بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر سال کی طرح ایک بار پھر رمضان کا مبارک مہینہ اپنی برکتیں لے کر ہم پر طلو ع ہورہاہے، جس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جس کے دن میں روزہ رکھنا فرض کردیاگیاہے اور جس کی راتوں میں قرآن سننا مستحب اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس میں ایک فرض کی ادایگی دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرائض جتناثواب رکھتی ہے اور جس میں ایک نفلی عبادت دوسرے مہینوں کے فرائض جتنی بزرگی کی حامل ہے۔ یہ غریب لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ اس میں کسی کا روزہ افطار کرانا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات کی ضمانت فراہم کرتاہے۔
ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسولؐ اللہ نے ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والامہینہ سایہ فگن ہو رہاہے۔ اس مہینے کی ایک رات(شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیںاور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (نماز تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت(سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میںکسی روزے دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گابغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو افطار کرانے کا سامان موجود نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی سے یا پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اور جو کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض(کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی ہے۔ اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی دے دے گا۔
جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں،اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے جاتے ہیںاور ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیںرہتا۔ اور منادی کرنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آگے آ،اور اے بدی کے شائق رک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے(گناہ گار)بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔اور یہ سب رمضان کی ہررات میں ہوتا رہتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
جس نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پہلے کے گناہ معاف کردیے جائیں گے، ایسے ہی جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں نوافل(تراویح و تہجد)پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیںگے،اور اسی طرح جس نے شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے نوافل پڑھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (متفق علیہ)
بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوںکو فرض اور اس کے قیام کونفل قراردیاہے۔ جس نے ثواب کی نیت سے روزے رکھے اور قیامِ لیل کیا،وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔(مسند احمد)
یہی وجہ ہے کہ رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی عالمِ اسلام کے شب و روزتبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ مسجدیں آباد ہوجاتی ہیں۔ گھروں کے اوقات بدل جاتے ہیں۔پوری دنیا کے مسلمان اپنے رب سے لو لگا لیتے ہیں، ہر دم اس سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیںاور ہر لحظہ اسے راضی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔کوئی بدبخت مسلمان ہی ایسا ہوگا جس کا گھر رات کے آخری حصے میں سحری کی برکتوں اورپھر شام کے وقت افطار کی گہماگہمی سے محروم رہے۔
رمضان المبارک کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت عطا فرمائی ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں اور جو حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والی کتاب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ۔(البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کے رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
رمضان المبارک کا مہینہ سالانہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ دن کے وقت روزے اور رات کے وقت تراویح میں قرآن کریم سننے کی عبادت۔ رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت کا ذریعہ بنایا ہے۔ ضبط نفس کی ایسی تربیت کہ بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود مجال ہے کہ بندۂ مومن کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آئے کہ وہ افطاری سے قبل کوئی نوالہ یا کوئی گھونٹ حلق سے نیچے اتارے۔ مسلمان گھرانوں میں بچوں کی بھی ایسی تربیت ہوجاتی ہے کہ اگر ایک بار روزے کی نیت سے سحری کھالیں تو افطار کے وقت تک روز ے کی پابندیوں کا خیال رکھتے ہیں۔
روزہ تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہر وقت، ہرلمحے اور ہر گھڑی یہ احساس کہ بندے نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر روزہ رکھا ہے۔ بھوک اور پیاس ہر وقت اس کے دل کو اللہ سے جوڑ ے رکھتی ہے۔ تنہائی میں بھی اپنے رب کے سامنے ہونے کے احساس کی وجہ سے بندہ کھانے پینے کی ہر چیز سے پرہیز کرتاہے اور اس طرح اپنے ر ب پر ایمان کی آبیاری کرتاہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا کہ بنی آدم کے ہر عمل کا بدلہ اسے چند درچند دیا جائے گا لیکن روزے کی بات ہی اور ہے۔ یہ خالصتاً میرے لیے ہے،اور میں اپنے فضلِخاص سے اس کا خصوصی اجر دو ں گا۔حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
رسولؐ اللہ نے فرمایا: آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتاہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے۔ وہ (بندے کی طرف سے) میرے لیے(ایک تحفہ) ہے، اور میں ہی(جس طرح چاہوں گا) اس کا اجروثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کی خاطر اپنی خواہشِنفس اور اپنا کھاناپینا چھوڑ دیتاہے۔ روزہ دار کے لیے دومسرتیں ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک کی بارگاہ میں باریابی کے وقت۔اور قسم ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو.ُ اللہ کی نزدیک مشک کی خوشبو سے بہترہے، اور روزہ (شیطان و نفس کے حملوںاور آتشِ دوزخ سے حفاظت کے لیے)ڈھال ہے۔(متفق علیہ)
جب تم میں سے کوئی شخص کسی دن روز ے سے ہو تونہ گالم گلوچ کرے اور نہ شور وغوغا کرے، اور اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(متفق علیہ)
جو آدمی روزے کی حالت میںباطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔(بخاری)
نزولِ قرآن کے اس مبارک مہینے میں مردِ مومن کااپنے رب سے تعلق مزید استوار ہوجاتا ہے اور وہ قرآن کریم سے مزید جڑ جاتاہے۔ قرآن کریم کتابِ جہاد ہے،اور قائد المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم پر میدانِ جہاد میں اتری ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے مقام پر سرفراز ہونے کے بعد اعلاے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین اور اقامتِ دین کا فریضہ ادا کرنے کے لیے میدانِ جہاد میں تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کے کام کے ہر مرحلے میں اللہ نے ان کی راہ نمائی قرآن کریم کے ذریعے کی ۔مسلمانوں کی قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لیے یہی منہج الرسو ل ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیاگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے توانھوں نے پوچھا کہ کیا تم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ؟ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن’’بس قرآن ہی ان کا اخلاق تھا‘‘۔
رمضان، قرآن اور جہاد باہم وابستہ و پیوستہ ہیں۔ ہر سال رمضان المبارک مسلمانوں کو اپنے رب سے تعلق جوڑنے کا ایک نیا موقع فراہم کرتاہے۔ عالمِ اسلام کی تمام مسجدیں اللہ کے ذکر سے آباد ہوجاتی ہیں۔ نئی نسل کے جواں سال فرزند لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخری عشرے میں اعتکاف کی نیت سے لاکھوں فرزندانِ توحید شب و روز مسجدوں میں ڈیر ے ڈال کر اپنے رب کی بندگی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اب قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ کے ساتھ قرآن کریم کو سمجھنے کی تحریک بھی عام ہوگئی ہے۔ عام مردوزن کی یہ حالت ہے کہ صبح سویرے فجر کی نماز پڑھنے کے ساتھ ہی فہم قرآن کی ایک ایک کلاس میں ہزاروں مرداور خواتین کھلے میدانوں میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات ہم نے یہ نظارہ دیکھاہے کہ عورتیں اور مرد بارش میں چھتریاں تھام کر کھلے آسمان کے نیچے قرآن کریم کا درس سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔یہی حال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم اور جہاد کی محبت کو ایسا پیوست کردیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری اپنی تمام مادی برتری اور لائو لشکر اور میڈیا کی قوت کے باوجود ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
عشق و محبت کے اس خزانے کو اور زیادہ بہتر سمت دینے کی ضرورت ہے۔ قربانی کے جذبے کو اگر منزل کی طرف جانے والے صحیح راستے پر نہ ڈالاجائے تو یہ ہدف تک پہنچنے کے بجاے راستے ہی میں ضائع ہوجاتاہے۔ اس کے لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ ہر فرد کسی ذمہ دار قیادت کے ساتھ وابستہ ہو اور خود فیصلہ کرنے کے بجاے جماعت کے فیصلے کی پابندی کرے۔ کسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے سے قبل اطمینان حاصل کرے کہ کیا وہ جماعت قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ٹھیک منہجِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل پیرا ہے؟ اللہ کا فرمان ہے :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوںکے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امید وار ہواور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حکم دیا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں ۔ انھوں نے اپنے اُمتیوں کو بھی یہی کہاکہ لوگوں کو توحید کی دعوت و تعلیم دیں،اور ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن o (اٰل عمران۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتاہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تربیت یافتہ گروہ کو دعوت الیٰ اللہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور لوگوں کی خدمت کے کام پر لگایا، یہاں تک کہ ایک اسلامی حکومت قائم کی اور اس اسلامی حکومت کو بھی دعوت الی اللہ ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور نظام عدل و قسط رائج کرنے کے لیے استعمال کیا۔مومنین کی یہ خصوصیت ہے کہ اللہ جب ان کو اقتدار بخشتا ہے تو وہ یہی کام انجام دیا کرتے ہیں۔ خود اللہ ربِ ذوالجلال نے اس کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیںتو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرمرحلے پر نظامِ عدل و انصاف نافذ کرنے کی ترجیحات کا لحاظ کیا۔ مکہ مکرمہ کی زندگی میں زبانی دعوت پر اکتفا کیا۔ شرک سے لوگوں کو منع کیا، تو حید کی تعلیم دی لیکن کسی بت کو تو ڑنے کی اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ کعبے میں سیکڑوں بت سجاے گئے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بتوں کی موجودگی کے باوجود کعبے کا طواف کرتے تھے۔ بتوں کی برائی کرتے تھے اور اس گندگی سے لوگوں کو خبردار کرتے تھے لیکن کبھی کسی مسلمان نے مکی زندگی میں کسی بت کو نقصان نہیں پہنچایا۔ صلح حدیبیہ کے اگلے سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو لے کر مکہ پہنچے، عمرہ ادا کیااور کعبۃ اللہ کا طواف کیا لیکن کسی بت کو توڑے اور کسی کافر اور مشرک کے ساتھ الجھے بغیر واپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ العیاذ باللہ انھوںنے مشرکینِ مکہ کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لی تھی۔ شرک اور مشرکین کے ساتھ مفاہمت تو انھوں نے اس وقت بھی نہیں کی جب مفاہمت کے بدلے میںمشرکینِ مکہ سرداری اور مال و دولت سمیت ہرطرح کے دنیاوی مفادات دینے کے لیے آمادہ تھے۔ان کی اس خواہش کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے:
وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ o (القلم ۶۸: ۹) یہ توچاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کروتو یہ بھی مداہنت کریں۔
چچا حضور! اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیںاور چاہیں کہ میں یہ کام چھوڑ دوں تو میں ہرگز اس سے پیچھے نہ ہٹوں گایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر دے یا میں اس راستے میں قربان ہوجاؤں۔(رواہ الالبانی)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت خانہ کعبہ کو بتوں سے صاف کیا جب جزیرہ نما عرب میں مشرکین کا زور مکمل طور پر ٹوٹ گیا اور اس کے بعد کسی کے اندر یہ ہمت نہ رہی کہ وہ دوبارہ بتوں کو خانہ کعبہ میں نصب کرسکے۔ توحیدکی تعلیم کو راسخ کرنا، آخرت کی جواب دہی کے احساس کو قلب و روح میں سمودینا اور اللہ کی محبت سے مومنین کو سرشار کرنا وہ بنیادی کام تھا جس کے بعد ہرحکم کی تعمیل آسان ہوگئی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبیرہ گناہوں کے علاوہ عام احکام کی خلاف ورزی پر نہ کوئی حد قائم کی نہ ہی تعزیر دی، مثلاً پردے کا حکم آنے کے بعد بھی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ پردہ نہ کرنے پر کسی مسلمان خاتون کو تعزیری سزا دی گئی ہو۔ داڑھی نہ رکھنے یا موسیقی سننے پر سزا دینے کی بھی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیںہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان برائیوںپر کوئی سزا نافذ کی ہو۔ ان تمام برائیوںکو تعلیم و تربیت ، ترغیب ، آخرت کے خوف اور اللہ کا تقویٰ پیدا کرکے مٹانے کی کوشش کی گئی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرت کی روشنی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بچیوں کے سکولوں کو برباد کیا جائے یا حجاموں کو نوٹس دیا جائے۔ اس طرح کے اعمال سے اس بنیادی مقصد سے توجہ ہٹ جاتی ہے جس کے لیے اللہ نے انبیا اور رسولوں کو بھیجا ہے اور جس کی واضح تصریح قرآن کریم میں موجود ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوںکو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
نظامِ عدل اور اس کا قیام ہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لیے اللہ نے رسول اور کتابیں بھیجیں۔بدامنی، فتنہ اور بھوک کو ختم کرنابھی بنیادی ترجیحات میں سے ہے اور اس کے لیے لوگوں کو ترغیب دینا اور اس کے لیے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتاہے کہ ہم عوام الناس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل سنت کی طرف متوجہ کریں۔ یہ سنت اقامتِ دین کی جدوجہد ہے، یہ سنت غلبۂ اسلام اور اظہارِ دین جیسے عظیم المرتبت فریضے کی ادایگی ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا o (الفتح ۴۸: ۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبۃ ۹: ۴۰) تم نے اگر نبی ؐکی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’غم نہ کر‘اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اس وقت اللہ نے اس پراپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بیناہے۔
اعلاے کلمۃ اللہ کے کام میں مسلمانوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنالازم کردیاگیاہے۔ یہ کامیابی اور نجات کے لیے ضروری ہے ،قرآن کریم کے مطابق اب ہدایت یافتہ صرف وہی لوگ ہیں جو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں:
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے)جو اس پیغمبر،نبی امی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے،اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے،اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے۔لہٰذاجو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریںاور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔(الاعراف ۷: ۱۵۷)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرآن کریم اور سیرت رسول ؐسے بالکل واضح ہے۔ اس مقصد کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے لیے تکرار کے ساتھ لوگوں کے سامنے قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے دلائل،واضح ہدایات اور احکامات بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ رمضان کا مہینہ اس کام کے لیے نہایت موزوں ہے۔
رمضان المبارک جو بدر،تبوک اور فتح مکہ کے غزوات کامہینہ ہے، جو قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے ،جو صبر و ثبات اور ضبط ِنفس کامہینہ ہے، ہم سے تقاضا کرتاہے کہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑیں اور اللہ کے راستے میں ایسا جہاد کریں جیساجہاد کرنے کا حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اللہ کی راہ میں جہاد کروجیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں بھی تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا اور اس (قرآن)میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسول ؐتم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ۔ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ (الحج ۲۲: ۷۸)
اس وقت پوری دنیا میں اُمتِ مسلمہ ایک کش مکش سے گزررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امریکا کی سرکردگی میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں اکثر مسلم ممالک کے حکمران امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک بڑے ابتلا کا دورہے۔ سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعدسے امریکا اس زعمِ باطل میں مبتلا ہوگیاہے کہ اب انسانیت کے مستقبل کا فیصلہ اکیلا وہی اپنی مرضی سے کرے گا۔ اس کا خیال تھاکہ اب وہ دنیا کی واحد سپرپاورہے ۔ اس کی مادی اور عسکری قوت کے سامنے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ پوری دنیا پر اس کاتہذیبی غلبہ ہوگا۔ تمام انسانوں کو ان کی اقدار کے مطابق پسند و نا پسند کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ مسلمانوں کے وسائل لوٹنے اوردنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اس نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیااور اب ایران کو دھمکیاں دے رہاہے،اور اس کے صدارتی امیدوار اور مجالسِ دانش (think tanks) پاکستان میں گرم تعاقب کی باتیں کررہے ہیں۔
lفلسطین میں مسلمان عملاً محاصرے میں ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ غزہ کی پٹی اور دریاے اردن کا مغربی کنارہ ان کے لیے جیل بنادیاگیاہے۔ اسرائیلی جب چاہتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں انھیںاپنے ظلم اورتذلیل کا نشانہ بناتے ہیں۔لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسرائیل کواپنے وجود کی بقا پر یقین نہیں ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ زبردستی چھینی ہوئی زمین پروہ ہمیشہ کے لیے سلامتی سے نہیں رہ سکتے۔ انھیں اس خود دار قوم کاسامناہے جس کے بچے تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ اللہ کی رضا ان کی غایت ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قائد و رہنما ہیں، قرآن ان کا دستور ہے، جہاد ان کا طریقِزندگی ہے اور اللہ کے راستے میں موت ان کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ ہم جب بھی مسلح اسرائیلی سپاہیوں کے سامنے بے نیازی اور وقار کے ساتھ گزرتے ہوئے فلسطینی بچوں اور محترم اور باپردہ خواتین کو دیکھتے ہیں تو ہمارا یہ یقین تازہ ہوجاتاہے کہ اس خود دار اور جذبۂ حریت سے سرشار قوم کو غلام بنایا جاسکتاہے نہ ہمیشہ اپنے گھروں سے باہر رکھا جاسکتاہے۔ انھیں ایک دن ان شاء اللہ ضرور اپنے وطن کی طرف واپس جانا ہے۔
جموں کے ہندوئوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے اور ان کا محاصرہ کرکے ان کے پھلوں اور دیگر اشیا کو باہر جانے سے روک دیا جس سے انھیں ۲ہزار کروڑ سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ کشمیر کے تاجروں نے یومِ سیاہ کی اپیل کی اور کنٹرول لائن کی طرف ’مظفر آبادچلو‘مارچ شروع کر دیا تاکہ وہ آزاد کشمیر کے مسلمانوں کے ہاتھ اپنا تجارتی مال بیچ سکیں ۔ بھارتی فوج نے ان کے اس پُرامن مارچ پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں شیخ عبدالعزیز سمیت بیسیوں کشمیری شہیداور سیکڑوں زخمی ہو گئے ۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آگئے،اور بھارتی فوج کو تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ساتھ پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کرناپڑا۔ صرف سری نگر میں دو دفعہ تین تین لاکھ کے جلوس نکلے اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ کشمیریوں کی دو نسلیں جوانی اور بڑھاپے کی سرحد عبور کر کے اپنے خالق کے پاس پہنچ چکی ہیں لیکن بھارت کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی ہے کہ کشمیری مسلمان اپنے آپ کو بھارتی شہری تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ کشمیری مسلمان آج بھی اپنامستقبل خود منتخب کرنے کے حق کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں اور انھوں نے ایک بار پھر دنیا پر واضح کردیا ہے کہ وہ بھارتی تسلط کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیںمگر پاکستانی حکومت کا رویہ انتہائی قابلِ افسوس وقابل مذمت ہے ۔اس نے کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے ۔ حکومت پاکستان نہ تو حالیہ مظالم پر اقوام متحدہ میں مؤثر آواز اٹھا سکی ہے اور نہ ہی اس مسئلے پر اوآئی سی کا اجلاس طلب کیاجا سکا ہے، بلکہ کشمیریوںکے اقتصادی اور نسلی قتلِ عام کو نظر اندازکرتے ہوئے واہگہ بارڈر پراس سال حکومتی سرپرستی میںمشترکہ جشن آزادی منایاگیا ہے، اور ’رل مل روٹی کھائیے ‘ کے نعرے لگائے گئے،اور لاہور میں ’ڈراما یاترا،۱۹۴۷‘ کے بینرز لگا کراورڈرامے رچاکر تحریک آزادی کے لاکھوں شہیدوں کے خون اور مسلمانانِ برعظیم کی بے مثال قربانیوں کا مذاق اڑایاگیا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب تخت لاہور پرقائد اعظم کی نام لیوا اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے کی دعوے دار مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ ہماری نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں کس کی اجازت سے پامال کی جارہی ہیں، اور نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم ان این جی اوز کو کیوں کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ پاکستان کے حکمران کشمیریوں کے ساتھ بے وفائی کرسکتے ہیں مگر۱۶ کروڑ پاکستانی عوام کے دل کشمیری مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ کلمہ طیبہ کے رشتے کو نہیں بھلا سکتے ۔
قبائلی علاقوں اورصوبہ سرحد کی صورت حال بھی حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ صوبائی چیف سیکرٹری کے اپنے بیان کے مطابق باجوڑ ایجنسی کی نصف آبادی ہوائی جہازوں کی شدید بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے۔ ضلع سوات کے ایک علاقے کے لوگ شدید گولہ باری کی وجہ سے دوسرے علاقوں کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں لوگ قتل اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے جماعت اسلامی نے سواریوں کا انتظام کیا ہے اور ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں ۔ ایک ایک کیمپ میں ہزاروں لوگ پناہ گزیں ہیں۔
خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی اور کرم ایجنسی کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پوری فوج کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہزاروں تربیت یافتہ جاںنثار سربکف مجاہدین مہیا تھے۔ اپنے لوگوں پر امریکی مفادات کی خاطر ظلم ڈھانے والی فوج کیا اب بھی توقع رکھتی ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ باقی ہوگا۔ دشمن کی اس سے زیادہ خدمت کیا ہوسکتی ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان نفرت کے بیج بوئے جائیں۔
پاکستان کے غریب عوام اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں،اور کروڑوں عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،اور ان میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ دوسری طرف غیرملکی اکاؤنٹس اورتجوریاں بھری جا رہی ہیں۔ ملک میں گندم،چینی،سیمنٹ اور اشیاے خوردونوش کے بحران اس لیے نہیں آتے کہ یہ چیزیں موجود نہیںہوتیں بلکہ انھیں ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ اور سارے ذخیرہ اندوز اور مل مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ان میں سے بعض مرکز اور صوبوں میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کو بدلنے کے لیے جدوجہد کرنا فرض اور جہاد ہے ۔ یہ کام ہتھیار اٹھانے اوربم دھماکوںکے بجاے عوام کی منظم اور پُرامن جدوجہد سے ہو گا ۔
پرویز مشرف رخصت ہوچکے۔ان کے استعفے کا بڑا سبب یہ بناہے کہ فوج نے ان کا مزید ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا ۔ اگر چیف آف آرمی سٹاف غیر جانب دار انہ رویہ اختیار نہ کرتا تو پرویز مشرف ڈھٹائی کا رویہ چھوڑنے پر کبھی آمادہ نہ ہوتا۔ سویلین حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ملک میں اب بھی فوج اور فوج کا چیف سب سے زیادہ طاقت ور ادارے ہیں جو امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں ہیں اور ان کے تہذیبی اور معاشی مفادات کے محافظ ہیں۔ اگر سویلین حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں جمہوری روایات جڑ پکڑ سکیں اور ملک کو بار بار کی فوجی مداخلت سے نجات ملے تو انھیں امریکا کے بجاے عوامی امنگوں کا ساتھ دیناہوگا۔ پرویز مشرف کی غیر مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی امریکا نوازی اور اسلام دشمن پالیسیاں تھیں: افغان عوام کی آزادی کے خلاف امریکا اور ناٹو افواج کا ساتھ دینا، نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کا صفِ اول کا حلیف ہونے پر فخر کرنا، اللہ تعالیٰ اور عوام کی دوستی کے بجاے امریکی دوستی کا سہارا لینا ، کشمیر پر سودے بازی کرنا، کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجاے فوج او ر سیاست دانوں کے لیے مزید کرپشن کے راستے کھولنا، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید و بند میں ڈالنااورپوری دنیا میں انھیںرسوا کرنا۔
پرویز مشرف کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے ملک کو اپنی نظریاتی اساس سے ہٹانے کی کوشش کی، آئین کو دوبار پاؤں تلے روندا اور اعلیٰ عدالتوں کے معزز ججوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر جبری معطل کیا اور ان کی جگہ اپنے من پسند ججوں کو تعینات کیا۔ امریکی اشارے پر نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کیں۔ سوات ،وزیرستان ، باجوڑ ، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کرکے فوج اور عوام کے درمیان امریکی مفادات کی خاطرنفرت کی خلیج حائل کی اور بغاوت کے بیج بوئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مسئلے پر کامیاب مذاکرات کو سبوتاژ کیا اور ہزاروں معصوم بچیوں اورطلبہ کو فاسفورس بموں اور گولیوں سے بھسم کرایا ۔ مدارس پر چھاپے مارے، اور مجاہدین ،علماے کرام اور ہزاروں لوگوں کو حقیر مالی مفادات کے عوض امریکا کے حوالے کیا جس کا اعتراف اس نے خود اپنی کتاب میں کیاہے۔
حال ہی میں ایک بہادر مسلمان خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا واقعہ دنیا کے سامنے آگیا ہے جو پاکستانی حکام کی بے ضمیری اور بے حمیتی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔اسے مارچ ۲۰۰۳ ء میں کراچی کی سڑک سے پاکستانی ایجنسیوں نے اغوا کیاتھا۔ اس کے خاندان کے افراد کوایجنسیوں کے اہل کاروں نے ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیاتھااور سالہا سال تک لوگوں کے سامنے اس بہادر خاتون کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہوسکاتھاکہ وہ کہاں ہے اورکس ظلم کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان اس وقت تک خاموش رہی جب تک مغربی میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ بگرام ائیر بیس پر ایک پاکستانی خاتون قید ہے، اور اس سے انتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہاہے۔ اب اسے ایک سراسر جھوٹے اورلغو مقدمے میں امریکی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے مگر اس کے تین بچوں کا ابھی تک کہیں اتا پتا نہیںہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد سے پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دینے والے حکمرانوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ وہ قوم کی بیٹی کی واپسی کا مطالبہ کرسکیں۔ اس طرح کی کہانی آمنہ مسعود جنجوعہ کی ہے جو دوسری ہزاروں خواتین اور بزرگوں کے ہمراہ اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہے جنھیں پاکستانی ایجنسیوں نے غائب کررکھاہے یا امریکا کے حوالے کردیا ہے۔
ہمارے خیال میںبظاہرمواخذے کی گرد اڑا کر اس کی آڑ میں پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے انتظامات کیے گئے۔ اگرایک قومی مجرم کاٹرائل نہ کیاگیا توعوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پیپلز پارٹی اس احسان کا بدلہ اتار رہی ہے جوپرویز مشرف نے این آر او کے تحت قومی خزانے سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر کے اندرون و بیرون ملک مقدمات واپس لے کر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا مشورہ دینے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں وہ امریکا کے گیم پلان پر عمل کررہے ہیںاور امریکی اشاروں کے تابع ہیں۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ آج تک ملک کا آئین توڑنے والے کسی فوجی ڈکٹیٹر کا احتساب نہیں ہوا بلکہ یہاںملک توڑنے والے فوجی آمر کو مرنے کے بعد قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا آئین بار بار فوجی بوٹوں تلے روندا جاتارہاہے ۔ آئین توڑنے والوں میں سے کسی ایک کو آئین میں درج سزا دے دی جاتی تو کسی اور کو آئین توڑنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس پس منظر میں قوم کا مطالبہ ہے کہ پرویز مشرف پرآئین کے آرٹیکل ۶کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اُسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آیندہ کوئی جرنیل آئین توڑنے کی جرأت نہ کر سکے۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی بحالی کے بعد پرویز مشرف کوسپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور اس پر آرٹیکل ۶ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ نام نہاد قومی مفاہمت کے آرڈی ننس (این آر او)کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ پوری قوم کے ساتھ انصاف ہوا ور جن لوگوں نے قومی مفادات کے خلاف عمل کیا ہے یا قومی دولت کو ناجائز طریقوں سے لوٹاہے اور بیرون ملک منتقل کیا ہے ان کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اگر حکمران انصاف کے راستے میں حائل ہوگئے یا اپنے آپ کو انصاف سے بالا تر بنانے کی کوشش کی تو وہ نہ قوم کا کوئی بھلا کرسکیں گے اور نہ خود ہی دنیا و آخرت میں سرخ رُوئی حاصل کرسکیں گے۔
اگر حکمرانوں نے ماضی سے سبق سیکھاہے تو وقتی کامیابی پر خوشی منانے کے بجاے انھیں پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کو خیر باد کہنا پڑے گااور نئے سرے سے پالیسیاں تشکیل دینی ہوںگی۔پالیسیاں بنانے کی قومی خودمختار ی واپس حاصل کرنی پڑے گی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔اور اہم بات یہ ہے کہ ملکی معاملات کو چلانے میں دستور کی پابندی کرنی پڑے گی۔
۱- ہمارا ملک ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے ۔ اسلام کا نظریہ اس کی بنیادوں میںشامل ہے۔ یہ کہنا کہ قائد اعظم ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے ایک لغوبات ہے کیونکہ قائد اعظم برعظیم ہندوپاک کے مسلمانوں کو سیکولرازم کا نعرہ دے کر نہ متحدکرسکتے تھے نہ انھیں کسی جدوجہد پر آمادہ کرسکتے تھے۔ پاکستان قائد اعظم نے کسی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بنایا بلکہ پورے برعظیم کے کروڑوں لوگوں کا تعاون حاصل کرکے بنایا ہے جن میں کروڑوں لوگوں کو یہ بھی معلوم تھاکہ وہ اس نئے وجود میں آنے والے ملک کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن انھوں نے محض اس لیے اس جدوجہد کا ساتھ دیا کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے جو امت مسلمہ کے لیے تقویت کا باعث بنے گی۔ قائداعظم کی۱۱ ستمبر۱۹۴۷ء کی تقریر کو جو لوگ سیکولرازم کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ قائد اعظم پر ایک بہت بڑی تہمت باندھتے ہیں۔ ان لوگوں کی خلافِ اسلام کوششوں کے باوجود پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد پاس کی جو پاکستانی دستور کی مستقل بنیاد ہے۔ اس قرارداد میں اللہ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کرنے کا عہد کیاگیاہے۔
۲- دوسری بنیاد یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کو تمام دوسرے اداروں پر بالادستی حاصل ہے اور دوسرے تمام ادارے عوام کی منتخب مجلس کی اطاعت کریں گے ۔
۳- تیسر ی بنیاد یہ ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ علیحدہ ہیں اور عدلیہ فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ سپریم کورٹ کی راہ نمائی میں ملک کا عدالتی نظام ہر طرح کے سیاسی و انتظامی دبائو سے آزاد ہوگا۔
۴- دستور میں صوبائی خودمختاری کی حدود متعین کردی گئی ہیں اور صوبوں کی خودمختاری کا احترام کرنا مرکزی اداروں کا فرض ہے۔ وفاق بھی صوبائی خودمختاری کا احترام کرے گا۔
۵- افواجِ پاکستان ایک محترم ادارہ ہے جو پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کے تابع ہے۔ ہرفوجی سیاسی معاملات میں عدمِ مداخلت کا حلف اٹھاتا ہے۔ جو حلف توڑتا ہے، غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔
۶- دستور میں صدر اور وزیراعظم، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت ،عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ کے حدود اور باہمی تعلق کی پوری وضاحت موجود ہے۔
اگر منتخب حکومت ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھ کر دستوری حدود کے اندر رہے گی اور ہر طرح کی بدعنوانیوں کے داغ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے گی تو فوج کو یہ ہمت نہیں ہوسکے گی کہ وہ منتخب حکومت کے خلاف اقدام کرسکے۔ لیکن اگر وہ دستور اور قانون سے تجاوز کریں گے اور اظہارِ راے ، اجتماع ، پرامن جلسے جلوس اور پریس کی آزادی کو سلب کرنے کا رویہ اختیار کریں گے تو وہ خود اپنے پائوںپر کلہاڑی ماریں گے۔
امید ہے کہ سابقہ تجربات سے سبق حاصل کرکے حکمران انصاف اور میر ٹ کا بول بالا کریں گے اور عدل و انصاف کے سامنے خود اپنے آپ کو بھی پیش کریں گے اور اپنے تعلق کی بنا پر کسی کو رعایت نہیں دیں گے اور اپنے مخالفین کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجاے ان کے ساتھ بھی انصاف کریں گے۔
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o
وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o
تاریخ کی بھی عجب شان ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ بہ ظاہر ایک معمولی سا واقعہ بالآخر بڑے تاریخی نتائج کا عنوان ثابت ہوتا ہے۔ حالیہ تاریخ کا ایک ایسا ہی واقعہ نائن الیون ہے جس نے دنیا کے سیاسی نقشے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۴۹ء میں کوریا کی جنگ ایک دُور دراز ملک میں امریکا کا ایک معمولی سا حملہ تھا مگر وہ عالمی سردجنگ کا عنوان بن گیا۔ ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں بریزنیف کی فوج کشی ایک ایسی مزاحمت کا سبب بن گئی جس کے نتیجے میں بالآخر سوویت یونین اور عالمی اشتراکیت دونوں کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ آج جارجیا جس کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جو دورِجدید میں اسٹالن کے مولد کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، اگست ۲۰۰۸ء میں ایک خون ریز تصادم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ قوی امکان ہے کہ روس اور جارجیا کی فوجوں کا یہ تصادم عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے اور علاقے کے مستقبل کے نقشے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے۔ ۷اگست کو شروع ہونے والے اس خونی معرکے اور ۱۶اگست کو فرانس کے صدر کی مداخلت سے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بڑے دُوررس اثرات متوقع ہیں۔ تاریخ کی اس نئی کروٹ کا مطالعہ ضروری ہے۔
جارجیا کی موجودہ آزاد ریاست ۱۹۹۰ء میں سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ امریکا نے اس پورے علاقے میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے اس تاریخی موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ مشرقی یورپ میں یورپی یونین کی توسیع کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بالٹک ریاستوں کو یورپ کے نئے انتظام سے وابستہ کیا گیا۔ روس کے چنگل سے نکلنے والی ریاستوں کو امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی چھتری تلے لینے کی کوشش کی۔
جارجیا گذشتہ ۱۶،۱۷ سال سے اسی عمل کی گرفت میں ہے۔ ان ریاستوں میں آہستہ آہستہ امریکی معاشی اور فوجی امداد کا جال بچھا دیا گیا اور مغرب نواز جمہوریتوں کوفروغ دیا جانے لگا۔ جارجیا کی موجودہ قیادت امریکا کی پسندیدہ قیادت ہے۔ جارجیا کی فوجوں کی تربیت اور اسلحہ بندی امریکی فوجی نمایندے کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں موجودہ صدر میخائیل ساکاش ویلی (Mikheil Saakashvili) منتخب ہوئے اور امریکا نوازی میں سب سے سبقت لے گئے۔ امریکا نے بھی انھیں اپنی محبوبِ نظر شخصیت کے طور پر آگے بڑھایا، فوجی اور معاشی امداد سے تقویت بخشی، تیل اور گیس کی سپلائی لائن کے طور پر جارجیا کو استعمال کرنے کے پروگرام بنائے، اور جارجیا کو شہ دی کہ جن علاقوں پر اس کی گرفت کمزور ہے خصوصیت سے ان دو صوبوں پر جن میں دوسری قومیتوں کے لوگ آباد ہیں، جیسے ابخازیہ (Abkhazia) اور جنوبی اوسیشیا (South Ossetia) اپنی گرفت بڑھائے۔ اسی نوعیت کے ایک نسبتاً چھوٹے علاقے اجاریہ (Ajaria) پر قبضے اور اس کے انضمام نے جارجیا کو مزید حوصلہ دیا اور امریکا کی آشیرباد سے اس نے ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا پر اپنی گرفت بڑھانے کی کوشش کی جسے علاقے کے لوگوں نے ناپسند کیا۔ ان دونوں ریاستوں میں روسی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ابخازیہ میں مسلمان بھی ۲۰ فی صد کے قریب ہیں۔ یہ دونوں روس کے زیراثر رہے ہیں اور روس نے علاقائی آزادی کی تحریکوں کی مدد کی ہے جس نے حالات کو خاصا نازک بنا دیا ہے۔ اس وقت جو صورت حال رونما ہوئی ہے اس کا تعلق اسی تاریخی پس منظر سے ہے۔
امریکا نے جارجیا کو علاقے میں اپنا ایک اہم حلیف بنایا ہے۔ توانائی کے راستوں کے سلسلے میں اسے اہمیت حاصل ہے۔ اسے یورپی یونین میں شامل کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ اس وقت ایک متوقع ممبر ریاست کی حیثیت سے یورپی یونین سے اس کی بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے جسے ابتدائی قانونی شکل دسمبر ۲۰۰۸ء میں دی جانی ہے جس کے لیے امریکا کوشاں ہے اور روس جس پر سخت برہم ہے۔ یہی معاملہ یوکرین کے ساتھ ہے، نیز پولینڈ میں امریکی میزائل کی تنصیب کا مسئلہ بھی باعثِ نزاع بنا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ۹۱-۱۹۹۰ء میںمنتشر ہوجانے کے بعد روس شدید بحران کا شکار تھا۔ معاشی اعتبار سے اس کی چولیں ہل گئی تھیں اور سیاسی اعتبار سے وہ بے توقیر ہوکر رہ گیا تھا۔ امریکا صرف واحد سوپرپاور ہی نہیںبنا بلکہ اسے خود روس پر ایک طرح کی بالادستی حاصل ہوگئی تھی اور خصوصیت سے یالسٹن کے دور میں روس امریکا کا متبنیٰ بن گیا تھا۔ پیوٹن کے ۷سالہ دور میں حالات بدلے ہیں۔ بہ ظاہر روس اور امریکا دوست تھے اور بش اور پیوٹن تو ایک دوسرے کو امریکی محاورے میں اپنا یار (buddy) کہتے تھے، مگر فی الحقیقت روس نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ازسرنو منظم کیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ اس پورے علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھایا ہے۔ معاشی اعتبار سے اندھی نج کاری کی تباہ کاریوں کا ازالہ کیا گیا ہے اور ریاست کے کردار کو ازسرِنو مؤثر بنایا گیا ہے۔ فوج کو دوبارہ منظم کیا گیا ہے اور تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ روس یورپ کے لیے توانائی (تیل اور گیس) کا اہم ذریعہ بن گیا۔ ان حالات میں روس نے یورپ میں اپنا نیا مقام بنایا اور پورے خطے میں ایک کردار ادا کرنے کے لیے اپنے کو تیار کیا۔ امریکا روس کی یہ حیثیت ماننے کو تیار نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے جارجیا کے حالیہ تصادم کو غیرمعمولی اہمیت دے دی ہے۔
جارجیا نے پہلے اجاریہ پر اپنی گرفت مضبوط کی (۲۰۰۴ئ) اور پھر ابخازیہ کی طرف پنجے بڑھائے۔ روس نے درپردہ ابخازیہ کی مدد شروع کی اور جنوبی اوسیشیا کی جہاں روسی زیادہ آباد ہیں بھرپور مدد کی بلکہ اپنے امن دستے بھی تعینات کیے۔ امریکا جارجیا کی پوری مدد کرتا رہا، اور اس کی فوجوں کو اسلحے سے آراستہ کرنے کے ساتھ بڑے پیمانے پر تربیت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔ مگر ساتھ ساتھ روس سے تصادم کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دیتا رہا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کے کچھ عناصر کے ایما پر، جن میں ڈک چینی اور نیوکونز کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا جو اپریل ۲۰۰۸ء سے شروع ہوا اور بالآخر ۷اگست کو جنوبی اوسیشیا پر فوج کشی کرڈالی گئی جس کے نتیجے میں ایک دن میں ۲۰۰۰ شہری ہلاک ہوئے اور روس کی امن فوج کے ۶۰سپاہی بھی مارے گئے۔ روس جارجیا کی فوج کشی کے خطرے کو بھانپ رہا تھا اور اپنی تیاری بھی کر رہا تھا۔ ۷اگست کے واقعے نے اسے وہ موقع دے دیا جس کا اسے انتظار تھا۔ اس نے ۸ اگست کو بھرپور جوابی حملہ کیا جس نے جارجیا پر کاری ضرب لگائی اور صرف جنوبی اوسیشیا ہی نہیں جارجیا کے ایک تہائی پر بھی ایک ہی ہلے میں قبضہ کرلیا۔ جارجیا کی فوج کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کا مغرورصدر حواس باختہ ہوگیا۔ امریکا سخت برہم ہوا بلکہ ڈک چینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’روسی جارحیت جواب سے نہیںبچ سکتی‘‘۔
مگر عملاً امریکا کے لیے کوئی بڑا اقدام ممکن نہیں۔ جرمنی اور فرانس روس کے خلاف کسی اقدام کے خلاف ہیں۔ فرانس نے جنگ بندی کے لیے فوری کوشش کی جس کے نتیجے میں ۱۷اگست سے جنگ بندی ہوگئی ہے مگر روسی فوجیں ابھی موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ علاقہ خالی کریں گی اورکسی نہ کسی شکل میں اپنی مستقل موجودگی کا اہتمام کریں گی، خواہ وہ امن فوج کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو۔
پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ روس نے اب یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ امریکا کی دبیل (ماتحتی) میں رہنے کو تیار نہیں اور وہ اپنے شہریوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوت کے استعمال کی پوزیشن میں ہے۔ امریکا اور یورپ کے لیے یہ بڑا اہم پیغام ہے۔ جارجیا کے سلسلے میں امریکا کا اپنے ایک محبوب اتحادی ملک کے اس طرح پِٹ جانے پر خاموش رہنے سے امریکا کے سوپرپاور ہونے کے باوجود طاقت کی تحدید (limitation of power )کا کھل کر اظہار ہوگیا ہے۔ یہ اس لیے اور بھی اہم ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکا اپنے مفیدمطلب نتائج برآمد نہیں کرسکا۔ عراق سے انخلا کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور افغانستان بھی اس کے لیے قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں جارجیا کی مدد نہ کرنے سے امریکا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور جارجیا کے صدر نے اس کی شکایت بھی کی ہے۔ روس ایک بار پھر اگر عالمی سطح پر نہیں تو کم از کم اپنے علاقے میں ایک قوت کی حیثیت سے ایک کردار ادا کرنے کا آغاز کر رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار خود ترکی کے صدر نے اپنے اس حالیہ انٹرویو میں کیا ہے جو انھوں نے دی گارڈین کو دیا ہے۔ گارڈین کا نمایندہ اسٹیفن کنزر (Stephen Kinzer) لکھتا ہے:
انھوں نے جنگ کے ملبے سے ایک نئی کثیر قطبی دنیا کا ظہور ہوتے دیکھا۔ جارجیا کے تنازعے نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اب امریکا عالمی پالیسیاں اپنے طور پر تشکیل نہیں دے سکتا بلکہ اسے دوسرے ملکوں کو اقتدار میں شریک کرنا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ پوری دنیا کو ایک مرکز سے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)
یہ ایک بڑا اہم سبق ہے جسے جتنی جلد امریکا اور دوسرے طاقت ور ملک سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس میں ان کے لیے بھی بڑا سبق ہے جو اپنے تمام انڈے امریکا کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کمزور راستہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
اس واقعے سے ایک اور پہلو جو سامنے آتا ہے وہ یورپ اور امریکا کے درمیان بڑھنے والا فاصلہ اور دونوں کے سیاسی اور معاشی مفادات میں عدمِ مطابقت ہے۔ یورپی یونین کے مستقبل کی توسیع کے مسائل بھی روز بروز پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ روس پر یورپ کی توانائی کی ضروریات کا انحصار اور روس کے زیراثر ممالک سے انرجی کی شاہراہ کا گزرنا یورپ کی سیاست پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔
ایک تیسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قومی حکومت کی حاکمیت اور علاقائی تحریکوں اور قومیتوں کے کردار سے ہے۔ سیاسی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کے طریق کار اور انسانی بنیادوں پر یا علاقائی اور اپنے شہریوں یا ہم نسل افراد کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں قوت کے استعمال کے جواز، عدمِ جوازاور حدودکار کا مسئلہ بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسے مزید نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
جارجیا اور خصوصیت سے ابخازیہ کے سلسلے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جارجیا میں اسلام ساتویں صدی کے وسط میں حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں پہنچ گیا تھا اور جارجیا کا دارالخلافہ تبلیسی (Tbilisi) مسلم دور کی یادگار ہے۔ جارجیا کی موجودہ حدود ایک عرب امارت کا حصہ تھیں جہاں مسلمانوں کی حکومت ۱۱۲۲ء تک رہی جب کنگ ایڈورڈ چہارم نے اسے فتح کرلیا اور عیسائی حکومت قائم کی۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں یہ علاقہ پھر دولت عثمانیہ کا حصہ بنا جسے زار روس نے انیسویں صدی میں اپنی قلم رو میں شامل کرلیا۔ یہ علاقہ امام شامل کی تحریک کا مرکز بھی رہا ہے۔
آج بھی مختلف علاقوں میں مسلم آبادی ۱۰ سے ۲۰ فی صد ہے اور کچھ علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ترک، کاکیشی اور چیچن، سب اس علاقے میں ہیں اور علاقائی تحریکوں میں بھی ان کا کردار ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس علاقے کے مسلمان امریکا اور روس کی باہمی آویزش کا نشانہ نہ بنیں بلکہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا لائحہ عمل اختیار کریں۔ او آئی سی کو اس سلسلے میں حالات کا گہری نظر سے جائزہ لینے اور علاقے میں مسلم کردار کی صحیح خطوط پر راہ نمائی کی فکر کرنی چاہیے۔
اس پورے معاملے پر اخلاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو ایک اور بے حد اندوہناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ جارجین روس اور روس کے زیراثر ملیشائوں نے اخلاق کی ہرقدر کو پامال کیا ہے اور دونوں نے اپنے مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ نسلی صفائی جو نسل کُشی کا نیا نام ہے، اس کا بے محابا استعمال کیا گیا ہے۔ سویلین آبادی کو کھلے بندوں نشانہ بنایا گیا ہے اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور عبادت گاہوں غرض کسی کا احترام نہیں کیا گیا ہے بلکہ جنسی تشدد کو ایک جنگی حربے کے طور پر بڑی بے شرمی سے روا رکھا گیا ہے۔ یہ اس تصادم کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہے۔ وہ اقوام جو اپنے کو مہذب کہتی ہیں اور دوسروں کو تہذیب کا درس دینے کی دعوے دار ہیں ان کا اپنا کردار بے حد گھنائونا اور بہت ہی شرم ناک ہے۔
آخر میں ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آج یہ علاقہ بڑی انقلابی اور دُور رس تبدیلیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ علاقے کے مسلمان اور اُمت مسلمہ بھی یہاں ایک کردار ادا کرسکتی ہے۔ روس اور عالمِ اسلام کے تعلقات کے لیے بھی اس کے اہم مضمرات ہوسکتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور عالمی امن کے قیام کے لیے نئے عالمی نظام کی بحث اور کوشش سے بھی ان تمام امور کا گہرا تعلق ہے۔ ان تمام پہلوئوں پر اُمت کے ارباب بست و کشاد کو غور کرنا چاہیے اور اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ شہداء علی الحق کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے، خواہ آج ہم اس سے کتنے ہی غافل کیوں نہ ہوں۔
آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِّ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں… یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو .ُ اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب ایک عظیم الشان تحریک کی راہ نمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر ودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہواہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔
اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقین اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’سلوک‘ ہے، جس کو میں ’سلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اِس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔
پھر اسی کُلیہ کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول وقوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کر رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، ج ۱، ص ۳۳-۳۴)
اسلام ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان بیج ہے تو اسلام اس کا درخت ہے۔ جہاں ایمان ہوگا، اخلاق میں برتائو، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے، سعی اور جدوجہد کے راستوں میں اس کا ظہور ہوگا۔ گویا ایمان کا اظہار عملِ صالح کی شکل میں ہوتا ہے۔ آیت البرّ (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ … الخ) میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے تذکرے کے بعد سب سے پہلے جس عملِ صالح کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ اس کی راہ میں اس کے بندوں پر مال خرچ کرنا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ (البقرہ ۲:۱۷۷) اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروںاور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔
پہلی بات یہ ہے کہ جب اللہ نے اہلِ کتاب سے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بات کی (دیکھیے المائدہ۵:۶۳) تو وہ کہتے تھے کہ کیا اللہ کے ہاتھ بندھے ہیں کہ وہ ہم سے مال مانگتا ہے، حالانکہ اللہ تو غنی ہے وہ خود ہی اللہ کے محتاج تھے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو آگاہ کر رہا ہے کہ انفاق سے نہ کترائیں ورنہ اللہ ان کی جگہ کسی اور قوم کو کھڑا کردے گا:
وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ o (محمد ۴۷:۳۸) اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا (اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے)۔ (مزید دیکھیے فاطر۳۵:۱۵)
تیسری بات یہ کہ اللہ جس عمل کا اہلِ ایمان سے مطالبہ کرتا ہے وہ عمل پہلے ہی اپنے نبیوں کے کردار میں لوگوں کو بطور نمونہ دکھا دیتا ہے تاکہ وہ اس پر عمل کرنے کو ناممکن نہ سمجھیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کم و بیش یہ وہی عمل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی کیا کرتے تھے جیساکہ ایک حدیث کے مطابق حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپؐ سے فرمایا تھا کہ ’’اللہ آپ کو ضائع نہیں ہونے دے گا، اس لیے کہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں وغیرہ۔ گویا کامل مسلمان بننے کے لیے ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا اختیار کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ ایمان لانا اور اس کا صرف زبانی اظہار اس امر کی ضمانت نہیں ہے کہ مومن کو کوئی اچھا یا بڑا اجر ملے جب تک کہ ایمان لانے والا ایمان کے زبانی اظہار کے ساتھ اس کا عملی اظہار بھی نہ کرے۔ یہ عملِ صالح ہی ہے جو مومن کو اچھے اور بُرے اجر کا مستحق بناتا ہے۔ قرآن اس کا اعلان اس طرح کرتا ہے:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصَّلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انھیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ (مزید دیکھیے الکہف ۱۸:۲)
زیرمطالعہ آیت کے اس دوسرے جزو میں جو پہلی بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’وہ اپنا مال اس کی محبت میں لاتے ہیں‘‘۔ اس پہلی بات میں بھی دو نکتے ہیں جن پر غور کرلینا چاہیے۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’’وہ اپنا مال لاتے ہیں‘‘۔ لانے سے مراد خرچ کرتے یا صرف کرتے ہیں۔ کیا یہاں اِس خرچ کو ایک فریضہ قرار دیا جا رہا ہے یا یہ خرچ نفل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے لیے اللہ تلقین کر رہا ہے؟ تمام مفسرین کے نزدیک یہ مال لانا یا خرچ کرنا نفل یا اختیاری عمل ہے۔ چنانچہ ایسے نفل یا اختیاری خرچ کو جو ان ضرورت مندوں پر کیا جائے جن پر خرچ کرنا قانونی یا دینی فریضہ یا ذمے داری نہ ہو ’انفاق‘ یا صدقہ کہا جاتا ہے۔ انفاق ایک اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے اور اس کے کرنے کے فائدے بھی بہت ہیں۔ ایک سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اللہ انفاق کا اجر ۷۰۰ گنا بڑھا کر بلکہ اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۶۱) جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے اور وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔
وَ اللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَ فَضْلًا وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ ۲:۲۶۸) اللہ تمھیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے، اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔
وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo (البقرہ ۲:۲۷۱) تمھاری بہت سی برائیاں اس طرزِعمل سے محو ہوجاتی ہیں۔
اس کے دیگر فوائد میں سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں انفاق کرنے سے اس کی قربت حاصل ہوتی ہے:
وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ (التوبہ ۹: ۹۹) اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بناتے ہیں۔
اب جس کام میں ایسے بے شمار فائدے ہوں اس میں کون ذی فہم انسان مال لگانے سے احتراز کرے گا؟ تو پھر اس کام میں دیر کیوں کی جائے۔
فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد ۹۰: ۱۳-۱۶) کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ یہ انفاق اس کی محبت میں کرتے ہیں۔ ’اس کی محبت‘ سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا وہ مال مراد ہے جس سے انفاق کرنے والا خود رغبت رکھتا ہے؟ جیساکہ ایک جگہ اللہ نے یہی وجہ بتائی ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲) تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی وہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو۔
یا یہ مراد ہے کہ اللہ سے محبت کی خاطر اس کی راہ میں مال خرچ کیا جائے؟ جیساکہ ایک دوسری جگہ اللہ نے مال خرچ کرنے کی یہ وجہ بھی بتائی ہے:
اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًاo (الدھر ۷۶:۹) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
یا دونوں ہی معنی لیے جاسکتے ہیں جیساکہ مولانا مودودیؒ نے بیان کیا ہے (تفہیم القرآن)۔ مستند بات یہی لگتی ہے کہ دونوں ہی معنی لیے جائیں، چنانچہ اللہ کا یہ فرمان ہے کہ نیکی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ سے محبت کے اظہار کے لیے وہ مال نکالا جائے جو نکالنے والے نے خود اپنے لیے پسند کیا ہوا ہے، نہ کہ وہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے جو مال خرچ کرنے والا خود اپنے لیے گوارا نہ کرے:
وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ (البقرہ ۲: ۲۶۷) ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بُری سے بُری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ اگر وہی چیز تمھیں کوئی دے تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الا یہ کہ تم اس کو قبول کرنے میں اغماض برت جائو۔
ایک حدیث کے مطابق لوگ اللہ کے عیال ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ وہ بندہ پسند ہے جو اللہ کے عیال کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ ایک اور حدیث میں ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے کی طرف ہمیں اس طرح توجہ دلائی گئی ہے کہ قیامت کے روز اللہ اپنے ایک بندے سے پوچھے گا کہ وہ بیمار تھا مگر اس نے اللہ کی عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا کہ اے اللہ میں کس طرح تیری عیادت کرتا تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے موجود پاتا۔ اسی طرح کھانے اور پلانے پر بھی اللہ اپنے بندے سے مکالمہ کرے گا۔ بالکل یہی تعلیم عیسائیوں کی کتاب میثاقِ جدید کے مطابق حضرت عیسٰی ؑ نے بھی اپنے پیروکاروں کو دی تھی (دیکھیے میتھیو ۴۱:۲۵-۴۵)۔ اور یہ مماثلت کیوں نہ ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسٰی ؑدونوں ہی ایک اللہ کے پیغامبر تھے اور اسی کا پیغام انسانوں کو پہنچا رہے تھے۔
مال کا موضوع وہ واحد موضوع ہے جس پر اللہ نے لگاتار کئی رکوعات میں اہلِ ایمان کو ہدایات دی ہیں (دیکھیے سورۂ بقرہ، رکوعات ۳۶-۳۹)۔ ان رکوعات کے علاوہ بھی اللہ نے قرآن میں مختلف جگہوں پر اہلِ ایمان پر انفاق کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ اس نے جس کو بھی جو مال اس کے تصرف کے لیے دیا ہے اس مال میں اللہ کے دوسرے بندوں کا بھی حق ہے:
وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰: ۲۴-۲۵) جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔
وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ج (الحدید ۵۷:۷) اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔
یہاں تو اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ ہر اس چیز میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے جس جس پر اس نے انسان کو خلیفہ بنایا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے صرف مال ہی پر انسان کو خلیفہ بنایا ہے؟ نہیں، بلکہ اس نے انسان کو اس کے مال کے ساتھ ساتھ اس کی صحت و جسم، علم و فہم، وقت، توانائی اور اولاد پر بھی خلیفہ بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کو اُس کی راہ میں لگایا جانا چاہیے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو صدقہ کرو کہ یہ تم پر واجب ہے۔ کسی نے پوچھا کہ اگر کسی کے پاس مال نہ ہو؟ آپؐ نے جواب دیا کہ مال کمائے اور پھر صدقہ کرے۔ کسی نے کہا کہ اگر کوئی یہ بھی نہ کرسکے تو؟ آپؐ نے فرمایا کہ کم از کم اپنے کو برائی سے بچا کر رکھے کہ یہ بھی صدقہ ہے۔
اس آیت کے دوسرے جزو میں اللہ تعالیٰ نے جن چند لوگوں پر مال خرچ کرنے کا تذکرہ کیا ہے وہ بالترتیب یہ ہیں: قرابت دار، یتیم، مسکین، مسافر، فقیر اور غلام۔ ہم اسی ترتیب سے ان کے حقوق اور ان پر مال خرچ کرنے کی اہمیت کا مطالعہ کریں گے۔ لیکن یہ بات سمجھ لی جائے کہ ان کے علاوہ اور بھی اللہ کے بندے ہیں جن پر وہ مناسب جگہوں پر مال خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ جیسے سورئہ نساء کی آیت ۳۶ میں ہمسایوں اور ہم نشینوں کا بھی تذکرہ ہے۔ اسی طرح سورۂ دھر کی آیت ۸ میں قیدی کا بھی تذکرہ ہے۔ سورئہ حدید کی آیت ۱۰ میں مجاہدین فی سبیل اللہ اور سورئہ بقرہ کی آیت ۲۷۳ میں اللہ کی راہ میں مصروف ضرورت مندوں وغیرہ کا بھی ذکر ہے۔ ہم یہاں صرف ان ہی ضرورت مندوں کا مطالعہ کریں گے جن کا تذکرہ زیرمطالعہ آیت میں کیا گیا ہے۔
اللہ نے فرمایا: ذوی القربٰی۔ اس سے مراد قرابت دار ہیں۔ قرابت دار میں والدین، بیوی، شوہر، اولاد، دادا، دادی، نانا، نانی، ماں، باپ کے بھائی، بہن اور ان کی اولادیں وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے حسنِ سلوک، یعنی انفاق کے لیے ہمارے اولوا الارحام، یعنی اقربا دوسرے تمام مومنین اور مہاجرین کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں:
وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِکُمْ مَّعْرُوْفًا (الاحزاب ۳۳:۶) مگر کتاب اللہ کی رُو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی کرنا چاہو توکرسکتے ہو۔
والدین، ازواج اور اولاد پر مال خرچ کرنا فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کے حقوق ایسے موضوعات ہیں جن پر علیحدہ علیحدہ طویل مقالے لکھے جاسکتے ہیں (ان موضوعات پر تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے راقم کی کتاب تعلیماتِ قرآن، حصہ دوم، ادارہ معارف اسلامی، کراچی)۔ چونکہ ان پر مال خرچ کرنا فرائض میں شامل ہے اور عمومی طور پر انفاق میں شامل نہیں ہے اس لیے ہم یہاں ان کا مختصراً مطالعہ کریں گے۔
وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (النساء ۴:۳۶) اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو۔
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہماری توجہ ان کے احسانات کی طرف بار بار دلاتا ہے کہ کس طرح تکالیف اُٹھا کر انھوں نے ہماری پرورش اور تربیت کی ہے، مثلاً ایک جگہ فرمایا:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ o (لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ اسی لیے ہم نے اس کو وصیت کی کہ میرا شکر کر اوراپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دراصل والدین کی ضروریاتِ زندگی پر مال خرچ کرنے کو اللہ نے انفاق نہیں بلکہ ان کے احسانات کا اظہارِ شکر قرار دیا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق بھی سب سے اچھا عمل اللہ کی بندگی اختیار کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ہے اور اس کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ہے۔ اسلام کی نظر میں والدین کا مقام یہ ہے کہ نہ صرف دنیا میں ان کے ساتھ سب سے بڑھ کر نیکی کا سلوک کیا جائے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے حقوق باقی رہتے ہیں۔ ان کی اولاد کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ان حقوق کو پورا کرے۔ بعداز موت بھی والدین کے جو حقوق باقی رہتے ہیں ایک حدیث کے مطابق ان حقوق میںسے ایک حق یہ ہے کہ ان کے لیے دعاے مغفرت کی جاتی رہے اور اس کے لیے اس سے اچھی دعا اور کیا ہوگی جو اللہ نے خود سکھائی ہے:
قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۲۴) اور دعا کیا کر کہ پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔
وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء ۴:۱۹) ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔
ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جو کھائیں وہی اپنی بیویوں کو بھی کھلائیں اور وہ جو پہنیں ویسا ہی اپنی بیویوں کو بھی پہنائیں۔ ایک اور حدیث کے مطابق جو لقمہ بھی کوئی شوہر اپنی بیوی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کھلاتا ہے وہ صدقہ ہے۔ اسی طرح شوہرکی وراثت میں بیوہ کو حصہ دیا جانا بھی فریضہ ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے سورئہ نساء کی آیت ۱۲)۔ ایک متفق علیہ حدیث کے مطابق بیوائوں اور مسکینوں کے لیے دوڑدھوپ کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی مانند ہے۔ مطلقہ عورتوں کے لیے فرمایا کہ متقیوں کے مال میں ان کا بھی حق ہے، یعنی طلاق دے کر خالی ہاتھ ان کو ان کے میکے نہ بھیجا جائے بلکہ ان کو کچھ مال دے کر رخصت کیا جائے:
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۱)اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے، یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔
ایسی عورتوں کو سہارا دینے کے لیے جن کا کوئی ولی یا مددگار نہ ہو ایک دارالامان کا تصور سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا جب آپؐ نے ایک عورت کو اپنی عدت حضرت ابن اُم مکتوم کے گھر گزارنے کا حکم دیا۔ جاہلیت کے زمانے میں عرب کے لوگ ہمہ وقت جنگجویانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لڑکے جنگ میں ان کے لیے قوت کا باعث تھے جب کہ وہ لڑکیوں کو اپنے لیے کمزوری کا باعث سمجھتے تھے اور اسی خوف سے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ آج بھی بھارت میں لڑکیوں کی پیدایش ہندوؤں کے لیے باعث ننگ اور بوجھ سمجھی جاتی ہے اور کسی نہ کسی بہانے لڑکیوں کو مار دیا جاتا ہے۔ اللہ نے لوگوں کو اس قتل سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ جب انھیں رزق دے رہا ہے تو اولاد کے پیدا ہونے پر وہ انھیں بھی دیتا ہے۔ دوسرے معنوں میں والدین کو جو رزق ملتا ہے اس میں ان کی اولاد کا حصہ بھی ہے جو ان پر خرچ ہونا چاہیے:
وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۱) اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔
ایک حدیث کے مطابق صدقے کا وہ دینار سب سے اچھا ہے جو اپنی اولاد پر خرچ کیا جائے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: جس شخص کی بیٹی پیدا ہوئی اور اس نے اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ حقیر جانا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی تو اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
صلۂ رحمی کے معنی رحم کو پہنچنے کا عمل ہے۔ رحم دراصل ماں کے پیٹ میں وہ تھیلی ہے جس میں زندگی جنم لیتی ہے، پرورش پاتی ہے اور پھر وہ انسانی شکل میں باہر نکلتی ہے۔ اسی لیے محبت و شفقت کے اس اعلیٰ جذبے کو جو ماں کے دل میں اپنے اس بچے کے لیے پیدا ہوتا ہے رحم کہا جاتا ہے۔ چنانچہ جو بھی کسی کی ماں کے رحم سے باہر آتا ہے، یعنی بھائی یا بہن، یا ماں اور باپ کی مائوں کے رحم سے باہر آتا ہے، یعنی چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ وغیرہ، یا اسی طرح ان کی اولادیں وغیرہ یہ سب اقربا ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن سے رضاعت یا شادی کے ذریعے قرابت استوار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ساتھ حسنِ سلوک یا صلہ رحمی یا ان پر مال خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ جب تخلیقِ کائنات کا عمل مکمل کرچکا تو رحم کھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ ’’میں قطع سے تیری پناہ مانگتی ہوں‘‘۔ اللہ نے کہا: ’’کیا تو اس پر راضی ہے کہ میں اسے جوڑوں جو تجھے جوڑے اور اسے کاٹوں جو تجھے کاٹے؟‘‘ بولی: ’’ہاں‘‘۔ اللہ نے کہا: ’’ایسا ہی ہوگا‘‘۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ اور اس کی عمر دراز ہو تو وہ صلہ رحمی (یعنی اقربا پر انفاق) کرے۔ ایک اور حدیث کے مطابق جو اقربا سے اس لیے سلوک کرتا ہے کہ اس کا بدل اسے ملے تو یہ تجارت ہے۔ صلہ رحمی کا کمال یہ ہے کہ جو کاٹے اسے جوڑا جائے۔ ایک اور حدیث کے مطابق جو قطع رحمی کرتا ہے (جو اپنے اقربا میں سے کسی سے ترکِ تعلق یا بدسلوکی کرتا ہے) وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔
درحقیقت اسلام کی دعوت کا ایک اہم نکتہ صلۂ رحمی کی تبلیغ بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قیصر روم کو ایک خط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی تو اس نے حضرت ابوسفیان کو بلایا جو اس وقت اس کے شہر میں تجارت کی غرض سے موجود تھے۔ ان سے قیصر نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس بات کی تبلیغ کرتے ہیں؟ انھوں نے بتایا: وہ کہتے ہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ شرک نہ کرو، نماز قائم کرو، سچائی اختیار کرو اور صلہ رحمی کرو‘‘۔
اقربا پر مال کس طرح خرچ کیا جائے؟ اس کی چند اچھی مثالیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ملتی ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق آپؐ نے حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی مشرکہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ ایک اور حدیث کے مطابق آپؐ نے حضرت عمرؓ کو ہدایت کی کہ وہ ایک ریشمی قمیص جو خود نہیں پہن سکتے تھے اپنے مشرک بھائی کو تحفتاً دے دیں۔ ایک تیسری حدیث کے مطابق آپؐ نے حضرت ابوطلحہؓ کا باغ صدقے میں لینے سے انکار کیا اور ان سے فرمایا کہ وہ اس باغ کے پھل میں اپنے عم زاد کو بھی شریک کریں۔ پہلی دونوں احادیث سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اقربا کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے وقت یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ ان کا کردار یا مذہب کیا ہے۔ انفاق سے کسی کی اصلاح مقصود نہیں بلکہ اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، ہدایت دینا نہ دینا تو اللہ کا کام ہے:
لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ (البقرہ ۲:۲۷۲) لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے، ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔
یتیموں پر خرچ
اقربا پر مال خرچ کرنے کی تلقین کے بعد اللہ ہماری توجہ یتامٰی پر مال خرچ کرنے کی طرف دلاتا ہے۔ یتامٰی جمع ہے یتیم کی۔یتامٰی وہ نابالغ بچے ہیں جن کے باپ انتقال کرگئے ہوں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ یہ بچے مال کے اس ذریعے سے محروم ہوجاتے ہیں جو فطری طور پر ان کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتا تھا بلکہ وہ باپ کی شفقت اور تربیت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ مکمل طور پر معاشرے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اب اگر معاشرہ ان کی صحیح پرورش اور نگہداشت نہ کرے تو یا تو وہ اپنی جان کھو بیٹھتے ہیں یا پھر وہ معاشرے میں غیرصالح عنصر بن کر اُبھرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خاص طور پر ان یتیموں کی پرورش اور تربیت پر مال خرچ کرنے اور ان کے ساتھ محبت اور شفقت کے برتائو کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے نیک بندے یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں، ان کو کھانا کھلاتے ہیں:
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِیْمًا وَّاَسِیْرًا o (الدھر ۷۶:۸) اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔
فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلاَ تَقْھَرْ o (الضحٰی ۹۳:۹) لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو۔
اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo (الماعون ۱۰۷: ۱-۳) تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی سزا و جزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا o (النساء ۴:۱۰)جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کا مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔
احادیث میں بھی یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ملتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا جو ایک مسلم یتیم کو متبنی بنائے اور اسے کھلائے بجز اس کے کہ اس نے کوئی ناقابلِ معافی گناہ کیا ہو۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق جو کسی یتیم کی اچھی پرورش کرکے اسے بڑا کرے گا وہ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اس طرح ہوگا جس طرح آپؐ نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی اُٹھا کر دکھائیں۔ اس طرح یتیم کے کفیل کو نہ صرف یہ بشارت ملی ہے کہ وہ جنت میں جائے گا بلکہ اس کو آپؐ کی قربت کا بھی اعزاز حاصل ہوگا۔
ایک اور حدیث کے مطابق مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جارہی ہو۔ بے سہارا یتیموں کی نگہداشت کے لیے قرونِ وسطیٰ کی مسلمان حکومتوں نے جگہ جگہ یتیم خانے بنا رکھے تھے (سیرت النبیؐ)۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج بھی مسلمان حکومتیں اس قسم کا انتظام کریں۔
یتامٰی کی طرف توجہ دلانے کے بعد اللہ مساکین پر مال خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اکثر و بیش تر اللہ نے جہاں یتیموں کا تذکرہ کیا ہے وہاں ساتھ ہی مساکین کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیساکہ ہم نے اس سے پہلے یتیموں کے حقوق کی مثالوں میں مساکین کا تذکرہ بھی دیکھا ہے۔ مساکین جمع ہے مسکین کی۔ ایک حدیث کے مطابق مسکین وہ شخص ہے جو مال تو رکھتا ہے مگر اتنا نہیں کہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے اور غیرت اس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی ہے۔ ایسے لوگ ہمارے اردگرد کافی تعداد میں ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے یا اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کا علاج نہیں کراسکتے یا اگر مقروض ہوں تو غربت کی وجہ سے قرض ادا نہیں کرپاتے۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ایسے غیرت مند غریبوں کو پہچانیں اور حسبِ موقع اور استطاعت ان پر مال خرچ کریں۔ صاحبِ استطاعت لوگوں کا مسکینوں پر مال نہ خرچ کرنا بھی ان کے لیے عذابِ جہنم کی ایک وجہ بن سکتا ہے جیساکہ ہم اس سوال و جواب میں دیکھتے ہیں:
مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ o قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ o وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَo (المدثر ۷۴:۴۲-۴۴)تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘‘۔
اگر ہم خود ان پر مال خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو بھی ہمیں کم از کم جو لوگ صاحبِ استطاعت ہیں ان کی توجہ ایسے مساکین کی طرف دلانی چاہیے کہ وہ ان کی مدد کریں۔ اگر ہم یہ بھی نہیں کرتے تو گویا ہم اپنے دین و ایمان کی خود ہی نفی کرتے ہیں جیساکہ ہم نے اس سے پہلے یتیموں کے بیان کے دوران سورئہ ماعون کے مطالعے میں دیکھا ہے اور ہماری یہ بے عملی یا لاپروائی بھی خود ہمارے لیے عذابِ جہنم کی ایک وجہ بن سکتی ہے:
خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ o ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ o ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُ o اِِنَّہٗ کَانَ لاَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo (الحاقۃ ۶۹:۳۰-۳۴) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو، پھر اسے جہنم میں جھونک دو، پھر اسے ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ صُفّہ کی مثال کے مطابق ایسے مساکین کی دیکھ بھال کے لیے مسلمان حکومتوں کو بھی مناسب انتظام کرنا چاہیے۔ جب غیرمسلم حکومتیں، جیسے کینیڈا اور امریکا وغیرہ اپنے غریب عوام کو ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ماہانہ وظیفہ دے سکتی ہیں تو مسلمان حکومتیں اپنے غریب عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ایسا کیوںنہیں کرسکتیں؟
اقربا، یتامٰی اور مسکین کے ذکر کے بعد اللہ مال خرچ کرنے کے لیے وابن السبیل کا ذکر کرتا ہے۔ وابن السبیل کے معنی ’راستے کا بیٹا‘ ہے۔ عربی زبان میں مسافر کے لیے محاورتاً ’راستے کا بیٹا‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تلقین کر رہا ہے کہ ہم اپنا مال مسافروں پر بھی خرچ کریں۔ مسافر وہ بھی ہے جو اپنے کسی کام سے اپنے گھر سے دُور کسی جگہ آیا ہوا ہو۔ مسافر وہ بھی ہے جو اپنی منزل کی جانب جاتا ہوا راستے میں رک کر آرام کرتا ہے اور مسافر وہ بھی ہے جو کسی سے ملنے کی خاطر اس کے گھر آکر ٹھیرتا ہے۔ ایسے سب مسافر دراصل مہمان ہوتے ہیں اور یہ سارے ہی مہمان باوجود اس کے کہ وہ خود صاحبِ استطاعت یا صاحبِ حیثیت ہوں ہماری خاطر و تواضع کے حق دار ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مہمانوں کی خاطر تواضع کے چند بنیادی آداب سکھائے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہو تو وہ مہمان کا اکرام کرے۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق میزبان کو چاہیے کہ وہ پہلے دن مہمان کو اس سے اچھا کھلائے جیسا وہ خود کھاتا ہے، اور اگر مہمان مزید ٹھیرتا ہے تو میزبان جو کچھ بھی مہمان کو کھلاتا ہے وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اگر کوئی شخص اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کسی مسافر کی میزبانی کرسکے تو اسے چاہیے کہ کسی اور کو مسافر کی میزبانی کے لیے کہے۔ ایک دفعہ ایک مسافر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس آیا اور کھانے کے لیے کچھ طلب کیا مگر اس وقت اُمہات المومنینؓ میں سے کسی کے بھی گھر میں سواے پانی کے اورکچھ نہ تھا۔ آپؐ نے یہ نہیں کیا کہ معذرت کرلیتے بلکہ آپؐ کے پاس جو لوگ موجود تھے ان سے پوچھا کہ کوئی اس مسافر کو ایک رات کے لیے اپنا مہمان بنا سکتا ہے؟ مختصر یہ کہ ایک صحابی اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ گھر پہنچنے پر بیوی نے بتایا کہ صرف اتنا کھانا ہے کہ بچوں کو کھلایا جاسکے۔ اُس صحابیؓ نے بیوی کو مشورہ دیا کہ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو۔ چراغ بجھا دو۔ اندھیرے میں مہمان کے سامنے کھانا رکھو۔ مسافر کھانا کھائے گا، جب کہ صحابی اور ان کی بیوی صرف اپنے ہاتھ اور منہ چلائیں گے تاکہ مسافر یہ سمجھے کہ وہ بھی کھانے میں شریک ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اگرچہ کھانا خود ان کی اپنی ضرورت سے بھی کم تھا مگر ان دونوں میاں بیوی نے مہمان کو اپنے اُوپر فضیلت دی اور اس طرح اس کا اکرام کیا۔ ان کا یہ عمل اللہ کو اتنا پسند آیا کہ اللہ نے قرآن میں اس کا تذکرہ کرکے مسلمانوں کے لیے مہمان داری کا ایک عظیم نمونہ رکھ دیا، فرمایا:
وَ یُـؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر ۵۹:۹) اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔
وابن السبیل کے بعد فرمایا: والسائلین۔ سائلین جمع ہے سائل کی۔ سائل کے معنی ہیں پوچھنے والا یا سوال کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو سوال کرے یا مدد طلب کرے اس کی بھی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ اس کی ایک مثال ہم نے پہلے سورئہ معارج میں دیکھی ہے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مانگنے والے کو منع نہ کیا جائے:
وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْھَرْ o (الضحٰی ۹۳: ۱۰) اور سائل کو نہ جھڑکو۔
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ
یُرَآئُ وْنَ o وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ o (الماعون ۱۰۷: ۴-۷) پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں دینے سے گریز کرتے ہیں۔
اگر کوئی کسی مانگنے والے کو کچھ نہیں دینا چاہتا یا اگر دیتا بھی ہے تو ساتھ ہی سوال کرنے والے کو بُرا بھلا بھی زبان سے کہہ دیتا ہے تو اس سے بہتر یہ ہے کہ مانگنے والے کی عزتِ نفس یا اس کے دل کو مجروح کیے بغیر خوش اسلوبی سے معذرت کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے:
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَآ اَذًی (البقرہ ۲:۲۶۳) ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔ (مزید دیکھیے: بنی اسرائیل ۱۷:۲۸)
والسائلین کے بعد فرمایا: وفی الرقاب۔ رقاب جمع ہے رقبہ کی۔ رقبہ کے معنی گردن ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں مال خرچ کیا جائے۔ دوسرے معنوں میں جو غلام ہوں یا غلام بنا لیے گئے ہوں ان کی طرف سے فدیہ دے کر ان کو آزاد کرایا جائے۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ اسلام بنیادی طور پر آزاد لوگوں کو پکڑ کر غلام بنانے کا سخت مخالف ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جو لوگ آزاد انسانوں کو زبردستی پکڑ کر غلام بنا لیتے ہیں، رسولؐ اللہ روزِ قیامت ایسے لوگوں کے خلاف غلاموں کے ولی و وکیل ہونے کا فریضہ انجام دیںگے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تو جنگ میں پکڑے ہوئے لوگوں کو بھی غلام بنانے کے بجاے ان سے فدیہ لے کر (یا قیدیوں کا تبادلہ کر کے) یا بطورِ احسان مفت ہی چھوڑ دینے کی تلقین کرتا ہے:
فَاِِذا لَقِیْتُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّٰی۔ٓ اِِذَآ اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوْا الْوَثَاقَ فَاِِمَّا مَنًّام بَعْدُ وَاِِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا (محمد ۴۷:۴) پس جب ان کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔
اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف انداز سے غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین کی ہے، مثلاً ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ اللہ نے میں سورئہ بلد میں گردن کے طوق کو کھولنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قتلِ خطا، عہدوپیمان توڑنے اور جو کوئی بیوی سے ظہار کرے اسے فدیے میں غلام آزاد کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔
غرض یہ کہ اسلام جہاں مسلمانوں کو مختلف حیلوں کے ذریعے غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین کرتا ہے وہیں یہ بھی حکم دیتا ہے کہ اگر ان کو آزاد نہ کیا جائے تو ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیساکہ کسی دوسرے انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کو برابری کے معیار پر کھلایا اور پہنایا جائے اور ان کی جنسی طلب کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مختصر یہ کہ اسلام میں غلام ایک ایسا ملازم ہے جس کو اپنے مالک یا آقا سے ہر وقت علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ اگر وہ اپنے مالک کو اس کا معاوضہ ادا کرے، اور مالک اور عام مسلمانوں کو اس کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ غلاموں کو ان کی آزادی کے لیے معاوضہ ادا کرنے میں سہولت پہنچائیں:
وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰکُمْ (النور ۲۴:۳۳) تمھارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کرلو، اگر تمھیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمھیں دیا ہے۔
موجودہ زمانے کے حالات کو سامنے رکھ کر اگر ہم تھوڑا سا بھی غور کریں تو یہ بات آسانی سے معلوم ہوجاتی ہے کہ آج بھی غلامی کا رواج جاری و ساری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت ور، جنگجو اور غیرمسلم قومیں آج بھی مفتوحہ قوموں کے ساتھ غلامی بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک روا رکھتی ہیں۔ ان مفتوحہ یا کمزور قوموں کے افراد کو پکڑ کر ان کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک کیا جاتاہے اس کو روکنے والا کوئی نہیں باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ اور جنیوا کنونشن جیسے کئی ادارے دنیا میں انھی نام نہاد علَم بردارانِ انسانی آزادی نے بنا رکھے ہیں۔ یہ ادارے طاقت ور قوموں یا ان کی حلیف قوموں کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ درحقیقت حقوقِ انسانی کی حفاظت کی خاطر قائم اداروں کو تو طاقت ور قوموں نے اپنے مفاد کی خاطر کم زور قوموں کے ساتھ غلاموں کا ساسلوک روا رکھنے کے لیے بنایا ہوا ہے اور قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے کہ یہی چھوٹی اور کمزور قومیں ان اداروں کی رکنیت لے کر نہ صرف یہ کہ ان طاقت ور قوموں کی غلام بنتی ہیں یا بلیک میل ہوتی ہیں بلکہ اس غلامی کی فیس بھی ادا کرتی ہیں۔
اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ مسلمانوں کی توجہ اس طرف دلا رہا ہے کہ غیرمسلم طاقت ور قومیں ہمیشہ ہی مجبور و کم زور اور مفتوح قوموں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک روا رکھیں گی لہٰذا وہ اپنے ان دینی بھائیوں جن کو ایسی ظالم و جابر قومیں بزورِ قوت یا مال پکڑ پکڑ کر اپنے ظلم و ستم کا شکار بنا رہی ہوں کی ہرممکنہ طور پر رہائی اور آزادی کے لیے اپنا مال خرچ کریں۔
یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ضرورت مند بندوں پر مال خرچ کیا جائے یہ فطری سوال اُٹھتا ہے کہ ان پر کتنا اور کس طرح خرچ کیا جائے؟ اگرچہ اللہ نے یہاں اس کا جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن میں دوسری مختلف جگہوں پر ان کے جوابات ہمیں ملتے ہیں۔ ایک جگہ لوگوں کے اسی سوال کا کہ کتنا مال خرچ کیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ ۲:۲۱۹) اور پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو جو کچھ تمھاری ضروریات سے زیادہ ہو۔
یعنی جو مال کسی کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ کس کی کیا ضروریات ہیں؟ اس کا صحیح علم تو خرچ کرنے والا ہی جانتا ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ انسان فطرتاً بخیل ہے:
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ وَ کَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۰) کہیے ،اگرکہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمھارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے، واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔
اسی لیے وہ کہتا ہے کہ انسان نہ تو بالکل ہی مال روک کر بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی بے تحاشا خرچ کرکے ضرورت سے زیادہ فیاضی دکھائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ خرچ کرنے والا انسان بعد میں خود ہی اپنی حالت پر ملامت و حسرت کا اظہار کرے:
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۹) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔ (مزید دیکھیے الفرقان۲۵:۶۷)
دوسرے معنوں میں ان ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے میں میانہ روی کا طریقہ اپنایا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بخیلی کا مظاہرہ ہو یا اسراف کا مظاہرہ دونوں ہی ناپسندیدہ کام ہیں۔ اللہ کو ایسے اعمال سے کراہت آتی ہے:
کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا (بنی اسرائیل ۱۷:۳۸) ان امور میں سے ہر ایک کا بُرا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔
ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت سعدؓ بن وقاص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنا ایک تہائی مال اللہ کی راہ میں صدقہ اور خیرات کرسکتے ہو اور اتنا نہ صدقہ کرو کہ اپنی اولاد کو اس حالت میں چھوڑ کر جائو کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائیں۔ ایک اور حدیث سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال ہی اللہ کی راہ میں صدقہ یا خیرات کیا جانا چاہیے۔
ایک مسافر صحرا سے گزر رہا تھا کہ اس نے فضا میںایک آواز سنی جو بادلوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ فلاں شخص پر برسیں۔ وہ شخص بادلوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ بادل ایک پہاڑی پر برس گئے۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر کوئی نظر نہیں آیا۔ پہاڑوں پر برسنے والا پانی بہتا ہوا ایک نالے میں بہنے لگا۔ مسافر اس نالے کے بہائو کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دُور جاکر اس نے دیکھا کہ اس نالے سے ایک بوڑھا شخص اپنے کھیت کو سیراب کر رہا ہے۔ مسافر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی فصل کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک حصہ وہ اپنے بال بچوں کی ضروریاتِ زندگی پر خرچ کرتا ہے۔ دوسرے حصے سے وہ نئی کاشت کے لیے بیج اور کھاد وغیرہ کا انتظام کرتا ہے اور تیسرا حصہ وہ سب کا سب اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتا ہے۔
ان دونوں احادیث سے ہمیں ’العفو‘ یا ضرورت سے زائد مال کی بڑی اچھی تشریح ملتی ہے لیکن اگر مال اُمت کی بقا یا سرحدوں کی حفاظت یا جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر دیا جا رہا ہے تو جس سے جتنا ہوسکے دے اور میانہ روی اختیار نہ کرے۔ ایسے انفاق کی بہترین مثالیں وہ ہیں جن میں غزوئہ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنا سارا ہی مال لے آئے اور حضرت عمر فاروقؓ اپنی ساری ہی چیزوں کو آدھا آدھا تقسیم کر کے لے آئے۔ ایک غریب اور مسکین شخص نے جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ ساری رات ایک یہودی کا باغ سینچا اور صبح معاوضے کے طور پر اس کو جو کھجوریں ملیں اس میں سے آدھی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیں۔ آپؐ نے اس کی کھجوروں کو سارے مال پر پھیلا دیا اور فرمایا کہ یہ راس المال ہے۔
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ھِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ (البقرہ ۲:۲۷۱) اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔
ایک حدیث کے مطابق اس طرح دیا جائے کہ اگر داہنا ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلے۔ گویا چھپا کر دیا جائے تاکہ لینے والے کی خودداری اور عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ لیکن اگر کسی اجتماعی کام کے لیے دیا جا رہا ہو یا کسی ادارے کو دیا جا رہا ہو تو علی الاعلان دیا جائے تاکہ دیکھنے والے کے اندر بھی دینے کی تحریک پیدا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ انفاق کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّھَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo (البقرہ ۲:۲۷۴) جو لوگ اپنے مال شب وروز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔
ایک حدیث کے مطابق صدقہ دینے کا بہترین وقت وہ ہے جب دینے والا جوان اور صحت مند ہو اور اس کی اپنی ضروریات ہوں اور اسے اپنے افلاس کا ڈر بھی ہو نہ کہ جب وہ قریب المرگ ہو اور پھر یہ کہے کہ یہ فلاں کے لیے اور یہ فلاں کے لیے ہے تو مال اب اس کا نہیں رہا اور یہ فلاں اور فلاں ہی کا ہوگیا ۔
مختصراً یہ کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہیے کہ مال و اولاد تو آرام و آسایش کے وقتی سامان ہیں اور اللہ کی راہ میں انفاق جیسے اعمالِ صالحہ ہی آخرت کا سامان ہیں:
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا o (الکھف ۱۸:۴۶) یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انھیں سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی راہ میں زیادہ سے زیادہ انفاق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو انفاق ہم نے کیا ہے اس کو قبول فرمائے، آمین!
(یہ تحریر مقالہ نگار کے آیت البرّ کے ایک تفصیلی مطالعے کا جز ہے)
بہار کا موسم آتے ہی چمنِ دہر میں رُوح پرور ہوائیں چلنے لگتی ہیں، خشک درخت سبز ہوجاتے ہیں، پھول کھلنے لگتے ہیں، جسمِ انسانی کی رگوں میں تازہ خون کی گردش ہونے لگتی ہے، سوئی ہوئی اُمنگیں جاگ اُٹھتی ہیں، اور چستی و توانائی کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے۔ جسم و مادہ کی کائنات میں آفتاب کا ایک پورا دور گزر جانے کے بعد یہ موسم آتا ہے، اور طبیبوں کا بیان ہے کہ جسم سے مادہ فاسد کے دفع کرنے اور مسہل لینے کا یہ بہترین زمانہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح روح و جان کی کائنات میں بھی چاند کا ایک پورا دور گزر جانے کے بعد موسم بہار آتا ہے، ماہتاب کو عشق کے سودازدوں سے مناسبت ہے۔ ظاہر ہے، ماہتاب جب اپنے سالانہ سفر کا چکر ختم کرتا ہے، تو عشق و محبت کی اقلیم میں پھر شوریدگی و جنون کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، اور سال کے گیارہ مہینے کے اندر غیریت کی جو کدورتیں جم جاتی ہیں، طبیعت ان کے دفع کرنے کے لیے بے قرار ہوجاتی ہے۔ اسی لیے رحمتِ کاملہ و محبوبیتِ مطلقہ نے اپنے وفاشعاروں، اپنے سرمستوں کے لیے ایک خاص مہینہ، ماسوا سے بے تعلق و بے نیاز رہنے کا مقرر کردیا جس کو اصطلاح میں ماہِ رمضان سے موسوم کرتے ہیں: یٰٓاَیُّـھَا الَّـذِیْنَ اٰمَـنُوْا کُتِبَ عَلَـیْکُمُ الصِّیَامُ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے حسنِ ازل سے پیمانِ وفا باندھنے والو، اے اپنے محبوب کی یکتائی کا کلمہ پڑھنے والو، اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہو، آئو اپنے طریق عشق و آئینِ اُلفت میں، ایک مہینہ تک ماسوا پر نظر کرنا تک ناجائز سمجھو، اور اپنی تمام نفسانی لذتوں کو اس بڑی اور حقیقی لذت کے تصور پر قربان کرتے رہو، کہ یہی نفسانی لذتیں، اس شاہد ِحقیقی کے وصال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔
یہ شرط محض تمھارے ساتھ مخصوص نہیں، اکیلے تم ہی اس آزمایش میں نہیں ڈالے گئے ہو، بلکہ تمھارے اگلوں میں سے جس جس گروہ نے ہم سے پیمانِ وفا باندھا، جس جس جماعت نے راہِ اُلفت میں قدم رکھنے کا دعویٰ کیا، اُن سب کو اپنے دعوے کا کچھ ایسا ہی ثبوت پیش کرنا پڑا ہے، ان سب کو کچھ ایسی ہی آزمایشوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ہراساں نہ ہو، بہتوںکی آزمایش اسی طرح ہوچکی ہے: کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْـلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) ۔ اور اس حکم سے غرض تمھیں تکلیف میں ڈالنا نہیں۔ تمھاری جان کو ہلکان کرنا نہیں، بلکہ مقصود صرف تمھاری ہی فلاح و بہبود ہے۔ تمھارے ہی کمالات کی نشوونما اور تمھاری ہی ترقی ہے۔ تمھی میں ضبطِ نفس پیدا کرنا ہے۔ تمھی کو خواہشاتِ نفسانی پر حاکم بننے کی تعلیم دینا ہے، تمھاری پاکیزگی کی چھپی ہوئی قوت کو اُبھارنا، اور تمھیں حیوانیت کے غار سے نکال کر ملکوتیت کے آسمان پر پہنچانا ہے۔ تمھاری بوالہوسی جو تمھاری خودداری پر غالب آجاتی ہے، اسی کو توڑنا منظور ہے۔ تمھاری ہی راہِ عروج میں ہر طرح کی سہولت پیدا کرنی مدنظر ہے اور تمھارے ہی چھپے ہوئے اندرونی دشمنوں، یعنی بدی کی طاقتوں کو ہلاک و نابود کرنا مقصود ہے: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرہ ۲:۱۸۳) اور پھر یہ آزمایش بھی دائمی نہیں، تمھاری ساری عمر کے لیے نہیں، کسی بڑی طویل مدت کے لیے نہیں، بلکہ صرف گنتی کے چند روز، یعنی گیارہ مہینوں کے بعد، رمضان کا ایک مہینہ: اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ (البقرہ ۲:۱۸۴)۔
پھر ان عاشقینِ صادقین اور مومنینِ مخلصین میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو باوجود اپنے صدق و خلوص کے، اپنی جسمانی کمزوری یا پردیس میں ہونے کی بنا پر، آسانی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل نہ کرسکیں گے، اُن کے لیے یہ آزمایش زیادہ سخت ہوگی۔ ایسے معذوروں کے لیے اس کی اجازت ہے کہ انھیں جب اطمینان و فراغت نصیب ہو، تو اس ماہِ مبارک کے چھوٹے ہوئے روزوں کو پورا کرلیں۔ ’بلبلِ بہار‘ اگر اپنے جذبۂ دل میں صادق ہے تو اُس کے لیے سال کا ہر موسم موسمِ گل کا حکم رکھتا ہے: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ (البقرہ ۲:۱۸۴)۔ بعض بیچارے ایسے بھی ہوتے ہیں، جو بہ سبب اپنی جسمانی کمزوری یا کسی اور مجبوری کے، ماہِ مبارک کے بعد بھی روزہ رکھنے میں سخت مشقت محسوس کرتے ہیں۔ ایسوں کے لیے یہ رعایت ہے کہ وہ اپنی معذوری کے کفارہ کے طور پر کسی صاحبِ احتیاج کو پوری طرح کھانا کھلا دیا کریں: وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ (البقرہ ۲:۱۸۴)۔ اس رخصت و اجازت کے باوجود بھی اگر کوئی شخص محنت و مشقت گوارا کر کے اس بڑی نیکی، یعنی روزہ کو اختیار کرتا رہے، یا ایک مسکین سے زائد کو کھلاتا پلاتا رہے، تو اس کے مرتبہ کا کیا پوچھنا۔ ایسی نیکی جو فرض نہ رہی ہو، اگر اختیار کی جائے تو اس کے افضل و برتر ہونے میں کیا شبہہ:۔ فَمَنْ تَطَوَّعْ خَیْرًا فَھُوَ خَیرٌ لَّہٗ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۴)۔ یہ ایک عام اصول بتایا گیا۔ باقی اگر روزہ کی حقیقت پر نظر ہوجائے، روزہ سے جو باطنی ترقیاں مقصود ہیں، اگر ان کا علم ہوجائے، تو کون ایسا ہے جو روزہ کی جانب بہ شوق و رغبت نہ دوڑے۔
یہ ماہِ مبارک صرف اسی لحاظ سے مبارک نہیں، کہ اس میں انسان، صبر وضبط کی خدائی طاقتوں سے نوازا جاتا ہے، بلکہ اس خیروبرکت والے مہینے کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اسی ماہ میں اوّل اوّل، دنیا کے لیے بہترین، کامل ترین و جامع ترین ہدایت نامہ اُتارا گیا۔ اسی چاند میں انسانیت کے ظلمت کدہ کو نورانیت کے بدرِ کامل سے پُرانوار بنایا گیا، اور اسی بابرکت موسم میں انسان کے کان میں پہلی بار نغمۂ ازل کی سُریلی آواز، بے ہوشوں کو بیدار اور ہوشیاروں کو مست کرنے والی پکار پہنچی، جس سے بڑھ کر کوئی دولت، جس سے اُونچی کوئی نعمت، جس سے برتر کوئی رحمت، عالمِ تصور میں بھی موجود نہیں: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ(البقرہ ۲:۱۸۵)۔ قیس عامری کے پاس اگر لیلیٰ کا کوئی مکتوب یا پیام آجاتا، تو کس طرح وہ اپنی جان نثار کرنے کو تیار ہوجاتا، اور اس مبارک گھڑی کو کس قدر عزیز رکھتا! حسنِ ازل کے شیدائی بھی، نامۂ یار کے ورود کے زمانہ کو کیوں کر بھول سکتے ہیں۔ جب جب یہ زمانہ آئے گا، اس کی یاد میں بے تاب ہوجائیں گے ، اور اس پاک گھڑی کی پاک سال گرہ منانے میں اپنی بھوک پیاس تک بھول جائیں گے: فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔
موسمِ بہار کی فرحتیں، طراوتیں اور نشاط انگیزیاں، بڑے سے بڑے افسردہ دلوں تک میں اُمنگ پیدا کردیتی ہیں اور گل و گلزار کی سیر سے کوئی محروم رہنا نہیں چاہتا۔ ماہِ مبارک کی برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں کا ذکر سن کر بڑے سے بڑے بدہمت اور افسردہ دل کی رگوں میں جوش پیدا ہوجانا، اور بڑے سے بڑے فرزانہ و دُوراندیش میں شورش و شوریدگی کا اُبھر آنا قدرتی ہے۔ حالانکہ یہ آزمایش صرف ان کے لیے ہے جو اس کی جسمانی قوت بھی رکھتے ہیں۔ معذوروں پر خواہ مخواہ بار و مشقت ڈالنا ہرگز مقصود نہیں۔ اُن کے جذبۂ شوق کو تسکین دینے کے لیے ایک بار پھر اس ارشاد کی ضرورت ہوئی، کہ معذوروں کو ان دنوں کی گنتی بعد میں پوری کرلینی چاہیے، کہ مقصد آسانیِ راہ ہے، نہ کہ تنگی۔ اللہ کی بڑائی کرنے، اور اس کا شکر ادا کرنے کا مقصد، بعد کو بھی گنتی کے دن پورے کرلینے سے حاصل ہوسکتا ہے: وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۵)
یہ پُربہار موسم جب کسی کے شوق و ارمان میں گزرے گا، یہ متبرک گھڑیاں جب کسی کی یاد میں بسر ہوں گی، یہ مبارک دن جب کسی کے اشتیاق میں بغیر بھوک پیاس کے صرف ہوں گے، یہ برکت والی راتیں جب کسی کے انتظار میں آنکھوں ہی میں کٹیں گی، تو ناممکن ہے کہ روح میں لطافت، قلب میں صفائی اور نفس میں پاکیزگی پیدا نہ ہوجائے۔ حیوانیت دُور ہوگی، ملکوتیت نزدیک آئے گی اور انسان خوداپنی ایک جدید زندگی محسوس کرے گا۔ ایسی حالت میں بالکل قدرتی ہے کہ سوزِ دل اور تیز ہوجائے، قرب و وصل کی تڑپ اور بڑھ جائے، تزکیہ و مجاہدہ کے اثر سے، زنگ دُور ہوکر، کسی کا عکس قبول کرنے کے لیے آئینۂ قلب بے قرارو مضطر ہونے لگے۔ ٹھیک یہی گھڑی، ذوقِ طلب اور ذوقِ عطا، سوال اور اجابت، دعا اور مقبولیت، حاجت مندی اور کریمی، گدائی اور شاہی، بندگی و بندہ پروری کے درمیان ناز و نیاز کی ہوتی ہے، اس لیے قدرتاً اس منزل پر پہنچتے ہی، حجلۂ غیب سے یہ صداے بشارت کان میں آنے لگتی ہے، کہ اے ہمارے پیام پہنچانے والے، ہمارے شیدائی، ہمارے پرستار، ہمارے بندے، اگر تم سے ہمارا پتا پوچھیں، تو اُن کوبتا دو کہ ہم اُن سے کچھ دُور نہیں، ہم تو ان سے بہت ہی قریب ہیں، ہمیں دل کی تڑپ کے ساتھ پکاریں تو سہی، ہم فوراً ان کی پکار کو سنیں گے۔ وہ صرف ہم سے اپنی لَو لگائے رہیں، اور ہم پر بھروسہ رکھیں، اس سے وہ سیدھی راہ پاکر، اور منزلِ مقصود تک پہنچ کر رہیں گے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۶)۔ (ہفتہ وار سچ، لکھنؤ، ۳ اپریل ۱۹۲۶ئ)
کھانا انسان کی زندگی قائم رکھنے کے لیے ہے، یا انسان کی زندگی اس لیے ہے، کہ اُسے کھانے پینے کی لذتوں میں بسر کیا جائے؟ موجودہ مادی دنیا نے شقِ دوم کو اختیار کیا ہے، اور اس کا عمل بھی اسی پر ہے۔ مذہب نے شقِ اوّل کو اختیار کیا ہے، اور اپنے پیرووں کو اس پر عمل کی ہدایت کی ہے۔
اسلام دین فطرت کا دوسرا نام ہے۔ اس میں کوئی شے فطرتِ انسان و فطرتِ کائنات کے مخالف ہو نہیں سکتی۔ وہ ایک طرف اپنے پیرووں کو جائز لذتوں سے لطف اٹھانے کی بار بار دعوت دیتا ہے اور دوسری طرف قدم قدم پر لَا تُسْرِفُوْا! دائرۂ اعتدال سے قدم باہر نہ رکھو کی بھی تاکید کرتا جاتا ہے۔ لذتوں پر جھک پڑنے کا نام فسق ہے، اور لذتوں سے بالکل کنارہ کش ہوجانے کو رہبانیت کہتے ہیں۔ اسلام نے جو شاہ راہِ ہدایت دنیا کے سامنے پیش کی ہے، وہ فسق و رہبانیت، دونوں سے بچ کر ان کی درمیانی راہ ہے۔
خواص جب گمراہ ہوتے ہیں، تو رہبانیت کے ڈھرے پر پڑ جاتے ہیں۔ عوام کی گمراہی کا نام فسق ہے۔ نفسِ انسانی میںلذتوں پر جھک پڑنے کا قدرتی میلان موجود ہے۔ اِنسان اکثر انھی لذتوں پر گرتا ہے اور ایسا گرتا ہے کہ انسانیت سے گزر کر بہیمیت کے غار تک پہنچ جاتا ہے۔ روح کو چاہیے کہ روز بروز لطافت کی جانب ترقی کرتی جائے، تاکہ جب جسم سے جدا ہوجانے کا وقت آئے تو اپنے مرکز اصلی کی جانب پرواز کر کے، جو اَزسرتاپا نور و لطافت ہے، وصل و وصال کا وہ انتہائی لطف و سرور حاصل کرے، جس کا نام مذہب کی اصطلاح میں جنت ہے۔ لیکن انسان جب فسق میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی اُن مادی لذتوں میں پڑ جاتا ہے، جو اُس کی روحانی صحت کے حق میں مضر ہیں، تو رفتہ رفتہ اس کی رُوح کثافت اور گندگی میں آلودہ رہنے لگتی ہے، یہاں تک کہ جسم سے جدا ہونے کے بعد اُس میں اپنے مرکزِ اصلی کی جانب پرواز کی صلاحیت باقی نہیں رہتی، اور مجبوراً اُسے تنزل کرکے مادہ کی کثافتوں اور آلایشوں کے مرکز سے آمیز ہونا پڑتاہے، جو اس سے کوئی بھی طبعی و خلقی مناسبت نہیں رکھتے، اس لیے اسے انتہائی اذیت و تکلیف کا سامنا ہوتا ہے، اور اس کو مذہب کی اصطلاح میں دوزخ کہتے ہیں۔
اسلام خلق اللہ کو راحت و سرور کی انتہائی منزل تک پہنچانے کا بہترین راہ بر ہے۔ اس نے چن چن کر اپنے نظام و آئین میں وہی باتیں رکھی ہیں، جو روح کی فطری صلاحیت کو بڑھائیں، اور گندگی و کثافت میں آلودہ ہونے سے اُسے محفوظ رکھیں۔ ان سب تدبیروں میں سے ایک اہم تدبیر کا نام روزہ ہے۔ محض بھوکا اور پیاسا رہنا یا خواہ مخواہ کسی کو اپنے تئیں گرسنگی و تشنگی کی تکلیف میں مبتلا کرنا، ہرگز روزہ کا مُدّعا نہیں۔ روزہ کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ انسان کچھ دیر کے لیے تمام اہم لذاتِ مادی کی طرف سے بے توجہ ہوکر رُوح کو اپنی صفائی و پاکیزگی کی جانب متوجہ ہونے کا موقع دے۔ قرآن پاک میں روزے کی غایت دو لفظوں میں بیان فرما دی گئی ہے: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (تاکہ تم پرہیزگار بن جائو)۔ ’تقویٰ‘ کے معنی ’بچنے‘ کے ہیں۔ بچنا کس شے سے؟ ہر اُس شے سے جو روح کی پروازِ ترقی میں حائل ہوتی ہے۔ ہر اُس شے سے جو روح کے جوہرِ لطیف کے حق میں زہر کا اثر رکھتی ہے۔ ہر اُس شے سے جو روح کو کثافتوں اور آلایشوں کی دلدل میں پھنسائے رکھتی ہے۔ قرآنی بلاغت کا یہ معجزہ ہے کہ اس سارے مفہوم کو ایک لفظ تَتَّقُوْنَ کے ذریعے سے ادا کردیا۔
نماز اور روزہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے دو جداگانہ چیزیں نہیں، بلکہ ایک ہی حقیقت کے ایجابی و سلبی، مثبت و منفی، دو پہلو ہیں۔ نماز کی حیثیت فاعلی ہے، یعنی دربارِ خداوندی میں حاضری دو، اپنی روحِ جزئی کا براہِ راست تعلق رُوحِ کلّی سے پیدا کرو۔ روزہ کی حیثیت انفعالی ہے، یعنی ان چیزوں سے بچو جو اس راہ میں حائل ہوتی ہیں، جو روح کو اس رفتارِ ترقی کے ناقابل بناتی ہیں۔ طبیبِ حاذق علاج بھی کرتا ہے، اور پرہیز بھی بتاتا ہے۔ شفا اُسی وقت ممکن ہے جب مریض دونوں ہدایتوں پر عمل کرے۔ نماز بمنزلۂ دواہے، اور روزہ بمنزلۂ پرہیز۔ دوا اور پرہیز دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ پر ظاہر ہے۔
یہیں سے ہے، کہ دنیا کے کامل ترین انسانؐ کو نماز کے بعد جو عبادت سب سے زیادہ محبوب تھی وہ روزہ تھا۔ رسولِؐ خدا اس کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے کہ اہلِ خاندان اور اصحابؓ بعض اوقات دنگ رہ جاتے۔ وجہ کھلی ہوئی ہے۔ اعلیٰ ترین روح کو روحانی پاکیزگی و صفائی کے نمونے بھی بہترین اور کامل ترین دکھانے تھے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا جس جس نے عمل کیا وہ اپنی مراد کو پہنچ کر رہا۔
کھانے پینے میں زیادتی کرنا، عورت سے میل ملاپ پر حریص ہونا، جھوٹ بولنا، سخت کلامی کرنا، کسی کا دل دُکھانا، کسی کے پیچھے اس کا برائی سے ذکر کرنا، مال و دولت کی ہوس کرنا، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو روح کی لطافت کو صدمہ پہنچاتی ہیں، اس کی بالیدگی کو روک دیتی ہیں، اس میں تازگی کے بجاے پژمردگی پیدا کرتی ہیں اور جسم و مادہ کی کثافتوں کو بڑھاتی رہتی ہیں۔ اس قسم کی تمام چیزوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے اور روزہ دار کے لیے یہ سب اُمور ممنوع ہیں۔
انسان اگر اپنی عمر کا بیش تر حصہ ان پابندیوں کے ساتھ گزار سکے تو اس کے مرتبہ کا کیا پوچھنا، لیکن کم از کم سال کا بارہواں حصہ تو اس طرح گزارنا اپنے لیے لازمی سمجھے۔ اور اگر بہت سے بندے مل کر ایک خاص زمانہ اس کے لیے مقرر کرلیں، جس میں وہ سب شریک ہوں تو شرکت و اجتماع کی بنا پر نفسِ روزہ کی برکتیں بدرجہا بڑھ سکتی ہیں۔ مگر سب کا اپنے ارادہ سے ایک خاص زمانہ مقرر کرنا ممکن نہیں، کسی کو کبھی سہولت ہوگی، کسی کو کبھی۔ اس لیے خود شریعت نے (راحت و سرورِ ابدی کی منزل کے بہترین، ہموار ترین و محفوظ ترین راستہ کا نام شریعت ہے) ایک خاص مہینہ کا تعین کردیا، جسے رمضان سے موسوم کرتے ہیں۔
خداے اسلام جس طرح ہمارے رکوع و سجود، ہماری تکبیر و تسبیح سے بے نیاز ہے، اسی طرح اُسے ہمارے بھوکے اور پیاسے رہنے، ہمارے روزہ و تراویح، ہماری سحری و افطار کی بھی کوئی حاجت نہیں۔ یہ تمام امور صرف ہمارے نفع اور فائدہ کے لیے ہیں۔ ہماری طبیعتیں اور سرشتیں چونکہ شیطانی اثرات سے مسخ ہوچکی ہیں اس لیے آج بہتوں کو روزہ کی پابندی ایک بار معلوم ہوتی ہے۔ لیکن کل جب حجابات دُور ہوجائیں گے، جب آنکھیں کھل جائیں گی، اس وقت اندازہ ہوسکے گا کہ روح میں اعلیٰ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے اور ابدی سرور و دائمی راحت حاصل کرنے کے لیے روزہ کتنا سہل، آسان، مفید، مؤثر نسخہ تھا۔ کاش! ہمارے سب بھائیوں کی آنکھیں آج ہی کھل جائیں۔ (سچ، ۳ اپریل ۱۹۲۵ئ)
نیند پورے سُکھ کے ساتھ کس کو آتی ہے؟ اُس کاہل کو جو رات دن بستر پر پڑا رہتا ہے، یا اُس محنتی کو جو دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد تھک کر اپنے دماغ و جسم کو چند گھنٹوں کے لیے آرام دینے کو لیٹتا ہے؟ کھانے میں اصلی مزہ کس کو ملتا ہے؟ اُس امیر کو جو سارے دن اپنے ذائقہ کی خاطرداریوں میں لگا رہتا ہے، اور طرح طرح کی بدپرہیزیاں کرتا رہتا ہے یا اُس غریب کو جو محنت و مشقت کے بعد دن میں ایک یا دو بار سادہ اور معمولی کھانا کھاتا ہے؟ سوکر اُٹھنے کے بعد فرحت اور چاقی کس کو حاصل ہوتی ہے؟ اُس کو جو ساری رات پریشان اور ہول ناک خواب دیکھتا رہتا ہے، یا وہ جو شروع سے آخر تک میٹھی نیند لیتا رہتا ہے؟ پس اگر کسی کو نیند پورے سکھ کے ساتھ نہیں آتی، کھانے میں پورا مزہ نہیں ملتا، یا سو کر اُٹھنے کے بعد طبیعت سے کسل پوری طرح دُور نہیں ہوتا، تو اُس کی ذمہ داری اور تنہا ذمہ داری، اُسی کی بے احتیاطیوں، بدپرہیزیوں اور بے اعتدالیوں پر آتی ہے۔
روزہ، جسم و روح دونوں کے ایک خاص ضبط و انضباط، تزکیۂ و تنقیہ، پرہیز و احتیاط کا نام ہے، اس کے تمام ہونے پر انتہائی لطف و راحت، لذت و فرحت محسوس ہونی چاہیے۔ اگر آپ اس میں کمی محسوس کرتے ہیں تو یقینا یہ آپ ہی کا قصور ہے اور یہ لازمی ہے کہ روزہ کی کچھ شرطیں آپ توڑ چکے ہیں، اور اس کے جو آداب نگاہ میں رکھنے کے تھے وہ آپ نے نہیں رکھے۔ جسم اور دماغ کو اگر آپ دن بھر صحیح طور پر کام میں لگائے ہوئے ہیں، تو شب کو نیند کی حالت میں بھی سُکھ ملے گا اور نیند پوری کرنے کے بعد بھی فرحت حاصل ہوگی، ٹھیک اسی طرح اگر جسم و روح کو آپ ٹھیک طور پر دن بھر مشغول رکھے ہوئے ہیں، اگر آپ وہی کرتے رہے ہوں جو ایک روزہ دار کو کرنا چاہیے تو آپ کا دن اور آپ کی رات، آپ کی صبح اور آپ کی دوپہر، آپ کا سہ پہر اور آپ کی شام، غرض آپ کے وقت کی ہر گھڑی، آپ کے دل کی کلی کو کھلی کھلی رکھے گی۔ افسردگی اور اُداسی آپ کے لیے بے مفہوم ہوگی اور سرُور و نشاط کی ہوائیں آپ کی روح کو تروتازہ رکھیں گی۔
روزہ کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے پیدا کرنے والے، آپ کے سامانِ زندگی کے مہیا کرنے والے، اور آپ کی موت اور زندگی، بیماری اور تندرستی، ہرچیز پر قدرت رکھنے والے کے سامنے عہد کرتے ہیں کہ سارے دن آپ اپنے تئیں، اپنی آنکھ اور کان، اپنے منہ اور زبان، اپنے دل اور اپنے دماغ، اپنے ہاتھ اور پیر، اپنے جسم اور جان، غرض اپنے سارے وجود کو ہر ٹیڑھی راہ سے روکے رہیں گے، ہر کجی اور کج رَوی سے باز رکھیں گے اور صرف اُسی کے لیے وقف رکھیں گے جو اُس کا اصلی کام، اُس کی سیدھی راہ، اُس کا فطری حق، اور اُس کی سچی غایت ہے۔ زبان اگر کھلے گی تو صرف کلمۂ حق پر، کان اگر سنیں گے تو صرف سچی آواز، آنکھ اگر دیکھے گی تو صرف امرِحق کو، دل اگر سوچے گا تو صرف سچائیوں کو، ہاتھ اور پیر اگر حرکت کریں گے تو صرف سچائی کی راہ میں۔ مادی زندگی کے سب سے بڑے اور طاقت ور مظہر، سورج کے ڈوب جانے پر، جب آپ اُس ذات کے شکر کے ساتھ جس نے آپ کو یہ توفیق دی، اپنا جائزہ لیں اور اپنی اس نذر کی ہر شرط کو پوری طرح ادا کیا ہوا پائیں تو___ دنیا کے کس لفظ اور کس عبادت میں اس کیفیت کو ادا کرنے کی قدرت ہے! رضاے الٰہی آپ میں اور آپ رضاے الٰہی میں جذب ہوں گے! راحت و لذت، لطف و مسرت، سرور و نشاط، شادی و انبساط، یہ سارے الفاظ اس بڑی فرحت (افطار) کی کیفیت کو ادا کرنے کے لیے ناکافی ہیں جو اُس سب سے بڑی فرحت (دیدارِ الٰہی) کا پیش خیمہ ہے، جس سے موسیٰ کلیم اللہ جیسے برگزیدہ پیمبر، باجود شوق و تمنا، اس دنیا میں محروم رہے! (سچ، ۳ مارچ ۱۹۲۷ئ)
آپ کو معلوم ہے کہ اطباے یونانی کتنے متعدد امراض میں فاقہ کو مفید بتاتے ہیں؟ آپ کو خبر ہے کہ ڈاکٹروں کے اصول سے اب فاقہ کتنے امراض کا علاج ثابت ہوچکا ہے؟ آپ واقف ہیں کہ ہر طریقۂ علاج کے ماہرین فن نے کتنی شدید اور مہلک بیماریوں کا علاج اپنے تجربہ میں فاقہ ہی کو پایا ہے؟ خود آپ کا ذاتی تجربہ کیا ہے؟ آپ کو جب کبھی بیماری میں طبیب یا ڈاکٹر فاقہ کا مشورہ دیتے ہیں تو آپ کیسی خاموشی کے ساتھ بے چون و چرا اور بغیر بحث و مناظرہ اُس کے حکم کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اُس کی ہدایتوں کے مطابق کھانے اور پینے کی لذتوں سے دست بردار ہوجاتے ہیں! لیکن جب اس سے کم تکلیف اور اس سے ہزاروں گنی زائد راحتوں اور نعمتوں کے وعدہ کے ساتھ کھانے پینے میں اس قسم کی احتیاط کا حکم آپ کو سب سے بڑے حکیم کے مطب سے ملتا ہے، تو یہ کیا ہے کہ آپ اس خوش دلی کے ساتھ اُس کی تعمیل پر آمادہ نہیں ہوجاتے بلکہ طرح طرح کی تاویلوں سے، جن سے اکثر خود آپ کا دل بھی مطمئن نہیں ہوتا اُسے ٹال جانا چاہتے ہیں!
آپ کہتے ہیں کہ آپ خدا کے فضل سے روزہ دار ہیں اور ماہِ رمضان کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں لیکن پھر یہ کیا ہے کہ آپ کی اندرونی زندگی میں کوئی نمایاں فرق نہیں محسوس ہوتا۔ غصہ اب بھی آپ کو برابر آتا رہتا ہے بلکہ شاید کچھ اور بڑھ ہی گیا ہے۔ دوسروں کی عیب چینی میں اب بھی آپ کو ویسا ہی مزہ آرہا ہے۔ نفسانی خواہشوں اور لڑنے جھگڑنے کے منصوبوں میں اب بھی کوئی کمی نہیں معلوم ہوتی۔ دن میں بے شبہہ آپ کھاتے پیتے نہیں ہیں لیکن وقت کا بڑا حصہ بجاے عبادتوں کے، سونے اور بے کاری میں گزارتے ہیں، یا پھر سحری، طعامِ شب اور افطار پارٹیوں کے اہتمام و انتظام میں! وہ لذیذ اور ثقیل غذائیں جن سے آپ کا ذائقہ، سال میں گیارہ مہینے بالکل نامانوس رہتا ہے، آپ صرف اسی ماہ صبرو تقویٰ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں، اور وقت اور روپے کا اچھا خاصا حصہ اسی ماہِ مبارک کی دعوتوں اور ضیافتوں میں صرف فرماتے رہتے ہیں! کیا اسی روزہ داری پر آپ خوش ہیں؟ کیا اسی کا نام آپ کے خیال میں ماہِ مبارک کا احترام ہے؟ (سچ، ۲۱ مارچ ۱۹۲۷ئ)
کھانا کھانے میں آپ کو لطف کس وقت آتا ہے؟ اُس وقت جب کہ بھوک کھل کر لگی ہو، یعنی کچھ دیر پیشتر سے کھانا نہ کھایا ہو۔ پانی کے گلاس میں مزہ کس وقت ملتا ہے؟ اُس وقت، جب کہ پیاس لگی ہوئی ہو، اور پانی پینے کی طلب بے قرار کر رہی ہو۔ نیند سُکھ سے کس وقت آتی ہے؟ اُس وقت، جب کہ کچھ گھنٹے قبل سے آپ برابر جاگ رہے ہوں۔ ان ساری مثالوں میں آپ کو روز مرہ، ہر وقت اور ہر جگہ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ مادی لذتوں سے بھی پوری طرح لطف اُٹھانے کے لیے کسی قدر ضبط، صبرواحتیاط لازمی ہے۔ یہی آپ کا مشاہدہ ہے، یہی آپ کا تجربہ ہے، اور اسی پر آپ کا عمل ہے۔ یہ آپ کبھی نہیں کرتے کہ مسلسل ۲۴ گھنٹے منہ میں نوالے چباتے رہیں۔ یہ کوئی بھی نہیں کرتا کہ ہرمنٹ لگاتار پانی کے گھونٹ اُتارتا رہے۔ یہ کسی کو بھی نہیں دیکھا ، کہ دن اور رات، صبح اور شام، ہر وقت برابر پڑا سوتا ہی رہے۔
’روشن خیالی‘ جب ایک قدم آگے بڑھاتی ہے، تو تعطیل اور چھٹی کو بھی انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو بنا دیتی ہے۔ اسکولوں کے کمرے، کالجوں کے ہال، عدالتِ عالیہ کے ایوان، ہفتوں سے بند چلے آرہے ہیں، اس لیے کہ موسمِ گرما کی ’تعطیل کلاں‘ کا زمانہ ہے! کچہریاں اور دفتر بند ہیں، اس لیے کہ آج بڑا دن ہے۔ ڈاک خانہ اور تارگھر، بنک اور خزانے بند ہیں، اس لیے کہ آج اتوار ہے! یہ سب اس لیے ہے کہ دماغ کو آرام ملتا رہے، اور تازہ دم ہونے کے بعد کام بہتر طور پر انجام پاتارہے۔ آپ اپنے اس نظام اور اس انتظام پر شرماتے نہیں، فخر کرتے ہیں۔ اور آپ کی عقلیت و روشن خیالی کا یہ ایک مسلّمہ ہے، کہ کام میں زیادہ مستعدی اور بہتر کارگزاری کے لیے جسم اور اعضاے جسم کو آرام دیتے رہنا لازمی ہے! یہ نہیں کہتے کہ اس سے کام میں خواہ مخواہ ہرج اور نقصان ہوتا ہے۔
لیکن جب مذہب آپ سے کہتا ہے کہ سال کے ایک خاص زمانہ میں چند گھنٹوں کے ایک محدود وقت کے لیے معدہ کو آرام دیتے رہو، بھوک اور پیاس کو ضبط کرتے رہو، تو معاً آپ کی عقلیت و روشن خیالی بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ آپ اپنے روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ، نظریات و عملیات، سب کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں، رمضان کی آمد کو اپنے لیے ایک قہرومصیبت سمجھنے لگتے ہیں۔ اور اگر زبان سے نہیں تو کم از کم دل میں تو یہ ضرور کہنے لگ جاتے ہیں کہ روزہ کی یہ قیدیں کیسی سخت ہیں۔ اور آپ کے کمزور قویٰ ہرگز اتنی بڑی محنت کو نہیں برداشت کرسکتے! بے شک اگر آپ ہزاروں روپیہ کمانے اور اُڑانے والے بیرسٹر ہیں، اگر آپ اپنی ’سرکارِ ابدقرار‘ کے بنائے ہوئے جج یا کلکٹر ہیں، اگر آپ صوبہ یا ملک کی کونسل کے ممبر ہیں، اگر آپ لاٹ صاحب اور بڑے لاٹ صاحب کی پارٹیوں میں شریک ہونے والوں میں ہیں، اگر آپ کے پاس سواری کے لیے موٹریں، اور رہنے کے لیے اُونچی اُونچی کوٹھیاں موجود ہیں، تو آپ کی محرومی اور حرماں نصیبی نے، اجرِروحانی و راحتِ سرمدی کی طرح، روزمرہ کی مادی لذتوں اور جسمانی فائدوں کا بھی دروازہ آپ پر بند کر رکھا ہے، اور آپ کی اس بے مائیگی پر جن و بشر، حوروملائک جتنا بھی ترس کھائیں کم ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی خوش بختی سے کوئی غریب کاشتکار ہیں، کوئی مفلس مزدور ہیں، کوئی کم حیثیت خدمت گار ہیں، بھاری بھاری بوجھ کی گٹھریاں اور گٹھے اپنے سر پر لادنے والے ہیں، دھوپ میں جل جل کر اور بھن بھن کر کام کرنے والے ہیں، تو ان شاء اللہ آج آپ اپنے خالق و مالک کے حکم کی تعمیل میں رمضان المبارک کی بارانِ رحمت سے سیراب ہورہے ہوں گے! یقین کیجیے کہ آج آپ کے مرتبے پر، زمین پر بسنے والے نہیں، آسمان پر اُڑنے والے، فضاے قُدُس میں سانس لینے والے، حریمِ عرش کے پایے تھامنے والے رشک کر رہے ہیں! ممکن ہے کہ آج یہ شاعری معلوم ہورہی ہو لیکن کل ان شاء اللہ حقیقت ہوکر رہے گی، اور اُن بے خبروں کو بھی خبردار کرکے رہے گی، جو آج روزہ داری کے طبی فوائد اور مادی لذتوں سے بھی محرومی میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں! (سچ، ۳مارچ ۱۹۲۸ئ)۔ (انتخاب: تفسیر ماجدی، ص ۱۰۲-۱۰۴)
انسان پر زندگی میں کئی بار ایسا وقت آتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے اُسے اپنی ذات فنا ہوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے کسی پیارے کسی عزیز کو کرب میں مبتلا دیکھ کر کرب و ابتلا کے پہاڑ تلے دب جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اُس کی نظر جس پر ٹھیرتی ہے اور جہاں سے اُسے مدد کی اُمید نظر آتی ہے، وہی دراصل اُس کا اِلٰہ ہے۔
ایسے حالات میں انسان کی نظر اگر کسی انسان پر ٹِک جائے (مثلاً اعلیٰ افسر، وزیر، مشیر یا حکمران) تو وہ فرد اِلٰہ ہے۔ اگر ایسے وقت میں خاندان، برادری، قوم اور قبیلہ یاد آئے تو پھر مقامِ الوہیت پر یہ قوم و قبیلہ فائز ہے۔ کسی کو اپنی دولت، عزت یا شہرت پر بھروسا ہو تو پھر یہ چیزیں اُس انسان کے لیے مقامِ الوہیت پر فائز ہیں۔
بندئہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ تنگی اور راحت، ہر حال میں رب کی رضا پر راضی، اُسی کی عطا اور بخشش کا امیدوار اور اُسی کے خزانے پر نظر ٹکائے رکھتا ہے۔ اپنی ضرورتوں، پریشانیوں، تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کے لیے اُسی کی جناب میں اس کے ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور بے اختیار ہونٹوں سے دُعائیہ کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ رب کو بندوں کی یہ ادا بہت ہی پیاری ہے۔ اسی لیے فرمایا:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) (اے نبیؐ!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں (تو بتا دیجیے) پس میں اُن کے قریب ہوں۔ دُعا مانگنے والے کی دُعا کو قبول کرتا ہوں۔ پس اُنھیں چاہیے کہ وہ بھی میرا حکم مانیں اور مجھ پر (پختہ) ایمان لائیں تاکہ سیدھی راہ پا سکیں۔
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۰) اور تمھارا رب یہ کہتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں اُس کا جواب دوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے، جہنم میں عنقریب ذلیل و خوار ہوکر داخل ہوںگے۔
ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (المومن ۴۰:۶۵) وہی ہے جو زندہ رہنے والا ہے اُس کے علاوہ کوئی اِلٰہ نہیں۔ پس اُسی کوپکارو اوراُس کے لیے اپنا دین خالص کرو۔
مسنداحمد اور سنن ترمذی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا ہی دراصل عبادت ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔ مشکوٰۃ میں سنن ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ پسندیدہ کوئی اور عمل نہیں ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جواللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس پر غضب ناک ہوجاتا ہے‘‘۔ سنن ابوداؤد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا رب حیاکا پیکر اور صاحب عزت و تکریم ہے وہ اِس بات سے شرماتا ہے کہ بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘۔
قرآن و سنت کے اِن دلائل سے ثابت ہوا کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی اور ذات ایسی نہیں جس سے دعا کی جاسکے۔ دعا عبادت کی ایک شکل اور دین کا نچوڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ نہایت پسندیدہ عمل ہے اور جو دعا سے بے نیاز ہوجائے وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوجاتا ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے اِس روایت میں اِس قدر اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دعا اُس کی آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے۔ اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب آخرت میں بندہ اپنی غیرمقبول شدہ دعائوں کا اجر دیکھے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اُس کی کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی اور آج اُسے سارے کا سارا اجر مل جاتا۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ اللہ اپنے بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھ خالی نہیں لوٹاتا۔ اُس کی دعا کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول ہوتی ہے یا اُسے وہ چیز عطا کردی جاتی ہے، یا اُس سے کوئی مصیبت، تکلیف ٹال دی جاتی ہے، یا اُس کی یہ دُعا آخرت کے لیے محفوظ کرلی جاتی ہے جہاں وہ اپنی اِن دعائوں کو پاکر خوش ہوجائے گا۔
اس بے بہا اجر، رب سے تعلق اور اُس کی رحمت کی اُمید کی بنیاد پر بندۂ مومن نامساعد حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا۔ اُس کی نظر غیراللہ کی طرف نہیں اُٹھتی اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ انجامِ کار اُس کے لیے ہی بھلائی، خوشی اور راحت کا سامان موجود ہے۔
جس کسی نے بھی تفہیم القرآن کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ایک عجیب و غریب تفسیر ہے۔ قرآن کے مقصد ہدایت سے بالکل جڑی ہوئی ہے، لیکن بیش بہا علمی خزانہ ہے، معلومات کا سمندر ہے۔ علوم اسلامی کی کسی بھی شاخ کا آپ نام لیں، اس کے بنیادی مباحث آپ کو اس میں مل جائیں گے۔ سیرت نبویؐ کا مطالعہ کرنا ہو تو تفہیم القرآن، احکام القرآن کا مطالعہ کرنا ہو تو تفہیم القرآن، قصص الانبیا کا مطالعہ کرنا ہو تو تفہیم القرآن، توحید رسالت اور آخرت کے دلائل، اعتراضات اور ان پر ساری بحثیں دیکھنی ہو تو تفہیم القرآن، جو جدید علوم مرتب ہوئے ہیں، ان کی آپ فہرست بنا لیں، ان کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر جاننا ہو تو تفہیم القرآن۔
سچ یہ ہے کہ ہم ناقدروں نے اس کی قدر نہیں کی ہے۔ زبانی بیان کلام تو ہوتا ہے لیکن جس طرح ہر کارکن کو اسے حرزِ جاں بناکر روزمرہ زندگی کو اس سے جوڑنا چاہیے، وہ ہم خود جانتے ہیں کہ کتنا کررہے ہیں۔ احتساب ہی ہوتا رہتا ہے کہ روزانہ آدھ گھنٹہ بھی اسے دیتے ہو کہ نہیں۔ صرف اسی کتاب کو جدید طریقے اختیار کرکے معاشرے میں پھیلا دیا جائے تو دعوتِ اسلامی کی آدھی سے زیادہ مہم سر ہوجائے گی۔ لیکن ہرکام کرنے سے ہوتا ہے، اور اس کے کچھ آداب اور طریقے ہوتے ہیں۔ وہ اختیار نہ کیے جائیں تو نتیجہ نہیں ملتا۔ کوتاہ نظروں کی نظر اصل سبب تک نہیں جاتی۔
کوئی کمپنی نیا بسکٹ لاتی ہے، نیا شیمپو لاتی ہے تو میڈیا اور اخبارات کے ذریعے ہر گھر میں اس کی اطلاع اور پیغام پہنچ جاتا ہے۔ لیکن دیکھیے ۳۰، ۴۰ سال میں سب ملا کر بھی کیا ایک بسکٹ کے برابر اشتہاری بجٹ تفہیم القرآنکی اطلاع اُردو پڑھنے والوں تک پہنچانے کے لیے صرف کیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ رقم جیب سے صرف نہیں کرنا ہے، خریدار ہی اطلاع پانے کی قیمت بھی اصل کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ لیکن ہم نرالے لوگ ہیں، خزانے چھپا کر رکھتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے۔
یہ طویل تمہید اس بات کے لیے ہے کہ یہ آگاہ کیا جائے کہ یہ ۶جلدوں کی تفہیم القرآن (تقریباً۴ ہزار صفحات) ایک اچھے معیاری dvd میں صرف -/۱۰۰ روپے ہدیے میں دستیاب ہے۔ mp3 سی ڈی پر بھی ۶جلدیں ۴ سی ڈی کے پیک میں -/۲۰۰ روپے میں مل جاتی ہیں۔ آپ کے پاس سی ڈی پلیئر ہے، dvd پلیئرہے، کمپیوٹر ہے، آپ کی گاڑی میں مناسب gadget لگا ہے تو آپ اس خزانے اور سمندر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں (چاہے آپ کو پڑھنا نہ آتا ہو)۔ کچن میں کام کرتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے۔
پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں یہ خوشبو کی طرح پھیل رہی ہے۔ اس کی نشرواشاعت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ کتنے ہی اداروں اور افراد نے اسے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے۔ اس کا نفع ہی یہ ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ افراد تک جائے، دنیا کے ہرکونے میں پھیلے۔ اس میں مسجدنبویؐ کے امام علی عبدالرحمن حذیفی کی خوش الحان تلاوت ہے، ریڈیو پاکستان کے مشہور براڈکاسٹر عظیم سرور کے باوقار لہجے میں سیدمودودی علیہ الرحمہ کی ادوئے مبین پڑھی گئی ہے اور حواشی کی پہلی تین جلدیں سیدسفیرحسن مرحوم کے دل نواز لہجے میں اور آخری تین جلدیں پروفیسر عبدالقدیر سلیم کے ٹھیرے ہوئے لیکن رواں دواں لہجے میں ہیں۔ جس نے بھی اسے سنا ہے اسے معیاری پیش کش قرار دیا ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ ناخواندگی ہے۔ جو پڑھنا جانتے ہیں وہ احساس ہی نہیں کرسکتے کہ آج کے دور میں جسے پڑھنا نہیںآتا وہ کس طرح کی زندگی گزارتا ہے۔ اس سی ڈی کی اصل خدمت یہ ہے کہ اس نے اس خزانے کو جس سے ناخواندہ بالکل محروم تھے ان کی پہنچ میں کردیا ہے۔ ناخواندہ لوگوں میں بڑے بڑے معاملہ فہم، ذی فہم اور عالم اور فاضل (غیرکتابی) ہوتے ہیں (جس طرح پڑھے لکھوں میں بھی جاہل پائے جاتے ہیں)۔ یہ ناخواندہ لوگ اب ایک پروگرام کے تحت اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اسے سننا ایک صرف ایک شغل نہیں ہے، اسے کورس کی طرح پڑھنا اور ساتھ ساتھ سننا چاہیے۔ مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ بہترین ہے کہ آپ کی نظریں الفاظ پڑھ رہی ہوں اور آپ کے کان میں وہ الفاظ پڑھ کر سنائے جا رہے ہوں۔ ضرورت ہے کہ اس کی وڈیو بنائی جائے تاکہ کتاب ہاتھ میں لینے کے بجاے اسکرین پر پڑھی جاسکے۔
جو لوگ اس ملک میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور ملک و قوم کو عروج کے راستے پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ حقیقی عروج و ترقی اور دنیوی و اُخروی فلاح قرآن کے ساتھ وابستہ ہوکر ہی ہو حاصل کی جاسکتی ہے اور قرآن سے جڑنے کا، اس کی تعلیمات کو زندگی کا حصہ بنانے کا سب سے کارگر نسخہ تفہیم القرآن کا مطالعہ ہے۔
۱- اس سی ڈی کی مدد سے پورے ملک میں ایسا ایک سلسلہ بنایا جاسکتا ہے کہ روزانہ یا ہفتے کے کچھ مقررہ دن مختلف گروپ ایک دو گھنٹے یا زیادہ کے لیے بیٹھیں اور اسے سنیں۔ تفہیم القرآن خود استاد ہے۔ سننے والے جہاں چاہیں رُک کر اس پر بات چیت، تبادلۂ خیال کرلیں اور پھر آگے بڑھیں۔ ۱۸۰ گھنٹے کا یہ کورس ایک پروگرام کے تحت ایک متعین مدت میں ختم ہوسکتا ہے۔
۲- اسی تجویز کو مزید specific کیا جائے تویہ کہا جاسکتا ہے کہ طلبہ و طالبات کے ہوسٹلوں میں یہ ایک رو چلا دی جائے کہ روزانہ عشاء کے بعد ایک گھنٹہ کاغذ قلم ہاتھ میں لے کر تفہیم القرآن پڑھی اور سنی جائے گی۔ اس طرح ۶ ماہ کایہ کورس ۸،۹ ماہ یا سال میں بھی ختم ہوجائے تو نقصان کا سودا نہیں۔
۳- ہمارے اپنے جتنے دینی مدارس ہیں یا جن مدارس میں ہمارا دخل ہے، وہاں تفہیم القرآن کے ۳ماہ اور ۶ ماہ کے کورس بنائے جاسکتے ہیں جس میں روزانہ زیادہ وقت اور توجہ دے کر اسے پڑھ کر جذب و ہضم کیا جائے۔ یہ مدارس اس کا کوئی سرٹیفیکیٹ بھی جاری کرسکتے ہیں جو حقیقی قابلیت کا تصدیق نامہ ہوگا۔
۴- اس کے لیے انسٹی ٹیوٹ بن سکتے ہیں جن کا مقصد اور بنیادی پروگرام ہی تفہیم القرآن کی تدریس ہو۔ جہاں عمر اورقابلیت کی بنا پر مختلف گروپس بنائے جائیں اور اساتذہ موجود ہوں (حسبِ ضرورت سمجھانے اور امتحان لینے کے لیے)۔
۵- رمضان میں دورۂ تفسیر قرآن کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔ ۶ تا ۸ گھنٹے روزانہ درس ہوتا ہے۔ کیوں نہ سیدمودودیؒ کو استاد بنا کر یہ دورہ کیا جائے! شرکا ۶گھنٹے روز تفہیم القرآن سنیں۔ کوئی استاد وضاحت و تشریح کے لیے ہو۔ ۳۰، ۳۵ دن میں چھے کی چھے جلدیں سن لی جائیں (اور ساتھ ہی ساتھ پڑھ بھی لی جائیں)۔
جن حضرات و خواتین نے تفہیم القرآنکا مطالعہ کیا ہے وہ ایک لمحے کے لیے رکیں اور سوچیں اور بتائیں کہ اگر کوئی تفہیم القرآن کو اس طرح غوروفکر کے ساتھ پڑھ لے کہ اس کے مضامین اس کے ذہن نشین ہوجائیں اور وہ اس پر سوالات اور انٹرویو میں ۷۰، ۸۰ فی صد نمبر لے تو اس کی قابلیت اور دانش اور فہم اور حالات پر نظر ہمارے بی اے، ایم اے یا درس نظامی کے فارغ التحصیل کے مقابلے میں کیسی ہوگی۔
ہم دین کے لیے اللہ کی رضا کی خاطر بہت سے کام کرتے ہیں۔ ہماری توجہ اس طرف کیوں نہیں جاتی۔ کیا یہ سیدمودودی کی بدنصیبی نہیں کہ ان کے پیروکار تشہیر کے جدید ذرائع اختیار کرکے اور مارکیٹنگ کے تمام طور طریقوں اور تدبیروں کو بروے کار لاکر پاکستان، ہندستان اور ساری دنیا کے اُردو پڑھنے والے لوگوں میں اس عظیم کتاب کو hottest item نہیں بناتے۔ اس میں جو پیسہ لگے گا وہ خریدنے والے واپس کردیں گے لیکن کچھ خیرخواہوں، مخلصوں کو lip service سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔ جو بھی سید سے محبت و تعلق کا دعوے دار ہے، ان کے پیغام کے مطابق زندگی گزارنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، اسے تفہیم القرآن کے حوالے سے اپنا حصہ ضرور ادا کرنا چاہیے۔
رمضان المبارک میں پورے ملک میں ہزاروں حلقہ ہاے مطالعہ قرآن دو، اڑھائی گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ خواتین کی اس طرف زیادہ توجہ ہے حالانکہ مرد بھی کم فارغ نہیں ہوتے۔ ان حلقوں میں ترجمۂ قرآن کی سی ڈی (دورانیہ ۵۶ گھنٹے) ایک پروگرام کے تحت ایک ماہ یا جیسا مناسب ہو، روز سنی جاسکتی ہے۔ اس سی ڈی میں امام حذیفی کی قراء ت اور عظیم سرور کی آواز میں ترجمہ ہے۔
ارکانِ اسلام میں نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ اور عشر کی ادایگی ہے۔ قرآن پاک میں بھی صلوٰۃ و زکوٰۃ کا ذکر اکثر ساتھ ساتھ ملتا ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے مالی نظام کی بنیاد اور معاشی مسائل کا حل ہے، نیز انفرادی تزکیے کا بھی ذریعہ ہے۔ اسلامی حکومت قائم ہو اور وہ سب سے زکوٰۃ اور عشر مکمل وصول کرے (جیساکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کیا تھا) تو معاشرے کے بہت سے مسائل جو آج عذابِ جاں اور سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں، حل ہوجائیں۔
دورِ زوال میں بھی مسلمانوں نے زکوٰۃ ادایگی کو بطور ایک فرض کے برقرار رکھا ہے۔ جسے بھی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کا احساس ہے وہ فکرمندی سے اپنی زکوٰۃ کا حساب کرتا اور ادا کرتا ہے۔ عموماً یہ ۷۰ گنا زیادہ اجر کی وجہ سے رمضان میں ادا کی جاتی ہے (حکومت بھی یکم رمضان کو سیونگ اکائونٹ سے زکوٰۃ منہا کرتی ہے)۔ اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے، دعوتی منصوبے مکمل ہوتے ہیں، مدارس کا پورا نظام چلتا ہے۔
زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو بہت احتیاط سے زکوٰۃ کا حساب لگا کر ادا کرنا چاہیے۔ کسی رقم پر زکوٰۃ فرض ہو اور نہ دی جائے تو وبال ہوگا۔ خود ضروری علم نہ رکھتے ہوں تو جاننے والوں سے پوچھ کر ادا کرنا چاہیے۔ کچھ ضروری امور درج ہیں:
۱- وہ مال جو ایک سال گزرنے کے بعد اخراجات سے بچا ہوا ہو اور ساڑھے سات تولے یا ساڑھے باون تولے چاندی یا ان کی مالیت کے برابر ہو۔
۲- ساڑھے سات تولے سونا ۴۸ئ۸۷۱ گرام اور ساڑھے باون تولے چاندی ۳۶ئ۶۱۲ گرام کے برابر ہے۔
۳- اگر صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولے نصاب ہوگا۔ اگر سونے کے ساتھ چاندی ہو یا کسی دوسری قسم کا مال بھی ہو، تو نصاب ساڑھے باون تولے چاندی یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس کی قیمت کے برابر ہوگا۔
زکوٰۃ کے اثاثے
بنکوں کے سیونگ اکائونٹ میں جو رقم محفوظ ہوتی ہے، حکومت اس کی زکوٰۃ کی کٹوتی کرتی ہے۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کھاتہ داروں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ خود دینا چاہیں تو رمضان سے ایک ماہ پہلے کی درخواست دے کر استثنا حاصل کرسکتے ہیں۔
بعض لوگ صرف زکوٰۃ دینے پر اکتفا کرتے ہیں حالانکہ اُمت مسلمہ کی تمام ضروریات زکوٰۃ سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے کہ زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں متعین کردیے گئے ہیں۔ اسے صرف انھی آٹھ مصارف میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ باقی ضروریات پورا کرنے کے لیے نفل صدقات اور انفاق کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنا بھی غنی اور مال دار لوگوں پر فرض ہے۔ اگر سب مسلمان اپنی زکوٰۃ پوری کی پوری ادا کریں اور غربا و مساکین اور اُمت مسلمہ کی دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نفل صدقات حسبِ ضرورت دیں، تو مسلمان ممالک معاشی لحاظ سے اتنے مضبوط ہوجائیں کہ انھیں کسی ملک سے سودی یا غیرسودی قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قرآن پاک میں جہاں زکوٰۃ کا ذکر ہے اسی جگہ نفل صدقات کا بھی ذکر ہے:
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ (البقرہ ۲:۱۷۷) اور دیتے ہیں اللہ کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں اور گردنوں کو آزاد کرنے میں اور قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے‘‘ (ترمذی)۔ پھر آپؐ نے اسی مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَo(التوبۃ۹:۳۴-۳۵) جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دیجیے۔ جس دن اسے دوزخ کی آگ میں تپا کر ان پر رکھا جائے گا پھر ان کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور ان کی پیٹھوں کو ان کے ساتھ داغا جائے گا، ان سے کہا جائے گا، کہ مزہ چکھو اس خزانے کا جسے تم جمع کرتے تھے۔
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰) وہ لوگ جو اس مال کو جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے، بلکہ وہ مال، جس کو دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، ان کے حق میں بُرا ہے۔ قیامت کے دن اسے ان کی گردنوں کا طوق بنا دیا جائے گا۔
آج کل بڑے پیمانے پر شعوری اور غیرشعوری طور پر ایسا ہو رہا ہے۔ بعض لوگ مسلمان ہونے کے باوجود، زکوٰۃ کا فرض ادا نہیں کرتے اور جوادا کرتے ہیں وہ اپنے مال کے ایک حصے کی زکوٰۃ دے دیتے ہیں اور دوسرے حصے کی زکوٰۃ کو عموماً لاعلمی کی وجہ سے نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور دوسروں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر ہڑپ کرنے سے بچنا چاہتے ہیں، لازم ہے کہ وہ پوری احتیاط سے کام لیں اور سال کے جس حصہ میں وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، وہ اس موقع پر اپنے ایسے سارے مال کی زکوٰۃ دیں جس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ سکیں۔
۱- سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زکوٰۃ خلوصِ نیت سے ادا کیجیے۔ محض خدا کی رضا اور آخرت کے اجروثواب کو پیش نظر رکھیے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصود آپ کے سامنے نہ رہے۔ خدا ایسے ہی لوگوں کے مال و دولت میں خیروبرکت فرماتا ہے جو محض خدا کو خوش کرنے کے لیے پوری رغبت اور فراخ دلی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
۲- زکوٰۃ میں وہ مال دیجیے جو آپ کی نظر میں بہتر ہو۔ غور کیجیے آپ جب دوسروں سے کچھ لیتے ہیں تو کبھی خراب اور گھٹیا چیز نہیں لیتے اور پوری احتیاط اور باریک بینی سے اچھے سے اچھا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ واقعی زکوٰۃ کی اہمیت کو محسوس کرکے زکوٰۃ دیتے ہیں اور دین و دنیا میں خدا کی رحمتوںکے طالب ہیں تو خدا کی راہ میں ایسا مال دیجیے جو آپ کی نظر میں سب سے بہتر ہو، اور جو خدا کے غریب بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ بخش ہو۔
۳- آپ جس کو زکوٰۃ دیں اس میں احساسِ کمتری نہ پیدا ہونے دیں، اسے نیچا نہ رکھیں، اس کی دل آزاری نہ کریں اور کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے اس کی خودداری کو ٹھیس لگے۔
۴- زکوٰۃ دے کر آپ اترائیں نہیں، اپنی بڑائی نہ جتائیں بلکہ خدا کا تہِ دل سے شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق دی اور آپ کو یہ موقع بخشا کہ آپ کے ہاتھوں سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ ہو اور آپ کو اپنا فریضہ ادا کرنے کا موقع ملا۔
۵- جس کو زکوٰۃ دیں اس پر کوئی احسان نہ جتائیں۔ آپ کے پاس اپنا ہے کیا جو احسان جتائیں! آپ تو خود خدا کے محتاج ہیں، آپ کیا، سارے ہی انسان اس کے محتاج ہیں، غنی اور بے نیاز تو صرف خدا ہے (وَاللّٰہ الْغَنی وَانتُمْ الْفُقَرَآئُ ج ’’اللہ ہی غنی ہے اور تم سب محتاج ہو‘‘۔ محمد ۴۷:۳۸)۔ آپ کو خدا نے جو کچھ دیا تھا اسی لیے تو، کہ آپ اپنے کام میں لائیں اور خدا کے دوسرے بندوں کا حق ادا کریں۔ کیا حق دار کا حق دے کر کوئی احسان جتاتا ہے؟ رسولِؐ خدا نے فرمایا، خدا اس شخص کو ہم کلامی کے شرف اور نظرعنایت سے محروم رکھے گا جو کسی کو عطیہ دے کر احسان جتاتا ہو۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے آسمانی کتاب کی اس آیت پر غور کیجیے اور بار بار غور کیجیے:
اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لَہٗ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ اَصَابَہُ الْکِبَرُ وَ لَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآئُ فَاَصَابَھَآ اِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۶۶) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرابھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں، انگوروں اور ہرقسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اسی وقت تیزگرم بگولے کی زد میں آکر جھلس جائے جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غوروفکر کرو۔
سوال: جس طرح ہم یہ بات مانتے، جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کفروایمان میں فرق ظاہر کرنے والی عملی چیز صلوٰۃ ہے، اسی طرح یہ چیز بھی معلوم ہے کہ محرم رشتوں کے علاوہ مخلوط سماجی تعلقات یا سرگرمیاں حدوداللہ کو توڑنے کے ہم معنی ہیں۔ بہرحال اس چیز کو اسلامیانِ عالم کی پسپائی سمجھ لیجیے یا عصری حالات کا جبر، کہ بالخصوص پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں یا بالعموم عمومی تعلیم کے اعلیٰ اداروں میں مخلوط تعلیم اور مخلوط تدریس سے مفر دکھائی نہیں دیتا۔ اور اگر کہیں بظاہر خواتین کا کوئی اچھا تعلیمی ادارہ بنا بھی لیا گیا تو وہاں پر بھی مرد اساتذہ کی مدد کو جھٹکنا ممکن نہیں ہوسکا۔ خاص طور پر میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم میں___ اس مناسبت سے چار سوالات پیشِ خدمت ہیں، براہِ کرم ان کے جوابات نظریاتی سے زیادہ عملی حوالے سے مرحمت فرمائیں۔
۱- مخلوط تعلیم کے اداروں میں، ہمیں یعنی طلبہ و طالبات کو سماجی سطح کے تعلقات، سماجی تعامل، مکالمے، عملی ضروریات کے لیے مدد وغیرہ کے لیے کیا احتیاطیں ملحوظ رکھنی چاہییں؟
۲- ایک بگڑے معاشرے کے بگڑے ہوئے تعلیمی ماحول میں دین، دعوت، تنظیم اور تربیت کے کاموںمیں ہم خیال طلبہ و طالبات کو کس طرح مخاطب کیا جائے اور کس طرح مدد فراہم کی جائے؟
۳- چلیے دعوت اور تنظیم کے لیے الگ دائروں میں ہم نے کام کو آگے بڑھا لیا لیکن اب جو اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کا مرحلہ آرہا ہے، اس میں تو مشاورت اور تعاون کے لیے طلبہ و طالبات کو فعال طور پر اپنے دائرہ تعارف و حمایت میں وسعت لانا ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ہم اس میں بہت زیادہ سمٹے رہیں گے، جس کا فوری وزن دوسرے پلڑے میں جائے گا (یاد رہے کہ اب خاص طور پر میڈیکل کالجوں میں تو ۶۰ فی صد، ۶۵ فی صد رول نمبر تو طالبات ہی کے ہیں۔ یہ صورت ماضی کی نسبت یک سر مختلف ہے، تب ۱۰، ۱۵ فی صد طالبات ہوا کرتی تھیں)۔
۴- اور جہاں تک ایک طالب علم کے لیے، مخلوط تعلیم میں پھن پھیلائے جذباتی مسئلے کا تعلق ہے، اس سے بھلا وہ کیسے عہدہ برا ہوسکے؟
جواب: آپ نے جو سوالات اُٹھائے ہیں وہ ایک مستقل مضمون کے متقاضی ہیں لیکن اختصار کے ساتھ چند نکات میں ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ سوالات میری ناقص راے میں کسی بگڑے ہوئے معاشرے ہی میں نہیں، ایک بہت عمدہ اسلامی معاشرے میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق تعلیم، تعلیم گاہ، فلسفۂ تعلیم اور تعلیمی ماحول سے ہے۔ قرآن و سنت نے حصولِ تعلیم کو مرد اور عورت دونوں پر فرض کیا ہے۔ چنانچہ وہ اہلِ ایمان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس قرآن اور نبی برحق، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنے کے لیے علم کے ذریعے ان دونوں مصادر سے آگاہی حاصل کرے اور بربناے علم اپنے ایمان کی تکمیل کرے۔ دورِاوّل میں جس طرح خاتم النبیینؐ نے بذاتِ خود مردوںاور عورتوں کی تعلیم کا اہتمام کیا وہ واضح ہے۔ جو معاملات عمومی ہدایت چاہتے تھے ان کے ضمن میں آپؐ نے اور قرآن نے دونوں کویکساں خطاب کیا، اور جہاں کوئی خصوصی بات سمجھانی تھی وہاں اُمہات المومنینؓ کے ذریعے صحابیاتؓ کو وہ بات سمجھا دی گئی۔
تفسیر، حدیث اور فقہ تینوں علوم جہاں نظری ہیں وہاں تطبیقی بھی ہیں۔ جس طرح طب میں پہلے دو سالوں میں بنیادی علوم اور پھر طبی اور جراحی علوم سکھائے جاتے ہیں، ایسے ہی قرآن و حدیث کی تطبیق بھی اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کی تعلیم کے ذریعے عملی میدان میں کی جاتی ہے اور پھر اصولوں کی روشنی میں روزمرہ کے عملی مسائل (معاشی، سیاسی، معاشرتی یا تعلیمی) پر ان اصولوں کی تطبیق کرکے ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اسی کا نام اجتہاد ہے۔
مردوں اور عورتوں کے درمیان تبادلۂ خیالات یا حصولِ معلومات کے لیے حکمت عملی خود قرآن کریم نے یہ حکم دے کر طے کر دی تھی کہ اُمہات المومنینؓ سے جب کوئی سوال کیا جائے تو وہ پردے کے پیچھے سے اس کا جواب دیں اور ایسے انداز میں دیں جو اُمت کی مائوں کو زیب دیتا ہو۔ حج اور عمرہ کے علاوہ کوئی اور ایسا تربیتی موقع نظر نہیں آتا، جہاں پر مخلوط ماحول کو برداشت کیا گیا ہو۔ لیکن اسے بھی مخلوط اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ مرد اور عورتیں اپنے اپنے محرم کے ساتھ غیرمعمولی انہماک اور توجہ کے ساتھ عبادت میں اِس طرح مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ دو قدم پر جو خاتون یا مرد طواف یا سعی میں مصروف ہے وہ جاذبِ نظر ہے یا نہیں۔ اس لیے خوفِ الٰہی اور تقربِ الٰہی کے ایسے ماحول میں مردوں اور عورتوں کے اجتماع کو مخلوط سماجی سرگرمیوں کے لیے نہ تو دلیل بنایا جا سکتا ہے اور نہ ان جیسا روحانی فائدہ کسی سائنسی تجربہ گاہ، لائبریری، سیمی نار روم یا کمرۂ درس میں مخلوط ماحول کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسلام نے محرم اور غیرمحرم کے اخلاقی اور قانونی تصور کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہا ہے جس میں برائی کے ممکنہ ذرائع کو کم سے کم اور بھلائی کے معروف ذرائع کو زیادہ سے زیادہ رائج کیا جاسکے۔ اس پس منظر میں غضِ بصر، غضِ صوت، چلنے کا انداز، حضروسفر میں محرم و غیرمحرم کی تخصیص، جسم کا مس نہ کرنا___ قرآن و سنت کی اتنی واضح تعلیمات ہیں جنھیں کوئی معقول شخص نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ان حدود میں رہتے ہوئے کالج اور یونی ورسٹی کے انتخابات ہوں یابحالت مجبوری سماجی سرگرمیاں یا حصولِ تعلیم کے لیے طبی کالج یا سماجی علوم کے شعبے میں تعلیم کا معاملہ ہو، ایک نوجوان طالب علم اور طالبہ دونوں کو اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
جب بھی کوئی مثالی اسلامی معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی اُس میں ہر صنف کی ضروریات اور معاشرے میں کردار کے پیش نظر نصابِ تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیاں اختیار کی جائیں گی کیونکہ اسلام بنیادی طور پراختلاطِ مرد و زن کو ناپسند کرتا ہے اور ہرصنف کے لیے ایک مناسبِ حال نظامِ عمل تجویزکرتا ہے۔ مکمل اسلامی معاشرے میں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرہرشعبۂ تعلیم میں علم، تجربہ اور مہارت کے لحاظ سے مساوی طور پر مردوں اور عورتوں میں ماہرینِعلم وفن کی مطلوبہ تعداد موجود ہو، مثلاً خود اوّلین اسلامی معاشرے میں عظیم صحابہ کی موجودگی میں اُم المومنین سیدہ عائشہؓ نے فقہ کے میدان میں فقہاے سبعہ کو تعلیم دی جس سے یہ مطلب نہیںنکالا جاسکتا کہ وہ آج کل کی طرح ان کے سامنے آکر لیکچر دیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے قرآن نے اُمہات المومنینؓ کے لیے جو حدود متعین کردی تھیں وہ ان کی کماحقہٗ پیروی کرنے والی ہستی تھیں لیکن اس سے یہ بات بہرحال واضح ہوتی ہے کہ اگر ایک دور میں ایک مرد یا ایک خاتون علم کے ایسے مقام پر ہو کہ اُس جیسے اور بہت سے افراد نہ ہوں تو اس سے استفادہ کرنے میں یہ تخصیص نہیں کی جائے گی کہ وہ صرف مردوں یا صرف عورتوں کی تعلیم و تربیت تک ہی محدود ہو۔
طب کے شعبے میں خصوصاً یہ دقت پیش آتی ہے کہ بعض تخصصات میں خواتین مردوں سے زیادہ مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہیں، مثلاً بچوں کا شعبہ، دانتوں کی اصلاح کا شعبہ یا زچگی کا شعبہ۔ اس کے مقابلے میں قلب کی جراحت یا بینائی کے شعبے میں عموماً مرد زیادہ مہارت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی شکل اسلامی علوم میں پیش آئے گی۔ تفسیر، حدیث، فقہ، لغت، ادیان المقارن میں ضروری نہیں کہ ہرشعبے میں ہردو صنف یکساں مہارت کے ساتھ موجود ہوں، گو ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے ہردو اصناف میں اتنے ماہر پیدا کیے جائیں کہ تعلیمی اور تربیتی اداروں میں اشتراک کی ضرورت نہ پڑے۔
جہاں تک سماجی سطح پر تعامل کا معاملہ ہے ناگزیر صورت حال کے علاوہ اجنبی مرد اور عورت کا تنہائی میں بیٹھنا صحیح حدیث کی روشنی میں حرام ہے۔ اجتماعی سرگرمی ہو اور بولنے کے آداب، لباس کے آداب پر عمل کیا جا رہا ہو اور جسمانی فاصلے بھی ہوں تو ضرورت کی حد تک بات کرنے میں کوئی ممانعت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس کا مقصد محض گپ شپ اور بے معنی یا بہت پُرمعنی گفتگو نہ ہو بلکہ کسی مشکل کا حل، کسی ہدف کے حصول کے لیے، اجتماعی مشورہ کرنا ہو اور اس میں بھی کسی کے ساتھ لگاوٹ کی بات شامل نہ ہو تو تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں دعوتی مہم ہو یا الیکشن کی مہم، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ طالبات میں کام کرنے والی کارکن طالبات ہی ہوں اور قیادت کی سطح پر اگر ان سے مشورہ کرنا ہو تو کسی ایسے ذریعے سے کیا جائے جو ان کا محرم ہو۔ یہ مشکلات دعوتی سفر کا حصہ ہیں اور محض نیک نیتی کی بنیاد پر ان بہت سی باتوں کو جنھیں شریعت نے ناپسند کیا ہے مباح نہیں بنایا جاسکتا۔ ’ضرورت‘ کی اصطلاح فقہ میں ان امور کے لیے ہے جن کے نہ کرنے سے ضرر واقع ہو۔ اس لیے ہرمعاملے کو ضرورت نہیں کہا جاسکتا۔ کسی ایسے کام کا کرنا جس کے نہ کرنے سے مقاصدِ شریعت میں خلل واقع ہو، ضرورت کی تعریف میں آتے ہیں۔
مخلوط ماحول میں صرف ایک چیز انسان کو فتنے سے بچاسکتی ہے اور وہ ہے اپنے رب کی ناراضی سے بچنے کی تڑپ اور خواہش اور مسلسل احتسابِ نفس کے ذریعے ہر قدم پر شیطان کے ان عقلی دلائل سے محفوظ رہنا جو شیطان جھوٹی اور غیرمحسوس برائی کے ذریعے بڑی برائی تک لے جانے کے لیے پیش کرتا رہتا ہے۔ وساوس سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب طلبہ اور طالبات میں قرآن کریم کے ساتھ تعلق، سیرت پاکؐ سے آگاہی اور مسلسل تزکیۂ نفس کی خواہش موجود ہو۔
اصولاً تو یہی ہونا چاہیے کہ دعوتی اجتماعات غیرمخلوط ہوں اور خواتین میں اہلِ علم خواتین قیادت کے فرائض انجام دیں لیکن جب تک یہ شکل پیدا نہ ہو، مشترکہ اجتماعات میں علیحدہ نشستوں کا بندوبست کرکے دعوتی کام کیا جاسکتاہے۔ یونی ورسٹیوں میں سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں جہاں تک ممکن ہو تحریکی فکر کی طالبات ہی طالبات میں کام کریں لیکن اگر ایسی کارکن طالبات میسر نہ ہوں تو منصوبہ بندی کے ساتھ حلقہ ہاے مطالعہ قرآن کے ذریعے ایسی طالبات کو تیار کیا جائے جو یہ کام کرسکیں۔ مشورے اور منصوبہ بندی کے لیے متعین نکات پر اجتماعی ماحول میں گفتگو کے آداب پر عمل کرتے ہوئے بات چیت کی جاسکتی ہے لیکن اگر فتنے کا امکان ہو تو کسی معمر خاتون یا معلمات میں سے کسی ہم خیال معلمہ کے ذریعے ایسے مشورے کیے جاسکتے ہیں۔
اصولی طور پر مردوں کا خواتین سے اہم اور فیصلہ کن معاملات میں مشورہ کرنا یا بات چیت کرنا مباح ہے۔ حضرت عمرؓ کی مقرر کردہ انتخابی ٹیم کے ممبران نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان انتخاب کا فیصلہ کرنے سے قبل مدینہ کی خواتین سے ان کے گھروں پر جاکر استصواب کیا۔ ایسے ہی بیع کے معاملات میں ہردو صنفوں کے درمیان تبادلۂ خیال پر کوئی ممانعت شریعت میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ اسلام اختلاطِ مرد و زن کو ممکنہ برائی کی طرف ایک زینہ سمجھتا ہے اس لیے اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
گویا مشاورت کرنا اور ملک گیر مسائل پر خواتین کی راے لینا سنت صحابہؓ سے ثابت ہے اور یہ کام تبادلۂ خیال کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن اس عمل میں غضِ بصر اور غضِ صوت کے ساتھ ساتھ صرف مسائل کی حد تک گفتگو کو محدود رکھنا ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)
دو ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب قرآن پاک کی رکوع بہ رکوع تشریح ہے۔ ہر رکوع پر عنوان لگایا گیا ہے، مثلاً سورئہ بقرہ کے رکوع ۲۴ پر ’ جہاد، فتنہ اور حج‘، سورئہ انعام کے رکوع ۱۲ پر ’ساری کائنات انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے‘، سورئہ اعراف کے رکوع ۱۵ پر ’جادوگروں کا ایمان لانا۔ سورہ کے آغاز پر مضامین سورہ کا مختصر بیان، عربی متن کا التزام نہیں ہے، تشریح کے درمیان ضرورت ہے تو دیا گیا ہے۔ متن اور ترجمہ اور عنوانات نیلے، یعنی مختلف رنگ میں ہیں۔
ہمارے ملک میں رجوع الی القرآن کے جو مظاہر نظر آتے ہیں (منظم برائی کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ) غالباً اسی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں میں اس طرف رجحان ہے۔ اُمت مسلمہ میں یہ شعوربیدار ہو رہا ہے کہ اس کا مستقبل اور عروج قرآن کو اختیار کرنے سے وابستہ ہے۔ اسی لیے کیسٹ، سی ڈی، فلمیں، درسِ قرآن اور محفل حسنِ قراء ت، سب میں مسلسل اضافہ ہے۔
بڑی تقطیع کی دو ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب اعلیٰ معیار کے کاغذ اور دو رنگ میں چھاپی گئی ہے۔ اسے تفسیر نہیں کہا جاسکتا، تشریح کہنے میں بھی تکلف ہوتا ہے، ترجمے کو ذرا کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ ایک طرز کی ترجمانی کہا جاسکتاہے۔ فہم قرآن کے لیے جو گہرائی میں نہیں جانا چاہتے یا گہرائی میں جانے کا وقت نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔ میٹرک، یا جب کسی مسلمان لڑکے اور لڑکی کو اُردو پڑھنا اور سمجھنا آجائے اور وہ پروگرام کے تحت قرآن کے تمام مضامین سے آگاہی چاہتا ہو، تو یہ کتاب اس کے لیے ہے۔ خواہش مند اپنے روابط کے ذریعے حیدرآباد دکن سے حاصل کریں۔ محمد انعام الحق صاحب حکومت آندھرا پردیش کے (ر) انجینیر ہیں۔
اس تشریح کو لکھتے ہوئے تفہیم القرآن، تدبر قرآن، تفسیر عثمانی اور مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ اور اکبرشاہ خاں نجیب آبادی کی تاریخ اسلام کو سامنے رکھا گیا ہے۔ تعارفی کتابچے میں اس کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں: محتاط اندازِ بیان، سلیس و شگفتہ زبان، اسلامی تاریخی واقعات کا جامع پرتو، نوجوانانِ ملت کے لیے بہترین دینی تحفہ، جو تبصرہ نگار کی نظر میں درست بیان ہے۔ (مسلم سجاد)
مولانا صدرالدین اصلاحی کی شخصیت برعظیم کے دینی اور اسلامی خصوصاً اسلامی تحریکوں کے حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر جماعت اسلامی کے قیام سے بھی پہلے دارالاسلام پٹھان کوٹ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اگرچہ ان کی طالب علمی کا زمانہ مدرسۃ الاصلاح سراے میر میں گزرا لیکن ان کی علمی اور ذہنی و فکری نشوونما میں دارالاسلام کی فضا اور مولانا مودودی کی رفاقت کا بھی خاصا دخل ہے۔
مدرسۃ الاصلاح کی انجمن طلباے قدیم نے اپنے اس علمی سپوت کی یاد میں ۲۷-۲۹ اپریل ۲۰۰۶ء کو ایک سیمی نار منعقد کیا تھا۔ زیرنظر کتاب اسی سیمی نار کے نظرثانی شدہ مقالات پر مشتمل ہے۔
انجمن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ضیاء الدین اصلاحی خطبۂ استقبالیہ میں لکھتے ہیں: ’’مولانا صدرالدین اصلاحی نے قرآن وسنت سے وابستگی کی جو فضا تیار کی اور ہدایت کے ان بنیادی مآخذ سے لوگوں، بالخصوص تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کا تعلق استوار کر کے کوشش کی اور دعوتِ دین اور تحریکِ اسلامی کی جدوجہد میں جس ایثار و قربانی اور عظمت و عزیمت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کے پیغام کو عام کرنا، لوگوں کو اس سے روشناس کرانا اور اس کی ضروری تدابیر اختیار کرنا ہماری اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے‘‘(ص ۴)۔ اس پس منظر میں زیرنظر مقالات کی صورت میں مولانا اصلاحی کی سوانح، شخصیت، ان کے علمی اور فکری اکتسابات اور ان کی علمی و دینی خدمات کے مختلف پہلو نمایاں ہوگئے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ان کی مختلف حیثیتیں بھی: بطور استاد، بطور ایک دینی مفکر و مصنف اور بطور ترجمہ نگار ان کا مقام و مرتبہ، فہم قرآن کی راہ ہموار کرنے کے ضمن میں ان کی کاوشیں، نوجوانوں کی رہنمائی، مولانا کی قرآنی توضیحات اور دین کی تعبیر و تفہیم کے متعلق ان کا مؤقف، تفہیم القرآن کی تلخیص وغیرہ۔ غرض موصوف کے مجموعی کارنامے کے تقریباً تمام پہلو واضح ہوگئے ہیں۔ بیش تر مقالات بڑی محنت و کاوش سے تیار کیے گئے ہیں۔ شخصی تعلق کے حوالے سے مولانا اصلاحی سے لکھنے والوں کا محبت و اپنائیت کا تعلق واضح ہے۔ خود، مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر رضوان احمد فلاحی کا وقیع مضمون بہت معلومات افزا ہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کے زیرمطالعہ ضرور آنی چاہیے جو تحریک اسلامی کے علمی و فکری مشاغل سے وابستہ ہیں۔ یہ اعلیٰ معیار پر، بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ایک صاحب نے کسی دوست کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جانے والوں کی یاد میں آنسو بہانا اور رونا بہت آسان ہے مگر ان کی یاد میں قلم اٹھانا اور دوچارسطریں لکھ دینا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رخصت ہونے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ عموماً ’آج مرے، کل دوسرا دن‘ کا سا ہوتا ہے حالانکہ مرحومین کی نیکیوں اور خدمات کو یاد رکھنا اور انھیں دوسروں تک پہنچانا بجاے خود بہت بڑی نیکی اور کارخیر ہے۔
حافظ محمد ادریس کا زیرنظر مجموعۂ مضامین چند ایسی شخصیات کی خدمات کو سامنے لاتا ہے جواپنی منفرد خوبیوں کی بنا پر اپنی مثال آپ تھے۔ ڈاکٹر نذیراحمدشہید، خرم مراد، مولانا عبدالرحیم چترالی، قاری منہاج الدین انور، مولانا خان محمد ربانی، محموداعظم فاروقی، چودھری بشیراحمد، خلیل احمد حامدی، جنرل (ر) محمد حسین انصاری، حاجی غلام نبی عباسی، کنورسعیداللہ خاں، ملک وزیر احمد غازی، رانا اللہ دادخاں، شیخ محمد انور زبیری، میاں محمدعثمان، ڈاکٹر عذرا بتول، بیگم ملک غلام علی، یہ تمام تر شخصیات تحریکِ اسلامی سے وابستہ رہی ہیں۔ شخصیات پر مصنف کی اسی نوعیت کی دو کتابیں: مسافرانِ راہِ وفا اور چاند تارے کے نام سے اس سے پہلے بھی شائع ہوچکی ہیں۔
شخصیت نگاری دوسری اصنافِ ادب کی طرح ایک صنف نثر ہے جسے بعض اوقات خاکہ نویسی بھی کہا جاتا ہے۔ حافظ محمد ادریس کی شخصیت نگاری کا اپنا ایک اسلوب ہے جس میں شخصیت کے مقام و مرتبے، اس کی مختلف النوع خدمات، خاندانی پس منظر، سوانحی حالات، شخصیت کے اہم عناصر، تحریک اسلامی سے وابستگی، ملّی اور دینی خدمات کے مختلف پہلو، اور اس کے ساتھ ہی متعلقہ شخصیت سے مصنف کا ذاتی اور شخصی تعلق جس میں بیتے دنوں کی ملاقاتوں اور گفتگوئوں کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔ اس طرح وہ شخصیت کا پورا مرقّع تیار کرکے رکھ دیتے ہیں۔ حافظ صاحب کا اسلوبِ تحریر صاف، واضح اور رواں ہے۔ کہیں کہیں اشعار کا حوالہ شعروادب سے ان کے تعلق کی غمازی کرتا ہے۔ بالعموم وہ عام قارئین کے ادیب ہیں اور اسی لیے ان کی تحریر پڑھتے ہوئے کہیں کوئی رکاوٹ، دقت یا ابہام محسوس نہیں ہوتا اور کسی لکھنے والے کی یہ بہت بڑی خوبی ہے۔(ر- ہ)
ابوالامتیاز ع س مسلم نظم و نثر دونوں میں یکساں روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اُردو کے علاوہ انگریزی اور پنجابی زبانوں پر بھی انھیں دسترس حاصل ہے اور ان کو بھی وسیلۂ اظہار بناتے ہیں۔
حمدباری تعالیٰ کی طرح نعت گوئی بھی ایک مشکل فن ہے لیکن جو ٹھیرائو اور احتیاط ع س مسلم کے ہاں نظر آتی ہے وہ ان کی اس فن میں بطور خاص ریاضت کی شہادت دیتی ہے۔ مروجہ انداز سے ہٹ کر سرورِ کونینؐ کی ذاتِ بابرکت کی ان صفات کو کلام میں سمونے کی کوشش نظر آتی ہے جو قرآنِ حکیم میں بیان ہوئی ہیں۔ ان سے قبل معروف نعت گو شاعر عبدالعزیز خالد نے نہ صرف آپؐ کی قرآنی صفات کو بیان کیا ہے بلکہ اس سے قبل کی آسمانی کتابوں میں آپؐ کی جن صفات اور اسما کا ذکر ہے ان کو بھی اپنے کلام میں سجایا ہے۔
زیرنظر نعتوں میں مسلم صاحب نے جہاں آپؐ کی صفات کا تذکرہ کیا ہے اورقرآنی حوالے پیش کیے ہیں وہاں ذخیرئہ احادیث نبویؐ سے بھی اعتنا کیا ہے۔ ان اسنادِ حدیث کو انھوں نے کتاب کے آخر میں شامل کیا ہے جس سے کتاب کی افادیت و وقعت بڑھ گئی ہے۔ ان کی نعت گوئی پر ڈاکٹر ریاض مجید، پروفیسر وصی احمد صدیقی اور محمد انور قمر شرق پوری کے مقالات بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
قرآن مجید کے بہت سے تراجم و تفاسیر، لفظی و بامحاورہ ترجمے، قرآن کی ترجمانی، مختلف رنگوں کے استعمال سے ترجمہ وغیرہ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ جہاں قرآن کے فہم کوعام کرنے کے لیے کوشش ہے وہاں قرآن کے عجائب کا بھی ایک پہلو ہے۔ زیرنظر ترجمۂ قرآن بھی اپنی جگہ ایک منفرد کاوش ہے، جس میں ترجمۂ قرآن میں بعض ایسے پہلوئوں کو سامنے لایا گیا ہے جن کی طرف توجہ کی ضرورت تھی۔
معلم القرآن کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں: یہ مختصر تفسیر سمیت ایک سطر میں لفظی و بامحاورہ منفرد ترجمہ ہے۔ بین السطور ہے تاکہ لفظ ڈھونڈنا نہ پڑے بلکہ ایک نظر میں دونوں نظر آئیں۔ ڈبوں میں لفظی اور پھر نیچے بامحاورہ الگ الگ ترجمہ نہیں کیا گیا بلکہ ایک ہی سطر میں لفظی اور بامحاورہ ایسا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اگر الگ الگ پڑھیں تو لفظی ہے اور اکٹھا پڑھیں تو بڑی حد تک بامحاورہ ہے۔ تفسیر الگ حاشیے پر نہیں کی گئی کہ تلاش کرنے میں وقت صرف ہو بلکہ موقع بموقع مختصر تفسیر ساتھ ہی دی گئی ہے۔ ہر ہر لفظ کا ترجمہ الگ الگ ہے۔ کسی بھی لفظ کا ترجمہ چھوڑا نہیں گیا۔ لفظ خدا کی جگہ لفظ اللہ استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ کے لیے صیغۂ واحد کا ترجمہ واحد میں اور جمع کا جمع میں کیا گیا ہے۔ اللہ کی صفات والی آیتوں کا ترجمہ جوں کا توں کیا گیاہے۔ جملۂ معترضہ کے لیے کھڑی بریکٹ [] استعمال کی گئی ہے۔ ترجمہ اتنا آسان ہے کہ معمولی پڑھا لکھا بھی آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے۔ مختلف مسالک کے علماے کرام نے اسے سراہا ہے اور تائید بھی کی ہے۔ اسی انداز میں مختصر صحاح ستہ، مختصر صحیح مسلم اور مشکوٰۃ پر بھی کام جاری ہے۔(امجد عباسی)
تصوف مذہبی و فلسفیانہ فکر کا ایک ایسا موضوع ہے جس پر صدیوں سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور ہنوز اس کا سلسلہ جاری ہے۔ تصوف کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: اسلامی اور غیر اسلامی یا حقیقی اور غیرحقیقی تصوف۔ اس کے برعکس مؤلف اس تیسرے نظریے کے حامی اور مؤید نظر آتے ہیں جس کی رو سے تصوف سراسر غیر اسلامی اور دین اسلام کے متوازی ایک دین ہے۔ انھوں نے بحث ونظر سے کام لیتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مروجہ تصوف کے فلسفیانہ مباحث یونانی، اشراقی اور ویدانتی فلسفوں سے ماخوذ و مستنبط، اس کے مذہبی و دینیاتی افکار کا سرچشمہ شیعیت اور باطنیت اور اس کے اعمال و مجاہدات مسیحی رہبانیت کا چربہ ہیں۔
کتاب میں نظریۂ وحدت الوجود اور برعظیم پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کیا صوفیا کی تبلیغ و سعی کی رہینِ منت ہے؟ ان دو موضوعات پر بڑی جان دار اور مدلل اور سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب اگرچہ اہم اور مدلل مباحث پر مبنی ہے لیکن پوری کتاب کے موضوعات و مباحث میں ایک عمدہ تصنیف و تالیف کا منطقی و معنوی ربط و تسلسل مفقود ہے جس سے یہ کتاب ایک مربوط بحث اور سلسلۂ کلام کے بجاے منتشر و متفرق افکار و مسائل کا ایک مجموعہ نظر آتی ہے۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت گوارا ہے۔ (سمیع اللّٰہ بٹ)
خلاصۂ تراویح اور دعائوں کے کتابچے مفت حاصل کریں: ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآنِ کریم کے حصے کا خلاصہ اور قرآنی و مسنون دعائیں مفت تقسیم کی جارہی ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات کم از کم ۸ روپے کے ڈاک ٹکٹ بنام ڈاکٹر ممتاز عمر T-473، کورنگی نمبر2، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔
’اشارات‘ میں پیپلزپارٹی کے ۱۰۰ دن کی کارکردگی (اگست ۲۰۰۸ئ) کا تجزیہ کرتے ہوئے مختلف امور اور بحرانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی اپنی جگہ لیکن اس سب کے پیچھے کارفرما خفیہ ہاتھ کی نشان دہی اور پھر اس کی گرفت کی بھی ضرورت ہے۔ خود سیاست دانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس ہاتھ کی نشان دہی کریں اور بیرونی مداخلت کے سدباب کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔
حکومت کی کارکردگی کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہوئے ایک پہلو رہ گیا اور وہ ہے موجودہ حکومت کی اسلام اور نفاذ اسلام کے حوالے سے کارکردگی اور عزائم۔ سیدیوسف رضا گیلانی نے محترمہ بے نظیربھٹو کی سالگرہ کے موقع پر جس بے باکی سے سزاے موت کو عمرقید میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے حکومت کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تو وہی روش ہے جو سابقہ حکومت اور پرویزمشرف کی تھی۔ اس پہلو پر بھی گرفت کی ضرورت تھی۔
محترم پروفیسر خورشیداحمد کا پیپلزپارٹی کی حکومت کے ۱۰۰ دنوں کی کارکردگی (اگست ۲۰۰۸ئ) سو فی صد حقائق پر مبنی ہے۔ زیادہ مناسب ہوتا اگر حکومت کی کالی کرتوتوں کے ساتھ قوم کو یہ بھی بتایا جاتا کہ ملک و قوم کے مفاد میں وہ کون سی متبادل پالیسی ہے جس کو اپنانے سے بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کو وہ حکمران ملتے چلے آرہے ہیں جن کا مشن قومی خزانے کو لوٹنا اور عوام کا خون نچوڑنا ہے۔ اسی پالیسی پر موجودہ حکومت بھی عمل پیرا ہے۔
’امریکی حملے کا اندیشہ‘ (اگست ۲۰۰۸ئ) پروفیسر محمد ابراہیم کا اچھا تجزیہ ہے، تاہم طالبان کی آڑ میں جو اسلام دشمن خفیہ عناصر کارفرما ہیں، ان کا بھی تذکرہ آنا چاہیے تھا۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کو غسل دینے پر پتا چلا کہ وہ غیرمسلم تھے۔ اسی طرح افراد کو اغوا کرنا اور تاوان وصول کرنا، پولیو کے ٹیکے لگانے والوں کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنا، نیز طالبات کے اسکولوں کو جلانا جیسے معاملات میں بھی گمان یہی ہے کہ یہی عنصر کارفرما ہے۔ اسی طرح ان عناصر کی بھی نشان دہی کی جانی چاہیے جنھوں نے لشکرِاسلام اور انصارالاسلام کے درمیان دیوبندی اور بریلوی کی بنیاد پر لڑائی چھیڑ دی۔
موجودہ دور کو میڈیا اور میڈیا سائنسز کا دور کہا جا رہا ہے۔ میڈیا اور دنیا بھر میں موجود اسلامی تحریکوں کے حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ عالمِ اسلام کے خلاف نائن الیون سے قبل اور بعد میں جس طرح مغربی الیکٹرانک میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور دیگر اسلامی ممالک میں موجود تحریکیں، ادارے اور ارباب بست وکشاد اس جانب متوجہ ہوں اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ میڈیا کے میدان میں اسلامی تحریکیں اپنا باقاعدہ بجٹ مختص کریں۔ میڈیا میں اسلام مخالف پروپیگنڈے کا توڑ، اسلام کا حقیقی تصور اور تشخص اُجاگر کرنے (image building) کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
بی بی سی، رائٹر اور اے ایف پی کی طرز پر اُمت مسلمہ کی اپنی نیوز ایجنسی ہو جو غیرمحسوس انداز میں اسلامی ممالک و تحریکوں کی نمایندہ ہو اور اسلام کی بہتر تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے اور مغربی نیوز ایجنسیوں کے منفی پروپیگنڈے کا توڑ کرسکے۔ عالمی اسلامی تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم سے اس تجویز کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے، جب کہ یہ ان کے ایجنڈے پر بھی موجود ہے۔
میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے میڈیا مینیجروں کا باہمی رابطہ (interaction) بڑا ضروری ہوگیا ہے۔ ایک دوسرے کے ہاں مطالعاتی دورے اور خصوصی لیکچروں سے اس تعلق کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اسلامک ممالک میں موجود تحریکوں کے میڈیا نمایندوں اور میڈیا ریسرچ اداروں کی ’میڈیا کانفرنس‘ ۲۰۰۸ء میں اگر ہوجائے تو اسلامی تحریکوں کے لیے یہ خاصا سودمند رہے گا۔ اسلامی ممالک و تحریکیں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اپنے خلاف منفی پروپیگنڈے کو ’زائل‘ کرنے کے لیے ابھی اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ اس کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایک اچھی مثال peace چینل اور الجزیرہ چینل کی ہے۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تحریکوں کے میڈیا نیٹ ورک کو باہم مربوط کیا جائے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحریر: ’جاپان میں اسلام پر تازہ تحقیقات‘ (جون ۲۰۰۸ئ) نظر سے گزری۔ اس ضمن میں جاپان میں دعوتِ اسلام کے حوالے سے کچھ سرگرمیوں سے آگاہ کرنا مفید رہے گا۔ اس وقت جاپان میں، جاپانی زبان میں اسلام پر ۴۸ سے زائد رسائل و جرائد دستیاب ہیں۔ اسلامک سنٹر جاپان ڈاکٹر ساناڈا، سربراہ شعبہ قانون، Chuo یونی ورسٹی کی اسلامی قانون پر کتاب گذشتہ ۱۵ برس سے تقسیم کر رہا ہے۔ غیرمسلم جاپانی اسکالروں کی بڑھتی ہوئی تعداد جو اسلام پسند اور مسلمانوں کی حمایتی ہے، اس موضوع پر لکھ رہے ہیں اور ایک سازگار ماحول بنا رہے ہیں۔
تقریباً تمام جاانی مسلم اسکالر جاپان مسلم ایسوسی ایشن (جے ایم اے) کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی، یعنی عالمی مسلم لیگ سعودی عرب کے تعاون سے جے ایم اے متعدد بار جاپانی زبان میں دستیاب واحد ترجمۂ قرآن از حاجی عمرمتیٰ متعدد بار شائع کرچکی ہے۔ جے ایم اے کے ذریعے رابطہ عالمی اسلامی اس ترجمے کے ہزاروں نسخے شائع کرچکی ہے۔ پیپربیک اور مجلد دونوں عربی متن کے ساتھ دستیاب ہیں۔
جے ایم اے صحیح مسلم کا ترجمہ کروایا ہے اور عربی متن کے بغیر دو جلدیں اور خلفاے راشدین اور خلافت راشدہ کے بارے میں دو کتب بھی شائع کرچکی ہے۔ تفسیر جلالین کا عربی متن کے ساتھ ایک مسلم جاپانی خاتون نے تین جلدوں میںترجمہ کیا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ کینسر کے مرض کا شکار ہیں، انھوں نے ترجمۂ قرآن کے ساتھ ساتھ تفسیر جلالین کا ترجمہ بھی مکمل کیا ہے۔ انھوں نے قاہرہ میں کئی برس تعلیم حاصل کی اور اب وہ ایک مسلم جاپانی اسکالر ڈاکٹر حسن نکاتا کی اہلیہ ہیں دونوں جے ایم اے کے ممبر ہیں۔ ان کے شوہر جوکہ Kyoto میں پروفیسر ہیں، نے بھی کئی برس تک قاہرہ میں تعلیم حاصل کی اور اسلام کی حقیقی روح کو اُجاگر کرنے کے لیے متعدد جلدوں پر مشتمل بہت سی کتب لکھ چکے ہیں وہ اپنے ذاتی خرچ پر جاپانی زبان میں آٹھ صفحات پر مشتمل ایک نیوز لیٹر میگزین بھی شائع کر رہے ہیں اور اسے تقریباً تمام جاپانی مسلمانوں کو ارسال کرتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کے کچھ حصوں کے ترجمے، حدیث شریف اور اس کی تشریح پر مشتمل ہوتا ہے، اور نوجوان جاپانی مسلمانوں کے مضامین اور خطوط شائع کرتا ہے۔ میرے بیٹے ابراہیم کے کئی مضامین اور خطوط اس میگزین میں شائع ہوچکے ہیں۔
سلیمان ہماناکہ ایک جاپانی مسلم اسکالر ایک جاپانی اسلامی ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں جوکہ جاپانی مسلمانوں میں بہت مقبول ہے۔ سیکڑوں جاپانی مسلمان روزانہ اس ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں۔ ہزاروں جاپانویں کی پاکستانی مسلمان بیویاں اور دوسرے مسلمان قرآن مجید کو پڑھنے اور باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کے لیے اس سائٹ کی وزٹ کرتے ہیں۔
میری راے یہ ہے کہ اس [اسلامی اصولوں پر بنکنگ کی اسکیم کے]کاروبار کو زکوٰۃ و صدقات کے ساتھ خلط ملط کردینا مناسب نہیں ہے۔ کاروباری ادارہ لازماً کاروباری نوعیت ہی کی فکر، صلاحیت اور مصروفیت چاہتا ہے، اور خیراتی ادارہ بالکل ایک دوسرے طرز کی فکر، صلاحیت اور مصروفیت کا طالب ہے۔ ان دونوں چیزوں کو خلط ملط کردینے سے اندیشہ ہے کہ یا تو خیرات کا پہلو نقصان اُٹھائے گا یا کاروبار کا پہلو۔ لہٰذا اگر آپ زکوٰۃ و صدقات کی تنظیم چاہتے ہیں تو اس کے لیے الگ انتظام سوچیے اور اس غرض کے لیے ایک مستقل ادارہ بنایئے…
بنک کے کام میں زکوٰۃ و صدقات کی وصولی اور خرچ کو شامل کردینے سے ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ دینے والے بنک میں اپنی زکوٰۃ اس لالچ سے داخل کرائیں گے کہ وہاں سے ان کو قرضے حاصل کرنے میں آسانی ہو اور یہ چیز اُس ذہنیت کے بالکل خلاف ہے جس کے تحت ایک مسلمان کو زکوٰۃ دینی چاہیے۔
بنک کے لیے تو مناسب صورت یہی ہے کہ اس کو بالکل کاروباری اغراض کے لیے کاروباری طریقوں پر چلا جائے۔ مختصراً اس کے اصول حسب ذیل ہونے چاہییں:
۱- اس کا سرمایہ دو طریقوں سے حاصل ہو، ایک شرکا کے حصص (shares)، دوسرے ان لوگوں کی امانتیں (deposits) جو سود نہیں لینا چاہتے۔
۲- وہ تین قسم کے کام کرے، ایک مختلف صنعتی اور تجارتی کاموں کو سرمایہ فراہم کرنا اور حصہ داری کے اصول پر ان کے منافع میں سے اپنا متناسب حصہ وصول کرلینا۔ دوسرے، بنکاری کی وہ ساری جائز خدمات انجام دینا جو آج کل بنک عموماً انجام دیا کرتے ہیں اور ان کی فیس وصول کرنا۔ تیسرے حاجت مند لوگوں کو قابلِ اطمینان ضمانتوں یا جایداد کی کفالتوں پر غیرسودی قرض دینا۔
۳- ان میں سے پہلی دو مدوں سے جو آمدنی حاصل ہو وہ بنک کے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد حصہ داروں اور امانت داروں، دونوں قسم کے لوگوں میں متناسب طریقے پر تقسیم کردی جائے۔
۴- اس بنک میں روپیہ رکھوانے اور اس کے حصص خریدنے کے لیے تین محرک کافی ہیں: ایک سود سے بچنے کی خواہش، دوسرے حلال منافع حاصل کرنے کی توقع، تیسرے اپنے مال کے تحفظ کا اطمینان۔ (’اسلامی اصولوں پر بنکنگ کی اسکیم،’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، ج۲۹، عدد ۲، شعبان ۱۳۶۵ھ ، جولائی ۱۹۴۶ئ، ص ۵۸-۵۹)