۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک تاریخی لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ برعظیم پر ہزار سال حکومت کرنے کے بعد برطانیہ کی ۲۰۰ غلامی کے طوق سے نجات کی جدوجہد نے، ۲۰ویں صدی کے دوسرے ربعے میں ایک غیرمعمولی صورت اختیار کر لی تھی۔ آزادی کی تحریک، جس کی قیادت تحریکِ خلافت کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، سقوطِ خلافت کے بعد ایک نئی دلدل میں پھنستی نظر آرہی تھی۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں نے متحدہ قومیت کا جال کچھ اس طرح بُنا تھا کہ دام ہم رنگِ زمین، کچھ اس طرح بچھایا تھا کہ اگر مسلمان اس جال میں پھنس جاتے تو مسلمان، برعظیم کی آبادی کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود آزادی سے محروم ہی رہتے اور خطرہ تھا کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں چلے جاتے۔ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے اپنے دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی خاطر تقسیم ملک کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر قائداعظم کی قیادت میں ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء اور اپریل ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ کنونشن کی قراردادوں کی روشنی میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو جو ۲۷ رمضان المبارک کا مبارک دن بھی تھا، ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کی شکل میں صبحِ نو کا دیدار کیا۔
اس جدوجہد میں مسلمانوں نے کتنی بڑی قربانیاں پیش کیں؟ ان کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر اپنے لیے ہندوئوں کی عددی بالادستی میں نیم آزادی کی زندگی گزارنے پر بہ رضا و رغبت آمادگی کا اظہار کیا، اور برعظیم کے مسلمانوں نے مسلم کش فسادات میں لاکھوں انسانوں کی جانوں اور ہزاروں عصمت مآب خواتین کی عزتوں کی قربانی پیش کی۔ ایک کروڑ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور نہایت بے سروسامانی کے حالات میں اس اطمینان کے ساتھ پاکستان نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا کہ یہ سب قربانی ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے دی گئی ہے، یعنی آزادی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک مبنی برحق و انصاف اجتماعی نظام کا قیام۔ جن آنکھوں نے خون میں لت پت اور لٹے پٹے قافلوں کو پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتے ہی سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے، وہ ان ساری ہی مصیبتوں اور صعوبتوں کی آغوش میں حاصل ہونے والی اس عظیم کامیابی اور الٰہی انعام کے لذت آشنا ہیں۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک دور کے اختتام اور ایک نئے دور کے آغاز کا تاریخی لمحہ ہے۔ آج ۶۲ سال گزرنے کے بعد بھی اس لمحے کی یاد ہوا کے ایک معطر جھونکے کی مانند ہے۔ اللہ کے اس انعام اور برعظیم کے مسلمانوں کی اس کامیاب جدوجہد پر جتنا بھی رب غفور و رحیم کا شکر ادا کیا جائے، کم ہے___ لیکن تشکر کے یہ جذبات اپنی آغوش میں ایک بڑی دکھ بھری داستان لیے ہوئے ہیں اور یہ داستان ملک کی مختلف قیادتوں کی بے وفائی، نااہلی اور خودسری کے ان احوال سے عبارت ہے، جن کے نتیجے میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قائم ہونے والا پاکستان آج تک ان مقاصد کا گہوارا اور ان تمنائوں اور عزائم کی زندہ مثال نہ بن سکا، جن کی خاطر یہ ملک قائم ہوا تھا اور ملت اسلامیہ پاک و ہند نے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔
۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ کی شکل میں اپنی قومی منزل کا تعین اور اعلان کرنے کے باوجود، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے بجاے مفادات کی سیاست اور ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول کی جنگ میں ملک و قوم کو جھونک دیا۔ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مختصر مدت کے لیے نافذ کردہ مارشل لا کے تجربے کے بعد، فوجی قیادت نے ۱۹۵۸ء میں پورے پاکستان پر مارشل لا کی شکل میں شب خون مارا ۔ گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی، وہ دن اور آج کا دن کہ قوم کی یہ گاڑی پٹڑی پر رواں دواں نہ ہوسکی۔
۱۹۷۱ء کا سانحہ رونما ہوا، جس نے ملک کو دولخت کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفق علیہ دستور کی شکل میں امید کی نئی کرن رونما ہوئی لیکن اس وقت کی سیاسی قیادت نے اس دستور کے مطابق نظامِ زندگی کو چلانے کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے پہلے ہی دن سے اس سے انحراف کی راہ اختیار کی۔ جس دن دستور نافذ ہوا، اسی دن بنیادی حقوق کو معطل کرکے ملک کو ایمرجنسی کی گرفت میں دے دیا گیا۔ پھر ۱۹۷۷ء میں ایک بڑی عوامی تحریک ’پاکستان قومی اتحاد‘ کی شکل میں اُبھری مگر وہ بھی کامیابی کے دہانے تک پہنچنے کے بعد غیرمؤثر ہوگئی کہ اس تحریک کی منزل کو مارشل لا نے کھوٹا کردیا۔ گویا کہ متفقہ دستور، سیاست دانوں اور ججوں کی خواہشوں اور فیصلوں کا تختۂ مشق بن گیا۔ بالآخر ایک اور طالع آزما نے ۱۲ نومبر ۱۹۹۹ء کو دستور کو معطل کر کے ملک و قوم پر نہ صرف شخصی آمریت کی طویل رات مسلط کر دی، بلکہ نائن الیون کے بعد ملک کی آزادی اور حاکمیت تک کو دائو پر لگا دیا جس کے نتیجے میں قومی زندگی میں امریکی عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ اب پاکستان ایک امریکی کالونی کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس امریکی ایجنڈے کے مطابق حکمران سارے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں مرتکز کررہے ہیں اور قیادت کی تبدیلیاں بھی باہر والوں کے اشارۂ ابرو پر ہو رہی ہیں، لیکن اللہ کا قانون اور مشیت اپنی جگہ ہے، جس کا ایک نظارہ ہم نے ۲۰۰۷ء میں دیکھا۔
۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو مطلق العنان فوجی آمر نے عدالت عظمیٰ کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے ایک بھرپور وار کیا، مگر یہی وار حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن گیا۔ وکلا کی قیادت میں قوم نے آمریت کے خلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا اور ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔
۱۴؍اگست ۲۰۰۹ء ایسے حالات میں آرہا ہے جب ایک طرف امریکا وطن عزیز اور اس پورے علاقے کے لیے نئے جال بُن رہا ہے اور ملک کی موجودہ قیادت خصوصیت سے صدر آصف علی زرداری عملاً اس کے آلۂ کار بن کر اپنی ہی قوم، اس کے عزائم اور احساسات کے خلاف برسرِجنگ ہیں۔ مزید یہ کہ وہ فوج اور قوم کو لڑانے کے سامراجی کھیل میں شریک ہیں۔ دوسری طرف قوم کا حسّاس طبقہ امریکی غلامی کی اس بلا کا مقابلہ کرنے کے لیے بیدار ہورہا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔’گو امریکا گو‘ اور ’امریکی غلامی نامنظور‘ کے نعروں سے ملک کے دروبام گونجنے لگے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ دستور کی بالادستی کے قیام کے لیے ایک روشن کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پس منظر میں ۱۴؍اگست جہاں ایک یومِ تشکر ہے، وہیں ایک یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ پوری دیانت اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ متعین کیا جاسکے کہ خرابی کی اصل وجوہ کیا ہیں، اور اصلاح کی جدوجہد کا حقیقی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ ہم اس موقع پر قوم اور اس کی سیاسی، دینی اور عسکری قیادت کو انھی امور پر غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں۔
ملک و قوم کو درپیش اصل مسائل اور چیلنجوں پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان تین اہم اور خطرناک مغالطوں کا پردہ چاک کریں جو دراصل اہم نظریاتی، سیاسی اور نفسیاتی حملے ہیں، اور جن کا تانا بانا بڑی عیاری اور چابک دستی سے عالمی سطح پر پاکستان دشمن قوتوں اور بدقسمتی سے خود ملک میں کارفرما کچھ عناصر کی ملی بھگت سے بُنا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پاکستان کی شناخت اور اس کے مستقبل سے بڑا گہرا ہے۔ پاکستان کے وجود کے لیے اصل خطرہ اگر کوئی ہے تووہ ان ہی سوچے سمجھے مغالطوں سے ہے۔
ہم آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان حقیقی خطرات کو جو افراد محض ’سازشی نظریہ‘ کہہ کر نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، وہ عالمی سیاست کے زمینی حقائق سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔ وہ اس سنجیدہ مسئلے کو محض ایک ’ذہنی خوف‘ کہہ کر تاریخ کی کھلی کھلی تنبیہات سے آنکھیں بند کر رہے ہیں اور قوم کو دھوکا دینے کی مذموم کوششوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خطرات کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا جائے۔
پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب تقسیم سے قبل کے ان حالات پر نگاہ ڈالی جائے جن سے مسلمان اس وقت دوچار تھے، جو برطانوی استعمار اور ہندو اکثریت کے گٹھ جوڑ کے پیدا کردہ تھے۔ اقتدار سے محرومی کے ۲۰۰ برسوں میں مسلمان ہر اعتبار سے پس ماندگی کا شکار تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ان کے لیے معاشی ترقی اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور فروغ کو ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ پاکستان کی مختلف قیادتوں کی تمام کوتاہیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندگی کے ہرشعبے میں جو مواقع اس آزاد مملکت میں مسلمانوں کو آج حاصل ہیں، ان کا مقابلہ بھارت کے ۱۵ سے ۲۰کروڑ مسلمانوں کی زبوں حالی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا قیام کتنا بڑا انعام ہے، جس کی قدر اس قوم کا ایک حصہ نہیں کر رہا۔ حال ہی میں بھارت میں سچر کمیشن کی جو رپورٹ آئی ہے اس میں سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ آبادی میں مسلمانوں کا حصہ ساڑھے بارہ سے ۲۵ فی صد ہے لیکن زندگی کے ہرشعبے میں ان کی نمایندگی مشکل سے دو اڑھائی فی صد ہے۔
بلاشبہہ ہماری قیادت کی روح فرسا غلطیوں اور بھارت کی جارحانہ سیاسی مداخلت اور فوج کشی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان، پاکستان سے جدا ہوگیا، لیکن بھارت کی تمام تر کوششوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود، بنگلہ دیش نے اپنا آزاد اور مسلمان تشخص باقی رکھا ہے۔ بھارت اور بنگلہ قوم پرستوں کی خواہش کے باوجود مشرقی اور مغربی بنگال ایک نہ ہوسکے۔ بنگلہ دیش برعظیم میں ایک دوسری مسلم مملکت کی حیثیت سے قائم ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ اس طرح برعظیم میں یہ دو آزاد مسلمان مملکتیں ہیں، جو بھارت کی متعصب ہندو قیادت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں اور مختلف انداز میں بھارت کی سیاسی اور معاشی اور سفارتی سازشوں کا ہدف بنی ہوئی ہیں۔ بھارت کے دانش وروں اور نام نہاد پالیسی سازوں کی آواز میں آواز ملانے میں، آج امریکا اور برطانیہ کے کئی تھنک ٹینک ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں اور سب کے ہاں ٹیپ کا بند ایک ہی ہے: پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور پاکستان، ان کے خیال میں چند برسوں اور کچھ کی نگاہ میں تو چند مہینوں اور ہفتوں کا مہمان ہے۔
اس سلسلے میں ایک بھارتی دانش ور کپیل کومیرڈ کا ایک زہریلا اور شرانگیز مضمون لندن کے اخبار گارڈین میں ۱۴ جون ۲۰۰۹ء کو شائع ہوا ہے:’’پاکستان کا ٹوٹنا اَٹل ہے اور ۲۰سال کے اندر پاکستان ختم ہوجائے گا‘‘۔ موصوف نے صدر زرداری کے اس ارشاد کو بھی اپنی تائید میں پیش کیا ہے کہ: ’’اگر اس ملک میں جمہوریت ناکام ہوتی ہے، اگر دنیا جمہوریت کی مدد نہیں کرتی، پھر کچھ بھی ممکن ہے‘‘۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہم صاف لفظوں میں اس امر کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ پاکستان کا قیام کسی درجے میں بھی کوئی غلطی تھا، نہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اور نہ پاکستان کسی طالبانیت کے خطرے کی زد میں ہے۔ یہ تینوں مغالطے امریکا کی عالمی سیاست کو آگے بڑھاوا دینے کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان مغالطوں کے زیراثر جو پالیسی بھی بنے گی، وہ نہ حقیقت پر مبنی ہوگی اورنہ پاکستان کے حقیقی مفادات سے اس کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے، بلکہ وہ پاکستان کے مقصدِ وجود، قوم کی حقیقی اُمنگوں، اس کے اقتدار اعلیٰ اور مفادات کے منافی ہوگی۔
اسی طرح یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتوں نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے، اور وہ پاکستان کے ملّی جوہر کو حقیقت کا رنگ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن مغرب کی آشیرباد رکھنے والی ان مقتدر اور سیکولر قیادتوں کی اس ناکامی کو پاکستان کی ناکامی اور ریاست کی ناکامی کا نام دینا اور پاکستان کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔
پاکستان اللہ کے فضل سے قائم ہوا ہے اور اس کے قیام کے لیے ملتِ اسلامیہ ہند نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ مشکلات اپنی جگہ، لیکن پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ اللہ پر بھروسے اور جواں مردی سے کیا ہے۔ ان شاء اللہ آج بھی قوم اسی جذبے سے موجودہ خطرات کا مقابلہ کرے گی۔ ہم صرف تحدیثِ نعمت کے طور پر چند بنیادی حقائق کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ قوم ایک عزمِ نو کے ساتھ آج کے درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکے۔
قیامِ پاکستان کے وقت بھارت اور برطانیہ دونوں کا اندازہ یہی تھا کہ یہ ملک چند برسوں کا مہمان ہے، اور یہ بہت جلد بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ الحمدللہ تمام تر بے سروسامانی، مسلم کش فسادات اور بھارت کے معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو کے باوجود پاکستان قائم رہا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا گیا اور زندگی کے مختلف میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت درپیش معاشی اور سیاسی دبائو اور چیلنجوں کے ساتھ نظریاتی چیلنج بھی رونما ہوئے۔ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں، لیکن پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسلامی نظام کے لیے ایک ملک گیر تحریک کے جلو میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے ریاست کا مقصد اور منزل واضح الفاظ میں متعین کردیے۔ پھر تمام مکاتبِ فکر کے علما نے اسلامی ریاست کے ۲۲ اصول متفقہ طور پر مرتب کر کے اس نظریاتی شاہراہ کو اور بھی روشن کر دیا۔ سیکولر اور بھارتی لابیاں اپنا کام برابر کرتی رہیں، لیکن دشمن کے ہر وار کا مقابلہ قوم نے پوری مستعدی سے کیا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور پاکستان میں ملک کے اسلامی تشخص کو واضح کیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے ۱۹۶۲ء میں اپنے دیے ہوئے دستور سے ’قرارداد مقاصد‘ حذف کردی اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جگہ جمہوریہ پاکستان رکھا، مگر دو ہی سال کے اندر انھیں ۱۹۶۴ء میں ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کو بھی دستور کا دیباچہ بنانا پڑا، اور ملک کا نام بھی دوبارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنا پڑا۔ حالانکہ یہ ایسی اسمبلی تھی جو براہِ راست بالغ حق راے دہی کے ذریعے وجود میں نہیں آئی تھی، بلکہ یہ اسمبلی ایوب صاحب کی بنیادی جمہوریتوں کا عطیہ تھی جس میں ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے والوں کی تعداد ۸۰ ہزار تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ۱۹۷۲ء کے عبوری دستور اور نئے مسودہ دستور میں پاکستان کے نظریاتی تشخص پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس مرتبہ پاکستان کو ایک سوشلسٹ اسٹیٹ قرار دینے کی کوشش ہوئی۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے دستور میں ایک بار پھر قوم نے اپنی اصل شناخت اور اس ملک کے مقصدِ وجود کا صاف الفاظ میں اظہار کیا۔ جس مسودے پر قومی اتفاقِ راے (national consensus) ہوا، اس کے عناصرِ اربعہ: اسلامی شناخت، پارلیمانی جمہوریت، فلاحی معاشرہ، وفاقی کردار متعین ہوئے۔ پھر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اس اسمبلی نے مکمل اتفاقِ راے سے مسلمان کی تعریف بھی دستور میں شامل کی اور اس طرح ملک کے نظریاتی تشخص کو ہرشبہے سے پاک کرکے واضح اور مستحکم کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس قوم کے ’نظریاتی عہد‘ کا مظہر ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اس دستور کو توڑنے اور مسخ کرنے کی باربار کوششیں ہوئیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آمریت خواہ وہ فوجی ہو یا سول عناصر کی مسلط کردہ، تادیر قائم نہیں رہ سکی اور ہر آمریت کا خاتمہ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بالضرور ہوا۔ معاملہ مصر، لیبیا اور شام کا ہو یا افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک کا___ ان سب کے مقابلے میں پاکستانی قوم نے لمبے عرصے کے لیے فوجی حکومت اور آمرانہ نظام کو برداشت نہیں کیا۔ پاکستان تحریکِ جمہوریت (PDM) ہو یا متحدہ جمہوری محاذ (UDF)، پاکستان قومی اتحاد (PNA) ہو یا اسلامی جمہوری اتحاد ( IJI)___ عوام نے اپنی منظم جدوجہد کے ذریعے آمرانہ قوتوں کا مقابلہ کیا اور جمہوریت کی شمع کو گل نہیں ہونے دیا۔ آخر میں اہم تحریک ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک تھی جس نے جنرل مشرف کے دورِاقتدار کی چولیں ہلا دیں اور پھر موصوف کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔ عوام کی احیاے جمہوریت کی تحریک سیاسی اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہر آمر کے لیے ایک تازیانہ۔
جس ملک میں ایسی اہم تحریکیں اُٹھی ہوں اور آمریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا گیا ہو، اسے ناکام ریاست کسی پہلو سے بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نشیب ضرور آئے ہیں لیکن ہر نشیب کے بعد فراز بھی ایک حقیقت ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جسے آج پھر قوم کو سامنے رکھ کر اپنے وطن کی اصلاح اور اپنی آزادی کی بازیافت کی جدوجہد کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
گویا کہ جب بھی اس قوم کو صحیح قیادت میسر آئی ہے اور اسے وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم و متحرک کیا گیا ہے، اس نے غیرمعمولی استعداد کا مظاہرہ کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت پورے ملک میں صرف دو کپڑے کے کارخانے تھے اور دنیا میں پٹ سَن کی پیدوار کا سب سے بڑا گہوارہ ہونے کے باوجود پٹ سَن کی ایک بھی مِل موجود نہ تھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ۱۰ سال میں ملک نے صنعت و حرفت کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔اسی طرح کھیل کے میدان میں بھی پاکستان سربلند اور کامیاب رہا۔ بھارت کے ایٹمی تجربے کے بعد سائنس کے میدان میں قوم کواپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج سے سابقہ پڑا اور الحمدللہ ساری دنیا کی مخالفت اور ٹکنالوجی کے حصول کے ہر دروازے کو بند کردینے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیرخاں اور دیگر متعدد محب وطن سائنس دانوں اور انجینیروں کی پوری ایک ٹیم نے اللہ کے فضل سے اور اپنی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے ذریعے سے صرف سات سال میں وہ کام کر دکھایا، جو امریکا اور دوسری مغربی اقوام نے اس سے دگنے وقت میں انجام دیا تھا اور ساری ایٹمی صلاحیت کے حصول پر جو مالی صرفہ آیا وہ ایف-۱۶ کے ایک اسکواڈرن کی قیمت سے زیادہ نہ تھا۔
بلاشبہہ پاکستانی قیادت کی ناکامیوں کی داستان ہی بڑی طویل اور دل خراش ہے، لیکن اگر صحیح وژن ہو، قوم اور قیادت میں ہم آہنگی ہو، صحیح قیادت میسر آجائے تو اس قوم نے کم وسائل اور تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جن پر سب کو فخر ہے۔ قومی تاریخ کے ان مثبت پہلوئوں اور روشن کارناموں کی موجودگی میں یہ احساس اور بھی قوی ہوجاتا ہے کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
دشمنوں کے مذموم ایجنڈے اور قوم کی تاریخ کے تابناک پہلوئوں کے پس منظر میں ہم آج کے یومِ آزادی کے موقع پر جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس طوفان میں ملک عزیز کو قائم و دائم رکھا ہے، وہیں یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک و قوم بڑے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ان خطرات کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانے اور اس کے حصول کے لیے قوم کو متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
آج ملک کو درپیش سب سے اہم خطرہ اس کی اس آزادی کو درپیش ہے، جو بڑی بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔اس آزادی کی مکمل بازیابی کے بغیر یہ قوم اپنے اصل مقاصد اور اہداف کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتی۔
سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے جو ظلم اس ملک اور قوم پر کیے ہیں، ان میں سب سے بڑا ظلم جو ایک ناقابلِ معافی جرم بھی ہے، وہ قوم کی آزادی کو امریکی بالادستی کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ امریکا میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو افسوس ناک حادثہ ہوا، اس کے سارے حقائق ایک نہ ایک دن دنیا کے سامنے آکر رہیں گے، اور امریکا نے ان پر جو پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ایک دن ضرور تار تار ہوں گے لیکن جو چیز ناقابلِ تردید ہے، وہ یہ ہے کہ اس مذموم واقعے کی آڑ میں امریکا نے پوری دنیا کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے، افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی ہے، اور اسلام اور پوری مسلم دنیا کو اس انداز سے نشانہ بنایا ہے کہ اس نے اس علاقے ہی کی نہیں پوری دنیا کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
عراق پر حملے (۲۰۰۳ء) کو تو اب سب ہی ایک غلطی کہنے لگے ہیں اور خود امریکا نے بھی اپنے انخلا کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کی فوج کشی کو ابھی تک اگر مگر کی بھول بھلیوں میں گم کیا ہوا ہے۔ حالانکہ آٹھ سال کی اس بے نتیجہ جنگ میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور کھربوں ڈالر کو آگ میں جھونکنے کے باوجود صاف نظر آرہا ہے کہ جس طرح افغانستان ماضی کی بڑی طاقتوں کا قبرستان بنا ہے، اسی طرح امریکا کے لیے بھی یہ دوسرا ویت نام بننے کے قریب ہے۔ افغانستان میں جو تباہی واقع ہوئی ہے وہ دردناک ہے، لیکن افغانستان پر امریکی قبضے نے جو صورت حال پاکستان کی بنا دی ہے اور جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی دھمکی کے تحت جس طرح اس کے سامنے سپر ڈال کر پاکستان اور اس کی افواج کو جس آزمایش میں مبتلا کیا ہے، اس کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پاکستانی قوم کو امریکا کی اس جنگ کے چنگل سے نکلنے کی جو توقع تھی، وہ زرداری،گیلانی حکومت کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں مٹی میں ملتی نظرآرہی ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار باقی نہیں رہا ہے کہ عوامی تحریک کے ذریعے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ جماعت اسلامی کی ’گو امریکا گو‘ تحریک اس سمت میں ایک بروقت اقدام ہے۔
پاکستان اور امریکا میں دوستی اور تعاون ایک فطری امر اور پاکستان اور امریکا دونوں کی ضرورت رہا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی کے تعلقات چاہتے ہیں اور ان کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن یہ تعلقات معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کے فرق کے باوجود دو آزاد اور خودمختار ملکوں میں باہمی مفاد اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں۔ یہ کسی ایک کی بالادستی اور دوسرے کی مجبوری اور محکومی کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں۔
اس وقت پاکستانی قوم جس چیز پر مضطرب اور نکتہ چین ہے وہ پاکستان کے معاملات میں ایسی امریکی مداخلت ہے، جس کے نتیجے میں ہم اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی بلکہ تعلیمی اور معاشی پالیسیاں بھی امریکا کے اشارے پر اور اس کے مفاد میں مرتب کی جارہی ہے۔ یہ کم و بیش وہی کیفیت ہے جو سامراجی نظام کا خاصّہ ہے اور جس کا تجربہ برطانوی اقتدار کے ۲۰۰ سالہ دور میں برعظیم کے عوام کرچکے ہیں۔
’گو امریکا گو‘ کے معنی امریکا کی سامراجی بالادستی کو ختم کر کے پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور اس کے اپنے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت ہے۔ اس کا ہدف امریکا کی ریاست یا امریکی عوام نہیں، بلکہ امریکا کی پالیسیاں اور خصوصیت سے پاکستان کے بارے میں اس کی امتیازی پالیسیاں اور پاکستان کے معاملات میں اس کی اندھا دھند مداخلت اور وہ طریق واردات ہے کہ جس کا تلخ تجربہ پاکستانی قوم خاص طور پر نائن الیون کے بعد سے کررہی ہے۔ یہ پالیسی صدرزرداری کے دورِ اقتدار میں اپنی تمام حدیں عبور کر کے آزادی اور خودمختاری کے ساتھ قوم کی عزت اور وقار کے بھی منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح تحریکِ پاکستان کے دو متعین ہدف تھے یعنی برطانوی سامراج سے نجات اور اپنے نظریات،عزائم اور مفادات کے مطابق اپنی سرزمین پر مکمل اختیارات کا حصول، اسی طرح آج پھر یہ قوم امریکا کے سامراجی کردار کے خلاف صف آرا ہورہی ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد برطانیہ سے ہمارے تعلقات دوستانہ رہے اور اس برطانیہ مخالف تحریک کا کوئی سایہ ان تعلقات پر نہیں پڑا۔ بالکل اسی طرح ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ’گو امریکا گو‘ کا ہدف پاکستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی اور ہمارے معاملات میں اس کا عمل دخل ہے۔ یہی چیز امریکا سے نفرت کا سبب ہے۔ ہماری کوئی لڑائی امریکی عوام سے نہیں اور نہ امریکی دستور سے ہے۔ امریکی تہذیب اور طرزِ حیات پر اگر امریکی عوام خوش اور مطمئن ہیں تو ہمیں اس سے کیا پرخاش؟ ہاں، ہم ان کے سامنے دلیل کے ساتھ اور منطقی انداز میں واضح کرتے رہیں گے کہ حق اور باطل کیا ہے؟ ہمارے اختلاف کا آغاز اس مقام پر ہوتا ہے جہاں امریکا یا کوئی اور ملک اور قوم اپنے نظریات، اپنی اقدار اوراپنے مفادات کو ہم پر جبر کے بل بوتے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا معاملہ فکری اور نظریاتی مکالمے اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا، تو وہ دنیا کی تمام ہی اقوام کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ان دونوں معاملات کو گڈمڈ کرنے سے بڑی قباحتیں اور تصادم کی شکلیں رونما ہوتی ہیں۔
آج پاکستانی قوم ہی نہیں، دنیا کی بیش تر اقوام امریکا کی جو مخالفت کر رہی ہیں، وہ اس کی پالیسیوں اور عالمی سامراجی مہم جوئیوں کی وجہ سے ہے۔ ۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں امریکا کے ادارے ’ورلڈ پبلک اوپینین‘ کا جو سروے پاکستان کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں پاکستانی عوام نے ایک طرف طالبان کی ان حرکتوں پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو ان کے نام پر سوات میں کی گئی ہیں، دوسری طرف آبادی کی دو تہائی اکثریت نے پاکستان کے معاملات میں امریکا کی مخالفت اس طرح کی ہے، جس طرح بش کے دور میں کر رہی تھی، اور ۶۲ فی صد پاکستانیوں کی نگاہ میں اوباما کی صدارت سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ امریکا کے ڈرون حملوں کی ۸۲ فی صد نے مخالفت کی ہے۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی اور اس کے جنگی اقدامات کی ۷۲فی صد نے مخالفت کی اور آبادی کے ۷۹ فی صد نے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ۸۶ فی صد نے صدر اوباما کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافہ نہ کیا جائے گا۔ ان کی نگاہ میں اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسی طرح اس سروے کی رو سے آبادی کے ۹۳ فی صد افراد کا خیال ہے کہ امریکا مسلم دنیا پر اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ۹۰ فی صد نے اس خدشے کی تائید کی کہ امریکا مسلم دنیا کو کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم پر تلا ہوا ہے۔ (دی نیوزانٹرنیشنل، ۲جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا کے بارے میں یہ جذبات پاکستان یا صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں ہیں۔ صدر اوباما کے روس کے دورے سے چند دن قبل جو سروے روسی راے عامہ کے بارے میں ہوا ہے، اس سے بھی یہی تصویر اُبھرتی ہے کہ روس کی آبادی کے ۷۵ فی صد کی نگاہ میں امریکا اپنی قوت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور وہ روس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۷جولائی ۲۰۰۹ء)
اس اصولی وضاحت کے بعد اب ہم متعین طور پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکا کی مداخلت اور ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر اس کی گرفت کیا شکل اختیار کرگئی ہے؟ جس نئی غلامی کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا تھا، وہ صدر زرداری کے دور میں اس سے بدرجہا زیادہ قبیح اور خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے اور یہ پالیسی ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہی ہے۔ امریکا کے اثرورسوخ اور دراندازیوں میں اضافہ نائن الیون کے بعد مشرف کی اختیار کردہ پالیسیوں کا ثمرہ ہے اور خسارے کے اس سودے کی جہاں اولیں ذمہ داری جنرل پرویز مشرف کی ہے، وہیں اس ذمہ داری میں موصوف کی پوری ٹیم شریک ہے، خواہ اس کا تعلق ملک کی فوجی قیادت سے ہو یا مشرف دور کے وہ مددگار جن میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وعدہ معاف گواہ آج جو بھی کہیں، کم از کم ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۷ء تک جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری میں یہ سب برابر کے شریک ہیں اور انھیں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔
قوم نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں مشرف کی پالیسیوں کو یک سر مسترد کر دیا، لیکن یہ ایک تاریخی سانحہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت نے زرداری صاحب کی قیادت میں نہ صرف مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بلکہ اپنے تمام ہی اساسی معاملات کو امریکا کے تابع کردینے میں یہ پرویز مشرف سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ زرداری صاحب سے ان کے حالیہ دورئہ امریکا میں اوباما، ہیلری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام نے جس سردمہری اور بے نیازی سے معاملہ کیا، اس نے پاکستان کی عزت و وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ امریکا، زرداری کے ساتھ بحیثیت فرد جو بھی معاملہ کرے یہ اس کا اختیار ہے، لیکن پاکستان کے صدر زرداری کے ساتھ جو کچھ اس نے کیا، اس کا پاکستانی قوم کو دکھ ہے اور وہ نہ امریکا کو اس بے عزتی پر معاف کرے گی اور نہ زرداری صاحب کو، جن کا حال یہ ہے کہ اس تحقیر و توہین آمیز رویے کے باوجود کاسۂ گدائی لیے پھرتے رہے اور ۴جولائی کو امریکی یومِ آزادی کے موقع پر نہ صرف امریکی سفارت خانے جاکر تقریب میں شرکت فرمائی بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر یہ شرم ناک الفاظ بھی ادا کیے:
میں اس موقع پر پاکستان میں امریکی سرزمین سے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں۔ (جنگ، ۱۳ جولائی۲۰۰۹ء، انصار عباسی کا کالم ’خطرے کی گھنٹی اور بے حس قیادت‘)
پاکستان کی زمین کا چپہ چپہ پاکستان کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب کو ایسے اعلان کرنے ہیں تو شوق سے نیویارک کے اپنے فلیٹ سے نشر کریں، مگر خدارا پاکستان کی سرزمین کو ایسے پوچ خیالات کے اظہار کے لیے استعمال نہ کریں۔
امریکا نے محض قوت اور دھونس کے ذریعے پاکستان کو اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس جنگ میں شرکت کے سبب اب تک جو نقصان اٹھا چکا ہے وہ ۳۵ ارب ڈالر یعنی ۲۸ کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ اس پر مستزاد ہزاروں قیمتی جانوں کا اتلاف ہے، خواہ ان کا تعلق فوج سے ہو یا عوام سے۔ ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور امریکا پوری رعونت سے ہماری سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کو حشرات الارض کی طرح مار رہا ہے۔ خود امریکی ترجمان کے مطابق ان ڈرون حملوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ۱۷۰ افراد مارے گئے ہیں ، مگر عام پاکستانی جو اس جارحیت کاشکار ہوئے ہیں ان کی تعداد ۸۰۰ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت ان حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اور پارلیمنٹ کے متفقہ مطالبے کے علی الرغم ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی ہوئی ہے، اور یہ قیادت جس فدویانہ ادب سے روایتی احتجاج کر رہی ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا کو درپردہ اس کی شہ حاصل ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اس قیادت پر سے قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اور قوم اسے شریکِ جرم سمجھتی ہے۔
پاکستانی قوم یہ جانتی ہے اور اس کا برملا اظہار کر رہی ہے کہ اس علاقے کے حالات کو بگاڑنے کا اصل سبب افغانستان پر امریکی فوج کشی ہے۔ خود افغان قوم، امریکی اور ناٹو افواج کے اس جارحانہ قبضے کی اس انداز سے مزاحمت کر رہی ہے، جس طرح اشتراکی روس کی فوجوں کی مزاحمت کر رہی تھی۔ امریکا اور یورپی اقوام جان گئی ہیں کہ افغانستان میں وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور انھیں وہاں سے لازماً نکلنا ہی پڑے گا، مگر پاکستان کی قیادت کے فکری افلاس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ امریکا کے اس دوغلے پن سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں کہ وہ ایک طرف افغانستان میں فوجوں کی تعداد کو بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف اچھے اور بُرے طالبان کا افسانہ تراش کر مذاکرات اور انخلا کی حکمت عملی کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔ امریکا، پاکستان پر مزید دبائو بڑھا رہا ہے کہ اس جنگ میں اپنی فوج کو جھونکے رکھے اور نئے نئے محاذ کھولے اور پاکستان کی موجودہ قیادت ہر حکم پر ’حاضر جناب‘کہہ کر عمل پیرا ہو رہی ہے۔ اس قیادت نے ملک کے حساس علاقوں کو جنگ کی آگ میں جھونک کر ۳۸ لاکھ افراد کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیا ہے جس کا مالی نقصان بھی اب کھربوں روپے کی خبر دے رہا ہے۔۱؎
امریکا اور یورپ کے تجزیہ نگار اب کھل کر یہ بات لکھ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے افغانستان کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہے، اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، وہاں سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے، لیکن یہ پاکستان کی قیادت ہے کہ وہ اس دلدل میں اور بھی دھنستی چلی جارہی ہے۔ سوات اور بونیر کے بعد دیر، مالاکنڈ اور اب وزیرستان اور ناٹو کے حکم کے مطابق جلد ہی بلوچستان میں بھی فوج کشی کا سامان کیا جا رہا ہے۔۱؎ ناٹو کے کمانڈر صاحب پاکستان کو یہ حکم دے رہے ہیں اور خود افغانستان کے بارے میں جو مسئلے کی جڑ ہے، ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس کے ساتھ ہی انھوں نے اختلافات طے کرنے کے لیے کسی فوجی آپشن کے بجاے سیاسی مکالمے کی زیادہ ضرورت پر زور دیا‘‘۔
یہ ہے یورپی افواج کے کمانڈر کا دوغلا پن۔ لیکن ہمیں افسوس تو اس پاکستانی قیادت پر ہے، جو اس کھیل کے مہروں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور اطاعت شعاری اور ڈالروں کے عوض اپنے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنے اور جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
برطانیہ اور امریکا کے اہم اخبارات اور تجزیہ کاروں کے خیالات کا جائزہ لینے سے جو نتیجہ کھل کر سامنے آرہا ہے، وہ افغانستان کی جنگ کی ناکامی کا احساس، امریکی اور یورپی افواج کی ہلاکت (جو پاکستانی افواج اور سول افراد سے ۱۰ گنا کم ہے) پر اضطراب اور بے چینی، مصالحت اور فوجوں کے انخلا پر مبنی نئی حکمت عملی کی تلاش ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین (۹جولائی ۲۰۰۹ء) میں ایک ہفتے میں ساتویں برطانوی فوجی کی موت کی خبر شائع ہونے کے بعد ایک عوامی سروے میں آبادی کے ۷۱ فی صد نے کہا ہے کہ:’’افغانستان میں فوجی کارروائی سود مند ثابت نہیں ہو رہی اور حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے‘‘۔
برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط اقدام تھا اور ہمیں انتہا پسندی روکنے کے لیے اپنی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ہولناک تشدد کے ایک بنیادی جائزے کی ضرورت ہے۔
ملی بینڈ کی نگاہ میں یہ جنگ صحیح نتائج سامنے نہیں لا سکتی اور جس نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ سیاسی ہے:
دہشت گرد گروپوں کی بنیادوں سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلحے اوررقم کی فراہمی کے راستوں کو روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر کے، ان کے پیرووں کو جمہوری سیاست میں لاکر… (دی گارڈین، ۱۵جنوری ۲۰۰۹ء)
امریکا کی سابق وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’امریکی خارجہ پالیسی میں گہرا خلا‘ قرار دیا ہے۔ گارڈین کے مضمون نگار جیمز ڈینسلو نے ۷جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنے مضمون: ’تاریخ نے ابھی فیصلہ نہیں دیا‘ میں کہا ہے کہ عراق پر امریکا کی فوج کشی ایک تاریخی تباہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قوم تباہ ہوگئی اور اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان کیری اور کانگریس کے رکن گیری ایکرمین بار بار اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجی حل پر مبنی حکمت عملی کام نہیں کر رہی اور اس پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ گراہم فولر امریکا کے تھنک ٹینک، رینڈ کارپوریشن کا سابق سربراہ ہے، جو ایک زمانے میں افغانستان میں سی آئی اے کا ذمہ دار بھی رہا ہے اپنے ایک حالیہ مضمون میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں لکھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔لندن گارڈین کا ایک اور مضمون نگار پیٹر پرنسٹن (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اپنے مضمون: ’’بہت ہوچکا! افغانستان میں بے مقصد اور احمقانہ جنگ کو فوراً بند ہونا چاہیے‘‘ میں لکھتا ہے کہ افغانستان میں ناٹو افواج کی کامیابی کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ’’تم جو کچھ کر رہے ہو، اگر وہ بالکل غلط ہو رہا ہو تو ہمیشہ ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اسے روک دو‘‘۔
وہ اپنی اور ناٹو اور امریکا کی قیادتوں کو متنبہ کرتا ہے کہ:’’سب سے زیادہ خونیں فریب یہ ہوسکتا ہے کہ ہلمند میں بڑھی ہوئی کارروائیوں کا حاصل مزید خون خرابے کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے‘‘۔
پیڈی ایشڈرون برطانیہ کے چوٹی کے سیاست دانوں میں شمارہوتا ہے اور وہ یورپی یونین میں مختلف سیاسی ذمہ داریوں پر فائز رہا ہے، اس کا بیان یکم جولائی ۲۰۰۹ء کے برطانوی اخبارات میں شائع ہوا ہے، جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا اور ناٹو سمیت تمام غیرملکی فوجیں افغانستان میں شکست سے دوچار ہیں اور اس نے حکمت عملی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ’’اس حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے افغانستان میں ہم جنگ ہار رہے ہیں اور فوجی قتل ہورہے ہیں‘‘۔
چین کے ایک بڑے انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ اوباما بھی افغانستان میں جنگوں میں شکست کا سبب بننے والی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ اب تک اس جنگ میں ۷۰۸ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ۳۰۶۳ زخمی ہوچکے ہیں۔ ۲۰۰۲ء سے لے کر اب تک ۴۴۰ ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ تازہ راے عامہ کے سروے کے مطابق امریکا کے ۴۸ فی صد افراد اس جنگ کے خلاف ہیں، جب کہ اس کی تائید کرنے والے صرف ۲ فی صد زیادہ ہیں یعنی ۵۰ فی صد۔ اب تک کے تمام جائزوں سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ صدر اوباما، امریکی عوام کے جذبات کو افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لیے ہموار نہیں کرسکے۔ ایک تازہ سروے میں امریکی آبادی کے ۶۶ فی صد نے کہا ہے کہ اوباما کی اصل ترجیح معیشت، روزگار اور حکومت کی بہتری ہونی چاہیے، صرف ۹ فی صد نے عراق اور افغانستان کی جنگ کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ (جنگ، لندن، یکم جولائی ۲۰۰۹ء)
نیویارک ٹائمز نے (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ برطانوی راے عامہ میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور اسے افغانستان میں جنگ کی ناکامی کا یقین ہوتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں: ’’جنگ میں برطانیہ کی شرکت ملک میں اتنی شدید تنقید کی زد میں آئی ہے جیسی اس سے پہلے نہ آئی تھی‘‘۔
اور برطانیہ کے مشہور دانش ور اور سیاسی تجزیہ نگار سائمن جین کنز نے گارڈین (۲۵جولائی ۲۰۰۹ء) میں امریکا کو مشورہ دیا ہے: ’’اوباما کو اس حماقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ افغانستان اس کا ویت نام بن جائے‘‘۔ اس نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے: ’’نہ پینٹاگان اور نہ برطانیہ کی وزارتِ دفاع محض اسلحے کے زور پر افغانستان کی جنگ جیت سکتی ہے‘‘۔
اس نے دعویٰ کیا ہے کہ خود امریکی فوجی کمانڈر کے ایک کلیدی مشیر نے بھی اس جنگ کے تباہ کن اثرات سے امریکی صدر کو متنبہ کیا ہے: ’’جنگ کے مقاصد کی واضح ناکامی کا کھلا کھلا تجزیہ اوباما کے کلیدی جنرل ڈیوڈ پیٹرس کے مشیر ڈینیل کلکولر نے کردیاہے‘‘۔
سائمن جین کنز نے واضح طور پر لکھ دیا ہے:
۲۰۰۱ء کا حملہ کرنے، اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور علاقے کو دہشت گردی سے صاف کرنے کی پالیسی آزمائی جاچکی ہے اور ناکام ہوچکی ہے۔ حکمت عملی نوجوان مغربی سپاہیوں اور ہزاروں افغانوں کے بے معنی قتل تک محدود ہوگئی ہے۔ افواج صرف اس لیے بھیجی جارہی ہیں کہ لیبر منسٹر میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ یہ تسلیم کرسکیں کہ بلیئر کا اسلامی خطرے کو ختم کرنے کی کوشش محض اس کا پاگل پن تھا۔ بلیئر کہتے تھے کہ لندن کی شاہراہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں لیکن عملاً وہ ان شاہراہوں کو اور زیادہ پُرخطر بنا رہے ہیں۔ ویت نام نے دو صدور جانسن اور نکسن کو ختم کیا اور نوجوان امریکیوں کی ایک نسل کا عالمی اعتماد بھی ختم کیا۔ افغانستان بظاہر ’اچھی جنگ‘ ہے مگر اس کے نتائج بھی ویت نام جیسے ہوسکتے ہیں۔ (گارڈین، لندن، ۲۵ جون ۲۰۰۹ء)
مقالہ نگار نے جو کچھ امریکا اور برطانیہ کے بارے میں لکھا ہے، وہ پاکستان اور اس کی موجودہ قیادت کے بارے میں ۱۰ گنا زیادہ درست ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی قوتیں ایک ہاری ہوئی جنگ میں جھونک رہے ہیں، جب کہ ہمیں اس جنگ سے قطع تعلق کرنے اور افغانستان کے امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے واپسی کے منظرنامے میں اپنے، افغانستان اور پورے علاقے کے حالات اور تعلقات پر اپنی توجہ دینی چاہیے۔ ہم اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں، مگر امریکا کے سوچنے سمجھنے والے افراد امریکا کی افغان پالیسی کی ناکامی کو نوشتۂ دیوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے شرقِ اوسط اور جنوب ایشیا کے چیئرمین گریگ ایکرمین نے اعتراف کیا ہے کہ: ’فاٹا میں امریکی حکمت عملی کارگر نہیں ہے‘ (ملاحظہ ہو، انور اقبال کی رپورٹ، روزنامہ ڈان، ۲۷ جون ۲۰۰۹ء)۔
امریکا کے ایک سابق سفیر چارلس ڈبلیو فری مین کی واشنگٹن میں کی جانے والی تقریر کی روداد ہر اعتبار سے چشم کشا ہے۔ اس نے امریکا کی جاری پالیسی کی ناکامی کا کھل کر اعتراف کیا ہے، اور اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف امریکا نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ امریکا کے دبائو میں خود پاکستان نے ایک پُرامن علاقے کو شورش اور جنگ و جدل کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔
سفیر فری مین نے امریکی پالیسی کو حالات کے ناقص ادراک کا نتیجہ قرار دیا ہے، اور علاقے کی تاریخ، روایات اور زمینی حقائق سے ناواقفیت کی پیداوار قرار دیا ہے۔ اس کی نگاہ میں ایک بنیادی مغالطہ جاسوسی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات اور حقائق کو گڈمڈ کر دینا ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کو ایک سمجھ لیا گیا ہے اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں یہ تباہ کن غلطی ہے… جو حالات کے معروضی جائزے کے مقابلے میں اخبارات کی احمقانہ سرخیوں کی پیداوار ہے اور امریکا کے خلاف عوامل ردعمل امریکا کی انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
امریکی پالیسی کے اثرات کے تحت امریکا مخالف دہشت گردی مزید پھیل رہی ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔ (دیکھیے: Refusing to Learn ، دی ٹائمز، ۹جولائی ۲۰۰۹ء)
لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے ۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اداریے میں افغانستان سے برطانیہ کی افواج کی واپسی کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے: ’’افغانستان میں ہمارا مشن سخت خطرے میں ہے‘‘۔ اس اداریے میں انڈی پنڈنٹ نے افغانستان کے ایک عوامی سروے کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی رُو سے افغانستان کی آبادی کے ۶۸ فی صد کی خواہش ہے کہ: ’’ان کی حکومت گفت و شنید کرے اور طالبان سے مصالحت کرے‘‘۔
انڈی پنڈنٹ نے آخر میں برطانوی وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا ہے: ’’اگر وہ طالبان سے باوقار مذاکرات نہیں کرسکتے، تو انھیں اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہییں‘‘۔
یہ ہے اس وقت کی عالمی فضا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس تبدیلی کا کوئی شعور نہیں اور لگتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے، عین مین انھی راہوں پر سفر کر رہی ہیں، جن پر چلنے کی انھیں امریکی آقائوں نے ہدایت کی ہے۔ اس وقت امریکا کا اصل کھیل یہ ہے کہ:
افغانستان میں جاری جنگ کا رُخ پاکستان کی طرف پھیر دیں۔ اسرائیل ایران پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے اور پاکستان اور شرقِ اوسط کے ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا درپردہ شریکِ کار ہیں۔ افغانستان کے صوبے ہلمند میں جو آپریشن اس وقت جاری ہے، وہ پاکستان پر دبائو کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔بھارت افغانستان میں ایک خاص کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان سے پاکستان میں بھی دراندازیاں کر رہا ہے۔ امریکا خود افغانستان سے نکلنے کی تدبیریں کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو اس آگ میں جھونک دینے میں مصروف ہے۔
امریکا نے پاکستان کی معاشی ناکہ بندی بھی کرڈالی ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے ذریعے اپنے شکنجے مزید کس رہا ہے۔ ۵ء۱ بلین ڈالر کی جس امداد کا بڑا شور ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف اس کے ذریعے سے پاکستان کی معیشت ہی نہیں، تعلیم، انتظامیہ، فوج اور سیاسی اور خارجہ پالیسیوں تک کو اپنا پابند کیا جا رہا ہے، دوسری طرف جسے امداد کہا جا رہا ہے، اس کا بڑا حصہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ ۲۵ ایکڑ مزید اراضی پر، جو حکومتِ پاکستان سے کوڑیوں کے مول حاصل کرلی گئی ہے، ایک بڑا تعمیراتی کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپلیکس جو جاسوسی اور فوجی کارروائیوں کے لیے امریکا کے اڈے کی حیثیت رکھے گا اور اس پر ۳۰۰ افسران کے رہنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ اڈا بغداد کے بعد دنیا میں سب سے بڑا امریکی اڈا ہوگا۔ نیویارک ٹائمز (۱۴جولائی ۲۰۰۹ء) میں چالمس جانسن کا چشم کشا مضمون Empire of Bases (اڈوں کی سلطنت) شائع ہوا ہے، جس میں دنیا میں امریکا کے ۸۰۰ اڈوں کا تذکرہ ہے اور اس میں سرفہرست پاکستان کے نئے اڈے کا ذکر خیر ہے، ملاحظہ ہو:
آغاز میں ۲۷ مئی کو ہمیں معلوم ہوا کہ محکمہ خارجہ ۷۳۶ ملین ڈالر کے خرچ سے اسلام آباد میں ایک نیا سفارت خانہ تعمیر کرے گا۔ یہ عمارت ویٹی کن شہر کے برابر ہوگی۔ بش انتظامیہ نے بغداد میں جو عمارت تعمیر کرائی، اس کے بعد یہ دوسری بڑی قیمتی عمارت ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ ۷۳۶ ملین ڈالر اس ۵ء۱ بلین ڈالر امداد کا حصہ ہے، جو لوگر بل کے زیرسایہ پاکستان کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ یہ نئی تعمیر ان اڈوں کے علاوہ ہے جو امریکا ۲۰۰۱ء کے بعد قائم کرچکا ہے اور جن کے بارے میں امریکا نواز ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کی ۱۹ تا ۲۵جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ایک مضمون نگار نے شاہد جاوید برکی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’کھاریاں چھائونی دراصل امریکی افواج کے لیے تعمیر کی گئی تھی‘‘۔
تربیلا اور بلوچستان کے بارے میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے مضمون میں یہ حوالہ قابلِ غور ہے:
امریکیوں کے متفرق گروپ مقامی لوگوں کے بھیس میں (مشابہ لباس اور ڈاڑھیوں کے ساتھ) تربیلا کے آس پاس اور بلوچستان میں گھومتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا بہت احتیاط سے جائزہ لیں۔ (دی نیوز، ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا جس طرح ہمارے خارجی اور داخلی معاملات میں دخیل ہوگیا ہے، وہ پاکستان کی آزادی، سالمیت، خودمختاری اور نظریاتی تشخص کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ امریکا ہی اب ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ بھارت سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اور امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں رونما ہونے والے اندرونی دہشت گردی کے واقعات کو ’اصل خطرہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان کا وجود امریکا کے افغانستان پر فوجی قبضے اور پاکستان میں اس کی دراندازیوں کا رہینِ منت ہے۔ امریکی صدر، ہیلری کلنٹن، ہالبروک اور میڈیا کی طرف سے بہ تکرار ایک ہی آواز آرہی ہے کہ پاکستان کے لیے اصل خطرہ بھارت نہیں، طالبان ہیں اور صدرزرداری اس کی صداے بازگشت بن گئے ہیں، جب کہ وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ یہ زرداری صاحب کی ذاتی راے ہے ،صدر پاکستان کا فرمان نہیں۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں پاکستان کی آزادی کی بازیابی کی جدوجہد ناگزیر ہوگئی ہے اور اس کے لیے قومی مفاد اور قومی مقاصد کے مطابق امریکا سے پاکستان کے تعلقات کی ازسرِنو تشکیل اولیں اہمیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لاتعلقی اور ملک کے لیے آزاد خارجہ پالیسی کو مرتب کرنا اور اس پر عمل، اولیں اہمیت کے حامل چیلنج ہیں۔ ہمیں اپنی سلامتی کے میزانیے کو خود مرتب کرنا ہے۔ اس کی روشنی میں امریکا، بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے معاملات پر امریکا کا غلبہ اور بالادستی ختم ہو۔ ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کا اصل مقصد خارجہ پالیسی اور داخلہ سیاست کو امریکا کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے پاکستانی قوم کے عزائم، مفادات اور خواہشات کے مطابق ازسرِنو مرتب و منظم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم قدم ملک کی پارلیمنٹ نے ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد کی شکل میں اختیار کیا تھا، لیکن زرداری حکومت نے اپنی پالیسیوں اور مسلسل اقدامات کے ذریعے سے اسے غیرمؤثر بنا دیا ہے۔ افسوس کہ پارلیمنٹ اس خلاف ورزی پر گرفت کرنے کے بجاے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ قوم خود اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو، اور ایک عوامی تحریک کے ذریعے سے جمہوری قوت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے اپنے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالے اور اپنے مستقبل کا سفر اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات کی روشنی میں مرتب کرے۔
(۱۴؍اگست : یومِ تشکر، یومِ احتساب بھی، کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت:۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹، فیکس: ۳۵۴۳۴۹۰۷)
محترم میاں طفیل محمد صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ ان کا باطن و ظاہر ایک تھا۔ جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل ۱۹۳۸ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں میں انھیں مسلمانوں کی خستہ حالی کے اسباب اور اُمت کی نشاتِ جدید کا نقشۂ کار نظر آگیاتھا۔
وہ ریاست کپور تھلہ کے پہلے مسلمان وکیل تھے اور ایک وکیل ان دنوں میں اور اس علاقے میں مظلوم مسلمانوں کے لیے بڑا سہارا سمجھا جاتاتھا۔ ماں باپ نے انھیں بڑی مشقت اٹھاکر پڑھایاتھا اور وہ اپنے والدین اور اپنے خاندان کی امیدوں کا مرکز تھے۔ لیکن وہ اپنے ذہن میں ایک الگ دنیا بسا رہے تھے۔ انھیں چاروں طرف ہندوججوں، پروفیسروں اور دانش وروں میں ایسے لوگ نظرآرہے تھے جو اپنے اخلاق وکرادر کے لحاظ سے اپنی قوم کے لیے رول ماڈل تھے لیکن مسلمان نوجوانوں کے لیے اس طرح کے رول ماڈل موجود نہیں تھے۔ ایک نیک دل عام مسلمان شہری مستری محمد صدیقؒ نے انھیں مولانا مودودی کے رسالے ترجمان القرآن سے روشناس کیا۔ یہاں انھیں روشنی نظر آئی اور جب مستری محمد صدیق صاحب نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ مولانامودودیؒ کی دعوت پر ۲۵؍ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعت اسلامی ہندکے تاسیسی اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں تو محترم میاں طفیل محمد صاحب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرراستے ہی سے تاسیسی اجتماع میں چلے گئے اور اس کے بعد جماعت اسلامی ہی کے ہوکر رہ گئے۔
تاسیسی اجلاس میں میاں صاحب سوٹ ٹائی میں ملبوس شریک ہوئے تھے اور ہاتھ میں ہیٹ بھی تھا۔ چہرے پر داڑھی بھی نہیں تھی۔ بعض علما کو اس شکل و صورت کے نوجوان کو تاسیسی رکن بنانے پر اعتراض تھا لیکن میاں صاحب نے ان سے کچھ مہلت مانگی اور مولانا مودودیؒکی سفارش پر انھیں چھے ماہ کی مہلت دے دی گئی کہ اس دوران میں وہ وکالت کے پیشے کو ترک کرکے اپنی ظاہری شکل و صورت کو بھی اپنی سلیم فطرت کا عکاس بنادیں گے۔ وکالت کے پیشے کو خیر باد کہناایک مشکل فیصلہ تھا۔ والدین بھی مخالف تھے۔ عام پڑھا لکھا دانش ور طبقہ، ہندو سکھ اور مسلمان ایک شریف النفس قابل مسلمان وکیل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انھیں نظر آ رہاتھا کہ آگے جا کر وہ اپنے لوگوں کے لیے عزت کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ سب لوگ میاں صاحب کی ذہنی دنیا سے بے خبر تھے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ وہ یہ فیصلہ کن مصلحتوں کی بنا پر کررہے ہیں۔ میاں صاحب کی زندگی کا یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ مستری محمد صدیقؒ ان کا سہارا بنے اور انھیں کہاکہ گھر کے باہر سخت طوفان ہے اور جھکڑ چل رہے ہیں لیکن آپ نے جس گھر میں پناہ لے رکھی ہے اس میں آگ لگی ہوئی ہے تو آپ کو آگ سے بچنے کے لیے طوفان اور جھکڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلنا پڑے گا۔ اس کے بعد محترم میاں طفیل محمد صاحب ساری عمر طوفان اور آندھیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر رہے۔ جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر کے تن من دھن سے اس کی انقلابی جدوجہد میں شریک ہوگئے۔
دارالاسلام مشرقی پنجاب سے ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران میں لاہور منتقل ہوئے۔ طویل عرصے تک اپنے بیوی بچوں سمیت اچھرہ کے اس مکان میں باہر لان میں چھولداری لگاکر رہے جس کے ایک حصے میں مولانا مودودیؒ رہایش پذیر تھے، جب کہ اس کے چاروں طرف جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفاتر تھے۔ وکالت کے پیشے کو چھوڑنے کے بعد تلاش معاش میں کئی تجربے کیے لیکن اپنی سادہ طبیعت اور امانت و دیانت کے سیدھے راستے پر چلنے کے باعث ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کے ایک قریبی عزیز ٹھیکیدار عبدالرشید صاحب نے مجھے بتایا کہ میاں صاحب وکالت کا پیشہ چھوڑنے کے بعد میرے پارٹنر کے طور پر میرے ساتھ شریک کار بنے لیکن ٹھیکیداری کا کام کمیشن کے بغیر چلتا نہیں ہے اور میاں صاحب کمیشن دینے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے وہ یہ کام چھوڑ گئے اور ۱۹۴۴ء میں کُل ہند جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ہمہ وقتی جماعت اسلامی کی دعوت وتنظیم کے کام میں لگ گئے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ کے دستِ راست کی حیثیت سے جماعت کے دعوتی اور تنظیمی انفراسٹرکچر کو قائم کرنے اور چلانے میں ان کو کلیدی کردار ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
میاں صاحب نے تقسیم ہند سے قبل اور تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی کی دعوت وتنظیم کا کام اتنے اخلاص اور یکسوئی سے کیا کہ آج تک جماعت اس کے ثمرات سے مستفید ہورہی ہے۔ ان کی طبیعت میں انتہائی سنجیدگی تھی۔ میں نے طویل عرصہ ان کی رفاقت میں گزارا ہے، سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہاہوں لیکن کبھی انھیں قہقہہ لگاکر ہنستے نہیں دیکھا اور نہ انھیں بلند آواز میں بات کرتے ہوئے سنا۔ وہ سخت ناراض ہوجاتے تو غصے کی حالت میں بھی اپنا وقار اور متانت برقرار رکھتے تھے۔ جب جماعت کے ذمہ داران آپس میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے تو ان کی متانت اور سنجیدگی کو دیکھ کر وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتے۔ ان کی اس عادت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سامنے آجاتی ہے: ’’کثرت سے ہنسی مذاق سے بچو کہ بہت ہنسنے سے دل مُردہ ہوجاتا ہے‘‘۔
میاں طفیل محمد صاحب ایک صابر و شاکر اور متحمل مزاج انسان تھے۔ اپنی تکلیف کا کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔ وہ کسی دوسرے شخص کو کہنے کے بجاے اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ ان کے کمرے میں ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوتی تھی۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے نہیں سناکہ وہ کوئی ضروری کام بھول گئے یا ان کے ذہن سے کوئی بات نکل گئی ہو۔ جو کام بھی ان کے ذمے لگ جاتاتھا، یا جس کام کو بھی اپنے ذمے لے لیتے تھے، اس کام کو بر وقت مکمل کرلیتے تھے۔ محنت اور یکسوئی ان کا خاصّہ تھا۔ متانت، سنجیدگی اور وقار کی وجہ سے ناواقف لوگوں کو خیال ہوتاتھاکہ شاید گھلنے ملنے سے احتراز کرتے ہیں یا خشک طبیعت کے مالک ہیں لیکن جو قریب سے انھیں جانتے تھے انھیں یہ بھی معلوم تھاکہ اگر کوئی تنقید اور محاسبہ پر اترآئے یا زیادہ ہوشیار بن کر انھیں سمجھانے کی کوشش کرے تو کبھی ناگواری محسوس نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی بے ساختہ کوئی ایسا جملہ بھی کس دیتے تھے جس سے مطلب بھی پوری طرح واضح ہوجاتاتھااور مجلس بھی خوش گوار بن جاتی تھی۔
میاں طفیل محمد صاحب کا بچپن اور جوانی ٹھیٹھ پنجابی ماحول میں گزراتھا۔ ان کی اردو پر بھی پنجابی لہجے کا اثر تھا لیکن ہم نے کبھی انھیں پنجابی میں بات کرتے نہیں سنا۔ ان کے پورے خاندان نے مولانا مودودیؒکے زیر اثر اردو کو اپنی گھریلو زبان کے طور پر اپنالیاتھا لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بے ساختہ پنجابی محاورے اور ضرب المثل کے ذریعے سے مطلب واضح کردیتے تھے جس سے معلوم ہوتاتھاکہ پنجابی زبان پر انھیں مکمل عبور حاصل ہے اور پنجابی زبان میں جو بے تکلفی اور بے ساختہ پن ہے اس کے حسن و خوبی کو بھی جانتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی تربیت کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ ہمارے تربیت یافتہ سب لوگ فرقہ وارانہ علاقائی اور لسانی عصبیت سے پاک ہیں۔ کراچی اور سندھ میں لسانی فسادات کے مواقع پر بھی جماعت اسلامی کے لوگوں نے بیچ بچائو کا کردار ادا کیا۔ اس تربیت میں قرآن وسنت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒاور میاں طفیل محمد صاحب کا ذاتی رویہ اور مثال بھی مشعلِ راہ تھی۔ ان دونوں بزرگوں کی تربیت کے نتیجے میں پاکستان میںایک ایسی جماعت اور ایسا گروہ منظم ہوا ہے جو ہر طرح کی گروہ بندی سے بالا ترہے۔
جب تک مولانا مودودیؒحیات تھے میاں طفیل محمد ؒہر کام ان کے مشورے سے کرتے تھے۔ اگرچہ امارت سے سبک دوش ہونے کے بعد مولانا مودودیؒجماعت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور امیرجماعت اور ان کی ٹیم کو آپس کے مشورے کے ساتھ تمام امور کو نمٹانے کی تلقین کرتے تھے۔ میں جب قیم جماعت تھا تو مولانا مودودیؒ سے میری آخری ملاقات بفیلو (امریکا) میں ان کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق کے ہاں ہوئی تھی۔چند اہم امور کے بارے میں مولانا سے مشورہ طلب کیا تو اس وقت انھوںنے یہی تلقین کی کہ واپسی پر جماعت کے اندر مشورے سے تمام امور کا فیصلہ کیا جائے۔ مولانا مودودیؒاور میاں طفیل محمد صاحب نے جماعت کے دستور کی پابندی اور مشورے کے نظام کو جماعت میں ایسا راسخ کردیاہے کہ ہر سطح پر تمام امور مشورے سے نمٹائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کی ایک اہم امتیازی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشورٰی ۴۲:۳۸)،’’وہ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے طے کرتے ہیں‘‘۔ اس اصول کو جماعت نے اپنے پورے نظام کا حصہ بنالیا ہے اور اسی لیے یہ جماعت الحمدللہ اب تک کسی بڑے انتشار اور گروہ بندی سے محفوظ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور حکومت میں میاں طفیل محمد صاحب پر بے حد تشدد کیاگیا۔ انھوںنے جس طرح اپنی کسی دوسری تکلیف کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے سے احتراز کیا، اسی طرح انھوںنے کبھی بھی اپنے اوپر تشدد کا ذکر نہیں کیا لیکن بھٹو صاحب کی آمرانہ سول حکومت کے مقابلے میں انھوںنے ضیاء الحق کے مارشل لا اور فوجی آمریت کو بہتر سمجھا۔ جماعت کے اندر اور باہر ان کی اس رائے سے کچھ لوگوں نے اتفاق نہیں کیا لیکن ان کے اخلاص پر کسی کو شبہہ نہیں تھا۔ اس لیے جماعت کے کچھ سینئر لوگ اختلاف کے باوجود ان کا احترام کرتے رہے اور اطاعتِ امیر کی اعلیٰ مثال قائم کر کے جماعت کے ڈسپلن اور اجتہادی امور میں اختلاف کے باوجود اتحاد اور یگانگت کا نمونہ پیش کیا۔ ان کے شخصی احترام کی وجہ سے اور ان کے اخلاص نیت پر یقین کی وجہ سے یہ اختلاف جماعت میں کسی انتشار کا سبب نہیں بنا اگرچہ اسلامی جمعیت طلبہ کو ضیاء الحق کی پالیسیوں سے بڑا نقصان پہنچا اور جمعیت کے کچھ لیڈروں کو اس دور میں اذیتیں دی گئیں اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اسی طرح کراچی میں ضیاء الحق کے دورمیں سرکاری سرپرستی میں ایم کیو ایم قائم ہوئی۔ لیبر تنظیموں پر پابندی کی وجہ سے جماعت اسلامی کی مزدور تحریک متاثر ہوئی اور جماعت کے گڑھ دیر میں مولانا صوفی محمد صاحب کو تحریک نفاذ شریعت محمدی منظم کرنے میں سرکاری سرپرستی حاصل رہی جنھوں نے جمہوریت اور ووٹ دینے کو حرام قرار دیا۔ اس کی وجہ سے جماعت اسلامی کودیر میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرناپڑا کیونکہ کچھ دیندار لوگوں نے مولانا صوفی محمد صاحب کی بات کو تسلیم کرکے ووٹ نہیں ڈالا۔ اس زمانے میں بھی جماعت نے مارشل لا کی اصولی مخالفت کی اور جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ شوریٰ میں شرکت سے معذرت کی اور ساری توجہ اپنے انداز میں جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے لیے فضا ہموار کرنے پر مرکوز رکھی۔
میاں طفیل محمد صاحب نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ انھوں نے پوری زندگی سادگی سے بسر کی۔ اپنی طبعی سادگی ، اخلاص اور یک رخے پن کے سبب انھیں بعض حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامناکرنا پڑا لیکن وہ پوری استقامت سے اس صراط مستقیم پر ڈٹے رہے جس کو وہ اپنے فہم دین کی روشنی میں درست سمجھتے تھے۔
میاں طفیل محمد صاحب کا ضیاء الحق سے نہ کوئی رشتہ تھا، نہ انھوں نے ان سے کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ ان کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی غرض وابستہ تھی، اور نہ آخر تک ہی انھوںنے مارشل لا کوجائز طرزِ حکومت کے طورپر تسلیم کیا۔ ان کے پورے دور امارت میں جماعت اسلامی اپنے اس موقف پر قائم رہی کہ دستوربحال کیا جائے،اور بالغ راے دہی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے۔ البتہ میاں طفیل محمد صاحب نے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی اس بنیاد پر حمایت کی تھی کہ اس سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ ہموار ہوتاہے اور اگر ملٹری ڈکٹیٹر خود کوئی ایسا راستہ دینے پر آمادہ ہے جس سے بالآخر جمہوریت بحال ہونے کی امید ہے تو اس راستے کو اپنانا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے بہت سے اہل الرائے کے اختلاف کے باوجود وہ اخلاص سے سمجھتے رہے کہ اسی سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ نکلے گا۔ چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا اور ریفرنڈم کے بعد ضیاء الحق صاحب اپنی ملٹری ڈکٹیٹرشپ برقرار نہ رکھ سکے۔
محترم میاں طفیل محمد صاحب زہد و تقویٰ اورتورع میں ہم سب کے لیے مثال تھے۔ نماز پڑھتے تھے تو دنیا جہان سے کٹ کراپنے رب کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہوجاتے تھے۔ پوری توجہ اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے تھے۔نماز باجماعت کی باقاعدگی انھوںنے اس وقت بھی نہیں چھوڑی جب بینائی کی کمی کی وجہ سے سہارا لے کر مسجد میں آنا پڑتاتھا۔ انھوں نے ۹۵ سال کی عمر میں اپنی آخری تراویح بھی باجماعت پڑھی اور پورا قرآن کھڑے ہوکر سنا۔ انھوںنے بے ہوشی سے قبل اپنی آخری نماز مغرب اور نماز عشاء بھی جامع مسجد منصورہ میں باجماعت پڑھی۔ میں نے شدید درداور بیماری کے عالم میں بھی انھیں دیکھا ہے لیکن جب ان سے حال پوچھا تو انھوںنے یہی جواب دیا کہ الحمدللہ! اللہ کا مجھ پر بڑا احسان ہے، میں اللہ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔
ان کو اللہ نے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں دی ہیں جو سب شادی شدہ اور صاحب ِاولاد ہیں۔ ان کی پوری اولاد عیدین کے موقع پر ان کے گھر میں اکٹھی ہوجاتی تھی تو لگتاتھا ایک پورا قبیلہ ہے، اور ان میں سے جس سے بھی کوئی ملتاہے تو طبعی شرافت کی وجہ سے ہر ایک میںجناب میاں طفیل محمد صاحب کی شخصیت کا پرتو نظر آتاہے۔ میا ں طفیل محمد صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا سبق راہِ خدا میں استقامت اور ثبات ہے۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اقامت ِدین کے اس طریق کار پر کاربند رہے جسے انھوںنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں مولانا مودودیؒ سے سمجھا تھا او راس راستے میں ان کے پاے استقامت میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) مومنین کے گروہ میں کچھ ایسے مردانِ کار ہیں جنھوںنے اللہ کے ساتھ اپنا کیا ہوا عہد پورا کردکھایا۔ پس ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نذر پوری کردی اور کچھ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ کے ساتھ اپنے باندھے ہوئے عہد پر پورا اتریں اور ان کے پاے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔
بلاشبہہ حضرت میاں طفیل محمدصاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ کے ساتھ اپنے باندھے ہوئے عہد کو پورا کردکھایا۔ ہم سب اس کے گواہ ہیں۔
جماعت اسلامی کی تنظیم اور دستور کی پابندی بنیادی طور پر تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ذہن اور ان کی توجہ کی مرہونِ منت ہے لیکن اگر میاں طفیل محمد ؒ جیسے دست راست اور وفادار ساتھی انھیں نہ ملتے تو شاید اتنی مضبوط اور پایدار بنیادوں پر اس کی اٹھان ممکن نہ ہوتی۔ میاں صاحب محترم ایک ایک رپورٹ، شوریٰ کی کارروائی ،سرکلراور قرار داد کا لفظ لفظ خود پڑھتے، اس کی نوک پلک درست کرتے اور طباعت سے قبل اس کی صحت کو یقینی بناتے۔ ہر متعلقہ تحریر کا بغور مطالعہ فرماتے اور کوئی کام بھی روا روی میں نہیں کرتے تھے۔ اپنے خطوط کے جوابات خود تحریر فرماتے۔ بینائی سے محرومی کے بعد روزانہ دو تین گھنٹے اخبارات اور جرائد اور دوسرا ضروری لوازمہ باقاعدگی سے کسی سے پڑھوا کر سنتے تھے۔ اس طرح آخر دم تک وہ ایک باخبر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ آخر دم تک محض دعا گو ہی نہیں تھے بلکہ جماعت کی عملی سرپرستی فرماتے رہے۔ مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت فرماتے اور اپنے ایک ایک ملنے والے کو مفید مشوروں اور دعائوں سے نوازتے۔ اللہ ان کے روحانی فیض کو ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے، آمین۔
حضرت میاں صاحب کے حالات زندگی اور ان کے مشاہدات کو جناب سلیم منصور خالد صاحب نے مشاہدات کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ یہ سلیم منصور خالد صاحب کی آیندہ نسلوں کی رہنمائی کے لیے بڑی خدمت ہے۔ اللہ ان کو اس کا اجر دے ،آمین۔
اسلام کے شیدائی نوجوانوں کی یہ ہری بھری لہلہاتی فصل دیکھ کر میرے اُوپر اس طرح کا اثر ہوتا ہے جس کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ [الفتح ۴۸:۲۹] ___ کسانوں کو اس کی بہار پسند آتی ہے اور کفار کا دل کڑھتا ہے۔ اس آیت میں ایک لطیفہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کافر کا لفظ عربی زبان میں کسان کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ زرّاع کے مقابلے میں کافر کا لفظ ذومعنی استعمال کیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ بھلائی کی فصل بونے والے خوش ہوتے ہیں اور بُرائی کی فصل بونے والے کڑھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو تین سال سے میں لوگوں سے اس بات کو کہتا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ موجودہ زمانے کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے میں دوڑ دھوپ کروں اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ پچھلی نسل کی جو خدمت میرے بس میں تھی، وہ میں کرچکا۔ اب مجھے آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے دیجیے۔ چنانچہ اسی خواہش کے تحت میں نے اپنی تمام توجہ اور محنت تفہیم القرآنکی تکمیل پر صرف کر دی، یہ سمجھتے ہوئے کہ آیندہ نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں یہ ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوگی اور جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ آیندہ نسلوں کی خاطر ہی میں یہ کام کر رہا تھا اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ نئی نسل کو یہ چیز پسند آئی ہے اور اس کے اندر یہ مقبول ہو رہی ہے۔
اس موقع پر میں مختصر طور پر آپ کو یہ بتائوں گا کہ اس تفہیم القرآن میں اور اپنی دوسری کتابوں میں، میں نے جو طرزِ استدلال توحید اور رسالت اور وحی اور آخرت اور اسلام کے اخلاقی اصولوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے، وہ درحقیقت میری اس ریسرچ اور تحقیقات کا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد کی ہے۔ اگرچہ میں ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوا تھا، میرے والد مرحوم اور میری والدہ مرحومہ دونوں دین دار تھے اور میں نے ان سے پوری مذہبی تربیت پائی۔ لیکن جب میں ہوشیار ہوا اور جوانی کی عمر میں داخل ہوا تو میرا طرزِفکر یہ تھا کہ کیا میں صرف اس وجہ سے مسلمان ہوں کہ مسلمان کا بیٹا ہوں۔ اگر اس وجہ سے میرا مسلمان ہونا برحق ہے تو جو شخص ایک عیسائی کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اس کا عیسائی ہونا برحق ہوگا اور جو ہندو کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اس کا ہندو ہونا برحق ہوگا۔ اس لیے مجھے تحقیق کرنی چاہیے کہ حق فی الواقع کیا ہے۔ چنانچہ اس حالت میں، مَیں نے اپنے فیصلے کو معطل رکھا۔ یہ نہیں ہے کہ میں دہریہ ہوگیا تھا یا ملحد ہوگیا تھا، دراصل میں تحقیقات کے بعد ایک مستقل فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔
اس غرض کے لیے میں نے ویدوں کے تراجم لفظ بہ لفظ پڑھے، گیتا لفظ بہ لفظ پڑھی، ہندو مذہب کے فلسفے اور ہندو مذہب کی تاریخ کو پڑھا، بدھ مذہب کی اصل کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں ان کو پڑھا۔ اسی طرح بائیبل پوری کی پوری پڑھی اور پادری دومیلو کی تحقیق کی نظر سے پڑھی تاکہ یہ نہ ہو کہ میں کوئی متعصبانہ مطالعہ کروں۔ میں نے اپنے دماغ کے ہرتعصب کو نکال کر پوری دیانت داری کے ساتھ تحقیق کی کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ عیسائیت اور یہودی مذہب دونوں کے متعلق میں نے وسیع معلومات حاصل کیں۔ عیسائیوں کی اصل لکھی ہوئی کتابیں اور یہودیوں کی اصل لکھی ہوئی کتابیں پڑھیں۔ تلمود کے جتنے حصے مجھے مل سکے، میں نے پڑھے۔پھر میں نے دہریوں اور ملحدوں اور مادہ پرستوں کے فلسفے پڑھے اور جن لوگوں نے سائنس کے نام سے دنیا میں دہریت پھیلائی ہے، ان کو پڑھا۔ نہ صرف پڑھا بلکہ جن مغربی مفکرین کے پیچھے دنیا چل رہی ہے، ان کے حالات بھی پڑھے تاکہ یہ معلوم کروں کہ یہ لوگ معتدل مزاج اور سوبر ہیں بھی کہ نہیں۔کیونکہ ایک انسان ایک نظریہ پیش کرتا ہے اور بعض اوقات وہ نظریہ یہ پتا دیتا ہے کہ اس کے پیش کرنے والے کے دماغ میں کچھ نہ کچھ عدم توازن پایا جاتا ہے۔ میں نے ان لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھیں تاکہ یہ معلوم کروں کہ فی الواقع ان کی زندگیاں کیا ہیں۔ اس سارے مطالعے کے بعد پھر میں نے قرآن مجید کو پڑھا۔ بچپن سے میری تعلیم عربی کی تھی، اس لیے مجھے اس کی ضرورت نہ تھی کہ میں اسے ترجمے سے پڑھتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جو اصل کتابیں ہیں (بعد کے لوگوں کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ اصل ماخذ) ان کو پڑھا اور احادیث کو پڑھا۔
اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس سے زیادہ معقول اور اس سے زیادہ مدلل مذہب اور کوئی نہیں ہے جیساکہ قرآن پیش کرتا ہے، اور اس سے زیادہ مکمل رہنما اور کوئی نہیں ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور انسانی زندگی کے لیے اس سے زیادہ مفصل اور صحیح پروگرام کہیں نہیں پیش کیا گیا جیساکہ قرآن وحدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوں، بلکہ تمام مذاہب ِ عالم کا اچھی طرح مطالعہ کرنے اور تحقیق کرنے کے بعد میں نے یہ راے قائم کی ہے۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں تفہیم القرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرتا ہوں وہاں معقول طریقے سے دلائل کے ساتھ اس راے کا بھی اظہار کرتا ہوں۔ یہ وہ استدلال ہے جس سے میں نے درحقیقت اسلام حاصل کیا ہے۔ جس سے میں توحید کا قائل ہوا، جس سے میں رسالت کا قائل ہوا، جس سے میں وحی کا قائل ہوا، جس سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے کا قائل ہوا، جس سے میں اس بات کا قائل ہوا کہ اسلام ہر زمانے کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ اس وجہ سے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ میں قرآن مجید کے ذریعے سے لوگوں کو سمجھائوں کہ اسلام حقیقت میں ہے کیا....
میری خواہش یہ تھی کہ میں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھوں گا اور ایک حدیث کا مجموعہ مرتب کروں گا اور اس کی شرح بھی کروں گا لیکن ۳۰ سال تفہیم القرآن ہی لکھنے میں گزر گئے___ تاہم آپ دیکھیں گے کہ میں نے قرآن مجید کا سیرت سے تعلق جگہ جگہ دکھایا ہے۔ پوری ریسرچ کرکے، پوری تحقیقات کرکے میں نے یہ معلوم کیا ہے کہ قرآن مجید کی کون سی آیت اور کون سی سورہ کس زمانے میں نازل ہوئی اور اس زمانے کے حالات کیا تھے۔ اس طرح سیرت کے ساتھ قرآن مجید کا تعلق میں برابر تفہیم القرآن میں ہر جگہ ابتدا سے لے کر آخر تک دکھاتا رہا ہوں۔ یوں تفہیم القرآن ہی میں سیرت پر بھی خاصا مواد جمع ہوگیا ہے اور اگر کوئی شخص اس کو مرتب کرے تو سیرت پر ایک کتاب مکمل ہوسکتی ہے۔ احادیث کا مجموعہ بھی اگرچہ میں مرتب نہیں کرسکا، لیکن جہاں جہاں بھی موقع ہوا ہے، میں نے احادیث سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے تو احادیث کا مجموعہ بھی اس سے مرتب کرسکتا ہے۔ جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ قرآن اور حدیث کے درمیان باہم کیا تعلق ہے اور قرآن کو سمجھنے کے لیے حدیث کتنی ضروری ہے۔ حدیث اگر نہ ہو تو قرآن سمجھنے میں آدمی کو کتنا نقص واقع ہوتا ہے۔
میں اپنے تجربے اور مطالعے کی روشنی میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ لوگ بھی صرف اس وجہ سے مسلمان نہ بنیں کہ مسلمانوں کی اولاد ہیں بلکہ شعوری طور پر ایمان لائیں۔ شعوری طور پر یہ تسلیم کریں کہ اللہ ہے اور یقینا وہ ایک ہے اور ساری کائنات اسی کی ہے۔ اور شعوری طور پر یہ تسلیم کریں کہ آخرت ہے اور یقینا مرنے کے بعد ہمیں اُٹھنا ہے اور اپنے خدا کو جواب دینا ہے۔ اور شعوری طور پر یہ بات تسلیم کریں کہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی تھے اور آپؐ پر وحی آتی تھی۔ اگر کوئی شخص شعوری طور پر ایمان نہ لائے اور محض تقلیدی ایمان کے ذریعے سے نماز روزے بھی کرتا رہے تو آپ اس کی زندگی میں وہ تمام منافقتیں اور وہ تمام تضادات دیکھیں گے جو اس وقت عام مسلمانوں کے اندر، مسلمانوں کے لیڈروں کے اندر اور مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ خالص اسلام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب آدمی شعوری طور پرسوچ سمجھ کر ایمان لائے اور جانے کہ جس چیز کو میں مانتا ہوں، اس کے ماننے کے تقاضے کیا ہیں، اس کے ماننے کے بعد کیا چیز لازم آتی ہے۔ پھر آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ اس کی زندگی میں تضاد ہو اور تناقض ہو، وہ کہے کچھ، کرے کچھ۔ اس کے اخلاق کچھ اور ہوں اور اس کے اعمال کچھ اور ہوں اور نماز وہ مسجد میں جاکر ادا کر رہا ہو۔ یہ صورت حال شعوری طور پر ایمان لانے سے باقی نہیں رہتی۔ پھر آدمی جو کچھ کرتا ہے سوچ سمجھ کر سچے دل سے کرتا ہے۔ وہ یکسو اور حنیف بن کر رہتا ہے۔ جیساکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے، کان حنیفًا مسلمًا، ایسا مسلمان جو یکسو تھا ہر طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہوگیا تھا اور وہ شخص مسلم حنیف تھا۔
میں اپنی اس تقریر کو اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان نوجوانوں کو سچا مسلمان بنائے اور ان کو اسلام کے لیے جان، مال،محنت، قابلیت، ہر چیز قربان کرنے کی توفیق عطافرمائے، اور وہ سرزمین جو اسلام کا گھر تھی اور اسلام کے لیے بنائی گئی تھی، اس سرزمین کو گمراہ کرنے والوں سے پاک کرے، اور ان لوگوں کی توفیق اور تائید فرمائے اور ان لوگوں کی مدد فرمائے جو اس سرزمین کودارالاسلام بنانا چاہتے ہیں___ وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین۔ (اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام تکمیل تفہیم القرآن کی تقریب سے خطاب ،بحوالہ ایشیا، جولائی ۱۹۷۲ء)
ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے شوق و انتظار میں رہتے۔ رجب شروع ہوتا تو رمضان سے پہلے کے دو ماہ کے لیے برکت کی دعا اور پھر رمضان کے لیے الگ سے خصوصی دعا فرماتے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپؐ فرماتے: ’’اور ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘۔ اس انتظار میں رمضان سے پہلے کے مہینوں میں نفلی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمانوں پر رمضان سے بہتر اور کوئی مہینہ طلوع نہیں ہوتا اور منافقوں کے لیے اس سے بُرا کوئی اور مہینہ نہیں آتا‘‘۔
یہ ایک طویل حدیث کا اقتباس ہے۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خوش خبری بھی دے رہے ہیں اور اپنے اُمتیوں کو متوجہ بھی فرما رہے ہیں۔ جنت سمیت پوری کائنات استقبالِ رمضان میں لگی ہو اور بندہ غفلت میں پڑا رہے…؟ پروردگار! رمضان المبارک کی حقیقی روح سے دلوں کو منور فرما۔
زندگی کی مہلت ملے، رمضان المبارک کے مبارک لمحات عطا ہوں، روزوں کی سعادت حاصل ہو، فرائض کی ادایگی کا موقع ملے تو بلندیِ درجات کی منزل یقینی ہوسکتی ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خاک آلود ہو، اس شخص کا چہرہ کہ جسے رمضان المبارک ملا ،لیکن پھر بھی اس نے مغفرت کا سامان نہ کیا۔ رمضان کی نعمت حاصل ہو، اور اس کی قدر نہ کی گئی، مثلا بلاوجہ روزہ نہ رکھا، توآپؐ کے ارشاد کے مطابق پھر ’’ساری عمر کے روزے بھی اس ایک روزے کی قضا نہیں ہوسکتے‘‘۔ گھر آئی نعمت کی بے قدری، ہمیشہ کی نامرادی بن جاتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ قرار دیا ہے۔ وہ اس قید خانے کی مشقت برداشت کرتا ہے، دن رات محنت کرتا ہے اور اس کے بعد ابدی رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے، جب کہ آخرت سے بے پروا انسان دنیا ہی کو اپنی جنت بنانا چاہتا ہے۔ وہ اس دوڑ میں حرام و حلال کی ہر حد پھلانگ جاتا ہے۔
گناہوں کا نتیجہ خوفناک ہی نہیں، حیرت انگیز بھی ہے۔ گناہ نہ صرف ارتکاب کرنے والے کے لیے عذاب کا موجب بنتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر شے حتیٰ کہ دیار و اشجار اور حیوانات بھی ان کے بد اثرات سے محفوظ نہیں رہتے،اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے بدقسمت لوگ دنیا سے جائیں، تو پورا ماحول سُکھ کا سانس لیتا ہے، کہ اللہ کے نافرمان سے نجات ملی۔ عام انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ اگر یہ ہے تو رہنماؤں ، قوم کے بڑوں اور حکمرانوں کی نافرمانیوں اور غلطیوں کے اثرات و نتائج پوری قوم پر کیا ہوں گے۔
حرص و لالچ ابن آدم کی سرشت ہے، لیکن نیک و بد یہاں بھی مختلف رویے اختیار کرتے ہیں۔ آں حضوؐر کے ارشاد گرامی کے مطابق ’’دنیا سے جانے والا ہر انسان حسرت کررہا ہوتا ہے۔ نیک لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں، کاش! مزید نیکیاں سمیٹ لیتا۔گنہگار اپنا انجام دیکھ کر کہتا ہے: کاش! پہلے باز آجاتا‘‘۔ حرص جس شے کی بھی ہو، کبھی ختم نہیں ہوتی۔ علم ہو، نیکیاں ہوں، مال ہو، جاہ و منصب و اقتدار ہو، اولاد و متاع ہو، اچھی یا بری خواہشات ہوں___ انسان جس شے کی بھوک میں مبتلا ہوجائے اس سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ اب بھلا اس سے زیادہ مال و دولت کیا ہوگا کہ وادیوں کی وادیاں سونے سے بھر کردے دی جائیں، لیکن ہوس ہے کہ ختم نہیں ہوتی___ جتنا مل گیا اتنا ہی اور چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر جملے میں خزانے سمودیے___ انسان کا پیٹ قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی شے نہیں بھر سکتی! ہاں، جو رب کا ہوجائے، رب اس کا ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُسے دنیاوی مال و جاہ کے حوالے سے قناعت عطا کرتا ہے اور دین و عمل صالح کی حرص بڑھا دیتا ہے۔
انسان اپنی بات کی اہمیت کو جانتا ہی نہیں۔ نیکی کی بات ہو تو سمجھتا ہے اس سے بھلا کیا فرق پڑے گا، اور بری باتوں کو تو بعض اوقات اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کی کمزوریاں معلوم ہوجائیں اور انھیں بیان کرنے کی لذت لیتے ہوئے، غیبت نہ کی جائے۔ بات بے بات جھوٹ، ایک دوسرے کی چغلی، تہمت و الزامات، گالم گلوچ، بد زبانی، فحش گوئی، اظہارِ غرور و تکبر، گناہ ایک سے بڑھ کر ایک اور ذریعہ ایک چھوٹی سی زبان۔
دوسری طرف اللہ کو پسند آنے والی بظاہر ایک معمولی سی بات، لیکن درجات بلند سے بلند تر کردے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی مختصر سی تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ہی کو دیکھ لیجیے۔ آپ ؐ کے ارشاد کے مطابق زمین و آسمان کے درمیان سارے خلا کو بھردے___ اورذریعہ وہی چھوٹی سی زبان۔
میں تمھیں دنیا سے ڈراتا ہوں، اس لیے کہ یہ بظاہر شیریں و خوش گوار، تروتازہ و شاداب ہے۔ نفسانی خواہشات اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ میسر آجانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور اپنی تھوڑی سی (آرایشوں) سے مشتاق بنا لیتی ہے۔ وہ (جھوٹی) اُمیدوں سے سجی ہوئی، اور دھوکے اور فریب سے بنی سنوری ہوئی ہے۔ نہ اس کی مسرتیں دیرپا ہیں اور نہ اس کی ناگہانی مصیبتوں سے بے فکر رہا جاسکتا ہے۔ وہ دھوکے باز، ضرر رساں، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے، ختم ہونے والی، اور مٹ جانے والی ہے، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے۔ جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزوئوں تک پہنچ جاتی ہے، تو بس وہی ہوتا ہے جو اللہ سبحانہٗ نے بیان کیا ہے: (اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسے ہے) ’’جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اُتارا، تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا اور (اچھی طرح پھلا پھولا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہوگیا، جسے ہوائیں (اِدھر سے اُدھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔ (الکھف ۱۸:۴۵)
جو شخص اس دنیا کا آرام پاتا ہے تو اس کے بعد اس کے آنسو بھی بہتے ہیں اور جو شخص دنیا کی مسرتوں کا رُخ دیکھتا ہے، وہ مصیبتوں میں دھکیل کر اس کو اپنی بے رُخی بھی دکھاتی ہے۔ اور جس شخص پر راحت و آرام کے ہلکے ہلکے چھینٹے پڑتے ہیں، اس پر مصیبت و بلا کے طوفان بھی آتے ہیں۔ یہ دنیا ہی کے مناسب حال ہے کہ صبح کو کسی کی دوست بن کر اس کا (دشمن سے) بدلہ چکائے اور شام کو یوں ہوجائے کہ گویا کوئی جان پہچان ہی نہ تھی۔ اگر اس کا ایک گھونٹ شیریں و خوش گوار ہے تو دوسرا حصہ تلخ اور بلاانگیز، جو شخص بھی دنیا کی تروتازگی سے اپنی کوئی تمنا پوری کرتا ہے تو وہ اس پر مصیبتوں کی مشقتیں بھی لاد دیتی ہے۔ جس کی شام امن و سلامتی کے بال و پَر کی حامل ہوتی ہے، اس کی صبح خوف کے پروں پر ہوتی ہے۔ وہ دھوکے باز ہے اور اس کی ہر چیز دھوکا۔ وہ خود بھی فنا ہوجانے والی ہے اور اس میں رہنے والا بھی فانی ہے۔ اس کے کسی سامان میں، سواے زادِ تقویٰ کے کوئی بھلائی نہیں ہے۔ اس سے جو شخص کم حصہ لیتا ہے،وہ اپنے لیے راحت کے سامان بڑھا لیتا ہے، اور جو کوئی دنیا کو زیادہ سمیٹتا ہے، وہ اپنے لیے تباہ کن چیزوں کا اضافہ کر لیتا ہے، (حالانکہ) اسے اپنے مال و متاع سے بھی جلد ہی الگ ہونا ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنھوں نے دنیا پر بھروسا کیا اور اس نے انھیں مصیبتوں میں ڈال دیا، کتنے ہی اس پر بھروسا کیے بیٹھے تھے جنھیں اس نے پچھاڑ دیا، کتنے ہی رعب و طنطنے والے تھے جنھیں حقیر وپست بنا دیا، اور کتنے ہی نخوت و غرور والے تھے جنھیں ذلیل کر کے چھوڑا۔ اس کی بادشاہی دست بدست منتقل ہونے والی چیز، اس کا سرچشمہ گدلا، اس کا خوش گوار پانی کھاری، اس کی حلاوتیں ایلوا (کی مانند تلخ) ہیں۔اس کے کھانے زہر ہلاہل، اور اس کے اسباب و ذرائع کے سلسلے بودے ہیں۔ زندہ رہنے والا معرضِ ہلاکت میں ہے اور تندرست کو بیماریوں کا سامنا ہے۔ اس کی سلطنت چھن جانے والی، اس کا زبردست زیردست بننے والا، مال دار بدبختیوں کا ستایا ہوا اور ہمسایہ لٹا لٹایا ہوا ہے۔ پھر اس کے بعد سکرات اور یومِ جزا میں پیش ہونے کے مشکل مراحل درپیش ہوں گے: ’’تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے، اوران لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنھوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے‘‘۔ (النجم ۵۳:۳۱)
کیا تم انھی سابقہ لوگوں کے گھروں میں نہیں بستے جو لمبی عمروں والے، پایدار نشانیوں والے، بڑی بڑی اُمیدیں باندھنے والے، زیادہ گنتی و شمار والے اور بڑے لائولشکر والے تھے؟ وہ دنیا کی کس طرح پرستش کرتے رہے، اور اسے آخرت پر کیسی کیسی ترجیح دیتے رہے۔ پھر بغیر کسی ایسے زاد و راحلہ کے، جو انھیں راستہ طے کرکے منزل تک پہنچاتا، چل دیے۔ کیا تمھیں کبھی یہ خبر پہنچی ہے کہ دنیا نے ان کے بدلے میں کسی فدیے کی پیش کش کی ہو یا انھیں کوئی مدد بہم پہنچائی ہو یا اچھی طرح ان کے ساتھ رہی ہو؟ بلکہ اس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے، آفتوں سے انھیں عاجز و درماندہ کر دیا اور لوٹ لوٹ کر آنے والی زحمتوں سے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل انھیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے کھروں سے کچل ڈالا، اور ان کے خلاف حوادثِ زمانہ کا ہاتھ بٹایا۔
تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا تو اس نے (اپنے تیور بدل کر ان سے کیسی) اجنبیت اختیار کرلی یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوکر چل دیے۔ اس نے انھیں بھوک کے سوا کچھ زادِ راہ نہ دیا، اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھیرنے کا سامان نہ کیا، اور سواے گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا، تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو، یا اسی پر مطمئن ہوگئے ہو، یا اسی پر مرے جا رہے ہو؟ ارشاد خداوندی ہے: ’’جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی، مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہوجائے گا کہ) جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے‘‘ (ھود ۱۱: ۱۵-۱۶)۔ جو دنیا پر اعتماد کرے، اور اس میں بے خوف و خطر ہوکر رہے، اس کے لیے یہ بہت بُرا گھر ہے۔
جان لو، اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو کہ (ایک نہ ایک دن) تمھیں دنیا کو چھوڑنا ہے اور یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ہم سے قوت و طاقت میں کون زیادہ ہے۔ انھیں لاد کر قبروں تک پہنچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انھیں سوار سمجھا جائے۔ انھیں قبروں میں اتار دیا گیا، مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے۔ پتھروں سے ان کی قبریں چُن دی گئیں، اور خاک کے کفن ان پر ڈال دیے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے۔
وہ ایسے ہمسایے ہیں کہ جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل (جھوم کر) ان پر برسیں تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے، تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی۔ وہ ایک جگہ ہیں، مگر الگ الگ۔ وہ آپس میں ہمسایے ہیں مگر دُور دُور۔ پاس پاس ہیں، مگر میل ملاقات نہیں۔ قریب قریب ہیں، مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے۔ وہ بُردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں۔ ان کے بُغض و عناد ختم ہوگئے اور کینے مٹ گئے۔ نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے، نہ کسی تکلیف کے دُور کرنے کی توقع ہے۔
ارشاد الٰہی ہے: ’’سو دیکھ لو، ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخرکار ہم ہی وارث ہوکر رہے‘‘۔ (القصص ۲۸:۵۸)
انھوں نے زمین کے اُوپر کا حصہ اندر کے حصے سے ،اور کشادگی اور وسعت تنگی سے، اور گھربار پردیس سے، اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے، اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے، ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک) ہوگئے، اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کرگئے۔ جیساکہ اللہ سبحانہٗ نے فرمایا ہے:
کَمَا بَدَاْنَـآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ طوَعْدًا عَلَیْنَا ط اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۰۴) جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا، اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے، اس وعدے کو پورا کرنا ہمارے ذمے ہے،اور ہم اسے ضرور پورا کر کے رہیں گے۔
(نہج البلاغہ، انتخاب: عبدالحئی ابڑو، بحوالہ ترجمان القرآن، مئی ۱۹۹۶ء)
رمضان المبارک کی مناسبت سے امام حسن البنا شہیدؒ نے مختلف مواقع پر مضامین تحریر کیے جو جریدۃ الاخوان ،مصر میں شائع ہوئے۔ خواطر رمضانیۃ کے نام سے یہ مضامین کتابی شکل میں حال ہی میں شائع ہوئے ہیں۔ مذکورہ کتاب سے چند منتخب مضامین پیش ہیں۔(ادارہ)
رمضان ایک نادرموقع ہے جو سال میںصرف ایک دفعہ میسر آتا ہے۔ اب ہمارے اور اس مبارک مہینے کے درمیان چند ہی دن باقی ہیں۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں پرمزید برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ اس ماہ مبارک کے شب وروز میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پرخصوصی نظر کرم فرماتا ہے، اُن کی دعائیں قبول فرماتا ہے ، اطاعت گزاروںکے ثواب کو دُگنا کرتا ہے، اور گنہگا روںاور خطاکاروں سے درگزر فرماتا ہے۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جب رمضان آنے لگتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں، سرکش شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی یہ آواز لگاتا ہے : اے بدی کے طلب گار! رک جااور اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ۔ (بخاری)
ماہ صیام ایسے حالات میں طلوع ہورہا ہے کہ جب مسلمان گوناگوں مسائل کا شکار ہیں جن کا مقابلہ کرنا اللہ کی اُس تائید ونصرت کے بغیر ممکن نہیں ہے جس کااس نے اپنے مومن بندوں سے وعدہ فرمایاہے :
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے،نیکی کا حکم دیں گے اوربرائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (الحج ۲۲:۴۱)
آج مسلمانوںکے سامنے وادیِ نیل کا مسئلہ ہے، فلسطین وجزائر عرب کا مسئلہ ہے، برعظیم میں پاکستان ، ریاست حیدرآباد اور ہندستان میں مسلم اقلیت کے مسائل ہیں ۔ان کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں مسلمانوں کو درپیش لا تعداد مسائل ہیں۔ان گمبھیر مسائل سے نکلنا تائیدِ خداوندی کے بغیرممکن نہیں، اور اللہ کی نصرت ،معصیت سے نہیں بلکہ اطاعت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
لہٰذا اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائیے۔ دلوں کو آلایشوں سے صاف کیجیے، اپنے نفس کو آمادہ کیجیے، دل وجان سے رمضان کااستقبال کیجیے، کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کیجیے اورہمیشہ اللہ کے ساتھ جڑے رہیے تاکہ اللہ آپ کے ساتھ رہے۔جب اللہ آپ کے ساتھ ہوگا تو وہ آپ کی نصرت فرمائے گااور اللہ کی مدد شامل حال ہو توکوئی آپ پر غلبہ نہیں پاسکتا۔(۲ جولائی ۱۹۴۸ء)
اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں، ان میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے بندوں پرخصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندوں کی کامیابی اورسعادت دارین کا موجب ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ ،خلوص نیت اور حضور قلبی ہے۔ اگر عبادت کابنیادی محرک رضاے الٰہی نہ ہو تو نہ اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب بلکہ حدیث نبویؐ کے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں ان کے روزے سے سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتابلکہ عبادت میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے، کہ تندرستی کے بعد رکھے یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے (یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے)۔
تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہییں۔ یہ فرائض محض عبادت براے عبادت نہیں ،بلکہ اُخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات وفوائد بھی ملحوظ رکھے گئے ہیں۔اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا ،جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہرنہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پراس کا براہ راست مثبت اثر ہوتاہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساں ہوتاہے۔ ارشاد ربانی ہے:
(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اُس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔(اعراف ۷: ۱۵۷)
میں اسلامی حکومتوں سے گزارش کروں گا کہ وہ دیگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوںکی طرح رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے بھی کڑی سزا مقرر کریں تاکہ کسی کو اس ماہِ مقدس کی حرمت پامال کرنے کی جراء ت نہ ہو۔اس ضمن میں چند سرکاری محکموں سے اپنے ذیلی اداروں کورمضان کے احترام پر مشتمل ایسی رسمی ہدایت جاری کردینا کافی نہیں ہے جس کی نہ پیروی کی جاتی ہے نہ مخالفت کرنے پر کوئی سزا ہی دی جاتی ہے۔حکومت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔ (۲۶ جولائی ۱۹۴۶ء)
اسلام میں عبادت کی حیثیت ٹیکس یاجرمانے کی نہیں کہ جسے ادا کرکے کوئی بوجھ اتارنا مقصود ہو،بلکہ اسلامی عبادات رب اور بندے کے درمیان ایک مقدس روحانی تعلق کی ایک علامت ہوتی ہیں۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک سرمدی نور پیدا ہوتا ہے،جو ان کے گناہوں ،وسوسوں اور اندیشوںکے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسان کی تکریم وعزت ہے کہ خاکی ہونے کے باوجودوہ ان عبادات کے ذریعے رب ذوالجلال کے ساتھ مناجات کرسکتا ہے۔
رمضان کا مہینہ اطاعت و عبادات کا موسم بہار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوںکے شب وروز کو مزین فرماتاہے اور یہی اس مہینے کے حسن وجمال کا سبب ہے۔ اطاعت گزاری تو ہروقت ایک مطلوب صفت ہے لیکن رمضان میں اس کی قدرو قیمت اور حسن میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادت کا ثواب اور قدر افزائی بہت زیادہ ہے لیکن اس مہینے میں تو اجر وعطابے حساب ہوجاتی ہے۔ اس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے ۔ فقہی اعتبار سے اگریہ روزہ توڑنے والی چیزوں سے اجتناب کا نام ہے تو روحانی اعتبار سے یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کو ،اپنے نفس، فکر، ارادہ اور اپنی سوچ وشعور کا محور بنانے کو کہتے ہیں۔
اس مہینے میں قرآن کے ساتھ خصوصی تعلق جوڑنا چاہیے اور کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کرنی چاہیے کیونکہ یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ جبریل امین ؑ خصوصی طور پر رمضان میں آکر حضور پاکؐسے قرآن سنتے تھے۔ زندگی کے آخری برس آپؐ نے دو دفعہ جبریل ؑ کو قرآن سنایا۔ یہ وہی قرآن ہے جوصحابہ کرامؓ اور ہمارے اسلاف کے پاس موجود تھا۔ ہم بھی اسے اسی طرح پڑھتے اور سنتے ہیں جس طرح وہ سنتے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن نے اس طرح ہماری زندگی کو نہیں بدلا جس طرح صحابہ کرامؓ کی زندگی کو بدلا تھا؟ اس سے ہمارے اخلاق ومعاملات میں وہ تبدیلی کیوں نہیں آتی جو ان کی زندگی میں آئی تھی؟
یہ اس لیے کہ انھوں نے اس کتاب کومضبوط ایمان کے ساتھ قبول کیا، تدبر کے ساتھ اس کو پڑھا،اس کے احکام کو نافذ کیااور اپنے آپ کومکمل طور پر اس کے سپرد کردیا۔ آپ اور ہم بھی ان کی طرح بن سکتے ہیں اگر اس کتاب پر ان کی طرح ایمان لے آئیں۔ اُن کی طرح اس کے مطابق چلیں، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانیں، اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس کے احکام کونافذ کردیںاور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لیں۔تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟
کثرت سے صدقہ اور غریبوں اور مساکین کی مدد کرنا بھی اس مہینے کے امتیازی اعمال میں سے ہے۔ نبی پاکؐ جود وسخاکے پیکر تھے لیکن اس مہینے میں آپؐ کی سخاوت تیز ہوا کی مانند ہوجاتی تھی۔
اسی طرح دعا اور کثرت سے استغفار بھی اس ماہ کی خصوصی عبادات میں شامل ہے۔ یہ دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے، اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اس مہینے میں روزے داروں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! کہیں اس مہینے کی مبارک راتیں اللہ کی رحمتیں سمیٹے اور اُس کی رضا حاصل کیے بغیر نہ گزرجائیں۔
اس مشینی دور میں جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو روح کی تسکین کا سامان بنایا۔ اس میںدن کو روزہ رکھ کر تمام دنیاوی لذتوں اور لغوکاموں اور باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے اوررات کو اٹھ کر اللہ کے حضور طویل قیام اور تلاوت قرآن سے اپنے دلوں کو منور کیا جاتا اور روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے۔ لہٰذا میرے عزیز بھائیو! اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی دن سے مضبوط ارادے کے ساتھ اس مدرسے میں داخل ہوجایئے۔ ہر وقت اپنی توبہ کی تجدید کرتے رہیے ۔ غور وفکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کیجیے۔ اپنے نفس کو روزے کے فوائد سے روشناس کیجیے۔جتنا ممکن ہو قیام اللیل کا اہتمام کیجیے۔زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر میں وقت گزاریئے۔اپنی روح کو مادیت کے فتنے سے بچائیے اور کوشش کیجیے کہ اس ماہ مبارک سے متقی بن کر نکلیں۔ (۱۷ نومبر ۱۹۳۶ء)
[روزہ] مہینہ بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹے آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی (elementary) ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اس کو خداوندعالم کے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ غذا کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک قطرہ تک وہ حلق سے گزار نہیں سکتا جب تک کہ وہاں سے اجازت نہ ملے۔ ایک ایک چیز کے استعمال کے لیے وہ شریعت خداوندی کی طرف دیکھتا ہے۔ جو کچھ وہاں حلال ہے وہ اس کے لیے حلال ہے، خواہ تمام دنیا اُسے حرام کرنے پر متفق ہوجائے، اور جو کچھ وہاں حرام ہے وہ اس کے لیے حرام ہے، خواہ ساری دنیا مل کر اُسے حلال کردے۔ اس حالت میں خداے واحد کے سوا کسی کا اذن اس کے لیے اذن نہیں، کسی کا حکم اس کے لیے حکم نہیں، اور کسی کی نہی اس کے لیے نہی نہیں۔ خود اپنے نفس کی خواہش سے لے کر دنیا کے ہر انسان اور ہر ادارے تک کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے حکم سے مسلمان رمضان میں روزہ چھوڑ سکتا ہو یا توڑ سکتا ہو۔ اس معاملے میں نہ بیٹے پر باپ کی اطاعت ہے، نہ بیوی پر شوہر کی، نہ ملازم پر آقا کی، نہ رعیت پر حکومت کی، نہ پیرو پر لیڈر یا امام کی، بالفاظ دیگر اللہ کی بڑی اور اصلی اطاعت تمام اطاعتوں کو کھا جاتی ہے اور ۷۲۰ گھنٹے کی طویل مشق و تمرین سے روزے دار کے دل پر کَاالنَّقْشِ فِی الْحَجَرِ یہ سکّہ بیٹھ جاتا ہے کہ ایک ہی مالک کا وہ بندہ ہے، ایک ہی قانون کا وہ پیرو ہے اور ایک ہی اطاعت کا حلقہ اس کی گردن میں پڑا ہے۔
اس طرح یہ روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور ۳۰ دن تک روزانہ ۱۲ ۱۲، ۱۴ ۱۴ گھنٹے تک اسی سمت میں جمائے رکھتا ہے تاکہ اپنی بندگی کے مرجع اور اپنی اطاعت کے مرکز کو وہ اچھی طرح متحقق کرے اور رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اس کی اطاعتیں اور فرمانبرداریاں بکھر کر مختلف مرجعوں کی طرف بھٹک نہ جائیں۔ اطاعتِ امر کی اس تربیت کے لیے بظاہر انسان کی صرف دو خواہشوں (یعنی غذا لینے کی خواہش اور صنفی خواہش) کو چھانٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابندیاں صرف انھی دو پر لگائی گئی ہیں۔ لیکن روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیع امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہر اُس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہر اُس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا۔ یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو، روزہ اتنا ہی مکمل ہے، اور جتنی اس میں کمی ہو، اتنا ہی وہ ناقص ہے۔ اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے، ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلا گیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں، جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ:
مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ (بخاری، کتاب الصوم) جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔
جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘ کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اور پھر اس کی نافرمانی کرتا ہے،وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالانکہ خدا کو اس کے خلوے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضوؐر نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
کَمْ مِّنْ صَآئِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلاَّ الظَّمَأُوَکَمْ مِّنْ قَـآئِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ اِلاَّ السَّھَرُ (سنن الدار) کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور کتنی ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یہی بات ہے جس کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح تر الفاظ میں ظاہر فرما دیا کہ
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔
یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو، تقویٰ کے اصل معنی حذر اور خوف کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ اس لفظ کی بہترین تفسیر جو میری نظر سے گزری ہے، وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعبؓ نے بیان کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنینؓ! آپ کو کبھی کسی ایسے رستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بارہا۔ انھوں نے پوچھا: تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ اُلجھ جائے۔ حضرت ابی نے کہا: بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔
زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط، خواہشات اور میلاناتِ نفس، دساوس اور ترغیبات (temptations)، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعتِ حق کی راہ سے ہٹ کر بداندیشی و بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ اُلجھنا، یہی تقویٰ ہے اور یہی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوی دوا ہے جس کے اندر خداترسی و راست روی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے۔ مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے، اور جو قوت روزہ دیتا ہے، اس کو لینے کے لیے تیار ہو، اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوفِ خدا اور اطاعتِ امر کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کرے تو یہ چیز اس میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی ۱۱ مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خاردار جھاڑیوں سے دامن بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج (ثواب) اور منافع (اجر) کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہوکر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقویٰ کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رت جگے کے سوا اور کچھ نہیں پاسکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا اِلٰی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اِلاَّ الصَّوْمُ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ (متفق علیہ) آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے، ایک نیکی ۱۰ گنی سے ۷۰۰ گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنیٰ ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں۔
یعنی روزے کے معاملے میں بالیدگی و افزونی کا امکان بے حدوحساب ہے۔ آدمی اُس سے تقویٰ حاصل کرنے کی جتنی کوشش کرے اتنا ہی وہ بڑھ سکتا ہے۔ صفر کے درجے سے لے کر اُوپر لاکھوں، کروڑوں، اربوں گنے تک وہ جاسکتا ہے، بلکہ بلانہایت ترقی کرسکتا ہے۔ پس یہ معاملہ چونکہ آدمی کی اپنی استعداد اخذ و قبول پر منحصر ہے کہ روزے سے تقویٰ حاصل کرے یا نہ کرے، اور کرے تو کس حد تک کرے، اس وجہ سے آیت مذکورہ بالا میں یہ نہیں فرمایا کہ روزے رکھنے سے تم یقینا متقی ہوجائو گے، بلکہ لَعَلَّکُمْ کا لفظ فرمایا جس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ توقع کی جاتی ہے، یا ممکن ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔ (اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص ۷۶-۸۲)
سیکولر قوم پرستی کتنی بزدل اور موقع پرست ہوتی ہے، اس کی مثالیں مسلم دنیا میں بڑی کثیر تعداد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ آج کے پاکستان میں اس کی قابلِ ذکر مثال مہاجر قوم پرستی کی صورت میں سامنے ہے اور پاکستان میں سب سے پہلے سر اُٹھانے والی بنگلہ قوم پرستی، ایسی موقع پرستی اور بزدلی کے ثبوت قدم قدم پر پیش کر رہی ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آیا، جو سابقہ ہندستان میں مسلم اکثریت کے دو خطوں پر مشتمل تھا: ایک موجودہ پاکستان جسے مغربی پاکستان کہتے تھے اور دوسرا مشرقی بنگال، جسے مشرقی پاکستان کہتے تھے۔ ایک تلخ حکومتی کلچر، بنگلہ قوم پرستی اور بھارت کی براہِ راست مداخلت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، بھارت کی فوجی یلغار اور عوامی لیگ کی زیرقیادت بنگلہ قوم پرستی کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان سے الگ ہوکر ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگلہ دیش بن گیا۔ بنگلہ دیش میں بہت سے سیاسی نشیب و فراز آئے، لیکن ۳۸ برس گزرنے کے بعد آج ایک نئے روپ میں بنگلہ قوم پرستی جو راگ الاپ رہی ہے، اس کا ایک نمونہ یہ اعلامیہ ہے:
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ۱۹۷۱ء کی جدوجہدِ آزادی کی مخالفت کرنے اور پاکستانی فوج و حکومت کا ساتھ دینے والوں پر ’جنگی جرائم‘ کے مقدمے چلانے میں مدد دے۔ بنگلہ دیش حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: اس حوالے سے ہمیں سیکڑوں افراد مطلوب ہیں۔ ہم نے اپنے انتخابی منشور میں اس امر کا عہد کر رکھا ہے کہ یہ مقدمات ہم ضرور چلائیں گے۔ شیخ مجیب نے [۱۹۷۲ء میں] اس ضمن میں ۳۷ ہزار افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں بڑی تعداد اسلام پرستوں (اسلامسٹوں) پر مشتمل تھی، جو نہ تو [مشرقی پاکستان کی] پاکستان سے علیحدگی چاہتے تھے، اور نہ بنگلہ دیش کو ایک سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ ان گرفتار شدگان میں سے چند ایک پر مقدمے بھی چلائے گئے، تاہم بعدازاں شیخ مجیب نے ۱۱ ہزار افراد کو معاف کر دیا، جب کہ دوسرے ۲۶ ہزار افراد کو شیخ مجیب الرحمن کے قتل [۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء] کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ایک نجی تحقیقاتی کمیٹی نے ایسے ۱۵۹۷ افراد کی فہرست تیار کی ہے، جو جنگی مجرم ہیں۔ ان مجرموں میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت بھی شامل ہے۔ ہم اپنی مدتِ حکومت کے دوران ان مقدمات کا فیصلہ کریں گے (One World South Asia،۲۸ جنوری ۲۰۰۹ء)
یہ ہیں وہ عزائم، جنھیں عوامی لیگ کی قیادت ایک سیاسی سٹنٹ اور شوشے کے طور پر وقتاً فوقتاً اچھالتی آرہی ہے اور اس کے مددگار اس کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ ۱۰ ماہ کے اخبارات، عوامی لیگ کی اس پروپیگنڈا مہم سے سیاہ نظر آتے ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے بنگلہ دیشی عام انتخابات میں بھی عوامی لیگ نے اس مسئلے کواپنی انتخابی تقاریر میں مرکزی حیثیت دے رکھی تھی۔ ہر قاری اور ناظر کے لیے یہ سوال دل چسپی کا باعث ہے کہ ۳۸برس بعد اچانک یہ مسئلہ کیوں بنگلہ دیش کی سیاست میں زندگی اور موت کا موضوع بنایا جا رہا ہے جس میں عوام کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ عوامی لیگ کہ جس نے بنگلہ دیش جیسی عظیم مسلم اکثریتی ریاست کو بھارت کی تابع مہمل اور اقتداراعلیٰ کی نچلی سطح پر کھڑی ریاست بنا رکھا ہے، وہاں کے لوگ عوامی لیگ سے اپنی قومی خودمختاری اور غیرت و حمیت پر مبنی زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر وہ اس سیدھے سوال کا جواب دینے کے بجاے، ۴۰سال پرانے واقعات پر مبنی جھوٹے مقدمات چلانے کو تمام قومی مسائل کا حل قرار دے رہی ہے۔ دراصل یہ مسئلہ اتنا سادا نہیں، بلکہ اس بنگلہ دیشی قوم پرستی کی پشت پناہی، درپردہ بھارتی اور امریکی حکومتیں بھی کر رہی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ان اسلامیانِ مملکت کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے، جو اپنے اپنے معاشروں میں، قومی غیرت و حمیت کا تحفظ اور اپنے قومی دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں اور کسی غیر ملکی قوت کی غلامی نہیں چاہتے۔ اس لیے عوامی لیگ کی جارحانہ پروپیگنڈا مہم بھی نام نہاد امریکی جنگ دہشت کا ایک شاخسانہ ہے۔
البتہ اس کی فوری و جہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ ۲۰۰۱ء کے قومی انتخابات میں ’چار جماعتی اتحاد‘ میں شامل جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) نے بھرپور کامیابی حاصل کی (جماعت کے ۱۷ ارکان اور چار خواتین پارلیمنٹ کی ارکان منتخب ہوئیں)۔ جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو حکومت میں دو وزارتوں کے قلم دان سونپے گئے۔ ان میں مطیع الرحمن نظامی (امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش) وزیر زراعت اور علی احسن مجاہد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش) وزیر سماجی امور مقرر ہوئے۔ ان دونوں وزرا نے پانچ برس تک بنگلہ دیش میں جس لگن، دیانت داری، بے پناہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر وزارتی ذمہ داریاں ادا کیں، انھوں نے پورے ملک کے سوچنے سمجھنے والے حضرات پر گہرے مثبت اثرات مرتب کیے، جب کہ بنگلہ قوم پرستی کی علَم بردار عوامی لیگ کے ریکارڈ میں کرپشن اور بددیانتی پر مبنی بُری حکومت گردی کے گہرے داغ، مٹائے نہیں مٹ پاتے۔ اس صورت حال نے بھی عوامی لیگ اور اس کے سرپرستوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا، کہ کسی طرح وہ جماعت اسلامی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیں۔
اس مضمون کے شروع میں عوامی لیگ کا جو جارحانہ پالیسی بیان دیا گیا ہے ، اس کو دیکھیں تو یہ نکات سامنے آتے ہیں:
اس ’فردِ جرم‘ کی حقیقت پر بات کرنے سے پیش تر چند باتوں کو بیان کرنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم کے دوران میں عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں غنڈا گردی کا ایسا بازار گرم کیے رکھا کہ کوئی بھی مدِمقابل پارٹی کھل کر اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکی۔ دوسرا یہ کہ اس فضا میں بلاشرکت غیرے تمام نشستوں پر وہ انتخاب جیت گئی۔ تیسرا یہ کہ صدر جنرل یحییٰ خان، مغربی پاکستان سے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن [والد: حسینہ واجد] نے جس غیرلچک دار رویے کو اپنایا، اس نے دو ماہ کے اندر اندر مشرقی پاکستان کی سیاسی فضا کو سخت کشیدہ بنا دیا۔ چوتھا یہ کہ جب بھٹو صاحب کے ایما پر جنرل یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تو عوامی لیگ کے اُکسانے پر پورے مشرقی پاکستان میں یکم مارچ سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران میں ایسی سول نافرمانی شروع ہوئی کہ جس میں عوامی لیگیوں نے اُردو بولنے والے ہم وطنوں کے ساتھ پنجابی اور پٹھان پاکستانیوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا۔ عورتوں کی بے حرمتی کی، ان کے بے لباس جلوس نکالے، بڑے بڑے مذبح خانے بناکر ان مظلوم ہم وطنوں کی گردنیں کاٹیں، ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینکیں اور ان کے خون سے بڑے بڑے ڈرم بھر ڈالے۔ یہ تمام شرم ناک تفصیلات سیکولر قوتوں کے لیے بائبل کا سا درجہ رکھنے والے رسائل (ٹائم، نیوزویک، لائف، اکانومسٹ وغیرہ) کی مارچ ۱۹۷۱ء کی اشاعتوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان لاکھوں بے گناہ مظلوموں کے بہیمانہ قتل میں عوامی لیگ کی مرکزی قیادت شامل تھی۔ مگر اس خون کا حساب کوئی مانگ نہیں رہا۔ پانچویں یہ کہ ۲۵ مارچ کو جنرل یحییٰ خاں نے فوجی ایکشن کا آغاز کیا، جس کے بعد ۱۲ روز کے دوران بڑی تعداد میں بنگالی شہری مارے گئے۔ چھٹے یہ کہ اپریل ۱۹۷۱ء سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے دوران میں بھارتی فوج کی کھلی اور چھپی پشت پناہی کے ساتھ مکتی باہنی اور بھارتی گوریلا فورس نے مل کر گوریلا جنگ شروع کی۔ ساتویں یہ کہ پاکستانی فوج اور محب وطن بنگالیوں کے خلاف یہ بے بنیاد اور انتہائی فحش پروپیگنڈا کیا گیا کہ ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو مارا اور ۳ لاکھ عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ایسے چند انتہائی افسوس ناک واقعات کو لاکھوں میں تبدیل کر دینا، سیکولر روشن خیالی کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آٹھواں یہ کہ۲۱ نومبر ۱۹۷۱ء کو بھارت نے کھلے عام مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ نواں یہ کہ ۱۶ دسمبر کو پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد پھر مکتی باہنی نے بھارتی فوج کے تعاون سے محب وطن بنگالیوں، اسلامی عناصر اور غیربنگالی پاکستانیوں کے خون کی ہولی کھیلی۔ اس قتلِ عام کا کوئی حساب نہیں۔
یادرہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ اور بھارتی فوج کی مزاحمت کرنے کے لیے جن قوتوں نے اپنے دوٹوک اصولی موقف کا اعلان کیا، ان میں جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ، نظامِ اسلام پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی اور جمعیت العلما شامل تھے۔ تاہم بنگلہ دیش بن گیا اور پاکستان دو لخت ہوگیا۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بلاشرکت غیرے حکومت قائم ہوگئی۔ انتقامی کارروائیوں کا دور دورہ شروع ہوا۔ ایک مدت تک قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ پاکستان کے ۹۰ہزار جنگی قیدی (فوجی اور سویلین) بھارت کی جیلوں میں منتقل ہوگئے۔
۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب کی حکومت نے کولیبوریٹرز ایکٹ (Collaborators Act) بناکر ان افراد کی پکڑدھکڑ شروع کی، جنھوں نے پاکستان توڑنے کی مہم کا ساتھ دینے کے بجاے، ایک پاکستان کا ساتھ دیا، اور بھارتی افواج کی مدد کر کے دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ نہیں بنے۔ اس ایکٹ کے تحت ۳۴ہزار ۴ سو ۷۱ افراد پر چارج شیٹ لگائی گئی۔ ۳۰ہزار ۶سو ۲۳ افراد کے نام فہرستوں میں تو لکھے مگر ان پر کوئی الزام نہ عائد کیا جاسکا۔ کُل ۲ہزار۸سو ۴۸ افراد پر مقدمہ چلایا گیا۔ ان میں سے بھی ۲ ہزار ۹۶ افراد پر کوئی جرم ثابت نہ کیا جاسکا، اس لیے ان کو رہا کردیا گیا۔ جب کہ ۷۵۲ افراد کو مجرم قرار دیا گیا۔ اس مشق کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے نومبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ماضی کو دفن کرتے ہیں، اب ہم سب مل کر بنگلہ دیش کی تعمیروترقی کا کام کریں گے۔ آج کے بعد یہ باب بند ہوتا ہے‘‘ (تاہم جماعت اسلامی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد رکھنے اور جماعت کے مرکزی قائد پروفیسر غلام اعظم [پ: ۷ نومبر ۱۹۲۲ء] کی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان برقرار رکھا)۔ اس طرح بنگلہ دیش کے بانی نے ’جدوجہدِ آزادی‘ کی حمایت یا مخالفت کرنے والوں کی تقسیم کے انتقامی کلچر کو ختم کرنے کا عہد کیا۔ گویا کہ تقریباً دو سال تک بھرپور ریاستی طاقت استعمال کرکے انھوں نے ۷۵۲ افراد کو سزا کے لیے چن لیا تھا۔ یہ تمام پیش کردہ اعداد و شمار خود مجیب حکومت نے پیش کیے تھے، لیکن دوسری جانب عوامی لیگ کے نئے وزیرقانون شفیق احمد جنوری ۲۰۰۹ء میں جن اعداد و شمار کو پیش کر رہے ہیں، انھیں مجیب کے اعداد و شمار سے کوئی نسبت نہیں۔ معلوم نہیں ان میں درست کون ہے اور غلط کون؟ (تاہم ۷ نومبر ۱۹۷۵ء کے تیسرے فوجی انقلاب میں مکتی باہنیکے ہیرو جنرل ضیاء الرحمن نے عنانِ حکومت سنبھالی اور ۳۱ دسمبر ۱۹۷۵ء کو اس کولیبوریٹر ایکٹ کو صدارتی آرڈر کے ذریعے منسوخ کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نومبر ۱۹۷۳ء سے لے کر دسمبر ۱۹۷۵ء کے دوران میں اس ایکٹ کے تحت نہ کوئی مقدمہ قائم ہوا، اور نہ کسی قیدی کو سزا ہوئی۔ اس لیے منطقی طور پر یہ ایکٹ اپنی افادیت کھو چکا تھا)۔
۱۷؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمن نے پارلیمنٹ میں ایک خصوصی ٹریبونل بنانے کا اعلان کیا، اور یہ کہا: ’’پاکستانی افواج اور ان کے مددگار عناصر کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام، انسانی بے حرمتی اور دیگر جرائم کی تحقیقات کرنے اور جنیوا کنونشن کے آرٹیکل ۳ کی روشنی میں مقدمات چلانے کے لیے ۱۹۵ افراد کی فہرست تیار کرلی گئی ہے اور مئی ۱۹۷۳ء کے اواخر تک اس ٹریبونل کے سامنے مذکورہ تمام جنگی مجرموں کو پیش کر دیا جائے گا‘‘ (مجیب حکومت کی اس فہرست میں درج ذیل تمام افراد کا تعلق مسلح افواج پاکستان سے تھا اور وہ تمام مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک نام بھی کسی سویلین مغربی پاکستانی یا سویلین بنگالی کا شامل نہیں تھا)۔
اس مقصد کے لیے پہلے تو ۱۵ جولائی ۱۹۷۳ء کو ان شہری حقوق کو سلب کیا گیا کہ جو اسے تنظیم سازی، آزادی راے اور دفاعِ ذات کا حق دیتے ہیں، پھر ۱۹ جولائی ۱۹۷۳ء کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ نے انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ پاس کیا، تاکہ ۱۹۵ پاکستانی فوجی افسروں کے خلاف جنگی مقدمات چلائے جاسکیں۔ لیکن اس دوران میں پاکستان اور بھارت کے درمیان وزارتی سطح کے مذاکرات شروع ہوگئے۔ بھارت کی نمایندگی سردار سورن سنگھ اور ڈی پی دھر نے کی، جب کہ پاکستان کی نمایندگی عزیز احمد اور آغا شاہی کر رہے تھے۔ بعدازاں بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ کمال حسین بھی ان مذاکرات کا حصہ بن گئے اور ۹؍ اپریل ۱۹۷۴ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے آرٹیکل ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ کے مطابق مذکورہ ۱۹۵ جنگی ملزموں کو بھی عملاً معاف کر دیا گیا اور اس مسئلے کو ریاستی سطح پر حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا (یاد رہے کہ ان ۱۹۵ افراد میں کوئی ایک فرد بھی جماعت اسلامی سے متعلق نہیں تھا)۔
اسی طرح یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مدتوں تک جماعت اسلامی کی قیادت کو کسی ’مجرمانہ سرگرمی‘ میں ماخوذ نہیں کیا گیا کہ مقدمات چلائے جاتے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت دینی، سماجی، سیاسی اور آئینی اصلاحات و خدمات کی سرگرمیوں میں بھرپور انداز سے شریک رہی۔ ان میں سے اکثر قائدین نے قومی دھارے کی سیاست میں حصہ لیا اور انتخابات میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۳ء کے انتخابات میں اس لیے حصہ نہ لیا کہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد تھی، لیکن ۱۹۷۹ء کے عام انتخابات میں ’’اسلامک ڈیموکریٹک لیگ‘‘ (IDL) کے نام سے حصہ لیا اور چھے نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۸۶ء کے عام انتخابات میں ۱۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۹۱ء کے انتخابات میں ۱۸ نشستوں پر جماعت اسلامی کے ممبران اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۶ء میں ۳ نشستیں جیتیں اور پھر ۲۰۰۱ء کے انتخابات میں بی این پی (خالدہ) کے ساتھ مل کر دو تہائی اکثریت سے کامیابی ملی۔ عوامی لیگ، ہندو کمیونٹی اور مغربی ایجنڈے کی حامل این جی اوز کے نہایت زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود دسمبر ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں بھی جماعت کے تمام قائدین نے حصہ لیا۔ بنگلہ دیش میں امیدواری کے قوانین کے مطابق جنگی جرائم میں ماخوذ کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ لیکن چونکہ جماعت کے قائدین ایسے جرائم میں ملوث نہیں تھے، اس لیے ان میں سے کسی ایک امیدوار کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد نہ ہوئے۔
دراصل یہ ’جنگی جرائم کا ڈراما‘ رچایا صرف اس مقصد کے لیے جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی قوتوں کو قومی دھارے سے نکال باہر کیا جائے، جب کہ جماعت اسلامی جمہوری، پُرامن، آئینی اور خدمتِ خلق کی جدوجہد کا وسیع ریکارڈ رکھتی ہے۔ اسے کسی طور عوامی رابطے سے روکنا ممکن نہیں رہا ہے۔
یاد رہے اس سے قبل جماعت اسلامی کو ایک بڑی صبرآزما آزمایش سے گزرنا پڑا اور وہ آزمایش تھی بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ہر دل عزیز اور مرکزی لیڈر پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کا مسئلہ۔ نومبر ۱۹۷۱ء میں پروفیسر غلام اعظم، مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے کہ دوسرے روز بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس طرح ڈھاکہ جانے کے تمام فضائی رابطے کٹ گئے، اور وہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں معلق ہوکر رہ گئے۔ دو سال کے بعد سعودی عرب گئے اور پھر لندن منتقل ہوگئے۔ بعد میں جنرل ضیاء الرحمن نے جماعت اسلامی پر عائد پابندیاں ختم کرکے پروفیسر غلام اعظم کو پاکستانی پاسپورٹ پر ڈھاکہ آنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب وہ جولائی ۱۹۷۸ء میں وطن واپس آئے تو ایک عرصے تک انھیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حق سے محروم رکھا گیا کہ: ’’وہ بنگلہ دیشی شہریت نہیں رکھتے‘‘۔ پھر ایک عرصے تک انھیں قیدوبند سے گزرنا اور سخت عدالتی عمل کا سامنا کرنا پڑا، جس میں بنیادی سوال ان کی شہریت کا تھا۔ ڈھاکہ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس محمد اسماعیل الدین سرکار نے ان کی اپیل پر فیصلے میں لکھا: ’’درخواست گزار، پروفیسر غلام اعظم کو پریس فوٹو میں بلاشبہہ پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خاں اور جنرل ٹکا خاں سے ملاقات کرتے دیکھا گیا ہے، مگر کسی جنگی اقدام میں ان کا کوئی کردار ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، اس لیے ان کی شہریت کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے‘‘ (غلام اعظم بنام بنگلہ دیش Dhaka Law Report، نمبر۴۵، ہائی کورٹ ڈویژن، ص ۴۳۳)۔ اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے حکومت سپریم کورٹ میں گئی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے، پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کو بحال رکھنے کا حکم جاری کیا۔ (غلام اعظم بنام بنگلہ دیش Dhaka Law Report، نمبر۴۶، اپیلیٹ بنچ ، ص ۱۹۲)
اگر تاریخ کے ریکارڈ کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی بحالی، انسانی حقوق کے تحفظ اور آئین کی عمل داری کے لیے جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے پہلے مشرقی پاکستان میں اور پھر بنگلہ دیش میں مل جل کر جدوجہد کی۔ شفاف انتخابات کے لیے ’نگران حکومت‘ کے قیام کی تجویز پروفیسر غلام اعظم نے پیش کی، جس کی تائید تقریباً تمام پارٹیوں نے کی اور وہ تجویز دستور کا حصہ بن گئی۔ ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات میں بی این پی (خالدہ) نے ۱۴۰ نشستیں جیتیں، عوامی لیگ نے ۸۸ اور جماعت اسلامی نے ۱۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جماعت نے بی این پی کی حمایت کی جس سے یہ حکومت ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۶ء تک قائم رہی۔ اس عمل سے عوامی لیگ ناراض ہوگئی۔ آخرکار عوامی لیگ، جاتیوپارٹی (ارشاد) اور جماعت اسلامی نے ۱۹۹۶ء میں پارلیمنٹ سے استعفے دے دیے اور تینوں پارٹیوں نے مل کر سیاسی جدوجہد کی۔ مطیع الرحمن نظامی اور علی احسن مجاہد، حسینہ واجد کے گھر اجلاسوں میں جماعت اسلامی کی نمایندگی کرتے رہے، مشترکہ جلوس نکالتے اور پریس کانفرنسیں کرتے رہے۔ تب موصوفہ کو ان رہنمائوں کے چہروں پر ’جنگی جرائم‘ کا کوئی داغ دکھائی نہ دیا۔ لیکن جوں ہی ۲۰۰۱ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے بی این پی کے ساتھ چار جماعتی اتحاد میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تو عوامی لیگ کو ۱۹۷۱ء کی یاد ستانے لگی، حالانکہ ان کے والدگرامی اس دریا کو عبور کر چکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اپنی گھٹی میں پڑے فاشی اور آمرانہ جذبے کے ہاتھوں مغلوب ہوکر جون ۱۹۷۵ء میں تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کرکے واحد سیاسی پارٹی: ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ (BKSAL) قائم کی اور تمام اخبارات پر پابندی عائد کر کے صرف چار سرکاری اخبارات کی اشاعت کی اجازت برقرار رکھی۔ صرف ڈھائی ماہ ہی گزرے تھے کہ فوج نے بغاوت کر کے ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء کو انھیں اہلِ خانہ سمیت قتل کر دیا۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی [پ: ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء] نے عوامی لیگ کی اس تازہ پروپیگنڈا مہم کے جواب میں Probe میگزین کو بتایا: ’’گذشتہ مدتِ حکومت کے دوران میں جماعت اسلامی کی کامیابی اور دو وزارتوں میں کامیاب حکمرانی نے سیکولر قوتوں کے اوسان خطا کردیے۔ پہلے انھوں نے اسٹیج کردہ دھماکوں میں بددیانتی سے جماعت اسلامی کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کی۔ کوئی فرد جماعت کے لٹریچر سے ایسا ایک لفظ بھی نہیں پیش کرسکتا کہ جس میں تشدد پسندی کو فروغ دینے اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا کوئی جواز اور حوالہ پیش کیا جاسکتا ہو۔ اسی طرح عوامی لیگ دومرتبہ حکومت میں رہی، سب سے پہلے ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۵ء تک، جب کہ اس کے سربراہ خود شیخ مجیب الرحمن تھے اور دوسری مرتبہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران میں، جب کہ اس کی سربراہ حسینہ واجد تھیں۔ پہلے دور میں تو کوئی فرد انھیں چیلنج بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کیا اُس زمانے میں وہ جماعت اسلامی کے خلاف کوئی ایک مقدمہ بھی دائر کرسکے؟ ایک بھی نہیں۔ اسی طرح جب میجر رفیق وزیرداخلہ نے جنگی مجرموں کی فہرست تیار کی تو جماعت اسلامی کے کسی ایک رکن کا بھی نام اس میں شامل نہ کرسکے۔ اس لیے یہ مقدمات چلانے کی سطحی نعرے بازی دراصل جماعت اسلامی کو خوف زدہ کرنے کے لیے سیاسی مخالفین کی ایک اوچھی چال اور سیاسی دہشت گردی ہے۔ یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ ساتھ دو تو ٹھیک، اور ساتھ نہ چلو تو مجرم۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی آمریت کے خلاف عوامی لیگ کے ۱۵ پارٹی اتحاد اور خالدہ ضیاء کے سات پارٹی اتحاد سے مل کر ہم نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کی، اور پھر ’کیر ٹیکر گورنمنٹ‘ [نگران حکومت] کا قانون پاس کرانے کے لیے بھی جماعت اسلامی سے عوامی لیگ نے مل کر خالدہ ضیاء حکومت پر دبائو ڈالا کہ وہ دستور میں ترمیم کریں‘‘(۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ اسی طرح ٹائمز آف انڈیا (۷ مئی)کو انٹرویو دیتے ہوئے، مطیع الرحمن نظامی نے کہا: ’’۱۹۷۱ء میں پاکستان ایک ملک تھا اور برملا ہم اس کے ساتھ وفادار تھے۔ اب بنگلہ دیش ایک ملک ہے، اور ہم اس کے شہری ہوتے ہوئے، اس کے ساتھ حب الوطنی سے وابستہ ہیں۔ البتہ سوچنے کا مقام ان لوگوں کے لیے ہے جو سیاسی دیوالیہ پن کے شکار ہیں اور اپنی فاشی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بے جا الزام تراشی پر اُتر آئے ہیں‘‘۔
اب بنگلہ قوم پرستی کے اس سیکولر دھارے کے ان اقدامات اور عزائم پر نظر ڈالیں:
حضرت عثمانؓ بن عفان نے حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی قیادت میں پہلا قافلہ چین بھیجا۔ انھوں نے چینی باشندوں کے علاوہ شاہِ چین کو بھی خلیفۂ سوم کا پیغام پہنچایا۔ ان کی وہاں موجودگی کے دوران میں پہلی بار چین کی فضائوں نے تکبیراتِ اذان سنیں۔ پھر ۹۵ ہجری میں مسلمان قائد قتیبہ بن مسلم الباھلی نے سرزمینِ چین کو نورِاسلام سے متعارف کروایا اور ۲۳۲ ہجری میں تو سلطان ستوق بوگرہ خان خود مسلمان ہوگیا۔ بارھویں صدی کا تاریخ دان جمال قارشی اپنی کتاب تاریخِ کاشغر میں لکھتا ہے کہ بخارا کے ایک متمول تاجر نصر کی سلطان کاشغر سے دوستی ہوگئی۔ سلطان نے اسے کاشغر کے مضافاتی قصبے ارتش میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ سلطان کا بھتیجا ستوق اکثر اس مسجد اور وہاں وسطی ایشیا سے آنے والے تجارتی قافلوں کو دیکھنے آیا کرتا۔ مسجد میں نماز پڑھتے اور منظم صورت میں رکوع و سجود کرتے مسلمانوں کو دیکھ کر اس کے دل میں اسلام کے بارے میں مزید جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا اور جلد ہی اسلام قبول کرلیا۔ اپنے چچا کے بعد وہی سلطان بنا اور پورے خطے میں اسلام عام کرنے کا ذریعہ بھی۔ ۹۵۵ عیسوی میں ستوق بوگرہ خان کا انتقال ہوا تو ارتش ہی میں مدفون ہوا اور آج تک لوگ سلطان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔
ریاستِ مدینہ سے آنے والے وفود، مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کی پے درپے آمد، ان کے حُسنِ سلوک اور حُسنِ عبادت اور سلطان ستوق جیسے مخلص حقیقت شناسوں کے ذریعے اسلام کا تعارف چین کے دُور دراز علاقوں تک جا پہنچا۔ آج آپ چین کے کسی شہر میں چلے جائیں، صدیوں پرانی مساجد ان سجدہ ریز پیشانیوں کا تعارف کرواتی دکھائی دیتی ہیں۔ ۷ ہزار کلومیٹر لمبی دیوارِ چین سے باہر واقع کاشغر، ارمچی، ختن اور ارتش جیسے شہروں ہی میں نہیں خود بیجنگ، شنگھائی اور شانسی جیسے تاریخی شہروں میں بھی، مسلمان اپنے خالق اور ختم الرسلؐ کی محبت دل میں سجائے، قرآن و کعبہ کی زیارت اپنی سب سے بڑی سعادت گردانتے ہیں۔ چین میں لنگ شانامی ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے چھوٹا مکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد و تناسب غیرمعمولی ہے۔
جمہوریہ چین ہمارا پڑوسی ہی نہیں، انتہائی قابلِ اعتماد اور ہرآزمایش پر پورا اُترنے والا دوست ہے۔ چین نے پاکستان کی مدد کرنے اور علاقائی و عالمی مجالس میں ہمارے قومی مفادات کی نگہبانی کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، کسی دشمن کے سامنے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ پاکستان کی تعمیروترقی میں اسی طرح ہاتھ بٹایا ہے جیسے اپنے ہی کسی علاقے کی تعمیرو فلاح کا کام ہو۔ مسلم دنیا کے ساتھ بھی چین کے روز افزوں تعلقات اور دوستی عالمی تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ او آئی سی کے ۵۷ رکن ممالک میں سے ۵۵ کے ساتھ اس کے سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں۔ عالمِ اسلام سے مضبوط تر ہوتے ہوئے یہ تعلقات اس امر کے متقاضی ہیں کہ چین اور مسلم دنیا کے مابین کوئی اختلاف پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ وجہِ نزاع بن سکنے والے ان تمام اسباب کا ازالہ کر دیا جائے کہ دشمن بالخصوص امریکا اور بھارت جس جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اضطراب و اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
چین میں بسنے والے کروڑوں مسلمان اس دوستی میں خیر کے لاتعداد پہلو لاسکتے ہیں، مزید تعاون کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرسکتے ہیں، لیکن یہی مضبوط بنیادیں خدانخواستہ بہت سی غلط فہمیوں بلکہ مشکلات کا سبب بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ جولائی کے آغاز میں وقوع پذیر ہونے والے افسوس ناک واقعات اس حقیقت کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہے ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ کتنے قتل ہوئے؟ ۱۹۷ یا ۴۰۰۰؟ دونوں اعداد و شمار میں زمین آسمان کا فرق ہے اور مبالغے کا پورا امکان موجود ہے۔ لیکن اگر چینی حکومت کی بتائی ہوئی تعداد ہی درست تسلیم کرلیں، تب بھی ۱۹۷ افراد کا قتل معاملے کی سنگینی واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہاں یہ بحث بھی ضروری نہیں کہ قتل ہونے والے کس نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ چینی حکومت کا موقف ہے کہ ان میں سے ۱۴۰افراد ہان نسل سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم تھے، تب بھی انسانی جانوں کا یہ قتل کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ تعداد تو صرف جان سے گزر جانے والوں کی ہے، زخمیوں اور گرفتار شدگان کی تعداد یقینا ہزاروں میں ہے۔ یہ امر بھی معلوم حقیقت ہے کہ یہ ہنگامے اور خوں ریزی پہلی بار نہیں ہوئی۔ گذشتہ عشرے ہی میں متعدد مواقع ایسے آئے کہ جب علاقے میں غیرمعمولی ہنگامے اور جھڑپیں بھڑک اُٹھیں اور بڑی تعداد میں انسانی جانیں ان کی نذر ہوئیں۔
مکمل غیر جانب داری سے، صرف معاملے کو سمجھنے کے لیے جائزہ لیں تودرج ذیل اہم پہلو سامنے آتے ہیں: چینی حکومت اور ترکی النسل اوئیگور آبادی کے درمیان اختلافات سرسری یا وقتی نہیں، ان کی ایک طویل تاریخ ہے۔ طرفین اپنے اپنے طور پر تاریخی حقائق پیش کرتے ہیں اور انھی کی روشنی میں اپنے موقف کی حقانیت ثابت کرتے ہیں۔ اختلافات اتنے عمیق و کثیر ہیں کہ علاقے کے نام سے شروع ہوکر زبان، ثقافت، مذہب، آبادی کے تناسب، نسلی انتساب اور مستقبل کی صورت گری، ہر بات پر شدید حساسیت ہے۔ چین اس پورے علاقے کو اپنا اہم صوبہ قرار دیتا ہے جسے سنکیانگ، شنجیانگ یاشنجان کہا جاتا ہے، جب کہ طرفِ ثانی اسے مشرقی ترکستان کہنے پر مصر ہے۔ وہ ۲۰۴ قبل مسیح سے خطے میں اوئیگور ریاست کی بنیادیں پیش کرتا ہے اور تاریخ کے سفر میں متعدد بار ریاست مشرقی ترکستان کے وجود کے دلائل پیش کرتا ہے۔ ان کے بقول وسطی ایشیا کی ترکی النسل ریاستیں بھی اسی ترکستان کا حصہ تھیں اور مغربی ترکستان کہلاتی تھیں۔ ۱۸۶۸ء میں ان پر روس نے قبضہ کر لیا، جب کہ مشرقی ترکستان جو ۱۷۵۸ء سے چینی بادشاہوں کی قلم رو میں چلا گیا تھا، ۱۸۶۳ء سے یعقوب بیگ کی حکمرانی میں اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالعزیز خان کو اپنا سرپرست تسلیم کرلیا۔ ۱۸۷۶ء میں چینی افواج نے پھر ترکستان پر اپنا اقتدار قائم کر لیا اور اس وقت اس کا نام سنکیانگ یا شنجانگ رکھ دیا گیا جس کا مطلب تھا: ’’نیاصوبہ یا نئی سرحد‘‘(چینی تفسیر کے مطابق اس کا مطلب ہے وہ پرانا خطہ جو پھر سے مادر أرضی سے آن ملا)۔ ۱۹۳۳ء میں یہاں پھر آزاد ریاست کا اعلان کردیا گیا لیکن تین ہی ماہ میں چین اور روس نے مل کر اس کا خاتمہ کر دیا (چینی موقف کے مطابق مقامی قبائل نے اس کا خاتمہ کردیا)۔ ۱۹۴۴ء میں پھر اسلامی جمہوریہ مشرقی ترکستان کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جو اکتوبر ۱۹۴۹ء میں اس وقت تک باقی رہی جب پیپلز لبریشن آرمی نے مائوزے تنگ کی قیادت میں نئے چین کی بنیاد رکھی۔ مشرقی ترکستان کی یہ تاریخ بیان کرنے والے اس امر کا بھی خصوصی ذکر کرتے ہیں کہ مائو کی قیادت میں چین کی سوشلسٹ حکومت نے ہمارے علاقے کی خصوصی حیثیت برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں اس علاقے کا سرکاری نام Xinjian Uygur Autonomous Region (اوئیگور سنکیانگ کا خودمختار علاقہ)رکھا گیا اور بعد میں ۴دسمبر ۱۹۸۲ء کو جاری ہونے والے چین کے موجودہ دستور میں بھی ہماری یہ علاقائی خودمختار حیثیت برقرار رکھی گئی۔ چین کے دستور میں علاقائی خودمختاری ہی نہیں، علاقے کے لوگوں کے مذہب و ثقافت کی حفاظت اور آزادیوں کی بھی ضمانت دی گئی ہے اور یہی امر مسائل کے حل کے لیے اُمید کی اصل بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔
چینی حکومت بھی اسی دستوری بنیاد پر مبنی موقف رکھتی ہے۔ اس کے بقول: ہم نے گذشتہ ۶۰برس میں پوری آبادی کی بلااستثنا خدمت کی ہے۔ تعمیروترقی کا سفر تیز تر کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ اوئیگور یا کسی بھی نسلی گروہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ برتا جائے۔ رہی مذہبی تقسیم تو ہم اس تقسیم کی بنیاد پر معاملہ ہی نہیں کرتے، ہمارے لیے سب شہری یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنکیانگ میں صرف اوئیگور ہی نہیں ۴۷ دیگر قومیتیں بستی ہیں جن میں اوئیگور، ہان، قازق، منگولین، ہوئی یا خوئی، قرغیز، تاجک، تاتاری، روسی اور دیگر کئی نسلی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اگرچہ اوئیگور اکثریت رکھتے ہیں لیکن تمام نسلیں مل جل کر رہتی چلی آرہی ہیں۔ اسی طرح اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب جیسے بدھ ازم اور تائوازم وغیرہ کے پیروکار بھی یہاں کے باسی ہیں اور سب باہم مل جل کر رہتے ہیں۔ چین کے سرکاری موقف میں اس بات کا بھی نمایاں ذکر کیا جاتا ہے کہ ۱۶ویں صدی کے چغتائی دور میں بالآخر اسلام نے اکثریتی مذہب ہونے کے ناتے بدھ ازم کی جگہ لے لی لیکن ان کے بقول یہ مذہبی اکثریت گاہے بہ گاہے تبدیل ہوتی رہی۔
چین کی سرکاری دستاویزات میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ چین نے سنکیانگ کو زبردستی نہیں بلکہ ۲۵ستمبر ۱۹۴۹ء کو پُرامن طور پر آزاد کروایا۔ سنکیانگ کے عوام نے جنرل وانگ ژان کی قیادت میں آنے والی چینی افواج کا خود آگے بڑھ کر خیرمقدم کیا۔
انھی چینی دستاویزات کے مطابق مشرقی ترکستان کی اصطلاح کا استعمال ۱۹ویں صدی کے اوائل میں صرف جغرافیائی نشان دہی کے طور پر تب کیا گیا تھا جب روس کے زیراقتدار سمرقند کے علاقے کو مغربی ترکستان اور سنکیانگ کے علاقے کو مشرقی ترکستان کہا گیا، لیکن ۲۰ویں صدی کے آغاز میں علیحدگی پسندوں کے ایک مختصر گروہ نے مشرقی ترکستان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ تب سے لے کر اب تک مختلف اوقات میں بیرونی قوتوں کے ایما پر مشرقی ترکستان اور اس کی علیحدگی کی بات کی جاتی ہے۔ حالیہ جولائی کے خوں ریز واقعات کے بارے میں بھی چین کے ذمہ داران یہی کہتے ہیں کہ ایک فیکٹری کے مزدوروں کے جھگڑے کو بیرونی طاقتوں نے نسلی اور مذہبی لڑائی کا رنگ دے دیا ہے۔ امریکا میں موجود مختلف تنظیمیں بالخصوص اوئیگور انٹرنیشنل کانگریس اس کے لیے کوشاں ہے۔
عربی کا ایک محاورہ ہے: صَدِیْقُکَ مَنْ صَدَقَکَ لَا مَنْ صَدَّقَکَ ’’تمھارا اصل دوست وہ ہے جو تم سے سچ بولے نہ کہ وہ جو بس تمھاری ہاں میں ہاں ملائے‘‘۔ اس محاورے کے تناظر میں اور پاکستان کے حقیقی دوست چین کے ساتھ کامل ہمدردی اور اخلاص رکھتے ہوئے اس اہم موقع پر چند گزارشات ضروری ہیں۔ چین کو کھلے دل اور کامل انصاف و غیر جانب داری سے اس علاقے کے عوام کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس بات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ گذشتہ عرصے میں اس اضطراب میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ ۵ جولائی کے افسوس ناک واقعات کے بعد اس صورت حال کا سرسری جائزہ لینے سے جو شکایات سامنے آرہی ہیں، اہلِ علاقہ کے الفاظ میں ان میں سے چند ایک بلاکم و کاست یہ ہیں:
فرض کریں اور اللہ کرے کہ مذکورہ بالا تمام تر شکایات بے بنیاد اور جھوٹی ہوں۔ اس صورت میں چینی حکومت کا فرض ہے اور یہ کام بہت آسان ہوجاتا ہے کہ دنیا کو اصل صورت سے آگاہ کرے۔ چین دنیا بھر سے حقوقِ انسانی کے اداروں،بالخصوص عالمِ اسلام کے غیرسرکاری علما اور اعتدال پسند جماعتوں کے وفود کے دورے کروائے تاکہ وہ نہ صرف اپنی آنکھوں سے حقیقی صورت حال دیکھ لیں بلکہ اس طرح کے الزامات لگانے اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکیں۔ اُوپر مذکورہ شکایات اور ان کے علاوہ بھی کئی سنگین اطلاعات پورے عالمِ اسلام میں وسیع پیمانے پر عام ہو رہی ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے سنکیانگ کی چین سے علیحدگی کی تحریک میں کوئی اپیل نہیں پائی جاتی لیکن چین اور بالخصوص سنکیانگ میں بسنے والے مسلمانوں کی صورت حال کے بارے میں اس وقت گہری تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ اِکا دکا مضامین، خبریں اور بیانات تو پہلے بھی آتے رہتے تھے لیکن جولائی کے خونیں واقعات پر دنیا کے ہر کونے میں گفتگو ہورہی ہے۔ ترکی میں تو باقاعدہ مظاہرے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے یہ عالمی وفود مقامی آبادی کو مطمئن کرنے کا ذریعہ اور سبب بھی ہوں گے اور عالمِ اسلام کے سامنے بھی حقیقتِ حال واضح کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
خدانخواستہ اگر یہ شکایات الزام نہیں، حقیقت ہیں تو ان کا فوری مداوا نہ صرف اہم ہے بلکہ ناگزیر و ضروری بھی۔ یہاں یہ حقیقت بھی سامنے رہنا چاہیے کہ کسی ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کا حق نہ کسی کو دیا جاسکتا ہے اور نہ طلب کیا جاسکتا ہے لیکن دین و مذہب کی آزادی ایک ایسا بنیادی اور جذباتی مسئلہ ہے کہ وہ ازخود متعلقہ مذہب کے ہر فرد کو براہِ راست مخاطب و متاثر کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں کتنے ہی ایسے موڑ آئے ہیں کہ مذہبی جذبات کے انگیخت کرنے سے پاسا پلٹ گیا۔ گائے اور سور کی چربی لگے کارتوسوں کی حکایت ہی دیکھ لیجیے کہ جنھیں استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے چھیلنا پڑتا تھا حالانکہ لشکری یا مسلمان تھے یا پھر ہندو۔
سنکیانگ، شنجانگ، شنجان یا مشرقی ترکستان، معدنی، زرعی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم علاقہ ہے۔ یہاں تیل کے ذخائر کا اندازہ ۸ ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ اب بھی روزانہ پیداوار ۵۰لاکھ ٹن ہے۔ ۶۰۰ ملین ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ ۳۰ مقامات سے قدرتی گیس نکالی جاتی ہے۔ یہاں دنیا کی اعلیٰ ترین نسل کا یورینیم پایا جاتاہے جس کی چھے کانوں سے پیداوار جاری ہے۔ اس کے علاوہ سونے اور قیمتی پتھروں کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ صرف اسی ایک صوبے کا رقبہ چین جیسے وسیع و عریض ملک کا چھٹا حصہ ہے اور ساڑھے ۱۶ لاکھ مربع کلومیٹر سے متجاوز ہے، یعنی فرانس جیسے ملک سے تین گنا بڑا۔ کُل رقبے میں سے ساڑھے چھے لاکھ مربع کلومیٹر صحرائی علاقہ ہے اور ۹۱ ہزار مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جب کہ زرعی زمین بھی انتہائی زرخیز ہے۔ ۴۰ بڑے دریائوں اور ۱۲ جھیلوں کی صورت میں وافر پانی دستیاب ہے۔ اس کی ۵۶۰۰ کلومیٹر طویل سرحدیں ۸ ممالک سے ملتی ہیں۔ ہمہ پہلو اہمیت کے اس علاقے کا امن و استحکام صرف چین ہی نہیں پورے خطے کے امن و استحکام اور تعمیروترقی کے لیے ناگزیر ہے اور چینی حکومت سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ حقیقی امن و استحکام، عوام کو مطمئن کرنے سے ہی لایا جاسکتا ہے۔ زور زبردستی، لاوے کی آتش فشانی میں مزید اضافہ ہی کرتی ہے۔
خطے کے مسلمانوں کو بھی اس بارے میں واضح اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا ان کا اصل مقصد اپنے دین و ثقافت کی حفاظت، مذہبی آزادیاں اور بنیادی حقوق کا حصول ہے یا مجرد علیحدگی کا نعرہ بلند کرنا۔ اگر ان کے پیش نظر پورے چین میں مسلمانوں کے مفادات اور ان کا روشن مستقبل رہے تو یقینا منزل بھی آسان ہوگی اور خطے کے بارے میں ان تمام عالمی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جاسکے گا جو مسلمانوں سے دوستی نہیں چین سے دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھائی جاسکتی ہیں۔
اسلام کے خلاف مغرب کا بڑھتا ہوا تعصب تیزی سے سامنے آ رہا ہے۔ سیاست ہو یا معیشت، تعلیمی میدان ہو یا شعبہ طب، غرض ہر میدان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ نسلی اور مذہبی تعصب بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل واقعات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
برسلز کے مشہور عرب جریدے الشرق الاوسط کے نمایندے کے مطابق اس نے بلجیم کے انتخابات سے ایک روز قبل ماہ نور سے پوچھا کہ کیا انھیں یہ خدشہ نہیں کہ برسلز کی پارلیمنٹ میں انھیں اسکارف کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں ملے گی؟ جواب میں ماہ نور نے نہایت سکون کے ساتھ کہا کہ وہ انتخابات یا پارلیمنٹ کی وجہ سے اپنا اسکارف ہرگز نہیں اُتاریں گی۔ لوگوں کو اِن کے کام کی طرف دیکھنا چاہیے نہ کہ اسکارف کی طرف۔ ماہ نور کی کامیابی سے بلجیم کی مسلمان کمیونٹی اور سیکولر کمیونٹی کے درمیان ایک سردجنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ نااہل قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بلجیم کی ثقافت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں، اس لیے اُن کو نمایندگی کا کوئی حق نہیں۔
بلجیم شمال مغربی یورپ میں واقع ہے اور یورپی یونین کا رکن ہے۔ آن لائن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اِس ملک میں رہنے والوں کی اکثریت رومن کیتھولک چرچ کے زیراثر ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان بھی رہتے ہیں جن کی تعداد ۴۰ سے ۵۰ لاکھ کے درمیان ہے۔ گویا ملک کی تین سے چار فی صد آبادی مسلمان ہے۔
ماہ نور ازدمیر ۳۶ سالہ ترک نژاد مسلمان ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد اُن کی پارٹی بھی ان کی مخالفت کر رہی تھی کہ وہ اسکارف اُتار دیں۔ وہ پارٹی کے لیے ایک عرصے سے کام کر رہی ہیں اور اس سے پہلے وہ پارٹی کے ٹکٹ پر کونسلر کا انتخاب بھی جیت چکی ہیں۔ انتخابات کے دوران پارٹی کی جانب سے جاری پوسٹر سے اُن کی تصویر سے اسکارف غائب کر دیا گیا۔ اس پر اُنھوں نے پارٹی قیادت سے احتجاج کیا جس پر پارٹی نے باقاعدہ طور پر اِن سے معذرت کی۔
الشرق الاوسط کے نمایندے نے اِن سے پوچھا کہ پارلیمنٹ میں جاکر وہ ترجیحاً کن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گی تو اِن کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ختم کرانا اِن کی ترجیحِ اول ہوگی۔ اسی طرح عیدالضحیٰ اور بعض دوسرے مواقع پر مسلمانوں کو اپنے گھروں میں جانور ذبح کرنے کی اجازت، نیز مسلمان تنظیموں کے عطیات جمع کرنے پر پابندی کے خلاف بھی وہ آواز اٹھانا چاہتی ہیں۔
۱۹۹۵ء میں بلجیم کی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان رکن کا اعزاز حاصل کرنے والے محمدالضیف کا کہنا تھا کہ بلجیم کی اکثریت اسلام کی دیانت اور سچائی کی قائل ہوچکی ہے۔ اس صورت حال میں یہاں کے مسلمانوں کو متحد ہوکر پہلے سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ ماہ نور ازدمیر کو ابھی بہت کام کرنا ہے اور وہ اپنے نیک مقاصد کے حصول کے عزم کے ساتھ پارلیمنٹ میں حلف اُٹھائیں گی۔ اب دیکھیے کہ اس کش مکش کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے!
۳۱ سالہ ڈاکٹر مسرت شاہ برطانوی علاقے لیڈز کے ایک ہسپتال میں بطور سرجن کام کرتی ہیں۔ ایمپلائر ٹربیونل میں اپنی برطرفی کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمے میں اِن کا کہنا تھا کہ اُن کو مسلمان ہونے کی وجہ سے نسلی تعصب اور مذہبی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اُن کے قریبی ساتھیوں نے بھی ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ اِس کے چار ساتھی ڈاکٹروں کو اِن کی یہ روش پسند نہ تھی کہ وہ ہرجمعے کو باقاعدگی سے مسجد جائیں اور شہربھر سے آئی ہوئی مسلمان خواتین کے ساتھ نمازِ جمعہ کی ادایگی کا شرف حاصل کریں، جب کہ جمعہ کے روز اِن کے حصے میں کسی بھی سرجری کا کوئی شیڈول نہیں ہوتاتھا۔ لیکن ساتھی ڈاکٹروں کے اعتراض کے بعد نماز کے وقت سرجری کا کام تفویض کر دیا جاتا تھا جس سے اِن کو دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ حالانکہ اس سے پہلے کئی برس تک ایسا نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں کے مسلسل اصرار پر انھوں نے ۸؍ اگست ۲۰۰۸ء سے نمازِ جمعہ کی ادایگی کے لیے جانا ترک کردیا اور ہسپتال میں انفرادی طور پر نماز ادا کرنا شروع کر دی لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اور ساتھی ڈاکٹروں کی تشفی نہ ہوئی اور ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ انچارج ڈاکٹر مارکوس جولیر نے کہا کہ دنیا کا کوئی کام یا نماز، سرجری سے زیادہ اہم نہیں۔ اس لیے سرجری کے لیے نماز ترک کر دینا چاہیے۔ دوسری طرف یہی مغرب ہے جو انسان کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ کیا یہ تضاد اور دہرا معیار نہیں؟
اگست ۲۰۰۸ء میں مروہ الشربینی جو کہ مصری نژاد ہیں اپنے بیٹے مصطفی کے ساتھ ایک پارک میں تھی کہ ملعون ایگزل ڈبلیو نامی شخص نے مروہ کو حجاب میں دیکھ کر ’دہشت گرد‘ کہا۔ جب مروہ نے اسے جواب دیا تو اس نے اللہ رب العزت اور نبی مہرباںؐ کی شان میں گستاخی کی اور اسلام کی توہین اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ پارک میں اس ہونے والے جھگڑے کی شکایت مروہ الشربینی نے مقامی عدالت میں کی۔ عدالت نے شربینی کے دعوے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے مذکورہ شخص کو جرمانہ کیا لیکن اس ملعون نے دوسری عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔
عدالت نے دونوں کو طلب کیا۔ سب سے پہلے مروہ الشربینی سے واقعے کی تفصیلات معلوم کیں اور اس کے بعد جرمن باشندے ایگزل سے کہا کہ وہ واقعہ بتائے تو اس نے کہا میرا بس چلے تو میں اس عورت کو حجاب پہننے کی ایسی سزا دوں کہ ہمیشہ یاد رکھے۔ اس پر عدالت نے اس کو مسلمان عورت کو گالی گلوچ کرنے اور قتل کی دھمکی دینے پر ۷۸۰ جرمن مارک یا ۲۸۰۰ یورو کا جرمانہ کر دیا اور اُسے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یہ سنتے ہی جنونی ملعون ایگزل ڈبلیو نے بھری عدالت میں اسلام کی باحجاب بیٹی پر خنجر سے حملہ کردیا، اس کا حجاب نوچ ڈالا اور اس کے جسم پر خنجر سے وار کرنے شروع کر دیے۔ پولیس یہ خونی منظر دیکھنے کے باوجود مروہ الشربینی کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھی۔ مروہ کے شوہر علوی عکاظ نے چیخ چیخ کر عدالت میں کھڑی مسلح پولیس سے کہا کہ وہ اس کی بیوی کو بچائیں۔ مروہ کو بچانے کے بجاے پولیس نے اس کے شوہر کو دو گولیاں ماریں جس سے اس کی ٹانگیں شدید متاثر ہوئیں، حالاں کہ وہ اپنی بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تھا۔ اس دوران جنونی قاتل نے مروہ کے شوہر پر بھی خنجر برسائے۔ زخمی علوی عکاظ اپنی باحجاب بیوی کو نہ بچا سکا۔ اسلام کی بیٹی نے بھری عدالت میں دم توڑ دیا۔ اسکندریہ میں جب شہیدہ کی میت پہنچی تو لاکھوں لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ مصری حزب اختلاف اخوان المسلمون نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ جرمنی کے ساتھ سفارتی تعلقات فی الفور ختم کیے جائیں اور ۳۲ سالہ مروہ الشربینی کو شہید ِ حجاب قرار دیا۔ افسوس کہ ہمارے بے حس حکمران صداے احتجاج بھی نہ بلند کرسکے۔
جرمن اخبار برلن نیوز کی رپورٹ کے مطابق مروہ کے قاتل کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ سرکاری پراسیکیوٹر نے قاتل کو دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے طبی معائنہ کرانے کی استدعا کی جس کو عدالت نے مسترد کر دیا اور اس کو دماغی طور پر درست قرار دیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق یہ شخص انٹرنیٹ بلاگز پر مسلمانوں، اسلام اور حجاب کے متعلق سخت کلمات لکھنے اور ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حامی پایا گیا ہے۔ مروہ کے بیٹے مصطفی کو جرمن حکومت نے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔ شہیدِحجاب کی بڑی بہن اپنے ڈھائی سالہ بھانجے کے حصول کے لیے جرمنی میں عدالتی چارہ جوئی کر رہی ہیں۔
مصری اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں اس واقعہ کا اصل ذمہ دار فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کو ٹھیرایا گیا ہے جس نے حجاب کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ نکولس سرکوزی نے باقاعدہ طور پر فرانس میں حجاب کے خلاف اپنی مہم کے دوران متعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ برقع اور حجاب آمرانہ اقدام، نسل پرستی اور تعصب کا آئینہ دار ہے۔ برقع پوش خاتون کسی قیدی کی طرح نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغرب تیزی سے بڑھتے ہوئے نومسلموں سے خوف زدہ ہے جو مغرب کے منافقانہ طرزِعمل اور مغربی تہذیب کی چکاچوند سے مایوس ہوکر اسلام کی آغوش میں اپنے آپ کو محفوظ اور ذہنی طور پر آسودہ محسوس کرتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ مغربی خواتین ہیں جو مغرب کی نام نہاد تہذیب سے بیزار ہوکر اسلام کو اپنی جاے پناہ اور اپنے دکھوں کا مداوا سمجھتی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے برطانوی صحافی ای وان رِڈلے کی مثال موجود ہے جو مغرب میں پلی بڑھی، مگر طالبان کے حُسنِ سلوک سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ برطانوی صحافی نے طالبان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ طالبان بہترین بھائی اور بیٹے ہیں۔ مجھے مغربی اور مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے باپ، بھائی، بیٹے کی آنکھوں میں وہ تقدس اور احترام نظر نہیں آیا جو مجھے طالبان کی قید کے دوران دیکھنے کو ملا۔ مغرب حجاب میں لپٹی پاکیزہ زندگی گزارنے والی خواتین سے خوف زدہ ہے۔ اس لیے حجاب اور اسلامی رہن سہن کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔مغرب کا یہی تضاد، دہرا معیار اور تعصب ہے جو ہر حسّاس اورانصاف پسند انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ واقعتا خداے واحد پر ایمان اور اسلام ہی انسانی حقوق کے تحفظ کو ممکن بناتا ہے اور تعصب سے پاک منصفانہ زندگی کا ضامن ہے۔ یہی احساس اسلام کی مقبولیت کا سبب بھی ہے۔
سوال: آج کل خلیجی ممالک اور پاکستان سے بہت سے لوگ آسٹریلیا اور کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ نقل مکانی کی بنیادی وجہ روزگار کے بہتر مواقع، تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتیں ہیں۔ اس ضمن میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں:
۱- پاکستان یا سعودی عرب سے آسٹریلیا یا کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جانا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟ کیا یہ دارالاسلام سے دارالکفر کی طرف جانا ہے؟ شرعی اعتبار سے اِس نقل مکانی کی کیا حیثیت ہے؟
۲- کوئی شخص جو آسٹریلیا یا کینیڈا کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کا مقصد وہ سب دنیاوی فوائد حاصل کرنا ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے ،لیکن ساتھ ساتھ اُس کے دل میں یہ مصمم ارادہ ہے کہ وہ وہاں جاکر غیرمسلم معاشرے میں دعوتِ دین کا کام بھی کرے گا، تو کیا اُسے وہاں جانا چاہیے؟
۳-کیا ان ممالک میں جا کر رہایش اختیار کرلینا، یا اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنا تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مناسب ہے یا نہیں؟
۴- ایسی انٹرنیشنل کمپنیوں میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کی ہیں، ملازمت کرنا کیسا ہے؟
جواب: رزق حلال کی تلاش میں ملک کے اندر یا ملک سے باہر جاکر ملازمت کرنا میری ناقص معلومات کی حد تک نہ کبھی حرام تھا نہ حرام ہونا چاہیے، لیکن جو سوال آپ نے اٹھائے ہیں وہ اس لحاظ سے اہم ہیں کہ دارالاسلام اور دارالکفر کے سیاق میں ایک ایسے مسلمان کے لیے جو تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہو، کیا یہ عمل عزیمت کا ہوگا؟ پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کیا دارالکفر سے ہرقسم کا معاشی تعلق حرام ہے یا دورِ خلافت ِ راشدہ میں غیرمسلم علاقوں میں مسلمان تاجر جاتے تھے، قیام کرتے تھے اور اپنا سامان فروخت کرتے اور وہاں کا سامان لاکر دارالاسلام میں تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے؟
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے تجارتی تعلقات دنیا کے بہت سے مقامات پر تھے۔ جزائر مالدیپ جہاں سے مسلمان عورتوں اور یتیم بچوں کی واپسی کے موقع پر سندھ کے فرماں روا کی زیادتی اس خطے میں باقاعدہ اسلام کی آمد کا سبب بنی، وہاں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ دارالکفر میں یہ تاجر عرصے تک مقیم رہے حتیٰ کہ وہیں پر ان کا انتقال ہوا۔ گویا کسی حکمِ صریح کی عدم موجودگی میں ایسے عمل کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ بات بھی علم میں رہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی حکمت کی بنا پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مسلمان دیارِ غیر میں آٹھ سال سے زیادہ نہ رہے، کیونکہ زیادہ عرصہ قیام کے نتیجے میں وہ یا اس کی اولاد وہاں کے غیرمسلم معاشرے سے متاثر ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا فیصلہ لازمی طور پر دینی حکمت پر مبنی تھا لیکن اگر ایک شخص نے غیرمسلم ممالک میں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اخلاقی تعلیم کا صحیح بندوبست کرلیا ہو، اور وہ اپنا وقت دین کی دعوت میں صرف کر رہا ہو تو ایسا کرنا دین کی حکمت کے عین مطابق ہوگا۔
اصل مسئلہ لفظی بحث کا نہیں ہے۔ اگر ایک تحریکی یا غیر تحریکی شخص ملازمت کے لیے جا رہا ہے یا محض دعوتِ دین کے لیے ، دونوں مقاصد ایک ساتھ اختیار کیے جاسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جسے نیت کا علم سب سے زیادہ ہے اس کی نیت کی بناپر اسے اعلیٰ اجر سے نواز سکتا ہے۔ ہاں، اگر انتخاب کا معاملہ ہو کہ ایک طرف پاکستان میں یا کسی مسلم ملک میں ملازمت موجود ہے مگر تنخواہ کم ہے، جب کہ غیرمسلم ملک میں ملازمت میں زیادہ تنخواہ مل رہی ہے لیکن نہ وہاں بچوں کی صحیح تربیت ہوگی نہ دعوتِ دین کا موقع ملے گا تو لازماً کم تنخواہ پر پاکستان یا کسی دیگر مسلم ملک میں ملازمت کرنا ہی زیادہ مناسب ہوگا۔ اگر یہ بات تحقیق سے معلوم ہو کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی براہِ راست مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہے، مثلاً وہ اسرائیل کو امداد دیتی ہے تو ایسے ادارے میں کام کرنے سے لازماً بچنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی ملٹی نیشنل ادارے میں یہودی یا عیسائی کام کر رہے ہوں تو محض اس بنا پر اس کی ملازمت اختیار نہ کرنے کی کوئی دلیل بہ ظاہر نظر نہیں آتی۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر ہم پاکستان یا کسی مسلم ملک میں اقامت پذیر ہوں لیکن بچوں کی تربیت کی طرف سے لاپروا ہوں اور یہ قیاس کرلیں کہ چونکہ بچے پاکستان یا کسی اور مسلم ملک میں ہیں تو خود بخود ان کی تربیت اچھی ہوجائے گی، یہ محض خوش گمانی کی بات ہے۔ بچوں کی تربیت ایک انتہائی اہم اور مشکل کام ہے۔ اگر ایک شخص کی نگاہ میں اس کی صحیح اہمیت ہو تو وہ جہاں بھی ہو بچوں کی تربیت کرسکتا ہے۔
جہاں تک دارالاسلام اور دارالکفر میں انتخاب کا سوال ہے، اس میں دو آرا نہیںہوسکتیں کہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دارالکفر میں جانے کو کسی بھی طرح مطلوب و مرغوب نہیں کہاجاسکتا۔ البتہ اگر ایک شخص متعین عرصے کے لیے دعوتی مقاصد کے پیشِ نظر دارالکفر جاتا ہے تو ایسا کرنا دین کے کسی اصول سے نہیں ٹکراتا۔ تاہم، مستقل طور پر دارالاسلام کو ترک کر کے دارالکفر ہجرت کرنا شریعت کے منافی ہوگا۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بعض صورتوں میں دارالکفر اور دارالاسلام کے حوالے سے حقیقت واقعہ کی حیثیت قابلِ غور بھی ہوسکتی ہے، مثلاً ایک خاندان تعلیم یا روزی کی تلاش میں غیرمسلم اکثریتی علاقے میں گیا اور وہاں پر ان کی اولاد پیدا ہوئی جس نے دینی تعلیم پائی اور شادی بیاہ کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ قائم کیا، تو کیا ایسے افراد کا ایک غیراسلامی ملک میں قیام دارالکفر میں قیام کہلائے گا، جب کہ یہ افراد اُس غیر مسلم معاشرے میں شعوری طور پر اسلامی تعلیمات کے فروغ اور خود اپنے گھر میں اسلامی ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوں۔
یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ آج جب خود مسلم ممالک میں ان کی دستوری حیثیت سے قطع نظر وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دارالکفر کے حوالے سے فقہی کتب میں ملتی ہیں، تو دونوں کے درمیان محض اصولی فرق کی بناپر ایک ہی حکم ہوگا یا تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم کی نوعیت میں فرق پڑے گا۔ میرے خیال میں ان معاملات پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے اور اس طرح کے معاملات میں محض سیاہ یا سفید پر حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ دین کے مطالبات ومقاصد کے پیشِ نظر بہت سے تحریکی اور غیرتحریکی مسلم داعیانِ دین کو ایسے مقامات پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں یا بالکل نہ پائے جاتے ہوں دعوتی نقطۂ نظر سے جاکر مختصر یا طویل قیام کر کے دین کی دعوت کو دارالکفر میں متعارف کرانا ہوگا۔
اگر اسلام ایک علاقائی دین ہوتا تو اسے ایک ایسے خطے میں محدود و مقید رہنا چاہیے تھا جہاں اسے دارالامن اور دارالاسلام میسر ہوتا۔ لیکن اس ترجیح کے باوجود کہ ایک فرد اور اس کا خاندان اسلامی ماحول میں رہے، دعوتی ضرورت اور دینی تقاضے کے پیشِ نظر بہت سے افراد کو غیرمسلم اکثریت کے علاقوں میں جاکر دعوتِ دین کا کام کرنے کے لیے قیام کرنا ہوگا۔ جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا اس کا بڑا انحصار نیت، سعی اور کوشش پر ہے اور اس اندازے پر ہے کہ ایک شخص دارالکفر میں رہتے ہوئے خود دین پر کتنی آزادی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے اور اُس کے سامنے منصوبۂ عمل کیا ہے۔
توسیعِ دعوت کے لیے ممالکِ غیر میں جاکر اپنے قول و عمل سے دین کی دعوت دینا ایک فریضہ ہے، اور یہ اسی طرح فرض ہے جیساکہ خود ایک مسلم ملک میں جہاں دستوری طور پر تو اسلام حاکم ہو لیکن عملاً وہ دارالکفر کی طرح معاشی، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں غیراسلامی تعلیمات پر عمل کر رہا ہو۔ ایسے مسلمان ملک میں بھی توسیعِ دعوت کے لیے جدوجہد کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔ گویا دعوتی نقطۂ نظر سے واضح اہداف کے ساتھ کسی ملک میں جانا اور اپنی تمام صلاحیتیں بروے کار لاتے ہوئے، دعوتِ دین کے ساتھ ساتھ حصولِ رزق کی کوشش کرنا بھی دین کے مطالبات سے مطابقت رکھتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہییں جو اس مقصد کے لیے اپنی زندگی کے لمحات کو اس کام میں لگائیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
قرآن کریم اور علوم القرآن سے اُمت مسلمہ کا تعلق یوں تو ہر دور میں نمایاں نظر آتا ہے جس کی ایک دلیل تفسیری ادب میں شاہکار تصانیف کا پایا جانا ہے۔ چنانچہ اسلام کے دورِ احیا میں صرف ۲۰ویں صدی میں ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی، یوسف علی، سیدابوالاعلیٰ مودودی، مفتی محمد شفیع، سید قطب شہید اور محمداسد کی تفاسیر نہ صرف وجود میں آئیں بلکہ قبولیت عام حاصل کرنے کے بعد اُمت مسلمہ پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا ذریعہ بنیں۔ شاہکار انسائی کلوپیڈیا قرآنیات خود مدیراعلیٰ کے الفاظ میں تفسیر نہیں ہے، گو مضامین کی تیاری میں معتبر و مستند تفاسیر سے مدد لی گئی ہے۔ اس کی اصل خوبی سلیس اُردو میں اُردو اصطلاحات کی بنیاد پر قرآنیات سے متعلق مضامین پر مقالات کا یک جا کر دینا ہے۔ بعض مقالات معروف مسلمان مفکرین کی تحریرات سے اخذ کیے گئے ہیں اور اکثر اس مجموعے کے لیے لکھوائے گئے ہیں۔ ہر ماہ ایک قسط کی اشاعت کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اب تک چار اقساط شائع ہوچکی ہیں۔ پہلی قسط جنوری ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی تھی۔
مضامین میں خصوصی طور پر یہ خیال رکھا گیا ہے کہ مسلکی رنگ نہ آنے پائے۔ بعض مقالات مثلاً ’آثارِ قدیمہ‘ (ج ۱، ص ۱۹-۳۹)، ’آدم‘ (ص ۵۳ تا ۶۹)، ’آیات‘ (ج ۳، ص ۱۷۴ تا ۲۰۷)، ’ابراہیم‘ (ج ۳، ص ۲۱۵ تا ۲۳۲)، ’آفرینش‘ (ج ۳، ص ۱۲۹ تا ۱۳۹) دیگر مقالات کے مقابلے میں زیادہ تفصیلی ہیں، جب کہ دیگر مضامین میں مواد کی تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ بعض مضامین میں غیرضروری معلومات شامل کر دی گئی ہیں، مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد پر دوسری جلد میں قرآنیات کے حوالے سے ان کی خدمات پر معلومات کے ساتھ ساتھ بہت سی غیر ضروری تفصیلات کا لانا مناسب نہ تھا۔ اسی طرح بعض ایسے مضامین جن کا براہِ راست تعلق قرآنیات سے نہیں بنتا، ان کی شمولیت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً آستر (Esther) پر مقالہ یا آسٹریلیا کے اصلی باشندوں پر مقالہ (ص ۱۱۲ تا ۱۱۶، ج ۲) براہِ راست موضوع سے مناسبت نہیں رکھتے۔ اسی طرح جلداول میں آچاریہ شنکر پر مقالہ (ص۴۱ )، پر آخش پر مختصر نوٹ (ص ۴۸) غیرضروری محسوس ہوتا ہے۔ گو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرآنیات کی اس انسائی کلوپیڈیا میں قوسین میں (عالمی مذاہب) کو بھی شامل کیا گیا ہے، اس بنا پر یہ معلومات درج کر دی گئی ہیں، مثلاً جلد اول میں آریہ مذہب پر (ص ۷۷ تا ۸۰) ایک مقالہ شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کا بنیادی موضوع چونکہ قرآنیات ہے اس لیے بہتر ہوتا کہ مدیراعلیٰ عالمی مذاہب پر ایک الگ انسائی کلوپیڈیا مرتب فرماتے اور قرآنیات کو قرآن کریم سے متعلق مضامین تک ہی محدود رکھا جاتا۔ اس طرح قرآنیات پر زیادہ مقالات کی گنجایش نکل آتی، اور بعض مختصر نوٹ بڑھ کر باقاعدہ مقالات کی شکل میں آجاتے۔
قرآنیات پر یہ تعارفی سلسلہ اُردو خواں حضرات کے لیے بہت مفید ہے لیکن گذشتہ پانچ دہائیوں میں جس تیزی کے ساتھ اُردو فہمی میں پاکستان میں زوال پیدا ہوا ہے، اس کے پیش نظر یہ معلومات اگر سادہ انگریزی میں بھی آجاتیں تو ہمارے نوجوان طلبہ کے لیے بہت مفید ہوتیں۔
محترم سید قاسم محمود اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت شاہکار انسائی کلوپیڈیا اسلام اور شاہکارانسائی کلوپیڈیا پاکستان جیسی وقیع کتب ہیں۔ گو شاہکار انسائی کلوپیڈیا فلکیات اور سیرت النبیؐ ابھی منظرعام پر نہیں آسکیں لیکن اب تک جو کام تنہا سیدصاحب نے کیا ہے، وہ انتہائی قابلِ تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس سلسلے کو مکمل کرنے کی توفیق دے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
ہجرت کی اصطلاح اپنے گھربار، وطن، ملک، علاقے اور شہر کو اللہ کے راستے میں چھوڑ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے، تاہم اس کا لغوی مفہوم کسی جگہ یا مقام سے دوسری جگہ نقل مکانی ہے۔ قرآن و حدیث نبویؐ کی رُو سے ہجرت کا تقاضا ہے کہ انسان نفس کی بے جا خواہشات ناپسندیدہ اور بُرے اخلاق اور عاداتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ نبیؐ مہرباں کا فرمان ہے: مہاجر وہ ہے جو شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے۔
زیرنظر کتاب کو اپنی نوعیت کی منفرد کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے حمیدنسیم رفیع آبادی مولانا جلال الدین عمری کے تلمیذ رشید اور شعبۂ فلسفہ مسلم یونی ورسٹی کے ریسرچ فیلو رہے۔ ہجرت کا اسلامی تصور میں قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تصورِہجرت کے مختلف پہلوئوں (ہجرت کے مختلف معانی و مفاہیم، مراحل، مقاصد، وجوب اور فلسفے) کو خوب صورت اسلوب اور پیرایۂ بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے ہجرت کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ساتھ غنیمت، خمس، وراثت اور دیگر مسائل وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔
ڈاکٹر حیات عامر نے اپنے مدلل و مفصل اور وقیع مقدمے میں موضوع کا بھرپور احاطہ کیا ہے جس نے کتاب کی افادیت دوچند کر دی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سیدمطلوب حسین کا فکرانگیز مضمون ’واقعۂ ہجرت کی عالم گیر اہمیت‘ اور مولانا عبدالرحمن پرداز اصلاحی کا ’ہجرت کے بارے میں مستشرقین کا موقف‘ کے عنوان سے مستشرقین کے رکیک جملوں کے جواب پر مبنی مشتمل مضمون بھی شاملِ کتاب ہے۔ آخر میں مآخذ بھی درج ہیں۔ ہجرت کے موضوع پر اتنا وقیع اور مفصل مواد یک جا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ پروف خوانی احتیاط سے کی گئی ہے۔ معیارِ طباعت بھی اطمینان بخش ہے۔ اس طرح کتاب حسن صوری و معنوی کا عمدہ نمونہ ہے۔ (عمران ظہورغازی)
مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کے تحقیقی و تنقیدی صحیفہ کی تازہ اشاعت جنگ ِ آزادی ۱۸۵۷ء سے متعلق ہے۔ یہ شمارہ جنگ ِ آزادی کے ایک سو پچاس سال مکمل ہونے پر قدرے تاخیر سے شائع ہوا ہے۔ اس میں ۱۸۵۷ء کا پس منظر و پیش منظر، حالات و واقعات، شخصیات، فکرونظر، تاریخی و ادبی مآخذ، نوادر کے علاوہ موضوعات پر معروف اہلِ علم کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ معین الدین عقیل نے ’جنگ ِ آزادی، اسباب و نتائج‘ کے عنوان سے ۱۸۵۷ء سے قبل اور مابعد پیش آمدہ واقعات کا تجزیہ کیا ہے اور اُن محرکات کی نشان دہی ہے جو اس صورت حال کا موجب بنے۔ عقیل صاحب کا ایک اور مضمون ’سوانح افسری‘ کے تعارف پر مبنی ہے۔ ’سوانحِ افسری‘ ۱۸۵۷ء کا ایک غیرمعروف مآخذ پر آپ بیتی حیدرآباد دکن کی فوج کے ایک مسلمان افسر کی ہے جو ۱۸۵۷ء اور بعدازاں انگریزی افواج کی اعانت کا مرتکب ہوتا رہا۔
ڈاکٹر محمدسلیم اختر نے مختلف تواریخ اور انگریز افسروں کی یادداشتوں کی مدد سے ’موجودہ پاکستان علاقوں کا جنگ ِ آزادی میں کردار‘ کے موضوع پر مضمون لکھا ہے جو ۱۸۵۷ء کے دوران اِن علاقوں کی صورتِ احوال پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی طرح غلام شبیر رانا کے مضمون بعنوان ’تاجر سے تاج ور تک‘ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے تناظر میں، میں انگریز تاجروں کے اُن حیلے بہانوں، جارحانہ ہتھکنڈوں اور ظالمانہ حربوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو انھوں نے اپنے قیام ہندستان کے دوران اہلِ ہندستان سے روا رکھے۔
نوادرات کے گوشے میں مرہٹوں کے اُس وقت کے پیشوا نانا فرنویس کا ایک اُردو اشتہار خاصے کی چیز ہے جس میں ہندوستان کے باشندوں کو غاصب انگریزوں کے خلاف بغاوت پر اُکسایا گیا ہے۔ یہ اشتہار ۶؍جولائی ۱۸۵۷ء کو شائع کیا گیا تھا۔ اسی گوشے میں اختر حسین راے پوری کی ایک ہندی تحریر کا ترجمہ (از خالد ندیم) شامل ہے جس میں بہادرشاہ ظفر اور اُن کے بچے کھچے خاندان کی اُس حالت کا نقشہ بعداز تحقیق کھینچا گیا ہے جو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نتیجے پر اس گھرانے کے رنگون آنے کے بعد رہی۔ اسی حصے میں ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی نے مدرسہ عبدالرب، دہلی کی ایک اپیل کو (جو ۱۸۵۷ء کے پس منظر میں ہے) مع عکس پہلی مرتبہ پیش کیا ہے۔
۱۸۵۷ء اور شخصیات کے گوشے میں ’غالب، تحریکِ مجاہدین اور ۱۸۵۷ء‘ کے موضوع پر خالد امین کا مضمون نئی معلومات فراہم کرتا ہے اگرچہ اس کے کچھ مندرجات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ’محمدحسین آزاد اور ۱۸۵۷ء‘ از رفاقت علی شاہد بھی اُس عہد کے ایک بڑے ادیب اور ہنگامِ انقلاب کے اُن پر اثر کو واضح کرتا ہے۔
ایک گوشے میں معروف محقق خلیل الرحمن دائودی کی ۱۸۵۷ء سے متعلق تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے۔ یہ تحریریں اُس دور کے حالات و واقعات اور مختلف اشخاص پر اجمالی نظر ڈالتی نظر آتی ہیں۔ ’رفتارِ ادب‘ صحیفہ کا مستقل سلسلہ ہے۔ اس میں جنگ ِ آزادی سے متعلق شائع شدہ کتب پر تبصرے کیے گئے ہیں۔ آخر میں ۱۸۵۷ء پر مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور کی مطبوعات سے جو اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، وہ اپنے اپنے موضوعات پر مکمل مضامین ہیں، مثلاً: ’ جنگ ِ آزادی اور ادب‘، ’جنگ ِ آزادی اور پُرشکوہ آبادی‘ اور ’دہلی میں اٹھارہ سوستاون‘ وغیرہ۔
اپنے مشمولات کے اعتبار سے صحیفہ کا یہ خاص شمارہ تاریخِ برعظیم کے ایک نہایت اہم ترین واقعے کی اہم دستاویز قرار دیا جاسکتا ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)
نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، پاکستان جیسی نظریاتی مملکت میں وہ نظامِ تعلیم نافذ نہ ہوسکا جو ایک طرف ہمارے نظریاتی تقاضے پورے کرتا، نئی نسل میں اسلامی فکروشعور کی آبیاری کرتا اور دوسری طرف یہاں کے باشندوں کو ذمہ دار اور بااصول شہری بناتا۔ ایسا کیوں نہ ہوا؟ زیرتبصرہ کتاب میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تعلیم سے متعلق اہم مباحث کو زیربحث لایا گیا ہے۔ ذریعۂ تعلیم کے بارے میں مختلف دانش وروں کی آرا دی گئی ہیں اور قدیم و جدید ماہرینِ تعلیم کے افکار سے جگہ جگہ استدلال کیا گیا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم، اس کی بنیادیں اور عملی خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ مغربی نظامِ تعلیم کا پس منظر، اہداف اور اس کے معاشرے پر مضر اثرات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مغربی نظامِ تعلیم اور اسلامی نظامِ تعلیم کا تقابل بھی کیا گیا ہے۔ تعلیمِ نسواں کو الگ سے موضوع بنایا گیا ہے اور خواتین کے لیے مردوں سے الگ نصاب کی سفارش کی گئی ہے۔ ایک باب میں دینی مدارس کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات کو دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نیز علماے کرام اور مدارس کے حقیقی کردار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ نصابِ تعلیم دینی اور سائنسی تعلیم کا امتزاج ہونا چاہیے اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت پر مبنی ہونا چاہیے۔ جدید افکارونظریات، جدید ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے مضر اثرات کے جائزے کے بعد انھیں اپناتے ہوئے محتاط رویے کی ضرورت ہے۔
مصنف نے خلوصِ دل سے توجہ دلائی ہے کہ تعلیمی انقلاب رجوع الی اللہ اور فوری جدوجہد کا متقاضی ہے، اور جب تک نظامِ تعلیم صحیح خطوط پر استوار نہیں ہوتا انتظارِ انقلاب، کارِ عبث ہے۔ فہرست مآخذ سے کتاب کی وقعت اور جامعیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ (امجدعباسی)
دنیاے فانی سے رخصت ہونے والوں کو یاد کرنا، خصوصاً ان کی نیکیوں کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار اور ان کی خدمات کو بطور مثال پیش کرنا ایک مستحسن روایت ہے۔
زیرنظر کتاب، تحریک اسلامی سے وابستہ ایک ایسی خاتون کے سوانح اور خدمات کا تذکرہ ہے جو اپنی دینی اور اسلامی خدمات کی بنا پر مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔ کتاب میں شامل ان کے والدین، بہن بھائیوں، زوجِ محترم، سسرالی رشتہ داروں، اساتذہ کرام، سہیلیوں اور جملہ احباب، واقفانِ حال بلکہ ملازمین سبھی کی تحریریں اس امر کی شاہد ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ان کا ہر ایک سے بھرپور تعلق تھا۔ وہ حقوق و فرائض کی انجام دہی میں ایک توازن کے ساتھ عہدہ برآ ہوتی رہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو تحریک کے کام کو ’اپنا کام‘ جان کر پوری تن دہی اور لگن سے مصروفِ عمل رہتے ہیں اور صحت کی خرابی یا دیگر عذرات کی بنا پر اپنی راہیں کھوٹی نہیں کرتے۔
حلقہ ہاے درس کو چلانے کا معاملہ ہو، بیرونی روابط کا مسئلہ ہو، گھریلو امور، مہمان نوازی اور رشتہ داریاں نبھانے کی ذمہ داری ہو، ساجدہ زبیری ہر کام کو اعلیٰ معیار پر انجام دینے کی قائل تھیں۔ ان کا کوئی بھی کام سرسری اور رسمی یا خانہ پُری کی خاطر نہ ہوتا تھا۔ ان کی اس خوبی پر بہت سوں نے اس کتاب میں گواہی دی ہے۔ ساجدہ نے بیماری کا ایک طویل عرصہ جس صبر واستقلال سے گزارا، وہ بھی مثالی ہے۔
کتاب میں شامل ساجدہ زبیری کے نو نثرپارے ان کے ادبی ذوق کے غماز ہیں۔ عنوانات مختلف ہیں، مگر ہر ایک میں نظریاتی رچائو موجود ہے، اور ان کے حسِ مزاح کی جھلک بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔
اس کتاب کی مرتب اور ساجدہ زبیری کی خواہر عابدہ عبدالخالق لکھتی ہیں: ’’اس کتاب کی اشاعت کا مقصد شخصیت پرستی کے کسی جذبے کی تسکین نہیں، اس کاوش کا مقصد اپنے اردگرد کے ماحول میں کمزور ہوتے ہوئے خاندانی نظام اور معدوم ہوتی ہوئی اعلیٰ انسانی قدروں کو پھر سے تقویت دینا ہے۔ انسانیت کے گم گشتہ سچے جذبوں کو پھر سے پا لینے کی کوشش کرنا ہے‘‘۔ (ص۶-۷)
اس اعتبار سے یہ کتاب اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے اور قارئین بالخصوص خواتین کے لیے ایک گراں بہا تحفہ ہے۔ معیارِ طباعت نہایت عمدہ ہے۔ سرورق سادہ اور جاذبِ نظر ہے۔ (زبیدہ جبیں)
علامہ ابن جوزی (۵۰۸ھ-۵۹۷ھ) کی کتاب کتاب البر والصِّلۃ کا ترجمہ ہے۔ ابن جوزی مقدمے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے زمانے کے نوعمروں کو دیکھا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی جانب متوجہ نہیں ہوتے، نیز اعزہ و اقربا سے تعلقات کو توڑتے ہیں جن کو اللہ پاک نے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے مال سے غریبوں اور فقیروں کی مدد اور ان کے ساتھ غم خواری سے اِعراض کرتے ہیں۔
یہی اس کتاب کے موضوعات ہیں۔ اس میں والدین کی خدمت، رشتہ داروں کے ساتھ روابط، لوگوں کے ساتھ باہمی تعاون اور معاشرتی نیکی و بھلائی اور خیرخواہی کا مفصل بیان ہوا ہے اور ان امور سے غفلت پر دونوں جہاں کی خسارے کی وعید سنائی گئی ہے۔ کُل۵۴ ابواب میں سے ۱۸باب صرف والدین کے موضوع پر ہیں۔ ہر موضوع سے متعلق احادیث بیان کر کے حکم نکالا گیا ہے۔
ہم مسلمانوں کا مسئلہ آج کل علم کی کمی کا نہیںہے بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے عمل نہ کرنے کا اور اس کے لیے جواز اور بہانے تلاش کرنے کا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک جامع تصنیف ہے۔ ابن جوزی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ کچھ نہ کچھ لکھتے تھے اور اس طرح انھوں نے ۲ہزار کتابیں لکھی ہیں۔ کتاب میں ان کے مفصل حالات بھی ملتے ہیں۔ (مسلم سجاد)
’۶۰ سال پہلے‘ کے تحت ’نااہل قیادت‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) مولانا مودودیؒ کی تازہ تحریر محسوس ہوتی ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ۶۰سال بعد بھی ایک ’بدترین،نااہل اور اخلاق باختہ قیادت‘ ہمارے اُوپر ہنوز مسلط ہے۔ ’امریکا اور اسلام‘ دل کی آواز محسوس ہوئی۔ ’اوباما کی قاہرہ میں تقریر کے خوش کُن آہنگ کو نیا نہ سمجھا جائے‘، نپولین اور ووڈرو ولسن کی تقاریر کے تاریخی تناظر میں، یہ جملہ میری نظر میں ’اشارات‘ کا حاصل ہے۔ ’انسان کا قرآنی تصور‘ حضرت انسان کا ایک بھرپور خاکہ، قرآنی آیات کی روشنی میں پیش کرتے ہوئے، بین السطور بڑی خوب صورتی سے قاری کو اس کے اصل فرضِ منصبی کی طرف متوجہ یا گیا ہے۔
’اسلامی بنکاری کا بڑھتا ہوا عالمی رجحان‘ میں موجودہ عالمی معاشی بحران کے تناظر میں ایک اہم پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ماضی میں غیرسودی نظام کو ناقابلِ عمل گردانتے ہوئے کھلے بندوں مذاق کا موضوع بنایا جاتا تھا مگر آج یہ ایک حقیقت ہے اور پوری دنیا میں اُسے معاشی بحران سے نجات کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جانے لگاہے۔ ’ایران کا اصل بحران‘ ایک چشم کشا تحریر ہے، لیکن اس بات کی تشنگی محسوس ہوتی ہے کہ ایرانی قیادت کے آپس کے ان شدید اختلافات کے اصل محرکات کیا ہیں؟ کیا وہ مستقبل میں اپنی یک جہتی برقرار رکھ پائیں گے؟
’امریکا اور عالمِ اسلام‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) میں امریکی حکمرانوں کو ان کے قول و عمل کے تناظر میں مسکت انداز میں آئینہ دکھایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں محترم میاں طفیل محمد مرحوم و مغفور پر تعزیتی شذرہ اختصار و جامعیت کا مرقع اور دل پر اثرانداز ہونے والی تحریر ہے۔
’اسلامی بنکاری کا بڑھتا ہوا عالمی رجحان‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) کے مطالعے سے اسلامی بنکاری کی پیش رفت کا اندازہ ہوا، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع سے متعلق دیگر امور بھی زیربحث لائے جائیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں سود کی ممانعت ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مرکز اور صوبوں میں افہام و تفہیم کی ضرورت ہے، اس مسئلے کو بھی زیربحث لایا جانا چاہیے۔ ملک میں جاری اسلامی بنکاری پر علما میں پایا جانے والا اختلافِ راے بھی اعلیٰ سطح پر علمی بحث اور افہام و تفہیم کا متقاضی ہے۔ سود کی ممانعت کا مقدمہ جو التوا کا شکار ہے۔ اسے بھی ازسرِنو اٹھانے کی ضرورت ہے مگر اس پر دینی و سیاسی جماعتیں اور پارلیمان خاموش ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے پٹرول کی قیمت میں کمی کے لیے اقدام اٹھایا لیکن جس طرح سے آرڈی ننس کے ذریعے اسے غیرمؤثر کردیا گیا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عدالتی اقدام کی حیثیت محض ایک کاغذی فیصلے کی ہے اور اسمبلی خاموش تماشائی ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل قیمتوں کی شرح (پرائس لیول) پر سود، جو بعض امور میں ۴۵ فی صد تک پہنچ چکا ہے، کے خاتمے کے لیے کوشش کا آغاز ہے۔ یہ وہ ریلیف ہوگا جسے کسی آرڈی ننس کے ذریعے سے ختم نہ کیا جاسکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اسلامی جو سود کے خاتمے کے نظام کی علَم بردار ہے، اس مسئلے کو آگے بڑھ کر عوامی سطح پر اٹھائے اور علمی حلقوں میں مؤثر آواز بلند کرے۔
’رسائل و مسائل‘ کے تحت ’بیوٹی پارلر کی تعلیم اور کاروبار‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) کا جواز دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کو کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے، جب کہ اس میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جن سے احادیث میں منع کیا گیا ہے، مثلاً بھوئیں بنوانا، چہرے کے بال صاف کروانا۔ ایک حدیث میں تو چہرے پر غازہ (مصنوعی رنگ) لگانے کی بھی ممانعت ہے اور اسے بنی اسرائیل کی ہلاکت کے اسباب میں سے ایک سبب شمار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد چہرے اور ہاتھ پائوں کی خوب صورتی اور نکھار (فیشل پیڈیکیئر ، مینیکیئر) ہی رہ جاتے ہیں جو کہ کروایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیوٹی پارلر کے کورس کی تربیت کے دوران میں ایک خاتون ان تمام غیرشرعی کاموں سے کیسے بچ سکتی ہے؟ اس پہلو کی وضاحت کی بھی ضرورت تھی۔
سوات، دیر، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں شورش اور فوجی آپریشن کے متعلق (جون ۲۰۰۹ء) جس عرق ریزی سے سیرحاصل گفتگو اور اس خطرناک شورش کے پس پردہ محرکات سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ مسئلے کے پُرامن حل کے لیے ہمارے حکمرانوں کے سامنے جو دور رس تجاویز رکھی گئی ہیں، کاش! ہمارے حکمران ان پر کان دھرتے۔ اچھا ہوتا کہ پروفیسر صاحب و دیگر صاحب ِ بصیرت و دُور اندیش ارکانِ پارلیمنٹ ان چشم کشا انکشافات کو قومی اسمبلی و سینیٹ میں پیش کریں۔
’اسلام اپنی نگاہ میں‘ از ڈاکٹر ساجیکو مراتا ولیم سی چٹیک پر مکرمی ڈاکٹر انیس احمد نے (جون ۲۰۰۹ء) تبصرہ کیا جس پر میں ان کا ممنون ہوں۔ تاہم ایک دو نکات وضاحت طلب نظر آئے۔ آیاتِ قرآنی کے اُردو ترجمے کی ذمہ داری سراسر مترجم کی ہے اور اس کے لیے میں نے تقریباً ہرجگہ شاہ عبدالقادر صاحبؒ (بسااوقات بہ ترامیم خفیفہ) کا ترجمہ استعمال کیا ہے اور معاصر تراجم استعمال کرنے سے شعوراً گریز کیا ہے۔ بعض جگہ جو تراکیب/اسلوب میں کہنگی اور نامانوس ہونے کی کیفیت ہے وہ اسی فیصلے کی دین ہے۔
دوسری بات یہ عرض کرناہے کہ مصنف ڈاکٹر شمس الدین چیٹک اور ان کی اہلیہ زینہ شمس الدین دونوں اُردو بالکل نہیں جانتے، لہٰذا مولانا مودودی کی کتاب مذکور (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں) کے استعمال کا قطعاً سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مصنفین تو شاید اس کتاب کے وجود سے بھی باخبر نہ ہوں گے۔ حوالے سے گریز کو عمداً یا سہواً پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ اسماعیل الفاروقی الراجی کی سب چیزیں میری دیکھی ہوئی ہیں۔ مجھے یہ قبول کرنے میں تامل ہے کہ وہ اس سطح کی بحث میں کوئی وقیع حوالہ بن سکتے ہیں خصوصاً جب مآخذ، حوالے، فکری فضا اور سطح کلام کلاسیکی مسلم علما کی تحریروں سے براہِ راست مستفاد ہو!
قریباً سبھی مصنفین ابھی تک اُردو کی تحریروں میں فارسی کے محاورے، الفاظ یا اشعار استعمال کرتے ہیں، پھر اس کا ترجمہ بھی موجود نہیں ہوتا اور قارئین کو فارسی دان سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر فروری کے شمارے میں مولانا مودودی کا یہ مقالہ ’پس چہ باید کرد‘ (ص ۳۹) موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مولانا صاحب آج موجود ہوتے تو حالات اور معاشرے کو جانتے ہوئے خود بھی ضرور ترجمہ کرتے۔
لوگ تو صحیح اُردو ہی بھول چکے ہیں کجا کہ انھیں فارسی سمجھ آئے۔ آج کل تو انگریزی کا راج ہے اور اب تو ہندی بھی گھر کرنے لگی ہے۔ یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ میڈیا اور ٹی وی چینل اس کا بڑا ثبوت ہیں، اور پھر ان میں کس قدر غلط تلفظ کے ساتھ اُردو بولی جاتی ہے۔ کیا رپورٹر، کیا خبریں پڑھنے والے/والیاں یا بحث و مباحثہ کرنے والے، سب ہی تو عیاں ہیں۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی زبان کا تحفظ ضروری ہے جس کے لیے ترجمہ ضروری ہے ورنہ اپنے ماضی اور آباو اجداد کی اقدار نسلوں تک پہنچانا بڑا دشوار ہوگا۔ سب قصۂ پارینہ بن جائے گا۔
بہ حیثیت مسلمان ہمارا تصورِ آزادی ساری اقوام سے نرالا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اُس وقت تک آزاد نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت و اطاعت کے لیے انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں غیرالٰہی ضابطہ و قانون سے آزاد نہ ہوجائیں___ چاہے وہ ضابطہ قانون سمندر پار سے آیا ہو یا اپنے دیس کے لوگوں کا ایجاد کردہ ہو۔
جب تک ہمارے اُوپر غیر اسلامی دستور، غیر اسلامی قانون، غیر اسلامی نظامِ تعلیم، غیر اسلامی سیاست و معیشت اور غیر اسلامی تہذیب و تمدن مسلط رہے، اُس وقت تک ہماری غلامی کی زنجیریں نہیں کٹتیں۔ ہمارے لیے صبحِ آزادی اُس وقت طلوع ہوتی ہے، جب ہم اپنی پوری ملّی زندگی کو کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہوجائیں اور اس مدّعا کو حاصل کرنے میں نہ غیروں کی طرف سے کوئی رکاوٹ باقی رہے، نہ اپنوں کی طرف سے کوئی مزاحمت!
یہی تصورِ آزادی تھا جو برعظیم ہند کے غیرمسلموں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ قومیت بنانے اور ایک مشترکہ جمہوری ریاست کی بنیاد ڈالنے میں مانع ہوا اور اسی کی وجہ سے ہم مجبور ہوگئے کہ اپنے لیے ایک جداگانہ خطۂ زمین حاصل کریں۔ یہ خطۂ زمین گراں بہا قربانیوں کے عوض میں ہمیں حاصل ہوا، درآں حالیکہ دوسری قربانیوں کے ساتھ ہمیں تقسیم کی مہلک ناانصافیاں بھی گوارا کرنی پڑیں۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس خطۂ ارضی کی آزادی کی ساری دولت انگریز ایسے جانشینوں کے سپرد کرکے گیا ہے جو اس کو نظامِ اسلامی کی تعمیر پر صرف کرنے میں برابر لیت و لعل کر رہے ہیں۔ کل یہی لوگ تھے کہ اسلامی نظام تمدن و سیاست کے نام پر آزادی کی جنگ میں مسلمان عوام کا تعاون حاصل کر رہے تھے لیکن آج یہی لوگ ہیں کہ عوام کی طرف سے اسلامی نظام کے مطالبے پر ان کے چہرے غضب آلود ہوجاتے ہیں۔ (’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۲، عدد۳، رمضان ۱۳۶۸ھ، اگست ۱۹۴۹ء، ص ۳-۴)