اُمت مسلمہ کے حال اور مستقبل کے بارے میں جب کبھی گفتگو کی جاتی ہے تو ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہم کس اُمت مسلمہ کی بات کر رہے ہیں؟ کیا اُس اُمت مسلمہ کی جس کے جسم سے گذشتہ ۶۰ سالوں سے کشمیر اور فلسطین میں مسلسل خون بہہ رہا ہے مگر اپنے زخموں کی کسک اور درد اسے ابھی تک بیدار نہیں کرسکی، نہ زخموں کے علاج کے لیے وہ اُٹھ کر پیش قدمی کرنے پر آمادہ ہوسکی ہے۔ کیا اس اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جو ۵۷ نام نہاد آزاد ممالک کے ہونے کے باوجود اسلامی تنظیم او آئی سی نامی کاغذی ادارے میں کوئی متحدہ و مشترکہ حکمت عملی وضع نہ کرسکی، یا اُس اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جسے قرآن کریم نے ’خیراُمت‘ قرار دیتے ہوئے عالمی مشن اور ذمہ داری کے ساتھ برپا کیا اور جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی تہذیب و ثقافت میں ایسے گراںقدر اضافے کیے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔
اسلامی فکر یاس و مایوسی کو کفر قرار دیتی ہے اور حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود ہرمسلمان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پُرامید رہے اور مثبت طرزِفکر کے ساتھ اپنا اور گردوپیش کا جائزہ لے کر اپنی جدوجہد اللہ کے بھروسے پر جاری رکھے اور مایوسی کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہ دے۔
اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو جس شدت اور تسلسل کے ساتھ اُمت مسلمہ کے دشمن اس پر ہر زاویے سے یلغار کر رہے ہیں وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اُمت مسلمہ نہ مُردہ ہے، نہ ایک غیرمحسوس وجود (non-entity) ہے بلکہ ان جابر اور ظالم قوتوں کے لیے جو بہ زعمِ خود یک قطبی طاقت ہونے کے دعوے کرتی ہیں، ایک لپکتا ہوا شعلہ ہے جس کی تپش اور خطرناکی نے طاغوت کی نیند حرام کردی ہے۔ مزید غور کیا جائے تواپنے شکست خوردگی کے احساس کے باوجود، آج جو اُمت مسلمہ ہمارے اردگرد پائی جاتی ہے اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ یک قطبی طاقت کے لاڈلے اسرائیل کو۳۳ دن تک لبنان کے سرحدی علاقے میں مقابلے کے بعد پسپا کردے۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جو ۷۰ سال تک ترکی میں لادینیت کو سرکاری مذہب کے طور پر بہ اکراہ برداشت کرنے کے بعد پُرامن اور جمہوری ذرائع سے ملک کی سمت اور ملکی پالیسی کے رُخ کو دین کی طرف موڑ سکی ہے۔ جہاں ۷۰سال پہلے نقاب اور حجاب کو ممنوع قرار دیا گیا تھا، آج وہاں اُمت کی لاکھوں بیٹیاں بازاروں میں، جامعات میں اور صنعتی اداروں میں فخر کے ساتھ اسکارف کو اپنی پہچان کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جسے اس کے دشمن بھی مجبوراً نیوکلیر قوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چند لمحات کے لیے اُمت کے بارے میں اپنے ذہنوں میں بنائے ہوئے نقشوں کو محو کر کے معروضی طور پر اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ اصل زمینی حقائق کیا ہیں، اور اُمت مسلمہ کی اصل قوت کس چیز میں ہے۔ اس کی کون سی کمزوریاں ایسی ہیں جو خود پیدا کردہ ہیں اور کون سی ایسی ہیں جو اس پر مسلط ہوگئی ہیں۔ اس کے سامنے کون سے خطرات سر اُٹھائے کھڑے ہیں اور ان خطرات و مطالبات کے علی الرغم، اس میں ان کے مقابلے اور ایک روشن مستقبل تعمیر کرنے کی صلاحیت کہاں پائی جاتی ہے۔ جدید ادارتی علوم (Management Sciences) میں اس قسم کے جائزے کے لیے SWOT کی اصطلاح عرصۂ دراز سے استعمال کی جاتی ہے جس میں قوتوں(strengths)، کمزوریوں (weaknesses)، مواقع (opportunities) اور خطرات (threats) کے تفصیلی جائزے کے بعد کوئی ادارہ اپنے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے۔مسلمان اہلِ علم کو بھی وقتاً فوقتاً نہ صرف اسلامی تحریکات بلکہ اُمت مسلمہ کے حوالے سے اس قسم کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم تجزیے اور تحلیل و تنقید کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کرسکیں اور مروجہ حکمت عملی میں مناسب اضافے اور تبدیلیاں کی جاسکیں۔ زندہ تحریکات کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ دن بھر کی مشقت کے بعد استراحت سے قبل احتسابِ نفس کر کے دیکھیں کہ آج کیا پایا اور کیا کھویا؟ دین اسلام نے جس جائزے، تجزیے اور تحلیل کو احتساب کی اصطلاح سے متعارف کرایا تھا، اسی قسم کا ایک تجربہ SWOT کی جدید اصطلاح کے سہارے بہت سے دانش وَر دنیا میں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے پہیہ ایجاد کیا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ پہیہ کس نے ایجاد کیا، تجزیاتی اور تحلیلی عمل تحریکاتِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کے لیے بہت مفید ہے۔ آج جو بات اُمت مسلمہ کے حوالے سے کی جارہی ہے، ضرورت یہ ہے کہ خصوصاً تحریک اسلامی ہر ۱۰سال کے بعد اس قسم کا تجزیہ کرے، چاہے اس کے نتیجے میں اپنی حکمت عملی پر اس کے اعتماد میں اضافہ ہو یا وہ اس پر نظرثانی کرے۔
اُمت مسلمہ آج بادی النظر میں جس انتشار کا شکار نظر آتی ہے اسے دُور کرنے اور اس میں فکری اتحاد اور نظری و عملی یگانگت پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ پہلے تجزیہ کرکے دیکھا جائے کہ اس میں کون سے پہلو اس کی قوت کا مظہر ہیں، کمزوری کہاں پائی جاتی ہے، اسے کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کون سے مواقع ایسے ہیں جن کے لیے مناسب حکمت عملی وضع کرنے کے نتیجے میں اُمت مسلمہ دوبارہ قائدانہ منصب پر فائز ہوسکتی ہے۔
ہماری راے میں حسب ذیل سات خوبیاں، اُمت کی قوت کا مظہر ہیں:
۱- قوتِ ایمانی: حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصل قوت اس کی قوتِ ایمانی ہے جس سے وہ خود کم آگاہ ہے اور جس سے دشمن لرزاں رہتا ہے۔ یہی اس کی وحدت کا راز ہے اور اسی بنا پر اس قوت کو زائل کرنے کے لیے ابلیس اور اس کی ذُریت تخلیق انسان سے آج تک برسرِپیکار ہے۔ دورِ جدید کے بے شمار نظریات ہوں، منصوبے اور حکمت عملی ہوں، ان سب کا اصل ہدف اُمت کا ایمان ہے۔ جس وقت تک مسلمان اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اپنا حامی و ناصر، محافظ و حاکم سمجھتا ہے، بڑی سے بڑی فرعونی اور طاغوتی قوت اسے سر جھکانے پر آمادہ نہیں کرسکتی لیکن جس لمحے وہ صرف مادی اور انسانی ذرائع کو اپنی کامیابی کا ضامن سمجھتا ہے، وہ طاغوت اور باطل کے لیے ایک نرم نوالہ بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی قوت کو سورئہ انفال میں رب کریم نے یوں بیان فرمایا ہے: ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰ افراد صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے‘‘۔ (الانفال ۸:۶۴)
یہ قوتِ ایمانی روزِ اول سے اُمت مسلمہ کا اثاثہ ہے اور آج بھی یہی وہ قوت ہے جو یک قطبی طاقت کے دل و دماغ، اسرائیل کو اس سے خائف رکھتی ہے اور ان شاء اللہ کفروظلم کو شکست دینے کے لیے سب سے مؤثر اسلحے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے اُمت مسلمہ کو کسی سے خائف اور لرزہ براندام ہونے کی ضرورت نہیں۔
۲- عالمی بیداری کی لھر: اُمت مسلمہ کی قوت کا دوسرا مظہر دورِ جدید میں پائی جانے والی عالمی بیداری کی لہر ہے۔ مغربی سامراج سے سیاسی آزادی کے حصول کے ساتھ اُمت مسلمہ میں انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، شمالی افریقہ، وسط ایشیا، غرض ہر اُس خطے میں جہاں مسلمان پائے جاتے ہیں، دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد عالمی بیداری کی ایک لہر تیزی کے ساتھ ظہور میں آئی اور ۷۰ کے عشرے تک یہ عالمی بیداری یورپ، امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا تک پہنچ گئی۔ نوجوان مسلم دانش وَر ہوں یا انجینیر،طبیب ہوں یا علومِ عمرانی کے ماہر (سوشل سائنٹسٹ)، اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ یہ عالمی بیداری بعض اوقات اپنی انتہا پر رہی اور بعض اوقات غیرمحسوس طور پر اُمت مسلمہ کے اندر سرایت کرتی رہی۔ آج اس کی جھلک مغرب و مشرق میں، نہ صرف مسلم اداروں کی شکل میں بلکہ مغربی سرمایہ داروں کے اداروں میں غیر سودی کھڑکیوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ عالمی بیداری اُمت مسلمہ کا ایک قوی پہلو پیش کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ نہ بے جان ہے نہ مُردہ بلکہ ایک قابلِ لحاظ قوت رکھنے والی اُمت ہے۔
اُمت مسلمہ کی اس بیداری کو اسلام دشمن قوتیں اپنا اصل حریف سمجھتی ہیں اور انھیں قدامت پرست، بنیاد پرست، انتہا پسند غرض مختلف ناموں سے یاد کرتی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا حرکاتِ اسلامی سے خوف اور ان کے راستے مسدود کرنے اور انھیں برسرِ اقتدار نہ آنے دینے کی کوشش اُمت مسلمہ کے ایک قوت ہونے کی مزید تصدیق کرتی ہیں۔ اگر واقعی اُمت مسلمہ ایک بے جان شے ہوتی تو کفروظلم کی قوتیں اپنی تمام طاقت اس کے خلاف صرف نہ کرتیں۔ اُمت کی اس قوت کا خوف ہرلمحہ طاغوت کو وسوسوں اور خدشوں میں غلطاں و پیچاں رکھے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ حق کو، چاہے وہ عددی لحاظ سے کم ہو، اس کے خلوص اور صبر کی بنا پر طاغوت کے عظیم لشکروں کے باوجود فتح دیتا ہے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود آج اُمت مسلمہ کے نوجوان دنیا کے ہر گوشے میں اسلامی نظامِ حیات کے قیام کے لیے سرگرم اور کوشاں ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ معیشت اور آمرانہ سیاست کی جگہ ایک عادلانہ نظام لانا چاہتے ہیں۔
۳- دین کا جامع تصور : اُمت مسلمہ کی تیسری بڑی قوت اور پہچان ۲۰ویںصدی میں دین کی جامع تعبیر ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد پیدا کیے جو دین کی جامع تعلیمات کے ذریعے احیائی تحریکات کے قیام کا سبب بنے۔ ان افراد میں علامہ اقبال، سید مودودی، حسن البنا شہید، سید قطب شہید وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں مصر میں حسن البنا شہید نے اور برعظیم میں سید مودودیؒ نے جن تحریکوں کا آغاز کیا ان کے اثرات یورپ و امریکا، جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا اور افریقہ و آسٹریلیا تک پہنچے اور اسلام کی رسمی تعبیر کی جگہ اسلام کی جامع تعبیر، بطور ایک مکمل اور قابلِ عمل نظامِ حیات کے وقت کی زبان بن گئی۔ یہ تحریک تعمیر ِقیادت اور تبدیلی ٔ قیادت کو ہدف بناتے ہوئے آگے بڑھیں اور آج مسلم دنیا میں ان کے مخالفین بھی انھیں ایک اہم قوت ماننے پر مجبور ہیں۔ آج یہ تحریکیں اُمت مسلمہ کے جسم میں تازہ خون بن کر گردش کر رہی ہیں اوردشمنانِ اسلام کے لیے ایک مسلسل چیلنج کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں۔ نتیجتاً ایک طویل عمل کی شکل میں ان تحریکوں کے زیراثر ایک ایسی تعمیری افرادی قوت وجود میں آرہی ہے جو نہ صرف ان کی فکری قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ مناسب وقت پر سیاسی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی محاذ پر اسلامی متبادل کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نشوونما پا رہی ہے۔
۴- جوھری قوت کی استعداد : مندرجہ بالا تین قوی پہلوئوں کے ساتھ اُمت مسلمہ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے بادل نخواستہ اس کے دشمن بھی ماننے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طویل المیعاد اور قلیل المیعاد منصوبوں کے ذریعے پاکستان کو متزلزل کرنے اور طالبان کے خوف کے نام پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کو کسی نہ کسی طرح ناکارہ بنا دینے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی سازش تو ایک منطقی عمل ہے، دشمن کو یہ کرنا ہی چاہیے لیکن بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک وہ اندرونی دشمن ہیں جو اس گھنائونے کھیل میں دشمن کی مرضی کے مطابق ملک کو کمزور کرنے اور دشمن کے لیے موقع فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف قرآن کریم نے واضح اشارہ کیا ہے کہ اہلِ ایمان کے دشمن کی منصوبہ بندی اور چال کو اللہ تعالیٰ ناکام کردے گا، اس کی حکمت عملی سب سے کارگر حکمت عملی ہے۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (۳:۵۴)
۵- وسائل کی فراوانی: اُمت مسلمہ کا پانچواں قوی پہلو ، جس کی اہمیت سے وہ شاید خود بھی آگاہ نہیں ہے، اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی طرف سے اس کی زمینوں اور فضائوں میں ان قدرتی وسائل کی دولت کا فراہم کردینا ہے جس کے حصول اور اس پر قوت کے ذریعے قبضہ کرنے کے لیے، تمام مسلمان دشمن طاقتیں اپنی اپنی سازشوں میں لگی ہوئی ہیں۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا بنیادی مقصد ان ذخائر پر قابض ہونا تھا جن کے بغیر اس کی معیشت تباہ ہوجائے گی لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ دشمن کو تو ملت اسلامیہ کے وسائل کی اہمیت کا پورا اندازہ ہے اور وہ اسی بنا پر ان وسائل پر قوت کے ذریعے قابض ہونے میں لگا ہوا ہے لیکن مسلم ممالک کے سربراہان خود اس قوت کے صحیح استعمال سے ناآشنا ہیں اور بغیر کسی تامل کے دشمن کی سازش میں ساجھی بننے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔
۶- افرادی قوت کی بالادستی: اُمت مسلمہ کی چھٹی قوت اس کا انسانی اثاثہ (Human Resource) ہے جس کے بغیر جدید ٹکنالوجی بھی اپنے آپ کو بے بس پاتی ہے۔ یورپ اور امریکا کے معاشرتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۰ء تک یورپ اور امریکا میں ۴۵ فی صد افراد عمر کے اس مرحلے میں ہوں گے جب انھیں معاشی طور پر عضو معطل سمجھا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں وہ معیشت پر ایک بوجھ (liability ) بن جاتے ہیں۔ اس فطری خلا کو کون پُر کرے گا؟ اُمت مسلمہ میں اس وقت ۱۸، ۲۰ سال کے نوجوانوں کا تناسب ۳۳ فی صد ہے، اگر اُمت ان نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرتی ہے تو یہی افرادی قوت اس کی دولت بن کر دنیا میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ اس راز سے آگاہ ہونے کے سبب یورپ و امریکا مختلف عالمی اداروں کے ذریعے کثیر رقم خرچ کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ میں آبادی پر قابو رہے اور ۲۰۱۰ء میں ہونے والا فطری آبادی کا وہ سفر (population movment) جو تاریخ کے ہر دور میں کارفرما رہا ہے، منجمد ہوجائے اور یورپ و امریکا میں نسلی بنیادوں پر آبادی کے تناسب میں بڑی تبدیلی نہ ہو۔ اسی بنا پر امیگریشن قوانین کو مسلسل تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ وہ نسلی فوقیت جو یورپی اور امریکی تہذیب کا خاصا ہے، غیرسفیدفام افراد کے آنے سے تبدیل نہ ہو۔
اس سب کے باوجود افرادی قوت ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور اگر انتقالِ آبادی نہ بھی ہو جب بھی یہ افرادی قوت اپنے ملک میں بیٹھ کر ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے بے شمار کام انجام دے سکتی ہے جس کے لیے یورپ اور امریکا دوسروں کی مدد کے محتاج ہوں گے۔ اس افرادی قوت کو صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے مؤثر اور فنی طور پر اعلیٰ و ارفع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ اپنا مثبت کردار مستقبل میں ادا کرسکے۔
۷- اُمت کا عالمی تصور: اُمت مسلمہ کا ساتواں قوی پہلو اس کا جغرافیائی قیود و حدود سے نکل کر دنیا کے ہر خطے میں اپنی پہچان کے ساتھ پایا جانا ہے۔ اب مسلمان کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ وہ بغداد یا قاہرہ، استنبول یا دمشق کا باشندہ ہے۔ آج اُمت مسلمہ مغرب و مشرق میں اس طرح پھیل چکی ہے کہ صحیح معنی میں اگر کوئی اُمت بین الاقوامی انٹرنیشنل کہی جاسکتی ہے تووہ صرف اُمت مسلمہ ہے۔ اس طرح چپے چپے پر اپنے قدم جما دینے کے بعد اب اُمت مسلمہ کو نشانہ بنانا دشمنانِ اسلام کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ اُمت کے افراد کسی ایک مسلک یا خطے میں مرتکز نہیں ہیں۔ ان کا یہ پھیلائو ان کی قوت ہے۔ ایک سیاہ فام امریکی ہو یا سفیدفام فرانسیسی، جب دولت ِ اسلام سے فیض یاب ہوتا ہے تو وہ اُمت مسلمہ کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کی پسند ناپسند، اس کا مرنا، اس کا جینا، اس کی عبادت، اس کی قربانی پر ہر چیز صرف اور صرف ایک رب العالمین کے لیے ہوجاتی ہے۔ وہ نہ نسل کا بندہ رہتا ہے نہ رنگ کا، نہ زبان کا نہ رسوم و رواج کا، نہ سیاسی مفادات اور معاشی مقاصد کا، بلکہ صرف اور صرف اللہ کا بندہ بن کر اُمت کی عالمی برادری میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس انقلابی قوت کو اگر صحیح طور پر متحرک (mobilize) کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کرسکتی۔
ان ۷ نکات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ قنوطیت پسند رویہ کہ اُمت مسلمہ صفروں کا مجموعہ ہے، زمینی حقائق کی روشنی میں درست نہیں۔ یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ اُمت مسلمہ میں کوئی قوت نہیں ہے، یہ لاچار و بے بس ہے، اس کی ناک کو جو چاہے جب چاہے اور جہاں چاہے گھما سکتا ہے۔ الحمدللہ اُمت مسلمہ ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور یہ قوت آج تاریخ کی روشنی میں موجود ہے۔ یہ کسی فلسفیانہ بحث اور تصوراتی شاکلہ (ہیئت)کا نام نہیں ہے۔ اس کا ٹھوس ناقابلِ تردید وجود پایا جاتا ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ تین ہفتوں میں ۱۳۰۰ سے زیادہ بے گناہ بچے، عورتیں، جوان اور بوڑھے فلسطین میں شہید کردیے جائیں اور ۵ہزار سے زیادہ زخموں سے چور طبّی خدمات سے محروم رہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ اسلام آباد، استنبول، قاہرہ، ریاض، جکارتا اور کوالالمپور کے اقتدار کے ایوانوں میں پائے جانے والے حکمران خوابِ خرگوش میں مست ہوں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ جس دوم درجے کے امریکی سرکاری ملازم کے حکم اور تعاون سے افغانستان سے امریکی ہوائی جہاز پاکستان کی حدود میں آکر یہاں کے بے گناہ شہریوں اور مدرسے کے ۲۰۰ بچوں کو نشانہ بنا کر بہ خیریت واپس چلے جائیں، اسی دشمنِ پاکستان کو ہلالِ قائداعظم دیا جائے؟ ایسا کیوں ہے؟ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں؟
اگر جائزہ لیا جائے تو اُمت کی کمزوریوں کو بھی سات نکات کے تحت اختصار سے بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- علاقائی، نسلی اور لسانی تقسیم: پہلی کمزوری اُمت مسلمہ کے بعض گروہوں کا خود اپنے بارے میں یہ تصور ہے کہ ان کے تشخص کی بنیاد نسلی، علاقائی اور لسانی خصوصیات پر ہے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو بنگلہ دیشی، افغانی، عراقی، مصری، شامی، انڈونیشی، ملیشن کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے، اسے اپنی قومی زبان سے زیادہ علاقائی زبان پر ناز ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض ناعاقبت اندیش اور دشمنانِ عقل و خرد اُردو جیسی اسلامی روایات کی علَم بردار زبان کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقام سے گراکر ایک غیرمحسوس اور محدود افراد کے گروہ کی زبان بناکر پیش کرتے ہیں کہ اُردو بولنے والے ان افراد کے پوتے اور نواسے ہیں جوتقسیم ملک سے قبل اُردو بولا کرتے تھے۔
یہ نسلی، لسانی اور علاقائی تصور جو سامراجی طاقتوں کے دیے ہوئے نظامِ تعلیم اور ہندوازم اور دیگر نظاموں سے مستعار لیے گئے تصورات کے نتیجے میں اُمت مسلمہ میں سرایت کرگیا ہے، اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے جسے دشمن بہ کمالِ فن اُمت میں مزید انتشار اور فرقے پیدا کرنے کے لیے دن کی روشنی میں استعمال کر رہا ہے اور اُمت مسلمہ اس کے جال میں پھنس جانے کے باوجود اپنے محبوس کیے جانے سے لاعلم ہے۔ اس کمزوری کے سبب عراق ہو یا ایران، ترکی ہو یا پاکستان یا افغانستان، ایک مسلک کو دوسرے کے ساتھ اور ایک لسانی گروہ کو دوسرے کے ساتھ لڑاکر اپنا اُلو سیدھا کرنے کا عمل جاری ہے۔ بیرونی سامراج کے اس شاطرانہ عمل میں بہت سے مقامی افراد بھی ان کے شریکِ کار ہیں۔
۲- استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار: اُمت مسلمہ کی دوسری کمزوری اس کا استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار ہے۔ وہی معاشی قوتیں جو اُمت مسلمہ کے عضوعضو پر چوٹ لگا کر قرضوں کے ذرعیے اسے معاشی طور پر اپنا غلام بنانے میں لگی ہوئی ہیں، اُمت مسلمہ انھی پر انحصارواعتماد کو اپنے لیے ذریعۂ نجات سمجھتی ہے۔ عقل کے اس طرح مارے جانے کی ذمہ داری استحصالی طاقتوں پر نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ صریحاً اُمت مسلمہ کی اپنی حماقت، عاقبت نااندیشی ہے اور جہالت ہے کہ وہ اپنے مفادات دوسروں کے حوالے کرنے کے بعد ان سے بھلائی کی اُمید رکھے۔
دوسروں بلکہ دشمنوں پر معاشی انحصار کے چنگل سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ مستقبل میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ جو ممالک معاشی طور پر محکوم ہوں، وہ سیاسی اور عسکری طور پر بھی آزاد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس کمزوری کو دُور کیے بغیر اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ آسان نہیں ہوگی۔
۳- عسکری قوت کے لیے دشمن پر انحصار: اُمت مسلمہ کی تیسری کمزوری اس کا عسکری میدان میں اپنے دشمن کی امداد پر انحصار کرنا ہے۔ بلاشبہہ جدید ٹکنالوجی غیرمعمولی طور پر مہنگی ہے لیکن جب تک اُمت مسلمہ عسکری میدان میں اپنے وسائل پر بھروسا نہیں کرے گی، وہ سامراجی طاقتوں کی محتاج و محکوم رہے گی۔ آج مسلم ممالک کے بارے میں مطبوعہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی بنا پر وہ جنگ کرنے پر مجبور ہوجائیں تو دس بارہ دن سے زیادہ کا اسلحہ ان کے پاس نہیں ہے۔ جنگی اسلحے کے پرزے عموماً مغربی ممالک سے حاصل کیے جاتے ہیں اور ان کے حصول کے بغیر جدید آلاتِ حرب کام نہیں کرسکتے۔ عسکری طاقت ہونے کے باوجود غیروں پر اس طرح کا انحصار اُمت کی عسکری طاقت اور ایٹمی قوت ہونے کی حیثیت کو ختم یا معطل کردیتا ہے۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیرترقی کا سفر ناہموار ہی رہے گا۔
۴- حکمرانوں کی ذھنی غلامی: چوتھی اور ایک اہم کمزوری اُمت مسلمہ میں برسرِاقتدار طبقے کی ذہنی، فکری اور روحانی غلامی ہے۔ فرماں روا طبقات نہ صرف فکری طور پر مغربی طاقتوں اور مغربی فکر کی برتری پر ایمان بالغیب لاچکے ہیں بلکہ ان کے خیال میں جو ان کی روش سے اختلاف کرتا ہے، وہ اس دنیا کا باشندہ نہیں ہے اور نہ اسے اس دنیا میں رہنا چاہیے۔ ان کی یہ غلامی محض فکر اور نظام کی حد تک نہیں ہے بلکہ وہ مغرب کے تصورِ مذہب اور روحانیت پر بھی ایمان لاکر اس کی تصدیق اپنے عمل سے کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ مخصوص دنوں میں بعض تہوار منانے اور عیدین یا جمعے کے موقع پر دو رکعتیں ادا کرنے کے بعدوہ سمجھتے ہیں کہ بے چارہ اسلام آزاد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا دائرۂ کار مسجد ہے۔ حتیٰ کہ مسجد سے وابستہ مدرسہ کو بھی مغربی خواہش اور حکم کی تعمیل میں لادین بنانا (سیکولرائز) کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے بھی پریشان خیال افراد نکلیں اور اس طرح نہ سرکاری تعلیم کے ذریعے اور نہ دینی تعلیم کے واسطے سے، باہمت، باوقار، خوددار اور ایمان دار افرادی قوت پیدا ہوسکے۔
یہ ذہنی غلامی محض سیاسی وفاداری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ فکر کے ہر ہرشعبے میں پائی جاتی ہے چاہے وہ معیشت ہو، معاشرت و ثقافت ہو یا تعلیم اور ابلاغِ عامہ۔ ہرشعبۂ حیات میں جب تک مغرب کی مکمل نقالی نہ کرلی جائے، ان کے خیال میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ ترقی دراصل مکمل نقالی کے مترادف سمجھ لی گئی ہے۔ چنانچہ جب تک (ممالکِ اسلامیہ کی) ایک نیوزکاسٹر خاتون، بی بی سی یا سی این این کی نیوزکاسٹر کے سے چہرے، بال، لباس اور آواز کے ساتھ ایک نوپاکستانی برطانوی یا امریکی نژاد کے سے لہجے میں خبریں نہ پڑھے انھیں تسکین نہیں ہوتی۔
اس ذہنی و فکری اور روحانی غلامی سے نجات اور اپنی اقدارِ حیات،اپنی ثقافت اور اپنی فکر کا احیا کیے بغیر اُمت مسلمہ ایک انچ بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اس کمزوری سے آگاہی اور اس کا سدباب اور اس کے اثرات کو جڑ بنیاد سے اکھاڑے بغیر نجات ناممکن ہے۔
۵- مفاد پرست طبقے کا تسلط: اُمت مسلمہ کی پانچویں کمزوری نااہل اور مفادپرست سیاسی شاطروں کا اس پر بالجبر تسلط ہے۔ اسلام کے سیاسی نظام کی بنیادی خصوصیت اس کا انتخابی، شورائی، اہلیت کی بنیاد پر آزادیِ راے کے ساتھ عوامی انتخاب کے ذریعے امانت دار، تفقہ فی الدین رکھنے والے، متقی افراد کا انتخاب ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے کسی ایک ملک میں بھی، الا ماشاء اللہ، قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہے جو اسلامی اصولوں پر پورے اترتے ہوں، (ترکی اور ایران ایسی مثالیں ہیں جہاں ایک حد تک بے لوث اور ملک کی خیرخواہ قیادت پائی جاتی ہے)۔
اس کمزوری کا بڑا سبب خود ہمارے عوام کی بے خبری، جہالت، سادہ لوحی یا بے حسی، مفاد پرستی، اور نااہل افراد کو ووٹ دے کر، یا کسی اور طریقے سے اس عمل میں حصہ بن کر اقتدار حاصل کرنے دینا ہے۔ بلاشبہہ ووٹ کے لیے دولت اور دھوکے کا استعمال ایک حرام ذریعہ ہے اور اقتدار کے طالب عناصر اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن عوام بھی بری الذمہ نہیں۔ اس لیے کہ اس حرام ذریعے سے جو لوگ برسرِاقتدار آئے ہیں آخر عوام نے ان کو دولت کے عوض ووٹ دیا ہے، دھاندلی میں برابر کی شرکت کی ہے، یا وقتی مفادات اور تعلقات کی وجہ سے ووٹ کی اپنی قوت کو غلط استعمال کیا ہے اور نتیجتاً اپنے اُوپر جان بوجھ کر فقروفاقہ، ذلت اور محکومی کو مسلط کیا ہے، بلاشبہہ بڑے ملزم تو سیاسی شاطر ہی ہیں مگر سو فی صد انھی کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
ایک طویل صبرآزما عمل کے ذریعے اس کمزوری کو دُور کرنا ہوگا اور ووٹ کی قوت کو چند سکّوں کے عوض فروخت کرنے کے کلچر کو تبدیل کرنے کے بعد ایسے افراد کو قیادت میں لانا ہوگا جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں، بکائو مال نہ ہوں،جنھیں اُمت کا مفاد عزیز ہو، جو صلاحیت رکھتے ہوں، جو امین ہوں، جن کا کردار ماضی کی مالی، اخلاقی اور سیاسی بے ضابطگیوں اور جرائم سے پاک ہو۔ ہرکمزوری دُور کی جاسکتی ہے لیکن اسے دُور کرنے کے لیے عزم کے ساتھ ساتھ قربانی اور مسلسل جدوجہد بھی ناگزیر ہے۔
۶- تعلیمی انحطاط: اُمت کی چھٹی کمزوری اس کا تعلیمی اضمحلال ہے۔ دنیا کے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو تعلیم کے میدان میں اُمت مسلمہ بہت پیچھے نظر آتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کو ایک طرف رکھتے ہوئے حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ بنیادی تعلیم میں بھی اُمت مسلمہ تمام اقوامِ عالم سے پیچھے ہے۔ اس کمزوری کو فوری طور پر دُور کرنے کی ضرورت ہے اور حل بہت آسان ہے۔ کُل قومی پیداوار کا ۷ یا ۸ فی صد اگر تعلیم کے لیے مختص کردیا جائے، اسے ایمان داری سے استعمال کیا جائے تو دس سال میں اُمت مسلمہ تعلیم کے میدان میں دنیا کی قیادت کرسکتی ہے۔
اس تعلیمی پس ماندگی میں بڑا دخل یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس وقت کئی متوازی نظامِ تعلیم مسلم دنیا میں چل رہے ہیں۔ خود پاکستان میں کم از کم تین نظامِ تعلیم ہر گلی میں رائج ہیں۔ ایک طرف سرکاری تعلیم کا نظام ہے جو ناکافی ہے، ناقص ہے، اور ملک و قوم کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ دوسری طرف روایتی مذہبی تعلیمی نظام ہے جو غریب طبقہ کی کچھ ضرورتیں اور معاشرے کی روایتی مذہبی خدمات کے لیے مردان کار جیسے تیسے تیار کردیتا ہے مگر ملک و قوم کی ہمہ جہتی ضروریات کی فراہمی اور اُمت کو نئی قیادت فراہم کرنے میں بے بس اور ناکام ہے۔
ایک تیسری مصیبت وہ نجی تعلیمی نظام ہے جس کے تحت بیرونی تعلیمی ادارے ایک ایسی نئی نسل تیار کر رہے ہیں جس کی سوچ اور کردار اُمت کے جذبات و عزائم کی آئینہ دار نہیں اور جس کے نتیجے میں معاشرے کی قیادت اور زندگی کے مختلف شعبوں میں زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آرہی ہے جو مغربی تہذیب کے گماشتے ہیں۔ اس پورے نظام میں اسلامی شخصیت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ غائب ہے۔یہ ایک ایسی کمزوری ہے جسے دور کیے بغیر اور صحیح اسلامی نظام کو نافذ کیے بغیر اُمت مسلمہ ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتی۔
۷- اداراتی زوال: اُمت مسلمہ کی ساتویں کمزوری اس کا ادارتی زوال ہے۔ ہمارے وہ ادارے جو پندرہ سو سال سے اُمت مسلمہ کے وجود کو برقرار رکھنے اور اسے آگے سفر کرنے میں آسانی فراہم کرتے رہے ہیں، ہم نے ان میں سے ہر ایک کو یکے بعد دیگرے کمزور کرنے کے بعد معاشرہ بدر کردیا۔ قانون، قضا اور ریاست تو سب سے پہلے نشانہ بنائے گئے لیکن بات وہاں رُکی نہیں۔ سول سوسائٹی کے دوسرے اداروں کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ وہ ادارہ اوقاف کا ہو یا مدرسہ کا، جو ریاست کی ذمہ داریوں کے ساتھ عوامی بہبود اور فلاح کے کاموں میں اپنا کردار ادا کرتا تھا یا خاندان کا ادارہ ہو، ہم نے کسی کو بھی تحفظ دینے میں دل چسپی نہیں لی۔ آج خاندان جس طرح منتشر ہو رہا ہے اور خواتین کے حقوق کے نام پر جس طرح اسلامی تعلیمات کے بجاے مغربی تصورات کو اپناتا جا رہا ہے، وہ اداروں کے زوال کی واضح مثال ہے۔ ہم نے حسبہ اور عدلیہ کے ادارے کو اپنے معاشرے سے بے دخل کردیا اور اس طرح ہراخلاقی قید سے آزاد ہوکر بے راہ روی کا شکار ہوگئے۔ مسجد کا ادارہ ہو یا شوریٰ،قضا اور فقہ کا ادارہ، ہرہراسلامی ادارے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم سول سوسائٹی کے نام پر ایک مغرب زدہ سیکولر معاشرے کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ان ۷ نمایاں کمزوریوں کے علاوہ اور بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت ہم صرف متذکرہ بالا نکات ہی پر اکتفا کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ قوتوں اور کمزوریوں کے بعد وہ مواقع کون سے ہیں جن کے صحیح استعمال سے اُمت مسلمہ عالمی طور پر ایک تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے۔
۱- عالمی معاشی منظرنامہ: مواقع کے سلسلے میں سرفہرست عالمی معاشی منظرنامہ ہے۔ آج دنیا جس معاشی اور مالی انتشار کا شکار ہے اُس نے سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے ہونے اور اس کے دعووں کے باطل ہونے کو بزبانِ خود ثابت کردیا ہے۔ سود کی بنیاد پر کاروبار کرنے والے بنک بھی اسلامی بنک کاری اور اسلامی فنانس کو مجبوراً تسلیم کرتے ہوئے اپنے اداروں میں ’اسلامی کھڑکیاں‘ کھولنے پر آمادہ ہیں۔ مسلمان اہلِ علم و دانش کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ اسلامی نظامِ معیشت کو بطور ایک قابلِ عمل متبادل کے مسلم دنیا میں متعارف کرائیں اور اس کے لیے ایک مہم کے ذریعے فضا کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم کاروباری افراد کے تعاون سے ایسے ادارے قائم کریں جو سودی لعنت سے نجات اور اسلام کے عادلانہ معاشی اصولوں کو عملاً نافذ کرکے دنیا کے سامنے ایک عملی مثال پیش کریں۔ اگر معروف معاشی اصول یعنی طلب (demand) میں کوئی صداقت ہے تو آج سرمایہ دارانہ نظام کی منڈیاں بھی اس تلاش میں ہیں کہ کس طرح ایک نئے معاشی نظام کے ذریعے اپنا تحفظ کرسکیں۔ اُمت مسلمہ کے لیے یہ قیمتی موقع ہے کہ وہ خود اپنے گھر میں اصلاح کر کے اپنے عمل کو دوسروں کے لیے رہنما بناکر پیش کرسکے۔
۲- ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی: ٹکنالوجی کی ترقی کی بنا پر اُمت مسلمہ اپنے علمی اور عملی وسائل کو نیٹ ورکنگ (net working) کے ذریعے یک جا کرکے ایسے بہت سے کام کرسکتی ہے جو تنہا کسی ایک ملک کے لیے ممکن نہیں ہوسکتے۔ آج بڑی سے بڑی تحقیق اور ایجادات کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ چاہے انفرادی طور پر سب کے پاس موجود نہ ہوں لیکن نیٹ ورکنگ کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع کو ضائع کرنا اُمت مسلمہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔
۳- ذرائع ابلاغ کے دُور رس اثرات: تیسرا اہم پہلو مواقع کے لحاظ سے دورِ حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کا غیرمعمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت حاصل کرلینا ہے جس کی بنا پر اُمت مسلمہ جب چاہے چند لمحات میں دنیا کے کروڑوں افراد تک اپنا پیغام، اپنی دعوت اور فکر پہنچاسکتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اُمت ابلاغ عامہ کی طاقت اور مناہج سے آگاہ ہونے کے ساتھ انسانی وسائل کو تربیت دے کر فنی مہارت کے ساتھ اپنی دعوت و پیغام کو دل چسپ انداز میں پیش کرسکے۔ ’اسلامی ٹی وی‘ کے نام پر لمبے لمبے خطابات، مناظرے اور جھاڑ پھونک کے عمل اور فوری استخاروں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ تحریکاتِ اسلامی کے لیے خصوصاً یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اپنی تمام نیک خواہشوں کے باوجود اور اپنے قائدین کی بعض تقاریر کی سی ڈی پیش کرنے کے علاوہ کیا وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا شخصیات کو پیش کرنا ہی دعوت ہے؟ یا دعوتی مقاصد کے پیش نظر انسانی قوت کی تیاری اور اس کا صحیح استعمال وقت کا تقاضا ہے۔ ابلاغِ عامہ اس صدی کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس کا فنی طور پر فہم اور پھر اس کا ایک حکمت عملی کے ذریعے مہارت کے ساتھ استعمال حالات میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔
۴- نوجوان اور افرادی قوت: اُمت مسلمہ کو دستیاب مواقع میں اس کی افرادی قوت کو اہم مقام حاصل ہے جس کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے۔ ان نوجوانوں کو ان کی زبان میں اسلام کی دعوت سمجھانے اور قوت کے اس سرچشمہ کا تعمیری استعمال کرنے سے تحریکاتِ اسلامی کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ نوجوان نہ صرف سیاسی، بلکہ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں اہم اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے انسانی وسائل کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کے مطالبوں کے پیش نظر کیا وہ قیادت جو ۵۰سال کی عمر سے تجاوز کرچکی ہو، واقعتا آیندہ ۲۰ سال کے لیے ایک قوتِ محرکہ (motivating force) ہوسکتی ہے یا اسے ہرہرسطح پر ایسے افراد کو آگے لانا ہوگا جو نہ صرف فکروفہم کے لحاظ سے بلکہ اپنی قوتِ کار کی بنا پر معاشرے میں قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔ افرادی سرمایے کی صحیح نشوونما، اس کی صحیح تربیت اور اس کا صحیح استعمال ہی مستقبل میں کامیابی کی کلید ہے۔ جو تحریکات ان زمینی حقائق کو اپنی سادہ لوحی کی بنا پر نظرانداز کریں گی، وہ اپنی نیک خواہشات کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں پیچھے رہیں گی اور جو اس کا صحیح استعمال کریں گی وہ بادِ مخالف کے باوجود کامیابی کے سفر میں آگے بڑھتی جائیں گی۔
۵- ایٹمی استعداد: عالمی تناظر میں اُمت مسلمہ کے لیے اپنی نیوکلیر صلاحیت کا صحیح استعمال بھی ایک اہم موقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ اس عمل میں ترکی کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے سائنس دانوں کے تعاون سے نیوکلیر قوت کے پُرامن اور عسکری استعمال کے نئے نئے محاذوں پر اُمت مسلمہ آگے بڑھ سکے اور یک قطبی طاقت یایورپی یونین کے دبائو سے اپنے آپ کو آزاد کرسکے۔ اس سلسلے میں بعض غیرمسلم ممالک سے بھی تعاون پر غور کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً چین جو اس خطہ میں ایک اہم مرکز قوت ہے، اُس کے ساتھ تعاون کی راہوں پر غور ہونا چاہیے۔
دنیا کے تیل اور گیس کے ذخائر کا نصف سے زیادہ اُمت مسلمہ کے ہاتھوں میں ہے۔ صرف اس ایک قدرتی وسیلے کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی پوری مسلم اُمت کی معاشی ترقی کے لیے کافی ہے لیکن یہ وسائل اُمت کی ترقی کے بجاے، مغربی اقوام اور مغربی مالیاتی نظام کی چاکری میں لگے ہوئے ہیں۔ فقط اسی ایک وسیلے کے صحیح استعمال سے مسلم دنیا کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر اُمت کے کردار کو ایک نیا آہنگ دیا جاسکتا ہے۔
اس مختصر جائزے کا اگلا حصہ اختصار کے ساتھ ان اندرونی اور بیرونی خدشات و خطرات پر ایک نظر ڈالنا بھی ہے جو نہ صرف دعوتِ مقابلہ دیتے ہیں بلکہ ایسے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں جن کا مناسب اور صحیح استعمال اُمت مسلمہ کے مستقبل کی تعمیر میںاہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں اندرونی طور پر جو خدشات و خطرات پائے جاتے ہیں ان میں اولاً وہ فکری چیلنج ہے جسے ہم صرف ایک اصطلاح یعنی فہم دین کی لغزش سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو صدیوں کے دورِ غلامی اور سیاسی آزادی کے بعد بھی ماضی کی روایت سے وابستگی کے نتیجے میں ہمارے حلقوں میں پائی جاتی ہے۔
۱- دین دنیا کی تفریق: اس میں اولاً ذہنی طور پر دین اور دنیا کی تفریق کا تصور ہے جو ہماری سرگرمیوں اور معمولات کو دو اقسام میں بانٹ دیتا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے دائرۂ کار میں بڑی حد تک آزادی کے ساتھ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے۔ ’دین‘ کا دائرہ عملاً مذہب بن جاتا ہے اور عبادات اور چند رسومات ادا کرنے کے بعد ایک شخص حتیٰ کہ ایسے افراد بھی جو فکری طور پر خود کوتحریکِ اسلامی سے وابستہ سمجھتے ہوں ’دنیا‘ کے پیش نظر شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا دیگر معاشرتی معاملات، ان میں جو کچھ ’دنیاداری‘ کے تقاضے ہیں، وہ پورے کرتے ہیں اور ساتھ میں نماز روزے کی پابندی کے ذریعے اپنے خیال میں دونوں کے مطالبات کو پورا کرلیتے ہیں۔
اس میں مزید غور کیا جائے تو ایک واضح تفریق ذاتی اور معاشرتی مطالبات کی پائی جاتی ہے۔ ایک شخص ذاتی طور پر ممکن ہے کہ نہ صرف عبادات پر عامل ہو بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ بھلے انداز میں پیش آتا ہو لیکن معاشرتی معاملات میں جب اسے اپنی بیٹی یا بیٹے کے لیے رشتہ درکار ہوتا ہے تواس کی ذاتی عبادات اور تحریکیت ان معاملات پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی اور وہ معاشرتی رواجوں کا غلام بن کر اور ان پر عمل کرکے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی اپنی بیٹی تو جس گھر میں جائے، وہاں اپنے شوہر کے ساتھ آزادانہ طور پر رہے لیکن جو لڑکی اس کے گھر میں آئے، وہ سارے گھر کی ’خادمہ‘ بن کر رہے اور اپنے ساتھ وہ سب سازوسامان لے کر آئے جس کے خلاف وہ عوامی سطح پر خطابات کرتا رہا ہے۔ یہ تفریق اور دوعملی ایک مرض ہے اور اس کا جتنا جلد سدباب ہوسکے ،اتنا ہی اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہوگا۔
اُمت کو ایک اور تفریق کا بھی سامنا ہے جس کا تعلق معاشی معاملات سے ہے۔ وہ افراد بھی جو اپنی عبادات اور ’مذہبی‘ معاملات میں قرآن و سنت کی پیروی کا اہتمام کرتے ہیں، جب تجارت اور لین دین کا معاملہ ہوتا ہے، عملاً غیر ذمہ داری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عموماً شراکت کے کام مالی بدمعاملگی کے سبب غیرعادلانہ نتائج تک پہنچ جاتے ہیں اور وہی شخص جو ذاتی طور پر بہت دین دار تھا، اجتماعی تجارت و شراکت میں غیرذمہ دار ثابت ہوتا ہے۔ یہ اندرونی مرض اُمت کی معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن نے جو ہدایات تجارت و شراکت کے بارے میں دی ہیں، انھیں سمجھ کر اور مکمل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تفریقی عمل کو آگے بڑھایا جائے تو یہ تفریق سیاست، ثقافت اور مسالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک بظاہر مذہبی فرد سیاست میں ایسے افراد کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا جو اپنے کردار و عمل کے لیے دھوکا،دھاندلی اور بدکرداری کے لیے معروف ہوں۔ ایسے تمام مواقع پر اپنے عمل کو یہ کہہ کر پاک صاف کرلیا جاتا ہے کہ سیاست میں تو یہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی معاملہ ثقافت کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے تمام دعووں کے باوجود ایسی تقریبات میں شرکت اور ان کا انعقاد جو اسلامی اصولوں کے منافی ہوں، اس تفریق کا ثبوت ہیں۔
دین و دنیا میں تفریق کے تصور کے نتیجے میں نہ صرف بیرونی سامراج کے دورِ غلامی میں بلکہ سیاسی آزادی کے بعد بھی اُمت میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی پائی جاتی ہے جو سیاست میں حصہ لینے کو دین کے منافی سمجھتے ہیں اور اس طرح سیاسی معاملات کو ان افراد کے حوالے کرنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے جو اسلامی نظامِ حیات کے قیام اور ملک میں اللہ کی حاکمیت کے قیام کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ’جمہوریت‘ ایک غیر اسلامی تصور ہے اس لیے جمہوری اداروں سے عدمِ تعلق اور انھیں لادین افراد کے حوالے کر دینا ہی مدعاے شریعت ہے، اُمت کا ایک باشعور طبقہ اس کے برعکس یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت کو وقتی طور پر وسیلہ بناکر افرادی قوت کے ذریعے بتدریج اسلامی نظام کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مکمل اسلامی نظام کے قیام کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے ضرورت کی حد تک جمہوری سیاسی عمل میں شرکت دین کے مقاصد کے منافی نہیں ہے۔
بظاہر اسلام دوستی رکھنے کے باوجود اس اندرونی تقسیم کا تمام تر فائدہ سیکولر اور اسلام دشمن قوتوں کو پہنچتا ہے اور ملکی عوام کی اکثریت کے اسلام سے وابستگی کے باوجود اس تقسیم کی بنا پر وہ انتخابات میں اسلام پسندوں پر سبقت لے جاتے ہیں اس خطرے کا حل خود اسلام پسند افراد کو نکالنا ہوگا۔
۲- احساس لاچاری وضعف: ایک متعدی اور مہلک مرض جو اُمت مسلمہ نے اپنے اُوپر نفسیاتی طور پر طاری کرلیا ہے، وہ اس کا احساسِ لاچاری اور ضعف ہے۔ قیادت پر فائز افراد ہوں یا عام انسان، یہی بات کہتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جب تک ’چچا سام‘ اجازت نہیں دے گا فلاں کام کیسے ہوگا۔ یا یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ پاکستان یا مصر یا ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونی سازش ہے اور اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک احساسِ لاچاری، بے بسی اور سپردگی اُمت کی نفسیات پر مسلط ہے۔ گویا دراصل دشمن کا جو اصل مقصد تھا یعنی اُمت مسلمہ کو مسحور کردینا وہ اسے حاصل ہوجاتا ہے اور اُمت کے قائدین خود زور شور سے ’غیرملی یا صہیونی و امریکی سازشوں‘ کی تصدیق کر کے اپنے آپ کو بے بسی، ضعف اور لاچاری کی کیفیت میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ اس احساسِ شکست اور پسپائی سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔
۳- فکری یلغار: ان چند اندرونی خطرات کے ساتھ بعض بیرونی خطرات بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سب سے اول وہ فکری یلغار ہے جو ایک طویل عرصہ سے اُمت مسلمہ پر اثرانداز ہوتی رہی ہے اور اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ اس فکری یلغار کے لیے جو حربہ استعمال کیا گیا، وہ تعلیم کا بھی ہے اور ابلاغِ عامہ کا ہے۔ دونوں کا مشترک نکتہ یہ ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز مذہب سے آزادی اور مادی، تجرباتی، سیکولر علم کی بنیاد پر فکر کی تدوین و تعمیر ہے، اس لیے مسلم دنیا کو بھی ترقی کے حصول کے لیے سیکولرازم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، چنانچہ اس غرض کے لیے نصاب میں تبدیلی، ایسی کتب کا لکھا جانا جو ایک سیکولر ذہن پیدا کریں، اسلامیات کو دس مختصر قرآنی سورتوں اور دس احادیث کے سرسری طور پر پڑھنے تک محدود کردینا اور ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ میں مذہب کا مذاق یا اسے تضادات اور انتشار اور الجھائو پیدا کرنے والا دکھانا یہاں تک کہ ایک دیکھنے والا یہ کہنے پر آمادہ ہوجائے کہ واقعی مذہب مسائل کا گھر ہے، اور اس سے نجات حاصل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ یہ وہ فتنہ ہے جو آیا تو باہر سے ہے لیکن اب یہ مقامی طور پر قدم جما رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک واضح اور جامع حکمت کی ضرورت ہے۔
۴- ثقافتی یلغار: دوسرا بڑا بیرونی خطرہ ثقافتی یلغار ہے جس کے تحت اُمت مسلمہ کی اپنی اقدارِ حیات، اخلاقی اصولوں اور ان کی روشنی میں زبان، لباس، طعام اور تفریح ہرچیز کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اُمت مسلمہ مغربی اور ہندوانہ ثقافت کی بصری اور سمعی طور پر عادی ہوجائے۔ آج عرب دنیا خصوصاً خلیج کے علاقے میں لباس ہو، کھاناہو، گانا ہو، یا فلم، ہندو ثقافت مغربی ثقافت کے دوش بدوش اپنے اثرات گہرے کررہی ہے۔
پاکستان میں اکثر نجی ٹی وی چینل مغربی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ہندوانہ ثقافت کو پاکستان میں رائج کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور مسلسل یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی ثقافت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے زیادہ غلط بیانی شاید ہی کوئی ہو لیکن اسے سچ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ ۹۰ فی صد کھانے پکانے کے پروگرام ان کھانوں کی ترکیب بتاتے ہیں جن کا نام بھی ایک عام پاکستانی شہری نے نہ سنا ہو اور تھائی لینڈ، چین اور امریکا میں مرغوب کھانے سمجھے جاتے ہیں لیکن جو ایک عام شہری خواب میں بھی نہ پکا سکتا ہے نہ کھا سکتا ہے۔ یہی شکل لباس کی ہے کہ فیشن شو کے نام پر ہر وہ لباس جو حیا کو تار تار کرنے والا ہو بہت پُرکشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافتی یلغار محض استغفار پڑھنے اور بددعا کرنے سے نہیں رُکے گی، اس کے لیے متبادل ثقافتی مہم اور عوامی سطح پر راے عامہ کی تیاری کی ضرورت ہے۔
۵- معاشی یلغار: تیسرا اہم بیرونی خطرہ وہ معاشی یلغار ہے جس میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو خصوصاً یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ ترقی کا راستہ صرف اور صرف ورلڈبنک اور آئی ایم ایف سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر اُمت مسلمہ نے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کیا تو وہ تباہ ہوجائے گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ورلڈبنک ہو یا آئی ایم ایف، دونوں کے زیراثر آنے والے کسی ملک نے آج تک خودانحصاری کا مزہ نہیں چکھا۔
اس کے اثرات دینی حلقوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور بعض حضرات اپنی سادہ لوحی یا گروہی عصبیت کے زیراثر اسلامی بنکاری اور تجارت و تکافل کے اداروں پر یہ کہہ کر تنقید کر رہے ہیں کہ ان میں اور سودی اداروں میں محض نام کا فرق ہے۔ گویا عوام الناس کے لیے بہتر ہے کہ سودی نظام ہی میں پھنسے رہیں اور ان اداروں کی طرف نہ جائیں۔ اس سادہ لوحی کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے تاکہ جلد یا بہ دیر اسلامی معاشی ادارے سودی اداروں کے متبادل کے طور پر اپنے وجود کوتسلیم کراسکیں۔
۵- خواتین کو صاحبِ اختیار بنانے کا فتنہ: کچھ عرصہ سے ایک پانچواں خطرہ بلکہ فتنہ، خواتین کو بااختیار بنانے (empowerment) کے نام سے بیرونی اداروں کی طرف سے امت پر مسلط کیا جارہا ہے۔ اس امر کو ’حقوقِ انسانی‘ کے ساتھ منسلک کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ اب خواتین کو یکساں انسانی حقوق کی بنا پر فوج اور انتظامیہ میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کرسکے۔ مغرب اور خصوصاً امریکا اور یورپی ممالک اس مہم کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی جریدے نیوزویک نے اپنی خصوصی اشاعت براے دسمبر ۲۰۰۸-فروری ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون شائع کیا ہے جو مغرب کے اس منصوبے کو واضح اور واشگاف الفاظ میں پیش کرتا ہے:
مسلمانوں کے بارے میں امریکی پالیسی کامحرک صرف دہشت گردی کی مخالفت نہ ہو بلکہ حقوقِ انسانی کی عالمی تحریک کو اس کی تکمیل کرنا چاہیے۔ اس طرح ایک باہمی تعاون کی حکمت عملی تشکیل پاجائے جو یہ تسلیم کرے کہ عام مسلمان، خاص طور پر مسلمان خواتین، جہادی تحریکوں کا ہدف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف لڑائی میں لازمی شریکِ کار ہیں۔ (ص ۴۳)
اس مقدمے کے بعد یہ حل پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر خواتین کے انسانی حقوق کے بہانے انھیں معاشی دوڑ میں مرد سے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے۔
تجارت پیشہ مسلم خواتین اپنے اہلِ خاندان اور ہمسایوں سے آگے بڑھ کر وسیع تر حلقے میں خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ کاروباری صلاحیت رکھنے والی مائیں اپنے بچوں کے لیے تجارت___ اور مستقبل کے منصوبوں___ کے لیے مواقع فراہم کرسکتی ہیں___ اس لیے مسلم خواتین کے لیے کم رقم کے قرضوں کی فراہمی، ایک ایسی خارجہ پالیسی کا جزو بن جائے گا جو دہشت گردی کے مخالف اقدامات اور انسانی حقوق میں توازن رکھتی ہو۔ (ص ۴۴)
اس حکمت عملی میں جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان عورت کی اولیں دل چسپی اور کارکردگی کا مرکز گھر اور خاندان نہ رہے اور وہ بجاے گھر کے مرد کو معاشی استحکام دینے کے، خود محنت کشی میں لگ جائے جس کا مقصد عورت کو معاشی خودمختاری فراہم کرنا ہے جس کے لیے اسے آسان شرط پر قرضہ دیا جائے۔ یہ تجربہ بنگلہ دیش میں گرامن بنک کرچکا ہے اور معاشی ماہرین نے اس کا جو تجزیہ کیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ ان کم رقوم کے قرضوں (micro-credit) کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی خواتین کو معاشی استحکام تو نہیں مل سکا البتہ وہ قرضوں کے بوجھ میں پہلے سے زیادہ دب گئیں۔ نتیجتاً گھریلو جھگڑے اور طلاق کی کثرت سے معاشرتی نظام شدت سے متاثر ہوا۔ رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ آسان شرط پر قرضہ کی شرح سود ۳۰ فی صد ہونے کے سبب عموماً ایک خاتون کو قرضے کی ادایگی کے لیے کسی دوسری این جی او سے قرض لینا پڑا اور اس عمل میں مردوں کے ساتھ اختلاط کے نتیجے میںخاندانی نظام اور اس کے استحکام کو شدید جھٹکا لگا۔
اس جملہ معترضہ سے قطع نظر ’جنسی مساوات‘ کا مغربی تصور ایک ناسور بن کر اُمت مسلمہ کے جسم کو زخم آلود اور خون خون کر رہا ہے۔ اس کی بروقت اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسلام جنسی مساوات کی جگہ عدل اور تمام اصناف میں حقوق و فرائض کی عادلانہ تقسیم کا قائل ہے۔ اس پہلو پر علمی اور عوامی سطح پر راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔
جن خطرات اور خدشات کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا گیا ان میں سے اکثر اُمت مسلمہ کے لیے دعوتِ عمل اور چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیں لیکن گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہوگا کہ گذشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، ایران، سوڈان ، الجزائر ، ترکی اور خود یورپ و امریکا میں جس سُرعت کے ساتھ اسلامی فکروثقافت کا احیا ہوا ہے اور خصوصاً سید مودودی اور امام حسن البنا شہید کی برپا کردہ اسلامی تحریکات کے زیراثر نئی نسل نے اعتماد و یقین کے ساتھ اسلام کے مطالعہ اور اپنی زندگی میں اس کے نفاذ پر توجہ دی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ آج اسلامی حرکات سے متاثر افراد زندگی کے ہر شعبے میں قائدانہ صلاحیت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اسلامی مالی اداروں کا قیام، اسلامی تکافل کمپنیاں اور بنک، اسلامی جامعات میں معاشرتی اور طبی و دیگر علوم کی تدوین جدید کی کوششیں اور اس غرض سے اداروں کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام اکیسویں صدی میں بھی قابلِ عمل ہے۔
اس عرصے میں اسلامی تحریکات نے تحریکاتِ حریت کی کھل کر حمایت کی ہے۔ لیکن مغرب اور مغرب زدہ افراد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود تحریکاتِ اسلامی کو دہشت گردی میں ملوث ثابت نہیں کرسکے۔ امریکا اور برطانیہ میں تحقیقاتی اداروں نے پوری چھان بین کی لیکن ان تحریکات پر کوئی قابلِ اعتراض سرگرمی ثابت نہ کی جاسکی لیکن اس قسم کی کارروائیوں نے تحریکاتِ اسلامی کے فروغ کی رفتار کو متاثر کیا ہے اور یہ تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ان حالات میں جب کہ اُمت مسلمہ کے اندر غیرمعمولی قوی پہلو موجود ہیں، بعض کمزوریاں بھی ہیں اور ساتھ ہی مختلف خطرات و مطالبات کا سامنا بھی ہے، اہلِ دانش اور کارکنوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور وہ کس طرح ان حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ اختصار کے پیشِ نظر سات نکات پر غور کیا جاسکتا ہے۔
۱- دین کا صحیح فھم: اوّلین کرنے کا کام دین کے صحیح فہم کا حصول ہے یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق اور غوروفکر اور تفقہ کے بعد اسلام کے نظامِ حیات اور اس کے عملاً نافذ کرنے کے ذرائع و حکمت عملی کو براہِ راست قرآن و سنت سے اخذ کر کے نہ صرف خود سمجھنا بلکہ جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے انسانیت کو اس سے متعارف کرانا۔ یہ ایک صبرآزما اور طویل عمل ہے جو مغرب و مشرق میں پائی جانے والی مسلمانوں کی تصویر (image)کی اصلاح کے لیے ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔
۲- مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ: دوسرا اہم کام مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ، جائزہ اور تجزیہ ہے تاکہ یہ بات سمجھی جاسکے کہ کیا مغربی فکر کی تقلید ہی ترقی کا زینہ ہے یا مغربی فکر خود اپنی ناکامی کی نشان دہی کرتی ہے اور ظاہر ہے جو خود گمراہ ہو وہ کسی اور کو کیا راستہ دکھائے گا۔ اس جائزے میں جذبات سے بلندہوکر معروضیت کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میںوہ کون سی خوبیاں ہیں جو اس کی ترقی کا راز ہیں اور وہ کون سی خامیاں ہیں جن سے ہوشیار ہونے اور دامن بچانے کی ضرورت ہے۔ مغرب کے ذہن اور فکر کو سمجھے بغیر ہم مغرب کو اسلام کی دعوت نہیں دے سکتے۔
۳- تحقیقی کلچر: تیسرا اہم کرنے کا کام پیشہ ورانہ تنظیموں اور اداروں میں تحقیقی کلچر کا پیدا کرنا ہے۔ وہ طبیبوں کی اسلامی تنظیم ہو یا انجینیروں اور علومِ عمرانی کے ماہرین کی، ہر خصوصی شعبے میں تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایسی فضا پیدا کرنا ہوگی کہ لوگ جدید ترین علوم میں مہارت کے ساتھ اسلامی اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔
۴- گہر کا محاذ: چوتھی اہم توجہ طلب چیز گھر کے محاذکا صحیح طور پر مرتب کرنا ہے۔ تہذیبوں کا ارتقا اور زوال براہِ راست گھروں کے تحفظ سے وابستہ ہے۔ اگر گھر میں انتشار ہوگا، تضاد ہوگا، یک جہتی نہ ہوگی تو تمام سائنسی ترقی کے باوجود تہذیب و تمدن پر زوال آکر رہے گا۔ اس لیے گھر کے ادارے کوصحیح اسلامی خطوط پر قائم رکھنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
۵- افراد کا تعمیر کردار: پانچویں اہم چیز اُمت مسلمہ میں افراد کار کی تعمیر و تربیت اور نئے خون کو شامل کرنے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی جو اندرونی طور پر افراد سازی اور بیرونی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے تصور کے لحاظ سے یکساں طور پر نتائج پیدا کرسکے۔ اس میں ایک انتہائی سادہ حکمت عملی اندرونی طور پر انسانی وسائل کی تیاری کے لیے یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو تحریک سے وابستہ ہو وہ ایک ذاتی ہدف یہ بنائے کہ ۶ ماہ کے عرصے میں اپنے اردگرد سے تین ایسے افراد کو جو خواہ اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور تحریکاتِ اسلامی پر تنقید ہی کرتے ہوں، منتخب کرکے ان سے روابط بڑھائے گا اور اس عرصے میں ان کی غلط فہمیاں دُور کرکے، اپنے طرزِعمل کی قوت سے انھیں مخالف نہ رہنے دے گا۔ اپنے اردگرد کے ایسے ہی تین افراد کو منتخب کر کے جو بظاہر نہ مخالف ہوں نہ مواقف، انھیں اپنی فکر کا ہمدرد بنا لے گا۔ اور اسی طرح اپنے اردگرد سے ۳افراد کا انتخاب کرکے جو بظاہر اس کی فکر سے ہمدردی رکھتے ہوں انھیں اپنے اندرونی حلقے میں شامل ہونے پر آمادہ کرلے گا۔ اس طرح ایک فرد ۶ ماہ میں ۹ افراد پر کام کر کے انسانی وسائل کی تعمیر میں لگ جائے گا۔ اُمت مسلمہ کو محض ایک فرد کی مخلصانہ جدوجہد سے ۹ گناقوت اور نیا سرچشمہ قوت (resource) میسر آسکے گا۔
۶- عالمی سطح پر افھام و تفھیم کے عمل کا آغاز: چھٹی چیز عالمی سطح پر بھی یہ ہدف طے کیا جائے کہ چند منتخب ممالک یا اداروں کو جو اسلام دشمن ہیں تبادلۂ خیال سے ان کی جانب داری کو ختم (neutralize) کیا جائے، تین ایسے ممالک یا اداروں کو جو دشمن نہ ہوں، دوست بنایا جائے اور کچھ ایسے ممالک یا اداروں کو جو ہمدردی رکھتے ہوں اپنے منصوبوں میں شامل کرکے ان سے استفادے اور مشترک کوششوں سے دونوں ممالک کے افراد میں قربت پیدا کی جائے۔
ظاہر ہے یہ کام اصلاً کو مسلمان حکومتوں کا ہے لیکن جس قسم کے افراد حکومتوں پر قابض اور مسلط ہیں ان سے اس کی امید کم ہی رکھی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں مسلم NGO اداروں کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے جہاں جہاں فکری ادارے پائے جاتے ہیں، مثلاً انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلامک فائونڈیشن وغیرہ علمی سیمی نار، مکالمے، اہلِ علم کے دوروں اور معلومات کے تبادلے کے ذریعے ان ممالک کے اداروں کے ساتھ قریبی رابطے پید کرسکتے ہیں جو کھل کر اسلام دشمنی کا اظہار نہیں کرتے۔ عالمی تناظر میں ایسے ممالک کے علمی ادارے خود بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں سے رابطے کے ذریعے ان کے مسائل کو سمجھیں۔ یہ صورت حال دعوتی اور اصلاحی عمل کے لیے بہت سازگار ماحول فراہم کررہی ہے اور اسلامی تحقیقی اداروں کو آگے بڑھ کر عوام اور دانش وروں کی سطح پر اسلام کے مثبت اور قرآن وسنت پر مبنی تصور کو بغیر کسی مداہنت کے پیش کر کے باہمی اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
۷- تبدیلیِ قیادت:ساتویں چیز ان تمام وسائل کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے اجتماعی تبدیلی کے لیے استعمال کرنا ہے جس میں کلیدی کردار اجتماعی قیادت کی تبدیلی کا ہے جو انقلابِ نو کا پیامبر بن سکے۔ انقلابِ قیادت میں سرفہرست سیاسی قیادت کی تبدیلی اور اُمت کے وسائل کو اُمت اور انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر ڈالنا ہے۔ تبدیلیِ قیادت کا یہ عمل صرف سیاسی قیادت تک محدود نہیں، یہ کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ جہتی ہے۔ اس کے لیے فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی ادارے اور سول سوسائٹی کی قیادت، طلبہ اور مزدوروں کی قیادت، غرض زندگی کے ہرہرشعبے میں ایسے افراد کوقیادت کے مقام پر لانا ہے جو اپنے اپنے دائرے میں زندگی کا رخ اسلام اور اسلام پر مبنی حیاتِ نو کی طرف پھیر سکیں اور قوم کو اس منزل کی طرف آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
تبدیلیِ قیادت کی قرآنی اور نبوی حکمت عملی میں فرد، معاشرہ اور اداروں میں اصلاحی عمل کے ذریعے زمامِ اقتدار میں تبدیلی ایک معروف چیز ہے لیکن اس غرض کے لیے تحریکاتِ اسلامی کو ایسے ادارے قائم کرنے ہوںگے جو نوجوان قیادت کو قرآن و سنت کے جہنم کے ساتھ قائدانہ صلاحیت، ابلاغی طریقوں اور صورت حال کو قابو میں لانے کے ذریعے سے مکمل آگاہی اور عملی تجربہ رکھتے ہوں۔ تحریکِ اسلامی کی اصل دولت اس کی وہ افرادی قوت ہے جو متحرک، بالیقین اور باوقار ہوچکا ہے جس کا ہرعمل دوسروں کو دعوتِ عمل وفکر دینے والا ہو۔ جو پہلے سے موجود فکر کے استعمال کے ساتھ جدید مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور فکر کی نئی راہیں دکھانے پر قادر ہوں وہ فکر کو محض استعمال (consume) نہ کریں بلکہ فکر کو پیدا (produce) کریں۔
ان تمام سرگرمیوں کی بنیاد جس چیز پر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اس دنیا میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دیے ہوئے دین پر عمل کے ذریعے نجاتِ اخروی ہے۔ اس لیے احتسابِ نفس اور خوفِ آخرت ہی وہ قوتِ محرکہ ہے جو اُمت مسلمہ کو دوبارہ اس کی کھوئی ہوئی عظمت دلا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت میں غیرمعمولی طور پر برکات، وسائل اور قوتیں رکھ دی ہیں، صرف انھیں جگانے، جلابخشنے اور میدانِ عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی توفیق اور ہدایت اگر ساتھ ہے تو راہ کی ہرمشکل راحت بن جائے گی اور ہر رکاوٹ آسانی میں تبدیل ہوجائے گی،وما توفیقی الا باللّٰہ۔
۲۱ویں صدی کا آغاز ایک بہت بڑے المیے سے ہوا___ یعنی ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں دہشت گردی کے واقعات جن کے نتیجے میں دنیا ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی، تہذیبی اور معاشی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ بلاشبہہ دہشت گردی کا یہ واقعہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے لیکن اس واقعے سے بھی زیادہ تباہ کن اقدام اس واقعے کی آڑ میں دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ میں جھونک دینا ہے۔ اب انسانیت دو عظیم مسائل بلکہ خطرات سے دوچار تھی:
اس ضمن میں کم از کم پانچ بھیانک غلطیوں (blunders) کا ارتکاب کیا گیا جن کی سزا پوری انسانیت اور خود امریکا، اس کے عوام، سیاسی نظام اور معیشت بھگت رہے ہیں۔ یہ ہمالیہ سے بھی بڑی غلطیاں یہ تھیں:
۱- دہشت گردی جو سیاسی مقاصد کے لیے احتجاج اور تبدیلی کے لیے ایک ذریعے (tactic) کی حیثیت رکھتی ہے، وہ خواہ کتنی ہی قبیح اور قابلِ مذمت کیوں نہ ہو، اسے محض ایک طریقے اور ایک ہتھیار سے بڑھا کر ایک نظریے، ایک فلسفے اور ایک تحریک کی شکل دے دی گئی اور ایک ’خیال‘ (abstract phenomenon) کو دشمن قرار دے کر جنگ کا ہدف بنا دیا گیا۔
۲- دہشت گردی اور قوت کے استعمال کی بے شمار شکلیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خصوصیات، ذرائع، اسباب اور اہداف ہیں۔ لیکن اس جنگ کے جنون میں ان سب مختلف النوع قسم کے تشدد کے استعمالات کو ایک شے تصور کرلیا گیا اور اس غلط طور پر جمع کرنے (flawed aggregation) کی وجہ سے پورا معاملہ اتنا اُلجھ گیا کہ ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی___ کی سی صورت حال پیدا ہوتی گئی اور اب ڈور کے سلجھنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا۔
۳- دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کے اعلان سے ملکی سلامتی کے تصورات، جنگ و صلح کے عالمی قوانین، ملک میں دستوری اور قانونی نظام، جرم و سزا کے معروف اصول و قواعد، آزادی، بنیادی حقوق، تفتیش کے معروف ضوابط، حتیٰ کہ نجی زندگی (privacy) کی حفاظت تک کے بارے میں سارے اصول اور آداب غیرمتعلق ہوگئے اور دنیا کو ایک نئی بربریت کی طرف دھکیل دیا گیا اور عملاً امریکا اور پھر اس کے اتحادیوں نے جن میں یورپ کی ناٹو اقوام کے علاوہ خود مسلمان ملکوں کے متعدد حکمران شریک ہیں، گذشتہ ۸ سال میں صرف عراق، افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں ہی میں تباہی نہیں مچائی بلکہ پوری دنیا کو نہایت غیرمحفوظ بنا دیا۔ ہر قانون اور ہر ضابطہ اس جنگ کے نام پر پامال کیا گیا اورکیا جا رہا ہے۔
۴- جنگ کے اس نئے تصور اور حالات کی اس تعبیر کا ایک تباہ کن نتیجہ یہ رونما ہوا کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک ہی ہتھیار مؤثر قرار دیا گیا اور وہ تھا فوجی قوت کا بے محابا استعمال۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اس سلسلے کے سب سے اہم پہلو___ یعنی دہشت گردی کے اسباب کو بالکل غیرمتعلق قرار دے دیا گیا اور سارا ہدف نام نہاد دہشت گردوں کی تلاش، ان کے معاونین اور مالی سرپرستوں کی سرکوبی، ان ممالک میں فوج کشی جن پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام تھا___ ان سب کو تہِ تیغ کرنا اور قوت سے ختم (exterminate) کرنا ، مقابلے کی صحیح حکمت عملی قرار پائے اور اس پر امریکی صدر بش نے دنیا پر ایک عالمی جنگ مسلط کردی۔ اسباب سے توجہ کا ہٹنا اور ایک نامعلوم گروہ کا قوت سے خاتمہ اس ردعمل کا سب سے تباہ کن پہلو بن گیا۔
۵- پانچویں اور آخری لیکن انسانی اور تہذیبی اعتبار سے نہایت تباہ کن غلطی یہ واقع ہوئی کہ صدر بش نے اپنے صہیونی اور نو قدامت پسند (neo-cons) مشیروں اور پالیسی سازوں کے زیراثر القاعدہ کے نام پر جنگ کا رُخ مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کی طرف پھیر دیا اور اس طرح یہ صلیبی جنگ کا روپ دھار گئی۔ جہاد اور جہادی کلچر کو اصل ہدف بنایا گیا، ان تحریکات کو لپیٹنے کی کوشش کی جو اسلام کے نظامِ حیات کو قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور خود اسلام کو نت نئے ناموں سے مطعون کیا جانے لگا۔ جسے پہلے صرف بنیاد پرست (fundamentalist) کہا جاتا تھا وہ انقلابی اسلام (radical Islam) بنا، پھر اسے اسلامی فسطائیت (Islamic fascism) کا نام دیا گیا اور بالآخر اسلامی دہشت گردی قرار دیا۔ اسلام کی ’اصلاح‘ (reformation) کے نام پر یہ جنگ اسلام کے اصول و اہداف کی ایسی تراش خراش سے عبارت ہے جو اسے مغربی اقوام کے لیے قابلِ قبول بلکہ تر نوالہ بنا دے۔
اس پورے منظرنامے کے بنانے میں مرکزی کردار امریکی صدر جارج بش اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ لیکن یہ پوری جنگ اور اس کے پیچھے کام کرنے والی فکر اور حکمت عملی ان ۸ برسوں میں جس بُری طرح ناکام ہوئی ہے اس کا مظہر وہ نفرت ہے جو پوری دنیا میں بشمول امریکا بش کے حصے میں آئی ہے۔ صدر اوباما کی کامیابی اور اس کے مرکزی تصور یعنی تبدیلی کا تعلق محض ایک فرد کی تبدیلی سے نہ تھا بلکہ ایک پوری فکر، حکمت عملی اور پالیسیوں کے مجموعے سے تھا۔ امریکا میں بش کی مقبولیت ۸۰ فی صد سے کم ہوکر ۱۸ فی صد پر آگئی اور بھارت، اسرائیل اور ایک دو افریقی ممالک کو چھوڑ کر تمام دنیا میں اور خصوصیت سے مسلم دنیا کے ۸۰ سے ۹۰ فی صد افراد نے اس سے نفرت اور بے زاری کا اظہار کیا ہے۱؎ اور جس ذلت کے ساتھ بش کی صدارت کا خاتمہ ہوا ہے وہ دکھی انسانیت کی بددعائوں کا مظہر اور بش کی حکمت عملی کی ناکامیوں کا آئینہ (index) ہے۔
اس سلسلے میں چند چیزیں قابلِ ذکر ہیں جو تاریخ کا حصہ اور خودپسند اور غلط کار حکمرانوں کے لیے عبرت کا سامان ہیں:
۱؎ ملاحظہ ہو، The Pew Global Attitude Project کا ۱۸ دسمبر ۲۰۰۸ء کا سروے "Global Public Opinion in Bush Years (2001-2008)
۱- فکری اعتبار سے دنیا کے دانش ور اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے اربابِ قلم تو
دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور اسے ایک باطل تصور اور شیطانی حربہ قرار دے رہے تھے، لیکن بش کے صدارت سے فارغ ہونے سے ۵ دن قبل برطانیہ، جو اس جنگ میں بش کا سب سے بڑا شریک اور معاون تھا، کے وزیرخارجہ جناب ڈیوڈ ملی بینڈ کا مضمون لندن کے اخبار دی گارڈین میں شائع ہوا اور اسی دن ممبئی میں موصوف نے انھی خیالات کا اظہار ایک تقریر میں کیا جو دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کی حکمت عملی کی ناکامی کا بھرپور اعتراف اور بش کے پورے دورِ حکومت اور اس کی پالیسیوں کے لیے ایک عبرت ناک لوحِ قبر کا درجہ رکھتا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس مضمون کی تاریخ اشاعت اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ مضمون کا عنوان ہے: War on Terror Was Wrong
اس مضمون کے چند اقتباسات خصوصی غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں:
نائن الیون کے ۷سال بعد اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہمیں انتہاپسندی اور اس کے خوف ناک پھل (offspring) دہشت گرد تشدد کو روکنے کی اپنی کوششوں کا ایک بنیادی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے تصور نے ہی پورے نقشے کو مرتب کیا ہے۔ الفاظ کے اس مجموعے میں کچھ وزن ہے اور اس نے خطرات کی سنگینی، اتحاد کی ضرورت اور جہاں ضروری ہو طاقت کے ساتھ جواب دینے کی فوری ضرورت کا احاطہ کرلیا ہے۔ مگر آخری تجزیے یہ تصور گمراہ کن اور غلط ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا ہمیں دہشت گردی کی جڑوں پر اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے قومی حدود سے ماورا ایک واحد دشمن کا تصور دیا جو اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی شکل میں موجود تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے محرکات اور شناختیں مختلف ہیں۔ لشکرِطیبہ کی جڑیں پاکستان میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد (cause) کشمیر ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف مزاحمت کی علَم بردار ہے۔ عراق کے شیعہ اور سنی باغی گروپوں کے مختلف اور کثیرجہتی مطالبات ہیں۔ یہ اتنے مختلف ہیں جیسے ۷۰ کے عشرے کی IRA ، Bader-Meinhof اور Eta کی یورپی دہشت گرد تحریکوں کے تھے۔ سب نے دہشت گردی کو استعمال کیا اور بسااوقات ایک دوسرے کی مدد پہنچائی۔ ان کے مقاصد ایک نہیں تھے لیکن ان کا تعاون موقع دیکھ کر تھا۔ یہی صورت آج بھی ہے۔
جتنا زیادہ ہم دہشت گرد گروپوں کو اکٹھا کردیں اور اعتدال پسندوں اور انتہاپسندوں، یا خیراور شر، کے درمیان آمنے سامنے لڑائی کی لکیر کھینچ دیں اتنا ہی زیادہ ہم ان لوگوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں جو ان گروہوں کو متحدکرنا چاہتے ہیں جن میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو اسلحے یا مالیات کی فراہمی روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو دکھا کر اور ان کے پیروکاروں کو جمہوری سیاست میں لاکر ان سے ان کی جڑوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں یہ بھی مضمر تھا کہ صحیح ردعمل اولیں طور پر فوجی ہے۔ لیکن جیساکہ جنرل پیٹریاس نے مجھ سے اور دوسروںسے عراق میں کہا کہ اتحاد، بغاوت اور خانہ جنگی کے مسائل درمیان اپنا راستہ قتل کرکے نہیں نکال سکتا۔
ہمیں دہشت گردی کا مقابلہ قانون کی حکمرانی کا علَم بردار ہوکر کرنا چاہیے نہ کہ اس کی اہمیت ختم کرکے اس لیے کہ یہ جمہوری معاشرے کا بنیادی پتھر(corner stone) ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں اور بیرونی ممالک میں حقوقِ انسانی اور شہری آزادیوں کے اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ یقینا یہ گوانتانامو کا سبق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے منتخب صدر اوباما کے اسے بند کرنے کے وعدے کو خوش آمدید کہا ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا بلاوا جنگ کے لیے تھا۔ یہ ایک کوشش تھی کہ سب کے مشترک واحد دشمن کے خلاف اتحاد قائم کیا جائے۔ لیکن عوام اور قوموں کے درمیان اتحاد کی بنیاد اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کس کے مخالف ہیں بلکہ اس نظریے پر ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور ہماری مشترک اقدار کیا ہیں۔ دہشت گردوں کی یہ کامیابی ہے کہ وہ ملکوں کو خوف زدہ اور انتقام پر آمادہ کردیں۔ جب وہ افتراق اور دشمنی کے بیج بو دیتے ہیں، جب وہ ملکوں کو تشدد اور جبر سے جواب دینے پر مجبور کردیتے ہیں، تب وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ بہترین ردعمل یہ ہے کہ دبائو میں آنے سے انکار کر دیا جائے۔
اس بنیادی مقدمے (thesis) کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ممبئی کے واقعات کی روشنی میں اصل مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ پاکستان کی قیادت نے اپنی نادانی، ذہنی ژولیدگی یا بزدلی کی وجہ سے اس سلگتے ہوئے مسئلے کو اٹھانے سے احتراز کیا لیکن ملی بینڈ نے لندن اور ممبئی دونوں مقامات پر اس ’اَن کہی‘ کا صاف اظہار کر ہی دیا، جس سے بھارت کی قیادت آتش زیرپا ہے۔۱؎ اس نے کہا:
یہ وہ چیز ہے جو غزہ میں فوجی اقدام کے حامیوں اور مخالفین کو جدا کرتی ہے۔ ممبئی حملوں کے ردعمل پر بحث سے بھی اسی طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ جو ذمہ دار تھے انھیں انصاف کے کٹہرے میں آنا چاہیے اور حکومتِ پاکستان کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے پورے نظام کو توڑنے کے لیے مؤثر اور فوری اقدام کرنے چاہییں۔ لیکن گذشتہ ہفتے جنوبی ایشیا میں اپنے دورے کے دوران میں اس بات کے حق میں دلائل دیتا رہا کہ دہشت گرد حملوں کا بہترین تریاق طویل المیعاد تعاون باہمی ہے۔ میں موجودہ مشکلات کو سمجھتا ہوں لیکن کشمیر کے تنازعے کا حل علاقے کے انتہاپسندوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے بڑے سبب سے محروم کردے گا، اور پاکستانی حکمران اپنی مغربی سرحدوں پر خطرات کا اچھی طرح مقابلہ کرسکیں گے۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۵ جنوری ۲۰۰۹ء)
برطانیہ کے وزیرخارجہ ٹونی بلیر کی حکومت میں بھی وزیر تھے، ان سے یہ کہنے کو تو ضرور دل چاہتا ہے کہ ع
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
۱؎ بھارتی وزیراعظم نے اظہار ناراضی کے لیے اپنے برطانوی ہم منصب کو خط لکھا اور دہلی آئے ہوئے برطانوی وزیردفاع سے ملاقات نہ کی لیکن برطانیہ کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان دیا کہ وزیر خارجہ کابیان برطانیہ کی حکومتی پالیسی کے مطابق تھا۔
مگر حقیقت ہے کہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا اس سے زیادہ صاف الفاظ میں اعتراف مشکل ہے۔ یورپ کے ممالک کے کئی حکمران بھی اب یہ بات کہہ رہے ہیں اور افغانستان میں ناٹو کے سیکرٹری جنرل ہوپ شیفر نے واشنگٹن پوسٹ (۱۷ جنوری ۲۰۰۹ء) کی اشاعت میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:
ہم جامع طرزِعمل کی صرف زبانی تعریف (lip service) پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ صرف طاقت سے افغانستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہم ناکافی وسائل اور عوام کی طرف سے ربط کی کمی کی وجہ سے فوجی آپریشن کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت ہے کہ زیادہ کوشش کی جائے: پولیس کو تقویت دینے کے لیے، ترقیاتی امداد کو باہم مربوط کرنے کے لیے، اور افغانستان میں امریکی مشن کی تعداد کو بڑھانے (beef up) کے لیے۔ بے حد اہم ہے کہ افغان حکمران ایک مستعد اور کرپشن سے پاک حکومت قائم کرنے کا مشکل فیصلہ کریں، جس پر عوام کو اعتماد ہو۔ ان دائروں میں ترقی میں جتنی دیر ہوگی فوجی آپریشن کی بھی اتنی دیر ضرورت رہے گی اور اس کی قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔
موصوف کی نگاہ میں افغانستان میں طالبان اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ کرزئی حکومت اور امریکا کی سرپرستی ہے:
لیکن افغانستان کا دیانت دارانہ جائزہ اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ ہم وہاں نہیں پہنچے ہیں جہاں اب تک پہنچنے کی ہمیں اُمید تھی۔ ملک کے شمال اور مغرب میں تو بڑی حد تک امن ہے اور حالات بہتر ہورہے ہیں لیکن مغرب اور مشرق میں، بغاوت، منشیات اور غیرمؤثر حکومت کی کارفرمائی ہے۔ اپنے ملک کی تعمیرو ترقی میں کمی کی وجہ سے ان کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور جن ملکوں نے ناٹو کی سربراہی میں کام کرنے والے مشن کے تحت اپنی فوجیں بھیجی ہیں ان کے عوام بھی پریشان ہیں کہ یہ آپریشن کتنی دیر تک چلے گا اور کتنے نوجوان مرد اور عورتیں مزید اس میں اپنی جانیں کھو بیٹھیں گے۔ افغانستان کا بنیادی مسئلہ طالبان کا زیادہ ہونا نہیں، بلکہ اچھی حکمرانی کا بہت کم ہونا ہے۔ افغانوں کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ان کی وفاداری اور اعتماد کی مستحق ہو۔ جب ایسا ہوگا تو بغاوت خود ہی آکسیجن سے محروم ہوجائے گی۔
اور تو اور اب خود کرزئی صاحب بھی گویا ہوئے ہیں۔ کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی نے یہ بیانات دیے ہیں (ڈیلی ٹائمز، ۲۱ جنوری ۲۰۰۹ء) کہ مغرب کو دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے۔ بیانات کا عنوان ہے:
کرزئی کا مغرب سے جنگ کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ۔ افغان سینیٹ کے اسپیکر نے کہا کہ اگر مغرب نے احتیاط نہ برتی تو قوم اُٹھ کھڑی ہوگی۔
افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کو مغرب سے طالبان سے لڑنے کی اور امداد فراہم کرنے کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیرونی افواج کا شہری آبادی کو قتل کرنا افغانستان میں عدمِ استحکام کی بڑی وجہ ہے۔
سیکورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں گذشتہ برس ۲ہزار شہری مارے گئے۔ مجموعی طور پر ۲۰۰۸ء میں کُل ۵ ہزار افراد قتل کیے گئے۔ سینیٹ کے اسپیکر صبغت اللہ مجددی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر شہری ہلاکتوں کو نہ روکا گیا تو مزید بے چینی پیدا ہوگی۔ ہم بھر پائے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اللہ نہ کرے کہ افغان قوم کھڑی ہوجائے۔ میں نے اپنے امریکی بھائیوں اور دوستوں سے کہا ہے کہ وہ احتیاط برتیں۔ اگر قوم کھڑی ہوگئی تو حالات عراق سے بدتر ہوں گے۔
کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی صاحب کی تقاریر افغانستان کی پارلیمنٹ میں کی گئی ہیں۔ فوجی قوت کے استعمال کی حکمت عملی ہر جگہ ناکام رہی ہے (یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ناکامی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات پائی جائے بہتر ہے)۔ یہ بش کی ناکامی کا فکری، تجزیاتی اور سیاسی قیادت کی سطح پر اعتراف ہے۔ اس پالیسی کو اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جانا چاہیے۔
۲- دوسرا واقعہ جس کے حسن و قبح میں جائے بغیر اس کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اب ایک تاریخی علامت (symbol) کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ وہ واقعہ دسمبر میں بغداد کی پریس کانفرنس میں صحافی زید المنتظری کی جانب سے صدربش کا دو جوتوں سے استقبال ہے جو امریکا کے خلاف نفرت اور اس کی پالیسیوں کی عالم گیر ناکامی کا مظہر ہے۔ نیز ’جوتا پاشی‘ کے موقع پر جو جملے اس نے کہے وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں عام انسانوں خصوصیت سے عرب اور دنیاے اسلام کے عوام کے جذبات کے آئینہ دار ہیں جن میں عراق پر تسلط اور معصوموں کے خون بہانے پر چارج شیٹ کیا گیا۔ پھر جوتے کے ذریعے بش کی رخصتی کی اس ریت کی عالمی طور پر جو پذیرائی ہوئی ہے وہ عوامی ردعمل کا بھرپور اظہار ہے۔ خود امریکا میں ہزاروں احتجاج کرنے والوں نے بش کے فوٹو اور وائٹ ہائوس پر جوتوں کی بارش کر کے بغداد کے پیغام کو امریکا میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا۔ جوتوں کی اس عالم گیر بارش نے وہ کام کردکھایا جو توپ و تفنگ اور سیمی نار اور تقاریر نہ کرسکیں۔
۳- تیسرا پہلو وہ معاشی اور مالیاتی بحران ہے جس نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور جو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خرابیوں، مارکیٹ کی حاکمیت کی تباہ کاریوں اور سرمایہ پرستی کے جنون میں دولت مندوں کی سیاہ کاریوں کے ساتھ بش کی معاشی پالیسیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اقتصادی قیمت (economic cost) کا پیداکردہ ہے۔ عسکری ناکامی، سیاسی ناکامی اور پھر معاشی ناکامی___ یہ تینوں بش اور اس کی پالیسیوں کا مقدر بن گئے ہیں۔
چوتھا پہلو وہ بے عزتی ہے جو بش کو اسرائیل کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہے۔ اس کی جو تفصیلات اب امریکی میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی ہیں وہ امریکا کے صدر پر اسرائیلی وزیراعظم کی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ جس ملک کو دنیا کا سب سے امیر اور طاقت ور ملک ہونے کا ادّعا ہے اور جس کے صدر کو دنیا کا طاقت ور ترین شخص کہا جاتا ہے، اسرائیل کے ہاتھوں اس کی کیا درگت بنی ہے، یہ داستان بھی سننے کے اور اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ پر سر دھننے کے لائق ہے کہ جسے چاہے وہ عزت بخشے اور جسے چاہے ذلت کا نمونہ بنا دے۔ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَـآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَـآء (اٰل عمران۳:۲۶)۔ اس واقعہ میں عبرت کے بڑے پہلو ہیں۔
۸جنوری کو اقوام متحدہ میں اسرائیل کی غزہ میں ننگی جارحیت اور حماس کو سبق سکھانے کے نام پر معصوم شہریوں کے کشت وخون، بچوں اور عورتوں کے قتلِ عام، گھروں، دفتروں، مدرسوں اور مسجدوں کو بے دریغ مسمار کرنے کے خلاف عالمی ردعمل کے زیراثر ایک قرارداد کا معاملہ درپیش تھا۔ بڑے ردوکد کے بعد خود کونڈولیزا رائس نے ایک قرارداد پر اتفاق راے کا اظہار کیا اور جیسے ہی اسرائیل کے وزیراعظم کو یہ اطلاع ملی کہ امریکا قرارداد لانے پر تیار ہوگیا ہے، وہ سیخ پا ہوگیا۔ اسرائیل امریکی صدر سے کس طرح ربط قائم کرتا ہے اور کس طرح اس قرارداد پر قرارداد کے محرک کونڈولیزا رائس کو ووٹ دینے سے رکوا لیتا ہے، اس کی روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ زیدالمنتظری کا جوتا تو بش کے نہ لگ سکا لیکن اولمرٹ کا جوتا ٹھیک نشانے پر لگا۔ کاش عالمی میڈیا نے بغداد کے جوتے کی طرح امریکا کے اس جوتے کی منظرکشی بھی ساری دنیا کے سامنے کی ہوتی۔
گائن ڈائر (Gwynne Dyer) اپنے مضمون میں حالات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
اولمرٹ نے ۱۳ جنوری کی جنوبی اسرائیل کے شہر اچکلان کی تقریر میں اس واقعہ کو سرعام یوں بیان کیا گیا ہے: ’’میں نے کہا: میری صدربش سے فون پر بات کرایئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ فلاڈلفیا میں تقریر کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: مجھے اس سے کیا۔ مجھے ان سے ابھی بات کرنا ہے۔ انھوں نے ان کی تقریر رکوائی اور ایک دوسرے کمرے میں انھیں لے کر آئے جہاں میں نے ان سے بات کی۔ میں نے ان سے کہا: آپ اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ انھوں نے کہا: سنو! مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ میں نے اسے نہیں دیکھا، میں اس کے الفاظ سے واقف نہیں، تو وزیراعظم اولمرٹ نے صدر بش سے کہا: میں اس سے واقف ہوں۔ آپ اس کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ بش نے وہی کیا جو اس سے کہا گیا۔ بش نے سیکرٹری آف اسٹیٹس رائس کو آرڈر بھیجا اور اس نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا حالانکہ یہ وہ قرارداد تھی جسے اس نے خود پورا تیار کیا، الفاظ میں ڈھالا، اس کو مربوط کیا اور اس کے لیے حمایت جمع کی۔ وہ خاصی شرمندہ ہوئی اور بالآخر اس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دیا جسے اس نے خود مرتب کیا تھا۔ سلامتی کونسل نے ۱۴ووٹ سے اس قرارداد کو منظور کیا لیکن امریکا جو اس کا مصنف تھا، اس نے اس پر کوئی راے نہ دی۔
صدر بش سے اسرائیل کے وزیراعظم نے اپنی جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے جو کچھ کہا اور کروا لیا وہ کوئی غیر بیان نہیں کر رہاہے۔ یہ اولمرٹ کے اپنے الفاظ میں اور سیکڑوں افراد کی موجودگی میں اپنے کارنامے کا برملا اظہار ہے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا یہ واقعہ ہے کہ اولمرٹ کے اس بیان کے آنے کے بعد صدربش کے دفتر اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کھلبلی مچ گئی اور بڑی چال بازی سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سین میک کارم نے کہا کہ یہ بیان ۱۰۰فی صد درست نہیں ہے اور وہائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا کہ اس میں کچھ باتیں نادرست (inaccuracies) ہیں لیکن دیدہ دلیری ملاحظہ ہو:
امریکا کی اس ملمع سازی کا پردہ چاک کرتے ہوئے بڑی رعونت کے ساتھ اولمرٹ کے دفتر سے روکھا جواب دیا گیا کہ پیر کو جو کچھ ہوا، وزیراعظم نے اس کو بالکل صحیح بیان کیا تھا۔ (امریکا کے ان بیانوں کی) اسے کوئی پروا نہیں۔
ڈائر اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے:
اولمرٹ کی کہانی پر شبہہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ بہت زیادہ چیں بجیں ہوسکتا ہے مگر وہ یہ کہانی کیوں بنائے گا۔ بہرحال اس نے جو چاہا، وہ حاصل کیا، جب کہ بش انتظامیہ کی تردیدوں پر شبہہ کرنے کی ہر وجہ موجود ہے۔ کہانی سے نہ صرف بش کی ذاتی طور پر توہین ہوتی ہے بلکہ یہ ان شبہات کو تقویت دیتی ہے جو پہلے ہی امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں کہ بش کے تحت امریکی کتے کو اسرائیلی دُم مسلسل جھاڑتی رہتی ہے۔ (ڈان، ۲۰جنوری ۲۰۰۹ء)
۵- اس سلسلے کا ایک اور سبق آموز پہلو ۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء کی تقریب حلف برداری اور اس موقع پر صدر اوباما کی تقریر ہے جسے سننے کا شرف بش صاحب کو اپنی صدارت کے خاتمے کے بعد پہلے اعزاز کے طور پر حاصل ہوا اور جس میں ان کی کیفیت ’سنتا جا شرماتا جا‘ والی تھی جس کے خاص خاص پہلوؤں پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مضمون نگار ڈیوڈ سینگر نے Obama Speech Sharply Rebukes Bush Policiesکے عنوان سے اپنے مضمون میں نمایاں کیا ہے۔ اس مضمون سے بھی دو اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں:
بارک اوباما کے افتتاحی خطاب میں جارج ڈبلیو بش کے ۸سالہ دور اور اس کے نظریاتی حوالوں کو یہ عہد کر کے کہ امریکا اپنی سابقہ اقدار کی بازیافت کر کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا، کھلم کھلا مسترد کیا گیا تھا۔
بش اور ڈک چینی اوباما سے چند قدم دُور بیٹھے ہوں تو ایک نازک کام تھا۔
مضمون نگار بش کی کس مپرسی کا نقشہ یوں پیش کرتا ہے:
پھر بھی اس نے جو کچھ کہا، بش کو اس سے ضرور صدمہ ہوا ہوگا۔ تنقید اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں، لیکن گذشتہ ۸ برسوں میں اس نے شاید ہی کبھی اس طرح مجبوری کے عالم میں خاموشی سے بیٹھ کر سنا ہوگا کہ کس طرح امریکا اس کی نگرانی میں پٹڑی سے اُترگیا۔
صدر بش کا دور ختم ہوگیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دور کی حماقتوں، زیادتیوں اور تباہ کاریوں سے دنیا کس طرح اور کتنے وقت میں نجات پاتی ہے۔ اصل امتحان دیگر امور کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو سامراجی کھیل بش انتظامیہ نے کھیلا اور پوری دنیا کو تباہی سے دوچار کردیا اس سے نجات کا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ قیادت بش اور مشرف کی پالیسیوں ہی کو آنکھیں بند کرکے آگے بڑھا رہی ہے اور ملک کے حالات کو مزید خرابی کی طرف لیے جارہی ہے۔ پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی اور جس میں خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری حکمت کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی اور فوجی قوت کی جگہ مذاکرات کے راستے کو اختیار کرنے اور تمام فریقوں (stake holders) کو افہام و تفہیم اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل میں شریک کر کے ملک کی آزادی اور وقار کی بحالی اور اسے موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے واضح راہِ عمل کی نشان دہی کی تھی۔ اس پر عمل کے باب میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ دنیا بش کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے اور بش کے اپنے ساتھی اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے نئی حکمت عملی کی ضرورت اور سیاسی عمل کو متحرک کرنے کی بات کر رہے ہیں اور زرداری حکومت اس تباہ کن پالیسی پر کاربند ہے۔ حالانکہ سنا یہی ہے کہ ع
ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ!
حضرات! اتنی تفصیل مَیں نے اس لیے بیان کی ہے کہ پیش نظر مسئلے کی پوری نوعیت، نزاکت اور اہمیت اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ جو کچھ مَیں نے عرض کیا ہے، اس سے چند باتیں بخوبی واضح ہوجاتی ہیں:
اول: یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں اور اُن کی اس روش میں آیندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے، خصوصاً امریکا کی پُشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔
دوم: یہ کہ اشتراکی بلاک سے کوئی اُمید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے۔ وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعاً کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیار لے سکتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اشتراکیت کا قلادہ اپنی گردن میںڈالیں اور اسلام کو دیس نکالا دے دیں۔
سوم: یہ کہ اقوامِ متحدہ ریزرولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔
چہارم: یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے۲۲ سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے۔
ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجدِاقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجداقصیٰ کے سانحے سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صہیونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جب کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ ۶۰لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ۷۰، ۷۵ کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی ۳۰-۳۲ حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے سربراہ اگر سرجوڑ کر بیٹھیں، اور روے زمین کے ہرگوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان و مال کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس مسئلے کو حل کرلینا، ان شاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔
اس سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجداقصیٰ محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے، اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفر سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی ۱۹۱۷ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انھیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبروظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بناکر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی ایک کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود بجاے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور عالمِ اسلامی کے لیے اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پُرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں، اور باہر سے آئے ہوئے اُن غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکا، جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر، اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالاے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کر رہا ہے، تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کوصاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اُس کے لیے کوئی ادنیٰ درجے کا بھی جذبۂ خیرسگالی باقی رہ جائے۔ اب وہ خود فیصلہ کرلے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔ (سانحۂ مسجداقصٰی، ص ۱۸-۲۰، ناشر: ادارہ ترجمان القرآن، لاہور)
حضرت تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ہم نے پوچھا:کس کے لیے؟ آپؐ نے فرمایا:اللہ کے لیے،اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے،مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے‘‘۔ (مسلم، کتاب الایمان،باب بیان أن الدین النصیحۃ:۹۵)
عربی زبان میں اَلنَّصِیْحَۃُ اخلاص کو کہتے ہیں ۔لغت میں نُصْحاً کے معنی خالص ہونا،جیسے نَ صَحَ الشَّیْیئُ: خالص ہونا،بے غل و غش ہونا۔ اسی طرح نَصَحَ الْقَلْبُ،دل کا کھوٹ وغیرہ سے پاک ہونا اور نَصَحَ لَہٗ، یعنی ایسی بات کرنا جس سے محبت اور شفقت کا اظہار ہو رہا ہو، جو اس کے شایان شان اور موافق ہو اور جس سے اس کو کوئی ضرر لاحق نہ ہو رہا ہو۔
یہ حدیث عظیم الشان مرتبے کی حامل ہے۔علما نے لکھا ہے کہ یہ حدیث ان چار حدیثوں میں سے ایک ہے جو اسلام کے تمام امور کی جامع ہیں اور جن پر اسلام کا دارومدار ہے۔(مسلم شرح النووی ،ص ۳۷، ج ۱، جز۲)
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جب اللہ کے رسولؐ کی یہ حدیث سنی تو انھوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول !یہ خلوص اور خیر خواہی کا جذبہ ہم اپنے دلوں کے اندر کس کے لیے پیدا کریں؟ اللہ کے رسولؐ نے ترتیب کے ساتھ پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا۔
اللہ کے لیے خلوص کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کو ایک جانیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اسی طرح اللہ کی صفات کو اسی کے لیے مختص کریں، جیسے خالق،مالک،رازق،حافظ، رحمن، رحیم، حیّ،قیوم وغیرہ صفات اسی کے شایانِ شان ہیں۔قرآن شریف میں بے شمار مواقع پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔کوئی بھی مخلوق ان صفات کی متحمل نہیں ہو سکتی،جیسے سورۂ حشر کی یہ تین آیات:
ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ج ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُo ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ج اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ ط سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ط یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (الحشر۵۹:۲۲-۲۴) وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا ،وہی رحمن اور رحیم ہے ۔وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا،نگہبان،سب پر غالب،اپنا حکم بہ زور نافذ کرنے والا،اور بڑا ہی ہوکر رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والااور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے،اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔
اللہ کو ہی قانون ساز تسلیم کرنا،اسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ،اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنا، یہ سب اسی اخلاص کے مظاہر ہیں۔اسی بات کو اللہ کے رسولؐ نے ایک چھو ٹے سے فقرے میں یوں بیان کیا ہے: ’’میں اللہ کے رب ہونے پر راضی ہوا‘‘ (مسلم، کتاب الایمان)،یعنی اس اقرار کے بعد اگر پوری دنیا میری مخالف ہو جائے تب بھی میں اس عہد سے نہ پھروں گا۔اللہ کو رب تسلیم کرنے کا مطلب اللہ کے سوا تمام معبودوں کا انکارہے ،چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں۔ اللہ کو رب تسلیم کرنے کے بعد جو کیفیت ایک بندے کی ہوتی ہے،اس کا بیان اس آیت میں ہوا ہے: اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام۶:۱۶۲) ’’بے شک میری نماز، اورمیرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ یہ تمام اعما ل ادا کرتے ہوئے اسے کسی اور کی خوشی اور رضا مطلوب نہیں ہوتی،اسے کسی کے انعام و اکرام کا لالچ نہیں ہوتا،اور وہ اللہ کی محبت پر کسی کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔
گویا اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اللہ کی بندگی میں گزرتا ہے ۔ تمام معاملات میں وہ اپنی خواہشات کا پیرو نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے رب نے جس چیز کے کرنے کا حکم دیا ہے،اس پربغیر کسی لیت و لعل کے عمل کرتا ہے اور اس کے رب نے جس چیز سے بھی روکاہے اس سے رک جاتا ہے : اذْ قَالَ لَہُ رَبُّـہٗٓ اَسْلِمْ لا قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (البقرۃ ۲:۱۳۱) ’’جب اس کے رب نے اس سے کہا :’’مسلم ہو جا‘‘،تو اس نے فوراً کہا:’’میں مالک کائنات کا مسلم ہوگیا‘‘۔
اگر کسی کے اندر واقعی یہ کیفیت پیدا ہو،تو یہی دراصل اللہ کے لیے نصح اور خیر خواہی ہے۔
اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر ایمان لایا جائے کہ یہ کتاب اللہ کی نازل کردہ ہے جس کو اللہ نے اپنے برگزیدہ فرشتے کے ذریعے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔ اس میں کسی طرح کی کوئی ٹیڑھ نہ رکھی:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہٗ عِوَجًا o (الکہف ۱۸:۱) تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔
اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجایش نہیں۔ اگر کوئی چیز انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تو وہ یہی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے تمام احکام کو بے چوں و چرا تسلیم کیا جائے ،اور ان میں تھوڑی سی بھی تبدیلی کو گوارا نہ کیا جائے۔ عملی طور پر اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ اس کی تلاوت اس طرح کی جائے جیسا کہ اس کا حق ہے: الَّذِیْنَ اٰتَیْْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہٗ حَقَّ تِلاَوَتِہٖ ط (البقرۃ ۲:۱۲۱) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے‘‘۔اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے،اس کو یادکیا جائے ،اس کی حقیقی دعوت کو عام کیا جائے،اس کے احکام سے انسانوں کو آگاہ کیا جائے،اور ان کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے۔اگر صرف کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے اور اس کے بقیہ حقوق سے سبکدوشی اختیار کی جائے، یا اس کو چھوڑ کر انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے ساتھ اتنی عقیدت برتی جائے کہ کلام اللہ کی عقیدت ماند پڑ جائے تو یہ قرآن کے ساتھ خیر خواہی نہیں بلکہ زیادتی ہے۔انھی لوگوں کے بارے میں قیامت میں کہا جائے گا :
وَقَالَ الرَّسُولُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا o (الفرقان ۲۵:۳۰) اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ،میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا لیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کیا جائے، آپ ؐ کی تمام تعلیمات پر صدق ِ دل سے ایمان لایا جائے،آپ ؐ کے اوامر و نواہی کی اطاعت کی جائے اور آپ ؐ کے لائے ہوئے دین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہا جائے ۔ ان لوگوں کو دشمن سمجھا جائے جو اللہ کے رسول ؐ کے ساتھ دشمنی کرتے ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کیے جائیں جو اللہ کے رسول ؐ کے ساتھ دل و جان سے محبت کرتے ہوں۔ اللہ کے رسول ؐ کی عزت و توقیر کی جائے ،آپؐ کی سنتوں کو زندہ کیا جائے،آ پؐ کی لائی ہوئی شریعت کی طرف دعوت دی جائے اور اس کی اشاعت کی جائے۔آپ ؐ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات و اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیاجائے ۔دراصل یہ تمام چیزیں آپ ؐ کی خیر خواہی کے اجزا ہیں۔
آپ ؐ کے علوم کی نشر و اشاعت کرنا اور ان میںغور و فکر کرنا ،لوگوں کو اس کی طرف بلانا اور ان کو سیکھنا اور سکھانا اور احادیث کے دروس کے وقت ادب و اکرام کا مظاہرہ کرنا ،اور خاموشی کے ساتھ سننا بھی اس میں شامل ہیں۔آپ ؐ کے اہل بیت اور صحابہ ؓ کی محبت اپنے دلوں میں پیداکرنااورجو شخص آپ ؐ کی لائی ہوئی شریعت میں بدعت کا مرتکب ہو رہا ہو اس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا بھی اسی کے مظاہر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ؐ کی محبت کو تمام محبتوں پر غالب رکھنا کمالِ ایمان اور کمالِ اخلاص کی دلیل ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہے جب تک کہ میں اسے اس کے والدین،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘(بخاری)۔ اپنی تمام خواہشات کو اللہ کے رسول ؐ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع کرنا ایمان کو مزید پختگی بخشتا ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہیں ہوجاتیں‘‘۔
ائمہ سے مراد مسلمانوں کے خلفا اور ان کے اُمرا ہیں۔ ان کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی معاونت کی جائے۔اگر ان سے کبھی صحیح راستے سے انحراف ہو رہا ہو تو نرمی کے ساتھ عوام میں مشتہر کیے بغیر ان کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص کسی حکمران کو کسی چیز کی نصیحت کرنا چاہے تو علانیہ اس کا اظہار نہ کرے ،بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کراسے تنہائی میں نصیحت کرے۔اگر اس نے قبول کی تو بہتر،ورنہ تم نے اس کے بارے میں اپنی ذمہ داری ادا کر ہی دی‘‘۔ (مسند احمد)
رہے وہ حکمران جو سیکولر نظام اور کفار کے آلۂ کار اور ان کی مرضی کے مطابق چلنے والے ہوں، ان کا حکم یہ ہے کہ ان کی سخت اور علانیہ مخالفت کی جائے، انھیں روکا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے بدل دے۔ اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے، اور اگر اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو دل سے، اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے‘‘۔ (مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے: ’’اللہ عام لوگوں کو خاص لوگوں کے عمل کی سزا اس وقت تک نہیں دیتا جب تک ان میں یہ غلط رواداری پیدا نہ ہوجائے کہ بدی کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھیں اور اس کو روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ (مسنداحمد)
حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھیں بے وقوفوں کی حکمرانی سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ حکمران ہیں جو میرے بعد ہوں گے۔ جو ان کے پاس جائے گا اور ان کے جھوٹ میں ان کی اعانت کرے گا وہ مجھ سے نہیں اور وہ میرے حوض پر میرے پاس نہیں آئے گا، اور جو ان کا ساتھ نہ دیں، ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کریں اور ان کے ظلم میں ان کے ساتھ تعاون نہ کریں تو یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے۔ یہ میرے حوض پر میرے پاس آئیںگے۔ (ترمذی، نسائی)
عام مسلمانوں سے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچانے سے گریز کیا جائے ۔ان کے جو بھی حقوق ہوں، انھیں ادا کیا جائے، مثلاً ہمسایہ ہو تو اس کے ساتھ کسی ظلم و جبر کا معاملہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہ ہو‘‘۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم ایذاء الجار،۱۷۲)
مہمان کے بارے میں فرمایا: ’’جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘‘(بخاری ،کتاب الادب،باب اکرام الضیف:۶۱۳۵)۔ اسی طرح اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم دی جائے، کمزوروں کی مدد کی جائے،یتیموں اور مسکینوں کے مسائل میں دل چسپی لی جائے، اپنے قول و فعل سے ان کی مدد کی جائے اور ان کے عیوب کو چھپایا جائے۔بڑوں سے عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا معاملہ کیا جائے۔اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔(ترمذی)
اسی طرح عام لوگوں کو بہترین نصیحت کی جائے،ان کو معروف کا حکم اور منکر سے روکنے کی کوشش کی جائے، اور اس کام میں نرمی،اخلاص، شفقت اور محبت کا اظہار ہو۔ان کے ساتھ بُغض اور حسد نہ رکھا جائے (بخاری)۔ ان کو دھوکا نہ دیا جائے، اس لیے کہ ’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ (مسلم)۔ اسی طرح ان کے لیے خیر میں وہی چیز پسند کرنا جو انسان خود کے لیے پسند کرتا ہو،اور ان کے لیے شرکو نا پسند کرنا جس طرح اپنے لیے شر کو ناپسند کرتا ہو۔
اللہ کے رسول ؐنے مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر ۶ حقوق ہیں۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ؐ، وہ کون سے ہیں؟آپؐ نے فرمایا:
۱-جب اس سے ملو تو اس کو سلام کرو۔
۲- جب وہ تمھیں بلائے(دعوت دے)تو اس کی دعوت پر لبیک کہو۔
۳- جب وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو اسے مشورہ دو۔
۴- جب اس کو چھینک آئے ،وہ الحمد للّٰہ کہے تو تم اس کے جواب میں یرحمک اللّٰہ (اللہ تم پر رحم کرے)کہو۔
۵- جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو۔
۶-جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو‘‘۔ (مسند احمد)
ان حقوق کا ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اتنے ہی حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں، بلکہ یہ ۶ ایسے حقوق ہیں کہ ایک مسلمان کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے،ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے جو شخص ان حقوق کے معاملے میں خیر خواہ ثابت ہو جائے، ان شاء اللہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ باقی تمام معاملات میں بھی نصح اور خیر خواہی اختیار کرے گا۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اندر صحیح معنوں میں نصح اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرے۔
حسبی اللّٰہ ونعم الوکیل …حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل… لاکھوں بے سہارا فلسطینیوں کا صرف یہی ایک سہارا رہ گیا تھا۔ کٹے پھٹے اعضا لیے، ملبے سے نکلتے، خون میں نہائے ہوتے، ایک ہی وقت میں دو دو، تین تین معصوموں کی لاشیں بازوؤں میں سمیٹی ہوتیں، یا ملبے اور لاشوں کے ڈھیر سے اپنے گم شدہ پیاروں کو تلاش کر رہے ہوتے۔ بولتے تو یہی کہتے: حسبی اللّٰہ ونعم الوکیل۔ ذرائع ابلاغ سے بات ہوتی تو گاہے بہ گاہے یہی دعا بددعا کی صورت بھی اختیار کرجاتی: حسبی اللّٰہ علی الحکام العرب… حسبی اللّٰہ علی الیھود ، ’’پروردگار عرب حکمرانوں کے مقابل تو کافی ہوجا… یہودیوں کے مقابلے میں تو ہمارے لیے کافی ہوجا۔ ان حکمرانوں اور یہودیوں سے تو خود نمٹ پروردگار‘‘۔
یہ بات ہر شک سے بالاتر ہے کہ اللہ کی اسی ایک سہارے کے باعث ۳۶۷ مربع کلومیٹر پر مشتمل غز.ّہ میں محصور ۱۵ لاکھ انسان مسلسل ۲۲ دن تک دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر ان مہلک ترین بموں کا عشرعشیر بھی کسی ایسی بڑی سے بڑی اور جدید سے جدید فوج یا ملک پر برسایاجاتا جس کے پاس یہ الٰہی آسرا سہارا نہ ہوتا تو وہ ۲۲ دن نہیں ۲ دن میں ہتھیار ڈال دیتا۔ ۱۹۶۷ء میں یہی اسرائیلی فوج آج سے کہیں کم ہتھیاروں کے ساتھ شام، مصر اور لبنان کی باقاعدہ افواج پر حملہ آور ہوئی، ۶دن کی جنگ میں مصر نے صحراے سینا، شام نے گولان کی پہاڑیاں اور لبنان نے سارا جنوبی حصہ اسرائیلی افواج کے سپرد کر کے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ یہ تینوں ملک مسلمان تھے لیکن ان کی قیادت حسبنا اللّٰہ کے بجاے بڑھکیں لگارہی تھیں۔ مَدَافِعُنَا تَـتَحَدَّی الْقَدَر ، ہماری توپیں تقدیر کو للکارتی ہیں۔
اہلِ غز.ّہ کا ایمان اور اللہ پر مکمل بھروسا رکھنے والی ان کی قیادت وہ اصل خطرہ تھا، جس سے نجات اس پوری خوں ریزی کا اصل ہدف اور اصل سبب تھا۔ جنوری ۲۰۰۶ء کے عام انتخابات میں حماس (حَمَّاس نہیں حَمَاس) کا حصہ لینا ہی قابض یہودی افواج، ان کے پالتو بعض سیاسی لیڈروں اور عالمی استعمار کے لیے سوہانِ روح بن گیا تھا۔ بش اور کونڈولیزا نے واضح طور پر دھمکی دی کہ اگر حماس منتخب ہوئی تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ خدا ہونے کے دعوے داروں کی دھمکیوں کے باوجود عوام نے حماس کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے منتخب کیا اور امریکا و اسرائیل نے فیصلہ دے دیا: ’’ان دہشت گردوں کو جینے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
غز.ّہ کی پٹی تین اطراف سے اسرائیلی افواج کے گھیرے میں ہے۔ ایک جانب مصری صحراے سینا سے ملتی ہے۔ غز.ّہ آنے جانے کے لیے ۷ پھاٹک بنے ہوئے ہیں جن میں سے ۶اسرائیلی تسلط میں ہیں۔ رَفَح کا ایک پھاٹک (گیٹ وے) مصر میں کھلتا ہے۔ گویا پوری مسلم دنیا سے رابطے کا یہی ایک اکلوتا راستہ ہے۔ حماس کی جیت کے بعد رَفَح سمیت یہ ساتوں راستے بند کردیے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سامانِ خوردونوش اور پٹرول و پانی سمیت اہلِ غز.ّہ پر ہرشے حرام ہوگئی۔ غز.ّہ کو بجلی کی فراہمی یا تو مقبوضہ فلسطین سے ہوتی تھی یا خود غز.ّہ میں موجود جنریٹروں کے ذریعے، دشمن نے تو بجلی پانی بند کرنا ہی تھا، مصر کے راستے بھی پٹرول لے جانا جرم قرار پایا۔ جنریٹر بھی بند ہوگئے، غز.ّہ اندھیرے میں ڈوب گیا اور تو اور ہسپتالوں میں مشینوں کے سہارے زندہ مریض بھی بجلی نہ ہونے کے باعث دم توڑنے لگے۔
جلاد کا مطالبہ تھا حماس کا ساتھ چھوڑ دو۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جہاد (اقصیٰ کی آزادی کے لیے جہاد) سے دست بردار ہوجائو۔ ہاں، اگر قبلۂ اول کی آزادی کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی طرح خالی خولی نعرے لگانا چاہو تو لگاتے رہو۔ تمھیں نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ تمھارے لیے انعام کا اعلان (صرف اعلان) کیا جائے گا۔ اہلِ غز.ّہ نے جواب دیا: گذشتہ ۶۰برسوں سے یہی نعرے تو لگا رہے تھے، یاسرعرفات بھی تمھارے دھوکے میں آیا۔ تم نے پہلے اسے امن و بہادری کا نوبل انعام دیا اور پھر فرانس لے جاکر زہر دے دیا۔ دوسری طرف شیخ احمد یٰسین نے تحریکِ انتفاضہ کے ذریعے ہمیں جہاد کا سبق یاد دلایا۔ وہ خود تو شہید ہوگئے لیکن بالآخر ان کی برپاکردہ تحریک کے نتیجے میں تم غز.ّہ کی پٹی سے انخلا پر مجبور ہوگئے۔ خود تمھارے صہیونی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ تحریکِ انتفاضہ نہ ہوتی تو کبھی غز.ّہ سے نہ نکلتے۔
دسمبر ۱۹۸۸ء میں تحریکِ انتفاضہ کی آغوش میں پرورش پانے والی فلسطینی قوم اب مجاہدین کی پوری نسل رکھتی ہے۔ وہی مجاہد نسل جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرمعراج میں مشاہدہ کروایا گیا تھا کہ اس کی فصل جتنی کٹتی ہے، اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ مجاہدین کی فصل نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ بھوک، بے روزگاری، حصار اور غز.ّہ کو عملاً شعب ابی طالب بنا دیے جانے کے باوجود بھی جب حماس ہی آنکھوں کا تارا ٹھیری تو انبیا کی قاتل قوم نے پھر مقتل سجانے کی ٹھانی۔ مکمل تیاری کے بعد ’مناسب‘ وقت کا انتخاب کردیا گیا۔ دسمبر اور جنوری فلسطین میں سخت سردی کا موسم ہوتا ہے۔ فلسطین پر صہیونی قبضے کی تاریخ میں حیرت ناک طور پر اکثر جنگیں، اکثر قتل گاہیں اسی موسم میں سجائی گئیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچائی جاسکے، لیکن اس بار وقت کے انتخاب کی کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔
۱۰فروری کو اسرائیلی انتخابات ہونا ہیں۔ اس میں جیت کے بعد ایہود اولمرٹ کی جگہ وزیرخارجہ سیپی لفنی وزیراعظم بن سکے گی لیکن وزیردفاع باراک اور اپوزیشن لیڈر بنیامین نتن یاہو بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ غز.ّہ پر حملے کے پہلے روز سے اسرائیلی راے عامہ کے جائزے شروع ہوگئے کہ وہ کسے حکمران منتخب کریں گے۔ سروے کے نتائج میں مسلسل تبدیلی کی بنیاد یہی رہی کہ فلسطینیوں کے قتلِ عام میں زیادہ سے زیادہ پیش پیش کون رہتا ہے۔
غز.ّہ پر توڑی جانے والی قیامت اپنی تمام تر ہلاکت خیزی اور توہینِ انسانیت سمیت تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ دنیا یوں ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ صرف غز.ّہ کے ایک لاکھ کے قریب یتیموں، بیوائوں اور زخمیوں کے علاوہ کسی کو ہولناک تباہی یاد نہیں رہی۔ صرف چند لاکھ بے گھر فلسطینی، چیتھڑوں سے سرد ہوائوں اور ان ہوائوں سے پیٹ کی آگ کا سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ باقی دنیا تو حسبِ سابق اپنے معمولات میں غرق ہے یا زیادہ سے زیادہ صہیونی اور ہندو مشیروں میں گھِرے نئے امریکی صدر کے بچپن اور نام کے مختلف حصوں سے امیدیں باندھ رہی ہے۔ ایسے میں جنگ کے مناظر بیان کرنے، زخموں کی بپتا سنانے یا صف در صف پڑے معصوم فلسطینی پھولوں کی لاشوں کا نوحہ کہنا دنیا کے لیے اہم نہیں رہا۔ البتہ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس ساری تباہی سے کسے کیا حاصل ہوا اور مستقبل پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟
خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا جائزہ لیں تو ان کی ایک تعداد اس پر خوشیاں منا رہی ہے کہ خوب تباہی کی… شاباش… مزید تباہی کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اسرائیلی عسکری ماہرین اوردفاعی تجزیہ نگاروں کی اکثریت اعتراف کررہی ہے کہ ہم نے عالمی عوامی نفرت، مزید خطرات اور دشمن کو مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔ موساد کے سابق سربراہ افرایم ھلیفی دونوں پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس کی شان دار کارکردگی نے حماس کو المناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ ایک طرف اس کی عسکری صلاحیت بہت حد تک تباہ کردی ہے، اس کی قیادت کو بے سمت کردیا ہے اور دوسری طرف اسے سنی ممالک مصر، سعودی عرب اور اُردن سے دُور کردیا ہے۔ علوی ریاست شام اور شیعہ طاقتوں ایران و حزب اللہ کو بھی حقیقتاً اس سے الگ کردیا ہے، لیکن ہم مصیبت کے دوسرے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ حماس کو تباہ کرنے کے لیے ہمارا حملہ جتنا شدید تھا، جس طرح اسرائیلی فوج نے اس پر بری، فضائی اوربحری حملوں کے ذریعے آگ کی بارش برسائی، اس سب میں سے حماس بچ نکلی اور اس طرح بچ نکلنے کی کوئی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔ وہ آج پھر کسی دیوہیکل صحرائی پرندے کی طرح ریت جھاڑتے ہوئے ملبے کے ڈھیر میں سے اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور مصر کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے بھی اپنے موقف پر سختی سے جمی ہوئی ہے۔ وہ کسی صورت ہار ماننے کے لیے تیار نہیں‘‘۔ (روزنامہ یدیعوت، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء)
اسی اخبار میں ’ناحوم برنیاع‘ غز.ّہ سے اسرائیلی انخلا کے متنازع فیصلے پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے شارون اور دیگر صہیونی ذمہ داران کے موقف کا تجزیہ کرتا ہے اور آخر میں تان اس جملے پر توڑتا ہے: ’’ہم غز.ّہ سے مکمل قطع تعلقی نہیں کرسکتے، نہ غز.ّہ پر آیندہ کسی صورت دوبارہ قبضہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ غز.ّہ اسرائیل کے حلق میں کانٹے کی صورت اٹکا رہے گا، نہ تو اسے نگلا جاسکے گا اور نہ اُگلا جاسکے گا۔ نہ اسے مارا جاسکے گا، نہ اسے جینے دیا جائے گا۔ گاہے بہ گاہے جنگ کی آگ بھڑکتی رہے گی تاکہ ہمیں بھی یاد رہے اور انھیں بھی کہ ان کا اور ہمارا تعلق کس قدر المناک ہوسکتا ہے‘‘۔
اسرائیل کے دو چوٹی کے دانش وروں ا. ب. یہوشع اور جدعون لیفنی کے درمیان روزنامہ ھآرٹز کے صفحات پر باقاعدہ بحث ہوئی اور کھلے خطوط کا تبادلہ ہوا ہے۔ بائیں بازو کے صحافی جِدعون نے ہلاکت آمیز اور بے فائدہ جنگ کی مخالفت و مذمت کی ہے، جب کہ یہوشع نے اسرائیلی موقف کی ترجمانی کی ہے۔ جِدعون اپنے کھلے خط کے آخر میں لکھتا ہے: ’’آپ کی نگاہ میں اس طرح کی جنگ ہی ان پر اثرانداز ہونے کا اکلوتا ذریعہ رہ گئی ہے۔ تعلّی پر مبنی اس جملے پر کوئی تبصرہ کیے بغیر میں آپ جیسے چوٹی کے لکھاری سے اس سے بہتر کی توقع رکھتا تھا۔ میں آپ جیسی محترم شخصیت سے توقع رکھتا تھا کہ وہ آزادی کی جنگوں کی تاریخ جانتا ہوگا۔ اسے معلوم ہوگا کہ جنگ ِآزادی کو کبھی طاقت سے نہیں کچلا جاسکتا۔ ہم نے اس جنگ میں جو تباہ کن اسلحہ استعمال کیا ہے، میرا نہیں خیال کہ ہمارے مخالفین اس سے مرعوب ہوئے ہیں۔القسام میزائل اب بھی فائر ہورہے ہیں، لیکن اب حماس اور پوری دنیا ایک بات پر ایمان رکھتی ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل ایک خطرناک، متشدد اور بے لگام ریاست ہے۔ کیا آپ اس شہرت کی حامل ریاست میں رہنا پسند کرتے ہیں؟ ایسی ریاست میں کہ جو اپنے بارے میں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہو کہ ’’گھر کا سربراہ پاگل ہوگیا ہے‘‘۔ میں تو ایسی ریاست میں نہیں رہنا چاہتا‘‘ (روزنامہ ھآرٹز، ۱۹ جنوری)
جِدعون نے ۲۲ جنوری کے شمارے میں بھی ایک مفصل مضمون لکھا ہے: Gaza War Ended in Utter Failure for Israel (غزہ کی جنگ: اسرائیل کی سراسر ناکامی پر ختم ہوئی) اس نے اسرائیل کی چار بڑی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا ہے: ’’آخرکار ہم نے حاصل کیا کیا؟‘‘ اسرائیل کے اعلان کردہ اہداف کا جائزہ لیا جائے تو اس کا سب سے بڑا ہدف غز.ّہ اور فلسطین کے باقی علاقوں سے حماس کا خاتمہ تھا۔ یک طرفہ طور پر جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیلی ویزراعظم اولمرٹ نے بیان دیا کہ ’’غز.ّہ میں حماس کی گرفت کمزور کردی گئی ہے اور اب محمودعباس جیسی معتدل قیادت کو وہاں لایا جاسکے گا‘‘۔ جنگ کے عروج پر برطانیہ میں اسرائیلی سفیر نے بی بی سی کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ میں تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ’’جنگ کا مقصد شدت پسند حماس کو ہٹاکر فلسطینی اتھارٹی محمودعباس کو بحال کرنا ہے‘‘۔ جنگ کے بعد اصل صورت حال بالکل برعکس ہے۔ مغربی کنارے میں امریکا،اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے اشتراک سے ایک یونی ورسٹی چل رہی ہے، جہاں طلبہ کو ’روشن خیالی‘کے نام نہاد نعرے کے عملی ماحول میں تربیت دی جاتی ہے۔ ان طلبہ کے درمیان سروے کروایا گیا تو وہاں بھی حماس کی تائید غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ ۱۹فروری کو کویت میں عرب لیگ کی اقتصادی سربراہی کانفرنس تھی اس سے پہلے کویتی پارلیمنٹ کے ۲۲ ارکان نے ایک میمورنڈم پیش کیا کہ محمود عباس کی مدت صدارت بھی ختم ہوگئی ہے اور دورانِ جنگ اس کا کردار بھی گھنائونا رہا ہے، اس لیے اسے کانفرنس میں مدعو نہ کیا جائے بلکہ فلسطین کی نمایندگی کے لیے خالدمشعل کو بلایا جائے۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے اس حوالے سے خطاب کرتے ہوئے ایوانِ اسمبلی میں خالدمشعل کا نام لیتے ہوئے سر پہ پڑا عربی رومال اُتار کر عقیدت کا اظہار کیا اور محمود عباس کا نام لیتے ہوئے جوتا لہراتے ہوئے نفرت کا۔
محمود عباس کے علاوہ اسرائیل کا دوسرا بڑا مہرہ حسنی مبارک ہے۔ جنگ سے پہلے، دوران اور بعد میں اسی کے ساتھ سب سے زیادہ مشاورت کی گئی۔ اس نے عین تباہی کے عالم میں بھی ’رفح‘ کا پھاٹک بند کیے رکھا۔ عالمی قوانین بصراحت کہتے ہیں کہ دورانِ جنگ اگر کوئی آبادی کسی جگہ گھِر جائے تووہاں سے نکلنے کے راستے کھولنا فرض ہے۔ کوئی معاہدہ یا پابندی اسے کھولنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ دورانِ جنگ فرانسیسی صدر سرکوزی علاقے کے دورے پر آیا۔ اس نے اولمرٹ سے کہا: ’’مجھے حسنی مبارک نے بھی کہا ہے کہ وہ حماس کو جیتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے‘‘۔
دنیا میں صرف مصر ایک ایسا ملک تھا جہاں اہلِ غز.ّہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے مظاہرے روکنے کی کوشش کی گئی۔ الاخوان المسلمون کے سیکڑوں کارکنان گرفتار کیے گئے لیکن مظاہرے پھر بھی ہوئے اور بڑے بڑے ہوئے۔ مصری شہر دمیاط میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے:یاباراک یاعباس کُلَّنا مع حماس ’’اے باراک (صہیونی وزیردفاع) اے عباس! ہم سب حماس کے ساتھ ہیں‘‘۔ کَبِّر یامسلم کَبِّر…رأسُ الصِّھْیُونی تَکَسَّر ’’مسلمانو! تکبیر بلند کرو کہ صہیونیوں کا سر پھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ اِھْتِف سَمِّع کُلَّ النَّاس… نَحْن رِجَالُکَ یَاحَمَاس ’’نعرہ لگائو…سب کو سنا دو کہ ہم حماس کے سپاہی ہیں‘‘۔ عوامی جذبات تو یہ ہیں لیکن امریکااسرائیل اور ان کے پالتو اب بھی کوشش یہی کریں گے کہ اپنے مہروں کو آگے بڑھایا جائے۔ نومنتخب صدر باراک اوباما نے حلفِ صدارت کے بعد سب سے پہلا فون محمودعباس کو کیا ہے۔
اسرائیل کا دوسرا اعلان کردہ ہدف یہ تھا کہ حماس کے میزائل حملے بند کرنا ہیں۔ اسرائیل نے ہی نہیں خود عرب اور فلسطینی مخالفین نے بھی حماس کے خودساختہ میزائلوں کو جنگ اور تباہی کا اصل سبب قرار دیا۔ اس الزام اور پروپیگنڈے کا جائزہ ہم ابھی لیں گے لیکن ایک حقیقت جو بذاتِ خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فاسفورس اور دیگر کیمیکل بم استعمال کرنے اور ۲۲ روز کی دن رات تباہ کاری کے باوجود حماس کے ان جوابی میزائلوں کا راستہ نہیں روکا جاسکا۔ یہ میزائل جو پہلے ۲۰کلومیٹر تک مار کرسکتے تھے، حماس نے نپے تلے انداز سے اور مرحلہ وار ان کی پہنچ ۶۵کلومیٹر تک بڑھا دی۔ اس طرح تقریباً ۱۰ لاکھ کی یہودی آبادی ان کی زد میں رہی۔ انھیں بھی حالت ِ جنگ کی کیفیات سے گزرنا پڑا اور آخرکار ان کی طرف سے بھی احتجاج اور اپنی حکومت سے مطالبہ شروع ہوگیا کہ ’’بے فائدہ جنگ بند کرو‘‘۔
رہی یہ بات کہ حماس کے میزائل جنگ کا سبب بنے تو اس کا سب سے اچھا جواب ترک وزیراعظم رجب طیب اردوگان نے دیا کہ ’’اہلِ غز.ّہ تین سال سے حصار میں تھے، ان کا گلا گھونٹا جارہا تھا تو ان کی چیخ میزائلوں کی صورت میں برآمد ہوئی۔ اب ان چیخوں کو تباہی کا سبب قرار دینا عقل کے بھی منافی ہے اور حقیقت کے بھی‘‘۔ اس الزام کا دوسرا جواب اس سوال میں ہے کہ گذشتہ ۶۰برسوں میں اسرائیلی ناجائز ریاست نے فلسطینیوں کے جتنے بھی قتلِ عام کیے، کیا اس وقت بھی میزائل یا حماس ہی اس کا سبب تھے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ غز.ّہ پر حملہ کوئی حادثاتی یا ہنگامی کارروائی نہیں تھی۔ ڈیڑھ برس پہلے سے اس کی تیاریاں جاری تھیں اور باقاعدہ دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ اس وقت پتھر اور غلیل سے ہونے والی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر حماس کی منتخب حکومت کو مسترد کردیا گیا۔ ان کے اسپیکر سمیت وزرا اور ارکانِ اسمبلی کو گرفتار کرلیا گیا اور بالآخر غز.ّہ کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ جواباً میزائل فائر ہوئے تو اپنی ساری دہشت گردی ساری سفاکانہ جنگ کا ملبہ انھی پر ڈال دیا گیا۔ حماس کو مطعون کرنے والے یہ بھی نہ بھولیں کہ صہیونی دشمن ایک ایک کر کے ہرفلسطینی اور اپنے ہرمخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتا ہے۔ ان کے ایک ایک بچے کے ذہن میں ’عرب‘ یعنی مسلمان کا تصور درندوں کی حیثیت سے بٹھاتے ہوئے انھیں قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ آج اگر خدانخواستہ حماس نہ رہتی تو اب خود محمودعباس، حسنی مبارک اور پھر ایک ایک کرکے اپنے ہرہدف کو اسی طرح مطعون و معتوب کیا جاتا۔ حماس نے اس الزام کا بہت اصولی جواب دیاہے کہ ہمارے میزائل اسرائیلی قبضے کا جواب ہے، آج ہماری سرزمین سے قبضہ ختم ہوجائے، ہمارا جواب بند ہوجائے گا۔
غز.ّہ میں ہونے والی تباہی کی مثال موجودہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ افغانستان و عراق میں امریکی بم باری بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ غز.ّہ کی طرح مقید تھے اور نہ غز.ّہ کی طرح گنجان آباد، لیکن یہ ساری تباہی غز.ّہ کے عزم و ارادے کو شکست دینے میں ناکام رہی۔ اہلِ غز.ّہ اعلان کر رہے ہیں کہ حالیہ فتح کے بعد اب ہمیں اقصیٰ کی آزادی ایک مجسم حقیقت کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ رہی تباہی تو صرف گذشتہ صدی میں ہی دیکھ لیں۔ دنیا کے کتنے دارالحکومت اور بڑے بڑے شہر ایسے ہیں کہ ملیامیٹ کردیے گئے لیکن دوبارہ زندہ بھی ہوگئے اور فتح یاب بھی۔
اہلِ غز.ّہ کے اس عزم سے شیخ احمد یاسین کی پیشین گوئی تازہ ہوگئی۔ آیئے انھی سے سنیں: میں اسرائیلی قید میں مطالعہ قرآن کر رہاتھا۔ اس واقعے پر پہنچا کہ بنی اسرائیل کے انکار کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں ۴۰برس کے لیے سینا کی صحرا نوردی کی سزا دی تو میں غور کرنے لگا کہ پروردگار اتنی لمبی سزا؟ ۴۰ برسوں میں تو نسلیں بدل جاتی ہیں۔ سوچتے سوچتے جواب ملا کہ جرم بہت کڑا تھا۔ پوری قوم نے براہِ راست اللہ اور اس کے نبی کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’(موسٰی ؑ) جائو تم اور تمھارا رب جا کے لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘۔ اللہ کی طرف سے فیصلہ آیا کہ وہ نسل کہ جس نے انکار کیا ہے اور وہ نسل جو اس سارے انکار کی چشم دید گواہ اور ان منکروں کے زیرتربیت تھی وہ سب ختم ہوجائیں تو پھر ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بھی تبدیل ہوجائے گا۔ میں نے اس سنت ِ الٰہی کو فلسطین پر منطبق کیا تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطین میں پائی جانے والی نسل جہاد سے کنارہ کش ہونے کے باعث یہودیوں سے شکست خوردہ ہوئی۔ اسلامی تحریک نے بھولا ہوا سبق یاد دلانا شروع کیا اور ٹھیک ۴۰ برس بعد ۱۹۸۸ء میں تحریکِ انتفاضہ شروع ہوئی۔ پیمانے بدلنے لگے،فرات سے نیل تک اسرائیل کا ہدف رکھنے والے باتوں اور وعدوں کی حد تک ہی سہی، فلسطینی ریاست بنانے کا اعلان کرنے لگے۔ اب ۱۹۸۸ء سے ایک نئی نسل، جہاد و مزاحمت کی نسل آگے آرہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جہاد و قربانی کے ۴۰ برس مکمل ہونے، یعنی ۲۰۱۸ء تک اللہ تعالیٰ فلسطین میں فتح یاب نسل عطاکرے گا جس کے ہاتھوں قبلۂ اول آزاد ہوکر رہے گا اور اسرائیل نام کی ریاست صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی۔ اہلِ غز.ّہ اور اہلِ فلسطین یہ سبق اچھی طرح یاد کرچکے ہیں کہ یہ پورا عرصہ جہاد و مزاحمت کا عرصہ ہے اور اللہ کا سہارا اصل سہارا ہے: حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل!
اسلام کے بنیادی عقائد میں اہم ترین اور اصل عقیدہ ’توحید‘ ہی ہے۔ یہ ایمان کا جوہر اور دین کی محکم اساس ہے۔ باقی تمام عقائد اسی ایک عقیدے کے تکمیلی پہلو ہیں۔ ایمان باللہ پر ہی سارے اسلامی عقائد و اعمال کی عمارت قائم ہے۔ جملہ احکام و قوانین کے صدور اور قوت کا مرکز اللہ کی ذات ہے۔ ہم فرشتوں پر ایمان اس لیے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی کے حکم سے کائنات میں اپنے فرائض بجا لاتے ہیں۔ ہم رسولوں پر ایمان اس لیے لاتے ہیں کہ وہ اُسی کی طرف سے اس کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔ کتابوں پر ایمان اس لیے ہے کہ اُسی اللہ کے احکامات پر مشتمل ہوتی ہیں، اگرچہ اب صرف قرآن ہی اصل شکل میں محفوظ ہے اور ہم اُسی کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح آخرت پر ایمان اس لیے ہے کہ وہی ذات انصاف کے دن کی مالک ہے اور وہی انسانی اعمال کے مطابق انصاف کرے گی۔ اسی پر باقی سارے اعمال کو بھی قیاس کرلیا جائے کہ وہ کیوں بجا لائے جاتے ہیں تاکہ ہمارا مالک و آقا راضی ہوجائے۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیا و رسل آئے، اُن سب کی دعوت کا مرکزی نکتہ ’توحید‘ ہی تھا۔ انسانیت کی ابتدا مکمل توحید کی روشنی میں ہوئی۔ پھر جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی گئی، انسان توحید کے سبق کو بھولنے لگا اور اللہ احد وصمد کو چھوڑ کر در در اپنی اُمیدوں اور تمنائوں کے لیے ٹھوکریں کھانے لگا اور اپنا شرفِ انسانیت کھو کر اپنی ہی تذلیل اور رسوائی کا سامان کرنے لگا۔
انسان کی اس نادانی کے باوجود اللہ کی رحمت بار بار جوش میں آکر انسانیت کو بھولا ہوا توحید کا سبق یاد دلانے کے لیے ہدایت و رہنمائی کا انتظام کرتی رہی۔ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (الرعد ۱۳:۷) ’’اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے‘‘۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل ۱۶:۳۶) ’’اور ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجا‘‘۔
توحید کے عملی پہلو اس طرح بیان ہوسکتے ہیں:
اللہ رب العالمین کی ذات تنہا اور یکتا ہے۔ کائنات کی کوئی شے کسی بھی حیثیت میں اُس کی ذات کا حصہ نہیں ہے۔ وہ اول و آخر ہے۔ خدائوں کی کوئی جنس یا سلسلۂ نسب نہیں ہے جس کا وہ ایک فرد یا حصہ ہو۔ نہ وہ کسی کابیٹا ہے، نہ کوئی اُس کابیٹا ہے۔ وہ اجزا سے مرکب وجود نہیں جو قابلِ تجزیہ و تقسیم ہو۔ وہی تنہا ذات ہے جو ہرلحاظ سے تنہا، اکیلی اور احد ہے۔ توحید فی الذات کا ذکر قرآن میں جابجا کیا گیا ہے لیکن جس قدر جامع اور خوب صورت تذکرہ سورئہ اخلاص میں ملتا ہے اس کو پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ o اَللّٰہُ الصَّمَدُ o لَمْ یَـلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ o وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ o (الاخلاص ۱۱۲: ۱-۴) کہو وہ اللہ ہے، یکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اُس کے محتاج ہیں۔ نہ اُس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور کوئی اُس کا ہمسر نہیں ہے۔
اولاد چونکہ ذات کا حصہ ہوتی ہے اس لیے مذکورہ سورت میں اس کا تذکرہ بھی کر دیا گیا اور عملی طور پر دنیا والوں نے اللہ کی اولادیں بنائی بھی ہیں، مثلاً یہودی حضرت عزیر ؑ کو اللہ کا بیٹا، عیسائی حضرت عیسٰی ؑکو اللہ کا بیٹا (التوبہ ۹:۳۰) اور مشرکینِ مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں (بنی اسرائیل ۱۷:۴۰) کہتے رہے، اور اسی سے اُن قوموں کا عقیدۂ آخرت بھی بگڑ گیا کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں، وہ ہمیں سزا نہیں دے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی صفات اور خوبیوں میں بھی یکتا ہے، یہ صفات بھی اس کی ذاتی ہیں اور اس کی ذات کی طرح قدیم اور دائمی ہیں۔ سورئہ طٰہٰ میں ہے: اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَلَـہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی (طٰہٰ ۲۰:۸) ’’وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں‘‘۔ حدیث میں اللہ کے نام تفصیل سے ملتے ہیں۔ ارشاد نبویؐ ہے: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں (ترمذی و سنن ابن ماجہ) جس نے ان کو حفظ کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگا (مسلم، کتاب الذکر)۔ وہ اس کائنات کا خالق، مالک، رازق اور آقا ہے۔ اُسی نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا ہے اوروہی سب کا مارنے والا ہے۔ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہے، اُسے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں، وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے (البقرہ ۲:۱۰۹) ’’کوئی چیز اس کے علم اور قدرت سے باہر نہیں‘‘۔(الشوریٰ ۴۲:۱۲)۔ وہ ایسا ہے کہ اُس جیسی کوئی دوسری شے اس کائنات میں نہیں ہے۔ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ o (الشوریٰ ۴۲:۱۱) ’’کائنات میں کوئی چیز اس کے مشابہہ نہیں، وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ وہ حی و قیوم ہے، لائقِ حمدوثنا ہے اور وہی معبودِ حقیقی، مسجودِ حقیقی اور منعمِ حقیقی ہے۔ اللہ کی صفات کا تذکرہ قرآن میں جگہ جگہ موجود ہے۔ آیت الکرسی (البقرہ ۲:۲۵۵) میں جامعیت کے ساتھ صفاتِ خداوندی کا بیان ہوا ہے۔ اسی طرح سورئہ حشر میں اللہ کے ناموں کا حسین گلدستہ موجود ہے۔ (الحشر۵۹: ۲۲ تا ۲۴)
اللہ رب العالمین ہی عملاً پوری کائنات پر حکمرانی کر رہا ہے، حکم دینا اُس کا اختیارِ مطلق ہے اور پوری کائنات اس کا حکم ماننے کی پابند ہے۔ اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (الاعراف ۷:۵۴) ’’خبرداررہو، اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا اَمر ہے‘‘۔ عقلِ عام (common sense) کی بات ہے کہ کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو حکم بھی اُسی کا چلے گا اور اس بات پر محکم ایمان و یقین رکھنا ضروری ہے کہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صرف اور صرف اُسی کے حکم پر عمل کرنے سے ہی توحید پرقائم رہ سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر ذکر ہوا ہے کہ حکم صرف اللہ کا ہی حق ہے: اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف ۱۲: ۴۰، ۱۲:۶۷) ’’فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیںہے‘‘۔ بَلْ لِّلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا (الرعد ۱۳:۳۱) ’’بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ (المومنون ۲۳:۱۱۶)
سورئہ مائدہ میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ تین آیات آئی ہیں جن میں انسانوں کو اپنے تمام انفرادی و اجتماعی معاملات میں اللہ کے حکم سے روگردانی کی صورت میں سخت وعید سنائی گئی ہے:
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں۔ (المائدہ ۵: ۴۴، ۴۵، ۴۷)
توحید فی الامر میں یہ نکتہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ اللہ کے حکم کے ہوتے ہوئے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین و دساتیر کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر حکم دینے کا اختیار عقلِ انسانی کو حاصل ہوتا تو شریعت نازل کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جو لوگ انسان کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں تو گویا وہ اللہ کا اختیار مخلوق کو دیتے ہیں اوریہی شرک فی الامر ہے جس میں آج کل کے مسلمان معاشرے اور حکومتیں گرفتار ہیں۔ لہٰذا انفرادی معاملات کے ساتھ ساتھ جب تک حکومت اور اقتدار بھی اللہ کے حکم کے تابع نہ ہوجائے، توحید فی الامر کی تکمیل نہ ہوگی اور جب تک توحید مکمل اور خالص نہ ہو تو اللہ کے ہاں نجات ممکن نہیں۔ اس لیے ہرشخص پر فرض ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کرے تاکہ اللہ کا قانون نافذ ہوسکے۔
اس کائنات میں جس قدر تصرف اور اختیار ہوتاہے وہ اللہ واحد کی ذات سے ہوتا ہے۔ وہ علیم و خبیر ہے، کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اُس کے علم سے باہر نہیں۔ اگر کسی درخت کا پتہ گرتا ہے تو اس کی اجازت اور علم سے۔ (بنی اسرائیل ۱۶: ۱۱۰، اٰل عمرٰن ۳:۵)
تمام اختیارات اُسی ذاتِ واحد کے پاس ہیں۔کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمٰن ۵۵:۲۹) ’’ ہر آن وہ نئی شان میں ہے‘‘، یعنی ہر وقت دنیاے عالم میں اس کی کارفرمائی اور حکومت کا سلسلہ جاری ہے، ہرلمحے کسی کو فنا کر رہا ہے، کسی کو زندگی بخش رہا ہے، کسی کو عروج عطا کر رہا ہے، کسی کو زوال دے رہا ہے۔ یہ معاملہ صرف افراد تک محدود نہیںہے بلکہ قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ بھی اللہ ہی کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۲۶)۔ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اُسے کرلیتا ہے (البروج ۸۵:۱۶) کوئی طاقت اس کو روکنے والی نہیں ہے۔ توحید فی الافعال کی جہتیں مقرر کی جائیں تو بے شمار پہلو نکلتے ہیں یہاں بطور مثال صرف دو تین پہلو بیان کیے جاتے ہیں:
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آذری
انسان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک لمحہ بھی اللہ کے بغیر نہیں گزار سکتا۔
غرض اللہ کی جتنی بھی صفات ہیں ان سب کے تقاضے اگر صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہی پورے کیے جائیں گے تب ہی توحید مکمل ہوگی۔
عالمی تناظر میں اقوامِ عالم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اُمت ِ مسلمہ سب سے زیادہ مجبور و مقہور اور پس ماندہ ہے اور مغربی اقوام کی ذہنی اور سیاسی غلام بن چکی ہے۔ حالانکہ مسلمان ہی تہذیب و تمدن کے بانی تھے اور باقی اقوام کو علم کی روشنی مسلمانوں سے ہی ملی تھی۔ پھر یہ پس ماندگی و تباہی کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے ’توحید‘ کا سبق بھلا دیا ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے خلفاے راشدینؓ کی قیادت میں مسلم معاشرے سے اُس وقت کی سوپرطاقتیں روم و فارس لرزہ براندام تھیں۔ اس لیے کہ اُن کے دلوں میں اٹل اور غیرمتزلزل ’توحید‘ کے تصور پر ایمان موجود تھا جس کی وجہ سے وہ اللہ کے علاوہ دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایمان کی حلاوت، چاشنی اور استحکام توحید کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ کی توحید پر صحابہ کرامؓ جیسا ایمان رکھنے والوں کے لیے اللہ کی طرف سے یہ اعلان آج بھی موجود ہے: اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo(الانبیاء ۲۱:۱۰۵) ’’کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے‘‘۔ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹، ھود ۱۱:۵۲) ’’اورتم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔
مسلمان نام کی ایک قوم تو اب بھی موجود ہے لیکن اُس کی حالت یہ ہے: یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً (النساء ۴:۷۷) ’’وہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یاکچھ اس سے (بھی) بڑھ کر‘‘۔ اسی لیے ان کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ کَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ (المنافقون ۶۳:۴) ’’یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چُن کر رکھ دیے گئے ہوں‘‘۔ حالانکہ جن قوتوں سے وہ ڈرتے ہیں اُن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ: اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ o مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (الحج ۲۲:۷۳، ۷۴) ’’جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اُسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ کمزور۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیساکہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے‘‘۔
اُمت ِمسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقامِ عظمت اور منصبِ امامت اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ توحید پر دل و جان سے ڈٹ جائے اور اُن کی زندگیوں میںتوحید کے اثرات واضح طور پر نظر بھی آئیں۔ صرف زبانی کلامی دعووں سے مسلمانوں کی موجودہ پستی کا علاج ممکن نہیں ؎
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ توکیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
توحید پر ایسا ایمان درکار ہے جس میں مصالحت، تذبذب اور شک و شبہہ نہ ہو بلکہ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ(البروج ۸۵:۴) اَصْحٰبَ الْکَھْفِ (الکہف ۱۸: ۹) اور صحابہ کرامؓ جیسا ایمان ہو (المجادلہ ۵۸:۲۲)۔ ساری محبت و اطاعت اللہ ہی کے لیے ہو بلکہ اِس ساری گفتگو کو اگر ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ساری اُمت مسلمہ اللہ ہی کی ہوکر رہے۔ (البقرہ ۲:۱۳۸)
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍo (حم السجدہ ۴۱:۳۰ تا۳۲) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔
تاریخِ انسانی کے اسٹیج پر بڑے بڑے فرعون آئے، اپنی اپنی ڈفلی بجا کر نابود ہوگئے۔ اصل قوت و طاقت کا مالک تو اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (الزمر ۳۹:۴)ہے۔ اُسی سے تعلق مضبوط کیا جائے، اُسی سے محبت کی جائے، اُسی سے ہرحال میں رجوع کیا جائے، اُسی کی اطاعت و بندگی کی جائے تو سارے دلدّر دُور ہوجائیں گے کیونکہ وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ (الزمر ۳۹:۳۶) ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟‘‘ وہ ذات شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (قٓ ۵۰:۱۶) پکار سنتا ہے اور قبول کرتا ہے (البقرہ ۲:۸۶، المومن ۴۰: ۶۵) تو پھر اصل سہارے کو چھوڑ کر نقلی سہارے تلاش کرنا یقینا عقل کا فتور نہیں تو اور کیا ہے ؎
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیراللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
دین اسلام کی اہم اساسی اصطلاحات میں سے ایک بڑی اصطلاح اِبتلا ہے۔ انسانی زندگی میں، چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اِبتلا کا واقع ہونا ضروری ہے۔ یہ فطرۃ اللہ ہے، یہ سنت اللہ ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہر انسان کی آزمایش کرکے اسے لوگوں کے سامنے نمایاں کرتا ہے۔ اس سے انبیا، صلحا، شہدا اور اولیاء اللہ، مسلم اور غیرمسلم سب کو واسطہ پیش آتا ہے اور ہرانسان کو اس سے گزرنا ہوتا ہے۔ جب انسان کو موت اور حیات سے سابقہ پیش آتا ہے تو اسے اس منزل سے گزرنا بھی لازمی ہے۔ ارشار باری تعالیٰ: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط وَّھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی‘‘۔
باری تعالیٰ نے عمومی اِبتلا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَالِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo (الکھف ۱۸:۷) ’’واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں، ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔
ان دونوں آیات کا روے سخن تمام انسانوں کی طرف ہے۔ گویا یہ سروسامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں اور رنگینیوں پر تم فریفتہ ہو ایک عارضی زینت ہے جو محض تمھیں آزمایش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے لیکن تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوکہ یہ سب کچھ ہم نے تمھارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں،بلکہ وسائلِ امتحان ہیں۔ تمھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس انسان نے زندگی دیکھی ہے وہ لازماً موت بھی دیکھے گا اور اسے دنیا کی زندگی میں اِبتلا و آزمایش اور امتحان سے گزرنا ہوگا۔
اِبتلا کا مادہ ب ل و ہے۔ اس کا مصدر بلاء ہے۔ قرآن مجید میں اس مصدر اور جڑ سے کل ۳۷ کلمات آئے ہیں۔ یہ کلمہ دو ابواب سے آیا ہے: باب بَلٰی یَبْلُوْ بلائً (ن) اِبتَلی یَبْتَلِیْ اِبْتِلَائً سے مختلف افعال اور اسماء کی صورت میں آیا۔ یہی بَلٰی یَبْلُوْ بَلَاء فعل متعدی ہے اور اِبْتَلٰی یَبْتَلِیْ اِبْتِلَائً سے فعل لازم اور متعدی دونوں ہیں جس کے معنی ہیں: آزمانا، تجربہ کرنا اور امتحان لینا۔ یہی معنی بلاء اور اِبتلا کے اصطلاحی بھی ہیں۔ انسان کے مقصدِحیات کے بارے میں آزمایش کرنا اور امتحان لینا۔ اس کلمے کے دو اور مترادف کلمے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں: فِتنَۃ، فَتَنَ، یَفْتِن اور اِمتحان کا کلمہ ہے ان تینوں کے معنی بظاہر تو ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن معنی میں گہرائی کے لحاظ سے تھوڑا سا فرق ہے۔
۱- اِمتَحَن، اِمْتِحَان ایسی آزمایش کو کہتے ہیں جس میں سختی کے بجاے نرمی کی جائے اور اس میں کشایش کا پہلو بھی شامل ہو۔ (ملاحظہ کریں سورۃ الممتحنہ ۶۰:۱۰)
۲- بَلٰی یَبْلُوْبَلَائً ایسی آزمایش جس میں سختی اور نرمی دونوں پائی جائیں۔ یہ آزمایش خیروشر، نرمی و سختی دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے جیسے ارشاد ہے: بَلَوْنَاھُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلََّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۶۸) ’’اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمایش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں‘‘۔
چونکہ آزمایش عموماً تکلیف دہ ہوتی ہے اس لیے تکلیف اور شر کا پہلو غالب ہوتا ہے، تاہم دونوں طرح سے ہوسکتی ہے۔ پھر ایک لطیف فرق یہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ اِبتلا عموماً ایسے اتفاقی حادثے سے ہوتی ہے جو لوگوں کو دکھائی دیتا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت لیں جیسے: وَ اِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ… (تفصیل آگے آرہی ہے)
۳- فَتَنَ، فِتْنَۃ میں اِبتلا کی طرح نرمی اور سختی پائی جاتی ہے، تاہم اس میں سختی زیادہ ہوتی ہے۔
حاصل یہ کہ اِبتلا انسان کی ذاتی برائی، خباثت اور غلطی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ عام طرح حادثے کے طور آتی ہے۔ (مترادفات القرآن عبدالرحمن کیلانی ’آزمایش‘)
احادیث مبارکہ اور سنت مطہرہ میں اِبتلا کا کلمہ متعدد مرتبہ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی چھوٹی باتوں اور چیزوں سے لے کر بڑے معاملات تک میں آزمایش ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صرف تین حدیثیں بیان کی جاتی ہیں۔
ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہربندے کو کسی نہ کسی طرح آزمایا جاتا ہے۔ البتہ اس آزمایش کا احساس کرنا، اس میں ثابت قدم رہنا، آزمایش میں پورا اُترنا اور اس سے پار ہوجانا مومن کو نصیب ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِبتلا کے مختلف پہلو اور نوعیتیں بیان کی ہیں۔ یہاں ان کا ایک مختصر مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
سورۂ ملک کی اس آیت سے پانچ بنیادی نکات نکلتے ہیں:
ا- موت و حیات اسی کی طرف سے ہے۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے والا ہے اور نہ موت دینے والا ہے۔
ب- انسان کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیداکیا ہے۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہوگیا ہے۔
ج- اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک انسان کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کرکے اپنی اچھائی اور برائی کا اظہار کرسکے۔
د- خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ہے۔
ھ- جس شخص کا جیسا عمل ہوگا اسی کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی کیونکہ اگر جزا اور سزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا o (الدھر ۷۶:۲-۳) ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا، ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
اس آیت کریمہ میں انسان کی اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت بتائی گئی۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد تخلیق یہیں پورا ہوجائے، نیز یہ دنیا انسان کے لیے نہ دارالعذاب ہے، نہ دارالجزا جیساکہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں اور نہ چراگاہ اور تفریح گاہ ہے جیساکہ اکثر مادہ پرست سمجھتے ہیں اور نہ رزم گاہ (میدانِ جنگ) جیساکہ ڈارون اور مارکس کے پیروکار سمجھتے ہیں، بلکہ یہ دراصل اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے جہاں خالق نے یہ دیکھنے کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ زندگی کا کون سا رویہ اختیار کرتا ہے: نیکی اور فرماں برداری کا، یا برائی اور نافرمانی کا۔ انسان کو سمیع اور بصیر بنانے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے نیکی اور بدی کی حِس دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ اِبتلا و آزمایش میں پورا اُترے اور کامیاب ہو۔
سورۃ الفجر میں ارشاد ہے: ’’مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا۔ اور جب وہ اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا‘‘۔ (الفجر ۸۹:۱۰-۱۶)
اس آیت پر غور کرنے سے عام لوگوں کا نظریہ اور دنیاوی زندگی کا تصوریہ سامنے آتا ہے کہ یہاں کی خوش حالی، مال و دولت کو عزت اور اللہ کی رضا سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں پر اللہ راضی ہے اور ان چیزوں کے نہ ملنے کو یا چھن جانے کو ذلت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت جسے یہ لوگ نہیں سمجھتے، یہ ہے کہ اللہ نے جس کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا ہے آزمایش کے لیے دیا ہے۔ اس کی طرف سے دولت اور جاہ و اقتدار میں بھی آزمایش ہے اور مفلسی اور فقر میں بھی آزمایش ہے۔
مذکورہ بالا ان تینوں آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزمایش ہر انسان کی ہونی ہے چاہے کوئی بھی اور کسی مذہب و ملک کا باشندہ اور ملت کا فرد ہو۔ اسے اس منزل سے گزرنا ہے۔ البتہ عام انسانوں کے لیے آزمایش اور امتحان کی نوعیت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک، رازق و رؤف، حاکم و مقتدراعلیٰ کو سمجھیں، اس پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کو برحق جانیں۔
دوسری آزمایش اور امتحان ان لوگوں کا ہوتا ہے جو دین اسلام کو قبول کر کے اپنے آپ کو اُمت مسلمہ کا فرد اور مسلمان کہلاتے ہیں۔ ان کی آزمایش کئی نوعیت کی اور کئی طرح کی ہوتی ہے۔ بعض کی بڑی سخت اور بعض کی نرم اور وقتی ہوتی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختلف انداز سے بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے چند نوعیتیں یہ ہیں:
اللہ تعالیٰ نے اس موقع کو اِبتلا و آزمایش سے بیان کیا ہے: ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا o (الاحزاب ۳۳:۱۱) ’’اس وقت ایمان لانے والے خوب آزماے گئے اور بری طرح ہلامارے گئے‘‘۔ ایمان لانے والوں سے مراد یہاں وہ سب لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں میں شامل کیا تھا، ان میں سچے اہلِ ایمان بھی شامل تھے اور منافقین بھی۔
اس اِبتلا نے سچے مسلمانوں اور منافقین کو علیحدہ کیا۔ دونوں کے کردار پر آیت ۱۲ سے لے کر ۲۰ تک تفصیلی تبصرہ کیا گیا ہے۔ اِبتلا سے کیسے پار ہو اور کتنے صبر اور عزیمت کا اظہار کیا جائے، سب اس سورت میں بیان ہوا ہے۔
ب- آزمایش پر پورا اُترنے پر مخالفین (کفار اور مشرکین) کی طرف سے طعن وتشنیع سننا اور صبر کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ قف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا ط وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرo (اٰل عمرٰن۳:۱۸۶) ’’مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمایشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو، تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے‘‘۔
جب تم آزمایش میں پورے اُترو گے تو ان سے طعن و تشنیع، ان کے الزامات اور بے ہودہ طرزِکلام اور ان کے جھوٹے پروپیگنڈے سے واسطہ پیش آئے گا۔ لہٰذا ایسی حالت میں صبر اختیار کرنا، حق و صداقت پر قائم رہنا اور وقار، تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کو اپنانا ہی ان کا جواب ہے۔
ج- مسلمانوں کی اِبتلا وآزمایش کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں ان الفاظ میں فرمایا:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ۲:۱۵۵) ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو۔
اسلام کی اس اصطلاح کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی جو آزمایش کی جاتی ہے اور ان سے جو امتحان لیا جاتاہے وہ کئی نوع اور انداز کا ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، اس کا جائزہ لینا چاہیے اور سوچتے رہنا چاہیے کہ کہیں میری آزمایش تو نہیں ہو رہی ہے۔ (مزید ان آیات کا مطالعہ کریں: البقرہ ۲:۲۴۹،آل عمران ۳:۱۵۲-۱۵۴، المائدہ ۵:۴۸، الانعام ۶:۱۶۸، الانفال ۸:۱۷، النحل ۱۶:۹۲، الاحزاب ۳۳:۱۱)
ا- وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰھِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ وَنَبْلُوَاْ اَخْبَارَکُمْo (محمد۴۷:۳۱) ہم ضرور تم لوگوں کو آزمایش میں ڈالیں گے تاکہ تمھارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں۔
جہاد کے ذریعے اور میدانِ جہاد میں آزمایش کرنا تاکہ سچے مومن اور منافق واضح ہوجائیں اور کسی کو غلط فہمی نہ رہے۔
ب- ذٰلِکَ ط وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لاَنْتَصَرَ مِنْھُمْ وَلٰـکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍط وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْo (محمد۴۷:۴) یہ ہے تمھارے کرنے کا کام، اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا، مگر یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے آزمائے، اور جو لوگ اللہ کی راہ میںمارے جائیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
اللہ کے پیش نظر یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو حق پرست ہوں وہ باطل پرستوں سے ٹکرا جائیں اور ان کے مقابلے میں جہاد کریں تاکہ جس کے اندر جو کچھ اوصاف ہیں وہ اس امتحان سے نکھر کر پوری طرح نمایاں ہوجائیں اور ہر ایک اپنے کردار کے لحاظ سے جس مقام اور مرتبے کا مستحق ہے وہ اسے دیا جائے۔
اس آیت میں تین حقیقتیں بیان ہوئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی ملکیت میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دیں، ان میں تصرف کرنے کا اختیار دیا۔
دوم یہ کہ ان خلیفوں میں مرتبوں کا فرق بھی اللہ نے ہی رکھا ہے۔ کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود،کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کرنے کے اختیارات دیے اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کار دی اور کسی کو کم اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
سوم یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے۔ پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے اور جس کو جو کچھ بھی اللہ نے دیا ہے اس میں اس کا امتحان ہے کہ کس طرح اللہ کی امانت میں تصرف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا اور کس حد تک اپنی قابلیت اور ناقابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی آزمایش اور امتحان کے نتیجے پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔
طالوت کو بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت معلوم تھی، اس لیے کارآمد اور ناکارہ لوگوں کو چھانٹنے کے لیے آزمایش کا یہ طریقہ تجویز کیا اور اس سے کھرے کھوٹے لوگ علیحدہ ہوگئے۔ میرے نزدیک اگر دینی، دعوتی اور جہادی جماعتوں کے سربراہ آزمایش کا ایسا ہلکا طریقہ تجویز کریں اور کام میں لائیں تو گنجایش نظر آتی ہے۔
مسلمانوں کے گروہوں اور طبقات کی آزمایش کا تذکرہ قرآن مجید میں کافی مقامات پر آیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف اشیا اور معاملات سے آزمایش کی ہے۔ ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے اور سابقہ اُمتوں کے واقعات ہیں۔ آپؐ سے پہلے واقعات میں اصحاب الجنۃ (باغ والے) (القلم ۶۸:۱۷)، اصحاب السبت، مختلف انبیاے کرام اور ان کے ساتھیوں کی آزمایش (البقرۃ ۲:۲۱۴)، ایوب علیہ السلام کی آزمایش (الانبیاء ۲۱:۸۳-۸۴)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے واقعات میں غزوئہ حنین (التوبۃ ۹:۲۰، المائدہ ۵:۹۴)، غزوئہ بدر، غزوئہ اُحد، غزوئہ تبوک (التوبۃ ۹:۱۱۸)، جب کہ دنیا کی خوش حالی و فراوانی سے آزمایش۔ (الکھف ۱۸:۷)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابوالانبیا اور خلیل اللہ کی ایسی سخت آزمایش کی جیسی شاید ہی کسی نبی سے لی گئی ہو۔ انسانی زندگی میں جتنی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے وہ پیار کرتا ہے، محبت رکھتا ہے، وہ ساری ان کو حاصل تھیں اور اللہ کے بندے نے وہ سب قربان کردیں اور امتحان میں پورا اُترا۔ ابن کثیر کی روایت اور تفسیرتفہیم القرآن کے مطابق انھوں نے جن بڑے احکام کی تکمیل کی اور امتحان میں پورے اُترے وہ یہ ہیں: اللہ کی طرف سے حکم ہونے پر اپنی قوم سے جدا ہوجانا اور ان کو چھوڑ دینا، باوجود جان کے خطرے اور قتل ہونے کے ڈر کے ہوتے ہوئے نمرود کے روبرو جاکر توحید کی دعوت دینا اور اس سے حجت بازی کرنا، آگ کے الائو میں بے خطر کود جانا اور صبر کا مظاہرہ کرنا، ہجرت کا حکم ملنے پر اپنے وطن سے ہجرت کرنا، مہمان نوازی کرنا اور اپنے بیٹے کو اشارہ ملنے پر ذبح کرنا۔ ان آزمایشوں کے علاوہ انھوں نے کئی ایک بڑی قربانیاں دیں جیسے بیوی اور چھوٹے بیٹے کو عرب کے بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ دینا، اپنے خاندان کی دھن دولت کو چھوڑ دینا، روشن مستقبل اور خاندانی جاہ و جلال کو چھوڑ دینا۔
قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کا آزمایشی تذکرہ آیا ہے اور یہی (ہوش مندی اور حلم و علم کی نعمت) ہم نے ایوب کو دی تھی۔ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو تکلیف اسے دی تھی اس کو دُور کردیا، اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے اپنی رحمتِ خاص کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے‘‘۔ (الانبیا ۲۱:۸۳-۸۴)
قرآن مجید میں اسی طرح دیگر انبیاے کرام کی آزمایش کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جیسے حضرت دائود علیہ السلام، ملاحظہ کریں۔ سورہ صٓ ۳۸:۷۱تا۳۰، الانبیا ۲۱:۷۸، سورۂ نمل اور سورئہ سبا۔ حضرت سلیمان ؑ ،سبا ۳۴:، صٓ ۳۸:۳۴
اسلامی فکروثقافت کی سب سے نمایاں اور مرکزی پہچان اور خصوصیت اس کا مبنی بر وحی ہونا ہے۔ یہ وہ جوہری پہلو ہے جو اس ثقافت کو انفرادیت بخشتا ہے۔ دنیا کی اکثر ثقافتیں اور افکار اپنے آپ کو کسی فرد، خطے یا دَور سے وابستہ و منسلک کرتے ہیں چنانچہ نوافلاطونیت ہو یا یونانی فکر، بازنطینی فنِ تعمیر ہو یا ویدائوں اور مہابھارت کا دور، ساسانی ثقافت ہو یا نوبیائی قبائل کے رسوم ورواج، یہ سب اپنی فکر وثقافت کو خطۂ زمین یافرد اور تاریخ کے ایک مخصوص دور سے اپنی وابستگی کی بناپر پہچانی اور پکاری جاتی ہیں۔ انسانی فکر کو مطلق اور حقیقی ماننے والی تمام تہذیبوں میں خطّے اور وقت کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ تہذیب و ثقافت کی پیدایش کسی صحرا میں ہوئی ہو یا کسی شہری آبادی میں، اس کی جڑیں ہمیشہ مقامی رسوم و رواج، فکر اور بودوباش میں پائی جاتی ہیں چنانچہ کسی بھی قوم یا گروہ کے رسوم و رواج عرصۂ دراز تک عمل کرنے کے نتیجے میں ایک قدر (vaule) اور ایک اصول (norm) کا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی بنا پر ہم جس ثقافت و تہذیب کو مغربی کہتے ہیں وہ یورپی اقوام کے بودوباش، لباس، غذا اور طرزِحیات کے نتیجے میں رواج پاجانے والے طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی طرح ہندستانی کلچر اُن رسوم و رواج کے جو مقامی طور پر ہندستان میں بسنے والے دراوڑ، برہمن اور دیگر ذاتوں کے افراد نے اختیار کیے اور ایک عرصے تک ان پر عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا اوران رسوم و رواج نے آہستہ آہستہ ایک قدر اور اصول کا مقام حاصل کرلیا۔ مغرب ہو یا مشرق، اقدار و قانون کو ہمیشہ زمان و مکان کی پیداوار اور ’انسانی ارتقا‘ ہی سے وابستہ کیا جاتاہے اور اس بنا پر یہ بات بطور ایک کلیہ کے تسلیم کرلی گئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اقدار (value) اور ثقافت بھی تبدیل ہونی چاہیے۔ اس تصور کو اتنے وثوق سے بیان کیا جاتا ہے کہ بعض بظاہر معقول افراد بھی اس پر ایمان بالغیب لے آتے ہیں اور جدیدیت کے نعرے کی لَے میں لَے ملاتے ہوئے اسلامی فکروثقافت کو یا تو قدامت قرار دے کر رد کرنا چاہتے ہیں یا اسلامی فکروثقافت کو بنیادی طور پر عربی ثقافت قرار دینے کے بعد یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ’عربیت‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے قرآن و سنت میں موجود قوانین و ضوابط کو عرب قبائلی معاشرہ کا ثمر قرار دیتے ہوئے اور ان کی ’روح‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی پسند کی ایسی شریعت وضع کرلیں جس میں حدود کے قرآنی قوانین اور وراثت اورمناکحت کے احکام کو ساتویں صدی کے قوانین قرار دے کر ’دورِ جدید‘ کے مغربی قوانین و ضوابط کی روشنی میں نظرثانی کرنے کے بعد جدید شکل دی جائے اور اس طرح اپنے خیال میں اسلام کے جدید (modern) اور بے ضرر ہونے کو ثابت کیا جاسکے۔
اس جذبے کے قابلِ احترام ہونے اور ایسے افراد کی تمام نیک نیتی کے باوجود فکر کی یہ غلطی مغرب کی ذہنی غلامی اور مغرب کو اپنا قبلہ سمجھنے کا پتا دیتی ہے کیونکہ اصولی طور پر اسلامی فکروثقافت کی جڑیں نہ عرب قبائل کی تہذیب میں پائی جاتی ہیں نہ ایرانی، افریقی یا ترک یا پاکستانی رسوم و رواج میں۔ اسلام کسی وطن یا قوم کو اپنا ماخذ نہیں مانتا۔ اسلامی فکروثقافت زمان و مکان اور وطنیت اور علاقائیت کی قید سے آزاد ہوکر اپنی جڑیں بجاے زمین میں پیوست کرنے کے وحیِ الٰہی کو اپنا ماخذ قرار دیتی ہے۔ چنانچہ اس کی جڑیں فضا کی گہرائیوں میں مستحکم ہیں اور تنا، شاخیں اور پھل زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔
ایک سادہ نقشہ اسلامی فکروثقافت اور دیگر فکروثقافت کے نشوونما کے فرق کو زیادہ آسانی سے واضح کرسکتا ہے۔ غیر اسلامی فکر وہ اخلاق میں ہو، معیشت و معاشرت میں ہو یا سیاست و قانون میں اس کی ارتقائی شکل یوں نظر آتی ہے:
اس نقشے میں غیراسلامی ماڈل میں اخلاقی اقدار ایک معاشرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی ہیں اور عقلی طور پر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں جو اخلاقی اقدار اٹھارہویں صدی میں باعث ِ فخر سمجھی جاتی ہے، وہ ۲۰ویں صدی میں متروک اور ناقابلِ عمل سمجھی جانے لگیں۔ اخلاق کو ارتقائی عمل کے تابع کرنے کے نتیجے میں اخلاق ایک اضافی قدر بن گیا اور موقع اور محل کے لحاظ سے اس میں رد و بدل اور تبدیلی کو فطری سمجھ لیا گیا۔ اسلامی ماڈل اس تصور کی ضد ہے اور وہ وحیِ الٰہی کی بنیاد پر نازل کردہ اخلاقی اقدار کو ابدی، فطری اور مطلق قرار دیتا ہے۔
گویا علومِ عمران، نفسیات، معیشت، سیاست و قانون کے مطالعے میں جو معاشرتی و ثقافتی ارتقا مشرق و مغرب کی درس گاہوں میں ذہن نشین کیا جاتا ہے اور جس کی بنا پر لادینی ذہن کے دانش ور ہوں یا دینی ہمدردی رکھنے والے ’عوامی علامہ‘ اس بنیادی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ دوسروں کو مطمئن اور خوش کرنے کے لیے کسی طرح اسلامی شریعت کے ان احکام کو جو ان کی دانست میں عربوں کے قبائلی رسوم و رواج کا حصہ تھے اور خالقِ کائنات نے شاید ’مروتاً‘ قرآن کی محکم آیات میں شامل کر دیے تھے، ان پر نظرثانی کر کے انھیں کسی نہ کسی طرح اقوامِ متحدہ کی کسی ذیلی کمیٹی کے مجوزہ معیار کے مطابق کردیا جائے۔
اگر قرآن کریم غیرمحرف، مطلق ، کلامِ الٰہی منزل من اللہ اور اللہ تعالیٰ کی اپنی ضمانت پر دنیا میں اور لوحِ محفوظ پر اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ عزیزو علیم ہے تو کیا جس معاشرتی ارتقا، تکنیکی ترقی کی بنا پر یہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ حدود، وراثت، تعدّد ازواج وغیرہ کے قرآنی نظام پر نظرثانی ہونی چاہیے، یہ ترقی اور تبدیلیِ زمانہ و حالات اُس علیم ہستی کے احاطۂ علم میں نہ تھا جس نے اس قرآن کریم اور صاحب ِ قرآن کو قیامت تک کے لیے آخری شریعت قرار دیا؟ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر، اصل بات جو یہاں بیان کرنا مطلوب ہے یہ ہے کہ اسلامی فکر و ثقافت وحی کی بنا پر وجود میں آتی ہے نہ کہ معاشرتی ارتقا کے نتیجے میں۔ وحی اس کی بنیاد ہے، وحی اس کا ماخذ ہے اور وحی اس کا مصدر ہے۔
وحی کے مصدر مطلق ہونے کو قرآن کریم نے مختلف مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بعض بدیہات پر سے بھی سرسری طور پر گزر جائیں۔ قرآن کریم میں شہد کی مکھی کے حوالے سے فرمایا گیا ’’اور دیکھو تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اوردرختوں میں اور ٹیلوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔(النحل ۱۶: ۶۸-۶۹)
شہد کی مکھی کو جو کام وحی کے ذریعے کرنے کا حکم دیا گیا وہ اس پر کاربند ہے۔ اسے جو شریعت دی گئی اور ’’جسے رب کی ہموار کی ہوئی راہ‘‘ کہا گیا وہ اس پر استقامت سے کام کر رہی ہے۔ حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک دنیا کے ہرخطے میں منوں ٹنوں شہد جس شریعت پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسانوں کو شفا دینے اور لذت کام و دہن کے لیے مل رہا ہے۔ جدید ترین ٹکنالوجی کے میسر آجانے کے بعد بھی اُس شریعت میں کوئی تبدیلی نہ واقع ہوئی نہ واقع کی جاسکی۔ حالات بدلتے رہے۔ سنگلاخ پہاڑ ہوں یا لہلہاتے کھیت، میدانی علاقے ہوں یا شہر، شہد کی مکھی ایک ماہر سول انجینیر کی طرح موم کے چھتے یکساں پیمایش اور یکساں زاویوں کی شکل میں ہزارہا سال سے بنارہی ہے۔ کسی مکان کی چھت کا اندرونی حصہ ہو یا کسی درخت کی شاخ یا پہاڑی کا غار، وہ فنی جائزے کے بعد طے کرتی ہے کہ کہاں پر شہد زیادہ محفوظ رہے گا۔ بعض اوقات وہ صرف ایک قسم کے پھولوں سے رس لے کر آتی ہے اور بعض اوقات مختلف رنگوں کے پھولوں سے اور یہ سب کچھ ایک شریعت اور ضابطے کے تحت کر رہی ہے۔ شہد کی اِس ثقافت کی بنیاد صرف وحی پر ہے۔ شہد کی مکھی کی اپنی اپج، ارتقائی فکر یا ماحول سے سیکھنے کے بعد ایک فنی صلاحیت پیدا کرنے پر نہیں ہے۔
اسی طرح دیگر مخلوقات اپنے اپنے دائرۂ کار میں وحیِ الٰہی کی بنیاد پر مقرر کردہ نظام پر عمل پیرا ہیں۔ آسٹریلیا میں پائے جانے والے بعض پرندے انڈے دینے کے بعد آسٹریلیا سے امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ ان کے نومولود بچے جیسے ہی اڑنے کے قابل ہوتے ہیں فطری طور پر اپنے ماں باپ کی طرح کسی رہنما اور گائیڈ کی مدد کے بغیر وحی کی بنا پر امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ انسانوں کے لیے وحی کلامِ الٰہی کی صورت میںکتاب میں تحریری صورت میں آتی ہے۔
اسلامی فکروثقافت کے وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس کی چار بنیادی خصوصیات اُبھر کر سامنے آتی ہیں جو براہِ راست وحی سے وابستہ ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ کہ یہ فکروثقافت کسی دیومالائی ماضی (mythological past) کی مرہونِ منت نہیں بلکہ روشن تاریخی سیاق میں وجود میں آئی ہے کیونکہ خود الکتاب اپنے بارے میں یہ بتاتی ہے کہ اسے ایک مبارک قوت و قدرت رکھنے والی رات (لیلۃ القدر) میں نازل کیا گیا جس کی تقویم یہ بتاتی ہے کہ یہ رمضان کی آخری ۱۰راتوں میں سے ایک طاق رات تھی۔ محدثین کا غالب گمان یہی ہے کہ یہ ستائیسویں شب تھی لیکن بعض حکمتوں کی بنا پر قرآن کریم اور صاحب ِ قرآن نے اس کے نزول کو کسی ایک رات میں محدود کرنے کی جگہ ۲۱،۲۳، ۲۵، ۲۷ یا ۲۹ویں شب میں سے کسی ایک میں قرار دیا تاکہ آخری عشرے میں تمام طاق راتوں میں اہلِ ایمان قرآن کریم سے اپنے رشتے کو تازہ اور مستحکم کرسکیں۔
اسی بات کو عموم کے ساتھ سورۃ الدخان میں ’مبارک رات‘ کے حوالے سے کہا گیا اور اس کو البقرہ میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے سیاق میں بیان کیا گیا۔ وحیِ الٰہی اور دیگر معروف صحفِ سماوی کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ ہندوازم کی مقدس کتابیں ہوں یا انجیل و تورات، اوسیتا یابدھ ازم میں بدھا سے منسوب کلمات،ان کی تدوین و تسوید ان مذاہب کے بانیان کے وصال کے بہت عرصہ بعد اکثر ان افراد نے کی جو کم از کم دوسری نسل سے تعلق رکھتے تھے وگرنہ صدیوں بعد ان تعلیمات کو قید تحریر میں لایا گیا۔ بدھا کی تعلیمات ان کی وفات کے ۴۰۰ سال بعد پہلی مرتبہ پالی زبان میں مرتب ہوئیں اور پھر ترجمہ در ترجمہ دیگر زبانوں میں منتقل ہوئیں۔ ہندوازم کی مقدس کتب صدیوں تک گردش کرنے کے بعد تحریر میں محفوظ کی گئیں۔ قطعیت کے ساتھ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان کا صحیح سنہ نزول کون سا ہے۔ اس کے مقابلے میں وحی جس لمحے سے نازل ہوئی قرآن کریم کی شکل میں نہ صرف تحریر بلکہ حافظوں میں اس کا ایک ایک حرف و صوت صحابہ کرامؓ اور خود شارعِ اعظمؐ کے سینۂ اقدس میں محفوظ ہوگیا اور ہر سال رمضان المبارک میں ہزاروں لاکھوں افراد کے مجمع میں مسلسل پندرہ سو سال سے اس کی اجتماعی تلاوت، اس کی حفاظت اور نشرواشاعت کا ایک فطری عمل بن گئی۔گویا اسلامی فکروثقافت کی یہ بنیاد ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ فضول دیومالائی کہانیوں کی طرح غیرمعتبر نہیں۔ یہ فکروثقافت اپنی جوہری شکل میں اسی وقت وجود میں آگئی جب وحیِ الٰہی نے پڑھنے اور قرأت کرنے کے حکم کے ساتھ انسانیت کی ہدایت، تعلیم اور تربیت کے لیے ایک جامع اور مکمل ہدایت نامہ انسانوں کے حوالے کیا۔
اسلامی فکروثقافت کی دوسری اہم خصوصیت اس کی عالم گیریت ہے۔ انسانوں کے ساختہ نظام، فلسفے اور قوانین وقت اور مکان کی قید سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی فلسفہ ہو یا جدیدیت پر مبنی فکر، وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تبدیلی، نظرثانی، حذف و اضافے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ وحی الٰہی وقت و مکان کی قید سے آزاد وہ جامع اصول اور محکم ہدایات دیتی ہے جو وقت کے گزرنے اور معاشرتی تبدیلیوں کے باوجود انسان کے مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ یہ عالم گیریت جو وحی کی پہچان ہے، یہی عالم گیریت اسلامی فکروثقافت کو قوم و وطن، جغرافیائی خطے اور وقت کی قید سے نکال کر ایک عالمی ثقافت کا مقام دیتی ہے۔ چنانچہ مراکش سے انڈونیشیا اور ویانا سے سڈنی تک جہاں کہیں بھی مسلمان پہنچے ان کے بودوباش، لباس، غذا، معاشرتی تعلقات، تجارتی معاملات، ہر پہلو سے ان کی سرگرمیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں چلا جائے اس کا تعارف اسلامی ثقافت ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ چاہے وہ تاجک زبان نہ جانتا ہو، اس کا پہلا تعارفی کلمہ ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ ایک تاجک کو بتا دیتا ہے کہ یہ اس کا دینی بھائی ہے اور جواباً اہلاً وسہلاً یا خوش آمدید سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ عالم گیر اسلامی فکروثقافت کے اثرات، وقت اور مکان کی قید سے بلند دنیا کے ہرخطے میں یکساں پائے جاتے ہیں۔
اسلامی فکروثقافت کی تیسری اہم خصوصیت اس کی جامعیت ہے۔ یہ کوئی نمایشی ثقافت نہیں ہے جو چہروں پر رنگ برنگے غازے مل کر اور مخصوص لباس پہن کر اپنی انفرادیت کا اعلان کرے جیساکہ بالعموم افریقی قبائل کی ثقافت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافت ایک مسلمان کو مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ مالی معاملات ہوں یا تعمیراتی منصوبے، اس کا لباس ہو یا کاشت کاری اور صنعت و حرفت، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا مراسمِ عبودیت حتیٰ کہ شوہر اور بیوی کے انتہائی ذاتی معاملات ہوں یا سیاست اور عالمی تناظر میں کیے گئے معاہدے، ہر سرگرمی کے لیے ایک فکر، ایک طریقہ اور ایک طرزِعمل کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ ہمہ گیر ثقافت زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ کرتی ہے اور اسی ثقافت کی جھلک اس کے فن تعمیر، ادب و شعر، تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں میں نظر آتی ہے۔
یہ فکروثقافت مختلف ثقافتوں کا ملغوبا نہیں ہے لیکن ہر وہ انسانی عمل جو اس فکروثقافت کے بنیادی مقاصد اور اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے، یہ ثقافت اسے جذب کرنے اور جذب کرنے کے عمل میں اس میں (qualitative) تبدیلی یا ماہیت ِقلبی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسجد کا مینارہ کہیں سنگِ مرمر سے مزین ہوتا ہے، کہیں کاشی ٹائلوں سے، کہیں سرخ پتھر سے، کہیں glazed اینٹوں سے، کہیں اس کی بنیاد چوکور ہوتی ہیں، کہیں ہشت پہلو اور کہیں گول لیکن دنیا کے ہر گوشے میں اس کا مقصد فضائوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اعلان ہی رہتا ہے۔
اسلامی فکر اور ثقافت کی چوتھی پہچان اس کا زندگی کے معاملات میں آسانی پیدا کرنا (یسر) ہے۔ یہ انسانوں کو غیرضروری رسوم و رواج، عبادات کے پیچیدہ اور پُراسرار طریقوں سے نجات دلاکر سادگی اور آسانی کے ساتھ اپنے رب کی بندگی کی تعلیم دیتی ہے اور زندگی کے معاملات میں زینت اختیار کرنے کے ساتھ اسراف و تبذیر سے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلم معاشرے کی پندرہ سو سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب اہلِ ایمان نے وحیِ الٰہی پر مبنی فکروثقافت سے اپنا رشتہ توڑا، وہ نمایشی زندگی، اسراف وتعیش کا شکار ہوئے اور جب ان کا رشتہ وحیِ الٰہی پر مبنی فکروثقافت سے جڑا، ان کی زندگی عملیت، ترقی اور حقیقت پسندی کی مثال بنی۔
وحی پر مبنی اسلامی فکروثقافت درحقیقت مقاصدِ شریعت کے حصول اور مصلحت عامہ کے پیشِ نظر معاشرتی، معاشی، سیاسی، قانونی اور تعلیمی سرگرمیوں کی تہذیب کرتی ہے۔ اسلامی فکروثقافت کا یہ پہلو نگاہوں سے اوجھل رہے تو اسلامی ثقافت کو محض چند علاماتی افعال سے تعبیر کردیا جاتا ہے یا یہ تصور کرلیاجاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک ’مذہبی‘ ثقافت ہے اس لیے اس کے اصل مخاطب جماعتِ علما و صوفیہ کے افراد ہیں اور یہ انھی کے لیے مناسب ہے۔ دیگر افراد نہ ان کی طرح ’مذہبیت‘ اور ’روحانیت‘ اختیار کرسکتے ہیں اور نہ اس ثقافت پر عمل کرسکتے ہیں۔ ایک عام مسلمان جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ’مذہب‘ نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ کی حد تک ہے، جب اُس سے کہا جائے کہ اسلامی فکروثقافت میں مخلوط تعلیم، مخلوط کاروباری ادارے جہاں پر بنک میں، انجینیرنگ کمپنی میں اور عدالت میں ایک ہی نشست پر شانہ بہ شانہ مرد اور عورتیں بیٹھی ہوں یہ اسلامی فکروثقافت کے منافی ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے معاملات میں مذہب کے دخل کی کیا ضرورت؟ یہی وجہ ہے کہ ایک بظاہر دینی رجحان اور شخصیت رکھنے والے فرد کے گھر میں بھی جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو مردوزن بنائوسنگھار کرنے کے بعد بلاتکلف خلط ملط ہوتے رہتے ہیں اور ایسے افراد کی ’مذہبیت‘ کو اس سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فکروثقافت کو جب تاریخ کا ایک باب سمجھتے ہوئے ماضی کے واقعات میں دفن کردیا جاتا ہے تونظامِ تعلیم میں بھی اسلامی فکروثقافت کی بنیادوں پر گفتگو بند ہوجاتی ہے۔ اُمت مسلمہ نے اپنے دورِ زوال میں عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح مذہب اور ثقافت میں ایک خیالی خطِ فاصل کھینچ دیا۔ چنانچہ مذہبی مراسم کے پورے اہتمام کے ساتھ شام کے اوقات میں کسی محفل موسیقی یا شامِ غزل میں مخلوط محفلوں میں بیٹھ کر فن کاروں کی زبانی کلاسیکل شعرا کا کلام کلاسیکل گائکوں سے سننا ثقافت ٹھیرا اور اس عمل اور اسلامی عقیدے میں انھیں کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔
وحی پر مبنی اسلامی فکروثقافت انسان کو ہرہر دائرے میں تخلیق و ایجاد کی دعوت دیتی ہے لیکن ہرشعبۂ حیات کو قرآن کریم کے دیے ہوئے مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں جو مقاصدِ حیات سے آگاہ کرتے ہیں، سرگرمیوں کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ثقافت اپنے ماننے والوں کو ندرت، حصولِ کمال اور انفرادیت کے ساتھ زندگی کے تعمیری سفر میں آگے بڑھنے کی طرف اُبھارتی ہے۔ ایک عملی ثقافت ہونے کے سبب یہ اُمت کے ہر دور کے مسائل کو مقاصدِ شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔(جاری)
مرکز جماعتِ اسلامی پاکستان منصورہ کے دفاتر جمعہ کو بند ہو تے ہیں، اس لیے منصورہ میں چھٹی تھی۔میں خریدو فروخت کے لیے منصورہ سے باہر تھا کہ تقریباً۱۰ بج کر ۳۰ منٹ پر موبائل پر گھنٹی بجی۔ فون سنا تو منصورہ ایکسچینج سے خبر ملی کہ مولانا محمد سلطان صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ بے ساختہ میری زبان سے انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون کے الفاظ نکلے ۔ فوری طور پر یہ خبر سن کر ایسا لگا جیسے میرے اپنے باپ کا انتقال ہو گیا ہو۔کچھ دیر کے بعدمیں منصورہ پہنچا اور سیدھا مولانا سلطان صاحب کی رہایش گاہ پر آگیا۔
مولانا محترم مرکزی تربیت گاہ کے ناظم تھے ،اور ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۲ء تک میں ان کے ساتھ معاون کے طور پر کام کرتا رہا۔ اس طرح مجھے ایک مدت تک مولانا کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ وہ ایک نیک صفت اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے اُجلے کپڑوں میں ملبوس رہتے اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ مولانا محترم کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کیا تھا جو بچپن ہی میں فوت ہو گیا ۔ اس لیے مجھے اپنی اولاد کی طرح سمجھتے تھے ۔میں ان کے گھر میں آتا جاتا رہتا تھا۔ مولانا محترم جماعتی کام سے یا کسی عزیز کے پاس جاتے تو مجھے اکثر ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ چاروں صوبوں کا دورہ کیااور تربیت گاہوں میں شرکت کی۔
مولانا محترم نمازِ تہجد کے پابند تھے۔جب بھی ہم مرکزی تربیت گاہ کے لیے باہر جاتے اور رات کے وقت میری آنکھ کھلتی تو مولانا مصلے پر کھڑے نظر آتے۔ بعد میں فجر کی نماز کے لیے مجھے اٹھاتے تھے۔میں اُن سے قرآن بھی پڑھا کرتا تھا، اس طرح وہ میرے استاد بھی تھے۔ میں جب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا تھااس وقت اُن کے والد زندہ تھے۔ ان کا نام محمدحیات تھا۔ وہ ایک آرام کرسی پربیٹھا کرتے تھے جو مولانامحترم نے خاص طور پر ان کے لیے بنوائی تھی ۔ان کے ایک بھائی محمد خان بھی ان کے پاس رہتے تھے ،ویسے تو مولانامحترم کے چار بھائی اور ایک ہمشیرہ تھی، بعد میں ان کے ایک اور بھائی محمد زمان خان بھی کراچی سے ان کے پاس آگئے تھے اور یہیں فوت ہوئے ۔ مولانا محترم کی بیوی ایک نیک سیرت خاتون تھیں جو بہت صفائی پسند اور سلیقہ مند تھیں۔ انھوں نے مولانا کے والد اور بھائی کی بہت خدمت کی۔ دونوں کا بہت خیال رکھتیں۔ وہ پردے کی بہت پابند تھیں ۔میں نے ان کو کبھی پردے کے بغیر نہ دیکھا ۔ پردے کی حالت میں ہی وہ مولانا سلطان صاحب کے بھائی اور والد کی خدمت کرتیں۔
مولانا محترم کا کوئی ذاتی مکان،پلاٹ یا بنک بیلنس نہ تھا۔ وہ جماعت کے کوارٹر میں رہایش پذیر تھے جس کوان کی اہلیہ بہت صاف ستھرا رکھتی تھیں۔ہرچیز سلیقے سے رکھی ہوتی، کبھی کوئی چیز بکھری نہیں ہوتی تھی۔ مولانا محترم نے اپنے گھر میں ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس میں تفہیم القرآن، تدبر القرآن، فی ظلال القرآن کے علاوہ قرآن کی بہت سی تفاسیر اور دیگر کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ مولانامحترم نے اپنے دفتر میں بھی ایک بڑی لائبریری بنا رکھی تھی ۔
وہ ایک عرصے تک مولانا مودودی ؒ کے معاونِ خصوصی کی حیثیت سے کام کرتے رہے، اس لیے ان میں مولانا مودودی ؒ کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ مولانا محمدسلطان ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے دفتر آجا یا کر تے تھے حالانکہ دفتر کا ٹائم ۹بجے کا تھا۔ ساڑھے بارہ بجے نمازِ ظہر کی تیاری اور وضو کرنے کے لیے گھر تشریف لے جاتے تھے ۔جیسے ہی اذان ہوتی تو فوراً مسجد میں تشریف لے آتے۔نماز ختم ہو نے کے بعد بھی تھوڑی دیر تک مسجد میں بیٹھے اللہ کی یاد میں لگ جا تے ۔ نمازِ عصرکے فوراً بعد دفتر میں تشریف لاتے اور کوئی نہ کوئی کتاب مطالعہ کرتے۔
مولانا محمدسلطانؒ بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔
مولانا محترم کی آخری کتاب جو انھوں نے خواتین کے مسائل کے بارے میں لکھی: اسلام میں عورت کا کردار شفیق الاسلام فاروقی صاحب نے حرا پبلی کیشنز سے شائع کی۔ اس میں عورتوں کے بہت سے مسائل کا حل مو جو د ہے ۔ مولانا محترم کی دو کتابیں علم و عمل اور نصابِ حدیث مر کزی تربیت گاہ میں سالہا سال سے پڑھائی جا تی ہیں۔ وہ بہت اچھے مربی تھے، فا رغ درسِ نظامی تھے اور بی اے بھی کر رکھا تھا۔ انھوں نے عرصۂ دراز تک درسِ قرآن، درسِ حدیث اور سیرت کے مو ضوع پر خطاب کیا۔ مرکزی تربیت گاہ میں اہتمام کے ساتھ درسِ حدیث دیا کر تے تھے جو ۶ دنوں کا سبق ہوا کرتا تھا۔ وہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ کے نائب مہتمم بھی تھے اور وقتاً فوقتاً مدرسہ مرکز علومِ اسلامیہ کے دفاتر میں جا کر بیٹھا کر تے تھے اور مرکز علوم اسلامیہ کے کاموں کا جائزہ لیتے۔ مرکز علوم اسلامیہ کا حساب چیک کرتے اور ہدایات دیتے۔
وہ دورۂ تفسیر القرآن کے بھی انچارج تھے اور کئی سالوں تک ان کی نگرانی میں دورۂ تفسیر ہوا۔ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے ہی وہ دورۂ تفسیر کے انتظامات کا جا ئزہ لیتے اور ان کی تیاری میں لگ جاتے۔ شیخ القرآن والحدیث مولانا گوہر رحمنؒ (سابق ایم این اے اورمہتمم مدرسہ تفہیم القرآن مردان) منصورہ میں دورۂ تفسیر کرواتے تھے ۔ مولانا محترم ان کی رہایش کا انتظام فرماتے۔ جس مکان میں مولانا سلطان صاحب کا انتقال ہوا، وہیں مولانا گوہر رحمن صاحب آکرٹھیرتے تھے۔ مولانا محترم ان کے لیے قرآن کی تفاسیر اور دوسری کتابوں کا انتظام کرتے ۔ اُردو بازار سے تاج کمپنی کے قرآن مجید خرید کر لاتے اور شرکاے دورۂ تفسیر کو ان کا ایک ایک نسخہ خود دیتے اور کچھ قرآن پاک مسجد میں رکھوا دیتے تاکہ دورۂ تفسیر کے شرکا کو کسی قسم کی دقت محسوس نہ ہو۔
محترم قاضی حسین احمد نے جب مسجد کمیٹی کی ذمہ داری بھی مولانا محمدسلطان صاحب کے سپرد کر دی تو وہ مسجد کی خوب خدمت کرتے۔ باقاعدگی سے ہر ماہ مسجد کمیٹی کا اجلاس بلاتے اور مسجد کی بہتری کے لیے تجاویز اور مشورے لیتے اور ضروری مسئلوں کو فوری حل کرنے کی کوشش کرتے۔رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام کرواتے اور حافظ محمد ادریس صاحب کو تراویح پڑھانے کے لیے آمادہ کر تے ۔حافظ محمد ادریس صاحب برسوں جامع مسجد منصورہ میں مولانا محترم کی نگرانی میں نمازِ تراویح پڑھاتے رہے۔ خادمینِ مسجد کا بھی خیال رکھتے ۔ہر سال رمضان المبارک میں خادمینِ مسجد کو اپنے گھر افطاری کی دعوت دیتے اور ان سب کو نئے کپڑے خرید کر دیتے۔ کپڑوں کی سلائی بھی اپنی جیب سے دیتے تھے اور ان کو عید سے پہلے پہلے سلوانے کے لیے کہتے۔
ایک موقع پر ایک مزدور مولانا صاحب سے ملنے آیا جو منصورہ میں ایک زیرِتعمیر مکان میں کام کرتا تھا۔ وہ مولانامحترم سے کہنے لگا: اگر مجھے مسجد میں ملازمت مل جائے، تو میں خدا کے گھر کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مولاناسلطان صاحب اُسے نہیں جانتے تھے مگر کہا کہ کل آجانا۔ پھر مجھے حکم دیا کہ اس کی درخواست لکھ دو۔ میں نے درخواست لکھی۔ مولانا محترم نے اپنی سفارش کے ساتھ اسے منظور کرایا اور اس کو مزدور سے خادمِ مسجد بنا دیا۔ وہ آج بھی منصورہ جا مع مسجد میں خادمِ مسجد کی حیثیت سے کام کر رہا ہے ۔اس کا نام محمد رمضان ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مولانا بندگانِ خدا کے کام آنے میں تکلف نہیں کرتے تھے۔ مولانا محترم کے پاس جو بھی ملنے آتا وہ مولانا کے حسنِ اخلاق کا اتنا قائل ہو جا تا کہ مولانا کا دوست بن جاتا ۔ وہ بہت مہمان نواز تھے اور اپنے مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کر تے ۔
منصورہ کے سٹاف کے لیے ہفتہ وار درسِ قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کی ذمہ داری بھی مولانا سلطان صاحب پر ڈال دی گئی ۔ وہ بہت اچھے طریقے سے درس کی تیا ری کرتے اور خوب صورت انداز میں اس کو پیش کرتے ۔محترم سید منور حسن صاحب اکثر درسِ قرآن کے بعد مولانا محترم کے حوالے سے بات کرتے کہ مولانا بہت اہتمام سے درس کی تیاری کر کے آتے ہیں اور اس کے لیے کافی محنت کرتے ہیں، اس لیے ہم سب کو اس درس قرآن میں باقاعدگی سے شرکت کرنی چا ہیے اور اس سے زیادہ سے زیا دہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مولانا کی اہلیہ کادسمبر۱۹۹۵ء میں انتقال ہو گیا۔ اس طرح مولانا محترم تنہا رہ گئے۔ پہلی بیوی کے فوت ہونے کے چارپانچ سال بعد مولانا نے دوسری شادی کرلی ۔آخری عمر میں وہ یادداشت کھو بیٹھے اور اپنا نام تک بھول گئے، مگر اللہ کی قدرت تھی کہ اس ذہنی حالت میں بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی۔ اذان کی آواز سن کر مسجد چلے جا تے، کبھی نماز میں شامل ہو جا تے، اور کبھی نماز پڑھے بغیر واپس آجاتے۔
۱۹۱۳ء میںضلع چکوال کے ایک گائوں (ملوٹ) میں پیدا ہونے والے مولانا محمدسلطان ۱۹دسمبر ۲۰۰۸ء کو ۷۸سال کی عمر میں منصورہ میں فوت ہو گئے اور اپنے خدا سے جا ملے۔ اس طرح اس درویش صفت انسان کا سفرِ آخرت ہوا اور ان کو کریم بلاک، گلشن اقبال، لاہور کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ ہم سب مولانا محمد سلطان کی جدائی پر غم زدہ ہیں اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو ہیں ۔ان کی اولاد نہ تھی مگر مرکزی تربیت گاہ میں مولانا سے استفادہ کرنے والے ہزاروں کارکنان آج سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے نیک اعمال مولانا کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند کرے، انھیں ہمارے لیے با عثِ رحمت بنائے اور ان کا فیض ہمارے اوپر جاری رکھے۔ آمین!
انڈونیشیا، دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست (آبادی: ۲۰ کروڑ) اور کئی لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے۔ یہ ۱۳ ہزار ۶سو ۷۷ جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے ۶ ہزار جزائر میں ۳۰۰ مختلف نسلی گروہ آباد ہیں، جو ۲۰۰ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ اس طرح یہ ملک دنیا میں سب سے زیادہ ثقافتی اور تہذیبی بوقلمونی کا آئینہ دار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں علاقائی اور نسلی انتشار اور بغاوت کی کیفیت، ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔
انڈونیشیا پر ۱۹ویں صدی میں ولندیزی استعمار نے قبضہ جمایا۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپانی آئے، اور اُن کے بعد آزادی کی تحریک میں تیزی آئی، جو بالآخر احمد سوئیکارنو کی قیادت میں کامیاب ہوئی، اور ۱۹۴۵ء میں انڈونیشیا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ سوئیکارنو نے ’پنچ شیلا‘ کے عنوان سے حکمرانی کے پانچ بنیادی اصولوں کا اعلان کیا، جو ملک کے آئین کے رہنما اُصول قرار پائے: اللہ پر یقین، انسان دوستی، شورائیت کے ذریعے جمہوریت، قومی یک جہتی اور سماجی انصاف۔ اشتراکیوں کے لیے اُن کے دل میں نرم گوشہ تھا، کیونکہ سامراج کے خلاف جدوجہد میں ان کا بھی ہاتھ تھا۔ خیال ہے کہ امریکی سازش ہی کے ذریعے سوئیکارنو کا تختہ اُلٹ کر فوج کی مدد سے سوہارتو برسرِاقتدار آئے اور ’آئینِ نو‘ (New Order) کے ذریعے معیشت پر حکومتی کنٹرول کو کم کرکے کاروباری طبقے کو زیادہ آزادی اور مراعات دیں۔ شروع میں اشتراکیت مخالف نوجوانوں نے سوہارتو کو خوش آمدید کہا، تاہم اُن کے ۳بیٹوں اور خاندان کے افراد نے مالی منفعت کے اشتغال میں خوب ہاتھ رنگے اور ان کے خلا ف تحریکیں شروع ہوگئیں۔
اس پس منظر میں انڈونیشیا میں ’اصلاحات‘ کی وہ تحریک شروع ہوئی جس کے سربراہ امین رئیس نے سماجی، سیاسی اصلاحات کے لیے ’محمدیہ‘ کی بنیاد رکھی۔ اور ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کے تحت ’دعوہ‘ کا کام شروع کیا۔ اُن کے نزدیک یہ محض زبانی دعوت و نصیحت کا کام نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عملی تحریک تھی حکومت کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی۔ اُن کے خیال میں دانش ور، ارکانِ پارلیمان اور مسلم نوجوانوں کے درمیان مکالمے کے ذریعے ہی تبدیلی کی راہ ہموار ہوسکتی تھی۔
امین رئیس، خود بھی ایک دانش ور، اہلِ قلم اور ایک بڑے قائد تھے۔ مولانا مودودیؒ کی طرح انھوں نے اعلان کیا کہ اسلام صرف عبادات اور رسومات کا مجموعہ نہیں، بلکہ زندگی کے ہرشعبے پر محیط ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں سیاسی عمل میں بھرپور حصہ لینا بھی شامل ہے۔ گاجامادو یونی ورسٹی میں ملازمت کے دوران انھوں نے نوجوانوں اور اساتذہ کو جمع کرکے ’صلاح الدین اسلامک فورم‘ کی بنیاد رکھی، اور سوہارتو کے ہاتھوں ملک میں ’جدیدیت‘ اور مغربی فکر کی ترویج پر علمی انداز میں بھرپور تنقید کی۔ انھوں نے روایتی علما پر بھی تنقید کی، جو دین کو لے کر عصری تقاضوں سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے خیال میں تبدیلی کا راستہ، تعلیم و تلقین ہے نہ کہ تشدد اور زبردستی سے۔ انھوں نے کہا کہ سوہارتو کے عہد میں مسلمانوں کو دھکیل کر کونے میں پہنچا دیاگیا ہے اور ضرورت انھیں اسٹیج پر لانے کی ہے۔
۱۹۹۰ء میں بی جے حبیبی نے انڈونیشیا کے مسلم دانش وروں کی جماعت بنائی، جس میں امین رئیس کا بھی ہاتھ تھا، تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انڈونیشیا میں تحریکِ اصلاح کی یہ داستان طویل ہے۔ سوہارتو کی حکمرانی کے ۳۰ سال میں بظاہر جمہوریت کا دور دورہ تھا لیکن کچھ اصلاحات کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں، دونوں کو راضی کرنے کے باوجود، ناراض کیا۔ اپنی آخری کابینہ میں انھوں نے مسلمان وزرا کی تعداد بڑھا دی تھی، شریعت کے اصولوں پر معیشت کو استوار کرنے، جوئے اور لاٹری پر پابندی، لڑکیوں کو اسکول میں اسکارف پہننے کی آزادی، اسلامی عدالت ِ انصاف کے قیام اور ایسے بہت سے کاموں سے عیسائی زیادہ ناراض ہوئے اور مغرب کو یہ اندیشہ ہونے لگا کہ شاید وہ ملک کو ’اسلامیانے‘ جا رہے ہیں۔
اسلامی تحریک بہرحال اس سارے گرم و سرد میں اپنا کام کرتی رہی۔ سوہارتو کے سقوط کے بعد حبیبی نے اقتدار سنبھالا۔ مگر وہ ایک کمزور حکمران تھے۔ ان کے بعد میگاوتی کے مقابلے میں غوث دُر (Gus Dur) نے بحیثیت صدر انتخاب کو ’محمدیہ‘ اور ’نہضت العلما‘ ___ یعنی اسلامی قوتوں اور امین رئیس کی فتح قرار دیا تھا، تاہم وہ بھی اس وسیع البنیاد کرپشن کو ختم کرنے میں ناکام رہے، جو انڈونیشیا کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا تھا۔ میگاوتی کی صدارت کے لیے راستہ صاف ہوگیا تھا۔ اس خاتون نے فوج، علما، اسلامی اور عیسائی ، تمام قابلِ ذکر عناصر اور قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انڈونیشیا میں فوج ہی ایک فیصلہ کُن قوت ہے۔
جیساکہ پیش لفظ میں پروفیسر الفتح عبدالسلام کہتے ہیں: یہ معلوماتی کتاب انڈونیشیا کے دانش وروں، سیاست دانوں اور نوجوان طلبہ کے لیے خصوصاً مفید ثابت ہوگی کہ یہی سوہارتو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے اور ملک کی سیاست میں ایک اہم عامل رہے، مگر مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ مصنف کا بھی خیال ہے کہ انڈونیشیا میں اصلاح کی تحریک مزعومہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔
اس مختصر کتاب میں استعمار سے ’آزادی‘ کے بعد انڈونیشیا جیسے بڑے ملک میں جمہوریت، اصلاحِ معاشرہ اور سیاسی عمل کے ذریعے اسلامی اقدار کے احیا کی کوششوں کے جائزے میں اُن تحریکوں کے لیے بھی سبق ہیں، جو انھی اہداف کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ساری دنیا میں اصلاح، تبدیلی اور انقلاب کے خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک اہم ’مسلم ملک‘ میں ناکامیوں کی اس داستان کا مطالعہ مفید ہی ہوسکتا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
پاکستان میں عمومی طور پر تاریخ کے مطالعے اور جغرافیے کے فہم کی بنیادیں بے توجہی کا شکار ہیں۔ باوجودیکہ مطالعہ پاکستان ڈگری کلاسوں تک کے طلبہ و طالبات کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، لیکن بے کیف، غیرمربوط، بلکہ تکرار پر مبنی متن کی وجہ یہ مضمون خصوصاً اس میں شامل تحریکِ آزادی کا باب، طالب علموں کی دل چسپی کا باعث نہیں بن سکا، جسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائے؟
ممتاز محقق اور دانش ور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی زیرتبصرہ کتاب اس کمی کو دُور کرنے کی سمت میں ایک بامعنی کاوش ہے۔ یہ ۶ ابواب پر مشتمل ہے، اور زیربحث موضوع پر حقائق و معارف کو اختصار، جامعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ بلامبالغہ یہ کتاب: ’’ہماری قومی تاریخ [تحریکِ آزادی] کے قریب قریب، تمام اہم محرکات، عوامل اور مراحل کا احاطہ‘‘ (ص ۷) کرتی ہے۔
مصنف نے آغاز ہی میں مغربی توسیع پسندی کے حوالے سے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ: ’’اس میں اہم محرک ہسپانوی عیسائیوں کا وہ مذہبی جنون بھی تھا، جو اسلامی حکومتوں کو اندلس میں ختم کردینے کے بعد افریقہ کے شمالی کناروں پر مور اور بربر [مسلمانوں] پر اپنا جوش انتقام صرف کرنا چاہتا تھا۔ مشرق کے لیے ان کی مہمیں صلیبی جنگوں کو ایک دوسرے انداز سے جاری رکھنے کا ذریعہ تھیں‘‘ (ص ۹)۔ اس پس منظر کواُجاگر کرنے کے بعد مصنف نے برطانوی سامراج کی چیرہ دستیوں اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے مراحل کو رواں نثر اور مربوط انداز سے پیش کیاہے۔
اس جدوجہد ِآزادی میںتحریکِ خلافت کو ایک اہم مقام حاصل تھا جس کے مرکزی کرداروں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’علی برادران [مولانامحمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی]… ابتداً کانگریس اور گاندھی کے وفادار رہے، مگر آہستہ آہستہ ان کی آنکھوں سے پردے اٹھتے گئے‘‘ (ص ۸۱)۔ ہندو کی نسل پرستانہ مذہبیت اور سماجی زندگی میں تنگ نظری نے رفتہ رفتہ ہندی مسلمانوں کے سوادِاعظم کو اس راہ پر پختہ تر کردیا کہ وہ جمہوریت کے نام پر ہندو اکثریت کی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کریںگے۔ بعدازاں علامہ محمد اقبال کے تصورِ پاکستان اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں آزادی کی جدوجہد تحریکِ پاکستان کا عنوان اور تخلیقِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔
یہ کتاب اپنے دل چسپ اسلوب، مصدقہ حقائق اور معلومات افزا ذخیرے کے ساتھ اپنے موضوع پر ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)
ثقافتی و معاشرتی تناظر میں ادب کا مطالعہ تنقید میں بڑا اہم موضوع ہے۔ ادب جہاں معاشرت و ثقافت کو متاثر کرتا ہے، وہاں ان سے خود بھی متاثر ہوتا ہے۔ زندگی کی اقدار تبدیل ہوتی ہیں تو ادب میں بھی اس کی جھلک نظر آنی شروع ہوجاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
ڈاکٹر سیدعبدالباری نے معاشرتی و ثقافتی پس منظر میں لکھنوی ادب کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے انھوں نے قبل ازیں ’’لکھنؤ کا ادب عہد نوابین اودھ کے ثقافتی تناظر میں‘‘ کا مطالعہ پیش کیا۔
۱۸۵۷ء کا سال برعظیم کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جس نے ادب و زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ چنانچہ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالباری نے ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے ادب پر ثقافتی و معاشرتی اثرات کا الگ سے جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ ۱۹۰۱ء تک کے ادب پر قدیم لکھنؤ کی ثقافت و معاشرت کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ اصنافِ نظم و نثر میں روایتی لکھنوی انداز موجود ہے۔ داستان اور ڈرامے کو خاص مقبولیت حاصل تھی۔ مثنوی نگاری نے اس عہد کے اخلاقی انحطاط کا بھرپور عکس پیش کیا ہے۔ ریختی اور واسوخت جیسی اصناف اظہارِ خیال کا وسیلہ تھیں۔ قدیم تہذیب سے وابستگی کا رجحان ان کے ہاں بطور خاص ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ ۲۰ویں صدی کے آغاز میں اس جمود میں یکایک ایک لہر اُٹھی اور اس نے نئے سماجی و سیاسی رجحانات کو قبول کرنا شروع کردیا۔ اخلاقی اور روحانی نشاتِ ثانیہ کا احیا ہوا، چنانچہ اس عہد کے ادب میں غیرمعمولی قوتِ نمو اور نشوونما کی صلاحیت نظر آتی ہے۔ اُردو ادب نے خاص طور پر تحریکِ آزادی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ڈاکٹر عبدالباری کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے مصنف کی تنقیدی بصیرت کی تحسین کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ادب کے عمرانی و ثقافتی مطالعے کی راہ آسان کرتی ہے اور ڈاکٹر عبدالباری کا یہ کارنامہ زندگی اور ادب کے مربوط رشتے کو سمجھنے میں تحقیق و تنقید کے نئے دَر وَا کرتا ہے۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
معیاری یونی ورسٹیوں کی پہچان کا ایک حوالہ اساتذہ کا علمی مقام اور تحقیقی ذوق ہے، تو دوسری جانب بلندپایہ مقالات کی اشاعت کا ذریعہ بننے والے باقاعدہ تحقیقی مجلے ہیں۔ اقربانوازی اور تساہل پسندی نے جامعات کی اس روایت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انحطاط کی یہ پرچھائیاں ان اداروں کی کثرت، پرشکوہ عمارتوں اور اساتذہ پر اپنا سایہ ڈالتی نظر آتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر کسی یونی ورسٹی سے بالخصوص ادب یا سماجی علوم پر کوئی معیاری مجلہ نظرنواز ہوتا ہے تو مسرت، امید اور ولولہ تازہ کی لہر کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انھی جذبات و احساسات کی گواہی زیرتعارف تحقیقی مجلہ جہات الاسلام پیش کرتا ہے، جسے نوجوان محقق ڈاکٹر محمد ارشد نے علمی و جمالیاتی ذوق اور پیش کاری و باقاعدگی کے سلیقے کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
مدیرہ اعلیٰ نے افتتاحی شذرے میں لکھا ہے: ’’مجلے کے اس نام کے پس منظر میں یقینا اراکینِ مجلس کی یہ فکر اور سوچ شامل ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘‘ (ص۷) اور اس سوچ کی جھلک ان دونوں شماروں کے مقالات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ شمارہ اول کے مقالات میں: ’محمد بن علی السنوسی کی تجدیدی تحریک‘ از خالد محمود ترمذی، ’عہدنبویؐ میں حکمرانی پر ایک نظر‘ از نثاراحمد، اقبال کا تصورِ اجتہاد، تنقیدی مطالعہ از وحید عشرت، بین الجہاد والارہاب فی العصر الحدیث از ابراہیم محمد، ’خطباتِ اقبال کا تنقیدی مطالعہ‘ از برہان احمد فاروقی، شمارہ دوم میں الاشتباہ والنظائر فی القرآن:تنقیدی جائزہ، سید رضوان علی ندوی، النقد الکلامی للاناجیل، عبدالحکیم فرحات، شوریٰ کا ادارہ، ابتدائی فقہا کی نظر میں از محمد یوسف فاروقی، ’احیا اصلاح اور اسلام کا ملّی تصور، جنوبی ایشیا میں‘ از عبدالرشید متین، ’اسلام اور مغرب‘ از عبدالقدیر سلیم، ’مسلم بنگال کی تعمیرات میں فن خوش نویسی کا تجزیہ‘، محمد یوسف صدیق، وغیرہ دل چسپ اور معلومات افزا مقالات ہیں۔
مجلے کے مضامین اُردو، عربی اور انگریزی میں ہیں۔ مجلس ادارت اس معیاری مجلے کی اشاعت پر مبارک باد کی مستحق تو ہے ہی، تاہم دوستی یا محض اپنے ہی ادارے کے رسمی مقالات کی اشاعت سے اجتناب برتنا بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ البتہ ایک دو تبصرے مجلے کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتے۔ مجموعی طور پر اس نئے تحقیقی مجلے کے طلوع کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ (س-م-خ)
ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ: ہر انسان کی زندگی ایک دل چسپ داستان کی حامل ہوتی ہے، مگر اسے بیان کا سلیقہ خال خال لوگوں کو نصیب ہوتا ہے___ کہا جاسکتا ہے کہ قاضی عبدالقادر کی داستانِ حیات دل چسپ بھی ہے اور انھوں نے اسے سلیقہ مندی سے پیش کیا ہے۔
زندگی ایک قیمتی چیز ہے اور اللہ کا انعام بھی۔ جن خوش قسمت لوگوں نے اسے اللہ کی رضا میں لگایا، ان میں سے بہت کم لوگوں نے اپنی یادداشتوں کو محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ قاضی عبدالقادر نے اس مشکل راستے پر چلنے کا چیلنج قبول کیا، اور مضبوط یادداشت، بیدار ذہن، باریک بین نگاہ اور شگفتہ اسلوبِ نگارش کی صفات کے ساتھ، مہ و سال زندگی کا یہ دبستان قلم بند کردیا۔
اوائل میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ اور عملی زندگی میں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے دست و بازو بنے۔ ان تینوں تنظیموں میں باہمی تعلقات، واقعات و حوادث، جدوجہد اور عزم و ہمت کے مراحل کو اس انداز سے لکھا ہے کہ اس حکایت لذیذ نے ایک دل چسپ ناول کا سا روپ اختیار کرلیا ہے۔ اس بزم میں تحریک اور تاریخ کے بہت سارے معاصر کرداروں کو اپنی فکر اور عمل کے ساتھ چلتے دیکھا جاسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بظاہر یہ ایک فرد کی شخصی زندگی پر مشتمل خود نوشت گواہی ہے، مگر اس آئینے میں ان اسلامی تحریکات کے کارکنان: ہمت، تاریخ، عبرت اور کامیابی کے گوناگوں رنگوں کے، پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔
مصنف کی راے ہے کہ: ’’تحریکوں کا دورِ اول بہت تابناک ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، یہ تابناکی ماند پڑنے لگ جاتی ہے، اور کبھی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ع تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘‘ (ص ۳۲۲)۔ یہ تبصرہ دینی، سیاسی، اصلاحی تحریکوں کے لیے غوروفکر کا پیغام لیے ہوئے ہے، اور تاریخ کا مطالعہ دراصل ہوتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے آئینے میں بہتری کی جستجو کی جاسکے۔(س-م-خ)
’پالیسی بدلنے کی ضرورت‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغرب سے مرعوب بزدل حکمران طبقہ ہر محاذ پر مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ اس لیے موجودہ قیادت سے پالیسی میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ موجودہ صورت حال کی خرابی کے ذمہ دار یہ نام نہاد قائدین، اعلیٰ فوجی افسران اور مراعات یافتہ طبقہ ہے جس نے محض اپنے اقتدار کے لیے عوام کو بدحالی سے دوچار کردیا ہے، اور پوری قوم کو ذلت و پستی کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ملکی معاملات سے بے خبر اور الگ تھلگ رہنے کے بجاے اپنی ذمہ داریاں پہچان کر ملک و ملّت کے مفاد میں تبدیلی کے لائحہ عمل پر ایک نئے عزم سے جدوجہد کریں۔
’کراچی کا مسئلہ: پس منظر و پیش منظر‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) کے تحت پروفیسر عبدالغفور احمد نے اس حسّاس مسئلے کا معتدل انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے، اور ایم کیو ایم کو بجاتوجہ دلائی ہے کہ وہ قومی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے تو پھر اپنے طرزِعمل پر نظرثانی کرے، ان وعدوں کی تکمیل کرے جو اس نے ابتدائی دور میں کیے تھے اور قومی دھارے میں شامل ہو۔ یہی بات ملک و قوم کے مفاد میں بھی ہے۔
’کراچی کامسئلہ: پس منظر و پیش منظر‘ میں ایم کیو ایم کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ایک معمول کی سیاسی پارٹی نہیں ہے کہ آپ اس سے اپیلیں اور توقعات کریں۔ اس کا پورا ریکارڈ (جرائم پیشہ ہونا، بھتہ خور ہونا اور بلیک میلنگ مزاج) جس کی طرف معلوم نہیں کیوں شذرہ نگار نے توجہ نہیں دلوائی، فاشسٹ ریکارڈ ہے۔ اسے ضیاء الحق کے زمانے میں غوث علی شاہ نے جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا اور اب بھی فوج کی اشیرباد اور یقینا بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں یہ اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔
’افواج میں خواتین کی بھرتی‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) ایک مغربی خاتون اسکالر کا مؤثر اور فکرانگیز تحقیقی تجزیہ ہے، اور اس میں ہمارے لیے سبق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مغرب کی اندھی اور بے ہودہ نقالی تو کی جاتی ہے مگر حقیقی موضوعات پر تحقیق کے معاملے میں ہم مغرب سے کافی پیچھے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔پھر ہم رونا روتے ہیں مغرب کی ترقی اور اپنی تنزلی کا۔ بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن پر ہمارے ہاں پردہ پڑا رہتا ہے، جب کہ مغرب انھیں آشکارا کرتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیقاتی اداروں سے منسلک ماہرین علومِ عمرانی افواج پاکستان میں خاص طور پر لڑاکا شعبوں میں خواتین کی بھرتی، خاتون خلاباز، خاتون پائلٹ، ٹریفک وارڈن، کھیلوں (ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، سائیکلنگ، تیراکی، پیراشوٹ اور دوڑ) کے مقابلوں، مقابلہ حسن، مخلوط محافل میں شرکت اور تحفظ حقوقِ نسواں آرڈی ننس پر عمل جیسے تجربات کا مؤثر تحقیقی و واقعاتی تجزیہ پیش کریں۔
’افواج میں خواتین کی بھرتی‘ پڑھ کر افسوس ہوا کہ ایسا حیاسوز مضمون اس پاکیزہ رسالے کے صفحات پر چھاپ دیا گیا، اور حیرت اس بنا پر ہوئی کہ دینی ضروریات کے برخلاف قارئین کے روبرو بے حجابی کا وہ مظاہرہ کردیا گیا جو عام طور پر تجارتی و فلمی رسالوں میں ہوتا ہے۔ کیا مجبوری تھی کہ اسے ترجمان میں شائع کیا گیا؟
’بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ‘ (دسمبر ۲۰۰۸ء) کے ’اشارات‘ میں کراچی میں سیاسی قتل و غارت کے ذکر میں گذشتہ ۹ماہ میں ۵۰ سے زیادہ افراد کے قتل کا ذکر ہوا تھا جو ڈان کراچی کی ایک رپورٹ پر مبنی تھا۔ لیکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ۲۰۰۸ء کی رپورٹ کے حوالے سے جو معلومات سامنے آئی ہیں ان سے حالات کی سنگینی کا صحیح تر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کراچی میں ۸جنوری ۲۰۰۸ء سے ۸اکتوبر ۲۰۰۸ء تک ۱۴۴۶ افراد قتل کیے گئے ہیں جن میں سیاسی کارکنوں (political activitists) کی تعداد ۱۳۹ تھی، جب کہ مذہبی فرقہ پرستی (sectarianism) کی وجہ سے نشانۂ اجل بننے والوں کی تعداد ۱۸تھی۔ (ملاحظہ ہو ایچ آر سی پی کی رپورٹ مطبوعہ دی نیوز، ۱۶ دسمبر ۲۰۰۸ء)
’یومِ عرفہ کا پیغام‘ (دسمبر ۲۰۰۸ء) میں وقوف عرفات کا وقت طلوعِ فجر سے پہلے تک سہواً لکھا گیا ہے، درست وقت زوالِ آفتاب کے بعد سے غروب تک ہے۔
بسااوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِ عمل سراسر دہریت و مادہ پرستی پر مبنی ہے، پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔ تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات کی فکر کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیا جائے، کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراجِ تحسین اِن ’نیکوکار‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفاے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبط ِ نفس، عفت، حق شناسی اور اداے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کونظرانداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے، باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرت کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی اُمید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے... ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب ِ موقع ارتکاب کراسکتی ہے۔ ان اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی انگریز قوم [مغربی اقوام] ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے ، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپایداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت تو ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے... آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں اِن کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں؟ (تفسیر سورئہ یونس، آیات ۷-۸، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۲۸، عدد۳، ربیع الاول ۱۳۶۵ھ، فروری ۱۹۴۶ء، ص ۱۴-۱۵)