بسم اللہ الرحمن الرحیم
ویسے تو زندگی کا ہر لمحہ لمحۂ امتحان ہے اور زندگی اور موت کا پورا سلسلہ انسان کی آزمایش کے لیے ہے (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوںکو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک۶۷:۲)، لیکن افراد اور قوموں کی زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جنھیں بجا طور پر تاریخی اور سنہری موقع قرار دیا جاسکتا ہے اور جن پر صحیح اقدام تاریخ کے رخ کو موڑنے کا ذریعہ بن سکتاہے۔ آج پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی سنہری موقع حاصل ہے۔ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی، اس نے ۱۷ مارچ سے اپنی زندگی کا آغاز اور ۲۴ مارچ کو قائد ایوان کا انتخاب کر کے مخلوط حکومت کے قیام کی راہ کھول دی ہے۔ توقع ہے مارچ کے آخر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داری سنبھال لے گی۔
ہم پیپلزپارٹی کے نامزد وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالیں جس میں پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں (خصوصاً مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم) نے پھنسا دیا ہے۔ ہم پورے اخلاص اور دردمندی کے ساتھ ان کی توجہ ملک کو درپیش اصل چیلنج کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان مسائل اور ترجیحات کی نشان دہی کر رہے ہیں جو ان کا فوری ہدف ہونا چاہییں۔ آج پاکستان کی آزادی، حاکمیت، دستور اور نظامِ زندگی کے تحفظ کے لیے حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم صحیح معنوں میں عرصۂ محشر میں ہیں اور یہ وقت ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو بچانے اور زندگی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا ہے۔
پہلا اور سب سے اہم مسئلہ گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کا ہے۔ گاڑی اپنا مطلوب سفر اسی وقت شروع کر سکے گی جب وہ پٹڑی پر ہو۔اس لیے پٹڑی پر ڈالے بغیر تیزرفتاری کی باتیں کرنا اپنے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اس غرض کے لیے مندرجہ ذیل اقدام ضروری ہیں:
۱- نظامِ عدل کی بحالی کہ عدل کی فراہمی کے مؤثر انتظام کے بغیر کوئی قوم اور ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ کفر کی نائو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکمرانی اور عدل سے محرومی تباہی کا راستہ ہے۔
۲- دستور اور قانون کی حکمرانی کہ مہذب معاشرے کا وجود دستوری نظام کی بالادستی اور قانون کی اطاعت پر منحصر ہے۔ جب اور جہاں دستور، قانون اور نظامِ زندگی فردِواحد کا تابع مہمل بن جائے، وہاں تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ رونما نہیں ہوسکتا۔ استحکام فرد سے نہیں اداروں، قانون اور ضابطے کی عمل داری سے حاصل ہوتا ہے۔ صحیح پالیسیاں مشورے اور افہام و تفہیم سے وجود میں آتی ہیں اور انصاف، استحکام و ترقی اور توازنِ قوت(balance of power) کا مرہونِ منت ہے، ارتکازِ قوت (concentration of power) کا نہیں۔ اس لیے اختیارات کی تقسیم اور تعین اور ہر ایک کا اپنے اپنے دائرۂ اختیار کا احترام ہی امن کے قیام اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طرزِ حکمرانی، پالیسی سازی کے اسلوب اور طور طریقوں کی اصلاح اور نظامِ احتساب کو مضبوط کیے بغیر کوئی ملک ترقی اور استحکام کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔
یہ دو وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر ہماری گاڑی اپنی پٹڑی پر نہیں آسکتی لیکن اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ازبس ضروری ہے اور وہ یہ کہ ٹرین کا ڈرائیور ہمارا اپنا ہو اور اس کی باگ ڈور کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ جب تک یہ تینوں چیزیں ٹھیک نہ ہوجائیں ملک اور قوم اپنی منزل کی طرف سفر نہیں کرسکتے۔ اس لیے نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت کو اولین ترجیح ان تینوں امور کو دینا چاہیے۔ بلاشبہہ معاشی معاملات بھی بے حد اہم ہیں اور اس وقت ہمارے معاشی مسائل بڑے گمبھیر اور پریشان کن ہیں ۔ امن و امان کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن ہم پوری دردمندی سے عرض کریں گے کہ الاول فالاول کے اصول پر فوری طور پر اولین ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور اس کے ساتھ باقی تمام مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کا اہتمام ہو۔
سب سے پہلی ضرورت اس بگاڑ اور فساد کی اصلاح ہے جس کا آغاز ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو ہوا اور جو ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے خلافِ دستور اقدام کے نتیجے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جن کو سمجھنا اور ان کی اصلاح اور آیندہ کے لیے ملک و ملت کو ایسے حالات سے بچانے کے لیے مؤثر تدابیر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔
اولاً، فردِ واحد کی طرف سے دستور، قانون، اسلامی اقدار اور مہذب معاشرے کی روایات کے خلاف پہلے صرف چیف جسٹس کو اور پھر عملاً عدالت عالیہ کے ۶۳ ججوں کو برطرف کر دینا، ان کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرنا، اپنی مرضی کے ججوں کا تعین اور اپنے مفیدمطلب فیصلے حاصل کرنے کے لیے آزادعدلیہ کا قتل۔
ثانیاً، فردِ واحد کا یہ دعویٰ کہ بندوق کی قوت سے وہ جب چاہے دستور کو معطل کرسکتا ہے، اس میں من مانی ترامیم کرسکتا ہے، ایمرجنسی نافذ کرسکتا اور اٹھا سکتا ہے، اور ملک کے پورے نظامِ حکمرانی کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑ سکتا ہے۔
ثالثاً، نام نہاد عدلیہ کا فردِ واحد کو درج بالا دونوں ’حقوق‘ دے دینا، اس کے حکم پر نیا حلف لے لینا، اس کے غیرقانونی اقدام کو جائز قرار دینا اور اسے دستوری ترمیم کا وہ حق بھی دے دینا جو صرف پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کو حاصل ہے، خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیں۔
یہ تینوں جرم پوری ڈھٹائی سے کھلے بندوں ۹ مارچ اور ۳ نومبر کو ہوئے، اور پرویز مشرف کی خودساختہ عدالت عالیہ نے ان پر مہرتصدیق ثبت کرکے پرویز مشرف کے جرم میں برابر کی شریک ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔ بلاشبہہ ماضی میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا ہے اور غلام محمد اور اس کے شریک کار جسٹس منیر سے لے کر پرویز مشرف اور موجودہ عدالت عالیہ نے ایک ہی جرم کا بار بار ارتکاب کیا ہے، اور پارلیمنٹ نے بھی مصالح کا شکار ہوکر دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے اور ۲۷۰ اے اے کی شکل میں اس سیاسی جرم کو دستور کا حصہ بنانے کی غلطی کی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمدچودھری اور ۶۳ دوسرے ججوں نے اس کی مزاحمت کی، پوری وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک اس اقدام کے خلاف علَم بغاوت بلندکیا بالآخر فروری ۲۰۰۸ء میں عوام نے اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔ اب اسمبلی اور نئی حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے کہ اس بنیادی خرابی کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کردے۔اس کی مناسب ترین شکل یہ ہے:
۱- ایک واضح قرارداد کے ذریعے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیردستوری، غیر قانونی، غیراخلاقی اور بدنیتی پر مبنی (malafide) قراردیا جائے اور اسے اس کے نفاذ کے وقت سے کالعدم قرار دیا جائے جس کا واضح نتیجہ یہ ہوگا کہ
ا - چیف جسٹس اور تمام جج اسی حالت میں بحال ہوجائیں گے جس میں وہ ۳نومبر کی صبح تک تھے اور سات ججوں کا وہ فیصلہ جس نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیر دستوری قرار دیا تھا، بحال ہوجائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔
ب- ۳ نومبر کے بعد کے تمام اقدامات بشمول دستوری ترامیم اور انتظامی احکامات اصلاً غیرقانونی قرار پائیں گے، اِلا .ّیہ کہ پارلیمنٹ حقیقی ضرورت کے تحت ان میں سے کسی یا کچھ کو دفعِ فساد کی بنیاد پر محدود زندگی دے دے۔
اوّل: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کی نفی اوراس کے تحت کیے ہوئے تمام اقدامات کو قانونی جواز سے محروم کرنا۔
دوم: سابقہ صورتِ حال (status quo) کی بحالی۔
سوم: اس اصول کا برملا اعلان و تصدیق کہ دستور میں ترمیم کا اختیار نہ چیف آف اسٹاف کو ہے، نہ صدر کو اور نہ سپریم کورٹ کو، بلکہ دستور میں ترمیم کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ دفعہ ۲۳۸- ۲۳۹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس لیے پی سی او کے تحت حلف لینے والی سپریم کورٹ کے ۳ نومبر والے اقدام کو جواز دینے کی نفی، اور آیندہ کے لیے تنبیہہ کہ کوئی عدالت اس نوعیت کا اقدام کرنے کی مجاز نہیں۔
۱- جو جج پہلے سے عدلیہ میں موجود تھے، وہ بھی معزول کردہ ججوں کی طرح اپنے ماضی کے مقام پر بحال رہیں گے۔ اصولی طور پر جو نئے جج مقرر کیے گئے ہیں، وہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی میزان پر احتساب کے سزاوار ہوسکتے ہیں۔ ان کو عہدوں سے فارغ کر دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ دستور اور الجہاد ٹرسٹ کے ججوں کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کر کے اور خالص میرٹ کی بنیاد پر دستور اور ضابطے کی روشنی میں عدلیہ کی بحالی کے ایک ماہ کے اندر اندر فیصلے کرکے نافذ کردے۔
۲- ۳ نومبر والی ایمرجنسی کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت جو بھی اقدام ہوئے ہیں وہ سب قرارداد کے منظور ہونے کے تین ماہ کے اندر کالعدم ہوجائیں، بجز ان کے جن کے جاری رکھنے کا فیصلہ ایک پارلیمانی کمیٹی ان تین ماہ کے اندر کرے۔ اگر یہ کمیٹی فیصلہ نہیں کرتی تو وہ اقدام آیندہ کے لیے ختم ہوجائیں گے، خواہ اس کے اثرات کچھ بھی ہوں، البتہ جن چیزوں پر عمل ہوچکا ہے، ان کو کم تر برائی کے اصول پر گوارا (condone)کیا جاسکتا ہے۔
۳- اس قرارداد کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا جائے کہ نظریۂ ضرورت کے تحت عدالتوں کا جواز دینا (validation )اور پھر پارلیمنٹ کا توثیق کرنا (ratification) ایک غلط سلسلہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مفید ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی دستور میں دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے، ۲۷۰ اے اے کے تحت ماضی میں جو جواز مہیا (validate) کیے گئے ہیں ان کے بارے میں بھی طے کرے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی تمام قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے اور دوسال کے اندر ان قوانین، حکم ناموں اور اقدامات کا تعین کردے جن کو جواز حاصل رہے اور باقی سب کو منسوخ کردیا جائے گا تاکہ ماضی کے اس پشتارے کی بھی تطہیر ہوجائے۔
۴- اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس پر عمل شروع کردیا جائے اور انتظامی حکم کے ذریعے تمام سابقہ ججوں کو بحال کرکے عدل وا نصاف کے دستوری عمل کو متحرک کردیا جائے۔ اس قرارداد کو ۲۷۰ اے اے اے کے طور پر دستور کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ ماضی میں ۲۷۰ کے تحت جواز (validation) دینے کا جو دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا تھا، وہ بھی آیندہ اس دفعہ کے ذریعے ہی بند کردیا جائے۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے دستور میں قانونِ ضرورت کے دروازے کو بند کرنے کا کام بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔
۵- اس کے ساتھ دستور کی دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے یہ اضافہ کرنا بھی مفید ہوگا کہ دستور کو معطل کرنا یا غیرمؤثر (in abeyance) کرنا بھی دستور کی تخریب (subvert) کرنے کی طرح جرم ہے، اور ایسے اقدامات کو جوازفراہم کرنا بھی ایک مساوی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
۶- اگر ضروری محسوس کیا جائے تو ایک ترمیم دفعہ ۲۳۸/۲۳۹ میں بھی ہوسکتی ہے جو بطور وضاحت (explanation )آسکتی ہے کہ دستور میں ترمیم کا ان دفعات میں بیان شدہ طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ معتبر نہیںاور اس کی کوئی گنجایش نہیں کہ کسی ماوراے دستور (extra constitutional) طریقے سے کوئی بھی دستوری ترمیم کرے ،اور نہ کسی کو ایسی کوئی ترمیم کرنے کا اختیار کسی کو دینے کا حق ہے۔ اگر کوئی دستور میں اس طرح ترمیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔
’اعلانِ مری‘ کے تقاضے مندرجہ بالا اقدام کے ذریعے پورے ہوسکتے ہیں۔ ججوں کی رہائی ایک اچھا اقدام ہے لیکن اصل مسئلہ ججوں کی بحالی اور ۳نومبر کے اقدام کی مکمل نفی کرکے ملک کے دستور اور نظامِ عدل کو تحفظ دینا ہے۔یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کے سوا کسی اور طریقے سے ججوں کی برطرفی غیرقانونی ہے، البتہ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جہاں ۶۳ججوں نے ایک روشن مثال قائم کی ہے اور کچھ دوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لے کر اور اہلِ اقتدار سے تعاون کرکے بڑی بُری مثال قائم کی ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ نظامِ عدل کو دوبارہ معزز و محترم بنانے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ ضرور کی جائے مگر صفوں کو پاٹ کر عدلیہ کی عزت اور کارفرمائی کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے احتساب کے طریقے پر بھی ازسرنو غور کیا جائے اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات خصوصیت سے ایک دوسرے سے ربط اور اثرانگیزی اور اثرپذیری کے نازک معاملات پر صدق دل سے غور کرکے نئے ضابطے اور قواعد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ حقیقت میں آزاد عدلیہ بن سکے اور اس سے انصاف کے چشمے پھوٹیں اور ہر کسی کو اس پر اعتماد ہو۔ قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ اس پہلو کی فکر بھی ازبس ضروری ہے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ پارلیمنٹ ۳نومبر کے اقدام کی نفی کس قانونی ذریعے سے کرسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک انتظامی حکم جو خودغیرقانونی تھااور قانون کی نگاہ میں اس کا آئینی (de Jure) وجود ہے ہی نہیں، صرف امرِواقع (de facto) ہے، ایک دوسرے انتظامی حکم نامے سے کالعدم کیوں نہیں جاسکتا۔ دنیا بھر کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو دستور، قانون اور معروف جمہوری قواعد کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکی حکومت اپنے مفادات میں اندھی ہوکر خواہ کچھ بھی کہتی رہی ہو مگر امریکا کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو غلط قرار دیا اور خود امریکی کانگرس نے تلافیِمافات کرتے ہوئے ۱۷ مارچ کی قرارداد کے ذریعے عدلیہ کی برخاستگی کو غلط اور بحالی کو اصل ضرورت قرار دیا ہے۔ نیویارک بار ایسوسی ایشن نے، جس کے ۲۲ ہزار ممبر ہیں، اسے غلط قرار دیا ہے اور خود ہمارے ملک کے چوٹی کے ماہرین قانون نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اصل اقدام غلط اور غیرقانونی تھا۔ ۳ نومبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے ایمرجنسی کے اقدام کو غلط اور بدنیتی پر مبنی (malafide ) قرار دے دیا تھا اور عدالت عالیہ کا وہی حکم آج بھی لاگو ہے۔ ۳نومبر کے غیرقانونی اعلان کے تحت حلف لینے والی عدلیہ کاکوئی فیصلہ قانون کا مقام نہیں رکھتا۔ سابق چیف جسٹس صاحبان میں سے جسٹس اجمل میاں، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے تحت ججوں کی معطلی غیر دستوری تھی اور ان کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد ہی کافی ہوگی۔ یہی موقف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ۳ درجن سے زائد ججوں کا ہے۔ اس کے بعد کسی اور قانونی موشگافی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
عدلیہ کی بحالی کے ساتھ دوسرا بنیادی مسئلہ دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، دستوری اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کو بہتر اور مؤثر بنانے کا ہے۔
دستور کی بحالی کے سلسلے میں ایک اصولی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ جلد از جلد ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ ’میثاقِ جمہوریت‘ اور ’اعلانِ لندن‘ میں اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کیاگیا ہے، جزوی اختلاف کے ساتھ ہم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن چند دوسری بڑی اہم ترمیمات دستور میں ہونی چاہییں تاکہ صرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء والی صورت حال ہی بحال نہ ہو بلکہ دستور کے اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی کردار کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ اس کے لیے کم سے کم مندرجہ ذیل امور کے بارے میں مناسب دستوری ترامیم افہام و تفہیم اور مؤثر مشاورت کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے:
۱- پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف صدر کے ان اختیارات کو ختم کیا جائے جن کے نتیجے میں صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن ختم ہوگیا اور پارلیمانی نظام ایک قسم کا صدارتی نظام بن گیا ہے، بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ پر انتظامیہ کی بالادستی کو بھی لگام دی جائے اور پارلیمنٹ ہی اصل فیصلہ کن فورم ہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل ترامیم ضروری ہیں:
ا- ریاست کے رہنما اصول جو پالیسی سازی کی بنیاد ہونے چاہییں، ان کی روشنی میں تمام خارجی اور داخلی امور پر پارلیمنٹ میں بحث ہو اور بحث کے بعد پالیسی ہدایات (directives) کی شکل میں پارلیمنٹ کی ہدایات مرتب کی جائیں، اور ان کے نفاذ کی رپورٹ پارلیمنٹ میں آئے جس پر بحث ہو۔ ضروری ہے کہ اسے ایک دستوری ذمہ داری قرار دیا جائے۔
ب- بجٹ سازی کا طریقۂ کار یکسر تبدیل کیا جائے۔ بجٹ سے چار مہینے پہلے دونوں ایوانوں میں بجٹ گائیڈلائن پر بحث ہو جس کی روشنی میں بجٹ کی تجاویز مرتب کی جائیں جو ایک ماہ کے اندر دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں میں زیربحث آئیں اور یہ کمیٹیاں اپنی تجاویز وزارتِ خزانہ کو دیں۔ اصل بجٹ سال کے اختتام سے تین ماہ پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ سینیٹ میں کم از کم تین ہفتے بحث کے لیے دیے جائیں اور اسمبلی میں آٹھ ہفتے۔ اس طرح دو ماہ میں پارلیمنٹ بجٹ منظور کرے۔ دفاع کا بجٹ بھی بجٹ کے حصے کے طور پر پارلیمنٹ میں زیربحث آئے اور منظوری لی جائے۔
ج- پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دینے والی چیزوں میں سے ایک آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں ایسی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے اور جہاں عارضی قانون سازی (temporary legislation)کی گنجایش ہے وہاں بھی بڑی سخت تحدیدات ہیں جن میں ایک ہی قانون کے بار بار آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیے جانے کا دروازہ بند کیا جانا بھی ہے۔ اس طرح حقیقی ضرورت کو بھی واضح (define) کرنے بلکہ قانونی احتساب کے دائرۂ اختیار میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کا ریکارڈ اس سلسلے میں بڑا پریشان کن ہے۔ موجودہ اسمبلی نے پانچ سال میں صرف ۵۰قوانین براے نام بحث کے بعد قبول کیے، جب کہ ان پانچ سالوں میں ۷۳ قوانین بذریعہ آرڈی ننس نافذ ہوئے، یعنی انتظامیہ نے پارلیمنٹ کے مشورے اور بحث کے بغیر ان کو نافذ کیا۔ دوسرے الفاظ میں عام قانون سازی کے مقابلے میں آرڈی ننس سے قانون سازی ۱۵۰ فی صد زیادہ تھی۔ بھارت میں بھی آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا دروازہ کھلا ہے مگر وہاں پانچ سال میں ’لوک سبھا‘ نے ۲۴۸ قوانین حقیقی بحث و گفتگو کے بعد منظور کیے، جب کہ صدارتی آرڈی ننسوں کی تعداد پانچ سال میں صرف ۳۴ تھی، یعنی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قوانین کا صرف ۱۴فی صد۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے اہم بل پاکستان کی اسمبلی اور سینیٹ میں زیرغور رہے مگر ان پر بحث اور منظوری کی نوبت نہیں آسکی۔
حقیقت یہ ہے کہ آرڈی ننس سے قانون سازی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اسے ضروری تصور ہی کیا جائے تو یہ شرط ہونی چاہیے کہ اسمبلی کے انعقاد سے ۱۵ دن پہلے اور اس کے التوا کے ۱۵ روز بعد تک کوئی آرڈی ننس جاری نہیں ہوسکتا۔ دو اجلاسوں کے دوران اگر غیرمعمولی حالات میں آرڈی ننس جاری کرنا پڑے تو اس کی وجوہ بھی آنی چاہییں۔ محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ایسی وجوہ پائی جاتی ہیں۔ ان کو متعین کرنا ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ اور اگر ضرورت ہو تو خود عدالت اس کا جائزہ لے سکے۔ پھر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک آرڈی ننس لفظی ترمیم کے بعد بار بار نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انتظامیہ جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز (by pass) کرنا چاہتی ہے۔ نیز یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ سال میں ایک خاص تعداد سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہیں کیے جاسکتے، مثلاً ایک سال میں پانچ سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہ ہوں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں قانون سازی اور پالیسی سازی بڑھ سکے گی۔
د- پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے اور اس کے کردار کو غیر مؤثر بنانے میں مزید دو عوامل بھی اہم ہیں۔ ایک بین الاقوامی معاہدات کا پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا منظور ہوجانا۔ برطانوی دور سے یہ کام کابینہ کر رہی ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ سامراجی دور میں اس کا ’جواز‘ ہوگا، جمہوریت میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ اس لیے تمام معاہدات کا پارلیمنٹ میں پیش ہونا اور ان میں سے اہم کا دونوں ایوانوں میں یا کم از کم سینیٹ میں توثیق (ratification ) ضروری ہونا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ اہم تقرریوں (appointments )کا ہے۔ جو تقرریاں پبلک سروس کمیشن سے ہوتی ہیں، وہ ایک معقول طریقہ ہے لیکن جو سفارتی اور انتظامی تقرریاں انتظامیہ اپنی صواب دید پر کرتی ہے ان کی جواب دہی بھی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹیوں یا دونوں ایوانوں کی مشترک کمیٹیوں کا کردار ہونا چاہیے۔ امریکا میں انتظامیہ کو حدود میں رکھنے اور اہم تقرریاں ذاتی رجحانات کے مقابلے میں اصول اور میرٹ پر کرانے کے لیے تقرری سے پہلے کمیٹی میں پیش ہونے کا طریقہ بڑا مؤثر ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی اس سلسلے کو شروع کیا جائے تو یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لیے بڑا اہم اقدام ہوگا۔
ہ- اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ایامِ کار (working days) کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسمبلی کے لیے ۱۶۰ دن ایامِ کار قرار دیے گئے تھے جنھیں کم کر کے ۱۳۰ دن کر دیاگیا۔ پھر ایک تعبیر کے ذریعے اگر دو دن کی چھٹی درمیان میں آجائے تو وہ بھی ایامِ کار میں شمار ہونے لگی۔ بالعموم ہفتے میں تین دن اسمبلی یا سینیٹ کے سیشن ہوتے ہیں اور اسے سات دن شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اوسطاً اڑھائی گھنٹے فی یوم کی کارکردگی رہی، جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں پارلیمنٹ پورے سال سیشن میں رہتی ہے بجز دو یاتین چھٹی کے وقفوں کے۔ ہرروز بحث چھے سات گھنٹے ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، ان کو مطالعے، تحقیق اور قانون سازی کے لیے معاونت ملے۔ عوام کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی کارروائی کھلی ہو،پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی براہِ راست عوام تک پہنچے۔ وزرا کی شرکت لازمی ہو۔ وزیراعظم کم از کم ہفتے میں ایک بار نہ صرف پارلیمنٹ میں آئیں بلکہ ان کے لیے کم از کم نصف گھنٹہ سوالات کے جوابات دینے کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ وہ اقدام ہیں جن سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوگی اور کارکردگی میں اضافہ ہوسکے گا۔
۲- پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ دستور میں اور بھی ایسی ضروری ترامیم درکار ہیں جو گذشتہ ۳۵ سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کے اسلامی، اور وفاقی کردار کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ جب ہم دستوری ترامیم کے مسئلے پر غور کر رہے ہیں تو ان امور پر بحث اور تجاویز مرتب کرناضروری ہے جس کے لیے ایک کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی دونوں ایوانوں کے ان ارکان پر مشتمل قائم کی جائے جو قانون پر نگاہ رکھتے ہوں اور وقت کے تقاضے بھی جن کے سامنے ہوں۔
عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کی اصلاح اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے ساتھ ایک اور بنیادی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار اور خود پرویز مشرف کے مستقبل کا ہے، جو اس ناٹک کے اصل ایکٹر رہے ہیں۔ اصولی طور پر فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان لائق تحسین اور صحیح سمت میں قدم ہے کہ فوج صرف ایک دستوری اور دفاعی کردار ادا کرے اور سول انتظامیہ اور معاشی میدان میں جو کردار اس نے اختیار کر لیا ہے، وہ ختم کیا جائے۔
مخلوط حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے معاملات کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے مستقبل کے معاملے کو بھی دو ٹوک انداز میں طے کرے۔ پرویز مشرف نے دستور کا تیاپانچا کیا، پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنایا، فوج کو سیاست اور انتظامیہ میں ملوث کیا۔ پرویز مشرف اور دستوری اور جمہوری نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انھوں نے باعزت رخصت ہونے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اب اس کے سواکوئی راستہ نہیں کہ دستوری ترامیم کے بعد ان کے مواخذے کی تیاری کی جائے۔ ان کے تاریک دور کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک خود ان کا مؤثر احتساب نہ ہو، تاکہ قوم اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت آسکے کہ جو فرد بھی دستور کا خون کرے گا اور اختیارات کا غلط استعمال کرے گا، اس کا احتساب ہوگا اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا نظام نہیں چل سکتا۔
انتخابات سے پہلے امریکا کی من پسند قیادت کو بروے کار لانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ کیسے کیسے مفاہمت کے ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ اس کھیل میں پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا بڑا کلیدی کردار ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قوم کو اس سلسلے میں ایک بالکل واضح راستہ اختیار کرنا ہے۔
جس طرح پرویز مشرف کا صدارت پر قابض رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے، اسی طرح ایم کیو ایم کا کردار بہت مخدوش ہے جس کی حیثیت پرویز مشرف کے ایک مسلّح بازو (armed wing) کی ہے اور جس کے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کے خونی کھیل کو انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کے ایک مظاہرے میں اپنا کارنامہ اور اپنی طاقت کا مظہر قرار دیا تھا۔ پانچ سال پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس کے باوجود رہا ہے کہ اقتدار میں آکر انھوں نے اسلام آباد میں چند چوٹی کے صحافیوں کی موجودگی میں الطاف حسین کے بارے میں کہا تھا کہ: He is a traitor, period ، وہ ایک غدار ہے___ اور بس!
الطاف حسین نے خود بھارت کی سرزمین پر بار بار کہا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور برطانیہ کی شہریت لے کر تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ ایم کیو ایم نے قوت کے استعمال سے جس طرح کراچی اور حیدرآباد پر قبضہ کر رکھا ہے اور جس طرح اس کے سزایافتہ کارکنوں کو شریکِ اقتدار کیا گیا ہے اور اس کی خاطر قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO ) میں ۱۹۸۶ء سے جرائم کرنے والوں کو بری کیا گیا، وہ کھلی کتاب ہے۔ ایم کیو ایم کو امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل ہے اور وہ پرویز مشرف کے ٹروجن ہارس کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف بالکل درست ہے کہ اس ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود ان کے ساتھ اقتدار میں شرکت پرویز مشرف کو تقویت دینے اور مشرف اور امریکا کے کھیل کی سرپرستی کے مترادف ہوگی۔
اس لیے اسمبلی اور نئی حکومت کو،جن بنیادی امور کو طے کرنا ہے ان میں سے ایک پرویز مشرف کے قانونی جوازسے محروم صدارتی تسلط سے نجات بھی ہے تاکہ اس کی دہشت گردی کی جنگ سے بھی ہم نکل سکیں اور اپنے معاملات کو اپنے مفادات کی روشنی میں اور اپنے طریقے سے حل کرسکیں۔
ملک اور قوم کو پٹڑی پر لانے کے لیے چوتھا بڑا مسئلہ پاکستان کی پالیسیوں اور معاملات میںامریکا کی مداخلت کو لگام دینا ہے، جسے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر پوری دنیا میں خوف کی فضا قائم کر کے مسلمان ملکوں خصوصیت سے افغانستان، عراق، لبنان، ایران اور خود پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے، وہ مسلمان اُمت اور پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستانی قوم اسے اسلام، مسلمانوں اور خود پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے خلاف جنگ تصور کرتی ہے اور پرویز مشرف نے امریکا کے اس خطرناک کھیل میں پاکستان اور اس کی افواج کو جھونک کر جو ظلم کیا ہے اور جس کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زد میں آگیا ہے، اس صورت حال کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا نے پاکستان کی فضائی اور جغرافیائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی ہے، اور کر رہا ہے۔ اس کے جہاز ہماری بستیوں میں بم باری کر رہے ہیں اور بغیر پائلٹ کے جہاز لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکا کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پرویز مشرف سے کسی معاہدے کے تحت کر رہے ہیں۔ امریکی ترجمان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہ حق حاصل ہے اور پاکستان کی افواج اور حکومت، امریکا کے ان تمام جارحانہ اقدامات پر نہ صرف خاموش ہے، بلکہ غیرت کا جنازہ نکال کر اس کے ترجمان یہاں تک کہنے کی جسارت کرچکے ہیں کہ کچھ حملے امریکا نے نہیں خود ہم نے کیے ہیں۔ اب ان حملوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ گذشتہ چھے ماہ میں امریکا نے سیکڑوں افراد کو ہلاک کردیا ہے اور پاکستانی ترجمان اپنا نام چھپا کر یہ کہنے لگے ہیں کہ حملے امریکا اور ناٹو کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ امریکا ہم پر اپنی پالیسیاں اس حد تک مسلّط کر رہا ہے کہ علاقے میں مصالحت کی ہرکوشش کو وہ مسترد (ویٹو ) کردیتا ہے۔ صرف فوجی حل مسلط کر رہا ہے اور ہمیں مسلط کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور ہماری فوج کی ٹریننگ اور نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت کے نام پر ہمارے دفاعی نظام میں گھسنے اور اسے اندر سے سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور کھل کر مطالبے کیے جارہے ہیں کہ جس طرح ۲۰۰۱ء میں ہمارے سات مطالبات مانے تھے، اب گیارہ نکات تسلیم کرو۔ ان مطالبات کی فہرست دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی آزاد اور خودمختار مملکت سے اس نوعیت کے شرم ناک مطالبات بھی کیے جاسکتے ہیں (۷ مارچ ۲۰۰۸ئ)۔ اس کے ساتھ کوشش ہے کہ ملک کی حکومت سازی میں بھی کردار ادا کرے اور اپنی پسند کے لوگوں کو برسرِاقتدار لانے کا کھیل کھیلے اور یہ سب کچھ ’اعتدال پسند‘ اور لبرل قوتوں کی فتح کے نام پر ہو۔
ہمیں احساس ہے کہ ان چار امور کے علاوہ بھی بڑے مسائل ہیں جن میں معاشی مسائل، کرپشن، امن و امان کا مسئلہ، بے روزگاری، بجلی اور پانی کا بحران، ہوش ربا مہنگائی اور بلوچستان اور وزیرستان میں فوج کشی سرفہرست ہیں۔ ان میںسے ہر مسئلہ حل کا تقاضا کررہا ہے اور حکومت کو اس کی طرف توجہ دینا ہوگی، البتہ گاڑی کو پٹڑی پر لانا ترجیح اول ہونا چاہیے۔
___ جہاں تک وزیرستان اور بلوچستان کا تعلق ہے، حکومت کو فوج کشی ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام معاملات سیاسی طریقۂ کار سے بحسن و خوبی حل ہوجائیں گے۔ امریکا سے صاف کہنے کی ضرورت ہے کہ بہت ہوچکی (enough is enough)۔ موجودہ قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں امریکا کی اتنی ضرورت نہیں۔ اس لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس کی بنیادی وجہ غزہ کی آبادی اور وہاں کی قیادت اور متمول افراد کا یہ کردار ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں تمام شہریوں کو شامل کر رہے ہیں، مسجدوں میں اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور جو جس کے پاس ہے، لے آتا ہے اور سب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ غربت ہے مگر عزائم بلند ہیں اور اجتماعی کفالت کی بنیاد پر اسرائیل جیسے طاقت ور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر غزہ کے مسلمان یہ مثال قائم کرسکتے ہیں تو ہم پاکستانی اس سمت میں کیوں پیش قدمی نہیں کرسکتے؟ معاشی مسائل اور مشکلات حقیقی ہیں لیکن ان کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہم خود غرض، نفس پرست اور ہوس کے پجاری نہ بنیں، بلکہ اسلام کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت تاریخی دوراہے پر ہے۔ صحیح فیصلہ اور صحیح اقدام کرکے وہ ملک کو ایک تابناک مستقبل کی طرف لے جاسکتی ہے۔ کیا مخلوط حکومت اس چیلنج کا مقابلہ ایمان، غیرت اور حکمت سے کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے؟
ڈنمارک میں آزادیِ اظہار کے نام پر ایک بار پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے توہین آمیز خاکوں کو شائع کیا گیا ہے۔ اس پر پوری اُمت مسلمہ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ستمبر ۲۰۰۵ء کے بعد ڈنمارک کے اخبارات کی ان توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت یہ ظاہر کرتی ہے کہ مغرب کے اس اقدام کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
دنیا کو تہذیب سکھانے کا نعرہ بلند کرنے والا مغرب آج خود تہذیب کا دامن تار تار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک دوسرے کے مذاہب اور مقدس ہستیوں کا احترام دنیا کی مسلمہ اخلاقی اقدار میں سے ایک ہے۔ عالمی سطح پر ایسے قوانین موجود ہیں جن میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیاہے۔ آج اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ مغرب اندھے تعصب میں جس عظیم ہستی کی توہین کا مرتکب ہو رہا ہے، اس کے انسانیت پر کتنے احسانات ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا حقیقی معنوں میںاگر کوئی رہنما ہے تو وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہی ہے۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے کسی خاص قوم، نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اُٹھائی، اور ہرقسم کی قوم پرستی کی حوصلہ شکنی کی۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے ایسے عالم گیر اور ہمہ گیر اصول پیش کیے جو تمام دنیا کے انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے وہ ابدی ہدایت اور آفاقی نظریۂ حیات پیش کیا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے اسلام کو صرف ایک نظریۂ حیات کے طور پر ہی پیش نہیں کیا، بلکہ اپنے پیش کردہ نظریات کو عملاً جاری کر کے دکھایا اور ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی۔ گویا اسلام ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک نظامِ حیات بھی ہے۔ آج اُمت مسلمہ ان کے اسی مشن کی علَم بردار ہے اور ایک تسلسل سے اسے لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ داری، اشتراکیت، نیشنلزم اور لادینیت کے نتیجے میں انسانیت جس کرب سے گزری اور گزر رہی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ آج بھی دنیا ایک منصفانہ نظامِ زندگی کے لیے ترس رہی ہے جو یقینا اسلامی نظریۂ حیات میں مضمر ہے۔ نبی کریمؐ کے اس عظیم کارنامے کی بنیاد پر مغرب کے دانش ور بھی آپؐ کو دنیا کا عظیم رہنما ماننے پر مجبور ہیں۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
اسلام کی یہی وہ نظریاتی برتری ہے جو مغرب سے برداشت نہیں ہو رہی، گو آج مسلمانوں کا وہ کردار نہیں جو مطلوب ہے اور دنیا میں کوئی اسلامی ریاست حقیقی معنوں میں موجود نہیں کہ جسے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ اس کے باوجود قبولِ اسلام کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ روحانی پیاس لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کریں۔ خود مغرب جس نے حیران کن سائنسی ترقی کی مگر انسانی زندگی کے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
توہین آمیز خاکوں کی مکرّر اشاعت اس حربے کی مثل ہے جو مشرکینِ مکہ نے اسلام کے پیغام کو روکنے اور رسول کریمؐ کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کی صورت میں استعمال کیا تھا۔ مگر دشمن کی یہ چال جس طرح کل اُلٹی پڑی تھی اور نبی کریمؐ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ان کے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ بنا تھا، اسی طرح آج بھی مغرب کی یہ چال ان کے خلاف پڑے گی۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد اسلام کو جاننے کے لیے جس بڑے پیمانے پر مغرب میں دل چسپی پائی گئی اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لوگوں میں تجسس پیدا ہوا کہ ’دہشت گرد‘ اسلام آخر ہے کیا؟ اور مسلمان کیوں دہشت گردی کے ملزم قرار دیے جاتے ہیں؟ توہین آمیز خاکے بھی مغرب کو مزید بدنام کرنے اور اشاعت اسلام کا ذریعہ بنیں گے۔
وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (اٰل عمرٰن۳:۵۴) اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کرہے۔
مغرب میں جہاں ایک طرف اسلام کے خلاف انتہاپسندی کا رویہ پایا جاتا ہے وہاں ایسی معتدل سوچ اور فکر بھی پائی جاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بھی دیگر مذاہب کی طرح مذہبی احترام ملنا چاہیے۔ برطانیہ کے شہزادہ چارلس اور حال ہی میں برطانیہ کے آرک بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر رووان ولیم جنھوں نے مسلمانوں کو مذہبی استحقاق کی بنیاد پر علیحدہ شرعی عدالتیں قائم کرنے کے حق میں بیان دیا ہے، اسی معتدل سوچ کے علَم بردار ہیں۔ مسلمانوں بالخصوص مغرب کے مسلمانوں کو اس آواز کو مضبوط بنانے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ باہمی مکالمے، سیمی نار، ٹی وی پروگراموں، مراکز دانش سے رابطہ اور معتدل سوچ پر مبنی لٹریچر کی اشاعت وغیرہ کے ذریعے اس سوچ کو آگے بڑھانا چاہیے۔
اُمت مسلمہ کو خود بھی ایک زندہ اُمت کا ثبوت دینا چاہیے۔ دنیا میں امن اور انصاف کی بالادستی بنیادی طور پر اُمت مسلمہ کا فرض منصبی اور نبی کریمؐ کے عالمی مشن کا تقاضا ہے۔ اگر مغرب انتہاپسندی، تعصب اور قوم پرستی کے نشے میں اندھا ہوکر اور اسلام سے خائف ہوکر دنیا کے امن کو برباد کرنے اور اشتعال انگریزی پر تلا بیٹھا ہے تو اس کے سدباب کے لیے ہرسطح پر اقدامات اٹھانا مسلمانوں کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے جس طرح پردہ اُٹھ رہا ہے، عراق پر حملے اور افغانستان پر جارحیت کے دعووں کی جس طرح قلعی کھل رہی ہے اور دہشت گردی کے نام پر جس طرح انسانیت کے بجاے مغرب کے مفاد کی جنگ لڑی جارہی ہے، ان سب باتوں سے مغرب کا دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب وہ مزید ذلت سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو اشتعال انگیزی کی راہ پر ڈال کر، توڑ پھوڑ، قتل و غارت گری کے ذریعے ’دہشت گرد‘ کے طور پر سامنے لانا اور ’تہذیبوں کی جنگ‘ مسلط کرنا چاہتا ہے جو دراصل خود مغرب کا کھڑا کیا ہوا ہوّا ہے۔ مسلمانوں کو دشمن کی اس چال کو سمجھنا چاہیے اور اپنے حقوق کی سربلندی کے لیے پُرامن جدوجہد کو بنیاد بنانا چاہیے۔
ایک مومن کی فراست کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کوئی بھی اقدام اصولوں سے ہٹ کر اور اخلاق سے گرا ہوا نہ اٹھایا جائے۔ صبرواستقامت اور اسلام کی اخلاقی برتری بالآخر دشمن کے دل میں گھر کرنے کا باعث بنے گی۔ اس کے علاوہ عالمی اسلامی تنظیم کی سطح پر اقدامات کا اٹھانا، عالمی قوانین کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ حکومتی سطح پر سفارتی بائیکاٹ اور احتجاج اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے مکالمے اور اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کرنا چاہیے۔ مغرب کا دہرا معیار بالآخر خود اسے اپنی اور دوسروں کی نظروں میں گرا دے گا۔
ایک محاذ معاشی دبائو کا بھی ہے جب چند برس قبل توہین رسالتؐ کی جسارت کرنے پر مسلم دنیا نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو اس کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑ گئی تھی اور وہاں کی تجارتی کمپنیوں نے اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مؤثر حربے کو ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ استعمال کر کے بھی مغرب کو اشتعال انگیزی سے روکنے کے لیے دبائو بڑھایا جاسکتا ہے۔
آج مسلمان ایک بڑی تعداد اور وسیع وسائل رکھنے کے باوجود اتنے بے وزن ہیں کہ جو چاہے ان کو ذلیل و رسوا کرکے رکھ دے اور ان کی عزت کو خاک میں ملا دے۔ ایسا کیوں ہے؟ درحقیقت اُمت مسلمہ اپنے فرضِ منصبی کو فراموش کرچکی ہے اور اقامت دین کے لیے خدا سے جو عہد کر رکھا تھا، اسے پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ نبی کریمؐ سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، ان کی حرمت پر ہم جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن محبت رسولؐ کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ ہم صحیح معنوں میں خدا کے بندے بن جائیں۔ نبی کریمؐ کے سچے اُمتی بن کر اپنے اخلاق و کردار سے گواہی دیں، اور تڑپتی ہوئی انسانیت کے لیے امن وانصاف کے پیغام کے علَم بردار بن کر اُٹھیں اور قرآن وسنت کی دعوت کو عام کریں۔ نیکی کا حکم دیں برائی سے روکیں، اور اس کے لیے انتہائی جدوجہد، کوشش اور جہاد کریں۔ مسلمانوں کی طاقت کا راز بھی اسی بات میں مضمر ہے۔ اس کے لیے بس ایک شرط ہے کہ پہلے ہم اپنے پیکرِخاکی میں جان پیدا کریں ؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
حضرت علی بن ربیعۃ سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجود تھا، وہ اپنی سواری پر سوار ہونے کے لیے تشریف لائے، جب رکاب میں پائوں رکھا تو بسم اللہ پڑھی، جب پشت پر بیٹھ گئے تو الحمدللہ کہا، پھر یہ دعا پڑھی: سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ o وَاِِنَّـآ اِِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنo (الزخرف۴۳: ۱۳-۱۴) پھر تین مرتبہ الحمدللہ کہا، پھر تین مرتبہ اللہ اکبر کہا، پھر یہ دعا پڑھی: سبحانک اللھم، انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت،’’اے اللہ! تو تمام عیبوں سے پاک ہے، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، پس میری مغفرت فرما دے، گناہوں کو تیرے سوا کوئی بھی معاف نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر حضرت علیؓہنس پڑے۔عرض کیا گیا: امیرالمومنین، آپ کس چیز پر ہنس پڑے؟ انھوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا جس طرح میں نے کیا۔ پھر آپؐ ہنس پڑے تھے، تو میں نے عرض کیا تھا: یارسولؐ اللہ! آپ کس چیز پر ہنس پڑے تو آپؐ نے فرمایا: آپ کے رب اپنے بندے پر تعجب فرماتے ہیں جب وہ کہتا ہے ’’میرے گناہوں کو بخش دیجیے‘‘۔ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے سوا کوئی نہیں بخشتا۔(بندے کی توبہ اور اللہ تعالیٰ کی بخشش پر خوش ہوکر میں ہنسا)۔ (ابوداؤد، ترمذی)
تعجب معمولی چیز پر نہیں بلکہ بہت بڑی اور عجیب وغریب چیز پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی چیز پر تعجب کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ چیز بڑی عظمت رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر بہت راضی اور خوش ہیں۔ بندے کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت فرض ہے،اس کی خلاف ورزی گناہ ہے، اس پر وہ سزا کا مستحق ہے، اسے اپنے گناہوں کا احساس ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگے، اس عقیدے کے ساتھ کہ وہی گناہوں کو بخش سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں اس لیے کہ گناہ کرنا اس کی حق تلفی ہے اور اپنی حق تلفی کو وہی معاف کرسکتا ہے۔ یہ سوچ اور یہ نظریہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدرومنزلت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے بندے سے راضی ہوتے ہیں اور گناہوں کو معاف کردیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ آپ کی امت اور اس کے افراد اپنے رب کی معرفت رکھتے ہیں، اس سے دعائیں کرتے ہیں، آپ خوش ہوئے کہ آپ اپنی اُمت کے ہر ہر فرد کے لیے رحیم و شفیق ہیں اور آپ کے لیے خوشی کی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر استغفار اور توبہ کرنے والے کے گناہ کو معاف کردیتے اور اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر کس قدر مہربان ہیں، آپ اپنی اُمت سے کیا چاہتے ہیں؟ یہی کہ اُمت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرے، اس کے حکموں کو بجا لائے اور کوئی گناہ ہوجائے تو اس کا ازالہ گناہ پر ندامت، گناہ سے استغفار اور آیندہ گناہ سے باز آجانے کا عزم کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اسی میں ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص جو جنگل و بیابان میںایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے سو گیا، اُٹھا تو دیکھا کہ اُونٹنی سازوسامان کے ساتھ غائب ہے، دُور دُور تک اس کا نام و نشان نہیں، مایوس ہوکر لیٹ جاتا ہے اور موت کے لیے تیار ہوجاتا ہے، دوبارہ اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اُونٹنی سازوسامان کے ساتھ موجود ہے، یہ شخص اس قدر خوش ہے کہ خوشی میں اللہ کو پکارتا ہے لیکن الفاظ جو منہ سے نکلتے ہیں، ان میں بہک جاتا ہے، اس آدمی کو جس قدر خوشی ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
آج ہماری آزادی اور خودمختاری ختم ہوگئی، جسمانی اور روحانی طور پر ہمیں قتل کیا جا رہا ہے۔ معیشت تنگ ہوگئی ہے، لوگ بھوک و افلاس سے تنگ آکر بے چینی اور پریشانی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور اسلامی اقدار و شعائر کی تحقیر کی جارہی ہے۔ یہ سب ہماری سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج اللہ تعالی کی رضا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اسی بات میں ہے کہ ہم اپنی ان پالیسیوں پر نادم ہوجائیں، ان پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں اور آیندہ کے لیے انھیں ترک کر دینے کا مستقل طور پر عزم کریں۔ ہے کوئی جو آج اللہ تعالیٰ کو راضی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کردے، توبہ کرے اور حکمرانوں کو توبہ پر متوجہ اور مجبور کردے۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں ہمارے تمام مصائب و مشکلات کا حل ہے۔
۲- صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کی پوری طرح اور ہوبہو نقل کرتے تھے، آپؐ کی عبادات، معاشرت، معیشت، سیاسیت، حکومت، عدالت اور ہر نشست و برخاست اور ہر ادا کو یاد کرتے اور اسی طرح سے اسے اپنانے کی کوشش کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کا عملی نمونہ تھے اور صحابہ کرامؓ اور آپ کی سیرت و اسوۂ حسنہ کا عکس تھے، آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعواے محبت تو ہے لیکن زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں آپؐ کی اتباع نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ یاد نہیں آتا، اس کے بجاے ہم مغرب کی نقالی کر رہے ہیں جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: تم اپنے سے پہلوں کے طریقوں پر اس طرح برابر ہوکر چلو گے جس طرح ایک جونہ دوسرے جونے کے ساتھ برابر ہوتا، یہاں تک کہ اگر ان میں سے ایک گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا تو تم بھی اس میں داخل ہوگے۔ آپؐ سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ یہود و نصاری کے سوا اور کون ہوسکتا ہے؟ آج ہماری پارٹیاں، ہماری اسمبلیاں اور ہمارے گھر اور شہر سب مغربی زندگی کا عکس بن چکے ہیں۔ کاش ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور کو اپنے لیے ماڈل اور آئیڈیل بنا لیں۔ صحابہ کرامؓ حضرت علی ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائوں کو اپنی ادائیں بنا لیں۔
o
حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی کا گزر ہوا۔ صحابہؓ رسولؐ نے اس کی ڈیل ڈول، قوت اور چستی اور مستعدی کو دیکھ کر کہا: یارسولؐ اللہ! کاش یہ جہاد فی سبیل اللہ میں استعمال ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے نکلے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے۔ اگر اپنے بوڑھے، ماں باپ کی خدمت کے لیے دوڑ دھوپ کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے، اگر اپنے نفس کی خاطر دوڑدھوپ کرے کہ اسے سوال اور گناہ سے بچائے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے اور اگر دکھاوے اور دوسروں پر بڑائی جتانے کے لیے جہاد میں نکلا تو یہ شیطان کی راہ میں نکلنا ہے۔ (طبرانی)
انسان دنیا میں ایک مقررہ وقت کے لیے آیا ہے۔ اس نے دنیا میں رہنا ہے اور زندگی گزارنا ہے، اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا ہے اور اس کے دین کی سربلندی لیے جہاد بھی کرنا ہے۔ رزق حلال کے لیے دوڑدھوپ کرنا، اپنی ضروریات،اپنے اہل و عیال، والدین اور قرابت داروں کے نان و نفقہ اور رہایش اور بنیادی ضروریات کے لیے شرعی حدود، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا خیال رکھتے ہوئے جدوجہد کرنا اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ ہے جس طرح دین کی سربلندی اور ادیانِ باطلہ کو مغلوب کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت،قلم و قرطاس اور تیروتلوار سے کام لینا جہاد فی سبیل اللہ ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر اور فرض ہے جس طرح جہاد فی سبیل اللہ فرض ہے، اور فرض کو ادا کرنا جہاد ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ہی عبادت اور جہاد نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ذمہ داریاں ادا کرنا عبادت اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جب آدمی کھیت، دکان اور کرسیِ صدارت، وزارت، عدالت پر بیٹھ کر اس تصور سے کام کرے گا کہ میں عبادت کر رہا ہوں تو وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، کسی کا حق نہیں مارے گا، کسی کے حق کی ادایگی میں سُستی نہیں کرے گا، رشوت نہیں لے گا، غبن اور خیانت نہیں کرے گا۔ اللہ کے احکام اور قوانین کو مدنظر رکھے گا، پارلیمنٹ کا ممبر قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی جسارت نہیں کرے گا۔ قرآن و سنت کو سپریم لا جانے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشرہ قائم فرمایا، خلافت راشدہ میں جو معاشرہ ہمیں نظر آتا ہے وہ اسی تصور اور نظریے کا نتیجہ ہے۔ ایثار کا معاشرہ، خود بھوکا رہ جانا مہمان بھوکا نہ رہے، خود پیاسا رہ جانا لیکن ساتھی اور پڑوسی پیاسا نہ رہے ایسے معاشرے میں لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ قصرِصدارت اور قصرِوزارت اور وزرا اور افسران کروڑوں اور لاکھوں میں کھیلیں، اسراف و تبذیر کا نمونہ ہوں اور دوسری طرف لوگ بھوکے اور ننگے فقروفاقہ اور بھوک اور ننگ کی زندگی بسر کریں۔ کاش عبادت کا یہ تصور ہماری زندگی کی گاڑی کا انجن ہوجائے۔ اسی کے نتیجے میں برائیاں مٹیں گی اور بھلائیاں فروغ پائیں گی۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ایک آدمی کا گزر درخت کی ایک شاخ کے پاس سے ہوا جو راستے کے بیچ میں پہنچی ہوئی تھی، اس نے دل میں کہا: میں اس شاخ کو مسلمانوں کے راستے سے دُور کروں گا تاکہ انھیں تکلیف نہ دے، اس کے عوض اسے جنت میںداخل دے دیا گیا۔ (مسلم، کتاب البروالصلۃ)
آج دنیا میں اُمت مسلمہ کو طرح طرح سے ایذائیں دی جارہی ہیں۔ ان کا دین، جان و مال اور عزت و آبرو بے دریغ طور پر پامال کیے جارہے ہیں۔ ان کے ممالک پر قبضے کر کے ان کا قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ یہ اس ایذا سے کہیں زیادہ ہے جو راستے کے بیچ میں ایک شاخ مسلمانوں کواذیت دے رہی تھی۔ جو لوگ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے تدبیریں اور منصوبہ بندیاں کریں گے، اس کے لیے جدوجہد کریں گے،وہ اس شخص سے بدرجہا زیادہ ثواب کے مستحق ہیں جس نے راستے کے بیچ میں سے درخت کی شاخ کاٹ کر راستہ صاف کر دیا تھا۔ جس طرح ایذا سے بچانے والے جنت کے مستحق ہیں، اسی طرح ایذا دینے والے دوزخ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًاo (احزاب۳۳:۵۸) ’’وہ لوگ جو مومن مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذا دیتے ہیں تو انھوں نے بہتان باندھا اور ایسا گناہ کیا جو واضح ہے‘‘۔ جھوٹا الزام لگاکر ذہنی اور جسمانی ایذا دے کر جسم کو ناکرہ بنا دینا یا قتل کر دینا یا روحانی اذیت دینا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، اسلامی اقدار و شعائر قرآن، سنت رسولؐ، مساجد، اہلِ ایمان کی توہین و تحقیر کرنا، دنیا میں وبال اور آخرت میں دوزخ کی آگ کا موجب ہیں۔
o
حضرت عائشہ سے روایت ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کر رہے ہیں: ’’اے اللہ! میں ایک بشر ہوں، اس لیے مجھے کسی مومن کو تکلیف دینے یا برا بھلا کہنے کی بنا پر سزا نہ دینا۔ (الادب المفرد للبخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابیؓ کو گلہ شکوہ نہ تھا، نہ آپؐ سے تکلیف پہنچی۔ وہ تو آپؐ کے عاشق صادق تھے، آپؐ کی ہر بات اور ہرادا پر فریفتہ تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے فرمان اور گواہی کے مطابق ’عظیم اخلاق‘ کے مالک تھے۔ آپؐ اپنے صحابہ کے لیے نرم اور رحیم و شفیق تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’(اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگرکہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کردو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)
یقینا آگیا تمھارے پاس ایک رسول تم میں سے، اس پر گراںگزرتی ہے تمھاری تکلیف، وہ تمھارے نفع کے حریص ہیں اور مومنین کے لیے شفیق اور رحیم ہیں۔ (التوبہ۹:۱۴۸)
یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے صحابہ کرامؓ سے محبت و شفقت کی نشانی ہے اور ان کے حقوق کا اتنا خیال ہے کہ معصوم ہونے کے باوجود آپؐ نے یہ دعا کی، اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ اہلِ ایمان کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے پوری طرح پرہیز کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے نمونہ بنائیں خصوصاً بیوی، بچوں، عزیز و اقارب اور ملے جلنے والے دوستوں کے آرام و راحت کا پوری طرح خیال رکھیں، ان کے لیے رحیم و شفیق بنیں اور کوئی کمزوری سرزد ہوجائے تو معاف کردیں اور معاف کرانے کا موقع نہ مل سکے تو ان کے لیے جن کو تکلیف دی ہو، دعائیں کریں، تاکہ دعائیں اس تکلیف کا عوض بن جائیں۔ دنیاوی قصاص اور معانی آخرت کی سزا کے مقابلے میں آسان ہے۔
o
حضرت عصمۃؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ ہے، اور سب سے ناپسندیدہ عمل ہے ’تحریف‘۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لوگ باتیں کر رہے ہوں اور آدمی تسبیح کررہا ہو۔ ہم نے عرض کیا: تحریف کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لوگ اچھی حالت میں ہوں، پھر پڑوسی اور دوست کوئی چیز مانگے تو جواب میں کہیں ہم بری حالت میں ہیں۔ (الترغیب والترھیب)
سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ کا معنی ہے: باتوں کے وقت تسبیح اور تحریف کا معنی ہے ’تبدیل کرنا‘۔ بازاروں اور غفلت کی جگہوں میں لوگ گپ شپ لگاتے ہیں ایسے میں ایک آدمی اللہ کو یاد رکھے، دل اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔ جب آدمی فارغ ہو، کوئی مصروفیت نہ ہو تو زبان کو اللہ کے ذکر میں استعمال کرسکتا ہے، اُونچی آواز سے نہیں بلکہ رازداری سے ذکر کرے، لوگ آپس میں غیرضروری یا ضروری باتیں کرتے ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’لو‘ لگائے، اس سے باتیں کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان تھی کہ آپ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے، یہ تو ذکرِ قلبی اور ذکرِ لسانی ہے، لیکن یہ اس وقت معتبر ہوگا کہ انسان عملاً اللہ تعالیٰ کا مطیع فرمان ہو، نافرمانی کرتے ہوئے، ذکر کرنا تو اللہ کا ذکر نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ’استہزا‘ ہے۔ دکان دارسودا فروخت کرتے وقت دھوکا نہ دے، غلط بیانی سے کام لے، جج فیصلہ دیتے وقت قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ دے، حکمران اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پامال کرے اور ہاتھ میں تسبیح بھی رکھے اور اس پر سبحان اللہ اور الحمدللہ کا ورد کردے تو یہ ورد اس کے منہ پر دے مارا جائے گا۔ آج کل اس طرح کا ذکر عام ہے۔ لوگوں نے اسے ایک مشغلہ تو بنایا ہے لیکن اس کے تقاضوں کو نظرانداز کیے ہوتے ہیں۔ یہ صورت غفلت سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کون سا شخص آپؐ کی شفاعت کی زیادہ سعادت حاصل کرے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ابوہریرہ! میرا گمان تھا کہ یہ بات مجھ سے کوئی آدمی تجھ سے پہلے نہیں پوچھے گا، اس لیے کہ مجھے پتا ہے کہ تجھے میری احادیث کو حاصل کرنے کا حرص ہے، تمام لوگوں سے زیادہ سعادت مند میری شفاعت کا وہ شص ہے جس نے دل کے اخلاص سے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو۔ طبرانی میں زید بن اسلح سے مرفوع روایت ہے کہ آپؐ سے پوچھا کیا: لا الٰہ الا اللہ اخلاص سے کہنے کا کیا معنی ہے تو آپؐ نے فرمایا: لا الٰہ الا اللہ اسے حرام کاموں سے روک دے۔ (الترغیب والترہیب)
برزنا تسبیح و در دل گاؤ و خر
ایں حیئیس تسبیح کے دار و اثر
زبان پر تسبیح اور دل میں گائے اور گدھے کی فکر ہو، اس طرح کی تسبیح کب اثر رکھتی ہے۔
اُمت میں اختلاف راے صحت مندی اور تندرستی کی علامت ہے نہ کہ اختلاف اور انتشار کی۔ہر شخص کی اپنی راے ہوتی ہے جس کے اظہار کی اسے آزادی حاصل ہے مگر اختلاف راے رکھنے والے اکثر لوگوں کو نہیں معلوم کہ اسلام نے اس کے لیے کچھ ضابطے مقرر کیے ہیں۔ ان ضابطوں کی پاس داری نہ کرنے کی وجہ سے بعض افراد تعصب اور منافرت میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ دائرہ اس قدر پھیل گیا کہ امت کے افراد اور جماعتیں اختلاف راے کی وجہ سے گروہوں میں بٹ گئیں۔اب یہ بیماری گھن کی طرح جسدِ ملّی کو اندر سے کھوکھلا کررہی ہے۔
کائنات کی تخلیق میں اختلاف اور تنوع اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔تنوع اور اختلاف کے ساتھ کمال ضابطے کا توازن اللہ تعالیٰ کی حکمت ودانائی کی شہادت دے رہا ہے۔یہ رات اور دن کا باقاعدگی سے آنااس بات پر گواہ ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے لیے یہ نظم کمال درجۂ دانائی کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔اس زمین پر وہ خطے بھی موجود ہیں جہاں ۲۴گھنٹے کے اندر دن اور رات کا الٹ پھیر ہوتا ہے اور وہ خطے بھی ہیں جہاں بہت طویل دن اور بہت طویل راتیں ہوتی ہیں ۔کائنات کی ہر چیز میں تنوع اور اختلاف ہے۔ موسموں کا تغیر و تبدل،پہاڑ، چاند، تارے اور سیارے ، اور زمین سے اُگنے والی چیزوں میں کس قدر اختلاف ہے۔اس تنوع کے بارے میں سورۂ انعام میں ارشاد ہوا’’وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اُگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں‘‘ (الانعام ۶:۱۴۱)۔حد تو یہ ہے کہ ایک ہی زمین سے اُگنے اور ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والے پھلوں کے مزے جدا جدا ہیں۔ارشاد ربانی ہے:’’اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔انگور کے باغ ہیں،کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے ۔سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنادیتے ہیں اور کسی کو کم تر۔ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘(الرعد۱۳:۴)۔ ساری زمین کو اس نے یکساں بناکر نہیں رکھ دیا، بلکہ اس میں بے شمار خطے پیدا کیے جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں ، رنگ میں ، خاصیتوں میں ، قوتوں اور صلاحیتوں میں ، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ان مختلف خطوں کی پیدایش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
اس تنوع اور اختلاف پر غور کرنے والا کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوگا کہ انسانی طبائع، میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف کیوںپایا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب انسانوں کو یکساں بناسکتا تھا مگر جس حکمت پر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، وہ یکسانیت کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگارنگی کی متقاضی ہے ۔سب کو یکساں بنادینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامۂ وجود ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا۔ کائنات کی تخلیق میں جب اختلاف اور تنوع ہے توپھر اس کائنات کی اہم ترین مخلوق کو اس اختلاف سے مبرا سمجھنا دانش مندی نہیں۔جہاں دو انسان رہتے ہیں وہاں ان کے درمیان اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے۔ارشاد ربانی ہے’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بناسکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔اسی (آزادیِ انتخاب واختیار اور امتحان) کے لیے ہی تو اس نے انھیں پیدا کیا تھا‘‘(ھود ۱۱:۱۱۸)۔ معلوم ہوا کہ آزادیِ انتخاب اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور ہر آدمی کو مختلف راے رکھنے کا حق ہے مگر یہ اختلاف اگر ضابطوں سے عاری ہوجائے تو اس سے تلخیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کی مذمت بھی کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ابتداء ً سارے انسان ایک ہی امت تھے،بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کرلی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کردیا جاتا‘‘(یونس۱۰:۱۹)۔ ایک اور جگہ پر اختلاف کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیا:’’اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے___(اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدامیں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا،نہیں)اختلاف ان لوگوں نے کیا، جنھیں حق کا علم دیا چکا تھا۔انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے‘‘(البقرہ۲:۲۱۳)۔ یہاں اختلاف کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنا چاہتے تھے جو کہ مذموم فعل ہے۔ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ عذاب عظیم سے خبردار کرتا ہے:’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلاہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزاپائیں گے، جب کہ کچھ لوگ سرخ رُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمتِایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا؟‘‘(اٰل عمرٰن۳:۱۰۵-۱۰۶)۔ ان آیات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اختلاف کی مذمت کی ہے جو حق کو باطل کا لبادہ پہنائے یا آدمی پر حق واضح ہوجائے پھر بھی وہ باطل ہی پر اڑا رہے۔
اختلاف راے رکھنے کی تربیت خود رسول اکرمؐ نے صحابہ کرام ؓ کو دی تھی۔اگرچہ آپؐ کا ہرعمل اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی میں ہوتا تھا مگر اس کے باوجود رسول اکرمؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کرتے تھے۔کئی معاملات میں اپنی راے کو چھوڑ کو صحابہ کرام ؓ کی راے پر عمل فرمایا۔صحابہؓ کی تربیت اس نہج پر ہوئی تھی کہ ان میں سے ہر ایک اپنے انداز سے چیزوں کو دیکھے اور نتائج اخذ کرے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔ارشاد ربانی ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑدیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)۔ اختلاف راے رکھنا فطری اور طبعی امر ہے مگر اختلاف راے رکھنے کی وجہ سے تفرقے میں پڑنا مذموم قرار دیا گیا ہے۔آیت مبارکہ میں اسی طرف نشان دہی کی گئی ہے۔ اختلاف راے رکھنا اور تفرقے میں پڑجانا، دو الگ چیزیں ہیں۔
اس آیت کی روشنی میں اگر ہم مسلم امت کا ماضی قریب اور حال دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امت کے افراد مختلف مکاتب فکر رکھنے کے وجہ سے تفرقے میں پڑگئے ہیں، حالانکہ مختلف مکاتب فکرکاوجود فی نفسہٖ معیوب نہیں بلکہ یہ اسلام میں تنوع ہے۔اسلام قیامت تک کے لیے باقی رہنے والا دین ہے جس میں فروعی معاملات میں اختلاف راے رکھنا معیوب نہیں، بلکہ یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ اس میں اتنی لچک ہے کہ یہ ہر زمانے اور ہر قسم کی سوچ وفکر رکھنے والے لوگوں کے لیے یکساں طور پر قابل عمل ہے۔اسلام کے مختلف مکاتب فکر اس بات کی نشانی ہیں کہ ہمارا دین لچک دار ہے کہ اس کے ماننے والے فروعی مسائل میں اختلاف راے رکھ سکتے ہیں۔حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا معروف قول ہے:’’فروعی معاملات میں اصحابِ رسولؐ کا اختلاف ہمارے لیے باعث رحمت ہے کیونکہ اگر وہ ان فروعی معاملات میں اختلاف نہ کرتے تو مسلمانوں کے لیے آسانیاں پیدا نہ ہوتیں‘‘(فیض القدیر)۔ ایک اور مقام میں ان کا یہ قول بھی معروف ہے کہ’’یہ امت کے لیے رحمت ہے کہ اصحابِ رسولؐ نے فروعی معاملات میں اختلاف کیا کیونکہ اگر وہ ان معاملات میں اختلاف نہ کرتے اور بعد میں آنے والے لوگ اختلاف کرتے تو اختلاف رکھنے والا گمراہ سمجھا جاتا۔ مگر یہ اللہ کی رحمت ہے کہ انھوں نے اختلاف راے رکھا کہ بعد میں آنے والے لوگ صحابہ کرامؓ میں کے مختلف اقوال پر عمل کرسکیں۔ اس میں ان کے لیے آسانی پیدا ہوئی‘‘۔(الاختلاف الفقہی مفخرۃ لاعیب، ڈاکٹر کمال المصری)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تورات لینے گئے تو پیچھے بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی ۔جب وہ واپس آئے تو ہارون علیہ السلام سے پوچھا:’’تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘ ہارون ؑ نے جواب دیا:’’اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا: تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘(طٰہٰ ۲۰:۹۲-۹۴)۔ حضرت ہارون علیہ السلام کے جواب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے قوم کو بچھڑے کی پوجا سے منع ضرور کیا ہوگا مگر ان کی اس گمراہی پر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے کہ کہیں قوم میں پھوٹ نہ پڑجائے۔ حضرت ہارون ؑ کے اس موقف کو حضرت موسی علیہ السلام نے بھی تسلیم کیا۔معلوم ہوا کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگ اپنی راے پر اس قدر اصرار نہ کریں جس کے باعث قوم میں پھوٹ پڑجائے۔
اختلاف راے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امت کے علما اور صلحا خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو، ان سب کادین کے بنیادی اور اساسی امور میں اتفاق ہے ۔وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اکرمؐ کی رسالت پر اختلاف نہیں رکھتے۔نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ اور دیگر فرائض میں ان کا اختلاف نہیں۔جو چیزیں قرآن مجید اور سنت طیبہ میں حرام ہیں، جیسے سور کا گوشت، شراب ،مردار کا کھانا ودیگر منہیات، ان سب پر علماے امت کا اتفاق ہے خواہ وہ سنّی مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل تشیع ہوں، البتہ سنی اور شیعہ، نیز سنیوں کے مختلف مکاتب فکر کا اختلاف ان امور میں ہے جو دین کی اساسی بنیادیں نہیں بلکہ فروعی معاملات ہیں۔ ان فروعی معاملات میں اختلاف کرنے کے باوجود علماے امت کا کیا رویہ تھا؟کیا وہ اپنے موقف پر اس قدر اصرار کرتے تھے کہ اُمت میں پھوٹ پڑجائے اور لوگ فرقوں میں بٹ جائیں؟ علماے امت کی روشن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اصحابِ مکاتب ِفقہ کے علاوہ علماے اُمت میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ان کی وسعت ظرفی کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں :
یہ بات ہمیں معلوم ہوئی کہ اختلاف راے انسانی فطرت ہے ۔ایک ہی قالب میں تمام انسان ڈھل نہیں سکتے، البتہ وہ اختلاف جو تفرقے کا باعث بنے، وہ مذموم اور ممنوع ہے۔ اختلافات کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں خون آلود کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔یہ تاریخ اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے ۔ ماضی میں جھانکنے کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا۔ہمارا حال اس قدر پریشان کن ہے کہ امت کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔ان چیلنجوں سے اگر نمٹنا ہے تو ماضی کی خونیں تاریخ کو بھلاکر نیا آغاز کرنا ضروری ہے۔ماضی میں پیش آنے والے واقعات اور اسباب اب ماضی کا حصہ ہیںجسے اب یاد کر نے اوردہرانے کی ضرورت نہیں۔ان میں کون حق پر تھا کون غلط، اس کا فیصلہ ہم نے اپنے ذمے کیوں لے لیا ہے ۔ان کے حساب کتاب کے ذمہ دار ہم نہیں ۔اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں جو ہر صاحب حق کو اس کا اجر دے گا ۔وہی نیتوں کے حال سے واقف ہے۔’’وہ کچھ لوگ تھے جو گزر گئے۔جو کچھ انھوں نے کمایا، وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمھارے لیے ہے۔تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے‘‘ (البقرہ۲: ۱۳۴)۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ سے جب قرونِ اولیٰ کے دور فتن کے بارے میں پوچھا گیاتو انھوں نے جواب دیا: ’’ان لوگوں کے خون سے ہمارے ہاتھ پاک ہیں، ہم اپنی زبان کو کیوں آلودہ کریں‘‘۔ (مبادی التقریب بین المذاہب الاربعہ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی)
ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مکتب فکر سے چاہے رجوع کرے،جس کی چاہے تقلید کرے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہی حق پر ہو اور باقی سب کو گمراہ قرار دے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے‘‘ (النجم ۵۳: ۳۲)۔ خود کو برحق اور دوسرے کو گمراہ قرار دینے والا اُمت میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ تفرقہ بندی اور لسانی اور گروہی تعصب جاہلیت کے نعرے ہیں۔قرآن مجید میں اس کی صریح ممانعت ہے۔
ہجرت نبویؐ سے پہلے مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج کے درمیان طویل جنگیں ہوئی تھیں۔ اسلام کی برکت سے وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔اخوت اور مودت کا یہ ماحول یہودیوں کو کھٹکتا رہا، لہٰذا وہ ان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔مدینہ منورہ میں انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والا پہلا شخص یہودی تھا جس کا نام شاس بن قیس تھا جسے انصار کی اخوت اور محبت کھٹکتی رہی۔ اوس کے پاس جاکر انھیں خزرج کے بارے میں اکساتا اور شعر پڑھ کر انھیں ان کی خونی تاریخ یاد دلاتا۔اسی طرح خزرج کے پاس جاکر انھیں اوس کے بارے میں اکساتا یہاں تک دونوں گروہ اس کے بہکاوے میں آگئے اور پھر وہ موقع آیا جس میں اوس اور خزرج آمنے سامنے آگئے۔اوس کے لوگوں نے نعرہ بلند کیا: ’’اوس کے لوگو! اپنے قبیلے والے کی حمایت کرو‘‘ اور خزرج نے نعرہ لگایا:’’اے خزرجیو! اپنے قبیلے کے لوگوں کی مدد کرو‘‘۔ قریب تھا کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ بھڑجاتے مگرعین وقت پررسول اکرمؐ تشریف لائے اور دونوں گروہوں کی سخت سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: ’’جاہلیت کے نعرے بلند کرتے ہو حالانکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں‘‘۔ آپؐ نے انھیں قرآن مجید کی آیات سنائیں یہاں تک دونوں گروہ روپڑے اور ایک دوسرے سے معانقہ کیا ۔اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ آل عمران کی یہ آیات نازل فرمائیں:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمھیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیرلے جائیں گے۔ تمھارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے، جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں اور تمھارے درمیان اس کا رسولؐ موجود ہے؟جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۰-۱۰۱)
غور کیا جائے تو شاس بن قیس کسی نہ کسی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جو امت کے افراد کے درمیان تفرقہ ڈالنے پر تلا ہوا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ امت تفرقہ میں پڑجائے تاکہ اندر سے کھوکھلی ہو اور اس پر حملہ کرنا آسان ہو، جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑونہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑجائے گی‘‘(الانفال۸:۴۶)۔ اسی طرح کی ہدایت رسول اکرمؐ سے ملتی ہے: آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے امتوں کے اختلاف ہی نے انھیں ہلاک کیا (بخاری)۔ شاس بن قیس جیسے لوگ امت کو گروہوں میں بانٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔کبھی ان کا نعرہ سنی شیعہ کا ہوتا ہے تو کبھی حنفی، مالکی کہتے ہیں۔کبھی مقلد اور غیر مقلد کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی دیوبندی اور بریلوی کی صدا لگاتے ہیں۔امت کے تمام مکاتب فکر کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی گروہی عصبیتوں کو فروغ دینے والوں سے ہوشیار رہیں۔خاص طور پر موجودہ دور میں جس میں امت کے خلاف تمام دشمن طاقتیں متحد اور یکجا نظر آتی ہیں۔
یورپی ممالک ہمارے لیے مثال ہیں۔ آج یورپی ممالک آپس میں متحد ہیں، جب کہ ان کی خونی تاریخ کا فی طویل ہے۔یورپی ممالک نے ماضی کو بھلاکر متحد ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔کیا ایک امت سے تعلق رکھنے والے لوگ یکجا نہیں ہوسکتے۔ ایک ایسی امت جس کا رب ایک، رسول ایک، قرآن ایک اورکعبہ ایک ہے۔یہ امت کیوں ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے۔یورپی ممالک میں کوئی قدر مشترک نہیں اس کے باوجود وہ متحد ہیں، جب کہ اُمت مسلمہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو، وہ کیوں متحد نہیں ہوسکتے حالانکہ ان کے درمیان کئی مشترکہ اقدارہیں۔یہ وہ وقت ہے جس میں امت کے افراد جو لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اختلافات کے باوجود متحد ہوں کیونکہ وہ تاک میں بیٹھے دشمن سے علیحدہ علیحدہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔
امت کے افراد کلمہ طیبہ کی بنیاد پر جمع ہوں ۔آج اُمت میں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی جو روش چل پڑی ہے، وہ اتنہائی خطرناک ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے کسی شخص کو کافر کہا تو کفر ان میں سے کسی ایک شخص کو لاحق ہوگا‘‘ (متفق علیہ)۔ گویا اگر کسی نے کسی کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہو تو کفر اسی کو لاحق ہوگا جس نے یہ کلمہ دوسرے کے لیے استعمال کیا ہو۔امام ابن تیمیہؒ کا ایک زریں قول ملاحظہ کریں:’’مسلمانوں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے اور ان کے بعد اَئمہ اربعہ کا بھی اسی پر اتفاق رہا۔جو شخص اس اجماع امت کا انکار کرے تو وہ مبتدع، گمراہ اور کتاب وسنت کے علاوہ اجماع المسلمین کا مخالف ہے‘‘۔(الاختلاف بالتی ھی احسن، رجب ابوملیح)
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے ابن ماجہ میں منقول ہے۔آپ نے صلہ بن زفر سے کہا: ’’اسلام کی تعلیم عام ہوتی رہے گی یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جس میں لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا کہ نماز، روزہ، صدقہ اور دیگر عبادات کیا ہیں،حتیٰ کہ قرآن مجید کی آیات تک لوگوں کو یاد نہیں رہیں گی۔پھر جو بچے ، بوڑھے اور خواتین ہوں گی، وہ کہیں گے: ہمارے باپ دادا’لاالہ الا اللہ‘ کہا کرتے تھے، لہٰذا ہم بھی اسی کلمے کا اقرار کرتے ہیں‘‘۔ اس پر صلہ بن زفر نے کہا: ’’محض لا الٰہ الااللہ کہنا ان کے کس کام کا، جب کہ انھیں نماز روزہ اور دیگر عبادات کا علم ہی نہیں‘‘یہ سن کر حضرت حذیفہ ؓنے ان سے منہ پھیر لیا۔بار بار دہرانے کے بعد حضرت حذیفہ ؓ نے جواب دیا’’یہ کلمہ انھیں آگ سے بچانے کے لیے کافی ہوگا‘‘(حاکم)۔ گویا اس کلمے کا اقرار انھیں جہنم کی آگ سے بچاسکتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی صورت حال کا مشاہدہ سقوطِ اندلس کے بعد اور سوویت یونین کے دور میں دیکھا جاچکا ہے جب حکومت نے اسلام اور اس کے تمام شعائر پر پابندی لگادی تھی۔ وہاں کے لوگوں کو اتنا علم تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور لاالہ الااللہ کا اقرار کرتے ہیں۔محض اس کلمے کی وجہ سے ان شاء اللہ وہ جہنم سے بچا لیے جائیں گے۔
ان باتوںسے معلو م ہوا کہ اسلام ایک وسیع الظرف دین ہے اور یہ وسعت ظرفی ہمیں اپنے اندر بھی پیدا کرنی چاہیے۔ اختلافات رکھنے کے باوجود ہمارے اندر بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں متحد کرسکتی ہیں۔اس اتحاد کے بغیر ہم اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
علماے امت نے اختلاف رکھنے کے باوجود تعاون کرنے کا ایک زریں اصول وضع کیا جس کے الفاظ ہیں:’’اتفاق راے پر ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اختلاف راے پر ایک دوسرے کی راے کا جواز تسلیم کریں‘‘۔ اس قاعدے و کلیے کو یوں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ ’’متفقہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور مختلف فیہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کریں‘‘۔ ان قواعد کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ اختلاف آخر کیوں پیدا ہوتا ہے۔
اختلاف راے کی وجوھات
اختلاف راے کی کئی وجوہ ہیں۔
امام ابن تیمیہ ؒ کا کہنا ہے’’کوئی بھی امام اجتہادی مسائل میںرسول اکرمؐ کی کسی صریح حدیث سے عمداً اختلاف نہیںکرتا۔اختلاف میں وہ معذور ہوتا ہے جس کے بنیادی طور پر تین اسباب ہیں: ایک یہ کہ اس کا گمان ہوتا ہے کہ یہ حدیث رسول اکرمؐ نے نہیں فرمائی۔ دوم یہ کہ اس حدیث کا اس معاملے پر انطباق نہیں ہوتا، اور سوم یہ کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ حدیث میں بیان کیا جانے والا حکم منسوخ ہے‘‘(فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ۲۰، ص ۲۳۲)۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا ایک اور جگہ پر یہ قول بھی منقول ہے: ’’اسلام کا کوئی بھی مسئلہ جس میں علما کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہو مگر اس اختلاف کی وجہ سے تفرقہ،دشمنی اور منافرت پیدا نہ ہوئی ہو تو یہ مسئلہ اسلام کے عین مصلحت کے مطابق ہے، جب کہ جس مختلف فیہ مسئلے میں تفرقہ پیدا ہو،لوگوں کے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا ہونے لگے تو جان لو کہ اس مختلف فیہ مسئلے کا دین سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (الاختلاف بالتی ھی احسن، رجب ابوملیح)
ڈاکٹر یوسف القرضاوی اختلاف کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ممکن ہے کہ کسی مسئلے پر آپ کے پاس صریح حدیث موجود ہو مگر وہ حدیث میرے پاس نہ ہو۔ممکن ہے یہ حدیث آپ کے نزدیک صحیح ہو مگر میں اسے ضعیف سمجھتا ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی حدیث دونوں کے پاس ہو اور دونوں اس کی صحت پر متفق ہوں مگر اس حدیث کو آپ اپنے طور پر سمجھ رہے ہیں اور میں اپنے طور پر۔اس مسئلے میں اختلاف نصِ حدیث سے نہیں، بلکہ آپ کی راے سے ہوگا‘‘(مبادی التقریب بین المذاہب الاربعہ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی)۔ اَئمہ کے درمیان اختلاف فطری اور طبعی ہے۔تمام لوگوں کو ایک قالب میں ڈھالنا ممکن نہیں۔امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد کہا کرتے تھے:’’علما کے درمیان آرا میں اختلاف وقت اور مصلحت کے مطابق ہے۔ان کا اختلاف دلیل اور برہان پر نہیں‘‘۔ اجتہادی مسائل میں اختلاف تفرقے کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔
اختلاف راے کے دیگر اسباب میں ایک سبب عامۃ الناس میں پایا جاتا ہے جس سے علماے حق مبرا ہیں، اور وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے امام کی راے کو بالا اور دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جاتے ہیں۔اپنی راے کو حق ماننے پر عناد اور اصرارکرنے لگ جاتے ہیں۔ان کا مقصد حق کو ظاہر کرنا اور اس کی اتباع کرنا نہیں بلکہ اپنی راے کو دوسرے پر مسلط کرنا ہوتا ہے۔طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اختلافی مسائل کو علماے حق کی کتابوں سے تلاش کرکے اس کے جواز اور عدم جواز پر فیصلہ کرے ۔ایسا نہ ہو کہ عوام الناس کی راے سن کر وہ اپنافیصلہ قائم کرے۔
جس قاعدے و کلیے کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ’’اتفاق راے پر ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اختلاف راے پر ایک دوسرے کی راے کا جواز تسلیم کریں‘‘یا پھر ’’متفقہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور مختلف فیہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کریں‘‘، اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امت کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن میں علما کے درمیان اتفاق ہے اور جن میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔
تمام مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک ہے ۔اس کے اسماے حسنیٰ اور صفات علیا کو سب مانتے ہیں۔رسول اکرمؐ کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں۔سب کا ایمان ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کسی بھی تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے۔تمام ارکان اسلام: نماز ،روزہ، حج اور زکوٰۃ پر سب کا اتفاق ہے خواہ وہ سنی مکاتب فکر ہوں یا شیعہ۔اس بات پر بھی امت کا اتفاق ہے کہ کتاب وسنت شریعت کا اصل الاصول ہے۔اسی سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں۔کوئی بھی عالم اجتہاد کرسکتا ہے۔ اس میں اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے۔تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کی یکجہتی میں اس کی قوت اور تفرقے میں اس کی کمزور ی ہے۔اگر یہ بات ہے تو پھر جن باتوں میں اختلاف ہے ان پر مکالمہ کیا جاسکتا ہے اور جس بات میں اختلاف ختم نہ ہوسکے اس میں ایک دوسرے کی راے کے جواز کو تسلیم کریں۔ہم اختلاف راے کی وجہ سے ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کریں، ایک دوسرے کو گمراہ قرار نہ دیں،ایک دوسرے کو فاسق نہ کہیں۔ایک دوسرے کی راے کا احترام کریں اور متنازع مسائل کو نہ چھیڑیں۔ایک دوسرے کواس کا اپنا مسلک اختیار کرنے کی آزادی دیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور سوئِ ظن کی بنیاد پر پہلے ہی سے کسی کے بارے میں فیصلہ نہ کریں۔ اخوت اسلامی کے اسباب کو پروان چڑھائیں اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں۔ باہم تحمل اور برداشت کو فروغ دیں اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر جمع ہوں۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم باہم متحد ہو کر اپنے دشمن کا مقابلہ کریں ۔اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو سر پر منڈلا نے والا دشمن کسی بھی وقت ہم پر حملہ آور ہوکر ہماری ہوا اُکھاڑ سکتا ہے۔
دعوتِ دین اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے (اٰل عمرٰن۳: ۱۱۰)۔ اس منصب کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں۔ داعیِ حق کو دینی علوم، قرآن، تفسیر و حدیث، فقہ، عربی، ادب، لغت اور تاریخ اسلام پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر داعی کی نظر موجودہ دنیا کے حالات پر نہ ہو تو وہ ہرگز ایک کامیاب داعی کی حیثیت سے اپنے فرضِ منصبی کو اداکرنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ داعی کو اس بات کا بھی پتا ہونا چاہیے کہ آج کی دنیا پر کن افکار کی حکمرانی ہے، کون سے رجحانات کارفرما ہیں، کن متضاد قوتوں کی باہمی آویزش ہے، کون سی تحریکات ہیں جو دنیاکے اندر کام کررہی ہیں۔
اس کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کے کیا مسائل ہیں، وہ کن مصائب و مشکلات میں مبتلا ہیں۔ خاص طور سے عالمِ اسلام جس کا دائرہ مراکش سے انڈونیشیا تک وسیع ہے، اس کے کیا مسائل ہیں۔ وہ کیا سرچشمے ہیں جو ہمارے لیے قوت کا سامان فراہم کرسکتے ہیں اور وہ کون سے راستے ہیں جہاں سے کمزوریوں کودر آنے کا موقع ملتاہے۔ امید افزا پہلوئوں پر بھی نظر رہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ لوگ کن رجحانات اور کس نقطۂ نظر کے حامل ہیں، تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکے کہ کس انداز سے ان کے سامنے اپنی بات رکھنی ہے۔ دعوت میں تدریج کی حکمت بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔
اسلام دشمن طاقتیں دراصل بُغض و حسد کی آگ میں جل رہی ہیں۔ عالمِ اسلام اور اس کے وسائل پر ان کی للچائی ہوئی نظریں ہیں۔ اسلام کی قوت سے وہ خوف محسوس کرتی ہیں۔ وہ بے چین ہیں کہ کس طرح عالم اسلام پر اپنے پنجے گاڑیں۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ عالم اسلام کے خلاف ان کی اس جنگ میں ان کے کیا وسائل ہیں، یعنی سیاسی، حربی، اقتصادی، اور سب سے بڑھ کر فکری یلغار، نیز عالمِ اسلام پر عیسائیت کی یلغار۔ افریقہ کے اندر اسلام اورعیسائیت کی کش مکش جاری ہے۔ سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کو عیسائی مملکت میں تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح عالمِ عرب کے مختلف خطوں کو عیسائی اکثریت میں تبدیل کرنے کی بھی سازش کی جارہی ہے۔ ان مقاصد کے حصول کی خاطر مشنریوں اور استعماری طاقتوں کا باہمی تعاون جہاں ہوتا ہے وہیں اسلام اور مختلف اسلامی علوم سے متعلق مستشرقین کا جارحانہ تصنیفی کام بھی ہے جن کا شیوہ ہی اسلام اور عالمِ اسلام پر حملے کرنا ہے۔ خفیہ اور زیرزمین کام کرنے والی تنظیمیں، ماسونیت اور اس کی مختلف شاخیں بھی اسلام کے خلاف برابر کام کر رہی ہیں۔
ہمیں ان کے مذاہب کی صورت حال پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ یہودیت، جس کے نمایندے تورات کے اصل نسخے کو داغ دار کررہے ہیں، صہیونی تحریک اور قیامِ اسرائیل اس کی ایک جھلک ہے۔ عیسائیت کے مختلف فرقے ہیں، ہر ایک کے لیے علیحدہ چرچ ہیں، ان کے درمیان کش مکش رہتی ہے، پھر آپس میں قریب ہونے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ یہودیت کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ vetican کا معاہدہ بھی ہے، جس کے تحت یہودیوں کو حضرت مسیحؑ کے خون سے بری قراردیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی کوشش ہونی چاہیے جسے ’مسیحی اسلامی اتحاد‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت اور قدروقیمت بھی جاننا چاہیے۔
ہندستان اور مشرق بعید کے ملکوں کے بڑے بڑے مذاہب، مثلاً ہندومت، اس کے عقائد، مسلمانوں کے تئیں ان کا رویہ اور برتائو اس کی بھی اہمیت جاننا چاہیے۔ بدھ مت کے ماننے والوں اور اس کے پیروئوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اشتراکیت، سوشلزم، جمہوریت، ڈکٹیٹرشپ کے متعلق بھی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ مارکسی نظریۂ اشتراکیت کو سمجھنا چاہیے جسے ایشیا میں لینن اور اس کے جانشینوں نے عملی جامہ پہنایا، اور مائوزے تنگ نے چین میں اپنایا۔ ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ ان تمام سیاسی ممالک کے تئیں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ ان نظریات کے ساتھ اسلام کا جوڑ لگانا بالکل غلط اور اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے۔
حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے آپ کو پوری طرح تیار کرسکتے ہیں اور داعی کے جو فرائض ہیں، انھیں انجام دے سکتے ہیں۔ سونے کو پگھلا کر کندن کس طرح بنایا جاسکتا ہے، یہ ہنر ہم کو آسکتا ہے۔ دین کی طرف دعوت دینا اور اللہ کے راستے کی طرف اللہ کے بندوں کو بلانا انبیاے کرامؑ کا طریقۂ کار ہے۔ سب سے پہلے انبیاے کرام ہی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا جو کہ علم کے ساتھ عمل کے پیکر اور صدق واخلاص کے کامل ترین نمونہ تھے۔ اسی دعوت کی بدولت لوگوں کو حق کی رہنمائی اور سچائی کا روشن راستہ ملتا رہا اور لوگ اندھیروں سے اُجالے میں آتے رہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دعوتِ دین کو سب سے بھلی بات اور سب سے اُونچا مقام عطا کیا ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔
یہ بھی یقینی بات ہے کہ جب ہم دعوتِ حق کو لے کر اٹھیں گے تو اسے ٹھنڈے پیٹوں کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ لوگوں کے ذہن و دماغ پر تعصبات کے پردے پڑے ہوئے ہیں، خواہشات نفس کے چنگل میں وہ پھنسے ہوئے ہیں، بے شمار شیطانی قوتیں ہیں جو ان کے ذہن کے دریچوں کو کھلنے نہیں دیتیں۔لہٰذا اس کارِ دعوت کو سنبھالنے کے لیے انتہائی مضبوط ہاتھ چاہییں جو اپنے اندر ہمہ گیر تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور جو درپیش چیلنجوں کا بھرپور جواب دے سکیں، جنھیں خود بھی کارِدعوت کی عظمت و اہمیت کا پورا احساس ہو، اس لیے کہ داعی کی حیثیت اصل قوتِ محرکہ کی ہوتی ہے۔ دراصل یہی وہ انجن ہے جس سے پورا کارواں متحرک ہوتا ہے اور یہی وہ پاور ہائوس ہے جو پوری بستی کو منور رکھتا ہے۔
تعلیم و تربیت کے میدان میں اصل اہمیت معلم و مربی کی ہے جو طالب علم کے اندر بے تابی کی روح پھونکتا ہے اور اس کی رگوں میں زندگی کا خون دوڑا دیتا ہے۔ جب معلم کی یہ اہمیت ہے تو داعی کی حیثیت دعوت و تبلیغ کے میدان میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ جتنا خونِ جگر جلائے گا، اسی کے بقدر اس کے اپنے اردگرد روشنی نظر آئے گی۔ باطل کے خلاف اس جنگ میں ایک داعی کے لیے اگر کوئی اسلحہ ہے تو وہ ایمان کا اسلحہ ہے۔ ایمان کوئی ایسی معمولی چیز نہیں جس کا صرف دعویٰ کیا جائے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح معنوں میں ایمان صرف اسی وقت قرار پاتا ہے جب وہ انسان کے رگ و پے میں سرایت کرجائے اور اس کی عملی زندگی اس کی شہادت پیش کرنے لگے۔
داعی کے لیے اہم چیز حسنِ اخلاق ہے کہ وہ اخلاقِ عالیہ کا پیکر ہو اور یہ چیز اس کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے حسنِ اخلاق کو ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیا ہے: ’’مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔
دینی ثقافت کا دوسرا مآخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یہ دراصل کتاب اللہ کی تشریح ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ سے خطاب کر کے فرمایا: وَاَنْزَلْنَـآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶:۴۴) ’’اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں‘‘۔
یہاں ہم جسے سنت کہہ رہے ہیں اس میں رسولؐ اللہ کے قول، فعل، تقریر، نیز آپؐ کے عادات و اوصاف، سیرت و کردار تمام چیزیں شامل ہیں۔ اس طرح یہ سنت آپؐ کی پوری زندگی پر مشتمل ہے۔ دعوتِ دین کی راہ میں آپؐ کی جدوجہد اور قربانیوں کا ایک جامع ریکارڈ سنت ہے۔ جب تک داعی اس چشمۂ صافی سے سیراب نہیں ہوگا، وہ دوسروں کی تشنگی دُور نہیں کرسکتا۔
آخر میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہم اسلام کی صداقت و حقانیت پر یقین کامل رکھیں، اسلام ہمارے رگ و ریشے میں اس طرح سرایت کرجائے کہ بادِ مخالف کا سخت جھونکا بھی اسے اپنے مقام سے نہ ہلاسکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم جذبۂ اسلامی سے سرشار ہوں، ہمارا ذہن اسلامی ہو، ہمارے قلب و ضمیر میں ایمان کی چنگاریاں موجود ہوں، ہم اسلام کو اس طرح سینے سے لگائیں کہ دنیا کی ہرچیز کے مقابلے میں اسلام ہمیں عزیز تر ہو، اور ہمارا سینہ اس حقیقت کے لیے بالکل کھلا ہو کہ اسلام ہی سب سے بہتر نظامِ زندگی ہے جسے دنیا میں غالب کرنا ہر داعی کا فرض ہے۔
اسلام کے بنیادی عقائد پوری دنیا میں یکساں ہیں، تاہم ان کا عملی اظہار ہر علاقے میں مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ’شادی‘ اسلامی عقائد کا ایک بنیادی جزو ہے جس کا مرکزی نکتہ ’نکاح‘ ہے لیکن جنوبی ایشیا میں شادی کی تقریب مختلف رسوم ، مثلاً مہندی، مایوں اور بارات پر مشتمل ہے، اور یہ رسوم ہندو معاشرے سے اخذ کی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح چونکہ مغرب میں اسلامی تہذیب کا ارتقا ایک نئے عمل کی حیثیت رکھتا ہے، اور ان معاشروں میں اسلامی روایات ابھی پوری طرح نشوونما نہیں پا رہی ہیں، اس لیے مختلف قسم کے مسائل سامنے آرہے ہیں اور بے شمار معاملات ایسے ہیں جنھیں زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ اس گفتگو میں موضوعِ بحث مغرب اور مسلمان ہیں، لیکن بحث کا غالب حصہ امریکا کے حوالے سے پیش کیا جا رہاہے۔
اس مسئلے کا تعلق نسبتاً ایک نئی صورت حال سے ہے، مغرب میں بسنے والے مسلمان اپنے اپنے اسلامی ممالک سے تعلیم یا بہتر روزگار کی تلاش کے لیے اپنی مرضی سے ایک بڑے وسیع غیرمسلم معاشرے میں اقلیت کی حیثیت سے آباد ہورہے ہیں۔ آج وہاں پر مسلمان، یورپ کی آبادی کا ۳ فی صد اور امریکا کی آبادی کا ۲ فی صد ہیں۔ اس ضمن میں دل چسپ پہلو یہ ہے کہ انھیں نہ تو وہاں پر زبردستی جانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور نہ انھیں وہاں محکومیت کا سامنا ہے۔ دوسرے یہ کہ نقل مکانی کرکے یہاں آنے والے مسلمانوں کی دوسری نسل اور مقامی مسلمانوں کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کے متعلق مغرب میں ان امور پہ مکالمہ زوروں پر ہے کہ: ان ممالک میں ایک اقلیت کی حیثیت سے کیسے گزربسر کی جائے؟ اس مخلوط تہذیبی ماحول میں کس انداز سے سماجی زندگی گزاری جائے، اور دیگر مذاہب یا مقامی لوگوں سے تعلقاتِ کار کی کیا حدود ہیں؟ یہاں کے سیاسی عمل میں کیسے شرکت کی جائے؟ ان ممالک کی افواج میں شمولیت وغیرہ
یہ اس نوعیت کے بنیادی مسائل ہیں جن کے متعلق عام لوگ، علما، مفکرین اور دانش ور، خواتین اور حضرات، بحث و مباحثے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کچھ علما اور مفکرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو بحیثیت اقلیت، اپنے قواعدوضوابط خود وضع کرلینے چاہییں۔ اس کے برعکس مغرب میں موجود بعض قابلِ ذکر علما اور مفکرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ان ممالک میں خود کو اقلیت سمجھنے کا خیال ترک کردینا چاہیے، کیونکہ اسلام کا پیغام، آفاقی ہے۔ اس لیے اگر مسلمان خود کو اقلیت سمجھتے رہیں گے تو وہ نفسیاتی طور پر ہمیشہ ایک ایسی حالت میں گرفتار رہیںگے، جہاں وہ بحیثیت مسلمان ایک تابع مہمل اور دبی دبی کیفیت کا شکار رہیںگے، اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے، اور یوں اکثریت سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ بلاشبہہ مسلمان عددی لحاظ سے اقلیت میں ہیں، لیکن انھیں چاہیے کہ وہ اپنے وجود اور اپنے عمل سے معاشرے کے لیے ایک تعمیری حصہ ثابت ہوں۔ وہاں پر ان کا یہی کردار دعوتِ اسلام کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو۔
جو مسلمان، ان غیرمسلم معاشروں میں بحیثیت اقلیت زندگی گزار رہے ہیں، ان کے متعلق نظریاتی اور فکری سطح پر ایک نیا ماحول اور فضا تشکیل پارہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہاں پر مسلم اہلِ علم دارالحرب اور دارالاسلام پر بحث کے بجاے دارالصلح (ہم آہنگی کی سرزمین)، دارالامن (امن کی زمین)، دارالعہد (معاہدے کے تحت سکونت کی زمین) اور دارالدعوہ (وہ سرزمین جہاں تبلیغ کی جاسکے) جیسے نئے تصورات اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی شناخت اور پہچان کے بارے میں مختلف آرا پیش کی جارہی ہیں، مثلاً مسلمانوں کو امریکی مسلمان کہنا چاہیے یا مسلم امریکی کے نام سے پکارنا چاہیے۔
اس تہذیبی منظرنامے کی دوسری خصوصیت ’مسجد کا کردار‘ ہے۔ اکثر مسلم ممالک کی مساجد، نمازِ پنجگانہ کی ادایگی اور قرآن مجید کی تعلیم کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ بعض مسلم ممالک میں تو مساجد سرکاری یا ریاستی اوقاف کے زیرانتظام ہیں، بعض ممالک میں مساجد سیاسی نوعیت اختیار کرگئی ہیں اور انھیں غیرجمہوری حکومتوں، عوام کی محرومیوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کرنے کے مراکز کی حیثیت بھی حاصل ہے۔
بہرحال، مغرب، خاص طور پر امریکا میں، مسجد ایک اسلامی مرکز کی حیثیت سے ایک نیا کردار اختیار کر رہی ہے۔ ممکنہ طور پر جگہ اور سماجی تقاریب کے لیے جگہوں (venues) کی کمی کے باعث، مسجد، جملہ اسلامی تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بنتی جارہی ہے۔ان تقاریب میں نمازِ پنجگانہ ،مذہبی و دینی تعلیم، جداگانہ طور پر مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کے باہم تبادلۂ خیال، میل جول اور نکاح کی تقاریب وغیرہ شامل ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز کے ساتھ باسکٹ بال کھیلنے کے میدان، تفریحی مقامات اور نوجوانوں کے لیے عمارت کے اندر کھیلوں کے لیے جگہیں مخصوص ہیں۔ بعض اوقات ایک بڑی مسجد کے احاطے میں بنیادی طور پر ورزشی کھیلوں کے لیے ایک بڑا کمرہ اور ایک ریستوران واقع ہوتا ہے، تاکہ نوجوانوں کو صحت بخش سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے، جب کہ نماز کی ادایگی کے لیے مخصوص بڑا کمرہ، تعمیر کردہ عمارت کے ایک ذیلی حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ مزیدبرآں کھیلوں کے لیے مخصوص بڑا کمرہ (جمنیزیم) نمازِ پنجگانہ، نمازِ جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں مساجد، سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال ہورہی ہیں۔ گرجاگھروں کے طالب علم یا پادری اکثر نمازِ جمعہ کے دوران میں مساجد کا دورہ کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی مقامی غیرمسلم رہنمائوں، مثلاً سیاست دانوں، پولیس انسپکٹروں یا مقامی تعلیمی بورڈ کے انتظامی عہدے داروں کو اپنے ہاں مسجد میں مدعو کرتے ہیں۔ پھر نمازِ جمعہ کے بعد عام طور پر تین قسم کے اعلانات ہوتے ہیں، مثلاً گاڑی غلط طور پر کھڑی کرنے اور گاڑی کھڑی کرنے کے آداب کے متعلق، خواتین، مردوں اور نوجوانوں کے آیندہ اجلاس کے متعلق، اور کانگرس کے کسی رکن، کسی متوقع رکن یا ناظم شہر کے متعلق جو مسلمانوں سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے۔
بڑے اسلامی مراکز میں سماجی سرگرمیوں کے لیے معقول اور اچھی طعام گاہیں موجود ہیں۔ مسلمان عام طور پر انھیں شادی، منگنی یا سالگرہ کی تقریبات کے لیے کرایے پر دے دیتے ہیں۔ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسجد جو مرکز اسلامی کا ایک حصہ ہوتی ہے نوجوانوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کے لیے گہرے اطمینان، سکون اور تشفی کا باعث ہو۔ نیوجرسی کی ایک مسجدمیں ۳کروڑ ڈالر کی لاگت سے پانچ سالہ توسیعی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بزرگ شہریوں کے لیے ۳۰ گھر بھی تعمیر کیے جائیں گے، تاکہ بڑی عمر کے بے شمار افراد کو اسلامی مراکز اور مساجد کی سرگرمیوں میں شامل کیا جاسکے۔
’خواتین کی سماجی سرگرمیاں، اس اسلامی تہذیبی تحرک کی ایک اور خصوصیت ہے۔ اگر برعظیم پاک و ہند میں کچھ دینی عقائد کے ساتھ کچھ سماجی روایات پر نظر ڈالیں، کہ جو خواتین کو عید کی نماز یا نمازِ جمعہ میں شرکت سے منع کرتی ہیں، لیکن مغرب میں اس امر کا تصور ہی محال ہے کہ ان نمازوں میں خواتین شریک نہ ہوں۔ کچھ مساجد میں خواتین، اپنے خاندان کے مردوں کے ساتھ نمازِ فجر بھی ادا کرتی ہیں۔ مزیدبرآں، خواتین ان اسلامی مراکز کا لازمی حصہ بنتی جارہی ہیں۔ وہ مسجدیں، جہاں ممکنہ طور پر جگہ کی کمی ہے، وہاں پر دینی احکامات کے باعث خواتین شرکت نہیں کرسکتیں، تاہم عموماً خواتین کے لیے جگہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
امریکا میں موجود مساجد میں سے تقریباً ۷۰ فی صد مساجد میں ہفتہ وار اسکول [یعنی سیٹرڈے اسکول اور سنڈے اسکول] قائم ہیں، جہاں زیادہ تر تعلیمی سرگرمیوں کا انتظام و انصرام خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ ان سرگرمیوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ علومِ اسلامیہ میں خواتین اسکالروں کو ایک مقام حاصل ہو رہا ہے۔ شمالی امریکا کی ’اسلامی سوسائٹی‘ نے ۲۰۰۶ء میں ایک خاتون ڈاکٹر انگٹ میسن (Inget Mason) کو اپنا صدر منتخب کیا جو کینیڈا کی شہری تھیں اور مسلمان ہوگئی ہیں اور یہ خاتون اس وقت ہرٹ فورڈ سیمنیری (Seminary) میں اسلامیات کی پروفیسر ہیں۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران، شمالی امریکا کی ایک اور اسلامی تنظیم ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ (MSA) کی قومی سطح کی صدر، ایک خاتون تھیں۔
مغرب میں مسلمان نوجوانوں کو بھی بہت سے مسائل و معاملات درپیش ہیں۔ ان ممالک میں مسلمان تارکینِ وطن کی پہلی نسل، مختلف تہذیبوں میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ نوجوان، دوسری نسل یا مقامی مسلمانوں کے بجاے اپنے تہذیبی علاقوں میں رائج اسلامی روایات، عقائد اور عادات کو اپنانا چاہتے ہیں۔ بعض اوقات، مقامی مسلمان، افریقی نژاد امریکی یا سفیدفام امریکی، عربی لباس یا جنوبی ایشیائی لباس شلوارقمیص پہنتے ہیں۔ ان کے اس طرزعمل کے باعث اس بحث کا آغاز ہوا ہے کہ اسلامی روایتی لباس کون سا ہے؟ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک اسلامی تہذیبی علاقے میں استعمال ہونے والا لباس دوسرے تہذیبی علاقے میں اسلامی تصورنہ کیا جاتا ہو۔ مغرب میں مقیم تقریباً ہر اسلامی گھر، اجتماع اور رہایش گاہوں میں یہ بحث معمول کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ دوسری نسل کے لیے سب سے بنیادی مسئلہ ستر ڈھانپنے (لباس کے شرعی ضابطے) سے تعلق رکھتا ہے، کہ ایسا لباس نہ پہنا جائے جس سے پوشیدہ اعضا کی نمایش ہو۔ اس لیے انھیں چاہیے کہ وہ ڈھیلی ڈھالی پتلون اور قمیص پہنیں، جو انھیں اسلامی تشخص مہیا کرے، جس طرح قمیص شلوار یا عربی عبا کو اسلامی لباس سمجھا جاتا ہے۔
یہ مسئلہ اور معاملہ بھی زیربحث رہتا ہے کہ مسلمان بچے بچیوں کے رشتے کیسے ڈھونڈے جائیں؟ آیا والدین کو اس کے متعلق فیصلہ کرنا چاہیے یا بچوں کو یہ ذمہ داری خود سنبھال لینی چاہیے، یا والدین اور بچوں کو باہمی رضامندی سے یہ معاملات طے کرنے چاہییں؟ نیز یہ بھی کہ شادی کرنے والے بچوں کو شادی/منگنی سے پہلے ایک دوسرے سے بات چیت یا سماجی میل جول رکھنا چاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے؟
مزیدبرآں مغرب میں مسلمان نوجوانوں کا ایک اور مسئلہ، ان کی شناخت اور پہچان کے متعلق ہے۔ مثال کے طور پر پہلی نسل کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ وہ پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ہیں، تاہم شناخت اور پہچان کا مسئلہ ان نوجوانوں کے لیے مبہم صورت اختیار کرجاتا ہے جو مغرب میں پیدا ہوتے یا شعور کی آنکھ کھولتے ہیں۔ کچھ مغربی لوگ اسلام کو ایک خارجی مظہر تصور کرتے ہیں اور اسلام کے متعلق ہر چیز کو اجنبی اور خارجی سمجھتے ہیں، تاہم دوسری نسل اور مقامی مسلمانوں کے لیے اسلام بالکل ایک فطری دین ہے۔
نائن الیون کے بعد ایک نئی صورت حال یہ ہے کہ سماجی خدمت کے شعبے میں مسلمانوں کی شرکت بڑھتی جارہی ہے۔ مسلمان، طبی اور غذائی مراکز، غربا کے لیے خوراک کی فراہمی اور مستحقین کے لیے دیگر سرگرمیوں اور خدمات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں غیرمسلم افراد، پہلے ہی کافی کچھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ امریکا میں موجود یہودیوں کے زیرانتظام، مقامی طور پر تقریباً ۶۰۰ سماجی خدمت کی تنظیمیں اور ادارے کام کررہے ہیں۔ مالی مدد و اعانت کے طور پر یہ ادارے اور تنظیمیں، مختلف سماجی سرگرمیوں اور خدمات کے لیے اپنے ہم مذہبوں، شہروں، ریاستوں اور حکومتوں سے تقریباً ۴ ارب ڈالر سالانہ حاصل کر رہے ہیں۔ کیتھولک مسیحیوں نے بھی دو بڑی سماجی تنظیمیں قائم کررکھی ہیں۔ انھیں سالانہ تقریباً ۷ارب ڈالر وصول ہوتے ہیں جن میں سے ۶۲ فی صد رقوم شہروں، ریاستوں اور امریکی وفاقی حکومت سے اکٹھی کی جاتی ہیں۔ مسلمان بھی اس طرز عمل کے متعلق سیکھ رہے ہیں۔
مساجد، سماجی سرگرمیوں کے لیے مرکزی کردار ادا کرر ہی ہیں۔ ماہِ رمضان میںافطار کی تقریبات مساجد میں منعقد ہوتی ہیں۔ مساجد کی انتظامیہ، افطاری تقریبات کو بڑے منظم انداز سے مشتہر کرتی ہے۔عام طور پر ایک وقت میں افطار کے وقت ایک ہزار سے پندرہ سو افراد موجود ہوتے ہیں۔ امریکا کے بہت سے شہروں میں، عیدالاضحی کے موقع پرمسلمان، غربا کے لیے قربانی کا گوشت اکٹھا کرتے ہیں، یا اسے غذائی مراکز کو بطور عطیہ دے دیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان اقدامات کو مشتہر کیا جاتا ہے۔
نائن الیون کے بعد مسلمان تارکینِ وطن کی پہلی نسل اپنے اپنے وطن واپس جانے کے لیے سوچ رہی تھی، لیکن واپسی کا یہ خواب اس وقت بکھر کر رہ گیا جب ان کی دوسری نسل نے کھل کر مغرب ہی کو اپنا وطن قرار دینے کا اظہار کیا۔ اس نسل کے لیے ، ان کے والدین کے سابق وطن، صدمہ دینے والے کسی تجربے سے زیادہ مقام نہیں رکھتے، جب کہ پہلی نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم تارکین میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ ان کا خالق ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنے علاقوں میں اسلام کی کیا خدمت سرانجام دی، اور انھوں نے اسلام کو دنیا کے سامنے کس طرح پیش کیا۔ اگرچہ مسلمانوں کو ذرائع ابلاغ، گرجاگھروں کی انتظامیہ اور مراکز دانش (think tanks) کی جانب سے اسلام کے خلاف سخت پروپیگنڈے کا سامنا ہے، تاہم اسلام کو غیرمسلموں کے سامنے پیش کرنے کے نئے اور بہتر مواقع بھی میسر آرہے ہیں۔ یوں مسلمان، ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے میں شامل ہورہے ہیں اور یہ صورت حال نائن الیون سے قبل ممکن نہ تھی۔ اب مقامی ریڈیو، سی این این، دیگر ٹی وی چینل، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، کرسچین سائنس مانٹیر اور دیگر اہم اخبارات میں مسلمانوں کی سرگرمیاں نمایاں طور پر جگہ پارہی ہیں۔
مغرب میں رہنے والے مسلمان تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال ان کے لیے کسی اذیت ناک مسئلے سے کم نہیں ہے۔ نائن الیون سے پہلے ’اسلام کیا ہے؟‘ کا جواب نہایت ہی سادہ تھا کہ ’’اسلام ایک عقیدہ اور دین ہے‘‘۔ اب صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، کیونکہ اب مسلمانوں سے، غیرمسلم بہت ہی سنجیدہ سوالات پوچھتے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب اور اپنے ملک کے معاملات میں اسلام کے کردار کے متعلق سنجیدہ جوابات کے طالب ہوتے ہیں۔
امریکا اور یورپ میں چرچ (مذہب) اور ریاست کی علیحدگی کا مسئلہ ایک مختلف مطلب اختیار کرچکا ہے۔ کچھ علما اور مفکرین کے نزدیک، امریکا میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی سے مراد کاروبار ریاست کو مذہب کی مداخلت سے محفوظ رکھنا ہے۔ مغرب میں موجود کچھ مسلمان علما اور مفکرین، اسلامی ریاست سے متعلق مباحث کا جواب دینے میں مصروف ہیں، مثلاً: اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کا کردار، مسلمانوںکا اپنا مذہب ترک کرکے دوسرا مذہب اختیار کرنے کا معاملہ، خواتین کا سماجی اور معاشی زندگی میں کردار اور تفریح کے مختلف ذرائع مثلاً موسیقی وغیرہ کا جواز۔
مختصر یہ کہ مغرب میں اسلام کے موضوع پر سنجیدہ، فکرانگیز گفتگو اور مثبت اور تعمیری بحث کا رجحان زور پکڑ رہا ہے جس میں مسلمان علما اور مفکرین فعال اور بصیرت افروز کردار ادا کر رہے ہیں، اور متعدد امور انھیں اجتہادی حل پیش کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
مغرب میں اپنا دائرۂ اثر بڑھاتی ہوئی اسلامی تہذیب کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ عام مسلمان، علما اور مفکرین اس موضوع کے بارے مسلسل مباحث میں مصروف ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوچکا ہے کہ ان مشکل حالات کا بہرصورت سامنا کرنا ہوگا۔ ان کا یہی رویہ اور طرزِعمل مختلف افراد، معاشروں اور اقوام کے لیے حقیقی اور سچی امید اور روشنی کا باعث ہے۔ جو افراد حوصلہ مندی اور جرأت سے مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ دنیا میں انقلاب برپا کردیتے ہیں، اور جو لوگ مشکل حالات کے سامنے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں، وہ مایوسی اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مغرب میں اس وقت مسلمانوں کو جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے، ان میں پہلے ’اسلام بحیثیت دین‘ اور ’اسلام بحیثیت تہذیب وثقافت‘ کا سوال اور دوسرے ’اسلام کی بحیثیت اقلیت موجودگی‘ شامل ہیں۔
پہلا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ درحقیقت ’اسلام بحیثیت دین‘ اور ’اسلام بحیثیت تہذیب و ثقافت‘ کے درمیان فرق، سنتِ رسولؐ پر بحث کے تناظر میں ہمیشہ بہت ہی نازک، حساس اور اہم نوعیت کا مسئلہ رہا ہے۔ جب مسلمان حضور نبی کریمؐ کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو پھر مسلمان اس بحث کا بھی سامنا کرتے ہیں کہ آپؐ کی سنت کا کون سا حصہ، خاص طور پر آپؐکی عادات، آپؐکے زمانے کے رسم و رواج اور روایات کا مظہر تھا؟ پھر ان آفاقی اور یکساں رویوں اور طرزہاے عمل کے برعکس، سنتِ رسولؐ کے تابع وہ کون سے پہلو ہیں کہ جن کی تقلید مسلمانوں کے لیے لازم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اقدار اور تہذیب، باہمی طور پر ایک ہی نوعیت کے حامل مظاہر ہیں۔ بہرحال جب اقدار، رسم و رواج اور روایات، ایک مخصوص تہذیب کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکتی ہیں، تو پھر گاہے گاہے ان میں امتیاز اور تفریق بھی اسی طرح لازمی ہے۔ ابتدائی تاریخ اسلام کے زمانے ہی سے ، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ارتقا اور ترقی، اور اسلام کی جغرافیائی حدود میں اضافہ، اور پھر مختلف تہذیبی معاملات نے مسلمانوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ مختلف تہذیبی مثالوں اور نمونوں کے تحت ادارہ جاتی ارتقا اور ترقی کے مسئلے کا سامنا کریں۔ مثال کے طور پر وہ یہ فیصلہ کریں کہ کن روایات و اقدار کو انھوں نے ترک کرنا ہے اور کون سی روایات و اقدار انھیں بطور ’عرف‘ اختیار کرنی چاہییں؟ کون سے ادارے ان کے لیے مفید ہیں، اور کون سے اداروں میں تبدیلی مقصود ہے اور کون سے ادارے قابلِ استرداد ہیں؟ مخصوص حالات میں مخصوص اقدار کے نفاذواطلاق پر مبنی ایک انتہائی تخلیقی عمل اور کوشش کے ذریعے مسلمانوں نے اسلامی قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط میں تنوع کے باعث ان علاقوں کے مختلف زمینی حقائق کا اظہار ہوتا ہے کہ جہاں جہاں یہ قواعد و ضوابط ارتقا پذیر ہوئے، مثلاً مدینہ، بغداد، دہلی، سمرقند، اسپین وغیرہ۔
امریکا اور یورپ میں رہنے والے مسلمان اسی مسئلے کا ایک مختلف طریقے کے ذریعے سامنا کرر ہے ہیں۔ خود ان مسلمانوں میں ممکنہ طور پر رسم و رواج، اقدار، اصولوں اور روایات میں اختلاف بہت کم ہے۔ اس تناظر میں، اسلام کی یہ ایک نمایاں خصوصیت رہی ہے کہ مختلف اختلافات کے باوجود اسلام کی متحدہ نوعیت قائم رہتی ہے، خواہ یہ اختلاف زمانے اور علاقے کی حیثیت سے کتنے ہی وسیع کیوں نہ ہوں۔ مزیدبرآں، اسلام اپنی اقدار اور تہذیبی معاملات کے درمیان تعلق قائم رکھتا ہے۔ اگرچہ اس تعلق کی نوعیت بہت ہی نازک ہے لیکن اس تہذیبی اظہار میں بظاہر اُونچ نیچ کا ہونا ناگزیر ہے۔
تاریخی طور پر اس تمام صورت حال کو ایران کے پس منظر میں بھی دیکھنا چاہیے، جو ظہوراسلام سے قبل ایک نہایت ترقی یافتہ تہذیب تھی، مگر تہذیبی، لسانی، تاریخی، جغرافیائی اور روایتی اختلافات اور تضادات کے باوجود ایران میں اسلام کی روشنی پھیلتی چلی گئی۔ لہٰذا، اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں اسلام کی کرنیں پھیلتی ہیں تو امریکی اسلام، یورپی اسلام، پاکستانی اسلام اور عربی یا ایرانی اسلام کا تصور ایک بے معنی مفروضہ ہے۔
مغرب میں اقلیت کی حیثیت سے مسلمانوں کی موجودگی بھی نہایت اہم مسئلہ ہے۔ ممکن ہے جغرافیائی لحاظ سے ’اقلیت‘ کا تصور حقیقت ہو، لیکن بحیثیت مجموعی، ’اقلیت‘ پر مبنی اندازِ فکر، غیرضروری بھی ہے اور سخت نقصان دہ بھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقلیتوں نے اپنے اپنے معاشروں میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انسانی تاریخ نے یہ مشاہدہ بارہا کیا ہے کہ اقلیتیں ارتقائی مراحل میں سے گزرتے ہوئے اکثریت میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ایک ایسی اقلیت، جو دینی اقدار، نظریے اور مقصد کی علَم بردار ہو، اسے اپنی کم تعداد کے باعث ’اقلیت‘ کا سا اندازِ فکر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ ان کے پاس ان کا اپنا ایک لائحہ عمل اور طریقۂ کار موجود ہے، جس کے تحت وہ ارتقائی منازل اور مراحل طے کرسکتے ہیں اور ہر ملک اور معاشرے میں اپنا اہم کردار انجام دے سکتے ہیں۔ عصرِحاضر کی یورپی تاریخ میں، اقلیتوں نے مختلف قسم کے تصورات، نظریات، نظامِ قومیت، انسانی حقوق اور جمہوریت کے ارتقا اور ترقی کے ضمن میں ایک مؤثر طبقے کا کردار اداکیا ہے۔ ان میں سے بعض اقلیتوں نے اپنے دفاع اور بقا کے لیے جدوجہد کی اور بعض اپنی اقدار اور اندازِفکر و نظریے کی پاس داری کے لیے کوشاں رہیں۔ اس طور، کسی قوم کی بحیثیت اقلیت موجودگی، کسی بھی طرح کا کوئی جرم، یا احساسِ محرومی کا مظہر نہیں ہونا چاہیے۔
مغرب میں مسلمانوں کی تیسری نسل کا ارتقا ایک ایسے اہم مسئلے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے جس کا تجزیہ ہونا ضروری ہے۔ جنوری ۲۰۰۷ء میں ایک مرکز دانش ’پالیسی ایکسچینج‘ نے برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی پہلی، دوسری اور تیسری نسل کے اندازِ فکر اور سوچ کے بارے ایک جائزہ پیش کیا۔ اس جائزے کے مطابق، تیسری نسل (۱۶ تا ۲۴ سال) کے ۷۴ فی صد افراد نے مسلمان خواتین کے نقاب یا حجاب اوڑھنے کے حق میں راے دی، جب کہ پہلی نسل (۵۵ سال یا زائد) کے ۲۸ فی صد افراد نے مخالفانہ راے کا اظہار کیا۔ جب برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ شریعت (اسلامی مذہبی قوانین) کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر تیسری نسل کے ۳۷ فی صد افراد نے اس کی تائید میں جواب دیا، جب کہ پہلی نسل کے ۱۹فی صد افراد نے شریعت کے تحت زندگی گزارنے کے نظریے کی حمایت نہیں کی۔
اس وقت تین مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق بطور خاص مغرب میں مقیم مسلمانوں کو سوچ بچار کرنی چاہیے اور ان کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ان میں سے پہلا مسئلہ، ریاست اور مذہب کے درمیان تعلق سے متعلق ہے۔ دو صدی قبل، امریکی آئین نے اس معاملے کو ریاست اور مذہب کے درمیان جداگانہ حیثیت دینے کی کوشش کی، مگر یہ مسئلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ آج بھی زندہ اور موجود ہے۔ ایک دینی نظام کا خاکہ تو ایک طرف رہا، خود خالص لادینی نظام کا نقشۂ کار بھی صفحۂ ہستی سے مٹتا جارہا ہے۔ ممکن ہے کہ لادینی نظام ۱۹ویں صدی کے روشن خیال نظام کے ساتھ موجود رہتا، جہاں زندگی دو خانوں: خودکفالت اور آزادروی میں تقسیم ہوچکی تھی، لیکن یہ نظریہ اور اندازِ فکر عہدِحاضر میں تقریباً ناممکن ہے۔ عصرِحاضر میں، حکمت عملی کی تیاری، تعلیم اور معاشرتی معاملات میں ریاست کا کردار لازمی اور ناگزیر ہے۔ اس لیے غیرجانب داری کا قطعی طور پر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلاشک و شبہہ، جو لوگ ابھی تک اس لکیر کو پیٹ رہے ہیں، وہ معاشرے اور ریاست کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے۔ لادینیت اور دینی نظام، دوانتہائیں ہیں جن کے درمیان طویل فاصلہ موجود ہے، جہاں بے شمار تضادات کے باوجود ہم آہنگیاں موجود ہوسکتی ہیں۔ بہرحال، مسلمان مفکرین، دانش وروں اور سیاست دانوں کے سامنے غوروفکر کا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کو کسی نہ کسی طرح حل کرنا ہوگا۔
دوسرا مسئلہ، ریاست، قوم اور اُمت کے درمیان تعلق کا ہے۔ عالم گیریت کے اس دور میں قومی ریاست کے خاتمے یا غیرمؤثر وجود کے تصورکے حوالے سے بہت سے مباحث اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اس لیے جب بھی اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت اور مسلمانوں کے متعلق مباحث کی ابتدا ہوتی ہے، تو اکثر لوگ دم توڑتی قوم پرستی کے تناظر میں اپنی راے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بہت ہی اہم پہلو عوام کی بیداری اور بنیادی سطح پر انقلاب ہے۔ ماضی میں عوام کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور نہ ان کی کہیں شنوائی تھی، مگر عالم گیریت کے اس عہد میں ایک طرف تو جابرانہ استبداد کا دور ہے، تو دوسری طرف عوام میں اپنے لیے کچھ حاصل کرنے کی خواہش پر مبنی ایک نئی لہر بھی ہے۔ یہ لہر ایک ارتقا پذیر عظیم ترین طاقت ہے۔ جو لوگ انسانی حقوق، انصاف، غربت کے خاتمے، استعماریت، ملوکیت اور سرمایہ داری جیسے چیلنجوں کا جواب دینے میں دل چسپی رکھتے ہیں، ان سب کا مفاد ایک اور مقصد یکساں ہے۔ عراق میں امریکی جارحیت کے خلاف مغرب میں ہونے والے احتجاج میں دائیں بائیں اور دیگر نظریات کے حامل تمام طبقوں نے شرکت کی۔ اس لیے اُمت کا تصور ایک عظیم رحمت وبرکت ہے اور عالم گیریت کے تصور کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ موجودہ بین الاقوامی پس منظر میں، بین المذاہب مکالمہ اور مذاکرات انتہائی اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان سب سے پہلا مکالمہ ۱۹۵۲ء میں لبنان میں منعقد ہوا۔ بعدازاں یہ عمل مختلف سطحوں پر جاری رہا۔ ان مباحث میں بہرحال اس چیز کا موقع ہوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کا جواب دیا جاسکے۔
آج پوری دنیا مسلمانوں کے لیے اشاعت دین کا میدان بھی ہے اور حصولِ علم و روزگار کا ذریعہ بھی۔ ان مقاصد کے لیے انھیں مختلف تہذیبوں اور مختلف مذاہب اورنظاموں کے زیراثر علاقوں میں جانا ہوگا۔ بعض جگہ وہ جبری طور پر بھیجے جائیں گے اور بعض ممالک میں وہ اپنے ارادے اور اپنے عزم سے جائیں گے۔ ان میں صورت جو بھی ہو، انھیں بہرحال وہاں خاصے مختلف طرزِحیات سے سابقہ پڑے گا۔ معاشی، سماجی، سیاسی، حکومتی، نفسیاتی اور فکری یا مذہبی دبائو سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ یہ سارے دبائو اور تجربات علمی چیلنج بھی پیش کریں گے اور عملی تقاضوں کا سوال بھی پیش کریں گے۔
اسلام دین فطرت ہے، تمام زمانوں اور تمام زمینوں کے لیے ابدی ہدایت ہے۔ اس بنیادی حقیقت کا تقاضا ہے کہ تھڑدلی، مایوسی اور پسپائی کے بجاے دین کی رہنمائی میں اور دین کے سایے میں راہیں تلاش کی جائیں۔ (بہ شکریہ Policy Perspectives ، اسلام آباد، جنوری- جون ۲۰۰۸ئ)
یہ تحریر ڈاکٹر زاہدبخاری، ڈائرکٹر امریکن مسلم اسٹڈیز پروگرام، جارج ٹائون یونی ورسٹی، واشنگٹن کی تقریر اور پروفیسرخورشیداحمد کے صدارتی کلمات پر مبنی ہے، جو ۱۷ اگست ۲۰۰۷ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں پیش کیے گئے۔ مرتب: محمد سلیم ظفر اور مترجم: ریاض محمود انجم۔
۱- سقیفہ بنی ساعدہ میں کچھ اصحاب الراے نے بحث و مباحثے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرلی اور اگلے دن مسجد نبویؐ میںمہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر بیعت کرکے اس کی توثیق کردی۔ اس پر یہ دعویٰ کرنا کہ ’’یہ بیعت بلاشبہہ آج کی اصطلاح میں انتخابی راے اور ووٹ کی حیثیت رکھتی تھی‘‘ درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا باشندگانِ ملک میں ایک ایک فرد کو ووٹ دینے اور کثرتِ راے سے باصلاحیت، خداترس اور دینی فہم و بصیرت رکھنے والوں کے انتخاب کا حق حاصل ہے، اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ کچھ اصحاب الراے اور اعلیٰ درجے کی صلاحیت رکھنے والوں کا حضرت ابوبکرؓ کے دستِ مبارک سے بیعت کرلینا اور مقامی انصار و مہاجرین کی طرف سے اس کی توثیق اور شے ہے اور مملکت کے تمام باشندوں کو راے دہی کا حق دے کر ان کے ذریعے معاشرے کے بہترین افراد کا انتخاب کرانا بالکل دوسری شے۔
۲- یہ کہنا کہ ’’پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں بلکہ اسلامی جمہوریت ہے‘‘ آئین میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی جگہ عملاً یحییٰ خان اور پرویز مشرف جیسے حکمران ہی مسنداقتدار پر چلے آرہے ہیں۔
۳- قراردادمقاصد [مارچ ۱۹۴۹ئ] کی منظوری یقینا ایک عظیم کارنامہ ہے لیکن یہ غیرمؤثر ہے۔
۴- اسی جمہوریت کے تحت بعض اوقات ہمیں کمیونزم اور سیکولرزم کے علَم برداروں کو ووٹ دینے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟
بعض امور کا اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرما دیا ہے۔ ان میں کسی دوسری راے کا اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ امور اجتہادی نہیں ہوتے، ان کا فیصلہ عوام و خواص نہیں کرسکتے۔ ہمارا کام اللہ کے اس فیصلے کو سمجھنا اور پھر عمل درآمد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو حق دیا ہے تو ہم اسے ساقط نہیں کرسکتے۔ میری تحریر ’ووٹ کی شرعی حیثیت‘ کو پڑھنے کے بعد بعض وضاحت طلب امور اس لیے سامنے آئے کہ دین کے بعض بنیادی امور کو پیشِنظر نہیں رکھا گیا۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النسائ۴:۶۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کو زندگی کے تمام شعبوں: عقائد، عبادات، معاشرت، معیشت، تمدن، سیاست میں مطاع بناکر بھیجا گیا ہے۔ قرآن وسنت میں زندگی کے تمام شعبوں کے لیے احکام دیے گئے ہیں۔ ان شعبوں میںسے کسی ایک شعبے اور حکم کا انکار کفر ہے۔ جب کسی بات کا انکار کفر ہے تو اس کا معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامل مطاع ہیں اور آپؐ کے دیے ہوئے نظام کے ہر کلیے اور ہر جزئیے کو قبول کرنا لازم ہے۔ دین کے کسی بھی ثابت شدہ حکم کو ایمان و اطاعت سے مستثنیٰ کردیا جائے تو اس سے استثنا کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ پس ہر وہ اطاعت جو آپؐ کی اطاعت سے ٹکرائے، اور ہر وہ حکم جو آپؐ کے حکم سے ٹکرائے اسے رد کردینا ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی انسانوں کا انتخاب نہیں، اس کے لیے ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا منتخب اور نامزد کردہ ہوتا ہے۔یہ بات دین میں قطعیت سے ثابت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کی طرف سے نامزد اور منتخب حکمران اُمتِ مسلمہ ہے۔ گو دنیا میں کفار و مشرکین، یہود و ہنود نے اپنی حکومتیںقائم کی ہوئی ہیں، لیکن قرآن و سنت اور شریعت کی رو سے حکمرانی ان کا حق نہیں، بلکہ اُمت مسلمہ کا حق ہے۔ اُمت مسلمہ کی حکمرانی اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ اس لیے اُمت کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے بھی مختلف قوموں اور اُمتوں سے ووٹ اور راے لینے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ بھی قرآن وسنت سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اور اس پر اُمت کا اجماع ہے۔ یہ بھی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کے اس حق حکمرانی میں، اس کے تمام افراد شامل ہیں۔ اس حق سے کسی کو محروم کرنا دراصل حق دار کو اس کے حق سے محروم کر کے اس پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔ نبی کریمؐ نے اس کی پیشن گوئی بھی فرمائی کہ پہلا دور نبوت کا ہے، دوسرا دور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا، تیسرا دور ملوکیت کا، پھر چیرپھاڑ کرنے والی بادشاہت کا، پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور ہوگا۔ خلافت اور ملوکیت میں فرق یہ ہے کہ خلافت میں انتخاب ہوتا ہے، جب کہ ملوکیت میں باپ کے بعد بیٹا حکمران ہوتا ہے۔ (دیکھیے خلافت و ملوکیت، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ، تفسیر آیت وامرھم شوریٰ بینھم)
اُمت مسلمہ کے گناہ گار، نیک اور نیکی میں سبقت کرنے والے تمام طبقات اور تمام افراد حق حکمرانی رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی قرآن و سنت میں قطعیت سے ثابت ہے۔ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ج فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ جوَ مِنْھُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِـاِذْنِ اللّٰہِط(فاطر۳۵:۳۲) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا اپنے ان بندوں کو جن کو ہم نے چن لیا۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں، یعنی گناہ گار ہیں (اس کتاب اور دین کے منکر نہیں لیکن اس پر پوری طرح عمل نہ کر کے اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں)، دوسرے وہ ہیں جو اس پر عمل کرنے میں میانہ رو ہیں، تیسرے وہ ہیں جو اس کتاب پر عمل کرنے میں اللہ کے اذن سے آگے آگے ہیں۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُـؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط(اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ تمام آیات اُمت مسلمہ کے حق حکمرانی کو ثابت کررہی ہیں۔ جب اُمت مسلمہ اور اس کے ہر فرد کے لیے حق حکمرانی ثابت ہے تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُمت پر فرض ہے کہ اپنی حکومت تشکیل دے۔ ہمارے فقہا نے قرآن و سنت سے یہی سمجھا ہے درمختار میں ہے: ونصبہ من اھم الواجبات ولذ اقدم علی دفن صاحب المعجزات ’’اُمت کی طرف سے خلیفہ اور امام کا تقرر اہم فریضوں میں سے ایک اہم فرض ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین پر اسے مقدم رکھا گیا‘‘۔
اُمت مسلمہ اپنی حکومت کی تشکیل کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کرے گی؟ اس کا عقل اور شریعت دونوں یہ جواب دیتے ہیں کہ اس کے تمام افراد باہمی مشورے سے اپنی حکومت تشکیل دیں گے۔ ہر فرد اپنا حقِحکمرانی شریعت کی رو سے حکمرانی کی اہلیت رکھنے والے شخص کو سپرد کرے گا۔ یہ طریقۂ کار ووٹ کہلاتا ہے۔ ووٹ کی ایک حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹر جسے ووٹ دیتا ہے اسے اپنا وکیل اور نمایندہ بناتا ہے۔ ووٹ کی ایک حیثیت شہادت کی ہے۔ ووٹر گواہی دیتا ہے کہ جس کو میں نے ووٹ دیا ہے، وہ شرعاً نمایندگی اور حکمرانی کا حق رکھتا ہے، اور ووٹ کی تیسری حیثیت سفارش کی ہے کہ جسے ووٹ دیا جائے اسے حکمران بنایا جائے۔ مفتی محمد شفیعؒ نے فرمایا ہے کہ ’’نبیؐ کے بعد خلیفہ کا تقرر انتخاب ملت سے ہوگا‘‘ اور ووٹ کی مذکورہ تین حیثیتوں پر انھوں نے فتویٰ دیا۔ (معارف القرآن، آیت خلافت ، البقرہ ۲:۳۰)
اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر نمایندوں کی تعداد مقرر کر دی جاتی ہے اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ اتنے نمایندے منتخب کردیں۔ (یہ امر اجتہادی ہے اسی میں کمی بیشی ہوسکتی ہے) پھر نمایندے میدان میں آجاتے ہیں۔ ان میں سے مطلوبہ تعداد کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ اسمبلیاں وجود میں آجاتی ہیں، اسمبلیاں وفاقی اور صوبائی اور ضلعی حکومتیں منتخب کرتی ہیں۔ عقل بھی اسی طریقۂ کار کا تقاضا کرتی ہے اور شریعت کا بھی یہی حکم ہے۔ سورۂ شوریٰ میں ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشوریٰ ۴۲:۳۸)، اور ان کی حکومت ان کے باہمی مشورے سے بنتی ہے۔ اس دور میں باہمی مشورے کی ایک شکل ووٹ ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں مہاجرین و انصار کی قیادت مسلمہ قیادت تھی۔ عوام ان کے فیصلے کو قبول کرتے تھے، اس پر راضی ہوتے تھے اور ان فیصلوں کی توثیق کرتے تھے۔ بیعت عامہ کے ذریعے اعتماد کا ووٹ دیتے تھے لیکن اب عوام براہِ راست ووٹ کے حق کے بغیر راضی نہیں ہوتے۔ آپ کے نزدیک اگر یہ طریق کار صحیح نہیں ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری بیان کردہ تین مسلّمہ باتوں میں سے کسی ایک مسلّمہ بات سے انکار کردیں، لیکن یہ تینوں باتیں قرآن و سنت اور اجماع اُمت سے ثابت ہیں۔ ان کا آپ انکار نہیں کرسکتے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت مسلمہ کے تمام افراد کے بجاے کسی طبقے کو حکومت کی تشکیل کے لیے نامزد کردیا گیا تھاتو اس کی نشان دہی کی جائے کہ وہ کون سا ہے؟
جب یہ تمام اصول قرآن و سنت سے ثابت ہیں، فقہاے اسلام نے ان پر فتویٰ دے دیاہے تو آپ کا یہ سوال خود بخود ختم ہوجاتا ہے کہ کیا باشندگانِ ملک میں ایک ایک فرد کو ووٹ دینے اور کثرت راے سے باصلاحیت، خداترس اور دینی فہم و بصیرت رکھنے والوں کو منتخب کرنے کا حق حاصل ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ جہاں تک سقیفہ بنی ساعدہ کی اس بیعت کا تعلق ہے جس میں مقامی انصار و مہاجرین نے توثیق کر دی اور ملک بھر کے اہلِ ایمان اس پر راضی ہوگئے تو یہ ایک طرح سے ووٹ ہی ہے کیونکہ ووٹ کا معنی اپنی رضامندی دینا ہے۔ اس فیصلے کی توثیق کر کے تمام مہاجرین اور انصار نے اپنی رضامندی دے دی تو یہ اس وقت ووٹنگ کی ایک شکل تھی۔ اس لیے قریب اور دُور دراز سے آنے والوں نے بیعت کر کے اپنی رضامندی ظاہر کردی۔ حضرت علی ؓ نے جب تک بیعت نہ کی اور اپنی رضامندی ظاہر نہ کی تو اس وقت تک یہی سمجھا گیا کہ وہ راضی نہیں، لیکن حضرت علیؓ نے ناراضی کی وجہ یہ بیان کی کہ انھیں شوریٰ میں شریکِ نہیں کیا گیا تو انھیں یہ کہہ کر مطمئن کیا گیا کہ ہنگامی حالت کی وجہ سے انھیں شریک مشورہ نہیں کیا جاسکا۔ جب وہ مطمئن ہوگئے تو انھوں نے بھی بیعت کرلی۔ اس بیعت کو تمام مسلمانوں کی طرف سے رضامندی ملنا، تاریخی حقیقت ہے اور نبی کریمؐ کی پیشن گوئی بھی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں چاہت کے باوجود حضرت ابوبکرؓ کو اس لیے نامزد نہیں کرتا کہ اللہ کی تقدیر بھی ابوبکرؓ کے حق میں ہے اور اہلِ ایمان بھی ابوبکرؓ ہی کو منتخب کریں گے۔ یَابَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْن اِلَّا اَبَابَکْرٍ ’’اللہ اور ایمان والے ابوبکر کے سوا کسی کی خلافت کا انکار کردیں گے‘‘۔ یہاں والمؤمنون کی صراحت ہے جس کا مصداق جملہ اہلِ ایمان تھے۔ آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انتخاب کی کوئی مخصوص شکل مطلوب نہیں۔ اصل مطلوب اہلِ ایمان کا مشورہ اور تمام اہلِ ایمان کی رضامندی ہے اور وہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہوسکتی ہو، اور حاصل کی جانی چاہیے۔
خلافت راشدہ میں اہلِ ایمان کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے مختلف شکلیںاختیار کی گئیں۔ اُس وقت جو طریقۂ کار اختیار کیاگیا ہے اسے اس وقت اُمت نے قبول کرلیا تھا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ مہاجرین و انصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلامی حکومت قائم کرنے اور چلانے میں تابع کی حیثیت سے شریک تھے۔ نبی کریمؐ اور قرآن نے یہ قیادت تیار کی تھی۔ یہ قیادت جو فیصلہ کرتی تھی اسے مسلمان اپنا مینڈیٹ دے دیتے تھے۔ آج جو ووٹ کی شکل رائج ہے اس کا بھی گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو وہ بھی سقیفہ بنی ساعدہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ سقیفہ بنی ساعدہ نے حضرت ابوبکرؓ کو منتخب کیا تھا، پھر مسلمانوں نے بیعت کر کے اس کی توثیق کردی۔ آج کل پارٹیاں کسی کو نامزد کرتی ہیں تو عوام پارٹی کے نمایندے کو ووٹ دے کر اس پارٹی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہیں۔ یورپ میں تو ملوکیت تھی، ان میں جمہوریت کا تصور اسلام سے آیا۔ ووٹ کا طریقہ یورپ نے ملوکیت کو ختم کر کے شروع کیا۔
رہی یہ بات کہ آج تک ایک فرد اور ایک ووٹ کے ذریعے ایسے لوگ آگے نہیں آئے جو اسلامی حکومت چلانے کے اہل ہوں، قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان کی رو سے نیک اور صالح لوگوں کو منتخب کرنے کا جو راستہ دکھلایا گیا، اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تو اس میں راستے کا قصور نہیں بلکہ عوام کی تربیت کرنے، عوام کو دعوت دینے اور انھیں برے بھلے کی تمیز سکھانے والوں کا ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں کہ اس راستے کے خلاف، جو ایک محفوظ اور درست راستہ ہے، شور مچایا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو وسیع پیمانے پر تعلیم دی جائے اور باشعور بنایا جائے۔ عوام کا باشعور ہونا کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیادی ضرورت اور ناگزیر تقاضا ہے۔ نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ، غرض راے عامہ کی ہمواری کے جتنے بھی ممکنہ ذرائع ہوں ، ان کو اس کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ یقینا باشعور عوام ہی ایک بہتر فیصلہ کرپائیں گے۔ عوام کو ان کا فرض بھی یاد دلایا جائے، اور ان کو بتایا جائے کہ اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کرو گے تو دنیا میں اس کا پھل اسلامی حکومت کی شکل میں اور آخرت میں جنت کی شکل میں ملے گا۔ اگر صحیح لوگوں کو منتخب نہ کرو گے تو دنیا اور آخرت دونوں میںرسوائی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کے طور پر لوگوں کو آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی حکومت قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ خود بخود اسلامی حکومت اس لیے قائم نہیں کرتے کہ لوگوں کو اجروثواب اور جزا و سزا ملے۔ اگر لوگ اسلامی حکومت نہیں چاہتے اور قائم نہیں کرتے تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماریں، یا مسلح جہاد کے ذریعے تبدیلی لائیں، یا کسی فوجی جرنیل کے ہاتھ پر بیعت کریں، یا جبراًشریعت کا نفاذ کریں۔ یہ اسلام کی منشا کے خلاف ہے۔
شریعت کو نظرانداز کرکے جن لوگوں نے ووٹ دیا، انھوں نے صحیح فیصلہ نہیں کیا۔ ان کا فیصلہ معتبر ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ شریعت کو نظرانداز کر کے ووٹ دیں گے، وہ گناہ گار ہوں گے، ان کا فیصلہ شریعت کی رو سے معتبر نہیں ہے۔ قرارداد مقاصد نے ان کو ووٹ کا غیرمشروط حق نہیں دیا، بلکہ اسے قرآن و سنت کی حدود کا پابند بنایا ہے۔ ہم پبلک کے فیصلے کو عملاً ردکرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے ہم حکومت تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اسے اسلامی، شرعی اور جائز حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اس طرح کی حکومت ہے جس طرح دنیا میں دوسری حکومتیںقائم ہیں، جو ایک زمینی حقیقت کی حیثیت سے مسلّم ہیں لیکن وہ شریعت کی رو سے ناجائز ہیں۔
ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پاکستان میں برسرِاقتدار رہنے والی حکومتیں شرعاً معیاری حکومتیں تھیں۔ اگر آئین پاکستان کی دفعات ۶۲/۶۳ پر عمل کیا جائے تو موجودہ پارٹیاں اور ان کے سربراہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود منتخب نہ ہوسکیں گے ،اور ان کا انتخاب کالعدم قرار پائے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جمہوریت کی وجہ سے بسااوقات ہمیں اسلام مخالف نظریات کی حامل جماعتوں کا ساتھ بھی دینا پڑتا ہے تو یہ ایک عملی مسئلہ ہے اور ترجیحات کی بنیاد پر اس کا تعین کیا جاتا ہے۔ اسلام میں بھی حالات کے پیش نظر بڑی برائی کے مقابلے میں کم تر برائی کو ترجیح دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھایا تھا کہ اگر کسی چوراہے میں بڑا سا پتھر آجائے اور رکاوٹ پیدا ہوجائے تو پہلی ضرورت اس رکاوٹ کو دُور کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی ٹریفک چل سکتی ہے۔ اگر آمریت کے خاتمے کے لیے جمہوری قوتوں کا ساتھ دینا پڑے تو یہ ایسی ہی مجبوری ہے۔ آزادیِ اظہار ہوگی تو دعوت عام ہوسکے گی اور عوام میں حقیقی شعور بیدار کیا جاسکے گا۔ لہٰذا اس قسم کا اشتراک مشروط ہوتا ہے اور یہ بہ امر مجبوری ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اصولی ہدف حاصل کرنے کے لیے یہ ایک عملی پہلو ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمؐ کے اسوہ میں بھی ہمارے لیے عملی نمونہ موجود ہے۔
خیال رہے کہ جو لوگ انتخاب کے قائل نہیں، انتخاب کے مقابلے میں نظامِ خلافت کی بات کرتے ہیں، وہ یہ نہیں بتلا سکتے کہ نظامِ خلافت کیسے قائم ہوگا، اور اسے کون قائم کرے گا؟ نظامِ خلافت قائم کرنا مسلمانوں کے کسی خاص گروہ پر فرض ہے توو ہ کون سا ہے، اور اگر سب مسلمانوں پر فرض ہے تو وہ اپنے فرض کو کیسے ادا کریں گے؟
اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام شورائی نوعیت کا ہے۔ حکومت سازی عوام کی راے اور تائید سے ہوگی۔ جبر یا آمریت کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ البتہ اسلام نے حکومت سازی کی کسی مخصوص شکل پر اصرار نہیں کیا۔ ماضی میں اگر خلافت کا نظام رائج تھا تو آج انسانی دانش نے بہت سے تجربات سے گزرنے کے بعد عوامی تائید کے ساتھ حکومت سازی کے لیے جمہوریت کا نظام اخذ کیا ہے جو اسلام کی روح کے قریب ہے۔ جمہوریت کو قرآن وسنت کے تابع قرار دینے سے اس کی لادینیت کا سدباب بھی کردیا گیا ہے۔ تبدیلیِ حکومت کے لیے یہ ایک عملی راستہ ہے۔ اگر عوام میں حقیقی معنوں میں شعور بیدار کردیا جائے جوخود اسلام کا تقاضا بھی ہے تو جمہوری نظام کے ذریعے ایک اسلامی اور فلاحی حکومت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
ایک بات جس کا خاص طور پر خیال رکھا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ جس مسئلے پر علما اور اہلِ علم کی طرف سے قرآن و سنت کی روشنی میں واضح موقف سامنے آجائے تو اس کو شرح صدر سے قبول کرلینا چاہیے ، اور اگر کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہوں اور واضح طور پر حرام بھی نہ ہو تو ایک راے پر اصرار کرنا اور دوسری راے کو قطعی غلط قرار دینا شرعاً جائز نہیں۔ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ ہی صائب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انتہاپسندی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن باز مرحوم نابینا تھے، ایک روز ان سے کسی نے پوچھا: اگر اللہ تعالیٰ آپ کو آنکھیں عطا کردے تو سب سے پہلے کیا چیز دیکھنا چاہیں گے؟ انھوں نے بلا توقف جواب دیا: میں سب سے پہلے اُونٹ دیکھنا چاہوں گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی آسمانوں، پہاڑوں اور زمین پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے اُونٹ کا ذکر پہلے فرمایا ہے اور کہا: اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ اِِلَی الْاِِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ o (الغاشیہ ۸۸:۱۷)، یعنی کیا یہ لوگ اُونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنایا گیا ہے؟ اُردو محاورے میں تو ’اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘ کہہ کر طنز و استہزا کا اظہار کردیا جاتا ہے اور بس، لیکن غور کریں تو ہر مخلوق کی طرح اُونٹ بھی پروردگار کی صناعی کا حیرت انگیز مظہر ہے۔
حال ہی میں کویت سے شائع شدہ بچوں کا علمی انسائی کلوپیڈیا (حصہ اول) دیکھنے کو ملا۔ اگرچہ اس کے مقدمے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ۶ سے ۱۲ سال کے بچوں کے لیے لکھا گیا ہے لیکن اس میں ایسی ایسی معلومات کا خزانہ ہے کہ بڑے بھی ان سے لاعلم ہیں۔ اس میںایک مفصل مضمون اُونٹ کے متعلق بھی ہے۔ اگرچہ اس میں جمع شدہ اکثر معلومات متفرق طور پر نظر سے گزری تھیں، لیکن اس جامع انداز سے پہلی بار سامنے آئیں۔ آئیے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
اپنے ڈیل ڈول اور حجم کے اعتبار سے تو اُونٹ توجہ کا باعث بنتا ہی ہے، لیکن پروردگار نے اسے اپنی بہت سے نشانیوں کا مجموعہ بنادیا ہے۔ اللہ نے اسے ایسی بڑی بڑی آنکھیں عطا کی ہیں کہ دن ہو یا رات، وہ ان سے دور تک بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ اس کی لمبی لمبی پلکیں آنکھوں کو صحرائی ریت سے بچاتی ہیں، لیکن اصل حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس کے پپوٹوں کا آدھا حصہ شفاف جھلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ صحراؤں میں جب آندھی تیز اور ریت زیادہ ہوتی ہے تو وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے، لیکن شفاف جھلی سے باآسانی آر پار دیکھتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ یہی معاملہ ناک اور کانوں کا بھی ہے۔ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے باوجود کانوں کا حجم نسبتاً چھوٹا اور مقام سر کے تقریباً پچھلی جانب ہے۔ بالوں میں گھرے ہوئے چھوٹے کانوں کے پنکھ بآسانی پیچھے کو تہہ ہوجاتے ہیں، آندھی خواہ ریت کے طوفان میں بدل جائے، اس طرح تہہ کرلینے سے ریت کانوں میں نہیں جاسکتی اور نہ اسے کوئی اذیت پہنچا سکتی ہے۔ ناک کی صورت بھی یہ ہے کہ نتھنے منہ سے اُوپر اُٹھے ہوئے نہیں بلکہ صرف دو کٹاؤں کی طرح ہیں، جن کے کناروں کی ساخت ہونٹوں کی طرح ہے۔ ریت سے بچنے کے لیے انھیں بھی نرمی سے بند کرلیا جاتا ہے، اس طرح سانس بھی آتی جاتی رہتی ہے اور کوئی تکلیف دہ چیز بھی ناک میں نہیں جاتی۔
لمبی لمبی ٹانگیں جہاں مسافت جلد طے کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، وہیں اُونٹ کے باقی سارے جسم کو صحراؤں کی دہکتی ریت کی گرمی سے دور رکھتی ہیں۔ اس کے پاؤں کی ساخت بھی خالق کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اُونٹ کا پاؤں دو حصوں میں بٹا ہوتا ہے لیکن مضبوط جلد کے ذریعے ایک دوسرے سے ملا ہوا بھی۔ پاؤں کی ہڈی کے نیچے چربی کا ایک آرام دہ تکیہ بنا ہوتا ہے، اس کے نیچے اعصاب میں گندھے ہوئے نرم گوشت کی ایک تہہ ہوتی ہے، جو پاؤں زمین پر پڑتے ہوئے پھیل جاتی ہے، پھر اس کے نیچے موٹی کھال ہوتی ہے جو پورے پاؤں کو ایک مضبوط چوڑے جوتے کی شکل دے دیتی ہے۔ پاؤں کی یہ ساخت جہاں پاؤں کو جھلستی ریت کی گرمی سے بچاتی ہے، وہیں انھیں ریت میں دھنسنے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اُونٹ چلتے ہوئے باری باری پہلے ایک طرف کی اگلی پچھلی دونوں ٹانگوں کو اکٹھے آگے بڑھاتا ہے اور پھر دوسری طرف کی، یوں جیسے کشتی کے چپو چلائے جاتے ہیں___ تیزی سے باری باری چلتے اُونٹ کے چپو اسے دیکھنے میں بھی صحرائی سفینہ ثابت کرتے ہیں۔ بیٹھتے ہوئے جہاں اس کی ٹانگوں کے جوڑوں پر سخت موٹی کھال گرمی سے بچاتی ہے وہیں اس کے پیٹ کے نیچے بنا سخت کھال کا تکیہ، ایک پلیٹ فارم کا کام دیتا ہے۔ گرمی جتنی بھی ہو اسے پار نہیں کرسکتی۔ سخت کھال کا یہی تکیہ اس کے لیے ایک خطرناک ہتھیار کاکام بھی دیتا ہے۔ اگر کبھی کسی کو اپنے انتقام و ناراضی کا نشانہ بنانا ہو تو اُونٹ اسے اپنے جبڑے کے ساتھ دبوچتے ہوئے اپنے کھردرے پیٹ کے ساتھ روند دیتا ہے۔ پتھر کی مانند اس سخت تکیے کو عربی میں کَلْکَلْ کہتے ہیں۔
اُونٹ کو اپنی خوراک میں نمک کی کافی مقدار درکار ہوتی ہے، اس لیے اس کی پسندیدہ خوراک نمکین، کانٹے دار اور خشک جھاڑیاں ہوتی ہیں۔ صحراؤں میں دستیاب بھی زیادہ تر یہی ہوتی ہیں۔ اُونٹ کے جبڑوں اور ہونٹوں کی ساخت، اس کی ان ضروریات کے عین مطابق ہے۔ منہ کا دھانہ بڑا اور اُوپر والا ہونٹ درمیان سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر زیادہ کانٹے دار جھاڑی ہو تو اُونٹ اسے منہ کے درمیان لاکر منہ کھول کر چبانا شروع کردیتا ہے یہاں تک کہ جب کانٹے چبائے جائیں تو پھر انھیں جھاڑی سے توڑ کر تھوڑا سا مزید چبا کر نگل لیتا ہے۔
اُونٹ کی سب سے حیرت انگیز خوبی اس کا شدید پیاس کو برداشت کرلینا اور پانی کی زیادہ سے زیادہ مقدار اپنے جسم میں محفوظ کرلینا ہے۔ موسم سرما میں اُونٹ پانی دستیاب ہونے کے باوجود بھی زیادہ پانی نہیں پیتا اور ایک ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پانی پیے بغیر طے کرلیتا ہے۔ گرمی کچھ بڑھتی ہے تو ہفتے دو ہفتے بعد ایک بار پانی پی لینے پر اکتفا کرلیتا ہے لیکن جب گرمی بہت زیادہ ہو تو اسے ہر پانچ روز بعد تقریباً ۲۵ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی مشقت درپیش نہ ہو اور تازہ چارہ وغیرہ مل رہا ہو تو پانی کی ضرورت کم ہوجاتی ہے۔ انتہائی گرمی میں بھی پانی دستیاب نہ ہو تو اُونٹ اپنے جسم میں موجود پانی ہی پر گزارا کرتا ہے۔ بعض اوقات معاملہ یہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنا ایک تہائی وزن اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش میں گھلا دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں کمزوری واقع نہیں ہوتی۔ جب پیاسے اُونٹ کو پانی مل جائے تو وہ انتہائی مختصر وقت میں پانی کی بڑی مقدار پی لیتا ہے جس سے جلد ہی اس کا وزن دوبارہ بحال ہوجاتا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک پیاسے اُونٹ نے ۳ منٹ میں ۲۰۰ لیٹر پانی پی لیا۔ انسان کا معاملہ کس قدر مختلف ہے پہلے تو وہ پانی کے بغیر اس آخری حد تک صبر ہی نہیں کرسکتا، پھر اگر وہ بہت پیاسا بھی ہو اور اسے اپنی ضرورت کا پانی دستیاب ہوجائے جو یقینا تھوڑا سا ہی ہوتا ہے، تب بھی وہ اسے تیزی سے نہیں پی سکتا وگرنہ راحت کے بجاے اذیت کا شکار ہوجائے۔
اُونٹ کے طویل صبرو برداشت کا اصل راز کیا ہے۔ انسائی کلوپیڈیا بتاتا ہے: اُونٹ اپنے جسم میں پانی محفوظ کرنے اور کیے رکھنے کی عجیب صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی جسم سے پانی کے اخراج کے چار ذرائع ہیں بول ، براز، پسینہ اور سانس میں پائی جانے والی نمی، خاص طور پر جب وہ کسی مشقت کی وجہ سے ہانپتے ہوئے منہ کھول کرسانس لے۔ اُونٹ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جتنی بھی مشقت کرلے، نہ تو وہ ہانپتا ہے اور نہ منہ سے سانس لیتا ہے۔ پھر اس کے سانس میں نمی ہرگز شامل نہیں ہوتی۔ سانس لیتے ہوئے اگر اس کے نتھنوں کے سامنے آئینہ رکھا جائے تو اس پر نمی کی کوئی تہہ نہیں آتی۔ اس کے گردے پانی کی حفاظت کا خاص طور پر اہتمام کرتے ہوئے بہت تھوڑی مقدار میں بول بناتے ہیں اور اس کے جسم سے پانی کا اخراج کم سے کم ہوتا ہے۔
اس ضمن میں انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اُونٹ کو انتہائی مشقت کے باوجود بھی پسینہ نہ ہونے کے برابر آتا ہے۔ پسینے کے دیگر فوائد کے علاوہ ایک اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کے درجۂ حرارت کو کنٹرول کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی جسم کا درجۂ حرارت ۳۷درجے سنٹی گریڈ رہتا ہے، اگر گرمی یا مشقت کے باعث اندرونی حرارت زیادہ ہوجائے تو اعصابی نظام جسم کو پسینے کا حکم دیتا ہے، پسینہ آنے سے جسم کا درجۂ حرارت متوازن ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، ردعمل کے طور پر پسینہ بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا اور پانی کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اُونٹ کے لیے خالق نے یہ سہولت رکھ دی کہ اس کا جسم کسی ایک درجۂ حرارت کا پابند نہیں بلکہ ۳۴ سے لے کر ۴۱ تک کا درجۂ حرارت اس کے لیے معمول کا درجۂ حرارت ہے، یعنی ۴۱درجے تک اس کا جسم اسے پسینے کا حکم نہیں دیتا اور ۴۱ سنٹی گریڈ سے اُوپر کا درجۂ حرارت پورے دوران سال میں نسبتاً کم رہتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور ربانی اہتمام کیا گیا ہے کہ اُونٹ کی کھال اور اس کے جسم کے درمیان چربی کی کوئی تہہ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے وہ جیسی ہی سایے میں آتاہے یا جیسے ہی صحرا کی ٹھنڈی شام شروع ہوتی ہے جسم اور بیرونی ماحول میں مطابقت ہونا شروع ہوجاتی ہے اور بہت جلد جسم کا درجۂ حرارت کم ہوجاتا ہے۔ اس عمل کو مزید آسان بنانے کے لیے موسم گرما میں اُونٹ کی اُون جھڑ جاتی ہے۔
گرمی اور مشقت کے باعث ہرجسم میں پانی اور خوراک کی کمی تو بہرحال واقع ہونا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اُونٹ کے لیے خالق نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ پانی کے انتہائی محدود اخراج میں بھی کہ اس کے خون میں سے پانی کا اخراج نہ ہو۔ خون میں پانی کی مقدار کم ہونے سے وہ گاڑھا ہونے لگتا ہے، جس سے دورانِ خون میں خلل واقع ہوجاتا ہے اور بالآخر موت واقع ہوجاتی ہے۔ کئی کئی دن تک خوراک کی حاجت نہ ہونے کاایک اور اہم سبب یہ ہے کہ اُونٹ معمول کے دنوں میں خوراک کا کافی حصہ کوہان کی چربی کی صورت میں محفوظ کرلیتا ہے۔ طویل صحرائی سفر کے دوران یہ کوہان جسم کی غذائی حاجت پورا کرنے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ سکڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تفصیلات پڑھتے ہوئے مجھے افریقی ملک مالی کے تاریخی دار الحکومت ٹمبکٹو میں ملنے والا وہ صحرائی بدو یاد آگیاجو کہنے لگا: میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میرے پاس ایک اُونٹنی ہو تو میں اس کی مدد سے کسی اور چیز کا محتاج ہوئے بغیر ہزاروں کلومیٹر میں پھیلے ہوئے صحراے اعظم کو عبور کرسکتا ہوں۔
اُونٹ ہی نہیں، خالق کائنات کی ہر مخلوق کے بارے میں سائنس دان آئے روز نت نئے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی غیر مسلم سائنس دان ایسے ہیں کہ انھیں جب مخلوق سے متعلق مختلف قرآنی و نبویؐ ارشادات معلوم ہوئے تو ان کی ایک بڑی تعداد نے اپنے خالق کو پہچان لیا۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پر ایمان لے آئے، اور کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں کہ ان پر یہ فرمانِ الٰہی صادق آتا ہے:
وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ o وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ o (یوسف ۱۲: ۱۰۵- ۱۰۶) زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔
میری پیدایش ۷ نومبر ۱۹۵۴ء کو ایک ملہوترا خاندان میں ہوئی۔ ہمارا خاندان اصل میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے ہندستان آیا تھا۔ سرگودھا ہمارا آبائی وطن تھا۔ تبادلہ آبادی میں سخت مراحل سے گزرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان میں بڑا تعصب پایا جاتا ہے۔ ہمارے خاندان کے اکثر لوگ (میرے علاوہ) آر ایس ایس اور بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرے چچازاد بھائی بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر ہیں۔
دہلی میں قرول باغ میں ہمارا گھر ہے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد میرا داخلہ اسٹیفن کالج میں ہوگیا۔ وہیں سے میں نے بی ایس سی اور پھر کیمسٹری میں ایم ایس سی کی۔ مجھے ہمیشہ تعلیم کی لائن پسند تھی۔ میرے والد تو زندگی بھر پیشۂ تدریس سے وابستہ رہے، اس کے بعد میری سلیکشن اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے ہوگئی۔ وہاں پر مجھے ملازمت بھی مل گئی۔ چھے سالہ ملازمت کے دوران، میں نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ بھی مکمل کرلیا۔ والدین کی بیماری اور ان کے اصرار پر مجھے ہندستان آنا پڑا۔ مجھے انگلینڈ میں دنیوی زندگی کے لیے بڑے اچھے مواقع تھے، مگر شاید اللہ کو مجھے ہدایت سے نوازنا تھا، اس لیے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہندستان آگیا۔ دو سال بعد والدین کی بیماری کی وجہ سے میں تقریباً اسپتالوں ہی میں رہا۔ آخری درجے کے علاج کی کوششوں کے باوجود موت نے اپنی سچائی منوائی اور ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۹ء کو میرے والد کا انتقال ہوگیا اور ان کے ۹ دن بعد میری ماں بھی مجھے چھوڑ کر ان کے پاس چلی گئی۔
آج کل نئے معاشرے میں بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے کا عام رواج ہے، اورہمارے یہاں تو شاید یورپ سے بھی برا حال ہے۔ بوڑھے والدین کے لیے بس دنیا ہی دوزخ ہے۔ میرے اللہ کا شکر ہے کہ مجھے والدین سے حددرجہ محبت تھی اور مجھے ان کی خدمت کا موقع بھی ملا۔ آخری بیماری میں تو لوگ میرا حال دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے والدین کے انتقال کا مجھے بہت صدمہ ہوا اور میں نے سنیاس لینے کا فیصلہ کرلیا۔ میں دو سال اسی خیال سے ہری دوار اور رشی کیش کے آشرموں میں رہا۔ ایک کے بعد ایک آشرم بدلتا رہے اور شانتی اور سکون کی تلاش کرتا رہا، مگر مجھے یہ افسوس ہوا کہ یہاں پر دھرم کے نام پر دھندے کا بازار ہے۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جو دنیا کی بے چینی سے تنگ آکر اور سب کچھ چھوڑ کر شانتی اور سکون کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، ہر آدمی اور ہر گروہ کا کچھ نشانہ ہے اور وہ نشانہ صرف لوگوں کو اپنا معتقد بنانا اور ان سے اپنا اُلو سیدھا کرنا ہے۔ مجھے خیال ہواکہ یہاں سے اچھا یہ ہے کہ میں سماجی دنیا میں جاکر اپنی صلاحیت سے لوگوں کو فائدہ پہنچائوں۔ دو سال کی اس مدت میں مجھے مذہب سے بڑی مایوسی ہوئی، میں دہلی آگیا۔
ایک روز ایک سیمی نارمیں شریک ہوا،جو ’’ہندستانی سماج کی تعلیمی پس ماندگی اور اس کا حل‘‘ کے عنوان سے وزارتِ فلاح و بہبود انسانی کے زیراہتمام منعقد کیا جا رہا تھا، جہاں پر جناب سوامی کلیان دیوجی مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ میرے ایک دوست نے ان سے میرا تعارف کروایا، اور تعلیم کے میدان میں کچھ خدمت کرنے کے میرے عزائم سے انھیں آگاہ کیا۔ سوامی جی اور ان کے ٹرسٹ کی تعلیمی خدمات کا بھی انھوں نے مجھ سے تعارف کرایا۔ اگلے روز صبح کو پنڈراہ پارک میں ایک وزیر کی کوٹھی پر ہماری ملاقات طے ہوگئی اور دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد میں نے سوامی جی اور ان کے ٹرسٹ سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کے ساتھ جڑ کر میں ان کی ذاتی زندگی اور اصول پسندی سے بہت متاثر ہوا۔ مگر ٹرسٹ میں ان کے کارندوں کی آپس کی سیاست میرے لیے وہاں بھی گھٹن کا باعث بنی رہی، اس کے علاوہ جب میں تنہائی میں بیٹھ کر ان سے مذہب اور معبود کے بارے میں بات کرتا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ اتنے بڑے گرو ہونے کے باوجود وہ جیسے کسی سچ کی تلاش میں ابھی غیرمطمئن اور پیاسے ہیں۔ جب بھی ان سے معبود اور مذہب کے بارے میں بات ہوتی، تو مجھے اس بات کا احساس اور زیادہ ہوجاتا۔ اس خیال سے کہ مجھے ان کے کام میں انتشار کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، میں نے وہ ٹرسٹ چھوڑ دیا اور ۹۸ میں دلی پبلک اسکول سے وابستہ ہوگیا۔ پہلے میں ایک برانچ میں پرنسپل رہا، پھر اس کے بعد مجھے ایڈوائزر کی پوسٹ پر اصرار کر کے مقرر کیا گیا۔ اس دوران اللہ کی رحمت نے مجھ پر ترس کھایا اور میرے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ پیش آیا اور مجھے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب نے کچھ روز کے لیے عرب ممالک میں جانے کا مشورہ دیا۔ میں تین سال کے معاہدے کے تحت مسقط چلا گیا، وہاں سے میں اپنا معاہدہ الحمدللہ عزت اور خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کر کے آیا ہوں، اور اگلے ہفتے واپس جا رہا ہوں۔
سچی بات یہ ہے کہ مجھے اسلام کی طرف کسی مسلمان یا کسی انسان نے دعوت نہیں دی، بلکہ اسلام نے مجھے خود دعوت دی۔ ہوا یہ کہ میں دلی پبلک اسکول کی ایک برانچ کے قیام کے لیے احمدآباد گیا ہوا تھا۔ ایک ہفتے کے قیام کے بعد احمد آباد میل سے واپس لوٹ رہا تھا۔ گاڑی سات گھنٹے لیٹ تھی۔ دوپہر کے شاید ڈیڑھ دو بج رہے ہوں گے۔ میں گاڑی سے اُترا تو میں نے دیکھا کہ قلی اکٹھے ہوکر ایک طرف کو جارہے ہیں۔ مجھے غریبوں اور مزدوروں کے حقوق سے ہمیشہ دل چسپی رہی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید کوئی مظاہرہ کرنے جارہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ہدایت بلا رہی تھی، ورنہ آج بھی میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ دس بیس قلی آنے والی گاڑی پر اس طرح جاتے ہی ہیں، مگر اس وقت میرے خیال میں آیا کہ میں ان کے مظاہرے میں ان کی رہنمائی کروں، اس لیے میں قلیوں کے ساتھ چلا۔ میں نے دیکھا کہ انھوں نے پلیٹ فارم پر ایک جگہ سے لوٹے اٹھائے، پانی بھرا اور پلیٹ فارم پر ہاتھ، منہ، پائوں دھونے لگے۔ مجھے دوپہر کو سب لوگوں کے اس طرح لوٹے اُٹھانے اور منہ ہاتھ دھونے سے حیرت ہوئی اور خیال ہوا کہ دیکھنا چاہیے کہ دوپہر کو ہاتھ منہ دھو کر یہ کیا کرتے ہیں؟ خوب اچھی طرح مسواک وغیرہ کر کے انھوں نے رسیاں باندھ کر عارضی سی جگہ بنائی ہوئی تھی۔ وہاںچٹائیاں بچھائیں اور لائن میں کھڑے ہوگئے۔ ایک آدمی آگے کھڑا ہوا، باقی سب بالکل سیدھی صف بنا کر کھڑے ہوگئے اور اس طرح صف کو سیدھا کیا کہ ایک انچ کوئی آگے پیچھے ہوتا تو برابر والا اس کو ٹھیک کھڑا ہونے کو کہتا۔ ایک کے اللہ اکبر کہنے سے سب ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے، اب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ وزن اٹھانے والی قلی قوم کو میںجماعت پوری ہونے تک دیکھتا رہا۔
مجھے خیال ہواکہ ایسی جاہل قوم میں ایسا نظام اور ڈسپلن جس مذہب نے پیدا کیا، مجھے ضرور اس کو پڑھنا چاہیے۔ میں اس جذبے سے اُردو بازار پہنچا۔ میرے علم میں تھا کہ وہ بازار اُردو اور اسلامی کتابوں کا ہے۔ ایک کتب خانے پر گیا توانھوں نے مجھے کتب خانہ انجمنِ ترقیِ اُردو پر جانے کا مشورہ دیا، وہاں پہنچا تو انھوں نے مجھے مولانا محمدمنظورنعمانی کی کتاب اسلام کیا ہے؟ کا انگریزی ترجمہ What is Islam اور سید سلیمان ندوی کی کتاب خطباتِ مدراس کا انگریزی ترجمہ The Prophet Muhammadپڑھنے کا مشورہ دیا، میں خرید کر لے آیا۔ مجھے ان دونوں کتابوں نے اسلام سے بالکل قریب کردیا، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان دونوں کتابوں نے مجھے ایک حد تک مسلمان بنا دیا تو شاید یہ بات بھی صحیح ہو۔
اس کے بعد مجھے خیال ہواکہ مجھے اسلام کو اس کی اصل سے پڑھنا چاہیے لہٰذا قرآن پاک کے ہندی اور انگریزی ترجمے اُردو بازار سے میں لے آیا۔ قرآن پاک کو پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگا کہ اسلام میری کھوئی ہوئی دولت ہے، اور جیسے جیسے میں قرآن پڑھتا گیا میرے اندر کی اندھیری دنیا جگمگانے لگی، اور مجھے ایسا لگا کہ میں فطرتاً مسلمان ہی پیدا کیا گیا ہوں۔ جنت دوزخ کے حالات پڑھ کر مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھے فیصلے میں جلدی کرنا چاہیے۔ اگر اسلام اور ایمان کے بغیر میری موت آگئی تو میرے لیے ہلاکت ہے۔ میں نے اس کے لیے تلاش شروع کی۔ میں امام جامع مسجد امام بخاری کے پاس گیا، مگر انھوں نے میرے ساتھ بے رُخی کا معاملہ کیا۔ میرے مالک کا مجھ پر کرم تھا کہ میرے لیے ازخود اسلام نے اپنا دروازہ کھولا۔ کوئی مسلمان اس کا ذریعہ نہیں بنا تھا۔
اب میرے لیے قرآنی اسلام اور مسلمانوں کے اسلام میں فرق کرنا مشکل نہیں تھا۔ اگر میں مسلمانوں کے اسلام سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف آتا تو امام صاحب کے پاس حاضری ہی میرے لیے رکاوٹ بننے کے لیے کافی تھی، مگر میں نے تلاش جاری رکھی۔ میں جماعت اسلامی کے دفتر بھی گیا۔ وہ میرا تعارف سن کر شاید شک میں پڑ گئے، اور میرے بڑے بھائی جو وزیر ہیں ان کی رشتے داری ان کے جھجک کا باعث ہوئی۔ میں چھے ماہ میں شاید ۵۰کے قریب لوگوں کے پاس گیا کہ کوئی مجھے مسلمان کرلے، مگر نجانے کیوں مجھے کوئی کلمہ نہ پڑھوا سکا۔
اس دوران میرا مطالعہ جاری رہا اور مجھے روز بروز یہ خوف اور فکر بڑھتا گیا کہ کہیں میں اس حال میں مر نہ جائوں۔ بار بار میں تنہائی میں اپنے مالک سے فریاد کرتا: میرے مالک! آپ ہی مجھے مسلمان کرلیجیے، یہ چھے ماہ مجھ پر بہت سخت گزرے اور حددرجہ شکستگی مجھ پر طاری رہی۔ میری بے چینی بڑھتی گئی۔مجھے کریا کرم میں شریک ہونا پڑا۔ میںنے مسلمان ہوکر پہلی بار اپنی بہن کو جلتے دیکھا تو میں بیان نہیں کرسکتا کہ مجھ پر کیا گزری۔ میرے والدین کے بعد میری بڑی بہن اس آگ کے واسطے سے دوزخ کی آگ کی طرف چلی گئی، اس کے بعد عمر کے لحاظ سے میرا نمبر تھا۔ میری ہمت ٹوٹنے لگی۔ ساری رات مجھے بے چینی میں نیند نہیں آئی، اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ بڑی آہ و زاری سے دعا کرتا رہا، میرے مالک! مجھے ایمان کے بغیر موت نہ آئے۔
اگلی صبح کو مجھے خیال آیا کہ کتب خانہ انجمنِ ترقیِ اُردو والوں سے مشورہ کرنا چاہیے، شاید وہ کچھ راہ نکالیں۔ ان کے پاس گیا اور اپنی پوری کہانی سنائی۔ انھوں نے کہا: آپ فوراً پھلت چلے جائیں اور مولوی کلیم صدیقی صاحب سے ملیں۔ انھوں نے پھلت کا پتا بتایا۔میں فوراً کتب خانے سے ۲۴ مئی ۲۰۰۱ء کو تقریباً گیارہ بجے پھلت پہنچا۔ مولوی کلیم صاحب کسی سفر کے لیے نکل رہے تھے، گاڑی تیار تھی۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ کھڑے کھڑے میں نے ان سے چڑچڑے پن سے کہا: میں مسلمان ہونے آیا ہوں، اگر آپ کرسکتے ہیں تو بتائیں، ورنہ جواب دیں۔ مولوی صاحب شاید اس جملے سے میری پوری داستان سمجھ گئے۔ انھوں نے کہا: اگر آپ کھڑے کھڑے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو کھڑے کھڑے پڑھ لیں اور اگر کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا چاہتے ہیں تو بیٹھ کر پڑھ لیں۔ میں بیٹھ گیا۔ انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام میرے نام کی نسبت سے سعید رکھا۔ مولوی صاحب نے مجھے دلی مبارک باد دی اور گلے لگایا، پانی منگوایا اور کہنے لگے: اگر آپ برا نہ مانیں تو اپنا تعارف کرا دیں اوریہ بتائیں کہ آپ کو اسلام کی دعوت کس نے دی ہے؟
میں نے تعارف کرایا اور بتایا کہ مجھے اسلام نے خود دعوت دی ہے۔ آپ سائنس دان ہیں، مذہب اسلام کو پڑھ کر آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے، آپ نے اچھی طرح سمجھا ہوگا کہ آپ نے اس کو مان لیا، دل کی گہرائی سے تسلیم کرلیا اور باپ دادا کی بت پرستی اور شرک کے چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تو آپ اللہ کے نزدیک مسلمان ہوگئے۔ میں نے جو کلمہ آپ کو پڑھوایا، محض آپ کی تسلی اور آپ جیسے سچے اور گناہوں سے پاک مسلمان کے ساتھ کلمہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے پڑھوایا ہے، ورنہ مسلمان تو آپ ۶ ماہ پہلے ہی ہوگئے تھے۔ انھوں نے میرا اس طرح حوصلہ بڑھایا کہ میرے جگہ جگہ دھکے کھانے کے زخموں کا علاج ہوگیا اور اب میں ان لوگوں کے بجاے جو کلمہ پڑھوانے سے کتراتے ہیں، اپنی حماقت پر خود ہی ہنسا۔
مولوی صاحب کے یہاں پُرتکلف ناشتہ ہوا۔ انھوں نے اپنے سفر کو ایک گھنٹہ مؤخر کیااور جن لوگوں نے مجھے کلمہ پڑھوانے سے جھجک محسوس کی تھی، حالات کا تقاضا بتاکر ان کی صفائی پیش کرتے رہے اور مجھے اس پر آمادہ کرتے رہے کہ مسلمانوں کا اسلام پیاسی اوردکھیاری انسانیت کے قولِ حق کے راستے میں رکاوٹ و حجاب ہے۔ ایسے میں اب زیادہ ضرورت ہے کہ قرآنی اسلام کو سمجھنے اور ماننے والے آپ جیسے قرآنی مسلمان، اسلام کا اپنے قول اور عمل سے تعارف کرائیں بلکہ دردمندی سے دعوت دیں اور چلتے چلتے مجھ سے وعدہ بلکہ عہد لیا کہ دنیا کی اس کمی کے لیے میں کام کروں گا۔ مولوی صاحب نے اصرار کیا کہ میں کھانا کھاکر جائوں، مگر خواہش کے باوجود میں نے ان کے سفر کی وجہ سے ان سے اجازت لی اور خوشی خوشی واپس لوٹا۔
میں اپنی خوشی کی کیفیت بتا نہیں سکتا۔مجھے ایسا لگا کہ جیسے آج ہی میں پیدا ہوا ہوں۔ میں راستے بھرسوچتا رہا کہ اگر پوری دنیا کو ایک ملک بناکر مجھے اس دنیا کا بادشاہ بنا دیا جاتا تو شاید میرے لیے اتنی خوشی کی بات نہ ہوتی، اس لیے کہ میں آج اپنے مالک کو گویا راضی کرکے لوٹا تھا۔
دہلی واپس لوٹا تو میں نے اپنی بیوی کو صاف صاف بتا دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو بتایا اور میرے گھر میں کہرام مچ گیا۔ میرے بڑے بھائی نے جو وزارت کی کرسی پر تھے، بڑے لالچ دیے اور فیصلہ بدلنے پر زور دیا اور فیصلہ نہ بدلنے پر سخت وارننگ بھی دی۔ میں نے ان کو اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا۔ا نھوں نے مجھے پارٹی اور ملک کے دو بڑے ذمہ داروں بلکہ وقت کے سب سے بڑے ذمہ داروں سے ملوایا، جنھوں نے مجھے ملک کی وزارت کی آفر کی۔ میں نے وہاں بھی دوٹوک فیصلہ سنا دیا، اور جب وہ زور دیتے رہے اور مجھے چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے تو میں سوچنے کا کہہ کر جان چھڑا کر چلا آیا۔ ظاہر ہے کہ اس مبارک فیصلے کے خلاف کچھ تصور سے بھی کانپ جاتا ہوں۔
میں نے مولوی کلیم صدیقی صاحب کو ان ملاقاتوں کی اطلاع دی۔ انھوں نے ایک دو روز غوروفکر کے بعد یہ مشورہ دیا کہ میں دلی پبلک اسکول کو چھوڑ کر کچھ روز کے لیے سعودی عرب یا گلف کے کسی ملک میں جاکر رہوں، میں نے بھی اس راے کو بہتر سمجھا۔ انگلینڈ کے ایک اسکول میں انٹرنیٹ پر اپلائی کردیا اور نیٹ پر ہی انٹرویو ہوا اور ایک مہینے میں ہی مسقط تین سال کے لیے چلا گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا یہ وقت بہت اچھا گزرا۔ میں نے تین سال مسقط میں گزارے۔ صرف اور صرف دعوت کو مقصد بناکر کام کیا۔
عرب نوجوانوں کو میں نے زندگی کا مقصد سمجھ کر جینے کے لیے تیار کیا، اور اپنے ساتھیوں اور رفقا میں کام کیا۔ میرے کالج کے پرنسپل جو فرانس کے رہنے والے تھے، الحمدللہ مسلمان ہوئے اور انھوں نے پیرس میں جاکر ایک دعوتی ادارہ قائم کیا۔ ہمارے کالج کے چھے اساتذہ اور تین ملازموں نے اسلام قبول کیا، جن میں تین ہندستانی، تین امریکی اور تین لوگ لندن کے تھے، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے خاندان سمیت مسلمان ہوئے۔ تعداد تو زیادہ بڑی نہیں ہوئی، مگر اس بات پر میں اللہ کا حددرجہ شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ سب لوگ شعوری طور پر قرآنی مسلمان ہیں اور جس کالج میں رہا، وہاں پر ایسی دعوتی فضا بن گئی کہ ہفتہ وار پروگراموں میں میرا دعوتی لیکچر بڑے شوق سے سنا جاتا رہا۔ میرے کالج کے پچاسوں شاگردوں کی الحمدللہ ایسی ذہن سازی ہوگئی ہے کہ وہ ان شاء اللہ جب تک زندہ رہیں گے، دعوت کو مقصد بناکرجئیں گے۔ان میں سے اکثر برطانیہ اور مغربی ملکوں میں ہیں، دو جاپان اور دو اٹلی میں دعوتی کام کر رہے ہیں۔ اصل میں میرے ساتھ بھی مسئلہ تھا کہ میں نے اس وقت خود بھی پڑھنے کی کوشش کی۔ الحمدللہ قرآن شریف پڑھا اور اُردو بھی اب میری اچھی خاصی ہوگئی ہے۔
میری زندگی خود مسلمانوں کے لیے پیغام اور عبرت ہے۔ میری یہ بات یقینا بڑی کڑوی سچائی ہوگی کہ اگر مسلمان سچائی اور حق سے دیوالیہ انسانیت کو حق اور سچائی کا پیغام نہیں دے سکتے، تو کم از کم قرآنی اسلام اور دنیا کے درمیان رکاوٹ و حجاب نہ بنیں اور اسلام اور انسانیت کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ غیرمسلموں کو عام طور پر جن مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان میںسے اکثر قرآنی اسلام کے لیے حجاب ہیں۔
ملایشیا میں آزادی کے بعد انتخابات کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری و ساری ہے۔ بارھویں قومی انتخابات کا انعقاد ۸مارچ ۲۰۰۸ء کو مکمل ہوا۔ اِن انتخابات کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی تین جماعتوں کے اتحاد نے وفاقی ایوان کی ۲۲۲ میں سے ۸۱ نشستیں حاصل کرلی ہیں، جب کہ ۱۹۵۷ء سے برسرِاقتدار ’متحدہ مَلے قومی محاذ‘ ’امنو‘ (UMNO) دو تہائی نشستیں حاصل نہ کرسکا۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں اسے ’قومی محاذ‘ کے لیے بدترین نتائج تصور کیا جا رہا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تسلیم کیا ہے کہ سرکاری اہل کاروں کی بدعنوانی، نسلی اقلیتوں کے عدمِ اطمینا ن اور کئی اہم معاملات پر غیرواضح موقف کی وجہ سے برسرِاقتدار جماعت کو دو ٹوک اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ ان کی نشستوں کی تعداد ۱۳۷ ہے۔
ملایشیا کثیرنسلی معاشرہ ہے۔ یہاں مَلے نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد ۶۰ فی صد، چینی النسل باشندوں کی تعداد ۲۵ فی صد اور ہندی النسل شہریوں کی تعداد ۱۰ فی صد ہے، جب کہ بقیہ تعداد دیگر قوموں سے تعلق رکھتی ہے۔ ملایشیا میں جس قسم کی قومی یگانگت، معاشی استحکام اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اِس کی مثال کسی اور ملک میں ملنا مشکل ہے۔
’امنو‘ کے اقتدار کو دھچکا تین جماعتی اتحاد نے لگایا۔ ’پاس‘ (PAS) ملایشیا کی معروف اسلامی تحریک ہے۔ یہ ۱۹۵۶ء میں وجود میں آئی۔ اس کے سربراہ عبدالہادی آوانگ ہیں، جو سابقہ پارلیمان میں منتخب رُکن رہے۔ ’پاس‘ صوبہ کلنتان میں پانچویں بار حکومت بنائے گی، اس کے سربراہ عالم دین نِک عبدالعزیز ہیں۔ ’پاس‘ جمہوری عمل پارٹی اور عوامی انصاف پارٹی نے مل کر اتحاد قائم کیا۔ ملایشیا کی ۱۳ ریاستوں میں سے پانچ ریاستوں میں اب حزبِ اختلاف کی حکومت قائم ہوگی۔ اسلامی پارٹی کی ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں سات سیٹیں تھیں، اب یہ ۲۴ ہوچکی ہیں۔ عوامی انصاف پارٹی کی گذشتہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ تھی، اب ۳۱ ہوچکی ہیں، جب کہ جمہوری عمل پارٹی نے اس بار ۲۶ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اِن تینوں جماعتوں کو اکٹھا کرنے اور اکٹھا رکھنے میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا اہم کردار ہے جو ملایشیا کے وزیراعظم مہاتیرمحمد اور بعدازاں عبداللہ بداوی کے جبروناانصافی کا شکار رہے اور طویل عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔
اسلامی پارٹی ملایشیا ’پاس‘ کے امیدواروں نے انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عبداللہ بداوی کے اُن وعدوں کا بار بار تذکرہ کیا جو ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی کے بعد اُنھوں نے قوم سے کیے تھے۔ ان کا وعدہ تھا کہ قانون ساز ادارے اور سرکاری اداروں میں اہم تبدیلیاں لائی جائیں گی، تمام نسلی گروہوں سے انصاف کیا جائے گا، نجی شعبے کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے گا، عرصۂ دراز سے مالی بدعنوانی کے جو مقدمات تاحال فیصلہ طلب ہیں، اُن کا فیصلہ کیا جائے گا، اقتدار اور حکومت کا ناجائز استعمال نہ ہوگا، سرکاری معاملات اور تجارتی امور شفاف ہوں گے اور احتساب کیا جائے گا۔ بداوی کے اعلانات، اعلانات ہی رہے اور بدعنوانی کا گراف بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے اپنے قریبی عزیزوں اور وزرا کے بدعنوانی کے اسیکنڈل زبان زدعام ہوئے، مہنگائی سابقہ ریکارڈ توڑ گئی اور غیرملکی کمپنیوں نے سرمایہ نکالنا شروع کردیا لیکن کسی کو قرارواقعی سزا نہیں ملی۔
’پاس‘ نے یہ واضح کیا کہ لاتعداد ملیشیائی باشندے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ اشیاے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بداوی کی حکومت نے ایک ملیشیائی خلاباز کو روسی اسپیس کرافٹ میں کروڑوں ڈالر کے خرچ پر بطور سیاح بھیجا اور اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ایک ایسا ریکارڈ توڑ دیا جائے جوکہ پہلے ہی ملیشیا کے پاس تھا۔ اس کے مقابلے میں کلنتان اور ترنگانو کی غریب ریاستوں کو بہت سے وسائل اور حکومتی گرانٹ صرف اس لیے نہیں دی گئی کہ ان صوبوں کے عوام اسلامی پارٹی ملایشیا کے امیدواروں کو کامیاب کراتے ہیں (کلنتان میں حالیہ انتخابات میں ریاست کی ۵۷ میں سے ۴۰ نشستیں ’پاس‘ نے حاصل کیں)۔ بداوی بھی ’روشن خیال اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
پاس نے راے دہندگان پر واضح کردیا کہ بداوی کی حکومت اہم ثقافتی، سیاسی، اداراتی اور ساختیاتی (structural) مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔ چند مندروں کو مسمار کرنے، گرجاگھروں کی تعمیر کی اجازت نہ دینے اور کئی مقامات سے ’انجیل‘ اٹھائے جانے سے اُن شہریوں کے حقوق مجروح ہوئے ہیں جو اسی سرزمین کے بیٹے ہیں اور اُن کا جینا مرنا اِسی سرزمین سے وابستہ ہے۔ کئی ایسے افسوس ناک واقعات ہوئے کہ جہاں وزیراعظم بداوی اور اُن کی کابینہ کے لوگوں کو آگے بڑھ کر غلط اقدام کی مذمت کرنا چاہیے تھی مگر اُنھوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی، اور وزیراعظم یہ سمجھتے رہے کہ ’’میں تمام ملیشیائی باشندوں کا وزیراعظم ہوں‘‘ کا اعلان کافی ہوگا۔ حالیہ انتخابات میں اُنھوں نے مَلے راے دہندگان پر مکمل توجہ دی لیکن نتائج حسب توقع برآمد نہ ہوئے۔
متحدہ حزبِ اختلاف نے وزیراعظم بداوی کی اُس تصویر کو انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا، جو ’امنو‘ کے اجلاس سے لی گئی تھی جس میں وزیراعظم گہری نیند سو رہے تھے، اور تصویر دیکھنے والے کو یہ احساس ہوتا کہ جیسے وزیراعظم خراٹے لے رہے ہوں۔ سہ جماعتی اتحاد نے اس بات کو اُجاگر کیا کہ نہ صرف ملک کا وزیراعظم سو رہا ہے، بلکہ ساری انتظامیہ کی یہی صورت حال ہے اور اگر ملک کی کشتی کو سوئے ہوئے ڈرائیور سے بچانا ہے تو اس کے لیے متبادل قیادت کو موقع فراہم کرنا ہوگا۔ اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔
’پاس‘ اور سہ جماعتی اتحاد کی اس بھرپور مہم کی وجہ سے ’امنو‘ کے ۳۰ فی صد چینی النسل ووٹر، ۳۰ فی صد ملے ووٹر اور ۵ فی صد ہندو ووٹروں نے اپنی رضامندی سے حزبِ اختلاف کو ووٹ دیا۔ اُن کی راے بنی کہ ’امنو‘ آیندہ دور میں اُن کے حقوق کی کماحقہٗ پاسبانی نہیں کرسکتی۔ ۰۷-۲۰۰۶ء کے برسوں میں وکلا نے مظاہرے کیے کہ عدالتی نظام میں اصلاح کی جائے، عوام الناس نے مظاہرے کیے کہ انتخابات کو شفاف بنایا جائے، اور مذہبی اقلیتوں نے مطالبے کیے کہ اُن کے مذہبی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ اِن کا جواب بداوی انتظامیہ نے سول سوسائٹی کے مظاہرین پر لاٹھی چارج، عوامی سیمی ناروں کے لیے سرکاری اجازت نہ دینے، کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کو محدود کرنے کی صورت میں دیا، اور انورابراہیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ تو سب پر عیاں ہے۔
انتخابی نتائج اس قدر غیرمتوقع تھے کہ وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی نے اگلے ہی روز دستوری شہنشاہ میزان زین العابدین اور درجنوں حکومتی عہدے داران کی موجودگی میں وزیراعظم کا حلف اُٹھا لیا، اُن کو یقین ہوگیا تھا کہ اس میں تاخیر کی گئی تو اُن کے استعفے کا مطالبہ قوت پکڑ سکتا ہے۔ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں جمہوری عمل پارٹی، انصاف پارٹی اور پاس کلنتان، قدح، پینانگ، پراک اور سیلانگور میں حکومتیں بنائیں گی۔ حزبِ اختلاف نے ۳۷ فی صد سیٹیں اور ۴۷ فی صد عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ان انتخابات میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا کردار بھی اہم تھا۔ ان کی کوششوں سے چینی النسل باشندوں کی جمہوری عمل پارٹی اور اسلامی نظام کے نفاذ کی علَم بردار ’پاس‘ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ۳۷ سال پرانی ’نئی معاشی پالیسی‘ کو ختم کیا جائے جس کے ذریعے ۶۰فی صد ملے باشندوں کو ملازمت، کاروبار، تعلیم، ٹھیکوں اور دیگر معاملات میں فوقیت دی گئی ہے۔ اس نکتے نے چینی النسل باشندوں کی اکثریت کو حزبِ اختلاف کے لیے ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ انھوں نے عوام پر یہ بھی واضح کیا کہ جب میں وزیرخزانہ اور نائب وزیراعظم تھا تو میں نے اشیا کی قیمتیں کسی قیمت پر بڑھنے نہیں دی تھیں، جب کہ مہاتیر اور اب بداوی نے عالمی دبائوکو تسلیم کرکے عوام کے لیے بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہاتیر نے مجھے جیل میں ڈالے رکھا لیکن میں نے اپنے وطن کے لیے کسی قسم کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آج آپ لوگ مل کر نئے ملایشیا کی تعمیر کے لیے اس اتحاد کو تقویت پہنچائیں۔
اسلامی پارٹی کے سربراہ عبدالہادی آوانگ نے ملایشیا کے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اُنھوں نے سہ جماعتی اتحاد کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم اسلامی نظامِ قانون کی بالادستی اور عوام الناس کی خوش حالی میں یقین رکھتے ہیں، اور ہم مثالی طرزِ حکومت متعارف کرائیں گے۔ ہمارے دروازے عوام کے لیے کھلے ہیں اور ان شاء اللہ اگلے قومی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کریں گے ___آنے والا وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ سہ جماعتی اتحاد اس کامیابی کے نتیجے میں نئے ملایشیا کی تعمیر کے نعرے کو کس حد تک حقیقت کا رنگ دے پاتا ہے۔
دنیاے علم و ادب کا درخشندہ ستارہ،تاریخ اسلام کا امین،سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ پر گراں قدر کتابوں کا مصنف ،درویش صفت اور انکسار کا پیکر ،فرزند اسلام طالب الہاشمی (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۸ئ) ۱۶ فروری۲۰۰۸ ء کو ہم سے رخصت ہوگیا! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ منصورہ مسجد میں نماز فجر کے بعد اس عظیم شخصیت کی وفات کا اعلان ہوا تو تمام نمازیوں کی زبان پر انا للہ کے الفاظ آگئے۔بیش تر لوگ مرحوم سے بالمشافہہ نہ بھی ملے ہوں تو ایک بڑی تعداد ان کے نام سے آشنا اور ان کے علمی کارناموں سے واقف تھی۔
جناب طالب الہاشمی جن کا اصلی نام بہت کم لوگوں کومعلوم ہے، ۱۲ جون۱۹۲۳ء کو ضلع سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں دھیدووالی نزد ڈسکہ میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا مرحوم اس دور میں علاقے کے پڑھے لکھے اور معزز فرد تھے،جو مولوی نظام دین کے نام سے معروف تھے۔ مولوی صاحب کے بیٹے محمد حسین قریشی تھے جن کے ہاں اس ہونہار سپوت نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے نومولود کا نام محمد یونس قریشی رکھا۔
یونس صاحب کے والد چونکہ ڈاک خانے میں ملازم تھے،اس لیے ان کی ترغیب پر میٹرک کا نتیجہ آنے کے بعد ۱۹۴۳ء میں ڈاک خانے میں ملازم ہو گئے اور لاہور میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں تعیناتی عمل میں آئی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد انھوں نے فارسی اور عربی کے امتحانات: منشی فاضل اور ادیب فاضل بھی جامعۂ پنجاب سے بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیے۔ ان کا عربی اور فارسی کا ذوق بہت اچھا تھا۔ اپنی ملازمت کے دوران وہ معمول کے مطابق ترقی حاصل کرتے رہے اور ۴۰سال ملازمت مکمل کرنے کے بعد ۱۹۸۳ء میں ریٹائر ہوئے۔
جناب ہاشمی ،محمد یونس قریشی سے اس علمی و قلمی نام تک کیسے پہنچے،یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ میں طالب ہاشمی نہیں،طالب الہاشمی ہوں۔میرا یہ نام محض عرف و پہچان نہیں بلکہ یہ با معنی انتخاب ہے۔ان کے نزدیک ان کا یہ نام مرکب توصیفی نہیں، مرکب اضافی ہے۔الہاشمی سے مراد النبی الہاشمی ہے اور طالب اپنے لفظی و لغوی معنیٰ کے مطابق طلب کرنے والے،ڈھونڈنے والے اور تلاش کرنے والے کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔اگر ان کی تحریروں کو دیکھیں تو ایک ایک لفظ نہ صرف نبی محترمؐ کی عقیدت و محبت کا ترجمان ہے بلکہ آنحضوؐر کے جاں نثاروں کی عقیدت و محبت بھی مرحوم کے قلم معجز بیان سے یکساں ہویدا ہے۔
طالب الہاشمی صاحب سے پہلی ملاقات تقریباً ۳۰ سال پہلے اردوبازار میں البدر پبلی کیشنز کے مالک عبدالحفیظ صاحب کی وساطت سے ہوئی۔اس وقت تک ہاشمی صاحب کی چند کتابیں اور ایک آدھ مضمون نظر سے گزرا تھا۔ سیرت صحابہ پر ان کا قلم رواں دواں تھا۔ان کا نام پڑھ کر جو خاکہ تصور میں آیاتھا ،وہ اس سے خاصے مختلف نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ موصوف اتنے بڑے ادیب اور قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے صحت مند انسان بھی ہیں۔ اس کے بعد ان سے وقتاًفوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب میں ۱۹۸۵ء میں مستقل طور پر لاہور آگیا تو ہاشمی صاحب سے کبھی اردو بازار اور زیادہ تر منصورہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ جب بھی ملاقات ہوتی خندہ پیشانی، خلوص و محبت اور اپنائیت سے پیش آتے، اور مہمان نوازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ وہ بہت ملنسار اور مہمان نواز تھے۔
راقم نے اپنی استطاعت کے مطابق مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے اسماے عَلَم کو کسی حد تک ٹھیک تلفظ کے ساتھ پڑھنے کی تربیت پائی ہے۔اس کے باوجود اپنی کم علمی کی وجہ سے کبھی کبھارکسی اسم عَلَم کا غلط تلفظ زبان پر آجایا کرتا تھا۔ ایک روز محترم طالب الہاشمی میرے پاس تشریف لائے اور بڑی محبت سے فرمایا: ’’میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو فون کر دوں مگر پھر خیال آیا کہ فون کیا کرنا، خود چلتا ہوں تاکہ ملاقات ادھوری نہیں پوری ہو جائے‘‘۔پھر آواز قدرے دھیمی ہوگئی۔ بولے:’’میں نے منصورہ مسجد میں آپ کی گفتگو سنی تھی،تاریخی واقعات کا بہت اچھا استحضار ہے لیکن ایک معمولی سی غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔آپ نے اپنی گفتگو میں ہِشام بن عمرو کو ہَشام کہا تھا،اس کی تصحیح ضروری ہے۔‘‘اگرچہ یہ معمولی سی بات ہے مگر اس سے ان کی شفقت اور اپنے سے کم تر لوگوں کی تربیت کا پہلو نکلتا ہے۔
سیرت پر طالب الہاشمی صاحب کی کتابیں پڑھنے سے قبل میں نے ۱۹۷۱ء میں سیرت صحابہؓ پر کچھ مضامین لکھے تھے اور میرا ارادہ اپنے ذوق کے مطابق اس میدان میں مزید کچھ لکھنے کا بھی تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب ہاشمی صاحب کی اسی موضوع پر کتابیں نظر سے گزریں تو میںنے سوچا کہ انھوں نے اردو زبان میں اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔ان کی عظمت دیکھیے کہ جب انھیں معلوم ہوا تو بار ہا فرمایا کہ ہر شخص کا اپنا انداز اور ذوق ہوتا ہے۔ایک ہی موضوع پر مختلف لوگوں کی تحریریں تکرار نہیں،تنوع کہلاتی ہیں۔آپ کو قلم نہیں روکنا چاہیے۔
سیرت نگاری کا محرک بھی ایک خاص واقعہ ہے۔ ہاشمی صاحب کے بقول: ایک بار وہ مطالعہ کرتے کرتے سو گئے۔ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ جب بیدار ہوئے تو پسینے سے شرابور تھے اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ ان کے سینے پر تھی۔ اس واقعے کے بعد انھوں نے سیرت نگاری کو باقاعدہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔
ان کے کام کی وسعت، تحقیق کے اعلیٰ معیار کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ فردِواحد نے بغیر کسی اضافی سہولتوں کے تن تنہا اداروں سے بڑھ کر کام کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان نہایت شُستہ، رواں اور مؤثر تھا۔ قاری ان کی تحریر پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور حبِ رسولؐ کی کیفیت سے سرشار ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے تحریک پاتا ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے یقینا سیرت نگاری اور تاریخ نویسی کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا کام خود اپنی جگہ تحقیق کے لیے ایک موضوع ہے۔
ہاشمی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود مطالعے اور محنت کی اپنی عادت کو بڑی جز رسی سے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے تاریخ کے کم و بیش ہر پہلو پر قابل قدر کتابیں لکھیں لیکن ان کا اصل موضوع سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ ہے۔ تصانیف کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔آنحضوؐر کی سیرت پر ان کی ایمان افروز تحریریں اب بھی منظر عام پر آرہی تھیں۔آخری کتاب،جس کی طباعت سے پہلے وہ خالق حقیقی سے جا ملے،آنحضوؐر کے خادمان خاص کے موضوع پر ہے۔آپ کی کتابوں پر آپ کو صدارتی اور ادبی ایوارڈ بھی ملے لیکن مرحوم نے ان کو کبھی اپنی پہچان یا افتخار کا ذریعہ نہ بنایا۔
مرحوم کا علمی و ادبی مقام ان اعزازوں کے بغیر ہی بہت بلند تھا۔ ان کی کتابیں مختلف اداروں نے چھاپی ہیں۔اہم کتابوں میںسے چند ایک کے نام یہ ہیں: lرحمت دارینؐ، آنحضوؐر کی سیرت پر اہم کتاب ہے lیہ تیرے پراسرار بندے، جس میں آنحضوؐر کے ۸۱ صحابہ اور ۴۰ مشاہیر ِامت کا تذکرہ ہے lرحمت دارینؐ کے سو شیدائی ،آنحضوؐر کے ۱۰۰ صحابہؓ کے حالات پر مشتمل ہے lتذکار صحابیات میں صحابیات کے ایمان افروز حالات ہیں lحبیب کبریا کے تین سو اصحاب کے نام سے ایک قیمتی دستاویز ہے lفوزوسعادت کے ایک سو پچاس چراغ بھی صحابہ کرام کے حالات بیان کرتی ہے۔
ان کے علاوہ اولیاء اللہ کے تذکرے ،مشہور تاریخی شخصیات کے واقعات ،بچوں کی کتابیں اور ادبی کتب بھی ہاشمی صاحب کے رشحاتِ قلم کی امین ہیں۔۴۰ جاں نثار،۵۰ صحابہ، ۷۰ستارے اور کئی دیگر کتب مرحوم کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ برعظیم کے بزرگانِ دین بابا فریدالدین ،خواجہ نظام الدین اجمیری اور دیگر بزرگوں پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کی کتابوں کی طویل فہرست ہے،جو ان کی بیش تر کتابوں کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
عموماً جس کاغذ کو ردی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے، اسے بھی وہ اپنی تحریروں کے لیے استعمال کر لیا کرتے تھے۔ یہ کفایت شعاری اور اشیاکا درست استعمال سنت رسول اور سنت خلفاے راشدین ہے۔وہ حساب کتاب کے بڑے جز رس تھے۔ہر چیز نوٹ بک میں درج کرتے۔بچوں کو کوئی پیسہ دیتے تو ان سے بھی یہی مطالبہ کرتے کہ وہ پورا حساب دیں۔ اپنے ناشرین کے ساتھ بھی ہرلین دین تحریراً کرتے اور باقاعدہ ریکارڈ رکھتے۔پرانے بزرگوں کی طرح انھوں نے کبھی کسی پر بوجھ بننا گوارا نہ کیا۔ اسلاف کی روایات کے مطابق اپنے کفن دفن کا خرچ بھی الگ لفافوں میں چٹیں لکھ کر محفوظ کر رکھا تھا۔ہاشمی صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور چلتے پھرتے، ہنستے مسکراتے بالآخر اپنی منزل سے ہم کنار ہو گئے!
۱۲ ابواب پر مشتمل یہ تاریخی اور تجزیاتی کتاب دورِ حاضر کے حرارت پیدا کرنے والے موضوع پر ایک اہم اختلافی تحریر ہے۔ ڈاکٹر صدیقی صاحب نے مختلف تاریخی مآخذ کھنگال کر وہ واقعات یکجا کردیے ہیں جنھیں صحابیاتؓ اور اُمہات المومنینؓ کی معاشرے میں کسی بھی حیثیت سے موجودگی کا ذکر پایا جاتا ہے۔ کتاب کے مباحث کا خلاصہ خود مصنف کے الفاظ میں یوں ہے: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی خواتینِ عصر کی باہمی زیارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ غیررشتہ دار محرموں کے علاوہ دوست، احباب اور غیرمحرم خواتین کے گھروں میں بھی ملاقات اور زیارت کے لیے جایا جاسکتا ہے۔ محرم رشتہ داروں کی ملاقات و زیارت پر کوئی تو قدغن ہی نہیں ہے سواے سلام و اجازت کی شرائط و آداب کے۔ لیکن غیرمحرموں کے ہاں بھی جانے آنے کی عام اجازت ہے۔ ان کے مردوں اور عورتوں کا مخلوط مجمع ہو تو کسی قسم کی قباحت نہیں ہے سواے پردے کے۔ پردہ اور حجاب کی بحث بہت طویل ہے اور کافی دقت طلب بھی۔ اس کا یہاں موقع نہیں۔ لیکن مختصر بات یہ کی جاسکتی ہے کہ حجاب سے مراد موجودہ برقعہ یا عورت اور مرد کے درمیان ایک ستر کی دیوار کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ساتر لباس ہو اور کئی افراد ہوں تو میل ملاپ اور ملاقات و زیارت میں کوئی چیز مانع نہیں ہے جیساکہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اور عہدنبویؐ میں طریقۂ ملاقات تھا یا آج کے مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن جو خواتین اور ان کے مرد غیروں سے میل ملاپ نہیں پسند کرتے، ان کے گھروں میں آنا جانا پسندیدہ نہیں ہے۔ اور اگر آنا جانا ہو بھی تو عورتوں سے الگ مجالس میں ہو، تاکہ کسی قسم کا غبار خاطر نہ پیدا ہو‘‘۔ (ص ۱۹۳-۱۹۴)
مزید اسی تسلسل میں آگے یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ ’’شادی شدہ خواتین کے گھروں میں اجنبیوں کی آمدورفت صرف، ان کے شوہروں کی موجودگی اور ان کی بخوشی اجازت کے حال میں ہی صحیح اور جائز ہے۔ ان کی عدم موجودگی میں جانے کی عام ممانعت ہے‘‘۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زوجہ محترمہ کے بارے میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی غیرموجودگی میں وہ متعدد صحابہ کی خاطرمدارات کر رہی تھیں کہ حضرت ابوبکرؓ آئے اور انھیں یہ ناگوار ہوا تو حضور نبی کریمؐ نے یہ اصول نافذ فرمایا کہ شوہر کی غیرموجودگی میں کوئی شخص یا اشخاص کسی شادی شدہ عورت کے گھر میں نہ جائیں، پھریہ کہا گیا ہے کہ ’’لیکن اسی کے ساتھ یہ جزئیہ بھی ہے کہ اگر کسی شوہر کو اپنی غیرحاضری میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے آنے جانے پر اعتراض نہیں ہے تو اس گھر میں جایا جاسکتا ہے جیساکہ رسول اکرمؐ کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے طریق سے معلوم ہوتاہے‘‘۔ (ص ۱۹۴)
کتاب کے آخری پیراگراف میں مصنف نے اپنے تجزیے کا خلاصہ یوں خود بیان فرمایا ہے: ’’سیرت و حدیث اور تاریخی واقعات بلکہ قرآنی آیات سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی حدود و شرعی قیود کے ساتھ مردوزن کے ارتباط اور صنفی اختلاط کی پوری اجازت تھی اور نہ صرف اجازت تھی بلکہ وہ ایک سماجی روایت بھی تھی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی متواتر سنت کا پشتہ حاصل تھا۔ مردوزن کے اختلاط و ارتباط کا اصل اصول اور صحیح ترین طریقہ یہی طریق نبویؐ اور اندازِ صحابہ کرامؓ تھا، نہ کہ بعدکے خودپسند اور دقت پرست علما و فقہا کا طریقہ اور نہ ہی جدت طراز اور اباحت پسند سماجی دانش وروں کا بے محابا اور بے سلیقہ فکروعمل۔ دنیاوی فلاح و مسرت اور اُخروی بہبود و نجات صرف سنت نبویؐ اور تعامل صحابہؓ میں ہے‘‘۔ (ص ۲۰۵)
تبصرے میں اتنے طویل اقتباسات سخت غیر ضروری ہوتے ہیں لیکن چونکہ مصنف محترم نے بعض ایسے نکات اٹھائے ہیں جن کا ان کے اپنے الفاظ میں قارئین کی نگاہ سے گزرنا ضروری تھا اس لیے یہ جسارت کی گئی ہے۔
دورِ حاضر میں حریت نسواں کی مغربی چیخ و پکار اور مسلم ممالک میں پائی جانے والی آواز بازگشت میں بالعموم قرآن و سنت اور تعامل صحابہ کو الزام دیتے ہوئے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ اب قرآن و حدیث کو بدلے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس لیے امت مسلمہ کی فلاح اور نجات و ترقی اسی میں ہے کہ اسلامی مصادر کو نظرانداز کرتے ہوئے دورِحاضر کی ’روشن خیالی‘ یا خیالی روشنی کو رہنما بنایا جائے اور مسلم معاشروں میں پائی جانے والی روایات کو خصوصاً نام نہاد مشرقی روایت ہی کو بطور مباح، جائز اور قابلِ قبول طرزِعمل کے اختیار کرنا اسلامی روح کے مطابق درست ہے۔ چنانچہ پاکستان اور ہندستان میں جو مشرقی لباس یا سماجی رسومات پائی جاتی ہیں انھیں norms یا قدر کا درجہ دے کر مشرقی ثقافت کے نام پر مخلوط مشاعروں کی محفلیں یا شامِ موسیقی کے ’روح پرور‘ مخلوط اجتماعات کے انعقاد کو تہذیب یافتہ ہونے اور معاشرے کے سرگرم فرد ہونے کی پہچان بنا لیا گیا ہے۔
حوالہ جات سے بھرپور یہ کتاب ایک قدم آگے بڑھ کر ایک عام قاری کو یہ تاثردیتی ہے کہ مخلوط محفلیں اور غیرمحرم افراد کا ’زیارات‘ اور ’اختلاط‘ نہ صرف دھلوی اور لکھنوی ثقافت کے معیار سے بلکہ سنت اور تعامل صحابہ کے عین مطابق اور مطلوب و مقصود طرزِعمل ہونے کی بنا پر دنیا و آخرت میں اجرعظیم کا باعث بھی ہے۔
بعض اوقات ارادے اور نیت کے بغیر تاریخی حقائق کا جزوی اظہار معصومیت کے ساتھ ایک قاری کو مختلف وادیوں میں بھٹکا دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ صدیقی صاحب جیسے ماہر تاریخ و اسلامیات سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ تاریخ کے ایک واقعے کو اُس کے سیاق و سباق اور دیگر متعلقہ نصوص سے علیحدہ کرکے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، وہ عموماً معروضی نہیں ہوتے۔
۱۹۹۰ء میں مصر کے ایک معروف عالم استاذ عبدالحلیم ابوشقہ (م: ۱۹۹۵ئ) کی کتاب تحریر المراۃ فی عصرالرسالہ: دراسۃ جامعۃ نصوص القرآن الکریم وصحیحین البخاری و مسلم۔ کویت کے دارالقلم للنشر ولتوزیع سے تین جلدوں میں طبع ہوئی۔ ۱۹۹۱ء میں اس کی چوتھی جلد طبع ہوئی (یہ چاروں جلدیں میرے کتب خانے میں موجود ہیں)۔ بعد میں دو جلدیں مزید طبع ہوئیں اور اگر یہ کہا جائے کہ مصنف مرحوم نے قرآن اور حدیث کے نصوص کو بڑی حد تک خواتین کے حوالے سے ایک مقام پر جمع کر کے طالبانِ علم پر ایک بڑا احسان کیا تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب پر شیخ محمدالغزالی مرحوم اور ڈاکٹر شیخ یوسف القرضاوی نے پیش لفظ تحریر کیے۔ استاذ قرضاوی کا پیش لفظ ۱۹ صفحات پر مبنی خود ایک علمی تحریر ہے۔
ڈاکٹر صدیقی صاحب نے جن جن احادیث کا حوالہ اپنی کتاب میں دیا ہے، وہ سب اس عالمانہ کتاب میں اپنی مکمل شکل میں موجود ہیں۔لیکن صدیقی صاحب کے کتابیات کے حوالے میں کہیں بھی اس کتاب کا حوالہ نہیں آنے پایا، گو صدیقی صاحب سے زیادہ شیخ عبدالحلیم نے اسلام میں عورت کے حقوق اور معاشرے میں کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسری جلد میں اجتماعی زندگی میں حضرت نوحؑ سے بنی اسرائیل تک تاریخی طور پر انبیاے کرام کا اسوہ اور پھر الفصل الرابع میں نساء النبی کا قبل فرضیتِ حجاب اور بعد فرضیتِ حجاب مفصل بیان ہے۔ فصل الخامس میں عصرالرسالۃ میں صحابیات کے طرزِعمل کا تذکرہ ہے۔ بعد کی فصلوں میں عصری حوالے سے بشمول سیاسی سرگرمیوں کے بحث ہے۔
طوالت سے بچتے ہوئے اگر شیخ عبدالحلیم کے موقف کو بیان کیا جائے تو اعتدال کو برقرار رکھتے ہوئے وہ خواتین کو گھر کے باہر ضرورت، حاجت اور تحسین کے علی الرغم سرگرمِ عمل ہونے کا حق دینے کے حامی ہیں لیکن ان کی تحریر سے وہ تاثر نہیںبنتا جو آغاز میں دیے گئے ڈاکٹر صدیقی صاحب کے اقتباسات سے بنتا ہے۔ وہ واضح طور پر یہ بتاتے ہیں کہ دورِ رسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشرے میں بہت سے کاموں میں حصہ لینا نہ غیرضروری ملاقات و میل جول کہا جاسکتا ہے اور نہ مکمل طور پر دیوار کھینچ کر الگ کردینا۔لیکن قرآن و سنت کے واضح احکامات کے بعد جن میں ایک شادی شدہ خاتون کو شوہر کی موجودگی کے بغیر کسی غیرمحرم کے ساتھ چاہے وہ ایک ہو یا زائد ہوں، تنہائی اختیار کرنے کی ممانعت کے بعد یہ تاثر دینا کہ آج جس طرح مخلوط مجالس منعقد کی جاتی ہیں یہ مقتضاے سنت و قرآن ہیں۔ کتنی نیک نیتی اور معصومیت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، اگر انحراف اور پریشان فکری نہیں تو ایک انفرادی فکری تجدد ضرور ہے۔
اگر مروجہ پاکستانی لباس اور دوستوں کاغیرمحرم ہونے کے باوجود ایک منکوحہ کے شوہر کی رضامندی سے گھر میں آنا جانا اور ان دوستوں کی ضیافت کرنا ہی ’سنت‘ ہے تو پھر قرآن و سنت کو محرم و غیرمحرم کی تقسیم کی ضرورت ہی کیا تھی۔ آثار و احادیث کو شارع علیہ السلام اور قرآن کریم کے مقصد و مدعا، مقاصد شریعہ اور ان کے سبب نزول سے الگ کر کے نتائج کی طرف رہنمائی کرنا اور بظاہر بہت احترام سے یہ کہنا،’’ مثلاً غزوئہ اُحد میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شرکت ،رفاہی خدمت اور مسلم مجاہدات کے مادرانہ جہاد کو یہ کہہ کر دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ حجاب کے احکام سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لیکن ایسے مجاہد مفکرین و علما نے بعد کے غزوات میں خواتین اسلام کے مسلسل و متواتر شرکت کے واقعات میں حجاب سے قبل و بعد کا سوال نہیں اٹھایا کیونکہ احکامِ حجاب کے بعد تو ان کی شرکت کی کثرت ہوگئی تھی اور تواتر بھی بڑھ گیا تھا۔ غزواتِ خیبر، عمرۃ القضائ، فتح مکہ، حنین، اوطاس اور طائف کے غزوات میں صحابیات کی تعداد زیادہ اور شمولیت متواتر نظر آتی ہے، بلکہ وہ غزوات کا ایک ضروری حصہ نظر آتا ہے‘‘۔ (ص ۱۹۶)
تاریخی واقعات کی تعبیر کا حق ہر صاحب ِ علم کو ہے لیکن آخری جملہ تاثر یہ دیتا ہے کہ اگر آج سنت مطہرہ کی پیروی کرنی ہے تو اسلامی فوج ظفر موج میں ایک بڑی تعداد مسلم ’مجاہدات‘ کی شامل کیے بغیر دین کی تکمیل نہیں ہوسکے گی۔کتاب کا اصل مسئلہ ایسے الفاظ کا انتخاب اور نتائج کا اخذ کرلینا ہے جو قرآن و سنت کے ظاہرمعنی و مقصد سے مطابقت نہیں رکھتے۔
مرد و زن کا ’میل ملاپ‘، ’زیارت‘، ’صنفی اختلاط‘ یا ’مرد و زن کے اختلاط و ارتباط‘ کی اصطلاحات معنی سے لبریز اصطلاحات ہیں اور ان کا معصومیت کے ساتھ صحابیاتؓ اور اُمہات المسلمینؓ کے حوالے سے استعمال سیرت وتاریخ کے کسی بھی طالب علم کے لیے قلبی اذیت کا باعث اور ادب و احترام کے منافی ہے۔
مفکر و فقیہ عصر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی خواتین کی عسکری تربیت کو تسلیم کیا ہے لیکن دلیل کے ساتھ کہ ہرمسلمان عورت اپنی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو، اسے اسلحے کا استعمال آتا ہو، تیرنا ، سواری کرنا اور نہ صرف اپنا دفاع بلکہ جنگ میں مردوں کا ہاتھ بھی بٹاسکے۔ لیکن اسلامی حدود میں، یعنی بغیر اختلاط کے (ترجمان القرآن ، ج ۳۱، عدد ۳، جولائی ۱۹۴۸ئ، ص۲۶-۲۹)، جب کہ مذکورہ کتاب میں ہرہرصفحے پر زیارت، ارتباط و اختلاط پر اس انداز سے بات کی گئی ہے جیسے اسلام مخلوط مجلسوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ یہ تحریر نام نہاد ’روشن خیال‘ ٹی وی کے ایسے ’علما‘ کو جن کی اصل مصادر شریعہ تک پہنچ نہ ہو، وہ مواد فراہم کرسکتی ہے جو انھیں عرصے سے مطلوب تھا۔ سیاق و سباق کو اس کی اصل شکل میں پیش کیے بغیر منتخب تاریخی حوالے نقل کردینا بعض اوقات فتنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فکروعمل کی ہر لغزش سے محفوظ رکھے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
زیر تبصرہ کتاب ترکی کے معروف دانش ور اور مفکر محمد فتح اللہ گلن کی تصنیف Prophet Muhammad as Commander کا ترجمہ ہے۔ کتاب میں غزوات وسرایا کے حوالے سے آپؐ کی حکمت و تدابیر کا تذکرہ ہے اور پیغمبرانہ بصیرت کے ایسے ایسے گوشوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے، جنھیںپڑھتے ہوئے انسان پکار اُٹھتا ہے کہ محمدؐ یقینا اللہ کے رسول ہیں، کیوں کہ عام انسانی ذہن کی رسائی ان حکیمانہ تدابیر تک ممکن نہیں تھی۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو جہاد اور اس کے اعلیٰ مقاصد سے متعارف کرایا، جس کے ذریعے فتنوں کی سرکوبی اور مظلوموں کی اعانت میں مدد ملی۔ انسانی تاریخ میں آپؐ ایک عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔
مترجم نے اپنے قلم کو صرف ترجمے تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ بقولِ خود: انگریزی متن سے اُردو ترجمے تک پہنچنے کے لیے قلب و روح کا راستہ اختیار کیا ہے۔ انگریزی تصنیف میں آیات و احادیث کا صرف ترجمہ دیا گیا ہے۔ مترجم نے آیات کا عربی متن شامل کرکے کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ اُردو ترجمے کے لیے آیات واحادیث کے متن،کتب سیرت سے واقعات کی تصدیق اور حواشی کی ترتیبِ نو نے اس کتاب کو حوالے کی کتاب بنا دیا ہے۔ ترجمے کی زبان عام فہم ہونے کے باوجود ادبی چاشنی کی حامل ہے۔ آیاتِ قرآنی کا ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری کا ہے، جب کہ احادیث کا رواں ترجمہ مترجم نے خود کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآنِ پاک کے ترجمے کو بھی زیادہ رواں اور عصرِحاضر کی لسانی ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا۔ (پروفیسر محمد حسن کلیم)
عبدالرشید صدیقی بمبئی سے معاشیات، سیاسیات اور قانون کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۷ء تک انفارمیشن لائبریرین کی حیثیت سے برطانیہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ سورئہ فاتحہ اور سورئہ آل عمران پر تفسیری کام کے علاوہ اپنے خطباتِ جمعہ کو Lift up Your Hearts کے نام سے، اور اپنے شعری مجموعے کو نواے بے نوا کے نام سے مرتب کرکے شائع کرچکے ہیں، نیز Key to the Glorious Qur'an: Understanding the Basic Concepts زیرطبع ہے۔
اقبالیاتی تنقید کوپڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اس موضوع پر کام کرنے کے نئے مواقع ختم ہونے والے ہیں۔ پیش نظر کتاب میں بھی اگرچہ کسی نئے موضوع کو نہیںچھیڑا گیا، پھر بھی یہ کتاب اپنا جواز مہیا کرتی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ عالمِ اسلام بالخصوص مغرب میں آباد اہلِ اسلام اقبال کے افکار و نظریات سے کچھ زیادہ شناسا نہیں ہیں۔ نوجوانوں میں سے کچھ نے ان کا نام سنا ہوگا یا بچوں کے لیے ان کی چند ایک نظمیں پڑھی ہوں گی۔ مصنف نے ایسے ہی نوجوانوں کو اقبال کے تصوراتِ خودی و انسانِ کامل سے آگاہ کرنے کا عزم کیا ہے۔
ابتدا میں پروفیسر خورشید احمد کا پُرمغز دیباچہ شامل ہے جو نہایت عمدگی سے اقبال کی فکر اور کارنامے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے اسلامی ریاست، فکرِاقبال کا ارتقا، خدا، انسان اور کائنات، زمان و مکاں، موت اور بقاے رُوح، فرد اور سماج، سیاسی افکار، تصورِخودی، انسانِ کامل وغیرہ پر اجمالی گفتگو کی ہے، لیکن یہ اجمال جامعیت کا حامل ہے، جس سے ان موضوعات پر مزید مطالعے کی تشویق ہوتی ہے۔ اقبال کے فکروفلسفے کے تمہیدی باب کے بعد دوسرے باب میں مردِکامل پر بحث کی گئی ہے۔ ضمنی مباحث میں خودی کی تعریف، خودی: ایک مابعد الطبیعیاتی تصور، انسانی زندگی میں خودی کا کردار [ساقی نامہ]، اُمت مسلمہ کے لیے خودی کی اہمیت [رموزِ بے خودی]، انسانی خودی، آزادی و بقاے فرد اور جاوید نامہ جیسے موضوعات پر تفصیلی بحث کی ہے، جب کہ اقبال کے تصورِ انسانِ کامل میں انسانِ کامل کی تلاش، اقبال کا مردِ مومن، اُمت مسلمہ کے لیے پیغام، ایمان و کفر میں امتیاز، شاہین کا استعارہ، اقبال کا مردِکامل اور نیٹشے کے سپرمَین پر جامع گفتگو کی ہے۔
ضمیموں میں اقبال کے تصورِ خودی اور نیٹشے کے تصورات پر بحث اور ’ساقی نامہ‘ کا ترجمہ شامل ہے۔ بعدازاں حیات نامۂ اقبال، بعض الفاظ واصطلاحات کے مترادفات، حوالے، حواشی اور اشاریہ شامل ہیں۔ ان سے کتاب کی معنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ کتاب انگریزی دان یورپی مسلمانوں کے لیے اقبال کے تصورات و افکار کی تفہیم میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ زبان و بیان خوب صورت ہے، انگریزی روپ بھی دیا ہے۔ توقع ہے کہ بقول ناشر: خوب صورت اسلوب کی حامل یہ کتاب نوجوان مسلمانوں کو دین اسلام کی روح اور پیغام کو بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل بنادے گی۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)
زندگی اللہ تعالیٰ کا بڑا قیمتی عطیہ ہے، مگر اس عطیے کو اللہ کی خوشنودی کے لیے کھپا دینے والے خوش نصیب خال خال ہیں۔ اس عطیے کا احساس کرنے اور اس احساس کی دولت کو بانٹنے والے قابلِ قدر انسانوں میں ایک اہم نام جناب سید اسعد گیلانی کا بھی ہے۔
اسعد گیلانی ۲۰ ویں صدی کے وسط میں تحریک اسلامی کے ہم قدم بننے والے عظیم انسان تھے۔ ان کے جذب دروں کی حرارت کو اس کتاب کے مطالعے سے ۲۱ویں صدی کا قاری بخوبی محسوس کرسکتا ہے۔ ان مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری زندگی رائیگاں جارہی ہے۔ پھر یہ جذبہ حاوی ہونا شروع ہوتا ہے کہ مقصدیت اور ایمان سے بھرپور زندگی ہی اس احساس زیاں کا مداوا کرنے کا واحد ذریعہ ہے، اوروہ مقصد رضاے الٰہی کا حصول اور شہادتِ حق کے منصب پر استقامت سے کھڑے ہونا ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے سید اسعد گیلانی کی داعیانہ، مربیانہ، دانش ورانہ، صحافیانہ اور ادیبانہ زندگی کو ایک خوب صورت تنوع کے ساتھ اس کتاب میں جمع کر کے رہروانِ شوق کے لیے فکروعمل کا قابلِ لحاظ سرمایہ جمع کر دیا ہے۔ اس زمانے میں، جب کہ فوٹواسٹیٹ اورتیز رفتار کمپوزنگ کی مدد سے غیرمعیاری کتابوں کا انبار بڑھتا اورمعیار گرتا جا رہا ہے، بہت کم کتابوں سے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔ جناب اسعد گیلانی کی حیات و خدمات اور یادوں کے چراغ مختلف احباب کی تحریروں نے روشن کیے، لیکن مرتب نے انھیں مہارت اور سلیقے سے اس گلدستے میں پیش کیا ہے۔
کاش! مستقبل قریب میں جناب جسٹس (ر) ملک غلام علی کی زندگی پر بھی اسی طرح سلیقے سے مرتب شدہ کوئی کتاب نظرنواز ہو۔ (سلیم منصور خالد)
سید فیاض الدین احمد،ترکِ وطن کرکے برطانیہ میں جا مقیم ہوئے۔ عالمی پیمانے پرعمومی اور پاکستان میں ہونے والے واقعات پر خصوصی طور پر اُنھوں نے جو کچھ محسوس کیا، اُسے ضبطِ تحریر میں لے آئے۔ زیرتبصرہ کتاب اُن مضامین، خطوط بنام ایڈیٹر اور مراسلوں کا مجموعہ ہے جو گذشتہ ۱۵برسوں میں اُنھوں نے تحریر کیے اور مختلف قومی و عالمی اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ اِن سب کی مشترکہ خوبی اِن کا اختصار ہے۔ ۶۰ سے زائد تبصروں،خطوط اور مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اسلام کا عالمی نقطۂ نظر، دوسرے حصے میں برطانیہ میں مسلمان، اور تیسرے حصے میں امورِ پاکستان کے حوالے سے مختصر تحریریں شاملِ اشاعت ہیں۔
مصنف اس کاوش سے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اہلِ پاکستان اگر اپنی ذمہ داریوں کو دُرست طریقے سے سنبھال لیں، اپنے داخلی نظام کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرلیں اور اقوامِ عالم میں اصول پرست مملکت کی شناخت قائم کرلیں تو پاکستان نہ صرف داخلی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے، بلکہ عالم گیر سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ خاص طور پر دل چسپی کا حامل ہے کیونکہ اس میں برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو درپیش مسائل، اُن کے خلاف کی جانے والی سازشیں اور ذرائع ابلاغ کی مہم اور اُن کے اندر موجود خامیوں کا دل چسپ لیکن جامع پیرایے میں ذکر کیا گیا ہے۔ (محمد ایوب منیر)
برعظیم پاک و ہند میں اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ۲۰۰ سالہ طویل جدوجہد جہاں تاریخی اہمیت رکھتی ہے، وہاں احیاے اسلام کی جدوجہد کے لیے درخشاں باب اور بہت سے عملی سبق کی حامل ہے۔ زیرنظر کتاب میں مصنف نے شاہ ولیؒ اللہ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسن کی وفات (۱۹۲۰ئ) تک کی اقامتِ دین کی جدوجہد کو جامعیت اور اختصار کے ساتھ باہم مربوط کیا ہے۔اندازِ بیان سادہ، دل چسپ، معلومات سے بھرپور اور رواں دواں ہے۔
شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۳ئ) کی علمی، سیاسی جدوجہد، ان کے خلف الرشید شاہ عبدالعزیز کی کاوشوں، سیداحمدشہید، مولانا شاہ اسماعیل شہید کی تحریک جہاد، ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے محرکات اور ناکامی کے اسباب، تحریکِ ریشمی رومال اور شیخ الہند کی عظیم جدوجہد کا تذکرہ اس میں شامل ہے۔
زیرنظر کتاب نوجوان نسل میں دین سے وابستگی اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
’عوام کا فیصلہ، قیادت کا امتحان‘ (مارچ ۲۰۰۸ئ) صحیح معنوں میں عوام کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ درحقیقت ان انتخابات کے ذریعے عوام نے پرویز مشرف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے کہ پاکستان کے عوام شخصی آمریت اور فوج کی مداخلت کو پسند نہیںکرتے، اور وہ حقیقی معنوں میں جمہوری نظام کے خواہاں ہیں، جب کہ فوج کو سرحدوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ سیاسی قیادت کو عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ایسے اقدام اٹھانے چاہییں جن سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو اور عوام کا اعتماد بھی سیاست دانوں پر بحال ہوسکے، نیز آیندہ کے لیے فوجی مداخلت کی راہ مسدود ہوجائے۔
’عظیم کارنامہ‘ (مارچ ۲۰۰۸ئ) میں سیرتِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں عالمی قائد کے جو رہنما اصول بیان کیے گئے، وہ ہر دور کے لیے مینارئہ نور ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں جب ہم سیدمودودیؒ کی سوانح حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بھی اسوئہ رسولؐ پر کاربند دکھائی دیتے ہیں۔ آپ صرف ایک مفکر ہی نہیں بلکہ قائد بھی تھے۔ آپ نے نظامِ اسلام کی خوب صورت تصویر اہلِ عالم کے سامنے پیش کی، جس کی بنیاد پر ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے، اور عملاً اسلامی تحریک کا احیا کیا۔ یہ تحریر ہر سطح کی تحریکی قیادت کے لیے قیمتی میراث ہے۔
’اُمت محمدیؐ کا عالمی مشن‘ (مارچ ۲۰۰۸ئ) پڑھاتو مسلمانوں کا عالمی مشن ایک بار پھر تازہ ہوگیا۔ ہمیں دنیاکو درپیش مسائل سے نجات دلانے کے لیے اپنا عالمی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ربیع الاول کے مہینے کی مناسبت سے حضور اکرمؐ کی سیرت مبارک کو پڑھنے اور سننے کے ساتھ ساتھ اپنانے کی کوشش کرنا عشقِ رسولؐ اور اطاعتِ رسولؐ کی بہترین صورت ہے۔
’اسلام اور جمہوریت‘ (فروری، مارچ ۲۰۰۸ئ) میں ایک اہم موضوع کا علمی انداز میں احاطہ کیا گیا ہے، اور اختلاف کے ساتھ ساتھ اشتراکِ عمل کی بنیادیں بھی واضح کی گئی ہیں۔ اختلاف راے رکھنے والوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے اس علمی بحث کا جائزہ لینا چاہیے۔
’۶۰ سال پہلے‘ (مارچ ۲۰۰۸ئ) کے تحت اسلامی حکومت میں خواتین کے حقوق پڑھ کر یوں لگا جیسے مولانا مودودی آج لبرل حلقوں کی طرف سے خواتین کے حقوق پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دے رہے ہوں۔ انتخاب لاجواب ہے، میرے خیال میں ’اسلام اور اس کے تقاضے‘ دوبارہ شائع کی جانی چاہیے۔
فروری کے شمارے میں ’نائن الیون‘، ’پردہ اُٹھ رہا ہے‘، ’اسلام اور جمہوریت‘ اور ’استعمار کی ذہنی غلامی‘ اہم فکری لوازمے پر مبنی ہیں۔ ’رسائل و مسائل‘ کی کمی محسوس ہوئی۔ جماعت اسلامی میں موجود جمہوریت اور اس کے باضابطہ طریق کار پر بھی مضمون آنا چاہیے تاکہ جماعت کی اہمیت بھی واضح ہو، جماعت کے اندر جمہوریت کا احساس لوگوں میں بیدار ہو اور زہرِقاتل موروثیت پر ضرب لگ سکے۔ امسال سرورق کچھ زیادہ اچھا نہیں۔
ترجمان القرآن ایک اہم علمی اور دینی رسالہ ہے، اور علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ علم دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ کتب اور اسلامی لٹریچر کے اشتہارات زیادہ ہوں، نہ کہ پراپرٹی کے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن کے سالانہ خریدار بنیے ۳۰۰ روپے میں
(۶۰ روپے کی بچت منی آرڈر/وی پی فیس کے ۵۰ روپے سے ختم ہوجاتی ہے)
آپ کے لیے ممکن ہو تو ۵ سالہ خریدار بنیے، صرف ۱۲۰۰ روپے میں
(۶۰۰ روپے + ۴ سال کے منی آرڈر / وی پی کی فیس کی بچت ۲۰۰ روپے، کل:۸۰۰ روپے کی بچت)
فیصلہ کیجیے ، سالانہ خریدار یا ۵ سالہ خریدار
فیصلے کے مطابق ۳۰۰ روپے یا ۱۲۰۰ روپے کا
منی آرڈر یا بنک ڈرافٹ ارسال کیجیے، لاہور کے بنک کا چیک دیجیے یا وی پی طلب کیجیے
ہمارے بنک اکائونٹ بنام ماھنامہ ترجمان القرآن ٹرانسفرکروا کے مطلع کردیجیے
UBL Icchra Branch, Lahore. A/c. 01019573 Branch Code # 0559
5-A ، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور- فون: 042-7587916, 7065765 فیکس: 7585590
انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے، اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادّہ خالق نے ودیعت کردیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جاسکتا۔ انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دل چسپی رکھتے ہوں اور اس کے علَم بردار بن کر کھڑے ہوں، اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنھیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے غیرمعمولی دل چسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علَم برداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انھیں اپنے راستے کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علَم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو، تو لامحالہ میدان علَم بردارانِ شر ہی کی ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علَم بردار بھی میدان میں موجود ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اِن دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی، اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگا لے، آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔(’بنائو اور بگاڑ‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۱، عدد۵، ذی القعدہ ۱۳۶۷ھ، ستمبر ۱۹۴۸ئ، ص ۵۱-۵۲)