قرآن پاک کے ترجمے‘ تشریح‘ تفسیر اور توضیح کا سلسلہ دیگر زبانوں کی طرح اُردو میں بھی سیکڑوں برس سے جاری ہے۔ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ وَعَلَّمَہٗ (تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے)۔ زیرنظر کتاب کے مرتب و مؤلف شیخ عمرفاروق صاحب نے بھی اسی جذبے کے تحت چند برس پہلے ہفت روزہ ایشیا میںتشریحِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا جسے بعدازاں خوب صورت انداز میں طبع کرکے تقسیم کیا گیا۔ وہ جلد پارہ اول پر مشتمل تھی‘ زیرنظرجلد سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کو محیط ہے۔
شیخ صاحب نے تفہیم و تشریح میں عربی اور اردو کی قدیم و جدید اور معروف تفسیروں‘ کتب ِ لغت اور عربی قواعد سے مدد لی ہے۔ ہرآیت کا ترجمہ‘ مختلف الفاظ کے معانی‘ افعال کی نوعیت‘ صیغے‘ مادہ اور اجزاے کلام کی وضاحت پھر مختلف مفسرین کی آرا بصورتِ اقتباسات‘ بعدازاں آیاتِ مبارکہ کی حکمت و بصیرت کو واضح کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ مختلف نکات کی توضیح اور آیاتِ مبارکہ کے مطالب کا حالاتِ حاضرہ خصوصاً عالمِ اسلام اور پاکستان کے حالات سے ربط قائم کرکے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآنی ہدایت سے روگردانی کا نتیجہ عبرت انگیز ہوتا ہے۔
شیخ عمرفاروق ایک گہرے دلی جذبے اور دردمندی کے ساتھ قرآنی دعوت اور پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کی تدبیر میں لگے ہوئے ہیں۔پارہ اول کا ایڈیشن اُنھوں نے بطورِ تحفہ تقسیم کیا تھا اور زیرنظرجلد بھی بلامعاوضہ ہے جسے ان سے (بذریعہ ڈاک نہیں) دستی وصول کیا جاسکتا ہے۔ فون نمبر ۷۵۸۵۹۶۰-۰۴۲۔
کتابت ‘ طباعت اور اشاعت‘ ہر اعتبار سے حسین و جمیل اور معیاری۔ (رفیع الدین ہاشمی)
فہم القرآن اس لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے کہ اس میں روایتی عربی تدریس اور صرف ونحو سے ہٹ کر علامات کے ذریعے قرآن مجید کا ترجمہ سکھایا گیا ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ یہ عطیۂ خداوندی ہے اور انھیں پہلی بار اس طریقے کو متعارف کروانے کا شرف حاصل ہوا ہے‘ کیسے؟۔ مصنف لکھتے ہیں: جنوری ۱۹۷۹ء کی ایک شام‘ امام سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نظرعنایت نے فقیر کو مالا مال کر دیا جب انھوں نے فرمایا کہ اب آپ سائنس نہیں بلکہ دین پڑھیں گے۔ میں آپ کو سعودی عرب کی کسی اچھی یونی ورسٹی سے دین کی تعلیم دلوانا چاہتا ہوں… میں اس جواب کی تلاش میں رہا کہ آخر میرا ہی انتخاب کیوں؟ …آخرکار اللہ علیم وخبیر نے اپنی کتاب عظیم اور بقول امام مودودیؒکی ’شاہ کلید‘ کو سمجھانے کے لیے علامات کا علم عنایت فرما کر فقیر کی جھولی بھر دی۔(پیش لفظ)۔
مصنف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کے ۹۸ فی صد الفاظ اردو میں مستعمل ہیں۔ صرف ۵ئ۱ فی صد الفاظ خالص عربی کے ہیں جن کے لیے لغت کی ضرورت پیش آتی ہے‘ جب کہ ۵ئ۰ فی صد الفاظ وہ ہیں جو بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ صرف ۴۰ گھنٹے (یعنی ایک دن اور ۱۶ گھنٹے) کی مشق کے بعد ایک شخص خود قرآن مجید کا ترجمہ کر سکتا ہے اور اس کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ صاحب ِ کتاب سعودی عرب کی چار مایہ ناز جامعات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ۱۹۹۱ء سے ۴۰ روزہ فہم قرآن کورس کے ذریعے مرد و خواتین اور نوجوانوں کو قرآن کا فہم ایک مشن کے انداز میں پہنچا رہے ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب اسی علامتی طریقے اور طریق تدریس پر مبنی ہے۔ بات کو واضح کرنے کے لیے کمپیوٹر کے استعمال سے جدید انداز میں تیر کے نشان اور اسکرین وغیرہ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ ایک باب ’’علامات‘ ایک نظر میں‘‘ تمام علامتوں کو جمع کیا گیا ہے اور مثالوں سے وضاحت کی گئی ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے۔ مزیدبرآں ان الفاظ کی فہرست کے ساتھ (جو بار بار دہرائے جاتے ہیں) آخر میں ان الفاظ کی فہرست بھی دی گئی ہے جن کا مادہ معلوم کرنے میں عموماً غلطی ہوجاتی ہے۔
خوب صورت سرورق اور سفید کاغذ پر مجموعی طور پر پیش کش عمدہ ہے‘ تاہم پروف ریڈنگ مزید توجہ چاہتی ہے۔ پیرابنانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ فونٹ کا استعمال بھی یکساں نہیں۔ قطع نظر اس پہلو کے فہم قرآن کے حوالے سے یہ منفرد کاوش نہایت قابلِ قدر ہے۔ (امجد عباسی)
۱- Taking The Qur'an As a Guide‘صفحات: ۹۷۔
۲-Some Secrets of the Qur'an‘ صفحات: ۱۵۱۔
۳-Miracles of the Qur'an‘ صفحات:۱۰۰۔
۴- Signs of the Last Day‘ صفحات: ۱۳۶۔
۵-Why Darwinism is Incompatible with The Qur'an‘ صفحات:۱۳۶۔ مصنف: ہارون یحییٰ۔ ناشر: گلوبل پبلشنگ‘ استنبول‘ ترکی۔ ملنے کا پتا: پیراڈائز بک سنٹر‘ پی او بکس ۷۱۴۷‘ صدر ‘ کراچی۔ قیمتیں: درج نہیں۔
نظر کو اپنی گرفت میں لے لینی والی یہ انتہائی دل کش اور خوب صورت پانچ کتابیں ۴۸سالہ ترک مصنف ہارون یحییٰ (یہ قلمی نام ہے) کی بے شمار کتابوں میں سے چند ہیں جو دنیا کی ۱۵سے زائد زبانوں (روسی‘ ترکی‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ اُردو‘ عربی‘ انڈونیشی‘ اسپینی‘ اُردو وغیرہ) میں قبول عام حاصل کر رہی ہیں۔ اشاعت کتب کا آغاز ۱۹۸۰ء میں ہوا اور سلیقے اور جذبے سے کام کی بدولت سائنس کے حوالے سے قرآن فہمی کی بنیاد پر تجدید ایمان اور شک و ریب دور کرنے کی یہ دعوت آج بھارت سے امریکہ‘ انگلینڈ سے انڈونیشیا‘ پولینڈ سے بوسنیا اور اسپین سے برازیل تک‘ ہر جگہ پھیل رہی ہے۔ آڈیو ویڈیو کیسٹ اور سی ڈی بھی دستیاب ہیں اور ویب سائٹ (www.harunyahya.com)پر بھی جایا جا سکتا ہے۔
ہارون یحییٰ کا موقف یہ ہے کہ بے عقیدگی غالب نظریہ ہوگیا ہے۔ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ وہ بھی اس کا شکار ہیں۔ مادی اور بے خدا تہذیب کی بنیاد نظریۂ ارتقا ہے جس کے مطابق انسان کسی پیدا کرنے والے کے بغیر پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا اصل سائنسی اور مدلل حملہ نظریۂ ارتقا پر ہے جس پر علاحدہ کتاب بھی ہے‘ لیکن وہ اسے اتنا بنیادی سمجھتے ہیں کہ دوسری کتابوں کے آخر میں بھی اس کی تلخیص ایک باب کے طور پر شامل کرنا ضروری سمجھا ہے۔
ہارون یحییٰ کی تحریروں کا سرچشمہ قرآن کریم کی آیات ہیں۔ جن آیات سے ایک عام قاری گزر جاتا ہے‘ انھوں نے وہاں ٹھیر کر سائنسی حوالے سے غوروفکر کیا ہے اور ہدایت کا راستہ کھول کر بیان کیا ہے۔ تفہیم القرآن کے اُردودان قارئین کے لیے شاید کوئی بہت نئی بات نہ ہو‘ لیکن مختصر مضامین میں‘ ایک خاص ربط کے ساتھ‘ خوب صورت کئی رنگی تصویروں کے ساتھ‘ انسان اور کائنات کے صحیح تصور کو پیش کرنا اور کسی تنظیمی پشت پناہی کے بغیر تجارتی بنیادوں پر پھیلانا یقینا ان کا کارنامہ ہے۔
پانچوں کتابوں کے عنوانات سے ان کے مشمولات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یومِ قیامت کی نشانیوں میں احادیث سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہمارے کالجوں کے میگزین میں یہ مضامین شائع ہوں اور ہر طالب تک پہنچیں۔ نظریہ ارتقا والی کتاب ان اساتذہ حیوانیات کو ضرور پڑھنی چاہیے جو نصاب کے اتباع میں ارتقا کے ’سائنسی فراڈ‘ کو ایک امرواقعہ کے طور پر بلاتکلف پڑھاتے ہیں۔ پوری پوری کتابیں آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہیں۔ سرورق دیدہ زیب اور فن کا شاہکار ہیں۔ (مسلم سجاد)
ڈاکٹر سہیل حسن نے علمِ حدیث کی بے لوث خدمت انجام دی ہے اور تدریس و تصنیف کے میدان میں بھی وہ اپنا ایک علمی مقام پیدا کرچکے ہیں۔ زیرنظر معجم اصطلاحات حدیث اردو میں ان کی پہلی مبسوط علمی کاوش ہے۔ اس میں انھوں نے اصطلاحاتِ حدیث کو خوبی اور خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اپنے موضوع پر یہ ایک سنجیدہ اور معقول کاوش ہے۔ مرتب کے بقول مصطلحات حدیث کی زیرنظر معجم میں انتہائی کوشش کی گئی ہے کہ اس فن سے متعلق تمام اصطلاحات جمع کر دی جائیں‘ چنانچہ مصنف نے بساط بھر ایسا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس معجم میں بعض ایسے مباحث بھی شامل کیے ہیں جو شاید کسی اور کتاب میں یکجا نہ مل سکیں‘ مثلاً تحویل کی صورت میں اسناد پڑھنے کا طریقہ‘ مختلف صحابہ کرامؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد‘ محدثین عظام اور ان کی مؤلفات کا تعارف وغیرہ۔ کتاب کی ترتیب حروفِ تہجی کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ جو لوگ علمِ حدیث کو اعلیٰ سطح پر سمجھنا چاہتے ہیں‘ ان کے لیے یہ کتاب نہایت مفید اور کارآمد ہے۔ کمپوزنگ اچھی اور جلد عمدہ ہے۔ (عبدالوکیل علوی)
یہ کتاب جدید ترکی اور جنگِ عظیم اول سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک ترکی کی سیاسی تاریخ کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ مصنفہ نے خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں مغربی مؤرخین کے غیرحقیقت پسندانہ اور متعصبانہ رویے اور جدید ترکی اور مصطفیٰ کمال سے متعلق جانب دارانہ اندازِ فکر کا پردہ چاک کرتے ہوئے ترکوں کی گذشتہ صدی کی سیاسی تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
مصنفہ نے سلطنت ِعثمانیہ کی مختصر تاریخ‘ ترکی میں مغربی ممالک کے عمل دخل‘ ترکی پر جنگِ عظیم اول کے اثرات‘ ترکوں کی جدوجہدآزادی اور جمہوریہ ترکی کی تشکیل کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔ پھر عصمت انونو کے دورِ حکومت‘ جنگِ عظیم دوم اور ترکی میں ۱۹۶۰ء کے فوجی انقلاب‘ ترکی میں اسلامی تحریکوں کی تخم کاری اور اسلامی نظریات کی آبیاری کی کوششوں پر نظر ڈالی ہے۔ ترکی میں گذشتہ ربع میںہونے والے انتخابات اور ان میں پارٹی پوزیشن کے گوشوارے بھی دیے گئے ہیں۔ آخر میں جدید ترکی کی فکری زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والی چند اہم ادبی شخصیات کے سوانحی خاکے موضوع کی تفہیم میں بڑی مدد کرتے ہیں۔ مصنفہ نے ترکی سے متعلق تاریخی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور وہ موضوع پر پوری گرفت رکھتی ہیں۔ ترکی کے قومی رنگ میں اپنے خوب صورت سرورق کے ساتھ کتاب بہت دلآویز نظرآتی ہے اور اپنے مندرجات کے اعتبار سے تاریخ کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔(سعید اکرم)
قیامِ پاکستان کے بعد قومی زندگی کے بعض دوسرے شعبوں کی طرح اردو زبان بھی زوال و انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے کہ بظاہر تو اُردو زبان میں مختلف موضوعات پر کتابوں اور رسالوں کا ایک عظیم الشان ذخیرہ وجودمیں آیا ہے لیکن صحت زبان و املا اور تلفظ کا معاملہ ہماری سہل انگاری‘ لاپروائی اور ایک بے نیازانہ روش کی بدولت مسلسل ابتری اور غلط روی کی زد میں رہا ہے۔ ہماری غلامانہ ذہنیت نے ہمارے لسانی احساس یا عصبیت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ چنانچہ اردو زبان اس وقت املا‘تلفظ اور بیان و انشا کے اعتبار سے ایک افسوس ناک آلودگی اور توڑ پھوڑ کی زد میں ہے۔
جناب طالب الہاشمی ہمارے دور کے ایک معروف فاضل ادیب اور اسکالر ہیں اور بیسیوں کتابوں کے مصنف۔ وہ لغت و زبان سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ قومی زبان کی صحت کی طرف سے برتی جانے والی عمومی غفلت نے انھیں زیرنظر کتاب مرتب کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس کے بعض مباحث یہ ہیں: صحت تلفظ‘ املا کے اہم اصول اور قواعد‘ بہت سے ہم شکل الفاظ‘ امالہ‘ اُردو کے بعض مسلّمہ تصرفات‘ بعض تاریخی شخصیتوں کے ناموں کا تلفظ‘ زبان و بیان کی بعض عام غلطیاں (برا منانا‘ براے کرم‘ انکساری تقرری جو‘ ناراضگی‘ بمعہ‘ پرواہ---یہ سب غلط ہیں)۔
مصنف کی زیرنظر کاوش بہت اہم‘ بروقت اور بہ ہراعتبار مستحسن ہے۔ قطع نظر اس کے کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کوئی سنتا ہے یا نہیں‘ صاحبانِ احساس و عرفان کو اپنی بات کہتے رہنا چاہیے۔ کبھی تو اثر ہوگا‘ سب نہیں‘ چند لوگ تو سیکھیں گے‘کچھ تو اصلاح ہوگی۔ ممکن ہے زبان و لغت اور تلفظ سے دل چسپی رکھنے والے بعض اصحاب کہیں کہیں فاضل مؤلف سے اختلاف کریں لیکن اس سے کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔
ہمارے خیال میں نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ‘ اہل قلم‘ ابلاغیات اور صحافت سے وابستگان‘ اور عام قارئین کو اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ کتابِ حوالہ کی طرح اسے مستقلاً زیرمطالعہ رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اپنے مختصر مقدمے میں مؤلف کی کاوش کو سراہا ہے۔ اس اہم کتاب کا اشاعتی معیار اور سرورق زیادہ بہتر اور خوب صورت ہونا چاہیے تھا۔(ر-ہ)
زیرنظر کتاب کا موضوع پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ۲۸ ہزار مربع میل پر مشتمل گلگت اور بلتستان کا وہ علاقہ ہے جسے بالعموم ’شمالی علاقہ جات‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مارچ ۱۹۴۹ء میں ایک معاہدے کے تحت یہ علاقہ براہِ راست حکومت پاکستان کے زیرانتظام دے دیا گیا تھا۔ تب سے اس علاقے کے معاملات کی نگرانی وزارت امور کشمیر کے ذمے ہے اور عملی طور پر ایک ریذیڈنٹ وہاں کا حاکم ہے۔
زیرنظر کتاب مصنف کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس میں شمالی علاقہ جات کی تاریخ اور جغرافیے کے ساتھ وہاں کی سیاسی اور معاشرتی صورت حال اور شمالی علاقہ جات کے عوام کے مسائل اور احساسات کا ذکر کیا گیا ہے۔
مصنف کی تحقیق یہ ہے کہ گلگت اور بلتستان قانونی و آئینی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ اس لیے اسے آزاد کشمیر میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ یہ آئینِ آزاد کشمیر کے دائرے میں آئے۔ عوام کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہاں کے لوگوں کو پاکستان یا آزاد کشمیر کے جمہوری اداروں میں کوئی نمایندگی حاصل نہیں ہے۔ نہ یہ علاقے اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں‘ اور یہ بہت نامناسب اور نامنصفانہ صورت حال ہے۔
شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز بھی سامنے آتی رہی ہے‘ مصنف کے خیال میں یہ قطعی عاقبت نااندیشانہ اقدام ہوگا۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو نقصان پہنچے گا اور بھارت اس سے فائدہ اٹھائے گا۔
موضوع سے متعلق بعض اہم دستاویزات اور معاہدوں وغیرہ کا متن بھی شامل کتاب ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ قدر علمی کاوش ہے۔ (ر - ہ)
سیرتِ رسولؐ اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بحرِذخّار ہے۔اس ذخیرے کی وسعتوں سے کماحقہ استفادہ کرنے میں‘ خود انسان کی اپنی کم مایگی رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ دو سال قبل مسلم اہل علم و دانش کی ایک عالمی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تھی‘ اس قاموسی کام کا محرک وہی کانفرنس بنی۔
سیرت و حدیث کے ذخیرے میں رسولؐ رحمت کے فیصلوں اور ان فیصلوں کی حکمتوں پر بہت سے افراد نے مختلف اوقات میں کام کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کتاب دیکھیں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس میں ایک ہی فیصلے سے متعلق مختلف کتب سے ایک ایک ارشاد نبویؐ کو چن کر مربوط پیراگراف بنانے کے لیے مولف نے بہت محنت کی ہے۔ شاید اسی لیے کتاب اس دعوے کے ساتھ پیش کی گئی ہے: ’’اسلامی عدالتوں کے فیصلوں پر مبنی انسائی کلوپیڈیا‘‘ --- کتاب میں سب سے پہلے ایک ایک موضوع پر عدالتی فیصلوں کے بنیادی نکات درج کیے گئے ہیں اور پھر ان نکات کو متعلقہ احادیث (مع حوالہ جات) سے مرصع کیا گیا ہے۔
آیندہ ایڈیشن لانے سے قبل کتاب کے پورے متن‘ خصوصاً بنیادی نکات کو مزید باریک بینی سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کتاب میں ترجمے اور پروف کی غلطیاں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ تعجب ہے کہ ترجمہ اور نظرثانی‘ نیز پروف خواں اصحاب نے اس باب میں مطلوبہ احتیاط کیوں نہیں کی؟
بعض جگہ محسوس ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ کے کسی مشورے یا بیان کو بھی ’’عدالتی فیصلہ‘‘بنا دیا گیا ہے‘ لیکن ایسی مثالیں خال خال ہیں۔ بعض احادیث کی استنادی حیثیت پربھی نظر ڈالنا ضروری تھا۔ پھر بھی یہ کتاب کئی حوالوں سے اپنے موضوع پر سابقہ کتب سے اچھی محسوس ہوتی ہے۔
کتاب کے موضوعات کی وسعت اور پیش کاری کا اسلوب خوش آیند ہے جسے طبقہ وکلا اور تمام سطحوں کے جج صاحبان کے زیرمطالعہ آنا چاہیے۔ (سلیم منصور خالد)
ڈاکٹر محمدحمیداللہ کی وفات ان کی شخصیت‘ علمی و فکری کارناموں اور قرآنی و دینی خدمات پر مضامین‘ کتابوں اور رسالوں کے خصوصی نمبروں کا سلسلہ جاری ہے۔ معارفِ اسلامی کا یہ شمارہ اسی سلسلے کی تازہ کڑی اور ’’حمیدیات‘‘ میں ایک بڑا قابلِ تحسین اضافہ ہے جسے نام وَر اہلِ قلم سے بطور خاص مضامین لکھوا کر‘ محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ضخیم اشاعت مرحوم کی سوانح اور تحقیق کے تقریباً تمام ہی پہلوئوں کو محیط ہے اور خطوط کی بڑی تعداد بھی ذخیرۂ حمیدیات میں اچھا اضافہ ہے۔ پورا شمارہ حوالے کی چیز ہے۔ حافظ محمد سجاد صاحب کی مرتبہ کتابیاتِ حمیداللہ (ص ۵۴۹-۵۷۵) اس موضوع پر تحقیق و مطالعہ کرنے والوں کے لیے ایک کارآمد راہ نما ہے۔(ر - ہ)
مصنف حالاتِ حاضرہ اور بین الاقوامی امور پر تواتر سے لکھنے والے اہلِ قلم میں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا خاصا حصہ مغربی معاشرے کو سمجھنے سمجھانے میں گزارا ہے۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ ۱۱ستمبر کے واقعات کی سائنسی بنیادوں پر تحقیقات نہیں کی گئیں۔ کتاب کے ۳۸ابواب میں امریکا اور اتحادی ممالک کی توسیع پسندانہ پالیسیاں‘ دہشت گردی کے مختلف اسلوب اور اس کے اسباب‘ مسلم دنیا کے مصائب اور تضادات وغیرہ جیسے موضوعات تفصیل سے زیربحث آئے ہیں۔ جہاد‘ اسامہ بن لادن‘ بنیاد پرستی‘ ڈینیل پرل قتل کیس‘ نیز اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے حوالے سے بھی کتاب میں گفتگو کی گئی ہے۔
مصنف کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی خودساختہ کوششوں میں عالمی استعمار اس قدر زیادتیاں کرچکا ہے کہ نیویارک کے جڑواں میناروں کا سانحہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ مسلم دنیا کو درپیش مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے مصنف نے دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ غربت‘ تعلیم کا فقدان اور سیاسی اداروں کے عدمِ استحکام نے مسلم دنیا کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ اُن کی حیثیت خوف زدہ بھیڑوں کی سی ہوگئی ہے۔ جنگل کا ہر خونخوار اُن کے خون کا پیاسا ہوچکا ہے اور اُن کے لیے کوئی خطہ محفوظ نہیں ہے۔
مصنف نے سید قطبؒ اور سید مودودیؒ کے حوالے سے کہا ہے کہ ان مفکرین نے تشدد کی ہر قسم کی مخالفت کی لیکن اسرائیل ہر قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈے روا رکھے ہوئے ہے۔ اقبال حسین کا خیال درست ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی ساز ادارے‘ دانش ور اور عوام الناس اپنی حکومت کو سمجھائیں کہ وہ اپنی ہمہ پہلو قوت کے استعمال سے پہلے ہزار بار سوچے ورنہ ردعمل میں ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ نائن الیون کا سانئحہ گرد میں چھپ جائے گا۔(محمد ایوب منیر)
جہاد مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور ملّی بقا کا ضامن ہے۔ اس رکن عظیم کی فرضیت و اہمیت کے بارے میں قرآن و سنت میں بدیہی احکامات موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کے غلبہ واستیلا کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ہی رہا ہے۔
صلیبی اور استعماری قوتیں صدیوں سے جہاد کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتی چلی آرہی ہیںخصوصاً ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد مغرب میں ہنود ویہود نے جہاد کے خلاف ایک مسموم فضا تیار کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ان حالات میں اسلام کے تصور جہاد کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرنا عصرِحاضر کا ایک مقدم تقاضا ہے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک اچھی کاوش ہے۔
اس کے مباحث یہ ہیں: قرآن و سنت اور علما و فقہا کے اقوال کی روشنی میں جہاد کا اصطلاحی مفہوم اور احکامات‘ جہاد اور قتال میں فرق اور ان کا باہمی تعلق‘ جہاد کی فرضیت اور فضائل‘ جہاد سیرت النبیؐ کے آئینے میں‘ جہاد کی بنیادی شرائط اور آداب و ضوابط۔ اسلامی تاریخ میں جہاد کی ایک جھلک‘ خلفاے راشدینؓ، اموی اور عباسی ادوار‘ سلطنت عثمانیہ‘ سلاطین دہلی اور مغلیہ سلطنت کے اہم جہادی اقدامات‘ اسلامی دنیا کے عصرِحاضر کے مسائل‘ مسئلہ قومیت‘ مغرب اور اسلام کی کش مکش‘ اقوامِ متحدہ کی جانب داری اور او آئی سی کی عدم کارکردگی‘ موجودہ دور کی نمایاں جہادی تحریکوں کا تعارف وغیرہ۔ جہادی تحریکوں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی مصنف کے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہے۔ مصنف کے گہرے مشاہدے اور تحقیق و جستجو سے مرتب کردہ ان مفید تجاویز سے جہادی تحریکات کو استفادہ کرنا چاہیے۔
مصنف نے سید مودودیؒ کی الجہاد فی الاسلام سے اخذ و استفادے کا اعتراف کرتے ہوئے اسے جہاد کے موضوع پر بہترین کتاب قرار دیا ہے۔ تاہم مصنف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے زیرنظرکتاب میں کچھ نئے اور اچھوتے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ مصنف نے جہاد کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں ایک متوازن اور فکرانگیز مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)
خواتین اور معاشرتی برائیاں ‘ ڈاکٹرصادقہ سیّد۔ ناشر: قرطاس۔ پوسٹ بکس ۸۴۵۳‘ کراچی یونی ورسٹی۔ صفحات: ۹۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔
انسانی زندگی کو خیروفلاح سے ثمربار کرنے کے لیے انذار و تبشیر سے بڑھ کر کوئی اور موثر طریقہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں بھی سب سے زیادہ اکمل‘ متوازن اور انسانی فطرت کا پاس ولحاظ رکھنے کا ذریعہ قرآن و سنت ہی ہیں۔ بے جا قصہ گوئی سے روشنی لینے کے بجاے‘ روشنی اورنور کے قرآنی اور نبویؐ سرچشموں سے رہنمائی لینا ہی دانش مندی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب اپنے موضوع‘ مندرجات کی وسعت اور اسلوب بیان کی سادگی کے باعث ایک موثر دستاویز ہے۔ مصنفہ جسمانی امراض کی معالجہ ہیں‘ انھوں نے روحانی امراض کا علاج بھی نہایت خوب صورتی سے تجویز کیا ہے۔ انھوں نے انسانی زندگی اور خاص طور پر مسلمان خواتین میں فکروعمل کی مختلف النوع کوتاہیوں کی نشان دہی کرنے کے ساتھ‘ شافی علاج بھی پیش کیا ہے جسے تجربے میں لاکر دنیا میں فلاح اور آخرت میں کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ قرآن و سنت کے حوالے اور ذاتی مشاہدے کو‘ توازن اور اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)