بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہماری نظر میں جناب آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے لیے بوجوہ مناسب امیدوار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے جناب سعیدالزماں صدیقی صاحب کو اپنے ووٹوں کا حق دار سمجھا۔ لیکن جب انتخابی ادارے کی اکثریت نے زرداری صاحب کو صدر منتخب کرلیا تو ہم نے کھلے دل سے اس نتیجے کو قبول کیا اور ان کو کامیابی پر روایتی مبارک باد دی۔ ہم نے کہا کہ اگر وہ دستور اور قانون کے مطابق اور ان معاہدوں اور وعدوں کے مطابق کام کرتے ہیں جو انھوں نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم کے ساتھ کیے ہیں، خاص طور پر ناجائز طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی اور دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ کتوبر۱۹۹۹ء کو تھی اور جس کا عہدوپیمان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت (مئی ۲۰۰۶ئ) میں کیا ہے، توہم ان کی غیرمشروط معاونت کریں گے اور ہمارے خیرخواہانہ جذبات ان کے لیے ہوں گے۔
جنرل مشرف کے استعفے اور زرداری صاحب کے حلفِ صدارت کے بعد پارلیمنٹ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے مطابق مکمل ہوگئی اور ملک نے آمریت سے جمہوریت اور شخصی اقتدار سے دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ اب نئی حکومت خاص طور پر پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت، اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا امتحان ہے کہ وہ ۹سالہ آمرانہ دور کے طورطریقوں، روایات اور طریق حکمرانی سے کتنی جلد قوم کو نجات دلاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق ایک حقیقی اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی جمہوریت کے قیام کی طرف کس تیزی سے پیش رفت کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اسی میں ان کا اصل امتحان ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ملک کو درپیش چیلنجوں کو دو اور دو چار کی طرح پیش کردیں دوٹوک انداز میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے بھی رکھ دیں کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل ذمہ داری اور امتحان پیپلزپارٹی کا ہے جسے مرکز اور تین صوبوں میں مکمل اقتدار حاصل ہے، جس نے اپنے اصرار پر صدر، وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صوبوں کے گورنر اور دو صوبوں میں اپنی مرضی کے وزراے اعلیٰ منتخب کرائے ہیں اور اپنی پارلیمانی حیثیت سے بڑھ کر ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ مخلوط حکومت صرف ایک عنوان ہے، اصل اختیار اور اصل امتحان پیپلزپارٹی کا ہے اور شریکِ اقتدار جماعتوں نے بھی پیپلزپارٹی ہی کو فیصلہ کن کردار سونپا ہے۔
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تین باتیں سامنے آتی ہیں جن کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
اوّل: عوام نے پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کیا جس کا منطقی تقاضا تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے فی الفور فارغ کیا جائے اور اس پوری قیادت اور ٹیم سے نجات حاصل کی جائے جو ان کے دور میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھی۔ ان انتخابات میں عوام نے مستقبل میں فوج کے سیاسی کردار کو بھی دوٹوک انداز میں طے کردیا اور بظاہر فوج کی نئی قیادت نے بھی عوام کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سول نظام کے تحت کام کرنے اور سیاسی عزائم کا راستہ ترک کرنے کا اعلان کر کے عوام کے اس مینڈیٹ کو قبول کرلیا۔
دوم: عوام نے صرف پرویز مشرف ہی کو مسترد نہیں کیا بلکہ ان کی پالیسیوں کو بھی رد کیا اور اس انتخاب میں دیے گئے عوامی مینڈیٹ کا، جس کی تائید اس دور کے راے عامہ کے تمام سروے بھی کرتے ہیں، واضح تقاضا یہ ہے کہ قوم آمریت کی جگہ جمہوریت، شخصی اقتدار کی جگہ دستور اور قانون کی حکمرانی، خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باب میں امریکا کی کاسہ لیسی ترک کر کے آزاد اور پاکستانی مفادات پر مبنی پالیسی اختیار کرے۔ اسی طرح کشمیر کے سلسلے میں، ملک کی نظریاتی شناخت اور کردار کے باب میں، اور معاشی اور مالیاتی میدانوں میں مشرف کی پالیسیوں کی جگہ ہم نئی پالیسیوں کے خواہش مند ہیں جو عوام کی خواہشات اور حقیقی ضروریات کے مطابق اور ملک و قوم کے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنیں۔ انتخاب کا پیغام پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی اور بنیادی تبدیلی کا تھا اور ہے۔
سوم: ان انتخابی نتائج کا یہ پہلو بہت واضح ہے کہ عوام نے کسی ایک پارٹی کو حکمرانی کا مکمل اختیار نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ضرور سامنے آئی مگر اسے ۳۰فی صد ووٹ اور اسمبلی میں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے بجاے حقیقی شرکتِ اقتدار کا راستہ اختیار کرے اور اولین توجہ ان مشترک مقاصد اور اہداف کو دے جو تمام جماعتوں اور خصوصیت سے دو بڑی جماعتوں کے منشور اور عوامی وعدوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
۱- دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھی، جس کا مرکزی نکتہ پارلیمانی نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور وزیراعظم اور کابینہ کو ان اختیارات کی منتقلی ہے جو آمرانہ دور میں صدر نے حاصل کرلیے تھے بشمول ۵۸ (۲) بی کی تنسیخ اور سربراہانِ فوج اور گورنروں کے تقرر کے اختیارات۔
۲- عدلیہ کی مکمل آزادی اور ججوں کی تقرری اور معزولی کا ایسا نظام جو شفاف ہو۔
۳- دستور کے فریم ورک میں ایک دوسرے کے لیے ’جیو اور جینے دو‘ کے اصول پر حکمرانی کے اصول و آداب کا احترم اور کسی فوجی آمر کا ساتھ نہ دینے کا عہد۔
۴- انتقام کی سیاست کا خاتمہ اور احتساب کے ایک ایسے نظام کا قیام جو بے لاگ ہو، قابلِ اعتماد ہو اور شفاف ہو۔
۵- آزاد الیکشن کمیشن کا قیام۔
۶- وزیراعظم اور وزراے اعلیٰ پر دو مدت کی تحدید کا خاتمہ۔
۷- کارگل کے سانحے کی آزاد کمیشن سے تحقیق۔
۸- قومی سلامتی کونسل کا خاتمہ اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا احیا۔
۱- ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیردستوری اور ہراعتبار سے ناجائز اقدام کی مذمت اور اس کے تحت نئے ہونے والے اقدامات کی تنسیخ___ خصوصیت سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے معزول ججوں کی ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میںبحالی۔
۲- ملک کو جس معاشی اور توانائی کے بحران میں مبتلاکردیا گیا ہے اس سے نجات کی مؤثر کوشش اور عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام۔
۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ اور پرویز مشرف کے کردار نے جو تباہ کن صورت حال پیدا کردی ہے، اس سے نجات کی منصوبہ بندی اور پاکستان کے مفادات کی روشنی میں قوت کے استعمال کی جگہ افہام و تفہیم سے سیاسی حل کی کوشش۔
۴- بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں آپریشن جاری ہیں۔ ان کا حاصل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کو فی الفور بند کر کے سیاسی مسائل کا سیاسی حل اور صوبوں کی محرومیوں کے ازالے کی قرارواقعی کوشش اور اس کے لیے متفقہ لائحۂ عمل کی تشکیل اور اس پر عمل کا نظامِ کار۔
۵- کشمیر کے مسئلے پر پرویز مشرف نے جو قلابازیاں کھائی ہیں اور پاکستان کے متفقہ قومی موقف کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت سے یک جہتی۔
یہ وہ ۵ ایشوز ہیں جن کے حل کی طرف پیش رفت کی کسوٹی پر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو جانچا اور پرکھا جائے گا۔ یہی اصل چیلنج کے مختلف پہلو ہیں اور قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ زبانی جمع خرچ، پروپیگنڈے اور نعرہ بازی کا راستہ ترک کر کے قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے گا اور ان تمام امور کی طرف حقیقی پیش رفت پر ساری توجہ مرکوز کی جائے گی۔
۱- جن بنیادوں پر مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی ان کے بارے میں قول اور عمل کا تضاد اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ مخلوط حکومت کا چلنا پہلے دن سے مشتبہ تھا اور بالآخر یہی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کو ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکومت سے الگ ہونا پڑا۔
۲- وعدوں اور سیاسی عہدوپیمان کے بارے میں زرداری کا سہل انگاری کا رویہ اور یہ دعویٰ کہ سیاست میں کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور جب چاہیں ان سے نکلا جاسکتا ہے، ایک اخلاقی جرم ہے۔ اس نے پوری سیاست ہی کو غیرمعتبر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں تمام تعلقات بے اعتبار ہو جاتے ہیں۔
۳- ان ۶ مہینوں میں حکومت اور خاص طور سے زرداری صاحب کی سوچ ’تبدیلی‘ سے زیادہ ’تسلسل‘ کی روش کا پتا دیتی ہے۔ یہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ سے بے وفائی کا راستہ ہے۔ ججوں کے معاملے کو جس طرح اس حکومت نے الجھایا ہے اس نے عدالت کو نظروں میں بے وقار کردیا ہے۔ مشرف نے عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ اس سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ اس نے باہر سے حملہ کرکے عدلیہ کے ادارے کو تباہ کیا اور زرداری صاحب کے نمایندۂ خاص وزیرقانون نے اندر سے سرنگ لگاکر رہی سہی کسر پوری کردی۔
۴- معاشی صورت حال بلاشبہہ ورثے میں ملی تھی اور توانائی کا بحران بھی۔ لیکن ان ۶ ماہ میں حکومت کسی مؤثر اور بنیادی پالیسی کو لانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ پالیسی پر اس کی گرفت نہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اسی ’تسلسل‘ کا نتیجہ ہے کہ عوام کی مشکلات اور خصوصیت سے زراعت اور صنعت، دونوں اہم شعبوں میں مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔
۵- ان ۶ ماہ میں بلوچستان، وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں فوجی آپریشن جاری ہیں بلکہ ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا اور بھی بے باک ہوکر ہماری سرحدوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور شرپسندوں کے نام پر عام شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک مشرف کے دور میں امریکا نے ۳۴ بار ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کی تو ان ۶ مہینوں میں ۲۳ بار امریکا نے حملے کیے اور ۳ستمبر ۲۰۰۸ء کا حملہ تو برملا اعلان جنگ کے مترادف تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سرحد پر اپنی فوجیں اتاریں اور عورتوں اور بچوں سمیت وہ درجنوں معصوم انسانوں کو شہید کرکے پورے طمطراق سے واپس چلے گئے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ سب صدربش کے واضح احکامات اور direct action in Pakistan territory(پاکستانی علاقے میں راست اقدام) کی پالیسی کے مطابق ہوا۔ ستم یہ ہے کہ جس دن ایڈمرل مولن اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ پاکستانی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا، اسی وقت احترام کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ہیلی کاپٹروں اور بغیرپائلٹ کے جہاز، ڈرون (drone) سے حملہ تھاجس میں ایک ہی ہلے میں ۷معصوم انسان شہید ہوگئے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زرداری صاحب نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور وزیراعظم صاحب اور خود زرداری صاحب کے چند دن پہلے کے اس اعلان کے بعد سنبھالی ہے کہ آیندہ صدر غیر جانب دار فرد ہوگا جو وفاق کی علامت ہوگا۔
بہرحال اب ہم ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ فی الحقیقت اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے نکالنے میں مخلص ہیں تو درج ذیل اقدام اور اعلانات کا اہتمام کریں تاکہ اُمید کے لیے بنیاد فراہم ہو۔
۱- سب سے پہلے اس امر کا اعلان کریں کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور خصوصیت سے سیاست اور ریاست کے تمام امور میں عہدوپیمان کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ زندگی کا کاروبار اس اعتماد ہی پر چل سکتا ہے کہ قول و قرار کا پاس کیا جائے اور ہرعہد کو پورا کیا جائے۔
۲- زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کی باتیں تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن ان کے اولین کارناموں میں اتحادی حکومت کے ایک بڑے فریق سے بدعہدی اور نتیجتاً اس کی حکومت سے علیحدگی ہے۔ اب پنجاب میں متعین جیالے گورنر کی قیادت میں جو سیاسی دنگل مرتب کیا جا رہا ہے وہ ’جیو اور جینے دو‘ والی سیاست کودفن کر دے گا۔ اس سے یقینا تصادم کی سیاست پروان چڑھے گی جو ملک کے لیے اور خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس سے احتراز کیا جائے اور دستور اور قانون کے دائرے میں خود بھی رہا جائے اور دوسروں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔
۳- زرداری صاحب کو پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی اور انتظامی امور سے لاتعلق ہوکر صدارت کے عہدے کو پارٹی سیاست میں ملوث ہونے سے بچانا چاہیے۔ اس کے لیے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا ضروری ہے۔
۴- زرداری صاحب نے جو ذمہ داری سنبھالی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ اپنی ذات سے متعلق دو امور کے بارے میں وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ہم ذاتی امور کے احترام اور نجی اور شخصی معاملات کے حق کے قائل ہیں لیکن جب کوئی شخص پبلک ذمہ داری قبول کرتا ہے تو پھر ذاتی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی حساب داری بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت کے لیے کسی بدنامِ زمانہ این آر او کا سہارا نہ لیں بلکہ کھل کر شفاف انداز میں قوم کو اعتماد میں لیں اور میثاقِ جمہوریت میں طے کردہ اصولوں پر مبنی کوئی نظام قائم کر کے ان شکوک و شبہات کو دُور کریں جو ملک اور ملک کے باہر موجود ہیں۔
پہلی بات کا تعلق ان میڈیکل رپورٹوں سے ہے جو بار بار وہ عدالت میں حاضر نہ ہونے کے سبب کے طور پر اپنی ذمہ داری پر اپنے وکیلوں کے ذریعے بھجواتے رہے ہیں اور جو اَب انگلستان کے اخبار Financial Times میں شائع ہونے کے بعد پبلک پراپرٹی بن چکی ہیں۔ دو ہی امکانات ہیں۔اگر یہ رپورٹیں صحیح ہیں تو دستور کی واضح دفعات کی روشنی میں قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب وہ ان عوارض سے نجات پاچکے ہیں جو ان رپورٹوں کی ترسیل کے زمانے میں ان کو لاحق تھے اور جو ایک شخص کو کسی بھی کلیدی مقام کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں۔ اور اگر یہ رپورٹیں درست نہیں تھیں اور محض عدالت میں حاضری سے بچنے کے لیے دی گئیں تو یہ عدالت کے سامنے غلط بیانی اور دروغ حلفی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جو سیاست اور قانون دونوں کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا کے دستور کے تحت تو صدرمملکت کی معزولی صرف دروغ حلفی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ محض ایک صحافتی افشاے راز کا نہیں، اس کے بڑے اہم دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی مضمرات ہیں اور زرداری صاحب کو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ ان پر مالی کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے غلط استعمال کا ہے۔ بلاشبہہ کسی عدالت میں الزامات ثابت نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الزامات بظاہر بالکل بے بنیاد نہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے پرازی کیوشن جج نے خود کہا ہے کہ الزامات میں بہت کچھ موجود ہے اور کیس کے واپس لیے جانے سے اسے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ پر جو تفصیلات موجود ہیں، ان کے عام ہوجانے کے بعد ضروری ہے کہ متعلقہ افراد اپنی پاک دامنی ثابت کریں۔ اس لیے بھی کہ مسل پر یہ تمام معلومات موجود ہیں کہ کتنی بار التوا کی درخواستیں زرداری صاحب اور ان کے وکلا کی طرف سے آئی ہیں اور عدالتی عمل کو مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
دو چیزیں ایسی ہیں جن کا جواب ضروری ہے___ سویزبنک میں ۶۰ ملین ڈالر کی رقم جس کو اب پاکستانی حکومت نے واگزار کرا دیا ہے اور جس کے فائدہ اٹھانے والے (beneficiary) زرداری صاحب ہیں، وہ کہاں سے آئی۔ یہ رقم تو ایک حقیقت ہے۔ زرداری صاحب نے اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بنتے وقت اپنے جن اثاثوں کا اعلان کیا تھا ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انھیں قوم کو بتانا چاہیے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس طرح اس پر ان کا حق ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ انگلستان کے سرے محل کا ہے۔ اس کے بارے میں زرداری صاحب نے پبلک اعلان کیا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ نے اسمبلی کے اندر اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی برأت کا اعلان کیا تھا۔ اب زرداری صاحب اسی سرے محل کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگر ان کا اب کا دعویٰ صحیح ہے تو جو اعلان انھوں نے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ نے اسمبلی اور سینیٹ میں کھلم کھلا کیا تھا اس کی حقیقت کیا ہے؟
لیکن معاملہ ماضی سے زیادہ مستقبل کا ہے۔ صدارت کا عہدہ ایک نازک عہدہ ہے۔ امریکا کے صدر کو بھی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی تمام دولت کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور صدارت کے دوران وہ اپنے کسی کاروباری اور آمدنی والے کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا بلکہ اس کی ساری دولت ولایت (wardship) کے تحت ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے لیے بھی باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی دولت کا اعلان کریں، جو رقوم پہلے اعلان نہیں کی گئیں، ان کے بارے میں ذریعۂ آمدنی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کس پر کتنا ٹیکس دیا گیا ہے۔ اور پھر اپنے دورِ صدارت کے لیے کاروباری معاملات سے قطع تعلق کریں۔ جب تک سیاست میں یہ روایت قائم نہیں ہوتی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔
زرداری صاحب کو ان حالات کا جرأت سے سامنا کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بھی ملک کی اور خودان کی عزت کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صد نے ان امور کا ذکر کیا ہے اور انھیں محض یہ کہہ کر ختم نہیں کیا جاسکتا کہ این آر او کے گنگاجل سے اشنان کے بعد سب پاک ہوگیا ہے۔ صرف دو اقتباس ٹائم میگزین اور اکانومسٹ سے ہم اس بات کی تائید میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ اب مُردہ اور ختم شدہ مسئلہ (dead and closed issue)نہیں جیساکہ فاروق نائیک صاحب فرماتے ہیں بلکہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ایک تروتازہ اور زیرِبحث (live and under discussion) مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کا سامنا کیجیے۔ ذاتی عزت اور قومی مفاد دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ ٹائم لکھتا ہے:
پاکستان کی صدارت تک زرداری کے عروج کی کہانی سنڈریلا کی روایتی کہانی کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں مافیا کی سنسنی کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ زرداری کی ہمیشہ ایک چکرباز ہونے کی شہرت رہی ہے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں جب وہ وزیر سرمایہ کاری تھے کمیشنوں میں سے خفیہ وصولی کے اسیکنڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے نے ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب عطا کردیا تھا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات برطانیہ، اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں چلائے۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی ایک متنازع ایمنسٹی ڈیل کے بعد یہ تمام الزامات ختم کردیے گئے۔ زرداری کا موقف ہے کہ تمام الزامات کی بنیاد سیاسی تھی، تاہم ان کی ساکھ کے بارے میں شبہہ باقی ہے۔ زرداری کو اپنے ماضی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر قابو پانا ہوگا۔
۹ستمبر کو جب زرداری صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنا حلف اٹھا رہے تھے تو ان کے سر پر تین سایے منڈلا رہے تھے: ایک، معیشت ایک بحرانی کیفیت میں ہے، دوسرے مقامی طالبان کے خلاف جنگ کی صورت حال خراب ہے، اور تیسرے زرداری خود کو اپنی اس شہرت سے جدا نہیں کرسکے جو انھیں اپنی مرحومہ بیوی بے نظیر بھٹو کے دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ کی ملی تھی: ایک ایسا آدمی جو ملک دانش مندی سے چلانے میں کم دل چسپی رکھتا ہے، بہ نسبت اس کو لالچ کے ساتھ لوٹنے میں۔ (اکانومسٹ، ۱۳ستمبر ۲۰۰۵ئ)
ہم یہ سب باتیں بادل ناخواستہ ضبط تحریر میں لارہے ہیں لیکن اب جس ذمہ داری کے مقام پر زرداری صاحب فائز ہیں، اس کا تقاضا ہے ان تمام امور کو صاف کیا جائے۔ ہم سیاسی انتقام کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں اور الزام ثابت ہونے سے پہلے کسی بھی شخص کومجرم قرار دینے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اگر الزامات ہرکہ و مہ کی زبان پر ہوں اور اتنے تسلسل کے ساتھ ہوں، اور کسی کھلے عدالتی عمل کے ذریعے بے گناہی ثابت کیے بغیر محض سیاسی مفاہمتوں کی بنیاد پر اسے داخل دفتر کر دیا جائے، تو یہ بھی انصاف کے خلاف شہرت کی بحالی ہے۔ اس کے نتیجے میں اچھی شہرت بحال نہیں ہوسکتی۔ انتقام غلط ہے مگر پبلک شخصیات کا احتساب اور انصاف ایک ضروری عمل ہے اور اس سے فرار عزت میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتا۔
مسلمان تو یہ احتیاط بھی کرتا ہے کہ ایسا موقع نہ دے کہ اس پر کوئی الزام لگ سکے۔ ہم اسی جذبے سے اس توقع کا اظہار کر تے ہیں کہ سیاسی معاملات، پالیسی کے امور، اداروں کی بحالی اور تقویت اور خارجہ اور داخلہ مسائل کے بارے میں صحیح اقدامات کی فکر کے ساتھ، ذاتی معاملات کے بارے میں ہرشک و شبہے کو دُور کرنا اب زرداری صاحب کی ذمہ داری ہے۔ جو پبلک لائف کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے ذاتی وفاداری اور پاک دامنی کے چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
Sir Roy Jenkins نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Cabinet Governmentمیں لکھا ہے کہ ایک وزیر کے لیے ہر فن مولا ہونا ضروری نہیں لیکن سب سے ضروری وصف character and integrity (کردار اور دیانت) ہے۔ یہ موجود ہو تو پھر قوم اس قیادت پر پورا اعتماد کرسکتی ہے اور علم و تجربے کی کمی مشاورت اور معاونت سے پوری کی جاسکتی ہے۔لیکن اگر کردار خام ہو اور دیانت مفقود یا مشتبہ ہو تو پھر نظامِ حکومت چلانا محال ہے۔
کیا ہم توقع کریں کہ صدارت کا حلف لینے کے بعد قوم کو ایک ایسے آصف علی زرداری سے معاملہ کرنا ہوگا جو ماضی کے تصور سے مختلف ہوگا، جو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ ایک اچھی شہرت والے انسان کے طور پر کرے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ملک و قوم کو ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سے نجات ملے اور جو مثال باباے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے قائم کی، اس کا احیا ہو۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، لاہور)
مختلف ذرائع سے یہ بات اب مصدقہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر اور امریکی صدر جارج بش کے درمیان ایک خفیہ ملاقات میں بش نے بلیر سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ بالآخر ایران، سعودی عرب اور پاکستان بھی ہیں۔ بش اور بلیر اس بات پر متفق تھے۔ صدربش کے وہ مشیر جن کا تعلق اسرائیلی لابی یا نیوکونز (Neo-Cons) سے ہے، وہ تو پہلے دن سے یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ کئی تھنک ٹینک اپنے اپنے انداز میں ۱۹۹۹ء سے اب تک یہ بات کہتے رہے ہیں کہ شرق اوسط کے پورے سیاسی نقشے کوتبدیل کرنا اور خاص طور سے پاکستان کو اس نقشے سے مٹا دینا امریکا کا ہدف ہونا چاہیے۔ ہنری کسنجر نے بھی بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:
war on terror is a misnomer because terror is a method, not a political movement
(دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط عنوان ہے اس لیے کہ دہشت گردی سیاسی تحریک نہیں، ایک طریق کار ہے)
جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر امریکا جس جنگ میں مصروف ہے، اس کا ہدف کیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا: Radical Islam۔ مزید سوال ہوا کہ ’ریڈیکل اسلام‘ کیا ہے؟ توارشاد ہوا: that which is not secular (وہ جو سیکولر نہیں ہے)۔ (ڈان، ۱۸ستمبر ۲۰۰۸ئ)
ویسے تو یہ بلی کبھی بھی تھیلے میں بند نہ تھی اور باہر اُچھلتی کودتی پھر رہی تھی لیکن گذشتہ دومہینوں میں جس طرح امریکی افواج نے پاکستان کی سرحدات کی خلاف ورزی کی ہے، بغیر پائلٹ کے جہازوں (ڈرون)، ہیلی کاپٹرگن شپس، اے-۱۳۰ اور بالآخر ایف-۱۶ سے بم باری کی ہے اور سب سے بڑھ کر ۳ستمبر کو امریکی فوجیوں نے انگوراڈا کے مقام پر زمینی کارروائی کی ہے، اس نے ان تمام پردوں کو چاک کردیا ہے جو امریکا کی اس جارحیت کے درمیان حائل تھے۔ نیویارک ٹائمز نے واضح الفاظ میں رپورٹ کیا ہے کہ جولائی ۲۰۰۸ء میں صدربش نے واضح احکام جاری کیے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر بلاواسطہ اور بلااطلاع کارروائی کی جائے اور اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت پاکستان کے کمزور اور بزدلانہ احتجاج کے بعد امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مولن جس وقت اسلام آباد میں وزیراعظم کو پاکستان کی حاکمیت کے احترام کا بھاشن دے رہے تھے تو عین اسی وقت امریکی ڈرون پاکستانی حدود کوپامال اور پاکستان کے شہریوں کو شہید کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی فوج کو پاکستانی عوام کے خلاف صف آرا کرکے فوج کو محافظ کے بجاے دشمن کے مقام پر لانے، پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت پر دست درازی کرنے، اور پاکستان کی آئی ایس آئی میں تبدیلیوں کے دھمکی آمیز مطالبات سب ایک ہی پلاٹ کے حصے اور ایک ہی منصوبے کی کڑیاں ہیں۔ جو دیکھنا نہ چاہیں ان کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن اب تو صرف دل کی آنکھ نہیں، سر کی آنکھ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکا کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں۔
۱- امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد ’القاعدہ‘ یا ’طالبان‘نہیں، مسلم دنیا کے نقشے کی تبدیلی ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ امریکا اپنی اس جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ عراق میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اب افغانستان میں بھی ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں زمین اس کے پائوں تلے نکل رہی ہے۔ افغانستان پر جو گروہ قابض ہے وہ عوام میں غیرمقبول ہے، وارلارڈز کی حکمرانی ہے اور وہ بھی اپنے اپنے محدود علاقوں میں۔ ہیروئن کا کاروبار عروج پر ہے اور دنیا کی ۹۰ فی صد رسد افغانستان سے کی جارہی ہے۔ طالبان اب ایک دینی گروہ کا نام نہیں، ایک قومی مزاحمت کا عنوان ہے۔ امریکی دانش ور، سابق فوجی کمانڈر اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق کی طرح افغانستان میں امریکا جنگ ہار چکا ہے۔ امریکی مجلہ فارن افیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر-اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں ایک نہیں دو مضمون اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور امریکی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت، فوجی قیادت اور پالیسی سازوں کو بھی اس بات کو سمجھ لینا چاہیے اور امریکا کی خاطر اپنی ہی قوم سے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے بتدریج لاتعلقی ضروری ہے۔
۲- سیاسی مسائل کا فوجی حل نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اسے ناک کا مسئلہ بنانے کے بجاے مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی جائے اور امریکا کے دبائو کو ماننے سے صاف انکار کیا جائے۔ ان کے do more (مزید کرو) کے جواب میں صاف طور پر no more (مزید نہیں) کہہ دیا جائے اور اس پر پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم کردیا جائے۔ یہ قوم کے دل کی آوازہے۔ امریکی اداروں کے تحت کیے جانے والے سروے میں بھی ۷۳ سے ۹۰ فی صد آبادی نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
۳- پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر متفقہ قومی موقف کا اعلان کیا جائے اور حکومت، فوج اور قوم سب اس پر مضبوطی سے کاربند ہوجائیں۔
۴- امریکا کو وارننگ دے کر اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا ٹائم فریم دے دیا جائے۔
۵- ناٹو ممالک نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ صرف افغانستان کی حد تک ہے اس لیے ہم پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کے مجاز نہیں لیکن امریکا اب بھی اپنے موقف پر عیاری کے ساتھ قائم ہے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ ہے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے پاکستان کی لاتعلقی۔ اگر امریکا اس کے باوجود دبائو ڈالتا ہے اور سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو افغانستان میں موجود تمام فوجوں کے لیے رسد کی فراہمی پر پابندی اور ہرکارروائی کا منہ توڑ جواب۔ امریکا سے جنگ کرنے کی بات کوئی نہیں کر رہا، لیکن امریکا کے حملوںکا جواب ہمارا حق اور فرض ہے۔ قوم نے اس فوج کی ہر ضرورت کو اپنا پیٹ کاٹ کر اس لیے پورا کیا ہے کہ یہ ملک کی سرحدوں کے دفاع کا کام انجام دے، وہ اس کی اہلیت رکھتی ہے، پوری قوم اس کا ساتھ دے گی۔ کیا پاکستان وینزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور لبنان سے بھی زیادہ کمزور ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کے دفاع اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے دنیا کی چھٹی یا ساتویں بڑی فوج ہونے اور ایٹمی صلاحیت کی موجودگی کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ یہ جنگ بازی اور جارحیت نہیں،عزت اور آزادی کے دفاع کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں جو بھی کوئی کمزوری دکھائے گا، قوم اسے برداشت نہیں کرے گی۔
ہم تمام مسائل کے سفارتی اور سیاسی حل ہی کو اولیت دیتے ہیں لیکن اگر کوئی اپنی طاقت کے زعم میں ہماری حاکمیت اور آزادی پر دست درازی کرے گا تو اس کو منہ توڑ جواب دینا ہمارا فرض اور مسلم اُمت کی روایت ہے۔ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت نے ہرحد کو پامال کردیا ہے۔ پاکستانی قوم اور قیادت کے پاس اس کے سوا کوئی باعزت راستہ نہیں کہ امریکا کی اس جنگ کو خیرباد کہے اور اپنے گھر کی حفاظت اور تعمیر پر ساری توجہ دے۔ اسپین اور اٹلی نے اپنے اپنے قومی مصالح اور مفادات کے تحفظ کے لیے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور ناٹو کا ممبر ہوتے ہوئے کیا ہے___آخر ہمارے لیے عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے اس تباہ کن جنگ سے دست کش ہوجانے کے سوا اور کیا راستہ ہے۔
میں ایک خوش گوار پہلو پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔ عراق سے اسپینی افواج کے انخلا سے امیدپیدا ہوئی ہے۔ بش کی جنگ کا شاید یہ مقصد تھا اور ایسا ہو بھی سکتا تھا کہ ایک مسلسل اور وسیع ہوتے ہوئے تشدد کا منحوس چکر آگے بڑھتا رہے۔ ہسپانویوں، اطالویوں، جاپانیوں، انگریزوں اور دیگر پر ایک دفعہ حملہ ہوجائے تو ان کی آبادیاں غیرمعینہ مدت کی جنگ کے آگے سرنگوں ہوجائیںگی۔ جب دہشت گردوں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ میں حملہ کیا تو کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ اسپینی اس عظیم جھوٹ کو قبول کرسکتے تھے کہ عراق پر حملے کا مقصد دہشت گردی کی جنگ کو کم کرنا ہے۔ دہشت گردی کا اسپینی ردعمل نسلی منافرت کا اُبھار اور امریکا سے زیادہ قربت بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کی ابتدائی وجوہات (اس خاص صورت میں غیروجوہات/ non-reasons) کو نظرانداز کردینا اور قدیم زمانے کی طرح لڑائی کے منحوس دائرے کی گرفت میں آجانا آسان ہے۔ شاید پہلی جنگ عظیم اس کی ایک مکمل مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے شروع ہوئی اور جلد ہی ایک بے معنی خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ یورپ کی قومیں سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں لڑتی رہیں۔
اسپین میں اس کے برخلاف ردعمل رونما ہوا۔ اسپینی ووٹروں نے (سابق وزیراعظم) ازنار سے نجات حاصل کرلی، (نئے منتخب وزیراعظم) زپاٹیرو نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلوا لیں، اورشاید یہی بات بڑھتے ہوئے تشدد کے اس چکر کو توڑنے کے لیے کافی ہو جس کی بہت سے توقع کر رہے تھے اور کچھ اس کی امید کرنے والے بھی تھے۔ شاید ہم اسپینی عوام کے اس سے زیادہ احسان مند ہیں جتنا ہم جانتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بش کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو ان کا ووٹ، ان کا فیصلہ درحقیقت شر پر خیر کی فتح تھی۔
مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً ۳۶۰ گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہوجاتے ہیں؟ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قماربازی تک ہوتی ہے۔ اور بعض ظالم تو مَیں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اُٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہے، اور نفسانیت میں کیا کمی آجاتی ہے؟
سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جان پر بھی بن جائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامّل ہوتا ہے۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے، اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اُس سے اپنے نفس پر جبر کرکے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہرطرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں۔
یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتے۔ مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور اُن صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شخص حلق میں اُنگلی ڈال کر قے کردے، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ توروزہ رکھنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اُگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتایئے کہ رمضان اور اُس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس اُن کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے ہونی چاہیے۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے، اُسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اُترنے اور خیال، نیت ، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دے۔
یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ، یعنی تم پر روزہ فرض کیا جاتاہے، شاید کہ تم متقی وپرہیزگار بن جائو۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور متقی و پرہیزگار بن جائو گے۔ اس لیے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے۔ جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعے سے اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا یا بہت متقی بن جائے گا، مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اُسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی اُمید نہیں۔ (خطبات، ص ۱۹۶-۱۹۸)
حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال کے ۶ روزے رکھے، وہ سارا زمانہ روزہ رکھنے والے کی مثل ہوگیا۔ (مسلم)
رمضان کے روزے ۱۰ ماہ کے برابر اور شوال کے روزے دو ماہ کے برابر ہوگئے، اس طرح ۱۲ مہینے بن گئے۔ نیکی ایک ہو تو دس لکھی جاتی ہیں اور یہ تو کم سے کم ثواب ہے۔ زیادہ کی تو کوئی حد نہیں، ۷۰۰گنا اور اس سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ جتنا کسی کا جذبہ اور اخلاص ہوگا اسی قدر اجروثواب زیادہ ہوگا۔
’دنیا‘ میں کسی ملک، علاقے اور حاکم کے ہاں اگر اس حساب سے اُجرت ملتی ہو کہ ایک مہینہ چھے دن کام کیا جائے اور اُجرت بارہ مہینے کی ملے، تو ہر شخص ایسی ملازمت کے لیے بے قرار ہوگا، سفارشیں ڈھونڈ رہا ہوگا۔شاید ہی ملک کا کوئی باشندہ پیچھے رہ جائے۔ لیکن یہ آخرت کا گھر ایسا گھر ہے، جو نظروں سے اوجھل ہے، اس لیے یہاں کروڑوں، لاکھوں، ہزاروں کی جگہ چند سو ہی اپنا نام لکھوانے آتے ہیں اور اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں جنت کی محبت اور دوزخ کے خوف کے جذبات مرجھا گئے ہیں۔ ان کو تازگی اور زندگی دینے کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے جامِ شیریں سے ایمان کو مضبوط کرنا ہوگا۔ دورِصحابہؓ اس نوع کے مناظر پیش کرتا ہے۔ وہاں انھیں سات دن، تین دن، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار پر مشکل سے آمادہ کیا گیا۔ اس محبت کا ایک مظہر نفل روزے کا شوق ہونا ہے۔ ۶ دنوں کے روزے پر، خواہ مسلسل رکھے جائیں یا غیرمسلسل، صائم الدہر ہونے کی بشارت ہے، اورکیا چاہیے!
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ پودے لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے پاس سے گزر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: ابوہریرہؓ! کیا کر رہے ہو؟ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اپنے لیے پودے لگا رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں اس سے بہتر پودے نہ بتلائوں؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐاللہ! ضرور بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ ولا اِلٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، ہر ایک کے بدلے میں تمھارے لیے ایک درخت جنت میں لگے گا۔ (ابن ماجہ)
اس کا استحضار ہو کہ جب ہم ذکرِ الٰہی سے اپنی زبان تر کرتے ہیں، تو سچی خبر دینے والے رسولؐ کے فرمان کے مطابق جنت میں درخت لگا رہے ہوتے ہیں (جن کے پھل آکر کھائیں گے، ان شاء اللہ) تو مسنون اوراد کو یاد کرنے اور دن رات کے متعین اوقات میں ان کے ورد کرنے کے ہمارے شوق کا کیا عالم ہوگا۔ یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہوگا اور ہم دوسروں کو بھی تلقین کر رہے ہوںگے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔ اگلے دن وہ پھر آیا اور پوچھا: یارسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔ (جواب پاکر چلا گیا) اگلے دن پھر آیا اور پھر پوچھا: کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو۔ جب تجھے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت مل گئی تو، تو فلاح پاگیا۔ (ابن ماجہ)
گناہوں کی معافی اور آفات و مصائب سے حفاظت ایسی نعمتیں ہیں جو تمام نعمتوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ دنیا و آخرت میں گناہوں کی معافی دنیا میں ایمان اور علم و عمل کی شاہراہ پر بلاروک ٹوک رواں دواں ہونے کی ضامن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو امن بھی میسر ہو۔ بیماری،معاشی تنگی، طاغوتی قوتوں کے ظلم و جبر، قتل و غارت گری، چوروں، ڈاکووں، دہشت گردوں اور تخریب کاروں سے تحفظ حاصل ہو۔ جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ اہل و عیال، عزیز و اقارب، مسلمان بھائی اور بستی کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہوں، دن کو کام کرتے ہوں اور رات کو بستر ِاستراحت پر بے فکر ہوکر سوتے ہوں۔ اِس صورت میں اللہ کی بندگی اور تقویٰ کی زندگی کے سامان میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ تب ہی فلاح بھی کامل ہوگی۔
عفو اور عافیت ہر دور میں انسان کا مطلوب رہے ہیں۔ انھی سے انسانوں کو نوازنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل کیں۔ انبیاے علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے دین کی بدولت انسانوں کو بندگی اور امن نصیب ہوا ہے۔ آج دنیا جس بدامنی سے دوچار ہے، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ ان حالات میں اللہ کے سامنے عفو وعافیت کے لیے دست ِسوال دراز کرنے کی ضرورت ہے۔ گناہوں سے معافی مانگنے اور اجتماعی زندگی میں اللہ کے دین کو نافذ کرنے سے عافیت اور امن میسر آسکتے ہیں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں سفر پر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے ایسی دعا دیجیے جو میرا زادِ راہ بنے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زادِ راہ عنایت فرمائے۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مزید دعا کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تیرے گناہ معاف فرمائے۔ اس نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، مزید دعا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: تو جہاں کہیں جائے، اللہ تعالیٰ تجھے آسانی سے بھلائی عطا فرمائے۔ (ترمذی)
آج مسلمان اور ان کے معاشروں کو اسی زادِ راہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے لیکن اسی کی سب سے زیادہ کمی ہے۔ آج ہمارے جملہ مصائب اور محرومیوں کا علاج تقویٰ اور گناہوں سے معافی اور بھلائی کے کام ہیں۔ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جس نے اُمت مسلمہ کو دنیا کی امامت و قیادت کے مقام پر فائز کیا تھا اور یہی نسخہ آج پھر اسے قوموں کا امام بنا سکتا ہے۔ ہے کوئی جو اس نسخے کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شفقت اور پیار سے اپنے صحابی کو زادِ راہ کے تحفے کے طور پر دیا، اختیار کرے۔ کاش اُمت مسلمہ بیدار ہوکر اپنے محبوب کی محبت میں تقویٰ کی راہ پر گامزن ہوجائے۔
o
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، تین آدمیوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ خوشی سے ہنستے ہیں: ایک اس آدمی پر جو نماز کی صف میں کھڑا ہے، دوسرا وہ آدمی جو آدھی رات کو نماز پڑھے اور تیسرا وہ آدمی جو لشکر کے میدان سے پیچھے ہٹنے کے بعد بھی میدانِ معرکہ میں لڑ رہا ہو۔ (ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جو بندگی میں زیادہ اُونچا ہو۔ یہ تینوں آدمی بندگی میں بلندمقام پر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو باجماعت نماز میں شرکت کرے اور کوشش کرے کہ پہلی صف میں ہو، رات کو تہجد کے لیے نیند اور آرام قربان کرکے اللہ تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہوجائے اور جہاد و اقامت دین کے کام میں اپنے مورچے پر ڈٹ جائے۔ دوسرے لوگ بھاگ بھی جائیں تو وہ کھڑا رہے۔ آج کا ایک جہاد اقامتِ دین اور احیاے دین کا جہاد ہے جو دعوت کے ذریعے ہو رہا ہے۔ دوسرا جہادِ آزادی ایسے ممالک میں جاری ہے جن پر طاغوتی طاقتوں نے غاصبانہ قبضے کر رکھے ہیں۔ ان دونوں میدانوں میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان میں وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جو استقامت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ اللہ کا محبوبِ نظر ہے۔
o
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت حضرت علی ؓ،حضرت فاطمہؓ اور دوسروں کو بلایا تو میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں بھی آپؐ کے اہلِ بیت میں شامل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اس وقت تک جب تک کسی حکمران کے دروازے پر نہ جائو یا کسی امیر کے پاس سوال لے کر نہ جائو۔ (الترغیب والترہیب بحوالہ طبرانی اوسط)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کی خوشامد نہ کی جائے، دین فروشی سے احتراز کیا جائے، ان کے سامنے دست سوال دراز نہ کیا جائے۔ آج اگر اہلِ دین نبیؐ سے تعلق کے اس تقاضے کو پورا کریں تو انقلاب آسکتا ہے۔ تمام علما و مشائخ، تمام مدارس اپنے ذاتی مفادات اور مصالح سے بالاتر ہوجائیں تو پوری اُمت مسلمہ ان کے ساتھ کھڑی ہوگی اور کفار کے آلۂ کاروں کا اقتدار زمیں بوس ہوجائے گا۔ اہلِ دین اُمت مسلمہ کی کشتی کو بھنور سے نکال لیں گے اور اپنی خودمختاری کا تحفظ کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہوا نامۂ اعمال لایا جائے گا، (وہ اس کو پڑھے گا)، پھر کہے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں فلاں فلاں نیک کام کیے تھے۔ وہ تو اس میں نہیں ہیں؟
اللہ تعالیٰ جواب دے گا: لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمھارے نامۂ اعمال سے مٹا دی گئی ہیں۔ (ترغیب و ترہیب)
وادیِ کشمیر میں بھارتی سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج اور آزادی کی عوامی تحریک ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو اکتوبر ۱۹۴۷ء کی بھارتی فوج کشی سے لے کر آج تک کبھی قبول نہیں کیا۔ بلاشبہہ تحریکِ مزاحمت و آزادی ان ۶۱ برسوں میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی مگر کبھی دبی نہیں۔ کشمیری عوام نے بھارتی ظلم و تشدد کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی سپر نہیں ڈالی۔ مسلمانانِ جموں و کشمیر کی بھارت کے تسلط سے آزادی کی تحریک ۱۹۸۸ء کے انتخابی ڈھونگ کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ سیاسی جدوجہد کے ساتھ عوامی و عسکری ردعمل بھی رونما ہوا اور جس طرح عالمی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد نے ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی مجاہدانہ کوششیں کیں اور ان کو معتبر تسلیم کیا گیا حتیٰ کہ اس جدوجہد کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی مفکرین نے عام دہشت گردی (terrorism) سے ممیزوممتاز قرار دیا اور اس طرح ایسی جدوجہد کو مجبور انسانوں کا حق تسلیم کیا۔ اسی بنیاد پر ۱۹۹۰ء سے جہادی تحریک نے بھارتی استعمار کو چیلنج کیا اور آج تک اس کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ پاکستان کی قیادت، خصوصیت سے پرویز مشرف کی بے وفائی اور اس تحریک اور اس کے مقاصد سے غداری کے باوجود ظلم کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی یہ تحریک جاری رہی ہے۔ البتہ اندرونی اور بیرونی دونوں اسباب سے گذشتہ چند برسوں میں تحریک میں ایک گونہ ٹھیرائو کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یہ تحریکِ آزادی کے لیے بڑا ہی نازک مرحلہ تھا۔ پرویزمشرف نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کے بعد آہستہ آہستہ کشمیر پالیسی کے باب میں بھی اُلٹی زقند (U-turn) لگائی اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے out of box حل کی رَٹ لگانا شروع کی جو دراصل پاکستان کی قومی کشمیرپالیسی سے انحراف اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی اور غداری کے مترادف تھا۔
ستمبر ۲۰۰۴ء میں مشرف اور من موہن سنگھ کی نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں اس خطرناک کھیل کا آغاز کیا اور پاکستان کی اس وقت کی فوجی قیادت نے تحریکِ آزادیِ کشمیر سے عملاً ہاتھ کھینچ لیا بلکہ حریت کانفرنس کو بانٹنے اور اپنا ہم خیال دھڑا بنانے کی مذموم کوشش بھی کی۔ مشرف کی من موہن سنگھ سے تین ملاقاتیں اسی زمانے میں ہوئیں، نیز بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نرائن اور مشرف کے معتمدعلیہ طارق عزیز کے درمیان بھی برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پس پردہ امریکا بڑی چالاکی سے اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ بظاہر سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو معمول پر لانے مگر درحقیقت کشمیر میں حالتِ موجودہ (status quo) کو تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ برقرار رکھ کر اس مسئلے کی تحلیل (liquidation) کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے نے بھارت کی قیادت سے مذاکرات بھی شروع کردیے۔ ادھر پاکستان میں بھارت نواز لابی نے صحافت، تجارت اور ثقافت کے نام پر تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کا ’جہاد‘ شروع کردیا، اور جو حقیقی جہادی جدوجہد ہورہی تھی، اس کی پیٹھ میں مشرف اور اس کے حواریوں نے خنجر گھونپ دیا بلکہ سیاسی جدوجہد تک کا رخ بدلنے کی مذموم کوشش بھی کی۔ اب حق خودارادیت اور بھارت کے تسلط سے آزادی اصل ایشو نہ رہا بلکہ سیاسی ہدف محض راستے کھولنے، بسوں اور ریل گاڑیوں کے چلانے، فوجوں کی کمی، اقتدار میں کسی درجے کی شرکت اور مشترکہ مفادات کی نگرانی کے لیے کسی نظام کی شکل قرار پایا۔
جموں و کشمیر کے مسلمان جنھوں نے اعلیٰ مقاصد کے لیے ۱۹۳۱ء اور پھر ۱۹۴۷ء کے بعد سے قربانیاں دیں اور ۶ لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہ ایسی لولی لنگڑی خودمختاری اور بھارت کے تسلط کو مزید مضبوط و مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے نہیں تھے۔ لیکن مشرف کی حکومت نے پاکستان کے اصولی اور تاریخی موقف سے پسپائی اختیار کرکے تحریکِ مزاحمت کو شدید نقصان پہنچایا، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بری طرح مایوس کیااور آزادی کی تحریک کو عین منجدھار میں بے سہارا چھوڑ دیا۔ سارا کریڈٹ جموں و کشمیر کے مسلمانوں، وہاں کے نوجوانوں اور خصوصیت سے سیدعلی شاہ گیلانی اور شیخ عبدالعزیز شہید جیسے لوگوں کی فراست اور قیادت کو جاتا ہے جو نہ بھارت کے جھانسے میں آئے اور نہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی کی بنا پر پاکستانی قوم سے مایوس ہوئے۔ سخت ترین حالات میں انھوں نے تحریکِ مزاحمت کو جاری رکھا اور صحیح موقع کا انتظار کرتے رہے___ یہی پیغام ان کو پاکستان کی تحریکِ اسلامی اور تحریکِ پاکستان کے مخلص کارکنوں نے دیا جو پرویز مشرف کی پالیسیوں کے سخت ترین ناقد تھے اور کشمیر میں عوام کو برابر تلقین کرتے رہے کہ وہ اپنی تاریخی جدوجہد کو جاری رکھیں اور نوبل انعام کا خواب دیکھنے والوں کی چال بازیوںاور فریب کاریوں کا شکار نہ ہوں۔ پرویز مشرف نے جو خیالی پُل بنائے تھے وہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ہندوقیادت کی تاریخی دھوکے بازی کے ہاتھوں زمین بوس ہوئے۔ وہ جو بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے میں پیش پیش تھے، ہاتھ ملتے رہ گئے اور واپس آنے کے راستے تلاش کرنے لگے۔ البتہ جو اصولی نقصان تحریک کو ہوا، وہ ناقابلِ انکار ہے اور اس کا فائدہ کشمیر کی اس قیادت نے اٹھانے کی کوشش کی جو بھارت نواز تھی اور گذشتہ ۶۱برسوں میں بھارت کے تمام ظلم و ستم اور شاطرانہ کھیل میں شریک تھی۔ پالیسی کی یہ تبدیلی ایک ایسا داغ ہے جسے دھونا پاکستان کے لیے مشکل ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ۲۰۰۸ء میں جولائی اور اگست میں رونما ہونے والے واقعات نے حالات کو ایک نیا رخ دے دیا ہے اور کشمیر کی جنگِ آزادی ایک نئے، تاریخی اور فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اس کا ادراک اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
پہلی چیزپرویز مشرف کی لچک (flexibility) کے نام پر کشمیر کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کے کسی مشترک نگرانی کے نظام کی تجویز کی ناکامی ہے۔ یہ تجویز دھوکے اور دبائو پر مبنی تھی اور تاریخی حقائق اور پاکستان اور بھارت کے نظریاتی اور سیاسی اہداف سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس خام خیالی کا پردہ جلد ہی چاک ہوگیا۔ بھارت نے اس سلسلے میں ذرا لچک نہ دکھائی اور پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے ہٹاکر تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کا کھیل کھیلا۔ پاکستان کی پرویزی قیادت نے اپنا منہ کالا کیا، جن کشمیری قائدین کو اس کھیل میں استعمال کیا، ان کے چہروں پر بھی یہ کالک لگی، تاہم سرخرو ہوئے وہ لوگ جو بھارت کے تاریخی ذہن اور سیاسی مقاصد کا صحیح ادراک رکھتے تھے جنھوں نے پہلے ہی دن یہ کہہ دیا تھا کہ یہ دھوکا اور سراب ہے۔ سیدعلی شاہ گیلانی نے پرویز مشرف کو پہلے دن سے چیلنج کیا اور ۲۰۰۴ء سے آج تک اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور ’لچک‘ کے نام پر پسپائی کی اس حکمت عملی اور بھارت کے عزائم کی تکمیل میں معاونت کے خطرناک کھیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر ان کی پوزیشن صحیح ثابت ہوئی۔ یہی موقف شیخ عبدالعزیز شہید کا تھا جنھوں نے پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹنے اور روایت سے ہٹ کر (out of box ) حل کی تلاش کے سلسلے میں صاف کہہ دیا تھا کہ ’’پرویز مشرف کو بتا دو آپ کشمیر پر جتنی چاہے لچک دکھائو لیکن بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ کشمیر پر لچک نہیں دکھائے گی بلکہ ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی‘‘۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور پرویز مشرف کی بے تدبیری اور سمجھوتوں (compromises) کی پالیسی بالآخر ناکام رہی۔
دوسری اہم چیز خود پرویز مشرف کا ۲۰۰۷ء میں کمزور ہونا، ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پاکستانی عوام سے شکست کھا جانا، اور ۱۸ اگست کو استعفا دے کر ٹکسال باہر ہونا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ اس کی پالیسیاں بھی رخصت ہوگئیں اور وہ لوگ جو اب بھی ان پالیسیوں کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خصوصیت سے پاکستان کی سیکولر اور بھارت نواز لابی، وہ بھی ان شاء اللہ منہ کی کھائیں گے۔ خود بھارت نے اس پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور کشمیری عوام کی ریاست گیر تحریکِ مزاحمت کے عوامی استصواب نے اسے رد ہی نہیں کیا، ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔
تیسری اہم چیز عالمی حالات اور عالمی مفکرین کی سوچ میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیاں ہیں جن کا ادراک ازبس ضروری ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات اور ان کے ردعمل میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پوری دنیا کے امن کو تہ وبالا کردیا۔ شروع میں امریکا کو عالمی ہمدردی حاصل تھی لیکن جیسے جیسے امریکا کے عالمی سامراجی عزائم نمایاں ہوئے، وہ ہمدردی نفرت اور غصے میں بدل گئی اور عوامی سطح پر امریکا، اس کی قیادت اور اس کی نام نہاد جنگ پر بے اعتمادی کا کھلااظہار ہونے لگا۔ افغانستان میں اور پھر عراق میں جو کچھ امریکا نے کیا، اس نے ریاستی دہشت گردی کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا۔ مفکرین کی ایک تعداد اس کھیل کا پردہ چاک کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ جو زبانیں بند تھیں وہ اب کھل کر بات کر رہی ہیں۔ آزادی کی تحریکوں اور ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے نام پر مطعون کرنے اور ختم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے اب چیلنج کیا جا رہا ہے۔ امریکی مصنف اور فلسفی نوم چومسکی اور سابق اٹارنی جنرل ریمزے کلارک تو پہلے دن سے امریکا کی ان پالیسیوں اور حقیقی دہشت گردی اورجنگ آزادی کو خلط ملط کرنے کی پالیسی کے مخالف تھے لیکن اب علمی اور عوامی دونوں سطح پر اس سامراجی کھیل کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی Terrorism: The Philosophical Issues (مرتبہ:Iqor Primoratz )جس میں ۱۲مفکرین کے مضامین کو پیش کیا گیا ہے، بڑی اہم کتاب ہے اور دل چسپ مباحث کو سامنے لاتی ہے۔ اس میں عوامی تحریکوں کی طرف سے ریاستی قوت کے مقابلے میں قوت کے استعمال کے جواز کے لیے منصفانہ جنگ (just war)کے نظریات کو معیار بنایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ناجائز حکمرانی اور ظلم کے خلاف برپا تحریکاتِ مزاحمت کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس بحث نے ایک بار پھر تحریکِ آزادی اور ظالمانہ اقتدار کے خلاف جدوجہد کو دہشت گردی سے ممیز کردیا ہے اور بحیثیت مجموعی یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف جدوجہد مظلوم انسانوں کا حق ہے۔ اس سلسلے میں اگر پُرامن ذرائع غیرمؤثر بنادیے جائیں تو قوت کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ کچھ حالات میں ضروری ہوجاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں بطور تائید خود گاندھی جی کا یہ قول بھی دیا گیا ہے جو بھارت کی قیادت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے:
کہا جاتا ہے کہ گاندھی نے کہا تھا کہ ظلم اور جبر کی مزاحمت کا سب سے بہتر راستہ عدمِ تشدد ہے مگر یہ بھی کہا: ظلم اور جبر کے آگے سرِتسلیم خم کرنے سے بہتر پُرتشدد ذرائع سے مقابلہ کرنا ہے۔ (ص۷۴)
اس طرح مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب کے نتیجے میں انڈونیشیا کے ایک صوبے کا آزاد ریاست بننا، کوسووا کا ناٹو اور یورپی یونین کے تعاون سے سربیا سے الگ ہونا اور ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کا جارجیا سے آزاد ہونے کی جدوجہد وہ تازہ ترین مثالیں ہیں جہاں عوامی راے، جذبات و احساسات اور استصواب کے ذریعے ان علاقوں کی آزادی کے حق کو ایک بار پھر تسلیم کیا جا رہا ہے جو قومی حاکمیت (National Sovereignty ) کے تصور کے تحت اپنے جداگانہ تشخص کے حق سے محروم کردیے گئے تھے۔
نائن الیون کے بعد جوفضا دنیا پر مسلط کردی گئی تھی اور امریکا اور بھارت جس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے، وہ اب تبدیل ہورہی ہے، اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی کو اس پوری عالمی فضا کے اثرات سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے اہم حقیقت جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے، اور وہ یوں کہ امرناتھ یاترا میں بورڈ کو ۸۰۰ کنال (ایک سو ایکڑ) پر مشتمل ایک قطعۂ اراضی دینے اور واپس لیے جانے سے رونما ہوا ہے۔ یہ عمل اس تاریخ کو دہرانے کا ذریعہ بن گیا ہے جس سے مسلمانانِ پاک و ہند کو ۲۰ویں صدی کے پہلے نصف میں گزرنا پڑا اور جو بالآخر قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔
امرناتھ یاترا کوئی نئی چیز نہیں۔ ۱۸۸۰ء سے اس کا آغاز ہوا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مندر مسلمان علاقے میں واقع ہے جہاں کی آبادی کا ۹۹ فی صد مسلمان ہے۔ ۱۲۸ سال سے یہ یاترا ہورہی ہے اور کبھی ہندومسلم تنازع کا ذریعہ نہیں بنی، اور مسلمان خوش دلی سے اس یاترا کے سلسلے کے تمام نظم و نسق میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں بلکہ اس کے معاشی فوائد سے فیض یاب بھی ہوتے رہے اوراس طرح تعاون کا ایک رشتہ قائم ہوگیا۔ مجاہدین نے بھی اسے کبھی اپنا ہدف نہ بنایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی جدوجہد سیاسی اور نظریاتی ہے، اسے تجارتی رنگ دینے کی کوشش ہندو انتہا پسندوں نے کی ہے۔ برہمن قیادت نے جس طرح مسلمانوں کو تحریکِ آزادی کے دوران ان کے تمام حقوق سے محروم کر کے ان کے لیے تقسیمِ ملک کے سوا کوئی راستہ باقی نہ چھوڑا، بالکل اس طرح تاریخ ایک بار پھر کشمیر میں اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور ایک بار پھر ایک نظریاتی اور سیاسی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت کی آگ میںجھونکا جا رہا ہے۔
برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے اصل مسئلہ اپنے دینی، نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور نشووارتقا کا تھا۔ انھوں نے اپنے ہزارسالہ دورِاقتدار میں اپنے دین اور تہذیب کی حفاظت اور نشووارتقا کے ساتھ ہندو مذہب اور تہذیب اور دوسرے تمام مذاہب کو پورے مواقع فراہم کیے لیکن برعظیم کی ہندو قیادت نے اپنی عددی اکثریت کے زعم میں تحریکِ آزادی کے موقع پر یہ بالکل واضح کردیا کہ مسلمان آزادی کے بعد اپنی تہذیب اور اپنے دین و تمدن کے آزادانہ ارتقا سے محروم رہیں گے۔ ۱۹۲۸ء کی نہرو رپورٹ اور ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کانگرس کی حکومتوں کے رویے اور ہندو مسلم فسادات کے اس طوفان نے جو برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۴ء کے بعد رونما ہوا، ہندوئوں اور مسلمانوں کے راستوں کو جدا کردیا۔ بلاشبہہ مسلمانوں نے بڑی قیمت ادا کی اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے سب سے بڑی قربانی دی مگر ایک سیاسی اور تہذیبی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کا کام ہندو اسٹیبلشمنٹ کا کارنامہ تھا۔ مسلمانوں نے اسے کبھی فرقہ وارانہ (communal) ایشو نہیں سمجھا بلکہ قائداعظم نے ہندوقیادت اور اربابِ صحافت کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’جناح کمیونل کارڈ کھیل رہے ہیں‘‘ صاف کہا کہ یہ نظریاتی تحریک ہے اور مسلمان اپنے دین و ثقافت کی بنیاد پر ایک قوم ہیں اور بحیثیت قوم خودمختاری کے طالب ہیں، کم از کم ان علاقوں میں جہاں انھیں اکثریت حاصل ہے۔ لیکن ہندوقیادت اور پریس پوری تحریک کو کمیونل رنگ دینے پر بضد تھے۔ آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں اشارہ کر رہی ہے کہ بالآخر اس کش مکش کو کہاں منتج ہونا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ آج کشمیر میں امرناتھ بورڈ کو زمین دینے اور زمین واپس لینے کے واقعے کو جس طرح ہندوقیادت اور خصوصیت سے بی جے پی نے استعمال کیا ہے اور جس طرح مسلمانوں اور ہندوئوں اور کشمیر اورجموں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے وہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، کا منظراپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
سابق گورنر ایس کے سنہا متعصب ہندو ذہنیت کی شہرت رکھتے ہیں اور کشمیر سے پہلے آسام میں بھی فرقہ واریت کو فروغ دینے اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو ہدف بنانے کا کھیل کھیل چکے ہیں۔ وہ مسلم اکثریت کے علاقوں کے آبادیاتی نقشے (demography) کو تبدیل کرنے کے فن کے ماہر ہیں اور امرناتھ یاترا کے سلسلے کے تازہ قضیے کے اصل مصنف ہیں۔ گورنر سنہا نے کشمیر کے گورنر کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی امرناتھ یاترا کے علاقے پر خصوصی توجہ دی اور بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کو جو ڈیڑھ سو سال سے اس مقام کی نگرانی کر رہے تھے اپنے پشتینی روزگار سے محروم کیا۔ اسی طرح خچروالوں اور چھوٹی دکان لگانے والے مسلمانوں کو بے دخل کیا اور ان کی جگہ باہر سے ’لنگروالوں‘ کو بلاکر آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اس سلسلے کی ایک کڑی تھی جو بھارت کی حکومت وادیِ کشمیر میں برسوں سے جاری رکھے ہوئے تھی کہ سرحدی علاقوں میں بھارت سے لاکر ہندوئوں کو آباد کرے۔ کشمیر کے نوجوان نوکریوں سے محروم رہیں لیکن بھارت سے ہندوئوں کو جوق در جوق لاکر ملازمتیں دی جائیں۔ اس پس منظر میں ایک کلیدی اقدام امرناتھ بورڈ کو وادی میں یاتریوں کے لیے رہایش گاہ تعمیر کرنے کے لیے ابتداً ۸۰۰کنال (۱۰۰ ایکڑ) زمین دینے کا حکم گورنر سنہا نے اپنی گورنری کے ختم ہوتے وقت دیا جس پر کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے رہنمائوں نے شدید احتجاج کیا اور پوری وادی اس ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس عوامی مظاہرے سے مجبور ہوکر نئے گورنر نے زمین کی اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔ واضح رہے کہ مسلمانانِ کشمیر کے اعتراض میں کوئی مذہبی یا فرقہ وارانہ پہلو نہیں تھا بلکہ مسلمان اس یاترا میں سواسو سال سے معاون تھے۔ اعتراض زمین کی منتقلی اور اس طرح ہندوئوں کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے پر تھا۔ کشمیری جنگلات کو بھارتی سرمایہ داروں کی دسترس سے بچانے کی فکر تھی۔ ایک مذہبی تہوار کو سیاست اور تجارت کی بھینٹ چڑھانے کے خلاف پیش قدمی تھی۔ ۲۳ جون کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس تحریک کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے کہا:
وہ ہماری ریاست کی آبادیاتی شناخت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی نہیں بیدار ہوئے تو ہندستان اور اس کے حاشیہ بردار اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہم اپنی زمین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔ بھارتی فوج نے یہاں آٹھ لاکھ کنال سے زائد زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ یہ زمین خالی کرے۔
ہندستان اب علانیہ طور پر کشمیر کی آبادیاتی ہیئت تبدیل کرنے کی پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ ہندستان غیر ریاستی باشندوں کو یہاں آباد کرکے حق خودارادیت کی تحریک کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو، عبدالباری مسعود کا مضمون امرناتھ بورڈ کا تنازعہ، افکارملّی، دہلی، اگست ۲۰۰۸ئ)
اس اصولی موقف کے برعکس، جموں کے ہندوئوں اور خصوصیت سے بی جے پی نے صرف جموں و کشمیر ہی میں نہیں، پورے بھارت میں اس مسئلے کو ہندو مسلم تنازع اور ایک خالص مذہبی فرقہ واریت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ جموں میں احتجاج کی آگ کو بھڑکایا گیا۔ مسلمانوں کو ہدف بناکر مسلم کُش فسادات کا آغاز کیا۔ گوجروں کی آبادیوں کو خصوصی نشانہ بنایا اور کشمیر کے میوہ فروشوں اور تاجروں کو سزا دینے کے لیے نہ صرف سڑک بلاک کر دی بلکہ ٹرک ڈرائیوروں پر تیزاب تک چھڑکا گیا۔ مسلمان تاجروں کی کمر توڑنے کے لیے پھلوں کے سیکڑوں ٹرکوں میں گلنے والے (perishable) پھلوں میں مضرت رساں کیمیکل ڈالا گیا اور یوں ایک اندازے کے مطابق چند ہفتوں میں کشمیری تاجروں کو ۶۰۰کروڑ روپے کا نقصان ہوا جس نے ان کی کمر توڑ دی۔حکومت نے اس احتجاجی مہم کی سرپرستی کی۔ وادیِ کشمیر میں احتجاجی تحریک کو قوت اور تشدد کا نشانہ بنایا اور ۴۰سے زائد افراد کو شہید کردیا گیا۔ ان شہدا میں سب سے نمایاں تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اہم رہنما شیخ عبدالعزیز شہید ہیں جو مظفرآباد کی جانب سڑک کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے اور پاکستانی پرچم ہاتھ میں لیے ربِ حقیقی سے جاملے۔ ان کے جنازے میں ۲ لاکھ افراد نے شرکت کی، نماز جنازہ سیدعلی شاہ گیلانی نے پڑھائی اور سری نگر میں ان کی یاد میں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کی پوری قیادت نے شرکت کی، یعنی سیدعلی شاہ گیلانی، سیدشبیرشاہ، میرواعظ عمرفاروق، یٰسین ملک وغیرہم۔
زمین کا یہ واقعہ ایک تاریخی تحریک کا عنوان بن گیا ہے۔ شیخ عبدالعزیز کی شہادت نے تحریکِ آزادی کو نئی زندگی دے دی ہے۔ جو تحریک کچھ ماند پڑ گئی تھی، وہ ایک بار پھر پورے جوبن پر آگئی ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس وقت تحریکِ آزادی کی پوری قیادت ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے اور ایشو بھی بالکل واضح ہے کہ اصل مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں اور نہ صرف امرناتھ یاترا کے بورڈ کو زمین کچھ بدلی ہوئی شرائط پر دینے کا ہے، بلکہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت اور بھارت کے جارحانہ قبضے سے آزادی کا ہے۔
جو کردار ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کانگرس، ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ نے انجام دیا تھا، آج وہی کردار بی جے پی ادا کر رہی ہے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بالاتر مشیت کا کرشمہ ہے کہ اس کے اس منفی کردار کا پورا پورا فائدہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو ہی پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا بشرطیکہ کشمیر میں مسلمانوں کے پاے استقامت میں لرزش نہ آئے اور پاکستان اپنا کردار ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔ آیئے دیکھتے ہیں بھارت کے اہلِ نظر بی جے پی کے اس کردار کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ The Hindu اخبار کا کالم نگار پرافل بڈوال (Praful Bidwal ) اپنے ۱۷ اگست ۲۰۰۸ء کے کالم میں لکھتا ہے: بی جے پی نے دو مہینے میں جموں اور کشمیر کو سیاسی اور جذباتی اعتبار سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ وہ نوحہ کرتا ہے کہ: پاکستان کی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے والے جہادی علیحدگی پسند ۲۰برسوں میں جو چیز حاصل نہیں کرسکے وہ آزادی کی تحریک کی آبیاری کے لیے (بی جے پی کی تحریک) نے انجام دیا ہے۔
اس کو اعتراف ہے کہ بی جے پی کی اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں کشمیر کی سیکولر اور کثیرالقومی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور اب ’مسلمان کشمیر‘ اور ’ہندو جموں‘ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور اس طرح ایک بار پھر جو مسئلہ مرکزیت اختیار کرگیا ہے وہ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے (the unfinished agenda of partition)کی تکمیل کا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!
یہ وہ ایڈوانی نہیں ہے جو اعتدال پسند واجپائی کا وارث بننا چاہتا تھا۔ یہ ماضی کا رتھ سوار راشٹریہ ایڈوانی ہے، جارحیت پسند، جنگ جو، فرقہ واریت کا زہر اُگلنے والا، اور اپنے جلو میں خونی لکیر چھوڑنے والا۔ اب ایڈوانی ۱۰۰ ایکڑ زمین پر ہندو شیوانسٹ کا خواب دیکھ رہا ہے۔ دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ بھارت میں کسی بھی جگہ ہندوئوں کا پہلے دعوے کا حق ہے کیوں کہ وہ عددی اکثریت میں ہیں، اس لیے پہلا حق رکھتے ہیں۔ یہ ایک سیکولر دشمن موقف ہے، کلاسیکی طور پر نہیں۔
امرناتھ بورڈ کو زمین کی الاٹمنٹ کا مسئلہ اب محض ۱۰۰ ایکڑ زمین کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس نے اس اصل ایشو پر توجہ کو مرکوز کردیا ہے اور یہ بھی ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ بھارت کے سیکولرزم کا اصل چہرہ کیا ہے اور کشمیر کے عوام کی اصل جدوجہد کس مقصد کے لیے ہے، یعنی حق خودارادیت۔ اب امرناتھ بورڈ کی زمین غیرمتعلق (irrelevant) ہوچکی ہے۔ اب اصل توجہ کا مرکز تحریکِ آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد ہے۔ جو مایوسی پاکستان کی حکومت کی بے وفائی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر سے دست کشی نے پیدا کی تھی ختم ہوگئی ہے، تھکاوٹ اور مایوسی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور کشمیر میں عوام ایک بار پھر تازہ دم ہوکر میدان میں آگئے ہیں۔ دو مہینے میں سیاسی جدوجہد کا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے اور جدوجہد ایک نئے تاریخی موڑ پر آگئی ہے۔
۱- ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک متنازع مسئلہ ہے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی اصل مسئلہ ہے جس سے کسی صورت صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری عوام کسی قیمت پر اور کسی نوعیت کی بھی قربانی دے کر اپنی آزادی اور اپنے حق خودارادیت کو فراموش کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بھارت کی ۶۱سالہ مکارانہ چالوں سے اب پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ جو کچھ شیخ عبداللہ کے ساتھ کیا گیا، جس طرح دستور میں دفعہ ۳۷۰ کا ڈھونگ رچا کر کشمیریوں کو رام کرنے اور دراصل غلامی کی زنجیروں میں کسنے کا کھیل کھیلا گیا، ۷ لاکھ فوج کے جارحانہ قوت کے استعمال اور ہرطرح کے ظلم و ستم کے باوجود کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ لاٹھی اور گاجر (carrot and stick) دونوں ناکام رہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اصل مسئلے کا سامنا کیا جائے اور کوئی دیرپا حل نکالا جائے۔
۲- موجودہ تحریک نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے اور اس کا اعتراف بھارت اور عالمی فورم پر کھل کر کیا جانے لگا ہے کہ نہ صرف اصل مسئلہ آزادی کا ہے بلکہ آزادی کی یہ تحریک مقامی اور عوامی تحریک ہے۔ نہ یہ باہر کے کسی اشارے پر برپا کی گئی ہے اور نہ کی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے عوام کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آرہا ہے اور وہ قیادتیں بھی جو بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بن رہی ہیں اب عوام کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہورہی ہیں۔ پی ڈی پی بھی وہی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہے جو تحریکِ حریت کے رہنما اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سابق گورنر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پی ڈی پی کو ایک علیحدگی پسند (secessionist ) جماعت قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایس کے سنہا کا انٹرویو دیپک کمار راتھ کے ساتھ، مطبوعہ (www.organing.org)۔ اس طرح افتخار گیلانی کو دیے گئے انٹرویو میں بھی موصوف فرماتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں پی ڈی پی اور حریت کانفرنس میں کوئی فرق نہیں (ہفت روزہ دی فرینڈلی ٹائمز، ۵ تا ۱۱ستمبر ۲۰۰۸ئ)
یہ اس عوامی تحریک کی قوت ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت اب بھارت سے آزادی کی بات کر رہی ہے اور عوام قائدین اور جماعتوں کو اپنے پیچھے چلا رہے ہیں، لیڈر عوام کو ہانکنے کا کام نہیں کر پارہے، اور سب کا ایک موقف پر اجماع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بڑی نیک فال اور اہم پیش رفت ہے۔
۳- یہ پوری تحریک معجزاتی طور پر سیاسی، جمہوری اور تشدد کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے۔ قوت کا استعمال ہوا ہے تو حکومت کی طرف سے ہوا ہے اور کہیں کہیں تو وہ بے بس ہوگئی ہے جیسے سری نگر میں اقوامِ متحدہ کی فورس کے دفتر کی طرف پیش قدمی کی دعوت جس میں ۱۰لاکھ نہتے افراد نے تمام رکاوٹیں پار کر کے حصہ لیا اور پولیس اور فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس تحریک کے مقامی جمہوری، عوامی اور ریاست گیر ہونے کا اعتراف اپنے اور پرائے حتیٰ کہ ہندستان کے صحافی، دانش ور اور تجزیہ نگار بھی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ۱۹۹۰ء کے بعد ایک بار پھر ہرسطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور کسی صورت غلامی کی اس زندگی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
فرق یہ ہے کہ ۱۹۹۰ میں عسکریت کا پلڑا بھاری اور غالب تھا لیکن ۲۰۰۸ء کی تحریک میں عسکریت کا کردار غیرمرئی اور بالواسطہ ہے، ظاہری اور بلاواسطہ نہیں۔ عسکری تحریک نے بھی اس موقع پر بڑی دانش مندی سے حالات کو متاثر کیا ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر اور جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھارتی سازش کا بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اپنے مجاہدین کو یاتریوں کو محفوظ راستہ (safe passage ) دینے کی ہدایت کی اور جولائی اور اگست کی تحریک کے دوران کوئی عسکری کارروائی نہیں کی بلکہ مجاہدین کو سیاسی کارکن کی حیثیت سے تحریک میں شرکت کی ہدایت دی۔ اس زمانے میں اگر کوئی کارروائی ہوئی ہو تو وہ دُوردراز سے سرحدی علاقوں میں ہوئی۔ بڑی عوامی تحریک (mainstream movement) مکمل طور پر سیاسی اور تشدد سے پاک رہی۔
یہ عسکری قوتوں کی طرف سے ایک شاہ ضرب (master stroke) تھی اور بڑا واضح پیغام تھا کہ عسکریت پسند بھی تحریکِ آزادی کو سیاسی اور جمہوری تحریک کے طور پر چلانا چاہتے ہیں۔ جب حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے سیاسی عمل کا راستہ روکتی ہے تو یہ تحریک عسکریت پر مجبور ہوتی ہے۔ جمہوری تحریک اور عسکریت کے رشتے کا اس سے بہتر اظہار سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں مشکل ہے اور اس کا کریڈٹ عسکری تنظیموں اور ان کے ڈسپلن کو جاتا ہے اور مسئلے کے سیاسی حل میں ان کے کردار کے حدود کی بھی اس سے نشان دہی ہوجاتی ہے۔ اس پورے عمل سے بھارت کے اس ڈھونگ کا بھی پردہ چاک ہوگیا جو وہ ہر احتجاج کو پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر اور آئی ایس آئی کا راگ الاپ کر، کر رہا تھا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ تحریک سیاسی ہے، کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے، جمہوری اور عوامی ہے، اور اگر سیاسی اظہار کا موقع حاصل ہو تو عسکریت کے بغیر زیادہ مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔
۴- اس تحریک کے نتیجے میں ایک اور بڑی اہم چیز رونما ہوئی ہے جو ان ۶۱برسوں میں پہلی بار اس شدت سے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ خود بھارت میں کشمیر کے سلسلے میں نئی سوچ رونما ہوئی ہے، حکومتی سطح پر نہیں، عوامی اور سیاسی سطح پر۔ اب تک بھارتی دانش وروں، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے یک زبان ہوکر بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی کی تائید کی تھی اور ہرظلم پر پردہ ڈال رکھا تھا، نیز سیکولرزم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، بھارت کے کثیرالقومی ماڈل اور ایک ریاست کی علیحدگی کے پورے ملک پر سیاسی اثرات اور دوسری علاقائی تحریکوں کے لیے عمل انگیز (catalyst) بن جانے کے مضمرات کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم، اُمنگوں اور قربانیوں کو نظرانداز کیا ہوا تھا اور اگر بات کرتے تھے تو تھوڑی بہت خودمختاری (autonomy) اور معاشی مدد اور ترقیاتی پروگراموں کی کرتے تھے، اصل مسئلے سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ اب پہلی بار ملک گیر سطح پر یہ سوال زیربحث ہے کہ اگر ہم ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ایک پوری ریاست کے باشندوں کو ان کی مرضی کے خلاف کب تک حکومتی جبر کے ذریعے یا معاشی رشوت کے سہارے اپنی گرفت میں رکھ سکتے ہیں؟ ایک گروہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کشمیر پر قبضے کی فوجی، سیاسی اور معاشی قیمت بہت زیادہ ہے اور اب بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہندستان ٹائمز (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ) کے مقالہ نگار کے الفاظ میں: think the unthinkable، یعنی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اب اسی کی بات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بھارت میں رونما ہونے والے اس رجحان کی کچھ جھلکیاں اپنے قارئین کو دکھائیں تاکہ تحریکِ مزاحمت کی قوت اور بھارت میں رونما ہونے والے نئے رجحان کو، جو مسئلے کے حل کے امکانات کو روشن کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، کو سمجھا جاسکے۔
کیا آپ کشمیر سے آنے والی خبروں کو نااُمیدی کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ پڑھ رہے ہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ میں پڑھ رہا ہوں۔ اب یہ بات واضح ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کی پُرامیدی ، یعنی وہ مضامین جو ہمیں بتاتے تھے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں، سب غلط تھے۔ کشمیر میں درحقیقت ۱۹۹۰ء کے بعد سے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ایک چنگاری، جیساکہ امرناتھ زمین پر تنازع، پوری وادی کو آگ لگا سکتی ہے، لہٰذا ناراضی، غصے اور علیحدگی کا احساس بہت گہرا ہے۔ بھارتی افواج کو قابض فوج تصور کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی کو ظالم و جابر کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ بھارتی دھارے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان کارڈ کھیلنے سے نہیں ہچکچاتیں۔ محبوبہ مفتی لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے کے لیے بہ خوشی راضی ہیں۔
موصوف فرماتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا۔ انتخابات میں دھاندلی کی، دستور کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیریوں کو خصوصی مقام دینے کی کوشش کی۔ مالی اعتبار سے ان کا پیٹ بھرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کے الفاظ میں: ’’بہار کی ریاست کو ملنے والی مرکزی امداد (جو قرض کی شکل میں ہے) فی کس آبادی کے لیے صرف ۸۷۶ روپے ہیں، جب کہ کشمیر میں ہر سال ہر فرد کے حساب سے دی جانے والی امداد (جس کا ۹۰ فی صد عطیہ اور صرف ۱۰ فی صد قرض ہے) ۹ہزار۷سو ۵۴ روپے ہے۔ لیکن ساری ترقیاتی کوششیں اور مالی عنایتیں کچھ کارگر نہیں ہورہیں۔ رہا فوجی طاقت کا استعمال___ تو خزانہ پر بھاری بوجھ ہونے کے سوا اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس باب میں ان کا ارشاد ہے:
کشمیر کی دوسری قیمت فوجی ہے۔ ون سی ۸۱۴ طیارے کے اغوا سے لے کر پارلیمنٹ پر حملے تک بہت سے دہشت گرد حملوں کی کڑیاں کشمیر سے ملتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے حملے پر ہمارا ردعمل آپریشن پاراکرم تھاجس پر ۱۰ مہینے میں ۶ہزار ۵ سو کروڑ روپے خرچ ہوئے اور ۸۰۰ فوجی جوانوں کی جانیں تلف ہوئیں (کارگل ۴۷۴ جانوں میں پڑا تھا)۔ ہرروز ہمارے فوجیوں اور نیم فوجیوں کو دہشت گرد حملوں، دبائو اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تو میرا سوال یہ ہے: ’’ہم اب تک کشمیر کے ساتھ کیوں لٹک رہے ہیں، جب کہ کشمیری ہمارے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کرنا چاہتے؟‘‘ جواب ہے: مظاہرئہ مردانگی (machismo)۔ ہمیں اس بات پر یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر کشمیر علیحدہ ہوا تو بھارت کمزور ہوجائے گا۔ اس لیے ہم جانیں اور بلین ڈالر کھو رہے ہیں اور کشمیری ہمیں برابھلا کہنے کا مزا لے رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہم انھیں چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے جن کا تعلق بھارتی سیکولرزم، بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل اور دوسروں پر علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے اثرات وغیرہ سے ہے، موصوف صاف لفظوں میں ’اَن کہی‘ کہہ ہی ڈالتے ہیں، یعنی:
میرا کہنا ہے کہ ہمیں وادی میں استصواب راے کروانا چاہیے۔ کشمیری اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کریں۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں خوش آمدید ہے لیکن اگر وہ نہیں چاہتے تو ہمارے پاس انھیں ساتھ رکھنے کا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا ووٹ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کے ساتھ تھوڑا سا اور علاقہ شامل ہوجائے گا۔ اگر وہ آزادی کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں تو صرف ۱۵منٹ لگیں گے بغیر ان اربوں روپوں کے جو بھارت نے ان پر برسائے لیکن یہ ان کا فیصلہ ہوگا۔
کچھ بھی ہو بھارت کا کیا نقصان ہے؟ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینا سب سے درست کام ہے۔ اور اگر آپ نہیں رکھتے، تب بھی یقینا ہم اپنے وسائل پر اپنی زندگیوں اور قوم کی حیثیت سے اپنی عزت پر اس مستقل تکلیف دہ دبائو سے نجات پاکر بہتر حال میں ہوں گے۔
یہ بھارت کی صدی ہے۔ ہمارے پاس فتح کرنے کے لیے دنیا ہے اور اس کے لیے وسائل بھی ہیں۔ کشمیر ۲۰ویں صدی کا ایک مسئلہ ہے۔ ہم یہ نہیں کرسکتے کہ ہم دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کر رہے ہوں اور یہ مسئلہ ہمیں پیچھے کھینچے اور ہمارا خون نکالتا رہے۔(ہندستان ٹائمز، ۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)
بھارتی کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں کل ایک غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا… مقامی مسجدوں سے لائوڈ اسپیکروں سے ’ہم آزادی چاہتے ہیں‘ کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ یہ مظاہرے کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلسل احتجاج کا ایک حصہ تھے۔ میرواعظ فاروق کہتے ہیں: یہ وقت ہے کہ ہم ریفرنڈم کے ذریعے اپنے حقِ خود ارادیت کا فیصلہ کرلیں۔ بھارت کہتا ہے کہ کشمیر کے مستقبل پر عشروں پرانا ریفرنڈم اب متروک ہوگیا ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر دہلی میں مایوسی کا بڑھتا ہوا ایک احساس ہے جہاں ۱۹۸۹ء سے بغاوت مسلسل سلگ رہی ہے۔ جمعہ کے دن لاکھوں کشمیری سری نگر میں جمع ہوگئے اور آزادی کا مطالبہ کیا اور بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔ بڑے بڑے دانش ور یہ کہہ چکے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے ہمالیائی علاقے کے بارے میں ناقابلِ تصور بات سوچی جائے اور بھارت سے آزادی پر غور کیا جائے۔ (دی گارڈین ، ۲۵ اگست ۲۰۰۸ئ)
دی گارڈین کے ہفتہ وار اخبار آبزرور میں اس واقعے کے رونما ہونے سے پہلے ۸جون کی اشاعت میں ایک بھارتی مضمون نگار نوپال ڈھلے وال (Nupal Dhalivel) نے اپنے دورئہ کشمیر کے تاثرات اور اہم بیرونی سیاحوں سے انٹرویو کرکے حالات کا جو نقشہ کھینچا تھا اس کا خلاصہ ایک اسرائیلی سیاح کے الفاظ میںیہ تھا کہ:
کشمیر کو ایک خودمختار ریاست ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کو خودمختاری اور حق خودارادیت کا حق حاصل ہے۔
۱۵ اگست کو بھارت نے برطانوی راج سے آزادی کی تقریب منائی لیکن کشمیریوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک بندھ (bandh) منظم کیا۔ ایک دن جو بھارت میں نوآبادیت کے اختتام کی علامت ہے، وادی میں بھارتی نوآبادیت کی علامت بن گیا۔ ایک لبرل کی حیثیت سے میں لوگوں پر ان کی مرضی کے خلاف حکومت کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ دو قوموں کی تعمیر ایک مشکل اور پیچیدہ مشق ہے۔ ابتدائی مزاحمت علاقائی اُمنگوں کو، ایک وسیع تر قومی شناخت کی راہ دکھا سکتی ہے۔ تامل علیحدگی پسندی کا اختتام اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔
میں کبھی کشمیر کے ادغام کی امید رکھتا تھا لیکن ۶ عشروں کی کوشش کے بعد کشمیری علیحدگی ہمیشہ سے زیادہ نمایاں نظر آرہی ہے۔بھارت کشمیر کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، نوآبادی بناکر حکومت کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم، بھارت میں برطانوی راج اور کشمیر میں بھارتی حکومت کی مشابہت نے میرا اطمینان ختم کردیا ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاست کے مہاراجا نے جب دستخط کردیے تو کشمیر بھارت کا ایک حصہ بن گیا۔ افسوس جب زمینی حقائق تبدیل ہوجاتے ہیں تو ایسی قانونی باتیں غیرمتعلق ہوجاتی ہیں۔ بھارت کے بادشاہوں اور شہزادوں بشمول مغلوں نے برطانوی راج سے الحاق کرلیا۔ یہ دستاویزات اس وقت بے معنی ہوکر رہ گئیں جب اہلِ بھارت نے تحریکِ آزادی برپا کردی۔
برطانیہ نے بڑے عرصے تک یہ اصرار کیا کہ بھارت ان کی سلطنت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان کے تاج کا ہیرا ہے جو کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہم بھی اسی طرح کا انکار کر رہے ہیں جیسے امپریلسٹ برطانوی عشروں سے انکار کرتے رہے۔
بھارت نے کشمیر کے ساتھ الحاق چاہا ہے نہ کہ نوآبادیاتی حکمرانی۔ لیکن کشمیری کچھ بھی ہو، آزادی مانگتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اتنی شدت سے مزاحمت کرتے ہیں، اتنے طویل عرصے کی حکمرانی نوآبادیت سے مشابہ ہے خواہ ہمارے ارادے کچھ بھی ہوں۔
۶ عشرے قبل ہم نے کشمیریوں سے استصواب راے کا وعدہ کیا تھا۔ اب ہمیں اسے منعقد کردینا چاہیے اور انھیں تین اختیارات دینے چاہییں: آزادی، پاکستان کے ساتھ اتحاد، اور بھارت کے ساتھ اتحاد۔ یقینا وادی کی اکثریت خودمختاری کو اختیار کرے گی۔ جموں اور شاید لداخ بھی بھارت کے ساتھ رہنا چاہیں گے۔ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے دیں، نہ کہ سیاست دان اور بھارت اور پاکستان کی فوجوں کو۔ (ٹائمز آف انڈیا، ۱۷ اگست ۲۰۰۸ئ)
ٹائمز آف انڈیا میں ۲۰ اگست کو شائع ہونے والا مضمون نہایت اہم ہے، اس کا عنوان ہے: India minus K-word
کیا یہ وقت ہے کہ ’ک‘ کا لفظ بھارت سے باہر ہو اور بھارت ’ک‘ سے باہر ہوجائے؟ جس وقت پاکستانی اپنے عرصے سے مسلط آمر پرویز کی رخصتی کا جشن منا رہے تھے، کشمیر کے ’پاکستانی‘ اس سے زیادہ نہیں تو برابر کے جابرو ظالم بھارت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے جسے بہت پہلے رخصت ہوجانا چاہیے تھا۔
امرناتھ تنازع اور مبینہ ’معاشی بدحالی‘ نے وادی میں ایک بے نظیر پاکستان حامی جذبات کو بھڑکا دیا ہے جس کا اظہار چاند تارے والے جھنڈے کو کھلم کھلا دکھلانا اور سری نگر اور پام پور میں بڑی بڑی بھارت مخالف ریلیوں سے ہوتا ہے۔ علیحدگی کی تحریک جنگجوئوں کے خوف سے نہیں چل رہی، آج علیحدگی پسندی راے عامہ ہے جو آگے چل کر ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
احتجاج کی اس طوفانی لہر (ground swell) کو جو کئی نسلوں سے جاری ہے، محض یہ کہہ کر نظرانداز کرنا آسان ہے کہ اس کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے، حالانکہ کشمیر یا وادیِ کشمیر اب زیادہ دیر تک اس کٹھ پتلی کی طرح نہ ہوگی جو اپنے پاکستانی آقائوں کی زبان بول رہی ہو۔ کشمیر خود اپنے لیے آواز بلند کر رہا ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بہت واضح ہے: بھارت ہمارا پیچھا چھوڑ دے۔
کشمیر آج جو کچھ دیکھ رہا ہے، وہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔ آزادی کا مطالبہ جس کے پیچھے بندوقیں نہیں بلکہ مخالف ہونے کی طاقت ہے___ جو بھارت کے تصور کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ برسوں کی مسلسل کوشش، فوجوں کی تعیناتی، متعدد بار ہونے والے انتخابات، مال و دولت کے زرتلافی دینے کے باوجود بھارت آزادی کے مطالبے کا مؤثر مقابلہ نہیں کرسکا۔ کیا وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دوبارہ دیکھا جائے؟ کیا کشمیر کو پُرامن طور پر جانے دینے سے بھارت کا تصور مسخ ہوجائے گا یا اس میں وسعت ہوجائے گی اور زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔
ہفت روزہ ٹائم کی ۱۵ ستمبر کی اشاعت میں Juoti Thottam کا مضمون Valley of Tears (اشکوں بھری وادی) شائع ہوا ہے جس میں کشمیر کو اب بھی بھارت کا حصہ رکھنے کا خواب دکھایا گیا ہے مگر زمینی حقائق کے اعتراف کے سوا کوئی چارئہ کار نظر نہیں آتا:
تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کشمیر پر لڑے اور ۱۹۸۹ء سے کشمیریوں کی علیحدگی کی تحریک میں بھارتی افواج کو آزادی پسندوں کی جانب سے ہمیشہ یہ دھمکی رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے جو ان کی بندوقوں سے جنگ کر رہا ہے۔ بھارت نے علیحدگی پسندوں کو طاقت کے زور پر خاموش کر دیا تھا لیکن امرناتھ نے ان کی تحریک کو دوبارہ زندہ کردیا اور ۱۸ اگست کے ۵لاکھ سے زائد کے ایک خصوصی مظاہرے میں آزادی کے نعرے اور پاکستان کے لہراتے جھنڈوں نے ثابت کردیا ہے کہ کشمیری بھارت کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔
بھارت میں لوگ کشمیر میں دل چسپی کھو رہے ہیں۔ یہ ایک مایوسی کی علامت ہے۔ اولین طور پر یہ بھارت کی سیاسی ناکامی ہے کہ اختلاف میں اتحاد کے وعدے کو پورا نہیں کرسکا۔ بھارت نے طویل عرصے میں کشمیر میں لاکھوں ڈالر امداد دی ہے اور اس سے زیادہ رقم خرچ کی ہے مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ امن کا مطلب محض عدم جنگ نہیں ہے بلکہ معاملہ سیاسی تصفیے کا ہے۔ ۵لاکھ بھارتی افواج کی واپسی جو اس وقت کشمیر پر قابض ہے، اور سب سے زیادہ اہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا کہ فوج کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر کشمیری شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بھارتی حکومت نے ان مشکل مسائل کو حل نہیں کیا ہے جو کشمیریوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ وہ بے چین ہیں۔ اسی لیے کشمیر کے ناپایدار امن کو توڑنے کے لیے انھیں صرف ایک غلطی کی ضرورت تھی۔ اس نے ایک نہیں بلکہ دو نہایت خطرناک احتجاجی تحریکیں برپا کردیں۔ ایک ہندو قوم پرستوں کی اور دوسری کشمیری انتہاپسندوں کی جنھوں نے ایندھن فراہم کیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ اب بھارت نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ علیحدگی پسند کشمیری ہیں نہ کہ پاکستان سے بھیجے ہوئے کچھ لوگ۔ (ٹائم، ۱۵ ستمبر ۲۰۰۸ئ)
اس سلسلے کا سب سے اہم اور تہلکہ خیز مضمون مشہور ناول نگار اور سیاسی کارکن ارون دھتی راے کا ہے جو پہلے مجلہ آؤٹ لُکمیں شائع ہوا۔ پھر اس کا کچھ مختصر متن انگلستان کے روزنامہ دی گارڈین نے شائع کیا اور اس کے بعد دنیا کے تمام ہی اہم اخبارات نے اس کے اقتباسات شائع کیے۔ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے لیکن ہم صرف اس کے چند حصے ناظرین کی نذر کر رہے ہیں:
گذشتہ ۶۰دنوں سے، یعنی جون کے بعد سے کشمیر کے عوام آزاد ہیں، حقیقی مفہوم میں آزاد۔ انھوں نے اپنی زندگیوں سے ۵ لاکھ مسلح فوجیوں کی بندوقوں کے سایے کی وحشت دنیا کے سب سے زیادہ گھنے فوجی علاقے میں اُتار پھینکی۔
۱۸ سال تک فوجی قبضہ رکھنے کے بعد بھارتی حکومت کا ڈرائونا خواب بدترین خدشات سچ ثابت ہوا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد کہ اس نے جنگجو تحریک کو کچل دیا ہے، اب اس کا سامنا ایک غیرمتشدد وسیع عوامی احتجاج سے ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے۔ اس احتجاج کو قوت عوام کی کئی برسوں کی ظلم و جبر کی یادوں نے دی ہے، جس میں لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں، ہزاروں لاپتا ہوگئے ہیں، لاکھوں کو ٹارچر کیا گیا ہے، زخمی کیا گیا ہے اور تذلیل کی گئی ہے۔ اس طرح کا غصہ جب ایک دفعہ باہر نکل آئے تو اس کو آسانی سے دوبارہ بوتل میں بند کرکے وہاں نہیں بھیجا جاسکتا جہاں سے وہ نکلا تھا۔
تقدیر کے ایک اچانک موڑ اور ۱۰۰ ایکڑ سرکاری زمین امرناتھ منتقل کرنے کا غلط اقدام ایسا ثابت ہوا جیسے پٹرول کی ٹینکی پر دیا سلائی پھینک دی گئی ہو۔ ماضی میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن حال میں طویل مدت تک اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کشمیر کی بڑی سیاسی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور عوامی جمہوری پارٹی نئی دہلی کے ٹی وی اسٹوڈیوز میں تابع داری کے ساتھ حاضر رہتی ہیں لیکن کشمیر کی سڑکوں پر سامنے آنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ مسلح جنگجو ظلم و جبر کے بدترین سایوں میں آزادی کی مشعل اٹھائے نظر آتے تھے۔ اگر وہ کہیں ہیں تو پچھلی نشست پر آرام سے بیٹھے ہیں اور عوام کو تبدیلی کے لیے لڑنے دے رہے ہیں۔
علیحدگی پسند قائدین جو مظاہروں میں آتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، وہ اب قائدین نہیں بلکہ پیروکار ہیں۔ ان کی راہ نمائی ایک پنجرے میں بند غصے سے بھرے ہوئے لوگوں کے سامنے آنے والی غیرمعمولی توانائی سے ہورہی ہے جوکشمیر کی سڑکوں سے بھڑک اُٹھی ہے۔ دن پر دن گزرتے گئے اورہزاروں لاکھوں افراد ان جگہوں کے گرد اکٹھے ہوتے گئے جن کے ساتھ ان کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مورچوں کو گرا دیتے ہیں، تاروں کی چاردیواری کوتوڑ دیتے ہیں اورفوجیوں کی مشین گنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں: ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی! اور ساتھ ہی اتنی ہی تعداد میں اتنے ہی لوگ نعرہ لگاتے ہیں: جیوے جیوے پاکستان! یہ آوازیں پوری وادی میں گونج رہی ہیں جیسے کہ ایک ٹین کی چھت پر مسلسل بارش کی آواز ہو یا جیسے کہ ایک طوفان کے دوران بجلی کی کڑک۔
۱۵ اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر سری نگر کے اعصابی مرکز لال چوک پر ان ہزاروں لوگوں کا قبضہ تھا جو اپنے ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈے لہرا کر ایک دوسرے کو یومِ آزادی (باسی) کی مبارک باد دے رہے تھے۔
ہر طرف پاکستانی جھنڈے تھے۔ ہر طرف نعرے تھے: پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااللہ! میری طرح کے کسی فرد کے لیے جو مسلمان نہیں ہے اس آزادی کی تعبیر سمجھنا ناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرور ہے۔ میں نے ایک نوجوان خاتون سے کہا کہ کشمیر کی اس طرح آزادی سے ایک عورت کے لیے آزادی میں کمی نہیں ہوجائے گی۔ اس نے کندھے اُچکائے اور جواب دیا: ہمیں اس وقت کس قسم کی آزادی حاصل ہے؟ بھارتی فوجیوں سے اپنی عصمت دری کرانے کی۔ اس کے جواب نے مجھے خاموش کردیا۔ سبزجھنڈوں کے سمندر میں میرے لیے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ اپنے آس پاس ہونے والی بغاوت کے گہرے جذبات دیکھ کر ان پر دہشت گرد جہاد کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔ یہ کشمیریوں کے لیے ایک کتھارسس تھا، جذبات کے اظہار کا ایک موقع۔ ایک طویل پیچیدہ جدوجہد کا ایک تاریخی لمحہ، تمام خامیوں، مظالم اور الجھائو کے ساتھ جو آزادی کی تحریکوں میں ہوتے ہیں۔
آج کے جیسے نازک لمحوں میں چند چیزیں خوابوں سے زیادہ اہم ہیں۔یوٹوپیا کی طرف سست پیش قدمی اور انصاف کا ایک خام تصور وہ نتائج لائے گا جن کے بارے میں سوچا نہیں جاسکتا۔ تقسیم کے ہیولے نے سر باہر نکال لیا ہے۔ ہندوتا نیٹ ورک پر یہ خبر گرم ہے کہ وادی میں ہندوئوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور انھیں بھگایا جا رہا ہے۔ جموں سے آنے والی فون کالیں بتاتی ہیں کہ دو ہندو اکثریتی اضلاع سے مسلمان بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تقسیم پاک و ہند کے وقت ہونے والے خونی غسل کی یادیں، جس میں ۱۰لاکھ جانیں کام آئیں، واپس آرہی ہیں۔ بہرحال مستقبل میں جو کچھ ڈراوے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کا جواز نہیں بن سکتا کہ قوم اور عوام پر فوجی آپریشن کو جاری رکھا جاسکے۔ پرانا نوآبادیاتی موقف کہ مقامی لوگ آزادی کے لائق نہیں، کسی نوآبادیاتی منصوبے کے لیے اب قابلِ استدلال نہیں ہے۔
یہ ہے ہوا کا رخ___ ایک طرف تحریکِ آزادی اپنے نئے شباب پر، اور دوسری طرف بھارت میں پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر روایتی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں جمہوری اصولوں اور انصاف اور حقائق شناسی کی بنیاد پر نئے غوروفکر کی ہلکی سی کرن کا ظہور۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس کو کشمیر کے مسلمانوں نے تو مضبوطی سے تھام لیا ہے مگر پاکستان کی حکومت اور پاکستانی قوم کا کیا فیصلہ ہے___ مستقبل کا اس پر بڑا انحصار ہے۔
اھلِ پاکستان کا فرض
پاکستان مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں محض ایک تماشائی نہیں، صرف مظلوم کشمیریوں کا وکیل ہی نہیں، گو وکالت کی ذمہ داریاں اس نے ماضی میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی ہیں۔ پاکستان اس قضیے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے___ ایک مرکزی کردار۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور کشمیر کے مسلمان ساری مشکلات اور پاکستان کی حکومتوں سے مایوسیوں کے باوجود پاکستان ہی میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔
کشمیر اور بھارت کے اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ دور رخصت ہوچکا ہے جس میں پرویز مشرف نے یک طرفہ طور پر پاکستان کی قومی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی کو یکسر تبدیل کردیا تھا اور امریکا اور بھارت سے دوستی کے خمار میں اپنا سب کچھ لٹادینے کی ہمالیہ سے بڑی خطا کا ارتکاب کیا تھا۔ ۱۸ فروری کے انتخابات میں عوام نے مشرف کی کشمیر پالیسی کو بھی رد کردیاتھا اور ان نئے حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستانی حکومت اور قوم یک زبان ہوکر تحریکِ آزادی سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار کریں۔ اس تحریک کی اخلاقی ہی نہیں بھرپور سیاسی، سفارتی، مالی اور دوسرے ذریعے سے مدد کریں اور جس طرح کشمیری عوام نے اپنے خون اور پسینے سے اس تحریک کو بامِ عروج تک پہنچایا ہے اسی طرح پاکستان اس میں بھرپور شرکت کرکے، عالمی راے عامہ کو مؤثر انداز میں متحرک کرکے بھارت پر سفارتی، سیاسی اور معاشی دبائو ڈالے تاکہ یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوسکے۔
ہمیں خوشی ہے کہ قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حقِ خودارادیت اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عوام کی مرضی کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے حق کی تائید کی ہے اور ان کی جدوجہد سے یک جہتی کا مظاہرہ کیاہے۔ آزاد کشمیر کے عوام نے چکوٹھی جاکر مظفرآباد آنے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے استقبال کا اہتمام کرکے اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا اظہار کیا ہے۔یہ وقت پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ، تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کے لیے فیصلے کا وقت ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جسے ہرگز ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ پرویزمشرف کی پالیسیوں کو قوم اور تاریخ دونوں نے رد کردیا ہے اور سب سے زیادہ خود بھارت کی قیادت نے اپنے دوغلے پن اور حقیقی عزائم کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ آج جموں و کشمیر کے مسلمان ایک بار پھر ایک فیصلہ کن جدوجہد میں سر پر کفن باندھ کر کود پڑے ہیں۔ اب پاکستان کا فرض ہے کہ اس تحریک سے مکمل یک جہتی کا اظہار کرے اور اس کی ہرممکن طریقے سے مدد کرے___ سفارتی، سیاسی اور مادی___ ۱۹۹۰ء میں جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اور جو ہماری گرفت سے نکل گیا تھا، تاریخ نے ایک بار وہ موقع مسلمانانِ جموںو کشمیر اور پاکستانی قوم کو دیا ہے۔ پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے اور وہ اس تحریک کی مکمل تائید اور اسے فیصلہ کن مقام تک پہنچانے میں بھرپور کردار کی ادایگی___ کشمیر ایک بار پھر پاکستانی قوم، اُمت مسلمہ اور انسانی ضمیر کو پکار رہا ہے۔ کیا ہم اپنا فرض ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
اقوامِ عالم اور عالمی تہذیبوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والے عناصر میں فکروثقافت کو بنیادی مقام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم یا نسل کے عادات و اطوار ہوں، اس کی عبادات ہوں، لباس ہو یا معیشت و سیاست ہو، اگر غور کیا جائے تو ہرہرشعبے میں اس کی بنیادی فکر وثقافت کی ایک جھلک پائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مراکش سے انڈونیشیا اور وسط ایشیا سے شمالی امریکا اور جنوبی افریقہ تک اُمت ِمسلمہ کی پہچان اس کی ثقافت و فکر ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
دورِحاضر میں جسے عالم گیریت کا دور کہا جانے لگا ہے، ایک سوال علمی اور تحقیقی سطح پر یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عالم گیریت کے دور میں جب کوئی علاقائی ثقافت ہزارہا میل سے نشر ہونے والے نغموں، ڈراموں، سنجیدہ اور غیرسنجیدہ گفتگوؤں کی زد میں آچکی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی خطے کی ثقافت دوسرے خطے کی ثقافت کے منفی یا مثبت اثرات سے محفوظ رہ سکے؟ مزید یہ کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہرخطہ اپنی ثقافت و روایت سے وابستہ ہی رہے۔ آخر اس میں کیا حرج ہے کہ ایک ایسی چڑھتی ہوئی ثقافت و فکر کو جس کے نتیجے میں یورپ و امریکا نے معاشی، عسکری اور سیاسی فوقیت حاصل کرلی ہے، ہم بھی اختیار کرکے انھی کی طرح ’ترقی یافتہ‘ بن جائیں اور ہمارے ہاں بھی جلیبی کی طرح بل کھاتی شاہراہیں اور ایک چھت کے نیچے سو دکانوں والے بازار وجود میں آجائیں۔ کیا روایت پرستی یا ’قدامت‘ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے؟ اس سے آگے بڑھ کر ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا کوئی ثقافت اسلامی بھی کہلا سکتی ہے یا درحقیقت مسلمانوں نے جب اور جہاں طبع زاد طور پر کوئی ایجادات، مصنوعات اور اختراعات کرلیں، انھی کو اسلامی ثقافت سے تعبیر کردیا گیا؟ گویا اسلامی ثقافت ایک خیالی نقشے سے زیادہ کوئی چیزنہیں ہے، جب کہ عملاً مختلف خطوں میں پائے جانے والے مسلمانوں نے اپنے الگ الگ خطوں کی ضروریات و حالات کی مناسبت سے جو طورطریقے اختیار کیے انھیں اسلامی ثقافت سے تعبیر کردیا گیا۔ ایک پہلو یہ بھی قابلِ غور ہے کہ کیا اسلامی ثقافت، اگر کوئی چیز اس نام کی ہے، عربی ثقافت سے مختلف کوئی چیز ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ عربوں کے رسوم و رواج اور بود وباش کو ہی اسلامی ثقافت و تہذیب اور فکر قرار دے دیا گیا۔ یہ اور اس نوعیت کے بہت سے سوالات تقاضا کرتے ہیں کہ اسلامی فکر وثقافت کی بنیادوں اور مظاہر پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی جائے اور اسلامی تشخص و شخصیت کو قرآنِ کریم کی روشنی میں دیکھا جائے۔
اس تحریر کا بنیادی مقصد ان سوالات کو اٹھانا ہے جو آج نوجوانوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد حتمی جوابات فراہم کر کے بحث کا دروازہ بند کرنا نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنّت کی روشنی میں کھلے ذہن کے ساتھ ذہنی دریچوں کو کھولنا ہے تاکہ تازہ ہوا کی مدد سے مسئلے کا ادراک اور اس پر مسلسل غور کا سلسلہ چل سکے۔ مسلسل غوروفکر قرآنِ کریم کی بنیادی دعوت ہے۔ اسی بنا پر وہ بار بار اپنے پڑھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ کسی لمحے بھی اس عمل کو ترک نہ کریں۔ جب تک ایک بندہ اپنے رب سے اس درخواست کے ساتھ کہ وہ اسے علم و ہدایت دے (رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)، صراطِ مستقیم پر رکھے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o الفاتحہ۱:۵)، نفس کے فتنوں اور شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھے، یہ کام کرتا رہے گا۔ قرآنِ کریم کے معانی و مفہوم کے نئے نئے اسرار اس پر کھلتے رہیں گے اور جب وہ یہ سوچ کر بیٹھ جائے گا کہ جو کچھ ہدایت ملنی تھی مل چکی اس کا ذہنی اور فکری سفر جمود کا شکار ہوجائے گا۔
مذاہبِ عالم پر ایک عمومی اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عقلیت، تجزیہ اور تفکر کی راہیں مسدود کر کے اندھی تقلید، جذباتیت، بنیاد پرستی، شدت پسندی اور غلو کو رواج دیتے ہیں اور اپنے آپ کو حتمی سمجھنے کی بنا پر علمی تحقیق، تجزیہ اور تنقید کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اسلام بظاہر وہ واحد دین ہے جو عقل، مشاہدہ، تدبر،تجزیہ، تزکیہ اور مسلسل فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو انسان کو سوال اٹھانے اور سوالات کے حل تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
قرآنِ کریم میں غوروفکر کرنے کی دعوت تقریباً ہر صفحے پر دی گئی ہے۔ فکر کے حوالے سے اس کے مختلف پہلوئوں پر ۱۹ سے زائد مقامات پر مختلف زاویوں سے انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔اس کے مفہوم میں سوچنے (اِِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَo ’’اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی‘‘۔ المدثر ۷۴: ۱۸)، تنہا یا اجتماعی طور پر مل کر دماغ لڑانے اور فکر کرنے (قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یَقْدِرُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo’’اے نبیؐ! ان سے کہو’’میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا عطا کرتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے‘‘۔ السبا ۳۴:۳۶)، اور دنیا و آخرت کے حوالے سے فکر کرنے، منطقی انداز میں واقعات و حقائق کو مرتب کرکے غوروفکر کرنے کے لوازم پائے جاتے ہیں (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَo ’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوے کا کیا حکم ہے؟ کہو اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ پوچھتے ہیں: ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت میں دونوں کی فکر کرو‘‘۔البقرہ ۲:۲۱۹)۔ خود قرآنِ کریم اپنے لیے ذکریٰ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے (الانعام ۶:۶۸) اور اپنے آپ کو تمام انسانوں کے لیے یاددہانی، غوروفکر پر اُبھارنے والی ہدایت و نور قرار دیتا ہے۔ مختلف اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے واقعات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہراتا ہے کہ اس کا مقصد محض تاریخی واقعات کا بیان نہیں ہے بلکہ غوروفکر کی دعوت دینا ہے۔کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ o ’’اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غوروفکر کرو‘‘۔ (البقرہ۲:۲۶۶)
سورۂ آل عمران میں فکر کے عمل کو ذکر کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے اسے اہلِ دانش کی اہم پہچان بتایا گیا ہے (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo’’زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں‘‘۔ ۳:۱۹۰)گویا اہلِ دانش نہ تو اپنی آنکھیں اور کان بند رکھتے ہیں اور نہ دل کی آنکھ کو موندنے دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے آسمان اور زمین میں اور خود ان کی اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ اگر وہ صرف ان پر غور کرلیں اور فکر کا دامن تھامے رہیں تو بہت کم ایسے ہوںگے جو گمراہ ہوں۔
انسان کی یہی وہ صلاحیت ہے جس کی بنا پر اسے حیوانات سے ممتاز کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور ہدایت ِربانی کے تذکرے کے بعد کہ شاید اس طرح لوگ فکر پرآمادہ ہوں، قرآنِ کریم ان افراد کا ذکر کرتا ہے جو جانتے بوجھتے تفکر اور غوروفکر کرنے سے بھاگتے ہیں۔ غفلت میں پڑے ہوئے اِن افراد کے بارے میں قرآن یوں مخاطب ہوتا ہے کہ: لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo (الاعراف ۷:۱۷۹) ’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔
انسان تفکر کے لیے جن ذرائع کو استعمال کرتا ہے ان میں عقل، قلب، سماعت و بصارت ہی علم کے حصول کے ذرائع ہیں لیکن اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتِ بصارت و سماعت کو استعمال نہ کرے اور جو کچھ آنکھ دیکھتی ہو یا دیکھ سکتی ہو، اسے نظرانداز کرتا رہے اور جو کچھ کانوں کے ذریعے قلب و دماغ تک پہنچ سکتا ہو، اس سے اپنے آپ کو بچاکر رکھے تو پھر وہ اپنے من کی بھول بھلیوں ہی میں گرفتار رہے گا۔ خودساختہ تصورات میں گم اور غوروفکر سے عاری رہنے کے سبب علم و ہدایت کے نور سے محروم ہوجائے گا۔ ایسے ہی افراد کو قرآنِ کریم جانوروں سے تشبیہہ دیتا ہے بلکہ ان سے بھی گیا گزرا سمجھتا ہے۔
مغربی دانش کا ایک مفروضہ یہ ہے کہ الہامی کتاب کی پیروی سے انسان گویا عقل سے عاری، قدامت پرست اور بنیاد پرست بن جائے گا، جب کہ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو ہرلمحے اپنے پڑھنے والوں کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ اس دعوتِ فکر میں اولاً اس نکتے پر زور دیا جاتا ہے کہ تعصبات اور خودساختہ ذہنی تحفظات کے خول سے نکل کر ایک شخص اردگرد کی کائنات پر غور کرتے ہوئے اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ کیا جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے یہ خود اس کے اپنے ذہن کی تخلیق ہے؟ یا کسی اور اُس جیسے فرد یابہت سے افراد میں اجتماعی طور پر یہ قوت ہے کہ وہ اس طرح کی کائنات، چمکتا آسمان، گرجتے بادل، کڑکتی بجلی، بلندوبالا پہاڑ، وادیاں، سبزہ زار اور بدلتے موسم، غرض ایک عالمِ رنگ و بو کو پیدا کرسکیں یا اس نظامِ ہستی کو اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کرسکیں یا عقل و تجربہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس پوری کائنات کا ایک ہی خالق اور مالک جو مدّبر و قوی ہو، حی و قیوم ہو، ہونا چاہیے۔ گویا انسان کو اپنا سراغ لگانے کے لیے جس کسی نکتے سے فکر کا آغاز کرنے کی دعوت دی جاتی ہے وہ فکر آخرکار اسے حق و صداقت تک پہنچنے کے لیے ایک عقلی سفر پر لگا دیتی ہے۔
یہی وہ فکر ہے جسے ہم قرآنی اور مسلم فکر سے تعبیر کرسکتے ہیں اور جو موجود ذرائع علم کا جہاں تک ممکن ہو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا سفر اختیار کرسکتی ہے جس کا مقصد محض فکری اٹھکیلیاں نہ ہوں، بلکہ اصلاحِ حال اور تعمیر ِمستقبل کے لیے نظامِ حیات کی تلاش ہو۔ اس پُرمعنی عمل کو قرآنِ کریم فکر اور ذکر سے تعبیر کرتا ہے، یعنی وہ فکر جو مشاہدے، یاد دہانی، تجزیے اور تجربے کے ذریعے انسان کو اپنی منزل کے تعین میں راہ نمائی اور امداد فراہم کرسکے۔ اسی لیے علمِ نافع کی اصطلاح کا استعمال اس فکر کے لیے کیا جاتا ہے جو تعمیری و متحرک ہو اور مستقبل کا شعور رکھتی ہو۔
قرآنِ کریم نے دنیا اور آخرت کی فکر پر بار بار اسی لیے متوجہ کیا ہے کہ فکر محض دنیاوی معاملات تک محدود نہ ہو بلکہ انسان کو اس کی حقیقی منزل اور مقام تک کامیابی کے ساتھ لے جانے میں مددگار ہو۔ وہ اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا نہ پھرے۔ وہ ہر پگڈنڈی پر نہ چل پڑے بلکہ صراطِ مستقیم پر استقامت اور صبر کے ساتھ گامزن رہے، حتیٰ کہ اپنے مقصود و مطلوب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ایسا راستہ اختیار کرلے جو اس کے رب کا پسندیدہ اور مقرر کردہ راستہ ہو۔ انسانوں کا جو گروہ اس تعمیری فکری عمل میں مصروف ہوتا ہے اسے قرآنِ کریم قَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ قرار دیتا ہے (مزید ملاحظہ ہو: النحل ۱۶:۱-۱۱)۔ اس تعمیری فکری عمل کو وحیِ الٰہی کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم ان لوگوں کو جو فکر کرنے والے ہوں، یوں مخاطب کرتا ہے: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶: ۴۳-۴۴)’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لیے اُتاری گئی ہے۔ اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں (وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ)‘‘۔
انسان کو یہ دعوتِ فکر محض کائنات یا خود اپنے نفس کی جانب نہیں بلکہ وحیِ الٰہی کے سمجھنے کی طرف دی جارہی ہے تاکہ وحیِ الٰہی کے تمام پہلوئوں کو سمجھنے کے بعد وہ عقلی رویہ اختیار کرسکے جو اس ہدایت کا مقصود و مطلوب ہے۔ آخرکار یہی فکری عمل وحیِ الٰہی میں موجود ہدایات و اصول پر غوروفکر کرنے کے نتیجے میں جدید مسائل کے حل کی طرف رہنمائی کرے گا، اور اس طرح وحی کے غیرمتغیر اور مستقل وجود کے تعامل سے، تغیر حالات و زمانہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے گا۔ اگر وحیِ الٰہی کے سمجھنے کے فکری عمل میں جمود آ جائے تو مسائل کے حل کا عمل جو دراصل ترقی کا عمل ہے اپنی رفتار کھو بیٹھتا ہے اور اُمت جمود اور تقلید کا شکار ہوجاتی ہے۔ اجتہاد گویا وحیِ الٰہی اور اس کے مقصد کو سمجھنے کے بعد وحی کے ذریعے ملنے والی ہدایت کو جدید حالات پر منطبق کرنے کا نام ہے۔ یہ خود رائی اور اپنی ذہنی اپج کو اسلامی حل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔ قرآنِ کریم فکروذکر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے ہر پڑھنے والے کو ایسی فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ اس طرح وہ اپنے روزمرہ کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور، ثقافتی مسائل کا حل تلاش کرسکے اور وہ اپنی سرگرمیوں کو فکرِاسلامی کا تابع بناسکے۔ اسلامی فکر محض عقیدے کے باریک مسائل اور غیرمرئی روحانی مسائل کو سمجھنے کا نام نہیں ہے جسے بالعموم الٰہیات یا مابعد الطبیعیات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ زندگی کے ہرشعبے میں وحیِ الٰہی اور موجود ذرائع علم کے استعمال کے ذریعے مسائل کے حل کرنے کے عمل کا نام ہے۔
قرآنِ کریم کی دعوتِ فکر کسی خاص موضوع تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اگرچہ بعض ایسے پہلو بھی ہیں جو روزانہ مشاہدے میں تو آتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ان پر غور کرتے ہیں، قرآن ان کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انھیں فکری عمل کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتا ہے: اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَo (الزمر ۳۹:۴۲)’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقتِ مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں‘‘۔ ہر انسان رات اور دن کے اوقات میں تھکن کے بعد قوت حاصل کرنے اور آرام کرنے کے لیے سوتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن میں بالعموم نہیں آتی کہ آیا سونے کے بعد جاگے گا یا نہیں۔اس روزمرہ کے عمل کو بھی قرآنِ کریم فکر اور غور کرنے کے عمل سے تعبیر کرتا ہے تاکہ سونے سے قبل بھی ایک شخص اپنا عقلی طور پر احتساب کرکے دیکھ لے کہ اگر نیند ہی میں اسے موت آگئی تو کیا اس کا نامۂ اعمال ایسا ہے کہ بغیر کسی ندامت کے رب کے حضور حاضر ہوسکے۔
ایک عام انسان ہی کو نہیں بلکہ ماہرینِطب کو بھی اس مثال کے ذریعے دعوتِ فکر دی جارہی ہے کہ وہ نیند کے دوران انسانی جسم، دماغ اور دل کے عمل کرنے پر غور کریں اور تحقیق کر کے دیکھیں کہ وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جو اس دوران انسان کا خالق اس کے جسم میں پیدا کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حاکمیت کو تحقیق اور فکر کی بنیاد پر سمجھا جاسکے۔
حیاتِ انسانی کے بعض ایسے پہلو جن پر اپنی مصروفیات کے سبب انسان توجہ نہیں دے پاتا قرآنِ کریم ان کی طرف بھی غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور یکے بعد دیگرے ان نشانیوں کا ذکر کرتا ہے جو ہمارے روزمرہ کے مشاہدے میں عالمی حیثیت رکھتی ہیں اور انھیں کسی خاصے خطے، زبان یا ثقافت تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان میں ایک نشانی انسان کی اوّلین پیدایش اور پھر ایک فطری جینیاتی عمل کے ذریعے ایک قطرہ سے گوشت پوست کا انسان بنایا جانا، پھر خود اسی کی نوع سے زوج کی تخلیق ، پھر ان ازواج کے درمیان محبت و رحمت و مودت کا پیدا کرنا بطور ایک نشانی کے بیان کیا گیا ہے۔ کل تک دوافراد جو بالکل اجنبی تھے دُور دراز علاقوں میں رہتے تھے، جب ایک مرتبہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تو اللہ اپنی رحمت سے انھیں ایک دوسرے سے ایک ناقابلِ بیان تعلق میں جوڑ دیتا ہے جو جسمانی تعلق سے بہت برتر اور اعلیٰ ہوتا ہے۔ وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (الروم ۳۰:۲۱) ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اُس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔ اسے بیان کرنے کے بعد کہا جاتا ہے: اِنَّ فِی ذٰلِکَ لِاٰیٰتٍ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ پھر دیگر مثالیں دینے کے بعد اسی بات کو ایک دوسرے پیرایے میں بیان کیا جاتا ہے: اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ اور لِقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ اور لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (الروم ۳۰:۲۱-۲۴)
قرآنِ کریم فکر میں حرکت پیدا کرنے کے لیے ہرہرصفحہ پر سماعت، عقل، بصارت، شعور اور تفکر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اہلِ ایمان اور قرآنِ کریم، مطالعہ کرنے والے ہر انسان کو فکری حکمت عملی (methodology) کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور اس طرح دین میں غلو، جمود، اندھی تقلید کا دروازہ بند کرنے اور تفکر کے ذریعے اجتہاد یا مسائلِ حیات کے حل کی تعلیم و ترغیب دیتے ہوئے دینِ اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز و ممیز کرتا ہے۔ مذاہبِ عالم اور خصوصاً عیسائیت میں عقیدہ کی بنیاد ہی ایک ایسے تصور پر ہے جس کی عقلی توجیہہ، تعبیر و تفسیر کا امکان عیسائی ائمہ کے بقول نہیں پایا جاتا چنانچہ حضرت عیسٰی ؑکس طرح بیک وقت انسان بھی ہیں اور الوہیت کا مظہر بھی، اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی، جب کہ قرآنِ کریم انسان کی اوّلین تخلیق کی بھی اور جینیاتی عمل کے ذریعے نسلِ انسانی کے فروغ کی بھی توجیہہ کرتا ہے اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے: ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوخًا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo (المؤمن ۴۰:۶۷) ’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمھیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمھیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جائو، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جائو، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو‘‘۔
اس طرح انسان کے اپنے جسم میں موجود آیات ہوں یا کائنات میں پھیلے ہوئے شواہد یا پھر حضرت آدم اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی پیدایش، ہر معاملے میں قرآنِ کریم تفکر و تدبر کی دعوت دیتے ہوئے عقلی دلائل کے ذریعے انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ گویا ایک انسان جس قدر قرآنِ کریم سے قریب آئے گا اور اس کی تعلیمات پر غوروفکر کرنے کے ساتھ شدت سے عمل پیرا ہوگا، اسی قدر اس میں فکر کا مادہ ترقی کرے گا اور وہ اپنی ذات، کائنات اور خالقِ کائنات کے درمیان تعلق کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے اور نتیجتاً اپنے معاشی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی معاملات میں اپنے لیے صحیح راستہ اور طریق ِعمل تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔
فکرِ اسلامی ان ابتدائی معروضات کی روشنی میں ایک ایسا شعوری عمل ہے جو وحیِ الٰہی کی راہ نمائی میں اور اس کی پیروی کرتے ہوئے زندگی کے معاملات پر تحقیقی نگاہ کے ساتھ بصیرت، عبرت اور تعمیر ِحیات کے لیے اختیار کیا جائے۔ یہ محض حواسِ خمسہ پر مبنی تجربی فکر کا نام نہیں ہے بلکہ اُس فکر کا نام ہے جو الہامی ہدایت اور انسانی عقل، وجدان اور تجربے کے عمل اور تعامل (inter-active) سے وجود میں آتی ہے جس میں صحت فکر کی کسوٹی قرآن و سنت ہیں لیکن اس کے ساتھ قرآن وسنت کے احکام، مقاصدِشریعت اور اصولی اور منصوص ہدایات کی روشنی میں حالات، احوال اور انسانی زندگی کے تمام احوال و ظروف کی صورت گری کی کوششوں سے عبارت ہے۔ اس فکر میں تعمیری اور اصلاحی پہلو یک جان اور غالب نظر آتے ہیں۔ یہ نفسِ انسانی ہو، معاشرہ ہو یا معیشت، ہرہرشعبے میں کتاب کائنات اور الکتاب اور صاحب ِکتاب سے بیک وقت اکتساب کرتے ہوئے حیاتِ انسانی کو اس دنیا اور آخرت میں صحیح راستے پر چلانے اور اصل منزلِ مراد تک کامیابی کے ساتھ لے جانے کے عمل کا نام ہے۔ (جاری)
اجتماعِ عام ۲۰۰۸ء کی مناسبت سے سید مودودی رحمہ اللہ علیہ کی ایک اہم تحریر پیش کی جارہی ہے جو روایت کا تسلسل بھی ہے اور جامع رہنمائی بھی۔ (ادارہ)
اس سے پہلے جتنے اجتماعات ہوتے رہے ہیں ان میں مَیں نے آغاز ہی میں اپنے رفقا کو اور شرکاے اجتماع کو کچھ نہ کچھ ضروری ہدایات دی ہیں، لیکن چونکہ کافی مدت گزر چکی ہے اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ بہت سے لوگوں کو وہ ہدایات یاد نہ ہوں اور بہت سے نئے لوگ ان سے واقف نہ ہوں۔ اس لیے میں چند ضروری باتیں عرض کر دینا چاہتا ہوں:
اس بات کا بھی خیال رکھیے کہ اجتماع کی کارروائیوں کے دوران میں لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں میں پڑے نہ رہ جائیں۔ باہر ٹہلتے ہوئے نظر نہ آئیں۔ غیرمتعلق گفتگوؤں میں جاکر مشغول نہ ہوجائیں بلکہ یہاں آکر پوری دل چسپی کے ساتھ سنیں۔ دل چسپی نہ بھی لے رہے ہوں تو بھی خاموشی کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ اجتماع کی کارروائیوں کے درمیان میں کسی شخص کو اجتماع گاہ سے باہر نہ پایا جانا چاہیے، الا یہ کہ اسے کوئی شدید ضرورت ہو۔ (روداد جماعت اسلامی،ہفتم، ص ۳۵-۴۰)
افریقہ اسلام سے اس وقت متعارف ہوا تھاجب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کو حبشہ (Abysinia) کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تھا جس سے مقامی لوگ نہ صرف اسلام سے واقف ہوئے بلکہ کئی ایک نے اسلام بھی قبول کرلیا۔ حضرت عمروؓ بن العاص کے ہاتھوں مصر کی فتح کے بعد اسلام تیزی سے افریقہ میں پھیلنے لگا۔ شمالی افریقہ فتح ہوا اور بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ پھر اسلام نے صحراے اعظم کے جنوبی علاقوں کا رخ کیا تو افریقہ میں کئی اسلامی ممالک وجود میں آئے جیسے ’گھانا‘ اور ’مالی‘ کی مملکتیں۔ پھر مشرقی افریقہ میں ’زنجبار‘ اور اس کے اردگرد کے علاقے حتیٰ کہ ’موزنبیق‘ میں بھی اسلامی مملکت قائم ہوئی۔
افریقہ کا سرمایہ لوٹنے، نیز وہاں کی اسلامی اور جہادی تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعماری قوتوں نے ہمیشہ افریقہ کو اپنا ہدف بنائے رکھا ہے۔ آغاز پرتگال نے کیا، پھرہسپانیہ آگے بڑھا اور اسلامی علاقوں پر دھاوا بول دیا۔ خاص طور پر افریقہ میں، اہم ترین وہ استعماری صلیبی یلغار تھی جس میں فرانس، انگلستان، ہالینڈ، بیلجیئم، اٹلی اور جرمنی شریک ہوئے۔ نمایاں استعماری اہداف یہ تھے:
غرض یہ کہ سامراج نے افریقہ کو تقسیم کیا، وہاں کا سرمایہ لوٹا اور وہاں کے باشندوں کو غلام بناکر لے گئے اور انھیں خاص طور پر امریکا میں نئی دنیا کی منڈیوں میں لے جاکر فروخت کرڈالا۔
سامراجی تاریک دور کے خاتمے کے بعد افریقی ممالک سامراجی پنجے سے آزاد ہوئے تو وہاں ایسی سیکولر حکومتیں قائم ہوئیں جو مغربی استعمار کی پالیسیوں پر کاربند تھیں۔ افریقہ میں ایک طرف تو استعمار مخالف وطنی و قومی تحریکوں نے جنم لیا، جب کہ دوسری طرف اسلامی تحریکیں وجود میں آئیں جو اسلام کی عظمتِ رفتہ کو ازسرنو بحال کرنا چاہتی تھیں اور عربی زبان کے احیا و فروغ کے لیے کوشاں تھیں۔ اب تک افریقہ میں اسلامی تحریکیں مضبوطی سے قائم ہیں اور ان میں سرفہرست ’اخوان المسلمون‘ ہے، جو نہایت تیزی سے پھیلی اور جسے عوام میں زبردست پذیرائی ملی۔ اسی طرح جماعت اسلامی بھی ایک مستحکم تحریک ہے۔ وٹیکن کے اس زعمِ باطل ___ کہ اس کی مقرر کردہ مدت میں افریقہ عیسائی ہوجائے گا ___ کے علی الرغم حقیقت یہ ہے کہ افریقہ اپنی اصل، یعنی اسلام کی طرف تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔
خلیجِ گِنّی کے تیل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے امریکا تک لے جانے کے لیے زیادہ اخراجات برداشت نہیں کرنے پڑتے کیونکہ یہ امریکی ساحل بحرِاوقیانوس کے دوسرے کنارے پر ہے۔ اس کے برعکس بحرِقزوین کا تیل امریکا منتقل کرنے کے لیے امریکا کو پُرامن راستوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح خلیج اور عراق کے تیل کے حصول اور اس کی فراہمی کو مستقل بنانے کے لیے امریکا کو جنگیں لڑنا پڑتی ہیں، لہٰذا افریقی تیل اس کے لیے ایک بہترین متبادل ہے۔
افریقہ میں امریکا کے اس بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مطلب ہے صہیونی اثرات میں وسیع اضافہ اوربڑے پیمانے پر عربوں کی پسپائی۔ افریقہ میں جو عالمِ عرب کے لیے جنگی حکمت عملی کا اہم ترین قدرتی مقام ہے، اگر یہ صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو پھر عرب بہت کچھ کھو بیٹھیں گے۔
پورا قرنِ افریقہ (صومالیہ، جیبوتی، اریٹیریا اور ایتھوپیا) علاقے کو درپیش رکاوٹوں کے باوجود بین الاقوامی نظام میں مؤثر قوتوں کی دل چسپی کا مرکز بنا ہوا ہے، خواہ سردجنگ کا زمانہ ہو یا اس کے بعد کا دور۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں سے ایک اس علاقے کا جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ہونا بھی ہے۔ یہاں سے کئی اہم سمندری راستوں تک آسانی سے رسائی ہوسکتی ہے، یعنی بحرِاحمر، خلیج عدن اور بحرِہند تک۔ یوں یہ علاقہ بین الاقوامی تجارت کے راستوں اور خلیج عرب سے مغربی یورپ اور امریکا تک تیل کی منتقلی کے راستوں پر محیط ہے۔ یہ علاقہ دریاے نیل کے آس پاس کے علاقوں پر بھی مشتمل ہے۔
افریقہ میں تیل کی دریافت نے افریقہ میں بین الاقوامی دل چسپی کو بڑھا دیا ہے۔ ۱۹۷۹ء میں پہلی بار سوڈان میں تیل کے کنویں دریافت ہوئے تھے۔ مگر اندرونی کش مکش اور تصادم کی وجہ سے پٹرول نکالنے والی کمپنیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ۹۰ کے عشرے کے آغاز ہی میں کئی تیل کمپنیاں واپس سوڈان آگئیں تو نہ صرف جنوبی سوڈان سے تیل نکالا جانے لگا بلکہ سوڈان کے شمال، شمال مغرب اور دریاے نیل کے آس پاس کے علاقوں سے بھی تیل نکالا جانے لگا۔ امریکا کو توقع ہے کہ افریقہ کے تیل کی برآمدات کی شرح میں اضافہ ہوگا اور ۲۰۱۰ء کی آمد کے ساتھ ہی افریقہ سے امریکا کو بھیجے جانے والا تیل، امریکا کی تیل کی کُل برآمدات کا ۲۵ فی صد ہوجائے گا، جب کہ چین اب بھی اپنی تیل کی کل برآمدات کا ۲۵ فی صد براعظم افریقہ سے حاصل کرتا ہے۔
۱- امریکا کا سوڈان کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف معاندانہ و مخاصمانہ موقف۔ (’اور اب سوڈان‘، عبدالغفار عزیز، شمارہ اگست ۲۰۰۸ئ)
۲- صومالیہ کی اسلامی عدالتوں کے خلاف امریکی موقف۔ (’صومالیہ: اسلامی قوتوں کی فتح‘، حافظ محمد عبداللہ، شمارہ جولائی ۲۰۰۸ئ)
امریکا نے صومالیہ میں، ایتھوپیا کی مدد کر کے اس سے مداخلت کروائی اور یوں دارالحکومت مغادیشو سے اسلامی عدالتوں کو پسپا کروا دیا۔ حالانکہ صومالیہ میں ’سیادبری‘ کی حکومت کے سقوط کے بعد سے لے کر اب تک پہلی بار داخلی امن و استحکام انھی اسلامی عدالتوں کی برکت سے پیدا ہوا تھا۔
برعظیم پاک و ہند کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانانِ ہند نے انگریز کی غلامی کو ذہناً کبھی قبول نہیں کیا اور آزادی، اسلامی حکومت کے قیام اور احیاے اسلام کے لیے جدوجہد بڑی سے بڑی قربانیاں دے کر بھی جاری رکھی۔ بنگال کا سراج الدولہ وہ پہلا عظیم مجاہد ہے جس نے جنگِ پلاسی سے جنگِ آزادی، انگریز جارحیت اور سامراجی عزائم کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر یہ جدوجہد مختلف حوالوں سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ٹیپوسلطان، بخت خان، احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہ، سیداحمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی، علماے دیوبند کا کردار اور مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد___ ایک طویل فہرست ہے مجاہدینِآزادی کی اور ایک لازوال داستان ہے قربانیوں کی۔ دوسری طرف ہر جارح قوت کی طرح انگریز کے مظالم، ظالمانہ قوانین، قیدوبند، جایداد کی ضبطی، سولی پہ لٹکانا، دولت کا لالچ دے کر ضمیر خریدنا، غداری پر آمادہ کرنا، جنگ مسلط کرنا، قتل و غارت اور خون ریزی، بم باری اور فضائی حملے ہیں۔ آج بھی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ایک بار پھر ایسی ہی جارحیت اور سفاکیت کا سامنا ہے۔
آزادی کے عظیم مجاہدین میں سے ایک عظیم مجاہد حاجی صاحب تُرنگ زئی بھی ہیں۔ آپ ایک داعیِ حق ، عالم باعمل، صوفی اور روحانی پیشوا، معلّمِ اخلاق، مصلح قوم اور تحریک آزادی کے عظیم مجاہد تھے۔ یہ آپ کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی ۲۲برس تک انگریز جیسی بڑی قوت کو ہندستان میں جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک طرف علماے دیوبند کے ذریعے سیاسی محاذ پر جدوجہد آزادی کو جاری رکھا تو دوسری طرف سرحد اور قبائلی علاقوں میں عملاً جہاد کے ذریعے خطے میں انگریز کے قدم نہ جمنے دیے۔ حاجی صاحب کی حیات و خدمات کے مطالعے سے جہاں قاری کو ایک نیا ولولہ اور عزم ملتا ہے، وہاں افغانستان اور قبائلی علاقوں میں امریکی جارحیت کے خلاف جاری جدوجہد کے ادراک کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
حاجی صاحب تُرنگ زئی کا اصل نام فضل واحد اور والدماجد کا نام فضل احمد تھا۔ آپ کی پیدایش ۱۸۴۶ء میں بمقام تُرنگ زئی ضلع چارسدہ صوبہ سرحد میں ہوئی۔ سکھ غلبے کے دوران علاقے کے عوام نے حاجی صاحب کے جدّاعلیٰ پیر سید رستم شاہ کی معیت میں سیداحمد شہیدؒ کی قیادت میں سرحد میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ کے والد محترم پیرفضل احمد شاہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریزی اقتدار کے خلاف سخت مزاحمت کی اور لوگوں کو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اخلاقی و روحانی تعلیم کا درس دیتے رہے۔
حاجی صاحب تُرنگ زئی نے ابتدائی تعلیم تُرنگ زئی میں اس وقت کے مشہور عالمِ دین مولانا ابوبکر اخوندزادہ اور مولانا محمد اسماعیل سے حاصل کی۔ اس کے بعد تہکال کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ یہیں انھیں برعظیم کے معروف علما سے رابطے کا موقع بھی میسر آیا۔ اس مدرسے کے مہتمم کا تعلق بھی ولی اللّٰہی تحریک سے تھا جو ہندستان میں احیاے اسلام اور انگریزوں سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ ان کی تربیت کے نتیجے میں حاجی صاحب میں خودداری، حریت فکر، جذبۂ ہمدردی و ایثار اور قربانی کے جوہر نمایاں ہوئے اور وہ احیاے اسلام کی تحریکِ ولی اللّٰہی سے روشناس ہوئے۔ ۶سال تک زیرتعلیم رہنے کے بعد آپ اپنے گائوں تُرنگ زئی چلے گئے جہاں عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرنے لگے۔
ابتدا ہی سے ان کی طبیعت تصوف کی طرف مائل تھی۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد عبادت و ریاضت میں بہت زیادہ منہمک ہوگئے،چلّہ کشی بھی کی اور کسی مرشد کی تلاش میں بھی رہے۔ چنانچہ آپ نے جلال آباد افغانستان کے مشہور روحانی رہنما حضرت نجم الدین عرف ہڈہ ملّا کے ہاتھ پر ہڈہ نامی گائوں میں جاکر بیعت کی۔ وہ سلوک اور تصوف کے بلندمقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ انگریز کے خلاف طویل جہاد کی شہرت کے حامل بھی تھے۔ ’حاجی صاحب تُرنگ زئی‘ کے نام سے شہرت پانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ شاید تُرنگ زئی میں آپ پہلے شخص تھے جنھیں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس زمانے میں حج انتہائی دشوار گزار عمل تھا، اور حاجی ہونا ایک اعزاز تھا، جب کہ حاجی صاحب خود عالمِ دین اور تُرنگ زئی سلسلۂ قادریہ نقشبندیہ کے روحانی پیشوا بھی تھے۔
دارالعلوم دیوبند کی شہرت سنی تو تحصیل علم کے شوق میں دیوبند پہنچ گئے جہاں ان کی ملاقات شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی سے ہوئی۔ اُسی سال ان علماے کرام کے ساتھ آپ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ دورانِ حج ان کی ملاقات مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے رہی۔ اس دوران بشمول مولانا عبدالرشید گنگوہیؒ ان تمام حضرات نے ہندستان واپس جانے کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے ناظم مولانا محمود حسن صاحب بنائے گئے، جب کہ حاجی صاحب تُرنگ زئی کو اس منصوبے کے تحت امیر ِجہاد مقرر کیا گیا اور ان کو صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ یہ منصوبہ بھی دراصل سید احمدشہید کی تحریکِ جہاد کا تسلسل تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک طرف ہندستان میں وعظ و نصیحت کے ذریعے انگریزوں کے خلاف فضا ہموار کرنا تھی، اسلامی مدارس کا اجرا، انگریزی عدالتوں اور انگریزی تعلیم کا خفیہ طور پر بائیکاٹ کرنے کی ترغیب دلانا تھا۔ دوسری طرف انگریزوں کے خلاف عملی جہاد کا آغاز کرنا تھا اور اس کے لیے سیداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کی طرح صوبہ سرحد کو ہی منتخب کیا گیا۔ امیر ِجہاد کی حیثیت سے حاجی صاحب کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ سرحدی علاقوں میں دورے کرکے عوام کو امربالمعروف ونہی عن المنکر کی تبلیغ کریں، اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو منظم کیا جائے تاکہ وہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے باہمی اختلافات مٹاکر اور مومنانہ شان سے متحدہ طاقت بن جائیں تاکہ جہادِآزادی کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ (ص ۴۷)
اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ جہاد کی بنیاد پر حاجی صاحب تُرنگ زئی نے اپنے مشن کا آغاز اپنے گائوں تُرنگ زئی سے کیا۔ آپ نے غیراسلامی رسوم و رواج ترک کرنے، للہیت پیدا کرنے اور معاشرتی برائیوں سے نجات حاصل کرنے پر زور دیا۔ قبائل میں چونکہ آپس کی دشمنیاں موجود تھیں جس کی وجہ سے وہ کسی بات پر متفق نہیں ہوپاتے تھے، لہٰذا آپ نے ان دشمنیوں کے خاتمے کے لیے محنت کی اور قبائل کی باہمی رنجشیں ختم کر کے ان میں اتحاد و یک جہتی پیدا کرنے کی سعی کی۔ ان کی محنت رنگ لاتی ہے، قبائلیوں کا انھیں اعتماد حاصل ہوجاتا ہے۔ لوگ خوشی خوشی باقاعدہ اقرارنامہ لکھ کر حاجی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے تھے کہ وہ غیراسلامی رسم و رواج کو ترک کرنے کا عہد کرتے ہیں، نیز اپنے تنازعات کے خاتمے کے لیے بھی ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
آپ نے یہ جدوجہد کن کٹھن حالات میں کی اس کا اندازہ کتاب کے اس اقتباس سے کیا جاسکتا ہے: ’’جابرانہ قوانین کے نفاذ اور انگریز حکمرانوں کے ظلم و ستم نے اہلِ سرحد کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ مسلمانوں کو پستی کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا تھا۔ معاشرتی برائیوں کا ہر طرف زور تھا۔ مسلمانوں کو اخلاقی لحاظ سے تباہ و برباد کیا جا رہا تھا۔ عیسائی مشنری ادارے متحرک نظرآرہے تھے جو غریب اور نادار مسلمانوں کو دولت کے لالچ میں عیسائی بنانے میں مصروفِ عمل ہوچکے تھے۔ انگریز حکمرانوں کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالنے والے کو سخت ترین سزا دی جاتی تھی۔ قدم قدم پر انگریزوں نے مخبر مقرر کر رکھے تھے جن کی جھوٹی سچی مخبری پر ہزاروں افراد ظلم کا نشانہ بنتے جارہے تھے‘‘۔ (ص ۴۸)
ان حالات میں اسلامی شعور کو عام کرنے کے لیے آپ نے جگہ جگہ اسلامی مدارس قائم کیے اور ان کے انتظام کے لیے مقامی طور پر اساتذہ اور کمیٹیاں قائم کردیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان مدارس کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ تھی اور یہ نہ صرف قبائلی علاقوں میں بلکہ انگریزوں کے زیرانتظام اضلاع میں بھی قائم کیے گئے۔ ان تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ جہادِ آزادی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔
انگریزوں کو جب معلوم ہوا کہ عوام الناس کا رُخ اسلامی مدارس کی جانب بڑھ رہا ہے تو انھوں نے بھی مشنری تعلیمی ادارے قائم کیے اور ان اداروں میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس سلسلے میں دیگر عیسائی مبلغین کے ساتھ ساتھ ایڈورڈز ہربرٹ کی خدمات بہت نمایاں تھیں، لہٰذا انگریز حکومت نے اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پشاور میں ایڈورڈز کالج قائم کیا، جب کہ ہمارے حکمرانوں کو کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس نام کو ہی کم از کم تبدیل کردیں۔
اس سلسلے میں جناب صاحبزادہ عبدالقیوم خان ’دارالعلوم سرحد‘ کے نام سے ایک عظیم تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لائے جس کا مقصد مسلمانوں کو تعلیم کی روشنی سے منّور کرنا تھا۔ بعد میں اس کا نام ’اسلامیہ کالج پشاور‘ رکھا گیا۔ اس کالج کی مسجد کا افتتاح انھوں نے حاجی صاحب سے کرایا۔
ان دنوں برطانیہ نے ترکی کی اسلامی سلطنت کا راستہ روکنے کے لیے مصر پر، اور اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کرلیا۔ افغانستان اور ایران کی حکومتوں کے خلاف بھی کام شروع کیا، لہٰذا صوبہ سرحد کے حریت پسند عوام اور قبائل کو جہاد کے لیے منظم کرنے کے لیے حاجی صاحب کو مسجد مہابت خان میں امیرالمجاہدین منتخب کیا گیا۔ اس تقریب میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اُن سے حلف لیا۔
۱۹۱۳ء کی بلقان جنگ میں زخمی ترکوں کی طبی امداد کے لیے کئی مراکز یہاںقائم ہوئے۔ مجاہدین کا خیال یہ بھی رہا کہ بعد میں ترکی افواج کو برعظیم کی آزادی کے لیے ہندستان پر حملہ آور ہونے کے لیے کہا جائے گا۔ اس دوران مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو افغانستان بھیج کر آزاد حکومت قائم کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ کہ وہ افغانستان میں رہ کر وہاں کے لوگوں کے درمیان کام کریںگے۔
افغانستان کے حکمران امیر حبیب اللہ خان کو مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کے لیے بہت کہا لیکن وہ انگریزوں کے مقابلے پر نہیں آنا چاہتا تھا، جب کہ افغانستان کے نائب امیر امان اللہ خان پوری طرح مجاہدین کے ہمراہ تھے۔ دوسری طرف اندرونِ ملک والئی سوات، والئی جندول اور والئی دیر مجاہدین کے مخالف اور انگریزوں کے حمایتی تھے۔
انگریزوں نے بعض علما کو رشوت کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا اور اُن سے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ حکمرانِ وقت کے اعلان کے بغیر جہاد غیر شرعی ہے۔ اس فتوے کا اثر زائل کرنے کے لیے حاجی صاحب نے شیخ الہند مولانا محمود حسن سے رجوع کیا۔ مولانا محمودحسن یہ مسئلہ لے کر حجاز کے گورنر کے پاس پہنچے۔ انھوں نے اپنا خط سلطنت ِ عثمانیہ کے خلیفۃ المسلمین کے نام دے کر مولانا صاحب کو وہاں بھیجا۔ اس زمانے میں پہلی جنگ ِعظیم شروع ہوچکی تھی، اس لیے خلیفۃ المسلمین سے تو شیخ الہند کی ملاقات نہ ہوسکی، البتہ عثمانی افواج کے سپہ سالار نے اُنھیں خلیفہ کی جانب سے اپنی مُہر کے ساتھ فتویٰ لکھ کر دیا کہ برعظیم کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انگریز حکمرانوں کے خلاف مسلح جہاد کریں، اور مولانا محمود حسن اور حاجی صاحب تُرنگ زئی کا ساتھ دیں۔
اس اہم فتوے کو ایک ریشمی رومال پر کاڑھا گیا تاکہ خراب نہ ہوجائے، اور بہ حفاظت اسے برعظیم لایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک افواج کے لیے افغانستان کے راستے برعظیم میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریز کو یہاں سے نکالا جائے۔ اس ریشمی رومال کو بعد میں ایک نومسلم نوجوان نے، جو ایم اے انگریزی بھی تھا بہ حفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا ذمہ لیا، لیکن درپردہ اُس کی انگریزوں سے سازباز تھی، چنانچہ وہ رومال پکڑا گیا۔ اس کو ’ریشمی رومال تحریک‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انگریزوں کو جب ترک افواج کے منصوبے کا علم ہوا تو انھوں نے ترکی پر اپنا دبائو بڑھا دیا۔ گورنرحجاز کو برطرف کردیا اور نئے گورنر نے انگریزوں کی ہدایت پر مولانا محمود حسن کو گرفتار کرلیا۔ پھر اُنھیں وہاں سے برعظیم لایا گیا اور بعدازاں مالٹا میں قید کردیا گیا۔ ان حالات میں حاجی صاحب تُرنگ زئی پر دبائو بڑھ گیا اور انگریزوں نے ان کے خلاف لشکرکشی کی۔ ان کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا گیا، جایدادیں ضبط کی گئیں اور عوام الناس کو اُن سے تعاون کرنے پر دھمکیاں دی گئیں۔ جہادِ آزادی کو جاری رکھنے کے لیے آپ نے اپنی جایداد کو خیرباد کہا اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ آزاد قبائلی علاقے میں جاکر مقیم ہوگئے اور باقاعدہ ہجرت کی۔
ان حوصلہ شکن حالات میں بھی حاجی صاحب نے مہمندایجنسی، ضلع بونیر، ضلع سوات، مردان، چارسدہ، صوابی کے تفصیلی دورے کیے، احیاے اسلام اور آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے لوگوں کو جان و مال کی قربانی پر آمادہ کیا۔ خود بھی انگریزوں کے خلاف کامیاب حملے کیے۔ انھوں نے چترال سے لے کر افغانستان تک لوگوں کو انگریز کے عزائم سے خبردار کیا اور وزیرستان ایجنسی، تیراہ اور باڑہ کے قبائل کو جہاد پر آمادہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
حاجی صاحب کی جدوجہد کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے: ’’حاجی صاحب کے عملی جہاد نے ۲۲سال تک انگریزوں کو اطمینان کے ساتھ اس پورے برصغیر میں حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ آپ کا قیام اگرچہ مہمند قبائلی علاقوں غازی آباد میں تھا مگر آپ کی تحریکِ جہاد میں تمام قبائلی علاقے کی مختلف قومیں شامل تھیں جو اپنے اپنے علاقوں میں انگریزوں کے خلاف برسرِپیکار تھیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم سے مطالبۂ پاکستان کو حاجی صاحب کے عملی جہاد نے تقویت بخشی‘‘۔ (ص ۹)
اگر والئی افغانستان اور والیانِ دیر، سوات، جندول اور باجوڑ حاجی صاحب کی حمایت کرتے تو مجاہدینِاسلام کو بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل ہوسکتی تھیں۔ لیکن جس طرح آج کے مسلم حکمران خود اپنی اقوام اور ملت کے خلاف ہیں اور غیروں کے حامی، ایسی ہی صورتِ حال اُس وقت بھی تھی۔ اس سب کے باوجود حاجی صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ کہتے ہیں کہ آخری عمر میں اگرچہ آپ ضعیف اور نحیف ہوگئے تھے مگر آپ محاذِ جنگ پر مجاہدوں کو خود دعا دے کر رخصت کرتے تھے اور پھر مورچے میں بیٹھ کر جہاد کی کمان کرتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ آپ کے مرید آپ کو ڈولی میں بٹھا کر محاذِ جنگ پر لاتے تھے۔ یہ تھا آپ کا عزم اور ولولہ!
آپ مرتے دم تک انگریز کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ جہادِ آزادی کو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے آپ نے وفات سے قبل اپنے بڑے بیٹے کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔ تحریکِ آزادی کا یہ عظیم مجاہد دسمبر ۱۹۳۷ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹوں نے ۱۹۴۷ء میں قبائل کے لشکر تیار کرکے کشمیر کے آدھے علاقے کو آزاد کروایا۔ اس طرح حاجی صاحب کی یہ جدوجہد رنگ لاتی ہے، ان کی تحریک تحریکِ آزادی سے تحریکِ پاکستان اور پھر قیامِ پاکستان پر جاکر منتج ہوتی ہے۔ انگریز کو بالآخر برعظیم کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اور مسلمانوں کو مملکتِ اسلامیہ پاکستان کی صورت میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے بھی حاجی صاحب کی خدمات اور جدوجہدِ آزادی کے پیشِ نظر خود ان سے ملاقات کی۔ اُن کی شاعری میں ’محراب گل افغان‘ کا جو تذکرہ ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اِس سے حاجی صاحب تُرنگ زئی ہی مراد ہیں۔
حاجی صاحب تُرنگ زئی کی جدوجہد کا ایک اور اہم پہلو جو احیاے اسلام کے لیے کوشاں داعیانِ دین کے لیے قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ سرحد میں سیداحمد شہیدؒ کے مقابلے میں انھیں زیادہ پذیرائی ملی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سیداحمد شہید اور ان کے ساتھ آنے والے ہندستانی مجاہدین سرحد میں بولی جانے والی زبان پشتو سے واقف نہ تھے۔ اس وجہ سے وہ غیراسلامی رسومات کی خرابیوں اور اصلاحِ معاشرہ کے متعلق اسلامی احکامات کے متعلق یہاں کے لوگوں کے دلوں کو بخوبی متوجہ نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس حاجی صاحب نے جب اس تحریک کو تکمیل کے مرحلے میں داخل کیا تو وہ چونکہ یہاں کے رہنے والے تھے، اس لیے ہرفرد کے دل میں ان کا احترام تھا۔ ان کی بزرگی، ان کے علم و فضل اور ان کی روحانی حیثیت کی وجہ سے وہ سرحد کے مقامی اور قبائلی لوگوں میں انتہائی ہردل عزیز تھے۔ انھی کی زبان میں کسی قسم کی خرابی اور اچھائی انھیں ذہن نشین کراتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے حاجی صاحب کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو ولی اللّٰہی تحریک کے مشہور مجاہد سیداحمد شہیدؒ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔(ص ۵۷-۵۸)
حاجی صاحب تُرنگ زئی مرحوم کی شخصیت اور ان کی جدوجہدِ آزادی، اصلاحِ معاشرہ اور احیاے اسلام کے لیے کوششوں کا اس کتاب میں بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے جہاں ان کی عظیم شخصیت اور تاریخ ساز کردار سامنے آتا ہے، وہاں آج اُمت مسلمہ بالخصوص مسلمانانِ پاکستان و افغانستان کو ’دہشت گردی‘ کی جنگ کے نام پر جس امریکی جارحیت اور سفاکیت کا سامنا ہے، ایک نیا عزم اور ولولہ ملتا ہے کہ اگر کل بے سروسامانی کے ساتھ جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے تو آج جب کہ، ہم آزاد ہیں یقینا اس جدوجہد کو زیادہ مؤثر انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ امریکا کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ملت جو حاجی صاحب تُرنگ زئی جیسے تاریخ ساز کردار کی حامل ہو، اسے غلام بنانا کوئی آسان کام نہیں ؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
(کتاب سردست دستیاب نہیں۔ نئی نسل کو اپنے تاریخی علمی ورثے سے روشناس کرانے کے لیے اسے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ حاجی صاحب تُرنگ زئی، عزیز جاوید۔ پبلشر: ادارۂ تحقیق و تصنیف پاکستان، پوسٹ بکس نمبر۳۸۸، جی پی او، پشاور۔ صفحات:۵۶۰، اشاعت: فروری ۱۹۸۲ئ)
ستمبر ۲۰۰۸ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میں قاضی حسین احمد کا مضمون ’رمضان کاپیغام اور ملک کے حالات‘ نہایت جامع، برمحل اور بصیرت افروز تھا۔ خاص طور پر یہ پیراگراف تو آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبیرہ گناہوں کے علاوہ عام احکام کی خلاف ورزی پر نہ تو کوئی حد قائم کی، نہ ہی تعزیر دی۔ مثلاً پردے کا حکم آنے کے بعد بھی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ پردہ نہ کرنے پر کسی مسلمان (عورت) کو تعزیری سزا دی گئی ہو۔ ڈاڑھی رکھنے یا موسیقی سننے پر سزا دینے کی بھی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاے راشدینؓ نے ان برائیوں پر کوئی سزا نافذ کی ہو۔ (یقینا) ان تمام برائیوں کو تعلیم و تربیت، ترغیبِ آخرت کے خوف اور اللہ کا تقویٰ پیدا کر کے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ (لہٰذا) حضوؐر اور خلفاے راشدینؓ کی سیرت کی روشنی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بچیوں کے اسکولوں کو برباد کیا جائے یا حجاموں کو نوٹس دیا جائے۔ اس طرح کے اعمال سے اس بنیادی مقصد (نظامِ عدل کے قیام) سے توجہ ہٹ جاتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا اور رسولوں کو بھیجا ہے‘‘۔ (ص ۱۰-۱۱)
یقینا وقت آگیا ہے کہ اس طرح کے مسائل پر کھل کر بات کی جائے۔ اس سلسلے میں یہاں میں ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔۲۴ اگست کو صبح اٹک کے مرکزی بازار میں موجود وڈیو شاپس کی مارکیٹ کو بم دھماکوں سے تباہ و برباد کردیا گیا۔ مزید یہ کہ اس واقعے سے دو دن پہلے اٹک شہر کے مختلف حجاموںکی دکانوں پر دھمکی آمیز خطوط پھینکے گئے یا پھر تقسیم کیے گئے جس میں تین دن کے اندر وڈیو شاپس بند کرنے، معروف تعلیمی ادارے میں مخلوط تعلیم ختم کرنے اور حجاموں کو شیو کرنے سے منع کیاگیا۔ بصورت دیگر سخت مالی و جانی نقصان ہونے کا عندیہ دیا گیا۔ میں خود جب خط بنوانے کے لیے ۲۵ اگست کو اٹک میں ایک حجام کی دکان پر گیا جہاں میں تقریباً پچھلے ڈیڑھ سال سے جا رہا تھا تو وہاں مرکزی دروازے پر ایک بینر آویزاں تھا جس پر یہ تحریر تھا: ’’یہاں صرف سنت کے مطابق بالوں کی کٹنگ کی جاتی ہے اس لیے غیرشرعی کام (شیو) کرنے پر مجبور نہ کیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ اُس دن حجام نے خط تک بنانے سے انکار کردیا۔ دینی پس منظر ہونے کے باوجود مجھے زندگی میں پہلی دفعہ ’مذہبی انتہا پسندی‘ سے خوف محسوس ہوا۔
دکھ تو اس بات کا ہے کہ زبردستی ڈاڑھی رکھوانے اور وڈیو سنٹرز کو تباہ کے ساتھ ساتھ وادیِ سوات اور قبائلی علاقہ جات میں بچیوں و لڑکیوں کے اسکولوں کو بھی تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ معروف انگریزی ماہنامہ ہیرالڈ (Herald) نے اپنا خصوصی شمارہ (اگست ۲۰۰۸ئ) سوات میں بچیوں کے اسکول تباہ کرنے کے حوالے سے نکالا ہے۔ اس میں بیان کردہ اعداد وشمار کے مطابق ایک سال سے بھی کم عرصے (جولائی ۲۰۰۷ء تا مئی ۲۰۰۸ئ) میں صرف وادیِ سوات میں بچیوں کے ۴۰اسکولوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ اس عرصے کے صرف ایک ماہ بعد صرف مٹہ اور کابل کے ذیلی اضلاع میں ۲۰ دنوں میں مزید ۲۴ اسکولوں پر بموں کے ذریعے حملے کیے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوات کے ۵۶۶ بچیوں کے اسکولوں میں سے ۱۳۱ اسکول بند ہیں یا انھیں تباہ کردیا گیا ہے۔ جس سے تاحال ۱۷۲۰۰ بچیاں اسکولوں کی تعلیم سے محروم ہیں۔ باجوڑ ایجنسی میں اس سے بھی بُری صورت حال ہے جہاں بچیوں کے تمام اسکولوں کو تباہ کردیا گیا ہے یا پھر وہ بند پڑے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی صورت حال اس سے ملتی جلتی ہے۔ خیبرایجنسی میں درہ آدم خیل میں ایک مقامی اسکول جہاں ۶۰۰ بچیاں زیرتعلیم تھیں وہ بھی تاحال بند پڑا ہے۔ صرف کرم ایجنسی میں صورت حال نسبتاً بہتر ہے۔
آخر تحریک اسلامی کب تک اس صورت حال پر خاموش رہ سکتی ہے؟ کیونکہ اسلام کے ہی نام پر زیادہ تر واقعات ہو رہے ہیں۔ انتہاپسند (شرپسند) عناصر رات کو آتے ہیں۔ اسکولوں کے چوکیدار کو علیحدہ باندھ کر، اسکول میں موجود اسلامی لٹریچر اور قرآن پاک کے نسخے علیحدہ نکال کر عمارت کو بموں سے اڑا دیتے ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں مہمند ایجنسی میں ایک خاتون استاد کو صرف اس لیے ہلاک کردیا گیا کہ وہ اُن کے فہم اسلام کے مطابق پردے میں نہیں تھی۔ حالانکہ ان علاقوں میں شرح خواندگی (بالخصوص عورتوں میں) نہایت کم ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سروے کے مطابق قبائلی علاقوں میں ۲۹ فی صد مرد پڑھے لکھے ہیں، جب کہ صرف ۳ فی صد عورتیں پڑھی لکھی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے اہلِ دانش قبائلی علاقوں میں پائے جانے والے اس فہم اسلام پر کھل کر بات کریں اور بار بار بات کریں تاکہ پاکستان کے دیگر شہری علاقوں میں عوام و خواص کی اکثریت پرواضح ہوسکے کہ تحریکِ اسلامی، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جس راستے کو اختیار کیے ہوئے ہے، اُس کا طریق کار اور عملی نتائج اُس فہمِ اسلام سے قطعاً مختلف ہیں جو کہ قبائلی علاقہ جات اور سوات کے اضلاع میں نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب کارروائیاں سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اسلام کا غلط تصور پیش کرنے اور اسے بدنام کرنے کے لیے مخصوص عناصر کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی معتبر اور تحقیق شدہ راے سامنے آنا چاہیے۔
سوال: ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کا معاشی نظام سودی بنیادوں پر چلتا ہے۔ کوئی ملازم ہو یا کاروبار کرے کسی نہ کسی طور بنک سے اس کا واسطہ پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس سودی نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ کیا اس طرح ہم سودی نظام میں تعاون کے مرتکب تو نہیں ہوتے؟
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ بے روزگاری اور ہوش ربا مہنگائی کے ہاتھوں لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اگر ایسے میں کسی کو بھرپور کوشش کے باوجود ملازمت نہ ملے اور بہ امر مجبوری اسے کسی بنک میں ملازمت کرنا پڑے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟
ایک سوال یہ ہے کہ بنک کو کرایے پر جگہ دینا کیسا ہے کہ جگہ دینے والے کا اس کرایے پر ہی انحصار ہواور مجبور بھی ہو۔ کیا وہ بنک میں نوکری کرنے والوں کی طرح جگہ کرایے پر دے سکتا ہے؟
جواب : اسلام اپنے ہر ماننے والے سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حلال اور طیب روزگار حاصل کرے اور حرام اور خبیث سے اجتناب کرے۔ اس بنا پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نے سود کے بارے میں بغیر کسی اشتباہ کے واضح احکام دیے کہ سود حرام ہے اور جس طرح ایک حرام شے کا استعمال کرنے والا، خریدنے والا، فروخت کرنے والا یا کسی کو پیش کرنے والا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اسی طرح سودی کاروبار میں شرکت کرنے والا بھی یکساں طور پر گناہ گار تصورکیا جائے گا۔ اس اصولی وضاحت کے ساتھ یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ ایک حرام شے صرف اُس صورت میں ایک فرد کے لیے وقتی طور پر جائز ہوجاتی ہے جب اس کی جان کو خطرہ ہو، مثلاً حرام کیے ہوئے کھانے کا استعمال جان بچانے کی حد تک تو جائز ہوگا لیکن اس کا عادتاً استعمال مطلقاً حرام رہے گا۔
اگر ایک شخص کو اپنی مقدور بھر کوشش کے باوجود بنک کے علاوہ کوئی اورملازمت دستیاب نہیں ہے تو اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچانے کے لیے جب تک اسے کوئی حلال ملازمت نہ مل جائے، وہ ایسا کرسکتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں جب مغربی سرمایہ دار ممالک کے بنک بھی مسلمان گاہکوں کے حصول کے لیے اپنے ہاں غیرسودی کھڑکیاں کھول رہے ہیں اور پاکستان میں خصوصاً اسلامی بنکوں کی شاخیں تیزی کے ساتھ ملک گیر پیمانے پر کھل رہی ہیں، کوشش ہونی چاہیے کہ اسلامی بنک میں ملازمت تلاش کی جائے اور اس طرح اپنی تعلیم و تربیت کا استعمال بھی ہو اور حرام سے بھی بچا جاسکے۔ اس لیے آپ کوشش کریں کہ کسی اسلامی بنک میں آپ کو ملازمت مل سکے۔
جہاں تک سوال ایک مکان یا دکان بنک کو کرایے پر دینے کا ہے، اس میں اصولی طور پر یہ بات سمجھ لیں کہ شریعت کا حکم ظاہر پر لگتا ہے۔ اگر آغاز سے یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ ایک شخص جو جگہ کرایے پر لے رہا ہے وہاں بنک قائم کیا جائے گا تو اس سے حاصل کردہ کرایہ گو مکان کا کرایہ ہے لیکن معصیت اور گناہ میں شرکت سے خالی نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ ایک شخص کسی سے مکان یا دکان حاصل کرتا ہے اور مالک مکان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس جگہ پر کیا کاروبار کرے گا، پھل فروش کی دکان بنائے گا یا بنک کی برانچ کھولے گا تو اسے کرایے پر مکان دینے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر یہ بات ظاہر اور واضح ہو کہ اس مکان میں حرام کام کیا جائے گا تو اس سے حاصل شدہ کرایہ مباح تصور نہیں کیا جائے گا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)
س: ہماری اسٹیٹ ایجنسی ہے۔ ہمارا کام اپنے کلائنٹس کی پراپرٹی فروخت کرنا یا ان کو کوئی پراپرٹی دلانا ہے۔ ہم خود بھی پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ گاہک سے ہمیں اس خریدوفروخت کروانے کے عوض کمیشن ملتی ہے۔ ایک نئے پروجیکٹ کے حوالے سے درج ذیل سوال کی وضاحت فرما دیں:
دبئی میں کئی نئے پروجیکٹ بن رہے ہیں جن کی بکنگ مکمل ہوچکی ہے اور ان پروجیکٹ پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان کی بنیاد نہیں ڈالی ہے، لہٰذا پروجیکٹ کا ڈھانچا (structure) نہیں بن سکا ہے۔ ہمیں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایسی صورت میں ان پروجیکٹ میں بکنگ کی ہوئی کسی بھی پراپرٹی کو دوبارہ بیچنا، یعنی جس شخص نے یہ پراپرٹی بک کروائی تھی اسے دورانِ تعمیر ہی اچھی پیش کش آجاتی ہے اور وہ اس پراپرٹی کو نئے خریدار کو بیچ دیتا ہے تو کیا اس پر ہم منافع لے سکتے ہیں؟
ج: آپ کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں خریدوفروخت اگر خالی زمین کی ہے تو وہ موجود ہے، اس کی خریدوفروخت ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر خریدوفروخت زمین پر تعمیرشدہ مکانات کی ہے، تو وہ ابھی بنے نہیں۔ بعض کی بنیادیں بھی نہیں رکھی گئیں اور بعض کے ڈھانچے بن گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز فروخت کی جارہی ہے اور جس کی خریداری کرلی گئی ہے، وہ ابھی معدوم ہے۔ ابھی تو پہلا شخص جس نے خریداری کی ہے، اس نے مکان حاصل نہیں کیا۔ وہ صرف کاغذی نقشے کی شکل میں کاغذ اور ذہن میں موجود ہے۔ اگر اسے بیع سلم قرار دیا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ پہلے شخص کے لیے یہ بیع صحیح ہوسکتی ہے۔ جب تک تعمیر کیے جانے والے مکان کی تمام صفات، قبضے کی تاریخ اور وقت متعین نہ ہو اس وقت تک بیع صحیح نہیں ہوسکتی۔ دوسری بیع تو اس وقت صحیح ہوسکتی ہے جب پہلے دونوں فریق میں تنازعہ پیدا نہ ہو اور خریدار مکان کا قبضہ حاصل کرلے۔ جن مکانات کی بنیاد رکھ دی گئی ہو یا نہ رکھی گئی ہو، دونوں کا ایک حکم ہے۔ خریدار نے جو رقم دی ہے اس کے عوض میں اسے بائع کو صفات کے لحاظ سے متعین رقبہ، متعین نقشہ اور متعین شدہ میٹریل سے تعمیرشدہ مکان دینا ہوگا۔ مجہول اور معدوم کی بیع حنفیہ اور مالکیہ دونوں کے نزدیک صحیح نہیں، البتہ بیع سلم دونوں کے نزدیک صحیح ہے، لیکن وہ پہلے کے حق میں ہوسکتی ہے دوسرے کے حق میں نہیں۔ دوسرے کے حق میں بیع اس وقت صحیح ہوگی جب پہلا قبضہ کرلے۔ ھدایہ میں ہے: ’’حیوانات میں سلم جائز نہیں ہے، لیکن کپڑوں کی سلم جائز ہے کیونکہ وہ انسان کا بنایا ہوا ہے اور کپڑاصفات کے لحاظ سے متعین ہوسکتا ہے۔ یہی حکم مکان کا بھی ہے۔ یہ عدم جواز اس لیے ہے کہ فریقین میں تنازع کا خطرہ ہے، اگر دوسرے آدمی نے پہلے سے، چیز تعمیر سے پہلے خریدی ہو اور تنازع پیش نہ آیا ہو، اس نے قبضہ کرلیا ہو تو دوسری بیع بھی صحیح ہوجائے گی۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ۱- تین سال ہوئے ایک ساتھی نے ایک کاروبار شروع کیا اور تین سال کے بعد احساس ہوا کہ نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ بھی فرض ہے۔ اب وہ پوچھتے ہیں کہ کیا پچھلے دو سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کروں یا صرف اس سال کی؟
۲- ایک صاحب نے ہائی ایس گاڑی ساڑھے سات لاکھ روپے میں خریدی اور اسے روڈ پر چلا دیا اور تین سال بعد زکوٰۃ کا خیال آیا۔ اب وہ پوچھتے ہیں کہ گاڑی کی سالانہ بچت پر زکوٰۃ دینا چاہیے یا گاڑی کی مالیت پر بھی زکوٰۃ ہے، نیز زکوٰۃ ایک سال ہی کی ہوگی یا تین سال کی؟
۳- ایک شخص نے گھر کے استعمال کے لیے کار خریدی۔ کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟
۴- اگر کار کو سواری لے جانے اور لانے کے لیے کرایہ پر چلایا جائے جیساکہ نمبردو میں عرض کیا ہے تو کیا اس پر زکوٰۃ ہوگی یا صرف اس کے سالانہ منافع پر۔
ج : جب سے آدمی صاحب ِ نصاب ہوجائے تب سے زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کے دوست ۲۰۰۷ء کو صاحب ِ نصاب ہوئے تو ۲۰۰۷ء سے اور اگر پہلے سے صاحب ِ نصاب ہیں تو جب سے صاحب ِ نصاب ہیں اسی وقت سے زکوٰۃ دینا شروع کریں گے۔
۲- گاڑی کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ گاڑی کی آمدن اور پس انداز کی ہوئی رقم سب مل کر مقدار نصاب کو پہنچیں تو زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ وسائل آمدن پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ گاڑی آمدن کا وسیلہ ہے۔ اگر گاڑی ساڑھے سات لاکھ روپے کی زکوٰۃ ادا کر کے خریدی تھی تو جب سے چلائی جارہی ہے اس کی سالانہ آمدن پر زکوٰۃ عائد ہوگی، اس کی مالیت پر نہیں۔ اگر زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی تو ایک مرتبہ اس کی زکوٰۃ ساڑھے سات لاکھ روپے سے اداکردی جائے تو پھر سال بہ سال اس کی آمدن پر زکوٰۃ دی جائے۔
۳- اسی طرح گھر کے استعمال کے لیے خرید کردہ گاڑی پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان پر اس کے گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے مراد استعمال کا گھوڑا ہے۔
۴- کار اگر کاروبار کے لیے چلائی جائے تو پھر اس کی آمدنی پر زکوٰۃ عائد ہوگی جب کہ وہ اکیلے یا پس انداز کی ہوئی رقم کے ساتھ مقدار نصاب کو پہنچتی ہو۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)
س: اسلام میں علاقائی رسم و رواج کی کیا حیثیت ہے اور اُن کو کرنے یا نہ کرنے کا بنیادی اصول کیا ہے، بالخصوص شادی کے موقع پر کی جانے والی مہندی کی رسم؟
میرے خیال میں یہ رسم غیراسلامی یا نامناسب اس لیے ہے کہ اس میں ناچ گانا، مووی یا تصویریں بنانا اور مخلوط تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور بے جا اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ اس رسم کو اسٹیٹس سمبل کے طور پر بھی ادا کیا جاتا ہے، نیز اس میں وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔اگر مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بات نہ ہو، صرف خاندان کی خواتین اور سہیلیاں اکٹھی ہوں، گھریلو قسم کے گانے ڈھولکی یا دف پر گائے جائیں، اور پردے کا خیال رکھا جائے، یعنی یہ رسم صرف مل بیٹھنے کا بہانہ ہو تو کیا پھر بھی اس رسم کا ادا کرنا ناجائز یا غیراسلامی ہوگا؟
ج: علاقائی رسمیں خصوصاً شادی بیاہ کے رواج میں سے جو شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی اجازت ہے۔ آپ نے خود ہی وضاحت کی ہے کہ مہندی کی رسم میں غیرشرعی کام، ناچ گانے، مووی، تصویریںبنانا، مخلوط تقریبات، بے جا اسراف، اسٹیٹس سمبل کا مظاہرہ اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر یہ رسم ان بے جا اُمور سے پاک ہو، محض بچی کو دلہن بنانا ہوتو سادہ طریقے سے ایسا کیا جاسکتا ہے، جس طرح انصار کی خواتین نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو نہلادھلا کر، بناسنوار کر دلہن بناکر نبی کریمؐ کے گھر رخصت کیا تھا۔ شادی کے موقع پر بڑی خواتین کا دف کے ساتھ گانے گانا اگرچہ اپنے گھر کے محدود دائرہ میں ہو، صحیح نہیں ہے۔ صرف چھوٹی بچیاں ایسے گیت گاسکتی ہیں، جن میں فحش نہ ہو۔واللّٰہ اعلم! (ع - م)
تدوین ِحدیث کی تاریخ میں چالیس حدیثوں (اَربعین) کو جمع کرنے کی دیرینہ روایت موجود ہے۔ اس روایت کی آبیاری میں ہمارے اہلِ علم کی کثیر تعداد نے حصہ لیا۔ سب سے زیادہ مقبولیت ساتویں صدی ہجری کے محدث امام یحییٰ بن شرف نو.َ .َ وِی کی مرتبہ اَربعین کو حاصل ہوئی۔
امام نووی ایک بلندپایہ عالم اور عابد و زاہد شخص تھے۔ ان کی زندگی حصولِ علم کے لیے غیرمعمولی محنت و کاوش اور حددرجہ قناعت اور فقرودرویشی کے رویوں سے عبارت ہے۔ ان کے خلوص اور حسنِ نیت کا نتیجہ ہے کہ ان کی اَربعین کی بیسیوں شرحیں شائع ہوئیں، پھر اُنھی کی تقلید میں مختلف شائقین نے اپنی اپنی اَربعین (چالیس حدیثوں کے مجموعے) شائع کیے۔
امام نو.َ .َ وِی کی منتخب چالیس احادیث موضوعات کے اعتبار سے اس قدر جامع اور ہمہ گیر ہیں کہ ان میں ایک مسلمان کے لیے قرآن وسنت کی اہمیت، حلال و حرام، حقوق و فرائض، تجارت و کاروبار، عبادات و عقائد، معاشرت و معیشت، توبہ واستغفار اور اخلاقیات و معاملات کے بارے میں پوری ہدایات موجود ہیں۔
پیشِ نظر مجموعہ اس اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے مرتب اور مترجم نے خود امام نووی سے منسوب شرح کا ترجمہ کیا اور ہرحدیث کے موضوع سے متعلق دوسری احادیث، انبیا، علما، صلحا اور بزرگانِ اُمت کے اقوال، نصائح اور اہم نکات بھی یک جا کردیے ہیں۔ مزیدبرآں مرتب نے وطنِ عزیز کے موجودہ حالات و مسائل کے تناظر میںاپنی جانب سے موضوع کی مناسبت سے ضروری تبصرے بھی شامل کردیے ہیں۔ اس طرح ہرحدیث کا مرکزی موضوع ایک جامع اور مستقل مضمون کی شکل اختیار کرگیا ہے، جس میں متذکرہ بالا اضافوں کے علاوہ متنِ حدیث کا اُردو ترجمہ اور لفظی معانی بھی موجود ہیں۔ ہرمضمون کے آخر میں ’فقہ الحدیث‘ کے عنوان سے خلاصۂ کلام کے طور پر ایک ہدایت نامہ بھی مرتب کردیا ہے جس کی حیثیت ’پس چہ باید کرد…‘ کی ہے۔
بحیثیت مجموعی یہ احادیثِ نبویؐ کا ایک نہایت عمدہ مجموعہ ہے۔ نہ صرف انفرادی مطالعے میں، بلکہ اجتماعی مطالعے کے طور پر بھی (اجتماعات یا اسٹڈی سرکل میں) اس کا ایک ایک جزو پڑھا جائے تو قارئین و سامعین پر اُس کے مفید اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے، ان شاء اللہ۔ کتابت اور پیش کاری ناشر کے صاحبِ ذوق ہونے کی علامت ہے۔ امام کا نام اِعراب کے ساتھ (نَوَوِی) لکھنے کا اہتمام ضروری تھا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی صاحب محتاجِ تعارف نہیں۔ جامعہ اشرفیہ ان کی پہچان ہے۔ اب جامعہ نے اپنا گرلز کالج بھی قائم کیا ہے۔ ماہنامہ الحسن لاہور میں ان کا درسِ حدیث ۲۰سال سے شائع ہوتا رہا ہے۔ ان دروس میں سے ۱۶۶ احادیث کے درس منتخب کر کے اس کتاب میں جمع کردیے گئے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت جو بھی اہم ضروری مسائل ہیں ان سب کے بارے میں بہت اچھے انداز سے رہنمائی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اس ذیل میں ۶صفحے پر ٹیلی فون کو باعثِ رحمت بنانے پر ایک جامع تحریر مل جاتی ہے۔ اسی طرح قرض کے بارے میں جو حدیث ہے اس کی تشریح میں قرض کے بارے میں تمام ضروری باتیں مل جاتی ہیں۔ قنوتِ نازلہ پر چار صفحے کے درس میں ضروری امور بیان کرکے آخر میں مزید مطالعے کے لیے چار کتابوں کے حوالے مع صفحات نمبر دیے ہیں۔ اسی طرح گھریلو زندگی میں مغربی تہذیب کی نقالی کا موضوع اس حدیث (ص ۶۵۲) پر قائم کیا ہے جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہ کرنے کے بارے میں ہے۔
احادیث کا گہرا مطالعہ ہے، مرکزِ شہر میں بیٹھے ہیں اس لیے ایک شہر اور معاشرہ نظر میں ہے۔ ان کی تحریر مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن زور نظری بحثوں پر نہیں، عملی رہنمائی پر ہے۔ اندازِ تحریر شُستہ اور سلیس ہے (عالمانہ نہیں)۔ بے حد مفید کتاب ہے۔ اس کے درس اخبارات و رسائل میں نقل کیے جاسکتے ہیں اور کتاب سب کو خاص طور پر طلبہ و طالبات کو پڑھنا چاہیے۔ کتاب میں کوئی ترتیب نہیں، آپ فہرست سے موضوع تلاش کرسکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)
اخوان المسلمون کے نظام تربیت کی ایک منفرد خصوصیت تعلق باللہ، ذکرالٰہی اور مسنون دعائوں کا اہتمام ہے۔ بانیِ تحریک امام حسن البنا شہیدؒ نے اس غرض کے لیے ایک نصاب مرتب کیا تھا جو قرآنی اوراد، روزانہ وظائف اور مسنون دعائوں اور اذکار پر مشتمل ہے۔ ان کی ہدایت تھی کہ ہراخوان شب و روز کے کسی بھی حصے میں اس کا اہتمام کرے اور اس کو اپنا معمول بنالے، اور کوئی دن تلاوتِ قرآن سے خالی نہ جائے۔ اخوان المسلمون نے راہِ خدا میں استقامت اور قربانیوں کی جو لازوال تاریخ رقم کی ہے، یہ اسی ہدایت، اخلاص اور تربیت کا فیضان ہے۔ اس کے خوش گوار اثرات اس کے سیرت و کردار اور تحریکی کام پر مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم قاضی حسین احمد اس مجموعے کی اسی اہمیت کے پیش نظر رقم طراز ہیں: ’’اگر ہم امام حسن البنا شہیدؒ جیسے متقی، عابد، شب زندہ دار اور مجاہد فی سبیل اللہ مرشد کی ہدایات کے مطابق ان کو صبح و شام کا ورد بنا لیں، تو یقینا ہمیں للہیت اور اخلاص کی وہ دولت نصیب ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کے لیے حقیقی ’زادِ راہ‘ ہے‘‘۔ (تقریظ، ص ۱۱)
محترم آبادشاہ پوری مرحوم کے ترجمے کے ساتھ اسے ۱۹۷۱ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اب منشورات نے اس ترجمے کو محترم عبدالغفار عزیز کی نظرثانی کے بعد شائع کیا ہے۔ یہ جیبی سائز پر اس کا نیا اڈیشن ہے۔(امجدعباسی)
علی گڑھ میں اسلامی تہذیبی فکر کے حامل دانش وروں نے اب سے تقریباً ۱۲ برس قبل اُردو میں ایک علمی مجلے آیات کا آغاز کیا تھا۔ ان ماہرین میں بیش تر سائنسی علوم کے حاملین تھے اور انھیں سماجی و اسلامی علوم کے ثقہ ماہرین کا تعاون حاصل تھا۔ مضامین کے تنوع اور تحقیقی وتجزیاتی آہنگ نے اس مجلے سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کردی تھیں، لیکن ۱۹۹۸ء کے بعد اس کی اشاعت معطل ہوگئی۔ اب تقریباً ۱۰ برس بعد اس کا پہلا شمارہ زیرتبصرہ ہے۔ مثبت سوچ رکھنے اور زندگی کے معاملات کو مغرب کی نگاہ سے نہ دیکھنے والے اصحابِ علم اس تحقیقی مجلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
۱۰ مقالات، ایک رپورٹ اور مؤثر اداریے پر مشتمل یہ شمارہ اسلام، سائنس اور عالمِ اسلام کو درپیش علمی چیلنج کو زیربحث لایا ہے۔ کم و بیش ہر مقالہ تعارف تبصرے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم یہ توجہ دلانا ضروری ہے کہ اس معیاری مجلے میں تمام احادیث باقاعدہ حوالے کے ساتھ درج کی جائیں اور اگر کوئی ضعیف حدیث ہو تو کم از کم پاورق میں ادارے کی جانب سے اس کی نشان دہی ضرور کردی جائے۔ مثال کے طور پر ص ۵۷ پر ایک حدیث: ’’عالم کی روشنائی، شہید کے خون سے زیادہ وزنی ہے‘‘ امام غزالی کے حوالے سے درج کی گئی ہے۔ اس روایت پر بڑی جان دار بحثیں، روایت و درایت کے باب میں سامنے آئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی کمزور بات دی نہ جائے کہ قرآن و سنت کے مجموعی مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی اور اگر درج کی جائے تو اس پر دوسرا نقطۂ نظر بھی دے دیا جائے، اور حدیث کا عربی متن تو ضرور درج ہو، مکمل حوالے کے ساتھ۔
مدیرمحترم کے فکرانگیز خطبے میں یہ حوالے کہ: ’’نواب واحد علی شاہ کے خاندان کی سائنسی خدمات اٹھارھویں صدی سے شروع ہوکر انیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ خود ۱۰۰کتابوں کے مصنف تھے،اور انھوں نے جدید سائنس کی درجنوں کتابوں کا اُردو زبان میں ترجمہ کرایا تھا۔ افسوس کہ ان کی مفروضہ داستان تعیش سے بچہ بچہ واقف ہے، لیکن علمی خدمات سے لوگ واقف نہیں‘‘ (ص ۱۸۶) واقعی قابلِ توجہ ہے۔ اس پہلو پر ایک جامع تحریر پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
مناسب ہو تو اس تحقیقی مجلے کو اُردو کا بین الاقوامی جرنل بنا دیا جائے، اور اس کی مشاورت و ادارت میں دیگر ممالک، یعنی پاکستان، عرب دنیا اور مغرب میں معروف دانش وروں کا تعاون حاصل کیا جائے۔ (سلیم منصور خالد)
شفیق الاسلام فاروقی صاحب نہ صرف پاکستانی قارئین بلکہ امریکی جیلوں کے مسلمان قیدیوں اور دنیا کی ان عظیم شخصیات کے لیے جن کو وہ خطوط لکھتے ہیں، (مثلاً کلنٹن، ٹونی بلیئر، آرچ بشپ آف کنٹربری، مسلم ممالک کے سربراہان اور دشمن ممالک کے سفرا) محتاجِ تعارف نہیں۔ اُمت کا درد انھیں اس ’جواں عمری‘ (پ: جنوری ۱۹۲۲ئ) میں بھی تڑپائے رکھتا ہے۔ ۳۳۳صفحات کی اس کتاب میں ۵۸صفحے کا ان کا مقدمہ ہے اور ۸صفحات میں انھوں نے اپنے حالاتِ زندگی لکھے ہیں۔ صہیونیت کی کامیابیوں کا بیان بہت زیادہ کرنے سے ایک رعب سا طاری ہوجاتا ہے اور مقابلے کا حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے لیکن مقابلے کے لیے دشمن سے آگاہی ضروری ہے۔ اس کام کا آغاز ۴۰،۵۰ سال پہلے مصباح الاسلام فاروقی صاحب نے Jewish Conspiracy سے کیا اور ہم لوگ لفظ پروٹوکول سے آشنا ہوئے۔ اب بھی کئی خیرخواہانِ اُمت اس کام میں مشغول ہیں۔ اس میں فاروقی صاحب بھی شامل ہیں۔
یہ کتاب پہلی نظر میں ایک تصنیف لگتی ہے۔ جس میں مصنف کے ۳۷ مضامین جمع کردیے گئے ہیں لیکن آگے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ برطانیہ کے اخبارات کے ان مضامین اور کالموں پر مشتمل ہیں جن کے تراشے فاروقی صاحب کو ان کے احباب نے ارسال کیے ہیں۔ان کا عرصہ ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ہے۔ اس دوران برطانوی پریس میں یہودیوں کو خلاف جو کالم شائع ہوئے ہیں وہ آپ کو بڑی حد تک اِس میں مل جائیں گے۔ جیساکہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے، مرکزی نکتہ یہ ہے کہ صہیونیت اپنے آخری دم پر ہے اور آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ فاروقی صاحب جلد ہی ان خطوط کا مجموعہ شائع کردیں گے جو انھوں نے قیدیوں اور اہم شخصیات کے نام لکھے ہیں یا ان سے وصول کیے ہیں۔ یہ ان کا سلیقہ ہے کہ ہر چیز فائلوں میں محفوظ ہے، شائع کرنے کے اسباب فراہم ہونے میں وقت لگتا ہے۔ (م- س)
سانحۂ کارگل پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ دوسرے ایسے ہی قومی حادثوں پر تحقیقات کے مطالبے کی طرح شاید ہی پورا ہو (حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ خفیہ رکھی گئی اور اس پر عمل بھی نہ ہوا)۔ جنٹل مین سیریز کی اس پانچویں کتاب میں جسے غالباً استغفراللہ کا نام رمضان کے ماہِ اشاعت کے حوالے سے دیا گیا ہے، سانحۂ کارگل کے اصل حقائق آشکار کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب انگریزی میں Witness to Blunder کے نام سے ساتھ ہی شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ عموماً اتنا صبر نہیں کیاجاتا اور ترجمے کا ارادہ رہ جاتا ہے۔
سانحۂ کارگل کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ جنرل مشرف کی کتاب بھی آچکی ہے۔ نواز شریف کا موقف بھی کچھ دوسری کتب میں سامنے آچکا ہے۔ اس کتاب نے اصل ذرائع تک پہنچ کر یہ ثابت کیا ہے کہ فوج میں چار کے ٹولے نے سول حکومت کو بے خبر رکھ کر اتنا بڑا اقدام کرڈالا۔ منصوبہ بندی کا یہ عالم تھا کہ فضائیہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کیونکہ فتح یقینی سمجھی گئی تھی اور یہ فرض کرلیا تھا کہ بھارت جواب نہیں دے گا، اس لیے واپسی کا کوئی انتظام نہیں سوچا گیا تھا (ہم کشتیاں جلانے والے لوگ ہیں)۔ اس مشق سے پاکستانی فوج کی جو جگ ہنسائی ہونی تھی وہ تو ہوئی لیکن فوج کے جوانوں کی قیمتی جانوں کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔ کتاب ان افراد کی گفتگوؤں اور تبصروں پر مشتمل ہے جنھوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔
کارگل کے حقائق کے ساتھ ہی اس کتاب میں بڑی خوبی سے مسئلہ کشمیر کی پوری تاریخ بیان کردی گئی ہے اور کارگل سے پہلے کے قریبی حالات بھی تفصیل سے آگئے ہیں۔ ساتھ ہی فوج کے افسروں اور جوانوںنے استقامت اور قربانی کی جو مثال پیش کی وہ بھی ریکارڈ پر آگئی ہے۔ کیا مصنف سے یہ توقع بے جا ہوگی کہ وہ سانحہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر بھی ایسی ہی ایک حقائق کُشا کتاب مرتب کردیں۔ قوم اس حادثے کو انجام دینے والے کرداروں کی اپنی زبان سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ ’حبِ وطن‘ کے کن جذبات سے یہ انجام دیا گیا اور ’v‘ کا نشان بناکر دکھایا گیا۔ یہ کہانی تو طویل ہوتی جارہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں جو آپریشن کیے جا رہے ہیں ان کے ’سرجنوں‘ کی طرف سے بھی کچھ حقائق آنے چاہییں تاکہ صاحب ِ کتاب ’جنٹل مین اناللہ‘ لکھ سکیں۔ (م - س)
۱۹۷۴ء سے حج و عمرہ کی مسلسل سعادت حاصل کرنے کے بعد، سفرِحج و عمرہ کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل و مشکلات کا عام فہم تذکرہ ہے اور مسائل کے حل کے لیے عملی راہ نمائی بھی دی گئی ہے۔ عموماً اہلِ پاکستان حجِ تمتع (عمرہ اور حج) کرتے ہیں، اس لیے مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کی ادایگی کرنا ہوتی ہے، لہٰذا عمرہ کا طریقہ بھی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ حج کی کتابوں میں عام طور پر مدینہ منورہ سے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔ مذکورہ کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ، وہاں کی مساجد وغیرہ کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ کتاب کا ایک اہم پہلو حاجی صاحبان کو حج کے بعد خوداحتسابی کی دعوت دینا ہے کہ حج کرنے کے بعد آپ نے اپنے میں کیا تبدیلی محسوس کی، اور میرا شمار کن لوگوں میں ہوا، نیز حج سے واپسی پر مجھے کن باتوں کو اپنانا چاہیے۔(پروفیسر میاں محمد اکرم)
ابوالامتیاز ع س مسلم، شخصیت اور شاعری ، ڈاکٹر غزالہ یونس، ناشر: علامہ قتیل اورینٹل لائبریری و مرکز تحقیق، پٹنہ بہار ۳۔ صفحات: ۳۱۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [نام ور ادیب، شاعر اور صحافی، ابوالامتیاز ع س مسلم کی سوانح اور فن پر ایک تحقیقی مقالہ، جس پر ونوبا بھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ نے مصنفہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطاکی۔ یہ کتاب ان کی شخصیت اور شعری اور نثری فن کے تقریباً تمام پہلوئوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے۔]
مجلہ تحقیق معاشرتی علوم ،مدیر: ڈاکٹر محمد اسحاق۔ اگست ۲۰۰۴ء سے جولائی ۲۰۰۶ئ۔ پاکستان مجلس تحقیق براے معاشرتی علوم، شعبہ عربی جامعہ، کراچی- ۷۵۲۷۰۔ [تنظیم اساتذہ کی مجلس تحقیق براے معاشرتی علوم کی چوتھی پیش کش ہے۔ اس کے روح رواں جامعہ کراچی کے شعبۂ عربی کے صدر ڈاکٹر محمداسحاق ہیں۔ ۹ مقالات جن میں بہت تنوع ہے، مثلاً تبیین قرآن میں سنت کی حیثیت اور فکرفراہی، سلطنت عثمانیہ کے گوہرآب دار۔ ۹مقالات اور ۵ کتب پر تبصرہ شاملِ اشاعت ہے۔ مدیر کے قلم سے اداریہ قرآن مجید اور پاکستان میں نصابِ تعلیم کی پالیسی بنانے والوں کے لیے نہایت مفید عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پڑھنے میں دقت پیش آتی ہے، اگر ایک پوائنٹ سائز بڑھا دیا جائے تو ایک مقالہ شاید کم ہوجائے لیکن پھر سب پڑھے جائیں گے۔]
۳۶۵ کہانیاں ،حصہ سوم، مؤلف: محمد ناصر درویش۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ، ST-9E، بلاک ۸،گلشن اقبال، کراچی۔ صفحات: ۲۴۱ (بڑی تقطیع)۔ قیمت (مجلد): درج نہیں۔ [بیت العلم ٹرسٹ کراچی کی دیگر علمی و دینی خدمات کے ساتھ ساتھ بچوں کے معیاری ادب کی تخلیق کے لیے کہانیوں کا سلسلہ۔ ۳۶۵ کہانیاں، حصہ سوم، کل چار حصے ہیں۔کہانیاں جدید دور کے مکالماتی اور دل چسپ انداز میں لکھی گئی ہیں۔ نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اور دیگر اخلاقی و سبق آموز کہانیوں کے ساتھ ساتھ اسلاف کی زندگی کے روشن پہلوئوں کا بالخصوص تذکرہ۔]
’فریضۂ زکوٰۃ کی ادایگی‘ (ستمبر ۲۰۰۸ئ) برمحل اور اہم تحریر ہے، تاہم مقدارِ نصاب کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کی مدات کا تذکرہ ہوتا تو تحریر زیادہ مفید ہوجاتی اس لیے کہ زکوٰۃ دیتے ہوئے لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کہاں زکوٰۃ لگتی ہے اور کہاں نہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ صرف رمضان میں دینے کا رجحان بھی توجہ طلب ہے۔ اس کی وجہ سے ضرورت مندوں کو سارا سال دقت پیش آتی ہے اور بہت سے مفید کام اور خدمتِ خلق کے منصوبے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
’امریکی حملے کا اندیشہ‘ (اگست ۲۰۰۸ئ) ایک بروقت تحریر تھی۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان وہ علاقہ ہے جہاں حاجی صاحب تُرنگ زئی اور فقیر ایپی نے برطانوی استعمار کے خلاف زبردست مزاحمت کی تھی۔ مذکورہ مضمون میں فقیر ایپی کو ’فقیر آف اے پی‘ (ص ۲۷) لکھا گیا ہے جو درست نہیں۔ اس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ اے پی (A.P) کسی انگریزی لفظ کا مخفف ہے۔ حالانکہ درحقیقت ایپی ایک مقام کا نام ہے جو فقیر ایپی حاجی میرزلی خان کا مسکن تھا۔
’مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام‘ (جولائی، اگست ۲۰۰۸ئ) میں اسلامی فکر کے احیا کے لیے جن مثبت مواقع کی نشان دہی اور جس چیلنج کا اظہار کیا گیا ہے وہ مابعد جدیدیت سے پیدا ہونے والے خلا کا فوری جواب مانگتا ہے۔ کیا دنیاے اسلام کی اسلامی تحریکیں اس چیلنج کا جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہیں یا بات صرف نعروں تک ہی محدود ہے؟ خاص طور پر پاکستان کی تحریکِ اسلامی___ہم سب کے لیے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے!
’پیپلزپارٹی کی حکومت کے ۱۰۰ دن‘ (اگست ۲۰۰۸ئ) میں پروفیسر خورشیدصاحب نے حکومت کا پوسٹ مارٹم کرنے میں کوئی پہلو تشنہ نہیں رکھا۔ مغرب کی آنکھوں کے خار ترکی اور سوڈان کے متعلق ’اب سوڈان اور ترکی میں حکمران جماعت پر پابندی‘ میں موجودہ صورت حال پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ’دشمن کا نام ہونا چاہیے‘ سے امریکا کے دانش وروں کی اسلام کے بارے میں اپنی مکروہ خواہشات کا برملا اعلان مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ میری استدعا ہے کہ ایسے چشم کشا مضامین کثیرالاشاعت اخبارات میں ضرور شائع ہونے چاہییں تاکہ وسیع تر حلقے کو اسلامی ممالک خصوصاً امریکا کے ٹارگٹ ممالک کے حالات سے کچھ شناسائی ہو اور وہ جان سکیں کہ کس طرح امریکا مغرب کی مدد سے ہمارے گرد ایک جال پھیلاکر ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں ’مابعد جدیت کا چیلنج اور اسلام‘ علمی لحاظ سے اسلامی تحریکوں اور مسلمان دانش وروں کے لیے ایک فکرانگیز لائحہ عمل اختیار کرنے کی ایسی دعوت ہے جس پر اسلامی تحریکات کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
اخبارات میں آئے روزبھوک، افلاس اور فاقوں کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کرنے کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ لوگ اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کے گلے گھونٹ رہے ہیں، قتل کر رہے ہیں۔ دل لرز کر رہ جاتا ہے کہ لوگ مسلمان معاشرے میں بھی خودکشی جیسی حرام موت کے مرتکب ہونے لگے ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ یہ معاشرتی انتشار کی بھی علامت ہے اور ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے عملی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ عام لوگوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور مصیبت جھیلنے کے لیے انھیں بے دست و پا، لاچار و بے بس اور تنہا نہ چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ مایوس ہوکر زندگی ہی ہار جائیں۔ میرے نزدیک جہاں کہیں بھی خودکشی کا کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے اس کی ایک طرح سے ذمہ داری اردگرد کے جماعت اسلامی کے کارکنان پر بھی آتی ہے۔ الخدمت کمیٹی کے ممبران کو اپنے محلے اور گردونواح میں عوام کے مسائل سے آگاہ ہونا چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی اور منصبی ذمہ داری کا اہم ترین تقاضا ہے۔ عوامی تائید کے بغیر انقلاب ممکن نہیں۔ پرسانِ حال لوگوں کی حالت بدلنے پر زیادہ وسائل لگائے جائیں تو انقلاب کی منزل جلد قریب آسکتی ہے۔
’او- لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) میں فاضل مضمون نگار سلیم منصورخالد نے کچھ زیادہ ہی حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک ۱۵سال کا بچہ جو اولیول میں قدم رکھتا ہے وہ اس بات سے واقف ہے کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، وہ سُنّی ہے یا شیعہ۔ ۱۵ سال کا بچہ نہ تو کم سن ہے اور نہ کم فہم۔ میڈیا نے آج کے بچوں کو پہلے سے ہی بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ فرقہ واریت ایک نہایت عام موضوع ہے۔
رمضان میں افطار کے اوقات میں باقاعدہ فقہ جعفریہ اور حنفیہ کے اوقات بتانا بھی فرقہ واریت کی مثال ہے۔ وہ بچہ جو پہلی بار روزہ رکھتا ہے، اُسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنا روزہ کس فقہ کے مطابق افطار کرنا ہے۔ جیو پر نشر کیے جانے والے مشہور پروگرام ’عالم آن لائن‘ اور ’الف‘ فقہ جعفریہ اور فقہ حنفیہ کے علیحدہ علیحدہ علما آکر اپنے فقہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ کام والدین کا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اپنے فقہ کے مطابق تعلیم دیں۔ اور یہ بات تو مانی ہوئی ہے کہ یہ دو الگ الگ فرقے ہیں جن کی دینی تعلیم ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے۔ پھر اگر فرخندہ نور صاحبہ کیمبرج بورڈ کے نصاب کے مطابق دو الگ فرقوں کی تعلیمات کا ذکر کرتی ہیںتو اس پر اتنا شدید ردعمل کیوں ہے۔
یاد آتا ہے کہ دو تین سال قبل اُردو ڈائجسٹ میں اولیول کے اُردو نصاب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس پر کافی بحث ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اُردو کا یہ نصاب تبدیل ہوچکا ہے۔ تعریف کی بات یہ ہے کہ کیمبرج یونی ورسٹی نے اس پر غور کیا اور اسے حل کیا۔
یہ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ دوسروں کی ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں آتے۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ خود کس قدر گہرے گڑھے میں گرے پڑے ہیں، کس دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ اپنے نظام کو خراب قرار دے کر بڑے آرام سے سرخرو ہوجانا ہمارا مشغلہ بن گیا ہے۔ پھر جو اس نظام کا حصہ نہیں بنتا اسے مصنف کے مطابق ’کالا انگریز‘ بنا دیا جاتا ہے۔ دراصل ہم یہ تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ انگریزوں کا نظامِ تعلیم ہمارے نظام سے کئی گنا بہتر ہے۔ GCE کو وہاں کون گھاس ڈالتا ہے، کون نہیں___ اس سے ہماری کیا غرض؟ ہمارے لیے تو یہی کافی ہے کہ اس نظام کے تحت بچوں کی بہتر طریقے سے نشوونما ہوسکتی ہے۔ پڑھائی صرف رٹا لگانے یا صفحات بھرنے سے نہیں ہوتی۔ بچپن میں ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ علم مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں سے ملے حاصل کرلے۔ اور تو اور، علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑے۔ اب اگر ہم ایک بہتر نظام کو اپناتے ہیں تو ہم خود اپنے ہی بڑوں کے مذاق/طعنے کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک دوسرے پر مخصوص چھاپ لگانے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم اس مسئلے کا حل کھلے دل سے نکالیں۔
شادی بیاہ وغیرہ تقریبات کی رسوم کی پوری پوری اصلاح اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ دینی زندگی اپنی صحیح بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہوئی اس مرحلے پر نہ پہنچ جائے جہاں ان چیزوں کی اصلاح ممکن ہو۔ اس وقت تک [ہم سے وابستہ افراد] کو زیادہ تر صرف ان چیزوں سے اجتناب پر اصرار کرنا چاہیے جن کو صریحاً خلافِ شریعت کہا جاسکتا ہو۔ رہیں وہ چیزیں جو معاشرتِ اسلامی کی روح کے تو خلاف ہیں مگر مسلمانوں کی موجودہ معاشرت میں قانون و شریعت بنی ہوئی ہیں تو وہ ہمارے ذوقِ اسلامی پر خواہ کتنی ہی گراں ہوں، لیکن سردست ہمیں ان کو اس امید پر گوارا کرلینا چاہیے کہ بتدریج ان کی اصلاح ہوسکے گی۔ مگریہ گوارا کرنا رضامندی کے ساتھ نہ ہو، بلکہ احتجاج اور فہمایش کے ساتھ ہو یعنی ہر ایسے موقع پر یہ واضح کردیا جائے کہ شریعت تو اُس طرح کے نکاح چاہتی ہے جیسے ازواجِ مطہرات اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے ہوئے تھے، لیکن اگر تم لوگ یہ تکلفات کیے بغیر نہیں مانتے تو مجبوراً ہم اس کو گوارا کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ وقت آرہے کہ جب تم نبیؐ اور اصحابِ نبیؐ کی طرح کے سادہ نکاح کرنے کو اپنی شان سے فروتر نہ سمجھو!
ہمارا یہ رویہ تو اپنے حلقہ سے باہر کے لوگوں کے لیے ہے جن سے ہم مختلف قسم کے روابط پیدا کرنے اور جن کے ساتھ کئی طرح کے دنیوی امور میں معاملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن خود اپنے حلقہ کے اندر ایسے جتنے روابط اور معاملات رونما ہوں،انھیں رسوم کی آلودگیوں سے پاک کر کے سادگی کی اس سطح پر لے آناچاہیے جس تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے انھیں پہنچایا تھا۔ ہمارے معاملات میں مباحات کو، مباحات ہی کی حد تک رہنا چاہیے اور ان میں کسی چیز کو قانون اور شریعت کے درجہ تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ رواج کی رَو میں بہنے والے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بغاوت کرنا بھی چاہتے ہیں مگر پہل کی جسارت نہیں کرسکتے۔ رسموں کی بیڑیوں سے نجات حاصل تو کرنا چاہتے ہیں مگر دوسروں سے پہلے انھیں کاٹنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ اپنی پیٹھوں پر لدے ہوئے رواجوں کے بوجھوں سے ان کی کمریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں مگر ان کو پٹخ دینے میں پیش قدمی نہیں کرسکتے۔ یہ پہل اور پیش قدمی اب ہم لوگوں کو کرنی ہے۔ ہمارے ہر ساتھی کا یہ فرض ہے کہ پوری بے باکی سے پہل کرے۔ اور لوگوں کی ’ناک‘ بچانے کے لیے خود نکو بن کر معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کرے۔ خالص اسلامی انداز میں تقریبات اور معاملات کو سرانجام دینے کی مثالیں اگر جگہ جگہ ایک دفعہ قائم کردی جائیں تو سوسائٹی کا کچھ نہ کچھ عنصر ان کی پیروی کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے گا اور اس طرح رفتہ رفتہ احوال بدل سکیں گے۔ (رسائل و مسائل، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، ج ۲۹، عدد ۵، ذی القعدہ ۱۳۶۵ھ، اکتوبر ۱۹۴۶ئ، ص ۵۵-۵۶)