بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک کی قیادت، خصوصیت سے نومنتخب قیادت، عوام کی واضح راے اور ان کے جذبات، احساسات اور توقعات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی مؤثر کوشش کرتی ہے، جس میں شخصِ واحد کی حکمرانی کے آٹھ برسوں نے اسے پھنسا دیا ہے تو یہ دن ایک تاریخی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عوام کی راے اور سوچ دراصل ہے کیا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی سوچ اور رجحان کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور ان انتخائی نتائج کا گہری نظر سے تجزیہ کرکے اس پیغام کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے جو عوام نے دیا ہے۔ ایک اور پہلو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ انسانی معاملات میں مشیت الٰہی کے بنیادی قوانین کی کارفرمائی ہے۔ انسان اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر: ’’اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔ حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں نے کیا نقشہ بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس نقشے کو درہم برہم کردیا اور ایک دوسرا ہی نقشہ سب کے سامنے آگیا___ اگر اب بھی یہ قوم اور اس کی قیادت غیبی اشاروں کی روشنی میں نئے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتی اور واضح امکانات کے حصول میں کوتاہی کرتی ہے تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ پورا انتخابی عمل (process) پہلے دن سے خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کا اعتراف اور ادراک بھی بڑے پیمانے پر ہوچلا تھا۔ عالمی مبصرین ہوں یا حقوقِ انسانی کی ملکی اور غیرملکی تنظیمیں، سب نے اعتراف کیا ہے کہ عدلیہ کی برخاستگی، میڈیا پر پابندیاں، الیکشن کمیشن کا جانب دارانہ کردار، من پسند عبوری حکومت کی تشکیل، ووٹوں کی فہرستوں میں گڑبڑ، انتظامی عملے کا تعین اور تبادلے، مقامی حکومتوں کی کارگزاریاں، غرض ہرپہلو سے کچھ خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن بڑے پیمانے پر کُھل کھیلنے کا پورا پورا اہتمام تھا، مگر مختلف وجوہ سے اس کھیل کے آخری مرحلے میں بازی پلٹ گئی اور چند مقامات (خصوصیت سے کراچی اور بلوچستان وغیرہ میں مخصوص نشستیں) کے سوا نقشہ بدل گیا اور عوام نے اس انداز میں اپنی راے کا اظہار کیا کہ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لیکن ناسپاسی ہوگی اگر ریکارڈ کی خاطر ان اسباب اور عوامل کا تذکرہ نہ کیا جائے جو کھیل کو اُلٹ پلٹ کرنے کا ذریعہ بنے۔
ا- کُل جماعتی جمہوری اتحاد نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا اور انتخابی عمل کے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اس کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی کا ایشو مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اس مسئلے کو اس حد تک اٹھایا کہ دھاندلی کی صورت میں ۱۹فروری سے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس دبائو کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ب- بیرونی مبصرین اور صحافیوں کی موجودگی اور میڈیا کا فوکس جس میں یہ دبائو روز بہ روز بڑھتا رہا کہ انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر دھاندلی ناقابلِ برداشت ہوگی۔ حکومتی، صحافتی اور عوامی سطح پر اس عالمی دبائو نے بھی اپنا اثر ڈالا۔
ج- فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان کہ انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں اور فوج صرف امن و امان میں مدد کے لیے موجود رہے گی۔
د- قواعد میں یہ تبدیلی کہ انتخابی نتائج ریٹرنگ افسر سیاسی نمایندوں کی موجودگی میں مرتب کریں گے اور ان کی تصدیق شدہ کاپی پولنگ اسٹیشن پر ہی امیدوار کے نمایندوں کو دے دی جائے گی، تاکہ انتخابی نتائج کو تبدیل نہ کیا جاسکے۔
ان چاروں عوامل کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ’انتخابی انجینیری‘ (engineering)اور ’قبل از انتخاب دھاندلی‘ کے باب میں جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن انتخابات کے روز دھاندلی میں بیش تر مقامات پر نمایاں فرق پڑا۔
دوسرا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عوام نے جس راے کا اظہار کیا ہے اور جس شدت سے کیا ہے، وہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں، اس پر ہم ذرا تفصیل سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ملک اور ملک سے باہر اس امر کا اعتراف توسب کر رہے ہیں کہ یہ انتخاب عملاً پرویز مشرف، ان کی حکومت (اعوان و انصار) اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے تمام ہی اخبارات اور نیوز چینلوں نے بالاتفاق اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قوم کی جس راے کا اظہار گذشتہ ایک سال سے راے عامہ کے جائزوں کی صورت میں ہورہا تھا، انتخابات کے ذریعے عوام نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی اور ثابت ہوگیا کہ ملک کے ۸۲ فی صد عوام نے پرویز مشرف کی صدارت اور ان کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو رد کردیا ہے اور تمام بے قاعدگیوں، سرکاری سرپرستی اور جزوی دھاندلیوں کے باوجود صرف ۱۸ فی صد آبادی نے ان لوگوں کی تائید کی ہے جو مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ نیز صدرمشرف کی کابینہ کے ۲۳ وزرا اورمسلم لیگ (ق) کے صدر سمیت سب کے تاج زمیں بوس کردیے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے حتمی طور پر مسترد کرنا کہتے ہیں۔
یہی وہ کیفیت ہے جس کا اعتراف نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے الیکشن کے بعد اپنے نمایندوں کی رپورٹوں کے علاوہ اپنے ادارتی کالموں میں بھی کیا ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ (verdict )ہے اور مشرف کو نوشتۂ دیوار کو پڑھنے کامشورہ دیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ان کے صدارتی مینڈیٹ کو غیرآئینی (illegitmate) قرار دیا ہے: ’’انھوں نے سابق جرنیل کو بھاری اکثریت سے مسترد کرنے کا پیغام دیا ہے‘‘۔
یہی بات انگلستان کے اخبارات خصوصیت سے دی ٹائمز، دی گارجین اور دی انڈی پنڈنٹ نے لکھی۔ ان سب کا پیغام ایک ہی ہے، جسے دی انڈی پنڈنٹ نے ۲۱فروری کے اداریے کے الفاظ میں بیان کیا ہے:
پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ کثیرجماعتی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی طرف واپسی ہے۔ پاکستان کے گذشتہ عشرے نے اگر کوئی سبق سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ آمریت انتہاپسندی کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کونشوونما دیتی ہے۔ فوجی حکومت استحکام کا صرف ایک فریب فراہم کرتی ہے۔ ہمارے مفاد میں ہے کہ یہ پاکستان میں واپس نہ آئے۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۱ فروری ۲۰۰۸ئ)
پاکستان میں ووٹرز نے اس ہفتے صدر پرویز مشرف کو ایک سراسیمہ کردینے والی شکست سے دوچار کردیا، اور اس طرح اس خطرناک ملک میں جمہوری حکومت کو بحال کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ درحقیقت پیر کے پاکستان کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے صدر جارج بش تھے۔ (نیوزڈے، ۲۲فروری ۲۰۰۸ئ)
امریکا اور یورپ کے اخبارات اور سیاسی مبصرین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی چالیں تجویز کی ہیں جو اس تحریر میں زیربحث نہیں، البتہ جو بات ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو ملک اور ملک سے باہر پرویزمشرف، ان کے سیاسی طرف داروں اور ان کے بین الاقوامی پشتی بانوں اور ان کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت کی طرف سے مکمل برأت کا اظہار سمجھا گیا ہے۔ اس نوشتۂ دیوار کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا عقل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، چودھری امیرحسین، شیخ رشیداحمد، اعجازالحق بھی کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پرویزمشرف کی پالیسیاں خصوصیت سے لال مسجد کا خونی المیہ، امریکا کی اندھی اطاعت، بلوچستان اور وزیرستان کی فوج کشی، آٹے، چینی اور بجلی کا بحران لے ڈوبے۔
پرویز مشرف حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش پر قائم ہیں اور جس نفسیاتی کیفیت کا مظاہرہ کررہے ہیں،وہ انتہائی خطرناک ہے۔ شاید یہ ان کی شخصیت کا خاصّہ ہے اس لیے کہ اپنی خودنوشت میں اپنے بچپن کا جو نقشہ خود انھوں نے کھینچا ہے، اس میں وہ ایک ’داداگیر‘ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انھیں قوت کے جا وبے جا استعمال کا شوق ہے اور اس کھیل کو وہ اپنی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دوسروں کی تحقیر و تضحیک میں ان کو لطف آتا ہے۔ ان کے اس ذہن کی عکاسی اس انٹرویو تک میں دیکھی جاسکتی ہے جو الیکشن سے صرف تین دن پہلے انھوں نے جمائما خان کو دیا ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی اصل شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہے۔ اس انٹرویو میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جن سیاسی لیڈروں کو وہ کرپٹ اور قوم کو لوٹنے والا کہتے تھے اور جن پر گرفت اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرکے وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے، ان کو معافی دینے، ان سے سمجھوتہ کرنے اور ان کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کے لیے وہ آمادہ ہوئے تھے اور یہ صرف انھوں نے امریکا اور برطانیہ کے دبائو میں اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے کیا ہے۔
اس انٹرویو میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے بارے میں اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے اور ساتھ ہی انھوں نے راے عامہ کے سارے جائزوں کا مذاق اڑایا تھا اور پورے میڈیا کی راے پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی فرمایا کہ یہ سب میرے مخالف ہیں۔ اگر کوئی ان کا دوست ہے اور ان کے خلاف نہیں وہ مغربی اقوام کے لیڈر ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے، جمائما لکھتی ہیں:
درحقیقت ان کے مطابق جو لوگ ان کے مخالف نہیں ہیں، وہ صرف مغربی لیڈر ہیں جو مکمل طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی پرویزمشرف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ انھیں اپنی ناکامی کا کوئی احساس ہے۔ اب بھی وہ امریکا کی بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں، جس کا بین ثبوت وہ مضمون ہے جو موصوف نے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے۔ اس مختصر مضمون کو پڑھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ اس مظلوم ملک کے حکمرانوں کی سوچ کی سطح کس قدر پست ہے۔
مضمون کا عنوان ہے: A Milestone on The Road to Democracy لیکن اس مضمون میں انتخابات کا جو پیغام خود حضرت کے لیے ہے اس کا کوئی شعور اور احساس ہی نہیں بلکہ اس ہٹ دھرمی کا اظہار ہے کہ وہ صدر رہیں گے اور اپنے تین مقاصد، یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے استحکام اورمعاشی ترقی کے تحفظ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نئی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اس مضمون کا اصل مقصد امریکا کی تائید حاصل کرنا اور اپنے اور امریکا کے مقاصد کی ہم آہنگی کا اظہار ہے:’’لیکن ہماری کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہے‘‘۔
نہ کوئی خود احتسابی ہے، نہ عوام کے فیصلے کا کوئی احساس یا شعور ہے، نہ اپنی ناکامیوں کا کوئی ادراک ہے اور جس بیرونی مداخلت، قومی حاکمیت اور غیرت کی قربانی کے خلاف قوم اُٹھ کھڑی ہوئی اسی غلامی کو مستحکم کرنے اور اس میں امریکا کی مدد حاصل کرنے کی بھیک اس مضمون میں مانگی گئی ہے۔ خود فوج کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے جو ان کے ذہن کا غماض ہے:
ہماری مسلح افواج پُرعزم ہیں، پیشہ ور ہیں اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور سیاسی نظام کو برقرار رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
افواجِ پاکستان کی ذمہ داری، وطن کا دفاع اور امن عامہ کے قیام میں اس وقت معاونت ہے کہ جب دستور کے تحت سیاسی قیادت اس کو طلب کرے۔ سیاسی نظام کا تحفظ نہ فوج کی ذمہ داری ہے اور نہ فوج اس کی اہل ہے، بلکہ وہ تو سیاست میں کسی صورت میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کرتی ہے، اس کی محافظ کیسے ہوسکتی ہے لیکن پرویز مشرف آج بھی اسے سیاسی نظام کا ضامن قرار دے رہے ہیں۔
اس مضمون کا مرکزی موضوع بھی وہی ہے جو امریکی صدر بش کا پسندیدہ مضمون ہے، یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ۔ حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ فوج کی بے جا مداخلت، شخصی حکمرانی کا عفریت، انصاف کا فقدان، عدالت پر جرنیلی یلغار، معاشی ناانصافی، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ علاقائی ناہمواریاں اور مرکز اور صوبوں میں تصادم کی کیفیت اور فوجی قوت کا اپنی ہی آبادی کے خلاف استعمال ہے۔ الیکشن کا اصل ایشو اور حاصل مشرف بش کے ایجنڈے کو مسترد کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزڈے نے ادارتی کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۸فروری کے انتخابات میں صدر پرویز مشرف ہی نہیں جارج بش بھی شکست کھا گئے ہیں۔
اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے اور انتخابات کے نتائج کا تقاضا ہے کہ پرویز مشرف اپنی شکست تسلیم کریں اور سیدھے سیدھے استعفا دیں۔ نیز ان کی جن پالیسیوں کے خلاف عوام نے اپنے فیصلے کا اظہار کر دیا ہے ان پر بھی بنیادی طور پر نظرثانی ہو، جس میں اہم ترین یہ ہیں:
۱- پاکستانی عوام شخصی آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور وہ حقیقی جمہوری نظام کے قیام کے داعی اور طرف دار ہیں۔ پرویز مشرف نے جو طرزِ حکمرانی اختیار کیا وہ ناقابلِ قبول ہے۔ مشرف کے ساتھ ان کا دیا ہوا نظام، پالیسیاں اور ان کا اندازِ کار عوام نے رد کردیا ہے۔آئی آر آئی اور گیلپ دونوں کے سروے بھی عوام کے اس رجحان کے عکاس ہیں، یعنی ۶۹ فی صد نے کہا کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور ۷۵ فی صد نے کہا کہ مشرف استعفا دے دیں۔
۲- الیکشن میں بنیادی ایشو چیف جسٹس اور عدالت عالیہ کی بحالی اور نظامِ عدل کو اس کی اصل دستوری بنیادوں پر مرتب اور مستحکم کرنا ہے۔ یہ تحریک ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہوئی ہے اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو قوم نے اس تحریک کی تائید کرکے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ہمیں یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ جن جماعتوں کو عوام نے جتنا بھی مینڈیٹ دیا ہے، وہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی اور بحالی کے حق میں اور پرویز مشرف کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حق میں تائیدی لہر کی اصل کارساز قوت یہی ہے ___ ایک مغربی صحافی نے درست لکھا ہے کہ: ’’اصل ووٹنگ تو دو ناموں پر ہوئی ہے، حالانکہ وہ بیلٹ پیپر پر لکھے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن اصل انتخاب انھی کے درمیان تھا، یعنی ’چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری‘ اور ’صدر پرویز مشرف‘۔ عوام کی بھاری اکثریت نے جسٹس افتخارمحمد چودھری کی تائید کی اور پرویزمشرف کا پتا. ّ کاٹ دیا‘‘۔ یوں عدالت کی بحالی اور آزادی ہی اس بحث کا اصل عنوان ہے اور دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اس کا اصل مقصد اور محور ہے۔
۳- تیسرا بنیادی ایشو جو ان انتخابات میں زیربحث آیا ہے اس کا تعلق اس شرمناک صورتِ حال سے ہے جو امریکا کی بالادستی اور ملک پر کھلی اور خفی مداخلت سے پیدا ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے اب ہماری آزادی اور حاکمیت ہی خطرے میں ہے۔ چند بلین ڈالروں کے عوض پاکستانی افواج کو عملاً امریکا کے لیے کرائے کا لشکر (mercenary) بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی نام نہاد جنگ میں ہم نے اپنے کو آلودہ کرلیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے حالانکہ اس جنگ میں شرکت سے پہلے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ راے عامہ کے ایک عالمی ادارے کے جائزے کی رو سے عوام کی نگاہ میں اہم ترین مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ ۵۵ فی صد افراد مہنگائی کو اور ۱۵ فی صد بے روزگاری کو اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں، جب کہ تمام زوردار پروپیگنڈے کے باوجود دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔
تفصیل میں جائے بغیر ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب امریکا کا عمل دخل ہماری پالیسی سازی، ہماری سرحدوں کی بے حرمتی، ہماری سرزمین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے اور پاکستان کی قیادت کی تلاش اور سیاسی جوڑ توڑ کی سرگرمیوں تک میں ہے۔ ان انتخابی نتائج نے پرویز مشرف کے اس غلامانہ رویے، خوف اور دبائو کے تحت رونما ہونے والے دروبست کو تبدیل کرنے اور پوری خارجہ پالیسی کو درست سمت دینے کا پیغام دیا ہے۔ اس انتخاب کے ذریعے عوام نے پوری قوت کے ساتھ پاکستانی قوم کے امریکی جنگ کا حصہ بننے سے اپنی براء ت کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ اپنے مسائل کو اپنی اقدار اور روایات کے مطابق حل کریں اور دوسروں کی جنگ میں حرام موت مرنے کا راستہ اختیار نہ کریں۔
۴- قوم پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے بھی نالاں ہے۔ نمایشی ترقی اور اس کے ڈھول پیٹنے سے کچھ عرصے تک تو عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن جب مغرب کے سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں کے تلخ نتائج لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو پھر پروپیگنڈے کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ توانائی کا میدان ہو یا زرعی پیداوار کا، صنعت و حرفت کا مسئلہ ہو یا تجارتی اور ادایگی کے توازن کا، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا مسئلہ ہو یا اشیاے ضرورت کی قیمتوں کا، قرضوں کا بوجھ ہو یا افراطِ زر کے مسائل، دولت کی عدمِ مساوات کی بات ہو یا صوبوں اور علاقوں کے درمیان تفاوت کی کش مکش___ غرض ہر پہلو سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں، کم نہیں ہوئیں اور جن ’کارناموں‘ کا شور تھا وہ سب ایک ایک کر کے پادر ہوا ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بار ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور غربت کم ہونے کو نہیں آرہی۔ تجارتی خسارہ اب ۱۸ ارب ڈالر سالانہ کی حدوں کو چھو رہا ہے اور جن بیرونی ذخائر کی دھوم تھی اب ان کے لالے پڑگئے ہیں۔
۵- بھارت کے تعلقات کا ڈھول تو بہت پیٹا گیا مگر حاصل کچھ نہیں ہوا، البتہ قیمت بہت بڑی ادا کی گئی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کی تبدیلی کے نتیجے میں کشمیری عوام مایوس ہوئے ہیں اور تحریکِ مزاحمت کمزور پڑگئی ہے۔ مشرف کی افغانستان کی پالیسی بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے اشارے اور اُمت مسلمہ کے مسائل سے بے توجہی اس دور کا شعار رہی ہے۔ جس طرح امریکا سے تعلقات کے مسئلے اور خارجہ پالیسی پر قوم نے نظرثانی اور بنیادی تبدیلیوں کی خواہش کا اظہار کیا ہے اسی طرح خارجہ سیاست کے دوسرے پہلو بھی نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی وحدت ہی پاکستان اور تمام مسلم ممالک کی قوت ہے۔
۶- نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایک طرف قوم میں نظریاتی کش مکش اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف دینی احکام، اقدار اور آداب سے روگردانی، سیکولرزم کے فروغ کی کوشش اور مغربی تہذیب و ثقافت اور ہندوکلچر کو عام کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی انتشار رونما ہوا ہے۔
۷- صوبائی حقوق کی پامالی، صوبوں کو ان وسائل سے محروم رکھنا جو ان کا حق اور ان میں پائے جانے والے معاشی ذخائر کا حاصل ہیں، نیز علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں اور گروہوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے جن کا سب سے بڑا نقصان ملک میں مرکز اور صوبوں کے درمیان فاصلوں کا بڑھنا ہے۔
یہ وہ سات بڑے بڑے پالیسی ایشوز ہیں، جن پر انتخابات میں قوم نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے اور اب سیاسی قیادت کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کی دی ہوئی پالیسیوں کو کس طرح تبدیل کریں، تاکہ ملک و قوم ان مقاصد کی طرف پیش رفت کرسکیں جن کے قیام کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔
انتخابی نتائج کا بنیادی پیغام تو یہی ہے البتہ ان بنیادی پہلوئوں کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ جہاں عوام نے پرویزمشرف، ان کے ساتھیوں، ان کے بیرونی سرپرستوں اور ان کی ملکی پالیسیوں کو رد کیا ہے ، وہاں انھوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو حکمرانی کا مکمل اختیار (مینڈیٹ) نہیں دیا، بلکہ دو بڑی جماعتوں کو اس طرح کامیاب کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم سیاسی دروبست قائم نہیں کرسکتیں۔ ہماری نگاہ میں اس کی حکمت یہ ہے کہ عوام نے ان جماعتوں کے منشور کی اس طرح تائید نہیں کی جس طرح عام سیاسی ماحول میں کسی ایک رخ کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس منقسم اختیار (split mandate) کا تقاضا یہ ہے کہ تمام جماعتیں مل کر پہلے اس بگاڑ کی اصلاح کریں، جو پچھلے آٹھ برسوں میں واقع ہوا ہے۔اس کے ساتھ منشوروں کے مشترک نکات پر کام ہو، تاکہ بنیادی آئینی اصلاحات کے بعد پھر قوم کی طرف رجوع ممکن ہو تاکہ وہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی پالیسیوں کی روشنی میں حکمرانی کا نیا مینڈیٹ دے سکیں۔
یہ ایک عبوری دور ہے، اور اس دور میں زیادہ سے زیادہ قومی مفاہمت پیدا کرنے اور مشترکات کے حصول کو اصل ہدف بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس منقسم حق حکمرانی سے عوام کی راے کا یہی رخ ظاہر ہوتا ہے۔ مشرف دور کی بدانتظامی، بے اعتدالی اور لاقانونیت کی اصلاح اور مستقبل میں منصفانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کے نظام کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اسی طرح دستور کی روشنی میں فوج کے صرف دفاعی کردار کو مستحکم بنانا اور خارجہ پالیسی کی ملّی اُمنگوں کے مطابق تشکیل نو ہے۔اس ایجنڈے پر عمل کرنے میں نئی اسمبلیوں اور سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہے۔ ہماری توقع اور دعا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیاں اصل توجہ ان ترجیحات پر دیں گی جو عوام کے اس مینڈیٹ کا حاصل ہیں۔ خود ان کو بھی اس کا کچھ ادراک ہے جس کا اظہار میثاقِ جمہوریت کی متعدد دفعات سے ہوتا ہے۔ نئی قیادت کی اصل ذمہ داری ملک میں عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کے قیام، آزادیوں کے تحفظ اور فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ اور عوام کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی میں ان کا امتحان ہے اور جو وقت ان کو حاصل ہے وہ بھی کم ہے۔
ان انتخابی نتائج کے حصول میں عوام، تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف اور ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کُل جماعتی جمہوری اتحاد (APDM) نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان جماعتوں نے اصولی بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اور اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کی قربانی دے کر جو قومی خدمت انجام دی ہے اس کا اظہار اور اعتراف ضروری ہے۔
ہم نے جو طرز فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیض، گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے
ملک کی سیاست میں اصولوں کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد اور اشتراکِ عمل کی یہ ایک زریں مثال قائم ہوئی ہے، جس سے ہماری سیاست پر مستقل اور دُور رس اثرات مرتب ہوںگے۔
یہاں ہم ایک مسئلے پر مزید کلام کرنا چاہتے ہیں، جس کا تعلق اس سطحی بحث سے ہے جو ملک کے نام نہاد، لبرل اہلِ قلم اور خصوصیت سے بیرون ملک صحافی اور تھنک ٹینک کر رہے ہیں، اور وہ یہ کہ: ’’ان انتخابات میں دینی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور لبرل اور سیکولر جماعتیں نئی طاقت کے ساتھ اُبھری ہیں‘‘۔ یہ ساری بحث ایک خاص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور زمینی حقائق کو یکسرنظرانداز کرکے مفیدمطلب نتائج نکالے جارہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جماعت نے سیکولرزم کواپنے منشور میں بطور ہدف کے پیش نہیں کیا۔ سب نے پاکستان کے دستور پر حلف لیا ہے اور اس دستور کی بالادستی قائم کرنے کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے اور یہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے۔ قرارداد مقاصد اس کا دیباچہ ہی نہیں، ایک قابلِ نفاذ (operational ) حصہ ہے۔ دستور میں اس ریاست کا ہدف قرآن وسنت کی بالادستی اور اسلام کے دیے ہوئے احکام و اقدار کے مطابق نظامِ حکومت کو چلانا قرار دیا گیا ہے اور یہی ریاست کے بنیادی اصولِ حکمرانی قرار پائے ہیں۔ بلاشبہہ ہرجماعت کا حق ہے کہ اس اسلامی فریم ورک میں اپنی سوچ کے مطابق اپنی ترجیحات اوران کے حصول کے لیے پروگرام کا اعلان کرے۔ لیکن اسے سیکولرزم اور لبرلزم اور اسلام کے درمیان انتخاب کی شکل دینا صرف خلط مبحث ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور کا بھی پہلا نکتہ یہی ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلامی نظریۂ حیات ہی کو اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملنے سے محض لبرلزم اور سیکولرزم کی فتح اور دینی قوتوں کی شکست ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی چیز مسترد ہوئی ہے تو وہ پرویز مشرف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) ہے، جو روشن خیالی اور نام نہاد ’جدیدیت‘ کی خودساختہ علَم بردار تھی۔ یہ عجیب دعویٰ ہے کہ پرویزمشرف کو تو قوم نے ردکردیا مگر ان کے لبرلزم اور روشن خیالی کو رد نہیں کیا، یہ تضاد نہیں تو کیا ہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ دین اور دنیا اور مذہب اور سیاست کے رشتے کے اسلامی تصور اور مغربی تصور کو گڈمڈ کیا جا رہا ہے۔ مغرب کے لبرلزم میں الہامی ہدایت اور مذہبی اقدار واحکام کا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کا کوئی رول نہیں، جب کہ اسلام انسان کی پوری زندگی کو الہامی ہدایت کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ شریعت کے معنی محض مغربی اصطلاح میں قانون کے نہیں، جس کے نفاذ کا انحصار ریاست کی قوت قاہرہ پر ہوتا ہے، بلکہ وہ پوری زندگی کے لیے ہدایت پر مشتمل ہے۔ وہ شریعت جو عقیدہ اور عبادات کے ساتھ انفرادی، خاندانی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی زندگی کے لیے بھی رہنمائی دیتی ہے۔ اس رہنمائی کے بڑے حصے پر عمل فرد اور معاشرہ کسی ریاستی قوت کے استعمال کے بغیر کرتا ہے، تاہم اس شریعت کا ایک حصہ وہ بھی ہے جس کے لیے ریاستی قوت اور عدالت کا نظام کام کرتا ہے۔ مسلمان پوری دنیا میں اپنے مذہب اور دین کو زندگی میں مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کو بھی شریعت کے نور سے منور کرنا چاہتے ہیں۔
راے عامہ کے وہی جائزے جو سیاسی پسند و ناپسند کے بارے میں ہوا کے رخ کو ظاہر کرتے ہیں، وہی زندگی کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جن کا خلاصہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب Voice of the People 2006 میں دیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں ۸۴ فی صد اپنے کو مذہبی قرار دیتے ہیں۔ گیلپ ہی نے اپنے ایک دوسرے سروے میں Gallup World Poll: Special Report on Muslim World کی سیریز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان کے سروے کے مطابق آبادی کے ۴۱ فی صد نے یہ کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شریعت ملکی قانون کا واحد سرچشمہ(only source) ہو، جب کہ مزید ۲۷فی صد نے کہا ہے کہ شریعت کو ایک سرچشمہ (one of the sources) ہونا چاہیے، اور شریعت کو قانونی ماخذ کے طور پر ضروری نہ سمجھنے والوں کی تعداد صرف ۶فی صد ہے۔ سروے کے مصنف لکھتے ہیں:
ہمارے مطالعے سے ظاہر ہونے والا ایک سب سے زیادہ واضح امر وہ غیرمعمولی اہمیت ہے جو مسلمان اپنے دین کو دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی رہنمائی کے لیے بھی اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی ترقی کے لیے بھی۔ اس سے بھی زیادہ (ہمارے لیے تعجب انگیز بات یہ تھی کہ) مسلمان خواتین اس بات سے متفق نظرآتی ہیں کہ پبلک پالیسی اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں طے ہونا چاہیے۔
یہ ہیں اصل زمینی حقائق___ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ مذہبی ووٹ اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ ایک چیز نہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت زندگی کے اجتماعی معاملات بشمول قانون، دین کی رہنمائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت پر انتخابی نتائج کی سیاسی تقسیم سے پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔
چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ کے بارے میں بھی جو دعوے کیے جاتے ہیں، وہ مناسب تحقیق کے بغیر اور تمام ضروری معلومات کو حاصل کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ماضی میں دینی جماعتوں کو ۲ سے ۵ فی صد تک ووٹ ملتا تھا حالانکہ یہ صریحاً غلط بیانی ہے۔ مثلاً ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں تین دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کُل ووٹوں کا تقریباً ۱۵ فی صد تھے۔ کراچی میں ۱۹۷۰ء میں مذہبی جماعتوں کا کُل ووٹ ۴۵ فی صد تھا۔ صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب ۱۹۷۰ء میں ۳۳ فی صد تھا۔ ۱۹۸۸ء ۱۹۹۰ء میں صرف جمعیت علماے اسلام نے شرکت کی تھی، جب کہ جماعت اسلامی آئی جے آئی کا حصہ تھے۔ تب صرف جمعیت علماے اسلام کے ووٹ ۱۹۸۸ء میں ۱۱ فی صد اور ۱۹۹۰ء میں ۲۰ فی صد تھے۔ ۱۹۹۳ء میں کُل ووٹ جو دینی جماعتوں نے حاصل کیے ۲۴ فی صد تھے، جو ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں کُل صوبے کے ووٹوں کا ۴۵ فی صد تھا۔ (ملاحظہ ہو، گیلپ پاکستان کی رپورٹ، The Story of 8 Elections and the Calculus of Electoral Politics in Pakistan During 1970-2008)
کُل پاکستانی سطح پر یہ تناسب نکالنے میں مختلف دقتیں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے، کہ دوسری بڑی جماعتیں پاکستان کی بیش تر نشستوں پر امیدوار کھڑے کرتی ہیں، جب کہ دینی جماعتوںنے بالعموم ایک محدود تعداد میں امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اس طرح پورے ملک میں ان کا ووٹ اس انتخابی گنتی میں شامل نہیں ہوپاتا۔
پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شرکت نہیں کی۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ عوام نے اس کو ووٹ نہیں دیے۔ عملاً متحدہ مجلس عمل کی صرف ایک جماعت، یعنی جمعیت علماے اسلام (ف)نے حصہ لیا، اور بلاشبہہ اسے ۲۰۰۲ء بلکہ اس سے پہلے کے ادوار کے مقابلے میں بھی کم ووٹ ملے۔ مگر اس کی بڑی وجہ من جملہ دوسری وجوہ کے یہ ہے کہ راے دہندگان نے جے یو آئی (ف) کو مشرف انتظامیہ سے منسلک سمجھا اور اسے مشرف کے بلوچستان آپریشن اور اکبربگٹی کے قتل پر اس کی طرف سے کسی بڑے عملی اقدام سے احتراز، نیز اسمبلیوں سے استعفے، سرحداسمبلی کے تحلیل کرنے میں تاخیر، بلوچستان میں ق لیگ کے ساتھ شرکت اقتدار وغیرہ کی وجہ سے پرویز مشرف سے قرب کی قیمت اداکرنا پڑی۔ بلاشبہہ اس نے بائیکاٹ میں شرکت نہ کرکے یہ نقصان اٹھایا، اور اس کی الیکشن میں شرکت کا رشتہ برسرِاقتدار قوتوں (establishment) سے اس کے تعلق سے جوڑا گیا۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن عملاً دوسری وجوہ کے ساتھ اسے زیادہ نقصان اس مسخ شدہ تصور کے باعث ہوا۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس پہلو کا کھلے بندوں اظہار کر رہے ہیں۔ مثلاً معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی، ایم ایم اے کی حکومت کی ناکامی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
ایم ایم اے کی صفوں میں غیرمعمولی انتشار کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں میں مایوسی کی کیفیت تھی۔ راے دہندگان صدر جنرل مشرف کے تمام اتحادیوں کو سزا دینا چاہتے تھے اور ایم ایم اے کو بھی کچھ سبق سکھایا، کیونکہ انھوں نے ان دستوری ترامیم کو آسان بنانے میں کردار ادا کیا جن سے فوجی آمر کو نجات ملی اور اس کے تمام افعال کو تحفظ ملا۔ اس کے ایک حصے جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ (دی نیوز ، ’نیوفرنٹیئر‘ رحیم اللہ یوسف زئی، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ، اسپیشل رپورٹ، ص ۳۳)
رحیم اللہ یوسف زئی دی نیوز میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں اس بات کا دوٹوک انداز میں یوں اظہار کرتے ہیں:
ایم ایم اے جو درحقیقت جماعت اسلامی کے انتخابات سے بائیکاٹ کے بعد صرف مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) ہوکر رہ گئی تھی، اسے مشرف کا ساتھ دینے اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وعدوں کو پورا نہ کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)
جے یو آئی (ف) کو مشرف کی بالواسطہ تائید کی وجہ سے عوامی راے دہندگان کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کے متنازع کردار اور صدارتی انتخاب سے پہلے ۶اکتوبر ۲۰۰۷ء کو سرحداسمبلی کی تحلیل کے مسئلے کی وجہ سے اسے ووٹوں اور عوام میں اپنے مقام کے حوالے سے مہنگی قیمت ادا کرنا پڑی۔ (ڈان، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ)
یہ صرف چند تبصرہ نگاروں کی راے نہیں، عام تاثر اور ووٹروں کی بڑی تعداد کا یہی احساس تھا اور لفظی تاویلوں اورقانونی موشگافیوں سے اسے فرو نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں جے یو آئی (ف) کے ووٹوں اور سیٹوں کی کمی کو دینی جماعتوں سے نااُمیدی، اور ان کے صفایا کے دعوے کرنا، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی انتخابی سیاست میں مختلف انتخابات میں ووٹوں میں زیادتی اور کمی سے ہرجماعت کو گزرنا پڑتا ہے اور کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر ایسا فتویٰ دینے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ خود پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کا ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں ۳۹ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۲۲ فی صد رہ گیا تھا۔ اسی طرح تمام مسلم لیگوں کا مجموعی ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں صرف ۲۳ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۴۶ فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ اے این پی ہر انتخاب میں ایسے ہی نشیب و فراز کا تجربہ کرتی رہی ہے۔دنیا کے دوسرے ممالک کے تجربات بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس لیے کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر اس طرح کے فتوے دینا علمی اعتبار سے بہت کمزور بات ہے۔
بات صرف جے یو آئی (ف) کے اس امیج اور اس کے نقصانات ہی کی نہیں۔ جہاں بھی ووٹرز نے عدلیہ کے معاملے میں اور پرویز مشرف کے لیے نرم گوشے کا احساس پایا ہے ضرور سزا دی ہے۔ مشہور قانون دان بابر ستار دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وکلا کے بائیکاٹ کا احترام نہ کرنے والے وکلا کا کیا انجام ہوا،لکھتے ہیں کہ جب خود پی پی پی کے ایم این اے زمردخاں نے جو چیف جسٹس کی تحریک میں پیش پیش تھے اور اعتزاز احسن کے ساتھ چیف جسٹس کی گاڑی کے ڈرائیور تک کی خدمت انجام دے رہے تھے وکلا کے فیصلے کے خلاف انتخاب میں شرکت کی تو وہ قومی اسمبلی پر اپنی سیٹ باقی نہ رکھ سکے (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)۔ اس عوامی رو کو جو نہ سمجھ سکا اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔
آخر میں ہم یہ صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی پوری سیاسی قیادت کا امتحان ہے اور اے پی ڈی ایم کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس نے قربانی دے کر ملک کی سیاست کو صحیح ایشوز سے روشناس کرایا ہے، اسی طرح نئے حالات میں ان اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر نومنتخب جماعتیں ان مقاصد کے لیے کام کرنے کی نیت اور جذبہ دکھاتی ہیں تو تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو ان سے تعاون اور ان مقاصد کے حصول کو آسان بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر مناسب موقع دینے کے بعد بھی یہ اس سلسلے میں پس و پیش دکھاتی ہیں تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ پُرامن جمہوری اور عوامی دبائو کے ذریعے انھیں عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے پر مجبور کریں۔ ججوں، وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن سب کا ہدف اور منزل ایک ہے اور وہ حقیقی جمہوریت کا قیام ہے جس کے مقاصد یہ ہونے چاہییں:
۱۸ فروری کے انتخابات میں قوم نے ایک لڑائی میں فتح پائی ہے، مگر یہ جدوجہد ابھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور دستور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مؤثر پیش رفت نہیں ہوتی۔ ۱۸فروری کے نتائج نے ایک نئی صبح کے طلوع کے امکانات کو روشن کردیا ہے لیکن یہ صبح اسی وقت ہماری قومی زندگی کو روشن کرسکے گی جب اس کے استقبال کے لیے قوم اس طرح کوشش نہ کرے جس طرح ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے رات کی تاریکی کو ختم کرنے کے لیے کرر ہی ہے۔ ابھی منزل کی طرف صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ منزل ابھی دُور ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کی دعوت دے رہی ہے۔ فرد ہو یا قوم جدوجہد اور سعی مسلسل کے بغیر وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔
وَاَنْ لَّـیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَـا سَعٰیo وَاَنَّ سَـعْیَہُ سَوْفَ یُـرٰیo (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے، اور یہ کہ اُس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔
ہم مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے رہنما ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہیں۔ بظاہر یہ بہت بڑی بات ہے جوکسی انسان کے متعلق کہی جاسکتی ہے مگر جس بلندپایۂ ہستی کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے، اس کا کارنامہ واقعی ایسا ہے کہ اس کے لیے یہ قول مُبالغہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔
دنیا کے رہنما میں اولین صفت یہ ہونی چاہیے کہ اس نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہو۔ ساری قوموں کے انسان کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں، جب کہ اس کی نگاہ میں سب قومیں اور سب انسان یکساں ہوں۔ وہ سب کا خیرخواہ ہو اور اپنی رہنمائی میں کسی طرح ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یہ صفت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ آپؐ کی زندگی کسی قوم پرست یا وطن پرست کی زندگی نہ تھی بلکہ ایک محبِّ انسانیت کی زندگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے عہد میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری اور اسرائیلی اُسی طرح آپؐ کے رفیق کار بلکہ جاں نثار بنے جس طرح عرب۔ آپؐ کے بعد بھی دنیا کے ہر ملک اور ہرنسل کے لوگ آپؐ کے متبعین میں شامل ہوتے چلے گئے اور مل کر ایک ملّت بن گئے۔
دوسری اہم صفت رہنماے عالم میں یہ ہونی چاہیے کہ اس کے پیش کردہ اُصول عالم گیر اور ہمہ گیر ہوں، تمام دنیا کے انسانوں کی یکساں رہنمائی کرتے ہوں، اور ان میں انسانی زندگی کے تمام اہم مسائل کا حل موجود ہو۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اس معاملے میں بھی کامل ہے۔ آپؐ نے کسی مخصوص قوم یا ملک کے مسائل سے بحث کرنے کے بجاے پوری انسانیت کے مسائل کو لیا ہے، اور ان میں ایسی رہنمائی دی ہے جس پر بنی نوع انسان بحیثیت مجموعی تمام دنیا میں عمل کرکے دنیا اورآخرت کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
تیسری بنیادی صفت جس کے بغیر کوئی شخص سارے جہاںکا رہنما نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ اس کی رہنمائی کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ وہ ہرزمانے میں صحیح اور قابلِ عمل ہو۔ عالم گیر رہنما وقتی وزمانی نہیں ہوسکتا۔ یہ لقب تو اسی کو زیب دیتا ہے جس کی رہنمائی رہتی دنیا تک کارآمد رہے۔ اس کسوٹی پر بھی اگر کسی کی تعلیم و ہدایت پوری اُترتی ہے تو وہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے۔ وہ ایک روشنی کا مینار تھے جوصدیوں سے دنیا کو راہِ راست دکھا رہا ہے اور زمانہ جیسے جیسے گزرتا جا رہا ہے اس کی روشنی اور زیادہ نکھرتی چلی جارہی ہے۔
دنیا بھر کا لیڈر ہونے کے لیے چوتھی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے صرف اُصول پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا ہو بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کرکے دکھا دیا ہو اور ان کی بنیاد پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کردی ہو۔ محض اُصول پیش کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک مفکّر ہوسکتا ہے، لیڈر نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشے پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی، اور۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے سامنے سراطاعت جھکا دینے پر آمادہ کردیا۔ ایک نیانظامِ اخلاق، نیا نظامِ تمدن، نیا نظامِ معیشت اور نیا نظامِ سلطنت پیدا کر کے تمام دنیا کے سامنے یہ عملی مظاہرہ کردیا کہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر کتنی اچھی، کتنی پاکیزہ اور کتنی صالح زندگی وجود میں آتی ہے۔
یہ ہے وہ کارنامہ جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت پوری دنیا کے رہنما ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں۔ آپؐ کی تعلیم کسی خاص قوم کی جایداد نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کی مشترک میراث ہے جس پر کسی کا حق کسی دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے۔ جو چاہے اس میراث سے فائدہ اٹھائے اور جو چاہے فائدہ نہ اُٹھا کر ابدی محرومی میں مبتلا رہے۔ (بنام ایڈیٹر اتحاد، جولائی ۱۹۶۲ئ)۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی، حصہ اوّل، مرتبہ: عاصم نعمانی، ص۳۳-۳۵)
اِبلاغ عربی زبان کے بابِ افعال سے بطور مصدر مستعمل ہے جس کا معنی ہے: پہنچا دینا۔ باب تفعیل سے یہی مصدر ’تبلیغ‘ کے وزن پر آتا ہے جس کا مفہوم خوب اچھی طرح پہنچا دینا ہے۔ اِبلاغ عامہ کی اصطلاح Mass Communication کا مفہوم بھی یہی ہے کہ عام لوگوں تک بات پہنچائی جائے۔ اس اصطلاح سے پہلے جرنلزم کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن اس کا دائرہ محدود تھا۔ یعنی صرف صحافتی دنیا میں شائع ہونے والی خبریں مراد تھیں۔ اب اِبلاغِ عامّہ میں اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سی ڈیز، فلم، انٹرنیٹ وغیرہ سب شامل ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت خبر کی اشاعت کا بڑا ذریعہ شاعری، اسواق (میلے) ندوات (مقامی مجلسیں) اور ’سھرات‘ رات کی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ قرآن حکیم نے اِبلاغ کے ضمن میں اتنی جامع رہنمائی دی ہے جو ہر دور پر منطبق (apply) ہوتی ہے۔
اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌo (اعراف۷:۶۸) (حضرت ہود ؑنے اپنی قوم سے کہا) کہ میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمھارا ایسا خیرخواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔
ھٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَ لِیَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (ابراھیم ۱۴:۵۲) یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ اُن کو اس کے ذریعے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں، وہ ہوش میں آجائیں۔
وَ مَاعَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ o (یٰسٓ ۳۶:۱۷) اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط (المائدہ ۵:۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔
یہ فریضۂ اِبلاغ پوری دل سوزی سے ادا کیا جائے۔
وَ عِظْھُمْ وَ قُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَوْلًام بَلِیْغًا o (النساء ۴:۶۳) انھیں سمجھائو اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اُتر جائے۔
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ط (احزاب ۳۳:۳۹) یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
وَ ھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ج وَ ھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِo (الحج ۲۲:۲۴) اور یہ وہ لوگ ہیں جنھیں پاکیزہ کلموں کی ہدایت دی گئی ہے اور یہ وہ ہیں جنھیں پسندیدہ راستے کی طرف رہنمائی دی گئی ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا o (احزاب ۳۳:۷۰) اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط (النور ۲۴:۱۹) بے شک جو لوگ مومنوں کے درمیان فحش باتوں کو پھیلانا پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَo (البقرہ ۲: ۵۹) مگر جو بات ان سے کہی گئی تھی، ظالموں نے بدل کر اُسے کچھ اور کردیا۔ آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔
وَ اِذَاجَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖط (النساء ۴:۸۳) یہ لوگ جہاں کہیں اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں، اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں۔
حکم دیا گیا:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَـاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا (الحجرات ۴۹:۶) اے اہلِ ایمان! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو۔
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْق ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَo (البقرہ ۲:۷۹) پس ہلاکت و بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جو کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس سے وہ تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں۔ پس بربادی ہے اس وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور بربادی ہے ان کے لیے اس کے سبب جو وہ کماتے رہے ہیں۔
حوالہ دی گئی آیات شانِ نزول کے اعتبار سے مختلف پس منظر رکھتی ہیں مگر قرآن حکیم کا ایک حوالہ آفاقی ہدایت ہے۔ جو اشارتاً زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ خود وحی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’خبر‘ کہا۔
اِِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًاط سَا۔ٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ (النمل۲۷:۷) مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں۔
خود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حدیث میں ’مخبرصادق‘ (سچی خبردینے والا) کا لقب استعمال ہوا۔
ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں اِبلاغ کے منصب پر فائز تمام شخصیات، صحافی، براڈکاسٹر، میڈیا سے وابستہ شخصیات، داعی، اساتذہ وغیرہ سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بقدر استطاعت خبر کے اِبلاغ میں درج ذیل باتوں کی پابندی کریں:
اگر ان اصولوں کو اِبلاغ عامہ کے ادارے اپنا لیں تو قوم کو انتشارِ ذہنی اور اضطرابِ فکری سے بچایا جاسکتا ہے اور اسے ایک صحیح سمت دی جاسکتی ہے، اس لیے کہ درست سمت کے تعین کے بغیر دائروں کے سفر میں قوم کی نسلوں کی نسلیں بھٹکتی رہیں گی۔
آج سے ۱۴ سو سال پہلے چھٹی صدی عیسوی میں، تاریخ کا وہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا، جس کی مثال اور نظیر نہ انسان نے پہلے کبھی دیکھی تھی، اور نہ اُس کے بعد دیکھی۔ اس حیرت انگیز واقعے کو مؤرخین انفجار(explosion)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ چند صحرا نشینوں نے جن کے پاس ایک مشن، دعوت اور پیغام تھا، صرف۳۰سال کے عرصے میں گردو پیش کی دنیا میں اس پیغام کو غالب اور سربلند کر دیا۔
سیدنا عثمان غنیؓ کے زمانے میں یہ پیغام کاشغر، ٹریپولی، لیبیا ، تیونس، شمالی افریقہ کے تمام علاقوں تک پہنچ چکا تھا، اور صرف۱۰۰ سال کے عرصے میں ایک طرف اسپین تک اور دوسری طرف دریاے سندھ کی وادی سے گزرتے ہوئے، ہندستان کے مشرقی ساحل کو چھوتے ہوئے چین کے ساحل تک اس کو ماننے والے، اپنی دعوت پہنچا چکے تھے۔ اتنی سرعت اور تیزی کے ساتھ، اتنی عظیم الشان توسیع کی کوئی مثال انسانی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔ ایک مستشرق کے الفاظ میں لاالہ الاللہ کے برقی نعرے نے عرب کے بدوئوں میں وہ قوت بھر دی، کہ۱۰۰ سال میں ایک یتیم بچے محمدؐ، کا نام صحرائوں، شہروں ، دیہاتوں، پہاڑوں، اور وادیوں میں، ہر جگہ گونج رہا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا؟ کیا اس کے پیچھے کوئی معاشی یاسیاسی عوامل تھے؟ کیا صحراے عرب سے نکلنے والے لوگوں کو فتح عالم کا شوق تھا؟ کیا اُن کی نگاہیں مال غنیمت کی تلاش میں تھیں؟ کیا وہ سکندر اور چنگیز کی طرح دنیا کو اپنا باج گزار بنانے، شہروں کو تاخت و تاراج کرنے اور سروں کے مینار کھڑے کرنے کے لیے نکلے تھے؟
شاید ہمارا اور آپ کا، ملت اسلامیہ اور پوری انسانیت کا، اور ساری دنیا کا مستقبل اسی سوال کے جواب پر منحصر ہے۔ اسی میں انسانیت کے لیے بھی بشارت ہے، اور اُمت مسلمہ کے لیے روشن اور تابناک مستقبل کی نوید بھی۔ اس لیے کہ آج کی دُنیا، چھٹی صدی عیسوی کی دُنیا کی طرح ایک زبردست اضطراب اور بحران کا شکار ہے۔ انسان نے جس پیمانے پر سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا میں ترقی کی ہے، اسی حساب سے یہ اضطراب اور بحران بھی سنگین تر ہے۔
چھٹی صدی عیسوی کی دنیا کے نقشے پراگر نگاہ ڈالیں تو بظاہر زندگی کا کوئی پہلو خالی نہیں تھا۔ حکومتوں کی جگہ حکومتیں تھیں، قانون کا نفاذ تھا، عدالتیں کام کر رہی تھیں، تجارتی قافلے ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتے تھے، محلات اپنی جگہ پر موجود تھے، درس گاہیں اور مدرسے بھی قائم تھے، اور خانقاہوں میں اللہ کے آگے گریہ و زاری کرنے والے راہب بھی تھے___ اس کے باوجود انسانیت موت کے کنارے پر کھڑی تھی۔
آج کا عالم بھی اسی طرح کے سنگین بحران اور ایسے ہی اضطراب سے دو چار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمِ پیر مر رہا ہے اور دنیا بڑی بے چینی کے ساتھ ایک جہاںِ نوکی منتظر ہے! اس سے کسی کو انکار نہیں ہے، کہ اس وقت دنیا کو ایک جہاںِ نو کی ضرورت ہے۔ اس سے اختلاف تو ہو سکتا ہے کہ کس طرح کا جہان نو، کس کا جہان نو اور وہ کس کے ہاتھوں برپا ہوگا، لیکن اس سے کسی کواختلاف نہیں ہے کہ عالم پیر موت سے ہم کنار ہے، اور دنیا کی نجات ایک جہانِ نو کی تعمیر میں مضمر ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جو پچھلے ۳۰۰ سال سے اس عالَم کے حکمران اور امام ہیں، جنھوں نے اس عالم پیر کو جنم دیا ہے، اس کی تشکیل اور تعمیر کی ہے، اور ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے، جن کے ہاتھوں میں آج بھی زمانے کی باگ ڈور اور زمام کار ہے، وہ بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ایک نیوورلڈ آرڈر ، نیا عالمی نظام ناگزیر ہے۔ اس اعتراف میں یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ اولڈ ورلڈ آرڈ، اب انسان کے کام کا نہیں رہا، اور اب اس کو ایک نئے عالمی نظام اور ایک جہانِ نو کی ضرورت ہے۔
یہ جہان نو اس لیے بھی ضروری ہے کہ پرانا عالمی نظام گذشتہ ۳۰۰ سال میں انسان کو اس مقام پر لے آیا ہے، جہاں اس کے مصائب و آلام، مسائل اور پریشانیاں اور رنج و الم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے قومیں اٹھتی تھیں، ایک علاقے کو فتح کرتی تھیں اور قتل و غارت مچاتی تھیں، مگر یہ ایک حد تک ہوتا تھا۔ آج یہ صورت حال ہے کہ انسان، اس پوزیشن میں ہے، کہ وہ بٹن دبائے تو پوری دنیا، تہہ و بالا ہو جائے، اور اس بٹن پر انسان کا ہاتھ ہے۔
یہ صدی انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ خوں ریز صدی ہے، جتنا خون اس صدی میں بہا ہے انسانی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ انسان نے ایک ایٹم بم سے لاکھوں انسان فنا کے گھاٹ اُترتے دیکھے ہیں۔ جنگ عظیم میں ، ڈھائی کروڑ انسانوں کو مرتے، اور اپاہج ہوتے دیکھا ہے۔چند چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مسلسل بمباری سے، لاکھوں انسانوں کو مرتے دیکھا ہے۔ انسان نے جبر کے جو نظام قائم کیے، ان کے ہاتھوں لاکھوں انسان بے گھر ہوئے، مصیبتیں اٹھائیںاور بہت سے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ نسل اور رنگ کے بتوں پر بڑی تعداد میںانسانی جانیں بھینٹ چڑھائی گئیں۔واضح رہے کہ یہ جانیں مذہب اور خدا کے نام پر بھینٹ نہیں چڑھائی گئیں، جو خوں ریزی کے لیے بدنام ہیں۔ آج کے آزر نے اس دور کے لیے وطن اور قوم پرستی کا جو نیا بت تراشا ہے،اس نے انسانیت کو خون کے اندر نہلا دیاہے۔ آج ہر جگہ اسی وجہ سے خون بہہ رہا ہے، لوگ قتل ہو رہے ہیں، گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ یہ سب فساد اسی وجہ سے ہے۔
بظاہر معیشت ترقی کی معراج پر نظر آتی ہے، لیکن یہ پانی کے بلبلے کی طرح ہے۔ اگر آج سارے ممالک اپنا قرض دینے سے انکار کر دیں اور بنک میں روپیہ رکھنے والے سب لوگ بنک کے دروازے پر آجائیں کہ ہمارا روپیہ ہمیں دے دو، تو اس غبارے کی ہوانکل کر رہ جائے گی اور معاشی نظام تباہ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ سیاسی نظام بھی جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے، اور جس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی، آج لوگ اس سے بھی مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ انسان کی روح پیاسی ہے، اس آب حیات کے لیے جو اس کو اس درد و الم سے نجات دے، اور موت کی آغوش سے نکال کر زندگی سے ہم کنار کر دے۔
یہ جہانِ نو کس طرح پیدا ہو گا؟ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس عالم پیر کے معمار، سیاست دان، مدبر و مفکر اور اخبار نویس اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، کہ اگلا تصادم تہذیبوں کا تصادم ہو گا، اور یہ تصادم مغرب اور اسلام کا تصادم ہو گا۔ امریکا کے نائب صدر، امریکا کے سابق صدرنکسن،ناٹوکے کمانڈر،سب کی زبان پر ہے کہ پچھلے ایک ہزار سال بھی اسلام سے مقابلہ کرتے گزرے، اور شاید اگلے ہزار سال بھی اسی میںگزریں۔ کمیونزم کی موت کے بعد اب یہ کش مکش اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان ہے۔ ۱۴ سو سال سے جو کش مکش اور تصادم دونوں تہذیبوں کے درمیان ہے، اور جس میں اسلام کے ہزار سالہ غلبے کے بعد مغرب نے برتری حاصل کی، لیکن صرف ۳۰۰ سال میں وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اب پھر شاید وہی شیر بیدار ہو رہا ہے جس نے ۱۴سوسال پہلے نکل کر دنیا میں غلبہ حاصل کیا تھا، اور اس کی زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی۔
اُمت مسلمہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہر جگہ اِنھی طاقتوں کی دست نگر ہے جو اس کی گردن پر حکمران پیرتسمہ پا کی طرح مسلط ہیں اور مغربی تہذیب کی مقلد اور پیرو ہیں۔ وہ تو غلبۂ اسلام کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ ہمارے پاس نہ ایٹم بم ہیں، نہ فوج، نہ بنک کا نظام ہے نہ سڑکیں، نہ موٹروے اور کارخانے ___ پھر ہم کیسے مغرب کے لیے خطرہ اور چیلنج ہیں؟ لیکن مغرب کے ہر آدمی کی زبان پر یہی الفاظ ہیں کہ آیندہ دور کی کش مکش اور تصادم ، اسلام اور مغرب کے درمیان ہے۔ اب یہ تصادم، نظریات (یعنی کمیونزم، فاشزم اور کپٹل ازم وغیرہ) کی بنیاد پر نہیں ہوگا،اور نہ رنگ اور نسل کا تصادم ہوگا، بلکہ یہ تصادم تہذیبوں کے درمیان ہوگا۔ تہذیبیں مذہب سے وجود میں آتی ہیں، اور دنیا کے اندر دو ہی مذہب ہیں جو عالم گیر مشن کے علم بردار ہیں: ایک اسلام، اور دوسرا عیسائیت۔ عیسائیت نے مغربی تہذیب کی بنیاد رکھی ہے، اور اسلام نے ملت اسلامیہ کی ، جب کہ آیندہ معرکہ ان دونوں کے درمیان ہونے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جومسلمان بھی حالات پر نظر رکھتے ہیں، جن کی نظر تاریخ پر ہے، جو تاریخ کی اندرونی کش مکش سے واقف ہیں، وہ بہت پہلے سے یہ بات دیکھ رہے ہیں، کہ یہ وہ واقعہ ہے جو ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ وہ اس کا انجام بھی دیکھ رہے ہیں، کہ اب دنیا کا مستقبل اسلام ہے،یعنی وہ پیغام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ۱۴ سو سال پہلے عرب میں لے کر آئے تھے غالب آکر رہے گا۔ اقبال نے کہا تھا ع
جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے،
اسے لطیفہ سمجھیے یا ایک دل چسپ بات کہ برطانیہ کے ایک موقر ہفت روزہ اکانومسٹ نے ایک مضمون شائع کیا۔ اس نے لکھا کہ اتفاق سے ایک تاریخ کی کتاب دست یاب ہوئی ہے، جو آج سے ہزار سال بعد کی لکھی ہوئی کوئی کتاب یا تورات ہے۔ اس میں لکھا تھا کہ کمیونزم کے زوال کے بعد جو موقع مغرب کے ہاتھ آیا تھا، وہ اس نے ضائع کر دیا، اور ۲۰۱۱ء میں ایک انقلاب سعودی عرب میں آیا جس کی وجہ سے وہاں ایک اسلامی جمہوری حکومت قائم گئی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مسلمان ممالک جمع ہوگئے، خلافت قائم ہو گئی، اور خلافت کا چین کے ساتھ اتحاد ہو گیا، اور بالآخر پوری دنیا پر یہ خلافت غالب آگئی۔۲۱۰۰ء تک یہ واقعہ ظہور پذیر ہوگا۔ گویا مستقبل کے آئینے میں آج کے زمانے کے بارے میں پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو بالکل عیاں ہے۔ یہ وہی بات ہے جس کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا تھا کہ نبوت کے زیر اثر، صحراے عرب میں اٹھنے والا یہ سیلاب ایک اتفاقی حادثہ تھا، یا یہ مشیت اور اس انقلاب کو برپا کرنے والی ہستی محمدؐکا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟ کیا ان کے مشن میں یہ بات شامل تھی کہ وہ امامت عالم سنبھالیں گے، اور ایک عالم گیر انقلاب برپا کریں گے، یا ان کا کام محض تزکیۂ نفوس، اہل عرب کو پیغامِ حق سنانا تھا اور جس کو ماننا ہے مانے، اور جس کو نہیں ماننا نہ مانے۔
ہمارے سیرت نگار ولادت نبویؐ کا واقعہ بڑے دل آویز اور معنی خیز الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ جس رات حضوؐر اس دنیا میں تشریف لائے، کسریٰ کے محل کے مینارے گر گئے، آتش کدہ فارس بجھ گیا، اور دریاے ساوہ خشک ہو گیا۔ بعض کے نزدیک یہ استعارے کی زبان ہے اور بعض کے نزدیک یہ واقعات فی الواقع پیش آئے تھے۔ یہ حقیقت ہو یا استعارے کی زبان، بلکہ اگر استعارے کی زبان ہو تو اور بھی معنی خیز ہے، تاہم یہ واقعہ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ ولادت نبویؐ ہی اس بات کی علَم بردار اور پیش خیمہ تھی، کہ عالم میں انقلاب آئے، عالمی طاقتیں سرنگوں ہوجائیں، اور گمراہی اور جاہلیت کے آتش کدے بجھ جائیں، اور کسریٰ کی عظیم الشان سلطنت پارہ پارہ ہو جائے۔
خود نبی کریمؐکی یہ صحیح حدیث موجودہے، کہ میں اپنی ماں آمنہ کا خواب ہوں۔ حضرت آمنہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میرے پیٹ سے ایک روشنی نکلی، جس سے پوری ارض شام روشن ہو گئی۔ ارض شام سے مراد محض ملک شام نہیں ہے۔ ارض شام تو سارے انبیا کی سرزمین ہے، اور اس وقت کی ارض شام آج کے شام کے برابر نہیں تھی۔ اس میں پورا شام، لبنان، اردن ، فلسطین اور عراق کا ایک حصہ شامل تھا، اور یہیں سے ساری دنیا کو ہدایت ملی۔ عیسائیت اگر آج دنیا کے ایک بڑے حصے میں پہنچ چکی ہے تو اس کا مولد ارض شام ہے۔ لہٰذا وہ روشنی جو بطن مادر ہی سے ارض شام کو روشن کر رہی تھی، وہ ایک عالم گیر ہدایت اور عالم گیر مشن کی علم بردار نہ تھی تو اور کیا تھی!
تمام سیرت نگار بیان کرتے ہیں کہ ابتدا ہی سے آپؐ کی دعوت کا ایک اہم عنصر یہ تھا کہ توحید کی دعوت اگر قبول کروگے، یہ ایک کلمہ اگر تم مجھ سے قبول کر لو گے، تو عرب و عجم تمھارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔ ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں ایک سلوگن بن گیا تھا، اور لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے کہ یہ مٹھی بھر لوگ، یہ غلام، یہ فاقہ مست جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، کوئی حکومت اور سلطنت نہیں ہے، عرب و عجم کے مالک بن جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لوگ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ گویا یہ عالم گیر مشن نبوت کے پہلے ہی لمحے سے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
سراقہ بن جعشم کو خبر ملتی ہے کہ قریش کے دو مفرور سردار قریب سے گزر رہے ہیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا، اور ۱۰۰ اونٹوںکے لالچ میں انھیں پکڑنے کے لیے پہنچ گیا۔ جب وہ قریب آیا تو آپؐ نے اللہ سے دعا کی۔ اس کے نتیجے میں اس کے گھوڑے کے پائوں زمین کے اندر دھنس گئے۔ سیرت نگاروں کے مطابق یہ واقعہ تین دفعہ پیش آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ مقابلہ تو کسی اور ہستی سے ہے ، چنانچہ اس نے کہا کہ حضوؐر امان نامہ لکھ دیجیے۔ آپؐ نے امان نامہ لکھوایا اور پھر فرمایا کہ سراقہ میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔
ذرا تصور کیجیے، کس پریشانی کا عالم تھا، کیسی بے سروسامانی تھی، مستقبل کا کچھ اندازہ نہ تھا، بے یقینی کی کیفیت تھی مگر اس وقت بھی خوش خبری کسریٰ کے کنگن کی دی جا رہی ہے۔
خندق کی کھدائی کے دوران ایک چٹان اس قدر سخت تھی کہ کسی سے نہ ٹوٹی۔ حضوؐرپیٹ پر پتھر باندھے اپنے صحابہؓ کے ساتھ کھڑے تھے۔ آپؐ کو بلایا گیا۔ آپؐ نے ایک کدال ماری تو ایک روشنی بلند ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیں اور یہ میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دشمن سر پہ کھڑا ہے، چاروں طرف سے ۲۴ ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے، اور ایک خندق کے علاوہ کوئی دفاع نہیں ہے، اس موقع پر بھی آپؐ فرماتے ہیں کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیںجو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دوسری کدال مارنے پرفرمایا کہ مجھے ایران کے خزانے دکھائے گئے ہیںجو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ تیسری دفعہ فرمایا کہ یمن کے خزانے دکھائے گئے ہیں جو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔گویا چار دانگ عالم میں یہ سب نبوت کے لیے، مفتوح ہونے والے ہیں۔ یہ عزم و ارادہ اور یقین اس کیفیت میں تھا، جس کا نقشہ میں نے آپ کے سامنے کھینچا ہے۔
صلح حدیبیہ کے بعد بھی عرب سرنگوں نہیں ہوا تھا، مکہ فتح نہیں ہواتھا، اور مدینہ کی اسلامی ریاست مکمل نہ ہوئی تھی، لیکن آپؐ نے فوراً اپنے گردو پیش کی ہر عالمی طاقت کو دعوت نامہ بھیج دیا۔ ایک مہینے کے اندر ذوالحجہ کے مہینے میں، گردو پیش کی چھوٹی بڑی کوئی حکومت ایسی نہیں تھی جہاں آپؐ کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ یہاں تک کہ قیصر کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ ہاں، یہ سچے نبی ؐ ہیں اور جس جگہ آج میرا تخت ہے، ایک دن اس جگہ ان کا پیغام پہنچے گا۔
یہ محض بشارتیں اور پیش گوئیاں نہیں تھیں بلکہ اگر غور کریں تو یہ ایک مشن تھا اور ایک ذمہ داری تھی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا، اور کہا تھا کہ اعلان کردو: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ (الاعراف۷:۱۵۸)‘اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن اللہ نے اس لیے اتارا ہے کہ قرآن لانے والا (رسولؐ اللہ) سارے جہانوں کے لیے آگاہ کرنے والا، نذیر بن کر آئے (الفرقان ۲۵:۱)۔ اسی طرح فرمایا کہ ہم نے تم کو رحمتہ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ تم خاتم النبیینؐ ہو، تمھارے بعد اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ تمھاری نبوت ابد تک کے لیے ہے۔ یہ نبوت نہ صرف عرب کے لیے ہے، بلکہ سارے عالم کے لیے ہے۔ ہر قوم، ہر زبان ، ہر رنگ، ہر نسل کے لیے یہی نبوت ہے، اور اسی کا پیغام ہے۔ تمھارا جسد خاکی تو زمین میںدفن ہوگا لیکن تمھارا پیغام، تمھاری نبوت ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس کے لیے موت نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبوت اور رسالت کا پیغام اگرمحفوظ نہ رہے تو نبیؐکی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی لیے اس پیغام کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اٹھا رکھا ہے۔
ہم خاتم النبیینؐ کے لیے نعرے بھی لگاتے ہیں، کانفرنسیں بھی کرتے ہیں، جو نہیں مانتے ان کو غیر مسلم بھی قرار دیتے ہیں، لیکن جو ماننے والے ہیں، ان کے لیے خاتم النبیین میں معانی کا جو ایک جہان پوشیدہ ہے، اس سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اگر کوئی خاتم النبیینؐ آچکا ہو اور اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، مگر ہم نہیں جانتے کہ اب نبوت کی ذمہ داری کس کے اوپر ہے اور اس نے نبوت کے عالم گیر مشن کی دعوت کس کے سپرد کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِوسط‘ بنایا ہے، تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عالم گیر فتوحات، یہ ۱۰۰ سال کے عرصے میں اسپین سے لے کر چین تک محمد رسولؐ اللہ کے نام کا پکارا جانا، یہ دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کا پہنچ جانا، یہ تاریخ کا سب سے حیرت انگیز انفجار یا کوئی حادثہ نہیں۔ یہ عرب سے نکلنے والے بدوئوں کا شوق جہانگیری نہیں تھا، جس کے نتیجے میں تاریخ کا یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا، یہ تو نبوت کی فطرت کا تقاضا تھا، کہ یہ واقعہ ظہور پذیر ہو۔ وہ نبوت جو عالمی نبوت تھی، وہ نبوت جو خاتمِ نبوت تھی، اس کی فطرت کے اندر یہ پنہاں تھا، کہ یہ ساری دنیا کے اوپر چھائے، اور اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائے۔
مولانا عبدالقدوس گنگوہی ہندستان کے ایک مشہور صوفی تھے۔انھوں نے کہا کہ محمدعربیؐ تو آسمان پر چلے گئے اور حق کے پاس پہنچ کر واپس آ گئے۔ اگر میں جاتا تو واپس نہ آتا۔ اس پراقبالؒکہتے ہیں کہ یہی فرق ہے مزاج نبوت اور مزاجِ تصوف میں۔ تصوف کی منزل حق ہے۔ وہ حق کے پاس پہنچ کر فنا ہو جاتا ہے۔ نبوت کی منزل حق نہیں، وہ حق سے حق لے کر لوٹتا ہے۔ پھر وہ اپنے آپ کو زمانے کی رو میں جھونک دیتا ہے، اور تاریخ ساز قوتوں کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے تصورات اور عقائد کی ایک نئی دنیا تعمیر کرتا ہے۔ یہ نبوت کا مزاج ہے اور یہ اس امت کا مزاج بھی ہونا چاہیے، جو اس مشن کی علم بردار ہے جو مشن نبی کریمؐ نے مکمل فرمایا، اور اس امت کے سپرد کر دیا۔
آج انسان کو جن مصائب اور مشکلات کا سامنا ہے، جس الم ، درد اور کرب سے وہ دوچار ہے، روز مرہ زندگی جس طرح پریشانی، عدم اطمینان اور بے چینی کا شکار ہے، جس کا اظہار چہروں سے بھی ہوتا ہے اور زندگیوں سے بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے اپنا حقیقی معبود کھو دیا ہے اور جھوٹے معبود جو دیوی دیوتائوں سے بھی بدتر ہیں، ان کا وہ پجاری بن گیا ہے۔ یہی دراصل اس کے مصائب اور آلام کی جڑ ہے۔ ان حالات میں حضوؐرکا پیغام ، کہ یہ ایک کلمہ ہے، اس کو مجھ سے لے لو تو عرب و عجم تمھارے زیر نگیں ہوںگے___ یہی دراصل وہ چیز ہے، جس سے انسانی زندگی کا قبلہ متعین ہوتا ہے، مقصد زندگی کا تعین ہوتا ہے، اور اسی سے انسانیت کی شیرازہ بندی ہوتی ہے۔
برطانیہ میں دو لڑکوںنے جن کی عمریں۱۰،۱۰ سال تھیں، ایک ڈھائی سال کے بچے کو اغوا کر لیا۔ اس کو خوب مارا، اس کا سر کچل ڈالا، ٹکڑے ٹکڑے کر تھیلی میں بند کیا اور ایک جگہ ڈال دیا۔ جب بچے کی لاش ملی تو شور مچ گیا،کہ ۱۰سال کے لڑکوں نے اس قدر ظلم، وحشت ، اور سفاکیت کے ساتھ اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔اس موقع پر برطانوی وزیر داخلہ نے کہا کہ دراصل ہماری کوئی سمت نہیں رہی، ہمارا کوئی قبلہ نہیں رہا، ہمارے سامنے کوئی مقصدنہیں جس کے لیے ہم جئیں۔
مغرب اس کرب سے دو چار ہے۔ ہر جگہ یہی نظر آتا ہے۔ خاندان بکھر رہے ہیں، single parentخاندان ہیں،جن میں ایک مرد یا ایک عورت اور عموماً بے چاری عورت ہی کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ مرد تو لطف اندوز ہو کر بھاگ جاتا ہے۔ بس عورت ہی ماں ہے ، اور وہی باپ۔ ایسے خاندانوں کی تعداد کثرت سے بڑھتی جا رہی ہے۔
اکانومسٹ نے کمیونزم کے زوال کے بعد دنیا کے مستقبل کے حوالے سے ایک تجزیہ کیا کہ تاریخ کے وہ کون سے واقعات ہیں جو فی الواقع تاریخ ساز واقعات ہیں؟ اس نے بہت سے واقعات کی فہرست گنوائی، اور اس میں ہجرت کا واقعہ بھی شامل کیا۔ اس کی اتنی انصاف پسندی تسلیم کریں کہ اس نے ہجرت کے واقعے کو بھی تاریخ ساز واقعات میں شمار کیا ہے۔ اس کے بعد کمیونزم کے زوال کا تذکرہ کرتا ہے کہ یہ تو چند سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے بلکہ ایک ہی تہذیب کے اندر الٹ پھیر ہے۔ کیا آیندہ تاریخ کوئی کروٹ بدلنے والی ہے، کوئی نیا موڑ مڑنے والی ہے، اور کسی انقلاب سے دو چار ہونے والی ہے اور کن مسائل کے گرد تاریخ کی یہ نئی تبدیلی آئے گی___ اس حوالے سے وہ لکھتا ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جن کا دعویٰ اسلامی بنیاد پرست بھی کر تے ہیں اور عیسائی بنیاد پرست بھی۔ اگر دنیا نے اب کوئی کروٹ بدلی ، تو یہ ان مسائل کے گرد ہوگی، جو بظاہر نگاہوں کے سامنے نہیں ہیں، ابھی پردہ غیب میں ہیں اور جو غیبی علوم ہیں (یعنی خدا، رسالت اور آخرت وغیرہ) ، ان کے گرد اَب تاریخ نئی کروٹ بدلنے والی ہے۔ مگر وہ اس بات پر مسرت کا اظہار کرتا ہے کہ نہ عیسائی بنیاد پرست اس کے اہل نظر آتے ہیں اور نہ مسلمان بنیاد پرست ہی اس کے اہل ہیں، کہ وہ تاریخ کا رخ موڑ دیں، نئی تاریخ رقم کریں اور انسانیت کی زمام کار سنبھال لیں، اور اس کو اس کے مستقبل سے ہم کنار کر دیں۔فی الواقع دنیا ایک جہانِ نو کی تعمیر کی منتظر ہے۔
اُمت محمدیؐ کے اس عالمی مشن اور عالمی پیغام کا دوسرا حصہ جو اس پیغام کا لازمی نتیجہ اور تقاضا تھا، وہ انسانی وحدت ہے، یعنی یہ کہ انسان ایک ہے۔انسانوں کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کو ناقابلِ عبور دیواروں اور فصیلوں میں نہیں بانٹا جا سکتا، اور اگر بانٹا جائے گا تو انسان ان جھوٹے خدائوں کے پھیر میں آکر سب کچھ کھو بیٹھے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف نبی کریمؐ نے یوں اشارہ کیا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، اگر کسی کو بڑائی حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ یہ خدا پرستی کا، لاالہ الا اللہ کا منطقی نتیجہ تھا، اور یہ اسلام کا سب سے بڑا contributionہے، سب سے بڑی خدمت ہے، جو اس نے انسانیت کی ہے۔
انسان کی وحدت کی بنیاد اگر مادی چیزوں ، رنگ، نسل، زبان اور خون پر ہو، تو یہ ایسی دیواریں ہیں جو کوئی ڈھا نہیں سکتا۔ کالا آدمی چاہے کہ گورا ہو جائے تو نہیں بن سکتا۔ اگر گورا چاہے کہ کالا ہوجائے تو رنگ نہیں بدل سکتا۔ جو آدمی ہندستان میں پیدا ہوا ہے اور چاہے کہ پاکستان میں پیدا ہو جائے، یہ ممکن نہیں۔ اگر کسی کی مادری زبان پنجابی ہے تو اردو نہیں بن سکتی، اردو ہے تو پنجابی نہیں بن سکتی۔ یہ ناقابل عبور چیزیں ہیں، لیکن عقیدہ آدمی کے اپنے اختیار میں ہے۔ جب چاہے بدل سکتا ہے، جب چاہے سرحد کے ادھر ادھر جا سکتا ہے، اور جب چاہے کسی عالم گیر قوت میں شامل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسان کی وحدت کی بنیاد مادی اور زمینی چیزوں سے بالاتر ہوکر آفاقی چیزوں میں رکھی جودل و دماغ میں بستی ہیں اور انسان ان کو جب چاہے قبول کر لے اور نتیجتاً ایک انسانیت وجود میں آ سکتی ہے، اور فی الواقع آئی بھی۔
دنیا اس بات کی معترف ہے کہ گئے گزرے مسلمان جو اگرچہ آپس میں لڑتے ہیں، ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں ، قومی عصبیت برتتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی مسلمانوں کے اندر جو یگانگت، وحدت اور قوت ہے، اس کی کوئی مثال دنیا کی کوئی دوسری قوم پیش نہیں کرسکتی۔ آدمی انڈونیشیا کی مسجد میں داخل ہو جائے، یا واشنگٹن میں، وہ ایک ہی زبان میں خطبہ سنے گا۔ وہ انڈونیشیا کے کسی گھر میںجا کر کھانا کھائے یا واشنگٹن میں، دستر خوان، شراب اور سؤر کے گوشت سے پاک ہو گا، اور لوگ داہنے ہاتھ سے اس لیے کھا رہے ہوں گے کہ محمدعربیؐنے ۱۴ سو سال پہلے یہی فرمایا تھا۔ کیا کسی شخص نے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انسانوں کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہے، جتنا حضوؐر نے ڈالا ہے۔ یہ وحدت و یگانگت اسلام کا عطیہ ہے جو رنگ،نسل اور زبان، ان سب فصیلوں کو عبور کرکے، انسان کو انسان سے جوڑتی ہے اور ایک وحدت بناتی ہے۔ یہ محمد عربیؐ کے عالمی مشن اور پیغام کی دوسری نمایاں خصوصیت ہے۔
اُمت محمدیؐ کے عالمی مشن کی تیسری نمایاں صفت عدل و قسط کا قیام ہے۔ جب ہم شہادت کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے ساتھ حق کا لفظ بولتے ہیں، یعنی شہادت حق۔ قرآن نے جہاں بھی شہادت کا ذکر کیا ہے، بعض جگہ اسی کی وضاحت نہیں کی کہ کس بات کی شہادت دو، مثلاً فرمایا:
تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ۲:۱۴۳) تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو۔
کس چیز کے گواہ بن جائو، یہاں یہ بیان نہیں فرمایا، اور جہاں یہ بیان فرمایا تو اس کے لیے قسط کا لفظ استعمال فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اَلرَّحْمٰنُo عَلَّمَ الْقُرْاٰنَo خَلَقَ الْاِنْسَانَo عَلَّمَہُ الْبَیَانَo اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍo وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِoوَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَo (الرحمٰن۵۵:۱-۷) نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اُسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔
جولوگ کہتے ہیں کہ حق اور انصاف کی بات کرنا، اسلام کا مزاج نہیں، وہ اسلام اور نبوت کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ حق وہ بھی ہے جو مجموعی طور پر حق ہے، اور تواصوابالحق میں وہ حق بھی شامل ہے جو ایک انسان کا دوسرے انسان پر ہے۔ ایک موقع پر حضوؐرنے یہ فرمایا کہ اسلامی معاشرے میںعدل اور انصاف کا یہ عالم ہوگا کہ زیورات سے لدی ایک عورت تنہا سفر کرے گی اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوگا۔یہ دراصل آپؐ نے اس معاشرے کا ذکر کیا ہے جہاں پر کوئی کسی کے حق پر ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ کوئی کسی کی جان، مال اور عزت و آبرو پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔یہی انسانی حقوق کا خلاصہ ہے۔
دراصل یہ وہ پیغام ہے جو آج بھی بڑی کشش رکھتا ہے۔ اس میں بڑی دل آویزی اور دل کشی ہے، اور لوگ اس کو قبول کرتے ہیں۔ یہ جو کش مکش ہونے والی ہے، جس کے لیے اسٹیج تیار ہو رہا ہے، جس کی پیش گوئی خود ارباب مغرب کر رہے ہیں، یہ کش مکش آج کا حقیقی چیلنج ہے۔ دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا محمد عربی ؐکی نبوت کے ماننے والے یہ اہلیت رکھتے ہیں ، کہ ایک دفعہ پھر تاریخ کا دھارا موڑ دیں، زمانے کا رخ بدل دیں، اور انسانیت جو بتدریج ہلاکت و تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کو موت سے بچا سکیں اور ایک نئی زندگی سے ہم کنار کر سکیں۔ اگر کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اور خاتم النبیینؐ تشریف لا چکے ہیں اور آپؐ کی نبوت زندہ ہے، تو کیا اس نبوت کا حیات بخش خطاب دنیا کو سنایا نہ جائے گا؟ کیا دنیا پھر اس سے ہم کنار نہ ہو سکے گی؟
ہندستان کے ایک اخبار میں ایک ہندو عورت کا بڑا درد ناک خط چھپا۔ اس عورت نے مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے کہ تم نے ہمارے ہاں ۸۰۰ سال حکومت کی۔ مگر تم نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ قرآن میں کیا لکھا ہے، نہ اپنے عمل سے بتایا، نہ زبان سے بتایا کہ قرآن کا کیا پیغام ہے۔ اب میں قرآن پڑھ کر واقف ہو چکی ہوں کہ تمھارے اوپر اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ڈالی تھی اور سپرد کی تھی کہ اس پیغام کو لوگوں تک پہنچائو۔ میں قیامت کے روز تمھاری گردن پکڑوں گی، اور کہوں گی کہ یہ وہ تیرے بندے ہیں جن کے پاس قرآن مجید بھی تھا اور نبوت کا پیغام بھی مگر انھوں نے ہمیںاس سے ناآشنا رکھا، اور ہم کو معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ اسلام کیا ہے۔
آج ہر جگہ یہ معرکہ برپا ہے۔ اب اسلام اور مغرب کے معرکے کی سرحدیں مغرب کے جغرافیائی خطے تک محدود نہیں رہیں۔ اَب مغرب کی سرحدیں ریاض اور جکارتہ میں بھی ملیں گی، اور کراچی اور قاہرہ میں بھی۔ اسی طرح اب اسلام کی سرحدیں واشنگٹن، لندن، پیرس اور یورپ کے اندر بھی نظر آئیں گی۔ مشیت الٰہی سے یہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان یورپ میں موجود ہیں۔ مشیت الٰہی تو اسی طرح کام کرتی ہے، جہاں عقل کام نہیں کر سکتی۔
حضوؐرکی پیش گوئی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان فلسطین کے مقام پر جنگ ہوگی۔ اس پر ایک محدث نے کہا کہ یہ ضعیف، موضوع اورگھڑی ہوئی روایت معلوم ہوتی ہے۔ فلسطین میں تو یہودی ہیں ہی نہیں، ان کی مسلمانوں کے ساتھ آخر جنگ کیسے ہوگی؟ جب آدمی عقل پر انحصار کرتا ہے، تو ایسے ہی نتائج نکالتا ہے۔ یہودی گذشتہ ۶۰سال میں دنیا کے گوشے گوشے سے کھینچ کھینچ کر اس علاقے میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ روس سے آرہے ہیں، ایتھوپیا سے آ رہے ہیں، یورپ سے آ رہے ہیں، ہر جگہ سے ان کو جمع کیا جا رہا ہے۔
میری نظر میں، ۱۴ سو سال کی تاریخ میں یہ تیسرا موقع ہے کہ آج مغرب کے چپے چپے پر مسلمان موجود ہیں۔ وہ برطانیہ جہاں ۳۵سال پہلے صرف چار مسجدیں تھیں، اب وہاں پر ۵۰۰سے لے کر ہزار مساجد کااندازہ ہے۔ امریکا کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں مساجد کے گنبد اور مینار نظر آتے ہیں۔ اب انگلستان کی سڑکوں پر اذان کی آواز بھی سنائی دیتی ہے، وہ آواز کہ جس کے بارے میں ونسٹن چرچل کا بیٹا یہ کہتا ہے کہ مجھے تو اس گھڑی سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ جب ہماری سڑکوں پر اذان کی آواز سنائی دے گی، اورآج وہ سنی جا رہی ہے۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ اسلام سب سے بدتر مقام عورت کو دیتا ہے، حالانکہ مسلمان ہونے والوں میں دوتہائی عورتیں ہیں اور ایک تہائی مرد۔
ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ہونا ہے۔ اس لیے یورپ کو ایک طرف اسلامی دنیا کا خطرہ ہے، اور دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہی گھر کو بھر رہے ہیں، جہاں جائیں مسلمان نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وہ تعصب اور تنگ نظری کا وہ مظاہرہ کر رہے ہیں کہ جس کی مثال بھی مشکل سے ملے گی۔
بوسنیا تو ہے ہی ایک خونچکاں داستان، یورپ میںلڑکیاں چہرے پر نقاب نہیں لے سکتیں، سرپر اگر اسکارف باندھیں، تویہ بھی منع ہے۔ آزادیِ راے، حریتِ فکر اور جمہوری حقوق کے علَم بردار یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ لڑکیاں سر پر اسکارف باندھ لیں۔ وہ یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ لڑکیاں اسکرٹ کے بجاے شلوار پہن کر اسکولوں میں چلی جائیں۔ اسکولوں کے باہر مظاہر ے ہوئے، کہ ان لڑکیوں کو شلوار پہننے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یہ پاکستان اور ایران کے کٹرملا نہیں تھے بلکہ یہ مغرب کے روشن خیال شہری تھے جو اس پر احتجاج کر رہے تھے کہ کسی کو اپنی مرضی سے لباس پہننے، اپنی مرضی سے سر ڈھانپنے کا حق کیسے دیں؟
اب وہ اسلام کو یہ دعوت دے رہے ہیں کہ کسی طریقے سے اسلام اور مغرب کے درمیان کچھ مفاہمت ہونی چاہیے۔ لیکن یہ مفاہمت کس شرط پر ہو؟
ایک لکھنے والا لکھتا ہے اور پہلے وہ پورے ۱۴ سو سال کا نقشہ کھینچتا ہے کہ کس طرح اسلام اور مغرب نجران کے عیسائیوں سے لے کر مسلسل تصادم سے دو چارہیں، اوراسلام نے وہ چرکے لگائے ہیں، وہ داغ دیے ہیں، وہ زخم لگائے ہیں کہ ہم بھول نہیں سکتے۔ مصر، شام، عراق،بیت المقدس جہاں حضرت مسیحؑ پیدا ہوئے لیبیا، الجزائر، تیونس، یہ عیسائیت کے بڑے مضبوط گڑھ تھے۔ عیسائیت کے بڑے بڑے زعما شمالی افریقہ میں پیدا ہوئے ہیں، یورپ میں نہیں۔ ابتدائی چوتھی پانچویں صدی کے ان کے سب بڑے علما اور فضلا لیبیا، تیونس اور الجزائریا میں پیدا ہوئے ہیں۔ اسلام ایسا آیا کہ ۳۰سال کے عرصے میں سب کو بے دخل کر دیا۔ یہ کش مکش تو جب سے چلی آ رہی ہے، اب تو انسانیت کے مستقبل کا انحصاراس کش مکش پر ہے۔
وہ مزید لکھتا ہے کہ دو بڑی تہذیبیں آپس میں مفاہمت کر لیں، اور مفاہمت اس وقت ہوسکتی ہے، جب مسلمان دو چیزوں کے بارے میں اپنی تعلیمات میں تبدیلی کرنے کو تیار ہوجائیں۔ ذرا سوچیے کہ وہ دو چیزیں کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا توحید، آخرت یا رسالت کے بارے میں، نہیں، بلکہ وہ سزائوں کے بارے میں اور عورت کی حیثیت کے بارے میں ہیں۔ اگر ان دوچیزوں کے بارے میں مسلمان اپنی تعلیمات میںترمیم کرنے کو تیار ہو ں تو ہماری ان کی مفاہمت ہو سکتی ہے، اور اگر تیار نہ ہوں تومفاہمت نہیں ہو سکتی۔ آدمی حیران ہو تاہے کہ یہ کیا مطالبات ہیں، کہ ان کی بنیاد پر تہذیبوں کے درمیان انسانیت کے مستقبل کے لیے مفاہمت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے کہ اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ مسلمان اس قرآن کو دوحصوں میں تقسیم کرلیں۔ ایک وہ حصہ ہے جو مکہ میںنازل ہوا، جس میں توحیدو رسالت اور یتیموں اوربیوائوں کی امدادکی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تو مشترک انسانی چیزیں ہیں ، وہ سر آنکھوںپر۔ ایک وہ حصہ ہے جو مدینہ میں نازل ہوا اور جس میں ریاست ’سیاست‘ قانون، خاندان، عورتوں اور سزائوں کے بارے میں احکام ہیں۔ یہ نعوذ باللہ حضوؐر نے بحیثیت ایک مدبر اور قانون دان کے خود کیا ہے، اسے بدلا جا سکتا ہے۔ گویا جس طرح عیسائیت میں شریعت کو ختم کیا گیا تھا، اسی طرح اسلام میں بھی شریعت کو ختم کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ پوشیدہ حقیقت جو آج سامنے آ گئی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ مغرب کا دل اسی سے لرزتا ہے کہ کہیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق شرع پیغمبری آشکارا نہ ہو جائے ع
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
دراصل یہ وہ دور ہے کہ جو شرع پیغمبریؐ کے نمو کا دور ہے۔ وہ شرعِ پیغمبر جو انسانیت کو اس آبِ حیات سے ہم کنار کرے گی،جسے قرآ ن نے شِفَـآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ، (یونس ۱۰:۵۷) کہا ہے۔ وہ شفار ہے ان سارے امراض کے لیے، جن کا انسانیت آج شکار ہے۔ یہ کس کے ہاتھوں ہوگا، یہ میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرا بھی دل چاہتا ہے کہ یہ سعادت ہمارے حصے میں آئے، بشرطیکہ ہمیں اس کا ادراک اور احساس ہو۔
یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جو ہم نے اپنے ذمے لیا ہے۔ مکہ میں مٹھی بھر آدمی تھے اور ایک کلمے کی دعوت تھی، مگر اس وقت بھی ان کی نگاہیں قیصر و کسریٰ کے خزانوں اور محلات پر تھیں۔ اس ادراک کے بغیر ان چھوٹے کاموں کے اندر وہ عظمت نہیںپیدا ہو سکتی، جو کہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صدقے کی ایک سونے کی گٹھلی کو لیتا ہے اور اس کو اتنا بڑھاتا ہے کہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ مگر اللہ نے ایک فرق بھی ملحوظ رکھا ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْٓ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ط وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ط وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ o (الحدید۵۷:۱۰) تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے، اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
لہٰذا جب فتح اور غلبے کی علامات نظر آنے لگیں، اس وقت کا ادراک اور احساس رکھنا اور شعور رکھنا اور تاریخ جو کچھ پیش کر رہی ہے اس کا فہم ضروری ہے۔ یہ اُمت محمدیؐ کے عالمی مشن کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کے نتیجے میںآج بھی چھٹی صدی عیسوی کا یہ معجزہ ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔
اگر ہم آگے بڑھ کر اس کام کو نہ اٹھائیں گے تو سیدنا مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں کہ دولھا کے انتظار میںکنواریاں چراغ لیے انتظار کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ دولہا آیا اور گھر میں داخل ہو گیا، کچھ سو گئی تھیں اور کچھ کا تیل ختم ہو گیا تھا اور وہ اس کے ساتھ اندر نہیں جا سکیں۔
جب تاریخ کا دولہا اسلام کی بارات لے کر آئے گا، تو کون ہوگا جس کے چراغ میں تیل جل رہا ہوگا، اور کون ہوگا کہ جو جاگ رہا ہوگااور کون ہوگا جو تاریخ کے اس لمحے پر اپنا کردار ادا کرے گا___ اس کا علم یا تو علام الغیوب کو ہے یا تاریخ اس کا فیصلہ کرے گی۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اگر تم اس فرض کو ادا نہ کرو گے تو پھر وہ کیا کرتا ہے:
وَ اِنْ تَـتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ لا ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْo (محمد ۴۷:۳۸) اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
یہ ہے وہ دعوت کہ جو آج اس امت کے سامنے موجود ہے۔ اس پکار پر لبیک کہنے میں اس اُمت کا مستقبل بھی ہے، اور انسانیت کا مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کا شعور وادراک عطا کرے اور اس راہ پر چلنے کی توفیق دے،آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی)
کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور۔ قیمت: ۷ روپے، سیکڑے پر خصوصی رعایت
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلافات کا تعین کر لیا جائے اور ایسے مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ ہر فرد کی، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی اسلامی نظام کا اصل مقصد ہے۔ تبدیلی کا عمل کسی فرد کے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعّال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے، اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔
اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل و احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خمیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض کا احترام کیا جاتا ہے جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کا نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔
جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترک بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے، لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔
اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔
ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحثے کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
ا - شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔
ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھے، اس کا ادراک کرے اور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہو۔
ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ، مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثے میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔
بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے، چنانچہ دنیا کے تمام حصوں اور علاقوں سے اسلام کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام، انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنے دائرۂ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔
اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ تمام انسانوں کو پیشے اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے اور ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کی منشا کے مطابق ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔
سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرزم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔
اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت ہی کے نمایندے تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔
اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت ہی کا ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمّال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمّال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔
اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔
اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیا گیا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھیرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔
مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل مثالیے (paradigm )کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔
تاریخ میں پہلی بار معاصر مسلم دنیا کو ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبی ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہوگئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار ہی میں مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر، غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔
نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سایے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن اس ’بابو طبقے‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار ہی کو حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا غیرشعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا۔(۲۱) آزادی کے بعد، ان ملکوں میں اقتدار بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آیا یا لایا گیا جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم ہی سے برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھا،بلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور ہی کی پیداوار تھی۔ عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔
احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیلِ نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں ہی سے اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ عوام سے مختلف ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (عقائد)، اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔
تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں بلکہ عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘۔(۲۲)
پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک بن جائے توجس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا‘‘۔(۲۳)
کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (مسلم اُمّہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے۔(۲۴)
ایسپوزیٹو اوروال بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کی وضاحت میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مسلم ریاستوں میں مذہبی احیا اور جمہوری عمل ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)
حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:
مسلم سیاست کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے ان چیلنجوں کو پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاَثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے۔(۲۶)
اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ مسلمانوں میں جہاں کہیں بھی آمرانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا اُن کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور حق اختلاف کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، نام نہاد جمہوری ہو یا موروثی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور مسلم عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کے آگے بڑھنے ہی سے ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادیِ جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے لیے مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنے اندازِ سیاست، ، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگّا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بَل پر تکمیلِ خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔
۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کی قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقا نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام ہی نے لوگوں کے اندر اس قسم کا نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔
۲۲- فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔
۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔
۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔
۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit ص ۲۱۔
کوسووا یا کوسووو، نام لینے میں بھی البانوی مسلمانوں اور سرب مسیحیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سرب آخر میں ’واو‘ پڑھتے ہیں اور البان ’الف‘۔ لیکن اصل اختلاف شناخت اور آزادی کا ہے اور یہ اختلاف بہت قدیم ہے۔
۲۸جون ۱۳۸۹ء کو دارالحکومت پر سٹینا کے شمال میں دونوں طرف سے لاکھوں کی تعداد میں افواج جمع تھیں۔ ایک جانب عثمانی علَم کے سایے تلے، سلطان مراد کی قیادت میں مسلمان، اور دوسری طرف صلیبی پرچموں تلے سربیا، کروواٹیا، مولڈیویا، آسٹریا،بوسنیا اور البانیا کے شہزادوں، بادشاہوں کی قیادت میں مسیحی، ۱۳ دن کی خوف ناک جنگ کے بعد عثمانی لشکر فتح یاب ہوا۔ مسیحی افواج کا قائد سربی شہزادہ ’لازار‘ مارا گیا۔ بعدازاں سلطان مراد کو بھی ایک سرب فوجی نے زہریلے خنجر کے وار کر کے ابدی نیند سلا دیا، لیکن بلقان کا علاقہ کئی صدیوں تک عثمانی خلافت کے زیرسایہ پروان چڑھتا رہا۔ اہلِ علاقہ عثمانیوں کی آمد سے بھی دو صدیاں پیش تر اسلامی تعلیمات سے آشنا ہونا شروع ہوگئے تھے اور البانوی و بوسنوی (بوشناق) نسل کے افراد، بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کرچکے تھے۔ تب یہاں ’بوگومیل‘ کے نام سے ایک مسیحی فرقہ پایا جاتا تھا جو عقیدۂ تثلیث کا انکاری ہونے کے باعث کیتھولک اور آرتھوڈوکس دونوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتا تھا۔ عثمانیوں کی آمد کے بعد بوگومیل فرقے کے لوگ باقی فرقوں اور قبائل کی نسبت زیادہ تیزی سے اسلام کی پناہ میں آتے چلے گئے۔
عثمانی خلافت کے اضمحلال اور بالآخر خاتمے کے زمانے میں دیگر خطوں کی طرح بلقان کی مختلف ریاستوں کی تشکیل نو اور یورپی ممالک میں ان کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ۱۸۶۷ء میں سربیا کی ریاست وجود میں آئی۔ ۱۸۷۸ء میں ریاست البانیا کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ ۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان کا آغاز ہوا تو کوسووا اور سنجق سمیت البانیا کے نصف علاقے کو اس کا حصہ ماننے سے انکار کردیا گیا۔ البانوی مسلمانوں کا بہیمانہ قتلِ عام کیا گیا اور بالآخر پہلی عالمی جنگ کے بعد ۱۹۱۸ء میں سربیا نے کوسووا اور سنجق کواپنی قلم رو میں شامل کرلیا۔ پھر عظیم تر سرب ریاست کے قیام کا خواب دیکھنے والے متعصب سرب ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والے یوگوسلاویہ کے اصل کرتا دھرتا بن گئے۔ سرب نسل کے غلبے کے لیے کوئی ایسا موقع نہ جانے دیا گیا کہ جب کسی نہ کسی بہانے مسلمان آبادی پر ناقابلِ بیان مظالم کے پہاڑ نہ توڑے گئے ہوں۔ صرف دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی اڑھائی لاکھ مسلمان لقمۂ اجل بنا دیے گئے۔ اس کے باوجود اس وقت یوگوسلاویہ میں باقی بچ جانے والی مسلم آبادی کی تعداد ۲۰لاکھ تھی۔ ۱۰ لاکھ تو صرف بوسنیا ہی میں تھے اور باقی سنجق، مقدونیا، کوسووا اور دیگر علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔
عثمانی لشکر اور صلیبی افواج کے درمیان تاریخی معرکے کے ٹھیک ۶۰۰سال بعد یعنی ۲۶جون ۱۹۸۹ء کو دسیوں ہزار سرب باشندے اس جنگ کی یاد منانے کے لیے جمع تھے اور سرب صدر سلوبووان میلوسوووچ ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’معرکۂ کوسووو ابھی ختم نہیں ہوا، سرب عوام اپنے کامل حقوق واپس لے کر رہیں گے‘‘۔ اس نے سابقہ یوگوسلاویہ میں البانیا کی خودمختار حیثیت کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یورپی غیرسرب آبادی کے لیے آزمایشوں کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی۔ نئے سرے سے مسلم آبادی کا ناطقہ بند کرنے کا آغاز کردیاگیا، انھیں ملازمتوں سے فارغ کردیاگیا، ان کی کمپنیاں اور کاروبار بند کردیے گئے۔ مدارس وجامعات سے نکال دیے گئے اور انھیں موت یا گرفتاریوں کی نذر کردیا گیا تاکہ وہ یا تو اس خطے سے نکل جائیں یا پھر دنیا ہی سے کوچ کرجائیں۔
کوسووا کے مسلمانوں نے اس صورت حال کا سامنا صبروثبات اور ممکنہ مزاحمت کے فیصلے سے کیا۔ ابراہیم روگووا اور ہاشم تاچی نام کی دو شخصیات نے کوسووا کے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ ابراہیم پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، جب کہ ہاشم مسلح مزاحمت کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ ابراہیم نے ’البانوی جمہوری اتحاد‘ کے نام سے پارٹی قائم کی اور پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے کوسووا میں ستمبر۱۹۹۱ء میں عوامی ریفرنڈم کروا دیا۔ مسلمانوں نے اپنی آزادی کا فیصلہ و اعلان کردیا لیکن اس اعلان آزادی کو نہ تو سربیا نے قبول کیا اور نہ ہی عالمی برادری نے اس کی پشتیبانی کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ البتہ کوسووا کے عوام نے مئی ۱۹۹۲ء کو ابراہیم روگووا کو جمہوریہ کوسووا کا صدر منتخب کرلیا۔
پُرامن جدوجہد، کوسووا کی آزادی اور سرب مظالم سے نجات کے لیے عملاً کوئی تبدیلی واقع نہ کرسکی، تونوجوانوں نے ہاشم تاچی کی قیادت میں خود کو عسکری لحاظ سے بھی تیار و منظم کرنا شروع کردیا۔ بوسنیا کی صورت حال نے اس تیاری کی ضرورت مزید واضح کردی۔ بوسنیا نے بھی ۲۹فروری اور یکم مارچ ۱۹۹۲ء کو اپنے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا فیصلہ و اعلان کیا تھا۔ لیکن بوسنیا کی ۳۲ فی صد سرب آبادی نے نہ صرف اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ۶۸ فی صد مسلمان آبادی کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ چند روز کے اندر اندر دارالحکومت سرائیوو سمیت مختلف مسلم آبادیوں پر بم باری شروع کردی اور پھر عظیم تر سربیا کے قیام کے لیے کوشاں میلوسووچ نے درندگی، خوں خواری اور وحشی پن کے تمام الفاظ کو مظالم کی صحیح عکاسی سے محروم کردیا۔ چار سال تک بوسنیا میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ بلامبالغہ لاکھوں جانیں فنا کے گھاٹ اُتار دی گئیں، ۵۰ ہزار سے زائد مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی اور مہذب ہونے کی دعوے دار پوری دنیا تماشائی بنی رہی۔
ہاشم تاچی اور ان کے ساتھیوں نے بوسنیا کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنی عسکری تیاریوں کو مزید مربوط و منظم کیا لیکن یہ ساری تیاریاں سرب وحشی پن کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔ ۱۹۹۶ء میں بوسنیائی قیامت کا طوفان تھما تو سربوں نے ۱۹۹۸ء میں کوسووا کا محاذ گرم کردیا۔ یہاںبھی جب دسیوں ہزار مسلمانوں کواجتماعی قبروں میں زندہ یا مُردہ دفن کردیا گیا اور ہرطرف تباہی کا راج ہوگیا تو ۱۹۹۹ء میں طرفین کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا گیا لیکن سربوں نے مذاکرات کے نتائج کو بھی ماننے سے انکار کردیا۔ بالآخر ناٹو افواج نے کوسووا سے سرب افواج کونکالنے کے لیے فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ ۷۸ روز کے فضائی حملوں کے بعد سرب افواج نے کوسووا کا علاقہ خالی کیا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد ۱۲۴۴ منظور کی۔ ۳۹ملکوں سے ۵۰ ہزار فوجی امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کی زیرقیادت کوسووا کے پانچ الگ الگ علاقوں میں متعین کیے گئے اور کوسووا کی شناخت اور مستقبل کے تعین کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا۔
گذشتہ نو برس سے اقوام متحدہ کاعبوری انتظامی مشن UNMIK (United Nations Interim Administration Mission in Kosovo) کے نام سے کوسووا کے معاملات چلا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ ریاستی ڈھانچے کی تشکیلِ نو جاری ہے۔ سربیا کے ساتھ بھی مذاکرات کے لاتعداد دور چل چکے ہیں لیکن کوسووا کی آزادی کے سلسلے میں کسی مفاہمت تک نہ پہنچا جاسکا۔ بالآخر طرفین کو مزید ۱۲۰ روز کی حتمی تاریخ دے دی گئی کہ ۱۰دسمبر ۲۰۰۷ء تک بہرصورت کوئی فیصلہ کرلیں۔ یہ مہلت بھی گزر گئی لیکن سربیا اسی ہٹ دھرمی پر اڑا رہا کہ ’’کوسووا ہمارا اَٹوٹ انگ ہے‘‘۔ اسی دوران نومبر ۲۰۰۷ء میں کوسووا کے عام انتخابات ہوگئے اور سرب مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد کا سربراہ ہاشم تاچی کوسووا کا وزیراعظم منتخب ہوگیا۔ اپنے انتخاب کے فوراً بعد انھوں نے بیان دیا کہ ۱۰دسمبر ۲۰۰۷ء کے بعد ہم کسی بھی وقت اعلانِ آزادی کرسکتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔
امریکا اور یورپی ممالک نے کوسووا کے حق آزادی کی بھرپور سرپرستی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ مارٹی اھٹساری نے بھی یہی فارمولا پیش کیا کہ کوسووا کو آزاد ہوجانا چاہیے۔ اس کا اپنا دستور، اپنا پرچم اور اپنا قومی ترانہ ہونا چاہیے اور اسے عالمی تنظیموں اور اداروں کا رکن بننا چاہیے۔ پہلے تو خیال تھا کہ شاید کوسووا کا اعلان آزادی اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کے ذریعے کیا جائے گا لیکن جب روس نے کوسووا کی آزادی کی بھرپور مخالفت کی تو کوسووا کی پارلیمنٹ نے خودہی یہ اعزاز حاصل کرلیا۔ ۱۷فروری بروزاتوار پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا، قرارداد آزادی پیش کی گئی، ۱۲۰ارکان اسمبلی میں سے ۱۰۹ حاضر ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا، اور وزیراعظم ہاشم نے اپنے جذبات سے معمور خطاب میں اعلان کیا کہ ’’آج کے بعد سربیا کبھی کوسووا پر حکمرانی نہیں کرسکے گا‘‘۔ اعلانِ آزادی کے الفاظ تھے: ’’ہم اپنی قوم کے منتخب نمایندگان و رہنما، کوسووا کی آزاد و خودمختار، جمہوری ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ اسپیکر یعقوب کراسنیکی نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’’آج کوسووا نے اپنی سیاسی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب ہم آزادی، استقلال اور اپنی مرضی کی مالک ایک ریاست ہیں۔
۱۹۱۲ء میں بلقان سے عثمانی افواج کی واپسی سے لے کر اب تک گذشتہ ۹۶برس سے اہلِ کوسووا نے یہ خواب آنکھوں میں سجایا ہوا تھا کہ کوئی دوسرا ان پر اپنی حکمرانی نہ کرے، بالآخر اس خواب کی تکمیل ہوئی۔ اعلان آزادی کے ساتھ ہی اہم عالمی قوتوں نے کوسووا کو آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ترکی، آسٹریلیا سمیت اب تک ۱۸ ممالک، کوسووا کو تسلیم کرچکے ہیں۔ روس، اسپین، قبرص، اسپین اور رومانیہ نے اس آزادی کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ چین اور انڈونیشیا نے بھی یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے کہ اس سے نسلی تقسیم وانتشار کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ روس اور چین کی مخالفت کا ایک اہم سبب چیچنیا اور تبت جیسی دیگر ریاستوں اور خطوں کو دعواے آزادی سے روکنا بھی ہے۔
نومولود کوسووا کو اعلان آزادی کے باوجود بے حد گمبھیر خطرات کا سامنا ہے۔ درندہ نما سلوبودان میلوسووچ کے بھائی بوری سلاف نے روس میں بیٹھ کر دھمکی دی ہے کہ ’’ہمیں کوسووا کی بازیابی کے لیے نئی جنگ لڑنا ہوگی‘‘۔ ۲۱فروری کی سہ پہر بلگراد میں مظاہرہ کرتے ہوئے سربوں نے بھی تقریباً ایسی ہی زبان استعمال کی ہے۔ انھوں نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولتے ہوئے اسے آگ لگا دی۔ یہ بھی دھمکی دی جارہی ہے کہ کوسووا میں مقیم ۷ فی صد سرب آبادی کے ذریعے وہاں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جائے گی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غزہ کی طرح کوسووا کا مکمل محاصرہ کردیا جائے گا۔ کوسووا نئے دوراہے پر کھڑا ہے، آزادی کی حفاظت یا پہلے سے بھی بدتر خوں ریزی جس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے خدانخواستہ کسی عالمی نزاع تک جاپہنچے۔ واضح رہے کہ پہلی دوعالمی جنگوں کی ابتدائی چنگاریاں بلقان ہی سے پھوٹی تھیں۔ پہلا امکان زیادہ قوی ہے۔ روس اور سربیا کی دھمکیاں اب دھمکیوں سے زیادہ گیدڑ بھبھکیاں ہیں۔
کوسووا کا اعلانِ آزادی جہاں ایک طرف وہاں کے عوام کے عزم و ارادے کا مظہر ہے وہیں امریکا اور یورپ کے مقاصد و طمع کی تکمیل بھی ہے۔ کوسووا روس کا پچھواڑا ہے، مشرقی یورپ میں مسلسل سرایت کرتے ہوئے امریکا اور یورپ، روس کے گرد اپنا حصار مضبوط تر کرتے آرہے ہیں۔ کوسووا معدنی وسائل کے اعتبار سے دنیا کا مال دار خطہ ہے۔ یہاں سونا، چاندی، سکّہ اور کوئلہ پایا جاتا ہے۔ ۱۰ہزار ۹سو مربع کلومیٹر مساحت پر مشتمل اس ریاست میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱۰ ارب ۸۰ کروڑ کیوبک میٹر کوئلے کے ذخائر ہیں۔ ۱۰مارچ کو یورپی ممالک اور امریکی نمایندگان کی موجودگی میں کوسووا کی آزادی کا عالمی سطح پر اعلان ہوجائے گا۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کے بجاے یورپی انتظامیہ کوسووا کے معاملات کی اصل ذمہ دار بن جائے گی۔ اگرسابق الذکر اسباب و علل نہ ہوتیں تو امریکا و یورپ یقینا کبھی ایسا ’مبارک‘ قدم نہ اٹھاتے جو فلسطین، کشمیر، چیچنیا سمیت آزادی کے ہر خوگر کے لیے ایک مثال اور حجت بن جائے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان شون میکورمیک سے دریافت کیا گیا۔ کیا امریکا کوسووا کی طرح فلسطین کابھی یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی پارلیمنٹ اور عوام کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کردے؟ شون نے کہا: ’’مشرق وسطیٰ کا تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی امید ابھی باقی ہے۔ کوسووا میں مذاکرات ناکام ہوگئے تھے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ فلسطین میں تو ۶۰سال گزرنے کے باوجود مذاکرات سے اُمید باقی ہے کوسووا میں نوسال کے بعد ہی یہ اُمیدیں مایوسی میں بدل گئیں…؟
کوسووا کی ۲۵ لاکھ آبادی میں سے ۹۰ فی صد مسلمان ہیں لیکن اب شاذونادر ہی ان کی اسلامی شناخت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور سیاسی رہنما ۹۲ فی صد البانوی النسل آبادی ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں امریکا اور یورپ کا مفاد تھا تو انھوں نے مسلم کوسووا کی آزادی کا کڑوا گھونٹ بھی پی لیا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم ممالک کا کردار کیا ہے؟ بدقسمتی سے وہ ابھی تک آزاد کوسووا کو تسلیم کرنے کے لیے بھی آگے نہیں آسکے۔ سابق الذکر ۱۸ممالک جنھوں نے کوسووا کو تسلیم کیا ہے، میں سے صرف ترکی مسلم ملک ہے، دوسرا ملک افغانستان ہے اسے اپنے فیصلے خود کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی، امریکا خود ہی کرلیتا ہے۔ آج اگر مسلم ممالک بالخصوص پاکستان، کوسووا کوتسلیم کرتے ہوئے وہاں کے مسلم عوام کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کی بنیاد مستحکم کرلیں، تو اس کے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ علاوہ ازیں کشمیر اور فلسطین کے بارے میں بھی مغربی ممالک کے عوام کے سامنے ہمارا اخلاقی موقف مضبوط ہوگا۔
صدرمملکت عبداللہ گل کی اہلیہ ہوں، وزیراعظم طیب اردوگان کی صاحبزادیاں ہوں، منتخب رکن پارلیمنٹ مروہ قاوقچی ہوں یا دیگر کروڑوں ترک خواتین، کسی کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر یا سرکاری تقریبات میں جاتے ہوئے سر ڈھانپ سکیں۔ چہرے کا پردہ نہیں صرف سر اور گردن کو دوپٹے یا اسکارف سے ڈھانپ لینا ہی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں ہزاروں طالبات کو حصولِ تعلیم سے محروم کیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم اردوگان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ اپنی دو بیٹیوں کے سر ڈھانپ کر کالج میں داخلہ دلوا سکیں۔ ہاں، اگر کوئی خاتون اپنا لباس مختصر کرنا چاہے تواس پر کوئی قدغن نہیں، اسے ایسا کرنے سے روکنے والے بنیاد پرست، تاریک خیال اور سیکولر ریاست دشمن قرار پائیں گے۔ خلافت اسلامی کے آخری امین، ۹۹ فی صد مسلم آبادی پر مشتمل ترکی کے درودیوار سیکڑوں ایسے مناظر کے گواہ ہیں کہ سر ڈھانپے نوجوان بچیوں کو دھکے مار کر تعلیمی اداروں سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ بھی ہوا کہ طالبات اپنے اس ایمان کے باعث کہ حجاب امرخداوندی ہے، سر، گردن اور سینے پر باوقار اسکارف اوڑھ کر آئیں، لیکن اپنی مادر علمی کی دہلیز پر آنسو بہاتے ہوئے اسکارف نوچ کر بیگ میں چھپا لیا کہ ایسا نہ کیا تو حصولِ علم سے محروم کردی جائیں گی۔
پردے کے مخالفین میں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے، جس معاشرے میں پردہ کرنا، نہ کرنے سے زیادہ آسان ہو، وہاں یہ ’فلسفہ‘ رواج دیا جاتا ہے کہ یہ تو انسان کا ذاتی مسئلہ ہے کوئی دوسرا کیسے اسے اس بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے، بندہ جانے اور اس کا رب جانے یا پھر یہ کہ یہ تو معمولی اور چھوٹی سی بات ہے، اس کا بتنگڑ کیوں بناتے ہو… وغیرہ لیکن ترکی جیسے معاشرے میں کہاجاتا ہے: پردہ ایک مخصوص عقیدے کی علامت ہے، پردہ بنیاد پرستی کی نشانی ہے، پردہ رجعت پسندی کی طرف لے جاتا ہے، پردہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے منافی ہے، پردہ دہشت گردی کی انتہاتک لے جاتا ہے۔ ترکی ہی نہیں تیونس، تاجکستان اور ازبکستان جیسے کئی مسلمان ملکوں میں، جہاں بھی اسلام پسندی کے خلاف سرکاری محاذ آرائی عروج پر ہوتی ہے، سب سے پہلا نشانہ پردے ہی کو بنایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں سے صرف فرانس ایسا ملک ہے جہاں تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر میں اسکارف اوڑھ کر جانا قانوناً ممنوع ہے۔ جرمنی نے بھی اس راہ پر قدم اٹھائے ہیں، اس کے ۱۲ صوبوں میں سے سات میں اسکارف پر پابندی ہے۔ اسپین میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، انتخابی مہم میں اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئی تو تعلیمی اداروں میں اسکارف پر پابندی لگا دے گی۔
ترک عوام اور بالخصوص خواتین نے ان پابندیوںاور جبر سے نجات کی ہرممکن کوشش کی، لیکن روشن خیالی اور سیکولر ریاست کو بنیاد بناکر ان تمام کوششوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ صدآفریں کہ خواتین نے اپنے حق اور اپنی کوششوں سے دست برداری قبول نہیں کی۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر مظاہرے کیے، تعلیمی اداروںاور سرکاری ملازمتوں سے باہر آتے ہی خود کو اسکارف کی زینت سے آراستہ کیے رکھا۔ عرصے تک ایک انوکھا مظاہرہ یہ بھی کیا کہ ہراتوار کی صبح فجر کی نماز استنبول میں واقع صحابی رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر سے ملحق مسجد اور میدان میں ادا کی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلم خواتین اپنے کنبوں سمیت منہ اندھیرے آتیں اور آس پاس کی تمام سڑکیں رب کے حضور سجدہ ریز، اللہ کی ان بندیوں سے بھر جاتیں۔
۲۰۰۲ء میں انصاف و ترقی پارٹی بھاری اکثریت سے برسرِاقتدار آئی تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ حجاب سے پابندی ختم کردے گی، کیونکہ یہ پابندی خود سیکولرزم کے ان دعووں کے بھی منافی ہے جن میں ہر شخص کو اپنے لباس اور عقیدے کی آزادی دینے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن سعی کے باوجود یہ پابندی ختم نہیں کی جاسکی۔ صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو عبداللہ گل پر سب سے بڑااعتراض ہی ان کی اہلیہ کا باحجاب ہونا تھا۔ اعتراض اور معرکہ یہاں تک پہنچا کہ کئی بار پولنگ کے بعد بالآخر اسمبلی برخاست ہوگئی۔ دوبارہ عام انتخابات بھی ’انصاف و ترقی‘ کی جیت پر منتج ہوئے تو صدارتی معرکے میں پھر حجاب ہی کو اصل وجہ نزاع بنانے کی کوشش کی گئی۔ عوامی تائید کی لہر کے سامنے مخالفین کی ایک نہ چلی اور باحجاب خاتونِ اول ایوانِ صدر کی زینت بن گئیں۔ اس سے قبل جب ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی طرف سے مروہ قاوقچی رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں تو مخالفین کے منع کرنے کے باوجود وہ اسکارف سمیت ایوان میں داخل ہوگئیں، آسمان سر پر اُٹھالیا گیا، دہائیاں دی گئیں کہ اتاترک کی روح کو گھائل کردیا گیا، بالآخر مروہ کو اسمبلی چھوڑنا پڑی۔
اب ایک ایک کر کے اتاترک کی باقیات السیئات سے نجات مل رہی ہے۔ ۷فروری کو اسی پارلیمنٹ میں ایک دستوری ترمیم پیش کی گئی جس میں براہِ راست تو حجاب یا اسکارف کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن اصل ہدف حجاب کی بتدریج بحالی ہی تھا۔ عمومی تصور یہ ہے کہ ترکی دستور حجاب پر کوئی براہِ راست ممانعت عائد کرتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں درحقیقت ۱۹۲۶ء میں جاری قانونِ ہیئت کی ایک شق کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اتاترک نے اس قانون کے ذریعے ہر مردوزن پر مغربی لباس فرض کردیا تھا تاکہ ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت دیا جاسکے۔ اس ضمن میں خواتین کو پابند کردیا گیا کہ وہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں لمبااسکرٹ اور شرٹ پہنا کریں۔ا گرچہ اس میں یہ نہیں کہاگیا تھا کہ سرڈھانپنے کی اجازت نہیں ہوگی لیکن عملاً ایسا ہی کیا جاتا رہا۔ ۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد ترک یونی ورسٹیوں کے سربراہوں نے مل کر ایک فیصلہ جاری کردیا کہ آیندہ کوئی طالبہ یونی ورسٹی کی عمارت میں اسکارف لے کر نہیں آسکے گی، تب سے یہ معرکہ اپنے عروج پر جاپہنچا۔ کئی شہروں میں ہنگامے ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں طالبات و خواتین کو جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ کئی طالبات اور ان کے خاندان ترکی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک تنہا خاتون ہدی کایا اپنی تین بچیوں اور ایک صاحبزادے سمیت پاکستان آکر بھی رہیں۔ تقریباً ایک سال قیام کے بعد واپس گئیں تو جاتے ہی پھر گرفتار ہوگئیں، مقدمہ چلا اور سب کو کئی سال کی سزا بھگتنا پڑی۔ جرم صرف یہی تھا کہ نہ تو یونی ورسٹی میں حجاب اُتارنے پر راضی تھیں اور نہ تعلیم سے محروم رہنے پر تیار ، بلکہ اس پر احتجاج کرتی تھیں۔ پھر ۱۹۹۷ء میں صدر سلیمان ڈیمرل نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے صراحت کے ساتھ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں اسکارف لینے پر پابندی عائد کردی۔
فروری کو پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی دستوری ترمیم میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’کوئی شخص یا ادارہ کسی ایسی بنیاد پر کسی کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک سکے گا کہ جس کا ذکر ترک دستور میں نہیں ہے‘‘۔ اس ترمیم پر ۹فروری کو ووٹنگ ہوئی تو ۵۵۰ کے ایوان میں سے ۴۰۳ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ دستوری ترمیم کے لیے ۳۶۷ ووٹ درکار تھے لیکن ’قومی تحریک پارٹی‘ نامی ایک سیکولر جماعت نے بھی اردوگان کی پارٹی کا ساتھ دیا۔ ایک سیکولر جماعت کا حجاب کی راہ سے رکاوٹیں ختم کرنے میں ساتھ دینا سب کے لیے حیرت کا باعث بنا۔ تجزیہ نگار اس فیصلے کی توجیہہ یہ کر رہے ہیں کہ ’قومی تحریک پارٹی‘نے عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔ سیکولر جماعتوں نے یہ ترمیم سامنے آنے پر ۱۷شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر اس کے خلاف مظاہرے کیے، لیکن یہ بات سب جانتے تھے کہ اب ترمیم کا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ ’قومی تحریک‘ نے فیصلہ کیا کہ حجاب کے حق میں بڑھتی ہوئی عوامی لہرسے اپنا حصہ حاصل کیا جائے۔ دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ ترکی کی سیکولر پارٹیوںنے جان لیا ہے کہ ’انصاف و ترقی‘ کی مخالفت اس کی مزید شہرت و تقویت کا باعث بنتی رہی ہے۔ اب کوئی اور راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ قومی تحریک پارٹی کے نائب صدر ٹوسکای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم نے انصاف و ترقی کی اس دستوری ترمیم کا ساتھ اس لیے دیا ہے تاکہ اسے اس سے زیادہ حسّاس اور اہم ترامیم سے روکا جاسکے۔ واضح رہے کہ انصاف و ترقی آیندہ برس ترکی کے نئے دستور کا مسودہ پیش کرکے اس پر عوامی ریفرنڈم کروانا چاہتی ہے۔
۹فروری ۲۰۰۸ء کو اسمبلی سے منظوری کے دو ہفتے کے اندر اندر اس پر صدر جمہوریہ کی منظوری درکار تھی۔ صدر یہ منظوری دو ہفتے کے دوران کسی بھی وقت دے سکتا تھا لیکن انھوں نے آخری روز، یعنی ۲۳فروری کو دستخط کیے اور یہ ترمیم دستور کا حصہ بن گئی۔ تحمل اور صبر کا یہ رویہ بھی انصاف پارٹی کی حکمت عملی کا ایک تعارف کرواتا ہے۔ حالیہ ترمیم سے صرف یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات پر سے پابندی ختم ہوئی ہے، تعلیم کے تمام ابتدائی مراحل میں ابھی یہ پابندی باقی ہے اور یونی ورسٹیوں کی اساتذہ و ملازمین بھی اسکارف لے کر یونی ورسٹی نہیں آسکتیں۔ دیگر سرکاری اداروں میں بھی یہ پابندی بدستور باقی ہے لیکن یہ ایک آغاز ہے اور اتاترک کی راہ پر چلنے والوں کے لیے انتہائی تہلکہ خیز آغاز۔
اب اصل سوال ترک فوج اوردستوری عدالت کا ہے۔ فوج کے سربراہ نے تو یہ بیان دے کر فی الحال خاموشی اختیار کرلی ہے کہ ’’پردے کے بارے میں فوج کا موقف معلوم و معروف ہے، اسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ لیکن دستوری عدالت کا موقف فی الحال مجہول بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اس کا فیصلہ ناقابلِ اپیل اور حتمی ہوتا ہے اور اس پر کٹڑ اسلام دشمن سیکولر حاوی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ بھرپور عوامی رو کو دیکھتے ہوئے دستوری عدالت بھی خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھے گی۔ عدالت کو بھی یہ خدشہ ہے کہ اگر اس جزوی ترمیم کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو کہیں اردوگان فوراً ہی نئے دستور کا مسودہ ریفرنڈم کے لیے پیش نہ کردیں کہ جس میں خود دستوری عدالت کا کردار بھی محدود کرنا پیش نظر ہے۔ ترکی میں گذشتہ پون صدی سے جاری سیاسی و ثقافتی کش مکش اب حسّاس دور میں داخل ہوگئی ہے۔ عوام کی بھرپور اکثریت اسلامی شعائر کا احترام کرنے پر زور دے رہی ہے۔ حالیہ دستوری ترامیم کے بارے میں جب سروے کروایا گیا تو ۷۰ فی صد عوام نے اس کے حق میں رائے دی۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ یہ حمایت کسی عمومی معاشرتی ماحول یا وراثتی روایات کی بنیاد پر مبنی نہیں ہے۔ اسکارف کی حمایت کرنے والوں میں سے ۶۱ فی صد نے بتایا کہ وہ اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ اسلام حجاب کا حکم دیتا ہے۔
وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ،(الصف ۶۱:۸) اللہ اپنا نور مکمل کرکے رہے گا خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
جمہوریہ چاڈ اقوام متحدہ، افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور اسلامی کانفرنس کا رکن ہے۔ یہاں مسلمان اکثریت (۵۷ فی صد) میں ہیں۔ چاڈ میں اس وقت خانہ جنگی جاری ہے۔ دنیابھر میں اس کی خبریں منظرعام پر آرہی ہیں۔ چاڈ ایک تو افریقی ملک ہے، دوسرے فرانسیسی استعمار کے زیرتسلط رہنے کی وجہ سے انگریزی بولنے والے ممالک کے برعکس فرینکوفون (فرانسیسی زبان) برادری کا رکن ہے۔ اسی وجہ سے انگریزی استعمار میں رہنے والے علاقوں کے برعکس فرانسیسی نوآبادیات والے علاقوں میں زیادہ متعارف ہے۔ یہ علاقہ بنیادی طور پر مسلمانوں کا ملک تھا۔ فرانسیسی استعمار نے ۱۹۰۰ء میں یہاںقبضہ کیا اور مسلمان حکمران ربیح الزبیر کو حکومت سے بے دخل کردیا۔ الزبیر کا اپنا تعلق بھی چاڈ سے نہیں تھا۔ وہ سوڈان کا حکمران تھا جس نے ۱۸۸۳ء کو اس علاقے کی تین مقامی بادشاہتوں کو یکے بعد دیگرے فتح کیا۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف اس وقت سے ہی مقامی آبادی نے جدوجہد شروع کر دی تھی لیکن انھیں عملاً آزادی ۱۹۶۰ء میں حاصل ہوئی۔ یہ آزادی بھی فی الحقیقت براے نام ہی تھی کیونکہ فرانس نے اپنی فوجیں اور دیگر ادارے یہاں آزادی کے بعد بھی مسلط رکھے، جو اب تک پوری طرح معاملات میں دخیل ہیں۔
بدیشی آقائوں نے جاتے ہوئے مسلمان اکثریت کے اس ملک کا پہلامقامی حکمران جنوب کے ایک عیسائی فرنکوئیس ٹومبل بائی کو بنایا۔چاڈ خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، جس کا رقبہ پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ گنا ہے (چاڈ ۱۲لاکھ ۸۴ہزار مربع میل، پاکستان ۸ لاکھ ۹سو ۴۰ مربع میل) اور آبادی صرف ایک کروڑ ۱۰ لاکھ ہے۔ چاڈ کی سرحدیں جن ملکوں سے ملتی ہیں، ان میں نائیجیریا، لیبیا،سوڈان، سنٹرل افریقن ری پبلک، کیمرون اور نائیجر، چھے ممالک شامل ہیں۔ اس کے دوہمسایے نائیجیریا اور سوڈان براعظم افریقہ میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بالترتیب سب سے بڑے ملک ہیں۔ چاڈ میں آزادی کے بعد مسلسل افراتفری اور جنگ و جدال رہا ہے۔ شمال میں بسنے والے مسلمان، جو ملکی آبادی کا ۶۰ فی صد ہیں، اقلیت کی حکومت میں خود کو مطمئن نہیں پاسکتے تھے۔ وہ شروع سے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو وہ بغاوت پر مجبور ہوگئے۔ وقتاً فوقتاً باہر کے ممالک بھی اس خانہ جنگی میں شریک ہوتے رہے۔
ملک کا پہلا صدر فرنکوئیس ۱۹۷۵ء میں ایک بغاوت کے دوران قتل کردیا گیا۔ اس کامیاب بغاوت کے بعد جنرل فیلکس مالوم ملک پر قابض ہوگیا، یہ بھی ایک عیسائی تھا۔ ۱۹۷۹ء میں ایک باغی لیڈر گوکونی عیدی جو مسلمان تھا، برسراقتدار آگیا۔ بدقسمتی سے چاڈ میں اس کے بعد بھی حالات معمول پر نہ آئے۔ چاڈ میں فوجی بغاوت، عوامی خانہ جنگی اور افراتفری مسلسل جاری رہی۔اس عرصے میں ایک اور مسلمان حسین ہبرے جو پہلے وزیردفاع تھا، بھی کچھ عرصے کے لیے برسرِاقتدار رہا۔ اسے لیبیا کی حمایت حاصل تھی۔ موجودہ حکمران ادریس ڈیبی ۱۹۹۰ء میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ بھی ایک زمانے میں کمانڈر اِن چیف اور وزیردفاع رہ چکا تھا جو حکومت سے الگ ہوکر خانہ جنگی اور فرانس و لیبیا کی حمایت کے نتیجے میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ فرانس کا تربیت یافتہ ہے۔ چاڈ معدنی دولت سے مالامال ہے، یہاں پٹرولیم، یورینیم اور سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن ابھی تک پوری طرح سے انھیں استعمال میں نہیں لایا گیا۔ مغربی ممالک پٹرول اور دوسری قیمتی معدنی دولت یورینیم پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ ایک معاہدے کے تحت چین بھی تیل کی تلاش اور انتفاع کے لیے صحرائی علاقے میں کھدائی کر رہا ہے۔
موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت اچانک نمودار نہیں ہوئی، یہاں کئی سالوں سے مسلح مزاحمت کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ اس سال کے آغاز میں باغی دستوں نے بڑی قوت کے ساتھ ملک کے دارالحکومت انجمینا پر اچانک حملہ کیا اور پورے دارالحکومت پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ محض صدارتی محل اور اس کے آس پاس کے کچھ محدود علاقے ان کی دست رس سے باہر رہ گئے۔ صدر کی حفاظت کے لیے فرانس کے کئی ہزار فوجی دستے دارالحکومت میں پہلے سے موجود ہیں۔ میراج طیاروں کی مدد اور فضائی کور سے ان فرانسیسیوں نے باغی جنگجوئوں کو صدارتی محل سے دُور دھکیلنے میں وقتی کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ابھی تک حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ موجودہ صدر ادریس دیبی اب تک برسرِاقتدار آنے والے تمام حکمرانوں سے زیادہ عرصہ یعنی تقریباً اٹھارہ سال سے حکمران اور سیاہ وسفید کا مالک ہے۔ وہ اپنے مغربی آقائوں کی طرف سے پیش کردہ ہر معاہدے پر دستخط کرتا چلا آرہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ذاتی دولت میں توبے پناہ اضافہ ہوا لیکن عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ پٹرول، سونے اور یورینیم جیسی قیمتی معدنی دولت کے باوجود چاڈ بھوک و افلاس اور قحط و بربادی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ یو این او کے تیار کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے مطابق اس کا شمار دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں سے پانچ غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔
چاڈ کا ایک دوسرا بڑا مسئلہ سوڈان کے جنوبی علاقے دارفور میں جاری لڑائی کی وجہ سے مہاجرین کی آمد رہا ہے۔ اس وقت دارفور سے آئے ہوئے دو لاکھ سے زیادہ مہاجرین یہاں مقیم ہیں۔ سوڈانی حکومت کے خلاف دارفور میں گذشتہ کئی برسوں سے جو شورش برپا ہے اس کے پیچھے مغربی منصوبہ سازوں کی سازشیں شامل ہیںاور سوڈانیوں کے خیال میں چاڈ سے حملہ آور اس خانہ جنگی میں حکومت کے خلاف باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف چاڈ حکومت اپنے ملک میں پھیلی ہوئی بغاوت کو سوڈان کے کھاتے میں ڈالتی ہے اور اس کے اس دعوے کو مغربی دنیا بھی درست تسلیم کرتی ہے۔چاڈ کے مسلمان موجودہ حکمران کو جو ان کا ہم مذہب ہونے کے باوجود مکمل طور پر فرانس کا ہم نوا اور اس کی تہذیب کا دل دادہ ہے، شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا تعلق بھی ایک چھوٹے سے قبیلے زگاوہ (Zagawa) سے ہے جو ملک کی آبادی کا صرف ڈیڑھ فی صد بنتا ہے۔
موجودہ بغاوت اگرچہ ان دنوں زیادہ منظرعام پر آگئی ہے مگر اس کی جڑیں ماضی میں دُور تک جاتی ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں موجودہ صدر کے سابق وزیردفاع یوسف توجومی (Togoimi) نے مسلح بغاوت کی تھی جو دو تین سال مسلسل جاری رہی۔ اس دوران ملک کے بیش تر حصوں پرباغیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے مصالحت کی کوشش کی، مگر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی، تاہم وقتی طور پر باغی تحریک پس منظر میں چلی گئی۔ قذافی صاحب نے چاڈ کے ساتھ الحاق کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور ۱۹۸۱ء میں لیبیا کے فوجی دستے چاڈ بھیجے گئے تھے۔ ملک کی عام آبادی نے قذافی صاحب کی اس کاوش کو شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ یوں الحاق کا یہ منصوبہ دم توڑگیا اور لیبی فوجوں کو ۱۹۸۳ء میں ملک سے نکل جانے کا حکم ملا مگر وہ خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۹۸۷ء تک چاڈ کے شمالی علاقوں میں براجمان رہے۔ معمرقذافی پر چاڈ کی آبادی کم ہی اعتماد کرتی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر فرانس اور دیگر مغربی قوتوں کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو موجودہ حکومت ایک دن میں ختم ہوجائے۔ حالات کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ عالمی ادارے اور مغربی حکومتیں چاڈ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ وہ اپنی مرضی ہی کے حکمرانوں کو یہاں مسلط رکھیں گی خواہ موجودہ صدر کی صورت میں یا اس کے متبادل کے طور پر۔ آپ حیران ہوں گے کہ چاڈ سے جو پٹرول نکلتاہے، وہ عالمی بنک کے قرضوں کی سرمایہ کاری سے کیمرون کی بندرگاہ کریبی (Karibi) تک ۷۰۰ میل لمبی پائپ لائن کے ذریعے پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہاں سے عالمی بنک مختلف ممالک کو عالمی منڈی کے بھائو پر فروخت کردیتا ہے۔ اس سے چاڈ کو محض ساڑھے ۱۲ فی صد رائلٹی ملتی ہے جو صریح ظلم ہے۔ اس میں سے بھی جنوری ۲۰۰۶ء میں عالمی بنک نے ۱۲۵ ملین ڈالر کی رائلٹی کئی عذر ہاے لنگ کو جواز بناکر منجمد کردی۔ اس کے علاوہ ایک سابقہ معاہدے کے مطابق فراہم کی جانے والی ۱۲۴ ملین ڈالر کی امداد بھی روک لی گئی۔ یوں ملک کی اس دولت پر بھی مقامی آبادی کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم جب تک دنیا میں جاری رہے گا، انسانیت آزادی اور چین کا سانس کیسے لے سکے گی؟ تیسری دنیا میں نہ معاشی آزادی ہے، نہ سیاسی حریت۔ دنیا ایک حقیقی انقلاب کی پیاسی ہے۔ سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبے بغیر انقلاب نہیں آسکتا۔
امریکا یا یورپ میں بالخصوص ستمبر ۲۰۰۱ء سے مسلمان کے طور پر زندگی گزارنا عملی طور پر ایک جرم بن گیا ہے۔ ان کے خلاف بے شمار قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ بظاہر ان اقدامات کا مقصد ’انتہاپسندوں‘ پر قابو پانا ہے لیکن عملاً تمام ہی مسلمان شک وشبہے کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔ سیکورٹی چیک کے بہانے انھیں الگ کھڑا کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض کو تو جہاز سے بھی اُتار لیاجاتا ہے۔ سیکڑوں مسلمانوں کومحض شبہے میں گرفتار کر کے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیاگیا ہے جیساکہ گذشتہ ماہ لندن کی ۲۳ سالہ ثمینہ ملک کو محض جہادی شاعری کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ امریکا اور کینیڈا میں مسجدوں اور اسلامی طرز کے اسکولوں کو غنڈا گردی کا نشانہ بنایاگیا ہے اور حجاب پہننے والی خواتین پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ ان اقدامات کو مغرب میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جائز قرار دیا جاتا ہے۔
اس ناروا سلوک پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسکولوں اور جامعات میں مسلم طلبہ کوجب اس بنیاد پر نماز کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کیاگیا کہ تعلیمی ادارے سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں تو مقامی طلبہ کی ایک تنظیم ’اونٹاریو فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس‘ نے تعلیمی اداروں پر چھا جانے والے ’اسلامو فوبیا‘ کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔
امریکی مسلم خواتین کی ایک تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف مسلم امریکن وومن، ناما (NAMAW) نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قانونی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ اس تنظیم نے امریکی محکمۂ انصاف کے پاس جنوری ۲۰۰۷ء میں امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف صہیونی لابی کی حرکتوں پر مبنی ایک شکایت درج کرائی تھی جس میں سول رائٹس ڈویژن کے سربراہ مارک کیپل ہوف سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس امر کی تحقیقات کرائے کہ کئی شخصیات اور اداروں نے قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں کو گمراہ کن اور حدسے زیادہ سیاسی اطلاعات فراہم کی ہیں جن کا مقصد امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف مالی، سماجی، قانونی اور سیاسی ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ ان کے ساتھ مذہبی امتیاز پر مبنی پالیسی بنائی جاسکے اور انھیں پوچھ گچھ کے مرحلوں سے گزارا جاسکے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس وجہ سے مسلمانوں کو ان کے جائز آئینی حقوق سے بھی دستبردار کیا جا رہاہے۔
ناما کسی ایسے فرد یا ادارے کو براہِ راست نامزد کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتی جسے وہ امریکی عرب اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا اور ان کی ساکھ متاثر کرنے کا ملزم گردانتی ہو۔ اس کے نزدیک اس جرم کا ارتکاب کرنے والی شخصیات وتنظیمات میں امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC)، امریکن جیوش کمیٹی (AJC)، اینٹی ڈیفامیشن لیگ (ADL)، امریکن جیوش کانگرس (AJC)، جیوش کونسل آن پبلک افیئرز (JCPA) ہیں، اور شخصیات میں اسٹیوایمرسن، ڈینیل پائپس، ریٹاکاٹز، اسٹیون شوائز اور ایوئن کوہل مین وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیمات اور شخصیات نے ایسی تقریریں اور بیانات نشر کیے جن کی بنیاد پر امریکی عربی اور عام مسلمانوں کے خلاف معاندانہ ماحول پیدا ہوا اور انھیں شہری آزادیوں اور حقوق سے دستبردار ہونا پڑا۔
اپنی عرضداشت میں ناما کی چیئرپرسن ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح نے مذکورہ شخصیات کی تقریروں، تحریروں اور بیانات کو منسلک کیا ہے جن کے باعث بعض اوقات نفرت انگیزی کی انتہا کردی گئی ہے، اور سرکاری محکمہ جات کو مسلمانوں کے خلاف مغالطے میں مبتلا کیا گیا ہے جن میں امریکی کانگریس بھی شامل ہے۔ اس نفرت انگیز مواد کی نشرواشاعت کا مقصد یہ تھا کہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف ایسے قوانین منظور کروائے جائیں جن سے ان کے آئینی حقوق پر ڈاکا ڈالا جاسکے۔ عرضداشت میں خصوصی طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس کے سابقہ بورڈ ممبر ڈینیل پائپس کے ایک حالیہ مضمون کاحوالہ دیا گیا ہے جو نیویارک پوسٹ کی ۲۶دسمبر ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں بعنوان ’فاشسٹوں اور کمیونسٹوں کو شکست دینے کے بعد کیا اب مغرب ’اسلام پسندوں‘ کو بھی شکست دے سکتا ہے؟‘ شائع ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ڈینیل پائپس اسلام دشمنی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ اس نے خود کہا تھا کہ اسلام پسند، مقدس اسلامی قوانین، یعنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح لکھتی ہیں: ’’اگر ہم ڈینیل کی مذکورہ تعریف کو قبول کرلیں جیساکہ امریکا میں قانون نافذ کرنے والے اور پالیسی بنانے والے اداروں نے عام طور پر اسے قبول کیا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا دنیا کے ہرمسلمان حتیٰ کہ خود مذہب اسلام سے بھی حالتِ جنگ میں ہے۔ ڈینیل پائپس کے نزدیک مسلمانوں کی قانونی سرگرمیاں، ان کی غیرقانونی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ دُور رس چیلنج کو جنم دیتی ہیں کیونکہ اس طرح امریکا میں سیاسی معاملات میں صہیونی اجارہ داری پر زد پڑتی ہے۔
کسی بھی قسم کا ابہام باقی نہ رہنے دینے کے لیے ڈاکٹر فتاح نے امریکی محکمۂ انصاف کو دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
۱- یہودی تنظیموں اور سرگرم افراد نے یہاں امریکا میں مسلمانوں، عربوں اور سفیدفام قوم پرست تنظیموں پر مشتمل اپنے ’دشمنوں‘ کی ایک فہرست تیار کی ہے جس میں ان افراد اور گروپوں کو نامزد کیا گیا ہے جو اسرائیلی ریاست کے لیے خطرہ یادشمن تصورکیے جاتے ہیں۔
۲- ان یہودی تنظیموں نے مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کے خلاف راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے مالی وسائل اور سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کیا ہے تاکہ سیاسی مقاصد کے لیے انھیں غیرمؤثر کیا جائے، انھیں جائز آئینی و قانونی حقوق سے محروم کیا جائے اور اسلام کی عطاکردہ آزادی پر قدغن لگائی جائے۔
ناما کی طرف سے دائر کردہ اس کی درخواست میں امریکی محکمۂ انصاف سے استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ شکایات کی تحقیقات کی جائیں اور اس قسم کے اقدام کے خاتمے کے لیے ضروری کارروائی کی جائے، تاہم سیاسی اثروسوخ کی بنا پر صہیونی لابی کے خلاف کوئی مناسب اقدام اٹھائے جانے کی امید کم ہے ۔ لیکن نتائج کی پروا کیے بغیر ناما اور اس کی چیئرپرسن کے اس اقدام کی داد ضرور دی جانی چاہیے کہ انھوں نے صہیونی لابی کے نفرت انگیز اقدام کو سرکاری سطح پر نمایاں کیا ہے جس کی وجہ سے کئی عشروں سے امریکی پالیسیاں صہیونیوں کی یرغمال بنی ہوئی ہیں۔
_______________
جمعرات ۷ فروری ۲۰۰۸ء کا سورج طلوع ہوا تو طائف کی بلندیوں پر چمکنے والے اُس سورج کو بھی اپنے ساتھ لے گیا جس نے قرآن و سنت سے اکتسابِ نور کیا تھا اور جو اِس نور کو لے کر دنیا کے اُفق اُفق پر طلوع ہوتا اور روشنیوں کی بارش برساتا تھا۔ کتنے ہی دل تھے جن میں اُس نے اپنی کرنوں کی حدت سے ایمان کی جوت جگا دی تھی اور کتنے ہی دماغ تھے جن میں اُس نے علم و عرفاں کی قندیلیں روشن کی تھیں۔ کسے پتا تھا کہ یہ سورج یوں اچانک کہیں جاکر چھپ جائے گا اور طائف کی چوٹیوں کو خیرباد کہہ کر جنت المعلٰی میں جا ڈوبے گا___ انا للّٰہ وانا اِلیہ رٰجعُون
سورج بن کر زندگی گزارنے والے یہ داعی الی اللہ ڈاکٹر شجاعت علی برنی تھے۔ پاکستان سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ امراضِ نفسیات کی اختصاصی تعلیم امریکا سے حاصل کی اور پھر وہیں پریکٹس بھی کرنے لگے۔ بیوی بچے تھے، اپنا مکان تھا اور پریکٹس بھی کامیاب تھی۔ لیکن اُن کی نظر تو اِس مادی دنیا سے آگے بڑھ کر آخرت کی کامیابیوں کی متلاشی تھی۔ اس لیے جب اُن کے بچے ذرا بڑے ہوئے تو اُنھیں اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوئی اور انھوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ وہ انھیں امریکا کے ماحول میںنہیں رہنے دیں گے، بلکہ کسی مسلمان ملک میں جاکر رہیں گے تاکہ بچے مسلمانوں کے ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔ اب چونکہ وطن عزیز کے علاوہ کسی اور مسلمان ملک میں جانے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا، اس لیے اُنھوں نے پاکستان واپسی کا پروگرام بنالیا۔ اُن کے دوستوں کو پتاچلا تو اُنھوں نے انھیںسمجھانا شروع کیااور مخلصانہ نصیحت کی کہ امریکا چھوڑ کر نہ جائیں۔ یہاں آپ کا اپنا مکان ہے، کلینک ہے اور اب آپ کے کمانے کے دن ہیں۔ رہی بچوں کی تعلیم و تربیت تو اُس کے لیے یہاں سے بہتر انتظام اور کہاں ہوسکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی نظر جو کچھ دیکھ رہی تھی ،اُن کے دوستوں کی نظر وہ کچھ دیکھنے سے قاصر تھی۔ اسی اثنا میں جب وہ پاکستان آنے کی تیاری کر رہے تھے، ایک دن کلینک جاتے ہوئے گاڑی میں ریڈیو پر سعودی عرب کے حوالے سے کچھ سنا، کلینک پہنچ کر رابطے کے لیے بتائے گئے نمبر پر فون کیا اور پھر مزید اطمینان کے لیے اُن کے پاس گئے___ تقریباً ۳۰ ہزار سعودی ریال ماہانہ تنخواہ کی پیش کش کی گئی تھی۔ لیکن آپ نے اُسے فوراً قبول کرنے کے بجاے اپنے بھائی ڈاکٹر فرحت علی برنی سے مشورہ کرنے کے لیے فون کیا جو کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں پڑھاتے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ لگتا ہے کوئی دھوکا ہے۔ اس لیے کہ اتنی بڑی تنخواہ تو یہاں بڑے بڑے لوگوں کی بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ ابھی دستخط نہ کریں۔ دو تین دن کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ فون کیا تو اُن کے بھائی نے بتایا کہ میں نے پتا کیا ہے، دھوکے کی کوئی بات نہیں ہے۔ طائف میں ایک فوجی ہسپتال کے لیے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، آپ فوراً دستخط کیجیے اور تشریف لے آیئے۔ اس طرح آپ کی نیت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ایک مسلمان ملک میں آپ کے لیے رہنے کاانتظام کردیا، بلکہ مکہ مکرمہ کے قریب طائف کے تاریخی شہر کوآپ کا مسکن بنایا اور وہاں کے بہترین ہسپتال الہدیٰ میں آپ کواپنی خدمات انجام دینے کا موقع دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے صرف اِسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں یا پھر ہسپتال میں دکھی انسانیت کے امراض کا علاج کر کے اُس کے چہرے پر مسکراہٹوں کے پھول کھلا دیں، بلکہ اُنھوں نے انسانیت کی روحانی تسکین کا سامان ضروری سمجھا۔ انسانیت کی اصل خدمت اُن کی نظر میں یہی تھی کہ اُسے خدا سے ملا دیا جائے اور اُسے رحمۃ للعالمین محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھائے ہوئے راستے پر گامزن کردیا جائے۔ آپ نے اس کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کبھی تحریر و تقریر سے کام لیا، تو کبھی گفتگوئوں اور ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اُترنے کی کوشش کی۔ پھر آپ کی یہ کاوشیں صرف ایک مقام تک ہی محدود نہ رہیں، بلکہ جہاں جہاں تک آپ پہنچ سکتے تھے، پہنچے اور بندگیِ رب کی دعوت دیتے ہوئے بندگانِ خدا کے دلوں کو سوزوگداز سے آشنا کیا۔
عام طور پر لوگ تقریروں کے ذریعے ہی دعوت کا کام کرتے ہیں مگر آپ نے اس مقصد کے لیے پروجیکٹر کی مدد سے ورکشاپوں کا انعقاد بھی کیا، بلکہ اس طریقۂ دعوت و تربیت کو سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے درمیان آپ ہی نے متعارف کرایا۔ آپ کا یہ پروگرام انتہائی مؤثر ہوا کرتا تھا۔ موضوعات ایسے ہوتے جو وقت کی ضرورت ہوتے تھے۔ الفاظ ایسے ہوتے جو دل میں اُتر جاتے تھے۔ الفاظ کی ادایگی اس جذبے کے ساتھ ہوتی کہ جو کچھ آپ کہتے تھے، اس پر صرف دماغ ہی نہیں، دل بھی لبیک کہتا تھا، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ آپ پیش کرتے تھے قرآن و سنت کی سند سے پیش کرتے تھے۔ آپ کے دلائل قرآن کی آیتیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہوتی تھیں۔ پروگرام سے پہلے اور بعد جو وقت ہوتا تھا اس میں آپ شرکا کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے تھے جیسے برسوں سے جان پہچان ہو۔
خاکساری، انکساری اور تواضع میں اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے آپ کو غریب، مزدور اور اَن پڑھ لوگوں کے ساتھ فرش پر اس طرح بیٹھے ہوئے اور اُن کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ جیسے وہ آپ کے دفتر کے ساتھی ہوں۔
آپ نے اتنا وسیع ظرف پایا تھا کہ علم وعمل میں آپ سے کم تر درجے کا شخص بھی اگر کبھی آپ کی کسی بات پر اعتراض کرتا تھا یا دینی حوالے سے آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ کرنا چاہتا تھا تو اُس کی بات نہ صرف یہ کہ خوشی سے سنتے، بلکہ اِس طرح اُس کے ممنونِ احسان ہوتے کہ جیسے پہلی بار آپ کے علم میں یہ بات آئی ہو حالانکہ آپ اُس بات کو اُس کی پوری جزئیات کے ساتھ پہلے سے جانتے ہوتے تھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ ہر کام میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہو۔ اس لیے کسی بھی کام کے بارے میں اگر آپ کو پتا چلتا کہ یہ سنت کے مطابق نہیں ہے تو اُسے فوری طور پر چھوڑنے میں آپ کو کوئی تامل نہیں ہوتاتھا۔ دعوتِ دین کے سلسلے میں بھی وہ یہ کہتے تھے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اس لحاظ سے بھرپور اور عمیق مطالعہ کرنا چاہیے۔ خود مجھ سے اُنھوں نے ایک دفعہ کہا کہ سیرت پر بے شمار کتابیں لکھی جانے کے باوجود اِس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی آپؐ کی زندگی کا نئے سرے سے مطالعہ کرے اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے وہ لعل و گہر ڈھونڈ کر لائے کہ جن کی وجہ سے ۲۳ سال کی قلیل مدت میں آپؐ نے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب برپا کردیا تھا۔
جب بھی ڈاکٹر صاحب یاد آتے ہیں، محترم خرم مرادؒ کی یہ بات یاد آتی ہے کہ دنیا میں بے شمار خوب صورت چیزیں ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک دل موہ لینے والے نظارے ہیں۔ بل کھاتے دریا، گنگناتی ندیاں اور اُچھلتی آبشاریں ہیں۔ برف پوش چوٹیاں اور گُل پوش وادیاں ہیں اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے اُبلتے چشمے اور بہتے جھرنے ہیں۔ لیکن اِن ساری خوب صورت چیزوں میں سب سے خوب صورت چیز اگر کوئی ہوسکتی ہے تووہ ایک اچھا انسان ہے۔ میرے خیال میں محترم ڈاکٹر شجاعت علی برنی پر یہ بات ۱۰۰ فی صد صادق آتی ہے۔ آخر ایسا کیوں نہ لگتا، وہ خوش مزاج بھی تھے اور باوقار بھی، فعال اور متحرک بھی تھے اور صاحبِ فہم و فراست بھی، طبیعت میں تفنن بھی تھا اور کردار کی پختگی بھی، باتوں میں پھولوں کی خوشبو بھی تھی اور شبنم کی ٹھنڈک بھی، ایمان کی حدت بھی تھی اور جذبوں کی فراوانی بھی___ اُن کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی، سکون ملتا تھا، تحریک پیدا ہوتی تھی اور ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔
میں اُن کی کس کس بات کو یاد کروں۔ ایک دفعہ ایک پروگرام میں ساتھیوں کو کھانا کھلانے کی سعادت میں مَیں بھی دوسرے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شریک تھا اور اپنی اس سعادت پر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ دُور دُور سے ساتھی جمع ہوئے ہیں اور اُن کی خدمت کا موقع میسر آیا ہے۔ اِس خوشی کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا چاق و چوبند بھی محسوس کر رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے میں کچھ غیرفعال سا ہوگیا تھا اور کم ہمتی کا شکار تھا۔ سوچتا تھا کہ کچھ کرنے کاوقت شاید گزر گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے میری خوشی اورفعالیت کو محسوس کیا اور کھانے کے بعد جب مل کر بیٹھے تو کہنے لگے کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ نوجوان کون ہے، جو اِس قدر مستعد اور متحرک ہوکر خدمت میں لگا ہوا ہے۔ اُنھوں نے کچھ اِس انداز سے یہ جملہ کہا کہ مجھے یوں لگا کہ شاید میں واقعی پھر سے زندہ ہوگیا ہوں، حالانکہ اس سے پہلے بطور نصیحت لمبی لمبی گفتگوئیں سن چکاتھا لیکن کسی گفتگوکا وہ اثر نہیں ہوا تھا جو اُن کے اِس ایک جملے کا ہوا۔
اُن کی فعالیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی ملاقات میں اُن کو جس قدر مستعد، چاق و چوبند اور فعال دیکھا تھا آخری وقت تک وہ اسی طرح فعال رہے، بلکہ ابھی چند دن پہلے جب اُن سے فون پر بات ہوئی تو اُن کی آواز اتنی جان دار تھی کہ فوراً اُس کے پیچھے اُن کی متحرک شخصیت نظر آنے لگی۔ اُن کی بلندہمتی اور مستعدی کا اندازہ آپ اس سے لگایئے کہ اُن کے قریب رہنے اور اُن سے بے شمار ملاقاتوں کے باوجود مجھے یہ پتا نہ چل سکا کہ اُن کو دل کی تکلیف ہے۔ اُنھوں نے کبھی نہ بزبانِ قال یہ ضرورت سمجھی کہ اپنی تکلیف کے بارے میں ہمیں بتائیں اور نہ کبھی اُن کے حال سے یہ ظاہر ہوسکا کہ اُنھیں کوئی پریشانی بھی ہے۔ وہ ہروقت جس طرح کمربستہ، چاق و چوبند اور مستعد رہتے تھے، اُس سے نہ یہ خیال آتا تھا کہ اُن کو کسی بیماری کی شکایت ہوگی اور نہ یہ خیال آتا تھا کہ اُن کی اتنی عمر ہوگی۔ اُنھوں نے ۷۲سال کی عمر پائی لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بوڑھے تھے۔ اس لیے کہ اُن کے کسی کام میں بھی بڑھاپا پن نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے اُن کو اِس حالت میں بھی پروگرام کنڈکٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ براہِ راست ڈیوٹی کرکے پروگرام میں تشریف لائے ہیں، لیکن اُن کے چہرے پر نہ تھکاوٹ کے کوئی آثار ہیں اور نہ پژمردگی کا کوئی احساس بلکہ ہمیشہ کی طرح تروتازہ، مستعد اور چاق و چوبند ہی نظر آتے۔
یوں تو ہزاروں لوگوں کو اُنھوں نے متاثر کیا ہے لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اُن سے زیادہ ملنے، سننے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ میرے غریب خانے کو کئی دفعہ اُن کی قدم بوسی کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور میرے دل نے اپنے نہاں خانے میں اُن کی کتنی ہی یادیں اور کتنی ہی خوب صورت تصویریں محفوظ کی ہیں جن کو الفاظ کا جامہ پہنانا میرے اس دل فگار لیکن تہی دست قلم کے بس کی بات نہیں۔ کسی کے الفاظ مستعار لے کر صرف اتنا کہتا ہوں کہ ؎
حاصل رہا ہے مجھ کو ملاقات کا شرف
مٹی کا اِک چراغ تھا سورج سے فیض یاب
یہ سوچ کر دکھ ضرور ہوتا ہے کہ اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے، اور اُن سے اِس ارضِ فانی پر دوبارہ ملاقات نہیں ہوسکے گی، لیکن دعوتِ دین کا کام کرتے ہوئے تو جگہ جگہ اُن سے ملاقات ہوگی، قدم قدم پر اُن کی یادیں رہنمائی کریں گی اور ہر سنگِ میل پر اُن کا سراپا مثال بن کر سامنے آئے گا۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے ؎
النَّاسُ صِنفَانِ مَوتٰی فِی حَیَاتِھِم
وَآخَرُونَ بِبَطْنِ الْاَرْضِ اَحْیَائُ
یعنی لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو اپنی زندگی میں بھی مُردہ ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں___ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، اُن کے خیالوں میں زندہ رہتے ہیں، اُن کی باتوں اور گفتگوئوں میں زندہ رہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کے ہرہر عمل میں زندہ رہتے ہیں۔
محتاط گفتگو
سوال: حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد میں ایک نوجوان شہید ہوا۔ جب دیکھا گیا تو بھوک کے سبب اس کے پیٹ سے پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اُس کی ماں اُس کی لاش پر آئی اور اس کے منہ سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہنے لگی: بیٹا جنت مبارک ہو! حضور اکرمؐ نے پوچھا: تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ شاید وہ بے فائدہ گفتگو کرتا ہو اوراس کا حساب اس کے ذمے باقی ہو۔ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ شہیدبھی اُس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک دنیا میں اُس نے جو گفتگو کی ہے اس کا حساب نہ دے دے۔ (از مولانا سفیر حسنؒ، آفات اللسان کیسٹ)
میں نے جب سے یہ کیسٹ سنا ہے بہت زیادہ پریشان ہوں۔ کچھ عرصے تک تو میں بالکل خاموش ہوگئی تھی مگر میرا تو کیا کسی بھی فرد کا بالکل خاموش رہنا ممکن نہیں ہے۔ دعوت کے میدان میں بھی یہ ہنر بہت کارآمد رہتا ہے مگر حدود کا پاس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میری گفتگو کا بنیادی مقصد دعوت ہی ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے اگر پہلے ہلکی پھلکی گفتگو کے ذریعے دوستی کرلی جائے تو آگے اپنی بات بہت جلد اثرات دکھاتی ہے۔ اب مجھے بہت زیادہ فکر نے گھیر رکھا ہے۔ واقعی زیادہ گفتگو کے چند ہی فائدے ہیں باقی سب نقصانات ہی نقصانات___ پوچھنا یہ ہے کہ معتدل راہ کیا ہے اور اب تک جو فضول گفتگو کرچکی، اُس کا تدارک کیسے کروں؟
جواب: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو جن اہم صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں لسان کے ساتھ بیان و ابلاغ، نصیحت اور کلمۂ حق کا اظہار کرنے کی نعمتیں شامل ہیں۔ قول بمعنی گفتگو اور قول بمعنی وعدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انبیاے کرام کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ انھیں اپنی قوم کی زبان میں پیغام پہنچانے اور ابلاغ سے نوازا گیا، اور حضرت موسٰی ؑکی دعا سے قرآن ہرمسلمان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنے رب سے نہ صرف حق کے لیے سینے کو کشادہ کرنے اور آسانی پیدا کرنے کی دعا کرے، بلکہ ساتھ ہی یہ بات بھی کہے کہ اس کی زبان کی گرہ کو دُور کردیا جائے۔ لیکن گرہ دُور کرنے اور زبان درازی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قبیلے میں بچپن گزارا وہ اپنی فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھا۔ اسی لیے آپؐ جب خطاب فرماتے تو مختصر ترین الفاظ میں وضاحت کے ساتھ اپنے مخاطب کی صلاحیت کے لحاظ سے اظہارِ خیال فرماتے۔ آپؐ کے تمام خطبات مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ اس لیے آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے ایک داعی کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ حق کا ابلاغ کرتے وقت بات غیرضروری طور پر طولانی نہ ہو۔
قرآن کریم نے انسانوں سے گفتگو کرنے کے حوالے سے ہدایت فرمائی ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ۲:۸۳)، یعنی انسانوں سے بھلی بات کہنا۔ بھلی بات کہنا اور حق کی دعوت دینا انبیاے کرام کا اُسوہ ہے۔ اس کام میں آسان زبان کا استعمال ہمیشہ میٹھا بول اور زبان کی بے احتیاطیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہر داعی کا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے غلط استعمال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اُمت مسلمہ کو متنبہ فرمایا۔ مشہور حدیث ہے کہ جس نے دو چیزوں کی احتیاط کا وعدہ کیا، یعنی زبان اور شرم گاہ، تو صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم اس سے جنت کا وعدہ فرماتے ہیں۔
زبان کی بے احتیاطیوں میں سب سے زیادہ مہلک چیز غیبت ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ الحجرات میں اس طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک ایسی مثال سے بات کو سمجھایا جسے کوئی صاحب ِ ایمان بھول نہیں سکتا، یعنی غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ ایک حدیث میں حضوؐر نے یہ بات بھی فرما دی : زانی کی توبہ تو قبول ہوسکتی ہے لیکن غیبت کرنے والے کی توبہ کبھی قبول نہیں ہوسکتی جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی گئی ہے، اسے معاف نہ کردے۔
زبان کی بے احتیاطیوں میںجھوٹی شہادت دینا حدیث پاک کی روشنی میں شرک کے برابر ہے۔ اسی طرح کسی کی تضحیک کرنا، نام بگاڑنا یا چغلی کھانا بھی زبان کی بے احتیاطیوں میں شامل ہیں۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چغلی کھانے والاجنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم)۔ زبان سے غیرمہذب بات نکالنا، فحش گوئی کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ حضرت ابودرداء ؓسے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: سب سے وزنی چیز جو قیامت میں میزان میں رکھی جائے گی مومن کا حسنِ اخلاق ہے اور اللہ اُس شخص سے بُغض رکھتا ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا ہے اور بدزبانی کرتا ہے۔ (ترمذی)
اسی حوالے سے مذاق میں غلط بیانی کرنا اور جھوٹ بولنا بھی شامل ہے کیونکہ جب ایسا کرنا ایک شخص کی عادت بن جاتا ہے تو پھر اس کے سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کی جاسکتی۔ ایک حدیث صحیح میں منافق کی جو چار خصلتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے تین کا تعلق زبان کی بے احتیاطی سے ہے، یعنی جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی بات پر جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے۔ (عن عبداللہ ابن عمرؓ، بخاری و مسلم)
ایک داعی کے لیے بہت ضروری ہے کہ جہاں وہ زبان کی ان بے احتیاطیوں سے بچے وہاں وہ مثبت طور پر زبان کی اچھائیوں کو اختیار کرے جن میں سب سے پہلی بات اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعوت دینے سے قبل اس کی حمدوتوصیف کے ساتھ یہ دعا کرنا کہ وہ حق بات کہنے کی توفیق دے۔ پھر بات کو اچھے انداز سے مختصر ترین پیرایے میں سادہ اور پُراثر الفاظ میں ادا کرنا دعوت کی حکمت کے اجزا ہیں۔
زورِ بیان اور زورِ تحریرکا مطلب نہ طوالت ہے، نہ مشکل الفاظ کا استعمال کرنا، نہ مقفّع و مسجّع گفتگو کرنا، بلکہ مخاطب کی صلاحیت کے مطابق اچھے انداز میں اپنی بات کا پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی نسخہ ایسا نہیں ہے جس کے استعمال سے یہ صلاحیت ایک شخص میں پیدا ہوجائے۔ یہ خصوصیت صرف خلوصِ نیت سے، اللہ کو خوش کرنے کے جذبے کے ساتھ مسلسل کوشش ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ غیرضروری گفتگو سے احتراز سنت ہے اور جو شخص بھی دعوت الی اللہ کا کام کر رہا ہو، اسے الفاظ کے انتخاب اور استعمال میں فکروعقل کا استعمال کرنے کے بعد ہی کوئی بات کرنی چاہیے۔ ہروقت اور ہر بات پر بولنا، نہ حکمت کا تقاضا ہے، نہ دعوت کے لیے مفید۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو خاموش رہا، وہ سلامت رہا، اور جو سلامت رہا نجات پا گیا‘‘ (بخاری)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ چپ سادھ لیں اور صرف کانوں کا استعمال کریں۔ اس کا واضح مفہوم قرآن کی اس آیت کی تشریح ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (النسآئ۴:۹) یعنی حق بات کہنا۔
زمین پر ہونے والے بہت سے فسادات کی جڑ زبان ہی ہوتی ہے۔ زبان کے استعمال ہی سے ایک شخص دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کے غلط استعمال سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ صحیح استعمال کے نتیجے میں ذمہ داری کا اقرار کرکے رشتۂ نکاح میں جڑ جاتا ہے اور غیرضروری اور نامناسب استعمال کر کے رشتے کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے خلاف تمسخر اور بے عزتی کی باتیں کرتی ہے تو بعض اوقات نوبت جنگ تک آجاتی ہے۔ اسی کا صحیح استعمال دلوں کو جوڑتا ہے، رشتوں کا احترام سکھاتا ہے، معاشرے میں محبت اور امن پیدا کرتا ہے۔ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے یوں وابستہ کردیتا ہے جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو۔
اسی بنا پر نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔ زبان سے ایسی بات نکالنا جس سے اللہ کے بندوں کو تکلیف ہو، دعوت کے مقاصد کے منافی ہے لیکن ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، حق کا اظہار کرنا، دین کی دعوت دینے کے لیے موعظۂ حسنہ کا اختیار کرنا، حکمت کے ساتھ اپنی بات کا سمجھانا، ایک مومن اور تحریکی کارکن کے لیے فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی بات دل میں اُترنے والی ہونی چاہیے، نہ کہ انسانوں کو دُور کرنے والی۔
برادرم مولانا امیر الدین مہر نے اس موضوع پر ایک کتاب گفتگو کا سلیقہ کے نام سے تحریر کی ہے، اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : صدقے کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور ترسیل کے لیے رقم خرچ کی جائے تو کیایہ بھی صدقہ یا صدقۂ جاریہ ہوگا؟وضاحت فرما دیں۔
ج: ’صدقہ‘ کسی انسان اور کسی مسلمان کی حاجت کو پورا کرنے کا نام ہے، چاہے وہ مال کی شکل میں ہو یا کسی بھی طرح کی اعانت کی صورت میں۔ جب کوئی شخص اپنا مال تعلیم و تبلیغ میں خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ کرتا ہے۔ جس طرح بھوکے کو کھانا کھلانے، پیاسے کو پانی پلانے، بے لباس کو لباس دینے میں صرف کرنا صدقہ ہے، اسی طرح انسانی ہدایت اور دعوت کی مد میں توسیع و اشاعت لٹریچر کے لیے صرف کرنا بھی صدقہ ہے۔ ہدایت انسان کی ضرورت ہے، بلکہ تمام ضروریات سے بڑی ضرورت ہے۔ انسان ہدایت سے محروم ہو تو اس کی آخرت برباد ہوتی ہے جو دائمی زندگی ہے۔ اس لیے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاے علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاے علیہم السلام نے تکلیفیں برداشت کیں، مصیبتیں جھیلیں، دعوت و تبلیغ اور جہاد میں زندگیاں صرف کردیں، انسانوں پر سب سے زیادہ رحمت ان کے ذریعے ہوئی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے اپنی رحمت قرار دیا۔ اسلام کے غلبے نے بدامنی کی جگہ امن، بھوک وافلاس کی جگہ مال و دولت کی فراوانی اور ذہنی افلاس کی جگہ علمی بلندی عطا کی۔ دس بیس بھوکوں کوکھانا کھلانے کا اتنا فائدہ نہیں جتنا چند گمراہ لوگوں کو ہدایت دینے سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’تیرے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے سرخ اُونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین کام جاری رہتے ہیں۔ صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے (مسلم)۔لٹریچر میں مال خرچ کرنا، مالی صدقۂ جاریہ بھی ہے اور علمی صدقۂ جاریہ بھی۔ اس لیے دوہرے اجرکا موجب ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا ایسا عمل اور نیکیاں جو اس کی موت کے بعد اسے پہنچتی ہیں، یہ ہیں: علم جس کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا، نیک اولاد، قرآن جو وراثت میں چھوڑا، مسجد جسے تعمیر کیا تھا ،یا گھرجو مسافروں کے لیے تعمیر کیا تھا، یا نہر چلا دی تھی، یا صدقہ جس کے لیے زندگی میں صحت کی حالت میں مال نکالا تھا۔ یہ چیزیں اس کی موت کے بعد بھی اسے پہنچتی ہیں (ابن ماجہ)۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی ہر حاجت پورا کرنے اور ایسا کام کرنے جس سے انسانوں اور مسلمانوں کو نفع ہو، صدقہ قرار دیا ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ! مال دار لوگ سارا اجر لے گئے۔ وہ نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اور اپنے زائد مال کو صدقہ کرتے ہیں (اس طرح ان کا کام بڑھ گیا)۔ آپؐ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں موقع نہیں دیا کہ صدقہ کرو۔ ہر تسبیح صدقہ ہے (تسبیح کا فائدہ خود تسبیح کرنے والے اور دوسرے لوگوں کو پہنچتا ہے)، ہر تحمید صدقہ ہے، ہر لا الٰہ الا اللہ صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے (کہ گناہ سے بچ گیا، جس کا اسے اور معاشرے کو فائدہ پہنچا)۔
صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک آدمی اپنی شہوت کی تسکین کا سامان کرتا ہے تو اس میں بھی صدقہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بتلائو اگر وہ اپنی شہوت کی تسکین ناجائز راستے سے کرتا تو اسے گناہ نہ ہوتا؟ فرمایا: کیوں نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اسی طرح صحیح راستے سے تسکین کرنے کا ثواب ہے۔ (مسلم)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے: کُلُّ مَـعْرُوْفٍ صَـدَقَـۃٌ ، ’’ہر بھلائی صدقہ ہے‘‘ (مسلم)۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے: مَنْ کَانَ لَـہٗ مَالٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِنْ مَّالِـہٖ وَمَنْ کَانَ لَـہٗ قُوَّۃٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِن قُوَّتِـہٖ وَمَنْ لَّـہٗ عِلْمٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِنْ عِلْمِہٖ (ابن مردویہ بحوالہ جامع العلوم والحکم شرح جوامع الکلم)’’جس کے پاس مال ہے وہ اس کا صدقہ کرے، جس کے پاس قوت ہے وہ قوت کا، اور جس کے پاس علم ہے وہ علم کا صدقہ کرے‘‘۔ حضرت حسن بصری کی مرسل روایت جس کو ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے: وَ اِنَّ مِنَ الصَّدَقَۃِ اَنْ تُـسْلِمَ عَلَی النَّاسِ وَاَنْتَ طَلِیْقُ الْوَجْہِ (شرح جوامع الکلم) ’’لوگوں کو خندہ پیشانی سے سلام کرنا صدقہ ہے‘‘۔ اس حدیث کی سندمیں اگرچہ کچھ ضعف ہے لیکن مسلم کی صحیح روایت کہ ’’ہربھلائی صدقہ ہے‘‘ جامع ہے جو اس حدیث کے مضمون پر بھی حاوی ہے اور اس مضمون کی دوسری بہت سی احادیث بھی ہیں۔ اس لیے یہ روایت بھی معتبر شمار ہوگی۔ ترمذی میں حضرت ابوذرؓ کی اسی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے: ’’جنگل و بیابان میں ناواقف کو راستہ بتلا دینا بھی صدقہ ہے‘‘۔
ان احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ تعلیم دینا، رہنمائی کرنا، بھلائی کا حکم کرنا، منکر سے روکنا صدقہ ہے۔ پس جو آدمی لٹریچر کے ذریعے خلقِ خدا کی تعلیم و تربیت، رہنمائی، غلبۂ اسلام کی کوشش کرے گا وہ صدقۂ جاریہ میں مال خرچ کرے گا۔ اسے مال خرچ کرنے کا ثواب بھی ملے گا کہ یہ مالی صدقہ ہے، اور تعلیم و رہنمائی کا اجر بھی ملے گا کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ واللّٰہ اعلم!(مولانا عبدالمالک)
س : میرے زرعی رقبے میں ٹیلی فون ٹاور نصب ہوا ہے، شاید اس پر بھی زکوٰۃ ہو، مگر مجھے علم نہیں کہ اس پر زکوٰۃ کیسے ادا ہوگی؟ معاہدہ اس طرح ہوا ہے ۷۲ہزار سالانہ اور ہرسال ۶ فی صد اضافہ ہوگا اور اس میں اپنا خرچ اور گورنمنٹ کا ٹیکس وہ کاٹ لیں گے۔ اس دفعہ انھوں نے کٹوتی کے بعد۷۲ ہزار کے بجاے ۶۸ہزار روپے دیے ہیں۔ سردست میں مقروض بھی ہوں۔ اسی طرح دکانوں اور مکانوں کا کرایہ، یا ایسے پلاٹ جو بغرضِ کاروبار خریدے گئے ہوں، ان پر کب اور کس طرح زکوٰۃ ادا کی جائے؟
ج : ٹاور پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے آپ کو جو رقم ملے، اگر قرض سے زائد ہو تو اس پر زکوٰۃ دے دیں بشرطیکہ کرایے کی رقم قرض کی ادایگی کے بعد اس قدر زیادہ ہو کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، یا مزید رقم جو آپ کے پاس بچی ہوئی ہو اُسے بھی ساتھ ملا دیا جائے، اور اگر مجموعی رقم پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ دی جائے گی۔ پلاٹوں کی سال بہ سال قیمت لگائی جائے اور پس انداز کی ہوئی رقم کے ساتھ ملا کر اس کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے۔(ع-م)
اُردو شعرا نے عام طور پر حصولِ برکت کے طور پر حمد باری تعالیٰ کو اپنے مجموعوں اور کلیات کی زینت بنایا ہے۔ اسی طرح نثر کی بعض کتابوں میں بھی اسے ذریعۂ خیروبرکت سمجھتے ہوئے شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی نظر ڈالی جائے تو اُردو شاعری میں حمدیہ مجموعے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ یہ مجموعہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بہت عمدہ کوشش کی ہے جو اُردو شاعری میں کئی لحاظ سے اہم قرار دی جاسکتی ہے۔ جناب مسلم کو ہندی، فارسی اور عربی زبانوں پر جو دسترس حاصل ہے اور جس خوب صورتی سے وہ مذکورہ زبانوں کے الفاظ کو نگینوں کی طرح جڑتے ہیں ان پر آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
حمد لکھنا بھی نعت کی طرح آسان نہیں،نعت نگار کو دو دھاری تلوار پر چلنا پڑتا ہے۔ جناب مسلم نے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے قرآن و حدیث کو سامنے رکھا ہے اور اسی کی بدولت ان کا قلم کہیں ڈگمگانے نہیں پایا۔
اس حمدیہ مجموعے میں ڈاکٹر ریاض مجید کا مقالہ شامل ہے، اس سے نہ صرف اس صنفِ شاعری کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم ہوتی ہیں بلکہ اس سے ع س مسلم کی اس صنف سے دل چسپی اور خاص طور پر علم عروض پر ان کی گرفت کی پختگی بھی سامنے آتی ہے۔ انھوں نے اس مجموعے میں بعض نئی تراکیب وضع بھی کی ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف حمد کہنے کی تحریک دلائی ہے جو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کا ایک عمدہ نمونہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
زیرتبصرہ کتاب السیرۃ النبویۃ کا اُردوترجمہ ہے، جس میں حضور اکرمؐ کی نبوی حیثیت کو نمایاں کرتے ہوئے مغربی فکری گمراہیوںکی تردید کی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمدسعید رمضان البوطی شام کے مشہور عالم دین ہیں اور عصری مسائل کو دینی نقطۂ نظر سے جدید عام فہم اسلوبِ بیان میں پیش کرنے کی خداداد صلاحیت کے مالک ہیں۔
کتاب میں حیات النبی کے درخشاں واقعات کو اگرچہ روایتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کا زیادہ زور مستشرقین اوران کے ہم فکر مشرقی اہلِ علم کی ان گمراہ کن آرا کی تردید پر ہے، کہ جن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ صرف ایک مصلح انسان تھے۔ مصنف نے کتاب کے تمہیدی مباحث میں تاریخ نویسی کے اسلامی اسلوب کو واضح کرتے ہوئے تاریخ نگاری کے جدید نقطۂ نظر پر فاضلانہ بحث کی ہے اور مغربی فکر کے جدید اسلوب تجزیہ و تحلیل کی تردید کی ہے، جس میں حیات النبیؐ کے واقعات کو اس لیے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ ان کی عقلی توجیہہ نہیں ہوتی اور یہ واقعات جدید سائنسی اصولوں پرپورے نہیں اُترتے (ص ۴۸)۔ اس طرزِ فکر کی مثال دیتے ہوئے مصنف نے محمدحسین ہیکل کا یہ دعویٰ پیش ہے: ’’میں اپنی اس کتاب میں سیرت اور حدیث کی کتابوں کا پابند نہیں ہوں، بلکہ میں نے بہتر سمجھا کہ اسے علمی انداز میں پیش کروں‘‘۔ (ص ۴۹)
کتاب میں اس نقطۂ نظر کی تردید کی گئی ہے۔اعتراضات کے جواب میں مصنف کا استدلالی اسلوبِ بیان، عالمانہ اور عام فہم ہے۔ عبارت سادہ اور لفظی و معنوی الجھائو سے پاک ہے۔ اُردو زبان میں اس انداز کی سیرت نگاری کا رواج ابھی عام نہیں ہوا۔ مترجم نے عربی سے اُردو ترجمہ مہارت سے کیا ہے۔ (ظفرحجازی)
زیرنظر کتاب سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگہی کے لیے ایک منفرد کاوش ہے۔ بنیادی طور پر یہ امام بغویؒ کی عربی تالیف الانوار فی شمائل نبی المختار کا ترجمہ ہے۔ مؤلف نے سیرت کے روایتی اسلوب سے ہٹتے ہوئے سیرت و سوانح کے واقعات کو ایک ترتیب سے بیان کرنے کے بجاے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سیرت اور آداب و شمائل کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے، اور روز مرہ زندگی میں اسوئہ حسنہ سے عملی راہ نمائی دی ہے۔
ایک ہزار سے زائد احادیث کے اس مطالعے کو مختلف ابواب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ نبی کریمؐ کے معجزات اور منفرد اوصاف و شمائل، آپؐ کا سراپا، رہن سہن، لباس، کھانا پینا اور اخلاقِ عالیہ اور طہارت و نظافت کا دل آویز تذکرہ ہے۔ اسلامی معاشرت اور ازدواجی زندگی کے پہلو کو بھی جامع انداز میں سمویا گیا ہے۔ ’ادعیۂ ماثورہ‘ کے تحت نبی کریمؐ کی دعائوں کا عمدہ انتخاب ہے جسے روزمرہ معمول بنانا حبِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ خیروبرکت کا باعث بھی ہوگا۔ نبی کریمؐ کے مرض الموت اور رفیقِ اعلیٰ کو لبیک کہنا، زندگی کے آخری لمحات اور تدفین کے مناظر اشک بار کردیتے ہیں۔ آخری باب احیاے سنت، اتباع رسولؐ اور محبت مصطفی کے لیے راہ نمائی اور اسوہ پر مبنی ہے اور دعوتِ عمل دیتا ہے۔
نبی کریمؐ کی سیرت کا نمایاں ترین پہلو دعوت اور احیاے اسلام کی جدوجہد ہے، جسے ایک باب کے تحت بیان کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ اس پہلو سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ تخریج کے ذریعے احادیث کی صحت و ضعف، حوالوں اور اعراب کے خصوصی اہتمام سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ ترجمے کااسلوب دل نشیں اور عام فہم ہے۔ اپنے موضوع پر ایک مفید علمی اضافہ ہے۔ (امجد عباسی)
مشاہیرِاسلام یا اکابرِاُمت (بالخصوص محدثین اور علما و فقہا) کی سوانح نگاری فاضل مصنف کا خاص موضوع ہے۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے اُن ۱۰ نفوسِ قُدسی کے سوانح حیات کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے جن کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر جنت کی بشارت دی تھی، یعنی حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت زبیر بن العوام، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت سعید بن زید اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
دراصل قرآن حکیم میں عمومی طور پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی صحابۂ کرامؓ کو جنت کا حق دار ٹھیرایا ہے (التوبہ ۹:۱۰۰، الانفال ۸:۷۴-۷۵) لیکن ان صحابہ میں ایک ایسی جماعت بھی تھی جو اپنی مہتم بالشان دینی خدمات، اپنے غیرمعمولی فضائل و مناقب اور بارگاہِ رسالت میں تقرب کی بنا پر خصوصی اہمیت اور مرتبے کی حامل تھی۔ اصحابِ عشرہ مبشرہ اسی مقدس جماعت کے معزز ارکان تھے۔ فاضل مؤلف نے ان بزرگوں کے سوانح حیات مستند حوالوں کے ساتھ بڑی تفصیل سے قلم بند کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو عرق ریزی اور تحقیق کی ہے، وہ لائقِ تحسین و ستایش ہے۔ ان کا اسلوبِ نگارش محققانہ ہونے کے ساتھ بہت سادہ، دل کش اور عام فہم ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع پر دو تین اور کتابیں بھی ہماری نظر سے گزر چکی ہیں۔ یہ کتاب ان میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں کھٹکتی ہیں (طالب ہاشمی)۔ [۱۶فروری ۲۰۰۸ء کو رحلت فرما گئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین]
مغربی تہذیب کا طاقت ور مظہر سیکولرزم، ایک کثیرجہتی یلغار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہی سیکولرزم جسے ڈاکٹر انیس احمد اپنے فاضلانہ تعارفی مضمون میں: ’ایک جعلی (pseudo) مذہب‘ (ص ۱-۲۰) قرار دیتے ہیں۔ اس لامذہبی کے مذہب نے خصوصاً اسلام کے خلاف انتہادرجے کا متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے، جس میں یہودیت، نصرانیت اور ہندومت ایک دوسرے کے اتحادی نظر آتے ہیں۔
عہدحاضر میں نام نہاد ’تہذیبی تصادم‘ (جو درحقیقت یک طرفہ مغربی، عسکری، معاشی، مذہبی، سماجی اور فکری یلغار ہے) کے احوال کو موجودہ عہد کے عظیم اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودی، ہر پہلو سے زیربحث لائے ہیں۔ انھوں نے دلیل، دانش، انصاف اورمنطق سے اس مسئلے کی اخلاقی و انسانی بنیادوں کو واضح کیا ہے۔ اگرچہ مولانا مودودی،مغربی تہذیب کے خودغرضانہ، لادینی اور اباحیت پسندانہ پہلوئوں کو موضوع بحث بناتے ہیں، لیکن وہ مغربی تہذیب کی ان ترقیات و مقدمات کا بھی کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، جنھوں نے انسانی فلاح کے لیے کئی حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں۔ تاہم وہ برملا یہ بات واضح کرتے ہیں، کہ جب انسان آخرت کی جواب دہی کے احساس سے عاری ہوجاتا ہے تو پھر اس کے بہت سے تعمیری ارادوں پر بھی حیوانی جبلت غلبہ حاصل کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب مغرب کے نزدیک برتری کی معراج کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا ہی فاتح عالم ہے۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں مغرب پر اسی حیوانی جبلت کا پھریرا لہرا رہا ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر خورشیداحمد نے بتایا ہے: ’’ان مضامین میں مولانا مودودی نے مغرب کے اس تصور کا تجزیہ کیا ہے، جس کے تحت وہ معاشرے میں مذہب اور الہامی رہنمائی کو چیلنج کرتا ہے‘‘ (ص xi )۔ مولانا مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’[مغربی تہذیب نے] نظام زندگی کے ہرشعبے سے مذہب کو عملاً بے دخل کردیا، اور اس کا دائرہ صرف شخصی عقیدہ و عمل تک محدود کرکے رکھ دیا۔ یہ بات تہذیب مغرب کے اصولوں میں داخل ہوگئی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ
اس تہذیب کے رگ رگ میں خدا بیزاری اور لامذہبیت (سیکولرزم) کی ذہنیت پیوست ہوگئی ہے (اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۴۳۷-۴۳۸)۔ مغربی تہذیب کے تجزیاتی مطالعے کے لیے مولانا مودودی نے ردعمل کا شکار ہونے کے بجاے توانا لہجے، مضبوط قلم، روشن ذہن اور کھلے ضمیر سے انسانوں کے دلوں پر دستک دی۔ معروف ترقی پسند دانش ور فیض احمدفیض نے درست کہا تھا: ’’تہذیب مغرب پر تنقید کے حوالے سے دیگر علما کے مقابلے میں سیدمودودی کا نقطۂ نظر زیادہ معتدل ہے۔ وہ اکثر و بیش تر استدلال عقلی توجیہہ سے کرتے ہیں، محض روایتی طریقے سے نہیں۔ انھوں نے تہذیب مغرب پر جذباتی انداز سے نہیں بلکہ غیرجذباتی اوراستدلالی انداز سے تنقید کی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس تہذیب کا ایک مرکزی ستون سیکولرزم ہے۔
فاضل مرتب و مترجم طارق جان نے مولانا مودودی کی دو معرکہ آرا کتب تنقیحات اور تفہیمات سے آٹھ مضامین کو منتخب کیا ہے۔ یہ انتخاب قابلِ داد ہے اور تدوین و ترجمے کا معیار اور اسلوب قابلِ رشک ہے۔ مرتب نے نہ صرف مولانا مودودی کی ان سدابہار تحریروں کا شُستہ اور رواں انگریزی ترجمہ کیا ہے، بلکہ مولانا مودودی کے استدلال اور مقدمے کی تائید کے لیے، اپنے حواشی میں ڈھائی سوسالہ انگریزی لٹریچر کو کھنگال کر مغربی دانش ور اور فلسفیوں کی تحریروں سے قیمتی حوالے پیش کیے ہیں۔ یہ تائید مزید مولانامودودی کی تنقید مغرب کی مؤثر معاونت کرتی ہے۔ مولانامودودی کے رفقا میں سے پروفیسر عبدالحمید صدیقی، خرم مراد اور پروفیسر خورشیداحمد نے تہذیب مغرب کے مطالعہ و تحقیق کی جس روایت میں کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں، آج طارق جان نے اسی سلسلۃ الذہب کے ایک قابلِ ذکر دانش ور کی حیثیت سے یہ قیمتی خدمت انجام دی ہے۔
اسلام اینڈ دی سیکولر مائنڈ علمی، فکری، سماجی، تاریخی اور فلسفیانہ حوالے سے خاصے کی چیز ہے جس میں مولانا مودودی نے: ’’ذہنی غلامی، الٰہی اور لادینی قانون،اسلام پہ ’نظرثانی‘، عقل پرستی کے زعم، ڈاوینی ارتقا، مغربی تہذیب کو درپیش چیلنج وغیرہ کوموضوع بحث بنایا ہے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے فی الواقع اسے شایانِ شان طریقے سے شائع کیا ہے۔ عالمی سطح پر تو اس کتاب کی پذیرائی ہوگی ہی، لیکن خود پاکستان کے سیکولر دانش وروں تک اس کتاب کا پہنچایا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصور خالد)
مسلمان اور سائنس، سراج الدین ندوی۔ ناشر: ملت اکیڈیمی، ۲۳۳-سی، ابوالفضل انکلیو، ۱۱-شاہین باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ صفحات: ۴۲۴۔ قیمت: ۱۴۰ بھارتی روپے۔
زیرنظر کتاب میں ۲۶۵ سائنس دانوں کے کوائف، خاندانی پس منظر ،ان کے کارنامے کسی قدر ان کے اور اس دور کی عمومی کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں موجودہ دور کے مسلمان سائنس دانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مصنف نے مسلمان سائنس دانوں کی تصانیف کے بارے میں بہت اہم معلومات فراہم کی ہیں، یعنی یہ کہ وہ اب کہاں ہیں، یا کہاں طبع ہوئی ہیں جیسے حجاج بن مطر کی اقلیدس کو کوپن ہیگن میں،یا طبی انسائی کلوپیڈیا فردوس الحکمت، عربی کے علاوہ سریانی میں لکھی گئی اور اب اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔
زیرنظر کتاب سے پتا چلتا ہے کہ ڈٹمار نے ۱۸۸۴ء میں ایک اہم تحقیق کے بعد سمندری پانی میں حل شدہ نمکیات کی تفصیل فراہم کی مگر ثابت بن قرۃ دانی نے سمندری پانی کے نمکین ہونے کے اسباب کا تذکرہ بہت پہلے کیا تھا۔ اسی طرح زلزلے کے اسباب، زمین کے قطر کا درست تعین، سیلاب روکنے کے آلات وغیرہ ایسی تمام تفصیلات کتاب کے آخری باب ’اہم ایجادات و انکشافات ایک نظر میں‘ میں فراہم کردیے گئے ہیں۔
یہ بات کلی طور پر درست نہیں ہے کہ ’ترقی یافتہ اقوام کے اہلِ علم، اسپین کی اسلامی جامعات میں تعلیم حاصل کر کے مسلمانوں کے ورثے کواپنے ساتھ لے گئے اور سائنس کی اوجِ ثریا تک پہنچے۔ انھوں نے مسلمانوں کی ایجادات و انکشافات کو اپنی جانب منسوب کر کے مسلمان سائنس دانوں کی کاوشوں کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیا۔ جارج سارٹن کی تصانیف، یا ۱۵ جلدوں میں شائع ہونے والی اے ڈکشنری آف سائنٹفک بابو گرافیز میں مسلمان سائنس دانوں کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ جابر بن حیان کو باباے کیمیا، ابن الہیثم کو باباے بصریات کا خطاب اہلِ مغرب ہی نے دیا تھا۔
سراج الدین ندوی نے نہایت محنت سے ایجادات کی تصاویر اور خود سائنس دانوں کی تصاویر حاصل کر کے شائع کی ہیں جو آیندہ کام کرنے والوں کے لیے ابتدائی مآخذ کا کام انجام دیں گی۔ پوری کتاب میں بہت سے دل چسپ اور عبرت ناک واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جو کتاب کی افادیت میں اضافے کا سبب بنے۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)
محترم نعیم صدیقی کا جاری کردہ سیارہ گاہے بگاہے بعض ادبی رسالوں کی ضخیم اشاعتوں کی یاد دلاتا ہوا شائع ہوتا رہتا ہے۔ اسے پاکستان میں ادب اسلامی سے وابستہ اہلِ قلم کا نمایندہ رسالہ کہا جاسکتا ہے۔ اس اشاعت خاص میں حمدیہ اور نعتیہ کلام، مضامین، نظموں اور افسانوں کے ساتھ ایک خصوصی گوشہ بیاد اقبال ہے، اور دوسرا گوشۂ خاص بھارت کے مشہور دانش ور اور ادبی نقّاد ڈاکٹر عبدالمغنی کی یاد میں مرتب کیا گیا ہے۔ ۳۶ کتب پر تبصرہ لکھا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ رسالہ عام ادیبوں اور طلبہ اور طالبات کے مطالعے میں آئے، چند مخصوص لوگوں تک محدود نہ رہے۔(مسلم سجاد)
’کلام نبویؐ کی کرنیں‘ اور ’قناعت‘ (فروری ۲۰۰۸ئ) مؤثر تحریریں ہیں اور ذاتی اصلاح پر اُبھارتی ہیں۔ محترم عبدالغفار نے غزہ کو دورِحاضر کا ’شعب ابی طالب‘ قرار دے کر فلسطینی بھائیوں پر توڑے جانے والے مظالم، مصیبتوں اور آزمایش کی صحیح ترجمانی کی ہے۔
’نائن الیون: پردہ اُٹھ رہا ہے!‘(فروری ۲۰۰۸ئ) کے ضمن میں آپ کے قارئین کے لیے یہ امر دل چسپی کا باعث ہوگا کہ انھی دنوں جاپانی پارلیمنٹ میں اسی موضوع پر ایک چشم کشا مباحثہ ہوا جسے ساری دنیا نے سرکاری چینل این ایچ پر دیکھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن یوکی ہی سافوتیجا نے وزیراعظم سے چبھتے ہوئے سوال کیے، پینٹاگون کی تصاویر دکھا کر بتایا کہ جہاز کے ٹکرانے سے نسبتاً بہت چھوٹا سوراخ ہوا، جب کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ سامنے کے لان میں جہاز کاکوئی ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ یہ تصویر موقع پر موجودہ فائرمین نے کھینچی تھی۔ انھوں نے امریکی ایئرفورس کے ایک افسرکا یہ تبصرہ بھی دکھایا کہ میں نہیں مان سکتا کہ جو شخص پہلی بار ان جہازوں کو اڑا رہا ہو وہ ایسی کارروائی کیسے کرسکتا ہے۔ پینٹاگون میں ۸۰ سے زائد سکیورٹی کیمرے نصب ہیں مگر جہاز کے ملبے کی کوئی بھی تصویر دستیاب نہیں ہے۔ فوتیجا نے ایک فائرمین اور جاپانی ریسرچ ٹیم کے انٹرویو بھی پیش کیے جن کے مطابق عمارت بم دھماکوں سے اڑائی گئی ہے، جہاز ٹکرانے سے عمارت کا اس طرح گرنا ممکن نہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے ویب سائٹ: truthnews.us/?p=1705)۔ اس طرح انھوں نے امریکی حکمرانوں کی بدنیتی اور حقائق چھپانے کی روش واضح کی۔ ممبران کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکی فوج کو تیل فراہم کرنے کے بجاے اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ افغان عوام امن کے ساتھ اور پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہوئے زندگی بسر کرسکیں۔ کیا اب بھی وار آن ٹیرر میں شرکت کا کوئی جواز ہے؟
’احتجاج اور ردّعمل کا غیرمتوازن اظہار‘ (فروری ۲۰۰۸ئ) میں بجاطور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے سانحے کے بعد بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ، جلائوگھیرائو اور لوٹ مار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھی اور حکومت کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، جب کہ انھیں متوقع ردّعمل کا اندازہ بھی تھا۔ معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا تقاضا ہے کہ وسیع پیمانے پر اصلاح اخلاق اور رجوع الی اللہ کی مہم چلائی جائے۔
’انسانی وسائل کی ترقی‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) اُمت کی ضرورت، وقت کا تقاضا اور اہلِ علم کو غوروفکر کی دعوت ہے۔ کتنے ہی علوم اور مضامین ایسے ہیں جنھیں جدید دنیا کے علوم وفنون اور انکشافات سے بیان کیا جاتا ہے، جب کہ اسلام میں یہی مضامین کہیں تفصیل سے، کہیں اشارے و کنایے سے اور کہیں وضاحت و شرح سے بیان کیے گئے ہیں، البتہ زبان و الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں۔
ڈی این اے پر مضمون (جنوری ۲۰۰۸ئ) رسالے میں آنا اور اس کا عام کرنا قابلِ ستایش ہے۔ یہ مضمون بڑا چشم کشا اور معلوماتی ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد تقدیر کا مسئلہ خودبخود حل ہوجاتا ہے اور بہت سی پیچیدگیاں سلجھ جاتی ہیں۔ایسے معرکہ آرا مضامین شائع کرنے پر مبارک باد دینے کو جی چاہتا ہے۔
’چہرے نہیں نظام بدلیں‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے مولانا مودودی نے موجودہ دور کے لیے ہی لکھا ہے۔ بلاشبہہ اس نظام کے بدلنے کی سعی لازم ہے لیکن طریقۂ کار سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا ’انتخابی تماشا‘ میں شرکت کرکے اور اسمبلیوں تک پہنچ کر کچھ کرسکتے ہیں، یا بائیکاٹ کرکے اِس باطل نظام کو ختم کرسکتے ہیں؟ پوری قوم پریشان ہے۔
’وفاقی شرعی عدالت کا ایک تاریخی فیصلہ‘ اور ’نظریۂ ضرورت: قانون اور انصاف کا خون‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) جیسے مضامین عام آدمی کے علم میں اضافے کا موجب ہیں۔ ایسی باتیں اُمید دلاتی ہیں کہ کہیں روشنی بھی ہے، اتنی مایوسی نہیں۔ ’ڈی این اے، تخلیق الٰہی کا کرشمہ‘ نے تو جیسے ایمان ہی تازہ کردیا۔
نام ور مغربی سائنس دان (جنوری ۲۰۰۸ئ) پر تبصرہ نظر سے گزرا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایجادات اور کلیات کو حل کرنے کا سہرا صرف مغربی سائنس دانوں کے ہی سر نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے مسلمان سائنس دان یہ کرچکے ہیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ سائنس ایک مشترکہ میراث انسانیت ہونے کے سبب مسلمان اپنی ان علمی کاوشوں کے ہوتے ہوئے دُور کیوں ہوگئے؟ اس کا ایک سبب یہی ہے کہ مسلمان حکومتوں نے ناانصافی، ظلم و تعدی کا بازار گرم کیا اور اغیار ہم پر قابض ہوگئے۔ آج بھی ظلم وستم اور اہلِ علم کی بے توقیری کی روش عام ہے۔ اگر ہم نے ایک مسلم سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر کو پروان چڑھایا ہے تو اس پر ظلم وستم ڈھا کر اس کی زندگی کو ہی اجیرن بنادیا گیا ہے۔ کیا اسی کا نام علم دوستی ہے!
۱- اسلام موجودہ زمانے کی جمہوریت سے سیکڑوں برس پہلے عورتوں کے حق راے دہی کوتسلیم کرچکاہے۔ اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح ہربالغ مرد کو یہ حق دیاجائے گا۔
۲- اسلام عورتوں کو وراثت اورمال وجایداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق دیتا ہے۔ ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے روپے کو تجارت و صنعت میں لگائیں اور اس سے جو نفع ہو، اس کی بلاشرکت غیرے مالک ہوں، بلکہ اگر ان کے پاس وقت بچتا ہو تو ان کو اس کا بھی حق ہے کہ بطور خود کوئی کاروبار یا کوئی محنت مزدوری کریں۔ اس کی آمدنی کی ملکیت پوری طرح انھی کو حاصل ہوگی۔ ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کے املاک پر کسی قسم کے اختیارات ازروے شرع حاصل نہیں ہیں۔
۳- اسلامی حکومت میں یہ ناقص ازدواجی قانون، جو انگریزی دور میں یہاںرائج رہا ہے اور جس نے بہت سی مسلمان عورتوں کے لیے دنیا کی زندگی کو دوزخ کی زندگی بنا رکھا ہے، بدل دیا جائے گا اور اسلام کا حقیقی قانون ازدواج جاری کیا جائے گا جو عورتوں کے حقوق اور مفاد کی پوری حفاظت کرتا ہے۔
۴- اسلامی حکومت میں عورتوںکو تعلیم سے محروم نہیں رکھا جائے گا جیساکہ غلط فہمیاں پھیلانے والے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے، بلکہ اُن کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ انتظام یقینا آج کل کے گرلز اسکولوں اور گرلز کالجوں کے طرز پر نہ ہوگا اور مخلوط تعلیم کے اصول پر تو ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ اس میں اسلامی حدود کی پوری پابندی کی جائے گی مگر ہرصورت ہر شعبے میں اُونچے معیار کی زنانہ تعلیم کے انتظامات ضرور کیے جائیں گے۔
۵- ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے اور یہ بھی ان شاء اللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہوئے ہوگا۔ انسان درندگی کی بد سے بدتر شکلیں اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے جنھیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاند جانے میں تامل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آجائے تو نہ معلوم کیا کیا بربریت ان سے صادر ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے تیار کریں اور ہرمسلمان عورت اپنی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو۔انھیں اسلحے کا استعمال سیکھنا چاہیے، انھیں تیرنا آتا ہو، سواری کرسکتی ہوں، سائیکل اور موٹر چلا سکیں، فسٹ ایڈ جانتی ہوں۔ پھر وہ صرف اپنی ذاتی حفاظت ہی کی تیاری نہ کریں، بلکہ ضرورت ہو تو جنگ میں مردوں کا ہاتھ بھی بٹاسکیں۔ ہم یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی حدود کے اندر کرنا چاہتے ہیں۔ ان حدود کو توڑ کر نہیں کرنا چاہتے۔ (’اسلام اور اس کے تقاضے‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۱، عدد۳، رمضان ۱۳۶۷ھ، جولائی ۱۹۴۸ئ، ص ۲۶-۲۹)