جون ۲۰۰۴

فہرست مضامین

مولانا عبدالباری مرحوم

پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۰۴ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

مولاناابوالکلام آزاد نے ایک تقریر میں تاج محل کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کے حسن اور دلآویزی سے مبہوت انسانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اس حسن مجسم کی جتنی تعریف چاہے کرلو لیکن یہ نہ بھولو کہ اس کی شان و شوکت اور دلربائی مرہون منت ہے ان نظر نہ آنے والے پتھروں پر جو اس کی بنیاد میں پیوستہ ہیں اور فنِ تعمیر کے اس عجوبے کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں--- کشمیر کی تحریکِ آزادی کا معاملہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں مقبوضہ کشمیر میں جو تحریکِ مزاحمت شروع ہوئی‘ اور ۱۹۸۹ء کے انتخابی معرکے کے بعد جس سیاسی جدوجہد نے جہاد آزادی کا روپ دھارا‘ اس کی قیادت اگر حزب المجاہدین اور دوسری جہادی تنظیمیں کر رہی ہیں‘ اور اس کی سیاسی رہنمائی کی سعادت سید علی گیلانی اور ان کے   رفقاے کار کو میسر آئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے کئی اہم شخصیات کی وہ مساعی ہیں جو تاج محل کی نیو کے پتھروں کا درجہ رکھتی ہیں اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس تاریخی تحریک کی   صورت گری میں ان کا بڑا حصہ ہے--- اور ان کا مقام اس سے اور بھی بلند ہوجاتا ہے کہ انھوں نے ساری خدمات اللہ کے لیے اور اپنی مظلوم قوم کی آزادی کے حصول کے لیے انجام دیں اور ہر نام و نمود سے بالا ہوکر!

مولانا عبدالباری مرحوم اس تحریکِ مزاحمت و جہاد کے گم نام بانیوں میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ مولانا عبدالباری ہی نے اس جدوجہد کی سرپرستی کے لیے مولانا سعدالدین مرحوم کو آمادہ کیا۔ ۱۹۸۰ء میں انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں تین ہفتے گزارے۔ کام کا ایک نقشہ ان کے ذہن میں تھا۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں اور جماعت اسلامی کی قیادت سے تحریکِ آزادی کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی۔ نئے خطوطِ کار مرتب کیے گئے۔ نوجوانوں نے کام شروع کر دیا۔ پھر ۱۹۸۳ء میں مولانا سعدالدین پاکستان تشریف لائے اور تحریک آزادی کے سلسلے میں اعلیٰ ترین سطح پر مشورے ہوئے اور بالآخر چار پانچ سال کی تیاری کے بعد ۱۹۸۸ء میں تحریک نے نئی کروٹ لی--- نوجوانوں میں ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ ڈاکٹر غلام نبی فائی‘ تجمل حسین اور ان کے رفقا کا کردار سب سے اہم تھا تو بزرگوں میں مولانا سعدالدین‘ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کا--- اور ان سب کے پیچھے جس شخص نے خاموشی‘ حکمت اور لگن کے ساتھ اس تحریک کے دروبست کی شیرازہ بندی کی وہ مولانا عبدالباری تھے‘ جو اس تحریک کو خاک و خون کی منزلیں طے کرتے دیکھتے ہوئے اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہوئے ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء کو اس دارفانی سے اپنے رب حقیقی کی طرف رخصت ہوگئے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔

مولانا عبدالباری نے اکتوبر ۱۹۱۹ء میں وادی کشمیر کی تحصیل باندی پور (بارہ مولہ) کے ایک معزز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ۱۸ سال کی عمر میں جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک میں شرکت اختیار کی‘ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں شرکت کی‘ اور تحریک کے ہرمرحلے میں   مردانہ وار شریک رہے۔ ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو جس اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی ‘اس میں وہ بھی شریک تھے۔ ۱۹۴۷ء کے آخری ایام میں پاکستان ہجرت کی۔ بالاکوٹ میں چند سال قیام کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے۔

جماعت اسلامی سے ذہنی اور عملی رفاقت کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس آزاد کشمیر سے وابستگی جاری رکھی اور اس کے سینیرنائب صدر اور مجلس عاملہ کے فعال رکن رہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جماعت اسلامی آزاد کشمیر قائم ہوئی تو اس کے صدر منتخب ہوئے اور یہ ذمہ داری۱۹۸۱ء تک انجام دی۔ جس لگن سے امیرجماعت کی حیثیت سے کام کیا‘ اسی لگن سے کرنل رشید عباس اور عبدالرشید ترابی کی امارت میں بحیثیت رکن خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۴ء میں کار کے ایک حادثے کے نتیجے میں صاحبِ فراش ہوگئے مگر اسلام‘ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے اسی طرح فکرمند رہے اور آخری سانس تک اپنے رب سے وفاداری کا جوعہد کیا تھا اس پر قائم رہے۔

مجھے مولانا عبدالباریؒ سے ملنے کا پہلا موقع ۱۹۷۸ء میں ملا جب میں انگلستان سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے دورے میں بھی ساتھ رہے۔ ان کے انگلستان اور سعودی عرب کے دوروںمیں بھی‘ مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا بھرپور موقع ملا۔ تحریکی مشاورتوں اور اجتماعات میں بھی ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے اس پورے عرصے میں مولانا عبدالباریؒ کو ایک بڑا صاف ستھر انسان پایا۔ اسلام کی دعوت‘ تحریک اسلامی کی خدمت‘ دینی تعلیم خصوصیت سے مساجد اور مدرسوں کی کفالت‘اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد‘ ان کے شب و روز کا مرکزومحور تھے۔ اس کے ساتھ اولاد کی تربیت اور ان کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام اور تحریکِ اسلامی کے رنگ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش‘ ان کی مساعی کا حاصل ہیں۔ سیاسی معاملات میں ان کی رائے بڑی صائب اور خصوصیت سے کشمیر کے حالات کا تجزیہ بڑا چشم کشا ہوتا تھا۔ خود مجھے تحریکِ آزادی کشمیر میں  سراپا کھینچ لانے میں ان کا بھی حصہ ہے۔گو اس سلسلے میں مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ برادرم الیف الدین ترابی اور عزیزی حسام الدین کا بھی بڑا ہی موثر کردار رہا ہے۔

مولانا عبدالباری سے ۲۵ سالہ تعلق میں‘ میںنے محسوس کیا کہ ان کی زندگی میں تین چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ سب سے پہلی چیز ان کا اسلام اور تحریکِ اسلامی سے کمٹ منٹ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک عقیدے اور نظامِ عبادت کے طور پر ہی قبول نہیں کیا تھا بلکہ اسے زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ اس کے لیے جدوجہد‘ قربانی اور اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی تڑپ اور جذبہ‘ ان کی پہچان بن گیا تھا۔ دین کو ہر شعبۂ زندگی میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ مساجد اور مدارس کا قیام ہو یا دعوت و تحریک کی مساعی‘ صحافت ہو یا خطابت‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو بھی صلاحیتیں ودیعت کی تھیں اور جو بھی وسائل عطا کیے تھے‘ ان کو انھوں نے پوری دیانت اور دلجمعی کے ساتھ اللہ کی راہ میں صرف کیا اور بڑی کشادہ دلی کے ساتھ کیا۔ اور جب قضاے الٰہی سے وہ ایک حادثے کی بناپر صاحبِ فراش ہوگئے‘ تب بھی صبروشکر کی کیفیت میں ذرا فرق نہ آیا۔ انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ان کا دل‘ ان کے ہاتھ‘ ان کی آنکھ اور ان کی زبان‘ اللہ کے ذکر میں مصروف رہی۔

دوسری چیز پاکستان سے ان کی محبت اور شیفتگی تھی اور یہ محبت محض وطن کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ وہ پاکستان کو اسلام کا گھر اور قلعہ سمجھتے تھے اور مسجد کی طرح اس کی حفاظت اور خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔

مولانا عبدالباری ؒکے عشق کا تیسرا مرکز و محور کشمیر اور خصوصیت سے اس کی آزادی کی تحریک اور پاکستان سے اس کے الحاق کی خواہش اور کوشش تھی۔ یہ چیز ان کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز تھی‘ اور میں نے ان کو اس سے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ پایا خواہ اس کا تعلق کشمیر کاز کو سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا ہو یا جہادی قوت کو متحرک کرنا ہو کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی خدمات ایک زریں مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔

ان تینوں مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا اور اپنی اولاد اور اپنے دوستوں‘ ساتھیوں اور رفقا کو آمادہ اور متحرک کیا۔ یہ کام انھوں نے ہمت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کے باب میں بے پناہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ کتنا ہی مضبوط دشمن ہو اور راہ کی مشکلات کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہوں‘ وہ اپنے مشن کے لیے جدوجہد میں سرگرم رہے۔ وہ مخالفتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھے۔ انھیں اپنے اللہ پر اور اپنے مشن کی صداقت پر بھروسا تھا اور یہی ان کی طاقت اور استقامت کا راز تھا۔  اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انھیں اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔آمین!