مضامین کی فہرست


جون ۲۰۰۹

آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سوات میں امن اور نظامِ عدل کے قیام کی کوشش کا گلا، امریکا اور اس کے پاکستانی گماشتوں نے پیدایش سے پہلے ہی گھونٹ دیا۔ اس طرح سوات، اس کے گردونواح کے تمام علاقوں بشمول بونیر اور دیر وغیرہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ انجامِ کار پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کی خاطر ۲۵، ۳۰ لاکھ انسانوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر اور بے سروسامان کر دیا۔

اس خطرناک اور خونیں اقدام سے امریکا اور اس کے اسٹرے ٹیجک اتحادیوں نے ایک طرف اس تاریخی عمل کو پٹڑی سے اُتار دیا، جو ۲۲اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی شکل میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی گرفت سے پاکستان کو نکالنے اور اس کی سالمیت کے دفاع کو درپیش خطرات سے نجات دلانے کے لیے شروع ہوا تھا۔ امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کی اسی نام نہاد جنگ نے ملک کو سیاسی، معاشی، عسکری ہراعتبار سے کمزور اور مجروح کر دیا ہے۔ اس قرارداد میں سیاسی مسائل کے فوجی حل کو ترک کر کے سیاسی حل تلاش کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ جس کی روشنی میں پہلا اہم اقدام فروری ۲۰۰۹ء کا سوات امن معاہدہ اور شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے نفاذ کی کوشش تھی۔

افسوس کہ اس نئی حکمت عملی کو قبول کرنے میں، وفاقی حکومت اور خاص طور پر صدرزرداری صاحب نے جس تردّد اور پُراسرار رویے اور عمل کا اظہار کیا، اسی نے اندیشہ ہاے دُوردراز پیدا کردیے تھے۔ بعدازاں کھلے کھلے امریکی دبائو کے تحت صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور فوج نے اس معاہدے کو قصۂ پارینہ قرار دے کر جس عجلت سے فوج کشی شروع کی اور سوات اور اہلِ سوات کی بربادی کے تباہ کن راستے پر بگ ٹٹ گامزن ہوگئے، وہ پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین     المیہ ہے۔ اس اقدام نے ملک کے نقشے تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خونیں ڈرامے کے اہم کردار ہیں: مفاد پرست اربابِ اقتدار، پاکستان کے ہوشیار دشمن، اور نادان دوست! ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کو امریکی جنگ کی دلدل سے نکالنے کا جو  عمل شروع ہوا تھا، اس عمل سے اسے پارہ پارہ کرکے وہ حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ جن کو  اگر بروقت روکا نہ گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا وجود، اس کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی شناخت معرضِ خطر میں پڑ جائے گی۔

حالات کا صحیح تجزیہ، اصلاحِ احوال کی حکمت عملی کا تعین اور اس کے لیے ملک کے ۱۷کروڑ عوام کو پاکستان کے تحفظ اور بقا کی جدوجہد کے لیے بیدار اور متحرک کرنا وقت کی اہم ترین  ضرورت ہے۔ جن حالات کو ہمارے دشمن پاکستان کے ’وجود کو درپیش بحران‘ کہہ رہے ہیں، اسے قومی یک جہتی، قومی ترقی، قومی بقا اور بلندپایہ تہذیبی تشخص میں تبدیل کردینا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ہم اس چیلنج کے مختلف پہلوئوں پر اپنی معروضات پیش کررہے ہیں۔

مسئلے کی نوعیت

سب سے پہلے مسئلے کی نوعیت کو علمی دیانت اور دقتِ نظر سے سمجھنا ضروری ہے۔   دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں اور تاریخ کے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، اور ان کا مقابلہ ملک کے نظامِ قانون، ریاستی اداروں اور دستوری ضوابط و اختیارات کے فریم ورک میں کیا جاتا رہا ہے۔ دنیابھر اور خود پاکستان میں ایسے واقعات کو ملک کے قانونِ فوجداری کے تحت گرفت میں لایا گیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممالک اور اقوام نے جہاں دہشت گردی پر قرارواقعی گرفت کی ہے، وہیں یہ کوشش بھی کی ہے کہ قانون اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی خوارج اور باطنی فرقے کے assassins کے فتنے رونما ہوئے، مگر ان کا مقابلہ     اصولِ انصاف اور ضابطۂ قانون کے تحت کیا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ امریکا نے اس روایت سے یکسر انحراف کرتے ہوئے، نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے افسوس ناک واقعے کو بنیاد بناکر پوری دنیا میں ایک عالم گیر جنگ (Global war on terror) کا طبل بجادیا، جس کا نشانہ عملاً افغانستان، عراق اور پاکستان کو بنایا، جب کہ عام مسلمانوں کو بھی اس کی لپیٹ میں لے لیا۔ یوں ۸سال سے دنیا ایک مجہول، ناقابلِ شناخت اور غیرمحدود جنگ کی آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ یہ ایسی افسوس ناک جنگ بلکہ دہشت گردی ہے جس کے نتیجے میں خود دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے: گروہی اور ریاستی دہشت گردی، اداراتی اور نسلی دہشت گردی۔

بین الاقوامی قانون، ملکی حدود میں قانون کی حکمرانی اور حقوقِ انسانی کا تحفظ بُری طرح پامال ہوئے ہیں۔ لاکھوں انسان جان کی بازی ہار گئے ہیں اور دنیا کا امن و چین تہ و بالا ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق صرف امریکا کو ۳ کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ گویا عالمی مالیاتی اور معاشی بحران پیدا کرنے اور دنیا میں غربت و افلاس کو بڑھانے میں اس نام نہاد جنگ کا بھی ایک کردار ہے۔ خود پاکستان کا حال یہ ہے کہ جو علاقے ۱۹۴۷ء سے پُرامن تھے وہ اب آتش فشاں بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت کو ڈھائی کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہر سال ۵ سے ۶ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور اس سے بڑھ کر ملک کی آبادی کا سُکھ چین رخصت ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ ملک کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے۔

بلاشبہہ ماضی میں سیاسی، لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی کے اِکا دکا واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں سابق آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور پاکستان کی سرزمین کو برادر ملک افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے کندھا پیش کرنے سے دہشت گردی کی جو لہر رونما ہوئی ہے، اور پھر ۲۰۰۴ء میں خود پاکستان کی فوج کو جس طرح اس جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں تباہ کن صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔

جوہری اعتبار سے یہ صورت حال ایسی ہے کہ اسے معروف سیاسی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کا روایتی انداز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہ اس نوعیت کی بغاوت (insurgency) نہیں ہے جو سیاسی یا علیحدگی پسندی کی تحریکات کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ مزاحمتی تحریک کا ایک حصہ ہے، جو افغانستان پر امریکا اور ناٹو افواج کے قبضے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، جس کا اصل میدان جنگ تو افغانستان کو بنایا گیا تھا اور امریکی عزائم کے مطابق وہ اب تک میدانِ جنگ ہی ہے، البتہ جنرل پرویزمشرف کی امریکی جنگ میں شرکت،اور اپنی فوجوں کو ۲۰۰۴ء سے اس علاقے میں استعمال کے نتیجے میں یہ آگ خود ہمارے وطن میں آن پہنچی ہے، اور روز افزوں ہے۔ امریکا نے ہمیں اس جنگ میں فریق بنانے اور اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے ہمارے سرحدی اور قبائلی علاقوں کوخوفناک خطے قرار دینے کا پروپیگنڈا شروع کیا، اور ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا واویلا کیا۔ جنرل مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں جو مزاحمت افغانستان میں ہو رہی تھی اور جسے امریکا قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا تھا اور ہے، اس جنگ کو خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دھکیل دیا گیا، تاکہ پاکستان کے وجود کو خطرناک ثابت کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔

اس پس منظر میں یہ بات سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اصلاً کسی داخلی سبب کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ یہ افغانستان پر امریکی سامراجی قبضے کا نتیجہ ہے اور مشرف اور زرداری حکومتوں کی پالیسیوں سے اس جنگ کو ہماری سرزمین میں دَرآنے کا موقع ملا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جو فوجی ایکشن اس علاقے میں پاکستان اور خود امریکا کررہے تھے، اس نے یہ ساری آگ بھڑکائی ہے، اور جب ایسی آگ کے الائو بلند ہوتے ہیں تو پھر     اس میں بہت سے داخلی عوامل بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ دشمن قوتیں بھی حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل نے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ امریکا اور افغانستان کے وہ عناصر جو پاکستان سے دشمنی رکھتے ہیں، وہ بھی حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ اس خرابی کا اصل سرچشمہ افغانستان پر امریکا کا قبضہ، وہاں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی اور ان کی خون آشامی ہے۔ امریکی ڈرون حملے، تربیت کے نام پر امریکی فوجوں کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارگزاریاں، اس آگ پر تیل چھڑکنے اور اسے ملک کے طول و عرض تک پھیل جانے کا سامان کر رہے ہیں۔

اس صورتِ حال میں سوات کے مسئلے کو مرکزیت حاصل ہے۔ اسی طرح دیر اور بونیر کے حالات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ تاہم مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکی تسلط ہی ہے۔ جب تک پاکستان کی حکومت قوم کے جذبات کا احترام اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے واضح پیغام کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کے مسئلے کو امریکا کی نظر سے نہیں، بلکہ پاکستان کے حالات، مفاد اور تاریخی خطرات کی روشنی میں  دیکھنے، سمجھنے اور پالیسی تشکیل دینے کی کوشش نہیں کرتی ہے، مسائل نہ صرف جوں کے توں رہیں گے، بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی کے عمل کو فی الفور شروع کردے۔ دنیا میں، خصوصیت سے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگی حکمت عملی جس بری طرح ناکام ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ اب مزید اس تباہ کن کھیل کا حصہ نہ رہا جائے۔ جب تک ہماری حکومت ایسا نہیں کرتی، حالات میں بنیادی تبدیلی اور امن اور چین کی طرف حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔

مذاکرات: امن کی ضمانت

دوسری بنیادی بات جسے قلب و نظر کے پورے اطمینان کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سیاسی مسائل خواہ کتنے ہی پیچیدہ اور کثیرجہت کیوں نہ ہوں، ان کا محض کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ بلاشبہہ کچھ حالات میں ریاستی قوت کا استعمال ضروری ہوتا ہے لیکن ہر وہ علاقہ جو سرزمینِ وطن کا حصہ ہے، وہاں پر سیاسی عمل، قانون کی حکمرانی، عوام کی مرضی اور انصاف کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کے ذریعے ہی ریاستی عمل داری، اداروں کی بالادستی اور شہری زندگی کی بحالی ممکن ہے۔ کھلے کھلے بیرونی دبائو یا اندرونی اُلجھنوں اور مشکلات سے گھبرا کر قوت کا استعمال اور وہ بھی بے محابا عسکری قوت کا استعمال حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، حالات کی اصلاح کا نہیں۔ تاریخ کا یہ بہت واضح سبق ہے، مگر اقتدار کے نشے میں مست قیادتیں اور بیرونی دبائو کے اسیر حکمران وہی غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں، جو ماضی میں اقوام کی تباہی اور انسانیت کی بربادی کا سبب بنی ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت اور سرحد کی صوبائی حکومت دونوں نے سوات کے معاملے میں تاریخی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، اور سیکڑوں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد کی خانہ بربادی کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔

ہم اس بات کو بڑے واشگاف انداز میں کہنا چاہتے ہیں کہ سوات اور بونیر میں طالبان یا طالبان کے نام سے مختلف افراد اور گروہوں نے جو بھی غلطیاں کی ہوں، ان پر گرفت ضروری ہے۔ مگر ان کو وجہِ جواز بناکر امن کے پورے عمل کو برباد کرکے رکھ دینے، اور امریکی خواہشات کی تسکین کے لیے اپنی فوج کو، اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ میں جھونک دینے کا کوئی جواز نہیں۔ مذاکرات، افہام و تفہیم، جرگہ اور مفاہمت کے سوا حالات کی اصلاح کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ قوت کا استعمال دراصل سیاسی قیادت اور اس کی حکمت عملیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور ۳۰ لاکھ افراد کی خانہ بربادی اس پالیسی کے ناکام ہونے کا کھلا اظہار ہے۔

ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ حکمران، لبرل سیکولر دانش ور اور کالم نگار بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: ’’مذاکرات کس سے کیے جائیں‘‘؟ پارلیمنٹ کی قرارداد نے اس کا واضح جواب دے دیا ہے کہ تمام متعلقہ عناصر سے بات چیت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے بلاشبہہ جنگ بندی ضروری ہے مگر ’پہلے ہتھیار پھینکو پھر بات کریں گے‘ کا مطالبہ سیاسی اورعسکری تاریخ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ جن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، انھی سے بات چیت کرنا ہوتی ہے اور پوری تاریخ اس پر   گواہ ہے۔ کیا جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا سے، جسے مغربی اقوام نے دہشت گرد قرار دیا ہوا    تھا، مذاکرات نہیں کیے گئے؟ کیا آئرلینڈ میں آئرش جنگ جوؤں سے مذاکرات نہیں ہوئے اور معاہدات طے نہیں ہوئے؟ ۱۸سال کی اس دہشت گردی اور جنگ و جدل کے ذمہ داران جن کا برطانوی ریڈیو یا ٹی وی پر نام نہیں لیا جاسکتا تھا، وہی مذاکرات اور معاہدات کے شریک نہیں بنے، اور طرفہ تماشا یہ کہ معاہدے کے ۱۵سال گزرنے کے بعد آج تک ہتھیاروں کی واپسی کا عمل  مکمل طور پر پورا نہیں ہوا۔ کیا عراق میں مسلح جماعتوں کی قیادتوں سے امریکا اور عراق کی امریکا کی پروردہ قیادت نے بات چیت نہیں کی؟ کیا افغانستان میں ہلمند کے صوبے میں برطانوی فوج نے وہاں کے طالبان سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے راستے اختیار نہیں کیے؟ کیا اس وقت امریکا میں ’اچھے طالبان‘ اور ’بُرے طالبان‘ کا فرق پیدا کرکے مذاکرات کی راہیں ہموار نہیں کی جارہیں؟ کیا ہالبروک نے گلبدین حکمت یار کو ’عالمی دہشت گرد‘ کا خطاب نہیں دیا تھا؟ اور اب انھی سے  سلسلہ جنبانی شروع کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی؟

اگر پوری تاریخ مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے تو پاکستان میں جن کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، ان سے بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی اور صرف ایک بار نہیں، بار بار کیوں نہیں ہوسکتی؟ مشکل حالات سے نکلنے کے لیے ایک نہیں سو بار بھی بات چیت کی جائے تو مضائقہ نہیں۔

اس باب میں امریکا کی پالیسی نہ صرف دوغلی ہے، بلکہ حقائق پر بھی مبنی نہیں ہے۔ اس نے نہ ویت نام سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ لاطینی امریکا میں اپنے جارحانہ تجربات کی تلخ تاریخ سے۔ ایک طرف عراق سے افواج نکالنے کی بات کر رہا ہے، تو دوسری طرف افغانستان میں فوج بڑھانے کا عندیہ دے رہا ہے۔ سری لنکا میں سرکاری فوج کی تامل ٹائیگرز پر فوج کشی کی امریکا، برطانیہ، یورپی اقوام، حقوق انسانی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مذمت کی، مگر دوسری طرف پاکستان میں سوات پر فوج کشی پر تعریفوں کے ڈونگرے برسائے اور ڈالروں کی بارش کرنے کی طفل تسلیاں دیں۔ طالبان کی کارروائیوں کو حکومت کی رِٹ اور ملک کی حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور اپنے ڈرون حملوں کو ’اپنے حق دفاع‘ کا نام دیا۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ امریکی سرکاری ترجمان کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کے صرف ۱۴ افراد مارے گئے، جب کہ عام معصوم شہریوں کی ہلاکت ۷۰۰ سے زیادہ ہے، یعنی ۲ فی صد کی خاطر ۹۸ فی صد معصوم انسانوں کو قتل کیا گیا اور پاکستان کی آزادی اور عزت کا کھلا مذاق اڑایا گیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو بڑے بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ملک میں امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اس سلسلے میں ہرجگہ ناکام رہی ہے۔ قتل و غارت ، دہشت گردی، اغوا براے تاوان، ڈاکے اور خوں ریز تصادم صرف قبائلی علاقہ جات، سوات اور مالاکنڈ ہی میں نہیں ہو رہے، پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ کیا کراچی میں ۱۲مئی ۲۰۰۷ء اور پھر ۱۹ اپریل اور پھر طالبانائزیشن کا ہوا کھڑا کر کے ایک ہی دن میں ۴۰ افراد کو لقمۂ اجل نہیں بنایا گیا۔ مئی ۲۰۰۹ء میں قومی اسمبلی میں جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں، ان کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں جنوری ۲۰۰۸ء سے مارچ ۲۰۰۹ء تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ۱۸۴۲ واقعات ہوئے، جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۳۹۵ ہے۔

سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے ہیں، جہاں ۱۱۲۲ واقعات میں ۴۳۶ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا حکومت کی رِٹ کا تعلق صرف سوات اور مالاکنڈ سے ہے، اور یہ جو تازہ ترین اطلاعات امریکا سے آرہی ہیں، کہ اس کی فوجیں افغانستان کے ساتھ ساتھ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی آپریشن کے لیے داخل ہورہی ہیں اور نیوکلیر اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کے لیے پرتول رہی ہیں یا موقعے کا انتظار کر رہی ہیں۔ کیا ان سب مداخلتوں کا کوئی تعلق حکومت کی رِٹ سے نہیں ہے ؟

فوج کشی کے تلخ نتائج

ہم اصولی طور پر سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کو صحیح حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ قوت کا کامیاب ترین استعمال بطور دبائو (deterrence) تو روا رکھا جاسکتا ہے مگر بطور فوج کشی نہیں۔ قانون نافذ کرنے کا کام سول اداروں کو کرنا چاہیے۔ پولیس، اسکائوٹس، لیوی اور فرنیٹرکور کا یہ  منصبی کردار ہے۔ نیز سول انتظامیہ اور روایتی جرگہ اس علاقے کا ایک بہت مؤثر اور تاریخی طور پر بڑا کارگر ادارہ ہے۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کا عمل ان کے ذریعے آگے بڑھنا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ تمام متعلقین کو اس میں شریک کیا جائے ،اور معاملات کو مل جل کر مشاورت کے ذریعے طے کیا جائے، جس میں اعتمادسازی کے اقدامات سے لے کر اساسی نوعیت کے ایشوز پر اتفاق راے اور فیصلوں کے نفاذ کا طریقہ اور آداب طے کیے جائیں۔

فوج کا اولیں اور اصل کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے، اپنی قوم پر گولیاں برسانا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سول معاملات میں فوج کے استعمال کے جتنے تجربات ہوئے ہیں وہ سب ناکام رہے ہیں، خواہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہو، یا مشرقی پاکستان سے، یا قبائلی علاقہ جات سے۔ خود سوات میں یہ تیسرا فوجی آپریشن ہے جو اپنی تباہ کاری میں اپنے پیش روؤں سے بازی لے گیا ہے اور اس کے ختم ہونے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ دعویٰ کہ: ہم دہشت گردوں کو تباہ کردیں گے ایک بے سروپا دعویٰ ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے لیکن بش اور اوباما سے لے کر مشرف اور زرداری تک جو یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ ان تمام   لوگوں کو جنھیں وہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں تباہ و برباد کر دیں گے، یہ طاقت کے ذریعے ایک  ناقابلِ حصول ہدف ہے جس میں ہٹلر کے دعوؤں کی بازگشت سنی جاسکتی ہے۔ اس لب و لہجے میں  نہ ہٹلر کامیاب ہوا اور نہ آج کے مزعومہ ہٹلر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی حکومت ہو یا جمہوری سب کے رنگ ڈھنگ ایک ہی جیسے ہیں: دھونس، دھمکی، گولی اور تباہی۔ افسوس کہ مکالمہ، حکمت اور دل جیتنے کے راستے پر قدم بڑھانے سے یہ گھبراتے ہیں    ؎

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

ہم یہ بات بھی بہت صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ سوات کے معاہدے میں بہت سے سقم تھے، مگر ان سب کے باوجود وہ صحیح سمت میں ایک درست قدم تھا اور اس پر عمل ہونا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں سرحد کی صوبائی حکومت سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ان سب کے باوجود معاہدے میں یہ صلاحیت تھی کہ سوات اور مالاکنڈ امن کی طرف پیش قدمی کرسکتے تھے۔ وفاقی حکومت اور امریکی قیادت نے، صوبائی حکومت کو اس معاہدے پر عمل کا موقع ہی نہیں دیا۔ جناب صوفی محمدصاحب کی خوش گفتاریاں اپنی جگہ اور طالبان کے کچھ عناصر کی ریشہ دوانیاں بھی امرِواقعہ ہیں، لیکن اصل ناکامی زرداری صاحب کی حکومت اور صوبائی حکومت کی ہے۔ پھر پاکستانی فوج کی قیادت نے بھی بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور گمان غالب ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے شدید دبائو، سیاسی بلیک میل اور معاشی رشوت کا کیا دھرا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہماری قیادت میں یہ دم خم اور یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد اور اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے مطابق فیصلے کرے اور امریکا کی تابع مہمل نہ ہوجائے۔ امریکا کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے اور اس کے عالمی عزائم ایک کھلی کتاب کے مانند ہیں۔ امریکا کے اس کردار کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس باب میں بنیادی مجرم ہماری اپنی قیادت ہے، جو امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اپنی قوم اور اپنے ملک کے مفادات کا خون کر رہی ہے۔ اقبال نے بجاطور پر کہا تھا   ؎

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا ُتو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے

حالات کو خراب کرنے میں حکمرانوں کی کمزوری، بے حکمتی اور مفاد پرستی کے ساتھ امریکا کا دبائو اور ہمارے ملکی معاملات میں اس کا اس قدر دخل کہ عمومی پالیسی سازی (macro- management) سے لے کر اب تو انتظامی معاملات اور اہم مقامات پر افراد کی تعیناتی یا منتقلی تک میں جسے micro-management کہا جاتا ہے، اس کا عمل دخل ہے۔ سیاسی قیادت،  فوجی ذمہ داران، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ، اہم اپوزیشن جماعتوں کے کرتا دھرتا سب تک ان کی رسائی ہے۔ ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کا ہرحربہ وہ بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے اور سوات کے امن معاہدے، پھر سوات، دیر، بونیر، مالاکنڈ اور فاٹا میں عملاً فوج کشی میں ان کا کردار ہرحد کو پامال اور ملک کی آزادی اور سالمیت کو مخدوش کر رہا ہے۔ امریکا کی کھلی مداخلت کے ساتھ امریکا، بھارت اور اسرائیل کی خفیہ کارروائیاں اور تخریبی عناصر کے ذریعے ہماری سیاسی زندگی میں ان کی دراندازیاں ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اگر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اب بھی نہیں اٹھتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ پھر اٹھنے اور آزادی کو بازیافت کرنے کے مواقع سے بھی محرومی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔

سوات معاھدہ: ناکامی کے اسباب

آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں مذاکرات،   افہام و تفہیم اور مسائل کے سیاسی حل کو ہم اصلاحِ احوال کا واحد مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی عمل، سفارت کاری اور معاہدہ بندی کے جو معروف اصول اور طریقے ہیں،  ان کا اہتمام بھی کیا جائے۔ ورنہ تدبیر کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سیاسی عمل مجروح اور  ناکام ہوسکتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا وبال سیاسی عمل پر نہیں ڈالا جاسکتا، سوال تو اس عمل کو بروے کار لانے کا ہے۔ افسوس کہ بے تدبیری، عجلت پسندی، اور دُوراندیشی سے عاری رویوں کا تمام تر ملبہ محض مذاکرات کی افادیت پر ڈال دیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں اگر سوات معاہدے کے طریق کار اور متعلقین کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی ناکامی کے اسباب کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ پہلی چیز طالبان اور امریکا دونوں کی طرف سے دبائو اور صوبائی حکومت کی کمزور پوزیشن ہے، جسے ہر مرحلے پر دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کا ایک فکری سطح پر باہم تعاون کے لیے آمادۂ کار نہ ہونا ہے۔ صدر زرداری اس معاہدے کے پہلے دن سے مخالف تھے اور اس کے بارے میں منفی تاثر دینے میں لگے ہوئے تھے۔ بے اعتمادی اور صوبائی حکومت کے بے اثر ہونے کا تاثر بھی ان کے رویے ہی سے پیدا ہوا۔ اس پورے زمانے میں صدر کچھ کہہ رہے تھے، ان کے وزیرداخلہ کچھ اور فرما رہے تھے۔ فوجی ترجمانوں کی زبان کچھ اور صوبائی حکومت کچھ اور ہی راگ الاپ رہی تھی، بلکہ صوبائی حکومت نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کی دھمکی پر معاہدے کی راہ ہموار کی۔ معاہدہ ہونے کے بعد صدرمملکت نے ۸ ہفتے تک معاہدے پر دستخط نہیں کیے، کہ جس کے بغیر وہ نہ قانونی دستاویز کا مقام حاصل کرسکتا تھا اور نہ اس کے نفاذ کو حقیقی قرار دیا جاسکتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے معاہدے کے نفاذ کا اعلان ۱۶ فروری کو کردیا، جب کہ اس پر دستخط اپریل کے وسط میں قومی اسمبلی کے ڈرامے کے بعد کیے گئے، اور اس طرح کیے گئے کہ امریکا میں وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن سے لے کر تمام سرکاری اور فوجی ترجمانوں اور پورے میڈیا نے اس عمل پر پاکستانی حکومت کو ہتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا۔ پھر کہا کہ اب طالبان اسلام آباد اور نیوکلیر اثاثوں پر قبضہ کرلیں گے بلکہ ہیلری کلنٹن نے تو پاکستان کے عوام تک سے اپیل کی کہ اس کے خلاف اعلانِ بغاوت کریں اور مزاحمت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔

معاہدے پر عمل درآمد کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے سبوتاژ کرنے کا منظم کام شروع ہوگیا۔ فوج کی نقل و حرکت بھی شروع ہوگئی۔ معاہدے کے چند دن کے بعد فوج کے ایک قافلے کو طالبان کی مزاحمت کی وجہ سے واپس آنا پڑا اور اس فوجی حرکت نے بے اعتمادی کی فضا کو بڑھا دیا۔ طالبان کی طرف سے بھی پے درپے ناقابلِ فہم غلطیاں اور حماقتیں ہوئیں، جن میں جناب صوفی محمد کے بیانات اور بونیر کی طرف طالبان کی نقل و حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکا نے اپنے ترپ کے پتے بڑی ہوشیاری سے استعمال کیے۔ صدر زرداری اور افغان صدر کرزئی کو بلیک میل کی عالم گیر فضا میں واشنگٹن بلایا اور امریکا کی فوجی قیادت نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پر  طرح طرح سے ’کمانڈو ایکشن‘ کیا اور بالآخر یہ معاہدہ زمین پر چکناچور ہوگیا۔

امن کی جو ننھی سی کرن روشن ہوئی تھی، وہ دم توڑ گئی۔ آسمانوں سے گولے برسنے لگے اور سوات کے بے بس شہری دربدر ہونے پر مجبور ہوگئے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے اور جو گھروں سے نہ نکل سکے ان کے گھر ہی قیدخانے اور عقوبت خانے بن گئے اور وہ بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔

دو بنیادی غلطیاں

سرحد حکومت کی دو اور غلطیاں بھی ہیں جن کی نشان دہی ضروری ہے۔ مرکز کا عدم تعاون بلکہ اس عمل کو درہم برہم کرنے کی کوششیں اپنی جگہ، اور امریکا کا دبائو اور ریشہ دوانیاں بھی مسلّم، مگر صوبائی حکومت نے صرف ایک شخص جناب صوفی محمد پر غیرضروری اور غیرمعمولی اعتماد کیا اور مذاکرات کے عمل میں علاقے کے تمام متعلقہ طبقوں بشمول طالبان کے نمایندوں کو شامل نہیں کیا۔ محترم صوفی محمدصاحب اس علاقے کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ ان کا علمی مقام خواہ کچھ ہو، مگر ان کا خلوص اور سادگی اور علاقے میں ان کی پذیرائی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے۔ لیکن اس امر سے بھی سبھی واقف ہیں کہ جمہوریت وغیرہ کے بارے میں ان کے کچھ مخصوص خیالات ہیں جن کا وہ گذشتہ ۲۰سال سے اظہار کرتے رہے ہیں، یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ لیکن ان کو اشتعال دلاکر یا ایک منصوبے کے تحت ان سے کچھ باتیں اگلوائی گئیں اور پھر ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے انھیں معاہدے کو پرزے پرزے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل صاف دیکھا جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے صوبائی حکومت بھی اس کا شکار ہوگئی۔ اگر صوبائی حکومت نے تمام عناصر کو شریکِ معاہدہ کیا ہوتا تو ایک فرد کی کسی راے سے وہ فساد نہ اٹھایا جاسکتا۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف ایک تنظیم کو کالعدم کہا جا رہا ہے، دوسری طرف اس کے سربراہ سے سربراہ کی حیثیت سے معاہدہ کیا جاتا ہے۔

دوسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ماضی کے معاہدات اور ان کی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہرمعاہدے کو امریکا نے سبوتاژ کیا، اس لیے پیش بندی کی ضرورت تھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ معاہدے میں ایک داخلی خودکار انتظام اس امر کا ہونا چاہیے تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں اختلافات کو رفع کرنے کا طریق کار کیا ہوگا؟ پشتون علاقے کی جرگے کی روایات کا یہ ایک حصہ ہے کہ خلاف ورزی کے تعین کا طریقہ، ثالثی اور خلاف ورزی کی سزا معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ جدید اصولِ قانون (Jurisprudence) میں جسےalternate Justice (قیامِ انصاف کا متبادل نظام )کہا جاتا ہے، اس کا ایک معروف اصول یہ ہے کہ ثالثی  اور خلاف ورزیوں پر قابو پانے کا انتظام معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ اس علاقے میں پچھلے ۲سال میں ۶ معاہدوں کی ناکامی کے  پس منظر میں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ معاہدے میں خلاف ورزی اور اس سے نمٹنے کے طریقے اور نظامِ کار کا اہتمام کرتی۔ لیکن جلدبازی میں یا دبائو کے تحت ان بنیادی امور کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، جس کی بڑی بھاری قیمت یہ علاقہ اور پوری قوم ادا کر رہی ہے۔

فوجی حکمت عملی کا جائزہ

اس دلدل میں جس طرح فوج دھنستی چلی جارہی ہے، وہ قومی سلامتی اور فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یک رنگی کے رشتے کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور  فوجی قیادت بڑے شفاف انداز میں اور دستور کی اسکیم، جمہوری اور اسلامی آدابِ حکمرانی کے  مسلّمہ اصولوں اور ضابطوں کی روشنی میں اس پورے معاملے پر غور کرے۔ جلد از جلد فوج کو سیاسی کردار اور داخلی آپریشن کی دلدل سے نکالنے کا کام انجام دیا جائے۔ طالبان سے فوج اور اس کی ایجنسیوں کے تعلق، اور خصوصیت سے گذشتہ ۶ سال کے مختلف فوجی آپریشنوں اور ان آپریشنوں کے وقت، دورانیے اور تفویض کردہ اہداف کی روشنی میں بڑے پریشان کن سوالات سامنے آرہے ہیں، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

مثال کے طور پر بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ: ’’فوج کی تربیت روایتی جنگ کے لیے ہوئی ہے اور اندرونی انتشار کے مقابلے کی نہ اس کو تربیت دی گئی ہے، اور نہ اس کے پاس اس کام کے لیے مطلوبہ سازوسامان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج ان علاقوں میں فضائی قوت اور بھاری   توپ خانہ استعمال کر رہی ہے‘‘۔ بظاہر ان باتوں میں وزن بھی نظر آتا ہے لیکن گہرائی میں جاکر حالات کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کے بہت سے دوسرے رُخ بھی سامنے آتے ہیں۔ پیادہ فوج (انفنٹری) اور کمانڈو یونٹوں کی تربیت اور ان کے میدان کار کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زمینی میدانِ جنگ کے حالات سے نمٹنا ان کا حصہ ہے۔ فضائی قوت اور بھاری توپ خانے کا استعمال جنگی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے، مجبوری نہیں۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جسے امریکا نے استعمال کیا ہے، تاکہ فوج، انسانی ٹکرائو اور مقابلے کے جواب میں تکنیکی جنگ کے ذریعے مدمقابل کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے اور اپنے جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکے۔ لیکن انسانی نقطۂ نظر سے یہ بڑی ظالمانہ اور سفاکانہ حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کے مقابلے میں عام انسانی جانیں بڑے پیمانے پر ضائع ہوتی ہیں، اور بڑی بڑی آبادیاں برباد کر دی جاتی ہیں۔

فوج نے جو حکمت عملی اس علاقے میں اختیار کی ہے، اس کا منطقی تقاضا بڑے پیمانے پر جانوں کا اتلاف اور علاقوں کی بربادی ہے۔ اعتراض ملٹری آپریشن پر بھی ہے اور اس طریق کار اور حکمت عملی پر بھی، جو اختیار کی گئی ہے جس کے نتیجے میں عوام کا نقصان بڑے پیمانے پر واقع ہو رہا ہے۔ جن کو اصل نشانہ قرار دے کر آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، وہ خود فوجی ترجمان کے بقول بچ نکلتے ہیں۔ اعتراض اس پر بھی ہے کہ یہ پورا عمل کسی قومی مشاورت اور کسی اتفاق راے کے بغیر انجام دیا جا رہا ہے۔ اگر اس کے طریق واردات کا جائزہ لیا جائے تو امریکی مطالبات سے ان کا رشتہ بہت صاف نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت سے پاکستان میں یا امریکا میں ملاقاتوں کے ساتھ بھی ان کا بڑا واضح تعلق سامنے آتا ہے۔ یہ تمام چیزیں پورے عمل کو بڑا مخدوش بنا دیتی ہیں۔ طالبان اور دہشت پسندوں کے مارے جانے کے جو دعوے کیے جاتے ہیں، ان کی بھی آزاد ذرائع سے توثیق یا تردید کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ سرکاری دعووں میں عام شہریوں اور معصوم خواتین و حضرات اور بچوں کی ہلاکت کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا، جب کہ عوامی سطح پر جو حقائق سامنے آتے ہیں، ان میں بڑا نقصان عام انسانوں ہی کا بتایا جاتا ہے، اور جو افراد ان علاقوں سے نقل مکانی کرکے آئے ہیں ان کی داستانیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں، اپنے بھائی، بہنوں اور بچوں کی ہلاکت اور تباہی کے احوال دیکھ اور سن کر انسان کلیجہ تھام کر رہ جاتا ہے۔

پھر اگر ان ستم زدہ انسانوں کی داستانوں کا تجزیہ کیا جائے تو بڑے پریشان کن سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور آپریشن کا ہدف بننے والے علاقے میں فوج کی چوکیاں اور مبینہ طالبان کی چوکیاں اپنے اپنے مقامات پر موجود رہتی ہیں۔ فضائی بم باری اور توپ خانے کی  بم باری سے ان پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح دہشت پسندوں کے بہت سے ٹھکانے صرف اس وقت تباہ ہوتے ہیں، جب وہ ان کو خالی کر کے دوسرے مقامات پر منتقل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہزاروں افراد کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، مگر بڑے بڑے مطلوبہ دہشت گرد ہرگرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ وہ ایف ایم ریڈیو کہ جنھیں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کہتے ہیں کہ   ہم غیرمؤثر اور جام کرسکتے ہیں،وہ برابر آتش افشانی کرتے رہتے ہیں اور سول و فوجی قیادت اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے پاس ڈالروں کی فراوانی اور تازہ ترین اسلحے کا واویلا کیا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی سپلائی کے راستوں کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟ اس کا عوام یا عوامی نمایندوں کو کچھ پتا نہیں ہے۔ کیا وجہ تھی کہ مقامی پولیس نے فتنے کے ابتدائی ادوار ہی میں اسے قابو کرنے کی کوشش نہیں کی؟

روزنامہ ایکسپریس ، اسلام آباد کے ایک کالم نگار فضل ربی راہی نے اپنے مضمون:  ’اپنا اثاثہ کون ضائع کرتا ہے‘ کے تحت ایسے ہی واقعات کے انبار میں سے چند نکات کو سوالیہ نشان کے ساتھ پیش کیا ہے، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

                ۱-  جب مولانا فضل اللہ کو اسلحہ بارود فراہم کیا جارہا تھا اور ان کے ساتھیوں کو ’ضروری ٹریننگ‘ دی جا رہی تھی تو اس وقت حساس اداروں نے کیوں اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں؟

                ۲- جب مولانا فضل اللہ کی سرگرمیاں روکنے میں مقامی پولیس بھی کامیاب ہوسکتی تھی تو اس وقت جوابی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ایک مقامی ایس ایچ او کے مطابق: ’’اگر اس وقت مجھے فری ہینڈ دے دیا جاتا تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت حوالات میں بند ہوتے‘‘۔ لیکن بقول ان کے انھیں سختی سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔

                ۳- جب مشرف دور میں سوات کے راستے لنڈا کی چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر اسلحے سے بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑ لیا گیا تھا، تو کسی نے اُوپر سے احکامات جاری کردیے تھے کہ اسے بحفاظت امام ڈھیری تک پہنچنے دیا جائے۔

                ۴- سوات میں اس سے قبل بھی ۳ بار فوجی آپریشن چلتے رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اپرسوات اور تحصیل خوازہ خیلہ کی بعض چیک پوسٹوں پر ’طالبان‘ کو باقاعدہ آمدورفت کی اجازت تھی، جب کہ ان ہی آرمی چیک پوسٹوں پر عام شہریوں کو خوب تنگ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ چیک پوسٹ کے قریب طالبان نے متعدد دفعہ لوگوں کو ’شرعی سزائیں‘ دیں، لیکن چیک پوسٹ پر تعینات سیکورٹی فورسز تماشا دیکھتیں اور ’کاروبارِ طالبان‘ میں کوئی مداخلت کی جرأت نہ کرتیں۔ حالانکہ اس وقت فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی محوِپرواز ہوتے، لیکن ان کی فائرنگ کا نشانہ پہاڑ ہوتے۔

                ۵-  سابقہ آپریشنز جو قریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہے، ان میں شہری آبادی کا غیرمعمولی جانی و مالی نقصان ہوتا رہا۔ قریباً ۲ ہزار عام شہری، مارٹر گولوں اور سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ہزاروں گھر اور دکانیں تباہ ہوئیں، لاکھوں لوگوں نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی۔ ایک سال تک سوات بھر میں کرفیو نافذ رہا، لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ سوات کے ۲۰۰ اسکولوں کو تباہ ہونے سے نہیں بچایا جاسکا۔

                ۶-  سابق آپریشنوں میں ۵۰ طالبان بھی نہیں مارے گئے ہیں اور اس کی تصدیق نہ صرف غیرجانب دار میڈیا کرے گا، بلکہ سوات میں رہنے والے کسی بھی فرد سے پوچھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کتنے طالبان کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی ہیں؟

کالم نگار نے ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ: درج بالا حقائق کی روشنی میں سوات کے لوگ اب بھی موجودہ آپریشن کو ’ڈراما‘ سمجھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ جس فوجی کارروائی کے لیے ۱۵ لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے ہی ملک میں بے گھر کرکے دربدر کیا گیا، یہ کارروائی کمانڈو ایکشن کے ذریعے چند دنوں میں بہ آسانی مکمل کی جاسکتی تھی۔ ایک حاضرسروس میجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پاک فوج کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو محض ۶ گھنٹوں میں پورے سوات کو عسکریت پسندوں سے خالی کرسکتی ہے۔

پاک فوج کی صلاحیت کے بارے میں سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے، اور امریکا بھی اس کا سہارا لے کر پاک فوج میں ’تربیت فراہم کرنے‘ کے نام پر، اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے  کوشاں ہے۔ تاہم حال ہی میں سری لنکا کی فوج کی کارروائیوں کے بارے میں جو جائزے آئے ہیں، ان میں یہ دل چسپ اور چشم کشا بات سامنے آئی ہے کہ سری لنکا کی فوج کو داخلی بغاوت کا مقابلہ کرنے کی تربیت جن ممالک نے دی تھی، ان میں پاکستانی فوج بھی شامل ہے۔ ملاحظہ ہو، دی نیوز کی رپورٹ Pakistan's Role in Death of LITTE (۲۰ مئی ۲۰۰۹ء)۔ صرف ایک اقتباس:

سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو کچلنے میں سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعاون نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تعاون ہائی ٹیک فوجی سامان کی فراہمی کی شکل میں تھا۔ یہ بات کہ سری لنکا اور پاکستان کی افواج میں تامل ٹائیگرز بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون تھا، اس کی تصدیق سری لنکا کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر اودیا ناناکارا نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۶ء کو کی تھی کہ پاکستان اور بھارت دونوں سری لنکا کی افواج کو تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکا کی فوج نے دونوں ممالک سے جدید ترین ٹکنالوجی حاصل کی۔

اگر سری لنکا کی فوج کو پاکستانی فوج یہ یہ کچھ صلاحیت دے سکتی ہے تو پھر تہی دامن ہونے کا گلہ___ چہ معنی دارد؟ خود سوات کے لوگوں کا اس بارے میں کیا احساس ہے؟ اسے سوات ہی کے ایک روزنامہ آزادی (۲۲ مئی ۲۰۰۹ء) میں بی بی سی کے نمایندے کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی میں طالبان کی شکست، مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور کامیاب نتائج برآمد ہونے کا دعویٰ سراسر غلط ہے۔ سوات میں فوج کی کارروائی میں طالبان نہیں، بلکہ عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ سوات کے ایک رہایشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سوات کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: میں سوات میں رہتا ہوں، سوات میں طالبان ابھی تک موجود ہیں۔ حکومت میڈیا کو اجازت کیوں نہیں دیتی کہ وہ یہاں کی صورت حال سامنے لائے؟ انھوں نے کہا: حکومت کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ فوج نے کچھ علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور آپریشن میں کامیابی ہورہی ہے اور دورانِ آپریشن کئی عسکریت پسند بھی ہلاک کردیے ہیں۔ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں پر نہ تو کوئی فوج ہے اور نہ سرکاری اہل کار نظر آرہے ہیں۔ اگر کارروائی ہو بھی رہی ہے تو وہ معصوم لوگوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ اس کارروائی میں طالبان کے بجاے عام شہریوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ طالبان کے علاقے پر کنٹرول کے حوالے سے اس شخص کا کہنا تھا کہ ۱۰۰ فی صد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ میں اس بات کا یہاں پر کئی دنوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔ فوج کی شیلنگ [گولہ باری] کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوج رات کے وقت آکر بم باری کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ٹیلی فون کے تاروں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ پانی۔

یہ صورت حال ۲۰، ۲۲ مئی کی ہے۔ بعد میں حالات جو بھی ہوں، ان تمام سوالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کہ جو خصوصیت سے گذشتہ ۵،۶ سال پر پھیلے ہوئے فوجی آپریشنوں کے تسلسل میں سامنے آئے ہیں اور جن کی مطابقت آج کی کارروائیوں سے گہری ہے۔ ہم ان تمام شبہات اور سوالیہ نشانات کی نہ توثیق کرسکتے ہیں اور نہ تردید۔ لیکن ان کا شفاف انداز میں سامنا کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں!

جامع حکمت عملی کی ضرورت

امریکی قیادت جن میں پہلے صدر بش اور اب صدر اوباما سب سے نمایاں ہیں۔ یہاں پاکستانی حکمران جن میں جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سب سے پیش پیش ہیں۔ اب ان آوازوں میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور مسلم لیگ ن کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف بھی اپنی آواز ملا رہے ہیں، پورے دعوے کے ساتھ دو باتیںکہہ رہے ہیں: ایک یہ کہ پاکستان، امریکا بلکہ پوری دنیا کو اصل خطرہ انتہاپرستی اور ’دہشت گردی‘ سے ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کو پوری قوت، خصوصیت سے فوجی قوت سے ختم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اس سلسلے میں القاعدہ اور طالبان کو خصوصی ہدف قرار دیا جا رہا ہے۔

ہم سب سے پہلے تحریکِ اسلامی کے اس اصولی اور تاریخی موقف کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، کہ جہاں اسلام وہ دین ہے جو انسانیت کے لیے اللہ کی آخری ہدایت، اور جو زندگی کے ہرشعبے کے لیے واضح احکام اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، وہیں تحریکِ اسلامی پہلے دن سے اس بنیادی حکمت عملی کی داعی ہے کہ زندگی کے پورے نظام میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی قوت اور جبر سے نہیں لائی جاسکتی۔ اس کے لیے قلب ونظر اور اخلاق و کردار کی تبدیلی سب سے بنیادی چیز ہے۔ اجتماعی زندگی میں قانون کا بھی ایک مقام ہے اور اس کے نفاذ کے لیے، ریاست کی قوت ناگزیر ہے۔ لیکن یہ سارا عمل الہامی ہدایت اور قانون کے فریم ورک میں انجام دیا جانا دین کا تقاضا ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں اسلامی انقلاب دعوت و تبلیغ اور جمہوری، آئینی اور اخلاقی ذرائع ہی سے برپا کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تحریک اسی جدوجہد میں مصروف ہے جسے وہ اصول اور عملی حکمت عملی دونوں اعتبار سے ضروری سمجھتی ہے۔ جہاد، اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ البتہ جہاد کا مقصد، طریق کار اور آداب، خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کردیے ہیں، جن کا مکمل احترام ہرحال میں اور ہردور میں ضروری ہے۔

اس اصولی وضاحت کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ انتہاپسندی اور  دہشت گردی کو ایک ہی حقیقت کے دو روپ قرار دینا اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ایک اسٹرے ٹیجک فاش غلطی ہے، جو حالات کو بگاڑنے کا بڑا سبب رہی ہے۔ انتہاپسندی ایک فکری عمل ہے، جس کا مقابلہ ڈنڈے اور گولی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ دلیل، تعلیم، مذاکرے اور مجادلے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے، جو ہر دور میں اور ہرتہذیب و تمدن کے درمیان رونما ہوتا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ دو انتہائوں کے درمیان کش مکش، مبادلہ اور رد و قبول کے عمل سے عبارت ہے اور درمیان کا راستہ بھی اسی فکری اور تمدنی لین دین، سمجھوتے اور مفاہمت سے روپذیر ہوتا ہے۔

انتہاپسندی مختلف شکلوں میں آج بھی دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہے۔ کیا امریکا میں نیوکونز اور فنڈامنٹلسٹ ایک جیتی جاگتی حقیقت نہیں؟ کیا برطانیہ اور یورپ میں انتہاپسندی کی تحریکیں موجود نہیں ہیں؟ بلکہ تیزی سے غالب نظریے کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یورپ کے کتنے ممالک ہیں جن میں انتہاپسند جماعتیں، سیاست میں کردار ادا کر رہی ہیں اور شریکِ اقتدار بھی ہیں یا شریکِ اقتدار رہی ہیں۔ کیا نازی اور فسطائی جماعتیں آج امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یونان میں موجود نہیں ہیں اور کیا خود اسرائیل میں جسے جمہوری ملک کہتے ہوئے یورپ اور امریکا کے دانش وروں اور سیاست کاروں کی زبان نہیں تھکتی، ایک نہیں، نصف درجن ایک سے ایک انتہاپسند اور متعصب جماعت موجود نہیں ہے؟ اور اس وقت بھی وہاں کی حکومت میں شریک نہیں؟ کیا دنیا میں انتہاپسندی کو کبھی قوت سے ختم کیا  جاسکا ہے؟ انتہاپسندی اور دہشت گردی اگر ایک دوسرے کو متاثر کر بھی رہی ہوں، تب بھی ان کا مقابلہ، صرف ایک حکمت عملی سے نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ ڈنڈے اور گولی سے اس کا قلع قمع کرنے کو واحد طریقہ سمجھ لیا جائے۔ یہ دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ الگ حکمت عملیوں کی تشکیل اور ان پر عمل ضروری ہے۔

رہا معاملہ دہشت گردی کا تو اس سلسلے میں بھی ہم دو باتوں کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں: ایک یہ کہ حقیقی دہشت گردی کا توڑ اسی وقت ممکن ہے، جب اس کے اسباب کا صحیح صحیح تعین کرلیا جائے، اور ان اسباب کو دُور کیے بغیر دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ دہشت گردی پر گرفت دستور اور قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ جنگ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور مہذب معاشرے کی تمام اقدار کو پامال کرتے ہوئے، محض قوت کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کا نسخہ ہے، اسے ختم کرنے کا نہیں۔ ان حربوں کے نتیجے میں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے تو ۱۰ نئے دہشت گرد پیدا کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں اور خاص طور پر پاکستان میں موجود دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔

طالبان کون ھیں؟

جہاں تک القاعدہ اور طالبان کا تعلق ہے، ان کے بارے میں بھی جذبات اور مفادات سے بالا ہوکر تمام امور کے معروضی مطالعے کی ضرورت ہے۔ القاعدہ اور طالبان دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اور ان کو گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر افغانستان کے طالبان اور شے ہیں اور گذشتہ چند سال میں پاکستان میں طالبان کے نام پر جو تحریک وجود میں آئی ہے، وہ ایک دوسری حقیقت ہے۔ طالبان کی حقیقت سے انکار ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔ البتہ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں طالبان ایک خاص تاریخی پس منظر میں اور حالات کی ایک خاص صورت اختیار کرلینے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ پھر ان کا ایک کردار ہے جو اَب ۲ عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کا ایک دور وہ تھا، جب وہ افغانستان میں مجاہدین کی جماعتوں کی باہم آویزش، خانہ جنگی اور لاقانونیت کے تناظر میں وجود میں آئے، اور کچھ ممالک اور قوتوں نے اس میں ایک خاص کردار اداکیا۔ پھر ان کا ۷،۸ سال کا وہ دورِ اقتدار ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طالبان نے افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ ان کے دور میں امن و امان قائم ہوا اور لوگوں کو انصاف، حتیٰ کہ کچھ طالبان کی غلطیوں یا زیادتیوں کے خلاف بھی انصاف میسر آیا۔ علاقائی سطح پر جنگ جُو لیڈروں کی تباہ کاریوں سے عوام کو نجات ملی اور افغانستان کی تاریخ میں ایک مدت کے بعد ان عناصر کو اسلحے سے پاک (de-weaponize) کیا گیا۔ جرائم میں بے پناہ کمی واقع ہوئی اور خصوصیت سے پوست کی کاشت جسے کوئی قابو نہیں کرسکا تھا، اس کا کسی تشدد کے بغیر قلع قمع کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے منشیات کے خاتمے سے متعلق محکمے کو اعتراف کرنا پڑا کہ افغانستان کی تاریخ میں سن ۲۰۰۰-۲۰۰۱ء وہ سال ہے، جس میں پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوئی اور ’منشیات کی تجارت‘ نے دم توڑ دیا۔

ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ طالبان کے دور کے منفی پہلو بھی ہیں، جن میں ان کے   تصورِ اسلام کی تنگی اور اسلام اور پختون قبائلی روایات کا آپس میں گڈمڈ ہو جانا نمایاں ہیں۔ تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم اور مسلم معاشرے میں عورت کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات اُمت مسلمہ کے معروف مسلک سے ہٹ کر تھے۔ اسی طرح عصرِحاضر کے تقاضوں اور ان کی روشنی میں ملک کی تعلیم،صحت، معیشت و صنعت، انتظامی و سیاسی ڈھانچے کی ترقی کے باب میں ان کے تصورات، اپنے حالات سے مخصوص تھے۔ دنیا کی اسلامی تحریکات کے خیالات سے ہم آہنگ نہ تھے۔ ان کے دورِ حکومت کا ایک اور پریشان کن پہلو افغانستان کی دوسری قومیتوں کے بارے میں ان کا رویہ بھی تھا، جس کی وجہ سے افغانستان کے تمام علاقوں اور جملہ قومیتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق و اتحاد رونما نہ ہوسکا۔

ان تمام پہلوئوں کے علی الرغم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان، افغانستان کی ایک اہم قوت تھے اور ہیں۔ ان کو نظرانداز کر کے یا ان کو تباہ کرکے اور مٹادینے کے منصوبوں کے ساتھ افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ صرف افغانستان ہی میں نہیں، بلکہ اس پورے خطے میں امن کا قیام ان سے معاملہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس وقت افغانستان کا اصل مسئلہ ملک پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے، اور افغانستان میں طالبان اس بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی علامت ہیں۔ یہ ایک قومی مزاحمت ہے، جس میں طالبان کے نام اور جھنڈے تلے تمام مزاحمتی قوتیں جمع ہوگئی ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک معاملات کے سیاسی حل کے لیے ضروری ہے۔

جہاں تک پاکستان کے پشتون علاقوں میں طالبان کے مختلف گروہوں کا تعلق ہے یہ ایک نیا حوالہ ہے، اور اس کو وجود میں لانے کا اصل سبب جنرل مشرف کی وہ ظالمانہ پالیسیاں ہیں، جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی فوجوں کا حلیف بننا، پاکستان کی سرزمین کو افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے استعمال کرنا اور پھر خود فاٹا، مالاکنڈ، سوات اور دیر میں پہلے امریکا کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے القاعدہ اور اس کے معاونین کے خلاف فوج کشی۔ آخرکار القاعدہ تو محض عنوان بن کر رہ گئی ہے، لیکن اب یہ جنگ پاکستانی فوج اور پاکستانیوں     اور خصوصیت سے دینی قوتوں کے خلاف جنگ بن گئی ہے، جس آگ میں اس وقت ہم سب  جھلس رہے ہیں۔

ان حالات سے فائدہ اُٹھاکر متعدد قوتوں نے اس جنگ میں اپنا اپنا کردار تلاش کرلیا۔ عنوان تو طالبان کا ہے، لیکن اس میں حقیقی طالبان کے علاوہ مختلف مقامی اور بیرونی گروہ شریک ہوگئے ہیں، جن میں مختلف ممالک اور قوتیں اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ معاشرے کے وہ مجرم عناصر جو اس علاقے کو اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک مدت سے استعمال کر رہے تھے، وہ بھی اسی چھتری تلے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان دشمن قوتیں، خصوصیت سے بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے وہ عناصر جو اپنی پاکستان دشمنی کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں، سب اس خونیں کھیل میں شریک ہیں۔ جب تک ان میں سے ہرعنصر کا الگ الگ تعین، اس کے مقاصد و اہداف، طریق کار اور کارگزاریوں کا ادراک نہ ہو، کوئی جامع حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی۔

دو امور نے اس پیچیدہ صورت حال کو اور بھی پیچیدہ اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ ایک وہ قوتیں  اور عناصر جو ایک مدت سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں۔ انھوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا، اور کرم ایجنسی میں خاص طور پر اور پورے علاقے بلکہ پورے ملک میں اس فتنے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسرا پہلو زیادہ گہرا اور زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ طالبان کے طریق کار میں جو بھی غلطیاں اور سقم ہوں، اس علاقے میں جو سیاسی اور انتظامی خلا مختلف حکومتوں کی غلطیوں اور غفلتوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا اس کی وجہ سے جو روایتی نظام وہاں قائم تھا، یعنی پولیٹیکل ایجنٹ، ملک اور جرگہ سسٹم وغیرہ وہ درہم برہم ہوگیا ہے۔ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے کا روایتی نظام جو پولیس، اسکائوٹ اور فرنٹیر کانسٹیبلری سے عبارت تھا، غیرمؤثر ہوگیا ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں یہ خلا اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اسے دستور اور علاقے کی ضرورت کی روشنی میں پُر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ مذکورہ طالبان نے نہ صرف اس صورت حال کو ہوا دی، بلکہ مقامی قوانین اور بااثر طبقات کی جو گرفت تھی اور عوام کا جو استحصال وہ کر رہے تھے، اسے اپنے تصورات کے مطابق طبقاتی ہم آہنگی، مظلوم کی دادرسی، اجتماعی انصاف کی فراہمی کے ایک متبادل نظام کے تحت دُور کر کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ بلاشبہہ اس میں انھوں نے قوت کا استعمال بھی کیا، اور اپنی دانست میں جن روایات کو صحیح سمجھتے تھے ان کو اختیار کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور بھی کیا۔ لیکن اس پورے عمل کے جلو میں جو سماجی تبدیلی، مظلوم طبقات کی بحالی اور اجتماعی عدل کی پیاس رونما ہوئی اس کے سماجی اور سیاسی مضمرات نے ہر اعتبار سے اس علاقے کے پورے تناظر کو متاثر کیا ہے۔ اندریں حالات پہلے والی جوں کی توں کیفیت (status quo) کی بحالی ناممکن ہوگئی ہے۔

آج جب طالبان کا لفظ حکومت، میڈیا اور امریکا کی عنایت سے ایک گالی بنادیا گیا ہے، اور ان کے لیے کلمۂ خیر کہنے والے کو نکّو بنایا جا رہا ہے، اس اعتراف کی ضرورت ہے کہ طالبان کی اس علاقے میں مداخلت سے جہاں قوت کے بے جا استعمال کی ایک غلط روایت قائم ہوئی ہے، کہ جس کی اصلاح کی ضرورت ہے، وہیں سماجی، اخلاقی اور معاشی اعتبار سے جو نیا ایجنڈا لوگوں کے سامنے آیا ہے، اس کا ادراک کیے بغیر حالات کی اصلاح اور امن و استحکام کا حصول ناممکن ہے___ ہم چاہتے ہیں کہ اس نکتے کی وضاحت کے لیے طالبان کے مخالفین کی تحریروں سے کچھ حقائق پیش کریں، تاکہ مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھا جاسکے۔ طالبان کو گردن زدنی قرار دینے کی جو مہم واشنگٹن سے کراچی اور اسلام آباد سے لندن تک چلائی جارہی ہے، اس کے تباہ کن ہونے اور پورے مسئلے کو قطعی طور پر ایک غیرحقیقی انداز میں پیش کرنے کی بھیانک غلطی کی اصلاح ہوسکے۔

مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو صاحبہ پر تو طالبان پسندی کا شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ تو لبرلزم اور جدیدیت کی علَم بردار ہیں۔ دیکھیے وہ مسئلے کے اس پہلو کے بارے میں کیا کہتی ہیں:

مسئلے کا حل زیادہ رقوم فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ طالبان   سوات کے رہنے والوں کا انتخاب نہیں ہیں۔ طالبان وہاں اس لیے ہیں کہ انھوں   نے وہ سڑکیں بنائیں جو کئی عشروں سے نہیں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے کم سے کم لڑکوں کے لیے تعلیم فراہم کی، جب کہ سرکاری اسکولوں میں لاکھوں مقامی طلبہ ناکام ہوئے۔ انھوں نے میڈیکل سنٹر کھولے، جب کہ سرکاری ہسپتال وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بند تھے۔ انھوں نے انصاف فراہم کیا، جب کہ عدالتوں نے بجاے عوام کے حکومت کا تحفظ کرنا شروع کر دیا۔ (Obama is Part of the Problem، نیو سٹیٹس مین، لندن، ۱۴ مئی ۲۰۰۹ء)

شیریں رحمن، پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراطلاعات ہیں۔ ان پر بھی طالبان نوازی کا ’الزام‘ نہیں لگ سکتا۔ لیکن دیکھیے وہ بھی کیا کہہ رہی ہیں۔ دی نیوز (۲۱ مئی ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون Why the IDPS Matter میں کہتی ہیں:

کسی کو یہ امید نہیں کرنا چاہیے کہ جو خاندان پاپیادہ یا کرایے کی ٹرانسپورٹ میں بونیر، سوات اور دیر سے صدمے کی کیفیت میں آرہے ہیں وہ طالبان کی، جنھوں نے ان کو قید میں رکھا، کھل کر مذمت کریں گے۔ بہت سے نجی طور پر اس خوف کی کیفیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ رہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت سے طالبان کے ماتحت سماجی انصاف کے امکان کی بات بھی کرتے ہیں۔

دی نیوز ہی کی ایک اور لبرل مضمون نگار کاملہ حیات اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:

ملکی سلامتی کی صورت حال نے عسکریت اور جہادی گروپوں اور سرکاری طاقتوں کے روابط میں اضافہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ریاست کے لیے کچھ مخصوص ترجیحات کا تعین بھی تھا۔ عوام کو ضروری سہولتیں فراہم نہ کرنے میں ناکامی طالبان کے بڑھنے کا کلیدی سبب ہے۔ مہاجر کیمپوں میں جو اسکول قائم کیے گئے ہیں ان میں ۴۰ سے ۵۰ فی صد بچوں نے کہا ہے کہ ان کے خاندان طالبان کے حامی ہیں خاص طور پر اس وجہ سے کہ انھوں نے انفراسٹرکچر اور سہولتوں کو بہتر بنایا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ محرومیاں اور مایوسیاں دوسری جگہوں پر بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنی بقا مطلوب ہے تو ان احساسات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت ہے کہ ریاست نئے کردار میں    سامنے آئے اور عوام کی ضروریات کو اوّلیت دے۔ (The Whole Picture، کاملہ حیات، دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)

پاکستان کے سابق سفیر آصف ایزدی اپنے مضمون Drawing the Right Lesson from Swat میں مسئلے کے ان پہلوئوں پر بڑی جرأت سے اظہارِ خیال کرتے ہیں، جن پر مفادپرست اور تعصب کے پجاری پردہ ڈالتے ہیں اور سارے معاملے کو صرف ’انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں:

زرداری حکومت کے زیادہ تر فیصلوں کی طرح سوات میں فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی دبائو کے تحت کیا گیا۔ خارجی دبائو اوباما انتظامیہ کی طرف سے آیا جسے پریشانی تھی کہ  سوات دوسرے قبائلی علاقوں کی طرح القاعدہ کے لیے محفوظ جنت نہ بن جائے۔ لیکن داخلی دبائو بھی تھا۔ یہ دبائو روشن خیال اعتدال پسندوں کا اتنا نہیں تھا جو ایک لڑکی کے کوڑے لگانے پر نالاں تھے، اور نہ ان کا تھا جو فوری اور کڑے انصاف کے نظام کو  من مانا سمجھتے تھے۔ فوجی ایکشن کے لیے حقیقی دبائو دراصل ان زمین داروں اور ان لوگوں کی طرف سے آیا جن کو خطرہ ہوا کہ ان کی جایدادیں طالبان کے ہاتھوں محفوظ نہ رہیں گی۔

ان کی نگاہ میں جنگ جوؤں کا اصل جرم یہ نہیں تھا کہ وہ شریعت کی تبلیغ کر رہے تھے بلکہ اسلامی مساوات کی بات بھی کر رہے تھے جو کچھ لوگوں کو طبقاتی جنگ سے مختلف نہیں لگ رہا تھا۔ طالبان نے اپنے نئے نظام کا پیشگی اندازہ اس وقت کروایا جب انھوں نے چند بڑے زمین داروں کو سوات چھوڑنے اور اپنی زمین بے زمین لوگوں کو دینے پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ زمرد کی کانوں پر قبضہ کیا گیا اور آمدنی کا بڑا حصہ مزدوروں کو دیا گیا۔ جنگلات کا منافع جو اس سے پہلے لکڑی مافیا اپنی جیبوں میں بھرتے تھے تقسیم کیا گیا۔ پولیس اور حکومت کے وہ اہل کار جو جاگیرداری نظام کا سہارا تھے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ ان اقدامات سے خطرے کی گھنٹیاں نہ صرف صوبہ سرحد بلکہ پورے پاکستان میں بجنے لگیں۔ چند صاحب ِدولت کی زمینوں کی ملکیت پر حملہ کر کے جو ہمارے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا کلیدی پتھر ہے، خطرے کی سرخ لکیر عبور کرلی گئی۔ پورے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ ریاست نے پلٹ کر اس طرح حملہ کیا جس طرح اس نے کیا ہے۔

فوجی اقدام ان خرابیوں کا جن کی جڑیں سماجی معاشی ناانصافی میں ہیں، کوئی حل فراہم نہیں کرتا۔ موجودہ بے چینی و اضطراب کی بنیادی وجہ وہ جاگیرداری نظام ہے جو عام آدمی کو اس کی حالت ِ زار سے نجات کی کوئی اُمید نہیں دلاتا، جب کہ چند مراعات یافتہ لوگ ہی ساری دولت سمیٹ لیتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ وقت بدل چکا ہے، چاہے انھیں معلوم نہ ہو۔

اگر فوجی آپریشن طالبان کو ختم کرنے کا اپنا مقصد حاصل بھی کرلے تب بھی یہ بے چینی اور اضطراب ختم نہیں ہوگا۔ جب تک ریاست سنجیدگی سے سماجی انصاف کے مسائل کو حل نہیں کرتی، سیاسی استحکام حاصل نہیں ہوگا۔ (دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)

ان حقائق کا کوئی ذکر امریکا اور پاکستان کی سیاسی و فوجی مقتدرہ قوتوں اور ان کے ہم نوا میڈیا کے واویلا میں نہیں ملے گا۔ وہاں تو صرف دہشت گردوں کو مارنے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کی گھن گرج کی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن اب چند مغربی صحافی بھی، ان حقائق کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہیں___ واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار پامیلا کانسٹیبل ۱۰ مئی ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں لکھتی ہے:

سوات میں شرعی عدالتوں کا مطالبہ طالبان کا فسانہ نہیں تھا بلکہ یہ سیکولر ریاست کے عدالتی نظام سے عوام کی شدید بے اطمینانی کا نتیجہ تھا۔ پورے ملک میں اس پر سست رو اور بدعنوان ہونے کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔ جہاں مقدمے کئی عشروں تک چلتے ہیں اور بااثر لوگ اکثر پولیس کو خرید لیتے ہیں اور اپنے غریب فریقوں کے مقابلے میں مقدمات جیت لیتے ہیں۔ اسلامی عدالتیں عمومی طور پر چھوٹی، تیزرفتار اور کم خرچ ہیں۔

جگہ کی قلت کے باوجود ہم نے ان افراد کی زبان میں حقائق کے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی ہے، جو حقیقی ہیں لیکن طالبان دشمنی اور اسلام بے زاری کے جذبات سے مغلوب ہوکر، ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ اور امریکی و یورپی دانش ور اور سیاسی رہنما تو ذکر نہیں کرتے یا پھر اظہارِ حق کو اپنے مفاد سے متصادم پاتے ہیں۔ لیکن کم از کم پاکستانی قوم اور اس کی پارلیمنٹ کو تو تعصبات سے بالاہوکر تمام عوامل کا گہری نظر سے مطالعہ کرکے ایسی حکمتِ عملی بنانی چاہیے، جو پاکستان اور اس کے اپنے عوام کے مفاد میں ہو۔

پس چہ باید کرد

ہم نے جو معروضات ان صفحات میں پیش کی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:

۱-  پاکستان کی اولین ترجیح دنیا پر اور خود اپنے علاقے اور ملک پر مسلط کردہ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی اور ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل و تنفیذ ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر مسئلے کا کوئی حل نہیں۔

۲- سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن جلد از جلد بند ہونا چاہیے، اور ہردو علاقوں کے مسائل کا حقیقی سیاسی حل مذاکرات، افہام و تفہیم اور باہمی مشاورت سے نکالنے پر ساری توجہ، صلاحیت اور قوت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اس میں نہ وقت کی کوئی قید ہے اور نہ مذاکرات کے بننے اور بگڑنے کی تعداد کی۔ مسئلہ سیاسی اور انسانی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے۔

۳- جہاں تک نفاذِ عدل ریگولیشن کا تعلق ہے، وہ اس پوری صورت حال کا حصہ نہیں۔ اس کا اپنا ایک مستقل وجود اور دائمی ضرورت بھی ہے۔ ان قواعد کو اپنے الفاظ اور روح کے ساتھ پورے علاقے میں نافذ ہونا چاہیے۔ جو تلخی یا تصادم پیدا ہوا ہے، اس کا اس عمل پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔

۴- اس سیاسی عمل میں ان علاقوں کے تمام عناصر کی شرکت ضروری ہے، اور بیرونی مداخلت کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔

۵- امریکا سے برابری کی بنیاد پر اپنی آزادی، نظریاتی شناخت اور قومی اور ملّی مفادات کے فریم ورک میں دوستانہ تعلقات ضرور استوار کیے جائیں، مگر افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی سے مکمل برأت کا اعلان ہو، ڈرون حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے۔ جو مراعات اور سہولتیں امریکا اور ناٹو افواج کو پاکستان کی سرزمین پر حاصل ہیں، انھیں ایک واضح طریق کار اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ختم کیا جائے۔

۶-  پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اور اس کی روشنی میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی سفارشات کی بنیاد پر ایک جامع اور مربوط حکمت عملی بنائی جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ۵۸ (۲-بی) اور دوسری متعلقہ دستوری ترمیمات کرکے دستور اور پارلیمنٹ کو اس حیثیت میں بحال کیا جائے جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل تھی۔

۷- نقل مکانی کرکے مہاجرت اور بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے والے اہلِ وطن کے لیے جنگی بنیادوں پر، شفاف انداز میں زندگی کی تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں، اور   جلداز جلد گھروں کو واپسی کا انتظام کیا جائے، نیز ان کے نقصانات کی مکمل تلافی کی جائے۔

۸- ملک میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور عدل کی فراہمی کا جلد از جلد اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں لاپتا افراد کی فوری بازیابی اور رہائی کو اوّلیت دی جائے۔ جو ادارے اور افراد اس لاقانونیت اور ظلم کے ذمہ دار ہیں، ان پر قانون کے مطابق گرفت کی جائے تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔

۹- قوم بجلی، پانی اور گیس کی عدم فراہمی، بے روزگاری اور غربت و ناداری اور اشیاے صرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے سخت تنگ ہے۔ فوری طور پر معاشی حکمت عملی کو تبدیل کیا جائے، عوام کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کرنے کے بجاے انھیں حقیقی سہولت اور فوری سہولت دینے کا اہتمام کیا جائے۔ مفاد پرست طبقات بشمول سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کے طرزِ زندگی کو   ان حدود کا پابند کیا جائے، جو اجتماعی انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔

۱۰- عوام کو تعلیم، صحت اور رہایش کی سہولتیں فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے، اور قومی پالیسی کے ہرپہلو کو اسلام اور مسلم تمدن کی روایات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے عوامی بیداری اور مؤثر سیاسی جدوجہد وقت کی اولیں ضرورت ہے۔

۱۱- سوات، دیر، بونیر اور فاٹا کے حالات میں گھرے ہونے کے باوجود بلوچستان کے مسئلے کو قرارواقعی اہمیت دی جائے اور حالات کی نزاکت کے بھرپور احساس کے ساتھ وہاں کے تمام عناصر کو مذاکرات میں شریک کر کے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ بلوچستان کے اصل مسئلے کی تشخیص کوئی مشکل بات نہیں۔ اس پر خود پارلیمنٹ کی کمیٹی تفصیل سے غورکرچکی اور سفارشات دے چکی ہے۔ اصل مسئلہ مفاد پرست عناصر کا کردار، حکومت کی بے عملی اور بیرونی قوتوں کے تاخیری حربے اورسازشیں ہیں۔ کُل جماعتی کانفرنسیں مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل علاقے کے لوگوں کے ساتھ انصاف، فوجی ایکشن اور قوت کے استعمال کی حکمت عملی کو یکسر ختم کرنا اور سیاسی حل کی تلاش اور اس سے بھی زیادہ اس کے لیے فوری عملی اقدام ہے۔ دستوری ترامیم بھی اس پیکج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں تاخیر تباہ کن ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دونوں میدانوں، یعنی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے اور بلوچستان میں فوری سیاسی حل اور نئے بندوبست کے اہتمام کو اولیت دینا ضروری ہے۔

 

اسلام کی نشاتِ ثانیہ اسی چیز کا نام ہے جس چیز کا نام دعوتِ اسلامی ہے۔ دعوتِ اسلامی ایک فرد سے شروع ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی قومیں گزری ہیں ان کے اندر ایک نبی آیا۔ اس نے دعوتِ اسلامی شروع کی، اس دعوت کو جن لوگوں نے سمجھا اور سمجھ کر اس پر ایمان لائے اور جو اس کے لیے اپنی جان، مال، وقت اور محنت کی قابلیتیں صرف کرنے کو تیار ہوگئے، ان سے وہ دعوت شروع ہوئی۔ اب اس میں یہ کہنا کہ کتنے فی صد امکانات ہیں تو بعض انبیا ایسے گزرے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ایک دو آدمیوں کے سوا ان پر کوئی ایمان نہیں لایا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً حضرت عیسٰی ؑکی ۳ سالہ تبلیغ پر کُل ۱۲ آدمی ان کے ساتھ ہوئے اور ان میں سے بھی ایک وہ غدار تھا، جس نے انھیں پکڑوا دیا۔ اس لیے سارا انحصار اس بات پر ہے کہ اس دعوت کو اور اس کی سچائی کو جاننے اور سمجھنے کے بعد کتنے لوگ اپنی جان، مال، وقت اور محنتیں اور قابلیتیں صرف کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ تیار ہو جائیں تو جتنی بڑی تعداد میں وہ تیار ہوں گے اتنے ہی زیادہ امکانات اس دعوت کے دنیا میں پھیلنے کے پیدا ہوجائیں گے۔ جتنے کم آدمی تیار ہوں گے، تو وہ درحقیقت اس دعوت کی ناکامی نہیں بلکہ اس قوم کی ناکامی ہے جس کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اس سے منہ موڑے۔

اگر حق کو پیش کرنے میں کوتاہی حق کو پیش کرنے والوں کی طرف سے ہو اور وہ اس کو واضح طور پر لوگوں کے سامنے ان کی عقل، ان کی فہم اور ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق پیش نہ کرسکیں تو یہ ان کی طرف سے قصور ہے، اور اگر اس صورت میں نشاتِ ثانیہ نہیں ہوتی تو اس کا الزام ان کی طرف جاتا ہے۔ لیکن اگر انھوں نے کھول کر، وضاحت کے ساتھ ایک ایک پہلو کو پیش کر دیا کہ یہ حق ہے اور یہ ہیں اس کے تقاضے، اور یہ ہیں اس کے مطالبات، اور کس طرح سے اس حق کو زندگی کے اندر نافذ کیا جاسکتا ہے، اور زندگی کے ہر پہلو کی تعمیر ان اصولوں کے اُوپر کیسے ہوسکتی ہے___ اگر یہ کام انھوں نے کر دیا تو اس کے بعد ساری ذمہ داری اس قوم پر عائد ہوتی ہے جس قوم میں یہ کام پیش کیا گیا۔ اگروہ قوم اس کو قبول نہیں کرتی تو ناکام وہ ہے اور وہ لوگ ناکام نہیں ہیں جو اس دعوت کو پیش کریں۔

اب ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں خدا کے فضل سے اس وقت   تعلیم یافتہ طبقے کا جہاں تک تعلق ہے وہ بڑی حد تک حق کو حق سمجھ رہا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ توحید کیا چیز ہے۔ وہ یہ جان گیا ہے کہ توحید کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ جان گیا ہے کہ توحید کے مطالبات کیا ہیں۔ اس کے اندر اگر کوئی کوتاہی ہے تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے اپنی جان لڑانے اور خطرات مول لینے اور اپنا وقت کھپانے کی وہ ہمت نہیں دکھا رہا ہے جو ایمان لانے کے بعد دکھانی چاہیے۔ یہ اس کی طرف سے کوتاہی ہے۔ جہاں تک ہمارے عوام کا تعلق ہے وہ جانتے ہی نہیں کہ اسلام کس چیز کا نام ہے، کیا اس کے مطالبے ہیں اور کیا اس کے تقاضے ہیں۔ یہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو خبردار کریں، ان کی جہالت دُور کریں، ان کو سمجھائیں، ان کے دین سے ان کو آگاہ کریں تاکہ ان میں اسلامی شعور پیدا ہو۔ اس کے لیے لوگوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تبلیغ جو ہوئی تھی وہ کتابوں اور رسالوں کے ذریعے سے نہیں ہوئی تھی، زبانی تلقین سے ہوئی تھی۔ اب بھی جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، جو دین کو سمجھ چکے ہیں، ان کا کام ہے کہ عوام کے اندر جائیں اور جاکر زبانی تلقین کریں۔ ان کو بتائیں کہ تمھارا دین کیا ہے۔

رہا یہ سوال کہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ میں کتنی مدت درکار ہے تو اس معاملے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کامیابی کے امکانات کتنے فی صد ہیں اور کتنے فی صد نہیں ہیں۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ اپنی حد تک جہاں تک بھی ہمارے بس میں ہے کوشش میں ہم کوتاہی کریں تو ہم قصوروار، لیکن اگر ہم کوشش کا حق ادا کرتے رہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس فرض سے سبکدوش ہیں۔ آگے جو کچھ بھی نتیجہ ہو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جو اس کو قبول نہ کریں۔(۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو   وکلا سے گفتگو بحوالہہفت روزہ ایشیا، ۱۲نومبر ۱۹۷۲ء)

 

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز ادا کی، وہ اللہ کی پناہ میں آگیا۔ اللہ کے اس وعدے کی خلاف ورزی نہ کرو۔ اگر کسی نے اسے قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ ’قاتل‘ کا پیچھا کرے گا یہاں تک کہ اسے منہ کے بل آگ میں لاپھینکے گا۔ (ابن ماجہ)

ہر جان یقینا قیمتی ہے، لیکن خالق کی نظر میں ایک مومن کی جان خصوصی حُرمت و اہمیت رکھتی ہے۔ اپنی مخصوص تعبیر دین و شریعت، کسی سیاسی مفاد، لسانی اور علاقائی عصبیت یا پھر شدت پسندی کے مبہم و مشکوک الزام کی آڑ میں خون ریزی کا بازار گرم کرنے سے پہلے ہر فرد، گروہ اور حکومت کو سوچ لینا چاہیے کہ اس حدیث میں مذکور وعید سے کیسے بچیں گے۔ نماز اور بالخصوص نمازِ فجر اللہ کی حفاظت و رحمت کا ذریعہ بنتی ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا معاملہ عجیب ہے، وہ ہر حال میں فائدے میں رہتا ہے، اور یہ معاملہ صرف مومن ہی کے لیے ہے۔ اسے کوئی خوشی ملتی ہے اور وہ اس پر شکر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے مزید بھلائی کا سبب بنتا ہے، اور اگر اسے تنگی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بھلائی کا موجب ہے۔ (مسلم)

زندگی انھی دو صورتوں سے عبارت ہے، مصیبت یا راحت۔ مومن کا رویہ ہر حالت میں ایک ہی رہتا ہے اور رہنا چاہیے، یعنی اپنے رب کی رضا پر راضی رہنا۔ نعمت و راحت پر شکر، رنج و مصیبت اور آزمایش میں صبر۔ راحت پر شکر نعمتوں کے دوام کا ذریعہ بنتا ہے۔ تکلیف و آزمایش پر صبر اور رب سے التجا نہ صرف مصیبتوں کو دور کردیتی ہے بلکہ درجات کی بلندی اور خطاؤں کی معافی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ آپؐ نے ایک اور حدیث میں فرمایا: مومن مرد یا عورت پر اس کی جان، مال اور اولاد کے حوالے سے آزمایشیں آتی رہتی ہیں اور ان سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنے اللہ سے ملتا ہے تو ان آزمایشوں کی بدولت اس کا کوئی بھی گناہ باقی نہیں بچتا۔


حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: مجھے اپنے میں سے کسی کے بارے میں (منفی) بات نہ پہنچایا کرو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں جب بھی تم سے ملوں تو میرا دل تم سب کے بارے میں صاف ہو۔ (ابوداؤد)

باہم محبت و اخوت، اسلامی معاشرے کی بنیاد، اساس اور پہچان ہوتی ہے۔ اس بنیاد کو کمزور کرنے والی ہر بات سے خالق نے منع فرمادیا۔ خاص طور پہ بغض و حسد، چغلی و غیبت، غرور و تکبر، چہ مہ گوئیاں، گروہ بندیاں، دوسروں کے بارے میں منفی احساسات رکھنا اور پیدا کرنا، شکوک و شبہات پھیلانا،  غرض ہر کمزوری کو برائی قرار دیتے ہوئے ان سے اور ان کے انجام سے خبردار کردیا گیا۔

قیادت خواہ جس سطح کی بھی ہو کارکنان اس کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ تمام کارکنان کے بارے میں یکساں خلوص و صاف دلی کے لیے ناگزیر ہے کہ ان عوامل کا سدّباب کیا جائے، ان باتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ جن سے دلوں میں میل آجاتا ہے۔ آپؐ نے مختصر الفاظ میں بے انتہا بیماریوں کا شافی علاج کردیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ جب بھی میں تم سے ملوں تو میرا دل تم سب کے بارے میں صاف ہو‘‘۔


حضرت ابو برزہ الاسلمیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے وہ لوگو    جو زبانی ایمان تو لے آئے ہو لیکن ایمان ابھی تک تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو۔ ان کی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ لگا کرو۔ جو (اپنے بھائیوں) کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریوں کا پردہ کھول دے گا اور جس کی کمزوریوں کا پردہ اللہ تعالیٰ کھول دے گا، اسے خود اس کے اپنے اہل خانہ کے سامنے بھی بدنام کردے گا۔ (ابوداؤد)

گویا اپنے بھائیوں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگے رہنے اور غیبتیں کرتے رہنے کے بعد ایمان صرف زبانی دعویٰ رہ جاتا ہے۔ یہ وعید بھی اسی لیے شدید ہے کہ غیبت، خوردہ گیری اور دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں پڑے رہنے سے اجتماعیت اور باہمی اعتماد و اخوت کی عمارت ڈھے جاتی ہے۔ انسان اپنے ہی کچھ ساتھیوں کو بدنام کرنے اور انھیں نیچا دکھانے میں لگ جاتا ہے۔ تعمیرِ حیات اور اقامت ِدین کا عظیم الشان فریضہ صرف ایک دعویٰ اور خام خیالی ہوکر رہ جاتا ہے۔ حدیث کا آخری جملہ دل دہلا دینے والا ہے کہ پھر وہ انسان اپنے سب سے قریبی افراد، اپنے اہلِ خانہ کی نظروں سے بھی گر جاتا ہے، خود اپنے ضمیر کا مجرم قرار پاتا ہے۔


حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا لباس زیب تن فرماتے تو اس کا نام لے کر، مثلاً قمیص / عمامہ وغیرہ فرماتے: پروردگار! تمام تر شکر تیرے ہی لیے ہے کہ تو نے مجھے یہ لباس پہنایا۔ پروردگار! میں تجھ سے اس کی خیراور بھلائی مانگتا ہوں اور اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں کہ جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ پروردگار میں اس کے شر سے اور اس شر سے کہ جو اس کے ذریعے آسکتا ہے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوداؤد)

انسان اپنے رب کی بے انتہا نعمتوں سے دن رات مستفید ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات نعمتیں دینے والے رب ہی سے غافل ہوجاتا ہے۔ رسولِ اکرم ؐ نے ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دی خواہ وہ لباس یا لباس کا ایک حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ نعمت اگر خیر اور بھلائی کا ذریعہ بنے تو نعمت رہتی ہے۔ اللہ کی رحمت و عافیت اٹھ جائے تو وہی نعمت، عذاب اور آزمایش بن جاتی ہے۔ خوراک ہی صحت و قوت کاموجب ہوتی ہے اور اگر اللہ ایسا نہ چاہے تو وہی خوراک مرض و ابتلا کا سبب بن جاتی ہے۔ کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ انسان کے لیے زیب و زینت والا رومال ہی گلے کا پھندا بن گیا۔ راحت و سکون دینے والی چھت، مسافتیں طے کرنے والی سواری، محبت سے پالی پوسی جانے والی اولاد، دکھ سکھ کے ساتھی، عزت کا تاج پہنانے والے عہدے اور حفاظت کا ذریعہ بننے والے ہتھیار ہی موت و عذاب کی صورتیں اختیار کرلیتے ہیں۔ رب کا حقیقی شکر اور اس سے عافیت کی دُعا، نعمتوں کے دوام اور اس میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔


حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، خود بھی (برائی کی طرف) مائل رہتی ہیں اور دوسروں کو بھی مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ایسی عورتیں نہ صرف یہ کہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکیں گی۔ حالانکہ جنت کی خوشبو ۵۰۰ سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے۔(موطا امام مالک)

شفاف، تنگ اور مختصر لباس، بظاہر تو لباس ہی ہوتا ہے، لیکن پردے کے بجاے بے حجابی اور شرم و حیا کے بجاے بے حیائی اور بداخلاقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لباس و حیا یقینا ایک نعمت ہے لیکن کچھ بدقسمت اسی کو اپنے اور دوسروں کے لیے گناہ اور عذاب کا ذریعہ بنادیتے ہیں۔ صرف رسم و رواج اور فیشن و ڈیزائن کی خاطر، جنت ہی نہیں جنت کی خوشبو سے بھی محرومی___ کیا اس سے بڑا کوئی اور خسارہ ہوسکتا ہے!


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک تنومند نوجوان کو مستعدی سے کام کرتے دیکھا تو کہا: کاش! یہ نوجوان اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ایسا نہ کہو۔ اگر یہ نوجوان اپنے چھوٹے بچوں کے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہے، تو یہ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں ہی ہے۔ اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کے لیے لقمہء حیات فراہم کرنے کے لیے نکلا ہے تو اللہ کی راہ میں ہی نکلا ہے، اور اگر خود کو دوسروں کا محتاج ہونے سے بچانے کے لیے محنت کرنے نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہی نکلا ہے۔ ہاں! اگر یہ نوجوان فخر و غرور اور نمود و نمایش کے وسائل فراہم کرنے کے لیے نکلا ہے تو پھر یہ شیطان کی راہ میں نکلا ہے۔ (طبرانی)

رزق حلال کے حصول اور محتاجی و سوال سے بچنے کی جدوجہد کو آپؐ نے جہاد فی سبیل اللہ کے مترادف قرار دیا۔ یہ جدوجہد تعمیر و نمو کا موجب بھی بنتی ہے اور رضاے خداوندی کا ذریعہ بھی۔ ہر فرد جدوجہد اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں لگ جائے تو انفرادی کوششیں بالآخر اجتماعی محنت و عمل میں  بدل جاتی ہیں۔ اسی طرح رزق حلال کی پابندی انسان کو زندگی بھر کے لیے حلال کی پابندی اور حرام سے اجتناب کا خوگر کردیتی ہے۔ حلال ذرائع سے حاصل ہونے والے رزق میں جتنا بھی اضافہ ہوجائے، مذموم نہیں، بشرطیکہ اس میں سے انفرادی و اجتماعی حقوق ادا کیے جاتے رہیں۔ ہاں، اگر جدوجہد کے اہداف و مقاصد اور محنت کی جہت تبدیل ہوجائے، اصل ہدف فخر و تکبر، حرص و نمایش اور عیش و عشرت بن جائے تو وہی فی سبیل اللہ عمل، فی سبیل الشیطان قرار پاتا ہے۔

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات [سورئہ اعراف، آیات ۱۹۹-۲۰۲ میں] بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضورؐ ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضوؐر کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو حضوؐر کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے:

متحمل مزاجی اور عالی ظرفی

داعیِ حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو‘ متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق‘ عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے‘ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے‘مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی‘ بہتان تراشی‘ ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو‘ اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری‘ درشت خوئی‘ تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اِس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں بیان فرمایاہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’غضب اور رضا‘ دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں‘ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں‘ جو مجھے میرے حق سے محروم کرے‘ میں اسے اس کا حق دوں‘ جو میرے ساتھ ظلم کرے میںاس کو معاف کردوں‘‘۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپؐ ان لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپؐ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا ویسروا ولا تعسروا، یعنی جہاں تم جائو وہاں تمھاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جانفزا ہو نہ کہ باعث ِ نفرت‘ اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے‘‘۔اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)یعنی ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔

سیدہی اور عام فھم دعوت

دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعیِ حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتاہے اور ہرسامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ نکال لیتا ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ عام انسان ‘ خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں‘ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلنداخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں‘ تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیِ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں‘ یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپؐ کے بعد تھوڑی ہی مدّت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہوگئے۔

اُلجہنے سے احتراز

اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت ِ دعوت اور اصلاحِ نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہو جاتی ہے۔

اشتعال سے اجتناب

[گذشتہ] ہدایت… کے سلسلے میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعیِ حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزعِ شیطانی (یعنی شیطان کی اُکساہٹ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوتِ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر‘ خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان‘ جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا‘ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعیِ حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعیِ حق کو اُکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو شیطان داعی کے نفس سے کرتا ہے‘ اکثر بڑی بڑی پُرفریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی تہہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں تو وہ اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ حق کا مفاد کس طرزِعمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ‘ تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھیرسکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انھیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم  نہیں رُکتے۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔

بُرے خیال کی کہٹک

اس ارشاد کا ایک عمومی محل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہلِ تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیرمتقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ بُرائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انھیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات‘ بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلافِ مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انھیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبارِشر کو اپنے اُوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں‘ نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے‘ ان کے نفس میں بُرے خیالات‘ بُرے ارادے‘ بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اوروہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے‘ یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۱۱-۱۱۳)

حکمت اور عمدہ نصیحت

دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہییں: ایک حکمت، دوسرے عمدہ نصیحت۔

حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔

عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں:

ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت سے ہی ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدایشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھارا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عملِ صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیرخواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔

بحث و مباحثہ

[دعوت میں اگر مباحثے کی نوبت آجائے تو] اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کرا دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو، اعلیٰ درجے کا شریفانہ اخلاق ہو، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ.َ  [ضد] اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔ (ایضاً، ص ۵۸۱-۵۸۲)

مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ‘ مہذب و شایستہ زباں میں‘ اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے۔ مبلّغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اُتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتاہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے‘ اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے‘ مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن میں جگہ جگہ دی گئی ہے ۔مثلاً:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل ۱۶:۱۲۵)  دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ۔ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں(مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو‘ تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون ۲۳:۹۶) تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو، ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمھارے خلاف ) بناتے ہیں۔

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ o وَاِمَّا یَنْزَ غَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ (الاعراف۷:۱۹۹-۲۰۰) درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمھیں اُکسائے تواللہ کی پناہ مانگو۔

یعنی جو لوگ ظلم کا رویّہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویّہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت، ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعیِ حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی ‘ شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن ج۳:۷۰۸-۷۰۹)۔ (انتخاب و ترتیب: پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود ترمذی)

 

ان معروضات کی حیثیت کسی رہنمائی کی نہیں بلکہ صرف یاد دہانی کی ہے۔ ان کے اندر کوئی نئی بات بھی نہیں، بلکہ سب کچھ آپ کا بارہا سنا اور پڑھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود میں نے یہ باتیں آپ کے سامنے اس لیے رکھی ہیں کہ آدمی رہنمائی کا محتاج تو صرف ایک وقت تک ہوتا ہے یا کبھی کبھار ہو جایاکرتا ہے مگر یاددہانیوں کا محتاج وہ ہمیشہ رہتا ہے۔

نصب العین پر شعوری نظر

نصب العین اور اس کے صحیح، واضح اور جامع مفہوم کے استحضار کی طرف سے کبھی غافل نہ رہا جائے۔ اس کے یقین اور شعور کو زندہ و بیدار رکھنے کی ہر آن فکر رکھی جائے اور اسے اپنے امکان بھر برابر حرزِجاں بنائے رکھا جائے۔ ماحول کی کسی بھی ناسازگاری کو اور کسی بھی ظاہری بے اثری اور ناکامی کو اس امر کی اجازت ہرگز نہ دی جانی چاہیے کہ یہ شیطانی حربے اور وسوسے ہمارے تحریکی عزائم کو متاثر کر دیں،اور صورت حال، خدا نہ کرے کچھ ایسی بنا دیں کہ زبانوں پر تو اقامت دین کے نصب العین کا دعویٰ اور اعلان حسب معمول پورے زور شور سے جاری رہے مگر دلوں اور دماغوں میں اس کے ساتھ وابستگی کی لَو بہ تدریج مدھم پڑتی جائے۔ یہاں تک کہ حالات کی اس مار سے  بے حال ہو کر کچھ لوگ تو بیٹھ رہنے یا الٹے پائوں پھر جانے تک کی سوچنے لگیں۔

جہاں تک اس تحریک کے لیے ماحول کی سازگاری اور راہ کی ہمت شکن مشکلات کا سوال ہے، ان سے سابقہ پیش آنا تو ممکن یا متوقع ہی نہیں، بالکل ناگزیر ہے۔ دین اور دینی تحریکات کی پوری تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس ا مرِواقعی کی تفصیل سے قرآن عزیز کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ گویا روزِاوّل سے سنت اللہ یہی رہی ہے۔ اس لیے آج یہ ہمارے لیے بدل نہیں جائے گی۔ پھر یہ صرف سنت اللہ ہی نہیں ہے بلکہ حکمت اللہ بھی ہے۔ آزمایشوں کی یہ بھٹی بھڑکائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ کھوٹے اور کھرے چھٹ کر الگ ہو جائیں اور تحریک کو صاف صاف معلوم ہو جائے کہ اس کی اصل طاقت کیا ہے۔ اس آزمایش میں کامیاب ثابت ہونا اور اپنی دعوتی جدوجہد کی ظاہری بے اثری و ناکامی سے بددل ہو کرنہ رہ جانا اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کے دین کی نصرت اور اقامت کا عہدِ وفا دل و دماغ پر برابر چھایا رہے۔ غالباً وہ تاریخی جملے آپ بھولے نہ ہوں گے جو بانیِ جماعت مرحوم و مغفور نے فرمائے تھے۔ ان جملوں کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ اگر ایک شخص نے بھی میری پکار کوسن کر نہ دیا تب بھی میں اپنی اس پکار کو کبھی بند نہ کروں گا، اور اگر موانع و مشکلات نے میرے پائوں اس طرح جکڑ لیے کہ میں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکوں تب بھی میں اپنا رخ منزلِ مقصود کی طرف کیے زندگی بھر کھڑا رہوں گا!

یہ کوئی شاعری نہیں تھی بلکہ ایک صاف اور سیدھی سی ایمانی صداقت کا اظہار تھا۔ جس کسی بندئہ خدا نے اس کے دین کی اقامت کو اپنی زندگی کا پہلا اور آخری فریضہ تسلیم کر رکھا ہو اس کے عزم کی کیفیت ایسی ہی ہوتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے قول میں سچا بھی ہو اور اپنے اس فریضے کے استحضار کا برابر اہتمام بھی رکھے۔ نصب العین کا یہ استحضار جہاں افرادِ جماعت کو عزمِ صادق سے سرشار رکھے گا وہیں جماعت کی اجتماعی زندگی کے لیے حفظانِ صحت کی ضمانت بھی بنا رہے گا۔ جب ہمارے دلوں میں اپنے نصب العین کی سچی محبت اور بے لوث وابستگی گھر کیے رہے گی اور ہمارے افکار وجذبات پر اس کے تقاضے چھائے رہیں گے تو جماعت کے اندر ردّ و کد اور افتراق و انتشارکی نامبارک صورت حال پیدا کر دینے والے مسائل یا تو پیدا ہی نہ ہوں گے یا اگر کبھی پیدا ہو گئے تو انھیں سلجھالینا چنداں دشوار نہ ہوگا۔

بدلتی اخلاقی قدریں اور خود احتسابی

ایک بات جو خاص اہمیت کی حامل ہے، اس کا تعلق موجودہ ماحول اور اس کی روز افزوں آلودگیوں سے ہے۔ اس سے میری مراد اس خارجی ماحول سے نہیں ہے جس کی آلودگیاں ہوا، پانی، اشیاے خوردنی، غرض ان سب چیزوں کو جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے زہرآلود بناتی چلی جا رہی ہیں اور جن کی دہشت سے آج ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے بلکہ اس داخلی ماحول سے ہے جو انسان کے اندرون میں پایا جاتا اور اس کے دل و دماغ سے تعلق رکھتاہے۔ خارجی ماحول کی آلودگیوں نے اگر حیاتِ انسانی کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں تو اس اندرونی اور باطنی ماحول  کی آلودگیوں نے بھی حیاتِ انسانی کی بنیادوں کو زیروزبر کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کی وجہ سے   اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔معروف و منکر میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہ گیا ہے، بلکہ معروف کی جگہ منکر نے اور منکر کی جگہ معروف نے لے لی ہے۔ اصول پسندی ، دیانت داری،   حق شناسی ، عدل پروری، ایفاے عہد اور بر و تقویٰ کا نام تاریک خیالی ، ظلمت پسندی اور بنیاد پرستی قرار پاگیا ہے۔ پھر اگر بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید کسی غیرمعمولی تشویش کی موجب نہ ہوتی، مگر صورت حال تو یہ ہو چکی ہے کہ اس سراپا شروفساد اندازِ فکر کو نام نہاد ’فلسفیانہ اور دانش ورانہ‘   دلائل سے آراستہ کر کے اتنا جاذبِ نظر اور خوش نما بنا دیا گیا ہے کہ دُنیا کی دُنیا اس کے سحر سے مسحور ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ہمارے لیے یہ آلودگیوں اور فتنوں بھرا ذہنی و فکری ماحول اخلاق و کردار کے پہلو سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے مہلک نظریے اور فلسفے ان چیزوں کے بارے میں ہمیں ہرگز متاثر نہیں کرسکتے، مگر دوسرے بہت سے تحریکی اُمور کی نسبت سے یہ یقینا ہمارے لیے بھی مسئلہ ہیں اور خاصا اہم مسئلہ۔ یہ اپنی بے پناہ قوت کے بل پر ہمارے اندازِ فکر میں دراندازی کرسکتے ہیں، تحریکی سرگرمیوں کے مابین ترجیحات کے ٹھیک ٹھیک تعین میں اور کام کے صحیح تر  واَنْسَبْ طریقوں کے انتخاب میں ہمیں ٹھوکر کھلا سکتے ہیں، ذاتی اور ملّی مصالح و مفادات کی طرف توجہ دینے کے معاملے میں غیر محتاط بنا سکتے ہیں، کامیابی اور ناکامی کے صحیح تصورات سے غیرشعوری طور پر بے گانہ کر سکتے ہیں، جوش اور ہوش کے تقاضوں میں توازن کی طرف سے توجہ ہٹاسکتے ہیں، سست گامی اور بے عملی کو حکمت اور دُور اندیشی کا مقتضا باور کرا سکتے ہیں اور پھر خوش نما تاویلوں کا  ایسا انداز بھی سکھا سکتے ہیں کہ آدمی خود اپنے آپ سے چھپ کر رہ جائے۔

جب انسانیت کا اندرونی ماحول ایسے خوف ناک اندیشوں سے بھرا ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ہم غیر معمولی حد تک چوکنّے رہیں۔ اس بیدار مغزی کا ثبوت دیتے رہیں جس کا مطالبہ ہمارا نصب العین ہم سے کر رہا ہے تاکہ ہماری تحریکی راست فکری اور راست رَوی پوری طرح محفوظ رہے۔ شیطان کا کید بڑا بے پناہ ہوتا ہے۔ اللہ کے مخلص بندوں کے لیے وہ نہ جانے کیسے کیسے  جال بچھاتا رہتا ہے۔ حق کے طالب کو فضولیات میں اُلجھا کر رکھ دینے کے لیے پرُفریب تاویلوں کا    القا کیا کرتا ہے۔آدمی کو ریاض اور مجاہدے کی راہ سے ہٹا کر تن آسانیوں کا خوگر بنا دینا اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ حق اور باطل کے لیے آمیزے تیار کر کے بندگانِ خدا کے ذہنوں میں اُتار دینا اس کا آزمودہ اور نہایت کارگر نسخہ ہے۔ وہ اپنی ان کوششوں کو اس وقت تک ترک نہیں کرتا جب تک کہ ابن آدم کو وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o ]وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ الکہف ۱۸: ۱۰۴[ کے مقامِ عبرت تک نہ پہنچا دے۔عام لوگوں کے لیے بھی   یہ خطرہ کچھ کم سنگین نہیں ہوتا، مگر ان لوگوں کے لیے اس خطرے کی سنگینی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی جو  اللہ کے دین کی نصرت اور اقامت کے لیے اٹھے ہوئے ہوں۔ لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت آج بھی ہے اور ہر آنے والے کل کے دن بھی رہے گی کہ ہم اپنے اندرون کا جائزہ لیتے رہیں۔ پوری دقت ِ نظرسے دیکھتے رہیں کہ نفس اور شیطان کی فریب کاریاں ہمیں اور ہمارے اندازِ فکر کو اپنا شکار بنا لینے کی کوششوں میں کسی پہلو سے کامیاب تو نہیں ہو رہی ہیں۔ اس جائزے اور خود احتسابی   کے بغیر نہ تو فکروعمل کی راہ راست پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنے کی ضمانت ہو سکتی ہے، نہ   اس فریضۂ اقامت ِدین کا کم سے کم حق ادا ہو سکنے کی توقع کی جا سکتی ہے، جس کی ادایگی کا عہد   ہم نے اپنے رب سے کر رکھا ہے۔

حق اور باطل کی تمیز

آخری بات دراصل ایک سوال کے جواب کی حیثیت رکھتی ہے جو ذہنوں میں اُبھر سکتا ہے، یعنی یہ کہ یہ ساری مطلوبہ صفات اپنے اندر کس طرح پیدا کی جا سکتی ہیں؟ ہم اپنی دہری ذمّہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکنے کے قابل کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ ہمارے اندر اپنے نصب العین سے سچاّ قلبی لگائو کیسے پیدا ہو سکتا اور اس کا استحضار کیسے پیہم برقرار رہ سکتا ہے؟ ہمارے تحریکی شعور کو بیداری کس طرح حاصل رہ سکتی ہے؟ ہم وقت کے نظریاتی فتنوں کی یلغار سے اپنے ذہنوں کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ اس سوال یا اِن سوالوں کا جواب قرآن حکیم کے اندر آپ کو جگہ جگہ مل سکتا ہے۔ میں اس وقت اس کے صرف ایک ارشاد کے الفاظ سنا دینے پر اکتفا کروں گا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَـتَّـقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا … الخ (انفال ۸:۲۹) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمھارے اندر حق اور باطل کے درمیان تمیز کر لینے والی قوت پیدا کر دے گا…

یہ کلماتِ خداوندی اگرچہ چند ہی ہیں، مگر ان کے اندر واضح طور پر وہ سب کچھ موجود ہے جو ہم اس وقت جاننا چاہتے ہیں۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ ان کی گہرائیوں میں اتر کر غور کر لیا جائے اور صرف غور ہی نہ کر لیا جائے بلکہ صدقِ دل سے یہ دُعا بھی کی جائے کہ بارالٰہا! ہم سب کو تقویٰ کی اس نعمت سے نواز دے اور برابر نوازے رکھ، جو بندئہ مومن کے لیے راہِ حق کا چراغ روشن کیے رہتی ہے، تاکہ تیرے یہ کمزور و ناتواں بندے، جو تیرے دین کی اقامت کے لیے اٹھے ہوئے ہیں، کہیں بھی اور کبھی بھی نہ ہمت چھوڑ بیٹھیں، نہ کسی غلط رُخ کی طرف نادانستہ مڑ جانے پائیں۔ آمین! (ماہنامہ زندگی نو، دہلی، جولائی ۱۹۹۲ء)

 

قوموں کے عروج و زوال کا قانون ایک مستقل، بے لاگ اور اٹل قانون ہے۔ قومیں اس قانون کے تحت تشکیل، تعمیروشناخت، ترقی و استحکام، عروج و کمال، انحطاط و زوال کے مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر تباہی و خاتمے سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان کے عروج و زوال کا انحصار مادی اور اخلاقی دونوں قوتوں پر ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو فیصلہ کن قوت اخلاقی قوت ہے، نہ کہ مادی طاقت۔ گویا کسی قوم کی قسمت کے بننے اور بگڑنے میں فیصلہ کن کردار اخلاقی قوت ادا کرتی ہے۔

قوموں کی زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت ہے کہ انسان کی نفسانی خواہشات اور فطرتِ صالح میں اگر کوئی قوت توازن پیدا کرتی ہے تو وہ عقل و بصیرت ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پروان چڑھتے ہیں جو ایک انسان کو حیوان سے ممتاز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر نفسانی خواہشات انسان پر غلبہ حاصل کرلیں تو اس کی عقل ماری جاتی ہے، اعلیٰ اخلاقی اوصاف و اقدار مٹ جاتی ہیں، اور وہ جانوروں کی سطح سے بھی گر کرگھٹیا حرکات کا ارتکاب کرنے لگتاہے جسے قرآن نے اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (سب نیچوں سے نیچ)سے تعبیر کیا ہے۔ اعلیٰ اخلاق ہی کسی فرد یا معاشرے میں شجاعت اور استقامت جیسی خوبیوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور کسی قوم میں اصولوں کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتے ہیں اور وہ بڑے سے بڑے خطرے کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق سے محروم قوم میں ایسی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں جو اسے دوسروں کے لیے تر نوالہ بنا دیتی ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اوصاف کے حامل بلند کردار لوگوں کی کمی واقع ہوجاتی ہے اور قحط الرجال کے نتیجے میں قوم زوال کی طرف تیزی سے گامزن ہوجاتی ہے۔ وہ قوتیں اور توانائیاں جو ملت کی تعمیر میں صرف ہونی چاہییں وہ عیش و عشرت اور تخریبی سرگرمیوں کی نذر ہونے لگتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انتشار پیدا ہوتا ہے جو قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیتا ہے اور بالآخر قوم انحطاط و زوال کے بعد تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔

عروج و زوال کا قانون

معروف مؤرخ اور فلسفۂ تاریخ کے بانی علامہ ابن خلدون زوال ملک کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب حق تعالیٰ کسی قوم سے ملک چھیننا چاہتا ہے، تو اس قوم میں اخلاقِ ذمیمہ اور رذیل عادتیں پیدا کردیتا ہے۔ اس لیے وہ لوگ سیاسی خوبیوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور جب یہ حرماں نصیبی بڑھ جاتی ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ ان کے قبضے سے ملک نکال لیتا ہے اور کسی دوسری قوم کو دے دیتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ملک سے محرومی اور حکومت کا نکلنا خود ان کے اپنے کرتوتوں کا ثمرہ ہے۔ حق تعالیٰ نے انھیں ملک و عزت کی جو نعمت عطا فرمائی تھی، وہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان سے سلب کرلی گئی ہے‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون، جلد اول)

معروف مغربی مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب دی فال اینڈ ڈیکلائن آف  رومن ایمپائر میں رومی سلطنت کے نابود ہوجانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  ’’بے راہ روی، بدکرداری، مذہبی تعصب اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں اس عظیم ایمپائر کو برباد کرنے میں معاون بنتی رہی ہیں‘‘۔

سید مودودیؒ عروج و زوال کے قانون کے تحت لکھتے ہیں: ’’اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے، اپنی اس سلطنت میں بنائو کو پسند کرتا ہے،بگاڑ کو پسند نہیںکرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی عطا کردہ صلاحیتوں اور قابلیتوں سے انسان دنیا میں بہتر طریقوں کو فروغ دے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے اور اسے بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کرڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انھی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔ پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں؟ جب تک ان کا بنائو ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے، اور کوئی دوسرا اُمیدوار اُن سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے۔ مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انھیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے‘‘۔ (بناؤ اور بگاڑ، ص ۴-۵)

مولانا مودودیؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’آج اسی سنت ِالٰہی کا اعادہ پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ جس شامت اعمال میں پچھلی قومیں گرفتار ہوئی تھیں، اسی شامت نے آج مغربی قوموں کو آن پکڑا ہے۔ جتنی تنبیہیں ممکن تھیں وہ سب ان کو دی جاچکی ہیں۔ جنگ عظیم کے مصائب، معاشی مشکلات، بے کاری کی کثرت [حالیہ عالمی معاشی بحران]، امراضِ خبیثہ کی شدت، نظامِ عائلی کی برہمی، یہ سب کھلی ہوئی روشن آیات ہیں جن سے وہ اگر آنکھیں رکھتے تو معلوم کرسکتے تھے کہ ظلم، سرکشی، نفس پرستی اور حق فراموشی کے کیا نتائج ہوتے ہیں مگر وہ ان آیات سے سبق نہیں لیتے۔ حق سے منہ موڑنے پر برابر اصرار کیے جا رہے ہیں۔ ان کی نظر علتِ مرض تک نہیں پہنچتی۔ وہ صرف آثارِ مرض کودیکھتے ہیں اور انھی کا علاج کرنے میں اپنی ساری تدابیر صرف کر رہے ہیں۔ اسی لیے جوں جوں دوا کی جاتی ہے مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اب حالات کہہ رہے ہیں کہ تنبیہوں اور حجتوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور آخری فیصلے کا وقت قریب ہے...

بہرحال اب قریب ہے کہ وراثت ارضی کا نیا بندوبست ہو اور ظالمین و مترفین کے بجاے کسی دوسری قوم کو (جوغالباً مستضعفین ہی میں سے ہوگی) زمین کی خلافت پر سرفراز کیا جائے۔ دیکھنا ہے کہ اس مرتبہ حضرتِ حق کی نظر انتخاب کس پر پڑتی ہے۔

ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آیندہ کون سی قوم اٹھائی جائے گی۔ یہ اللہ کی دین ہے جس سے چاہتا ہے چھینتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ (اٰل عمرٰن ۳:۲۶)۔ مگر اس معاملے میں بھی اس کا ایک قانون ہے جسے اس نے اپنی کتابِ عزیز میں بیان فرما دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک قوم کو جب وہ اس کے بُرے اعمال کی وجہ سے گراتا ہے تو اس کی جگہ کسی ایسی قوم کو اٹھاتا ہے جو اس مغضوب قوم کی طرح بدکار اور اس کے مانند سرکش نہ ہو، وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم نے روگردانی کی تو تمھارے بجاے کسی اور قوم کو اٹھائے گا۔ پھر وہ لوگ تمھاری طرح نہ ہوں گے‘‘۔ (تنقیحات، ص ۶۱-۶۶)

امریکا جو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا دعوے دار تھا اور سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد واحد عالمی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا تھا بالخصوص نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور  ہوا تھا___ آج اس امریکا کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کی ایک لہر پائی جاتی ہے۔ آج وہ خود ’قوموں کے عروج و زوال کے قانون‘ کی زد میں ہے۔

دنیا میں امریکا کے زوال کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ تجزیے مفکرین اور تجزیہ نگار محض جذبات اور خواہشاتِ نفس کی بنیاد پر نہیں کر رہے، بلکہ اس کے پیچھے امریکی سیاست، ضابطۂ اخلاق، عالمی آمریت اور مذہب سے اس کی لاپروائی کی طویل تاریخ پنہاں ہے۔ اس سوچ بچار میں اضافہ خصوصاً نائن الیون کے سانحے کے بعد ہوا۔ جب جنون کی حالت میں مبتلا ہوکر گذشتہ منتخب صدرجارج بش اپنی عالمی چودھراہٹ اور غنڈا گردی میں یہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ آگے بڑھ گئے تھے کہ زوال ان کے مقدر میں نہیں لکھا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کل تک بحروبر میں اپنی عظمت و سطوت کا پھریرا لہرانے والی ریاستیں اپنی سیاہ کاریوں اور زمانے کے اُتار چڑھائو کے سبب یا تو دنیا سے ایسی ناپید ہوئیں کہ آج دنیا ان کے آثار و باقیات تک سے ناواقف ہے، یا وہ سمٹ کر اتنی مختصر ہوگئی ہیں کہ عقل ان کا موجودہ جغرافیہ دیکھ کر ہی حیران رہ جاتی ہے۔ تاریخ کی قبل از تحریر قومیں، یعنی قومِ عادو ثمود، قوم فرعون و قومِ نوح وغیرہ وہ قومیں ہیں جن کا نام آج تاریخ کے صفحات میں محض عبرت کے طور پر باقی رہ گیا ہے۔ ایران و روم کی وسیع و عریض سلطنتیں آج سمٹ کر رہ گئی ہیں۔

ماضی قریب کی ایک اور سوپر پاور برطانیہ کی حدود میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، یعنی اگر اس کی ایک نوآبادی میں سورج ڈوبتا تھا تو کسی دوسری نوآبادی میں طلوع ہو جاتا تھا۔ اللہ نے ایک طویل مہلت کے بعد اس کی ایسی پکڑ کی کہ آج وہاں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا اور وہ محض ’پیروی کرنے‘ اور ’ہاں میں ہاں ملانے‘ والا ایک ملک بن کر رہ گیا ہے۔

متحدہ روس کا قصہ بھی ہم سے کچھ دُور نہیں ہے۔ محض ۷۰ سال کے مختصر عرصے میں اپنی جھلک دکھا کر ایسا ریزہ ریزہ ہوا کہ آج دنیا کے نقشے پر متحدہ سوویت یونین (USSR) کے نام سے کوئی ریاست موجود ہی نہیں ہے۔

آج امریکا کے زوال کے مختلف اسباب و عوامل زیربحث ہیں، یہاں کچھ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:

ظلم و ستم اور فساد

مملکتیں ایک لامتناہی اقتدار کے بعد اپنے زوال یا گمشدگی کی راہیں خود ہی ہموار کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں اپنی ہیبت و عظمت کا پھریرا لہرا کر وہ اپنے اندر ظلم و تعدّی، ناانصافی، بے رحمی، لوٹ کھسوٹ، قوموں پر بلاوجہ چڑھائی، اندرونِ خانہ طبقاتی کش مکش، زنا و فحاشی کے مادر پدر فروغ اور سود و ربو.ٰ پر مبنی معیشت کے فروغ جیسی سنگین بیماریوں کو مسلسل جنم دیتی اور انھیں استحکام بخشتی ہیں۔ پھر یہ مملکتیں بدی کی اِن تمام جہتوں کو اپنے نظامِ زندگی کا حصہ بنا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ اندر ہی اندر سے اس طرح کھوکھلی ہوتی چلی جاتی ہیں کہ قوموں اور حکمرانوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ ایک طویل دور کے بعد وقت ِ مقررہ پر زمین بوس ہوکر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔

امریکا سے آج دنیا کانپتی ہے اور اس کی ہیبت پوری دنیا پر چھائی ہوئی ہے، لیکن مذکورہ بالا تمام تباہ کن بیماریاں اندر ہی اندر اس میں سرایت کرچکی ہیں۔ دنیا کو غلام بنانے، خصوصاً پس ماندہ مسلم ممالک کے ہرشعبے میں دخل اندازی کرنے کے مستقل امریکی طرزِعمل یا ’دہشت گردی‘ کے نام پر بالخصوص سامراجی عزائم اور عالمی سطح پر دہشت پھیلانے کی روش نے امریکا کو آج دنیا بھر میں قابلِ نفرت ملک بنادیا ہے۔ ادھر یورپ میں بھی امریکی دخل اندازی کے خلاف مضبوط راے عامہ پروان چڑھ رہی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یورپی ممالک نے ڈالر کی استحصالی معیشت کے خلاف اپنی نئی مشترکہ کرنسی ’یورو‘ متعارف کرائی ہے۔

خاص طور پر نائن الیون کے بعد ’دہشت گردی‘ کے نام پر جس طرح امریکا نے دنیا کے مروجہ قوانین و ضوابط کی دھجیاں اڑائیں، اپنے مزعومہ مقاصد کے لیے فریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کی بنا پر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی، بے دردی سے انسانی خون بہایا اور بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلائی، اس امر نے بھی عالمی ضمیر کو اس جنگ اور امریکا کے کردار کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج امریکا دنیا میں امن اور تعمیر سے زیادہ بگاڑ، تخریب اور فساد کا باعث بن رہا ہے، اور یہی چیزیں کسی بھی قوم کے زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

دنیا کی قوموں میں پائی جانے والی یہ مشترکہ نفرت امریکا کے وجود کے لیے ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہے گی اور اس کی سالمیت ہمیشہ دائو پر لگی رہے گی۔ مستقبل قریب میں نظر آنے والے امریکی زوال کا ایک بڑا سبب یہ عالم گیر نفرت بھی ہوگی۔

اخلاقی انحطاط

کوئی بھی قوم اپنے استحکام کے بعد جب اپنی توانائیاں، وسائل اور قوتیں عیش و عشرت، اخلاقی اقدار کی پامالی اور تخریبی سرگرمیوں کی نذر کرنے لگتی ہے تو اخلاقی انحطاط کا باعث بنتی ہے۔ شہوت اور بدکاری کا فروغ اس قوم کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جنسی بے راہ روی نے انسانوں کو کبھی پنپنے نہیں دیا، جب کہ امریکا میں  تو یہ سب سے سوا ہے۔ ان کے ہاں ماں اور بہن کے مقدس رشتے بھی عرصے سے پامال ہو رہے ہیں۔ ۱۰، ۱۲ برس کی نابالغ بچیاں بھی زنا بالرضا یا زنا بالجبر کا شکار ہیں۔

مغربی معاشرے کی مانند امریکا میں بھی صنفِ مخالف کے ساتھ بدکاری کے ساتھ اب مردوں کو اپنے ہی مرد دوستوں اور عورتوں کو اپنی ہی خاتون دوستوں کے ساتھ عصمت دری پر    فخر محسوس ہونے لگا ہے۔ ایسے افراد کو Lesbians (لیسبئین) اور Gays (گے)کہا جاتا ہے اور یہ لوگ خود کو بلاجھجک ہم جنس پرست کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔ امریکی فوج میں بھی جنسی حیوانیت اب عروج پر ہے۔ مرد فوجی افسران کی جانب سے ماتحت خاتون فوجیوں پر جنسی حملے اب عام بات ہے۔ فوج میں عورتوں کی بے روک ٹوک بھرتی نے فوج کے اخلاق پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اس موضوع پر مستند اعداد و شمار اور کتابیں بھی منظرعام پر آنے لگی ہیں۔

’ننگوں کے عوامی کلب‘ کا قیام اس بدکاری کی ایک اور بگڑی ہوئی شکل ہے۔ بدکاری و  بے حیائی کی اس سے زیادہ تفصیل بیان کرنے سے قلم کو بھی حیا محسوس ہوتی ہے۔ ان بنیادوں پر معاشرہ آخر کب تک متحد و مضبوط رہ سکتا ہے؟ ماضی میں بھی ’صدوم‘ کا شہر اپنی جنسی بدکاریوں اور عملِ قومِ لوط کی وجہ ہی سے تباہ ہوگیاتھا۔ امریکا کو آج اس کلیے سے استثنا کیسے مل سکتا ہے؟

اخلاقی زوال محض جنسیات اور فحاشی ہی کو نہیں کہا جاتا، بلکہ کذب و افترا اور سفاکی و بے رحمی کو بھی اخلاق و کردار کی موت گردانا جاتا ہے جس میں امریکی حکومتیں کبھی شرم محسوس نہیں کرتیں، جیساکہ عراق پر جنگ مسلط کرنے کے لیے من گھڑت الزامات تراشے گئے، نائن الیون کا قصہ گھڑا گیا اور تاحال اس کی منصفانہ تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔ امریکا نے مروجہ عالمی قوانین و ضوابط کو بری طرح پامال کیا، انسانی حقوق کو مجروح کیا، عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی ساکھ متاثر کی، گوانتانامو اور ابوغریب جیلوں میں جس بُری طرح انسانیت کی تذلیل کی، یہ سب امریکا کے اخلاقی انحطاط کی واضح علامات ہیں۔

سابق امریکی صدر جمی کارٹر امریکا کے اخلاقی بحران پر تشویش کا اظہار اپنی کتاب: Our Endangered Values: America's Moral Crisisمیں کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: امریکا داخلی انتظامی حوالے سے شدید بحران کا شکار ہے (ص ۲۳)۔ ۳۵ زیادہ آمدنی والے ملکوں میں ہونے والے مجموعی قتلوں سے ۱۹ گنا زیادہ قتل امریکا میں ہوتے ہیں۔ گویا سب سے زیادہ قتل امریکا میں ہوتے ہیں (ص ۲۹)۔ امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہیں، جب کہ یہ ایک مرتبہ اسقاطِ حمل کرا چکی ہیں۔ ۷۰ گنا زیادہ لڑکیاں سوزاک کا شکار ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجرز کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ   امریکی ٹین ایجرز ایڈز کا شکار ہوتے ہیں (ص ۸۰)۔ جب امریکیوں سے ہم جنسی پرستی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کی اکثریت اثبات میں جواب دیتی ہے (ص ۳۰)۔ اب طلاق   خطرناک حد تک عام ہوچکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ فی صد کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہوچکی ہے (ص ۷۵)۔ (امریکا کا اخلاقی بحران، جمی کارٹر، مترجم: محمد احسن بٹ، دارالشعور، لاہور)

خارجہ پالیسی میں انتہاپسندانہ رویہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی حقوق کی پامالی پر مذمت کرتے ہوئے وہ امریکا کی بقا کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ امریکا کو ایسا مرکز بننا چاہیے جس کے گرد جمع ہوکر دنیا کے سارے ملک سلامتی اور ماحول کو لاحق خطرات سے لڑیں۔ ہمیں ضرورت مند لوگوں کو انسانی امداد مہیا کرنے میں سب سے آگے ہونا چاہیے (ایضاً، ص ۱۸۳)___ مگر امریکا کی روش اور حقیقت سب پر عیاں ہے کہ وہ تباہی کی کس راہ پر گامزن ہے۔

خاندانی نظام کی تباھی

کسی بھی قوم کے زوال میں خاندانی نظام کی تباہی کا بھی نمایاں کردار ہوتا ہے۔ امریکا کی تباہی میں ایک دوسرا سبب اس کے خاندانی نظام کی تباہی ہے۔ پورے مغرب کی طرح امریکا میں خاندان یک جا و متحد نہیں ہے۔ حالانکہ خاندان کی مضبوطی ہی سے معاشرے اور ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ پیسے کی اندھا دھند ہوس اور خاندانی ذمے داریوں سے فرار، بے پناہ مصروفیات، شہوت اور جنسیت، نیز ناجائز بچوں کی بھرمار نے ان کے اندر باپ بیٹے، میاں بیوی اور دیگر خونی رشتوں کی تقدیس ختم کر کے رکھ دی ہے۔ خاندان کے خاندان بکھر چکے ہیں اور کوئی کسی کا سہارا بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔ جس کو جو کرنا ہے، وہ خود کرے یا حکومت اس کی کفالت کرے۔

ہرشخص سمجھتا ہے کہ وہ کیوں کسی کا بوجھ اٹھائے، خواہ وہ اس کی بیٹی اور ماں ہی کیوں نہ ہو۔ بڑی عمر کے والدین بھی انھی بنیادوں پر ان کے لیے بوجھ بن گئے ہیں اور اِس ’بیکار حیثیت‘ میں امریکی اپنے بزرگوں کے مسائل میں حصہ دار بننے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے پوری امریکی    قوم نے بزرگوں کے لیے ’اولڈ ہائوسز‘ کو ایک قطعی ضرورت کے طور پر لازم سمجھ لیا ہے۔ زندگی کو ’ٹھیک ٹھاک‘ طور پر گزارنے کے لیے ماں اور باپ دونوں کو ملازمت کی ضرورت ہے، اس لیے تھوڑی بہت پیدا ہونے والی جائز و ناجائزاولاد کے لیے بھی ان میں سے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’اولڈ ہائوسز‘ کے ساتھ ’بے بی ڈے کیئر‘ مراکز بھی امریکی معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ اصل خاندان کے بدلے اب حکومت ان کا خاندان بننے کی کوشش کر رہی ہے جس کے نتیجے میں حکومت پر غیرضروری مالی دبائو کا اضافہ ہو رہا ہے۔ انھی وجوہات کی بنیاد پر  امریکا میں خودکشیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ محبت، شفقت، سہارے اور دکھ درد میں شرکت کے بغیر آخر کوئی کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟ حد سے زیادہ بے رحم معاشرے میں پھر خودکشیاں ہی جنم  لے سکتی ہیں۔ یہ تمام عوامل کسی ملک کے استحکام کے خلاف ایک بڑا خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔

آبادی کم کرنے کا جنون

مغرب کو ہلاکت اور تباہی کی طرف لے جانے والا ایک اہم پہلو قطع نسل، یعنی آبادی کم کرنے کا رجحان ہے۔ پورا مغرب مالتھس کے نظریۂ آبادی کا مارا ہوا ہے اور جگہ اور غذا کی قلّت کے احمقانہ خوف سے اپنی شرحِ پیدایش کو جنون کی حد تک کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ امریکا بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی آبادی کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے ریاستی امور چلانے کے لیے اسے آج افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔ معمر افراد کی تعداد وہاں بڑھ رہی ہے، جب کہ نوجوانوں کا تناسب گھٹتا جا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا میں غیرملکی افراد اور آبادی کا تناسب بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کے لیے تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے۔

سابق ری پبلکن صدارتی امیدوار، اور گذشتہ تین صدور کے مشیر پیٹرک جے بکانن نے بھی مقامی آبادی کے مسلسل گھٹنے اور مسلم آبادی کے پیہم بڑھنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔  اپنی کتاب Death of The West میں اس نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ    ان حالات میں مغرب اپنی موت کو خود دعوت دے رہا ہے۔ بکانن نے امریکا کے بارے میں بھی زور دے کر کہا ہے کہ اب امریکیوں کو بھی خود اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔

امریکا اور یورپ کے دانش وروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مقامی آبادی کی قلت اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یورپ اور امریکا کے بعض شہر ازخود مسلم شہروں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ان ممالک کی مقامی و مرکزی حکومتوں میں مسلم ورزا کا تقرر پہلے ہی ہونے لگا ہے۔ امریکی سرکاری اداروں حتیٰ کہ اس کے دفاعی شعبوں میں بھی آج لاتعداد مسلمان اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ نجی و کاروباری شعبوں کے لحاظ سے تو کہنا چاہیے کہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمان ہی ان شعبوں کو چلا رہے ہیں۔ اپنی آبادی کی قلت کے باعث امریکا مجبور ہے کہ وہ باہر سے درآمد شدہ مسلم کارکنوں کو اپنے ہاں کھپائے ورنہ اس کا نظام تلپٹ ہوجائے گا۔ انسانی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھ سکتی ہیں لیکن فطرت کی خاموش کارروائیاں اپنے اثرات چھوڑے بغیر نہیں رہتیں اس لیے کہ فطرت کی سزائیں تو ہمیشہ ہی بے رحم ہوتی ہیں۔ بقول اقبال  ع

حذر اے چیرہ دستاں بہت سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
یھود کا اثر ورسوخ اور عیسائی دشمنی

امریکا کے زوال کی ایک اور اہم وجہ یہودیوں کی وہ ازلی فطرت ہے جس کے تحت ان کے دلوں میں عیسائیوں کے خلاف بدترین کینہ و انتقام موجود ہے۔ عیسائیوں نے گذشتہ ۲ ہزار برسوں میں انھیں ہر مقام پر ناقابلِ تصور طور پر ظلم و تشدد سے دوچار کیا ہے (کیونکہ وہ انھیں اپنے پیغمبر کا قاتل گردانتے ہیں)۔ یہودی مذہبی کتابوں تالمود وغیرہ میں عیسائیوں کے خلاف یہودیوں نے صاف صاف احکام درج کیے ہیں کہ انھیں جہاں پایا جائے، قتل کردیا جائے اور زمین کو ان سے پاک کردیا جائے۔ اس لیے اس وقت بظاہر ان کے ساتھ دوستی کا رویہ رکھتے ہوئے بھی (جسے وہ اپنے تقیے کے لحاظ سے جائز قرار دیتے ہیں) یہودی انھیں تاراج کرنے کے اپنے خفیہ منصوبوں پر عمل پیرا رہتے ہیں۔

ٹوئن ٹاورز امریکا پر نائن الیون کے بدترین حملے کا واقعہ بھی آہستہ آہستہ اب ساری دنیا پر اپنی حقیقت آشکار کرتا جا رہا ہے۔ خود امریکی و مغربی مصنفین کہنے لگے ہیں کہ یہ حملہ سراسر ایک اسرائیلی سازش تھی جس کے ذریعے وہ ایک طرف مسلمانوں کو اور دوسری طرف خود امریکا کو بھی نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ امریکا میں اب ایسی کئی کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں جن کے مصنفین نائن الیون کی اس سازش کو کھلے عام یہودیوں سے منسوب کر رہے ہیں۔ ریگن انتظامیہ کے دور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف ٹریژر ڈاکٹر پاول رابرٹس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ۱۱ستمبر کو ہونے والا حملہ بش انتظامیہ کے عہدے داروں، امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کی مشترکہ کارستانی کا نتیجہ تھا جس کا مقصد عرب ممالک کو اپنا مطیع بنانا اور افغانستان و عراق پر کارروائی کا جواز پیدا کرنا تھا۔

ایڈمرل تھامس مُورر نے یہ حیران کن بات بھی کہی کہ ’’اگر امریکی عوام کو یہ علم ہوجائے کہ ہماری حکومت پر اسرائیلی گماشتوں کی گرفت کس قدر مضبوط ہے، تو وہ اُن کے خلاف بغاوت پر اُتر آئیں۔ ہمارے شہریوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ (اندرونِ خانہ ہماری حکومتوں میں) کیا ہو رہا ہے؟ سابق سینیرایڈوائزر اسٹینلے ہلٹن نے بھی یہ بات اس انداز سے کہی ہے کہ ان لوگوں کا ایک ایسا واضح ایجنڈا ہے جو ہمارے ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں، ویب سائٹ:rense.com)

امریکا کے ایک اور معروف فلسفی اور اسرائیلی و امریکی حکومتوں کے ناقد پروفیسر نوم چومسکی نے امریکا کو ’دنیا کا سب سے بڑا دادا گیر ملک‘قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ویت نام میں امریکی جارحیت ۲۰ویں صدی کی سب سے بڑی جارحیت تھی۔ اس نوع کے تبصرے اس نے اپنی بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب دی روگ اسٹیٹ میں کیے ہیں۔

عالمی معاشی بحران کی زد میں

ایک اور اہم سبب جس کے تحت امریکا کا زوال دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے،وہ حالیہ برسوں میں اس کی پایدار و مضبوط معیشت کا بدترین بحران سے دوچار ہونا ہے۔ معیشت کے منفی اثرات کے تحت وہاں کے ایک دو بڑے بنک بھی دیوالیہ ہوگئے ہیں، جب کہ ایک سے زائد بین الاقوامی کارپوریشنوں نے اپنے کاروبار کو محدود کرکے ہزاروں ملازمین کو ان کے کاموں سے فارغ کردیا ہے۔ بل گیٹس کی عالمی سوفٹ ویئر کمپنی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ہزاروں ملازمین کا بوجھ مزید برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہے۔ امریکا میں مکانوں کی قیمتوں میں تیزی سے زوال آیا ہے لیکن اس کمی کے باوجود وہاں لوگوں میں مکانات خریدنے یا اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ امریکی معیشت کے اس ناگہانی ہچکولے نے پوری دنیا کو چونکا کے رکھ دیا ہے اور عالمی مفکرین پیش گوئی کرنے لگے ہیں کہ اس کا لازمی نتیجہ ملک کے عدم استحکام کی شکل میں سامنے آئے گا۔ خود امریکی نیشنل انٹیلی جنس نے بھی واضح کیا ہے کہ امریکا کو درپیش چیلنجوں میں جاری معاشی بحران سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر ڈینئیس بلیئر نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر بھڑک اٹھنے والی عدمِ استحکام کی آگ، امریکا کے لیے انتہائی فوری نوعیت کا خطرہ بن گئے ہیں۔ اس بیان سے امریکا کی ساکھ کے لیے طویل المدت خطرے کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۱۴ فروری ۲۰۰۹ء)

ایک اور رپورٹ کے مطابق بے روزگاری اور ملازمتوں سے فارغ کرنے کا اعلان امریکا میں اس قدر معمول بن گیا ہے کہ امریکی صدر اوباما نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے قبل مائیکروسوفٹ اور دیگر پانچ ممتاز امریکی کمپنیوں کا نام لے کر بتایا تھا کہ یہ کمپنیاں ایک ہی دن میں کئی ہزار افراد کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا اعلان کرچکی ہیں، جب کہ معیشت میں ابھی مزید بدحالی آنے کا امکان ہے اور اس کا کوئی حل بھی تاحال پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔ کاروباری گہماگہمی والے علاقوں میں ایسی دکانیں اور دفاتر مسلسل نظر آنے لگے ہیں جن پر ’کرایے کے لیے خالی‘ کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ مکانات اور پراپرٹی کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور مزید کمی کے آثار بھی نظرآرہے ہیں، جب کہ خریداروں کا ملنا مشکل نظر آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ۲۰۰۹ء کا سال بھی امریکی کمپنیوں اور کاروبار کے لیے مایوسیوں اور ناکامیوں کا سال ثابت ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

ادھر روسی صدر پیوٹن نے خود امریکا ہی کو اپنی معیشت کی تباہی کا ذمے دار ٹھیرایا ہے۔ انھوں نے سابق امریکی انتظامیہ (بش اور اس کی کابینہ) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال (۲۰۰۸ء) میں کونڈولیزارائس نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا ایک بہت مضبوط اور محفوظ معاشی طاقت ہے، تاہم گذشتہ ۶ماہ میں وال اسٹریٹ سے بڑے بڑے مالیاتی امریکی اداروں کا غائب ہوجانا امریکی غلطیوں کا واضح ثبوت ہے۔

روس کے بکھر جانے کے عمل میں دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ اس کی زوال سے دوچار معیشت بھی تھی جس نے وہاںکے کروڑوں افراد کو اپنے حکمراں گروہ کے خلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم کے بعد برطانوی معیشت بھی بُری طرح ڈوب چکی تھی، اس لیے برطانیہ نے بھی مقبوضہ نوآبادیات کا بوجھ اپنے سروں سے اُتار پھینکنا شروع کر دیا تھا اور یوں اپنی سلطنت کو اُس کی ابتدائی حدود میں سمٹ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ملک کی سالمیت یا عدمِ سالمیتکی صورتِ حال میں معیشت کے اہم کردار کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

عراق اور افغانستان کو اپنا باجگزار بنانے کی خاطر امریکا نے گذشتہ چند عشروں سے ان ممالک پر جو جنگیں مسلط کی ہوئی ہیں، ان پر اٹھنے والے بھاری اخراجات نے بھی امریکی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس وقت تک امریکی بجٹ کے ارب ہا ڈالر اس بے مقصد جنگ کی نذر ہوچکے ہیں جو اگر ملک کے اندر صرف ہوتے تو وہاں اِس قدر تیزی سے زوال نہ آتا۔

دوسری طرف معاشرے میں کریڈٹ کارڈز کے بڑھتے ہوئے فیشن نے بھی امریکیوں کو کنگال کردیا ہے۔ ’جیب میں کچھ نہ ہو، اور سب کچھ خرید لو‘ کے دھوکے نے پورے امریکی معاشرے کو کئی عشروں سے جکڑا ہوا ہے۔ ’قرض کی اس مے‘ کو آخرکار کبھی نہ کبھی رنگ لانا ہی تھا۔ سو اس کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ سود کے بے رحمانہ نظام کے باعث بھی ہر امریکی گردن تک شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور پورے معاشرے کی دولت سمٹ کر ۲، ۳ فی صد بنکاروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے۔ گردشِ زر جو معیشت میں دورانِ خون کا درجہ رکھتی ہے، سود اسے مفلوج کردیتا ہے اور اسی لیے اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ یہودیت میں بھی کم از کم باہمی طور پر تو سود کو شرعاً حرام ہی ٹھیرایا گیا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بھی سودی قرضوں کے باعث اشخاص انفرادی طور پر اور کاروباری ادارے اجتماعی طور پر تباہ و برباد ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ پاکستان بھی غیرملکی سودی قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہونے کے باعث استعماری طاقتوں کا مُہربلب غلام بننے پر مجبور ہے۔

صحافی رابرٹ سیموئیل نے امریکی ہفت روزہ نیوزویک کے شمارے میں لکھا ہے کہ دو سال قبل کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی ان حالات کی پیشین گوئی نہیں کرسکتا تھا۔ لوگوں کو عیش و عشرت کی جو عادت پڑی ہوئی ہے، اسے اب دوبارہ نہیں لایا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ امریکیوں کا اصل مسئلہ ان کا آسایشوں کا عادی ہونا ہے۔ آسایشیں ان کے لیے ’بنیادی ضرورت‘ کا درجہ اختیار کرگئی ہیں۔

امریکی معیشت کی خرابی کا مزید امکان اس وجہ سے بھی ہے کہ امریکیوں کو اب ٹیکسوں میں مہیب اضافے کے خطرات کا بھی سامنا ہے۔ کانگریس کے بجٹ آفس کے تخمینوں کے مطابق موجودہ (ملازمتی) فوائد کو اگر جوں کا توں بھی رکھا جائے، تب بھی ۲۰۳۰ء تک ٹیکسوں میں ۵۰ فی صد تک کا اضافہ کرنا تو ناگزیر ہی ہوگا۔ (بحوالہ معارف فیچر سروس، کراچی، یکم جنوری ۲۰۰۹ء)

امریکا کے بعد

معروف امریکی جریدے نیوزویک کے ایڈیٹر فریدزکریا نے بھی امریکی زوال پر ایک کتاب دی پوسٹ امریکن ورلڈ لکھی ہے جس میں اس نے اس راے کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے مقابلے میں چین، بھارت، برازیل، روس، جنوبی افریقہ اور کینیا جیسے ممالک معاشی طور پر نہایت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی عمارتیں، بڑے بڑے ڈیم، سب سے زیادہ کاروبار کرنے والی فلمیں، موبائل فون، کاریں، کمپیوٹر پروگرامز، سب کے سب امریکا سے باہر ہی بن رہے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اب صرف امریکا ہی واحد طاقت نہیں رہا ہے بلکہ طاقت کے یہ مراکز اب امریکا سے کہیں باہر منتقل ہو رہے ہیں اور یہی امریکا کا زوال ہے (ص ۸)۔ وہ کہتا ہے کہ ’’بہت سے تبصرہ نگاروں اور ماہرین نے دنیا کی اس نئی ظاہر ہونے والی طاقت کو دیکھ کر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکا کے دن اب گنے جاچکے ہیں۔ کسی بھی ملک  میں تنزل کی رفتار اتنی زیادہ تیز نہیں دیکھی گئی جتنی تیزامریکا میں دیکھی گئی ہے (ص ۴۱، ۴۸)۔  فرید زکریا نے امریکا کے عالمی کردار پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’امریکا نے دنیا کو تو عالم گیر بنا دیا لیکن بدقسمتی سے وہ خود اپنے آپ کو عالم گیر بنانا بھول گیا‘‘۔ (ص ۴۹)

اپنے تجزیے کے آخر میں وہ لکھتا ہے کہ دنیا زیادہ عشروں تک یک قطبی (unipolar) نہیں رہے گی بلکہ ایک دن اچانک بدل جائے گی اور کئی نئی طاقتیں اُبھر کر سامنے آجائیں گی۔ امریکا، اگر پرچار کسی ایک چیز کا کرتا ہے اور عمل کسی دوسری چیز پر کرتا ہے، تو ایسا طرزِعمل قول و فعل کے تضاد پر مبنی ہے جو امریکا کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ امریکا کو اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرنی چاہیے اور طاقت کے غیرضروری استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے  اس کی مخالفت میں اضافہ ہوگا۔ امریکا کو جس قسم کے بین الاقوامی چیلنج درپیش ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ وہ دشمنوں میں اضافہ کرنے کے بجاے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ (فی الوقت) دنیا میں اس کے دوستوں کی تعداد کم ہورہی ہے، جب کہ اس کے مخالف اور دشمن بڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں امریکا کا کوئی کردار نہ ہو، یعنی دنیا امریکا کے بغیر ہو (اختتامی صفحات) ___ اوباما کی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں حالیہ پالیسی سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امریکا نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور وہ اپنے مخالفین میں اضافے اور اپنی تباہی پر تُلا بیٹھا ہے۔

ایک روسی دانش ور اور سفارت کار ایگورپینارین (Igor Panarin) نے بھی ۱۹۹۸ء میں پیشین گوئی کی تھی کہ ۲۰۱۰ء تک امریکا ۴ حصوں میں ٹوٹ جائے گا لیکن اس وقت اس کی  پیشین گوئی پر کان نہیں دھرے گئے، جب کہ اب اس کی فراست و بصیرت کی تحسین کی جارہی ہے۔ پینارین کے بقول: اقتصادی بحران، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور اخلاقی انحطاط کے نتیجے میں سول وار ہوگی اور ڈالر کی قیمت گر جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۱۰ء تک امریکا، ۶ آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ کیلی فورنیا جمہوریہ کیلی فورنیا بن جائے گا اور چین کے زیراثر آجائے گا۔ ٹیکساس جمہوریہ ٹیکساس بن جائے گا جو میکسیکو کے زیراثر چلا جائے گا۔ واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک اٹلانٹک امریکا کا حصہ ہوں گے جو یورپی یونین میں بھی شامل ہوسکتا ہے۔ سنٹرل نارتھ امریکا جمہوریہ کینیڈا کی عمل داری میں ہوگا۔ جمہوریہ ہوائی چین یا جاپان کے مفادات کو پیش نظر رکھے گا، جب کہ الاسکا روس میں شامل ہوجائے گا۔ یہ ماضی میں بھی روس کا حصہ رہا ہے۔

دسمبر ۲۰۰۸ء میں معروف امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل میں روسی فلاسفر آئیگور نکول وچ نے اسی پیشین گوئی کو دہرایا کہ ۲۰۱۰ء میں امریکا کے ۶ ٹکڑے ہوجائیں گے۔ دوسری طرف ماہرین کے تجزیوں اور عالمی سرووں کے مطابق حالیہ مالیاتی بحران سے امریکا کا سنبھلنا ممکن  نظر نہیں آتا بلکہ اس سال کے آخر میں بحران سنگین تر ہوجائے گا۔ رئیل اسٹیٹ صنعت کے اُبھرنے کے امکانات نظر نہیں آرہے، لوگوں میں خریدنے یا کرایے پر لینے کی سکت نہیں، لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، لوگ کاروباری مراکز کرایے پر لینے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا امریکا کا مستقبل مخدوش ہے۔

مندرجہ بالا حقائق اور اعداد و شمار سے یہ حقیقت بہت واضح طور پر اُبھر کر سامنے آرہی ہے کہ امریکا اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ روسی اسکالر نے امریکا کے ٹوٹ جانے کی پیشین گوئی محض ۲۰۱۰ء کی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ حادثہ فی الفور وقوع پذیر ہوجائے۔ ایک قدیم و مستحکم ملک کو منتشر ہوتے ہوئے بھی ۱۰، ۲۰ سال کا عرصہ مزید لگ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو زوال سے دوچار کرنے میں خود اس کی اپنی پالیسیاں اور عوامل نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کی ان پالیسیوں پر خود امریکا میں بھی علمی حلقوں اور عوامی سطح پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ اپنی روش نہیں بدلتا اور مجموعی طور پر دنیا میں فساد اور بگاڑ ہی کا باعث بنتا ہے تو خدا کے قانون کے تحت زوال اس کا مقدر ہے۔ دنیا میں اُبھرتی ہوئی نئی قوتیں اس تبدیلی کی نشان دہی بھی کر رہی ہیں۔ امریکا کے نئے عالمی نظام کی ناکامی سے ایک ایسے منصفانہ عالمی نظام کی پیاس بھی بڑھ رہی ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے، امن و امان کا ضامن بن سکے اور انسان دنیا میں چین کی زندگی گزار سکے۔ یقینا اس حوالے سے اسلام کو نظریاتی برتری حاصل ہے اور وہ ایک متبادل عالمی نظام کے خلا کو پُر کرسکتا ہے مگر عالمِ اسلام کو اس مقام کے حصول کے لیے ابھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ عالمی امن کا ’ضامن‘ تو اسلام ہی ہے اور اسے ہی بالآخر غالب آنا ہے، اور اس طرف پیش رفت بھی ہو رہی ہے، تاہم وقتی ضرورت کی تکمیل کے لیے خدا کی طرف سے عارضی نظام کا قیام ناگزیر ہے۔

قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ کا جومسودہ وفاقی وزارتِ تعلیم، حکومت پاکستان نے مشتہر کیا ہے، وہ ۱۱ ابواب اور ۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پیش کردہ حقائق کا مطالعہ اور بیان کردہ اہداف کا تجزیہ کرتے ہوئے چند باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں، جنھیں اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے:

  •  اس دستاویز کو تعلیمی پالیسی کہنا نامناسب ہوگا۔اس کا بیش تر حصہ، ماضی کے تعلیمی عمل پر غیر مربوط تنقید پہ مشتمل ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اندازہ نہیں ہوتا کہ کوئی صحت مند تعلیمی منصوبۂ عمل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی تیاری میں نہ قومی مشاورت کی گئی ہے، اور نہ پہلے سے موجود تعلیمی دستاویزات کو اہمیت دی گئی ہے۔
  •  اس میں پاکستان کے نظامِ تعلیم کا جو مقصد اور وژن متعین کیا گیا ہے(ص۱۹)، وہ پالیسی سازوں کی سیکولر ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ اس میں خاص طور پر ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جن سے کسی درجے میں پاکستان کی اسلامی شناخت کا شائبہ تک نہ دکھائی دے۔ کہا گیا ہے:’’پاکستانیوں کی اکثریت اپنی تہذیبی اقدار اسلام سے اخذ کرتی ہے۔ کوئی بھی نظامِ تعلیم کسی بھی معاشرے کی سماجی ،ثقافتی اور اخلاقی قدروں کے اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں بڑی مداخلت تو ایمانی اقدار کی بنا پر ہے… قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے، تاہم پالیسی کے اصول، دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۹، ۳۰، ۳۳، ۳۶، ۳۷، ۴۰ کی روشنی میں وضع کیے جائیں گے‘‘(ص۹) اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ پہلے آرٹیکل تو ریاست کی حکمت عملی سے متعلق ہیں اور اگلے آرٹیکلز کا تعلق پس ماندہ علاقوں اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ سے ہے۔ یہاں پر پالیسی سازوں کی جانب سے آرٹیکل ۲۹ سے آرٹیکل ۴۰ کے اس سفر میں دانستہ طور پر، آرٹیکل ۳۱ کو بھلا دینے، نظر انداز کر دینے، چھوڑ دینے یا کوئی بے کار چیز سمجھنے کا شعوری تاثر دیا گیا ہے۔ اب دیکھیے دستور پاکستان کا آرٹیکل۳۱:

۱- پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت [رسولؐ] کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میںمملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا، اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔ (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیارات کی پابندی کو فروغ دینا۔

اس پالیسی دستاویز میںدستور پاکستان کا حوالہ دیتے وقت دانستہ طورپراس آرٹیکل کو نظر انداز کرنا خود ایک مشکوک عمل ہے۔ یہ ایک طرح سے قرآن، سنت ِ رسولؐ، اسلامی تصورِ زندگی اور عربی سے چھٹکارا پانے کی خواہش کا اظہار ہے۔

  •  یہ دستاویز اُن تمام بکھرے اور غیر منطقی بیانات کا مجموعہ ہے، جسے جنرل (ر) پرویز مشرف کی سرپرستی میں ،۲۰۰۶ کے دوران تعلیم کا وائٹ پیپر کی صورت میں متعارف کرایا گیا تھا، اور جسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔  اسی لیے وہ تعلیمی شب خون پالیسی نہ بن سکا، لیکن اب وزارت تعلیم اسی فکری و تعلیمی تخریب کو نافذ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔
  •   مختلف بلائیں ایک ہی وقت میں نازل ہوں تو خطرات اور تباہی کی شدت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ گذشتہ ۸ برسوں کے دوران میں امریکی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی  پے در پے دستاویزات میں یہ سفارش کی جا رہی ہے کہ: مسلم دنیا کے نظامِ تعلیم کو سرکاری کنٹرول سے نکال باہر کیاجائے۔ یہی سفارش نائن الیون کمیشن نے بھی کی ہے، اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس پالیسی دستاویز نے بھی ’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘ (PPP) یعنی سرکاری نجی شراکت کو ترویج دینے کے لیے خوش نما الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ ایک جگہ کہا ہے: ’’اس مقصد کے لیے تمام صوبائی بجٹوں میں رقوم مختص کی جائیں گی، تاکہ خیراتی تنظیمیں اس میدان میں خدمات انجام دے سکیں‘‘ (ص۲۱) ’’صوبائی حکومتیں، نجی شعبہ تعلیم کی حوصلہ افزائی کریں گی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو ابھارا جائے گا کہ وہ نجی شعبۂ تعلیم سے استفادہ کریں‘‘ [ص۲۶] ۶۷ ہزار نجی تعلیمی اداروں میں کتنے خیراتی یا غریب پرور تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب پوری قوم جانتی ہے، اور یہ حقیقت بھی ہرکس و ناکس پر واضح ہے کہ خیرات، انسان دوستی اور تعلیم کے نام پر ارب پتی اور کروڑ پتی حضرات یا بیگمات کس کس حربے سے سرکاری وسائل ہڑپ کرکے، اندھیروں میں ڈوبے عوام کو مزید اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ مگراس کے ساتھ جس دوسری بلاکا ذکر ضروری ہے، اس کا تعلق امریکا کی جانب سے دیے جانے والے اس ڈیڑھ ارب ڈالرسالانہ قرضے سے ہے، جسے تعلیم اور صحت کے نام پر، امریکی حکومت براہ راست، غیر سرکاری عناصر کے ذریعے پاکستان کے طول و عرض میں خرچ کرے گی۔ جو ظاہر ہے مالی رشوت، سماجی و ثقافتی تخریب کاری اور سرکاری تعلیمی اداروں پر نام نہاد این جی اوز کے قبضے اور عوامی سطح پر امریکی رشوت ستانی کا ایکشن پلان ہے۔
  •   اہل وطن کو جاننا چاہیے کہ جس رقم کو حکومتیں ’امداد ‘ (Aid)کا نام دیتی ہیں، یہ بیرون ممالک سے کوئی تحفہ یا خیرات نہیں ہوتی، بلکہ یہ قرضے ہوتے ہیں جنھیں بھاری سود کے ساتھ واپس لوٹایا جاتا ہے۔ ایک طرف نجی شعبے کو آگے بڑھ کر سبھی کچھ سمیٹنے کی دعوت دی جا رہی ہے، جب کہ دوسری جانب اربوں روپے خرچ کرنے کے منصوبے بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے: ’عالمی ترقیاتی معاونین‘ سے مل کر اسکولوں کو بہترین شکل دی جائے گی‘‘ (ص۳۲)۔ کیا یہ سب کام عالمی امدادوں سے ہوگا؟کیا یہ رقوم خرچ کرکے اسکولوں کو این جی اوز کے سپرد کیاجاے گا یا بیچ دیا جائے گا، یا پھر اس رقم کا بڑا حصہ ’پڑھا لکھا پنجاب‘ جیسی تشہیری مہمات پر خرچ کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جائے گا اور چند سو گھرانوں میں دولت کو منتقل کرنے کا اہتمام کیا جائے گا؟
  •  ’دہشت گردی‘ کے خلاف موجودہ نام نہاد ’جنگ‘ میں دینی مدارس کا کتنا کردار ہے، اس سوال کا جواب ہر پاکستانی جانتا ہے :’نہ ہونے کے برابر‘، مگر اسی امریکی ’خوف‘ کو سامنے رکھتے ہوئے مال اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری پیرس میں انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’پاکستان کے مذہبی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو متبال تعلیم کے مواقع دینے کے لیے سالانہ دوبلین ڈالر [یعنی ایک کھرب ۶۲ ارب روپے] چاہییں‘‘ (روزنامہ نوائے وقت، جنگ،۱۸ مئی ۲۰۰۹ء)۔ دوسری طرف تعلیمی پالیسی میں کہا جا رہا ہے: ’’مرکزی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایسی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گی، کہ جس کے تحت، دینی مدارس کے طالب علموں کو ایسے مضامین پڑھائے جائیں گے کہ ان کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں‘‘ (ص۲۸)۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان مدارس نے کبھی حکومتوں سے امداد یا ملازمتوں کی درخواست نہیں کی، تو پھر بن مانگے یہ عنایات کیوں؟ ظاہر ہے کہ دینی تعلیم سے چونکہ امریکا کو چڑ ہے، اس لیے امریکی امداد کے بل بوتے پر، اور خود ساختہ ہمدردی کے نام پر رفتہ رفتہ ان اداروں کے خود کار نظام کو جکڑنا مطلوب ہے۔ حالانکہ جدید تعلیم کے جن اداروںپر یہ برسر اقتدار گروہ فخر کرتے نظر آتے ہیں، ان کا اپنا حال خاصا پتلا ہے، نہ تعلیم کے معقول مواقع، نہ نظم و ضبط کا اچھا معیار اور نہ روزگار کی کوئی ضمانت، مگر ان کے بجاے فکرمندی بے چارے دینی مدارس کی؟
  •  اردو کی قومی شناخت کو گم اور علاقائی زبانوں کو نعرہ بازی کا شکار کرنے کے پردے میں، انگریزی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کا عزم اس پالیسی میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلے کہا گیا ہے: ’’پہلی کلاس سے نصاب میں انگریزی بطور مضمون، اردو، ایک علاقائی زبان اور ریاضی شامل ہوگی‘‘ (ص۲۷)۔ اگلی شق میں کہا گیا ہے:’’ علاقائی شعبہ ہاے تعلیم یا صوبے اس  امر کا اختیار رکھیں گے کہ پانچویں تک جو چاہیں ذریعۂ تعلیم منتخب کریں‘‘ (ص۲۷)۔ اس کے بعد لکھا ہے: ’’کلاس چہارم سے اگلے درجوں تک سائنس اور ریاضی کے مضامین انگریزی میں پڑھائے جائیں گے‘‘ (ص۲۷)۔ اس سے اگلی شق میں پھر یہ کہا گیا ہے: ’’۵ سال تک، صوبوں کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ ریاضی اور سائنس کو انگریزی، اردو یا سرکاری طور پرمنظور شدہ علاقائی زبان میں پڑھائیں، مگر پانچ سال بعد وہ یہ مضامین صرف انگریزی میں پڑھائیں گے‘‘۔ (ص۲۷)

ایک ہی صفحے پر متضاد اور غیر حقیقی دنیا کے مشورے دینے والے اِن حضرات سے کسی معقول پالیسی سازی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ باتیں وہی لوگ کر سکتے ہی جو چند بڑے شہروں کے امیر علاقوں کے رہایشی ہوں اور جنھیں پاکستان کے طول وعرض کے سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات کا کچھ علم نہ ہو۔ ایک جانب خود سرکاری کا لجوں اور ہائی اسکولوں میں انگریزی کے معقول اساتذہ کا قحط، اور دوسری جانب بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لیے تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ہے۔ اس صورت حال میں دیہی علاقوں کا بچہ جسے اردو پڑھنے کے مواقع بھی پوری طرح میسرنہیں ہیں، وہ بھلا کس طرح انگریزی میں ریاضی پڑھ سکے گا۔ ریاضی ،سائنس اور غور وفکر کے حامل مضامین کے لیے جتنا بے ساختہ اور فطری ابلاغی عمل مادری یا قومی زبان میں ممکن ہے، انگریزی یا بدیسی زبان میں ممکن نہیںہے۔ کیا اس غیر سائنسی اقدام کے ذریعے بچوں کو ابتدائی درجے ہی میںاسکولوں سے بھگانے یا رٹہ لگا کر بے سمجھے بوجھے ، انگریزی اور سائنس و ریاضی سے بے بہرہ کرنے کے عمل کو دانش مندی تصور کیا جا سکتا ہے؟ یادرہے ۱۹۷۳ میں نافذ ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۲۵۱ میں قوم سے وعدہ کیا گیا تھا: (۱) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یومِ آغاز سے ۱۵ برس [یعنی ۱۹۸۸] کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال ہونے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ (۲) شق (۱) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک دفتری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی، جب تک کہ اس کو اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں‘‘ … بجاے اس کے کہ دستور کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اقدام کیا جاتا، تجویز یہ کیا جا رہا ہے کہ اس ہدف سے جتنا ممکن ہودور ہوا جائے۔ جمہوری حکومت اور دستور کا یہ انہدام عبرت کا مقام ہے۔

  •  پالیسی میں تجویز کردہ درسی اور نصابی کتب کے لیے حکمت عملی، بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ اگر اس پالیسی میں ’فیڈرل سپر ویژن آف ٹیکسٹ بکس اینڈ مین ٹیننس آف سٹینڈرڈز آف ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۷۶ء‘ ہی کو نکتۂ آغاز بنا لیا جاتا، تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے لیکن اس ایکٹ کا نام لینے (ص۳۹) کے باوجود جو تجاویز (ص ۴۰-۴۱) دی گئی ہیں، وہ نہ صرف قومی مفادات سے ٹکراتی ہیں، بلکہ خود ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے منظورکردہ مذکورہ ایکٹ کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہیں۔ یہ ایکٹ، نصاب اور درسی کتب کو ایک قومی معیار اور ضابطے کا پابند بناتا ہے، جب کہ زیربحث دستاویز، صرف نصابی خاکے کو تجویز کرکے، درسی کتب میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کا پھاٹک کھولتی ہے۔ جس کے متعدد مضمرات ہیں، مثلاً: کتب کا غیر معیاری ہونا، کتب کا مہنگا ہونا، کتب کا آپس میں متحارب ہونا، اور چند اداروں کی اجارہ داری اور فکر و دانش کی دنیا میں انتشار کو پروان چڑھانا۔ بھارت جیسا کثیر آبادی کا ملک ایک نصاب، ایک نوعیت کی درسی کتب اور ایک امتحانی نظام کے ساتھ پورے تعلیمی عمل کو چلا سکتا ہے تو ہمارے لیے آخر یہ کیوں مشکل ہے؟ کیا اس کا بڑا سبب یہ نہیں ہے کہ ہمارے عالمی نگران یہ چاہتے ہیں کہ قوم میں یک رنگی اور فکری حسنِ توازن پیدا نہ ہو، قوم اور اس کی آیندہ نسلیں چار پانچ نہیں بلکہ بیسیوں طبقوں میں تقسیم ہو کر باہم جنگ وجدل کا منظر پیش کریں۔ ظاہر ہے کہ نصابی خاکے کی بنیادپر تو پرچے ترتیب نہیں دیے جائیں گے،بلکہ کسی مصنف کی درسی کتاب کو بنیاد بنایا جائے گا۔ ہمارے ملک کا بکھرا ہوا نظامِ تعلیم اور اس کا طالب علم اس مناسبت سے جس ذہنی اذیت اور مایوسی کی کیفیت سے گزرے گا، اس کا اندازہ بیوروکریسی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے منتخب عوامی نمایندوںکو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور ایک ملک، ایک ذریعۂ تعلیم اور ایک نصاب تعلیم یا یکساں نظامِ تعلیم کی پالیسی کو نافذ کرنا ہوگا۔
  •  اس پالیسی میں اعلیٰ طبقاتی نظام ہاے تعلیم کو تو پورا تحفظ حاصل ہے، لیکن غریب اہل وطن کا تعلیمی ڈھانچا مسلسل تجربوں کی بھینٹ چڑھتا نظر آتا ہے، اور یہ بھی کوئی حادثاتی عمل نہیں ہے بلکہ ایک سوچا سمجھا رویہ ہے۔ کبھی میٹرک میں نہم دہم کا امتحان جدا جدا، پھر اکٹھا، اس کے بعد دوبارہ جدا جدا۔ یہی حال انٹر میڈیٹ کے امتحانی عمل کا کیا جاتا رہا ہے۔ بیان کیا گیاہے: ’’۱۱ویں اور ۱۲ویں جماعت کے طلبہ کوکالج نہیں بلکہ اسکول کا حصہ بنایا جائے گا‘‘(ص ۳۳)… ظاہر ہے کہ  یہ بات چلے گی نہیں، مگر اس اکھاڑ پچھاڑ میں کم از کم دو تین بیج خوار بلکہ برباد ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان کالجوں کا مصرف آخر کیا ہوگا؟ کیا ۴سالہ ڈگری کورس۔ اگر دیکھیں تو جن چند تعلیمی اداروں کو خود مختاری دے کر ۴ سالہ ڈگری کی راہ پر لگایا گیا ہے، وہ بھی ابھی تک اسے وضع نہیں کرسکے، ایسے میں کالج سے انٹر کلاسیں نکال کر کیا کارنامہ انجام دیا جائے گا؟ یوںہزاروں کالجوں کویا تو اس ادھورے اور ناکام تجربے کی بھینٹ چڑھایا جائے گا، یا پھر سیدھا این جی اوز اور امریکی یا دولت مند اقلیت کے ہاتھوں ان کالجوں کو ۹۹ سالہ لیز پر فروخت کر دیا جائے گا۔ یہ باتیں کسی وہم کی بنا پر نہیں بلکہ گذشتہ ۱۲ سال کے تعلیمی ڈراموں اور ڈی نیشنلایزیشن کے ملفوف ماڈل کو دیکھ کر کہنا پڑ رہی ہیں۔
  •  صحت و صفائی اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت ہر پڑھے لکھے فرد کو ضرورملنی چاہیے، لیکن یہاں اس باب میں موضوع بحث بنایا گیا ہے: ’ایڈز، اور بچوں کی بے حرمتی‘ کو (ص۴۰)۔ حالانکہ دیگر خوفناک بیماریاں (ہیپاٹائٹس، تپ دق وغیرہ)اور طبی مسائل اور ماحولیات کے معاملات وغیرہ بھی نمایاں طور پر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، مگر مذکورہ ۲ ایشوز کی بنیاد پر کلاس روم میں بہت کچھ ناگفتی کہنے کی مشق، کھلے عام جنسی مکالمے کو راہ دے گی۔ پالیسی سازوں کے پیش نظر غالباً اسی  آزاد خیالی کی مکالمہ گوئی کو پروان چڑھاناہے۔
  •  ایک اور دل چسپ صورت حال اعلیٰ تعلیم کے باب (ص۴۸-۵۳) میں ہے۔ بحث کا آغاز بڑی بلندی سے ہوتا ہے، لیکن تان اس بات پر توڑی جا رہی ہے کہ گویااعلیٰ تعلیم عوام الناس کا مسئلہ نہیں ہے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے میدان میں نجی و سرکاری شعبے کی جانب سے قوم کو جس استحصالی صورت حال کا سامنا ہے، اس کا کوئی جواب اس دستاویز میں موجودنہیں۔ کہیں ۴سالہ اور کہیں ۲سالہ ڈگری کورس، کہیں سمسٹر سسٹم اور کہیں کمپوزٹ پاس کورس۔ ایک ہی وقت میں بھانت بھانت کے ماڈل اور فیس لاکھوں میں۔ قوم پریشان ہے کہ کس طرف جائے، کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ اس صورت حال کا نہ جائز ہ پیش کیا گیا ہے اور نہ روشنی کی کوئی کرن ہی دکھائی گئی ہے۔ مزید یہ کہ گذشتہ دورِ حکومت میں جو کروڑوں اربوں روپے وظائف کی صورت میں جھونک دیے گئے، ان کے بارے میں بھی کسی شفاف پالیسی کا اعلان نظر نہیں آتا۔
  •  ’اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی‘ (ص۴۳) کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، مگر کیا صرف سرکاری اداروں میں یہ انتخابات ہوں گے یا تمام نجی اداروں میں بھی؟ دوسری جانب خود وائس چانسلر یونین بحالی کی مخالفت کر چکے ہیں۔مسئلہ کیسے حل ہو؟ اس کا کوئی جواب موجود نہیں۔

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پالیسی دستاویز سرتاپا محض منفی چیزوں کا ملغوبہ ہے، بہرحال جا بجا اس میں مناسب اور اچھی تجاویز بھی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ہیئت ِ حاکمہ کا جو رویہ اپنی تاریخ رکھتا ہے، وہ یہی ہے کہ اچھی چیزوں پر عمل ہو یا نہ ہو، مگر منفی چیزوں پر تو پوری قوت سے عمل کرہی لیا  جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک اس دستاویز میںموجود روشنی پر اندھیرا غالب ہے۔جس سے بچنے کے لیے سیاہ رُو چیزوں کو ابتدا ہی میں نکال دینا چاہیے۔ قومی تعلیمی پالیسی کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا نہیں، بلکہ پوری قوم اور اس کی آیندہ نسلوں کا حق ہے۔ اس لیے تمام منتخب عوامی نمایندوں کو کھلے دل و دماغ کے ساتھ اس پر غور و فکر کرنا اور قوم کوراستہ دکھانا چاہیے۔

 

۴ سالہ  فر.اس کا ایک ہاتھ اس کی والدہ کے ہاتھ میں تھا۔ وہ گاہے اسے سہلاتی اور گاہے اپنے بیٹے کی بند آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی۔ جو انجکشن نرس کے پاس تھا وہی بار بار لگاکر اس کی تکلیف کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی، حالانکہ اسے علم تھا کہ یہ انجکشن اس کا علاج نہیں ہے۔ اس کے والد کو معلوم تھا کہ نسخے میں درج ادویات نہیں مل سکیں گی، لیکن بے تاب ہوکر وہ مزید تلاش کے لیے ہسپتال کے باہر بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ اسی دوران میں اچانک  فر.اس  کی سانس اکھڑی اور پھر چند لمحوں میں، والدہ کے ہاتھ میں تھامی ہوئی اس کی کلائی کسی مرجھائی ہوئی شاخ کی طرح جھولنے لگی۔ ماں باپ آنسوئوں کی جھڑی میں بیٹے کی لاش سنبھالنے لگ گئے۔ یہ منظر غزہ کے ایک ہسپتال کا تھا جہاں ایک فر.اس نہیں، روزانہ کئی فر.اس صرف اس وجہ سے علاج نہیں کروا پاتے کہ  ان کے لیے مطلوب ادویات غزہ میں نہیں پہنچائی جاسکتیں۔ اس لیے کہ غزہ کو تین اطراف سے یہودی ملک اسرائیل نے گھیر رکھا ہے اور چوتھی جانب سے مسلم ملک مصر نے دروازے بند کر رکھے ہیں۔

فر.اس کی رخصتی کا یہ پورا منظر، براہِ راست الجزیرہ ٹی وی پر اس لیے آگیا کہ وہ فلسطین پر صہیونی قبضے کے ۶۱ برس پورے ہونے، اور پوپ مقرر کیے جانے کے بعد پہلی بار کسی مسلمان علاقے کے دورے پر آئے ہوئے عیسائی پیشوا کی مصروفیات پر غزہ سے ایک رپورٹ دے رہا تھا۔ اُردن اور پھر مقبوضہ فلسطین کے اپنے ۸ روزہ دورے میں پوپ بینی ڈِکٹ شانزدہم نے کئی خطبے  اور بہت سے اہم پیغامات دیے۔ پوپ بینی ڈِکٹ کا یہ دورہ ابتدا ہی سے متنازع تھا۔ سب سے پہلا اعتراض اُردن کی سیاسی اور دینی جماعتوں کی طرف سے کیا گیا کہ: پوپ یا مسیحیوں سے ہماری  کوئی دشمنی نہیں ہے، لیکن پوپ نے اپنا یہ مذہبی منصب سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپنے ایک لیکچر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرکے پوری اُمت محمدیؐ کے دل زخمی کیے تھے۔ اسلام کو بزور تلوار پھیلنے والا مذہب قرار دیا تھا، اور ۱۴ویں صدی عیسوی کے ایک بازنطینی حکمران کے وہ قبیح الفاظ دہرائے تھے، جو اس نے ایک مسلمان فلسفی سے مناظرہ کرتے ہوئے آں حضوؐر کے بارے میں کہے تھے۔ اب اگر پوپ واقعی عالمِ اسلام کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے بارے میں کہے ہوئے الفاظ واپس لے لیں۔ مگر افسوس کہ پوپ نے کوئی معذرت نہیں کی اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ: ’’مجھے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس ہے‘‘۔

اپنے تین روزہ دورۂ اُردن اور پانچ روزہ دورۂ مقبوضہ فلسطین کے دوران میں پوپ نے اپنی تمام گفتگوئوں میں یہودیوں کو خوش کرنے کی بار بار کوشش کی۔ اُردن میں واقع جبل نیبو  جو کہ عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے نزدیک مقدس مقام تھا، کے دورے سے ہی انھوں نے محبت ناموں کا آغاز کردیا تھا۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے تو اپنے دورئہ مشرق وسطیٰ کو ’سفرِحج‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’سرزمین مقدس کا حج ہماری قدیم روایت ہے اور یہ سفر ہمیں مسیحی کنیسے اور یہودی قوم کے درمیان وحدت اور ناقابلِ انقطاع تعلقات کی یاد دہانی کرواتا ہے‘‘۔

انھوں نے مسیحی پیشوا ہونے کے ناتے اپنا مغفرت و معافی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے یہودی قوم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی (نام نہاد) پھانسی کی سزا سے بھی بری الذمہ قرار دے دیا۔ انھوں نے یہودیوں پر نازیوں کے (مبالغہ آمیز) جرائم پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور دیوارِ گریہ کا دورہ کرتے ہوئے یہودی عبادات کی پیروی کی اور یہودی روایات کے مطابق دیوار کے شگافوں میں سے ایک شگاف میں اپنی دعائوں اور آرزوئوں پر مشتمل پرچی ٹھونس دی۔ پھر توازن پیدا کرنے کے لیے بعض مسلم مقامات مقدسہ کا دورہ بھی کیا۔ اُردن میں شاہی مسجد، مسجدحسین بن طلال اور بیت المقدس میں گنبد صخرہ بھی گئے لیکن نہ جانے اسے غفلت کہا جائے یا عمداً کی گئی غلطی کہ انھوں نے مسجدحسین کے اندر جاتے ہوئے جوتے اتارنے تک کا تکلف نہیں کیا اور جب یہ عمل احتجاج کا سبب بنا تو ان کے دفتر نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’کسی نے انھیں جوتے اتارنے کا کہا ہی نہیں‘‘۔

سوال یہ ہے کہ پوپ نے اپنے اس ’حج‘ کے لیے فلسطین پر یہودی قبضے اور اسرائیلی ناجائز ریاست کے قیام کی ’برسی‘ کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ خود فلسطینی عیسائی باشندوں کے مطابق یہ دورہ سال کے کسی بھی دوسرے موقع پر ہوسکتا تھا۔ پوپ اور ان کا دفتر شاید اپنے تئیں اس کی کوئی تاویل رکھتا ہو لیکن ’’شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘ کے مصداق، وقت کے اس انتخاب نے ان کے سیاسی مقاصد کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ اپنے اس دینی دورے میں انھوں نے اسرائیلی ذمہ داران اور یہودی مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کیں اور ساتھ ہی ساتھ تقریباً چار سال قبل    اغوا ہونے والے یہودی فوجی گلتاد شالیط کے گھر جاکر ان کے اہلِ خانہ سے بھی اظہار ہمدردی و  یک جہتی کیا۔ معلوم تو انھیں بھی تھا کہ اس وقت صہیونی جیلوں میں ۱۱ ہزار فلسطینی باشندے قید ہیں، جن میں ۳۰۰ بچے اور ۲۹ خواتین بھی ہیں۔ ۴۳ منتخب ارکان اسمبلی اور حماس کے وزرا بھی ہیں اور ان  ہزاروں قیدیوں میں نائل البرغوثی (ابوالنور) نامی ایک قیدی ایسا بھی ہے، جو گذشتہ ۳۵ سال سے مسلسل قید میں ہے۔ ۵۰سالہ نائل ۱۵برس کی عمر میں قید ہوا اور اب وہ دنیا کا سب سے طویل    قید بھگتنے والا قیدی بن چکا ہے۔ اس کے ماں باپ اپنے قیدی بیٹے سے ملاقات کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا کی قید سے آزاد ہوگئے لیکن ابوالنور آزادی کا نور نہیں دیکھ سکا۔ پوپ ان ہزاروں مسلم قیدیوں کی رہائی نہ سہی، صرف عیسائی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہلکا سا اشارہ کر دیتے، مگر یہودیوں کے مقابلے میں وہ اپنے ہم مذہبوں کے لیے بھی یہ ہمت نہ دکھا سکے۔

اس عدمِ توازن کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ نازی جرائم کی مذمت، اور ان پر پوری یہودی قوم سے معذرت تو کر لی گئی، حالانکہ یہ کہانی اپنی انتہائی مبالغہ آمیزی کے باعث متنازع ہے۔ اس کے برعکس جن جرائم کے وقوع پذیر ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، جن جرائم کو پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ غزہ پر گذشتہ دسمبر اور جنوری میں توڑی جانے والی قیامت تو آج بھی غزہ کے حصار کی صورت میں جاری ہے، جہاں نہ جانے کتنے بچے صرف دوا نہ ملنے کے باعث مائوں کی آغوش میں دم توڑ رہے ہیں، اس اکیسویں صدی کے ’نازی ازم‘ کے بارے میں پوپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں ادا ہوسکا۔ بس اتنا فرمایا کہ: فلسطینی اور یہودی شدت پسندی چھوڑ کر بقاے باہمی کی راہ اختیار کریں۔ گویا صہیونی ریاست کی طرف سے فاسفورس بموں کی بارش، گذشتہ ۶۱ برسوں سے جاری بے محابا مظالم، فلسطین کے لاکھوں باشندوں کو اجنبی قرار دے کر انھیں بے گھر کردینا، غزہ کے ۱۵ لاکھ باشندوں کا مسلسل محاصرہ، اور یہودی غاصبوں کے مقابلے میں بچوں کا پتھرائو، غلیلیں لے کر آجانا، اپنی جان پر کھیل کر احتجاج کرنا کیا شدت پسندی ہے…؟ چلیے ۶۱سال کے جرائم کو بھی چھوڑ دیتے صرف غزہ میں وقوع پذیر حالیہ درندگی کی مذمت اور اس پر افسوس ہی ظاہر کردیتے کہ جس میں ۱۳۱۲ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۴۱۰ بچے بھی تھے۔ ۵۳۴۰ زخمیوں کی بیمارپرسی کرلیتے، جن میں سے ۳۵فی صد بچے تھے، ۲۰ ہزار تباہ شدہ گھر نہ دیکھتے ان میں سے ۲۳ مساجد اور ۶۰ اسکولوں کی تباہی پر ہی احتجاج کرلیتے۔

جناب پوپ نے اہلِ فلسطین کی حمایت میں جو کلماتِ دل پذیر ادا کیے اور جن پر عالمِ اسلام کے کئی مقتدر لوگوں نے تعریف و ستایش کے ڈونگرے برسائے ہیں، بلکہ یہاں پاکستانی اخبارات میں بھی اداریے لکھے گئے، حالاں کہ ان کلماتِ دلنشیں میں، ’جناب پوپ‘ کا ایک بیان یہ بھی تھا کہ: ’’فلسطینی اور یہودی دو ریاستوں کی بنیاد پر اپنے تنازعات حل کرلیں‘‘۔ یہ دو ریاستی فلسفہ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ فلسطینی اور مسلمانانِ عالم یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور اسرائیلی، فلسطین نام کی ایک ریاست بناکر اسے تسلیم کرلیں۔ یہ فلسفہ جناب پوپ ہی نہیں ایہود باراک، ایہود اولمرٹ اور سیبی لیفنی سمیت متعدد حالیہ اور سابقہ ذمہ داران کئی بار دہرا چکے ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کی بنیاد بھی اسی فلسفے پر رکھی گئی تھی، لیکن اس فلسفے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اوسلو معاہدہ اور متعدد روڈمیپ آجانے کے ۱۶ برس بعد بھی یہ نہیں بتایا جا رہا کہ فلسطینی ریاست کی حدود کیا ہوں گی اور صہیونی ریاست کی سرحدیں کہاں جاکر رکیں گی۔ اگر غزہ اور مغربی کنارے کے کٹے پھٹے علاقے پر فلسطینی ریاست کی تہمت لگا کر کوئی سمجھتا ہے، کہ وہ کوئی مبنی برانصاف یا قابلِ قبول حل پیش کر رہا ہے تو بصد افسوس عرض ہے کہ وہ اپنے تمام تر مذہبی رتبے اور دعوی ہاے پارسائی کی توہین کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔

باعث ِ تشویش امر یہ ہے کہ ایک طرف تو مسلم دنیا کو دو ریاستی فارمولے کے کھلونے سے بہلایا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھی دنوں بیت المقدس میں ظلم و تعدّی کا نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ بیت المقدس کو مکمل یہودی شہر بنانے کے منصوبے پر ایک بار پھر پورے زوروشور سے کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس وقت بھی بیت المقدس میں ۶۰ ہزار فلسطینی بستے ہیں۔ وہ خود کو مسجداقصیٰ کے محافظ و خادم سمجھتے ہیں۔ صہیونی ریاست نے بیت المقدس کو ہمیشہ اپنا ابدی دارالحکومت قرار دیا ہے۔ قیامت ِ غزہ کے بعد اب تہویدِ قدس کے نام سے ان ۶۰ ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ایک ایک کرکے ان کے گھر چھینے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مسجداقصیٰ کو شہید کرکے وہاں نام نہاد ہیکل سلیمانی لاکھڑا کرنے کی نئی تاریخیں دی جارہی ہیں۔ مگر جناب پوپ کو  یہ چیخیں، ظلم کی داستانیں اور حق و انصاف کی پامالیوں پر مبنی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔

یہ پوپ ہوں یا صہیونی قیادت اور اس کے ناپاک ارادے ہوں، ان سے تو شکوہ نہیں کیا جاسکتا۔ اصل شکوہ تو مسلم دنیا کے حکمرانوں سے ہے۔ ۱۰ مئی کو نئے صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے خود بیماری کی اصل جڑ کی نشان دہی کردی۔ اس نے مصری صدر حسنی مبارک اور اُردنی شاہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ ’’صہیونیت کی تاریخ میں پہلی بار عربوں کے ساتھ ہمارا ایسا     وسیع تر اتفاق ہوا ہے کہ جس میں مشترکہ خطرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ خطرہ ہم سب کے لیے باعث ِ تشویش ہے‘‘۔ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر تبصرہ کر رہا تھا۔ اس سے پہلے اس کا وزیرخارجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عالمی امن کے لیے اصل خطرہ قرار دے چکا ہے۔

ہر آنے والا دن جعفر و صادق کے پردے میں چھپے غداروں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ ۴سالہ فر.اس کی ماں صدمے کے باوجود، تدفین کے بعد کہہ رہی تھی: ’’فِراس زندہ ہے، وہ مجھے  اور مجھ جیسی کروڑوں مائوں کو جدوجہد کا پیغام دے رہا ہے، جدوجہد اور مسلسل جدوجہد ہی اصل علاج ہے‘‘۔

 

نیوزی لینڈ آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے جسے طویل سفید بادلوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنوبی بحرالکاہل کے ۲ بڑے جزائر شمالی آئی لینڈ اور جنوبی آئی لینڈ پر مشتمل ہے۔ ۱۶۴۲ء میں ولندیزی جہازران ایبل تسمان نے اسے دریافت کیا تھا اور پھر یہاں انگریز آباد ہوگئے۔ ۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کو نیوزی لینڈ کو برطانیہ سے آزادی ملی۔ اس کا دارالحکومت ولنگٹن ہے۔ ملک میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ گورنر جنرل کا تقرر برطانیہ کرتا ہے، جب کہ عملاً سربراہِ حکومت وزیراعظم ہوتا ہے۔ اس ملک کو یہ تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ ۱۸۹۳ء میں سب سے پہلے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق یہیں دیا گیا۔ اُون، گوشت، ڈیری مصنوعات اور تجارت کے حوالے سے معروف ہے۔ گذشتہ برس چین نیوزی لینڈ فری ٹریڈ معاہدہ ہوا جو تجارت کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ۲۰۰۶ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی ۴۰ لاکھ ۳۰ ہزار ہے۔ اکثریت (۵۶ فی صد) کا مذہب عیسائیت ہے، ۳۵ فی صد بے دین، جب کہ ۵ فی صد آبادی کا تعلق دیگر مذاہب، یعنی ہندومت، بدھ مت اور اسلام سے ہے۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ کم ہے اور ان کی آبادی بھی منتشر ہے، تاہم ۱۹۷۰ء کے بعد سے مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور وہ زیادہ منظم ہوکر سامنے آئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں عام طور پر معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے بھی ان کے احوال سے آگاہی دل چسپی کا باعث ہوگی۔

کہا جاتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں سب سے پہلے چینی مسلمانوں کی آمد ۱۸۷۰ء میں ہوئی۔ یہ دنستان، اوٹاگو کی سونے کی کانوں میں کھدائی کی غرض سے آئے تھے۔ اس کے بعد ۱۹ویں صدی کے ابتدا میں ہندستان سے گجراتی مسلمانوں کے ۳ اہم خاندان یہاں آئے۔ اس طرح سے مسلمانوںکی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۹۵۰ء میں مشرقی یورپ سے ۶۰ سے زیادہ مسلمان  پناہ گزین کے طور پر یہاں منتقل ہوئے۔

نیوزی لینڈ میں مسلمانوں نے اپنی پہلی تنظیم نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن (NZMA) کے نام سے قائم کی۔گجراتی اور یورپی مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۵۹ء میں پہلا اسلامک سنٹر قائم کیا گیا۔ اس سنٹر میں دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نماز کی ادایگی کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی اور باقاعدہ نمازادا کی جانے لگی۔ ایک برس بعد گجرات سے مولانا سعید موسیٰ پٹیل کو بطور امام مدعو کیا گیا۔ یہ نیوزی لینڈ کے پہلے مسلمان امام تھے۔ اس طرح اسلامک سنٹر قائم کرنے کا سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا چلا گیا جس میں سائوتھ ایشیا اور سائوتھ ایسٹ ایشیا کے طلبہ کا نمایاں کردار تھا۔

۱۹۷۹ء میں نیوزی لینڈ کے مسلمانوں نے مزید منظم انداز میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں متعدد اقدامات اٹھائے۔ مسلمانوں کی تین علاقائی تنظیموں کو جن کا تعلق کینٹربری، ولنگٹن اور آک لینڈ سے تھا، یک جا کر کے ایک ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ (FIANZ) قائم کی گئی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد قرآن وسنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کا فروغ، تعلیم و تدریس، مسلمانوں کی مختلف سطح کی سرگرمیوں کو منظم کرنا، باہمی تعاون کا فروغ، مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے تعاون، رفاہی منصوبوں کے لیے عطیات کا حصول اور نیوزی لینڈ سے باہر مسلمانوں کی نمایندگی کرنا ہے۔ اس تنظیم کا مرکزی دفتر ولنگٹن میں ہے۔ اس کی ممبر ۷ مقامی تنظیمیں ہیں جن میں NZMA، سائوتھ آک لینڈ مسلم ایسوسی ایشن، انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ (IMAN)، اور اس کے علاوہ ہملٹن، پالمرسٹون نارتھ، کرسٹ چرچ اور ڈیونڈن کی ایسوسی ایشنیں بھی شامل ہیں۔

تنظیم کی دیگر سرگرمیوں میں مقامی ایسوسی ایشنوں کو فنڈ کی فراہمی میں تعاون، بیرونِ ملک سے مقررین کے دوروں کا اہتمام، وڈیوز اور لٹریچر کی تقسیم، اور حسنِ قرأت کے مقابلوں کا اہتمام کرنا شامل ہے۔ ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو عید کی تاریخوں کا تعین کرتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی عالمی تنظیموں، مثلاً مسلم ورلڈ لیگ، دی ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)اور ریجنل اسلامک دعوۃ کونسل آف سائوتھ ایسٹ ایشیا اینڈ پیسیفک (RISEAP) وغیرہ سے وابستگی بھی ہے اور ان کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لیا جاتا ہے۔

نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ۱۹۷۰ء میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب فجی انڈین مسلمان حصول روزگار کے لیے یہاں آئے۔ اسی طرح ۱۹۹۰ء میں صومالیہ، بوسنیا، افغانستان، کوسووا اور عراق سے بھی بہت سے مسلمان پناہ گزین کی حیثیت سے نیوزی لینڈ آئے جس سے مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس طرح سے مسلمان پناہ گزینوں کی آمد  سے مسلمان مزید مستحکم ہوگئے اور ان کی افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس وقت مسلمانوں کی آبادی میں سب سے زیادہ تناسب چینی مسلمانوں کا ہے (۳ء۲ فی صد)، جب کہ انڈین مسلمانوں کا تناسب ۲ء۱ فی صد ہے۔ نیوزی لینڈ کی مسلم کمیونٹی ۳۵ مسلم ممالک کے نمایندوں پر مشتمل ہے، جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، فجی انڈین، عرب، ملایشیا، انڈونیشیا، ایران، صومالیہ اور  بلقان کے ممالک نمایاں ہیں۔ کچھ تعداد میں کیوی بھی پائے جاتے ہیں جو کہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ ۱۹۹۶ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی ۱۳ ہزار ۵ سو ۴۵ ہے جو کہ کُل آبادی کے ۳۷ء۰فی صد پر مبنی ہے۔ مقامی مسلم قیادت کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی ۴۰ ہزار ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت آک لینڈ میں رہتی ہے، جب کہ دارالحکومت ولنگٹن اور دیگر چار بڑے شہروں میں بھی مسلمان آباد ہیں۔

۱۹۶۰ء کے لگ بھگ جب مسلمانوں کی تعداد محدود تھی NZMA کے تحت اجلاس گھر     یا دکان میں ہوتے تھے اور عید کی تقریبات کے لیے ہال کرایے پر لیے جاتے تھے۔ ۱۹۷۰ء     کے وسط تک ۳ مزید مسلمانوں کے گروپ تشکیل پا گئے، جن میں فجی انڈین مسلمانوں کی تنظیم   انجمن حمایت الاسلام نمایاں تھی۔ ۱۹۷۶ء میں نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو انھیں مشورہ دیا گیا کہ وہ مشترکہ فورم تشکیل دیں تاکہ زیادہ مؤثر انداز میں کام کیا جاسکے۔ چنانچہ انجمن حمایت اسلام اور NZMA نے اجتماعی طور پر نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی۔ اس تنظیم کا قیام ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء کو عمل میں آیا اور اس کی پہلی ترجیح اسلامک سنٹر کا قیام اور مسجد کی تعمیر تھی۔ چنانچہ ۱۹۸۳ء میں نماز کے لیے مرکزی ہال تعمیر کیا گیا جس میں ۴۰۰ نمازیوں کی گنجایش تھی۔ ۱۹۹۰ء میں میٹنگ ہال اور امام صاحب کی رہایش گاہ تعمیر کی گئی۔

حالیہ برسوں میں NZMA تیزی سے آگے بڑھی ہے اور نمازِ جمعہ میں ۵۰۰ سے زائد نمازی شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح آک لینڈ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی ایک اور تنظیم IMAN کا قیام ۱۹۶۶ء میں ولنگٹن میں عمل میں لایا گیا۔ یہ بنیادی طور پر مسلمان طلبہ کی تنظیم تھی۔ یہ اسلامک سنٹر قائم کرچکی ہے اور ایک مسجد کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔ ولنگٹن میں بھی مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور IMAN ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مختلف مقامات پر نمازِ جمعہ کا باقاعدہ اہتمام کیا جا رہا ہے اور نمازیوں کی تعداد ۵۰۰ سے ۶۰۰ تک ہوتی ہے۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصے شمالی آئی لینڈ میں مسلمان کرسٹ چرچ، ڈیونڈن اور کنٹربری میں پائے جاتے ہیں۔ کینٹبربری میں کینٹربری مسلم ایسوسی ایشن ۱۹۷۷ء میں قائم ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ کم ہے مگر وہ ۱۹۸۵ء تک مسجد تعمیر کرچکے تھے اور اسلامک سنٹر کے لیے کوشاں ہیں۔

نیوزی لینڈ کی یہ تنظیمیں اپنے اپنے دائرے اور دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے بہت سی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان میں دعوتِ دین کے فریضے کی ادایگی، دین کی بنیادی تعلیمات سے آگہی، نماز کی ادایگی کے لیے انتظام، رمضان کے موقع پر مختلف تقاریب کا انعقاد، عید و دیگر تقریبات کا اہتمام، قرآن مجید کی تعلیم اور عربی زبان سیکھنے کے لیے کلاسوں کا اجرا اور دیگر    رفاہی و سماجی سرگرمیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح حلال غذا کی فراہمی، شادی بیاہ کے لیے رشتوں کی سہولت اور تدفین کے انتظامات کی خدمات بھی انجام دی جاتی ہیں۔

بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی، اسلامی اقدار سے روشناس کرانے اور تربیت کے لیے اسلامی اسکولوں کے قیام کی طرف بھی توجہ دی جارہی ہے، اگرچہ اس میں بڑے پیمانے پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ آک لینڈ میں المدینہ اسکول قائم کیا گیا ہے جو اسلامک ایجوکیشن اینڈ دعوۃ ٹرسٹ کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اس اسکول کا آغاز ۱۹۸۹ء میں بنیادی طور پر ہوم اسکولنگ کے طرز پر   کیا گیا تھا۔ تقریباً ۳۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں طالبات کے لیے     ایک کالج بھی قائم کیا گیا۔ اس دوران ایک مزید کالج کھولا گیا جو فنڈ کی کمی کی بنا پر چلایا نہ جاسکا اور اب اس کو دوبارہ کھولنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

FIANZ کی کوشش ہے کہ ایسی تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جائے جس سے تنظیم کو وافر وسائل فراہم ہوسکیں اور اسے عطیات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے بھی کچھ سرگرمیاں جاری ہیں۔ اسلامی بنک کاری کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ غیرمسلموں میں اسلام کی اشاعت کے لیے ایک تنظیم اسلامک دعوۃ اینڈ کنورٹس ایسوسی ایشن کے نام سے قائم ہے۔ یہ غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیتی ہے اور قبولِ اسلام کے بعد ان کو پیش آنے والی مشکلات میں تعاون بھی کرتی ہے۔ آک لینڈ میں ان کے ارکان کی تعداد ۱۰۰ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی یہ منظم اور ہمہ جہت جدوجہد نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے روشن مستقبل کی پیش خیمہ ہے۔ (ماخوذ: wikipedia آن لائن انسائی کلوپیڈیا۔ ’دی مسلمز آف نیوزی لینڈ‘، مجلہ حج اینڈ عمرہ، ریاض، سعودی عرب، اپریل ۲۰۰۹ء)

 

اس تحریر میں خطاب صرف آسٹریلیا کے مسلمانوں سے نہیں بلکہ بیرونِ ملک مقیم تمام مسلمانوں سے ہے۔ اس لیے ہمارے قارئین کو چاہیے کہ بیرونِ ملک مقیم اپنے اعزہ و احباب تک اپنے ذرائع سے اس مؤثر تحریر کو پہنچانے کا اہتمام کریں۔ دوسری طرف اس کا مخاطب ہمارا ہر قاری اور ہم سب بھی ہیں کہ اپنے اپنے دائرے میں ہم اسلام کے نمایندے ہیں اور اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ (ادارہ)

بلاشبہہ منصوبے زمین پر بھی بنتے ہیں اور ہمیشہ سے انسان زمین پر اپنے لیے منصوبے بناتا رہا ہے، مگر قضا وقدر کے منصوبے آسمان پر بنتے ہیں،اور نافذ وہی منصوبے ہوتے ہیںجو قضا وقدر کے آسمانی منصوبے ہوتے ہیں۔ آسٹریلیامیں رہنے والے مسلمانوں کویہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ خود بخود تلاشِ روزگار میں اس سرزمین کی طرف نکل آئے___ روزی اللہ کے قبضے میں ہے اور بندہ جب تک زمین پر زندہ چل پھر رہا ہے اس کی روزی اللہ اس تک پہنچائے گا۔اس کو موت اسی وقت آئے گی جب وہ اپنے نصیب اور حصے کی روزی پوری کرلے گا۔

آسٹریلیا میں آکربسنے والے مسلمانوں کی مثال ایسی نہیں ہے کہ آندھی چلی اور اس نے کچھ دانے اپنے جھونکے سے اٹھائے اور یہاں کے میدانوں، صحراؤں، دریاؤں اور پہاڑوں میںلاکر بکھیر دیے___بلکہ اللہ نے اپنے منصوبے کے تحت ہندستان، پاکستان اور دوسرے ملکوں سے اپنے منتخب کردہ دانے ان ملکوں سے اٹھائے اور اپنے اس منصوبے کے تحت یہاں کی زمین میںلاکر اس کی باقاعدہ کاشت کی ہے۔ اب وہ چاہتاہے کہ اس کی بوئی ہوئی یہ فصل لہلہائے اور برگ وبار لائے___ یہ مسلمان اٹھیں اور یہاں کے رہنے والوں کو اس دعوت اور اس پیغام سے  آشنا کرکے ان کو اللہ کی مرضی کے مطابق جینے کا سلیقہ سکھائیں، اور ان تک وہ امانت پہنچائیں   جس کے امین بن کر وہ اس ملک میں آکر بسے ہیں۔

اس ملک کے رہنے ،بسنے والوں کا ان آنے والوں پر یہ حق ہے کہ وہ ان کوجہنم کی آگ سے بچائیں ۔خدا کی مرضی اور خداکا دین ان تک پہنچائیں اور ان تک اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغامِ امن ونجات پہنچائیں جن پر نبوت ختم ہوگئی ہے، اور جنھوں نے وہی  پیغام انسانیت کوپہنچایاہے جو ہمیشہ سے خدا کی طرف سے مبعوث کیے جانے والے رسول پہنچاتے رہے ہیں۔ اور اب روے زمین پر اسلام ہی خدا کا ایک مستند، محفوظ، مکمل اور آخری نجات بخشنے والا دین ہے۔

اس ملک میں جو مسلمان آکر بسے ہیں اور یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کو جہالت اور جاہلیت (دین اور ہدایت سے دُوری جاہلیت ہے) سے نکالیں، ان کوقرآن اور سیرت رسولؐ سے واقف کرائیں۔ یہ اس ملک میں اسلام کے نمایندے، اسلام کے سفیر اور اسلام کے ترجمان ہیں۔ اللہ نے انھیں اپنے ملک کے اس حصے میں اس لیے لاکر بسایا ہے کہ یہ اپنی گفتگوؤں، تقریروں اور تحریروں کے ذریعے ان تک اللہ کا دین پہنچائیں___     نہ صرف قول سے بلکہ اپنی عملی زندگی سے اسلام کے نمایندے بن کر ان کے سامنے آئیںاور اپنی دیانت وامانت، اپنے اخلاق وبرتاؤاور اپنے معاملات وسلوک سے ان کوبتائیں کہ خدا کا دین روے زمین پر کس طرح کے بندے پسند کرتاہے، اور اس کے مطلوب اور محبوب بندے کیسے ہوتے ہیں۔ ان کی عملی زندگیاں شہادت دیں کہ جودین ان مسافروں اور اسلام کے ان سفیروں کے پاس ہے وہ اس لیے بھی حق ہے کہ وہ ان جیسے انسان پیدا کرتاہے جو دنیا والوں کے لیے رحمت ہوتے ہیں،جو قول کے سچے، وعدے کے پکے،فرائض کے پابند، انسانوں کے حق میں ہمدردو غم گسار اور انسانی شرافت کے پیکر ہوتے ہیں___ دینِ حق کوماننے والے صرف دعوے کرنے والے نہیں ۔

حقیقت میں ماننے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے دین کے حق ہونے پر دلیل اور شہادت ہوتے ہیں۔اپنی پرکشش اور مثالی زندگی کو پیش کرکے وہ یہ باور کرائیں کہ یہ زندگی ان کا کارنامہ نہیں بلکہ اس دینِ حق کی دین ہے جسے انھوںنے اپنایا ہے۔جیسا کہ اللہ کے ایک محبوب  اور مبعوث بندے نے اپنے جیل کے ساتھیوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے کہا تھا: (جب جیل میں خدا کے دو بندے ان سے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے تھے اور یوسف علیہ السلام کی پاکیزہ اور مثالی زندگی دیکھ کر ان سے کہنے لگے:  اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَo (یوسف ۱۲:۳۶) ’’ہم آپ کونہایت پاکیزہ اور حسین زندگی والا دیکھ رہے ہیں‘‘) میری زندگی میںجو حُسن وجمال اور جوکشش اور رعنائی تمھیںنظر آرہی ہے وہ میرا کمال نہیں ہے۔وہ اس ہدایت اور علم کانتیجہ ہے جو خدانے مجھے عطا فرمایاہے: ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ (یوسف ۱۲:۳۷) ’’یہ (جو پاکیزہ زندگی تم دیکھ رہے ہو) یہ اس علم وہدایت کی بدولت ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی ہے‘‘۔ اس کے بعد آپ ؑنے اپنی بات پوری کرتے ہوئے فرمایا:

اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَo وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآئِ یْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ o (یوسف۱۲:۳۷-۳۸) اور میں پابند اور متبع ہوں اس دین کا جو میرے باپ دادا ابراہیم ؑ، اسحاق ؑاور یعقوب ؑ کا دین ہے، ہمارے لیے یہ ہرگز زیبا نہیںکہ اللہ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کریں۔ ہم پر اور تمام انسانوں پر یہ اللہ کا خاص فضل ہے لیکن اکثر انسان خدا کے ناشکرے ہیں۔

بلاشبہہ آپ اپنے ارادے سے روزگار کی تلاش میں یہاں پہنچے ہیں لیکن اللہ نے اپنے منصوبے کے تحت آپ کو ایک خاص مشن پر یہاں بھیجا ہے، اور اس توقع پر بھیجا ہے کہ آپ یہاں اسلام کے نمایندے اور سفیر بن کررہیںگے۔ اپنے وجود اور اپنی پُرکشش اسلامی زندگی سے اسلام کے لیے راہ ہموار کریںگے۔ آپ کو دیکھ کر ، آپ کوسن کر اور آپ کو برت کرلوگ جب آپ کی طرف رغبت محسوس کریں تو آپ بجا طور پر انھیں یہ جواب دیں کہ یہ جوکچھ آپ دیکھ رہے ہیں یہ اس دین کی برکات اور ثمرات ہیںجسے ہم نے اپنا رکھا ہے، اور یہ صرف ہمارا ہی دین نہیں ہے بلکہ یہی آپ کے باپ دادا کا بھی دین ہے___ اس لیے کہ تمام انبیا اسلام ہی کی دعوت لے کر     دنیا میںآئے اور سب نے ایک ہی پیغام دیا کہ انسانو! اللہ کی بندگی کرواور خدا کو چھوڑ کر ان  باطل معبودوں کی پرستش نہ کرو جو تم نے گھڑ رکھے ہیں، اور جن کے لیے تمھارے پاس کوئی علمی اور نقلی دلیل ہر گز نہیں ہے۔

خدا نخواستہ آپ کی زندگیوں نے انھیں اسلام کی طرف راغب اور متوجہ کر نے کے بجاے اسلام سے متنفر کیا، اور آپ نے اپنی عملی زندگی سے اسلام کی راہ روکی اور آپ کو دیکھ کر، آپ کے اعمال ومعاملات کو دیکھ کر اگر وہ اسلام کی طرف متوجہ ہونے کے بجاے اسلام سے اور دور ہونے لگے، تو یہ آپ کے لیے زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہوگا۔ آپ تنہائی میں دھاڑیں مار مار کرروئیں کہ پروردگار اس عذاب سے ہمیں بچاکہ ہم تیری راہ میں بیٹھ کر اور تیرے دین کے نمایندے ہوکر تیرے دین سے لوگوں کو روکنے اور متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہیں___ہماری زندگیاں لوگوں کے لیے اسلام کی راہ ہموار کرنے، اسلام کی طرف راغب ہونے اور اسلام سے مشرف ہونے کے بجاے اسلام کی راہ روکنے اور اسلام سے دُور ہونے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ خدایا! ہمیں اس  صورت حال سے نکال اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے قول وعمل سے تیرے دین کی طرف لوگوں کو راغب کرسکیں، تیرے دین کی را ہیں لوگوں کے لیے کھول سکیں اور ہمیں اسلاف کی وہ پرکشش زندگیاں اختیار کرنے کی توفیق دے کہ لوگ جوق در جوق تیرے دین کی طرف آئیں۔

میں آپ کو یہ تنبیہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمیشہ اپنے ازلی دشمن شیطان سے ہوشیار رہیں، اس تباہ کن وسوسے سے اپنے قلوب کو محفوظ رکھنے کی شعوری کوشش کریں ___شیطان آپ کے دل میںیہ وسوسہ پیدا کرسکتاہے کہ تم تو یہاں اپنے معاشی مستقبل کو درست کرنے آئے ہو، اپنے اہل وعیال کے لیے خوش حال زندگی گزار نے کا سامان مہیا کرنے آئے ہو___ایسا نہ ہو کہ تمھاری دینی سرگرمیاں اور دعوتی کوششیں دیکھ کر اس ملک کے لوگ تمھیں برداشت نہ کرسکیں اور تم کسی آزمایش میںمبتلا ہوجاؤ!

یہ شیطانی وسوسہ اگر لاحق ہوا تو یہ تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گا۔خوب یاد رکھو کہ یہ زمین اللہ کی ہے، یہ آسمان اللہ کا ہے، یہاں کے سارے وسائل اور تمام تر نعمتیں اللہ کی ہیں___کوئی دوسرا مالک اس کائنات میں نہیں ہے۔ یہاں صرف اسی ایک کا اختیار اور اقتدار ہے اور صرف ایک ہی مالک وآقا ہے ۔ سب اس کے محتاج اور بے اختیار بندے ہیں۔اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر تم پیغامِ حق پہنچاتے رہے تو اللہ لوگوں کے شر سے تمھاری حفاظت فرمائے گا۔ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ ۵:۶۷)’’اور اللہ تمھیں لوگوں(کے شر ) سے محفوظ رکھے گا‘‘۔

حکیمانہ تبلیغ کا ایک نمونہ

حضرت موسٰی ؑ کی قوم نے جب آپ ؑ سے شکوہ کیا اور اپنی مظلومیت اور بے بسی کی شکایت کی تو انھوں نے اپنی مظلوم، بے بس اور خستہ حال امت کو خطاب کرتے ہوئے چار ہدایتیں دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب فرمایا:

۱-  اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ (الاعراف ۷ : ۲۸) ’’اللہ سے مدد طلب کرو‘‘۔

دینے والا صرف اللہ ہے ،کسی اور کے قبضے میںکچھ نہیں ہے۔جو کچھ تمھیںملا ہے اللہ ہی نے دیا ہے، اور جو کچھ تمھیں ملے گا اللہ ہی سے ملے گا۔ اللہ کو چھوڑ کرتم اگر بندوں کی طرف متوجہ ہوئے تو ان بندوں کے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔یہ تو خود خدا کے محتاج ہیں۔ خدا سے رشتہ مضبوط کرو ، اسی سے مانگو، وہی مدد کرنے والا ہے اور اسی کی مددسے تم عزت وعظمت کی زندگی پاسکتے ہو، اگر وہ تمھیں چھوڑ دے، اگر وہ تمھاری پروا نہ کرے تو تم نہ کہیںاور سے روزی پاسکتے ہو نہ عزت وعظمت ۔سب کچھ اسی کے قبضے میں ہے،بس اسی سے رشتہ جوڑواور اسی سے مانگو۔ اس سے مانگنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اللہ کا ارشاد ہے :

قُلْ مَا یَعْبَؤُبِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَآؤُکُمْ (الفرقان ۲۵:۷۷) اے رسولؐ! ان کو بتادیجیے کہ تمھارے رب کوتمھاری کیا پروا ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔

تمھارا رشتہ تو اس وقت تک رہے گا جب تک تم اس کو پکار نے والے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے بن کر رہو گے۔ اگر تم نے اس کو پکارنا چھوڑدیا، اس سے رشتہ توڑلیا تو پھر اس کو تمھاری کیا پر وا ہے کہ تم ذلت اور مسکنت کے کس کھڈ میں گرتے ہو۔ اگر عزت کی زندگی اور اللہ کی نوازشیں چاہتے ہو تو اسے برابر پکارتے رہو، اسی کی بندگی کرو، اور اسی سے مدد طلب کرو۔ اس نے تمھیں یہ زندگی عطا کی ہے اور وہی اس زندگی کو کامیاب اور باعزت گزارنے کے وسائل بھی دینے والاہے۔ لوگوں سے لو نہ لگاؤ۔ کسی کے اختیار میںکچھ نہیں ہے۔ اس زمین پر وہی کچھ ہوتاہے جو خداچاہتاہے۔ یہاں کے اسباب ووسائل بھی اس کے قبضے واختیار میں ہیں اور عزت وذلت بھی اسی کے قبضے میں ہے،اسے چھوڑ کر تم کہیں سے کچھ نہیں پاسکتے۔ تُعِزّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلّ مَن تَشَآئُ (اٰل عمرٰن ۳: ۲۶) ’’وہی ہے جس کو چاہتا ہے عزت و عروج دیتا ہے اور وہی ہے جس کو چاہتا ہے ذلت اور زوال دیتا ہے۔

۲- وَاصْبِرُوْا ___ (الاعراف ۷:۱۲۸) ’’اور صبر اختیار کرو‘‘۔

دوسری ہدایت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کویہ دی کہ صبر اختیار کرو۔ اگر کوئی قوم تم پر مسلط ہے اور تم محکوم ہو تو دل چھوٹا نہ کرو، بلکہ صبرکرو ۔

صبر میںدو باتیں ہیں:

  • تحمل سے کام لو ،برداشت کرو۔ اشتعال میں نہ آؤ۔ تم ایسا کام ہرگز نہ کرو جو اس دین کے شایان ِشان نہ ہو جس دین سے اللہ نے تمھیںسرفراز فرمایا ہے۔ اپنے اور اپنے دین کے وقار کو ہمیشہ پیش نظر رکھو، حلم اور بردباری سے کام لو اور اللہ پر بھروسا کرو، وہ تمھیں ہر گز ضائع نہیں  کرے گا۔
  •  صبر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپنے دین پر اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ۔ اپنی دینی شناخت کی قدرو قیمت سمجھو اور اپنے اصولوں اور دین کے احکام پر اور زیادہ قوت کے ساتھ جم جاؤ۔ دین کی یہ شناخت تمھارے ضیاع کا سبب نہیں بلکہ یہی تمھاری حفاظت کرنے والی ہے۔ اپنے دین کو چھپاؤ نہیں بلکہ اور زیادہ دین دار بن کرابھرو، اور استقامت کاپیکر بنو۔لوگوں سے نہ گھبراؤ ،لوگوں کے ظلم وستم اور زیادتیوں سے خدا تمھاری حفاظت فرمائے گا۔اور جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ کرے اس کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا، بشرطیکہ وہ دین پر جم جائے اور اللہ نے دین پر عمل کرنے اور دین پہنچانے کا جو فریضہ اس پر عائد کیا ہے، وہ سرگرمی سے اس کام میں لگا رہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ ۵: ۶۷) اے محمدؐ! آپؐ کے  رب نے جو پیغام آپؐ کی طرف نازل کیا ہے اسے پہنچانے میں لگے رہیے ۔ اگر  آپؐ نے یہ کام نہ کیا تو آپؐ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ۔رہے [یہ مخالف] لوگ تو اللہ ان سے آپؐ کی حفاظت فرمائے گا(ان کی پروانہ کیجیے)۔

رسول خاتم النبیینؐ کے نمایندے کی حیثیت سے یہ آیت امت سے مخاطب ہے کہ    اے رسولؐ کے نمایندو !جس دین کے تم حامل ہو، اس کو پہنچاتے رہوجہاں بھی تم رہو۔ اگر تم نے   یہ کام نہ کیا اور اپنی نمایندگی کا حق ادا نہ کیا ، توتم نمایندگی میں کھوٹے ثابت ہوگے۔ ہاں، اگر تم حکمت کے ساتھ یہ پیغام پہنچاتے رہے اور خود بھی اس پر جمے رہے تو لوگوں سے تم کو ئی خطرہ محسوس نہ کرو۔  اللہ ان سے تمھاری حفاظت کا خود سامان کرے گا۔ تم اللہ کے کام میں لگے رہو اور وہ تمھاری حفاظت نہ کرے، یہ ممکن نہیں۔ اللہ اپنے دین کی نصرت میںلگے رہنے والوں کو ہرگز ضائع نہیںکرتا۔ دنیا میں انھی کی یادیں رہ جاتی ہیں اورانھی کے کارنامے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں جو سنگین سے سنگین حالات میںبھی دینِ حق پر جمے رہتے ہیں۔ صبر واستقامت دکھاتے ہیں، اور اللہ کے دین کی نمایندگی اور ترجما نی کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ حالات سے مرعوب ہوکر اور انسانوں سے خوف کھاکر کتمانِ حق کرتے ہیں، اور خدا نے جس مشن پر انھیںلگایا تھا اسے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، نہ اللہ کے رجسٹر میں ان کا کوئی ذکر رہتاہے، نہ تاریخ کے اوراق میں ان کا کہیںتذکرہ ہوتا ہے، ذکر صرف ان کا ہوتا ہے جو صبر واستقامت کا پیکر ہوتے ہیں ___ اور جہاں رہتے ہیں اپنے دین کی شناخت کے ساتھ رہ کراپنے دین کی سفارت اور نمایندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔

۳- اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ___ (الاعراف ۷: ۱۲۸) ’’یہ زمین اللہ کی ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جس کوچاہتاہے اس کا وارث بنادیتاہے‘‘۔

تیسری بات حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خطاب میںیہ فرمائی کہ یہ زمین اللہ کی ہے ، وہ جس کوچاہتاہے اس کا وارث بنادیتاہے۔(کچھ مدت کے لیے) اگر تم یہ دیکھ رہے ہو کہ آج   اللہ نے کسی خاص قوم کو اس پر اقتدار دے رکھاہے تو وہ اس کے مالک ہر گز نہیں۔ یہ نہ سمجھو کہ وہی اس کے مالک ہوگئے ہیں اور ان کا یہ اقتدار اس پر دائمی ہے، بلکہ اللہ اپنی حکمت اور مشیت کے تحت کچھ مدت کے لیے کسی کو اس کاوارث بنا دیتاہے جب تک وہ اس وراثت کا حق اداکریں۔ اور اگر وہ ظلم و سفاکیت پر اتر آتے ہیں اور اپنی خدائی کے زعم میں مبتلا ہوکر خدا کے بندوں پر ظلم کرنے لگتے ہیں تو اللہ بہت جلد انھیںبے دخل کردیتاہے اور کسی دوسری قوم کوان کی جگہ لے آتاہے۔ یہ جانشینی اور اقتدار دائمی نہیںہوتا۔زمین کا اصل وارث ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔

بیرون ملک آکر بسنے والے مسلمانو! تم جس ملک میں آکر بسے ہو، یہ اللہ کا ہے۔ اللہ ہی اس کامالک ہے۔ یہاں اگنے والے غلے اور پھل بھی اللہ اگاتاہے۔ یہاں برسنے والا پانی بھی   اللہ ہی برساتاہے۔ زمین بھی اللہ کی ہے، یہ آسمان بھی اللہ کا ہے اور یہاں کے وسائل وذرائع اور روے زمین پر پھیلی ہوئی بے پناہ نعمتیں بھی سب اللہ کی ہیں۔ سب کچھ اسی نے پیدا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے، تمھیں بھی ان نعمتوں سے مستفیض ہونے کے لیے اللہ ہی یہاں لایا ہے۔ تم آئے نہیں ہو، لائے گئے ہو، اور اس منصوبے کے تحت لائے گئے ہو کہ یہ خطۂ زمین بھی تمھارے ذریعے اللہ کے دین اور رسولؐ اللہ کے کلمے سے آشنا اور منور ہو۔ دراصل تمھیں یہاں لاکر اللہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ تم اپنے دین کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو، اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ کیا عمل کرتے ہو۔ فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ___ پس وہ دیکھ رہا ہے کہ تم کیا عمل کرتے ہو۔

۴- حضرت موسٰی ؑ کے خطاب کی آخری بات نہایت ہی چشم کشا اور انقلابی فکر دینے والی ہے:

وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ___ (الاعراف ۷:۱۲۸) اور انجام کار متقین کے لیے ہے۔

گویا انجام کی کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتے رہے ہیں۔ یہ تو ایک روشن حقیقت ہے کہ دنیا کی یہ زندگی ایک دن ختم ہو جائے گی اور تمام انسانوں کی ایک ابدی زندگی ہے، وہاں کچھ لوگ کامیاب ہوں گے اور کچھ لوگ ناکام ۔کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ۔ کچھ لوگ اپنی کامیابیوں پر خوشیاں منارہے ہوں گے اور کچھ لوگ اپنی ناکامی پر آہ وفغاں کررہے ہوں گے۔

اس کامیابی کا تعلق اس سے نہ ہوگا کہ کون دنیا میں اقتدار میںرہا اور انسانوں پر حکومت کرتا رہا۔ اور کون مظلوم اور محکوم رہا اور دوسروں کی غلامی میں زندگی گزار تا رہا۔کون دولت کی   ریل پیل میںرہا اور کون نانِ شبینہ کا محتاج رہا۔ کون دنیا کی نعمتوں میںداد عیش دیتا رہا اور کون دانے دانے کو ترستا رہا، کس قوم کو حکمرانی کے تخت پربٹھایا گیا اور کون سی قوم محکومی کی ذلت میں رہی۔ یہ سب تو دنیا میں امتحان کے ذریعے اور پرچے تھے۔ کامیابی اور خوش نصیبی تو اس کے حصے میں آئے گی جو دی ہوئی آزمایش اور دی ہوئی حیثیت میں خدا کی مرضی کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنا اچھا رول ادا کرتا رہا۔اور اس حالت میں اللہ کے حضور پہنچاکہ اس نے تقویٰ کی زندگی گزاری ۔ اور خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے قلب ِمنیب کے ساتھ خدا کے حضور میں حاضر ہوا۔

خدا کے نبیِ صادق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خطاب کی یہ چار ہدایتیں بڑی ہی قیمتی ہیں۔ ان کوبار بار پڑھیے، انھیں حرز جاں بنائیے اور ان کی روشنی میں اپنی زندگی کالائحۂ عمل طے کیجیے___ یہ ہدایتیں ایک بہت ہی پس ماندہ، خستہ حال اور برسوں سے پامال کی جانے والی ملت کے سامنے رکھی گئی تھیں اور پھر موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں اللہ نے اسے دنیوی عروج بھی بخشا۔

ہمارا حال اگرچہ آج نہایت پست ہے مگر ایسا عبرت ناک بھی نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے پاس ۵۶ سے زیادہ آزاد مملکتیں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں دینی بیداری پیدا ہورہی ہے۔ ہماری خواتین بیدار ہورہی ہیں۔ ہماری امت پھر قرآن کی طرف متوجہ ہورہی ہے اور اللہ کے رسول ؐ نے ہمیں دل کو تقویت دینے والی یہ ہدایت دی ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَ الْکِتَابِ اَقْوَاماً وَّیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کچھ قوموں کو اونچا اٹھا تاہے اور کچھ دوسری قوموں کو پست کرتاہے‘‘۔

اسی کتاب نے ہمارے اسلاف کو اٹھایا تھا اوریہی کتاب آج پھر ہمیں اٹھائے گی۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم جس خطۂ زمین میںبھی رہیں وہاں اس کی تعلیمات کو عام کرنے میں لگ جائیں اور گھر گھر اللہ کی اس امانت کو پہنچانے کی سعی کریں۔ اپنی شخصیت کی تعمیر اور تکمیل اسی کی روشنی میں کریں۔ اپنے گھر کو اسی کی تعلیمات سے آراستہ اور منور کریں اور انسانوں تک ان کی یہ امانت پوری دیانت کے ساتھ پہنچانے کا حق ادا کریں، اوراپنے اس مقام کو پہچانیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نوازشِ خاص سے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے۔ ہم اس انتخاب کی لاج رکھیں، اس کا حق ادا کریں، اور اللہ کو ہم سے جو توقعات ہیں ہم ہرحال میں ان کو پورا کرنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ (اسلامک فورم فار آسٹریلین مسلمز (IFAM) آسٹریلیا کے دورے کے موقع پر خطاب، ۲۰۰۸ء)

 

شرعی سزائوں کا نفاذ

سوال: ۱- اسلام کے قانون و اصول قطعی طور پر ناقابلِ تجزیہ ہیںیا کچھ گنجایش ہے؟ مثلاً اگر حکومت اجراے حدود کا قانون پاس کردے اور جج حضرات ان قوانین کے عملی نفاذ کے مجاز ہو جائیں لیکن معاشرے کی حالت یہی رہے جو اَب ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قانون نافذ ہی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں شرعی ثبوت کے بعد رجم اور حد کی سزا ظلم ہوگی یا نہیں؟...

۲-کیا حکومت کو اصلاح معاشرہ کے لیے اجراے حدود کو کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے اور احکامِ اسلامی کے اجرا میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟...

جواب: اس وقت اگر کوئی مسلمان حکومت اسلام کے تمام احکام و قوانین اور اس کی ساری اصلاحی ہدایات کو معطل رکھ کر اس کے قوانین میں سے صرف حدودِ شرعیہ کو الگ نکال لے اور عدالتوں میں ان کو نافذ کرنے کا حکم دے دے تو جو قاضی یا جج کسی زانی یا سارق یا شارب خمر پر حد جاری کرنے کا حکم دے گا وہ تو ظالم نہیں ہوگا، البتہ وہ حکومت ضرور ظالم ہوگی جس نے شریعت ِ الٰہیہ کے ایک حصے کو معطل اور دوسرے حصے کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایسی حکومت کو اُس آیتِ قرآنی کا مصداق سمجھتا ہوں جس میں فرمایا گیا ہے:

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ (البقرہ ۲:۸۵) کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور روزِ قیامت وہ شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں گے۔

میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ جو حکومت خود شراب بنانے اور بیچنے کے لائسنس دیتی ہو اور جس کی تقریبات میں خود حکومت کے کارفرما اور ان کے معزز مہمان شراب سے شغل کرتے ہوں ان کے قانون میں اگر شارب خمر کے لیے ۸۰ کوڑے لگانے کی سزا مقرر کر دی جائے تو ہم اُسے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ ایک طرف عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو رواج دینا، لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ کالجوں میں پڑھانا، عورتوں سے سرکاری دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام لینا، ننگی تصویروں اور عریاں فلموں اور فحش لٹریچر کی بے روک ٹوک اشاعت جاری رکھنا، ۱۶ سال سے کم عمر کی لڑکی اور ۱۸ سال سے کم عمر کے لڑکے کا نکاح قانوناً ممنوع ٹھیرانا، اور دوسری طرف زنا پر رجم اور کوڑوں کی سزا دینا فی الواقع اسلامی قانون کا اجرا ہے۔ مجھے یہ ہرگز تسلیم نہیں ہے کہ سود اور قمار کو حلال کرنے والی اور ان محرمات کو خود رواج دینے والی حکومت چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون نافذ کر کے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت قرار دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی عالمِ دین اس متضاد طرزِ عمل کے جواز کے قائل ہوں اور ان کے نزدیک شریعت کے ٹکڑے کرنا اور اس کے اجزا میں سے بعض کو ترک اور بعض کو اخذ کرلینا ظلم نہیں بلکہ ایک نیکی ہو تو وہ اپنے دلائل ارشاد فرمائیں۔

دراصل یہ مسئلہ محض اس سادہ سے قانونی سوال پر بحث کر کے حل نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں شرعی حدود کا نفاذ جائز ہے یا نہیں۔

اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو محض احکام ہی نہیں دیے ہیں بلکہ ان کے ساتھ کوئی حکمت بھی سکھائی ہے جس سے کام لے کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایک مدتِ دراز تک کفروفسق کی    فرماں روائی کے تحت رہنے کے بعد ہمارے ملک میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں ان میں اقامت ِ دین کا کام اب کس طرح ہونا چاہیے۔ جہاں تک میں نے شریعت کو سمجھا ہے اس کے نظام میں اصلاح، سدِّباب ذرائع اور تعزیر کے درمیان ایک مکمل توازن قائم کیا گیا ہے۔ ایک طرف وہ ہر پہلو سے تزکیۂ اخلاق اور تطہیر نفوس کی تدابیر ہمیں بتاتی ہے، دوسری طرف وہ ایسی ہدایات ہمیں دیتی ہے جن پر عمل درآمد کر کے ہم بگاڑ کے اسباب کی روک تھام کرسکتے ہیں، اور تیسری طرف وہ تعزیرات کا ایک قانون ہمیں دیتی ہے تاکہ تمام اصلاحی و انسدادی تدابیر کے باوجود اگر کہیں بگاڑ رونما ہوجائے تو سختی کے ساتھ اس کا تدارک کر دیا جائے۔ شریعت کا منشا اس پوری اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کر کے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت ِ دین کے بالکل خلاف ہے۔

اس کے جواز میں یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ جس جز کو ہم نافذ کر رہے ہیں اس کے نفاذ کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ اس استدلال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک حکیم کا مرتب کردہ نسخہ کسی اناڑی کے ہاتھ آجائے اور وہ اس کے بہت سے اجزا میں سے صرف دوچار اجزا نکال کر کسی مریض کو استعمال کرائے اور اعتراض کرنے والے کا منہ بند کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرے کہ جو اجزا میں استعمال کرا رہا ہوں وہ سب حکیم کے نسخے میں درج ہیں۔ اس کی اس دلیل کا جواب آخر آپ یہی تو دیں گے کہ بندئہ خدا حکیم کے نسخے میں جو مصلحات اور بدرقے [معاون ادویات] درج تھے ان سب کو چھوڑ کر تو صرف سمیّات [زہریلی چیزیں] مریض کو استعمال کرا رہا ہے اور نام حکیم کا لیتا ہے کہ میں اس کے نسخے سے علاج کر رہا ہوں۔ حکیم نے تجھ سے یہ کب کہا تھا کہ تو میرے نسخے میں سے جس جز کو چاہے چھانٹ کر نکال لے اور جس مریض کو چاہے کھلا دے۔

اس کے ساتھ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شریعت آیا اپنے نفاذ کے لیے مومن و متقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق و فاجر لوگ اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں؟ اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدمِ جواز کی قانونی بحث مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہو تو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمتِ دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ کیا حکمتِ دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکامِ شرعیہ کا اجرا ایسے حکام کے ذریعے سے کرایا جائے جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے، اور جن میں ایک بڑی تعداد عقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ میرے نزدیک تو اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں احکامِ شریعت جاری کرائے جائیں۔ اگر چند بندگانِ خدا پر بھی جھوٹے مقدمے بناکر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدودِ شرعیہ کا نام لینا مشکل ہوجائے گا اور دنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔

اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہرجہت سے ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور اسی سلسلے میں حدودِ شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔ یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے۔ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلسِ قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اور کل حدودِ شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسودۂ قانون پیش کر دیا گیا۔

اس سلسلے میں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے۔ ایک حالت تو وہ ہوتی ہے جس میں پہلے سے ملک کے اندر اسلامی قانون نافذ چلا آ رہا ہو اور بعد میں بتدریج انحطاط رونما ہوتے ہوتے   یہ نوبت آگئی ہو کہ شریعت کے بعض حصے متروک ہوگئے ہوں اور جن حصوں پر عمل ہو بھی رہا ہو،  ان کو نافذ کرنے والے بدکردار لوگ ہوں۔ اس حالت میں حکمت ِ دین کا تقاضا یہ نہ ہوگا کہ شریعت کے جو حصے نافذ ہیں ان کو بھی چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ ہوگا کہ عام اصلاح کی کوشش کر کے ایک طرف صالح عناصر کو برسرِاقتدار لایا جائے اور دوسری طرف شریعت کے باقی ماندہ حصوں کو نافذ کیا جائے۔ دوسری حالت وہ ہے جس میں کفروفسق کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا ہو اور اب ہم کو نئے سرے سے تعمیر کا آغاز کرنا ہو۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ بنیادوں سے تعمیر شروع کرنی ہوگی نہ کہ اُوپر کی منزلوں سے۔ (رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۶۹-۲۷۶)

 

اسلام اپنی نگاہ میں، ڈاکٹر ساجیکو مراتا ، ولیم سی چیٹک۔ مترجم: محمد سہیل عمر۔ ناشر: اقبال اکیڈیمی پاکستان، لاہور و ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ طبع اول ۲۰۰۸ء، صفحات: ۶۳۳۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

عالمی جامعات میں خصوصاً امریکا میں انڈر گریجوایٹ  طلبہ کے لیے انسانی علوم میں تعارفی کورس لینے کا رواج ہے اور اکثر طلبہ مذہبیات، عمرانیات، نفسیات یا موسیقی بطور ایک مددگار کورس کے لیتے ہیں۔ شعبہ ہاے فلسفہ و مذہب طلبہ کی سہولت، ذہنی ترقی اور معلومات کے لیے اکثر ایسے کورس وضع کرتے ہیں اور طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد ان میں دل چسپی لیتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس اسلامیات ایک لازمی مضمون ہونے کے باوجود اساتذہ، لوازمہ اور طرزِ تدریس تینوں پہلوئوں سے عدمِ دل چسپی کی اعلیٰ مثال نظر آتا ہے۔

زیرنظر کتاب اسلام اپنی نگاہ میں دراصل انگریزی کتاب Vision of Islam کا ترجمہ ہے جو ۱۹۹۴ء میں طبع ہوئی۔ چیٹک اور مراتا اپنے پیش لفظ میں وضاحت کرتے ہیں کہ  یہ کتاب ان کے اسلام پر تعارفی کورس پڑھانے کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اس میں طلبہ اور خصوصاً مغربی ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کا ایک عمومی تعارف پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس سے قبل اسلام کے تعارفی مطالعہ کے لیے جو کتب امریکا میں عموماًاستعمال کی جاتی رہی ہیں ان سے استفادہ کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کوشش کی جائے کہ قرآن و حدیث اور خصوصاً امام غزالی کی احیا علوم الدین سے مدد لیتے ہوئے جابجا حوالے شامل کرلیے جائیں اور بڑی حد تک غیرمتعصبانہ انداز میں اسلام کا ایک تصور (vision) سامنے آجائے۔ اس سے قبل ایچ آر گب کی Mohammdanism (طبع اول ۱۹۴۹ء)، الفرڈ گیوم کی Islam (طبع اول ۱۹۵۴ء)، جان اے ولیمز کی Islam (طبع اول ۱۹۶۳ء)، کینٹ ول اسمتھ کی Islam in Modern History (طبع اول ۱۹۵۷ء)، فلپ کے ہٹی کی Islam: A Way of Life(طبع اول ۱۹۷۰ء)، فضل الرحمن کی Islam (طبع ۱۹۶۶ء)، کینتھ کریگ  کی Islam from Within(طبع اول ۱۹۸۰ء) اور بعد میں آنے والی کتب میں وکٹر ڈینر کی The Islamic Tradition: An Introduction (طبع ۱۹۸۸ء)، گائی ایٹن کی Islam and The Destiny of Man(طبع ۱۹۸۵ء)، جان اسپوزیٹو کی Islam: The Straight Path (طبع ۱۹۸۸ء)، جے رینارڈ کی In the Footsteps of Muhammad (طبع ۱۹۹۲ء)،  این میری شمل کی Islam: An Introduction (طبع ۱۹۹۲ء) مختلف جامعات میں اساتذہ کی اپنی ترجیحات کے پیشِ نظر بطور تعارفی کتب استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ان سب کی موجودگی میں چیٹک جو اس سے قبل Imaginal World: Faith and Practice of Islam; The Sufi Path of Love; The Self Disclosure of God طبع کر چکے تھے، کا اس کتاب کو تحریر کرنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ جملہ کتب کی موجودگی میں طلبہ اور خصوصاً مغربی ذہن کی ضرورت کے پیش نظر ایک تعارفی کتاب کی مزید ضرورت تھی اور یہ ضرورت سابقہ کتب سے پوری نہیں ہو رہی تھی۔

کتاب ۴ حصوں میں اور ۹ ابواب پر مشتمل ہے جن میں ارکانِ دین، ایمان، توحید، نبوت، آخرت، مسلم فکر، احسان کی قرآنی بنیادیں اور اسلام، تاریخ اور تصورِ تاریخ شامل ہیں۔

کتاب کا مرکزی مضمون حدیث جبریل ؑ کے تین اہم نکات اسلام، ایمان اور احسان ہیں۔ مندرجہ بالا ابواب انھی تین بنیادوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اس لحاظ سے مغربی طالب علم کے لیے یہ اسلام کا ایک مختلف نوعیت کا تعارف ہے۔ اپنے تمام تر متوازن اور ہمدردانہ طرزِبیان کے باوجود بعض فکری پہلو اختلاف اور اصلاح کی گنجایش رکھتے ہیں مثلاً تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے اللہ اور الٰہ کی بحث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’اسلام میں ایمان کا پہلا رکن خدا ہے‘‘ (ص ۱۱۳)۔ آگے چل کر اس کی وضاحت کی گئی ہے: ’’الٰہ ہر وہ چیز ہے جسے پرستش، عقیدت اور اطاعت کا مرکز بنایا جائے‘‘ (ص ۱۱۴)۔ تفصیلی بحث کے بعد ’’الٰہ کو god یعنی جھوٹا خدا یا سچا خدا‘‘ اور ’’Godکو ازروے تعریف سچا خدا‘‘ (ص ۱۱۶) سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ انگریزی میں ’اللہ‘ کی اصطلاح مغربی ذہن کو پریشان کرتی ہے، جب کہ اللہ کی جگہ God کہنا زیادہ درست اور افضل ہے۔

ہمیں اس سے فکری بنیاد پر اختلاف ہے۔ اگر ہندوازم کو پڑھاتے ہوئے ایک امریکی غیرہندو استاد Brahma کو ہندو God نہیں کہتا بلکہ برہما ہی کہتا ہے اور یہودیت پڑھاتے ہوئے  یہودیوں کے God کی جگہ Yahweh ہی کہتا ہے تو اسلام کے درس میں اللہ کیوں نہیں کہا جاسکتا۔ ایک پہلو جسے اکثر مسلم مفکرین نے بھی بغور نہیں دیکھا، یہ ہے کہ اللہ اسمِ ذات ہونے اور خود قرآن کے تجویز کردہ اسمِ باری تعالیٰ ہونے کے ساتھ عدد اور جنس کی قید سے آزاد اور اللہ کی صمدیت کی علامت ہے، جب کہ God چاہے بڑے G سے ہو چاہے چھوٹے g سے۔اس کی جمع اور تانیث، یونانی مذہب ہو یا ہندو ازم، دونوں جگہ عدد اور جنس کی شکل میں پائی جاتی ہے، چنانچہ Goddess اور Gods دونوں کا وجود تاریخِ ادیان کا حصہ ہے۔

دورِ حاضر میں اسلام سے بحث کرتے ہوئے مصنف نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں ان میں سے بعض قابلِ غور ہیں۔ اس بات کی صداقت کے باوجود کہ دورِ حاضر میں اسلام، ایمان اور احسان کی تین جہات شاید تمام تحریکاتِ اسلامی میں بدرجۂ اتم نہ پائی جاتی ہوں، تحریکاتِ اسلامی کی اسلام کی تعبیر کو سیاسی اور اس بنا پر انھیں جدیدیت پرست کہنا محلِ نظر ہے (ص ۵۷۱- ۵۷۴)۔ ’’جدیدیت زدہ اسلام عمومی طور پر روایت کی عقلی تفہیم کو رد کر دیتا ہے مگر یہ کہ اسے سیاسی اصطلاحات کے لبادے میں پیش کیا جائے۔ اسلام کی سیاسی تعلیمات اپنی جگہ ایک چیز ہیں لیکن ان کی حیثیت ہمارے ہاں ثانوی اور غیراہم رہی ہے۔ ان سیاسی تعلیمات کو مرکزی حیثیت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اپنی روایت سے کٹ رہے ہیں۔ ہمارے زمانے کی اسلامی تحریکوں کے سیاسی منشور اور اس کی تہ میں کارفرما آئیڈیالوجی کا اسلام کی تعلیمات سے شاذ ونادر ہی اساسی تعلق ہوتا ہے۔ اس کی جگہ ان میں قرآن و حدیث کی ایک ایسی تعبیرِ نوملتی ہے جس کی بنیاد جمہوریت یا دوسری قسم کی ’اچھی‘ طرزِ حکومت کے متعلق جدید مفروضات پر رکھی جاتی ہے (ص ۵۷۴)۔ طویل تر لذیذ حکایت کے بعد یہ حاصلِ تحقیق کلمات بظاہر نہ معروضی کہے جاسکتے ہیں نہ مبنی برعدل۔

بعض اوقات حکایت کا تذکرہ حکایت سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے جس کی زندہ مثال برادرعزیز سہیل عمر صاحب کا یہ ترجمہ ہے۔ ایک عرصہ بعد ایسا ترجمہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جو ترجمہ بھی ہے اور ترجمانی بھی۔ کسی لمحے یہ احساس نہیں ہوتا کہ آدمی ترجمہ پڑھ رہا ہے، اس کے باوجود چند ایک مقامات پر اگر دوبارہ غور کرلیا جائے تو اچھا ہو۔ تلک اٰیات الحکیم کا اُردو ترجمہ ’’یہ آیات ہیں پکی کتاب کی‘‘ ( لقمان ۳۱:۲) ص ۱۲۱ اگرچہ مستعمل ہو، الحکیم کے مفہوم کو واضح نہیں کرتا بلکہ محکم کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ بہترترجمہ ’’یہ حکمت کی (بھری ہوئی) کتاب کی آیات ہیں‘‘ ہوگا۔

مصنف نے دین کا مفہوم بیان کرتے وقت سیدابوالاعلیٰ مودودی کی معرکہ آرا کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سے بھرپور استفادہ کے باوجود کہیں حوالہ دینا پسند نہیں کیا۔ ایسے ہی تنزیہہ کی بحث کرتے ہوئے ہم عصر مفکر اسماعیل الفاروقی الراجی کا تذکرہ نہ کرنا علمی معروضیت کے منافی نظر آتا ہے۔ اسلام پر کسی تعارفی کتاب میں خود علامہ اقبال اور علامہ مودودی کا تذکرہ نہ آنا اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ علمی تحریرات مسلکی اور ذاتی تعصبات سے پاک ہوں تو وقعت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


آزادی اور جمہوریت کا تصور اُردو نظموں میں ، ڈاکٹر شائستہ نوشین۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے (بھارتی)۔

۱۸۵۷ء کے حادثے نے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح برعظیم کے اُردو شعروادب پر بھی اثرات مرتب کیے خصوصاً اُردو شاعری اور بطور خاص نظم کے میدان میں نئے نئے اسالیب اور ہئیتوں کے تجربات ہوئے۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی ۴،۵ عشروں میں اس حوالے سے بہت سی چیزیں لکھی گئیں کیونکہ اس دور میں برعظیم کے عوام فرنگی قابضین کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد سے گزر رہے تھے اور ان کے جذبات اُردو ادب، خاص طور سے اُردو نظم میں ظاہر ہو رہے تھے۔

اودھ یونی ورسٹی (بھارت) کی پی ایچ ڈی اسکالر شائستہ نوشین نے آزادی اور جمہوریت کے موضوع پر اُردو کے ذخیرۂ منظومات کا تنقیدی جائزہ (۱۹۴۷ء-۱۹۰۱ء) لیا ہے۔ اُن کا یہ مقالہ کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ۵ ابواب پر مشتمل اس مقالے میں آزادی اور جمہوریت کا مفہوم، اُردو ادب میں آزادی و جمہوریت کی جھلک اور ۲۰ویں صدی کے اہم شعرا کے اُردو نظموں میں آزادی اور جمہوریت کے تصورات سے بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں حالی و شبلی کے بعد شعرا کی دو درجہ بندیاں کی گئی ہیں۔ ایک درجے میں ترقی پسند شعرا اور دوسرے زمرے میں غیرترقی پسند شعرا کی کاوشوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ فیض، ساحر، مجاز، مخدوم، کیفی، علی سردار جعفری ایسے شعرا کو   اس لیے پہلے درجے میں جگہ ملی ہے کہ وہ ترقی پسندوں کے زمرے میں شامل ہیں، جب کہ اقبال، اکبر الہ آبادی، ظفر علی خاں، اور چکبست وغیرہ کو غیرترقی پسند شعرا کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت ہے۔ مزیدبرآں اکبر الہ آبادی اور ظفر علی خاں ایسے شعرا کو ۴،۴صفحات میں سمیٹا گیا ہے اور تلوک چند محروم اور ساغر نظامی کو ان سے زیادہ صفحات کا مستحق سمجھا گیا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں اکبر اور ظفرعلی خاں کی خدمات کسی طور تلوک چندمحروم اور ساغر نظامی سے کم نہیں۔

مجموعی جائزے میں بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کے تصورات کی ترجمانی اور عوامی بیداری کے فروغ میں اُردو نظم نے تاریخ ساز اور ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے اور اس ضمن میں شعرا حضرات کی خدمات کسی سیاسی کارکن سے کسی طور کم نہیں۔

کتاب کے سرورق پر موجود بھارت کے نقشے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کی جدوجہد فقط انھی علاقوں میں ہوتی رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آزادی و جمہوریت کے ضمن میں بنگال اور پنجاب کے شعرا اور عوام کی خدمات بھی برعظیم کے دیگر علاقوں کے باشندوں سے کم نہیں۔ اس اعتبار سے یہاں صرف بھارت کے بجاے پورے برعظیم کا نقشہ دینا زیادہ قرینِ انصاف ہوتا۔مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے، تاہم اس موضوع پر مزید کام کی گنجایش موجود ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


احمدی دوستو! تمھیں اسلام بلاتا ہے؟ محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۳۸۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (مجلد)

۱۹ ویں صدی میں انگریزی سامراج نے ہندستان میں پنجے گاڑے تو اس نے مختلف سطحوں پر اپنے اقتدار کے جواز کے لیے کام کیا۔ مثال کے طور پر جنگی میدان میں، تعلیمی محاذ پر، ثقافتی پہلو سے اور مذہبی دنیا کے اندر۔ ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان اس کافرانہ حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے انھوں نے اسلام کی من مانی تعبیر کے لیے مختلف حلقوں کو اُبھارا۔ اس مہم میں مرزا غلام احمد آف قادیان انگریزوں کے ہم سفر اور رفیق بنے اور اسلام کی ایک نئی تعبیر پیش کی، جو بہت سے لوگوں کی گمراہی اور ارتداد کا سبب بنی۔ مسلمانوں نے اس چیلنج کا ہر سطح پر مقابلہ کیا اور بالآخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے کھلے مباحث کے بعد قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا۔

محمد متین خالد قادیانیت پر لکھنے والوں میں ایک معروف نام ہے۔ آپ قادیانیت کے تضادات اور اس کے باطل ہونے اور اسلام کی حقانیت پر بہت سی کتب، ٹھوس دلائل اور کھلے کھلے شواہد کے ساتھ لکھ چکے ہیں۔ اسلام چونکہ صراطِ مستقیم اور راہِ اعتدال کی دعوت کا علَم بردار ہے، لہٰذا ایسی کتاب کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی تھی جس میں نہایت دل سوزی کے ساتھ قادیانیوں کو اسلام اور نجات کی راہ کی طرف دعوت دی جائے۔ زیرتبصرہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔

مصنف نے دلیل اور ثبوت کے ساتھ دردمندی سے ’احمدیوں‘ [قادیانیوں] کو یہ دعوتِ فکر دی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی اور مرزا بشیرالدین صاحبان کی اصل تحریروں کو پڑھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں، اور ظاہر ہے وہ نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جس چیز کو مرزا صاحب نے پیش کیا ہے وہ فکری پراگندگی ہے، اسلام نہیں۔ کتاب کا اسلوب مناظرانہ نہیں، تحقیقی اور داعیانہ ہے۔ اس میں بڑے مرزا صاحب کی ۴۷ اور بشیرالدین صاحب کی ۱۰ کتب کے صفحات سے اصل عکس پیش کرکے اسلام اور قادیانیت کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے یہ کتاب قادیانی حضرات کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے اور تحفے میں پیش کرنے کے قابل ہے۔ (سلیم منصور خالد)


منّتِ ساقی، محمد سرور رجا۔ ناشر: اوٹی انٹرپرائزز۔ پتا: ایم ایس رجا، ۶۰ روسل ڈرائیو، سٹیپل فورڈ نوٹنگھم، این جی ۹، ۷-ای جے، برطانیہ۔ پاکستان میں ملنے کاپتا: منشورات، منصورہ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ صفحات: ۱۵۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

جناب محمد سرور رجا طویل عرصے سے دُور دیس (برطانیہ) میں مقیم ہیں تاہم اُردو زبان و ادب، پاکستان اور علامہ اقبال سے ان کا رشتہ و رابطہ، وطن عزیز میں رہنے والے اہلِ قلم ہی کی طرح قائم و استوار ہے۔ اس تعلق کا سب سے اہم پہلو علامہ اقبال اور ان کے افکار و تصورات سے ان کی دلی وابستگی ہے۔ چنانچہ انھوں نے علامہ کے فارسی کلام کا بہت سا حصہ منظوم اُردو میں منتقل کرکے اس کا ثبوت مہیا کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ زیرنظر کتاب منّتِ ساقی ایک تازہ کڑی ہے جو پیامِ مشرق کے تقریباً تین چوتھائی منتخب کلام کا منظوم اُردو ترجمہ ہے۔

اقبال کا فارسی کلام اور اس کا منظوم اُردو ترجمہ آمنے سامنے (باہم بالمقابل) دیے گئے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ قبل ازیں ہالۂ نور کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ بقول مترجم: ترجمے میں التزام ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ بھی اسی بحر میں ہو جس میں فارسی غزل ہے۔ اور جہاں ممکن ہو،  قوافی بھی اصل کے مطابق لائے گئے ہیں۔ اسی طرح فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں جو حسین مطابقت ہے، اسے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کلامِ اقبال کا زیرنظر ترجمہ اُردو اور فارسی دونوں زبانوں اور فنِ شاعری پر مترجم کی دسترس کا ثبوت ہے۔ متعدد فاضل اہلِ قلم نے رجاصاحب کی زیرنظر کاوش کو سراہا ہے۔ مجلسِ اقبال لندن کے ناظم جناب محمد شریف بقا لکھتے ہیں: ’’اکثر مقامات پر آپ نے علامہ اقبال کے فارسی اشعار کا اتنا مناسب، برمحل اور عمدہ ترجمہ کیا ہے کہ بے اختیار آپ کی شعری مہارت اور خوبی ٔترجمہ کی داددینا پڑتی ہے‘‘۔

جلی کتابت، پایدار کاغذ، اُجلی طباعت اور مضبوط جِلد کے ساتھ کتاب اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ ہمیں امید ہے اقبالیات کے شعبۂ تراجم میں یہ مجموعہ ایک قابلِ قدر اضافہ قرار پائے گا۔(رفیع الدین ہاشمی)


رہنمایانِ جماعت اسلامی اور مثالی کارکنان ، محمد کلیم اکبر صدیقی۔ ملنے کا پتا: بی-۱۹۰، گلگشت کالونی، ملتان، فون: ۶۲۲۴۲۹۲-۰۶۱۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

یہ کتاب ایک کارکن کے تاثرات و مشاہدات ہیں جس میں مؤلف نے اپنے مشاہدے میں آنے والے، جماعت کے مرکزی، صوبائی، ضلعی اور مقامی رہنمائوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض حضرات گرامی فرضِ بندگی ادا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں، اور دوسرے  حقِ بندگی ادا کرنے میں کوشاں ہیں۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، پروفیسر غلام اعظم، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالغفور، حافظ محمد ادریس، لیاقت بلوچ، میاں مقصود احمد، ڈاکٹر نذیر احمد شہید، محمد باقر خان کھرل، چودھری نذیر احمد، مولانا خان محمد ربانی، مرزا مسرت بیگ، مولانا معین الدین، شیخ عبدالمالک، سیدنصرشاہ، محمد عقیل صدیقی، ملک وزیرغازی، حکیم عبدالکریم جاذب، ڈاکٹر محمداعظم صاحبان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

جماعت کے ابتدائی کارکنان کی زندگیوں کا یہ تذکرہ، نئے آنے والوں کے لیے جہاں جذبے اور ولولے کا باعث ہے وہیں تاریخ کی جھلکیاں پیش کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس اعتبار سے اس میں متعدد دل چسپ معلومات یک جا ہوگئی ہیں۔(عمران ظہور غازی)

تعارف کتب

  •  سید مودودی کا داعیانہ کردار: محمد حسین شمیم۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ [مصنف نے کئی برس پہلے سید مودودی: پُرعزم زندگی، گم نام گوشے کے نام سے مولانا مودودی سے متعلق اپنی یادداشتیں کتابی صورت میں مرتب کی تھیں۔ زیرنظر    کتابچہ ایک اعتبار سے انھی یادداشتوں کا تکملہ ہے۔ ’ذاتی مشاہدات و تاثرات‘ کو انھوں نے مختلف عنوانات (سید مودودی: پُروقار شخصیت، سید کے معمولات، بسلسلہ خط کتابت، نماز باجماعت، وقت کی پابندی، بیماری، خوراک، اِستغنا، اہل و عیال، بصیرت) کے تحت پیش کیا ہے۔ سید مودودی کی شخصیت اور گئے وقتوں میں جماعت اسلامی کا مزاج اور افتاد و نہاد کیا تھی، یہ جاننے کے شائق قارئین اس کتاب کو دل چسپ اور معلومات افزا پائیں گے۔]
  •  گنجینہ مہر (اول و دوم) ، مرتب: محمد عالم مختارِ حق۔ ناشر: مغربی پاکستان،اُردو اکیڈمی۔ ۲۵- سی، لوئرمال، لاہور۔ فون: ۷۵۱۲۷۲۴۔ صفحات، اول:۲۸۸، دوم: ۲۷۹۔ قیمت، اول و دوم : ۲۵۰ روپے۔ [جناب محمد عالم مختارِ حق کے نام مولانا غلام رسول مہر مرحوم کے ۳۱۴ طویل اور مختصر رقعات اور مکتوبات کا مجموعہ، مع حواشی و تعلیقات از مکتوب الیہ۔ مہرصاحب کی شخصیت، تصنیفی اور صحافتی سرگرمیاں، علمی ذوق شوق، معاصرین کے ساتھ ان کا تعلق، خصوصاً علامہ اقبال سے ربط و ضبط، اسی طرح تاریخی روایات و واقعات کی صراحت، لفظوں کی لغوی تحقیق، غرض ان مکتوبات میں بلا کا تنوع ہے۔ مہرصاحب کا ذوقِ شعر ان کے مرشدِ معنوی ابوالکلام آزاد کی یاد دلاتا ہے۔ اہلِ علم اور ذوق مطالعہ رکھنے والوں کے لیے ایک دل چسپ کتاب۔]

 

محمد وقاص ،واہ کینٹ

’رُکو نہیں، تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر‘ (مئی ۲۰۰۹ء) محترم امیر جماعت سید منور حسن کی تحریر جذبوں کو مہمیز بخشنے والی تھی۔

ڈاکٹر رشید احمد ، ملتان

’مغرب اور اسلام کی کش مکش ___ ایک مغربی نقطۂ نظر‘ (مئی ۲۰۰۹ء) ہر باشعور مسلمان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر اب تک، مغرب کے اہلِ دانش نے اسلام اور اسلامی تحریکوں کے خلاف  کیا کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اسی منصوبہ بندی کے ثمرات تو آج کل عالمِ اسلام دیکھ رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ خود مسلمان ممالک کے اندر سے اسلامی تحریکوں پر فکری حملے ہونے لگے ہیں اور ’معتدل اسلام‘ کے نام پر باطل سے سمجھوتہ کرنے پر نہ صرف فخر کیا جاتا ہے بلکہ اسے مسلمانوں کی آزادی کا ذریعہ بتایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال تو پہلے ہی فرما گئے ہیں    ؎

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

محمد حسین شمیم ،لالہ موسیٰ

’مفاہمت کے نام پر‘ـ تبصرہ صحیح معنوں میں اس کتاب کا پوسٹ مارٹم ہے۔ یہ تبصرہ بروقت، مدلّل اور سچائی پر مبنی ہے۔

خلیل الرحمٰن چشتی ، اسلام آباد

’مفاہمت کے نام پر‘ مضامین (مارچ-اپریل ۲۰۰۹ء) شاہ کار ہیں۔ انھیں قرآن و سنت کے دلائل سے مزید مزین کیا جاسکتاہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بے نظیر جیسے لوگ اسلام اور اسلامی تحریکوں کا فہم کن کتابوں سے حاصل کرتے ہیں، اور اُس کے انسانی ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قرآن وسنت کے راست علم کی دانش مختلف ہوتی ہے۔مصلحت پسند سیاسی سوچ رکھنے والوں کی عقل پر حیرت اور افسوس ہے۔

اقبال خان ، ضلع اٹک

’مفاہمت کے نام پر‘ (مارچ-اپریل ۲۰۰۹ء) وقت کی آواز ہے۔ وطنِ عزیز کی سیاست کی طرح یہاں کی سیاسی تاریخ کے ساتھ میکیاولی کے پیروکار سیاست دانوں نے جو سلوک کیا ہے، اسے ’تاریخ کی آبروریزی‘ سے بہتر نام نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے لوگ جب اپنے ہی پیدا کردہ فساد کی نذر ہو جاتے ہیں تو انھیں اُوتار بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرے کے سامنے بے نقاب کرنا ترجمان جیسے جریدے کی وقعت میں کمی نہیں، اضافے کا باعث ہے۔

ایک اور اہم معاملہ بھی توجہ کا محتاج ہے۔ بجلی کی کمی کے اسباب اور پٹرولیم کی خرید اور فروخت میں قیمتوں کے تفاوت کے اصل اعداد و شمار پوری قوم کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ بڑے بڑے وقیع ادارے اور تنظیمیں بھی اصل حقائق سامنے نہیں لاسکیں۔ حد سے حد، سیاسی بیان بازی، مطالبات یا چند غیرمصدقہ اعداد وشمار ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اہلِ علم کو توجہ دلائی جائے کہ پوری باریک بینی سے مصدقہ اور مستند حقائق قوم کے سامنے پیش کیے جائیں۔

سید حامد عبدالرحمٰن الکاف ،یمن

اپریل ۲۰۰۹ء کا ترجمان کھولا تو ۶۰ سال پہلے کے تحت ’ایک وقت آئے گا…‘ نظرافروز ہوا۔    بے اختیار زبان سے سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے، سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو فراستِ مومن کے خزانوں میں سے وافر مقدار میں مالامال کیا تھا۔ انھوں نے اسلام پر اور مستقبلِ اسلام پر اپنے غیرمتزلزل ایمان کی روشنی میں اُن دنوں کو دیکھ لیا تھا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا، سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ یہ سنہری سرمدی کلمات ان کے جادو اثر قلم سے اس وقت نکلے___ مارچ ۱۹۴۷ء___ جب ان دونوں باطل نظاموں کا چاردانگ عالم میں طوطی بول رہا تھا۔ اس وقت کوئی ایسی بات سوچنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا تھا، کجا ہ وہ اس کو تحریر میں لے آئے اور شائع کرنے کی جسارت بھی کرے۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (المائدہ ۵:۵۴)

اللہ تعالیٰ کا ہم پر بھی فضلِ خاص ہے کہ اس نے ہم کو ۱۹۹۱ء کے آخری ایام میں اپنی چشم سر سے کمیونزم کو خود ماسکو میں نیست و نابود ہوتے دیکھنے کا موقع عنایت فرمایا، اور اب واشنگٹن میں سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی کو حالیہ معاشی بحران سے اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام دیکھ رہے ہیں۔

 

یہ وقت جس سے ہم آج گزر رہے ہیں، ہماری قومی و ملّی تاریخ کے نازک ترین اوقات میں سے ہے۔ اس وقت ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے سامنے جو دو راستے کھلے ہیں، اُن میں سے کس کی طرف بڑھیں۔ اس موقع پر جو فیصلہ بہ حیثیت قوم ہم کریں گے، وہ نہ صرف ہمارے مستقبل پر، بلکہ نہ معلوم کتنی مدّت تک ہماری آیندہ نسلوں پر اثرانداز ہوتا رہے گا۔ ہمارے سامنے ایک راستہ تو یہ ہے کہ ہم ان اصولوں پر اپنے نظامِ زندگی کی بنیادیں کھڑی کریں جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔ ہماری ساری کی ساری زندگی___ ہماری معاشرت، ہماری معیشت، ہمارا تمدن، ہماری سیاست، غرض سب کچھ ان اصولوں پر استوار ہو جو اسلام نے مقرر کر دیے ہیں۔ دوسرا راستہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم کسی مغربی قوم کے نظامِ زندگی کو قبول کرلیں خواہ وہ اشتراکیت ہو، لادینی جمہوریت ہو یا کوئی اور نظامِ زندگی ہو۔

اگر خدانخواستہ ہم نے دوسرے راستے کو پسند کیا، تو ہم اپنے اسلام کی بہ حیثیت قوم نفی کریں گے، اور اپنے ان تمام اعلانات سے منحرف ہوں گے جو ایک مدت سے ہم خدا اور خلق دونوں کے سامنے کرتے رہے ہیں اور اس اجتماعی وعدہ خلافی کی وجہ سے خدا و خلق دونوں کے سامنے ہمیں رسوا ہونا پڑے گا، پھر اس راستے پر چلنے کا سب سے زیادہ افسوس ناک نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندستان میں اسلام کی تاریخ کا قطعی خاتمہ ہوجائے گا۔ بخلاف اس کے اگر ہم پہلا راستہ انتخاب کریں اور خالص اسلامی اصولوں پر اپنی قومی زندگی کو قائم کریں تو ہم دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اور آخرت میں بھی ہمارے لیے کامیابی ہوگی، ہم خدا کے حضور بھی سرخ رو ہوں گے اور خلق کے سامنے بھی ہمارا وقار قائم ہوسکے گا۔ ہم اسلامی نظامِ زندگی کے علَم بردار بن کر پھر اسی مقام پر کھڑے ہو جائیں گے جس پر ہزاروں برس پہلے جب ایک قوم کھڑی ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب کرکے ارشاد فرمایا تھا کہ اِنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ، یعنی تمھیں دنیا کی ساری اقوام پر فضیلت دی جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد جب اسی مقامِ عظمت پر ایک دوسری قوم کھڑی ہوئی تو اسے کہا گیا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اور کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ، یعنی تم بہترین اُمت ہو اور تمھیں مرکز اُمت بنایا گیا ہے۔ (’مطالبۂ نظامِ اسلامی‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۳۲، عدد۱، رجب ۱۳۶۸ھ، جون ۱۹۴۹ء، ص ۱۲-۱۳)

انبیا کا طریقۂ تبلیغ کوئی جامد طریقہ نہیں ہے بلکہ انسان کی علمی و ذہنی ترقیوں کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی اور ترقی ہوتی رہی ہے جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ سائنس اور تمدن کی ترقی سے انسان کے وسائل کار اور ذرائع معلومات میں جو اضافے ہوئے ہیں ان سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حق داعیانِ حق کو ہے۔ مثلاً آج پریس اور ریڈیو وغیرہ نے انسان کی قوتِ ابلاغ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ ایک بڑی سے بڑی تقریر چند منٹوں کے اندر دنیا کے ایک گوشے سے لے کر دوسرے گوشے تک پہنچائی جاسکتی ہے، کسی وسیع سے وسیع تحریک سے چند دنوں کے اندر اندر دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسانوں کو آشنا کیا جاسکتا ہے، مشکل سے مشکل باتیں بہت معمولی محنت سے عوام اور خواص سب کے ذہن نشین کی جاسکتی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ آج حق کی تبلیغ کے لیے ان ذرائع پر قبضہ کیا جائے۔

اگر اہلِ حق یہ خیال کر کے ان چیزوں کو نظرانداز کردیں کہ انبیا نے تبلیغ دین کے کام میں ان چیزوں کو استعمال نہیں کیا ہے بلکہ دروازے دروازے پر پہنچ کر ایک ایک شخص پر تبلیغ کی ہے، اس وجہ سے ہمارے لیے بھی اولیٰ یہی ہے کہ ہم ان چیزوں کو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو تبلیغ کریں، تو یہ انبیا کے طریقے کی پیروی نہیں ہے بلکہ شیطان کا ایک بہت بڑا دھوکا ہے، جو وہ اس لیے دے رہا ہے تاکہ جب تک آپ اپنے ’دین دارانہ‘ طریقے پر چل کر دو آدمیوں سے کوئی بات کہیں، اس وقت تک وہ ان سائنٹی فک وسائل سے کام لے کر ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں تک اپنی دعوتِ باطل نہایت مؤثر طریقہ پر پہنچا دے۔ شیطان نے یہی دھوکا دے کر اکثر اہلِ حق کی کوششوں اور قابلیتوں کو نقصان پہنچا دیا ہے اور ان کے مقابل میں خود اپنا پلّہ بھاری رکھا ہے۔ یہاں تک آہستہ آہستہ اب زندگی کے ہرمیدان میں یہ پیچھے ہیں اور وہ آگے ہے اور دونوں کی کوششوں کے نتائج میں سرے سے کوئی نسبت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے، اور یہی صورت حال اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اہلِ حق ان زبردست قوتوں کو حق کی خدمت میں استعمال کرنے کا ڈھنگ نہ سیکھ جائیں جو آج ۱۰۰ فی صد شیطان کے تصرف میں ہونے کی وجہ سے باطل کی خدمت میں صرف ہو رہی ہیں۔ (’دعوت کے طریقے‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد ۳۰، عدد ۵،جمادی الثانی ۱۳۶۶ھ، اپریل ۱۹۴۷ء، ص ۱۹-۲۰)