بسم اللہ الرحمن الرحیم
امریکا کی بش انتظامیہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے ایک قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح ایک نئی عالمی جنگ (Global War) کی شکل دی اور نظامِ انصاف و قانون کے تحت واقعے کے اصل مجرموں کے تعین اور سزا کو پسِ پشت ڈال کر افغانستان اور عراق پر فوج کشی کرکے قبضہ کیا اور پھر ساری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک خونی یلغار کا راستہ اختیار کیا، اس نے پوری دنیا خصوصیت سے مسلم دنیا کو، ایک نہایت تباہ کن صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پاکستان کے اُس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے قوم کی سوچ اور احساسات و عزائم کے برعکس، بلکہ خود اپنی فوج کی قیادت کے ایک معتدبہ حصے کے مشورے کے خلاف جس طرح واشنگٹن کے ایک ٹیلی فون پر گھٹنے ٹیک دیے اور تمام سیاسی اصولوں اور سفارتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر افغانستان کی دوست حکومت کے خلاف امریکا کی فوج کشی کے لیے اپنا کندھا پیش کردیا، اس نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں دے دیا۔ اس سات سالہ جنگ میں اس کا اعلان شدہ کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، افغانستان اور عراق جیسے دو عظیم ملک بالکل تباہ ہوگئے، ساری دنیا میں عدمِ تحفظ میں اضافہ ہوا، آزادیوں پر نت نئی پابندیاں عاید کی گئیں، بین الاقوامی قانون اور معروف اصولِ انصاف پامال ہوئے، لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ مالی اعتبار سے آج کی دنیا میں غربت، افلاس، بے روزگاری، بھوک اور بیماری کا دور دورہ ہے اور ۷۰ فی صد انسانیت ۲ڈالر یومیہ سے کم پر گزر بسر کر رہی ہے۔نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر جوزف اسٹگ لِٹز (Joseph Stiglitz) کے مطابق اس عالمی جنگ کے نتیجے میں ۲۰۰۶ء تک آج کی دنیا ۳کھرب ڈالر کا خسارہ برداشت کرچکی ہے،(۱) جب کہ اس رقم کا دسواں حصہ بھی دنیا سے غربت کو دُور کرنے کے لیے استعمال ہوتا تو۲ ارب انسان غربت و افلاس کے پنجے سے آزاد ہوسکتے تھے۔
دنیا کے دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان سات برسوں میں جاری رہنے والی اس امریکی پالیسی کا جائزہ لے کر کھلے لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور خسارے اور بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے مشہور مجلہ فارن اَفیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں امریکا کے چار چوٹی کے مفکرین بیک زبان کہتے ہیں (اور ان میں اقوامِ متحدہ میں امریکا کا سفیر ہال بروک بھی شامل ہے) کہ امریکا کی جنگی حکمت عملی دونوں ممالک میں، یعنی عراق اور افغانستان میں ناکام رہی ہے اور ہمیں اپنی پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً یہی نتیجہ اس سروے سے بھی حاصل ہوتا ہے جو امریکا کے ایک اور بڑے اور موقر جریدے فارن پالیسی کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں شائع ہوا ہے یعنی Terrorism Index۔
اس سروے کی رُو سے امریکا کے اُمور خارجہ کے اولین صف کے ۱۰۰ مفکرین اور تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکا کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا ۷۰ فی صد زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے۔ ۹۰ فی صد کی راے یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہا ہے۔
ان حالات میں اب امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ناٹو کے فوجی کمانڈر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی قوت کا استعمال مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی حل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں افغانستان میں خود طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں اس ماہ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترک اجلاس اس امر پر غور کرنے کے لیے ہوا ہے کہ ملک کی سیکورٹی پالیسی کہاں تک درست ہے اور کیا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کی وہ شریکِ اقتدار سیاسی جماعتیں جو سابق صدر مشرف کے دور میں ان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی پر تنقید کرتی تھیں، مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اس پالیسی پر نہ صرف گامزن ہیں بلکہ زیادہ سختی اور کشت و خون میں ہوش ربا اضافے کے ساتھ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ زرداری صاحب تو شب وروز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ میری جنگ ہے، پاکستان کی جنگ ہے، اور وہ آخری دم تک اس میں مصروف رہیں گے۔(۱)
اس موقعے پر ہم چاہتے ہیں کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں پرویز مشرف اور صدر زرداری کی امریکی پالیسی کو پاکستان کی پالیسی بنا لینے کے طرزِعمل کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیں اور قوم اور پارلیمنٹ کو اس طرف متوجہ کریں کہ وقت کی اصل ضرورت اس ناکام پالیسی کو کسی دوسرے عنوان سے جاری رکھنا نہیں بلکہ اسے یکسر تبدیل کرنا ہے۔ اس جائزے میں ہمارا اصل موضوع امریکا کی پالیسی سے زیادہ پاکستان کی پالیسی ہوگا اور اسے نظرانداز کرتے ہوئے کہ آیندہ نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد امریکا کیا پالیسی اختیار کرتا ہے، ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کو اپنے ملکی مفاد اور قومی مقاصد اور اُمنگوں کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ ہم جس طرح امریکا کی پالیسی کے خادم اور آلۂ کار بن گئے ہیں، وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس لیے اس پالیسی کو جتنی جلدی تبدیل کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
جنرل مشرف نے جن حالات میں اور جن وجوہ سے ستمبر ۲۰۰۱ء میں پالیسی کا یوٹرن لیا اس پر ان صفحات میں ہم کئی بار گفتگو کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی ضرورت نہیں، البتہ جو بات سامنے رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان پر جو پالیسی مسلط کی گئی وہ کسی قومی مشاورت کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی تھی اور نہ اس کا انحصار کسی اداراتی فیصلے پر تھا۔
Pew Global Attitude Project کی رپورٹ What the World Thinks in 2002 کی رُو سے ۲۰۰۲ء میں پاکستان کی آبادی کے ۴۵ فی صد نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی، جب کہ ۲۰ فی صد نے (جو ۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۱۶ فی صد رہ گئی تھی) اس کی تائید کی۔ بحیثیت مجموعی امریکا کا مقام و مرتبہ (US image) جو پاکستان میں ۲۰۰۰/۱۹۹۹ء میں ۲۳ فی صد کی نگاہ میں مثبت تھا، وہ نائن الیون اور اس کے ردعمل کی روشنی میں تبدیل ہوا اور ۲۰۰۲ء کے سروے کے مطابق صرف ۱۰ فی صد کے ذہن میں امریکا کا مثبت تصور تھا۔
ایک دوسرے عالمی سروے World Public Opinion Org کے مطابق اس سوال کے جواب میں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کا فائدہ کس کو پہنچا؟ ۵۶ فی صد نے کہا کہ امریکا کو۔ صرف ۶ فی صد کی راے تھی کہ پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے، جب کہ ۲۹ فی صد کی راے یہ تھی کہ پاکستان کو اس کا نقصان ہوا ہے۔ ستمبر۲۰۰۷ء میں منعقد کیے جانے والے اس سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ۷۲ فی صد کی نگاہ میں ایشیا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد کی نگاہ میں خطرہ تو ہے اور اہم ہے مگر اس کی سنگینی اتنی اہم نہیں۔ صرف ۶ فی صد کی نگاہ میں امریکا کوئی خطرہ نہیں۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں منعقد کیے جانے والے ایک سروے کی روشنی میں پاکستان کی آبادی کے ۶۴ فی صد کی نگاہ میں دہشت گردی کے خلاف فوج کی جنگ غلط ہے اور ۸۹ فی صد نے کہا کہ پاکستان کو امریکا کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اسی طرح ۸۳ فی صد کی نگاہ میں افغانستان میں امریکا کی فوج کشی پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ راے عامہ کے ایک اور جائزے کی رُو سے، جو امریکی ادارے New America Foundation نے مئی جون ۲۰۰۸ء میں منعقد کیا اور جو Terror Free Tomorrow کے عنوان سے شائع کیا ہے، آج بھی ۷۴ فی صد پاکستانی القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کو برحق نہیں سمجھتے۔ نیز آبادی کے ۵۷ فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کے مقابلے میں اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے، جب کہ ۵۲فی صد امریکا کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
مشرف اور زرداری صاحب کی پالیسیوں کو عوامی تائید حاصل نہیں۔ دیکھتے ہیں منتخب پارلیمنٹ کہاں تک عوام کے جذبات و توقعات کی ترجمانی کرتی ہے۔
اول توقوت کا ہر استعمال دہشت گردی نہیں۔ دہشت گردی کا اطلاق صرف قوت اور تشدد کے ہتھکنڈوں کے اس استعمال پر ہوتا ہے جس میں کچھ خاص، بالعموم سیاسی اہداف کے حصول کے لیے اور اپنے مقاصد کی طرف توجہ مرکوز کرانے کے لیے دوسروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں مخالف قوت کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے اور بالعموم فوری ہدف (victim) اور اصل مقصد (target) الگ الگ ہوتے ہیں۔
اس تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات جرم ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی قرار نہیں دیے جائیں گے، مثلاً تاوان کے لیے اغوا، محض دماغی انتشار اورفتور کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کے اتلاف کے واقعات یا دوسرے مافیا اور مجرم عناصر کی سرگرمیاں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی جو اہم شکلیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں ان میں فرقہ وارانہ تشدد، لسانی بنیادوں پر دہشت گردی اور علاقائی تحریکوں یا نیم قومی بغاوتیں (sub-national insurgencies) نمایاں ہیں۔ لیکن سب سے اہم شکل وہ دہشت گردی ہے جو خالص سیاسی بنیادوں پر، امریکا کی پالیسیوں اور خونی کارگزاریوں کے ردعمل میں رونما ہوئی ہے اور جس کی لپیٹ میں آج تمام ہی قبائلی ایجنسیاں آچکی ہیں اور آباد علاقوں میں سے سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد بھی اس کی زد میں ہیں۔ اس کی اصل بنیاد اور محرک افغانستان پر امریکا کی فوج کشی اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسلمان ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان علاقے غیروں کے قبضے میں ہیں اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ نیز اُن کو ریاست کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نوعیت کی دہشت گردی میں کمیت اور کیفیت ہردو اعتبار سے بے محابا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت دہشت گردی کی یہی وہ شکل ہے جس سے فاٹا، باجوڑ اور سوات وغیرہ میں فوج کو سابقہ درپیش ہے۔ بلاشبہہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں، خصوصیت سے کرم ایجنسی میں۔ بلوچستان میں بالخصوص علاقائی اور نیم قومی بنیادوں پر تصادم نے دہشت گردی کی شکل اختیار کرلی ہے، جہاں حکومت نے فوج کشی کر کے شہری آبادیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور محبِ وطن عناصر کو تشدد اور علیحدگی پسندی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔
ہم اس بحث سے جو نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں وہ حکمت عملی کا یہ سقم ہے کہ ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا صحیح صحیح تعین کر کے ہر ایک کے لیے اس کے مزاج، نوعیت، مسائل اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے واضح حکمت عملی تیار نہیں کی گئی بلکہ سب کو ایک عمومی عنوان کے تحت گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ اس کا علاج فوج کشی اور حکومت کی نام نہاد عمل داری (writ) کے قیام کے لیے قوت کے بے محابا استعمال کو قرار دے دیا گیا ہے جس کے تباہ کن نتائج رونما ہو رہے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ نہ مرض کی صحیح تشخیص کی گئی، نہ مختلف امراض کا الگ الگ تعین ہوا، نہ مریض کے مزاج اور کیفیت کا مطالعہ کیا گیا۔ بس امریکا کے ایک حکم پر اس علاقے کے امن کو تباہ کیا گیا، اسامہ بن لادن اور مُلا عمر تو صرف عنوان تھے، اصل مقصد افغانستان اور عراق پر قبضہ اور اس پورے علاقے کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو تھی اور جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی جنگ میں اپنے ملک کو جھونک دیا جس کا ہم سے کوئی تعلق نہ تھا حتیٰ کہ نائن الیون کے کرداروں میں کسی سے دُور و نزدیک کسی پاکستانی کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ مگر اس پرائی جنگ کو پہلے ہم نے اپنی جنگ بنایا اور پھر ملک کی فوجوں کو اپنی ہی قوم کے خلاف صف آرا کردیا۔ ۲۰۰۴ء سے پہلے کوئی ایک حملہ پاکستانی فوج یا کسی پاکستانی قومی اثاثے پر نہیں ہوا مگر جب ہماری فوجوں نے اپنے ہی شہریوں پر بم باری اور معصوم جانوں کے اتلاف، علاقوں کی مسماری، سیکڑوں افراد کے جبری اغوا اور ہزاروں کی گرفتاری کا راستہ اختیار کیا تو دوسری طرف سے بھی دہشت گردی کا طوفان اُٹھا اور دونوں کے ٹکرائو کے نتیجے میں جان و مال کا مزید نقصان ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اور عجیب و غریب عنصر طالبانائزیشن کے نام سے شامل کرلیا گیا اور اس کا حل بھی طالبان کا مکمل خاتمہ سمجھ لیا گیا۔ طالبان کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہوسکتا ہے اور ہم نے بار بار کہا ہے، اس کے طریق کار یعنی جبر اور قوت کے ذریعے سے خیالات کو مسلط کرنا بھی اسلام اور حکمت عملی دونوں اعتبار سے غلط اور نقصان دہ ہے مگر طالبان کی پوری تحریک کو دہشت گرد قرار دے کر صفحۂ ہستی سے مٹانے اور بلاامتیاز ہر اس شخص اور گروہ کو ختم کرنے کی کوشش جس پر طالبان کا شبہہ ہو، صریح ظلم ہے اور دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ لیکن بش اور مشرف دونوں کی پالیسیاں اسی مفروضے پر مبنی تھیں کہ طالبان، اور ان کی پیداکردہ دہشت گردی کو نیست و نابود کرنا ان کی پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ فطری طور پر یہ نکلا کہ طالبان کی تحریکِ مزاحمت (جس کا اصل مقصد بیرونی تسلط سے نجات تھا) اور بھی قوی ہوئی۔ ۲۰۰۳ء میں بش نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں مکمل امن قائم کردیا ہے اور طالبان مفقود ہوگئے ہیں (have been eliminated)۔ اس ’کامیابی‘ کے بعد بش صاحب نے عراق پر یلغار کی مگر حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کے بعد طالبان کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا اور آج برطانیہ، ناٹو بلکہ خود امریکا ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو رہا ہے مگر پاکستان پر یہی دبائو ہے کہ کسی نام نہاد دہشت پسند گروہ سے بات چیت نہ کرو اور مذاکرات کی جب کوشش کی گئی اسے امریکا نے سیاسی یا عسکری مداخلت کر کے سبوتاژ کردیا۔ اب امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر اسلام آباد آکر یہی فرمان جاری کرگئے ہیں کہ مذاکرات کی گنجایش نہیں۔
پھر اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک حماقت یہ کی گئی ہے کہ القاعدہ، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو ایک وحدت سمجھ کر تینوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے فلسفے کے تحت دشمن خیال کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بش صاحب کے ساتھ زرداری صاحب اور رحمن ملک یہی فتویٰ دے رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تینوں الگ ہیں اور ان کے مقاصد، طریق کار، اہداف، زیرمعاملہ مسائل (bargaining issues) مختلف ہیں۔ اول تو یہ ایک نہیں، اور اگر ایک ہوتے ہیں جب بھی حکمت عملی کا تقاضا یہی تھا کہ ان میں فاصلہ رکھا جاتا، پیدا کیا جاتا، اور الگ الگ معاملہ کرنے کی کوشش ہوتی مگر ایسی سفارت کاری اور سیاسی حکمت عملی کی توقع نہ بش سے تھی اور نہ مشرف نے اس کا کوئی عندیہ دیا اور نہ زرداری اور رحمن ملک اس کا کوئی اشارہ دے رہے ہیں۔
اس پوری پالیسی کا ایک بڑا ہی سنگین پہلو یہ ہے کہ اس میں اصل مسئلہ، یعنی امریکا کی اس علاقے میں فوج کشی اور ایک خیالی دشمن کے خلاف جنگ کو نظرانداز کرکے طرح طرح کے ’قربانی کے بکرے‘ (scape goats) تراشے گئے ہیں۔ کبھی دینی مدارس کا ہوّا دکھایا جاتا ہے، کبھی جہاد کو خطرہ بناکر پیش کیا جاتا ہے، کبھی ’انقلابی اسلام‘، کبھی ’سیاسی اسلام‘ اور کبھی ’اسلامی فاشزم‘ کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی غربت، افلاس، بے روزگاری اور جہالت کو ساری دہشت پسندی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اصل سبب، یعنی امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیاں، دوسروں کے حقوق اور وسائل پر غاصبانہ قبضے اور اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کے بے دریغ استعمال پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ اب تو ان تمام مغالطوں کا پردہ خود مغربی محققین اور تجزیہ نگار کھلے بندوںچاک کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف ایک مشہور امریکی ماہر اقتصادیات پروفیسر کرَگر (Kruggar) کی تازہ ترین کتاب سے اس کی کئی برسوں پر پھیلی ہوئی اعدادوشمار پر مبنی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہیں اور جو صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ جب تک امریکا اور مغربی اقوام کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی، ظلم کے اس نظام کی مزاحمت کی تحریکوں سے نجات ممکن نہیں، یہ قوت سے نہیں دبائی جاسکتیں۔ مسئلے کا حل سیاسی اور معاشی ہے اور عدل وا نصاف کی روش کو اختیار کیے بغیر ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ختم نہیں ہوسکتی:
دہشت گردی کے اقدامات کا الزام معاشی حالات یا تعلیم کی کمی پر ڈالنے میں ایک مخصوص سطحی اپیل ہونے کے باوجود اس امر کے لیے متفقہ شہادت موجود ہے کہ مادی آسایشوں سے محرومی یا ناکافی تعلیم کو دہشت گردی کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شرکت کی ایک اہم وجہ کی حیثیت سے مسترد کردیا جائے۔ دہشت گردی کے مقبول عام اسباب ___ غربت، تعلیم کی کمی، یا یہ نعرہ کہ ’’وہ ہمارے طرزِحیات یا آزادی سے نفرت کرتے ہیں‘‘___ کی سرے سے کوئی باقاعدہ، عملی یا تجرباتی (empirical) بنیاد نہیں ہے۔ (ص ۲)
متعدد اداراتی اور سرکاری مطالعوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد غریبوں کی صفوں میں سے آنے کے بجاے اعلیٰ تعلیم یافتہ، متوسط طبقے، یا زیادہ آمدنی والے طبقے سے آرہے ہیں۔ جن لوگوں نے مشاہداتی اور تجرباتی بنیادوں پر سنجیدگی سے اس مسئلے کا مطالعہ کیا ہے، ان کے درمیان اس پر کوئی بحث نہیں ہے کہ غربت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔ (ص ۳)
زیادہ تر دہشت گردوں کے لیے ذاتی مادی مفاد محرک نہیں ہوتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو آپ خودکش مشنوں کے لیے رضاکاروں کی کثرت کا کیا سبب بیان کریں گے؟ اس کے بجاے، دہشت گردوں کا اصل محرک وہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں جن کے بارے میں انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی کارروائیوں سے ان مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔ (ص ۴)
دہشت گرد اس لیے نہیں بڑھ بڑھ کر وار کر رہے ہیں کہ وہ بے حد غریب ہیں۔ وہ تو علاقے کے سیاسی(geopolitical) مسائل پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے محرکات کا غلط تصور ہمیں مسئلے کے حقیقی اسباب سے نمٹنے سے روک سکتا ہے۔ (ص۴)
میں یقین رکھتا ہوں کہ مغرب کے لیے یہ اندازہ نہ کرنا کہ ہماری پالیسیاں منفی یا پُرتشدد نتائج تک لے جاسکتی ہیں غلط ہوگا۔(ص ۵)
(What Makes a Terrorist: Economics and The Roots of Terrorism, by Alan B. Kruggar, (Professor of Economics and Public Policy, Princeton University), Princeton University Press, 2007, pp 2)
ان حالات میں صدر زرداری نے جس طرح بش اور مشرف کی پالیسیوں کو بدستور جاری رکھا ہے وہ پاکستان کی سلامتی، اس کے استحکام بلکہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جب امریکا اور یورپ کے دانش ور اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ افغانستان، عراق اور ساری دنیا میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے، تصادم میں مصروف تمام قوتوں سے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، بش اور زرداری صاحب وہی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج روزانہ معصوم انسانوں کا خون بہا رہی ہے اور امریکی اور ناٹو افواج افغانستان تک ہی نہیں خود پاکستان کی سرزمین میں آگ اور خون کی بارش برسا رہی ہیں اور حکومت کا یہ حال ہے کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم!
اس سات سالہ جنگ کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پوری دنیا میں تشدد، دہشت گردی اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے اور مہذب دنیا نے اجتماعی زندگی کے لیے جو اصول صدیوں کی محنت اور قربانی سے وضع کیے تھے، وہ پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں شرکت سے جو نقصانات اٹھائے ہیں ان کا مختصراً ذکر کردیں:
۱- ملک بھر میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کی پامالی اور ہر طرف عدمِ تحفظ کا سماں ہے۔ جو شخص بھی صبح گھر سے نکلتا ہے اس کے صحیح سلامت شام کو گھر واپس آنے کا اطمینان باقی نہیں رہا ہے۔ جو شمالی علاقہ جات کبھی امن کا گہوارا تھے، وہ جنگ و جدال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ کی بدترین تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جہاں کبھی پاکستان کی افواج کا عزت و احترام سے استقبال کیا جاتا تھا، وہاں ان کے بالمقابل صف آرا افواج اور قبائلی سلسلے ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے ہیں اور تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق صرف ان علاقوں میں ۱۴۰۰ سے زیادہ فوجی جوان اور افسر جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور ۳۵۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جب کہ قبائل کے بارے میں اندازہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲ہزار سے زیادہ ہے اور زخمیوں کی تعداد بھی ۲ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح مختلف اندازوں کے مطابق ۵ سے ۱۰ہزار عام شہری زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب تک اس علاقے کے ۴لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ وہ سب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نہ ان کے رہنے کا انتظام ہے نہ خوراک کا بندوبست ہے اور نہ دوا دارو کی سہولت ہی میسر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جو حقیقی معاشی نقصان ملک کی آبادی کو ہوا ہے جس میں جنگ کے اخراجات کے علاوہ مادی نقصانات اور معیشت پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اثرات شامل ہیں۔ نقصان کی یہ رقم سرکاری اندازوں کے مطابق ۱ئ۲ کھرب روپے ہے جو تقریباً دو سال کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے جو نام نہاد مدد دی ہے وہ ۱۱ بلین ڈالر ہے۔ اور اس کا ایک حصہ خود اس کے اپنے افراد اور اداروں پر خرچ ہوا ہے۔ گویا اس سے تین گنا زیادہ نقصان ملک کی معیشت کو ہوچکا ہے___ رہا انسانی جانوں کا نقصان تو اس کی قیمت تو لگائی ہی نہیں جاسکتی۔
۲- اس جسمانی، مادی اور معاشی نقصان کے ساتھ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری دائو پر لگ گئی ہے۔ ملک کی قیادت کو خود اپنی پالیسیوں پر کوئی اختیار نہیں۔ امریکا ہماری سیاست اور معیشت کی اس طرح صورت گری کر رہا ہے جس طرح برطانوی دور میں برطانیہ کا وائسرائے کیا کرتا تھا۔ امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نچلی سطح تک حکمرانی اور مداخلت کا ارتکاب کر رہی ہے، حتیٰ کہ سیاسی قیادت کا انتخاب بھی واشنگٹن میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہماری سرحدات غیرمحفوظ ہیں۔ امریکی اور ناٹو افواج روزو شب ہماری ہوائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور ان کا ہاتھ روکنے اور جوابی کارروائی کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔
گذشتہ تین سال میں ۶۷ بار امریکی ناٹو افواج نے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ان ۶۷ میں سے ۳۶ واقعات مشرف کے دور میں ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے، جب کہ موجودہ حکومت کے دور میں مارچ ۲۰۰۸ء سے اکتوبر۲۰۰۸ء تک ۳۱ واقعات ہوچکے ہیں اور ہماری آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہیں۔
۳- ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں ایک ایسی حکومت تھی جو پاکستان کی بہترین دوست تھی۔ کوئی شکایت پاکستان کو ان سے اور ان کو پاکستان سے نہیں تھی بلکہ گذشتہ ۶۱سال میں افغانستان کی مختلف حکومتوں کا رویّہ پاکستان سے دوستانہ نہیں رہا۔ صرف ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک ایسے تعلقات تھے کہ کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی ہے اور مشرف صاحب نے علانیہ طور پر کہا تھا کہ ہمیں ضمانت دی گئی ہے کہ یہ فوجی ایکشن بہت کم وقت کے لیے ہوگا اور ہدف بھی بہت متعین ہوگا (short and targeted)۔ نیز یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ شمالی افغانستان کے پاکستان مخالف عناصر کو کوئی کردار نہیں دیا جائے گا___ مگر ہوا کیا؟ شمالی افغانستان کے عناصر کی طرف سے جتنی پاکستان مخالفت اس دور میں ہوئی ہے اور پاکستان کے خلاف جو شعلہ بیانی اور عملی اقدامات اس دور میں کیے جارہے ہیں اور پھر اسی زمانے میں بھارت کو افغانستان میں جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور جس طرح وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی___ یہ ہے مشرف کی افغان پالیسی کا ماحصل!
۴- کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کی نہ صرف حفاظت ہوگی بلکہ اس مسئلے کا نہ صرف حل بہت جلد سامنے آجائے گا بلکہ امریکا اس میں اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس زمانے میں نہ صرف ایٹمی اثاثوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوئے ہیں اور ہیں اور پاکستان کو ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے بلیک میل کرنے کی جو عالمی مہم چلی، اس نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ نیز کشمیر پر صاف لال جھنڈی دکھا دی گئی اور مشرف اور زرداری دونوں اس سطح تک گر گئے کہ کشمیریوں کے جہاد کو بھی ’دہشت گردی‘ قرار دینے لگے اور جو عظیم تحریکِ مزاحمت اور آزادی وہاں برپا ہے، اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام اس قیادت نے انجام دے کر وہاں کے عوام کو پاکستان کی طرف سے مایوسی کی دلدل میں دھکیل کر پاکستان کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضربِ کاری لگائی___ یہ ہیں اس پالیسی کے چند منفی اور تباہ کن اثرات۔
بات بہت واضح ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ساری جنگ ایک گھنائونا سامراجی کھیل ہے اور جب تک ہم اس جنگ کے دست کش ہوکر اپنا راستہ الگ نہیں نکالتے، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ اس کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اور سلامتی کے ایک مختلف مثالیے کی ضرورت ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس ادراک کے ساتھ کہ ہماری منزل، ہمارے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور کس طرح وہ امریکا اور سامراجی طاقتوں کے مقاصد اور اہداف سے مختلف ہیں۔ رخ کی تبدیلی پہلی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، سلامتی، عزت و وقار اور مفادات کا تحفظ اصل مقصود ہے۔ امریکا کی جنگ سے قطعی علیحدگی (de-linkage) اس کا فوری تقاضا ہے۔ ہم اپنے اندرونی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن جب تک افغانستان پر امریکی قبضہ رہے گا، پورے علاقے میں شورش اور عدم استحکام باقی رہے گا۔ اس جنگ کا حصہ بن کر ہم کبھی بھی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے، اس لیے پہلی ضرورت قطعی علیحدگی، خود اپنی سلامتی کی حکمت عملی کا ادراک اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔
دوسری ضرورت قوم کو اعتماد میں لینے کی ہے۔ تمام حقائق قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آنے چاہییں۔ جو معاہدات امریکا سے ہوئے ہیں وہ سامنے آنے چاہییں اور ان پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ہم امریکا کی گرفت سے نکل کر خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی پالیسی بناسکیں اور ملک کو قوم کی تمنائوں اور آرزوئوں کے مطابق ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ دھوکے اور کہہ مکرنیوں سے کچھ حاصل نہیں۔ سچ اور حقائق کی بنیاد پر پالیسی سازی میں ہی قوم کی نجات ہے۔
تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو بھی اندرونی مسائل ہیں، خصوصیت سے دہشت گردی اور تصادم کی وہ کیفیت جو اس وقت شمالی علاقہ جات میں پائی جاتی ہے اور سارے ملک کو متاثر کر رہی ہے، اس کا حل محض طاقت کا استعمال نہیں۔ فوجی حل ایک خام خیالی اور تباہی کا راستہ ہے۔ برطانیہ، روس، امریکا کوئی بھی اس علاقے میں فوجی قوت سے مسائل کو حل نہیں کرسکا۔ اس کا واحد راستہ سیاسی گفت و شنید، مفاہمت کے روایتی طریقوں کا استعمال اور مذاکرات کے ذریعے انصاف اور دستور و قانون کی بالادستی کے حصول کے لیے سیاسی حل ہے۔ اس کے لیے معاملے کے سب فریقوں کو شریک کرنا اور افہام و تفہیم کے ذریعے اعتدال کی راہ کا حصول اور سیاسی معاہدہ اور انتظامی دروبست ضروری ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ امن و آشتی، صلح و صفائی اور اچھی حکمرانی اور خوش حالی کا راستہ نہیں۔
یہ وہ تین بنیادیں ہیں جن سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت کو مجبور کرے کہ اس فریم ورک میں مسائل کا حل تلاش کرے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو شروع ہوا اور ۲۲ کو ختم ہوا۔ ایک ۱۶ رکنی کمیٹی نے ۹گھنٹے کے بحث و مباحثے کے بعد ایک متفقہ قرارداد منظور کی جو ایک تاریخی اقدام ہے۔ پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانی مسئلے پر ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا اور اب ۲۰۰۸ء میں قومی سلامتی کے مسئلے پر ایک مثبت اقدام کیا ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے لیکن اس میں یہ امکانات مضمر ہیں کہ سلامتی اور خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل ہوجائے___اور امریکا اور مشرف کی پالیسیوں کے چنگل سے ملک و قوم نکل سکیں۔ اس قرارداد کی قوت یہ ہے کہ یہ متفق علیہ ہے اور اس کا رخ درست ہے، لیکن اس کی کمزوری یہ ہے کہ بڑے اہم معاملات اشاروں میں بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ کے انتخاب میں بھی بہت سی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اس کے درج ذیل پہلو اہم ہیں اور تبدیلی کے رخ کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن اس قرارداد، اس میں طے کردہ اصول اور بیان کردہ نقشۂ راہ کا اصل امتحان اس پر عمل درآمد ہے۔ اگر حکومت دیانت داری سے اس پر عمل کرتی ہے تو ایک روشن مستقبل کے امکانات موجود ہیں۔
۱- اس اعلامیے میں یہ پیغام واضح طور پر موجود ہے کہ پارلیمنٹ اور قوم مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس پالیسی کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے اور یہ حکومت اور پارلیمنٹ کا امتحان ہے کہ وہ متفقہ قرارداد میں دیے گئے اصولوں اور لائحہ عمل کے مطابق بنیادی تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے۔
۲- پارلیمنٹ نے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش ظاہر کی ہے اور ملکی سلامتی سے متعلق حکمت عملی پر فوری نظرثانی اور دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کو نئے تناظر میں دیکھنے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ نے مستقبل کی پالیسی کی سمت متعین کردی ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ عوامی نمایندوں کی تجاویز کو عملی جامہ پہنائے اور ملک کو اس تباہ کن صورت حال سے نکالے جن کا سبب پرویز مشرف کی اختیار کردہ پالیسیاں اور ان کا تسلسل ہے۔
۳- پارلیمنٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ طاقت کا استعمال اور مذاکرات بیک وقت نہیں ہوسکتے۔ قرارداد میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ اس وقت مذاکرات ہی مسائل کے حل کی اصل راہ ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیرپا امن، افہام و تفہیم اور مذاکرات سے ہی حاصل کیاجاسکتا ہے۔ فوجی کارروائی، مذاکرات اور ترقی کی تین نکاتی حکمت عملی کو پارلیمان نے دو نکات یعنی ترقی اور مذاکرات تک محدود کردیا ہے۔ فوجی کارروائی کو چودہ نکاتی لائحہ عمل سے یکسر خارج کردیا گیا ہے، تاہم قانون کی بالادستی، دستور اور انصاف کے اصولوں کے احترام کو یقینی بناکر حکومتی عمل داری ضرور قائم کی جانی چاہیے۔
۴- قرارداد میں نہایت واضح انداز میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کو متاثرہ علاقوں سے واپس بلا لیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہو جرگے اور ایف سی کے ذریعے امن کی بحالی کا روایتی طریقہ اپنایا جائے۔
۵- پارلیمنٹ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ دہشت گردی کو اس کی وجوہات ختم کیے بغیر کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں کو امن کے عمل میں شامل کر کے دہشت گردی کی اصل وجوہات کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔
۶- متفقہ قرارداد میں صرف تجاویز پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اعلامیے میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے متفقہ قرارداد میں بیان کردہ اصولوں اور پالیسی کے رہنما خطوط کے مطابق عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔
اس قرارداد میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ملک اور خطے میں امن و آشتی کی خواہاں ہے، تاہم غیرملکی فوجوں کی طرف سے ملکی سرحدات کی پامالی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی اور نہ قوم سابقہ حکومت کی شروع کردہ پسپائی اور بزدلی پر مبنی پالیسی کو جاری رکھنے پر تیار ہے۔ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ بلاشبہہ ہمیں جنگ جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور قوم اس صورت حال کو اپنی تیار کردہ حکمت عملی کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے نہ کہ دبائو، جبر اور معاشی بلیک میلنگ کے ذریعے مسلط کردہ بیرونی پالیسی کے ذریعے۔
متفقہ قرارداد یہ بھی واضح کرتی ہے کہ فاٹا، باجوڑ اور سوات میں پیدا ہونے والی صورت حال افغانستان پر امریکی قبضے کا شاخسانہ ہے، تاہم فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصب کی بنا پر جاری دہشت گردی کو ان کی نوعیت کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر جرائم میں ملوث عناصر سے بھی سختی سے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق نبٹا جائے اور پھر سیاسی مسائل کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کیا جائے اور عوام کے اصل مسائل کو انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے دُور کیا جائے۔
اس قرارداد میں جناب آصف علی زرداری کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے۔ اب پارلیمنٹ نے پالیسی کا رخ متعین کردیا ہے اور وہ بھی اس کے پابند ہیں۔ وہ جو گل افشانیاں فرماتے رہے ہیں، اب ان کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ نے قوم کی آواز کو پالیسی کے خطوطِ کار اور ایک نقشۂ کار کی شکل میں متفقہ طور پر طے کردیا ہے۔ صدر اور فوج اس پالیسی کے تابع ہیں اور کسی کو بھی خواہ وہ ایوانِ صدر میں مقیم ہو یا سرحدپار سے مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہو، اسے سبوتاژ کرنے کا اختیار نہیں۔ لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے اس پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ متحدہ ہندستان میں پنجاب کو اناج گھر کہا جاتا تھا جس کا ۴/۳ حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ پاکستان کے حصے میں بہترین زرعی زمین اور دنیا کا اعلیٰ ترین نہری نظام آیا۔ ہم چاہتے تو زرعی ترقی کی بنیاد پر اپنا معاشی نظام مضبوط بناکر دنیا میں باعزت قوم کی طرح رہتے۔ ۱۹۴۷ء میں ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ ۶۸ فی صد تھا۔ پاکستان کی معاشی ترقی کا راز صنعتی پیداوار میں ڈھونڈا اور ان کی تمام پالیسیاں صنعتی ترقی کے لیے رہیں اور نتیجتاً آج ۶۰سال گزرنے کے بعد ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ ۲۰ فی صد رہ گیا ہے اور صنعتی ترقی بھی شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکی۔
زرعی شعبے میں ترقی سیاسی ضروریات کی بنا پر صرف انفراسٹرکچر کی حد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، جب کہ تحقیق و ترقی کا شعبہ کاغذی حد تک موجود رہا۔ یہ کام انھوں نے غیروں کے سپرد کرکے یہ سمجھ لیا کہ ان کے ہاتھوں ہونے والی تحقیق سے ترقی کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی طرح سے پاکستان تک پہنچ ہی جائے گی، چاہے یہ ۵۰ برس بعدہی کیوں نہ پہنچے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم زراعت کے میدان میں:
۱- بیج کے لیے بھی دوسرے ممالک کے محتاج ہیں۔ اگر ہم یہ بیج وقت پر درآمد نہ کرپائیں تو اس کی قیمتیں بھی تین گنا بڑھ جاتی ہیں۔
۲- ہم جڑی بوٹیاں اور کیڑے مار ادویہ باہر سے لانے پر مجبور ہیں۔ کھاد کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔
۳- نہری نظام کو ایسے بے عمل تجربوں سے گزارا گیا ہے کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا اصول لاگو ہوگیا اور یوں ٹیل والے رقبے بنجر ہوکر رہ گئے ہیں۔
۴- ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے فقدان کے باعث ۶۰ سال گزر جانے کے باوجود ہم آم کے بٹور (بیماری) کے مسئلے کا حل نہیں ڈھونڈ سکے اور کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ وہ اپنی کی ہوئی ریسرچ سے ہمیں فائدہ دے اور ہم اس مسئلے کو حل کریں۔
۶۰ سال میں زراعت سے پہلوتہی ہمیں اس حد پر لے آئی ہے کہ ہم گذشتہ سال ۳ ارب ڈالر کی صرف غذائی اشیا درآمد کرنے پر مجبور ہوگئے جو کہ ہماری کل برآمدات کے چوتھے حصے کے برابر ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ درآمدات میں گندم، گوشت، آلو، ٹماٹر، ادرک، لہسن پیاز، خشک دودھ، دالیں، گرم مصالحہ جات اور روئی جیسی بنیادی ضروری زرعی اجناس شامل ہیں۔ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ بات سوچنے پر مجبور ہے کہ دوسرے ممالک کے کسانوں کو فائدہ دینے اور اپنے کسان کی حوصلہ شکنی میں اربابِ اختیار ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ ہماری زراعت کُش پالیسیوں کی وجہ سے دیہاتوں سے روزگار کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرنے والے ’مہاجرین کے قافلے‘ ہرجگہ نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے شہروں کے قریب بہترین زرعی زمینیں رہایشی کالونیوں کی نذر ہوگئی ہیں۔
یہ تاثر عام ہے کہ زراعت کے بجاے تجارت پر توجہ دینے سے ہمارے ملک میں پیسے کی ریل پیل ہوگی، ہم دنیا کے کسی بھی کونے سے خوراک منگوا کر اپنے ملک کے باسیوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔
۱- تیل مہنگا ہونے کی بنا پر بحری جہازوںکے کرایوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً درآمدی ممالک کو اجناس کی زیادہ قیمت برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔
۲- ان ممالک کی اپنی آبادی بڑھنے سے ان کی غذائی ضروریات بڑھ گئی ہیں جن کی بنا پر درآمد کرنے والی اجناس کی مقدار کم ہوگئی ہے۔
۳- ان ممالک میں بھی قحط سالی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے جس کی بنا پر یہ ممالک اپنی پیداوار کو ذخیرہ کر رہے ہیں۔
۴- چین اور بھارت جن کا شمار بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا تھا انھوں نے بھی غذائی بحران کا سامنا کرنے کے لیے درآمد کو کم کرنے یا بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
۵- یہ حالت دیکھ کر ذخیرہ اندوزوں نے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور غذائی اجناس کو سونے کی طرح ذخیرہ کرنا شروع کردیا تاکہ بعد میں اس کو مہنگے داموں فروخت کرسکیں۔
۶- پوری دنیا میں عمومی ترقی کی وجہ سے ایک ہی جنس کو مختلف پراڈکٹس میں پیش کیا جانے لگا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی چیز کے مختلف ذائقے ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی تسکین کے لیے انھیں استعمال میں لاتے ہیں اور یوں اجناس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
ان تمام عوامل کو دیکھنے کے بعد غور کریں کہ پاکستان اس غذائی بحران میں اپنا کردار ادا کرکے کیا کیا فوائد حاصل کرسکتا ہے؟ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیں اپنا گھراور اپنی بنیاد ٹھیک کرنے کا ایک اور عمدہ موقع مل گیا ہے اور اب ہمیں اس بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے اور اپنی عوام کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا چاہیے۔ اس لیے ایک لائحہ عمل وضع کرکے اس پر سنجیدگی سے پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس میں مندرجہ ذیل نکات کو مدنظر رکھا جائے تو ہم غذائی بحران سے بڑے اچھے انداز میں نمٹ سکتے ہیں:
۱- زرعی سیکٹر میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ فصلوں کے مداخل، مثلاً ہائبرڈ بیج، کرم کُش اور فصلی ادویہ اپنے ملک میں پیدا کرسکیں۔
۲- طلب کو سامنے رکھتے ہوئے ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔
۳- ان ترجیحات کے مطابق زرعی پالیسی ترتیب دی جائے اور وہ فصلات جوبیرون ملک اور اپنے ملک میں زرِمبادلہ کا باعث بن سکتی ہوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
۴- ملک میں سائلوز (اناج گھر) ہنگامی بنیادوں پر کھڑے کر کے بنیادی غذائی اجناس کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔
۵- اگر ہم شوکت عزیز نظریے کے مطابق ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجاے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کمپنیاں بنائیں تو ہم ملکی پیداوار کو ذخیرہ اور اس کا بہتر وقت میں استعمال کرسکتے ہیں۔
۶- اگر زرعی مداخل کی قیمتوں کی بنیاد انٹرنیشنل پرائس پر رکھنی ہو تو کسان کی پیداوار بھی انٹرنیشنل پرائس پر خریدنی چاہیے۔
۷- تمام فصلوںکی قیمت خرید اور ہدف کو واضح طور پر وقت سے پہلے اعلان کے ذریعے بتانا چاہیے۔
۸- شوگر مل مافیا کو کسانوں کے استحصال سے باز رکھا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے شوگرملوں کو پابند کیا جائے کہ وہ وقت پر کرشنگ شروع کریں اور کرشنگ کا عمل بھی تیز کیا جانا چاہیے تاکہ گنے کی فصل سے خالی ہونے والی زمین پر گندم کاشت کی جاسکے۔
۹- مزید رقبہ زیرِکاشت لایا جائے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو ترغیبات کے ساتھ ساتھ جدید ٹکنالوجی بھی مہیا کی جائے۔
۱۰- ٹنل فارمنگ اور ڈرپ اری گیشن سسٹم کو رواج دیا جائے تاکہ پانی کے شدید ترین بحران سے اچھے انداز سے نمٹا جاسکے۔
۱۱- سرکاری رقبوں کی غیرمنصفانہ بندربانٹ سے ہٹ کر ایسا فارمولا ترتیب دیا جائے جس کے تحت زمین ایسے بے زمین کاشت کاروں میں تقسیم ہو جو اس رقبے سے اچھی پیداوار لینے کا فن جانتے ہوں اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے انھیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرسکیں۔
۱۲- چھوٹے کسانوں کے لیے زرعی مداخل کی خرید کے لیے بلاسود یا کم از کم سروس چارجز پر قرضے فراہم کیے جانے چاہییں۔
۱۳- زراعت کی پیداوار پر سے ہر قسم کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اس سے فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور ملک اس قابل ہوجائے گا کہ زرعی اجناس کو بیرونِ ملک فروخت کرکے قیمتی زرمبادلہ کما سکے اور اس طرح اس کے ریونیو پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث استعمال کی تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ازبس ضروری ہے۔ پاکستان جہاں سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے وہاں ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اشیا کی درآمد پر اربوں ڈالروں کا خرچ ہونا بھی لمحۂ فکریہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بھی ہے۔ ملکی زراعت کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ایک ایسی پالیسی مرتب کرنی ہوگی جس سے تمام افراد کو یکسر فائدہ ہو اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرکے ہم اس قابل ہوسکیں کہ اپنی زرعی اجناس کو برآمد کرکے نہ صرف اپنے لیے قیمتی زرِمبادلہ بچا سکتے ہیں بلکہ عالمی غذائی بحران کے خاتمے میں بھی نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں سُن لو! تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمھاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے، جن سے محروم ہوکر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اُٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران و سرگردان ہے، وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھا کر ایک صاف سیدھا راستہ بتا دیتا ہے۔ بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں، اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہوسکے ہیں، تم کو آنکھ کھولتے ہی خود بخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دُور نہیں ہوتی، بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے، جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں، تمھیں وہ اس طرح مل گئی ہے جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنھیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے ہیں۔ اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے، جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خداے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کردے، اور بے شمار نسلوں اورقوموں کو ایک خدا پرست، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے، ہاں ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمھیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا۔ مگر تم نے اِن نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی، کیونکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم اُن سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہو، جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور اسے کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بُری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اُٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟
میرے عزیزو، تم نے شاعر کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ
خرِ عیسٰی اگر بمکّہ رَود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
یعنی گدھا خواہ عیسٰی ؑ جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکّہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔
نماز روزہ ہو یا حج، یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں، جانوروں کو سُدھانے کے لیے نہیں ہیں۔ جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدّعا سے کچھ غرض رکھیں، نہ اُس فائدے کوحاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کر دیا، تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں، مگر وہ شکل رُوح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔
تم دیکھتے ہو کہ ہر سال ہزارہا زائرین مرکز ِ اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہوکر پلٹتے ہیں، مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِحرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمایش کرکے اسلام کی عزت کو بٹّہ لگاتے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھائو، حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔
کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہرسال دنیا کے ہرحصے سے کھنچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں سے گزریں وہاں اپنی تحریک کے اُصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں، اور یہ سلسلہ ۱۰، ۲۰ برس نہیں بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے، بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم! اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سن لیتے۔ ہر سال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا، ہزاروں پر اسلام کی بزرگی کا سکّہ بٹھا دیتا۔ مگر بُرا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بُری طرح ضائع ہو رہی ہے ... اس ذکر سے میرا مقصد کسی کو الزام دینا نہیں ہے بلکہ صرف آپ لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ حج جیسی عظیم الشان طاقت کو آج کن چیزوں نے قریب قریب بالکل بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ غلط فہمی کسی کے دل میں نہ رہنی چاہیے کہ اسلام میں اور اس کے جاری کیے ہوئے طریقوں میں کوئی کوتاہی ہے۔ نہیں، کوتاہی دراصل اُن لوگوں میں ہے جو اسلام کی صحیح پیروی نہیں کرتے۔ یہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے کہ جو طریقے تم کو انسانیت کا مکمل نمونہ بنانے والے تھے اور جن پر ٹھیک ٹھیک عمل کر کے تم تمام دنیا کے مصلح اور امام بن سکتے تھے، ان سے آج کوئی اچھا پھل ظاہر نہیں ہورہا ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کو خود ان طریقوں کے مفید ہونے میں شک ہونے لگا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک طبیب حاذق چند بہترین تیربہ ہدف نسخے مرتب کر کے چھوڑ گیا ہو اور بعد میں اس کے وہ نسخے اناڑی اور جاہل جانشینوں کے ہاتھ پڑ کر بیکار بھی ہو رہے ہوں اور بدنام بھی۔ نسخہ بجاے خود چاہے کتنا ہی صحیح ہو، مگر بہرحال اس سے کام لینے کے لیے فن کی واقفیت اور سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ اناڑی اس سے کام لیں گے تو عجب نہیں کہ وہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہوجائے اور جاہل لوگ جو خود نسخے کو جانچنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ نسخہ خود ہی غلط ہے۔ (خطبات، ص ۲۵۱ -۲۵۶)
یہ ذکر ہے لازماں و لامکاں کا، جب کائنات اور وقت ابھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ جب حکمرانی تھی ایک حاکمِ اعلیٰ کی جس کو آیندہ، یعنی مستقبل میں وہ تمام کچھ کر گزرنے پر مکمل اختیار حاصل تھا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہی حاکمِ اعلیٰ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ یہ وہی تو تھا اور ہوگا جو اصل حقیقت ہے۔ وہی ہر اصل کا خالق و مالک ہے۔ اُسی کا رنگ ہر اصل میں جھلکتا ہے اور اُسی نے تمام مراحل کو ایک گوناگوں سانچے میں ڈھال دیا ہے۔
اُس لمحۂ کُن کا تصور کیجیے جب لازماں سے تخلیقِ زماں (کائنات او ر وقت) کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حکم ہوتا ہے: آسمان اور زمین وجود میں آجائیں، تو فَیَکُون(پس ڈھل گئے)، یہ تمام عمل ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔ اِس کائنات کو اپنے تمام مراحل طے کرنے میں اربوں سال لگ گئے اور یہ ہے بھی حقیقت، جب کہ قرآن کہتا ہے کہ: ’’زمین و آسمان تعمیلِ حکم میں فوری طور پر وجود میں آگئے‘‘۔سائنس اس وقت کو Plank Time (۴۳-۱۰ سیکنڈ) کا نام دیتی ہے۔ میں اُسے ’لمحۂ کُن‘ سے تعبیر کرتا ہوں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب آسمان اور کائنات جُدا ہوچکے تھے ۔ آسمانوں نے اپنی تخلیق کا عمل جاری رکھا جس کا انسانی ذرائع اور ذہن قطعی طور پر ادراک نہیں کر سکتے لیکن تخلیق عالمین میں یہ سفر پہلے ایک سیکنڈ میں تمام وسائل و اسباب اور اصول کے ساتھ معرض وجود میں آ چکے تھے۔
جب حکم ہوا کہ تمام آسمان اور زمین وجود میں آجائیں (اور’کُن‘ جو دراصل اُس حاکمِ اعلیٰ کے ارادے ہی کا نام ہے) تو Nihility (عدم یا نیستی ۔ جو خود آسمان و زمین کا تکملہ ہے) ایک دم اربوں میل پر محیط فضا میں دھوئیں کی طرح بکھر جاتی ہے، اور وہ تمام اصول جو کائنات کی تخلیق کے لیے ضروری تھے، اس پہلے لمحے میں معرضِ وجود میں آجاتے ہیں۔ جب اصول طے پاگئے تو تخلیق نے اپنی منازل طے کرنا شروع کردیں۔
قرآن کریم کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے سائنسی پس منظر کے ساتھ دوسرے علوم کا جاننا ضروری ہے۔ مَیں کلامِ پاک کی سب سے پہلی آیتِ کریمہ اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کا ذکر کروں گا جس میں ربُّ العزت فرماتے ہیں کہ میں ربّ ہوں عالمین (multiverse)،یعنی عوالِم کا نہ کہ ایک عالَم (universe) کا۔
۲۰ویں صدی کے تقریباً اواخر تک سائنس دان اس بات پر متفق تھے کہ یہ ایک کائنات ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے میں سائنس دانوں نے یہ معلوم کیا کہ ہمارا عالَم تو ایک ذرّہ ہے اور ایسے بے شمارعوالِم موجود ہیں۔ سائنس دان اب تک چار متوازی طبقاتِ عوالم (Four Strata of Parallel Universes ) دریافت کرچکے ہیں۔ ہم ہر Strata of Universe کو Mulltiverse کہہ سکتے ہیں جس میں بے شمار عوالِم موجود ہیں اور ہر عالم میں اربوں کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ایسی ہی ایک کہکشاںمیں جس کا نام مِلکی وے (Milkyway) کہکشاں ہے، ہم رہتے ہیں۔
اس کہکشاں کا مرکز، یعنی کور (Core) یا ڈسک (Disc) ایک لاکھ نوری سال (Light Years)ہے، جب کہ ہمارا شمسی نظام اس کہکشاں کے ایک بازو پر تقریباً اس کے درمیان ہے اور اس کا فاصلہ مرکزی ڈسک سے ۲لاکھ ۲۶ ہزار نوری سال ہے، جب کہ ایک نوری سال ۶ کھرب میل کے برابر ہے۔ شاید اس مختصر تعارف سے آپ کائنات کی وسعتوں کا کچھ اِدراک کرسکیں۔
یہاں پر مَیں آپ کو اس کائنات کی وسعتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم اس کائنات میں کس رفتار سے محوِ پرواز ہیں اور بے پناہ رفتار کے باوجود ہمیں معمولی سا چکر بھی نہیں آتا۔ ہم زمین کے باسی ہیں اور یہ :
یہاں میں یہ بھی عرض کردوں کہ یہ زمین جب اپنے مدار میں سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو ہر۱۸میل کے بعد(یعنی ہر سیکنڈ کے بعد) اس میں ۸ئ۲ ملی میٹر کا ایک جھکاؤ آتا ہے، اگر یہ جھکاؤ ۵ئ۲ملی میٹر ہوجائے، یعنی ۳ئ۰ ملی میٹر کم ہوجائے تو زمین سورج سے اتنا دُور نکل جائے گی کہ کچھ عرصے میں یہ برف کا گولا بن جائے گی اور اگر اس ۳ئ۰ ملی میٹر کا جھکاؤ زیادہ، یعنی ۱ئ۳ملی میٹر ہوجائے تو زمین سورج کے اس قدر قریب چلی جائے گی کہ یہ آگ کا گولا بن جائے گی۔ اسی طرح سورج کا حجم ۳۰-۱۰x۶ئ۱ سے ۳۰-۱۰x۴ئ۲ کلوگرام ہے۔ اگر یہ اس سے کم ہوتا تو زمین برفیلی ہوجاتی اور اگر یہ وزن اس سے زیادہ ہوتا تو انتہائی گرم ہوجاتی___ تو کیا یہ سب اتفاقی حادثہ ہے؟
رسالے Scientific American میں Parallel Universes کے مصنف میکس ٹیگ مارک (Max Tegmark)کہتے ہیں کہ ہماری پیدایش اور کائنات کی تخلیق واقعتا ایک اتفاقی امر ہے، جیسے مَیں اپنی تاریخِ پیدایش والے دن (۱۱مئی) کو کسی ہوٹل میں کمرہ لینے کے لیے جاتا ہوں تو مجھے گیارھویں فلور پر ۵نمبرکمرہ ملتا ہے تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہتی کہ میری پیدایش والے دن مجھے ہوٹل کا فلور اور کمرہ بھی اسی نمبر کا مل گیا۔ مَیں نے مصنف کو لکھا کہ مان لیا کہ آپ کی پیدایش اتفاقی ہوگی۔ کیا وہ ہوٹل (جس کے گیارھویں فلور پر کمرہ نمبر۵ آپ کو ملا) بھی اتفاقی طور پر بن گیا تھا؟ اور اگر اِس ہوٹل کے ڈیزائن اور تعمیر میں کوئی انجینیر اور لیبر کارفرما تھی جو انسانی مشینری کے مقابلے میں انتہائی بے وقعت سی چیز ہے تو کیا انسانی تخلیق بغیر کسی سوپرپاور کے معرض وجود میں آسکتی تھی؟
مَیں نے ٹیگ مارک کو مزید لکھا جیسے کہ آپ میرے اس مضمون کے متن سے اخذ کرلیں گے کہ مان لیا آپ پیرس میں صبح اتفاقی طور پر اپنی تاریخ پیدایش والے کمرے میں جاتے ہیں اور اسی دن بعد دوپہر لندن جانے کا اتفاق ہو تو آپ کی کیفیت کیا ہوگی جب پھر فلور نمبر ۱۱ پر کمرہ نمبر۵ملے۔ اور اگر اُسی شام آپ کو نیویارک جانے کا اتفاق ہو اور آپ کو وہاں بھی وہی کمرہ ملے، یعنی گیارھویں فلور پر کمرہ نمبر۵ تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی! آپ یقینا استقبالیہ پر کھڑی لڑکی سے پوچھیں گے کہ یہ کمرہ کس نے میرے لیے بُک کیا، اور اگر جواب ملے کہ یہ اتفاقی طور پر ہوگیا تو یقینا آپ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے اور ضرور کہیں گے کہ اس کے پیچھے کوئی شخص کارفرما ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ اس کمرے میں جانا قطعی طور پرپسند نہیں کریں گے کہ شاید اس کے پیچھے کوئی سازش کارفرما ہو۔
اب اندازہ لگائیں کہ کائنات کا نظام آپ، یعنی سائنس دانوں ہی کے مطابق اربوں سالوں سے ایک خاص ڈسپلن میںکام کیے جارہا ہے اور اس کی فائن ٹیوننگ کا تو اندازہ آپ ہی کرسکتے ہیں کیونکہ (المُلک ۶۷:۳) میں ربُّ العزت فرماتے ہیں کہ کائنات کی طرف نظر اُٹھا کے دیکھو کہ شاید تمھیں اس میں کوئی رخنہ نظر آجائے۔ اور پھر تکرار ہے کہ ایک مرتبہ پھر نظر اُٹھا کے دیکھو کہ شاید اس میں تمھیں کوئی رخنہ نظر آجائے:
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (مومن۴۰:۵۷) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
فَاسْتَفْتِھِمْ اَھُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا اِِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِینٍ لاَّزِبٍ (الصّٰفّت ۳۷:۱۱) اب اِن سے پوچھو، اِن کی پیدایش زیادہ مشکل ہے یا اُن چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں؟ اِن کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔
تخلیقِ کائنات اور انسان کی تخلیق سے متعلق خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ تمھارا ایک مرتبہ پیدا کیا جانا اور مرنے کے بعد پھر پیدا کیا جانا تو کوئی بھی مشکل کام نہیں۔ کیونکہ یہ تو ایسا ہے جیسے کمپیوٹر سکرین پر آپ اپنا کوڈ اور بِٹ میں سٹور کیا ہوا ڈیٹا، مووی ، ویڈیو، پکچرز ایک کمانڈ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے جینوم (Genome) پر لکھے ۵ئ۳ ارب کوڈ جو ہم ہرلمحے زمین میں بکھیرتے جارہے ہیں ایک ہی کمانڈ پر ربُّ العزت کے حضور انسانی شکل میں حاضر ہوں گے ۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے روزِ جزا کے بے شمار عقدے حل کر دیے ہیں۔ اگر آپ تفصیل میں جانا چاہیں تو ہماری بینائی، یعنی دیکھنے کے عمل کے ساتھ ہمارا انٹرنیٹ پر بصری ردعمل اُس کی ادنیٰ مثال ہے ۔ یہ تفصیل کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں ۔بڑا کام تو تخلیقِ کائنات کا تھا، جیساکہ سورئہ ملک میں فرمایا کہ ’’تلاش کرکے تو دیکھو کہیں آپ کو کوئی اس فضاے بسیط میں کوئی رخنہ نظر آجائے‘‘۔ پھر کائنات کی اِن وسعتوں کو اُس ربُّ العزت نے نظر نہ آنے والے ستونوں سے جیسا کہ سورئہ بروج کے آغاز میں ہے، ایک نپے تلے نظام میں جوڑ دیا ہے، اور عصرِحاضر کے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نظر نہ آنے والے بُرج برقی مقناطیسی میدان (Electromegnatic Fields) ہیں جنھوں نے تمام نظامِ قدرت کو ایک واضح اور صحیح رُخ میں متعین کررکھا ہے۔
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیمِo (یٰسٓ ۳۶: ۳۹) اور چاند ، اُس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ اُن سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔
لاَ الشَّمْسُ یَنْــبَغِی م۔ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ o (یٰسٓ ۳۶: ۴۰) نہ تو سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔
خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ یہ چاند، سورج ایک مقررہ مدار میں اپنے سفر میں ایک وقتِ مقرر تک رواں دواں ہیں۔ پھر اگر قرآن کریم کی بیش تر سورتوں میں دن کو رات پر اور رات کو دن پر لپیٹنے کا ذکر ہے تو کس خوب صورت انداز میں ربُّ العزت نے زمین کے گول ہونے کے شواہد دیے ہیں۔ اور پھر جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو کچھ تو سو رہے ہوں گے، جب کہ کچھ اپنے کام میں مشغول ہوں گے۔ اس طرح ایک لطیف انداز میں زمین پر کہیں دن اور کہیں رات کا اشارہ دے دیا۔
سورئہ یٰسین (۳۶: ۳۹-۴۰) میں ہماری وسعتِ نظر کے مطابق قرآنِ کریم میں چاند اور ستاروں اور سورج کے سفر کا ذکر کیا ۔ آج کی سائنس یہ کہتی ہے کہ اگر یہ تمام ستارے ایک جگہ پر رُکے ہوتے تو ان سے منعکس ہو کر روشنی رات کو بھی دن کے اُجالے میں بدل دیتی، لہٰذا یہ تمام ستارے اپنے ایک مقررہ مدار میں رواں دواں ہیں۔ جو دن میں اُجالے اور رات میں اندھیرے کا سبب بنتے ہیں۔
ایک مرتبہ آئن سٹائن نے کہا کہ یہ کائنات ازل سے ایسے ہی (اتفاقیہ) چل رہی ہے۔ یہ نظریہ The Fudge Factor (Steady State of Universe) اُنھوں نے پیش کیا لیکن جب ۱۹۲۹ء میں ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے یہ ثابت کردیا کہ ہم سے دُور کہکشائیں بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے دُور بھاگتی نظر آرہی ہیں، تو پھر ۱۹۳۱ء میں البرٹ آئن سٹائن نے Big Bang Theory کو مانتے ہوئے کہا کہ Fudge Factor میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اُس کے الفاظ ہیں کہ جب کوئی چیز پیدا ہوئی اور وہ اپنے سفر پر رواں دواں ہے تو پھر اُس کے پیدا کرنے والی ذات بھی ہوگی۔ ساتھ ہی ایڈون ہبل کے مشاہدے کو سراہتے ہوئے کہا کہ کائنات کی تخلیق اور ارتقا سے متعلق میں نے اس سے بہتر کوئی ثبوت نہیںدیکھا۔
یہ کائنات جو اس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس میں ہر ذرّہ ٔ زمین سے لے کر کائنات بسیط کی وسعتوں میں عالمین تک اپنے اپنے سفر پر رواں دواں ہیں، پھر بھی یہ ایک محدود (closed) ماڈل کی طرح کام کر رہا ہے۔سائنس دان کائنات کے ختم اور دوبارہ شروع ہونے پر یقین رکھتے ہیں جیسا کہ سورۃ الانبیاء کے حسبِ ذیل حوالے سے واضح ہے، لیکن وہ محدود ماڈل اور حدود کے حالات (Boundry Conditions) کا ادراک نہیں کرسکتے جو قرآن حکیم میں مختلف جگہ بیان ہوئے ہیں۔ خدا وند قدوس نے فرمایا ہے:
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآئَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَاط اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَo (انبیاء ۲۱:۱۰۴) وہ دن جب کہ ہم آسمان کو یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طُومار میں اَوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمّے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ وَ جَعَلَ لَھُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْہِ فَاَبَی الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا کُفُوْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۹۹) کیا ان کو یہ نہ سُوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ اِن جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اُس نے اِن کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے۔
وَھُوَ الَّذِیْٓ اَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌo (الحج ۲۲: ۶۶) اور وہی ہے جس نے تمھیں زندگی بخشی ہے، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے۔
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لاَّ شَرْقِیَّۃٍ وَّلاَ غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیٓئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo (النور۲۴:۳۵) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانونس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگے اس کو نہ لگے (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں)۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے۔ وہ ہرچیز سے خوب واقف ہے۔
اس آیت کریمہ میں ربُّ العزت نے تمام کائنات کی ابتدا و آخری مادی اصول اور وہ سرحد (نچلا آسمان) جہاں تمام طبعی قوانین اختتام پذیر ہوں گے، کی نشان دہی کردی ہے، لیکن صرف اور صرف نورِ خدا ہی باقی آسمانوں میں پھیلا ہوگا کیونکہ وہی تو ہے جو تمام اصولوں کا خالق ہے۔
وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَo (رحمٰن۵۵:۷) آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔
اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِo (رحمٰن ۵۵:۸)اس کا تقاضا ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔
فَاِِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِo (رحمٰن۵۵:۳۷) پھر(کیا بنے گا اس وقت) جب آسمان پھٹے گا اور لال چمڑے کی طرح سُرخ ہو جائے گا۔
فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo (رحمٰن۵۵:۳۸)(اس وقت) تم اپنے رب کی کن کن قدرتوںکو جھٹلائو گے۔
اِِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِo (الصفّٰت ۳۷:۶) ہم نے آسمانِ دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔
تمام کائنات چاروں طرف سے فٹ بال کوَر کی طرح پہلے یا نچلے آسمان سے گھری ہوئی ہے اس لیے کہ Closed Model میں ہر چیز نے تخریب یا توڑ پھوڑ کے عمل سے دوچار ہونا ہے (انفطار ۸۲:۱-۴ )، جیسے اگر گلاس میز سے فرش پر گرے تو ٹوٹ جائے گا۔ ہم ایک ٹوٹے ہوئے گلاس کو پھر سے میز پر اپنی اصلی حالت میں نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے کہ 2nd Law of Thermodynamic اس کی نفی کرتا ہے اور یہی Murphy Lawکی بنیاد فراہم کرتا ہے اور عملِ تخریب توڑ پھوڑ کا عمل Thermodynamic Arrow of Timeکی ایک مثال ہے۔ (Murphy's Laws -----> In closed system-model disorder or entropy always increases) ۔ اگر یہ Open Model ہوتا تو توڑ پھوڑ کا یہ عمل وجود میں نہ آتا۔ اِس کی مثال یوں ہے کہ اگر آپ کسی گول جار سے کسی طرح تمام ہوا نکال لیں اور اس میں شیشے کی کوئی چیز رکھ دیں اور پھر زور سے ہلائیں تو وہ نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن ہماری کائنات کا عمل اس کے برعکس ہے۔
اب تصور کریں کہ اِس فضاے بسیط نے کب تک اور کہاں تک پھیلنا ہے۔ نچلے آسمان تک پہنچنے کے لیے جب یہ پھیلتی ہوئی کائنات آسمان سے ٹکرائے گی --- (Big Smash) تو مختلف Universes (عوالِم) اپنے اپنے وقت میں پھیلتے ہوئے اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں گی ۔ اس وقت نچلا آسمان بھی پاش پاش ہورہا ہوگا۔ یہ کیفیت بڑی خوب صورتی سے سورۃ الانبیائ(۲۱:۱۰۴) میں بیان کی گئی ہے۔ خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ اس کے لیے ہم نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ نہ ایک گھڑی آگے ہوسکتا ہے اور نہ پیچھے۔
وَاِِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ o وَاِِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْo (انفطار۸۲:۲-۳) ’’اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے، سمندر اُبل پڑیں گے، یعنی سمندروں میں آگ لگ جانے سے بڑی سٹپٹاہٹ پیدا ہوتی ہے --- لیکن جب ٹکرا کر پاش پاش ہونے کے واقعات رونما ہورہے ہوں گے اس وقت یہ عمل جاری ہوگا اور کچھ اجرامِ فلکی ایسے بھی ہوں گے جو Black Holes میں ضم ہوجائیں گے۔ لیکن ان کاکششِ ثقل کا اثر کائنات میں پھیلتا جائے گا۔ جس سے کائنات ایک دفعہ پھر اُسی طرح گرم ہوجائے گی جس طرح یہ شروع میں تھی اور وہ درجۂ حرارت اربوں سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔ اور پھر سمندروں کی حالت آگ کے سمندر جیسی ہوگی۔
آج کے سائنس دان محدود ماڈل پر متفق ہیں لیکن وہ نہیں جانتے یہ اس قدر وسیع اور پھیلتی ہوئی کائنات محدود ماڈل کی طرح کیسے کام کرے گی۔ کاش وہ قرآن سے رہنمائی لیتے۔ میری کتاب : Faith in the Scientific Philosophy of Religion جو اس وقت برطانیہ اور امریکا میں دستیاب ہے، میں اس مضمون پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ Arrows of Time کس طرح کام کریں گے اور کائنات ایک دفعہ ختم ہونے کے بعد پھر کیسے شروع ہوگی۔
خالقِ کائنات سے متعلق
مَیں اس کی مثال کچھ یوں دیا کرتا ہوں کہ ہم دن کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔ جب کہ رات کے اندھیرے میں ہمیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ ہم جانتے ہیں کہ دن کی روشنی کا سبب سورج ہے۔ اگر سورج کی روشنی نہ ہوتی تو ہم دیکھنے کے قابل نہ ہوتے۔ اب اس طرح سورج بھی تو بغیر کسی مقصد ، بغیر کسی وجہ کے معرضِ وجود میں نہیں آگیا۔ اس کے پیچھے بھی تو کوئی قوت کارفرما ہے یعنی:
Each effect has to have a source and the source has a logic behind its creation and we invariably call that Source "The Nature".
ہر مظہر یا نتیجے کا ایک مبداء یا سبب ہونا لازم ہے، اور مبداء کی اپنی تخلیق کے پیچھے ایک منطق ہوتی ہے۔ ہم اس مبداء یا قوت کو لامحالہ فطرت (nature) کہتے ہیں۔
لفظ فطرت سے کسی کو اختلاف نہیں۔ میں اُسے ’اﷲ‘ کہتا ہوں کوئی اُسے ’بھگوان‘ کا نام دیتا ہے اور کوئی اسے "God"کہتا ہے۔
قرآن کریم (الکہف۱۸:۲۵) میں ذکر ہے کہ وہ ۳۰۰ سال سوئے، اس میں ۹ جمع کردیں۔ اس لطیف فرق کی تفصیل آپ جانیں تو حیران ہوں گے کہ :
۳۰۰شمسی سال = ۲۴۲۲ئ۳۶۵ x ۳۰۰ = ۶۶ئ۱۰۹۵۷۲ دن
اور ۳۰۹ قمری سال = ۵۵۰۳۲۹ئ۲۹ x ۱۲ x ۳۰۹ = ۶۶ئ۱۰۹۵۷۲ دن
یعنی خداوند قدوس نے صرف اس آیت کریمہ سے انسان کو شمسی اور قمری سال کی نسبت ۱۴۰۰ سال پہلے بتادی۔
سورۂ انشقاق کا نمبر ۸۴ ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ پلونیم (Polonium) جس کا عنصر نمبر ۸۴ ہے اور یہ عنصر پھٹنے (Spontanous Disintegration ) پر بے شمار انرجی پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح سورۃ الحدید کا نمبر ۵۷ ہے اور لوہے کا Stable Isotop بھی ۵۷ہے۔ کیا یہ سب اتفاقیہ ہیں؟
انسان کا لفظ قرآن پاک میں ۶۵ مرتبہ آیا ہے، آئیے اب اس کو دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ملتے جلتے الفاظ کلام پاک میں کتنی مرتبہ آئے : مٹی: ۱۷ دفعہ، نطفے کا قطرہ: ۱۲ دفعہ، غیرمکمل حالت میں بچہ: ۶دفعہ، نیم شکل میں گوشت کا لوتھڑا:۳ دفعہ، ہڈی:۱۵ دفعہ، گوشت: ۱۲ دفعہ۔ گویا کہ کُل ۶۵دفعہ۔
اسی طرح زمین کا ذکر ۱۳مرتبہ اور سمندر کا ذکر۳۲ مرتبہ آیا ہے۔ زمین پر پانی اور خشکی کا تناسب کس خوب صورت انداز میں ظاہر کیا گیا ہے:
زمین: ۱۳x ۱۰۰= ۴۵ ۸۸۸۸۸۸ئ۲۸ (خشکی)
پانی: ۳۲x ۱۰۰= ۴۵ ۱۱۱۱۱۱ئ۷۱ (سمندر)
اسی طرح کائنات اور آسمانوں کی تخلیق کا ذکر ۷ مرتبہ ہے:
دن یعنی یوم کا ذکر
=
۳۶۵ مرتبہ
(ایک سال کے دن)
ایام کا ذکر
=
۳۰ مرتبہ
(ایک ماہ کے دن)
مہینہ کا ذکر
=
۱۲ مرتبہ
(ایک سال کے مہینے)
کیا یہ سب اتفاقی امر ہے؟
حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہر اُمت کے لیے (کوئی نہ کوئی) فتنہ اورآزمایش ہے (جس میں اس اُمت کے لوگوں کو مبتلا کرکے ان کو آزمایا جاتا ہے)۔ چنانچہ میری اُمت کے لیے جو چیز فتنہ اور آزمایش ہے وہ ’مال و دولت‘ ہے۔
حدیث مبارکہ کی وضاحت سے قبل لفظ ’فتنہ‘ کی تعریف اور اس کی اقسام سمجھ لیں۔ فتن جمع فتنہ کی ہے، ابتلا/امتحان، انسان کا اچھی حالت سے بری حالت میں آنا، کسی کی طرف میلان اور خودپسندی، یہ سب معنی آتے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں: ’’ہر ایسی چیز جو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے غافل کردے فتنہ کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر مال اور اولاد کو بھی خداوند تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’فتنہ‘ کہا ہے، کیونکہ مال اور اولاد انسان کو یادِ الٰہی سے غافل کردینے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
اس حدیث مبارکہ کے پیشِ نظر عہدِنبویؐ سے لے کر موجودہ زمانے تک کی تاریخ پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہی مال و دولت سب کے لیے آزمایش بنا رہا ہے، جس کے ذریعے بے شمار بندوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت و نافرمانی کی اور مسلسل کر رہے ہیں۔ مال ودولت کے حصول کے لیے حلال اور حرام، جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرنے کو تیار ہیں، بس مال آنا چاہیے! ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: (غافل رکھا تمھیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں، سورۃ التکاثر:۱)
انسان کے مقدر میں جتنا مال لکھ دیا گیا ہے اتنا ہی اس کو ملے گا، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’اے انسان اس بات کو جان لے کہ جو چیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہرحال میں تجھے ملے گی خواہ توطلب وسوال کی راہ اختیار کریا اس کو ترک کر دے۔ اور جو چیز تیری قسمت میں نہیں لکھی وہ تجھ کو کسی حالت میں نہیں ملے گی ، خواہ تو اس کی طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کتنی ہی سعی وکوشش اور محنت ومشقت برداشت کرے ، لہٰذا تجھے جو کچھ مل جائے اس پر شاکر وصابر رہ، ہر جائزوحلال چیز کو حاصل کرنا ضروری سمجھ اور اپنی قسمت پر راضی ومطمئن رہ تا کہ رب ذوالجلال تجھ سے راضی وخوش ہو۔
یہ بات یاد رکھی جائے کہ مال ودولت کے سلسلے میں جو چیز مذموم ہے وہ مال ودولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا اور اپنی چادر سے باہر پیر پھیلانا ہے ۔ یہ خصلت انسان کو ’مال کا بندہ‘ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدوجہد کا محور، اس کی ہر تمنا وخواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل اور عمل کی بنیاد صرف مال اور زر ہوتا ہے۔ ہمیں مال کا نہیں ’اللہ کا بندہ‘ ہونا چاہیے۔ مال داری بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی شخص کے پاس (حلال ذرائع سے کمایا ہوا) کتنا ہی مال کیوں نہ ہو اور وہ کتنا ہی بڑ ا دولت مند کیوں نہ ہو اگر اس کا دل مال ودولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو بُرا کہنا درست نہیں۔
قرآن کی نگاہ میں فکری عمل کے مسلمان ہونے کی بنیادی شرط فکر کا وحی کو حتمی، حقیقی اور قطعی ذریعۂ علم مانتے ہوئے عقل و مشاہدے اور تجربے کے سہارے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ غیرالہامی تہذیب و ثقافت میں مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے مجرد عقلی، تجربی، وجدانی یا شخصی روحانی ذرائع کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر مسائل کا تجزیہ، تحلیل اور حل یا تو انسان کی محدود عقلی پہنچ کی بنا پر خوش نما عقلی تعبیرات کی شکل میں سامنے آتا ہے یا عملی تجربات کی روشنی میں ایک زمینی حقائق پر مبنی pragmatic حل کی شکل میں یا پھر وجدانی (intuitive) اور روحانی (spiritual) تجربے کے انتہائی ذاتی (personal) اور انفرادی زاویے سے تجویز کردہ راے کی شکل میں حاصل ہوتا ہے۔ ان چاروں زاویوں سے کی جانے والی فکر، انسانی فکر اور تجربے کی محدودیت کی بناپر کلیت سے عاری اور ایک خطہ، دور یا ایک نسل کے ساتھ اختیاری یا غیر اختیاری طور پر مخصوص رہتی ہے اور باوجود ایک ظاہر عقلی اور منطقی ربط کے حیاتِ انسانی اور تہذیب ِانسانی کی ہمہ گیریت سے پیدا ہونے والے مسائل کا جامع حل تلاش کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
چنانچہ مغربی مادیت ہو یا مارکسی معیشت، یا عالمی استعماریت اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو ہرایک کی فکری بنیاد محدود اور کسی خطے، تاریخ کے دور یا مخصوص معاشرتی و معاشی مسائل کی پیداوار نظر آتی ہے۔ ایک انسانی تہذیب و ثقافت کی تعبیر اگر ایک محدود علاقائی یا لسانی یا قومی روایات پر رکھی جائے تو وہ باوجود انتہائی مخلصانہ خواہش کے علاقائی اور محدود و مخصوص ہی رہے گی۔ اسلام عالمی انسانی برادری کے لیے ہدایت ہونے کی بناپر اسلامی فکروثقافت کو انسانی فکر کی محدودیت اور عجز سے نکال کر ایک آفاقی مقام دیتا ہے، شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ(البقرہ ۲:۱۸۵)’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘، اور اس بنا پر فکروثقافت کے لیے وحی کو جو اپنی وسعت، زمان و مکان سے ماورا اور انسانی فکر کی محدودیت اور قید سے آزاد قطعی ذریعۂ علم ہونے کی بنا پر اساس قرار دیتے ہوئے فکری زاویوں میں حرکیت، جدیدیت اور حالات کی مناسبت سے تبدیلیِ زمانہ کے باوجود انسانی مسائل کا غیرمتعصبانہ حل تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اسلام کا فکروثقافت کو علاقائیت اور زمان و مکاں کی قید سے آزاد کرانے کا عمل اسے ایک ’مذہب‘ کی جگہ دین بنادیتا ہے جو انسان کی زندگی کے ہرممکنہ پہلو پر آفاقی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں تفکر کرنے اور مسائل کے حل تلاش کرنے کے سبب ایک متحرک اور مسلسل ترقی پذیر روایتِ علم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
فکر کو جس مفہوم میں قرآن کریم نے استعمال کیا ہے وہ انسانی تہذیب و ثقافت کی ترقی کے عمل میں پہلی بنیاد ہے۔ یہ تلاش حق کی طرف لے جانے کا وہ متحرک عمل ہے جس میں انسان اپنی عقل کی وسعتوں کی محدودیت کا اندازہ کرتے ہوئے وحی الٰہی کی قطعیت، صداقت و حقیقت کا ادراک کرتا ہے۔ اسی عمل کو قرآنِ کریم ذکر کی اصطلاح کے ذریعے مزید آگے بڑھاتا ہے۔
ذکر کا عمومی مفہوم لسان یا قلب کا یاد میں مشغول ہونا ہے۔ ایسے ہی ذہن میں کسی بات کے محفوظ کرلینے کو الذِّکرُ سے بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے فکر کے ساتھ ذکر کو بھی اسلامی فکروثقافت کی پہچان اور بنیاد قرار دیا ہے، یعنی وہ ثقافت اور فکر جو اللہ تعالیٰ کی تذکیر سے معمور ہو۔
یہ تذکیر تاریخی عمل سے آگے بڑھتے ہوئے ایک شعوری اور تجزیاتی تجربے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ کے جو بندے اس شعوری عمل سے گزرتے ہیں قرآن کریم انھیں اُولی الالباب، دانش مند یا ہوش مند کہہ کر پکارتا ہے: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰-۱۹۱) ’’زمین اور آسمان کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مندوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اور زمین و آسمان کی ساخت پر غوروفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اُٹھتے ہیں) پروردگار، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے‘‘۔ گویا ذکرِالٰہی نوعیت کے لحاظ سے فکر سے بنیادی طور پر کوئی زیادہ مختلف چیز نہیں ہے۔ یہ انسان کو کائنات اور اُس کے اپنے وجود میں ظاہر اور مخفی اللہ کی آیات پر غور کرنے اور کاروبارِ حیات کے ہرمرحلے میں شعوری عمل پر اُبھارتا ہے۔ ذکر محض زبان سے بڑائی بیان کرنے یا دل میں خفیہ طور پر یاد کرلینے تک محدود نہیں ہے (وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo (الاعراف ۷:۲۰۵)’’اے نبیؐ! اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ گویا ذکر کا عمل بیٹھنے، لیٹنے یا کھڑے ہونے کا پابند نہیں بلکہ ہرآنے والے سانس اور قلب کی ہردھڑکن کے ساتھ احساسِ شکر کو عملِ عبدیت میں تبدیل کردینے کا نام ہے۔
منافق کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کے ذکر کی ایک افضل شکل یعنی صلوٰۃ کی ادایگی میں کسمساتا ہے اور اللہ کا ذکر عموماً دکھاوے کے لیے کرتا ہے، جب کہ اس کے دل و دماغ کی دنیا ذکروفکر کے شعوری عمل سے اکثر خالی رہتی ہے۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ھُوَ خَادِعُھُمْ وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۱۴۲)’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ جب یہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔
تہذیبی اور ثقافتی ترقی اپنی اقدار کی انفرادیت کے باوجود ایک تاریخی روایت سے پیوستہ ہوتی ہے اور عموماً اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اور ماضی کے آثار سے سبق لیتے ہوئے اپنی راہ اور طریق کار کا تعین کرتی ہے۔ اسلامی فکر سے وابستہ ذکر کی اصطلاح میں زمان و مکاں اور رفتارِ زمانہ کے حوالے سے یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ ثقافتی اور تہذیبی سفر میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے ایک نظر ماضی پر ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضل و کرم پر اپنے رویوں اور طرزِعمل میں شکر کا رویّہ اختیار نہ کیا ان کا انجام کیا ہوا۔ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۲۲)’’اے بنی اسرائیل یاد کرو (اذکرُوْا) میری وہ نعمت جس سے میں نے تمھیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمھیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی‘‘۔ یہاں یہ پہلو اُجاگر ہوکر آتا ہے کہ یاد کرنے کا عمل تزکیہ اور احتساب کا شعوری عمل ہے جس میں ایک قوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیے گئے انعامات اور فضل و کرم، یعنی قیادتِ اُمم کے حوالے سے جائزہ لے کہ کیا اُس نے ایک خطے میں ایک منصب اور فکری برتری ملنے کے باوجود اپنے طرزِعمل سے شکر کا رویّہ اختیار کیا یا کفر، ظلم، طغیان اور تکبر کا؟
تاریخ نام ہی عبرت کا ہے کہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیا جائے کہ کون سے عوامل ایسے ہیں جو ایک قوم کو شاکر ہونے کی بنا پر عروج و کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں اور کون سے عوامل ہیں جو کفرانِ نعمت کے نتیجے میں اس کی مادی چمک دمک کے باوجود اس کی بنیادوں کو کھوکھلا، اس کی ساکھ کو تباہ اور اس کے اقتدار کو محرومی، غلامی اور ادبار میں بدل دیتے ہیں۔ ذکر کا یہ تنقیدی اور احتسابی پہلو اسے دیگر تہذبوں سے ممتاز کرتا ہے اور قرآن کریم کو دستورِ حیات ماننے والوں کو دعوتِ فکر دیتے ہوئے شاکر بننے کی ترغیب دیتا ہے۔
ذکروفکر کے اسی پہلو سے خصوصاً مسلمانوں کو متوجہ کرتے ہوئے یاد دہانی کے طور پر کہا جاتا ہے۔ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی (القرآن) کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اُس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ یہاں اخوت و مودّت کی آفاقی قدر کے ذریعے قلوب کو جوڑ دینے کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے متوجہ کیا گیا ہے کہ عصبی جاہلیت کی جگہ اُلفت و اخوت دو ایسی نعمتیں ہیں جن پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت اپنے خالق و مالک کا جتنا بھی شکر ادا کرے وہ کم ہوگا۔ جامع اور کامل ہدایت ربانی کا نزول اور انسانوں کو رنگ و خون، زبان اور نسل کے بتوں کی غلامی سے نکال کر رشتۂ اخوت و مودّت و اُلفت میں جوڑ دینا اسلام کے انسانیت پر دو ایسے احسانات ہیں جن کا بڑے سے بڑا بدل اور معاوضہ بھی صحیح معنی میں حق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ یہ دعوت ذکر سے طرزِعمل اور رویّے میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کسی گوشے میں بیٹھ کر صبح سے رات تک اور رات سے صبح تک محض چند مخصوص اذکار و ادعیہ کی تکرار سے نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ ذکرِخفی ایک نیکی کا عمل ہے لیکن امربالمعروف اور جہاد کے ذریعے کلمۂ حق بلند کرنے، منکر، طاغوت، ظلم اور فتنہ و فساد کو دُور کرنے کے مقابلے میں ایک کم تر عمل ہے جسے خود قرآن کریم نے سورئہ نسا میں قیامت تک کے لیے اپنے قولِ فیصل سے طے کردیا ہے: لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۵) ’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھربیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
ذکر الٰہی کا افضل ترین طریقہ جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے طاغوت، کفر، ظلم اور باطل کو مٹا کر حق، عدل اور دین کو غالب کرنا ہے۔ قرآن اہلِ ذکر اور اہلِ سیف کو الگ الگ نہیں بلکہ یک جا اور یک جان دیکھنا چاہتا ہے۔ کتابِ ہدایت میں اہلِ دل اور مجاہدین فی سبیل اللہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ نظر آتے ہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الانفال ۸: ۴۵) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی‘‘۔
ذکر کو قلبی کیفیات سے آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم اسے رویّے، طرزِعمل اور ان مظاہر سے وابستہ کردیتا ہے جو ذکر کے تکملہ کی حیثیت رکھتے ہیں: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَo اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌo (الانفال ۸: ۲-۴) ’’سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے‘‘۔
یہاں قرآن کریم نے ذکریٰ اور ذکر کے قلب پر اثرات کو چار اہم اعمال سے وابستہ کردیا ہے، یعنی اللہ کے کلامِ عزیز کی آیات سن کر دل کا خشیت سے لرز جانا، ایمان کا بڑھ جانا اور نماز اور انفاق کے ذریعے اللہ کے ذکر کا کیا جانا۔ قلبی کیفیت سے عموماً ایک ذاتی روحانی تجربہ مراد لیا جاتا ہے لیکن یہاں قرآن اس تجربے کو ان اعمال سے وابستہ کرتا ہے جن کا ادا کیا جانا قلب کے خشوع اور ایمان کے اضافے کا پتا دیتا ہے۔ یہاں ذکر ایک measureable طرزِعمل اور رویّہ بن کر اُبھرتا ہے اور نماز، خشیت اور مالی ایثار اس کے پیمانے ہیں۔ یہ ایک موہوم اور غلافوں میں چھپے ہوئے احساس یا واردات کا نام نہیں ہے بلکہ طرزِعمل اور رویّے کی اُس تبدیلی کا نام ہے جسے قرآن میں دیگر مقامات پر تقویٰ کا نام دیا گیا ہے۔
اوّلاً: اہلِ ایمان کا ہر حال میں، چاہے وہ اپنے ملک میں ہوں یا غریب الدیار ہوں، زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، اسے اس کے بہترین ناموں سے یاد کرنا اور ذکریٰ کی تلاوت کے ذریعے ذکرِ باللسان کرنا۔ انسان اپنی زبان میں جو الفاظ چاہے استعمال کرلے لیکن جو عظمت کلامِ الٰہی، یا ذکریٰ کے اپنے الفاظ کے ادا کرنے میں ہے، ہر زبان اس کے آگے عاجز ہے۔
دوسرا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ ذکر لسان سے آگے جاکر حلق میں اٹک کر نہ رہ جائے بلکہ قلب کی ہر دھڑکن میں سما جائے اور دل اللہ کی یاد سے اور اس کے ذکر سے معمور رہے۔
تیسرا اہم پہلو ذکر کا عبادات کی شکل میں ظاہر ہونا ہے یعنی ایمان کی تصدیق عمل کے ذریعے یا ذکر بالعمل۔ چنانچہ صلوٰۃ، زکوٰۃ، قیام اور حج کے علاوہ نوافل و انفاق اوردیگر اعمال کے ذریعے اللہ کا ذکر کرنا۔
اس حوالے سے چوتھا پہلو یہ ہے کہ اللہ کا ذکر جس عمل کے ذریعے سے سب سے زیادہ بلندمرتبہ قرار پایا ہے وہ ذکر بالجہاد ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ جب تم کسی گروہ سے مقابلہ کرو تو دورانِ جہاد اللہ کے ذکر کی کثرت کرو۔ یہ کثرت نہ صرف تکبیرات کے ذریعے بلکہ تلوار کے ہروار اور بندوق کی ہر گولی کے ذریعے اللہ کے نام کو بلند کرنے، عدل کے قیام اور ظلم و کفر کو مٹانے کے لیے ہاتھ کی ہرجنبش سے کی جائے گی۔
سورۂ حج میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ o اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ o الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ o اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۳۸-۴۱) ’’یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں، یقینا اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جواپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ’’ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کاانجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
یہاں اہلِ ایمان کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ظلم، کفر اور طاغوت سے خائف ہوکر اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹ کر اور خود اپنے خول میں بند ہوکر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے دین و ثقافت کی بقا واشاعت کے لیے صف آرا ہوتے ہیں بلکہ دیگر اقوام کے مراکز عبادات کو بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور جب اللہ انھیں زمین میں اقتدارواختیار دیتا ہے تو پھر نظامِ عبادت (صلوٰۃ) اور نظامِ معیشت (زکوٰۃ) کو نافذ کرتے ہیں اور معاشرے سے برائی کو مٹانے اور بھلائی کو پھیلانے میں اپنی قوت و اختیار کا استعمال کرتے ہیں، اور ساتھ ہی اللہ کے راستے کی تلاش کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد۱۳:۲۸)’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبی ؐکی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔ قلب کے اطمینان کے لیے قرآن جو نسخہ تجویز کرتا ہے وہ آسان، عملی اور مؤثر ہے یعنی صبر اور صلاۃ سے استعانت کے ذریعے قلب کا سکون حاصل کرنا۔ قرآن کامیابی اور فلاح کو اُس ذکر سے وابستہ کرتا ہے جو صلاۃ کی شکل میں فحشاء و منکر کے خلاف جہاد اور معروف و عدل کے قیام کے لیے اجتماعیت کے ساتھ صف بندی کرکے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے اعلان اور دیگر تمام نام نہاد خدائوں کی خدائی کا انکار کرتے ہوئے اختیار کی جائے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵)’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز ادا کی‘‘۔
جس طرح اللہ کے ذکر کا صلاۃ کے ساتھ وابستہ اور متعلق ہونا دونوں مصادر شریعہ سے ثابت ہے اسی طرح یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت اور ٹھیرٹھیر کر غوروفکر کے ساتھ اس کا پڑھا جانا ہی نماز کی روح ہے۔ اسی طرح اسلامی فکر، اللہ کے ذکر، ذکر کی عظمت اور ذکریٰ یا وحیِ الٰہی کی ہدایات کو زندگی میں سمونے اور اس کی روشنی میں تہذیبی عمل کو آگے بڑھانے کا نام ہے۔ چنانچہ جو اہلِ دانش اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ، وحی کے مطابق اور وحی کے علم کے اعلیٰ ترین مصدر ہونے پر غوروفکر کے بعد یکسو ہوجاتے ہیں، ایسے ہی اربابِ بصیرت اور انھی اہلِ دانش کو قرآن کریم اھل الذکر سے تعبیر کرتا ہے۔ وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳)’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔
سورئہ انبیا (۲۱:۷) میں اسی مضمون کو بیان کرنے کے بعد مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انبیا خاتم النبیینؐ سے قبل بھیجے گئے وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور حیات و ممات کے لحاظ سے دوسرے انسانوں سے مختلف نہیں تھے۔ لیکن جو چیز انھیں ممتاز کرنے والی تھی وہ اللہ کی طرف سے براہِ راست وحی یا ہدایت کا وصول کرنا تھا، یعنی وہ اپنے ذہن، تجربے یا وارداتِ قلبی کی بنا پر کوئی ہدایت نہیں دیتے تھے بلکہ جو وحی ان پر کی جاتی اسے جو.ُں کا تو.ُں بغیر کسی اضافے یا حذف کے اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی عملی زندگی میں نافذ کر کے انسانوں کے لیے قابلِ تقلید اسوہ فراہم کرتے تھے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم ایسی بدیہی بات کو بھی نہیں جانتے تو جو اس کا علم رکھتے ہیں (اہلِ الذکر) ان سے پوچھ لو وہ اس کی تصدیق کر دیں گے۔
مذاہب ِ عالم میں ’ذکر‘ کی مختلف شکلیں رائج ہیں۔ کہیں یہ اشلوک کی شکل اختیار کرتا ہے اور کہیں صنم کدہ میں مذہبی رقص بن جاتا ہے۔ یہودیت نے سبت کا دن اپنے خدا کی عبادت اور ذکر کے لیے مخصوص کردیا ہے جس میں تورات کا پڑھا جانا خدا کے ذکر کا ذریعہ ہے۔ عیسائیت نے اس ذکر کے لیے اتوار کے دن سازوں کے ساتھ مل کر نغمے گانے کو ذکر کی ایک اعلیٰ شکل تصور کیا ہے، جب کہ ہندوازم میں دنیا کو چھوڑ کر جنگل بیابان میں نفس کُشی اور خدائوں کو مختلف ناموں سے پکارنے، مثلاً اُوم (om) کو ایک خاص انداز سے ادا کرنے کو ذکر تصورکیا ہے۔ ان میں سے اکثر طریقے کسی خاص وقت، کسی خاص مقام اور کسی خاص تہوار یا رسم سے وابستہ ہیں اور اکثر دعائیہ کلمات پر مشتمل ہیں۔ اگر ان تمام مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ذکر ایک جامع اور ہمہ گیر عمل ہے۔ یہ کسی خاص وقت، جگہ یا تہوار سے وابستہ نہیں ہے۔ یہ گفتگو نامکمل رہے گی، اگر اس میں قرآن کریم میں بیان ہونے والے بعض اہم مضامین کا تذکرہ اختصار سے نہ کردیا جائے۔ ان مضامین میں تدبر، تعقُّل، شعور، تزکیہ، تعلیم اور تفقہ زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ (جاری)
یہ ماضی قریب کی بات ہے جب دنیا کے امیر ترین شخص وارن بوفے نے Derivatives٭ اور مالی آلات مبادلہ (CDS) کو گذشتہ تین سالوں کے دوران وسیع تباہی پھیلانے والے مالی ہتھیار قرار دیا۔ ہم میں سے کچھ ہی نے ان پر توجہ دی۔ اُس وقت عالمی معیشت رُوبہ ترقی تھی۔ یورپ کی مالی منڈی بلندی کے مراحل طے کر رہی تھی۔ امریکا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں کامیابی حاصل کر رہا تھا اور باقی دنیا ’امریکی خواب‘ نامی اس سراب کی، اندھوں کی طرح نقل کررہی تھی۔
حالیہ مالیاتی بحران پر متبادل پس منظر میں اعلیٰ معیار کے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ ایک عام شخص کی حیثیت سے اس چوپٹ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کی بنیادیات تک جانا ہوگا۔ Derivativesکی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جیسے ایک آئینے کو دوسرے آئینے کے سامنے رکھ دیا جائے جس کے باعث ٹھوس جسم کا عکس لامتناہی ہوجائے۔ آسٹریلوی وزیراعظم کیون رڈ (Kevin Rudd) نے ’انتہاپسند سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل ناکامی‘ کو معاشی بحران کی وجہ قرار دیا ہے۔ ان کی راے میں لالچ اور خوف کی جڑواں برائیاں ہی معاشی تباہی کی اصل جڑ ہیں۔ سود اور سٹے پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کافی عرصے سے رائج تھا لیکن اس نظام کی انتہائی شدید نوعیت کے بیج امریکا کی طرف سے اس وقت بوئے گئے جب رونالڈ ریگن کی صدارت میں جدید قدامت پسندوں (neo-cons)نے وہائٹ ہائوس میں ڈیرا جمایا۔ ان کی غرض و غایت یہ تھی کہ گذشتہ سات عشروں کی نسبت اب زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ عالمی ذرائع اور وسائل کو ہتھیایا جائے۔
دنیا کی ’امیر ترین قوم‘ نے بیرونی اور اندرونی طور پر قرض مہیا کرنے والے اداروں سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے لیے تحقیق اور تیاری اور جنگوں کے لیے کھربوں ڈالر ادھار لیے ہیں۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار نے کہا ہے کہ وہ آیندہ ۱۰۰ برس تک بہ خوشی جنگ جاری رکھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ امریکا کے کمپٹرولر جنرل (Comptroller General) اور سرکاری دفتر حسابات (GAO) کے سربراہ نے امریکی حکومت کی مالیاتی صورت حال پر کانگریس کو اپنی ۱۷؍ستمبر ۲۰۰۷ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے مالیاتی رپورٹ اور قواعد و ضوابط کی پابندی پر مؤثر کنٹرول نہیں رکھا‘‘۔
جی اے او، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ۳۰ستمبر ۲۰۰۷ء کو وفاقی حکومت پر ۵۳۰کھرب ڈالر کے واجبات تھے۔ دماغ کو چکرا کے رکھ دینے والے اس قرض کے لیے رقومات مختص نہیں کی گئیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ادایگی کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ ۵۳۰ کھرب کا مطلب ۵۳ہزار ارب ڈالر ہے۔ جی اے او کے سربراہ کی حیثیت سے واکر نے حال ہی میں استعفا دے دیا ہے۔ امریکی معیشت کی اس نازک صورت حال کا عکس دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ۱۷؍مارچ ۲۰۰۸ء کو ایک سوئس فرانک ایک ڈالر سے زیادہ قیمت رکھتا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ایک ڈالر کے بدلے ۲ئ۴ سوئس فرانک ملتے تھے۔ ۱۹۷۰ء میں ایک ڈالر کے ۳۶۰ جاپانی ین لیے جاسکتے تھے، آج ایک ڈالر میں صرف ۱۰۰ ین آتے ہیں۔
امریکا نے صرف ۲۰۰۷ء میں ۷۳۹ ارب ڈالر ادھار لیے جن میں سے زیادہ تر رقم عراق کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر خرچ کی گئی تاکہ تباہی کے ان ہتھیاروں کو تلاش کیا جائے جن کا سرے سے کہیں وجود ہی نہیں تھا۔ اسی طرح افغانستان کو تباہ کرنے میں اور ایک فرد کی تلاش کے عذر پر جس کا پتا چلانے میں امریکا ناکام رہا۔ ہاں امریکا، لاکھوں شہری موت کے گھاٹ اُتارنے میں ضرور کامیاب رہا۔ دیگر ’امیر‘ صلیبی ممالک نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں اس عالمی غنڈے کے ساتھ شراکت کرلی ہے۔ انھوں نے بھی ۲۰۰۷ء میں بہت زیادہ رقوم ادھار کے طور پر حاصل کیں۔ مثلاً اسپین نے ۱۴۶ ارب، برطانیہ نے ۱۳۶ ارب ، آسٹریلیا نے ۵۶ ارب اور اٹلی نے ۴۷ ارب ڈالر قرضے کی مد میں حاصل کیے۔ امریکا کی ۲۰۰۸ء میں ادھار لی ہوئی رقم ۱۰ کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ اگرچہ یہ ہوش اُڑا دینے والی رقوم نظری طور پر ادھار حاصل کی گئی ہیں، لیکن قرض خواہ ممالک و افراد دو وجوہ کے باعث قرض دار سے اپنی یہ رقوم وصول نہ کرسکیں گے:
ا- قرض لینے والا ملک ایمان دار نہیں، اس نے ادایگی کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔
ب- قرض لینے والا ملک اس وقت فوجی طور پر بہت طاقت ور ہے۔
چین کے علاوہ دیگر اُدھار دینے والے ممالک اپنی ’سرمایہ کاری‘ کو مشکل ہی سے واپس لے پائیں گے۔
یکے بعد دیگرے جدید قدامت پسند (نیو کونز) صدور نے نہایت ہی جارحانہ اور انتہا پسندانہ انداز میں مالی منڈیوں کے قواعد و ضوابط نرم کردیے اور انھیں لالچی سٹے بازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اب تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ایک مثال ہے جس نے عالمی سطح پر افراطِ زر پیدا کردیا جس کے نتیجے میں دنیا کے کروڑوں انسان غریب تر ہوگئے۔ مالی اور تجارتی قواعد وضوابط مرتب کرنے والے امریکی ادارے (Commodity Futures Trading Commission- CFTC)کی ایک حالیہ اطلاع کے مطابق نیویارک تجارتی ایکسچینج کے تیل کے معاہدات میں ان مالی اداروں کا حصہ جو اپنے گاہکوں یا اپنے لیے سٹّے بازی کرتے ہیںتقریباً ۸۱ فی صد ہے، اور یہ ایکسچینج ان اشیا کے لیے دنیابھر کا سب سے بڑا لین دین کرنے والا ادارہ ہے۔ سرمایہ کاری کی رقوم اشیا کی منڈی میں ایجنٹوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر لگا دی گئیں۔ جس کی وجہ سے ۲۰۰۳ء میں ان کے حصص کی ۱۳ارب ڈالر مالیت اس سال بڑھ کر ۲۶۰ ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ اس عرصے کے دوران، خام تیل کی قیمت میں بلاروک ٹوک ہرسال اضافہ ہوتا گیا۔ اس حقیقت کے ذریعے بش کے اِس استدلال کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ چین کی اقتصادی ترقی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہندستانی عوام کی بسیار خوری کے باعث ہوا۔
سٹّے بازوں نے جن کو ’بھینسے‘ یا ’ریچھ‘ کا نام دیا گیا ہے، اپنے پاس کوئی بھی چیز موجود نہ ہونے کے باوجود اسے فروخت کرنے (ریچھ)اور اپنے پاس رقم موجود نہ ہونے کے باوجود فرضی خریداری (بھینسے) کے ذریعے حصص اور اشیا کی منڈی میں تباہی پھیلا دی۔ ان کے تجارتی اور سرمایہ کاری سے منسلک بنکاری کے شعبے کے ’رشتے داروں‘ نے کاریں،گھر، کپڑے، ریفریجریٹر بلکہ تعطیلات تک خریدنے کے لیے ان لوگوں کو رقوم ادھار دینی شروع کردیں جو یہ رقوم واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ قرض واپس کرنے کی کم استطاعت (جو بعدازاں عدمِ استطاعت میں تبدیل ہوگئی) رکھنے کے باعث انھیں کم تر معیار (sub prime) کے گاہکوں کا نام دیا گیا اور ان پر کافی زیادہ شرح سود عائد کی گئی۔ اس قسم کے غیرمحتاط اور حرص و آز پر مبنی اُدھار دینے کے فیصلوں کے باوجود بھی بنک کسی قسم کا کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ لہٰذا انھوں نے ان قرضوں کا سی ڈی ایس CDS کے ذریعے بیمہ کروایا جن کی واپسی کا امکان نہیں تھا۔ اس صورت حال کے باعث تباہی کا امکان وسیع تر ہوگیا، حتیٰ کہ بیمہ کرنے والوں کی رقم بھی دائو پر لگ گئی۔ شرح سود میں معمولی اضافہ ہوا تو کم تر معیار کے گاہک نادہندہ ہونے لگے۔ ان حالات کے باعث بڑے پیمانے پر افراد اپنے قرضے واپس کرنے کی اہلیت سے محروم ہوکر نادہندہ ہوگئے۔ جن بنکوں نے ان گاہکوں کو قرضے دیے تھے، وہ ڈوبنے لگے۔ انھوں نے اپنی رقوم واپس لینے کے لیے رہن شدہ جایدادوںکو فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن ان جایدادوں کو خریدنے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔ یہ صورت حال، اس خطرناک کھیل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی جو ’انتہا پسند سرمایہ دارانہ نظام‘ کے تحت کھیلا جارہا تھا۔
برطانیہ کے چوٹی کے بنک بارکلے کی ۲۰۰۷ء کی سالانہ رپورٹ، گاہکوں کو کُل قرضوں، یعنی ان کی اصل تجارت کی مالیت ۳۴۵ ارب برطانوی پائونڈ بتاتی ہے۔ دوسری طرف تجارت اور derivatives مل کر ۵۴۱ ارب پائونڈ ہوجاتے ہیں۔ سٹّے کی تجارت میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری بے تُکی ہے اور اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ لالچ اور لاپروائی ہی اس کی وجہ نظر آتے ہیں۔ بالکل بنیادی سطح پر، سود پر مبنی مالیاتی آلات سرمایے پر متعین رقم وصول کرتے ہیں جو تجارت یا صَرف کے لیے دیے جاتے ہیں۔ اس نظام میں اگر وصول کرنے والا فائدہ اٹھا رہا ہے تو سرمایہ فراہم کرنے والے (بنک اور دوسرے مالیاتی ادارے) زیادہ فکرمند نہیں ہوتے۔ یہ لوگ قانوناً پابند ہوتے ہیں کہ وہ حاصل کردہ رقم سے زیادہ ادا کریں اگرچہ انھیں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ اسلام اس عمل کو صریح ناانصافی سے تعبیر کرتا ہے۔ اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیتا ہے۔ اس لیے سود پر مبنی نظام کی تباہی تو مقدر تھی اور یہی ہے جو ہو رہا ہے۔
فنانشل ٹائمز کے ۱۰؍اکتوبر کے شمارے میں فلپ اسٹیفنز نے کس قدر درست اور برمحل لکھا کہ ’’گذشتہ دو سے زیادہ صدیوں سے امریکا اور یورپ کو بلاشرکت غیرے معاشی، سیاسی اور ثقافتی بالادستی حاصل رہی۔ اب یہ دور ختم ہو رہا ہے‘‘۔ یہ بحران کس طرح پیدا ہوا، اس پر ضخیم کتابیں اور مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ ہزاروں کے روزگار خطرے میں ہیں۔ ڈیپریشن اور خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالر، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مالی ہتھیاروں کے تیار کرنے اور استعمال کرنے والوں کو بچانے کے لیے جھونکے جارہے ہیں۔ آزاد منڈی کے علَم برداروں کی طرف سے ان اقدامات کے باعث ہمیں یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ اس نظام کے تحت منافعے فرد وصول کرتا ہے، جب کہ خسارے اجتماعی سطح پر بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے جس کی ’تبلیغ‘ یہ امیر علَم بردار ’تیسری دنیا‘ کو کرتے ہیں۔
عالمی مبصرین کی پیش گوئی ہے کہ جلد ہی سورج پھر چمکنے لگے گا، یقینا یہ چمکے گا۔ لیکن اتنا روشن اب کبھی نہ ہوگا اور ایسا کبھی ہونا بھی نہیں چاہیے۔ کیوں کہ یہ ’انتہائی روشنی‘ کرۂ ارض کے اربوں باسیوں کے لیے زندگی کو مشکل بنا رہی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے باعث ہمارا معاشرہ دوطبقوں میں تقسیم ہوگیا ہے: انتہائی امیر اور انتہائی غریب۔ اس نظام کے تحت انگلستان میں رہنے والا ہندستانی صنعت کار ۳۰۰ ملین پائونڈ کی مالیت کا گھر اپنی بیوی کے لیے خریدتا ہے، جب کہ ۳۰۰ ملین سے زائد ہندستانی یومیہ نصف پائونڈ پر گزارا کرتے ہیں۔ مزیدبرآں لاکھوں ایشیائی، افریقی، کون جانے امریکی اور یورپی بھی بھوک کے ہاتھوں موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ معاشی تفاوت صرف صنعت کاروں تک محدود نہیں ہے۔ کمپنیوں کے سربراہوں اور متوسط درجے کے ملازمین کی آمدنی کا فرق بھی مغرب میں بہت بڑھ گیا ہے۔ امریکا کے ۱۵ اداروں کے سربراہ ۲۰۰۳ء میں اوسط سے ۳۶۰ گنا پا رہے تھے، اور ۲۰۰۷ء میں ۵۲۰ گنا پا رہے ہیں۔لہٰذا میں اسے معاشی یا مالی بحران تسلیم نہیں کرتا۔ یہ انسانی اقدار کی عظیم تباہی ہے۔
اسلام میں کوئی مالیاتی معیشت نہیں ہے، صرف حقیقی معیشت ہے۔ اسلام قرض کی تجارت، رعایت یا ضمانت کی اجازت نہیں دیتا۔ کرس رافٹ نے ایشیامنی (Asiamoney) کے ستمبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں اسلامی بنکوں کے بارے میں لکھا: یہ ادارے کم معیاری قرضوں کے بحران میں اپنے جیسے بہت سے روایتی اداروں کے مقابلے میں بہت بہتر طور پر اُبھرے ہیں۔
زندگی تو بہت ہی سادہ اور سہل ہے لیکن ہم نے اپنے خالقِ حقیقی کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرکے اسے مشکل بنا دیا ہے۔ جب قرآن یہ اعلان کرتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘ (البقرہ ۲: ۲۷۶) تو اس کے ذریعے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ اپنے فالتو سرمایے سے کم سرمایہ رکھنے والے تاجروں کے ساتھ سرمایہ کاری کریں اور نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوں، اور اس طرح کم تر معیار (sub prime) کے مسلم اور غیرمسلم بھائی بہنوں کو ایک ’انسانی‘ زندگی گزارنے میں مدد دیں۔ انتہائی بنیادی سطح پر، سود پر مشتمل آلاتِ زرمبادلہ کے ذریعے کاروباری یا صارفی مقاصد کے لیے مہیا کی جانے والی اصل رقم پر ایک مقررہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت، سرمایہ فراہم کرنے والے (بنک اور دیگر مالی ادارے) اس امر کی کم ہی احتیاط کرتے ہیں کہ ان کی رقم کے باعث وصول کنندہ ناجائز طور پر معاشی فوائد نہ اٹھائے۔ حتیٰ کہ وصول کنندہ نقصان بھی اٹھاتا ہے تو پھر بھی یہ ادارے اسے قانونی طور پر اصل سے زیادہ رقم دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک یہ صورت حال انتہائی غیرمنصفانہ ہے، حتیٰ کہ یہ عمل اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔ لہٰذا سود پر مبنی نظام کی تباہی، مقدر کا لکھا ہے اور یہی صورت حال واقع ہورہی ہے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی ایسی چیز فروخت کے لیے پیش کریں جو ان کی ملکیت نہیں ہے کیونکہ یہ تو صریحاً جوا ہے، اس میں خطرات اور اندیشے بہت زیادہ ہیں۔ مستقبل غیریقینی ہوتا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ ہم جو کچھ پیشگی فروخت کر رہے ہیں، وہ بعد میں ہمارے پاس ہوگا بھی یا نہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے میں Islamic Equity Funds کے بارے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کر رہا ہوں۔ میں حصص/سرمایہ کے تصور کو غلط نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس کا مخالف ہوں۔ اگر اسے جائز شعبوں میں بطور سرمایہ کاری لگایا جائے تو اسلامی طریقے کے مطابق ہوگا۔ مجھے تو حصص/سرمایے کی منڈی کی بگڑتی ہوئی ساکھ (volaltility) کے متعلق پریشانی ہے۔ یہ عمل اتفاقیہ نہیں ہوتا بلکہ یہ عمل مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے۔ اور اس کے پیچھے ’بھینسے یا ریچھ‘ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بغیر رقم بہت زیادہ خریداری، اور اسٹاک کے بغیر فروخت اسلامی حصص کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سرمایہ منڈیوں میں اسٹاک کی تجارت کے موجودہ قواعد شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں۔ میرے خیال میں نہیں۔
اسلامی مالیاتی نظام اور ڈھانچے میں ’بھینسے یاریچھ‘ کا کوئی تصور نہیں۔ یہاں تو صرف سرمایہ کار ہوتے ہیں، وہ ترجیحاً طویل المدت یا وسط مدتی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مالی اور معاشی استحکام مہیا کیا جائے جس کے باعث سیاسی اور سماجی لحاظ سے پُرسکون اور خوش گوار فضا تشکیل پاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ نیوکونز مقدس ہستیاں نہیں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ جہاں تک ممکن ہو،وہ جنگ کے بغیر ہی عالمی دولت پر قبضہ جما لیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس امر کے بھی خواہاں تھے کہ وہ اُن ممالک کے سماجی اور سیاسی نظاموں کو بھی (جنھیں یہ صرف کاروباری منڈیاں سمجھتے تھے) نیست و نابود کردیں جو ان کی اقدار اور اصولوں کو نہیں اپناتے۔
۲۰۰۲ء میں شیخ محمد سے جو اَب عرب امارات کے وزیراعظم ہیں، ایک بین الاقوامی انعام وصول کرنے کے بعد میں نے اسلامی بنک کاروں اور علما سے درخواست کی تھی کہ روایتی اداروں کی نقل میں اسلامی مالی معاملات میں نت نئے تجربے نہ کریں۔ یہ چیزیں نقصان دہ تو نہیں، لیکن موجودہ بحران ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم ان فضول اور غیرضروری جدتوں اور نزاکتوں سے دُور رہیں۔
ان مایوس کن حالات میں بھی مجھے صرف ان لوگوں کے لیے امید اور روشنی کی کرن نظر آتی ہے جو اس بحران کے موقع پر بھی لالچ اور خوف کا شکار نہیں ہیں۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق مسلمان ان دونوں کیفیات سے اپنے کو بچاتے ہیں۔ اب تو حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ انصاف اور ایمان داری پر مبنی مالی نظام (سود اور سٹّے بازی کے بغیر) ہی باقی رہے گا اور مستقبل میں بھی پھلے پھولے گا۔
اس وقت سامی الحاج اپنی فولادی بیساکھی کے سہارے نہایت تکلیف کے عالم میں چل رہا ہے۔ الجزیرہ کے اس صحافی نے تقریباً چھے سال ایک ڈرائونے اور بھیانک خواب کی مانند گوانتانامو میں بسر کیے اور شدید اذیت و ذلت اس کا مقدر بنی۔ اب وہ ناروے کے ایک چھوٹے سے شہر للی ہیمر کے ایک ہوٹل میں موجود ہے۔ اب اس کی شخصیت عظمت و وقار کے ساتھ ساتھ، نکبت اور شرم ساری کی علامت بن چکی ہے۔ امریکیوں نے بالآخر جب اسے رہا کردیا تو اپنی طرف سے معذرت اور افسوس کا اظہار کیا، لیکن اس سے قبل، اس کے کہنے کے مطابق: اسے برطانیہ، امریکا اور کینیڈا کے محکمہ جاسوسی کے بااختیار اہل کاروں کے ہاتھوں شدید تشدد کا نشانہ بننا پڑا، اسے زبردستی مختلف اشیا نگلنی پڑیں، اس کے ساتھ ہرقسم کا ظلم و ستم روا رکھا گیا اور اس سے مسلسل تفتیش اور پوچھ گچھ ہوتی رہی۔
۳۸ سالہ ٹی وی عکس کار (camera man) کو نہ تو کبھی کسی جرم کا مرتکب قرار دیا گیا، نہ اس پر کوئی مقدمہ ہی چلایا گیا۔ اس کے حلفی بیان کے مطابق اسے ساڑھے چھے سال کے دوران تین مختلف قیدخانوں میں رکھا گیا جہاں اس پر مسلسل تشدّد کیا گیا اور اُسے مختلف اشیا نگلنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ یہ سب کچھ اس کے ساتھ اس لیے پیش نہیں آیا کہ وہ ایک مشتبہ ’دہشت گرد‘ تھا بلکہ محض اس لیے کہ اس نے امریکی جاسوس بننے سے انکار کردیا تھا۔ جیسے ہی سامی قندھار میں واقع ہولناک امریکی قیدخانے سے پرواز کے ذریعے گوانتانامو پہنچا، اس کے صیّاد اس سے مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ان کے لیے کام کرنے پر رضامند ہوجائے۔ مسلسل ظلم وستم اور اذیت و ذلّت کی چکی میں سے گزارتے ہوئے امریکیوں کی طرف سے اس کی بے گناہی کا اعتراف ان کے اس منصوبے کا حصہ تھا کہ سامی کو امریکی محکمہ جاسوسی کے ایک ’اثاثے‘ میں تبدیل کردیا جائے۔
اس کے بیان کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران ۲۰۰ سے زائد مرتبہ اسے بتایا گیا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ تم بے گناہ ہو‘‘۔ ’’وہ مجھ سے صرف یہی چاہتے تھے کہ میں ان کے لیے جاسوسی کروں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مجھے امریکا کی شہریت دینے کے لیے تیار ہیں، میرے بیوی بچے امریکا میں آباد ہوسکتے ہیں اور میری ہرقسم کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ لیکن میں نے کہا: میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا۔ میرے اس انکار کی پہلی وجہ تویہ ہے کہ میں ایک صحافی ہوں، اور صحافی کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے لیے جاسوسی کرے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ دورانِ جنگ، مَیں زخمی ہوسکتا ہوں، ہلاک ہوسکتا ہوں اور اگر قسمت نے یاوری کی تو زندہ بھی بچ سکتا ہوں۔ لیکن اگر میں تمھارے لیے جاسوسی کروں تو القاعدہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی اور اگر میں تمھارے لیے کام نہیں کرتا توتم مجھے ہلاک کرڈالو گے‘‘۔
سامی کے لیے اس عجیب و غریب لیکن بے ہودہ داستان کے آغاز اُس وقت ہوا جب ۱۵دسمبر ۲۰۰۱ء کو وہ اپنے ہم پیشہ عبدالحق صداح کے ساتھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے افغانستان کے شہر قندھار کی طرف عازمِ سفر تھا۔ عبدالحق صداح عرب سٹیلائٹ ٹی وی چینل کا نامہ نگار تھا جو نئی علاقائی حکومت کے متعلق خبروں کے حصول کے لیے اس کا رفیق اور ہم رکاب تھا۔ کم از کم ۷۰ مزید صحافی بھی پاکستانی سرحدی چوکی چمن کے راستے افغانستان جا رہے تھے، لیکن ایک افسر نے سامی کو روک لیا۔ ’’اس نے مجھے بتایا کہ پاکستان کے محکمہ جاسوسی نے تمھاری گرفتاری کے لیے ہمیں تحریری اطلاع بھیجی ہے۔ میرے نام کے ہجے غلط لکھے گئے تھے، میرا پاسپورٹ نمبر غلط تھا، یہاں میری تاریخ پیدایش ۱۹۶۴ء درج تھی جب کہ میری صحیح اور درست تاریخ پیدایش ۱۹۶۹ء تھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے اسلام آباد سے اپنے ویزے کی تجدید کرائی تھی اور پوچھا کہ اگر میں انھیں مطلوب تھا تو مجھے وہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘
سامی الحاج نے اپنے اُوپر بیتے ہوئے واقعات کی تفصیل نہایت آہستہ اور محتاط انداز میں بیان کی۔ وہ جس قسم کے مصائب، مشکلات، ظلم وستم اور اذیت و ذلت میں مبتلا رہا، ان کی جزئیات بیان کیں۔ اس کے لیے اپنے علاوہ دوسروں پر بیتنے والے اس قسم کے واقعات کی ہرتفصیل بھی بہت اہم ہے۔ اسے ابھی تک یہ خواب محسوس ہوتا ہے کہ وہ رہا ہوچکا ہے اور ناروے میں ایک ایسے اجلاس میں شریک ہے کہ جہاں سے واپسی پر وہ الجزیرہ میں ’نیوز پروڈیوسر‘ کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا دوبارہ آغاز کرے گا، اور ایک دفعہ پھر اپنی بیوی اسما اور اپنے ۸سالہ بیٹے محمد کے ساتھ خوش گوار گھریلو زندگی کی طرف لوٹ سکے گا۔ جب سامی الحاج امریکا کے خفیہ عقوبت خانوں میں کہیں غائب ہوگیا تھا تو اس وقت اس کے بیٹے کی عمر صرف ۱۴ ماہ تھی۔
الحاج کی یہ داستان ہر اس شخص کے لیے ایک جانی پہچانی کہانی ہے جس کے خلاف پاکستان میں گرفتاری کا ڈراما رچایا گیا اور پھر اسے پاکستان سے افغانستان اور گوانتانامو میں واقع امریکی اڈوّں میں موجود قیدخانوں میں پہنچا دیا گیا۔ اس کے جہاز کی پرواز ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور پھر بگرام میں واقع امریکی اڈے سے روانہ ہونے سے قبل غالباً پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اترا کہ اگر یہاں مزید قیدی موجود ہوں، تو انھیں بھی ساتھ لے جایا جاسکے۔
سامی نے بتایا: ’’ہم وہاں صبح سویرے پہنچے تو انھوں نے ہمارے پیروں سے بیڑیاں اتاریں اور طیارے سے باہر پختہ فرش پر دھکا دے کر پھینک دیا۔ چیخوں اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ہماری سماعت سے ٹکرائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ میری دائیں ٹانگ میرے بدن کے نیچے آرہی ہے، اسی کیفیت کے ساتھ میں زمین پر ڈھے گیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا میرے بدن کا ہر ہر ریشہ الگ الگ ہو رہا ہے۔ میرے زمین پر گرتے ہی فوجیوں نے مجھ پر ہلّہ بول دیا۔ سب سے پہلے انھوں نے میری کمر کو تختۂ مشق بنایا اور اس کے اوپر چہل قدمی کرنے لگے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ میں اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھ رہا ہوں تو انھوں نے میری ٹانگوں پر ٹھوکریں مارنا شروع کردیں۔ ایک فوجی غُرّاتے ہوئے کہنے لگا: تمھیں جرأت کیسے ہوئی کہ تم امریکیوں کے ساتھ جنگ کرنے چلے آئے۔ بعدازاں میرے لیے ایک نمبر مخصوص کیا گیا اور انھوں نے مجھے قیدی نمبر۳۵ کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔ پھر پہلے فوجی نے چلّاچلّا کر کہنا شروع کیا:تم نے بن لادن کی فلم بنائی ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے بن لادن کی فلم نہیں بنائی اور یہ کہ میں ایک صحافی ہوں۔ میں نے ایک دفعہ پھر انھیں اپنا نام، عمر اور قومیت بتائی‘‘۔
۱۶ دن امریکی قید میں گزارنے کے بعد، ایک اور طیارے کے ذریعے ہمیں قندھار میں واقع امریکی اڈے پہنچا دیا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قیدیوں کو پھر زمین پر لیٹنے پر مجبور کردیا گیا۔ پھر ہمیں غلیظ گالیاں دینے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، حتیٰ کہ ہمیں ہماری مائوں کے حوالے سے بے ہودہ اور ننگی گالیاں دی گئیں۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ہمیں جی بھر کے ذلیل و خوار کیا جائے، اور پھر دوبارہ ان امریکیوں نے ہماری کمروں کو اپنی ٹھوکروں کے نشانے پر رکھ لیا۔ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہے تھے۔پھر مجھے ایک خیمے میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں مجھے مکمل طور پر بے لباس کردیا گیا۔ پھر انھوں نے میری داڑھی میں سے بال نوچنے کھسوٹنے شروع کردیے۔ انھوں نے میری آنکھ کی پتلیوں کی تصاویر اُتاریں۔ ایک ڈاکٹر نے میری کمر پر خون کے دھبے دیکھے تو پوچھنے لگاکہ یہ خون کہاں سے آیا؟ میں نے اس سے پوچھا کہ اسے کیسے خیال آیا کہ میری کمر پر خون ہے؟
ایک دفعہ پھر تفتیش اور پوچھ گچھ کا خوف ناک اوربھیانک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب وہ قیدی نمبر۴۴۸ تھا۔دوبارہ اسے یہ بتایا گیا کہ اسے محض غلط فہمی کی بنا پر پکڑ لیا گیا ہے۔ پھر سادہ لباس میں ملبوس ایک شخص، جو میرے اندازے کے مطابق مصری خفیہ محکمے کا اہلکار تھا، مجھ سے یہ معلوم کرنا چاہ رہا تھا کہ ان گرفتار افراد کا سربراہ کون تھا جو میرے ساتھ تھا۔ امریکی پوچھ رہے تھے: ’’ان قیدیوں میں سے سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ کس نے (احمدشاہ) مسعود (طالبان مخالف افغان شمالی اتحاد کی فوج کا سربراہ) کو ہلاک کیا؟ میں نے کہا کہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تو ایک امریکی فوجی کہنے لگا: ’’ہمارے ساتھ تعاون کرو گے تو تمھیں رہا کردیا جائے گا‘‘۔ یہ کہنے سے ان کی مراد یہ تھی کہ میں اُن کے لیے کام کروں۔ وہاں ایک ایسا شخص تھا جو انگریزی روانی سے اور بخوبی بول سکتا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق وہ برطانوی تھا۔ وہ جواں سال اور پُرکشش شخص تھا، اس کی مونچھیں نہیں تھیں، بال سنہری تھے، سفیدقمیص پہنے وہ ٹائی کے ساتھ شائستہ اور مہذب معلوم ہورہا تھا۔ عمر اس کی ۳۵سال کے قریب تھی۔ اس نے مجھے چاکلیٹ دیں اور میں اس قدر بھوکا تھا کہ چاکلیٹ کے گرد لپٹے ہوئے کاغذ کو بھی کھا سکتا تھا۔
۱۳ جون کو سامی کو ایک جیٹ طیارے میں سوار کرا دیا گیا۔ اب اسے قیدی نمبر ۳۴۵ قرار دیا گیا اور دوبارہ اس کے سر پر سیاہ رنگ کا غلاف نما تھیلا چڑھا دیا گیا۔ اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسنے سے پہلے اسے دو گولیاں حلق میں اتارنے پر مجبور کیاگیا۔ اس کے چہرے سے غلاف نما تھیلا اُتار کر سیاہ چشمہ اس کی آنکھوں پر نصب کردیا گیا۔ اس پرواز کو گوانتانامو پہنچنے میں ۱۲ سے ۱۴ گھنٹے صرف ہوئے۔
ہمیں گوانتانامو کے ہوائی اڈے سے بذریعہ کشتی ایک قیدخانے میں لے جایا گیا۔ یہ سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا۔ پہلے مجھے ایک طبی مرکز میں لے جایا گیا اور پھر فوراً ہی کسی تفتیشی مرکز میں پہنچا دیا گیا۔ تفتیشی اہل کاروں نے کہا کہ انھوں نے میرے جوابات کا میرے اصل بیان سے تقابل کیا ہے۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ایک غلط فہمی کے نتیجے میں تم یہاں پہنچ چکے ہو، تم رہا کردیے جائو گے، تم پہلے شخص ہو گے جسے رہا کیا جائے گا۔ انھوں نے مجھے میرے بیٹے کی تصویر دی جسے انھوں نے میرے بٹوے میں سے نکال لیا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ میں نے انھیں کہا کہ مجھے کتابیں چاہییں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ اس کے پاس الف لیلہ کا ایک نسخہ موجود ہے۔ اس نے اس نسخے کی ایک نقل مجھے دے دی۔ پھر دورانِ تفتیش انھوں نے مجھ سے پوچھا: ’’تم نے قندھار میں برطانوی خفیہ محکمے کے اہلکار سے کیوں اس قدر زیادہ بات چیت کی تھی؟‘‘ میں نے کہا کہ مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ شخص برطانوی خفیہ اہلکار تھا۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ وہ برطانوی خفیہ محکمے کا اہلکار تھا۔
۲ ماہ بعد، مزید ۲ برطانوی مجھے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا تعلق برطانوی محکمہ جاسوسی سے ہے۔ وہ مجھ سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ میں کن کن افراد کو جانتا ہوں، اور کس کس سے مل چکا ہوں؟ میں نے کہا کہ اس ضمن میں مَیں تمھاری مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ بعد میں امریکیوں نے ان میں سے ایک شخص کو ’مارٹن‘ کے طور پر شناخت کیا اور انھوں نے گوانتانامو میں سامی کے سینیر تفتیش کار اسٹیفن پر زیادہ دبائو نہیں ڈالا جو دوبارہ مجھ سے مدد و تعاون کا خواہاں تھا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’’ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم واقعات نہ ہونے دیں۔میں تمھیں اس کے متعلق سوچنے کا ایک موقع اور دوں گا۔ تم امریکی شہریت اختیار کرسکتے ہو، تمھارے گھرانے کی نگہداشت اور دیکھ بھال کی جائے گی، امریکا میں تمھیں ایک شان دار بنگلہ فراہم کیا جائے گا، ہم تمھارے بیٹے کی تعلیم کا بندوبست کریں گے، تمھارا اپنا ایک بنک اکائونٹ ہوگا‘‘۔ وہ اپنے ساتھ کچھ عربی رسائل لایا تھا اور اس نے مجھ سے کہا کہ میں ان کا مطالعہ کرسکتا ہوں۔ ان ۱۰ منٹوں کے دوران، میں نے محسوس کیا کہ میں دوبارہ ’بنی نوع انسان‘ بن چکا ہوں۔ پھر فوجی مجھے میری کوٹھڑی میں لے جانے کے لیے آگئے اور انھوں نے یہ رسالے بھی مجھ سے لے لیے۔
۲۰۰۳ء کے موسم گرما تک، سامی کے پاس دیگر اجنبی افراد بھی ملاقات کے لیے آتے رہے۔ سامی بتاتے ہیں کہ کینیڈا کے محکمۂ جاسوسی کے دو افسر میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے بے شمار لوگوں کی تصویریں دکھائیں اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں انھیں جانتا ہوں؟ میں ان میں سے کسی سے بھی واقف نہ تھا۔
۲۰۰ سے زائد مرتبہ پوچھ گچھ اور تفتیشی مراحل کے دوران الحاج سے اس کے آجر، یعنی قطر میں الجزیرہ ٹی وی چینل کے مالکان کے متعلق پوچھا گیا۔ اس کے مطابق امریکیوں نے اس سے کہا: ’’یہاں سے رہا ہوجانے کے بعد القاعدہ تمھیں ملازمت فراہم کرے گی۔ تم ہمیں یہ بتائو کہ اس ضمن میں تم کس کے ساتھ ملاقات کرو گے؟ تم ایک تجزیہ نگار بن سکتے ہو، ہم تمھیں تربیت مہیا کریں گے کہ تم معلومات اپنے پاس محفوظ کرسکو۔ الجزیرہ اور القاعدہ کے درمیان رابطہ اور تعلق موجود ہے۔ القاعدہ الجزیرہ کو کتنی رقم ادا کرتی ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’یہ سب کچھ پہلے تو میں اس لیے نہیں کروں گا کیونکہ میں ایک صحافی ہوں اور یہ سب کچھ میرے پیشہ وارانہ فرائض میں شامل نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تمھاری بات مان لینے سے میری زندگی اور خاندان کو خطرہ ہے‘‘۔
اس کے بعد نہ صرف تفتیش کاروں بلکہ امریکی فوجیوں نے بھی میری بہت دفعہ پٹائی کی۔ وہ میراسر زمین کے ساتھ ٹکراتے اور میرے بال کاٹ ڈالتے۔ انھوں نے مجھے ’نومبربلاک‘ نامی قیدخانے میں دو سال تک قیدِ تنہائی میں رکھا۔ انھوں نے میری زندگی میں اذیتیں بھر دیں۔ میں چاہتا تھا کہ یہ سب کچھ ختم ہوجائے۔ بغیر کسی وجہ کے سزائوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ تفتیش کے دوران وہ بیڑیاں اس قدر کس کر باندھتے کہ ٹانگیں اور پائوں زخمی ہوجاتے۔ انھوں نے ۱۰ماہ تک مجھے کوئی خط وصول کرنے کی اجازت نہیں دی، حتیٰ کہ ایک دفعہ میرے بیٹے کا خط آیا تو انھوں نے اس میں سے الفاظ مٹا دیے۔ پھر روڈری کیوز کا مجھ سے وہی مطالبہ تھا کہ میں ان کے لیے کام کروں۔
گذشتہ جنوری میں سامی الحاج نے بھوک ہڑتال شروع کی تو اس کی قید کے بدترین مہینے شروع ہوگئے۔ میں نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے حقوق کا دفاع عدالت میں کروں۔ امریکی سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہییں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہو۔ ۳۰دن تک انھوں نے مجھے بھوک ہڑتال کرنے کی اجازت دی، پھر مجھے فولادی زنجیروں کے ذریعے کرسی سے جکڑ دیاگیا اور میرے حلق میں زبردستی خوراک انڈیلی گئی۔ وہ ناک کے ذریعے میرے معدے میں ایک نلکی داخل کرتے۔ انھوں نے بڑی بڑی نلکیوں کا انتخاب کیا تاکہ میرے اندر زخم ہوجائیں اور بعض اوقات تو یہ نلکیاں میرے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتیں۔ انھوں نے میرے لیے بھی وہی نلکی استعمال کی جو وہ اس سے قبل دیگر قیدیوں کے لیے استعمال کرچکے تھے، اور اس میں کچرا اور گند بھرا ہوا تھا۔ انھوں نے اس نلکی کے ذریعے میرے معدے میں اس سے زیادہ خوراک زبردستی داخل کی جس قدر کہ میں ہضم کرسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ نلکیوں کے ذریعے خوراک زبردستی انڈیلنے والے افراد، ڈاکٹر تھے لیکن میرے نزدیک وہ قصّاب تھے، بے رحم بھیڑیے تھے جو اپنے شکار کو اذیت کا نشانہ بناتے تھے۔ انھوں نے ہمارے اندر خوراک کے ۲۴ ڈبے انڈیل دیے، لہٰذا کچھ خوراک ہمیں منہ سے اگلنی پڑی اور کچھ کو خارج کرنے کے لیے ہمیں قبض کشا دوا دی گئی۔ میرا لبلبہ بری طرح متاثر ہوا اور میرے معدے میں تکلیف ہوگئی۔ پھر وہ ہمیںپانی پینے سے روک دیتے‘‘۔
الحاج کہتا ہے کہ طویل بھوک ہڑتال پر اس کی جسمانی حالت بہت نازک ہوگئی اور اس کے مقعد سے خون بہنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب اس کے تفتیش کاروں نے اسے رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’اب نئے تفتیش کار میرے سر پر سوار تھے۔ انھوں نے بھی ایک دفعہ پھر اپنی کوشش کی۔ وہ مجھ سے بار بار پوچھتے رہے کہ کیا میں ان کے لیے کام کروں گا؟ میں مسلسل انکار کرتا رہا۔ لیکن میں نے سالوں پر محیط ان کی’میزبانی‘ اور بطور صحافی کام کرنے اور زندہ رہنے کا موقع دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ اس طرح میں بیرونی دنیا کو اس سچ سے آگاہ کرسکوں گا کہ مجھے رہا ہونے کی اس قدر جلدی اس لیے نہ تھی کیونکہ وہاں ایک نامہ نگار اور صحافی کے لیے بہت سی کہانیاں تھیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: ’’تمھارا خیال ہے کہ ہم نے تمھارے ساتھ رعایت کی؟ میں نے کہا: تم نے مجھے ’زیرو‘ سے ’ہیرو‘ بنا دیا۔ انھوں نے کہا: ہمیں ۱۰۰ فی صد یقین ہے کہ بن لادن تمھارے ساتھ رابطہ کرے گا… پھر اس رات مجھے طیارے کی طرف لے جایا گیا۔ تفتیش کار ایک جال کے پیچھے سے میری نگرانی کرر ہے تھے۔ میں نے ان کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا جنھوں نے اپنی آنکھوں پر چشمے پہنے ہوئے تھے‘‘۔
برطانوی حکام نے کبھی بھی اعتراف نہیں کیا کہ ان کی سامی الحاج سے بات چیت ہوئی تھی اور نہ کینیڈا کے حکام نے ہی ایسی کوئی بات تسلیم کی تھی لیکن ’قیدی نمبر ۳۴۵‘ کو امریکیوں کی طرف سے سرکاری طور پر کبھی بھی معذرت یا معافی نامہ وصول نہیں ہوا۔ وہ کہتاہے کہ اسے امریکیوں سے امید بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے اس فعل کے بارے میں مجھ سے معافی یا معذرت کے طلب گار ہوں گے۔(Perspectives-7 ، ۸؍اکتوبر ۲۰۰۸ئ)
عالمِ اسلام کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ایک بنیادی مسئلہ قومی، ملکی اور ذاتی ترجیحات کا نظر آتا ہے۔ اکثر ترقی پذیر مسلم ممالک میں مغربی تعلیم یافتہ فرماں روا اور مشیرانِ حکومت محض ٹکنالوجی میں ترقی کو قومی ترجیح قرار دیتے ہوئے تعلیمی اور معاشی پالیسی کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ قوم فنی طور پر ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرلے۔ کچھ فرماں روا مسلمانوں کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے لیے فحش اور عریاں ثقافتی سرگرمیوں کے اپنانے کو تعمیر ِکردار پر ترجیح دیتے ہیں اور اسے مسلمانوں کی ’نرم شبیہہ‘ (soft image) قرار دیتے ہوئے آخرکار دشمنانِ اسلام کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ بعض افراد اپنی ذاتی زندگی میں فرائض کو نظرانداز کرتے ہوئے ان نوافل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کے خیال میں برکت کا باعث ہوتے ہیں۔ زندگی کے ہر ہرقدم پر ہمیں ترجیحات کا سامنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ حج کی تیاری کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا ہو کہ جمع شدہ رقم لڑکی کے گھر بسانے پر خرچ ہو یا حج و عمرہ پر، یا ووٹ ڈالتے وقت ترجیح ایسے فرد کو دی جائے جو جیتنے والا سرکش گھوڑا ہو، یا مدمقابل کو جو صالح اور امانت دار ہو لیکن شاید ہارجائے۔
شیخ قرضاوی کی یہ تحریر ان کی بالغ نظری اور فقہی بصیرت کا ایک مظہر ہے۔ انھوں نے آسان انداز میں فقہ کے ایک اہم مضمون، یعنی مقاصد الشریعہ اور قواعد الفقیہہ کو بغیر فقہی اصطلاحات کو استعمال کیے، مثالوں کی مدد سے سمجھایا ہے جو ایک باکمال استاذ ہی کرسکتا ہے جسے طلبہ کی ایک ایسی جماعت مل جائے جس میں انتہائی ذکی اور کم فہم اور غبی ہر طرح کے طلبہ کا سامنا ہو۔ اس لحاظ سے کتاب غیرمعمولی طور پر عملیّت سے بھرپور ہے۔
کتاب ۱۱ ابواب پر مشتمل ہے جن میں: موضوع کی اہمیت و ضرورت، ترجیحات اور موازنات، علم و فکر میں ترجیحات، فتویٰ اوردعوت میں ترجیحات، عمل میں ترجیحات، مامورات میں ترجیحات اور دینی ورثے اور مصلحینِ عصر کی دعوت اور ان کی ترجیحات، جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
یہ کتاب کئی حیثیات سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے ایک لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اولاً: اس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اصول الدعوۃ کی تطبیق کس طرح کی جائے اور دین میں غلو سے کس طرح بچاجائے۔ ایک عام فرد کے لیے اس میں غور کرنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں جب کسی سے کہا جاتا ہے وہ انفاق فی سبیل اللہ کرے تو لے دے کر ذہن کسی مسجد یا مدرسے کی تعمیر کی طرف جاتا ہے، جب کہ کشمیر اور فلسطین کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت، بیوہ خواتین کے لیے دستکاری کے مراکز، اعضا سے محروم اور مجروحین کے لیے شفاخانوں کا قیام اور مغربی ثقافتی یلغار کے خلاف ایسے اداروں کا قیام جو صحت مند فلمیں، ڈرامے، نغمے اور تعلیمی پروگرام بنا سکیں، ایک غیردینی کام تصور کرلیا جاتاہے۔
بعض اوقات انفاق کے جذبے کے ساتھ ایک صاحب ِ خیر کئی لاکھ روپے کسی یتیم خانے کو دے دیتا ہے جو ایک بھلائی کا کام ہے، لیکن یہ نہیں سوچتا کہ اس نے جو دولت حاصل کی ہے اور جسے وہ ایک بھلائی کے کام میں لگا رہا ہے اسے حاصل کرنے میں سود اور ممنوع ذرائع کا کتنا بڑا دخل رہا ہے۔ اُمت کی ترجیحات کا اظہار اس کے رویوں سے بھی ہوتا ہے، مثلاً ایک فن کار فوت ہوجائے تو اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ میںکہرام مچ جاتا ہے، جب کہ ایک عالم کے انتقال پر کسی کو پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک دو کوڑی کا کردار رکھنے والے وزیر کی حفاظت کے لیے ۳،۳مسلح گارڈوں کے ساتھ اس کی سواری نکلتی ہے، جب کہ عام شہری کی جان، عزت اور مال کے تحفظ کے لیے اقدام نہیں کیے جاتے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ہم تنہا ایک فرماں روا کے بیرونی سفر پر قومی خزانے پر جتنا چاہیں بوجھ ڈال دیتے ہیں جب کہ ایک شہری کی تعلیم، صحت اور دینی ضروریات کو این جی اوز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت پر چراغاں اور مٹھائیاں تقسیم کرنا فرض اور واجب قرار پاتا ہے، جب کہ دو قدم پر کچی آبادی میں بسنے والے ہزارہا افراد کی بھوک، لباس اور دیگر ضروریات پر قرآنِ کریم کے واضح احکام اور سنت ِ رسولؐ کی واضح تعلیمات کے باوجود سائل، محروم اور مسکین کی زندگی کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
اسلام نے گو اپنے نظامِ عبادت میں فرض، سنت اور نفل کی تقسیم کے ذریعے ترجیحات کا تعین کیا ہے مگر اُمتِ مسلمہ اکثر نوافل کو فرض کا مقام دے بیٹھتی ہے اور فرائض سے عدمِ توجہی کی مرتکب ہوتی ہے۔ شیخ قرضاوی کی یہ تحریر اُمتِ مسلمہ کو اسی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا جائزہ لے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا لائحہ عمل طے کرے جو دین کی صحیح ترجیحات پر مبنی ہو۔
تحریکاتِ اسلامی اپنے روز مرہ کے مسائل اور بالخصوص سیاسی حالات میں الجھنے کے سبب اپنی اصل اور بنیاد سے، جس پر زیادہ توجہ اور ترجیحی بنیاد پر کام کرنا چاہیے، لاپروا ہوجاتی ہیں۔ نتیجتاً تعداد میں کثرت کے باوجود تحریک کی اصل پہچان اور تشخص یعنی فکری، تربیتی اور تعمیر کردار کا پہلو ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ سیاسی عمل کے شوروغل اور ابلاغِ عامہ میں سرگرمیوں کے تذکرے تحریک کو تعمیر ِسیرت و کردار کے بنیادی کام سے غافل کردیتے ہیں۔ تبدیلیِ فرد کا اصل معیار جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کو سمجھ لیا جاتا ہے، جب کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی مصادر، یعنی قرآن وسنت سے براہِ راست تعلق، اللہ کے بندوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوشش ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اور تحریکات کی قیادت کو اس کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اگر ترجیحات پر مسلسل غوروتجزیہ اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ احتسابی عمل کو زندہ رکھا جائے تو تحریکات نہ جمود کا شکار ہوتی ہیں اور نہ ایک میکانکی نظام ہی میں تبدیل ہوتی ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اس کتاب میں غور کرنے کے لیے بہت قیمتی مواد ہے اور اگر دیکھا جائے تو کام کی منصوبہ بندی ترجیحات کا تعین کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ مرکزی، صوبائی اور مقامی سطح پر کام کرنے والے ہر کارکن اور ذمّہ دار کے لیے اس کتاب میں غوروفکر کا سامان موجود ہے۔ اس کے ایک ایک باب کو اجتماعی حلقوں میں مطالعہ کا موضوع بناکر اپنے کام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
شیخ قرضاوی اِس دور کے اُن علما میں سے ہیں جو مجتہد ِعصر کا درجہ رکھتے ہیں لیکن انھوں نے کتاب میں جابجا علما کی تحریرات سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے افکار کا خلاصہ اور بعض اوقات حوالے نقل کرنے میں اپنے قلب و فکر کی وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک پورا باب مصلحینِ عصر کی ترجیحات پر قائم کیا ہے۔ جن میں امام ابن عبدالوہاب، مہدی سوڈانی، جمال الدین افغانی، محمد عبدہٗ، امام حسن البنّا، امام مودودی، سیدقطب، استاذ مبارک اور استاذ شیخ الغزالی شامل ہیں۔ ان علما کی فکر کو پیش کرتے وقت ایک محقق اور طالب علم کے انداز میں معروضیت کے ساتھ ان کی دعوت و فکر کو پیش کیا گیا ہے جو خود شیخ قرضاوی کے مقامِ علم کو بلند کردیتی ہے۔
کتاب اول تا آخر پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھنے کی متقاضی ہے۔ مترجم گل زادہ شیرپائو نے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔ دورانِ مطالعہ کہیں بھی بوجھل پن یا تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ ادارہ منشورات اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اُردو خواں طبقے کے فائدے کے لیے شیخ قرضاوی کی دیگر تصنیفات کی اشاعت کو بھی ادارے کی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ (دین میں ترجیحات، علامہ یوسف القرضاوی۔ ترجمہ: گل زادہ شیرپائو۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۱۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے)
مولانا فتح محمد رحمۃاللہ علیہ کی وفات سے تعلیمی،تربیتی،تنظیمی،دعوتی،تبلیغی اور جماعتی حلقے ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔مولانا فتح محمدؒ جماعت اسلامی پاکستان کے نمایاں،ممتاز اور اہم قائد تھے۔ملک کی سیاسی، دینی ،سماجی تنظیمات میں معروف تھے اور قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔علماومشائخ،دینی مدارس، اتحاد تنظیمات مدارسِ دینیہ کے شیوخ، مہتممین و منتظمین ان سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔تمام مکاتب ِفکر کے علما ان کی سیرت و کردار ،اخلاق، تواضع،للہیت اور حق گوئی سے متاثر تھے۔ان تمام شخصیات سے ان کے گہرے مراسم تھے۔مولانا ؒ تعلق نبھانے اور اسے قائم رکھنے میں انتہائی مستعد رہتے تھے۔جس سے ایک بار تعلق قائم ہوجاتا، اسے پھر کبھی ٹوٹنے نہ دیتے۔ ان کی زندگی میں بھی یاد رکھتے اور فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کے پس ماندگان سے تعلق قائم رکھتے۔
مولانا فتح محمدؒ اگست۱۹۲۳ء میں ضلع چکوال کے ایک گاؤںدولہہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں میڑک پاس کیا۔ اس کے بعد دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے میں مسلسل مصروف رہے۔ ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۴ء میں دارالعلوم تعلیم القرآن راجا بازار میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒسے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ۔صرف ونحو کی ابتدائی کتب سے لے کرآخری درجوں کی کتب کافیہ، شرح مُلّا جامی اور فقہ کی ابتدائی کتب سے لے کر شرح وقایہ وہدایہ تک مکمل کیں اور دورۂ تفسیر القرآن سے دو مرتبہ فیض یاب ہوئے۔اپنی قابلیت اورذوق وشوق کی وجہ سے مولانا غلام اللہ خانؒ کے انتہائی قریبی اور قابلِ اعتماد شاگردوں میں شمار ہونے لگے اور ان کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو منظم کرنے والی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اس دوران میں ان کے رفقاء کا ایک حلقہ قائم ہوگیا جو ان کے گرد یوں جمع ہوجاتے جیسے شمعِ محفل کے گرد پروانے۔
مولانا فتح محمدؒ کی طرح مولانا صدر الدین الرفاعی،جو قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے ایک بڑے ستون تھے اور مفکرِ اسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے معتقد اور مدّاح تھے،وہ بھی اس دور میں شیخ القرآن کے دست وبازو تھے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ اپنے شاگردوں میں دینی جوش وجذبہ بھر دیتے تھے۔مولانا فتح محمدؒ کوبھی انھوں نے متاثرکیا۔ اسی دوران انھوں نے سید مودودیؒ کا لٹریچر سلامتی کا راستہ،اسلام اور جاہلیّت، خطبات ، دینیات اور دہلی سے شائع ہونے والے رسالے مولویکا مطالعہ کیا جس میں مولانا مودودیؒ کے مضامین شائع ہوتے تھے تو ان کے دینی جوش و جذبے کو صحیح سمت مل گئی۔مولانامودودیؒ اس وقت تک دارالسلام پٹھان کوٹ میں منتقل ہوچکے تھے۔ان سے خط وکتابت شروع کی۔جماعت کا دستور اور مزید لٹریچر منگوا کر مطالعہ کیا۔۱۹۴۳ء کے اواخر یا ۱۹۴۴ء کے آغاز میںاطلاع ملی کہ مولانا مودودیؒ کوثر اخبار کے دفتر میں جماعت اسلامی کے ایک اجتماع میںشرکت کے لیے لاہور تشریف لارہے ہیں، چنانچہ مولانا فتح محمدؒاپنے دوست عبدالحمیدصاحب کے ساتھ، جن کے ذریعے انھیں مولانا کا لٹریچر ملا تھا، اس اجتماع میں شامل ہونے کے لیے لاہور پہنچ گئے۔
مولانا مودودیؒ اور میاں طفیل محمد صاحب سے اس موقع پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔ یکم نومبر۱۹۴۴ء کو جماعت کے رکن بن گئے۔اس سے پہلے راولپنڈی میں صرف ایک رکن سید راغب الحق تھے۔اس لیے وہاں جماعت کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒ رکن بن گئے تو جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم قائم ہوگیا اور آہستہ آہستہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ کے حلقے میں شامل ان کے رفقا بھی ان کے گرد جمع ہوگئے۔اب مولانا فتح محمدؒ ایک قائد کی حیثیت سے جماعت اور دیگر دینی جماعتوں کے لیے مرکز و محور بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان ؒکے حلقے کا انھیں اعتماد حاصل تھا اور راولپنڈی ڈویژن، جس میںہزارہ بھی شامل تھا، اور ایک عرصے تک آزاد کشمیر بھی مولاناکی زیر نگرانی رہا،جماعت اسلامی کاایک فعال، مضبوط اور پُرکشش مرکز بن گیا۔ جماعت کو ایک طویل عرصے تک مولانا فتح محمد ؒکے روابط کی بدولت علماکی مخالفت سے تحفظ حاصل رہا۔ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ جماعت اسلامی کی حامی اور مولانامودویؒ کی مدّاح رہی۔اس کے نتیجے میں راولپنڈی، آزاد کشمیر اور ملک کے دوسرے حصوں سے ان کے حلقۂ اثر کے بہت سے علما جماعت اور جمعیت اتحاد العلما میں شامل ہوگئے۔
قیام پاکستان کے متصل بعد مولانا مودودیؒ نے چار نکاتی تحریک نفاذِ شریعت اور دستورِ اسلامی کا آغاز کیا۔مولانا نے ریاست کے اسلامی ہونے کی شرط بھی کلمہ پڑھنے کو قرار دیتے ہوئے فرمایا : جس طرح فرد اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کلمہ نہ پڑھے، اسی طرح ریاست بھی اس وقت تک اسلامی نہیں کہلائے گی جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک چار نکاتی تحریک شروع کی۔ مولانا مودودیؒ نے اس کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ اجتماعات اور جلسوں سے خطاب کیا۔راولپنڈی اور ہزارہ اور آزادکشمیرکی سطح پر اس تحریک کو مولانا فتح محمد ؒنے منظم کیا۔ انھیںعلما کی حمایت بھی حاصل تھی۔پورے ملک کی طرح راولپنڈی ڈویژن میں بھی تحریک عروج پر پہنچی اور حکومت نے قراردادِ مقاصد کی شکل میں چارنکاتی تحریک کو منظور کرلیا۔
قراردادِ مقاصد توپاس ہوگئی لیکن اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں جاری رہیں۔ قراردادِ مقاصد کے مطابق ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ دستور اسلامی کے لیے از سر نوتحریک برپا کی گئی۔قادیانیوں کے خلاف بھی تحریک ختم نبوت کو منظم کرنا پڑا، اس کے لیے علمانے مسلسل جدوجہد کرنا شروع کی۔ مولانا فتح محمد کی ذمہ داری کے اس دور میں ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختم نبوت اپنے عروج پر پہنچی۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ،میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں انھوں نے راولپنڈی اور پنجاب کی سطح پر جماعت کی تنظیم اور جماعت کی برپا کردہ تحریکات کے ضمن میں عظیم اور مثالی جدوجہد کی۔تحریکِ جمہوریت، تحریکِ ختم نبوت اور تحریکِ نظام مصطفی اور تحریکِ جہاد، سیلاب زدگان اور متاثرین زلزلہ کی خدمت کی۔ ہرمیدان میں مستعدی اور جان فشانی سے حصہ لیا۔ آج جماعت اسلامی کی قیادت قوت اور اثرات کے جس مقام پر پہنچ چکی ہے اس میں مولانا فتح محمد ؒکا بڑا حصہ ہے۔ جب پنجاب کی امارت کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اپنے آپ کو فارغ نہ سمجھا۔ ہر تحریک ،ہر پروگرام میں ذوق وشوق سے شریک ہوئے ۔محترم قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں اسلام آباد میں دو مرتبہ دھرنے دیے گئے۔ان دھرنوں میں مشکلات، رکاوٹوں اور پیرانہ سالی کے باوجود ہمت، حوصلے اور جرأت سے شرکت کی۔
ان ہمہ گیر اور وسیع تحریکی وتنظیمی سرگرمیوں کے باوجودمولانا فتح محمد ؒ نے ایک دن کے لیے بھی تعلیم و تعلّم، مطالعے اور اپنے روز مرہ کی عبادات ،تلاوت، اذکارکے پروگراموں کو معطل نہیں کیا۔ وہ پڑھتے اور پڑھاتے بھی رہے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒکے علاوہ مولانا مسعود عالم ندویؒ اورمولانا امین احسن اصلاحی ؒ سے عربی زبان اور تفسیر ِقرآن کے سلسلے میں استفادہ بھی کیا۔ان کا قائم کردہ تعلیمات عالیہ کالج ،جس میں فارسی فاضل اوراردوفاضل کی معیاری تعلیم دی جاتی تھی راولپنڈی کا معروف ومشہور ادارہ تھا۔۱۹۴۳ء میں ایف اے،۱۹۵۳ء میں ایف اے کے اضافی مضامین اُردو، فارسی، معاشیات کا امتحان پاس کیا۔اپریل۱۹۶۰ء میں بی اے کیا اور ۱۹۶۳ء میں بی اے کے اضافی مضامین اردو،فارسی،عربی کا امتحان پاس کیا۔۱۹۶۶ء میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۷۶ء میں ایم اے عربی کیا۔
جب منصورہ میں مرکز علومِ اسلامیہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مرکز کے منصوبے میں علومِ عربیہ و اسلامیہ کادارالعلوم بھی شامل تھا۔اس کے لیے ابتدائی طورپر جامع مسجد منصورہ کے ساتھ ایک عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒاس وقت جماعت اسلامی پنجاب کے امیر تھے، انھیں اس کا مہتمم مقرر کیاگیا۔اس کا افتتاح ۱۴۰۰ھ کو دورۂ تفسیر کے آغاز سے کیاگیا۔مولانا فتح محمدؒ اپنی وفات (۱۰؍اگست ۲۰۰۸ئ)تک اس کے مہتمم اور مدرّس رہے۔
پانچ سال سے وہ رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان کے نائب صدر تھے۔اس ذمہ داری کے سبب ان کے مدارس، دینی مدارس کی تنظیمات اور ان کے ذمہ داران سے روابط اور تعلقات تھے۔ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ میں وقتاً فوقتاً نمایندگی بھی کرتے تھے۔ اتحاد تنظیم کے صدور، ناظمین اور مدارس کے شیوخ نے ان کی وفات پر گہرے رنج وغم کااظہار کیا اور مغفرت کی دعائیں کیں۔
جب منصورہ میں شعبان/رمضان ۱۴۰۰ھ میں دورۂ تفسیر کا آغاز ہوا اورمولانا گوہررحمن ؒ کو دورۂ تفسیر کے لیے بلایا گیا تو اس وقت مولانا فتح محمد ؒنے اہتمام کے ساتھ پڑھنا بھی شروع کر دیا۔ وہ دورۂ تفسیرکے پہلے طالب علم بھی تھے۔ اس طرح ہر سال دورہ تفسیر میں شرکت کرتے۔ محرم الحرام۱۴۰۱ء سے مرکز علومِ اسلامیہ میں باقاعدہ اعلیٰ درجوں کی تعلیم کا آغاز کیا گیا تو مولانا فتح محمد ؒ نے دفتری اوقات کے بعدپڑھنا شروع کر دیا۔وہ مسلسل پڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ انھوں نے دارالعلوم میں پڑھانا بھی شروع کردیا۔ترجمۂ قرآن پاک، ریاض الصالحین، مشکوٰۃ اور شرح وقایہ کئی سال تک پڑھاتے رہے، بالآخر ادارے نے ان پر ان کی مرضی کے بغیر بوجھ کم کردیااور مشکوٰۃ کا درس دوسرے اساتذہ کے سپرد کردیا۔اسی دوران جامعۃ المحصنات میں ایک استاد کی ضرورت محسوس کی گئی تومولانا نے اس کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کردیا ۔یہ ان کی ہمت ،حوصلہ،عزم ،جذبہ اور ذوق وشوق تھا کہ بیماری کے دوران بھی بوجھ اٹھانے کے لیے تیارتھے۔
وہ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ مزید سرگرمیاں بھی جاری رکھتے۔جہاں کہیں فہم قرآن کی کلاس ہوتی،کوئی اجتماع ،ریلی،علماکنونشن،دینی پروگرام ،تحریک، دھرنا ہوتا تو اس میں پیش پیش ہوتے۔ ان کے علمی ذوق و شوق کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ۲۰۰۵ء میں انھوں نے تعمیر ِسیرت کالج سے کمپیوٹر کورس کیا اور ’’مہد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ قریب ودُور جہاں جانا پڑتا وہاں پہنچ جاتے۔ یہ تو ان کا تحصیلِ علم کا ذوق تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکز علومِ اسلامیہ کے لیے مالی اعانت جمع کرتے، اس کے لیے لوگوں سے رابطے کرتے، اندرون و بیرون ملک دورے کرتے اور بھرپور کوشش کرتے۔ انھوں نے برطانیہ،سعودی عرب،ابو ظہبی دبئی، شارجہ، ایران اور افغانستان کے مطالعاتی اور دعوتی دورے بھی کیے۔اکتوبر۲۰۰۷ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔اس دورے میں مختلف شہروں میں دعوتی تربیتی اجتماع سے خطاب کیا اور عمرہ بھی کیا۔
مجھے ۳۰ سال سے زیادہ ان سے رفاقت کا شرف حاصل رہا۔اس طویل عرصے میں ،میں نے مولانا فتح محمدؒ کو ہمیشہ مطمئن پایا،حتیٰ کہ مرض الوفات میں بھی کسی قسم کی بے قراری، شکوہ شکایت زبان پر نہ تھی۔ ان کے اطمینان کو دیکھ کر امید ہوتی تھی کہ جلدہی صحت یاب ہوجائیں گے۔وہ شدید بیماری میں بھی مطمئن تھے۔۲،۳؍اگست کو یہاں منصورہ میں مختلف ممالک سے کچھ مہمان تشریف لائے تو انھوں نے ۳ اگست کو مجھے ایک خط بھیجا کہ میں ان مہمانوں کو دارالعلوم کی نئی عمارت کا دورہ کرواؤں اور دارالعلوم کے مختلف پروگراموں سے متعارف کرواؤں۔ وہ شدید بیمار تھے، مگر دارالعلوم کی فکر ان کے دامن گیر تھی۔ ۱۰؍اگست ۲۰۰۸ء کی شام کو ان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ ظہر سے پہلے ان پر غشی طاری تھی۔ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا ،نماز کا وقت آیا تو ہم نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آئے تو روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ان کی موت کا منظر دیکھ کر یہ آیت یاد آگئی:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْـمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَـۃً مَّرْضِیَّـۃً o (الفجر ۸۹:۲۷-۲۸) اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا،اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور اللہ تجھ سے راضی۔
میں نے مولانا کوکبھی بھی پریشان حال نہ پایا۔وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کام سرانجام دیتے رہے ۔ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے بھی نہ پایا۔انھوں نے نظمِ جماعت کے ساتھ اختلاف کی صورت میں اختلاف کیا لیکن آداب کو ملحوظ رکھااورنظمِ جماعت کی اطاعت کی۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر یہ حدیث یاد آتی ہے:’’جسے آخرت کی فکر ہو، اللہ اس کے دل میں غنا پیدا کر دیتا ہے اور اس کے کاموں کومنظم کردیتاہے، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر پہنچتی ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
وہ اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے، سراپا اخلاق تھے۔ اپنے دوستوں،جماعتی رفقا، علما و مشائخ کے حقوق کا خیال رکھتے،بیماروں کی عیادت کرتے،فوت ہونے والوں کے جنازے میں پہنچتے، وقتاً فوقتاً مہمان نوازی اور افطاری کے لیے گھر پر بلاتے۔راولپنڈی اور لاہور میں ان کا گھر دفتر کی طرح مہمان خانے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ لوگوں کے کاموںکے لیے وقت نکالتے، افسروں کو فون کرتے، ضرورت ہوتی تو ان کے ساتھ چل کر جاتے۔ وہ ہر کارِخیر میں پیش پیش رہتے۔
اللہ تعالیٰ انھیں غریقِرحمت کرے۔ وہ یاد آتے رہیںگے۔اللہ تعالیٰ جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ رفقااور اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازے، آمین!
سوال: حال ہی میں مجھے مولانا مودودی مرحوم کی چند کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ تفہیم القرآن کا مطالعہ بھی عرصے سے جاری ہے۔ میرے ناپختہ ذہن نے آج کل کے حالات کا تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ جو تعلیمات مولانا نے پیش کی تھیں، جماعت ان پر عمل پیرا نہیں۔ اس حوالے سے چند استفسارات درج ذیل ہیں:
۱- تفہیم القرآن میں سورئہ احزاب کی آیت ۳۳ میں (عورتوں کے لیے جب) حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو، تو اس کی تفسیر میں مولانا محترم رقم طراز ہیں: ’’قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجایش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں، بیرونِ خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴،ص ۹۰)
آج حلقۂ خواتین جماعت اسلامی کی طرف سے جو خواتین سیاسی سرگرمیاں کرتی ہیں اور ممبر قومی اسمبلی بنتی ہیں وہ کس ضمن میں آتی ہیں؟
۲- حال ہی میں ڈاکٹر انیس احمد نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک نوجوان لڑکا، لڑکی اگر تعلیم کی غرض سے ملیں تو درست ہے (ترجمان القرآن،ستمبر ۲۰۰۸ئ)۔ حدیث کے مفہوم کے مطابق: ’’اگر کوئی نامحرم لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے خلوت میں ملیں تو تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ پھر ان کا یہ کہنا کس حکم کی بنیاد پر ہے؟
۳- جماعت اسلامی کے ایک معتبر (مرحوم) رکن کے بیٹے ایک بڑا تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں۔ میں اس یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہوں۔ اس میں بہت سی قباحتوں کو نوٹ کیا۔ ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ سالانہ امتحانات کے دنوں میں کئی مرتبہ نوٹ کیا ہے کہ اگر نمازِ ظہر کی جماعت کا وقت ہے تو عین اسی وقت پرچے کے شروع ہونے کا بھی وقت ہے۔ کیا یہ خدا کی نافرمانی نہیں؟
۴- لاہور جماعت کے ذمہ دار رکن ایک اشتہاری ایجنسی چلا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں (قریباً وسط اگست ۲۰۰۸ئ) میں اس کمپنی کا بنا ایک اشتہار جو مندرجہ بالا ذکر کی گئی یونی ورسٹی میں داخلے کا تھا، اخبارات میں چھپا۔ ایک عورت اور دو نوجوان لڑکوں کو دکھایا گیا ہے۔ پورے اشتہار سے (بشمول اشکال) مغربیت ٹپکتی ہے۔
سوال ۳ اور ۴ کے حوالے سے میرا سوال یہ ہے کہ جماعت اپنے ایسے ارکان کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے؟ یا جو اراکین طاغوت کا ساتھ دیتے ہوں ان کے لیے کیا قواعد و ضوابط ہیں؟ اخراج، جواب دہی، یا احتساب؟
جواب: آپ کے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوان عمر میں ناپختہ ہونے کے باوجود فکری اور شعوری لحاظ سے بالغ اور مقصدِحیات کے حوالے سے راست فکر ہیں۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔
آپ نے بہت صحیح بات کہی ہے کہ مولانا مودودی مرحوم نے سورۂ احزاب کی آیت۳۳ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ گھر سے نکلنے کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ خواتین اپنی ذمہ داریوں اور گھر کے دائرۂ کار کو نظرانداز کرکے بلاضرورت دفاتر، اسمبلیوں اور سوشل ورک کے کاموں میں مصروفِ عمل ہوجائیں۔ میرے خیال میں ہرمعقول شخص اس بات سے اتفاق کرے گا لیکن اصل مسئلہ جس پر اظہارِ خیال کیا گیا تھا وہ بلاضرورت خواتین کا بیرونِ خانہ سرگرمیوں کا نہیں تھا بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے بنیادی فریضے کی ادایگی کے لیے مردوں اور عورتوں کی ذمہ داری اور کردار کا تھا۔
قرآنِ کریم نے اُمت ِمسلمہ کے ہر مومن مرد اور عورت پر یہ فریضہ عاید کردیا ہے اور اس کی ادایگی کے لیے مناسب طریق کار اور حکمت عملی کی تفصیلات کو دینی فہم رکھنے والے افراد پر چھوڑ دیا ہے۔ گو اصولی طور پر یہ بات طے کردی گئی ہے کہ خواتین میں دعوت دینے کے لیے بہترین دُعاۃ خواتین ہی ہوسکتی ہیں لیکن ایسی جامعات میں جہاں مخلوط تعلیم ہو ایسے مواقع بھی پیش آسکتے ہیں بلکہ پیش آتے ہیں جب بطور ایک مجبوری اور ضرورت ایک طالب علم اور طالبہ کوکسی دعوتی معاملے میں بات کرنی پڑے جس کے لیے قرآن نے یہ طے کردیا ہے کہ بات اس انداز سے ہو جس میں کوئی لوچ اور لچک نہ پائی جائے۔ صرف ضرورت کی حد تک سوال و جواب کو اختیار کیا جائے۔
ایک اور بات جو آپ نے اٹھائی ہے وہ یہ کہ آج اسمبلیوں میں جماعت اسلامی سے وابستہ خواتین بطور ممبرپارلیمنٹ یا سینیٹ جو کام کر رہی ہیں، وہ آپ کے خیال میں مولانا مودودی کی فکر سے انحراف ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی تحریک کے لیے جو چیز واجب العمل ہے وہ اس کے سربراہ، بانی یا امیر کی ہر وہ بات ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہو لیکن اجتہادی معاملات میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ قرآن وسنت کو ماخذ مانتے ہوئے ان کی ایک سے زیادہ تعبیرات پر عمل کیا جاسکے جیساکہ پانچ معروف فقہی مذاہب (حنفی، جعفری، مالکی، شافعی اور حنبلی) میں نظر آتا ہے۔ خود مولانا مرحوم اس اصول کے قائل تھے اور تمام زندگی اسی پر عامل رہے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی معروف راے کے باوجود کہ ایک خاتون ایک اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی، جب ملک سے فوجی آمریت کو دُور کرنے کا سوال اٹھا اور متحدہ حزبِ اختلاف نے ایک سابقہ فوجی جرنیل کو ایوب خان کے مقابلے میں اپنا نمایندہ بنایا تو ایوب خان نے اسے گھر میں نظربند کردیا، آخرکار متحدہ حزبِ اختلاف نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے بار بار کے انکار کے باوجود اس شرط پر راضی کرلیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوجائیں تو پہلی فرصت میں نئے اور آزادانہ انتخاب کروا کے خود صدارت سے الگ ہوجائیں گی۔ اس قسم کی صورت حال کو فقہ کی اصطلاح میں ’ضرورت‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ صاحب معارف القرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے تحریری طور پر اس معاملے میں محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں فتویٰ دیا اور مولانا مرحوم نے جو اس وقت جیل میں نظربند تھے، رہائی کے فوراً بعد ملک گیر پیمانے پر سفر کر کے اس فتوے کی حمایت اور توثیق کی۔
بالکل اسی طرح اگر پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر ایسی خواتین کے منتخب ہوکر آنے کا امکان ہو جو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست، اباحیّت پسند معاشرہ اور مادہ پرست ملک بنانا چاہتی ہوں تو ایسے میں شریعت کی نگاہ میں ان خواتین کا گھر ہی بیٹھے رہنا جو ملک کو اس لعنت سے بچاسکتی ہوں، دین کی مصلحت کے خلاف ہوگا اور اصولِ ضرورت کی بنا پر ان کا پارلیمنٹ اور سینیٹ میں آکر دین کا دفاع کرنا عین مقصودِ دین ہوگا۔ یہی وہ دعوت ہے جو جماعت اسلامی نے آغاز سے دی اور ایک صالح جماعت کے قیام کی ضرورت پر اُمت ِمسلمہ کو متوجہ کیا۔
اس عمل کے دوران اگر ایسی خواتین اپنی دیگر ذمہ داریوں سے رُوگردانی کر رہی ہوں اور ان فرائض کو ادا نہ کریں جو ان پر ایک اسلامی معاشرے میں بطور فریضہ عاید ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں معاشرتی ذمہ داریوں کو اولیت حاصل ہوگی اور معاشرتی فلاح کے کاموں کی حیثیت ثانوی ہوگی۔ دین میںترجیحات کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور ان کا صحیح تعین کیے بغیر ہم دین پر صحیح طور پر عمل نہیں کرسکتے۔ فرضِ عین اور فرضِ کفایہ ہو یا فرائض وسنن و نوافل ہوں، ترجیحات کے بغیر ان پر عمل کرنا دین کا مقصود نہیں ہے۔
جہاں تک سوال ’دینی ضرورت‘ کے تحت ایک خاتون یا طالبہ کا ایک مرد طالب علم یا استاد سے بات کرنے کا ہے تو جب تک قرآن وسنت کے مقرر کردہ طریقِ خطاب و گفتگو کو اختیار کیا جائے گا، یہ عمل غیراخلاقی اور غیراسلامی نہیں ہوگا۔ جس حدیث کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ حدیث صحیح ہے لیکن کاش اسے آپ غورسے پڑھ لیتے تو اشکال نہ ہوتا۔ حدیث کا تعلق ’خلوت‘ سے ہے، یعنی تنہائی میں ملنا۔ جب ایک مرد اور عورت تنہا ہوں توتیسرا شیطان ہوتا ہے جو بہرصورت حرام ہے۔ لیکن اگر ایک کیمپس کے کسی بندکمرے میں نہیں بلکہ کھلے ماحول میں ایک ’ضرورت‘ کے تحت بات کی جارہی ہو تو اس کی اجازت تو قرآن کریم نے بھی دی ہے کہ جب اُمہات المومنینؓ سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب دیں لیکن ایسے انداز سے جس سے کسی کے دل میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو۔ یاد رکھیے دین نہ تو غلو اور شدت کا نام ہے اور نہ فکری بے راہ روی اور آزادی کا کہ ہر چیز کو حالاتِ زمانہ کی بنا پر مباح کردیا جائے۔
جہاں تک سوال کسی رکن جماعت کے صاحبزادے کا تعلیمی ادارہ چلانے کا ہے، چاہے وہ خود بھی رکن جماعت ہوں اور آپ خود اس ادارے میں طالب علم بھی ہوں تو آسان طریقہ یہ ہے کہ بجاے ترجمان القرآن میں اس مسئلے کو اٹھانے کے ان صاحبزادے سے خود مل کر اپنی راے ان تک پہنچایئے اور اپنی تشفی کرلیجیے۔ اصولاً جو بات آپ نے لکھی ہے اس سے نہ تو جماعت اسلامی کا اور نہ کسی کے رکن ہونے کا تعلق ہے۔ ایک غیررکن جماعت بھی اگر ایک ادارے کاسربراہ ہو اور وہاں پر نماز باجماعت کے مقررہ وقت کے دوران امتحان لیا جا رہا ہو تو یہ نامناسب اور غیراسلامی طرزِعمل ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہیے اور امتحان کے اوقات ایسے ہونے چاہییں کہ یا تو وہ نماز سے پہلے مکمل ہوجائے یا نماز کے بعد شروع ہو۔
اسی طرح اگر ایک رکن جماعت ایسی ایجنسی چلا رہے ہوں جس میں خواتین کو اشتہارات میں استعمال کیا جارہا ہو تو ان کا رکن ہونا اس عمل کو جائز نہیں بناسکتا۔ یہ ایک غلط طرزِعمل ہے اور انھیں اپنی پالیسی کی اصلاح کرنی چاہیے۔ تحریکِ اسلامی کی فکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ صرف وہ کاروبار کیے جائیں جو اخلاقی اور فقہی طور پر مباح ہوں۔ صرف وہ اشتہارات جن میں خدوخال واضح نہ ہوں اور جن میں فحاشی کا عنصر نہ پایا جائے طبع کیے جاسکتے ہیں لیکن جن اشتہارات میں خواتین کو بطور ایک حربہ کے استعمال کیا جائے انھیں اسلامی نقطۂ نظر سے جائز نہیں کہا جاسکتا۔
جماعت اسلامی کا دستور اور اس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس جماعت میں مستقل احتساب کا نظام موجود ہے اور نہ صرف ایک رکن بلکہ امیرجماعت ہو یا ارکانِ شوریٰ، ہر ایک کا احتساب کیا جاتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جو مصدقہ معلومات آپ کے پاس ہوں انھیں جماعت کے متعلقہ ذمہ دار تک تحریری طور پر پہنچائیں تاکہ وہ اس پر مناسب کارروائی کرسکیں۔ آپ کا کسی بھی مسلمان کے حوالے سے تحقیق کرنے سے قبل کوئی راے قائم کرلینا اور اسے غلطی کا مرتکب قرار دینا کچھ قبل از وقت نظر آتا ہے۔ اس لیے جومعلومات آپ کے پاس مصدقہ طور پر ہوں انھیں متعلقہ ذمہ دارکے علم میں ضرور لایئے تاکہ احتساب کیا جاسکے۔ اگر احتساب کے بعد کسی کام کی نوعیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اخراج ہی کرنا ہو، تو ایسا کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ روزمرہ کا معمول نہیں ہے۔ بہت مخصوص حالات میں ایسا کیا جاتا ہے۔ عموماً احتساب کے بعد غلطی کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: آج کل اکثر مساجد میں معذور افراد کے نماز پڑھنے کے لیے کرسیاں رکھی گئی ہیں جن کے آگے سجدہ کرنے کے لیے تختہ نصب ہوتا ہے۔ ایک روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بیمار شخص نماز پڑھ رہا تھا اور سجدہ کرنے کے لیے آگے ایک لکڑی رکھی ہوئی تھی۔ آپؐ نے وہ لکڑی ہٹا دی۔ اس شخص نے پھر لکڑی پکڑ کر آگے رکھ لی۔ اس پر آپؐ نے وہ لکڑی پھینک کر فرمایا کہ سجدہ صرف زمین پر ہوتا ہے۔ اگر زمین پر کرنے کی سکت نہ ہو تو پھر اشارہ کرے۔ اور یہ کہ قعود توقیام کا بدل ہوسکتا ہے کہ جب دورانِ نماز کھڑے ہونے کی سکت آجائے تو انسان کھڑا بھی ہوسکتا ہے، مگر سجدے کا کوئی بدل نہیں۔ سجدہ صرف زمین ہی پر کیا جاسکتا ہے۔
براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کردیجیے کہ آیا ان کرسیوں کے تختے پر سجدہ کرنے سے نماز مکمل ہوجاتی ہے، نیز اس واقعے کی صحت اور سیاق و سباق بھی بیان کردیجیے تو مناسب ہوگا۔
ج: آپ نے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہے جس کی رُو سے مساجد میں رکھی گئی کرسیاں اور ان کے سامنے بنے ہوئے تختے ناجائز ہوجائیں۔ واقعے کا تعلق اسی صورت سے ہے کہ ایک آدمی سجدہ کرنے کے بجاے یا جھکنے کے بجاے کوئی چیز اپنے سر کے برابر رکھ لیتا ہے کہ اس پر سر کو ملا دے بغیر اس کے کہ سر کو جھکائے۔ اگر کافی دیر تک بغیر سہارے کے اپنے آپ کو جھکائے رکھنے کے بجاے، سامنے تختے پر جس تک پہنچنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے، سر اور ہاتھ رکھ دیے جاتے ہیں، سر جھکایا جاتا ہے تو یہ صحیح ہے اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔
آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک مریض کی عیادت کے لیے گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ سجدے کے وقت ایک لکڑی اس کے لیے اٹھائی جاتی جس پر وہ سجدہ کرتا تو انھوں نے وہ لکڑی اس آدمی کے ہاتھ سے چھین لی اور اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ یہ چیز تمھیں شیطان نے پیش کی ہے۔ سجدے کے لیے اپنے سر سے اشارہ کرو۔ (حاشیۃ الرافعی، علی ردالمحتار، ج۲، ص ۶۸۵)
صاحب رد المحتار علامہ شامی نے فرمایا: ’’اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب چہرے کی طرف کوئی چیز اٹھائی جائے جس پر سجدہ کرے، بخلاف ایسی صورت کے، جب کوئی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہو تو اس پر سجدہ کرنا مکروہ نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً)
پس مسجدوں میں جو کرسیاں رکھی ہوئی ہیں اور ان کے سامنے میز نما تختے لگے ہوئے ہیں کہ ان پر اشارے کے ساتھ رکوع کرنے کے بعد سجدہ کرتے ہیں، جائز ہیں۔ ان میں رکوع میں گردن اور پیٹھ کو بھی جھکایا جاتا ہے اور اس کے بعد سر، گردن اور پیٹھ کو جھکاکر سجدہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی تردید احادیث سے ثابت نہیں بلکہ اس طریق کار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے ( ایضاً، ص ۶۸۶)۔ اس لیے آپ کسی قسم کا تردّد نہ کریں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
یہودی، عیسائی اور مسلمان، تینوں براہیمی مذاہب کے ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ، اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ اختلاف اس میں ہے کہ کون قربانی کے لیے پیش کیے گئے: اسماعیل یا اسحاق؟ بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کے ’واحد فرزند‘ اسحق تھے جنھیں سوختنی (جلائی جانے والی) قربانی کے طور پر پیش کیا گیا، جب کہ قرآن مجید واضح طور پر حضرت اسماعیل ؑکی قربانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (الصافات ۳۷: ۱۰۲، ۱۰۳)
مصنفین نے اس اختلافی مسئلے کے ضمن میں بڑی کاوش اور عرق ریزی سے تحقیق کی ہے اور نہ صرف عہدنامۂ قدیم و جدید، بلکہ عیسائی لٹریچر اور متعدد حوالہ جاتی کتب سے متعلقہ مواد اخذ و پیش کیا ہے اور قطعیت کے ساتھ ثابت کردیا ہے کہ ’ذبیح‘ فی الواقع حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے۔ بائبل کے بیانات میں زور اس بات پر ہے کہ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑنے اپنے ’واحد فرزند‘ کو قربانی کے لیے پیش کیا، جب کہ وہاں یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑکی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم ؑکی عمر ۸۶سال تھی اور حضرت اسحاقؑ کی پیدایش کے وقت وہ ۱۰۰سال کے تھے۔ گویا ۱۴ سال تک حضرت ابراہیم ؑ کے ’واحد فرزند‘ حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے اور پھر حضرت اسحاقؑ کی پیدایش کے بعد کسے ’واحد فرزند‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے؟
اس سب کے باوجود بائبل کی کہانی میں یہ بیان کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسحاقؑ کو قربانی کے لیے لے گئے، اور جب اکیلے واپس ہوئے تو اسحاقؑ کی والدہ سارہ صدمے سے انتقال کر گئیں، حیرت انگیز ہے۔
بہت سے یہودی اور عیسائی اور بدقسمتی سے بعض مسلمان بھی (الطبری) حضرت اسحاقؑ کو ذبیح قرار دے کر گویا حضرت اسماعیل ؑ کو حضرت ابراہیم ؑ کی حقیقی اولاد ہی تسلیم نہیں کرتے، کیوں کہ ان کے خیال میں والدۂ اسحاقؑ ، سارہ ہی حضرت ابراہیم ؑ کی حقیقی بیوی تھیں، اور والدۂ اسماعیل ؑ (حضرت ہاجرہ ـ ؑ) تو محض ایک کنیز تھیں، جن کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد حقیقتاً ’فرزند‘ نہیں کہی جاسکتی۔ اگرچہ حضرت ہاجرہ ؑکا محض کنیز ہونا بھی محلِّ نظر ہے، اور اس کے لیے کوئی قابلِ قبول شہادت نہیں کہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کی زوجۂ محترمہ نہ تھیں، لیکن اس سے قطع نظر خود انجیل بتاتی ہے کہ کنیز خاتون (slave woman) کا ولد بھی تمھارا بیٹا ہے، اور میں [اللہ] اس کی اولاد کو ایک عظیم قوم بنائوںگا‘‘ (پیدایش ۲۱:۱۳)۔ (ص ۳۶)
مصنفین نے عہدنامۂ قدیم اور عہدنامۂ جدید کی تاریخی حیثیت پر جو سیرحاصل گفتگو کی ہے اور ضمناً فلسطین کے تاریخی مقامات کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ ایک وسیع لوازمے کو ایک جگہ مرتب کردینے کی نہایت کامیاب کوشش ہے۔ یہ کتاب ہمارے عیسائی اور یہودی بھائیوں کو تحفے میں دینے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ اُردودان طبقے کے لیے بھی اگر اس کا ترجمہ کردیا جائے تو اچھا ہوگا۔ جاویداحمد غامدی نے ’پیش لفظ‘ میں اس کوشش کو اپنے ادارے کے لیے باعثِ فخر قرار دیا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
ڈاکٹر شیرمحمد زمان چشتی (ایس ایم زمان) عربی زبان و ادب کے بلندپایہ اسکالر ہیں۔ عمربھر درس وتدریس سے وابستہ رہے۔ متعدد جامعات کے شیخ الجامعہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ (۱۹۹۷ئ-۲۰۰۳ئ) کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ زیرنظر کتاب ان کے علمی مقالات، صدارتی خطبات اور کتب ِسیرت پر لکھے جانے والے مقدمات یا تعارفی و انتقادی مضامین پر مشتمل ہے، جنھیں محمدمیاں صدیقی نے نہایت محنت سے ترتیب دیا ہے۔ مرتب نے بعض مقامات پر اضافہ اور بعض جگہ پر نظرثانی کی ہے اور بعض حواشی کو زیادہ بامعنی بنانے کی کوشش بھی کی ہے، جس سے کتاب کا علمی معیار بلند تر ہوگیا ہے۔
کتاب میں کُل ۹ مقالات ہیں جنھیں موضوعات کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بعض عنوانات اس طرح ہیں: ’عزم و ثبات کا کوہِ گراں‘، ’محمدرسولؐ اللہ: نبی رحمت و عزیمت‘، ’اطاعتِ رسولؐ: فوزوفلاح کا ذریعہ‘ اور ’اسلامی فلاحی ریاست:اسوئہ حسنہ کی روشنی میں‘۔ خطباتِ رسولؐ (از محمدمیاں صدیقی) ثناے خواجہؐ (بریگیڈیر گلزاراحمد) کا مختصر مطالعہ اور عزیزملک کی کتاب تذکارنبیؐ کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخری حصے میں ’اُردو میں سیرت پر چندحالیہ تصانیف: محمدطفیل کی زیرادارت نقوش کے رسولؐ نمبر، محمد رفیق ڈوگر کی الامین اور ظفر علی قریشی کی ازواجِ مطہراتؓ اور مستشرقین پر ڈاکٹر صاحب نے تنقیدی نظر ڈالی ہے۔
یہ مضامین روایتی انداز میں نہیں لکھے گئے بلکہ ان میں عہدِحاضر کے بنیادی مسائل کا حل سیرت کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عہدِحاضر میں مغربی تہذیب کے زیراثر بعض ناپسندیدہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے دعوتی سرگرمیوں کو باقاعدگی دینے اور دعوتی عمل میں نبی کریمؐ کے ضبط و تحمل اور مستقل مزاجی سے ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کی طرف واضح اشارے دیے ہیں۔ مصنف نے واقعات کی تاریخی حیثیت سے زیادہ ان کے عملی اور سبق آموز پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔
ڈاکٹر خالدعلوی نے مصنف کی استنادی پختگی، زبان و بیان کی لطافت کے ساتھ ایمان اور ادبِ نبوت کی چاشنی، جاں نثارانِ مصطفی کی تصویر کشی اور راست فکری کو سراہا ہے (ص ۱۵)۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول: ڈاکٹر صاحب کا اسلوبِ بیان راست اور نقطۂ نظر دوٹوک اور ابہام سے پاک ہوتا ہے۔ وہ جابجا ایک ایک جملے میں ایک قولِ فیصل سموتے چلے جاتے ہیں، جو نظر کی وسعت، فکر کی گیرائی، عقیدے کی مضبوطی اور چشمِ بصیرت کو کھلا رکھنے کی طویل ریاضت کا ثمرہ ہے (ص۲۳)۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کے خیال میں ڈاکٹرصاحب نے سیرت شناسی میں ایک ایسا اسلوب وضع کیا ہے، جو ادبی جلال و جمال کی تمام تر دل فریبیوں اور شوکت کے باوجود حقائق آشنا رہتا ہے۔ (ص ۳۵)
ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے مصنف کے کوائف، اشاریے اور فنی تدوین کے ذریعے کتاب کے علمی وقار میں خاطرخواہ اضافہ کردیا ہے۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)
علامہ اقبال کے فرزند ِ ارجمند جسٹس (ر) جاویداقبال، ماہر قانون ہونے کے ساتھ ماہرِاقبالیات بھی ہیں اور اقبالیاتی ادب میں ان کی تصانیف خصوصاً اقبال کی سوانح عمری زندہ رود سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
زیرنظر کتاب ان کے مصاحبوں (انٹرویوز) کا مجموعہ ہے، جس میں ڈاکٹر اخترالنساء نے متنوع موضوعات پر اخبارات و رسائل میں مطبوعہ ڈاکٹر جاویداقبال صاحب کے ۱۹ مصاحبے جمع کردیے ہیں۔ انٹرویو لینے والوں میں متین فکری، ظفراعوان، طارق نیازی، ایس ایم ناز، محمدجاوید اقبال، رحمت علی رازی، تنویرظہور، صہیب مرغوب، سہیل وڑائچ، اسداللہ غالب اور ڈاکٹر راشد حمید شامل ہیں۔
ان مکالمات کا زمانہ کم و بیش ۴۰ برسوں پر پھیلا ہوا ہے اور سوال جواب میں خاصا تنوع ہے، مثلاً اقبال کا تصورِ پاکستان، نظریۂ جمہوریت،فاشزم، ایرانی انقلاب، اجتہاد، ڈاکٹر ٹامسن کی تضاد بیانی، اقبال اور مودودیؒ وغیرہ ___ اسی طرح علامہ اقبال کی شخصیت کے بعض پہلو اور خود جاویداقبال کے سوانح کی کچھ تفصیلات اور چودھری محمد حسین کی شخصیت وغیرہ۔ الغرض کتاب اپنے موضوعات کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر اخترالنساء نے اہم انٹرویو منتخب کرکے انھیں سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ دیباچے میں ڈاکٹر جاویداقبال کے مختصر سوانح، تصانیف کی فہرست اور کارناموں کا ذکر شامل ہے۔ کتاب کی دو ایک کمزوریوں کی طرف توجہ مبذول کرانا نامناسب نہ ہوگا۔ فہرست میں ’پیش لفظ‘ نگار (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) اور دیباچہ نگار (خود مؤلفہ) کا نام نہیں ہے۔ فہرست میں مصاحبوں کی تاریخیں اور انٹرویو لینے والے کا نام بھی دینا چاہیے تھا۔ بعض الفاظ کا املا دوقسم کا نظر آتا ہے۔ ص ۹۱،۹۲ کی جڑائی غلط ہے اور پروف کی کچھ اغلاط بھی رہ گئی ہیں وغیرہ، مگر ان کوتاہیوں کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہ کتاب سیاسیات، پاکستان، تاریخ اور اقبالیات کے طلبہ ہی نہیں، عام قارئین کے لیے بھی نہایت مفید اور دل چسپ ہے۔ (قاسم محمود احمد)
سفربالعموم خانگی، معاشی و تجارتی، سیاسی اورسماجی ضرورتوں کے لیے ہوتا ہے یا سیروتفریح اور ثقافتی دل چسپیوں کے لیے۔ لیکن سفر کی ایک قسم اور بڑی اہم قسم وہ بھی ہے جسے علمی، ادبی اور دعوتی مقاصد کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔ وہ سفرنامے جو اس نوعیت کے اسفار کے تجربات اور احساسات پر مبنی ہوں غیرمعمولی افادیت رکھتے ہیں۔ ایسے سفرنامے دنیا کے مختلف ممالک، اقوام اور ثقافت و تمدن کے حالات و ظروف کا مرقع اور بڑے قیمتی انسانی تجربات کا گلدستہ بن جاتے ہیں اور ایک طرح دوسروں کی تعلیم کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ میں اس نوعیت کے سفرنامے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور ڈاکٹر صہیب حسن نے مشرق و مغرب کے ۱۰،۱۲ممالک میں اپنے دعوتی اور ملّی اسفار کے احوال و تجربات میں دوسروں کو شریک کرکے بڑی مفید خدمت انجام دی ہے۔ بیت المقدس، بوسنیا، قاہرہ، فیجی، ناروے، بحرین اور سعودی عرب کے اسفار کا تذکرہ تاریخی معلومات، اسلامی تنظیموں اور شخصیات کی سرگرمیوں، اور بڑے سبق آموز انسانی تجربات سے پُر ہے۔ تحریر شگفتہ اور تبصرے معلومات آفریں اور دینی حمیت کے مظہر ہیں۔ آج کے دور میں مسلمان جن مسائل اورمشکلات سے دو چار ہیں اور اچھی اسلامی زندگی کے فروغ کے جو امکانات ہیں، زیرنظر پُراز معلومات سفرنامے میں ان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ذاتی تعلقات اور تجربات کی اس داستان کو دل چسپ اور سبق آموز رہنا چاہیے۔ امریکا میں امیگریشن کے عملے کے ہاتھوں ایک معروف عالمِ دین اور معزز شخصیت پر جو گزری، وہ مہذب دنیا کے دہرے معیارات اور گہرے تعصبات کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن جس شرافت اور عزیمت سے ڈاکٹر صہیب حسن نے اس آزمایش کو بھگتا، وہ ان کی بصیرت اور بُردباری کا آئینہ ہے۔
ڈاکٹر صہیب حسن جس جس جگہ گئے ہیںاس سفرنامے میں ان مقامات کے بارے میں اتنی معلومات محفوظ کردی ہیں کہ اس سفرنامے کا جو قاری بھی اُن دیارو امصار میں جائے گا وہ اپنے کو وہاں اجنبی محسوس نہیں کرے گا۔
اس سفرنامے پر پروفیسر عبدالجبار شاکر نے حرفِ اول کا اضافہ کیا ہے جو اس پہلو سے بڑی مفید تحریر ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے سفرناموں کی بڑی دل چسپ داستان آگئی ہے اور اس پس منظر میں ڈاکٹر صہیب حسن کا سفرنامہ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک تازہ کڑی معلوم ہوتا ہے۔ ابن بطوطہ ہوا کرے کوئی اُردو کے سفری ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے، خاص طور پر مسلمانوں کی نئی نسلوں کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جس کے توسط سے وہ گھر بیٹھے مشرق و مغرب کے دسیوں ممالک کی سیر کرسکتے ہیں اور صرف سیر ہی نہیں، دوسروں کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں۔( مسلم سجاد)
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ احیاے اسلام کی تحریکوں نے اپنے دور اور اپنے معاشرے کے بہترین افراد کو اپنی طرف کھینچا اور وہ انھیں دنیا کے سامنے مثالی انسانوں اور کارکنوں کی حیثیت سے پیش کیا۔ تمام اسلامی تحریکوں میں آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جنھیں مثالی کہا جاسکتا ہے۔ خان محمد باقر خان (۱۹۱۶ئ-۲۰ جنوری ۱۹۶۳ئ) ایک نڈر، دبنگ، مستعد، باذوق شخص تھے جنھوں نے ایک شیعہ خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ اوائلِ عمر میں کچھ عرصہ خاکسار تحریک اور مجلسِ احرار سے بھی وابستہ رہے۔ بعدازاں ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر مسلکِ حنفی اختیار کیا اور جماعت اسلامی سے تعلقِ خاطر دیگر تمام وابستگیوں سے فائق اور بالاتر ثابت ہوا حتیٰ کہ انھوں نے اچھی خاصی سرکاری ملازمت بھی چھوڑ دی۔
زیرنظر کتاب میں ان کے دوستوں، احباب اور بیٹے بیٹیوں کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب ۴۸سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے جانے والے ایک خوش لباس، خوش گفتار، خوش اطوار انسان کی دل نواز شخصیت کی بعض جھلکیاں پیش کرتی ہے۔
مضمون نگاروں میں ماہرالقادری، سیداقبال شاہ، احسان زبیری، سیداسعد گیلانی، محمد افضل بدر، ڈاکٹر کرامت علی، میاں نصیراحمد، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق، ڈاکٹر راشدہ تبسم، ڈاکٹر ریاض باقر، اعزاز باقر، اعجاز باقر اور مرحوم کی اہلیہ محترمہ شامل ہیں۔ سیداسعد گیلانی کا مضمون خاصا مفصل ہے اور اس میں باقرخان مرحوم کی اس ڈائری کے کچھ اوراق بھی شامل ہیں جو انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک وفد کے رکن کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران میں لکھی تھی۔ اس کے بعض حصے چشم کشا ہیں، مثلاً لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا کہ یہاں پنجابی افسروں نے اپنے حاکمانہ رعب سے بنگالیوں میں کافی برہمی پیدا کی ہوئی ہے اور پنجابی افسروں کے خلاف یہاں شدید نفرت کا جذبہ پایا جاتا ہے‘‘ (ص ۴۶)۔ مہاجر اور مقامی میں بہت نفرت ہے اور اس نفرت کی خلیج روز بروز وسیع ہورہی ہے (ص ۵۰) وغیرہ۔
چودھری علی احمد خان کے بعد تحریکِ اسلامی میں وہ دوسرے آدمی تھے جو ہرقسم کے چیلنجوں کا جواب دینے اور تحریک کے مہماتی کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا سلیقہ اور ذوق رکھتے تھے۔ بقول سید اسعد گیلانی: مرحوم کے خیال میں وہ تحریک اسلامی کا ایسا بیش قیمت اثاثہ تھے جن کی زندگی کا مطالعہ تحریکِ اسلامی کے وابستگان کے لیے آج بھی دلیلِ راہ بن سکتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
نئی نسل بالخصوص اسکول کے طلبہ کو یہ آگہی دینا کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی صدیوں کی جدوجہد اور عالمِ اسلام کی بیداری کا عنوان ہے، سببِ تالیف ہے۔ ابتدا میں ۱۰۶ تصاویر کی روشنی میں محمد بن قاسم سے لے کر قائداعظم کے جنازے تک مختصراً انگریزی اور اُردو میں تحریکِ پاکستان کی جدوجہد اور مراحل کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک باب میں مختلف مسلم ادوار میں ترقی، غیرمسلموں سے مسلمانوں کا سلوک اور مسلم حکمرانوں کے قابلِ تحسین کردار کا تذکرہ ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد مسلمانوں پر ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم، خوں ریزی اور مسلمان عورتوں کی بے حُرمتی کی پُرآشوب داستان مختصراً پیش کی گئی ہے کہ نئی نسل کو پاکستان کی صحیح معنوں میں قدر ہوسکے۔ ۲۲کالم نگاروں کے منتخب کالموں کے ذریعے پاکستان کو درپیش مسائل کا تذکرہ ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کی شخصیت، افکار اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ قائداعظم کی شخصیت اور نظریۂ پاکستان کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کی نجات اور ترقی صرف اللہ تعالیٰ کی اتباع اور اسلام پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ مختلف ضمیموں میں منتخب حمدیہ و نعتیہ کلام، حضوؐر کی حیاتِ طیبہ ایک نظر میں، مقاماتِ مقدسہ کی تصاویر، علامہ اقبال کی سیاسی جدوجہد کی مختلف تصاویر، اور آخر میں تعلیم کا مقصد، تربیت کے رہنما اصول اور امتحانات میں کامیابی کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ گویا سمندر کو کوزے میں سمونے کی کوشش ہے۔ اس کتاب کو تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں لازماً ہونا چاہیے۔ (امجد عباسی)
’رسموں کی بیڑیاں‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) کے عنوان سے مولانا مودودیؒ کی تحریر تقریبات میں اِسراف، معاشرت میں تعیش پسندی، رسوم کے بندھنوں سے گلوخلاصی اور جرأت سے سادہ زندگی اپنا کر معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے ہماری رہنمائی کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ اس تحریر میں معاشرتِ اسلامی کی روح سے منافی رسموں کو فی زمانہ صرف تحریک سے غیروابستہ عام تعلق داروں کے حق میں احتجاج کے ساتھ کرہاً قبول کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، جب کہ تحریک سے وابستہ افراد سے تو یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پیٹھوں پر لدے ہوئے رواجوں کے بوجھ کو پٹخ دینے میں پہل کریں، اور اس کام کو تحریک سے وابستہ افراد کا فرض گردانا گیا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ آج کل نہ صرف تحریک سے وابستہ عام صاحب ِ ثروت افراد بلکہ بعض رہنمایانِ تحریک بھی اسی رنگ ڈھنگ میں اپنی تقریبات رچاتے ہیں، جسے دوسروں کے حق میں بالکراہت قبول کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔ نہ صرف تقریبات بلکہ ذاتی زندگی کے دوسرے مظاہر بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں، اور ہم معاشرے کی اصلاح کی خاطر نکّو بن کر رہنے کی ہدایت کے برعکس خود معاشرے میں اپنی ناک اُونچی رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔
’زرداری صدارت ___ چیلنج اور توقعات‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) زرداری کی ’شخصیت‘ کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اب زرداری صاحب کو چاہیے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے اور کرپشن کی تلافی کے لیے اپنے ہی مقروض ملک پاکستان پر رحم کھاتے ہوئے ۶۰ملین ڈالر قومی خزانے میں واپس جمع کروا دیں تاکہ کچھ نہ کچھ کفارہ ادا ہوسکے۔
اس موقع پر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے اے پی ڈیم ایم کے موقف کے مضمرات و اثرات کا جائزہ لینا بھی مفید تھا۔ سیاسی بصیرت اور خود احتسابی کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں کا تنقیدی نظر سے جائزہ بھی لینا چاہیے کیونکہ یہ اہم پارٹیاں اب کافی حد تک پارلیمانی سیاست سے باہر ہیں۔ شفاف انتخابات کی وجہ سے ہی زرداری صاحب قوم پر مسلّط ہوگئے ہیں، جب کہ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کوسوں دُور ہے۔ ملک و قوم مہنگائی اور دہشت گردی کے خوفناک بحران میں مبتلا ہیں جس سے نکلنے کی اہلیت و صلاحیت موجودہ حکمرانوں میں نظر نہیں آتی۔
’حاجی صاحب تُرنگ زئی‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) کا لازوال کردار غلبۂ دین اور سامراجی عزائم کے خلاف جدوجہد کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آج بھی قبائلی علاقوں کے لوگ اسی عزم اور ولولے سے امریکی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ امریکا کو عراق اور افغانستان کے بعد ایک نیا محاذ کھولنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، بالآخر اسے پسپائی پر مجبور ہونا ہوگا۔
’زرداری صدارت ___ چیلنج اور توقعات‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور جو تجاویز پیش کی گئی ہیں، وہ صدر صاحب کے لیے بھی خوش آیند ہیں اور اہلِ پاکستان کے لیے بھی حوصلہ افزا ہیں۔ اگر صدرصاحب اور موجودہ حکومت خلوصِ دل سے ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے تو اس کا انجام بہتر ہوگا۔ انحراف کے نتیجے میں فوجی آمریت سے نجات اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کا عوام کا بنیادی مطالبہ جو کہ خود عوامی حکومت کا دعویٰ بھی ہے شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے گا اور مایوسی کا باعث ہوگا۔
محترمہ عائشہ احمد نے ’او لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) پر گرفت کی ہے (اکتوبر ۲۰۰۸ئ)۔ میرے نزدیک مضمون نگار نے نہ توکسی انتہاپسندی کا مظاہرہ کیاہے اور نہ بہت شدید ردعمل دکھایاہے بلکہ نپے تُلے اور شائستہ انداز سے ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اولیول کے بچوں کو خلافت، امامت، دورِصحابہ اور خصوصاً تدوینِحدیث کے اختلافات بتانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی، جب کہ موصوفہ اس کا اوقاتِ سحروافطار سے موازنہ کر رہی ہیں۔ یہ حسّاس موضوعات شاید علما کو بھی کسی تخصیص کے مرحلے میں پڑھائے جاتے ہوں جو یہاں ۱۵سال کے ناپختہ ذہن کے بچے کو پڑھائے جارہے ہیں___ چہ معنی دارد؟ لکھا گیا ہے کہ اس نظام کے تحت طالب علموں کی نشوونما بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے تو یہ اُن کی ذاتی راے ہوسکتی ہے، جو میری راے میں بڑی حد تک مرعوب ذہنی کیفیت کی آئینہ دار ہے۔
کچھ مفتیوں نے فتویٰ دیا ہے کہ خودکشی اور خودکُش حملے حرام اور ناجائز ہیں۔ کیا ہی اچھا اور حق گوئی کا کمال ہوتا کہ یہ مفتیانِ کرام افواجِ پاکستان اور حکمرانوں پر بھی فتوے لگاتے کہ ان کی کیا پوزیشن ہے جو امریکا اور اس کی دولت و خشیت کے لیے طالبان کشی میں مصروف ہیں اور کافروں کے لیے مسلمانوں کا خون بہانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ مسلمان ہیں؟ فتویٰ لگائیں اور یہ بھی بتائیں کہ وہ لوگ کیوں کر بے گناہ ٹھیرے جنھوں نے امریکی پٹھوؤں کو ووٹ دیے جو طالبان سے یوں جنگ کر رہے ہیں جیسے دشمنوں کے خلاف لڑا جاتا ہے؟ کیا طالبان ہتھیار ڈال کر امریکی قبضہ مان لیں اور ملک و قوم ان کے حوالے کردیں اور انگریزوں والا بے حیائی کا کلچر قبول کرلیں!
آپ کے جو دوست یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر جماعت اسلامی ہی صحیح راستہ پر ہے تو مجھے اسی کے مطابق چلاوے۔ ان سے کہیے کہ کسی معاملے میں حق معلوم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی شریعت کے اصولوں کے سامنے رکھ کر ان پر پوری طرح غور کرے، اگر غور کرنے سے اس کا دل کسی ایک طرف مطمئن اور یک سو ہوجائے تو اس طریق کو اختیار کرلے اور اگر تردد باقی رہے تو شرح صدر کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور تلاش و تحقیق میں پوری سرگرمی سے مصروف بھی رہے۔ مجرد دعا پر بھروسہ کرلینا اور اپنے فکروعقل سے کام نہ لینا صحیح شرعی طریق نہیں ہے۔ یہ کوئی معقول حرکت نہیں ہے کہ تحقیق حق کے لیے اللہ تعالیٰ نے علم و عقل اور قوتِ استدلال کے جو ذرائع بخشے ہیں اور اپنی آیاتِ ہدایت اور اسوۂ انبیا کی جو نعمتیں عنایت فرمائی ہیں، ان سب سے قطع نظر کرکے آدمی محض اللہ سے ہدایت و راستی کی آرزو کرکے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہے۔ جس شخص نے خدا کے دیے ہوئے چراغ کو گُل رکھا اور روشنی کی دعا کی، یا خدا کی دی ہوئی آنکھ موندے رکھی اور راستہ دیکھنے کی التجا کرتارہا، اس نے اللہ کی بخششوں کا کفران کیا۔ اسے کب حق پہنچتا ہے کہ اللہ اس پر مزید بخششیں فرمائے۔
ایسا رویہ دین سے بے پروائی اور عدم دل چسپی کی دلیل ہے اور اس میں کسی سنجیدگی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ خود یہ حضرات دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں فکروعقل کو معطل کر کے محض دعا پر بھروسا نہیں کرسکتے لیکن اسے فریبِ نفس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ دین جیسے نازک معاملے میں عقل کی آنکھیں بند کرکے محض اندھی دعائوں سے مقصد حاصل کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔ وہ حق جس پر پوری زندگی کی درستی اور نادرستی اور آخرت کے ابدی راحت و الم کا دارومدار ہے، اس کی تلاش میں، چراغ گل کرکے، آنکھیں موند کر، کان بند کرکے، ذہن کے دروازوں پر قفل لگاکر آدمی نکلے اور مجرد دعا کی لاٹھی سے راستہ ٹٹولنا چاہے، حددرجہ مضحکہ انگیز حرکت ہے۔عقل و فکر اور چشم و گوش کا اولین فطری مصرف یہی ہے کہ ان کی مدد سے حق کو اور دین کی سیدھی راہ کو پہچانا جائے، اور اگر یہ اعلیٰ درجے کے قویٰ اسی پاکیزہ مصرف پر صرف نہ ہوئے تو پھر کیا ان کو نظامِ کفر کی پہچان اور اس کی اطاعت کے لیے صرف ہونا ہے؟ سوچتی ہوئی عقل اور کھلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ طلب ِ ہدایت کی دعا کیجیے تو وہ ان شاء اللہ نشانہ پر بیٹھے گی۔ (’رسائل و مسائل‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، ج ۲۹، عدد ۶،ذی الحجہ ۱۳۶۵ھ، نومبر ۱۹۴۶ئ، ص۶۳)