حضرت عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ لوگوں نے آپؐ سے میرے متعلق عرض کیا‘ یہ عدی بن حاتم ہیں۔ میں کسی معاہدے اور امان کے بغیر حاضر ہوا تھا۔ جب مجھے آپؐ کے قریب کیا گیا تو آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ اس سے پہلے آپؐ فرما چکے تھے کہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس (عدی) کے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں دے دے گا۔ پھر آپؐ مجھے لے کر چل پڑے۔ راستے میںآپؐ کو ایک عورت اور ایک بچہ ملے۔ انھوں نے عرض کیا: ہمیں آپؐ سے کام ہے۔ ان کی بات سن کر آپؐ ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کا کام پورا کر دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے گھرلے آئے۔ لونڈی نے مسند بچھا دی‘ آپؐ اس پر بیٹھ گئے اور میں آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔
آپؐ نے اللہ کی حمدوثنا کی۔ اس کے بعد فرمایا:عدی! تمھیں کون سی چیز لا الٰہ الا اللہ کہنے سے روکتی ہے؟ کیا تمھارے علم میں اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ عدی ؓکہتے ہیں: میں نے عرض کیا‘ نہیں۔ پھر آپؐ نے تھوڑی دیر مزید گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم اللہ اکبر کہنے سے بھاگتے ہو؟ اللہ سے کوئی اور بڑی ذات تمھارے علم میں ہے؟ میں نے عرض کیا‘ نہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: یہود مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ ہیں اور نصاریٰ گمراہ۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے عرض کیا: میں تو تمام ادیانِ باطلہ سے منہ موڑ کر مسلم ہوگیا ہوں۔ تو میں نے دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ پھر مجھے ایک انصاری کے ہاں ٹھیرانے کا حکم دیا۔ میں وہاں ٹھیرگیا اور صبح شام حضوؐر کی خدمت میںحاضر ہوتا رہا۔
ایک دفعہ پچھلے پہر میں آپؐ کے پاس حاضر تھا کہ دھاری دار اونی چادریں باندھے کچھ لوگ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ نے انھیں صدقہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: جس کے پاس ایک صاع ہے تو وہ ایک صاع لائے‘ نصف صاع ہے تو وہ نصف لائے‘ ایک مٹھی یا مٹھی کاکچھ حصہ ہے تو وہ وہی لے آئے اور اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے‘ اگرچہ ایک کھجور یا کھجور کے ایک چھلکے سے سہی۔ تم میں سے ایک آدمی اللہ سے ملے گا اس حال میں کہ اللہ اس سے وہ بات فرمائیں جو میں تمھیں ابھی بتلا دیتا ہوں۔ اللہ فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال اور اولاد نہ دی تھی؟ جواب میں وہ شخص کہے گا: کیوں نہیں‘ اے رب! پھر اللہ فرمائیں گے: کیا ہے وہ جو تم نے اپنے لیے آگے بھیجا؟ وہ اپنے آگے پیچھے‘ دائیں بائیں دیکھے گا توکسی چیز کو نہ پائے گا جس کے ذریعے سے اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے۔(اس کے بعد آپؐ نے فرمایا:) تم میں سے ہر ایک اپنے چہرے کو آگ کی حرارت سے بچائے اگرچہ کھجور کے ایک چھلکے ہی سے۔ وہ بھی نہ ملے تو عمدہ بول سے۔ مجھے تمھارے بارے میں فقروفاقے کا ڈر نہیں ہے۔ اللہ تمھاری مدد کرنے والا ہے۔ وہ تمھیں مال دار کر دے گا یہاں تک کہ ایک ’’پردہ نشین‘‘ عورت اپنی اونٹنی پر یثرب ]مدینہ[ سے حِیرہ ]یمن[تک یا اس سے بھی زیادہ طویل سفر کرے گی اور اسے چوروں اور ڈاکوئوں کا کوئی ڈر نہ ہوگا۔ (عدیؓ کہتے ہیں کہ) میں اپنے دل میں کہتا تھا‘ طے قبیلے کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے؟ (لیکن نبیؐ کا فرمایا پورا ہوگیا‘ ڈاکو ختم ہوگئے) (ترمذی‘ کتاب التفسیر‘ تفسیر سورۂ فاتحہ)
رحمت للعالمینؐ کی رحمت و شفقت کے دل کش‘ ایمان افروز‘ رقت آمیز چار مناظر آپ کے سامنے ہیں۔
پہلا منظر: حضرت عدی بن حاتمؓ نصرانی ہیں‘ اسی حالت میں آپؐ کے پاس حاضر ہوتے ہیں‘ پھر کیسی شفقت اور کیسا پیار اور انس پاتے ہیں۔ آپؐ محبت سے ان کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے جاتے ہیں‘ گھر تک ہاتھ میں ہاتھ ہے۔ کیسے پیارے انداز سے اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں‘ کس طرح قیام و طعام کا انتظام کرتے ہیں‘ سبحان اللہ! محبت ہی محبت اور رحمت ہی رحمت ہے۔ ہے کوئی جو اس کی مثال پیش کرے!
دوسرا منظر: خاتون اور اس کا بچہ اپنے کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں تو آپؐ ان کی حاجت پوری کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
تیسرا منظر: فقروفاقے سے دوچار اور بدن پر پورے لباس سے محروم مجاہدین آتے ہیں تو دل میں ان کے لیے تڑپ لے کر لوگوں کو صدقے کی ترغیبات دے رہے ہیں۔
چوتھا منظر: اسلام کی بدولت امن و امان کے منظر کی خوش خبری آپؐ نے دی۔ آپؐ فرماتے ہیں: ڈاکے ختم ہوجائیں گے‘ دنیا کو امن و امان ملے گا اور وہ سکھ کا سانس لے گی۔ آپؐ کی پیش گوئی کی صداقت دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
آج دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اگر ظلم و جور‘ فتنہ و فساد اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے تو پھر انسان کی سب سے بڑی ضرورت اسلام ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ محبت کرتے ہیں‘ اور تین ایسے ہیں جن سے ناراض ہوتے ہیں۔ جن سے محبت کرتے ہیں‘ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو لوگوں کے پاس آتا ہے اور ان سے رشتے داری کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ اللہ کے نام پر سوال کرتا ہے۔ لوگ اسے کچھ نہیں دیتے‘ وہ واپس ہوجاتا ہے۔ پھر ایک آدمی اس کے پیچھے چلا جاتا ہے اور چپکے سے اس کی وہ حاجت اس طرح پوری کر دیتا ہے کہ اس کا علم اللہ اور اس شخص کے سوا کسی کو نہیں ہوتا جس کا سوال اس نے پورا کیا۔ دوسرا وہ شخص ہے کہ لوگ رات کے وقت سفر کرتے رہے۔ جب رات کا آخری پہر آیا جس میں نیند مسافر کو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے‘ لوگ سوگئے لیکن وہ کھڑا ہوگیا اور میری آیات کی تلاوت اور طرح طرح سے میری حمدوثنا کر کے مجھے راضی کرنے میں لگ گیا۔ تیسرا وہ شخص ہے جو ایک جہادی دستے میں شامل ہے۔ لوگ شکست کھاکر بھاگ گئے لیکن وہ آگے بڑھا‘ حملے کرتا رہا یہاں تک کہ فتح حاصل کی یا جامِ شہادت نوش کرلیا۔ اور تین شخص اللہ کو ناپسند ہیں: بوڑھا زانی‘ فقیرتکبر کرنے والا‘ دولت مند جو ظلم کرنے والا ہو۔ (ترمذی)
آج بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کی راہ سب کے لیے کھلی ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے والے‘ اللہ کو راضی کرنے کے لیے راتوں کو اٹھ کر تلاوتیں اور دعائیں اور اس کی ثنا اور اس سے آہ و زاری کرنے والے‘ اور جہاد سے رخ موڑ لینے کے بجاے استقامت کا مظاہرہ کرنے والے‘ اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حیض کی حالت میں یہود اپنی بیویوں سے میل جول ختم کردیتے۔ کھانا پینا‘ رہایش‘ ہر چیز الگ کرلیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی یہ آیت نازل فرمائی: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِط قُلْ ھُوَ اَذًی (البقرہ۲:۲۲۲) ’’آپؐ سے پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے؟ آپؐ کہہ دیجیے: حیض ایک تکلیف دہ حالت ہے۔ اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جائو‘ جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں‘‘۔ یہود نے جب یہ آیات سنیں تو کہنے لگے کہ یہ شخص ہر معاملے میں ہماری مخالفت کرتا ہے۔ یہود کی یہ بات عباد بن بشرؓ اور اسید بن حضیرؓنے سنی تو حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو ان کی اس بات کی اطلاع دی۔ ساتھ ہی یہود کی اس بات کا مزید سخت جواب دینے کی خاطر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم یہود کی مزید مخالفت کرتے ہوئے بیویوں سے ہم بستری نہ کریں؟ یہ بات سن کر حضوؐر کے چہرئہ انور کا رنگ بدل گیا جس سے ہم سمجھے کہ رسولؐ اللہ ان پر غصہ ہوگئے۔ (آپؐ کے غصے کا سبب یہ تھا کہ یہود یا کسی بھی گروہ کی مخالفت میں آدمی اس قدر آگے نہ بڑھ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی بھی پرواہ نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن پاک کی ایک آیت میں ہے: لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط (المائدہ ۵:۸) ’’تمھیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل سے کام نہ لو۔ اس کے بعد وہ دونوں صحابیؓ اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے سامنے سے ایک آدمی نبیؐ کے لیے ہدیے کے طور پر دودھ لے کر آرہا تھا۔ آپؐ نے انھیں واپس بلایا تاکہ وہ دودھ پی لیں۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ آپؐ ان سے ناراض نہیں ہوگئے۔ (ترمذی)
مخالفین کی مخالفت میں حد سے نہ گزرنا چاہیے کہ آدمی کو اپنے اصول اور طریقے بھی یاد نہ رہیں۔ اور ضد میں دینی احکامات کی مخالفت بھی کر گزرے‘ یہ بات اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناراض کرنے والی ہے۔ جوش میں بھی ہوش کا دامن نہ چھوٹے۔
اس واقعے سے ناراضی کے اظہار کے بعد شفقت اور حسنِ سلوک کا سبق بھی ملتا ہے۔