جون ۲۰۰۴

فہرست مضامین

بھارت کے انتخابات ___ اہل پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ

پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۰۴ | شذرات

Responsive image Responsive image

بھارت کی چودھویں لوک سبھا کے انتخابات مقررہ وقت سے چھ ماہ قبل اپریل اور مئی ۲۰۰۴ء میں چار مرحلوں میں منعقد ہوئے اور ۱۲ مئی کو سامنے آنے والے نتائج نے بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو چونکا دیا۔ بی جے پی اور اس کے اتحادی جو اپنی متوقع فتح کے نشے میں چور تھے‘ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ کانگریس اور اس کے اتحادی جنھیں فتح کی کوئی امید نہ تھی اولاً ۲۱۷ نشستیں لے کر اور پھر دوسری جماعتوں کی تائید سے‘ لوک سبھا میں ۳۲۰ ارکان کی تائید حاصل کر کے وزارت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس انتخاب کا گہری نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

بھارت‘ پاکستان اور مغربی دنیا کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں تبصروں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہم بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اہم تبدیلی کے چند ضروری پہلوئوں پر کلام کریں اس لیے کہ پاکستانی حکومت کے ذمہ دار حضرات کے بیانات سے احساس ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک اس غیر متوقع حادثے کے مالہ اور ماعلیہ کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔

جمہوریت میں اصل فیصلہ کن قوت عوام کی رائے اور ان کا فیصلہ ہوتی ہے۔ بھارت سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں لیکن چار باتیں ایسی ہیںجن کا اعتراف حق پسندی کا تقاضا ہے۔ اول: وہاں سیاست میں کرپشن‘ پارٹیوں کے انتخابات میں دھاندلی اور مفاد پرستی کی شکایات بھی موجود ہیں اور اقلیتوں خصوصیت سے مسلمانوں اور پست طبقوں سے امتیاز برتا اور ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بحیثیت مجموعی ملک میں انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں (ریاست جموں و کشمیر کو چھوڑ کر کہ وہ ملک کا حصہ نہیں‘ ایک مقبوضہ ریاست ہے)۔ اس کی بڑی وجہمسلسل انتخابات کا انعقاد اور ایک مختصر سے عرصے کے انحراف (اندرا گاندھی کے دور کی ایمرجنسی) کے سوا انتخابی عمل کے دستور کے مطابق کام کرنے اور ان کے نتائج کو بہ رضا و رغبت قبول کرنے کی روایت قائم ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ عوام میں بھی اپنے حق کا احساس اور اپنی قوت کے استعمال کا دم خم پیدا ہوگیا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے بھی تمام تحدیدات اور ترغیبات کے علی الرغم اپنے ووٹ کی قوت اور اہمیت کو محسوس کرلیا ہے اور اسے استعمال بھی کیا ہے۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود کے اندر ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے وہاں جمہوریت کے پودے کو پنپنے اور ایک سایہ دار درخت بننے کا موقع دیا ہے۔ اس سے اس اصول کی صداقت بھی ایک بار پھر واضح ہوجاتی ہے کہ ساری خرابیوں کے باوجود جمہوریت کی کمزوریوں اور خرابیوں کا حل مزید جمہوریت اور اس تجربے کو مزیدمستحکم کرنے میں ہے‘ مسیحائوں کی تلاش اور وقتی ٹوٹکے (short cuts) آزمانے میں نہیں کیوں کہ ان کا نتیجہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں پاکستان کے طالع آزمائوں کے لیے بڑا سبق اور پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے بڑا مثبت پیغام بلکہ راہ نمائی ہے۔

دوم: جمہوریت کے فروغ اور انتخابات کو ایک فیصلہ کن نظام بنانے میں بڑا دخل الیکشن کمیشن کی آزادی‘ اس کے اختیارات کی وسعت‘اور بحیثیت مجموعی الیکشن کمیشن کی بے داغ کارکردگی پر بھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے کو سرکاری دبائو اور سیاسی جماعتوں کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے۔ ۷۰۰ کروڑ ووٹروں سے ربط‘ ان کے حق راے دہی کے صحیح استعمال کے لیے مناسب انتظامات‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بے لاگ تعاون‘ اور جدید ترین  مشینوں اور طریقوں کا استعمال‘ ہر حوالے سے اس نے اپنی کارکردگی ثابت کی ہے۔ ان انتخابات میں الیکٹرانک ووٹ کا طریقہ استعمال کیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ امریکا سے بہتر انتظامات کیے گئے۔ صدربش کے ساڑھے تین سال پہلے منعقد ہونے والے انتخاب میں الیکٹرانک نظام نے خاصی جانب داری کا مظاہرہ کیا تھا مگر بھارت جیسے کم ترقی یافتہ ملک نے شفاف طریقے سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ووٹر کو صرف اپنے مطلوب نشان پر انگلی رکھنا تھی‘ باقی سارا کام کمپیوٹر نے انجام دے دیا۔ اس کامیابی میں الیکشن کمیشن اور اس کی کارکردگی کا بڑا دخل ہے۔

سوم: بھارت میں عدلیہ کا کردار بھی اہم ہے جس نے انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی جنبہ داری کے ہر سائے سے اپنے کو محفوظ رکھتے ہوئے دستور کے مطابق قانونی نظام کو ترقی دینے میں بڑا شاندار کردار ادا کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی پشت پر بھی عدلیہ کی آزادی اور قوت موجود ہے۔

چہارم: ان کے ساتھ بھارت میں پریس کی آزادی نے بھی جمہوریت کے فروغ میں بڑا اہم حصہ لیا ہے۔ پریس اور میڈیا کا اپنا اپنا تعصب اپنی جگہ‘ اسی طرح کچھ لوگوں کا اپنے زعم میں قومی مفاد کی خاطر خاص عناصر کو زیادہ اہمیت دینا بھی ایک حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ بھارتی پریس نے دوسرے نقطہ نظر کی اشاعت اور ابلاغ میں بھی آزادی سے کام لیا ہے۔

ان چاروں عناصر کی نشان دہی کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ سب سے اہم کردار عوام کا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی قوت سے آگاہ ہو رہے ہیں اور اس کے استعمال کی جرأت اور سلیقے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی نے پروپیگنڈے کی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اس کا پورا انتخابی بجٹ بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق ۵۰۰ کروڑ روپے کا تھا جو پاکستان کے پورے سالانہ بجٹ کا ۷۰ فی صد ہوتا ہے۔ صرف میڈیا کے اشتہارات پر بقول کلدیب نیر ۲۰ ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔ لیکن بھارتی ووٹر نے محض میڈیا کی چکاچوند میں ’روشن بھارت‘  (Shining India) پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اس کا کریڈٹ عوام ہی کو جاتا ہے جن میں تعلیم اور خواندگی کا تناسب پاکستان سے خواہ تھوڑا سا بہتر ہو‘ لیکن عالمی سطح سے وہ ابھی بہت پیچھے ہیں۔

انتخابات کے مثبت پہلوئوں میں انتخابی نتائج کو سب کا خوش دلی سے قبول کرنا اور انھیں   ناکام کرنے یا ہارس ٹریڈنگ اور مصنوعی اکثریت سازی کے ذریعے عوام کے فیصلے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کا نہ ہونا بھی جمہوری اداروں کے بلوغ (maturity)کا اظہار ہے۔

ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اپنے تمام سیکولرزم‘ لبرلزم اور قانون کے احترام کے دعووں کے ساتھ جس طرح بی جے پی نے سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے کا راستہ روکا اور انتہاپسندی کے ساتھ ہندو شیونزم کا مظاہرہ کیا‘ تشدد اور خلفشار کے سمندر میں ملک کو ڈبونے اور معاشی انتشار اور بحران کی فضا پیدا کی‘ وہ جمہوریت کے چہرے کے ایسے بدنما داغ ہیں جن پر نظر رکھے بغیر بھارت کی سیاسی نفسیات کا صحیح ادراک ممکن نہیں۔

انتخابی نتائج کے اس پہلو پر بڑے شرح و بسط کے ساتھ کلام ہوا ہے کہ بی جے پی کی معاشی حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ یہ حکمت عملی وہی ہے جس پر ہم بھی آنکھیں بند کرکے عمل کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت کی شرح نمو اب ۲ئ۵ یا ۸ئ۵ فی صد ہے مگر بھارت کی ۸فی صد سالانہ تھی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ۱۲ بلین ڈالر ہیں ‘بھارت کے ۱۱۸ بلین ڈالر تھے۔ ہماری زراعت ۲ فی صد اور بھارت کی ۹ فی صد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ لیکن اس تمام ترقی کا فائدہ بمشکل ۵ فی صد اہل ثروت کو ہو رہا تھا اور عوام کی اکثریت اس کے ثمرات سے محروم تھی۔ آندھراپردیش جسے دنیا میں کامیابی کی مثال( success story )کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا‘ جہاں کی IT کی برآمدات ۶ ارب ڈالر سالانہ کو چھو رہی تھیں اور جس کے وزیراعلیٰ  چندرا بابو نائیڈو کو بل کلنٹن اور بل گیٹس سینے سے لگا رہے تھے‘ ان کی وزارت خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ اس سے لبرل معیشت‘ نج کاری اور گلوبلائزیشن کے سہارے معاشی پالیسی سازی کے افلاس کا پتا چلتا ہے۔ اس میں پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے پالیسی سازوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔ یہی کچھ ارجنٹاٹنا میں ہوا‘ یوروگوا میں ہوا اور اب ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا۔ کیا اب بھی ہمارے معاشی معالج اسی نسخے پر عمل جاری رکھیں گے؟

بھارت کے انتخابات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یک پارٹی یا دو پارٹی نظام کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اب اتحادوں کی سیاست ہے اور اس میں عوامی مسائل کے ساتھ مقامی مسائل نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ دونوں ہی بڑی پارٹیوں کو علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلناپڑا ہے۔ ایک اتحاد میں ۲۷ پارٹیاں ہیں تو دوسرے میں ۲۰۔ کانگرس نے سابقہ انتخاب میں ناکامی سے بروقت سبق سیکھا اور اتحاد کی سیاست کا نقشہ بڑی محنت اور چابک دستی سے بنایا‘ خصوصاً جنوب کی علاقائی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اس نے ایک کامیاب حکمت عملی وضع کی۔ اسی طرح محروم طبقات اور اقلیتوں کو اس نے سمجھ داری سے اپنی طرف ملتفت کیا اور اس کا اسے بھرپور فائدہ پہنچا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا زوال فروری ۲۰۰۲ء میں شروع ہوگیا تھا جب اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے سوچے سمجھے منصوبے پر منظم طریقے سے عمل کیا اور پھر گجرات کے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا۔ بھارت کا مسلمان پہلے ۲۴ سال پاکستان کی طرف دیکھتا رہا۔لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے نے اسے اس طرف سے مایوس کر دیا تو اسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا خیال آیا۔ اب ہندو انتہاپسندی نے اس کی کمر توڑنے کی کوشش کی۔ اس  سلسلے میں بابری مسجد کی شہادت اور گجرات کے مسلم کُش فسادات اہم ترین حربے تھے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹر نے پہلی بار ایک واضح انتخابی حکمت عملی پر عمل کیا‘ اس نے اپنے ووٹ کی قوت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ بی جے پی کے نمایشی اقدامات کے باوجود جن میں مولاناابوالکلام مرحوم کی نواسی اور راجیہ سبھا کی سابق مسلمان ڈپٹی چیئرپرسن نجمہ ہبت اللہ کی تائید اور جامع مسجد دہلی کے امام کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے‘ مسلمان ووٹر نے تقریباً پورے ملک میں اپنا ووٹ صرف اسی نمایندے کو دیا جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ بی جے پی کے نمایندے کو شکست دے گا۔ اس طرح ۱۴فی صد ووٹروں کے فیصلہ کن ووٹ نے بیسیوں انتخابی حلقوں میں پانسہ پلٹ دیا۔ کانگریس کو اس کا احساس ہے اور یہی وجہ ہے بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ۶۷ افراد کی کابینہ میں ۷ مسلمان وزرا شامل کیے گئے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اچھی انتخابی حکمت پر مستقبل میں بھی عمل پیرا ہوتے ہیں تو توقع ہے کہ وہ بھارت کی سیاست اور اجتماعی زندگی میں اپنا قرارواقعی مقام حاصل کرسکیں گے۔

ان انتخابات کا ایک اور پہلو (جس کے اثرات شاید صرف بھارت تک ہی محدود نہ رہیں) بائیں بازو کی جماعتوں کا تیسری سیاسی قوت بن کر ابھرنا اور گلوبلائزیشن کے عالمی سرمایہ داری کے منصوبے کو روک لگانے کے عزم کا اظہار ہے۔ لاطینی امریکا میں بھی یہ رجحان واضح ہورہا ہے اور امکان ہے کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی بے وفائی (betrayal) کے علی الرغم یورپ کے دوسرے ممالک میں یہ رجحان تقویت پائے گا اور خود برطانیہ میں لیبر کی سیاست میں آیندہ تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ علاقائی اور عالمی دونوں تناظر میں یہ تبدیلیاں گہرے مطالعہ اور صحیح  ردعمل کی متقاضی ہیں۔

پاک بھارت تعلقات کا مسئلہ بھی بہت گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ انتخاب سے پہلے ہماری قیادت نے اپنے سارے انڈے بی جے پی اور زیادہ صحیح الفاظ میں اٹل بہاری واجپائی کی ٹوکری میں ڈال دیے اور ان کے لیے دعائیں بھی شروع ہوگئیں۔ اسی طرح جس طرح وزیراعظم صاحب نے اس وقت جب ساری دنیا بش پر لعنت بھیج رہی ہے‘ ان کے لیے دعائوں کا تحفہ پیش فرمایا ہے۔ یہ سادگی نہیں ڈپلومیسی کی زبان میں نہایت بھیانک غلطیاں (blunders) ہیں جن سے احتراز کرنا چاہیے۔

انتخابی نتائج کے بعد سونیا گاندھی اور ڈکشٹ کے بیانات کا سہارا لیا جانا شروع ہوگیا ہے اور ایک بار پھر وہی مذاکرات کی رٹ لگائی جا رہی ہے حالانکہ ابھی بھارت میں وزارت نے اپنے قدم بھی نہیں جمائے ہیں۔ ایسی عجلت بڑی عاقبت نااندیشانہ سیاست ہے۔ کیا ہم صبروہمت کا دامن بالکل ہی چھوڑ چکے ہیں؟

کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی سیاست کا بغور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت کمزور ہے اور جو تھوڑی بہت گنجایش موجود تھی‘ ایک اقلیتی فرقے کے وزیراعظم کی وجہ سے وہ اور بھی کم ہوگئی ہے۔ کانگریس کی صدر بھی بھارت نژاد نہیں۔ سونیا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنے کے لیے بی جے پی کی مرکزی قیادت نے جس طرح حلف برداری کی تقریب کے بائیکاٹ سے لے کر بڑی بڑی سورما خواتین کے استعفوں‘ سر کے بال منڈوانے اور ماتمی اجتماع کی دھمکیاں دیں‘ ان سے بی جے پی کی سیاست کے طریق واردات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ واجپائی نے بھی ایک ہی سانس میں دوستی اور جنگ دونوں کی باتیں کی تھیں۔ اب کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اس لیے کہ حکومت کی کمزوری اور اپوزیشن میں ہندو سیاست کے چیلنجوں کونظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کانگریس کی حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے دو اعلان بڑے اہم اور معنی خیز ہیں۔ ایک شملہ معاہدے کا اعادہ اور دوسرے دیوارِ برلن کے گرنے کی بات۔ من موہن سنگھ صاحب کا حافظہ خطا کر رہا ہے۔ دیوار برلن تو پندرہ سال پہلے گرچکی تھی اور اس کے گرنے کا تصور نہ ہونا تو بہت پہلے کی بات ہے۔ لیکن دیوار برلن کی تلمیح میں کن عزائم کا ڈھکا چھپا اعلان ہے؟ وہی جو پنڈت نہرو‘ کانگریس ورکنگ کمیٹی اور اچاریہ کرپلانی نے بھارت اور پاکستان کے دوبارہ ملنے کی توقعات کی شکل میں کیا تھا اور جن کی طرف ایڈوانی صاحب کنفیڈریشن کی بات کرکے اشارے کر رہے تھے؟ آغاز ہی ان اعلانات سے ہواہے‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

مذاکرات ضرور کیجیے۔ ہم سب اس کے حق میں ہیں لیکن ان سے کسی قسم کی توقع رکھنا ایک حماقت ہوگی اور ان کی توقع پر متبادل راستوں اور حکمت عملیوں سے صرفِ نظر کرنا مجرمانہ اور بھیانک غلطیوں کے ارتکاب کے مترادف ہوگا۔ پورے منظرنامے کو سامنے رکھ کر گہرے سوچ بچار اور ضروری حکمت عملیاں تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں اگر سیاسی اور مزاحمتی دبائو ذرا بھی کم ہوتا ہے تو مذاکرات کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ آخر سورن سنگھ بھٹو مذاکرات  بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوئے تھے۔ ڈکشٹ صاحب اسلام آباد میں سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ جامع مذاکرات(composite dialouge) کا آغاز بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوا تھا جوآگے نہ بڑھا تھا۔ اب بھی امن کے قیام اور معنی خیز مذاکرات کے انعقاد کی ہرکوشش کرنا ہمارا فرض ہے مگر سمجھ داری‘ صبر‘ متانت اور قومی وقار کے ساتھ۔ اس موقع پر قائداعظم کے دو ارشادات اگر سامنے رہیں اور ان سے کچھ روشنی بھی حاصل کرلی جائے تو بڑا مفید ہوگا۔ قائداعظم نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کے لکھنؤ کے اجلاس میں بڑی پتے کی بات کہی تھی:

کمزور فریق کی جانب سے امن و صلح کی پیش کش کا مطلب ہمیشہ کمزوری کا اعتراف اور جارحیت کو حملہ کرنے کی ترغیب ہوتا ہے۔ تمام تحفظات اور معاہدات‘ اگر ان کی پشت پر طاقت نہ ہو‘ محض کاغذ کے پرزے ہوتے ہیں۔ سیاست کا مطلب انصاف کے نعروں یا رواداری یا خیرسگالی کی چیخ پکار پر بھروسا کرنا نہیں۔ سیاست کا مطلب ہے طاقت اور صرف طاقت۔

۱۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو سوئٹزرلینڈ کے صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے جو بات کہی وہ آج ۱۹۴۸ء سے بھی زیادہ بامعنی اور برمحل ہے۔

سوال: کیا امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی اپنے اختلافات اور تنازعات پُرامن طور پر حل کرلیں گے؟

جواب: بشرطیکہ بھارتی حکومت احساسِ برتری ختم کر دے‘ پاکستان کو برابر کی حیثیت دے اور اصل حقائق کا سامنا کرے۔

سوال: کیا بین الاقوامی معاملات میں پاکستان اور بھارت مل جل کر کام کریں گے اور کیا بیرونی حملے کی صورت میں بّری اور بحری محاذوں پر مشترکہ دفاع کریں گے؟

جواب: مجھے ذاتی طور پر ذرا بھی شبہہ نہیں کہ ہمارے اعلیٰ ملکی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو بین الاقوامی معاملات میں اپنا اہم کردار انجام دینے کے لیے مل جل کر کام کرناچاہیے۔ دو آزاد اور خودمختار مملکتوں کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت کو بیرونی حملے کا مقابلہ باہمی تعاون سے کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا دارومدار سراسر اس بات پرہے کہ پاکستان اور بھارت پہلے اپنے اختلافات اور تنازعات ختم کرلیں۔ اگر ہم پہلے اپنے گھر کو مضبوط اور استوار کرلیں   تو پھر اس قابل ہوسکتے ہیں کہ بین الاقوامی معاملات میں ثابت قدمی سے بہت زیادہ حصہ    لے سکیں۔

قائداعظم کے دونوں اقوال ان زریں اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری پاک بھارت دوستی کی بنیادیں استوار ہوسکتی ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جذباتی اندازمیں یا بیرونی دبائو کے تحت سیاست کاری ملک و ملّت کے لیے مہلک ہے۔

یہ وقت ہے کہ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی اور دینی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ٹھوس بنیادوں پر خارجی اور داخلی پالیسی تشکیل دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کی اب تک کی کارگزاری ہر اعتبار سے سخت مایوس کن اور مستقبل کے لیے اپنے دامن میں مہیب خطرات لیے ہوئے ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اور ان انتخابات کے جو اثرات اس پر مرتب ہوں گے ان کے فوری اور گہرے جائزے کی اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے تحریک مزاحمت کو صحیح پیغام پہنچے۔ جلدبازی میں اور وقتی مصالح یا بیرونی دبائو میں بنائی جانے والی پالیسیاں تارِعنکبوت کی طرح ہوتی ہیں۔ اس جال سے ہم جتنی جلد نکل جائیں ہمارے لیے بہتر ہے۔