دونوں کا بچپن محرومی سے عبارت تھا۔ احمد ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوا۔ بمشکل چار برس کا تھا کہ والد یاسین اسماعیل اللہ کو پیارے ہوگئے۔ چھ بہنوں اور تین بھائیوں میں سے احمد سب سے چھوٹا تھا۔ بڑے بھائی نے پڑھائی چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کی۔ بہنوں اور بھائی کو پڑھانا چاہا۔ احمد ابھی چوتھی کلاس میں تھا کہ اسرائیلی فوج نے آبائی گائوں ’الجورہ‘ سے نکال باہر کیا ۔لٹا پٹا خاندان غزہ میں ساحل سمندر پر واقع مہاجر کیمپ میں پناہ گزین ہوا اور غربت کے ساتھ ساتھ مہاجرت و آزمایش کا نیا دور شروع ہوگیا۔
عبدالعزیز ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پیدا ہوا۔ سات ماہ کا بھی نہیں ہوا تھا کہ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی فوج نے عسقلان اور یافا کے درمیان واقع آبائی گائوں یبنا پر بم باری کر دی۔ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل آل رنتیسی کا کنبہ خانیونس مہاجر کیمپ میں پناہ گزین ہوا۔ پیٹ پالنے کے لیے بڑے بھائی نے حجام سے لے کر اینٹیں ڈھونے تک ہر طرح کی مزدوری کی اور عبدالعزیز نے بھی مزدوری کے کسی کام میں عار نہیں سمجھی۔ گولر کے بے قیمت پھل بھی بیچے اور قریبی قصبے سے صابن بھی لاکر بیچا۔ ۱۵ برس کے تھے کہ یتیم ہوگئے۔ ساری ذمہ داری بڑے بھائی پر آن پڑی‘ عبدالعزیز نے بھی پوری طرح ہاتھ بٹایا۔
احمد اور عبدالعزیز دونوں بچے بیوہ ماں اور بھائی بہنوں کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرتے تھے۔ لیکن قدرت دو مختلف مہاجر کیمپوں میں حالات کے تھپیڑے سہتے ان دو یتیموں کو اُمت کی قیادت کے لیے تیار کر رہی تھی۔ دونوں کے سرپرست ان کے بڑے بھائی گواہی دیتے ہیں کہ ان کے بچپن سے ہی ہمیں اندازہ ہوتا تھا کہ ’’مستقبل میں ان کا بڑا مقام ہوگا‘‘۔
احمد الشاطی مہاجر کیمپ کے اسکول بھی جانے لگا۔ ۱۶ سال کا تھا کہ ایک روز ساحل سمندر پر ورزش کرتے ہوئے سر کے بل گرا‘ گردن کے مہرے ٹوٹ گئے‘ ۴۵ دن تک پلستر میں جکڑا رہا۔ پلستر کھلا تو معلوم ہوا کہ نیم معذوری مستقلاً لاحق ہوگئی ہے۔ یہی نیم معذوری بعد میں بڑھتے بڑھتے گردن سے نچلے دھڑ کے مکمل فالج میں بدل گئی۔ احمد کو ساحل سے اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے ان کے دوست اور عم زاد کویت میں ہوتے ہیں۔ انھوں نے راقم کو بتایا کہ پلستر کھلنے کے بعد احمد یاسین پھدک پھدک کر اور ہاتھ قدرے پھیلا کر چلاکرتے تھے۔ ہم ہمجولی کبھی ان کا مذاق بھی اڑاتے‘ لیکن اس نے تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ ۱۹۵۸ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پہلی پوزیشن سے پاس کر لیا۔
احمدیاسین کے بڑے بھائی کہتے ہیں کہ اساتذہ کی بھرتی شروع ہوئی تو ۱۵۰۰ امیدوار پیش ہوئے۔ احمد یاسین نے بھی انٹرویو دیا‘ راستے میں ایک شخص نے کہا: تم اپاہج ہو‘ تدریس نہیں کر سکتے۔ احمد یاسین نے مسکرا کر کہا: ’’وفی السماء رزقکم وما توعدون‘ تمھارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمانوں میں ہے‘‘۔ انٹرویو لینے والے بورڈ نے توقع کے مطابق احمد یاسین کو ملازمت دینے سے انکار کر دیا۔ چند روز نہ گزرے تھے کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ ایک اجنبی نے آکر کہا: احمدیاسین فوراً فلسطین اسکول پہنچے۔ ہم وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ غزہ کے گورنر نے احمد یاسین کی بطور مدرس تقرری کے احکامات جاری کیے ہیں۔
یتیم احمد اب استاد احمدیاسین تھا۔ تعلیمی و تربیتی دور شروع ہوا۔ ملازمت تو براے نام تھی۔ جو تنخواہ ملتی‘ احمد یاسین آدھی محتاجوں میں بانٹ دیتے اور آدھی گھر لے آتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ کوئی سائل آجاتا اور وہ باقی آدھی بھی انھیں دے دیتے۔ اہلیہ پوچھتیں: سب کچھ بانٹ دیا؟ ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بچا؟ احمدیاسین مسکراتے ہوئے اپنا معروف جملہ کہہ دیتے: ’’اللّٰہ المستعان، اللہ ہمارے لیے بھی بھیج دے گا‘‘۔ تعلیم و تربیت اور معاشرے کی حقیقی خیرخواہی سے ہی احمد یاسین مدرس سے مربی اور مربی سے قائد بنتے چلے گئے۔
عبدالعزیز نے بھی مزدوری کے ساتھ ہی ساتھ پڑھائی پر پوری توجہ دی۔ ۱۹۶۲ء میں والد کی وفات کے بعد بھائی نے حجام کا کام شروع کر دیا‘ لیکن گھر کا چولہا پھر بھی اکثر ٹھنڈا رہتا تھا۔ ۱۹۶۴ء میں بھائی مزدوری کرنے کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔ اس دن کا ذکر کرتے ہوئے‘ عبدالعزیز رنتیسی لکھتے ہیں: ’’نماز فجر کے بعد ہم والدہ کے ہمراہ بھائی جان کو خدا حافظ کہنے کے لیے مہاجرکیمپ سے غزہ ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے۔ میں اس وقت ہائی اسکول میں داخلہ لینے والا تھا۔ داخلے کی تیاری کے لیے میں نے چند ٹکے جمع کر کے استعمال شدہ بوٹ خریدے تھے۔ اس وقت بھی میں نے وہی بوٹ پہنے ہوئے تھے۔ اچانک امی کی آواز آئی: بیٹے! آپ کے بھائی جان ننگے پائوں سعودی عرب جا رہے ہیں‘ اپنے جوتے انھیں دے دو اور میں جوتے بھائی کو دے کر ننگے پائوں اسٹیشن سے کیمپ آگیا‘‘۔
عبدالعزیز کی والدہ بھی ایک باہمت‘ دبنگ خاتون تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد خود بھی کھیتوں میں مزدوری شروع کر دی اور بچوں کی تعلیم جا ری رکھی۔ عبدالعزیز نے بھی احمدیاسین کی طرح انٹرمیڈیٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اسی بنیاد پر مہاجرین کی مدد کرنے والے ادارے اونروا نے ان کے لیے مصر سے اسکالرشپ حاصل کی اور عبدالعزیز فلسطین کے مہاجر کیمپ سے مصر کے شہر اسکندریہ کے میڈیکل کالج پہنچ گئے۔ ۱۹۷۶ء میں عبدالعزیز تعلیم مکمل کر کے واپس غزہ پہنچے تو وہ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی تھے۔
سات ماہ کی عمر میں بے گھر ہونے کے بعد سے عبدالعزیز رنتیسی یہودی مظالم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ مصر میں قیام کے دوران‘ دکھ اور یہودیوں سے نفرت کا الائو‘ اخوان المسلمون کے نظام دعوت و تربیت کے باعث ایک مقصد اور تحریک میں ڈھل گیا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی نے غزہ جاکر معاشرے کے ہر محتاج کی خدمت اپنا فرض گردانا۔ وہ بچوں کے خصوصی معالج تھے۔ مریضوں سے فیس لیے بغیر‘ کئی کئی کلومیٹر پیدل جاکربدوی قبائل کا مفت علاج کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر رنتیسی اپنی ایک یادداشت میں لکھتے ہیں: ’’میں بچپن ہی سے یہودیوں کے مظالم کا عینی شاہدہوں۔ آبائی گائوں سن ادراک پہلے ہی یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا۔ میں اب بھی اپنے گائوں سے گزرتے ہوئے وہ دو منزلہ گھر دیکھتا ہوں جس کے اردگرد میرے والد مرحوم کے ہاتھوں کے لگے مالٹے کے درخت اب پھل دے رہے ہیں‘ لیکن میں اپنے گھر میں نہیں جاسکتا۔ اس پر یمن سے لائے گئے ایک یہودی خاندان کا قبضہ ہے۔ پھر ۱۹۵۶ء میں جب مصر پر اتحادی افواج نے حملہ کیا تو خانیونس کیمپ پر بھی حسب عادت دھاوا بولا گیا۔ میرے اکلوتے‘ سگے چچا حامد رنتیسی بھی اسی کیمپ میں ہمارے قریب رہتے تھے۔ یہودیوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو ان کا نوسالہ بیٹا ابا‘ ابا چلاتے باپ سے لپٹ گیا۔ ظالم پھر بھی نہیں پسیجے اور دونوں پر فائر کھول دیا‘ چچاشہید ہوگئے اور نوسالہ موفق شدید زخمی۔ پھر دشمن ساتھ والے گھر گئے اور اہل خانہ کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے شہید کردیا۔ اس ایک روز میں صہیونی فوجوں نے ۵۲۵ فلسطینی شہری شہید کیے‘ یہاں تک کہ سڑکوں پر لاشوں کا تعفن پھیل گیا‘‘۔
ڈاکٹر رنتیسی انھی زخموں کو دل میں سجائے غزہ کے ہر زخمی دل اور بیمار جسم کا علاج کرنے میں جُت گئے۔ ہر آنے والا دن ان سے محبت کرنے والوں اور سرزمین اقصیٰ پر قابض صہیونی افواج سے آزادی کے لیے ان کی جہادی پکار پر لبیک کہنے والوں میں اضافے کا دن ہوتا۔
دوسری طرف استاذ احمد یاسین بھی غزہ میں اخوان المسلمون سے سیکھا سبق‘ نئی نسل کو منتقل کر رہے تھے۔ صہیونی استعمار نے فلسطین پر قبضے کے بعد سب سے زیادہ توجہ فلسطینیوں میں دین بیزاری کی تحریک عام کرنے پر دی تھی۔ ۵۰کی دہائی میں کہ جب ناصریت کی لہر عروج پر تھی۔ دینی تعلیمات پر عمل کو عیب‘ قابل تضحیک اور باعث تذلیل بنا دیا گیا تھا۔ استاذ احمد یاسین نے اس طوفان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا: ہمارا اور یہودیوںکا اصل جھگڑا آیندہ نسلوں پر ہے۔ یا تو یہودی انھیں ہمارے ہاتھوں سے چھین کر ہمیں شکست دے دیں گے‘ یا پھر ہم اپنی نسلوں کو یہودیوں کے پنجے سے چھین کر یہودیوں کو شکست سے دوچار کر دیں گے‘‘۔ اس محاذ پر استاذ احمد یاسین کو بہت سے معرکے پیش آئے۔ ایک بار استاذ کے پڑوس کے گھر سے چار جوان لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا کہ وہ غزہ کی سرکاری تقریبات میں رقص پیش کریں گی۔ استاذ ان کے اہل خانہ کے پاس گئے‘ تذکیر و نصیحت کی تو والدین نے فیصلہ کرلیا کہ بچیوں کو نہیں بھیجیں گے۔ اس پر انھیں کالج انتظامیہ کی طرف سے دھمکی دی گئی کہ بچیاں نہ آئیں تو نام کاٹ دیا جائے گا۔ استاذ احمد یاسین نے بچیوں کے والدین اور اہل محلہ کے ہمراہ جاکر غزہ کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں کہا کہ اگر ان طالبات کا نام خارج کیا گیا تو پورا الشاطی مہاجر کیمپ کل احتجاجی مظاہرہ کرے گا۔ نتیجتاً فوراً پرنسپل کی جواب طلبی کی گئی اور رقص کی تقریب منسوخ کر دی گئی۔
استاذ احمد یاسین نے اب غزہ کی مساجد میں خطابت کا محاذ بھی سنبھال لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دروس و خطبات کا سلسلہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ انھیں مردوں‘ خواتین اور بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ پروگرام تشکیل دینا پڑے۔ ان کی یہ سرگرمیاں دیکھ کر ۷۰ کی دہائی کے اوائل میں انھیں تدریس کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اب استاذ احمد یاسین‘ شیخ احمد یاسین بن چکے تھے۔ انھوں نے غزہ میں ایک ہمہ پہلو تحریک کھڑی کر دی۔ انھوں نے یہودی قبضے میں آنے والے مختلف شہروں اور آبادیوں میں جاکر بے آباد ہوجانے والی مساجد کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ مفلوک الحال گھرانوں کی مدد کے لیے کئی ایک رفاہی تنظیمیں کھڑی کر دیں‘ نئی نسل میں جہاد کی روح بیدار کرنا شروع کر دی۔ لوگ جب سنتے کہ ایک مفلوج شخص اسرائیلی درندوں کی موجودگی میں مسجد کے منبر سے یہ خطبہ دیتا ہے کہ ’’خواہ ہمارا ایک ہی فرد باقی بچے‘ خواہ ایک ہی پتھر‘ ایک ہی گولی‘ ایک ہی بندوق ہاتھ میں رہے‘ ہم اسرائیلی فوجوں کا مقابلہ کریں گے۔ ہم بہرصورت مقابلہ کریں گے اور بہرصورت فتح یاب ہوں گے کہ یہ رب کائنات کا اپنے مومن بندوں سے وعدہ ہے‘‘۔ تو ہر سننے والا جسم میں ایمانی قوت کی بجلیاں محسوس کرتا۔
شیخ احمد یاسین کی سب سے بڑی قوت لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے پائی جانے والی محبت اور عقیدت تھی‘ اور اس محبت کی بنیاد شیخ کے دل میں لوگوں کے لیے موجزن خلوص اور اللہ وحدہ لاشریک کے لیے اخلاص تھا۔ شیخ احمد یاسین صرف سیاسی قائد‘ روحانی پیشوا‘ مربی‘ مجاہد اور خطیب ہی نہیں تھے‘ بلکہ ہرفلسطینی گھر انھیں اپنا سرپرست سمجھتا تھا۔ شیخ کے پاس لوگ اپنے ذاتی مسائل لے کر آتے‘ میاں بیوی انھیں اپنے جھگڑوں میں فیصل مانتے اور روز مرہ ہونے والے کئی جھگڑوں‘اختلافات اورواقعات میں انھیں اپنا جج بناتے تھے۔ شیخ نے بھی کبھی کسی پر اپنا دربند نہیں کیا‘ کبھی پیشانی پر بل یا ناگواری نہیں آئی۔ ایک بار رمضان میں عین افطار کے وقت ایک سائل آیا اور شیخ سے ملنے پر مصر ہوا۔ ساتھیوں نے انھیں دروازے ہی سے پھر کبھی آنے کا کہہ کر لوٹانا چا ہا‘ لیکن شیخ کی نظر پڑگئی‘ سائل کو بلایا اور اپنے ساتھی کو سخت تنبیہہ کی: ’’آپ تھک گئے ہیں تو جایئے آرام کر لیں‘ میں نہیں تھکا‘‘۔ اور پھر پورا گھنٹہ اس کی بات سنی۔ اس کے جانے کے بعد اپنے اسی ساتھی کو بلا کر کہا:’’دعوت یوں دی جاتی ہے۔ داعی کے لیے صبربنیادی صفت ہے‘‘۔
ایک دولت مند شخص نے ایک خاتون سے نکاح کر کے اس کے سارے زیورات ہڑپ کر لیے‘ اس کو زدوکوب بھی کیا اور گھر سے نکال دیا۔ وہ شیخ کے پاس آئی‘ تو بذات خود وہیل چیئر پر شیخ اس شخص کے پاس گئے۔ وہ دیکھ کر گھبرا گیا۔ شیخ نے فرمایا کہ یہ میری بیٹی ہے‘ اس کے ساتھ انصاف کرو اور کبھی ظلم نہ کرو۔ وہ شخص بہت متاثر ہوا اور شیخ کے نیازمندوں میں ہوگیا۔
رام اللہ شہر کے بسام رباح (عیسائی) کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۸ء میں ایک فلسطینی نے دھوکے سے ہمارا مال لے لیا۔ اس نے جب ادایگی میں ٹال مٹول کیا تو میں بلاتکلف شیخ کے پاس گیا۔ مجھے یقین تھا کہ شیخ اس فلسطینی سے ہماری رقم دلوائیں گے۔ وہ بڑا دولت مند بھی تھا۔ پھر یہی ہوا کہ لاکھوں کی رقم چند گھنٹے میں مل گئی۔ ہم نے شکریہ اور احسان مندی کے جذبے سے اس میں سے ایک رقم غزہ میں مسجد کی تعمیر کے لیے دے دی۔
شیخ احمد یاسین ‘ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی اور ان کے کئی ساتھی جس تندہی سے تحریک جہاد کی نرسری اور لشکر تیار کر رہے تھے‘ دشمن بھی اس سے غافل نہ تھا۔ اس نے پہلے تو مختلف رکاوٹیں اور پابندیاں لگاکر انھیں روکنا چاہا لیکن بس نہ چلا تو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ ہزاروں فلسطینی اور دسیوں قائدین کئی کئی بار اور کئی کئی سال جیل میں رہے۔ لیکن ہر بار جیل میں جانے کے بعد ایمان مزید پختہ‘ ارادہ مزید مضبوط اور قوت کار کئی چند ہوجاتی۔
دنیا بھر نے جن فلسطینی مظلوموں سے منہ موڑ لیا تھا‘ پوری قوم کو مایوسی اور معاصی میں دھکیل دیا تھا‘ مساجد سے پھوٹنے والی اس تحریک نے انھیں پھر سے زندگی عطا کردی۔ ۹دسمبر ۱۹۸۷ء کو شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حماس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ ’حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ: اسلامی تحریک مزاحمت‘ کے پہلے حروف سے مل کر بننے والے لفظ حماس کا مطلب ہے جوش و جذبہ‘ ہمت و قوت۔ ’حماس‘ کے پرچم تلے باوضو بچے ہاتھوں میں غلیل اور پتھر لے کر ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے اور آج ۱۷ سال گزرجانے کے باوجود امریکی ٹینکوں پر سوار اسرائیلی فوجی اور امریکی میزائل ان کا خاتمہ نہیں کر سکے۔
رحمت و عنایت خداوندی کا سایہ ہمیشہ ان دونوں قائدین اور ان کے لاکھوں مجاہدین کے ساتھ دکھائی دیتا ہے‘ یتیمی کی گرد میں رل کر بھی یہ موتی رل نہ پائے۔ تعلیمی میدان میں سب ہمجولیوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور پھر بھرپور تحریکی و جہادی زندگی شروع کر دی۔ اسی دوران دونوں کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے کثیر اولاد دی۔ شیخ احمد یاسین کے ۳ بیٹے اور ۸بیٹیاں ہیں اور عبدالعزیز رنتیسی کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ دونوں کے بڑے بیٹوں کا نام محمد ہے۔ اس حوالے سے دونوں کو ابومحمد کہہ کر ہی پکارا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رنتیسی کی اہلیہ رشاالعدلونی اپنی شادی کا ایک عجیب واقعہ بیان کرتی ہیں۔ کہتی ہیں: ۱۹۷۳ء میں ابومحمد کے گھر سے میرے لیے پیغام آیا۔ یہ پیغام نماز عشاء کے بعد میرے والد کو موصول ہوا۔ انھوں نے گھر میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا‘ میری والدہ سے بھی نہیں۔ اگلی صبح ہی صبح اچانک میری دادی آگئیں۔ انھوں نے آتے ہی امی سے کہا: کسی نے رشا کا ہاتھ مانگا ہے؟ امی نے کہا: نہیں۔ دادی کہنے لگیں: ناممکن۔ میں نے رات خواب میں دیکھا ہے کہ سبز پوشاک میں ملبوس ایک جوان ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں لا الٰہ کا پرچم اٹھائے‘ تیزی سے گھوڑے پر جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے لوگوں کا ایک جم غفیر ہے۔ اسی دوران مجھے آواز آئی۔ اگر اس جوان کی طرف سے پیغام ملے تو اسے اپنا بیٹابنا لو۔ دادی کی بات سن کر والد صاحب نے ابومحمد کے پیغام کا بتایا اور ہم نے ہاں کر دی۔ حالانکہ میں نے تب تک اسلامی تعلیمات کا زیادہ مطالعہ اور پابندی نہیں کی تھی‘‘۔
شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر رنتیسی کی شخصیت پر یتیمی سے تعلیم‘ تعلیم سے عملی اور پھر بھرپور تحریکی و جہادی زندگی تک ہر جگہ اسی طرح ربانی ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر رنتیسی اپنی یادداشت میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’شیخ احمد یاسین ہمارے لیے قائد‘ والد‘ مربی‘ استاد اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ پوری تاریخ میں ان جیسا باہمت شخص دکھائی نہیں دیتا کہ اس کے چاروں ہاتھ پائوں شل ہوچکے ہوں اور وہ عظیم جہادی تحریک کی قیادت کر رہا ہو۔ ان کی سب سے عجیب صفت یہ تھی کہ وہ تنہا دس آدمیوں جتنا کام کرتے تھے۔ پھر بھی نہ کبھی تھکن کی شکایت کی نہ کسی تکلیف کا ذکر کیا۔ وہ اپنی ہرمصیبت کا توڑ تلاوت قرآن کریم سے کرتے تھے۔ ہم ہمیشہ ان کے قریب رہ کر اس چشمہ ٔ صافی و شیریں سے سیراب ہونا چاہتے تھے۔ ایک بار ہم تمام ذمہ داران گرفتار تھے لیکن شیخ کو ہم سے دور کفاریونا جیل میں رکھا گیا تھا۔ میں ایک صبح‘ اور یہ رمضان کا آخری دن تھا‘ اٹھا اور میں نے دوستوں کو اپنا خواب سناتے ہوئے کہا کہ میں شمال کی طرف جانے والی بس میں سوارہوں۔ ابھی میں نے خواب پورا نہیں کیا تھا کہ اعلان ہوا: ’’قیدی عبدالعزیز سامان باندھ کر جیل کے مرکزی احاطے میں حاضر ہو‘‘۔ پہنچتے ہی بس میں سوار کیا گیا اور شمال کی جانب رملہ جیل کی زیرزمین کوٹھڑی میں پہنچا دیا گیا۔ دودن رکھنے کے بعد کفاریونا جیل میں شیخ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ شیخ کی کوٹھڑی پر ایک نہیں تین تالے لگے تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے سنتری سے کہا کہ شیخ تو ہاتھ کی جنبش تک نہیں کر سکتا‘ پھر اتنے تالے؟ اس نے روایتی جملہ کہا: اوپر سے حکم ہے۔
شیخ نے بہت محبت و بے تابی سے خوش آمدید کہا اور پھر میں اور ایک دوسرا ساتھی شیخ کی خدمت میں جُت گئے‘ انھیں کھلانے‘ نہلانے سے لے کر ان کی ہر ضرورت کا ہمیں ہی خیال رکھنا تھا۔ ایک روز شیخ کو لے کر کوٹھڑی میں سے نکل رہے تھے کہ سیڑھیوں میں ایک یہودی ڈاکو سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس نے لپک کر شیخ کا ہاتھ پکڑا اور چومتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ایک اور یہودی قیدی نے انگریزی میں پکار کر کہا: یہاں احتیاط سے رہو۔ یہ تمھیں یہاں اس لیے لائے ہیں کہ تم دونوں کی گفتگو ریکارڈ کر سکیں۔ ہم تو پہلے بھی محتاط تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود دشمن کے ذہن میں ہمیں یکجا کر دینے کی بات ڈال دی۔ اس قیدخانے میں شیخ سے جی بھر کے استفادے کا موقع ملا اور کئی عجیب و غریب واقعات کا مشاہدہ ہوا۔ ہر ہفتے ہمارے اہل خانہ کو آدھ گھنٹے کے لیے ملاقات کے لیے لایا جاتا تھا۔ ایک بار سب کے ملنے والے آگئے‘ میرے گھر والے نہ آئے۔ بے حد اداسی ہوئی‘ میں نے کوٹھڑی کے ایک کونے میں جاکر ہاتھ اٹھا دیے۔ پروردگار! میں تیرے بندے احمد یاسین کی جو خدمت کر رہا ہوں اگر تو اس سے راضی ہے تو مجھے میرے اہل خانہ کی طرف سے اطمینان نصیب فرما۔ اس ذات کی قسم جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا‘ ابھی میرے ہاتھ نیچے نہیں آئے تھے کہ ایک سنتری نے پکارا: ’’عبدالعزیز رنتیسی تمھاری ملاقات آئی ہے‘‘۔ اس سنتری کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم ملاقات کے لیے جا رہے تھے کہ وہ میرے کان میں کہنے لگا: ’’شیخ کا خیال رکھا کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے شاید اس سے یہ الفاظ اس لیے کہلوائے تھے کہ مجھے شیخ کی خدمت کے قبول ہوجانے کی نوید مل جائے۔
حماس کے قائدین نے تمام اسلامی قائدین کی طرح جیلوںکو مؤثر ترین تربیت گاہوں میں بدل دیا تھا۔ ڈاکٹر رنتیسی کے الفاظ میں ’’جیل کا سب سے عظیم فائدہ یہ ہے کہ قرآن کی صحبت میں زیادہ وقت گزرتا ہے‘‘۔ ایک بار انھیں اور دو دیگر قائدین کو تین ماہ کے لیے سخت ترین قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹر رنتیسی کہتے ہیں: ’’ہمیں روزانہ صرف ایک گھنٹے کے لیے باری باری چہل قدمی اور بیت الخلا جانے کے لیے نکالا جاتا۔ ہفتے کے روز یہ وقفہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا سارا وقت قرآن کریم دہرانے میں ہی گزرتا۔ انجینیرابراہیم رضوان نے صرف ان تین مہینوں میں پورا قرآن حفظ کرلیا‘ جب کہ میں شیخ کے ساتھ کفاریونا جیل میں حفظ کرچکا تھا۔ یہاں دہرائی کرتا رہا۔
آزمایش کی ان بھٹیوں سے حماس کی قیادت ایسا کندن بن کر نکلی کہ سفاک ترین دشمن ہر ہتھکنڈے کے باوجود ان کی برپا کردہ تحریک جہاد کو مضبوط سے مضبوط تر ہونے سے نہیں روک سکا۔ ۱۹۸۷ء میں اعلان حماس کے بعد بنی صہیون نے یاسرعرفات کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو جلدی میں معاہدہ اوسلو تک پہنچا دیا‘ جس کے بعد اسرائیلی جیلوں کے علاوہ خود فلسطینی جیلیں بھی مجاہدین سے بھرنے لگیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ہر چال کو انھی پر لوٹا رہا ہے۔ نام نہاد امن معاہدے کا یہ ہتھکنڈہ‘ سیکڑوں شہید اور بالآخر ستمبر۲۰۰۰ء میں ارییل شارون کا مسجد اقصیٰ میں جاگھسنا‘ تحریکِ انتفاضہ کے اس بھرپور دوسرے مرحلے کا سبب بنا جو اب تک جاری ہے۔ سب تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اسے جاری رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
فرعون شارون نے بستیوں کی بستیاں خاکستر کر دینے کے باوجود‘ جہاد ختم کر دینے میں ناکامی پر فلسطینی قیادت کے قتل کا ظالمانہ منصوبہ بنایا۔ شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر رنتیسی ہٹ لسٹ میں سرفہرست تھے۔ صلاح شحادہ اور ابراہیم مقادمہ جیسے دسیوں لیڈر شہید کر دیے گئے۔ پھر ۲۲ مارچ کی صبح شیخ احمد یاسین اور ۱۷ اپریل کی شام ڈاکٹر رنتیسی پر امریکی ہیلی کاپٹراپاچی کے ذریعے راکٹ برساتے ہوئے دونوں کو ہمیشہ کے لیے جنت الخلد میں یکجا کر دیا گیا۔
دونوں کی شہادت پر پوری دنیا کے باشعور مسلمانوں اور عدل پسند انسانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ شارون اور اس کے وزیردفاع موفاز نے خوشی سے معمور ہوتے ہوئے کہا: ’’یہ لوگ عبرانی ریاست کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے‘ ان کا خاتمہ ضروری تھا‘‘۔ لیکن کیا عبرانی ریاست کو لاحق خطرات ان دونوں کے خاتمے سے ختم ہوگئے؟ خود صہیونی اخبارات اس کا جواب دیتے ہیں۔
روزنامہ یدیعوت احرونوت کے ایک اہم ترین تجزیہ نگار عوفر شیلح نے لکھا: ’’شارون نے ان لوگوں کے قتل کے احکامات جاری کر کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں اسرائیلیوں کی موت کا پروانہ جاری کر دیا ہے۔ شارون نے یہ اقدام اپنے خلاف روز افزوں نفرت کی رفتار کو کم کرنے کے لیے کیا‘ لیکن اسرائیلی عوام خود کو مزید غیرمحفوظ پاتے ہوئے شارون کو مکروہ سمجھنے میں مزید حق بجانب ہوں گے‘‘۔
اسرائیلی رکن کینٹ اور میرٹس تحریک کے سابق سربراہ یوسی سارید نے کہا: ’’تمام کے تمام ذمہ داران کو قتل کر کے بھی ہم حماس کا خاتمہ نہیں کرسکتے‘ بلکہ ہر لیڈر کے قتل کے بعد حماس پہلے سے زیادہ قوی تر ہوگی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ شارون کو ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجاے اسے سمجھنا چاہیے‘‘۔
اسرائیلی ٹی وی چینل ۲ کے مبصر اَمنون ابراموفتیش نے شیخ احمد یاسینؒ کی نماز جنازہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’کسی کو ہماری حکومت کے احمق ہونے اور وزیراعظم کے گھامڑ ہونے میں شک ہے تو اس جنازے کو دیکھ لے۔ احمد یاسین کے قتل سے حماس کو قوت کے سوا کچھ نہیں دیاجاسکا۔ اسے اب لاتعداد ایسے نوجوان ملیں گے جو انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کیا دفاعی پالیسیاں یونہی بنتی ہیں‘‘۔
روزنامہ ہآرٹسنے اپنے ۲۳مارچ ۲۰۰۴ء کے اداریے میںلکھا: ’’شارون کو اس اقدام سے پہلے اسرائیل کی طرف سے عباس موسوی کے قتل کے نتائج دیکھ لینے چاہییں تھے۔ اس کے بعد حسن نصراللہ حزب اللہ کا سربراہ بن گیا‘ جس کی قیادت میں حزب نے اسرائیلیوں کی نیندیں حرام کر دیں اور کسی عرب تنظیم کی طرف سے اسرائیل کو وہ شکست اٹھانا پڑی‘ جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی‘‘۔
یدیعوت احرونوت کے تجزیہ نگار الیکس فیشمان نے ایک بہت بڑی اور اہم حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’’آج عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں کروڑوں نوجوان’اسرائیل مردہ باد‘ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں‘ انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے۔ احمدیاسین کا قتل ہمارے اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ میں ایک اہم موڑ واقع ہوگا۔ اب اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہا کہ اس قتل سے ہماری جنگ اسرائیلی فلسطینی محدود محور سے نکل کر پورے عالمِ عرب بلکہ پورے عالمِ اسلام کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بن گئی ہے‘‘۔
شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کی شہادت کے بعد مراکش کے دارالحکومت رباط‘ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم‘ لبنان کے دارالحکومت بیروت اور کویت جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر جگہ پروگراموں میں سب سے زیادہ جوش و جذبہ شیخ احمد یاسین ؒاور ڈاکٹر رنتیسی کے نام پر پیدا ہوتا تھا۔ ہر جگہ ایک ہی نعرہ تھا: کُلنُّا احمد یاسین‘ کُلنُّا حماس، ہم سب احمد یاسین ہیں‘ ہم سب حماس ہیں۔یاشھید ارتاح ارتاح ، سنُو اصِلُ الکِفاح، اے شہید‘ اب آرام و راحت سے رہو‘ جدوجہد و جہاد ہم جاری رکھیں گے۔
شارون کے خلاف نفرت میں سے برابر کا حصہ صدربش کے حصے میں بھی آیا کہ اس سے ملاقات و حوصلہ افزائی کے بعد ہی یہ جرمِ عظیم کیا گیا تھا۔ کویت میں منعقدہ تعزیتی اجتماع میں ایک کویتی نوجوان نے نظم پڑھی تو پورا مجمع شاملِ جذبات ہوگیا۔
تبت یداک زعیم امیریکا وتب - صدر امریکا تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹیں تو ہلاک ہو۔
تبت یدا شارون نمرود الشغب - دہشت گردی کے سرخیل نمرود عصرشارون کے ہاتھ ٹوٹیں
تبت یدا العملاء من کل العرب - تمام عرب ایجنٹوں کے ہاتھ ٹوٹیں۔
احمد یاسینؒ اور عبدالعزیز رنتیسیؒ نے شہادت سے پہلے عجیب سرشاری کے دن گزارے۔ شیخ جو مجموعہ امراض بن چکے تھے‘کی حالت اس رات بے حد نازک تھی۔ سیکورٹی کے باعث نوجوان انھیں ہسپتال سے بھی لے گئے اور گھرسے بھی۔ عشاء کی نماز کا وقت ہوا تو شیخ نے حسب معمول مسجد جانے پر اصرار کیا اور پھر کہا: آج رات یہیں اعتکاف کروں گا۔ سحری تک تلاوت و نوافل کا سلسلہ جاری رہا۔ پیرکے مسنون روزے کی نیت کی‘ نماز فجر ادا کی اور پھر مسجد سے باہر آتے ہی تین امریکی میزائلوں نے چہرے کے علاوہ باقی سارے جسم کے چیتھڑے اڑا دیے۔ قیامت برپا ہوگئی۔ الجزیرہ نے شہید کا ایک جملہ بار بار سنایا جو شہید کا تعارف اور خلقِ خدا کی ان سے محبت کی اصل وجہ بیان کرتا ہے: أمَلی أن یرضی اللّٰہ عَنِّی، میںامید کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے راضی ہوگا۔
ڈاکٹر رنتیسی پہلے ہر ہفتے دو تین روز گھر آجاتے تھے۔ شیخ کی شہادت کے بعد ہفتے میں دو تین گھنٹے کے لیے ہی آپاتے تھے‘ وہ بھی بہت رازداری سے۔ ۱۷ اپریل کو فجر سے کچھ پہلے گھر آگئے۔ سب اہلِ خانہ کو جمع کر لیااور دن بھر ان کے ساتھ رہے۔ نمازِ مغرب کے بعد غسل و عطر کا اہتمام کیا۔ چھوٹے بھائی نے شوخی سے پوچھا: آج کہاں کی تیاری ہے؟ اپنی عادت کے بغیر ایک ترانے کے بول دہرانے لگے: أنْ تُدخِلَنِی رَبِّی الجَنَّۃ ، ھذا أقصٰی ما أتَمَنَّی،میرے پروردگار تو مجھے جنت میں داخل کر دے‘ یہی میری سب سے بڑی تمنا ہے۔ گھر سے نکلے چند منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ امریکی ہیلی کاپٹر اپاچی حملہ آور ہوا‘ شہید کی تمنا ہی نہیں‘ فیصلہ بھی اللہ نے پورا کر دیا۔ چند دن پہلے ہی انھوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’موت تو ہر ذی روح کو آنا ہے۔ مجھے اگر ہارٹ اٹیک یا اپاچی میں سے کسی ایک کے ذریعے مرنے کا اختیار دیا جائے تو میرا انتخاب اپاچی ہوگا‘‘۔