ہم اِن لوگوں سے کسی جذبۂ نفرت و غضب کے بغیر خالص جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جنگ اور اس کی ضروریات کتنی ہی شدید سہی‘ مگر براہِ کرم اپنے حواس بچا رکھو۔ تم وقتی فائدہ ونقصان کی فکر میں اتنے کھوئے جا رہے ہو کہ اپنی حرکات کے دُور رس اخلاقی نتائج سے تم نے آنکھیںبند کرلی ہیں۔ تم بھول گئے ہو کہ زندگی کی کش مکش میں اخلاقی شکست کھا جانے کے بعد کوئی فوجی فتح تم کو عزت کے مقام پر برقرار نہیں رکھ سکتی اور نہ مجرد مادی طاقت کے بل پر تم زیادہ مدت تک دنیا میں برسرِاقتدار رہ سکتے ہو۔ تمھیں یہ بھی یاد نہیں رہا ہے کہ زمانہ ساکن نہیں بلکہ متحرک ہے‘ اور وہ شخص سخت نادان ہے جو آج کی مصلحت بینیوں میں گم ہوکر کل کی مصلحت کو فراموش کر دے۔
وقت ‘خواہ کتنا ہی برا ہو‘ بہرحال گزرجاتا ہے‘ مگر اپنی ایک مستقل یادگار تاریخ میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے برے اثرات نسلوں تک چلتے رہتے ہیں۔ تم نے اگر اس وقت کو ظلم و زیادتی کے ساتھ گزارا تویہ ہم پر سے بھی بہرحال گزرے گا اور تم پر سے بھی‘ مگر اس طرح کہ تم اپنی آیندہ نسلوں کے لیے تاریخ میں ایک ایسی شرمناک میراث چھوڑ جائو گے جس پر وہ صدیوں تک دنیا میں نظر اُونچی نہ کر سکے گی۔ امریکا میں تمھارے اسلاف نے تمھارے لیے ایسی ہی میراث چھوڑی تھی جس کا نتیجہ آج یہ دیکھ رہے ہو کہ ہر امریکن کے سامنے تمھاری نگاہ نیچی ہے۔ آئرلینڈ میں تم نے یہی میراث چھوڑی‘ اور آج تم کو تجربہ ہوگیا کہ تمھارے قریب ترین ہمسایے نے تمھارے اخلاق کا کیا اثر لیا ہے۔اب کیا تم ہندستان میں بھی ایسی ہی میراث چھوڑنا چاہتے ہو؟ تمھارے اصل کارنامے وہ نہیں ہیں جو تم آپ ہی اپنی مدح میں بیان کرلیا کرتے ہو‘ بلکہ وہ ہیں جو تاریخ میں باقی رہ جائیں۔ اور تاریخ میں سیہ رُو قوموں کی تصویریں تم دیکھ چکے ہو۔ پھر کیا تم نے عزم کرلیا ہے کہ اپنی تصویر کے لیے بھی اسی گیلری میں کوئی بلند جگہ محفوظ کرائو گے؟ (’’اشارات‘‘، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۴‘ عدد ۵-۶‘ جمادی الاولیٰ‘ جمادی الاخریٰ ۱۳۶۳ھ‘ مئی‘ جون ۱۹۴۴ئ‘ ص ۶)