اخبار اُمت


کربلا پھر خون خون ہے۔ ہلاکو پھر کشتوں کے پشتے لگانے کے درپے ہے۔امریکہ نے قانون‘ اخلاق‘ انسانیت ہر چیز کو وحشی درندے کی طرح روند ڈالا ہے۔ برائی کا محور‘ القاعدہ سے تعلق ‘ عام تباہی پھیلانے کے ہتھیار‘ اسلحہ انسپکٹروں کے کام میں رکاوٹ جیسے تمام الزامات عالمی برادری کی حمایت دلانے میں ناکام رہے تو امریکی بھیڑیے کا پانی اُوپر کی طرف بہ نکلا۔

متعدد امریکی دانش وروں نے سعودی عرب میں سابق امریکی سفیرجیمز آکنز کی یہ بات نقل کی ہے کہ جارج واکربش کی یہ جارحیت ۱۹۷۵ء میں بننے والے کسنجرمنصوبے کا ایک حصہ ہے۔ آکنز کہتا ہے: ’’میں سمجھتا تھا کہ یہ منصوبہ مرچکا ہے لیکن یہ منصوبہ پھر زندہ ہو گیا ہے جس کا ہدف دنیا میں تیل کے اہم ترین ذخائر پر قبضہ کیا جانا تھا‘‘۔ معروف تحقیقاتی رپورٹر رابرٹ ڈریفس کے بقول اس منصوبے پر سخت گیر‘ اسرائیل دوست امریکی ذمہ دارانِ حکومت نے پہلے بھی پیش رفت کی اور اس وقت بھی وہی ٹولہ وائٹ ہائوس‘ پینٹاگون اور وزارتِ خارجہ کے درجنوں اہم مناصب پر فائز ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اگر ہم عراق پر قبضہ کر لیں تو قطروبحرین پر قبضہ آسان ترین ہدف ہوگا جس کے بعد صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بات ہے‘‘۔ رابرٹ ڈریفس نے Resource Warsکے مصنف مائیکل کلیر کی تحریروں کا خلاصہ بھی ان الفاظ میں نکالا ہے: ’’خلیج فارس پر قبضہ یورپ‘ جاپان اور چین کو اپنی مٹھی میں لے لینے کے مترادف ہے‘‘۔

تیل درآمد کرنے میں امریکہ پہلے‘جاپان دوسرے اور چین تیسرے نمبرپر ہے۔ چینی کسٹم حکام کے مطابق چین نے ۲۰۰۲ء میں ۴۱.۶۹ ملین ٹن خام تیل درآمد کیا تھا جو ۲۰۰۱ء سے ۱۵ فی صد زیادہ ہے۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی (DOE) کے مطابق ۲۰۰۱ء خود امریکہ کو اپنی ضرورت کا ۵۵ فی صد تیل درآمد کرنا پڑا جو ان کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک ۶۸ فی صد ہو جائے گا۔ یہ بات تو پہلے بھی آچکی ہے کہ عراق میں سعودی عرب کے بعد دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں جن کی مقدار ۵.۱۱۲ ارب بیرل تو معلوم ہے لیکن یہ مقدار ۱۲۰۰ ارب بیرل بھی ہوسکتی ہے۔ عراقی پٹرول نکالنے پر دنیا میں سب سے کم اخراجات اُٹھتے ہیں‘ یعنی صرف ڈیڑھ ڈالر۔

افغانستان پرحملے سے امریکہ نے بنیادی طور پر وسطی ایشیا کے قدرتی وسائل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ اب دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر پر قبضے کے لیے لاکھوں جانوں کا خون کیا جا رہا ہے (واضح رہے کہ صرف بغداد کی آبادی ۵۰ لاکھ ہے اور جس طرح کی خون آشام بمباری کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے بڑی آبادی کا لقمۂ اجل بن جانا کسی طور بعید نہیں)۔ ساتھ ہی ساتھ بحراحمرکے کنارے دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر پر تسلط کا انتظام بھی شروع ہے۔ سوڈان میں دریافت ہونے والے تیل پر دسترس کے لیے پہلے متعدد حملے کروائے گئے اور اب جنوبی علیحدگی پسندوں کو کسی طور وہاں لانے کا بندوبست ہو رہا ہے۔

افغانستان اور عراق میں بنیادی کردار بش اور ڈک چینی کے تیل شریکوں کو دیا جا رہا ہے۔ بش کا خصوصی نمایندہ زلمای خلیل زادہ بھی اسی صنعت سے وابستہ رہا ہے۔ افغانستان کے بعد اب عراق میں ایک شمالی اتحاد کی ایجاد اور کرداروں کی تقسیم اسی کے ذمے ہیں۔ سنی‘ کرد‘ شیعہ کی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہوئے کٹھ پتلی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے‘ موصوف کئی پڑوسی ممالک میں مصروف ہیں۔ لیکن قبضے کے بعد اصل اقتدار کے لیے امریکی افواج کے سربراہ ٹومی فرینکس کے علاوہ جنرل (ر) جے گارنر کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ جے گارنر کا نام امریکی جنگ پسندوں کی فہرست میں نمایاںہے۔ ان کی اصل خوبی ان کے اسرائیلی لیکوڈ پارٹی میں گہرے اثرات ہیں۔ جے گارنر کا نام سیکرٹری وزارت دفاع براے سیاسی امور ڈوگ فتھ نے ۱۱ فروری ۲۰۰۳ء کو امریکی سینیٹ کی وزارتِ خارجہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا ہے۔

ڈوگ فتھ نے عراق پر قبضہ کرنے سے حاصل ہونے والے اہداف کا بھی ذکر کیا جن میں اس بات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا کہ ’’عراق میں جمہوری اداروں کے قیام سے فلسطینیوں کو اس پر آمادہ کرنے میں مدد ملے گی کہ وہ اسرائیل سے سنجیدہ مذاکرات کریں‘‘۔ وزیرخارجہ کولن پاول بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’عراق میں جمہوریت سے پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات سے ہم آہنگ حکومتوں کے قیام میں مدد ملے گی‘‘۔

ایک امریکی دانش ور مائیکل کولنز نے ۱۱ مارچ کو دبئی میں ایک لیکچر کے دوران کہا: ’’عراق پرحملے کے دوران اسرائیل بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو ملک بدر کرسکتا ہے۔ یہ سارا منصوبہ عظیم تر اسرائیل کی تشکیل ہی کا ایک حصہ ہے‘‘۔

عراق پر امریکی جارحیت کے بنیادی طور پر یہی دو بڑے اہداف ہیں۔ تیل پر قبضہ‘ اس کے ذریعے پوری دنیا پر عملاً حکمرانی‘ اور اسرائیلی ریاست میں توسیع و استحکام۔ اس کے علاوہ کسی دلیل کو دنیا بھی مسترد کرتی ہے اور حقائق بھی۔ مثال کے طور پر اگر بات واقعی اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں کی ہوتی تو خود امریکی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے پاس نہ صرف ۴۰۰ سے زائد ایٹم بم ہیں بلکہ وہ ۱۹۹۵ء میں نیوٹران اور ہائیڈروجن بم بھی بنا چکا ہے۔ ہائیڈروجن بم اپنے حجم کے اعتبار سے ایٹم بم کی نسبت ۱۰۰ سے ۱۰۰۰ گنا زیادہ تباہ کن ہے۔ ایٹم بم استعمال کرنے کے لیے اس کے پاس میزائلوں کی بڑی کھیپ اور ایف سیریز کے طیاروں کے علاوہ جرمنی کی بنی ہوئی ڈالفن آبدوز بھی ہے۔ ایٹمی اسلحے کو مزید مؤثر بنانے کے لیے خود امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو سپرکمپیوٹر Gray2 کے ۱۰ جدید ترین پروگرام فراہم کیے ہیں‘ جن کے استعمال سے ایٹمی اسلحہ بنانے کے اخراجات براے نام رہ جاتے ہیں اور بین البراعظمی میزائلوں کی تیزی سے تیاری ممکن ہو جاتی ہے۔ عراق میں تباہ کن ہتھیار تباہ کرنے کے نام پر تباہی بانٹنے والے امریکہ کو نہ اپنی یہ صہیونیت نواز دلداریاں یاد ہیں‘ نہ اسے اسرائیل کے پاس ۱۸ اقسام کے مختلف کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار ہی دکھائی دیتے ہیں‘ جن میں بعض ایسے کیمیائی ہتھیار بھی شامل ہیں کہ جن سے پھیلنے والی آگ کا درجۂ حرارت ۲۸۰۰ سنٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔ رہا بدنام زمانہ انتھراکس  تو وہ بہت عرصہ پہلے اسے فراہم کیا جا چکا ہے۔

امریکہ کی اسی اسرائیل نوازی اور غنڈا گردی کے باعث پوری دنیا میں امریکہ مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ عراق کے بارے میں امریکی عزائم واضح ہو جانے  کے بعد شروع ہو گیا تھا اور دنیا کے گوشے گوشے میں ۳‘ ۴ کروڑ سے زیادہ افراد مظاہروں میں شریک رہے ہیں۔

۲۰ مارچ کو عراق پر حملہ شروع ہونے کے بعد مظاہروں کا سلسلہ فزوں ہو گیا ہے۔ اوائل مارچ میں ایک امریکی سروے کے مطابق عرب ممالک میں امریکہ سے نفرت عروج پر تھی۔ جیمززغبی انٹرنیشنل کے اس سروے کے مطابق سعودی عرب کے ۹۷ فی صد عوام امریکہ کے خلاف ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں یہ تناسب ۸۵ فی صد ہے اور اُردن جیسی امریکہ نواز حکومت کے ۸۱ فی صد عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔

نفرت کا یہ لاوا زیادہ دیر تک زیرزمین نہیں رکھا جا سکے گا۔ فلسطین ‘ افغانستان ‘ عراق اور دیگر مسلم ممالک میں روز افزوں امریکی دراندازیاں اس لاوے کے لیے مختلف راستے پیدا کررہی ہیں۔ مصر اور یمن میں کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے اعلان کے بغیر ہی سڑکوں پر آکر عوام نے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں۔ سعودی عرب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق لوگوں نے خصوصی صلوٰۃ تہجد اور نفلی روزوں کی خاموش تحریک شروع کر دی ہے جس میں لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ ’’آج اپنی تمام تر دعائیں اپنے عراقی اور فلسطینی بھائیوں کے لیے مخصوص کردیں‘‘۔ امریکہ اور اسرائیل سے اظہارِ نفرت کے ساتھ ہی ساتھ تعلق باللہ کا یہ انوکھا انداز دلوں کی دنیا تبدیل کر رہا ہے۔

خود امریکہ بھی اس زیرزمین لاوے کی تپش محسوس کر رہا ہے اور ارنے بھینسے کی طرح جلد از جلد پوری خلیج پر عملاً قبضے کا منصوبہ مکمل کرنا چاہتا ہے۔ بادی النظر میں اس راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچی۔ فرانس‘ جرمنی اور دیگر ممالک نے سیکورٹی کونسل کی حد تک مخالفت کی ہے لیکن عملاً وہ بھی عراق ہی کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ گمان غالب یہی ہے کہ عراق میں جنگ کے مخصوص مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد فرانس و جرمنی سمیت یہ ممالک بھی تعمیرنو کے نام پر امریکہ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں گے۔ اسے اپنے مفادات کے تحفظ کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس قیامت کا انحصار آیندہ دنوں میں جنگ کے پانسے پر بھی ہے۔ عراق کی تمام تر کوشش یہ دکھائی دیتی ہے کہ باقی شہروں میں ممکنہ حد تک لیکن بغداد میں آخری سانس تک مزاحمت کی جائے۔ عراقی حکومت نے بغداد کی تقریباً پوری آبادی (۵۰ لاکھ) کو شہر کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا ہے۔ تقریباً ہر شہری کو ہتھیار اور خوراک پہنچانے کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ عراق سے آنے والے ایک سیاسی رہنما کے بقول: ’’اگر بغداد کو کئی ماہ بھی محصوررہنا پڑا تو وہ اس کے لیے تیار ہوں گے‘‘۔ ان کے بقول ’’آسمان سے آگ برسا کر وہ نہ ۱۹۹۱ء میں عراقی حکومت ختم کرسکے تھے نہ اب کر سکیں گے‘‘۔ پٹرول اور تسلط کے جنون کی اندھی آگ میں کودتے ہوئے امریکہ اس حقیقت کو فراموش کر گیا کہ کائنات کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والا ہر فرعون و نمرود مالکِ کائنات کے کوڑوں کی زد میں ضرور آیا ہے۔ جلد یا بدیر یہ سنت الٰہی ضرور پوری ہونا ہے۔

الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ o فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o  فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ o اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ o  (الفجر ۸۹:۱۱-۱۴)

یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور اُن میں بہت فساد پھیلایا تھا۔ آخرکار تمھارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔

عراق پر متوقع امریکی حملے کے خلاف مغربی دنیا میں لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے تو ایک عام تاثر یہ بھی تھا کہ مسلمان‘ جن کو دراصل تباہی کا سامنا ہے اپنے ممالک میں خاموش ہیں۔ رابرٹ فسک جیسے نامہ نگار نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ تباہی سامنے دیکھ کر عرب چوہوں کی طرح ہوگئے ہیں۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۱۸فروری ۲۰۰۳ئ)۔ کریسنٹ انٹرنیشنل میں قاہرہ کے ایک نامہ نگار نے لکھا کہ رابرٹ فسک کو‘ جو عربوں کا ہمدرد شمار ہوتا ہے‘ حالات کا بہتر علم ہونا چاہیے تھا۔ایسا نہیں ہے کہ مظاہرے نہیں ہوئے‘ لیکن اگر وہ اس پیمانے پر نہیں ہوئے جس پر مغربی ممالک میں ہوئے تو اس کی وجوہات صاف اور ظاہر ہیں۔

۱۵ فروری ۲۰۰۳ء کو قاہرہ میں دو مظاہرے ہوئے ۔ بڑا مظاہرہ جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی سیدہ زینب چوک میں دوپہر کے وقت ہوا۔ عراقی اور فلسطینی جھنڈوں کے ساتھ امریکہ مخالف پلے کارڈ بھی تھے اور نعرے بھی لگائے گئے جن میں کوئی کوئی حسنی مبارک کے خلاف بالواسطہ بھی ہوتا تھا۔ مظاہرے کو کئی ہزار نفری پر مشتمل پولیس کے مسلح دستوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ چوک کے قریب کی سڑکوں پر فوجی دستے درجنوں گاڑیوں میں موجود تھے۔ ان سب کے درمیان مظاہرہ مشکل ہی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ گزرنے والے بجائے شریک ہونے کے یہ حالات دیکھ کر دُور ہی دُور سے گزرنے میں خیریت سمجھتے تھے۔ دوسرا نسبتاً چھوٹا مظاہرہ امریکی سفارت خانے کے سامنے معطل لیبرپارٹی نے کیا جسے معتدل اسلامی آواز کہا جاتا ہے۔ اس میں پہلے سے بھی زیادہ پولیس اور فوج موجود تھی جس نے علاقے کو کئی گھنٹوں تک محاصرے میں لیے رکھا۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ویلچ نے کچھ دیر کے لیے باہرآکر مظاہرہ دیکھا۔

کم شرکت کی وجہ صرف یہی نہیں تھی کہ موقع پر اتنی پولیس اور فوج تھی۔ مغربی ممالک کی حکومتیں مخالفانہ مظاہروں کا دبائو برداشت کر سکتی ہیں لیکن مصر جیسے ملک میں ۱۹۸۱ء میں انورالسادات کے قتل کے بعد سے ہنگامی قانون نافذ ہے اور سڑکوں پر کسی بھی طرح کے مظاہروں پر پابندی ہے۔ ہنگامی قانون کے تحت کسی کو بھی کوئی وجہ بتائے بغیرگرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی اسلامی تحریکوں سے وابستہ ۳۰ ہزار افراد جیلوں میں بند ہیں۔ بہت سے کئی برس گزار چکے ہیں۔

گذشتہ دو ماہ میں عراق سے یک جہتی ‘ اور جنگ کے خلاف سرگرمیوں کی بنا پر ۱۵ افراد جن میں کئی صحافی ہیں گرفتار کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نمایاں افراد جن کی گرفتاری مسئلہ بن سکتی تھی‘ رہا کر دیے گئے ہیں۔ ۱۷ فروری کو پریس سنڈیکیٹ کی فریڈم کمیٹی نے گرفتارشدگان کی حمایت میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس میں اخبار العالم الیوم کے صحافی ابراہیم السحر نے بھی خطاب کیا جو چند گھنٹے قبل ہی رہا کیے گئے تھے۔

ابراہیم السحرنے پریس کانفرنس میں اپنے اوپر گزری ہوئی پوری تفصیل بتائی۔ صبح سویرے گھرسے گرفتاری‘ گھر کی مکمل تلاشی‘ سیکورٹی ہیڈکوارٹر جانا اور پھر جیل مازارات لے جایا جانا---- بغیر کسی قانونی امداد کے موقع یا اہل و عیال سے ملاقات کے--- انھوں نے خاص طور پر ان غیرانسانی حالات کا ذکر کیا جن سے جیل میں اسلام پسند گزر رہے ہیں۔ ہفت روزہ الاہرام (۲۰-۲۶ فروری ۲۰۰۳ئ) کے مطابق انھوں نے کہا:’’میرے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ توکچھ بھی نہیں ۔ مجھے مارا پیٹا گیا‘ گالیاں دی گئیں‘ تذلیل کی گئی۔ یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا جو اسلام پسندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں گرفتار ہونے والوں کو سلام کرتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ عراق کے خلاف جنگ اور امریکی سامراج کے خلاف کھڑے ہوگئے‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ۳۰ ہزار اسلام پسندوں کو سلام کرتا ہوں۔ جنھوں نے مجھے گرفتار کیا‘ میرے ساتھ اچھائی کی   اس لیے کہ اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ اسلام پسند قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ  ہولناک تفصیلات پہلے معلوم نہ تھیں‘‘۔

عالمی مظاہروں کی خبریں آنے کے بعد سے قاہرہ اور دوسرے شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ قاہرہ میں الازہر یونی ورسٹی‘ اسمعیلیہ میںسویز کنال یونی ورسٹی اور بنی سعد (بالائی مصر) میں قاہرہ یونی ورسٹی کی شاخ میں ہزاروں طلبہ نے ۱۸ فروری کو مظاہرہ کیا لیکن انھیں سڑکوں پر نہیں آنے دیا گیا۔ قاہرہ یونی ورسٹی کے کیمپس میں ۲۲ فروری کو ایک بڑا مظاہرہ ہوا۔

اس طرح کے جبرواستبداد کے حالات میں‘ اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عرب ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیوں نہیں ہو رہے۔ مغرب کی حکومتیں مستحکم ہیں‘ جب کہ عرب حکمران اپنے کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ مغرب اس پر خوش ہے کہ یہ حکومتیں مظاہروں پر پابندیاں رکھیں‘ اس خوف سے کہ کہیں یہ حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۱-۱۵ مارچ ۲۰۰۳ئ)

حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین انتخابات تھے۔ اس کے مفصل تجزیوں‘ حکومت سازی کے مراحل اور آیندہ انتخابات پر ان کی تاثیر سے ان کی اہمیت مزید واضح ہو گی۔ لیکن لگتا ہے انتخابات پاکستان ہی میں نہیں دنیا کے ہر خطے میں ہو رہے ہیں۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء ہی کو الجزائر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے‘ ۵-۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو بوسنیا کے عام انتخابات ہوئے‘  ۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء ہی کو برازیل کے انتخابات ہوئے۔ جرمنی‘ لٹویا‘ اکواڈور‘ آئرلینڈ میں راے دہی ہوئی‘ بحرین میں عام انتخابات ہوئے اور ۲۷ ستمبر ۲۰۰۲ء کو مراکش میں وہاں کی تاریخ کے اہم انتخابات ہوئے۔

پاکستان کی طرح بوسنیا‘ بحرین اور مراکش کے انتخابات میں وہاں کی اسلامی تحریکوں نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ بوسنیا کے سابقہ انتخابات میں سابق صدر علی عزت بیگووچ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ ان کے اہم شریک‘ وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم حارث سلاجک کی علیحدگی سے لبرل اور سیکولر عناصر کو کامیابی ملی تھی‘ اور خدشہ یہ تھا کہ اس بار بھی وہی جیتیں گے لیکن تقسیم ہونے کے باوجود علی عزت بیگووچ جنھوں نے آزادی اور پھر جنگ کے ہر مرحلے میں اپنی قوم کی قیادت کی تھی‘ کی پارٹی پہلے نمبر پر رہی۔ لیکن دنیا کو اصل اچنبھا مراکش اور پاکستان کے نتائج پر ہوا۔

مراکش جو کبھی طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے نام سے پردئہ ذہن پر اُبھرتا تھا‘ سترھویں صدی کے وسط سے دستِ ملوکیت میں ہے۔ مولای الرشید اس مملکت کے پہلے بادشاہ بنے جن کا انتقال ۱۶۷۲ء میں ہوا (مراکش میں مولانا کے بجائے مولای بولااور لکھا جاتا ہے لیکن اس کا استعمال عام طور پر حکمرانوں کے لیے ہوتا ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ مراکش کے تمام شہنشاہوں نے اپنے اقتدار کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خانوادئہ رسولؐ سے منسوب کر رکھا ہے)۔ اس علوی مملکت پر مختلف ادوار آئے۔ جب ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی تشکیل ہوئی تو مراکش پہلا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پھر فرانسیسی استعمار کے بادل گہرے ہوتے چلے گئے اور علوی مملکت پر فرانسیسی زبان‘ ثقافت اور تہذیب کے نقوش نمایاں ہو گئے۔ ۵ نومبر ۱۹۵۵ء کو طویل جدوجہد کے بعد مراکش کو آزادی ملی تو محمد الخامس حکمران تھے۔ ۱۹۶۱ء میں ان کا انتقال ہوا تو حسن الثانی بادشاہ بنے جن کا ۱۹۹۹ء میں انتقال ہوا۔ اب ان کا بیٹا محمد السادس شہنشاہ ہے جو اپنے خانوادے کا تیئسواں بادشاہ ہے۔

حسن الثانی نے اپنے ۳۸ سالہ اقتدار میں مراکش کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے مختلف تجربات کیے۔ شہنشاہی کی حفاظت و تقدیس ہر تجربے کا مرکز و محور رہی۔ ۹۰ کے عشرے میں انھوں نے ملک بدر اپوزیشن رہنمائوں کو ملک میں واپس آکر حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔ فرانس میں مقیم اکثر لیڈر لوٹ آئے اور عبدالرحمن الیوسفی وزیراعظم بنا دیے گئے۔ الیکشن بھی کروائے گئے‘ یوسفی کی اشتراکی اتحاد پارٹی پہلے نمبر پر رہی اور مخلوط حکومت وجود میں آئی۔ اعلان کر دیا گیا کہ اب جمہوری روایات کی آبیاری کی جائے گی اور عوام کو اپنی حکومتوں کے انتخاب کی مکمل آزادی ہوگی۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر پانچ سال بعد ۲۷ ستمبر کو انتخابات ہوا کریں گے اور کسی کو اس تاریخ میں تبدیلی کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ووٹر کی عمر ۲۳ سال مقرر کر دی گئی اور پارٹی رجسٹریشن کا طریق کار طے کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ سنہ ۲۰۰۰ء کی مردم شماری کے مطابق مراکش کی آبادی ۳کروڑ سے متجاوز ہے۔

مراکش کے حالیہ انتخابات ۳۹ سالہ شاہ محمد السادس کے عہد کے پہلے انتخابات تھے اور ملکی تاریخ کے بھی پہلے انتخابات تھے جو متناسب نمایندگی کی بنیاد پر کروائے گئے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی مہم اپنے پروگرام اور انتخابی نشان ہی کے لیے چلائی۔ کہیں پر بھی شخصیتوں کو سامنے نہیں لایا گیا۔ تمام شخصیات کے نام پارٹی کی فہرستوں میں شامل تھے جو الیکشن سے پہلے کمیشن کو جمع کروائی گئیں۔

اس بار ۲۶ پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا جو اب تک انتخابات میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ وزیراعظم عبدالرحمن یوسفی کی اشتراکی اتحاد پارٹی کے علاوہ دائیں بازو کی استقلال پارٹی اور اسلامی تحریک حزب العدالۃ والتنمیۃ ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘اہم پارٹیاں تھیں اور تینوں ہی بالترتیب پہلے‘ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں۔ ۳۲۵ کے ایوان میں یوسفی کو ۵۰‘ استقلال کو ۴۷ اور انصاف و ترقی کو ۴۲ نشستیں ملیں۔ ۳۰ نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی گئیں جو اب تک سب سے زیادہ ہیں۔

اسلامی تحریک کو گذشتہ انتخابات میں نو نشستیں ملی تھیں جو بعد میں پانچ ضمنی نشستیں جیت کر ۱۴ ہوگئیں اور حالیہ الیکشن میں تین گنا ہو گئیں جس سے پوری غربی و عربی ذرائع ابلاغ میں کھد بھد مچ گئی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ مراکش الجزائر کا پڑوسی ملک ہے اور اسی کی طرح فرانسیسی اثر و نفوذ میں ہے۔ پوری انتخابی مہم میں اسلامی تحریک کے مخالفین اس کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ اس کا انتخاب مراکش کو الجزائر کی طرح خون خرابے میں مبتلا کر دے گا۔ کہا گیا ’’عالمی اور علاقائی قوتیں مراکش میں اسلامی تحریک کو کبھی برداشت نہیں کریں گی‘‘۔ ’’اسلامی قوتوں کی جیت بہائو کے مخالف سمت تیرنے کی ناکام کوشش ہوگی‘‘۔ لیکن مراکش کے عوام نے کہا کہ ’’یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی‘‘ (انصاف و ترقی پارٹی کا نشان چراغ تھا)۔

انصاف و ترقی پارٹی مراکش میں اسلامی تحریکوں کے مختلف مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔ آزادی کے بعد جب وہاں کارِ دعوت کی بنیاد رکھی گئی تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت و جماعت سے متاثر ہو کر اس کا نام جماعت اسلامی مراکش رکھا گیا۔ پھر شہنشاہیت کے ماحول میں نام تبدیل کرنا پڑا۔ متعدد بار نام تبدیل کرنے اور مختلف افراد کے اشتراک و اجتماع کے بعد اس کا نام تحریک اصلاح و تجدید رکھا گیا‘ ادریس الریسونی اس کے سربراہ تھے۔ پھر ’’حزب التجدید الوطنی‘‘ کے نام سے اسے ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کی اجازت نہ ملی۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ پہلے سے موجود ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ جو اسلامی تشخص رکھتی ہے اور شیخ عبدالکریم الخطیب (۱۹۲۱ء) اس کے سربراہ ہیں‘ میں شمولیت اختیار کرلی جائے۔ شیخ الخطیب نے خوش آمدید کہا۔ لیکن شرط یہ رکھی کہ شمولیت پارٹی کی حیثیت سے نہیں انفرادی حیثیت سے کی جائے۔ یہ شرط پوری کر دی گئی‘ انضمام عمل میں آیا اور نئی روح سے جدوجہد کا آغازہوگیا۔

سابقہ حکومت میں ’’انصاف و ترقی‘‘ نے اپوزیشن کی حیثیت سے شان دار کارکردگی دکھائی۔ ان کا موقف تھا کہ ہم ’’ناصحانہ اپوزیشن‘‘ المعارضۃ الناصحۃ کریں گے۔ سودی نظام‘ خواتین کے حقوق اور صہیونی ریاست سے تعلقات کے ساتھ ساتھ عوام کی مشکلات و مسائل پارلیمانی جدوجہد کے خاص مراحل ٹھہرے اور عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

’’انصاف و ترقی‘‘ نے اپنے اور ملکی حالات کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کیا کہ فی الحال خود کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنانے اور منوانے کی کوشش نہ کی جائے۔ الجزائر کی ہمسایگی‘ فرانسیسی عمل دخل اور شہنشاہی نظام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ ملک کے کل ۹۱ حلقوں میں سے ۵۵ حلقوں میں حصہ لیا جائے۔ اسی پالیسی کو انھوں نے ’’المشارکۃ لا المغالبۃ‘‘ کا نام دیا،’’یعنی غلبہ نہیں شرکت‘‘۔ پارٹی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم فی الحال ملک کی بڑی پارٹیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ نتائج آنے کے بعدبھی پارٹی نے یہی فیصلہ کیا کہ حکومت میں شرکت کی پیش کش قبول نہ کی جائے‘ اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے خود کو مضبوط تر اور عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے۔

’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ مراکش کی اکلوتی اسلامی تحریک نہیں ہے۔ ایک اور اہم بلکہ اہم تر اسلامی پارٹی، ’’جماعت عدل و احسان‘‘ ہے۔ اس کے سربراہ شیخ عبدالسلام یاسین بڑے حق گو رہنما ہیں۔ شیخ حسن البنا کی طرح شیخ عبدالسلام یاسین نے بھی عملی زندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا اور پھر وزارت تعلیم میں انسپکٹر کی ذمہ داری سے گزرتے ہوئے خود کو دعوت و اصلاح کے لیے وقف کر دیا۔ اس راہ میں انھیں لاتعداد مصائب جھیلنا پڑے۔ ۱۹۷۴ء میں گرفتار ہوئے تو چار سال بعد رہا ہوئے۔ پھر تقاریر پر پابندی لگا دی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں پھر گرفتار ہوئے۔ ۱۹۸۵ء میں رہا ہوئے اور پھر پورے ۱۰ سال کے لیے گھر میں نظربند کر دیے گئے۔ اس دوران ان کی صاحبزدی ان کے اور مراکشی عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنیں۔

۱۰ سال کے بعد رہائی ملتے ہی شاہ حسن الثانی کو ایک مفصل اور دو ٹوک خط لکھا کہ عوام کی دولت و ثروت پر ناجائز قبضہ تمھیں جہنم کی آگ سے دوچار کر سکتا ہے۔ اپنے آپ اور اپنے آبا و اجداد کی نجات کے لیے محلات اور لوٹی ہوئی دولت عوامی خزانے میں جمع کروا دو۔ لوگوں کو آزادیاں دینے کی بات کی‘ بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ شاہ حسن الثانی نے اس نصیحت کو سنا لیکن قبول نہیں کیا۔ شیخ عبدالسلام کے لاکھوں عشاق کے باعث وہ انھیں اس جسارت کی سزا بھی نہ دے سکا اور گور میں جا پہنچا۔ شیخ عبدالسلام نے ان انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ صرف ایک فریب اور سراب ہے۔ اصل اور کلی اختیار ’’شاہ‘‘ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے ہم اس ڈرامے میں شریک نہیں ہوں گے۔ گویا شاہ محمد السادس کو پارلیمنٹ کے اندر بھی اسلامی تحریکوں کی توانا آواز کا سامنا کرنا پڑے گا اور باہر بھی۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں ایک گروہ ان قبائل کا بھی تھا جو یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ’’امازیغی‘‘ زبان کو بھی ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔

انتخابات کے بعد شاہ محمد السادس نے یوسفی کے وزیرداخلہ ادریس جطو کو وزیراعظم مقرر کرتے ہوئے حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔ اس فیصلے پرسب سے زیادہ صدمہ یوسفی کو ہوا ہے کیونکہ سب نقاد اس پر یہی تنقید کرتے تھے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے۔ اس نے اپنے کئی مطالبات صرف شاہ کی رضامندی کی خاطر تج دیے۔ بہت سے کام اپنی رضا و رغبت سے ہٹ کر انجام دیے اور پھر پارٹی کو بھی سب سے بڑی پارٹی ثابت کیا‘ لیکن اس کے بجائے اس کے ایک وزیر کو حکومت سونپ دی گئی۔ دوسرا بڑا صدمہ ایک سابق سیکورٹی انچارج محمود عرشان کو ہوا جس نے اپنے بڑوں کی خاطر اپوزیشن اور حکومت مخالف عناصر پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ان کے حلقے میں صرف ایک ہی بے ضرر نعرے نے انھیں شکست کا منہ دکھا دیا۔ ’’الجلاد لایبنی الدیمقراطیہ‘‘ جلاد جمہوریت نہیں دے سکتا۔ ایک اور صاحب سعید سعدی‘ وزیر امور خواتین تھے۔ انھوں نے عالمی دبائو کے پیش نظر خواتین کو ہر میدان اور پارلیمنٹ میں بھی غیر معمولی طور پر شریک کیا۔ ۳۰ خواتین ان کے فیصلوں کے باعث اسمبلی میں پہنچ گئیں لیکن سعدی خود نہ آ سکے۔

مراکش کے ان انتخابی نتائج کے بعد پوری دنیا میں مختلف تبصرے اور تجزیے سامنے آئے ہیں۔ کچھ نے کہا: ’’نئے بادشاہ نے تسلیم کروا لیا کہ وہ اپنے والد سے مختلف اور زیادہ جمہوری ہے۔ لوگوں کو آزادی راے اور نسبتاً شفاف انتخاب کروا کے اس نے اپنے والد کا کفارہ ادا کرنا چاہا ہے‘‘۔ ایک بڑے گروہ نے ان نتائج کو تاریکی میں اُمید کی کرن قرار دیا۔ معروف تجزیہ نگار فہمی ھویدی نے الشرق الاوسط میں لکھا کہ ایسی عرب دنیا میں کہ جب حکمران ۹.۹۹ فی صد ووٹ لے کر جیت رہے ہوں آزادانہ انتخاب کروا دینا اور پھر ان میں اسلام سے محبت رکھنے والوں کا کامیاب ہو جانا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دل میں اُمید روشن رکھنا چاہتا ہے کہ وہ پُرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے اصلاحی مقاصدمیں ضرور کامیاب ہوں گے۔ پاکستان کے انتخابات کے بعد اس سوچ کے حامل تبصروں میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

 

مردِ بیمار کی پھبتیاں سہنے والا ترکی‘ اس صدی کے آغاز پر بھی یورپ کے لیے مردِ بیمار ہی ہے۔ تمام تر چاپلوسی کے باوجود ترکی یورپی یونین کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اتاترک اور اس کے پیروکار ۸۰ برس کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی مغرب کے دل میںجگہ نہیں بنا سکے‘اور نہ ترک قوم کے دل سے اسلام اور مشرقیت کی محبت نکال سکے ہیں۔

۳ اگست ۲۰۰۲ء کو پارلیمنٹ کے ذریعے کی جانے والی ترامیم کے مطابق ترکی میں سزاے موت ختم کر دی گئی ہے خواہ مجرم کا قاتل ہونا ثابت ہو جائے۔ قرآن کے اس واضح حکم کو قانوناً منسوخ کرنے سے عملاً جو فساد برپا ہوگا وہ تو اپنی جگہ پر ہے لیکن جس یورپی یونین کا ممبر بننے کے لیے یہ اقدام کیا گیا وہ اس کے باوجود بھی ممبر بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اب کردوں کے علاوہ قبرص کا معاملہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔

۲۰۱۰ء تک یورپی یونین میں مزید ۱۳ ممالک شامل کیے جانا ہیں لیکن ترکی کا معاملہ مختلف ہے۔ جرمن رہنما ہیلمٹ کوہل کے مطابق:’’ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت ایک کثیر پہلو تہذیبی اقدام ہوگا‘‘۔ ۱۵ برس کے اندراندر ترک آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہوگی‘ جرمنی سے کہیں زیادہ۔ اس کا مطلب ہے ترکی یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور چونکہ یورپی کمیٹی میں ووٹنگ کا نظام ممبرملکوں کی آبادی کے تناسب سے ہے‘ ترکی کے ووٹ سارا کھیل خراب کر سکتے ہیں۔ دوہرے معیاروں کا عالم یہ ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت سے ترکی کو جو فوائد و حقوق حاصل ہو سکتے ہیں‘ ان پر تو شرائط لگائی جا رہی ہیں‘ لیکن یورپی ٹیکس سسٹم میں شمولیت سے یورپ کو فائدہ اور ترکی کو نقصان ہوتا تھا‘ اس میں اسے ابھی سے شامل کرلیا گیا ہے۔ اب ترکی اور یورپی ممالک کے درمیان درآمدات و برآمدات پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوسکتا۔اس اقدام کی وجہ سے ترکی کو ہر سال ۴ ارب ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یورپی مال کی فراوانی کی وجہ سے ترکی کے کئی صنعتی یونٹ بند اور ملازمین بے روزگار ہو چکے ہیں۔ نجم الدین اربکان نے کوشش کی تھی کہ یورپ سے برآمد شدہ مال پر ۶ فی صد ٹیکس لگایا جائے لیکن ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

ترکی میں جب حالیہ اقتصادی بحران پیدا ہوا تو اربکان کے سب سے بڑے مخالف اور سیکولرازم کے عاشق ایک صحافی امین گوچالان نے لکھا تھا: ’’ اس بحران کا مطلب ہے اربکان حق پر تھا‘‘۔ نجم الدین اربکان کے حق پر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ۱۹۹۸ء میں ان پر پانچ سال کے لیے پابندی لگادی گئی۔ وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ان کی قائم کردہ ہر پارٹی ختم کر دی گئی۔ ۱۹۷۰ء میں ملّی سلامت پارٹی بنی اور ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء کے درمیان دو بار حکومت میں شرکت کے باوجود ۱۹۸۰ء میں اسے بھی بند کر دیا گیا۔ اربکان اور ساتھی پھر گرفتار بلا ہو گئے۔۱۹۸۳ء میں رفاہ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس نے ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۳ء تک اپوزیشن کی قیادت کی اور ۱۹۹۵ء میں استنبول و انقرہ سمیت بلدیاتی اداروں میں کامیابی حاصل کی۔

اصل قیامت اس وقت برپا ہوئی جب جون ۱۹۹۴ء میں اربکان کو وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ اتاترک کے وفاداروں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور سیکولرازم کی حفاظت کا حلف اٹھانے والی فوج نے کرپشن مافیا اور صہیونی میڈیا کی مدد سے صرف ایک سال بعد اربکان کو استعفا دینے پر مجبور کر دیا۔ ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ء کو رفاہ پارٹی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ الزام یہی تھا کہ ’’رفاہ ملک کے سیکولر نظام کے مخالفین کا گڑھ بن گئی ہے‘‘۔ دسمبر ۱۹۹۸ء میں فضیلت پارٹی تشکیل دی گئی۔ پورے ملک میں پھیلے رفاہ کے مراکز پر R.P کے بجائے F.P لکھ دیا گیا۔ فضیلت پارٹی پوری قوت سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئی۔ ۵۵۰نشستوں کے ایوان میں اسے ۱۱۰ نشستیں حاصل ہوئیں لیکن پوری سیکولر مشینری کو حرکت میں لاتے ہوئے اسے حکومت بنانے یا حکومت میں شرکت سے محروم رکھا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ پارلیمنٹ میں جانے اور لاکھوں ووٹ حاصل کرنے کے ایک ماہ بعد مئی ۱۹۹۹ء میں فضیلت پارٹی کے خلاف دستوری جنگ شروع کر دی گئی اور سیکولر دستور کی حفاظت کے نام پر ۲۲ جون ۲۰۰۰ء کو ’’فضیلت‘‘ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔

۲۰ جولائی ۲۰۰۱ء کو فضیلت پارٹی کی جگہ سعادت پارٹی نے لے لی لیکن بیرونی دشمن کے ہاتھوں تمام چرکے سہہ لینے والوں کے لیے اس بار اندرونی چیلنج بھی مہیب تھے۔ فضیلت پارٹی میں کام کرنے کے دوران ہی اربکان کے حقیقی سیاسی وارث رجائی قوطان کو گمبھیرحالات کا سامنا کرنا پڑا۔ استنبول کے سابق میئر اور قائدانہ سحر رکھنے والے رجب طیب ایردوغان اور ان کے ساتھیوں نے ایک اور نوجوان سیاسی قائد عبداللہ گل کو پارٹی لیڈر بنانے پر اصرار کیا۔ پارٹی انتخابات میں انھیں بھاری ووٹ بھی ملے لیکن منتخب رجائی قوطان ہی ہوئے۔ اس وقت تو عبداللہ گل نے جو اربکان کے اہم وزیر بھی رہ چکے ہیں اور تحریک کا سرمایہ ہیں رجائی قوطان کو اپنا لیڈر تسلیم کیا‘ اسٹیج پر جا کر پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور پارٹی ارکان کی پُرجوش داد وصول کی لیکن بدقسمتی سے تقسیم کا عمل پورا ہو کر رہا۔ فضیلت پر پابندی لگی تو رجب طیب نے ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کے نام سے الگ پارٹی بنا لی۔ فضیلت کے تقریباً ۴۵ ارکان اسمبلی نے ’’سعادت‘‘ کے بجائے ’’انصاف و ترقی‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔ دیگر کئی پارٹیوں سے بھی ارکان آئے اور طیب ایردوغان سیاسی لیڈروں میں اہم ترین ہوتے چلے گئے۔

جولائی ۲۰۰۱ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق طیب ایردوغان سیاسی قائدین میں سرفہرست ہیں۔ انھیں ۲۳ فی صد افراد کی تائید حاصل تھی‘ جب کہ خود صدر مملکت احمد نجدت سیزر کو ۱۳ فی صد اور وزیراعظم بلنت ایجوت کو صرف ۲ فی صد عوامی تائید حاصل تھی۔ ایجوت کو بیماری کے علاوہ پارٹی کے اندر بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

سیاسی پارٹیوں کے بارے میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق‘ انتخابات کی اہل ۲۳ پارٹیوں میں سے صرف چار پارٹیاں پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں گی کیونکہ ترک قانون کے مطابق ۱۰ فی صد سے کم ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی پارلیمنٹ میں شامل نہیں ہو سکتی اور اس کی جیتی ہوئی نشستیں اور ووٹ بھی جیتی ہوئی دیگر جماعتوں کو دے دیے جاتے ہیں۔

اس سروے کے مطابق طیب ایردوغان کی انصاف و ترقی پارٹی کو ۲۰ فی صد‘ ڈینز بائیکال کی کمیونسٹ ری پبلک پیپلز پارٹی کو ۱۱ فی صد‘ سعادت پارٹی کو ۱۰ فی صد اور تانسو چیلر کی صراط مستقیم پارٹی کو بھی ۱۰ فی صد ووٹ ملنے کی توقع ہے جب کہ نیشنلسٹ پارٹی کو ۸ فی صد‘ وزیرخارجہ اسماعیل جحم کی نئی قائم کردہ گریٹ یونٹی پارٹی کو ۵ فی صد‘ مسعود یلماز کی مدرلینڈ پارٹی کو ۳ فی صد اور حالیہ وزیراعظم بلنت ایجوت (بلند نہیں بلنت جس کا ترکی میں مطلب ہے جوان) کو صرف ایک فی صد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔

مختلف چھوٹی پارٹیوں کے درمیان اتحاد بنانے کی کوششیں اپنی جگہ جاری ہیں لیکن اسی اثنا میں ۱۴ستمبر کو مسعود یلماز نے ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور وہ ہے الیکشن ملتوی کرنے اور اپنے اصل شیڈول کے مطابق کروانے کی مہم۔ اس کے لیے انھوں نے پارلیمنٹ کے فوری اجلاس کی تحریک شروع کی ہے۔ فوری اجلاس بلانے کی درخواست دینے کے لیے انھیں ۵۵۰ کے ایوان میں سے ۱۸۰ ارکان پارلیمنٹ کے دستخطوں کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے انھیں ۱۸۰ ارکان کے دستخط مل جائیں لیکن کیا پارلیمنٹ الیکشن ملتوی بھی کر دے گی؟ حالات جہاں تک پہنچ گئے ہیں‘ اس کی روشنی میں اس کا امکان کم ہے۔

اسی اثنا میں ایک اہم عدالتی فیصلہ یہ سامنے آیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں نجم الدین اربکان کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب وہ کسی پارٹی کی طرف سے تو نہیں‘ آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے سکتے ہیں۔

اس صورت حال میں تمام تجزیہ نگار اس پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ اگر بڑی دھاندلی نہ ہوئی تو ۳نومبر ۲۰۰۲ء کو ہونے والے آیندہ الیکشن طیب ایردوغان کے ہیں۔ سعادت پارٹی کے بجائے انصاف و ترقی پارٹی میں شامل ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد اربکان کی خدمات و صلاحیتوں کی بھی معترف ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ سیکولر فوج نے ہر بار ان کا راستہ روکا ہے‘ اس لیے اس بار ان کے بجائے طیب کو منتخب کرنا ہے۔ اگرچہ استنبول کے اس سابقہ میئر کو بھی صرف اس بنا پر قید رکھا گیا اور سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی کہ انھوں نے ایک تقریر میں کچھ اشعار پڑھے تھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ اگر مجھے دہشت گرد کہتے ہو تو‘ ہاں میں دہشت گرد ہوں۔ مسجدوں کے مینار میری تلوار ہیں‘ ان کے گنبد میری ڈھالیں ہیں اور یہ مساجد ہماری بیرکیں ہیں۔

۱۰ رکنی نیشنل سیکورٹی کونسل کے نام پر ترکی کی اصل حکمراں‘ سیکولرازم کی محافظ فوج ہے۔ ۱۹۶۰ء‘ ۱۹۷۱ء اور ۱۹۸۰ء میں براہِ راست مداخلت اور فوجی انقلاب کے علاوہ سیکورٹی کونسل کے ذریعے دائمی مداخلت فوج اپنا حق سمجھتی اور بلاتکلف و حیا استعمال کرتی ہے۔ اب تک ترکی میں صرف دو جمہوری حکومتیں اپنی چار سالہ مدت پوری کر سکی ہیں۔ اتاترک کے بعد اب تک ۳۵ حکومتیں اسی سیکولر فوج کا شکار ہو چکی ہیں۔ لیکن سعادت اور اربکان کو ترک قانون کے مطابق کم از کم ۱۰ فی صد ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں پہنچنے سے روکنے کے لیے شاید فی الحال طیب کا راستہ نہ روکا جائے اور جس طرح کے تجزیے اور سروے سامنے آ رہے ہیں ان کی روشنی میں شاید طیب کا راستہ روکنا ممکن بھی نہ ہو۔

۵ اگست ۲۰۰۲ء کو رفاہ کے قائم کردہ ٹی وی چینل میں دو صحافیوں فہمی قور اور نورشریک کا کہنا تھا: ’’طیب ایردوغان اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت ۱۹۴۶ء میں عدنان مندریس اور ۱۹۸۳ء میں ترگت اوزال جیسی ہے۔ وہ دونوں بھی سنگین سیاسی بحرانوں کے بعد آئے اور اس وقت بھی ایک بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے۔ طیب ایردوغان کا پارلیمنٹ اور اقتدار میں پہنچنا یقینی اور سہل ہو چکا ہے‘‘۔

ملکی سیاست میں فوج کا کردار اس وقت ہمارے ملک میں ایک گرم موضوع ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لیے انڈونیشیا سے آنے والی یہ خبرآنکھیں کھولنے والی ہونا چاہیے کہ وہاں کے دستور میں سے فوج کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ کردار اس سے بہت زیادہ تھا جتنا ہمارے ہاں اس بہانے تجویز کیا جا رہا ہے کہ فوج کو بار بار مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا میں تو منتخب اسمبلی میں فوج کے نامزد نمایندے بطور ممبر بیٹھتے تھے اور صدر کے انتخاب میں فیصلہ کن ووٹ ڈالتے تھے۔۳۰ سال کی سہارتوکی فوجی حکومت کے بعد جب جمہوری حکومتوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی اصل تصویر عوام کے سامنے آئی۔ خوش حالی کے دعوئوں اور  پٹرولیم‘ گیس‘ ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ‘ لکڑی‘ربڑ اور سیاحت کی وسیع صنعتیں موجود ہونے کے باوجود‘ غربت اور  بے روزگاری عام ہے اور ملک کے شہری پریشان حال ہیں۔ عوام آج بھی راہ نجات کی تلاش میں ہیں۔

عبدالرحمن واحد کی ناکامی کے بعد انڈونیشیا پر اس وقت سوئیکارنو کی بیٹی میگاوتی بطور صدر حکومت کررہی ہیں جو سیکولر ہیں اور جمہوری پارٹی کی سربراہ ہیں۔ ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں ان کی جمہوری پارٹی نے ۱۵۴ اور سہارتوکی سابق حکمران گولکر پارٹی نے ۱۲۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دائیں بازو کی اسلام پسند پارٹی یونائٹیڈڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ حمزہ حاذ اس وقت ملک کے نائب صدر ہیں۔ اس نے ۵۸نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ سیکولر پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب انڈونیشیا میں جعفر عمرطالب اور ابوبکر بشیر کو القاعدہ سے رابطے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو حمزہ حاذ نے بلاتکلف جیل جاکر ان سے ملاقات کی۔ اسمبلی کے اسپیکر امین رئیس کی قومی بیداری پارٹی نے ۳۵ نشستیں حاصل کیں۔ یہ دونوں پارٹیاں اور نہضۃ العلما اسلامی قوتوں کی ترجمان ہیں۔ سہارتو کے خلاف تحریک میں ان کا نمایاں کردار تھا اور اب بھی دستور میں ترامیم کے وقت انھوں نے ملکی قوانین میں اسلامی شریعت کی بالادستی کے لیے منظم کوشش کی لیکن یہ ترمیم دستور میں نہ ہو سکی۔ اس پر نیوزویک نے یہ تبصرہ بھی دیا کہ: ’’دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کی اکثریت نے اسلام کو بحیثیت ملک کے قانون کو مسترد کر دیا‘‘۔

نظام حکومت میں شریعت اسلامی کی بالادستی کی علم بردار ایک پارٹی انصاف پارٹی ہے۔ جس کو سات نشستیں ملی تھیں۔ اس نے نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اس کے ۳ لاکھ ممبر ہیں۔ اس کے سیکرٹری جنرل لطفی حسن اسحاق گذشتہ دنوں پاکستان آئے تو انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ۵ فی صد چینی النسل آبادی نے ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔

مشرقی تیمور کی آزادی کے بعد وہاں آچے‘ پاپوا‘ ایم بون‘ سلاویسی میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آچے کے عوام اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی خبریں برابر آتی رہتی ہیں۔ ایک عنصرعیسائی مسلم فسادات کا بھی ہے۔ سہارتو کے دور میں عیسائیوں نے بہت پیش رفت کی۔ ۱۹۵۵ء میں جو مسلمان۹۵ فی صد تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۸۷ فی صد رہ گئے۔ کلیسا اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور انڈونیشیا ان کا سوچا سمجھا ہدف ہے۔

۲۰۰۴ء میں صدارتی انتخاب ہونے ہیں۔ نئی دستوری ترمیم کے مطابق یہ اب براہِ راست ہوں گے۔ پہلے کی طرح اسمبلی کے ذریعے بالواسطہ نہیں۔اس موقع پر یقینا اسلام اور سیکولر قوتوں کا پولرائزیشن ہوگا۔ نیوزویک نے اس سال سنٹر فار انٹرنیشنل کارپوریشن کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق۵۸ فی صد آبادی نے یہ پسند کیا تھا کہ انڈونیشیا کے تمام جزائر میں شریعت کی بالادستی بالفعل ہونا چاہیے۔ ملک کے حالات ابتر ہیں‘ اقتصادیات تباہ ہیں۔ اگر اسلامی قوتیں ایک پلیٹ فارم بناکرعوام کے سامنے آئیں تو بالکل ممکن ہے کہ آیندہ انتخاب میں حمزہ حاذ بطور صدرمملکت کامیاب ہو جائیں۔

دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمان مل جل کر بیٹھیں اور اپنے اجتماعی مسائل پر غور کریں تو یقینا یہ ایک   خوش گوار امر ہے۔ ایسا اجتماع اگر امریکہ میں ہو تو وہ زیادہ ہی اہم ہو جاتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ امریکہ میں ہورہا ہے اور دوسرا اس لیے کہ مسلمان اس وقت امریکہ کے ٹارگٹ پر ہیں۔ امریکہ میں ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہو‘ بہرحال وہ وہاں کی ایک موثراقلیت ہیں اور اگر مربوط اور منظم ہوں تو پوری اُمت مسلمہ کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے گذشتہ دنوں دو بڑے اجتماعات اخبارات میں موضوع بنے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جو ضروری نہیں ہیں کہ درست ہوں‘ اس لیے کہ ہر جگہ کے اخبار‘ اخبار ہی ہوتے ہیں‘ ۳۶ ہزار مسلمانوں کا اجتماع واشنگٹن کے کنونشن سنٹر میں ۳۰ اگست سے ۲ ستمبر ۲۰۰۲ء تک جاری رہا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کی برسی کی تقریبات سے ایک ہفتے قبل منعقد ہونے والا یہ اجتماع اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (ISNA) (اسنا) کے زیراہتمام منعقد ہوا۔ اس کا مرکزی موضوع تھا: ’’اسلام‘ سلامتی کا مذہب‘‘۔ اس کلیدی موضوع کے حوالے سے تقریباً ایک سو سے زیادہ مسلم قائدین اور مختلف شعبہ ہاے زندگی کے نمایاں افراد نے خطاب کیا۔ ان میں امام حمزہ یوسف‘ مراد ہوف مین‘ اکبر ایس احمد‘ غلام نبی فائی‘ زاہد بخاری‘ آغا سعید اور ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی شامل ہیں۔

اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان پر ’’دہشت گردی‘‘ کا جو الزام چسپاں کر دیا گیا ہے‘ اسلام اور اپنے آپ کو وہ اس سے کیسے الگ کریں۔ کانفرنس کا موضوع بھی اسی کا اظہار ہے اور تمام مقررین نے اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات کو نمایاں کیا۔ ساتھ ہی فلسطین‘ کشمیر اور دیگر علاقوں میں مسلمان جو جدوجہد کر رہے ہیں اس کو صحیح تناظر میں پیش کیا گیا۔

اسنا امریکہ کی اسلامی تنظیمات کا نمایندہ اور موثر وفاق ہے اور اس میں مقامی امریکی مسلمانوں کے علاوہ جو بیشتر ایفروایشین ہیں‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ مصر‘ ایران‘سوڈان‘اُردن‘ تیونس‘ الجزائر‘ مغربی یورپ اور دیگر ممالک کی انجمنیں شامل ہیں۔ قابل ذکر تنظیموں میں مسلم امریکن یوتھ ایسوسی ایشن (MAYA)‘ ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائنٹسٹ (AMSS)‘ نارتھ امریکہ اسلامک ٹرسٹ‘ کونسل فار اسلامک اسکولز وغیرہ ہیں۔ سوسائٹی کے موجودہ صدر نورمحمد عبداللہ ہیں‘ جو سوڈان کے رہنے والے ہیں‘   جب کہ سیکرٹری جنرل ایک کشمیری سید محمد سعید ہیں۔

اسی طرح کا ایک بڑا اجتماع دو ماہ قبل اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) (اکنا) کے زیراہتمام منعقد ہوا۔یہ سرکل ۴۰ سال قبل اسلامی جمعیت طلبہ کے سابقین نے حلقہ احباب کے نام سے قائم کیا تھا۔ بنیادی طور پر اس میں پاکستان سے گئے ہوئے تحریک سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ لیکن اب یہ ایک بڑی اور منظم تنظیم ہے۔ اس کا اپنا مرکز ہے۔ مختلف شعبے اپنے اپنے میدانوں میں سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے مواقع بھی مہیا کیے جاتے ہیں‘ تعلیمی ادارے بھی قائم کیے جاتے ہیں۔ اسلامی مراکز اور مساجد بھی قائم ہیں۔ مسلم ممالک میں ریلیف کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ مسیج کے نام سے رسالہ بھی ہے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کے حالات کے پس منظر میں ۳‘۴‘۵ جولائی ۲۰۰۲ء کا سالانہ کنونشن خصوصی اہمیت رکھتا تھا۔ اس سال عرب نوجوانوں کی انجمن کے ساتھ مشترکہ اجتماع رکھا گیا تھا۔ مختلف اجلاسوں میں ۲۰ ہزار سے زائد شرکا نے حصہ لیا۔ انگریزی‘ اُردو‘ بنگلہ اور عربی بولنے والوں کے علیحدہ علیحدہ اجتماع اور گروہی مباحث ہوئے۔

یہ کنونشن بالٹی مور شہر کے کنونشن سنٹر میں ہوا۔ اس سال کا موضوع بحث یہ تھا:

Islam in North America, Challenges, Hopes and Responsibilities

امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد ۲ لاکھ سے متجاوز ہے۔ اتنی ہی تعداد میں برعظیم کے دوسرے ممالک کے مسلمان مختلف ریاستوں میں قیام پذیر ہیں۔ اجتماع سے اکنا کے مرکزی صدر ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ‘ امام سراج وہّاج‘ امام وارث دین محمد‘ امام نعیم سرویا‘ ڈاکٹر یونے حداد‘ ڈاکٹر احسان باگبی‘ ڈاکٹر ممتاز احمد‘ امام زیدشاکر‘ لارڈ نذیر احمد‘ڈاکٹر محمد مزمل صدیقی‘ محترمہ فوزیہ ناہید‘ ڈاکٹر زکیہ امین اور پاکستان سے آئے ہوئے ناظم کراچی نعمت اللہ خاں کے علاوہ دیگر سرکردہ شخصیات نے مختلف موضوعات پر خطاب کیا اور سرزمین امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے ہی اسلام کا حقیقی چہرہ سامنے لایا جا سکتا ہے اور اس طرح اہل امریکہ کا متعصبانہ نقطۂ نگاہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بھارت سے جماعت اسلامی کے کل ہند سیکرٹری جناب محمد جعفر‘مولانا یوسف اصلاحی اور سید غلام اکبر نے شرکت کی۔ سید غلام اکبر نے گجرات کے فسادات کا حال بتایا۔

اکنا کے کنونشن میں امریکی سفیدفام مسلمانوں کی نمایندگی بھی ہوتی ہے۔ غیرمسلم دانش ور بھی مدعو تھے جس میں مسلمانوں کے مشہور حریف اسٹیون ایمرسن اور انسانی حقوق کے علم بردار پال فنڈلے قابل ذکر ہیں۔ پال فنڈلے اپنے ضمیر کی آواز پر سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اتفاقی نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ تین روز تک جاری رہنے والے اجتماع میں نہ صرف کتب‘ ملبوسات اور دیگر سامانِ زیست کی خرید کے وافر مواقع میسر آتے ہیں بلکہ لوگ اپنے اُن احباب سے بھی مل لیتے ہیں جن کے پاس ملازمت کی مصروفیات کے سبب جانا نہیں ہوتا۔ کئی باہمی معاملات بھی دورانِ اجتماع طے پا جاتے ہیں۔

ایک ایسے ساتھی کا بھی ذکر آیا جنھوں نے نفرت کی فضا میں صحیح راستہ اختیار کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معروف کتاب دینیات کا انگریزی ترجمہ Towards Understanding Islam  ۲۵ ہزار کی تعداد میں غیرمسلموں تک پہنچایا۔

اس طرح کے کنونشن بڑے امکانات رکھتے ہیں۔مسلمانوں میں یہ احساس بیدار کرنا کہ وہ اچھے مسلمانوں کی طرح رہیں‘ یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔اگر ۷۰ لاکھ مسلمان حقیقی اسلام کے سفیر بن جائیں تو بہت سارے مسئلے حل ہوجائیں۔ اس طرح کے کنونشن امریکی شہریوں اور ان کے میڈیا کو یہ موقع دیتے ہیں کہ جو بغیر تعصب کے مسلمانوں کا حقیقی چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں وہ دیکھ لیں۔ امریکی شہریوں اور مسلمانوں کے تعلقات بظاہر وہاں کا داخلی مسئلہ ہیں۔ لیکن دراصل اس پر پوری اُمت کا مستقبل دائو پر لگا ہے۔ اگر آج امریکی راے عامہ تعصب سے پاک صحیح رخ پر ہو‘ یقینا وہاں کی حکومت مسلم دشمن پالیسیوں کو نہیں چلا سکتی۔ اس لحاظ سے یہودیوں کی کارکردگی میں مسلمانوں کے لیے بڑا سبق ہے۔

امریکہ کے ممتاز تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی طرف سے پینٹاگون کو دی جانے والی بریفنگ میں سعودی عرب کو امریکہ کے دشمن ملک کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور سفارش کی گئی ہے کہ اسے دہشت گردی کی پشت پناہی سے روکنے کے لیے الٹی میٹم دیا جائے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۰ جولائی ۲۰۰۲ء کو رینڈ کارپوریشن کے تجزیہ نگار لارینٹ موریوک نے ڈیفنس پالیسی بورڈ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا:’’ سعودی شہری دہشت گردی کے پورے سلسلے سے منسلک ہیں۔ منصوبہ سازوں سے لے کر مالی معاونت کرنے والوں ‘اعلیٰ تنظیمی عہدے داروں سے عام کارکن اور نظریہ سازوں سے جوش دلانے والے رہنماؤں تک سعودی عرب میں اس سلسلے کی ہر کڑی متحرک ہے --- سعودی عرب ہمارے دشمنوں کی مدد کرتا ہے اور ہمارے اتحادیوں پر ضرب لگاتا ہے --- سعودی عرب برائی کا منبع ہے‘ وہ سب سے بڑی متحرک قوت ہے اور مشرق وسطیٰ میں ہمارا سب سے زیادہ خطرناک دشمن ہے۔ رپورٹ میں امریکہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب امریکہ کے مطالبات پورے نہ کرے تو سعودی تیل کے چشموں اور بیرون ملک اس کے اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے‘‘۔

کہا جاتا ہے کہ خلیجی جنگ کے بعد امریکہ اور سعودی عرب نے باہمی تعلقات کا  ہنی مون منایا ہے اور ہنی مون ختم ہوکر ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو ۔ ایک سعودی ڈپلومیٹ کا کہنا ہے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بہت قیمت ادا کی ہے جب کہ اسرائیل ان کو تباہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے لیے ماحول ساز گار ہو جائے ۔

ساڑھے چار ہزار امریکی فوجیوں کی سعودی عرب میں موجودگی --- مسئلہ فلسطین --- عراق کا مستقبل --- سعودی عرب کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات--- یہ وہ امور ہیں جن پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اختلاف رائے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ او ر اس سب کچھ پر مستزاد یہ کہ ۱۱ستمبرکے بعد سعودی عرب کو دہشت گردی کا اصل سرپرست قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے تعلیمی نظام کو دہشت گردی کی نرسری کہا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملہ آور ۱۹افراد میں سے ۱۵سعودی شہری تھے اور سعودی عرب کے دہشت گرد ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔

۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے علاوہ تعلقات کی ۷۰ سالہ تاریخ میں دونوں ملکوں کے درمیان اتنی کشیدگی کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ خلیجی جنگ کے بعد امریکی حکام اور تجزیہ نگاروں کا یہ تاثر تھا کہ کٹھ پتلی کی طرح سعودی عرب وہی کرے گا جو امریکہ چاہے گا لیکن افغان جنگ نے حالات کو یکسرتبدیل کر دیا ہے ۔ ۱۱ ستمبر کے بعد امریکہ عرب دنیا کی صرف حمایت ہی نہیں چاہتا تھا بلکہ اس کے مطالبات کا دائرہ سعودی عرب کی سیاسی ‘ دینی اور نظریاتی بنیادوں تک بڑھ گیا ہے ۔ ۷۰ سال کے طویل عرصے پر محیط امریکی سعودی تعلقات میں آج جو شگاف دکھائی دے رہے ہیں ان کے اسباب میں سب سے اہم امریکی میڈیا ‘ یہودی لابی اور   وہ حکومتی حلقے ہیں جو ان تعلقات کوحسد وبغض کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

نیویارک ٹائمزکی ‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں تھا مسن فریڈ مین سعودی نظام تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے:’’دینی مدارس اور دینی ادارے وہ مراکز ہیں جہاں سے دہشت گردوں کی قیادت اٹھتی ہے ۔اس لیے دہشت گردی کے ان چشموں کو خشک کرنا ہوگا۔ یہ نظام تعلیم یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا ہے اور ان کے خلاف لڑائی پر اکساتا ہے ۔ ‘‘

امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جوزف بیڈن ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو کہتا ہے کہ:’’اب وقت آگیا ہے کہ سعودی عرب کو خبر دار کر دیا جائے کہ وہ دنیا میں متشدد دینی مدارس کی پشت پناہی چھوڑ دے کیونکہ سعودی جن مدارس کی سرپرستی کرتے ہیں ان میں امریکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ دیا جا تا ہے ۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب پر واضح کر دے کہ وہ ان سرگرمیوں سے باز رہے ورنہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا ۔‘‘

امریکی حکام اور اسلام دشمن صہیونی لابی نے سعودی عرب کے خلاف اس مہم میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی یہودی تنظیموں کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں صدر جارج ڈبلیو بش نے سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’’ سعودی عرب ایک غیر جمہوری ملک ہے‘ جب کہ اسرائیل اس خطے کا واحد جمہوری ملک ہے ۔ ایریل شیرون منتخب وزیر اعظم ہے اور سعودی قیادت غیر جمہوری ہے ‘‘۔

امریکی حکام اس بات کو بھی نہیں بھولے کہ سعودی عرب ہی نے طالبان کے نظام کو بنایا اور  ۱۹۹۹ء کے آغاز سے ۲۰۰۰ء کے وسط تک پاکستان اور افغانستان کو یومیہ ڈیڑھ لاکھ بیرل تیل مفت فراہم کیا جس کی وجہ سے افغانستان خانہ جنگی کے زمانے میں مضبوط ہوا اور شاید تیل کی بعض مقدار کو بیچ کر طالبان کو مسلح کیا گیا ۔ مشہور سعودی علماے دین کے بیانات بھی اہم ہیں جیسا کہ شیخ حمود بن عقلہ الشعیبی نے طالبان کی واضح حمایت کی اور امریکہ کو کافر کہتے ہوئے یہودو نصاریٰ کے ساتھ تعاون کو حرام قرار دیا ۔

سعودیہ پر امریکہ کا ایک اور الزام یہ ہے کہ ۲۵ ہزار سے زائد سعودی باشندوں نے اسلام کی خاطر بوسنیا ‘ چیچنیا اور افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا ۔ لندن میں مقیم ایک سعودی منحرف سعد الفقیہ کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر نے وطن واپس آکر اسلامی جماعتوں کے لیے چندہ جمع کیا اور جنگجو تیار کیے ۔

سعودی حکومت نے علماے دین کی جہاد اور افغانیوں کی مدد کرنے کی اپیلوں کو مفتی سعودیہ کے رسمی بیانات کے ذریعے اپنے تئیں روکنے کی کوشش کی ۔ بعض علما اور مفتی سعودیہ نے غیر مسلموں کے قتل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اس بات کو  فنانشل ٹائمز نے ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ’’ سعودی حکام بمقابلہ جہادی اپیل ‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔ ایک حیرت انگیز بات امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے یہ سامنے آئی ہے کہ سعودی آئمہ اور خطبا کے لیے ۵ ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے تاکہ وہ اسلام کی ’’ صحیح تعریف‘‘  پیش کریں ۔ اور مسلمانوں کو ’’ صحیح تعلیم ‘‘ دیں ۔ اسرائیل ان عرب ممالک پر جن کے ساتھ اس کے معاہدے ہوئے ہیں دبائو ڈال رہا ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان قرآنی آیات کی تلاوت نہ کی جائے جن میں یہودیوں کا تذکرہ ہے ۔ قرآن و حدیث جو کہ تمام اسلامی تعلیمات کا منبع و سرچشمہ ہیں ان کے بارے میں یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی پر اکساتے اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں ۔ قرآن کی آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط (المائدہ ۵:۵۱) (اے لوگو جوایمان لائے ہو‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تواس کا شمار بھی پھر انھی میںہے) کو دلیل بناتے ہوئے مذہبی پیشوا ہیرف کہتا ہے کہ ’’ اسلام تشدد کی دعوت دیتا ہے ‘‘ ۔

اسی دبائو کے نتیجے میں یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک میں نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے بارے میں نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی کی ۷ جنوری ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ نے بند اجلاس میں آئمہ اور خطبا کی اصلاح پر زور دیا ہے۔

سعودی ولی عہدشہزادہ عبداﷲ‘ جو ملک فہد کی بیماری کی وجہ سے سعودی عرب کے حقیقی فرمانروا ہیں ‘ نے سعودی عرب کے خلاف اس امریکی مہم کو اسلام کے خلاف بغض و حسد پر مبنی قرار دیا۔ سعودی عرب کا اپنے حلیف ملک امریکہ کے خلاف حالیہ موقف ۱۱ ستمبرکے واقعات کے بعد کی بات نہیں بلکہ اس کا آغاز  ایریل شیرون کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہوگیا تھا ۔ یہ سخت موقف اس وقت واضح ہو کر سامنے آیا جب اگست ۲۰۰۱ء میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی پر امریکہ نے خاموشی اختیار کی۔شہزادہ عبداﷲ نے اسرائیل کی جانب داری پر امریکہ کو بار بار متنبہ کیا اور بالآخر اپنا مجوزہ دورہ امریکہ اور صدر بش سے ملاقات کا پروگرام منسوخ کر دیا ۔

سعودی ترجمان کے مطابق فلسطین کے خلاف وحشیانہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے سعودی اعلیٰ فوجی افسر نے اگست ۲۰۰۱ء میں اپنا وہ مجوزہ دورہ امریکہ منسوخ کر دیا جس میں دونوں ممالک کے مابین فوجی تعاون پر بات چیت ہونا تھی ۔ وال سٹریٹ جرنل ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ‘سعودی پیغام ( ۲۷ اگست ۲۰۰۱ء) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ سعودی عرب نے بش انتظامیہ کو متنبہ کرد یا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں واشنگٹن کی ناکامی سعودیہ کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دے گی ‘‘۔

۱۲ اگست ۲۰۰۱ء کو سعودی ولی عہد شہزادہ عبداﷲ نے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی اندھی حمایت پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور سعودیہ دوراہے پر کھڑے ہیں اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مخلص دوستوں کا انتخاب کرے ‘‘۔ انھوں نے جارج ڈبلیو بش کو سخت لہجہ میں کہا: ’’ قوموں کی تاریخ میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور سعودیہ اپنے اپنے مفادات دیکھیں ۔ وہ حکومتیں جو اپنی عوام کی نبض کو نہیں پہچانتیں اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں ان کا حشر وہ ہوگا جو شاہ ایران کا ہوا‘‘۔

شہزادہ عبداﷲ کا یہ پیغام ہر باشعور اور غیرت مند سعودی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے ۔ کوئی بھی سعودی شہری یہ نہیں چاہتا کہ امریکہ سعودیہ تعلقات امریکی بالادستی پر قائم ہوں اور یہ بھی نہیں چاہتا کہ یہ تعلقات دوستی سے دشمنی میں تبدیل ہو جائیں بلکہ اس کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت وہی ہو جیسی دوسرے ممالک‘ یعنی جاپان ‘ جرمنی وغیرہ کے ساتھ ہے ۔ جس میں سعودی مفادات کو اولیت دی جائے لیکن امریکہ کا اسرائیل کے بارے میں موقف دوستی کے رشتے کو ختم کر رہا ہے۔ پھر۱۱ ستمبرکے بعد سیکڑوں سعودی باشندوں سمیت ۱۷ ہزار عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی گرفتاری جیسے اقدامات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور ان میں سے ابھی بیسیوں سعودی شہری جیلوں میں ہیں ۔۶ ہزار عرب اور غیر عرب مسلمانوں پر امریکی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کا الزام ہے اور ان کو زبردستی امریکہ سے نکالا جا رہا ہے۔ ہزاروں غیر مسلم تارکین وطن بھی امریکہ میں موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی قابل ذکرکارروائی نہیں ہو رہی ۔

اگر سعودی عوام کا رد عمل دیکھا جائے تو ہرکس و ناکس ‘ مرد و زن ‘ اساتذہ و طلبہ حتیٰ کہ سیاستدان تک اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے ۔ سعودی عوام چاہتے ہیںکہ ان کی حکومت ایسا موقف اختیار کرے جو عوامی جذبات کا ترجمان ہو اور سینوں کو ٹھنڈا کر دے ۔ سعودی عوام نے اپنے وزیر دفاع اور وزیرداخلہ کے ان بیانات کو بہت سراہا ہے کہ کسی عربی یا اسلامی ملک پر حملے کے لیے کسی ملک کو سعودی زمین استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیںدی جائے گی‘ اور نہ کسی سعودی باشندے کو ہی امریکہ کے حوالے کیا جائے گا ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے بڑی جدوجہد کے بعد امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایسے مقام پر پہنچا یا  ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف ہیں ۔ وہ یقینا ان کو خراب نہیں کرنا چاہے گا ۔

امریکہ بھی ان تعلقات کو کشیدہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ اس کا مفاد بھی اسی میں ہے۔ امریکی انتظامیہ اور سعودی قیادت ذرائع ابلاغ پر کسی ایسے موقع کو ضائع نہیں کرتے جس میں اس بات پر زور نہ دیا جائے کہ سعودی امریکی باہمی تعلقات بہترین ہیں ۔ کم از کم میڈیا کی حد تک صدر جارج ڈبلیو بش اور سعودی ولی عہد  امیر عبداﷲ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ امریکی ڈپلومیٹس سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں اور خوش گوارماحول میں سعودی حکام سے ملاقات کرتے ہیں لیکن حالات عملاً کیا رخ اختیار کرتے ہیں ؟ امریکہ کی طرف سے اسرائیلی سرپرستی میں کتنی کمی آتی ہے  ؟ عراق پر حملے کے حوالے سے امریکہ کیا طے کرتا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ دہشت گردی کے نام پر سعودی حکومت ‘ سعودی عوام ‘ سعودی روایات اور مسلم دنیا کے خلاف کیا رویہ اختیار کرتا ہے ؟ انھی سوالوں کے معلوم جواب میں مجہول مستقبل کے خدوخال نظر آتے ہیں ۔

احمدرفاعی محمد ثانی‘ نائیجیریا کی ریاست زامفارا کے حکمران ہیں جو تاریخ میں اس حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے کہ موجودہ دور میں نائیجیریا کی اس پہلی ریاست کے حکمران ہیں جس میں نفاذ شریعت کا اعلان کیا گیا۔ اس اقدام سے اسلامی افریقہ کے ان ممالک کی یاد تازہ ہو گئی جنھیں استعمار نے کچل کر رکھ دیا تھا۔

احمد رفاعی محمد ثانی نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ریاست میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا‘ اس وقت ان کی  عمر ۳۹ سال تھی۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذ شریعت کیسے کیا جائے‘ انھوں نے اس کی ایک   عمدہ مثال پیش کی ہے۔ نفاذ شریعت نائیجیریا کے مسلمان عوام کے دلوں کی آواز تھی۔ اس کے بعد نائیجیریا کی ۱۲شمالی ریاستوں نے اس کی تقلید کی۔ نائیجیریا میں ۳۶ ریاستیں اور ایک صوبہ ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ ترجمان القرآن‘ ستمبر ۲۰۰۱ء)۔ احمد رفاعی محمد ثانی نے اس تجربے سے کیا سیکھا اور انھیں کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؟ درج ذیل انٹرویو (شائع کردہ: المجتمع ۱۵۰۸‘ ۶ جولائی ۲۰۰۲ء) اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔

سوال: آغاز کہاں سے ہوا؟

جواب: جنوری ۱۹۹۹ء میں‘ میں نے زامفارا کے سربراہ کے انتخابات میں حصہ لیا۔ میں ’’کل الشعب پارٹی‘‘کی طرف سے امیدوار تھا۔ یہ کوئی اسلامی پارٹی نہیں تھی بلکہ ایک فیڈرل پارٹی تھی جس کے پورے نائیجیریا میں اثرات ہیں۔ یہ پارٹی افرادی قوت کے لحاظ سے نائیجیریا کی تین فیڈرل پارٹیوں میں سے دوسری بڑی پارٹی ہے۔

الحمدللہ! مئی ۱۹۹۹ء میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔ پارٹی کے نمایندوں نے ریاست کی ۲۴ میں سے ۱۹ نشستیں حاصل کیں۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ریاست میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔

س : آپ میں یہ سوچ کیسے پیدا ہوئی؟

ج : انتخابات سے پہلے میں شیخ ابوبکر محمود اور دیگر علما کے مواعظ اور دروس میں شرکت کیا کرتا تھا۔ جب میں نے نائیجیریا کے دستور کا مطالعہ کیا تو میں نے دیکھا کہ نفاذ شریعت اور نائیجیریا کے دستور میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ نائیجیریا کی کسی بھی ریاست میں شریعت نافذ کی جا سکتی ہے کیونکہ نائیجیریا میں فیڈرل حکومت ہے اور ریاستوں کو اس حوالے سے قانونی خودمختاری حاصل ہے۔ نفاذ شریعت کی قرارداد اس ریاست کے عوام کی دلی تمنا تھی۔ یہ کوئی زبردستی ٹھونسا گیا فیصلہ نہیں تھا۔ اسے ریاست کی پارلیمنٹ میں تمام نمایندوں کی تائید حاصل ہوئی۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ریاست میں اجتماع عام منعقد کیا جس میں ۲ لاکھ افراد نے شرکت کی‘ جب کہ ریاست کی کل آبادی ۲۷ لاکھ ہے۔

س: آپ معاشیات سے سیاست میں کیسے آئے؟

ج: میں نے زامفارا کی وزارت مالیات میںکام کا آغاز کیا۔ اس وقت زامفارا کی ریاست ’’سوکوتو‘‘ کا حصہ تھی۔ ۱۹۹۶ء میں ‘ میں زامفارا میں وزارت مالیات کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے لوٹ آیا۔ اس کے بعد میں نے استعفا دے دیا اور ’’کل الشعب پارٹی‘‘ میں شامل ہو گیا۔ ستمبر ۱۹۹۸ء سے میںنے باقاعدہ سیاست میں حصہ لیناشروع کیا۔

س: آپ کی ریاست میں ’’نفاذ شریعت‘‘ کن معنوں میں ہوا؟

ج: نفاذ شریعت سے مراد اس کا عمومی مفہوم ہے جس میں حدود‘ قصاص‘ نظام تعلیم‘ معیشت اور معاشرتی نظام‘ سب پہلو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور رشوت خوری کا سدباب کرنا اور لوگوں کے اندازفکر کو تبدیل کرنا تاکہ وہ قرآن و سنت اور دیگر اسلامی مصادر کی طرف رجوع کریں۔

س:  عدالتوں کی طرف رجوع اور قوانین کی تبدیلی کے سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی؟

ج :موجودہ عدالتی نظام ۲۷ جنوری ۲۰۰۰ء کو متعارف ہوا ۔ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے جنوری ۲۰۰۰ء تک عدالتوں میں ججوں کو تیار کیا گیا اور عوام کی رہنمائی کا بندوبست کیا گیا۔

س:  کیا آپ نے نفاذ شریعت کے لیے حالات اور ماحول کو سازگارپایا؟

ج : نائیجیریا میں بہت سارے نوجوان اسلامی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں جنھوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم پائی ہے۔ علما کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں بہت سے علما کی رہنمائی بھی حاصل رہی۔ صرف زامفارا ہی میں نہیں بلکہ بہت سی دوسری ریاستوں میں بھی علما کی بڑی تعداد موجود ہے۔ پارلیمنٹ کے بعد مجلس العلما کو اسلام کا نقطۂ نظر بیان کرنے اور مشاورت کی اتھارٹی دی گئی ہے۔ نفاذ شریعت سے پہلے وزارت مذہبی امور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت ابراہیم و کالامحمد اس کے  سربراہ ہیں۔ اس وزارت کے تحت ’’ادارہ دعوۃ و صلوٰۃ‘‘ اور ’’ادارہ زکوٰۃ و اوقاف‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے۔

س:  ریاست میں نفاذ شریعت کے حوالے سے ’’کل الشعب پارٹی‘‘ کا کیا موقف تھا؟

ج:  نفاذ شریعت کے مسئلے میں پارٹیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ’’کل الشعب پارٹی‘‘ کے سربراہ نے اعلان کیا کہ جن ریاستوں میں پارٹی کی حکومت ہے وہ سب نفاذ شریعت چاہتی ہیں اور انھیں اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ ملک کی بڑی پارٹی صدر نائیجیریا کی پارٹی ہے۔ چونکہ اس کی دستوری اتھارٹی نہیں ہے اس لیے وہ مخالفت نہیں کرسکتی۔

س:  دوسری ریاستوں کا کیا موقف تھا اور انھوں نے آپ کے تجربے کی کیسے پیروی کی؟

ج : جس دن ہماری ریاست میں نفاذ شریعت کا اعلان ہوا‘اس دن ریاست نیجر کے سربراہ وہاں موجود تھے۔ زامفارا کے بعد اس ریاست میں نفاذ شریعت عمل میں آیا۔ اس کے بعد سوکوتو اور دوسری ریاستوں‘ مثلاً کابی‘ کانو‘ کاتسینا‘ جیقاوا‘ یوبی‘ بورلو‘ کوتشی‘ جومبی اور کالورنا میں شریعت نافذ کی گئی۔ یہ ساری شمالی ریاستیں ہیں۔

س: جنوب کی کیا صورت حال ہے؟

ج: جنوبی ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اکثر باشندے شریعت کے نفاذ کامطالبہ کرتے ہیں۔

س:  اس بارے میں حکومت کا کیا موقف ہے؟

ج: مرکزی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کے زیادہ تر وزرا عیسائی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان وزرا بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے صدر کی تائید کرتے ہیں۔

س: کیا آپ اس تضاد کو محسوس نہیں کرتے کہ افریقہ کا سب سے بڑا مسلمان ملک جس میں ایک ریاست کے بعد دوسری ریاست نفاذ شریعت کا اعلان کرتی ہے‘ اس ملک کے باشندے ایک عیسائی کو سربراہ مملکت کے طور پر منتخب کرتے ہیں؟

ج : سربراہ مملکت کے انتخاب کا معاملہ سابقہ انتخابات کی وجہ سے ہوا۔ اس کے علاوہ شمال اور جنوب کے مسائل نے بھی اس کو تقویت پہنچائی۔ اس لیے بعض افراد نے نائیجیریاکی سربراہی کے لیے ایک غیر مسلم کو صدر منتخب کیا۔ جب لوگوں نے نفاذ شریعت کے بعد اس کے ثمرات اور فوائد دیکھے تو انھوں نے دیگر ریاستوں میں بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا۔ یہ لوگ اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عثمان فودیوکے زمانے کے اسلامی نائیجیریا کو یاد کرتے ہیں۔

س:  ہم جانتے ہیں کہ یہ صورت حال مغرب کے لیے قابل قبول نہیں؟ کیا مغرب نے آپ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی؟

س: کاڈونا اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو فسادات ہوئے وہ مغرب کی شہ پر ہوئے اور ان کا مقصد مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا۔ شریعت مشکلات کا سبب نہیں بنتی بلکہ کچھ لوگ مصنوعی طور پر مشکلات پیدا کرتے ہیں اورانھیں شریعت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے شرپسند عناصر نے ہمارے درمیان اور حکمران پارٹی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال مسلمان ’’شریعت یا موت‘‘ چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں کوئی تیسرا راستہ پسند نہیں۔ لیکن نائیجیریا کے عیسائی‘ عیسائیت کے ساتھ ایسی جذباتی وابستگی نہیں رکھتے۔ جو لوگ فتنے کو ہوا دے رہے تھے انھوں نے غیرمسلموں کو کافی روپیہ پیسہ دیا۔ لیکن فسادات کے دوران ہم نے پوری کوشش کی کہ غیرمسلموں کو نقصان نہ پہنچے۔ ہمارے اس طرزعمل سے بہت سارے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مرکزی حکومت کے بہت سارے عہدے داران نے اسلام قبول کیا۔

س: اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے اور عیسائیوں کوناکام کرنے کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟

ج : ہم ان کا عدل اور مساوات کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ غیرمسلم دیکھتے ہیں کہ نفاذ شریعت نے عدل اور مساوات کو فروغ دیا ہے اور وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ مسلمان ان کی مدد کرنے کے لیے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور غیرمسلموں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں بلکہ مرکزی حکومت بھی مسلمانوں سے غیر مسلموں کے حقوق دلواتی ہے۔ اس وجہ سے عیسائی بھی مسلمانوں کی عدالتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اسلام دشمن عناصر جن موثر شخصیات کوخرید کرفتنہ بھڑکاتے ہیں اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا اورانھیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔

س:  نائیجیریا کی جن ریاستوں میں شریعت نافذ کی گئی ہے‘ ان کی آبادی کتنی ہے؟

ج : جن ریاستوں میں شریعت کا نفاذ عمل میں آیاہے ان کی آبادی کل آبادی کا ایک تہائی ہے‘ یعنی ۳۵ فی صد۔

س: کیا آپ کا باہمی رابطہ ہے؟

ج: کوئی ایسی کمیٹی یا باہمی رابطے کا نظام نہیں ہے لیکن بعض ایسی اسلامی جماعتیں ہیں جو ان ریاستوں کی حکومتوں کے درمیان رابطے کے لیے کوشاں ہیں۔ نائیجیریا میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس لیے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مسلمان ایک پارٹی کی حیثیت سے انتخابات کے میدان میں اُتریں کیونکہ موجودہ ریاستوں کے سربراہ جنھوں نے شریعت نافذ کی ہے ایک پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔

س: حدود کے نفاذ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں‘ رجم کرنا‘ کوڑے مارنا اور ہاتھ کاٹنا…؟

ج : زامفارا میں جب سے شریعت کا نفاذ عمل میں آیاہے‘ صرف دو دفعہ ہاتھ کاٹا گیا ہے اور ایک دفعہ شراب پینے کی وجہ سے کوڑے مارے گئے ہیں لیکن رجم نہیں ہوا۔ اس طرح کے واقعات کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے جن میں حدود نافذ کرنا پڑیں۔

س: اس بات کا وضاحت کے ساتھ جواب دیجیے کہ مسلمانوں نے ایک سے زیادہ دفعہ شریعت کے نفاذ کا تجربہ کیا لیکن یہ تجربات ناکامی سے دوچارہوئے۔ ناکامی سے بچنے کے لیے آپ نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں؟

ج : پہلی بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امورکے ذریعے ہم نے لوگوں کی تربیت کی کہ اصل اقتدار کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جسے چاہتا ہے‘ اقتدار و اختیار عطا کرتا ہے۔ اس لیے پارٹی بازی اور گروہ بندی کو اہمیت نہ دی جائے اور نہ یہ دیکھا جائے کہ ہمارا تعلق مخالف پارٹی سے ہے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ زامفارا کے باشندے شریعت کے نفاذ کے لیے گروہ بندی اور پارٹیوں کو اہمیت نہیں دیتے۔

دوسری بات یہ ہے کہ لوگ عدل و انصاف اور مساوات کے متلاشی ہوتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں انھیں مل رہی ہیں۔ اس لیے انھیں شریعت اوردیگر نظاموں کا فرق معلوم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شریعت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لیے جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہماری توجہ روزگار کی فراہمی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر مرتکز ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی مدد کے لیے اوقاف اور لوگوں میں زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کی تقسیم کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ ان ابتدائی اقدامات کی وجہ سے ریاست میں بھوک کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ہر ایک کی بنیادی ضروریات کسی نہ کسی طور پر فراہم ہو جاتی ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور کے ذریعے ہم نے داعیوں کو مقرر کیا ہے جن کو باقاعدہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ یہ داعی دیہات میں گھوم پھر کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میںشریعت کی حمایت جاگزیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ علما‘ ائمہ اور موذن حضرات کو باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ معاش کے فکر سے آزاد ہو کر دعوت دین کا فریضہ سرانجام دے سکیں ۔ اس سے پہلے ان کی تنخواہوں کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ (ترجمہ:  محمد احمد زبیری)

 

صہیونی وزیراعظم آریل شارون نے ۱۹۵۶ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’میں نے اس خطے میں پیدا ہونے والے ہرفلسطینی بچے کو جلا کر راکھ کر دینے کا عہد کیا ہے۔ یہ بچے اور عورتیں ہمارے لیے زیادہ خطرہ  ہیں کیونکہ ان کے باقی رہنے کا مطلب آیندہ فلسطینی نسلوں کا تسلسل ہے۔ فلسطین کرانیکل نامی رسالے نے اپنے تازہ شمارے میں ۴۵ سال پرانے جس انٹرویو کا اعادہ کیا ہے اس سے شارونی ذہنیت اور ارادوں کی تصویر واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس نے مزید کہا تھا ’’خواہ مجھے ہر منصب کھونا پڑے اور میں ایک عام اسرائیلی شہری شمار کیا جانے لگوں‘ میرا یہ عہد ہے کہ اپنے سامنے آنے والے ہر فلسطینی کو کچل ڈالوں گا‘ اور اسے موت کی وادی میں جھونکنے سے پہلے اسے بدترین عذاب سہنے پر مجبور کروں گا۔ مجھے کسی عالمی قانون یا ضابطے کی پروا نہیں ہے۔ میں نے رفح میں ایک ہی حملے کے دوران ۷۵۰ فلسطینی قتل کیے تھے… میں چاہتا ہوں کہ اپنے فوجیوں کو فلسطینی خواتین کی عزت لوٹنے پر اُبھاروں کیونکہ وہ سب اسرائیل کے غلام ہیں۔ وہ ہم پر اپنی رائے اور اپنا ارادہ مسلط نہیں کر سکتے۔ حکم جاری کرنے کا حق صرف ہمیں حاصل ہے‘ باقی سب کو ہماری اطاعت کرنا ہے‘‘۔ ۴۵ سال کے بعد ایک بار پھر شارون قول و عمل سے اپنی اسی پالیسی کا اعلان کر رہا ہے۔ اس نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے ’’اے اسرائیلی قوم! اسرائیل حالت جنگ میں ہے… دہشت گردی کے خلاف جنگ… ہمیں ان دہشت گردوں کے خلاف بے رحم جنگ لڑنا ہے تاکہ ان وحشی فلسطینیوںکا مکمل خاتمہ ہو جائے‘ ان کا بنیادی ڈھانچہ ختم ہو جائے… ان دہشت گردوں کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ نہیں نکل سکتا‘‘۔

شارون نے فلسطینی شہروں‘ بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں اپنی اس درندہ ذہنیت کا جس طرح عملی مظاہرہ کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ شہروں کے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں‘ لاشوں کے انبار کسی دفن کرنے والے کے انتظار میں گھلنا اور پگھلنا شروع ہو گئے ہیں‘ لاتعداد عمارتوں کے مکینوں کے لیے ان کی تباہ شدہ عمارتیں ہی قبریں بن گئی ہیں‘ کوئی انھیں ملبے کے نیچے سے نکالنے والاباقی نہیں بچا۔ تباہی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ دسیوں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اس کے سامنے ہیچ ہیں‘ لیکن ۱۱ ستمبر کے بعد پوری دنیا کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنے یا اسے دہشت گرد قرار دینے والے صدر جارج بش اپنے باغیچے میں اپنے کتے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے بیان دیتے ہیں کہ ’’مجھے اسرائیل کی اپنے دفاع کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی اہمیت و ضرورت کا بخوبی ادراک ہے‘‘۔ پھر مزید کہا: ’’پوری دنیا کے رہنمائوں کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ بات یاسرعرفات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب سے تین ہفتے پہلے یاسر عرفات کے لیے بہت کچھ کرنا ممکن تھا اور اب بھی بہت کچھ ممکن ہے۔ لیکن اس نے میری اُمیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ وہ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں‘‘۔

اقوام متحدہ کی تازہ ترین قرارداد ۱۴۰۲ میں صہیونی افواج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ رملّہ سمیت تمام فلسطینی علاقوں سے نکل جائیں اور تشدد کی تمام کارروائیاں ختم کر دیں۔ چونکہ یہ قرارداد کویت و عراق سے متعلق نہیں تھی اس لیے امریکہ نے اسے بھی سابقہ قراردادوں کی طرح ردی کا ایک ٹکڑا سمجھا اوربیان دیا : ’’اسرائیل اپنے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق فلسطینی علاقوں سے نکلے گا اور اس نے اس ضمن میں ہمیں پوری طرح اعتماد میں لیا ہے‘‘۔ صہیونی وزیراعظم نے امریکہ کا شکریہ ادا کیے بغیر کہا: ’’امریکہ کو ہماری دفاعی ضروریات کا پورا ادراک ہے۔ البتہ ہم نے اسے یقین دلایا ہے کہ ہم یاسر عرفات کی جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے‘‘۔

یاسر عرفات جو گذشتہ تقریباً تین ہفتوں سے اپنے ہیڈ کوارٹرز میں محصور ہیں بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’یہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں یا گرفتار کرنا چاہتے ہیں یا یہاں سے بھگا دینا چاہتے ہیں لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں شہید ہوں گا‘ شہید ہوںگا‘ شہید ہوں گا‘‘۔ پھر مزید کہا کہ ’’اسرائیل کبھی امن نہیں چاہے گا۔ شارون امن کو نہیں جانتا… ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جانی چاہیے‘‘۔ جناب یاسر عرفات کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے میں تقریباً ۱۵ سال لگ گئے۔ گذشتہ ۱۵ برس سے وہ صہیونی انتظامیہ کے ساتھ امن معاہدوں کے سراب کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ اوسلو معاہدے کے بعد بھی مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ وائی ریور اور کیمپ ڈیوڈ ثانی سمیت کئی بار اسی بات کا اعادہ کیا گیا کہ ’’زمین کے بدلے امن‘‘ فارمولا موثر ثابت ہو رہا ہے۔ چیئرمین یاسر عرفات کو صدر یاسر عرفات کہا جانے لگا‘ انھیں امن کے نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا‘ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے انھیں چکی کا دوسرا پاٹ کہا گیا‘ دنیا بھر میں امریکی صدر کو تعریف کے قابل کوئی شخصیت ملتی تو وہ یاسر عرفات تھے۔ لیکن انھیں کیسا یاسرعرفات مطلوب تھا؟ یاسر عرفات کے ایک مشیر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے تھے یا تو ہم اپنی فلسطینی قوم کو جلاد بن کر خود قتل کرنا شروع کر دیں‘یا جیلر بن کر انھیں جیل میں ڈال دیں۔ لیکن ہم نے یہ کردار قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اگرچہ یاسر عرفات کے گرد بھڑکتی آگ کو وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں جن پہ انھوں نے تکیہ کیا تھا۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یاسر عرفات انتظامیہ نے امن کے سراب اور تعریفوں کے انبار کا شکار ہو کر اپنے ہی بھائی بند کو جیل اور گولی کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا۔ ان موجودہ حالات میں بھی عرفات انتظامیہ کے سیکورٹی انچارج جبریل الرجوب نے حماس کے چھ مجاہدین کو اپنی جیل میں بند رکھ کر انھیں صہیونی افواج کی گولیوں کا نشانہ بننے دیا۔ یہ چھ فرشتہ صفت مجاہد آخری لمحے تک رجوب سے یہ اپیل کرتے رہے کہ یا تو وہ انھیں رہا کر دے تاکہ وہ یاسر عرفات سمیت پوری فلسطینی قوم کو تہ تیغ کرنے پر آمادہ صہیونی افواج کا مقابلہ کرسکیں اور اگر نہیں تو قید ہی میں ان کے لیے کوئی ایسا انتظام کر دے کہ اگر وہاں اسرائیلی افواج حملہ آور ہوں تو وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ رجوب نے دونوں مطالبات نہیں مانے اور مزید چھ شہدا کا خون اپنے سر لے لیا۔

یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں کو گویا اب بھی کوئی یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ صہیونی انتظامیہ اور اس کی سرپرست امریکی حکومت کے دل جیتنے کی کوشش ہی سے دوام و بقا حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو وہی ہے جسے یہ سب بھی جانتے ہیں اور جسے قرآن کریم میں بھی تاکید کے ساتھ کہہ دیا گیا: ’’یہ یہود و نصاریٰ ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کے دین کی پیروی کرنے لگو‘‘۔

حالیہ تباہی اور صہیونی درندگی نے اُمت مسلمہ کی عمومی صورت حال پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ عوام تو عوام‘ خواص تک بھی اس قیامت پرتلملا اُٹھے ہیں۔ عوام میں بیداری تو اس حد تک جا پہنچی ہے کہ متعدد عرب حکومتوں کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے مختلف ڈرامے رچانے پڑ رہے ہیں۔ فلسطین میں برپا یہ قیامت گزشتہ قیامتوں سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ گذشتہ ادوار میں آزاد عرب ابلاغیاتی ذرائع ناپید تھے لیکن اب الجزیرہ سمیت کئی عرب سیٹلائٹ چینل موجود ہیں جو فلسطین میں وقوع پذیر ہر واقعے اور حادثے کی ۲۴گھنٹے فوری رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ عرب سربراہی کانفرنس یا اس کی سفارشات و قراردادیں ہوں یا اس کے اگلے ہی دن اسرائیلی تازہ جارحیت کا آغاز ہو‘ لاشوں کے ڈھیر ہوں یا یاسر عرفات اور مسیحی کلیسوں تک سے پانی‘ بجلی‘ غذا کا منقطع ہو جانا اور وہاں ٹینکوں ‘ توپوں‘ راکٹوں اور دیگر امریکی ہتھیاروں کے انبار ہوں‘ ہر چیز اسی لمحے دنیا بھر کے سامنے ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ صہیونی درندگی‘ امریکی سرپرستی اور عرب حکمرانوں کی بے حسی پر اس ابلاغیاتی کارکردگی کا کوئی اثر نہیں ہوا‘ لیکن عرب عوام تڑپ اٹھے ہیں۔ وہ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر آج بھی فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا تو اربوں ڈالر کے اخراجات سے بنائی گئی عرب افواج کس مرض کی دوا ہیں؟ لندن کے ایک مظاہرے میں شریک ایک نوجوان‘ ٹی وی نمایندے کو کہنے لگا ’’ہم اپنے حکمرانوں سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کرتے سوائے اس کے کہ خدارا ہماری جان چھوڑ دو… دولت چاہتے ہو تو جتنی چاہتے ہو اپنے ساتھ لے جائو‘ لیکن اپنے دشمن سے نمٹنے کے لیے ہمیں آگے آنے دو‘‘۔ ایک اور شریک مظاہرہ کہنے لگا: ’’ہمیںہتھیار دے دو اور ہمارے سامنے سرحدیں کھول دو‘‘۔ اور تو اور لیبیا کا صدر قذافی کہنے لگا: ’’ہمارا اسلحہ زنگ آلود ہورہا ہے‘ اسے استعمال کرنے کی نوبت کب آئے گی‘‘۔ واضح رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف خلیجی ریاستوں کی امریکی اسلحے کی سالانہ خرید ۵۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔

اس عوامی ردعمل میں یہ مطالبہ بھی پوری شدت سے سامنے آیا کہ اسرائیلی جارحیت رکوانے کے لیے اس کے سرپرست امریکہ پر دبائو بڑھایا جائے۔ پٹرول کا ہتھیار آخر کب کام آئے گا۔ عراق نے تو اپنی مجبوری کے عالم میں ۳۰ روز کے لیے پٹرول کی ترسیل منقطع کر دی لیکن اس کی اصل افادیت اس صورت میں سامنے آتی کہ اہم عرب اور اسلامی ممالک اس ہتھیار کواستعمال کرتے‘ لیکن بدقسمتی سے انھوں نے کہا کہ ’’پٹرول کی ترسیل روکنے کا زیادہ نقصان خود ہمیں ہوگا‘کیونکہ پیسہ ملنا بند ہو جائے گا‘‘۔

اس مفروضے کو پٹرولیم کے معروف ماہر‘ شاہ فیصل اور دیگر سعودی فرماں روائوں کے ساتھ ربع صدی تک وزیر پٹرول کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دینے والے احمد ذکی یمانی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں غلط ثابت کیا۔ انھوں نے کہا ’’پٹرول کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔ ہم اگر آج بھی یہ نہ کر سکے تو یہ ہتھیار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کند ہو کر رہ جائے گا۔ اس وقت بھی دنیا کے پٹرولیم ذخائر کا تین چوتھائی حصہ خلیج میں ہے۔ امریکہ مجبور ہوگا کہ اس قوت کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ہم سے بات کرے‘‘۔ انھوں نے ۱۹۷۳ء کے اختتام اور ۷۴ء کے اوائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب شاہ فیصل نے یہ ہتھیار استعمال کیا تو امریکہ اس وقت بھی مجبور تھا کہ تیل کی صنعت کے لیے ضروری آلات کی ترسیل جاری رکھے اور اس نے ایسا ہی کیا‘‘۔

صہیونی مظالم کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے احمد ذکی یمانی نے کہا ’’مجھے آج اپنے عرب ہونے پر شرم اور ذلت محسوس ہوتی ہے‘ میری راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے‘ میں اپنی زندگی کے بدترین ایام گزار رہا ہوں‘ میں فلسطینی عوام پر توڑے جانے والے مظالم کے مناظر دیکھتا ہوں تو میرا رواں رواں تڑپ اٹھتا ہے: کیا ہم واقعی ان کے بھائی ہیں؟‘‘ عرب عوام میں بیداری اور اپنے حکمرانوں سے بیزاری کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میں عرب عوام کو غیظ و غضب سے کھولتا ہوا دیکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ دیکھتا ہوں کہ وہ ایک وادی میں ہیں اور ہمارے حکمران دوسری وادی میں ہیں۔ حالانکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ امریکی کانگریس اسرائیلی پارلیمنٹ سے زیادہ اسرائیل کی وفادار اور امریکہ میں شارون امریکی صدر بش سے زیادہ طاقت ور ہے‘‘۔

آج حکومتوں کی بے حسی‘ امریکہ کی سرپرستی اور صہیونی درندگی کی بدترین تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ لیکن اس پورے تناظر میں فلسطینی نوجوانوں اور بچوں ہی نہیں‘ فلسطینی خواتین کا ایک کردار ایسا ہے کہ حالات جتنے بھی سنگین ہوتے چلے جائیں کامیاب اسی کردار کے رکھنے والوں کو ہونا ہے کہ ان سے ان کے رب کا یہ وعدہ ہے کہ اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تووہ تمھاری نصرت کرے گا۔ ان فلسطینی جانبازوں کا ذکر بہت طویل نہیں ہوسکتا ہے لیکن ایک شہید محمد عودہ کی وصیت کے یہ الفاظ ہمارے اس پورے مضمون کا عنوان ہیں: ’’جب تم میری شہادت کی خبر سنو تو فخر سے اپنے سربلند کر لینا… اتنے بلند کہ آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگوکیونکہ تمھارے بیٹے نے اللہ سے ملاقات چاہی تھی اور اللہ نے اسے اس ملاقات کا شرف عطا کردیا‘‘۔ واضح رہے کہ محمد عودہ ۲۵ سالہ صہیونی افواج کی فہرست مطلوبین میں سرفہرست تھا اور اس کی اس استشہادی کارروائی کے نتیجے میں ۲۰ سے زائد یہودی فوجی جہنم رسید ہوئے۔

امریکہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں کی آڑ میں دنیا بھر میں رفاہی کام کرنے والی مسلم تنظیموں اور اداروں تک کو مفلوج کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ دہشت گردی کے نام پر القاعدہ قرار دے کر ہر کسی کو پکڑا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے خدمت خلق اور رفاہی ادارے‘ جو پریشان حال مسلمانوں کوکسی نہ کسی طور پر سنبھالے ہوئے ہیں‘ ان کے دفاتر بند کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور دفاتر سے وابستہ کارکنوں کو تفتیش کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر داڑھی والے اور عرب رہن سہن کے حامل افرادان کا نشانہ ہیں۔ اس کا ایک مقصد فعال مسلمانوں کا گھیرائو ہے اور دوسرا یہ کہ رفاہی اداروں کو بند کر کے ‘ وسائل کی فراہمی کو منقطع کر کے مسلمانوں کو بے یارومددگار اور بے بس و لاچار کردیا جائے‘ اور بڑی جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے امداد باہمی اور فلاح و بہبود کا جو نظام وضع کیا ہے‘ اسے برباد کر دیا جائے۔ مزید برآں امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے دنیا بھر کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

پکڑ دھکڑ کا یہ عمل افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا بھر میں جاری ہے۔ امریکہ‘ یورپی ممالک‘ عرب ممالک‘ جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا‘ فلپائن اور دیگر ممالک کے بارے میں ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے دبائو پر حال ہی میں پاکستان میں فیصل آباد اور لاہور میں بھی القاعدہ سے وابستہ افراد کے نام پر پکڑ دھکڑ میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ معصوم اور بے گناہ افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ لاہورسے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا کہ وہ عربی بول رہے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عدل و انصاف اور قانون اور ضابطے کی یوں سرعام پامالی کی جا رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر بلقان کی ریاستوں میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

بلقان کے خطے میں ۱۱ ستمبر کے بعد ہی سے اسلام پسندوں اور فلاحی اداروں سے وابستہ ارکان کے خلاف امریکہ کے زیرنگرانی کریک ڈائون کا عمل جاری ہے۔ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء کو اس ضمن میں ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب بوسنیا کی حکومت نے امریکی حکام اور خفیہ اداروں کے کہنے پر چھ الجزائری باشندوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے بارے میں اس شبہے کا اظہار کیا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دو اسلامی مسلح گروپوں: الجزائر آرمڈ اسلامک گروپ اور مصر کے الجمعیہ الاسلامیہ کے ساتھ ہے۔ لیکن کھلا تضاد یہ ہے کہ انھیں امریکی حکام کے حوالے بوسنیا کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے صرف ایک روز بعد ہی رہا کر دیا گیا جس میں انھیں کسی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا تھا۔ گمان ہے کہ ان چھ افراد کو بھی گنٹانامو میں دیگر افغان قیدیوں کے ساتھ منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس سے قبل بھی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تین عرب باشندوں کو کوسووا میں نیٹو کی سربراہی میں کے-فار (K-For) آپریشن کے تحت گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفتر کوسووا میں عمل میں آئی اور اسے ۱۴ دسمبر ۲۰۰۱ء کے آپریشن کے تحت گرفتاریوں کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دیا گیا۔ کے-فار کے نمایندے کے بیان کے مطابق ایک مشترکہ سرچ آپریشن اقوام متحدہ کی پولیس کے تعاون سے پریسٹینا اور ڈی جیکوویکا میں گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفاتر میں بھی کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور بہت سی دستاویزات اورسامان بھی پکڑا گیا۔ گرفتار شدہ ان تین افراد کے نام تک نہیں بتائے جا رہے بلکہ صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ عرب باشندے ہیں جن سے مشکوک مواد برآمد ہوا ہے۔ مقامی پریس کے مطابق تین میں دو عراقی ہیں‘ جب کہ تیسرا شخص کوئی عرب ہے۔

کے-فار کے مطابق ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ فائونڈیشن کے ملازمین عالمی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔ ترجمان کے مطابق گلوبل ریلیف فائونڈیشن مبینہ طور پر امریکہ اور یورپ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شامل ہے۔ البتہ کے-فار القاعدہ سے وابستگی یا کسی دوسری سرگرمی میں تنظیم کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرنے کے لیے تیار نہیں۔انسانی حقوق کی علاقائی تنظیمیں اس اقدام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے مطابق اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں۔

کوسووا میں ان اقدامات سے قبل ایف بی آئی نے شکاگو کے نزدیک گلوبل ریلیف اور بینوویلنس انٹرنیشنل کے مرکزی دفاتر پر چھاپہ مارا۔ دونوں اداروںنے جو ہر سال لاکھوں ڈالر جمع کر کے عالم اسلام میں مختلف فلاحی امور میں تقسیم کرتے ہیں‘ ان الزامات کو غلط قرار دیا اور اس بات کی قطعی تردید کی کہ ان کا القاعدہ یا کسی بھی دوسرے ایسے گروپ سے کوئی تعلق ہے۔ ربیح حدید کو جو لبنانی ہیں‘ گلوبل ریلیف کے صدر ہیں اور مشی گن میں رہایش پذیر ہیں‘ ۱۴ دسمبر کو ٹورسٹ ویزے کی مقررہ میعاد سے زیادہ قیام کرنے پر یوایس امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے گرفتار کرلیا۔

امریکی دبائو کے تحت بوسنیا کی حکومت نے بھی سرچ آپریشن کیا اور اس کے تحت دو فلاحی تنظیموں گلوبل ریلیف اور Talibah انٹرنیشنل کے دفاترپر سراجیوو میں چھاپہ مارا‘ اہم دستاویزات کو قبضے میں لے لیا اور سات ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی۔

بلقان کی دیگر حکومتوں کی طرح البانیہ نے بھی امریکہ کا’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ البانوی وزیرداخلہ Ilir Gjoni نے ۱۵ ستمبر کو ایک اعلامیے کے تحت پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملک بھر میں مقیم عرب باشندوں پر کڑی نگاہ رکھے اور ملک میں داخل ہونے والے اسلام پسند دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے البانوی پولیس ایف بی آئی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔ اکتوبر میں ایک قانون کے تحت امریکی حکام کو دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں اقدامات کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ ۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو تِرانہ میں پانچ عرب باشندوں کو جن میں دو مصری‘ دو عراقی اور ایک اُردنی شامل ہے‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا۔

۲۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو البانوی حکومت نے یسین القادی کو جو ایک سعودی تاجر اور موافق فائونڈیشن کا سرپرست تھا‘ گرفتار کر لیا۔ ۱۳ البانوی بنکوں میں موجود لاکھوں ڈالر کے اس ادارے کے اثاثے منجمد کردیے۔ موافق ان رفاہی اداروں میں سے ایک ہے جس پر امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ قادی اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے اشتراک سے بننے والی ایک تعمیراتی کمپنی کا پارٹنر ہے۔ البانیہ میں اس کے بہت سے تعمیراتی منصوبے جاری تھے۔

۱۱ ستمبر کے بعد امریکی حکام نے بوسنیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ ۱۹خودکش ہوا بازوں میں سے کس کا تعلق بوسنیا سے ہے۔عملاً ناکامی کے بعد مزید کچھ ناموں کی فہرست بھی دی گئی جن کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا‘ البتہ نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

مختصر اًیہ کہ بلقان کے خطے میں امریکی حکام نے مختلف بیانات اور اقدامات کے ذریعے مسلسل ایک خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ کبھی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے احکام جاری کیے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ Carla del Ponte نے جو کہ ہیگ میں بین الاقوامی   جنگی جرائم ٹریبونل کی وکیل ہیں‘ نے ایک بیان میں کہا کہ القاعدہ سے وابستہ گروپ پورے بلقان میں منظم ہیں اور ٹربیونل ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات جمع کر رہا ہے لیکن وہ کسی قسم کی سرگرمی کی نشان دہی نہیں کر سکیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل‘ جارج رابرٹسن نے اعلان کیا کہ کوسووا میں القاعدہ کے سیل دریافت ہو چکے ہیں۔  سرب وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ کوسووا میں بن لادن سے وابستہ مسلمان مجاہدین کے بارے میں اس نے امریکہ کو معلومات فراہم کی ہیں جو کوسووا‘ بوسنیا اور البانیہ میں تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں۔ سرب نائب وزیراعظم Nebojsa Covic نے کہا کہ کوسووا میں سیکڑوں بن لادن پائے جاتے ہیں مگر ابراہیم روگوا‘ صدر ڈیمو کریٹک الائنس آف کوسووا نے اسے محض سرب پروپیگنڈا قرار دیا۔

سرب اور مقدونیا میڈیا اس پروپیگنڈے کو خوب اُچھال رہا ہے۔ اس قسم کی رپورٹیں شائع کی جارہی ہیں کہ بلقان میں ۱۰ ہزار کے قریب عرب اور مسلمان مجاہدین موجود ہیں جو بن لادن کے حمایتی ہیں اور کچھ القاعدہ سے مالی امداد بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ ان رپورٹوں میں اس بات کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مسلمان مجاہدین اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے رفاہی اداروں کی آڑ لیے ہوئے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر ۱۱ ستمبر کے بعد بلقان کی ریاستوں کی صورت حال دنیا کے دیگر مسلمان ممالک سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ امریکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘کی آڑ میں مسلمانوں‘ اسلامی تحریکوں اور مسلم رفاہی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے کسی بھی طرح کے اقدامات کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے۔ اس کڑے وقت میں اُمت مسلمہ کو اپنے وجود اور زندگی کا ثبوت دینا چاہیے۔ دنیا میں صرف مسلمان ہی امن و انصاف کی یقینی ضمانت کے نظریے کے حامل ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کی غیر منصفانہ اور غیر معتدل پالیسی کے مقابلے کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے‘ رائے عامہ کو ہر سطح پر ہموار کیا جائے‘ امریکی پالیسی سے خائف مغربی ممالک سے رابطہ کیا جائے‘ سفارتی کوششیں تیز کی جائیں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جائے اور ایک بھرپور‘ پرامن مہم چلائی جائے۔ ظلم کے خلاف اور امن و انصاف کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں دنیا میں ایک نئی لہر دوڑائی جا سکتی ہے۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء)

 

دُنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان آج جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ایک منظر بھارت کے صوبہ گجرات میں حالیہ مسلم کُش منظم قتل و غارت اور آتش زنی کا سلسلہ ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ممکن بنا دیا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ اپنوں اور غیروں سب کو معلوم ہو جائے‘ بلکہ وہ بچشم سر دیکھ لیں‘ کہ بے بس‘ بے گناہ اور معصوم مسلمان آبادیوں پر کس کس طرح کے کیا کیا ظلم روا رکھے گئے۔ سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے کا دعویٰ رکھنے والی مرکزی اور صوبائی حکومت نے اپنے شہریوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کیا۔ نہ وہ عالمی ٹھیکے دار جاگے‘ جو خود چاہے کتنے ہی حقوق پامال کریں‘ لیکن دوسروں کو انسانی حقوق کے درس دیتے نہیں تھکتے۔ بھارت میں بسنے والے بے بس مسلمانوں پر ظلم کرنے والے بھارتی ہندو ان کے اپنے ہیں‘ اور نئے عالمی نظام میں اپنوں کو سب کچھ کرنے کی آزادی اور پھر اس پر مکمل تحفظ ہے۔ اتنا کہ کلنک کے ٹیکوں کے باوجود وہ بدنام بھی نہیں ہوتے۔

گودھرا کے واقعے کو بنیاد بنا کر ردعمل کے عنوان سے پوری ریاست میں وحشت و درندگی کا جو سوچا سمجھا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں‘ متاثرہ لوگوںکے ایک گروپ کی ای میل کے مطابق ۱۲ مارچ ۲۰۰۲ء تک ۵ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ ۵۰ ہزار بے گھر افراد ۲۵ ریلیف کیمپوں میں ہیں (اور یہاں بھی ان پر حملے کیے گئے)۔ برودہ میں ۱۲‘ احمدآباد میں ۱۰ اور متاثرہ دیہاتوں میں تمام مساجد شہید کر دی گئی ہیں‘ کئی کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ای میل میں تباہ شدہ محلوں اور دیہاتوں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ گلمرگ سوسائٹی میں ۷۲ افراد گھربار سمیت جلا دیے گئے۔ لوناوادا کی ہائی وے پر ۴۲ افراد ٹرک میں جلا دیے گئے۔ برودہ کی بیسٹ بیکری میں ۱۸ افراد جلائے گئے۔ نارودا پاٹا کے قریب ایک کنویں میں مسلمانوں کی ۳۵۰ لاشیں پھینکی گئیں۔ خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی (جلانے کا کام تو اتنے فخر سے کیا گیا کہ باقاعدہ بینر لگایا گیا:  Learn from us how to burn Muslims ۔ نیوز ویک‘ ۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۶)

منصوبے کے تحت املاک اور جایداد تباہ کی گئیں۔ اس رپورٹ کے مطابق شہر اورہائی وے پر مسلمانوں کے ۲۰۰ ہوٹل جلا دیے گئے۔ نواں بازار اور منگل بازار دو کپڑا مارکیٹ ہیں‘ یہاں ۱۶۳ دکانیں تباہ کر دی گئیں۔ جس جگہ مسلمان کم تعداد میں تھے ان کی جایداد جلا دی گئی۔ مکانات اور مسجدیں جلانے کے لیے ایل پی جی گیس اور آکسیجن سلنڈر استعمال کیے گئے۔ پٹرول کا ٹرک ساتھ چلتا تھا۔ فسادی گروہوں کو خوراک‘ اسلحہ اور طبی امداد پہنچانے کا مکمل انتظام تھا۔ ہر طرح کا اسلحہ مہیا کیا گیا۔ انھیں خوراک اور شراب کے علاوہ ۵۰۰ روپے روز کے دیے گئے۔ مارے جانے پر خاندان کو ۲ لاکھ روپے دیے گئے۔ گرفتاری کی صورت میں تمام اخراجات اور قانونی امداد وشوا ہندو پریشد کے ذمے ہے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ ایک محلے کے چاروں طرف پانی جمع کر کے اس میں برقی رو چھوڑ دی گئی اور پھر گھروں پر آتشیں گولے پھینکے گئے‘ جو گھروں سے نکلے وہ برقی رو سے مارے گئے۔

اس سارے قتل و غارت کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایودھیا سے واپس آنے والے فسادی یاتریوں (کارسیوکوں) کی ریل کی بوگیوں کو جلانے کا ردعمل قرار دے کر جواز عطا کیا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ سابرمتی ایکسپریس کے ساتھ ۲۷ فروری کی صبح پیش آیا۔ یہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ واشنگٹن پوسٹ کے ہندو   نامہ نگاروں نے اپنے اخبار کو جو رپورٹ ارسال کی (اور جس کا مکمل ترجمہ روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی نے شائع کیا) اس کے مطابق آگ اتفاقیہ لگی اور اس وجہ سے پھیل گئی کہ بوگی میں سوار سیوک چولھے اور تیل ساتھ لیے ہوئے تھے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ریل میں سوار کارسیوکوں نے ایک مسلمان کے ٹی اسٹال سے مفت چائے پینے کے بعد پیسے مانگنے پر اس کی مارپٹائی شروع کی تو اس کی بیٹی اسے بچانے آئی جسے کارسیوکوں نے بوگی S-6 میں لے جاکر بند کردیا اور ہر طرح کی کوشش کے باوجود بھی نہیں کھولا۔ ٹرین چل پڑی۔ کچھ نوجوانوں نے زنجیر کھینچی تو ٹرین اگلی آبادی میں رکی۔ لڑکی کو اب بھی واپس نہ کیا گیا تو کچھ نوجوانوں نے بوگی پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ عینی شاہدوں کے مطابق ایودھیا سے گودھرا تک ٹرین میں اور اسٹیشنوں پر مسلسل غنڈا گردی کی جاتی رہی۔ جہاں گاڑی رکتی لوٹ مار کرتے۔ گودھرا اسٹیشن پر لوٹ مار کا سلسلہ پچھلے ۲۰ دن سے جاری تھا۔

ان رپورٹوں کے ہوتے ہوئے بھی‘ نیوزویک نے واقعے کو اس طرح لکھا ہے: ’’صبح کے کچھ دیر بعد جیسے ہی ٹرین گودھرااسٹیشن میں داخل ہوئی تو مقامی مسلمانوں کا ایک گروہ انتظار کر رہا تھا۔ پٹرول سے بھری بوتلیں پھینکیں گئیں جس سے بوگیوں میں آگ لگ گئی--- آنے والے دنوں میں اب ہندوئوں کی باری تھی۔ مسلم آبادیوں میں ہجوم پھیل گئے اور…‘‘ (۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء)۔ بیرونی نامہ نگار فسادات کو ۴۷ء کے فسادات سے جوڑتے ہیں اور پھر ۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت پر ہونے والے فسادات سے ۔ ان کی نظروں سب کچھ جیسے معمول کی کارروائی ہے جو بھارت میں ہوتی رہتی ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے!

اگر ریاست میں کوئی ذمہ دار اور غیر جانب دار حکومت ہوتی تو گودھرا کے واقعے کے بعد احتیاطی اقدامات کرتی اور شہریوں کو جانی اور مالی نقصان سے بچاتی۔ بوکر پرائز جیتنے والی ناول نگار ارون دھاتی رائے نے درست کہا ہے کہ:’ ’جس بھارتی شہری کا بھی پولیس اور ریاست سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر ذمہ داران حالات پر قابو پانا چاہتے تو صرف ایک گھنٹے میں پا سکتے تھے‘‘۔ (نیوزویک‘ ۱۸ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۵۸)

نہ صرف یہ کہ قابو نہیں پایا گیا بلکہ تمام اخباری رپورٹیں یہی بتاتی ہیں کہ ہر سطح سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہندستان ٹائمزنے ۲ مارچ کے اداریے میں لکھا ہے: ’’انتظامیہ کو ممکنہ ردعمل کے خلاف تیاری کا پورا موقع ملا تھا۔ مناسب اقدامات سے بہت سی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن اس حکومت نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ایودھیا تحریک کو تقویت پہنچانے میں وشوا ہندو پریشد کی سیاسی اور انتظامی دونوں لحاظ سے مدد کی۔ ایسی حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مسائل پیدا ہونے پر جانب داری سے کام نہیں لے گی‘‘۔

قتل و غارت کی اس تازہ لہر کے پس منظر میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ۱۵ مارچ کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا اعلان تھا۔ وشوا پریشد کی اس مہم میں آر ایس ایس‘ سنگھ پریوار‘ شیوسینا سب ہی ساتھ ہیں۔ بی جے پی اتحادیوں کی وجہ سے حکومتی مجبوریوں کے تحت کھلم کھلا تو ساتھ نہیں دیتی‘ لیکن اس کی مکمل حمایت اس مہم کو حاصل ہے۔ فی الاصل تو ان سب کا منصوبہ بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا یا دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔

انھی دنوں چار صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اترپردیش اور اترانچل جیسے اہم صوبے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ پنجاب میں بھی اس کے اتحاد کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ منی پور میں بھی اس کے مخالفین برسرِاقتدار آگئے تھے (اترپردیش میں ۴۰۳ کے ایوان میں‘ بی جے پی کو ۸۸ سیٹیں ملیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۶۶ کم ہیں۔ پنجاب میں ۱۱۷ کے ایوان میں ۳ نشستیں ہیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۱۵ کم ہیں)۔

ان انتخابات میں بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹ نہیں ملے اور وہ مسلمانوں کو اپنی شکست کا سبب گردانتی ہے۔ اس لیے گودھرا کے واقعے کو بہانہ بنا کر دراصل انتقام لیا گیا۔ اسی لیے قتل و غارت روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ دوسری طرف ۱۱ ستمبر کے بعد مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کا عزم و حوصلہ توڑنے کی ایک پالیسی نظر آتی ہے۔ گجرات کے دورے پر جانے سے پہلے وزیردفاع جارج فرنینڈس نے اس واقعے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا شبہہ ظاہر کیا۔ دوسری طرف گجرات کے وزیراعلیٰ فریندر مودی نے واقعے کو منظم دہشت گردی قرار دے کر تحقیقات کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ آواز ملک کے کسی کونے سے نہیں اُٹھ رہی کہ گودھرا کے واقعات کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اب عالمی سطح پر یہی روایت بنتی جا رہی ہے کہ ’’حادثات‘‘ سے اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں اور حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جس طرح آج تک امریکہ میں کانگریس یا سینیٹ کمیٹی میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کے لیے کسی خفیہ ایجنسی یا وزارت دفاع کو وضاحت پیش نہیں کرنا پڑی۔

ان حالات میں کہ گجرات کے ۲۶ شہروں میں کرفیو لگا ہے اور فسادات بھارت کے دوسرے علاقوں میں پھیلنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں بھارت کے مسلمان تو اپنے تحفظ کے لیے کچھ نہ کچھ لائحہ عمل بنا رہے ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مسلمان بھائیوں کا کیا فرض ہے؟ کیا وہ سب اتنے ہی بے بس اور بے اختیار اور بے وسیلہ ہیں کہ خبریں پڑھیں‘ دیکھیں ‘ افسوس کرلیں اور بس!

یقینا ایسا نہیں ہے۔ اس وقت دنیامیں دہشت گردی کے خلاف جو فضا ہے‘ اس میں مسلمان طاقتوں کو منظم کوشش کرنا چاہیے کہ اس کا رخ دہشت گردی کی ان حقیقی کارروائیوں کی طرف موڑیں۔ عالمی رائے عامہ کا دبائو ہی بھارت کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے ہر طرح کے اداروں کو منظم اور مسلسل کوشش کرنا ہوگی۔

اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) نے افغانستان کے مسئلے پر اپنے غیر موثر اور بے جان ہونے کا ثبوت دیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اس کے پلیٹ فارم سے مسلم اقلیتوں کے تحفظ کا کافی کام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کسی وفد کو آکر حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور رپورٹ تیار کرنا چاہیے اور بھارت کو تنبیہ کرنا چاہیے۔ اگر ۱۰‘ ۱۵ مسلم سربراہان مظلوم مسلمانوں کی ہمدردی میں صرف بیانات ہی دے دیتے تو شاید بھارت کو کچھ فرق پڑ جاتا۔ خادم الحرمین کا تو یہ فرض تھا کہ وہ اس پر اپنی آواز بلند کرتے۔

سب سے اہم ذمہ داری پاکستان کی ہے۔ حکومتی سطح پر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی بیدار ہو کر‘ دوسرے مسلمانوں کو ساتھ لے کر بھارت کاناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بیداری‘ شعور اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میںچرچ پر افسوس ناک حملہ (۱۷ مارچ) ہوا تو صدر بش نے فوراً ردعمل ظاہر کیا اور امریکہ کی سفیر نے پاکستان کے ٹی وی پر آکر سختی سے کہا: ’نو مور‘("No more")۔ کیا اتنی بڑی امت مسلمہ بھارت کو ’نو مور‘ نہیں کہہ سکتی؟

ان حالات پر سوچنے کا ایک نقطہء نظر یہ بھی ہے کہ تہذیب‘ جمہوریت اور انسانی اقدارکے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود آج انسان اسفل السافلین ہونے کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے؟یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو مسترد کر کے جو راہ بھی اپنائی جائے گی وہ دنیا و آخرت کے خسران کی راہ ہوگی۔ یہ حالات --- اور دنیا بھر میں پیش آنے والے ایسے ہی واقعات جن میں کوئی کمی نہیں آئی --- پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ آج ‘انسانیت سکون سے محروم ہے۔ اس کی پیاس بجھانے کا سامان صرف اس کے خالق کے بتائے ہوئے راستے میں ہے!

 

نصیحت تو یہی کی جاتی ہے کہ سارے جہاںکا درد نہ پالو لیکن مسلمان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُمت میں کسی جگہ بھی تکلیف ہو تو اس کا دل اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ آج کل جس مسلمان ملک کے احوال دیکھے جائیں‘ ہر جگہ امریکی ایجنڈا نظر آتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد تو سب پردے ہٹ گئے اور ہر کارروائی بلا جھجک و شرم کھلم کھلا کی جا رہی ہے۔ مصر کی حالت ہم سے مختلف نہیں‘ بلکہ اب تو پاکستان کو مصر کی راہ پر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہمارے حکمران کو انوارالسادات سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ سو ایک نظر مصر کی طرف بھی!

مصر کے وزیر داخلہ نے سرکاری رسالہ المصور (۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ء) کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ مصر نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کی بھرپور مدد کی ہے‘ اور اسے بہت سی معلومات فراہم کر دی ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ذرائع ابلاغ اور ارکان کانگریس مصر کے خلاف الزام تراشی اور اظہار نفرت سے باز نہیں آرہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گو مصری حکمران‘ امریکی خوشنودی کے لیے کسی سے پیچھے رہ جانے پر تیار نہیں‘ مگر مصر بہرحال مسلمانوں کا ملک ہے اور امریکیوں کی نظر میں اس سے بڑھ کر عیب کیا ہو سکتا ہے۔ مصری حکمران امریکہ کی اشیرباد حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے اسلام اور جمہوریت کے حامیوں کو کچل کر‘ اپنے عوام کی نفرت و حقارت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن امریکی بھی ان سے خوش نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے مصر کو ’’کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور منافق‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ مصر کا فرض ہے کہ وہ امریکہ کے عالمی نظام کی کڑی بن جائے اور عرب ازم کے نظریے اور اپنے دیگر بوسیدہ افکار سے چھٹکارا پائے‘ یا پھر انجامِ بد کے لیے تیار ہو جائے (۱۶ اکتوبر ۲۰۰۰ء)۔ امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے مصر کو جدید میزائل دینے کے معاہدے پر بھی اعتراض کیے ہیں۔ امریکہ‘ مصر پر زور دے رہا ہے کہ وہ ’’دہشت گردی کے سرچشمے‘‘ خشک کرے۔ چنانچہ مصر نے تعمیرمساجد پر ۱۰ شرطیں عائد کر دی ہیں اور جامع ازھر سے امریکہ مخالف اساتذہ کو برطرف کر دیا ہے۔ مصر پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ یاسر عرفات کو‘ یہودیوں کے ساتھ معاہدۂ امن کرنے پر مجبور کرے۔

امریکی جیلوں میں مصری: مصری وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق ۱۱ ستمبر کے بعد ۵۰سے ۲۰۰ تک مصری شہری امریکی جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ بار بار کے مطالبات کے باوجود امریکی حکام گرفتار شدہ مصریوں کی نہ تو تعداد بتا رہے ہیں اور نہ ان سے رابطہ کرنے کی ہی اجازت دے رہے ہیں۔ مصری وزیرخارجہ نے اپنے گذشتہ امریکی دورے کے دوران‘ گرفتارشدگان کی تعداد معلوم کرنا چاہی مگر ناکام رہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے سفارت خانے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہمیں گرفتار شدگان کی تعداد اور ان پر لگائے گئے الزامات کا علم نہیں ہو جاتا‘ سکون نہیں آسکتا۔

تنظیم الاساتذہ کے خلاف عدالتی کارروائی: اخوان المسلمون کے خلاف قائم فوجی عدالت نے اپنی کارروائی شروع کر دی ہے۔ گذشتہ چھ برسوں میں یہ چوتھی فوجی عدالت ہے۔ گرفتار شدہ ’’ملزموں‘‘ کی تعداد ۲۲ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور مشہور ڈاکٹر ہیں۔ قاہرہ کے مشرق میں--- قاہرہ اسماعیلیہ شاہراہ--- پر واقع ہایکستب چھائونی میں عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ ملزموں کی حمایت و تائید کے لیے ۲۰۰ وکلا موجود تھے۔ ان میں سے کئی سابق جج تھے۔ حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں کے نمایندے بھی حاضر تھے۔ الزامات یہ عائد کیے گئے: دستور و قوانین کو معطل کرنا‘ مملکت کے اداروں کو اپنا کام کرنے سے روکنا‘ اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کے ازسرنو احیا کے لیے کام کرنا‘ اخوان کے عناصر کو تیار کرنے کے لیے خفیہ ملاقاتیں کرنا‘ جماعت کی مالی مدد کے لیے لائحہ عمل بنانا‘ عوام کو متحرک کرنے کے لیے طریق کار وضع کرنا‘ طلبہ کو اپنے ساتھ ملانا‘ ریاستی اداروں پر قبضہ کرنے کے لیے غوروفکر کرنا‘ جماعت کے اغراض و مقاصد کو عام کرنے کے لیے مطبوعات و دستاویزات تیار کرنا۔

یاد رہے کہ تنظیم الاساتذہ کے گرفتار شدہ ارکان میں میڈیکل‘ ایگریکلچرل اور ٹریننگ کالجوں کے آٹھ اساتذہ ہیں۔ اس سے پہلے ۶۰ سے زائد اخوان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔ مصر کی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکتی۔ سیاسی مبصرین کے بقول: مصری حکمران‘ اخوان کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا رہے ہیں۔

تعمیر مساجد پر پابندیاں: ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف کیے بغیر‘ اس کے خلاف عالمی سطح پر امریکی کارروائی صرف اس تک محدود نہیں ہے کہ ’’دہشت گرد‘‘ ملکوں اور جماعتوں کے خلاف فوجی اقدامات کیے جائیں بلکہ دین اور اہل دین پر بھی حملے شروع ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے قانون بنایا ہے جس کی رُو سے مساجد میں نماز پڑھنے والوں کے خلاف جاسوسی کی جا سکے گی اور وفاقی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار مسجدوں میں گھسنے اور نمازیوں کی حرکات کی نگرانی کرنے کے مجاز قرار دیے گئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باقاعدگی سے مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگا دیا جائے۔ امریکی تجزیہ نگار تھامس فریڈمن نیویارک ٹائمز میں مسجدوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتا ہے:

۱۱ ستمبر کا دن فی الحقیقت تیسری عالمی جنگ کا یوم آغاز ہے۔ ہمیں اس جنگ کا مقصد سمجھ لینا چاہیے۔ ہمیں صرف دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے جدوجہد نہیں کرنا‘ دہشت گردی تو فقط ایک آلہ ہے۔ ہم تو آئیڈیالوجی کو شکست دینے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ کسی دینی جماعت کے خلاف صرف فوجوںسے لڑائی نہیں لڑی جا سکتی بلکہ مدرسوں اور مسجدوں میں بھی لڑائی ہونی چاہیے۔ ائمہ اور علما کا تعاون حاصل کیے بغیر آئیڈیالوجی کو شکست نہیں دی جا سکتی‘‘۔ (نومبر ۲۷‘ ۲۰۰۱ء)

دہشت گردوں کے خلاف یہ مہم اب صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ کئی مسلم اور عرب ممالک نے بھی دین اور اہل دین کے خلاف یہ لڑائی شروع کر دی ہے تاکہ ایک طرف تو امریکہ کو خوش رکھا جائے اور دوسری طرف اپنے سیاسی مخالفین کو--- جو زیادہ تر دینی جماعتیں ہیں--- کچلنے کے اس ’’سنہری موقع‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ جنرل پرویز مشرف نے مساجد و مدارس کے خلاف جس مہم کا آغاز کیا ہے وہ اسی امریکی پالیسی کا پھیلائو ہے۔ اس لیے تعمیرمساجد پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مصر میں تعمیر مساجد پر عائد کردہ ۱۰ پابندیاں وزارتِ اوقاف نے نہیں بلکہ مجلس وزرا نے لگائی ہیں۔

پابندیاں یہ ہیں: ۱- رہایشی عمارت کے نیچے مسجد بنانا ممنوع ہے‘ ۲- مسجد کا رقبہ ۱۷۵ مربع میٹر سے کم نہ ہو‘ ۳- مسجد کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے‘ بطور ضمانت کسی بھی بنک میں ۵۰ ہزار گنی (۱۱ ہزار ڈالر) کی رقم جمع کروائی جائے‘ ۴- علاقے کو مسجد کی حقیقی ضرورت ہو‘ ۵- نئی تعمیر ہونے والی مسجد کا پہلے سے تعمیرشدہ کسی مسجد سے فاصلہ ۵۰۰ میٹر سے کم نہ ہو‘ ۶- وزارتِ اوقاف کے واضح اجازت نامے کے بغیر کوئی بھی مسجد تعمیر نہ کی جائے‘ ۷- مسجد انتظامیہ‘ وزارتِ اوقاف کے جاری کردہ احکام و ہدایات پر عمل درآمد کی پابند ہوگی‘ ۸- صحت‘ سماجی اور خدماتی امور کی سرانجام دہی کے لیے‘ مسجد کے نیچے کمرے تعمیر کرنے ہوں گے‘ ۹-اگر دریاے نیل کے کنارے پر مسجد یا خانقاہ تعمیر کرنا ہو تو اس کے لیے وزارتِ آبپاشی سے بھی اجازت نامہ لینا ہوگا‘ ۱۰- کسی بھی غضب کردہ یا متنازعہ جگہ پر مسجد تعمیر نہ کی جائے۔

مصر میں مساجد کی روز افزوں تعداد سے حکومت خائف ہے۔ وزارت اوقاف نہ تو اتنی زیادہ مساجد کے لیے ائمہ و خطبا کا تقرر کر سکتی ہے اور نہ سیکورٹی فورسز ہی ان مساجد کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہیں۔ لہٰذا مسجدیں مختلف اسلامی جماعتوں اور انجمنوں کے زیرانتظام ہوتی ہیں۔ حکومت مصر کے نزدیک اس سے ’’دہشت گردوں‘‘ کو فروغ ملتاہے۔ جمعہ کے خطبات میں‘ سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔

آج ہر مسلمان ملک میںاس نوعیت کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ مسجدیں تک آزاد نہ رہیں تو دشمنوں کو اور کیا چاہیے۔