایک متحرک‘ دانش مند اور فعال نوجوان ڈاکٹر سعدالدین عثمانی کو پارٹی کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ انصاف و ترقی پارٹی کا طریق انتخاب بھی جماعت اسلامی پاکستان کے نظام سے بہت مشابہ ہے۔ کوئی شخض خود امیدوار نہیں بن سکتا۔ ارکان نے خفیہ ووٹنگ سے چار افراد کے نام تجویز کیے‘ چاروں نوجوان تھے۔ ان میں سے مصطفی رمیدنے بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر باصرار معذرت کرلی۔ باقی تین کے انتخاب کے لیے ہال میں متعدد بیلٹ بکس رکھ دیے گئے۔ ارکان نے اپنے اپنے رکنیت کے کارڈ دکھا کر بیلٹ پیپر حاصل کیے اور چند گھنٹوں کے بعد نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ ۱۵۹۵ ارکان نے ووٹ ڈالا تھا۔ ۲۰ ووٹ منسوخ ہوگئے‘ باقی میں سے ڈاکٹر عثمانی کو ۱۲۶۸ ووٹ ملے۔ پاکستان کی طرح مراکش میں بھی انصاف و ترقی ہی اکلوتی اسلامی پارٹی ہے‘ جس میں پارٹی کسی لیڈر کی باجگزار نہیں‘ ارکان جماعت صالح تر اور موزوں ترین کو‘ شفاف انتخابات کے ذریعے اپنا قائد چنتے اور تسلیم کرتے ہیں۔
انصاف و ترقی پارلیمنٹ میں‘ بادشاہ کی پارٹی کے بعد دوسری بڑی پارٹی ہے۔ سب قومی و عالمی تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ پارٹی جب بھی فیصلہ کرلے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی بننا ہے‘ تو اس کا راستہ روکنا ممکن نہ ہوگا۔ مراکش کی تاریخ‘ اردگرد کے حالات اور ملک میں راسخ ملوکیت کے نظام میں پارٹی کا فیصلہ‘ خود حکومت سنبھالنے یا حکومت میں شریک ہونے کے بجاے‘ مثبت اپوزیشن کے طور پر کام کرنا ہے۔ اس پالیسی کا اظہار ڈاکٹر عثمانی نے اپنی افتتاحی تقریر میں ان الفاظ میں کیا:’ ’ہماری پارٹی نے پوری بصیرت اور ذمہ داری سے اپوزیشن کا کردار چنا ہے‘ ایک مثبت‘ ناصح اور فعال اپوزیشن کا کردار‘‘۔
مراکش میں ملوکیت کا نظام ہے۔ موجودہ شاہ محمد السادس ابن شاہ حسن الثانی بھی اپنے باپ دادا کی طرح خود کو امیرالمومنین کہلاتا ہے۔ امارۃ المؤمنین کو ایک تقدس اور دوام حاصل ہے۔ حسن الثانی تو باقاعدہ عالمِ دین تھے۔ اکثرخطبہ بھی دیتے تھے۔ امیرالمومنین کی بیعت کا نظام بھی وراثت سے چلا آ رہا ہے۔ عبدالکریم الخطیب نے اپنے مختصر خطاب میں اس امر کا اعلان و اظہار بھی کیا کہ ’’میں اوائل عمر ہی سے امارۃ المؤمنین کے ادارے کومضبوطی سے تھامے رکھنے کا قائل ہوں کہ یہ ہمارے عقیدے کی شناخت ہے۔ اسی شناخت کی وجہ سے مراکش کو اسلام سے دُور لے جانے کی تمام سیکولر کوششیں ناکام رہیں‘‘۔الخطیب کا یہ اعلان مراکش کے نظامِ ملوکیت میں نسبتاً آزادی سے کام کرنے کا سبب بیان کر رہا تھا۔
کانفرنس میںمراکش کی اسلامی شناخت‘ پارٹی کے جامع پروگرام اور اُمت مسلمہ کے مختلف مسائل پر اپنا موقف واضح کرنے کے لیے بہت جوش و خروش اور من موہ لینے والے انداز سے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ان کے نعروں کا اسٹائل پاکستان سے یوں مختلف تھا کہ جو بول نعرے لگوانے والا کہتا وہی بول اس کے تمام شرکا بھی دہراتے۔ اس وقت سب کا جوش و خروش دیدنی ہوتا‘ جب پوری قوت سے پورے کا پورا اسٹیڈیم کہہ رہا ہوتا: لا الٰہ الا اللّٰہ- علیھا نحیا- وعلیھا نموت وفی سبیلھا نجاھد وعلیھا نلقی اللّٰہ۔ یہ ان صلاتی ونسکی کا خوب صورت بیان تھا۔ فلسطین‘ کشمیر اور فلوجہ کے لیے بھی بار بار پکارا گیا: کلنا فداء فداء - فلسطین الصامدہ‘ کلنا فداء فداء - کشمیر الصامدہ، اے ثابت قدم فلسطین ہم سب تم پر سو جان سے فدا‘ اے ثابت قدم کشمیر… درج ذیل نعرہ پارٹی کی شناخت اور اسلام کو بطور کامل نظامِ حیات ماننے کا اعلان تھا: اسلام یا حاضرین‘ دین و دولۃ مجتمعین- قولوھایا سامعین ‘ لدعاۃ العلمانیۃ‘ حاضرین کرام اسلام دین بھی ہے‘ ریاست بھی‘ سامعین کرام یہ بات سیکولرازم کے پرچارکوں کو واضح طور پر بتا دو۔ شیخ احمد یاسین کی تصاویر بہت عقیدت و احترام سے سجائی گئی تھیں اور یہ نعرہ بار بار گونجتا تھا: عھداللّٰہ لن ننسی - یاسین والاقصٰی‘ اللہ کی قسم یاسین اور اقصیٰ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے!
پارٹی کی قیادت کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی نمایندگی کے لیے استقلال پارٹی کے ایک بزرگ رہنما ابوبکر الکیلانی کو دعوت دی گئی۔ انھوں نے بھی مکمل اسلامی تعلیمات‘ اُمت اسلامی کی وحدت‘ اُمت کے خلاف تیار کی جانے والی سازشوں اور ان کے مقابلے کے لیے دین کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مہمانِ خصوصی محترم قاضی حسین احمد کو دعوت دی گئی تو پورے مجمع نے کھڑے ہوکر بھرپور استقبال کیا۔ کشمیرالصامدہ والا نعرہ دیر تک لگایا اور پھر سراپا خاموشی بن کر امیرجماعت کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب فرما رہے تھے: میں یہاں اسی مقدس رشتے کو مضبوط و تازہ کرنے آیا ہوں جو طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین کے عہد سے ہمارے درمیان قائم ہے۔ جس رشتے کی وجہ سے ہم سب یک دل‘ یک زبان اور یک رنگ ہیں‘‘۔ انھوں نے اندلس کی تہذیب رفتہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’علامہ اقبال جب یورپ میں سلسلۂ تعلیم مکمل کر کے بحری جہاز میں سوار صقلیہ سے گزر رہے تھے تو انھوں نے صقلیہ میں اسلامی تہذیب کے زوال کا مرثیہ لکھا جس کا پہلا شعر ہے ؎
رو لے اب دل کھول کر اے دیدئہ خوننابہ بار
وہ نظر آتاہے تہذیب حجازی کا مزار
کچھ مدت بعد وہ ہسپانیہ کے سفر میں جامعہ قرطبہ کے جوار میں‘ دریاے کبیر کے کنارے‘ شان دار ماضی کے ذکر کے ساتھ‘ روشن مستقبل کی تصویر دکھا رہے تھے ؎
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
انھیں یہ تو یقین تھا کہ قافلۂ سخت جان محوسفر ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کس وادی میں ہے ؎
کون سی وادی میں ہے‘ کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں
آج یہ قافلۂ سخت جاں پوری دنیا میں اپنی منزلیں طے کر رہا ہے۔ مشکلات و مصائب ہرجانب سے امڈے چلے آ رہے ہیں‘ لیکن یہ تندی باد مخالف‘ شاہین کو اونچا اڑانے کے لیے ہے۔ امیر جماعت نے ۱۱ستمبر کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان اور عراق پر کی جانے والی جارحیت اور فلسطین و کشمیر سمیت مختلف خطوں میں ریاستی دہشت گردی کے شکار اعضاے اُمت کا بھی ذکر کیا اور اتحاد‘ تعلیم‘ حصول ٹکنالوجی‘ بھرپور محنت اور انصاف وترقی اور اس سب کچھ سے پہلے ایمان و تقویٰ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
دیگر کئی ممالک سے بھی اسلامی تحریکوں کے قائدین آئے ہوئے تھے جن میں حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے سیف الاسلام‘ اُردن سے اسلامی فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور‘ لبنان سے جماعت اسلامی کے رہنما اسعد ہرموش‘ فلوجہ سے عراقی علما کے نمایندے ڈاکٹرکبیسی اور تیونس‘ الجزائر‘ موریتانیا‘ ترکی سمیت کئی ممالک سے آئے رہنما نمایاں تھے۔ ایک اور نمایاں ترین شخصیت برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے تھے۔ عراق میں امریکی جارحیت اور جنگ کے خلاف‘ ایک ہی دن پوری دنیا میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے پیچھے قوت محرکہ کے طور پر کام کرنے والی ٹیم کے نمایاں ترین رکن جارج گیلوے ہی ہیں۔ جنگ مخالف تحریک (anti war movement)کی نمایندگی کرتے ہوئے انھوں نے مختصر لیکن جان دار خطاب کیا۔ انھوں نے امریکا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: تمھیں عراق سے بالآخر نکلنا ہے‘ کئی خونیں شامیں دیکھ کر نکلنے سے پہلے آج ہی عراق سے نکل جانا چاہیے‘‘۔ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’مشرق وسطیٰ میں ایک ہی ملک ایسا ہے کہ جس کے ہتھیاروں کی وجہ سے پوری دنیا کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اس ریاست کو اسرائیل کہا جاتا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ میں نے جنین کیمپ پر ہونے والی جارحیت کے بعد وہاں کا دورہ کیا۔ وہاں شہریوں کے پاس سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ گھربار‘ کھانا پینا۔ صرف ایک ہی چیز باقی تھی اور وہ تھی: ’’حصول آزادی تک مزاحمت کا جذبہ‘‘۔ پورا مجمع پکار اُٹھا: الشعوب تقاوم- الانظمۃ تساوم‘عوام مزاحمت کر رہے ہیں لیکن حکومت سودے بازیاں۔ جارج گیلوے کی جامع‘ جذباتی اور مختصر تقریر ختم ہوئی‘ تو اسٹیڈیم دیر تک ایک ہی لَے سے گونجتا رہا: یکفینا یکفینا یکفینا الحروب - امریکا امریکا عدوۃ الشعوب‘قوموں کے دشمن امریکا‘ بس بس بہت جنگیں ہوچکیں۔
انصاف و ترقی پارٹی کو مراکش کی اسلامی تحریک کا سیاسی بازو کہا جاسکتا ہے۔ دعوتی اور تربیتی سرگرمیوں کے لیے بنیادی تحریک اسلامی ’تحریک توحید و اصلاح‘ کے نام سے کام کر رہی ہے۔ توحید و اصلاح کی علیحدہ سے منتخب قیادت‘ مجلس شوریٰ اور مکمل تنظیمی ڈھانچا ہے۔ یہ تحریک ۶۰کی دہائی سے کام کر رہی ہے۔ آغاز میں اس کا نام سید مودودیؒ اور ان کی تحریک کی نسبت سے‘جماعت اسلامی مراکش رکھا گیا۔ پھر مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد ۱۹۹۶ء میں دو تنظیموں: الاصلاح والتجدید اور رابطہ المستقبل الاسلامی کے انضمام کے بعد اس کا نام ’تحریک توحید وا صلاح‘ رکھا گیا۔ اس کے پہلے صدر ڈاکٹر احمد الریسونی تھے جو بڑے اسکالر اور مفکر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں‘ لیکن ملوکیت کے بارے میں ان کے ایک انٹرویو کو فرانسیسی اخبارات کی طرف سے بہت زیادہ اچھالے جانے پر‘ پارٹی کی مشاورت سے ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو محمدالحمداوی کو سربراہِ تحریک چنا گیا۔ تحریک توحید واصلاح اور انصاف و ترقی پارٹی کو مختصر الفاظ میں ’یک جان دو قالب‘ کہاجا سکتا ہے۔ تحریک کے مرکز میں تمام مہمانوں کے اعزاز میں ایک عشائیہ اور عصرانہ دیا گیا۔ اس دوران‘ اُمت کے مختلف مسائل پر سیرحاصل گفتگو بھی ہوئی۔
اس اجتماع کے بارے میں تفصیلات کے بعد‘ مراکش کی ایک اور اسلامی تحریک کا مختصر ذکر مناسب ہوگا۔ مراکش کی اس اسلامی تحریک کا نام ’تحریک عدل وا حسان‘ ہے۔ اس کے سربراہ ایک درویش خدامست‘ شیخ عبدالسلام یاسین ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق تعداد کے اعتبار سے یہ مراکش کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ لیکن شیخ عبدالسلام کو نظامِ ملوکیت پر بہت سخت اعتراض ہے۔ وہ کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ دسیوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اس لیے ان کی پارٹی خلافِ قانون قرار دی جاچکی ہے اور شیخ سالہا سال کی قید اور نظربندی کی سزا بھگت چکے ہیں۔’العدل والاحسان‘ کے کارکنان بھی دنیا میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور خاموش و پُرامن جدوجہد پر ایمان رکھتے ہیں۔ انصاف و ترقی پارٹی کے اجتماع عام میں وہ بھی موجود تھے اور باقی سب شرکا کے ساتھ مل کروہ بھی بآواز بلند کہہ رہے تھے: لا الٰہ الا اللّٰہ - علیھا نحیا - وعلیھا نموت وفی سبیلھا نجاھد وعلیھا نلقی اللّٰہ ، لا الٰہ الا اللہ‘ اسی پر جییں گے‘ اسی پر مریں گے‘ اسی کی خاطر جہاد کریں گے‘ اسی پر خدا سے ملیں گے!