مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۰۹

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں، اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں، امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جذبات کا ایک طوفان برپا ہے۔ امریکا سے بے زاری   کے یہ جذبات و احساسات ویسے تو دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے برابر بڑھ رہے ہیں، لیکن  ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعات کے بعد امریکی صدر جارج بش کی قیادت میں امریکا کے خونیں ردعمل کو، جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا نام دیا گیا ہے، امریکا مخالف جذبات میں تلخی اور شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

ایک وقت تھا کہ مسلم دنیا، یورپ کے سامراجی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد میں امریکا کو ایک حد تک اپنا دوست اور ہم نوا سمجھتی تھی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن کے آزادی، حقوقِ انسانی   اور مظلوم اقوام کے حق خود ارادیت کے اعلانات پر یقین کرنے لگی تھی۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد بلادِ شام اور فلسطین کی تولیت (trusteeship) کا سوال اُٹھا، تو ان ممالک کے نمایندوں نے فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں امریکا کو حکمرانی کا اختیار (مینڈیٹ ) دینے کا مطالبہ کیا، جسے یورپ کی بعض دیگر قوتوں نے منظور نہ کیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء) کے بعد فضا بدلنی شروع ہوئی۔ امریکا نے عالمی بالادستی کے عزائم ظاہر کیے تو اس پر اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ پھر اسرائیل کے قیام میں امریکا کے سخت منفی کردار نے اس اعتماد کو بالکل ہی چکنا چور کردیا۔ وہ وقت اور آج___یہ بے اعتمادی بڑھتے بڑھتے بے زاری اور نفرت کا روپ دھارنے لگی۔ سرد جنگ (۱۹۴۶ء-۱۹۹۱ء) میں امریکا کے کردار اور سامراج دشمنی کی عالمی تحریکوں نے بھی اس نفرت کو پروان چڑھانے میں ایک کردار ادا کیا۔ تاہم، جو چیزیں اس کی اصل وجہ بنیں، وہ امریکا کے عالمی عزائم اور مسلم دنیا میں ایک ناجائز ریاست قائم کرنے کے لیے اسرائیل کی پشت پناہی، قوم پرستی کی تحریکوں کی سرپرستی، عالمِ اسلام کے معاشی، خصوصیت سے تیل اور انرجی کے وسائل پر قبضہ اور ان کا امریکا اور مغربی اقوام کے مفاد میں استعمال تھا۔ پھر اس عمل کے لیے ہرملک میں اپنے پٹھو تیار کرنا اور آمروں کے ذریعے مسلمانوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ جو بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے  وہ یہ ہے کہ اس مخالفت اور بے زاری کا سبب امریکا کا نظامِ حکومت اور جمہوریت کی وہ اقدار ہرگز نہ تھیں، جن کا نام لے کر امریکی قیادت اور خصوصیت سے صدربش نے دنیا پر یلغار کی تھی،بلکہ  اصل وجہ امریکا کی پالیسیاں اور اس کا سامراجی اور ظالمانہ رویہ تھا، اور جب تک ہرسطح پر اس حقیقت کا صحیح ادراک نہیں ہوجاتا اور پالیسیوں اور رویوں کی تبدیلی کا اہتمام نہیں ہوتا، تعلقات میں  بنیادی تبدیلی ناممکن ہے۔

ان حالات کا معروضی تجزیہ یونی ورسٹی آف پنسلوانیا میں علمِ سیاست کے دو پروفیسروں۲؎ نے پیش کیا ہے، ہر دو حضرات نے نائن الیون سے ۱۶سال پہلے ۱۹۸۵ء میں امریکا مخالفت کے اس آتش فشاں کی نشان دہی کی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں جو   لاوا پک رہا ہے وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ ان کی نگاہ میں بجاطور پر امریکا کی مخالفت کے رجحان کی اصل وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں اور عملی سرگرمیاں تھیں جن کے نتیجے میں امریکا سے دنیا کی اچھی توقعات خاک میں مل گئیں، امید کی شمع گل ہوگئی اور مایوسی اور بے زاری نے بغاوت اور تصادم کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۸۸ء ہی میں امریکا کے ایک سابق سفیر رچرڈ بی پارکر نے کہا تھا:

امریکیوں اور امریکی علامات کے خلاف تشدد علاقے میں امریکی پالیسی کے خلاف ردعمل تھا، اس لیے کہ یہ پالیسی حکمت عملی کا لحاظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ داخلی مفادات اور امریکا کے اندر توازنِ اقتدار اور فوجی صنعتی کمپلیکس کے دبائو کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔۳؎

ان تمام محققین کی نگاہ میں: ’’امریکا کے خلاف ردعمل ان ملکوں کا امریکی پالیسی اور معاشی سرگرمیوں سے مایوسی کا نتیجہ تھا‘‘۔

امریکا سے یہ مایوسی اور بے زاری تو نائن الیون سے بہت پہلے موجود تھی، البتہ نائن الیون کے بعد اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک کے تمام راے عامہ کے سروے، مسلم عوام کے ان جذبات کے عکاس ہیں۔ امریکی ادارے The Pew Global Attitude Project کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتی ہے:

۲۰۰۰ء کے بعد سے امریکا کے لیے پسندیدگی کی شرح ان ۲۷ ممالک میں سے ۱۹ میں گرگئی ہے جہاں رجحانات معلوم کیے جاسکے ہیں… امریکا کے بارے میں راے عامہ شرق اوسط میں بڑے پیمانے پر منفی ہے۔ اُن ممالک میں بھی جہاں حکومت کے امریکا سے قریبی تعلقات قائم ہیں، یعنی اُردن، ترکی، پاکستان، وہاں بھی قابلِ لحاظ اکثریت امریکا کے خلاف راے رکھتی ہے۔

دی پیو (Pew)، گیلپ انٹرنیشنل، زوگبی (Zogby) تینوں کے سروے مسلسل یہ نتائج سامنے لارہے ہیں کہ تمام ہی مسلم دنیا میں، بیش تر ترقی پذیر ممالک میں اور کچھ یورپی ممالک خصوصیت سے فرانس اور اسپین میں، امریکی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کے خلاف بے زاری کی   لہر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ خود مصر میں جہاں امریکی صدر اوباما نے ۴ جون ۲۰۰۹ء کو خطاب کیا ہے، آبادی کے ۶۷ فی صد کی نگاہ میں پوری دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا میں امریکا کا کردار منفی ہے۔ ۷۶فی صد کی نگاہ میں امریکی حکمران مسلم دنیا کو بانٹنے اور کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔

لندن کے جریدے New Statesmen کی ۴ جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں عالمِ اسلام کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا:

افغانستان اور عراق پر تباہ کن حملوں اور قبضے کے آٹھ سال، ایران اور شام کے خلاف تندوتیز لفظی حملے، لبنان اور غزہ پر اسرائیلی بم باری کی امریکی حمایت نے دنیا کے  ۳ء۱ ارب مسلمانوں میں امریکا کے خلاف نفرت پیدا کر دی ہے۔ بش کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے پہلے دن سے پوری دنیا میں مسلمانوں کو امریکا کے خلاف کر دیا اور امریکا دشمن احساسات کی سطح کو بہت بڑھا دیا۔ مثال کے طور پر زوگبی پول کے مطابق ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان امریکا کے خلاف منفی رویہ رکھنے والوں کا تناسب ۷۶ سے ۹۸ فی صد ہوگیا، یعنی تقریباً پورا ملک۔

نومبر ۲۰۰۷ء کی امریکی حکومت کی ایک رپورٹ (جسے امریکی فوج کے اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کے ایک ماہر اینڈریو لارنس نے تیار کیا ہے) تلخ مگر حقیقت پر مبنی نتیجہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کے خلاف دہشت گردی کے واقعات سے مسلم دنیا میں یہ احساس فروغ پارہا ہے، کہ انھیں   وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے، اور اس روز افزوں احساس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مایوسی اور   بے زاری و بے اطمینانی میں اضافہ ہوا ہے:

امریکا کی پالیسی اور حکمت عملی نے مسلم دنیا میں قول و فعل کے درمیان اعتماد کا خلا پیدا کردیا ہے۔ (The Global War on Terrorism، نومبر ۲۰۰۷ء)

اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ: حالیہ قومی پالیسیاں اور اقدامات درحقیقت کم نہیں بلکہ زیادہ انتہاپسند پیدا کر رہی ہیں۔

ہم نے صدر اوباما کی تقریر پر گفتگو کرنے سے پہلے، اس پس منظر کے اہم خدوخال پر توجہ مرکوز کرانا اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ اس کے ادراک کے بغیر نہ وقت کے چیلنج کو صحیح طرح سمجھا جاسکتا ہے، اور نہ مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ امریکی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلم دنیا کے حکمران جو بھی کہیں، یا ان کے زیراثر جو کچھ بھی کریں، اصل معاملہ مسلم عوام ہی نے طے کرنا ہے۔ ان کے احساسات، خدشات اور توقعات کو سمجھے بغیر اور ان کے صحیح فہم و ادراک کے بغیر یک طرفہ طور پر نہیں بلکہ مشترک مقاصد اور مفادات اور حقیقی مشاورت پر مبنی اتفاق باہمی پر مبنی حکمت عملی بنانے کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو خوش کن الفاظ اور ڈرامائی حرکات سے حالات کا سدھار ممکن نہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا، خصوصاً مسلم دنیا میں امریکا کو جو اعتماد اور تائید ایک وقت حاصل تھی، اب اس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہا ہے اور جب تک اعتماد کی نئی فضا نہ پیدا کی جائے، ایک ایسی فضا جو خواہشات اور ظاہری تکلفات کے مقابلے میں حقیقی مسائل کے ادراک اور برابری کی بنیاد پر مبنی ہو اور جب تک ایک دوسرے کے مقاصد اور مفادات کو دیانت داری کے ساتھ اور حقیقی تناظر میں نہ سمجھا جائے اور کسی بھی قسم کے دبائو کے بغیر تعاون کے نقشۂ کار کو سامنے نہ لایا جائے، اس وقت تک تقریریں اور وعظ لاحاصل رہیں گے۔

اوباما کے انتخابی وعدے

صدر بارک حسین اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں حسب ذیل وعدے کیے تھے، جن کی یاد دہانی ضروری ہے:

ا-  بش کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ان میں تسلسل کے بجاے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

ب- دہشت گردی کا مقابلہ محض قوت کے استعمال سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ان اسباب کو دُور کرنا ضروری ہے، جن کے نتیجے میں دنیا دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی ہے، نیز یہ کہ دل و دماغ کی تسخیر اور خیالات اور افکار کی ہم آہنگی کے بغیر اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔

ج- عالمی امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب دنیا میں قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اور ان اصولوں کی طرف مراجعت ہو، جو انسانیت کی مشترک میراث اور [اس کے خیال میں] امریکی دستور کی اساس ہیں۔ قانون اور انصاف کے اصولوں سے انحراف کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس کی تبدیلی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔اس کے لیے گوانتانامو جیسے تعذیب خانوں کو بند کرنا ہوگا اور تشدد اور تعذیب کے تمام حربوں سے اجتناب ضروری ہے۔

د- امریکا کو مسلمانوں کے دل جیتنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی اور ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں، ان کی تلافی ضروری ہے [اس سلسلے میں اوباما نے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا اور ایران، لبنان اور شام وغیرہ کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا]۔

ھ- قوموں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حاکمیت کا احترام کیا جائے۔ بش دور کی یک رُخی مہم جوئی سے اجتناب کا پیغام بھی دنیا کی اقوام کو دیا گیا۔

انتخابی مہم کے دوران میں اوباما کے ان اعلانات سے امریکا اور پوری دنیا میں، خاص طور پر مسلم دنیا میں جو پچھلے ۶۰، ۷۰ سال کے بالعموم اور بش کے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں خاص طور پر امریکا کی جنگ جو مہم کاریوں کا نشانہ بنی ہوئی تھی ، اُمید کی ایک مدھم سی کرن روشن ہوئی تھی۔

صدر اوباما نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اپنے اقتدار کے پہلے ۱۰۰ دنوں ہی میں وہ مسلم دنیا سے تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کریں گے۔ حلفِ صدارت کے فوراً بعد انھوں نے العریبیہ ٹیلی وژن کے نمایندے کو انٹرویو دیا۔ ۱۰۰ دن کے دوران ہی میں مئی ۲۰۰۹ء میں ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ: ’’امریکا، اسلام سے برسرِ جنگ نہیں‘‘۔ ۴ جون ۲۰۰۹ء کو جامعہ قاہرہ اور جامعہ الازہر کے پلیٹ فارم سے اُمت مسلمہ سے خطاب کیا اور اسے: ’’اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے نئے آغاز کا نام دیا‘‘۔ اس تقریر پر اس کی اہمیت کے اعتبار سے مسلم دنیا ہی میں نہیں دنیا کے ہر گوشے میں بحث و گفتگو ہورہی ہے۔ ہم بھی اسے ایک اہم پیش رفت سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا بے لاگ اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر خلوص اور دیانت سے اُمت مسلمہ سے دوستی اور تعاون کے لیے کہیں سے بھی کوئی ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ یہی ہماری روایت اور تاریخ ہے، لیکن یہ سارا کام آنکھیں کھول کر اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کے ادراک اور اظہار کے ساتھ کرنا چاہیے کہ اصل چیز قول نہیں، عمل ہے، اور مسلمانوں کو تو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔

صدر اوباما کے خطاب میں دوسرے امریکی صدور اور خصوصیت سے ان کے پیش رو  جارج بش کے اندازِ گفتگو کے برعکس مفاہمت کی زبان استعمال کی گئی، اور تعلقات میں باہمی مفادات اور ایک دوسرے کے احترام کی بات بار بار کی گئی ہے۔ اگر یہ محض رسمی وعظ نہیں ہے تو قابلِ قدر ہے۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس تقریر کو ’’ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ‘‘ قرار دینا مشکل ہے۔ اس لیے جہاں ہم محتاط انداز میں نئے دور کی تلاش کے اعلانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ صرف خوش نما الفاظ سے اس خلیج کو پاٹنا ممکن نہیں ہے، جو پوری ایک صدی کے تلخ تجربات کی پیداوار ہے۔ دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا، صدر اوباما کے ارشادات کو پالیسی کی تبدیلیوں اور عمل کی میزان پر دیکھے، پرکھے اور جانچے گی۔

ہمارا پہلا تاثر یہ ہے کہ اس تقریر میں خوش نما الفاظ اور جوشِ خطابت کا پلڑا بھاری ہے اور بنیادی امور اور مسائل کے بارے میں واضح پالیسی کے خطوط کار اور متعین تبدیلیوں کا سراغ دُور دُور نظر نہیں آتا۔ امریکا کی قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا وہ دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام، اور خصوصیت سے مسلم دنیا سے اصول، حق و انصاف اور معتبر مفادات اور آزادی اور عزت کے احترام کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتی ہے، یا اصل ہدف اور مقصد تو فقط امریکی مفادات کا حصول ہے، اور اس کے لیے ایک نئے انداز اور اسلوب سے معاملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی تبدیلی کا اشارہ دیا جاتا ہے اور پھر جلد ہی پرانی شراب، نئی بوتلوں میں پیش کردی جاتی ہے۔ بیش تر اساسی امور پر پالیسی کی تبدیلی کی طرف کوئی واضح اقدام تو کیا غیرمبہم اشارہ بھی نہیں دیا جاتا اور ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسٹائل اور اندازِ گفتگو کی تبدیلی سے مطلوبہ تبدیلی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں۔ محض ذاتی جذبات و احساسات پر مبنی خیالات پہ قوموں اور تہذیبوں کے مسائل کو نہ ماضی میں حل کیا گیا ہے اور نہ آج ممکن ہے۔

خطاب کے مثبت پھلو

صدر اوباما کے اس خطاب میں جو مثبت چیزیں ہمیں نظر آئیں پہلے ان کا ذکر مناسب ہوگا:

پہلی بات یہ ہے کہ صدر اوباما، مسلمانوں سے ربط اور تعلق کو بہتر بنانے اور صدربش کی ناکامی، نفرت اور تصادم پیدا کرنے والی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان پالیسیوں کی ناکامی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے، لیکن ان کے تسلسل کے نتیجے میں خطرات اور قباحتوں سے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ ایک جانب وہ ان سے نکلنے کے اشارے بھی دے رہے ہیں، مگر امریکی مفادات اور امریکی مقتدرہ اور ہیئت حاکمہ کی سوچ کے حلقۂ زنجیر سے نکلنے کا کوئی واضح عندیہ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے اپنے ایک مضمون (نیویارک ٹائمز ،۳ جون ۲۰۰۹ء) میں ان کی تقریر سے ایک دن پہلے   ان کے اس مخمصے کا دل چسپ بیان کیا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ضروری ہے:

اوباما کا مخمصہ یہ ہے کہ کوئی تقریر خواہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو، عراق، افغانستان، پاکستان، ایران اور شرق اوسط کے حالیہ واقعات کے زیرِاثر امریکا مسلم تعلقات کی صورت حال سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ اس کا امکان کم ہے کہ صدر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان کرسکیں، اس لیے کہ ان کو مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ حالیہ جاری پالیسی کو نئی روشنی میں دیکھیں۔

میڈلین آل برائٹ نے ایک جملے میں اصل مسئلے کو پیش کر دیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ موجودہ پالیسیاں ہی جاری رہیں، مگر انھیں ’نئے جامے‘ میں پیش کیا جائے، جب کہ اصل مسئلہ پالیسیوں کی تبدیلی کا ہے۔ انھیں نئی تزئین و آرایش سے پیش کرکے قابلِ قبول بنانا ممکن نہیں۔

اس بنیادی وضاحت کے بعد ہم جن چیزوں کا خیرمقدم کرتے ہیں وہ یہ ہیں:

۱- مسلمانوں سے بحیثیت مسلمان بات کا آغاز کرنے کی کوشش اور کم از کم اس امر کا اظہار کہ امریکا، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں اور تہذیبوں کے تصادم کے فریم ورک میں جو پالیسیاں اور اقدامات کیے جارہے ہیں، ان پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام کی جو مرکزی اہمیت ہے، اس کا کچھ نہ کچھ احساس صدر اوباما کو ہے اور وہ امریکا کی پالیسیوں پر نیا چہرہ سجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر اوباما کی اس تقریر میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بش کی محبوب و مرغوب اصطلاحات کا کوئی ذکر نہیں۔

وہ پُرتشدد انتہا پسندی (violent extremism) کا بار بار ذکر کرتے ہیں مگر دہشت گردی کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کرتے۔ اگر یہ صرف اظہارِ بیان کی تبدیلی ہے، جس کا خطرہ اور امکان غالب ہے، تو اس لیپاپوتی اور ظاہری ٹپ ٹاپ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر    یہ پورے مسئلے پر ازسرِنو غور کرنے کی طرف پہلا قدم ہے تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

۲- اس تقریر میں کم از کم اس بات کا اعتراف ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے مسلم ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، اور اس سیاسی کھیل میں مسلمانوں کے اپنے عزائم اور خواہشات و مفادات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی اصلاح کے لیے اب مشترک مفادات اور باہمی احترام کے رویے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایک جنگی حربے کی تبدیلی پر مبنی عمل جیسی چال ہے تو اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن اگر یہ حکمت عملی کی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے تو اس سے کچھ خیر رونما ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ ہم اسے بہ یک جنبش رد نہیں کرسکتے۔ احتیاط سے اس احساس کو تبدیلی کی طرف لے جانے والے عمل کا حصہ بنانے کے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

۳- صدر اوباما کی طرف سے سچ بولنے کی کوشش اور دل کی بات کو زبان پر لانے کی دعوت بھی اپنے اندر مثبت پیغام رکھتی ہے۔ البتہ اس کا اطلاق محض کسی ایک فریق پر نہیں، تمام متعلقہ فریقوں پر ہونا چاہیے اور مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔

۴- صدر اوباما کی اس تقریر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے حکمرانوں کے مقابلے میں مسلم دنیا کے عوام کو اپنا مخاطب بنایا ہے، اور اسلام کو مسئلے کا ایک حصہ نہیں بلکہ مسائل کے حل اور امن و سلامتی کے حصول کی جدوجہد میں ایک مثبت عامل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ بھی اگر زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے، تو اس ہلکے سے اشارے کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مسلمان اُمت کی اصل حیثیت ایک داعی اور صاحب ِ دعوت اُمت کی ہے اور تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ (آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۶۴) کے اصول پر ہمیں ہررونما ہونے والے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

۵- صدر اوباما نے بار بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ اسلام، امریکا کے لیے غیر نہیں اس کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قاہرہ کے خطاب میں انھوں نے امریکا میں مقیم ۷۰ لاکھ مسلمانوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے چند دن بعد ہی ڈان کے نمایندے کو دیے جانے والے انٹرویو میں ۵۰لاکھ کی بات کی ہے، جو ناقابلِ فہم ہے۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کو امریکی معاشرے کا حصہ تسلیم کرنا اور مساوی بنیادوں پر ان کے کردار کا لفظی اظہار بھی نائن الیون کی مسموم فضا میں وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ بات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہے گی اور مسلمانوں کے لیے امریکا میں جو بے اعتمادی، شک اور تعصب اور امتیازی رویے (discrimination) کی فضا بنا دی گئی ہے، وہ ختم کردی جائے گی۔ انھیں آزادی اور اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع حاصل ہوگا۔

صدر اوباما نے اس تقریر اور تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی دعوت کے لیے مصر کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ مصر میں ۳۰سال سے ایک ایسی امریکا کی تابع مہمل حکومت قائم ہے جو آمریت کی بدترین مثال ہے اور اپنی ہی قوم کو جبر و استبداد کی تاریکی میں لپیٹے ہوئے ہے۔ مصر ہی کے ایک معروف دانش ور سعد الدین ابراہیم نے مصر کو منتخب کرنے پر اس بنیاد پہ اعتراض کیا کہ: ’’وہاں جمہوریت کا قتلِ عام ہو رہا ہے، تو مصری حکومت نے ان کی آواز کو دبانے کے لیے قوت کا استعمال کیا اور انھیں جیل میں دھکیل دیا۔ صدر اوباما کی جانب سے اس شہر کے انتخاب پر ایک مدت تک اضطراب کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔

حقائق سے پھلوتھی

صدر اوباما نے حالات کا جو تجزیہ کیا ہے، وہ بھی کئی پہلوئوں سے محلِ نظر اور حقائق کے صحیح ادراک سے عاری نظر آتا ہے، مثلاً ان کا یہ دعویٰ کہ جدیدیت اور عالم گیریت کی لائی ہوئی    بڑے پیمانے پر تبدیلی کے نتیجے میں بہت سے مسلمانوں نے مغرب کو اسلام کی روایات کے دشمن کے طور پر دیکھا___ ایک باطل مفروضہ اور ساری بحث کو خلط مبحث کی نذر کرنے کی بدترین مثال ہے۔ جدیدیت اور عالم گیریت کے اپنے مسائل ہیں، اور دنیا کی تمام ہی اقوام ان کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے نبردآزما ہیں، مگر ان کو مغرب کے خلاف بغاوت کی وجہ قرار دینا فکری و ذہنی فساد کے سوا کچھ نہیں۔ اصل ایشو امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی پالیسیاں اور مسلم ممالک کے وسائل کا استحصال ہے، نیز اسلامی احیا کی تحریکوں کو کچلنے اور مسلم ممالک پر اپنے من پسند حکمرانوں کو مسلط کرنے اور ان حربوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک نئی غلامی کے جال میں گرفتار کرنے کی قابلِ مذمت پالیسی ہے۔ آج بھی دنیا کے ۴۰ سے زائد ممالک میں امریکا کی کئی لاکھ افواج موجود ہیں۔ سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلامی اور محکومی وہ اصل سبب ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم کا دور دورہ ہے اور مسلم ممالک امریکا کے براہِ راست قبضے یا کہیں بالواسطہ قبضے کا شکار ہیں۔

اسی طرح دہشت گردی کے نام پر، اور اب نام بدل کر انتہا پسندی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے عنوان سے جو جنگیں امریکا نے مسلم دنیا پر مسلط کی ہوئی ہیں، اور جن کے نتیجے میں مختلف نوعیتوں کی قتل و غارت گری برپا ہے اور جس درجہ مسلم ممالک کو تباہی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، ان سب زیادتیوں کا مداوا محض دوستی اور احترام کے خوش نما الفاظ سے ممکن نہیں۔

صدر اوباما نے سچ بولنے کی تلقین کی ہے اور اس سلسلے میں قرآن کی ہدایت کا بھی تذکرہ  کیا ہے، مگر ہر اہم موضوع پر جس کا انھوں نے ذکر کیا ہے، وہ خود سچ اور پورے سچ کی راہ صواب سے بہت دُور رہے ہیں۔ حماس کے کمزور اور ناپختہ میزائلوں پر ان کی تقریر دل پذیر اور اسرائیل  کے حملوں، غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر امریکا کے فراہم کردہ ایف ۱۶ سے حملے،   میزائلوں کی بارش، بھاری توپ خانے سے بم باری، اور غزہ کی پوری آبادی کی ایسی ناکہ بندی کہ اشیاے ضرورت اور خوردونوش کے سامان سے بھی محرومی مقدر بنا دی گئی___ یہ سب ظالمانہ اور چنگیزی کارروائیاں نہ صدر اوباما کو نظر آئیں اور نہ ان کی تقریر میں کوئی جگہ پاسکیں۔ حماس کو انھوں نے لیکچر پلایا کہ تشدد کا راستہ ترک کردیں، لیکن اسرائیل کے ریاستی تشدد اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قابضین (settlers) کے تشدد کا کوئی خیال تک ان کو نہیں آیا۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور اس وجہ سے انھیں اس علاقے میں ایٹمی دوڑ کا خدشہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کے ۲۰۰ سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ان کی پیشانی پر شکن پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ کیا دنیا یہ بھول گئی ہے کہ لبنان میں ۱۹۸۲ء کے دوران اسرائیل کے حملے میں ۱۷ہزار ۵سو عام شہری جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد تھی، شہید کیے گئے؟ کیا صبرااور شاتیلا کے ان ۱۷۰۰ معصوم انسانوں کے بے دردانہ قتلِ عام کو دنیا بھول گئی ہے؟ کیا ۱۹۹۶ء میں ۱۰۶ لبنانی عام شہریوں کے، جن میں نصف بچے تھے، قتل کا خون اسرائیل کے ہاتھوں پر نہیں؟ کیا ۲۰۰۶ء میں فلسطینیوں کے مہاجرین کیمپ سے اسرائیلی حکم پر سیکڑوں افراد کا انخلا، اور پھر اسرائیلی ہیلی کاپٹروں سے ان کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا واقعہ قابلِ ذکر نہیں؟ اور کیا ۲۰۰۶ء میں لبنان میں ایک ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنا اور ۲۰۰۸ء میں غزہ میں ۱۳۰۰ کی شہادت کسی شمارقطار میں نہیں؟ اگر صدراوباما کو یہ سب نظر نہیں آتا تو پھر ان کی طرف سے انصاف کی دہائی اور صدق بیانی کی تلقین پر کون یقین کرے گا؟

صدر اوباما افغانستان میں جنگ کو ’مجبوری کی جنگ‘ (war of necessity) قرار دیتے ہیں اور عراق میں فوج کشی کو ’مرضی کی جنگ‘ (war of choice)کہتے ہیں۔ لیکن جس جھوٹ پر اور جن واہموں پر ان تمام جنگی کارروائیوں کا انحصار ہے، ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ عراق میں مستقل قیام چاہتے ہیں اور نہ افغانستان میں، لیکن عملاً دونوں ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے اور پاکستان کو بھی اپنی فوجی جاگیر میں شامل کرنے کے تمام اقدامات کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں، اور ان ممالک پر اپنے احسانات کا بوجھ ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ عراق سے واپسی کی باتیں ۲۰۱۲ء کی خبر لارہی ہیں اور افغانستان میں دسیوں سال قیام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان عملی کارروائیوں کے ساتھ انخلا کی حکمت عملی کی بات بھلا کیا مناسبت رکھتی ہے۔

تین ماہ پہلے پاکستان کو چند مہینوں اور چند ہفتوں کا مہمان کہا جا رہا تھا، اور اب پاکستانی حکومت اور فوج نے ان کے احکام کی تعمیل میں اپنی قوم کو جس جنگ میں جھونک دیا ہے اس سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچ رہی ہے اور اب پاکستان ان کو مستحکم ہاتھوں میں نظر آرہا ہے۔ صدراوباما کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ خوش کلامی کا نہیں، امریکا کی پالیسیوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہ کاریوں کا ہے اور جب تک امریکا اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے جنگی جنون سے باز نہیں آتا، عالمِ اسلام سے تعلقات کی درستی کا خواب ’اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے‘ سے زیادہ نہیں۔ عالمِ اسلام کے زخم حسین الفاظ اور خاندانی رشتوں کے تذکرے سے مندمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے پالیسیوں کی تبدیلی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔

اسرائیل جو مظالم بھی ڈھا رہا ہے وہ امریکا کی اشیرباد اور سیاسی اور مالی مدد کی وجہ سے ہے۔ اوباما صاحب نے نئے یہودیوں کی نئی آبادکاری کے خلاف بات کی ہے، لیکن اصل مسئلہ تو اسرائیل یا فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے اور اپنی سرحدوں کو محض طاقت کے بل بوتے پر بڑھانا اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنا ہے۔ امریکی صدر کو اسرائیل کے وجود اور سلامتی کی تو فکر ہے اور ان کے ’اساطیری حقِ واپسی‘ (mythical right of return) پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی اور اپنے گھروں میں واپسی کا حق موصوف کو دُور دُور نظر نہیں آتا، جب کہ اسرائیل کو اس کھیل کے جاری رکھنے کے لیے امریکا نہ صرف ہرسال اربوں ڈالر دے رہا ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۴۰ سے زیادہ بار ویٹو کا حق بھی استعمال کرچکا ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں سے گلہ ہے کہ وہ ظالم کے خلاف کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما نے کشمیر کا ذکر کیا تھا اور خصوصی نمایندہ مقرر کرنے کی بات بھی کی تھی، مگر اب وہ سب بھول گئے ہیںاور بھارت کو علاقے کا لیڈر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان پر سارا دبائو ہے اور ’ایفپاک‘ (Af-Pak) کے شرمناک تصور کے تحت پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں اور سبق پڑھا رہے ہیں سچ اور انصاف کا___ اس پس منظر میں محض الفاظ پر بھلا کون یقین کرے گا؟

امریکا کی ٹفٹ یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر گیری لیوپ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بش کی پالیسیوں کو پاکستان کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ قرار دیا ہے، جن پر امریکا کی موجودہ قیادت کامل یکسوئی کے ساتھ عمل کر رہی ہے اور زرداری حکومت ان کی پوری گرفت میں ہے۔  صدر اوباما کے سینے میں اگر سچ سننے کا دل دھڑک رہا ہے، تو پروفیسر گیری لیوپ کے ان الفاظ پر غور کریں۔ وہ کب تک اصل اسباب پر پردہ ڈالتے رہیں گے:

بش کی انتظامیہ نے مشرف پر دبائو ڈالا کہ سرحدی صوبوں میں پاکستانی فوج کو تعینات کرے جہاں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں لگائی گئی تھی، جہاں اس کی محض موجودگی ہی اشتعال انگیز سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۰۵ء کا امن معاہدہ ہوا جس میں حکومت نے سرحد کے ساتھ فوجی چوکیاں ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بدلے میں قبائلی لیڈروں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ شدت پسندی کی حمایت ختم کردیں گے اور افغانستان کی سرحد سے آمدورفت کو روکیں گے۔ یہ حکومت کے لیے ایک طرح سے  باعزت شکست تھی جس پر امریکا نے تنقید کی۔ بعد میں جنگجوئوں سے کیے جانے والے سارے معاہدے ٹوٹ گئے، جیساکہ فروری میں سوات کا معاہدہ۔

بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان پر ایسی دہشت گردی مسلط کر دی ہے جس کا انجام نظر نہیں آتا۔ اوباما کی افغانستان پاکستان (Af-Pak) جنگ میں زیادہ فوجیں، زیادہ ڈرون حملے اور ’تقسیم کرو حکومت کرو‘ جیسی تدابیر سے بھی کامیابی کی کم اُمید ہے۔ امریکی افسران یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ واقعی حیران ہیں کہ پاکستانی زیادہ نہیں کر رہے۔ پاکستانی حیران ہیں کہ وہ کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باہر رہ کر اندر دیکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ امریکی استعمار کے مفادات مذہبی، قومی اور نسلی احساسات کو ختم نہیں کردیتے۔ مقامی لیڈروں کے لیے چاہے وہ استعمار کے تنخواہ یافتہ ہوں ممکن نہیں ہے کہ مقامی مزاحمت کو ختم کریں اور امن پیدا کریں۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، امریکی استعمار اور جس طرح یہ   کیا گیا، اس نے پاکستانی آبادی کے بڑے حصے کو ناراض کر دیا ہے۔ یہ واشنگٹن کا اسلام آباد کے لیے غیر مطلوب تحفہ ہے جس کے لیے اسلام آباد کو برابر ادایگی کی جارہی ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

الحق مرٌّ (سچ کڑوا ہوتا ہے) لیکن سچائی کو جانے بغیر اصلاح کا کوئی امکان نہیں اور جو پالیسی حقائق کو نظرانداز کرکے بنے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

صدر اوباما نے گوانتانامو کے تعذیب خانے کو بند کرنے کا اعلان بڑے طمطراق سے کیا تھا، مگر امریکی کانگریس میں اسے بند کرنے کے لیے جو بل پیش کیا گیا، اسے بھاری اکثریت سے جن میں ان کے اپنے ڈیموکریٹ ووٹ بھی شامل تھے، رد کر دیا گیا ہے۔

تحقیقات میں تعذیب (torture) کے استعمال کی صدر اوباما نے سختی سے نفی کی ہے، مگر انھی کی ٹیم کے افسران وہی بش والے دلائل دے رہے ہیں۴؎  اور ’معلومات کے حصول کے قانون کے تحت بش دور کی تعذیب پر مبنی جو تصاویر حاصل کی گئی تھیں‘ خود ان کی حکومت نے ان کی اشاعت کو روک دیا ہے۔ ان حکام کا کوئی احتساب ایجنڈے پر نہیں، جو گذشتہ آٹھ سالوں میں ان تعذیبی ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ قول اور عمل میں اگر مطابقت نہ ہو تو پھر اخلاقی وعظ اور نیک تمنائوں کی دل پذیر تقاریر کو کون سنے گا اور ان پر کون اعتماد کرے گا؟

صدر اوباما کی تقریر پر لندن کے اخبار دی گارڈین کے ادارتی تبصرے کا ایک جملہ دسیوں صفحات پر پھیلے ہوئے تبصروں پر بھاری ہے:

یہ ایک ایسے شخص کی جو بلاشبہہ اپنے مقاصد کے لیے مخلص ہے، دبنگ تقریر تھی۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوتی ہے یا نہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ خیالات کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرسکتا ہے یا نہیں۔ (اداریہ، دی گارڈین، ۵ جون ۲۰۰۹ء)

ایک اور عرب دانش ور رامی خوری (Rami Khouri) جو لبنان کے The Star کا مدیر اور امریکن یونی ورسٹی آف بیروت کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کا ڈائرکٹر ہے، عرب اور مسلم عوام کے دل کی آواز کا یوں اظہار کرتا ہے:

بُری خبر یہ ہے کہ اس میں سے کوئی بات بھی نئی نہیں ہے۔ انھوں نے کوئی ایسا ٹھوس اشارہ نہیں دیا کہ امریکی پالیسی کے اصولوں کا یہ اعلان پالیسی میں عملاً تبدیلی پر منتج ہوگا۔ عرب اسلامی دنیا کے لیے امریکی پالیسیوں میں جو بنیادی تضادات اور بے حسی ہے، وہ اسی کا اظہار کرتے رہے، اور اس پر قائم تھے کہ واشنگٹن کا ایجنڈا اسامہ بن لادن طے کرے۔ اس ایجنڈے میں معقول پالیسیاں اختیار کرنے کے بجاے اکثر اسلام کا خبط فیصلہ کن ہوتا ہے۔

امرِواقعہ یہ ہے کہ قاہرہ میں اوباما کی تقریر میں بیان کردہ ہراچھے اصول کی تردید پورے علاقے میں امریکی پالیسی سے ہوتی ہے لیکن اس سے دورے کی اہمیت یا تقریر میں اس کے خیالات کی امکانی قوت کم نہیں ہوتی۔

ہم دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ امریکا حقائق کو ان کے اصل رنگ میں دیکھے اور مفاد، دھونس اور سامراج کی عینک اُتار دے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے پاکستان اور مسلم دنیا کی دوستی چاہتے ہیں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب مفاد پرستی کی راہ کو ترک کرکے حق و انصاف کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کی مخلصانہ کوششیں ہوں، اور عملاً ان پالیسیوں اور منصوبوں کو ترک کیا جائے جو حالات کو بگاڑنے کا سبب بنے ہیں۔ جب تک یہ تبدیلی واقع نہیں ہوتی، دل پذیر تقریروں سے مصائب کو ٹالا نہیں جاسکتا، اور جنگ کی آگ کو خوب صورت الفاظ سے بجھانا ممکن نہیں۔ مرزاغالب نے ایسے ہی قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر کہا تھا    ؎

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا


میاں طفیل محمد رحمۃ اللہ علیہ

___جنھوں نے اللہ سے اپنا عہد سچا کر دکھایا!

موت برحق اور ہر انسان کا مقدر ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العالمین کی ہے___ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں دل یہی چاہتا ہے کہ وہ ہم سے کبھی رخصت نہ ہوں۔ تاہم، انسانی خواہشات اپنی جگہ اور اللہ کا قانون اپنی جگہ۔ بلاشبہہ ہر ذی نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے، البتہ کامیاب وہ ہے جس نے زندگی اس طرح گزاری ہو کہ کبھی کسی کو تکلیف نہ دی ہو، جس کی محبت اور مخالفت کا معیار اللہ کی رضا، اس کے دین سے وفاداری، اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی سربلندی ہو، اور جس کی موت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدوفا پر واقع ہوئی ہو، اور جس کی نیکیاں اس کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی   صدقۂ جاریہ کی شکل میں جاری و ساری رہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اپنے محترم قائد، محسن اور رہنما میاں طفیل محمد صاحب کو جن کی سرپرستی میں زندگی کے ۶۰ سال گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی، میں نے اللہ کا ایک مخلص بندہ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق اور ان کی رضا اور خوش نودی کو زندگی کی ہردوسری مصلحت پر مقدم رکھنے والا، اُمت کا خیرخواہ، جماعت اسلامی کا وفادار اور خادم، مولانا مودودیؒ کا مخلص ترین ساتھی اور محبت و شفقت کا پیکر پایا۔ وہ صبرواستقامت کے کوہِ گراں اور اخلاص و خیرخواہی میں سب سے آگے تھے۔ دورِحاضر میں ان کی زندگی اسلاف کا ایک نمونہ تھی۔

جوانی میں مولانا مودودیؒ کی دعوت پر لبیک کہہ کر پوری زندگی اس عہدِوفا کو پورا کیا جو اگست ۱۹۴۱ء میں ایک سوٹڈ بوٹڈ وکیل نے اللہ اور اللہ کی طرف بلانے والوں کے ایک مختصر گروہ سے کیا تھا۔ بلاشبہہ انھوں نے اپنے عہد کو سچا کردکھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے ان کو سرفراز فرمائے۔ ان پر قرآن کی یہ شہادت صادق آتی ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے عہد کو سچا کردکھایا۔

میاں طفیل محمد مرحوم مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کے سب سے اہم رہنما تھے اور بلاشبہہ مولانا مرحوم کے وژن کو نظامِ جماعت کی شکل میں ڈھالنے، مردانِ کار تیار کرنے اور اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے میں اپنی نظیر آپ تھے۔ ان کی سادگی، ان کا خلوص، ان کی شفقت، ان کی بے لوثی، ان کی استقامت، ان کی للہیت، ان کا پیار___ انسان کس کس بات کا ذکر اور اعتراف کرے۔ ان کی زندگی میں ہم جیسے کمزور اور گنہگار انسانوں نے اسلام کی انسان سازی کی معجزانہ قوت کا بچشم سر نظارہ کیا، اور ایک بار پھر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلام ہر دور میں اپنے مطلوبہ انسان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

میاں صاحب کو میں نے مشکل سے مشکل حالات میں صبر اور استقامت کا پیکر پایا۔   ان کی زبان سے کبھی کسی ذاتی معاملے میں حرفِ شکایت نہیں سنا۔ امارت سے قبل، امارت کے دوران، اور امارت کے بعد ان کی زندگی کے جس دور پر نگاہ ڈالتا ہوں انھیں ایک عظیم انسان، ایک زیرک قائد، ایک روشن ضمیر مرشد، ایک اعلیٰ منتظم اور ایک شفیق باپ پاتا ہوں۔ ان کی زندگی بھی روشنی کا مینار تھی اور موت (۲۵ جون ۲۰۰۹ء) کے بعد بھی ان کی مثال ایک نمونہ اور چراغِ راہ کی رہے گی  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

 

پاکستان میں [جس صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں   ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ  ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے۔

وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی  فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔

اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔

ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔

[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....

۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس   کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔

۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔

۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....

اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔

۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....

۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔

ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے  تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے  جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔

یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)

 

قرآنِ معظم جہاں متنوع برکات کا سرچشمہ ہے، وہاں اس کی کثیرالجہتی کی بھی اپنی شان ہے۔ انھی میں ایک جہت قرآن کے تخلیقی حُسن اور ادبی اسلوب کی بھی ہے۔ اس کی ایک مثال  سورئہ اخلاص ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنا بھرپور اور جامع تعارف بیان فرما دیا ہے۔ اسی طرح حضرت انسان کا ایک بھرپور خاکہ بھی تین آیات میں بیان کر دیا ہے جس سے انسان کے ماضی، حال، مستقبل اور اس کے مزاج و ترجیحات کی ایک تصویر نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔

  •  سب سے پہلے سورئہ تین کی آیت پہ نظر کریں، جس میں چار چیزوں کی قسم کھانے کے بعد ارشاد فرمایا گیا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo (التین ۹۵:۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

قرآنِ معظم میں قادرِ مطلق کا یہ خاص اسلوب ہے کہ جہاں لوگوں کی توجہ کسی خصوصی مسئلے یا نکتے کی طرف مبذول کروانا مقصود ہو، وہاں کسی چیز کی قسم کھاکے بات کی جاتی ہے۔ یہ ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی حلف یا قسم اُٹھا کے بات کرے، اس کا ذہن فوری متوجہ ہوجاتا ہے۔ یہاں توبہ یک وقت چار چیزوں کی قسم کھا کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے اس انسان کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ یہ بات اس ہستی کی طرف سے کہی جارہی ہے جس کے ایک کُن کہنے سے پوری کائنات وجود میں آجاتی ہے، جو اس دھرتی کے سینے پہ مہیب پہاڑوں اور لامحدود سمندروں کو جمانے اور پھر انھیں روئی کے گالوں کی طرح اڑانے اور پلک جھپکتے میں خشک کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔

اب ذرا ’احسنِ تقویم‘ کے مفہوم کی جامعیت پر غور فرمایئے۔ آج تو کوئی عام سی کمپنی بھی اگر اپنی کسی معمولی سی پراڈکٹ کے بارے میں کوئی دعویٰ کرے تو وہ بالعموم سچ ثابت ہوتا ہے،  جب کہ یہاں تو یہ دعویٰ کرنے والی ہستی خود ربِ کائنات کی ذات ہے اور جس پراڈکٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ حضرتِ انسان ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس دنیا کی بڑی سے بڑی فرم یا کمپنی اپنی کسی بہتر سے بہتر پراڈکٹ کے بارے میں احسنِ تقویم جیسے دعوے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایسا بڑا بول صرف مالکِ اوّل و آخر ہی کو زیبا ہے۔

آیئے! ذرا اس مُشتِ خاک کو احسنِ تقویم کے چاک پہ چڑھا کر اشرف المخلوق بنا ڈالنے کی حقانیت پہ بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔ انسان کی عظمت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ربِ کائنات نے فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ زمین پہ اس کے لیے جمادات و نباتات و حیوانات کا پورا نظام ترتیب دیا۔ پانیوں اور ہوائوں کو اس کے تصرف میں دیا۔ بقول شاعر مشرق    ؎

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آیئے! ذرا حضرتِ انسان کے ظاہری و باطنی کمالات پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔ قادرِ مطلق نے روے زمین پر آج تک کروڑوں، اربوں، کھربوں انسان پیداکیے ہیں۔ اس طرح کہ سب کے خون کا رنگ ایک ہے۔ سب کے پاس ایک جیسا جسمانی ڈھانچا ہے۔ سب کو دو آنکھیں، دو کان، دو ہاتھ، دو ٹانگیں، ایک ناک، ایک سر اور ایک منہ سے نوازا ہے لیکن صنّاعی کا معجزہ ملاحظہ ہو کہ ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی ساخت مقرر کر دی ہے، اس سے ہٹ کے کسی انسانی ڈھانچے کا بنانا تو بہت دُور کی بات، کوئی اور ڈھانچا ذہن میں آ ہی نہیں سکتا، یعنی انسان کے جو جو اعضا جسم کے جس جس حصے پر لگا دیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تبدیلی احاطۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ یہ ہے تخلیق کا کمال___ یہ ہے احسنِ تقویم!

یہ تو ہے انسان کی جسمانی ساخت کا معاملہ اور جہاں تک اس کی ذہنی استطاعت کا تعلق ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس نے اپنے اسی ذہن کو استعمال میں لاتے ہوئے کائنات کی تسخیر کا لامحدود سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کہیں وہ دھرتی کا سینہ چیر کے معدنیات کے خزانوں کا وارث بن گیا، اور کہیں سمندر کی کوکھ سے اناج اُگانے کا رواج قائم کرنے میں کامران ٹھیرا۔ کہیں وہ پرندوں سے بہتر پرواز کرتا ہوا چاند اور مریخ میں سیندھ لگا آیا ، اور کہیں اس نے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، فیکس اور برق رفتار طیاروں کے طلسم سے انسانی سوچ سے بھی وسیع دنیا کو ایک گائوں کی طرح سکیڑ کر رکھ دیا۔ بقول اقبال    ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

وہ اپنی ایجادات کے زعم میں اتنا آگے نکل گیا کہ خالقِ کائنات سے یوں مکالمہ کرتا نظر آیا:

تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم

(آپ نے رات بنائی، میں نے چراغ بنایا۔ آپ نے مٹی پیدا کی، میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔ آپ نے بیاباں، کوہسار اور وادیاں پیدا کیں، میں نے خیابان، گلزار اور باغ بنائے۔)

یہ انسانی ذہن ہی کا کمال ہے کہ ہر طرف نئی سے نئی ایجادات کا غلغلہ ہے اور اس کا ولولہ ہے کہ کسی طور ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ کائنات ہے کہ اس کے لامختتم عزائم کے سامنے لرزہ براندام ہے۔ بھیدی بتاتے ہیں کہ ان ساری مارا ماریوں کے باوجود ابھی انسانی ذہن کا دسواں حصہ بھی استعمال نہیں ہوا۔ اسے کہتے ہیں خلقت کا حُسن___ اس کا نام ہے احسنِ تقویم!

  •  اب ذرا حضرت انسان کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل کی یہ آیت ملاحظہ ہو:

وَ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۱) انسان بڑا ہی جلدباز واقع ہوا ہے۔

انسان بحیثیت مجموعی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنے میں سہل پسند واقع ہوا ہے۔ اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے انسان کی کامیابی کا نسخہ سیدھے سادے الفاظ میں یوں بیان کیا تھا    ؎

فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

حکیم الامت نے بھی حضرت انسان کی دائمی کامیابیوں کے لیے یہی نسخہ تجویز کیا تھا کہ :

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دُور سے گردُوں کے ستارے
ناپید ترے بحرِتخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گلِ کوششِ پیہم کی جزا دیکھ

یہ ’تعمیرِ خودی‘ اور ’کوششِ پیہم‘ کیا ہے؟ یہ وہی ایجنڈا ہے جو خالقِ کائنات نے انسان کی پیدایش کے ساتھ اسے تفویض کر رکھا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان ہر دور میں اس ایجنڈے کو فراموش کرتا رہا۔ خالقِ کائنات بار بار اسے مختلف پیغمبروں اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے یاد دلاتا رہا۔ ہر زمانے میں انسان کو شرک اور فرموداتِ ربانی کی خلاف ورزی سے منع کیا جاتا رہا، اور محنت اور صبر کے میٹھے پھل کی ترغیب دی جاتی رہی لیکن یہ وقتی اور ظاہری مفادات کے حصول کے نشے میں ہمیشہ عجلت پسندی کا شکار نظر آیا۔ اس نے نفس اور شیطان کی پیروی میں ہمیشہ اپنے  فرائضِ منصبی کو پسِ پشت ڈالے رکھا۔ اس نے اپنے لکھے رزق کا انتظار کرنے کے بجاے رشوت، ملاوٹ، لُوٹ مار اور بے ایمانی کو ترجیح دی۔ اسے جہاں ذرا اختیار ملا، کچھ شوکت نصیب ہوئی، یہ خدا کا شکر بجا لانے کے بجاے خود خدا بن بیٹھا۔ کہیں سے ذرا تکلیف پہنچی تو اسے اپنے کیے کا پھل یا خدا کی طرف سے آزمایش سمجھ کر برداشت کرنے کے بجاے خدا کاشاکی بن گیا۔

زبان سے ہمیشہ یہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پکارتا رہا ، جب کہ عملاً درباروں، مزاروں اور دنیاداروں سے مدد طلب کرتا نظر آیا۔ خدا کے دیے رزق، اولاد، عزت کو دوسروں   سے منسوب کرتا دکھائی دیا۔ پیغمبروں کے اعمال اور قرآنی اقوال سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجاے خود کو عقلِ کُل سمجھتا رہا۔ زندگی بھر آخرت کے بجاے طالب ِ دنیا بنا رہا۔ کبھی دکھ اور تکلیف میں بھی خدا یاد نہیں آتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے ازالے کے لیے بھی دنیاوی سہارے ڈھونڈ لیے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی    ؎

مصیبت میں بھی اب یادِ خدا آتی نہیں اُن کو
دعا منہ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں

  •  حضرتِ انسان کی اسی جلدبازی، عجلت پسندی، محدود سوچ اور کمزور عقیدے ہی کے   پیشِ نظر ارشاد فرما دیا گیا:

وَالْعَصْرِ o  اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o (العصر ۱۰۳:۱-۲) زمانے کی قسم! انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔

یہاں زمانے کی قسم کھا کے واضح کر دیا گیا کہ انسان اپنی اسی جلدبازی ، ڈھٹائی ، ہٹ دھرمی اور کمزوریِ ایمان کی بنا پر سراسر گھاٹے کی طرف جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ وعید بھی سنا دی کہ اب بھی اگر اس کی بچت کی کوئی صورت ہے تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر پختہ ایمان اور صبروتوکل ہی کی بنا پر ممکن ہے۔

آج اگر انسان کو دنیا میں خواری کا سامنا ہے تو انھی صفات سے محرومی کی بنا پر ہے۔  وہ ایک اللہ کو اپنا دست گیر، داتا اور مشکل کشا ماننے کے بجاے جگہ جگہ سر جھکاتا دکھائی دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس پیچیدہ مرض کا بڑا شافی علاج بتایا تھا کہ   ؎

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

وہ خدا جو فرماتا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں، میں وہ بات بھی جانتا ہوں جو اس کے دل کے نہاں خانے میں پوشیدہ ہے۔ وہ جو فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو  سڑی ہوئی مٹی اور رُک رُک کر نکلتے پانی سے پیدا کیا،پھر زمین پہ اکڑ اکڑ کر کیوں چلتے ہو؟ کیا آسمانوں کو گرا دو گے یا زمین کو پھاڑ دو گے؟

ان تمام حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ نے انسان کو بڑی محبت سے، بہتر توقعات کے ساتھ بہترین ساخت پر پیدا کیا اوراس کو عاجزی، ایمان، صبر اور خیر کی تلقین کی۔ لیکن انسان اپنی جلدبازی، عجلت پسندی اور کمزور ایمان کی بنا پر شیطان کے بہکاوے میں آکے گمراہی، تکبر، شرک اور دنیاداری کی دلدل میں جا پڑا۔ مرزاغالب نے انسان کی اسی ابتری کے پیش نظر یہ سوال اٹھایا تھا کہ    ؎

ہیں آج کیوں ذلیل ، کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

خاکہ نگاری اشاروں کا فن ہے، جس میں چند جملوں میں کسی شخصیت کے عیوب و محاسن کا احاطہ کر دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے ان تین جملوں میں بھی حضرتِ انسان کا مختصر اور جامع تصور بیان کر دیا گیا ہے کہ تمھارے ساتھ خدا کے احسان کا کیا عالم ہے اور خود اپنے ساتھ اس کا سلوک کتنا عجیب ہے؟ اور اس کا نتیجہ کیسا خوف ناک ہے؟

شاعر مشرق نے اپنے ایک شعر میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ذلتِ موجودہ کا سبب  کس خوب صورتی سے بیان کر دیا    ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

 

مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع بونیر، دیر اور سوات کے لاکھوں محب وطن مسلمانوں پر فوجی آپریشن ایک بلاے ناگہانی بن کر نازل ہوا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے وطن میں ہجرت پر مجبور ہوئے بلکہ ان کے گھر بار، فصلیں و باغات اور مویشی سب کچھ برباد ہوگیا۔ وہ چند سو لوگ جنھیں طالبان کہا جا رہا ہے اور جن کی تلاش میں یہ آپریشن کیا جا رہا ہے(کوئی نہیں جانتا کہ یہ طالبان ہیں یا اُن کے  روپ میں امریکی اور بھارتی ایجنٹ)، اگر یہ آپریشن ناگزیر ہی تھا تو ان مٹھی بھر افراد کی خاطر ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ کیوں اُتار دیا گیا؟ ۴۰ لاکھ سے زائد معصوم اور بے گناہ لوگوں کو جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں کیوں گھر سے بے گھر کردیا؟ ایک طرف امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بے گناہ عام شہری بنتے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی طیاروں کا نشانہ بھی یہی عام لوگ بن رہے ہیں۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ آپریشن سے قبل ان بے گناہ شہریوں کو انخلا کا موقع تک نہ دیا گیا۔ بے رحم اور عاقبت نااندیش حکمرانوں نے نہ ان کے لیے محفوظ مقامات کا بندوبست کیا، نہ ٹرانسپورٹ کی سہولت ہی مہیا کی گئی۔ شدید گرمی، میلوں کی مسافت، بوڑھوں، بچوں، خواتین اور بیماروں پر بھوک پیاس کے عالم میں کیا بیتی ہوگی! اور پھر کیمپوں میں جن مصائب سے دوچار ہیں، ذرا ان کا تصور تو کیجیے!!

ایک طرف جہاں اس انسانی المیے پر ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں وہیں دوسری طرف ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں یا نہیں، اور یہ آزمایش بحیثیت قوم ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی لاتی ہے یا نہیں؟

اسے امریکی مداخلت کہہ لیں یا حکمرانوں کی بے بصیرتی اور کاسہ لیسی___ حقیقت یہ ہے کہ یہ عذابِ الٰہی کی ایک شکل اور قوم کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک چیلنج ہے جو ہم سب کو لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، نہ اسے محض اتفاقی عوامل کی پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۶۲سالہ تاریخ میں جو پے درپے جھٹکے ہمیں لگتے رہے یہ ان میں سب سے بڑا ہے۔ اگر اس پر بھی قوم خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئی تو خدانخواستہ ہمارا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔

چاہے بیرونی طاقتوں کا زورآور ہونا ہو یا ہمارے حکمرانوں کی بے رحمانہ سوچ، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک کرنا ہوگا۔ خود احتسابی، انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ، اپنے رب سے سچی توبہ اور حقوق العباد کے معاملے میں حساسیت ہی ہمارے لیے راہِ نجات بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فہم و فراست اور شعور و ادراک کی   جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کا امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں انسانی زندگی کے طبیعی پہلو اور    حوادثِ زمانہ کا مادی حوالوں سے ادراک کرتا ہے وہیں ان حقیقتوں کو اخلاقی و روحانی سبق کی تفہیم کا ذریعہ بھی بناتا ہے۔ قرآن کا منشا ہی یہ ہے کہ حادثات و سانحات اور کامیابیوں یا ناکامیوں کے ذریعے ہم قرآن کے دیے ہوئے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ ہوجائیں!‘ اور نافرمانی کے راستے کو ترک کر کے خلوص اور ندامت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرلیں، تو پھر ظلمتوں کی اس شبِ تاریک سے صبح نمودار ہونے میں کچھ بھی دیر نہیں! فرمانِ ربیّ ہے: ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑلیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ آپڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں‘‘۔ (الاعراف ۷: ۹۶-۹۸)

آزمایش کی اس گھڑی میں ملتِ اسلامیہ پاکستان کے لیے سب سے اہم پہلو خود اپنی حالت سے عبرت پکڑنے کی فکر ہے۔ یہ وقت محض ظاہری اسباب پر ماتم کرنے کا نہیں بلکہ فساد  اور بگاڑ کے حقیقی اسباب اور کائنات میں جاری و ساری اخلاقی قانون کی روشنی میں اپنا احتساب کرنے کا ہے تاکہ اس انسانی المیے سے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی تشکیلِ نو کا سامان کرسکیں:

ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے، ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، انھیں  خوش خبری دے دو اور ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ فگن ہوگی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ (البقرہ ۲: ۱۵۵-۱۵۶)

قرآن پچھلی قوموں کا تذکرہ کرکے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دیتا ہے کہ حدود اللہ کی خلاف ورزی پر ان قوموں کو جو عذاب دیا گیا   ہم ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی جانب متوجہ ہوں۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ اللہ کی گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی، اور وہ کون سے افعال ہیں جو آج ہمیں تباہی کے اس دہانے پر لے آئے ہیں؟

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مؤثرانداز میں اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف اور دہشت طاری ہوجاتی ہے‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)۔ کیا بدکاری اور رشوت معاشرے کا ناسور نہیں! حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا:

جب کسی قوم یا بستی میں نمایاں طور پر بدکاری اور سودخوری ہونے لگے تو یوں سمجھو گویا لوگوں نے اپنے آپ کو عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے کا اعلان کر دیا۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ حاکم)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قیامت کے قریب لوگ مجمع میں سے مخصوص لوگوں کو سلام کریں گے اور تجارت کی طرف عام رجحان ہوجائے گا (یعنی دنیاداری بہت بڑھ جائے گی)، یہاں تک کہ عورت بھی اپنے شوہر کو تجارت میں مدد دے گی۔قیامت کے قریب لوگ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیں گے۔ جھوٹی گواہیاں دیں گے، سچی گواہیاں چھپائیں گے اور جوئے کا رواج عام ہوجائے گا۔ (مسنداحمد، جلداول)

حقیقت یہ ہے کہ کوتاہ بین نظریں ان حوادث و آلام کے صرف ظاہری احوال کا جائزہ لیتی ہیں لیکن ایک مومن اخلاقی اور روحانی اسباب پر نظر رکھتے ہوئے ان سے درسِ عبرت حاصل کرتا ہے۔ اِن ارشاداتِ نبویؐ میں مستقبل کے حالات و واقعات کی نشان دہی کرکے بار بار ہمیں خبردار کیا گیا ہے تاکہ ہم حالات و واقعات کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ انسانوں کی جب بھی گرفت ہوتی ہے اس میں ان کے اپنے اعمالِ بد اور ظلم و طغیان کا بھی برابر کا حصہ ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس ۱۰:۴۴)

اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف ان ہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (الانفال ۸:۲۵)

اللہ رب العزت کے قوانین اٹل ہیں اور ان کا مقصد انسانوں کے لیے انتباہ اور ان کا اخلاقی تزکیہ اور روحانی تربیت ہے۔ ’’اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں‘‘۔ (ھود ۱۲:۱۱۷)

لمحۂ موجود میں سب سے زیادہ لرزا دینے والا آپؐ کا وہ ارشاد گرامی ہے جو ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے اور آج ہمارا معاشرہ ۱۴ سو برس قبل کہے گئے ان الفاظ کی لفظ بہ لفظ عکاسی کر رہا ہے۔ اس وقت ہم جس تباہی اور ذلت و مسکنت سے دوچار ہیں، حضورِاکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کے لیے کہیں دُور جانے اور کسی دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرانے کی گنجایش نہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:

  •  جب مالِ غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے،
  • زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ بن جائے 
  • اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو
  • اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے اور باپ سے دُوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے، 
  • مسجدوں میں شور ہونے لگے۔ 
  • قبیلے کا سردار فاسق بن جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے 
  • اور آدمی کی عزت اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگے
  • آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں 
  • شراب پی جانے لگے 
  • اس اُمت کا آنے والا گروہ گزر جانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے تو تم انتظار کرو___ سرخ آندھیوں کا ___ زمین کے دھنس جانے کا___ صورتوں کے بگڑ جانے کا___ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا___ اور یہ نشانیاں یکے بعددیگرے اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے پرانی تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کہتے ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ جہاد (دین کے لیے محنت اور جانفشانی اور مالی اور جانی قربانی) نہیں کریں گے  تو اللہ ایسے لوگوں پر عذاب مسلط کرے گا (ترغیب بحوالہ طبرانی)۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اللہ کے قانون کی گرفت (عذابوں کی صورت میں) جب واقع ہوتی ہے تو مجرموں کو چھانٹ کر علیحدہ نہیں کرلیا جاتا بلکہ اس ظالم اور باغی معاشرے کا ہرفرد ظالم اور باغی قرار پاکر اس عذاب کا شکار ہوتا ہے۔

آج جہاں ہم متاثرین مالاکنڈ کے درد و کرب کو محسوس کر رہے ہیں، ان کی مدد کر رہے ہیں، ان کی آبادکاری کے لیے فکرمند ہیں، وہیں یہ وقت اللہ سے خلوصِ دل سے توبہ واستغفار کا، اجتماعی اور انفرادی جائزے اور احتساب کا بھی ہے۔ اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے رسوم و رواج کا جائزہ لینے کا ہے کہ علم ہوتے ہوئے ہم کس طرح دیدہ دلیری سے حدود اللہ کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم نے زمین سے نافرمانیاں، ظلم، سرکشی آسمان کی طرف بھیجی تو آسمان سے ذلت و مسکنت زمین کی طرف آئی۔ اب ہم ندامت و استغفار، آہیں اور آنسو بھیجیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی مغفرت و رحمت کا نزول نہ ہو، کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر گناہ گار اور خطاکار کو اپنے دامنِ رحمت میں ڈھانپ لے گا:

کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات قبول کرتا ہے اور اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (التوبہ ۹:۱۰۴)

پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظرعنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ (المائدہ ۵:۳۹)

اس سانحے سے گزرتے ہوئے نہ صرف انفرادی توبہ بلکہ اجتماعی استغفار کا لازمی اہتمام کیا جائے کہ ہمارے ۶۲ برس کے اجتماعی گناہوں کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو نہ بھگتنا پڑے۔  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے مومنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پائو گے‘‘ (النور ۲۴:۳۱)۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت استغفار کے ساتھ جائزے اور محاسبے کی ہے کہ ہم نے اللہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ رب العزت نے شب قدر میں جو ملک ہمیں عطا فرمایا، ہم نے عملاً اس کی باگیں اللہ کے باغیوں کے ہاتھوں میں دے دیں۔ ہم نے اُمت مسلمہ کا ساتھ دینے کے بجاے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلم ممالک کو تباہ و برباد کیا، جن کے ذمے دفاعِ وطن کا فریضہ تھا وہ اپنے فریضے سے غافل ہوکر غیروں سے ہدایات لیتے رہے۔ سود اور ناجائز منافع خوری کے باعث عام آدمی کے لیے زندگی ناقابلِ برداشت بوجھ بن گئی۔ تہذیبی غلامی کو ہم نے رضاکارانہ اپنی گردن کا طوق بنا لیا۔ میڈیا کی بے راہ روی کے ذریعے اخلاقی اور نظریاتی سرحدوں کو پامال کیا۔ جب حالات یہ ہوں تو پھر اللہ کی پکڑ اور اس کی سنت کیوں نہ پوری ہو کیونکہ سنت الٰہی ہے: ’’اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی‘‘۔

دورِ فاروقیؓ میں جب جزیرۃ العرب میں قحط کی کیفیت رونما ہوئی تو آپ نے اہلِ حاجت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیے۔ ریاست کے سارے وسائل تو استعمال کیے ہی خود بھی گوشت کھانا بند کر دیا اور روکھی سوکھی پر گزارا کیا، یہاں تک کہ خوش حالی لوٹ آئی۔ ان حالات میں نہ صرف حکومت اور اہلِ ثروت بلکہ ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان لاکھوں بے گھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی ابتدا اپنے گھر سے کریں۔ اسراف و تبذیر عام حالات میں گناہ ہیں لیکن اس وقت وہ ایسا جرم ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہمارے مصیبت زدہ بھائی ہمارے وسائل ، کوششوں اور دعائوں کے مستحق ہیں۔ یہی اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مقدور بھر حصہ ڈالنا ہوگا۔

ان سب اقدامات کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے تزکیے کی فکر اور اپنے دل کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر عفو ودرگزر کے لیے ہاتھ پھیلائے جائیں! ہمیں اللہ کے دین کے احکامات اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کرنا ہوگی جس میں حقوق العباد سے کسی طور پر صرفِ نظر ممکن نہ ہو۔ اسی طرح یہ اُمت شھداء علی الناس کے منصب اور انسانیت کو خیر کی طرف بلانے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرسکے گی۔

اگر ابتلا و آزمایش کی یہ گھڑیاں ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راہ اختیار کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو دنیا و آخرت میں ہماری کامیابی کے امکان کو روشن کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باطل کے غلبے کے دور میں اہلِ حق کو حق کے لیے غیرت مند ہونا چاہیے۔ باطل کے آگے ہتھیار ڈال کر اطمینان کا سانس لینا غیرت کی علامت ہے نہ حق سے محبت کی دلیل۔

حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جس شخص نے اپنے معاشرے میں کوئی برائی دیکھی اور طاقت استعمال کر کے اسے دُور کر دیا تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوا۔ اور جس شخص نے طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی زبان استعمال کی اور اس کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ بھی سبکدوش ہوا۔ اور جو شخص اپنی زبان استعمال نہ کرسکے اور  دل میں اس برائی سے نفرت کرے اور بُرا سمجھے تو وہ بھی مواخذے سے بچ جائے گا اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ نسائی)

 

اس دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی رفیقۂ حیات نے اپنی زندگی کا آغاز دعا سے ہی کیا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف ۷:۲۳) دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگارہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔

تمام انبیاے کرام نے دعا کے سلسلے کو جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا آغاز بھی دعا سے کیا۔ دعا کا مقصد روحانی اور قلبی مسرتوں کا حصول اور اس تڑپ کی تسکین ہے جو انسانی ضمیر میں بدرجۂ غایت پوشیدہ ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں کوئی ہماری پکار کو سنے، کوئی ہماری دعائوں کو قبول کرے۔ اللہ وہ ہستی ہے جو بندوں کے مانگنے پر خوش ہوتی ہے۔ دعا کو سننے کا اختیار صرف اور صرف رب کریم کے پاس ہے۔ وہ پکار کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المؤمن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: ’’مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے  منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپؐنے فرمایا: ــ’’دعاعبادت کا مغز ہے‘‘ (ترمذی)۔ بندہ جب اپنے رب کو پکارتا ہے تو اس کی پکار ضرور سنی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دعا کب قبول ہوتی ہے۔ بعض اوقات انسان جو چیز طلب کر رہا ہوتا ہے اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی اور انسان سمجھتا ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ بعض دعائوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے، اور انسان کے نامۂ اعمال میں ان کے بدلے اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔

دعا سے مراد اپنے ظاہر و باطن کو رضاے الٰہی کے تابع کرنا اور رضاے الٰہی سے متصادم نفسانی خواہشات کو ترک کرنا ہے کیونکہ نفسِ انسانی ساری کائنات پاکر بھی ھل من مزید کا نعرہ لگاتا ہے۔ زندگی کا بہترین مقصد طمانیت ِقلب ہے۔ بارگاہ رب العزت میں جھکنے سے انسانی سیرت منقلب ہوتی ہے۔ دولت و ثروت کی ہوس باقی نہیں رہتی۔ انسان کثافت سے نظافت،  پستی سے بلندی ، ظلمت سے نور کی طرف آتا ہے۔ زندگی میں فراغت و آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جب ہم کسی مصیبت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ رب العزت ضرور عنایت کرے گااور یہ خیال بہت طمانیت آفرین ہے۔ قرآن پاک میں ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو) مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیا خوب دعا سکھائی ہے:

رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ o (البقرہ ۲:۲۰۱) پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو۔

اس آیت میں قرآن پاک تین طرح کے لوگوں سے مخاطب ہے۔ بعض لوگ صرف اپنی دنیاوی حاجات کی دعا مانگتے ہیں، انھیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرف آخرت کی دعا مانگتے ہیں انھیں دنیاوی زندگی کی کوئی پروا نہیں ہوتی، اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مطلوب تیسری قسم کے لوگ ہیں جو آخرت کے ساتھ دنیا کی بھی فکر کرتے ہیں کیونکہ دنیا میں رہ کر ہی آخرت کی تیاری کرنی ہے۔ صرف دنیاوی زندگی یا رہبانیت سے منع فرمایا گیا ہے۔

دعا کی فلسفیانہ اھمیت

  • مسلم مفکرین میں سرسید احمد خاں نے اپنے تصور مذہب میں دعا کے موضوع پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ وہ دعا کو عبادت ہی سمجھتے تھے۔ اپنے اس موقف کی حمایت میں انھوں نے یہ حدیث نقل کی ہے :’’دعا عبادت ہے‘‘ (ترمذی)۔ ان کے خیال میں دعا اور عبادت کی قبولیت کے ایک ہی معنی ہیں۔ جس طرح عبادت سے انسان کو روحانی اور اخلاقی فائدے پہنچتے ہیں، اسی طرح دعا سے نفس انسانی پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دکھ اور مصیبت میں دعا انسان کو تسکین دیتی ہے اور خدا سے تعلق پیدا کرنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ تمام انبیاے کرام نے اللہ کے حضور دعائیں مانگیں۔

قرآن پاک میں دعا کا جو تصور ملتا ہے، سر سید احمد خاں نے اس تصور کو نفسیاتی نوعیت کا حامل قرار دیا اور ان کے خیال میں دعا اور ندا دو مترادف الفاظ ہیں جن کے لغوی معنی پکارنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پکارنے سے انسان اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، اور اس طرح انسان اللہ رب العزت کو حاضر و ناظر جاننے اور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ جو بھی انسان اللہ رب العزت کو پکارتا ہے اللہ رب العزت اس کی پکار کو قبول فرماتا ہے۔

  •  فرائیڈ کے نزدیک بھی دعائیں نفسیاتی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ جب انسان کو کسی ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے جس سے وہ تمام طریقوں سے نبٹنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو دعا کا تصور اس کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ اس نے اس تصور کو بچوں کے تجربات اور کردار سے تشبیہہ دی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ جب بچہ اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتا ہے تو اپنے والدین سے تحفظ کی توقع کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اس کے والدین اس سے زیادہ عقل اور قوت رکھتے ہیں۔ چیخ و پکار کے ذریعے یا والدین کی بات مان کر یا ان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی ہمدردی اور محبت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح ایک با شعور انسان بھی اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہوئے اس عمل کو دہراتا ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک انسانی قلب کی تسکین کے لیے اس سے بہتر کوئی عقیدہ نہیں۔ فرائیڈ کے ہم عصر ہنری لیوبا نے کہا کہ مذہب اپنے تصور کی معروضی صداقت سے وجود پذیر نہیں بلکہ اس کی حیاتیاتی اہمیت ہے۔ (A Psychological Study of Religion، ہنری لیوبا، ص ۵۳)

فرائیڈ اور اس کے مکتب فکر کے دوسرے مفکرین ۱۹ویں صدی کے ’’افادیت کے سائنسی نظریے‘‘ سے متاثر تھے۔ فرائیڈ نے دعا کے تصور کو نفسیاتی جبریت کی شکل میں پیش کیا، جب کہ سرسید احمد نے اسے مذہبی فطرت پسندی کی شکل میں پیش کیا۔ دونوں میں یہ بات مشترک تھی کہ انھوں نے اپنے اپنے عہد کے مطابق دعا کے تصور کی وضاحت کی۔

  •  علامہ اقبال دعا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اپنے آپ کو بحر بیکراں میں پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حقیقتِ مطلقہ سے ہم کنار ہو کر ہماری شخصیت میں طاقت اور وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ دعا مانگنا فطری تقاضا ہے۔ فطرت کا عمیق مطالعہ بھی دعا ہے۔ (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ ، مترجم: نذیر نیازی،  بزم اقبال، لاہور، ص ۱۳۷)

علامہ کے خیال میں اجتماعیت مذہب ِاسلام کی روح ہے، لہٰذا اجتماعی دعا انفرادی دعا سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے انسان کی عام قوتِ احساس، جذبات اور ارادے میں بے پناہ حرکت پیدا ہوتی ہے۔ نفسیات ابھی تک دعا کی افادیت اور اہمیت کا راز معلوم نہیں کرسکی (ایضاً)۔ اپنے خطبات تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ میں ولیم جیمز کی ایک عبارت کو خصوصیت کے ساتھ توجہ کا مرکز بناتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ دعا ایک جبلی امر ہے۔ دعا کے ذریعے ذہن حقیقتِ مطلقہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ ایک روحانی تجلی ہے۔

  •  مولانا روم کے نزدیک جب کوئی شخص صدق دل اور عجزونیاز سے دعا کرتا ہے تو یہ توفیقِ دعا اور رقتِ قلب خود خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ایسی دعا کے متعلق علت و معلول کا یہ قانون نہیں کہ دعا ہوگی تو پھر خدا سنے گا بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ خدا نے اس کا میلانِ قلب دیکھا تو اس کو دعا کی توفیق ہوئی۔ یہاں سبب اور اثر کا قانون معکوس ہے، یعنی اثر پہلے ہے اور دعا بعد میں ، یا یوں کہیے کہ بیک وقت سبب اور اثر ہم کنار ہیں اور ان میں کوئی زمانی تقدم و تاخر نہیں۔

اس حقیقت کو مولانا نے ایک قصے میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص صبح شام اللہ اللہ کرتا رہتا تھا اور اس کا منتظر رہتا تھا کہ اللہ کی طرف سے لبیک کی آواز آئے گی کہ میں موجود ہوں اور سن رہا ہوں۔ لیکن کوئی ایسی آواز سنائی نہ دی تو شیطان نے اس کے دل میں ڈالا کہ تو کیا صبح شام اللہ اللہ کرتا ہے، اگر وہ سنتا اور قبول کرتا توتجھے جواب دیتا۔ اس بے فائدہ ذکر میں وقت کیوں ضائع کرتا ہے ؟ اس پر حضرت خضر نے اس کے خواب میں آکر پوچھا تم دل شکستہ کیوں ہوگئے ؟اس نے کہا کہ خدا کچھ جواب نہیں دیتا، اس لیے میری دعا کس کام کی ؟ حضرت خضر نے کہا مجھے اللہ نے کہا ہے کہ اس بندے سے کہہ دو کہ تیرا ہمیں یاد کرنا ہی لبیک ہے ، تیری دعا میں یہ نیاز و سوز ہمارا ہی فرستادہ ہے۔

صورت اور معنویت

عبادت میں اگرچہ اصل مقصودمعنی ہے مگر کسی حد تک صورت بھی مقصودہے۔ بخلاف دعا کے اس میں صرف معنی ہی معنی مقصود ہے۔ اللہ سے اپنی ضروریات کا اظہار، عاجزی اور نیازمندی کو ظاہر کرتے ہوئے گڑگڑا کر مانگنے کا نام دعا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کیسی دعا ہے۔ نماز کا مقصود تو اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے لیکن اس کی مطلوبہ ہیئت مثلاً وضو اور قبلہ کی طرف منہ وغیرہ بھی ضروری ہے۔ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونے کو نماز نہیں کہتے۔ لیکن دعا میں نہ کسی وقت کی شرط ،  نہ عربی زبان کی شرط ، نہ خاص جہت کی شرط ، نہ کوئی مقدار معین، نہ وضو وغیرہ کی کوئی قید ہے۔ اس میں صرف عاجزی، نیازمندی اور رب العزت کے سامنے اپنی احتیاج کا اظہار کرنا ہے۔ دعا میں صورت نہیں بلکہ معنی مقصود ہیں۔ دعا کے لیے حضورِ قلب، تواضع، عاجزی اور خود سپردگی ضروری ہے کیونکہ اللہ رب العزت تو قلب کی حالت کو دیکھتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:’’اللہ تعالیٰ تمھاری صورتوں کو نہیں دیکھتے بلکہ تمھارے قلوب کو دیکھتے ہیں‘‘۔ یہاں قلب سے مراد یہ گوشت کا ٹکڑا نہیں جو پسلیوں کے اندر پایا جاتا ہے بلکہ اس سے مراد ایک لطیفۂ غیبی ہے۔ جیساکہ بعض اوقات ہم کہتے ہیں کہ اس وقت میرا دل بازار میں ہے حالانکہ اس وقت ہم بازار میں نہیں ہوتے۔یہاں علمی حقائق پر دلیل دینا مقصود نہیں بلکہ ذہن کو اس حقیقت سے قریب کرنا مطلوب ہے۔ دعا میں خشوع خضوع کا ہونا ضروری ہے۔

عبادات کی نسبت دعا میں ایک اضافی خصوصیت پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ اگر عبادات دنیا کے لیے ہوں تو وہ عبادات نہیں رہتیں مگر دعا ایک ایسی چیز ہے اگر یہ دنیا کے لیے بھی ہو تو عبادت ہے اور ثواب ملتا ہے، جب کہ عبادات میں اگر دنیاوی حاجت مطلوب ہو تو ثواب نہیں ملتا۔

امام غزالی ؒلکھتے ہیں کہ اگر طبیب نے مریض کو بتایا کہ آج دن کا کھانا نہ کھائو، اگر کھایا تو نقصان ہوگا۔ اور وہ اس غرض سے روزہ رکھ لے یا کوئی شخص دورانِ سفر اس غرض سے مسجد کے اندر اعتکاف کر لے کہ ہوٹل وغیرہ کا کرایہ بچ جائے گا تو ایسی صورت میں اس کو ثواب نہیں ملے گا مگر دعا کے ضمن میں ایسی بات نہیں ہے۔ کتنی ہی دنیاوی حاجتیں مانگی جائیں ثواب پھر بھی ملے گا کیونکہ دعا سراسر عاجزی، انکساری اور نیازمندی ہے۔ نیازمندی بذات خود ایک محبوب عمل ہے کیونکہ جہاں نیازمندی ہوگی وہاں تکبر نہیں رہے گا۔ تکبر اور بڑائی کا اظہار اللہ کے غضب کا باعث بنتے ہیں۔ یہ دونوں اللہ رب العزت کی خاص صفات ہیں۔ کوئی دوسرا ان کا دعوے دار نہیں ہوسکتا۔

حضرت بایزید بسطامی ؒسے منقول ہے کہ ایک دفعہ انھوںنے اللہ رب العزت سے عرض کیا کہ مجھے اپنی طرف آنے کا آسان تر طریق بتلا دیجیے۔ جواب میں ارشاد ہوا:’’اپنی خودی کو چھوڑ اور آجا ‘‘۔حافظ شیرازی ؒ نے اس مضمون کو کیا خوب بیان کیاہے، فرماتے ہیں :

میان عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
توخود حجاب خودی حافظ ازمیان برخیز

(اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ اے حافظ! تو اپنے حجاب خودی کو درمیان سے ہٹا دے۔)

تو دروگم شود وصال ایں است و بس
گم شدن گم کن کمال ایں است و بس

(اس میں تو فنا ہو جا، یہی وصال کافی ہے۔ تو اپنا گم ہونا بھول جا، یہی انتہائی کمال ہے۔)

حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے رب پر بھروسا تھا کہ باوجود دروازہ بند ہونے کے دوڑے اور کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے دروازے بھی کھول دیے۔گویا اگر صدق دل سے طلب اور کوشش ہو تو مقصود ملنے کی یقینی امید ہے۔

بنیادی فلسفہ

دعا دراصل انسان کے پاس اپنے سے بالا و برتر ہستی کو مخاطب کرنے کا ذریعہ ہے جس میں اس ہستی یا ذات کی تعریف کی جاتی ہے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ دعا دنیا کی ہر تہذیب کا حصہ ہے۔ اس کا تعلق کسی مخصوص مذہبی روایت سے نہیں ہے۔ اگرچہ خدا اور بندے کے درمیان دنیا میں تعلق کے فہم کے حوالے سے دعا کی بنیادیں مختلف ہیں۔

دعا کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ یہ اللہ رب العزت اور بندے کے درمیان قربت کا ذریعہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر یقین انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ دعا انفرادی بھی ہوسکتی اور اجتماعی بھی۔ اپنی مختلف صورتوں میں دعا عبادت کا مغزہے ، مثلاًیہودی مذہب میں دعا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں گرجے دعا کے مرکز تھے۔

اپنے محدود معنوں میں مانگنے کا عمل گویا اپنی قسمت کے بارے میں روحانی قرب کا فہم حاصل کرنا ہے،جب کہ وسیع معنوں میں دعا حقیقت مطلقہ سے قرب کے یقین کا نام ہے۔ اپنے آپ کو پورے اخلاص اور سپردگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا بھی دعا ہے۔ دعا عقیدے کی روح ہے کیونکہ دعا کے بغیر عقیدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ دعا ہی ہے جو انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہے۔ ہماری دعا کے نتیجے میں اللہ رب العزت بھی ہم سے مخاطب ہوتا ہے، یعنی دعا کا جواب دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے دعا سننے کا مفہوم بھی قرب الٰہی کا حصول ہی ہے۔ جس طرح بچہ اپنے والدین سے کسی شے کی فرمایش کرتا ہے اور والدین اس کی فرمایش کو پورا کردیتے ہیں، دراصل اس فرمایش کی تکمیل کی پشت پر والدین کا وہ پیار ہوتا ہے جو کہ ان کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے  دعا سننے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہے۔

انسانی جسم کا نظام بھی بڑا عجیب ہے یہ مادی کے ساتھ ساتھ روحانی بھی ہے۔ انسان د ل و دماغ کے علاوہ شعور بھی رکھتا ہے۔ شعور کی بھی تین اقسام ہیں جن میں شعور، تحت الشعور اور لاشعور شامل ہیں۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک ایک نقطۂ نظریہ ہے کہ ہم جتنے بھی اعمال کرتے ہیں     وہ شعور سے لا شعور میں چلے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوند ی ہے:

وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا o اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۳-۱۴) ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میںلٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیںگے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا___ پڑھ نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

اللہ پاک نے انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرنے کا نہایت معتبر انتظام فرما رکھا ہے جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے :

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰:۱۸)کوئی بات اس کی زبان سے نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نامۂ اعمال پر اعتراض کردے کہ فلاں فلاں الزامات غلط ہیں۔ فوراً اس کی بے شمار تصاویر اس گناہ میں مصروف اس طرح دکھا دی جائیں گی جس طرح سینما کے پردے پر فلم چلتی ہے۔ ہمارا ہر عمل ، ہر لفظ اور ہر ارادہ محفوظ ہے تو پھر کوئی مجرم کیسے انکار کر سکتا ہے۔ موجودہ سائنسی ترقی نے بڑی بڑی کتب حتی کہ لائبریری کو ایک چھوٹی سی ڈی (CD)میں محفوظ کر لیا ہے۔ اسی طرح ہمارے اعمال اور الفاظ کی فلم خدائی انتظام کے تحت بن رہی ہے جو قیامت کے دن ہمارے ہاتھوں میں دے دی جائے گی جس کا نام ہے نامۂ اعما ل۔

الغرض دعا کا اصل مفہوم بندے اور اللہ رب العزت کے درمیان تعلق ہے اور یہ تعلق طبیعیاتی سے زیادہ مابعد الطبیعیاتی ہے۔ دعا سے انسان کی روحانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں وہ ایک نئی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آخر میں اتنا عرض کر دوں کہ ہم دُعا پڑھتے ہیں، دُعا مانگتے نہیں۔ اگر ہم صدقِ دل سے دُعا مانگیں تو ہمیں اپنی دعائوں کی قبولیت کا یقین حاصل ہوسکتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوند ی ہے :

وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَیَزِیْدُھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَالْکٰفِرُوْنَ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ o (الشورٰی ۴۲:۲۶) اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کیے اللہ ان کی دعا قبول فرماتا اور ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔

ایک ماہر نفسیات آر ڈبلیو ٹرائن نے بڑی خوب صورت بات لکھی ہے: ’’اللہ بے کراں سکوں کا منبع ہے ، جب ہم اس سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ، تو ہم پر سکون برسنے لگتا ہے ، کیونکہ سکون و ہم آہنگی ایک ہی چیز ہیں۔ کروڑوں انسان گرفتارِ مصائب ہیں۔ ان کے دل و دماغ اور جسم بے چین ہیں۔ وہ لمبے لمبے سفر کرتے ، کاریں خریدتے ، محل بناتے اور دولت کے انبار لگاتے ہیں ، لیکن بے چین رہتے ہیں۔ کاش! انھیں معلوم ہوتا کہ سکون باہر سے نہیں آتا بلکہ دل ہی میں جنم لیتا ہے۔ اگر ہم روح کی پکار کو سن کر اپنی زندگی اس کے مطابق ڈھال لیں تو ہمارا دل فردوسی مسرت سے معمور ہو جائے۔ اگر ہم عدل و صداقت کو ، جن کے بل پر یہ کائنات قائم ہے، اپنا لیں تو ہم ایک ایسا عمیق اطمینان حاصل کر لیں گے، جسے کوئی فکر، کوئی پریشانی برہم نہیں کرسکے گی۔ اللہ کائنات کا پاور ہائوس (منبع توانائی) ہے ، جو شخص اپنا تعلق اس سے جوڑ لیتا ہے وہ ہر ماخذ سے توانائی حاصل کرتا اور پھر اسے دوسرے تک منتقل کرنے کا واسطہ بنتا ہے‘‘۔ لہٰذا ہمیں ہمہ وقت اپنے رب العزت سے دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہ تعلق قائم رہے۔

دعا جو بذات خود عبادت ہے اس سے جو لہریں دعا کرنے والے انسان کے جسم سے خارج ہوتی ہیںیہ انسان کے گرد ایک حصار بنا لیتی ہیں جو اس کو شیطانی وسوسوںسے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے فوراً انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے، یہ ایک مابعد الطبیعیاتی عمل ہے۔اس کا ادراک ہرانسان کو نہیں ہوتا لیکن ہر انسان جو دعا مانگتا ہے اس کے ساتھ یہ عمل ضرور ہوتا ہے۔اس طرح انسان ہر طرح کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔جب انسان شر سے محفوظ ہو تو یہی قرب الٰہی ہے۔گویا دعا ایک طرف تو انسان کی حفاظت جب کہ دوسری طرف قرب الٰہی کا بڑا ذریعہ ہے۔یہ تقویٰ، اخلاص اور توکل کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔

دعا یا عبادت مذہب کی عملی صورت ہے۔ جب ایک انسان اپنے خالق و مالک کے حضور، پوری عاجزی و درماندگی کے احساس کے ساتھ نجات طلب کرتا ہے تو اس کی یہ صدادعا کہلاتی ہے۔یہ چند الفاظ کا اعادہ نہیں بلکہ رب کائنات کی طرف روح کا مسلسل سفر ہے۔انسان میں تین طرح کے نفس ہیں: ایک نفس امارہ ہے جو ہمہ تن شر کی طرف راغب رہتا ہے۔ دوسرا نفس لوامہ جو گناہ پر ملامت کرتا ہے۔دعا نفس امارہ کو دبا دیتی ہے، اس طرح نفس لوامہ میں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ نفس مطمئنہ کہلانے لگتا ہے اور اس کا سفر سیدھا جنت کی طرف ہو جاتا ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر ۸۹: ۲۷-۳۰) اے مطمئن نفس! تو اپنے رب کے پاس اس حال میں واپس جا کہ وہ تم سے خوش ہو اور تم اس سے خوش۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہوکر میری بہشت میں داخل ہو جا۔

مصیبتیں ہر انسان پر آتی ہیں۔ اللہ رب العزت کو ماننے والے اللہ کے حضور جھک کر   اس سوز و گداز سے دعائیں کرتے ہیں جس سے رحمتیں بے تاب ہوکر اُس کی طرف لپکتی ہیں۔ دعا میں عاجزی و درماندگی ہوتی ہے جس پر رحمت ِ حق جوش میں آتی ہے اور گنہگاروں پر مائل بہ کرم ہوجاتی ہے! آخر میں رب العزت سے یہی دعا ہے کہ: ’’ اے میرے رب تو ہی میری ڈھال، تو ہی میری چٹان اور میرا حصار، تو ہی میری زندگی، میرا حال اور مستقبل ہے۔ آگے بڑھ کر مجھے اپنی پناہ میں لے لے جیسے بہار ایک خزاں رسیدہ چمن کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے‘‘۔ آمین!

 

آج کے عدیم الفرصت دور میں اگر خوش قسمتی سے فرصت کے کچھ لمحات میسر آجائیں اور اہلِ خانہ مل جل کر کچھ وقت گزار سکیں تو بلاشبہہ یہ اللہ کی کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصروفیت سے پہلے فرصت کو غنیمت جانو (ترمذی)۔ لہٰذا نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے مطابق فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے فرصت کے ان لمحات کو بہترین انداز میں صرف کرنا چاہیے۔ بالخصوص انفرادی اصلاح، گھر کے ماحول کی بہتری اور بچوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنا کر ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم فرصت کے لمحات کی صحیح معنوں میں قدر نہیں کرتے۔ ملک کے بعض حصوں میں ہر سال گرمیوں کی اور بعض علاقوں میں سردیوں کی طویل چھٹیاں آتی ہیں۔ ان کی آمد جہاں طالب علموں،اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہے، وہاں گھر کی خواتین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اس قیمتی وقت کو کماحقہٗ استعمال نہیں کرسکتیں اور نہ ان دنوں ہی سے فیض یاب ہو پاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی مائیں اور خصوصاً لڑکوں کے والدین ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں چند عملی نکات پیش ہیں:

  • …  پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ نبی کریمؐ کے فرمان کے پیش نظر کہ صبح کے وقت میں برکت ہے، اپنے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کیجیے۔ نمازِ فجر کے بعد ہی سے دن بھر کی سرگرمیوں کا آغاز کیجیے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت سونے کی نذر نہ کریں۔ عام طور پر تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی بچوں کا رات کے وقت جاگنا اور صبح دیر سے اُٹھنے کا معمول بن جاتا ہے جو کہ نامناسب اور خلافِ فطرت ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی نمایاں ہے کہ لوگ رات گئے اسے دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام و سکون کے لیے اور دن کام کے لیے بنایا ہے۔ اس کے لیے والدین خود عملی نمونہ پیش کریں۔

___ بچوں کی عمر، تعلیم، مصروفیات کو مدنظر رکھ کر، بچوں سے مشاورت کرکے سونے کے اوقات کا تعین کرلیا جائے اور اس پہ کاربند بھی رہا جائے۔ رشتہ دار بہنوں بھائیوں کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کریں کہ ’’لمبی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔ اب تو ہر وقت بچے سر پہ سوار رہیں گے‘‘۔ اگر اپنے بچوں کا استقبال ان جملوں سے کریں گی تو آپ کے اور بچوں کے درمیان پہلے دن ہی دُوری کا احساس لاشعور میں جا بسے گا، اور وہ وقت جو آپ کے حُسنِ استقبال سے بچوں کے دلوں میں بہار لا سکتا تھا ضائع ہوجائے گا۔

___ بچوں کے ساتھ مل کر ہرہفتے کا پروگرام ترتیب دیجیے۔ ان کے ذہن اور دل چسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹ دیجیے۔ فون پہ گھنٹوں گفتگو میں مصروف رہنا، اگرچہ کوئی صحت مند سرگرمی نہیں، مگر جب آپ کی سب سے ’قیمتی متاع‘ اور وہ ’خزانے‘ آپ کے سامنے موجود ہیں، جن کی حفاظت و نگہبانی پہ آپ کے ’مستقبل‘ یعنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے تو اس خزانے کو ضائع کیوں کریں؟ جس گھر میں جتنے بچے ہیں، یقین جانیے اتنے ہی حل طلب پرچے موجود ہیں۔ اس وقت ان ’پرچوں‘ میں بہترین گریڈ حاصل کرنے کا کام دنیا کے سب کاموں سے زیادہ اہم ہے۔

  • … فجر کی نماز کے لیے اُٹھنے پہ انعام دیا جاسکتا ہے۔ ایک بھائی یا بہن کی فجر کے وقت اٹھانے کی ذمہ داری لگایئے اور پھر اس کو تبدیل کرتے رہیے تاکہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہو، اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ ایک دوسرے کا حفظِ قرآن سن لیں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہوسکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ اور لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑا تھوڑا کرکے یاد کی جائیں۔ گھر کے افراد کے ساتھ ’آج کے ایجنڈے‘ پہ بات ہو۔ سب اپنی اہم مصروفیات کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کریں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کی پیش کش کریں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ جس کا آج اس کے کل سے   بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا، گذشتہ کل کا جائزہ بھی لیا جائے کہ اپنے آج کو گذشتہ کل سے کیسے بہتر بنایا جائے۔ اس طرح اپنا جائزہ و احتساب اور مشورہ دینے اور قبول کرنے کی تربیت بھی ہوگی۔ اگر  چند منٹ بھی مل کر بیٹھیں گے تو اس کی برکت کے اثرات بہت جلد محسوس ہونے لگیں گے۔ نمازِ فجر ادا کر کے جلد از جلد سو جانے کی غیرفطری روایات نے انسانی روح کا حُسن غارت کر دیا ہے۔ نماز فجر کے بعد سونا ناگزیر ہو تو بھی دوبارہ اٹھنے کا وقت مقرر کردیا جائے۔ ایک زندہ قوم اٹھانی ہے تو آج کے والدین زندہ لمحوں کو اپنی زندگی میں جذب کریں۔
  • … چھٹیوں میں سب اہلِ خانہ ایک ساتھ ناشتہ، دونوں وقت کا کھانا کھائیں تو باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ بچوں اور بچیوں کو جس قدر ہوسکے اپنے قریب رکھیے۔ کمپیوٹر ایسی جگہ پہ رکھیے جہاں آپ اس پہ نظر رکھ سکیں۔ اگر آپ کو کمپیوٹر سے کوئی لگائو نہیں تو اس کی تھوڑی بہت مشق آپ کو کرنی چاہیے۔ جب چھوٹے بچوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے والدین سے زیادہ کچھ جانتے ہیں تو ایک احساسِ برتری پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا اکثر بچے اپنی مائوں کو اندھیرے میں رکھتے ہیں کہ ہم کام کررہے ہیں، حالانکہ وہ جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں مائیں ان سے غافل ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر نے اس دور کے ماں باپ کو سخت امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اکثر ماں باپ نے اس آزمایش و امتحان میں کامیاب نہ ہوسکنے کا اعلان کر کے، جیسے خود کو بری الذمہ قرار دے لیا ہے۔ احساسِ مروت کو کچلنے والے آلات کا مقابلہ خلوصِ نیت، مستحکم ارادے، سچے ایمان اور مناجات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ واقعی اگر ہم یہ راز جان لیں کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی اور جب تک آنکھیں اَشک بار نہ ہوں تو مناجات بھی بے اثر رہتی ہے۔
  • … فرصت کے لمحات کو محض ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی نذر نہ ہونے دیں۔ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ان کو متبادل مصروفیات اور مشاغل دیں۔ بچوں کو ان کی عمر اور ذوق کے لحاظ سے کوئی نیا کام سکھانے کی کوشش کیجیے۔ کاغذ کے کھلونے بنانا ، کاغذ پہ تصویر بنانا، رنگ بھرنا، سلائی کرنا، کسی ڈیکوریشن پیس کو صاف کرنا___ والد لڑکوں کو ساتھ ملا کر گھر کی مرمت طلب اشیا کو ٹھیک کرسکتے ہیں کہ مل جل کر گھر کے بگڑے کام سنوارنا بھی ایک فن ہے۔ آپ کو یہ کامیابی اسی صورت میں ملے گی، جب آپ اپنی پوری توجہ، وقت اور معاونت بچے کو مہیا کریں گی۔

___  اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کرکے کام کروایئے۔ ٹیوشن پڑھوانا مجبوری ہو تو بچے کے معاملات پر نظر رکھیں۔

___ گھر میں لان یا کیاری کی جگہ ہو تو بچے کو کوئی پودا اُگانے، اس کی نگہداشت کرنا سکھایئے۔ بچوں کی ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انھیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اپنی مصروفیات میں اس کے لیے بھی وقت رکھیں۔ یہ بچوں کا حق ہے جو انھیں ملنا چاہیے۔ والدین کی شفقت سے محرومی کے نتیجے میں بچے احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی جذبہ منفی رُخ اختیار کرلے تو بچے غلط صحبت اختیار کرلیتے ہیں اور انتقامی جذبہ سر اُٹھا لیتا ہے۔

___  بچوں کے دوستوں کو گھر بلوایئے اور ان کی عزت کیجیے، ان کو توجہ دیجیے تاکہ وہ آپ پہ اعتماد کریں۔ بچوں کے دوستوں کے گھروالوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیے۔ اگر آپ کے خیال میں ان کے گھر کے ماحول سے آپ مطمئن نہیں تو بچے کو برملا نہ کہیں___ حکمت و تدبر سے کام لیجیے تاکہ آپ کے اور بچے کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔

___  بچوں میں ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانا، اس کی تسکین کا سامان کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ اچھی اچھی کتب و رسائل پڑھنے کو فراہم کریں۔ بچوں کو کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔ دل چسپ انداز میں کہانی سنایئے، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانی پڑھیے اور پھر اس پر بات چیت ہو۔ ذوقِ مطالعہ بڑھانے میں یہ مددگار ہوسکتا ہے۔ کسی اچھی لائبریری کا تعارف کروایئے اور معیاری کتب منتخب کرکے دیں۔ اس طرح اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ہوجائے گی۔

___  اچھائی اور برائی کے پہلو کی بچے کی عمر کے مطابق وضاحت کریں۔ بچوں کے ساتھ وہ پروگرام اور کارٹون دیکھے جائیں جو وہ شوق سے دیکھتے ہیں۔ ان کے اچھے اور بُرے پہلو کو بحیثیت مسلمان اُجاگر کیا جائے اور بچوں کو مسلمان ہیروز کے بارے میں بتایا جائے۔ قرونِ اولیٰ کے بچوں کی ایمانی کیفیت کی اخلاق و کردار کی کہانیاں سنائی جائیں۔ جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں وہاں کے ماحول اور نصابِ تعلیم کے بُرے اثرات، آپ کو اپنی محنت و خلوص سے ہی ختم کرنے ہوں گے۔ اگر ختم نہ بھی ہوں تو آثار کم تو کرنا ہی ہیں۔ آپ محنت کی مکلف ہیں۔ دو ڈھائی ماہ بچے آپ کے لیے عذابِ جاں نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے پیش نظر انھیں توجہ دینا، وقت لگانا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ آپ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہیں۔ آپ راعی ہیں اور اپنی رعیت کی نگہانی آپ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت کی صورت میں بہترین تحفہ دے سکتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)

  • … روزانہ نہ سہی ہفتہ میں چند احادیث بچوں کے ذہن نشین ضرور کرائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات، محبت کے مظاہر یاد کرواتے رہیں تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔  کلامِ اقبال کے مختلف حصے بھی یاد کرایئے۔ یہ چیز بھی ان کی تربیت پہ بڑی خوبی سے اثرانداز ہوگی۔
  • … آج کے بچے کل کے قائد ہیں۔ مستقبل کی قیادت کی تیاری کے پیش نظر گھر کی ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لیا جاسکتا ہے، مثلاً نوعمر (teen age) بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کرکے دیکھا جائے کہ ایک دن والدین، گھر میں اپنی ذمہ داریاں، اپنی جگہ، اپنے بچوں کو سونپ کر خود ’بچے‘ بن جائیں۔ بچوں کو باری باری سے ایک دن کی ’بادشاہت‘ دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر کو سامنے لایا جاسکتا ہے، اور یہ ایک دل چسپ تجربہ بھی ہوگا۔
  • … نوعمر بچوں کو ’جج‘ بناکر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے، کھیل کے طور پر پیش کیے جائیںتاکہ ان کو انصاف کرنے، فیصلہ کرنے کی تربیت دی جاسکے۔ بچوں کی لڑائی میںصلح کرانا،  ان کی شرارتوں، نادانیوں کی اصلاح کرانے کے لیے ان سے تعاون لیا جاسکتا ہے۔ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار، قابلِ اعتماد ہستی کے طور پر برتائو کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔

___  نوعمر بچوں کو احساس دلانا کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ’راعی‘ ہیں، لہٰذا شفقت و محبت اور تحمل و برداشت سے ان کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں۔ والدین کی نگرانی اور توجہ سے تربیت کا یہ عمل اگر آگے بڑھتا رہے تو ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

___  لڑکوں کو باجماعت نماز کی عادت پختہ کروایئے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح نوعمر لڑکوں کو امامت کے آداب سکھائے جاسکتے ہیں۔

  • … جمعہ کو ایک روزِ خاص کے طور پر منانا___ اہلِ خانہ کا مل کر ’سورئہ کہف‘ کی تلاوت کرنا، باعث سعادت و برکت ہوگا۔ ہر فرد ایک رکوع کی تلاوت کرکے ثواب میں حصہ دار ہوسکتا ہے۔ جمعہ کی نماز کے لیے سب اہلِ خانہ تیار ہوکر مسجد میں جائیں تو گھر میں صبح سے جمعہ کی تیاری، نماز میں شرکت سے ’عید‘ کا سماں بندھ جائے گا۔ اگر اہتمام سے کسی اچھے مقرر کے خطابِ جمعہ کو سنا جائے تو جمعہ کی تربیتی اہمیت بھی اجاگر ہوگی اور دین کا فہم اور فکری غذا بھی میسر آئے گی، نیز ایک تسلسل سے ہفتہ وار تربیت کا عمل جاری رہے گا۔
  • … گھر میں یا گھر سے باہر بچوں کے ’اسلامی نغمے‘ سننا اور اس میں ہم آواز ہونا،  آپس میں رفاقت اور محبت کی خوشی کو دوچند کر دے گا۔ اس سے بے تکلفی کا ماحول پیدا ہوگا۔ یہ ذہنی دبائو کو کم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
  • … کبھی کبھار بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی سطح پہ آکر کھیل میں شریک ہونا، ان کی باتوں میں دل چسپی لینا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مقابلہ کرنا___ کبھی جیت کر، کبھی بچوں سے ہارکر ___ دونوں کیفیات میں صحیح طرزِعمل کی تلقین سے کھیل ہی کھیل میں بچوں کی جذباتی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی رویوں کی رہنمائی ہوگی۔ اگر صبح یا شام کے وقت بچے باقاعدہ کھیل کے میدان میں جاکر کھیل سکیں تو یہ بہت مفید سرگرمی ہوگی۔
  • … نوعمر بچوں پہ اپنے خیالات کو حاوی کرنا___ اپنی پسند اور راے کو زبردستی ٹھونسنا مناسب نہیں۔ دلیل سے بات کو منوایئے۔ یہ عمر اپنی صلاحیتوں کا اظہار چاہتی ہے۔ ان سے مشورہ لینا اور تحمل سے ان کا نقطۂ نظر سننا ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ کبھی ان کے مشورے اور راے کے سامنے اپنی راے چھوڑ بھی دینی چاہیے۔ بعض اوقات بچوں کے مشورے اور راے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ وہاں جاتی ہے، جہاں بڑوں کی نگاہ نہیں جاتی۔ بچوں کے ذہن اور عمر کو مدنظر رکھ کر بھی معاملات کو جانچا جائے۔
  • … بچوں کے ساتھ صبح یا شام کو اگر کہیں ممکن ہو تو کسی پارک میں، نہر کے کنارے یا ساحلِ سمندر پہ پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے۔ فجر کے بعد کھلی فضا میں چہل قدمی کا لطف اُٹھایئے۔ کائنات کے اس وقت کا حُسن قدرت کے قریب کرنے کا موجب ہوگا۔ بچوں کو کائنات پہ غوروفکر کی دعوت دیجیے۔
  • … طویل چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں، مثلاً خوش خطی،  مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کچھ مزید کام اور خواتین سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ سکھا سکتی ہیں۔ اپنے تجربات و مشاہدات کو آپس میں زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ بچے ہمارا مشترکہ سرمایہ اور ہمارا مستقبل ہیں۔ بحیثیت اُمت مسلمہ ہماری ذمہ داریاں عام انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ ان کو ادا کرنے کے لیے اجتماعی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے۔
  • … بچوں کو ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے لے کر جانا، اللہ تعالیٰ کے شکر کا جذبہ پیدا کرنا، اور دوسروں سے ہمدردی، محبت کا اظہار کرنا سکھانا، اس لیے کہ آج کے دور میں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ ایک گھر کے افراد بھی ایک گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ یہ بیگانگی رشتوں کے باہم تعلق و تقدس کے لیے سمِّ قاتل ہے۔
  • … حلقۂ احباب ، رشتہ داروں وغیرہ کے ساتھ مل کر پکنک پہ جانا، جہاں حقوق العباد کی اہمیت اُجاگر کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اسلامی تہذیب کے آداب سکھانے میں بھی مفید ہے۔
  • … بچوں کی تربیت اور سکھانے کے عمل میں ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ و تربیت میں دعوتِ دین اور دعوتی سرگرمیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر آپ کے ہاں درس قرآن، دوست احباب کو دعوت دینا، لٹریچر تقسیم کرنا، خدمت خلق کے تحت مستحق افراد کی مدد کرنا اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا معمول ہو تو یہ عمل بغیر کسی نصیحت اور تلقین کے بچوں کو خود بخود سیکھنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس طرح اُمت کے فرض منصبی، نبی کریمؐ کے مشن اور فریضہ اقامت دین کو فطری انداز میں بخوبی آگے ادا کیا جاسکتا ہے، اور بچوں کو تحریک سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔

بیرونِ ملک پاکستانی والدین کی ذمہ داری

  • … بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی بچوں کو پاکستان کے حالات سے آگاہ کرنا، پاکستان کی تاریخ سے آگاہ کرنا، اور وطن اور اُمت سے محبت پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین خود پاکستان کے بارے میں منفی گفتگو کریں گے تو وہ بچوں کو وطن کی محبت کیسے سکھائیں گے۔ بیرون ملک وہ پاکستانی بچے جو اُردو نہ بولنے اور نہ پڑھنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں، ان کے والدین کو احساس کرنا چاہیے کہ یہ بچے پاکستانی ہوکر بھی پاکستانی نہ ہوں گے تو پھر ان کی شناخت کیا ہوگی؟ خصوصاً وہ پاکستانی بچے جو شرق اوسط میں یا ان ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں ان کو وہاں کی شہریت بھی نہیں مل سکتی تو وہ آخرکار پاکستانی پاسپورٹ پہ ہی پاکستان آئیں گے۔ اگر اپنے وطن سے پیار ہی نہ ہوگا تو وہ اس کے لیے کیا عملی خدمات انجام دے سکیں گے، لہٰذا چھٹیوں میں ان والدین کو چاہیے کہ خاص طور پر اپنے بچوں کو پاکستان کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں سے ان کو آگاہ کریں۔ اگر ممکن ہو تو اپنے وطن کی سیاحت اور عزیز و اقربا سے ملاقات کا پروگرام بھی بنایئے۔ اس سے جہاں وطن کی قدر پیدا ہوگی وہاں بہت سے چاہنے والوں کی پُرخلوص محبتیں بھی ملیں گی جو قربت کا باعث ہوں گی۔

___ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیوں میں کسی تفریحی مقام پہ جا رہے ہیں یا کسی رشتہ دار کے ہاں مقیم ہیں تو بھی یہ تربیت کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مظاہر، رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت کا ساتھ ساتھ احساس دلایا جاتا رہے۔ جتنا سفر میں انسان سیکھتا اور سکھاتا ہے___ وہ گھروں میں ممکن نہیں ہوتا___ ہروقت کا ساتھ___ کچھ نئے عوامل، سفر کے تجربات، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ہوتا ہے۔

  • … چھٹیوں میں اسلامی تربیتی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں، والدین وہاں بچوں کو بھیجیں اور بیرون ملک رہنے والے تربیتی ادارے ان کیمپوں میں پاکستان اور اُردو زبان سے تعلق کا کوئی پروگرام ضرور رکھیں۔
  • … گھر میں پاکستان کا تفصیلی نقشہ لٹکا کر رکھیں تاکہ بچوں کے ذہن میں ملک کا حدود اربعہ نقش ہوجائے، اور مقامات کی پہچان ہوجائے۔
  • … پاکستانی اور سب سے پہلے مسلمان ہونے کا احساس، والدین اور خصوصاً والدہ کا طرزِعمل، خود ہی بچوں میں اُجاگر کردے گا۔ بچوں میں اتنی ایمانی جرأت پیدا کیجیے کہ وہ مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے پہ فخر کرسکیں۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں سے آگاہی دیجیے۔ اگر آج ہم نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کچھ کیا ہے، یا اپنے غیرایمانی طرزِعمل سے بچوں کو غلط تاثر دیا ہے تو اس غلطی کی اصلاح کیجیے۔ غلطی کرنا اتنا بڑا عیب نہیں جتنا بڑا عیب غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ تسلیم کریں گے تو اصلاح ہوگی۔ اپنی اصلاح ہوگی تو بچوں سے کچھ کہنے کے لیے اپنے اندر اعتماد پائیں گے۔
  • … ہر والد، والدہ، اپنے خاندان کے مزاج، ماحول، حالات کو سامنے رکھ کر چھٹیوں کو اپنے لیے یادگار بناسکتا ہے۔ مسلمان ہیں، مسلمان گھرانہ ہے تو اس کو عملی طور پر ثابت بھی کرنا ہوگا۔ حسنِ نیت اور خلوص سے بھرپور کوشش کرنے والوں کو ہی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
  • … آخرت میں وہ مسلمان والدین ہی اس ’اجرعظیم‘ کے مستحق ہوں گے جنھوں نے اولاد جیسی نعمت کو ضائع نہیں کردیا ہوگا بلکہ پوری ہوش مندی اور شعور سے ’داعی‘ کی ذمہ داریاں نبھائی ہوں گی۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸:۲۸) ’’اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔
  • … آج ہی عزم کیجیے___ پروگرام مرتب کیجیے___ چھٹیوں کے ہر دن کو ایسا بنانا ہے کہ وہ ’گزرے کل سے بہتر ہو‘۔ اِک نئے جذبے سے بچوں کے ساتھ دوستی، محبت کا رشتہ استوار کیجیے___  اپنے لیے، اُمت مسلمہ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اپنی آخرت سنوارنے کے لیے۔ ضروری نہیں کہ وہ سب منصوبے جو آپ بنائیں وہ پورے ہوں۔ حالات و واقعات ان میں ردّ و بدل کروائیں گے لیکن آپ نے اس ردّ و بدل میں بھی اپنا اصلی ٹارگٹ نہیں بھولنا۔ بچے آپ کا قیمتی خزانہ ہیں___ ان سے غافل نہیں ہونا۔
  • … ایک بات کا خاص طور پر خیال رہے کہ نبی کریمؐ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو  ثابت قدمی سے مسلسل کیا جائے۔ لہٰذا فرصت کے لمحات اور چھٹیوں کے لیے جو نظام الاوقات اور تربیتی امور طے کرلیں، انھیں باقاعدگی سے انجام دیں، اور چھٹیوں کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں، تب ہی مؤثر اور نتیجہ خیز تربیت ہوسکے گی۔ اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد، استعانت اور دعائوں کا خصوصی اہتمام بھی ضرور کیجیے۔

آیئے دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمارے شریکِ زندگی اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور ہمیں وہ تقویٰ عطا کردے کہ ہم نیک لوگوں کے امام بن جائیں اور ہماری نسلیں ہمارے لیے صدقۂ جاریہ ہوں۔ آمین!

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴)

 

جاپان ہمہ اقسام کی ایجادات اور مصنوعات کی وجہ سے ساری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے، لیکن یہاں کی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں سے باہر کی دنیا پوری طرح آگاہ نہیں۔ یہ زیادہ تر جاپانی زبان میں ہوتی ہیں، اس لیے بیرونی دنیا اور خصوصاً اُردو دنیا کو کوئی علم نہیں ہوپاتا۔

راقم الحروف نے اپنے جاپان کے اولین قیام کے عرصے (۱۹۹۳ء-۲۰۰۰ء) میں علمی و تحقیقی میدان میں، خصوصاً تاریخ اور سیاست، اسلام اور دنیاے اسلام اور پھر اُردو زبان و ادب کے تعلق سے یہاں ہونے والی تصنیفی و تالیفی اور تراجم پر مبنی سرگرمیوں کے احوال کو اُردو دنیا سے متعارف کرانے کا ایک سلسلہ ’مشرقِ تاباں‘ کے زیرعنوان کراچی کے ایک کثیرالاشاعت رسالے میں جاری رکھا تھا اور پھر بعد میں گاہے گاہے نئی معلومات بھی مختلف رسائل میں پیش کی ہیں۔ اس مضمون میں جاپان میں، خصوصاً حالیہ چند برسوں میں، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی تاریخ و سیاست اور معاشرت و مذہب پر جو مطالعات اور تحقیقات سامنے آئی ہیں ان میں سے چند کا سرسری تعارف مقصود ہے۔

ایک عرصہ قبل پاکستان سے متعلق مطالعہ و تحقیق کی روایت جاپان میں محض چند اسکالروں اور ایک دو اداروں تک محدود تھی جن میں دی سنٹر فار ایسٹ ایشین کلچرل اسٹڈیز ٹوکیو، ٹوکیو یونی ورسٹی، تویو بونکو (Toyo Bunko)، اورینٹل لائبریری ٹوکیو، ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اور جاپان پاکستان ایسوسی ایشن ٹوکیو نمایاں تھے۔ ان میں سے مؤخر الذکر ادارہ خصوصاً پاکستان کے تعلق سے مطالعے کے ساتھ ساتھ تعارفی و سماجی نوعیت کی تقریبات اور خطبات کا اہتمام بھی کرتا ہے لیکن اس کے چند علمی کام یادگار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک اس کا وہ جریدہ ہے، جو پاکستان کے نام سے کچھ عرصہ قبل تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ جریدہ جاپانی زبان میں جاپانی اسکالروں کی تحریروں سے، جو کسی نہ کسی لحاظ سے پاکستان اور اس کی معاشرت، معیشت، تاریخ اور سیاست سے متعلق ہوتی تھیں، مزین ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اس میں کسی پاکستانی تخلیق، جیسے افسانہ یا کسی اور نوعیت کی ہلکی پھلکی تحریر کا جاپانی ترجمہ بھی شائع کیا جاتا تھا۔ اس میں گاہے گاہے جاپانیوں کی وہ تحریریں بھی شامل ہوتی تھیں جو ان کے پاکستان کے سفر یا قیام کے دوران ان کے مشاہدات و تاثرات پر مبنی ہوتی تھیں۔ پاکستان کے بارے میں اس طرح کی ذاتی مشاہدات و تاثرات اور جائزے و مطالعے پر مشتمل تحریروں کے دوسرے مجموعے وقتاً فوقتاً جاپان میں چھپتے رہے ہیں، جن کے بیش تر موضوعات کا تعلق بالعموم پاکستان کی تہذیب و ثقافت، معاشرت، مناظر اور سیاست و معیشت سے ہوتا ہے۔

یہ جریدہ پاکستان اب بھی نکلتا ہے، اور اب حال میں اس کا ۲۰۰ واں شمارہ ،بطور خاص نمبر، قدرے زیادہ ضخامت سے شائع ہوا ہے۔ اس خاص نمبر میں اس کے ۲۰۰ شماروں کا ایک خصوصی جائزہ ’کی کوتایوتاکا‘ صاحب نے تحریر کیا ہے، جس میں ایسوسی ایشن کی تاریخ پر بھی نظر ڈالی ہے۔

جاپان پاکستان ایسوسی ایشن کے علمی کاموں میں سے ایک اہم علمی کام ایک ضخیم کتابیات رہنماے پاکستان (جاپانی) کی ترتیب و اشاعت تھا۔ یہ متنوع اور مبسوط کتابیات، جو پاکستان کی تاریخ و سیاست ، تہذیب، ثقافت، معاشرت اور زبان و ادب کے متعدد پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے، اگرچہ جاپانی زبان میں ہے اور زیادہ تر جاپانی مطبوعات پر مشتمل ہے لیکن اس میں مغربی زبانوں بالخصوص انگریزی مآخذ اور کتب ِحوالہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بہت جامع اور سائنٹی فک انداز سے مرتب کی ہوئی کتابیات ہے، جس کی نظیر، بعض مغربی زبانوں کی کتابیات سے قطع نظر، جو پاکستان کے تعلق سے بالخصوص مرتب ہوئیں، کسی مشرقی زبان میں مشکل ہی سے مل سکتی ہے۔

اس کتابیات کے مرتبین میں متعدد نام ہیں لیکن بنیادی اور حاوی کام پروفیسر اسادایوتاکا (صدر شعبۂ اُردو، ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز) اور ہیرو کی فوکاماچی (ماہر معاشیات پاکستان) نے انجام دیا۔ ان دونوںاسکالروں نے اپنی دل چسپی اور مطالعے کا محور پاکستان کو بنا رکھا ہے۔ پروفیسر اسادایوتاکا کے کام اُردو زبان و ادب سے متعلق ہیں اور وہ اور ان کی بیگم میہارو اسادا پاکستان کی شمالی زبانوں پر بھی کام کرچکی ہیں، جب کہ فوکاماچی نے پاکستان کی معیشت اور سیاست میں دل چسپی لی ہے اور بجاطور پر جاپان میں ان کے ماہر مانے جاتے ہیں۔

پاکستان پر مختلف نوعیت کی متعدد کتابیں،سفری رہنما کتب، وہاں سے آنے والے جاپانیوں کے تاثرات پر مبنی کتب یا مضامین کے مجموعے، معاشی جائزے اور تاریخی و تحقیقی نوعیت کی مکمل یا جزوی کتب شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ایک ایسی ہی کتاب چند سال قبل ۲۰۰۳ء میں،سویامانے، ہیروسے تکاکو اور اودا ہسایا نے مل کر مرتب کی ہے، جس کے عنوان کا ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ ’پاکستان جانے کے لیے ۶۰ ابواب‘۔ اس کتاب میں ۶۰ مختلف عنوانات کے تحت پاکستان کے بارے میں وہ معلومات فراہم کی گئی ہیں جو پاکستان کے بارے میں جاننے اور وہاں جانے والوں کے لیے دل چسپ اور مفید ہوسکتی ہیں۔ مرتبین کو پاکستان سے نسبت رہی ہے اور ان میں سویامانے تو پاکستان میں تعلیم بھی حاصل کرچکے ہیں۔ قونصل خانہ جاپان میں سرکاری فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں اور اب اوساکا یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو میں پروفیسر رہ کر ایک عرصے سے اُردو، پاکستان، اسلامی فکر اور تحریکوں پر تحقیق و تصنیف اور تدریس میں مصروف ہیں۔ یہ کتاب یہاں بہت مقبول ہوئی ہے، دو سال بعد اس کا دوسرا اڈیشن اور اب اگلے سال اس کا تیسرا اڈیشن شائع ہو رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے حالیہ دو تین دہائیوں کے تعلقات اور مسائل پر بھی یہاں کئی مطالعے ہوچکے ہیں۔ افغانستان بھی خصوصی موضوع کی حیثیت یہاں اختیار کرچکا ہے۔ ماہرین مختلف پہلوئوں سے ان دونوں ملکوں پر الگ الگ یا مشترکہ موضوع کی حیثیت میں مطالعہ کر رہے ہیں اور کتابیں اور مقالات سامنے آرہے ہیں۔ اس نوعیت کی ایک مختصر کتاب فوکاماچی ہیروکی اور ادوا ہسایا نے مرتب کی ہے جس کے عنوان کا ترجمہ کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ ’’افغانستان اور پاکستان: کیا یہ بحران ریاست کے وجود کے لیے ہے؟‘‘ دونوں مرتبین پاکستان پر مختلف نوعیت کے تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے کرچکے ہیں۔ فوکاماچی صاحب یہاں پاکستان کی سیاست و معیشت کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور اُردو خوب جانتے ہیں۔ ان کی بیگم بھی پاکستان سے بے حد محبت و انسیت رکھتی اور اُردو جانتی ہیں اور اپنے تاثرات لکھ بھی چکی ہیں۔

جاپان میں تحقیقی مطالعات کی مستحکم اور دیرینہ روایت میں علاقائی مطالعات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فیجی کے زمانے میں، یعنی انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں جب یہاں نئے نظامِ معاشرت و معیشت کی تشکیل کی بابت سوچا گیا تو یہ بھی سوچا گیا اوراس کے لیے باقاعدہ اور منظم طریقے پر سیاسی سرپرستی میں یہ اہتمام کیا گیا کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کی معاشرتی اور معاشی ترقی کا راز معلوم کیا جائے اور ان کی مثبت خصوصیات کو اختیار کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جو جو اہتمام ہوئے اور جو کامیابیاں جس جس طرح سے حاصل ہوئیں، یہ ایک الگ داستان ہے۔ علاقائی مطالعات کو اس وقت سے یہاں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بعض جامعات اس مقصد سے قائم    کی گئیں، جیسے ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اور پھر  دیگر متعدد سرکاری اور نجی جامعات میں ایسے خصوصی شعبوں اور کلیّوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ان جامعات اور کلیّوں میں ہر اہم موضوع پر، جن میں خصوصیت سے مذہب، تاریخ، تہذیب و ثقافت اور سیاست و بین الاقوامی تعلقات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، تحقیق اور تدریس کا خاص اہتمام ہوتا ہے، کتابیں شائع ہوتی ہیں اور مجلے بھی نکلتے ہیں۔

آج کل ایسے مطالعات کا ایک نیا اور اہم مرکز، مذکورہ جامعات سے قطع نظر، کیوتو یونی ورسٹی بن گئی ہے۔ اس کے کلیہ ایشیا، افریقہ، علاقائی مطالعات اور مرکز براے اسلامی مطالعات ان دنوں تحقیقی سرگرمیوں کا محور بنے ہوئے ہیں۔ یہاں خاص طور پر اسلامی مطالعات کو مرکزیت اور توجہ حاصل ہوگئی ہے۔ تحقیقی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں اور سیمی ناروں اور کانفرنسوں کا ایک سلسلہ بندھا ہوا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ان مراکز کے صدر ایک پروفیسر کوسوگی ہیں، جو عربی کے استاد ہیں۔ پی ایچ ڈی جامعہ ازہر، قاہرہ سے کی ہے اور مسلمان بھی ہوچکے ہیں۔ بہت لائق، متحرک اور مستعد انسان ہیں۔ کئی اہم کتابیں اسلام اور دنیاے اسلام کے تعلق سے مرتب کی ہیں۔ ایک تحقیقی مجلہ بھی نکالتے ہیں اور ایک عمدہ اور وقیع کتب خانہ بھی قائم کررکھا ہے۔ یہ پہلے ٹوکیو یونی ورسٹی اور اس کے مرکز مطالعات اسلامی سے منسلک تھے لیکن کچھ سالوں سے کیوتو یونی ورسٹی آگئے ہیں، اور ان کی آمد سے یہاں اسلامی مطالعات اور علاقائی مطالعات میں روز افزوں اضافہ ہوگیا ہے۔ ویسے تو یہاں علاقائی مطالعات کے ضمن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ پروفیسر کوسوگی کی بنیادی دل چسپی عربی اور مشرق وسطیٰ کی حالیہ معاشرت و سیاست سے متعلق ہے، لیکن اب وہ جنوبی ایشیا اور یہاں کی اسلامی فکروتحریک کے مطالعے کی طرف بھی راغب ہو رہے ہیں اور ایسے موضوعات بھی اپنے نوجوان اسکالروں میں تقسیم کر رہے ہیں، جن کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔

یہاں ایک ایسے ادارے کا ذکر بھی مناسب ہے جو محض جنوبی ایشیا کی ثقافت اور زبانوں کے مطالعے کے لیے مخصوص ہے اور یہ ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کا ایک ذیلی ادارہ ’سائوتھ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘ ہے جس میں اس ادارے کے نام اور مقاصد کے تحت مطالعات کا ایک تسلسل برسہا برس سے قائم ہے۔ یہاں پی ایچ ڈی کے متعدد منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور بیشتر مقالات شائع بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں سے ایک تحقیقی مجلہ ’جرنل آف سائوتھ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘ شائع ہوتا ہے جس میں جاپانی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی اور یورپی زبانوں میں بھی مقالات چھپتے ہیں اور سب ہی تحقیقی وتجزیاتی نوعیت اور معیار کے حامل ہوتے ہیں۔اس کے ایک حالیہ شمارے میں پروفیسر ہیروجی ہاگیتانے، جو ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے شعبۂ اُردو میں استاد اور کئی اُردو افسانوں کے مترجم اور اب ’اُردو جاپانی لغت‘ کے مرتب بھی ہیں، ایک کتابیات اُردو کے ان ناولوں اور افسانوں کی مرتب کی ہے، جو اَب تک جاپانی میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے تعلق سے اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز بھی اہم ہے جس میں مختلف متعلقہ شعبے تحقیقی و تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں سے بھی ایک تحقیقی مجلہ جرنل آف اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز شائع ہوتا ہے، جس میں متنوع تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں، جو اگرچہ مختلف موضوعات پر ہوتے ہیں، لیکن جنوبی ایشیا، یہاں کی ثقافت اور زبان و ادب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ فارسی، اُردو اور ہندی و بنگالی زبانوں اور ان کے ادب پر اس جرنل میں متعدد قابلِ قدر مقالات شائع ہوتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے تعلق سے یہاں ایک اور ادارے کا ذکر ضروری ہے جو ٹوکیو میں ادارۂ شرقی (Toyo Bunko) کے نام سے معروف ہے۔ اس کا ایک بڑا اور وقیع کتب خانہ علومِ شرقیہ پر کتابوں اور مخطوطات کے قیمتی ذخیرے کی بنا پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں موجود مطبوعات اور مخطوطات کی فہرستیں چھپ چکی ہیں۔ ٹوکیو میں اس کے علاوہ ٹوکیو یونی ورسٹی کا ایک ذیلی ادارہ ’مرکز براے مشرقی ایشیائی ثقافتی مطالعات‘ ہے جس کے تحت مختلف متعلقہ موضوعات پر تحقیقات اور علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور منصوبوں کا ایک تسلسل یہاں قائم ہے۔ یہاں سے کئی کتابیں اور کتابچے چھپ چکے ہیں اور ایک تحقیقی مجلہ Asian Research Trends یہاں سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں جو مقالات شائع ہوتے ہیں ان کی نوعیت تحقیقی جائزوں اور کتابیاتی مطالعات کی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا محور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک مثلاً چین، کوریا، فلپائن، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، برما پر محیط رہتا ہے لیکن گاہے گاہے جنوبی ایشیا پر بھی مقالات شائع ہوتے ہیں، مثلاً ایک سلسلۂ مضامین ’ہندستان میں تحقیقی اداروں کا جائزہ‘ کے عنوان سے ناکازاتو ناریاکی نے تحریر کیا، جو چار قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں اداروں کا تعارف، نوعیت اور سرگرمیوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ ایک شمارے میں نیدرلینڈ میں اسلام سے متعلق جو تحقیقات ہوئی ہیں ان کا ایک بہت محققانہ جائزہ اور کتابیات شائع ہوئی ہے۔ چین میں اسلامی تحقیقات پر بھی ایک محققانہ سلسلۂ مضامین اس میںشائع ہوا ہے۔ ایک شمارے میں وسط ایشیا، قازقستان کے تعلق سے اور نوآبادیاتی بنگال کے بارے میں مقالات شائع ہوئے ہیں۔

اس ادارے میں ’توسیعی خطبات‘ کی ایک مستحکم روایت بھی قائم ہے، جس کے تحت ماہرین کو ’توسیعی خطبات‘ کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور وہ خطبات کتابچوں کی صورت میں شائع کیے جاتے ہیں۔ ان خطبات اور ان پر مبنی کتابچوں کو انگریزی زبان میں Oriental Studies in Japan: Retrospect and Prospectکے زیرعنوان ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس وقت دوخطبات: ۱- جنوبی ایشیا کی تاریخ اور ۲- عصرِحاضر کا جنوبی ایشیا، میرے پیش نظر ہیں، جو علی الترتیب کراشیما نوبورو اور ناکامورا ہے ایچی نے تحریر کیے ہیں۔ ان میں عنوان کے مطابق بہت جامع اور تجزیاتی مطالعات کیے گئے ہیں۔ ان کا سلسلۂ شمار ۲۷ تک پہنچا ہے اور ان کے موضوعات میں تاریخ، تہذیب و ثقافت، فلسفہ، ادب، لسانیات، فن تعمیر، بشریات اور فنون شامل ہیں اور علاقائی ذیل میں ان کا دائرہ جاپان کے علاوہ، مغربی ایشیا، افریقہ، چین، کوریا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے۔

اس طرح کے اور بھی مطالعاتی سلسلے یہاں جاپانی اسکالروں اور علمی و تحقیقی اداروں کے  پیش نظر رہتے ہیں۔ مثلاً ٹوکیو یونی ورسٹی نے ایک خصوصی تحقیقی منصوبہ Islamic Area Studies Project جاری کیا تھا، جو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک جاری رہا۔ اس منصوبے کے تحت جو تحقیقات شائع ہوئیں، ان میں سے ۱۹ راقم الحروف کی نظر سے گزریں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ منصوبے جاپانی اسکالروں نے مکمل کیے، جب کہ دیگر متعلقہ ممالک کے اسکالروں نے بھی ان منصوبوں کی تکمیل میں شرکت کی۔

یہ امر بھی دل چسپی کا باعث اور قابلِ رشک ہے کہ جاپان میں علمی اور تحقیقی منصوبے بھی ’پنج سالہ‘ بنائے جاتے ہیں، یعنی نجی اور ذاتی منصوبوں سے قطع نظر وہ منصوبے جو سرکاری یا اداراتی  یا جامعاتی سطح پر بنائے جاتے ہیں، انھیں اسی طرح پانچ سالوں کے ہدف سے پورا کیا جاتا ہے۔   یہ منصوبے بالعموم مشترکہ منصوبے ہوتے ہیں، یعنی انھیں کئی افراد کے سپرد کردیا جاتا ہے اور تقسیمِ کار کے بعد رفتارِ کار کا جائزہ سالانہ بنیادوں پر لیا جاتا ہے اور پھر ضروری فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بعض منصوبے جو بڑے اور زیادہ اہم ہوتے ہیں انھیں کئی اداروں اور جامعات کے سپرد کردیا جاتا ہے کہ اس منصوبے کا فلاں حصہ، فلاں جامعہ یا فلاں ادارے کے سپرد رہے گا اور فلاں اُس ادارے کے سپرد۔ پھر وہ ادارہ یا جامعہ اسے اپنے افرادِ متعلقہ کے سپرد کر دیتی ہے یا ان میں تقسیم کردیتی ہے اور پھر سالانہ بنیادوں پر رفتار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ راقم الحروف کی معلومات کی حد تک، یہ سلسلہ یہاں ۱۹۸۴ء سے شروع ہوا ہے اور بڑے منصوبے بالعموم پانچ سالوں پر محیط آگے بڑھتے ہیں۔ جب یہ مکمل ہوجاتے ہیں تو انھیں شائع کردیا جاتا ہے۔ تحقیق میں اشتراکِ عمل کی یہ مستحسن اور مفید روایت کاش کہ ہمارے ملک میں عام ہوسکے۔ لیکن ہم تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہی کے حصار میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایثار، رواداری اور اشتراکِ عمل ہماری سرشت ہی میںنہیں۔

حال ہی میں جنوبی ایشیا سے متعلق تازہ تر تحقیقات پر جو مطالعے راقم الحروف کی نظر سے گزرے ہیں ان میں ایک پروفیسر اونایاسویوکی کی تصنیف سلطنت مغلیہ میں ہندستانی معاشرہ ہے۔  یہ کتاب اسی سال شائع ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تعلق سے زیادہ مبسوط اور متنوع کام ابھی حال ہی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کے عنوان سے چار جلدوں کا ایک ضخیم منصوبہ ہے، جس کی تین جلدیں پچھلے سال اور اس سال چھپ چکی ہیں اور چوتھی جلد اگلے سال شائع ہو رہی ہے۔ اس کے مرتب نوبورو کراشیما ہیں اور جلد اول اور جلد سوم خود ان ہی کی تصنیف کردہ بھی ہیں۔ چار جلدوں کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے: جلد اول: عہدِ قدیم یا ہندو عہد، جلد دوم: عہدِ وسطٰی اور عہدِ جدید، جلد سوم: جنوبی ہند اور ریاستیں، جلد چہارم: حالیہ عہد کا جنوبی ایشیا۔

مغلیہ عہد کے جنوبی ایشیا پر پروفیسر کوندو اوسامو کا نام جاپان میں خاصا معروف اور محترم ہے۔ موصوف نے اپنے مطالعات کو فارسی مآخذ کی مدد سے مکمل کیا ہے۔ وہ فارسی خوب جانتے ہیں اور فارسی مآخذ اور متون کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ابھی حال میں کوندو صاحب کا ایک مقالہ ایک بہت انوکھے موضوع پر شائع ہوا ہے کہ عہداکبر میں سنسکرت کی اہم کتب کے جو تراجم ہوئے، ان تراجم کے دوران مترجمین کو کیا کیا مسائل درپیش رہے۔ خصوصاً لسانی حوالے سے کہ سنسکرت الفاظ یا اصطلاحات کو فارسی اِملا میں کس طرح ڈھالا جائے۔ پروفیسر کوندو نے ایسے الفاظ کی نشان دہی کی ہے۔ دراصل ان کا یہ مقالہ اوساکا یونی ورسٹی میں اُردو کے پروفیسر سویامانے کے ایک مقالے کی بازگشت کہا جاسکتا ہے، جس میں سویامانے صاحب نے اُردو اِملا اور رسم الخط کے تشکیلی دور کا تحقیقی مطالعہ کیا تھا اور اس ضمن میں انگریز مستشرقین کی ان کوششوں پر روشنی ڈالی تھی جو انھوں نے اُردو حروف اور رسم الخط کو وضع کرنے میں انجام دی تھیں۔ مثلاً ک، گ، ر، ڑ، ٹ کو پہلے کیسے لکھا جاتا تھا لیکن پریس کے قائم ہونے، طباعت کے شروع ہونے اور پھر نستعلیق ٹائپ کے استعمال کے باعث یہ حروف کس طرح تبدیل کرنے ضروری سمجھے گئے۔ پروفیسر سویامانے کے اس طرح کے مباحث کو، جو اُردو کے تعلق سے تھے، پروفیسر کوندو نے فارسی کے مقامی تلفظ کے حوالے سے اپنے مقالے میں سمیٹا ہے۔ لیکن اپنے اس مطالعے کو انھوں نے عہداکبری کی اہم تصنیف آئین اکبری مصنفہ ابوالفضل کے مطالعے اور حوالے تک مخصوص رکھا ہے۔

حالیہ دنوں میں جو مزید قابلِ ذکر اور قابلِ رشک تحقیقی کام سامنے آئے ہیں، ان میں شویامانے (سویامانے نہیں) کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ، مغل شہر: ’توسیعی تعمیر کا تصور اور ان کا ارتقائی و تقابلی مطالعہ‘ ہے، جوکچھ عرصہ قبل شائع ہوا ہے۔ یہ مقالہ انھوں نے کیوتو یونی ورسٹی میں مکمل کیا ہے اور ان کے نگران پروفیسر ہونو اور پروفیسر نشی کاوا تھے، جو خود جنوبی ایشیا کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر کو فنِ تعمیرات سے خاص دل چسپی ہے۔ اس ضخیم تحقیقی مقالے میں مقالہ نگار نے اسلامی شریعت میں شہروں کی تعمیر اور خصوصیات کے تعلق سے روایت اور تصورات پر فاضلانہ طریقے سے روشنی ڈالی ہے اور قدیم اسلامی شہروں مکہ، مدینہ، بغداد،دمشق اور ساتھ ہی یروشلم کی تعمیر اور شہریت کا تقابلی و ارتقائی مطالعہ پیش کیا ہے۔اپنے ان مطالبات میں انھوں نے جزئیات کو بھی اہمیت دی ہے اور اس حد تک گہرائی میں گئے ہیں کہ گلی اور کوچے تک کے فرق کا تحقیقی مطالعہ کر ڈالا ہے۔ اپنے ارتقائی مطالعے میںانھوں نے قدیم شہروں کے ذیل میں یوریشیا کے ماوراء النہر اور ایران کے شہروں کو بھی پیش نظر رکھا ہے، لیکن ان کے موضوع کا اہم حصہ مغل شہروں کا تعمیراتی مطالعہ تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے بطور مثال و حوالہ چند اسلامی شہروں دہلی، لاہور اور احمدآباد کو بنیادی مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے اس مطالعے کو انھوں نے قدیم اور جدید نقشوں سے مزین کر کے نہایت قیمتی معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ پروفیسر یامانے کو شہروں کی تعمیرات اور ان کے تحقیقی مطالعے سے ابتدا ہی سے دل چسپی رہی ہے۔ وہ جب ایم اے کے طالب علم تھے تو انھوں نے ایم اے کا مقالہ ’لاہور کی توسیعی تعمیروتشکیل‘ کے موضوع پر ۱۹۹۳ء میں لکھا تھا۔

اب آخر میں ایک ایسی کتاب کا ذکر مناسب ہوگا جو اگرچہ تصوف کے موضوع پر ہے لیکن اس میں تاریخی تناظر سے بھی مطالعہ شامل ہے۔ اس کتاب کو صوفیہ یونی ورسٹی (ٹوکیو) کے مرکز مغربی ایشیا و افریقہ (Centre for West Asia and Africa) نے شائع کیا ہے۔ یہ مرکز ایک عمدہ تحقیقی مجلہ بھی شائع کرتا ہے جس میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ و ایران کے بارے میں مقالات شائع ہوتے ہیں۔ تصوف پر شائع شدہ اس کتاب میں مختلف حوالوں سے مقالات شامل ہیں جن میں سے ایک مقالہ آنحضوؐر کے ان تبرکات کے بارے میں ہے جو جنوبی ایشیا میں مختلف مقامات پر محفوظ ہیں۔ یہ مقالہ ایک جاپانی اسکالر محترمہ ساچیو کوماکی نے تحریر کیا ہے، جنھوں نے اس کے لیے پاکستان اور ہندستان کا سفر بھی کیا اور بچشم خود ان تبرکات کو دیکھ کر یہ مقالہ تحریر کیا۔

عالمی معاشی بحران سے جہاں بڑے پیمانے پر بے روزگاری بڑھی ہے، بڑے بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہورہے ہیں اور عالمی معیشت ہل کر رہ گئی ہے وہاں سرمایہ دارانہ نظام کا مستقبل بھی مخدوش نظر آرہا ہے۔ ماہرین معیشت کا دعویٰ ہے کہ وہ معیشت کو اِس بحران سے نکالنے میںکامیاب ہوجائیں گے اور شاید یہ بحران چند برسوں پر محیط رہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی انتشار کی ابتدا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً ایک منصفانہ اور مستحکم متبادل معاشی نظام کی ضرورت اور مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ چنانچہ متبادل نظام کی تلاش جاری ہے اور مختلف حل بھی پیش کیے جارہے ہیں۔

ایک حل سوشلزم کے تحت اداروں کو قومیانے اور غریب طبقے کے مفادات کے تحفظ کو   یقینی بنانے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ ماضی میں آزمایا جاچکاہے اور سودی معیشت سے پیداشدہ مسائل، ارتکازِ دولت اور امیروغریب کے فرق جیسے مسائل کا کوئی پایدار حل نہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر اور محفوظ بنکاری کے طور پر بھی اسلامی بنکاری کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی بڑی تعداد میں اس طرف رجوع کر رہے ہیں۔ امریکا جسے معاشی بحران کا سب سے زیادہ سامنا ہے، وہاں بھی اسلامی بنکاری فروغ پارہی ہے اور اسلامی بنک کھل رہے ہیں۔اسلامی بنکاری سرمایہ دارانہ نظام کے نقائص، مثلاً سود، سٹے کا کاروبار،قرض کی معیشت اور زرپرستی وغیرہ جو معیشت کو سکیڑ دیتے ہیں، دولت کو مرتکز کردیتے ہیں اور بالآخر معاشی بحران کا سبب بنتے ہیں، سے پاک ہے اور موجودہ معاشی بحران کی زد سے بھی بڑی حد تک محفوظ رہی ہے۔ گویا سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبنے کو ہے اور انسانیت اپنی اصل کی طرف لوٹنے پر مجبورہے! علامہ یوسف قرضاوی کے بقول: سرمایہ داری نظام کا انہدام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کا معاشی فلسفہ فروغ پا رہا ہے۔ (دوحا کانفرنس، ۲۰۰۸ء)

  •  عالمی معاشی بحران کا سبب : معروف ماہر معیشت ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے تجزیے کے مطابق موجودہ عالمی بحران کی بنیادی وجوہات بلاقید سودی قرض پر مبنی سرمایہ کاری (debt-financing)، سٹہ، جوا اور خودغرضی اور مفاد پرستی ہے۔ اس کے علاوہ معاشی سرگرمیوں کا کسی قسم کی اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے، جیسا کہ جوا اور سٹہ بازی وغیرہ۔ اس کے تدارک کے ضمن میں انھوں نے کہا: معاشی سرگرمیوں سے سود اور جوئے کے عنصر کو ختم کردیں، اور مارکیٹ کو اخلاقی ضوابط کا پابند بنا دیں تو معاشی بحران پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

معاشی بحران کے ایک اور سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرمایہ داری نظام نے انوسٹمنٹ اور متوقع آمدنی (expected income) کے تصور کو فروغ دیا جس سے سٹے بازی کو فروغ ملا۔ نتیجتاً حقیقی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے معیشت بیٹھ گئی۔ اس بحران کا ایک اور بڑا سبب کریڈٹ کارڈ کلچر کا فروغ بھی ہے جو کہ سودی معیشت کا تسلسل ہے اور بالآخر کریڈٹ defaultکا سبب بنا۔ (ریڈینس ویوز ویکلی، نئی دہلی، بھارت، ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء)

اسلام ان مسائل کا حل اس طرح پیش کرتا ہے کہ پہلے ہی قدم پر سود اور سودی قرض پر مبنی سرمایہ کاری کو حرام قرار دیتا ہے۔ سودی قرض ایسی ظالمانہ سرمایہ کاری ہے کہ سرمایہ دار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مقروض قرض کیسے اتارے گا۔ اسے صرف اپنے سرمایے سے غرض ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت کو جائز قرار دیتا ہے اور استحصال کو ختم کرتا ہے۔ اس وقت اسلامی بنکاری میں مرابحہ، اجارہ اور تکافل اسکیموں کے تحت سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ان میں اسلامک mortgage (رہن رکھنا)، اسلامک کار فنانس، اسلامک کریڈٹ کارڈ ، اسلامک انشورنس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری تیزی سے فروغ پارہی ہے۔

دوسرے یہ کہ اسلام جوئے اور سٹے کو حرام قرار دیتا ہے، اور سرمایہ کاری ذاتی ملکیت اور حقیقی بنیادوں پر کرتا ہے۔ متوقع آمدنی کی سرمایہ کاری پر جوا اور سٹہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردیتا ہے۔ تیسرے یہ کہ خود غرضی اور مفاد پرستی کے بجاے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اس کے  نتیجے میں قرض پرمبنی سرمایہ کاری کا بڑی حد تک خاتمہ ہوجاتا ہے، جوکہ سرمایہ داری نظام کا خاصا ہے، اور متوقع آمدنی کی بنا پر معیشت کو درپیش خطرات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام، زکوٰۃ و عشر کا نفاذ، وراثت کی تقسیم، دولت کے حصول میں جائز و ناجائز کی تمیز اور مال میں مستحق اور غریب افراد کے حقوق کا تعین کرکے دولت کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔

معاشیات کی رو سے مارکیٹ کسی اخلاقی ضابطے یا جائزو ناجائز کی تمیز کی پابند نہیں ہوتی۔ نیوٹرل مارکیٹ کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے نتیجے میں اس تصور پر نظرثانی کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ مارکیٹ کو جوئے اور سٹے بازی وغیرہ سے روکنے کے لیے ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔ یہ اسلامی معیشت کا ہی تصور ہے جو جوئے اور سٹے کو حرام قرار دیتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اجتماعی مفاد کے پیشِ نظر دولت کے حصول میں جائز و ناجائز کی تمیز کی بنا پر پابندیاں عائد کرتا ہے، جیساکہ شراب، جوئے، سود، رشوت وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح سے اس بحران کے نتیجے میں اسلام کے مارکیٹ کے اصول و ضوابط کے نفاذ کی طرف بھی پیش رفت ہوئی ہے۔

  •  اسلامی بنکاری کا رجحان: ایک اندازے کے مطابق اسلامک فنانس، عالمی سرمایہ کاری کا اگرچہ ایک فی صد (ایک ٹریلین ڈالر) ہے لیکن سالانہ ۱۵ سے ۲۰ فی صد بڑھوتری کی شرح کے لحاظ سے تقریباً ۵۰۰ ارب ڈالر سالانہ سرمایہ کاری متوقع ہے۔ موجودہ عالمی بحران سے اس کی شرح میں مزید تیزی آئی ہے۔ مڈل ایسٹ اکانومک ڈائجسٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء تک خلیج میں ہونے والی کاروباری ڈیل کا تقریباً ایک تہائی اسلامی بنکاری پر مبنی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ۷۵ ممالک میں کام کرنے والے ۳۰۰ اسلامی بنکوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی بنکاری کی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے عالمی شہرت کے بنک، مثلاً Deutsche Bank، HSBC اور سٹی بنک بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں اور اسلامی بنکاری کے لیے کھڑکیاں کھول رہے ہیں۔ برطانیہ میں اسلامک مارٹ گیج مارکیٹ میں سرمایہ کاری ۹۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ HSBC کے مطابق گلوبل اسلامک انشورنس مارکیٹ ۲۵ فی صد سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے اور اس میں سرمایہ کاری ۲۰۱۰ء تک ۱۴بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ HSBC نے ملایشیا میں اسلامک مارٹ گیج کا آغاز کیا تو پہلے ہی سال سرمایہ کاری کرنے والوں کی نصف تعداد غیرمسلموں پر مشتمل تھی۔

سنگاپور نے اسلامی فنانس کی اہمیت کے پیش نظر اس کے فروغ کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں اسلامک فنانس کا سنٹر بن سکے۔ مانٹیری اتھارٹی سنگاپور (MAS) پہلا مرکزی بنک ہے جس نے غیرمسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود اسلامک بانڈ جاری کیا ہے جسے Sukuk (سکوک) کہا جاتا ہے۔ ایم اے ایس کے منیجنگ ڈائرکٹر کے بقول:  یہ بانڈ بڑی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور یہ سنگاپور حکومت کا اسلامی بنکاری میں دل چسپی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ اسلامی بنکاری پر ۲۰۰۷ء سے کام ہو رہا ہے۔ یہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک، اسلامک بنک آف ایشیا، ڈی بی ایس بنک سنگاپور کے مشترکہ تعاون سے جاری ہے۔ عبداللہ حسن سیف، چیئرمین اسلامک بنک آف ملایشیا نے کہا کہ یہ جہاں سنگاپور کے لیے ایک نمایاں اسلامک فنانس سنٹر بننے کا سبب ہوگا وہاں دوسرے ممالک اور اداروں کے لیے بھی ایک اچھا کیس اسٹڈی ثابت ہوگا اور اسلامی بنکاری کو فروغ ملے گا (Finance The Islamic Way at Small US Bank، حج اینڈ عمرہ، سعودی عرب، اپریل ۲۰۰۹ء، ص ۲۵)۔ توقع ہے کہ سکوک کریڈٹ کارڈ میں سرمایہ کاری اگلے چند برسوں میں ۱۰۰ بلین ڈالر سے بھی تجاوز کرجائے گی۔

فرانس میں بھی اسلامک بنکاری فروغ پارہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ برس فرنچ سینیٹ نے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں سیاست دانوں، بنکاروں اور شریعہ اسکالروں نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ اسلامک فنانس کے فروغ اور عوام میں آگہی کے لیے حکومتی سطح پر کیا کیا جاسکتا ہے، نیز ٹیکس قوانین میں تبدیلی کے لیے کیا قانون سازی کی جائے۔

امریکا میں بھی اسلامی بنکاری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یونی ورسٹی اسلامک فنانشل کارپوریشن کے تحت مشی گن میں پہلا اسلامی بنک، ’یونی ورسٹی اسلامی بنک‘ کے نام سے کھولا گیا ہے جسے حکومت کی تائید بھی حاصل ہے۔ یہ بلاسود بنکاری کر رہا ہے اور دن بدن مقبول ہو رہا ہے۔ کارپوریشن کے ڈائرکٹر جان سکلر کا کہنا ہے کہ آج ہم جس معاشی بحران سے دوچار ہیں، اگر ہم نے اسلامی بنکاری کو بنیاد بنایا ہوتا تو ہمیں اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہ بنک شراکت کی بنیاد پر دو طرح سے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ ایک مارک اَپ انسٹالمنٹ سیل، اور دوسرے lease to purchaseسیل۔ یونی ورسٹی بنک کے صدر Stephen Razini نے کہا ہے کہ بہت سے بنک  اور مارٹ گیج کمپنیاں ہمارے ساتھ شراکت میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنک نے  گھر کے لیے قرض اور کریڈٹ کمپنیوں کو ملک گیر سطح پر اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے (ایضاً، ص ۲۴)۔ اس سے بھی امریکا میں اسلامی بنکاری کے رجحان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

  •  شریعہ فنانس کورسز کا اجرا: جیسے جیسے اس عالمی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے شریعہ اسکالروں کی کمی بھی محسوس کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعہ اسکالروں کی    اس بڑھتی ہوئی اِس ضرورت کے پیش نظر شریعہ فنانس کورسز کا اجرا کیا جارہا ہے۔ ملایشیا نے جو  شریعہ فنانس کے حوالے سے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، ملایشیا سنٹرل بنک اور سعودی عرب کے اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے شریعہ اسکالروں کی تیاری کے لیے ۵۳ ملین ڈالر کے وظائف مختص کیے ہیں۔ مختلف دینی مدارس کے تحت بھی شریعہ فنانس کورسز کا رجحان سامنے آیا ہے۔ مغرب میں بھی اس کا رواج عام ہو رہا ہے۔

برطانیہ کو شریعہ فنانس کورسز کے اجرا کے حوالے سے شہرت حاصل ہورہی ہے۔   فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق یونی ورسٹی آف ریڈنگ، جنوبی لندن اسلامک فنانس کورسز کے لیے ایک سنٹر قائم کررہی ہے۔ گذشتہ برس یونی ورسٹی نے انوسٹمنٹ بنکنگ اینڈ اسلامک فنانس کی ماسٹر ڈگری کا اجرا کیا تھا۔ بن گور یونی ورسٹی، ویلز نے حال ہی میں اس حوالے سے ماسٹر ڈگری کورس کی ابتدا کی ہے۔ فرانس کی رابرٹ شومان یونی ورسٹی، سٹراس برگ نے بھی اسی طرح کے کورس کا آغاز کیا ہے۔ اسی یونی ورسٹی کے بزنس لا سنٹر کے سربراہ مائیکل سٹارک نے کہا ہے کہ امریکا میں عالمی بحران سے جو کچھ ہوا ہے، اس سے اسلامک فنانس میں لوگوں کی مزید دل چسپی بڑھے گی کیونکہ یہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ (فارن پالیسی، Carla Power، جنوری فروری ۲۰۰۹ء)

اسلامی بنکاری ابھی تشکیلی مراحل میں ہے،لہٰذا علمی اختلاف، عملی مشکلات اور اصولی ہدف کے حصول میں مسائل کا سامنا فطری امر ہے جنھیں علمی انداز اور اعتدال پسندی کے ساتھ بتدریج حل کیاجاسکتا ہے۔ اس عالمی رجحان کا تقاضا ہے کہ اسلام کے معاشی تصورات کو جدید تقاضوں کے پیش نظر مرتب کیا جائے، فنی مہارت اور شریعہ فنانس کے ماہرین کی بڑے پیمانے پر تیاری کا اہتمام ہو۔ اسلامی بنکاری کے حوالے سے جو فکری اختلاف پایا جاتا ہے اور عملاً جو دشواریاں پیش آرہی ہیں ان کا علمی سطح پر بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سیمی ناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ کسی مشترکہ حکمت عملی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اس بنکاری کے ثمرات و برکات سے صحیح معنوں میں استفادہ ایک اسلامی اور فلاحی معاشرے میں ممکن ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم قابلِ غور پہلو یہ ہے اسلامی بنکاری صرف ان سرگرمیوں تک اپنی مساعی کو محدود نہ رکھے جو شریعت کے مطابق ہیں بلکہ شریعت پر مبنی بنکاری کی طرف جرأت مندانہ پیش رفت کرے تاکہ حصص کی بنیاد پر (equity based)  معیشت وجود میں آسکے جو ایک طرف ترقی اور افزایشِ دولت کا ذریعہ بنے گی تو دوسری طرف انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی طرف معاشرے کو لے جاسکے گی۔

ایک زمانہ تھا جب سود کے بغیر معیشت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے اپنی معرکہ آرا کتاب سود (۱۹۳۶ء) میں پہلی بار سرمایہ داری اور سودی معیشت کا بھرپورانداز میں محاکمہ کیا اور سود سے پاک معیشت اور اسلامی بنکاری کا تصور پیش کیا، اور اس شبہے کو دُور کیا کہ سود کا انسداد قابلِ عمل نہیں ہے۔ آج اسلامی بنکاری ایک حقیقت ہے۔ عالمی معاشی بحران نے سرمایہ داری اور سودی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے اور متبادل نظامِ معیشت کے لیے اسلام اور اسلامی بنکاری پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ سود جو کہ سرمایہ داری کی روح اور جان ہے، اس کا خاتمہ دراصل سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔ بلاشبہہ آج سرمایہ داری نظام واشنگٹن میں لرزہ براندام ہے اور سودی معیشت اپنے منطقی انجام سے دوچار ہونے کے قریب ہے۔ دنیا نے جس عالمی نظام کی طرف پیش رفت کی ہے، اس کے نتیجے میں اسلام کے منصفانہ عالمی نظام کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے، اور عالمی اسلامی بنکاری کا فروغ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ وہ وقت دُور نہیں جب دنیا کا مستقبل اسلام اور سود سے پاک، منصفانہ اور مستحکم معاشی نظام ہوگا۔

 

اسباب اور نتائج پر تو مختلف آرا ہوسکتی ہیں، لیکن اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ ایران اپنے ۳۰ سالہ دورِ انقلاب کے انتہائی اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایران عراق جنگ کے آٹھ برس انتہائی تباہ کن تھے لیکن پوری قوم مجموعی طور پر یک جان تھی۔ امام خمینی کی رحلت صدمہ خیز تھی لیکن ملک و قوم کامل وقار کے ساتھ ایک مربوط و مضبوط نظام کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ دہشت گردی کی لہریں آئیں، سیاسی و دینی اختلافات راے سامنے آتے رہے، اصلاح پسندی اور بنیاد پرستی کی لَے اُٹھائی گئی لیکن رہبر اور ملکی اداروں کو متنازع نہ بنایا گیا۔ اب کیا ہوا کہ مجرد انتخابی دھاندلی کے الزامات نے دوستوں اور دشمنوں سب کو حیران کر دیا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس صورت حال کا خواب تک نہ دیکھا تھا۔

۱۲ جون ۲۰۰۹ء کے انتخابات کا بگل بجا تو پے درپے کئی امور حیران کن تھے۔ صدارتی امیدواروں نے اپنے ٹی وی مناظروں اور بیانات میں ایک دوسرے کے خلاف وہ زبان استعمال کی اور صریح کرپشن کے وہ الزامات لگائے جو اس سے پہلے کبھی علی الاعلان نہیں کہے گئے تھے۔ صدر احمدی نژاد کی طرف سے سابق صدر اور مجلس خبرگان کے سربراہ ہاشمی رفسنجانی اور ان کے افراد خانہ پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات نے صرف انھی کی شخصیت کو مجروح نہیں کیا بلکہ پورے نظام کی ساکھ کو متاثر کیا۔ پھر ووٹنگ کا آغاز ہوا تو تناسب ۸۵ فی صد تک جاپہنچا۔ ووٹوں کا یہ تناسب بھی ایران کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔ رات گئے تک ووٹنگ جاری رہی، میں نے شب ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ تہران میں بعض اہم ذمہ داران سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ افراد کے فقید المثال رجحان کے باعث ووٹنگ کا وقت دو گھنٹے بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کا اندازہ  یہ تھا کہ شاید پہلے مرحلے میں کوئی ایک امیدوار ۵۰ فی صد سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکے اور  فیصلہ دوسرے مرحلے میں ہو۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ غیررسمی نتائج کے مطابق صدر احمدی نژاد ۶۳ء۶۲ فی صد (یعنی ۲ کروڑ ۴۵ لاکھ ۲۷ ہزار ۵ سو ۱۶) ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ ہارنے والے امیدواروں نے نتائج پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ انھیں قبول کرنے سے انکار بھی کردیا۔ اگلے ہی روز ’انتخابات میں دھاندلی‘ کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور معاملہ ۱۷ بے گناہ افراد کی موت، سیکڑوں کے زخمی ہونے اور سیکڑوں کی گرفتاری تک جا پہنچا۔ دوسرے نمبر پر آنے والے میرحسین موسوی جنھیں ۳۳ فی صد (یعنی ایک کروڑ ۳۲ لاکھ ۱۶ ہزار ۴ سو ۱۱) ووٹ ملے تھے اور چوتھے نمبر پر آنے والے مہدی کرّوبی جنھیں ۸ء۰ فی صد (یعنی دو لاکھ ۹۰ ہزار) ووٹ ملے تھے یکجا ہوگئے۔ ہاشمی رفسنجانی ان کے پشتیبان بن گئے اور سابق صدر خاتمی جیسے مختلف اصلاح پسند عناصر ہی نہیں متعدد دینی شخصیات نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان میں قم کے اہم مرجع آیت اللہ صانعی اور امام خمینی کے نائب کی حیثیت سے کام کرنے والے آیت اللہ منتظری نمایاں ترین ہیں۔ ان دونوں شخصیات نے انتہائی سخت الفاظ میں حکومت کی مخالف اور اپوزیشن کی حمایت میں بیانات جاری کیے۔

احتجاجی مظاہروں کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ایران کے دینی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے خطبۂ جمعہ دیا۔ پوری دنیا کی نگاہ خطبے اور اس کے نتائج پر تھی۔ رہبر نے دوٹوک الفاظ میں انتخابات اور ان کے نتائج کی حمایت کی اور کہا کہ صرف دھاندلی کے ذریعے ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زائد ووٹوں کا فرق نہیں لایا جاسکتا۔ انھوں نے احتجاج کرنے والوں سے پُرامن رہنے کا بھی کہا اور ان کی قیادت کو بھی تنبیہہ کی کہ اگر ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک خوں ریزی کا شکار ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ان کے سر ہوگی۔ رہبر نے بیرونی طاقتوں خصوصاً امریکا و برطانیہ کو بھی خبردار کیا کہ وہ جلتی پر تیل نہ ڈالیں اور کہا کہ افغانستان و عراق میں خون بہانے والے کیا جانیں کہ حقوقِ انسانی کیا ہوتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں حقوقِ انسانی کی نصیحتیں کریں۔ آیت اللہ  خامنہ ای نے رفسنجانی سمیت تمام اپوزیشن لیڈروں کو بھی پُرامن رکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ سابق صدر رفسنجانی سے میری ۵۰ سالہ رفاقت ہے۔ کرپشن نہیں وہ تو خود شاہ کے زمانے سے اپنا پیسہ انقلاب کی خاطر خرچ کرنے والی ہستی ہیں… اسی طرح کے کلمات انھوں نے دیگر صدارتی امیدواروں کے بارے میں کہے لیکن صدر احمدی نژاد کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا۔ حالیہ بحران کا سب سے حیران کن اور اہم ترین پہلو یہی ہے کہ رہبر جو ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی شخصیت ہی نہیں، عقیدۂ ولایت فقیہ کی روشنی میں نمایاں ترین دینی مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ ایرانی دستور کی شق ۵۷ کے تحت ملک کے تینوں ستونوں (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) پر ان کی کامل بالادستی ہے، ان کی طرف سے واضح ہدایت اور تنبیہہ کے بعد بھی عوام اور اپوزیشن رہنمائوں کا احتجاج جاری ہے۔ صورت حال کے مزید جائزے سے پہلے آیئے ایک نظر میں ریاست کے حالیہ نظام کا جائزہ لے لیں:

۱- اسلامی جمہوریہ ایران کے دستور کے مطابق سب سے اعلیٰ رتبہ رہبر کا ہے جو تاحیات مقرر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ان کا قول قولِ فیصل قرار پاتا ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں انتخابی نتائج کی توثیق بھی شامل ہے۔ افواج براہِ راست انھی کے زیرنگیں ہیں جن میں باقاعدہ افواج کے علاوہ پاس دارانِ انقلاب اور پاسیج ملیشیا بھی شامل ہے۔ رہبر عدلیہ کی نگہداری کرتا ہے، چیف جسٹس کے عزل و نصب کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔

۲- شوراے نگہبان، ۱۲ ارکان پر مشتمل یہ ادارہ دستور کی دفعہ ۹۹ کے مطابق ملک میں ہونے والے تمام انتخابات یا ریفرنڈم میں اس ادارے کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ وہی امیدواروں کی اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ کرتا ہے اور انتخابات میں کسی بے ضابطگی کی شکایت اور عذرداری کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۹۱ کے مطابق پارلیمنٹ سے صادر ہونے والے قوانین کے شرعی یا مخالف شرع ہونے کا جائزہ بھی یہی ادارہ لیتا ہے۔ شوراے نگہبان کے ۱۲ ارکان میں سے چھے فقہا کا درجہ رکھنے والے علماے کرام ہوتے ہیں، جن کا تعین براہِ راست رہبر کرتا ہے۔ باقی چھے ارکان ماہرین قانون میں سے ہوتے ہیں جن کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی ہے۔ اس انتخاب کے لیے امیدواران کی فہرست اعلیٰ عدالت کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ شوراے نگہبان کے سربراہ آیت اللہ جنتی ہیں جو رہبر کے انتہائی معتمدعلیہ ساتھی ہیں۔

۳- مجلسِ تشخیصِ مصلحتِ نظام، ۱۹۸۹ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے ۳۴ ارکان ہوتے ہیں جن کا تعین براہِ راست رہبر کرتا ہے۔ اس میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تینوں سربراہوں کے علاوہ ملک کے تقریباً ہر اہم مکتب ِ خیال کی نمایندگی ہوتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۰ کے مطابق رہبر کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی مسئلے یا کسی وقت پارلیمنٹ اور شوراے نگہبان کے درمیان اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں یہی ادارہ فیصلہ کرتا ہے۔ ۱۹۹۷ء سے علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہی اس مجلس کے سربراہ بھی تھے۔ ۱۲ جون کے انتخابات کے بعد ان کے اس منصب سے استعفا کی خبریں آرہی ہیں۔ ان تین غیرمنتخب اہم اداروں کے علاوہ تین اہم ادارے براہِ راست عوام کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں:

ا - صدر مملکت ملک کا اعلیٰ ترین انتظامی منصب، جو چار برس کے لیے منتخب ہوتا ہے اس کا انتخاب دو دفعہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت اپنے ساتھ ۲۱ رکنی کابینہ رکھتا ہے۔ ہر وزارت اپنی جگہ اہم ہوتی ہے لیکن وزارتِ داخلہ کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ ملک کا سارا انتخابی نظام اس کے اختیار میں ہوتاہے۔ شوراے نگہبان، وزارتِ داخلہ اور رہبر کی مؤثر تکون، انتخابات کو یقینی، شفاف اور حتمی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

ب- مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) ۲۹۰ ارکان پر مشتمل یہ مجلس بھی چار سال کے لیے منتخب ہوتی ہے۔ آخری انتخاب مارچ ۲۰۰۸ء میں ہوئے تھے اور اس میں صدر احمدی نژاد کے حامی دو تہائی سے زائد تعداد میں منتخب ہوچکے ہیں۔ مئی ۲۰۰۸ء میں نئی مجلس نے علی لاریجانی کو اپنا اسپیکر منتخب کرلیا جوکہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ لاریجانی کا شمار رہبر خامنہ ای کے قریبی معتمدین میں ہوتا ہے۔

ج- مجلس خبرگاں ۸۶ رکنی اس اہم مجلس کا انتخاب بھی براہِ راست عوامی ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ ارکان مجلس آٹھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ اس مجلس کی اہم ترین ذمہ داری رہبر اعلیٰ کا منصب خالی ہوجانے کی صورت میں نئے رہبر کا انتخاب ہوتاہے۔ یہ مجلس منتخب رہبر اعلیٰ کے بارے میں بھی راے دی سکتی ہے اور اگر مجلس محسوس کرے کہ رہبر اب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں رہا، یا ریاست کے مقاصد و قوانین سے منحرف ہوگیا ہے تووہ اسے معزول بھی کرسکتی ہے۔ اس مجلس کے حالیہ سربراہ ہاشمی رفسنجانی ہیں۔ ان تمام منتخب اور غیرمنتخب اداروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت پورا ریاستی نظام نہ صرف یہ کہ رہبر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کے مکمل کنٹرول میں ہے بلکہ اسے ایک دینی تقدس بھی حاصل ہے جو نظریۂ ولایت ِ فقیہ کی بدولت ایمان و عقیدہ کا حصہ بن چکا ہے۔ شیعہ عقائد کے مطابق ولایت فقیہ بنیادی طور پر امام زمان کی نیابت کا دوسرا نام ہے۔ یہ مسئلہ ہر دور میں بحث و نقاش کا محور بنا ہے۔ آرا اس کے حق میں تھیں اور خلاف بھی۔ اس پر بھی اختلاف رہا کہ ولیِ فقیہ کی اطاعت مطلق ہوگی یا مشروط۔

ولایت فقیہ اور آج کا ایران

امام خمینی کی راے ولایت فقیہ کے حق میں دوٹوک تھی۔ انھوں نے اس نظریے کو ایک مکمل نظام کی صورت میں نافذ کر دیا۔ اپنی کتاب حکومتِ اسلامی اپنے متعدد کتابچوں اور خاص طور پر سید علی خامنہ ای کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے ولایت فقیہ کو حکومت اسلامی کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ صدر خامنہ ای کے نام اپنے خط میں ان کے الفاظ تھے: ’’یہ وضاحت ضروری ہے کہ حکومت (ولایت ِ فقیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولایت مطلقۃ ہی کا ایک اہم شعبہ اور اسلام کے اولیں احکام میں سے ایک حکم ہے‘‘۔

امام خمینی کی اس راے بلکہ فیصلے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلاب میں امام کے ہمہ پہلو اثرات و کردار کے تناظر میں، آج رہبر کے فیصلے کے باوجود عوامی مظاہروں کا ختم نہ ہونا معاملے کی دینی و سیاسی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ شیعہ مکتب فکر کی نصابی کتب میں موجودہ ولایت ِ فقیہ کی تشریح یوں کی گئی ہے: ’’ولایت ِ فقیہ حضرت امام مہدی (اللہ ان کا ظہور جلد فرمائے) کی نیابت میں قیادت سے عبارت ہے۔ فقیہ عادل جو اس منصب کی تمام شرائط پر پورا اُترتا ہو مسلمانوں کا سرپرست اور امام ہوتا ہے۔ ان پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ دیگر علما اور فقہا کو بھی اس کی اطاعت کرنا ہوگی۔ اگر کوئی فقیہ، فقہ کے اعتبار سے خود کو رہبر سے بھی بڑا عالم سمجھتا ہو، تو اس کے لیے یہ تو ممکن ہے کہ  وہ عبادات میں، شرعی احکام سے مستنبط امور کی روشنی میں خود اپنی پیروی کرلے، لیکن سیاست اور قیادت سے متعلق امور میں اسے بھی ولی امرالمسلمین (رہبر) کی اطاعت کرنا ہوگی۔ یہ ولایت آج کے دور میں رہبر و امام سید علی خامنہ ای کو حاصل ہے‘‘۔

ایک جانب یہ تمام ضوابط و عقائد اور دوسری جانب صرف انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے ہوئے وہ احتجاج کہ جس کا سلسلہ رہبر کے دو خطبات کے باوجود ہنوز جاری ہے…؟ حکومتی کوشش کے باوجود میرحسین موسوی اور مہدی کروبی نے رہبر سید علی خامنہ ای کے خطبۂ جمعہ میں شرکت نہیں کی۔ خطاب کے اگلے ہی روز موسوی نے بیان دیا کہ جھوٹ اور دھاندلی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انٹرنیٹ پر جاری اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ اگر میں اس راستے میں شہید کردیا جائوں تو ایرانی عوام ہڑتالیں کریں اور حقوق کے حصول تک احتجاج جاری رکھیں۔ تقریباً اسی طرح کا ردعمل کروبی، رفسنجانی اور دیگر شخصیات کی طرف سے بھی سامنے آیا۔ ہاشمی رفسنجانی نے قم کا دورہ کیا اور مختلف آیات اللہ سے ملاقاتیں کرتے ہوئے انھیں اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرے نت نئے انداز اختیار کررہے ہیں۔ میرحسین موسوی نے اپنی پوری تحریک میں سبز رنگ کو اپنے علامتی رنگ کے طور پر متعارف کروایا۔ مظاہرین مختلف انداز سے اس رنگ کی پٹیاں، چادریں، بینر، پرچم اور اسٹکر پھیلا رہے ہیں۔

امریکا، برطانیہ اور اسرائیل اس صورت حال سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ صہیونی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے منتخب ہونے کے بعد بیان دیا تھا کہ میری پہلی ترجیح ایران، دوسری ایران اور تیسری ایران ہوگی۔ ان سبھی کی کوشش ہے کہ ایرانی قیادت کے مابین خلیج وسیع تر ہو۔ اسرائیلی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ ’’ایران کی جاسوسی پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجاے ایرانی عوام پر ’سرمایہ کاری‘ کرو… اس دوران یہ تاثر ہرگز نہ اُبھرے کہ ایرانی مظاہروں کی ڈوریاں باہر سے ہلائی جارہی ہیں۔ اہلِ فارس بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں‘‘ (بن کاسبیت، روزنامہ معاریف، ۱۹ جون)۔ امریکی حکومت نے پہلے دبے لفظوں میں اور پھر کھلے اور جارحانہ انداز سے ایرانی حکومت کی مذمت اور مظاہرین کی تائید شروع کر دی ہے۔ امریکی کانگریس میں ایک ووٹ کے مقابلے میں ۴۰۵ ووٹوں کی اکثریت سے قرارداد منظور کی گئی کہ انتخابات کے بعد ایرانی عوام کی مدد کی جائے۔ امریکا میں موجود شاہِ ایران کے بیٹے کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کنٹرول کر لیے جانے کے بعد متبادل ذرائع بالخصوص انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ یوٹیوب، فیس بک اور ٹویٹر نام کی ایسی ویب سائٹس خاص طور پر فعال و بہتر بنا دی گئی ہیں جن کے ذریعے ایرانی عوام بیرونی دنیا سے اور بیرونی دنیا ان سے براہِ راست رابطہ کرسکے۔

اس ضمن میں امریکی دل چسپی اور مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ’ٹویٹر‘ کو اپنی معمول کی اصلاحات و دیکھ بھال کے لیے ایک گھنٹے کے لیے اپنی سروس بند کرنے کی ضرورت تھی۔ خود امریکی وزارتِ خارجہ نے اس انٹرنیٹ کمپنی سے خصوصی درخواست کی کہ وہ یہ وقفہ مقرر کردہ وقت پر نہ کرے بلکہ ایران کے وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے کے بعد کرے تاکہ اس وقت زیادہ لوگ یہ سروس استعمال نہ کررہے ہوں۔

کوششیں جتنی ، جیسی اور جس جس کی بھی ہوں ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ ایرانی حکومت حالیہ بحران پر قابو پا لے گی۔ اطلاعات کے مطابق صدر احمدی نژاد وسط اگست سے پہلے پہلے نیا صدارتی حلف اُٹھا لیں گے، نئی کابینہ تشکیل پا جائے گی، پھر مظاہروں میں بھی دم خم نہیں  رہے گا، لیکن کیا ایرانی قیادت میں پیدا ہوجانے والی خلیج کو بھی پاٹا جاسکے گا؟ معاشرے اور حکومت پر اس خلیج کے منفی اثرات کو روکا جاسکے گا؟ بدقسمتی سے اس کا جواب فی الحال نفی میں ہے۔ گذشتہ سالوں میں جتنی بار بھی ایران جانے کا اتفاق ہوا، پورے نظام میں دو واضح بلاک دکھائی دیے۔ ایرانی انقلاب کے بعد تشکیل پانے والی پہلی حکومت میں، صدر مہدی بارزگان کے ساتھ وزیرخارجہ کی حیثیت سے کام کرنے والے ۷۸ سالہ ابراہیم یزدی کے بقول: ’’حالیہ بحران کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اعلیٰ قیادت میں پائے جانے والے اختلافات نہ صرف گہرے ہوگئے ہیں بلکہ سڑکوں پر آن نکلے ہیں‘‘۔

احمدی نژاد کا دوبارہ منتخب ہوجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ ان سے پہلے سید علی   خامنہ ای ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۹ء تک، ہاشمی رفسنجانی ۸۹ء سے ۹۷ء تک، اور محمد خاتمی ۹۷ء سے ۲۰۰۵ء تک دو، دو بار ہی صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ گویا یہ دوبارہ انتخاب بھی اسی روایت کا تسلسل تھا، لیکن خون آمیز بحران نے سب کو متنبہ کر دیا کہ اصل مرض زیادہ سنگین ہے۔ بحران کی حقیقی وجہ ذمہ داران کا دو کیمپوں میں تقسیم ہو جانا ہے۔ سابق شاہ کے تمام ہمنوا اورسرپرست اس تقسیم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ گڑے مُردے اکھاڑے جا رہے ہیں کہ میرحسین موسوی (پ: ۲۹ستمبر ۱۹۴۲ء) جب ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۸ء تک ایران کے وزیراعظم رہے تو صدر علی خامنہ ای کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ صدر خامنہ ای، علی اکبر ولایتی کو وزیراعظم بنوانا چاہتے تھے، دو بار ان کا نام پارلیمنٹ میں پیش ہوا لیکن پارلیمنٹ جس کے اسپیکر رفسنجانی تھے، نے ان کے بجاے میرحسین موسوی کو وزیراعظم منتخب کرلیا۔ موسوی ایران کے آخری وزیراعظم تھے۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات کے باعث، بالآخر ۱۹۸۸ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کا عہدہ ہی ختم کر دیا گیا، تمام اختیارات صدر کی طرف منتقل ہوگئے۔

آج کی صورت حال میں ایرانی قیادت کے لیے اس سے بہتر نصیحت کوئی نہیں ہوسکتی جو خود آیت اللہ خمینی نے صدر خامنہ ای، وزیراعظم موسوی اور اسپیکر رفسنجانی کو ان کے انتخاب کے موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہی تھی: ’’اس نظام کی حفاظت کی اصل ذمہ داری اب آپ کے کندھوں پر ہے۔ ایران میں جو کامیابی حاصل ہوچکی اس کی حفاظت اور اس کا دوام انتہائی مشکل کام ہے لیکن تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود آپ لوگوں کو اس نظام کی حفاظت کرنا ہے‘‘۔ ایران کے تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی یہ حقیقت واضح رہنا چاہیے کہ ایران میں عدمِ استحکام، صرف ایران کے لیے ہی نہیں خود ان تمام ممالک کے لیے بھی مصائب و انتشار کا سبب بنے گا۔ ایرانی انتشار امریکا و اسرائیل کے علاوہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔

 

ایک شوہر کی سوچ

سوال:  میں شادی شدہ ہوں اور تین بچوں کی ماں ہوں۔ دینی لحاظ سے یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اسلام نے ہمیں کس طرح کے رہن سہن کی تاکید کی ہے؟ ہر انسان اپنی سہولت کے مطابق دین کی بات کرتا ہے۔ میرے میاں کے بقول: ’’اسلام میں یہ مناسب نہیں کہ ہمارا بیڈروم ایک ہو۔ مجھے بیٹیوں کے ساتھ اور اُنھیں بیٹے کے بیڈروم میں سونا چاہیے‘‘۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ مناسب بات نہیں ہے، جب کہ ہمارے بچے بھی بڑے ہوچکے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ایک عورت جو سارا دن بچوں کے ساتھ گزارتی ہے، گھر کا کام کاج کرتی ہے، شوہر کے ماں باپ کی خدمت کرتی اور مہمان داری کرتی ہے، اور خاوند جو کہ عموماً چار پانچ بجے گھر آئے، پھر روز ہی کہیں اپنے کام سے یا دوستوں کے پاس چلا جائے اور رات گئے تک ٹی وی دیکھے اور سو جائے، تو کیا اُس عورت کو اپنے دکھ سُکھ کہنے کے لیے اس بندے کی کوئی ضرورت نہیں؟

سیرت پاکؐ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاکؐ کی ازدواجی زندگی کتنی متوازن اور مثالی تھی۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نبی پاکؐ کی ازواجِ مطہراتؓ خاص طور پر حضرت عائشہؓ کے بارے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے کیا وہ صرف پڑھنے کے لیے ہے یا کہ عمل کرنے کے لیے بھی ہے؟ مجھے اپنے خاوند کے اس رویے پر بہت دکھ ہوتا ہے۔ اگر میرے خاوند کی بات ٹھیک ہے تو وضاحت کر دیں تاکہ میں اس اذیت و کیفیت پر صابرہ و شاکرہ بن کر رہوں۔

جواب: قرآن و سنت کے ہر اُس طالب علم کے لیے جو اس کا مطالعہ اور اس پر غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، قرآن کریم کے ظاہر مفہوم اور اس کے سیاق و سباق سے واقف ہو، اور  سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں آپؐ کے عمل، قول اور تقریر کی مدد سے صحیح مقصود و مطلوب حکم تک پہنچ سکتا ہو، دین کے معاملات کو سمجھنا ہرگز مشکل نہیں رہتا۔ دین کو ایک مسلمان کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے۔اس لیے من مانی تاویلات کرنے یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اسلام کے نام پر اپنی ذاتی سہولت کی بناپر کسی کام پہ اصرار کی گنجایش نہیں چھوڑی گئی۔ معاشرتی معاملات میں خصوصاً قرآن وسنت کے احکام غیرمعمولی طور پر واضح اور غیرمبہم ہیں۔

حدیث صحیح میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ جب بچے بلوغ کے قریب پہنچیں تو ان کے بستر الگ کردیے جائیں۔ وجہ ظاہر ہے حقیقی خونی رشتوں کے احترام کے باوجود حالت ِ نیند میں ایک بستر میں سونے کے سبب غیرارادی طور پر کسی غلطی کا ارتکاب ہوسکتا ہے۔ اس لیے برائی کے ذریعے کا سدباب کرنے کے لیے واضح حکم دے دیا گیا۔ قرآن کریم کا واضح حکم ہے کہ جس کمرے میں شوہر اور بیوی استراحت کر رہے ہوں اس میں تین اوقات میں داخل ہونے سے قبل اجازت لی جائے۔ یہ اجازت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قرآن نے خود اس کا جواب دیا ہے اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ہم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ کوئی مومن اور مومنہ اپنے ذاتی تصورِ تقویٰ کی بنیاد پر اپنے اُوپر کوئی ناجائز پابندی نہ لگا لے۔

قرآن کریم نے شوہر اور بیوی کے رشتے کو لباس سے تعبیر کیا ہے، مؤدت و رحمت اور قربت سے تعبیر کیا ہے۔ اس پس منظر میں اپنی من مانی تعبیرات کے ذریعے اپنے اُوپر مشقت اور بیوی پر ظلم نہ اسلام کا مقصود ہے اور نہ عقل کا تقاضا۔ اگر کوئی شوہر بغیر کسی نص شرعی کے محض کسی واعظ کے بیان کی بنا پر کوئی طریقہ اختیار کرتا ہے تویہ اسلام کے نظامِ معاشرت کی روح کے منافی ہے۔

دین کے معاملات میں یہ سمجھنا کہ جو بات شوہر کے دماغ میں آجائے وہ تو دین ہے اور جو حق بیوی کے پاس ہو وہ قابلِ توجہ نہیں، دین سے بغاوت پر مبنی رویہ ہے۔ ہر مسلمان کو ایسے ظلم سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ شوہر اور بیوی کا ایک ساتھ رہنا، سونا اور استراحت کرنا دین کے تقاضوں میں سے ہے اور یہ ایک دوسرے پر وہ حق ہے جسے لباس کی جامع اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیا شوہر اور بیوی کا سماجی اور عائلی سطح پر تعلق محض چند لمحات تک محدود ہے اور اس کے بعد وہ اچھوتوں کی طرح ایک دوسرے سے دُور الگ الگ رہیں؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک موقع پر بھی یہ پسند فرمایا کہ اُمہات المومنینؓ کو ایک جگہ قید کردیں اور خود ان سے الگ تھلگ ایک حجرے میں قیام فرمائیں؟ آخر ہمارے عمل کی بنیاد کیا ہوگی، اپنی من مانی تعبیرات یا قرآن و سنت کے واضح احکامات کی روشنی میں پندرہ سو سال کا اُمت کا عمل؟

ایک بیوی کو شوہر پر وہی حق ہے جو شوہر کو بیوی پر ہے۔ یہ کسی فرد کا نہیں قرآن کریم کا حکم اور قیامت تک کے لیے فیصلہ ہے۔ ہمیں اس فیصلے کو ماننا ہوگا، چاہے اس سے ہمارے نفس کو تکلیف پہنچے، اَنا کو ٹھیس لگے اور علمیت کو صدمہ پہنچے۔ دین نصیحت کا نام ہے، یعنی حق کی بات کو بھلائی کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے تک پہنچانا۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ بیوی اوربیٹی کے حقوق کی ادایگی کے بارے میں علم بھی حاصل کریں اور انھیں کماحقہ ادا بھی کریں۔

ایک شخص اگر روزی کمانے کے لیے آٹھ، دس گھنٹے صرف کرتا ہے اور ٹی وی کے سامنے چار گھنٹے بیٹھتا ہے اور دعوتِ دین کے کام کے لیے ہفتے میں ایک یا دو دن، چند گھنٹوں کے لیے  کسی اجتماع میں یا کسی ذمہ داری کی ادایگی میں مصروف ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ   بظاہر تھک ہار کر رات کو ۱۰، ۱۱ بجے گھر آئے اور علیحدہ کمرے میں سو جائے۔ اس کا ایسا کرنا   گھریلو زندگی کے جملہ پہلوئوں کو نظرانداز کرنے اور متعلقین کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔ یہ بیوی کا شوہرپر حق ہے کہ وہ اس کے جذبات کا خیال رکھے، حُسنِ سلوک سے پیش آئے، اور جہاں تک ممکن ہو سہولت پہنچائے۔ اسلام کی واضح تعلیمات کی موجودگی میں، دین کے نام پر    ان ہدایات سے انحراف نہ تقویٰ ہے نہ اسلامی معاشرت اور خاندانی نظام کی پیروی۔ لہٰذا ماضی میں جو زیادتی کسی شوہر نے بیوی کے ساتھ کی ہو اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور بیوی کے ساتھ صحیح رویہ اپنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے مدعا اور مقصد کو سمجھنے اور اپنی ذاتی راے کے مقابلے میں دینی تعلیمات پر اعتماد کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین! واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)

بیوٹی پارلر کی تعلیم اور کاروبار

س: آج کل بیوٹیشن اور بیوٹی پارلر کی تعلیم، کاروبار اور رواج عام ہورہا ہے۔ ایک خاتون نے انگلینڈ کے ایک کالج میں ایک سالہ ڈپلومہ ٹریننگ کورس میں داخلہ لیا ہوا ہے۔ میں اس قسم کی تعلیم اور کاروبار کو جائز نہیں سمجھتا لیکن اُن کا کہنا ہے کہ ’’اس میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ اسلام میں عورتوں کے بننے، سنورنے اور سنوارنے کی اجازت ہے، جب کہ باقاعدہ دکان بھی نہیں کھولی جائے گی۔ عورتیں گھر پر آجاتی ہیں یا اپنے ہاں لے جاتی ہیں جس سے معقول اور جائز آمدنی ہوسکتی ہے‘‘۔صحیح موقف کیا ہے؟

ج: آپ کے سوال کے دو پہلو غورطلب ہیں: اول یہ کہ تزئین و آرایش کے طریقوں کی تعلیم چاہے وہ آرایش گیسو ہو، غازہ کا صحیح تناسب سے استعمال ہو ، کیا ایسے فن کی تعلیم اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہوگی یا ناجائز؟ دوسرے یہ کہ زینت اختیار کرنا کیا بجاے خود مکروہ ہے یا حرام؟

اگر غور کیا جائے تو ہر وہ علم جو معاشرتی اور عائلی زندگی کو زیادہ مستحکم بنانے والا ہو اور اس میں شریعت کی کسی نص کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو، اصولاً مباح ہوگا۔ علم کا استعمال جب بھی کسی فحش یا برائی کے فروغ کے لیے ہو تو وہ حرام ہوجائے گا۔ اگر ایک خاتون بیوٹیشن کی حیثیت سے خواتین کو بنائو سنگھار کی خدمت اپنے گھر میں بیٹھ کر فراہم کرتی ہے تو اس میں کسی شرعی اصول سے تضاد نہیں پایا جاتا، البتہ اسراف، نمود و نمایش، لغویات اور وقت کے مصرف اور ترجیحات کا پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے۔ تاہم، اگر وہ بازار میں دکان کھول کر بیٹھتی ہے جہاں عورتوں ہی کو نہیں مردوں کو بھی   یہ خدمت فراہم کی جاتی ہو تو یہ لازماً حرام ہوگا۔

دین کے معاملات میں محض اپنی پسند پر فیصلہ کرنا کسی لحاظ سے مناسب نہیں۔ ہمارے پاس قرآن و سنت سے دلیل ہونی چاہیے۔ جب تک یہ بات واضح نہ ہوجائے کہ کسی خاتون کے کسی دوسری خاتون کے غازہ لگانے سے فحش کی ترویج ہو رہی ہے، اس قسم کی اعانت کرنے اور گھر میں دوسری خواتین کو سہولت فراہم کرنے کو ناجائز قرار دینا ممکن نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ا- ا)

 

قرآنی اُردو (اشتقاقی انسائیکلوپیڈیا)، لیفٹیننٹ کرنل (ر) عاشق حسین۔ ناشر: بک کارنر، مین بازار، جہلم۔فون (مؤلف) : ۷۷۴۹۶۰۷-۰۳۲۱۔ صفحات: ۴۰۵۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

مصنف اگرچہ عربی کے اسکالر نہیں، اس کے باوجود انھوں نے ایک نہایت دل چسپ، مفید اور معلومات افزا کام انجام دیا ہے (اس کی توقع کسی عربی زبان کے محقق سے ہی کی جاسکتی تھی)۔ کتاب کا ضمنی عنوان ہے: ’’اُردو میں مستعمل قرآنی الفاظ کے بارے میں لسانی و ادبی تحقیق ۲۰۰۰ سے زائد منتخب اُردو اشعار کے حوالہ جات کے ساتھ‘‘، مگر اس سے پوری طرح اندازہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کس نوعیت کی کتاب ہے۔ مصنف نے ثابت کیا ہے کہ اُردو زبان اپنی اصل میں قرآنی زبان ہے۔ اس کتاب میں قرآن حکیم کے تقریباً ۱۲۰۰ ایسے لفظی مادّوں [بنیادی مصادر] کو حروفِ تہجی کی ترتیب سے لکھا گیا ہے جو اُردو میں مستعمل ہیں۔ پھر ہرمادے سے ماخوذ اُردو الفاظ کی نشان دہی کرکے بطور حوالہ ایسے دستیاب اُردو اشعار بھی درج کیے گئے ہیں جن میں وہ الفاظ (اصل یا ماخوذ حالت میں) استعمال ہوئے ہیں۔ (ص ۱۵)

یہ اُردو زبان کا ایک مطالعہ ہے جو مؤلف کے ذاتی ذوق و شوق اور دل چسپی کا نتیجہ ہے  اور ان کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اُردو زبان ادب میں بالواسطہ یا بلاواسطہ استعمال ہونے والے ۹۴فی صد الفاظ قرآنی (قرآن سے ماخوذ) ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتے ہیں کہ اُردو دان طبقے کے لیے قرآن حکیم کے مطالب کو سمجھنا نہایت آسان ہے۔

مقدمے میں (ص ۲۲ تا ۳۳) انھوں نے اپنی تحقیق کا پس منظر، طریق کار اور اپنے موقف کی تائید میں مختلف پہلوئوں سے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جو بجاے خود تعلیمی اور معلوماتی لحاظ سے قابلِ قدر ہیں، مثلاً بتایا ہے کہ اُردو محاورات کی بہت بڑی تعداد قرآنی تصورات سے ماخوذ ہے جیسے ’پلک جھپکنے کی دیر میں‘ کلمحِ البَصَرِ سے، ’دل کا اندھا ہونا‘ تَعْمَی الْقُلُوْب سے اور ’کفِ افسوس ملنا‘ فَاَصْبَحَ یَقَلِّبُ کَفّیْہِ سے ماخوذ ہے۔ بعض محاورات تو براہِ راست قرآن سے اخذ کیے گئے ہیں، جیسے: اناللہ پڑھنا، الم نشرح ہونا، طوعاًکرھاً، قیل و قال کرنا وغیرہ۔ اسی طرح بہت سی تلمیحات اور علامتی تراکیب بھی قرآن سے لی گئی ہیں جیسے برادرانِ یوسف، صبرِایوب، یدبیضا وغیرہ۔ امدادی افعال اور حروفِ جار وغیرہ بھی اُردو کی بہت سی خوب صورت تراکیب کو   وجود میں لانے کا باعث ہوئے ہیں، جیسے: علی الاعلان، من و عن، لیت و لعل کرنا، فی الحال وغیرہ۔ مزید برآں بعض قرآنی الفاظ قرآنی تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں، مگر اُردو میں آکر ان کے معنی تبدیل ہوگئے ہیں۔ بعض قرآنی الفاظ اُردو میں کثیرالمعانی ہوگئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

مؤلف نے پیش نظر تحقیقی کام بڑی توجہ ، محنت اور دل کی لگن کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ان کا اُردو ادب کا مطالعہ بھی قابلِ رشک ہے۔ آخر میں اُردو میں غیرمستعمل قرآنی الفاظ کی ایک فہرست شامل کر دی ہے۔ مؤلف کا یہ اندازہ قرین قیاس ہے کہ مستقبل قریب میں اُردو پر انگریزی زبان کے اثرات تیزی سے مرتب ہوں گے اور اُردو، انگریزی تہذیب و زبان سے بڑی حد تک مغلوب ہوگی  مگر اپنے مذہبی اور تہذیبی ورثے سے دست بردار نہیں ہوگی، ان شاء اللہ (رفیع الدین ہاشمی)


Slippery Stone: An Enquiry into Islam's Stance on Music ، [پھسلواں پتھر: موسیقی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر پر ایک تحقیق]،  خالدبیگ۔ ناشر: اوپن مائنڈ پریس، گارڈن، گروو (Grove)، کیلی فورنیا، امریکا۔ صفحات:۳۶۱۔ قیمت: درج نہیں۔

مذہب اور مناجات، دیدہ اور نادیدہ خدا اور دیوتائوں کے حضور عجز و عاجزی، خوب صورت آواز اور آہنگ میں دعا اور جذبات کا اظہار، غالباً انسان کی سرشت میں داخل ہیں کہ ہرمذہب میں اس کے نشان اور شواہد ملتے ہیں۔ نغمہ دائودی سے لے کر راج کماری میرا کے بھجن تک، عرضِ مُدعا کے لیے انسانوں نے اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق خوب سے خوب تر اظہار کے لیے ہمیشہ کوشش کی ہے۔ لیکن وہ موسیقی جو انسان اپنی آواز اور آلات سے پیدا کر رہا ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا ’غیرمذہبی‘ اور خالصتاً ’طربیہ‘ اور تفریحی، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

مصنف کہتے ہیں کہ ہم گاڑیوں، مشینوں اور کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں اور آلودگی کے خلاف بہت کچھ کہتے اور سنتے ہیں، لیکن اس شور پر کم ہی توجہ دیتے ہیں، جو غِنا اور موسیقی کی مشینوں نے برپا کر رکھا ہے۔ آج یہ موسیقی ہمارے نظامِ اعصاب، جسم اور سب سے اہم یہ کہ ہماری روح کو کس طرح برباد کر رہی ہے، کم ہی لوگ اس کا شعور رکھتے ہیں۔ آج کے مقبول ’مسلم میوزیکل گروپوں‘ سے لے کر پیشہ ور اور غیرپیشہ ور کلاسیکی اور جدید طائفوں تک اور انفرادی فن کار سبھی اس ’کارِطرب انگیز‘ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

محترم خالد بیگ نے غنا اور موسیقی اور اُن کی تمام صورتوں اور ہیئتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اور قرآن پاک کی تعلیمات، احادیث مبارکہ اور علما کے نقطۂ نظر کا بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ کتاب تین اجزا پر مشتمل ہے۔ وہ قبلِ اسلام کی شاعری، اور پھر عرب شاعری پر اسلام کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسلام نے کس طرح کی شاعری کی اجازت دی، اور کس طرح کی شاعری کو رد کیا۔ اگرچہ موسیقی، مسلم دورِ حکمرانی میں بھی باقی رہی، لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں اُسے کیا مقام دیا گیا اور مسلم علما کی اس سلسلے میں کیا راے رہی ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ۱۸ویں/ ۱۹ویں صدی عیسوی میں مسلم ممالک پر یورپی اقوام کے غلبے اور نوآبادیاتی تسلط کے بعد ہمارے ہاں اس سلسلے میں گراموفون، ریڈیو، فلم اور ٹیلی وژن اور پھر میوزک وڈیوز، انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے جو جوہری تبدیلی واقع ہوئی، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں مغرب سے آئی ہوئی جدید فنّیات (modern  technologies) کو جس طرح بلاسوچے سمجھے بے تکلفی سے قبول کرلیا گیا ہے، اس نے ہمارے معاشرے پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پھر مستشرقین اور ہمارے مؤرخین نے ماضی میں موسیقی اور غنا کے سلسلے میں ہمارے اسلاف کے کارناموں کو جس فخریہ انداز سے پیش کیا ہے، اس سے بھی ہمارے نوجوانوں میں اس کے لیے پذیرائی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ ہمارے بعض صوفیہ (اور علما) نے سماع کے جواز کے جو فتوے دیے ہیں، انھیں بھی بلاتنقید قبول کرلیا گیا ہے۔ حالانکہ ابن حزم اور طاہرالمقدسی (جن کی راے پہ انحصار کر کے جامعہ الازہر کے مفتیوں نے سماع اور ملاحی کے جواز کا فتویٰ دیا) کی راے سے نہ صرف اہلِ سنت کے چاروں مکاتبِ فکر (مالکی، حنفی، شافعی اور حنبلی) بلکہ سلفی اور شیعہ بھی اختلاف کرتے ہیں، اور موسیقی اور سماع کو   درست نہیں گردانتے۔ اگرچہ مصنف نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن صوفیہ میں شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) اور نقش بندی مکتب ِ فکر کے تمام صوفیہ، موسیقی، وجد، حال اور اس طرح کے تمام اشغال کو سختی سے رد کرتے ہیں۔

موسیقی، غنا، لہوولعب، وقت ضائع کرنے والے فضول مشاغل اور ناروا، ناپسندیدہ تفریحات کے سلسلے میں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرامؓ کے اقوال اور رویوں کی تفصیلات ۳ ابواب میں بڑی محنت سے جمع کی گئی ہیں۔

موسیقی کے حوالے سے آج مسلم دنیا کی کیا کیفیت ہے؟ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے عرب دنیا پر حملہ کیا، تو مصری افواج کے افسر اور سپاہی اُم کلثوم کے غنا میں مدہوش تھے۔ ۲۰ویں صدی کے اواخر اور ۲۱ویں صدی میں اسلام کے خلاف نضر بن الحارث (وہ دشمن اسلام، جس نے قرآن اور اسلام سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے مکہ میںگانے والی کنیزوں کی خدمات حاصل کی تھیں) کی حکمت عملی کو سلیقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاکھوں برقی آلات، ۲۴ گھنٹے عوامی کلچر کے نام پر ایک یلغارِ بے اماں میں مصروف ہیں، اور ان میں ’دینی اور مذہبی‘ ادارے بھی شریکِ کار ہیں۔ لوئی لامیہ ابسن الفاروقی (Lois Lamya Ibsen) ایک امریکی موسیقار جو مسلمان ہوگئی___ ’ہندسۃ الصوت‘ کے نام سے لحنِ قرانی، مذہبی نشید (قوالی)، اختلافی شعرو موسیقی، جنگی ترانوں اور گھریلو تقریبات کی موسیقی سے لے کر ناپسندیدہ ہیجانی جذباتی موسیقی تک، اس ’فن‘ کو ۱۰درجات پر استوار کر کے فروغ دیتی ہیں اور ساری دنیا میں موسیقی کی تعلیم کو عام کرنے کی وکالت کرتی ہیں۔ مصنف نے اس رجحان کا سختی سے (درست طور پر) محاکمہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسیقی کا مسئلہ، محض ایک علمی بحث نہیں، بلکہ اس پُرآشوب دور میں اسلام اور مسلمانوں کی صحت کے ساتھ بقا کا مسئلہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی دانائی کی بات کی ہے کہ حلال و حرام تو واضح ہیں، لیکن ان کے درمیان مشتبہات ہیں۔ اکثر لوگوں کو اُن کی حیثیت کا علم نہیں، پس جس نے ان مشتبہات (مشکوک اُمور) سے پرہیز کیا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچالیا۔ اور وہ جو اِن مشکوک اُمور میں مبتلا ہوگیا، وہ اُس چرواہے کی طرح ہے، جو اپنے جانور کسی نجی چراگاہ کے آس پاس چرا رہا ہے۔ کسی بھی لمحے اِس کا امکان ہے کہ وہ اِس چراگاہ میں داخل ہوجائے۔ خبردار! ہربادشاہ کی ایک نجی چراگاہ ہے۔ خبردار! اللہ کا ممنوعہ علاقہ وہ زمین ہے جس میں داخل ہونے سے اُس نے روکا ہے‘‘۔

انگریزی زبان میں یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے، جس میں قرآنِ مجید، احادیث، فقہا اور جدید علوم کے ماہرین کی آرا کے ۶۰۰ سے زیادہ حوالے، اور ۱۰۰ سے زیادہ سوانحی نوٹ، نیز وسیع کتابیات شامل ہیں۔ اس کتاب کو ہماری جامعات، اور نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کتب خانوں میں ضرور رکھا جاناچاہیے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


امریکی مکاریوں کی تاریخ، جان پرکنز، ترجمہ: محمد یحییٰ خان۔ ناشر: نگارشات پبلشرز، ۲۴-مزنگ روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۲۷۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

جان پرکنز معروف امریکی نقاد اور مصنف ہیں، اپنی معروف کتاب اکنامک ہٹ مین (اقتصادی غارت گر) میں انھوں نے امریکی سیاست، معیشت اور ذرائع ابلاغ سمیت زندگی کے ہرشعبے میں یہودی گرفت، ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دوسرے بین الاقوامی امدادی اداروں اور تنظیموں کے گھنائونے کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کی زیرنظر دوسری کتاب The Secret History of American Empire کے نام سے سامنے آئی ہے، جس کا خوب صورت اور رواں ترجمہ بزرگ اور کہنہ مشق صحافی محمد یحییٰ خان نے کیا ہے۔

امریکی استعمار اپنے دو حربوں (اکنامک ہٹ مین (EHMS) اور گیدڑوں (Jackals) کی فوج) کے ذریعے جس طرح سے قرضوں کے جال میں الجھاتا اور سازشوں کے ذریعے استحصال کرتا ہے، اس کا جائزہ لیتے ہوئے جان پرکنز نے زیرنظر کتاب میں امریکی سامراج کی خفیہ تاریخ اور عالمی کرپشن کا پردہ چاک اور خاص طور پر ایشیا، لاطینی امریکا، مشرق وسطیٰ، براعظم افریقہ میں کی جانے والی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ’دنیا میں تبدیلی کیسے لائی جائے‘ کے تحت امریکی حکمت عملیوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ کتاب کا انداز دل چسپ اور کہانی کے طرز پر ہے۔ یہ نیویارک ٹائمز کی best seller کتابوں میں شامل رہی جس کا دنیا کی ۱۲ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور اس کا مطالعہ امریکی مکاریوں، عیاریوں اور ریشہ دوانیوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ (عمران ظہور غازی)


تعلیمی کامیابی، پروفیسر ارشد جاوید۔ ناشر: کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی پبلی کیشنز، ۶۸۱-شادمان I، لاہور۔ صفحات: ۲۵۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

کامیابی کیا ہے؟ اس کے حصول کا کیا طریقہ ہے اور یہ کن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات انسانی ذہن میں جنم لیتے ہیں اور ہرفرد اپنی ذہنی اُپچ، سوچ اور فکر کے مطابق ان کا جواب دیتا ہے۔ ہر آدمی کے نزدیک کامیابی کا اپنا مفہوم ہے۔ پروفیسر ارشد جاوید ماہر نفسیات ہیں۔ اس موضوع پر ان کی یہ کتاب نہ صرف دنیاوی کامیابی کے لیے آمادہ و تیار کرتی ہے بلکہ اخروی کامیابی کا بھی داعیہ پیدا کرتی ہے۔ ایسے ۲۵مضامین شاملِ کتاب ہیں جن میں کامیابی کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ چند معروف شخصیات کی کامیابیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور ان خوبیوں اور صفات کا بیان ہے جو انسان کو آگے بڑھانے اور کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر کتاب طلبہ کی تعلیمی رہنمائی، تعمیر شخصیت اور کیریئر پلاننگ کے لیے لکھی گئی ہے، لہٰذا تعلیمی کامیابی کے لیے مفید اصول اور عملی رہنمائی دی گئی ہے جس سے طلبہ اپنی کارکردگی بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ نفسیات کے اصولوں کے مطابق ترتیب دی گئی یہ کتاب زندگی کے تمام ہی دائروں میں کامیابی کے حصول کے لیے مؤثر نسخہ فراہم کرتی ہے۔ (ع- ظ-غ)


الاسرہ، غوث محی الدین، ناشر: ادارہ معارف اسلامی، ڈی بلاک، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات:۴۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

اخوان المسلمون کے تربیتی نظام کی بنیاد اور اکائی اسرہ ہے۔ مصنف کو اپنے امریکا و کینیڈا قیام کے دوران نظام الاسرہ کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ۵۰ کے عشرے میں، کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے نظام الاسر کا تجربہ کیا تھا جو بہت کامیاب ثابت ہوا تھا لیکن بوجوہ جاری نہ رہ سکا۔ غوث محی الدین صاحب نے اخوان کے نظام کا دل چسپی لے کر گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کے مقاصد، طریق کار اور تجربات کے حوالے سے اپنا مطالعہ اور تاثرات غوروفکر کے لیے پیش کیے ہیں۔ اسرہ ایک نقیب اور پانچ رفقا پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے تمام مسائل، باہمی تربیت اور تحریکی کاموں میں شریک ہوتے ہیں۔ طالب علموں میں، مردوں میں اور خواتین میں، پیشے کی بنا پر یا کسی بھی یگانگت کی بنیاد پر اسرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مصنف نے پی آئی اے میں مزدور یونین پیاسی کے قیام اور کامیابی کا سبب اسلامی جمعیت طلبہ کے چار سابقین کی بطور اسرہ کارکردگی کو قرار دیا ہے۔ تربیت کا نظام چلانے والوں کو اس کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (مسلم سجاد)


عورت کی قرآنی تصویر، ڈاکٹر حسن الدین احمد۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

یہ عورت کے موضوع پر کوئی روایتی دینی کتاب نہیں۔ مصنف نے اپنے گہرے مطالعۂ قرآن، دعوت کے عملی تجربات اور مغربی معاشرے میں طویل قیام کے پس منظر میں اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور دل نشیں انداز میں مسئلے کے تمام پہلو واضح کیے ہیں۔ پہلے چار ابواب میں عورت بحیثیت انسان، بحیثیت عورت، رشتۂ ازدواج اور گھریلو مسائل کے تحت ذیلی عنوانات قائم کر کے متعلقہ قرآنی آیات کا اطلاق بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں چند شبہات کے تحت ان معاملات کو لیا ہے جو آج کل اعتراضات کی زد میں ہیں، مثلاً میراث میں نصف حصہ، گواہی، تعددِ ازدواج، پردہ اور جرم و سزا۔ ہر مسئلے پر انھوں نے اسلام کے موقف کو دلائل کے ساتھ اعتماد سے پیش کیا ہے۔ قاری پر قرآنی احکامات کی حکمت واضح ہوجاتی ہے۔

اس کتاب کو انگریزی میں بھی نیویارک سے The Quranic Portrayal of Woman کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنف سے رابطہ کر کے حاصل کی جاسکتی ہے (ای میل: hasanuddinahmad@yahoo.com)۔ (م-س)


Al-Fateha & Its Significance ، شمیم اے صدیقی۔ ملنے کا پتا: The ، Forum for Islamic Work, 265-Flatbush Avenue, Brooklyn NY-11355، امریکا۔ صفحات: ۱۰۶۔ قیمت: ۶ ڈالر۔

قرآن پاک کی پہلی سورۃ الفاتحہ معانی کا ایک سمندر ہے۔ دین کی بنیادی ضروری تعلیمات اس میں آگئی ہیں۔ تفسیر کی جائے تو جلدیں لکھی جاسکتی ہیں۔ شمیم صدیقی نے نسبتاً گہرائی میں جاکر معانی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے مثلاً اھدنا الصراط المستقیم کے حوالے سے ہدایت و ضلالت کی پوری بحث آگئی ہے۔ اسی طرح تصورِ عبادت اور دیگر موضوعات۔ ساتھ ہی داعیانہ جوش سے اُمت کو توجہ بھی دلائی گئی ہے کہ وہ اس سورہ کے تقاضوں کو پورا کرے تو عروج حاصل کرسکتی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے عالمانہ مقدمے سے فنِ تفسیر کے اہم نکات سے آگہی ہوتی ہے۔ (م- س)

تعارف کتب

  •  ترجمہ قرآن بزبان نیپالی ، مترجم: مولانا علاء الدین فلاحی۔ ناشر: اسلامی سنگھ نیپال، گھنٹہ گھر، کے آئی ایم، نیپال۔ صفحات:۱۱۶۸۔ ہدیہ: درج نہیں۔ [نیپالی زبان نیپال کے علاوہ بھوٹان اور بھارت کے سکم و دارجلنگ کے بہت سے باشندے اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ابھی تک نیپالی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ اسلام سنگھ نیپال میں تحریکِ اسلامی کی نمایندہ جماعت ہے، اس نے پہلی بار نیپالی زبان میں قرآن مجید کے ترجمے کا اہتمام کیا ہے۔ مولانا علاء الدین فلاحی نے ترجمۂ قرآن کی سعادت حاصل کی ہے۔ ترجمے کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مختلف علماے کرام نے اس پر نظرثانی کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تین ماہرلسانیات سے بھی زبان کی تصحیح کروائی گئی ہے۔ یہ کسی اُردو، ہندی یا انگریزی ترجمے کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ عربی متن کی نیپالی زبان میں ترجمانی ہے۔ اس کی تیاری میں اُردو زبان کے مشہور تراجم و معروف تفاسیر، ہندی اور انگریزی زبانوں میں موجود تراجم کے ساتھ ساتھ متداول عربی تفاسیر سے بھی مدد لی گئی ہے۔]
  •  مجلہ تحقیق ، شمارہ ۱۶، ناشر: شعبۂ اُردو، سندھ یونی ورسٹی، جام شورو،حیدرآباد، سندھ۔ صفحات: ۹۳۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔ ملنے کا پتا: شعبۂ اُردو، آرٹس فیکلٹی، سندھ یونی ورسٹی، علامہ آئی آئی کیمپس، جام شورو- ۷۶۰۸۰۔ فون: ۹۷۷۱۶۸۱-۰۲۲۔ [شعبۂ اُردو سندھ یونی ورسٹی کا زیرنظر مجلہ تحقیق ہائر ایجوکیشن کمیشن کے درجۂ اوّل کے معیاری رسائل میں شمار ہوتا ہے۔ اسے شعبے کے سابق صدر ڈاکٹر نجم الاسلام مرحوم نے جاری کیا تھا۔ زیرنظر شمارہ ۲۵ مقالات اور چند مختصر تبصروں پر مشتمل ہے۔ ضابطے کے مطابق انگریزی زبان میں ہر مقالے کا خلاصہ بھی دیا گیا ہے۔ معیارِ کتابت و طباعت اور مجموعی پیش کش قابلِ تحسین ہے۔ سندھ یونی ورسٹی سے اُردو زبان و ادب پر ایسے معیاری اور بلندپایہ تحقیقی مجلے کی اشاعت بے حد مستحسن ہے اور قریب قریب ایک معجزے کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ وائس چانسلر مظہر الحق صدیقی، فیکلٹی ڈین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو اور مدیر ڈاکٹر سید جاوید اقبال (صدر شعبۂ اُردو) داد و تحسین کے مستحق ہیں۔]

 

عتیق الرحمٰن صدیقی ، ہری پور

مالاکنڈ ڈویژن اور بلوچستان کے بارے میں محترم پروفیسر خورشیداحمد نے ’اشارات‘ (جون ۲۰۰۹ء) میں جس دل سوزی اور دردمندی سے تجزیہ پیش کیا ہے وہ واقعتا بار بار پڑھنے، سوچ بچار کرنے اور صحت مند و مثبت راہِ عمل اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ انھوں نے نہایت محتاط انداز میں مؤثر دلائل کی روشنی میں طالبان کے بارے میں پائی جانے والی کنفیوژن کو بھی دُور کردیا ہے۔ اگر ایک طرف طالبان کے مستحسن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے تو دوسری طرف ان پہلوئوں پر بھی نقد کیا ہے جو نہ صرف ناپسندیدہ تھے بلکہ ان کی کوتاہ فکری اور غیرحکیمانہ سوچ کے غماز تھے۔ حکمرانوں نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس آپریشن کا آغاز کیا ہے اور لاکھوں لوگ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوکر جس تعذیب کا شکار ہوئے ہیں وہ یقینا فہم وفراست کے منافی طرزِعمل ہے۔ اس کے نتائج نہایت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ حکمت و تدبر کا تقاضا یہی ہے کہ آپریشن کو روک کر مذاکرات کے تمام ممکنہ راستے اپنائے جائیں۔ اللہ کرے کہ حکمران ان تجاویز کو سامنے رکھ کر اپنا لائحہ عمل مرتب کریں۔

عبدالرحمٰن ،لاہور

’اسلامی نشاتِ ثانیہ کے امکانات‘ (جون ۲۰۰۹ء) کے تحت سید مودودیؒ نے ایک اہم اور جامع موضوع کو مختصراً اور عام فہم انداز میں واضح کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی و غلبہ دعوتِ اسلامی ہی سے وابستہ ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دعوت کو سمجھنے کے بعد کتنے لوگ اپنی جان، مال، وقت اور محنتیں اور قابلیتیں اس راہ میں صرف کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، اور لوگوں میں اسلامی شعور بیدار کرتے ہیں۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ہماری سرگرمیوں میں اس بات کو کس حد تک ترجیح حاصل ہے۔

احمد علی محمودی ،حاصل پور

’امریکا زوال کی جانب‘ (جون ۲۰۰۹ء) ایک خوب صورت اور حوصلہ افزا تحریر ہے۔ اقوام کے عروج و زوال کے حوالے سے قدرت کا اپنا ایک ضابطہ و قانون ہے جس کی وجہ سے دنیا میں اقوام عروج پاتی ہیں اور زوال کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ امریکا بنائو کے بجاے بگاڑ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسے برطانیہ اور متحدہ روس کی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی عالمی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اگر امریکا نے اپنی روش تبدیل نہ کی اور مجموعی طور پر فساد اور بگاڑ ہی کا باعث بنتا رہا اور اس کی پہچان ظالم بھیڑیے ہی کی رہی تو زوال اس کا مقدر ہے۔ دنیا میں اُبھرتی ہوئی نئی قیادتیں اس تبدیلی کی واضح علامت ہیں۔

نسیم احمد ، اسلام آباد

’یہ تعلیمی پالیسی!‘ (جون ۲۰۰۹ء) بروقت اور بھرپور تجزیہ ہے۔ پاکستان کی ہرحکومت نے تعلیم کے ساتھ ظلم کیا۔ ہر نئے وزیرتعلیم نے کانفرنسیں بلائیں، منصوبے بنائے لیکن معاملہ حسن نیت اور خلوصِ عمل کا تھا۔ قوم سے اقرا سرچارج تعلیم کے نام پر وصول کیا گیا، خرچ کہیں اور ہوا۔’نئی روشنی‘ منصوبہ طمطراق سے شروع ہوا ، بے نظیر حکومت نے بیک جنبش قلم بساط لپیٹ دی، اس کے اثاثے کہاں گئے؟ فی الحقیقت ملک کی ہر پالیسی دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲ اور ۲-الف کے تحت ہونی چاہیے۔ اس پالیسی میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ انگریزی تعلیم پر زور ہے۔ برعظیم کے ۱۹ویں صدی کے مسلمان مفکرین، ادبا، مصنفین اور شعرا میں سے کسی نے بھی انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ پاکستان کے انگلش میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے کتنے مفکر اور بلندپایہ مصنّفین پیدا ہوئے! جماعت اسلامی اگر ایک متبادل پالیسی سامنے لائے تو مناسب ہوگا۔

اسماء بتول ، جھنگ

’نیوزی لینڈ کے مسلمان‘ (جون ۲۰۰۶ء) دعوتی نقطۂ نظر سے اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اہم معلومات پر مبنی ہے۔ مسلمانوں نے کس طرح سے اپنے آپ کو منظم کیا، غیرمسلموں میں دعوت کو پیش کیا، نیز محدود تعداد میں ہونے کے باوجود جس طرح سے مختلف دائروں میں منظم جدوجہد کررہے ہیں نہ صرف قابلِ ستایش ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی۔

 

نااہل قیادت

کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہوسکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہوجائے۔ ایک سفینۂ حیات کو غرق کرنے کے لیے طوفان کی موجیں وہ کام نہیں کرسکتیں جو اس کے خیانت کار ملاّح کرسکتے ہیں۔ کسی قلعے کی دیواروں کو دشمن کے گولے اُس آسانی سے نہیں چھید سکتے جس آسانی سے اس کے فرض ناشناسی سنتری اس کی تباہی کا سامان کرسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایک ملت کے لیے بیرونی خطرے اتنے مہلک نہیں ہوتے، جتنا کہ نااہل قیادت کا داخلی خطرہ مہلک ہوتا ہے۔ پھر اگر حالات معمولی نہ ہوں بلکہ ایک قوم کی تعمیر کا آغاز ہو رہا ہو اور یہ آغاز بھی نہایت ناسازگار احوال کے درمیان ہو رہا ہو، ایسے حالات میں کسی غیرصالح قیادت کو ایک منٹ کے لیے بھی گوارا کرنا خلافِ مصلحت ہے۔ ایک غلط قیادت کی بقا کے لیے کسی طرح کی کوشش کرنا ملک و قوم کے ساتھ سب سے بڑی غداری، اور غلط قیادت سے نجات دلانے کی فکر کرنا اس کی سب سے بڑی خیرخواہی ہے۔

لیکن اگر اس خیرخواہی کے راستے ہی بند کردیے جائیں اور اصلاحی اور تعمیری قوتوں کے لیے کام کرنے کا ہر دروازہ مقفل ہوجائے تو یہ ایک سخت خطرناک فالِ بد ہے___ اور قاعدے کی بات ہے کہ جب کسی حکومت، کسی اقتدار اور کسی قیادت کے لیے کوئی عقلی و اخلاقی وجہِ جواز باقی نہیں رہتا تو وہ اصلاح و تغیر کے راستوں کو لازماً بند کردیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی اصلاح و تغیر کی ہرسعی کو کچلنے کے لیے پورے انتظامات کرلیے گئے ہیں۔

ان انتظامات میں سے ایک یہ ہے کہ عوام ملک کو زندگی کی روزمرہ کی مشکلات میں بُری طرح اُلجھا دیا گیا ہے، نیز بہت ہی حکیمانہ طریقے سے اُن میں بددلی، مایوسی، جمود اور ذہنی انتشار کو پھیلا دیا گیا ہے، تاکہ راے عام اپنے اکابر کا احتساب کرنے اور ان کی غلطیوں پر حرف گیری  کرنے اور ان سے ان کی بے راہ روی پر بازپرس کے قابل نہ رہے۔ (’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۲، عدد۲، شعبان ۱۳۶۸، جولائی ۱۹۴۹ء، ص ۴-۵)