جون ۲۰۰۴

فہرست مضامین

عراق میں انسانیت کی تذلیل

پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۰۴ | شذرات

Responsive image Responsive image

مسلم حکمرانوں کی بے حسی!

حضرت علی ؓ کا مشہور فرمان ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک حد تک ہی ظالم کو مہلت دیتا ہے‘ پھر جلد ہی اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے اور بالآخر زمین اس کے پائوں تلے سے نکل جاتی ہے۔

امریکا کی موجودہ قیادت کی رعونت ہی اس کے زوال کو قریب لانے کے لیے کیا کچھ کم تھی کہ اب اس کے ظلم اور انسانیت سوز حرکتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے اور بش انتظامیہ کی چولیں ہلنے لگی ہیں۔

جن کی نگاہ امریکا کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ احترام انسانیت‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے علم برداروں کے دعووں اور حقیقت میں کتنا بُعد رہا ہے اور امریکا کے اصل باشندوں (ریڈ انڈینز) سے لے کر ایفرو امریکنوں اور دوسری غیرملکی اقوام کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں کیا رویہ اختیار کیا گیا ہے لیکن جو تصویر تہذیب نو کی علم بردار اس واحد سوپر پاور کی عراق کی کارگزاریوں کی صورت میںاب سامنے آرہی ہے وہ شرمناک ہی نہیں‘ انسانیت کے لیے ہولناک بھی ہے۔ ابوغریب کے جیل خانے کی جو تصاویر گذشتہ چند ہفتوں میں ساری دنیا کے سامنے آئی ہیں‘ ان میں مظلومیت اور بربریت کے وہ مناظر چشم انسانیت نے دیکھے ہیں جو دلوں ہی کو نہیں پھاڑ دیتے بلکہ مستقبل کی کسی بہت بڑی تباہی کی بھی پیش گوئی کرتے ہیں۔ عراق کے معصوم مردوں‘ عورتوں اور جوان بچوں کو جس سفاکی اور بربریت سے جسمانی اور جنسی تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ ظلم‘ بے حیائی‘ فسطائیت اور بہیمیت کی تاریخ میں ایک تاریک ترین اور خون آشام باب کا اضافہ ہے۔ امریکی افواج نے اسلام اور عربوں سے نفرت کا جس طرح اظہار کیا ہے اور تشدد اور تعذیب کے جو ہتھیار ابوغریب جیل خانے کے بے بس قیدیوں پر استعمال کیے ہیں وہ جنگی جرائم کی بدترین مثال ہیں اور ان سے امریکی فوج اور اس کی قیادت کی ذہنی‘ اخلاقی حالت کی جو تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے وہ اتنی شرمناک ہے کہ الفاظ بیان سے قاصر ہیں۔پال بریمر جو عراق کا امریکی وائسرائے ہے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

جو کچھ ہوا ہے اس کا بیان کرنا ہولناک ہے‘ ناقابل برداشت‘ غیر انسانی اور انسانی شرف‘ عالمی امن اور اخلاقی اقدار کے خلاف۔

لیکن افسوس کہ اس اعتراف کے باوجود کہ اس کی اپنی راجدھانی میں اس کی اپنی افواج کے کیا کارنامے ہیں‘ نہ اسے استعفا دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ فوج کے کمانڈر‘ وزیردفاع اور خود جارج بش کو--- حالانکہ جو کچھ امریکی افواج نے کیا ہے اس کی ان سب پر اخلاقی ہی نہیں قانونی ذمہ داری بھی آتی ہے اس لیے کہ اوپر سے آئے ہوئے احکامات کی پیروی (chain of command)  کے اصول کے تحت اور ان بیانات کی روشنی میں جو چند فوجیوں نے اپنے کیریئر کو خطرے میں ڈال کر دیے ہیں‘ کہ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ اور طے شدہ پالیسی کاحصہ تھا اور اوپر کے احکام یا کم از کم واضح اشاروں اور اجازتوں پر مبنی تھا۔

جو کچھ ابوغریب کے عقوبت خانے میں ہوا ہے اس کی کچھ تفصیل اخبارات میں آگئی ہے اور ابھی اس سے زیادہ اندوہناک کارگزاریوں کی تصاویر حکومت اور کچھ دوسرے اداروں کے قبضے میں ہیں وہ بھی شاید آہستہ آہستہ سامنے آجائیں گی۔ ہم ان تفصیلات کویہاں بیان کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ البتہ چند غورطلب امور ہیں جن کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔

اولاً جو کچھ ابوغریب میں ہوا‘ وہ صرف اس ایک عقوبت خانے تک محدود نہ تھا بلکہ سارے شواہد اشارہ کرتے ہیں اور ریڈکراس‘ ہیومن رائٹس واچ اور غالباًخود امریکی فوج کی خفیہ رپورٹوں سے یہ ثابت ہے کہ ہزاروں افراد اس ظلم وستم اور ذلت و تعذیب کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ یہ سب وہ افراد تھے جن کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا‘ صرف تفتیش کے لیے ان کو ان مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ظلم صرف ان انسانوںہی پر نہیں بلکہ پوری انسانیت پر ہوا ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت انسانیت کی مجرم اور سزا کی مستوجب ہے۔

ثانیاً اس سے جدید تہذیب کے علم برداروں کے اخلاق اور کردار کی جو تصویر سامنے آتی ہے‘ وہ انتہائی گھنائونی ہے اور جو خوب صورت لبادے اس تہذیب نے اوڑھ رکھے ہیں‘ وہ اب تارتار ہوگئے ہیں۔ کوئی معذرت اور کوئی تاویل اس کے کریہہ چہرے پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ بلکہ جارج بش اور ان کے وزیردفاع ڈونلڈرمزفیلڈ نے جو سہارا لیا ہے کہ یہ چند افراد کی غلطی ہے اس سے بڑا جھوٹ اور دھوکا اور کوئی نہیں ہوسکتا جو اس قیادت کے اخلاقی دیوالیے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس میں غلطی کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت بھی نہیں۔

ثالثاً ان واقعات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اب عالمی انصاف اور انسانیت کے معاملات کو کسی قاعدے اور قانون کے مطابق طے کرنے اور جواب دہی کا کوئی نظام باقی نہیں رہا ہے اور دنیا ایک جنگل کے قانون کے دور کی طرف واپس جارہی ہے۔ یہ صورت حال سارے انسانوں کے لیے ایک انتباہ (wake up call) کا درجہ رکھتی ہے کہ آج جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے کل یہی سب کچھ دوسروں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اور اگر کسی کو اپنی عزت‘ آزادی اور آبرو کی فکر ہے تو آج ظالم کا ہاتھ روکے اور ظلم کی اس روش کو برائی کے اولیں اظہار ہی پر کچلنے کے اصول پر اس ظلم کی مزاحمت کرے اور بالآخر نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے۔

استعمار، ظلم اور تعذیب کے اس گھنائونے باب کا آخری حملہ‘ بلکہ حملہ وہ اطلاع ہے جو ۲۵مئی کے اخبارات کی زینت ہے کہ امریکی حکومت نے قید خانوں اور تفتیش کے مقامات کی فوٹوبندی اور فلم بندی پر آیندہ کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ اخلاقی زوال کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہوگی کہ جرم کی بیخ کنی کے بجاے جرم کو جاننے کے ذرائع کو ختم کیا جائے۔

اس پس منظر میں ۲۲ مئی کو لندن میں وہاں کے میئر کین لیونگسٹن کی قیادت میں ایک عوامی مظاہرے کا انعقاد تاریکی میں روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں لیبرپارٹی کے سینیرلیڈر ٹونی بین اور رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے کی تقاریر یہ امید دلاتی ہیں کہ انسانیت کا ضمیر مردہ نہیں ہوا۔ کین لیونگسٹن نے اس موقع پر کہا ہے کہ:

ان ہولناکیوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہماری افواج کو عراق سے فی الفور واپس بلا لیا جائے‘ اور بش پر اُن جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے جو اس کی نگرانی میں ہوئے اور اس نے شروع کروائے۔

جارج گیلووے نے کہا:

ان کا کہنا تھا کہ وہ آزادی دلانے آرہے ہیں لیکن وہ تعذیب کا نشانہ بنانے والے ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت لائیں گے لیکن اس کے بجاے وہ خونخوار کتے اور قاتلوں کے کن ٹوپ لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانی حقوق لارہے ہیں لیکن اس کے بجاے وہ قیدیوں کی خوراک کو بیت الخلا میں پھینکنے اور وہاں اسے انسانوں کو کھانے پر مجبور کرنے والے ثابت ہوئے۔

ٹونی بین نے کہا:

امریکی اور برطانوی حکومتیں جارحیت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ انھوں نے عراق پر ناجائز طور پر قبضہ کیا ہے۔ تعذیب قبضے کا ناگزیر حصہ ہے۔

لندن میں عراق میں کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف عوامی ردعمل رونما ہورہا ہے لیکن عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی حکومتیں سو رہی ہیں۔ کسی کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ امریکا کی کھل کر مذمت کرتا‘ امریکی سفیروں کو بلا کر اپنی اور اپنے عوام کے غم و غصے کا موثر اظہار کرتا‘ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ دیا جاتا‘ امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک چلائی جاتی‘ یو این او کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا‘ جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا‘ او آئی سی اپنا سربراہی اجلاس بلاتی‘ مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے اور امریکا نے عراق میں جو رویہ اسلام‘ مسلمانوں‘ مسلمانوں کے مقدس مقامات اورعرب عوام کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے‘ اس کے خلاف عوامی اور سرکاری سطح پر تحریک کا آغاز کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ کا قانون تو ان شاء اللہ ضرور اپنے وقت پر اپنا اظہار کرے گا اور ظالم کی کشتی ڈوب کر رہے گی لیکن کیا مسلمان اُمت اور اس کی قیادتیں محض خاموش تماشائی بنی رہیں گی؟--- ہم اپنے ضمیر‘اپنے عوام‘ تاریخ اور سب سے بڑھ کر اپنے اللہ کو کیا جواب دیں گے؟