اخبار اُمت


۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کا ذمہ دار جو بھی ہو‘ اس کے یہ اثرات تو سب کے سامنے ہیں کہ بدلی ہوئی دُنیا میںحق و انصاف اور آزادی و حقوق کی ہر طرح کی جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے‘ اسے بیخ و بن سے اُکھاڑنے کا کام عالمی سطح پر شروع کر دیا گیا ہے۔ طویل جدوجہد کی خبر دی جا رہی ہے (اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ۴ سال بھی لگ سکتے ہیں!)‘ اور جہاں جہاں اس طرح کی جدوجہد جاری ہے خصوصاً جہاں مسلمان مظلوم ہیں‘ ظالموں کو ہر طرح کی امداد پہنچائی جا رہی ہے اور دہشت گردی ختم کرنے کے عنوان سے باہمی معاہدے ہو رہے ہیں۔

ایسا ہی ایک منظر فلپائن میں مورو تحریک آزادی کا ہے جہاں مظلوموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

فلپائن ۷ کروڑ سے زائد آبادی اور ۷ ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل مسیحی ملک ہے جو انڈونیشیا اور ملایشیا کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ فلپائن کے جنوبی اضلاع مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوب کے ۱۳ صوبوں میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰ لاکھ ہے‘ جب کہ مسلمانوں کے مطابق ۹۰ لاکھ ہے۔

جنوبی فلپائن میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مسلمان گذشتہ چار سو سال سے سرگرم عمل ہیں۔ اس جدوجہد کو دُنیا کی طویل ترین جدوجہد میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ پندرھویں صدی کے آغاز میںیہاں مسلمانوں کی دو عظیم الشان ریاستیں سولو اور میگندانو تھیں۔ ۱۵۲۱ء میں ہسپانیہ نے قبضہ کرلیا۔ ۱۸۹۶ء میں امریکہ نے ۲کروڑ ڈالر کے عوض یہ علاقہ خرید لیا اور مسلمانوں کے علاقے جبراً فلپائن کا حصہ بنا دیے گئے۔ یہاں سے مسلمانوں پر ظلم و جبر اور استحصال کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کو مورو کے نام سے پکارا جانے لگا۔ فلپائن کی آزادی کے بعد ۱۹۶۸ء میں داتو اتوگ متالان نے آزاد اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور مجوزہ آزاد مملکت کا نام بنگسا مورو رکھا۔ ۱۹۷۷ء میں دو گروہ بن گئے۔ ایک مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (MILF) جس کے سربراہ سلامت ہاشم ہیں۔ دوسرا گروہ مورو نیشنل لبریشن فرنٹ (MNLF)ہے جس کے سربراہ نور میسواری ہیں اور ایک تیسری تنظیم بھی ہے جس کی سربراہی ابوسیاف کرتے ہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بالآخر مسلمانوں نے مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کر دیا (تفصیل کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن ‘ اخبار اُمت‘ ستمبر ۱۹۹۵ء)

اس جدوجہد کے نتیجے میں حکومت سے مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے۔ مسلمانوں کی معاشی ‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور تہذیبی حالت کی بہتری کے لیے اقدامات کے دعوے بھی کیے گئے مگر ان پر عمل درآمد نہ ہوا اور مسلمان مسلسل جبرواستحصال کا شکار رہے۔ آخری معاہدہ سعودی عرب‘ انڈونیشیا اور ملایشیا کے تعاون سے ۱۹۹۶ء میں ہوا تھا‘ اسے: Autonomous Region for Muslim Mindanao (ARMM) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ حکومت مسلمانوں کو جنوبی اضلاع میں خودمختاری دے گی‘ دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دے گی اور اسلامی تشخص بحال کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت نورمیسواری کو ۱۹۹۶ء میں جنوبی اضلاع کا گورنر مقرر کیا گیا‘ جب کہ سلامت ہاشم نے اس معاہدے کو ردّ کر دیا اور جدوجہد آزادی جاری رکھی۔

عملاً معاہدے پر کس حد تک عمل درآمد ہوا‘ اس کا اندازہ رابطہ عالم اسلامی کی جاری کردہ ایک رپورٹ سے بہ خوبی ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق: فلپائنی حکومت کا ’’مورو غداروں‘‘ کے ساتھ امتیازی سلوک اہتمام سے جاری ہے۔ تعلیم‘ روزگار ‘ ملازمت‘ صحت‘ سرکاری شعبوں اور غیر سرکاری اداروں میں ان غریب مسلمانوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے برعکس سابق ڈکٹیٹر صدر مارکوس نے ممکنہ بغاوت کو کچلنے کے لیے جدید اسلحے سے لیس ہزاروں فوجی تعینات کر دیے تھے تاکہ باغیوں اور حریت پسندوں کا قلع قمع کر سکے۔ چونکہ فلپائن امریکی بلاک میں عرصۂ دراز سے ہے اور امریکی اڈّے بھی موجود ہیں‘ اس لیے کمیونسٹ تحریک سے تعلق کا الزام عائد کر کے مورو قومی محاذِ آزادی (MNLF)کے خلاف مسلسل کارروائی کی جاتی رہی‘ جب کہ اس کا کمیونسٹ تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۱ ستمبر کے واقعات کے فوراً بعد حکومت فلپائن نے ۱۳ جنوبی اضلاع سے ۱۹۹۶ء میں ہونے والا معاہدہ یک طرفہ طور پر کالعدم قرار دے دیا۔ امریکہ نے نومبر ۲۰۰۱ء میں ۳۹ ملین ڈالر کی رقم فراہم کی تاکہ دہشت گردی کو نابود کرنے کے لیے جدید ترین اسلحہ خریدے اور اپنے سپاہیوں کو اعلیٰ ترین تربیت دے سکے۔ (ایشیا ویک‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۱ء)

فلپائن کی موجودہ خاتون صدر گلوریا میگاپیگال ارویو نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف قرارداد منظور کروائی اور یہ یقین دہانی حاصل کی کہ ان ممالک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جس طرح امریکہ کے ساتھ تعاون کیا ہے‘ اسی طرح فلپائن کے ساتھ تعاون کریں گے تاکہ جنوب مشرقی ایشیا کو پرامن علاقہ بنایا جا سکے۔

ساتھ ہی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا جاری ہے۔ ولنسنٹ سوٹو میموریل میڈیکل سنٹر کے ڈاکٹر جوز دوکادائو نے قومی روزنامے فلپین سٹار کی ۱۹ ستمبر کی اشاعت میں لکھا: ’’بنی نوع انسان کس قدر احمق ہیں کہ بدی کو پہچانتے ہی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بنیاد پرستوں کی تلوار نے کتنے ہی انسانوں کو قتل کر کے سمندروں میں پھینک دیا تھا۔ ۱۴ سو سال قبل اسلام کے آغاز سے موجودہ دور تک اس مذہب نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف تشدد‘ ظلم و زیادتی اور نفرت کو فروغ دیا ہے۔ نفرت کا سرچشمہ آج نہیں‘ ۱۴ سو سال سے قرآن ہے جسے مسلمان رہنمائی کا خزینہ قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی وقت پرُامن مسلمان دہشت گردوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ قرآن کی موجودگی انسانیت کے لیے بدی کی علامت ہے‘‘۔

ملایشیا کے معروف دانش ور ڈاکٹر فارش اے نور جنوبی فلپائن کے تازہ ترین حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسلام سے نفرت کرنے والے سرکردہ مذہبی و سیاسی عناصر نے کوشش کی ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر کارروائی تیز کر دی جائے۔ مغربی ممالک کی عمومی طور پر اور سابق نوآبادیاتی حاکم امریکہ کی خوشنودی خصوصی طور پر حاصل کر لی جائے۔ صدر ارویو‘ امریکہ‘ سنگاپور‘ ملایشیا اور انڈونیشیا کے دارالحکومتوں کا کئی بار دورہ کر چکی ہیں تاکہ آیندہ کارروائی میں‘ ہمسایوں کی جانب سے مزاحمت نہ ہو۔ امکان ہے کہ ارویو‘ تشدد کے جو نئے حربے اور قوت کے بے محابا استعمال کے جو نئے فارمولے جنوبی فلپائن میںآزمانا چاہتی ہیں‘ اُنھیں بیرونی دُنیا سے کسی مزاحمت کا سامنا نہ ہوگا۔

صدر ارویو جولائی ۲۰۰۱ء میں اعلان کر چکی ہیںکہ جو دہشت گرد تاوان براے اغوا کی سرگرمیوں میں منسلک ہیں اُن کے خلاف مکمل جنگ ہوگی اور کسی قسم کے مذاکرات نہ ہوں گے۔ جزائر جولو کی آبادی ۲ لاکھ ۳۰ ہزار ہے۔ ۵ ہزار فوجیوں کے ذریعے کارروائی کی گئی‘ مساجد کی تلاشی لی گئی اور گھروں کو نذرِآتش کیا گیا۔ حکومتی ذرائع نے اعلان کیا کہ ہم ۸۰ مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا اُن میں مقامی جج‘ مذہبی راہنما‘ تاجر‘ طالب علم اور دیگر نمایاں لوگ ہیں۔ فلپائنی فوج کے سربراہ نے اعلان کیا کہ: یہ توابھی آغاز ہے!

مورو جزائر کے لوگ فلپائن کی فوج کی ستم رانیوں سے خوب آگاہ ہیں۔ امپیکٹ انٹرنیشنل لندن (اگست ۲۰۰۱ء) کی رپورٹ کے مطابق: ’’فوجی دستے دیہاتوں کو گھیر لیتے ہیں اور مقامی آبادی کو ہراساں کیا جاتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ اُن کے کس باغی‘ حریت پسند سے تعلقات ہیں۔ جو انکار کریں اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جولو کی آبادی کے بارے میں گماں کیا جاتا ہے کہ وہ چھاپہ ماروں کے ہمدرد ہیں‘ اس لیے اُن پر آفت ٹوٹتی رہتی ہے۔

بحرالکاہل میں امریکہ کی بحری افواج کے سربراہ ایڈمرل تھامس فارگو نے فلپائن کی قومی سلامتی کے مشیر روئے لو گولز سے ملاقات کی اور اُسامہ بن لادن کے جنوبی فلپائن کی تحریک آزادی سے تعلقات اور سدباب کے موضوعات پر تفصیلی بحث کی۔  فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے نمایندے نے اپنی رپورٹ (۱۱اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں لکھا ہے:

۱۹۹۲ء کے بعد سے منیلا اور واشنگٹن کے تعلقات میں کھچائو موجود ہے۔ کانگرس نے رائے شماری کے ذریعے فیصلہ دیا تھا کہ امریکہ‘ فلپائن سے اپنی افواج واپس بلا لے۔ اگرچہ امریکی افواج یہاں ۱۰۰ برس سے موجودچلی آرہی ہیں‘ لیکن سانحۂ نیویارک کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں ازسرنوگرم جوشی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد ایک ہی پرچم تلے ہونا چاہیے۔

حکومت فلپائن نے بن لادن کے خلاف مہم میں امریکہ کی بے حد و حساب معاونت کی‘ اور اس کے جواب میں فلپائن کے دہشت گرد گروہ ابوسیاف کے خلاف ممکنہ امداد کا وعدہ لیا ہے۔ فلپائن کے اعلیٰ افسران اب یک سو ہو چکے ہیں کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امریکہ کے تعاون سے مذکورہ گروپ کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔

۱۷ جنوری ۲۰۰۲ء کی خبر یہ ہے کہ وزیر دفاع رمس فیلڈ کے اعلان کے مطابق امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فلپائن میں ۶۰۰ فوجی اور ۱۰۷ کمانڈوز اُتارے ہیں جو ابوسیاف گروپ کے مقابلے کے لیے مقامی فوج کو تربیت دیں گے اور اقدام کریں گے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت حال کے سب سے زیادہ فوائد شاید صہیونی ریاست نے سمیٹے ہیں۔ ایک طرف تو اس نے اور اس کے زیراثر عالمی ابلاغیاتی اداروں نے اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے مترادف قرار دے دیا‘ اور دوسری طرف دنیا کی ساری توجہ افغانستان پر مرکوز دیکھ کر نہتے فلسطینی عوام کے خلاف ایک مکمل جنگ مسلط کر دی جس میں ایف ۱۶ طیاروں اور امریکی ہیلی کاپٹروں ’’اباچی‘‘ سے لے کر اپنے سفاک توپ خانے‘ ٹینکوں اور میزائلوں تک ہر نوع کا اسلحہ استعمال کیا۔ دُنیا میں کہیں اس ظلم و دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اٹھی۔ جنگی جرائم سے بھرپور تاریخ رکھنے والے صہیونی وزیراعظم آرییل شارون نے برسرِاقتدار آتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ’’ایک ماہ کے اندر اندر تحریک انتفاضہ کو اس کے انجام تک پہنچا دوں گا‘‘، اس نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ۱۱ ستمبر کے بعد وہ خون کے مزید دریا بہا رہا ہے لیکن جہاد…؟ جہاد مزید توانا ہے!

حالیہ تحریک انتفاضہ کا آغاز ۳ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس وقت ہوا تھا جب آرییل شارون اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے مسجد اقصیٰ میں جا گھسا تھا اوراعلان کیا تھا کہ یہ سب اسرائیل کا حصہ ہے اور مجھے یہاں آنے کے لیے کسی کی اجازت درکار ہے نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے۔ گذشتہ ۵۳ برس سے قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والے فلسطینی عوام نے اس کی اس دریدہ دہنی کاایسا عدیم المثال جواب دیا کہ خود یہودی بھی شارون کے اس اقدام کو حماقت قرار دینے لگے۔

تقریباً ڈیڑھ برس سے جاری حالیہ تحریک نے ہزاروں شہدا پیش کیے ہیں۔ ۱۱ ستمبرسے لے کر اب تک تقریباً چار ماہ کے عرصے میں ۸۰۰ سے زائد شہدا اور ۳۵ ہزار سے زائد زخمی‘ صہیونی سفاکیت و درندگی کا شکار ہو چکے ہیں لیکن دہشت گردی اور مجرم پھر بھی فلسطینی اور مسلمان ہی قرار پاتے ہیں۔ذرا ملاحظہ فرمایئے جیسے ہی محکوم عوام یا کوئی فدائی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ امریکہ سے کیا بیانات آتے ہیں:

صدر بش: ’’یاسر عرفات دہشت گردی ختم کرنے کے لیے صرف بیانات نہ دیں‘ عملی اقدام کریں۔ حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف موثر کارروائیاں کرنا ہوں گی‘‘۔ وزیر خارجہ کولن پاول یاسر عرفات سے فون پر بات کرتے ہوئے: ’’فلسطینی کارروائیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کریں‘‘۔ پھر بیان دیتے ہوئے کہا: ’’یاسر عرفات اگر ان کارروائیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری اور بھرپور اقدامات نہیں کرتے تو ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے گا‘‘۔ ایک اور بیان میں انھوں نے کہا: ’’اسرائیل اپنا دفاع کرنے کے لیے ہر مناسب اقدام کرنے کا حق رکھتا ہے‘‘۔ امریکی نائب صدر: ’’فلسطینی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں اسرائیل کا حق ہے‘‘۔ امریکی خصوصی نمایندہ انتھونی زینی: ’’یاسر عرفات بلاتاخیر اور بلارد و کد حرکت میں آئیں‘‘

اس ہلاشیری اور عالمی سرپرستی سے تقویت پا کر صہیونی افواج مزید ظلم ڈھاتی ہیں اور یاسر عرفات بھی اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے مزید مجاہدین کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ شیخ احمد یاسین کو نظربند کر دیا گیا ہے اور کئی فلسطینی مجاہد لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

مغربی کنارے میں عرفات کی طرف سے سیکورٹی کے انچارج جبریل رجوب فرماتے ہیں: ’’فلسطینی اتھارٹی ان سیاسی عناصر کو کچلنے میں کوئی نرمی نہیں برتے گی جو ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہوئے ازخود کارروائیاں کریں گے۔ یہاں صرف ہماری اتھارٹی ہے‘ ہماری پولیس ہے اور ہماری ہی بندوق ہے۔ کسی دوسرے کے لیے اجتہاد یا تاویل کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے فدائی کارروائیاں نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور ہم اس وعدے کو پورا کریں گے‘‘۔ ادھر غزہ کے سیکورٹی انچارج محمد دحلان نے اعلان کیا: ’’ہم جنگ بندی کو یقینی بنائیں گے اور اسرائیل کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا خاتمہ کر کے رہیں گے۔ یہاں فلسطینی اتھارٹی ہی اصل اتھارٹی ہے‘‘۔

صہیونی افواج نے امریکی دبائو کے ذریعے ایک طرف تو خود عرفات انتظامیہ کو فلسطینی عوام کے مقابل لاکھڑا کیا‘ مجاہدین اور ان کی قیادت کو گرفتار کروا دیا‘ لیکن دوسری طرف یہ کہہ کر یہ اقدامات ناکافی ہیں‘عرفات انتظامیہ سمیت پوری فلسطینی قوم کے خلاف ظلم کی انتہا کر دی۔ خود فلسطینی اتھارٹی کے کئی مراکز تباہ کر دیے اور ایک روز پوری دُنیا کے سامنے غزہ کا ایئرپورٹ کھود کر رکھ دیا گیا۔

اس ساری صورت حال کے مقابل تحریک جہاد کا موقف ہے کہ ہم ’’امن مذاکرات‘‘ کے نام پر بھی لاتعداد سرابوں کے پیچھے دوڑ چکے ہیں‘ عرب ممالک کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ بات چیت اور کسی درمیانی راہ کی تلاش میں بھی بہت بھٹک چکے ہیں‘ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی باندیوں کے ذریعے بھی کئی کوششیں کر چکے ہیں اور آخرکار ایک ہی نتیجے تک پہنچے ہیں کہ قابض صہیونی افواج کے مقابلے میں صرف اور صرف جہاد کا راستہ ہی کھلا رہے‘ باقی تمام راستے ہماری نہیں صہیونی انتظامیہ کی منزل تک پہنچتے ہیں۔

حماس کے رہنما خالد المشعل کا کہنا ہے کہ ’’حماس نے مزید ۲۰ سال کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے۔ہم شہدا کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور آخرکار اللہ کی نصرت کے حق دار ٹھہریں گے۔ دشمن اتنا نقصان برداشت نہیں کر سکتا جتنا ہم کر سکتے ہیں کیونکہ دشمن اللہ سے وہ کچھ نہیں چاہتا جو ہم چاہتے ہیں‘‘۔ انھوں نے مزید کہا: ’’بعض لوگ امن کے نام پر بھول بھلیوں میں پھنستے رہیں گے‘ تحریک مزاحمت کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں گی لیکن ہم ان شاء اللہ ان تمام مراحل سے سرخرو ہو کر نکلیں گے‘‘۔

۸ اور ۹ جنوری ۲۰۰۲ء کو بیروت میں علما کی ایک کانفرنس ہوئی۔ پاکستان سے مولانا عبدالمالک اور ضیا الرحمن فاروقی صاحب اس میں شریک ہوئے۔ دُنیا بھر سے ۱۳۰ علما تشریف لائے۔ اس کے اختتامی اعلامیے میں بھی یہ بات پوری وضاحت سے کہی گئی کہ صہیونیوں کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے جہاد تب تک جاری رہے گا جب تک قبلہ اول کی سرزمین آزاد نہیں ہو جاتی۔ اس اعلامیے کا ایک نکتہ یہ ہے: ’’فلسطینی عوام کی مددو سرپرستی اور ان کا دفاع تمام مسلم اُمت پر فرض ہے‘ حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی‘‘۔

واضح رہے کہ حکومت لبنان پر بھی صہیونی انتظامیہ اور امریکہ کا مسلسل دبائو ہے کہ وہ دو جہادی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے اور ان کی کارروائیاں ختم کروائے‘ لیکن لبنان نے اپنی تمام تر سیکولر شناخت کے باوجود یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

حماس نے اپنی اس پالیسی کا بھی بارہا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنا دشمن صرف صہیونی انتظامیہ کو قرار دیتے ہیں۔ یاسر عرفات کے تمام تر مخالفانہ اقدامات کے باوجود ہم اپنی توجہ صرف اپنے اصل دشمن پر ہی مرکوز رکھیں گے۔ حماس اور دیگر جہادی تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کا اثر خود دشمن نے بھی تسلیم کیا ہے۔ خود شارون نے اپنی ایک بریفنگ میں بتایا ہے کہ: ’’ہم گھمبیراقتصادی بحران سے دوچار ہورہے ہیں‘ خزانہ خالی ہو رہا ہے (تمام تر امریکی سرپرستی اور امداد کے باوجود)‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور آبادکاری کا عمل سست پڑ رہا ہے۔ خاصی تعداد میں یہودی ملک سے نکل بھی رہے ہیں‘‘۔

ایک پہلو خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل بھارت تعلقات پہلے بھی ڈھکے چھپے نہیں تھے‘ لیکن گذشتہ چند ماہ میں ان کا باہمی تعاون بہت بڑھ گیا ہے۔ اس وقت خود صہیونی فوجی ذرائع کے مطابق بھارت کو اسلحہ دینے والوں میں اسرائیل‘ روس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور عنقریب پہلے نمبر پر آسکتا ہے‘ جب کہ بھارت اس وقت اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ دونوں کی باہمی تجارت جو ۱۹۹۲ء میں چند ملین ڈالر تھی ۲۰۰۰ء میں ۶۰۰ ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں امریکہ اور ترکی کے بعد بھارت تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں پانچ اسرائیلی وفود بھارت آچکے ہیں۔ پہلے تین وفود علانیہ طور پر چوتھا وفد سیکورٹی معاملات پر خفیہ مذاکرات کے لیے اور پانچواں وفد صہیونی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی سربراہی میں۔ چار جاسوسی فیلکن جہاز خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر کے حالیہ معاہدے سے پہلے بھی متعدد عسکری معاہدے ہو چکے ہیں۔ صہیونی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ’’دونوں ممالک کو ایک جیسے خطرات درپیش ہیں‘ دونوں ملکوں میں بڑی مسلمان کمیونٹی رہتی ہے اور دونوں ممالک کے خلاف بیرونی دہشت گردی ہو رہی ہے‘‘۔

اس بھارتی صہیونی گٹھ جوڑ کے مقابلے کی صرف اور صرف ایک صورت ہے کہ مسلم ممالک بھی خطرے کو بھانپتے ہوئے متحد ہوں۔ مسلم حکومتیں ااپنے ہی عوام کے خلاف (دشمن کو خوش کرنے کے زعم میں) کارروائیاں نہ کریں بلکہ عوام کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے سیسہ پلائی دیوار بنیں وگرنہ خاکم بدہن عوام تو آزمایش میں آئیں گے ہی‘ حکمران بھی ’’ٹشوپیپر‘‘ سے زیادہ مقام نہ پائیں گے کہ استعمال ہوا اور پھینک دیا گیا۔ رہے دشمن کے مطالبات تو وہ تو کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ ذرا ملاحظہ ہو القدس پر قابض یہودیوں کا نیا مطالبہ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ سمیت تمام مساجد سے لائوڈ اسپیکر پر اذان بند کی جائے کہ اس سے ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے‘ خاص طور پرفجر کے وقت۔

دنیا بھر میں ان کے مطالبات میں اشتراک و مماثلت بھی حیرت انگیز ہے‘ جہادی تنظیموں پر پابندی لگائو‘ سرحد پار دہشت گردی بند کرو‘ لائوڈ اسپیکر پر پابندی لگائو‘ جہاد اور بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی آیات کی تعلیم ختم کرو‘ یہ سارے کام خود مسلمان حکمران انجام دیں… فاعتبروا یااولی الابصار!

ربّ ذوالجلال نے سچ فرمایا: یہ یہود اور مشرکین تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرنے لگ جاتے۔

 

تیونس میں موجودہ اسلامی تحریک کا آغاز چند پرُجوش نوجوانوں نے ۱۹۶۹ء میں کیا‘ جن میں استاد راشد الغنوشی اور شیخ عبدالفتاح مورو سرفہرست ہیں۔ تحریک کا آغاز مساجد اور تعلیمی اداروں سے ہوا۔ تحریک اسلامی نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر مختلف نام اپنائے۔ ۷۰ کے عشرے میں ’’الجماعۃ الاسلامیہ‘‘ ۸۰ کی دہائی میں ’’حرکۃ الاتجاہ الاسلامی‘‘ اور ۹۰ کے عشرے کی ابتدا سے ’’حرکۃ النہضۃ‘‘ کا نام اختیار کیا۔

اہم اہداف:  دعوت و تبلیغ‘ مساجد کی آبادکاری‘ غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ‘ نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا‘ تاکہ وہ مغربی فکری یلغار سے محفوظ رہیں اور ان کا اسلام پر‘بحیثیت عقیدہ و نظام‘ اعتماد بحال کیا جا سکے۔ غریبوں اور پسماندہ طبقوں کے سماجی مسائل میں دل چسپی‘ محنت کشوں اور طالب علموں کی یونینوں میں شرکت‘ نوجوانوں کی ثقافتی و علمی سوسائٹیوں اور کلبوں میں شمولیت‘ جمہوریت ‘ سیاسی آزادیوں اور حقوقِ انسانی کے احترام کے لیے سیاسی جدوجہد کرنا‘ افریقی ‘ عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ تعاون--- اُمت ِ اسلامیہ کے مسائل و مشکلات میں ہمدردی‘ فلسطین سمیت دُنیا کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی حمایت‘ عورت کا احترام اور اقتصادی‘ سماجی ‘ ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں اس کے مثبت کردار کی توثیق‘ تاکہ معاشرے کی ترقی میں وہ بھرپور حصہ لے سکے۔

تحریک اسلامی ملک میں تبدیلی لانے کی خاطر‘ پرُتشدد ذرائع کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ سیاسی و فکری اختلافات کے حل کے لیے اسلحے پر انحصار اُمت اسلامیہ کی پس ماندگی اور اس کے مسلسل بحرانوں کا سبب ہے۔ اس کے برعکس وہ گفتگو‘ مذاکرات اور پرُامن بقاے باہمی پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک فوج کا کام ملک اور قوم کا دفاع ہے نہ کہ انقلاب برپا کرنا۔ وہ دیگر اقوام کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تہذیبی مکالمے اور مشترکہ تعاون کی قائل ہے۔

صدر ابن علی کے انقلاب کی حمایت:  ۷ نومبر ۱۹۸۷ء کو جب بورقیبہ کی جگہ حکومت کی  باگ ڈور ابن علی نے سنبھالی جو اپنے پیش رو کا دست راست تھا لیکن تحریک اسلامی نے وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس انقلاب کی تائید کی۔ مگر اس تعاون کے باوجود حکومت نے اصلاحات اور وعدے پورے کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا بلکہ مجلس قانون ساز کے انتخاب کے موقع پر عوامی فیصلے کی توہین کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج میں صریح دھاندلی کی۔ اب حکومت تحریک اسلامی کو ختم کرنے اور جبرواستبداد قائم رکھنے کے ایک خطرناک منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

سیاسی صورت حال : آزادی‘ جمہوریت اور حقوق انسانی کے سرکاری نعروں کے علی الرغم سیاسی صورت حال یہ ہے کہ حکمران دستور پارٹی اور مملکتی ادارے سیاسی زندگی پر مسلط ہیں‘ جب کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتوں کو کچلا جا رہا ہے۔ حکمران مخالف سیاسی پارٹیوں کو ’’کنارے پر لگانے‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اس سلسلے میں تشدد کے بدترین ذرائع اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت نے حزب اختلاف کے خلاف اطلاعاتی و سیاسی سرگرمیاں تیز تر کر رکھی ہیں‘ ان کے اخبارات بند کر دیے ہیں‘ ان کے اجتماعات پر پابندی ہے ‘ ان کے قائدین کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے۔ ان تمام قومی شخصیات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح سے ابن علی کا مدّمقابل بن سکتی ہیں۔ ان تمام اداروں کو ختم یا بے وقعت کیا جا رہا ہے جو عوام کو یک جا کرسکتے ہیں یا حکمران اقلیت کے اختیارات کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ جیسے جنرل لیبر فیڈریشن ‘ طالب علموں کے اتحاد‘ تونسی رابطہ براے تحفظ حقوقِ انسانی‘ آزادی صحافت اور مساجد۔ مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور محکمہ اطلاعات کو یک جا کیا جا رہا ہے تاکہ اس کا مرکزی کنٹرول فردِواحد(صدرمملکت) کے ہاتھوں میں ہو۔ حکمران ٹولے نے اپریل ۱۹۸۹ء میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کے ذریعے قومی حق کی توہین کی ہے۔ ان انتخابات میں عوام نے بھاری اکثریت سے تحریک النہضۃ کی حمایت کی تھی جس نے بالواسطہ طور پر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔

قانونی پیچیدگیاں: تیونس کا قانونی نظام‘ ظالمانہ قوانین پر مبنی ہے۔ یہ ظلم و زیادتی کے تمام مرتکب افراد کو مناسب سہارا فراہم کرتا ہے۔ چند ظالمانہ قوانین یہ ہیں: سیاسی پارٹیوں کے دینی بنیاد پر تسلیم کیے جانے کی ممانعت‘ سیاسی پارٹیوں پر وزیرداخلہ کا تسلّط‘ مخصوص قانونی شق کی رُو سے مساجد‘ جامعات‘ صحافت‘ انجمنوں‘ یونینوں اور انتخابات کے تمام مراحل کا وزارتِ داخلہ کے تحت ہونا۔ آزادیِ اختیارِ لباس میں مداخلت‘ عورتوں کے لیے حجاب اوڑھنے کی ممانعت کا قانون اور اس کے نتیجے میں باحجاب طالبات و خواتین کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں سے برطرف کرنا اور بے پردگی کی حوصلہ افزائی وغیرہ۔ اگرچہ ملک کے دستور میں نقل و حرکت کی آزادی کا اقرار کیا گیا ہے‘ تاہم قانوناً وزیرداخلہ کو نقل و حرکت پر پابندی یا اجازت کا اختیار حاصل ہے۔ چنانچہ لاکھوں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔ انجمن سازی وزیرداخلہ کے رحم و کرم پر ہے۔ چنانچہ سیکڑوں انجمنیں اور اخبارات حقِ وجود سے محروم کردیے گئے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے تھانوں میں روزانہ انسانوں کو تختہِ مشق ستم بنایا جاتا ہے اور یوں حقوقِ انسانی کی توہین کی جاتی ہے۔

ثقافتی مسائل:  راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے حکومت ِ تیونس عربی اسلامی تشخص کا نعرہ بلند کرتی ہے لیکن عملاً دین‘ اخلاق اور تحریک نہضۃ کو کچلنے کے لیے حکومت اپنے منصوبے پر سختی سے عمل کر رہی ہے۔ حکومت اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف حرکۃ النہضۃ پر جو سب سے بڑا الزام لگاتی ہے وہ ہے اس کا اسلامی تشخص‘ مگر دوسری طرف اس نے نہضۃ کے کافر ہونے کے فتوے بھی صادر کروائے ہیں۔ قانوناً تمام مساجد کو براہِ راست مملکت کی زیرنگرانی کردیا گیا ہے اور ان میں علما کرام کو عوام کی رہنمائی سے روک دیا گیا ہے۔ عمومی اور تربیتی اداروں کی تمام مساجد کو بند کر دیا گیا ہے جو ایک ہزار سے زیادہ ہیں۔ بہت سے اقدامات کے ذریعے عربی اسلامی تشخص کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے بے دین‘ اباحیت پسند اور سابق کمیونسٹوں کو تمام اداروں پر مسلط کر رہی ہے جو علانیہ نظریاتی تخریب کاری کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ جب کہ ہزاروں اسلام پسند طلبہ اور سیکڑوں اساتذہ کو تحریک اسلامی کے حامی یا ہمدرد ہونے کے الزامات کے تحت تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے انھی عناصر کو ساتھ ملا کر‘ دین اسلام اور معاشرتی قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی کسی بھی ملک میں دورِاستعمار میں بھی مثال نہیں ملتی۔

ایک مکمل ثقافتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ابن علی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تاریخی تعلیمی ادارے جامع الزیتونہ وغیرہ میں درس کی اجازت دی تھی مگر اب یہ اجازت واپس لی جا چکی ہے۔ قرآن کریم کی تجوید کے مدرسے بند کر دیے گئے ہیں۔تمام غیر ملکی اسلامی رسالوں اور پرچوں کی ملک میں آمد ممنوع ہے۔ اسلامی کتب کی درآمد پر بھی پابندی عائد ہے اور ان کتابوں کو فروخت کرنے والے کتب خانوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ مارکسی عناصر اور سیکورٹی آفیسرز پر مشتمل قومی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کتب خانوں کی پڑتال کرتی ہے اور انھیں اسلامی کتابوں سے ’’پاک‘‘ کرتی ہے۔ اس انتہائی سرگرم کمیٹی کو وزارتِ ثقافت خصوصی تعاون فراہم کرتی ہے۔

صہیونیت کا پھیلاؤ: تیونس میں صہیونیوں نے اپنے کئی کلب قائم کر رکھے ہیں اور وہ (کم از کم تین بار) فلسطینی قائدین پر حملے کر چکے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کا سیکرٹری اور کئی اعلیٰ عہدے دار بھی موساد کے ایجنٹ ہیں۔ اطلاعات و ثقافت کے میدانوں میں یہودی اثر و نفوذ بڑھ رہا ہے۔ صہیونی مالی ادارے تیونس کی فلم انڈسٹری کی مالی امداد کر رہے ہیں چنانچہ فلموں میں عریانی‘ بے حیائی اور اقدار سے آزادی بڑھ رہی ہے۔ اسلام کی مخالفت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے‘ آنحضورؐ اور صحابہؓ کی توہین کی جا رہی ہے۔

امن و امان کی صورت حال: تیونس کا نظام دو بنیادوں پر چل رہا ہے: ۱- بیرونی قوتوں کی دست نگری و ماتحتی‘ ۲- پولیس کا ظالمانہ نظام۔ اس کے اثرات یہ ہیں: وزارت داخلہ کا بجٹ ہر وزارت سے زیادہ ہے۔ پولیس کو ’’فری ہینڈ‘‘ دیا گیا ہے کہ وہ جتنا چاہیں‘ مخالفین پر تشدد کریں‘ جیل میں ڈالیں‘ جان سے مار ڈالیں۔ حقوقِ انسانی کی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود‘ قتل و تشدد میں ملوث ایک بھی شخص کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۲ء کے دوران صرف اسلامی تحریک کے گرفتارشدگان کی تعداد ۳۰ ہزار تھی۔ اس کے بعد بھی تفتیش اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تشدد کے دوران شہید ہونے والوں کی تعداد ۵۰ ہے‘ ان میں سے زیادہ تر کو‘ ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر دفن کر دیا گیا۔ تحریک نہضۃکے کئی قائدین‘ قیدِتنہائی میں رکھے گئے ہیں۔ وہ رابطے اور اطلاعات کے ہر ذریعے سے محروم ہیں۔ انھیں علاج معالجے کی سہولت بھی مہیا نہیں کی جا رہی۔ وہ سوئِ تغذیہ کا شکار ہیں اور زندگی کی ہر سہولت سے محروم ہیں۔ انھیں مکمل قیدتنہائی میں پڑے۴ ہزار دن سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ حضرات اپنی مظلومیت کے اظہار کے لیے کئی بار بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔

یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں پر پولیس کا مسلسل محاصرہ اور قبضہ ہے۔ یونی ورسٹی ہوسٹلوں پر رات کے وقت حملے ‘ طلبہ اور اساتذہ کو دق کرنا اور طلبہ پر فائرنگ ایک معمول بن چکا ہے۔ طلبہ کی تنظیم ’’الاتحاد العام التونسی لطلبۃ‘‘ کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ حکومت تیونس نے بہت سے لوگوں کو اپنا مخبر اور جاسوس بنا رکھا ہے جواسے ہر طرح کی اطلاعات دیتے ہیں ۔ ان میں دکانوں‘ اداروں اور محلوں کے چوکیدار ‘ ٹیکسی ڈرائیور ‘

قہوہ خانوں کے مالک‘ بلدیہ کے ملازم اور حکمران پارٹی کے ارکان شامل ہیں۔

روز افزوں مقبولیت:  تحریک نہضۃ کے صدر اور جلاوطن راہنما شیخ راشد الغنوشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیونسی حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود‘ تحریک اسلامی کی عوام میں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ ملک کا کوئی گھر اور خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی فرد تحریک میں شامل نہ ہو۔ اب تیونس کی تمام سیاسی پارٹیاں تحریک نہضۃ کی طرف دست ِ تعاون بڑھا رہی ہیں اور تیونسی معاشرہ نہضۃ کے گرد جمع ہو رہا ہے۔

تیونسی حکمران اپنے بقول ’’اسلام پسند دہشت گردوں‘‘ کو ختم کرنے کا جامع منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور وہ اسے پڑوسی عرب ممالک بلکہ پورے عالم اسلام کو برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے گذشتہ اجلاس میں تیونس نے یہ تجویز دی تھی کہ تمام مسلم ممالک میں ’’دہشت گردی‘‘ کو سختی سے کچل دیا جائے۔

 

تیرھویں صدی عیسوی میں ‘ عرب مسلمان تاجروں کے ذریعے جزائر شرق الہند ]انڈونیشیا[ میں اسلام کی روشنی پہنچی۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعمار میں سب سے پہلے پرتگالی ‘ ان کے بعد ہسپانوی اور آخر میں ولندیزی فوجوں نے انڈونیشیا کے جزائر پر قبضہ جمایا۔ ولندیزیوں نے یہاں کے کلچر کو مغربی اور عیسائی رنگ میں رنگنے کے لیے فوج اور پادریوں سے مدد لی۔ ۳ہزار سے زیادہ جزائر پر مشتمل‘ دنیا کا یہ سب سے بڑا مسلم ملک ۱۹۴۹ء میں آزاد ہوا۔

پوری مسلم دنیا میں ‘ انڈونیشیا ایک ایسا خطہ ہے ‘ جہاں پر مسلمان عورتوں میں دینی تبلیغ اور دینی تعلیم کا ایک بڑا وسیع اور مربوط نظام قائم ہے۔ اس نظام میں ’’مبلغہ‘‘ کا رول نہ صرف ایک دینی معلمہ کا سا ہے ‘ بلکہ وہ معاشرے کے باہمی تعلقات کی مضبوطی میں بھی ایک اہم عنصر ہے۔ دینی مبلغہ اسلام کا پیغام عام کرنے کے ساتھ معاشی‘ خانگی‘ طبی‘ سیاسی اور سماجی پہلوئوں پر بھی اپنی سامع خواتین کو رہنمائی دیتی ہے۔

انڈونیشیا میں دو طرح کے تعلیمی ادارے ہیں: ایک کو پینرنتران (pesantran)کہتے ہیں جہاں عام طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے‘ جیسی ہمارے ہاں عام اسکولوں میں رائج ہے‘ تاہم اس کے ساتھ بچے بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا بھی خصوصی طور پر انتظام کیا جاتا ہے۔ دوسرے تعلیمی ادارے ’’مدارس‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارے دینی مدارس سے ملتے جلتے ہیں‘ مگر اپنے نصاب اور نظام کار میں ان سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظام میں خواتین ’’مبلغات‘‘ کا کردار بڑا منفرد ہے۔

انڈونیشی مسلم ’’مبلغات‘‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی کسی دینی معلم ’’کیائے‘‘ (kyai) کی بیوی ’’نیائے‘‘ (nyai) کہلاتی ہے‘ اور دوسری کو ’’استاذہ‘‘ کہتے ہیں۔ استاذہ دراصل معلمۂ قرآن ہوتی ہے۔ ’’نیائے معلمہ‘‘ اپنے شوہر یا والد کے سماجی اثرات کے پھیلائو کی بنیاد پر دینی تعلیم کا کام شروع کرتی ہے۔ اس کی مقبولیت میں بڑا حصہ اس کے شوہر کی معلمانہ قابلیت اور سماجی قبولیت کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس  ’’استاذہ‘‘ خانگی دائرہ اثر سے بالا محض اپنی صلاحیت اور محنت کے بل پر دینی تعلیم پھیلاتی ہے۔

’’استاذہ‘‘ بچوں کو قرآن پڑھنا سکھاتی ہے ‘اور دین کے بنیادی موضوعات پر تعلیم دیتی ہے۔ اس کی کامیابی اور مقبولیت کا راز اس کی تقریری صلاحیت اور ’’مجلس تعلیم‘‘ کو منظم کرنے کی مہارت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایسی مقبول اساتذہ میں سے بعض کو اپنے خانگی پس منظر کے باعث کام کی سہولت حاصل ہوتی ہے‘ لیکن بیش تر خاتون اساتذہ‘ اپنی بے پناہ محنت‘ لگن اور علمی قابلیت کے بل پر معاشرے میں توجہ اور احترام کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان مبلغات میں ایک قابل ذکر تعداد نومسلم خواتین کی ہے۔ نومسلم مبلغات میں اکثریت کا تعلق چینی نسل سے ہے۔ نومسلم مبلغات کی شہرت اور خواتین میں مقبولیت کا ایک سبب ان کا نومسلم ہونا بھی ہوتا ہے کہ: ’’انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہے اور اب دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں‘‘۔

صدر سہارتو کے زمانے میں ان دینی مبلغات کی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ ’’مبلغہ خواتین کی تعلیم‘ تربیت‘ تہذیب اور ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر جو خدمت انجام دیتی ہے‘ وہ سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ سے بھی ممکن نہیں‘‘۔ انڈونیشیا کی جدید تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ بہت سی مبلغات نے واقعتا اپنے اثرانگیز اسلوب بیان کے ذریعے خواتین کی نہ صرف تعلیمی ترقی کا گراں قدر کام کیا‘ بلکہ ان پر کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے۔

انڈونیشیا میں اسلام کی دعوت‘ تبلیغ‘ تنظیم اور اجتماعی جدوجہد کرنے والی دو بڑی تحریکیں محمدیہ اور نہضۃ العلما کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں محمدیہ کو ’’جدیدیت کی علم بردار‘‘ (modernist) اور نہضۃ کو ’’روایتی‘‘ (traditional)دھارے میں شمار کیا جاتا ہے۔ دونوں نے خواتین اور طالبات میں کام کے لیے علیحدہ تنظیمیں قائم کی ہیں۔ نہضہ کی طالبات کی تنظیم  فتایۃ اور خواتین کی مسلمات ہے۔ اسی طرح ’’محمدیہ‘‘ کی طالبات کے لیے نصیحۃ اور خواتین کے لییعائشیۃ ہے۔

فتایۃ اور نصیحۃ‘ طالبات کی حد تک‘ دینی تعلیم‘ دنیاوی تعلیم اور سماجی بہبود کے کاموں میں فعال حصہ لیتی ہیں۔ خواتین کی تنظیمات مسلمات اور عائشیۃ کی سب سے بڑی سرگرمی پینگاژن (یعنی درس قرآن) اور مجلس تعلیم کا باقاعدگی سے انعقاد ہے۔ ان تنظیموں کی ترجیح اول یہ ہے کہ ان سے وابستہ خواتین‘ درس کی مجلسوں میں لازماً شرکت کریں‘ تاہم وہ عام خواتین کو بھی شرکت کے لیے باقاعدہ دعوت دیتی ہیں۔

ان مجلسوں کے نتیجے میں کئی اساتذہ‘ مقبول معلمات بن جاتی ہیں۔ بہت سی ’’نیائے‘‘ معلمات اور اساتذہ مذکورہ بالا تنظیموں سے تعلق رکھتی ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود روایتی اور جدید دھارے سے متاثر ایک بڑی تعداد ایسی ’’نیائے معلمات‘‘ اور اساتذہ خواتین کی ہے‘ جو آزادانہ طور پر اپنا تدریسی و تعلیمی نظام کار منظم کرتی ہیں۔ ایسی مبلغات شہر کی پسماندہ ترین آبادیوں اور دُور دراز علاقوں میں اپنے کام کا آغاز کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ البتہ کچھ تدریسی حلقے شہر کی خوش حال آبادیوں میں بھی قائم کرتے ہیں۔ ان مبلغات کی درسی اور تبلیغی مصروفیات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے ‘ کہ ایک مبلغہ ہفتے کا پہلا روز گھریلو خواتین میں‘ دوسرا روز طالبات میں‘ تیسرا روز پڑھی لکھی خواتین کی محفل میں‘ چوتھا روز مختلف دفاتر میں ملازمت سے وابستہ خواتین میں درس دینے کے لیے مخصوص کرتی ہے۔ باقی دنوں میں بعض اوقات خوشی اور غمی کی مجلسوں میں شرکت کرتی ہے۔

ان درسی مجلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین ایک بڑے کمرے میں نشست منعقد کرتی ہیں‘ جہاں پر ایمان و تقویٰ اور معاشی ‘ سماجی اور تعلیمی موضوعات پر درس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگرچہ مختلف عمروں اور مختلف سماجی و معاشی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ان درسوں میں شریک ہوتی ہیں‘ لیکن یہ سماجی اونچ نیچ ان کے باہم گھل مل جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔

خواتین کی مجلس تعلیم کا حال:  ایک غیر مسلم اسکالر خاتون لیزایم مارکوس نے انڈونیشی مسلم خواتین میں اس دینی سرگرمی کا جائزہ لینے کے لیے تحقیق کے دوران ایک ’’مجلس تعلیم‘‘ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا‘ جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

یہ صبح چھ بجے کا وقت ہے۔ شہر کے مضافات میں چاول کے کھیتوں کے بیچوں بیچ خواتین کا ایک گروپ آ رہا ہے۔ ان میں کچھ ادھیڑ عمر کی ‘ بعض نوجوان اور بقیہ درمیانی عمر کی عورتیں ہیں۔ زیادہ تر نے انڈونیشیا کا روایتی لباس پہن رکھا ہے ۔ کچھ نے پتلونیں پہنی ہوئی ہیں‘ لیکن اُوپرایسا ڈھیلا ڈھالا کرتا ہے جو گھٹنوں سے نیچے تک چلا گیا ہے۔ تمام عورتوں نے سر پر اسکارف اس طرح باندھ رکھا ہے کہ ان کے سر کا ایک بال بھی دکھائی نہیں دے رہا‘ جب کہ دوسرا اسکارف چادر کی طرح اپنے ارد گرد لپیٹ رکھا ہے۔ کچھ عورتوں نے سر پر اسکارف کے بجائے ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں۔ بعض نوجوان عورتوں نے اپنے کم سن بچوں کو بھی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ سب عورتیں ’’مجلس تعلیم‘‘ میں شرکت کے لیے اجتماع گاہ آ رہی ہیں۔

اجتماع گاہ پہنچنے سے پہلے ہی ذرا بلند آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی ہیں۔ البتہ ان میں سب سے نمایاں ترین آواز نعت پڑھنے والی خاتون کی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو قدرے پہلے اجتماع گاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ ایسی اجتماع گاہوں کے مختلف نام بھی ہوتے ہیں۔ اس اجتماع گاہ کا نام ’’نورالاحیا‘‘ ہے۔ یہاں پہنچنے والی تمام ہی عورتیں ایک دوسرے کو خوش اخلاقی سے سلام کہتی اور خیریت دریافت کرتی ہیں۔ البتہ نوجوان عورتیں‘ بڑی عمر کی خواتین کی تعظیم کرنے کے لیے ان ہاتھوں کی پشت کو بوسہ دیتیں اور دعائیں لیتی ہیں۔ اب ہال کھچا کھچ بھر چکا ہے۔ ایک عورت نعت پڑھ رہی ہے‘ تاہم کچھ عورتیں درود شریف پڑھ رہی ہیں‘ اور باقی عورتوں کو آپس میں گفتگو کرنے کا ایک اچھا موقع ملا ہے جس سے وہ استفادہ کر رہی ہیں۔

اسی دوران سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ایک ’’کیائے‘‘ (دینی معلم‘ شوہر) اور ’’نیائے‘‘ (اس کی معلمہ بیوی) ہال میںداخل ہوتے ہیں‘ اور سب کو ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر ایک چوڑے بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن اور عربی کی کتب ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے نیائے ]معلمہ[ سورۃ فاتحہ پڑھتی ہے‘ اور اس کے ساتھ تمام عورتیں کورس کی صورت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتی ہیں۔یہ سلسلہ صرف ایک بار پڑھنے سے رک نہیں جاتا بلکہ ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ کی رہنمائی میں وہ ۱۰ بار‘ سورہ فاتحہ پڑھتی ہیں ‘ ہر بار سورۃ مکمل کرنے کے بعد خدا کے حضور بخشش اور سلامتی کے لیے کسی ایک فرد کے لیے ایک جملے میں دعا کرتی ہیں‘ مثلاً حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت محمدؐ، حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز اور آخر میں خود مجلس تعلیم کی شرکا کے لیے دعا کرتی ہیں۔ جب فاتحہ کے ساتھ یہ دعائیہ عمل ختم ہوتا ہے تو ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اپنے شوہر ’’کیائے ‘‘]معلم[ سے کہتی ہیں‘ وہ گذشتہ درس کا خلاصہ بیان کرے۔ جس کے بعد کیائے ]معلم[ قرآنی تفسیرجلالین سے عربی متن کی ایک ایک لائن پڑھتا ہے جس کا انڈونیشی میں ترجمہ اس کی بیوی‘ نیائے ]معلمہ[کرتی جاتی ہے۔ جونہی متن کا ترجمہ ختم ہوتا ہے تو پھر نیائے ]معلمہ[ اپنی علمی صلاحیت کی بنیاد پر اس متن کا موجودہ دینی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ ذہنی اور سماجی نوعیت کے روز مرہ مسائل سے تعلق جوڑتی ہے اور یہ عمل بڑا پرُتاثیر ہوتا ہے۔ ’’کیائے‘‘ ]معلم[ اگرچہ پورے درس میں زیادہ تر خاموش رہتا ہے‘ لیکن اپنی فاضل اہلیہ کے ساتھ اس کی موجودگی اس اعتبار سے اہم تصور کی جاتی ہے کہ وہ کسی دینی یا فقہی اُلجھن کو حل کرنے کے لیے اپنے فہم کے ساتھ‘ سامعین کو بروقت رہنمائی دے سکتا ہے۔

جب اس درس کے پہلے حصے کا اختتام ہوتا ہے تو ایک عورت پلاسٹک بیگ‘ اور دوسری لکڑی کا چھوٹا باکس اٹھا کر تمام عورتوںکے قریب سے گزرتی ہے۔ کم و بیش تمام ہی عورتیں اپنے پرس سے کچھ سکّے یا نوٹ نکال کر ان میں ڈالتی ہیں۔ پلاسٹک کا بیگ ان دونوں معلموں کے لیے اور لکڑی کا باکس اس اجتماع گاہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد درس کا دوسرا دَور شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پھر ’’کیائے‘‘ ]معلم[ امام غزالیؒ کی احیاء العلوم سے متن پڑھتا ہے اور ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اس کا ترجمہ کر کے‘ مفصل تشریح کرتی ہے۔ اس تشریح کو بھی وہ موجودہ حالات سے جوڑتی ہے۔ تقریباً ساڑھے سات بجے یہ ’’مجلس تعلیم‘‘ اختتام کو پہنچتی ہے۔ جس کے بعد بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ سبھی کے لیے بخشش اور مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد عورتیں اُمڈ کر آتی ہیں اور نیائے ]معلمہ[ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہیں اور کیائے ]معلم[ کا شکریہ ادا کر کے ہال سے باہر نکلنا شروع کرتی ہیں۔

یہ ایک مضافاتی علاقے کی مجلس تعلیم کا حال ہے‘ جب کہ ۱۹۹۰ء میں انڈونیشیا کے صرف ایک جزیرے بوگر(Bogor) میں خواتین کے درس قرآن یا مجلس تعلیم کے ۱۹ ہزار ۸ سو ۵۱ حلقے تھے‘ جن میں اب تک کم از کم ۲۰‘۲۵ فی صد ضرور اضافہ ہوا ہوگا۔

مختلف سطحوں پر مجلس تعلیم یا درس قرآن کے ایسے سلسلے چل رہے ہیں‘ مثلاً ’’کام باپا‘‘ مردوں کے لیے‘ ’’پینگوژن ریماجا‘‘ نوجوانوں کے لیے ‘ ’’پینگوژن گابنگن‘‘ مخلوط مجلس کے لیے اور ’’پینگاژن‘‘ صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ ان درسی سرگرمیوں کے نقطہ ء آغاز کا تعین ذرا مشکل ہے‘ تاہم یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز روایتی دھارے کی تنظیم نہضۃ نے نہیں بلکہ جدید دھارے کی محمدیہ نے کیا تھا۔ کیونکہ وہ روایتی طرزعمل سے ہٹ کر کام کرنے والی تنظیم قرار دی جاتی ہے۔ محمدیہ ۱۹۱۲ء میں قائم ہوئی اور اس نے ۱۹۱۷ء میں عائشیۃ تشکیل دی۔ اس تنظیم نے مسلمان عورتوں میں دینی‘ تعلیمی‘ تربیتی اور اصلاحی امور کو اولیت دیتے ہوئے ۱۹۲۲ء میں پہلی ’’مسجد براے خواتین‘‘ (ضلع کائومن‘ یوگی آکارتا) میں قائم کی۔ یہ مسجد خواتین کو نماز اور عبادت کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ خواتین کی عمومی دینی تعلیم کا مرکز بھی قرار دی گئی۔ اس کا مکمل انتظام و انصرام عائشیۃ کی دو خواتین کے ہاتھ میں تھا۔ خواتین کی دوسری مسجد ۱۹۲۶ء میں ’’مسجد اسطری‘‘ (گورٹ‘ جنوبی جاوا) میں قائم کی گئی۔ اس طرح  محمدیہ نے عورتوں میں دینی تعلیم اور عبادت کے لیے علیحدہ مساجد قائم کرنے کی روایت متعارف کرائی۔

گھریلو خواتین کے درس یا مجلس تعلیم کے پروگرام زیادہ تر ان اوقات میں ہوتے ہیں جب انھیں گھر کے کاموں سے کچھ فرصت میسر ہوتی ہے‘ تاہم طالبات اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے مغرب اور عشاء کے درمیان پروگرام کیے جاتے ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق جدید تعلیم یافتہ خواتین یا زیرتعلیم طالبات کی مقابلتاً بڑی تعداد ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہے۔یہ پروگرام ۱۵روزہ یا ترجیحاً ہفت روزہ ہی کیے جاتے ہیں تاکہ دینی معلومات کی فراہمی کا تسلسل قائم رہے۔

خواتین کے پروگراموں میں آیات قرآنی اور ان کے ترجمے کو بار بار دہرانے پر زور دیا جاتا ہے‘ تاکہ آیات ‘ ان کا مفہوم اور ان میں پوشیدہ پیغام کی تاثیرشرکا کے ذہن نشین ہو جائے۔ اگرچہ اکثر درسی مجالس کسی موضوع یا موقع کے حوالے سے منسوب کی جاتی ہیں‘ لیکن ان مواقع پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے‘ مثلاً جشن نزول قرآن‘ استقبال رمضان‘ لیلۃ القدر‘ میلادالنبی‘ رجبان ‘ وغیرہ۔ دینی مدارس یا مستحق لوگوں کی مدد کے لیے ’’ایک گلاس چاول‘‘ جیسے سلسلے بھی ساتھ ہی ساتھ چلتے ہیں‘ تاکہ عام فرد کو بوجھ کا احساس بھی نہ ہو اور رضاکارانہ طور پر بڑے پیمانے پر خوراک جمع کر لی جائے۔ یہ مسئلہ صرف خوراک کی اشیا تک محدود نہیں بلکہ بہت سی عورتیں بہ یک مشت رقم دینے کے بجائے قسطوں میں عطیہ دے کر دینی تعلیم کے نظام کو ایک مستحکم معاشی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ خواتین کا یہ ایثاراور شوق اس درجے بڑھا ہوا ہے کہ مردوں اور نوجوانوں کے دینی سلسلہ ہاے درس کے بہت سے اخراجات انھی کے ذریعے پورے ہوتے ہیں‘ بلکہ بعض مدرسے یا مساجد تو صرف ایک ایک مبلغہ کی محنت سے جمع شدہ وسائل سے قائم ہوئی ہیں۔

دینی معلمات اس پہلو پر خصوصی توجہ دیتی ہیں کہ وہ جس علاقے یا جس طبقے میں خطاب کریں‘ ان کی اپنی زبان اور انھی کے محاورے میں کلام کریں تاکہ سامعین اپنائیت محسوس کریں۔ ان مجلسوں میں بعض  عورتیں روایتی طور پر بوتلوںمیں صاف پانی بھر لاتی ہیںکہ حاضرین کی دعا سے یہ پانی شفا کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں‘ لیکن پانی بھری بوتلوں پر دم اور دعا کی مشق روز افزوں ہے کہ یہ پانی کے پینے سے شوہر توجہ دینے لگ جائے ‘ بچے پڑھائی میں دلچسپی لیں‘ بچوں کو نماز سے تعلق ہو جائے‘ زچگی کا زمانہ سہل رہے‘ کاروبار اور قرض کی الجھنیں دُور ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دینی معلمات اور مبلغات ‘ اپنی حاضرین کو توجہ دلاتی ہیں کہ: ’’اس محفل کو فرشتوں کا سایہ‘ خدا کی رحمت اور رسولؐ خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔ آپ اپنی ان بہنوں کے لیے صراط مستقیم کی دعا کریں جو اس وقت ڈسکو ڈانس کلبوں‘ جمناسٹک کے اداروں‘ سینما ہالوں اور بازاروں‘ کلبوں میں اپنا حال اور اُخروی مستقبل خراب کر رہی ہیں‘‘۔ ان کلمات سے کلاس میں شریک عورتیں ایک خاص قسم کی قلبی طمانیت حاصل کرتی ہیں۔

انڈونیشی معاشرے میں معلمہ‘ مبلغہ یا استاذہ کا کردار مرکزیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ معلمہ اپنے شوہر کے ہمراہ دینی خدمت انجام دیتی ہیں۔ استاذہ آزادانہ طور پر خود اس میدان میں پیش رفت کرتی ہیں،  ’’نیائے‘‘ اور ’’استاذہ‘‘ کو معاشرے کا وہ طبقہ قرار دیا جاتا ہے جو خواتین میں تعلیم و تربیت کے ذریعے توازن پیدا کرتا ہے۔ ایک مبلغہ اس امر کا خصوصی اہتمام کرتی ہے کہ وہ بہترین عربی اور شان دار انگریزی بول سکے۔ اس مقصد کے لیے ریفریشر کورسز اور سمعی و بصری اعانات سے بھی استفادہ کرتی ہیں۔ ان کا شوق اور منصبی ذمہ داریاں انھیں محنت کے لیے اُبھارتی ہیں۔ بلاشبہ ان کی تعلیمی قابلیت اور تعلیمی اسناد بھی انھیں وقار دیتی ہیں۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ یہ چیز ثانوی ہے۔ اصل چیزیں دوسری ہیں جو انھیں مقبولیت اور اثرانگیزی کا جوہر عطا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہیں:

    ۱- دین کا علم (چاہے اس کے لیے کوئی اعلیٰ درجے کی سند لی گئی ہے یا نہیں)

    ۲- اپنی تقریر میں قرآن کی آیات کا برمحل حوالہ دینا اور احادیث نبویؐ سے استدلال کرنا ۔

    ۳- سماجی زندگی اور سماجی مسائل سے واقفیت کا ثبوت دینا (یہ چیز ان کی تقریروں سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ اور قومی یا مقامی زندگی سے کس قدر واقف ہیں۔ اس کے لیے وہ جدید اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتی ہیں)۔

    ۴- گفتگو میں عربی اور انگریزی زبان میں مختلف تحریروں سے استفادے کا اظہار۔

    ۵- تقریر کے دوران کسی لطیفے اور ہلکی پھلکی بات سے سامعات کو اچانک ہنسا کر ماحول کو بوجھل بننے سے محفوظ رکھ سکیں اور تقریر سنتے سنتے عورتیں اچانک کھل کھلا کر ہنسنے پر مجبور ہو جائیں۔

پانچویں چیز کو چاروں خصوصیات کے ساتھ ایک اہم مقام حاصل ہے۔

بہت سی مقبول مبلغات کی تقریروں کے کیسٹ‘ بڑے بڑے پاپ میوزک سنٹروں پر دستیاب ہیں اور ان کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان مبلغات کا تعلق محمدیہ‘ نہضۃ اور آزاد حلقوں سے ہے۔ طریق کار اور اسلوب بیان ایک جیسا ہے۔ ان کی تقریروں کے مرکزی موضوعات میں: عبادت‘ تقویٰ‘ عورت کا مقام‘ سماجی بہبود اور سماجی انصاف شامل ہیں۔ خواتین میں ان مبلغات کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر مغربی حلقے اور خاص طور پر عیسائی مشنری سخت پریشان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورتوں میں دین سے وابستگی کا یہ سلسلہ اُن ]مشنریوں[کے بہت سے منصوبوں پر پانی پھیر رہا ہے۔ اگرچہ مبلغات میں ایک طاقت ور غیر روایتی یا جدید لہر بھی کام کر رہی ہے‘ تاہم اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجودیہ ویسی ’’جدید‘‘ بن نہیں سکتی کہ دین کے مصالح اور اہداف کی تعبیر کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دے‘ بلکہ تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ گاہے آزاد روی کا جذبہ رکھنے کے باوجود یہ معلمات جب قرآن کھول کر درس دیتی ہیں تو پھر ان میں اور روایتی طرزفکر رکھنے والی دینی معلمات میں کوئی خاص فرق رہ نہیں جاتا۔ خواتین میں دینی تعلیم‘ تبلیغ اور تربیت کا مسلم دنیا کا یہ غالباً سب سے موثر اور وسیع ادارہ ہے (ماخوذ :

The Muballighah: Religion in Indonesia by Lies M. Marcose  ‘ مجلہ Dossiers شمارہ ۷‘۸‘ پیرس)۔

 

یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو بنگلہ دیش میں آٹھویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)‘ جماعت اسلامی‘ جاتیو پارٹی اور متحدہ اسلامی الائنس پر مشتمل چار جماعتی اتحاد اور عوامی لیگ کے درمیان اصل مقابلہ ہوا۔ چار جماعتی اتحاد کا تشخص یہ تھا کہ: یہ اسلامی رحجان کی حامل‘ پاکستان سے تعلقات کی حامی اور دو قومی نظریے کی طرف دار پارٹیاں ہیں۔ دوسری طرف عوامی لیگ واضح طور پر سیکولرزم کی علم بردار‘ ہندو اور بھارتی مفادات کی حلیف جماعت کے طور پر قوم کے سامنے تھی۔ عوامی لیگ کی پشت پر ماضی کے کمیونسٹوں اور حال کے این جی اوز مافیا کی بھرپور تائید کا آسرا اور ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہندوئوں کی طرف داری بھی شامل تھی۔

عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد کے مقابلے میں چار جماعتی اتحاد کی مرکزی قیادت بی این پی کی بیگم خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کے سپرد تھی۔ اس انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈا عناصر نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی طلبہ تنظیم) کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بی این پی کے کارکنوں کو بھی مارا جس کے نتیجے میں متعدد قیمتی کارکن شہید ہوگئے‘ تاہم چار جماعتی اتحاد نے تشدد کے واقعات کا تشدد سے جواب دینے کے بجائے سیاسی تعلیم اور انتخابی مہم پر زور دیا۔ جن دنوں انتخابی مہم زوروں پر تھی‘ انھی دنوں ۱۱ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حادثہ بھی رونما ہو گیا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ نے چار جماعتی اتحاد کو: پاکستان کا دلال‘ طالبان کا ہراول دستہ اور اسلامی بنیادی پرستی کا قائم مقام گردانتے ہوئے بھرپور الزامی مہم شروع کر دی۔

یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو جب انتخابات ہوئے تو ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب ۷۳ فی صد سے زیادہ نکلا۔ ۲۸۲ میں سے عوامی لیگ کو ۶۲ اور چار جماعتی اتحاد کو ۲۰۲ نشستیں ملیں‘ جن میں سے جماعت اسلامی کے ۳۱نامزد امیدواروں میں سے ۱۷ ارکان نے‘ جماعت کے انتخابی نشان ترازو کے تحت کامیابی حاصل کی اور جماعت کو ۱۰ فی صد ووٹ ملے۔ ہارنے والے ۱۰ امیدوار ۵۰۰ سے ایک ہزار تک کے ووٹوں کے فرق سے ہارے (جماعت اسلامی اور اسلامی متحدہ محاذ کے مجموعی طور پر ۲۹ امیدوار کامیاب ہوئے)۔ جماعت اسلامی کے کامیاب امیدواروں میں: مولانا مطیع الرحمن نظامی (امیر جماعت)‘ مولانا عبدالسبحان‘ مولانا دلاور حسین سعیدی‘ مولانا فریدالدین‘ مولانا عبدالعزیز‘ مفتی عبدالستار‘ ڈاکٹر عبداللہ محمد طاہر‘ پروفیسر عبداللہ کافی‘ پروفیسر شہادت حسین‘ مولانا ریاست علی‘ پروفیسر محمد روح القدوس‘ پروفیسر عزیز الرحمن‘ محمدشاہ جہاں‘ میزان الرحمن‘ پروفیسر غلام پرواز‘ پروفیسر عبدالخلیق‘ اور غازی نذرالاسلام پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مطیع الرحمن نظامی نے عوامی لیگ کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات ابوسعید کو شکست دی۔

یہ نتائج بھارت و مغرب نواز اور بنگلہ قوم پرستی کے حامی لوگوں کے لیے دھچکا ثابت ہوئے۔ اسی لیے متعدد بھارتی اور مغربی مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ: ’’یہ نتائج اس اعتبار سے خطرے کی گھنٹی ہیں کہ بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرست انتخابی عمل کے ذریعے ایک بڑا مرحلہ طے کر کے آگے نکل آئے ہیں‘‘۔ سہ روزہ  دعوت دہلی کے اداریے کے مطابق ’’ہندستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ تشویش جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ خالدہ ضیا کے اتحاد پر ظاہر کی جا رہی ہے--- کہا جا رہا ہے کہ خالدہ ضیا کی حکومت جماعت کے زیراثر رہے گی‘‘۔ بنگلہ دیش میں متعدد مبصرین نے ان نتائج کو دو قومی نظریے کی تجدید قرار دیتے ہوئے ۱۹۴۶ء میں سلہٹ کے اس ریفرنڈم کا اعادہ قرار دیا ہے‘ جس میں وہاں کے لوگوں نے پاکستان میں شمولیت کا ووٹ دیا تھا۔ یہ تبصرے کسی جذباتی ردعمل کا مظہر قرار دیے جائیں یا انھیں حقیقت سمجھا جائے‘ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے ایک واضح ‘ مثبت‘ اسلامی اور مسلم قوم پرستانہ سوچ کی تائید میں یک جہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔

اگرچہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے عوامی لیگ کی شکست کو سیکولرزم کی شکست اور پاکستان نواز گروہ کی کامیابی قرار دیا ہے‘ لیکن خالدہ ضیا نے بھارتی حکومت کو متعدد بار یقین دہانی کرائی ہے کہ: ’’اسے بھارت کے خلاف کسی مہم جوئی سے سروکار نہیں‘‘۔ اس موقف کا سبب یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت نے جس درجے کا اثر و نفوذ حاصل کر رکھا ہے اور اس کی سرحدات جس قدر غیر محفوظ ہیں‘ اس پس منظر میں وہاں کی حکومت کا ایک بڑا مسئلہ ریاست کے اقتداراعلیٰ کا تحفظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ ۱۰ اخبارات چلا رہی ہے۔ ملک کے پانچ بڑے اخبارات میں سے تین اِن میں شامل ہیں۔

پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی فرد اس مشکل چیلنج اور بے شمار عملی مسائل کو نہیں سمجھ سکتا جو وہاں کی اسلام دوست اور تعمیری قوتوں کو درپیش ہیں۔ بنگلہ قوم پرستی‘ لادینیت‘ ہندو اور بھارت کا اتحاد تو تھا ہی‘ لیکن اس ’’اتحاد‘‘ کو ان نام نہاد رضاکار تنظیموں (NGOs)کی بھی بڑی کمک میسر ہے جو اسٹرے ٹیجک مفادات کی حامل اور غیر ملکی امداد یافتہ پروپیگنڈا تنظیمیں ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ چار جماعتی اتحاد کی مدمقابل عوامی لیگ کی اصل قیادت انھی تنظیموں کے وفاق کے پاس تھی۔ یاد رہے ان مخصوص سیاسی مفادات کی حامل این جی اوز کی فیڈریشن ’’اداب‘‘ (دی ایسوسی ایشن آف ڈویلپمنٹ ایجنسیز بنگلہ دیش‘ADAB) کے نام سے منظم ہے جو عملاً ایک طاقت ور سیاسی پارٹی کا عکس ہے۔ اس میں یو ایس ایڈ‘ دی ایشیا فائونڈیشن‘ کاریتاس‘ وائی ایم سی اے‘ پروشیکا‘ براک وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء کو ’’اداب‘‘ نے اس قرارداد کے تحت بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا کہ: ’’بنگالی قوم میں یہ بیداری پیدا کی جائے کہ وہ ان قوتوں کوووٹ نہیں دیں گے‘ جو ملک کی ترقی کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتی ہیں‘‘۔ ان تنظیموں کا یہ نعرہ بذاتِ خود ان کے ہدف اور مقصد کو واضح کر رہا ہے۔

انتخابی نتائج اور عمل کی تکمیل پر تمام غیر جانب دار مبصرین نے اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش میں دستوری ترمیم کے بعد اب انتخابات غیر جانب دار عارضی حکومت کی نگرانی میں ہوتے ہیں (یہ پاکستان کے لیے بھی قابل تقلید ہے)۔ یاد رہے کہ دستور میں اس ترمیم کی تجویزاور مہم سابق امیر جماعت بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم نے چلائی تھی لیکن اس کے باوجود‘ عوامی لیگ کی لیڈر نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی انتخاب ہارنے والی پارٹی کے لیے نتائج کو تسلیم کرنا سخت اذیت ناک عمل ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ خالدہ ضیا نے الیکشن جیتا تو پورا عرصہ حسینہ واجد نے ان کے خلاف مہم جوئی کی‘ اور پھر جب ۱۹۹۶ء میں حسینہ واجد ۱۴۶ نشستوں پر کامیاب ہوئیں تو خالدہ ضیا نے تسلسل کے ساتھ احتجاجی عمل جاری رکھا‘ تاہم بنگلہ دیش میں جمہوریت کے وجود کو اس پیمانے پر خطرہ لاحق نہیں ہوتا جس طرح پاکستان میں ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی فوج اتنی مضبوط نہیں اور نہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کو وہ ’’احترام و مقام‘‘ حاصل ہے جو پاکستان میں پایا جاتا ہے ۔ بہرحال بنگلہ دیشی فوج میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد میں‘ عبوری حکومت کے ساتھ بنگلہ دیشی فوج نے بھرپور معاونت کی۔

اس تناظر میں بنگلہ دیش کے انتخابات کے بعد یہ منظر اُبھرتا ہے کہ عوامی لیگ ان تمام عناصر کے تعاون کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر چلے گی۔ بھارت کے مفادات کی نگہبانی کو درپیش خطرہ بھی ان کے لیے باعث تکلیف امر ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ مخالف عنصردانش ور طبقے اور صحافت میں کارفرما لوگوں کو متحرک کر کے جماعت اسلامی کے حوالے سے اپنی مہم کو استوار کر رہا ہے‘ اور غالباً ان کا مرکزی ہدف بھی جماعت ہی ہوگی۔

یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ عوامی لیگ بے لوث کارکنوں کی ایک بڑی ٹیم رکھنے کے باوجود‘ اپنے کارکنوں کو نئی قیادت اور نئی پارلیمنٹ کے خلاف متحرک کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کارکنان سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن ہارے ہیں (اس لیے ارکان پارلیمنٹ کی حلف برداری کے روز عوامی لیگ کی ہڑتال کی اپیل بری طرح ناکام ہوئی۔ عوامی لیگ کے ارکان نے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے ۲۴ اکتوبر کو حلف اٹھایا ہے)۔ عوامی لیگ کے منجھے ہوئے صلاح کاروں نے بھی حسینہ واجد کی ردعمل کی پالیسی پر لبیک نہیں کہا۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح نہ صرف ملک میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ عوامی لیگ کے لیے آیندہ فتح کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

خالدہ ضیا کی ۶۰ رکنی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مطیع الرحمن نظامی نے وزیر زراعت اور علی احسن محمد مجاہد نے وزیر سوشل ویلفیئر کا حلف اٹھایا ہے (امیر اور قیم دونوں کے وزیر بن جانے کے جماعت پر کیا اثرات ہوں گے‘ یہ الگ موضوع ہے) ۱۹۷۱ء کے ’غداروں‘ کو وزیر بنانے پر خالدہ ضیا کو بہت کچھ سننا پڑ رہا ہے۔ عوامی لیگ کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی طرح چارجماعتی اتحاد میں غلط فہمی کو پروان چڑھایا جائے۔اگر عوامی لیگ اپنے ان مقاصدمیں ناکام رہی اور چار جماعتی اتحاد یک جہتی کے ساتھ خدمت انجام دینے میں کامیاب رہا‘ تو بنگلہ دیش ہی کے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے سیاسی مستقبل پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ لیکن دوسری جانب خود بی این پی اپنی بھرپور وسیع اکثریت  کے زعم میں اپنے اتحادیوں کی آرا کو نظرانداز کرنا چاہے تو بلاشبہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے ‘ جس کو اُبھار کر عوامی لیگ اور سیکولر حلقے کامیابی کے امکانات کی دنیا دیکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تک تو اس اتحاد کو بچانے کے لیے خالدہ ضیا کا ذہن بالکل واضح ہے۔ وہ عوامی لیگ جیسی نظریاتی اور گہرے اثرات رکھنے والی قوت کا توڑ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ‘ پرعزم اور پرجوش کارکنوں کی معاونت کی اہمیت کو اشد ضروری سمجھتی ہیں کیونکہ بی این پی بہرحال ایسی ٹیم نہیں رکھتی‘ تاہم مستقبل کے پردے میں امکانات اور خدشات دونوں پائے جاتے ہیں۔

۳۰ برسوں پر پھیلے اس طویل عرصے نے پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا‘ آئین تبدیل ہو گیا‘ اور معاشرے کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ اسی طرح مسائل کی نوعیت اور تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی ہے۔  جس میں بی این پی کو ایک یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ عوامی لیگ کے منفی حربوں کا کیسے مقابلہ کرے اور کس طرح اچھی کارکردگی پیش کرکے اپنے رفقا کو کرپشن سے بچائے؟ دوسری طرف جماعت اسلامی کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ سیکولر لابی کے بالمقابل کیسے آئینی دستاویزات میں اسلامی شقوں کا اضافہ کرا سکے گی؟ اس کے علاوہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان امور پر پورا زور لگانے کے بجائے کابینہ کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بناکر اپنے دائرہ اثر کو بڑھایا جائے۔ اگر اس حکومت میں جماعت اسلامی یہ نقش قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تودوسرے مقامات پر اسلامی تحریکوں کے لیے بھی اس تجربے سے استفادے کا راستہ کھل سکتا ہے۔

برطانیہ کے وقیع ماہنامے امپیکٹ انٹرنیشنل نے Technology of Deception کے عنوان سے ایک روسی صحافی ولادی میرکرائی لووسکی کی تحریر کا ترجمہ شائع کیا ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ چیچنیا پر روس کے دوسرے حملے کے لیے فضا سازگار بنانے کی خاطر روسی ذرائع ابلاغ نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے روسی عوام کی کس طرح برین واشنگ کی۔ روسی عوام جو پہلی جنگ (۱۹۹۳ء-۱۹۹۶ء) میں ناکامی اور صلح کے بعد اب نئی مہم جوئی کے لیے تیار نہ تھے‘ کس طرح آمادہ کیے گئے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دو ہفتوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کا قلع قمع کرنے کے جو دعوے تھے وہ سب خواب ہو گئے‘ چیچن مجاہدین نے حسب سابق‘ ہر طرح کے ناقابل بیان ظلم سہنے اور کوئی نسبت نہ ہونے کے باوجود انتہائی ظالم روسی افواج کے دانت کھٹے کردیے ہیں (صدآفرین!) اور اب روس کے صدر پوٹن مذاکرات کی بات کر رہے ہیں! موجودہ عالمی حالات کے پس منظر میں یہ مطالعہ چشم کشا ہے اور بتاتا ہے کہ ۲۰ ویں صدی کی ان عالمی طاقتوں کا سارا کاروبار جھوٹ اور دھوکے پر چلتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ ڈراما ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا جارہا ہے‘ جب کہ سابقہ ہماری نگاہوں سے دُور تھا۔

اگست ۱۹۹۹ء میں چیچنیا کے علاقے سے داغستان پر حملہ کیا گیا (یعنی کروایا گیا)۔ مداخلت کا اس سے اچھا اور کیا جواز ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد سے روسی میڈیا نے اپنے عوام کو جھوٹ کے انبار تلے دبا دیا۔ روسی جنرل میڈیا پر آکر ضمانتیں دینے لگے کہ ہم چیچن دہشت گردوں کا چند دن میں قلع قمع کر دیں گے۔ ہر خبرنامے میں بار بار دہرایا گیا کہ وفاقی افواج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔ روسی حکومت کو بڑی فکر تھی کہ اس کے عوام کو حقیقت حال معلوم نہ ہو۔ چیچن صدر ارسلان مسخادوف بتا رہے تھے کہ روس کی سیکرٹرٹ سروس کیا کر رہی ہے لیکن روسی حکومت نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ ان کی کوئی بات روسی عوام تک نہ پہنچ سکے۔ چیچن ’’دہشت گردوں‘‘ کے حوالے سے جھوٹی خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹی وی اسکرین کو مخاطب کر کے چیخ کر کہنے کو دل چاہتا تھا: ’’عوام سے جھوٹ بولنا بند کرو!‘‘۔ عوام کے ذہنوں میں ایک دشمن --- چیچن دشمن --- کا نقش بٹھانے کا کام کیا جاتا رہا۔ ایک مبصر نے کہا: چیچنیا پر کارپٹ بم باری کی جائے۔ روسی عوام کو بتایا جاتا تھا کہ وہ اس وقت تک چین کی نیند نہیں سو سکتے جب تک کہ چیچن سانپ کو کچل نہ دیا جائے۔

کیا روسی عوام ۱۹۹۹ء میں کسی نئی چیچن جنگ کے لیے تیار ہو سکتے تھے اگر ہمارے شہروں میں دھماکوں کا سلسلہ شروع نہ ہو جاتا۔ ہرگز نہیں۔ اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ انھیں جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انھیں ہر لمحے اپنی جان کی طرف سے خوف زدہ ہونے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ انھیں ایک دھوکے باز‘ ظالم اور دکھائی نہ دینے والے ("shadows!") دشمن کے سامنے غیر محفوظ ہونے کا احساس دلایا جائے۔ ماسکو کے پشکن اسکوائر میں دھماکوں کے بعد‘ ملک بھر کی یہی فضا تھی۔ ملبے میں سیکڑوں افراد کے زندہ دفن ہو جانے کی خبروں کے ساتھ ہی حکومتی میڈیا سے پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا۔ زخمیوں کی چیخ و پکار اور دہشت گردوں سے شدید نفرت کے پس منظر میں دیکھیں‘ کس کی مقبولیت ایک دم آسمان پر پہنچ گئی جسے چیچنیا کے ساتھ دوسری جنگ کا رخ دے دیا گیا۔

اس جنگ کا فائدہ کسے ہوا؟ چیچنیا کو اس سے کیا ملا ؟ کیا جنگ ان کی ضرورت تھی؟ انھیں جنگ سے کچھ حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ یہ اصل قابل غور نکتہ ہے۔ لیکن کہا گیا کہ وہ دھماکوں کے ذریعے پوٹن کے بیانات کا بدلہ اتار رہے ہیں! اگر انھیں بدلہ اتارنا ہی تھا تو ان کے ہدف اس سے مختلف ہوتے۔ نہیں‘ اس بات پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔

اس سے پہلے کہ تحقیقات کا آغاز ہوتا‘ حکومت اور خود ولادی میرپوٹن نے اعلان کر دیا کہ ان جرائم کا سرا چیچنیا میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کے ایک پورے گروہ کی بے گناہی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ حکومتی میڈیا کو ‘ چیچن ’’انگلیوں کے نشانات‘‘ ملنے لگے۔ ویسے ہی بم‘ ویسے ہی ٹائمر‘ ماسکو میں مختلف عمارات میں خفیہ پولیس کو ملنے لگے۔ پھر پولیس نے ایک گروپ کو اسی طرح کے بارود اور ٹائمر کے ساتھ گرفتار کیا۔ ایک دم خبریں شائع ہو گئیں لیکن گرفتار شدگان ایف ایس بی (سابقہ کے جی بی) کے اہلکار نکلے۔ ان کے ڈائرکٹر نے بیان دیا کہ یہ صرف ایک مشق تھی‘ عوام کو چوکس رکھنے کے لیے!

سیاست دان ‘جنرل ‘ مبصر سب مسلسل دہراتے رہتے ہیں کہ فضائی حملے صرف متعین جنگی اہداف پر کیے جارہے ہیں (precision attacks)۔ لیکن عملاً شہری آبادیوں پر کھلے عام بم باری کی گئی۔ ارسلان مسخادوف نے پوپ پال کے نام اپیل ( اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں بتایا کہ صرف ایک ماہ میں ۳ ہزار ۶ سو شہری ہلاک کیے گئے ہیں۔ لیکن روسی میڈیا اپنے عوام کو اپنی فضائیہ کے یہ کارنامے نہیں بتاتا کہ کس طرح پرامن دیہاتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء کے آغاز میں vacuum بم استعمال کیے گئے جنھوں نے زندگی کے سب آثار مٹا دیے‘ اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ فضائیہ نے اعصابی گیس والے بم استعمال کیے۔

یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح روسی عوام کو ان کا میڈیا دھوکا دے رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے دھوکا دہی کا فن سب ظالموں نے سیکھ لیا ہے۔ یہ مظلوم بن کر آتے ہیں اور ظلم کی نئی تاریخ رقم کر دیتے ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کی تعلیم

ضیاء الدین اصلاحی

مسلمانوں کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پس ماندگی کا چرچا ہندستان کے تمام فرقے اور سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ بی جے پی کو پہلے کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں سے گلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی ناز برداری کرتی ہیں‘ لیکن اب وہ بھی اس کو تسلیم کر رہی ہے اور بظاہر اس کے ازالے کے لیے فکرمند بھی دکھائی دیتی ہے۔ مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی عربی مدارس میں جدت کاری لانے کا اعلان کر چکے ہیں اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ راج ناتھ سنگھ مدرسہ پنچایت کر کے داد و دہش کا اعلان کر رہے ہیں۔ کانگریس سیکولر پارٹی سہی‘ مگر اس پر عرصے سے فرقہ پرست اور متعصب لیڈر حاوی ہو گئے ہیں جو نیشنلزم اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی نسل کشی‘ ذہنی ارتداد اور انھیں پس ماندہ طبقے میں تبدیل کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ دوسری سیکولر جماعتوں کو بھی مسلمانوں کے طاقت ور ہونے اور اُبھرنے سے دل چسپی نہیں ہے۔ ان کی خواہش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ مجبور‘ بے بس اور کمزور رہ کر ان کے محتاج اور دست نگر بنے رہیں۔ رہی بی جے پی‘تو مسلمانوں کے بارے میں اس کا رویہ کس کو معلوم نہیں۔ مسنداقتدار پر فائز ہونے کے بعد اس کی اصول پسندی‘ ایمان داری‘ بے خوف و خطر سماج اور صاف ستھری حکومت دینے کی حقیقت بھی عیاں ہو گئی ہے۔

آزادی کے بعد سے اب تک بے شمار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ خود امن و امان کے محافظوں نے فرقہ پرستوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ظلم و تشدد اور لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا مگر مسلمانوں کی پس ماندگی پر جن لوگوں کو اتنا قلق ہے‘ انھوں نے کبھی جارحیت پر آمادہ لوگوں کے ہاتھ نہیں پکڑے‘ صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے مجرموں کو سزا نہیں دی بلکہ اُلٹے مظلوموں ہی کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر معاشی حیثیت سے انھیں مفلوج کرنے کا سامان کیا۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ منظم اور منصوبہ بند فسادات انھی جگہوں پر زیادہ ہوئے جہاں مسلمان قابل لحاظ تعداد میں اور کسی قدر خوش حال تھے۔ کیا اس کا مقصد ان کی تجارت و معیشت اور صنعت و حرفت کو برباد کر کے پس ماندہ اور مفلوک الحال بنانے کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ کان پور کے فساد میں شرپسند عناصر‘ پولیس اور پی اے سی نے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے‘ ان کے گھروں اور دکانوں کو لوٹنے اور جلانے اور ذرائع معاش کو مسدود کرنے کا جو ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن مدارس پر انعام و بخشش فرمانے والے وزیر اعلیٰ اس کے بھی روادار نہیں ہوئے کہ فساد کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائیں۔ سرکاری ملازمتوں اور قومی و سیاسی زندگی کے مختلف شعبوں سے مسلمانوں کو بے دخل کر دینے کا مقصد بھی انھیں پسپا اور بدحال بنانا ہے۔ یہ پالیسی جس طرح کانگریسی حکومتوں اور لیڈروں کی رہی‘ اس سے کہیں بڑھ کر موجودہ حکومت کی ہے۔

مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی ان کی معاشی بدحالی سے وابستہ ہے۔ آزاد ہندستان میں خصوصاً ابتدائی تعلیم کا جو نظام و نصاب وضع کیا گیا اس پر ایک خاص مذہب اور مخصوص قوم کے کلچر کی گہری چھاپ ڈالی گئی ہے۔ اس رنگ کو بی جے پی حکومت نے اور چوکھا کر دیا۔ وہ تعلیم کو بھگوا رنگ میں رنگ کر مسلمانوں کو ان کے ایمان و عقیدے اور توحید و آخرت کے تصور سے بے گانہ ان کی تہذیب و روایات اور مادری زبان کو ختم کردینا چاہتی ہے۔ اترپردیش کی ابتدائی تعلیم کے وزیر نے جولائی سے ریاست کے تمام کانونیٹ اور پبلک اسکولوں میں پرائمری سطح پر ہندی کو لازمی اور اسے اترپردیش کی مادری زبان قرار دے کر اردو کو سراسر نظرانداز کر دیا ہے۔ اس طرح جو حالات پیدا کر دیے گئے ہیں ان میں اور اس نصاب تعلیم کی موجودگی میں مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب اور مادری زبان سے ہاتھ دھو بیٹھیںگے بلکہ اپنے عقیدہ و مذہب سے بھی منحرف ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے جن مسلمانوں میں دینی شعور ہے وہ اَن پڑھ رہنا گوارا کر سکتے ہیں مگر دیومالائی تصورات کے حامل نصاب تعلیم کے چکر میں پڑ کر اپنے دین و ایمان کو غارت کرنا پسند نہیں کریں گے۔

آئینی طور پر ہندستان کے ہر فرقہ و مذہب کو اپنے مدارس اور اسکول قائم کرنے کا حق ہے لیکن اولاً تو مسلمانوں کے لیے اپنی معاشی پس ماندگی کی بنا پر یہ آسان نہیں۔ ثانیاً تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے سرکاری یا برادرانِ وطن کے قائم کردہ اداروں میں ان کے داخلے کے دروازے تقریباً بند ہیں جس کی بنا پر ان کی خواندگی کی شرح کم تر ہوتی جا رہی ہے‘ تاہم کم مایگی اور بے بضاعتی کے باوجود ان کی توجہ گائوں گائوں میں مکاتب اور نئے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے تاکہ وہ دینی تعلیم سے بہرہ ور ہوں۔ جدید اور عصری تعلیم کے اسکول اور کالج قائم کرنے سے بھی وہ غافل نہیں ہیں۔ ان کے جو اسکول‘ کالج اور دو ایک یونی ورسٹیاں پہلے سے قائم ہیں‘ ان میں بھی وہ اپنے بچوں کو اس لیے تعلیم دلا رہے ہیں کہ ان کا دین اور ان کا عقیدہ سلامت رہے اور ان کی تہذیب اور مادری زبان ان کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔

ایک طرف حکومت کو بظاہر مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کا غم ہے۔ دوسری طرف وہ ان کے مکاتب و مدارس کو پریشان کرنے اور ان کے قائم کردہ اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے کے درپے ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ مرکزی وزیر داخلہ اور اترپردیش کے کئی وزرا مدارس کو آئی ایس آئی کا اڈا قرار دے چکے ہیں جس کے بعد ان پر شب خون مارنے اور ان کے ذمہ داروں اور وابستگان کو گرفتار کرنے‘ اذیت دینے اور فرضی مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ حال میں وزارتی گروپ کی رپورٹ میں بھی مدارس کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا گیا ہے‘ حالانکہ انھی خطرناک مدارس کو مرکزی وزیرتعلیم نے ماڈرن بنانے اور ان میں عصری تعلیم اورکمپیوٹر کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وزیراعلیٰ ان کو مراعات دے رہے ہیں‘ اور دیسی زبان اردو کو اترپردیش سے جلاوطن کر کے بدیسی زبانوں عربی و فارسی کی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت کا خزانہ کھول رہے ہیں۔ پس ماندہ ذاتوں کو ضرور ریزرویشن دینا چاہیے۔ ہم اس کے مخالف نہیں ہیں مگر اقلیتی اداروں کو اس سے مستثنیٰ رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کے جائز اور دستوری حقوق اور اقلیتی کردار کا تحفظ ہو سکے جو ایک جمہوری اور سیکولر حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی پس ماندگی دُور کرنے کے لیے قومی اور سرکاری درس گاہوں اور سول سروسز میں انھیں بھی ریزرویشن دیا جائے‘ نہ یہ کہ ان کو ان کے اپنے اداروں میں بھی دوسرے لوگوں کے لیے گنجایش نکالنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اگر اس کی زد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پر پڑی جو ہندستانی مسلمانوں کی واحد عصری درس گاہ اور ملک کے سیکولرازم کا نشان ہے‘ تو ملک کے سیکولرازم کا رہا سہا بھرم بھی جاتا رہے گا اور مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی پر تشویش و اضطراب ظاہر کرنے والوں کی اصل حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔ (بہ شکریہ ماہنامہ معارف‘ اعظم گڑھ‘ جولائی ۲۰۰۱ء)

 

براعظم افریقہ میں نائیجیریا کی حیثیت علاقائی طاقت کی ہے۔ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا ۱۱کروڑ آبادی کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ۳۶ ریاستیں (یا صوبے) ہیں۔ ہائوسا‘ پوروبا اور اِکبو بڑے قبائل ہیں۔ ۹۰فی صد آبادی ۱۰ لسانی گروہوں میں منقسم ہے‘ تاہم چھوٹے لسانی گروہ ۴۰۰ صد کے لگ بھگ ہیں۔ ۱۹۹۱ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمان ۴۹ فی صد ‘ مسیحی ۳۴ فی صد اور مظاہرپرست ۱۷ فی صد ہیں۔ ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں تینوں مذاہب کے پیروکار اکٹھے رہتے ہیں۔ مصر کی فتح (۶۳۹ء) کے بعد اسلام تاجروں کے ذریعے اُن علاقوں میں پہنچا جو اب وفاقی جمہوریہ نائیجیریا کا حصہ ہیں۔ اس علاقے ہی میں مسلمانوں نے پہلی اسلامی یونی ورسٹی قیروان قائم کی جو موجودہ تیونس کا حصہ ہے اور کیمبرج یونی ورسٹی سے ۳۰۰ برس پہلے وجود میں آئی تھی۔ بورنو کی خلافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک اسلامی شریعت پر قائم رہی۔کہیں اور اسلامی نظام کے تسلسل کی ایسی مثال موجود نہیں۔

عثمان دان فودیو اس علاقے کی عظیم شخصیت ہیں۔ اُن کی حیثیت راہ نما‘ عالم‘ مفکر اور مجاہد فی سبیل اللہ کی ہے۔ انھوں نے ایک جماعت کی تشکیل کی اور ہائوسا سرداروں کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کر دیا جو اسلام اور مقامی روایات کو آپس میں گڈمڈ کرتے چلے آ رہے تھے۔ ۱۸۰۳ء میں سوکوٹو کی اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ ہائوسا زبان بولنے والی تمام مقامی جاگیریں پانچ برس کے اندر اندر اس اسلامی ریاست کا حصہ بن گئیں۔ شریعت محمدیہؐ کو بالادست قانون بنا دیا گیا‘ تجارت و کاروبار شریعت پر استوار ہوئے اور روز مرہ زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد ہونے لگا۔ ۱۰۰برس تک شریعت اسلامی کا پھریرا یہاں لہراتا رہا۔ موجودہ شمالی نائیجریا کے کئی صوبے سابق مثالی اسلامی ریاست سوکوٹو کا حصہ رہے ہیں۔ عثمان دان فودیو کا انتقال ۱۸۱۷ء میں ہوا‘ لیکن اُن کی قائم کردہ ریاست ۱۰۰برس قائم رہی۔

اُنیسویں صدی کے آغاز میں اہل یورپ کی ہوس ملک گیری نے افریقہ کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ نائیجیریا‘ گھانا‘ سیرالون‘ گیمبیا‘ برطانیہ کے‘ گنی ‘بسائو اور کیپ وردے پرتگال کے‘ نائیجر‘ برکینا فاسو‘ مالی‘ ماریطانیہ‘ آیٹوری کوسٹ‘ سینی گال‘ ٹوگو‘ بینن اور گنی فرانس کے زیرنگیں آگئے۔ براعظم افریقہ واحد براعظم ہے جہاں مسلم ریاستوں کی اکثریت ہے۔

۱۹۰۳ء میں برطانوی افواج نے سوکوٹو ریاست کو شکست دے دی۔ جو معاہدہ ہوا اس میں طے پایا کہ شمالی ریاست سوکوٹو اور مشرقی ریاست بورنو کے باشندوںکے مذہبی معاملات میںمداخلت نہ کی جائے گی لیکن اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدکاری‘ قتل اور سرقہ کی اسلامی سزائوں پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ اسکولوں میں انگریزی زبان کی تدریس لازمی قرار دے دی گئی‘ عربی کی تدریس پر پابندی عائد کر دی گئی اور مسلم نظام تعلیم پس منظر میں چلا گیا‘ لیکن شرعی قوانین کی بالادستی کی بازگشت اس دَور میں بھی سنائی دیتی رہی۔

اکتوبر ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آزاد ہوا۔ مسلمان شمالی ریاستوں میں اکثریت میں ہیں ‘جب کہ جنوب اور جنوب مغرب میں عیسائی اور مظاہر پرست ریاستیں ہیں۔ نائیجیریا جو تیل‘ معدنیات اور زرعی وسائل سے مالا مال ہے وہ مثالی سیاسی استحکام حاصل نہ کر سکا جس کا وہ حق دار ہے۔ اس کی وجہ بیرونی سازشوں کے تحت باربار کے انقلابات‘ فوجی حکومتیں‘ بغاوتیں‘ لسانی و قبائلی تعصب اور قبائلی سیاست ہے۔ یوں نائیجیریا کی کہانی دیگر مسلمان ملکوں سے مختلف نہیں ہے جہاں عوام کو ان کی مرضی کی حکومت نہیں ملی۔ آغاز میں ہی حقیقی راہ نمائوں ابوبکرتفاوا بلیوا اور احمدوبیلوکو قتل کر کے ملک کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔  مغرب کی سرپرستی میں سیکولر نظام جاری رہا اور کرپشن میں دنیا میں دوسرا نمبر حاصل کیا۔ ۱۹۹۹ء میں اوباسانجو (مذہباً عیسائی)کے صدر بننے کے بعد جمہوری روایات کا آغاز ہوا تو عوام نے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ دستوری حدود کے اندر‘ بعض ریاستوں نے اس میں پیش قدمی کی۔

نائیجیریا کی شمالی مغربی ریاست زمفارا (سابقہ سوکوٹو) کے گورنر الحاج احمد ثانی یریما نے ۸ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو قانون سازی کے دو مسودوں پر دستخط کر دیے۔ اِن بلوں کے ذریعے نائیجیریا کے دستور اور قانون کے اندر دی گئی خودمختاری کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی شریعت کے نظام کو زمفارا ریاست میں نافذ کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں قائم کر دی گئیں‘ حدود کا نفاذ کر دیا گیا۔ اس ریاست میں غیرمسلم حسب معمول ‘ عام کی عدالتوں اور ہائی کورٹوں کے ذریعے اپنے تصفیے کرانے میں آزاد ہیں۔ احمد ثانی یریما کا کہنا ہے کہ شرعی نظام مسلمانوں پر ۱۹۶۰ء سے قبل کسی نہ کسی طرح لاگو رہا ہے اور اِسی شرعی نظام کی بدولت سوکوٹو اور بورنو کی خلافتیں علاقے کی تمام ریاستوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور وہاں کے عوام زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ اس ’سرکشی‘ کی بنا پر مسیحی اور مظاہر پرست الحاج احمد ثانی کے درپے ہو گئے‘ ان کو نائیجیریا کے دشمن اور بدترین مسلمان کے لقب سے پکارا گیا لیکن احمدثانی کا ایک ہی موقوف تھا کہ یہ قانون سازی نائیجیریا قانون کے مطابق ہے اور غیر مسلموں پر بہرصورت کوئی ظلم و زیادتی نہ ہوگی‘ بلکہ ریاست اُن کے حقوق کی زیادہ نگرانی کرے گی۔ کہا جانے لگا زمفارا ریاست وفاق سے علیحدگی کے لیے پرتول رہی ہے‘ نائیجیریا میں مذہبی جنگوں کا آغاز ہوجائے گا۔ مذہب کے نام پر جس طرح کی خانہ جگہ شمالی آئرلینڈ‘ الجزائر‘ سوڈان اور افغانستان میں جاری ہے‘ یہاں بھی جاری ہو جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر شمالی ریاستیں اپنے آپ کو مسلمان ریاست کہلائیں گی تو جنوبی ریاستوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو عیسائی ریاستیں کہلائیں وغیرہ وغیرہ۔

زمفارا کی ریاست کی طرف سے ان تمام اعتراضات کا یہ جواب دیا گیا کہ ۱۹۷۹ء‘ ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۹ء کے دستور کے مطابق ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہے۔ دستور کی دفعہ ۳۸ (۱) کی عبارت یہ ہے کہ ’’ہر شخص کو مذہب‘ افکار ونظریات اور ضمیر کی آزادی حاصل ہوگی‘ انفرادی طور پر بھی‘اجتماعی طور پر بھی۔ہر شہری کو یہ آزادی بھی حاصل ہوگی کہ اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارے‘ اس پر عمل کرے‘ اس کی تبلیغ کرے اور اس کی اشاعت کرے‘‘۔ دستور میں یہ دفعہ موجود ہے کہ ریاستی گورنر (یا اسمبلی) کسی زیریں عدالت کو ختم کر سکتا ہے‘ یا لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے‘ ہائی کورٹ کے ماتحت عدالت کے طور پر ‘ کوئی اور عدالت قائم کر سکتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۴(۷) ریاستی اسمبلی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ ریاست میں امن و امان قائم رکھنے اور اچھی حکمرانی کے لیے ایسے قوانین وضع کرے جس سے عوام الناس کو زیادہ فائدہ پہنچے۔

الحاج احمد ثانی نے ایک مغربی رسالے کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آپ انسانی حقوق کے پاس دار ہیں۔ ہم بھی انسانی حقوق کی نگہبانی اور پاس داری کر رہے ہیں۔ اس پر اعتراض کیاصرف اس لیے ہے کہ ہمارے پیش کردہ قانون کی بنیاد اسلامی ہے؟

اسلامک لیگل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ابراہیم سلیمان کے مطابق: ’’زمفارا میں اسلامی قوانین کے احیا کا سہرا اُن عظیم علما کے سر ہے کہ جنھوں نے نسل در نسل ‘ ایسے افراد تیار کیے جو اسلامی ریاست کے قیام اور اُس کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ہیں ۔انھوں نے شعور بیدار کیا ‘ اور ذہن تیار کیے۔ اس کا سہرا اُن حکمرانوںاور صاحب اقتدار لوگوں کے سر بھی ہے جنھوں نے عیش و عشرت کو خیرباد کہا‘ اپنے عوام کو جہالت سے علم کے راستے پر‘ بے انصافی سے شرعی انصاف کی راہ پر اور ذلت و نکبت سے شوکت و عظمت کے راستے پر ڈال دیا۔ اس موقع پر اُن لاکھوں مسلمانوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنھوں نے (غیر شرعی قوانین کے خلاف) علَمِ جہاد بلند کیا ‘ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا‘ محنت کے ذریعے معاشروں کو استواررکھا اور مخالفتوں کے اندھا دُھند ‘ ہلاکت خیز طوفان کے باوجود ایک پرامن معاشرہ‘ شریعت کی روشنی میں قائم کر کے دکھا دیا۔ (امپیکٹ انٹرنیشنل‘ لندن‘ اگست ۲۰۰۱ء)

ریاست زمفاراکے بعد نائیجیریا کی دیگر نو اسلامی ریاستوں نے بھی اپنی حدود کے اندر شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ نائیجیریا کے اس تجربے کا تفصیل سے اور براہ راست مطالعہ کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے اثرات وہاں کے عوام کی زندگی پر کیا پڑے ہیں اور کیا عملی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اسلامی تحقیقی اداروں اور مسلم ممالک کی جامعات کو اس طرح کے موضوعات پر تحقیق کے لیے انسانی اور مالی وسائل فراہم کرنا چاہییں۔

ترکی: فضیلت پارٹی پر پابندی کے بعد

مسلم سجاد

ترکی میں دستوری عدالت نے ۲۲ جون ۲۰۰۱ء کو فضیلت پارٹی پر جو پابندی لگائی اس کے اثرات ترکی کی سیاسی زندگی سے زیادہ خود پارٹی پر ہوئے ہیں۔ ترکی میں ۵۵۰ کے ایوان میں ۱۰۲ ممبران فضیلت پارٹی کے ہیں۔ فیصلے میں صرف دو ممبران کی رکنیت ختم کی گئی اور باقی سب کی رکنیت قائم رکھی گئی کہ وہ نئی پارٹی بنائیں یا پہلے سے موجود کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو جائیں۔

فضیلت پارٹی کے گذشتہ کنونشن میں اربکان کے حمایت یافتہ رجائی قوطان کی صدارت کے باقاعدہ مقابلے سے پارٹی میں روایت پسند اور اصلاح پسند یا ماڈرنسٹ رجحانات کا واضح اظہار ہوا تھا۔ ترکی میں ہر شخص جانتا ہے کہ حالیہ فیصلے میں سابقہ فیصلے کے برخلاف سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں نہ لگانے کی وجہ ہی یہ تھی کہ پارٹی میںتقسیم واقع ہو۔ رجائی قوطان کی سربراہی میں سعادت پارٹی کے قیام کا اعلان ہو چکا ہے جس میں فضیلت کے سابقہ ۵۱ ممبران کے علاوہ بعض دوسری پارٹیوں کے ممبران بھی شامل ہیں۔ اسے نجم الدین اربکان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ قوطان نے پارٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دوسری مادہ پرست پارٹیوں اور ہمارے درمیان واضح فرق ہوگا۔ ہم اخلاقی اور قومی اقدار کے وفادار رہیں گے۔ مذہبی آزادی کی حمایت کریں گے لیکن ترک ریاست کی سیکولر بنیاد کو چیلنج نہیں کریں گے۔

استنبول کے سابق میئر طیب اردگان کی قیادت میں دوسری پارٹی کے قیام کا اعلان جلد ہی متوقع ہے۔ سیکولر پریس میں اسے ماڈرنسٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے گذشتہ دنوں پورے ملک کا دورہ کیا ہے۔ وہ اپنا یہ امیج بنا رہے ہیں کہ’’اختلاف‘‘ کے بجائے ’’اتفاق‘‘ کے علم بردار ہیں اور محدود طبقات کے بجائے عوام الناس کو اپیل کرتے ہیں شاید اس طرح وہ جرنیلوں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک تجزیے کے مطابق اس تقسیم سے اسلامی قوتیں کمزور ہوں گی۔ اس لیے کہ دونوں کا حلقۂ انتخاب ایک ہی طرح کے ووٹر ہیں۔ سیکولر میڈیا نے اسی لیے اس کی خوب حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اسلام پسند ووٹروں میں سے ۷۴ فی صد ماڈرنسٹ اور ۱۴ فی صد روایتی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ دوسری طرف ‘ اسی سروے کے مطابق اگر ابھی انتخابات کروا دیے جائیں تو موجودہ حکومتی پارٹیوں میں سے کوئی بھی مطلوبہ ۱۰ فی صد ووٹ حاصل نہ کر سکے گی۔

ایک دوسرے تجزیے کے مطابق وسیع تر سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی پس منظر میں اس ’’تقسیم‘‘ کو ’’ضرب‘‘ یعنی اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت اسلامی فکر اور سرگرمیاں ہی وسعت پذیر ہیں۔ اسلامی سیاسی فکر کو ترک معاشرے کے ہر طبقے میں غیر معمولی پذیرائی مل رہی ہے‘ جب کہ سیکولر نقطۂ نظر ‘ نظری اور عملی ہر لحاظ سے زوال پذیر ہے۔

یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ سیکولر مقتدر طبقہ ملک کو اچھی حکمرانی دینے میں ناکام رہا ہے‘ سیاست‘ معیشت اور کلچر ہر لحاظ سے۔ مغرب سے درآمد شدہ نظریات اور ادارے ترکی کے مسلم معاشرے میں جڑ نہیں پکڑ سکتے۔ عوام کی عظیم اکثریت کے لیے اسلام ان کی زندگی اور تاریخ کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ محض ایک موہوم احساس نہیں بلکہ جیتا جاگتا اور توانا شعور ہے جو فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

۱۹۵۰ء کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر شہرکاری (urbanization)ہوئی ہے۔ اس کا فائدہ اسلامی قوتوں کو ملا ہے۔ اسلامی فکر کا علمی‘ سیاسی اور تہذیبی نشوونما ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ۳۰ برس میں اسلامی تحریک ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ ملک کی متنوع غیر سرکاری تنظیموں اور اجتماعی سرگرمیوں کی قیادت متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ شہری کر رہے ہیں جن کا اسلام سے سرگرم اور فعال تعلق ہے۔

اس نقطہء نظر سے اسلامی تحریک میں تقسیم کو دراصل توسیع اور ملک کے ہر حصے میں تمام طبقات تک پہنچنے کی سبیل قرار دینا چاہیے لیکن تقسیم ایک حقیقت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں پارٹیاں فہم و فراست سے آگے بڑھیں۔

یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اربکان اور ان کے ساتھیوں نے جدید عہد میں اسلامی تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج ترکی کے لیے بقا اور عروج کا راستہ صرف یہی ہے کہ نئی ریاستی فکر تشکیل پائے جو ملک کے وسائل اور تخلیقی قوتوں کو متحرک کر دے۔ یہ صرف اسلامی فکر اور اقدار کو ازسرنو دریافت کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔

ایران‘ براعظم ایشیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سائرس اعظم سے لے کر رضا شاہ پہلوی تک اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کی مستقل تاریخ موجود ہے۔ اس دوران ان کے ادبیات کے حوالے سے ان کے قومی مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایرانی اپنی تہذیب‘ تاریخی روایات اور ثقافتی اقدار کے ساتھ گہری قلبی اور ذہنی وابستگی رکھتے ہیں۔ انھوں نے جب کبھی کسی نوعیت کی تبدیلی یا انقلاب کو قبول کیا ہے تو اس کے پس منظر اور پیش منظر میں ان کی مخصوص تاریخی اور ثقافتی روایات کا عکس جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ خلافت راشدہ میں جب فتح ایران کے بعد یہ علاقے اور ان کے عوام اسلامی ریاست میں شامل ہوئے تو انھوں نے اپنے عقائد کی تبدیلی کے باوجود اپنے معتقدات میں ماضی کی تاریخی اور ثقافتی اقدار کو اپنے سے جدا نہیںہونے دیا۔

ایران اپنی تیل کی بے پناہ دولت کے باوجود عوامی سطح پر کوئی بڑا معاشی انقلاب برپا نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ تر آبادی متوسط اور مجبور نوعیت کی زندگی گزارنے کی خوگر ہے۔ حالیہ دو عشروں میں شرح خواندگی میں ایک نمایاں اضافے نے ان کے معیار زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی عمومی زندگی میں ذوق جمالیات کا عنصر زندگی کے ہر دائرے میں نمایاں دکھائی دے گا۔ ادب لطیف کا مطالعہ‘ پھولوں سے محبت‘ صحت اور حسن کی حفاظت کا خیال‘ گھروں میں مناسب تزئین اور کھانوں میں لذت کا عنصر‘ ان کے شخصی احوال کی ترجمانی کرتا ہے۔

دورئہ ایران کے دوران اگرچہ میرا بیشتر سفر سرکاری عہدے داروں کی رہنمائی میں گزرا مگر اس دوران جن جن اصحاب فکرونظر سے ملاقاتیں ہوئیں‘ ان سے ایران کے موجودہ احوال کو سمجھنے میں سہولت پیدا ہوئی۔

تہران میں ہوٹل آزادی سے قریب تر اور بزرگراہ شہید چمران پر واقع وسیع و عریض ایک مستقل نمایش گاہ ہے جہاں وقفے وقفے سے مختلف ملکی اور غیرملکی نمایشیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ یہ نمایش گاہ بذات خود ایک لائق نظارہ جگہ ہے۔ اس وسیع سلسلۂ عمارات میں نمایش کے لیے تین تین منزلہ بڑے بڑے ہال تعمیر کیے گئے ہیں۔ کشادہ پارک اور ایک وسیع تر اوپن ایئرہال ہے جہاں پر تمام نمایشوں کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس میں ریستوران‘ بنک‘ مسجد اور تفریح کے بہت سے لوازم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سیکڑوں ایرانی اور غیر ملکی ناشرین کے اسٹال بڑی عمدگی سے ترتیب دیے گئے تھے۔ ایرانی کتب کے اسٹال الگ سے کئی بڑے ہالوں میں ترتیب دیے گئے تھے اور وہاں سے کتب کی خریداری میں کوئی رکاوٹ نہ تھی البتہ غیر ایرانی شائقین کے لیے غیر ایرانی پبلشرز کی کتب کی خرید کا مرحلہ ایک ہفت خواں طے کرنے کے بعد ممکن تھا۔ ایرانی قوم کے مطالعے کا ذوق بھی لائق رشک ہے۔ بلامبالغہ لاکھوں شہری‘ طلبہ اور طالبات روزانہ ان کتابوں کو خریدنے میں مصروف دکھائی دیے۔ ۱۰ روز تک صبح سے شام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخری چند دنوں میں تو بعض کتابیں ناپید ہو گئیں۔ایرانیوں کے ہاں علمِ خطاطی اور طباعت کے جمالیاتی اور فنی ذوق نے ان کے ہاں بہت قابل رشک اور بلند معیار قائم کیے ہیں۔ ان کی نصابی کتابوں اور رسائل و جرائد کی کثرت بھی ان کے علمی ذوق کی آئینہ دار ہے۔ایرانی قوم میں طالبات کا ذوق کتب بینی بالخصوص باعث حیرت ہے۔ خریداروں میں خواتین کا تناسب ۷۰ فی صد کے قریب ہے۔ ایرانی شہریوں کا یہ ذوق خواندگی ان کے روشن مستقبل کی ایک محکم ضمانت ہے۔

اس نمایش کا افتتاح صدر اسلامی جمہوریہ ایران سید محمد خاتمی نے کیا جو خود بھی بہت بڑے کتاب دوست ہیں۔ مذہبی خانوادے کے فرد ہونے کے باوصف وہ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ جناب خاتمی ایرانی کتب خانوں کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ قلم اور کتاب سے ان کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ وہ ایک عظیم اسکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

شہنشاہ ایران کے زوال کے بعد ایرانی انقلاب کو اب دو عشرے گزرچکے ہیں۔ اس دوران ایران عراق جنگ کے علاوہ اور بہت سے تغیرات رونما ہوئے مگر سیاسی اور انتخابی عمل کی روایت وہاں بہت مستحکم رہی ہے۔ ایران کا آئین ۱۴ ابواب اور ۱۷۷ دفعات پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کے دستاتیر میں اپنی نوعیت کا منفرد آئین ہے۔  یہ بہ یک وقت جمہوری روایات اور شیعہ فقہ کے تصور ولایت فقیہ کے امتزاج کا آئینہ دار ہے۔اس کے آٹھویں باب کی چھ دفعات جو راہبر اور کونسل آف لیڈرشپ سے متعلق ہیں‘ ایران کی سیاست میں ایک عجیب مزاج کی حامل ہیں۔ اگر ایرانی صدر کے اختیارات اور راہبر انقلاب کے اختیارات اور انتخاب کا موازنہ کیا جائے تو چند عجیب حقائق سامنے آتے ہیں جن کو سمجھے بغیر ایرانی انتخابات اور ریاستی اداروں کی تشکیل کا مزاج سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ایرانی صدر تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر چار برسوں کے لیے منتخب ہوتا ہے مگر راہبر کا انتخاب مجلس خبرگان کے ذریعے ہوتا ہے اور اس مجلس کے ارکان براہِ راست انتخاب سے پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ اس مجلس خبرگان کے تمام تر فیصلے شوریٰ نگہبان کی توثیق کے محتاج ہیں۔  اس شوریٰ نگہبان کی تشکیل میں عوام کے انتخابی عمل کو کوئی دخل حاصل نہیں۔ اس ادارے کی تشکیل سے تھیوکریسی کا ایک ایسا رجحان سامنے آتا ہے جس کی مثال عالم اسلام کی کسی دوسری مملکت میں دکھائی نہیں دیتی۔

ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انتقال تک تو ان کے راہبر کے منصب پر کسی کے لیے تنقید یا انگشت نمائی کا موقع نہیں تھا مگر موجودہ راہبر سید علی خامنہ ای کے دَور میں ولایت فقیہ اور اختیارات کے اس توازن پر ایران کے سیاسی حلقوں میں اندیشہ ہاے دُور و درازموجود ہیں۔ ایران کے موجودہ صدر سید محمد خاتمی مئی ۱۹۹۷ء میں پہلی مرتبہ ۴۹ فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انھیں بالعموم ایران میں اصلاح پسندوں کا نمایندہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر اس بار ان کے صدارتی انتخاب میں عالمی پریس‘ ملکی اخبارات اور اصلاح پسند گروہ ان کو ملنے والے ووٹوں میں کمی کے اندازے پیش کر رہے تھے۔ مجھے اس دوران معاشرے کے چھوٹے طبقات کے افراد سے ان کے احساسات کو جانچنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے کچھ زیادہ ہو رہی ہے۔ کیونکہ وہ قدامت پسندوں کے ماحول سے براہِ راست متعلق ہونے کے باوجود جدید تعلیم سے آراستہ اور عالمی راے عامہ کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ انھوں نے راہبرمعظم کے ساتھ مل کر ایک ایسے توازن کو برقرار رکھا ہوا ہے جو ایرانی دانش وروں کے موجودہ اضطراب میں انقلاب اسلامی کے مقاصد کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ وہ اس بار ۷۷ فی صدووٹ  حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ووٹوں کی یہ تعداد واضح کرتی ہے کہ ان کے ذہنی اور فکری طرزعمل کو قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ہے۔

سید محمد خاتمی کے گذشتہ دور صدارت میں نوجوان نسل میں فکری اور ثقافتی آزادی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ مجھے آٹھ سال پیشتر کی نوجوان نسل کو بھی براہِ راست دیکھنے کا موقع ملا تھا مگر اس بار ان کے ثقافتی مظاہر سے اس تبدیلی کا صاف اندازہ ہو رہا ہے۔ موجودہ انتخابی نتائج سے قدامت پسندوں بالخصوص علما کے حلقے میں تشویش کی ایک لہر یقینا بیدار ہو گی جسے بالغ نظری اور وسیع المشربی کے ساتھ سنبھالانہ گیا تو آگے چل کر یہ لہر ایک مستقل خلیج کا روپ دھار سکتی ہے۔

ماضی کا ایران عالمی ثقافتی الیکٹرونک میڈیا کی یلغار سے متاثر ہو چکا ہے۔ عالمی ثقافتی یلغار نے ایرانی انقلاب کے روایتی احوال و ظروف میں ایک دراڑ پیدا کر دی ہے۔ ایران کے مقتدر مذہبی طبقات کو اپنے روایتی انقلاب کے تحفظ کے لیے مستقبل میں بہت کچھ سوچنے اور تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مراکش میں موروثی شاہی نظام قائم ہے۔ دستور کی رُو سے بادشاہ ایک مقدس ہستی ہے۔ اُسے ایسے مطلق العنان اختیارات حاصل ہیں جو مقننہ ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات سے بالاتر ہیں۔ اس کی طرف سے صادر ہونے والے کسی فیصلے‘ حکم یا رہنمائی پر تنقید کی جا سکتی ہے نہ اعتراض اور نہ اُسے منسوخ اور کالعدم کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال تو ہے تحریری قانون کی رُو سے۔ غیر تحریری مروجہ قوانین کے مطابق بادشاہ کے اختیارات لامحدود ہیں۔ شاہ حسن ثانی کی رحلت اور نوجوان بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کے بعد حالات میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

نئے شاہ نے تخت نشینی کے بعد اپنے پہلے خطاب (۳۰ جولائی ۱۹۹۹ء) میں سابقہ پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ نعرے تبدیل ہوئے مگر پرانے دَور کی بنیادیں قائم ہیں اور گذشتہ کئی ادوار سے مراکش کی سیاسی زندگی پر مسلط ’’حفاظت و تحفظ‘‘ کی ذہنیت‘ اپنی اصل رُوح کے ساتھ برقرار ہے۔ ویسے تو ایک نمایندہ حکومت موجود ہے مگر یہ نمایندگی کے معروف سیاسی اصطلاحی مفہوم سے بالکل ہٹی ہوئی ہے۔عبدالرحمن یوسفی کی موجودہ حکومت بھی شاہی احکام کے نفاذ کی آلہ کار ہے۔ مراکش کے تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے ‘  وزارتوں کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بادشاہ کے احکام و ہدایات پر عمل درآمد کرائیں‘ بالخصوص حسّاس سیاسی امور کے وزرا تو براہِ راست بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں جنھیں ’’وزرا ے سیادت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وزیر اول (وزیراعظم) کے ماتحت نہیں ہوتے‘ جیسے داخلہ‘ خارجہ‘ عدل‘ اوقاف اور قومی دفاع کے وزرا۔ مرحوم شاہ حسن ثانی کے بقول یہ بادشاہ کے مددگار ہوتے ہیں۔ اب ایک بے چارہ مددگار وزیر‘ شاہی احکام و ہدایات نافذ کرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے!

مراکش میں حقیقی نمایندہ حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس لیے کہ یہ دستوری اصولوں اور جمہوری سیاسی قواعد کی رُو سے تشکیل نہیں پاتی‘ نہ ہی یہ شفاف حقیقی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے۔ یوسفی کی موجودہ حکومت‘ مرحوم شاہ کے ارادے‘ تصور اور شرائط کے مطابق قائم ہوئی۔ یہ گذشتہ حکومتوں کے پیدا کردہ انحطاط ہی کی جانب رواں دواں ہے۔ مراکش کی معیشت سخت بحران کا شکار ہے اور موجودہ سیاسی حالات میں اس کی اصلاح ناممکن ہے۔ تمام امور کا باریک بینی سے جائزہ لے کر جرأت مندانہ فیصلے اور اقدامات کرنے کا اختیار وزارتی حکومت کے پاس نہیں۔

مراکش میں کسی بھی اسلامی سیاسی جماعت کو عملاً کام کرنے کی اجازت نہیں ہے‘ البتہ سیکولر پارٹیوں کو کھلی آزادی ہے۔ ڈاکٹر عبدالکریم الخطیب نے ۱۹۶۷ء میں الحرکۃ الشعبیۃ الدستوریۃ الدیمقراطیۃ کے نام سے پارٹی بنائی تھی۔ حکام نے جب ۱۹۹۲ء میں حرکۃ الاصلاح والتجدید کو کام کرنے کی اجازت نہ دی تو اُس نے ۱۹۹۶ء میں رابطۃ المستقبل الاسلامی کے ساتھ مل کر حرکۃ التوحید والاصلاح کے نام سے پارٹی بنا لی۔ جب اس نئی پارٹی کے مفادات‘ ڈاکٹر الخطیب کی پارٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے تو انضمام کے بعد‘ ایک نئی پارٹی حزب العدالۃ والتنمیۃ وجود میں آئی۔ حرکۃ التوحید والاصلاح کے افراد اب نئی پارٹی میں شامل ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کے ذمہ دار افراد‘ سرکاری ذرائع ابلاغ اور عام فکری حلقے حزب العدالۃ والتنمیۃ کو مروجہ سیاسی مفہوم کی رُو سے اسلامی پارٹی نہیں سمجھتے‘ یعنی اس کی اسلامی خصوصیت اور اسلامی تشخص کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے ایک عام سیاسی پارٹی سمجھا جاتا ہے جو گذشتہ ۴۰ برسوں سے کام کر رہی ہے اور موجودہ نظام پر راضی ہے۔

حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں:  مراکش کے نئے بادشاہ نے اگرچہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے مگر ملک کی جیلیں اب بھی سیاسی قیدیوں سے خالی نہیں۔ ان میں جماعت عدل و الاحسان کے ۱۲ طلبہ بھی ہیں جو قنیطرہ کی سنٹرل جیل میں ہیں‘ جو کسی فوجداری مقدمے میں نہیں بلکہ ایک خالص سیاسی مقدمے میں ۲۰‘ ۲۰ سال کی قید بھگت رہے ہیں۔ مراکش میں انسانی حقوق اور آزادیوں کے احترام کا زبانی کلامی تو بہت شہرہ ہے مگر عملاً حقوق اور آزادیاں سلب ہیں۔ بنیادی مسئلہ‘ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور حقوق اورآزادیوں کا تحفظ کرانے والے اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ یوسفی کی حکومت نے تاحال ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے جن سے یہ اطمینان ہو کہ مراکش‘ قانون کی حکمرانی اور ذمہ دار اداروں کا ملک ہے۔ ابھی تک افکار و آرا اور سیاسی پسند و ناپسند کی وجہ سے افراد کو ستایا جاتا ہے اور حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ گذشتہ برس کئی لوگوں کو حج پر جانے سے روک دیا گیا۔ پچھلے موسم گرما میں ’’اسلامی کیمپ‘‘ لگانے سے روکا گیا۔ ابھی تک ’’ہدایات و احکام‘‘ کی پالیسی سیاسی زندگی پر حاوی ہے۔ جماعت العدل والاحسان کے دو اخبارات  العدل والاحسان اور رسالۃ الفتوۃ کی طباعت و اشاعت پر پابندی لگائی گئی جو اب تک قائم ہے۔

شیخ یاسین کی کتاب (العدل: الاسلامیون والحکم) بھی ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔

یونی ورسٹیوں میں طلبہ کو خوف زدہ کیا جاتا ہے‘ ان پر تشدد کیا جاتا ہے‘ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر ظالمانہ و  سنگ دلانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ گذشتہ نومبر میں المحمدیہ شہر میں ۱۴ طلبہ کو دو دو سال کی قید کی سزائیں دی گئیں۔ اشخاص‘ اداروں اور گھروں کا وقار پامال کیا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ حکومت کا آزادیوں کے بارے میں تازہ ترین منصوبہ بھی‘ حقوق انسانی کے حامیوں کے نزدیک‘ حکام کو تشدد اور پابندیوں کی کھلی اجازت دینے اور انھیں عدالتی گرفت سے تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔  جماعت عدل و الاحسان کے مرشد عبدالسلام یاسین کو ایک ظالمانہ حکم کے تحت نظربند کر دیا گیا تھا۔ وکلا صفائی نے‘ اس اقدام کو ظالمانہ ثابت کر دیا مگر یہ فائل عدلیہ کی مجلس اعلیٰ میں دبی رہی۔

موجودہ شاہ کے دَور میں یہ محاصرہ جاری ہے‘ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ چنانچہ گذشتہ مئی میں مرشد کے گھر کی نگران پولیس نے اپنی پوزیشن بدل لی‘ اب وہ گھر سے ذرا ہٹ کر‘ آنے والے تمام راستوں اور اس محلے میں واقع جماعت کے مرکزی دفتر کے ارد گرد کی گلیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ حقوقِ انسانی کے احترام کا بھرم اس وقت ٹوٹا جب ۹‘ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء کو انسانی حقوق کے عالمی اعلان کی مناسبت سے تقریبات منعقد ہو رہی تھیں اور مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان دو دنوں میں حقوق انسانی کی مراکشی تنظیم کے بہت سے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ جماعت عدل و الاحسان کے سیکڑوں کارکنوں کو زد و کوب کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بہت سے گرفتار کیے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بنے۔ ان میں شیخ یٰسین کے کئی قریبی عزیزاور رشتے دار بھی تھے۔

مراکش کی اسلامی تحریک:  مراکش کی اسلامی تحریک کا نام جماعت العدل والاحسان ہے ‘ جس کے قائد عبدالسلام یاسین اور ترجمان فتح اللہ ارسلان ہیں۔ اس جماعت کی کئی ماتحت ذیلی تنظیمیں بھی ہیں جیسے نوجوانوں کی تنظیم‘ عورتوں کی تنظیم وغیرہ۔ یہ ایک دعوتی جماعت ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کے اہم اصول ہیں۔ تربیت‘ تنظیم اور پیش قدمی اس کا شعار ہے۔ سیاسی تبدیلی کے لیے یہ عدل و احسان کے اصولوں پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ جماعت کے قائد محترم نے عدل و احسان کے موضوع پر دو کتابیں لکھی ہیں جن میں امت اسلامیہ کو دعوت و ریاست کے معاملات میں درپیش مسائل و مشکلات کا عدل و احسان کی روشنی میں گہرا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی معاشرت و معیشت کی اصلاح اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے جماعت اپنے افکار‘ پروگرامات اور اجتہادات پیش کرتی ہے۔ عدالت عالیہ نے جماعت کو قانونی قرار دیا ہے مگر مراکش میں قانون اور اس پر عمل درآمد دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ یعنی جماعت کا مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے‘ قانونی نہیں۔

مراکش کے سرکاری ذرائع ابلاغ‘ جماعت پر دہشت گردی اور حفاظتی دستوں کے ساتھ تصادم کا الزام لگاتے ہیں مگر جماعت اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ جماعت کے ترجمان فتح اللہ ارسلان کے بقول: ’’ہاتھوں میں قرآن شریف اٹھا کر چلنے والے تشدد کرتے ہیں یا مسلح حفاظتی دستے جن کی زد سے عورتیں‘ بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی محفوظ نہیں؟ ہم ہر طرح کے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ہم خفیہ کارروائیوں اور غیروں کا آلہ کار بننے کے مخالف ہیں۔ ہم نے آٹھ بڑے شہروں میں پروگرام کرنے کا ارادہ کیا‘ پولیس نے مداخلت کی‘ بہت تشدد کیا‘ مار مار کر لوگوں کو لہولہان کر دیا مگر ہم نے اس کے باوجود صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ پولیس کے کسی ایک آدمی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا‘ کسی سپاہی کی وردی کا بٹن تک نہیں ٹوٹا۔ جماعت عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے‘ یہ ہماری باقاعدہ حکمت عملی کا حصہ ہے‘‘۔

انتخابی حکمت عملی :  جماعت عدل و الاحسانتین وجوہ سے انتخابات میں شرکت کو مفید نہیں سمجھتی۔

۱- انتخابات میں شرکت کا مطلب‘ موجودہ نظام کو درست اور جائز قرار دینا ہے‘ جب کہ جماعت کے نزدیک یہ حقوق انسانی اور آزادیوں کے احترام کا نقیض ہے۔ انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کا سیکورٹی سسٹم اٹھاتا ہے‘ کیونکہ یہ ’’جمہوری تماشا‘‘ اس کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے نتائج بھی وہی سمیٹتا ہے‘ لہٰذا انتخابات میں شرکت کا مطلب سیکورٹی سسٹم کو مضبوط کرنا اور تحفظ دینا ہے۔ جماعت کسی سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتی ‘ وہ اصولوں پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔

۲- انتخابات اگر دھوکا اور دھاندلی سے پاک ہوں تو بھی کامیاب ہونے والوں کے پاس دستوری‘ تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کے اختیارات نہیں ہیں۔ پھر الیکشن میں حصہ لینے کا کیا فائدہ؟ اور رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کیا افادیت ہے؟

۳- قائم سیاسی نظام کے زیر سایہ‘ ایسی قوم میں‘ جس کی نصف سے زیادہ آبادی بالکل ناخواندہ ہو‘ سیاسی شعور سے بھی محروم ہو‘ جہاں سیکورٹی فورسز نے دہشت کی فضا پیدا کر رکھی ہو‘ انتخابات کے انعقاد کا مطلب جھوٹ‘ فریب اور مکر کی ترویج‘ قبائلی عصبیت کو مضبوط کرنا اور گروہ بندی اور طبقاتی تقسیم کو قوت بخشنا ہے جس سے انانیت‘ خود غرضی اور خواہشات نفسانی کو تقویت ملتی ہے‘ مفاد عامہ اور امت کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں۔

جماعت عدل والاحسان‘ اسلام کے حامیوں‘ اور سیکولر ذہن کے لوگوں کے ساتھ بھی‘ ہر قسم کے مواقع پر مذاکرات اور گفت و شنید پر یقین رکھتی ہے۔ استاد عبدالسلام نے گفت و شنید کے موضوع پر چار کتابیں لکھی ہیں‘ ایک فرانسیسی میں اور تین عربی زبان میں۔ انھوں نے برادرانہ و مخلصانہ جذبات کے ساتھ گفت و شنید اور مذاکرات پر زور دیا ہے۔

اسلامی تحریک مراکش کا یہ اصولی موقف ہے اور اسی پروگرام کو لے کر وہ چل رہی ہے کہ مراکش کے مختلف طبقات کو صرف اسلام ہی متحد رکھ سکتا ہے۔ ’’وطنیت‘‘ ، ’’زبان‘‘ اور ’’مفاد عامہ‘‘ میں یک جا رکھنے کی صلاحیت نہیں۔ مراکش کی مجموعی صورت حال اور مصائب و مشکلات کے پیش نظر تحریک اسلامی کا عزم اور حوصلے کے ساتھ‘ حکومتی تشدد کے باوجود عدم تشدد کی حکمت عملی پر ثابت قدمی سے آگے بڑھنا اور جدوجہد جاری رکھنا یقینا قابل ستایش ہے۔ بڑھتا ہوا عالمی دبائو‘ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اور تحریک اسلامی مراکش کی استقامت یقینا پیش رفت کا باعث بنے گی!

مقدونیا: جنگ کے دہانے پر

عبدالباقی خلیفہ

کوسووا اور مقدونیا کی مشترکہ سرحد پر موجود البانوی نژاد مسلمانوں کو کچلنے کے لیے مغربی اور یورپی ممالک کی تائید مقدونیا کو حاصل ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ اس لیے تمام یورپی ممالک کا فرض منصبی ہے کہ وہ مقدونیا کی پیٹھ ٹھونکیں۔ مقدونیا بھی مغرب کی نفسیات سے واقف ہے۔ اس لیے اس نے اعلان کیا کہ وہ ’’یورپ کے طالبان‘‘ کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ اس سے پہلے سرب بھی یہ واویلا مچاتے رہے کہ وہ اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں۔

یہ نعرہ یورپ کے بپھرے ہوئے بیل کو سرخ جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔ اس لیے یورپی بیل اپنے سینگوں سے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے متحد نظر آتے ہیں۔

مقدونیا کی حکومت کی دھمکیوںکے باوجود یہ مسلمان پرعزم اور بلند حوصلہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ جنگ جاری رکھیں گے یہا ں تک کہ وہ سب اس میں کام آجائیں۔ جنگ بندی کے حوالے سے انھوں نے کہا : ہم نے شکست نہیں کھائی بلکہ مذاکرات کا ایک موقع حکومت کو دینا چاہتے ہیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ اور مقدونیا کی حکومت واویلا مچا رہی ہے کہ شدت پسند کو سووا سے در آئے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ مقدونیا کے باشندے ہیں جو کئی نسلوں سے مقدونیا میں آباد ہیں لیکن انھوں نے اپنے حقوق کی بات کی تو مقدونیا کے حکمرانوں نے انھیں کوسووا کے درانداز قرار دے دیا۔

ان مجاہدین کے خلاف کارروائی میں برطانیہ کے ماہرین‘ یوکرین کے پائلٹوں اور یورپی یونین کے ممالک نے حسب توفیق حصہ لیا۔ اس کے باوجود مقدونیا کی حکومت مزید امداد کے لیے بلغاریہ‘ یونان اور یوکرین کے آستانوں پر ہاتھ جوڑتی رہی۔دوسری طرف البانوی مسلمانوںکی بڑھتی ہوئی قوت سے اس اندیشے کو تقویت ملنے لگی کہ یہ خطہ ایک ہولناک جنگ کی لپیٹ میں آنے والا ہے‘ کئی ایک دیہات پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد مقدونیا کی حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔

البانوی مسلمانوں کی پے درپے کامیابیوں کو روکنے میں مقدونیا کی فوج مسلسل ناکام رہی اور اُسے بھاری مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ سرحدی علاقوں کی ناکہ بندی‘ ممکنہ راستوں کا پہرہ اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود وہ ’’دراندازوں‘‘ کو آنے سے نہ روک سکی۔ اس علاقے میں کرفیو لگایا گیا‘ ایمرجنسی نافذ کی گئی لیکن حالات بدستور جوں کے توں رہے۔

البانوی نژاد مسلمانوں کے مطالبات جنھوں نے انھیں بندوق اٹھانے پر مجبور کیا‘ درج ذیل ہیں:

۱- البانوی قومیت کو تسلیم کیا جائے اور انھیں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔

۲- ان کی ثقافت اور دینی تشخص کو تسلیم کیا جائے۔

۳- ان کے سیاسی حقوق تسلیم کیے جائیں اور ان کے تناسب کے مطابق انھیں حکومت میں شامل کیا جائے۔

۴- مقدونیا میں وفاقی نظام قائم کیا جائے ‘جس میں سلاوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں اور البانوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں۔

البانوی مسلمانوں نے یہ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں مقدونیا کو مستقبل کے حالات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ البانوی مسلمانوں کی عسکری قوت حیرت انگیز ہے۔ گذشتہ دنوں انھوں نے دارالحکومت میں کارروائی کی اور ایک فوجی کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا۔ فی الحال اس خطے میں خاموشی نظر آتی ہے لیکن یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

(ہفت روزہ المجتمع ‘ شمارہ ۱۴۴۴ ۔ اخذ و ترجمہ:  محمد احمد زبیری)

۲۹‘ ۳۰ جنوری ۲۰۰۱ء کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں پہلی عالمی القدس کانفرنس منعقد ہوئی۔ قبلۂ اوّل کے لیے مسلمانان عالم کا یکساں و متحدہ موقف اُجاگر کرنے کے لیے اس کانفرنس کی اہمیت غیر معمولی تھی۔اسلامی تحریکیں ہی نہیں‘ دیگر عناصر بھی بڑی تعداد میں اس میں شریک تھے۔ متعدد عیسائی رہنما بھی القدس کی آزادی کا مطالبہ کرنے کے لیے اس میں شریک رہے۔ ’’القدس کانفرنس‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا‘ تو اس میں بھی قوس قزح کے سارے رنگ موجود تھے۔ شیعہ ‘سنی‘ نیشنلسٹ‘ مسیحی سب بیک آواز القدس کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس عالمی کانفرنس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوا ہے کہ دنیا بھر سے شریک قائدین و نمایندگان کو ایک پلیٹ فارم پر مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبر ہونے کا موقع ملا۔

ایسی ہی ایک غیر رسمی مجلس میں سوڈان سے آئے ہوئے تین اہم رہنما یکجا تھے:۱- شیخ یاسین عمر الامام‘ ڈاکٹر حسن ترابی کے دست راست ہیں اور ساری عمر اسلامی تحریک کے لیے جدوجہد میں گزار دی ‘۲- ڈاکٹر احمد محمد عبدالرحمن‘ سوڈانی صدر عمر حسن البشیر کے سیاسی امور کے ذمہ دار ہیں‘ اور ۳-مہدی ابراہیم حکمران پارٹی کے خارجہ امور کے نگران ہیں۔تینوں کو باہم شیروشکر دیکھ کر راقم الحروف نے کہا کہ جتنی خوشی پوری کانفرنس کی کارروائی دیکھ کر ہوئی‘ اتنی ہی خوشی صرف اس ایک منظر کو دیکھ کر ہو رہی ہے کہ آپ تینوں اکٹھے ہیں۔ سب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’’ہمارے اختلافات بھی ہمیں جدا نہیں کرتے!‘‘ اور پھر اس رواداری کے کئی واقعات سنائے۔

بدقسمتی سے سوڈان کی تازہ صورت حال نے ایک بار پھر تشویش بلکہ کرب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۹ء کو قاضی حسین احمد کی زیر قیادت جماعت اسلامی کا تین رکنی وفد خرطوم ہی میں تھا۔ اس موقع پر  ۱۰ روز کے مسلسل مذاکرات کے بعد پارٹی کی شوریٰ نے ایک جامع صلح نامہ اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس میں صدر عمر البشیر اور ڈاکٹر حسن ترابی کے درمیان تمام اختلافات کا احاطہ کیا گیا تھا‘ ان کی وجوہات کا ذکر تھا‘ ان کا فوری حل بھی تجویز کیا گیا تھا اور ان کا دوررس علاج بھی تحریر کیا گیا تھا۔

سوڈانی رہنمائوں نے ایک دوسرے کو بھی مبارک باد دی‘جماعت کے وفد سے بھی اظہار سپاس و تہنیت کیا اور سب نے کھلتے چہروں سے امید ظاہر کی کہ اب دھیرے دھیرے تمام حالات معمول پر آجائیں گے۔ اس صلح نامے کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر عمرالبشیر کے درمیان رو در رو ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ شکوے بھی ہوئے‘ اور یہی امید قوی تر ہوئی کہ جن اختلافات کی بنیاد پر تحریک دو دھڑوں میں منقسم ہو گئی ہے ان کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔

ان اختلافات میں سب سے بنیادی امر تحریک‘ پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات کا تعین تھا۔ تفصیل میں جائے بغیر‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر حسن ترابی کے خیال میں فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں حتمی اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہونے چاہییں‘ جب کہ صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کی رائے میں سوڈان کے حالات اور درپیش خطرات کی روشنی میں صدارتی نظام کو مستحکم ہونا چاہیے۔ صدر مملکت پارلیمنٹ اور پارٹی سے بھی رہنمائی لے‘ لیکن عوام چونکہ صدر کی بیعت کرتے ہیں‘ اس لیے اس قبائلی ماحول میں صدر ہی کو

قول فیصل کا اختیار ملنا چاہیے۔ ان دونوں آرا میں توافق ممکن تھا‘ لیکن اختلافات کو ہوا دے کر اسے خلیج میں بدل دینے والوں کی کوششیں بدقسمتی سے کامیاب ہو گئیں۔ صلح نامہ معدوم ہو گیا‘ ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے ساتھیوں کو علیحدہ کر دیا گیا۔ انھوں نے اپنی الگ پارٹی پاپولر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ حکمران پارٹی کا نام ’’نیشنل کانفرنس‘‘ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مصر‘ لیبیا اور کئی دوسرے ممالک میں موجود اپوزیشن لیڈروں نے واپسی کے راستے تلاش کرنا شروع کر دیے۔ تمام قابل ذکر اپوزیشن رہنما جن میں سابق صدر نمیری‘ میرغنی‘ اور سابق وزیراعظم صادق المہدی بھی شامل ہیں‘ اب تک خرطوم واپس آچکے ہیں۔ حکومت سے صلح بلکہ حکومت میں شرکت کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔

سب سے بدنما صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب وسط فروری ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرے بھی ہوئے اور متعدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ترابی صاحب پر الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ صلح و مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور وہ حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے ہیں‘ جب کہ ترابی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر صدر اُن سابق اپوزیشن لیڈروں سے صلح کی بات کر سکتے ہیں جنھوں نے انھی علیحدگی پسندوں اور مختلف بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر سوڈان پر متعدد فوجی حملے کروائے‘ تو ہم بھی جنوبی عناصر سے گفت و شنید کر سکتے ہیں۔ خود حکومت نے بھی ان عناصر کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کیے ہیں۔

وجوہات کا تجزیہ جس طور بھی کیا جائے‘ عملی نتائج بدقسمتی سے یہی سامنے ہیں کہ کل تک ہم پیالہ و ہم نوالہ‘ وہ قائدین کہ جن سے پوری اُمت کی امیدیں وابستہ تھیں‘ ان کے درمیان اس وقت تلخی اوراختلافات عروج پر ہیں‘ تنائو شدید ہے اور واپسی کی راہیں مسدود ہوتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ خطرہ سوڈان کی انقلابی حکومت کو ہے‘ اور سب سے زیادہ خوشی سوڈان کے بدخواہوں کو۔ مختلف مواقع پر صدر عمر البشیر کی حکومت گرانے کے لیے عالمی قوتوں نے‘ پڑوسی عرب ممالک کے ذریعے سرتوڑ کوششیں کیں اور براہِ راست بھی ہلے بولے گئے۔ ’’الشفا‘‘ نامی دواساز فیکٹری پر میزائلوں سے حملہ کیا گیا‘ اکائونٹ منجمد کر دیے گئے‘ سوڈان ایئرلائن پر پابندی لگا دی گئی۔ خود صدر عمربشیر بتا رہے تھے کہ امریکہ نے سوڈانی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ۴۰۰ ملین ڈالر کا بجٹ رکھا ہے۔

ان تمام کارروائیوں کے باوجود بھی یہ امریکی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ چار چار ممالک کی طرف سے مشترکہ فوجی حملے پسپا ہوئے۔ پڑوسی عرب ممالک خود مجبور ہوئے کہ سوڈان سے تعلقات بحال کریں۔ ’’الشفا‘‘ تباہ کر دیے جانے پر کئی ’’الشفا‘‘ بنانے کی پیش کش ہوئیں۔ سوڈان خوراک و ادویات سازی میں خود کفیل ہوگیا۔ پٹرول کا ایسا ذخیرہ دریافت ہوا کہ آیندہ برس سے سوڈان تیل برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو رہا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ہم جب وہاں گئے تو پٹرول لینے کے لیے پرمٹ جاری ہوا تھا اور رات رات بھر طویل قطاروں میں لگنا پڑتا تھا۔ زمین صرف غذائی سونا ہی نہیں اصل سونا اُگلنے لگی۔ سونے کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ ٹن سے بڑھ گئی۔ جنوبی سوڈان کی لڑائی میں تمام وسائل جھونکے جانے کے باوجود سوڈان مستحکم سے مستحکم ہوتا گیا اور آخرکار پڑوسی و امریکی تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک سوڈانی حکومت کو اندر سے کمزور نہیں کیا جاتا‘ اس کا خاتمہ ناممکن ہے۔

اس خدشے اور اس تجزیے سے دونوں متنازعہ بھائی بھی اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن دُوری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اب تمام تر امیدیں خود سوڈانی حکومت اور ڈاکٹر حسن ترابی صاحب کی پارٹی میں موجود ان عناصر پر موقوف ہیں جو اب بھی باہم یک جا و یک جان ہیں۔سب تجزیہ نگار اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ عوام تقسیم نہیں ہوئے اور وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ دونوں رہنما حسب سابق مل جائیں۔ اس طرح کا عوامی دبائو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے زیادہ تسلی کی بات یہ ہے کہ خود صدر عمرالبشیر‘ ان کے وزرا اور ان کی پارٹی کی قیادت‘ سب کے سب اسلام سے گہری محبت رکھنے والے اور اسلامی اصلاحات کا سفرمکمل کرنے کے شدید حامی ہیں۔ان میں متعدد افراد براہِ راست ترابی صاحب کے تربیت یافتہ ہیں۔ تحریک اسلامی ان کی پہلی و آخری محبت ہے اور ان کے ہوتے ہوئے سوڈان کی اسلامی شناخت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہے۔ خطرہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جن شیاطین نے ترابی و بشیر کو باہم جدا کر کے سوڈان کو ایک بحران کا شکار کیا ہے‘ اور اس بحران میں مزید تندی پیدا کر رہے ہیں‘ وہ لکڑیوں کا گٹھا کھول کر ایک ایک کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ آیئے ہم سب اپنے سوڈانی بھائیوں کے اتحاد و یک جہتی کے لیے دست دعا بلند کریں۔

سوڈان سے آنے والا تازہ ہوا کا جھونکا یہ ہے کہ اخوان المسلمون کی بنیادی تنظیم جو اس سے پہلے حکومت سے باہر تھی‘ اب باقاعدہ حکومت میں شامل ہو گئی ہے‘ اور اس کے ایک نوجوان رہنما ڈاکٹر عصام البشیر کابینہ میں لے لیے گئے ہیں۔ یہ تمام عناصر سوڈان کی اسلامی شناخت کے ضامن اور وحدت کی امید کو مضبوط تر کرنے والے ہیں۔

انڈونیشیا  --- عیسائیت کی زد میں!

محمد ایوب منیر

عظیم اسلامی ملک انڈونیشیا ایک بار پھر بحران کے اندر گھر گیا ہے۔ جنرل سہارتوکے بعد برھان الدین یوسف حبیبی کو صدرِمملکت بنایا گیا لیکن اسلام پرستوں سے ان کی راہ و رسم اور طیارہ سازی کی صنعت میں غیر معمولی خود کفالت ان کے لیے موردِالزام بن گئی۔ ۱۶ ماہ قبل  نہضۃ العلما کے عبدالرحمن واحد نے اقتدار سنبھالا تو گولکرپارٹی‘ جمہوری پارٹی اور متحدہ ترقیاتی پارٹی (پی پی پی) نے واحد کو نجات دہندہ قرار دیا تھا لیکن فسادات عروج پر پہنچے ہیں تو صدر سے استعفا کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس صورت میں جمہوری پارٹی کی سربراہ اور موجودہ نائب صدر سُکارنو کی بیٹی میگاوتی کے صدر بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ میگاوتی کے ’’راسخ العقیدہ اور روشن خیال‘‘ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اُس کی جماعت (پی ڈی پی آئی) کے ۷۰ فی صد عہدے دار چینی النسل ہیں یا مسیحی ہیں‘ اور اس کے مندروں میں جا کر پھول چڑھانے کے کئی واقعات عالمی پریس میں شائع ہو چکے ہیں۔

وسائل سے مالا مال انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کوعلیحدہ کروانے میں استعماری قوتوں کی کامیابی نے اس خوف ناک حقیقت کو واشگاف کر دیا ہے کہ ۹۰ فی صد مسلم اکثریت کے ملک کو ۹‘ ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت کے زیرنگیں کیا جا سکتا ہے۔ ۵ فی صد چینی النسل ملیشیائی آبادی‘ تمام تر معیشت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔اکبر تاجنگ‘ میگاوتی‘ امین رئیس اور جنرل اندرپارتو نوسُتارتو تن تنہا ملک کو خلفشار سے نکالنے‘ اقتصادی بحران ختم کرنے‘ اور ملک کو متحد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عبدالرحمن واحد کو معزول ‘ برخواست یا مستعفی کرایا گیا تو جو فرد برسرِاقتدار آئے گا وہ عیسائی موثر گروہوں کا نمایندہ ہوگا ‘یا اُن کے رحم و کرم پر ہوگا۔ پاکستان کے اندر کوئی غیر مسلم دستوری طور پر صدر‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ مسلح افواج کا سربراہ اور چیف جسٹس نہیں بن سکتا لیکن انڈونیشیا کا دستور ایسی کوئی شق نہیں رکھتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

آچے‘ ایرپان جایا‘ ریائو اور مدورا صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں عروج پر ہیں۔ جزائر ملاکا میں مسلمان اور عیسائی‘ ایک دوسرے کے خلاف مسلح ہو کر صف آرا ہیں۔ سہارتو کے دورِ حکومت میں بھی اور اُس کے بعد گذشتہ تین برسوں میں ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت نے کلیدی مناصب تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ چار اہم ترین وزارتیں ان کے پاس ہیں۔

وزارت صنعت و تجارت لوھوت بنسار پنجایتن کے پاس ہے۔ مذہباً پروٹسٹنٹ اور ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل ہیں۔ سنگاپور میں انڈونیشیا کے سفیر رہے ہیں۔ لوھوت کا وعدہ تھا کہ ۸۰ ارب امریکی ڈالر کا سرمایہ جو صنعت کار انڈونیشیا سے نکال لے گئے ہیں‘ میں یہ واپس لائوں گا۔ لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی‘ تاہم روپے کی قیمت اور بھی گر گئی۔ لوھوت کے سابق حکمران خاندان سے بھی خوش گوار مراسم رہے ہیں‘ نیز اقتصادی شہ رگ کی مالک چینی آبادی کے سربرآوردہ لوگوں سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔

بنگاران سراگی‘ وزیر زراعت اور مذہباً پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں۔ وہ بوگور انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں زرعی اقتصادیات کے استاد رہے اور ان کی کئی تخلیقات منظرعام پر آچکی ہیں۔ انڈونیشیا کے ۱۲ کروڑ مسلمان کسانوں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہ آسکی‘ تاہم وزارتِ زراعت میں تعلیم یافتہ عیسائی اہم عہدوں پر ضرور متعین ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر توانائی و معدنیات پرنومویس گیانترو کیتھولک عیسائی ہیں۔ ان کا تعلق جاوا سے ہے اور جاوا کے رہنے والے مسلک کی مجموعی سیاست پر اثرانداز رہتے ہیں۔ وہ جکارتا کی اتماجایا کیتھولک یونی ورسٹی سے طویل عرصہ متعلق رہے اور بعدازاں عالمی بنک کے مشیر بن گئے۔ وہ تیل تلاش اور برآمد کرنے والی کمپنیوں کے بھی انچارج رہے جن کے اثاثے اربوں ڈالر ہیں۔ ان کی امریکی سفیر رابرٹ ایس گیلبا رڈ سے قریبی دوستی ہے۔ مذہب بھی ایک ہے اور امن عالم قائم کرنے کا طریقہ بھی ایک! علاوہ ازیں انڈونیشیا بنک تعمیر نو ایجنسی (IBRA) کے سربراہ ایڈون گروگان بھی عیسائی ہیں۔

اس موقع پر تھیو کا ذکر بھی ضروری ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ تھیوسیافی مسلکًا پروٹسٹنٹ ہیں۔ وہ مکاسار کے رہنے والے ہیں۔ مسلم مسیحی فسادات بھڑکانے میں انھیں ’’یدطولیٰ‘‘ حاصل ہے‘ اور اُن کا یہ جملہ تو مشہور ہے: ’’مجھے یہ پسند ہے کہ انڈونیشیا کی تقسیم ہو جائے بجائے یہ کہ یہاں کوئی مسلمان حکومت کرے‘‘۔ تھیو‘ میگاوتی کے معتمد خاص اور اُن کی جمہوری پارٹی کے نائب سربراہ ہیں۔ میگا اُن پر اس قدر اعتماد کرتی ہیں کہ وہ انھیں کئی بار پارٹی کا سربراہ بنانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اقتدار ملنے کی صورت میں اصل فیصلے اور وزارتوں کی تقسیم تھیو ہی نے کرنا ہے۔ تھیو‘ فی الوقت میگاوتی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ صدر واحد نے میگاوتی کو جن شورش زدہ علاقوں کا انچارج بنایا‘ تھیو کے مشورے پر میگا نے وہاں خاموشی اختیار کیے رکھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہنگامے اور فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ میگا اپنے مسیحی عہدے داروں اور مشیروں پر خاص اعتماد کرتی ہیں۔ یہاں ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ انڈونیشیا کی سراغ رساں ایجنسی (BAKIN)کے نائب سربراہ جنرل یوس منکو اور سربراہ لیفٹیننٹ جنرل آری جیفرے کمات ہیں‘ نیزفوج کے اسٹرے ٹیجک سراغ رسانی شعبے کے سربراہ میجر جنرل شیوم بنگ ہیں۔ اتنے اہم عہدوں پر عیسائیوں کا تعینات ہونا‘ حسن اتفاق بہرحال نہیں ہے! اب ‘جب کہ عبدالرحمن واحد پر ۳۶ کروڑ ڈالر‘ قومی ادارے (بلوگ) کے ذریعے غصب کرنے کا الزام ہے اور ۱۶ ماہ قبل کے قریبی حلیف امین رئیس (اب قومی مجلس MPR کے سربراہ)‘ اسپیکر اسمبلی اکبر تاجنگ اور نائب صدر میگاوتی‘ صدر واحد سے کھلم کھلا علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں‘ عیسائی گروہوں نے اپنی کوششیں ایک مرتبہ پھر تیز کر دی ہیں۔

برطانیہ سے شائع ہونے والے جریدے امپیکٹ انٹرنیشنل (مارچ ۲۰۰۱ء) کی رپورٹ کے مطابق عیسائیوں کی تکنیک یہ رہی ہے کہ اسلامی قوتوں کو تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ نہضۃ العلما اور محمدیہ دو بڑی اسلامی جماعتیں ہیں۔ ان کے درمیان تفریق پیداکرنے اور خلیج وسیع کرنے میں اِسی گروہ کا اہم کردار ہے۔ نہضۃ کے سربراہ عبدالرحمن واحد ہیں اور چار کروڑ پیروکاروں کے دعوے دار ہیں‘ جب کہ امین رئیس‘ محمدیہ کے سربراہ رہے ہیں۔ جن علاقوں میں فسادات برپا ہوئے یا آج کل جاری ہیں‘وہاں مسلم علما‘ اساتذہ اور قائدین کو اوّلین طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ چاہے مشرقی جاوا ہو یا آچے یا مدورا۔ مشرقی تیمور کی طرز پر عیسائیوں نے مختلف صوبوں میں تربیت یافتہ کمانڈوز اور نیم فوجی افراد کے دستے منظم کر لیے ہیں۔ ملاکا میں ریڈ آرمی آف بینی ڈورو ہے‘ سلاویسی میں بلیک بیٹ آرمی ہے ‘ اور مورچے بند ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

انڈونیشیا میں مقیم عیسائیوں کا متحرک ترین محاذ میڈیا ہے اور انڈونیشیا کے حوالے سے تازہ ترین اور

گرم گرم خبریں بیرونِ ملک روانہ کی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا کو بدنام کیا جاتا ہے اور غیر ملکی اداروں مثلاً عالمی بنک اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کا اثر و رسوخ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

ان حالات کا تقاضا ہے کہ اُمت کا درد رکھنے والے فہیم عناصر انڈونیشیا کو کسی مزید بحران کی زد میں آنے سے روکیں۔ سرکاری‘ غیر سرکاری اور انفرادی طور پر ایسے سیمی نار منعقد کیے جائیں جن میں حالات کا صحیح تجزیہ ہو اور انڈونیشیا کو عیسائیت کی گود میں جانے سے بچایا جا سکے۔ اسرائیل کے قیام‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ اور مشرقی یورپ میں مسلم کشی کے بعد انڈونیشیا کے بحرانوں پر خاموشی اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی!

 

امریکہ‘ جنگ ِ ویت نام میں لاپتا ہونے والے اپنے فوجیوں کو ابھی تک نہیں بھولا‘ اُسے اب تک قرار نہیں آیا۔ وہ ان کی تلاش میں سرگرم ہے اور اس مقصد کے لیے وہ سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ان لاپتا افراد کی تعداد صرف ایک ہزار ۴ سو ۹۸ ہے‘ جب کہ بوسنیا ہرزگونیا میں لاپتا افراد کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے ۹۸ فی صد سویلین ہیں جن میں سے۳ فی صد بچے ہیں جن کی عمریں چھ ماہ اور ۱۶ سال کے درمیان ہیں‘ ۱۳ فی صد عورتیں ہیں جن کی عمریں ۹ اور ۱۰۲ سال کے درمیان ہیں۔ ۹۹ فی صد لاپتا افراد مسلمان ہیں‘ جب کہ سرب اور کروٹ صرف ایک فی صد ہیں۔ معاہدہ ڈیٹن پر دستخط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ۶ ہزار ۵ سو اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ۳ ہزار ۵ سو قبریں‘ لاپتا افراد کی بین الاقوامی کمیٹی نے ڈھونڈی ہیں اور بقیہ کا کھوج‘ بوسنیا کی تحقیقی کمیٹی نے لگایا ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ عمر ماشوویچ ہیں۔ اُن سے ایک ملاقات کی تلخیص یہاں دی جا رہی ہے۔

۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو معاہدہ ڈیٹن پر دستخط کرنے کے بعد لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی‘ پہلے اس کا نام ’’کمیٹی برائے تبادلہ اسیران‘‘ تھا۔ اس معاہدہ کی چوتھی شق میں مختلف کمیٹیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے لیے ۱۳ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی‘ اس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میںپانچ ارکان تھے جن کا کام صوبوں میں تلاش کے کام کی نگرانی تھا‘ جب کہ دوسرے حصے میں آٹھ حضرات تھے جنھوں نے سرائیوو میں رہ کر تلاش کے نتائج تیار کرنا اور ان کی توثیق کرنا تھا۔ اس کمیٹی کا مقصد ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۵ء کے عرصے میں مسلمانوں پر سربوں اور کروٹوں کی جانب سے مسلّط کردہ جنگ کے دوران لاپتا اور اجتماعی قبروں میں دفن کردہ افراد کی تلاش تھا۔ اس کمیٹی نے سرکاری طور پر اپنا کام اپریل ۱۹۹۶ء میں شروع کر دیا۔

لاپتا افراد کی تلاش کی بین الاقوامی کمیٹی کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ‘ اجتماعی قبر وہ ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد اشخاص کے ڈھانچے ہوں۔ اس تعداد سے کم‘ خواہ چار افراد کے ڈھانچے کیوں نہ ہوں‘ اجتماعی قبر شمار نہیں کی جاتی۔

لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے دوران ‘ ہمیں دونوں عالمی جنگوں کے دوران کی بھی کئی اجتماعی قبریں ملیں۔ ان میں سے کچھ بوشناق شہرکے مسلمانوں کی تھیں۔ ہم نہیں جان سکے کہ ان کا تعلّق کن علاقوں اور خاندانوں سے تھا۔ ہمیں ۵۰ جرمن فوجیوں کی بھی اجتماعی قبر ملی‘ جن کے ڈھانچے ہم نے سرائیوو کے جرمن سفارت خانے کے حوالے کر دیے۔

بوسنیا کی اجتماعی قبروں میں ہر قسم کے لوگ دفن ہیں‘ ان میںوہ بھی ہیں جن کا جنگ کے دوران‘ بین الاقوامی قانون کی رُو سے قتل ناجائز ہے ‘ جیسے ڈاکٹر‘ قیدی‘ معذور‘ علماے دین‘ بچے اور عورتیں۔ہم نے کچھ عرصہ قبل نوا سواچی گائوں میںایک اجتماعی قبر دریافت کی جس میں ۴۴ افراد دفن تھے جن میں یہاں کے امام مسجد بھی شامل تھے۔ ایک اجتماعی قبر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے نیچے سے ملی۔ ایک اجتماعی قبر کے اُوپر مسجد گرا کر اس کا ملبہ ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا دھوکا دینے کے لیے کیا جاتا تھا۔ سرائیوو کے مضافات میں سمینروفاتس کے علاقے میں امام مسجد‘ اس کی بیوی اور چار بچوں کو مار ڈالا گیا‘ سب سے چھوٹے بچے کی عمر چار ماہ تھی۔ بوسنیا کے وسطی علاقے جیبحپا کے گائوں یالاچ سے مسلمان بھاگے تو سربوں نے انھیں پکڑ کر واپس گائوں چلنے کے لیے کہا اور کچھ نہ کہنے کا وعدہ کیا مگر گائوں پہنچنے کے بعد انھیں ذبح کر ڈالا۔ ان کی تعداد ۳۰۰ تھی۔ پھر انھیں اجتماعی قبر میں پھینک دیا گیا۔ اس قبر کا کچھ عرصہ پہلے انکشاف ہوا ہے۔ ایک اجتماعی قبر میں سربوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے ساتھ چار مردہ گھوڑے بھی پھینک دیے اور ان کے ساتھ دھماکا خیز مواد باندھ دیا تھا۔

حنیویچ گائوں کی مسجد میں ہم نے سات مسلمان مقتول پائے۔ دوسنیا کے گائوں میں امام مسجد کو قتل کرنے کے بعد‘ اس کی لاش مسجد کے دروازے پر لٹکا دی گئی۔ ائمہ مساجد کی ایک بڑی تعداد کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا ہے۔ ابھی تک کئی امام مسجد لاپتا ہیں۔

جب ہمیں کسی اجتماعی قبر کا پتا چلتا ہے تو ہم مقامی اور بین الاقوامی حکام کو مطلع کرتے ہیں۔ پھر کھدائی کرتے ہیں۔ مقتول کی شخصیت اور طریقہ قتل جاننے کے لیے طبّی تجزیہ‘ ہڈیوں کی لمبائی اور لباس وغیرہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہم لاش کی شناخت کے لیے لوگوں کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے تو صرف انتہائی قریبی رشتے داروں (ماں‘ باپ‘ بیٹا‘ بیٹی) کے بیانات کو درست سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں تو بعض ایسے خاندان ہیں جو پورے کے پورے ختم کر دیے گئے ہیں۔ ہم لوگوں کو بلاتے ہیں کہ وہ اپنے عزیزوں کو پہچانیں‘ پھر لاشوں کو کفناتے‘ نماز جنازہ ادا کرتے اور الگ الگ دفن کرتے ہیں۔ ہر قبر پر میّت کا نام لکھتے ہیں۔

سب سے بڑی اجتماعی قبر زفورنیک میں دریافت ہوئی جس میں ۲۷۰ مسلمانوں کے ڈھانچے تھے۔ اس کے بعد لانیچ گائوں کی اجتماعی قبر ملی جس میں ۱۸۸ مسلمان دفن تھے۔ اس کے بعد کلیوچ شہر کی قبر ہے جس میں ۵۱ ڈھانچے تھے۔ فوچا میں ۷۰ مسلمان مرد و زن کو قتل کرنے کے بعد اکٹھا دفنایا گیا۔ اس قبرپر بوسنیا کی قدیم اور خوب صورت ترین مسجد ’الام جامع‘‘ کا کچھ ملبہ ڈالا گیا۔ یہ مسجد پندرھویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ قبریں مختلف علاقوں میں ہیں‘ مثلاً پہاڑوں‘ جنگلوں ‘ دریائوں کے کناروں اور وادیوں میں۔ قبر کی زیرزمین گہرائی ۶ میٹر اور ۴۰ میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ جس اجتماعی قبر میں ہمیں ۱۸۸ ڈھانچے ملے‘ یہ سرب فوج کے کیمپ کے وسط میں تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ بھیانک جرائم سربوں کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے حکم سے ہوئے۔ میں‘ آپ کو مسلمانوں کے اس قتل عام کے واقعات‘ رکے بغیر سناتا جائوں تو ختم ہونے میں نہ آئیں۔

دھاندلی یہ ہے کہ مغرب‘ لاپتا افراد کی تلاش وغیرہ کے سلسلے میں سربیا‘ کروٹیا اور بوسنیا کو برابر مالی امداد دیتا ہے۔ بوسنیا کا فنڈ تین گروہوں یعنی مسلمانوں‘ آرتھوڈکس اور کیتھولک میں تقسیم ہوتا ہے‘ حالانکہ سربوں اور کروٹوں کی کوئی اجتماعی قبر نہیں ہے۔ ہم نے صرف پچھلے ایک ماہ میں مختلف عمروں کے مسلمان مرد و زن کے ۳۲۰ ڈھانچے دریافت کیے۔ سرب اور کروٹ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے اجتماعی قبر دریافت کی ہے۔ کبھی یہ لوگ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو اجتماعی قبر ظاہر کردیتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی بات کو سچ نہیں مانتا‘ اس لیے کہ سائنس‘ طب اور ابلاغیات کے اس دَور میں دھوکا دینا مشکل ہے۔

ابھی تک ۳۰۰ اجتماعی قبروں کا پتا نہیں چل رہا۔ بوسنیائی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک بوسنیا سے باہر ہے۔ یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت‘ اس امر کے سب سے بڑے گواہ ہیں کہ مسلم شہریوں پر کیا گزری او راجتماعی قبریں کہاں کہاں ہیں۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا اور وہ قاتلوں کو بھی پہچان سکتے ہیں۔ انھی اشخاص میں سے ایک ہائی اسکول کے مدرس تھے۔ یہ اومارسکا کے سرب کیمپ میں گرفتار تھے مگر بچ نکلے۔ اس علاقے میں ہمیں ایک اجتماعی قبر ملی جس میں ۵۰ افراد کے ڈھانچے تھے۔ ہمیں مقتولین کے بارے میں کچھ نہیں پتا چل رہا تھا۔ یہ مدرس آئے‘ انھوں نے ہمیں مدفون افراد کے نام بتائے‘ مقتولوں کی زیادہ تعداد ان کی کلاس کے طلبہ کی تھی۔ جرمنی اور دیگر ممالک میں مقیم بوسنیائی ہمیں اجتماعی قبروں کے بارے میں بتاتے ہیں لیکن وہ اس ڈر سے اپنے ملک میں نہیں آتے کہ کہیں وہ متعلقہ ملک کی شہریت سے محروم نہ ہوجائیں اور یوں روزی روٹی سے بھی رہ جائیں۔

بین الاقوامی قوتوں کی سازباز:  ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مغربی ممالک نے بوسنیائی شہریوں کو عمداً بوسنیا سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا تاکہ بوسنیا مسلمانوں سے خالی ہو جائے۔ وہ انھیں موت سے بچانے کا جھانسا دیتے تھے مگر اصل مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ مسلم دفاعی افواج میں شامل نہ ہوں۔ فرانسیسی افواج نے کرونیا کے صوبے میں ہزاروں سویلین مسلمانوں کے قتل عام کا مشاہدہ کیا مگر کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ بریڈورمیں ۲۲ ہزار مسلمان قتل ہوئے ‘ فرانسیسی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے ۸۰ اشخاص کو نکالا گیا اور گہرا گڑھا کھود کردفن کیا گیا۔ یہ سب کچھ فرانسیسی فوجیوں کے علم میں تھا مگر انھوں نے کچھ نہ بتایا۔ ہم نے خود اس قبر کو تلاش کیا‘ شہدا کے ڈھانچے نکالے‘ جنازہ پڑھا اور شہدا کے قبرستان میںدفن کیا۔ ہالینڈ کے عسکری کیمپ میں ۳ ہزار ۵ سومسلم سویلین تھے جنھیں سربوں کے حوالے کر دیا گیا۔ جوارجدہ کے مذبح کے بعد‘ انگریز فوجی سربوں کو دیکھ کر صلیب کا نشان بنا رہے تھے تو ٹیلی وژن کیمروں نے اسے ریکارڈ کیا اور بعد میں اسکرین پر دکھایا۔

کئی بین الاقوامی شخصیات‘ مختلف انداز سے بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ چونکہ انھیں تحفّظ حاصل ہے‘ اس لیے انھیں عدالت میں لانا ناممکن ہے‘ جیسے بطروس غالی‘ یا سوشی اکاشی‘ کارل بلٹ‘ جنرل موریاں‘ جنرل مکنیزی۔ مؤخرالذکر پانچ مسلم دوشیزائوں کو زبردستی کینیڈا بھیجنے کے جرم میں شامل ہے۔

ہالینڈکی وزارتِ دفاع نے وہ تمام کیسٹیں جلا ڈالیں جو ہالینڈ کے فوجیوں کی سربوں کے ساتھ ملی بھگت کا ثبوت تھیں۔ فرانسیسی فوجی‘ سرائیوو ایئرپورٹ پر صحافیوں کی تلاشی لیتے اور وہ کیسٹیں چھین لیتے تھے جو مختلف جرائم کا ثبوت ہوتیں یا جن کا بین الاقوامی فوجیوں کے بالعموم اور فرانسیسی افواج کے بالخصوص جرائم سے تعلّق ہوتا۔ بوسنیائی حکام کو ہالینڈکے میجر فرانکن کے دفتر سے ایک رجسٹر ملا‘ جس میں‘ اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کہ ہالینڈ کی افواج کے کیمپ میں ۲۷۱ مسلم بوسنیائی شہری تھے ‘ مگر تین کے سوا باقی سب کو قتل کر دیا گیا۔

لاپتا افراد کے عزیزوں کی حالت زار:  بوسنیا کے بے شمار مسلمان لاپتا ہیں جن کے انجام سے کوئی واقف نہیں۔ ایک ماں نہیں جانتی کہ اس کا بیٹا زندہ ہے یا موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ بیوی کو اپنے خاوند کے زندہ بچ رہنے یا فوت ہو جانے کی خبر نہیں۔ موت کا یقین ہو جانے پر تو بالآخر صبر و قرار آہی جاتا ہے مگر لاپتا فرد کے عزیزوںکو کسی پل چین نہیں آتا۔ بہت سی نوجوان عورتوں کے خاوند لاپتا ہیں‘ ان عورتوں کی عمر ۱۸ سے ۲۰ سال کے لگ بھگ ہے۔ یہ نوجوان عورتیں سخت نفسیاتی کرب میںمبتلا ہیں۔ ہر روز ہمارے پاس لاپتا افراد کی مائیں آتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ پتا چلا۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمیں کوئی ہڈی دے دو یا کوئی اور نشانی دے کر کہو کہ یہ تمھارے بیٹے کی ہے تاکہ ہم اس کی قبر بنائیں اور اس قبر پر جایا کریں۔ اسی طرح بیویاں اپنے لاپتا شوہروں کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ ایک ماں کا بیٹا شہید ہو گیا تھا‘ وہ میرے پاس آتی ہے‘ اپنے بیٹے کے بارے میں جاننا چاہتی ہے تاکہ قبر پر جایا کرے۔ ایک ماں رامیزا‘ ہماری کمیٹی کے دفتر میں قرآن شریف کے نسخے لے کر آئی اور کہا: ’’میرے بیٹے کی تلاش کے وقت قرآن شریف ساتھ رکھا کرو۔ ڈرو نہیں‘ قرآن پاک کی موجودگی میں‘ اللہ کے حکم سے‘ آپ کو کوئی خطرہ نہ ہوگا‘‘۔

سائنسی علوم خصوصاً انفارمیشن ٹکنالوجی نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ قوموں کی اقتصادیات تبدیل ہوئی ہے اور کئی ممالک نے کم از کم دنیوی بلندیوں کا سفر شروع کر دیا ہے‘ لیکن مسلمان ممالک مجموعی طور پر سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں کوئی کارہاے نمایاں انجام نہیں دے سکے۔ یہاں سائنس اور ٹکنالوجی کی اہمیت کا بیان تو بہت ہوتا ہے‘ لیکن آزادی کے بعد بھی‘ اس طرف قرار واقعی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جن ممالک میں وسائل کی افراط ہے‘ وہاں بھی فکر نہیں کی گئی کہ اس میدان کی دوڑ میں بعد میں شامل ہونے کی وجہ سے خصوصی منصوبہ بندی کر کے کسر پوری کی جائے۔

اس حوالے سے پاکستان میں خوش گوار تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ وزارت سائنس کا قلم دان ایک نامی گرامی سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمن کے حوالے کر کے‘ مطلوبہ بجٹ بھی دیا گیا ہے جو معمول کے بجٹ سے ۵ ہزار فی صد زیادہ ہے۔ ان کی رہنمائی میں اس میدان میں آغازِ کار ہوا ہے۔ پی ایچ ڈی اور دیگر کے لیے‘ ملکی اور بیرونی وظائف کا اعلان ہی نہیں ہوا ہے‘ اچھی علامت یہ ہے کہ وظائف دیے جانے شروع ہو گئے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ چند برسوں میں اس کے نتائج نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ ایٹمی دوڑ میں تو پاکستان نے بھارت سے آگے بڑھ کر دکھایا ہے‘ اب انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بھی مقابلہ شروع کیا ہے جس میں بھارت کا مقام ساری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی یہ صورت حال ۵۳ سال کی اپنی حوصلہ شکن کارکردگی اور امت مسلمہ کے عمومی پس منظر میں خصوصی طور پر حوصلہ افزا اور خوش آیند ہے۔ سائنس کے عالمی منظر پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں تحقیق کار‘ تحقیقی مراکز میں مستقبل کے نقشے وضع کر رہے ہیں۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ سے منسلک سائنس دانوں کی تعداد امریکہ میں ساڑھے ۹ لاکھ سے زائد اور جاپان میں ۸ لاکھ ہے‘  جب کہ پاکستان میں صرف ۱۲ ہزار ہے۔ ساری دنیا کی سائنس و ٹکنالوجی ریسرچ کے مصارف کا تخمینہ لگایا جائے تو اسلامی دنیا کا حصہ صرف ایک فی صد بنتا ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں‘ جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی کتب اور مقالات کی سالانہ تعدادایک ہزار سے زائد نہیں۔امریکہ میں معیاری جامعات‘ جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے‘ اُن میں ہر ایک کاسالانہ بجٹ ایک ارب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ جوہری دھماکے سے سرخرو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف ۸ کروڑ ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں اور یہاں سائنس کے مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ افراد سالانہ ہے۔

مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ۵۶ خود مختار اسلامی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ایک ہزار ایک سو ۵۰ ارب امریکی ڈالر ہے‘ جب کہ جرمنی کی ۲ ہزار ۴ سو ارب ڈالر اور جاپان کی ۵ ہزار ایک سو ارب ڈالر ہے۔ تمام مسلم ممالک میں سائنس و ٹکنالوجی کی تحقیق پر مجموعی طور پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے‘ جرمنی اُس سے دُگنی اور جاپان چار گنا زائد رقم خرچ کرتا ہے۔

آج سائنس اور ٹکنالوجی مادیت کی علامت بن گئی ہے۔ جب مسلمان سائنس کے بھی امام تھے تو یہ صورت نہ تھی۔ مسلمانوں کو دنیا کی امامت سنبھالنا ہے تو اپنی تہذیب اور اقدار کا علم ہاتھ میں لے کر سائنس کے میدان میں مغرب سے آگے بڑھنا ہوگا۔ مغرب مادیت کے سیلاب میں بہا چلا جا رہا ہے‘ اخلاقی قدریں ختم ہو رہی ہیں‘ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے‘ زندگی سکون سے محروم ہے۔ بدقسمتی سے اس کے عالمی اثرات کے تحت مسلم معاشرے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو سائنس کے میدان میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے‘ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ تہذیب و ثقافت اور اقدار مغرب سے نہ لیں۔ اب تو رابطوں میں اضافے اور آسانی کی وجہ سے ۲۱ ویں صدی کے عالمی گائوں میں ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ زندگی گزارنے کے لیے ہم مسلمانوں کے پاس خالق کائنات کا جو پیغام ہے‘ مغرب اپنے مسائل کا حل اس میں تلاش کرے۔

کینیا: منجیکی رہنمائوں کا قبولِ اسلام

مسلم سجاد

منجیکی فرقے کے ۱۳ رہنمائوں نے کینیا کے وسطی صوبے سے‘ نیروبی سے ۵۰۰ کلومیٹر دور ساحلی شہر ممباسہ آکر اسلام قبول کیا۔ یہاں ائمہ و خطبا کی انجمن نے ان کا استقبال کیا۔ منجیکی تنظیموں کے مرکزی رہنما جن کا نام اب ابراہیم ہے‘ اور بانی رکن محمد جینحا اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اہم صوبائی رہنما اور خاتون رہنما خدیجہ دنگاری‘ سب ہی نعمت ایمان سے مشرف ہوئے۔ اب ہر ہفتے ۱۰۰ سے زائد افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔

کی کی یو میں منجیکی کا مطلب کثرت افراد ہے۔ گروپ بیش تر کی کی یو برادری پر مشتمل ہے‘ تاہم  تائے تا‘ کانجن‘ دودوبو اور دوسرے قبائل کے افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ کل تعداد کا اندازہ ۳ لاکھ ہے۔

منجیکی کہتے ہیں کہ ان کے رسوم و رواج مسلمانوں سے زیادہ مختلف نہیں اور یہ بھی اسلام قبول کرنے کی ایک وجہ ہے۔ کینیا کے مسلمانوں نے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے اسلام کی پیروی کرنے اور اس کا پیغام پھیلانے کی تلقین کی۔ اس فرقے کے لوگوں کو سگریٹ نوشی اور شراب کی ممانعت ہے۔ مغربی لباس کو جسم کے نشیب و فراز ظاہر کرنے کی وجہ سے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے طوائفوں کا لباس سمجھا جاتا ہے۔ پتلون اور منی اسکرٹ اسی لیے ممنوع ہیں۔ یہ لوگ ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرنے اور جن لڑکیوں کی مرد نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہ ہورہی ہو‘ ان سے شادی کرنے کو قابل تحسین قرار دیتے ہیں۔

مسلمان کینیا کی آبادی کا ۲۵‘۳۰ فی صد ہیں۔ قومی سیاست میں اچھا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ دوسرے افریقی ملکوں کی طرح کینیا کا بھی اصل مسئلہ اچھی حکمرانی (گڈگورننس ) ہے۔ مسلمانوں نے ان لوگوں سے اپنے کو علیحدہ رکھا ہے جو انقلاب کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں‘ اس لیے کہ اس سے معاشی اور سیاسی انتشار پیدا ہوگا۔ مسلمانوں نے عموماً صدر ڈینیل موئی کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اس کی جیت مسلمانوں کے ووٹ کی مرہون منت تھی۔ اب دو برس بعد انتخابات ہونا ہیں۔ دستور پر نظرثانی کے عمل نے سیاست دانوں اور کلیسا کے ذمہ داروں دونوں کو بیچ سے تقسیم کر دیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں صدر موئی دوسری پانچ سالہ مدت ختم کریں گے‘ اسی لیے جانشینی کی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

منجیکی کے قبولِ اسلام کے کیااثرات ہوں گے؟ کینیا کے گرجوں کی قومی انجمن (NCCK) اس پر ناخوش ہے اور اس نے اس پر سیکیورٹی رسک کا واویلا شروع کر دیا ہے۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے کہ کیا اس کے پیچھے کوئی مذموم مقاصد ہیں؟ کلیسا کے رہنمائوں نے اپنے پیروکاروں کو منجیکیوں سے دُور رہنے کا انتباہ بھی دیا ہے۔

حکومت سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اوّل: منجیکی قبولِ اسلام کے باوجود بھی کی کی یو ہونے کی وجہ سے صدر موئی کی حمایتی ثابت نہ ہوں گے۔ دوم: بالکل ممکن ہے کہ حکومت کے مخالف مسلمان‘ منجیکیوں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔

مسلم رہنما نہیں چاہتے کہ اس قبولِ اسلام کو سیاسی رنگ دیا جائے۔ وہ حکومت کے حق میں ووٹ دیں‘ یا مخالفت میں‘ اس کا تعلق اس سے نہ جوڑا جائے۔ حکومت کو ضرور یہ چاہیے کہ منجیکی کے بارے میں اپنی پالیسی پر غور کرے۔ گروپ کے لیڈر ابراہیم واوانگے نے حکومت سے یہی بات کہی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ منجیکیوں کی رائے اپنے حق میں استوار کرے (ماخوذ ماہنامہ امپیکٹ‘ لندن‘ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔