مضامین کی فہرست


جون ۲۰۰۸

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مشہور مقولہ ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو بہت دیر تک اور سب لوگوں کو کچھ دیر کے لیے      بے وقوف تو ضرور بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے___ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے۔ یہ ایک دن بلبلے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور اندر کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

نائن الیون کے معاً بعد سے دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا جدید تاریخ کی طویل ترین عالمی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ عراق جہنم زار ہے، پوری دنیا میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور   اس سے بڑھ کر، اس کا اختتام دُور دُور نظر نہیں آرہا ہے۔

افغانستان امریکا اور ناٹو کی جدید عسکری ٹکنالوجی سے لیس ۶۰ ہزار افواج کی جولانیوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس نام نہاد مقصد کا حصول، یعنی بن لادن اور القاعدہ کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا، جس کے لیے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی گئی تھی وہ ایک قصۂ پارینہ اور زیبِ داستان کے لیے گھڑے ہوئے افسانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ طالبان، جن کا کوئی کردار نائن الیون کے واقعے میں آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا ہے، بظاہر جنگ کا عنوان بن گئے ہیں، جب کہ اصل مقصد افغانستان پر مسلسل قبضہ ہے جسے تبدیلیِ قیادت کے نام پر افغانستان پر ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے اور جمہوریت کے قیام اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور کی نوید سناکر حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ رہا معاملہ زمینی حقائق کا، تو جس معاشی اور تعلیمی ترقی اور جدیدیت کے انقلاب کا چرچا تھا اس کا کہیں وجود نہیں۔

امریکا اور ناٹو کے کرتا دھرتا اب اصل بات اس پر کر رہے ہیں کہ عراق سے تو واپسی کا سوچا جاسکتا ہے لیکن افغانستان سے نہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکا ہی نہیں، ناٹو اقوام جن کا اتحاد نارتھ اٹلانٹک کے دفاع کے لیے مخصوص تھا، وہ اب نارتھ اٹلانٹک سے ہزاروں میل دُور اپنے لیے نیا میدانِ جنگ متعین کرنے میں مصروف ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ناٹو کے مستقبل کا انحصار افغانستان میں اس کے مشن کی کامیابی پر ہے، حالانکہ امریکا کے سوا تمام ہی اتحادی ممالک کی افواج کا عمل گواہ ہے کہ وہ اُوپر سے جتنی چاہے بم باری کر رہے ہوں، زمین پر جنگ اور مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی فوجیں واپس بلاچکے ہیں اور کچھ کے وزراے خارجہ علانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے چند درجن مزید سپاہی افغانستان میں مارے جاتے ہیں تو ہمارے عوام افواج کی واپسی کا مطالبہ کردیں گے۔

اس سب کے باوجود امریکا اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسروں پر اضافے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ اس وقت ۷ ہزار مزید کمک کا منصوبہ ہے۔ امریکا کے تمام ہی صدارتی امیدوار عراق سے تو فوجوں کی واپسی کی بات کرتے ہیں مگر افغانستان میں اضافے ہی کا راگ الاپ رہے ہیں، اور ایران اور پاکستان دونوں پر مختلف انداز میں دبائو بڑھانے اور ایک (ایران) پر حملہ کرکے اس کی قوت پر ضرب لگانے اور دوسرے (پاکستان) کا ہاتھ مروڑ کر اس کی فوجوں کو اپنے ہی عوام کے خلاف خون آشام کارروائیوں میں مصروف رکھنے اور علاقے میں مذاکرات، امن اور سلامتی، استحکام اور ترقی کے ہر منصوبے کو درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلکہ گذشتہ تین مہینوں سے بار بار ایک نئے خطرے کا ڈھونگ پیٹا جا رہا ہے کہ اگلا نائن الیون جیساحملہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے متوقع ہے۔ نیگرو پونٹے سے لے کر خود بش بہادر تک یہ  شور مچا رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بلیک میل کرکے اور گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی روایتی پالیسی کا استعمال کرتے ہوئے اسے جنگ کی دلدل میں مزید دھکیلنے اور امن و استحکام کے حصول کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاص طور پر   اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستانی عوام جن کی نگاہ میں پہلے دن سے امریکا کی افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت، حصہ داری اور کردار پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے مفادات کے خلاف اور صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ تھے اور پرویز مشرف کی اس پالیسی کے خلاف تھے، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر انھوں نے پرویز مشرف کی اس امریکی جنگ میں شرکت کو یکسر رد کردیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تسلسل نہیں، تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ امریکا کا موجودہ دبائو دراصل عوام کے اس مینڈیٹ کی نفی کرنے اور پرویز مشرف کی خون آشام اور عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے دبائو بڑھانے اور نئی حکومت کو اسی طرح خوف زدہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ کو ڈرا دھمکا کر امریکا کا آلۂ کار بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔

آج پھر ملک اور اس کی قیادت ایک ویسے ہی امتحان اور انتخاب سے دوچار ہے۔     اس لیے ضروری ہے صدر بش اور امریکا کی اس جنگ کے اصل مقاصد کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے، سات سال میں پرویز مشرف کی امریکا کی محکومی میںاختیار کی جانے والی پالیسی کے نتائج کا پوری علمی دیانت کے اور سیاسی حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے۔ عوام کے جذبات، احساسات اور مطالبات کا بھی احترام کیا جائے اور اچھی طرح سمجھا جائے کہ فردِواحد کی بنائی جانے والی پالیسی کے مقابلے میں عوام کی منتخب سیاسی قیادت کو اپنی پالیسی کس طرح اور کن مقاصد کے لیے مرتب اور نافذ کرنی چاہیے۔

نئی حکومت کا مینڈیٹ اور اس کے بعد

آگے بڑھنے سے پہلے ایک بنیادی بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری کو بڑا واضح مینڈیٹ دیا ہے اور اس میں پانچ چیزیں بہت واضح ہیں:

                ۱-            پرویز مشرف کا دور حکومت تاریک اور ناکام دور تھا اور قوم ان سے اور ان کی مسلط کردہ پالیسیوں سے نجات چاہتی ہے، ان کا تسلسل نہیں۔

                ۲-            عدلیہ پر پرویز مشرف کا حملہ اور اعلیٰ ججوں کی برطرفی ایک قومی جرم اور دستور اور اس کے تحت قائم ہونے والے ادارتی نظام کو درہم برہم کرنے اور ایک تابع مہمل عدلیہ ملک پر مسلط کرنے کی باغیانہ کوشش تھی۔ نئی حکومت کی پہلی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ججوں کو بحال کرے اور عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

                ۳-            ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم ہونا چاہیے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور دستور کے تحت سول حکومت کے احکام کی پاس داری کرنا ہے۔ ملک کی قسمت کے فیصلے اور پالیسی سازی دستور، قانون اور ضابطوں کے مطابق عوام کے منتخب نمایندے کریں۔ پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہو اور قیادت عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی ذمہ داری ادا کرے، کھلے انداز میں کرے، اور ان کے سامنے جواب دہ ہو۔

                ۴-            پاکستان کے معاملات میں امریکا کا کردار جو شکل اختیار کرگیا ہے وہ قومی حاکمیت، عزت و وقار اور مفادات کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں سب سے تباہ کن چیز امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور کردار اور اس کے نتیجے میں ملک اور پورے علاقے میں جو خون ریزی ہورہی ہے اور دہشت گردی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، سوات، پاکستانی قانون کے زیرعمل داری (settled) علاقوں، حتیٰ کہ اسلام آباد اور لاہور میں جو حالات رونما ہوئے اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ظلم اور سرکاری دہشت گردی کا جو خونیں ڈراما رچایا گیا ہے، وہ عوام کے غیظ و غضب کا سبب بنا ہے۔ نئی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت پر بنیادی نظرثانی کرے اور علاقے میں امن و سلامتی کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔

                ۵-            آخری چیز پرویزی دور کی دوسری تمام پالیسیوں خصوصیت سے معاشی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیوں سے عوام کی بے زاری، بھارت کے سلسلے میں یک رخے انداز میں پسپائی اور یک طرفہ رعایات (one way concessions) اور مسئلہ کشمیر پر اُلٹی زقند (u-turn) کا رویہ ہے جس کے بارے میں انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد عوام نے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ملک جس طرح خوراک، مہنگائی، بدامنی، بجلی، گیس اور پانی کے بحران میں مبتلا ہے، وہ مشرف کی آٹھ سالہ غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط ترجیحات کا مجموعی نتیجہ (cumulative result) ہے، اور ان سب کے بارے میں نئی حکومت کو پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کارروائی کی ضرورت ہے۔

یہ تو تھا عوام کا مینڈیٹ اور ان کی توقعات کا خاکہ ___ مخلوط حکومت کے قیام کو ملک کی تمام کی تمام قوتوں نے خوش آمدید کہا اور ان دینی اور سیاسی جماعتوں نے بھی جنھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کھلے دل سے حکومت کو موقع دیا اور اسے صحیح مشوروں سے نوازا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کچھ درپردہ اور کچھ کھلی سودے بازیوں کے پس منظر میں جو سیاسی عناصر میدان میں آئے تھے، ان کی نگاہیں عوام کے مینڈیٹ اور توقعات سے کہیں زیادہ اپنے مفادات پر تھی اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانے چاہییں تھے، ان پر چھے ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی لیت و لعل کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا گومگو کا شکار ہیں، پارلیمنٹ جس کی بالادستی کے دعوے ہو رہے تھے ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے اور زرداری ہائوس اور ایوانِ صدر اپنے اپنے کردار ادا کرنے میں مصروف اور ایک دوسرے کے لیے گنجایش نکالنے کا پریشان کن نقشہ بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ وزرا گاڑیوں پر جھنڈے تو لہرا رہے ہیں اور انتقالِ اقتدار کے ڈرامے کے باوجود انتقالِ اختیارات کی صورت نظر نہیں آرہی۔ کسی بھی اہم میدان میں نئی پالیسی سازی کی کوئی جھلک دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وزیردفاع، وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ تک پالیسیوں کے تسلسل کی بات کر رہے ہیں اور وزیرخارجہ نے تو یہاں تک فلسفہ بگھارا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا انحصار اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات (strategic interests) پر ہوتا ہے اور قیادت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی۔ وہ بھول گئے کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے معرکے میں بنیادی ایشو ہی یہ تھا کہ ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس ناکام پالیسی کی تبدیلی کے لیے عوام نئی قیادت کو سامنے لائے ہیں۔

وزیرخارجہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں سیاسی قیادت نے ایک بار نہیں  بار بار خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور وہ تبدیلیاں اسٹرے ٹیجک مفادات کے ادراک ہی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ حالات کی تبدیلی سے اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلی ہوتی ہے، جیسے برلن کے انقلاب کے بعد، امریکا کی ہر کوشش کے علی الرغم پاکستان کا چین کوتسلیم کرنا اور اس کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کا قیام۔ واضح رہے کہ خارجہ پالیسی کی اس تبدیلی میں خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اہم کردار تھا لیکن آج کی پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ اسی طرح افغانستان پر اس کی کھلی فوج کشی اور برزنیف ڈاکٹرائن کی افغانستان کے لیے توسیع   نے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں ایک جوہری تبدیلی کردی تھی اور اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ خود پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد جو یوٹرن لیا اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کا رخ بالکل بدل گیا۔ آج نائن الیون کے سات سال بعد دنیا کا جو حال ہے، عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے، یورپ، چین اور روس جس طرح کروٹیں لے رہے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک عالم گیریت کے بوجھ تلے دبے جس طرح کراہ رہے ہیں اور اپنے لیے زندہ رہنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جو جستجو کر رہے ہیں، اور امریکا کی سات سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو نتائج افغانستان اور اس پورے خطے (region) بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوئے وہ اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں اور ان مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ پالیسی کے ازسرنو بنیادی جائزے کی ضرورت ہے نہ کہ ضمنی تبدیلیوں کی۔ ان حالات میں تبدیلی کی جگہ تسلسل کی بات نہایت مایوس کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ اصلاح کی توقع اسی وقت ہوسکتی ہے جب مرض کا احساس، خرابی کا ادراک اور تبدیلی کا عزم ہو___ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا اقتدار کے پہلے ۵۰ دن میںریکارڈ کسی اعتبار سے بھی قابلِ فخر تو کیا تسلی بخش بھی نہیں کہا جاسکتا۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں ہم قبائلی علاقہ جات میں جاری پالیسی، اس میں تبدیلی کی ضرورت اور کوشش اور بحیثیت مجموعی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ قومی یک جہتی، ملک میں امن و امان کے قیام اور فوج اور قوم کے تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی، ملک کی آزادی اور حاکمیت اور ہماری پوری دفاعی صلاحیت کی حکمت عملی سے ہے۔ بلاشبہہ اس کا گہرا تعلق پاک امریکا تعلقات سے بھی ہے اور ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ پالیسی کی تشکیل ان سارے پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ہی ممکن ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور وہ اہداف کہاں تک خود پاکستان کے مفادات اور اس خطے میں اس کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جو پالیسی وقتی حالات، بیرونی دبائو، یا خوف اور مجبوری کے تحت بنے گی وہ کبھی بھی قومی مقاصد اور مفادات کی ضامن نہیں ہوسکتی۔

ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نائن الیون کے بعد آزاد فیصلہ سازی کے لیے کتنی گنجایش موجود تھی اور اس وقت کن حالات میں کیا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اس پر اپنے خیالات کا اظہار بار بار کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی اس وقت ضرورت نہیں۔ لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ خود امریکا میں بش کی پالیسیوں کو اب وہ پذیرائی حاصل نہیں اور دنیا کے عوام، حکومتیں اور دانش ور اپنے اپنے انداز میں اس سے فاصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ، اسپین، اٹلی اور آسٹریلیا کے عوام اور حکومتوں نے اپنے تعاون کی مقدار (quantum) اور شکلوں پر نظرثانی کی ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، پولینڈ اور دسیوں ملک نظرثانی میں مشغول ہیں۔ خود امریکا کے تھنک ٹینک عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامیوں پر کھل کر بحث کر رہے ہیں اور امریکی مقتدرہ سے متعلق افراد، خصوصیت سے کلیدی مقامات پر خدمات انجام دینے والے فوجی اور سول شخصیات جو ریٹائر ہوچکی ہیں پالیسی کی ناکامیوں اور تبدیلی کی ضرورت پر کھل کر کلام کر رہے ہیں۔

ان حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ امریکا کے احکام اور بلیک میل کرنے والے مطالبات پر سرِتسلیم خم کرنے کی روش ترک کی جائے،دوستی اور محکومی کے فرق کو سامنے رکھاجائے، دوسروں کے مفادات اور اپنے مفادات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے اور عوام کی خواہشات اور ان کو اعتماد میں لے کر پوری دانش مندی سے پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے اور پالیسی سازی کے طریق کار کو بھی درست کیا جائے تاکہ ذاتی پسندوناپسند، شخصی مفادات اور ترجیحات کا کوئی سایہ قومی پالیسیوں پر نہ پڑے اور یہ پالیسیاں مکمل طور پر قومی مقاصد، اہداف اورمفادات کے مطابق مشاورت کے اداراتی عمل کے ذریعے بنیں اور ان پر پارلیمنٹ میں کھلی بحث ہو اور ہرسطح پر عوام کی شرکت کا اہتمام کیا جائے۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے جو پالیسی بنے گی وہ خام ہوگی اور نتائج کے حصول میں ناکام رہے گی۔ صوبہ سرحد کی نئی حکومت کو سیکولر قوتوں کی فتح کہا جا رہا تھا اور اے این پی کی صوبے میں کامیابی کو دینی قوتوں کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور امریکی حکومت نے اے این پی کی قیادت سے بلاواسطہ تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہیں استوار کرنے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، لیکن صوبے کی حکومت کو طالبان اور سوات کی مقتدرہ قوتوں سے بات چیت ہی کا راستہ استعمال کرنا پڑا اور شریعت محمدیؐ کے نفاذ کو معاہدے میں سرفہرست رکھنا پڑا۔ یہ زمینی حقائق اور حقائق پر مبنی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ سیاسی قوتوں کو سیاسی حقائق کی روشنی میں مسائل کے سیاسی حل ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف خودپسند جرنیلوں یا مفادات کی دلدل میں پھنسے ہوئے سیاست دانوں کا رویہ ہوتا ہے کہ وہ انا ولاغیری کے زعم میں من مانے فیصلے کرڈالتے ہیں اور اس کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ قوم اس کی کیا قیمت ادا کرتی ہے؟

امریکی منصوبے

اب یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا مقصد دہشت گردی سے انسانیت کو نجات دلانا نہیں، بلکہ دہشت گردی کے نام پر اپنے عالمی منصوبوں کی تکمیل اور اہداف کا حصول ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

۱- دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہ موجود ہے اور نہ امریکا نے اس سلسلے میں کوئی قرارواقعی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس ایک مبہم بات کوایک دوسرے غیرواضح مبہم وجود، یعنی القاعدہ کے شانوں پر سجا کر ایک عالمی جنگ کا عنوان بنا دیا ہے اور عملاً دنیا کو اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا۔

۲- نائن الیون سے پہلے بلکہ صدیوں سے دہشت گردی کا وجود رہا ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مختلف گروہوں نے قوت کا ایسا استعمال بار بار کیا ہے جس سے خواہ ان کے سیاسی مقاصد اور اہداف توجہ کا مرکز بن گئے ہوں مگر معصوم انسانوں کی جانوں کی قربانی بھی اس کا حصہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مقاصد سے ہمدردی کے باوجود ان کے اس طریق کار پر گرفت کی گئی ہے اور ریاست اور قانون کی نگاہ میں ان کے یہ اقدامِ جرم    شمار کیے گئے لیکن امریکا نے اپنے سوچے سمجھے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لیے نائن الیون   کے واقعے کے ۲۴ گھنٹے کے اندر ایک مجرمانہ کارروائی (criminal activity) کو جنگ کا نام  دے دیا اور اس کے جواب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک عالمی جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ ایک جوہری تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے     سیاسی تدابیر اور ان کے ساتھ مجرموں سے نمٹنے کے عدالتی طور طریقوں کو ترک کر کے جنگ کے مثالیے (paradigm) کو مسئلے کے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور مسئلے کے عسکری حل (military solution) کی حکمت عملی کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔

امریکا کے اسٹرے ٹیجک مفکرین روس کے انتشار اور دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سے ایک ایسی عالمی حکمت عملی کا تانا بانا بُننے میں مشغول تھے جس کے ذریعے امریکا ۲۱ویں صدی کی واحد سوپر پاور رہ سکے، اس کا مقابلہ کرنے والی کوئی قوت (challenger) نہ اُبھر سکے، دنیا کے تمام اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر امریکا کے فوجی اڈے موجود ہوں، تیل،گیس اور خام مال کی رسد پر اس کا کنٹرول رہے، اس کی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں، خصوصیت سے عرب دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیاں کھلی رہیں، نیز مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کا سیاسی نقشہ اس طرح دوبارہ بنایا جائے کہ امریکا کے مفادات کو مکمل تحفظ حاصل ہو، اور اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ پیش نہ آئے بلکہ اسرائیل امریکا کے نائب (surrogate) کی حیثیت سے اس پورے علاقے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے حصول کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے۔ اس کے لیے عراق کی کمر توڑنا، افغانستان میں اپنے قدم جمانا، ایران کو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت نہ بننے دینا بلکہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی اس کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا، پاکستان پر دبائو، چین پر نگرانی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اسے ہراساں کرنے کا ہمہ گیر پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعاون کے ذریعے اس علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھانا، جب کہ مسلم ممالک خاص طور پر عراق، پاکستان، افغانستان کو علاقائی، فرقہ وارانہ اور اسی قسم کی دوسری عصبیتوں کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے کمزور کرنا___ وہ کلیدی اہداف تھے، جن پر ۹۰ کے عشرے سے عمل ہو رہا تھا۔ نائن الیون کے حادثے کو ایک سنہری موقع بناکر پورے بین الاقوامی قانون کو بالاے طاق رکھ کر اپنے دفاع کے نام پر دوسرے ممالک پر فوج کشی، ان کی سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزی کے سامراجی  فلسفے کو پالیسی کا مرکز و محور بنانا، جمہوریت کے فروغ اور تبدیلیِاقتدار (regime change ) کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت اور سیاسی تبدیلیوں کا کھیل، جنگ اور قومی سلامتی کا سہارا لے کر ان تمام حقوق کی پامالی جو مہذب دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں، وہ مقاصد ہیں جن کے لیے امریکا خصوصیت سے نائن الیون کے بعد سرگرم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کا صرف عنوان ہے اوراصل سامراجی کھیل کے لیے قائم مقام (proxy) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی سرکاری دستاویزات، دنیا بھر کے اہم تھنک ٹینکس کی مطبوعات اور صدربش سے  لے کر ان کے سول اور فوجی ترجمانوں اورسابقہ کمانڈروں اور خفیہ اداروں کے ترجمانوں کے بیانات چشم کشا ہیں۔ کسی کو باہر سے الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ امریکا کا عمل اور اس کے    ذمہ داروں کے بیانات سیاسی شطرنج کا پورا نقشہ پیش کردیتے ہیں۔

ایک مشہور فرانسیسی مفکر ایمانیول ٹوڈ اپنی کتاب After the Empire: The Breakdown of the American Order میں لکھتا ہے:

امریکا نے اپنے آپ کو ساری دنیا میں ’کروسیڈ‘ کے قائد کی حیثیت سے پیش کرنے اور کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی بھی مدت کے لیے مداخلت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کچھ عرصے سے عالمی دہشت گردی کے تصور کو استعمال کیا ہے۔ (ص ۴۴)

القاعدہ اور حکومت طالبان کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا نے افغانستان میں ۱۲ ہزار، ازبکستان میں ۱۵۰۰ اور جارجیا میں کم و بیش ۱۰۰ فوجی تعینات کر دیے۔ (ص۱۳۱)

تمام ظاہری محرکات سے زیادہ، امریکا نے اپنی فوجی شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے مسلم دنیا کو بطور ہدف اور ’عذر خصوصی‘ (priveleged pretext) اس لیے منتخب کیا ہے کہ کم خرچ پر اپنی طاقت کی ہرجگہ اسٹرے ٹیجک موجودگی کو سامنے لایا جائے۔     یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ ایسا عالمِ عرب کی عمومی کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکا عربوں کے ساتھ بدسلوکی کرے گا اس لیے کہ وہ فوجی لحاظ سے کمزور ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس تیل ہے اور تیل اتنا اہم ہے کہ امریکا کے ہرقسم کی اشیاے تجارت پر عالمی انحصار سے توجہ منتقل کردے گا۔ (ص ۱۴۲-۱۴۳)

ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی محقق نفیض مصدق احمد نے، جو برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Institute of Policy & Research کے ڈائرکٹر ہیں، دو تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔ پہلی The War on Truthاور دوسری Behind the War on Terror۔ ان کتابوں میں قابلِ اعتماد حوالوں کے ساتھ امریکا کی عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تمام ہی پہلوئوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ موصوف جس نتیجے پر پہنچے ہیں،وہ مختصراً یہ ہے:

حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو نئی جنگ شروع کی، یہ انھی بنیادی اصولوں اور منصوبوں کی توسیع ہے جنھوں نے دوسری جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی اور آگے بڑھایا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے درحقیقت امریکی حکومت اپنی عالمی برتری کو توسیع دینے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ان طویل المیعاد حکمت عملیوں کے مطابق ہے جنھیں گذشتہ کئی عشروں میں غوروفکر کرکے محنت سے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ Behind the War on Terror: Western Secret Strategies and the Struggle for Iraq این ایس احمد، Calavian Sussex  ، ۲۰۰۳ئ، ص ۳)

ایک امریکی تھنک ٹینک Project for the New American Century (PNAC) نے بڑی چشم کشا رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کے تیار کرنے والوں میں صدر جارج بش کے چوٹی کے مشیر شامل رہے ہیں جن میں ڈک چینی (موجودہ نائب صدر) ڈونالڈ رمزفیلڈ  (سابق وزیردفاع)، لیوس لبی نائب صدر کے سابق چیف آف اسٹاف وغیرہ شامل تھے۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ایسا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہے جس کا مقصد:

عالمی سطح پر امریکا کی برتری کو برقرار رکھنا، کسی دوسری عظیم طاقت کے بطور حریف عروج کو روکنا، اور بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو امریکی اصولوں اور مفادات کے مطابق تشکیل دینا ہے۔

اسی قسم کے ایک اور جامع منصوبے میں جس کی تیاری میں کولن پاول اور پال ولفورٹس شامل تھے، کہا گیا ہے کہ:

یہ امریکا کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ذریعے اپنی آخری شکل اختیار کرے گا۔ یہ منصوبہ دنیا پر امریکا کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہے۔ اس کا کھلا کھلا مرکزی خیال ایک ہی طاقت کا میدان میں رہنا (unilateralism) ہے لیکن یہ بالآخر غلبہ حاصل کرنے کی کہانی ہے۔ اس کا تقاضا ہے: دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا غلبہ۔

امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق دہشت گردی سے کم اور امریکا کے اپنے عالمی عزائم جس کا اصل ہدف دنیا پر امریکی غلبہ (Pax Americana) ہے، تیل اور انرجی کے دوسرے ذخائر پرقبضہ اور ان کی رسد کے راستوں پر حکمرانی، دنیا کے اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر اپنے فوجی اڈوں کا قیام اور دنیا کے اہم علاقوں خصوصیت سے مشرق وسطیٰ اور وسط افریقہ کے سیاسی نقشے کی امریکی مفادات اور اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں تشکیلِ نو۔

سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عراق، افغانستان اور لبنان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، نیز پاکستان کے بارے میں جو نئے نئے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں، ان سب کا تعلق اس بڑی (grand) حکمت عملی سے ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کی دل چسپی اس عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کا ایک پہلو ہے۔

ڈاکٹر نفیض احمد نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے جو امریکی حکمت عملی کے سینے کے اصل راز کو فاش کرتی ہے:

اس طرح بین الاقوامی دہشت گردی امریکی بالادستی کے ماتحت ورلڈ آرڈر میں ایک  عملی کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گرد اسامہ صدر بش کی ضرورت ہے۔ بن لادن نہ رہے، تو بش کے پاس پوری دنیا میں کوئی مستقل ہدف نہیں رہے گا اور اس طرح نئے امریکی غلبے (New Pax Americana) کے لیے جواز ختم ہوجاتا ہے۔ (ص ۱۷)

دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسے اپنے سیاسی پروگرام میں ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے میں امریکا کا اپنا کردار بہت زیادہ داغ دار ہے اور اس تاریخی روایت کی روشنی میں دہشت گردی کے باب میں امریکا کے حالیہ جوش و خروش کو سنجیدگی سے لینا محال ہے۔ ڈاکٹر احمد کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ:

مشرق وسطیٰ کے کلیدی گرم محاذ عراق کے ہمارے تفصیلی تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی پالیسی نے اسٹرے ٹیجک حکومتوں کے کنٹرول اور توانائی کے کلیدی وسائل پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان بنیادی انسانی اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے جن کی وہ علَم بردار ہے۔ یہ امر بہت اہم ہے کہ اس عمل میں مغربی پالیسی ریاستی دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث رہنے کی رہی ہے، دونوں طرح سے، بالواسطہ طور پر ان حکومتوں کو جو دہشت گردی کی مرتکب تھیں اسپانسر کرکے اور بلاواسطہ طور پر ایسے فوجی آپریشن کرکے جو دہشت گردی پر مبنی تھے۔ اس سے بنیادی طور پر نائن الیون کے نتیجے کے طور پر جاری دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ کے درست ہونے کا تصور بلاشبہہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں مغربی پالیسی کی بنیاد میں یہ بات شامل ہے کہ تنازعات کو پیدا کیا جائے اور/یا بڑھایا جائے تاکہ مغربی مفادات سے ہم آہنگی ہو۔ یہ استعماری دور کی روایتی لڑائو اور حکومت کرو پالیسی کی یاد دلاتا ہے۔ (ص ۲۴۳)

امریکی پالیسی کے مقاصد بہت واضح ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک عنوان اور نعرہ ہے۔ اصل مقصد امریکا کی بالادستی، مسلمان اور دوسرے ممالک میں اپنی مفید مطلب حکومتوں کا قیام، تیل اور دوسرے وسائل پر قبضہ اور ان کا اپنے مفادات کے لیے استعمال، اسرائیل کا تحفظ اور اسے مشرق اوسط میں کھل کھیلنے کے مواقع کی فراہمی اور اس کی جارحانہ سرگرمیوں کی سرپرستی اور حفاظت، احیاے اسلام کی تحریکوں کا راستہ روکنا اور اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں اسلام کو حکمران قوت بنانے سے روکنا اور اپنی سیاسی، معاشی، نظریاتی، عسکری، ثقافتی اور ذہنی غلامی میں جکڑنا ہے۔

امریکا کے بارے میں راے عامہ

افغانستان میں امریکا اور اس کی حلیف قوتوں کا اصل مقصد مغربی استعمار کے ان ہی اہداف کا حصول ہے، اور پرویز مشرف کا امریکا کو اس کی جنگ میں پاکستان کا تعاون فراہم کرنا اور پاکستان کی سرحدات کو امریکی جولانیوں کے لیے کھول دینا پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات سے متصادم اور امریکا کے مفادات کی خدمت رہا ہے۔ پاکستانی عوام امریکا اور مشرف کے اس کھیل پر مضطرب، سرگرداں اور متفکر رہے ہیں۔ اپنی مخالفت کا اظہار ہر میدان میں کرتے رہے ہیں اور پورے خطے میں تصادم اور خون خرابے کے اضافے کاسبب بھی مشرف حکومت کی یہی پالیسی رہی ہے۔ گیلپ، World Public Opinion Survey، The Pew Global Attitudes Projectاور خود امریکی اداروں کے زیراہتمام کیے جانے والے IRI Index ،تمام سروے  راے عامہ کی مخالفت کی گواہی دیتے ہیں۔ گیلپ کے ان تمام جائزوں کے تجزیے پر مبنی کتاب Who Speaks for Islam? What A Billion Muslims Realy Think حال ہی میں گیلپ پریس نے شائع کی ہے۔ جو سروے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک کیے گئے ہیں، ان کا تجزیہ مشہور امریکی محقق جان ایسپوزیٹو نے کیا ہے۔ ان جائزوں کی روشنی میں مسلمان اپنے دین پر ایمان اور اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اورمنظم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ جو بھی احتجاج امریکا کے خلاف ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں ہیں۔

Pew (پیو) کے گلوبل سروے کے مطابق جو جون ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا اور جس میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے سروے کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، اس کے مطابق پوری دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں امریکا کی مقبولیت کا گراف برابر گر رہا ہے۔ ۷۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی عوام امریکا کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکا کی اس جنگ نے دنیا کو زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔

اسی طرح World Public Opinion Surveyکے سروے کی روشنی میں پاکستانی عوام کے ۹۰ فی صد کی خواہش ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو، جب کہ آبادی کے ۴۶ فی صد کی راے یہ تھی کہ اس وقت زندگی کے اجتماعی معاملات اسلام کے مطابق نہیں چلائے جا رہے۔ سیکورٹی اور معیشت کے معاملات میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ۴۴ فی صد کا خیال تھا کہ اس کا فائدہ صرف امریکا کو پہنچ رہا ہے، جب کہ ۹فی صد کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے لیے مفید رہی ہیں۔ ۲۹ فی صد نے کہا کہ یہ پاکستان کے مفادات پر ضرب لگارہی ہیں۔ ۷۲ فی صد عوام کی راے یہ تھی کہ ایشیا میں امریکا کی عسکری موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، ایک فیصلہ کن خطرہ (critical threat ) ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد نے اسے خطرہ قرار دیا اور صرف ۶ فی صد کی راے میں اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستانیوں کی تشویش اور بھی سوا ہے۔ ۶۸ فی صد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ کن خطرہ ہے۔ اسامہ بن لادن کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ اسامہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہو اور حکومت کو اس کا صحیح پتا بھی چل جائے تو کیا پاکستان کو اسامہ بن لادن کو گرفتار کر لینا چاہیے۔ ۳۹ فی صد نے کہا کہ نہیں کرنا چاہیے، جب کہ۲۴ فی صد نے اسے گرفتار کرنے کے حق میں راے دی۔

سب سے اہم سوال یہ تھا کہ امریکا کے عالمی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کی کیا راے ہے کہ امریکا کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ۵۳ فی صد نے کہا: عیسائیت کا فروغ ان کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ تیل کے ذخائر پر قبضے کے باب میں ۷۸ فی صد کا خیال تھاکہ یہ ایک واضح ہدف ہے۔ لیکن سب سے چشم کشا جواب اس سوال کا تھا کہ کیا امریکا اسلامی دنیا کو تقسیم اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ۸۶ فی صد کا خیال تھا کہ ہاں، یہ امریکا کا ایک واضح ہدف ہے۔

اب ایک نظر اس سروے پر بھی ڈال لی جائے جو امریکا نے پاکستان میں انتخاب سے چند ہفتے قبل (۱۹-۲۹ جنوری ۲۰۰۸ئ) کروایا ہے اور جو IRI index کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس سروے کی رو سے ۸۴ فی صد آبادی کی راے میں مشرف کی قیادت میں پاکستان جس رخ پر جارہا ہے وہ غلط ہے۔ پاکستانیوں کی نگاہ میں دہشت گردی سب سے اہم مسئلہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ افراطِ زر کا ہے جسے ۵۵ فی صد نے نمبر ایک پر رکھا ہے۔ بے روزگاری کو ۱۵ فی صد سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم مسئلہ قرار دیا ہے لیکن عوام کی راے کاصحیح اندازہ دو دوسرے سوالوں کے جواب سے کیا جاسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ صوبہ سرحد اور فاٹا میں انتہاپسندی کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں ہیں تو ۶۴ فی صد نے اس کی مخالفت کی اورجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو امریکا سے دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں تعاون کرنا چاہیے تو ۸۹ فی صد نے عدمِ تعاون اور مخالفت کو اپنی ترجیح قراردیا۔

آزادی اور خودمختاری کا راستہ

یہ ہے عوام کی اصل سوچ___ اور اسی کا اظہار ۱۸ فروری کے انتخابات میں ہوا۔ اس کا تقاضاہے کہ نومنتخب حکومت اور پارلیمنٹ مشرف کی بنائی ہوئی پالیسی کوجلد از جلد تبدیل کرے اور عوام کی خواہش اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں فوجی آپریشن کو ختم کرکے مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سلجھائے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ایک مناسب منصوبے کے تحت دست کش ہو، افغانستان میں مکمل عدمِ مداخلت کی روش اختیار کرے اور امریکا اور مغربی اقوام کو اس زمینی حقیقت کو پڑھ لینے کی ترغیب دے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو کی فوجوں کی موجودگی فساد کا اصل سبب ہیں۔ ان افواج کو افغان عوام قابض افواج شمار کرتے ہیں اور ان کا کردار بھی قابض طاقتوں ہی جیسا ہے۔یہ انتظام اور یہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ افغانستان میں بھی ناکام ہے اور عراق میں بھی۔ اسے جاری رکھنے کا نتیجہ مزید خون خرابے کے سوا کچھ نہیں۔ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ اس پالیسی کو بتدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کا آغاز پاکستان کی شرکت اور صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکا کی جنگ کے سپاہی کاکردار ختم کر کے امن و امان کے قیام کا امکان پیدا کیا جائے اور اور فوج اور عوام کی یک جہتی کے ماڈل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

پرویز مشرف کی پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تواس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریب آنے کے بجاے عملاً ایک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سرحدات کی امریکی خلاف ورزیاں بڑھی ہیں اور ہمارے معاملات میں  ان کی مداخلت اس حد تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت کے لیے خطرہ اور قومی  عزت و وقار کے منافی ہے۔ فوج اور قوم میں صرف دُوری ہی نہیں ہوئی، بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ۱۲۰۰ سے زیادہ فوجی اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ۳ ہزار کے قریب سویلین موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ محسود قبائل کے علاقے کے بارے میں امن و امان کے قیام کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وہاں پہلی مرتبہ پاکستانی صحافیوں کو لے جایا گیا ہے اور  ان کی رپورٹ یہ ہے کہ فوج کی چوکیاں تو وہاں ہیں مگرمحسودعلاقے میں وہ کسی محسود باشندے کو  نہیں دیکھ سکے۔ پورا علاقہ انسانوں سے خالی ہے اور ایک بھوتوں کے مسکن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ایسا امن قبرستان کا امن تو کہا جاسکتا ہے، انسانی بستیوں کا امن اسے نہیں کہا جاسکتا۔

پھر جس معاشی امداد کا چرچاہے بلکہ امریکی اس کے نام پر چرکے لگا رہے ہیں، اس کا حال یہ ہے کہ خود امریکی حکام کے بقول: اس کا ۳۰ فی صد امریکا کے مشیروں (consultants)  پر صَرف ہوا ہے اور ۷۰ فی صد پاکستان پہنچا ہے۔ پھر یہاں اس کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے اور عوام کے حصے میں کیا آیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ البتہ جس ۱۱ ارب ڈالر کی امداد کا دعویٰ ہے، اس میں سے ۶ ارب ڈالر توفوجی خدمات کا معاوضہ ہے، کوئی مدد نہیں ہے۔ صرف ۵ارب ڈالر سات سال میں مدد کی مد میں آئے ہیں لیکن پہلے چار سال میں جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور جس کا اعتراف خود امریکی فوج کے مرکز (centcom) نے کیا ہے، وہ ۱۰ ارب ڈالر ہے۔ اگر باقی تین سال کے بارے میں بھی اندازہ کیا جائے تو قرین عقل یہ ہے کہ یہ نقصان ۱۵ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر نفع نقصان کا میزانیہ بنایا جائے تو بات خواہ ملک کی آزادی     اور حاکمیت کی ہو، عزت اور وقار کی ہو، جانی اور مالی نقصان کی ہو، حکومت اور عوام اور فوج اور   قوم کے درمیان تعلقات کی ہو___ یہ ایک خسارے اور صرف خسارے کا سودا رہا ہے جس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ پاکستانی عوام تو پہلے دن سے اس پر چیخ رہے ہیں۔ Counter Punch کے تازہ شمارے میں ایک امریکی دانش ور رچرڈ ڈبلیو بی ہان لکھتا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فراڈ ہے، محض ایک لیبل جو ایک ایسی انتظامیہ کی   جعل سازی اور ڈھنڈورا پیٹنے کے مترادف ہے جو اپنی ’مستند‘ بددیانتی کے لیے معروف ہے۔ یہ لیبل بش انتظامیہ کے بلااشتعال فوجی حملوں کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ افغانستان اور عراق کی دو خودمختار مملکتوں پر جو حملے ہوئے وہ بش انتظامیہ اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دن سے کرنا چاہتی تھی۔

یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ آج افغانستان اور عراق مقبوضہ ممالک ہیں جن کا انتظام کٹھ پتلی حکومتیں کر رہی ہیں اور جو فوجی چھائونیوں کی بنیاد پر اپنا کام، یعنی توانائی کے اثاثوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی جنگی کارروائی کا ضمنی نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا مقصد تھا… دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک تصدیق شدہ  دھوکا (certified fraud) ہے۔ (دی نیشن، ۱۱ مئی ۲۰۰۸ئ)

اس جنگ میں پاکستان کے کردار کا حاصل کیا ہے؟ یہ بھی کرسچین سائنس مانیٹر کے نمایندے  گورڈن لوبالڈ کے تازہ ترین مراسلے میں دیکھ لیجیے:

پاکستان میں انتہاپسندوں کے خلاف فوجی حملوں کو بش انتظامیہ مرکزی اہمیت دے رہی ہے۔ اس پر تجزیہ نگار تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا ایک ناکام پالیسی پر اپنے ایک اہم حلیف سے ایک ایسے وقت میں اصرار کر رہا ہے، جب کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات، یعنی پاکستان میں ایک نئی منتخب حکومت اور افغانستان میں محاذ آرائی میں اضافہ، حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)

اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو سابقہ پالیسی جاری رکھنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوجی حل کی حکمت عملی کو ترک کر کے زمینی حقائق، عوامی خواہشات، اور پاکستان کے اپنے مفادات اور مقاصد و ترجیحات کی روشنی میں سیاسی حل نکالا جائے اور خطے کو مزید عدمِ استحکام سے بچایا جائے۔

اس وقت جو جنگ قبائلی علاقوں میں ہورہی ہے اور جس سے صوبہ سرحد اور ملک کے دوسرے علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں، وہ نہ پاکستان کی جنگ ہے اور نہ اُمت ِمسلمہ کے مفادات کی جنگ۔ یہ صرف امریکا کے استعماری عزائم کے حصول کی جنگ۔ یہ جو خود امریکا کے عوام کے مفاد میں بھی نہیں اور اس کی وجہ سے آج امریکا کے خلاف نفرت کا لاوا ساری دنیا میں پھٹ رہا ہے اور بے چینی، بے اطمینانی اور مخالفت کی لہریں بلند تر ہورہی ہیں۔ امریکا میں عوام کی بڑی تعداد  اس جنگ سے بے زار ہے اور امریکی معیشت اس کے بوجھ کو مزید برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دنیا بھر میں امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے علَم بردار کی حیثیت سے نہیں، ایک غاصب اور استعماری قوت کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے اور یہ کوئی اچھی پہچان نہیں۔ امریکا کو دنیا کا امن تہہ و بالا کرنے کا ذمہ دار گردانا جا رہا ہے اور دنیا آج نائن الیون کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور غیرمستحکم ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادتیں اپنی آنکھیں کھولیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ اور اگر امریکا تباہی کے راستے پر چلنے کے لیے مصر ہے تو ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ دن کی طرح روشن حقائق کو بھی دیکھنے کو تیار نہیں، عوام کی آواز کو سننے کے لیے ان کے  کان بند ہیں اور وہ تبدیلی کی جگہ تسلسل کی پُرفریب وادیوں میں گم نظر آتے ہیں۔ قوم صاف الفاظ میں تبدیلی کا مطالبہ کررہی ہے۔ قوم کی راے میں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان، پاکستانی قوم اوراُمت مسلمہ کی جنگ نہیں___ یہ امریکا کی استعماری جنگ ہے اور اس میں آلۂ کار بنے رہنا ایک اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی جرم ہے۔ جتنی جلد اس جنگ سے ہم نکل آئیں اتنا بہتر ہے۔

ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ تو نوشتۂ دیوار ہے کہ یہ جنگ ناکام ہے اور فساد اور بگاڑ کو بڑھانے کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اسے ختم ہونا ہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کتنی تباہی کے بعد اس آگ سے نکلتے ہیں؟ اب بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہماری دعوت ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت اب بھی عقل و دانش کا راستہ اختیار کرے اور امریکا کی اس جنگ سے نکلنے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے حصول کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا بہترین استعمال کرے۔ ارباب اقتدار کو جاننا چاہیے کہ ایک بے عقل کو بھی بالآخر وہی کرنا پڑتا ہے جس کا مشورہ اصحاب دانش و بینش پہلے قدم ہی پر دے رہے ہوتے ہیں لیکن بے عقل اس فیصلے پر بڑی خرابی اور تباہی کے بعد پہنچتے ہیں    ؎

آں کہ دانا کند ، کند ناداں

لیک بعد از خرابیِ بسیار

کراچی میں تین ڈاکوئوں کا سرِبازار زد و کوب کرنے کے بعد زندہ نذرِ آتش کردینا ایک ایسا المناک سانحہ ہے جس نے پورے ملک کے اہلِ دانش کے قلب و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ہے   اور بہت واضح طور پر دو نقطۂ نظر سامنے آئے ہیں۔ ملک میں لاقانونیت اور اداروں کی ناکامی کے   پیش نظر ایک پڑھالکھا طبقہ یہ راے رکھتا ہے کہ عوام کا خود اپنے ہاتھوں معاملات کا فیصلہ کرنا ہی شاید اس مسئلے کا علاج ہے، اس لیے جو کچھ ہوا وہ قابلِ فہم ہے۔ لیکن ایک دوسرا مکتب ِفکر یہ راے رکھتا ہے کہ اداروں کی ناکامی کے باوجود ایک شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ملزم یا مجرم کو جان سے مار ڈالے، حتیٰ کہ جلا ڈالے۔ یہ ایک ناجائز اور قابلِ مذمت فعل ہے جس کی روک تھام ازبس ضروری ہے۔ یہ واقعہ ملک کے موجودہ سیاسی، قانونی اور معاشرتی نظام میں نہ صرف ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا پتا دیتا ہے، اور اگر بروقت اس ملک کی نوجوان نسل کی صحیح روحانی، سیاسی اور معاشرتی رہنمائی نہ کی گئی تو اس سے زیادہ بھیانک واقعات کا ظہور ہوسکتا ہے۔

اسلام جس عدل کا علَم بردار ہے اس میں قانون اور خصوصاً فوج داری قانون کو ایک فرد کے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ دیوانی معاملات ہوں یا فوج داری، جیسے ڈاکا، چوری، قتل، بے حُرمتی یا رہزنی اور ارتداد، ان تمام معاملات میں صرف اور صرف اسلامی ریاست ہی وہ ادارہ ہے جو کسی ملزم یا مجرم کو مناسب تحقیق اور کارروائی کے بعد تعزیر یا سزا دے سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف علاقائی اور قبائلی روایات اور دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے ربط کے نتیجے میں  بعض ایسے طریقے ہمارے معاشرے میں رائج ہوگئے جو نہ اسلامی نقطۂ نظر سے اور نہ انسانی حقوق کے عمومی اصولوں سے مناسبت رکھتے ہیں، مثلاً غیرت کے نام پر قتل یا خون کا بدلہ چکانے کے لیے کم عمر لڑکیوں کو نکاح میں دے دینا۔

یہ صحیح ہے کہ اسلامی شریعت صرف قانون کے ذمہ داروں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ تنازعات کا فیصلہ کریں اور جرم ثابت ہونے پر کسی شخص کو سزا دیں جو جرم کی نوعیت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو، لیکن بات محض اصول کی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ گہرے اثرات کا حامل ہے اور جب تک اس طرح کے قابلِ مذمت واقعے کے اسباب پر غور نہ کیا جائے اصولی بات کافی نہ ہوگی۔

اس المناک واقعے سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پولیس اور عدالت جیسے اداروں پر اعتماد کھو چکا ہے اور اس کا عدمِ اعتماد ایک ایسے مقام تک پہنچ چکا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ احساس اور یہ طرزِفکر کسی بھی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے اور فوری توجہ اور تدارک کا مطالبہ کرتا ہے۔

دوسری چیز جو اس اندوہناک حادثے سے سامنے آتی ہے، وہ ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی حُرمت، عظمت اور قیمت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک چور، زانی اور راہ زن اپنے انتہائی قابلِ نفرت فعل کے باوجود ایک انسان ہے اور جب تک یہ تحقیق نہ کرلی جائے کہ وہ اس جرم کے ارتکاب پر کیوں مجبور ہوا، اس کی جان کا احترام دین کا مدعا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ابلاغِ عامہ کے ذرائع جس طرح اپنے ناظرین کو تشدد، ماردھاڑ اور رشتوں کا احترام نہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، مثلاً ڈراموں اور ’حقیقت پسندانہ‘ فلموں میں شوہر کا بیوی پر اور بیوی کا شوہر پر تشدد کرنا، نام نہاد ’مردانگی‘ کے نام پر عورت پر ہاتھ اٹھانا اور پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح ہرلمحے ماردھاڑ کرنے کو اپنی برتری سمجھنا۔ اسی طرح مغربی فلمیں حتیٰ کہ ٹی وی پر بچوں کے لیے کارٹونوں میں بھی تشدد،مار دھاڑ اور قتل و غارت کے مناظر اس کثرت سے دکھائے جاتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے کسی زندہ انسان کو جلایا بھی جا رہا ہو تو ان کی انسانیت نہ جاگتی ہے اورنہ تکلیف محسوس کرتی ہے۔ یہ بے حسی جس کا اظہار اس واقعے سے ہوا ہے براہِ راست ابلاغِ عامہ کی تجارتی پالیسی کا نتیجہ ہے، اور یہ ظاہر کرتاہے کہ انسانوں کے ضمیر کو بے حس بنانے یا انسانوں میں انسانیت جگانے میں ابلاغِ عامہ (اخبارات، رسائل، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ) مثبت اور منفی دونوں کردار ادا کرسکتے ہیں، جب کہ    فی الوقت ان سب کا رخ بحیثیت مجموعی منفی اور تباہ کن رجحانات پیدا کرنے کی طرف نظر آتاہے۔

تیسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ریاست جب بھی اپنے رفاہی کردار سے مجرمانہ طور پر غافل ہوگی، ملک میں نہ صرف غربت، فاقہ، بدامنی بلکہ قتل و غارت کا دور دورہ ہوگا۔ اسلام نے دورِ جدید میںانسانیت کو جو تحفہ دیا ہے وہ اسلامی ریاست کا ایک فلاحی ریاست ہونا ہے۔ چنانچہ شریعت کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسلامی ریاست، وہ ریاست ہے جس میں نہ صرف ایک انسان بلکہ کوئی بھی جان دار خواہ انسان ہو یا حیوان، اگر فاقے سے مرتا ہے تو اس کا خون ریاست کے سر پر ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا فرمان اس سلسلے میں ریاست کی ذمہ داری کے اصول کا اثبات کرتا ہے۔ اگر گذشتہ ۶۱ سال میں اس ملک کے بانی اور عوام کی خواہش، وعدے اور تصور کے پیشِ نظر پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آجاتی تو آج فاقے کی بنا پر خودکشی یا انسان سوزی کے یہ اندوہ ناک واقعات پیش نہ آتے۔ انسانوں کو زندہ جلانا نہ اسلام کی روایت ہے اور نہ شریعت کا مدعا۔ اسلام تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ قحط کے زمانے میں کسی باغ سے کوئی پھل یا کسی کا غلہ چرا لینے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے قحط سالی کے دوران جس پالیسی پر عمل فرمایا، وہ حقیقت پسندی اور مقاصدِ شریعت کی پاس داری کی روشن مثال ہے۔

اس واقعے کا چوتھا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ملک میں جو سیاسی نظام رائج رہا ہے وہ بدعنوانی، عدمِ تحفظ اور غربت و امارت کے فاصلوں کو کم یا ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اس طرح کے دردناک واقعات اس مجرمانہ غفلت، مفاد پرستی اور عوام کی ضروریات کا احساس نہ ہونے کی    بنا پر ہی وجود میں آتے ہیں، اور اگر معاشرے کے ان ناسوروں کو بند نہ کیا جائے تو پھر یہی ناسور معاشرے کا سرطان بن جاتے ہیں۔

کیا مسئلے کا حل قراردادِ مذمت یا حکومت پر ذمہ داری ڈالنے سے ہوسکتا ہے، یا ہر باشعور شہری کو اپنے گریبان میں منہ ڈال کر یہ دیکھنا ہوگا کہ کم سے کم وقت میںکس طرح اس فتنے کا سدّباب کیا جائے؟ اس ضمن میں چار ایسے پہلو ہیں جنھیں ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔

اول: مسئلے کا روحانی اور دینی پہلو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ عوام ہوں یا خواص، ہم نے گذشتہ ۶۱سال سے کسی فرد کو اسلام کی عادلانہ، مصلحانہ اور اخلاقی تعلیمات سے نہ آگاہ کیا اور نہ ایسا کرنے کو اچھا سمجھا، بلکہ اسلام سے دُوری اور فاصلے قائم کرنے کو اپنی ترقی پسندی، روشن خیالی اور جدیدیت قراردیا جس کے پھل ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اس عرصے میں اس قوم کو انسانی رشتوں کا احترام، جان کی قدروقیمت کا احساس اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کا علم ہوتا اور وہ اخلاق جو    خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز تھے اور جن کی بنا پر قرآن کریم نے کہا تھا کہ ’’آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں‘‘، ہمارے نوجوانوں کے کردار و شخصیت کا حصہ ہوتے تو آج ملک کی فضا امن، محبت، سلامتی، حق، عدل اوررواداری سے بھری ہوتی۔

دوم: اگر ہم نے اسلامی عدل کو رائج کیا ہوتا اور شریعت کی بنیاد پر عدالتی، سیاسی،    معاشی نظام اور تعلیم کو ڈھالا ہوتا تومعاشی تفاوت و تفریق، معاشی طبقاتی نظام، سیاسی انتشار اور اخلاقی زوال سے محفوظ ہوچکے ہوتے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ آزاد اور ذمہ دار عدلیہ کو زندہ کیا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور وہ قانونی اداروں کے ذریعے عدل و انصاف کے حصول کی کوشش کریں۔

سوم: فوری طور پر یہ کیا جائے کہ موجودہ حکومت زکوٰۃ کی وہ رقوم جو اس کے پاس امانت ہیں، مستحقین کو ایک شفاف اور ذمہ دار نظام کے تحت فراہم کرے تاکہ فاقہ، غربت اور محرومی کے احساس میں کمی ہو۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو معاشرے سے احساسِ محرومی اور معاشی فاصلوں کو  کم کرنے کے لیے اپنے نظامِ عبادت میں زکوٰۃ کو دین کا ایک رُکن قرار دیتا ہے تاکہ غربت اور فاقہ کشی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ ایمان کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب ارکانِ اسلام کو   نہ صرف مانا جائے بلکہ ان پر عمل کیا جائے۔

چہارم: ہمارے ابلاغِ عامہ کا ذمہ دارانہ اور تعمیری کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ٹی وی پر قتل و غارت اور فلموں میں انسانی لاشوں کو جلتے ہوئے دکھایا جاتا رہے گا، چاہے وہ ’حقیقت پسندی‘ کے نام پر ہو یا سنسنی پیدا کرنے کے لیے، تو ہم انسانوں کے احساسات کو مُردہ کردیں گے۔     اس لیے ابلاغ عامہ کو اخلاقی ضابطے کی پیروی کرنا ہوگی اور شعوری طور پر اسلامی اقدار اور    قرآن وسنت کے مقرر کردہ انسانی حقوق کو ناظرین کے ذہن نشین کرنا ہوگا۔

ایک صحت مند، مثبت اور تعمیری رجحان ہی معاشرے سے نہ صرف ڈاکے اور چوری بلکہ خاندان میں ہونے والے بہت سے مظالم میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ نتیجتاً معاشرتی اصلاح، انسانیت کے احترام، قانون کے احترام اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کیاجاسکتا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب ڈاکوئوں کو عوامی عدالت میں یوں سزا دی گئی لیکن اس ملک میں  جن سیاسی شاطروں نے غیردستوری اور غیرقانونی طور پر صدارت پر ڈاکا ڈالا، جن نام نہاد    فرماں روائوں نے ملک کے خزانے کو ذاتی ہوس کی خاطر لوٹا، جن برسرِاقتدار افراد نے اس ملک کی مائوں، بیٹیوں، بہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے بے حیا بنانے میں نام پیدا کیا، یا تعلیم کے ذریعے نوجوان نسل کو اس کی اصل روایات و ثقافت سے دُور کرنے میں قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا___ یہ اور اس قبیل کے رہزن اپنی سفاکی میں ان ڈاکوئوں سے کم قرار نہیں دیے جاسکتے جو چند سکّے اور زیور لوٹنے کے نتیجے میں اس انجام تک پہنچے۔ مسئلے کا حل تشدد اور جان سوزی نہیں بلکہ  زاویۂ نگاہ کی تشکیلِ نو اور اسلام کے رفاہی، عادلانہ اور انسان دوست نظام کا فوری نفاذ ہے۔

’’حضرت انسؓ، حضرت ابوذرؓ سے بیان فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھرکی چھت کھولی گئی،میں مکہ مکرمہ میں تھا‘جبریل چھت سے اترے،پھر میرے سینے کو کھولا،پھر زم زم کے پانی سے اسے دھویا،پھر سونے کا ایک تھا ل لایاگیاجو حکمت وایمان سے بھرا ہواتھا‘اسے میرے سینے میں ڈالاگیا، پھر سینے کو بندکر کے جوڑ دیا گیا۔ (حدیث معراج‘ بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں،میںاحمد ہوں، میں ’الماحی‘مٹانے والا ہوں،اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دیں گے۔ میں’الحاشر‘ ہوں،کہ لوگ میدانِ حشر میں میرے پیچھے ہوں گے۔میںالعاقب ہوں (ترمذی میں اس کی تشریح آپؐ نے یوں فرمائی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا)۔ (بخاری باب المناقب)

آپؐ کی عظمتِ شان جس طرح پہلی حدیث سے ظاہر ہورہی ہے کہ آپؐ  کے سینۂ اطہرکو ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، اسی طرح آپؐ  کے اسماے مبارکہ،آپؐ کی اس شان کی وسعت اور کمال کو واضح کر رہے ہیں۔’محمد‘اسے کہا جاتا ہے جس کی کثرت سے تعریف کی جائے اور تعریف کا سلسلہ جاری وساری رہے اور یہ تعریف ہمہ گیر بھی ہو۔نبیؐ کی تعریفیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کر دی ہیں جو تاابدپڑھاجاتا رہے گااور اس وقت بھی دنیا کے کونے کونے میں پڑھا جا رہا ہے۔ سورئہ ضحی،سورئہ کوثر،سورئہ الم نشرح،سورئہ احزاب،سورئہ فتح،سورئہ نصر اور قرآن پاک میں جگہ جگہ  اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی شان بیان فرمائی ہے۔

آپؐ کا ایک اسم مبارک’الماحی‘یعنی مٹانے والا ہے کہ آپ کے ذریعے کفر مٹ جائے گا۔ساری روے زمین کے انسان کفر کو ترک کردیںگے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ یہ کام تلوار کے ذریعے نہ ہوگا، پہلے بھی لوگ قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے    دائرۂ اسلام میںداخل ہوئے ہیں، اور آیندہ بھی قرآن پاک کے ذریعے حق کی راہ پائیں گے۔

یہ شان اور عظمت والی ہستی مخالفوں کا ہدف ہے۔ کتنے ہی کارٹون اور فلم بنالیں وہ مسلمانوں کے دل سے اس ہستی کی عظمت کا نقش نہیں مٹا سکتے، بلکہ اگر تعصب کی عینک ہٹا دیں تو خود اس کے نام لیوا بن جائیں گے۔ برطانوی وزیرداخلہ کا اعتراف کہ ۵۰ ہزار افراد ہر سال برطانیہ میں مسلمان ہو رہے ہیں (روزنامہ ایکسپریس، ۲۲ مئی ۲۰۰۸ئ) اس کا ثبوت ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا‘ دیکھا کہ آپؐ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! میں آپؐ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں‘ کیا آپؐ کسی تکلیف میں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:بھوک کے سبب کمزوری ہے۔ یہ سن کر میں رو پڑا۔ آپؐ  نے فرمایا: ابوہریرہ! مت رو!قیامت کے روز حساب کی سختی بھوکے کو نہیں پہنچے گی‘ جب کہ دنیا میں اس پر ثواب کی طلب کی ہو۔ (کنز العمال)

کیسا رقت آمیز منظر ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا پُرکشش اطمینان و سکون ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ ۷ہجری میں مسلمان ہوئے‘ جب کہ خیبر فتح ہوگیا تھا اور خیبر کے نصف حصے کی پیداوار بیت المال میں آتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آمدن کی کمی نہیں تھی‘ لیکن آپؐ اس آمدنی کو فقرا و مساکین اور مدینہ طیبہ تشریف لانے والے مسلمانوں پر پہلے خرچ کرتے تھے‘ اپنے اوپر بعد میں۔ اسی بنا پر   مال کی فراوانی کے باوجود بعض اوقات آپؐ بھوک کی وجہ سے نڈھال ہوجاتے تھے۔ آج مسلمانوں کے نظم و نسق کے ذمہ دار اربابِ حکومت مناسب منصوبہ بندی کریں، اور اہلِ دولت اگر رسولؐ اللہ کے اس اسوۂ حسنہ کے مطابق دولت کا استعمال کریں‘ ضرورت مندوں کو مقدم اور اپنے کو مؤخر رکھیں تو مسلمان معاشروں کے ہر شہری کو روٹی‘کپڑا‘ مکان‘ علاج اور تعلیم کی سہولتیں میسرآسکتی ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کو بھوک ‘پیاس اور غربت و افلاس کی سختی کا بہت بڑا صلہ آخرت میں ملے گا‘ حساب کتاب آسان ہوگا غلطیوں اور کوتاہیوں پر بازپرس نہ ہوگی، بلکہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ بھوک اور سختی سہنے کااتنا بڑا انعام ذہن میں ہو تو پھر غربت و افلاس، بے صبری اور ذہنی پریشانی کے بجاے اطمینان و سکون کا سامان ہوگی۔

’معیارِ زندگی‘ کا ان دنوں بہت ذکر ہوتا ہے، لیکن اس کا اسلامی تصور کیا ہے؟ یہ واضح ہونا چاہیے، اور پھر عمل بھی اس سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، اور حکومت کی پالیسیاں بھی اس کے مطابق بننا چاہییں۔

o

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں: ’’میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوار) تھا۔ آپؐ نے مجھے فرمایا: اے غلام (بچے)میں تجھے چند مفید باتیں سکھلاتا ہوں(تم انھیں اچھی طرح سیکھ لو)۔ اللہ کے احکام کی حفاظت کرو ،اللہ تعالیٰ تمھاری حفاظت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرو، تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے(کوئی تمھارا نقصان نہ کرسکے گا)۔جب کچھ مانگو تو اللہ سے مانگو،جب مدد مانگو تواللہ سے مدد مانگو۔ اس بات کو جان لو کہ   تمام انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ تمھیں نفع دینے کے لیے جمع ہو جائیں، تو وہ تمھیں اسی قدر نفع دے سکیں گے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے( یعنی یہ نفع ان کا دیا ہوا نہیں ،اللہ کا دیا ہوا ہے)۔ اس بات کو جان لو کہ اگر انسانوں کا کوئی گروہ یا تمام انسان تمھیں نقصان پہچانے پر مجتمع ہوجائیں تو یہ تمھیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر اسی قدر جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے(یعنی یہ نقصان انھوں نے نہیں پہنچایا،بلکہ اللہ کی طرف سے پہنچاہے۔ فرما ن کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں سے نفع کی امید اور نقصان کے ڈر سے اللہ تعالیٰ کے دین اور احکامات کو نظرانداز   نہ کرو)۔قلمیں اٹھالی گئیں اور صحیفے خشک ہو گئے۔(ترمذی)

مسند احمد میں یہ اضافہ بھی ہے،آسودہ حالی میں اللہ سے تعلق پیدا کرو، مشکل حالت میں وہ تجھ سے تعلق رکھے گا۔جان لو اس بات کو،جو آفت تجھ سے ٹل گئی وہ تجھے پہنچنے والی نہ تھی،جو تجھے پہنچ گئی وہ تجھ سے ٹلنے والی نہ تھی ۔ جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ ہے اور بے چینی کے ساتھ اس کا چھٹ جانا (خاتمہ)ہے۔تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔(اربعین نووی)

حضرت عبد اللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے،کہ میری والدہ نے مجھے یہ کہہ کر بلایا: ادھر آئو میں تمھیں چیز دیتی ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا،انھوں نے عرض کیا: کھجورکا دانہ۔نبیؐ نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے کوئی چیزنہ دیتیں توتیرے کھاتے میں جھوٹ لکھا جاتا۔(ابوداؤد،احمد)

بچوں کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے اوربچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے۔اس عمر میں بچہ جو کچھ سیکھتا ہے، جس سے سیکھتا ہے،وہ ماں باپ ہیں۔ماں باپ سے اسے اسلامی عقیدہ،اسلامی اخلاق، اسلامی آداب، اسلامی احکام کا ایسا درس ملنا چاہیے جو اسے دین کے رنگ میں رنگ دے۔نبیؐ نے بچوں کی تربیت کے لیے بہترین نمونہ پیش کیا۔بچوں کو درس دیا کہ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ اللہ کی کبریائی،اس کے احکام اور اس کے دین کی حفاظت ہے۔ساری دنیا مخالفت کرے تب بھی اس کے دین پر ڈٹ جاؤ۔ ساری دنیا مل کر تمھارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گی۔آسودہ حالی میں اللہ کو نہ بھول جاؤ،عافیت اور آسودگی تمھیں غفلت میں مبتلا نہ کردے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بچے تھے۔آپؓ نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں انھیں نظرانداز نہیں کیا،بلکہ انھیں ایسی ہدایات دیں جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہیں۔حضرت عبداللہ بن عامرؓ کی والدہ کے ذریعے ماں باپ کو تعلیم دی کہ ’اولاد‘ کو جھوٹا لالچ نہ دو، اس سے   ان کی سیرت جھوٹ پر استوار ہوگی۔بچوں کی تربیت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے یہ بطور نمونہ چند جھلکیاں ہیں۔

آج گھروں کو اسلامی اخلاق وآداب اور تہذیب و ثقافت میںرنگنے ،اہل خانہ اوربچوں ،بچیوں کو دینی تربیت دینے سے عموماً غفلت برتی جاتی ہے۔ توجہ صرف اس پر ہے کہ انھیں دنیا کمانے کے قابل بنادیا جائے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ گھر میں دین کی تعلیم وتربیت دی جائے۔ عقیدہ، اخلاق، آداب اور احکام پر مشتمل ایک ’نصاب‘ ہر گھر میں رائج ہو۔ نئی نسل میں کردار اور کیریر کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کے منصب کے حوالے سے بھی فرائض کا شعور بیدار کیا جائے۔ جن گھرانوں میں اس کی کوشش کی جاتی ہے، معاشرے کا مجموعی ماحول بلکہ مخالفانہ رو ان کے کام کو بہت مشکل بنا دیتی ہے، اس لیے مجموعی ماحول کو درست کرنے کی منظم کوشش بھی ہر مسلمان مرد وعورت کی بنیادی    ذمہ داری ہے۔

اللہ رب ا لعزت کی نا زل کرد ہ عظیم ا لشا ن کتا ب ا ور اس کی دعوت و حکمت کا موضوع انسان ہے۔دعوتِ دین کے لیے سرگردا ںافراد کا محور و مرکز بھی انسانوں تک ا س دعوت کو پہنچانا  ہے۔ دعوتِ دین کے داعی کی حیثیت سے انسان کیا ہے؟ ا ورقرآن انسا ن کو کس حیثیت میں بیان کرتا ہے؟یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔

انسانی شخصیت یوں توبہت پیچید ہ ہے لیکن اس کے دو نمایاںپہلو انسان کی پوری ذات پر حکمرانی کرتے ہیں ۔انسا ن درا صل ذہن و قلب کا مجموعہ ہے اور ہمارے اعمال پر قلب و ذہن ہی کا  اثر ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میںطرح طرح کے خیا لا ت جنم لیتے ہیں ا ور مختلف جذبات دل میں طوفاں بپا کیے رکھتے ہیں ۔ہر خیا ل کسی نئے جذبے ا ور ہر جذبہ کسی نئے خیا ل میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جذبوں ا ور خیالات کے ا س حسین مجموعے کا نام انسان ہے۔دیکھا جا ئے تو جذبات و خیالات کے اس امتزاج ہی نے دنیا میںبڑے بڑے انقلا ب بپا کیے ہیں ۔

دل و دما غ کی یہ ہم آہنگی ا نسا ن کو ایک نئی قوت عطا کرتی ہے۔قرآن کا مطالعہ کیا جا ئے تو یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ قرآن میں انسانی دل کو جو ا ہمیت و مقام حاصل ہے، وہ د ما غ کو نہیں، ا ور اگر ہم مغربی طرز فکر کا مطا لعہ کریں تو وہ انسانی شخصیت کوصرف دماغ کی نظر سے تولتی ہے۔نظریات کا یہ فرق جہا ں سوچ و فکر کے زاویے تبدیل کرتا ہے وہاں اس کے اعمال و اخلاق میں بھی تبدیلی رونما کرتا ہے جس کا مظاہرہ پورا مغربی معاشرہ کر رہا ہے۔

یہا ں ہم ایک دا عی کی حیثیت سے اس دل کو دیکھیں گے جس کو قرآن بارہا مختلف انداز میں مخاطب کرتا ہے اور انسانی شخصیت کا مرکز بھی قرار دیتا ہے۔دل کیا ہے؟ قرآن کبھی اس دل کو فواد کے نام سے مخاطب کرتا ہے ا ور کہیں قلب کے نام سے۔ قرآن کے مطا بق دل محض گوشت کے ایک لوتھڑے کا نام نہیں جس کا کام جسم میںخون کی فراہمی ہے بلکہ قرآن دل کے لیے نہا یت وسیع مفہو م رکھتا ہے۔ ’’و ہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں سننے ا ور دیکھنے کی قوتیں ا ور سوچنے کو دل دیے‘‘ (مومنون ۲۳:۷۸)۔ قرآن کی یہ آیت دل کو سوچنے سمجھنے والا قلب قرا ر دیتی ہے۔

سورئہ سجدہ میں ہے کہ ’’اور تم کو کا ن دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے‘‘ (۳۲:۹) یعنی سمع ، بصر اور فواد۔ یہا ں انسانی دل کو فواد کا نام دیا گیا ہے۔ گویا ا یسا دل جو اصل میں ذہن کا کام کرتا ہے، حواس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کو مرتب کر کے ان میں سے نتائج نکالتا ہے ا ور کوئی ایک راہ کا انتخا ب کر کے اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جبھی ا قبا ل کہتے ہیں    ؎

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں

سائنس و ٹکنالوجی کے ا س تیز رفتار دور میں انسان کو جس مادیت کی قید میں جکڑ کر رکھ دیا ہے، اس انسان کے لیے دل محض ایک خون فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں انسان کم ا ور انسان نما مشینیں زیادہ نظر آتی ہیں ۔ایسی ہی مشینوں کے لیے اقبا ل نے کہا تھا    ؎

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

آج انسان ا پنے احساسا ت و اخلا ق کو پس پشت ڈال کر جس مادی ترقی کا دعویٰ کرتا ہے اس ترقی نے ایک نئی ذلت و اخلاقی بربادی سے روشناس کرا کر ہر اس احساس کو کچل دیا ہے جو انسانیت کی پہچان ہے۔ قرآن جگہ جگہ انسان کے دل کو مخاطب کر کے ا س احسا س کو بیدار کرتا ہے۔ خود قرآن کے لیے ا للہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے‘‘ (یونس ۱۰:۵۷)۔ حدیث نبویؐ کے مطابق ابتدا میں گناہ سے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگتا ہے اور مسلسل گناہوں سے بڑھتے بڑھتے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔دلوں کا زنگ بھی صرف قرآن ہی سے اترتا ہے۔ انقلا ب بھی دراصل دلوں کو تبدیل کرنے ہی کا نام ہے۔حضور اکرمؐ کا بے مثا ل انقلاب انسانی دلوں کی تبدیلی سے شروع ہوا تھا جس نے سوچ کے زاویے تبدیل کر دیے تھے،نفع و نقصان سے لے کر کامیابی و ناکامی کے معیار تک کو نئے معنوں سے روشناس کر دیا۔وہ دل جو کفر کے کلمۂ خبیثہ کی و جہ سے سخت اور بنجر تھے ایمان کے بیج کی حرارت سے نرم و گداز ہوگئے ۔دعوت و عزیمت کی راہوں میں عقل سے کام لینے والے کامیا ب نہیں ہوتے بلکہ اس راہ پر دل کی حکومت ہے۔عقل کے تقاضے توکچھ اور ہیں۔ اس کے ترازو میں تو اللہ کا کلمہ بلند کرنے والے ازل سے بے وقوف ثابت ہوئے ہیں۔    یہ توعشق کی منزلیں ہیں جو ابرا ہیم ؑ کو آتشِ نمرود میں کود جا نے کا مشورہ دیتی ہیں،آج اُمت مسلمہ کے ان خوابید ہ دلوں کی بیداری جس نے پوری اُمت کو ذلت و پستی میں گرا دیا ہے، ہر اس داعی کی ذمہ داری ہے جس نے اپنے آپ کو ا س کٹھن راہ کے لیے پیش کر دیا ہے   ؎

محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید

آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک

دلوں کی ان بدلتی کیفیات کو سمجھنا اور حکمت کے ساتھ دعوت کا سلیقہ دراصل نبی کریمؐ کی سنت ہے کیو نکہ دل میں پیدا ہونے والے جذبا ت ہی درا صل ہمارے ہر عمل کا محرک ہیں۔ امید، خوف، غم اور خوشی جیسے جذبات دل ہی میں اُبھرتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کہیں خوف دلاکر ا ور کہیں امید دلا کر اپنی دعوت پہنچاتاہے۔یہی خوف تقویٰ کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے ا ور کہیں ابلیس کے ہاتھوں انسان کو مایوسی میں بھی پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح ا میدشکر گزاری کی کیفیت بھی پید اکر تی ہے اور حد سے بڑھ جا ئے تو غفلت بھی۔

ہم دعوت کے کام کے اتنے عادی ہوچکے ہیںکہ ا کثر اوقا ت یہ کام بھی ایک مشینی انداز میں ڈیوٹی کی طرح کرتے ہیں ۔لوگوں کی مطلوبہ تعداد رپورٹ فارم ، اجتماعات، ملاقاتیں سب کچھ ہورہا ہوتا ہے لیکن ہمارے قلوب میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ہمارے مخاطب ہمارے الفاظ سن کر دماغ میں تو محفوظ کر لیتے ہیں لیکن پیغام دلوں میں جذب نہیں ہوتا۔ سننے والوں کی جانب سے قابل ترین مدرسین و مقررین کی فرمایش تو پوری ہورہی ہوتی ہے لیکن دلوں کی دنیا ویسی ہی غیرآباد اور ویران رہ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟کہیں دعوت دین کا کا م کرنے والے بھی مردہ دل تو نہیں ہوگئے ہیں ؟ کیو نکہ زندہ دلی کا تقاضا توکچھ اور ہے:

زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیرِ تقدیر

خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نو کی تصویر

اور جب بانگِ اذاں کرتی ہے بیدار اسے

کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر

بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کفِ خاک

روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر

دل کی ا س قوت کا اندازہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ انسان کوقرآن کی نگاہ سے دیکھتے ہو ئے رہنما ئی لی جا ئے اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو ا للہ کے سپرد کرنے کی ترغیب پیدا کی جا ئے۔ قرآن انسانی قلب کو اپنے پیغام کا مرکز اس لیے قرا ر دیتا ہے کہ یہ کلا م اللہ تعالیٰ نے قلب پر نازل کیا، دماغ پر نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اسے (قرآن کو)لے کر ترے دل پر امانت دار روح اُتری ہے‘‘۔ (شعراء ۲۶:۱۹۴)

دعوتِ دین درا صل دلوں میں ایما ن کا بیج بونے کی کوشش ہے جس کے لیے خا ص دل درکار ہے۔ ایسے دلوں کی تیا ری ہمارا اصل مقصد ہے، جن کے لیے دعوت کا سفر رپورٹ فارموں، ملاقاتوں اور اجتماعات کی حاضریوں سے شروع ہوکر مظاہروں پر ختم نہ ہوتا ہو، بلکہ یہ سفر ہجرت وجہاد کی منزل تک لے جا نے کا سبب بنے۔ ا گر ہم انھی ما دی چیزوں، یعنی تنظیمی مجبوریوں کو دعوت    سمجھ بیٹھے ہیں تو یاد رکھیں یہ منزل دماغ کی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں بہترین کارکن و رکن تو ثابت کرسکتی ہیں لیکن عملِ صا لح کی انتہا جہاد کا ر ستہ ان کا منتظر ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ان مُردہ دلوں کے علاج کے لیے قرآن ہی سے رجوع کرنا پڑے گا ۔کیوں کہ قرآن کی دعوت کا مخاطب انسان کا دل ہے اور اس کی منزل جہاد ہے۔

حق کے پیغام کو قلب پر چھا جا نے کی قلبی کیفیات کوچا ر مرحلوں میں بیا ن کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کیفیت حق کو جذب کرنے کی ہے، یعنی حق قلب میں ایسا رچ بس جا ئے کہ وہ  قول و عمل کی دنیا میں نظرآئے (قرآن کا راستہ، خرم مراد)۔کلا م اللہ کو پڑھنے کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ قلب کو : حمد، شکر، حیرت، ر عب، محبت اعتما د، صبر، ا میدوخو ف، رنج و حسرت، تدبر و یاد دہا نی، اطاعت و تسلیم و رضاکی تما م کیفیات سے گزرنے دیا جائے۔ جب تک یہ نہ ہوگا، تلاوت صرف ہونٹوں کی حرکت اور دعوت صرف رپورٹ فارموں کو بھرنے تک ہی محدود رہے گی۔

رسول ، اللہ کا فرستادہ اور اس کانمایندہ ہوتا ہے۔رسول کے مخاطب انسان ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں کے درمیان رہتا اور بستا ہے، بھرپور سماجی اور اجتماعی زندگی گزارتا ہے اور صالح انسانی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ وہ انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، ان کی مشکلات کو حل کرتا ہے ان کا غم خوارہوتا ہے، ان کی تعلیم و تربیت کرتا ہے اور ان کی تطہیر و تعمیر کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ ایک طرف تو رسول کا تعلق اللہ سے گہرا اور مضبوط ہوتا ہے اور دوسری طرف انسانوں سے اس کا رشتہ اٹوٹ اور بے لوث ہوتا ہے۔ منصبِ رسالتؐ کے یہ بنیادی پہلو ہیںاوریہی کارِ پیغمبری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرکوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی ہدایت کے لیے انسان کے بجاے فرشتے کو رسول بناکر کیوں نہ بھیجا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا  :

قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۹۵) کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور بستے ہوتے تب ہم ضرور ان کی ہدایت کے لیے آسمان سے فرشتے نازل کرتے۔

گویا انسانوں کی مشکلات ، نفسیات ، مزاج، ضروریات اور دکھ درد کو زیادہ بہتر طور پر انسانوں کا نمایندہ ہی سمجھ سکتا ہے اور ان کا بہتر مداواکر سکتا ہے ۔ اس لیے فرشتے کے مقابلے میں انسان کو رسول بناکر بھیجنا زیادہ مناسب تھا۔ چنانچہ تمام رسول انسانوں ہی کے درمیان سے اٹھے اور انسانوں کی خیر خواہی کے لیے مامور ہوئے ۔ خاص طور پر آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی دکھ درد کو نہ صرف گہرائی سے سمجھتے تھے، بلکہ ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے اور اُن کے شریک غم رہتے تھے۔ وہ انسانی مشکلات کے حل سے اتنی گہری دل چسپی رکھتے تھے کہ قرآن پاک نے ان کو رحمۃ للعالمینؐ کا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کا تعارف ان لفظوں میں کرایا ہے :

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبۃ ۹:۱۲۸) بے شک تمھارے پاس ایک رسول تمھارے ہی درمیان سے آیا ہے ، تمھاری تکلیف اس پر گراں گزرتی ہے ، وہ تمھاری بھلائی کا حریص ہے اور مومنوں پر مہربان اور شفیق ہے۔

نبوت سے پھلے انسانی خدمت

رسول اکرم ؐ منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھی انسانوں سے محبت اور ان کی خدمت کے لیے مشہور تھے ۔ بارِ نبوت کو اٹھانے میں اس صلاحیت اور خصوصیت نے آپ کو بڑی مدد پہنچائی ، بلکہ یہ کہا جائے کہ قدرت نے کارِ نبوت کو انجام دینے کے لیے آپؐ کا انتخاب کرنے سے پہلے آپؐ  کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ اور ملکہ کامل طور پر پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ پہلی مرتبہ جب آپؐ  پر قرآنی آیات نازل ہوئیںتو اس وقت آپؐ  غار حرا میں غور و فکر میں تھے۔ فرشتے سے پہلی ملاقات اور پہلی وحی کے نزول کے بعد آپؐ  سردی سے کانپتے ہوئے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایاکہ مجھے چادر اڑھائو، مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ پھر آپؐ  نے پورا ماجرہ سنایا۔ یہ سن کر حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

ہرگز نہیں اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت کے دنوں میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔(بخاری)

یعنی آپ انسانوں کی جتنی بے لوث خدمت کرتے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا، بلکہ ان کی سعادت کے لیے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔

نبوت کے بعد انسانی خدمت

نبوت کے بعد رسولؐ اللہ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوگئی ۔ ایک انسانوں کی خدمت کی اور دوسری ان کی ہدایت اور سعی نجات کی۔ نبوت سے پہلے صرف انسانی خدمت آپ کی پہچان تھی، نبوت کے بعد خدمت اور ہدایت دونوں آپ کی پہچان بن گئیں۔

خدا پرستی اور انسانی خدمت

رسولؐ پاک نے صرف انسانوں کی روحانی مشکلات حل کرنے اور اخلاقی برائیوں کی اصلاح کا بیڑا ہی نہیں اٹھایا، بلکہ انسان کی سماجی اور معاشی مشکلات کو دور کرنے کی بھی سعی کی، اور انسانی معاشرے کے رنج و غم کو سکھ اور مسرت میں تبدیل کرنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ انسانی سماج میں طاقت ور اور کمزور ، امیر و غریب ، مختار اور محتاج دونوں طرح کے لوگ رہتے ہیں اور دونوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ رسولؐ پاک ہرفرد کی اصلاح کرتے ہیں اور دونوں کو کامیابی کی راہ دکھاتے ہیں۔ اگر رسول انسانوں کی روحانی دنیا آباد کرے اور مادی دنیا کو اجڑ جانے دے، اخلاقی حالت کو درست کرے اور سماجی زندگی کو الجھنوں میں مبتلارہنے دے، عبادت پر زور دے اور سماجی حقوق کو نظر انداز کردے تو یہ مذہب ناقص ہوگا اور اس کی انسانوں کو چنداں ضرورت نہ ہوگی۔ چنانچہ رسولؐ پاک نے دونوں ضروریات کی تکمیل کے لیے مذہب کا ایک کامل نمونہ پیش کیا جس نے اپنے دامن میں اللہ کی عبادت اور انسانوں کی خدمت دونوں کو یکساں جگہ دی۔ قرآن نے وضاحت کی:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا چہرہ مشرق اور مغرب کی طرف کرو ، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ کوئی ایمان لائے اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر۔ مال دے اس کی محبت پر رشتہ داروں کو، یتیموں کو، مسکینوں کو، مسافروں کو، مانگنے والوں کو، اور گردن چھڑانے میں، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے، اور پورا کرے اپنے عہد و پیمان کو جب کہ عہد کرے۔ مقابلہ، سختی اور تکلیف میں صبر کرے، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

اس آیت میں تفصیل سے نیکی اور دین داری کا تصور بیان کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں ایمانیات پر زور ہے، عبادات کی تلقین ہے، اخلاقی اصولوں کا تذکرہ ہے ، وہاں انسانوں کی خدمت، ان کے دکھ درد میںشرکت اور ان کی حاجت روائی کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ یہ مذہب کی روح ہے، اس کا خمیر اور جوہر ہے۔ اگر مذہب سے ایمانیات اور عبادات کو خارج کردیا جائے تو مذہب ثقافت و رواج پر مبنی سماجی تنظیم یا کلچرل انجمن بن کر رہ جائے گا، اور اگر انسانی خدمت کو نظراندازکردیاجائے اور ان کی مشکلات کا مداوا نہ کیا جائے تو مذہب بے جان رسموںکا ڈھانچا بن جائے گا یا مابعد الطبیعات کا پیچیدہ فلسفہ۔

مشرکین کا انسانی خدمت سے انکار

مشرکین مکہ نے جو دھرم اپنا رکھا تھا، وہ انھی پیچیدگیوں کا شکار تھا ۔ ان کی اخلاقی اور سماجی زندگی کی تصویر کشی قرآن میں متعدد مقامات پر بڑی باریک بینی سے کی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے :

کَلَّا بَلْ لاَ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰)  ہرگز نہیں ، تم یتیموں کی عزت نہیں کرتے، اورمحتاجوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو تلقین نہیں کرتے اور مردے کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہواور مال و دولت سے جی بھرکے محبت کرتے ہو۔

یعنی انسانوں کی محبت کی جگہ مشرکوں کے دل میں مال کی محبت نے جڑ پکڑ لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نہ وہ خود ناداروں پر مال خرچ کرتے تھے اور نہ دوسروں کو محتاجوں کی خبر گیری کے لیے کہتے تھے، یہ سماج انسانوں پر مبنی توتھا مگر روح انسانیت سے خالی تھا اور شیخ سعدی کے اس حکمت آمیز شعر کا مصداق تھا:

تو گر محبت دیگراں بے غمی

نہ شاید کہ نامت دہندآدمی

(تم اگر دوسروں کی محبت سے بے نیاز ہو تو تم کو آدمی کا نام نہیں دیا جانا چاہیے )۔

رسولؐ پاک نے اس جاہلی معاشرے میں حقیقی خدا پرستی اور سچی انسانی خدمت کی تحریک برپا کی تو مشرکوں نے جہاں اس بات کی مخالفت کی کہ ان گنت دیوتائوں کی جگہ صرف ایک  خداے وحدہٗ لاشریک کی پرستش کی جائے وہاں اس بات کی بھی مخالفت کی کہ غریبوں اور ناداروں پر اپنا مال خرچ کیا جائے اور بغیر کسی معاوضے اور صلے کے ان کی خدمت کی جائے۔ وہ مال داری اور ناداری کو مقدرات سمجھتے تھے اور ناداروں کی حالت سدھارنے کی کوشش کو نادانی اور گمراہی سے تعبیر کرتے تھے۔ قرآن پاک میں رسولؐ کریم کی خدمت انسانی کے مطالبے اور جواب میں مشرکین کے غیر انسانی رویے کا ان لفظوں میں تذکرہ کیا گیا ہے :

وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَائُ اللّٰہُ اَطْعَمَہُ اِِنْ اَنْتُمْ اِِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (یٰٓس ۳۶:۴۷) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو کافرمومنوں سے کہتے ہیں: ہم کیوں کھلائیں ایسے لوگوں کو کہ اگراللہ چاہتا تو ان کو خود کھلاتا تم لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔

اھلِ کتاب کی استحصالی ذھنیت

یہودیوں اور عیسائیوں بالخصوص ان کے مذہبی راہنمائوں کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہ تھی۔ ان کی اکثریت نے انسانی خدمت کے بجاے مذہب کو انسانوں کے استحصال کا ذریعہ بنالیا تھا۔ ان کی سرمایہ دارانہ اور استحصالی ذہنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمo (التوبۃ ۹: ۳۴) اے مومنو! بہت سے احبار اور رہبان (یہود و نصاریٰ کے مذہبی پیشوا) لوگوں کے مال غلط طریقے سے کھاتے ہیں،اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جولوگ جمع کرکے رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنادو۔

لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا ، ان مذہبی پیشوائوں کا وہ کارنامہ تھا جو ان کو مشرکوں کی خصوصیات کے مشابہ بنا دیتا تھا۔ اہل کتاب میں بلاشبہہ ایسے لوگ بھی تھے جو راست باز تھے مگر ان کی تعداد بہت کم تھی، اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کا رویہ خد اپرستی اور انسان دوستی کے مخالف تھا، حالاـنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی مذکورہ دونوں باتوں کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا تھااورعہد بھی لیا تھا ۔ ارشاد ہے:

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ o (البقرہ ۲:۸۳) اور یادکرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہدلیا تھا کہ تم لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرنا، اور والدین، رشتہ داروں، اور مسکینوں سے اچھاسلوک کرنا ، لوگوں سے بھلی بات کرنا اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم اس عہد سے پھر گئے اور تم ابھی تک برگشتہ ہو۔

بنی اسرائیل میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ مگر یہ استحصالی ذہنیت خاص طور پر یہود کی تھی جنھوں نے سرمایہ داری ، سود خوری اور ذخیرہ اندوزی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی ؑ کوپھر وہی حکم دے کر بھیجا کہ اللہ کی توحید اور انسانوں کی خدمت کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی قوم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ انجیل میں متعدد مقامات پر اس کی تفصیل موجود ہے۔

انجیل میں زرپرستوں اور خدمت گاروں کے انجام کا حال تمثیلی طور پر اس طرح بیان کیا گیا ہے : ’’سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے اور بھیڑوں کو اپنے دائیں اور بکریوں کو اپنے بائیں کھڑا کرے گا۔ اس وقت بادشاہ اپنے دائیں والوں سے کہے گا: آئو میرے باپ کے مبارک لوگو! جو بادشاہی بناے عالم سے تمھارے لیے تیار کی گئی ہے، اسے میراث میں لے لو، کیونکہ میں بھوکا تھا،  تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی پلایا، میں پردیسی تھا، تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا، میں ننگا تھا، تم نے مجھے کپڑا پہنایا، میں بیمار تھا، تم نے میری خبرگیری کی، میں قید میں تھا،     تم میرے پاس آئے۔ تب راست باز جواب میں کہیں گے، اے خداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا ، کپڑا پہنایا۔ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں کہے گا: میں تجھ سے سچ کہتاہوں کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا۔ پھر وہ بائیں جانب مڑے گا اور کہے گا:     اے ملعونو! میرے سامنے سے ہمیشہ کے لیے آگ میں چلے جائوجو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ کیونکہ میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا، پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی نہ پلایا اور پردیسی تھا تم نے مجھے گھر میں نہ اتارا ، ننگا تھا، تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا ، بیمار اور قید میں تھا، تم نے میری خبر نہ لی۔(عہدنامہ جدید)

توحید کو عیسائیوں نے تثلیث میں تبدیل کردیا لیکن عیسائیوں کے ایک طبقے نے انسانی خدمت کے اس فریضے کو اپنا شعار بنایا، اور اس روایت کو آگے بڑھایا، بلکہ اس کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کی، جب کہ یہودتوحید کی دعوت اور انسانی خدمت دونوں سے بے گانہ رہے۔

رسولؐ کریم کی انسانی خدمت کی تحریک

نبی کریمؐ نے مسلمانوں کوجو تعلیم دی اس کا مرکزی نکتہ یہ تھا: ’’بھوکوں کو کھانا کھلائو، بیماروں کی خبرگیری کرو، اور قیدیوں کو رہا کرائو‘‘۔(بخاری)

حضرت رسالت مآبؐ نے انسانوں کی محبت کو اللہ کی محبت سے تعبیر کیا، مخلوق کی خدمت کو اللہ تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا، اور جہنم سے آزادی اور جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا۔ مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میںیہ تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت رکھتی ہے ۔ اگر انسانوں کی خدمت نہ کی جائے تو اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسی گھاٹی ہے جسے پار کیے بغیر  رضوانِ الٰہی کی بلندی تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ قرآن پاک نے وضاحت کی:

فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّـتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o (البلد ۹۰:۱۱-۱۸) اس نے دشوارگزار گھاٹی پار نہ کی، تمھیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی، کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقہ کے دن کسی رشتہ دار یتیم یا خاک نشیں مسکین کو کھانا کھلانا، پھر ان لوگوں میں شامل ہونا جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور انسانوں پر رحم کرنے کی تلقین کی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسولؐ اللہ کی ایک حدیث نقل کی ہے ، آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسانوں سے مخاطب ہوگا اور اس طرح جواب طلب کرے گا: ’’اے آدم کی اولاد! میں بیمار تھا مگر تونے میری عیادت نہیں کی، بندہ کہے گا: اے پروردگار! میں کس طرح تیری عیادت کرتا، جب کہ تو رب العالمین ہے، اللہ کہے گا: تجھے معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے   مگر تونے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانامانگا مگر تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا، بندہ کہے گا : اے پروردگار! میںتجھے کھانا کس طرح کھلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ کہے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو یہ کھانا میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں تجھے پانی کس طرح پلاتا جب کہ تو رب العالمین ہے اللہ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے پانی مانگا مگر تونے اسے پانی نہیں پلایا، اگر تو اسے پانی پلاتا تواسے میرے پاس پاتا‘‘۔(مسلم)

یہ حدیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مذکورہ تمثیلی تعلیم خدمتِ خلق سے ملتی جلتی ہے۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمدؐ کی انسانی خدمت کی تعلیم ایک ہی بحررحمت کی دو موجیں ہیں جو زمان ومکان کے فاصلہ سے ابھری ہیں، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی مصیبت اور ضرورت کو نظر انداز کرکے کوئی شخص اللہ کی رضا حاصل نہیں کرسکتااور نہ روحانیت کا علَم بردار ہوسکتا ہے۔ روحانیت اور خدمت یک جان دو قالب ہیں ۔ ان کو جدا کرکے مذہب کی نمایندگی نہیں کی جاسکتی ۔ اسی لیے قرآن میں جہاں جہاں صلوٰۃ کا حکم ہے، وہاں زکوٰۃ کا بھی حکم ملتا ہے ۔ جہاں اللہ کی بندگی کامطالبہ ہے، وہاں انسانوں کی راحت رسانی کا بھی تقاضا ہے۔

مشرکانہ اور عیسائی عقیدے کے برخلاف اسلامی عقیدے میں خدا مجرد ہے، اس کا کوئی خاندان نہیں اور ازواج و اولاد نہیں۔ مگر رسولؐ اللہ نے پوری انسانیت کو اللہ کے کنبے سے تعبیر کیا ہے، جناب رسول کریمؐ نے فرمایا:

مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب وہ بندہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے۔ (مشکوٰۃ)

یعنی انسانوں سے محبت اور ان کی خدمت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار بندوں کی خدمت کی شکل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ کے محبوب بندوں کی علامت یہ بیان کی گئی ہے:

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا o  اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o  اِِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۸-۱۰) وہ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو، (ان کا کہنا ہے کہ) ہم تم کو اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری ، ہم تو اپنے رب سے اداسی والے دن کی سختی سے ڈرتے ہیں

رسولؐ اللہ نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوںگے جیسے یہ دونوں انگلیاں۔(بخاری)

یہ تعلیم انسانی خدمت کے محرک اور مقصد کو واضح کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اللہ کی محبت کا راستہ بندوں کی خدمت سے گزرتا ہے۔ جو اس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے، اسے یہ راستہ اختیار کرنا ہوگا، ورنہ وہ منزل سے دور ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے نبی کریمؐ نے اللہ کی رضا کے لیے جان و مال قربان کرنے والوں کے مساوی درجہ انسانی خدمت گزاروں کا بیان فرمایا ہے ۔

انسانی خدمت بہی جھاد ھے

جہاد کا بنیادی مقصد ظالموں کو ظلم سے روکنا اور کمزوروں اور محتاجوں کی حفاظت کرنا ہے۔ جہاد کی اجازت قرآن نے ان الفاظ میں دی ہے :

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا  وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ o (الحج ۲۲:۳۹) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جنگ کی جن سے کفار لڑتے ہیں کیونکہ ان (مسلمانوں) پر ظلم ڈھایا گیا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے ۔

دوسری جگہ فرمایا گیا:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النسائ۴:۷۵) اور تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان کمزور اور مغلوب مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو فریاد کرتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں اس آبادی سے نکال یہاں کے لوگ ظالم ہیںاور اپنے پاس سے ہمارا کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے مددگار بھیج دے۔

جہاد کا مذکورہ مقصد انسانیت کی حفاظت ہے ، اس لیے اس پر بڑا اجر مقرر کیاگیا ہے ۔ کمزوروں اور ناداروں کی خدمت بھی اسی مقصد کی تکمیل کرتی ہے بلکہ نسبتاً مثبت اوراحسن طریقے سے کرتی ہے۔ اس لیے رسولؐ پاک نے انسانی خدمت انجام دینے والوں کو بھی مجاہد ہی کی طرح اہمیت دی ہے اور ان کو اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا ہے :

بیوائوں اور مسکین کی خدمت کرنے والامجاہد فی سبیل اللہ کے مانند ہے، راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس نمازی کی طرح ہے جو مسلسل نماز پڑھتا ہے اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا۔(بخاری و مسلم)

انسانی خدمت کے عناصر سیرت کی روشنی میں

رسول کریمؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے جہاں انسانی خدمت کے میدان و اطراف کا پتا چلتا ہے، وہاں انسانی خدمت میں کار فرما عوامل اور عناصر ترکیبی کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ اگر ان عناصر کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو انسانی خدمت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ وہ عناصر ہیں اکرام ، انصاف اور ایثار۔

  • اکرام کا مطلب ہے کہ انسان کے ہر فرد اور ہر گروہ کو خواہ وہ کسی طبقے، کسی علاقے، کسی رنگ اور کسی نسل اور کسی بھی ذات و برادری سے تعلق رکھتا ہو، محترم سمجھنا اور عزت دینا، اسے کم تر اور حقیر نہ سمجھنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو محترم بنایا ہے۔ قرآن پاک میںجگہ جگہ اس ہدایت کو دہرایا گیا ہے:

وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) اور ہم نے آدم کی اولاد کو محترم بنایا ہے اور خشکی اور دریا میں سواری عطا کی ہے اور ہم نے اس کوپاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور جن مخلوقات کو ہم نے پیدا کیا ہے، ان میں سے بیش تر پر اسے فضیلت بخشی ہے۔

ایک دوسری جگہ فرمایا گیا :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین ۹۵:۴) بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیداکیا ہے۔

یہ اکرام و احترام انسانو ں کے کسی مخصوص طبقے کو نہیںبخشا گیا، بلکہ پورے بنی نوع انسان کو عطاکیا گیا ہے ۔اس لیے خدمت انجام دینے والے فرد اور گروہ کو انسانی خدمت سے پہلے انسانوںکی عزت و احترام کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ محتاجوں کی مددتو کرتے ہیں مگر ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مال دیتے ہیں مگر دل میں جگہ نہیں دیتے۔

قرآن نے مشرکوں کو اسی انسانی احترام کی تعلیم دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ تم لوگ یتیموں کا احترام نہیں کرتے‘‘۔ یتیم، سماج کی سب سے قابل رحم یونٹ ہے۔ اگر اس کا احترام تمھارے اندر نہیں ہے تو سمجھ لو کہ انسانی خدمت کا جذبہ بھی نہیںہے۔ علامہ اقبال نے اسی روح کو شعری پیکر میں اس طرح ڈھالاہے:

آدمیت احترام آدمی

باخبر شو از مقام آدمی

(آدمی کے مقام و مرتبہ سے باخبر ہوجائو کہ آدمیت آدمی کے احترام کا نام ہے )۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ خیرات کرتے ہیں ، کارخیر میں حصہ لیتے ہیں، ان میں احساس برتری پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہ خود کو مختاراور لینے والے کو محتاج سمجھتے ہیں۔ مختار و محتاج کی یہ نفسیات اکرام کا جذبہ باقی نہیں رہنے دیتی۔ اس لیے نبیؐ نے یہ تعلیم دی کہ تم سب دراصل محتاج ہو اور مختار صرف اللہ ذوالجلال ہے۔ اس لیے اپنی احتیاج آپس کے تعاون سے دور کرو۔ قرآن میں فرمایا گیا:

وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ (محمد ۴۷:۳۸) اللہ غنی ہے اور تم سب محتاج ہو۔

رسول کریمؐ نے مسلمانوں کو یہ تاکید بھی فرمائی کہ صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات خاموشی سے محتاجوں کو دیا جائے ، اس کی تشہیر نہ کی جائے، بلکہ اس حد تک اخفا کیا جائے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ اس حکم کی روح بھی دراصل یہ ہے کہ صدقہ قبول کرنے والوں کی عزت نفس محفوظ رہے اور ان کی غیرت کو ٹھیس نہ لگے ۔ یہ انسانی اکرام و احترام کا انتہائی     اعلیٰ مرتبہ ہے اور خدمت خلق کی روح ہے۔

  • یہاں خدمت کا ایک دوسرا عنصر آکر مل جاتا ہے اور وہ انصاف ہے، یعنی سماج کے پچھڑے ہوئے، پس ماندہ اور کمزور لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا خدمت کا حصہ ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مال داروں کے مال میں ناداروں کا حق موجود ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ مال دار ناداروں کا حق ادا کریں ۔ یہ احسان نہیں انصاف ہوگا، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰: ۲۴- ۲۵)  ان کے مالوں میں مقررہ حق ہے، سائل اور محروم کا۔

رسول پاکؐ نے اہل ثروت سے فرمایا:

تم کوجو رزق دیاجاتا ہے اور اللہ کی طرف سے تمھاری جو مدد کی جاتی ہے، وہ تمھارے کمزور طبقات کی بدولت ہے۔(بخاری و ترمذی)

یعنی دولت تمھارا استحقاق نہیں، بلکہ اللہ کا عطا کردہ عطیہ اور امانت ہے۔ کوئی انسان اگر غریب اور محتاج ہے تو یہ اس کا دائمی مقدر نہیں، اسی طرح اگر کوئی انسان مال دار اور مختار ہے تو یہ اس کا   پیدایشی حق نہیں۔ رسول پاکؐ نے محتاجوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم مال داروں کے پاس جائو اور ان سے اپنا حق مانگو، بلکہ مال داروں پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ ناداروں کو ان کا حق پہنچائیں:

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۸) قرابت داروں، مسکینوں اور مسافر کو اس کاحق ادا کرو، یہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔

نادار اگر مال داروں کی خدمت قبول کرتے ہیں تومال داروں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنا حق قبول کیا اور مال داروں کا فریضہ ادا ہوا۔ مسجد نبوی میں رمضان المبارک میں اہل خیرحضرات مسلمانوں کو روزہ افطار کی دعوت دیتے ہیں، ان کو اپنے دسترخوان پر لے جاتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، یہ بھی سیرتِ نبویؐ کا فیضان ہے ۔

  • انسانی خدمت کا تیسرا عنصر ایثار ہے، یعنی صرف حق ادا کرنا مطلوب نہیں،بلکہ دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا، دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف پر مقدم سمجھنا اور اپنے کام کو مؤخر کرکے دوسرے کی حاجت روائی کرنا، انسانی خدمت کا اعلیٰ اور ارفع مقام ہے۔ جس کی تعبیر قرآن کریم نے اس طرح کی ہے:

وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الحشر ۵۹:۹) وہ دوسروں کواپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود فاقہ سے ہوں، اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا سمجھو کہ وہی کامیاب ہیں۔

رسول کریمؐ کی پوری زندگی خدمت خلق کے اسی اعلیٰ مرتبے کی نمایندگی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے صحابہ کرام میں یہی روح جاری و ساری نظر آتی ہے۔ بعدکی صدیوں میں بھی ہم اس کا اثرمسلم سماج میں محسوس کرتے ہیں۔

حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون رسولؐ اللہ کے لیے ایک چادر   بُن کر لائیں اورکہنے لگیں کہ یہ چادر میں اپنے ہاتھ سے تیار کرکے آپ کے لیے لائی ہوں۔   رسولؐ اللہ نے اس چادر کو قبول فرمالیا اور اس وقت آپؐ کو اس کی ضرورت تھی۔ آپؐ نے اسے    اپنا تہبند بنالیا اور ہمارے درمیان تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا: کیا خوب چادر ہے مجھے عنایت کردیجیے۔ نبیؐ نے منظور کرلیا۔ تھوڑی دیر آپؐ  مجلس میں تشریف فرما رہے پھر واپس ہوئے تو چادر لپیٹ کر اس شخص کو بھجوادیا۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا: تو نے اچھا نہیںکیا۔ نبیؐ کو اس کی ضرورت تھی اس لیے اسے پہنے ہوئے تھے۔ تم نے یہ جان کر کہ نبیؐ مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے، وہ چادر بھی مانگ لی۔ اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم! میں نے پہننے کے لیے یہ چادرنہیں مانگی ،بلکہ اسے اپنا کفن بنانے کے لیے مانگی ہے۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جناب رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں پریشان حال اوربھوکا ہوں۔ یہ سن کر جناب رسالت مآبؐ نے بعض ازواجِ مطہرات کو اطلاع دی کہ اگر کچھ کھانے کو موجود ہو تو بھیجیں۔ جواب ملا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپؐ  نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہراتؓ کے یہاں معلوم کیا مگر ہر جگہ سے یہی جواب ملا تو آپؐ  نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: کوئی ہے جو آج رات اسے اپنا مہمان بنالے؟ ایک انصاری نے کہاکہ میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہ صحابی اس مہمان کو ساتھ لے کر گھر آئے اور اہلیہ سے کہا کہ کچھ ہے جس سے رسول پاکؐ کے مہمان کی ضیافت کروں۔ اہلیہ نے جواب دیاکہ بچوں کا کھانا ہے، شوہر نے کہا کہ ان کو کسی طرح بہلا کر سلا دینا، اور جب مہمان کھانے بیٹھیں تو چراغ بجھا دینا اور یہ تاثر دینا کے ہم ان کے ساتھ کھارہے ہیں، چنانچہ پروگرام کے مطابق   سب کھانے بیٹھے، مہمان نے کھانا کھالیا اور ان دونوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب صبح رسولؐ اللہ کے پاس گئے تو آپؐ  نے فرمایا : ’’ تم دونوں میاں بیوی نے رات جومہمان نوازی کی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو بھاگئی‘‘۔(بخاری)

ایثار کی یہ روشن مثال شاید سیرت رسولؐہی کے دامن میں مل سکے گی، دنیا کے دوسرے خدمت گاروں کے یہاں اس طرح کی مثالیں مشکل سے مل سکیں گی۔ انسانی خدمت کی یہ اعلیٰ مثال ہے جو ہر عہد اور ہر قوم کے لیے قابل تقلید ہے۔ خدمت خلق کا حقیقی اور کامل تصور اسی وقت ابھرتا ہے، جب کہ اس میں مذکورہ تینوں عناصر موجود ہوں۔

انسانی خدمت کا تسلسل اور تنظیم

رسول پاکؐ نے انسانی خدمت کے معروف طریقوں میں دو اہم اور نادر اضافے فرمائے۔ ایک تو انسانی خدمت کو بعد از مرگ باقی رکھنا اور دوسرے خدمت کو ادارتی شکل دینا۔ تسلسل کا مطلب یہ ہے کہ وقتی طور پر انسانی خدمت کرنے کے ساتھ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے خدمت کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہے، اس کے لیے جناب رسالت مآب نے صدقہ جاریہ کا تصور دیا، آپ نے فرمایا:

جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمالِ خیر کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے سواے تین اعمال کے، ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے، ایسا علم جس سے استفادہ باقی رہے، صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔(مسلم)

صدقہ جاریہ میں عام طور پر اجتماعی اور سماجی استفادے کی چیزیں شامل ہیں، مثلاً نل لگوانا، کنواں کھدوانا، تالاب بنوانا، سراے بنوانا، سڑکیں اور پل بنوانا، مسافر خانہ تعمیر کرنا وغیرہ ۔     قابلِ استفادہ علم میں درس گاہ کھولنا، لائبریری بنانا، کتابیں لکھنا یا شائع کرنا، اسکالر شپ وغیرہ کا انتظام کرنا شامل ہے۔ یہ ایسی خدمت ہے کہ اگر انسان مرجائے تب بھی اس کا فیض جاری رہتا ہے اور وہ اپنی فیض رسانی کے حوالے سے زندہ رہتا ہے۔ ہر باشعور انسان چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کانام باقی رہے۔ رسول پاکؐ نے انسان کی اس آرزو کو انسانی خدمت سے وابستہ کرکے ایک تعمیری جہت عطا کی ہے ۔

رسول پاکؐ نے انسانی خدمت کو ادارتی شکل دینے کے لیے وقف کا تصور دیا۔ وقف کا مطلب یہ ہے کہ اصل جایداد باقی رہے اور اس کی آمدنی سے خدمت رسانی کے کام ہوتے رہیں۔ مثلاً مکان، دُکان، فیکٹری، زمین ، باغ وغیرہ وقف کیا جائے تو یہ جایداد نہ تو ہبہ ہوگی اور نہ بیچی جاسکے گی، بلکہ اس کے منافع اور آمدنی سے وہ خدمت انجام پاتی رہے گی جس کے لیے وہ جایداد وقف کی گئی ہے ۔ انسانی خدمت کی تاریخ میں یہ ایک نیا تصور تھا جو جناب رسالت مآب نے انسانی دنیا کو عطا کیا ۔ اس کی تقلید دوسرے مذاہب اور تہذیبوں نے بھی کی۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عمرؓ کو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا کہ مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپؐ  اس کے بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپؐ  نے فرمایا:

اگر تم چاہو تو اس کی اصل کو باقی رکھو اور پیدا وار کو صدقہ کردو ۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو صدقہ کردیا، اس شرط کے ساتھ کہ نہ وہ فروخت کی جائے گی ،نہ ہبہ کی جائے گی اور نہ اس میں وراثت جاری ہوگی، اور اس کی منفعت فقیروں، رشتہ داروں، غلاموں کی آزادی، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف ہوگی اور اس کے متولی کے لیے اس سے معروف کے مطابق اجرت لینا جائز ہوگا۔ (بخاری)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو رومہ نامی کنویں کے علاوہ میٹھے پانی کا دوسرا کنواں نہ تھا۔ آپؐ  نے فرمایا کون ہے جو رومہ کنویں کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا اور اس کے صلے میں اسے جنت کی بھلائی حاصل ہوگی؟ تو میں نے اپنے اصل مال سے اسے خرید لیا اور اس میں خود بھی ڈول ڈال کر پانی نکالتا تھا اور سارے مسلمان بھی ڈول ڈال کر پانی نکالتے تھے۔ (ترمذی)

وقف کے مزید واقعات نبی ؐ کی حیاتِ مبارکہ میں ملتے ہیں ۔ حاصل یہ ہے کہ جناب نبیؐ نے وقف کا تصور دے کر مسلم سماج کو ایک تعمیری اور فلاحی سماج میں تبدیل کردیا اور حق یہ ہے کہ آج بے شمار تعلیمی ، مذہبی ، سماجی اور رفاہی ادارے وقف کی جایداد کی آمدنی سے چل رہے ہیں اور اس نے خدمتِ خلق کے میدان میں انتہائی اہم اور مؤثر رول ادا کیا ہے ، اور اس کا سلسلہ ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔

رسول کریمؐ کی انسانی خدمت کی تعلیمات اوراسوۂ حسنہ نے مسلم معاشرے میں جہاں انفرادی طور پر زکوٰۃ و صدقات اور انفاق کاجذبہ پیدا کیا، وہاں اجتماعی کفالت کے اداروں کی تنظیم اور تشکیل کی تحریک فراہم کی۔ اوقاف اس کی نمایاں مثال ہے۔ اوقاف کے علاوہ انسانی خدمت کے دیگر اداروں میں یتیم خانوں کا قیام سنت نبوی کی اہم عملی تعبیر ہے۔ اسلام سے پہلے بھی یتیم تھے اور انفرادی طور پر ان کی دیکھ بھال ہوتی ہوگی ، مگر یتیموں کی نگہداشت اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اداروں کا تصور نہ تھا ، نبی کریمؐ نے یتیموں کی نگہداشت کی جو مسلسل تلقین فرمائی اور اسے انسانیت اور اسلام کا اہم فریضہ بتایا، اس کے سبب سے مسلم حکومتوں نے یتیم خانوں کے قیام پر پوری توجہ دی اور غیر حکومتی سطح پر بھی اہلِ خیر مسلمانوں نے بڑے بڑے یتیم خانے بنوائے۔

علامہ سید سلمان ندوی کے بقول : ’’آج دنیا کے شہر شہر میں یتیم خانے قائم ہیں مگر اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا محمدؐ سے پہلے بھی یہ بدقسمت گروہ اس نعمت سے آشنا تھا تو تاریخ کی زبان سے جواب نفی میں ملے گا، اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس مظلوم فرقے کی دادر سی کی ، عرب پہلی سرزمین ہے جہاں کسی یتیم خانے کی بنیاد پڑی، اور اس کی حکومت دنیا کی پہلی حکومت ہے جس نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا ، اور عرب ، مصر، شام، عراق، ہندستان جہاں جہاں مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کی بنیادیں ڈالیں ساتھ ساتھ ان مظلوموں کے لیے بھی امن و راحت کے گھر بنائے،   ان کے لیے وظیفے مقرر کیے، مکتب قائم کیے، جایدادیں وقف کیں‘‘۔ (سیرت النبیؐ، ج ۶)

موجودہ عہد میں انسانی خدمت کے لیے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں سوشل ورک کے شعبے قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں سماجی خدمت کا کورس پڑھایا جاتا ہے ، اور سوشل ورکر کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ سوشل ورک کی تعلیم لوگوں میں مالی منفعت کے حصول کا جذبہ اسی طرح پیداکررہی ہے جس طرح دیگر عصری تعلیم کا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔ سوشل ورک کی ڈگری لے کر طلبہ خدمت سے زیادہ ملازمت کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر مقررہ وقت کے علاوہ بھی ان کو کام کرنا پڑے تو اس اضافی ڈیوٹی کے معاوضے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ فرصت کے دنوں میں انسانی خدمت کی انجام دہی سے کتراتے ہیں۔ رسول پاکؐنے انسانی خدمت کی جو تعلیم دی ہے، وہ مقصد زندگی کا حصہ ہے۔ اس کے لیے وقت اور عمر کی قید نہیں بلکہ اس کا ر خیر کو کرتے کرتے مرنا ہے اور مرتے مرتے کرنا ہے اور اللہ سے قبولیت کی دعا کرتے رہنا ہے ۔ یہ خدمت ملازمت سے دور اور مالی منفعت سے بلند ہے۔

اس عہد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عالمی ، ملکی اور مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی طرح سماجی خدمت کی تنظیمیں بھی وجود میں آئی ہیں۔ ان میں بعض تنظیمیں مخصوص میدان میں کام کرتی ہیں، مثلاً بعض بیماروں کی خدمت کے لیے ، بعض آسمانی اور حادثاتی مصائب میں راحت رسانی کے لیے، بعض معذوروں کی مدد کے لیے اور بعض یتیموں کی پرورش کے لیے ، جب کہ بہت سی تنظیمیں عمومی انسانی خدمت کے لیے ہیں۔ عیسائی تنظیمیں خاص طور پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش پیش ہیں ، اور ان کی پشت پناہی امریکا اور یورپ کی حکومتیں کرتی ہیں۔

مسلمانوں نے بھی انسانی خدمت کے لیے بہت سی تنظیمیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پرقائم کی ہیں ، ان تنظیموں کا فیض آفت زدہ، پریشان حال لوگوں تک پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کی انسانی خدمت کی پیش رفت کو روکنے کے لیے امریکا اور یورپی ممالک نے ان رفاہی تنظیموں کی آمدنی اور امداد پر روک لگانی شروع کردی ہے۔ جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی امداد دنیا میں دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہی ہے، مگر یہ ایک فرضی عذر ہے، اصل محرک یہ ہے کہ مسلمانوں کی تنظیمیں اگر انسانی خدمت کے کاموں کو اسی اخلاص اور ایثار سے انجام دیتی رہیں گی ، تو عیسائی مشنریز کا کام مشکل ہوجائے گا اور اسلام کی پیش رفت جاری رہے گی۔ چنانچہ بہت سے رفاہی ادارے آج امریکا کے قہر کا شکار ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں سماجی خدمت کی دو تنظیمیں الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ کے دفاتر میں چھاپے مارے گئے اور انھیں بند کردیا گیا۔ سعودی عرب اور کویت کے متعدد رفاہی اداروں اور تنظیموں نے تعلیمی، رفاہی اور راحت رسانی کے لیے امدادبند کردی۔ بھارت میں ہندو اور عیسائی تنظیمیں بیرونی ممالک سے بڑی رقمیں وصول کرتی ہیں اور مسلمانوں کے لیے راستے اگر بند نہیں تو تنگ ضرورہیں۔ ان حالات میں بڑی حکمت اور بصیرت سے انسانی خدمت کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چراغ مصطفوی آندھیوں کی زد میں ہے ، اس کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو ازسرنو سوچنا ہوگا اور راہ عمل متعین کرنی ہوگی۔ انسانی خدمت اور راحت رسانی کا کام چھوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ  یہ اللہ کی رضا کے حصول کا معتبر ذریعہ ہے، البتہ اس کی حکمت عملی بدلتے ہوئے حالات کو سامنے  رکھ کر طے کی جانی چاہیے ۔

جاپان کی علمی صورت حال اور یہاں کی جامعات اور علمی وتحقیقی اداروں میں ہونے والے علمی کاموں اور تحقیقا ت اور مطالعات کے بارے میں بیرون جاپان خصوصاً اردو دنیا اور برعظیم پاک و ہند کے باشندوں کو بہت کم علم ہوتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے تعلق سے یہاں جو سر گر میاں مختلف صورتوں میں دیکھنے میں آتی ہیں، اور جن کی ایک دیرینہ اور مستقل روایت کم و بیش ۱۰۰ برس سے یہاں موجود ہے، زیر نظر سطور میں ،زبان و ادب اور پاکستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں یہاں ہونے والے علمی وتحقیقی مطالعات سے قطع نظر،اسلا م اور اسلامی دنیا کے تعلق سے ہونے والے تازہ مطالعات اور تحقیقی و علمی سر گرمیوں کا ایک سرسری سا جائزہ مقصود ہے۔

اگر چہ زیر نظر جائزے کا دائرہ گذشتہ چھے سات سال کی تحقیقات اور مطالعات پر مشتمل ہے لیکن سر سری طور پر شاید یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ یہاں اسلامی دنیا یا مسلمانوں سے جاپانیوں کا رابطہ ایک تواتر کے ساتھ انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اسلا م کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے کی علمی سطح پر کوششیں بیسویں صدی کی تیسری چوتھی دہائی سے نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ اس عرصے میں ،ہمارے نقطۂ نظر سے ،مشہور انقلابی رہنما مولوی برکت اللہ بھوپالی کا قیامِ جاپان بھی، جو اگر چہ زیادہ طویل نہیں تھا لیکن پھر بھی یوں اہم ہے کہ انھوں نے یہاں رہ کر اپنی انقلابی سرگرمیاں جا ری رکھیں اور Islamic Fraternity کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جو انگریزی میں شائع ہوتا تھا اور اس میں استعماری طاقتوںکے خلاف جذبات ابھارے جاتے تھے۔ انھوںنے ایسے چند نوجوانوں کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا جو نہ صرف استعمار کے خلاف سرگرم ہوئے بلکہ اسلام کے بھی قریب آگئے۔یوں یہاں نوجوانوں میں اسلا م کو سمجھنے کی ابتدائی چند کوششیں نظر آئیں۔

اوّلین تحقیقی کاوشیں

شومے اوکاوا اورپرو فیسر گامووہ اولین دانش ورہیں جنھوں نے باقاعدہ اسلام کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا۔اوکاوا تو ایک مشہور سیاست دان تھے ،لیکن انھوں نے اپنی دل چسپی کے تحت نہ صرف اسلام کا مطالعہ کیا بلکہ قرآن کا تر جمہ بھی جاپانی زبان میں کیاجس کی بنیادایک انگریزی ترجمۂ قرآن تھا جو ان کے پیش ِ نظر رہا۔اس وقت کسی سیاست دان کا مطالعۂ اسلام اور ترجمۂ قرآن معنی خیز تھا، جو دراصل اس حکمت کے تحت تھا کہ عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں استعماری طاقتوں کے بڑھتے ہوئے عزائم اور ان کے مقابلے میں عالم ِاسلام میں ردِعمل کی فضا کو دیکھتے ہوئے یہاں یہ احساس پیدا ہوا کہ یہاں استعمار کے خلاف دنیاے اسلام سے ایک اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا میں ایک محاذ تشکیل پانے سے جاپان بھی اپنا بچائو کر سکے گا۔پھر عالمِ اسلام کے نام سے ایک جاپانی رسالے کااجرا بھی شومے اوکاوا کے ایسے کاموں کا ایک اگلا قدم تھا جو ۱۹۴۰ء کی دہائی میںنکلتارہا، لیکن دوسری جانب دانش ور اورتعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کا مطالعہ ایک علمی و تہذیبی تناظر میں شروع ہوا۔

پروفیسرگامونے اس جانب اولین پیش رفت کی اور اسلامکے نام سے ایک تعارفی کتاب جاپانی زبان میں تصنیف کی۔ انھیں فارسی اور اردو سے کامل واقفیت تھی۔فارسی میں گلستان کا ترجمہ ان سے منسوب ہے۔اردو کے یہ پرو فیسر ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کے سربراہ رہ کر اُردو زبان و ادب کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیتے رہے۔ باغ و بہار کا ان کا کیا ہوا ترجمہ، جس کا ایک عمدہ اڈیشن چند سال قبل مفید مقدمے اور اضافوں کے ساتھ اس یونی ورسٹی کے پروفیسر اسادا نے شائع کیا،جو ان کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ پرو فیسرگامو حقیقی معنوں میں ایک اسکالر تھے، جن کا فیض یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے ایسے لائق شاگرد پیدا کیے جنھوں نے اپنے اپنے زمانے اور اپنے اپنے حلقوں میں اردو زبان و ادب اور ساتھ ہی مطالعۂ اسلام کی ایک فضا قائم کی، خود بھی تحقیقی اور تصنیفی کام کیے اور پھر اگلی نسلوں کو بھی متا ثر کیا۔ان کے ایسے راست شاگردوں میں پروفیسر سوزوکی تاکیشی، پروفیسر کرویا ناگی اور پرو فیسر کان کاگایا خاصے اہم اور نام ور اسکالر ثابت ہوئے۔

پروفیسر سوزوکی اپنی بے مثال اور مؤثر خدمات کے باو صف،جو انھوں نے جاپان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انجام دیں ،بجا طور پر ’جاپان کے باباے اردو‘ کے خطاب سے معروف ہوئے۔ پروفیسر کرو یا ناگی فارسی زبان و ادب اور مطالعۂ اسلام کے حوالے سے معروف ہوئے۔ انھوں نے ایک تحقیقی مجلہ انڈو ایران جاری کیا جواپنے موضوعات تاریخ و ادب کے لیے مخصوص رہا۔پرو فیسرکرویا ناگی کا ایک مبسوط تحقیقی مقالہ ’فکر اسلامی ہند‘ کے بارے میں خاصا مشہور ہوا جس میں انھوں نے ہندستان میں اسلامی فکر کے ارتقا کو پیش کیا اور با لخصوص مولانا مودودی اور اقبال کی فکر کے تجزیاتی مطالعے پر اس مقالے کو مرکوز رکھا۔ پروفیسر کان کا گا یا عربی، فارسی اور  اُردو سے راست استفادہ کرتے ہوئے اپنے مقالات تحریر کرتے ہیں اور ان کی دل چسپی کا محور اسلام اور اسلامی علوم رہے ہیں۔انھوں نے متعدد تحقیقی مقالات ان موضوعات پر تحریرکیے ہیں جو انسائی کلوپیڈیا ،مجموعۂ مقالات اور تحقیقی مجلّوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ حال میں انھوں نے ایک اولین ضخیم اُردو-جاپانی لغت مرتب اور شائع کی ہے جو ان کی ۴۰سالہ شبانہ روز محنت، تلاش و جستجو کا ثمر ہے۔

ان علما کے معا صرین میں ایک بہت بڑا نام پرو فیسر ازتسو کا ہے جو فلسفۂ مذہب سے خاص نسبت رکھتے تھے اور ان کے بنیادی اسلامی موضوعات دل چسپی میں مذہب ،فلسفۂ تصوف نمایاں رہے۔وہ عربی اور انگریزی سے خوب واقف تھے اور چوں کہ زیادہ تر انھوں نے انگریزی زبان میں لکھا جس کی وجہ سے ان کی شہرت جاپان کے باہر بھی خاصی پھیل گئی۔انھوں نے قرآن کا ترجمہ بھی جاپانی زبان میں کیا اور اسلامی فلسفہ اور تصوف پر متعدد کتابیں اور مقالات تحریر کیے جن کی وجہ سے وہ عالمی شہرت کے حامل جاپانی اسکالر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ساری زندگی ٹوکیو کی ایک نجی یونی ورسٹی سے منسلک رہے اور وہاں مطالعۂ اسلام کا شعبہ قائم کر کے اس میں درس و تدریس اور مطالعہ و تحقیق کو فروغ دیتے رہے اور ایسی ایک نسل کی آبیاری کی جو ان کے بعد جاپان کی مختلف یونی ورسٹیوں اور علمی و تحقیقی اداروں سے منسلک ہو کر مطالعۂ اسلام اور تحقیق و تصنیف کو فروغ دینے میں آج جاپان بھر میں مستعد اور سرگرم ہے۔

تحقیقی مراکز

اس سے قبل کہ یہاں اس نسل کا اور اس کی خدمات کا ذکر کیا جائے ،یہاں ایک اور ایسے اسکالر کا ذکر ضروری ہے جنھوں نے پروفیسر از تسو کی طرح اسلامی علوم کے مطالعہ و تحقیق کو فرو غ دینے میں مثالی اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔یہ پروفیسر ناکامورا کو جیرو ہیں جو ازتسو صاحب کے معاصر ہیں اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ٹوکیو یونی ورسٹی میں، جو جاپان کی سب سے معیاری اور نام ور یونی ورسٹی ہے ،اسلامیات پڑھانے کے ساتھ ساتھ یہاں نہ صرف اس کا ایک باقا عدہ شعبہ قائم کیا بلکہ اس میںایک ’ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘ کی بنیاد رکھی جو جاپان میں اپنی نو عیت کا اہم اور اوّلین ادارہ ہے۔ اس میں ایک عالی شان کتب خانہ بھی قائم ہوا جہاں دنیا بھر سے ہر زبان میں اسلامی علوم،تاریخ و تہذیب اور متعلقہ عنوانات پر کتابیں جمع کی گئیں اور یہاں سے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقی مجلے کا اجرا عمل میں آیا ،جس میں یہاں کے اسکالر اپنے اپنے تحقیقی مقالات شائع کرتے ہیں۔یہ مقالات اسلامی تعلیمات، فکر، تاریخ،دنیاے اسلام کی معاشرت، صورت حال، سیاست و معیشت ،مفکرین ،قومی و سیا سی مسائل جیسے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔

ٹوکیو یونی ورسٹی کے’ادارۂ تحقیقات ِاسلامی ‘کی طرح کیوتو یونی ورسٹی میں بھی، جو جاپان کے قدیم تاریخی اور روایتی شہر کی نہایت معروف اور معیاری  یونی ورسٹی ہے ،ایک ’مرکزِ مطالعاتِ اسلامی‘ بھی اسلامی علوم اور فکر و تاریخ پر ہمہ جہت مطالعات میں مصروف ہے اور ایسے مطالعات کے  تسلسل کو اب ربع صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔یہاں نسبتاً ایک کم عمر پروفیسر کوسوگی اس کے    سربراہ اور تحقیقات و مطالعات کے محرک اور رہنما ہیں۔ عربی اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے ہیں، جامعہ الازہر(قاہرہ)سے فارغ التحصیل ہیں اور وہیں دورانِ قیام نہ صرف وہ بلکہ ان کی جاپانی بیگم مشرف بہ اسلام ہو ئے ہیں۔ پروفیسرکوسوگی نہایت فعال ،متحرک اور قدیم وجدید علوم سے بہرہ مند انسان ہیں اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں بھی عروج پر ہیں۔چنانچہ یہاں اس وقت یہ جاپان کے اسلامی اسکالرز کی تیسری نسل کے ممتاز ترین اسکالر ہیں، جن کی شبانہ روز محنت ، دل چسپی اور ذوق و شوق کے باعث نہ صرف ان کی اپنی یونی ورسٹی میں بلکہ ان کے زیرِاثر اور ان کی مثال کے پیشِ نظر جاپان بھر میں آج کل مطالعاتِ اسلامی میں ایک حوصلہ افزا، خوش آیند اور قابلِ رشک سرگرمی دیکھنے میں آرہی ہے ،جو روز افزوں بھی ہے۔ اب نوجوانوںکی ایک ایسی نسل تیار ہوچکی ہے جو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ سارے جاپان میںجہاں جہاں اورجس جس جامعہ یاادارے میں شعبہ ہاے مطالعاتِ اسلامی قائم ہیں، نہ صرف یہ مستعد اور سرگرم ہے بلکہ جن جامعات میں اسلامیات کے شعبے یا درس و تدریس اور مطالعہ وتحقیق کی روایت موجود نہیں، وہاں یہ شعبۂ مطالعاتِ اسلامی قائم کر رہے ہیں اور اس طرح اس روایت کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

آج مزید قابلِ رشک صورتِ حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک نسل ،جو ۹۰کی دہائی میں ابھری ہے، محققین کی چوتھی نسل ہے اور تیسری نسل کے لائق اور مستعد محققین پروفیسر کوسوگی، اتا گاکی یوزو، گوتو آکیرا،ساتوسوگوتاکی اورشیماداجویے کی زیرِسرپرستی و رہنمائی میںاسلامی مطالعات میں اس حد تک سرگرم دکھائی دیتی ہے کہ رشک آتا ہے،بلکہ اس تیسری اور چوتھی نسل نے آج کے جاپان میں مطالعاتِ اسلامی میں جو معیار،وسعت اور افادیت پیدا کی ہے وہ اس حد تک مثالی اور منفرد ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی اور ملک میں تلاش نہ کی جا سکے۔یورپ کے متعدد تحقیقی ادارے اور جامعات بشمول ای جے بریل (لائیڈن) ، ایڈنبرا یونی ورسٹی کا مرکزِ تحقیقاتِ اسلامی یا ان کی طرح یورپ اور شمالی امریکا وکینیڈا(بمثل مونٹریال کاادارۂ تحقیقاتِ اسلامی) کے دیگر ادارے بھی اگرچہ نہایت وسیع اور مفید کام کر رہے ہیں لیکن جاپان میں تحقیقاتِ اسلامی کی جو نوعیت ہے اس کا مقابلہ شاید کہیں کسی ادارے یا جامعہ سے نہ کیا جاسکے۔

پنج سالہ تحقیقی منصوبے کی روایت

سب سے مختلف اور نہایت قابلِ تحسین کام جو یہاں گذشتہ دو دہائیوںکے عرصے میں دیکھنے میں آیا ہے وہ ایک مشترکہ تحقیقاتی منصوبہ بندی ہے، جس کو تشکیل دے کر یہاں خاص منصوبوں کے تحت مشترکہ منصوبے ترتیب دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے جس کے تحت کوئی ایک موضوع ، کوئی ایک علاقہ ،کوئی ایک نہج ،یہاں طے کی جانے لگی ہے اور یہاں کے ایسے تمام ادارے اور جامعات اور ان سے منسلک اساتذہ اور ان کے طلبہ سب مل کر باہمی طور پر اتفاقِ راے سے ایک پنج سالہ منصوبہ تشکیل دیتے ہیں اور اس منصوبے کو ،جو کسی ایک موضوع پر مشتمل ہوتا ہے، جزوی طور پر تقسیم کر کے ہر ایک اپنے مزاج اور دائرۂ عمل کے تحت اپنے لیے اس کا کوئی جزو یا پہلو منتخب کرکے کام شروع کر دیتا ہے، اور پھر ہر سال یہ سب ایک جگہ ملتے ہیں اور سال بھر کی اپنی اپنی کارروائی ، کارگزاری اور روداد پیش کرتے ہیں، مسائل و امکان پر بحث ہوتی ہے اور پھر سب مل کر اس پر راے زنی کرتے ہیں اور پچھلے کام پر نظرثانی کی جاتی ہے اور اس کے بعد وہ اگلے سال یا اگلے مرحلے کے لیے مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اب تک دو پنج سالہ منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اوردو ایسے موضوعات پر اعلیٰ درجے کی تحقیقات سامنے آئی ہیںکہ ان موضوعات پر ایسے ہمہ جہت، مبسوط اور مفید کاموں کی مثال شاید اورنہ مل سکے۔

ان منصوبوں میں پہلا منصوبہ ۱۹۸۸ء میں شروع کیا گیا تھا ،جو ۱۹۹۳ء میں مکمل ہوا۔ اس کا بنیادی موضوع ’بلادِ اسلامیہ‘کہاجاسکتا ہے۔ اس منصوبے یا موضوع کے تحت ۱۳۰ اسکالروں نے اس میں شامل ہوکر اسلامی ممالک کے تاریخی شہروںکا تعمیراتی ،تاریخی، تہذیبی، عمرانی، علمی و ثقافتی مطالعہ کیا اور ہر اسکالر نے کسی ایک شہرپر اپنے ان مذکورہ موضوعات کے تحت ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا جو ہر لحاظ سے اس شہر کے بارے میں ایک قاموسی مقالے کی حیثیت رکھتا ہے، مثلاً بغداد، دمشق، تہران، اصفہان،مشہد،دہلی، لکھنؤ، قاہرہ، استنبول، مکّہ،مدینہ۔ گویا تمام اہم شہر اور ان کی تاریخ،  تعمیر اور عمرانیات کا مطالعہ اس منصوبے کے تحت مکمل ہوگیا ہے اور یوںدو مختلف اور ضخیم جلدوں میں یہ مقالے شائع کر دیے گئے ہیں۔ مگر یہ سب جاپانی زبان میں ہیں۔

اس طرح جو دوسرا پنج سالہ تحقیقی منصوبہ جاپانی اسکالروں نے مکمل کیا، وہ ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک ان کے پیشِ نظر رہا۔ اس منصوبے کے تحت دنیاے اسلام کا مطالعہ علاقائی حوالے سے کیا گیا اور اس مطالعے کے ذیل میں مختلف اسلامی ممالک کی تاریخ ، معاشرت، سیاست اور شہروں اور خطوں میں رونما ہونے والی اسلامی تحریکات بھی ان میںشامل ہیں۔چنانچہ ان مطالعات کو  تصوف، شریعت، اسلامی ادارے، اوقاف،فتاویٰ، فرامین، خواتین، تعلیمات،معیشت و سیاست جیسے موضوعات کے تحت آٹھ موضوعاتی جلدوں میں تقسیم کیا گیااور پھر انھیں شائع کردیا گیا۔ یہ آٹھ جلدیں یہاں کے نام ور محققین کے عالمانہ محققانہ مقالات پر مشتمل ہیں اور یہ آٹھ جلدیں دراصل اپنے اپنے موضوعات کے تحت ایک مستند اور معیاری مآخذ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ اس طرح کے چند دیگر منصوبے بھی مطالعاتِ اسلامی کے تعلق سے یہاں مکمل ہوئے ہیں جن میں سے دو کا تعلق اسلامی انسائی کلوپیڈیا کے منصوبوں سے ہے۔ حالیہ چند برسوںمیںیہاں وقفے وقفے سے دو ضخیم اسلامی انسائی کلوپیڈیا مختلف اداروںاور ناشروں نے شائع کیے ہیں جن میں لکھنے والوں کی اکثریت جاپانی اسکالروں پر مشتمل ہے اور کوئی اہم عنوان یا موضوع ایسا نہیں جسے ان میں تلاش نہ کیا جا سکے۔ یہ دونوں بہت اہتمام اور حسن و سلیقے سے شائع کیے گئے ہیں۔

انفرادی سطح پر تحقیقی کاوشیں

ان تمام منصوبوں اور اجتماعی تحقیقات کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی تحقیقات کا اپنا اپنا تسلسل ان محققین نے جاری رکھا ہوا ہے۔ایسی تمام جامعات، جن میں اسلامیات کے شعبے موجود ہیں، ان سے منسلک اساتذہ اور اسکالر اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہیں اور اپنی تحقیقات کو مقالات اور کتابی صورت میں سامنے لاتے رہتے ہیں۔پھر ان نوجوانوںنے اپنی تحقیقات کو اشاعت سے قبل سیمی ناروںمیں پیش کرنے کا بھی ایک متواتر اہتمام کر رکھا ہے اور قریب قریب ہرمہینے کسی جامعہ میں یہ نوجوان باقاعدہ ایک سیمی نار یا مجلسِ مذاکرہ میں مل بیٹھتے ہیں اور ایک دومقالے یاکسی موضوع پر اپنے نتائج مطالعہ یا تحقیقات کو بحث و نظر کے لیے پیش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل راقم الحروف کو اسی سلسلۂ سیمی نار کی ایک نشست میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ جس میں دونوجوانوں یوکوتا تاکا یوگو (کیوتو یونی ورسٹی) اور سویامانے (اوساکایونی ورسٹی ) نے علی الترتیب ’حسن البنا کی مذہبی فکر‘ اور ’مولانا مودودی کے تصورِاجتہاد‘ پر اپنے اپنے نتائجِ مطالعہ پیش کیے جن میں جاپان کے مختلف شہروں اور جامعات کے نوجوان اسکالروں نے شرکت کی اور خوب بحث و مباحثہ کیا۔ راقم کے لیے یہ تعجب خیز اور قابلِ رشک رہا کہ ان نوجوانوں نے ان موضوعات پر اور ان سے متعلقہ موضوعات پر بھر پور مطالعہ کر رکھا تھا اور قدیم و جدید مآخذ سے پوری طرح نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان سے استفادہ بھی کر چکے تھے۔ سویاما نے تو اُردو کے پروفیسر ہیں اور اردو خوب بولتے اور لکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے مولانامودودی کی تصانیف کو راست اردو میں پڑھا ہے اور سمجھا بھی ہے۔ اس سے قبل وہ مولانا مودودی پر ایک محققانہ مقالہ ’احیاے اسلام اور مولانا مودودی کا دارالاسلام‘ یہاں کے ایک تحقیقی جرنل میں لکھ چکے ہیںاور اس کے علاوہ مولانا کی ایک معروف تصنیف الجہاد فی السلام کے ابتدائی باب کا ترجمہ اور اس کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ایک مقالہ یہاں کے ایک تحقیقی مجلے میں شائع کر چکے ہیں۔

ان سیمی ناروں یامجالسِ مذاکرہ کی بھی ایک خصوصیت یا انفرادیت یہاں دیکھنے میں آئی کہ بالعموم انھیں بھی موضوعاتی رخ دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ مثلاً گذشتہ سال جتنے بھی سیمی نار جاپان میں اس نوجوان حلقے نے منعقد کیے ہیں، ان کا موضوع ’اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید‘ تھا۔ یعنی عہدِحاضر میں فکرِ اسلامی میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کا محرک اور ان کی نوعیت کیا ہے؟

تحقیقی مجلے

ان سیمی ناروں اور تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ حالیہ چند برسوں میں جاپان میں اسلامی مطالعات کے ضمن میں ان تحقیقی مجلّوں کا ذکر بھی غیر متعلق نہیں ، جو یہاں سے شائع ہوتے ہیں۔ مختلف جامعات یا تحقیقی ادارے جو مجلے شائع کرتے ہیں وہ عالمی سطح کے تحقیقی مجلّوں کے معیار کے حامل ہیں اور ان میں عالمانہ تحقیقی مقالات ہی شائع کیے جاتے ہیں۔ ایک عرصہ قبل ’ایسوسی ایشن فار اسلامک اسٹڈیز ان جاپان‘ نامی ادارہ ایک مجلہ The World of Islamشائع کرتا رہا ہے، جس کے تقریباً ۵۰شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ یہ دنیاے اسلام اور اسلامی موضوعات پر تحقیقی اور علمی مقالات کے لیے مخصوص تھا۔ اسی نوعیت کا ایک مجلہ Orient کے نام سے ٹوکیو سے شائع ہوتا ہے۔ آج کل چونکہ ایک لحاظ سے کیوتو یونی ورسٹی مطالعاتِ شرقیہ اور مطالعاتِ اسلامی میں پیش پیش اور زیادہ سرگرم و فعال ہے اس لیے یہاں تحقیقی اور عملی دونوں سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اس وجہ سے ایک تو متعدد اسکالر کا مجمع یہاںاکٹھا ہو گیا ہے اور تحقیقی سرگرمیاں بھی کمال پر ہیں اور تحقیقی مجلے بھی یہاں بڑی آب و تاب سے نکل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مجلہ Asian And African Area Studies ہے ، جو سال میں ایک مرتبہ شائع ہوتا ہے اور یہ ۲۰۰۱ء سے جاری ہے۔ یہیں سے دوسرا تحقیقی مجلہ Journal of Islamic Area Studiesبھی شائع ہورہاہے ،جس کا اولین شمارہ ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا ہے۔ پروفیسر سویا مانے کا مذکورہ مقالہ ’مولانا مودودی کا تصورِ اجتہاد‘ اس کے اولین شمارے میں شائع ہوا ہے۔

اپنی نوعیت کے لحاظ سے جاپان میں اسلام اور دنیاے اسلام کے بارے میں جو تحقیقی اور علمی کام ہوئے ہیں اور جس اتفاقِ باہمی اورمشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیے جارہے ہیں،   یہ ایک مثال ہے جس کی نظیر آج خاص طور پر خود اسلامی دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ ہماری جامعات اور تحقیقی ادارے اور خاص طور پر وہ ادارے جو مطالعاتِ اسلامی کے لیے وجود میں آئے ہیں ،  کاش جاپان کی مثال کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کے تحت ایسے مفید کام انجام دے سکیں، اور جامعات جہاں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی سطح پر تحقیقی کام ایک تسلسل سے ہو رہے ہیں،اتفاقِ باہمی اور مشترکہ و اجتماعی تحقیقی منصوبوں کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے اس جانب سوچ سکیں۔

ترجمہ: سلیم منصور خالد

کیا بے حجابی اور حیا صرف اسلام کا مسئلہ ہے یا اس کا تعلق خود انسانیت سے بھی ہے؟ روس صدیوں تک قدامت پسند مسیحیت اور زارشاہی کے تابع رہا۔ پھر کارل مارکس کی فکر اور کمیونسٹ پارٹی کی تحریک پر لینن نے اکتوبر ۱۹۱۷ء میں یہاں پر اشتراکی انقلاب برپا کیا۔ اس انقلاب کے دیگر مظاہر کے ساتھ دو چیزیں یہ بھی روسی فضائوں میں مسلط ہوئیں کہ: مذہب افیون ہے، اور مذہبی تعلیمات کا مذاق اڑانا ترقی پسندی ہے۔ دوسرا یہ کہ الٰہی ہدایت کے تحت انسان کے باہمی تعلقات میں بالخصوص نکاح کے تصورات کو فرسودہ اخلاقیات کا کباڑخانہ قرار دینا روشن خیالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اشتراکی انقلابیوں نے ایسے خانگی معاہدے کی بنیاد رکھی، جس کی پابندی میں صنفی خود اختیاریت تھی اور صنفی آزاد روی میں تو آزادی کی کوئی حد نہ تھی۔ مغرب کے اسی آزاد خیال معاشرے کے ایک دانش ور ڈاکٹر لیونڈ کیتایف سمایخ (Leonid Kitaev Smyk) کا یہ مختصر مضمون روزنامہ پراودا (انگریزی) ماسکو، ۵ مئی ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا ہے۔ موصوف پیشے کے اعتبار سے ماہر نفسیات ہیں اور رشین اکیڈمی آف سائنسز میں رشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کلچرالوجی کے سینیر محقق ہیں۔ ان کا یہ مضمون عبرت کا جہان سمیٹے ہوئے ہے۔

اسلام نے حیا، حجاب، ستر، غضِ بصر اور کھلے چھپے میں فکری پاکیزگی کا قانون عطا کیا ہے، اور اس کے نفاذ کے لیے ہر فرد کو ذمہ دار، پابند اور جواب دہ قرار دیا ہے۔ پھر ریاست کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری سونپی ہے، کہ اسی میں انسانیت کی فلاح ہے۔ مادر پدر آزادی کے مغربی نعروں کی جانب لپکتے خواتین و حضرات کے لیے خود مغرب سے بلند ہوتی اس چیخ میں ایک پیغام ہے۔ خاص طور پر ان خواتین کے لیے کہ جنھوں نے جانے یا اَن جانے میں بے حیائی کے تصور وعمل کو معمولی چیز سمجھا ہے۔ انجام کار ہمارے ہاں خواتین میں آدھے یا پورے عریاں بازوئوں کی پوشاکیں، اُونچی شلواریں، قمیصوں کے بلند چاک، تنگ پتلونیں، کھلی شرٹس، باریک کپڑے، منی اسکرٹس کا رواج روز افزوں ہے۔ دوسری طرف انٹرنیٹ کیفوں کے پہلو بہ پہلو فحش وڈیو سی ڈیز، کیبل سروس کی فراہم کردہ واہی تباہی، مخلوط تعلیم کی سلگتی بھٹیاں، ہیجان انگیز اشتہاربازی اور ہورڈنگز کی یلغار ہے۔ ان تمام چیزوں کی ذمہ داری ہمارے معاشرے کے سیاسی، انتظامی، مذہبی، سماجی، تعلیمی، تجارتی اور ابلاغی اداروں پر بھی آتی ہے۔ہمارے معاشرے کو پراودا کے اس مضمون میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے ۔یہ مسئلہ محض دین اور اخلاق کا نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود انسانی زندگی اور معاشرت کی بنیادیں وابستہ ہیں۔(مترجم)

مردوں میں بہت سی بیماریوں کا ایک بڑا سبب عورتوں کا ہیجان انگیز لباس پہننا اور  اشتعال انگیز رویہ اختیار کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب رفتہ رفتہ ایک ایسے معاشرے میں ڈھل رہی ہے، جس میں مرد صنفی طور پر غیرمطمئن، جسمانی طور پر غیرفعال اور غیرصحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

امریکی تحقیق کاروں کی ۳۰ سالہ تحقیق کے مطابق ۶۰ سال کی عمر سے زیادہ [مغربی] مردوں کی ۸۰ فی صد تعداد جن مختلف بیماریوں میں گھری ہوئی ہے، اور اس میں سب سے بڑی بیماری مثانے کے غدود (پراسٹیٹ گلینڈ) کا کینسر ہے۔ ۳۰سال سے بڑی عمر کا ہر تیسرا امریکی یا یورپی مرد مثانے کے غدود کی بیماری کا شکار ہے، تاہم مشرق میں بسنے والے مسلمانوں میں صورت حال یکسر طور پر اس کے برعکس ہے۔ عرب [اور مسلم] دنیا میں پراسٹیٹ کینسر کا مرض بالکل نچلی سطح پر ہے۔ اس فرق کے بارے میں عام طور پر سائنس دانوں کا خیال یہی ہے کہ: ’’اس کے اسباب میں موسمی حالات اور کھانے پینے کے مشرقی لوازمات کو عمل دخل ہے‘‘۔ مگر میرے خیال میں ان سائنس دانوں نے مذکورہ ہوش ربا چیلنج کی درست تشخیص نہیں کی ہے۔ ہمارے مطالعہ وتحقیق کے مطابق معاملہ دراصل یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں جنسی انقلاب کی شاہراہ پر دوڑتی عورت اشتعال انگیز لباس سے اپنا تن ڈھانپنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، جب کہ مشرقی [مسلمان] عورت اب بھی گائون، ڈھیلا اور ساتر لباس پہن رہی ہے۔ یہ ہے بنیادی سبب اس فرق کا۔

اس معاملے کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ گلیوں اور شاہراہوں پر چلتے ہوئے مرد، صنفی طور پر سخت ناآسودگی کا شکار ہوتے ہیں۔ جس کا ایک بڑا سبب عورتوں کے جسم کے عریاں حصے دیکھنا ہے۔ باریک، مختصر لباس اور منی اسکرٹ وغیرہ انھیں ہیجانی سطح پر سخت متاثر کرتے ہیں۔ عورتوں کے یہ جدید فیشن، مردوں کو جنسی بھوک میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس کا علاج ویسے ہی بہت کم درجے میں ممکن ہے، بھلا اس ہیجانی بیماری کا علاج بھی کیا تجویز کیا جائے؟ تاہم اس کھیل کو بس ایک حیوانی ڈراما ہی کہا جاسکتا ہے۔ اب اگر ایک مرد کمزور ہے تو عورت اسے مسترد کردیتی ہے اور پھر یہی مرد ناطاقتی (امپوٹینس) اور پراسٹیٹ سے متعلق بیماریوں کی گرفت میں آجاتا ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ زمانے کے ۷۰فی صد مردوں میں ناطاقتی دراصل: مستقل طور پر متضاد رویوں اور ناآسودہ جنسی انتشار کے خلاف قدرت کا خودکار دفاعی ردعمل ہے، اور اب مستقل شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

اسی طرح یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ [مغربی] عورتیںاپنے جسم دکھاتے لباسوں  اور عریاں پنڈلیوں کے ذریعے مردوں کی قبریں کھودتی ہیں۔ ذرا دیکھیے، بظاہر ایک بھلی سی لڑکی، ہیجان انگیز وضع قطع کے ساتھ اپنے ایک دوست کی خوشی کے لیے گھر سے خراماں خراماں نکلتی ہے، لیکن اپنے جلووں سے راستے بھر میں ایک درجن سے زیادہ مردوں کو [بلاوجہ] ذہنی اور صنفی اذیت میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہے۔ یوں عریانی و برہنگی کے یہ کھلے ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے (ماس ڈسٹرکشن) کا کام کرجاتے ہیں۔ اس طرح یہ سارا عمل، مغربی تہذیب کو ایک مضحمل معاشرے کے سپرد کردیتا ہے۔

جنسیات کے ماہرین کے نزدیک مردوں میں کمزوری (امپوٹینس) کو بڑھانے کا بڑا سبب حسب ذیل سرگرمیاں ہیں: شہوت اور جنسی ہیجان سے بھرپور وڈیو فلمیں، انٹرنیٹ پر عریانی و فحاشی پر مبنی مواد دیکھنے کے لیے تجسس آمیز تفتیش، مختصر لباسوں میں ملبوس چلتی پھرتی عورتیں، فحش رسائل اور کتب، برہنہ رقص کے کلب، وغیرہ۔ (مذکورہ اخبار میں اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک قاری نے لکھا: ’’خیال کیجیے یہ تحریر کسی مذہبی مولانا کی نہیں ہے‘‘۔ دوسرے نے لکھا: ’’ان چیزوں کا منفی اثر زیادہ تر نوجوان مردوں پر ہوتا ہے‘‘۔ تیسرے نے لکھا: ’’اس تباہی کا ایک بڑا سبب خود شراب بھی تو ہے‘‘۔)

لیبیا کا صدر عرب حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’ہمیں اس ہال کی چار دیواری کے علاوہ اور کوئی چیز اکٹھا کرنے والی نہیں بچی، افسوس ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مخاصمت رکھتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں تیار کرتے ہیں، دوسرے کو پہنچنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں… نتیجہ یہ ہے کہ عربوں کی عزت خاک میں مل چکی ہے، عربوں کا وجود قصۂ پارینہ بن گیا ہے، ان کا ماضی… ان کا مستقبل، سب ختم ہوچکا ہے۔

صدر قذافی کے عقیدے، نظریات، سیاست اور حکمت عملی سے بہت سے اختلافات کیے جاسکتے ہیں۔ اپنے شہریوں کی آزادیاں سلب کرلینے اور امریکا سے دشمنی کے دعووں کے بعداچانک اس کے سامنے ڈھیر ہوجانے کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، لیکن دو ماہ قبل ۳۰مارچ کو شام کے دارالحکومت دمشق میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے ان کا یہ خطاب عالمِ عرب کی بالکل درست تصویر کشی کرتا ہے۔ گذشتہ ماہ، یعنی مئی ۲۰۰۸ء کو سرزمینِ اقصیٰ پر یہودیوں کے قبضے کو ۶۰سال پورے ہوگئے۔ عین اس وقت کہ جب فلسطین پر قابض صہیونی ریاست اپنا ۶۰سالہ جشن منا رہی تھی، عالمِ اسلام فتنہ و فساد اور ہلاکت و خوں ریزی کی نئی تاریخ رقم کر رہا تھا۔ صومالیہ، چیچنیا، کشمیر، افغانستان، عراق اور فلسطین تو پہلے ہی خاک و خون کی نذر تھے، صرف عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اب تک ۱۰ لاکھ، جی ہاں ۱۰ لاکھ سے زائد بے گناہ موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں لیکن مئی میں دو مزید مسلمان ملکوں میں خانہ جنگی برپا کردی گئی۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت کی سڑکوں پر حزب اللہ اور حکومتی جماعتوں کے درمیان گولیوں، مارٹر گولوں اور آتش زدگی کی وارداتوں کا تبادلہ ہوا اور سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور اس کے جڑواں شہر اُم درمان پر دارفور کے مسلمان باغی گروہ نے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دھاوا بول دیا اور سیکڑوں افراد کو زندگی سے محروم کردیا۔

حزب اللہ ہمیشہ سے صہیونی و امریکی حملوں کا نشانہ رہی ہے، لیکن ۲۰۰۰ء میں اس کی مزاحمت و جہاد سے مجبور ہوکر جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلا اور ۲۰۰۶ء میں تمام تر امریکی و اسرائیلی مہلک اسلحے سے لڑی جانے والی جنگ میں اس سے شکست کھا جانے کے بعد حزب اللہ اور اس کی عسکری طاقت خاص طور پر ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ اس لیے اب ایک طرف تو اسے اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر مہیب پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کی عسکری قوت کو سُنّی ممالک و عوام کے لیے خطرے کی علامت بناکر پیش کیا جارہا ہے، اس سے اسلحہ چھین لینے کے لیے عالمی وعلاقائی اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف اس کے اور لبنانی حکومت کے درمیان سالہا سال پر محیط ہمہ پہلو کش مکش شروع کروا دی گئی ہے۔ ۷مئی ۲۰۰۸ء کو اس کش مکش کا ایک المناک مظاہرہ بیروت کی سڑکوں پر کیا گیا۔

لبنان نمایاں طور پر مختلف مذاہب اور قومیتوں میں بٹا ہوا ملک ہے۔ اس تنوع نے ملک کو کئی بار سنگین خانہ جنگی کے شعلوں کی نذر بھی کیا ہے۔ خاص طور پر ۱۹۸۵ء سے لے کر ۱۹۸۸ء تک کی خانہ جنگی نے ’لبنانائزیشن‘ کو اندرونی خلفشار وتباہی کے لیے ضرب المثل بنا دیا۔لیکن بالآخر سعودی عرب کے شہر طائف میں امریکا و شام کے تعاون سے ہونے والے معاہدۂ طائف پر   اتفاقِ راے نے سب کو اکٹھا کردیا۔ اس اتفاقِ راے کے نتیجے میں لبنان کا صدر ہمیشہ مارونی مسیحی، وزیراعظم سُنی مسلم، اسمبلی کا اسپیکر شیعہ مسلم، ڈپٹی اسپیکر آرتھوڈکس مسیحی اور ارکانِ پارلیمنٹ آدھے مسیحی اور آدھے مسلمان ہوتے ہیں۔ حالیہ سیاسی تقسیم کے نتیجے میں ملک دو بڑے کیمپوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک جانب مسیحی صدر (جس کا دوبارہ انتخاب التوا کا شکار ہے) شیعہ اسپیکر (تحریک امل، حزب اللہ) اور بعض چھوٹے دھڑے ہیں جو اب اپوزیشن کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف سُنّی وزیراعظم (حریری)، درزی رہنما ولید جنبلاط اور بعض دیگر چھوٹے گروہ ہیں۔ حکومتی دھڑا امریکی حلیف سمجھا جاتا ہے اور اپوزیشن شام اور ایران کے زیراثر گردانی جاتی ہے۔ اپوزیشن شکوہ کرتی ہے کہ حکومت امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر چلتے ہوئے حزب اللہ کی طاقت و مزاحمت کا خاتمہ چاہتی ہے اور حکومت الزام لگاتی ہے کہ حزب اللہ یہاں ایران اور شام کا تسلط چاہتی ہے اور ان کے مفادات کی محافظ ہے۔

اس تناظر میں ماہ رواں کے اوائل میں حکومت کے دو حساس فیصلوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا: ایک تو بیروت ایئرپورٹ پر سیکورٹی کے سربراہ کو جو حزب اللہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے منصب سے ہٹانے کا اور دوسرے، حزب اللہ کے نجی مواصلاتی نظام کو ختم کرنے کا۔ ایئرپورٹ سیکورٹی کے سربراہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ یہاں خفیہ کیمروں کے ذریعے جاسوسی کرتا ہے اور مواصلاتی نظام کے بارے میں کہا گیا کہ اسے اپنی عسکری ضرورتوں سے کہیںوسیع تر کرلیا گیا ہے اور حزب اللہ اپنے آپ کو ریاست کے اندر الگ ریاست سمجھتی ہے۔

اپوزیشن کی طرف سے یہ دونوں فیصلے مسترد کرنے اور ۷مئی کو ان کے خلاف ہڑتال اور پُرامن احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے جیسے ہی دن کاآغاز ہوا بیروت کے مختلف علاقوں میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا۔ احتجاج کو باقاعدہ عسکری جھڑپوں میں تبدیل کردیا گیا تو حزب کا پلہ بھاری رہنا بدیہی تھا۔ اس کے افراد نے تیزی سے بیروت میں پیش قدمی شروع کر دی اور پھر دو روز کے اندر اندر اسی تیزی سے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے۔ اس کے ذمہ داران نے اعلان کیا کہ ہمارے پُرامن احتجاج کو ایک سازش کی بنیاد پر مسلح جھڑپوں میں تبدیل کردیا گیا، ہم نے مجبوراً دفاعی اقدامات کیے اور صورتِ حال قابو میں آتے ہی عسکری مظاہر ختم کردیے۔ حکومتی کیمپ کا کہنا ہے کہ مسلح کارروائیوں کا آغاز حزب کی طرف سے کیا گیا اور حکومت کی طرف سے جوابی کارروائی کی گئی، نیز یہ کہ حزب اللہ عالمی دبائو سے خوف زدہ ہوکر پسپا ہوگئی۔ اگرچہ طرفین ۲۲مئی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک صلح و معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں لیکن دونوں طرف سے الزامات و جوابات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگر آنے والے ماہ و ایام میں دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو یہ یقینا ۶۰سالہ جشن فتح منانے والے صہیونیوں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے سوا کسی کے لیے خیرومسرت کا باعث نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی لبنان کے سربراہ فیصل المولاوی نے بھی اپنے بیانات میں اسی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ انھوں نے فریقین میں سے کسی کو بھی بیروت کے المناک واقعات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا۔ حزب اللہ کو بھی خبردار کیا کہ وہ اپنا اسلحہ اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف استعمال کرکے دشمن کے بچھائے جال میں نہ پھنسے لیکن ساتھ ہی حزب اللہ کی عسکری قوت اور اسلحے کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس اسلحے کا استعمال صرف ایک ہی رہنے دینا چاہیے اور وہ ہے صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت۔

بیروت کے حالیہ واقعات کو کئی مغربی اور صہیونی مبصرین نے ایران سے جوڑتے ہوئے خطے کے ممالک کو اس کی توسیع پذیر طاقت سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کئی عرب سرکاری ذرائع ابلاغ بھی اس مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ علاقے کی حکومتوں اور عوام کو ڈرایا اور باور کروایا جا رہا ہے کہ یہ مذہبی جنگ ہے۔ ایران نے صدام کے بعد عراق میں قائم شیعہ حکومت، شام کے ساتھ اپنے مضبوط تر تعلقات اور لبنان میں حزب اللہ کی ناقابلِ یقین عسکری طاقت کے ذریعے خطے میں ایک شیعہ ہلال تشکیل دے لیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایران نے مشکل وقت میں حماس کی مالی امداد کر کے اسے بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اس طرح وہ ایک تشدد پسند، ریڈیکل اسلام کو ترویج دیتے ہوئے پورے خطے پر قبضہ جمانے کا ارادہ رکھتاہے۔ بعض صہیونی تجزیہ نگاروں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ایرانی حکومت بیروت میں حزب اللہ کی کارروائیوں کی طرح حماس کی عسکری طاقت کو بھی فلسطین کے اندر اور باہر استعمال کرسکتی ہے۔ وہ غزہ کے بعد عالمی سرحدیں اور رفح کا پھاٹک پامال کرتے ہوئے مصر میں انقلاب کے لیے کوشاں ہوسکتی ہے۔ مصر میں موجود اخوان المسلمون اندر سے اُٹھ کھڑے ہوںگے اور یہاں ایران دوست اسلامی انقلاب برپا کردیا جائے گا۔

صہیونی وزیرخارجہ سیبی لیفنی نے بیان دیا: ’’اصل تنازع عربوں اور یہودیوں کے درمیان نہیں، اعتدال پسند روشن خیالوں اور شدت پسندوں کے درمیان ہے‘‘۔ معروف اسرائیلی روزنامے ھاآرٹس میں ۲۴ مئی کو عکیناالدارنامی تجزیہ نگار دہائی دیتا ہے: ’’اب یہ امر لبنانیوں، فلسطینیوں، اُردنیوں، مصریوں اور سعودیوں کے مابین قدر مشترک ہے… حقیقت پسند حکمران، ریڈیکل اسلام سے خوف زدہ ہیں۔ریڈیکل عناصر شیعہ ہوں یا سُنّی، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا خون بہاکر    خوشی سے رقص کرتے ہیں۔ ۲۰۰۶ء کے موسم گرما (حزب اللہ اسرائیل لڑائی) کے بعد سے ان کا یہ خوف شدید تر ہوگیا ہے‘‘۔

معروف دانش ور رابرٹ فسک نے اگرچہ بیروت کے واقعات کا تجزیہ اس طرح کیا ہے کہ: ’’یہ واقعات امریکا کے لیے مزید ذلت اور ایران کی ایک اور جیت ہیں‘‘۔ انھوں نے ۱۲مئی کو برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ میں شائع اپنے مضمون میںاس لڑائی کو ’’مشرقِ وسطیٰ میں جاری امریکا مخالف لڑائی کاحصہ‘‘ قرار دیا ہے جس میں امریکا اور اس کے حواریوں کو شکست در شکست ہورہی ہے، لیکن عملاً انھوں نے بھی اس جنگ میں امریکی ہدف کی نشان دہی کی ہے۔ اس ہدف کے بارے میں بدنامِ زمانہ ’موساد‘ کے سابق سربراہ افرایم ہلیفی ۲۰مئی کے اسرائیلی روزنامے یدیعوت احرونوت میں لکھتا ہے: ’’امریکا کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایران پر بڑھتے ہوئے دبائو میں مزید اضافہ کرے۔ اقتصادی اور مالیاتی دبائو سے لے کر خطے میں عسکری قوت جمع کرنے اور اسے استعمال کرنے کی دھمکیوں تک ہرممکن دبائو… صرف اسی دبائو کے نتیجے میں ہی ایران کو مذاکرات کی میز تک لایا جاسکتا ہے‘‘۔ پھر لکھتا ہے: ’’اگر امریکا اس مقصد میں کامیاب ہوجائے تو ہمیں مزید خبردار رہنا ہوگا، کہیں ایسانہ ہو کہ مذاکرات کی میز پر ہماری (اسرائیل کی) کوئی جگہ ہی   نہ رکھی جائے… ہمارے لیے یہ امر فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے‘‘۔

اس صہیونی ہلاشیری اور خطے میں حالیہ امریکی عسکری نقل و حرکت کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ بش صاحب اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے پہلے ایران پر ہلہ بولنے کی حماقت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عالمِ عرب کے بڑے روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق مئی کے پہلے ۲۰ روز میں ۱۹جنگی جہازوں نے نہرسویز عبور کی۔ یہ آمدورفت ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنے مختصر عرصے کے دوران میں اتنے جنگی جہاز خطے میں نہیں آئے۔ عراق میں اعترافِ شکست، امریکی فوجیوں کے زمین بوس مورال اور جنگ کی صورت میں ایران کی طرف سے امریکا و اسرائیل کو برابر کا جواب دینے کے اعلانات ایران پر حملے کے صہیونی ارادوں کی تکمیل کی راہ میں حائل ہیں۔

ایران سمیت ہر خطرے کے خلاف عالمی صف بندی اور باقاعدہ حملوں کے لیے صہیونی عناصر کی بے تابی تو بآسانی سمجھ آجانے والی حقیقت ہے، لیکن سمجھ سے بالاتر بات یہ ہے کہ خود  عرب اور مسلم ممالک اپنے ازلی و ابدی دشمن کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کے لیے کیوں مرے جارہے ہیں۔ یہ تو سمجھ آتا ہے کہ مسجداقصیٰ اور سرزمینِ اقصیٰ پر ۶۰سالہ قبضے کا جشن منانے کے لیے (واضح رہے کہ فلسطین سے برطانوی انتداب ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو ختم ہوا۔ اسی روز پہلے صہیونی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے قیامِ اسرائیل کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے الفاظ تھے: ’’ہم طے کرتے ہیں کہ آج رات عبرانی سال ۵۷۰۸ کے مطابق ۶مئی اور عیسوی سال ۱۹۴۸ء کے مطابق ۱۵مئی کو جس لمحے برطانوی انتداب اختتام پذیر ہوگا، اقوام متحدہ کی قرارداد (۱۸۱- ۲۹ نومبر ۴۷ئ) کی روشنی میں اور اپنے فطری و تاریخی حق کی بنیاد پر، سرزمین اسرائیل پر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہیں)، بش سمیت ۴۰ عالمی شخصیات ۱۴ مئی کو تل ابیب پہنچیں اور ۱۵ مئی کو صہیونی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر بش اعلان کرے کہ اسرائیلی خود کو صرف سات ملین نہ سمجھیں، ہم اور آپ مل کر ۳۰۷ ملین ہیں اور اپنے مشترک دشمن کے خلاف شانہ بشانہ و یک جان ہیں۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ مصر جیسے اہم مسلمان ملک نے اس موقع پر ناجائز صہیونی ریاست کو۲ئ۱ ارب مکعب میٹر سالانہ کی مقدار میں قدرتی گیس کی فراہمی کیوں شروع کردی۔ کویتی ہفت روزہ المجتمع اور دیگر رپورٹوں کے مطابق یکم مئی سے اسرائیلی ریاست کو یہ گیس ناقابلِ بیان حد تک کم قیمت میں فروخت کی جارہی ہے۔ جس گیس کی قیمت اس وقت عالمی منڈی میں ساڑھے نو ڈالر فی یونٹ ہے وہ اسرائیل کو ایک ڈالر سے بھی کم، یعنی صرف ۷۵ سنٹ فی یونٹ میں فراہم کی جارہی ہے۔ جون سے اس کی مقدار بڑھا کر ۷ئ۱ارب مکعب میٹر سالانہ کردی جائے گی اور یہ ترسیل آیندہ ۲۰ سال تک جاری رکھی جائے گی۔

قرآن کریم جن کے بارے میں ’انبیاؑ کے قاتل‘ ہونے اور ’مسلمانوں سے دشمنی میں سب سے آگے بڑھے‘ ہونے کی خبر دیتا ہے، ان کے ساتھ سخاوت وفیاضی کا یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب اس نے مصری حدود سے متصل غزہ کی پٹی میں ۱۵ لاکھ فلسطینیوں کو محصور کررکھا ہے۔ انھیں زندگی کی ہر ضرورت سے محروم کر رکھا ہے۔ بجلی، پٹرول اور گیس تو کجا، پینے کے لیے پانی اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر دانۂ گندم پر روک لگا رکھی ہے۔ شام، جو خود صہیونی جارحیت کا نشانہ  بن چکا ہے اور جس کی وادی ’جولان‘ اب بھی مقبوضہ ہے، عین انھی دنوں ان اسرائیلی خبروں کی تصدیق کررہا ہے کہ: ’’ترکی کی وساطت سے شام اسرائیل مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں اوریہ مذاکراتی عمل جاری رہے گا‘‘۔ ایک اسرائیلی وزیر نے بیان دیا ہے کہ صہیونی وزیراعظم اولمرٹ نے گذشتہ عرصے میں شامی صدر بشارالاسد کو اس مضمون کے ۲۰ پیغام بھیجے ہیں کہ ایران، حزب اللہ اور حماس سے ناتا توڑ لو، ہم تمھارے سارے دلدّر دُور کردیں گے۔ مسلمان ممالک کے اکثر حکمرانوں کی اس فراست و دانائی پر حیرت وتأسف اور اناللہ … پڑھ لینے کے علاوہ کچھ نہیں  کہا جاسکتا۔ یہ حکمران اپنے اقتدار کے لیے ’امریکی خدا‘ کی رضاجوئی اور امریکی دل جوئی کے لیے ’سگِ لیلیٰ‘ کی بلائیں لینا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب خود اسرائیلیوں کو دیکھیں تو ان کے روزنامے یدیعوت احرونوت کے تازہ سروے کے مطابق ان کی صرف چار فی صد آبادی صہیونی ریاست میں سکون سے رہنا ممکن سمجھتی ہے۔ ۵۲ فی صد نے کہا کہ وہ کسی بھی وقت یہاں سے کوچ کرسکتے ہیں۔ ۳۰ فی صد نے کہا کہ ہمیں اپنا صہیونی ہونا باعث عار و شرم لگتا ہے۔ ۲۲ فی صد نے اقرار کیا کہ صہیونی ریاست بتدریج زوال و فنا کی طرف جارہی ہے۔

۳۰ اپریل کو دوحہ میں علامہ یوسف قرضاوی سے ملاقات کے لیے چوٹی کے تین برطانوی یہودی رِبی.ّ  ان کے گھر آئے ، انھوں نے اعتراف کیا کہ’’صہیونی ریاست پوری دنیا کے لیے شر کا باعث ہے‘‘۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ’’اس ریاست کا وجود تورات کی تعلیمات کے منافی اور یہودیوں کے لیے تباہی کا باعث ہے‘‘۔ اَھارون کوہن، اسرائیل ڈووِڈ وِس اور ڈووِڈ شلومو وِلڈ مین نامی ان تینوں مذہبی رہنمائوں کاشمار تورات کے بزرگ اساتذہ میں ہوتا ہے اور انھیں ’ربانی یہود‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’تورات کے حقائق اور دو ہزار سالہ یہودی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ اسرائیلی ریاست کو بالآخر نیست و نابود ہونا ہے‘‘۔

کیا صہیونی ریاست کے ظالم بھیڑیوں، ان کے ہاتھوں یرغمال بنے امریکا اور اس کے سامنے سجدہ ریز مسلم حکمرانوں کو اس گواہی کے بعد بھی کوئی اور گواہی درکار ہے؟

اسرائیل کے ناجائز قیام کو ۶۰ سال ہو گئے۔ اِس کی پوری تاریخ ظلم و جبر، نسل کشی، ناجائز قبضے اور مذاکرات کی فریب کاریوں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل میں آج تک جو کچھ ہوتا رہا ہے یا اب جو کچھ غزہ اور مغربی کنارے میں ہو رہا ہے، اُسے انسانیت کے خلاف جرم ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی کسی قرار داد، امن فارمولے، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو  تسلیم نہیں کیا۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں ۶۰ لاکھ یہودیوں کے قتلِ عام کے افسانے گھڑ کر دُنیا کو فریب دیتے ہوئے مظلومیت کی داستانیںسنائیں اور پھر فلسطین کا رُخ کرتے ہوئے اُس پر قبضہ کر لیا۔

دُنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہودیوں کے ہاتھوں دیریاسین کے قتلِ عام کو بھی ۶۰ سال ہوگئے ہیں۔ ۳۰۰ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل یہ بستی ہاگانہ (Hagana) دہشت گردوں کے ہاتھوں راتوں رات صفحۂ ہستی سے اِس طرح مٹی کہ اب وہاں کھنڈرات کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ’مہذب‘ مغربی حکومتیں دیریاسین کی بربریت پر آج تک خاموش ہیں، جب کہ یہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ ایک معروف اسرائیلی مورخ ایلان پاپ(Ilan Pappe) نے    جو ۲۰۰۷ء تک حیفا یونی ورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں، اپنی ایک کتاب فلسطینیوں کا نسلی صفایا  (The Ethnic Cleansing of Palestine) میں لکھتے ہیں:

دسمبر ۱۹۴۷ء سے جنوری ۱۹۴۹ء تک فلسطینیوں کا مسلسل ۳۱ بار قتلِ عام ہوا۔ یہودیوں نے فلسطینیوں کی ۴۱۸ بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔

ایلن پاپ حماس کی تحریکِ مزاحمت کے حامی ہیں۔ وہ صہیونیوں کو کھلّم کھلّا نوآبادکار کہتے ہیں۔ وہ اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست نہیں سمجھتے۔ ۲۰۰۷ء میں اُنھیں یونی ورسٹی سے استعفا دینے پر مجبور کیا گیا۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں ایلن پاپ نے مانچسٹر میٹروپولیٹن یونی ورسٹی (MMU) میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

جس طرح سے فلسطینیوں کا نسلی صفایا ہوا ہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اِسے نوآبادکاری کے جبر کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ دُوسری جنگِ عظیم کے بعد اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتلِ عام کر کے نصف سے زیادہ فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے نکالا جو اب دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

مغرب کے کئی معروف دانش ور ایلن پاپ کو ایک ’بہادر مورخ‘ کہتے ہیں۔

اسرائیل دُنیا کی واحد ریاست ہے جو نسلی تفریق پر قائم ہے۔ عربوں کی زندگیاں اِتنی سستی اور اِتنی بے مایہ ہیں کہ ایک اسرائیلی کے قتل کے بدلے میں درجنوں فلسطینی بم باری کے ذریعے  اُڑا دیے جاتے ہیں۔ ۶۰ برس گزرنے کے باوجود اسرائیل خوف و ہراس کا اِس حَد تک شکار ہے کہ سڑکوں اور گلیوں پر جگہ جگہ کلوز سرکٹ کیمرے اور میٹل ڈی ٹیکٹر نصب ہیں۔ ہر اسرائیلی کے لیے، چاہے وہ مرد ہے یا عورت، ملٹری سروس لازمی ہے۔ اسرائیل نے امن و آشتی کے راستے کا انتخاب کبھی نہیں کیا۔ اِس کے پاس امریکا کا دیا ہوا وافر اسلحہ موجود ہے۔ لیکن ۲۰۰۶ء میں حزب اللہ نے اسرائیل کو پسپا کر کے ثابت کر دیا کہ وہ کوئی ناقابل تسخیر قو ّت نہیں ہے۔ اب وہ غزہ میں حماس سے پنجہ آزمائی کر رہا ہے، لیکن وہ اِس کی راکٹ باری کو روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

یہودیوں کی اکثریت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسرائیل اُن کے لیے کبھی خطۂ امن نہیں   بن سکتا ۔ دُوسرے انتفاضہ کے بعد سے اب تک کے آٹھ برسوں میں ۱۱۰۰ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِسی دوران ۴۸۰۰ فلسطینی بھی جاں بحق ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل اُن کے عزم کو شکست دینے میں ناکام ہوا ہے۔ غزہ کو ایک ’اوپن جیل‘کہا جاتا ہے جس میں ۱۵ لاکھ قیدی فلسطینی بھوکوں مر رہے ہیں۔ باقی رہے مغربی کنارے کے فلسطینی، تو وہ اسرائیلی بستیوں کے محاصرے میں آ چکے ہیں۔ اب اُن کی اپنی فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے اُن کا سودا کرنے یا اُنھیں خود ہی ٹھکانے لگانے میں مصروف ہے۔ نام نہاد مذاکرات کے باوجود مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیاں کم ہونے کے بجاے بڑھ رہی ہیں اور فلسطینی سر چھپانے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات دینا تو دُور کی بات ہے، مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینی پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں، جب کہ اسرائیلی تازہ پانی کے سوئمنگ پولوں میں نہاتے ہیں۔ اِن حقائق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل غیر یہودیوں کے لیے کتنا ظالم ہے۔

۲۰۰۶ء سے مغربی کنارے پر القدس کے ساتھ ساتھ دیوارِ برلن کے نمونے پر ایک دیوار بنائی جا رہی ہے۔ دیوارِ برلن ۱۵۵ کلو میٹر طویل اور تین سے ۶ میٹر اُونچی تھی۔ جب کہ مغربی کنارے کی دیوار ایک ہزار کلومیٹر طویل اور ۸ میٹر اُونچی ہو گی۔ یہ چاند سے نظر آنے والی دیوارِ چین کے بعد دُوسری طویل دیوار ہو گی۔ اِس کے ساتھ ایک دفاعی سڑک اور ٹاور تعمیر ہوں گے۔ فلسطینیوں نے اِسے جدارالفصل العُنصری ، یعنی نسلی منافرت کی دیوار کا نام دیا ہے۔ انگریزی میں اِسے Apartheid Wall کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل اِس دیوار کو اگلے دَو برسوں میں مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اِس کی تعمیر کے لیے راستے میں آنے والے فلسطینیوں کے باغ اُجاڑ دیے گئے اور اُن میں کھڑے زیتون کے لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے پر سڑکوں کا ایسا الگ تھلگ نظام قائم کیا ہے کہ وہاں فلسطینی نہ تو سفر کر سکتے ہیں اور نہ ہی گاڑی چلا سکتے ہیں۔ اِس جبری تقسیم کا مطلب القدس سمیت فلسطینی شہروں اور اُن کی زرخیز زمینوں پر مستقل قبضہ کرنا ہے۔ آج ۹۰ فی صد فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز تسلّط قائم ہے۔ شام کی جولان کی پہاڑیاں اور لبنان کے شبعاء فارمز اُن کے علاوہ ہیں جنھیں وہ ضم کر چکا ہے۔ حالانکہ ۱۹۴۷ء کی اقوامِ متحدہ کی قرار داد میں فلسطینیوں کو ۴۵ فی صد علاقہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اسرائیل کا دیمونہ (Dimona)جوہری ری ایکٹر النقب (Negev) کے دشت میں قائم ہے جہاں یورینیم دستیاب ہے۔ یہ ری ایکٹر فرانسیسی ایٹمی توانائی کے تکنیکی تعاون سے ۱۹۶۳ء میں مکمل ہوا۔ ان میں وہ فرانسیسی، مفرور جرمن اور یہودی سائنس دان شامل تھے جو ایٹم بم بنانے والے امریکی مین ہٹن پروجیکٹ میں کام کر چکے تھے۔ اسرائیل غیرعلانیہ طور پر ایٹم بم بنا چکا ہے۔ وہ ہزاروں ٹن مہلک جوہری فضلہ غزہ کی پٹی میں کم گہرائی پر دفن کرتا رہا ہے۔ دیمونہ ری ایکٹر  روس کے چرنوبل پلانٹ کی طرح بوسیدہ ہو چکا ہے۔ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے مطابق اسرائیل کے جوہری ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر مصر سے اُردن تک تباہی پھیلا سکتا ہے۔

تل ابیب اسرائیل کی ۶۰ ویں سالگرہ کے علاوہ اپنی صدسالہ تقریبات منانے کی تیاریاں بھی کر رہا ہے۔ یہ شہر ۱۹۰۹ء میں یافا کے پہلو میں بحیرۂ رُوم کے کنارے آباد کیا گیا تھا۔ یہ اِس وقت کی عثمانی حکومت کی فراخ دِلی کا کھلا ثبوت ہے کہ اُس نے یہودیوں کو ایک نیا شہر بسانے کی اجازت دی۔ تل ابیب ۵۱ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ اِس کی آبادی ۳۰ لاکھ سے زائد ہے۔ یہودی اِسے اسرائیل کا نیویارک کہتے ہیں۔ پہلے اِس کا نام صہیونیوں کے باوا آدم تھیوڈور ہرزل کے نام پر ہرزیلیا (Herzliya) بھی تجویز ہوا تھا۔

اِس وقت اسرائیل کی مجموعی آبادی ۷۱ لاکھ سے زائد ہے۔ اِس میں یہودیوں کی تعداد ۵۴لاکھ ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے، مشرقی القدس اور جولان میں سیکڑوں یہودی نوآبادیات قائم ہیں۔ ویسٹ بنک میں ۲۴۲ نو آبادیات ہیں جن میں ایک لاکھ ۸۷ہزار نوآبادکار لاکر بسائے گئے ہیں۔ مشرقی القدس میں فلسطینیوں کی زبردست مزاحمت کے باوجود ۲۹ نوآبادیات قائم ہو چکی ہیں جن میں ایک لاکھ ۷۷ ہزار یہودی رہتے ہیں۔ جولان کی پہاڑیوں پر ۴۲نوآبادیات ہیں اور یہودی آباد کاروں کی تعداد ۲۰ ہزار ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر شام  حزب اللہ ، حماس اور اسلامک جہاد سے تعاون نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دے تو وہ جولان کی واپسی کے لیے مذاکرات کر سکتا ہے۔

اسرائیل امریکا کا بغل بچہ ہے۔ اِسے امریکا سے ہر سال ایک بلین ارب ڈالر سے زائد بلاواسطہ معاشی امداد مل رہی ہے۔ اربوں ڈالر پر مشتمل امریکی یہودیوں سے ملنے والے فنڈ اِس کے علاوہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق ۲۰۰۶ء میں اسرائیل کی خام قومی آمدنی ۱۹۵ ارب ڈالر تھی۔ اِسی ذریعے کے مطابق ۲۰۰۷ء میں اسرائیلی کی فی کس آمدنی ۷۶۷,۳۱ ڈالر سالانہ تک بڑھ چکی تھی۔ دُوسری طرف فلسطینی ہیں جن کا پرسان حال کوئی نہیں۔ اپریل ۲۰۰۸ء میں عالمی بنک نے رپورٹ دی کہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے مغربی کنارے کے فلسطینی غربت کے چنگل میں پھنس کر رِہ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے مسلسل چیک پوسٹیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۸ء تک مغربی کنارے میں ۵۴۶ چیک پوسٹیں بن چکی تھیں۔ اِس امتیازی سلوک سے مغربی کنارے کی معیشت بدترین دَور سے گزر رہی ہے۔ یہاں کی نصف فلسطینی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ غزہ کا حال نام نہاد یہودی انخلا کے باوجود بہت پتلا ہے۔ یہاں کی پوری ۸۰ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ واضح رہے کہ غزہ کی آبادی ۱۵لاکھ ۳۷ ہزار، جب کہ مغربی کنارے کی فلسطینی آبادی ۲۶ لاکھ ۱۱ ہزار ہے۔

فلسطینیوں کے خون سے سرخ اسرائیل نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنی ۶۰ ویں سالگرہ  منا رہا ہے۔ مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود اسرائیل کا حکمران طبقہ مالی و اخلاقی بدعنوانی اور روایتی یہودی بددیانتی میں ملو ّث ہے۔ اسرائیلی صدر موشے کتساف پر صدارتی دفتر کی خواتین سے زیادتی کا، موجودہ وزیراعظم اولمرٹ پر مالی بدعنوانی اور بدعنوان کابینہ بنانے کا اور نائب وزیراعظم لیبرمین پر خواتین کو چھیڑنے کا الزام ہے۔ پولیس اِن کیسوں کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ نومبر ۲۰۰۷ء میں ۲۰ سے زائد مقامات پر چھاپے مار کر سرکاری ریکارڈ قبضے میں لیے گئے، اِن میں وزارتِ صحت و تجارت شامل تھی۔

اسرائیل کا تحریری دستور مختلف تنازعات کے باعث آج تک وضع نہیں ہو سکا۔ اِس تنازع کے پیچھے عرب نہیں، بلکہ وہ یہودی ہیں جو آج تک اسرائیل کی صہیونی یا سیکولر حیثیت کا تعین نہیں کرسکے۔ یہ وہ نام نہاد ریاست ہے جو پورے مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کی اکیلی دعوے دار ہے۔ دُنیا کے دساتیر میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں، مگر اسرائیلی دستور کے لیے یہ شق متنازع ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے اکثر ارکان اِس مساوات کے مخالف ہیں، کیونکہ اِس سے یہودی دُوسرے غیر یہودی شہریوں کے مساوی ہو جائیں گے۔ اِس وقت ۱۹۴۸ء کے ایک بنیادی قانون کے تحت حکومت چلائی جا رہی ہے۔

اسرائیل کی ۶۰ سالہ تقریبات میں صدومی بھی حصہ لیں گے، کیونکہ صدومیت یہودی کلچر کا تاریخی حصہ ہے۔ اِس سلسلے میں اگست میں عالمی فخر (World Pride) کے نام سے ہم جنس پرستوں کی پریڈ مشرقی یروشلم میں ہو گی۔ کئی یہودی ربیوں، عیسائی پادریوں اور مسلم علما نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ علانیہ گناہ کا مظاہرہ کر کے خدا کے غضب کو نہ بھڑکائیں۔

امریکا میں اسرائیل کی ۶۰ سالہ تقریبات کا سلسلہ فروری سے جاری ہے۔ اِس سلسلے میں واشنگٹن سکوائر میں ایک بڑے مخلوط رقص کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ امریکا کے یہودی طلبہ نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اُنھیں اسرائیل کی طرح یہاں بھی ہتھیار رکھنے اور فوجی تربیت لینے کا حق دیا جائے۔ اسرائیلی تقریبات منانے کے لیے امریکی یہودی اور یہود نواز تنظیمیں چندے اکٹھے کر رہی ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل اپنے برتھ ڈے بجٹ کے لیے ۲۸ ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ دُوسری جانب فلسطین کا زخم مندمل ہونے کے بجاے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہودی اور امریکی اسرائیل کے یومِ تاسیس ۱۴ مئی کو جس ڈھٹائی سے بھی منانا چاہیں، اُنھیں کوئی نہیں   روک سکتا۔ لیکن اُنھیں اِس موقع پر اپنے ضمیر کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ جس اسرائیل کی تقریبات منا رہے ہیں، اُس کی بنیاد فلسطینیوں کی کھوپڑیوں پر رکھی گئی ہے۔ ۱۴ مئی یومِ تاسیس نہیں، بلکہ ’یومِ نکبہ‘یعنی مصائب کے آغاز کا دِن ہے۔

نماز میں سُستی اور ترکِ صلوٰۃ

سوال: دارالافتا سعودی عرب کی شائع کردہ فتاوٰی میں شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز اور دیگر علما نے ترکِ صلوٰۃ کرنے والے کو کافر قراردیا ہے۔ میرے شوہر ڈاکٹر ہیں اور مولانا مودودیؒ کی کتابیں پڑھ کر ان سے بہت متاثر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دین میں سختی نہیں ہے۔ میں نے مولانا مودودی کی کتابیں گہرے غوروخوض سے پڑھی ہیں، اُن میں تو تارکِ نماز یا سُستی و لاپروائی سے نماز اداکرنے والے کو کفر کا مرتکب نہیں کہا گیا ہے۔ گویا سُستی و لاپروائی سے نماز چھوڑ دینا کوئی گناہ نہیں۔ ایسے حضرات سُستی و لاپروائی کی وجہ سے دفتر جانا اور دیگر اہم کام نہیں چھوڑتے، دین ہی میں آسانیاں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ کیا فرض نماز سُستی یا غفلت سے قضا ہوجانا نفاق نہیں ہے؟

میں نے اپنے شوہر کو شاذ ہی قرآن پڑھتے پایا ہے، جب کہ اخبارات و لٹریچر کا گھنٹوں مطالعہ کرتے ہیں۔ کیا جو شخص گھنٹوں اخبارات و لٹریچر پڑھ سکتا ہے، اسے قرآن کی تلاوت اور فہم و تدبر کی ضرورت نہیں، وہ صرف نماز ہی سے پورا ہوجاتا ہے؟

جواب: آپ کا سوال غیرمعمولی تشویش کا باعث ہے کیونکہ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہی ہیں جو اسلامی نظام کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کے عزم کے ساتھ تحریک سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ فرائض کی ادایگی میں تساہل اور عدم توجہ برتیں تو کس بنیاد پر نظام کی تبدیلی عمل میں آئے گی۔ یہ اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ اگر ایک شخص مولانا مودودی کی تحریرات کو پڑھتا ہے اور اس کے باوجود نماز کو اس کا اصل مقام نہیں دیتا تو یا تو اُس نے تحریر کو سمجھا نہیں، یا اس کا نفس حیلے تراش رہا ہے۔یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا مودودیؒ نے نماز کی اہمیت کو پوری طرح اُجاگر کرنے کے لیے اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر و دیگر کتب لکھی ہیں اور ان کی کتب کا مطالعہ کرنے والے اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد نماز کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتے ہیں، اور   نہ صرف اس کی ادایگی کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں بلکہ اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ نماز میں کوتاہی پر تحریکی نظم کے تحت پرسش بھی کی جاتی ہے۔ اجتماعی احتساب کا ایک مقصد نماز کو وقت پر اور جماعت کے ساتھ ادا کرنے پر اُبھارنا ہے تاکہ للہیت پیدا ہو۔ یہ نظامِ تربیت کا ایک لازمی حصہ ہے۔

اصلاحِ حال کے لیے جہاں انفرادی مشورہ اہم ہے، وہیں اجتماعی احتساب بھی ضروری ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ الدینُ یُسر لیکن یُسر (آسانی) کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ فرائض کو نظرانداز کردیا جائے یا قرآن کریم کے واضح حکم، یعنی نماز کو مقررہ وقت پر فرض کردیے جانے کو  پسِ پشت ڈال کر کوئی سہولت پسند دین ایجاد کرلیا جائے۔ فرض نماز کا سُستی اور لاپروائی سے قضا ہونا لازمی طور پر فِسق ہے۔

اگر غور کیا جائے تو تحریکِ اسلامی کے کارکن بننے کے لیے پہلی شرط محض نماز کا پڑھ لینا نہیں ہے، بلکہ اس کی اقامت، یعنی نماز کو قائم کرنا ہے۔ سورئہ بقرہ کے آغاز ہی میں اہلِ ایمان کی پہچان، تعریف اور خصوصیت یہی بتائی گئی ہے کہ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (البقرہ۲:۳)،یعنی وہ غیب پر ایمان لاتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں۔ یہی مضمون اسی شدت کے ساتھ دیگر مقامات پر بھی آیا۔ قرآن کریم کے ان واضح، متعین اور براہِ راست ارشادات کا عکس خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ میں بھی نظر آتا ہے، چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’بندے اور کفر کے درمیان ترکِ صلوٰۃ واسطہ ہے‘‘(مسلم) ۔ لہٰذا اذان سننے کے بعد جو لوگ گھر اور دیگر مشغولیتوں کو چھوڑ کر اپنی بندگی کے اظہار کے لیے مسجد کی طرف نہیں جاتے، ان کے بارے میں رحمۃ للعالمینؐ نے جو سراپا رحمت ہی رحمت، عفو و درگزر، حلِم و محبت تھے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اذان کی آواز سن کر گھروں سے نہیں نکلتے، مرا دل چاہتا ہے کہ جاکر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

جہاں تک سوال معروف شیخ الباز کے فتوے کا ہے، قرآن و حدیث کے واضح بیان کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ البتہ فتوے میں سائل نے جو اصل بات پوچھی تھی، وہ صلوٰۃ کا انکار یا فرضیت یا رکن تسلیم کرنا نہیں تھا جس پر فتوے میں زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اگر ایک شخص سے اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے باوجود نماز قضا ہوجاتی ہے تو وہ تارکِ صلوٰۃ یا منکرِ صلوٰۃ کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ ہاں، ایک شخص صلوٰۃ کے علاوہ ہر کام کو اہمیت دے اور اذان سن کر ٹس سے مس نہ ہو اور اگر اُٹھے بھی تو کسمساتا ہوا، کاہلی، بے دلی اور مجبوری کے طور پر اقامت ِصلوٰۃ کی جگہ صرف نماز پڑھ لے تو اس طرزِعمل کو قرآن کریم نے فسق و نفاق سے تعبیر کیا ہے۔

وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰیلا یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۱۴۲) جب یہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطراُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔

الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنo (الماعون ۱۰۷:۵) پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں۔

لہٰذا فرض نماز میں سُستی اور غفلت انسان میں نفاق پیدا کرتی ہے اور شعوری طور پر ترک، ایمان سے خارج کردیتا ہے۔ لیکن کسی عذر یا مجبوری کے سبب نماز قضا ہوجائے تو اسے جلد از جلد اداکرنا ضروری ہے۔

آپ نے ان کے قرآن کا مطالعہ نہ کرنے کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ اخبارات و رسائل کے لیے ان کے پاس وافر وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ کبھی قرآن کا مطالعہ نہیں کرتے۔ قرآن سے قلبی تعلق ہی ایمان کو تازہ رکھتا ہے اور نماز میں اس کی تلاوت خشیت پیدا کرتی ہے۔ قرآن کریم کا حق ہر اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ کم از کم اس کی چند آیات کو روزانہ بغور پڑھ کر سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جدید ٹکنالوجی نے اس حوالے سے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں اور اب   سی ڈی پر مکمل قرآن کریم کا متن مع ترجمہ تقریباً ہر پاکستانی شہر میں دستیاب ہے۔ کوشش کیجیے کہ اگر وہ پڑھنے میں سُستی کرتے ہیں تو آپ سی ڈی کی مدد سے خود کو بھی اور اپنے شوہر کو بھی روزانہ   چند لمحات کے لیے، چاہے صرف ۱۵،۲۰ منٹ ہی کیوں نہ ہوں قرآن کریم کی تلاوت و ترجمہ   سننے کا موقع فراہم کریں۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا سننا اور ترجمہ کے ساتھ سننا ان شاء اللہ انھیں قرآن کریم سے قریب کرے گا اور نتیجتاً وہ نماز بھی باقاعدگی سے ادا کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب، (ڈاکٹر انیس احمد)


لڑکیوں کی انٹرنیٹ پر چیٹنگ

س: لڑکیوں کا انٹرنیٹ کا استعمال کیسا ہے، اور کیا وہ لڑکوں کے ساتھ chatting کرسکتی ہیں؟ اگر اُن کی نیت خالص ہو کہ وہ دین کی باتیں لوگوں تک پہنچائیں تو ایک  chatroom  میں صرف نام اور جنس لکھنی ہوتی ہے اور پھر آپ چیٹ روم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آواز کا اور چہرے کا بھی مکمل پردہ ہوتا ہے کیونکہ وہ چیٹ روم صرف لکھ کر چیٹنگ کے لیے ہوتا ہے۔ کیمرہ یا آواز وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ انٹرنیشنل روم ہوتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ آن لائن ہوتے ہیں۔ اکثریت تو لغو اور فحش گفتگو کرتی ہے، اگر کوئی اسلام کی بات بھی کردے تو کیا حرج ہے کیونکہ ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ کیا مختلف لوگوں سے چیٹ کر کے اُن کو اسلام کی دعوت دی جاسکتی ہے؟ کیا    یہ لڑکیوں کے لیے ممنوع اور حرام ہے؟ کیونکہ اگر یہ فریضہ، بالفرض لڑکے سرانجام دیں تو چیٹ روم میں مختلف لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ پھر وہ بھی تو اُن سے چیٹ کریںگے؟ [سائلہ نے متعدد مثالیں دی ہیں کہ اس نے مسلمانوں کو نماز کی ترغیب دی، السلام علیکم کرنے کے لیے کہا، غلط گفتگو کرنے والے کو اس نے مسلمان ہونے کا احساس دلایا، غیرمسلم کو اسلام کے مطالعے کی طرف توجہ دلائی وغیرہ وغیرہ]

ج: آپ کے سوال میں تین پہلو بالخصوص غور طلب ہیں۔ اول یہ کہ کیا انٹرنیٹ کا تعلیمی یا معلوماتی نقطۂ نظر سے استعمال درست ہے۔ دوئم کیا نیٹ پر ایک مسلمان طالبہ یا طالب علم کسی اجنبی فرد سے وہ مرد ہو یا عورت بغیر کسی سابقہ تعارف کے اچانک ’گپ خانے‘ یا chat home میں داخل ہوکر اپنا نام یا جنس بتائے بغیر گھنٹوں تبادلۂ خیال کرسکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر نیٹ کے ذریعے دعوت دین دی جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟

جہاں تک انٹرنیٹ حتیٰ کہ ’گپ خانے‘ میں جاکر دعوتِ دین دینے کا تعلق ہے، اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کی بات کو ہنسی مذاق نہیں سمجھا جائے گا اور اس طرح دوسروں کی اصلاح ہوسکتی ہے، ان تک حق کا پیغام پہنچ سکتا ہے تو بظاہر اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن بالعموم چیٹ ہائوس میں جس طرح کی گفتگو کی جاتی ہے وہ نہ تو سنجیدہ کہی جاسکتی ہے اور نہ اخلاقی طور پر اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ عموماً جو نوجوان چیٹ کرتے ہیں۔ وہ مصنوعی قصے گھڑ کر یا جنسی گفتگو کی تلاش میں اس طرف آتے ہیں اور اس بات کا پورا امکان رہتا ہے کہ کم از کم آپ خود کسی بُری بات میں پہل نہ بھی کریں تو غیرشعوری طور پر آپ تک ایسے پیغامات پہنچتے ہیں جو اخلاقی طور پر ناجائز کہے جاسکتے ہیں۔

جیساکہ پہلے عرض کیاگیا، اگر آپ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کی بات سنی جائے گی اور اس پر سنجیدگی سے غور ہوگا تو دعوتی نقطۂ نظر سے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بات یاد رکھیے کہ آپ کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امانت ہے اور ہمیں اپنے کانوں، آنکھوں اور قلب تینوں کی جواب دہی کرنی ہے۔

جہاں تک تعلق کسی اجنبی سے بات کرنے میں پہل کرنے کا ہے تو دین کا مدعا یہی نظرآتا ہے کہ ایک مسلمان طالبہ کا کسی لڑکی کے ساتھ بات کرنا تو درست ہے لیکن کسی اجنبی لڑکے کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے اور اس کام میں گھنٹوں مصروف رہنے کو جائز نہیںکہا جاسکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک کمرے میں کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کی جارہی ہو۔ اس سے مکمل اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ شیطان ایسے ہی چور دروازوں سے داخل ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دل سے برائی کے احساس کو مٹا دیتا ہے۔

انٹرنیٹ کا تعلیم و تحقیق کے لیے استعمال غالباً اس دور کے ابلاغی انقلاب کا ایک مفید تحفہ ہے۔ آج اگر آپ کو قرآن و سنت سے کسی حوالے کی ضرورت ہو تو بجاے لائبریری میں گھنٹوں صَرف کرنے کے انٹرنیٹ پر موجود مواد تک چند لمحات میں پہنچ کر طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سی معلومات مفید ہیں اور کون سی غیرمطلوب ہیں۔

مسلمان طلبہ و طالبات بجاے چیٹ کرنے کے اپنے ویب سائٹ قائم کرسکتے ہیں، اور الحمدللہ یورپ و امریکا میں اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں نوجوانوںنے ایسا کیا بھی ہے۔ اس طرح انٹرنیٹ کا تعلیمی اور دعوتی استعمال ’گپ خانے‘ کے علاوہ شاید زیادہ مؤثر طور پر کیا جاسکتا ہے، اور وہ بے شمار غلط فہمیاں دُور ہوسکتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔ (ا-ا)


نماز، روزہ : آتش پرستوں کی اصطلاح؟

س: میں ۷۴ سال کا ہوں، لیکن ۵۰ سال کی عمر تک نماز روزے کا اہتمام نہیں کرسکا کیونکہ قرآن یا حدیث میں مجھے نماز، روزہ کہیں نظر نہیں آیا۔ تمام عمر جستجو رہی اور قرآن کے گہرے مطالعے سے حقیقت کھلی کہ یہ ’صلوٰۃ‘ اور’صوم‘ ہیں جنھیں ہم نے نماز اور روزے کا نام دیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ صلوٰۃ صرف پانچ وقت کی عبادت نہیں ہے بلکہ قرآن کے مطابق اور بہت کچھ ہے جو سب مل کر ’اقام الصلوٰۃ‘ بنتا ہے، اور یہ کہ اللہ کی عبادات کو نماز اور روزہ کے مشرکانہ ناموں سے موسوم کرنا غلط ہی نہیں بلکہ کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ لفظ صلوٰۃ اور صوم صرف اور صرف اللہ کی عبادات کے نام ہیں۔ یہ دونوں لفظ قرآن یا عربی میں کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ اسی طرح لفظ نماز اور روزہ صرف اور صرف آتش پرستی کی عبادات کے نام ہیں۔ یہ دونوں لفظ فارسی زبان میں کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ چنانچہ صلوٰۃ اور صوم کو نماز اور روزے سے موسوم کر کے ہم مسلمان قرآن کی صریح نافرمانی کررہے ہیں۔ اگر میں غلط فہمی کا شکار ہوں تو صرف اور صرف قرآن کی سند سے میرے اندیشوں کا مداوا کریں۔

ج: اسلام ایک ایسا دین ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور نافذ بھی ہوگیا۔ ایک دنیا کو اس نے مسخر کیا، ایک عظیم خلافتِ راشدہ اور ایک عظیم الشان اُمت دنیا کے سامنے آئی۔ ۱۵۰۰ سال میں یہ دین ایک نسل کو دوسری نسل سے وراثت میں ملا۔ اگر آپ اس عظیم الشان عمارت کو چند لفظی مغالطوں سے گرا کر کوئی نئی عمارت اور نئی اُمت بنانا چاہتے ہیں تو یہ سعی لاحاصل ہے۔

زبانیں سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِنْ اٰیٰـتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ (الروم۳۰:۲۲)’’اس کی نشانیوں میں سے ہے تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف‘‘۔ خدا فارسی کا لفظ ہے اور اہلِ ایمان اسے اسی معنوں میں استعمال کرتے ہیں جو لفظ اللہ سے سامنے آتا ہے۔ یہ فارسی زبان میں مستعمل سابقہ معنی سے مختلف ہے۔ اسی طرح نماز روزہ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس میں صلوٰۃ اور صوم استعمال ہوئے ہیں۔ یہ نئی لغت ہے اور سابقہ لغت سے مختلف ہے۔ اس نئی لغت پر جو اسلام کی وجہ سے وجود میں آئی ہے، سابقہ لغت کی رو سے اعتراض کرنا، جہالت اور نادانی ہے۔

زبانیں حقیقت میں نظاموں اور عقیدوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ لفظ خدا، نماز، روزہ بھی سابقہ لغت سے تبدیل ہوکر اسلام میں نئے معنوں کے ساتھ مستعمل ہوئے ہیں۔ اس وقت نماز، روزہ کے نام سے مسلمان جو عبادت کر رہے ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ دین کی ایک عمارت جو مضبوط قلعے کی شکل میں تیار ہوچکی ہے، اس عمارت میں نماز، روزہ کے معنی میں کبھی بھی اختلاف نہیں رہا۔ اب اس کا نیا معنی کرنا اور دین کا کوئی نیا اڈیشن تیار کرنا اور مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کے لیے نماز، روزہ کو  آتش پرستوں کے دین کے ساتھ جوڑنا، قرآن و سنت، دینِاسلام اور اُمت مسلمہ کی توہین ہے اور اسلام کو مٹانے کی ناپاک جسارت ہے، جو ناکام ہوگی۔ آپ نے ۵۰برس تک نماز نہیں پڑھی،    روزہ نہیں رکھا، فرض کو ترک کر کے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا، اب آپ دوسروں کو اس گناہِ کبیرہ بلکہ کفر کے راستے پر گامزن کرنا چاہتے ہیں جو انتہا درجے کی گمراہی اور کفر ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس سے توبہ کریں۔ رسولؐ اللہ کے دامن سے اسی طرح وابستہ ہوجائیں جس طرح دوسرے مسلمان وابستہ ہیں۔ غلام احمد قادیانی کی طرح نبی بننے اور دین کا نیا اڈیشن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جن لوگوں نے نبی بننے کی جسارت کی ہے وہ خائب و خاسر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین! (مولانا عبدالمالک)

مولانا امین احسن اصلاحی، حیات و افکار، ڈاکٹر اختر حسین عزمی۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۳۲۰۳۱۸۔ صفحات: ۶۶۴۔ قیمت (مجلد): ۴۵۰ روپے۔

مولانا امین احسن اصلاحی (۹۷-۱۹۰۴ئ) ایک عالم، مفسرِقرآن، متکلم، مفکر اور خطیب تھے۔ ان کے تحقیقی نظائر، حق کے طالبوں کے لیے غوروفکر کے باب کھولتے رہیں گے۔ افسوس کہ مولانا کی رحلت کے بعد ان کے بعض ’فکری وارثوں‘ اور خودساختہ ’طالب علموں‘ نے اصلاحی صاحب کے کارنامۂ حیات اور علمی اثاثے کی عظمتوں کو پیش کرنے کے بجاے، ان کی بعض آرا کو اپنی   تجدد پسندی اور معاصرین کو ہدف تنقید بنانے کے لیے استعمال کیا۔ اس فضا میں نوجوان محقق    اختر حسین عزمی نے مولانا کی تحریروں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ شروع کیا۔ مریدانہ شکست خوردگی یا مخالفانہ یلغار جیسے جذبات سے دامن بچا کر حقیقت کا کھوج لگانے کی کوشش کی، اور ان کایہ کام ڈاکٹریٹ کے مقالے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں انھوں نے مشینی یا میکانیکی اندازِ تحقیق اپنانے کے بجاے تازگی اور گہرائی کا اسلوب اختیار کیا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب کے ۱۰ باب قاری کے سامنے معلومات کا ایک وسیع دفتر پیش کرتے ہیں، جس کا جائزہ اس مختصر تبصرے میں لینا آسان نہیں ہے، بہرحال زیرنظر کتاب سے قاری پر واضح ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی نے تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، تزکیہ و تربیت اوردعوت کے موضوعات پر دادِ تحقیق دیتے ہوئے بڑا منفرد طرزِ اظہار اپنایا۔ تفسیر کے باب میں وہ روایتی اسلوب سے ہٹ کر قرآنی فہم کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول اخترحسین: نو جلدوں پر مشتمل تفسیر تدبر قرآن کے ۵ہزار ۸سو ۴۴ صفحات میں اصلاحی صاحب صرف ۸۸ احادیث سے تفسیری مطالب متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان میں سے بھی ایک چوتھائی کو بطور استدلال نہیں پیش کرتے (ص ۱۴۵-۱۴۶)۔ اس کے بجاے وہ قدیم عربی ادب سے الفاظ کے مفہوم کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصلاحی صاحب کے اسی منفرد اندازِ تحقیق نے بعض ماہرین علوم اسلامیہ کو ان کے بارے میں منفی راے رکھنے کی دلیل فراہم کی۔ تاہم کتاب کے مقدمہ نگار ڈاکٹر محمود احمد غازی کے الفاظ میں: ’’مولانا اصلاحی کے غالی عقیدت مند ان کو ائمہ مجتہدین کا ہم پلّہ یا شاید ان سے بلند تر مرتبے کا حامل قرار دیتے ہیں، اور ناقدین کا گروہ ان سے ایسے ایسے خیالات منسوب کرتا ہے جن سے وہ بلاشک بری تھے‘‘۔ (ص ۱۰)

اس کتاب میں مولانا اصلاحی مرحوم کے تحقیق و تجزیے کے نتائج کو ایک ترتیب اور تنقیح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ممدوح کی مداحی سے زیادہ ایک تحقیق کار کی طلب حق کی گواہی ہے۔ اسی لیے وہ اصلاحی صاحب کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، مگر حسب موقع گرفت بھی کرتے ہیں۔ البتہ ان کی اس راے سے اتفاق نہیں ہے کہ: ’’مولانا [اصلاحی] سے قبل علماے تفسیر میں کسی نے بھی پورے قرآن کو ایک منظم کتاب کے طور پر پیش نہیں کیا‘‘ (ص ۲۸۹)۔ تاہم اس نوعیت کے جملے خال خال ہیں، جب کہ ساری کتاب ٹھیرے، جمے اور گہرے طرزِاظہار کو پیش کرتی ہے۔

مولانا اصلاحی کے ہاں مطالعہ حدیث کا مزید گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے،  جب کہ ان کے ادبی اسلوب کی باریکیوں اور محاسن کو آشکارا کرنے کا کام ادبیات کے نقادوں کے ذمے ہے۔

اگر کتاب کی کمپوزنگ قدرے جلی پوائنٹ میں ہوتی اور ساتھ ہی اشاریہ بھی شامل ہوتا تو اس قابلِ قدر کتاب کی خوب صورتی اور معنویت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ (سلیم منصور خالد)


۱- انسان اور نیکی ۲- انسان اور گناہ، حافظ مبشرحسین لاہوری۔ مبشراکیڈمی، لاہور۔ فون:۴۶۰۲۸۷۸-۰۳۰۰۔ صفحات (علی الترتیب): ۱۸۴، ۴۴۸۔ قیمت: ۱۲۰، ۲۰۰ روپے۔

انسان اپنی زندگی نیکی اور گناہ کے درمیان گزارتا ہے۔ آخری فیصلہ اس پر ہوگا کہ دونوں میں سے کس کا وزن زیادہ ہے۔ اسی لیے ہر عاقبت اندیش کو اچھی طرح جاننا چاہیے کہ گناہ کیا   ہے، اور نیکی کیا ہے۔ یہ سراسر اس کے ذاتی مفاد سے متعلق ہے۔ حافظ مبشرحسین اپنی تحریروں اور رفتار تحریر واشاعت ہر دولحاظ سے علمی دنیا میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ ۲۰ سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس سیریز میں انسان اور قرآن، انسان اور فرشتے اور انسان اور شیطان بھی موجود ہیں۔

دبیزمضبوط جلد اور خوب صورت طباعتی معیار کتاب کو ہاتھ میں لینے کا پہلا سبب ہوتا ہے، اس کے ساتھ مؤلف کا آیات و احادیث مع متن ترجمہ اور سند، اور سلف کی تحریروں سے موضوع کے ہرپہلو کا احاطہ کرنے کا انداز کتاب کو جویائے حق کے لیے پُرکشش بناتا ہے۔ زبان سلیس ہے، اور پس منظر آج کے دور کا ہے، نیز بہت زیادہ عنوانات قاری کو بہت سہولت دیتے ہیں۔

انسان اور نیکی میں طویل مقدمہ شیخ علی طنطاوی کی کتاب [نیکی یا گناہ، کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے] سے ماخوذ ہے اور اختتام: [انسانی زندگی پر گناہ کے ۲۰ اثرات [حافظ   ابن قیم] کے حوالے سے ہوتا ہے۔ درمیان کے پانچ ابواب میں ان نیکیوں کا بیان ہے جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے اور ان کے دنیاوی و اخروی فوائد اور اجر بتائے گئے ہیں۔

انسان اور گناہ، متذکرہ بالا کتاب کے مقابلے میں زیادہ جامع اور ضخیم تر ہے۔ گناہوں کے دنیاوی و اُخروی، انفرادی اور اجتماعی، طبی اور جسمانی اثرات اور قانونی سزائیں سب کا بیان ہے۔ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ایک علیحدہ باب (نمبر ۱۱) میں معاشرے میں مروج خطرناک گناہ، ۹۰عنوانات کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔ مؤلف نے سگریٹ نوشی کو بھی گناہ بلکہ تقریباً حرام قرار دیا ہے۔ گناہوں سے توبہ اور گناہ ترک کرنے کے انعامات کا بھی بیان ہے۔

ایسی کتابوں کے مطالعے کا کلچر عام کرنے کی ضرورت ہے۔ متنوع مشاغل اور دل چسپیوں کے درمیان مطالعے کے لیے وقت نکالنا، اس کی اہمیت اور افادیت محسوس کرنا ایک مجاہدہ ہے۔  اس کا ذوق ہوجائے تو پھر آسانی ہے۔ (مسلم سجاد)


اسلامی طرزِ فکر (اول، دوم، سوم)، ادارت: عادل صلاحی، ترتیب و ترجمہ: عبدالسلام سلامی،   کلیم چغتائی۔ ملنے کا پتا: ۴۰۴- قمر ہائوس، ایم اے جناح روڈ، کراچی، فون: ۲۳۱۲۴۹۵-۰۲۱۔ صفحات: ۴۷۸، ۴۸۴، ۴۴۸۔ قیمت: بلامعاوضہ۔

آج کے دور میں دین پر عمل کرنے والوں کو روز مرہ زندگی میں بے شمار مسائل میں  قرآن و سنت کی درست رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرت و معیشت کی تبدیلی نے ہر طرف سوالات ہی سوالات اُٹھا دیے ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ پر بھی جوابات کے لیے کتنی ہی سائٹس کام کررہی ہیں۔ زیرتبصرہ تین کتابوں (کُل ۱۴۱۰ صفحات) میں عقائد، عبادات اور معاملات کے تین بڑے عنوانات قائم کر کے متعدد ذیلی عنوانات کے تحت ان جوابات کا ترجمہ جمع کردیا گیا ہے جو عرب دنیا کے مشہور اخبار Arab News میں ساری دنیا سے ان کے قارئین کے بھیجے گئے سوالات کے عادل صلاحی نے دیے۔ یہ وہ علما کے ایک پینل کی مدد سے تیار کرتے تھے اور ہر ہفتے Our Dialogue کے نام سے اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ ان کتابوں میں دسمبر ۸۴ء سے  اپریل ۲۰۰۴ء تک کے دورانیے کے سوالات شامل کیے گئے ہیں۔ سوالات کا دائرہ اتنا وسیع ہے جتنا کوئی سوچ سکتا ہے۔ ہر طرح کے چھوٹے بڑے مسائل، آج کل کے مسائل۔ کچھ مثالوں کا بیان اسے محدود کردے گا۔ جوابات کا بہت  ہی اچھا انداز ہے۔ عملی رہنمائی ہے، غیرضروری تفصیلات نہیں ہیں۔ عادل صلاحی کے مطابق ’’سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کوشش ہوتی ہے کہ   ایسا جواب دیا جائے جس کی تائید میں مضبوط بڑی شہادت موجود ہو۔ ہم شدت پسندی اور متنازع پہلوئوں سے دُور رہتے ہیں اور خود کو کسی ایک فقہی امام کے نقطۂ نظر اور راے تک محدود نہیں کرتے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ مسئلے کا ایسا حل پیش کیا جائے جو عصرِحاضر میںقابلِ قبول اور قابلِ عمل ہو.... قرآن کی تعلیم یا مصدقہ حدیث کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ (ص ۸، حصہ اول)

عبدالسلام سلامی اور کلیم چغتائی صاحبان کا اتنا شُستہ اور رواں ترجمہ، کہ ترجمے کا شبہہ بھی نہ ہو، قارئین پر احسان ہے، جزاھما اللّٰہ۔

محمد عارف صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۸۹ء میں Our Dialogueانگریزی میں شائع کی تھی۔ اب اُردو میں یہ تین جلدیں بلاقیمت پیش کی ہیں۔ کراچی کے احباب قمرہائوس جاکر لیں، دیگر شہروں والے پتا ارسال کر کے درخواست کریں، اور کتابیں آنے پر دعائیں دیں۔

آخری بات، کتاب کا نام ’اسلامی طرزعمل‘ بہتر ہوتا کہ اس میں الف تا ی سب باتیں عمل کے لیے ہیں۔ (م - س)


القدس اور اختتامِ وقت ، قرآن کی روشنی میں، شیخ عمران نذر حسین، ترجمہ: محمدجاوید اقبال۔ ملنے کا پتا: ڈی-۱۰، کریم پلازا، گلشن اقبال، بلاک ۱۴، کراچی۔ فون: ۴۹۴۸۲۴۶-۰۲۱۔ صفحات: ۲۳۹۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

اُمت مسلمہ کے مستقبل کے امکانات کے حوالے سے مختلف تجزیے سامنے آتے رہتے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس لحاظ سے منفرد تجزیہ ہے کہ اس میں مستقبل قریب میں پیش آنے والے واقعات اور موجودہ صدی میں حق و باطل کا آخری معرکہ برپا ہونے اور غلبۂ اسلام کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس تجزیے کی بنیاد قرآن کی پیش گوئیوں، مستند احادیث اور زمینی حقائق پر رکھی گئی ہے۔

مصنف عصری علوم اور تقابل ادیان کے ماہر ہیں، نیویارک میں اسلامی مشن کے ڈائرکٹر رہے ہیں اور کئی کتب کے مصنف ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی عالمی شہرت یافتہ کتاب Jerusalem in Quran کا اُردو ترجمہ ہے۔

فاضل مصنف کی تحقیق کے مطابق سورئہ انبیا کی روشنی میں وہ بستی جہاں سے یہود کو نکالا گیا تھا اور ان پر حرام کردیا گیا تھا کہ وہ وہاں واپس جاسکیں دراصل یروشلم ہے (الانبیاء ۲۱:۹۵-۹۶)، اور ان کی واپسی تب ممکن ہوگی، جب عبرت ناک سزا کا مرحلہ اور وعدئہ برحق (قیامت) پورا ہونے کا وقت قریب آن لگا ہو۔ گویا ہم وقت کے آخری مرحلے میں جی رہے ہیں۔ ایک حدیث کی روشنی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جھیل کناریٹ (بحرگیلیلی) کا پانی خشک ہوجائے گا۔ آج یہ زمینی حقیقت ہے کہ جھیل کا پانی بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔یہی وہ مرحلہ ہے جب اہلِ فلسطین پانی کو ترس جائیں گے، اور یہود کے ظلم و جبرکی انتہا ہوگی۔ تب اللہ کی مدد و نصرت آئے گی، امام مہدی دجال کا مقابلہ کریںگے، حضرت عیسٰی ؑ کا نزول ہوگا، اور خراسان سے (جس میں افغانستان، پاکستان، وسطی ایشیا اور ایران کا کچھ حصہ شامل ہے) اہلِ ایمان کا لشکر ان کی مدد کو پہنچے گا اور بالآخر دجال اپنے لشکروں سمیت ہلاک ہوجائے گا، یہود عبرت کا نشان بنا دیے جائیں گے، اور اسلام غالب آجائے گا۔

مصنف کا اندازہ ہے کہ اگلے ۶۰ برس میں ہم اس مرحلے تک پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو مشکل حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے اور سادہ زندگی گزارنی چاہیے۔جہادِ فلسطین کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے، اس کے لیے ہرممکن تعاون کرنا چاہیے۔ اپنی کوتاہیوں پر اللہ سے توبہ کرتے ہوئے اطاعت و بندگی کی روش اپنانی چاہیے۔ گویا غلبۂ اسلام اور یہود کی بربادی میں تھوڑی ہی مدت   باقی ہے۔ چند دیگر اقدامات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے، جیسے صہیونی سرمایے کی گرفت سے نکلنے کے لیے متبادل کرنسی کا اجرا اور مہاتیرمحمد کی اس کے لیے کوشش وغیرہ۔

اس تجزیے اور نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجزیہ ہے جو عنقریب پیش آنے والے واقعات کی توضیح اور غلبۂ اسلام کی بشارت پر مبنی ہے۔ کتاب دل چسپ ہے اور غوروفکر کے لیے نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


Policy Perspectives [خاص نمبر، افغانستان]، مدیر: خالد رحمن۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، نصرچیمبرز، مرکز F-7، بلاک ۱۹، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۵۹۔ قیمت: ۴۰۰ روپے سالانہ، بیرون ملک ۴۰ ڈالر/ ۲۰ پائونڈ۔

پالیسی پرسپیکٹوز، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا مؤقر علمی جریدہ ہے جس میں علمی و تحقیقی انداز میں اُمت مسلمہ کے مسائل اور درپیش چیلنجوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اپریل ۲۰۰۸ء میں اس کا خصوصی ’افغانستان نمبر‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں افغانستان و پاکستان کے ایک سروے کے علاوہ آٹھ اہلِ قلم کی رشحاتِ فکر کو شامل کیاگیا ہے۔ یہ کہنا شاید مبالغہ نہ ہو کہ ’افغانستان کے منظرنامے کے مختلف پہلوئوں کو ۱۵۹ صفحات میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے مدیر     اس میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ طالبان کے انخلا کے بعد کے چھے برسوں میں افغانستان اور   اہلِ افغانستان پر کیا گزری اس کا جائزہ جناب خالد رحمن نے لیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ افغانستان کی داخلی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ کرزئی حکومت کا صرف ۳۰ فی صد علاقے پر کنٹرول ہے۔ ۱۰ ارب ڈالر کی جس امداد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ابھی تک افغانستان نہیں پہنچی۔ موجودہ حکومت مسائل سے نبرد آزما ہونے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ فضل الرحیم مظفری اپنے مضمون: ’افغانستان، علاقائی سلامتی اور ناٹو‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ افغانستان سے ملنے والی ۲۴ سو کلومیٹر طویل سرحد پر ۸۰ہزار پاکستانی جوان تعینات ہیں اور اُن کا مقصد وحید یہ ہے کہ طالبان کا راستہ روکا جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ناٹو افواج عرصۂ دراز سے افغانستان میں ہرقسم کی کارروائیوں کے باوجود، واشنگٹن کو مطمئن نہیں کرسکی ہیں۔ اس مضمون میں چشم کُشا حقائق شامل کیے گئے ہیں۔

افغانستان کے متحارب گروہوں کے درمیان اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے ’ٹریک ٹو‘ سفارت کاری کا خاکہ عائشہ احمد نے پیش کیا ہے۔ افغانستان میں درپیش صورت حال کے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات پر کیا اثرات مرتب ہوںگے، یہ جائزہ امتیاز گُل نے لیا ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت پر لگائے گئے کئی الزامات کی تردید بھی کی ہے اور اعدادوشمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ پاکستانی حکومت ، انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کررہی ہے اوراس کا سبب، امریکی احکامات پر عمل ہے، تاہم وہ مذاکرات کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔

احمد شائق قسّام کے مضمون میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے، نیز افیون کی کاشت کے جو اثرات ہیں اُس کے مختلف پہلوئوں کو واضح کیا گیا ہے۔ نسرین غفران کے مضمون میں پاکستان میں افغان مہاجرین، اور مصباح اللہ عبدالباقی کے مضمون میں افغانستان میں مدارس کے ذریعے تعلیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے آئی پی ایس کے سیمی نار کی رپورٹ میں بھی اس مسئلے کے کئی پہلوئوں کو شامل کیا گیا ہے۔ افغان حکومت کا نقطۂ نظر شامل کیا جاتا تو یہ شمارہ اور بھی مفید ثابت ہوتا۔نئے افغانستان پر پاکستان میں، اب تک شائع ہونے والے مطالعات میں یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ (محمد ایوب منیر)


اکبرنامہ، ایس ایم بُرکے، مترجم: مسعودمفتی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، ۳۴- اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مغل شہنشاہ جلال الدین محمداکبر کے بارے میں ایس ایم بُرکے نے تقریباً ۶۰ برس پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کی Historical Society کے تحت اکبر کے مذہبی لگائو پر ایک مقالہ پڑھا تھا۔ بعدازاں انھوں نے اکبر کی سوانح حیات لکھی جس کا اُردو ترجمہ زیرتبصرہ ہے۔ اکبر کا مذہب کے ساتھ رویہ ہی سب سے زیادہ موضوع بحث رہا ہے اور کتاب کا سب سے طویل باب ’اکبر کے مذہبی رجحان‘ پر لکھا گیا ہے۔ یہ دل چسپ موضوع ہے اور آج مغربی ممالک جو پالیسیاں براہِ راست یا بالواسطہ مسلمان ممالک میں نافذ کروا رہے ہیں ان کا اکبر کی پالیسیوں سے تقابلی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مذہب سے بے گانہ کرنے کے لیے کیا کچھ پہلے کیا جاتا رہا اور کیا کچھ آج کیا جا رہا ہے۔ مصنف نے اس کی مذہبی پالیسی کو سراہا ہے۔

اس کتاب کے باب اوّل میں ’اکبر کے آباو اجداد اور ابتدائی دور‘ کے بارے میں تذکرہ  ہے۔ دوسرا باب ’بغاوتیں، فتوحات اور امورِخارجہ‘ سے بحث کرتا ہے۔ تیسرے باب کا ہم اُوپر تذکرہ کر ہی چکے ہیں۔ چوتھا باب ’مرکزی حکومت‘ کے بارے میں ہے۔ پانچویں باب میں ’فنونِ لطیفہ‘ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ چھٹا باب ’اکبر کی زندگی کے آخری برس‘ کی بابت ہے، جب کہ سب سے  اہم باب ساتواں ہے جو’اکبر کے دورِحکومت کا ایک جائزہ‘ کے عنوان سے ہے جس میں مونٹ سٹارٹ الفن سٹون، سمتھ، وولسلے ہیگ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ایس ایم اکرم اور دیگر دانش وروں اور مؤرخوں کی آرا کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اکبر کے عہد کا ایک مفید مطالعہ ہے۔ تاریخ پاک و ہند سے دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (م-ا-ا)


تعارف کتب

  • تذکرہ گمنام مشاہیر ، توراکینہ قاضی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمن سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔  فون: ۷۲۳۲۷۸۸۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔ [گمنام مشاہیر کا یہ تذکرہ ایسے گمنام مشاہیر پر مشتمل ہے جو اپنے زمانے میں تو بہت معروف تھے، اور انھوں نے اپنے عہد کو متاثر کیا لیکن وقت گزرنے کے    ساتھ ساتھ ذہن سے محو ہوگئے، یا ان کے کارناموں سے آج لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ان میں سے بیش تر گمراہ تھے، اور دنیا میں ظلم و فساد کا باعث بنے۔ کیا انھیں مشاہیر کہا جاسکتاہے؟]
  • شبستانِ حرا ، شبیراحمد انصاری۔ ناشر: حرا فائونڈیشن پاکستان (رجسٹرڈ) پوسٹ بکس نمبر ۷۲۷۲، کراچی۔ صفحات: ۲۸۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [قدیم و جدید شعرا کے ایسے اشعار کو، جن میں لفظ حرا آتا ہے، شعرا کے ناموں کی الف بائی ترتیب سے یک جا کیا گیا ہے۔ زیادہ تر اشعار نعتوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ حرا کے موضوع پر چند ایک پوری پوری نظمیں، اسی طرح قطعات اور رباعیات، نیز مخمس، مسدّس، دوہے، ثلاثی اور ہائیکو کی حیثیت کے اشعار بھی شامل ہیں۔ یہ ایک دل چسپ انتخاب ہے مگر کتاب کے آخر میں شامل اشتہار اس مجموعے میں بالکل نہیں جچتے۔ بقول مرتب: ’’غارِحرا سے منسوب اشعار کی روح پرور انتھالوجی‘‘۔]

شفیق الرحمٰن انجم ‘قصور

’اسلامی تحریکیں: حال اور مستقبل‘ (مئی ۲۰۰۸ئ) عصرِحاضر کا اہم ترین موضوع ہے۔ طاغوتی طاقتیں مسلم اُمہ کے خلاف صف آرا ہیں۔ ایک طرف اہانتِ رسولؐ کر کے مسلمانوں کی خاموشی پر بغلیں بجائی جارہی ہیں تو دوسری طرف نہتے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کر کے صفحۂ ہستی سے مٹانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ ان حالات میں تمام اسلامی تحریکوں کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ  احیاے اسلام کی تحاریک کے نمایندے مل بیٹھ کر یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں کے خلاف مستقبل کے لیے  لائحۂ عمل ترتیب دیں۔ مذکورہ تحریر میں اسلامی تحریکوں کے لائحۂ عمل کے لیے اہم خطوط کی نشان دہی کی گئی ہے۔


عبدالرحمٰن ‘کراچی

’اسلامی تحریکیں: حال اور مستقبل‘ کی یہ افادیت ہے کہ اہم موضوع پر فکری رہنمائی سامنے آئی۔ مضمون عملاً ترجمان میں شائع شدہ دو مضامین پر مبنی ہے لیکن مضمون نگار نے حوالے کا التزام نہیں کیا جو          پی ایچ ڈی سطح کے مقالے میں ضروری تھا۔


نسیم احمد ‘اسلام آباد

Muslims and The West: Encounter and Dialogue کا ترجمہ ’مسلمان اور مغرب: مقابلہ اور مکالمہ‘  غالباً پروفیسر عبدالقدیر سلیم صاحب نے خود کیا ہے یا کتاب کے مرتبین نے کیا ہے؟ میرے خیال میں Encounter کا ترجمہ مقابلہ نہیں بلکہ ’آمنا سامنا‘ہونا چاہیے۔ مضمون کے قاری کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ مضمون کا عنوان ہے یا کتاب کا نام۔ عنوان کے ساتھ انگریزی نام اور compiled by ہونا چاہیے تھا۔صفحات ۷۲-۷۳ پر لفظ مزعومات کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟ عربی لغت کے اعتبار سے    مزعوم کے معنی نام نہاد کے ہوتے ہیں۔ صفحہ ۷۲، سطر۲ ’مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے درمیان تعصبات اور غلط فہمیاں ہیں‘۔ یعنی مسلمان بھی تعصبات اور غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ ناہید پر قانتہ ذکی کا مضمون نمونے کی تحریکی زندگی پیش کرتا ہے۔


غلام مصطفٰی مغل ‘قصور

پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے مضمون ’پاکستان میں نئی امریکی سفارت کاری‘ (مئی ۲۰۰۸ئ) میں  بش کے انگریزی جملوں کا اُردو ترجمہ نہیں دیا گیا۔ اُردو رسالے میں کسی غیرزبان کے لفظ یا عبارت کا اُردو ترجمہ لازمی دیا جانا چاہیے۔


ڈاکٹر احسان الحق ‘کراچی

سورۂ بنی اسرائیل کی آیت: ’’تو جس کو اپنی آواز سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس، اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں‘‘(۱۷:۶۴) میں اِن شیطانی ہتھکنڈوں کا ذکر کیا گیا ہے: ۱- آواز ۲-لائولشکر ۳- مال و اولاد میں ساجھے داری۴- جھوٹے وعدے۔ تہذیبِ جدید میں حق کے خلاف ان چاروں ہتھکنڈوں کا استعمال آج ہمیں پورے عروج پہ دکھائی دیتاہے:

۱- شیطانی آوازیں پہلے بھی تھیں مگر آج جدید الیکٹرونک میڈیا کے بل بوتے پر یہ شیطانی آوازیں دنیا بھر کے نوجوانوں کو جس طرح گمراہی اور انتشار ذہنی میں دھکیل رہی ہیں، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

۲- جنگیں اس سے پہلے بھی تاریخ میں برپا رہی ہیں۔ مگر سائنس و ٹکنالوجی کی بدولت اس عہد میں جنگوں کی تباہ کاریاں جتنی بڑھ گئی ہیں، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ زہریلی گیسوں اور کیمیائی ہتھیاروں سے انسانوں کا قتل ایک عام بات ہے۔

۳- قوموں کی معیشتوں پر ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے قبضہ اورعالمی وسائلِ معیشت پر ظالمانہ گرفت کی منصوبہ بندی جتنی آج منظم طریقے سے ہورہی ہے، تاریخ کے کسی دور میں نہ تھی۔ عالمی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے اور معاشی طور پر پس ماندہ اقوام غریب سے غریب تر ہوکر فاقہ کشی کا شکار ہورہی ہیں۔

۴- طرفہ ستم یہ ہے کہ جن ہاتھوں میں کچھ لقمے ہیں یا جو سکت رکھتے ہیں کہ اپنے حالات کسی قدر بہتر کرسکیں،انھیں اشتہاربازی سے جھوٹے خواب دکھا کر، لمبی آرزوئوں میں مبتلا کرکے قوت لایموت (دو وقت کی روٹی) سے بھی محروم کردیا جاتاہے۔ ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ آج کا حقیقی چیلنج ہے۔


جبار قریشی ‘کراچی

توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس سازش کا مقصد جہاں رسول پاکؐ کی ذات پر حملہ کر کے اپنے گھٹیا جذبات کی تسکین کرنا ہے وہاں اس کا ایک مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرنا بھی ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ مسلمان نہ صرف غیرمہذب ہیں، بلکہ دہشت گرد بھی ہیں اور اسے جواز بناکر عالمی ایجنڈے کی تکمیل کی جائے جس کا مقصد مسلمانوں پر بالادستی حاصل کرکے ان کو محکوم بنانا ہے۔ اس سازش کو مدنظر رکھ کر ہمیں چاہیے کہ   ہم پُرتشدد مظاہروں اور احتجاج کے بجاے اعلیٰ پایے کے دانش وروں اور قانون دانوں پر مشتمل وفود تیار کریں جو مغربی ملکوں کے عوام الناس اور وہاں کی حکومتوں سے گفتگو کرکے انھیں اپنا موقف سمجھاسکیں۔

مغرب میں اُن کے اپنے پیغمبروں کی حُرمت کے بارے میں قوانین موجود ہیں لیکن دوسرے مذاہب بالخصوص اسلام کے حوالے سے ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔ اس لیے عالمی سطح پر اس ضمن میں قانون سازی کی کوشش کی جائے اور ایک ایسا بین الاقوامی تصور اُبھارنے کی کوشش کی جائے جس میں ہر مذہب کے پیغمبر اور  بانی کے خلاف کسی بھی قسم کی بے حُرمتی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے      مسلم ممبر ممالک جنرل اسمبلی میں توہینِ انبیاؑ کی روک تھام اور مجرمین کو احتساب کے شکنجے میں لانے کے لیے قانون سازی کرائیں۔

مسلمان ذلت و پستی سے نکلنے، غربت و جہالت کے خاتمے اور اپنی حالت زار کو بدلنے کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں، انھیں بھی منظم اور مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔


محمد اسلم مغل ‘سیالکوٹ

اس وقت ملک بجلی کے بحران سے دوچار ہے۔ بجلی کی بچت کے لیے چند تجاویز پیش ہیں:

۱- ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم، بڑی بڑی عمارتوں، ہوٹلوں، دکانوں، پارکوں، مسجدوں، مزاروں وغیرہ کی غیرضروری اور آرایشی روشنیاں بند رکھی جائیں۔

۲- تمام اسٹریٹ لائٹس کی ہر تیسری بتی کو روشن رکھا جائے اور بقیہ دو بتیاں فوری اُتار لی جائیں۔  اسی طرح ہر پٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشنوں کی آرایشی بتیوں کو ممنوع قرار دیا جائے۔

۳- شہروں کی گلیوں اور چھوٹی سڑکوں کی تمام اسٹریٹ لائٹ پوائنٹس پر ۱۰۰ تا ۲۰۰ واٹ کے بلب لگے ہیں۔ ان کے جلانے اور بجھانے کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ ان تمام پوائنٹس کے بلبوں کو ۲۰ تا ۲۵ واٹ کے انرجی سیور سے تبدیل کردیا جائے۔

۴- تمام بلب بنانے والی فیکٹریوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ انرجی سیور بنانے کے پلانٹس لگائیں اور کسی صورت میں بھی پانچ واٹ سے زیادہ کے بلب نہ بنائے جائیں۔ اس کے لیے حکومت کو کچھ مراعات بھی دینی پڑیں توکوئی حرج نہیں۔

۵- انرجی سیور کی قیمت چونکہ عام بلب سے کافی زیادہ ہے، اس لیے لوگ یہ جانے بغیر کہ انرجی سیور عام بلب سے پانچ گنا کم بجلی استعمال کرتا ہے کم قیمت پر عام بلب خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو اخبارات اور ٹی وی پر اس مہم کا آغاز کرنا چاہیے کہ انرجی سیور سے بل میں کمی ہوگی اور دوسرے، انرجی سیور کو رعایتی نرخوں پر فروخت کیا جائے۔ انرجی سیور مفت تقسیم کرنے کی تجویز قابلِ عمل نہیں۔

۶- صاحبِاستطاعت اور امیرطبقہ توجہ دلانے کے باوجود بجلی کے کم استعمال کی طرف عموماً راغب نہیں ہوگا۔ اپنی دولت اور وسائل کے بل پر وہ ہرقسم کی آسایش حاصل کررہا ہے۔ اگر انسانیت کے ناتے اسے کہا جائے کہ وہ کم از کم اپنا ایک اے سی نہ چلائے تو وہ اس پر عمل نہیں کرے گا۔ اس لیے اے سی والے گھروں پر ایسے سرکٹ بریکر لگائے جائیں کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ بجلی استعمال ہی نہ کرسکیں۔

۷- ساتھ ہی بچت کے لیے واپڈا کی طرف سے پُرزور مہم چلنا چاہیے۔ ہم میں سے ہر ایک غیرضروری استعمال شعوری طور پر ترک کردے تو بھی بہت بڑی بچت ہوسکتی ہے۔

شمع ِایمان

دنیا ایک باطل نظام کی گرفت میں آچکی ہے اور باطل ایسی قوت و شوکت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے کہ حق کے لیے موجودہ نظامِ زندگی میں کوئی جگہ ہی سرے سے باقی نہیں رہی ہے--- نیک سے نیک انسان، جو فی الحقیقت نیکی اور سچائی کے راستے ہی پر چلنا چاہتا ہے، آج چند قدم بھی بغیر مزاحمت کے نہیں اٹھاسکتا۔ اگردُور والے اسے تھوڑی دیر کے لیے بخش دیں تو قریب والے ہی اس سے اُلجھتے ہیں اور کسی طرح نہیں چاہتے کہ وہ اپنی منتخب کی ہوئی راہ میں دو قدم بھی آگے بڑھ سکے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: ’’بدی کی راہ فراخ ہے اور اس پر چلنے والے بہت ہیں، اورنیکی کی راہ تنگ ہے اور اس کے چلنے والے تھوڑے ہیں‘‘۔ یہ چیز آج آنکھوں سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ باطل کی منزل پر پہنچنے کے لیے فراخ سڑکیں ہیں، دو رویہ درختوںکا سایہ ہے، تیزرو سواریاں ہیں، حفاظت کے لیے بدرقہ ہے، ہر منزل پر عیش و آرام ہے۔ آپ جس وقت چاہیں اس پر سفر کر کے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس حق کی راہ پہلے ہی قدم پررُندھی ہوئی ہے۔ اگر آپ ہمت کرکے اس مزاحمت کو دُور کرسکے تو آگے کی راہ میں ہر قدم پر خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ شروع سے لے کر آخر منزل تک خطرے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں اور کوئی شخص اس راہ میں آج سر لیے ہوئے پائوں رکھ ہی نہیں سکتا۔

ایسے نازک اور پُرآشوب زمانے میں یہ بات ذرا تعجب انگیز نہیں ہے کہ لوگ راہ سے بے راہ ہوگئے۔ تعجب انگیز اگر کوئی ہوسکتی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ گمراہی کے اتنے سامان مہیا ہونے اور شیطان کے ایسے عالم گیر تسلط کے باوجود، خدا کے کچھ بندوں کو اللہ کا نام یاد کیسے رہ گیا! یہ بے چارے داد کے مستحق ہیں نہ کہ ملامت کے، اور سینے سے لگا لیے جانے کے لائق ہیں نہ کہ کاٹ پھینکے جانے کے۔ جن لوگوں نے اتنے نامساعد حالات کے اندر اپنی شمعِایمان زندہ رکھی اگرچہ وہ کتنی مضمحل حالت میں سہی، وہ اپنے پاس اس بات کی سند رکھتے ہیں کہ اگر ان کو موافق حالات میسر آتے تو وہ بہتر سے بہتر مسلمان ہوتے۔ اس وجہ سے ان کی غلطیوں اور غیرشعوری گمراہیوں یا اضطراری ضلالتوں کی بنا پر ان کو ایمان سے محروم قرار دے کر ان سے نفرت کرنے کے بجاے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں ایمان و اسلام کے صحیح مقتضیات کا شعور بیدار ہو۔ (’اشارات‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد ۲۸، عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۶۵ھ، مارچ ۱۹۴۶ئ، ص ۶-۷)