مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بلاشبہہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کی اصطلاح اللہ اور اس کے رسولؐ کے پیغام کی حقیقت کا احاطہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس بات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اسلام کے ساتھ تحریک کے لفظ کا اضافہ کرنے کی جسارت کیوں کی ہے، اور تحریکِ اسلامی سے ہماری کیا مراد ہے؟

دراصل تحریکِ اسلامی کے لفظ سے مراد نہ دین میں کسی چیز کا اضافہ ہے اور نہ کمی، البتہ ہمیں اپنے حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ جو پیغام، جو مشن، جو دعوت اور جو نمونہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم کیا ہے، فی زمانہ اس کی زیادہ سے زیادہ حقیقی اور صحیح تفہیم اور پھر اس کا اظہار کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ دورِ رسالت کے ۲۳سال دیکھیے، خواہ مکے کا دور ہو یا مدینے کا، ان میں تسلسل ہے ، یک رنگی ہے۔ حالات کی مناسبت سے کب کس چیز کو زیادہ اہمیت دینی ہے، کون سے طریقے اختیار کرنے ہیں اور کس طریقے سے گریز کرنا ہے، یہ سب اس عمل کا حصہ ہے۔ یہ پوری زندگی ایک مسلسل اور مربوط زندگی ہے، ایک دعوت اور جدوجہد ہے۔

اگر اسے ہم چند الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کریں تو اس میں پہلی چیز ربانیت ہے، یعنی اپنے خالق و مالک اور آقا کوپہچاننا اور دنیا سے کٹ کر اس سے جڑنا۔ اس کی ہدایت اور اپنے خلیفہ اور نائب ہونے کی ذمہ داری جو اس نے بحیثیت انسان ہم پر عائد کی ہے، یہ استخلاف کی حیثیت ہے اور یہ ایک مسلمان کی زندگی کی بنیاد ہے۔ استخلاف کی ذمہ داری ہدایت کے بغیر ادا نہیں ہوسکتی اور ہدایت کا سرچشمہ دو چیزیں ہیں: ایک قرآن، اللہ کی کتاب اور دوسرے: اللہ کے رسولؐ کا اسوہ حسنہ___ یہ وہ ہدایت ہے جو ہمیں استخلاف کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق بناتی ہے۔ لیکن استخلاف کا ہدف ہے کیا؟ یہ بڑا نازک معاملہ ہے کہ اس میں ہمارا اصل مقصود صرف اپنے مالک اور خالق کے احکام کی اطاعت، اس کے ساتھ جڑنا، اس سے محبت، اس کی طرف پلٹنا، اور اس کی رضا اور اس کی خوشنودی کا حصول ہے اور اس کا مظہر جنت ہے جس کا حصول ہماری تمنا اور ہماری آرزو ہے۔

ایک مفکر نے بڑے خوب صورت انداز میں اس بات کو چار نکات کی شکل میں ادا کیا ہے کہ پہلا مرحلہ دنیا سے پہلوتہی کرکے رب کی طرف مراجعت ہے، یعنی مِن الخلق اِلَی اللّٰہ، یعنی دنیا سے اورانسانوں سے رشتے کو کاٹ کر اللہ سے رشتہ قائم کرنا یا صرف اس سے جڑ جانا۔ دوسرا مرحلہ مع اللّٰہ کا ہے، یعنی صبغۃ اللّٰہ کے رنگ میں رنگ جانا۔ صرف اللہ کا ہوجانا تاآنکہ اللہ کی رضا کے طریقوں اور ہمارے طریقِ حیات میں کوئی فرق نہ رہے، یہ مع اللّٰہ ہے۔ لیکن یہ سفر کا اختتام نہیں۔ اس بلندی کو حاصل کرنے کے بعد سب سے اہم سفر کا آغاز ہوتا ہے، یعنی دوبارہ   اللہ کے بن کر دنیا کی تعمیرنو کے ہنگامہ خیز اور پُرخطر راستے کو اختیار کرنا۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ یہی فرق ہے نبیؐ اور صوفی میں۔ صوفی کے معیار کی انتہا یہ ہے کہ وہ اللہ کا قرب پالے۔ گویا اس نور اور معرفت سے اتنا قرب حاصل کرنے کے بعد اس نے سب کچھ پالیا۔ لیکن نبیؐ کا مقام یہ ہے کہ وہ قرب الٰہی کی معراج پر پہنچ کرپھر انسانوں کے درمیان آتا ہے۔ جو روشنی اسے حاصل ہوئی ہے، جو نور اسے حاصل ہوا اور جو ہدایت اسے حاصل ہوئی، اسے انسانوں تک پہنچاتا ہے، اور اس کے ذریعے سے انسانوں کی زندگیوں کو اور پوری کائنات اور پوری تاریخ کو منور کرتا ہے۔

اس بزرگ نے پھر اس تیسرے مرحلے کو من اللّٰہ الی الخلق کے الفاظ میں ادا کیا ہے کہ اللہ کے دروازے پر جانے کے بعد پھر دوبارہ اسے انسانوں کے پاس جانا ہے۔ اسی دنیا میں جانا ہے جو ظلم اور فسق کی دنیا ہے، کفر اور نافرمانی کی دنیا ہے۔ اس دنیا کو تبدیل کرنا ہے۔ اس پیغام کو انسانوں تک پہنچا کر دنیا کی تعمیرنو کرنا ہے۔ ہمارا بھی یہی ہدف ہے لیکن یہ بھی اختتامِ سفر نہیں۔ آخری مرحلہ پھر اللہ کی طرف لوٹنے کا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اب ساری انسانیت کو اپنے ساتھ لے کر اور رب کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے سب کو اللہ کی طرف لے جانا ہے، یعنی مع الخلق الی اللّٰہ۔ اب انسانوں کو ساتھ لے کر اللہ کی طرف چلنا ہے تاکہ اللہ اور اس کے دین کی طرف جانے کا جو بڑا ہدف ہے، یہ زندگی کا ہدف بن جائے۔

بس یہی تحریک کا مفہوم ہے___ اسلام جو ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اسے تھام کر اللہ سے جڑنا اور اللہ کا ہوجانا، یہ اس کا اوّلین تقاضا ہے۔ اللہ کے اس پیغام کو قبول کرنے کے ساتھ اپنے آپ کو اور دنیا کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت انسانوں تک پہنچانے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ انبیا و رسل ؑبھیجے، لیکن یہ مقام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ جنھیں ہدایت کے ساتھ دین حق دیا گیا، تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردیں:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا o (الفتح ۴۸:۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

تحریک کے تین دائرے

تحریکِ اسلامی کے تین دائرے ہیں اور ہمیں ان تینوں دائروں کو سامنے رکھنا چاہیے:

پہلے دائرے میں، میری ذات، میرا خاندان، میرے عزیز واقارب، میرے دوست احباب، میرے ساتھی اور میری جماعت ہے۔ بلاشبہہ اگر ہم اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے، اپنی ذاتی زندگی، اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میںجھونک نہیں دیتے، تو پھر ہم اپنے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔ اپنی اور اپنی تحریک کی اصلاح، مضبوطی، فکرمندی، استحکام ہی ہماری پہلی ذمہ داری ہے۔

دوسرا دائرہ وہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے، ملک اور اُمت مسلمہ کا وہ خطہ کہ جس کا ہم حصہ ہیں، وہاں پر اگر ہم محض تحریکِ اسلامی کے خول میں بند رہتے ہیں اور اپنے معاشرے، اپنے ملک، اپنی دنیا اور اپنی اُمت کی تبدیلی اور اصلاح کی فکر نہیں کرتے تو پھر شاید اپنی بھی حفاظت نہ کرسکیں۔ اس لیے کہ یہ دعوت امربالمعروف ونہی عن المنکر خود ہماری اپنی اصلاح، اپنی استقامت کے لیے ضروری ہے۔

ایک تیسرا دائرہ ہے: پوری انسانیت اور عالمی کش مکش کا۔ چاہے چند افراد ہوں یا     انبوہِ کثیر___ اسی عقیدے، اطاعت، دعوت اور اقامتِ دین کی جدوجہد کا نام اسلام ہے ___  اور تحریکِ اسلامی کی اصطلاح اسی مفہوم کو آج کی زبان میں ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ الحمدللہ آج ہم چند افراد نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کا ایک نہایت قابلِ قدر حصہ اس قافلے کا ہمراہی ہے۔لیکن اگر ہم چند ہوں تب بھی ہمیں پوری دنیا کی فکر کرنا ہے۔ ہم اس سے غیرمتعلق نہیں رہ سکتے اور آج کی دنیا پر تو عالم گیریت کا سحر طاری ہے جس میں ہم تنہا نہیں رہ سکتے، ہمیں اس سحر کو توڑنا اور حقائق کی دنیا کو نکھارنا ہے۔

یہ تینوں دائرے ہمارے سامنے رہنے چاہییں۔ ان تینوں کا صحیح صحیح ادراک،اپنے ہدف کا تعین اور اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے صحیح منصوبہ بندی، صحیح حکمت عملی، طریق کار کا تعین، اور پھر سعی و جہد___ یہ دراصل ہمارے کرنے کا کام ہے۔

نظریاتی کش مکش

نظریاتی کش مکش نہ دنیا میں کبھی ختم ہوئی ہے نہ ہوگی۔ مفادات کا تصادم بھی ہوتا ہے اور مادی ذرائع کے حصول کے لیے تصادم بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن انسانیت کی پوری تاریخ میں نظریات کی کش مکش ایک بنیادی حقیقت ہے اور یہ کش مکش روزِاوّل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ سورئہ فاتحہ جس کی تلاوت ہم نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہیں، ہمارے سامنے انسانیت کی دو قوتوں کو پیش کرتی ہے:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o (الفاتحہ ۱:۵-۶) ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا جو معتوب نہیں ہوئے،جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔

مراد یہ ہے کہ انعام یافتہ لوگوں اور گمراہوں کے درمیان یہ کش مکش ابدی ہے اور انسانی تاریخ میں جابجا ہمیں اس کا عکس نظر آتا ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔

آج جس عالم گیر کش مکش سے انسانیت گزر رہی ہے میری نگاہ میں اس کے دو بڑے  مثالیے (paradigms) ہیں۔ ایک وہ مثالیہ ہے جس کی بنیاد اللہ سے بغاوت یا اللہ کا انکار، یا کسی شکل میں اللہ کو ماننے کے باوجود اللہ کی ہدایت پر اپنے نفس، اپنی عقل اور اپنے مفادات کا غلبہ منوانے کی جسارت ہے۔ یہ لادینی ماڈل ہے اور سرمایہ داری، اشتراکیت یا فسطائیت کا روپ لیے دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں ہیں اور یہ تہذیبی کش مکش میں ایک منزل اور ماڈل ہے۔

دوسرا ماڈل وہ ہے جس کی صحیح شکل اسلام پیش کرتا ہے، اور جسے تحریکِ اسلامی نے اس دور میں نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایمان اور انکار کی یہ کش مکش روزبروز زیادہ سے زیادہ نکھرتی چلی جارہی ہے۔ اس کش مکش کی بڑی قدروقیمت ہے۔ اس راہ میں ایثار، جدوجہد کے نتیجے میں جو مصائب حق کے غلبے اور وسعت کے لیے برداشت کیے جائیں، وہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس حقیقی کش مکش میں اسلامی تحریک اور اس کے کارکنوں اور خصوصیت سے  ذمہ دار افراد کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ دنیوی اعتبار سے اپنے سے بہت زیادہ قوی قوتوں کا وہ کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟ ایک طرف تو ہمیں اللہ کی ذات پر بھروساہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ قوی ہے۔ وہی ہمارا اصل سہارا ہے اور صرف اس کی خوشنودی کی خاطر ہم یہ کام کررہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو خطرات، مشکلات اور حالات ہیں، ان کا پورا پورا ادراک ہو، اور پھر ان حالات ہی میں سے ہم اپنا راستہ نکالیں۔

افغانستان میں اشتراکی روس کی شکست، تاریخ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنی ہے۔ ایران کے انقلاب ۱۹۷۹ء اور اسلامی تحریکات کے وجود اور ان کی جدوجہد کو ہمیں اس عالمی پس منظر میں دیکھنا ہے۔ ہمیں اس چیز کا جائزہ لینا ہے کہ افغانستان کے کامیاب جہاد کے ثمرات سے افغانستان کو، اسلامی تحریکات اور اُمت مسلمہ کو کیونکر محروم کیاگیا۔ اس المیے پر تدبر کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے، اور پھر اس کی روشنی میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آگے کے مراحل میں ہم یہ کام کس طرح کریں؟

تحریف دین کی کوششوں کا جائزہ

تحریکِ اسلامی نے دین کا جو واضح تصور پیش کیا تھا اور جو عالمِ اسلام میں ایک نئی لہر    اور بیداری کا سبب بنا، آج وہ تصور تنقید کا ہدف بنا ہوا ہے۔ اس تصور پر جہاں ایک طرف مغرب حملہ آور ہے تو دوسری جانب اس کے مقاصد اور اہداف کی عملی خدمت کرنے والوں میں خود مسلمانوں میں سے ایک طرف تجدّد پسند حضرات ہیں تو دوسری طرف نادان دوستوں کا بھی ایک کردار ہے جو حالات کو مزید بگاڑنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

تحریکِ اسلامی کے لیے پہلا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تصور کی جامعیت، اس کے توازن اور اس کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرے، اس کا دفاع کرے، اس کی بالادستی اور برتری کو دنیا پر ثابت کرنے کی سعی و جہدکرے۔ علامہ محمداقبال، مولانا مودودی، حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے اپنے اپنے انداز میں دین کے اس تصور کو نکھار کر   اُمت مسلمہ اور دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج اس تصور کو مختلف انداز میں بگاڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کہیں اس کو پولیٹیکل اسلام (سیاسی اسلام) کہا جاتا ہے اور کہیں صوفی اسلام کو اسلام کا اصل ماڈل قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہیں اس طریق کار کے اس توازن کو درہم برہم کیا جارہا ہے، جس میںاصلاح اخلاق و کردار، معاشرے کی تعمیر، انقلابِ قیادت، اخلاقی تعلیمات کی تلقین، تعلیم و تربیت اور تبدیلی کے لیے جدوجہد کا واضح نقشۂ کار پیش کیا گیا ہے۔

ہم اس دعوت اور پیغام کے امین ہیں۔ ہمیں خود بھی اس پر اعتماد ہونا چاہیے اور جو کام  سید مودودی علیہ الرحمہ نے اس تصور کو پیش کرنے، اس کی صحت اور اس کی برتری ثابت کرنے   کے لیے کیا اور جس کی وجہ سے واقعہ یہ ہے کہ ۲۰ویںصدی کی دینی سوچ کا رُخ بدل گیا، آج تحریکِ اسلامی کو اس کام کو جاری رکھنا اور وسعت اور گہرائی دونوں کے اعتبار سے آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے علمی و تحقیقی کام، ابلاغ اور ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہمیں لکیر کا فقیر نہیں ہونا چاہیے۔ ابلاغ کے مؤثر ذرائع کا بہترین استعمال، پہلا چیلنج ہے جو ہمیں قبول کرنا ہے۔ اس کے لیے تحریکِ اسلامی کو مردانِ کار کی تیاری، اداروں کی تقویت، وسائل کی فراہمی اور تقسیم کار کی ضرورت ہے، تاکہ ہرشخص سے ایک ہی کام نہ لیا جائے بلکہ جو ہماری ضرورتیں ہیں، جو اسلام کے تقاضے ہیں اور تحریکِ اسلامی کی کامیابی کے لیے جو کام ضروری ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک نظام ہو، ادارے ہوں، افراد ہوں اور اس کام کو حُسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا جائے۔

تبدیلیِ نظام کی حکمت عملی

دوسری چیز جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے تبدیلی کا جو طریقہ بتایا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اس میں ایمان، قلب و نظر کی تبدیلی، شخصیت، اخلاق و کردار کی تعمیر، خدمتِ خلق، معاشرے کو ظلم، محکومی و مجبوری اور فسق و فجور سے پاک کرنا، اور پھر انقلابِ قیادت ہے۔ انقلابِ قیادت کے معنی صرف سیاسی قیادت کی تیاری کے نہیں ہیں۔ بلاشبہہ سیاسی قیادت اس کا ایک بڑا اہم پہلو ہے۔ درحقیقت اس سے مراد قیادت کی ہمہ گیر تبدیلی ہے بشمول فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی قیادت، تعلیمی قیادت، غرض زندگی کے ہرشعبے میں تبدیلیِ قیادت ہے۔    نظامِ کار کی تبدیلی کے لیے جو خدا اور اس کے رسولؐ کے متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے حکومت اور ریاست کے وسائل کو حق اور عدل کے قیام، اور اسلامی نظامِ زندگی کے غلبے کے لیے استعمال کرنا بھی ازروے ایمان لازم ہے۔

یہ توازن، یہ طریق کار ازحد ضروری ہے۔ اس کے لیے کوئی شارٹ کٹ یا مختصر راستہ نہیں ہے۔ اس میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جبر اور قوت کے ذریعے سے نظریات اور اخلاقی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ یہ تحریک اسلامی کی غیرمعمولی خدمت ہے۔ اس معاملے میں اگر ہم نے توازن کو چھوڑ دیا تو ہم اپنے مقصد کے ساتھ بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔ ذمہ دارانِ تحریک کے لیے اس تصور کو زندہ رکھنے اور اس کی برتری کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ احسن طریق کار کی صحت، اس کی کامیابی اور برتری اور اسی کے موثر ہونے پر یقین اور اس پر عمل ناگزیر ہے۔ وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ہی ہمارا طریق کار اور دنیا میں اصلاح اور آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے۔

دعوت کے عمل سے غفلت

اس کے ساتھ ساتھ تیسری اہم بات یہ ہے کہ دعوت جو ہمارا سب سے اہم ذریعہ اور ہتھیار ہے، اس کا ہم حق ادا نہیں کر رہے۔ ہم میں ایک قسم کے اطمینان اور قناعت کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے حالانکہ دعوت کے معنی یہ ہیںکہ ہم اللہ کے بندوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچانے کے لیے بے چین رہیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی ذمہ داری ہمارا خاندان ہے: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔ پھر ہمارا محلہ ہے اور معاشرہ ہے۔ کیا ہم دیانت داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے گھر کے افراد، اپنے عزیز و اقارب، اہلِ محلہ اور وہ لوگ جن کے ساتھ ہم دفاتر میں کام کر رہے ہیں، یا کہیں بھی جہاں ہمارا لوگوں کا ساتھ ہے، میل جول ہے، ہم ان تک دعوت پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ اس سلسلے میں ہم غفلت اور کوتاہی کا شکار ہیں اور اس کی اصلاح کے بغیر نہ تو ہم تحریک کے ساتھ وفاداری برت سکیں گے اور نہ اللہ کو منہ دکھا سکیں گے۔ سیاسی کام بے حد اہم ہے لیکن وہ بھی ہمارے لیے دعوت کا ذریعہ ہے۔ ہمیں لوگوں تک پہنچنا اور ان تک دعوت پہنچانا ہے۔ ہماری بنیادی دعوت اللہ کی طرف ہے اور اللہ کے دین کی طرف ہے، اور اللہ کے دین کو قائم کرنے والی تحریک کی طرف ہے۔ اس میں کوتاہی یا لاتعلقی کی کوئی وجہ یا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔

اس لیے میرے اور آپ کے وقت کا بڑا حصہ دوسروں تک دین کے پیغام کو پہنچانے، ان کے شکوک دُور کرنے، ان کے سوالوں کا جواب دینے، ان کو خیر کے لیے منظم کرنے اور ان کے دل کو مطمئن کرنے میں صَرف ہونا چاہیے۔ اگر دعوت کے راستے کو اختیار کریں گے تو معاشرے اور سیاست میں تبدیلی واقع ہوگی۔ اگر دعوت کمزور ہوگی تو پھر سیاسی نتائج بھی غیرتسلی بخش ہوں گے۔ اس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری دعوت ملک کے تمام طبقات جن میں خواص بھی ہیں اور عوام بھی، ان سب تک پہنچنی چاہیے۔ میں یہ بات خاص طور پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ تحریکِ اسلامی کے کارکن ایک قسم کے ذاتی خول کے اسیر بنتے جارہے ہیں، حالانکہ ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی دوسروں کے لیے وقف ہو۔ ہم دوسروں کے لیے جئیں اور دوسروں کی خدمت کریں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوں، ان کی مشکلات کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے غم کو اپنا غم اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھیں۔ یہ کیفیت جب تک پیدا نہیں ہوگی دعوت کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ وہ خاتون جو محسنِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی، آپؐ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جب آپؐ نے یہ دیکھا کہ آپؐ کے راستے میں کانٹے نہیں ہیں، تو کیا آپؐ خود اس کی مزاج پُرسی کے لیے نہیں گئے؟

کیا ہم اس واقعے کوبھول سکتے ہیں کہ مکّی دور میں دن بھر کی محنت اور مشقت کے بعد آپؐ دارارقم میں آرام کے لیے تشریف لاتے ہیں کہ اتنے میں اطلاع آتی ہے کہ ایک نیا قافلہ آیا ہے۔ باوجود اس کے کہ آپؐ تھکے ہوئے ہیں، آپؐ اُٹھ بیٹھتے ہیں کہ مجھے ان تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچانا ہے۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ  تھکے ہوئے ہیں، آپؐ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے، آپؐ  ذرا آرام فرما لیں اور کل ان کو دین کا پیغام پہنچا دیں۔ آپ کو علم ہے کہ اس موقع پر آپؐ نے کیا فرمایا تھا؟ آپؐ نے فرمایا تھا: کیا پتاوہ قافلہ صبح تک یہاں سے رخصت ہوجائے، اور کیا خبر کل تک میں رہوں، یا نہ رہوں۔ چنانچہ اسی حالت میں آپؐ  نے قافلے والوں تک خدا کا پیغام پہنچایا۔یہ دعوت ہے جسے ہماری زندگیوں کا مرکز ہونا چاہیے اور ان شاء اللہ اسی دعوت، اور اسی  شوقِ دعوتِ حق سے تبدیلی آئے گی اور ضرور آئے گی، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔

جدوجھد کی کامیابی کا یقین

دعوت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقین بھی ہونا چاہیے کہ ہماری دعوت حق ہے اور بالآخر غالب آکر رہے گی۔ اس بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دعوت کے علَم بردار چند سرپھروں نے بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکر لی ہے اور تاریخ کا رُخ بدل کر  رکھ دیا۔ اس دنیا کی تاریخ سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی سوپر پاور   عالمی طاقت بننے کے بعد ہمیشہ کے لیے غالب نہیں رہی۔

ہم نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جب برطانیہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ برطانیہ عظمٰی یا گریٹ برٹن ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے اتنے بڑے حصے پر اس کی حکومت ہے کہ اس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا، اور سمندر کی لہروں پر اس کی حکمرانی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہ سوپرپاور کس طرح ایک معمولی سا یورپی ملک بن کر رہ گئی اور اس کو ایک دن یورپی یونین کی رکنیت اختیار کرنے کے لیے درخواست دینا پڑی۔

روس کا کیا دبدبہ تھا۔ خروشیف جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں گیا تو اپنے جوتوں سمیت پائوں اُٹھا کر میز پر رکھ کر اس نے کہا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ مجھے سرمایہ داری کو دفن کرنا ہے۔ آج اس سوویت یونین کا وجود تک باقی نہیں رہا۔ امریکا کے بارے میں بھی آپ سے کہتا ہوں کہ ان شاء اللہ عراق اور افغانستان میں اسے جوہزیمت اٹھانا پڑرہی ہے، جو عالمی معاشی بحران آیا ہے اور جس نے اس کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں، یہ اب امریکا کے زوال اور پسپائی کی نوید ہے۔

گویا کوئی سوپرپاور ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہی ہے۔ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ حق غالب آکر رہے گا، لیکن یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ حق آپ سے آپ غالب نہیں ہوگا۔ اس کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، اس کے لیے قربانیاں دینا ہوں گی۔ الحمدللہ آج دنیا کے گوشے گوشے میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اسلامی تحریک، اسلام کی صحیح فکر اور جامع تصور پیش نہ کر رہی ہو۔

جدید سوپرپاور کے ذریعے آج جو خطرات رونما ہو رہے ہیں، ان سے یہ بات بھی واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ سوپرپاور عالمی طاقت تو ہوسکتی ہے، لیکن وہ جو چاہے کرنہیں سکتی۔ اس کا سارا کروفر، اس کی ساری ٹکنالوجی، اس کی ساری دولت اور وسائل اور منصوبوں کو ایک معمولی سی چیز درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ دنیا میں asymetry of power یعنی طاقت کا عدم توازن پایا جاتا ہے۔ آج نظر آرہا ہے کہ کمزور، طاقت ور کو چیلنج کرسکتا ہے اور طاقت ور بے بس ہوکر رہ جاتا ہے۔

ان حالات میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ایک طرف تحریک کی فکر اور وژن کو ہرقسم کی تحریف، آمیزش،دراندازی اور کمزوری سے پاک رکھیں، اور اگر تحریک کایہ وژن نظروں سے اوجھل  ہوگیا تو پھر ہم کچھ نہیں کرسکیں گے۔ دوسری طرف تحریک نے تبدیلی کا جو راستہ دکھایا ہے، اس کا جو طریق کار متعین کیا ہے، اس پر صبرواستقامت کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ بلاشبہہ مایوس کن نتائج بھی رونما ہوں گے لیکن مثبت نتائج کا نکلنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام تو پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ السَّعْیُ مِنَّا وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہِ تَعالٰی کے مصداق کوشش اور جدوجہد کرنا ہمارا کام ہے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا اللہ کا انعام ہے۔ روزِ جزا، ہم سے   کوشش کے بارے میں پوچھا جائے گا، لہٰذا کوشش میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کوشش میں جو طریق کار ہے، جو توازن ہے اور جس طریقے سے وہ خیروبرکت کا باعث ہے، جس کے ذریعے سے وہ رحمت کا نظام قائم ہوگا، جو اللہ کے رسولؐ نے دیا اور قائم کرکے دکھایا ہے، اس کے لیے اگر جذبہ ماند پڑجاتا ہے یا اس میں کوئی کمی آجاتی ہے توپھر ناکامی ہے۔

جدید تقاضوں سے ھم آھنگ منصوبہ بندی

ہماری دعوت، جدوجہد اور کوشش کا مرکز و محور رضاے الٰہی کا حصول ہے۔ اس دعوت کا ایک اہم تقاضا مردانِ کار کی تیاری، اداروں کو مستحکم کرنا ہے اورتقسیم کار کے ذریعے سے ہر محاذ پر پہنچنا ہے۔ الحمدللہ، آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد تحریک کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن زندگی کے مختلف شعبوں میں جو ہمارے اثرات تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ہم جس طرح سے راستہ نکال رہے تھے، ایک بار پھر ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اُمت کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی بے حد ضروری ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں روزمرہ کا کام اہم ہے، ہر سال کا منصوبہ اہم ہے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ میں کچھ مزید وسعت پیدا کریں۔ اس دنیا میں، میںاور آپ نہیںہوں گے لیکن یہ پیغام، یہ دعوت، یہ تحریک، یہ جدوجہد  ان شاء اللہ آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کرکے رہے گی، لیکن اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔ کیا حضرت یوسف ؑ کے واقعے میں یہ سبق نہیں ملتا کہ انھیں سات سال غلے کی فراوانی اور سات سال قحط اور خشک سالی کا سامنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ منصوبہ بندی انبیا ؑ کا طریقہ ہے اور ہم اس معاملے میں کچھ غفلت برت رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مردانِ کار کی تیاری اور درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے درمیانی مدت اور طویل المدت منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل اور حکمت عملی تیاری کریں۔

اس منصوبہ بندی کا ایک اور اہم تقاضاجسے ہم بھول جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہرایک کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور ہماری یہ سوچ ہونی چاہیے کہ ہماری جگہ لینے والے ایک نہیں  کئی ہوں اور صلاحیت و استعداد میں وہ ہم سے بہتر ہوں، مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہیں کرگزریں، باقی دیکھا جائے گا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فرد جب اُٹھتاہے تو اس کا   خلا پُر کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔

نبی پاکؐ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں لیکن دو چیزیں بہت اہم ہیں: ایک یہ کہ جو شہادتِ حق انھوں نے دی، اس شہادت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کے ذمّے ہے اور اس کام کا ایک تسلسل سے جاری رہنا ضروری ہے۔ دوسری اہم بات اپنے پیچھے ایسے مردانِ کار کو چھوڑ جانا جن میں سے ہر ایک روشن ستارے کی مانند تھا اور نور کا منبع تھا۔ کتنی بڑی بات ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: علیکم بِسنَّتِی وسنۃ خلفائے الراشدین، جس کے معنی یہ ہیں کہ میں تمھارے درمیان   وہ عمل چھوڑکر جا رہا ہوں اور اس کے ساتھ وہ قیادت اور نظامِ کار بھی چھوڑے جارہا ہوں جس سے یہ کام آگے بڑھے گا۔

کیا انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری سوچ بھی یہ ہے؟ کیا ہمیں بھی یہ فکر ہوتی ہے کہ ہماری جگہ لینے والے ہم سے بہتر ہوں؟ کیا ہم اس فکر اور کوشش میں رہتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے    آس پاس ہیں، جن لوگوں تک ہم دعوت پہنچا رہے ہیں، ان میں سے کون کس صلاحیت کا مالک ہے، اور اس صلاحیت کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اور اس فرد سے کیسے بہتر سے بہتر انداز میں کام لیا جائے؟ اگر ہم یہ ذہن نہیں رکھتے، اس کی فکر نہیں کرتے تو یہ بڑی غفلت اور خلافِ حکمت بات ہے۔ ہم میں سے ہر فرد تحریک کا ایک ذمہ دار فرد ہے، اور اسی مناسبت سے اس کا فرض ہے کہ   اپنی جگہ لینے کے لیے اپنے سے بہتر فرد کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ یہ دعوت، یہ پیغام،   یہ تحریک کامیاب ہو اور ان شاء اللہ یہ کامیاب ہوگی، لیکن ہمیں اس کے لیے اپنا فرض اور اپنی    ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔(اُس تقریر پر مبنی جو مدیر ترجمان نے ۸مارچ ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی پاکستان کے کُل پاکستان اجتماعِ ذمہ داران ، لاہور میں کی)

اولین چیز جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیا ؑ اور خلفاے راشدینؓ، اورصلحاے اُمت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں، وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے، اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے۔ میں نے بھی اسی کے اتباع میں ہمیشہ اپنے رفقا کو سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہے اور آیندہ بھی جب کبھی موقع ملے گا اسی کی نصیحت کرتا رہوں گا۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو ہر دوسری چیز پر مقدم ہی ہونا چاہیے۔ عقیدے میں اللہ پر ایمان مقدم ہے۔ عبادت میں اللہ سے دل کا لگائو مقدم ہے۔ اخلاق میں اللہ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اللہ کی رضا کی طلب مقدم ہے۔ اور فی الجملہ ہماری زندگی ہی کی درستی کا انحصار اس پر ہے کہ ہماری دوڑ دھوپ   اور سعی و جہد میں رضاے الٰہی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر مقدم ہو۔ پھرخصوصیت کے ساتھ   یہ کام جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اُٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ ہی کے بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہوگا، اور یہ اتنا ہی کمزور ہوگا جتنا، خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوگا۔

ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے، خواہ وہ دُنیا کا کام ہو یا دین کا، اس کی اصل محرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اٹھا ہے، اور اس میں سرگرمی اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس غرض کے ساتھ آدمی کی دل چسپی میں گہرائی اورگرمجوشی ہو۔ نفس کے لیے کام کرنے والا خود غرضی کے بغیر نفس پرستی نہیں کر سکتا، اورنفس کی محبت میں جتنی شدت ہوتی ہے، اتنی ہی سرگرمی کے ساتھ وہ اس کی خدمت بجالاتا ہے۔ اولاد کے لیے کام کرنے والا اولاد کی محبت میں دیوانہ ہوتا ہے تب ہی وہ اپنے عیش و آرام کو اولاد کی بھلائی پر قربان کرتا ہے اور اپنی دنیا ہی نہیں، اپنی عاقبت تک اس غرض کے لیے خطرے میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے بچے زیادہ سے زیادہ    خوش حال ہوں۔ قوم یا وطن کے لیے کام کرنے والا ملک و قوم کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تب ہی وہ قوم و ملک کی آزادی، حفاظت اور برتری کی فکر میں مالی نقصان اٹھاتا ہے،  قید وبند کی سختیاں جھیلتا ہے، شب و روز کی محنتیں صرف کرتا ہے، اور جان تک قربان کر دیتا ہے۔ اب اگر ہم یہ کام نہ اپنے نفس کے لیے کر رہے ہیں، نہ کوئی خاندانی غرض اس کی محرک ہے، نہ کوئی ملکی و قومی مفاد اس میں ہمارے پیش نظر ہے، بلکہ صرف ایک اللہ کو راضی کرنا ہمیں مطلوب ہے اور اُسی کا کام سمجھ کر  ہم نے اسے اختیار کیا ہے، تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک اللہ ہی سے ہمارا تعلق گہرا اور مضبوط نہ ہو، یہ کام کبھی نہیں چل سکتا، اور اس میں سرگرمی آ سکتی ہے تو اسی وقت، جب کہ ہماری ساری رغبتیں اعلاے کلمۃ اللہ کی سعی میں مرکوز ہو جائیں۔ اس کام میں جو لوگ شریک ہوں ان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ ان کا تعلق اللہ سے بھی ہو، بلکہ ان کا تعلق اللہ سے ہی ہونا چاہیے۔ اسے تعلقات میں سے ایک تعلق نہیں، بلکہ ایک ہی اصلی اور حقیقی تعلق ہونا چاہیے، اورانھیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیے کہ اللہ سے ان کا تعلق گھٹے نہیں بلکہ روز بروز زیادہ بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا جائے۔

اس معاملے میں ہمارے درمیان دورائیں نہیں ہیں کہ تعلق باللہ ہی ہمارے اس کام کی جان ہے۔ جماعت کا کوئی رفیق، الحمد للہ اس کی اہمیت کے احساس سے غافل نہیں ہے۔ البتہ جو سوالات اکثر لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تعلق باللہ سے ٹھیک مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اور آخر کس طرح یہ معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اللہ سے ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے؟ ان سوالات کاکوئی واضح جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ لوگ گویا اپنے آپ کو ایک بے نشان صحرا میں پا رہے ہیں جہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ان کی منزل مقصود ٹھیک کس سمت میں ہے اور کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ اُنھوں نے کتنا راستہ طے کیا اور  اب کس مرحلے میں ہیں اور آگے کتنے مراحل باقی ہیں۔ اسی وجہ سے بسا اوقات ہمارا کوئی رفیق مبہم تصورات میں گم ہونے لگتا ہے، کوئی ایسے طریقوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو موصل الی المقصود نہیں ہیں، کسی کے لیے مقصود سے قریب کا تعلق اور دور کاتعلق رکھنے والی چیزوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور کسی پر حیرت کا عالم طاری ہے۔ اس لیے آج میں صرف تعلق باللہ کی نصیحت ہی پر اکتفا نہ کروں گا بلکہ اپنے علم کی حد تک ان سوالات کا بھی ایک واضح جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

تعلق باللّٰہ کے معنی

تعلق باللہ سے مراد، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے یہ ہے کہ آدمی کا جینا اورمرنااور اس کی عبادتیں اور قربانیاں سب کی سب اللہ کے لیے ہوں:

اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنo (الانعام۶:۱۶۲) میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

اور وہ پوری طرح یکسو ہو کر، اپنے دین کو بالکل اللہ کے لیے خالص کرکے اس کی بندگی کرے:

وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَـآئَ (البینہ ۹۸:۵) انھیں نہیں حکم دیا گیا مگر یہ کہ اللہ کی بندگی کریں اس کے لیے دین خالص کرکے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ حضوؐر کے بیانات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ کے معنی ہیں:

خَشْیَۃِ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَاتِیَۃِ، کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس کرنا۔

اور یہ کہ

اَنْ تَکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیِ اللّٰہِ اَوْثَقَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ، اپنے ذرائع و وسائل کی     بہ نسبت تیرا بھروسا اللہ کی قدرت پر زیادہ ہو۔

اور یہ کہ

مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ، آدمی اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر لے۔

پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حدکو پہنچ جائے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے اور اللہ کی خاطر ہو، اور نفسانی رغبت و نفرت کی آگ اس کے ساتھ لگی نہ رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے تعلق باللہ کی تکمیل کرلی:

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانِ، جس نے اللہ کے لیے دوستی کی، اور اللہ کے لیے دشمنی کی، اور اللہ کے لیے دیا اوراللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔

پھر یہ جو آپ ہر روز رات کو اپنی دُعاے قنوت میں پڑھتے ہیں، اس کا لفظ لفظ اس تعلق کی نشان دہی کرتا ہے جو آپ کا اللہ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے الفاظ پر غور کیجیے اور دیکھتے جائیے کہ آپ ہر رات اپنے اللہ کے ساتھ اس قسم کا تعلق رکھنے کا اقرار کیا کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ انَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیَکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ  ،نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکُ ط اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ، وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنْسْجُدُ وَاِلْیکَ نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخَشْیٰ عَذَابَک اِنَّ عَذَابَکَ الْجِدَّ بِالْکُفَّارِ مُلْحِق، خدایا، ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے رہنمائی طلب کرتے ہیں، تجھ سے معافی چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسا رکھتے ہیں، اور ساری تعریفیں تیرے ہی لیے مخصوص کرتے ہیں۔ ہم تیرے شکر گزار ہیں ‘ کفرانِ نعمت کر نے والے نہیں ہیں۔ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے جو تیری نافرمانی کرے۔ خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری دوڑ دھوپ تیری طرف ہی ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقینا تیرا سخت عذاب ان لوگوں کو پہنچنے والا ہے جو کافر ہیں۔

پھر اسی تعلق باللہ کی تصویر اس دُعا میں پائی جاتی ہے جو نبیؐ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ اللہ کو خطاب کرکے عرض کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنْبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ حَاکَمْتُ، خدایا! میں تیرا ہی مطیع فرمان ہوا اور تجھی پر ایمان لایا اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا، اور تیری ہی وجہ سے میں لڑا اورتیرے ہی حضور اپنا مقدمہ لایا۔

تعلق باللّٰہ بڑہانے کا طریقہ

یہ ہے ٹھیک نوعیت اس تعلق کی جو ایک مومن کو اللہ سے ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس تعلق کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔

اس کو پیدا کرنے کی صورت ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی سچے دل سے اللہ وحدہٗ  لاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک، معبود اور حاکم تسلیم کرے۔ الہٰیت کی تمام صفات اور حقوق اور اختیارات کو اللہ کے لیے مخصوص مان لے، اور اپنے قلب کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کردے۔ یہ کام جب آدمی کر لیتا ہے تو اللہ سے اس کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔

رہا اس تعلق کا نشوو نما، تو وہ دو طریقوں پر منحصر ہے۔ ایک فکر و فہم کا طریقہ اور دوسرا عمل کا طریقہ۔

  • فکری طریقہ: فکر و فہم کے طریقے سے اللہ کے ساتھ تعلق بڑھانے کی صورت یہ ہے کہ آپ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی مدد سے ان نسبتوں کو تفصیل کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھیں جو آپ کے اور خدا کے درمیان فطرتاً ہیں اور بالفعل ہونی چاہییں۔ ان نسبتوں کا ٹھیک ٹھیک احساس و ادراک اور ذہن میں ان کا استحضار صرف اسی طریقے سے ممکن ہے کہ آپ قرآن اور حدیث کو سمجھ کر پڑھیں، اور بار بار اس مطالعے کی تکرار کرتے رہیں، اور ان کی روشنی میں جو جو نسبتیں آپ کے اور خدا کے درمیان معلوم ہوں ان پر غور و فکر کرکے اور اپنی حالت کا جائزہ لے کر دیکھتے رہیں کہ ان میں سے کس کس نسبت کو آپ نے بالفعل قائم کر رکھا ہے، کہاں تک اس کے تقاضے آپ پورے کر رہے ہیں، اور کس کس پہلو میں کیا کمی آپ محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس اور یہ استحضارجتنا جتنا بڑھے گا، ان شاء اللہ اسی تناسب کے ساتھ اللہ سے آپ کا تعلق بھی بڑھے گا۔

مثال کے طور پر ایک نسبت آپ کے اور اللہ کے درمیان یہ ہے کہ آپ عبد ہیں اور وہ آپ کا معبود ہے۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ زمین پر اس کے خلیفہ ہیں اور اس نے اپنی بے شمار امانتیں آپ کے سپرد کر رکھی ہیں۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ ایمان لاکر اس کے ساتھ ایک بیع کا معاہدہ طے کر چکے ہیں جس کے مطابق آپ نے اپنی جان و مال اس کے ہاتھ بیچی ہے، اور اس نے جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ چوتھی نسبت آپ کے اور اس کے درمیان یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ آپ کا حساب صرف آپ کے ظاہر ہی کے لحاظ سے لینے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی جملہ حرکات و سکنات، بلکہ آپ کی نیتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہورہا ہے۔ غرض یہ اور دوسری بہت سی نسبتیں ایسی ہیں جو آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان موجود ہیں۔ بس انھی نسبتوں کو سمجھنے محسوس کرنے، یاد رکھنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے پر اللہ کے ساتھ آپ کے تعلق کا بڑھنا اور قریب ترہونا موقوف ہے۔ آپ جس قدر ان سے غافل ہوں گے اللہ سے آپ کا تعلق اتنا ہی کمزور ہوگا اور جس قدر زیادہ ان سے خبردار اور ان کی طرف متوجہ رہیں گے اسی قدر آپ تعلق گہرا اورمضبوط ہوگا۔

  • عملی طریقہ:لیکن یہ فکری طریقہ اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا، بلکہ زیادہ دیر تک نبھایا بھی نہیں جاسکتا جب تک کہ عملی طریقے سے اس کو مدد اور قوت نہ پہنچائی جائے۔ اور وہ     عملی طریقہ ہے احکام الٰہی کی مخلصانہ اطاعت، اور ہر اس کام میں جان لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس کے متعلق آدمی کو معلوم ہوجائے کہ اس میں اللہ کی رضا ہے۔ احکامِ الٰہی کی مخلصانہ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو بادل نخواستہ نہیں بلکہ اپنے دل کی رغبت اورشوق کے ساتھ خفیہ اور علانیہ انجام دیں اور اس میں کسی دنیوی غرض کو نہیں بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اور جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے ان سے قلبی نفرت و کراہت کے ساتھ خفیہ اور علانیہ پرہیز کریں، اوراس پرہیز کا محرک کوئی دنیوی نقصان کا خوف نہیں بلکہ اللہ کے غضب کا خوف ہو۔ یہ طرز عمل آپ کو تقویٰ کے مقام پر پہنچا دے گا۔ اور اس کے بعد دوسرا طرزِ عمل آپ کو احسان کی منزل پر پہنچائے گا، یعنی یہ کہ آپ دنیا میںہر اس بھلائی کو فروغ دینے کی کوشش کریں جسے اللہ پسند فرماتا ہے، اور ہر اس برائی کو دبانے کی کوشش کریں جسے اللہ ناپسند فرماتاہے، اور اس کوشش میں جان، مال، وقت، محنت اور دل و دماغ کی قابلیت، غرض کسی چیز کے قربان کرنے میں بھی بخل سے کام نہ لیں۔ پھر اس راہ میں جو قربانی بھی آپ کریں اس پر کوئی فخر آپ کے دل میں پیدا نہ ہو، نہ  یہ خیال کبھی آپ کے دل میں آئے کہ آپ نے کسی پر احسان کیا ہے، بلکہ بڑی سے بڑی قربانی کرکے بھی آپ یہی سمجھتے رہیں کہ آپ کے خالق کا جو حق آپ پر تھا وہ پھر بھی ادا نہیں ہوسکا ہے۔

تعلق باللّٰہ کی افزایش کے وسائل

اس طرز عمل کو اختیار کرنا درحقیقت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے اور یہ طاقت جن تدبیروں سے آدمی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے وہ یہ ہیں:

۱- نماز: نہ صرف فرض اور سنت، بلکہ حسب استطاعت نوافل بھی۔ دیگر یاد رکھیے کہ نوافل زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ پڑھنے چاہییں تاکہ اللہ سے آپ کا ذاتی تعلق نشوونما پائے اور اخلاص کی صفت آپ میں پیدا ہو… نفل خوانی کا اور خصوصاً تہجد خوانی کا اظہار بسا اوقات ایک خطرناک قسم کار یا اور کبر انسان میں پیدا کر دیتا ہے جونفس مومن کے لیے سخت مہلک ہے۔ اور یہی نقصانات دوسرے نوافل اور صدقات اور اذکار کے اظہار و اعلان میں بھی پائے جاتے ہیں۔

۲- ذکر الٰھی: جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبیؐ نے اختیار فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو سکھایا۔ آپ حضوؐر کے تعلیم کردہ اذکار اور دُعائوں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجیے، اورمعافی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً پڑھتے رہا کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ مرکوز رکھنے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔

۳- روزہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی۔ نفل روزوں کی بہترین اور معتدل ترین صورت یہ ہے کہ ہر مہینے تین دن کے روزوں کا التزام کر لیا جائے، اور ان ایام میں خاص طور پر تقویٰ کی اس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جسے قرآن مجید روزے کی اصل حقیقت بتاتا ہے۔

۴- انفاق فی سبیل اللّٰہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی، جہاں تک آدمی کی استطاعت ہو۔ اس معاملے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل چیز مال کی وہ مقدار نہیں ہے جو آپ خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قربانی ہے جو اللہ کی خاطر آپ نے کی ہو۔ ایک غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کی راہ میں ایک پیسہ صرف کرے تو وہ اللہ کے ہاں اس ایک ہزار روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی دولت مند نے اپنی آسایشوں کا دسواں یا بیسواں حصہ قربان کرکے دیا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدقہ ان اہم ترین ذرائع میں سے ہے جو تزکیہ نفس کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتائے ہیں۔ آپ اس کے اثرات کا تجربہ کرکے اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر آپ سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو آپ صرف نادم ہونے اور توبہ کر لینے پر اکتفا کریں۔ اور دوسری مرتبہ اگر کسی لغزش کا صدور ہو توآپ توبہ کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ صدقہ بھی کریں۔ دونوں حالتوںکا موازنہ کرکے آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ توبہ کے ساتھ صدقہ آدمی کے نفس کو زیادہ پاک اوربرے میلانات کے مقابلے کے لیے زیادہ مستعد کرتا ہے۔

یہ وہ سیدھا سادہ سلوک ہے جو قرآن اور سنت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس پر اگر آپ عمل کریں تو ریاضتوں اور مجاہدوں اور مراقبوں کے بغیر ہی آپ اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اور اپنے سارے دنیوی کاروبار انجام دیتے ہوئے اپنے خدا سے تعلق بڑھا سکتے ہیں۔

تعلق باللّٰہ کو ناپنے کا پیمانہ

اس کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیوں کر یہ معلوم کریں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا ہے، اور ہمیں کیسے پتا چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامت کے ظہور، اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب ہی میں رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کا، اپنے اوقات، اپنی مساعی کا اور اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنا حساب آپ لے کر دیکھیے کہ ایمان لا کر اللہ سے بیع کا جو معاہدہ آپ کر چکے ہیں اسے آپ کہاں تک نباہ رہے ہیں؟ آپ کے اوقات اور محنتوں اور قابلیتوں اور اموال کا کتنا حصہ خدا کے کام میںجا رہا ہے اور کتنا دوسرے کاموں میں؟ آپ کے اپنے مفاد اورجذبات پر چوٹ پڑے تو آپ کے غصے اور بے کلی کا کیا حال ہوتا ہے اور جب اﷲ کے مقابلے میں بغاوت ہو رہی ہو تو اسے دیکھ کر آپ کے دل کی کڑھن اور آپ کے غضب اور بے چینی کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ یہ اور دوسرے بہت سے سوالات ہیں جوآپ خود اپنے نفس سے کر سکتے ہیں۔ اور اس کا جواب لے کر ہر روز معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ سے آپ کا تعلق ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے، اور اس میں کمی ہور ہی ہے یا اضافہ ہو رہا ہے۔ رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انوار و تجلیات، تو آپ ان کے اکتساب کی فکرمیں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر میں توحید کی حقیقت کو پالینے سے بڑا کوئی کشف نہیں ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کے دلائے ہوئے ڈراووں اور لالچوں کے مقابلے میں راہ راست پر قائم رہنے سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ کفر و فسق اور ضلالت کے اندھیروں میں حق کی روشنی دیکھنے اور اتباع کرنے سے بڑا کوئی مشاہدۂ انوار نہیں ہے۔ اور مومن کو اگر کوئی سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے تو وہ اللہ کو رب مان کر اس پر جم جانے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر چلنے سے ملتی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمْ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o (حٰم السجدۃ ۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (روداد جماعت اسلامی، ششم)

 

(کتابچہ دستیاب ہے، ۳۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)

 

حضرت مسروق نے حضرت عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بھی کوئی بے گناہ قتل ہوتا ہے، تو اس کے قتل کے گناہ میں سے ایک حصہ، آدم علیہ السلام کے اس بیٹے کو ملتا ہے (جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا) کیونکہ اس نے سب سے پہلا خون بہایا۔ (بخاری، ۷۳۲۱)

نیکی ہو یا بدی، اپنا ابدی اثر رکھتی ہے۔ بندے کا عمل نیک ہو اور دوسروں کے لیے بھی نیکیوں یا استفادے و منفعت کا سبب بنے، تو اجر و ثواب کا سلسلہ قیامت تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔ ایک بار کیا جانے والا عمل، صدقۂ جاریہ میں بدل جاتا ہے۔

یہی عالم برائی کا ہے جو برائی جس نے ایجاد یا متعارف کروائی، اپنے قول یا عمل کے ذریعے، دانستہ یا نادانستگی میں دوسروں تک پہنچائی، تو وہی ایک بار کیا جانے والا گناہ، سیئات جاریہ میں بدل جاتا ہے۔ جب تک وہ برائی ہوتی رہے گی، وہ فحش بات دہرائی جاتی رہے گی، اس برائی کا آغاز و تعارف کروانے والے کو برابر کی سزا ملے گی۔ بے لباسی، بے حیائی، بسنت، بھتہ، تعصبات کی آب یاری، قتل و غارت، ضمیرفروشی، ملک و قوم سے غداری، منشیات کی لت، ذرائع ابلاغ کی بے راہ روی، غرض کوئی بھی گناہ ہو، بعد میں آنے والے کو جتنی سزا ملے گی، اتنی ہی پہلے والے کو بھی ملے گی۔والعیاذ باللّٰہ!

o

حضرت ابوبکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے قتل میں تمام اہل ارض و سما بھی شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا (طبرانی، ۵۶۵)

خالق کو اپنی ہر مخلوق عزیز ہے اور اس کی زندگی یا موت کا فیصلہ اس نے صرف اور صرف اپنے ہاتھ میں رکھا ہے ۔مخلوق میں سے کوئی اگر خود کو دوسروں کی زندگی کا مالک سمجھنے پر تل جائے،  تو خالق پھر اسے وہ سزا دیتا ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دیتا۔

مومن کی زندگی کا معاملہ تواور بھی نازک ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارکہ میں ایک مومن کا قتل اللہ کے نزدیک ،زمین و آسمان کے زوال سے بھی زیادہ سنگین ہے۔قتل تو ایک یا چند افراد ہی کریں گے لیکن زیر نظرارشاد نبویؐ کے مطابق، اس میں جتنے بھی افراد شریک ہوں ،اللہ تعالی سب کو جہنم رسید کرے گا، خواہ دنیا جہاں کی تمام مخلوق ہی اس کی زد میں کیوں نہ آجائے۔ قرآن عظیم کے الفاظ میں: وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا o (النسائ۴: ۹۳) ’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر  قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کررکھا ہے‘‘۔

ذرا آیت کو دوبارہ پڑھتے ہوئے گنیں، ایک نہیں دو نہیں ،اکھٹی چار سزائیں اور سب ایک دوسرے سے زیادہ کڑی اور سنگین۔ یہ آیات و احادیث صرف قاتلوں ہی کے لیے نہیں معاشرے کے لیے بھی  سوالیہ نشان ہیں کہ اس نے قاتلوں کا ہاتھ روکنے کے لیے کیا کیا؟ ان کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی یا کسی خوف و لالچ کی خاطر ان ہی کے ساتھی بنے رہے۔

o

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ درست اعمال کیاکرو۔ خود کو حق سے قریب تر رکھنے کی کوشش کیا کرو، اور (رحمتِ الٰہی کی) خوش خبری دیتے رہا کرو، (اور یاد رکھو) کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی : یارسولؐ اللہ! آپؐ کو بھی نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بھی نہیں ،الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، ۶۴۶۷)

سبحان اللہ، شافع محشر بھی اپنے عمل پر نہیں ، صرف اور صرف رحمت خداوندی پر بھروسا رکھتے ہیں۔   مجرد تواضع اورانکساری کی خاطر نہیں، بلکہ عبودیت کے کمال درجے پر پہنچتے ہوئے فرماتے ہیں: ہاں، رحمت ربی شامل حال نہ ہو تو مجھے بھی میرا کوئی عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔

حدیث میں انتہائی شدید وعید بھی ہے اور اتنی ہی عظیم خوش خبری بھی۔ وعید یہ کہ خبردار تمھاری ٹوٹی پھوٹی نیکیاں،یا تمھارے دینی مناصب تمھیں کسی غلط فہمی یا غرور کا شکار نہ کردیں۔ انسان ساری عمر بھی حمد و تسبیح اور اعمالِ صالحہ میں گزار دے، تب بھی جب تک رحمتِ حق کی آغوش میسر نہ ہو ،کچھ نتیجہ نہ نکلے گا۔  خوش خبری یہ ہے کہ حق اور بھلائی کے پیمانے پر خود کو ناپتے رہا کرو۔اپنے تئیں اعمال کو درست اور سیدھا رکھنے کی کوشش کرتے رہا کرو اور پھر مایوسی نہیں خوش خبری پھیلاؤ کہ اللہ کی رحمت عطا ہو کر رہے گی۔

o

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کے لیے دین کا سودا کرلیں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، ۳۱۳)

دل میں نیکی کا ارادہ بھی اللہ کی عطا ہے۔ اللہ کی اس دین کو سُستی اور آیندہ پر ٹالتے چلے جانا،    زوالِ نعمت کا سبب بنتا ہے۔ شیطان ہر نیکی اور نیک ارادے کو اکارت کرنے پر تلا رہتا ہے۔ بے عملی کو بدعملی میں بدلنے میںدیر نہیں لگاتا۔ یہاں تک کہ ایک بندہء مومن اپنے قیمتی ترین سرمایے ،یعنی  ایمان کو، مچھر کے پَر سے بھی حقیر دنیا کے عوض بیچ دیتا ہے۔ یہ کام اتنی تیز رفتاری سے طے پاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے سب سے تیز رفتار عمل ،یعنی گردش روز و شب اور بالخصوص رات کے وقت امڈی چلے آنے والی تاریکی کی مثال دی۔ ایک کے بعد دوسری آزمایش، ایک کے بعد دوسرا فتنہ، ہر دم چوکنا اور خبردار رہنے کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔

o

حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس سے اس کا رب براہ راست ہم کلام نہ ہو۔ دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ بندہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اسے کچھ دکھائی نہ دے گا، سواے اس کے کہ جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے۔ وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو، وہ اپنی آگے بھیجی ہوئی کمائی کے علاوہ  کچھ نہیں دیکھے گا۔ وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دے گا۔ تو (اے لوگو) آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کا صدقہ دے کر۔ اور اگر اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تمھارے پاس کچھ بھی نہ ہوتو اچھی بات کہہ کر ہی آگ سے بچو۔ (بخاری، ۷۵۱۲)

ہر بندے کو اصل فکر مندی اسی لمحے کی ہونی چاہیے جب خود رب ذو الجلال اس سے ہم کلام ہوگا۔ بندے کے ساتھ کچھ باقی رہے گا تو صرف اس کا عمل اور رب رحیم کی رحمت۔ رحمتوں کی طلب اور آگ سے بچاؤ کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان راہ بتادی___ اللہ کی راہ میں، صرف اور صرف اس کی رضا کے لیے، زیادہ سے زیادہ خرچ۔ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ٹکڑا ہی سہی، وہ بھی نہیں تو خیرخواہی کے دو بول ہی سہی۔ اگر اس سارے عمل کا خلاصہ کہنا ہو تو یہ کہ دوسروں سے بھلائی۔

o

حضرت ابو سعید خدریؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس طرح بنایا کہ ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور گارا (یعنی سیمنٹ) کستوری کا۔ پھر اسے کہا: بولو۔ جنت بولی: قَدْ اَفْلَح الْمُؤْمِنُوْنَ، مومنین یقینا فلاح پاگئے۔ یہ سن کر فرشتوں نے کہا: کیا خوب ہے تو اے بادشاہوں کی رہایش گاہ۔

رہایش گاہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیاوی گھر کے لیے ہر شخص کیا کیا خواب دیکھتا اور کیا کیا جتن نہیں کرتا۔ اس کی خاطر حرام کو بھی اپنے لیے حلال کرلیتا ہے۔ بڑے بڑے لینڈ مافیا وجود میں آچکے ہیں، حالانکہ کسی کو نہیں معلوم کہ چاؤ سے بنائے جانے والے ان گھروں میں رہنا کب تک ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ جن کی تمام تر جدوجہد کا مقصد، آخرت کا ہمیشہ رہنے والا گھر بن جاتا ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قارون نے بھی ایسے گھر کا خواب تک نہ دیکھا ہوگا۔ کستوری کا گارا، سونے اور چاندی کی اینٹیں۔ اور ملے گا کس کس کو؟ اللہ کے حکم سے جنت خود جواب دیتی ہے: ’مومنین‘ کو کہ وہاں صرف ایمان و اخلاص اور تقویٰ و اطاعت کا سکہ چلے گا۔

دنیا میں حقیر ، ناکام اور مٹھی بھر سمجھے جانے والے افراد کو خوش خبری ہو کہ فرشتے انھیں ’بادشاہوں‘     کے لقب سے یاد کر رہے ہیں، ان کے نصیب پر رشک کر رہے ہیں۔ شرط صرف اخلاصِ عمل اور اپنی   ذمہ داری بھرپور انداز سے ادا کردینے کی ہے۔

o

حضرت جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صرف لوگوں کو سنانے کے لیے نیک کام کیا اللہ اس کی اصل حقیقت لوگوں کو سنا دے گا۔ اور جس نے صرف دوسروں کو دکھانے کے لیے نیکی کی، اللہ اس کی حقیقت لوگوں کو دکھا دے گا۔ (بخاری، ۶۴۹۹)

محرومی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ بندہ نیکی کر کے بھی نہ صرف اجروثواب سے محروم رہا بلکہ خالق و مخلوق دونوں کی نظر سے گر گیا۔ رب ذوالجلال صرف اخلاص اور سچائی کو قبول کرتا ہے۔

 

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں جانے والا اور جہنم سے نکالا جانے والا سب سے آخری شخص گھسٹتے ہوئے جہنم سے نکلے گا تو اس کا رب اس سے کہے گا اب جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ عرض کرے گا پروردگار جنت تو ساری بھر چکی ہے۔ اس کا رب اسے تین بار یہی کہے گا: جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ اور وہ ہربار یہی جواب دہرائے گا: پروردگار جنت تو ساری بھر چکی۔ اس کا پروردگار فرمائے گا تمھیں جنت میں پوری دنیا کا ۱۰ گنا دیا جاتا ہے۔ (بخاری ، ۷۵۱۱)

بندہ گنہگار تھا، دوزخ کا حق دار تھا۔ جہنم میں نہ جانے کیا کیا عذاب جھیلنا پڑے بالآخر رحمن و رحیم کی رحمت غالب آئی اور اتنا مل گیا کہ دنیا میں کسی انسان نے اس کا خواب تک نہ دیکھا ہوگا۔ رب ذوالجلال ہمیں دنیا و آخرت کی حسنات عطا فرما۔ ہمیشہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کی توفیق دے۔

دورِحاضر میں بہت سے معاملات ہیں جن میں قمار، یا قمار کی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس لیے وہ ناجائز ہیں۔ ان معاملات کا ہمارے اکابرعلما و اربابِ افتا نے اپنی کتب فقہ و فتاویٰ وغیرہ میں ذکر کیا ہے، انھیں پیش کیا جا رہا ہے۔

انعامی کوپن اسکیم

کچھ عرصے سے بہت سی کمپنیاں اپنے ناقص سامان کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے مختلف اسکیمیں بنا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی مصنوعات کے ہرپیکٹ میں ایک سے پانچ یا سات تک کوئی ایک نمبر ہوتا ہے، لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ یہ نمبر پورے جمع کرلیں تو انھیں ایک عدد گھڑی، گانوں کی کوئی کیسٹ یا کوئی اور قیمتی چیز بطور انعام دی جائے گی۔ انعام حاصل کرنے کے لالچ میں لوگ بلاسوچے سمجھے ناقص اور صحت کے لیے نقصان دہ چیزیں خریدتے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو یہ اپنی محنت کا پیسہ برباد کرتے ہیں اور دوسری طرف بعض اوقات اپنی صحت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

یہ انعامی اسکیم غریب و نادار لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ، کیوں کہ یہ انھیں بے جا فضول خرچی اور غیرضروری خریداری کی طرف صرف انعام کے لالچ میں راغب کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایک عام آدمی کے محدود مالی وسائل نہ صرف متاثر ہوتے ہیں، بلکہ اس کے لیے مالی مشکلات اور ذہنی پریشانیوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ان انعامی اسکیموں کے جاری کرنے والے مفادپرست عناصر نے کمال ہوشیاری کے ساتھ ایسے حربے اپنائے ہیں کہ اول تو انعام نکلتا ہی نہیں اور اگر نکلتا ہے تو بھی لاکھوں خریداروں میں سے صرف ایک آدھ کا، نتیجہ ظاہر ہے کہ مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

اس اسکیم کو کمپنی کی طرف سے انعامی کوپن کا بڑا دل کش نام دیا جاتا ہے، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کمپنی انعام کے نام پر اپنی چیزیں فروخت کرتی ہے اور خریداروں میں سے ہرخریدار گویا اس امید پر ہی چیزیں خریدتا ہے کہ اس سے انعام ملے گا۔ گویا اس اسکیم و کاروبار کا خلاصہ خرید و فروخت بشرطِ انعام ہے اور شرعاً ایسی خریدوفروخت ناجائز و باطل ہے، جس میں کوئی ایسی خارجی شرط لگائی جائے جس میں فریقین میں سے کسی ایک کا نفع ہو۔ حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی خریدوفروخت سے منع فرمایا ہے، جس میں شرط لگائی جائے۔ اور اگر شرط کے ساتھ خریدفروخت کی ہے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک بیع اور شرط دونوں فاسد ہیں (ایضاح النوادر، ۱/۱۲۳-۱۲۵)۔ دوسری طرف اس میں اکثر انعام ملتا ہی نہیں۔ یہ ’غرر کثیر‘ اور دھوکا دہی ہے اور   غرر قمار کی اقسام میں سے ہے۔ اس لیے انعامی اسکیم کا یہ طریقہ شرعاً ناجائز و حرام ہے۔    (نصب الرایۃ، ۴؍۱۷)

بند ڈبوں کی تجارت

بازاروں اور نمایشوں میں مختلف مالیت کے بند ڈبے فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی میں ایک پیسے کا بھی مال نہیں ہوتا ہے اور کسی میںزیادہ مال ہوتا ہے۔ لوگ اس کو    قسمت آزمائی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی کھلی ہوئی قماربازی اور جوا ہے، اس لیے یہ ناجائز و حرام ہے۔ (نصب الرایۃ، ۴؍۱۷)

گاھکوں کے لیے ترغیبی انعام

دورِحاضر میں سود اور قمار کے نت نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ ان میں بعض تو ظاہر و باطن ہر دو اعتبار سے قمار ہیں، جب کہ بعض میں صرف اس کا شائبہ پایا جاتا ہے، نیز کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن میں نہ تو سود ہے اور نہ قمار، البتہ اس کے اندر قمار کا جذبہ کارفرما ہے۔

ان ہی میں سے وہ رواج ہے جو آج کل چل پڑا ہے کہ جب مارکیٹ میں سامان پہنچ جاتا ہے تو جس سامان کی قیمت، مثلاً ۱۰۰ روپے سے اُوپر ہوتی ہے، اس میں خریدار کو اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے وہ سامان کی قیمت ۱۰ فی صد سے کم ادا کرے یا پوری قیمت ادا کرکے انعامی کارڈ لے لے۔ انعامی کارڈ لینے کی صورت میں جو چیز کوپن سے نکل آتی ہے وہ چیز اسے فوراً مل جاتی ہے اور انعام میں کوئی نہ کوئی سامان ہوتا ہے۔

خریداری کی اس صورت میں چوں کہ بیع اور ثمن دونوں متعین کردہ ضابطے کے مطابق انعام میں دیتے ہیں ، اس لیے یہ صورت جائز اور درست ہوگی۔ یہ تو مسئلے کا ظاہری پہلو ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروبار کے اس طریقے کے پیچھے قمار ہی کا ذہن کارفرما ہے۔ اس لیے ایسے معاملے کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس میں کراہت کا پہلو ضرور ہے۔ یہی راے استادِ مکرم حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی بھی ہے۔ (دیکھیے: آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۵- ۲۷۷)

انعامی کمیٹی

انعامی کمیٹی کا طریقہ یہ ہے کہ ایک آدمی یا چند آدمی کسی نام سے ایک کمیٹی قائم کرتے ہیں اور اس میں، مثلاً ۱۰ ہزار ممبر بناتے ہیں اور ہرممبر سے ۱۰ روپے فیس لی جاتی ہے۔ یوں کُل رقم ایک لاکھ ہوجاتی ہے، اور اس رقم سے وہ اپنا کاروبار چلانا شروع کرتے ہیں اور ممبران کو ان کی اصل رقم (۱۰ روپے) اس طریقے سے واپس کرتے ہیں کہ ہر ماہ ۵۰۰ روپے کے انعامات دیے جاتے ہیں۔ آٹھ انعامات ۲۵، ۲۵ روپے کے اور ایک انعام ۳۰۰ روپے کا اور ان انعامات کو بذریعہ قرعہ اندازی نامزد کیا جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ تمام ممبران کے ناموں کو الگ الگ پرچیوں پر لکھ کر اسے ایک ڈبے میں ڈالا جاتا ہے۔ پھر اس میں سے نو پرچیاں ہرماہ نکالی جاتی ہیں۔ جس ممبر کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے،اس کو پرچی پر لکھی ہوئی رقم کے مطابق رقم دی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا رہتا ہے۔ ہر ماہ پرچیاں نکالتے رہتے ہیں۔ اور پرچی پر لکھی ہوئی رقم کے مطابق ہرممبر کو رقم ملتی رہتی ہے، اور جس ممبر کو رقم مل جاتی ہے اسے دوبارہ قرعہ میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ پانچ سال بعد بقیہ ۹ہزار۴سو ۶۰ ممبران کے لیے کمیٹی نے جو بونس (نفع) شروع میں مقرر کیا ہے، وہ مع اصل رقم کے واپس کردیتی ہے۔ (جواہر الفقہ، ۲/۳۴۴)

کمیٹی قائم کرکے ممبر بنانے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے، کیوں کہ اس میں قمار اور سود دونوں شامل ہیں۔ سود اس لیے کہ جو بونس اخیر میں ممبروں کو دیا جا رہا ہے، وہ اس کمیٹی میں   شریک ہوتے وقت ہی متعین کردیا جاتا ہے اور اسی کو سود کہتے ہیں۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے   جو ہر ماہ بعض کو ۳۰۰ اور بعض کو ۲۵ روپے ملتے ہیں، یہ بلامحنت کے صرف بخت و اتفاق سے ملتے ہیں۔ اسی کا نام شریعت میں قمار ہے۔ اس لیے ایسے ادارے میں ممبر بننا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ معصیت اور گناہ میں تعاون ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے: وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲)

نمایشوں کے انعامی ٹکٹ

آج کل نمایشوں میں یہ طریقہ بھی مروج ہے کہ نمایش گاہ کے اندر جانے کے لیے ٹکٹ متعین ہوتا ہے۔ نمایش کے منتظمین کی طرف سے یہ سہولت ملتی ہے کہ جو شخص مثلاً ۱۰ ٹکٹ یک مشت خرید لے گا، اسے ایک ٹکٹ مزید دیا جائے گا، جس کی وجہ سے ۱۰ ٹکٹ خریدنے والا شخص بھی نمایش گاہ میں داخل ہونے کا مستحق ہوسکے گا، بلکہ یک مشت ٹکٹ خریدنے والے کے لیے انعام بھی مقرر ہوتا ہے، جس کی ادایگی قرعہ اندازی کے ذریعے کی جاتی ہے۔

یہ صورت اگرچہ صریح قمار کی نہیں ہے کیوں کہ ٹکٹ کے ۱۰ خریدار مہیا کرنے پر اس نے جو محنت کی تھی، اس کا معاوضہ اسے بطور داخلہ نمایش گاہ میں ملتا ہے، جو حقیقت میں اُجرت ہے اور شرعاً اُجرت لینا درست ہے، البتہ اگر اس شخص کی نیت ہی موہوم انعام حاصل کرنا ہو تو وہ ایک گونہ ’قمار‘ کا ارتکاب کر رہا ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف نمایش دیکھنے کی غرض سے گیا اور اسے ۱۰ اور نمایش گاہ دیکھنے والے مل گئے اور ان سب کا پیسہ اکٹھا کر کے اس نے سب کے لیے یک مشت ٹکٹ خریدا اور پھر اسے مفت ایک اور ٹکٹ یا انعام مل گیا، تو وہ قواعد کی رُو سے ’قمار‘ کا مرتکب نہیں کہلائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل، ص ۲۷۵)

شرکت میں نفع و نقصان کو قرعہ سے تقسیم کرنا

بعض لوگ برابر رقم لگاکر کاروبار میں شرکت کرتے ہیں۔ شروع سے یہ بات طے ہوتی ہے کہ ہر ماہ قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے گا، وہی نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوگا، خواہ ہر ماہ ایک ہی آدمی کے نام قرعہ نکلتا ہو۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ فرماتے ہیں: یہ طریقہ مکمل طور پر قمار، یعنی جوا ہے، اس لیے شرکت کا یہ طریقہ ناجائز و حرام ہے۔ (احسن الفتاویٰ، ۸/۲۰۸)

قسطوں پر سامان حاصل کرنا اور انعام لینا

تجارت کے مروّجہ طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ قسطوں پر روپیہ جمع کر کے سامان حاصل کرے اور اس کے ساتھ قرعہ اندازی میں نام نکل آنے پر کوئی زائد چیز بطور انعام بھی دی جاتی ہے۔ اس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ کوئی تاجر یا کمپنی، سائیکل یا سلائی مشین وغیرہ کے سلسلے میں ۲۰ماہ کے لیے خریداروں کو ممبر بناتی ہے۔ ہر خریدار کو خریداری نمبر دیتی ہے اور ہرخریدار، مثلاً ۱۲روپے ۲۰ ماہ تک جمع کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر خریدار ۲۰ ماہ میں کُل رقم مبلغ ۲۴۰روپے جمع کردیتا ہے، تو شے خریدار کو دی جاتی ہے اور ان ممبروں کی ترغیب و تحریض کے لیے تاجر یا کمپنی ہر ماہ قرعہ اندازی بھی کرتی ہے اور جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے، اسے اختیار ملتا ہے کہ اب چاہے تو قسطیں بند کردے اور یہ سائیکل لے لے یا دوسری سائیکل قسطوں کے اختتام پر حاصل کرلے۔ کیا اس شکل کو بیع سلم مانا جائے گا یا نہیں؟ اور یہ جائز ہے یا نہیں؟

اس سلسلے میں حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ (متوفی ۱۹۹۶ئ) کا فتویٰ ملاحظہ فرمایئے: ’’بیع سلم کے لیے مجلس عقد میں (راس المال) ثمن پر مسلم الیہ کا قبضہ ضروری ہے۔ وہ یہاں مفقود ہے۔ اگر ثمن کا کچھ حصہ دے دیا جائے اور کچھ حصہ مسلم الیہ کی طرف بطور دَین کے ذمے میں پہلے سے تھا تومقدارِ دَین میں بیع سلم باطل ہوجائے گی اور صرف مقدار مخصوص میں  صحیح رہے گی (جواہر الفقہ، ۲/۳۴۵)۔ اور صورتِ مذکورہ میں بائع کے ذمے مقدار بائع کو دی جائے اور پھر اس قرض کے عوض سائیکل خریدی جائے تو یہ بیع مداینہ کے قبیل سے ہوجائے گی۔ ہرماہ ایک سائیکل انعام میں دینا لالچ دے کر خریداروں کو بڑھانا ہے کہ خریدار بلاضرورت مبلغ ۱۲روپے ماہانہ جمع کرا دیا کریں، پھر ایک سائیکل تو بہرحال ملے گی ہی، ممکن ہے کہ انعام بھی نکل آئے۔ اگر اس انعام کی صورت میں خریدار کا روپیہ ضائع ہونے کی صورت نہیں، جیساکہ  صورتِ مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے اور قیمت بھی پوری دیتا ہے، یہ نہیں کہ قیمت پوری ہونے سے پہلے (خواہ ایک ہی قسط پر سہی) اگر نام نکل آئے تو سائیکل مل جائے اور بقیہ قیمت ساقط ہوجائے، تب تو یہ صورت جائز معلوم ہوتی ہے، ورنہ تو یہ جوئے کی شکل میں ہوکر ناجائز ہوجائے گی۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۸۹)

پری پیمنٹ اسکیم

بعض لوگ ایسی اسکیم چلاتے ہیں، جس میں چند ممبران اور ایک نگرانِ اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ۲۵۰ ممبران ۵۰ ماہ کے لیے بنائے جاتے ہیں اور نگرانِ اعلیٰ بعض ممبر سے ماہانہ ۱۰۰ روپے اور بعض سے ۲۰۰ روپے وصول کرتا ہے اور ہر ماہ قرعہ اندازی کرتے ہیں۔ قرعہ میں اگر ۱۰۰ روپے والے کا نام نکل آتا ہے تواس کو ۵ہزار روپے اور اگر ۲۰۰ والے کا نام نکل آتا ہے تو اس کو ۱۰ ہزار روپے دیتے ہیں، اور اخیر ماہ میں بقیہ تمام ممبران کو اپنی جمع کردہ رقوم واپس مل جاتی ہیں۔ ایک بار قرعہ اندازی میں جن لوگوں کا نام نکل آیا، دوبارہ نہ تو اس کا نام    قرعہ اندازی میں شامل کیا جاتا ہے اور نہ ان سے بقیہ اقساط ہی وصول کی جاتی ہیں، بلکہ ان کی بقایا اقساط کی ادایگی کی ذمہ داری نگرانِ اعلیٰ پر ہوتی ہے کہ ہر ماہ قرعہ میں نام نکلنے والے ممبر کو رقم ادا کرنے کے بعد جو رقم بچتی ہے، اس کے لیے ممبران نے اسے یہ حق دیا ہے کہ ان کی اس رقم سے نگرانِ اعلیٰ ۵۰ماہ تک جو چاہیں کاروبار کریں، لیکن ۵۰ ماہ کی مدت کے بعد باقی تمام ممبران کو مقررہ وقت پر ان کی تمام جمع شدہ رقم بغیر کسی نفع یا نقصان کے واپس کرنی ہوگی۔ اس لیے نگرانِ اعلیٰ اپنا نقصان کو پورا کرنے کے لیے ان کی جمع کی ہوئی رقوم سے کاروبار کرتے ہیں۔

مذکورہ اسکیم واضح طور پر قمار اورسود ہے، کیوں کہ اس اسکیم میں اہم شرط یہ ہے کہ جس ممبر کا نام بھی قرعہ میں نکل آیا، اس سے بقیہ اقساط نہیں لی جائیں گی اور نام نکل آنے پر اسے مقررہ رقم دی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ کہ رقم جمع کرانے کا مقصد زیادہ رقم حاصل کرنا ہوتا ہے اور اسکیم جاری کرنے والے کی تحریک بھی یہی ہوتی ہے کہ ہرممبر قرعہ اندازی میں حصہ لے کر نام نکلنے پر زائد رقم حاصل کرے۔ اس وجہ سے اس میں جوا اور سود دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں جو کہ حرام و ناجائز ہیں۔ لہٰذا اس اسکیم میں شرکت اور تعاون کرنا حرام ہے۔ اس اسکیم کے تحت اگر کسی شخص کو ۱۰۰ روپے کے بدلے ۵ہزار روپے اور ۲۰۰ روپے کے بدلے ۱۰ ہزار روپے ملتے ہیں، وہ زائد رقم اس کے لیے جائز نہیں، لہٰذا بلانیت ثواب غربا پر خرچ کردے۔ (درمختار مع شامی، ۴؍۲۰۹)

قسطوں پر کوئی شے خریدنا

ایک موٹر سائیکل جو نقد لینے سے ۵ہزار روپے میں ملتی ہے اور قسط وار لینے سے ۵۵۰۰ روپے میں ملتی ہے تو کیا ایسی چیز کو قسط وار لینا جائز ہے؟

اس سلسلے میں مولانا مفتی محمودحسن صاحبؒ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں: ’’نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق ہونا منع نہیں، مگر قسطیں متعین ہوجائیں اور پھر یہ نہ ہو کہ کسی قسط کے وقت متعین پر وصول نہ ہونے سے مزید اضافہ قیمت میں کیا جائے، وصول شدہ رقوم ہی ضبط ہوجائے اور موٹر سائیکل بھی ہاتھ سے چلی جائے۔ ایسی صورت میں تو شرعاً یہ معاملہ درست نہیں، بلکہ اس میں سود اور جوا ہوگا۔ ان دونوں کی ممانعت نصوص میں مذکور ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ۱۳؍۳۵۶، نیز دیکھیے: آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۶۹)

قسطوں پر زمین کی خرید و فروخت

آج کل یہ بھی رائج ہے کہ لوگ غریبوں کی آسانی کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی کو چوستے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ معمولی قیمت کی چیز کوقسط وار روپے وصول کرنے کی اسکیم کے تحت زیادہ قیمت میں فروخت کیا جائے۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نقد اور اُدھار میں قیمت کے اعتبار سے فرق ہونا شرعاً ممنوع نہیں ہے ،لیکن اس کے پیچھے جو شرائط ہوتی ہیں، ان کی وجہ سے معاملہ عموماً صحیح نہیں ہوپاتا ہے۔

زمین کے قسط وار بیچنے کی ایک صورت یہ ہے کہ، مثلاً ۲۰۰ گز زمین کی قیمت ۶۰ہزار روپے متعین کی جاتی ہے اور خریدار کو پابند کیا جاتا ہے کہ اس میں ۵ہزار روپے نقد ادا کرے اور بقیہ رقم ماہانہ ۵۰۰ روپے کے حساب سے ۱۱۰ ماہ تک مسلسل ادا کرے۔ اگر معاملہ صرف اتنا ہی ہو تو غریبوں کو واقعتا آسانی ہوگی اور ان حضرات کا یہ عمل قابلِ ستایش ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض دفعہ اس میں ایک اور شرط لگا دیتے ہیں کہ قسط وار خریدنے والے شخص نے اگر ہر ماہ ۵۰۰روپے کی ادایگی میں کسی وجہ سے تاخیر کی، تو اس کے جرمانہ میں وہ کچھ زائد رقم ادا کرے گا، مثلاً ایک مہینے تک کوئی خریدار قسط جمع کرنے میں ناغہ کردے تو۵۰۰ روپے کے بجاے ۵۲۰ روپے اگلے ماہ میں جمع کرانا ہوںگے۔ یہ ۲۰ روپے ظاہر ہے کہ سود ہے جو کسی طرح درست نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے مزید تاخیر کی اور مسلسل چھے ماہ تک اپنی قسط جمع نہ کرسکا، تو سود کی شرح مزید بڑھا دی جاتی ہے۔ بعض دفعہ یہ شرط بھی شامل ہوتی ہے کہ اگر خریدار مسلسل ایک یا دو سال (حسبِ ضابطہ) تک اپنی قسط جمع نہ کرسکا، تو اس کے پہلے کی جمع شدہ رقم ضبط ہوجائے گی۔ ظاہر ہے، یہ بھی سود ہے، جس کی وجہ سے معاملہ باطل قرار پاتا ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۶۶-۲۶۸)

اس دور میں سود و قمار کے علاوہ ایک خرابی یہ ہے کہ جب تک خریدار مکمل قسط ادا نہیں کرتا، اس وقت تک اس کو خریدی ہوئی زمین قانونی طور پر سپرد نہیں کی جاتی ہے، یعنی اس زمین کے متعلق کاغذات میں اس کا نام شامل نہیں کیا جاتا، بلکہ بیچنے والے ہی کے قبضے میں رہتی ہے، حالانکہ خریدار کو بیع کی سپردگی ایک لازمی شرط ہے۔

قرعہ ڈال کر ایک دوسرے سے کہانا

آج کل بعض نوجوانوں میں قرعہ ڈالنے کا یہ طریقہ بھی رواج پا رہا ہے کہ چند لوگ روزانہ ایک ہوٹل میں جمع ہوجاتے ہیں اور آپس میں قرعہ اندازی کرتے ہیں، جس کا نام نکلتا ہے وہی کھلاتا ہے۔ اس میں اکثر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی آدمی کا نام ہفتے میں چار مرتبہ آیا، کسی کا دومرتبہ اور کسی کا ایک مرتبہ بھی نہیں آیا، اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار ہوٹل میں ملاقات ہوجاتی ہے تو آپس میں قرعہ اندازی کرتے ہیں اور پھر جس کا نام نکل آتا ہے، وہ آج کے تمام اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے کھلانے پلانے کا یہ طریقہ صریح قمار ہے اور بالکل جائز نہیں ہے۔ البتہ پہلی صورت میں اس طرح ہو کہ جس کا نام ایک بار قرعہ میں نکل آئے، آئندہ اس کا نام قرعہ اندازی میں شامل نہ کیا جائے، یہاں تک کہ تمام رفقا کی باری پوری ہوجائے، تو جائز ہے۔ دوسری صورت میں تو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ اس لیے اس طریقے سے کھانا پینا نہیں چاہیے۔(فتاویٰ محمودیہ، ۱۳/۳۵)

ممبر در ممبر بنانے کی اسکیم

آج کل ایسے ادارے بھی ہیں جو ممبر در ممبر اسکیم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ادارہ ایک آدمی کو ممبر بناتا ہے اور اس سے ۵۰۰ روپے فیس لیتا ہے اور اس کے ذمے یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ مزید پانچ ممبر ادارے کے لیے بنائے۔ جب وہ ایک آدمی کو ادارے کا ممبر بنادیتا ہے تو اس شخص کو ۲۰۰ روپے ملتے ہیں اور جب پانچ ممبر کی تعداد مکمل کردیتا ہے تو اسے مزید ۸۰۰روپے ملتے ہیں۔ اس طرح اسے ایک ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ ادارہ ہر نئے ممبر سے ۵۰۰روپے ممبری فیس وصول کرتا ہے اور اس پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے لیے پانچ ممبر بنائے اور اس طرح ممبر بنانے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جب بھی ادارے میں نئے ممبر کا اضافہ ہوتا ہے تو ادارے کو بلامحنت و مشقت مفت میں ۳۰۰ روپے کا فائدہ ہوجاتا ہے اور ممبر کو بلاعوض ۲۰۰ روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ اسکیم کھلی ہوئی قماربازی ہے اور اس میں سود بھی پیدا ہوجاتا ہے، اس لیے یہ صورت ناجائز و حرام ہے۔

انعامی بانڈ خریدنا

انعامی بانڈز کے نام سے بنک جب کوئی سیریز (series) نکالتا ہے تو اس بانڈ کو لوگ خریدتے ہیں۔ اس سیریز کے ذریعے جو رقم عوام سے بنک وصول کرتا ہے، اسے بنک عموماً سودی قرضے پر لگا دیتا ہے۔ پھر بنک سود وصول کر کے اس میں سے کچھ اپنے لیے رکھتا ہے اور کچھ    قرعہ اندازی کے ذریعے ان لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے، جنھوں نے انعامی بانڈ خریدے تھے۔

انعامی بانڈ میں ملنے والی رقم ناجائز و حرام ہے، کیوں کہ قرعہ اندازی کی جو رقم عوام کو ملتی ہے وہ اصل میں سود ہی کی رقم ہوتی ہے۔ اگر یہ شکل ہو کہ بنک اس رقم کو سودی قرض پر نہ دے، بلکہ اس کو کسی اور جائز کاروبار میں لگا دے اور اس کاروبار سے جو نفع ہو، وہ نفع قرعہ اندازی کے ذریعے بانڈ خریدنے والوں کو تقسیم کردے، پھر بھی انعامی بانڈ پر ملنے والی یہ رقم جائز نہیں ہوگی۔ اس کے ناجائز ہونے کی کئی وجوہ ہیں:

۱- پارٹنرشپ کے بزنس میں نفع و نقصان دونوں کا احتمال ہوا کرتا ہے، جب کہ یہاں بنک کی طرف سے نقصان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

۲- شرعی اُصول کے مطابق پارٹنرشپ کے کاروبار میں جب نفع ہوتا ہے، تواس میں نفع میں سے شریک پارٹنر کو حصّۂ رسدی کے اعتبار سے نفع ملنا چاہیے۔ شرکا کے درمیان نفع کی تقسیم   قرعہ اندازی کے ذریعے کرنا کھلا ہوا قمار ہے، کیونکہ اس میں کچھ کوتو نفع ملتا ہے، جب کہ بعض کو بالکل نہیں ملتا۔ بنک والے اگرچہ اسے انعام کا نام دیتے ہیں، لیکن زہر کو اگر کوئی تریاق کہے تووہ تریاق نہیں بنتا، بلکہ زہر اپنی جگہ زہر ہی رہتا ہے۔ اس لیے یہ انعام نہیں حقیقت میں قمار اور سود ہے، جو شرعاً درست نہیں۔ (نصب الرایۃ، ۴؍۱۷)

چٹہی ڈالنا

آج کل دکان داروں کے یہاں چٹھی ڈالنے کا رواج عام ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ چند آدمی آپس میں مل کر قرعہ اندازی کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے ایک صدر منتخب کرتے ہیں۔جملہ حضرات اس کے پاس یومیہ روپیہ جمع کرتے ہیں اور ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے کسی ایک کو اس پوری رقم کا مستحق قرار دیتے ہیں، مثلاً ۲۰ افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی جاتی ہے اور ہرشخص یومیہ ۱۰۰ روپے صدر کمیٹی کے پاس جمع کرتا ہے۔ تمام افراد کا روپیہ مل کر ایک ماہ ۶۰ہزار روپے ہوجاتا ہے۔ اس رقم کو پہلے ماہ میں صدرکمیٹی کو بلاقرعہ اندازی کے دے دیتا ہے۔ دوسرے ماہ سے باقی ۱۹ افراد کے نام قرعہ اندازی کی جاتی ہے، جس شخص کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے اس کو ایک ماہ کی جملہ رقم ۶۰ ہزار روپے دے دی جاتی ہے۔ اسی کو بعض علاقوں میں بیسی ڈالنا بھی کہتے ہیں۔

اس میں ہرشخص کو اپنی جمع کی ہوئی رقم مکمل طور پر مل جاتی ہے، نہ اس میں زیادہ ملتی ہے نہ کم، البتہ اس میں اتنی بات ضرور ہے کہ ہر آدمی کو تقدیم و تاخیر سے رقم ملتی ہے۔ چٹھی ڈالنے کی یہ صورت شرعاً جائز ہے، جب کہ باری باری سب کو ان کی رقم واپس مل جائے گی۔ یہ ایک دوسرے سے تعاون اور قرضِ حسنہ کی صورت ہے، اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ (دیکھیے: آپ کے مسائل اور اُن کا حل، ۶/۲۶۲)

چٹہی ڈالنے کی ایک ناجائز صورت

چٹھی ڈالنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک کمیٹی کل ۱۰۰ ممبر۱۵ ماہ کے لیے بناتی ہے۔ ہر ممبر سے یومیہ ۱۰۰روپے وصول کرتی ہے اور ہر ماہ قرعہ اندازی کرتی ہے اور جس ممبر کا نام قرعے میں نکل آتا ہے وہ ۱۵ ماہ میں جتنی رقم جمع کرنا پڑے گی، اتنی رقم اسی وقت لے لیتا ہے اور بقیہ مہینوں میں اسے کوئی رقم کمیٹی والوں کو ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح ۱۵ ماہ سے پہلے ہر مہینے کے اختتام پر قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آتا ہے، اسے ۱۵ ماہ میں جتنی رقم جمع کرنی ہوتی ہے، اتنی ہی رقم دے دی جاتی ہے اور اس کا تعلق کمیٹی سے بالکل ختم ہوجاتا ہے۔۱۵ ماہ مکمل ہونے پر بقیہ ممبروں کو بیک وقت ۴۵، ۴۵ ہزار روپے دے دیے جاتے ہیں۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ پہلی مرتبہ جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے گا، وہ صرف ۳ہزار روپے دے کر ۴۵ہزار روپے حاصل کرے گا، اور جس کا نام دوسرے ماہ میں نکلے گا، وہ ۶ ہزار روپے جمع کرکے ۴۵ ہزار روپے لے لے گا۔ ایسا ہی تیسرے اور چوتھے ماہ وغیرہ کا حال ہے۔ غرض جن جن ممبروں کورقم ملتی رہے گی ان کا تعلق کمیٹی سے ختم ہوتا رہے گا۔ ۱۵ ماہ پورے ہونے پر باقی ۵۰ ممبران کو بھی ۴۵، ۴۵ ہزار روپے ادا کردیا جاتا ہے۔

اب صورت حال کچھ اس طرح بنتی ہے کہ ۱۰۰ ممبران کی پہلی ماہ میں کمیٹی کے پاس ۳لاکھ روپے جمع ہوتے ہیں اور اس میں وہ قرعے میں نام نکلنے والے شخص کو ۴۵ ہزار روپے ادا کردیتی ہے تو اس کے پس ۲لاکھ ۵۵ ہزار روپے بچتے ہیں۔ اسی طرح ۱۵ ماہ کے اندر جس ایک آدمی کا نام قرعے میں نکلتا ہے تو ۴۵ ہزار ادا کرنے کے بعد کمیٹی کے پاس ایک معتدبہ رقم بچتی رہتی ہے۔ جب ۱۵ ماہ مکمل ہوجاتے ہیں تو پھر ہر ممبر کو ۴۵ ہزار روپے کمیٹی کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اس طرح کمیٹی کو اپنی طرف سے مزید ۳ لاکھ ۱۵ ہزار روپے ادا کرنا پڑتا ہے، جو اس کا نقصان ہے،مگر اس نقصان کو پورا کرنے اور خود اپنا فائدہ نکالنے کے لیے وہ سیونگ بنک میں ہر روز اس رقم کو جمع کرتی ہے یا اس رقم سے اس طرح بزنس کرتی ہے کہ جب کوئی چیز مارکیٹ میں سستی ملتی ہے اس کا ذخیرہ کرلیتی ہے، اور جب مارکیٹ میں مال ختم ہوجاتا ہے یا مہنگاہوجاتا ہے تو اسے زیادہ قیمت میں فروخت کرتی ہے، یا پھر انعامی بانڈ زیادہ تعداد میں خرید لیتی ہے، جس سے اس کے نقصان کی تلافی ہوجاتی ہے اور اسے نفع بھی حاصل ہوتا ہے۔ چٹھی ڈالنے کی یہ صورت کھلا ہوا قمار اور سود کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اس کے حرام اور باطل ہونے میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔(احسن الفتاوٰی، ۷؍۲۶۔   آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۲)

امدادِ باھمی کی ایک ناجائز صورت

سرکاری ملازمین اور کمپنی وغیرہ کے ملازمین کے درمیان یہ معاملہ بھی رائج ہے کہ    ’امدادِ باہمی‘ کا عنوان دے کر ۲۰، ۲۵ ملازمین آپس میں اپنی تنخواہ سے ہر ماہ کی ایک مخصوص رقم جمع کرلیتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ۲۰ ملازمین آپس میں اپنی تنخواہ سے ہر ماہ ۱۰۰ روپے جمع کرتے ہیں۔ پھر ان روپوں کو انھی ممبران میں کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں، یعنی جس ملازم ممبر کو دوسرے ضرورت مند ملازم کے مقابلے میں زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ ۲ہزار کی رقم ہزار یا ۱۲۰۰ میں لے لیتا ہے اور جو رقم بچ جاتی ہے، باقی ۱۹ ممبران حصّۂ رسدی کے اعتبار سے آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ تمام ممبران ختم ہوجاتے ہیں، یعنی تمام ممبران باری باری اس طرح رقم لیتے رہتے ہیں۔یہ نظام شرعی نقطۂ نظر سے ناجائز و حرام اور غلط ہے، کیوں کہ اس میں ناجائز ہونے کی کئی وجوہ ہیں:

۱- تنخواہ کا یہ جزو نقد ہوتا ہے اور نقد کی خریدوفروخت کمی بیشی کے ساتھ جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں، مثلاً: بمثل یدًا بیدٍ (جدید فقہی مسائل، ۱/۲۷۱، آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۰) برابر سرابر ہونے کو ضروری قرار دیاگیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں اس معاملے کو ’بیع صرف‘ کہا جاتا ہے اور اس میں جو زیادتی ہوگی وہ سود ہوگی، والفضل ربوا اور سود شرعاً درست نہیں ہے۔

۲- اس معاملے میں سود کے ساتھ ساتھ قمار اور جوا بھی ہے۔ قمار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اس بات کا امکان ہے کہ جس نے پہلی قسط لے لی، وہ مزید ۱۹ قسطیں جمع کرنے سے پہلے ہی انتقال کرجائے، تو اس صورت میں حسب ِ حصہ بقیہ تمام ممبروں کا حصہ ضائع ہوا۔ اسی طرح اگر کسی نے ابھی تک کوئی قسط نہیں لی اور اس دوران اس کا انتقال ہوجائے، تو اس کی جمع کی ہوئی رقم ضائع ہوجاتی ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ ۲۰ قسطوں کی ادایگی تک ہر شخص کا زندہ رہنا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اس طرح کی اسکیم میں شامل ہونا گویا مال کو موضوع ’خطر‘ میں ڈالنا ہے، جو درست نہیں ہے اور اسی کو فقہا ’قمار‘ کہتے ہیں: اس لیے یہ معاملہ ’قمار‘ میں داخل ہونے کی وجہ سے درست نہ ہوگا۔

۳- یہ معاملہ مفضی الی النزاع بھی ہے، یعنی اس میں نزاع و اختلاف کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لیے کہ جو ممبر چند قسطیں دینے اور ۲ہزار وصول کرنے کے بعد درمیان سے نکل جانا چاہے تو بقیہ ممبران اس کو نکلنے نہیں دیں گے، جبر کریں گے یا دی ہوئی رقم کی واپسی کا مطالبہ کریں گے اور ظاہر ہے کہ اس میں نزاع پیدا ہوگی۔

اسی طرح اگر کوئی چند قسطیں دینے کے بعد ۲ہزار کی رقم وصول کرنے سے پہلے الگ ہونا چاہے اور اپنے دیے ہوئے روپوں کی واپسی کا مطالبہ کرے تو اس میں بھی نزاع کا اندیشہ ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جو معاملہ اس طرح کا ہو، وہ ’غرر کثیر‘ میں شامل ہونے کی وجہ سے فاسد و ممنوع قرار پائے گا۔

امدادِ باھمی کی ایک جائز صورت

بعض اداروں میں امدادِ باہمی کے نام سے یہ طریقہ جاری ہے کہ ایک ہی ادارے کے ملازمین اپنی تنخواہ سے ایک یا دو روپے فی کس کے حساب سے اس وقت جمع کرتے ہیں، جب کسی ملازم کی ملازمت کے دوران کسی حادثے میں مالی یا جانی نقصان ہوجائے، یا وہ حسنِ خدمت سے سبک دوش ہوجائے تو یہ روپیہ اسے یا اس کے ورثہ کو دے دیتے ہیں، تاکہ انھیں اسے لاحق ہونے والے حادثے میں کچھ مدد مل سکے۔ اس میں نہ تو قرعہ اندازی ہوتی ہے اور نہ واپسی کا مطالبہ ہوتا ہے اور نہ مفضی الی النزاع ہونے کا ہی امکان ہے۔ اس لیے یہ طریقہ شرعاً جائز و درست ہے، بلکہ حقیقی معنوں میں امدادِ باہمی ہے۔

ماھنامہ وغیرہ کی لائف ممبری

جن اداروں سے اخبارات و رسائل اور بعض ماہنامے جاری ہیں، وہ اپنے ممبروں سے سالانہ چندہ وصول کرتے ہیں۔ ان میں ایک صورت لائف ممبری کی بھی ہوتی ہے، یعنی سالانہ چندہ وصول کرنے کے بجاے ان سے یک مشت رقم کچھ زیادہ مقدار میں لے لی جاتی ہے اور ادارہ اسے اطمینان دلاتا ہے کہ جب تک یہ ادارہ ہے آپ اس کے مستقبل ممبر اور رکن ہیں، اور جب تک یہ رسالہ یا اخبار جاری رہے گا، آپ کی خدمت میں یہ رسالہ پابندی سے پہنچتا رہے گا۔ بعض ادارے ایسے ممبروں کو محسن، مربی، معاون خصوصی وغیرہ کا نام بھی دیتے ہیں۔ لائف ممبری کے واسطے جو رقم دی جاتی ہے، وہ عموماً عطیہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اگر کسی وجہ سے رسالہ بند ہوجاتا ہے تو لائف ممبر ادارے سے واپسی رقم کا مطالبہ نہیں کرتا۔ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ لائف ممبر بننا سود اور قمار میں داخل ہے۔ اس لیے یہاں اس کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔

لائف ممبری درحقیقت ایک اعزازی رکن ہوتا ہے اور جو رقم وہ دیتا ہے اس سے اس کا مقصود ادارے کو عطیہ اور اعانت و امداد کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ صورت جائز ہے اور جو پرچہ یا رسالہ ان کے پاس پابندی سے پہنچتا رہتا ہے، وہ بھی اعزازی طریقے پر ہی ہدیہ ہوتا ہے۔ یہ بیع و شراء نہیں ہے کہ بیع و ثمن کو کسی درجہ مجہول مان کر اسے ناجائز قرار دیا جائے۔ پس لائف ممبر بننا شرعاً جائز و درست ہے (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۱-۲۷۲)۔ البتہ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ نے اس کو قمار کی شکل قرار دے کر ناجائز قرار دیا ہے۔(بخاری، حدیث ۲۱۷۷، ۲۱۳۴، ۲۱۷۴۔ مسلم، باب الربا، حدیث ۱۹۸۴، باب الصرف و بیع الذہب بالورق فقدا، حدیث ۱۵۸۷، سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الصرف، حدیث ۳۳۴۹)

اخباری معمے

’حل معما‘ کے عنوان سے بہت سے اخباروں اور ماہوار رسالوں میں ایک مخصوص کالم ہوتا ہے۔ آج کل یہ کاروباری شکل اختیار کرگیا ہے۔ معمے کی مختلف صورتیں لکھ کر اشتہار دیا جاتا ہے کہ جو شخص اس کا صحیح حل بھیجے اور اس کے ساتھ اتنی فیس، مثلاً ایک روپیہ بھیجے گا تو جن لوگوں کے حل صحیح ہوں گے، ان میں سے انعام اس شخص کو دیا جائے گا، جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے۔ اس میں بعض ادارے بڑے بڑے انعامات بھی مقرر کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام غریب طبقے کے لوگ یہ سمجھ کر کہ فیس معمولی ہے، ایک روپیہ ضائع ہی ہوگیا تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، اور انعام نکل آنے کی صورت میں دو تین لاکھ مل جائے گا۔ اس طمع میں قوم کے ہزاروں، لاکھوں افراد معموں کا حل اور ان کے ساتھ ایک ایک روپیہ بھیج دیا کرتے ہیں۔ یہ کھلا ہوا قمار اور جوا ہے،  کیوں کہ اس میں ہرشخص ایک روپیہ اس اُمید پر روانہ کرتا ہے کہ مجھے ہزاروں روپے ملیں گے، اور اگر نہ مل سکے تو زیادہ سے زیادہ میرا صرف ایک روپیہ ضائع ہوگا۔ اسی کانام اسلام میں قمار ہے۔ بعض رسالوں میں یہ کاروبار کروڑوں کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں اگر وہ بے ایمانی نہ بھی کریں، بلکہ وعدے کے مطابق انعامات تقسیم کردیں، تب بھی ان حضرات کو لاکھوں کروڑوں کا فائدہ ہوتا ہے، جو حقیقت میں غریبوں کی کمائی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام غریب سے غریب ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ لوگ ان کا خون چوس کر کروڑپتی بنتے جاتے ہیں۔

اس شکل کے حرام اور ناجائز ہونے کی ایک یہی وجہ کافی ہے: کیوں کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں اصولی طور پر شدت کے ساتھ اس کا انسداد کیا گیا ہے کہ دولت عوام کے ہاتھوں سے سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے۔ (فتاویٰ رحیمیہ، ۲/۴۲۳)

حل معما کا رواج اس وجہ سے اور بھی زیادہ سخت اور ہزاروں گناہوں کا مجموعہ ہوجاتا ہے کہ اِس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے کے لیے علی الاعلان  عوام کو دعوت دی جاتی ہے۔ ہر ایک آدمی جو اس میں حصہ لیتا ہے قرآن کے کھلے ہوئے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس طرح اِس کاروبار کے چلانے والوں پر  ان سب کے گناہوں کا وبال ہوتا ہے اور جو لوگ اس کاروبار کی کسی طرح سے کسی درجے میں اعانت کرتے ہیں، وہ بھی شریکِ گناہ ہوتے ہیں۔ اس طرح بیک وقت لاکھوں، کروڑوں مسلمان علانیہ طور پر اللہ اور اس کے رسولؐ کے صریح حکم کے خلاف ورزی کرتے ہیں، جس میں دین دار مسلمان بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اس سے پورے طور پر آدمی کو بچتے رہنا چاہیے۔

اسی طرح معما بازی کا ایک طریقہ ایسا بھی ہے کہ جس میں فیس تو جمع نہیں کرنی پڑتی، لیکن یہ ضروری ہے کہ معما کے حل کے ساتھ کوپن نمبر بھیجے۔ ادارے یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ جو کوئی بھی معما حل بھیجیں گے، تو کوپن نمبر بھی ضرور بھیجیں، جن لوگوں کا حل صحیح ہوگا، ان میں سے قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے گا اس کو انعام دیا جائے گا۔

یہ صورت بھی لوگوں کو سبز باغ دیکھا کر پھنسانا ہے۔ کیوں کہ اس میں معمے کا حل بھیجنے کے لیے کوپن نمبر ضروری ہے اور کوپن نمبر کے لیے رسالہ یا اخبار کا خریدنا ضروری ہوگیا۔ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ ایک رسالہ یا اخبار میں ایک ہی کوپن ہوتا ہے، اس کوپن کو  کاٹ کر حل معما کے ساتھ بھیجنا پڑتا ہے۔ یہ طریقہ بھی ایک طریقے سے فیس ہی کی شکل ہے۔ اس لیے یہ بھی قمار ہے اور اس کے ناجائز ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے۔

البتہ اگر کسی نے کوئی رسالہ یا اخبار پڑھنے کے لیے دیا ہے اور وہ اس سہولت پر بھی عمل کرلیتا ہے، تو کیا یہ بھی اسی صورت میں شامل ہے اور جائز ہے؟ اس میں ظاہری اعتبار سے تو کوئی قباحت نہیں، کیوں کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی فیس کسی طریقے سے بھی ادا نہیں کی، بلکہ مفت میں کوپن مل جانے پر حلِ معما میں حصہ لیا۔ اگر اس کا نام قرعہ میں نکل آئے تو اس کو جو انعام ادارے کی طرف سے دیا جائے گا، کیا وہ اپنی طرف سے دے گا؟ ظاہر ہے اپنی طرف سے الگ سے رقم تو نہیں دے گا، بلکہ اس کو بھی اسی رقم سے انعام دے گا، جو دیگر افراد نے اپنی فیس کے طور پر جمع کی ہے۔ اس لیے اس طرح کے معما جات سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ۱۶/۴۴۸)

معما حل کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں نہ تو فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور نہ کوئی کوپن ہی بھیجنا پڑتا ہے، بلکہ اس میں صرف معما کا حل بھیجا جاتا ہے۔ پھرجن لوگوں کا صحیح حل نکل آتا ہے، ان سب کے درمیان قرعہ اندازی کی جاتی ہے، جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے اس کو انعام دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں ظاہری اعتبار سے کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے۔ اس لیے معما حل کرنے کی یہ صورت شرعاً جائز و درست معلوم ہوتی ہے اور ایسا معما حل کرنے میں   کئی لوگوں کے اندر علم کا شوق بڑھتا ہے اور انعام کو اس کے لیے ترغیب کا ذریعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے معما حل کرنے کی یہ صورت صحیح و درست ہے۔ (دیکھیے: جواہرالفقہ ۲/۳۴۴، فتاویٰ محمودیہ ۱۲/۳۵۸، اسلامی فقہ ۲/۲۵۶، ایضاح النوادر ۱/۱۳۳، حلال و حرام ۳۸۰ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)

ٹکٹ بیچنا

مروجہ طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض صنعتی و تجارتی اداروں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ان کی مصنوعات کے سلسلے میں جو متعینہ ٹکٹ ادارے سے خرید کرکے فروخت کردے گا، ادارہ اس کو فلاں چیز (شئی مخصوص) بطور انعام دے گا۔ اس طریقے سے جو چیز حاصل کی جائے گی، وہ ناجائز و حرام ہوگی۔ اس کے ناجائز ہونے کی چند وجہیں ہیں: ایک تو اس میں یہ شرط چھپی ہوئی ہے کہ اگر متعینہ ٹکٹ نہ فروخت ہوسکا تو روپیہ ضبط ہوجائے گا۔ گویا اس کی منفعت بخت و اتفاق پر مبنی ہے اور اسی کو قمار کہتے ہیں۔ اسی طرح اس ’عقدِ بیع‘ میں یہ شرط لگانا کہ تم اتنے (متعین) ٹکٹ بیچ کر دوسرے خریدار مہیا کردو، تو فلاں شے دی جائے گی، شرط فاسد ہے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر ٹکٹ بیچنے کا یہ طریقۂ کار بھی ناجائز و حرام اور باطل قرار پایا۔ (المجموع شرح المہذب، ۱۵/۱۵۰)

ھلال احمر کے ٹکٹ خریدنا

ہلال احمر (ریڈ کراس) خدمتِ خلق کے کاموں میں مشہور ہے اور اس کی خدمات نمایاں و قابلِ تحسین ہیں۔ مگر اس میں روپیہ جمع کرنے کا ایک طریقہ ایسا ہے جس میں قمار کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ پانچ روپے اور تین روپے کی ٹکٹیں فروخت کی جاتی ہیں اور حاصل شدہ رقم میں سے ہر ماہ قرعہ اندازی کی جاتی ہے، جن لوگوں کے نام قرعہ میں نکل آتے ہیں ان کو ۳لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ روپے انعام کے نام پر دیے جاتے ہیںاور جن لوگوں کا نام قرعہ میں نہیں نکلتا، ان کی رقم واپس نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ رقم سوخت (ضبط) ہوجاتی ہے اور بچ جانے والی رقم کو عطیہ خون، ایمبولینس، شفاخانوں، ایکسرے، لیبارٹری اور بیماروں کی تیمارداری وغیرہ میں خرچ کیا جاتا ہے، نیز ادارہ ناگہانی آفات سے متاثرہ ہونے والوں کی بھی امداد کرتا ہے۔ یہ سود اور جوئے کا مجموعہ ہے، اس لیے حرام ہے۔

اسی طرح میانمار (برما) میں خود حکومت کی طرف سے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ وہ  پانچ روپے سے لے کر ۵۰۰ روپے تک کے مختلف ٹکٹیں بیچتی ہے۔ ان میں چھے نمبر ہوتے ہیں اور حاصل شدہ رقم سے ہر ماہ ان نمبروں کے ذریعے قرعہ اندازی کی جاتی ہے۔ جن لوگوں کے ٹکٹ کا نمبر قرعہ میں نکل آتا ہے ان کو ۲ ہزار سے ۵ کروڑ تک جو مقرر ہے، وہ رقم انعام کے نام سے دی جاتی ہے، اور جن لوگوں کا نمبر نہیں نکلتا، ان کی رقم سوخت (ضبط) ہوجاتی ہے، اور بقیہ رقم رفاہی کاموں پر خرچ کرتی ہے اور فوجیوں کی تنخواہ وغیرہ دیتی ہے۔ نیز اس رقم سے اسلحہ وغیرہ بھی خریدا جاتا ہے اور دیگر ملازمین کی تنخواہ وغیرہ بھی دی جاتی ہے۔ ہر ماہ جن جن لوگوں کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے، ان کو سرکار نے یہ سہولت بھی دے رکھی ہے کہ وہ اس رقم سے جو بھی کاروبار کرے گا، اس پر سرکاری ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا، خواہ یہ کاروبار نسل در نسل ہی کیوں نہ چلے۔

اسی طرح تھائی لینڈ حکومت کی طرف سے بھی چھے نمبر کی ٹکٹیں فروخت کی جاتی ہیں۔ اس کے فروخت کرنے کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ چھے نمبر میں سے کوئی ایک چُن کر اس پر جتنے روپے خریدار ادا کرسکتا ہے، ادا کرے، حتیٰ کہ پانچ روپے سے لے کر ۵ لاکھ اور ۵ کروڑ تک ایک ٹکٹ میں لگایا جاسکتا ہے، اور ہر ماہ قرعہ اندازی کرکے صرف ایک ہی نمبر نکالے جاتے ہیں، مثلاً: قرعہ میں ۵۷۹۶۴۳، یہ چھے نمبر نکل آئے، تو اب جن جن لوگوں کے پاس یہ مکمل نمبر ہوتے ہیں، ان کو ایک روپیہ کے بدلے پانچ سو (۵۰۰) روپے دیے جاتے ہیں، اور جن جن لوگوں کے پاس اخیر کا پانچ نمبر ۵۷۹۶۴ یا شروع کا پانچ نمبر ۷۹۶۴۳ موجود ہوتا ہے، ان کو ایک روپے کے عوض ۴۰۰ روپے، اور جس کے پاس اخیر کے چار نمبر ۵۷۹۶ یا شروع کے چار نمبر ۹۶۴۳ ہے اس کو ایک روپے کے بدلے ۳۰۰ روپے، اور جس کے پاس آخری تین نمبر ۵۷۹ یا شروع کا تین نمبر ۶۴۳ ہے، اس کو  ایک روپے بدلے ۲۰۰ روپے کے حساب سے انعام دیا جاتا ہے اور جن کا ترتیب مذکور کے لحاظ سے نمبر نہیں ہوتا، ان کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ ان کی رقم بھی واپس نہیں کی جاتی ہے بلکہ سوخت (ضبط) ہوجاتی ہے اور رقم کو حکومت رفاہی کاموں میں خرچ کرتی ہے۔ ان دونوں ممالک میں ٹکٹ بیچنے کا یہ طریقہ کھلا ہوا قمار اور جوا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس کا نام انعام رکھ دینے سے وہ انعام نہیں ہوجاتا کہ زہر کو تریاق کہنے سے وہ تریاق نہیں ہوجاتا۔

لاٹری کی خرید وفروخت

آج کل بازاروں میں لاٹری کی سیکڑوں صورتیں رائج ہیں، جن میں سے چند مشہور صورتوں کا تذکرہ گذشتہ سطور میں آچکا ہے۔ لاٹری کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بازاروں میں مخصوص جگہ پر لاٹری کی ٹکٹیں مختلف قیمتوں کی ہوتی ہیں۔ خریدار وہاں پہنچتے ہیں اور اپنے لحاظ سے کسی ایک قیمت یا مختلف قیمتوں کے مختلف ٹکٹیں خرید لیتے ہیں۔ پھر اسے متعینہ رقم ملتی ہے، جو اکثر اوقات روپے ہی کی صورت میں ہوتی ہے، حالانکہ عقد معاوضہ میں ایک طرف سے کم اور دوسری طرف سے زیادہ رقم ہونے کی صورت میں سود ہوجاتا ہے، جو شرعاً درست نہیں ہے اور لاٹری نکلنے کی صورت میں یہی ہوتا ہے، نیز اس میں نفع و نقصان مبہم اور خطرے میں رہتا ہے کہ اگر نام نکل آیا تو نفع ہوگا اور اگر نہ نکلا تو اصل پونجی بھی ڈوب جائے گی۔ پھر یہ نفع ٹکٹ خریدنے والوں کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض بخت و اتفاق پر مبنی ہے کہ اسی کا نام نکل آیا۔ ایسے ہی مبہم اور پُرخطر نفع و نقصان کو ’قمار‘ کہتے ہیں، جیساکہ علامہ نوویؒ (۶۳۱-۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: ’’قمار کا معاملہ ایسا ہے کہ اس میں کبھی دینا بھی پڑتا ہے اور کبھی مل بھی جاتا ہے‘‘(المجموع شرح المذہب، ۱۵/۱۵۰)۔ اسی طرح علامہ شامیؒ نے لکھا ہے: ’’قمار میں کبھی بڑھ جاتا ہے اور کبھی گھٹ جاتا ہے‘‘۔(رد المختار علی الدر المختار، باب الحظر والاباحۃ ، ۹/۵۷۷)

معلوم ہوا کہ لاٹری کی تمام صورتوں میں سود اور قمار دونوں پایا جاتا ہے، اس لیے وہ ناجائز و حرام ہیں،چنانچہ اکثر علماے اکابر نے بھی لاٹری کو حرام و ناجائز قرار دیا ہے۔(حلال و حرام، ۳۸۰، نیز دیکھیے: جواہرالفقہ ۲/۳۴۴، فتاویٰ محمودیہ ۱۲/۳۵۸، اسلامی فقہ ۲/۲۵۶، ایضاح النوادر ۱/۱۳۳)۔ (بہ شکریہ فقہ اسلامی، کراچی، جنوری ۲۰۱۰ئ)

 

قرعہ اندازی کی ایک خاص صورت

آج کل بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے صنعت کار تک اپنے سامان کو لوگوں کے لیے پُرکشش بنانے کی غرض سے طرح طرح کی اسکیمیں بناتے رہتے ہیں۔ انھی میں سے ایک اسکیم ’قرعہ اندازی‘ کی ہے، جو اس وقت کثرت سے رائج ہے۔

عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ تاجر یا کمپنی وغیرہ ممبرسازی کے ذریعے سائیکل، موٹرسائیکل، ٹی وی، وڈیو وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کی اصل قیمت بازار میں مثلاً ۵ہزار روپے ہے تو وہ لوگ پوری رقم یک مشت لینے کے بجاے ۱۰۰ روپے ماہانہ ادا کرنے والے ۱۰۰ممبر ۴۵ ماہ کے لیے بناتے ہیں اور ہر ماہ پابندی کے ساتھ قرعہ اندازی کی جاتی ہے۔ اگر پہلے ماہ ہی کسی ممبر کا نام قرعہ اندازی میں آتا ہے تو اس کو وہ چیز صرف ۱۰۰ روپے میں مل جاتی ہے۔ اسی طرح ہر ماہ قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو وہ چیز جمع شدہ رقم کے عوض ملتی رہے گی۔ اب ۴۵ماہ میں جتنے ممبر باقی رہیں گے، سبھی کو وہ چیز دے دی جائے گی۔

اس میں اسکیم چلانے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو پہلے ماہ میں ۳۰ ہزار روپے مل جاتے ہیں، جس میں صرف ۵ہزار روپے کی چیز اسے دینی پڑتی ہے اور باقی ۲۵ ہزار روپے اپنی تجارت میں لگالیتا ہے، یا کسی دوسری ضرورت میں اسے صرف کرتا ہے۔ اس طرح اسکیم چلانے والے کو ۴۴ ماہ تک کچھ نہ کچھ رقم بچتی رہتی ہے اور صرف ۵ہزار کی چیز دینی پڑتی ہے۔

ممبروں کا فائدہ اس میں یہ ہے کہ پہلے ماہ کی قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو ۱۰۰ روپے میں، دوسرے ماہ میں نام نکلنے والے کو۲۰۰ روپے میں اور تیسرے ماہ میں نام نکلنے والے کو ۳۰۰روپے میں ۵ہزار کی مقررہ چیز مل جاتی ہے، اور جس کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے پھر اس کو بقیہ رقم بھرنی نہیں پڑتی، نہ اس کا نام دوبارہ قرعہ میں ڈالا جاتا ہے اور یہ معاملہ فریقین کی رضامندی    سے طے ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمود حسنؒ رقم طراز ہیں: ’’یہ معاملہ شرعاً درست نہیں۔ وقتِ عقد ثمن بیع متعین ہونا چاہیے۔ وہ یہاں متعین نہیں، بلکہ مجہول میں کمی زیادتی ظاہر ہے۔ جتنی رقم دی ہے اس پر زیادتی کون سے عقد کی بنا پر ہے، اس کو قمار بھی کہا جاسکتا ہے اور ربا بھی‘‘۔ (شعبۂ تخصص فی الفقہ المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد کے سندھی مقالہ کا ایک حصہ)

مفتی شبیراحمد قاسمی (مراد آباد) لکھتے ہیں: ’’قرعہ اندازی اور اسکیم کا یہ معاملہ شرعی طور پر اور قمار دونوں کے دائرے میں داخل ہے۔ اس لیے اس طرح کی اسکیم میں حصہ لینا اور قرعہ اندازی سے طے شدہ اشیا حاصل کرنا ناجائز و حرام ہے۔ (شعبۂ تحقیق المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد)

غرض کہ یہ اسکیم شرعی طور پر سود اور قمار دونوں کو شامل ہے، کیوں کہ اس میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پہلے ماہ کی قرعہ اندازی میں کس کا نام نکلے گا، یا دوسری قرعہ اندازی میں کس کا نام آئے گا؟ یہ محض بخت و اتفاق پر مبنی ہوتا ہے۔ فقہا کے نزدیک اسی کو قمار کہتے ہیں، لہٰذا اس طرح کی اسکیم چلانا اور اس میں حصہ لینا اور قرعہ اندازی سے طے شدہ اشیا کا حاصل کرنے شرعاً ناجائز ہے اور اس سے اجتناب و احتراز ضروری ہے۔

ترجمہ: ڈاکٹر محی الدین غازی

آج جب ہم اپنے دور کے پیچیدہ اور نئے پیش آمدہ مسائل پر نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کے اہلِ علم و دانش کی تمام تر ذہنی کاوشوں اور تصور اتی پروازکے باوجود ان کے  وہم وگمان میں بھی ہمارے دور کے بہت سے بڑے مسائل نہیں آسکے۔ جس طرح ہم ۱۰۰ سال یا ۵۰۰ سال بعد کے حالات کا اندازہ کرناچاہیں تو کتنے ہی دُوراندیش اور پیش بین کیوں نہ ہوں، یقینا حالات کا صحیح اندازہ نہیں کرسکیں گے۔ میں نے اپنے دور کے حالات کا جائزہ لیا، اور کچھ ایسے مسائل سامنے آئے، جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔

  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مسلمانوںپر ایسا وقت بھی آئے گا جب زیادہ تر عرب اور   مسلم ملکوں کے حکمران اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کے بجاے انگلستان اور فرانس اور سویزرلینڈ وغیرہ کے قوانین اختیار کریں گے اور مسلمانوں پر بخوشی اس کو نافذ کریں گے۔ ہاں، ماضی میں ایسے قانون کا ذکر ملتا ہے جو منگولوں نے تلوار کے زور پر مسلمانوں پر نافذکیا تھا، لیکن یہ کہ خودمسلم حکمراں اللہ کی کتاب کو اور سنت رسولؐ کو پس پشت ڈالتے ہوئے برضا ورغبت کوئی اور قانون اختیار کریں گے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مسلمانوںپر ایسا وقت بھی آئے گا، جب وہ بہت سارے عرب اور مسلم ملکوں میں رہتے ہوئے اپنے دین پر عمل نہیں کرسکیں گے، اور جو مسلمان زیادہ پابندی سے مسجد جائے گا وہ مشکوک بن جائے گا، اور جس کی داڑھی لمبی ہوگی، وہ مجرم شمار ہوگا، اور اگر پھر بھی  وہ دین پر جمے رہنے پر مصر ہوگا تو انتہا پسند اور شدت پسند جیسے القاب سے نوازا جائے گا۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر مسلمان لڑکیاں یونی ورسٹیوں میں علم نافع کے حصول کے لیے جائیں گی ، خواہ وہ دین ہی کا علم کیوں نہ ہوتو انھیں حجاب میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور اگر  وہ حجاب کے ساتھ علم حاصل کرنا چاہیں تو انھیں اپنے ملک سے باہر جاناہوگا۔ یہ تو کسی کے ذہن میں بالکل ہی نہ آیا کہ انھیں کفرکے گہواروں،یعنی مغربی ملکوں میںاپنی منزل تلاش کرنا پڑے گی، محض اس لیے کہ وہ دوران تعلیم حجاب پہن سکیں۔ آج ترکی میں یہی ہورہا ہے، وہی ترکی جو پانچ صدیوں تک عالم اسلام کا دارالحکومت رہاہے۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک مسلم خاتون ہسپتال کے دروازے پر دردِ زہ سے کراہ رہی ہوگی اور اس کے سامنے صرف دوراستے ہوں گے یا تو بنا حجاب وہ ہسپتال جائے یا اگر اسے حجاب پہننے پر اصرار ہے تو وہاں سے دھتکار دی جائے۔ یہ آج تیونس میں ہورہا ہے، وہی تیونس جو فاتح افریقہ عقبہ بن نافع کی جاے سکونت ہے، وہاں باحجاب خواتین کو سرکاری نوکریوں سے روک دیا جاتا ہے، اور اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ کافروں کے ملکوں میں اس ظلم کا عُشرِ عشیر بھی نہیں ہوتا۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کوئی مسلمان کافر سے درخواست کرے گا کہ وہ مسلمانوں کے شہر پر بمباری کرے اور معصوموں کو قتل کرے ، صرف اس وجہ سے کہ اس شہر پر اقتدارصالح افراد کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہوا ، جب محمود عباس اور اس کے خائن ساتھیوں نے یہودیوں سے کہا کہ غزہ پر  اس وقت تک بمباری کرتے رہیں جب تک حماس کی حکومت ڈوب نہ جائے۔ ہم نے تاریخ کی زبانی محض اتنا ہی سنا تھاکہ اندلس کے بعض حکمران کچھ شہر اور قلعے عیسائیوں کے حوالے کردینے کی سازش کیا کرتے تھے، لیکن مسلمانوں کو قتل کرنے، ان کے گھروں کو تاراج کرنے اور ان کے علما وقائدین کو مٹانے کی سازشوں میں برابر کے شریک ہوں ، ایسا تو نہیں ہوتا تھا۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک مسلمان حکومت دشمنان اسلام کی نیابت کرتے ہوئے ایک مسلم آبادی کا محاصرہ کرلے گی،  فولادی دیوار کھڑی کرکے سامانِ زندگی پہنچانے کے تمام راستے بند کردیے جائیں گے۔ ہم نے قدیم حاکموں کے بارے میں ایسی خیانتیں تو نہیں سنیں۔ زیادہ سے زیادہ جو ہم نے سنا وہ یہ کہ صلیبی فوجیں جب اندلس کے مسلمانوں کا محاصرہ کرتی تھیں تو کچھ   خائن حکمراں خاموش تماشائی بنے رہتے تھے، لیکن ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ محاصرے میں شریک بھی ہوجائیں ، اور محاصرہ سخت سے سخت کردینے کی ساری مجرمانہ کوششیں کرڈالیں، اور اپنے مسلمان بھائیوں پر زمین، سمندر اور فضا کے سارے راستے مسدود کردیں۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بہت سی مسلمان حکومتیں اپنے ملازموں اور عہدے داروں کے پیچھے جاسوس لگادیں گی، جو نیک ہوگا اور نیکی کی طرف بلائے گا، وہ معتوب ہوگا اورملازمت سے ہٹادیا جائے گا،جب کہ دوسری طرف چوروں، بدکاروں اور رشوت خوروں پر نوازشیں ہوں گی۔ اور یہ ہوا، کچھ مسلم حکومتوں نے اسکولوں اور کالجوں اور تربیتی اداروں سے صالح اساتذہ کو برخاست کردیا، فوج میں سے ہر اس شخص کو نکال دیا جس پر نیک ہونے کا شبہہ ہوا، خواہ اس کی نیکی کا ثبوت محض ایک نماز ہو، جو وہ یہ سمجھ کر پڑھ رہا تھا کہ مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے، اور ’قومی سلامتی‘ کا ذرا سا خطرہ جس میں بھی نظر آیا، وہ ملعون قرار پایا۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک مسلم حکمران مسجدیں بنانے سے روک دے گا، یا انھیں شہید کردے گا، اسلامی کتابیں تقسیم کرنے پر روک لگائے گا اور دین کا کام کرنے والوں کو دشمن بتاکر  ان کو روزگار سے محروم کردے گا، یا ذرائع ابلاغ میں اپنی بات کہنے سے روک دے گا۔ یہ سب کچھ ہوا، اور بہت سارے مسلم ملکوں میں ہوا، کہیں کچھ کم، کہیں کچھ زیادہ۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ زنااور بدکاری کو حکومت کی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہوگا۔ پیشہ ور عورتیں ٹیکس ادا کریں گی، وقفے وقفے سے ان کا طبی معائنہ ہوگا، تاکہ بیماریوں سے حفاظت اور زنا کے لیے اطمینان کا یقین حاصل ہوسکے، اور یہ سب قوانین اور ضابطوں کے تحت ہوگا۔ آج بعض مسلم ملکوں میں یہ سب ہورہا ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بیش تر مسلم ممالک قانون سازی کے ذریعے سود کو حلال کریں گے، اس کی بنیاد پر بنک قائم کریں گے، اور اپنے معاشی نظام کو اس سے باندھ لیں گے، مگر یہ بھی دیارِ اسلام میں ہوا۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب جہاد ننگ وعار بن جائے گا،  اسے ناپسندیدگی اور کراہیت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اسے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے برابر سمجھا جائے گا۔ جہاد اور مجاہدین سے لوگ بدگمان ہوجائیں گے، حالانکہ مجاہدین تو ہمیشہ سے امت میں قابل رشک اور سرمایۂ افتخار رہے ہیں۔
  • کسی نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی عورتیں بیش تر لباس سے آزاد ہوجائیں گی۔ اسلامی ملکوں کے سرکاری ٹی وی چینلوں سے عشق ومحبت کے مناظر بلکہ اور آگے بڑھ کر بیڈروم کے مخصوص مناظر دکھائے جائیں گے۔ ماضی میں تو اس کا تصور ہی نہ تھا، مگر آج بلادِ اسلامیہ میں یہ بلااتنی عام ہے کہ اعتراض کرنے والے خال خال ملتے ہیں۔
  •  شراب کو آج لائسنس ملتا ہے، اکثر اسلامی ملکوں میں اس کی فیکٹریاں ہیں،جہاں وہ بنائی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اسے برائیوں کی جڑ بتایا تھا، آج شراب بنانے، اس کی تشہیر کرنے اور اسے پینے میںہم کافروں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی اسلامی ملکوں میں یہ بھی ہوگا۔
  • وہ مسلمانوں کے عروج اور اقتدار کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں کسی نے نہ دیکھا اور    نہ سناکہ کوئی فقیہ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے گرم جوشی اور تپاک سے مصافحہ کرے اور دشمنِ خدا و رسولؐ کے ساتھ ایک اسٹیج پر تشریف فرما ہو۔ انھوں نے یہ بھی نہیں سنا کہ کوئی فقیہ اسلام کہے کہ دشمنان اسلام اگر پردے اور حجاب پر پابندی لگاتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور وہ غلط نہیں کرتے۔ انھوں نے یہ بھی نہیں سنا کہ ایک فقیہ نقاب کے خلاف جنگ چھیڑدے اور اسے جاہلی دور کی ذلیل عادت قرار دے۔ یہ بھی نہیں سنا کہ کوئی فقیہ کہے کہ مسلمانوں کا محاصرہ کرنا، انھیں بھوکا مارنا اور انھیں ذلیل ورسوا کرنا جائز ہے۔ یہ بھی نہیں سنا کہ کسی فقیہ سے لوگوں نے کہا ہو کہ دعا کیجیے کہ مسجد اقصیٰ شہید نہ کردی جائے، تو وہ کہہ دے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک زمانہ مسلمانوں پر ایسا بھی آئے گا کہ اللہ کو بُرا کہنے پر   زیادہ تر مسلم حکمراں خاموشی سادھ لیں، لیکن کسی حاکم کو برا کہنے پر ساری دنیا میں غل مچ جائے۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ دیارِ اسلام میں ایسے رسالے اور اخبارات عام ہوجائیں گے جن میں نیم عریاں عورتوں کی تصویریں ہوں گی، بے حیائی اور بدکاری کی تبلیغ ہوگی اور لادینی اور سیکولر نظریات کی ترویج کی جائے گی۔ صالحین کو انتہاپسندی کی تہمت لگاکر بدنام کیا جائے گا، جب کہ عورتوں اور مردوں کے بے قید اختلاط کی دعوت دی جائے گی۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بہت سارے اسلامی ملکوں میں فحش اور ملحدانہ ناول اور افسانے چھپیں گے اور سرکاری انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ۱۴۳۱ھ محرم کے مہینے میں ازہرکے مشایخ کی جانب سے بیان آئے گا کہ وہ عیسائیت پر ایمان رکھتے ہیں، اور عیسائیت کا ان کے دل میں احترام ہے اور چند کمزور آوازوں کے سوا کوئی اس کفر کے خلاف نہیں بولے گا۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کافروں اور ملحدوں کو بیش تر اسلامی ملکوں میں جانے کی اجازت ہوگی اور انھیں ساری سہولتیں دی جائیں گی، لیکن اکثر مسلمانوں کو کسی دوسرے اسلامی ملک میں جانے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑیں گے، اور بعض مسلمانوں پر وہاں کے دروازے بند ہوں گے۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اسلامی ممالک میں دشمنانِ اسلام کے سفارت خانے ہوں گے، اور ان کے ساتھ تجارتی معاہدے ہوں گے۔ وہ دشمنانِ اسلام جو سرزمین اسلام پر قابض ہیں، اور مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ وہی جب کچھ اسلامی ملکوں میں آئیں گے تو ان کا شان دار خیر مقدم ہوگا، اور پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچائی جائیں گی۔ ان سازشوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور ان میں سے بہت سی منظر عام پر آچکی ہیں۔
  • کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کچھ کافر مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں گے، ان کے لیے امدادی قافلے بھیجیں گے، اوراس کے لیے انھیں مسلمانوں ہی کے ہاتھوں مار بھی کھانا پڑے گی، ذلت ورسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور شدید موسم میں ریگستانوں میں بسیرا کرنا پڑے گا۔ محض اس لیے کہ چاروں طرف سے گھرے ہوئے بھوکے اوربیمار مسلمانوں تک امداد پہنچاسکیں،  جب کہ زیادہ تر مسلمان چین کی نیند سوتے رہیں۔ گویا ان کا مظلوم مسلمانوں سے کوئی رشتہ ہی نہیں!

آہ ! وہ سب کچھ ہوا جو اہلِ اسلام نے دُور دُور تک نہیں سوچا تھا، آج کے جرات مند    علما اور فقہا کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور درپیش مسائل اور حالات وواقعات پر سوچنے اور  بے لاگ فیصلہ سنانے کا فریضہ ادا کرنا ہوگا!آہ ! اہلِ ایمان گوشۂ تنہائی میں کب تک رہیں گے،کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہے گویا اندھیری رات میں بھیڑوں کا گلہ بھٹک رہا ہو اور کوئی ان کا رکھوالا نہ ہو!!

ایوانِ صنعت و تجارت لاہور نے معاشی ترقی کے لیے ۲۰۲۰ء تک پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے   کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کر کے بنیادی خطوط طے کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔   اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیدمنور حسن کا چیمبر سے ۴ مارچ ۲۰۱۰ء کا خطاب پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

معیشت کوقومی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن پے در پے حکومتوں کی ناسمجھی، عاقبت نااندیشی اور لوٹ مار نے ملکی معیشت کا جو حال کیا ہے اس سے آپ سے زیادہ کون واقف ہوگا۔ چینی حاصل کرنے، ہوش رُبا بل جمع کروانے، بلکتے بچوں کے لیے دوا حاصل کرنے، حتیٰ کہ اپنے رُوٹ کی گاڑی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے خوار ہوتے عوام کو تو ملکی معیشت کو سمجھنے کے لیے مزید شواہد کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن جو لوگ اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرنے کے ہنر سے آراستہ ہیں وہ نسبتاً زیادہ مایوس نظر آتے ہیں۔

قومی وقار کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کے بعد پاکستان کی خودمختاری حتیٰ کہ سلامتی تک کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ ملک پر بیرونی قرضے ۵۵ ارب ڈالر سے زائد ہوچکے ہیں۔ اندرونی قرضے ۴۳ کھرب روپے ہوچکے ہیں۔ امریکی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے گذشتہ برس کے دوران ۸ ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ’’پھر بھی ہم سے     یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں‘‘۔ ہماری قیادت نے قوم کے لیے وہ راستہ چنا ہے جس میں ہمیں سیکڑوں پیاز بھی کھانے پڑ رہے ہیں اور سیکڑوں جوتے بھی۔ امریکی غلامی کے اس تاوان کے ساتھ ساتھ ہمیں جو قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ملک امریکی کالونی بن چکا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کی سیکورٹی بلیک واٹر کے تربیت یافتہ حضرات و خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں شراکت کی بنیاد پر طے شدہ پاکستان کا حصہ تک ادا نہیں کیا جا رہا اور پاکستان کے سربراہِ مملکت تک ۶ئ۱ ارب ڈالر کی معمولی رقم کے لیے ایک سے زائد مرتبہ امریکا کی منتیں کرچکے ہیں۔ ملک کے وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سے پاکستان کو مدد نہ ملی تو بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ بدامنی اور لُوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور نام نہاد فرینڈز آف پاکستان کو ملکی معاملات کو نچلی سطح تک بھی براہِ راست چلانے کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔

کالعدم این آر او سے فائدہ اٹھانے والے تین درجن سے زائد افراد ملکی سیاسی سیٹ اَپ کا حصہ ہیں، جن کے سرخیل ملک کے سربراہ ہیں۔ بدعنوانی اور بدانتظامی جب کہ ٹیکس چوری اور امرا کو حاصل بے جا مراعات کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً ۸۰۰ ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بنک کی پالیسیوں کی وجہ سے امیر اور غریب طبقات میں فرق بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ گذشتہ دس سال میں تقریباً ۵ ہزار ارب روپے غریب اور متوسط طبقے سے مال دار طبقات کو منتقل ہوچکے ہیں۔ گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصے میں ۱۶ ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔ گذشتہ تین برس میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ۷ئ۲۶ فی صد کمی آچکی ہے۔

بھارتی ہٹ دھرمی اور پاکستانی اربابِ اقتدار کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں اور اب بات صرف بجلی کے بحران تک محدود نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ قحط سالی تک پہنچتی نظرآرہی ہے۔ دریائوں کے بہائو میں ۲۱ فی صد اور ذخیرہ شدہ پانی میں ۳۴ فی صد کمی آچکی ہے۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے میں جو تنزل نظر آرہا ہے اس کی ایک وجہ اگرچہ بارشوں کا کم ہونا بھی ہے لیکن زیادہ اہم وجہ کسانوں کو ان کی محنت کاپھل نہ ملنے کی وجہ سے ان میں پائی جانے والی مایوسی ہے۔

ان حالات میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی محدود تبدیلی کافی نہیں ہوگی۔ اس موضوع پر تیار کی جانے والی لاتعداد سرکاری اور غیرسرکاری رپورٹوں میں جو سفارشات دی گئی ہیں اور جو خود آپ کے چیمبر کے پیش نظر بھی ہیں، موجودہ نظام میں رہتے ہوئے شاید ان سے بہتر تجاویز نہیں دی جاسکتیں۔ ضرورت ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی کی ہے، ایک ایسی تبدیلی جس میں سوچ، زاویۂ نگاہ، عمل کا انداز اور رویے و رجحانات سب میں بہتری لائی جائے۔ میری کوشش ہوگی کہ مختلف شعبہ ہاے زندگی میں ہمارے پیشِ نظر انتظامی تبدیلیوں اور اصلاحات کو بیان کرنے کے بجاے اس پورے فریم ورک کو آپ کے سامنے رکھ سکوں جو ہماری دانست میں پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی کے ہر منشور میں وہ اقدامات متعین طور پر بیان کردیے گئے ہیں جو اس ideals تک پہنچنے کے لیے ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ اگر آپ ان منشورات کا مطالعہ کریں تو آپ کو ایک تسلسل اور ربط نظر آئے گا جو آپ کو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ہماری سوچ کی پختگی اور سنجیدگی کا بھی احساس دلائے گا۔

پاکستان کے قیام کے ۶۳ برس بعد یہ کہتے ہوئے بھی دکھ محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے تشخص اور اس کی منزل کا تعین کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے نظریاتی تشخص یا قومی اہداف کے حوالے سے ہم بالکل تہی دست ہیں، ملک کے ۱۶کروڑ عوام نہ صرف اس سے باخبر اور آگاہ ہیں بلکہ اس کے لیے ہرقربانی دینے کو تیار بھی ہیں۔ ملک کا آئین ان بنیادوں کو غیر مبہم انداز میں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ صرف اس ملک کے حکمرانوں کو اپنے طرزِعمل اور قومی پالیسیوں کو اس سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ترقی اور بڑھوتری کی باتیں محض ایک خواب ہوں گی۔

اس کے ساتھ ہمیں ترقی کے مفہوم کو درست طور پر متعین (redefine) کرنا ہوگا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام میں ترقی صرف معاشی نموتک محدود ہے۔ گویا اس نقطۂ نظر کی رُو سے انسانی ترقی میں بنیادی اہمیت روپے پیسے (money) کو حاصل ہے، جب کہ انسانی فلاح محض اس کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔ ہمیں اپنے نقطۂ نظر کے مطابق انسانیت کی فلاح کو اپنا محور قرار دینا ہوگا اور معاشی بڑھوتری محض اس کا ایک مظہر ہوگا۔ انسانی خوبیوں کو پروان چڑھانا اور ان میں اخوت و محبت پر مبنی ایسے تعلقات کو استوار کرنا ہمارا مطمحِ نظر ہوگا جس میں تعلق کی بنیاد انسانیت ہو نہ کہ پیسہ۔ اس حوالے سے ہمارے لیے کسی فرد کی جسمانی،سماجی اور اخلاقی ترقی بھی اسی قدر اہم ہوگی جتنی موجودہ دنیا میں اس کی معاشی ترقی ہے۔

  • ھمہ جھت حکمت عملی کی ضرورت: اس وژن کو اگر قابلِ عمل اقدامات کی صورت میں ڈھالا جائے تو ہمیں پانچ جہتوں میں بیک وقت کام کرنا ہوگا جن میں سے ہر ایک دوسرے سے وابستہ ہے: ۱- معاشی،۲-سماجی، ۳- انتظامی، ۴-اخلاقی اور ۵- تزویراتی یعنی اسٹرے ٹیجک۔ اس مقصد کے لیے اگلے دس سال کے لیے ایک فریم ورک تجویز کیا جاسکتا ہے۔ اس ساری کاوش کا ہدف ایک اسلامی، منصفانہ، ترقی پسند (progressive)، اور خوش حال معاشرے کا قیام ہے۔

جب ہم ان پانچ جہتوں میں کام کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر ان پانچوں میں سے اخلاقی جہت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور زندگی کے دیگر تمام دائروں میں اس کا عملی نفاذ ہوگا۔ If character is lost, everything is lost شاید ایک گھسا پٹا جملہ محسوس ہو لیکن  یہ زندگی کے پورے فلسفے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہم جس معاشرے کے قیام کے لیے  کوشاں ہیں اس میں معاشی، سماجی، انتظامی اور اسٹرے ٹیجک تمام پہلوئوں میں اسلام کے دیے گئے بلند ترین اخلاقی معیارات کی جھلک نظر آئے گی۔

  • معاشی پھلو: معاشی میدان میں ترقی کے لیے ایک ایسا معاشرہ ہمارے پیش نظر ہے جس میں وسیع البنیاد (broad based) اور پایدار (sustainable) معاشی ترقی کا ہدف اس انداز میں حاصل کیا جائے کہ عوام کے مختلف طبقات کے درمیان سماجی و معاشی بنیادوں پر فرق کم سے کم ہو اور ہر ایک کو ملازمت اور زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی ہو۔ اس مقصد کے لیے ہمارے اگلے دس سال کا ہدف مسلسل اور وسیع تر بنیادوں پر جی ڈی پی میں سات سے آٹھ فی صد اور فی کس آمدن میں پانچ سے چھے فی صد اضافہ ہے۔ کم آمدن والے ۲۰ فی صد پاکستانیوں کے قومی آمدن میں سات فی صد حصے کو بڑھا کر ۱۵ فی صد کیا جائے گا تاکہ معاشی ناہمواریوں میں کمی کی جاسکے۔ بے روزگاری کی شرح کو ۵ فی صد تک لانا اور تمام شہریوں کے لیے فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانا بھی اسی ہدف کا حصہ ہے۔

مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جمع شدہ رقوم گردش میں لانے کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ، سرمایہ کاری میںاضافے اور برآمدات کے حجم میں ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ معیشت کے تمام شعبوں میں تعلیم و تربیت کی اعلیٰ سہولیات فراہم کی جائیںاور R & Dکی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے جدید ترین ٹکنالوجی اوراعلیٰ انتظامی معیارات کو عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے مؤثر انفراسٹرکچر ناگزیر ہے۔ معاشی میدان میں ان شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی جن کے نتیجے میں ملازمتیں پیدا ہوں اور ملکی مصنوعات میں اضافہ ہو۔ خصوصاً ایسے شعبہ جات کو ترقی دی جائے گی جن کے potential سے اب تک درست طور پر استفادہ نہیں کیا گیا، مثلاً سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس کو اپنی اقدار و روایات کی پاس داری کے ساتھ پروان چڑھاکر بڑے معاشی، سماجی اور اسٹرے ٹیجک فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے لیے خصوصی مراعات اور اقدامات (incentives & initiatives) کے ذریعے پیداواری صلاحیت، اعلیٰ ترین معیار اور تیار و خام مال کی سٹوریج کے ساتھ ساتھ  ڈسٹری بیوشن کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔

  • سماجی پھلو: سماجی میدان میں ترقی کے لیے ہر پاکستانی کے لیے بلاامتیاز شہری سہولیات اور مساوی مواقع کی فراہمی، تعلیم، صحت، صفائی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ذریعے انسانی استعدادِ کار میں اضافے، نادار اور ضرورت مند خواتین و حضرات کے لیے سوشل سیکورٹی کے شفاف اور ہمہ گیر نظام اور پاکیزہ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ہرسطح پر سادگی پر مبنی طرزِ زندگی کے فروغ کے ساتھ ساتھ کنزیومر کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ایسے انسانی رویے پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے گی جن پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں انسانوں کے درمیان امتیازات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

سماجی شعبے میں اگلے ۱۰ برسوں میں مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرکاری طور پر سوشل انفراسٹرکچر پروان چڑھایا جائے گا جس کے ذریعے تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ خصوصی توجہ کے محتاج افراد اور علاقوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ایسے منصوبے تیار کیے جائیں جن کی مدد سے ان افراد اور علاقوں کو قومی زندگی میں زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ اس سب کے ساتھ ہمارے پیش نظر یہ بھی ہے کہ انسانی ترقی اور نشوونما کے لیے بہتر ماحول ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم کا ایک ایسا یکساں نظام مرتب کیا جائے گا جو ہماری ملّی اقدار، قومی اہداف اور سماجی و معاشی حکمتِ عملی سے ہم آہنگ ہو۔ ہم تمام قومی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں صاف ماحول کی فراہمی کو پیشِ نظر رکھیں گے۔

  • انتظامی پھلو: انتظامی حوالے سے کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی، انصاف اور عدل پر مبنی نظام ناگزیر ہے۔ جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کے بہتر سے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے نہ صرف جان، مال، آبرو کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے بلکہ بلاامتیاز حقوق کی فراہمی اورایک دوسرے کے اعتقادات اور نقطہ ہاے نظر کا احترام بھی لازم ہے۔ عدلیہ، انتخابی اداروں، ادارۂ شماریات، اسٹیٹ بنک اور دیگر احتسابی اداروں کی مکمل خودمختاری اور غیرجانب داری کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ مثبت طور پر پیش کی گئی کسی بھی تنقید یا آرا پر کسی قسم کی کوئی قدغن فکروسوچ اور ترقی کے جذبے کو ماند کردیتی ہے۔

ان انتظامی اصلاحات کو عملی صورت دینے کے لیے عدالتی عمل کو شفاف اور فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ کرپشن، انتقامی رویوں اور اداروں میں انتظامی و سیاسی حوالوں سے مداخلت کے کلچر کو ختم کر کے خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر کارکردگی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اسلام کے شوریٰ کے اصول کو ہروقت اور ہرحوالے سے مدنظر رکھتے ہوئے ہرسطح پر جمہوری اور نمایندہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ تمام سرکاری اداروں میں مسلسل جائزے اور احتساب کے ذریعے کارکردگی میں مسلسل بہتری کو یقینی بنایا جائے گا۔

  • اخلاقی پھلو: ملکی قیادت کا کام صرف وسائل کی تقسیم اور انتظام ہی نہیں بلکہ قوم کی رہنمائی اور قومی کردار کی تشکیل بھی اس کی ذمہ دری ہے۔ اس حوالے سے قومی کردار کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کی سوچ اور اُمنگوں کے مطابق ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں جبر کا ماحول پیدا کیے بغیر ذاتی احساس کی بنا پر بھلائی کے فروغ اور برائی کا راستہ روکنے کا کلچر پیدا ہو۔ افرادِ معاشرہ میں خداخوفی، دیانت داری، قانون پسندی اور رواداری کی خصوصیات پیدا کی جائیں۔ انسانی حقوق کی پاس داری اور مردو خواتین کے درمیان توازن کی بنیاد پر کردار کاتعین ہو، جس کے نتیجے میں ہر فرد کی استعدادِ کار میں اضافہ اور صلاحیتوں کا بہتر سے بہتر استعمال ممکن ہو۔

افرادِ معاشرہ میں ان اخلاقی خوبیوں کو پیدا کرنے کے لیے اسلام کے پورے نظام اور  اس کی بنیادوں کو کسی افراط و تفریط کے بغیر ایک تدریج اور تسلسل کے ساتھ قومی کردار کا حصہ بنایا جائے گا۔ تعلیم و تربیت اور میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے روایتی اور غیرروایتی طریقوں سے اسلامی ثقافت، قانون کے احترام، اور دیگر ذاتی و اجتماعی خوبیاں پیدا کرنے پر زور دیا جائے گا۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا جس میں مثبت اور تعمیری سوچ پروان چڑھے۔

  • اسٹرے ٹیجک پھلو: جب ہم قومی زندگی کے اسٹرے ٹیجک پہلو کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر ہوتا ہے کہ ہم ملک میں سیاسی استحکام اور قابلِ اعتماد دفاعی صلاحیت کے ساتھ پایدار ترقی کو یقینی بنائیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ خودانحصاری کی بنا پر علاقائی تعاون کو یقینی بنائیں اور پاکستان کو اس قابل بنائیں کہ عالمی سطح پر اس کو ایک قابلِ قدر مقام دلایا جاسکے۔ اس سب کے لیے اندرونِ ملک اس بات کو تسلیم کرنا اور عالمی سطح پر اس کا پرچار کرنا ضروری ہوگا کہ مختلف علاقوں، اعتقادات اور کمیونٹیز کے لوگوں کے طرزِ زندگی کا احترام کیے بغیر امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

اسٹرے ٹیجک اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہرسطح پر آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ ملکی دفاع کو مضبوط اور ایسی داخلہ و خارجہ پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جن سے پاکستان کے دوستوں میں اضافہ اور دشمنوں میں کمی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بداندیش حکومتوں اور گروہوں کے خلاف ایک مضبوط سدِّجارحیت بھی حاصل ہو۔ ملکی وسائل کے بہتر اور زیادہ سے زیادہ استعمال اور مصنوعی طرزِ زندگی کی حوصلہ شکنی کے ذریعے خودانحصاری کو قومی شعار قرار دیا جائے گا۔ علاقائی ممالک اور تنظیمات کے ساتھ معاشی میدان میں قریبی تعاون کے ساتھ ساتھ دیگر امور پر بھی انھیں ہم خیال بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک واضح سوچ اور وژن کے ساتھ بین الاقوامی فورموں پر فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملکی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ ہمارے پیشِ نظر ہے کہ  ملکی سلامتی اور وقار پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر باہم مفاہمت اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔

میں آپ کے سامنے ایک واضح سوچ اور لائحۂ عمل کے ساتھ یہ تمام باتیں رکھ رہا ہوں اور مجھے اس بات کا بھرپور احساس ہے کہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے قومی اداروں کی مضبوطی کو یقینی بنانا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہے کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت عوام میںسے ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل اور اُمنگوں سے آگاہ اور ان کے حل کے لیے افرادی اور فکری صلاحیتوںسے مالا مال ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کم از کم کسی مشترکہ ایجنڈے پر قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے۔

پاکستان کے مسائل کا ایک بڑا حصہ اس صورت میں حل ہوسکتا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد ہو۔ نہایت خوش نما اور جامع منصوبے بھی اپنے اعلان کے پہلے ہی دن سردخانے میں ڈال دیے جاتے ہیں کیونکہ نہ تو عوام کو ان کی تنفیذ کا یقین ہوتا ہے اور نہ ہی حکمران فی الواقع ان کو رُوبہ عمل لانا چاہتے ہیں۔ اگر حکمرانوں پر عوام کا اعتماد بحال ہوجائے تو پاکستانی عوام واقعتا ایک جان ہوکر بہتری کی سمت سفر کرسکتے ہیں۔ الحمدللہ ہمیں یہ اعتماد حاصل ہے۔

ماحولیات سے متعلق مسائل گو کہ جدید دور کی پیداوار ہے(بالخصوص ۲۰ویں صدی) ۔اس وقت انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے میں ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے، لہٰذا اب ماحولی مسائل اور ان کاحل عالم انسانی کا سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ فطری ماحول کی خرابی نے اب انسانی وجود کی بقا پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

خالق کائنات جو کہ عالم الغیب بھی ہے، بھلا اس سے کیسے بے خبر رہتا؟ اسی لیے اس نے اپنے دین ’اسلام‘ کی تکمیل کے ساتھ نبی آخر الزماں کے توسط سے انسانوں کو ’ماحولیات‘ سے      متعلق جامع رہنمائی دی۔ اگر ان ہدایات پر عمل ہوتا تو ہم ماحولیاتی مسائل سے ناآشنا رہتے۔          بعد از خرابیِ بسیار، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس دینِ فطرت کی رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں اور    عالم انسانی کو اس خدائی ہدایت سے روشناس کرائیں۔ ذیل کے مقالے میں ماحولیات سے متعلق اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

اسلام ماحول اور اس سے متعلق مسائل پر ایک ہمہ جہتی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ اسلام انسان کے دیگر جان داروں (نباتات و حیوانات) ، طبعی ماحول اور سماجی ماحول سے متعلق واضح ہدایات رکھتا ہے۔ انسان اور ماحول کے درمیان تعاملات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات جامع اور کافی ہیں۔

فطری ماحول کی اہمیت و افادیت قرآن اور احادیث میں جابجا آئی ہے۔ قرآن میں احکامات والی آیات کی نسبت ان آیات کی تعداد زیادہ ہے جن میں فطرت اور فطری مظاہر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس لیے فطرت کا مطالعہ اہلِ ایمان پر ضروری قرار پاتا ہے(محمد کلیم الرحمن، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی ۱۹۹۷ئ، ص ۱۴۶)۔ اس طرح کی کچھ آیات اپنے مقام پر زیر بحث آئیں گی۔ اسی طرح اسلام کا دوسرا ماخذ سیرتِ رسولؐ سے بھی ہمیں ماحولیات کے گوناگوں پہلوئوں پر رہنمائی ملتی ہے۔ بالخصوص قدرتی وسائل کا استعمال اور ان کا تحفظ، وسائل کا مناسب استعمال، ان میں اسراف سے پرہیز وغیرہ۔ انھی تعلیمات کے بدولت اسلامی تمدّن میں آلودگی سے پاک ماحول کو پروان چڑھایا گیا ہے۔

ایک حدیث میں آپؐ سے روایت کیا گیا کہ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے، اور اس سے انسان اور پرندے فائدہ اٹھائیں اور اس کا اسے ثواب نہ ملے۔ جو کوئی مردہ زمین کو پیداوار کے قابل بنائے، اس کے لیے اس میں ثواب ہے۔(عبداللہ المامون، Saying of Muhammad، لاہور، ۱۹۰۵ئ، ص ۷۴-۷۶)

اللہ کے رسول حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔  حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی ، الجہاد فی الاسلام، دہلی ۱۹۷۴ئ، ص ۲۲۷- ۲۳۱)

اسلام کا نقطۂ نظر

’زندگی‘ قدرتی ماحول کا ایک اہم ترین جز ہے۔ اللہ کی نظر میں زندگی خواہ انسانی ہو یا حیوانی دونوں کی قدرو منزلت ہے۔ایک اور حدیث کے ذریعے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہمیں چوپایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، ثواب کا مستحق بناتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر تر جگر، رکھنے والے جان دار کی فلاح پر ثواب کی بشارت دی گئی ہے(حوالہ سابق عبداللہ المامون، ص ۷۵)۔ حیوانی زندگی کی بقا کا اندازہ اسلام کی اس تعلیم سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ   ’’شکاری صرف کھیل کے لیے کسی جانور کا شکار نہ کرے‘‘۔ امام ابویوسف کے نزدیک: ’’وہ شخص جو قدرتی ماحول کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتا، اسلامی شریعت کے نفاذ کے مناسب طریقۂ کار کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ (احسان اللہ خان ،سائنس، اسلام اینڈ ماڈرن ایج، دہلی ۱۹۸۰ئ،ص ۵۴)

اسلام اپنے ماننے والوں سے صرف فطرت کی تعریف کے گن گانے کی توقع نہیں رکھتا، بلکہ اس کا مطالبہ تو یہ ہے کہ وہ خدا کی دیگر مخلوقات کے ساتھ اللہ واحد کی تسبیح بجا لائے۔ اسلام کے نزدیک ہر نوع کے جان دار ایک طرح کا گروہ ہیں، اور وہ سب آپس میں خیر خواہانہ تعلقات کے مستحق ہیں۔مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ وہ درختوں کے پھل ضرور کھائیں مگر اس کی شاخوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ انھیں جمے ہوئے پانی میں گندگی کے ذریعے کسی بھی قسم کی آلودگی پیدا کرنے سے منع کیا گیا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قیامت کو واقع ہوتا دیکھیں اور ان کے ہاتھ میں پودا ہو تو وہ اسے ضرور زمین میں لگادیں۔ قرآن آبی چکّر، فضا، نباتات، سمندر، پہاڑ وغیرہ کو انسان کے خدمت گار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس طرح اہلِ ایمان کے دل میں فطرت سے یک گونہ محبت پیدا ہوتی ہے، اور وہ فطرت کے ساتھ اچھا برتائو اختیار کرتے ہیں۔ (اے-آر-اگوان، اسلام اینڈ انوائرون منٹ، دہلی، ۱۹۹۷ئ، ص ۹-۱۰)

ماحول اور فطری قوانین سے متعلق نقطۂ نظر اپنی جڑیں قرآن میں رکھتے ہیں۔ قرآن صرف انسانوں ہی کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ پوری کائنات اس کے خطاب میں سموئی ہوئی ہے۔ وحی الٰہی فطرت کے مظاہر کو جا بجا پیش کرتی نظر آتی ہے۔ قرآنی آیات جہاں نفس انسانی کی پُرپیچ تہوں کو آشکارا کرتی ہیں، وہیں وہ فطرت کے رازوں پر سے بھی پردہ ہٹاتی ہیں۔ بعض اوقات قرآن غیرانسانی تخلیقات، مثلاً سورج، تارے، چاند، جانور اور نباتات وغیرہ کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ قرآن نے کبھی بھی انسان اور اس کے ماحول کے درمیان کوئی جدائی نہیں ڈالی۔ قرآن ہمیں یہ تصور دیتا ہے کہ قدرتی ماحول (کائنات) انسان کا دشمن نہیں ہے کہ جس پر اسے بزور فتح پانا ہے، بلکہ یہ کائنات اس کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہے ۔ یہ نباتات و جمادات نہ صرف انسان کے اس دنیا کے ساتھی ہیں بلکہ وہ آخرت میں بھی انعام کی حیثیت میں ان کا ذکر کرتاہے۔(سید حسین نصر، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی، ۱۹۹۷ئ،ص۱۷)

اہلِ ایمان اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں کہ قرآن مظاہر فطرت کو اللہ کی نشانی قرار دیتا ہے، جس طرح اس کا اپنا نفس بھی اللہ کی نشانی ہے۔ وہ کتابِ کائنات کا قاری بن جاتا ہے، اور اس کے اسباق (مظاہر فطرت) میں اللہ کی نشانیوں(آیات) کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس کتابِ کائنات کے مصنف (خالق کائنات) کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن اس کائنات کو خالق کی پہچان کا ذریعہ بناتا ہے۔جس کے ذریعے ہمیں اس کی بے شمار صفات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس کی حکمت اور اس کائنات کی مقصدیت کے ساتھ ساتھ انسان اپنی زندگی اور مقصد وجود کو پاسکتاہے۔ سید حسین نصر نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’یہ فطرت کے مظاہر، لاتعداد مساجد ہیں، جن میں اللہ تعالی کی بے شمار صفات پنہاں ہیں۔ یہ صفات ان لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں جن کی باطن کی آنکھ خود غرضانہ نفسیاتی خواہشات سے اندھی نہ ہوگئی ہوں‘‘(ایضاً، ص۱۷)۔ قرآن و سنّت کی اس طرح کی ان گنت تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ اہلِ ایمان فطرت کے تئیں اپنے دل میں محبت و الفت کے جذبات موج زن پاتے ہیں۔

ماحولیات: بنیادی تصورات

ماحولیات سے متعلق اسلامی تعلیمات ، اس وقت تک نہیں سمجھی جاسکتیں جب تک کہ ہم اسلامی نقطۂ نظر سے فطرت انسانی کا تعین نہ کریں۔

اسلام کے مطابق ہر انسان فطرت کا امین ہے۔ اس لیے اسے دیگر مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگی بنائے رکھنی چاہیے۔ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ (نائب) ہے، لہٰذا اسے خدائی احکامات کی پابندی کرنی چاہیے۔ اللہ اس کائنات کا رب ہے، بطور نائب انسان کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ    حتی المقدور قدرتی ماحول کی بقا اور نمو کے لیے کوشاں رہے۔اگر انسان فطری ماحول کے تحفظ و بقا کی جانب سے بے پروا ہوجاتا ہے تو وہ، اپنی اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہوگا، جو اسے اللہ کی جانب سے حاصل ہوتی ہے(ایضاً، ص ۲۱-۲۲)۔ قرآن کہتا ہے :’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ، تمھارے لیے مسخّر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اسی کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے‘‘ (الطلاق ۶۵:۲۲)۔ یہاں لفظ ’مسخّر‘ سے مراد صرف فطرت پر فتح پانا نہیں ہے، جیسا کہ کچھ مسلم افراد نے دعویٰ کیا ہے، بلکہ اس کے معانی فطرت پر تسلّط کے ہیں، اور تسلّط بھی بے قید نہیں بلکہ خدائی ہدایات کے تابع ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسان اس زمین پر خدا کا خلیفہ ہے اور اسے حاصل اختیار، دراصل خدائی عطیہ ہے۔

ماحول کی تباہی اور بربادی کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی بات خطرناک نہیں ہوسکتی کہ انسان ، فطرت پر اپنے تصرّف کو خدائی ہدایات سے بے نیاز ہوکر استعمال کرے۔ انسان کو بذات خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسے جو کچھ اختیارات ملے ہیں، وہ سب اللہ کے عطا کردہ ہیں۔ خواہ یہ اختیار اسے اپنے نفس پر ہو یا اس کائنات پر ، کیونکہ وہ ان میں سے کسی کا خالق نہیں ہے۔ اس لیے اس کو خلیفۃ اللہ کی حیثیت سے ہی ان اختیارات کاذمّہ دارانہ استعمال کرنا چاہیے۔ (حوالۂ سابق سید حسین نصر، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، ص۲۲-۲۳)

سید حسین نصر نے بجا طور پر کہا ہے کہ اسلامی تمدّن نے آج تک علم کو فطرت سے محبت ، اور ماحول کی حقیقت ، کو اللہ کی نشانیوں کے ساتھ مربوط کیا ہے۔ اسلام اپنے اخلاقی نظام میں ( جس کی جڑیں وحیِ الٰہی میں پیوست ہیں اور جو خدائی احکامات کے تحت ہے) انسان کے غیرانسانی مخلوقات کے ساتھ رویّے کو طے کرتا ہے، اور ان کے تئیں انسان کو اس کے فرائض اور ذمّہ داریاں یاد دلاتا ہے (ایضاً، ص ۳۴)۔ماحول سے متعلق انسانی رویّے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے چند بنیادی تصورات کا فہم حاصل کریں۔

انسان بحیثیت امین

قرآن کا تصورِ امانت ماحول کے متعلق انسانی رویّوں کو طے کرنے میں بہت مدد گار ہوتا ہے۔قرآن کہتا ہے: ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے، اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے‘‘ (الجن ۷۲:۳۳)۔ یہاں امانت سے مراد وہ اختیار ہے جو کسی شے پر کسی شخص کو دیا جائے۔ یہاں پر اس شخص سے اس بات کی توقع ہوتی ہے کہ وہ اسے اختیار دینے والے کی مرضی کے مطابق استعمال کرے، حالانکہ اسے اس کے خلاف بھی عمل کرنے کی آزادی حاصل رہتی ہے۔

انسان اس زمین پر خدا کا نائب ہے، اور اس نے اپنی آزاد مرضی سے اللہ کی امانت کو قبول کیا ہے، ساتھ ہی اس نے ارادہ و عمل کی آزادی کو بھی خالق کائنات سے اپنے حق میں منظور کیا ہے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لیے خالق کے سامنے جواب دہ قرار پائے اور خالق کائنات اس سے اپنی عطا کردہ آزادی و اختیار اور عمل کے بارے میں باز پُرس کرے۔ قرآن اس بات پر گواہ ہے کہ وہ قومیں جو امانت میں خیانت کی مرتکب ہوئیں اور اپنی آزادی کا بے قید استعمال کیا، آخر کار وہ تباہ و برباد ہوگئیں۔ (ھود ۱۱: ۸۴-۸۵)

کائنات کا توازن اور ھم آھنگی

انسان اس دنیا کا مالک نہیں ہے۔ زمین اور آسمان اور ان کے درمیان تمام چیزوں کا مالک حقیقی اللہ رب العالمین ہے (الانعام ۶:۲۰)۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات ،بشمول انسان کو اپنی بندگی اور تسبیح کے لیے پیدا کیا ہے (بنی اسرائیل ۱۷:۴۴، الحج ۲۲:۱۸، النحل ۱۶: ۴۹-۵۰)۔ اس طرح کی آیات انسان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ اسے قوانین فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا چاہیے جیسا کہ خالقِ کائنات کی مرضی ہے۔ مزید برآں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خدا نے ہر شے ایک مقصد کے تحت پیدا کی، اور وہ اشیا اپنی مقصد براری میں لگی ہوئی ہیں۔ اس لیے انسان کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ان کی دیکھ بھال اور ان کا تحفظ کرے، تاکہ فطرت میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ اللہ نے کائنات اور اس دنیا کی بہترین انداز پر تخلیق کی، زندگی کی بقا کے لیے متوازن نظام بنائے، اور ہر شے کو توازن و اعتدال کے ساتھ پیدا کیا اور ان کے درمیان میزان قائم کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے ہرچیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی‘‘ (الدخان ۴۴: ۵۴)، یعنی دنیا کی کوئی شے مستقل نہیں ہے۔ ایک منصوبہ بند طریقے پر اس کی پیدایش ، نشوونما اور خاتمہ ہوتا ہے۔

قرآن نے جس توازن اور میزان کا ذکر اپنی آیات میں کیا، اس سے تمام اشیا کے درمیان ایک دوسرے پر انحصار اور تعلق پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کی ساتھ ہی ہمیں کل کے ساتھ جز کے تعلق کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح گویا تمام مخلوقات آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط بندھنوں میں وابستہ ہونے کے ساتھ ایک عالمی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں انسان بھی شامل ہے۔ اسی لیے انسان سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ کائنات کے اس توازن و میزان کو برقرار رکھے کیونکہ یہ اسی کے حق میں ہے۔ عزالدین عبدالسلام نے صحیح ترجمانی کی کہ جب انھوں نے کہا کہ: معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے اپنی مخلوقات کو ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا بنا دیا، تاکہ ہر گروہ دوسرے گروہ کی فلاح و بہبود میں تعاون کرے۔ (عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی، ص۴۶)

کائنات انسان کی خادم ھے

اشیا کی تخلیق کا دوسرا  پہلو یہ ہے کہ انھیں انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخرکر رکھی ہیں‘‘۔ (طٰہٰ ۲۰:۳۱)

یہ اللہ کی انسان کے حق میں ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ کائنات کی اشیا اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں، جنھیں وہ اپنے تصرّف میں لاسکتا ہے۔اسی لیے اسے خالق کائنات کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اپنی دیگر آیات میں خدا نباتات اور حیوانات کا ذکر کرتا ہے جو انسان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ انسان کو اس بات پر قدرت حاصل ہے کہ وہ ان اشیا سے اپنی فوری ضروریات کے علی الرغم ان سے سماجی اور اجتماعی فوائد حاصل کرے(عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی، ص۴۶)۔ قرآن انسان کو مختلف جانوروں سے حاصل ہونے والے فائدے گنواتا ہے (یٰسٓ ۳۶:۷۱، المومن ۴۰:۷۹)۔ ساتھ ہی ان جانوروں کے کچھ حقوق عائد کرتا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی تعلیمات جانوروں سے متعلق قوانین میں اپنی مثال آپ ہے۔(عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی ص۶۵)

اس کائنات کے تمام اجزا، روشنی، ہوا، پانی، مٹی، چٹانیں، عناصر، نباتات و حیوانات وغیرہ بحیثیت مجموعی تمام مخلوقات اپنے اندر کچھ مقصد اور اقدار رکھتی ہیں جو ذیل میں دی جا رہی ہیں:   اشیا کی اپنی ذاتی قدر، چونکہ وہ خالق کی تخلیق ہیں، اور اس کی اطاعت و فرماںبرداری اور تسبیح و تحمید کرتی ہیں، اور بحیثیت مجموعی ماحولی نظام میں ان کی قدروقیمت، نیز انسان کے لیے روحانی بقا اور مادی وسائل کے لحاظ سے ان کی افادی حیثیت۔(ایضاً ، ص ۴۹)

قدرتی وسائل کی عادلانہ تقسیم

دراصل ماحولیاتی مسائل کی جڑ، ماحولی تباہی اور روحانی قدروں کی پامالی کی قیمت پر قدرتی وسائل کا استعمال ہے۔ کسی ملک یا قوم کے ذریعے قدرتی وسائل کے مصرفانہ استعمال کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہے، جیسا کہ آج کل ہورہا ہے۔ چند ممالک یا اقوام قدرتی وسائل کا تنہا مسرفانہ استعمال کرکے دیگر اقوام کو ان سے استفادے سے محروم کررہی ہیں۔ اسلام قدرتی وسائل پر نہ صرف انسانوں کا بلکہ دنیا کی تمام مخلوقات کا مساوی حق تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح مستقبل کی نسلوں کا بھی ان خدائی نعمتوں میں حق محفوظ رہنا چاہیے۔(ایضاً ، ص ۴۹)

ان تعلیمات کی روشنی میں ہم قدرتی وسائل کے استعمال کے سلسلے میں مبنی بر حق نقطۂ نظر  اپنا سکتے ہیں lقدرتی وسائل کا استعمال انسان کی مادّی اور روحانی ضرورتوں کے تحت ہو lقدرتی وسائل کے استعمال کے سلسلے میں دیگر انسانوں (موجود) اور آنے والی نسلوں کے حق میں دست درازی نہ ہونے پائے lقدرتی وسائل کا استعمال کسی بھی طرح سے (مثبت یا منفی) دیگر مخلوقات کے لیے نقصان دہ نہ ہو lانسان چونکہ خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہے اس لیے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس مسئلے کا مبنی بر عدل، حل تلاش کرے، تاکہ دنیا کی مجموعی ضروریات اور موجود قدرتی وسائل کے استعمال کے درمیان توازن و اعتدال باقی رہ سکے l قدرتی وسائل کا کسی ملک قوم کے ذریعے مصرفانہ استعمال یا ایسا استعمال جو دیگر انسانوں اور مخلوقات کے حق کے لیے نقصان دہ ہو، برداشت نہ کیا جائے l قدرتی ماحول کے تحفظ اور بقا کے لیے اسلامی اصولوں پر عمل کیا جائے۔ (ایضاً ، ص ۶۶)

قدرتی وسائل کا خود غرضانہ استعمال

قرآن، فساد فی الارض کی مرتکب دنیا کی قوموں کے انجام بد سے آگاہی دیتا ہے۔ یہ اپنے وقت کی متمدن، دولت مند اور طاقت وراقوام تھیں، لیکن ان کے اپنے بگاڑ کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوگئیں۔ قوم عاد، قومِ ثمود،آلِ فرعون وغیرہ ان قوموں کی تباہی کی وجہ ان کا ’مفسدین فی الارض‘ بتایا گیا۔ یہاں لفظ ’فساد‘ سے برائی، رشوت خوری، بے ایمانی، نیکیوں سے عاری حالت، سماجی   عدم اطمینان اور معاشرتی بگاڑ ، ظلم وجور ، تباہی و بربادی مراد ہے۔ اس لفظ کی مزید وضاحت    وقار احمد حسینی اس طرح کرتے ہیں: ’’یہ قرآن کی ایک جامع اصطلاح ہے، جو ہر غیر اسلامی کام سے روکتی ہے۔ قرآن میں تقریباً ۵۰ مقامات پر اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اسے ہم تمام بڑی اخلاقی برائیوں و جرائم کے ساتھ بُرے اور نقصان دہ خیالات، سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس میں انسانوں کے لیے نقصان دہ سائنسی، تکنیکی، سماجی، معاشی اور سیاسی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ اس لفظ کے ذریعے قرآن انسان کو اس کے برے اعمال کے بھیانک انجام سے آگاہ کرتا ہے‘‘۔ اس طرح مسلمانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے غلط اور بے قید منصوبوں کے خلاف ایک مضبوط بیداری پیدا ہوتی ہے۔(ایس، وقار احمد حسینی، اسلامک تھاٹ، گڈورڈ بکس، نئی دہلی، ۲۰۰۲ئ، ص ۲۰۵)

اس ضمن میں ذیل کی آیت ملاحظہ ہو: خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کو     اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آئیں۔  (حم السجدہ ۴۱:۳۰)

خدا کی تخلیق، خالص اور بہترین ساخت پر ہے۔ جہالت اور خود غرضی کی وجہ سے اس میں بگاڑ کو راہ ملتی ہے۔ ظاہر ہے برے اعمال کا انجام بھی برا ہوگا۔ یہ اس سے بھی واضح ہورہا ہے کہ خدا نے فرمایا: ’’لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ اس سے ہمیں مستقبل کے لیے ایک طرح کی تنبیہہ (وارننگ) حاصل ہوتی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ توبہ اور انابت کی دعوت بھی ہے(عبداللہ یوسف علی، انگریزی ترجمہ و مختصرتفسیر قرآن، مدینہ ۱۴۱۰ھ، ص ۱۱۹۰)۔ اس سے متصل آیت میں قرآن کا کہنا ہے: ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوچکا ہے، ان میں اکثر مشرک ہی تھے۔(الشورٰی ۴۲:۳۰)

تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ سابقہ قومیں اپنی برائی اور بددیانتی کے علاوہ ان کے مشرکانہ عقائد، زندگی کے غلط معیارات، اور نفسانی خواہشات نے انھیں تباہی اور بربادی سے دوچار کیا(حوالہ بالا، عبداللہ یوسف علی،ترجمہ مختصر تفسیر قرآن،ص ۱۱۰۱)۔   لفظ ’فساد‘ کی تشریح خود قرآن اس طرح کرتا ہے: ’’جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتو ں کو غارت کرے، اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘(البقرہ ۲:۲۰۵)۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ فساد کامطلب حرث و نسل کی تباہی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ  انسان خود ہی قدرتی وسائل کی تباہی اور بربادی کا  ذمّہ دار ہے اور فطری ماحول کا یہ نقصان انسان سے اپنا خراج وصول کرتا ہے۔

قدرتی ماحول میں بگاڑ کی اہم وجہ انسان کی حریص طبیعت اور ضائع کرنے والی فطرت ہے۔ قرآن اسے ’اسراف‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل قرآن انسان کو اعتدال، توازن اور تحفظ کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی آخر الزماںؐ کی تعلیمات بھی ہمیں اعتدال پسندی کی تلقین کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اعتدال اختیار کرو، اگر تم مکمل طور پر اسے اختیار نہ کرسکو، تو جہاں تک ممکن ہو اعتدال پر قائم رہو۔ گویا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال مثلاً کھانے، پینے ، کمانے ، خرچ کرنے، صنعتی پیداوار اور اس کے استعمال، وغیرہ سب میں جس کا تعلق قدرتی وسائل سے آتا ہو اور آخر کار جو ماحول پر اثر انداز ہوتے ہوں، ان سب میں حد درجہ اعتدال سے کام لیں، کسی قسم کے اسراف کو راہ نہ دیں۔(عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی ص۵۷-۵۸)

قدرتی وسائل کا استعمال: اسلامی نقطۂ نظر

اسلامی تعلیمات انسان کو آسانی سے حاصل ہونے والے بیشتر قدرتی وسائل مثلاً ہوا، پانی، زمین اور جنگلات وغیرہ میں بھی مسرفانہ خرچ کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے آپ اندازہ لگاسکتے کہ اسلام کا مزاج نایاب اور کم یاب قدرتی وسائل (دھاتیںاور جان دار وغیرہ) کے استعمال کے بارے میں کیا ہوگا۔ ان کمیاب قدرتی وسائل کے استحصال کی کسی بھی قیمت پر اجازت نہیں ہوگی (ایضاً، ۵۸)۔ انسان کو قدرتی وسائل کے استعمال کی مشروط اجازت ہے۔ شرائط یہ ہیں: معتدل استعمال، توازن قائم رکھنا اور ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور بقا کا سامان کرنا۔ موجودہ نسلوں کے علاوہ، قدرتی وسائل میں آنے والی نسلوں کا بھی ’حق‘ ہے۔ اسے کسی طرح سے متاثر نہ کیا جائے۔ قدرتی وسائل کا بھی یہ حق ہے کہ انسان ان کے بے جا استعمال کے خلاف حفاظت کرے ، انھیں برباد ہونے سے بچائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا مسرفانہ رویہ اختیار نہ کرے۔(بدر الاسلام، ایجوکیشنل فاؤنڈیشن آف اسلام، آدم پبلشرز، دہلی ۲۰۰۷ئ، ص۲۱۳)

قدرتی وسائل کا تحفظ

اللہ نے اپنی اسکیم کے تحت تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور انھیں ایک دوسرے کے تعاون پر منحصر رکھا۔ ا س طرح اس دنیا میں ایک توازن قائم کیا۔ اس کائنات کی ہر شے اپنے مقصدوجود کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔ اس طرح یہ تمام مخلوقات (جان دار اور بے جان) ایک قیمتی اثاثہ قرار پاتی ہیں۔ ان کے وجود سے اس دنیا میں ایک حرکی اعتدال و توازن پیدا ہوتا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے مفید اور ضروری ہوتاہے۔ اگر انسان اس میزان اور توازن میں خلل ڈالے، ان قدرتی وسائل کا استحصال کرے، غلط استعمال کرے، یا انھیں برباد کرے، انھیں آلودہ کرے ، تو وہ خدائی ارادے کے خلاف کام کرے گا۔ انسان کی سطحی نظر ، لالچی فطرت اور خود غرضانہ مفادات نے ہمیشہ اس کائناتی توازن و عدل کو بار بار متاثر کیا ہے۔ اس کے بدلے میں فطرت نے انسانوں سے مختلف طریقوں سے انتقام لیا۔ اس لیے انسان پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ان قدرتی وسائل کے تحفظ و بقا کے لیے کوشش کرے(ابوبکر احمد،ص ۷۵)، ورنہ انتہائی بھیانک حالات اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ فطرت سے جنگ میں شکست لازماً انسان ہی کی ہوگی۔

  • پانی: اللہ نے حیات کی بنیاد پانی کو بتایا ہے۔ تمام جان دار اپنے وجود کے لیے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ قرآن کی متعدد آیات اس نعمت اور اس کی اہمیت سے بحث کرتی ہیں(الحجر ۱۵:۱۹، النور ۲۴:۴۱، طٰہٰ ۲۰:۵۳)۔ پانی کے بے شمار حیاتی پہلوئوں کے علاوہ اس کی سماجی اور مذہبی حیثیت بھی مسلّم ہے۔ یہ طہارت کے لیے ایک ناگزیر شے ہے۔ اور کسی بھی عبادت کا جسمانی اور کپڑوں کی پاکی کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس نعمت عظمیٰ کا تحفظ تمام جان داروں کی زندگیوں کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہے۔ (خواہ وہ نباتات ہوں یا حیوانات)۔

ابوبکر احمد نے اس سلسلے میں بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ’ ’زندگی کے وظائف کی ادایگی میں جو شے ناگزیر ہوگی، وہ مطلوب ہوگی۔ ہر وہ عمل جو اس شے کے حیاتی اور سماجی کاموں میں رکاوٹ ڈالے، یا اسے ناقابلِ استعمال بنائے، مثلاً اس کو برباد کرے یا آلودہ کرے، اس طرح اس شے کو اپنے فرائض ادا کرنے میں مزاحم ہو، ایسے تمام اعمال حیات (زندگی) کو تباہ کرنے والے تصور کیے جائیں گے۔ فقہ کا یہ مشہور قاعدہ ہے کہ ’حرام کی طرف لے جانے والے ذرائع بھی حرام ہوتے ہیں‘‘۔(ابوبکر احمد ،ص ۷۸)

مسلمان فقہا نے قرآن اور سنّت رسولؐ سے استدلال کرتے ہوئے مختلف حالات میں پانی کے استعمال کے تفصیلی قواعد وضوابط ترتیب دیے ہیں۔ ان کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح سے ایک قیمتی قدرتی وسیلے کا دیرپا استعمال کیا جاسکتاہے۔

  • ھـوا: تمام جان دار اپنی زندگی کی بقا کے لیے ہوا پر انحصار کرتے ہیں۔ جس کے بغیر وہ چند منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کے علاوہ ہوا دیگر بہت سارے ضروری کام انجام دیتی ہے، مثلاً نباتات میں بارآوری کا عمل، بارش، بادلوں کی مختلف حصوں میں منتقلی وغیرہ۔ قرآن اس طرح کے کئی اعمال کو خدائی عطیہ قرار دیتا ہے۔ (الحجر۱۵:۱۹-۲۳، البقرہ ۲:۱۶۴، الاعراف ۷:۵۷)

ہوا چونکہ حیات کی بقا کا انتہائی اہم فریضہ انجام دیتی ہے، لہٰذا اس کی حفاظت آپ سے آپ لازم ہوجاتی ہے۔ یہ اسلامی قوانین کی اہم غرض ہے۔ اس طرح سے وہ تمام افعال جو ہوا کو آلودہ کریں اور آخر کار جان داروں پر اثر انداز ہوں، ممنوع قرار پاتے ہیں۔

  • مٹّی: زمین بھی جان داروں کی بقا میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن میں کہا گیا کہ زمین جان داروں کے قیام کا ذریعہ ہے(یونس ۱۰:۵۵)۔انسان کی تخلیق بھی اولاً مٹّی سے ہوئی (طٰہٰ ۲۰:۳۰)۔ زمین میں پائی جانے والی معدنیات، انسانوں، نباتات اور دیگر جان داروں کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اکثر جان دار بشمول انسان اپنی غذا زمین سے حاصل کرتے ہیں (الحجر ۱۵: ۱۹-۲۰)۔ علاوہ ازیں زمین پہاڑوں، دریائوںاور سمندر کا مسکن ہے، جو تمام کے تمام جان داروں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں(المرسلٰت ۷۷:۲۵-۲۷)۔ قرآن ہمیں بار بار زمین کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والے پھلوں کے انسانوں کے لیے استفادے کی یاد، دلاتا ہے۔(فاطر ۳۶: ۳۳-۳۵)

ابوبکر احمد کے مطابق اگر ہم واقعتا اللہ کے شکر گزار بننا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہوگا کہ ہم زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھیں اور اس کو ہر طرح کے نقصان سے بچائیں۔ ہمیں اپنی ضروریات، مثلاً مکان، زراعت، جنگلات اور کان کنی کے ایسے طریقے اپنانے چاہییں جونہ صرف حال بلکہ مستقبل میں بھی کسی نقصان کا باعث نہ بنیں۔ اس طرح کے مفید ترین وسیلے کو تباہ کرنا یا اسے خراب کرنا یقینا حرام ہوگا۔(ابوبکر احمد، ص۸۰)

  • نباتات و حیوانات: انسانی زندگی کی بقا اور ترقی کے ضمن میں نباتات اور حیوانات کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ نباتات ایک منفرد عمل ’عمل شعاعی ترکیب‘ کے ذریعے غذا تیار کرتے ہیں۔ نباتات سے ہی ہمیں غذا کے لیے غلّہ، پھل اور سبزیاں حاصل ہوتی ہیں۔ قرآن ہمیں اس طرح دعوت غور و فکر دیتا ہے: ’’پھر ذرا انسان اپنے آپ کو دیکھے۔ ہم نے خوب پانی لنڈھایا، پھر زمین کو عجیب طرح سے پھاڑا، پھر اس کے اندر اُگائے غلّے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجور اور گھنے باغ اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمھارے مویشیوں کے لیے سامان زیست کے طور پر‘‘۔(عبس ۸۰: ۲۴-۳۲)
  • نباتـات: اس اہم فریضے کے علاوہ ہوا کی صفائی کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ وہ زمین کے کٹائو کو روکتے ہیں۔ علاوہ ازیں پانی کی حفاظت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ بہت سارے نباتات کی طبّی اہمیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان انھیں اپنے معاش و دیگر ضروریات کی تکمیل میں استعمال کرتا ہے۔ اسلامی قوانین کے مزاج کے مطابق نباتات کی پیداوار، تحفّظ اور بقا ایک ’امرِ ضروری‘ قرار پاتا ہے۔

حیوانات نہ صرف انسانوں بلکہ نباتات کے لیے بھی کئی طریقوں سے کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ ان سے زمین کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انسان حیوانات سے غذا، اون، چمڑا اور دودھ حاصل کرتا ہے۔ یہ دوائوں کے کام بھی آتے ہیں۔ علاوہ ازیں جان داروں سے انسان باربرداری کا کام بھی لیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی فوائد کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے (الحج ۲۲:۱۸، بنی اسرائیل ۱۷:۴۴)۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے اسلام قانون سازی کرتا ہے۔ ہر دور کے بارے میں عمومی اصول یہ ہے کہ ’’تم اہل زمین پر رحم کرو  تم پر رحم کیا جائے گا‘‘۔ (ابوبکر احمد ص ۱۰۶)

تعلیمات نبوی ؐ میں بھی ہمیں اپنے زیر استعمال جانوروں کی خوراک، آرام اور تحفّظ کے بارے میں واضح ہدایات ملتی ہیں، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی جانور کو بھوکا، پیاسا مرنے کے لیے چھوڑ دے تو اسے آخرت میں جہنم کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ مزید فرمایا کہ ہر زندہ جان دار کی فلاح و بہبود میں اجر ہے(ایضاً)۔ اس طرح کی اَن گنت تعلیمات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ اسلام کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ جانوروں کے حقوق کو قانونی تحفظ فراہم کرتاہے۔ اس پر باقاعدہ کتابیں موجود ہیں۔ مثلاً عزالدین عبدالسلام کی کتاب قواعد الاحکام فی مصالح الانعام۔ قدرتی وسائل کے تحفظ و بقا کے لیے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یوں ہوگا: اسلامی قوانین تمام مخلوقات کی فلاح و بہبود اور ان کے درمیان مشترکہ مفادات کا خیال رکھتے ہیں تاکہ خدائی منصوبے کے مطابق ان سے استفادہ کیا جاسکے۔

قدرتی وسائل کا تحفظ اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے۔ انسان کی خلیفۃ اللّٰہ فی الارض کی حیثیت بھی قدرتی وسائل کے تحفظ کو لازمی بناتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات اپنی پشت پر مضبوط قانون اور قوت نافذہ رکھتی ہیں، اس لیے ان سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔انسانی ترقیات کو ماحول دوست ہونا چاہیے۔

انسان کو سماج کے مشترک وسائل کے استعمال کے سلسلے میں جوابدہ بنایا جائے۔ سائنسی اور تکنیکی طریقے میں ایسے ذرائع اپنانے چاہیے جو قدرتی وسائل کے تحفظ کے ضامن ہوں۔ ہر ترقیاتی منصوبے کو روبہ عمل لانے سے پہلے اس کے ماحولی اثرات کا ہمہ جہت اور جامع جائزہ لیا جائے۔

فوجی کاروائیوں یا دشمن پر حملے کی صورت میں ہر قیمت پر قدرتی وسائل اور ماحولیاتی توازن کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔(حوالہ بالا،ص ۱۰۲-۱۰۳)

  • آواز کی آلودگی: فی زمانہ، ہم آواز کی آلودگی سے بھی بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اسلام بلند آواز کو سختی سے ناپسند کرتا ہے۔ قرآن اس کو گدھے کی آواز سے تشبیہہ دیتا ہے(لقمان ۳۱:۱۹)۔ اسلام آواز کے معاملے میںبھی اعتدال کا داعی ہے۔ آواز نہ بہت زیادہ بلند ہو اور نہ ہی اتنی دھیمی کہ سنائی نہ دے۔ قرآن اپنی ایک اور آیت میں اہلِ ایمان کو اپنی آواز نبیؐ کے مقابلے میں پست رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔(البقرہ ۲:۴۹)

اسلامی عبادات میں بھی اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ آواز بہت زیادہ بلند نہ ہونے پائے، مثلاً نمازیں، دن کی نمازیں سّری ہوتی ہیں جب کہ بالعموم دیگر ذرائع سے شور پیدا ہوتا ہے۔ فجر اور عشاء جب کہ شور کم ہوتا ہے اس وقت جہری نماز ہوتی ہے۔ اس کی آواز بھی معتدل رکھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے دعا اور ذکر کا بھی معاملہ ہے۔

ماحولیات اور اس کے تحفظ سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام ایک جامع نظامِ حیات ہونے کے ناتے ماحول کے تحفظ کے لیے بھی رہنمائی دیتا ہے۔ اگر اسلام کی ان تعلیمات کو سامنے رکھا جائے تو دنیا کو ماحولیاتی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نظامِ کائنات کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ آج جس طرح سے کائنات کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے فضائی اور زمینی آلودگی بڑھ رہی ہے، زمین کا درجۂ حرات بڑھ رہا ہے جس سے گلیشیر پگھل رہے ہیں اور  زمین کی زیرین منجمد سطح متاثر ہو رہی ہے، کیمیائی کھادوں کے مسائل روزافزوں ہیں، اس نے گلوبل وارمنگ کی تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ جنگلات کی کمی واقع ہونے، پٹرول، بجلی اور ایٹمی توانائی کے بے جا استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن اور آکسیجن کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ گرین ہائوس ایفکٹ سے قطبین پر جمی برف پگھلنے لگی ہے جس سے سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی ساحلی شہر، ملک اور آبادیوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بلاشبہہ یہ انسانوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی اور وبال ہے جو خدا اور اس کے بندوں سے بے نیاز ہوکر محض اپنے مفادات اور خواہشات کی تسکین کا نتیجہ ہے جس سے دنیا کو فساد کا سامنا ہے۔

اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر ماحولیاتی تحفظ کے لیے کئی عالمی معاہدے کیے جارہے ہیں لیکن مغربی ممالک، امریکا، آسٹریلیا وغیرہ جو کہ ۸۰ فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور ماحول کے بگاڑ کے بڑے ذمہ دار ہیں، ان معاہدوں پر عمل درآمد سے اجتناب کر رہے ہیں۔ ان حالات میں مسلمان جو دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نائب ہونے کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے نہ صرف یہ کہ اپنا کردار ادا کریں بلکہ ماحولیات سے متعلق اسلام کی تعلیمات کو بڑے پیمانے پر عام کریں۔ اس سے ایک طرف جہاں یہ تاثر دُور ہوگا کہ اسلام جدید مسائل کے لیے رہنمائی نہیں دیتا اور پرانے وقتوں کا نظام ہے، وہاں مادیت، خودغرضی اور نیشنلزم سے بالاتر ہوکر انسانیت کی فلاح کے پیش نظر درپیش جدید مسائل کے حل کے لیے بھی اسلام کے نظامِ فطرت کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا جو بلاامتیاز خطہ و نسل بنی نوع انسان کی فلاح چاہتا ہے۔

(مقالہ نگار اورنگ آباد، مہاراشٹر، بھارت کے مقامی اسکول میں صدر مدرس ہیں اور تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں۔ کئی کتب کے مصنف ہیں)

مولانا عبدالحق بلوچ دو سال کی صبرآزما علالت کے بعد جو زندگی اور موت کی کش مکش سے عبارت تھی، ۲۹ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ (۱۶ مارچ ۲۰۱۰ئ) ربِ حقیقی سے جا ملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مولانا عبدالحق ۵ جنوری ۱۹۴۷ء کو مکران کے شمالی علاقے زمران میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدایشی طور پر ہی ایک گردے سے محروم تھے، اس طرح صرف اس ایک گردے نے ۶۳ سال تک ان کا ساتھ دیا۔ آخری دو سال ڈائی لیسز پر زندگی گزار رہے تھے اور بالآخر ڈاکٹروں کے مشورے پر گردے کی تبدیلی (transplant) کا فیصلہ ہوا اور ان کے ایک صاحبزادے نے باپ کی زندگی بچانے کے لیے اپنا گردہ پیش کیا لیکن اللہ کا حکم کچھ اور تھا۔ جسم نے اس گردے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بالآخر مولانا نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی، اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور اپنے خاندان ہی کو سوگوار نہیں چھوڑا، بلوچستان کے ہرطبقے اور ہرمسلک اور ہرسیاسی وفاداری کے حامل ہزاروں انسانوں کو اَشک بار چھوڑ کر عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔

مولانا عبدالحق سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۹۸۵ء کی قومی اسمبلی میں تربت سے منتخب ہوکر پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں جماعت اسلامی کو نمایندگی ملی تھی۔ مولانا عبدالحق نے تربت سے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی نشستیں جیتی تھیں اور پھر مرکزی اسمبلی کی سیٹ کو رکھ کر قومی سطح پر انھوں نے ایک کامیاب کردار کا آغاز کیا۔ پھر ۱۹۸۸ء میں وہ صوبہ بلوچستان کے امیرجماعت اسلامی مقرر ہوئے اور یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۵ سال تک بڑی حکمت اور جانفشانی سے انجام دی۔ ۲۰۰۳ء میں مرکزی نائب امیر کی ذمہ داری سنبھالی اور آخری لمحے تک صحت کی خرابی کے باوجود تحریکِ اسلامی اور ملک و ملّت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آخری ایام میں بھی جب بیماری نے جسمانی قوت کو شدید مضمحل کردیا تھا تحریکِ اسلامی اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں ان کی فکرمندی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔    اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبول سے نوازے، بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے، آمین!

مولانا عبدالحق بلوچ ہر اعتبار سے ایک ایسے قومی اور تحریکی رہنما تھے جنھوں نے اپنے خلوص اور اپنی شب و روز کی محنت سے قیادت کے اعلیٰ مقامات کو حاصل کیا۔ ابتدائی زندگی دیہات کے زرعی ماحول میں گزاری۔ تعلیم کا آغاز اپنے شوق سے، زمین داری اور گلہ بانی کی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے والد مولانا محمد حیات اور اپنے چچا مُلّا شفیع محمد کے دست شفقت پر کیا۔ تربت کے    ہائی اسکول سے میٹرک کی سند حاصل کرکے دینی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئے۔ یہاں پہلے مدرسہ مظہرالعلوم، لیاری میں ایک سال تعلیم حاصل کی اور پھر حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلہ لیا جہاں سے وہ ۱۹۷۳ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

مولانا مودودیؒ کی کتب سے والد محترم کی لائبریری ہی سے تعلق قائم ہوگیا تھا۔ پھر کراچی کے قیام کے دوران تحریک کا پورا لٹریچر پڑھا اور عملاً جمعیت اور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ البتہ باقاعدہ رکنیت کا تعلق ۱۹۸۰ء میں قائم ہوا، اور پھر اپنے خلوص، محنت، مسلسل جدوجہد اور علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک قومی سطح کے لیڈر کی حیثیت سے اپنے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔

مولانا عبدالحق کی زندگی بڑی سادہ اور ہرقسم کے تصنع سے پاک تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری نقش ان کی سادگی، اور ظاہر اور باطن کی یکسانی ہی کا اُبھرتا ہے۔ دنیا پرستی کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نظر نہیں آتا۔ مجھے اپنے ۲۵ سالہ ربط و تعلق میں دنیوی مفادات کے باب میں دل چسپی کا کوئی ایک واقعہ بھی یاد نہیں۔ روایتی دینی اور مشرقی تہذیب کا وہ ایک بے مثال نمونہ تھے اور حق کی تلاش، حق کا قبول اور حق کی راہ پر استقامت ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ علمی اعتبار سے میں نے ان کو بہت بلندمرتبہ انسان پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع اور حافظہ اور استحضار قابلِ رشک تھا اور اس کے ساتھ بے مثال انکسار۔ ان کی گفتگو سے ادعاے علم کا دُور دُور بھی کوئی شائبہ کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن میں نے علمی اعتبار سے ان کو بہت ہی محکم پایا۔ کتابوں سے ان کو غیرمعمولی شغف تھا۔ ۱۹۹۳ء میں کابل میں ایک ماہ ہمیں ایک ساتھ ایک کمرے میں رہنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں ان کی شخصیت کو سمجھنے کا نادر موقع ملا۔ سادگی کے ساتھ بذلہ سنجی اور لطیف مزاح ان کی شخصیت کا حصہ تھے لیکن ان سب سے مستزاد ان کا علمی شوق اور دعوت و خدمت کا جذبہ تھا۔ کابل کے قیام کے دوران صبح و شام میزائلوں کی بارش کے ماحول میں بھی وہ، پروفیسر ابراہیم اور یہ خاکسار بار بار کابل کے بازاروں میں پرانی کتابوں کے انبار میں گوہرمطلوب کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے، اور   مولانا عبدالحق کا انہماک ہم میں سب سے زیادہ تھا۔ مولانا کا علمی ذوق بہت ہی ستھرا اور متنوع تھا۔

بلوچستان اور ملک کے مسائل پر مولانا سے جب بھی بات کرنے کا موقع ملا ان کو بہت زیرک پایا۔ معلومات کا ایک خزانہ ان کے پاس ہوتا اور یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں تھا۔ ان کا ذاتی ربط ہر مکتب ِ فکر اور ہر سیاسی نقطۂ نظر کے حامل افراد سے رہتا تھا اور اس طرح ان کے سامنے مسئلے کے تقریباً تمام ہی رُخ ہوتے اور سب جماعتوں اور گروہوں کی راے اور تجزیے سے  وہ واقف ہوتے تھے۔ سیاسی مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ وسعتِ نظر اور حقیقت پسندی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے حلقے میں سب ساتھی اس کا پورا اہتمام نہیں کرتے لیکن مولانا عبدالحق کا ربط و تعلق ہرگروہ سے تھا اور وہ ان کے فکر اور تجزیے سے بخوبی واقف ہوتے تھے، بلکہ میں یہاں تک کہنے کی جسارت کروں گا کہ ان کو سب حلقوں کا اعتماد حاصل تھا اور یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی سیاسی قیادت کو لازماً فکر کرنی چاہیے۔ ان کی وفات پر جس طرح جماعت اسلامی کے تمام کارکن اور قیادت افسردہ اور غم زدہ ہے، اسی طرح دوسرے سیاسی مسلک، حتیٰ کہ ان کے موقف کے بالکل برعکس راے رکھنے والے بھی ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے لیے اَشک بار ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مسلک بقول ماہر القادری کچھ ایسا تھا کہ    ؎

وہ کوئی رند ہو، یا پارسا ہو

فقیروں کا تو یارانہ ہے سب سے

مولانا عبدالحق بلوچ کے انتقال پر جن تاثرات کا اظہار سید منور حسن، قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ نے کیا ہے اس سے ملتے جلتے جذبات ہی کا اظہار نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر اسماعیل بلیدی اور بلوچ نیشنل فرنٹ کے ترجمانوں نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح افغانستان اور ایران کے رہنمائوں نے بھی اس غم میں شرکت کا اسی طرح اظہار کیا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کا جنازہ تربت کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں بلوچستان ہی نہیں تمام ملک سے سوگواروں نے شرکت کی اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی ذمہ داری محترم نعمت اللہ خان صاحب نے انجام دی۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبدالحق مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی بیوہ اور بچوں کو اور تمام رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں کو صبرجمیل سے نوازے، اور جو خلا ان کے اُٹھ جانے سے پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، آمین!

پاکستان میں لوگوں کے مجموعی مزاج اور ان کی نفسیاتی کیفیت کا جائزہ لیں تو لوگ   موجود سیاسی نظام، اورسیاسی قائدین سے نالاں نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ سیاست دانوں اور عوام میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اس کیفیت نے بہتر سیاسی تبدیلی کے ایجنڈے کے مقابلے میں   ان قوتوں اور عناصر کو زیادہ مستحکم کیا ہے جو ملک میں جمہوریت کی بجاے ایک ایسے نظام کو مسلط کرنا چاہتے ہیں یا اسے تقویت دینا چاہتے ہیںجو غیر جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خواہشات کے بھی بالکل برعکس ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ملک میں ہمہ گیر سیاسی مایوسی کی اس بحث میں لوگ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر تو ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیںلیکن کہیں بھی اپنی اجتماعی خامیوں اور غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔

موجودہ سیاسی نظام میں آمرانہ طرزِعمل، فردِ واحد کی حکمرانی، کرپشن اور بدعنوانی، کمزور سیاسی جماعتیں اور ان کا غیر جمہوری طرزِ عمل، روپے پیسے کی سیاست اور اخلاقیات سے عاری سیاست سمیت موروثی سیاست کا مضبوط تصور موجودہے۔ اس کا ذمہ دار کوئی ایک فرد یا ادارہ نہیں بلکہ ہم سب ہی اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ ان خرابیوں میںجہاں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا عمل دخل ہے وہیں سیاسی کارکنان بھی اس صورت حال سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام میں جو آمرانہ رویے جنم لیتے ہیں وہ سیاسی کارکنوں اور سیاسی اشرافیہ کی کمزور مزاحمت اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہم سیاسی عمل میں شخصیت پرستی کے قائل نہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بجاے کسی ایک فرد کی حکمرانی میں    پیش پیش ہوتے ہیں اور اداروں کے مقابلے میں فرد واحد کو مضبوط بناتے ہیں۔

دراصل جب سیاسی محاذ پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے اور سیاسی قیادتیں اپنے کارکنوں کو یہ باور کرواتی ہیں کہ وہی جمہوریت کے لیے لازم ملزوم ہیں اور ان کے بغیر جمہوری عمل آگے نہیں بڑھ سکتا تو خرابی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ ہم چونکہ سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کو بنیاد بنانے کی بجاے ایک فرد کو بنیاد بناکر سیاسی جدوجہد کرتے ہیں جو عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کو کمزور کرکے فرد واحد کو مضبوط بناتا ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آمریت یا آمرانہ طرز عمل کا تعلق محض فوجی حکمرانی سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی جھلک ہم سول قیادتوں اور نام نہاد جمہوری نظام کے اندر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آج کی ہماری صورت حال واضح طور پر ہمیں باور کروارہی ہے کہ ہم جمہوری عمل کے اندر کہاں کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت اور کارکن بڑے زوردار انداز میں جمہوریت اور سماجی و قانونی انصاف کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں اور اس میں کسی حد تک بعض جماعتوں کے حوالے سے صداقت بھی ہے، لیکن اپنی اپنی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت اور قیادتوں کے آمرانہ طرز عمل پر یا توہمارا سیاسی شعور بہت کمزور ہوتا ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت ہمارا کس انداز میں سیاسی استحصال کرتی ہیںیا ہماری خاموشی اور کمزور مزاحمت کے پیچھے بہت سی مصلحتوں کی سیاست کارفرما ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری طرزِعمل پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن موروثی سیاست کا جو بحران اب سامنے آیا ہے وہ ایک خطرناک سیاسی رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں    بے نظیر بھٹو کی موت کے سانحے کے بعد قیادت کے لیے بلاول بھٹو کی حمایت میں وصیت کا سامنے آنا، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ(ق)میں نواز شریف اورچودھری خاندان کی اجارہ داری اور  اب اپنے بچوں کو سینیر لوگوں کی موجودگی میں قیادت کے طور پر پیش کرنا، اے این پی میں خان عبدالغفار خان سے لے کر سرحد کے وزیر اعلیٰ تک، قوم پرستوں کی جماعتوں سمیت سب میں خاندان کی اجارہ داری کا تصور مضبوط عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موروثی سیاست کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ دولت کا سیاست میں عمل دخل بھی ہے اور اس عمل کے ساتھ ان لوگوں کا سیاسی کارکنوں کے معاملے میں تعلق، ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس عمل نے لوگوں میں اس مایوسی کو جنم دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ایسی تبدیلی میں سنجیدہ نہیں جس سے ان کی طاقت کے مقابلے میں سیاسی کارکنوں کی طاقت میں اضافہ ہو۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر ان کے مقابلے میں سیاسی جماعت مضبوط ہوگی تو وہ عملی طور پر کمزور ہوں گے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کو بالادست رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی کمزوری کو اپنی سیاست کی بنیاد بناتے ہیں۔ یہ بھی ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر تبدیلی اور معاشرے میں اس کا نتیجہ نظر نہ آنے کی وجہ ایک جاگیردارانہ سوچ، قبائلی طرزِ سیاست، برادری کی سیاست کو مضبوط بنا کر پیش کرنے کے عمل سے مشروط ہے۔ اس لیے اس صورت حال کو تبدیل کیے بغیر یہ سمجھ لینا کہ ہماری سیاسی قیادتیں جمہوریت پر گامزن ہوسکیں گی ایک مشکل عمل   نظر آتا ہے۔ لوگ آمریت کے خلاف تو بات کرتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے اندر موجود اس قبائلی سرداری سیاست، برادری، دولت اور شخصیت پرستی کی سیاست کو چیلنج نہیں کرتے۔ یہ طرزِ عمل، عملی طور پر ہمیں اور ہماری سیاست کو کمزور کرکے ایک آمرانہ مزاج اور فردِ واحد کی سیاست کو تقویت دیتے ہوئے عام آدمی کو سیاست سے دُور کردیتا ہے اور اس کے ذمہ دار ایک سطح پر ہم بھی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر وہ لوگ جوسیاست میں بہتر تبدیلی کے خواہش مند ہیں، وہ اس صورت حال کا مقابلہ کیسے کریں؟ اسی طرح سیاسی کارکنوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم موجودہ صورت حال میں سیاسی جماعتوں کے اندر موجود قیادت کی اس آمریت کا مقابلہ کرکے جمہوری سوچ اور قدروں کو بحال کرسکیں گے؟

یقینا صورت حال سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سمیت سیاسی سطح پر کافی مخدوش ہے لیکن ایسی مایوسی کی بات بھی نہیں۔ یہ سوچ کہ ان برے حالات میں کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا، ایک مایوسی کی کیفیت ہے اور ہمیں اس سے باہر نکل کر اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ مایوسی کی یہ کیفیت ایک طرف لوگوں کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے عملی مزاحمت سے روکتی ہے تو دوسری طرف ان بالادست طبقوں کو جنھوں نے سیاست پر قبضہ کیا ہوا ہے ان کو مضبوط بناتی ہے۔ لوگوں میں مایوسی کا پیدا ہونا ان بالادست طبقوں کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے اور ہمیں اس حکمت عملی کے مقابلے میںاپنے مفادات پرمبنی سیاسی حکمت عملی کو وضع کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے اندر موجود ان مختلف سیاسی، سماجی و شخصی تضادات کو ختم کرنا ہوگا جو ہماری بربادی اور تباہی کے اصل محرکات ہیں۔ ہمیں ضرور اپنی موجودہ سیاسی قیادتوں سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھیں بھی کھول کر رکھنی ہوں گی کہ وہ ان کے مقابلے میں کس کی سیاست کررہے ہیں۔ یہ سیاسی کارکنوں کا ہی فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود اندرونی جمہوریت کے مسائل کے حل کے لیے اصولی موقف کو اپنانے پر زور دیں۔ سیاسی جماعت کے دستور، منشور، پروگرام اور جمہوری روایات کے فروغ کے لیے آواز اٹھائیں۔ اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی سطح پر اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا اور مؤثر دبائو کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں بھی جمہوری طرز عمل اختیار کریں۔ سیاسی قیادتوں کی یہ سوچ کہ ہمارے بغیر جمہوریت نہیں چل سکے گی، ایک آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سوچ کو بدلنے اور اصولی سیاست کو بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔

ہندستان میں بی جے پی کی سطح پر پچھلی دو دہائیوں میں قیادت پر کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن ان کی جماعت کا جمہوری عمل ایک تسلسل کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی سطح پر جمہوری انتخابی عمل موجود ہے اور قیادت یہاں موروثی کے مقابلے میں ایک جمہوری طرز فکر کی عکاسی کرتی ہے ۔ اسی طرح سیاسی کارکنوں کی سطح پر ان کی سیاسی تعلیم جو سیاسی جماعتوں کے اندر عملاًً نہ ہونے برابر ہے، اسے سامنے لانا ہوگا تاکہ انھیں معلوم ہو کہ سیاست اور اس کے مسائل کے ساتھ بطور سیاسی کارکن ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن عملاً ایک پریشر گروپ کا بھی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ کردار محض ان کی جماعتوں کی سیاست کے باہر تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع ہو نا چاہیے اور اندرونی سطح پر ہونے والے غلط فیصلوں پر انھیں مزاحمتی عمل کو مضبوط بنانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کے مقابلے میں نامزدگی اور بلامقابلہ انتخاب کا رجحان ایک خطرناک عمل ہے اور اس کو روکنا چاہیے وگرنہ قیادتیں اپنی مرضی کے مطابق مخصوص خاندانی لوگوں اور دوستوں کو اہم عہدے نوازتی رہیں گی۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دوسرے ملکوں کی طرح اہم عہدوں پر قیادت کی نامزدگی کے عمل کو عوامی انتخاب سے قبل اپنی سیاسی جماعتوں کے اندرانتخابی عمل سے گزاریں، اور یہ فیصلہ کہ سیاسی جماعت کے اندر کون ان کی قیادت کا اہل ہوگا وہ کسی فرد واحد کی بجاے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے فیصلے سے مشروط ہو۔

یہ سمجھنا کہ یہ سب کام بغیر کسی سیاسی جدوجہد اور مزاحمت کے ممکن ہوجائے گاتو ایسا نہیں ہوگا ۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود سیاسی اشرافیہ اور سول سوسائٹی کونہ صرف موجودہ سیاسی قیادتوں کے آمرانہ طرزِ عمل کے خلاف مضبوط آواز اٹھانی ہوگی بلکہ اپنی طاقت سیاسی قیادتوں کے پلڑے میں ڈالنے کی بجاے سیاسی کارکنوں کے ساتھ اپنے آپ کو کھڑا کرنا ہوگا۔ یہ عمل سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکن کی بھی طاقت کو مضبوط  بناتے ہوئے ملک کی سیاست میں ایک نئے کلچر کو متعارف کروائے گا۔ اس عمل سے سیاسی کارکن مستقبل کی سیاست میںایک نئی طاقت بن کر سیاسی عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی سطح پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اگر دیکھیں کہ ان کی جماعت میں سیاسی کارکن کے خلاف فیصلے ہورہے ہیں تو وہ اس پر خاموش رہنے کی بجاے آواز اٹھائیں ورنہ جو کچھ آج    ان کے سامنے ہورہا ہے وہ کل کسی اور کے سامنے ان کے ساتھ بھی ہورہا ہوگا۔

جب ہم سیاسی جماعتوں کی قیادتوں، کارکنوں اور ان کی اندرونی جمہوریت کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں تو اس کا براہ راست تعلق ملک کی جمہوریت اور اس کے سیاسی نظام کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے ہمیں مایوس ہونے کی بجاے اپنی طاقت کو نئے سرے سے منظم کرکے معاشرے کے اندر موجود اس سیاسی کلچر کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی جو عملاً ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کرتا ہے۔ اگر سیاسی قیادتیں اور دیگر بالادست گروپ اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے مفادات کو نہ صرف تقویت دیتے ہیں بلکہ عوام کو بے وقوف بنا کر ان کا سیاسی استحصال کرتے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ سیاسی کارکن اپنی طاقت کو منظم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ کریں۔ سیاسی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت ملک میں سیاسی نظام کی مضبوطی کے لیے پہلی سیڑھی ہے اور اس کو بنیاد بناکر ہم ملک کو ایک جمہوری، فلاحی اور اسلامی معاشرے میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ ہمیں اس ایجنڈے کو بنیاد بناکر اپنی سیاسی جدوجہد کو بہتر سمت دیتے ہوئے تیز کرنا ہوگا تاکہ لوگوں میں تبدیلی کے تناظر میں موجود مایوسی کی کیفیت کو ختم کیا جاسکے۔

ترجمہ: محمد ایوب منیر

ریاست ہاے متحدہ امریکا، دیگر ممالک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے مہم چلاتا ہے حالانکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے بگڑے ہوئے دستوری اور سیاسی نظام کو درست کرے۔ امریکی سینیٹ لمبی تقریروں کے ذریعے قانون سازی میں رکاوٹ (filibuster) کی وجہ سے مفلوج ہوچکی ہے، جب کہ کانگرس کا ایوان انتخابی حدبندیوں میں کسی جماعت یا طبقے کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے باب ہربرٹ کے مطابق: ’’ہم جانتے ہیں کہ سال ۲۰۰۰ء کے صدارتی انتخابات میں ایل گور نے جارج بش سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ نیز یہ کہ فلوریڈا میں جن لوگوں نے انتخابات میں اپنی راے کا اظہار کیا تھا، وہ بش کی نسبت ایل گور کوووٹ دینے کے خواہش مند تھے لیکن صدر، بش ہی بنے‘‘۔

ایک سیاست گزیدہ اور منقسم سپریم کورٹ نے اِن نتائج کی توثیق کی۔ جمہوری نظامِ حکمرانی میں، نظامِ انتخاب ہی اصل بنیاد ہوتا ہے۔ امریکا میں یہ نظامِ اس قدر نقائص کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود یہ دوسروں کو ’آزادانہ منصفانہ انتخابات‘ کی اَن تھک تبلیغ و تلقین کرتا ہے۔

ہر نئے انتخاب کے دوران ووٹروں کو خوف زدہ کرنے والے واقعات کا دور چلتا ہے۔ بارش میں آٹھ نو گھنٹے کا طویل انتظار، ووٹوں کا گم ہونا اور گنتی میں شامل نہ کرنا جیسے حربے عام ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی بدعنوانی کرنا ممکن ہے۔ کاغذ کی پرچی پر ووٹ ڈالنے کا عمل اس سے کہیں زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ غریب آبادیوں اور محلوں کے ووٹر، پولنگ اسٹیشن ہی سے دُور بھاگتے ہیں کیونکہ اُن کو یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ اگر قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی فرد نے ووٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اُسے فوری طور پر گرفتار کر لیا جائے گا۔ قانون کی خلاف ورزی میں ٹریفک جرمانے کی رقم ادا نہ کرنا جیسے معمولی جرائم شامل ہیں۔

اگر نظامِ انتخابات پر اعتماد مجروح ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ووٹ کے ذریعے جیتنے والوں اور عوام الناس کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ باب ہربرٹ نے اس کی منظرکشی یوں کی ہے: موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عام امریکی برسرِاقتدار گروہ سے اپنے آپ کو دُور اور لاتعلق محسوس کرتے ہیں۔

اس مسئلے کی دو جہتیں ہیں: دستوری اور سیاسی۔ سینیٹ کا رُول بائیس یقین کیا جائے یا نہ کیا جائے، سابقہ طریقے سے بہتر ہی ہے۔ اُنیسویں صدی کے بیش تر عرصے میں، قانون سازی کے راستے میں طویل تقریروں کے ذریعے رکاوٹ کو ختم کرنے اور ووٹ ڈلوانے کا اکثریت کے پاس کوئی راستہ ہی نہ ہوتا تھا۔ اس کے ذریعے کسی بھی سینیٹر کو موقع مل جاتا کہ کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے وہ ایوان کے اندر نہ ختم ہونے والی تقریر شروع کر دے۔

۱۹۱۷ء میں وڈرو وِلسن کے جنگ ِ عظیم اوّل میں امریکا کے حصہ لینے کے خلاف filibuster کو ناکام کرنے کے لیے سینیٹ نے رُول بائیس کی منظوری دی جس کے مطابق، یعنی ۱۰۰ میں سے ۶۰ اراکین منظوری دے دیں تو بحث ختم کی جاسکتی ہے۔ ۱۹؍جنوری کو ری پبلکن پارٹی کے اسکاٹ برائون نے مسیاچوسٹس سے ٹیڈکینیڈی کی نشست جیت لی اور سینیٹ میں ری پبلکن ووٹروں کی تعداد ۴۰ سے بڑھ کر ۴۱ ہوگئی۔ ڈیموکریٹس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا کہ قانون سازی کے راستے میں رکاوٹ ختم کرسکیں۔

اگر ان سب اراکین کا کم آبادی والی ریاستوں سے تعلق ہوتا تو آبادی کے دسویں حصے کے یہ نمایندے، کانگرس کو بالکل بے دست و پا کرسکتے تھے۔ ایوانِ نمایندگان میں کئی نشستیں   انتخابی حلقے کی حدود میں ردّ و بدل کروا کے حاصل کی جاتی ہیں۔ ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلکن، اُنھوں نے ’محفوظ‘ نشستوں کا انتظام کر رکھا ہوتا ہے۔

لابی کرنے والے اداروں کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے میدان میں اُترنا پڑتا ہے۔ خصوصی مفادات رکھنے والے گروہ، بڑی بڑی رقوم خرچ کرتے ہیں۔ ۱۲ فروری کو سنٹرفار ریسپونسِو پالیٹکس (Centre for Responsive Politics) کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوچکی ہے کہ سال ۲۰۰۹ء میں کمپنیوں اور دیگر اداروں نے راے عامہ ہموار کرنے اور لابی کرنے کے لیے ۵ئ۳ارب امریکی ڈالر خرچ کیے۔ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے صحت اور توانائی کے لیے جو بل پیش کیے گئے اُن کو بھرپور نشانہ بنایا گیا۔ امریکن یونی ورسٹی براے کانگریس و صدارتی مطالعات کے جیمزتھربر کے مطابق، مذکورہ رقم وہ رقم ہے کہ جس کا رجسٹرشدہ لابی اداروں نے ریکارڈ رکھا ہو۔ اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو عوام کو منظم کرنے، اتحاد (coalition) قائم کرنے اور اشتہارات پر خرچ کی گئی۔ تھربر کا کہنا ہے کہ ایک سال میں واشنگٹن میں لابی کرنے کے لیے مجموعی طور پر ۹ارب  ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔ قانون سازی کے طریقے کو ایک ایسے طرزِعمل سے ناشائستہ بنادیا گیا ہے جس سے بدعنوانی آسان ہوجاتی ہے۔پسندیدہ مقامی منصوبوں کو حکومت کے بڑے بڑے اخراجاتی بلوں میں سینیٹر اور اراکینِ کانگرس بل کی حمایت کے عوض شامل کرا لیتے ہیں۔ انھیں  ایئرمارک (earmark) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سال ۲۰۰۸ء میں ۱۳ہزار مقامی منصوبوں کو اُن اخراجات کے بلوں میں شامل کرا لیا گیا جس کی کُل رقم ۱۸ ارب ڈالر تھی۔ عموعی طور پر یہ    براہِ راست یا بلاواسطہ انعام ہے جو اُن اداروں کو دیا گیا جن کے مخصوص مفادات تھے جنھوں نے سیاست دانوں کو رقوم دی تھیں۔

بِلوں کے متن میں صرف ۱۰ فی صد ایئرمارک شامل کیے جاتے ہیں۔ ان کو کمیٹیوں کی رپورٹوں میں شامل کیا جاتا ہے اور ان کی کوئی قانونی قوت بھی نہیں۔ یہ کمیٹیوں میں ہونے والی سودے بازیوں کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ اگر کوئی صدر کسی ایک ایئرمارک کو بھی نظرانداز کرتا ہے، اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا خدشہ ہوتا ہے کہ اُس کے پیش کردہ بل کانگریس میں نامنظوری سے دوچار ہوجائیں۔

ملک بُری طرح تقسیم ہے۔ اپنی پارٹی کے ساتھ بڑھتی ہوئی وفاداری نے قانون سازی کے ان نقائص میں اضافہ کر دیا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں ایوان کے اُس وقت کے اسپیکر نِیوٹ گِنگرچ نے وفاقی حکومت کے فنڈز میں کٹوتی کردی جس سے قلیل مدت کے لیے حکومت کے کام رُک گئے۔   وہ چاہتا تھا کہ بل کلنٹن، صحت عامہ کے بارے میں مزید کٹوتیوں پر رضامند ہوجائے۔

نوبل انعام پانے والے پال کروگ من کا کہنا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیاست کا جو حال ہے، جس طریقے سے سینیٹ کام کر رہی ہے وہ ایک فعال حکومت کے شایانِ شان نہیں۔ سینیٹروں کو چاہیے کہ خود اس حقیقت کو تسلیم کرلیںاور ان قوانین میں تبدیلیاں لائیں۔ اس کی بھی ضرورت ہے کہ طول طویل تقریروں کے ذریعے قانون سازی کو روکنے کے عمل میں بھی تبدیلی یا کمی ضرور لائی جائے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو وہ کرسکتے ہیں اور اُنھیں ضرور کرنا چاہیے‘‘۔

۱۵ فروری کو ۵۴سالہ سینیٹر ایون باییہ نے ،جو centrist ہیں، اعلان کیا کہ وہ دوبارہ منتخب نہ ہونا چاہیں گے۔ اُنھوں نے اس حیران کن فیصلے کے لیے جو دلائل دیے وہ ’چونکا دینے والی‘  گھنٹی کے مترادف ہیں: ’’تاریخی درآمد کا چیلنج امریکا کے مستقبل کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ خسارے، اقتصادیات، توانائی، صحت عامہ اور دیگر معاملات پر توجہ ازحد ضروری ہے، لیکن قانون سازی کے ہمارے ادارے کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ کانگریس کی اصلاح کی جانا چاہیے‘‘۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ بگاڑ کی کئی وجوہات ہیں: بے حد طرف داری، بدلنے والا نظریہ،  مہم میں رقوم فراہم کرنے کا ظالمانہ نظام، انتخابی حلقوں میں حدود کی تبدیلی، سینیٹ کے ذریعے  اہم عہدوں کے لیے انتخاب پر گرفت، مخالف جماعتوں کے سینیٹروں کے درمیان باہمی رابطے میں مسلسل کمی، اور ایک ایسا نظام ہے جس میں اتفاق راے کی قیمت پر پارٹی کی وحدت برقرار رکھی جاتی ہے۔(روزنامہ ڈان، ۶ مارچ ۲۰۱۰ئ)

ترجمہ: امجد عباسی

مجھ سے بیش تر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ نے اسلام کیوں قبول کیا؟ مجھے اس وقت اور بھی حیرت ہوتی ہے جب مسلمان مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں۔ عام طور پر میرا یہی جواب ہوا کرتا ہے کہ یہ واحد سچا مذہب ہے۔ مجھے کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا جس میں بال بال بچنے کے بعد میں نے اسلام قبول کرلیا۔ مجھے کوئی ایسی روشنی یا نور بھی نہیں دکھائی دیا جس کی وجہ سے میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا، حتیٰ کہ مجھے پوری طرح اس بات کا علم بھی نہیں ہے کہ میں نے کب مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ فی الواقع مجھے خدا کی تلاش تھی، نہ زندگی کا کوئی خاص مقصد ہی میرے پیش نظر تھا۔ مجھے تو تاریخ، فلسفہ اور سوشیالوجی کے موضوع پر کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ اسی شوق کی تسکین کے لیے میں مختلف بک اسٹورز سے کتب تلاش کرتا رہتا تھا۔

یہ کوئی ۲۰۰۳ء یا ۲۰۰۴ء کی بات ہوگی۔ ایک روز میں ایک بک اسٹور میں داخل ہوا تو مجھے ایک سبز رنگ کی کتاب نظر آئی جس کا نام Islam: Values, Principles and Reality (اسلام: اقدار، اصول اور حقیقت) تھا۔ میں نے اسے اُٹھا لیا اور مجھے خیال آیا کہ اگرچہ میں کچھ مسلمانوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے ان کے دین اور عقائد کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ یہ سوچ کر میں نے اس کتاب کو خرید لیا تاکہ یہ جان سکوں کہ اسلام کیا ہے؟ اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کتاب کو خرید کر دراصل چار ساڑھے چار سال کی طوالت پر مبنی اُس سفر کا آغاز کر رہا ہوں جو بالآخر میرے قبولِ اسلام پر جاکر ختم ہوتا ہے۔

اسلام کے مطالعے سے قبل میرے ذہن میں اسلام کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں تھیں۔ مثال کے طور پر مجھے اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ ایک مسلمان اپنے آپ کو کیسے ایک نیک اور اچھا انسان سمجھتا ہے، جب کہ دوسری طرف وہ اپنی بیوی کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہو۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی تھی کہ مسلمان مکہ میں ایک چوکور پتھر (یعنی خانہ کعبہ) کی عبادت کیوں کرتے ہیں، جب کہ مجسموں اور عمارتوں میں کوئی طاقت نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح میں یہ بھی نہ سمجھ سکا کہ مسلمان دوسرے مذاہب کو کیوں برداشت نہیں کرتے، بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ سب لوگ اسی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر میں نے اسلام پر مطالعہ شروع کیا۔

پہلی کتاب کے بعددوسری اور دوسری کے بعد تیسری کتاب میں پڑھتا چلا گیا۔ چند برسوں کے مطالعے کے بعد مجھے یہ پتا چلاکہ ہر وہ بات جسے میں اسلام کا حصہ سمجھتا تھا اور جس کی مخالفت کرتا تھا، درحقیقت اسلام بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔

میں اس نتیجے پر پہنچا کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایک اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ مسلمان خانہ کعبہ کی عبادت نہیں کرتے بلکہ وہ مجسموں اور اس نوعیت کی چیزوں کی عبادت کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ بات بھی میرے علم میں آئی کہ اسلامی تہذیب اپنی پوری تاریخ میں مذہبی برداشت کی کرئہ ارض پر بہترین مثال ہے۔

میں اسلامی تعلیمات اور اسلام کے اُن بنیادی اصولوں کو جان گیا جن سے اسلام کا مطالعہ کرنے سے قبل بھی مجھے اتفاق تھا۔ مطالعے کے دوران میں یہ راز منکشف ہوا کہ بہت سے موضوعات پر میرا نقطۂ نظر اسلام کے نقطۂ نظر کے عین مطابق ہے۔ اسلام کے متعلق میری معلومات کا بڑا ذریعہ کتابیں تھیں۔

میرے گردونواح میں کوئی ایسی دعوتی سرگرمیاں نہ تھیں جومیرے لیے معاون و مددگار ثابت ہوتیں، اور میرے رابطے میں ایسے لوگ بھی نہ تھے جو دعوت کا کام مؤثر انداز میں کرسکیں۔ مجھے جو تھوڑی بہت مدد ملی، وہ ان لوگوں سے ملی جو میرے ملنے جلنے والے تھے۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہالینڈ میں دعوت کا کام کس حد تک منظم ہے۔

جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے سوچا کہ میں بھی روزہ رکھ کر دیکھوں۔ مجھے یہ خیال اس لیے بھی آیا کہ کسی کتاب کے مطالعے سے اُس کیفیت کا اندازہ نہیں ہوتا جو روزہ رکھ کر پیدا ہوتی ہے۔ میں نے اپنے مسلمان دوستوں سے تذکرہ کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے قرآن مجید کا ایک نسخہ حاصل کیا اور انٹرنیٹ سے ۳۰ دن میں قرآن پاک کے مطالعے کا پروگرام بھی حاصل کرلیا۔ جب میں نے ان سے کہا کہ میں مکمل قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں اور رمضان کے بعد شوال کے روزے بھی رکھوں گا توان میں سے کچھ نے اس کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا اور نہ انھوں نے کبھی شوال کے روزے رکھے تھے۔ میں نے کچھ دودھ اور کھجوریں بھی خرید لیں اور اپنے ساتھ کام پر لے گیا تاکہ روزہ کھول سکوں اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ سنت ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ اگر انھوں نے روزانہ ایک پارہ نہ پڑھا تو قرآن کے مطالعے کے دوران اٹھنے والے سوالات کے جوابات میں کہاں سے حاصل کرسکوں گا۔ چنانچہ ہم نے ایک گروپ کی شکل میں قرآن کا اجتماعی مطالعہ شروع کر دیا۔ گھر کی خواتین کھانا تیار کرکے دے دیتی تھیں جو ہم اپنے کام کے دوران افطار کے بعد کھاتے تھے۔ اس طرح مجھے کچھ نئے قسم کے کھانوں کا تجربہ بھی ہوا۔ یوں ہمیں رمضان میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور بہت لطف آیا۔ اسی طرح میری زندگی کی پہلی عید بھی آئی۔

رمضان کے بعد میں اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے اپنے قصبے کی مسجد میں گیا۔ میرے نزدیک کسی اچھے کام کے لیے رقم خرچ کرنا، ایک صحیح بات تھی، اس لیے مسلمان نہ ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی میرے پاس کوئی وجہ نہ تھی۔ میں مسجد کے خازن سے ملا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں؟ میں نے کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں، البتہ میں نے رمضان میں روزے بھی رکھے ہیں اور اب زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے جلدی نہ کریں بلکہ اپنا اطمینان کرنے کے بعد اسلام قبول کریں۔

اس کے بعد کئی ماہ گزر گئے اور میں اسلام پر مطالعہ کرتا رہا۔ بیش تر کتب جو میرے زیرمطالعہ رہیں وہ غیرمسلموں کی لکھی ہوئی تھیں، مثلاً کِرن آرمسٹرانگ۔ میں نے کچھ وقت اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے مطالعے پر بھی لگایا۔ میں نے مذہبی بنیادوں پر انتہاپسندی اور دہشت گردی اور تہذیبوں کے تصادم جیسے موضوعات پر بھی مطالعہ کیا اور اسی طرح دیگر موضوعات بھی زیرمطالعہ رہے۔ اس تمام تر مطالعے کے نتیجے میں، میں نے جب بھی کوئی سوال اٹھایا تو اسلام کی طرف سے ہمیشہ اطمینان بخش جواب ملا۔ اطمینان بخش جواب کے حوالے سے یہ بھی واضح رہے کہ میں نے جب بھی مسلمانوں سے بات کی تو وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے، البتہ اپنے مطالعے کے نتیجے میں جتنی معلومات بھی میں نے اکٹھی کیں، ان سے مجھے ہمیشہ اطمینان بخش جواب ملا۔

اگلے سال رمضان کے اختتام پر میں ایک بار پھر واپس اپنے قصبے کی مسجد میں گیا تاکہ اپنی زکوٰۃ ادا کرسکوں تو ایک دفعہ پھر میری ملاقات مسجد کے خازن سے ہوئی اور اس نے مجھے پہچان لیا اور مجھ سے دوبارہ پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوگیا ہوں؟ میں نے کہا کہ نہیں، میں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا، اور آپ ہی نے تو مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں جلدبازی نہ کروں۔ اس نے کہا کہ ہاں، میں نے جلدبازی سے منع کیا تھا لیکن اس فیصلے میں اتنی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہیے۔

بطور غیرمسلم یہ میرا آخری سال تھا۔ اس سے قبل میں نے شراب پینا چھوڑ دی تھی۔ میں نے سگریٹ نوشی بھی ترک کر دی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ میں آگے بڑھ کر نیکی کا کام کروں اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائوں۔ اسی طرح خود برائی سے رُک جائوں اور دوسروں کو بھی برائی سے بچنے کی تلقین کروں۔ گویا میں نے ایک طرح سے دعوتِ دین اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔

ایک بار مجھے ترکی جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کچھ تاریخی مساجد دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں مجھے فطرت کی نشانیوں کو پہلی مرتبہ بغور دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ سے قرب کی عجب کیفیت تھی اور یہ بڑھتی چلی گئی۔ کبھی کبھار میں نے اپنے انداز میں نماز بھی ادا کی جو اس نماز سے مختلف تھی جس طرح میں آج بحیثیت مسلمان نمازادا کرتا ہوں۔ اس موقع پر جس طرح سے میں نے نماز ادا کی اور جو میری قلبی کیفیت تھی، اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اندر کوئی انقلابی تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ میں برابر اسلام کا مطالعہ کرتا رہا، تاہم اب میں نے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بھی شروع کردیا۔

ہالینڈ کی سماجی امور سے متعلق ایک معروف ویب سائٹ ہائیوز (Hyves) ہے جس کے ذریعے میرا ایک ڈچ نومسلم خاتون سے رابطہ ہوا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں تو میں نے اسے بتایا کہ میں ابھی تک مسلمان نہیں ہوا ہوں۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ میں اس کے گھر آئوں اور اس کے شوہر سے ملوں جو کہ پیدایشی طور پر مسلمان ہے، اسلام پر عمل پیرا بھی ہے اور مصر میں پیدا ہوا تھا۔ میں ان کے گھر گیا اور ان کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسلام کے بارے میں بات چیت بھی کی۔ جب دوسری مرتبہ میں ان سے ملا تو انھوں نے مجھے درست طریقے سے نماز ادا کرنا سکھائی جس کے لیے میں نے ان سے درخواست کی تھی۔ میں نے اپنے طور پر بہتر سے بہتر انداز میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی اور وہ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ   کیا میں واقعی اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں؟ میں نے کہا: ہاں، میں اس کے لیے تیار ہوں۔

اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں تو پہلے ہی مسلمان ہوچکا ہوں، اگرچہ میں نے      باضابطہ طور پر اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن پچھلے چند برسوں سے میں اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اللہ جو کہ خالقِ کائنات ہے، اور سچا واحد خدا ہے، اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نہ صرف رسول ہیں بلکہ آخری رسول ہیں جنھوں نے دین کی تکمیل کی۔ میں روزہ رکھنا چاہتا تھا، زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا تھا، نماز ادا کرنا چاہتا تھا اور آج بھی حج کے لیے میرے اندر تڑپ موجود ہے۔

میرا قبولِ اسلام کا سفر مطالعۂ کتب کے ذریعے طے پایا۔ میں نے اسلام کے نظریے سے متاثر ہوکر اسے قبول کیا۔ میرا یہ فیصلہ کوئی جذباتی فیصلہ نہ تھا بلکہ سوچا سمجھا اورمنطقی فیصلہ تھا۔ میں نے اسلام کی ان تعلیمات تک رسائی حاصل کی جو بآسانی دستیاب نہ تھیں۔ پھر ان کا موازنہ کیا اور ان پر گہرا غوروفکر کیا۔ اسلام، میرے ہرسوال کا جواب تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے اپنے آپ کو مسلمان کہلوانا نہ شروع کیا تو پھر میں ایک منافق ہوں گا۔

ایک یا دو ہفتے بعد، میں اور میرا مصری دوست، دونوں ایک قریبی مسجد میں گئے۔ اس نے   امام صاحب کو پہلے ہی سے میری آمد کا مقصد بتا دیا تھا۔ اس موقع پر میرے والدصاحب بھی موجود تھے۔ امام صاحب نے کلمۂ شہادت  لفظ بہ لفظ پڑھا، اور میں نے بھی اسی طرح لفظ بہ لفظ ادا کیا۔ میرے قبولِ اسلام کے بعد امام صاحب نے استقامت کے لیے دعا بھی کی جس کا میرے مصری دوست نے ڈچ زبان میں ترجمہ کیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں میلوں سے بھاگتا چلا آرہا تھا اور اب بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچا ہوں۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے اندر ایک نئی روح پھونک دی گئی ہو۔ میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنے اُوپر قابو پایا۔ اب میں پُرسکون اور مسرور تھا۔ اسی دوران مجھے خیال آیا کہ میں نے دین کا نور پالیا ہے، چنانچہ میں نے اپنا نام نور دین رکھنے کا فیصلہ کیا۔

قبولِ اسلام کے بعد میں اپنے قصبے کی مسجد میں واپس گیا۔ جیسے ہی میں مسجد میں داخل ہوا، مجھے وہی خازن ملا جس سے میری اس سے قبل ملاقات ہوئی تھی۔ اسی نے مجھ سے ایک دفعہ پھر پوچھا کہ کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں؟ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: جی ہاں، میں مسلمان ہوچکا ہوں اور میرا نام نوردین ہے۔ اس نے فوراً)کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ تلاشِ حق کے   ایک طویل سفر کے بعد بالآخر آپ دین حق کی نعمت سے سرفراز ہوگئے! (بہ شکریہ ہفت روزہ ریڈینس، نئی دہلی، ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ئ)

(نوردین ولڈیمن ہالینڈ کی ایک تنظیم اونٹڈک اسلام فائونڈیشن سے وابستہ ہیں اور دعوت و تبلیغ کی خدمات انجام دے رہے ہیں)

محمدؐ پیغمبرِاسلام، کانسٹنٹ ورجل جیورجیو، ترجمہ: مشتاق حسین میر۔ ناشر: ادارہ ترقی فکر، ۳۱۵-سی، فیصل ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۴۲۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

محسنِ عالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ، انسانی زندگی کا وہ روشن سرچشمہ ہے جس میں واقعی انسانی زندگی گزارنے کے تمام قرینے پائے جاتے ہیں۔ اگر اس حیاتِ مقدسہ کو چھوڑ دیں تو انسانی زندگی، حیوانی زندگی کا حوالہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اصحابِ ایمان نے اس حیاتِ طیبہ کو اپنی والہانہ وابستگی و محبت کا مرکز بنایا تو دوسری جانب وہ سعید روحیں بھی اس نور کی کشش سے دُور نہ رہ سکیں، جنھیں اگرچہ اسلام کی نعمت نہ مل سکی، مگر نورِ نبوت کی روشنی کا اعتراف انھوں نے بھی کیا۔ رومانیہ کے معروف ڈپلومیٹ اور مسیحیت سے وابستہ جیورجیو، ثانی الذکر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

زیرمطالعہ کتاب محمدؐ پیغمبرِاسلام جیورجیو کے اسی اعترافِ عظمت کی شہادت ہے، وہ ایسے فرد کی طرح سیرت کا مطالعہ پیش کرتے ہیں جس نے رسولؐ اللہ کو پیغمبر کے بجاے ایک  عظیم ترین انسان کے طور پر دیکھنے، سمجھنے اور اپنے لفظوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیورجیو نے ایک عجب جذب و مستی میں، سیرتِ پاکؐ کے مختلف پہلوئوں کو خالصتاً عقلی اور تجزیاتی رنگ میںپرکھا اور رواں اسلوب میں قلم بند کیا ہے۔ واقعات کو صحت کے ساتھ پیش کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے اوریہ کوشش بھی کی گئی کہ مطالعہ کرنے والا فرد اگر انھیں پیغمبرؐ نہیں بھی تسلیم کرتا تو کتاب کی اختتامی سطروں پر پہنچ کر وہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہتا کہ انسانیت کا واحد بلند ترین حوالہ بھی بس یہی حیاتِ مقدسہ ہے۔

ترجمے کا اسلوب ایسا پُرکشش ہے کہ قاری، مصنف کی گرفت سے نکل نہیں پاتا۔   اسلوبِ بیان ایسا پُرتاثر ہے کہ کبھی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، تو کبھی قاری اپنے آپ کو ۱۴ سو برس پہلے مکہ و مدینہ کی فضائوں میں موجود پاتا ہے اور ان پیش آمدہ واقعات کا حصہ تصور کرنے لگتا ہے۔بلاشبہہ چند مقامات پر اختلاف کی گنجایش موجود ہے مگر اس میں اختلاف میں بدنیتی کا تاثر نہیں ملتا بلکہ معلومات تک رسائی کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جو بالخصوص غیرمسلم دوستوں میں بڑے پیمانے پر پھیلائے جانے کے قابل ہے۔ مرحوم مشتاق حسن میر ایڈووکیٹ (گجرات) نے ۷۰ کے عشرے میں اُسے اُردو میں منتقل کیا تھا۔ خوب صورت طباعت کے ساتھ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اس کا نقشِ ثانی پیش کیا ہے، جسے اور زیادہ بامعنی بنانے کے لیے مشہور محقق محسن فارانی نے قیمتی نقشوںسے مزین کیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


فقہ اسلامی: دلائل و مسائل (جلد اوّل)، وہبہ الزحیلی، مترجم: محمد طفیل ہاشمی۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۰۰۸ ۔ قیمت (مجلد): ۱۰۰۰ روپے۔

اسلامی فقہ پر اب تک جو کام ہوچکا ہے، اس کا صرف خلاصہ لکھا جائے تو وہ بھی درجنوں جلدوں پر محیط ہوگا۔ بالکل اسی طرز پر عہدِحاضر میں کیا گیا کام معروف شامی عالمِ دین ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی تصنیف الفقہ الاسلامی وأدلتہ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ عرب یونی ورسٹیوں میں اسلامی قانون کی تدریس کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر وہبہ کی یہ تصنیف ۱۱ جلدوں پر مشتمل ہے۔ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے اس کے اُردو ترجمے کی اشاعت کا بیڑا اُٹھایا ہے۔

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی اس تصنیف کی پہلی جِلد کا ترجمہ زیرنظر ہے۔ فقہ کے بنیادی مباحث قریباً ۳۰۰ صفحات پر محیط ہیں۔ ان مباحث میں فقہ کا مفہوم اور اس کی خصوصیات، آٹھ بڑے فقہی مذاہب کے بانیوں کا تعارف، فقہا کے درجات اور فقہی کتب، فقہی اصطلاحات اور فقہی تالیفات، فقہا کے اختلافات کے اسباب کا مختصراً ذکر کیاگیا ہے۔ اس کے بعد بنیادی اور عمومی انداز کے اُن سوالات کا جواب دیا گیا ہے جو فقہ کے ہر طالب علم اور عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، مثلاً کیا صرف ایک مذہب کی پابندی ضروری ہے؟ مسئلہ کس درجے کے عالم سے پوچھا جائے؟ وغیرہ۔ ان بنیادی مباحث کا خاتمہ ’نیت‘ کی بحث پر ہوتا ہے۔ یہ بہت جامع بحث ہے۔ عبادات کے ذکر میں بھی اگرچہ اس پر بحث موجود ہے، تاہم یہاں الگ سے مفید بحث کی گئی ہے۔

ایک تہائی صفحات کے بعد ’طہارت‘ اور ’نماز‘ کا بیان ہے۔ یہاں بھی باب اول: طہارت کتاب کے قریباً ۵۰۰ صفحات پر محیط ہے۔ یہ بیان طویل ضرور ہوگیا ہے مگر مسئلے کی کماحقہ توضیح و تشریح جب سامنے آتی ہے تو یہ طوالت اکتاہٹ کے بجاے دل چسپی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس باب کو سات حصوں میں تقسیم کر کے پہلے طہارت کے مفہوم کے بعد پانی کے حوالے سے جملہ مسائل کا ذکر ہے۔ پھر وضو، غسل، تیمم اور خواتین کے مسائل پر اس باب کی تکمیل ہوتی ہے۔ آخر میں نماز کے باب کو بھی پہلے باب کی طرح متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ چار حصوں میں تقسیم کی گئی اس بحث میں نمازوں کے اوقات، اذان و اقامت کے مسائل، اور نماز کی شرائط کو مفصل و مبرہن طور پر بیان کیا گیا ہے۔

یہ کتاب بہت سی اسلامی جامعات میں اسلامی علوم کے اعلیٰ درجات کے طلبہ کو بطور  نصاب پڑھائی جاتی ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ یقینا اُردو خواں لوگوں کے لیے ایک قابلِ قدر تحفہ ہے۔ ڈاکٹر وہبہ نے اسلامی فقہ کا یہ انسائی کلوپیڈیا تیار کر کے نہ صرف اسلامی فقہ کے طلبہ و اساتذہ پر بلکہ موضوع کا مطالعہ کرنے والے عام قاری کے اُوپر بھی احسان کیا ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


امام ابن تیمیہ، ایک عظیم مصلح، مولانا فضل الرحمن بن محمد الازہری۔ ناشر: ریز مشنری سٹور، ۵۳- نشتر روڈ، لاہور۔ فون: ۵۹-۷۶۴۱۳۵۸۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت(مجلد): ۲۵۰روپے۔

عظیم مصلح امام ابن تیمیہ (۱۲۶۲ئ- ۱۳۲۷ئ) نے اپنی اصلاحی کاوشوں کا علَم ایک ایسے تاریک دور میں بلندکیا جب تاتاری غارت گر مسلمان قوموں کو دریاے سندھ سے فرات کے کنارے تک پامال کرچکے تھے۔ مسلسل ۵۰ برس کی ہزیمتوں اور علم و دانش کے مراکز کی تباہی نے مسلمانوں کو انتہائی زوال و اِدبار سے دوچار کر دیا تھا۔ تاتاریوں کے قبولِ اسلام کے بعد بھی نومسلم تاتاری حکمرانوں کے زیراثر عوام، علما اور فقہا و مشائخ سبھی کی اخلاقی سطح بدستور ویسی ہی رہی۔ تقلید جامد کا دور دورہ تھا۔ کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا گویا گناہ بن گیا تھا۔ عوام الناس جاہل، غیرمنظم تھے اور پست ہمت۔ ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ دنیا پرست تنگ نظر علما اور ظالم حکمرانوں کے باہمی اشتراک کے خلاف اصلاح کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ صحیح الخیال علما اور حق پرست صوفیہ کی کمی نہ تھی مگر اس تاریک زمانے میں اصلاح کی آواز بلند کرنے کا شرف جس عظیم حق گو کو حاصل ہوا وہ امام ابن تیمیہ تھے۔ بلاشبہہ تمام علوم پر انھیں گہری دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فلسفہ و کلام، تزکیہ و احسان، تصوف و معرفت، عقائد و احکام، دین و شریعت، غرض تمام موضوعات پر تنقیدی بحثیں کیں۔ امام کی ان کاوشوں کی وجہ سے کتاب و سنت کی اصل روح نکھر کر سامنے آئی۔ تقلید و اجتہاد پر بھی امام ابن تیمیہ نے بے مثل کام کیا۔ مشرکانہ رسوم، بدعات اور اعتقادی و اخلاقی گمراہیوں کے خلاف امام نے جہاد کیا اورکئی بار پابندِ سلاسل ہوئے لیکن تنقید و تنقیح میں انھوں نے کسی سے رعایت روا نہیں رکھی۔ بڑے بڑے نام بھی امام کی تنقید سے بچ نہ سکے۔ اس آزاد اور جرأت مندانہ تنقید کی وجہ سے ایک دنیا اُن کی دشمن ہوگئی جس کا تسلسل آج بھی قائم ہے۔

امام ابن تیمیہ کی زندگی کے حالات و واقعات کے متعلق زیرنظر کتاب میں مستند حوالوں اور مصادر سے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ امام کی ابتدائی زندگی، پیدایش، تعلیم اور مسند درس پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعدازاں تاتاری جنگوں کے کچھ حالات بیان کیے گئے ہیں۔ تاتاریوں کے ان حملوں اور جنگوں کے مقابلے میں امام ابن تیمیہ نے جو جہادی کردار ادا کیا، اُسے بھی بیان کیاگیا ہے۔ یہ اگرچہ بہت مختصر بیان ہے مگر امام کی زندگی میں اس باب کی بہت اہمیت ہے۔ بہت سے لوگ    امام ابن تیمیہ کی زندگی کے اس گوشے سے ناواقف بھی ہیں۔ شرک و بدعت کے خلاف امام کے جہاد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور یہ باب امام کی زندگی کا گویا حاصل ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ امام کی ساری زندگی اسی جہاد میں گزری۔ یہ باب امام کے خلاف جعلی صوفیہ کے ہتھکنڈوں اور امام کی تجدیدی و اصلاحی کاوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ امام متعدد ابتلائوںسے دوچار بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے اگلے باب میں امام کے ایک خط الرسالۃ القبرصیۃ کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے جس میں امام نے ایک عیسائی حکمران کو مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی طرف توجہ دلائی اور اسلام کی تعلیمات کی بھی وضاحت کی ہے۔ چھٹا باب امام کے خلاف بُغض و عناد کی شدت کے بیان پر مشتمل ہے، اور یہیں امام کی زندگی کا باب بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ ساتویں باب میں امام کے اخلاق و اوصاف، ہم عصر علما کے بیانات کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔ آخری باب میں امام ابن تیمیہ کے نام وَر شاگردوں کا بیان ہے جن میں حافظ ابن قیم، حافظ ابن عبدالہادی، حافظ ابن کثیر اور امام الذہبی کے نام نمایاں ہیں۔ اسی باب میں امام کی تصانیف کا تعارف بھی کرا دیا گیا ہے۔ تجدیدی، اصلاحی اور تحریکی و انقلابی ذہنوں کوامام کی زندگی کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرنے کے لیے یہ کتاب مفید کام دے سکتی ہے۔ (ا- ر)


The Roundtable on Issues and Perspectives[مسائل و حالات پر نقطہ ہاے نظر]  شہزادو شیخ۔ ناشر: مشن اَن ٹو لائٹ انٹرنیشنل، لاڑکانہ۔ ملنے کا پتا: فیروز سنز، دی مال لاہور/مسٹر بکس، سپرمارکیٹ، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۴۵۰ روپ۔

شہزادوشیخ کو اندرون و بیرونِ ملک اہم مناصب پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ایک اہم سرکاری افسر کی حیثیت میں اُنھیں نہ صرف حالات و واقعات کو جانچنے کا بھرپور موقع ملا بلکہ اُن کی یہ کوشش بھی رہی کہ مسائل کی تہہ تک پہنچیں اور اُس مقام کا سراغ لگائیں جہاں سے پوری قوم کو زندگی و توانائی سے معمور کیا جاسکتا ہے۔

کتاب میں علم و حکمت، تہذیب و ثقافت، تاریخ، قانون، تہذیبی کش مکش، جدیدیت، بنیادپرستی، فقہ، اجتہاد، جہاد و قتال، سول سوسائٹی اور دیگر اہم موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ اِن مضامین کی خوبی یہ ہے کہ کتاب وسنت سے بھی استفادہ کیا گیا ہے اور قدیم و جدید مغربی مفکرین کی آرا کو اپنے دلائل کے ہمراہ پیش بھی کیا گیا ہے۔مغربی افکار کے حُسن و قبح کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

اس کتاب کا ایک مقصد یہ ہے کہ قاری کے سامنے شُستہ انگریزی میں بنیادی نکات رکھ دیے جائیں اور پھر اُسے یہ راہ دکھائی جائے کہ ان کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرے۔ شہزادوشیخ کا خیال ہے کہ علم، اطلاعات میں گم ہوچکا ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان اُمت مسلمہ کو پہنچا ہے۔ دوسرے باب میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا طرزِعمل جو کچھ بھی رہا ہو، شریعت ِ حقہ کی تعلیمات بتمام و کمال موجود ہیں۔ وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں کیمیا، طبیعات، فلکیات کے میدانوں میں جو ترقی کی، اُسی کی بنا پر یورپ، تاریکی کے دور سے نکلا اور آج دنیا بھر کی زمامِ کار اُنھی کے ہاتھ میں ہے۔

مطالعہ تاریخ اور تاریخ نویسی کے حوالے سے اُن کا مشاہدہ یہ ہے کہ تاریخ سے ’عالم گیریت‘ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حقائق کو اس قدر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے کہ کبھی ایک قوم ظالم بن جاتی ہے اور کبھی وہی قوم محسن بن کر سامنے آتی ہے۔ اصل حقیقت گرداب میں گم ہوچکی ہے۔

کتاب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مغربی فکر اور مغربی اقدامات سے آگاہی اور اُن کے منفی اقدامات پر متوازن تنقید ہے۔حکومتِ پاکستان کے افسران، یونی ورسٹی و کالجوں کے اساتذہ اور اُمت سے ہمدردی و محبت رکھنے والا ہر فرد اس کتاب کو ایک اہم دستاویز پائے گا۔ (محمد ایوب منیر)


ہمارااسلام قبول کرنا، مرتب: پروفیسر خالد حامدی فلاحی۔ ناشر: منشورات، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۳۱۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

یہ کتاب ۶۵ نومسلموں کی آپ بیتیوں کا مجموعہ ہے جنھوں نے آج کے دور میں اسلام قبول کیا ہے۔ یہ آپ بیتیاں پروفیسر خالد حامدی فلاحی کے زیرادارت بھارت کے ماہنامے    اللّٰہ کی پکار میں قسط وار شائع ہوتی رہی ہیں۔ ہر آپ بیتی دل چسپیوں کا نیا جہاں سامنے کھول دیتی ہے۔ ہر واقعہ اسلام کی عظمت و حقانیت پر دلیل بن جاتا ہے۔ اسلام قبول کرنے والی یہ سعید روحیں حق کی متلاشی تھیں اور ان کے گذشتہ مذاہب ان کی روحانی تسکین سے قاصر تھے۔ اللہ کے بے پایاں رحمت نے ان کو قرآنِ مجید دینی کتب اور چند ایسے نیک داعیانِ حق تک پہنچایا جہاں سے ایمان اور جنت کا مبارک سفر شروع ہوا۔ آج کے مسلم معاشرے میں آٹے میں نمک سے بھی کم نظر آنے والے داعیانِ حق کی تعداد بڑھ جائے تو اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں سیکڑوں گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

مقدمے کے بعد پروفیسر ڈاکٹر بھارتی دیوی کی تحریر ’کوتاہی کس کی ہے؟‘ سمیت کئی جگہوں پر مسلمانوں سے شکوہ موجود ہے کہ نہ تو ان کا کردار قرآن و سنت کے مطابق داعیانہ کردار ہے اور نہ وہ شہادتِ حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ بیش تر واقعات تو ہندستانی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن امریکا کے عبدالعزیز (مائیکل جیکسن کے بھائی) اور سارہ، روس سے لیلیٰ، انگلینڈ سے  سودہ بیگم، ڈنمارک سے نور، یوگنڈا افریقہ سے محمد طٰہٰ، نیپال کے محمداسجد اور پاکستان کے شیخ بشیر کے اسلام میں آنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ اسلام ہی انسانیت کو اپنے جلو میں پناہ و سکون دے سکتا ہے اور ہررنگ و نسل، برادری، ملک، براعظم کے افراد کے لیے کشش رکھتا ہے۔ واقعات کے انتخاب نے قاری کو وسعتِ فکر بخشی ہے۔ یوں ہر واقعہ انوکھا ہے لیکن ہندو، سیکھ، عیسائی، پارسی، قادیانی پس منظر سے تعلق رکھنے والی دس خواتین کی داستان قیمتی ہی نہیں، انسانیت کے لیے قابلِ فخر ہے۔ ایک مسلمان بچی حرا کی داستان جو عبداللہ نے بیان کی ہے حیران کن استقامت کی نظیر ہے۔ اسی طرح مردوں میں اسلام لانے سے پہلے بابری مسجد کو ڈھانے میں حصہ لینے والے ماسٹر محمد عامر ہیں۔ گجرات کے قتلِ عام میں حصہ لینے والے سہیل صدیقی، جرائم پیشہ پس منظر سے عبداللہ، ہندو پجاری عبدالرحمن، انتہائی تعلیم یافتہ محمد قاسم، عبدالواحد، محمدعمر، ڈاکٹر سعیداحمد، ڈاکٹر حذیفہ، محمد خالد، محمداسد، عبداللہ، اے کے عادل، ڈاکٹر محمدعبداللہ، اَپ پڑھ محمدسلیم، محمد لیاقت، غریب محمداحمد اور محمدشفیع شامل ہیں۔

کتاب ضخیم ہونے کے باوجود ایک ہی نشست میں مکمل کرنے کو جی چاہتاہے۔ بعض مقامات پر ایمانی کیفیت کو مہمیز ملتی ہے اور اہلِ ایمان آنسوئوں کے ساتھ اپنے نئے ہم مذہبوں کا استقبال کرتے ہیں۔ مغرب میں عیسائیوں کے قبولِ اسلام پر بہت کتابیں چھپی ہیں۔ عراق اور افغانستان میں اتحادی افواج کے سپاہیوں اور مغربی صحافیوں نے بھی اسلام قبول کیا ہے لیکن ہندو معاشرے میں قبولِ اسلام پر یہ پہلی بڑی دستاویز ہے۔ شہادتِ حق کے فریضے پر اُبھارنے والی اس کتاب کو پڑھے لکھے مسلمان خاص طور پر، ہر داعیِ حق کے مطالعے میں ضرور آنا چاہیے۔ (ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی)


تعارف کتب

  • صحابہؓ کے سوال، نبیِ رحمتؐکے جواب، سلمان نصیف دحدوح، مترجم: محمد طیب طاہر، ناشر: نشریات ۴۰-اُردو بازار، لاہور- فون: ۴۵۸۹۴۱۹۔ صفحات:۴۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مصنف نے عبادات، کاروبار، حکومت و سیاست اور روزمرہ کے نزاعی معاملات، نیز آدابِ زندگی، قیامت اور فتنوں جیسے مسائل سے متعلق احادیث نبویؐ کا انتخاب کیا ہے۔ مفصل اور مختصرتوضیحی نکات بھی درج ہیں۔ رسولؐ اللہ سے صحابہؓ نے کوئی استفسار کیا اور آپؐ نے جواب عنایت فرمایا، انھی سوالات و جوابات (احادیث) کو سوال جواب کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ انتخابِ حدیث میں بھی ذرا دقّت سے کام لیا جاتا تو نسبتاً زیادہ جامع اور متعلق بہ موضوع احادیث کو لایا جاسکتا تھا۔ تاہم ایک اچھے ذخیرئہ حدیث کی صورت میں عمومی مطالعے کے لیے اچھا لوازمہ مہیا ہوگیا ہے۔]
  • انسان اور آخرت ، حافظ مبشرحسین۔ ناشر: مبشراکیڈمی،لاہور۔ فون: ۴۶۰۲۸۷۸-۰۳۰۰۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [اصلاحِ معاشرہ اور فرد کی فکری تربیت اور تعمیر سیرت کے لیے عقائد و نظریات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بہت سے اخلاقی و معاشرتی مسائل کا بنیادی سبب بھی عقائدو نظریات کا درست نہ ہونا ہے۔ ٹھوس اور پایدار تبدیلی کے لیے تطہیر افکار اور اصلاحِ عقائد ناگزیر ہے۔ پیشِ نظر عقائد اور ایمانیات کے جملہ مباحث کو عام فہم اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ فقہی اور کلامی بحثوں سے ہٹتے ہوئے اس موضوع سے متعلق ضروری معلومات قرآن و حدیث سے جمع کردی گئی ہیں اور حوالہ جات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔]

عکس و آواز

نقا ٹیوب (Naqatube.com)، ایک معیاری اور متبادل ویب سائٹ

۲۰۰۵ء میں پہلی بار متعارف ہونے والی یوٹیوب ویب سائٹ ایک حیران کن ویب سائٹ ہے جو دن بدن مقبول ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کے ذریعے وڈیو کلپس (وڈیو فلم) بآسانی دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں اور لاکھوں لوگوں تک مؤثر انداز میں اپنی بات پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس طرح انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک نیا کلچر متعارف ہوا ہے جو مؤثر ابلاغ کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں خرابی    یہ ہے کہ غیرمعیاری اور اخلاق باختہ وڈیو کلپس بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یوٹیوب کے ایک بہتر متبادل جو مختلف قباحتوں سے پاک ہو کی تلاش میں ہی نقا ٹیوب کو متعارف کروایا گیا ہے۔ عربی زبان میں نقاء کے معنی خالص اور صاف ستھرے کے ہیں۔     ویب سائٹ کا سلوگن ہی یہ ہے کہ ایک نقی، یعنی صاف ستھری ویب سائٹ کے لیے ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں۔ نقا ٹیوب کا ایک ہدف یوٹیوب کے ناظرین کو ایک بہتر متبادل دینا ہے۔ اس سائٹ میں کلپس لوڈ کرنے سے قبل سنسر کیے جاتے ہیں۔ موسیقی اور خواتین پر مبنی کلپس ممنوع ہیں۔ سائٹ پر مختلف علماے کرام، اسکالرز اور دانش وروں کے نقطۂ نظر کو جاننے کے ساتھ ساتھ مختلف چینل بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ انگریزی کے علاوہ کئی زبانوں میں سائٹ دیکھنے کی سہولت ہے۔ نقا ٹیوب جو کہ چند ماہ قبل متعارف ہوئی ہے تیزی سے مقبول ہورہی ہے، تاہم سروس کے حوالے سے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔(امجد عباسی)

شفیق الرحمٰن انجم ،قصور

’پاکستان کا تصور‘ (مارچ ۲۰۱۰ئ) پروفیسر فتح محمد ملک کا ایک قابلِ توجہ اور چشم کشا تبصراتی مقالہ ہے جس میں دو قومی نظریے اور پاکستان کے اساسی تصورات کو ایک بار پھر مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا میںواحد اسلامی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی۔ ابتدا ہی سے امریکا اور بھارت پاکستان کی نظریاتی اساس اور جغرافیائی حدود پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کبھی مغرب سے درآمد ’روشن خیالی‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور کبھی بھارت کے ساتھ ’امن کی آشا‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ڈرون حملے ہوں یا پانی کا بحران ، سب اسی شیطانی چال کی کڑیاں ہیں۔ ان کے مکروہ عزائم کی تکمیل میں ہمارے اپنے ان کے مؤید ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں دشمن کے شیطانی ہتھکنڈوں کو سمجھ کر اور پاکستان کی نظریاتی اساس کو مدنظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل ترتیب دیں اور عوام کی درست سمت میں رہنمائی کریں۔


نوید اسلام صدیقی ،لاہور

آج دنیا بھر میں جو معرکۂ حق و باطل جاری ہے، اس کے ہر محاذ کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ مارچ کے شمارے میں مصر اور بنگلہ دیش کی مسلمان حکومتوں کے ہاتھوں اہلِ حق کی آزمایش کا جو نیا دور شروع ہوا ہے اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں۔ پاکستانی میڈیا اس طرح کی خبروں کو سامنے نہیں لا رہا۔ ان کی دل چسپی کے اور بہت سے میدان ہیں۔ ان حالات میں ترجمان کا دم غنیمت ہے۔


اسامہ مراد ، کراچی

’عالمِ عرب کی اسلامی تحریکیں‘ (فروری ۲۰۱۰ئ) معلومات سے پُر تھا۔ مضمون کے آخر میں     اسلامی تحریک کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: تفصیلی تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ موجودہ حالات میں کسی بھی ملک میں تحریکِ اسلامی کا تنہا اقتدار سنبھالنا نہ صرف اس کے لیے بلکہ متعلقہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں خواہ ووٹوں کی اکثریت کی بنا پر تنہا حکومت کرنا اس کا حق ہی کیوں نہ ہو۔ تحریکِ اسلامی میں یہ کوشش ہونا چاہیے کہ وہ مختلف معاہدوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوکر معاشرے میں بنیادی تبدیلی لائے اور دیگر حکومتی امور سرانجام دے۔ بتدریج تبدیلی ہی زیادہ مؤثر اور دیرپا انقلاب کا باعث ہوتی ہے‘‘۔ کیا پاکستان کی تحریکِ اسلامی کے لیے اس میں غوروخوض کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے!

اصلاح کا کام کب تک؟

آپ نے عوام کی اصلاح سے مایوسی کا فتویٰ دینے سے پہلے کاش کہ اتنا غور کیا ہوتا کہ اب تک آخر اصلاح کا کام ہُوا کیا ہے؟___ کیا یہ چند وعظ، چند تقریریں، چند درس اس بات کے لیے کافی ہیں کہ شہادتِ حق اتمامِ حجت کی منزل کو پہنچ جائے! یہ وعظ اور درس اتنی بڑی قوم کی اصلاح کے لیے کوئی حیثیت  نہیں رکھتے۔ یہ قوم جس کو چاروں طرف سے شیاطین نے گھیر رکھا ہے، یہ جس کو ’آئمہ ضلالت‘ پوری طرح  گھیرے ہوئے ہیں، جس کی صحافت الحاد و لادینی کا طوفان اُٹھا رہی ہے، جس کے علما نے خود دین کی حقیقت کو اُن پر مشتبہ بنا رکھا ہے، جس کے لیڈروں نے مختلف بولیاں بول بول کر اسے ایک انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے، جس پر سرمایہ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے، جس پر جدید فلسفے کا طوفان لٹریچر کی صورت میں ٹوٹا پڑتا ہے، اس میں آپ کے چند وعظ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں تو مساعیِ صلاح میں اگر عمریں کھپ جائیں تو بھی نہیں کہاجاسکتا کہ شہادتِ حق کا حق ادا ہوگیا!

کسی داعیِ حق کو اُس وقت تک مایوسی کا اظہار کرنے کا حق نہیں جب تک ایک ماحول میں اس کا وجود کسی درجے میں بھی گوارا کیا جاتا ہے، اور جب تک بچہ بچہ اس کی دعوت کو علانیہ رو دَر رو ہوکر ٹھکرا نہیں دیتا، بخلاف اس کے یہاں تو حالات انتہائی اُمیدافزا ہیں۔ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں، بعض اثر لیتے ہیں، بعض قبول کرتے ہیں، بعض عملی تعاون پر تیار ہوجاتے ہیں، بعض دین حق کے لیے ہمہ تن ایثار بن جاتے ہیں___ آہستہ آہستہ کوشش کرنے والوں کی کوششوں کے نتائج برابر نکل رہے ہیں! کجا وہ حال کہ لوگ مکہ میں خدا کا نام نہیں لے سکتے تھے، پِٹتے تھے، لہولہان کردیے جاتے تھے، دو سال تک شعب ابی طالب میں نظربند رکھے گئے، جب بھی انھوں نے اُس وقت سے پہلے قنوطیت کے جذبوں کو دلوں میں جگہ نہ دی، جب تک کہ ان کے قتل اور اخراج کے منصوبے نہ بن گئے، اور جب تک ان کو یہ یقین نہ ہوگیا کہ اب مکہ کی سرزمین، ان کا وجود ایک لمحے کے لیے بھی گوارا نہیں کرسکتی! لیکن ہزار طرح کی سہولتوں اور آسانیوں میں ہوتے ہوئے آپ  کون ہوتے ہیں کہ قوم کی اصلاح کے ناممکن ہونے کا فتویٰ دیں؟ آپ کی قنوطیت ایک خطرناک بزدلی اور فرض ناشناسی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ براہِ کرم اسی کے علاج کی طرف توجہ فرمایئے ۔(’ہمارا معاشرہ، چندخطرناک نفسیاتی وبائیں، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد ۵، جمادی الاول ۱۳۶۹ھ، اپریل ۱۹۵۰ئ، ص ۴۳-۴۴)