مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۰۸

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت نے اپنے پہلے ۱۰۰ دن کے پروگرام کا اعلان کر کے پاکستانی سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ حکومت کے پہلے ۱۰۰ دنوں کو انقلابی تبدیلیوں کا فیصلہ کن زمانہ قرار دینے کی روایت امریکا میں صدر روز ویلٹ نے ۱۹۳۳ء میں قائم کی جب ۴سال کی تباہ کن کساد بازاری کے بعد امریکی عوام نے ان کو سرمایہ دارانہ نظام کو   اس کے بدترین ابتلا سے نکالنے کا مینڈیٹ دیا اور انھوں نے جنوری ۱۹۳۳ء میں صدارت کی   ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ۱۰۰ دن میں امریکا کی معیشت اور سیاست کا رخ بدل دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس طرح وہ تاریخی عمل شروع ہوا جسے نیوڈیل  (New Deal) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں روزویلٹ کی قیادت میں معاشی اعتماد جو پارہ پارہ ہوگیا تھا، بحال ہوا۔ بنکوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ حکومت نے مثبت معاشی کردار ادا کیا اور قانون سازی کے ذریعے معاشی زندگی کی ازسرنو نظم بندی کرکے ملک کو تاریکیوں سے نکال کر روشن راہوں پر سرگرمِ عمل کردیا۔ ان  ۱۰۰دنوں میں روزویلٹ نے ۱۵ نئے اہم اور انقلابی قوانین منظور کرائے، کانگریس کو ۱۵ پیغام بھیجے، ۱۰ پُرعزم تقاریر کیں، ہفتہ میں دو بار کابینہ کا اجلاس کیا، ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا اور  ملکی اور عالمی سیاست کے میدانوں میں تاریخ ساز پالیسیوں کا اعلان کر کے ایک نئی روایت قائم کی۔ روزویلٹ کے اس اقدام نے جمہوری سیاست میں ’حکومت کے پہلے ۱۰۰دن‘ کے باب کا اضافہ کیا۔

پاکستان میں اس نسخے کو پہلی بار زرداری گیلانی حکومت نے استعمال کیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ایک خوش کن پروگرام کا اعلان کیا جس میں آمریت کے خاتمے، عدلیہ کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام، معیشت کی اصلاح، کفایت کے فروغ، مزدوروں اور طلبہ کے حقوق کی بحالی، روزگار کی فراہمی، قیمتوں کے استحکام، عوامی احتساب اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی نوید سنائی گئی۔ حکومت نے خود اپنی کارکردگی کی پرکھ اور سیاست اور معیشت کے نئے رخ کی جانچ کے لیے قوم اور میڈیا کو ایک معیار اور میزان فراہم کی___ ۱۰۰ دن کا اعلان کردہ پروگرام ایک آئینہ ہے جس میں حکومت کی کارکردگی کا اصل چہرہ دیکھا جاسکتا ہے اور غالباً اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ تصویر تاریک، داغ دار اور مایوس کن ہے۔

اس کا اندازہ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے اس عوامی جائزے سے کیا جاسکتا ہے جو چاروں صوبوں کی ۵۰ تحصیلوں کے ۲۲۳ دیہی اور ۱۲۷شہری علاقوں سے متعلق ۳ہزار ۴سو ۸۴ خواتین و حضرات کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اس کی رو سے آبادی کے     ۸۶ فی صد افراد کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری پالیسیوں کا رخ غلط ہے۔ حکومت کی کارکردگی کو ۵۱ فی صد نے مایوس کن قرار دیا ہے۔ عوامی راے کا یہ جائزہ اس حیثیت سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ آبادی کا ۸۳ فی صد جنرل (ر) پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کے حق میں ہے اور عوامی تائید اور پسندیدگی کے اعتبار سے سب سے مقبول لیڈر نواز شریف ہیں جن کو ۸۲ فی صد لوگ پسند کرتے ہیں۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان آتے ہیں جن کو ۷۶فی صد کرسی صدارت پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بعد مقبول ترین شخصیت چیف جسٹس افتخار چودھری کی ہے جنھیں ۶۵ فی صد کی تائید حاصل ہے۔ زرداری صاحب کو جو اس وقت سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ۴۵فی صد کی، جب کہ یوسف رضا گیلانی کو ۶۴ فی صد اور امین فہیم کو ۴۹ فی صد (زرداری صاحب سے ۴درجے زیادہ) کی تائید حاصل ہے۔

اس جائزے کی رو سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت پرویز مشرف کی ہے۔ عوامی سوچ کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۸۹ افراد نے ملک کے سب سے اہم مسئلے کے طور پر معاشی مسائل کو پیش کیا ہے (۷۱ فی صد افراطِ زر اور مہنگائی، ۱۳ فی صد بے روزگاری اور ۵ فی صد غربت) اور ان کے ۷۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ان کی معاشی حالت گذشتہ ۴ مہینوں میں خراب ہوئی ہے۔ ۷۱ فی صد کی راے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کا حل صرف سیاسی ہے اور ۶۵ فی صد نے دہشت گردوں سے امن معاہدے کی تائید کی ہے۔ دہشت گردی کو اہم ترین مسئلہ قرار دینے والوں کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ خودکش حملوں سے خطرہ محسوس کرنے والے افراد صرف    ۲فی صد ہیں۔ رہا القاعدہ سے خطرہ محسوس کرنے کا سوال، تو ان کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ (ملاحظہ ہو، روزنامہ ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۰۸ء اور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، ۱۷ جولائی ۲۰۰۸ئ)

یہ جائزہ ہی نہیں، خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ۱۹ جولائی کا بے جان خطاب، جو قوم سے ان کا پہلا بلاواسطہ خطاب بھی تھا، ۱۰۰ دن کی مایوس کن کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

زرداری گیلانی حکومت کا بے لاگ اور معروضی جائزہ اس حقیقت کے اعادہ کے بغیر منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس حکومت کو مارچ ۲۰۰۸ء میں مشرف دور کی آٹھ سالہ غلط اور تباہ کن معاشی، سیاسی، انتظامی اور خارجہ پالیسی کے نتائج سے سابقہ تھا اور اس کے ساتھ عالمی معاشی اور سیاسی حالات بھی بڑے ناموافق تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سارے حالات ۲۰۰۷ء میں کھل کر سامنے آگئے تھے اور پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں 5-E۱؎ کا جو پروگرام پیش کیا تھا وہ ان حالات کے پیش نظر ہی پیش کیا گیا تھا۔ پھر کسی مطالبے کے بغیر پہل کاری کرتے ہوئے ۱۰۰ دن کا جو پروگرام اس نے پیش کیا، وہ نہ کسی مجبوری کی وجہ سے تھا اور نہ آنکھیں بندکرکے مرتب کیا گیا تھا۔ توقع یہی کی جاتی ہے کہ ۱۰۰ دن کا پروگرام سوچ سمجھ کر پیش کیا گیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا ۵ فی صد بھی ان چار مہینوں میں حاصل نہیں کیا جاسکا۔ یہ حکومت کی موجودہ ٹیم کی نااہلی اور اس پورے دروبست کی ناکامی کا ثبوت ہے جو آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیرکی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو اپنی گرفت میں لے کر اپنی پسند کی ایک ٹیم کے ذریعے قوم کو دیا تھا۔ یہ ناکامی دراصل زرداری صاحب اور ان کی ٹیم کی ناکامی ہے اور ان پالیسیوں کی ناکامی ہے جو عملاً انھوں نے اختیار کیں اور ۱۰۰ دنوں کے اعلان کردہ پروگرام کو پسِ پشت ڈال کر ملک اور خود اپنی پارٹی پر مسلط کیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود پیپلزپارٹی کے ایک رکن جناب امین فہیم اور محترمہ بے نظیر کی ٹیم کے اہم افراد اس ناکامی کا کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں اور زرداری صاحب اور ان کی پالیسیوں اور ان کے مقرر کردہ افراد کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ امین فہیم صاحب کے ارشادات نوٹ کرنے کے لائق ہیں جن کی مزید تفصیل دی نیوزانٹرنیشنل کی ۱۶جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں دیکھی جاسکتی ہے:

پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر نے دی نیوز کو بتایا: میں تمام ممکنہ نتائج بشمول زرداری کے زیراثر قیادت کی جانب سے شوکاز نوٹس کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔ انھوں نے کہا: پارٹی کے موجودہ رہنمائوں نے پارٹی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور ملک کی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے۔ امین فہیم یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی کو چند نئے آنے والوں اور مفادات پرستوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، آبدیدہ ہوگئے۔

امن و امان کی صورت حال بگڑ رہی ہے، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہے ہیں، سرحدیں غیرمحفوظ ہیں، قیمتیں بے تحاشا بڑھ رہی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ امین فہیم نے تفصیل سے بتایا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرقیادت حکومت اس قابلِ افسوس صورت حال کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ حکومت نے ۱۰۰ دن گزرنے کے باوجود ان دائروں میں بہتری کے لیے کچھ    نہ کیا۔ پی پی پی پی کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں اس سے اتفاق کیا کہ پارٹی کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا ہے اور یہ حالت اگر جاری رہی تو ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟

خودکشیاں، قیمتوں میں اضافہ اور امن و امان کی صورت حال حکومت کے قابو سے بالکل باہر ہے۔ سینیر ممبر ہونے کی حیثیت سے میرایہ اولین فرض ہے کہ پارٹی کے معاملات اوراس کے ساتھ ساتھ حکومت کے معاملات میں خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشان دہی کروں۔ اگر پارٹی کی قیادت اس کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھتی ہے، تب بھی میں اپنے موقف پر قائم رہوں گا۔

محترم امین فہیم صاحب کا دوسرا بیان تصویر کے کچھ اور رُخ نمایاں کرتا ہے۔ یہ بھی امین فہیم صاحب ہی کے الفاظ میں نوٹ کرنے کے لائق ہے:

پی پی پی کے سینیر نائب صدر مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اب بھی بیک ڈور چینل کے ذریعے صدر پرویزمشرف سے رابطے میں ہے اور قوم پیپلزپارٹی کی زیرقیادت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ ۱۰۰ دنوں میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ صرف افراطِ زر کو بڑھایا گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہے اور اغوا براے تاوان اپنے عروج پر ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۰ جولائی ۲۰۰۸ئ)

صاف نظر آرہا ہے کہ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کو زرداری حکومت نے سوچ سمجھ کر نظرانداز کیا ہے اور عوام نے جس تبدیلی (change) کے لیے قربانیاں دی تھیں اور سیاسی جماعتوں اور نمایندوں کو مینڈیٹ دیا تھا، اس کو پسِ پشت ڈال کر مشرف کے دور کی پالیسیوں کے تسلسل کا راستہ اختیار کیا گیا۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کے نتیجے میں آج تک نہ ملک کا رخ درست ہوسکا ہے، نہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے، نہ عدلیہ بحال ہوئی ہے، نہ امن و امان میں بہتری کی کیفیت رونما ہوئی ہے، نہ معیشت میں کوئی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، نہ عوام کی زندگی میں بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوئی ہے، نہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آگ سے پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج اپنا دامن بچا سکے ہیں، نہ اپنی آزادی اور عزت کو درپیش خطرات سے بچائو کی سرِمو بھی کوئی راہ اختیار کرسکے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ پوری دیانت داری، لیکن جرأت اور بے باکی سے، اس امر کا تعین کیا جائے کہ کہاں غلطی ہوئی ہے،   عوام کے اعتماد کو کس نے اور کس طرح ضرب لگائی ہے اور چند مہینے میں نئی قیادت نے کس تیزی سے قوم کو مایوس کیا ہے اور مسائل کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس نشان دہی کی بھی ضرورت ہے کہ اب بھی اس دلدل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے اور قوم کو کسی نئے طالع آزما یا پرانے شاطروں کے گھنائونے کھیل سے کس طرح بچایا جاسکتاہے۔


۲۵ مارچ ۲۰۰۸ء کو قومی اسمبلی نے قائد ایوان کا متفقہ انتخاب کر کے جمہوریت، دستور اور قانون کی حکمرانی کے احیا کی طرف صحیح قدم اٹھایا تھا۔ فروری کے انتخابات کا یہ پیغام بھی سب کے سامنے تھا کہ اب قوم کو فوری طور پر آمریت اور اس کے دست و بازو سے نجات حاصل کرنا ہے اور جمہوریت کا سفر باہمی مشاورت، تعاون اور قومی یک جہتی پیدا کرکے جاری رکھنا ہے۔ قوم نے کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں دی تھی جس کا تقاضا تھا کہ کم از کم دونوں بڑی پارٹیاں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل جل کر سارے معاملات کو طے کریں اور باقی ان تمام جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں جو مشرف کے آمرانہ دور میں اس کی شریک کار نہ تھیں۔ ۱۸فروری کے انتخابی نتائج سے رونما ہونے والی سیاسی صورت حال کی تشکیل میں جہاں ان جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کا کردار تھا جن کو عوام نے اپنے اعتماد کا ووٹ دیا، وہیں ان قوتوں کا بھی بڑا اہم کردار تھا جنھوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور سیاسی فضا کو بنیادی تبدیلی کے لیے تیار کیا۔ ان میں اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے ساتھ وکلا برادری کی جان دار تحریک، برطرف ججوں کی جرأت اور استقامت، طلبہ اور سول سوسائٹی کی انقلابی جدوجہد ہر ایک کا حصہ تھا۔ ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر تمام اہم سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر آگے کے مراحل کو طے کیا جاتا۔ لیکن زرداری صاحب نے بظاہر تو دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیارکی مگر فی الحقیقت یہ حکمت عملی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO)  کی چھتری تلے پناہ لینے والوں کے نیوکلیس کو مضبوط و مستحکم کرنے اور باقی سب کو اس نیوکلیس کے لیے سہارا اور مددگار بنانے پر مبنی تھی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنانے کا ڈھونگ رچایا گیا مگر ساتھ ہی اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) ہی کو نہیں بلکہ ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملانے اور ان کوتوازن اقتدار (balancing power) کی پوزیشن میں لانے کا کھیل کھیلا گیا۔ پہلے دن ہی ججوں کی حراست کو ختم کیا گیا مگر اس کے دوسرے اور اہم تر منطقی اقدام یعنی ججوں کی بحالی کو جان بوجھ کر بلکہ بار بار دھوکا دے کر مؤخر اور معلق کیا گیا اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانا چاہیے تھا اور جس کے نتیجے میں نظامِ عدل بحال ہوجاتا آج تک نہیں کیا گیا اور اس پر طرّہ یہ کہ ایک دستوری پیکج کے نام پر نہ صرف ججوں کی بحالی کو لاینحل الجھائو کا شکار کردیا گیا بلکہ عدالت کی آزادی اور اختیارات پر بھی شب خون مارا گیا تاکہ ہمیشہ کے لیے دستوری نظام کایہ ستون ریت کی دیوار بن جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے وار سے برطرف ججوں کی بحالی اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت سے نجات پرچہ امتحان (test case)  کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب یہ بات الم نشرح ہوچکی ہے کہ زرداری صاحب کا پہلے دن سے ان دونوں امور کے بارے میں مقصد اس سے بالکل مختلف تھا جس کا وہ بظاہر اعلان کر رہے تھے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو یقین دلا رہے تھے۔ جیساکہ اب ملک اور ملک سے باہر کے بالغ نظر اور آزاد تجزیہ نگار کھل کر لکھ رہے ہیں، زرداری صاحب کی  پرویز مشرف سے این آر او کی بنیاد پر مضبوط باہمی اتفاق ہے۔ این آر او کے تحت احتساب اور قانون کی گرفت سے نکلنے والے ایک ایک شخص کو انھوں نے اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے اور ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو وہ این آر او اور اس کی چھتری میں پناہ لینے والے تمام افراد  کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ۳۰دن کا بھوربن کے اعلان کو بعد میں ایک سیاسی بیان کہہ کر غیراہم  قرار دیا لیکن اس طرح انھوں نے خود اپنی زبان سے اپنی زبان کے غیرمعتبر ہونے کا اعلان کردیا۔ پھر ۱۲مئی کا وعدہ کیا گیالیکن وہ بھی وفا نہ ہوا اور مسلم لیگ (ن) وزارتوں سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئی۔ ۲۵مارچ سے وزیراعظم گیلانی اور جناب زرداری جس ’خوش خبری‘ کا اعلان کر رہے ہیں   وہ خوش فہمی ہی نہیں، دھوکا دہی کی حدوں سے بھی آگے جاچکی ہے، اور جیساکہ جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے نے مجبور ہوکر کہہ ہی دیا ہے وہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے۔ جسٹس رمدے کا جیو ٹی وی پر انٹرویو شائع ہوا ہے جس کا یہ حصہ اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے:

معزول جج خلیل الرحمن رمدے کو پرویز مشرف کے مقابلے میں جمہوری منتخب حکومت عدلیہ کی زیادہ مخالف نظر آتی ہے۔ رمدے نے کہا کہ آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف مارشل لا لگانے اور کوئی ۶۰ججوں کو برطرف کرنے کے لیے صرف اس لیے مجبور ہوا کہ اپنی صدارت کو جاری رکھ سکے لیکن آج کی جمہوری طور پر منتخب حکومت اس سے آگے جاچکی ہے۔ یہ عدلیہ کے دستوری اختیارات کو کم کردینا چاہتی ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ)

مشہور ماہر قانون ڈاکٹر فاروق حسن اپنے مضامین میں این آر او کے اس طلسماتی کردار  کا مضبوط دلائل کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔ ۲۹جون ۲۰۰۸ء کے دی نیشن میں وہ   NRO: Musharruf's Proxy Warکے عنوان سے لکھتے ہوئے بجاطور پر کہتے ہیں کہ مشرف کرسیِ صدارت پر براجمان ہے تو اس کی وجہ این آر او ہے جو مشرف نے اس لیے جاری کیا کہ پیپلزپارٹی کی سیاسی طاقت کو قابو کرسکے۔

ڈاکٹر فاروق حسن کا تجزیہ بالکل واضح ہے:

یہ صرف این آر او کی وجہ سے ہے کہ تمام سیاسی محاذوں پر بھاری ناکامی کا سامنا کرنے کے باوجود مشرف اس طرح برسرِاقتدار رہنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ حقائق پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے وفاقی حکومت کے بہت سے طاقت ور افراد مشرف کی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں:

۱- اس آرڈی ننس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟

۲- ان میں سے کتنے موجودہ حکومت میں ہیں؟

۳- ان رقومات کی مقدار کتنی ہے جو وہ اجتماعی اور انفرادی طور پر حکومت کی گرفت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟

ڈاکٹر فاروق حسن کی سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ ججوں کی بحالی میں اصل رکاوٹ این آر او ہے جس کی حفاظت کے لیے زرداری صاحب ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مضمون میں جس کا عنوان ہی NRO Prevents Judges Restoration (این آر او نے ججوں کی بحالی روک دی) ہے۔ لکھتے ہیں:

میں حیرت زدہ ہوں اور بے حد افسردہ بھی، کہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی ماحول میں شر کی قوتیں بظاہر مضبوطی سے قائم ہیں۔ اس واضح نوشتۂ دیوار کے باوجود کہ ججوں کی بحالی کے مسئلے کو حل کیے بغیر پیپلزپارٹی اور زرداری کے لیے شرمناک ناکامی مقدر ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ مشرف نے زرداری اور بی بی کے بارے میں اتنا کچھ کہنے کے بعد اچانک ان کو آنے کی اجازت دے دی، اس کے باوجود کہ امریکی اور برطانوی خارجہ عہدے داران نے اس ڈیل میں مداخلت کی، مشرف کے لیے ’اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘ والا معاملہ تھا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ بدعنوانی کے کروڑوں ڈالر انھی کے پاس رہنے دیے گئے اور طویل المیعاد قیدوبند کے فیصلوں کے اندیشے ختم کردیے گئے۔ اسی طرح اس نے ان کو لفظ کے لغوی معنوں کے مطابق معلق کردیا ہے۔ ایسے رہنمائوں کی بقا کا بنیادی پاسپورٹ بدنامِ زمانہ این آر او ہے۔ صدر نے یہ کیا کہ اس این آر او کو دستور کے شیڈول میں انھی غیرقانونی ’قوانین‘ کے ساتھ رکھ دیا جو ۳نومبر کے غصب کے ساتھ نافذ کیے گئے تھے۔ اگر جج اسمبلی ریزولیوشن کے ذریعے  اس بنیاد پر واپس آتے ہیں کہ مشرف نے ایک غیرقانونی کام کیا تھا تو این آر او کا تحفظ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی قیادت کا پریشان ہونا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ محض ججوں کی خاطر ملک کے اعلیٰ ترین مناصب سے اپنے اخراج کی منظوری کیسے دیں، جو اگر بحال ہوگئے تو این آر او کو ختم کردیں گے۔ روز کا مشاہدہ ہے کہ ہر روز سنگین کرپشن مقدمات سے بری ہونے کی درخواستیں انھی قائدین کی جانب سے آرہی ہیں جو اکتوبر تک امریکا یا برطانیہ میں عیش و آرام سے رہ رہے تھے۔ اگر این آر او ناکام ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر انھیں سختی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پیسہ واپس کرنا ہوگا۔ (دی نیشن، ۲۸ مئی ۲۰۰۸ئ)

ایک اور ماہر قانون دان بیرسٹر سیداقبال احمد ڈان میں NRO and Politics of Plunder کے عنوان سے ۱۹جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ این آر او انصاف اور راست معاملہ کاری کی ضد ہے۔ (The NRO, as it stands, is a traversty of justice and fair play.)

بیرسٹر اقبال احمد جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ بہت واضح اور محکم ہے:

بغیر کہے سب کو معلوم ہے کہ ریاست کے اعلیٰ عہدے دار اور سٹیک ہولڈرز پاکستان میں ایک آزاد عدلیہ نہیں چاہتے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بلاشبہہ نہیں چاہیں گے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور معطل کیے ہوئے ان کے ساتھی جج ایک دفعہ پھر واپس آئیں اور ایک بار پھر ان کی قسمت کا فیصلہ کریں۔

کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ قیادت کے ہاتھ پائوں جنھوں نے این آر او کے ثمرات سمیٹے ہیں جنرل (ر) مشرف نے مضبوط دھاگوں سے باندھ دیے ہیں اور وہ انگلیاں تک نہیں اُٹھا سکتے، گو کہ ان کے منہ عوام کے سامنے لفّاظی کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ایک لیڈر نے بہت صحیح کہا کہ مشرف اور زرداری ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور درحقیقت ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہیں۔

صدرمشرف کے خطرات اور اندیشے جن کی صدارت خطرے میں ہے، پیپلزپارٹی کے حکمران جن کے اربوں ڈالر جاسکتے ہیں، اور پی سی او عدلیہ کے سربراہ جسٹس اے ایچ ڈوگر جن کے اختیارات اور مقام غیریقینی ہیں، سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے ذاتی مفادات کے تحت یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ      افتخار چودھری اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ۳نومبر کی پوزیشن پر بحال ہوجائیں۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح خطرے کی بالکل زد میں ہیں۔ اس صورت حال میں پرویز مشرف اپنی صدارت اور پی پی پی کے لیڈر اپنے اربوں روپے چھوڑنے کو پسند نہیں کریں گے اور ایم کیو ایم کے کارکن انصاف کی خاطر عدالتوں کا سامنا کرنا پسند نہیں کریں گے۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ یہ ۱۰۰ دن سب پردے اٹھانے اور طلسم ہوا کرنے کا باعث ہوئے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرف اور زرداری ایک ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔

فصیح ذکا جو رہوڈز اسکالر ہیں، دی نیوز میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

۱۰۰ دن پورے ہوچکے ہیں، وعدے وفا نہیں ہوئے بلکہ یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ ملک کو جو بحران درپیش ہے وہ ایک ایسا نظام تشکیل دے رہا ہے جہاں ہیئت مقتدرہ کا اسٹیٹس کو جیت رہا ہے۔ یہ مشرف کو جری کردیتا ہے اور زرداری کے پہیوں کو گریس لگاکر مزید تیز کردیتا ہے اور دونوں میں ایک غیرمقدس اور ناپاک اتحاد قائم ہوتا ہے جو نظر آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تکمیل پذیر ہوگا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)

دی نیوز کے کالم نگار ایم بی نقوی ۱۰۰ دنوں کا حاصل یوں بیان کرتے ہیں:

اپنے پہلے ۱۰۰ دنوں میں گیلانی حکومت نے شکاری کتوں کے ساتھ شکار کھیلنے اور خرگوش کے ساتھ بھاگنے کی سی کوشش کی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی بحران جنھوں نے ملک کو گھیر رکھا ہے اس پر اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ کسی بھی بحران کا سامنا ہو، ایک حکومت کو متنازع ایشوز کا سامنا ہے۔ کیا چیز حکومت کو ایک سخت موقف اختیار کرنے سے روک رہی ہے؟ پیپلزپارٹی کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرف بیش تر مسائل کی جڑ ہے۔ جب تک وہ باقی رہتا ہے ملک کی سیاسی زندگی بحران کا شکار رہے گی۔

اس دوران پیپلزپارٹی کو اسلامی انتہاپسندوں کی دھمکیوں کے بارے میں امریکی امداد اور مشورے کے بغیر ایک آزاد موقف خود اپنے طور پر اختیار کرنے کے لیے امریکیوں کو ’نہیں‘ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ایک آزاد خارجہ پالیسی ایسے مضبوط عزم کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اپنے موجودہ بحرانوں بالخصوص معاشی بحران سے نکل آئے اور عوام میں تحرک ہو۔

امریکا اب بھی اصرار کرر ہا ہے کہ مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی رہنمائی کرنے کے لیے سپریم (بالادست) کے طور پر رکھا جائے۔ اسے ملک میں کچھ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ وہ کچھ ایسے لوگوں کو جمع کرسکتا ہے جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک نئی حکومت کو سہارا دے سکتے ہیں۔

پی پی پی نے اپنی بیمہ پالیسی کے طور پر امریکیوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر مشرف کو اس کی جگہ پر رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔(دی نیوز انٹرنیشنل، ۹جولائی ۲۰۰۸ئ)

ہم نے صرف چند اہم تجزیہ نگاروں کی آرا یہاں پیش کی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب آزاد اہلِ قلم کی بڑی تعداد یہ کہنے پر مجبور ہے کہ زرداری گیلانی حکومت کی پہلے ۱۰۰دن نہایت  مایوس کن ہیں۔ اصل وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو تصویر کے خدوخال کچھ اس طرح کے دکھائی دیتے ہیں:

۱-            بظاہر مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں ہیں لیکن فی الحقیقت مرکز میں اصل حکومت صرف پیپلزپارٹی کی ہے اور اس میں بھی آصف علی زرداری اور ان کے من پسند افراد ہیں جن میں ایک خاص تعداد ان لوگوں کی ہے جو این آر او کے سہارے اقتدار کے دروازوں پر ایک بار پھر پہنچ گئے ہیں۔ ان میں سیاسی شخصیات کے علاوہ وہ سرکاری ملازم بھی ہیں جو قانون کو مطلوب تھے،    راہِ فرار اختیار کیے ہوئے تھے اور اب اس چھتری تلے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے مسئلے پر عہدشکنی کے سبب وزارتوں سے الگ ہوچکی ہے۔ اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) بار بار گلہ کر رہے ہیں کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا اور جناب آصف زرداری اور ان کے معتمد افراد ہر فیصلہ خود کر رہے ہیں بلکہ مشیرداخلہ رحمن ملک صاحب تو وزیراعظم کا پروٹوکول ہی نہیں رکھتے، وزیراعظم کے علم کے بغیر ہی پالیسیاں تبدیل کرڈالتے ہیں جس کی نمایاں ترین مثال ضمنی انتخابات کا التوا ہے۔ ایسے اقدام استثنائی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا طریق واردات قراردیے جاتے ہیں۔ مخلوط حکومت ایک تہمت ہے، اصل حکومت پی پی پی اور زرداری صاحب کی ہے اور باقی سب اپنے اپنے مصالح کی خاطر بطور ضمیمہ شامل ہیں۔ اصل یگانگت اور ہم آہنگی پی پی پی کے زرداری دھڑے، مشرف اور ایم کیو ایم میں ہے اوررحمن ملک صاحب  اس تثلیث کے محافظ اور سہولت کار(facilitator) کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

۲-            ان ۱۰۰ دنوں میں حکومت کا اپنا کوئی آزاداور منفرد رُخ سامنے نہیں آیا۔ جیساکہ   ہم نے عرض کیا سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود اصل حقیقت ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ خارجہ پالیسی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا کردار، معاشی پالیسیاں، دستور اور قانون کے تقاضوں سے بے اعتنائی، سیاسی مسائل کے حل کے لیے قوت کا بے دریغ استعمال اور اس کے لیے باقاعدہ فوج کو اختیارات کی تفویض، جب کہ مذاکرات کے حق میں زبانی جمع خرچ (lip service) اس حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ ملک پر امریکا کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے اور جو یلغار امریکی سول اور فوجی حکام کی اس زمانے میں ہوئی ہے اور اس کے ساتھ جس رعونت اور بے دردی سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں اور پاکستان کی زمین پر پاکستانیوں کی ہلاکت کا سامان امریکا نے کیا ہے، اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس پر مستزاد امریکا کے سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ ہے جس کی بدترین مثال وزیرخارجہ کی کونڈولیزارائس سے ملاقات ہے جس میں امریکی وزیرخارجہ نے ہمارے وزیرخارجہ کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی، سرحدی خلاف ورزیوں اور اپنی مرضی سے فوج کاری کی دھمکیاں دیں اور ہمارے وزیرخارجہ نے پریس کو بیان دیتے ہوئے امریکا کی ایسی فوجی دخل اندازیوں کو غیردوستانہ اقدامات (un friendly acts) تک کہنے سے گریز فرمایا۔۲؎ گویا   ع

حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!

امریکی صدر، صدارتی امیدوار، سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان کے ارکان کے ارشادات اور امریکی انتظامیہ اور فوجی قیادتوں کے بیانات اور انتباہات پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی دہشت گردی برپا ہے سب کا منبع اور مرجع پاکستان ہے۔ اس فضاسازی کا مقصد مشرف کو پاکستان پر مسلط رکھنا، اور سول عناصر پر مبنی حکومت کی ایسی گوشمالی کرنا ہے کہ وہ امریکی دبائو کے آگے چوں بھی نہ کرے۔ امریکی نوازشیں دو طرح کی ہیں: ان ۴ مہینوں میں ۲۰ سے زیادہ بار ہماری سرحدوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں، پاکستانی فوجی چوکی تک کو نشانہ بنایا گیا، اور سیکڑوں عام شہریوں اور ۱۳ فوجی افسروں اور جوانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا ہے۔ اس خون آشامی کے ساتھ سیاسی دبائو اور بازو مروڑنا (arm twisting)  بھی روزافزوں ہے، تاکہ سول حکومت کوئی آزاد راستہ اختیارنہ کرسکے۔ اس کے ساتھ فوجی اور معاشی امداد کی رشوت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور  اس طرح لاٹھی (stick)اور گاجر  (carrot) دونوں کا بے دردی سے استعمال جاری ہے___اور ہماری حکومت ہے کہ ہر ضرب اور ہر ہلاکت کے بعد ایک ہی رٹا ہوا جملہ دہراتی رہتی ہے کہ ’’ملک کی حاکمیت اور آزادی کے خلاف کسی دست درازی کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ گویا امریکا    یہ سب کچھ آپ سے اجازت لے کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ وہی زبان ہے جس کا استعمال طالبان اور افغان غیرت مندوں نے وہاں کے صوبے پکتیا میں وانات (Wanat) کے مقام پر کیا۔ امریکا اس چوکی کو چند دن بھی اپنے قبضے میں نہ رکھ سکا     اور جب ۹ امریکی فوجی ہلاک اور ۱۵ زخمی ہوئے تو تین دن کے اندر امریکی افواج اس چوکی کو   خالی کرگئیں اور اس پر طالبان نے دوبارہ قبضہ کرلیا جسے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے    The withdrawal handed a propaganda victory to the Taliban (واپسی نے طالبان کو ایسی فتح دی جس کا خوب پروپیگنڈہ ہو) قرار دیا۔ (۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)

گذشتہ ۳ مہینے میں امریکا نے پاکستان کا کس طرح سفارتی گھیرائو کیا ہے اس کا اندازہ  اس سے کیجیے۔

۱۸ فروری کے انتخابات کے بعد اعلیٰ امریکی سفارت کاروں اورفوجی کمانڈروں نے اسلام آباد کے دوروں اور نیچے کی سیاسی سطح تک ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا جس کا مقصداین آر او  کے  پس منظرمیں نئی سیاسی قیادت کا جو نقشہ بنایا گیا تھا اسے عملی شکل دینا تھا۔ ان ۴ مہینوں میں اعلیٰ اختیاراتی ۱۴ مشن پاکستان آئے ہیں اور امریکی سفیرہ صاحبہ کی سفارتی یلغار اس پر مستزاد ہے۔ اس سفارتی یلغار کے تین مقاصد تھے: پہلا یہ کہ امریکا کے مفیدمطلب حکومت تشکیل پائے اور صدرمشرف اور ایم کیو ایم اس کا مرکزی حصہ ہوں۔ دوسرے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جو خدمات پرویز مشرف کے بلاشرکت غیرے دور میں انجام دے رہا تھا، ان کو جاری رکھا جائے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی حکمت عملی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔

۳- تیسرا مقصد انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ملک کی اسلامی قوتوں کو غیر مؤثر بنانا، مدرسوں کے نظام کو قابو میں کرنا، ملک میں سیکولر تعلیم کا فروغ اور سیکولر قوتوں کو تقویت دینا ہے۔ بھارت سے پاکستان کو قریب کرکے، کشمیر کے مسئلے کو دائمی تعویق میں ڈالنے اور تجارت اور ثقافت کے رشتوں کو استوار کرکے پاکستان کی منڈیوں کو بھارتی مصنوعات کے لیے کھولنے اور پاکستانی معاشرے کو بھارتی ثقافت کی آماج گاہ بنانے کی خدمت ہوشیاری سے انجام دی جائے۔ عدلیہ کی بحالی، گمشدہ افراد کی بازیابی اور حقیقی معاشی خودانحصاری کے ایجنڈے کو پس پشت رکھا جائے اور امریکی ایجنڈے کے حصول کے لیے ’ڈنڈے اور گاجر‘ (stick and carrot)کا ہر حربہ استعمال کیا جائے۔ امریکا نے سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے دبائو اور دھمکیوں کا راستہ بھی اختیار کیا ہے اور زرداری گیلانی حکومت امریکی دبائو کے جواب میں صرف پسپائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ قیادت امریکا کی فوجی کارروائیوں کا خاطرخواہ جواب دینے کی جرأت سے یکسر  محروم ہے اور اطلاع ہے کہ زرداری صاحب نے نوازشریف سے کہا ہے کہ دونوں مل کر صدربش کی خدمت میں حاضری دیں اور ملک کے مسائل کے حل کے لیے ان کی آشیرباد حاصل کریں۔    ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کی اس سے زیادہ پست سطح اور کیا ہوسکتی ہے؟


آگے بڑھنے سے پہلے ایک نگاہ ذرا ان میں سے چند بیانات پر بھی ڈال لیں جن کی مارچ میں گیلانی صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلسل بم باری پاکستان پر کی جارہی ہے۔

ان پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کو عراق سے ایران اور پاکستان منتقل کردیں۔

ان کا مزید ارشاد ہوتا ہے کہ:

وائٹ ہائوس نے امریکی وسائل کا بہت زیادہ حصہ عراق پر صرف کیا ہے جب کہ افغانستان اور پاکستان کے دہشت گردی کے مراکز (terror homes) کو نظرانداز کیا ہے۔

۱۲ اپریل کو صدربش اے بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خط کی بازگشت اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کو یوں بیان فرماتے ہیں:

پاکستان، نہ کہ افغانستان یا عراق، اب وہ جگہ ہے جہاں ایسا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں نائن الیون جیسے حملے کیے جائیں۔

۲۲ مئی کو امریکی جرنیل ڈیوڈ پیٹرا نی یوس امریکی جاسوسی اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر اسی خطرے کی اس طرح جگالی فرماتے ہیں:

میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اس اندازے کی تائید کرتا ہوں کہ امریکی سرزمین پر  نائن الیون قسم کا دوسرا حملہ پاکستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں سے کیا جائے گا۔

جون کے مہینے میں افغانستان میں امریکی اور ناٹو فوجوں کی ہلاکت ریکارڈ حد تک ہوئی اور پہلی بار امریکی فوجی عراق سے زیادہ افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد امریکی بحری بیڑے USS Abraham Lincoln کو بحیرۂ عرب میں منتقل کردیا گیا۔ امریکی فوجی کمانڈر خصوصیت سے جناب چیف ایڈمرل مائیکل میولین نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ:

پاکستان سرحد پار کرکے افغانستان آنے والے جنگجوؤں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہا (not doing enough)۔

اس کے ساتھ فاٹا کے علاقے میں بیرونی دہشت گردوں کے جمع ہونے، تربیت پانے اور وہاں سے کارروائیاں کیے جانے کے خطرات سے امریکی اور عالمی میڈیا اور سیاسی محاذوں پر ایک پروپیگنڈا جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان سب کا اصل ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کو خائف کرکے اور دیوارسے لگاکر اُوپر بیان کردہ امریکی مقاصد کے حصول کے لیے فضا سازگار کی جائے۔

این آر او کے تحت پناہ لینے والے حکمران اپنی کھال بچانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور اختیار کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ یہ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ فاٹا، سوات اور اب پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیے گئے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے سیاسی حل کے جو امکانات پیدا ہوئے تھے، وہ خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف اپنی سات سالہ جنگ بقول نوبل لاریٹ پروفیسر جوزف سٹگلیٹ تین ٹریلین ڈالر سے بھی کہیں زیادہ کا نقصان امریکا خود اٹھانے اور دنیا کو اٹھانے پر مجبور کرنے کے باوجود شکست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس شکست میں پاکستان کو فوج کشی کی دھمکیوں اور معاشی امداد کی زنجیروں دونوں کی مار کے ذریعے گھسیٹا جارہا ہے اور زرداری گیلانی حکومت ہے کہ صوبائی حکومتوں کے احتجاجات کے باوجود امریکا کے آگے سپر ڈالے جارہی ہے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف اپنی فوج کو استعمال کر کے فوج اور قوم کے تعلقات کو ہمیشہ کے لیے خراب کر رہی ہے۔

۴- چوتھا پہلو جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے وہ معاشی حالات کا بگاڑ ہے جس کی گرفت روز بروز مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ بگاڑ اجتماعی فساد کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس پہلو سے سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ کھانے پینے کی عام اشیا کی قلت اور گرانی کا ہے جس نے ہرگھر کو متاثر کیا ہے۔ تیل، گیس، بجلی، آٹا، سبزیاں، دالیں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ ان چار مہینوں میں حکومت کوئی ایسی پالیسی نافذ نہیں کرسکی جو لوگوں کی مشکلات اور مصائب میں کمی لاسکے۔ اس وقت پاکستان میں آبادی کا ایک تہائی شدید غربت کا شکار ہے اور عمومی غربت (آمدنی ۲ڈالر یومیہ) تین چوتھائی (۷۵ فی صد) آبادی کا مقدر بن گئی ہے۔ آبادی کے تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۵ فی صد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے یعنی جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے جتنی خوراک درکار ہے وہ اس کو میسر نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چاروں صوبوں میں بچے اپنی عمر کی مناسبت سے جو ان کا وزن ہونا چاہیے اس سے کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ایسے بچوں کی تعداد ۲۸ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ قیمتوں کا حال یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں پٹرول کی قیمت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے یعنی ۳۰ئ۵۳ روپے فی لٹر سے بڑھ کر ۶۹ئ۷۵ روپے فی لٹرہوگئی ہے اور ۱۰ سے ۱۸ فی صد کے تازہ ترین اضافہ (۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ) نے تو سب کی کمر بالکل ہی توڑ دی ہے۔ اب مٹی کا تیل ۹۳ئ۵۷ روپے فی لٹر ہوگیا ہے اور ابھی بھی تیل کمپنیوں کے مطالبات میں کمی نہیں آئی ہے۔ تیل اور گیس کی اتھارٹی ’اوگرا‘ ھل من مزید پکار رہی ہے۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح میں محیرالعقول اضافہ ہو رہا ہے اور شماریات کے فیڈرل بیورو نے جو اعداد و شمار وسط جولائی میں جاری کیے ہیں ان کی رو سے ملک میں اس وقت افراطِ زر کی شرح گذشتہ ۳۰سال میں سب سے زیادہ ہے یعنی گذشتہ سال کے مقابلے میں ۲۱ فی صد۔ اشیاے خوردنی کا اضافہ ۳۰ فی صد تک چلا گیا ہے۔

معاشی میدان میں افراطِ زر کے علاوہ دوسرے پہلوئوں سے زرداری گیلانی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ مندرجہ ذیل حقائق سے کیا جاسکتا ہے:

lکپڑے کی صنعت جس کا حصہ ملک کی برآمدات میں ۶۲ فی صد ہے اور جو ملک کے پورے صنعتی پیداواری نظام کا نصف حصہ ہے، سخت بحران کا شکار ہے۔ کارخانے تیزی سے بند ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں بے روزگاری خوف ناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

  • پاکستان کی درآمدات ۴۰ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جب کہ برآمدات صرف ۵ئ۱۹ بلین ڈالر ہیں جس کے نتیجے میں تجارت کا خسارہ اب ۲۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ ادایگیوں کا خسارہ بھی اب ۱۰ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بیرونی ذخیرہ جات جو مارچ میں ۱۳ بلین ڈالر تھے اب ۱۰بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ اس طرح ۱۰۰ دن میں ۳ بلین ڈالر یعنی ۳۰ ملین ڈالر یومیہ کی کمی واقع ہوئی۔
  • اسٹاک ایکسچینج کا حال بھی برا ہے جو انڈکس ۱۵ ہزار روپے پر تھا وہ اب ۱۰۴۰۰ تک گرچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ۱۰۰ دنوں میں ملک میں کُل سرمایہ کاری کی مالیت ۶ئ۴ ٹریلین روپے سے کم ہوکر ۶ئ۳ ٹریلین پر آگئی ہے۔ یعنی ان ۱۰۰ دنوں میں ملک کی کُل سرمایہ کاری کی مالیت میں یومیہ ۱۰۰ ارب روپے کمی ہوئی ہے۔
  • ۱۰۰ دن پہلے ایک امریکی ڈالر پاکستان کے ۶۲روپے کے برابر تھا۔ اب اس میں ۱۸ فی صد کمی ہوئی ہے اور اب یہ قیمت ۷۳ روپے تک پہنچ گئی ہے۔

معیشت کے جس پہلو پر بھی نگاہ ڈالیں، حالات ابتر نظر آرہے ہیں اوراس کی بڑی وجہ حکومت کی پالیسیوںمیں شدید انتشار اور کسی سمت کا نہ ہونا ہے۔

۵- پانچواں بنیادی مسئلہ امن و امان کا فقدان اور پورے ملک میں جان، مال، آبرو کے تحفظ کی زبوں حالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا گیا ہے جس کا مقصد میرٹ کے مقابلے میں اپنی پسند کے لوگوں کو اہم مقامات پر تعینات کرنا ہے۔ اخبارات نے خود وزیراعظم کے دفتر میں سابق نیب زدہ افراد کے ذمہ داریاں سنبھالنے اور چٹ پٹ ترقیوں کی داستانیں شائع کی ہیں۔ یہ رجحان کسی بھی ملک کے لیے نہایت خطرناک ہے اور پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں تو یہ تباہی کا راستہ ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام حقوق کی حفاظت اور انصاف کے حصول دونوں کے بارے میں مایوس ہورہے ہیں۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافے نے حالات کو اور بھی ابتر کردیا ہے۔ لوگ اصلاح کے مقابلے میں انقلاب کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

۶- چھٹا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہرسطح پر اصحابِ ثروت اور ارباب اقتدار اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور قرض کے پہاڑ ہمالہ سے بھی زیادہ بلند ہوگئے ہیں۔ کفایت شعاری اور سادگی کی صرف باتیں ہوتی ہیں، ان پر عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے پہلے خطاب میں اپنے اخراجات کو ۴۰ فی صد کم کرنے کا اعلان کیا تھا جو بجٹ کے آتے آتے ۳۰ فی صد تک سکڑ گیا لیکن عملاً ٹھاٹ باٹ کا مظاہرہ جاری ہے اور دیکھا جائے تو اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے حلف کے بعد اسی رات وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے کی شادی کی جو تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئی ہیں وہ کفایت شعاری کے دعووں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ وزیراعظم صاحب عمرہ کے لیے گئے تو اس میں ۸۶افراد سرکاری خرچ پر ان کے شریکِ سفر نظر آئے اور سفر کے اخراجات ۱۰ کروڑ سے زائد بیان کیے جارہے ہیں۔ ملایشیا ڈی-۸ کی کانفرنس میں تشریف لے گئے تو اطلاع ہے کہ ان کے وفد میں ۴۰ سے زیادہ افراد تھے، جب کہ وفد سے پہلے سیکیورٹی کے نام پر ۵۰ افراد ملایشیا بھیجے گئے۔ پھر زرداری صاحب سے مشورے کے لیے وزیراعظم صاحب کوالالمپور سے سیدھے دبئی تشریف لے گئے اور ۴۰ کا ٹولہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ جہاز اور قیام کے اخراجات پھر ۱۰ کروڑ سے متجاوز بتائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم تو ایک ہے مگر اطلاع یہ ہے کہ چار افراد کو وزیراعظم کا پروٹوکول فراہم کیا جارہا ہے۔ ایک طرف عوام فاقوں کا شکار ہیں، خودکشیوں کی نوبت آرہی ہے، مائیں اپنے بچوں کو بیچنے اور ایدھی سینٹروں پر چھوڑ جانے پر مجبور ہورہی ہیں اور دوسری طرف یہ اللّے تللّے ہیں۔ کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرتاکہ اس کا انجام کیا ہوگا؟

وزیراعظم صاحب نے بڑے طمطراق سے جو اعلانات کیے تھے ان کی طرف پیش رفت کا کوئی ثبوت ان ۱۰۰ دنوں میں نظر نہیں آرہا۔ ارشاد ہوا تھا کہ ایف سی آر ختم کیا جارہا ہے، آج تک اس سلسلے میں کوئی متبادل قانون پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ ۲۰۰۲ء کا    بدنامِ زمانہ انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی ننس ختم کیا جا رہا ہے مگر وہ آج بھی کتاب قانون کا حصہ ہے اور نئے قانون کا کوئی مسودہ قوم کے اور پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو تاریخی کمیشن بنائے جارہے ہیں یعنی ایک روزگار کمیشن اور دوسرا جنوبی افریقہ کی طرز پر truth and reconciliation commission(سچائی اور مفاہمتی کمیشن)،لیکن ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد بھی ان کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔

مزدوروں کی یونینوں اور طلبہ کی یونینوں سے پابندی اٹھانے کا اعلان ہوا تھا اور اس سلسلے میں کچھ آزادیاں اور مواقع مزدوروں اور طلبہ نے غالباً اپنے دست و بازو سے حاصل بھی کرلیے ہیں مگر اس سلسلے میں جو قانون سازی ہونی چاہیے تھی اور جو مثبت متبادل نظام قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا، وہ ابھی تک پردۂ غیب ہی میں ہے۔ ۱۰۰ دن کے پروگرام کے بیش تر اعلانات حقیقت کا روپ دھارنے میں ناکام رہے اور اس کی بڑی وجہ پارلیمنٹ کی حسبِ سابق بے بسی، قانون سازی کا فقدان، عدلیہ کی عدم بحالی، خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی تشکیلِ نو کے باب میں مجرمانہ کوتاہی، حکومت کا بے سمت ہونا اور امریکی دبائو میں بیرونی ایجنڈے کی مشرف دور کی طرح تعمیل اور تکمیل ہے۔ یہ صورت حال حکومت پر عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرنے اور امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اس کے تاریکیوں میں دم توڑنے کا باعث رہی ہے۔

اس پورے ناکام تجربے کی بڑی وجہ سیاسی قیادت، خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کا کردار ہے۔ اب لوگ کھلے بندوں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جس پارٹی میں خود اپنے دستور، ضابطوں اور جمہوری روایات کا احترام نہ ہو وہ ملک کو دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیسے دے سکتی ہے۔ جناب زرداری صاحب نے جس ڈرامائی انداز میں محترمہ کی شہادت کے بعد اقتدار سنبھالا، اس کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے محترمہ کی آخری کتاب اور دوسری تقاریر کے حوالوں سے وصیت کے قابلِ اعتماد ہونے کو چیلنج کیا ہے۔ زرداری صاحب نے خود سندھ ہائی کورٹ میں محترمہ کی وراثت کے سلسلے میں جو پٹیشن دائر کی ہے وہ ان کے حسابات اور دوسرے اثاثوں کے بارے میں وصیت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر اپنے اتنے اہم معاملات کے بارے میں وہ کوئی وصیت نہیں کرسکیں تو پارٹی کے معاملات کے بارے میں وصیت کیسے کر دی۔ وصیت کو اگر تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس کے صحیح مفہوم کا مسئلہ بھی کم اہم نہیں۔ اس سلسلے میں جناب ارشاد احمد حقانی نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور ایک وقتی انتظام کو جس کا مقصد صرف عبوری (transition) تھا، مستقل انتظام کی شکل دینے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ ۱۰۰ دن کی حکمرانی کے پس منظر میں پی پی پی (زرداری) کے بارے میں دی نیشن کی ایک کالم نگار نے بڑے چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا ارشاد ہے:

پیپلزپارٹی (زرداری) کے پاس، جسے قسمت کی ایک بے رحم گردش اقتدار میں لے آئی ہے، حکمرانی کے دائرے میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ پارٹی اور اسی طرح یہ ملک ایک غیر منتخب شخص چلا رہا ہے جو بے نظیربھٹو کا سابقہ شوہر ہے، جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ پُرفریب این آر او استعمال کرکے، جو امریکا اور صدرمشرف نے قوم پر مسلط کردیا ہے، عدالتوں سے بریت حاصل کرلے۔ آصف زرداری اپنے وکیل کے ذریعے گذشتہ ہفتے اپنی مرحومہ بیوی کے اثاثوں کے لیے وراثت کی درخواست جمع کرا رہے تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ بے نظیر بھٹو بلاوصیت انتقال کرگئیں اور ان کا کوئی وصیت نامہ ہرطرح کی تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔ یہ بڑی دل چسپ بات ہے، اس لیے کہ اپنی بیوی کے مرنے کے تیسرے روز زرداری نے ہمارے سامنے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ ان کا وصیت نامہ ہے، اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہ کئی صفحات پر مشتمل ہے جو عوام کے سامنے نہیں لائے جاسکتے کیوں کہ اس میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہے۔ (۱۳ جولائی ۲۰۰۸ئ)

ہمارے اور دوسرے اہلِ قلم کے تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے یہ ۱۰۰دن ضائع کیے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کی روشنی میں حقیقی اور بااختیار قومی حکومت وجود میں نہ آسکی۔ زرداری صاحب نے محترمہ کی وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور رحمن ملک اور ایسے ہی دوسرے غیرنمایندہ افراد کے ذریعے زرداری صاحب اور مشرف میں جو درپردہ معاہدہ ہوا تھا اور جس کے ایک پہلو کا تعلق این آر او کے تحت خود زرداری صاحب، پی پی پی، ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنوں اور دوسرے سیاسی عناصر اور سول اور فوجی بیورو کریسی کے متعلقہ افراد کو احتساب اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا تھا ان کے کرپشن کے الزامات کو کسی غیرجانب دار تحقیق و تفتیش اور عدالتی عمل کے بغیر واپس لے کر امریکا اور برطانیہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت ملک پر نئی سول قیادت مسلط کی گئی۔ اس قیادت نے، خاص طور پر ان افراد نے جن کے ہاتھوں میں اصل باگ ڈور ہے، حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے اقتدار اور گرفت کو مضبوط کرنے، مشرف صاحب کو نئی زندگی دینے، اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر ساری توجہات صرف کیں۔ پرویزمشرف اصل مسئلہ ہیں، ان سے نجات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔عدلیہ کی بحالی کو مذاق بناکر اُلجھا دیا گیا۔ معاشی مسائل کے حل اور امن و امان کے قیام پر قرارواقعی توجہ نہ دی گئی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر حالات کو اور بھی الجھا دیا گیا۔

جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اسے بڑی بے دردی سے ضائع کردیا گیا ہے۔ یہ جمہوری عمل کی ناکامی نہیں، ایک سیاسی گروہ کی ناکامی ہے جس نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر جمہوری عمل کو ایک طرح یرغمال بنالیا اور ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام شروع کردیا۔ یہ امریکا مشرف زرداری حکمت عملی ہے جس نے ۲۰۰۷ء کی قربانیوں اور ۱۸فروری کے انتخابی نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کھیل اب بالکل کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر حالات پر گہری نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کا پردہ چاک کررہے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کے وہ قائد جنھوں نے گذشتہ دس بارہ سال پارٹی کو زندہ رکھنے اور آمریت کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اب کھل کر میدان میں آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ ۱۰۰ دن ایک water-shed کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور قوم آج اپنے آپ کو ایک بہت بڑے امتحان میں پاتی ہے___ اس امر کا خطرہ ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات کے علَم بردار جو اصل جمہوری عمل کو ہائی جیک کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں، آمریت اور بیرونی قوتوں کی بالادستی کی تاریک رات مسلط کرنے کے لیے کسی حد کو بھی پارکرجائیں۔ نیز آمریت کے کارندے اور ایجنسیوں کے دست و بازو اسے جمہوریت کی ناکامی کا رنگ دے کر پرانے کھلاڑیوں یا نئے طالع آزمائوں کے لیے فضا سازگار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کراچی کی ایک خاص رنگ کی تجارتی کمیونٹی میں گورنر سندھ اور ناظم کراچی کی بیساکھیوں پر کل کے آمر پھر کسی نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ یہ سارے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں لیکن یہ وقت ٹھنڈے غوروخوض اور حقائق کے صحیح ادراک پر مبنی حکمت عملی کی تشکیل کا ہے۔

۲۰۰۷ء میں عدلیہ کی بحالی اور جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جو جدوجہد وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوںنے شروع کی تھی آج اس تحریک کو ان نئے خطرات سے بچاکر دوبارہ حقیقی جمہوری عمل کے حصول، دستور کی بالادستی، عدلیہ کی بحالی، قانون کی حکمرانی، آمریت سے ہمیشہ کے لیے نجات، فوج کو سیاست کی آلودگیوں سے مکمل طور پر پاک رکھنے، اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ملک کے اندر اور اس کے حقیقی خادموں کے ذریعے انجام دینے کے نظام کے استحکام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد ہے۔ گذشتہ ۱۰۰ دن اس تحریک کا تسلسل نہیں، اس سے انحراف اور ماقبل کی پالیسیوں کے نئے روپ میں اور نئے کرداروں کے ذریعے تسلسل کا زمانہ رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر تمام جمہوری قوتیں اور حق، انصاف اور قانون کی پاسداری کے تمام علَم بردار   بے لوث انداز میں منظم جدوجہد کریں اور جمہوری عمل کے ہائی جیکنگ کے اس اقدام کو       ناکام بنادیں۔ وکلا برادری اور اے پی ڈی ایم نے انتخابات سے پہلے جس بالغ نظری کا مظاہرہ  کیا تھا، اب ضرورت ہے کہ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ ملا کر اسی طرح ایک مؤثر تحریک کا اہتمام  کیا جائے۔ یہ کام کسی جذباتی رو میں انجام نہیں دیا جاسکتا لیکن حالات جس مقام پر پہنچ گئے ہیں اور جو خطرات اب سامنے منڈلا رہے ہیں ان کی موجودگی میں غفلت یا کوتاہی بڑی خطرناک ہوسکتی ہے۔ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل، کوئی اگر دفتر میں ہے

اس وقت پوری قوم افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملحق قبائلی علاقے میں امریکا کی قیادت میں اتحادی افواج کی طرف سے فوج کشی کے خطرات اور خدشات کے شدید احساس سے دوچار ہے۔ عالمی راے عامہ اور امریکی عوام و خواص کی توجہ بھی اسی طرف ہے۔ اس ضمن میں بنیادی   طور پر دو سوالات ابھر رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکی حملے کا امکان کتنا ہے؟ دوسرا یہ کہ اس حملے کا  ممکنہ نتیجہ کیا ہوگا؟ لیکن ان دونوں سوالات سے اہم تر سوال یہ ہے کہ اس طرح کے حالات کیوںکر پیدا ہوئے؟

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ باوجود یکہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کبھی بھی گرم جوشی نہیں پائی گئی، افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد ہمیشہ محفوظ رہی ہے۔ شمال مغربی سرحد کے اس تحفظ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر بسنے والے قبائل جیساکہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا، پاکستان کے بازوے شمشیر زن ہیں۔ قائداعظم نے شمالی وزیرستان میں حاجی میرزالی خان المعروف فقیر آف اے پی کی زیر قیادت مجاہدین کے خلاف ۱۱ سال سے جاری انگریز کے فوجی آپریشن کو روک کر سارے قبائلی علاقہ جات سے پاک فوج کو واپس بلالیا تھا اور    یہ اعلان کیا تھا کہ اس سرحد کی حفاظت ہمارے آزاد قبائل کریں گے۔ یہ اس ملک کے لیے ایک المیے سے کم نہیں ہے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد ہمارے فوجی حکمران امریکی دباؤ میں آگئے اور افغانستان پر حملہ آور ہونے کے لیے امریکا کو پاکستان کی فضا، ہوائی اڈے، انٹیلی جنس معلومات اور لاجسٹک تعاون فراہم کیا۔ اسی وجہ سے امریکا کے لیے افغانستان پر حملہ ممکن ہوا، افغانستان کے شمالی اتحاد کے تعاون سے طالبان کی حکومت کو ختم کیا گیا اور اتحادی فوج امریکی قیادت میں افغانستان کی سرزمین پر اُتری۔ اسی وقت سے ہماری شمال مغربی سرحد پر امریکی حملے کا خطرہ پیدا ہوا۔

پرویز مشرف کی قیادت میں فوجی حکم رانوں نے اس سنگین جرم کا ارتکاب بھی کیا ہے کہ امریکی خوشنودی کی خاطر پاکستان کے شمال مغربی سرحد کے محافظ آزاد قبائل پر پاکستانی فوج کو   حملہ آور کردیا۔ ۲۰۰۴ء میں جنوبی وزیرستان ، وانا سے اس کا آغاز ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں شمالی وزیرستان کے اندر میر علی اور میران شاہ پر فوج کشی کی گئی۔ باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں کئی واقعات ہوئے۔ اس دوران امریکا نے ہماری سرحد کی بیسیوں خلاف ورزیاں کر ڈالیں اور ہمارے سیکڑوں قبائلی عوام بوڑھے، بچے اور خواتین شہید کر دیے۔

قبائل کے خلاف فوجی آپریشن کے لیے یہ بہانہ بنایا گیا کہ یہاں غیر ملکی جنگجو موجود ہیں جو ہماری سرزمین کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں جنوبی وزیرستان کے قصبہ شگئی میں پاک فوج اور قبائل کا معاہدہ ہوا جس پر کمانڈر نیک محمد اور پشاور کے کور کمانڈر نے دستخط کیے اور اس کے بعد وہ بغل گیر ہوئے۔ یہ معاہدہ امریکا کو ناقابلِ قبول تھا اس لیے اس کو توڑا گیا اور امریکی میزائل حملے میں کمانڈر نیک محمد کو شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد میران شاہ میں باقاعدہ معاہدہ ہوا لیکن اس کو بھی سبوتاژ کیا گیا۔ جنوری ۲۰۰۶ء میں باجوڑ میں اسی طرح کا معاہدہ ہونے والا تھا کہ ایک دن قبل چینہ گئی (باجوڑ ایجنسی) میں ایک مدرسے پر میزائل حملہ کرکے حفظ القرآن کے ۸۳معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کو شہید کردیا گیا۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ قبائل غیرملکیوں کو پُرامن رہنے کی ضمانت دینے کے لیے ہر لحاظ سے آمادہ اور تیار ہیں اور اس مقصد   کے لیے قبائل اور حکومتِ پاکستان کے درمیان دو معاہدوں پر باقاعدہ دستخط ہوگئے اور کئی معاہدے دستخط کے لیے تیار تھے۔ لیکن امریکی دباؤ میں آکر پرویز مشرف نے اپنی فوج کو اپنے قبائلی عوام کے خلاف صف آرا کردیا۔ اس جنگ میں، حکومت کچھ بھی اعلانات کرے، فوج نے قبائل سے شکست کھائی ہے۔ دونوں جانب نقصان ہمارا ہی ہوا ہے۔

اس عرصے میں ضلع ہنگو اور کرم ایجنسی میں شیعہ سُنّی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے اور خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں دیوبندی اور بریلوی کی بنیاد پر لشکرِ اسلام اور انصار الاسلام کے درمیان لڑائی چھیڑ دی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان فسادات کی تہہ تک پہنچنا نہایت مشکل ہے۔ البتہ چند شواہد کی بنیاد پر کچھ نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ ہماری حکومت بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) اور جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے کو موردِالزام  ٹھیرا رہی ہے جس میں کافی حد تک صداقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جب ہمارے خلاف یہ کارروائیاں کررہا ہے تو ہماری حکومت کو اس کے ساتھ دوستی، تجارت اور مذاکرات کا اتنا شوق کیوں ہو رہا ہے کہ ہمارے نئے حکمران کشمیر کو فراموش کرنے کے عندیے دے رہے ہیں۔

اس سارے مسئلے میں ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے حکمران جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے کے بجاے، خوف زدہ ہوکر بھارت اور امریکا کو اپنا دوست قرار دے رہے ہیں، جب کہ  یہ ہمارے دشمن ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دشمنی ہماری طرف سے نہیں، اُن کی طرف سے ہورہی ہے۔ اگر ہم کسی وجہ سے دشمن کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے مناسب حکمتِ عملی اختیار کی جاسکتی ہے لیکن اگر دشمن کو دوست قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

شمال مغربی سرحد پر امریکی حملے کے امکان کو کلیتاً مسترد نہیں کیا جاسکتا لیکن اس حملے کے مقابلے کی زیادہ سے زیادہ تیاری کا مظاہرہ کرکے اس کے امکان کو کم سے کم بھی کیا جاسکتا ہے اور حملہ ہوجانے کی صورت میں اس کا مؤثر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر امریکا یہ جانتا ہو کہ پاکستانی فوج اپنی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کرے گی تو وہ ہرگز حملے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس کے ایک دن میں ۹ فوجی مرگئے تو امریکہ ہل گیا۔ اگر ہماری فوج سو ڈیڑھ سو باڈی بیگ بھی امریکا  روانہ کرنے کا داعیہ رکھتی ہو، تو امریکی ہمیں آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ اب تو ہر دوسرے تیسرے روز ایک دوسرے تیسرے درجے کا اہلکار ہمیں دھمکیاں دے کر بے عزت کرجاتا ہے۔ مگرہمارے وزرا جی حضور ہی کہتے رہ جاتے ہیں۔ ہماری، پاکستان کی، اس کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ جس فوج کو عوام نے پیٹ کاٹ کر مسلح کیا ہے، وہ حب الوطنی کے تقاضے پورے کرنے کے بجاے سرحدوں کی حفاظت کی اصل فریضے سے دست کش ہوگئی ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکومت کو معاملات سنبھالنے کا جو زرّیں موقع ملاتھا وہ اس نے کھو دیا ہے اور حسب سابق پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی جنگ قرار دے کر امریکا کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں اور حد یہ ہے کہ اس کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری یا اختیار کو بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمارے ہاتھ میں نہیں اور آمرانہ دور ہو یا جمہوری تماشا، پالیسیاں امریکا بنا رہا ہے، اور اس کے   آلۂ کار انھیں نافذ کر رہے ہیں۔

اس وقت جو خطرات ہمارے اوپر منڈلا رہے ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام قبائلی علاقہ جات میں فوجی آپریشن کو ختم کرنے کا اعلان کرکے فوج کو وہاں سے واپس بلائے۔ قبائل کے منتخب ممبرانِ پارلیمنٹ اور  دیگر عمائدین اور قبائل کے علماے کرام کے ذریعے قبائلی علاقہ جات کے انتظام و انصرام کو دوبارہ بحال کیا جائے۔

افغانستان اور قبائلی علاقے میں بیرونی مداخلت اور اس کے نتیجے میں جنگ کے ممکنہ حتمی نتیجے کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بیرونی مداخلت کار اس علاقے میں کسی جنگ میں پوری تاریخ میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، اور اب بھی اگر امریکا نے افغانستان کے بعد پاکستان کے قبائل پر جنگ کو مسلط کیا تو امریکا نہ صرف قبائل میں، بلکہ افغانستان میں بھی بدترین شکست سے دوچار ہوگا۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے!

… عموماً سب مسائل کو لپیٹ کر صرف ایک بڑا مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کا عنوان ہے: ’پاکستان کا دفاع اور استحکام‘۔ اور اس کا حل یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سب پاکستانی مل کر ایک ہوجائیں اور فوجی حیثیت سے مضبوط ہوں۔ لیکن تھوڑا سا تجزیہ کرنے ہی پر یہ بات کُھل جاتی ہے کہ پاکستان کا دفاع و استحکام کوئی ایک سادہ سا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مسائل کا مجموعہ ہے، اور اس کا حل بھی اُتنا سادہ نہیں ہے جتنا اسے سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا ایک ملک جس کے اخلاق کو   گھن لگا ہوا ہو، محض اسلحے اور فوجی تربیت کے بل پر کھڑا ہوسکتا ہے؟

کیا ایک ملک جس کے عناصرِ ترکیبی کو ایک دوسرے سے پھاڑنے اور باہم متصادم کرنے کے لیے بہت سے طاقت ور اسباب موجود ہوں بس ’ایک ہوجائو‘ کی تسبیحیں پڑھنے سے واقعی ایک ہوسکتا ہے؟ پس بجائے اس کے کہ ہم سادگی اور سادہ لوحی سے خود کام لیں یا دوسروں کو سادہ لوح فرض کر کے ان کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور فرضی مسائل کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں، ہمیں واضح طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ فی الواقع پاکستان کی بقا و تحفظ اور اس کا استحکام کن مسائل سے وابستہ ہے اور ہم کس طرح انھیں حاصل کرسکتے ہیں۔

l اخلاقی انحطاط: اولین مسئلہ ملک کے اخلاق کا ہے جو تشویش ناک حد تک گر چکے ہیں۔ ہماری تمام مشکلات میں سب سے زیادہ اخلاق ہی کی خرابیاں کارفرما ہیں۔ اس بگاڑ کا  زہر اتنے وسیع پیمانے پر ہماری سوسائٹی میں پھیل گیا ہے اور اتنا گہرا اُترچکا ہے کہ اگر ہم اسے  اپنا قومی دشمن نمبر ایک قرار دیں تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ کوئی بیرونی خطرہ ہمارے لیے اتنا  خوف ناک نہیں ہے جتنا یہ اندرونی خطرہ ہے۔ یہ ہماری قوتِ حیات کو کھا گیا ہے اور کھائے چلا جا رہا ہے...

یہ حقیقت اب کھل چکی ہے کہ ہمارے اخلاق کے جوڑبند بُری طرح ڈھیلے ہوگئے ہیں۔  ہم میں ہزارہا آدمی ایسے موجود ہیں جو قتل و خون کے مشّاق ہوچکے ہیں، ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو موقع ملنے پر بد سے بد تر جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں، اور نیچے سے لے کر اُونچے طبقوں تک کم از کم ۹۵ فی صد تعداد ان لوگوں کی ہے جنھیں حرام کا مال سمیٹنے میں قطعاً کوئی تامل نہیں ہے بشرطیکہ انھیں قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کا اطمینان ہو۔

ان حالات میں ہمارے لیے یہ کوئی وجہِ تسلی نہیں ہے کہ اس سے بدرجہا زیادہ بدتر اخلاقی صفات کا ظہور [گذشتہ برس] ہندستان میں ہندوئوں اور سکھوں سے ہوا ہے۔ جو زہر انھوں نے کھایا اس کی فکر انھیں ہو یا نہ ہو، ہمیں تو اُس زہر کی فکر ہے جو ہماری رگوں میں اُتر گیا ہے۔ کیا مشّاق مجرموں اور بے باک خائنوں کی اتنی کثیر تعداد اپنے اندر لیے ہوئے ہم اپنی قومی زندگی کو مستحکم بنا سکتے ہیں؟ کیا وہ بداخلاقیاں جو کل غیروں کی جان، مال اور عصمت کے معاملے میں برتی گئی تھیں، ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں اور اپنا کوئی پایدار اثر ہماری سیرت و کردار پر نہیں چھوڑ گئیں؟ کیا یہ بگڑے ہوئے اخلاق اب خود اپنوں پر ہاتھ صاف کرنے سے رُک جائیں گے؟

ایک سال کا تجربہ ہمیں بتا رہا ہے کہ جس اخلاقی زوال کی خبر گذشتہ فسادات نے دی تھی وہ وقتی اور محدود نہ تھا۔ دراصل وہ ایک نہایت خوفناک مرض کی حیثیت سے ہمارے اندر اب بھی موجود ہے اور ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے کو خراب کر رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جو دشواریاں فطرتاً ایک نئی مملکت کو پیش آیا کرتی ہیں وہ تو ہمیں پیش آنی ہی تھیں، اور جو مصائب انگریز، ہندو اور سکھ کی باہمی سازش سے ہم پر نازل ہوئے وہ بھی اپنی جگہ تھے، لیکن یہ سب کچھ بڑی آسانی سے انگیز کیا جاسکتا تھا۔ اگر ہمارے عوام و خواص اور ہمارے سربراہ کاروں کے اخلاق اتنے بگڑے ہوئے نہ ہوتے۔ یہ واقعہ ہے، اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کہ اخلاق کی خرابیوں نے ہماری مشکلات اور مصیبتوں کو، جتنی کہ وہ تھیں، اصل سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا۔

مثال کے طور پر ’مہاجرین‘ کے مسئلے کو لیجیے جو پاکستان بنتے ہی ایک پہاڑ کی طرح ہم پر نازل ہوا۔ بلاشبہہ ایک ملک کے لیے اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں کہ اس پر ۶۰، ۷۰ لاکھ    بے سروسامان آدمی یک لخت لا کر ڈال دیے جائیں۔ لیکن غور سے دیکھیے کہ اس طرح جو مشکلات حقیقتاً رونما ہوئی تھیں ان پر کتنا اضافہ ہماری اپنی اخلاقی خرابیوں نے کردیا۔۱؎ ہندوئوں اور سکھوں نے جو عمارات، سامان، اموال، دکانیں، کارخانے، زمینیں اور دوسری چیزیں پاکستان میں چھوڑی تھیں، اگر ان پر خود پاکستان کے باشندے، حکومت کے عُمّال اور قومی کارکن قبضے کر کے نہ بیٹھ جاتے تو کیا مہاجرین کو بسانے میں ہم کو وہی دقتیں پیش آسکتی تھیں جن سے اب ہم دوچار ہیں؟ مغربی پنجاب اور سرحد اور سندھ کی حکومتوں سے پوچھیے کہ جانے والوں نے کیا کچھ چھوڑا تھا، اور اس کا کتنا حصہ آنے والوں کو دیا گیا اور کتنا حصہ کن کن غیرمستحقین کو پہنچا؟ اگر یہ اعداد وشمار روشنی میں آجائیں تو دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ جائے کہ مہاجرین کے مسئلے کا جو زخم غیروں نے ہم کو لگایا تھا اسے سرطان کا پھوڑا بنا دینے والے دراصل کون لوگ ہیں۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حمام میں آپ کس کس کو برہنہ دیکھیں گے۔

پھر جو لوگ کل تک ’پاکستان زندہ باد‘کے نعرے لگا رہے تھے، جن سے بڑھ کر قوم کے درد میں تڑپنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا… ان میں عظیم الشان اکثریت آپ کو ایسے افراد کی نظر آئے گی جو پاکستان بننے کے بعد ہر زاویے سے اس کی کشتی میں سوراخ کیے جارہے ہیں۔ یہ رشوت خوریاں، یہ خیانتیں، یہ غبن، یہ قومی خرچ پر اقربا پروریاں اور دوست نوازیاں، یہ فرائض سے غفلت، یہ ڈسپلن سے گریز، یہ غریب قوم کی دولت پر عیاشیاں، جن کا ایک طوفان سا ہمارے نظامِ حکومت کے لیے ہر شعبے میں برپا ہے اور جس میں بکثرت چھوٹے اہل کاروں سے لے کر بہت سے عالی مقام حکام اور وزرا تک آلودہ ہیں___کیا یہ سب پاکستان کو مضبوط کرنے والی چیزیں ہیں؟ یہ دکانوں اور کارخانوں کی ناجائز تقسیم، جس کی بدولت ملک کی صنعت و تجارت کا بڑا حصہ نااہل اور ناتجربہ کار ہاتھوں میں چلا گیا ہے، کیا یہ پاکستان کی طاقت کو مستحکم کرنے والی چیز ہے؟ یہ پبلک کا بالعموم حکومت کے ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنا اور ان سے بچنے کے لیے، نیز دوسرے ناجائز فوائد حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازموں کو رشوتیں دینا، اور جہاں بھی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی اُمید ہو پبلک فنڈ کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے میں بھی تامّل نہ کرنا، کیا یہی وہ چیزیں ہیں جن سے پاکستان مضبوط ہوسکتا ہے؟

ملک کے باشندوں کی اخلاقی حالت اس قدر گر چکی ہے کہ ہندستان سے آنے والے مہاجرین کی لاشیں جب واہگہ اور لاہور کے درمیان پڑی سڑ رہی تھیں اور کیمپوں میں بھی موت کا بازار گرم تھا اس وقت ۱۲، ۱۳ لاکھ مسلمانوں کے شہر میں سے چند ہزار نہیں، چند سو آدمی بھی ایسے    نہ نکلے جو اپنے بھائیوں کو دفن کرنے کی زحمت اٹھاتے۔ متعدد مثالیں ہمارے علم میں ایسی ہیں کہ کوئی مہاجر مرگیا ہے اور اس کے عزیزوں کو نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے اُجرت پر آدمی فراہم کرنے پڑے ہیں۔ یہاں تک بھی نوبت پہنچی ہے کہ سرحد کے قریب کسی گائوں میں مہاجرین کو زمینیں دی گئیں اور مقامی مسلمانوں نے سرحد پار سے سکھوں کو بلا کر ان پر حملہ کرا دیا تاکہ یہ بھاگ جائیں اور زمین ہمارے قبضہ میں رہ جائے۔ حد یہ ہے کہ قوم کی جو بیٹیاں ہندستان کے ظالموں سے بچ کر آگئی تھیں ان کی عصمتیں یہاں خود اپنے بھائیوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکیں___ اس قسم کے واقعات شاذ نہیں ہیں بلکہ بکثرت ہمارے علم میں آئے ہیں، اور ان شرم ناک جرائم کے مرتکب صرف عام شُہدے ہی نہیں تھے___ کیا اِتنے شدید اخلاقی تنزل کے ہوتے ہوئے ہم یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ کسی بڑی اندرونی یا بیرونی مصیبت کے مقابلے میں ہم مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوسکیں گے؟ اور کیا یہ اخلاقی تنزل اپنے ملک کی تعمیر کے لیے ہماری کسی اسکیم کو کامیابی کے ساتھ چلنے دے گا؟

تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو جانے دیتے ہیں کہ ہماری قیادت نے سیاسی تحریک کے ساتھ قوم کی اخلاقی طاقت کو سنبھالنے کی فکر کیوں نہ کی؟ ہم پوچھتے ہیں کہ اب وہ اس کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اخلاق بنانے اور سنوارنے کا کیا سروسامان اس کے پاس ہے؟ کیا تدابیر اس کے پیشِ نظر ہیں؟ کیا لائحۂ عمل اس نے بنایا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا واضح جواب ہمیں ملنا چاہیے۔ اگر اس کے جواب میں اُن نصائح کی طرف اشارہ کیا جائے جو کبھی کبھی ریڈیو اور سرکاری پریس اور تقریروں کے ذریعے سے پبلک کو اور حکومت کے چھوٹے اہل کاروں کو کی جاتی رہتی ہیں، تو ہم پہلے ہی کہے دیتے ہیں کہ اس طرح کی طفل تسلیوں سے ہمیں معاف رکھا جائے۔ اس لیے کہ بداخلاقی کے اصل سرچشمے تو خود قصرِقیادت کے ستونوں میں شامل ہیں۔ کارفرمائی اور کارپردازی کی باگیں تو اِس وقت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جن کی بڑی اکثریت ہی کے دم قدم سے بداخلاقی کا بازار گرم ہے۔ پھر بھلا خیانت کی زبان سے امانت کا سبق، خودغرضی کی زبان سے ایثار کا وعظ اور گناہ کی زبان سے نیکی کا درس انسانی فطرت نے کب قبول کیا ہے کہ یہاں اس کے کارگر ہونے کی توقع کی جائے!

l ملکی وحدت و سلامتی : دوسرا مسئلہ جو پاکستان کی زندگی، اس کی بقا اور اس کے استحکام کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے، انھیں کس طرح جوڑ کر ایک بنیانِ مرصوص بنایا جائے؟ یہ عناصر اِس وقت شدت کے ساتھ مائلِ انتشار نظر آرہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی چیز کے عناصرِ ترکیبی ہی اگر مُجتمع اور باہم پیوستہ نہ ہوں تو اِس کے وجود کا برقرار رہنا سخت دشوار ہوتا ہے___لہٰذا اگر یہ واقعہ ہے، اور کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہو،    کہ پاکستان کے ترکیبی عناصر میں جمع و تالیف کے بجاے کچھ انتشار و پراگندگی کے رُجحانات پائے جاتے ہیں اور کچھ قوتیں اُن کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بندِ استحکام، بلکہ عین ہماری بندشِ وجود ہی میں ایک خطرناک رخنہ موجود ہے، جسے دُور کیے بغیر ہم اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے ان میں تین تفریقیں اس وقت بالکل نمایاں ہیں:

m پہلی تفریق مہاجرین اور غیرمہاجرین کے درمیان ہے۔ ہماری آبادی میں مہاجرین کی تعداد اس وقت ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے اور یہ تعداد روزافزوں ہے، کیونکہ ہندستان کے ہرحصے سے مسلمان اُکھڑ اُکھڑ کر برابر پاکستان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ مشرقی ہند کے لوگوں کا رُخ مشرقی پاکستان کی طرف ہے اور باقی ہندستان کے لوگ مغربی پاکستان کی راہ لے رہے ہیں۔۲؎ یہ نیا عنصر اب ہماری آبادی کا ایک مستقل عنصر ہے اور تعداد کے لحاظ سے کوئی معمولی عنصر نہیں ہے۔ لیکن متعدد اسباب ایسے ہیں جو نئے اور پرانے عناصر کو مل کر ایک قوم بننے سے روک رہے ہیں۔ کچھ تو زبان، تہذیب، معاشرت اور عادات و خصائل کے قدرتی اختلافات ہیں جوبہرحال ایک مدت تک یگانگت میں مانع ہوا ہی کرتے ہیں۔ مگر ان پر غیرمعمولی اضافہ جس چیز نے کردیا ہے وہ  یہ ہے کہ مہاجرین اور غیرمہاجرین دونوں میںجاہلیت کے تعصبات اور نفسانی خود غرضیاں کارفرما ہیں۔ یہ چیز ہر جگہ ان دونوں عناصر کو پھاڑ رہی ہے، ان کو مخالف جتھوں کی شکل میں منظم کر رہی ہے، ان کے درمیان آویزش کی صورتیں پیدا کر رہی ہے اور دونوں طرف کے تنگ نظر اور خود غرض مفسدین ان کو باہم لڑا رہے ہیں۔۳؎

m دوسری تفریق جغرافی، نسلی اور لسانی ہے۔ پاکستان اول تو دو ایسے خطوں پر مشتمل ہے جن کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ پھر یہ خطے بھی اپنی اپنی جگہ اندرونی وحدت نہیں رکھتے بلکہ مختلف اجزا سے مرکب ہیں اور ہر جز دوسرے جز کے خلاف تعصب رکھتا ہے۔ اس وقت درحقیقت ہم ایک قوم نہیں ہیں، پانچ مختلف قومیں ہیں جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں، یعنی سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور بنگالی۔ ان میں سے ہر ایک قوم کے اندر علیحدگی کا رُجحان شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے اور بعض نادان گروہ اس کو شدید تر کرنے کی پیہم جدوجہد کررہے ہیں۔۴؎

m تیسری تفریق معاشی ہے۔ امیر اور غریب، زمین دار اور کاشت کار، مزدور اور سرمایہ دار، بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہل کار، یہ مختلف گروہ ہیں جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے سے پھاڑ دیا ہے۔ ان کے درمیان اخوت اور ہمدردی کا تعلق نہیں ہے بلکہ حسد اور بُغض کا تعلق ہے۔ یہ ایک دوسرے کے رفیق اور حامی و ناصر نہیں ہیں بلکہ حریف اور مدِّمقابل ہیں۔ ان کی کش مکش بھی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے اندر ایک گروہ ایسا موجود ہے جس کا مستقل فلسفہ ہی یہ ہے کہ انھیں ملا کر ایک کر دینے کا خیال باطل ہے اور حق صرف یہ ہے کہ ان کو باہم لڑا دیا جائے۔۵؎

سوال یہ ہے کہ یہ مختلف تفریقیں، جو ہماری قوم اور ریاست کو پارہ پارہ کردینے پر تلی ہوئی ہیں، جن کو نشوونما دینے کے لیے گہرے داخلی اسباب بھی موجود ہیں، اور جنھیں بھڑکانے کے لیے خارجی محرکات کی بھی کمی نہیں ہے، آخر کس طریقے سے مٹائی جاسکتی ہیں؟ طاقت کے ذریعے سے ان کو دبا کر ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو برقرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے، مگر یہ چیز دلوں کو جوڑ کر وہ قلبی وحدت تو ہرگز پیدا نہیں کرسکتی جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلے میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ پھٹے ہوئے دل اور کھنچے ہوئے ہاتھ  نہ تعمیر میں تعاون کرسکتے ہیں اور نہ مدافعت ہی میں بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ قومیت کا پرچار بھی اس معاملے میں بے بس ہے۔ ہندستان میں ہم اس کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔ مغربی تصورات کے مطابق قومیت کی تبلیغ و تلقین وہاں جتنی بڑھتی گئی، اس نے ملک کی آبادی میں وحدت پیدا کرنے کے بجاے ان تمام گروہوں میں اپنے امتیازی وجود کا احساس جگا دیا جو اپنے اندر قومیت کے عناصر رکھتے تھے۔ پھر معاشی اغراض کا تصادم تو وہ چیز ہے جس کے زہر کا تریاق فراہم کرنے میں قومیت جگہ جگہ ناکام ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اب ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری موجودہ قیادت کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے اور وہ کہاں تک اس سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتی ہے؟

کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم اُن دوسرے مسائل کی اہمیت سے غافل ہیں جو اس وقت پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو درپیش ہیں۔ بلاشبہہ وہ مالی، صنعتی، انتظامی، دفاعی اور خارجی مسائل بھی اپنی جگہ کافی اہم ہیں جن سے ہم اس مملکت کی پیدایش کے بعد دوچار ہوئے۔ کوئی نہیں کہتا کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے، نہ ان واقعی خدمات کا انکار کرنا قرین انصاف ہے جو اس سلسلے میں موجودہ قیادت نے انجام دیں۔ لیکن جہاں تک ہم سمجھتے ہیں مسلمانوں کی حیات قومی کے لیے اِس وقت سب سے بڑے مسئلے یہی ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے، اور قیادت کا اصل مِحکِّ امتحان [کسوٹی] یہ ہے کہ وہ انھیں صحیح طور پر حل کرنے کی اہلیت، فکری اور اخلاقی حیثیت سے کہاں تک اپنے اندر رکھتی ہے۔ (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۸ئ، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، دوم، ص ۳۱۷-۳۲۵)

 

حضرت عبداللہ بن شفیقؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے( نفلی) روزوں کے معمول کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ: آپؐ  روزہ رکھنا شروع کرتے تو یوں لگتا کہ اب افطار نہیں کریں گے اور روزہ ترک کردیتے تو یوں لگتا کہ اب روزہ ترک کرنے کی حالت میں رہیں گے۔ فرماتی ہیں کہ مدینہ شریف تشریف لانے کے بعد آپؐ  نے کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھے سواے رمضان کے۔(شمائل ترمذی)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپؐ  نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کے سارے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی مہینے میں آپؐ نے شعبان سے زیادہ روزے رکھے ہوں (بخاری)۔ آپؐ  نے فرمایا: اتنا عمل کرو جتنا کہ تمھارے اندر طاقت ہے۔ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اکتائیں گے لیکن تم عمل سے اُکتا جاؤگے۔ (بخاری)

اللہ تعالیٰ نے اپنا قرب حاصل کرنے کے لیے نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کی عبادات فرض کی ہیں اور ان فرائض کی تکمیل کے لیے نفلی عبادات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے حدیثِ قدسی مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور ولایت حاصل کرنے کا ذریعہ فرائض کے بعد نوافل ہیں۔ ان کے ذریعے آدمی اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے تو پھر ہدایت اس کے لیے مقدر ہوجاتی ہے اور اس کی دعائیں سنی جاتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ (بخاری ، مسلم)

روزے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنی خواہشات پر قابو پا لیتا ہے۔ پھر بھوک‘ پیاس اور جنسی جذبات اسے راہ راست سے بھٹکا نہیں سکتے۔ شیطان کے حملوں سے روزہ دار محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو ڈھال فرمایا ہے۔ رمضان المبارک میں شیطان کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور روزے دار کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ روزہ دار اپنے آپ کو تمام عبادات اور احکام کی تعمیل کے لیے تیار اور تمام منکرات سے بچنے کے قابل بنالیتا ہے۔ کھانے پینے اور جنسی جذبات کو سحری سے افطار تک روکے رہنے کے سبب اسے ان خواہشات پر قابو پانے کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ تقویٰ کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ روزہ خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں ہوسکتا کہ کس شخص نے روزہ رکھا ہے اور اپنی خواہشات کو ترک کیا ہے۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ اس وجہ سے روزے کا اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہر نیکی کا ثواب ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک ملتا ہے مگر روزہ میرے لیے ہے میں خود اس کی جزا دوں گا۔ (بخاری، مسلم)

o

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ کو جو روزانہ روزہ رکھتے تھے بالآخر ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کی اجازت دی اور فرمایا: ’’یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور اس سے افضل کوئی روزہ نہیں‘‘ (بخاری )۔ آپؐ  نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا‘ اس نے روزہ نہیں رکھا‘‘ (بخاری)، یعنی وہ روزہ نہیں رکھ سکے گا۔

رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں سے اللہ تعالیٰ کے قرب کا جو مقام روزے دار کو ملتا ہے‘ اس میں ترقی اور کمال کے لیے نفلی روزوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انبیاعلیہم السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزوں کا خصوصیت سے اہتمام کرتے تھے ۔ حضرت داؤدـ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے۔

روزے کے اس اجر کی وجہ سے نبیؐ بھی نفلی روزے رکھتے تھے اور صحابہ کرامؓ میں بھی اس کا جذبہ اور شوق تھا۔ نبیؐ نے صحابہ کرامؓ کے لیے نفلی روزوں کا وہ نمونہ پیش کیا ہے‘ جس پر وہ عمل کرسکیں اور نفلی روزوں کے سلسلے میں خصوصی ہدایات بھی دیں۔ اس لیے آپؐ نے کسی مہینے اور مہینے کے دنوں کو روزہ رکھنے کے لیے خاص نہیں کیا۔ کبھی شروع‘ کبھی درمیان اور کبھی آخری دنوں میں روزہ رکھتے تاکہ اُمت کے لیے آسانی ہو اور امت کے افراد اپنے اپنے حالات کے مطابق نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔ البتہ جس طرح فرض نمازوں سے پہلے فرضوں کی تیاری کے لیے سنتیں رکھی گئی ہیں اور فرضوں کے بعد ان کی تکمیل کے لیے سنتیں پڑھی جاتی ہیں‘ اس طرح رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر آپؐ نے شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھے اور رمضان المبارک کے اختتام کے بعد آپؐ نے چھے روزے رکھنے کی فضیلت بیان فرمائی۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی والدہ اُم سلیم کے ہاں تشریف لائے۔ وہ آپؐ کی مہمان نوازی کے لیے کھجوریں اور مکھن لے کر آئیں۔ آپؐ  نے فرمایا: مکھن مشکیزہ میں اور کھجوریں تھیلے میں واپس ڈال دو، میں روزے سے ہوں۔ پھر گھر کے ایک کونے میں تشریف لے گئے اور نفل پڑھے۔ پھر اُم سلیم اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعا کی۔ اُم سلیم نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میرا پیارا بیٹا آپؐ  کی خدمت کے لیے مختص ہے‘ اس کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ تب  آپؐ  نے حضرت انس ؓ کے لیے دعا فرمائی اور دنیا اور آخرت کی کوئی بھلائی نہ چھوڑی۔ آپؐ  کی دعا تھی: اللھم ارزقہ مالاً و ولداً و بارک لہ ’’ اے اللہ اسے مال اور اولاد  اور برکت عطا فرما‘‘۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیںکہ تمام انصار سے میرا مال اور اولاد زیادہ ہے۔

انسان نفلی روزے کی حالت میں کسی کے ہاں مہمان بن جائے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ بلاضرورت نفلی روزہ نہ توڑے۔

جب کسی کے گھر جائے تو گھروالوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں دعائیں دے۔ ہمارے ہاں یہ روایت کمزور پڑگئی ہے۔ گھر میں جاتے وقت السلام علیکم کہنا بھی دعا ہے اور گھر سے رخصت ہونے سے پہلے گھروالوں کے لیے دعاے خیر کرنا چاہیے۔ نبیؐ کی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔

o

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کا روزہ خصوصیت کے ساتھ رکھتے تھے۔ (شمائل ترمذی)۔ سوموار اور جمعرات کو بندوں کے اعمال  اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ آپؐ  نے فرمایا: ’’میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔ (شمائل ترمذی)

اللہ تعالیٰ کو ہر عمل کرنے والے کے عمل کا علم ہے لیکن نیک لوگوں کے اعزاز کی خاطر ان کے اعمال  اللہ تعالیٰ کے حضور ان دنوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ: رسولؐ اللہ ایک مہینے میں ہفتہ‘ اتوار اور سوموار کے روزے رکھتے اور دوسرے مہینے میں منگل‘ بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے (شمائل ترمذی)۔ ہفتے کے چھے دن کا روزہ آپؐ کے عمل سے ثابت ہوگیا۔ اس سے اُمت کے لیے آسانی پیدا ہوگئی۔

جمعہ کا روزہ

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا کہ جمعہ کے دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم افطار کرتے۔ (ترمذی‘ نسائی)

جمعہ کے دن بھی نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے لیکن ایسی صورت میں جس میں جمعہ کو روزے کے ساتھ خاص نہ سمجھا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو افطار بھی کیا ہے اور روزہ بھی رکھا ہے اور جمعہ کو روزے کے لیے مختص کرنے سے روکا بھی ہے تاکہ لوگ اس نفلی روزے کواس دن کی فضیلت کے سبب واجب کا درجہ نہ دے دیں۔ اسی طرح آپؐ نے باقی ۶ دنوں میں بھی روزہ رکھا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ کسی بھی دن کا روزہ رکھا جا سکتا ہے، مقصد حاصل ہوجائے گا۔ آج کل نفلی عبادات تو درکنار فرائض میں بھی لوگ کوتاہی کرتے ہیں۔ جو لوگ فرائض کو ادا کرتے ہیں‘ ان کو چاہیے کہ فرائض سے ایک قدم آگے بڑھیں اور نوافل بھی ادا کریں تاکہ نبیؐ اور صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ولایت کی منزل پر فائز ہو سکیں۔ آج کے پُرفتن دور میں ایمان ‘جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کا یہی راستہ ہے۔

عاشورہ کا روزہ

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کا  حکم دیا تھا۔ جب رمضان کا روزہ فرض کردیا گیا تو اس کے بعد جو عاشورے کا روزہ رکھنا چاہتا‘   رکھتا اور جو چھوڑنا چاہتا‘ چھوڑ دیتا۔ (بخاری) عاشورے کا روزہ بھی نفل ہے۔ نبی کریمؐ نے عاشورے کے روزے کی فضیلت میں فرمایا: مجھے اُمید ہے کہ یہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ترمذی)

عاشورہ سے مراد ۱۰ محرم الحرام ہے۔ البتہ اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے کہ یہود کی مخالفت ہوجائے۔ (ترمذی ،عن ابن عباسؓ)

حضرت عبداللہ بن عباسـ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم دیا تو بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ وہ دن ہے جس کی یہود ونصاریٰ  تعظیم کرتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اگلے سال ان شاء اللہ ہم ’ نویں‘ محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ پھر اگلا سال نہ آیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔ ( مسلم )

آج کل یہود ونصاری عاشورہ کاروزہ نہیں رکھتے۔ اس لیے آج کے زمانے میں عاشورہ کاروزہ کافی ہے، اب نویں تاریخ کے روزے کی علت باقی نہیں رہی ۔(معارف الحدیث، مولانا منظوراحمد نعمانی)

عرفہ کا روزہ

حضرت ابی قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ عرفہ کا روزہ ایک سال پچھلے اور ایک سال آیندہ کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔‘‘ (ترمذی)

عاشورہ کا دن فضیلت کا دن ہے، اس لیے اس دن روزے کا ثواب بھی زیادہ ہے۔ اس طرح عرفہ کے دن میں حاجی میدان عرفات میں جمع ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا ان پر نزول ہوتا ہے۔  اس دن جو شخص اخلاص اور شعور کے ساتھ روزہ رکھے گا اس کے لیے یہ روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ ابن بطال فرماتے ہیں کہ یہ فضائل ان لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے ہوں۔ فسق وفجور میں ڈوبے ہوئے‘ فرائض کے تارک اور منکرات کے مرتکب کے لیے یہ فضائل نہیں ہیں۔ ( فتح الباری، ج ۱۳)

ایام بیض کے روزے

حضرت موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذرؓ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ابوذر! جب تم مہینے کے تین دنوں کے روزے رکھنا چاہو توتیرھویں‘ چودھویں اور پندرھویں کا روزہ رکھو۔ (ترمذی)

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھے تو اس نے دھر سارے زمانے کا روزہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں اُتاری: مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا (الانعام ۶:۱۶۰) ’’جو ایک نیکی کرے گا‘ تو اسے ۱۰ گنا ثواب ملے گا‘‘۔گویا ایک دن ۱۰ دن کے برابر ہے۔

اس طرح تین روزے ‘ پورے مہینہ کے روزوں کے برابر ہوگئے اور جب ایک شخص رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ہر ماہ میں تین روزے رکھے گا تو اس کے روزے ۱۲ مہینے کے روزوں کے برابر ہو جائیں گے اور اس طرح وہ صائم الدھر بن جائے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ایام بیض کے روزوں کی تلقین فرمائی لیکن خود ان دنوں کی پابندی نہیں کی تاکہ اُمت پر ان دنوں کی پابندی ضروری نہ سمجھی جائے‘ صرف فضیلت کا درجہ دیا جائے۔

o

حضرت حفصہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: چار چیزیں ایسی ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ چھوڑتے تھے: ۱- عاشورہ کا روزہ ۲-یکم ذوالحجہ سے نویں ذوالحجہ تک کے دنوں کے روزے ۳-ہرمہینے کے تین روزے ۴- فجر کی دو سنتیں۔ (سنن نسائی)

یہ نفلی عبادات ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اہتمام فرماتے تھے۔ اُمت کے افراد کو بھی اہتمام کرنا چاہیے لیکن نفل اور سنت سمجھ کر۔ان عبادات میں سے کسی کو واجب کا درجہ نہ دیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے (ابن ماجہ)۔ یہ زکوٰۃ فرض اور نفلی دونوں طرح کے روزوں کے ذریعے نکالی جاتی ہے ‘ فرض روزوں کے ذریعے زکوٰۃ فرض ہے اورنفلی روزوں کے ذریعے زکوٰۃ مستحب ہے۔

ممنوع روزے

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں، یعنی عیدالاضحی اور عیدالفطر کے روزوں سے روکا ہے۔ (مسلم)

حضرت نُبَیْشہؓ ہذلی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایام تشریق (۱۱‘۱۲‘۱۳ ذوالحجہ) کھانے پینے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ (مسلم)

عیدالفطر اور عیدالاضحی اور ایام تشریق کل پانچ دن کے روزے ممنوع ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی مہمان نوازی اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد کی ایک صورت یہ ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے خطبوں اور نماز کے لیے آتے جاتے تکبیریں پڑھی جاتی ہیں، اور عیدالاضحی اور ایام تشریق میں یوم عرفہ سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ تک نماز کے بعد تکبیر بلندآوازسے پڑھی جاتی ہے۔

ہر انسان کا مقدر ’موت‘ ہے اور ایک نہ ایک روز اسے اس حقیقت کا سامنا کرنا ہے۔ موت کا سفر کسی بھی لمحے پیش آسکتا ہے۔ ربِ رحیم کا فرمان ہے: ’’ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘ (الانبیا ۲۱:۳۵)۔موت کا فرشتہ بادشاہ کے محل میں بھی اسی طرح بے روک ٹوک داخل ہوجاتا ہے جس طرح فقیر کی جھونپڑی میں پہنچ جاتا ہے۔ موت کے وقت مقرر کے بارے میں قرآن حکیم میں آتا ہے: ’’اگر کہیں وہ لوگوں کو اُن کے کیے کرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی مُتنفِّس کو جیتا نہ چھوڑتا۔ مگر وہ اِنھیں ایک مقررہ وقت تک کے لیے مُہلت دے رہا ہے۔ پھر جب اُن کا وقت آن پورا ہوگا تو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ لے گا‘‘(الفاطر ۳۵:۴۵)۔ موت کا لکھا ہوا وقت ذرا پیچھے نہیں ہٹایا جاتا اور نہ موت کے وقت مہلت ہی دی جاتی ہے۔ حالتِ نزع کا کیا عالم ہوگا، فرمایا جا رہا ہے: ’’ہرگز نہیں، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی، اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا، اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے، اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی، وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا‘‘ (الدھر ۷۶:۶۶-۷۰)۔ حضرت اسما بنت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہتی ہیں کہ ’’ایک دن رسولؐ اللہ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں اُس آزمایش کا ذکر فرمایا     جس میں مرنے والا آدمی مبتلا ہوتا ہے۔ جب آپؐ نے اس کا ذکر فرمایا تو خوف و دہشت سے  سب مسلمان چیخ اُٹھے اور ایک کہرام مچ گیا۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب مومن کی رُوح (اس کے جسم سے) نکلتی ہے تو دو فرشتے اُسے ملتے ہیں اور اُسے اُوپر چڑھا لے جاتے ہیں تو آسماں والے کہتے ہیں کہ پاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے (پھر وہ اُس رُوح کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے نیک رُوح) اللہ رحمت نازل فرمائے تجھ پر بھی اور اس جسم پر بھی جسے تو آباد رکھتی تھی۔ پھر اس رُوح کو اس کے رب عزوجل کے پاس لے جایا جاتا ہے تو وہ (اس کے بارے میں) فرماتا ہے کہ اسے آخری میعاد (یعنی قیامت) تک کے لیے (سدرۃالمنتہیٰ کی طرف) لے جائو۔ اور کافر کی روح جب (اس کے جسم سے) نکلتی ہے اُسے بھی اسی طرح اُوپر چڑھا لے جایا جاتا ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ ایک خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے۔ پھر (اس کے بارے میں) حکم دیا جاتا ہے کہ اسے آخری میعاد (یعنی قیامت) تک کے لیے سجّین میں لے جائو۔ رسولؐ اللہ نے (خبیث روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لیے) اُس اکہری چادر کو جو آپؐ اوڑھے ہوئے تھے اس طرح اپنی ناک سے لگایا پھر اُنھوں نے مومن کی روح کی عمدہ خوشبو کا ذکر کیا اور مُشک کا ذکر کیا۔ ( مسلم)

موت کے بعد ’جنازے‘کا مرحلہ آتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے: ’’جب جنازہ رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ اُسے اپنی گردنوں پر اُٹھالیتے ہیں تو اگر وہ (میت) نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہو تی تو کہتی ہے کہ ہاے میری کم بختی! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو۔ اس کی آواز انسان کے سوا ہر شے سنتی ہے اور اگر انسان اُسے سن لے تو (دہشت اور خوف کی شدت کے باعث) غش کھا کر گر پڑے (بخاری)۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اُس کی تعریف کی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی، اور ایک دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس پر میت کو بُرا کہا۔ اس پر بھی آپؐ  نے فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ آپؐ  پر میرے ماں باپ قربان ہوں، ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی تعریف کی تو آپؐ  نے فرمایا: واجب ہوگئی، اور ایک دوسرا جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس (میت) کو برا کہا تو بھی آپؐ  نے یہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ حضوؐر نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور جس میت کو تم لوگوں نے برا کہا اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ (نسائی)

جنازے کے بعد انسان کے سفر کی اگلی کڑی عالمِ برزخ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔  پس اگر کوئی اس سے نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی۔ (نیز) آپؐ  نے فرمایا کہ جتنے بھی (ہولناک) منظر میں نے دیکھے ہیں قبر ان سب سے زیادہ ہولناک ہے۔ (ابن ماجہ)

سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔ میت کو دفن کرنے والے پشت پھیر کر واپس لوٹتے ہیں تو مُردہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد فرشتے اُس کے پاس سوال کرنے آجاتے ہیں۔ جنتی شخص کو جنت کا لباس پہنایا جاتا ہے، جنت کا بچھونا بچھایا جاتا ہے اور جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ جنت کی ہوا اور خوشبو آنے لگتی ہے۔ قبر حدِّنظر تک وسیع کردی جاتی ہے۔ دوزخی شخص کو جہنمیوں کا لباس پہنایا جاتا ہے، دوزخ کا بچھونا بچھایا جاتا ہے اور دوزخ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر دوزخ کی گرمی اور لُو اُس کی طرف آنے لگتی ہے۔ قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اندر کی پسلیاں اُوپر تلے ہوجاتی ہیں۔ پھر اُس پر ایک اندھا، گونگا فرشتہ مسلط کردیا جاتا ہے جس کے پاس ایک لوہے کا گُرز ہوتا ہے۔ اگر وہ گُرز پہاڑ کو مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے۔ وہ فرشتہ اُس گُرز کے ساتھ اُس کافر کو ایک ضرب لگاتا ہے جس کی آواز انسانوں اور جنوں کے سوا ہر وہ شے سنتی ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔ پس وہ کافر خاک ہوکر رہ جاتا ہے۔ پھر اُس میں دوبارہ رُوح ڈالی جاتی ہے (قیامت تک اس پر ایسے ہی عذاب ہوتا رہتا ہے)۔ یہ مرحلہ عالمِ برزخ کا ہے۔

قبر کی منزل کے بعد ’قیامت‘ کے ہولناک دن کا مرحلہ آتا ہے، کائنات کو درہم برہم کرنے کا دن___  موت کے خاتمے کا دن___ قبروں سے نکل کر رب کے حضور حاضری کا دن___  ہزاروں سالوں کی مسافت کا دن!

قیامت کا دن جس کا آغاز صور پھونکنے سے ہوگا۔ رب رحیم فرماتے ہیں: ’’جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا، لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔ پکارنے والے کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے اور وہی منکرین (جو دنیا میں اس کا انکار کرتے تھے) اس وقت کہیں گے کہ یہ دن تو     بڑا کٹھن ہے‘‘ (القمر۵۴:۶-۸)۔ آگے ارشاد ہوتا ہے: ’’اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں‘‘(ابراھیم۱۴:۴-۴۳)۔ سب سے بڑ ی پشیمانی قیامت کے دن ہوگی جس دن مر مٹنے کی حسرت کی جائے گی، جس کا ایک دن دنیا کے ۱۰ ہزار سال کے برابر ہوگا۔ سورج ایک میل کی مسافت پر ہوگا (میل عربی میں آنکھ میں جو سلائی لگاتے ہیں اس کو بھی کہتے ہیں)۔ ہر فرد اپنے اعمال کے پسینے میں شرابور ہوگا۔ کسی کا پسینہ ٹخنوں تک، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا کمر تک اور کسی کا منہ تک ہوگا۔ انکار کرنے والوں کو منہ کے بل چلایا جائے گا۔ اُس دن نہ کوئی سفارش کام آئے گی نہ مال، نہ اقتدار، نہ اولاد۔ آپؐ  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور فرمائے گا کہ میں ہوںبادشاہ! زمین کے بادشاہ (اس وقت)کہاں ہیں (بخاری)۔ آپؐ  نے فرمایا کہ ’’جس انسان کی یہ خواہش ہو کہ وہ قیامت کے دن کو اس طرح دیکھے گویا وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تو اُسے چاہیے کہ اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ  اور اِذَا السَّمَآئُ الْفَطَرتْ اور اِذَالسَّمَآئُ انْشَقَّتْ پڑھے۔ (ترمذی)

آخرت کے اس سفر کی اگلی سیڑھی ہے : ’ ’نامہ اعمال اور حساب کتاب، اور اس کے نتیجے میں جنت یا دوزخ‘‘۔

ربِ کائنات فرماتے ہیں: ’’اور پھر صور پھونکا گیا، یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا۔ ہرشخص اس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا۔ اِس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے‘‘ (قٓ۵۰:۲۰-۲۲)۔ حکم ہوتا ہے: ’’پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے‘‘۔نبی کریمؐ فرماتے ہیں: ’’تم میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس سے خداوند بزرگ و برتر بلاواسطہ اور بلاحجاب گفتگو نہ کرے۔ بندہ دائیں جانب نظر دوڑائے گا تو اسے وہ چیز نظر آئے گی جو اس نے اعمال میں سے بھیجی ہے۔ بائیں جانب دیکھے گا وہی اعمال نظر آئیں گے جو اس نے بھیجے ہوں گے۔ سامنے دیکھے گا تو آگ نظر آئے گی جو اس کے چہرے کے بالکل سامنے ہوگی (بخاری، مسلم)۔ اعمال ناموں کے ریکارڈ ویڈیو فلم کی طرح دکھائے جائیں گے۔ کراماً کاتبین ہی نہیں، ہاتھ پائوں، کان، آنکھ، چمڑی، کھال بھی گواہیاں دیں گے۔ اس دن رب اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں کا حساب لے گا۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی‘‘ (التکاثر ۱۰۲:۸)۔ اور ’’جو تم کیا کرتے تھے اس کی بابت تم سے ضرور پوچھا جائے گا‘‘۔ اعمال کی جانچ پڑتال ہو رہی ہوگی، انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ’’تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجائو گے: دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔ اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔ اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں وہی تو مقرب لوگ ہیں۔ (الواقعہ ۵۶:۷-۱۱)

ذرا غور کیجیے کہ ہم کس گروہ میں اپنے آپ کو شمار کرنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ اس کے بعد وہ مرحلہ آئے گا جب میزان آویزاں کردی جائے گی!

رب رحیم کا احسان عظیم ہے کہ اُس دن فیصلہ تول کے بھاری اور ہلکے ہونے پر ہوگا۔ قرآن میں رب کریم فرماتے ہیں: ’’اور قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا۔ وہ      ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں (الانبیا ۲۱:۴۷)۔ ’’پھر جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا، اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گا۔ رہا وہ شخض جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا‘‘۔ (الانشقاق ۸۴:۷-۱۲)

ایک بار حضرت عائشہؓ دوزخ کی آگ کو یاد کر کے رو رہی تھیں۔آپؐ  سے پوچھتی ہیں کیا آپؐ اپنے اہل و عیال کو یاد فرمائیں گے؟آپؐ نے فرمایا: قیامت کے دن تین مقامات پر کوئی  کسی کو یاد نہیں کرے گا: ۱- میزان ہلکا یا بھاری ہے ۲-نامۂ اعمال دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ میں ملا،  ۳-پُل صراط پر سے گزرتے ہوئے۔ دراصل شفاعت ایک سفارش ہے جو کہ رب کے حکم اور اجازت سے کی جائے گی۔ دنیا میں ۳۰، ۳۱ نمبر والے کو ہی سفارش کی بنیاد پر رعایتی پاس کرتے ہیں، صفر والا پاس نہیں ہوتا۔ آپؐ  نے اپنی پھوپھی صفیہؓ اور اپنی بیٹی فاطمہؓ کو آخرت کی تیاری کی طرف توجہ دلائی۔ خلوصِ دل سے لا الٰہ الا اللہ کہنے والا اور اذان کے بعد کی دعا پڑھنے والا شفاعت کا   حق دار بن سکتا ہے۔

ایمان والوں کو پانی پلانے کے لیے ’حوضِ کوثر‘ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جسے پینے کے بعد عرصہ تک کبھی پیاس کا شکار نہیں ہوگا۔ آپؐ  سے پوچھا گیا: کوثر کیا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: کوثر جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں اور وہ موتی اور یاقوت سے بنی ہے۔ اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے (ترمذی)۔ غور کرنے اور فکر کا مقام تو یہ ہے کہ آپؐ  نے فرمایا کہ میں حوضِ کوثر پر تمھارا پیش خیمہ ہوں۔ تم میں سے بعض لوگ میرے پاس لائے جائیں گے یہاں تک کہ جب میں جھکوں گا کہ انھیں پانی دوں تو انھیں میرے سامنے سے کھینچ لیا جائے گا۔ اس پر میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ تم نہیں جانتے کہ اُنھوں نے تمھارے بعد کیا کیا بدعتیں کیں (بخاری)۔ رزلٹ ملنے کے بعد انجام سامنے ہوگا۔ جنت کی صورت میں یا دوزخ کی صورت میں___درمیان میں کچھ نہیں___ ذرا سوچیے ہمارا ہمیشہ کا گھر کہاں تیار ہو رہا ہے!

دوزخ کے بارے میں آپؐ  نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) دوزخ کو لایا جائے گا۔ اُس دن اس کی ۷۰ لگامیں ہوں گی۔ ہر لگام کے ساتھ ۷۰ ہزار فرشتے ہوں گے جو اُسے کھینچ رہے ہوں گے۔ دوزخ کی آگ کی گرمی دنیا کی آگ سے ۷۰ گنا زیادہ ہے اور جہنم کی گہرائی ۷۰ برس کی مسافت ہے (مسلم)۔ اہلِ دوزخ کا کھانا تھوہر ہوگا۔ یہ ایک سخت کڑوا بدبودار پھل ہوگا۔ آپؐ  نے فرمایا: ’’گرم پانی دوزخیوں کے سروں پر ڈالا جائے گا تو وہ سرایت کرتاہوا اُن کے پیٹوں تک جاپہنچے گا اور جو کچھ پیٹ میں ہوگا (یعنی انتڑیاں وغیرہ) اسے کاٹ دے گا۔ یہاں تک کہ پھر دوزخیوں کے قدموں کے راستے باہر نکل آئے گا۔ بار بار ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ (ترمذی)

سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کافر کا جسم دوزخ میں بہت بڑھ جائے گا یہاں تک کہ اس کی جلد کی موٹائی ۴۲ ہاتھ ہوگی اور اس کی داڑھ اُحد (پہاڑ) کے برابر ہوگی، اور دوزخ میں اس کے بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جتنی مکہ سے مدینہ کی مسافت‘‘۔ (ترمذی)

اہلِ ایمان کا مستقر جنت ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی بشر کے دل میں (اس کا) خیال گزرا (بخاری)۔ جنتی کبھی بیمار نہیں ہوں گے، بوڑھے نہیں ہوںگے، کوئی رنج و تکلیف نہیں پہنچے گی، نہ ان کے کپڑے پرانے ہوں گے، نہ وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ ناک صاف کریں گے، نہ تھوکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور ان کا سینہ مُشک کی طرح (خوشبودار) ہوگا۔ آپؐ  نے فرمایا: تم میں کسی کی بہشت میں کمان بھر جگہ یا چابک بھر جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے، اور اگر اہلِ جنت میں کوئی عورت زمین والوں کی طرف رُخ کرے تو جو کچھ آسمان اور زمین کے بیچ میں ہے، سب کو روشن کر دے اور خوشبو سے بھر دے اور  بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے (بخاری)۔ جنت میں ایک درخت ہے (جو اتنا بڑاہے) کہ سوار اس کے سایے میں ۱۰۰ برس تک چلتا رہے گا مگر اسے طے نہیں کرسکے گا۔ جنت میں ادنیٰ ترین مرتبہ یہ ہوگا کہ جو جو تمنائیں تو نے کی ہیں وہ (سب) تمھیں دی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ اتناہی اور دیا جاتا ہے۔ (مسلم)

آپؐ نے فرمایا کہ (آخرت میں) تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا رب اس طرح گفتگو کرے گا کہ اس کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نہ کوئی ترجمان ہوگا اور نہ کوئی پردہ جو اُسے چھپائے (بخاری)۔ رب کا دیدار بھی کسی کو ہر جمعہ کسی کو سال میں ایک بار کسی کو پورے عرصے میں ایک ہی بار کرایا جائے گا جسے اہلِ جنت چودھویں کے چاند کی طرح آسانی سے دیکھ سکیں گے!

دنیا سے آخرت کی طرف کوچ کرنے کا یہ چند لمحوں کا، بالکل مختصر سفر ہم سب نے کرنا ہے۔ ’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے‘‘ (الانشقاق ۸۴:۶)۔ گویا  لمحہ بہ لمحہ ہم اپنی موت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور نہ جانے زندگی کی یہ مہلت کب ختم ہوجائے!

قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو     بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں۔ دل ان کے دوسری ہی فکر وں میں منہمک ہیں۔ (الانبیا ۲۱:۱-۲)

(دوسری اور آخری قسط)مابعد جدیدیت کا ایک محاکمہ

مابعد جدیدیوں کا یہ دعویٰ کہ دنیا میں کسی سچائی کا سرے سے وجود نہیں ہے ایک نہایت غیرمنطقی دعویٰ ہے۔اس دعویٰ میں بہت بڑا ریاضیاتی نقص ہے۔ یہ کہنا کہ ’ یہ سچ ہے کہ دنیا میں کوئی سچ نہیں‘ ایک بے معنی بات ہے ۔’’دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے‘‘یہ بذات خود ایک دعویٰ اور ایک بیان ہے۔ اگر اس بیان کو درست مان لیا جائے تو اس کی زد سب سے پہلے خود اسی بیان پر پڑے گی، اور یہ بیان جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ یہ ماننے کے لیے کہ ’’دنیا میںکوئی سچ نہیں ہے‘‘ کم سے کم اس ایک بات کو سچ ماننا پڑے گا۔

مابعد جدیدی ہرعالم گیر سچائی کے دعوے کو بڑا بول کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پیمانے پر خود مابعد جدیدیت کو بڑا بول کیوں نہ قرار دیا جائے؟’خود ساختہ سچائیوں‘ کی رد تشکیل کی یہ فکر ایسا جال بچھاتی ہے کہ اس میں خود ہی پھنس جاتی ہے اور خود اپنے اصولوں کے ذریعے اپنے ہی اصولوں کا رد کرتی ہے ۔ غالباً یہ انسان کی فکری تاریخ کا نہایت منفرد واقعہ ہے کہ کوئی فکر اپنے تشکیل کردہ پیمانوں سے اپنی ہی بنیادوں کو ڈھائے۔

منطقی تضاد کے علاوہ اس فکر کے عملی اثرات بھی نہایت بھیانک ہیں۔ اگر سچائی اضافی ہے اور دنیا میں کوئی قدر آفاقی نہیں ہے اورسچائیاں مقامی تہذیبوں کی پیداوار ہیںتو سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر مثلاً نازی ازم کو غلط قرار دیا جائے گا؟آخر نازی ازم بھی ایک قوم کے اتفاقِ راے ہی کا  نتیجہ تھا۔ یا مثلاً کس بنیاد پر ایک شخص کو دوسروں کی جیب کاٹنے سے روکا جائے گا؟ اس لیے کہ ہرجیب کترا جس مخصوص تہذیبی پس منظر میں پروان چڑھتا ہے وہ اسے جیب کترنے کے عمل کو ایک ناگزیر حقیقت کے روپ میں ہی دکھاتا ہے، یا اگر کوئی بزرگ افیم کھا کر چلتی ٹرین کے دروازہ میں سے یہ سمجھ کر نہایت صبر وسکون کے ساتھ باہر نکلنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے گھر کے چمن میں تشریف لے جارہے ہیں تو آخر کس دلیل سے انھیں اس حماقت سے روکا جائے گا؟ وہ نہایت ایمان داری کے ساتھ وہی سچائی دیکھ رہے ہیں جوافیم کے اثر سے پیدا شدہ ان کے ’مخصوص احوال‘ انھیں دکھارہے ہیں۔اس لیے تعدّد صداقت ('Pluralism of Truth') کے نظریے کا تقاضا ہے کہ ان کی اختیار کردہ سچائی کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ سچائی کی اضافیت کے نظریے کو مان لینے کے بعد اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا ۔ جب تک کچھ حقائق پر عالمی اتفاق راے نہ ہو اور انھیں قطعی حقائق کے طور پر قبول نہ کیا جائے ، اُس وقت تک تمدّن کی گاڑی ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ جہاں کچھ باتوں پر اختلاف رائے تمدن کو رنگا رنگی اور تنوع بخشتا ہے  وہیں کچھ باتوں پر اتفاق تمدّن کو استحکام عطا کرتا ہے۔ اس لیے اختلاف اور اتفاق دونوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔

مابعد جدیدیت اور اسلام

سچائی کی اضافیت کا نظریہ اسلامی نقطئہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعے مستنبط حقائق یقینا اضافی ہیں اورشک وشبہ سے بالا تر نہیں ہیں۔ اس حد تک مابعد جدیدیت اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے۔ لیکن اسلام کے نزدیک جن حقائق کا سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔ ان کی جزوی تشریحات وتعبیرات(جس میں فہم انسانی اور عقل انسانی کا دخل ہے) تو اضافی ہوسکتی ہیں، لیکن ان کے واضح معنٰی ہر اعتبار سے حتمی اور قطعی ہیں۔

اس ساری بحث میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت معتدل ، متوازن اور عقل کو اپیل کرنے والا ہے ۔ اس نقطئہ نظر میں مابعد جدیدی مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے جوابات بھی موجود ہیں اور اُن تضادات کی بھی گنجایش نہیں ہے جو مابعد جدیدیت میںپائے جاتے ہیں۔

یہ بات کہ انسانی عقل حتمی نہیں ہے اور بسا اوقات دھوکا کھا جاتی ہے، اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے کوئی نئی فکر نہیں ہے۔ جدیدیت نے جس طرح عقلِ انسانی کو حتمی اور قطعی مقام دیا اور عقلیات کو حتمی سچائی کے طورپر پیش کیا، اس پر مابعد جدیدی مفکرین سے بہت پہلے اسلامی مفکرین نے جرح کی۔ بلکہ یہ مبحث صدیوں قبل امام غزالی ؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے افکار میں بھی ملتا ہے ۔

امام غزالی ؒ نے تہافۃ الفلاسفہ میں ارسطو کی منطق پر خود اسی منطق کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے جو تنقید کی ہے اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عقل کے ذریعے معلوم حقائق کو محض واہمہ قرار دیتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کی وسعتیں اور وقت لامحدود ہے اور انسانی عقل لامحدود کا ادراک نہیں کرسکتی۔ اس لیے اس کے مشاہدات اضافی ہیں اور ان مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی اضافی ہیں۔۲۳؎  اپنی کتاب معیار العلم، میں اس بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ انسانی حسیّات کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اکثر اوقات دھوکے کا باعث ہوتی ہیں۔ صرف آنکھ سے دیکھا جائے تو ستارے چھوٹے چھوٹے ذرات معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں سے کئی ستارے زمین اور سورج سے بھی بڑے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر آنے والے حقائق بھی ضروری نہیں کہ حقائق ہوں۔ وہ محض حقیقت کا سایہ یا واہمہ ہوسکتے ہیں ۔ حسیّات کا دھوکا عقل سے معلوم ہوتا ہے اور عقل کا دھوکا کسی ایسے ذریعے سے معلوم ہوگا جو عقل سے بالا تر ہے (یعنی وحیِ الٰہی)۔۲۴؎

علّت و معلول  کے سلسلے میں امام غزالیؒ اور ابن رُشدؒ کی بحث بھی پڑھنے کے لائق ہے۔۲۵ ؎ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ خالص عقلی طریقوں سے دنیا یا انسان کے بارے میں کسی آفاقی بیان تک نہیں پہنچاجاسکتا، اس لیے کہ جو بیان بھی تشکیل دیا جائے گا وہ اپنے عہد کے مخصوص مادی پس منظر    سے ماورا نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہیں وہ خاص طور پر امام غزالیؒ کی تہافۃ الفلاسفہ اور معیارالعلم کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

جدید اسلامی مفکرین نے بھی جدیدیت پر کلام کرتے ہوئے عقل کی تحدید اور عقل کے ذریعے معلوم حقائق کے اضافی ہونے کو ثابت کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں:

انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے ۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہوگی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پاسکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔۔۔۔ ان کے (علمی قیاسات) غلط ہونے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا،اور تاریخِ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو بالآخرغلط ثابت نہیں ہوئے ہیں‘‘۔۲۶؎

علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:

عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں

راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات

فکر بے نور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد

سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِحیات

یا

وہ علم ، کم بصری جس میں ہم کنار نہیں

تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم

اسلام کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ علمِ حقیقی (یا حتمی اور قطعی سچائی) کا سرچشمہ باری تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اس نے اپنے علم سے انسان کو اتناہی معمولی ساحصہ بخشا ہے جتنا وہ چاہتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَایَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ o (اٰل عمرٰن ۳:۵) بیشک اللہ وہ ہے جس سے نہ زمین کی کوئی چیز مخفی ہے نہ آسمان کی۔

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ  (البقرہ ۲:۲۵۵) جوکچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جوکچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور لوگ اس کے علم میں کسی چیز پر بھی حاوی نہیں ہو سکتے بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود ان کو دینا چاہے۔

اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سرچشمہ یعنی باری تعالیٰ کی جانب سے وحیِ الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صور ت میں ظہور پذیر ہوئے ہوں وہ حتمی صداقت (absolute truth) ہیں اوران کے ماسوا دنیا میں حقیقت کے جتنے دعوے پائے جاتے ہیں ، ان کی دوقسمیں ہیں۔ اگر وہ وحیِ الٰہی سے متصادم ہیں تو وہ باطل مطلق (absolute false) ہیں اور اگر متصادم نہیں ہیں تو ان کی حیثیت اضافی صداقت یا relative truth کی ہے جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ مختلف معاملات میں عقلی غلطی کا امکان عام انسان تو کجا نبیؐ کے لیے بھی موجود ہے۔ مسئلے کی نزاکت کے پیشِ نظر ہم اس بات کو علامہ سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

اس میں بھی شک نہیں کہ وحی اور ملکۂ نبوت کے علاوہ نبی میں نبوت ورسالت سے باہر کی چیزوں میںوہی عقل ہوتی ہے جو عام انسان کی ہوتی ہے اور جس میں اجتہادی غلطی کا ہر وقت امکان ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ صاحب کے نزدیک اجتہاد کی یہی وہ دوسری قسم ہے جس میں نبی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے کہ اس کا مدار وحی والہام اور ملکۂ نبوت پر نہیں بلکہ انسانی علم وتجربہ پر ہوتا ہے ۔۲۴ ؎

اس بحث سے یہ بات واضح ہے کہ وحیِ الٰہی سے منصوص حقائق کے ماسوا تما م امور، خواہ وہ سائنسی اصول وضوابط ہوں یا ریاضی ومنطق، یا معاشیات وسیاسیات یاسماجیات وعمرانیات سے متعلق امور ،  تمام دعوے اضافی ہیں۔

عملی زندگی میں قانون سازی اور ضابطہ سازی کے معاملے میں بھی اسلام نے یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ جدیدیت کی طرح نہ وہ ہر ضابطے اور اصول کو آفاقی حیثیت دیتا ہے اور نہ مابعدجدیدیت کی طرح ہر آفاقی ضابطہ واصول سے انکار کرتا ہے ۔ وحیِ الٰہی کی صورت میں وہ بنیادی اصولوں اور سمت کو آفاقی حیثیت دیتا ہے، ان اُصولوںکو زمان و مکان (Time and Space) سے بالاتر یاماورا قرار دیتا ہے اور ان آفاقی اصولوں کی روشنی میں مخصوص وقت ، مخصوص مقام اور مخصوص احوال کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھتا ہے ۔ بلکہ اجتہادی اور غیر منصوص احکام میں ’عرف‘ کا لحاظ رکھتا ہے ۔ جسے مابعد جدیدی، تہذیبی اتفاق راے (Cultural Consensus) کہتے ہیں۔

ضیاء الدین سردار نے اسلام کو مابعد جدیدیت کے مقابلے میں ماوراے جدیدیت  (transmodernity) کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔۲۸؎ بنیادی اصولوں(قرآن وسنت کی تعلیمات) سے گہری وابستگی کے ساتھ تغیر پذیر زمانے کے مطابق تبدیلیوں کو اختیا رکرنے کا عمل ماوراے جدیدیت ہے۔ ا سلامی معاشروں میں ابدی قدروں سے وابستگی موجود ہے۔ اس لیے وہ جدید یا مابعد جدید نہیں ہیں اور چونکہ یہ قدریں حیات بخش ہیں اور ان کے اندر نہ صرف نئے زمانے کا  ساتھ دینے کی صلاحیت موجود ہے، بلکہ نئے ضابطوں اور طرز ہاے حیات کی تشکیل کی صلاحیت اور گنجایش بھی موجود ہے، اس لیے ان کی بنیاد پر قائم سماج کو ماقبل جدید (Premodern) یا  روایت پرست بھی نہیں کہاجاسکتا ۔ وحیِ الٰہی کی بنیادوں پر چند آفاقی قدروں اور اصولوں کی حتمیت اور ان کے دائرے کے باہر وسیع تر معاملات میںوحیِ الٰہی کی روشنی میں نئے طریقوں، ضابطوں اور راستوں کی تشکیل کا راستہ ایک ایسامعتدل راستہ ہے جو اسلام کو بیک وقت دائمی، آفاقی،تغیر پذیر اور مقامی احوال    کے مطابق بنا تا ہے اور زمان ومکان کے اختلافات سے ماوراکردیتا ہے ۔ اس لیے اسلام کی بنیاد پر صحیح طور پر بننے والا معاشرہ ماوراے جدید (Transmodern) معاشرہ ہوتا ہے۔

ختم نبوت کا نظریہ یعنی یہ عقیدہ کہ آنحضرتؐ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اب قیامت تک قرآن ہی اللہ کی کتاب اور بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہے، اسلام کا ایک بنیادی نظریہ ہے۔ اس نظریے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب زمانے میںکسی ایسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیںہے جو بنیادی اصولوں میں کسی ترمیم کی   متقاضی ہو۔ آنے والی ہر جدت کی نوعیت جزوی اور ذیلی ہی ہوگی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اب ہم جدیدیت کے عہد میں ہیں، اس لیے ماقبل جدیدیت کے عہد کی ہر چیز تبدیل ہونی ہے یا یہ کہ   اب ہم مابعد جدیدیت کے عہد میںہیں اس لیے جدیدیت کی ہرجڑ کی رد تشکیل ضروری ہے، ایک نہایت لغو بات ہے ۔ انسانی حیات میں بیک وقت دائمی اور تغیر پذیر دونوں طرح کے عناصر کارفرما ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اس مسئلے پر اپنی تحریر ’دین حق‘ میں بہت دل چسپ اور دل نشیں انداز میں بحث کی ہے۔ لکھتے ہیں:

کیا یہ واقعہ نہیں کہ تمام جغرافیائی ، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجودوہ قوانینِ طبعی یکساں ہیں جن کے تحت انسان دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے ۔ وہ نظامِ جسمانی یکساں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ وہ خصوصیات یکساں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے ۔ وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں ہیں جو انسان کے اندر ودیعت کیے گئے ہیں ۔ وہ قوتیں یکساں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفس انسانی کہتے ہیں ۔ بنیادی طورپر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی، معاشی عوامل بھی یکساں ہیںجو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں۔ اگر یہ واقعہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے تو جو اصول انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، ان کو عالم گیر ہوناچاہیے۔۲۹؎

بعینہٖ یہی بات زمانی اختلافات کے سلسلے میں بھی کہی جاسکتی ہے:

زمانہ ایک حیات ایک، کائنات بھی ایک

دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم

مابعد جدیدیت اور فروغِ اسلام

مابعد جدیدیت کا نظریہ اسلام اور اسلامی تحریک کے لیے بیک وقت چیلنج کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور امکان (opportunity) کی بھی۔ جدیدیت کی طرح اس تحریک نے بھی بعض سنجیدہ نظریاتی مسائل کھڑے کیے ہیں جن سے مسلمانوں کو فکری سطح پرنبردآزما ہونا ہے ۔ جدیدیت کے زمانے میں مفکرینِاسلام نے اس کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے مسکت جواب دیے تھے، لیکن ساتھ ہی جدیدیت نے جو حالات اور رویے پیدا کیے تھے، تحریک اسلامی نے اپنی حکمت عملی میں ان کا لحاظ بھی کیا تھا۔ جدیدیت نے عقل کو اہمیت دینے کا مزاج بنایا تھا تو تحریک نے عقلی طریقوں سے اسلام کی دعوت پیش کی تھی۔ تحریک کی صورت گری اور اس کے لیے بنائی گئی جماعت کے ڈھانچے کی تشکیل میں بھی جائز حدود میں جدید طریقوں کا استعمال کیا گیاتھا۔

ٹھیک یہی رد عمل مابعد جدیدیت کے بارے میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ان فکری چیلنجوں کا مقابلہ کرناہے جو مابعد جدیدیت نے پیش کیے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی دعوت ، اس کے مباحث اور طریق کار میں ان کیفیتوں، مزاجوں اور رویوں کا لحاظ رکھنا ہے جو مابعد جدیدیت نے پیدا کیے ہیں۔

اسی پس منظر میں مسلمان مفکرین اور اسلام کے فروغ اور غلبے کے لیے کام کرنے والے درج ذیل نکات کے حوالے سے لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔ یہ حرفِ آخر نہیں، ان پر گفتگو ہوسکتی ہے، بلکہ ہونا چاہیے۔

۱- تحریک اسلامی کا مقابلہ آج بھی جدیدیت کے فلسفوں سے ہے۔ مابعد جدیدیت کی طاقت ور تحریک کے باوجود اب بھی عقلیت کا فریب پوری طرح بے نقاب نہیں ہوپایا ہے۔ سیاسی سطح پر عالمی استعماری قوتیں اسلامی قوتوں کی اصل حریف ہیں اور وہ آج بھی جدیدیت ہی کی مظہر ہیں۔اسلامی دنیا میںاسلامی تحریکوں کو کچلنے والے تمام حکمران جدیدیت کے منصوبے ہی کے علَم بردار ہیں۔ اس تناظر میں مابعد جدیدی ہمارے اہم حلیف ثابت ہو سکتے ہیں۔ مابعد جدیدی مفکرین مغرب اورمغربی تہذیب کی شان و شوکت، سرمایہ دارانہ معیشت کی چکاچوند اور مغربی افکار اور عقلیت کے سحر کو توڑنے میں ہمارے معاون بن سکتے ہیں۔ تحریک اسلامی کو بڑا چیلنج اُن قوتوں سے درپیش ہے، جو تحریک کو رجعت پسندی قرار دیتے ہیں اور اسلام کے مقابلے میں جمہوریت، مردوزن کی مساوات وغیرہ کے مغربی تصورات کو اسلامی معاشروں کے لیے راہِ نجات قرار دیتے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے علَم بردار بڑے زور و شور سے ان ’عظیم بیانات‘ کی رد تشکیل میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میںیہ ہمارے حلیف ثابت ہوسکتے ہیں۔ مابعد جدیدی مفکرین نے جدید مغرب کے ’عظیم بیانات‘ پر جو سوالات کھڑے کیے ہیں ہمیں ان کا مؤثر استعمال کرنا چاہیے اور جدیدیت اور جدید مغرب کو شکست دینی چاہیے۔

۲- مابعد جدیدیت نے روحانیت اور روایات (Traditions)کا احیا کیا ہے اور مذہب کی طرف واپسی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ اگرچہ مابعد جدیدی مذہب کوآفاقی سچائی کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں، لیکن اگر روحانی سکون کے لیے کوئی شخص مذہب اختیار کرتا ہے یا کوئی معاشرہ اپنے لیے مذہبی قانون پسند کرتا ہے تو مابعد جدیدی مفکرین اسے قابل اعتراض نہیں سمجھتے۔ یہ صورتِ حال بھی تحریک کے لیے سازگار ہے ۔

۳- اس وقت دنیا بھر میں تکثیری معاشرے (pluralistic societies) وجود میں آرہے ہیں۔ ان معاشروں میںاہل اسلام کے لیے ایک بڑا مسئلہ اپنی اسلامی شناخت اور تشخّص کے تحفّظ کا ہے۔ مابعد جدیدی افکار یہاں بھی تحریک کے لیے معاون بنتے ہیں۔ مثلاً یکساں سول کوڈ کا تصور جدیدیت کا تصورہے، جب کہ مابعد جدیدی مفکرین کے نقطۂ نظر سے ایک ہی ملک میں اپنی اپنی پسند کے علاحدہ علاحدہ قوانین کی نہ صرف گنجایش ہے، بلکہ یہ تکثیریت قابلِ تحسین ہے۔ میرا خیال ہے کہ تحریک اسلامی مابعد جدیدیت کے علَم برداروں کو دوسری مذہبی اقلیتوں کے لیے اسلامی تعلیمات کے حق میں ہموار کرسکتی ہے جن کے مطابق ہرمذہبی گروہ کو اپنے مذہبی قوانین کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا حق حاصل رہتا ہے۔

۴- مابعد جدید مفکرین کے ساتھ اس تال میل کے ذریعے، تحریکِ اسلامی کو سچائی اور قدروں کی اضافیت کے نظریے کو پُرزور طریقے سے چیلنج کرنا چاہیے ۔ ان مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالات پر اسلام کا متوازن موقف گذشتہ سطور میں واضح کیا جاچکا ہے۔ یہ موقف مابعد جدیدیت کے اندرونی تضاد سے بھی پاک ہے اور جدیدیت کی ان الجھنوں کو بھی نہایت خوبصورتی سے حل کرتا ہے جن کے حل کے لیے مابعد جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ موقف پُرزور طریقے سے دنیا کے سامنے لایا جائے۔

۵- اس وقت دنیا بھر کے مذہبی اور نظریاتی فلسفے اپنے پیغام اور طرز پیش کش کو مابعد جدید ذہن کے حسب حال بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیتھولک چرچ نے تو اس کی باقاعدہ منظم کوشش شروع کی ہے ۔اور عیسائی مطالعات میں Postmodern Evangelism باقاعدہ ایک ڈسپلن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔۳۰؎  مارکسزم کی نئی پیش کش نیومارکسزم کی صور ت میں سامنے آرہی ہے ۔ اسلام کے داعیوں کو بھی اپنی پیش کش میں بدلے ہوئے ذہن کا لحاظ رکھنا ہوگا۔

ابھی تک ہمارا مخاطب جدید دور کا وہ قاری تھا جس کے اپنے نظریات اور خیالات تھے۔ ہمارا ہدف یہ تھاکہ اس کے نظریات اور خیالات کو غلط ثابت کیا جائے اور اس کے مقابلے میں اپنی دعوت کی معقولیت ثابت کی جائے۔ اب ہماراسامنا ایک ایسے ذہن سے ہے جو کسی نظریے اور خیال کی ضرورت کا ہی قائل نہیں ہے۔ وہ بیک وقت ہماری دعوت اور ہمارے مخالف کی دعوت دونوں کوصحیح اور دونوں کو غلط سمجھتا ہے ۔ وہ نظریہ اور فکر کے معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ وہ مذہب کے ساتھ ساتھ فکر اور نظریے کو بھی انسان کا انفرادی معاملہ سمجھتا ہے جس پر بحث کرنے اور لڑنے کی کوئی ضرورت ہے نہ جواز۔ یہ بدلی ہوئی صورت حال علمی وفکری مباحث کے پورے منظرنامے کو بدل کررکھ دیتی ہے ۔اور اس کا لحاظ کیے بغیر ہم اپنی حکمت عملی کا صحیح طور پر تعین نہیں کرسکتے۔

۶- مابعد جدیدیت نے معقولیات اور علمی دلائل کی اہمیت اس قدر گھٹادی ہے کہ فلسفہ ، سماجیات، تہذیبی مطالعات وغیرہ میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے بالکل نئے طریقے وجود میں آچکے ہیں ۔ معقولات کے مقابلے میں کہانیاں، قصے اور داستانیں ، عقل کے مقابلے میں جذباتی اپیل اور منظم اور مربوط بحث کے مقابلے میں ہلکی پھلکی اپیلیں مابعد جدیدذہن سے زیادہ قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعدیؒ اور رومیؒ اس وقت اسلامی دنیا سے زیادہ مغربی دنیا میں مقبول ہیں۔ ہمیں اپنی دعوت کی پیش کش میں اس تبدیلی کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اورایسے مطالعات تیار کرنے ہوں گے جن کے مقدمات مابعد جدید ذہن کو اپیل کر سکیں۔

۷- معلومات اور اطلاعات کی اُس غیر معمولی اہمیت کا جسے مابعد جدید عہد میں طاقت کے سب سے بڑے سرچشمے کا مقام مل چکا ہے ،تقاضا ہے کہ تحریک اسلامی اس محاذ پر توجہ دے ۔ کہا جارہا ہے کہ مابعد جدید دور میں سب سے بڑی قوت معلومات کی قوت ہی ہے۔ لیونارڈ نے لسانی کھیلوں کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ نئے دور میں معلومات کی ہر چال طاقت کی ایک وضع کی حامل ہے۳۱؎  اور بین ملکی طاقت کے کھیل میں کمپیوٹرائزڈ معلومات کا بڑا حصہ ہوگا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ قوموں اور ملکوں کی آیندہ رقابتیں اور دشمنیاں معلومات کے ذخیروں پر قدرت حاصل کرنے کے لیے ہوں گی یعنی معلومات گیری ملک گیری کی طرح عالمی سطح پر ہوس کا درجہ اختیار کرلے گی۔۳۲؎

اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ تقریباً ہر ملک اپنی معلوماتی پالیسی (Knowledge Policy) وضع کر رہا ہے اور معلومات کے انتظام (Information Management) کو غیرمعمولی اہمیت دے رہا ہے۔ اس تناظر میں تحریک اسلامی بھی معلومات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ اسے معلومات اور ڈاٹا (data) کے جمع و انتظام اور استعمال پر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور اپنی معلوماتی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔

۸- جہاں تک تحریک کے جماعتی ڈھانچے کا سوال ہے مابعد جدیدیت کے بعض    طالب علموں کا خیال ہے کہ یہ جدیددور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے اور مابعد جدیدی عہد کی کیفیتوں کا ساتھ دینے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔ یہ ایک انتہا پسندانہ نقطۂ نظر ہے ۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی تنظیمیںمخصوص نظم جماعت کے ساتھ کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے ہمارے تنظیمی سانچے میںبعض بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ علم انتظامیات (Management Sciences) کے تصورات میںمابعد جدیدی افکار نے بڑی انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ مرکزیت، طاقت کا ارتکاز،سرخ  فیتہ شاہی ,ضابطوں کی سخت گیری، فیصلہ سازی اور مشاورت کے عمل کی مخصوص اداروں تک محدودیت ، جواب دہی اور باز پرس کی میکانیت وغیرہ جیسے امور، جو نوآبادیاتی علم انتظامیات کی نمایاں خصوصیات تھیں اب دنیا بھر میں   رد کی جارہی ہیں۔ اور مابعد جدید ذہن نہ انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، نہ اس سیٹ اَپ میں کام کرنے کے لیے ۔تحریک اسلامی کو اس تبدیلی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

خلاصۂ بحث

مابعد جدیدیت، جدیدیت کا ایک منفی رد عمل ہے اور اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا مظہر ہے جس میں مسلسل کئی نظریات کی ناکامی اور ابطال کے بعد ہمارے عہد کا پڑھا لکھا انسان بھٹک رہا ہے ۔ افکار ، نظریات، اور فلسفوں کی عالی شان عمارتیں اس بری طرح سے زمین بوس ہوگئیں کہ نئے زمانہ کے فلسفیوں نے عافیت اسی میں محسوس کی کہ سوچنا ہی چھوڑ دیا جائے۔ فکر وخیال اور سچائی کے تصورات ہی کو واہمہ قرار دیا جائے۔ نظریے اور آئیڈیالوجی کو ایک ناپسندیدہ شے باور کیا جائے اور حیاتِ انسانی کو حالات اور افراتفری کے حوالے کر کے مابعد جدیدیت کی جنت میں چین کی بانسری بجائی جائے ۔ تمام جھوٹے خدائوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد مابعد جدیدیت دراصل لاالٰہ کا اعلان ہے ۔ اِلاَّاللہ کا اعلان باقی ہے جو ان شاء اللہ موجودہ کیفیت کا لازمی اورمنطقی انجام ہوگا۔

حواشی و مراجع

۲۳؎      اس موضوع پر امام غزالی نے جو بحث کی ہے اس کے لیے ملاحظہ فر مائیے:

                Ghazali Abu Hamid Muhammad (2000) "The Incoherence of the Philosophers" (Tr. of Tahafatul Falasafa by Michael E. Marmura),  Provo: Brigham Young University Press

۲۴؎      الغزالی، ابو حامد محمد (۱۹۶۵) معیارالعلم، تحقیق الدکتور سلیمان دنیا، قاہرہ : دارالمعارف، ص ۴۲۔۶۰

۲۵؎      www.ghazali.org/site/dissert.htm

۲۶؎      مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (۲۰۰۷) دین حق،نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،ص۲۲

۲۷؎      ندوی، علامہ سید سلیمان (۱۹۹۱) سیرت النبی، جلد چہارم ، لاہور : الفیصل ناشران کتب، ص۸۴

۲۸؎      Sardar,Ziauddin

http://www.islamonline.net/english/Contemporary/ 2002/05/article20.shtml

۲۹؎      مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (۲۰۰۷) دین حق،نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،ص۱۰

۳۰؎      http://www.gettysburgsem.org/mhoffman/ other/ pomoevangelism.htm

۳۱؎      Lyonard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 9-11

۳۲؎      گوپی چند نارنگ ، حوالہ سابق

۱۴ جولائی کو عالمی عدالت براے جنگی جرائم (International Criminal Court) نے سوڈان کے منتخب صدر عمر حسن البشیر پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ ایک سوڈانی چرواہے نے خبر سنی تو اپنے مقامی لہجے میں بے اختیار کہہ اُٹھا: دی حکایۃ تضحک الغنمایۃ’’یہ بات تو میری بکریوں کو بھی ہنسانے کے لیے کافی ہے‘‘۔ خرطوم میں اس عالمی جرم کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک مظاہرے میں مرکزی بینر تھا: You are joking Okambo ’’اوکامبو! تم شاید مذاق کر رہے ہو‘‘۔

اس عدالت کے اٹارنی جنرل لویس مورینو اوکامبو نے صدر عمر البشیر پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ (سوڈان کے مغربی صوبے) دارفور میں بڑے پیمانے پر ہونے والے  قتلِ عام کی ذمہ داری سوڈانی حکومت اور اس کے نظام پر عائد ہوتی ہے اور وزیر انسانی امور احمد محمدہارون اور جنجا وید ملیشیا کے سربراہ علی قُشیب اس میں براہِ راست ملوث ہیں۔ عالمی عدالت نے مطالبہ کیا تھا کہ دونوں کو اس کے سپرد کیا جائے لیکن صدر عمر البشیرنے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اپنے شہری کو  کسی کے سپرد نہیںکریں گے، وہ اگر واقعی کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیںتو ثبوت پیش کیے جائیں۔ ہم خود سوڈانی عدالت میں ان پر مقدمہ چلائیں گے۔ اوکامبو کا کہنا تھا کہ سوڈانی صدر نے نہ صرف مطلوبہ افراد کو پیش کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ خود ان کا پورا حکومتی نظام بھی اس قتلِ عام میں ملوث ہے۔ اس لیے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔

دیگر پہلوئوں کا جائزہ لینے سے پہلے آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ ’عالمی عدالت جرائم‘ کیا شے ہے۔ ٹھیک ۱۰ سال پہلے، یعنی جولائی ۱۹۹۸ء میں اقوام متحدہ کے ۱۲۰ رکن ممالک نے روم میں جمع ہوکر ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ایک مستقل اور آزاد عالمی عدالت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ دستخط ہونے کے چار سال بعد یکم جولائی ۲۰۰۲ء سے یہ معاہدہ نافذ ہوگیا۔ اعلان کیا گیا کہ دنیاوی تاریخ میں یہ پہلی عالمی عدالت ہے جس کے ذریعے ہر بڑے مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جاسکے گا۔ عالمی عدالت ِانصاف اور اِس نومولود عدالت میں فرق یہ بتایا گیا کہ اول الذکر اقوام متحدہ کے تابع ادارے کی حیثیت رکھتی ہے اور ریاستوں اور ممالک کے درمیان تنازعات نمٹاتی ہے، جب کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) اقوام متحدہ کی تابع نہیں اور یہ عدالت ممالک اور ریاستوں کے بجاے افراد کے خلاف شکایات سنا اور فیصلے صادر کیا کرے گی۔ نومبر ۲۰۰۷ء تک اس عدالت کے فیصلے پر دستخط اور توثیق (ratify) کرنے والے ملکوں کی تعداد ۱۰۵ تھی، مزید۴۱ ممالک نے دستخط تو کردیے تھے، لیکن اس کی توثیق نہیں کی تھی۔ اتفاق سے اس کی توثیق کرنے والے ممالک میں اُردن اور جیبوتی کے علاوہ کوئی عرب ملک شامل نہیں ہے۔ عدالت کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس کے دائرہ کار میں وہ ممالک شامل نہیں ہوں گے جنھوں نے اس کے قیام کی توثیق نہیں کی۔ قانوناً اور اخلاقاً تو ساری بات یہیں ختم ہوجاناچاہیے تھی لیکن یہاں بات قانون یا اخلاق کی نہیں بلکہ اُوپر سے نیچے بہتے پانی کو نیچے بیٹھ کر گدلا کرنے والی ’بھیڑیئے کی منطق‘ سے ہے۔

عدالت کے ضوابط میں یہ بات بھی واضح طور پر لکھی ہے کہ یہ عالمی عدالت قومی عدالتوں کی متبادل نہیں بلکہ انھیں تقویت دینے والا ادارہ ثابت ہوگی۔ ہاں اگر کوئی قومی عدالت اپنا یہ فرض پورا نہ کرے یا اسے کام نہ کرنے دیا جا رہا ہو تو ایسے میں عالمی عدالت یہ فرض پورا کرے گی۔ اس معاملے میں بھی، سوڈان کی عدالت ہی نہیں سوڈانی حکومت بھی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ دارفور میں جرائم کے مرتکب افراد کو عدالت میں لایا جائے۔ دارفور میں برسرِپیکار مسلح عناصر پڑوسی ممالک چاڈ اور ایتھوپیا میں بیٹھے ہیں، انھیں لایا جائے۔ اگر کوئی حکومتی ذمہ دار ملوث ہے تو اس کے بارے میں بھی ثبوت لائے جائیں۔ ہم انصاف کرکے دکھائیں گے۔ سوڈان کی اس پیش کش کا کوئی جواب نہیں دیا گیا اور عالمی عدالت کے ’ملک عبدالقیوم‘ یعنی اٹارنی جنرل اوکامبو نے انصاف کا ادنیٰ تقاضا پورا کیے اور فریقین کا موقف سنے بغیر ہی ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ملک کے منتخب صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

’عالمی انصاف‘ کی اصل حقیقت اسی امر سے واضح ہے کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے فردِجرم عائد کیے جانے اور وارنٹ جاری ہونے سے پہلے ہی امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان جاری کردیا تھا کہ آج سوڈانی صدر کا نام مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان ہوجائے گا۔ ’عالمی انصاف‘ کی یہ شان دار مثال پیش کیے جانے پر سوڈان کے اندر اور باہر ہر شخص ششدر اور ہکا بکا رہ گیا ہے۔ جس نے بھی یہ خبر سنی، اس نے اسے افغانستان و عراق پر حملے اور  شام و ایران کو دھمکیوں کے سلسلے کا امریکی قدم قرار دیا اور جس نے بھی فردِ جرم سنی اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی عدالت واقعی کسی کو جنگی مجرم ہونے کی سزا دینا چاہتی ہے تو کیا اس کائنات میں ’امریکی بش‘ سے بڑا جنگی مجرم بھی کوئی ہوگا؟ صرف عراق میں ۱۵ لاکھ انسان  موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں، کیا ان سب کی ہلاکت کی ذمہ داری بش اور اس کے حواریوں کے علاوہ کسی کے سر آتی ہے؟ کیا گوانٹانامو اور ابوغریب میں انسانیت کی تذلیل اور خود گوانٹانامو کے تفتیشی افسروں کا یہ بیان بھی کسی جنگی مجرم کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس میں بند سیکڑوں قیدیوں میں سے آدھے افراد کو محض گرفتاری کے معاوضوں کے لالچ میں پکڑوایا گیا اور وہ قطعی بے گناہ تھے۔

عالمی عدالت کے اس احمقانہ اقدام پر اب تک اکثر مسلم ممالک ،کئی غیر جانب دار ممالک اور ادارے اپنی تشویش و احتجاج کا علانیہ اظہار کرچکے ہیں۔ سب سے پہلے سعودی فرماں روا    شاہ عبداللہ نے سوڈانی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے اپنی کامل یک جہتی کا اظہار کیا۔  پھر عرب لیگ نے مذمت کی اور وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا (اب ۱۹ جولائی کو منعقدہ اس اجلاس کی طرف سے بھی سوڈان کی ہرممکن قانونی و اخلاقی امداد کا اعلان ہوگیا ہے)۔   اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل نے بھی اظہار تشویش و مذمت کیا لیکن سب سے اہم اور مؤثر بیان چین کی طرف سے آیا جس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لیوجیان چائو نے کہا: ’’عالمی عدالت وہ فیصلے کرے جس سے دارفور میں قیامِ امن و استحکام میں مدد ملے، نہ کہ ایسے فیصلے کہ جن سے رہا سہا استحکام بھی خاک میں مل جائے۔ چین کا یہ بیان کئی حوالوں سے اہم ہے۔

سرکاری ردعمل کے علاوہ عوامی سطح پر بھی ہرجگہ اس کی مذمت کی گئی ہے۔ ایک مثال سے اس کے ہمہ پہلو اور عالم گیر ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موریتانیا عالمِ اسلام کے انتہائی مغرب میں بحرالکاہل کے کنارے واقع ایک غریب صحرائی مسلمان ملک ہے۔ تقریباً ۲برس پہلے اس کے فوجی جرنیل کا عہد ِاقتدار ختم ہوا، سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ تشکیل ہوئی اور اب قومی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ اوکامبو کے اعلان کے بعد حکومتی ردعمل کے علاوہ ۷ اپوزیشن جماعتوں: پروگریسو پیپلزپارٹی، اتحاد و تبدیلی پارٹی، صواب پارٹی، جمہوری اشتراکی وحدت پارٹی، أمل (یعنی اُمید) پارٹی، اشتراکی پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی۔ موریتانیا کی اسلامی تحریک ’اصلاح و ترقی پارٹی اس سے پہلے ہی مختلف احتجاجی اقدامات کرچکی تھی۔

  • اصل معاملہ کیا ھے؟ سوڈان ۱۸ صوبوں پر مشتمل ایک ملک ہے۔ اس کا کُل رقبہ ۲۵لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کی سرحدیں ۹ ممالک سے ملتی ہیں۔ دارفور اس کا مغربی صوبہ ہے۔ موجودہ حکومت نے صوبوں کی تعداد بڑھا کر ۲۶ کردی ہے۔ دارفور کا علاقہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کے انتظامی و ترقیاتی امور کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے اسے شمالی، مغربی اور جنوبی دارفور کے تین صوبوں میں تقسیم کرنا پڑا ہے۔ رقبہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ صرف دارفور کا رقبہ مصر سے بڑا اور فرانس کے کُل رقبے کے مساوی ہے۔ دارفور کی اکثریتی آبادی کئی نسلوں سے گلہ بانی اور کھیتی باڑی کا کام کرتی ہے۔ گائیوں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہی دولت و ثروت کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور انھی کے لیے چراگاہوں کی تلاش میں مختلف قبائل دورانِ سال ایک سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرتے رہتے ہیں۔

جنوبی سوڈان میں مئی ۱۹۸۳ء سے علیحدگی کی تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جان گرنگ کی قیادت میں جاری اس جنگ کی امریکا اور صہیونی ریاست سمیت سوڈان کے حصے بخرے کرنے  کے لیے کوشاں ہر عالمی طاقت نے ہر ممکن مدد کی۔ اسے مسلم عیسائی جنگ کا رنگ دیا گیا، حالانکہ جنوبیوں کی ایک مختصر تعداد ہی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ اکثریت بے مذہب، یعنی کسی خدا کو نہ ماننے والی تھی لیکن مسلم عیسائی جنگ میں جو تعصب پیدا کیا جاسکتا ہے وہ صرف علیحدگی پسندی میں نہیں کیا جاسکتا۔ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیر کی زیرقیادت ’انقلاب نجات‘ کے نام پر تبدیلی آئی۔ اس وقت گرنگ کی فوجیں دارالحکومت خرطوم پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھیں۔ انقلابی قیادت نے اس کی راہ میں قومی سطح کی جہادی مزاحمت کی دیوار کھڑی کردی۔ پوری قوم کے لیے اس میں شرکت لازمی  قرار دی۔ سرکاری عمّال اور علما و مشائخ سمیت سب بنفس نفیس محاذ جنگ پر پہنچے۔ سیاسی اور فوجی قیادت نے بھی اپنے افراد خانہ کی جانی قربانیاں پیش کیں اور جنوبی بغاوت ہر طرح کی عالمی مدد کے باوجود کمزور ہوتی چلی گئی۔

اسی دوران میں، کیمیاوی ہتھیار بنانے کا الزام لگاتے ہوئے دارالحکومت خرطوم میں واقع ادویات کے ایک کارخانے پر براہِ راست امریکی حملہ کیا گیا، پابندیاں لگائی گئیں، مزید دھمکیاں دی گئیں، پڑوسی ملکوں سے لشکرکشی کروائی گئی، اپوزیشن پارٹیوں کو مصر میں جمع کر کے ان کے مشترکہ محاذ تشکیل دیے گئے لیکن جب اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں… تو بالآخر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور  کئی طویل ادوار کے بعد ۹جولائی ۲۰۰۵ء کو حتمی و تاریخی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔    شمال و جنوب کو ملاکر ایک مشترکہ حکومت تشکیل دی گئی اور جنوبیوں کو اس طور شریک کار کیا گیا کہ  صدر کے ساتھ سینیر نائب صدر جنوبی، وزارتِ خارجہ سمیت اہم وزارتوں میں ان کی شرکت اور تقسیم الثروۃ والسلطۃ (تقسیم اقتدار و ثروت )کے فارمولے کا پورا پورا احترام کیا گیا۔ اس معاہدے کی خطرناک ترین شق یہ ہے کہ یہ سارا عرصہ ایک عبوری دور ہے۔ اس کے ۶برس پورے ہونے کے بعد جنوبی آبادی میں ریفرنڈم کروایا جائے گا کہ لوگ علیحدگی چاہتے ہیں یا اشتراک۔ حکومت اس امر پر مطمئن ہے کہ ۶ سال کے اشتراک و قربت کے بعد علیحدگی کے لیے کوشاں اندرونی اور بیرونی عناصر کی خواہش کے باوجود آبادی کی اکثریت ملک کی تقسیم کے خلاف راے دے گی۔

اسی دوران میں ایک اہم ترین تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ اہلِ سوڈان کے لیے زمین نے اپنے خزانے اُگل دیے۔ پہلے بڑے پیمانے پر سونے کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۲ء تک خام سونے کی پیداوار۵ ٹن سالانہ تک جاپہنچی۔ پھر کالے سونے، یعنی تیل کے نہ ختم ہونے والے خزانے دریافت ہوگئے۔ پہلے امریکی کمپنیاں تیل کی تلاش میں مگن رہیں اور ۴ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی لیکن پھر وہ اچانک سب کچھ لپیٹ کر واپس چلی گئیں۔ اس واپسی کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق: امریکیوں نے تیل کی دریافت کے بجاے سوڈان پر اقتصادی پابندیوں کا فیصلہ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز سمجھا۔ پابندیاں عائد ہوگئیں، امریکی کمپنیاں نکل گئیں لیکن سوڈان نے مایوس ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بجاے چین کا رخ کیا۔ سوڈان چین اشتراک نے   نہ صرف چین کو تیل کا ایک بڑا سہارا فراہم کیا بلکہ سوڈان کی قسمت بھی تبدیل کرنا شروع    کردی۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق امریکیوں نے چین سے ہمارا اشتراک ناقابلِ تلافی جرم قرار     دے دیا اور پہلے سے جاری سازشیں اور دبائو ناقابلِ بیان حد تک بڑھنا شروع ہوگیا۔ القاعدہ، عالمی دہشت گردی اور نہ جانے کیا کیا الزام عائد کردیے۔ جنوب کا جنگی محاذ مذاکرات و معاہدے کی منزلیں طے کرتا ہوا ٹھنڈا ہوا تو دارفور کو جہنم زار بنا دیا گیا۔

  • صھیونی ھاتھ: ہفت روزہ المجتمع نے ایک مفصل رپورٹ (۵ اپریل ۲۰۰۸ئ) شائع کی ہے جس میں افراد، تنظیموں اور مقامات کے ناموں، اعداد و شمار اور دستاویزات کی مدد سے واضح کیا ہے کہ کس طرح صہیونی ریاست اس پورے بحران کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس نے دارفور کے متصادم قبائل کو اسلحے اور سرمایے کے انبار فراہم کیے۔ سوڈانی حکومت نے اسرائیلی اسلحے کے کئی ذخائر پکڑے۔ اردنی اخبار العرب الیوم نے ان مختلف گرفتارشدگان کے انٹرویو شائع کیے جن کا تعلق دارفور سے تھا لیکن ان کے پاس اسرائیلی پاسپورٹ تھے۔ ان میں ایک صاحب کے   براہِ راست تعلقات موساد کے سربراہ ’دانی یاتوم‘ کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ تھے۔ گرفتار شدگان نے ان مختلف اسرائیلی ڈیلروں کے نام بھی بتائے جو انھیں دارفور میں اسلحہ پہنچاتے تھے۔

صہیونی لابی نے دارفور کے مسئلے کو دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ ثابت کرنے کے لیے مؤثر اور مضبوط ابلاغیاتی، سفارتی مہم چلائی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق: صہیونی لابی نے صدر بش کو قائل کیا کہ وہ دارفور کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں اور ان کی بنیاد پر سوڈان پر پابندیاں عائد کریں (یکم جون ۲۰۰۷ئ)۔ ان صہیونی کوششوں میں مختلف این جی اوز پر خصوصی توجہ دی گئی۔ واشنگٹن میں قائم غیرسرکاری تنظیم ’دارفور بچائو اتحاد‘ کا سالانہ علانیہ بجٹ ۱۵ ملین ڈالر رکھا گیا اور جو ظاہر نہیں کیا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ان تنظیموں کے ذریعے ایک ہی دن میں واشنگٹن سمیت ۱۸مختلف امریکی شہروں میں مظاہرے کروائے گئے۔ اس صہیونی نفوذ کی تفصیل طویل ہے، لیکن نتیجہ یہی ہے کہ جنوبی علیحدگی کی مضبوط بنیاد رکھ دینے کے بعد اب مغربی سوڈان کو الگ کرنے پر توجہ مرکوزکی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ مشرقی سوڈان کے مختلف قبائل کو بھی اُکسانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔

ان ہمہ پہلو سازشوں کا نتیجہ کیا نکلے گا … یہ پردۂ غیب میں ہے، لیکن جو مظاہر دکھائی دے رہے ہیں، ان کے مطابق سوڈانی عوام اور حکومت کو آیندہ عرصے میں شدید دبائو کا سامنا کرنا  پڑے گا۔ قواعدو ضوابط کے مطابق عالمی عدالت کے ڈرامے کو کئی سال تک بھی طول دیا جاسکتا ہے۔ کڑی اقتصادی پابندیوں اور مسلح بغاوتوں کے ہتھیار بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دارفور کے باغیوں اور حکومت میں شریک جنوبی اتحادیوں کے درمیان بھی ’رشتے ناطے‘ طے کروائے جاسکتے ہیں۔ ان تمام احتمالات و خدشات کے باوجود سوڈانی حکومت اور عوام کامل اطمینان سے سرشار ہیں۔ ان کے عزم و ارادے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی دیتی۔ہر طرف سے بہ یک زبان کہا جا رہا ہے کہ صدر عمر حسن البشیرکے لیے یہ آزمایش مزید عوامی تائید و حمایت کا موجب بنی ہے۔    انھوں نے آج پھر اعلان کیا ہے: ’’تم سوڈانی شہریوں کو سپرد کرنے کا مطالبہ کررہے ہو، خدا کی قسم!     ہم اپنے کسی شہری کا ایک بال بھی تمھارے حوالے نہیں کریںگے‘‘۔

۲۳ جولائی کو سوڈانی صدر نے دارفور میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا۔ الجزیرہ چینل پر تاحد نظر مردوں اور عورتوں کے سر ہی سر تھے۔ جوش و خروش کا ایک عالم تھا۔ نعرئہ تکبیر اور      حسن البشیر اور دارفور کے نعرے لگ رہے تھے۔

ایک عوامی مظاہرے میں شریک خواتین سوڈانی لہجے میں کورس کی صورت میں گا رہی تھیں:

ایھا الامیریکان… لیکم تدربنا

بنور اللّٰہ ونور الایمان… لیکم نسلحنا

امریکیو! ہم نے تمھارے مقابلے کے لیے ہی فوجی تربیت حاصل کی ہے، ہم نے خود کو اللہ اور ایمان کے نور سے مسلح تم سے مقابلے کے لیے ہی کیا ہے۔


تصحیح: ___ جولائی کے شمارے میں صفحہ ۵۱ کی سطر ۱۹ میں دو ہزار ارب کو دو ارب پڑھا جائے۔

                                ___  اسی شمارے میں صفحہ ۹۷ پر درست لفظ دفاعِ قانونِ توہینِ رسالتؐ ہے۔

تبصرہ و ترجمہ: سلیم منصور خالد

ہم بھی ایک عجب عہد میں سانس لے رہے ہیں کہ پسے اور مصیبت میں پھنسے ہوئے فرد بلکہ معاشرے ہی کو نصیحت کے درس دیے جاتے ہیں اور ظالم کے ظلم پر بات کرنے کو مصلحت کے خلاف یا شاید انتہا پسندانہ سوچ قرار دیا جاتا ہے۔

مغرب کے مخصوص دہشت پسندانہ ماحول اور مسلم دنیا کی استبدادی فضائوں میں سانس لینے والے ’ناصحین اور سیانے‘ لوگ یہ کہتے ہیں: ’’بھائی، مسلم دنیا کے بارے میں فکری عدم توازن اور قلمی صلیبیت کے علَم بردار مغربی قلم کاروں کی تحریروں کا مت نوٹس لیا کریں۔ مغربی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔ اسی طرح کے سیانے لوگوں میں کچھ ظالم تو ہر بات اور ہرحادثے کی خبر پر اپنے مجبور و مظلوم بھائیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے،   طنزیہ انداز میں کہتے ہیں: ’’اچھا، یہ بھی یہودی سازش ہے‘‘۔ اور ایسا جملہ اُچھالتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے چہروں پر  دانش کی چمک پھیل جاتی ہے، حالانکہ وہاں پر عبرت کی سیاہی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ چلیے، ناصحین کے ہدایت نامے کو لمحے بھر کے لیے تسلیم کر ہی لیا جائے کہ ایسی دل آزار اور اشتعال انگیز تحریریں لکھنے والے کچھ جنونی لوگ ہی ہیں اور بس۔ مگر اس چیز کا کیا کیا جائے کہ انھی فکری دہشت گردوں کی گرد کو مغربی سیاسی و فوجی قیادتیں اپنی آنکھ کا سرمہ اور غبار کو فکر کا محور بنا لیتی ہیں۔ پھرکٹھ پتلیوں کی طرح ان لوگوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کو دنیا میں پھیلانے کے لیے اندھادھند کارروائیاں شروع کردیتی ہیں۔ مغربی دنیا کے لوگ انھی لیڈروں کو اپنا رہبر و رہنما بھی منتخب کرتے ہیں، ان کے ہاتھ میں آگ، دولت اور موت کی کنجیاں بھی دے دیتے ہیں۔

یہاں مغرب کے جس فتنہ جو گروہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، انھی میں ایک نام ڈینیل پایپس (Daniel Pipes) کا بھی ہے، جس کی اشتعال انگیز تحریریں، علم و دانش اور اخلاق و ادب کی دنیا میں تو کوئی وزن نہیں رکھتیں، مگر وائٹ ہائوس، پینٹاگون اور دس ڈاوننگ سٹریٹ ان تحریروں کا عملی ترجمہ کرنے میں کسی سے پیچھے رہتے نظر نہیں آتے۔ یہاں پر اسی فرد کے ایک تازہ مضمون The Enemy Has a Name کا ترجمہ دیا جا رہا ہے، جو مقبوضہ فلسطین کے یہودی اخبار یروشلم پوسٹ میں ۱۹جون۲۰۰۸ء کو شائع ہوا اور بعدازاں اس کی ویب سائٹ سے دوسرے حلقوں میں پہنچایا گیا، ترجمہ ملاحظہ ہو:

اگر آپ دشمن کو متعین طور پر نام نہیں دیں گے تو پھر آپ اسے شکست کیسے دے سکیں گے؟ بالکل اس طرح جیسے ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مریض کے مرض تشخیص کرے۔ تاحال امریکا اپنے مخالفین میں سے دشمن کو متعین کرنے میں متردّد نظر آتا ہے۔

۲۰۰۱ء کے اواخر میں امریکی اعلیٰ حکام نے اس ضمن میں غیرمؤثر اور غیریقینی اعلامیے جاری کیے۔ وزیردفاع رمزفیلڈ نے کامیابی کو اس امر سے منسوب کیا کہ: ’’ہم ایسی فضا پیدا کرنا اور اس کاتحفظ چاہتے ہیں کہ جہاں ہم ہر قسم کی آزادی سے سانس لے سکیں‘‘، جب کہ صدربش نے کہا: ’’ہم دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کو شکست دینا چاہتے ہیں‘‘۔ دراصل ’دہشت گردی کو شکست‘ دینا ہی اصل نصب العین اور ہدف ہونا چاہیے، جو تاحال حاصل نہیں ہوسکا۔ ماہرین کے بقول دہشت گردی بذاتِ خود کوئی دشمن نہیں بلکہ دشمن کی ایک جنگی چال کا نام دہشت گردی ہے۔ آخرکار صدر بش نے ۲۰۰۴ء کے وسط میں اعتراف کیا: ’’ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دشمن کا درست نام نہیں لیا۔ دراصل یہ ان نظریاتی انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ہے جو آزاد خیال معاشروں میں یقین نہیں رکھتے، اور جو آزاد خیال معاشروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے دہشت گردی کو  بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں‘‘۔ اگلے برس برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ذرا وضاحت سے کہا: ’’دشمن دراصل وہ مذہبی نظریہ ہے جو دنیا بھر میں اسلام کے نام سے موسوم ہے‘‘۔ پھر اس کے بعد صدربش نے تین اصطلاحیں استعمال کیں: ’اسلامی انقلابیت‘، ’دہشت گردانہ جہادازم‘ اور ’اسلامی فسطائیت‘۔ مگر ان اصطلاحوں پر سخت تنقید کے نتیجے میں بش ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر ۲۰۰۷ء کے وسط میں صدربش نے کہا: ’’ہم اس دہشت گردی کے خلاف عظیم جدوجہد کر رہے ہیں، جو شرق اوسط کی سرحدوں سے باہر تک پھیل چکی ہے‘‘۔ یہ ہے وہ موقف جس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے امریکی انتظامیہ اور اس کی ایجنسیاں ’موت کے فدائی، فرقہ واریت کے پرستار‘ دہشت کے متوالے جیسی غیرواضح اور مبہم اصطلاحوں کو استعمال کرتی ہیں۔

اصل میں یہ دشمن ایک واضح اور جامع نام رکھتا ہے اور وہ ہے: ’’اسلام ازم، اسلام کے تخیلاتی پہلو کا انقلابی تصور‘، اسلام پرست آمرانہ نظریہ، کہ جو بھرپور مالی مدد سے اسلامی قوانین (شریعہ) کو عالمی اسلامی ضابطے کے طور پر نافذ کرنے کا خواب ہے‘‘۔

اس مناسبت سے ہدف بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ: اسلام ازم کو شکست فاش دینا اور اسلام کی ایک متبادل شکل وضع کرنے کے لیے مسلمانوں کی مدد کرنا۔ یہ کام اتفاقیہ طور پر انجام دینے کی سوچ کے ساتھ نہیں بلکہ حلیف قوتوں کی مدد سے اسی جذبے کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس عزم کے ساتھ ماضی میں دو یوٹوپیائی انقلابی تحریکوں،یعنی فسطائیت اور اشتراکیت کو سبق سکھانے کے لیے بڑا مضبوط قدم اٹھایا گیا تھا۔

پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اس نظریاتی دشمن کو ویسی شکست فاش دی جائے، جس طرح ۱۹۴۵ء اور ۱۹۹۱ء میں کیا گیا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اس [اسلامی] انقلابی نظریے کی تحریک کو کمزور اور پھر نابود کردیا جائے، تاکہ ان کے ہاتھوں دنیا کے ہلائے جانے کی دہشت کا خاتمہ ہوجائے۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم [۴۵-۱۹۳۹ئ] ہم نے خون، لوہے اور ایٹم بم کے ذریعے جیتی تھی، ایک تو یہ ماڈل ہوا۔ دوسرا ماڈل [اشتراکی روس سے] سرد جنگ جیتنے کا ہے، کہ جس میں جنگی دبائواور پیچیدہ عمل کو بروے کار لایا گیا تھا، جس نے سوویت یونین کو پُرامن طور پر ریزہ ریزہ کردیا۔

تاہم اسلامیت کے خلاف فتح پانے کے لیے مذکورہ بالا دونوں حکمت عملیوں کو بروے کار لانا ہوگا، جو بھرپور جنگ، جوابی دہشت گردی، جوابی پروپیگنڈا اور دیگر بہت سے ہتھکنڈوں پر مشتمل ہوگی۔ ماضی میں اس راہ پر چلتے ہوئے افغانستان سے طالبان کی حکومت کا صفایا کیا گیا تھا اور اب اگلے قدم کے طور پر ہمیں قانون پسند اسلامیان(Lawful Islamists) کو نشانہ بنانا ہے، جو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیمی، دینی، عدالتی، ابلاغی اور سیاسی اداروں میں کام کر رہے ہیں۔

ہمارا اگلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان مسلمانوں کی مدد کریں جو اسلامیان کے نقطۂ نظر کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلامی طرزِ حکومت کے برعکس جدید طریقوں پر زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن یہ [روشن خیال] مسلمان ایک کمزور مخلوق ہیں اور ان کی وحدت پارہ پارہ ہے۔ انھوں نے حال ہی میں تحقیق و جستجو کا کام شروع کیا ہے۔ وہ رابطے، ابلاغ، تنظیم، مالیات کی فراہمی اور متحرک ہونے کے لیے محنت سے کام کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت تیزی سے اور مؤثر طریقے سے کرنے کے لیے ان روشن خیال مسلمانوں کو، غیرمسلموں کی حوصلہ افزائی اور مالی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ آخری تجزیے میں اسلامیّت نے اہلِ مغرب کے سامنے دو چیلنج پیش کیے ہیں، اور وہ یہ کہ: بات صاف صاف کی جائے، اور فتح کے حصول تک جدوجہد جاری رکھی جائے۔ (www.danielpipes.org)

ڈینیل پایپس کی اس تحریر کے دامن میں چھپی ہوئی شرارت اور دروغ گوئی تو واضح ہے، تاہم چند امور کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:

  • یہ صاحب، اسلامیانِ عالم کو بطور دشمن نام دینے اور ان کا تشخص متعین کرنے کا واویلا کر رہے ہیں، حالانکہ ۲۰۰۱ء ہی کے آخر تک امریکا نے تاریخ کی بدترین بم باری کرکے لاکھوں افغانی مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا تھا، اور پھر ۲۰۰۳ء کے نصف اول میں عراق پر موت اور بارود کی بارش کر کے لاکھوں مسلمانوں کو برباد کر دیا تھا۔ مگر مضمون نگار تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے ابھی تک نام متعین کرنے کی بحث کا سوال اُٹھا کر، انسانی تاریخ کے اس بدترین قتلِ عام کو معمول کا واقعہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔
  • دوسری جنگ عظیم کی ’فتح‘کو ایک لفظ ’ایٹم‘ سے موسوم کر کے ذکر یوں چھیڑا ہے جیسے کچھ اور تو کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ یہ نہیں بتایا کہ ان دو ایٹم بموں نے کتنے لاکھ جاپانیوں کو ہلاک یا اپاہج کردیا تھا اور اس جنگ میں کتنے سو لاکھ انسانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ گویا کہ ایک امریکی مارا جائے تو خبر، اور دوسرے لاکھوں انسان مارے جائیں تو معمول کی ایک بات۔ روشن خیالی کی یہی بدترین قسم، مغرب کی مادہ پرست تہذیب کا مظہر ہے۔
  • یہ کہنا کہ: ’’سوویت یونین کو امریکا بہادر نے جنگی دبائو اور پیچیدہ عمل سے پُرامن طور پر ریزہ ریزہ کردیا‘‘ کتنی بڑی سفاکی اور کس درجے کی دروغ بافی ہے۔ اشتراکی روس کے وجود کو رستا ہوا ناسور بنانے میں کیا ۱۳ لاکھ افغانوں کی جانیں، ۶۰ لاکھ افغان عورتوں، بچوں اور بوڑھے انسانوں کی ۱۵ برس تک مہاجرت کسی شمار میں نہیں ہیں؟
  • اسلام کے نئے ماڈل کی تشکیل(reconstruction) کا کام کرنے کے لیے  مرزاے قادیان کی طرح کے کئی ہرکارے، اہلِ مغرب اور ان کی پٹھو مسلمان حکومتوں کی چھتری تلے کام کررہے ہیں، مگر اس کے باوجود موصوف کی بے صبری دیدنی ہے۔
  • سب سے اہم یہ کہ مضمون نگار اس تحریر میں ان پُرامن مسلمانوں کو جو درس گاہوں، پارلیمانوں، ہسپتالوں، ابلاغی اداروں اور دینی اداروں میں کام کر رہے ہیں، سفاکانہ نشانہ بنانے کا درس دے رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے بدمست دانش ور دنیا کو آگ، خون اور موت کے حوالے کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی ایسے فرد کا کوئی احترام نہیں جو کھلے عام اور پُرامن طور پر سماجی زندگی میں کام کر رہا ہے۔

o

اس سامراجی یلغار کے راستے صاف کرنے کے لیے خود ہماری اقوام میں، ہم جیسے نام اور شکلیں رکھنے والے بہت سے کارندے اپنا کام کر رہے ہیں۔ کبھی یہ کام سامراج کے ٹوڈی، قادیانی اور بہائی کرتے تھے، اب ان کے ساتھ’روشن خیال‘ اور منکرین حدیث، طاقت کے سرچشموں پر قابض ’ماڈرن مُلّا‘ بھی شریکِ کار ہیں۔ لاہور سے ایک اخبار نکلتا ہے ڈیلی ٹائمز، جس کے مالک پنجاب کے گورنر اور پیپلزپارٹی کے منظورِ نظر لیڈر سلمان تاثیر ہیں۔ اس پرچے میں مذہبی آزادی، تقسیمِ ہند، فرقہ واریت، کلچرل آزادی، فری سوسائٹی کے نام پر جو کچھ چھپتا ہے، وہ قوم کے سامنے ہے، مگر اس پر سوال اٹھانا ’آزادیِ صحافت‘ کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی اخبار کے ایک بزرگ کالم نگار نے لال مسجد کے سانحے (۱۰جولائی ۲۰۰۷ئ) کے تین روز بعد لکھا تھا کہ: ’’اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور روشن خیال طبقے مولویوں کے خلاف متحد ہوجائیں اور فوج کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کریں‘‘۔ بہ چشم ہوش دیکھا جائے تو ان کی یہ حسرت ناک خواہش اپنی جگہ ایک جھوٹ ہے۔ اتحاد کیا، اسی ’نام نہاد روشن خیال‘ طبقے کے اتحاد نے تو گذشتہ ۶۰برس سے پاکستانی قوم کے سیاہ و سفید پر قبضہ جما رکھا ہے، مگر افسوس کہ موصوف کو ابھی تک خبر ہی نہیں ہوئی یا پھر یہ ہے کہ ابھی تک تسلی نہیں ہوئی۔ انھی کے ایک قائد، مسٹر مشرف کی صورت میں قوم کی گردن پر سوار ہیں۔ دوسرے قائد کراچی میں آگ اُگلتے، خون کا سیلاب لاتے اور اخلااق کا قتل عام کرتے ہیں۔ پھر اسی اخبار کے مالک اب آدھے پاکستان کے گورنر ہیں۔ اس حمام میں اتحاد و اختیارکی محرومی کے کیا معنی؟

ڈینیل پایپس کے ارشادات پڑھیے، اور پھر ڈیلی ٹائمز، لاہور کے خصوصی نامہ نگار متعینہ نیویارک خالد حسن کی تائیدِ مزید کو ملاحظہ کیجیے، آپ کو تمام کردار حیرت انگیز طور پر ایک ہی آرکسٹرا کی دُھن پر رقصاں دکھائی دیں گے۔ ہمارے سامنے اس وقت ۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء کا ڈیلی ٹائمز ہے، جس میں یہی خالد حسن ایک تجزیہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’ربوہ شہیدوں کا شہر ہے‘‘۔ ان کی یہ تحریر اور کچھ نہیں تو اس امر کی وضاحت کر دیتی ہے کہ موصوف کی سخن وری کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اور اب، جب کہ ڈینیل پایپس نے مذکورہ بالا اشتعال انگیز مضمون شائع کیا اور اسے اپنی  ویب سائٹ پر ڈالا تو انھی خالد حسن نے اس کی تائید کے لیے کسی سے پیچھے رہنا پسند نہ کیا، اور ۳جولائی ۲۰۰۸ء کو بطور ’وعدہ معاف گواہ‘ لکھا:

گیلپ سروے کے مطابق مسجدوں میں جانے والے مسلمانوں کے برعکس، مسجدوں میں نہ جانے والے مسلمان زیادہ تر دہشت گردی کے پشت پناہ ہیں‘‘۔ [یہ خبر اس نمایندے نے ڈیلی ٹائمز کی اشاعت ۱۲ مئی ۲۰۰۶ء میں بھی شائع کرائی تھی، لیکن وقت گزرنے کے بعد خبر کے اس ٹکڑے کو دوبارہ ریکارڈ سے نکالتے اور اپنے جذبات کی تپش کا اضافہ کرتے ہوئے، ۳جولائی ۲۰۰۸ء کے نثرپارے میں آگے چل کر لکھا ہے:] بے روزگار مسلمانوں کے برعکس وہ مسلمان زیادہ دہشت گردی کے پشت پناہ ہیں کہ جن کے پاس کُل وقتی ملازمتیں ہیں۔ [پھر ڈینیل پایپس کی لَے میں لَے ملاتے ہوئے، تمام حدیں توڑ کر، موصوف یہ روشن خیال نظریہ پیش کرتے ہیں] l یاد رکھیے، ناخواندہ مسلمان چاقوؤں اور تلواروں سے جہاد کریں گے l خواندہ مسلمان بندوقوں سے جہاد کریں گے l اعلیٰ فنی و سائنسی تعلیم کے حامل مسلمان ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کوبطور آلہ استعمال کرکے، جہادی نظریے کی تشہیرکرکے نئے ’مجاہدوں‘ کو بھرتی کریں گے lتعلیم یافتہ مسلمان یہی کام اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر زیادہ وسعت سے کریں گے گویا کہ زیادہ پڑھا لکھا مسلمان، زیادہ مذہبی انتہا پسند ہوتا ہے، مطلب یہ کہ پڑھا لکھا فرد [مسلمان] زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘‘۔ (www.danielpipes.org)

دیکھنا چاہیے کہ یہ کون لوگ ہیں، جو نفرت پھیلانے اور آگ بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں کہ جن کے نزدیک آئین، دستور اور اخلاق کا کوئی وزن نہیں؟ درحقیقت یہ  وہ لوگ ہیں جن میں سے ایک گروہ مسلم اُمہ کے دین دار طبقوں کو نشانہ بناتا ہے، اور دوسرا گروہ  رفاہِ عامہ کے کاموں کو دہشت گردی کا ذریعہ قرار دیتا ہے، جب کہ تیسرا گروہ تاجروں اور      مخیر حضرات کو یہی الزام دیتا ہے، اور چوتھا گروہ جدید تعلیم یافتہ اور پُرامن مسلمانوں کو خطرے کا سرچشمہ قرار دیتا ہے، اور آخر نتیجے میں گویا پوری ملّت اسلامیہ اس سرخ نشان کی زد میں آجاتی ہے۔ اس مسئلے پر غوروفکر، اسلامیانِ علم کے سامنے ایک بڑا اہم سوال ہے۔

یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ، اور وہ یہ کہ کچھ لوگ بے جا طور پر اپنے آپ کو مغربی جنگجوؤں کے سامنے ماڈریٹ یا ’نرم چارہ‘ ثابت کرنے کے لیے، اصولی موقف میں بے جا لچک یا حددرجہ لچک دار موقف کو پیش کرنے کے لیے بہت سی بچگانہ کوششیں یا حرکتیں کرتے   دکھائی دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موقف اصولی، اخلاقی اور منصفانہ ہونا چاہیے، اور پھر اس میں لیت و لعل نہ برتا جائے۔ جن لوگوں کے سامنے موقف کو نرم کرنے کا کھیل کھیلا جاتا ہے، وہ ان چیزوں سے متاثر نہیں ہوتے، اگر انھوں نے اس سے متاثر ہونا ہوتا تو بوسنیا اور کوسووا کے حددرجہ مغرب زدہ مسلمانوں کے ساتھ وہ ظلم و زیادتی نہ کرتے۔ گویا کہ دشمن کو لیپاپوتی سے غرض نہیں، وہ تو جڑ بنیاد کو ہدف بنانا چاہتا ہے، اس لیے معاملے کو اصولی طور پر مضبوط موقف کے ساتھ حل کرنا ہے۔

اسکارف کے مسئلے کے بعد، اب ترکی سے خبر یہ ہے کہ ۱۴مارچ کو ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے ۱۶۲ صفحات پر مشتمل ایک فائل دستوری عدالت میں پیش کی اور پُرزور الفاظ میں عدالت سے درخواست کی کہ حکمران عدالت پارٹی سیکولر دشمنی میں تمام حدوں کو پھلانگ گئی ہے، اس پر پابندی لگائی جائے۔ یہ ۱۱ رکنی دستوری عدالت وہ حتمی ادارہ ہے جس کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہوسکتی۔ اسی عدالت نے ۱۹۹۸ء میں نجم الدین اربکان اور ان کی رفاہ پارٹی کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس میں ۹ ججوں نے فیصلے کے حق میں اور ۲ نے فیصلے کے خلاف راے دی تھی۔ کوئی بھی فیصلہ نافذ ہونے کے لیے ۶ ججوں کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ آج یہی نام نہاد عدالت اس نئے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ نہ صرف پارٹی پر پابندی لگائی جائے بلکہ وزیراعظم اور صدر سمیت عدالت پارٹی کے ۷۱ نمایاں سیاسی رہنمائوں پر سیاست میں حصہ لینا ممنوع قرار دے دیا جائے۔
ادھر عدالت میں مقدمہ زیرسماعت ہے اور ادھر فوج اس میں کھلم کھلا مداخلت کر رہی ہے۔ چیف آف اسٹاف جنرل یاسر بوکانت نے پریس میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’ترکی کی سیکولر حیثیت مسلمہ ہے۔ برائی کے مراکز ترک دستور کے تقدس کو پامال کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔ عمومی خیال یہ ہے کہ دستوری عدالت منتخب حکومت کے خلاف فیصلہ صادر کردے گی لیکن اب حالات نصف صدی قبل سے کافی مختلف ہیں۔ ترک پارلیمان کے اسپیکر کوکسال توپتان نے انقرہ میں ۵جون کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دستوری عدالت کے لامحدود اختیارات محدود کردیے جائیں۔ ہمیں یک ایوانی پارلیمان کی جگہ دو ایوانی مقننہ کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے اور غیرمنتخب اداروں کو ایوان کے تابع رکھنا چاہیے۔
اسپیکر کی اس بات کی حمایت میں بہت سے غیر جانب دار ماہرینِدستور اور دانش ور بھی منظرعام پر آگئے۔ ڈاکٹر مصطفی سنتوب ترکی کے دستوری ماہر ہیں۔ انھوں نے کہا: ’’یہ اعلیٰ عدالت ملک و قوم کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ قانون ساز ادارے کے بارے میں عدالت کا فیصلہ بالکل بے وقعت ہے۔ دستوری ترامیم جب قواعد و ضوابط کے مطابق پارلیمنٹ میں منظور ہوجائیں تو ان کے اجرا کو کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔ واضح رہے کہ ترکی کے دستور کی دفعہ ۱۴۸ کے مطابق: ’’ریاست کا کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے برتر نہیں ہوسکتا‘‘۔
اسکارف پر پابندی ہٹانے کے خلاف سیکولر عناصر نے عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے اس پارلیمانی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یونی ورسٹی کے قانون کے پروفیسر سیراب یزیجی نے کہا:’’یہ فیصلہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ عدالت نے اسکارف پر پابندی لگا کر پارلیمنٹ بلکہ خود دستور پر بھی اجارہ داری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
یہ بحث جاری ہی تھی کہ نئے واقعات رونما ہونے شروع ہوگئے۔ یکم جولائی کو دارالحکومت انقرہ میں پولیس نے چھاپے مار کر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ۲۱ شدت پسند قوم پرست گرفتار کرلیے۔ ان میں دو معروف ریٹائرڈ جرنیل بھی شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ وزیراعظم طیب اردوگان نے ان لوگوں کو   ارجن کون (Ergene Kon) سے متعلق قرار دیا۔ یہ تنظیم ترکی میں کافی بدنام ہے۔ اس سے پہلے بھی اس کے ارکان بم حملوں اور بڑی شخصیات کو قتل کر کے انقلاب برپا کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ ۱۶ جولائی کو ترکی ذرئع ابلاغ کے مطابق اس تنظیم کے مزید افراد گرفتار ہوئے جس سے گرفتار شدگان کی تعداد ۵۸ تک پہنچ گئی ہے۔ عدالتوں نے ان میں سے بعض کو جن میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل بھی شامل ہے، ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ اس انتہاپسند تنظیم کی حمایت انجمن افکار اتاترک (Ataturk Thought Association) بھی کر رہی ہے جس کا صدر ایک ریٹائرڈ جنرل ایروگر (Eroger) ہے۔ وہ بھی گرفتار ہے اور ہنوز زیرحراست ہے۔
ان سطور کے شائع ہونے تک ممکن ہے کہ عدالت کا فیصلہ بھی منظرعام پر آجائے۔ عدالت کو فیصلہ کرنے میں جلدی بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کے ججوں کا تقرر صدر کے اختیار میں ہوتا ہے۔ دستوری عدالت کے تمام جج سابق صدر احمدنجدت سیزر کے دورِ صدارت میں مقرر کیے گئے تھے۔ ان میں سے بعض کو اگلے سالوں میں ریٹائر ہونا تھا اور عمومی خیال یہ تھا کہ ان کی جگہ عبداللہ گل ایسے ججوں کو مقرر کریں گے جو کم از کم شدت پسند سیکولر نہ ہوں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اردوگان حکومت نے اسکارف کا مسئلہ عجلت میں اور قبل از وقت چھیڑ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کرلی ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ترکی کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ مخالفین کے شر سے بالواسطہ ہمیشہ خیر برآمد ہوا ہے۔ اب بھی اگر عدالت اور ارتقا پارٹی پر پابندی لگتی ہے تو نیوزویک کے مطابق اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوجائے گا اور اگر عدالت پابندی نہیں لگاتی تو اس سے بھی عملاً حکومت کی جیت ہوگی اور اسے بالادستی مل جائے گی۔ اس ضمن میں ڈان ۵جولائی کا ادارتی شذرہ اور ۷جولائی کو اسی اخبار میں: ’ترکی میں جمہوریت کا معلق مستقبل‘ جوکہ گارجین لندن کے مضمون نگار مائورین فریلے (Maureen Freely) کا مضمون ہے، قابلِ ملاحظہ ہیں۔
نیوزویک کے تازہ شمارے (۲۱ جولائی) میں ترکش ڈیلی نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر اور مشہور تجزیہ نگار مصطفی اکیول نے ’ترکی کے خلاف سازش‘ کے عنوان سے جو تجزیہ کیا ہے اس میں لادین عناصر کی شدید مذمت کے ساتھ یہ راے ظاہر کی ہے کہ حکمران پارٹی اور اس کی قیادت پر پابندی کی صورت میں وقتی طور پر اگلی پارلیمان پھر معلق ہوگی اور نئی حکومتوں کو جرنیل اپنے اشاروں پر نچائیں گے، تاہم طویل المیعاد تناظر میں اردوگان کی پارٹی مزید مضبوط ہوگی۔
ہماری راے میں حکمران پارٹی پر پابندی لگنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اعلیٰ قیادت کو سیاست سے خارج بلکہ پابندِسلاسل بھی کیا جاسکتا ہے۔ ترکی میں اب تک ۲۵ پارٹیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ ان میں زیادہ تر کرد یا کمیونسٹ تھیں۔ اس سے پہلے اسلامی پارٹی پر پانچ مرتبہ پابندیاں لگیں۔ اسلامی پارٹی واحد پارٹی ہے جس پر پابندیوں سے ہمیشہ عوامی تائید میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر پابندی لگتی ہے تو یہ فیصلہ اور اس کے بعد کا منظر سیکولر طبقات کے لیے کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہوگا۔ ہم ترکی کے اسلام دوست حلقوں کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ صبرواستقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں  ع ’’شرِّ برانگیزد عدو کہ خیر ما در آں باشد‘‘۔

رسولؐ اللہ کے لیے لفظ ’حضور‘ کا استعمال

سوال: اپنے آس پاس بہت سی ایسی باتوں کا رواج دیکھتا ہوں جو مجھے بہت غلط لگتی ہیں اور بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اچھے اچھے ثقہ لوگ اتنی اہم باتوں کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں۔ کچھ مثالیں لکھ رہا ہوں اور آپ سے رہنمائی کی توقع رکھتا ہوں۔

رسولؐ اللہ کے لیے حضور کا استعمال، اور اسی طرح آنحضور، آنحضرت، رسالت مآب، حضور انور، حضور اکرم، حضور پُرنور، حضور پاک، حضور اقدس اور کیا کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ الفاظ نہ قرآن میں ہیں اور نہ حدیث میں۔ رسولؐ اللہ اور نبی کہنا باعث ِ ثواب ہے اور باقی گناہ۔

اسی طرح ہم لفظ ’خدا‘ اللہ کے لیے بولتے ہیں اور یہ الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں: خداوند اعلیٰ، خداے رحمن، خداے بحروبر، خداے بزرگ و برتر، خداوند قدوس، اس کے علاوہ بھی بہت سے الفاظ ہیں، مثلاً خداے عزوجل، خداے لم یزل، خداے رحیم و کبیر، باری تعالیٰ، اُوپر والا وغیرہ۔

جو نام قرآن میں آتے ہیں، بس اللہ کے وہی نام ہیں۔ اس کے علاوہ استعمال کرنا گناہ ہے۔ ہمارا تو ترانہ بھی خداے ذوالجلال پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح رب کو پروردگار کہنا ہے۔ رب کے معنوں سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ لیکن ہم پروردگار کہہ کر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔

ٹی وی کے پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ اس طرح ہے: اے (اسمِ محمدؐ) آپ سے پوچھتے ہیں، اے (اسم محمدؐ) ہم نے آپ کو کوثر عطا کی۔ ’اے‘ تو تہذیب کے خلاف ہے۔ اس طرح تو بڑے چھوٹوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ اے کرکے بلانا سخت ترین گناہ ہے۔ اسی طرح پرویز الٰہی، رحمت الٰہی جیسے نام ہیں۔ مجھے بتائیں اس کے کیا معنی ہیں؟ لوگوں نے نام ایسے رکھے ہیں جو اللہ کے صفاتی نام ہیں ، مثلاً کسی کو مجید، حمید یا قدیر کہنا یا غفور کہنا جیسا کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے یہ کتنی غلط بات ہے۔ مجیدنظامی، غفوراحمد، ڈاکٹر قدیرخاں، رحمن ملک وغیرہ۔

ایک اور لفظ ’الٰہی‘ ہے جس کا بے محل استعمال اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ الٰہی بھی ہم   اللہ کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن رضاے الٰہی، قضاے الٰہی کی تکرار ہوتی ہے۔  (یہ ۶صفحات پر مشتمل سوال کی تلخیص ہے)

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے القاب جو اہلِ علم و فضل اور علماے دین کے ہاں مروج اور معروف ہیں ان کا استعمال کرنا جائز ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپؐ کے لیے ہرجگہ نبی اور رسول کا لفظ ہی استعمال کیا جائے۔ آنحضور،آنحضرت، جناب کریم یہ سب الفاظ ادب کے ہیں اور ان کا استعمال جائز ہے۔ کون سے الفاظ استعمال ہونے چاہییں اور کون سے نہیں، اس کا فیصلہ ہرآدمی نہیں کرسکتا۔ اس کا فیصلہ علما کرسکتے ہیں اور علماے کرام اور مفتیان عظام اور نیک لوگوں اور بزرگانِ دین کے ہاں ان الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’خدا‘ کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور علماے دین نے ان الفاظ کو استعمال کیا ہے۔ یہ عربی زبان کے لفظ اللہ کا ترجمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسما کا ترجمہ کرنا جائز ہے، جس طرح قرآن پاک کا ترجمہ جائز ہے۔ ترجمے میں لفظ اللہ کا ترجمہ بعض مفسرین نے لفظ ’خداے‘ سے اس سبب سے کیا ہے۔

ٹی وی پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کو اس پر اعتراض ہے حالانکہ ترجمے میں بعض مقامات اجتہادی ہیں۔ انھی مقامات میں سے وہ مقام بھی ہے، جن میں آپؐ کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں ایک صورت یہ ہے کہ یہ کہا جائے، جیسے آپ نے ترجمہ کیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اے محمدؐ کہہ کرخطاب کیا اور تیسری صورت وہ ہے جو مولانا فتح محمد نے اختیار کی ہے، یعنی اے (اسم محمدؐ)۔ اس سے آپ اختلاف کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن ناجائز نہیں کہہ سکتے، اس لیے کہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔

الٰہی کے لفظ پر بھی آپ کا اعتراض بے جا ہے۔ الٰہی کا معنی اللہ والا ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں الٰہ تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کا یہی معنیٰ ہے۔ رہی وہ مثالیں جو آپ نے پیش کی ہیں، ان میں بعض پر ہمیں بھی اعتراض ہے۔ ان میں پرویز الٰہی کا نام بھی شامل ہے۔ پرویز کو اللہ والا کہا جاتا ہے حالانکہ پرویز نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پھاڑا تھا۔ اس لیے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔ ایسے بُرے آدمی کا نام کوئی رکھے گا تو خطرہ ہے،کہیں اس کی طرح نہ ہوجائے، جیسے کہ بعض لوگ آپ کے سامنے ہیں کہ وہ اسی پرویز کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ دین اور مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور نام بھی پرویز ہے۔ اس کے علاوہ باقی ناموں، مثلاً منظورالٰہی، رحمت الٰہی وغیرہ ناموں پر آپ کا اعتراض صحیح نہیں ہے۔

بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں۔ اصل نام کے بجاے نام کا اختصار کرتے ہیں۔ عبدالحمید کو حمید، عبدالمجید کو مجید، عبدالقیوم کو قیوم کہتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن جو نام اللہ کے لیے خاص نہ ہوں، ان ناموں کا دوسروں کے لیے استعمال ہو تو نامناسب ہونے کے باوجود گوارا ہے۔ اللہ اور رحمن یہ دونوں نام اللہ کے لیے خاص ہیں۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


مختلف دن منانے کا رجحان

س: آج کل مختلف ایام منانے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے، سینیرسٹیزن ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔ یہ رجحان بنیادی طور پر مغرب ہی سے    آیا ہے۔ دن منانے کی اس نئی روایت کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟   کیا سرے سے اسے غیرمسلموں کا کام سمجھیں، یا موقع کے لحاظ سے فیصلہ کریں،     نہ منائیں یا اپنا رنگ دیں؟

ج: مخصوص دن، وقت یا مواقع پر تقریبات اور مجالس و محافل کے انعقاد کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خطے سے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں بعض مخصوص دن مذہبی یا غیرمذہبی رسموں کے لیے اجتماعی اور انفرادی طور پر  منائے جاتے ہیں۔ پھولوں کا تبادلہ، مٹھائی تقسیم کرنا یا اپنی خوشی کے اظہار کے لیے چراغاں کرنا اور بعض تہذیبوں میں ناچ گانے اور مشروبات کا استعمال بھی مخصوص دنوں اور اوقات کے ساتھ  وابستہ ہے۔

قرآن کریم نے تمام دنوں کو اللہ کے لیے یکساں قرار دیا، قدیم تہذیبوں کے اوہام و اساطیر پر مبنی تقدس کا رد کیا اور سال میں صرف دو دن ایسے قرار دیے جب باوقار انداز میں اللہ کے بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں اور خالق کائنات کے نام کو بلند کرنے کے لیے اس کے حضور سجدہ ریز ہوکر اور بہ آوازِ بلند، اس کی عظمت و کبریائی اور اپنے عجز و عبدیت کو ظاہر کریں۔ چنانچہ رمضان المبارک کی ایک ماہ کی عبادت کی تکمیل پر اور حج مبرور کی ادایگی پر عالمی طور پر اپنی خوشی، خوش قسمتی اور  بندگیِ رب کے اظہار کے لیے دو دن مقررکردیے گئے۔ ان دو دنوں کے دوران میں اپنے اہلِ خانہ، اعزہ و اقربا و احباب حتیٰ کہ اجنبی افراد کے ساتھ بھی اخوت و محبت و احترام کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی خاطر تواضع اور مہمان داری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

قرآن و سنت پر نظر ڈالی جائے تو جمعہ کا دن بھی وہ مقام نہیں رکھتا جیساکہ یہودیوںنے سبت کو یا عیسائیوں نے یومِ احد یا اتوار کو دے کر آرام یا صرف عبادت کا دن قرار دے کر اختیار کرلیا۔ بلاشبہہ احادیث میں جمعہ کے دن کی فضیلت ہے لیکن نہ اس دن کام کی ممانعت ہے، نہ یہ آرام کرنے کا دن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، یاد، تسبیح، تعظیم اور اس کے حضور نماز کی شکل میں شکر ادا کرنے  کے بعد کاروبارِ حیات میں، اللہ کے ذکر کوتازہ رکھتے ہوئے، مصروف ہوجانے والا دن ہے۔

اگر دنوں کا کوئی تقدس ہوتا تو انبیاے کرام کے یومِ ولادت کو یہ مقام ضرور دیا جاتا اور سال کے ۱۲ مہینوں اور ۳۶۵ دنوں میں سے ناممکن طور پر ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے زیادہ دن     مقدس دنوں کے طور پر منائے جاتے۔ بالفرض تمام انبیاے کرام ؑکے ایامِ ولادت منانے مشکل ہوتے تو کم از کم انبیاے بنی اسرائیل جن کا ذکر سابقہ صحیفوں میں اور خود قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ان کے حوالے سے ضرور کچھ دن مخصوص کردیے جاتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ سرورِ کائناتؐ کی ولادت باسعادت کو بھی صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے نہ چھٹی کا دن قرار دیا، نہ اسے مقدس دن سمجھا۔ اس لیے کہ وہ قرآن کریم کے اس اصول سے آگاہ تھے کہ سب دن اللہ کے لیے ہیں کیونکہ وہی خالق اور مالکِ حقیقی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں دن منانے کے اہتمام کی روایت نہیں ہے۔ البتہ اگر موقع کے لحاظ سے والدین یا استاد کو کوئی تحفہ دے دیا جائے تو اس کی کوئی ایسی ممانعت بھی نہیں۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیچرز ڈے ہو یا سینیرسٹیزن ڈے، مدرز ڈے ہو یا فادرز ڈے، مغربی تہذیب میں ان کی معاشرتی اہمیت کے پیش نظر سال میں ایک مرتبہ انھیں پھولوں کا تحفہ دے کر یا ایک کارڈ بھیج کر اظہارِ تشکر اور ان کی اہمیت کا اظہار کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے کہ پورے سال میں ایک مرتبہ بھی ان میں سے کسی کو یاد نہ رکھا جائے لیکن اگر واقعی ان کے احسانات کے پیش نظر ایسا کرنا مقصود ہے تو یہ سراسر تکلف ہے۔ والدین ہوں یا استاد، ان کا شکر تو اپنے اچھے اخلاق اور طرزِعمل سے ہی ادا ہوسکتا ہے، جسے قرآن کریم عملِ صالح کہتاہے۔ والدین اپنی محبت کے سایے میں ایسے وقت، جب اولاد قرآن کی زبان میں کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہوتی، اپنی توجہ اور تمام وسائل کو اس کی نشوونما اور تربیت پر لگا دیتے ہیں تو سال میں ایک دن تو کیا سال کے ہر دن، ان کا شکر و احترام کرنے کے بعد بھی کیا ان کا حق اور ان کا شکریہ ادا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے والدین سے احسان کے رویے کی تلقین کی ہے اور ان کے ساتھ بے رُخی یا گستاخی پر سرزنش کی ہے۔

رہا ویلنٹائن ڈے یا اس قسم کے دیگر بے معنی دن تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے دنوں کا تعلق جاہلیت اور جاہلی تہذیب سے تو ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ ایسے دنوں کا منانا دیگر اقوام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا اور ان کی جاہلیت پر مبنی روایات کو اپنانا ہے۔ بسنت بھی اسی قسم کا تہوار ہے جس کا کوئی تعلق مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے نہیں۔ یہ خالصتاً غیراسلامی طریقہ ہے اور اس کا اختیار کرنا گمراہی کا باعث ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


علاقائی رسم و رواج کی حیثیت

س: اسلام میں علاقائی رسم و رواج کی کیا حیثیت ہے اور اُن کو کرنے یا نہ کرنے کا بنیادی اصول کیا ہے بالخصوص شادی کے موقع پر کی جانے والی مہندی کی رسم؟

میرے خیال میں اس رسم کو غیراسلامی یا نامناسب اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں ناچ گانا، مووی یا تصویریں بنانا اور مخلوط تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور بے جا اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ اس رقم کو اسٹیٹس سمبل کے طور پر بھی ادا کیا جاتا ہے، نیز اس میں وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بات نہ ہو، صرف خاندان کی خواتین اور سہیلیاں اکٹھی ہوں، گھریلوقسم کے گانے ڈھولکی یا دف پر گائے جائیں، اور پردے کا خیال رکھا جائے، یعنی یہ رسم صرف مل بیٹھنے کا بہانہ ہو تو کیا پھر بھی اس رسم کا ادا کرنا ناجائز یا غیراسلامی ہوگا؟

ج: علاقائی رسمیں خصوصاً شادی بیاہ کے رواج میں سے جو شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی اجازت ہے۔ آپ نے خود ہی وضاحت کی ہے کہ مہندی کی رسم میں غیرشرعی کام، ناچ گانے، مووی، تصویریں بنانا، مخلوط تقریبات، بے جا اسراف، اسٹیٹس سمبل کا مظاہرہ اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر یہ رسم ان بے جا اُمور سے پاک ہو، محض بچی کو دلہن بنانا ہو تو سادہ طریقے سے ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح انصار کی خواتین نے حضرت عائشہؓ کو نہلا دھلاکر، بناسنوار کر دلہن بنا کر    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رخصت کیا تھا۔ شادی کے موقع پر بڑی خواتین کا دف کے ساتھ گانے گانا اگرچہ اپنے گھر کے محدود دائرہ میں ہو، صحیح نہیں ہے۔ صرف چھوٹی بچیاں ایسے گیت گاسکتی ہیں جن میں فحش نہ ہو۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

The Plan for Eradication of Poverty in Pakistan: Without Government or Foreign Grants [پاکستان سے غربت کے خاتمے کا منصوبہ: حکومت اور بیرونی امداد کے بغیر]، محمدعبدالحمید۔ ناشر: بُک مین، الشجربلڈنگ، نیلاگنبد، لاہور۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۲۱۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک جامع پلان کی حیثیت رکھتی ہے جس میں ضلعی حکومتوں کو اپنا رول ایک خاص حد تک ادا کرنا ہے، جب کہ بنیادی طور پر غربت کے خاتمے کایہ تمام منصوبہ نجی کمپنیوں کے ہاتھوں تشکیل اور فروغ پائے گا۔ اس منصوبے کا لبِ لباب یہ ہے کہ شہری اوردیہی علاقوں میں ہر فرد اپنا کاروبار یا ملازمت حاصل کرسکے، ملک کا ہرشہری،  دیہی یا شہری کی تخصیص کے بغیر ۱۵۰۰ مربع فٹ کے ایک فلیٹ کا مالک بن سکے جس کے لیے  اسے ابتدائی طور پر صرف ۲۵۰۰ روپے کرایہ ادا کرنا پڑے اور زرعی زمین کی کم از کم ملکیت کو ساڑھے ۱۲ ایکڑ کی سطح تک لایا جاسکے جو کہ معاشی لحاظ سے مناسب رقبہ (economic size) ہے۔

مصنف نے مندرجہ بالا اہداف کے حصول کے لیے ایک جامع تحریر لکھی، جو کہ ان کے موضوع پر گرفت کو ظاہر کرتی ہے اور مصنف کی اپنے گردوپیش کے حالات پر گہری نظر کو ظاہر کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری قانون سازی کے لیے ڈرافٹ بھی کتاب میں شامل ہیں۔ مصنف کے خیال میں یہ پلان اگر نافذ کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں بہت بڑی معاشی سرگرمی فروغ پذیر ہوگی اور سماجی ڈھانچے میں ایک بہت بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہوگی۔

کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری اپنے آپ کو ایک تصوراتی دنیا (utopia) میں پاتا ہے، جس کے لیے ایک تصوراتی محل کھڑا کیا گیا اور اس محل کی ایک ایک تفصیل بیان کردی گئی ہے۔    یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تصورات (concepts) پیش کیے جاتے ہیں اور لوگ ان پر غوروفکر کرکے عمل کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ کبھی مکمل طور پر اور کبھی جزوی طور پر کچھ باتوں کو لے کر عمل کی دنیا میں اس پر عمارات کھڑی کی جاتی ہیں، اس لحاظ سے یہ کتاب ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔

کچھ باتیں اس میں محلِ نظر معلوم ہوتی ہیں، خاص طور پرسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب مسئلہ ملکیت زمین کو موضوع بحث بناکر اس کا تنقیدی جائزہ اضافی نظر آتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک اور پاکستانی طرزِ معاشرت کے لیے جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے وہ ہمارے ہاں بظاہر بہت کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ کاروباری مقاصد کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے آج تقریباً تمام ادارے بنکوں کے قرض پر انحصار کرتے ہیں۔ نجی کمپنیاں اپنے پاس سے رقوم کیوں کر خرچ کریں گی، جب کہ وہ فیکٹریاں اور منافع بخش ادارے قائم کرنے کے لیے بھی بنکوں کے قرض پر انحصار کرتی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات اُٹھنے کے باوجود کتاب قابلِ قدر ہے اور معیشت دانوں اور فیصلہ سازوں کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)


تحفۃ الائمۃ، محمد حنیف عبدالمجید۔ناشر: بیت العلم ٹرسٹ، جی-۳۰، اسٹوڈنٹ بازار نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۷۲۶۵۰۹۔ صفحات: ۷۸۲۔ قیمت (مجلد): ۳۵۰ روپے۔

ائمہ مساجد کا حقیقی مقام معاشرے کے قائدین کا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب انھوں نے اپنا یہ مقام عموماً کھو دیا ہے اور وہ صرف دو رکعت کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ اسلامی نظام قائم ہو تو حکمران مساجد میں نماز کی امامت کریں لیکن موجودہ نظام میں تو یہ حال ہے کہ اگر موجودہ حکمران امامت کے مصلے پر آجائیں تو مقتدی مسجد خالی کردیں۔ معاشرے کی قیادت اور امامت میں یہ دُوری دورِ زوال اور دورِ غلامی کا نتیجہ ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسجدوں کے امام، جو کوئی بھی ہیں، اپنے بلند مقام سے آگاہ ہوں اور اس کے مطابق طرزِعمل اختیار کریں۔ تحفۃ الائمۃ محمدحنیف عبدالمجید کی ایک ایسی نہایت بھرپور اور مؤثر کاوش ہے جس میں ائمہ مساجد کی صفات،  ان کے لیے نصائح اور وعظ کے آداب پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ کافی اچھی بحث اس مسئلے پر ہے کہ آئمہ کرام کا دائرہ صرف مسجد نہیں ہے، بلکہ مسجد سے باہر کا معاشرہ بھی ہے جس میں انھیں دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ادا کرنا چاہیے۔

وحدت اُمت کے حوالے سے بھی بہت مناسب اور پُرزور توجہ دلائی گئی ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب کا مضمون اس حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔ تاریخ سے مثالیں دی گئی ہیں کہ افتراق و انتشار نے اُمت کو کیا نقصان پہنچایا ہے۔ مذاہب اربعہ کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ جن چند مذموم صفات کی بنا پر ان میں دشمنی اور بُغض مستحکم ہوگیا ہے: ’’ان صفاتِ مذمومہ میں سے ایک صفتِ مذموم مذہبی تعصب، جہالت اور اپنی غلط بات پر ڈٹ جانا ہے‘‘۔  (ص ۵۴۰)مقتدیوں کی تربیت کیسے کی جائے؟ اس پر بھی بہت وسیع دائرے میں کلام کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں نماز کے آداب، نماز پڑھنے کا درست طریقہ، مسجد کے آداب، صف بندی کے آداب سبھی کچھ پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ ائمہ کرام کے مطالعہ کے لیے کتب کی فہرست دی گئی ہے۔ ساتھ ہی مقتدیوں کے لیے، ان کے اہلِ خانہ کے لیے اور انگریزی پڑھنے والے مقتدیوں کے لیے فہرست کتب دی گئی ہے۔

ہم اپنی مساجد میں اچھے اچھے ائمہ کو دیکھتے ہیں جو نماز پڑھانے سے زیادہ اپنا کوئی کام نہیں سمجھتے۔ مقتدیوں کی تربیت سے ان کو واسطہ نہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بھی عموماً وہ آنکھیں بند رکھتے ہیں حالانکہ یہ ان کا اصل میدانِ کار ہے۔

محمد حنیف عبدالمجید صاحب نے ۷۸۲ صفحے کی اس کتاب میں موضوع کے ہر پہلو پر نہایت دل نشین انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ معیاری سفید کاغذ پر روشن اُجلے حروف قاری کو پڑھنے میں آسانی فراہم کرتے ہیں۔ دوسری طرف کتاب میں بلاتکلف آٹھ آٹھ دس صفحے عربی کے بلاترجمہ نقل کیے گئے ہیں اس لیے کہ مصنف کے نزدیک پڑھنے والے اہلِ علم ہیں (شاید انھیں اہلِ علم کے مبلغ علم کا اندازہ نہیں)۔ لکھنے والے تو ابھی تک ’ان کو‘کے بجاے ’انکو‘ لکھ رہے ہیں اوریہاں دوسری طرف انتہا یہ ہے کہ بلکہ کو ’بل کہ‘ لکھا گیا ہے۔ یہ کتاب جہاں ائمہ کے لیے تحفہ ہے، پڑھنے والے مقتدیوں کے لیے بھی تحفہ ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ کتاب کا ضخیم ہونا قارئین کی تعداد کم کردیتا ہے، لیکن مصنف اپنے اہلِ علم سے خوش گمان ہیں اس لیے کہ انھوں نے اطمینان سے ہرموضوع پر کلام کیا ہے اور ضخامت کی پروا کیے بغیر کیا ہے۔

بیت العلم ٹرسٹ کی جانب سے گذشتہ عرصے میں کئی مفید چیزیں آئی ہیں: تحفۂ دلہن، تحفۂ دلہا، مثالی ماں، مثالی باپ، مثالی استاد۔ بچوں کے لیے ۳۶۵ کہانیاں (۳جلدیں) اور ماہنامہ ذوق و شوق۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کی ان کوششوں کو قبول کرے، ان میں برکت ڈالے اور مسلمانوں کے دل اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے کھولے۔ (مسلم سجاد)


غزواتِ نبوی ؐ کے اقتصادی پہلو، پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی ۔ناشر: مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۱۴۰

زیرتبصرہ کتاب میں فاضل مصنف نے غزواتِ نبویؐ اور سرایا کے نتیجے میں مدنی معیشت پر مرتب ہونے والے معاشی اثرات کے جائزہ لیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مدنی معیشت میں ان غزوات و سرایا کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کا بہت تھوڑا حصہ بنتا ہے اور مدنی معیشت کا انحصار اس مالِ غنیمت پر نہ تھا بلکہ دوسرے ذرائع آمدن مثلاً زکوٰۃ، صدقات، لوگوں کی طرف سے رضاکارانہ رقوم کی فراہمی وغیرہ پر تھا۔ مصنف نے مستشرقین کی طرف سے اٹھائے گئے ان اعتراضات کا جواب دینے کے لیے عربی، اُردو اور انگریزی میں لکھی گئی کتب اور رسائل سے نتائج اخذ کرتے ہوئے کتاب میں حوالے بھی درج کردیے ہیں۔

فاضل مصنف نے آغاز میں کتبِ مغازی کے سلسلہ میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے مغازی کے موضوع پر لکھی گئی کتب اور ان کے عرصۂ اشاعت کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعد غزوات نبویؐ اور سرایا (جن لڑائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہ تھے) کا سال بہ سال جائزہ پیش کیا ہے، ان غزوات و سرایا سے حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت، قیدیوں اور دیگر پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے اور ان غزوات پر آنے والے مصارف کا بھی تجزیہ پیش کیا ہے (ص ۱۱۷ تا ۱۲۱)۔ اسی طرح جنگی قیدیوں پر اٹھنے والے مصارف، اور دیگر جانی و مالی نقصانات پر بحث کی ہے (ص ۱۲۱ تا ۱۲۵)، جب کہ مدنی معیشت کے مختلف پہلوئوں کا تجزیہ کیا ہے۔ (ص ۱۲۶ تا ۱۴۱)

کتاب میں مختلف کتب و رسائل کے متعلق تعلیقات و حواشی (ص۱۴۲ تا ۲۰۸ ) بہت اچھا اضافہ ہے۔ غزوات و سرایا کا ایک نظر میں جائزہ لینے کے لیے مختلف غزوات کا گوشوارہ (ص ۲۰۹ تا ۲۲۴ )بنایا گیا ہے، جس میں غزوہ یا سرایہ کا نام، سال و ماہ، مسلمانوں اور کافروں کی تعداد اور    ان کے قائدین کے نام اور نتائج بیان کیے گئے ہیں۔

اپنے موضوع کے حوالے سے یہ کتاب اپنی طرز کی اچھوتی کتاب ہے، جو کہ فاضل مصنف کی محنت ِشاقہ اور تحقیقی ذہن کی عکاسی کرتی ہے، اور مستشرقین کے اعتراضات کا ایک شافی جواب ہے۔ (م - م - ا)


شیطانی ہتھکنڈے (صحیح تلبیس ابلیس) تالیف: علامہ ابن جوزیؒ۔انتخاب و تحقیق و تخریج:   علی حسن علی عبدالحمید تلمیذ رشید علامہ ناصرالدین البانیؒ، ترجمہ: سلیم اللہ زمان۔ ناشر: دارالابلاغ،   رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۶۲۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

خیروشر اور نیکی و بدی کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ شیطان اپنی تمام تر فریب کاریوں، عیاریوں، مکاریوں اور اکساہٹوں کے ساتھ مورچہ زن ہے۔ مگر قرآن و حدیث سے اس کے ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے وسیع رہنمائی ملتی ہے۔ امام ابن جوزیؒ نے شیطان لعین کی دسیسہ کاریوں، فریب کاریوں اور دھوکے بازیوں پر جامع کتاب تالیف کر کے اُمت کو شیطان لعین کے حملوں سے بچانے کے لیے سامان فراہم کیا ہے۔

برعظیم پاک و ہند میں اس کے متعدد اڈیشن چھپتے رہے، اب مکتبہ دارالابلاغ نے  ’تلبیس ابلیس‘ کا نیا رواں اور شُستہ ترجمہ اغلاط سے پاک کمپوزنگ کرکے شائع کیا ہے۔ ترجمے کے لیے علامہ ناصرالدین البانی کے شاگرد رشید علی حسن عبدالحمید کا ترتیب دیا ہوا نسخہ پیش نظر    رکھا گیا۔ علی حسن علی عبدالحمید نے تخریج کرتے ہوئے صرف صحیح احادیث کا انتخاب کیا، جب کہ ضعیف احادیث یکسر خارج کردیں۔

امام ابن جوزیؒ ایک بلندپایہ عالم دین، محدث، مؤرخ، واعظ اور مربی تھے۔ انھوں نے ۱۷۸ اساتذہ سے کسب ِفیض کیا، ان کی تصانیف کی تعداد ۲۵۰ کے لگ بھگ ہے۔ زاد المسیر کے نام سے قرآن کی تفسیر لکھی اور پہلے مفسرکہلائے۔ حنبلی مسلک پر سختی سے عمل پیرا ابن جوزی، فرائض و احکامات کے معاملے میں خود بڑے سخت اور متشدد تھے۔انھوں نے تلبیس ابلیس میں روایات لینے کے سلسلے میں خاص احتیاط کا اہتمام کیا اور ثقہ روایات لیں۔ ترغیبات و ترہیبات کے ضمن میں ضعیف روایات لے لی جاتی ہیں، صحاح ستہ میں فضائل کے باب میں ضعیف اور   کمزور روایات موجود ہیں جو تذکیر کے لیے نقل ہوتی ہیں۔ کمزور اور ضعیف روایات کو تلبیس ابلیس سے خارج کر کے کتاب کی چاشنی کو کم کردیا گیا اور اس طرح اس کا دائرہ بھی محدود کردیا گیا،  میرے خیال میں اس ضمن میں درمیانی راہ نکالنی چاہیے تھی، تاکہ اصل کتاب کا حُسن برقرار رہتا۔(عمران ظہور غازی)


تعمیر ِ شخصیت کے رہنما اصول، حافظ محمد ہارون معاویہ۔ زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔صفحات: ۵۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

عموماً کسی شخص کے ظاہری خدوخال، بول چال اور چال ڈھال سے اس کے بارے میں ایک راے قائم کی جاتی ہے۔ شخصیت دراصل ان منفرد اوصاف کی میکانکی تنظیم اور وحدت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو عطا کیے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں جہاں ارثی اور ماحولیاتی عناصر کا کردار نمایاں ہوتا ہے وہاں فرد کے خیالات اور سوچ کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔

مصنف نے شخصیت کے تعمیراتی عناصر اور اصولوں کا مطالعہ، مختلف ماہرین نفسیات اور علما کی آرا کی روشنی میں کیا ہے اور پھر اپنے مشاہدات اور تجزیے سے ان اصولوں پر بحث کی ہے جن سے شخصیت کی تعمیروترقی ممکن ہے۔ ان کا خیال ہے تن بہ تقدیر ہوکر بیٹھ رہنے کے بجاے ایک فرد اپنے اندر خوداعتمادی، قوتِ فیصلہ، قوتِ ارادی، غوروفکر اور عزم و ہمت جیسے اوصاف کو بیدار کرلے تو وہ پسندیدہ اور کامیاب زندگی بسر کرسکتا ہے۔ زندگی کا نصب العین چونکہ زندگی کا رُخ متعین کرتا ہے، اس لیے ایک فرد کی زندگی کا مرکز و محور یہی قرار پاتا ہے، اور یہی باقی اوصاف کو بیدار کرنے کے لیے تحریک پیدا کرتا ہے۔

کتاب میں ۱۶ ایسے بنیادی اصولوں پر بحث کی گئی ہے جو شاہراہِ حیات پر کامیابی کے سفر کے لیے مفید ہیں۔ شخصیت کی تعمیر اور کیریئر پلاننگ کے لیے ایک مفید کتاب ہے۔ اسلوبِ بیان سادہ اور پُرکشش ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


ٹال مٹول کی عادت سے نجات، ریٹاایمٹ، مترجم:حافظ مظفرحسن۔ ناشر: سیونتھ سکائی پبلی کیشنز، غزنی سٹریٹ، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۲۳۵۸۴۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۲۰۰روپے

لیت و لعل اور ٹال مٹول کی عادت ایک عادتِ بد ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی زندگی میں بے حد نقصان اٹھاتا ہے۔ ٹال مٹول کی عادت کسی بھی انسان کو وراثت میں نہیں ملتی اور نہ یہ عادت انسان کی شخصیت اور کردار کا حصہ ہی ہوتی ہے۔ یہ محض ایک عادت اور رویہ ہے اور یہ عادت انسان کی زندگی پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان دبائو اور تنائو کا شکار ہوجاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

مصنفہ نے انسان کے خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کی ممکنہ وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ کون کون سے خوف اور خطرات ہیں، جو انسان کی راہ کی دیوار بنتے ہیں اور ان سے کیسے نبٹا جاسکتا ہے۔ پھر بہتر زندگی گزارنے کے لیے کام کو بروقت اور منصوبہ بندی کے تحت سرانجام دینے کے بہت سے گُر بتائے ہیں۔ مختلف لوگوں کی ذاتی زندگیوں کے تجربات کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ منظم، بھرپور اور متحرک زندگی گزارنے کے لیے اہم اصولوں کو زیربحث لایا گیا ہے۔ مترجم نے Stop Procrastinating کا ٹال مٹول کی عادت سے نجات خوب صورت ترجمہ کیا ہے۔ وقت کی قدروقیمت جاننے، اپنے معمولات کو بے ترتیب ہونے سے بچانے اور منصوبوں کو احسن طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ مفید رہنمائی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


روبہ زوال امریکی ایمپائر ، حامدکمال الدین ، ناشر: مطبوعات ایقاظ، ۶-اے ذیلدار پارک اچھرہ ، لاہور۔ صفحات: ۱۲۱۔قیمت: ۱۰۰ روپے

دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ نے عالم اسلام کے اصحاب دانش کو بھی غور و فکر کے نئے دوراہوں پر لاکھڑا کیاہے۔مغرب کی اس نئی اور کھلی جارحیت کے پس منظر اور داعیے کو    سمجھنے سمجھانے کی بحث زوروں پر ہے۔فاضل مصنف نے ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ فارس تمھاری ایک ٹکر ہوگا (یابڑی حد) دو ۔پھر فارس کو اللہ مفتوح کرادے گامگر روم کے کئی سینگ ہوں گے۔اس کا ایک سینگ ہلکان ہوگا تو نیا سینگ نکل آئے گا۔

خلاصۂ استدلال یہ ہے کہ موجودہ امریکن ایمپائر اپنے یونانی و رومی پس منظر کے ساتھ   بنی الاصفر (سلطنت روم) ہی کا تاریخی تسلسل ہے۔ مغربی تہذیب کا یہ امام،یونان کی لادینیت، رومن ایمپائر کی قبضے کی ہوس اور موجودہ مسخ شدہ عیسائیت کی شرک و بدعملی کا حقیقی وارث ہے۔ مصنف کے مطابق رومیوں کے ورثا کی اسلام کے ساتھ یہ جنگ اپنی شکلیں تو تبدیل کرتی رہی ہے لیکن تھمی کبھی نہیں۔انجام کار کامیابی یقینا عالم اسلام کا مقدر ہے لیکن اس کے لئے صحیح حکمت عملی، اور شرعی ضوابط کا مکمل التزام ناگزیر ہے ۔کتاب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پس منظر میں لکھے جانے والے لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔(حافظ محمد عبد اللّٰہ)


تعارف کتب

  •  قرآن کی دو عظیم سورتیں ، محمد شریف بقا۔ علم و عرفان پبلشرز، ۳۴-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۷۰ روپے۔[سورئہ رحمن اور سورئہ یٰسین کا ایک مطالعہ، اس طرح کہ عربی متن کے حصوں کے بعد   آیت و ترجمہ، پھر الفاظ کے معنی، پھر بنیادی نکات۔ بنیادی نکات میں نفسِ مضمون آجاتا ہے، تشریح و توضیح نہیں۔ ان سورتوں کے مضامین سے آگاہ کرنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ طباعت کا کم تر معیار نظروں کو جچتا نہیں۔]
  • رسولوں کی کہانی، قرآن کی زبانی ،محمد صدیق تہامی۔ ملنے کا پتا: نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام آباد۔ صفحات: ۶۱۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ [بچوں کے لیے قرآنی قصص پر بہت سی کہانیاں دستیاب ہیں لیکن یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ پہلے نبی حضرت آدم ؑ سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیا کے قصص دل چسپ پیرایے میں ایک مسلسل کہانی کے انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت، انبیا کی سیرت و کردار، ان کا مشن اور لازوال قربانیاں، غلبۂ حق کے لیے جدوجہد، اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور    ایک مسلمان کے کردار کا نقش بچوں کے ذہن میں بیٹھتا چلا جاتا ہے جو آگے چل کر ان کی تعلیم و تربیت اور  سیرت و کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بچے خود پڑھیں یا مائیں چھوٹے بچوں کو سلاتے وقت سنائیں۔ بچوں کے ادب میں مفید اضافہ۔]
  • آسان میراث ،مولانا محمد عثمان نووی والا۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ،9E-ST ، بلاک ۸، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۷۰ روپے۔[میراث کے مشکل مسائل موصوف نے اپنی دانست میں آسان کر کے بیان کردیے ہیں۔ عام آدمی کے لیے پھر بھی مشکل ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ضرور ’نایاب تحفہ‘ ہے۔]
  • خصائل نبویؐ کا دلآویز منظر ، تالیف: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۱۶۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [شمائل ترمذی مشہور کتاب ہے جس میں حضوؐر کی روزمرہ کی زندگی کی تمام جزئیات اور تفصیلات کا بیان ہے۔ مصنف اس کو سلسلے وار شائع کر رہے ہیں۔ یہ اس سلسلے کی ساتویں جلد ہے۔ اس جلد میں ۳۷ احادیث عام فہم تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ آپ کے اخلاق و عادات اور انکسار جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔]

مئی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں Granny Nam Tells the Story پر تبصرہ شائع ہوا تھا۔ بچوں کے لیے باتصویر قرآنی کہانیوں کے تین حصے محترمہ نصرت محمود نے لکھے ہیں۔ ملنے کا پتا: 191-J ، ڈی ایچ اے،  سیکٹر ای ایم ای، ایسٹ کینال بنک، لاہور ، فون: 7511655۔ قیمت: 300 روپے علاوہ ڈاک خرچ

ڈاکٹر محمد شکیل ‘لاہور

مادہ پرستی کے اس دور میں ایک مسلمان کے لیے تزکیۂ نفس، ذاتی اصلاح اور شیطان کے شر سے بچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ’اصل مسئلہ اخلاقی‘ مولانا مودودیؒ کا مضمون: ’ایک دوسرے کے لیے کدورت‘ اور محمدیوسف اصلاحی کا ’گناہ گار سے نفرت نہیں، اصلاح‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) اس ضرورت کو کماحقہٗ پورا کرتے ہیں۔ ’دوسروں پر تنقید اور اپنے آپ کو بھول جانا‘ ہر ایک کا وطیرہ بنتا جارہا ہے۔ آج کی اسلامی و اصلاحی تحریکوں میں افراد کے مابین اسلام کے اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور اخلاقی برائیوں، مثلاً بُغض و حسد، بدخواہی و بدگمانی، غیبت و بہتان وغیرہ سے بچنے کے لیے ایسے مضامین کی اشاعت مفید ہے۔


ارشد علی آفریدی ‘خیبر ایجنسی

’پاکستان کے حالات : تبدیلی کس طرح؟‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) میں خرم مرادؒ نے تبدیلی کا حقیقی راستہ دکھایا ہے۔ مسئلہ اس پر چلنے کا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے جن روحانی امراض کا ذکر کیا ہے اُن میں آج شدت سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ملک جس میں قانون نافذ کرنے والا خود مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہو اور ملک کا دستور مسلسل پائوں تلے روندتا ہو، حکمران طبقہ عدل و انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہو، امن و سلامتی، مساوات، صبروتحمل، ایثار و ہمدردی، اخلاص و شرافت کم یاب ہوں تو ان حالات میں صرف چہروں کی تبدیلی سے حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے افکارو خیالات پر نظرثانی کریں، اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں، مثبت سوچ اپنائیں۔ اپنے دلوں سے مادیت اور مغرب کی مرعوبیت کو کھرچ ڈالیں اور      اپنے دامن کو نورایمان، ذکروعبادت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کریں۔ تب ہی ہم ایک باعزت قوم بن کر اُبھر سکتے ہیں۔


محمد صہیب عمر‘کراچی

’او‘ لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) کے حوالے سے آپ کے شذرہ نگار کی حکومت سے اپیل پڑھ کر مجھے ہنسی آگئی۔ ہماری حکومت بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں اپنی رٹ نافذ کرنے سے فارغ ہو، تو پھر ان اداروں پر اپنی رٹ نافذ کرے۔ دراصل اربابِ حکومت اتنی اہم ذمہ داریوں، یعنی کرسیوں کو سنبھالنے میں لگے ہوئے ہیں کہ کہاں کیا پڑھایا جا رہا ہے، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی ان کی نظروں میں تو لیول امتحانات لینے والے اس قوم کے محسن ہیں۔ پاکستان پر ان اداروں کی رٹ نافذ ہے، جو چاہیں، پڑھائیں۔


ملک نواز احمد اعوان ‘کراچی

بہت عرصے بعد ’مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) جیسا مضمون ترجمان میں پڑھنے کو ملا۔آپ نے اسے مکمل شائع نہ کرکے بڑا ظلم کیا۔ اس کی خاطر کوئی بھی دوسرا مضمون روکا جاسکتا تھا۔ اب دوسری قسط کا انتظار ہے!


چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ ‘گوجرانوالہ

’پیپلزپارٹی کا دستوری تماشا‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) بھرپور اور متوازن تجزیہ ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی تحسین پر مجبور ہوں۔ البتہ حکومتی بددیانتی (ص۱۳) کے لیے الفاظ کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت تھی۔


نسیم احمد ‘اسلام آباد

’جاپان میں اسلام پر تازہ تحقیقات‘ (جون ۲۰۰۸ئ) پڑھا۔ ایک خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس دورافتادہ سرزمین (Land of Rising Sun)میں اسلام کس طرح پہنچا! وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ اس پر بھی کوئی تحریر دیں۔


محمد زبیر ‘لاہور

’جاپان میں اسلام پر تازہ تحقیقات‘ (جون ۲۰۰۸ئ) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت معلومات ملیں۔ خیال آیا کہ اگر کوئی مسافر پاکستان کے بارے میں اس موضوع پر لکھے تو کیا لکھے گا؟ ہماری جامعات اور تحقیقی اداروں میں موضوعات کا انتخاب کسی ضرورت یا سوچی سمجھی اسکیم کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ تحقیق کار اور گائیڈ کی سہولت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ غیرمسلم ہی نہیں، مسلم ممالک کے بارے میں بھی اسی طرح کے مقالات کی سیریز ہم قارئین کے لیے چشم کشا ہوگی، مثلاً جرمنی میں… یا مصر میں…


فیضان احمد‘سیکرٹری جنرل اسلامی سنگھ نیپال

یہ اطلاع دیتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ الحمدللہ نیپالی ترجمۂ قرآن کے رسم اجرا کا پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ یہ ترجمہ تحریک اسلامی نیپال، اسلامی سنگھ نیپال کی پانچ سالہ محنتوں کا ثمرہ ہے۔ مولانا علائوالدین فلاحی، فارغ التحصیل جامع الفلاح اور سابق طالب علم بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کو ترجمے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مختلف علماے کرام کی نظرثانی کے ساتھ ساتھ تین ماہر لسانیات سے بھی اس کی زبان کی  تصحیح کروائی گئی ہے۔ یہ عربی متن کی نیپالی زبان میں ترجمانی ہے۔ اس کی تیاری میں قرآن مجید کے مشہور   اُردو تراجم: تفہیم القرآن، تدبر القرآن، احسن البیان، معارف القرآن اور انگریزی زبانوں میں موجود تراجم کے ساتھ ساتھ متداول عربی تفاسیر سے بھی مدد لی گئی ہے۔رسمِ اجرا کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں سیاسی و سماجی کارکنان، مختلف مسالک کے نمایندے، ہندو، بدھ، عیسائی اور جین مذاہب کے           اعلیٰ عہدے داروں سمیت بڑی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے شرکت کی۔

معمار کا سا انداز

ارکان کی مشکلات میں بھی کوئی کمی نہیں اور نہ ان میں کسی کمی کی اس وقت تک کوئی توقع کرنی چاہیے جب تک کہ اپنے ماحول اور سوسائٹی کو بدل کر ہم اپنے ڈھب پر نہیں لے آتے۔ دریا میں رہتے ہوئے اس کی رو کے خلاف چلنے سے مزاحمت کا پیش آنا ایک فطری چیز ہے۔ جب آپ پوری سوسائٹی کے رجحانات، طور طریقوں اور چلن کے خلاف چلیں گے تو ہرہرقدم پر ٹکر ہوگی اور حقیقت یہ ہے کہ غلط اصولوں پر قائم نظامِ زندگی میں ہمیں اگر مشکلات پیش نہ آئیں تو تعجب کرنا چاہیے نہ کہ ان کے پیش آنے پر۔ البتہ ارکان کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مشکلات اور مزاحمتوں کو خواہ مخواہ دعوت کبھی نہ دیں بلکہ اپنی طرف سے حتی الامکان بچ کر چلنے کی کوشش کریں۔

مومن ایک دانا اور حکیم انجینیر کی طرح دین کی سڑک کو رضاے الٰہی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ماہر فن انجینیر پہاڑوں اور دریائوں اور نالوں سے خواہ مخواہ لڑ کر اپنی قوت اور   سرمایہ ضائع کرنے کے بجاے اپنی سڑک کو پہاڑوں کے دامن کے ساتھ ساتھ، وادیوں کے کناروں پر، چھوٹے پایاب نالوں میں gap بنا کر اور دریائوں پر پل باندھ کر آگے گزر جاتا ہے، اور صرف ان پہاڑوں کو توڑنے اور ان ندی نالوں کو پاٹنے پر قوت و سرمایہ صرف کرتا ہے جہاں ایسا کیے بغیر آگے بڑھنے کی کوئی شکل نہ ہو یا اس کی سڑک کے لیے آیندہ نقصان کا موجب ہوسکتے ہوں۔ صراط مستقیم کے معماروں اور انجینیروں کو بھی اسی حکمت و دانائی سے کام کرنا ہے اور اپنے فن کا زور دکھانے کے لیے رکاوٹوں کو پیدا نہیں کرنا اور نہ مشکلات کو دعوت دینا ہے بلکہ جو فی الواقع موجود ہیں ان سے بھی حتی الامکان ٹکرائے بغیر آگے نکل جانا ہے۔ ہاں، جہاں کوئی بالکل ہمارا راستہ روکنے ہی پر تل جائے اور ہمیں اور دوسرے بندگانِ خدا کو حق پر چلنے ہی نہ دینا چاہتا ہو تو تصادم ناگزیر ہے لیکن اس کا فیصلہ جماعت کا کام ہے نہ کہ کسی ایک رکن یا مجموعہ ارکان کا۔

اس سال ہمارے مختلف ارکان کو قوم و برادری کے غیر شرعی اور بے بنیاد طور طریقوں کو ترک کردینے پر بعض جگہ قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں، بعض جگہ شہربدر اور برادری سے اخراج کے ڈراوے دیے گئے اور بعض جگہ رشتے ناطے اور عمربھر کے تعلقات منقطع کرلیے گئے اور بعض کی بیویوں نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن الحمدللہ کہ کسی ایک رکن کے بھی پاے ثبات میں ذرا فرق نہ آیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے ایمان و عقیدہ کو زیادہ پختہ ہی کردینے کا موجب ہوا۔(روداد جماعت اسلامی بابت ۴۶-۱۹۴۵ئ، میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن، ج ۲۸، عدد ۶، جمادی الثانی، ۱۳۶۵ھ، مئی ۱۹۴۶ئ، ص ۶۱۔۶۲)