بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۰ تا ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۰ء واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ’اسٹرے ٹیجک مذاکرات‘ کے نام سے جاری بات چیت کا تیسرا دور منعقد ہوا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے انجام دی ہے۔ ۱۳ وزارتوں کے نمایندوں (بشمول پانچ وزرا) نے ان مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن پاکستان کی جانب سے کلیدی کردار بری افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی نے ادا کیا ہے۔
جنرل صاحب حسب معمول خاموش ہیں، لیکن پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیر اطلاعات پھولے نہیں سما رہے اوریہ دعویٰ تک کر رہے ہیں کہ: ’’ہمیشہ امریکا ہمیں سناتا اور مطالبات کرتا تھا، لیکن اب وہ ہماری بھی سن رہا ہے اور ہم نے ’برابری کی بنیاد‘ پر بات چیت کی ہے‘‘۔ ایک وزیرصاحب نے ارشاد فرمایا: ’’امریکا ہمیں کمزور نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ ایک اور شریکِ سفر وزیر کا فرمانا ہے: ’’امریکا ملک کے شمال مغربی علاقے میں دو چھوٹے ڈیم بنانے کے مصارف برداشت کرے گا‘‘، اور سب ہی آواز میں آواز ملا کر کہہ رہے ہیں: ’’ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نئی زندگی اور تقویت میسر آئی ہے‘‘۔
ملک کے کم و بیش تمام اخبارات نے اپنے ادارتی تبصروں میں، حزبِ اختلاف کے تمام قائدین نے بیانات کے ذریعے، اور ٹی وی کے معروف ٹیلی میزبانوں میں سے بیش تر نے اپنے تجزیاتی پروگراموں میں ان دعووں کو بڑی حد تک ہوائی باتیں اور حقیقت سے عاری اور خوش فہمی پر مبنی خام خیالیاں قرار دیا ہے۔ امریکا سے پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تقریباً ۶۰برسوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کی روشنی میں اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے کہ پاک امریکی تعلقات محض وقتی اور مالیاتی لین دین کے مرحلے (transanctional framework) سے نکل کر اب زیادہ اصولی، دیرپا اور بنیادی نوعیت کے تعاون میں داخل ہوگئے ہیں، جسے بین الاقوامی تعلقات کی اصطلاح میں برابری کے اسٹرے ٹیجک تعلقات کہا جاتا ہے۔ زبانی کلامی ایسے دعووں کا آغاز بش کے آخری دور میں ہوگیا تھا، مگر اس کو ایک متعین شکل اب صدر اوباما کے دور میں دی جارہی ہے اور عملاً اس کا آغاز فروری ۲۰۱۰ء سے ہوا ہے۔ حالیہ مذاکرات اس سلسلے کی تیسری کڑی ہیں اور چوتھا رائونڈ ۲۰۱۱ء کے آغاز میں متوقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ گہرائی میں جاکر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی اصل حقیقت کو متعین کریں، تاکہ قوم، پارلیمنٹ، میڈیا اور اگر اللہ توفیق دے تو موجودہ قیادت حالات کا صحیح صحیح ادراک کرسکے اور اس کی روشنی میں سیاسی، عسکری، معاشی اور تہذیبی حکمت عملی کی صورت گری کرے۔
ویسے تو خارجہ تعلقات کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں اور نہ دشمن، مستقل اور دائمی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مفادات ہیں۔ اس لیے ایک ملک کی خارجہ پالیسی انھی مفادات کے گرد گردش کرتی ہے۔ البتہ ان مفادات کے تعین میں متعلقہ ملک کے عالمی اور علاقائی مقاصد اور اہداف، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی معاشی، عسکری اور سیاسی قوت پر مشتمل عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت بنتے اور بدلتے تعلقات پر جہاں وقتی عناصر اور تقاضے اثرانداز ہوتے ہیں، وہیں کچھ دیرپا تعلقات اور روابط بھی ہیں جو لنگر کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اور ان کا انحصار بھی مقاصد کی ہم آہنگی، اقدار میں اشتراک اور مفادات کی یکسانی پر ہوا ہے اور انھی کی بنیاد پر ایک تعمیری یا افادی انداز میں تزویراتی (strategic) شراکت وجود میں آتی ہے۔
نظری طور پر ایسی حکمت عملی کے تصور کا شجرہ نسب یونان کے مفکرین سے جا ملتا ہے۔ یونانی زبان میں اس کا اصل مفہوم generalship ہے، جس کے معنی جنگ میں اعلیٰ ترین سطح پر مقاصد اور حکمت عملی مرتب کرنے کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹرے ٹیجی [حکمت کاری]کا تصور فلسفۂ جنگ کا ایک کلیدی تصور رہا ہے اور وہیں سے یہ علمِ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں داخل ہوا اور پھر تزویراتی ہیکل یا strategic structure خود ایک مستقل مضمون بن گیا۔ دورِ حاضر میں جنگ اور اس کی صورت گری کرنے والے داخلی اور خارجی عوامل، اور خود جنگ کی حکمت عملی اور اس حکمت عملی کو عمل کا روپ دینے اور معاملات کا گہرائی کے ساتھ جس شخص نے مطالعے کا آغاز کیا ہے، وہ ایک جرمن فوجی کمانڈر اور استاد کارل وون کلازے ویٹز (۱۸۳۳ئ-۱۷۸۰ئ) ہے، جس کی کتاب On Warایک کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اس نے اسٹرے ٹیجی اور چال (tactic) کے فرق کو نمایاں کیا ہے۔ تزویری حکمت عملی کا تعلق مقصد اور اصل جنگی اہداف سے ہے، جب کہ ٹیکٹک ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع، اعمال اور تنفیذی اقدام سے متعلق ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں میں ملٹری سائنس، علمِ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے اپنے انداز میں ان تصورات کو مزید نکھارا گیا اور اسٹرے ٹیجی میں بھی ’عظیم تر اسٹرے ٹیجی‘ اور ’عملی اسٹرے ٹیجی‘ کی درجہ بندی کی گئی۔ پھر جنگ، سرد جنگ، توازن، قوت وغیرہ کے پس منظر میں ان تصورات کو مزید ترقی دی گئی۔۱؎
خارجہ سیاست کے ان مباحث کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعلقات صرف تین ممالک سے ہیں، یعنی برطانیہ، جو اب ایک صدی پر محیط ہیں، اور اسرائیل اور ناٹو ممالک جو تقریباً ۶۰ سال کے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔ دنیا کے باقی ممالک سے اس کے تعلقات محض کاروباری معاملہ فہمی کی حد تک رہے ہیں اور مفادات کی دھوپ چھائوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، جس کی زیادہ تر حیثیت آنکھ مچولی کی رہی ہے۔ کلنٹن کی صدارت کے دور میں بھارت سے امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسے اسٹرے ٹیجک تعلقات کی طرف لے جانے کا آغاز ہوا۔ گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں میں آہستہ آہستہ معاشی، عسکری اور سیاسی میدانوں میں اس سمت میں پیش رفت ہوئی، جسے بالآخر صدبش کے دور میں ۲۰۰۶ء میں نیوکلیر تعاون کے معاہدے کے ذریعے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی شکل دے دی گئی۔ امریکا میں بھارتی کمیونٹی نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ صدراوباما کی حکومت کے ایک درجن سے زیادہ کلیدی مناصب پر بھارتی نژاد امریکی رونق افروز ہیں۔ بھارت اور امریکا کی تجارت کا حجم اس وقت ۶۱ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پھر بھارت اور امریکا کی براہِ راست سرمایہ کاری ۱۶ ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہے۔ امریکا سے کمپیوٹر ٹکنالوجی کی ہر پانچ کمپنیوں میں سے دو بھارت میں اپنا کام پھیلا چکی ہیں اور دفاعی میدان میں اسلحے کی خریداری، بھارتی مسلح افواج کی جنگی تربیت اور مشترکہ شعبوں میں تعاون کے لیے حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت نے اگلے پانچ سال کے لیے جس ۱۰۰ ملین ڈالر کی جنگی خریداریوں کا منصوبہ بنایا ہے، اس کا بڑا حصہ امریکا اور اسرائیل سے حاصل کیا جانا ہے۔ بھارت اور امریکا کا نیوکلیر تعاون کوئی حادثاتی یا وقتی تعاون کا معاہدہ نہیں ہے، بلکہ ہموار تعلقات کا ایک حصہ ہے، جس میں بھارت کو چین کے مقابلے ایک علاقائی سوپر پاور سے بڑھ کر ایک عالمی جنگی کھلاڑی کے کردار پر مامور کرنے کی مشترک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کا معاملہ اسی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کا ایک پہلو ہے۔
اس پس منظر میں پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت پسندی کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حال اور مستقبل کے امکانات کا صحیح صحیح ادراک کرے، اور محض خوش فہمیوں، سر ٹکرانے کی مشقوں اور خوش نما مگر بے معنی الفاظ کے طلسم کا شکار ہوکر، اسٹرے ٹیجک مغالطوں اور دھوکوں کی دلدل سے ملک و قوم کو محفوظ رکھے۔ حال اور مستقبل کا کوئی مبنی برحقیقت نقشہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں عالمی اور علاقائی حالات کو سمجھے بغیر بنانا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد امریکا کے جمہوری دعووں اور سامراج کی گرفت سے آزاد ہونے والے ممالک کی تحریکاتِ آزادی کے بارے میں امریکی قیادت اور دانش وروں کے اعلانات کی روشنی میں معاشی تعاون اور سیاسی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ خود قائداعظم نے میرلائق علی کے ذریعے امریکی صدر کو خصوصی پیغام بھیجا، لیکن اس کا کوئی بامعنی ردعمل رونما نہ ہوا۔ پھر جب خان لیاقت علی خاں کو اشتراکی روس کے دورے کی دعوت ملی تو امریکا نے نہ صرف ان کو دورے کی دعوت دے دی، بلکہ اس کے لیے سیاسی چال بازی سے بھی کام لیاجس کے نتیجے میں روس کا دورہ منسوخ اور امریکا کا دورہ کرنا منظور ہوا۔ اس دورے کے نتیجے میں عملاً کچھ حاصل کیے بغیر ہم اپنے اڑوس پڑوس میں روس سے دُور اور ہزاروں کلومیٹر دُور امریکا کے کیمپ کی طرف سرکنے بلکہ لڑھکنے لگے۔ اس موقع پر امریکا نے ایک نئی چال چلی، جس کے بڑے دور رس اثرات پاکستان کی پوری تاریخ، اس کے بین الاقوامی تعلقات کے رُخ اور سب سے بڑھ کر ملک کی اندرونی سیاست اور قومی سلامتی کی نئی صورت گری اور پاکستانی مسلح افواج کے سیاسی کردار کی شکل میں مرتب ہوئے۔ بلاشبہہ اس میں پاکستانی افواج کی اس وقت کی قیادت کے اپنے عزائم کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا۔ تالی کے دونوں ہی ہاتھ سرگرم تھے۔ گویا ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔
پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد جنرل ایوب کی اقدامی کوشش سے ممکن ہوئی۔ یہ خیال ان کے دماغ میں آیا اور امریکا کے سیاسی اور فوجی قائدین سے ان کے مذاکرات کے نتیجے میں امریکی حکومت نے پاکستان کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کی دعوت دی۔ (دیکھیے: My Chief، لیفٹیننٹ کرنل محمداحمد، ۱۹۶۰ئ، ص ۷۳-۷۴)
جنرل ایوب خان کی کوششوں سے پاکستان سیٹو (SEATO) اور سنٹو (CENTO) کے جال میں پھنسا۔ دوسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ کے دورِ حکومت میں امریکا چین تعلق کا باب کھلا۔ تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں فوجی اور معاشی تعاون نئی بلندیوں پر پہنچا۔ چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کو جھونک دیا، جس آگ میں افغانستان اور عراق کے ساتھ پاکستان بھی جل رہا ہے اور خصوصیت سے اس کے شمالی علاقے اور ان علاقوں میں بھی خصوصیت سے سوات، باجوڑ،شمالی اور جنوبی وزیرستان برستی آگ اور بہتے خون کی لپیٹ میں ہیں۔ اب ’اسٹرے ٹیجک تعلقات‘ کے عنوان سے اس آگ کو شمالی وزیرستان میں بھی بھڑکانے کے لیے ترغیب و ترہیب کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے اور ۲ارب ڈالر کے وعدۂ فردا پر مبنی فوجی امداد کا چکمہ بھی دیا گیا ہے۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا اور اصل چہرہ یہ ہے کہ ہر دور میں پاکستان کو تو اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا، لیکن جب بھی پاکستان پر کوئی کڑا وقت پڑا تو بے رُخی سے منہ دوسری طرف موڑ لیا گیا۔ جب ۱۹۶۵ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسی لمحے امریکا نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد کو بند کر دیا حتیٰ کہ ان فاضل پرزوں سے بھی فوج کو محروم کر دیا گیا، جو ملک کی سیکورٹی کے لیے ضروری تھے۔ یہی ڈراما دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہوا۔ پھر اپنی بدترین شکل میں افغانستان سے روسی فوجیوں کے انخلا کے معاً بعد نہ صرف افغانستان کو غیریقینی پن اور بدترین انتشار میں دھکیل دیا گیا اور پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنے اور ۳۰لاکھ سے زائد مہاجرین کے بوجھ کو تن تنہا سنبھالنے کی آزمایش میں ڈال دیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ چشم زدن میں امریکی صدر کو نیوکلیر پھیلائو میں پاکستان کا کردار بھی نظر آنے لگا اور اسے پوری بے دردی سے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو محض مطلب براری کا ایک ڈھکوسلا سمجھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ئ) کے بعد سے دنیا کے تقریباً ہر اس ملک سے، جسے امریکا نے اپنی دوستی کے جال میں پھنسایا ہے، اپنا کام نکالنے کے بعد ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیا ہے۔ اس کا مقصد محض اپنے ایجنڈے کی تکمیل رہا ہے، کسی نوعیت کی حقیقی دوستی اور شراکت نہیں۔ امریکا کا کردار مفاد پرستی کے ساتھ ساتھ دوغلے پن، رعونت اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے عوام نے ۱۹۶۵ء کے بعد کبھی بھی امریکا کو اپنا دوست تصور نہیں کیا، حتیٰ کہ اس زمانے میں بھی جب افغان جہاد کے سلسلے میں امریکا، پاکستان اور عالمِ اسلام میں خاصی قربت تھی۔ عراق ایران جنگ کے دوران میں تو امریکا مخالف لاوا بری طرح پھٹ پڑا۔ تمام اسلامی ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی اسرائیل نوازیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح امریکا نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور افغانستان، عراق، اور خود پاکستان کے علاقوں کو جنگ کا میدان بنا دیا، اس نے امریکا مخالف کے جذبات کو تقویت دی، اور ان مسلمان حکمرانوں کو بھی نفرت کا ہدف بنادیا، جو امریکا کا ساتھ اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے برعکس دے رہے تھے۔ ۲۰۰۲ء سے آج تک جتنے بھی سروے پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا میں ہوئے ہیں، ان میں آبادی کی عظیم اکثریت نے مسلمان ممالک بشمول پاکستان ۷۰ سے ۸۰ فی صد آبادی نے امریکا کی پالیسیوں، اس کے جارحانہ اقدامات، اور اس کے دوغلے پن پر شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ گیلپ کے سروے ہوں، یا پیوگلوبل کے، یا خود امریکی اداروں کے۱؎، ان سب کا حاصل امریکا کے خلاف شدید بے زاری، اس کے سامراجی ایجنڈے کی مخالفت رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں اس کی فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت، امریکا اور اس کی ان پالیسیوں اور اقدام کو اپنی آزادی، سلامتی اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا ہے۔ امریکا نے جو بھی کوشش مسلمانوں کے دل و دماغ میں کوئی خوش گوار تصور قائم کرنے کے لیے کی، وہ بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسلمان عوام کا عزم اور ارادہ بالکل واضح ہے، یعنی امریکا کی گرفت سے آزادی۔ جہاں بھی وہ فوج کشی کر رہا ہے، اس کے خاتمے اور اپنے معاملات کو خود اپنے نظریات، تصورات اور خود اپنے مفادات کی روشنی میں منظم اور مرتب کرنے کے عزم اور امریکا کی گرفت سے نجات کی کوشش ایک عملی جذبے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔
عوام کی سوچ ، اور حکمرانوں کی سوچ اور پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کا اندازہ اس سروے سے کیا جاسکتا ہے، جو خالص امریکی ادارے ’نیوامریکن فاونڈیشن‘ نے سوات، باجوڑ اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں ابھی ۲۰۱۰ء کے وسط میں کیا ہے اور جس سے خود ان کے دانش ور انگشت بدنداں ہیں۔ یہ سروے صرف اس علاقے کے لوگوں کی آرا پر مبنی ہے، جہاں اس وقت دہشت گردی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا محاذ گرم ہے۔ جہاں پاکستانی فوج اور امریکی ڈرون حملے بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم ہیں، اور اس طرح مقامی آبادی کو دہشت گردوں سے بچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن آگ اور خون کی اس ہولی کے ستم زدہ عوام کا ۷۵ فی صد امریکا کے ڈرون حملوں کا مخالف ہے۔ سروے میں جواب دینے والوں میں سے ۴۸ فی صد کی راے میں ان حملوں سے صرف معصوم انسان لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ ۳۳فی صد کا دعویٰ ہے کہ سویلین اور دہشت گرد دونوں ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سروے کا سب سے زیادہ چشم کشا حصہ وہ ہے، جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو دہشت گردوں کے خلاف ہیں، ان میں سے بھی ۱۰ میں سے ۶، یعنی ۶۰ فی صد یہ کہتے ہیں کہ: ’’امریکی افواج کے خلاف خودکش حملے اپنا جواز رکھتے ہیں‘‘۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ ۱۰ فی صد کی نگاہ میں پاکستانی فوج جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے، اسے بھی نشانہ بنایا جانا درست ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، اسلام آباد، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ، دی نیشن، لاہور، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کی آبادی کا ۸۰ فی صد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور اس میں پاکستان کی حکومت اور فوج کی شرکت کے خلاف ہو اور فاٹا کا وہ علاقہ جسے دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے امریکی فوج ڈرون حملے کر رہی ہو، وہاں کی آبادی بھی ۷۵فی صد، ڈرون حملوں کے خلاف ہو، وہاں کے ۶۰ فی صد لوگ امریکی فوج کے خلاف خودکش حملوں تک کو صحیح سمجھتے ہوں اور جس ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس میں مکمل یکسوئی کے ساتھ متفقہ طور پر خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے، ملک کی حاکمیت پر حملوں کا جواب دینے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہو، اس کی حکومت اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے نام پر امریکی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور امریکا کے لیے اپنے لوگوں کو مارنے اور اپنے ہی علاقوں میں بم باری کرنے کی خدمات کا صلہ وصول کرنے کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو کیا اسے قوم کے عزائم اور خواہشات کے مطابق کہا جائے گا یا ان کی مکمل نفی سمجھا جائے گا؟
حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں جتنی وسیع خلیج حائل ہے، اور خود ملک میں پائے جانے والے ایک نہیں کئی کئی حوالوں سے اعتماد کا بحران ہے۔ ایک پالیسی کے واضح تفاوت (policy deficit) کی غمازی کرتا ہے۔ یہ عمل اپنی اصل کے اعتبار سے بالآخر خود جمہوریت کے فقدان (democracy deficit) کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جمہوریت نام ہے عوام کی مرضی کے مطابق حکمرانی کا۔ جمہوریت، حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں کی خواہشات مسلط کرنے کا نام نہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کو خواہ کچھ بھی نام دیا جائے اور ان کو قابلِ قبول بنانے کے لیے کتنی ہی شکرآمیز(sugar coated) امداد کا اضافہ کردیا جائے، قوم انھیں قبول تو کیا، برداشت بھی نہیں کرے گی۔ نتیجہ یہ کہ حکومت، فوج اور عوام میں دُوری اور مغائرت بڑھتی جائے گی جس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت اور غصے میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ کش مکش اور تصادم کی کیفیت روز افزوں ہوگی اور معاشرہ امن و چین سے محروم رہے گا۔
اس تصویر کا ایک اور رُخ بھی ہے جو پریشان کن ہے اور وہ خود امریکا کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، میڈیا اور بالآخر عوام میں پاکستان کے امیج اور تصور سے متعلق ہے۔ اسٹرے ٹیجک تعلقات تو تاریخی بات ہیں، عام تعلقات کا انحصار بھی اعتمادِ باہمی، اور ایک دوسرے کے بارے میں منافقت پر مبنی نہیں۔ خلوص اور شفاف انداز میں اچھے جذبات اور قابلِ بھروسا توقعات پر ہونا چاہیے۔ اگر دل کی گہرائیوں سے ایک دوسرے پر بھروسا نہ ہو، صداقت کے بجاے کذب، دھوکا اور گندم نما جو فروشی کا خدشہ بلکہ یقین ہو اور ہر قدم پر دوغلی پالیسی پر عمل دکھائی دے رہا ہو تو اس فضا میں دوستی اور تعاون مغالطے اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے عوام اور اغلباً اس کی فوج اور وہ حکمران جو عملاً امریکا سے معاملات کرتے رہے ہیں اور باربار کے ڈسے ہوئے ہیں، امریکا کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ عوام سے کیے گئے تمام ہی اہم راے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو اثاثہ نہیں ایک بوجھ، مصیبت اور خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایک غیرملکی ادارے ورلڈ پبلک اوپنین آرگنائزیشن (WPOO) کے جنوری ۲۰۰۸ء کے ایک سروے کے مطابق: ’’صرف ۶ فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاک امریکا دوستی سے پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے۔ اس کے مقابلے میں ۴۴ فی صد کا کہنا ہے کہ یہ تمام پالیسیاں صرف امریکا کے مفاد میں تھیں اور ۲۹ فی صد نے کھل کر کہا ہے: ’’امریکا نے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔
بحیثیت مجموعی ۷۲ فی صد پاکستانی عوام اس راے کے حامل ہیں کہ ایشیا میں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، جب کہ مزید: ’’۱۲ فی صد کا خیال ہے بڑا تو نہیں، لیکن خطرہ ضرور ہے۔ گویا ۸۴ فی صد اس علاقے میں امریکا اور روس کی افواج کی موجودگی کو کسی نہ کسی شکل میں خطرہ سمجھتی ہے۔ کیا اس احساس کے باوجود پاکستان اور امریکا میں کسی حقیقی اسٹرے ٹیجک تعاون کا امکان ہے؟
یہ تو پاکستانی عوام کے جذبات اور خدشات ہیں، لیکن خود امریکا کے کارفرمائوں کا پاکستان، اس کی قیادت، اس کی افواج کے ذمہ داران اور ان کی پالیسیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے، جو امریکی سول اور فوجی قیادت کے بیانات اور میڈیا کی گل افشانیوں پر کچھ بھی نظر رکھتا ہے۔ اس چیز کے عملی تجربے سے ہر وہ شخص گزرتا ہے، جو پاکستانی پاسپورٹ پر امریکا کے سفر کی اذیت سے گزرتا ہے۔ واشنگٹن کے حالیہ مذاکرات کی روداد نگاری کے لیے جو صحافی پاکستانی وفد کے ساتھ گئے تھے، وہ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ جسے کچھ شک ہو وہ جاوید چودھری کا کالم ۲۱؍اکتوبر کے ایکسپریس ٹربیون میں پڑھ لے۔ راقم الحروف نے تو اپریل ۲۰۰۴ء میں ایرپورٹ کے عملے کے ہتک آمیز رویے کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد امریکا سفر نہیں کرے گا۔ یہ ذاتی تجربات بھی قوموں کے تعلقات کی صورت گری کو متاثر کرتے ہیں، لیکن ہم یہاں پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کی توجہ باب ووڈ ورڈ (Bob Woodward) کی حالیہ کتاب Obma's Wars: The Inside Storyکی طرف مبذول کرائیں گے، جو اوباما اور ان کی پالیسی ساز ٹیم کے ذہن کی عکاس ہے، اور جسے بھی امریکا سے معاملہ کرنا ہو، اس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔
باب ووڈورڈ، امریکا کا ایک چوٹی کا صحافی اور نہایت وسیع تعلقات رکھنے والا سیاسی تجزیہ نگاراور مصنف ہے۔ اس کی کتاب Bush's Warsصدر بش کے دورِ حکومت میں شائع ہوئی، اور بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کے حقیقی مقاصد، پالیسی ساز افراد کی سوچ، اور اس کی روشنی میں بننے والی آخری حکمت عملی پر ایک مستند دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ اب امریکی صدر اوباما کی حکمرانی کے دو سال پورے ہونے سے قبل Obama's Wars کی شکل میں اوباما کے دور میں خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے جنگی حکمت عملی میں جوتبدیلیاں آئی ہیں، ان کا احوال اس کتاب میں مذکور ہے۔ ان دونوں کتابوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں امریکی صدور اور ان کے چوٹی کے مشیروں اور پالیسی ساز افراد کی سوچ اور پالیسی سازی کے پیچھے جو مشورہ، فکر، بحث و مباحثہ ہوا ہے، اس کا ایک معتبر مرقع ہے۔ یہ امریکی جمہوریت کا ایک مثبت پہلو ہے کہ اس میں پالیسی سازی کے بارے میں ایسی معلومات قوم کے سامنے لائی جا سکتی ہیں، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علم کی حد تک ان دونوں کتابوں میں جو باتیں کہی گئی ہیں اور امریکی صدر، پالیسی ساز افراد اور دنیا کے دوسرے لیڈروں سے جو باتیں منسوب کی گئی ہیں، ان کی تردید نہیں آئی۔ اس لیے اس کتاب کے مندرجات کو معتبر ماننے میں کوئی چیز مانع نہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا کا صدر اور پالیسی ساز اپنے ملک کے مفادات کے مطابق پالیسی سازی کے لیے کتنے بحث ونظر کے بعد پالیسیاں بناتے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے چلتے پھرتے نہایت بنیادی پالیسی بیان داغ دیتا ہے، اور تمام بنیادی مشاورتی اداروں کو نظرانداز کرکے پالیسیوں کا اعلان کر دیتا ہے۔ جنرل مشرف تو ڈکٹیٹر تھا، جو خواہ معاملہ نائن الیون کے بعد کی پالیسی کا ہو اور خواہ کشمیر کے حل کی تلاش میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں تک کو نظرانداز کرنے کا، وہ اپنی من مرضی کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے کھیلتا تھا۔ اب یہی حال زرداری صاحب، گیلانی صاحب اور حتیٰ کہ وزیرخارجہ صاحب کا بھی ہے کہ جو منہ میں آتا ہے، بے دریغ بیان فرما دیتے ہیں اور کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیرخارجہ کا وہ ناقابلِ فہم بیان ہے، جو انھوں نے ہاورڈ یونی ورسٹی میں ایران کے ایٹمی پروگرام اور اس کے سکیورٹی معاملات کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ امریکا میں جو وقت اور صلاحیت، پالیسی سازی کے لیے صرف کی جاتی ہے، پھر تحقیق، بحث و مباحثہ اور افہام و تفہیم سے قومی امور کو طے کرنے کے لیے دماغ سوزی کی جاتی ہے، ہمارے یہاں وہ بدقسمتی سے سازشوں اور ذاتی مفادات کے حصول کی نذر ہوجاتی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے جو پالیسیاں بنتی ہیںعارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور قومی مفادات اور تاریخی تقاضوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔
اوباما صاحب کے ایک مشیر بروس ریڈل (Bruce Ridel) جس کا افغانستان اور پاکستان کے بارے میں پالیسی بنانے میں کلیدی کردار ہے اور جو AFPAK (افغانستان، پاکستان) جیسی مکروہ اصطلاح کا خالق ہے، اس کا کہنا ہے کہ ’’امریکا کی سلامتی کے لیے پاکستان ایک خطرہ ہے‘‘۔ ملاحظہ ہو:
آج کی دنیا کا خطرناک ترین ملک [پاکستان ہے] جہاں اکیسویں صدی کے تمام خوف ناک امور___ دہشت گردی، حکومت کا عدمِ استحکام، کرپشن اور ایٹمی ہتھیار جمع ہیں۔ (باب ووڈ ورڈ، Obma's Wars: The Inside Story، ص ۸۹)
لیکن امریکا کوفوری خطرہ ان وار زونز سے نہیں ہے بلکہ پاکستان سے ہے جو ۱۷کروڑ آبادی کا ایک غیرمستحکم ملک ہے اور جس کی جنوبی افغانستان کے ساتھ ۱۵۰۰ میل کی سرحد ہے اور جس کے پاس تقریباً ۱۰۰ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ (ایضاً، ص ۳)
ایک اور مشیر وائس ایڈمرل مائیکل میک کونیل کا ارشاد گرامی ہے: ’’پاکستان افغان جنگ میں امریکا کا بددیانت پارٹنر ہے۔ وہ [پاکستانی] جھوٹ بولتے ہیں‘‘(ایضاً، ص ۳)۔ ایک اور مشیر ڈینس بلیر نے لکھا ہے: ’’مختلف اسلامی گروپوں کو جڑ سے اُکھاڑنے میں حکومتِ پاکستان زیادہ مددگار نہیں رہی ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۱۶۲)
ان بیانات کی روشنی میں ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خیالات صرف مشیروں کے نہیں، خود صدرباراک اوباما ساری بحث سن کر جو واضح بات کہتے ہیں، وہ امریکی قیادت کے اصل ذہن اور ہدف کے بارے میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی: ’’ہمیں لوگوں کو واضح طور پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سرطان پاکستان میں ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۰۲)
یہی وجہ ہے کہ نئی حکمت عملی کا عنوان AFPAK )(ایفپاک) رکھا گیا، بلکہ ایک موقع پر تو اسے PAKAF رکھا جانے کا مشورہ دیا گیا، مگر بطور مصلحت یا دھوکا دینے کے لیے افغانستان کو پہلے اور پاکستان کو بعد میں رکھا، البتہ مقصد بالکل واضح تھا___ افغانستان اور پاکستان دونوں اب ایک مشترکہ ہدف کے طور پر نشانے پر ہیں۔ بروس ریڈل کے الفاظ میں: ’’بڑی تبدیلی یہ ہے کہ امریکا، افغانستان اور پاکستان کے دو ممالک کا نہیں بلکہ ایک چیلنج: AFPAK کا سامنا کرے گا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۹)
امریکا کی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کے اس منظرنامے میں، وہ کیا اقدام کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ذہن میں یہ بات تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا، پاکستان، اس کی سیاسی قیادت، عسکری قیادت، اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں کئی مفروضوں پر اپنی سوچ اور اپنے اثرات مرتب کررہا ہے۔
امریکا کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کے عمل میں سول حکومت کے مقابلے میں فوجی قیادت کا کردار زیادہ اہم ہے، اس لیے اس کی توجہ کا اصل مرکز فوجی قیادت ہے: ’’بہت سے حوالوں سے پاکستانی فوج کو ملک کی قسمت اور سمت پر تاریخی طور پر کمزور سول قیادت کی بہ نسبت بہت زیادہ اختیار حاصل ہے‘‘۔ (جنرل کیانی، جو پاکستان کی فوج کے سربراہ ہیں، ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے، ص ۱۸۸)
۱۹۸۰ء کے وسط کے بعد سے میں آئی ایس آئی کے ہر سربراہ کو جانتا ہوں۔ کیانی کو یا تو اپنی تنظیم پر کنٹرول نہیں ہے یا وہ سچ نہیں بول رہا۔ امریکا کو یہ واضح بات دیکھنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ پاکستانی جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس نے مولن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم کیانی سے درجنوں بار ملے ہو، تم یہاں موجود لوگوں میں سب سے زیادہ اسے جانتے ہو۔ میرا تاثر ہے کہ وہ دوسرے زمرے میں آتا ہے، یعنی جھوٹا۔ مولن نے اختلاف نہیں کیا۔(ایضاً، ص ۱۰۱)
کرزئی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے طالبان کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ کلنٹن نے پوچھا کہ کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ اگر آئی ایس آئی چاہے تو ملاعمر کو پکڑ سکتی ہے؟ کرزئی نے اپنے سامنے پلیٹ سے ایک چاکلیٹ بسکٹ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ ملاعمر کو اس طرح پکڑ سکتے ہیں جس طرح میں نے یہ بسکٹ اُٹھایا ہے۔(ایضاً، ص ۳۵۵)
ایک طرف پاکستان کی بے وفائیوں اور کذب بیانیوں کی یہ افسانہ سازی ہے، تو دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ عملاً جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف زرداری کا ہاتھ مروڑ کر امریکا نے پاکستان میں اپنی عسکری اور سیاسی سیادت کس حد تک قائم کی ہوئی ہے اور پھر بھی ’ہل من مزید‘ یا ’کچھ اور کرو‘ کا مطالبہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوغلے پن کا طعنہ اور بلیک میل بھی کیا جا رہا ہے۔
اوباما نے پوچھا: آپ پاکستان میں کتنا کر رہے ہیں؟ بائیڈن نے کہا: پوری دنیا میں ہونے والے امریکی حملوں کا ۸۰ فی صد یہاں ہوتے ہیں۔ آسمان کے ہم مالک ہیں، ڈرون پاکستان میں خفیہ بیس سے اُڑتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقے میں ایسے لوگوں کو تربیت دے رہی ہے جن کو اگر آپ ڈلس کی ویزا لینے والوں کی قطار میں دیکھیں گے تو ان کو خطرے کے طور پر نہیں پہچان پائیں گے۔(ایضاً، ص ۵۲)
صدر آصف زرداری کس طرح امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے سامنے اپنی اسنادِ خدمت پیش کرتے ہیں، اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیں کہ پاکستان اور امریکا کے نام نہاد اسٹرے ٹیجک تعلقات کا ایک منظر یہ بھی ہے:
آپ کو میری مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنے ملک میں کافی اثرورسوخ حاصل کروں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ملک امریکا دشمنی سے بھرا ہوا ہے اور وہ ایک امریکی آلہ کار کی حیثیت سے مجھ سے نفرت کریں گے۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینا ہوں گے تاکہ میں لوگوں کی حمایت حاصل کرسکوں کہ ان کے لیے بھی اس میں کچھ ہے۔ زرداری نے کہا: میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں اس کھیل سے باہر نکلنا چاہیے۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)
ڈرون حملے، جن کے بارے میں ڈھائی سال کے انکار کے بعد اب پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے فضائی نگرانی کے لیے اجازت دی تھی، لیکن اب بھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ میزائل گرانے کی اجازت کس نے دی ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکی قیادت اس سلسلے میں کوئی پردہ نہیں رکھتی اور برملا کہتی ہے ہم سب کچھ پاکستان کی سرزمین سے کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت اور فوج کے تعاون سے کررہے ہیں۔ جنرل مائیکل ہیڈن کا بیان اُوپر آگیا ہے۔ اب خود صدر پاکستان کی شہادت بھی دیکھ لیں۔ باب ووڈورڈ صدر زرداری سے جنرل مائیکل ہیڈن کی ۱۲نومبر ۲۰۰۹ء نیویارک میں ملاقات کی کچھ جھلکیاں یوں دکھاتا ہے:
ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر پاکستانی میڈیا امریکا کو بُرا بھلا کہتا رہا ہے لیکن پاکستانی شہریوں کی اتفاقیہ ہلاکتیں کہانی کا صرف نصف حصہ ہیں۔
بہت سے مغرب کے افراد جن میں امریکی پاسپورٹ رکھنے والے بھی کچھ شامل ہیں، پانچ دن قبل شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ’کیم شام ٹریننگ کیمپ‘میں ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانیوں کو سی آئی اے کا ایک نہایت خفیہ نقشہ دیا گیا تھا جس میں حملے کی تفصیل بتائی گئی تھی لیکن اس میں ہلاکتوں کے چونکا دینے والے اس واقعے کا ذکر نہ تھا۔ سی آئی اے تفصیلات بتانے کو تیار نہیں تھا۔
پاکستانی سفیر نے ہیڈن سے پوچھا کہ آپ ہدف کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟ ہیڈن نے جواب دیا: سی آئی اے بہت زیادہ احتیاط کرتی ہے۔ القاعدہ کے سات چوٹی کے لیڈر اس سال بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے کی گفت و شنید کے بعد صدر پاکستان کی ہیڈن سے ون آن ون ملاقات ہوئی۔ زرداری ڈرون حملوں سے شہری ہلاکتوں کے بارے میں تنازعے کی بوجھل فضا کو صاف کرنا چاہ رہے تھے۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کرو۔ ضمنی نقصانات امریکیوں کو پریشان کرتے ہیں، مجھے نہیں۔
اس کے بعد باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’زرداری نے سی آئی اے کو اہم گرین سگنل دے دیا۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی، مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس سے القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۲۶)
صدر جارج بش کے دورِصدارت کے بارے میں باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’بش نے ہدایت کی تھی کہ پاکستان کو ڈرون حملے کی اطلاع ساتھ ہی ملنا چاہیے، یعنی جب حملہ ہو رہا ہو تو انھیں اس کا علم ہو، یا یقینی بات کرنے کے لیے چند منٹ کے بعد‘‘۔(ایضاً، ص ۵)
باب ووڈورڈ، صدر بش کے دور میں امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ باقاعدہ امریکی فوجی آپریشن کا بھی ذکر کرتا ہے، اور بش کا یہ فیصلہ بھی ریکارڈ کرتا ہے کہ: ’’امریکی ڈرون اب پاکستانی آسمانوں کے مالک ہیں۔ اب پاکستان کی حدود کے اندر مزید کوئی زمینی حملہ نہیں کیا جائے گا‘‘۔(ایضاً، ص ۸)
البتہ ایسے آپریشن کی تیاری اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اسے کر گزرنے کی تیاریاں پوری طرح ہیں:
ایک اہم خفیہ راز جو میڈیا یا کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوا ہے، افغانستان میں سی آئی اے کی ۳ہزار افراد پر مشتمل خفیہ فوج کی موجودگی ہے۔ دہشت گردی کا پیچھا کرنے والی یہ ٹیمیں (سی ٹی پی ٹی) بیش تر افغانوں پر مشتمل ہیں جو سی آئی اے کی راے میں فوج کا بہترین عنصر ہیں۔ ان ٹیموں کو سی آئی اے تنخواہ دیتی ہے، تربیت دیتی ہے، اور یہ سی آئی اے کے آلۂ کار ہیں اس کی اجازت بش نے دی تھی۔ یہ ٹیمیں طالبان باغیوں کو قتل کرنے یا پکڑنے کے لیے آپریشن کرتی تھیں اور قبائلی علاقوں میں بھی امن قائم کرنے یا حمایت حاصل کرنے کے لیے ان علاقوں کے اندر چلی جاتی تھیں۔(ایضاً، ص ۸)
اس کے ساتھ امریکا ایک طرف ڈرون حملوں کے دائرے کو وسیع کرنے کے مطالبات کررہا ہے اور دوسری طرف مختلف طریقوں سے پاکستان کی سرزمین پر فوجی آپریشن کے لیے مطالبات میں اپنی راہ کشادہ کر رہا ہے۔ یہ دھمکی اور تیاری بھی ساتھ ساتھ ہے کہ: ’’اگر امریکا میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان کی خیر نہیں اور اجازت تو کیا اطلاع کے بغیر امریکا اقدام کرگزرے گا، اور اس کے لیے ۱۵۰ مقامات کی نشان دہی کی جاچکی ہے‘‘۔
اس کتاب میں دو جگہ صاف صاف اس عندیے کا اظہار کیا گیا ہے اور فیصل شہزاد کے واقعے کے بعد خصوصی ایلچی کے ذریعے صدر زرداری صاحب کو صاف پیغام دے دیا گیا ہے اور اس کی تازہ ترین قسط وہ ہے، جو حالیہ واشنگٹن مذاکرات کے موقعے پر صدر اوباما سے ’اتفاقیہ‘ ملاقات میں پوری شانِ تحکم کے ساتھ ادا کی گئی___ یعنی: اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو امریکی فوجوں کی براہِ راست مداخلت کا مزا چکھنے کے لیے تیار رہو:
اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا امریکی فوجی پاکستان کی سرزمین پر آپریشن کرسکتے ہیں؟ روایتی طور پر یہ ایک سرخ لکیر ہوتی تھی لیکن یہی مسئلے کی جڑ تھی جسے حل ہونا تھا۔ سلامتی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انھیں مرکزثقل کی طرف جانا ہوگا اور یہ انھیں کرنا ہوگا۔(ایضاً، ص ۲۰۸)
پاکستان نے ڈورن پروازوں کی اجازت مخصوص علاقوں کے لیے دی تھی جن کو ’باکس‘ کہا جاتا ہے کیونکہ جنوب میں پاکستان کی زمینی فوج بہت بڑی تعداد میں موجود ہے، لہٰذا وہ اس علاقے میں ’باکس‘ کی اجازت نہیں دیں گے۔ پینیٹر نے کہا: اس ’باکس‘ کو حاصل کرنا ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا آپریشن کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔
پینیٹرنے کہا: امریکا کو کچھ نہ کچھ زمینی افواج کی ضرورت ہے۔ ہم یہ کام زمین پر اپنے فوجیوں کے بغیر نہیں کرسکتے۔ یہ پاکستانی ہوسکتے ہیں یا ہمارے۔ بہرحال ہمیں زمین پر کچھ فوجی ضرور چاہییں۔ امریکا کی تیزی سے حملہ آور جے سی او سی یونٹس بہت زیادہ نظروں میں آتی ہیں۔ اس کا اصل متبادل خفیہ جنگ کی بہت بڑی توسیع ہے۔ اب اس کی ۳ہزار افواج پر مشتمل سی ٹی پی ٹی کے دستے سرحد پار کرکے پاکستان کے اندر آپریشن کر رہے ہیں۔(ایضاً، ص ۳۶۰-۳۶۱)
کیا اس سے بھی زیادہ کھلے لفظوں میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک اہداف کی کسی نشان دہی کی ضرورت ہے؟ کتاب کے آخری ابواب میں باب ووڈورڈ امریکا کے مخمصے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادتیں اپنے اپنے انداز میں مایوس کن ہیں:
ان لوگوں کے ذریعے امریکا کچھ حاصل نہیں کر رہا۔ زرداری سے بات کرکے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، یا کیانی سے جس کے پاس کچھ کرنے کے اختیارات ہیں لیکن اس نے کچھ زیادہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کوئی اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آخری حد مایوس کن تھی۔(ایضاً، ص ۳۶۷)
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان کے بارے میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مسئلہ صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان کو دھونس، دبائو، دھمکی کی لاٹھی اور معاشی اور عسکری امداد کے لالچ کے ذریعے آمادہ کرنا ہے۔ اس کتاب میں اس اسٹرے ٹیجک مقصد اور پاکستان کی سیاسی قیادت کی آمادگی دونوں کو کتاب کے اوراق اور لفظوں کی روح میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اِلا یہ کہ کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرے، ملاحظہ ہو: پالیسی کے جائزے کی ساری بحث کے بعد صدر اوباما نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:
ہمیں وہاں سے شروع کرنا چاہیے جہاں ہمارے مفادات ہیں۔ اور یہ پاکستان ہے، افغانستان نہیں۔
ا- امریکی سرزمین ، اس کے حلیفوں اور بیرونِ ملک امریکی مفادات کا تحفظ۔
ب- پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور استحکام کے بارے میں تشویش
ج- بھارت پاکستان تعلقات (ایضاً، ص ۱۸۷)
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مسئلہ کشمیر، پانی کا مسئلہ یا پاکستان کے دوسرے مسائل و معاملات کا کوئی مقام نہیں، ضمنی طور پر بھی نہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور اسے اپنی خارجہ پالیسی میں سے ’بھارتی خطرے‘ کے لفظ کو کھرچنا ہوگا۔ پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اوباما کے الفاظ میں: ’’ہمارے بنیادی مقاصد کے حصول کی کلید پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۸۷)
بروس رِڈل نے اس مقصد کو اور اس کے لیے امریکی پالیسی کو جو ہدف سامنے رکھنا چاہیے، اسے اور بھی زیادہ صاف اور واضح ترین الفاظ میں ادا کیا ہے: ’’خلاصے کے طور پر رڈل نے کہا کہ انھیں پاکستان کی اسٹرے ٹیجک سمت کو بدلنا ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۰۸)
جس مقصد کے لیے امریکا نے اسٹرے ٹیجک مذاکرات کا جال پھیلایا ہے، وہ فی الحقیقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسٹرے ٹیجک سطح پر لانا نہیں ہے، بلکہ امریکا کے مقاصد کے لیے پاکستان کے موقف میں اسٹرے ٹیجک تبدیلی لانا ہے، جس کا اظہار صدراوباما نے کچھ اس طرح کیا:
بعد میں صدر نے تصدیق کی کہ کسی بھی نئی اسٹرے ٹیجی کا مرکزی نکتہ پاکستان ہوگا۔ ہمیں پاکستان کی سول، فوجی اور اہلِ دانش قیادت سے سنجیدگی سے قریبی تعلقات رکھنے ہوں گے۔ (ایضاً، ص ۱۰۹)
فوجی قیادت کے تحفظات کا ذکر تو اُوپر آچکا ہے، لیکن صدر زرداری نے جس گرم جوشی سے امریکی ایجنڈے کو قبول کیا ہے، اس کا کچھ ذکر تو اُوپر آیا ہے، لیکن قوم کے لیے ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن صدرمملکت اور اس ذوالفقار علی بھٹو کے داماد جس نے پاکستان کے حقوق کے لیے ہزار سال تک بھارت سے جنگ کا عندیہ دیا تھا، امریکا کی قیادت کے سامنے اپنے کس عزم کا اظہار کیا:
آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ میرے ملک میں اچھا خاصا آگے بڑھنے کے لیے میری مدد کریں۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینے ہوں گے تاکہ میں عوام کو جیت سکوں۔ میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد کروں گا۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)
ہم بھارت کے بارے میں آپ کی تشویش پر آپ کو الزام نہیں دیتے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کو تشویش ہے لیکن ہم بھارت کے خلاف آپ کو مسلح کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔ اس بارے میں میرا موقف بالکل واضح ہے۔
زرداری نے کہا: ہم اپنا ورلڈ ویو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔(ایضاً، ص ۱۱۵)
پاکستان میں امریکا کی سفیر اینی پیٹرسن نے آصف زرداری کے بارے میں گواہی دی ہے کہ:
زرداری، حکومت کرنے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ مسٹر بے نظیر بھٹو ہونے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا لیکن وہ بنیادی طور پر ہمارا طرف دار ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۶)
اس نے اپنے لبرل اقدام پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا: بھارتی فلموں کی پہلی دفعہ اجازت میں نے دی ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۷)
یہ مکالمات امریکی سفیرصاحبہ اور جنرل جونز کے درمیان ہیں، جو موصوف سے اسلام آباد کے دورے کے دوران میں ہوئے۔ واشنگٹن میں پینٹاگون کے ہال اے میں پاکستانی سفیر حسین حقانی صاحب، رابرٹ گیٹس کو مطلع کرتے ہیں کہ:
اگلے چند ہفتوں میں پاکستانی فوج وزیرستان میں داخل ہوجائے گی۔ اس اقدام کے لیے زرداری نے کوشش کی۔ کیونکہ امریکا کا حامی ہونے کی وجہ سے اس کی حمایت ختم ہورہی تھی۔ زرداری نے خیال کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرکے حمایت حاصل کرسکتا ہے۔
یہ ہے اصل حقیقت، اس فوجی آپریشن کی جس کے بارے میں قوم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’فیصلہ ہم کرتے ہیں‘‘۔
جن مذاکرات اور تعلقات کو اسٹرے ٹیجک کا نام دیا جا رہا ہے، وہ بالکل اسی نوعیت کے تعلقات ہیں جن کا تجربہ گذشتہ ۶۰برس سے پاکستان کر رہا ہے۔ یہ بات کہ مذاکرات اسٹرے ٹیجک ہیں اور عملاً تیسرا گروپ بنا کر ہر نوعیت کے امور پر بات چیت ہورہی ہے جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ ڈیڑھ سو صحافیوں اور وزارتِ اطلاعات کے ۸۰ افراد کو ذہنی غسل (brain washing) کے لیے ان کو ایک ایک ماہ کے لیے امریکا کے مطالعاتی دورے پر بھیجا جائے گا اور شمالی علاقہ جات میں دو چھوٹے ڈیم میں امریکا سرمایہ کاری کرے گا۔ کیا اسٹرے ٹیجک مذاکرات کے یہ موضوع ہوتے ہیں؟
امریکا کے اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف بالکل واضح ہیں۔ اس کا اصل مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ امریکا، پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جو ٹرائی اینگل اسلوب ۱۹۵۰ء کی دہائی سے قائم تھا، اسے بش کے دور میں درہم برہم کردیا گیا اور اسے پاکستان اور بھارت کے امریکا تعلقات کے ربط ختم کرنے (de-hyphenization) کا عنوان دیا گیا حالانکہ اصل مقصد بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت کا قیام تھا جسے ۲۰۰۶ء میں ایک واضح شکل دے دی گئی ہے اور پاکستان کے تمام خدشات و تحفظات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اوباماصاحب کو نومبر ۲۰۱۰ء میں ہونے والا چار ممالک کا دورہ جس میں بھارت سرفہرست ہے امریکی حکمت عملی کا علامتی اظہار ہے، اس راستے میں پاکستان کہیں بھی نہیں ہے البتہ اشک شوئی کے لیے کہا جارہا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کا دورہ کیا جائے گا مگر امریکا نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں:
اگر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ان دونوں ممالک کے باب میں یہ پانچوں چیزیں مفقود ہیں۔
امریکا کا مقصد اپنے عالمی غلبے کو باقی رکھنا اور کم از کم اکیسویں صدی کے اوّلین نصف میں اپنی عالمی بالادستی کا تحفظ اور ہر متبادل قوت کو اپنے گھیرے میں لینا ہے۔ اس وجہ سے وہ دنیا کے ۱۴۸ممالک میں اپنی فوجیں رکھے ہوئے ہے اور سیاسی اور معاشی معاہدات کے ذریعے اپنی گرفت کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سارا منظرنامہ اس کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا، اسے اس نئی جنگ اور اس کی بنیاد پر کون کس کے ساتھ ہے؟ کے فلسفے کی روشنی میں عالمی سیاست کا دروبست قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ناٹو کے لیے ایک نیا کردار تراشا جارہا ہے۔ اسرائیل، شرق اوسط کا اہم ترین کھلاڑی ہے۔ ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے اور چین کے گرد گھیرا مضبوط کرنے کے لیے امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ وجود میں آئی ہے۔
ان امریکی مقاصد میں سے کوئی بھی ہدف پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ایسی عالمی بساط پر ہم کوئی کھلاڑی نہیں۔ چین سے ہمارا تعلق حقیقی اسٹرے ٹیجک نوعیت کا ہے، جب کہ ہمارے سارے تنازعات کا تعلق بھارت سے ہے۔ افغانستان اور ایران سے متعلق ہماری سرحدات تاریخی اعتبار سے محفوظ ترین تھیں اورسارے خطرات صرف بھارت کی طرف سے تھے۔ امریکا کی حکمت عملی ہمیں شمال اور شمال مغرب میں اُلجھانا ہے اور بھارت کے لیے برعظیم ہی میں نہیں جنوبی، شرقی اور وسطی ایشیا میں بھی کردار کو فروغ دینا ہے۔ اس فریم ورک میں امریکا اور پاکستان کے عالمی مقاصد میں کوئی مطابقت نہیں۔
جہاں تک مفادات کا تعلق ہے امریکا کا مسئلہ تیل اور دوسرے معاشی وسائل پر تسلط اور اپنی مصنوعات اور سرمایے کے لیے منڈیوں کا حصول ہے۔ اس کی نگاہ میں کسی بھی ملک اور خاص طور پر پاکستان، ایران، کوریا، عراق یا کسی بھی عرب ملک یا اسلامی ملک کی نیوکلیر صلاحیت ایک خطرہ ہے۔ہر ایسی معاشی صف بندی جو دنیا کے ان ممالک میں خودانحصاری کی کیفیت پیدا کرسکے، امریکا اور عالمی سرمایہ دارانہ سامراج کے مفادات کے خلاف ہے، جب کہ عالمی تجارت کی راہوں کے کھلے ہونے کے ساتھ پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کا مفاد اس میں ہے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ بنیادی ضروریات اور ٹکنالوجی کے میدان میں امریکا اور مغرب پر ان کا انحصار کم ہو۔ وہ خود اپنے وسائل کو اپنی ترجیحات اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرسکیں۔
یہاںبھی امریکا، مغرب کے سامراجی ممالک اور پاکستان، دوسرے مسلمان اور تیسری دنیا کے ممالک کے مفادات سے متصادم ہیں۔ پھر پاکستان کے فوری مسائل اور مفادات ہیں، جن کا تعلق مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین، پانی کا مسئلہ، خوراک میں خودانحصاری، معاشی ترقی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی حفاظت اور پرورش ہیں۔ یہاں بھی پاکستان اور امریکا کے مفادات میں فاصلے زیادہ اور قربت کم اور واجبی ہے۔
یہی معاملہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ہے، جس کی سب سے بھاری قیمت پاکستان، افغانستان اور عراق نے ادا کی ہے۔ امریکا کے جتنے فوجی اور شہری افغانستان اور عراق میں ہلاک ہوئے ہیں، ان سے کہیں زیادہ پاکستانی فوجی اور عام شہری محض امریکا کی جنگ میں شرکت کی سزا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاشی اور فوجی امداد کا بڑا چرچا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر جانی نقصان کو نظرانداز کردیا جائے (گو ایسا کرنا ایک سنگین جرم ہوگا) اور صرف معاشی پہلو کو لیا جائے تو امریکا نے جو ۱۹بلین ڈالر گذشتہ نوسال میں دیے ہیں ان میں ۱۱بلین ڈالر ان اخراجات اور خدمات کی مد میں ہیں، جو پاکستان نے امریکی افواج اور ضروریات کے لیے انجام دی ہیں، اور جسے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کہتے ہیں، جب کہ اس جنگ میں شرکت کا جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے، وہ وزارتِ خزانہ کے ہر اعتبار سے کم سے کم ترین پر تخمینوںکے مطابق بھی ۴۳ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، اور خود ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے اس وقت ڈھائی ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ یہ وہ خرچہ ہے جو حکومتِ پاکستان، اسٹیٹ بنک سے قرض لے کر کرچکی ہے، اور جس کی وجہ سے وہ اس وقت اسٹیٹ بنک کی ۱۸۵ ارب کی مقروض ہے، اور جس پر ۲ ارب روپے ماہانہ سود بھی حکومتِ پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نفع کا سودا ہے یا صریح نقصان کا۔ یہ صورت حال مفادات کے اشتراک کی تصویر پیش کرتی ہے یا ان میں تصادم اور تناقض کی۔
تیسرے نکتے کا حال بھی ذرا مختلف نہیں۔ معاشی تعاون اور سرمایہ کاری میں اشتراک کے چند منصوبوں کو چھوڑ کر، زیادہ معاملات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان اشتراکِ عمل کے جو پروگرام ہیں، وہ نمایشی زیادہ اور حقیقی کم ہیں۔ پھر ان تعلقات میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ وقتی اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بدل جانے والے ہیں۔ برابری کی بنیاد پر توازنِ قوت کے تفاوت کی وجہ سے معاملات مرتب کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ لیکن کم از کم مقدار میں بھی ایک دوسرے کی آزادی، عزتِ نفس، قومی مفادات، نظریاتی اور تہذیبی اختلافات بلکہ احترام کا بھی فقدان ہے، اور تعلقات اور منصوبوں میں کوئی تسلسل اور دوام نہیں۔ آج دوستی میں گاڑھی چھن رہی ہے اور کل پابندیاں مسلط کردی جاتی ہیں، تمام منصوبوں کو بیچ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دفاعی سسٹم کے باب میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ دفاعی تنصیبات سے متعلق فاضل پُرزوں اور مرمت تک کی سہولت کو منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ مختلف عذرات کی بنیاد پر پاکستانی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔ جہاں تجارتی تعلقات ہیں وہاں بھی ایسی ہی امتیازی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اپنے پسندیدہ ممالک کو اور جہاں ضرورت محسوس ہو تحفظ دیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے قومی مفاد کی روشنی میں انھی حربوں کو استعمال کریں۔ اس طرح تیسرے اور چوتھے دونوں نکات کے سلسلے میں بھی اتفاق کے نکات کم اور محدود اور اختلاف کے وسیع ہیں۔
رہا معاملہ باہمی اعتماد کا تو اس کا دُور دُور تک وجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لالچ اور خوف ہی کارفرما قوتیں ہیں۔ اعتماد، ایثار اور شراکت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے ارباب حل و عقد کی جانب سے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے دعووں کو خودفریبی کے سوا کس نام سے پکارا جاسکتا ہے۔ ہم پاکستان اور امریکا کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں، لیکن یہ تاریخی تجربات اور زمینی حقائق کی بنیاد ہی پر ہوسکتے ہیں۔ امریکا ایک سوپر پاور ہے اور اس سے تصادم بلاشبہہ مفاد میں نہیں۔ بہت سے معاملات میں تعاون کے ہزاروں راستے نکالے جاسکتے ہیں، جس میں دونوں کے لیے بھلائی اور نفع ہو۔عالمی تجارت کے اسی اصول پر فروغ پاتی ہے۔ چھوٹے ممالک کی بھی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہوسکتی ہے اور پاکستان کو یہ حیثیت حاصل ہے۔ مختلف ممالک باہمی رضامندی اور باہمی لین دین کے معروف اصولوں کی روشنی میں سب استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حقائق کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ ایک دوسرے کے جائز مفادات کو سامنے رکھ کر آزاد مرضی سے معاملات طے کیے جائیں۔ پستول تان کر یا رشوت اور دھونس جماکر ایک پارٹی دوسرے پر اپنی راے مسلط نہ کرے اور کمزور ممالک میں اپنے طفیلی عناصر کو حکمران بنا کر ان کے ذریعے قوم کی تمنائوں، عزائم اور مفادات کے برعکس پالیسیاں مسلط نہ کی جائیں۔
ہرملک اور قوم کی اپنی ترجیحات اور ضرورتیں ہیں اور آزادی، عزتِ نفس، نظریاتی اور تہذیبی تشخص اور سیاسی اور معاشی مفادات ہر ایک کے لیے اہم ہیں۔ اس لیے انصاف اور تعاون باہمی کی بنیاد پر تو سب سے تعلقات خوش گوار رہ سکتے ہیں اور یہی مطلوب ہے۔ امریکا سے تعلقات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ جبر اور مجبوری کی حد تک تو کچھ عرصے کے لیے چل سکتا ہے لیکن نہ وہ دیرپا ہوسکتا ہے اور نہ اس کے نتائج سے خیروفلاح کی توقع کی جاسکتی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک سوپرپاور ہوتے ہوئے اور دنیا کے مختلف علاقوں اور ممالک میں بعض اچھے اور مفید کام کرنے کے باوجود بھی دنیا کے ممالک کی ایک عظیم اکثریت کے عوام میں اس کے خلاف بے زاری، نفرت اور مخالفت کے جذبات کیوں موجزن ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ع
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
بلاشبہہ امریکی نظامِ حکومت، معاشرے اور تمدن میں بہت سی چیزیں مثبت بھی ہیں، جن میں تمام کمزوریوں اور مفاد پرست عناصر کے سارے کھیل کے باوجود بڑی حد تک دستور اور قانون کی حکمرانی کا ایک نسبتاً قابلِ بھروسا نظام موجود ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دوسرے مسلمان، عرب، میکسی کن اور خود ایفرو امریکی حضرات کے باب میں کی جانے والی کھلی کھلی ناانصافیوں اور تعصب کے مظاہر بھی موجود ہیں۔ اسی طرح شخصی، سیاسی اور معاشی آزادی کی روایات، تعلیم، تحقیق، ایجاد و اختراع، معاشی اور سیاسی میدانوں میں بڑی حد تک ترقی کے مواقع کی موجودگی اور فراہمی، خوش حال معاشرے کا قیام اور احتساب کا نظام مثبت پہلو ہیں، جن کا اعتراف نہ کرنا حق و انصاف کے منافی ہوگی۔ پھر اپنی قوم سے قیادت کی وفاداری اور بحیثیت مجموعی قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دینا قابلِ قدر پہلو ہے۔ اسی طرح جیساکہ ہم نے عرض کیا باہمی مفاد کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور حتیٰ کہ عسکری تعاون کی گنجایش بھی موجود ہے۔
امریکا پر ہماری تنقید کی بنیادی وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں ہیں جو ہمارے مسلم اُمہ کے اور دنیا کے مظلوم عوام کے مفاد کے خلاف، اور اس کے اپنے جہانگیری اور سامراجی مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے اس نے اختیار کی ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے اور ان کے مفادات کو بے دردی سے کچلنے کا ذریعہ ہیں۔ یا پھر وہ منافقت اور دو رنگی ہے، جو قول و عمل کے تضاد یا انسانوں، گروہوں اور اقوام کے درمیان امتیازی سلوک اور سفاکانہ رویوں کا مظہر ہیں۔ اگر امریکا کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے کام کرے تو یہی حق ہم کو اور دنیا کی دوسری اقوام اور اہلِ مذہب کو بھی حاصل ہے۔ بین الاقوامی امن اور انصاف کسی ایک کو دوسرے پر اپنی راے قوت، جبر اور دھوکے سے مسلط کرنے کا حق نہیں دیتے۔ دوطرفہ تعلقات صرف افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کے حقوق اور مفادات کے احترام سے حاصل ہوسکتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مفقود ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت:۱۲ روپے۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹)
یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (التغابن ۶۴:۱) اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے، اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے، اُسی کی بادشاہی ہے اور اُسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔
یہ سورئہ تغابن کی ابتدائی آیت ہے۔ سورئہ تغابن کے بارے میں اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا یہ مکّی ہے یا مدنی، لیکن مفسرین کی اکثریت اسی بات کی قائل ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اس کے مضمون پر غور کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدنی زندگی کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ہوگی۔ آگے چل کر آپ خود محسوس کریں گے کہ یہ مدینے کے ابتدائی دَور ہی سے تعلق رکھتی ہے۔
یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ،اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے۔
کسی جگہ قرآنِ مجید میں سَبَّحَ لِلّٰہِ (اس نے اللہ کی تسبیح کی) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور کسی جگہ فرمایا گیا ہے کہ یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ (وہ تسبیح کرتا ہے اللہ کی)۔ عربی زبان میں مُضارع کا صیغہ حال اور مستقبل دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان دونوں صیغوں کو ملایا جائے تویہ معنی سمجھ میں آتے ہیں کہ سَبَّحَ لِلّٰہِ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہی ہے ہر چیز جب سے وہ دنیا میں پائی جاتی ہے، اور یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور کرتی رہے گی ہر چیز جب تک کہ وہ دنیا موجود ہے۔ گویا جب تک یہ کائنات باقی ہے اس کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہے گی۔
تسبیح کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی شخص تسبیح ہاتھ میں لے کر اس کے دانے پھرا رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہرچیز زبانِ حال سے بھی اور زبانِ قال سے بھی اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ اُس چیز کا بنانے والا اور پیدا کرنے والا،اس کو رزق دینے والا اور اس کی پرورش کرنے والا، تمام عیوب اور نقائص اورکمزوریوں سے بالکل پاک ہے۔ وہ بے خطا ہے، بے عیب ہے اور کوئی کمزوری اس کے اندر نہیں ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز اس پر گواہی دے رہی ہے۔
لَہُ الْمُلْکٌ’’بادشاہی اس کی ہے‘‘، یعنی اس کائنات میں کوئی دوسرا صاحب ِ اقتدار اور صاحب ِ اختیار موجود نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار ہے تو وہ اس کا اپنا حاصل کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ وہ اس وقت تک مقتدر ہے جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اقتدار اس کے پاس رہے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے، اس کی اپنی ذاتی طاقت نہیں ہے۔ ذاتی اقتدار اور ذاتی قوت و اختیار اللہ کے سوا پوری کائنات میں کسی اور کے پاس نہیں ہے، اکیلا وہی اس کا بادشاہ ہے۔
وَلَہُ الْحَمْدُ ’’اور اسی کے لیے حمد ہے‘‘۔ حمد کے معنی تعریف کے بھی ہیں اور شکر کے بھی۔ دوسرے الفاظ میں وہی تعریف کا مستحق ہے اور وہی شکر کا بھی مستحق ہے اور کسی دوسرے کے پاس ایسا کوئی کمال نہیں ہے جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جائے۔ کسی کے پاس جو کچھ بھی کمال موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ جو کچھ بھی خوبی کسی کے اندر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔ تمام خوبیوں کا تنہا مالک وہی ہے۔ اسی وجہ سے وہی تعریف کا مستحق ہے اور کسی کے پاس کچھ نہیں ہے کہ کوئی نعمت وہ کسی کو دے سکے۔ اگر کوئی نعمت کسی کو دے رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطیے سے دے رہا ہے۔ اس وجہ سے شکریے کا مستحق بھی دراصل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔
وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ’’اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘، یعنی کائنات میں اُس کی قدرت غیرمحدود ہے۔ جو چیز وہ چاہے وہی ہوگی، اور جو چیز وہ نہ چاہے وہ نہیں ہوگی۔
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُؤْمِنٌ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (۲) وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تم میںسے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن، اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔
یہ دو فقرے ہیں، ایک یہ ہے کہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے اور دوسرا فقرہ یہ ہے کہ کوئی تم میں سے کافر ہے اور کوئی مومن ہے۔ ان دونوں فقروں کے درمیان ایک بڑا وسیع مضمون ہے جو آدمی غور کرے تو اس کو سمجھ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا خالق نہیں ہے، وہی ہے جس نے انسان کی تخلیق کی۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے۔ یہ جسم اور اس کی قوتیں، اس کی قابلیت اور عقل و فکر اور دوسری تمام صلاحیتیں اور ساری خوبیاں اور قوتیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو جو ذرائع بھی دنیا میں حاصل ہیں جن سے وہ کام کرتا ہے، وہ تمام چیزیں، یعنی ہوا اور پانی، گرمی اور سردی اور دوسری بے شمار چیزیں جو انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہیں، اور وہ سارا سازوسامان جس کی بدولت آدمی دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے، وہ سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص ان چیزوں پر غور کرے تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور دنیا میں اس کا مطیع و فرمان بردار بن کر رہے۔ باوجود اس کے کہ یہ حقیقت انسان کے سامنے واشگاف موجود ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ انسانوں کا ایک بڑا گروہ اس پر ایمان لاتا ہے اور ایک بڑا گروہ کفر کا رویّہ اختیار کرتا ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے: وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ’’ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس پر نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایک ایک شخص کے متعلق یہ دیکھ رہا ہے کہ اپنے خالق کے ساتھ اس کا رویّہ کیا ہے۔ وہ ایک ایک شخص کو دیکھ رہا ہے کہ وہ اپنے خالق کی اطاعت کر رہا ہے یا اس سے منہ موڑ رہاہے۔ اپنے خالق ہی کو اپنا خالق اور اپنا فرماں روا اور حاکم مانتا ہے یا اس کو چھوڑ کر دوسروں کے آگے جھکتا ہے، دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور دوسروں کی اطاعت کررہا ہے، جب کہ اپنے خالق ہی کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس طرح لوگوں کا یہ طرزِعمل اس کی نگاہ میں ہے کہ ایک گروہ وہ ہے جو اطاعت اور ایمان کی راہ اختیار کرتا ہے، جب کہ دوسرا گروہ اس سے منہ موڑ کر کفر کی راہ اختیار کرتا ہے۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (۳) اسی نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، تمھاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی، اور اسی کی طرف آخرکار تمھیں پلٹنا ہے۔
اس نے آسمانوں اور زمین کو بالحق پیدا کیا ہے۔ اُوپر کے فقرے کے بعد یہ بات فرمانے سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کرنا ہے کہ یہ کائنات باطل پر پیدا نہیں کی گئی بلکہ سراسر حق پر پیدا کی گئی ہے۔ نہ یہ کائنات کھیل کے طور پر پیدا کردی گئی ہے کہ کوئی بچہ ہے جس نے گھروندا بنایا، اس سے کھیلا اور کھیل کر اس کو ختم کر دیا۔ اس کائنات کی یہ حیثیت نہیں ہے۔
اس کائنات کو ایک حکیم نے بنایا ہے اور ایک مقصد کے لیے بنایا ہے۔ اس کا نظام سراسر حق پر قائم کیا گیا۔ اس کو باطل پر قائم نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس کائنات میں رہتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک آدمی غلط روش پر چلے اور پھر اس کے بُرے نتائج سے بچ جائے۔ اس میں اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک آدمی صحیح رویّے پر چلے اور وہ اچھے نتائج سے محروم رہ جائے۔اس بنا پر اگر کوئی شخص اس کائنات میں رہتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی بخششوں اور انعامات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کفر کی روش اختیار کرے تو اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اس کے بُرے نتائج سے دوچار نہ ہو۔
یہ کائنات باطل پر نہیں بلکہ حق پر پیدا کی گئی ہے اور اگر کوئی شخص حق کے خلاف یہاں چلے تو لازماً ٹھوکر کھائے گا۔ آج نہیں تو کل کھائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ حق کے خلاف چلنے والا آخرکار ٹھوکر نہ کھائے اور اس گڑھے میں نہ جا گرے جس سے پھر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسی طرح جو شخص حق کے مطابق چلے، اس کے مطابق کام کرے وہ اگر کبھی ٹھوکر کھابھی جائے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہمیشہ ٹھوکر ہی کھاتارہے گا۔ اس لیے یہ طے ہے کہ اگر کوئی حق کے مطابق چلے گا تو لازماً اس کا انجام بہترین ہوگا۔ اس طرح اس فقرے کے اندر گویا کائنات کی پوری حقیقت آدمی کو سمجھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات باطل پر نہیں بلکہ حق پر استوار کی گئی ہے۔
وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ، اور تمھاری صورتیں بنائیں اور بہترین صورتیں بنائیں۔
صورت کا لفظ محض آدمی کے چہرے مُہرے کے لیے نہیں بولا گیا ہے بلکہ آدمی کی جو پوری بناوٹ ہے اس کا جو پورا جسم ہے، اس کے متعلق فرمایاگیا ہے۔ پھر محض اس کی ظاہری شکل اور بناوٹ ہی نہیں مراد بلکہ اس کے جسم میں جو صلاحیتیں اور قوتیں اور قابلیتیں رکھی گئی ہیں وہ سب اس تصویر کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اس طرح ان الفاظ کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری صورت گری کی ہے اور بہترین صورت گری کی ہے، یعنی تم کو ایک موزوں ترین جسم دیا گیا جس کے ساتھ تم اس دنیا میں کام کرنے کے قابل ہوئے ہو۔ ہر وہ کام جو انسان کے کرنے کا ہے! اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کہ تمھیں، مثلاً چھپکلی کا جسم دے دیا جاتا اور اس کے اندر دماغ انسان کا رکھ دیا جاتا اور اس میں وہ صلاحیتیں پیدا کردی جاتیں جو انسان کے دماغ کی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ چھپکلی کے جسم کے اندر رہ کر انسانی دماغ کام نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر کسی اور جانور یا حیوان کے جسم میں انسانی دماغ رکھ دیا جاتا تو اس دماغ کی قوتیں اور صلاحیتیں بروے کار نہ آسکتیں۔ چنانچہ دماغ کی صلاحیتوں کے لیے اس کے مطابق موزوں ترین جسم عطا کیا گیا۔ اس کو سروقد کھڑا کیا، اس کو چارٹانگوں پر نہیں بلکہ دو ٹانگوں اور دو پائوں پر چلنے کے قابل بنایا۔ اس کو دو ہاتھ دیے جو بہترین طریقے پر کام کرسکتے ہیں۔ دو پائوں دیے جن پر سیدھے کھڑے ہوکر وہ دو ٹانگوں سے چل سکتا ہے۔ پھر اس کے اندر عقل اور فکر کی، تجربہ کرنے کی اور ان سے سیکھنے اور ترقی کرنے اور نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے کی وہ مختلف صلاحیتیں عطا فرمائیں جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو درکار تھیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نظام جس کے اندر تم رہ رہے ہو یہ الل ٹپ نہیں بن گیا ہے۔ یہ تمھارے جسم اور ان کی قابلیتیں آپ سے آپ نہیں بن گئی ہیں بلکہ کوئی خدا ہے جس نے تم کو اس طرح سے ڈیزائن کیا، اس طرح کی قابلیتیں اور صلاحیتیں عطا کیں اور اس کائنات کے اندر تم کو پیدا کیا جو سراسر حق پر بنی ہوئی ہے۔
اس کے بعد جو مزید بات تم کو یاد رکھنا چاہیے وہ یہ ہے: وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ’’اور آخرکار تمھیں لوٹ کر جانا اسی کے پاس ہے‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ تم اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیے گئے ہو کہ شُتر بے مہار کی طرح پھرو، جہاں چاہو پھرو اور جس کھیت میں چاہو منہ مار دو اور جس طرح سے چاہو دنیا میں زندگی گزار کر ، مر کر مٹی ہوجائو اور کبھی کسی خدا کے سامنے جاکر تمھیں جواب دہی نہ کرنی ہو۔ جو قابلیتیں تم کو دی گئی تھیں اور جو اختیارات اور جو ذرائع و وسائل تم کو دیے گئے تھے ان کو تم نے کیسے استعمال کیا، ان کے بارے میں تم سے کوئی بازپُرس نہ ہو، ایسا نہیں ہوگا۔
ایک فقیر سے فقیر آدمی کو بھی اللہ تعالیٰ نے وہ ذرائع دیے ہیں جن کی قیمت کا آدمی اندازہ نہیں کرسکتا۔ ایک ایک چیز جو اس کو عطا کی گئی ہے، ساری کائنات اس کی قیمت نہیں بن سکتی۔ ایک آنکھ کی قیمت یہ پوری کائنات نہیں بن سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے اندر ایک ایک آدمی کو جو اتنے ذرائع اور وسائل عطا کیے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ وہ ان سب کو مار کر مٹی میں ملا کر بس خاک و غبار بنا دے اور ان سے کبھی نہ پوچھے کہ یہ سب کچھ تمھیں دیا گیا تھا تم نے ان کا کیا استعمال کیا۔ اس لیے فرمایا کہ آخرکار تمھیں جانا اسی کے حضور ہے۔ گویا اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہوگی جس میں انسانوں کے بارے میں ان کے اعمال کی بنیاد پر فیصلہ ہوناہے کہ کون جزا کا مستحق ٹھیرتا ہے اور کون سزا کا۔
یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (۴) زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کہ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، سب اس کو معلوم ہے، اوروہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔
یعنی تم کسی بے خبر خدا کی خدائی میں نہیں رہتے ہو۔ وہ شہِ بے خبر نہیں ہے اور نہ وہ کوئی اندھا راجا ہے کہ جس کی نگری چوپٹ نگری ہو، جس میں تم جس طرح چاہو رہو۔ تم اس خدا کی سلطنت میں رہتے ہو جو تمھاری ایک ایک چیز سے باخبر ہے۔ ایک ایک شخص کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ دل میں کیا سوچ رہا ہے۔ ایک ایک شخص کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اندھیرے میں کیا کر رہا ہے اور اُجالے میں کیا کر رہا ہے۔ وہ اپنی خلوت میں کیا کر رہاہے اور اپنی جلوت میں کیا کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ جو ذرائع اور وسائل آدمی کو دیے گئے تھے ان سے اس نے کس طرح سے کام لیا اور کس نیت سے لیا۔ چنانچہ وہ محض اس کے ظاہری عمل ہی کو نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ جو محرکات (motives) اس کے افعال کے پیچھے کارفرما ہیں وہ ان سب کو بھی جانتا ہے۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ، وہ دلوں میں چھپے ہوئے رازوں تک کو جانتا ہے۔ گویا آدمی اس سے اپنی کوئی چیز چھپا نہیں سکتا۔
اس پورے پیراگراف میں جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک اور فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے۔ انسان کو اس نے پیدا کیا۔ اس نے اس کی صورت گری کی۔ اس کوتمام صلاحیتیں اور قوتیں اور دوسرے ذرائع و وسائل اُسی نے دیے۔ اس کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور اس دنیا کے بعد آنے والی ایک دوسری زندگی میں آدمی کو جانا اسی کے پاس ہے۔ یہ پورا نقشۂ کائنات، اور اس کائنات کے اندر آدمی کی جو ٹھیک پوزیشن ہے وہ واضح کردی گئی۔ اس طرح آدمی کا اپنے خدا سے جو تعلق، اور اس کی جو صحیح نوعیت ہے وہ ساری کی ساری ان چند فقروں کے اندر واضح طور پر بیان کردی گئی ہے۔
اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَئُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۵) کیا تمھیں اُن لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنھوں نے اِس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامتِ اعمال کا مزہ چکھ لیا؟ اور آگے اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
اُوپر کی آیات میں پہلی چیز یہ بیان کی گئی تھی کہ جس کائنات میں تم رہتے ہو اس کی حقیقت کیا ہے، اس میں تمھاری حیثیت کیا ہے۔ یہ بتایا گیا کہ یہ کائنات اُس خدا کی سلطنت میں ہے جو تمھارا خالق ہے۔ یہ جان لینے کے بعد کہ تمھارا خالق وہی ہے اور اس کے بعد کوئی کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور کوئی ایمان لاتا ہے، اب یہاں یہ فرمایا گیا کہ کیا تم نے کبھی نہیں سنا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے کفر کیا ہے اُن کا انجام اِسی دنیا میں کیا ہوچکا ہے؟ گویا ایک طرف پہلے کائنات کی حقیقت اور اس کے اندر انسان کی حیثیت واضح کی گئی اور اب دوسری طرف انسانی تاریخ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج جو تم یہاں موجود ہو، تم پہلی دفعہ خودبخود اس زمین پر آگئے ہو اور اس سے پہلے جو انسان اسی زمین پر گزر چکے ہیں ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی نہیں ہے کہ پہلے گزرے ہوئے انسانوں کے اعمال کے نتائج تمھارے سامنے نہ ہوں۔ تم تاریخ کے ایک خاص دَور میں پیدا ہوئے ہو، اس سے پہلے بہت سے انسان گزر چکے ہیں۔ تاریخ کے اندر کفر کرنے والوں اور ایمان لانے والوں، دونوں ہی کے حالات موجود ہیں۔ اس کے بعد کیا تم کہہ سکتے ہو کہ تمھیں اپنی گذشتہ تاریخ کا علم نہیں ہے۔ کفر کرنے والے دنیا میں جس غلط روش پر چلتے رہے اس کا انجام کیا ہوا۔ کیونکہ جس آدمی کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ ایسے کسی خدا کی سلطنت میں ہے جو اس کے ہرفعل اور ارادے تک سے واقف ہے، جس کے سامنے وہ ذمہ دار اور جواب دہ ہے، جس کی گرفت سے بچ کر وہ کہیں بھاگ نہیں سکتا، ایسا شخص کبھی سیدھے راستے پر نہیں چل سکتا، اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔ ان حقائق کا انکار کرنے کے بعد ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی کے اخلاق نہ بگڑیں، اس کے معاملات نہ بگڑیں اور وہ دنیا میں ظالم اور غلط کار بن کر نہ رہے۔ اس بات کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔
بعض اوقات لوگ ایسا ضرور کرتے ہیں کہ خدا کے دین میں جو اخلاقی تعلیمات دی گئی تھیں ان میں سے کچھ انھوں نے وہاں سے لے لیں اور لا کر مادہ پرستانہ فلسفوں کے ساتھ جوڑ لگا کر اپنا ایک الگ نظامِ زندگی بنا لیا۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ مادہ پرستانہ فلسفوں میں اخلاق کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگر مادہ پرستی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے کہ ایک شخص آپ کا مال چُرا کر اس سے اس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہو کہ آپ کو پتا نہ چل سکے، اور کسی پولیس کو بھی پتا نہ چل سکے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ شخص آپ کا مال چرا کر اپنے قبضے میں نہ کرلے۔ مادہ پرستی کے فلسفے میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ آدمی ایسی حالت میںچوری کیوں نہ کرے، جب کہ اس کو چوری کا فائدہ ہی پہنچتا ہو اور نقصان کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ اب اگر آدمی کو چوری سے کوئی چیز فی الواقع بچاسکتی ہے اور ایک مضبوط اخلاقی بنیاد پر قائم رکھ سکتی ہے تو وہ اس کا صرف یہ احساس ہے کہ اُوپر ایک خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس خدا کی گرفت سے وہ نہیں بچ سکتا۔ صرف یہ وہ چیز ہے جو آدمی کو مستقل طور پر دیانت داری پر قائم رکھ سکتی ہے۔ ورنہ مادّہ پرستانہ فلسفے کے ساتھ آدمی کے اندر کسی دیانت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دیانت، آدمی اسی جگہ برتے گا جہاں اس کو اس دیانت کا کوئی فائدہ ہوتا نظر آئے، اور بددیانتی سے اس جگہ بچے گا جہاں اس کو اس دنیا میں بددیانتی کا کوئی نقصان ہوتا ہوا معلوم ہو۔ اسی طرح اور آگے بڑھ کر دیکھیے اگر ایک قوم اتنی طاقت ور ہے کہ دوسری قوم پر حملہ آور ہوکر اس کا مال لوٹ سکتی ہے، اس پر تباہی نازل کرسکتی ہے، اس کے آدمیوں کو قتل کرسکتی ہے اور کہیں کوئی طاقت ایسی موجود نہیں ہے جو آکر اس کا ہاتھ پکڑنے والی یااس سے بدلہ لینے والی ہو، تو ایسی ظالم قوم کبھی دوسری قوم پر ظلم کرنے سے باز نہیں رہے گی۔
اس ظالم قوم کو بس اتنا اطمینان چاہیے کہ دوسری قوم کے پاس کوئی بڑا اسلحی سازوسامان نہیں ہے، کوئی بڑا ہوائی بیڑہ نہیں ہے جس سے وہ جوابی حملہ کر کے مجھے کوئی سزا دے سکے، اور کوئی دوسری ایسی بڑی طاقت بھی نہیں ہے جو اس مظلوم قوم کی حمایت کو اُٹھ سکے تو اس کے بعد کوئی چیز اس طاقت کے نشے میں بدمست قوم کو ظالم بننے سے روکنے والی نہیں ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کس طرح اسلحی طاقتوں سے لیس قومیں دوسری قوموں کو تباہ و برباد کرر ہی ہیں___ اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ جن لوگوں نے اس سے پہلے کفر کی روش اختیار کرکے دنیا کو ظلم و فساد کی آماج گاہ بنایاہے، کیا ان کا انجام تمھیں معلوم نہیں ہے۔ کبھی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی قوم نے یہ ظالمانہ اخلاق اختیار کیے ہوں اور اس کے بعد آخرکار وہ تباہ نہ ہوئی ہو۔ قوموں کی قومیں اس طرح تباہ ہوئی ہیں کہ آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔ آج کوئی یہ بات کہنے والا نہیں ہے کہ ہم قومِ ثمود کی اولاد ہیں، حالانکہ ان کی کچھ نہ کچھ نسل تو دنیا میں موجود ہوگی۔ اسی طرح آج کوئی اُٹھ کر یہ کہنے والا نہیں ہے کہ ہم قومِ عاد یا قومِ لوطؑ کی اولاد ہیں۔ اور اگر کوئی یہاں یہ کہنے والا ہے کہ ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘ تو پھر وہ اس کا نتیجہ بھی دیکھتا ہے کہ فرعون کی اولاد بننے کا کیا انجام ہوتا ہے___ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیاتمھیں خبر نہیں ہے کہ جن قوموں نے پہلے کفر اختیار کیا ہے ان کا انجام کیا ہوچکا ہے۔ پھر فرمایا: فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ، ’’یعنی انھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھا اور آگے ان کے لیے عذابِ الیم ہے‘‘۔ گویا وہ اس دنیا میں بھی تباہ ہوئے اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک سزا موجود ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْھِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (۶) اِس انجام کے وہ مستحق اس لیے ہوئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے، مگر اُنھوں نے کہا: ’’کیا انسان ہمیں ہدایت دیںگے؟‘‘ اس طرح اُنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا، تب اللہ بھی ان سے بے نیاز ہوگیا، اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود۔
ان منکرینِ حق کا یہ انجام کیوں ہوا؟ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر پیدا کرکے یہ بات انسان پر نہیں چھوڑ دی ہے کہ وہ خود غور کر کے یہ سمجھے کہ مجھے کسی نے پیدا کیا ہے اور میری حیثیت یہاں اس کے بندے کی ہے۔ درآں حالیکہ آدمی کو اللہ نے اتنی عقل و فکر ضرور دی ہے کہ وہ غور کر کے کم از کم اس نتیجے پر تو پہنچ سکتا ہے کہ اس کائنات کا لازماً کوئی نہ کوئی خالق ہے، اور وہ ایک ہی خالق ہونا چاہیے، دس خالق نہیں ہوسکتے ہیں، اور وہ ایسا ہی خالق ہونا چاہیے جو تمام کائنات پر فرماں روائی کر رہا ہو۔ وہ ایسا خالق ہونا چاہیے جو ہرچیز سے واقف ہو اور اس کا علم رکھتا ہو۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو انسان کو عقل دی ہے کہ وہ اس کی مدد سے اپنے رب کو پہچانے لیکن دوسری طرف اس نے انسان کو اس آزمایش میں نہیں ڈالا کہ وہ خود اپنی عقل استعمال کر کے اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے، بلکہ اس کی ہدایت کے لیے اس نے خود مکمل انتظام کر دیا ہے۔ اس نے انسانوں کے اندر انھی میں سے ایسے انسان مبعوث کیے جو آکر اس کو بتائیں کہ یہاں تمھاری حیثیت کیا ہے اور اس کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ یہ انتظام کر کے اس نے انسان کے لیے اس بات کی گنجایش نہیں چھوڑی ہے کہ وہ کسی غلط فہمی میں پڑ جائے، ٹھوکر کھا جائے۔
اللہ کے یہ نیک بندے انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ کائنات میں تمھاری یہ پوزیشن ہے، اور آخرکار اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی میں جاکر خدا کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ اس نے اس زندگی میں تمھارے لیے کچھ اصول طے کیے ہیں کہ اگر ان پر تم چلو گے توتمھاری یہ زندگی بھی درست ہوگی اور عاقبت بھی درست ہوگی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجے اور بیّنات کے ساتھ بھیجے۔
بَـیّن اس چیز کو کہتے ہیں جو واضح ہو۔ یہ لفظ آپ اُردو زبان میں بھی بولتے ہیں کہ یہ بات بین ہے، یعنی بالکل واضح ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بینات کے ساتھ بھیجا۔ بیّنات کیا ہیں؟
پہلی چیز بیّنات میں یہ ہے کہ رسولوں کی اپنی زندگی اور جس اخلاق کی تعلیم لے کر وہ آتے ہیں، ان پر ان کی اپنی عملی زندگی کی گواہی واضح طور پر یہ بتا رہی ہوتی تھی کہ یہ خدا کے رسول ہیں، کوئی بناوٹی لوگ نہیں ہیں۔ بنا ہوا آدمی کبھی نہیں چھپتا۔ وہ درجہ بہ درجہ اس خاص مقام تک پہنچتا ہے جس پر وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ آپ خود اس سرزمین پر یہ منظر دیکھ چکے ہیں کہ ایک آدمی آپ کی آنکھوں کے سامنے رسول بنتا ہے۔ آج ایک دعویٰ کر رہا ہے، کل دوسرا دعویٰ کر رہا ہے اور پرسوں تیسرا دعویٰ کر رہا ہے۔ ایک قدم رکھ کر اس نے دیکھا کہ یہاں قدم ٹکتا ہے تو پھر اس نے ایک اور دعویٰ کر دیا۔ اس طرح بنائوٹی آدمی جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے بنتا ہے۔ جیساکہ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صاحب نے ایک شخص کے بارے میں کہاکہ دوسروں کے متعلق تو نہیں معلوم کہ یہ سیّد ہیں یا نہیں ہیں، لیکن یہ تو کل ہمارے سامنے سیّد بنے ہیں___ تو اس طرح بناوٹی آدمی کبھی چھپتا نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جن پاکیزہ انسانوں کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ، ان کی پوری زندگی اس بات کی شہادت دے رہی ہوتی تھی کہ وہ واقعی اللہ کے رسولؐ ہیں، کوئی بناوٹ ان کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔ جب تک وہ اللہ کی طرف سے رسول مقرر نہیں ہوئے تھے کسی نے کوئی دعویٰ کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا تھا۔ کسی نے ان کی زبان سے وہ مضامین نہیں سنے تھے جو اللہ کے رسولؐ بننے کے بعد انھوں نے سنانے شروع کیے۔ ان کے متعلق کبھی کسی کو یہ گمان نہیں ہوا تھا کہ یہ صاحب کل کچھ بننے والے ہیں۔ البتہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنائے گئے، تب انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں___ اور جو دعویٰ انھوں نے پہلے روز کیا تھا اسی دعوے پر وہ آخر دم تک قائم رہے۔ اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی طرح جو تعلیم انھوں نے اوّل روز پیش کی، اس کے اندر کسی قسم کا ردّ و بدل تک نہیں کیا، البتہ اس تعلیم کے اندر ارتقا اور تکمیل (development) تو لازمی طور پر ہونا ہوتا ہے۔ اوّل قدم پر جو باتیں آپ کو بتائی جائیں گی ان کے اندر مزید تفصیلات اور توضیحات حالات کے تغیر و تبدل اور ارتقا کے مطابق آپ کو دی جاتی رہیں گی۔ لیکن جس بنیاد پر، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید، رسالت اور آخرت کے یقین و ایمان پر جس تعلیم کا آغاز انبیا علیہم السلام نے کیا تھا اس میں کبھی کوئی تغیر نہیں ہوا۔ اس طرح اُن کی پوری زندگی اس بات کی شہادت دیتی تھی کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، اور جو تعلیم وہ لے کر آئے، وہ واضح ہدایات پر مبنی تھی، اس میں کوئی اُلجھائو نہیں تھا۔ صاف صاف یہ بتایا گیا تھا کہ تمھارے لیے حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔انھوں نے اپنی تعلیم میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں چھوڑا۔ انھیں بینّات اور روشن دلیل کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پچھلی قوموںکے پاس رسول پر رسول آئے اور بینات لے کر آئے لیکن لوگوں نے ان روشن تعلیمات کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کے بجاے رسولوں کو جواب یہ دیا کہ: اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا ’’کیا اب انسان ہمیں ہدایت دیںگے؟‘‘ یعنی انھوں نے نفسِ ہدایت پر بات کرنے کے بجاے انکار کے لیے بیچ کا راستہ اختیار کیا۔ گویا جو چیز لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکتی رہی وہ یہ تھی کہ وہ انسان کو خدا کا رسول ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، نیز یہ کہ کیا ہم جیسے انسان اُٹھ کر اب ہمیں ہدایت دیں گے؟___ گویا ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہمیں ہدایت دینی ہے تو اس کے لیے خدا خود آئے یا اپنے فرشتوں کو بھیجے۔ ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ کوئی انسان خدا کا رسول ہو۔
انسان کی گمراہی کی یہ عجیب صورت رہی ہے۔ جب رسول مانا تو کہا کہ یہ بشر نہیں ہے، اور جب بشر سمجھا تو کہا یہ رسولؐ نہیں ہے یعنی یہ پھیر تھا جس میں انسان ہمیشہ مبتلا رہے۔چنانچہ یہ کہنے کے بعد کہ کیا بشر ہماری رہنمائی کریں گے، رسولوں کی تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا۔
اس بات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْاوَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط(۶) ’’آخرکار اُنھوں نے انکار کیا، اور نیکیوں کی تعلیم کو ماننے سے منہ موڑا، پھر اللہ بھی ان سے مستغنی ہوگیا‘‘۔ گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی روشن تعلیمات کو نہ مانے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب اُس کو سمجھانے آئیں تو ان سے منہ موڑے، تو اللہ کی کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ اس کے سامنے ہدایت کو لیے لیے پھرے اور خوشامد کرے کہ میرے رسول کی بات مان لو۔ نہیں، بلکہ جب ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ٹھکراتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس سے مستغنی ہوجاتا ہے۔ وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ کے معنی یہ ہیںکہ اللہ ان سے بے نیاز اور مستغنی ہوگیا۔ اس نے اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا، کہ جائو جس گڑھے میں گرنا چاہتے ہو، جا کر گرجائو۔
مزید فرمایا: وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ’’اور اللہ غنی ہے اور حمید ہے‘‘۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفتیں بیان کی گئیں:پہلی صفت یہ ہے کہ وہ غنی ہے، یعنی وہ تمھارا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی کچھ تمھارے بل پر نہیں چل رہی ہے کہ اگر تم نے خدا مانا تو وہ خداہوا، اور نہ مانا تو اس کی خدائی کو کوئی نقصان پہنچ جائے گا۔ نہیں، بلکہ وہ تمھیں جو کچھ سمجھاتا ہے، تمھارے اپنے بھلے کے لیے سمجھاتا ہے، اس کا اپنا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے۔ اگر تم اس کی پروا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی غنی ہے، اس کو تمھاری بندگی کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ حمید ہے، یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا خود حمید ہے وہ بُری صفات والے انسانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ اسی دنیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی نیک سیرت آدمی کسی بدسیرت آدمی کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتا۔ بدسیرت آدمیوں کے ساتھ بدسیرت آدمی ہی بیٹھا کرتے ہیں۔ اگر نیک سیرت آدمی کبھی اتفاق سے کسی بدسیرت کو نہ سمجھ کر اس کے ساتھ تعلقات استوار بھی کرلے تو جس وقت اس کو معلوم ہوجائے کہ وہ بدسیرت آدمی ہے، وہ اس کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرلے گا، یا کم از کم سمیٹ لے گا۔ پھر جب انسانوں کا حال یہ ہے تو اللہ تعالیٰ سے آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ اگر آپ اپنے اندر بُری صفات کی پرورش کریں تو پھر اللہ کا تقرب بھی آپ کو حاصل ہوجائے۔ اللہ کو پسند وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنے اندر قابلِ تعریف صفات پیدا کرے کیونکہ وہ خود قابلِ تعریف صفات کا مالک ہے۔ اور پھر آپ اپنی ذات میں محمود ہے۔ کوئی اس کی حمدوثنا نہ بھی کرے تو اس کی شان میںکوئی کمی واقع نہیں ہوجاتی۔ (جاری) (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
عیدالاضحی میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحابہ کرامؓ نے اسی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے۔ (ابن ماجہ، ابواب الاضحی، باب ۳)
بے شک ہر سال مسلمانانِ عالم کروڑوں جانوروں کی قربانی کرکے جاں نثاری اور فدائیت کے اس بے نظیر واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریباً سوا پانچ ہزار سال پہلے عرب کی سرزمین میں اللہ کے گھر کے پاس پیش آیا تھا--- کیسا رقت انگیز اور ایمان افروز ہوگا وہ منظر جب ایک بوڑھے اور شفیق باپ نے اپنے نوخیز لختِ جگر سے کہا: یٰـبُـنَیَّ اِِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰیط (الصافات ۳۷: ۱۰۲) ’’پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا راے ہے؟‘‘ اور لائق فرزند نے بے تامل کہا: یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصافات ۳۷: ۱۰۲) ’’اباجان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ اور پھر اخلاص و وفا کے اس پیکر نے خوشی خوشی اپنی معصوم گردن زمین پر اس لیے ڈال دی کہ اللہ کی رضا اور تعمیلِ حکم کے لیے اس پر تیز چھری پھیر دی جائے، اور ایک ضعیف اور رحم دل باپ نے اپنے محبوب لختِ جگر کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر اس کی معصوم گردن پر اس لیے تیز چھری پھیر دینے کا ارادہ کرلیا کہ اس کے رب کی مرضی اور حکم یہی ہے۔
اطاعت و فرماں برداری کا یہ بے نظیر منظر دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور ندا آئی: وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰا۔ِٓبْرٰھِیْمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ o اِِنَّ ہٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ o (الصافات ۳۷: ۱۰۴-۱۰۶) ’’اور ہم نے انھیں ندا دی کہ اے ابراہیم ؑ! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمایش تھی‘‘۔ اس وقت ایک فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ایک مینڈھا پیش کیا کہ وہ اس کے گلے پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کریں، اور اللہ نے رہتی دنیا تک یہ سنت جاری کر دی کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اسی دن جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر اس بے نظیر قربانی کی یاد تازہ کریں۔
وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ o (الصافات ۳۷: ۱۰۷) اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس (نوعمر بچے) کو چھڑا لیا۔
بڑی قربانی سے مراد قربانی کی یہی سنت ہے جس کا اہتمام ہر سال اسی دن مسلمانانِ عالم دنیا کے گوشے گوشے میں کرتے ہیں اور لاکھوں مسلمان تو مکہ کی اس سرزمین پر اس سنت کو تازہ کرتے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہ تو اس قربانی کا یکایک مطالبہ کیا گیا تھا اور نہ وہ یکایک اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہوگئے تھے بلکہ ان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی یادگار ہے۔ حیاتِ ابراہیم ؑکو اگر قربانی کی تفسیر کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر آپ جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھیں۔ اللہ کی خاطر آپ ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوئے، ان کی دولت اور آسایش سے محروم ہوئے، خاندان اور برادری کی حمایت اور سہارے سے محروم ہوئے، خاندانی گدی سے محروم ہوئے، وطنِ عزیز سے نکلنا پڑا۔ اللہ ہی کی خاطر آتشِ نمرود میں بے خطر کود کر آپ نے اللہ کے حضور اپنی جان نذر کر دی، اور اللہ ہی کی رضا اور اطاعت میں آپ نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بچے کو ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں لاکر ڈال دیا، اور جب یہی بچہ ذرا سنِ شعور کو پہنچ کر کسی لائق ہوا تو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہرسہارے اور تعلق سے کٹ جائو اور مسلم حنیف بن کر اسلام کامل کی تصویر پیش کرو: اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ۲:۱۳۱) ’’جب ان سے ان کے رب نے کہا: مسلم ہوجا تو اس نے بے تامل کہا: میں رب العالمین کا مسلم ہوگیا‘‘۔
اسلام کے معنی ہیں: کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری۔ قربانی کا یہ بے نظیر عمل وہی کرسکتا ہے جو واقعتا اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو، جو زندگی کے ہرمعاملے میں اس کا وفادار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر دیا ہو۔ اگر آپ کی زندگی گواہی نہیں دے رہی ہے کہ آپ اللہ کے مسلم اور وفادار ہیں اور آپ نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے نہیں کی ہے تو آپ محض چند جانوروں کا خون بہا کر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ نہیں کرسکتے، اور اس عہد میں پورے نہیں اُتر سکتے جو قربانی کرتے وقت آپ اپنے اللہ سے کرتے ہیں۔
دنیا کے مسلمان اس دن جانوروں کا خون بہا کر اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اے رب العالمین! ہم تیرے مسلم ہیں۔ تیری کامل اطاعت ہی ہمارا شیوہ ہے۔ ہم تجھ سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور اپنے بزرگوار اسماعیل کی طرح تیرے حضور اپنی گردن پیش کرتے ہیں۔ پروردگار تو نے ہی قربانی کی یہ سنت جاری کر کے اسماعیل علیہ السلام کی گردن چھڑائی تھی۔ ہم جانوروں کا خون بہا کر اپنی گردن چھڑاتے ہیں مگر ہمارا سب کچھ تیرا ہی ہے، تیرا اشارہ ہوگا تو ہم تیرے دین کی خاطر اپنی گردن کٹانے اور اپنا خون بہانے سے ہرگز دریغ نہ کریں گے۔ ہم تیرے ہیں اور ہمارا سب کچھ تیرا ہے۔ ہم تیرے وفادار اور جاں نثار بندے حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کے پیرو ہیں اور انھی کی عقیدت سے سرشار ہیں۔ قربانی کرتے وقت آپ جو دعا پڑھتے ہیں وہ دراصل وفاداری اور جاں نثاری کے انھی جذبات کا اظہار ہے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ o اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ، میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رُخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں۔ خدایا! یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ، اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلَہٗ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ، اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! تو اس قربانی کو میری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی قبول فرمائی۔ دونوں پر درود و سلام ہو۔
دراصل اسی واقعے کو تازہ کرنا اور انھی جذبات کو دل و دماغ پر حاوی کرنا قربانی کی روح اور اس کا مقصد ہے۔اگر یہ جذبات اور ارادے نہ ہوں، اللہ کی راہ میں قربانی کی آرزو اور خواہش نہ ہو، اللہ کی کامل اطاعت اور سب کچھ اس کے حوالے کردینے کا عزم اور حوصلہ نہ ہو، تو محض جانوروں کا خون بہانا، گوشت کھانا اور تقسیم کرنا قربانی نہیں ہے، بلکہ گوشت کی ایک تقریب ہے جو ہرسال آپ منا لیا کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کردیا۔ اللہ کو نہ جانوروں کے خون کی ضرورت ہے نہ گوشت کی۔ اس کو تو اخلاص و وفا اور تقویٰ و جاں نثاری کے وہ جذبات مطلوب ہیں جو آپ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط (الحج ۲۲:۳۷) ’’اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون، اسے تو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
یہی تقویٰ اور اطاعت و فرماں برداری کا جو ہر قربانی کی روح ہے اور اللہ کے یہاں صرف وہی قربانی شرفِ قبول پاتی ہے جو متقی لوگ اطاعت اور فرماں برداری و جاں نثاری کے جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں: وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo (المائدہ ۵:۲۷) ’’اور انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا: ’’اللہ تو متقیوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔ یعنی تیرے دُنبے کو اگر آسمانی آگ نے نہیں جلایا اور اللہ نے اسے قبول نہیں کیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے جو مجھے قتل کی دھمکی دے رہا ہے۔ اپنی اصطلاح کی فکر کر، تیرے اندر ہی کھوٹ ہے، اللہ تو صرف متقی لوگوں کی قربانی ہی قبول کرتا ہے۔
تقویٰ اور اخلاص اور وفاداری و جاں نثاری کے یہ جذبات اس طرح پیدا نہیں ہوتے کہ آپ گاہے گاہے اللہ کو یاد کرلیں اور کچھ ایسے مخصوص اعمال کبھی کبھی کرلیں جو اللہ سے تعلق اور اس کی راہ میں قربانی کی علامات ہیں اور پھر اپنے افکار و خیالات، احساسات و جذبات، اخلاق و معاملات اور اطاعت وفاداری میں آپ آزاد ہیں کہ جو چاہیں سوچیں، جو چاہیں ارادے رکھیں، جو چاہیں کریں اور جس کی اطاعت و فرماں برداری کا چاہیں دم بھریں۔ اللہ سے یہ عہد کرنے کے بعد کہ ’’میں ربّ العالمین کا مسلم ہوں‘‘، اس کی کیا گنجایش ہے کہ ہم دوسرے ازموں اور طریقوں کو اطاعت کے لیے اپنائیں، یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کر اپنے لیے جائز اور قابلِ قبول قراردیں اور اپنے من مانے طریقوں کی پیروی کریں۔ کیا جانوروں کا فدیہ دے کر ہم نے اپنی جانوں کو اس لیے چھڑایا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور اپنی قوت و صلاحیت کو جہاں چاہیں کھپائیں اور قربان کریں اور اللہ سے یہ اُمید کریں کہ وہ ان جانوروں کے گوشت اور خون کو قبول کرلے گا!
اللہ کا دین آپ کی پوری شخصیت اور آپ کی پوری زندگی چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کا جوڑ نہ لگائیں۔ جن برگزیدہ بندوں کی سنت کو آپ تازہ کر رہے ہیں، انھیں دیکھیں کہ وہ کس طرح زندگی کے ہرمعاملے میں مسلم حنیف تھے۔ اللہ سے اسلام اور بندگی کا عہد کرنے والے ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسلام کی کیا تصویر پیش کرتی ہے، ان کی زندگی کو آپ بار بار پڑھیں اور ذی الحجہ کے پہلے ۱۰ ایام میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پڑھیں اور اپنے دل و دماغ اور شخصیت اور معاشرے پر اُن جذبات اور کیفیات کو طاری کرنے کی کوشش کریں جو اس پاکیزہ زندگی میں آپ کو نظر آئیں، ورنہ قربانی کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ گوشت کھانے اور کھلانے کے لیے آپ ایک جشن منارہے ہیں۔
قربانی کا مسئلہ متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری پونے چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں آئمۂ اربعہ اور اہلِ حدیث متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب گروہ بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیا ہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اُٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بیچارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے۔ (مسئلہ قربانی، ص ۴)
اب ذرا اقتصادی اعتراضات کو بھی جانچ لیجیے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اضاعت ِ مال ہے۔ مگر قرآن کہتا ہے: لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ اور فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [الحج ۲۲:۳۶] ’’اس میں تمھارے لیے بھلائی ہے‘‘ اور ’’اس سے میں خود بھی کھائو اور مانگنے والے غریب اور مانگنے والے سائل کو بھی کھلائو‘‘۔ آج آپ کے اپنے ملک میں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں جنھیں ہفتوں اور مہینوں اچھی قوت بخش غذا نصیب نہیں ہوتی۔ کیا اُن کو صدقہ اور ہدی اور نُسک کے ذریعے سے گوشت بہم پہنچانا آپ کی راے میں اصولِ معیشت کے خلاف ہے؟ لاکھوں انسان اور گلہ بان ہیں جو سال بھر تک جانور پالتے ہیں اور بقرعید کے موقع پر اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ کیا ان کی روزی کا دروازہ بند کرنا آپ کے نزدیک بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہے؟ ہزارہا غریب ہیں جن کو قربانی کی کھالیں مل جاتی ہیں اور ہزارہا قصائی ہیں جن کو ذبح کرنے کی اُجرت مل جاتی ہے۔ کیا یہ سب آپ کی قوم سے خارج ہیں کہ آپ ان کی رزق رسانی کو فضول بلکہ مُضر اور داخلِ اسراف سمجھتے ہیں؟
پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ کو تمام قومی ضروریات اور سارے فوائد و منافع صرف اسی وقت یاد آتے ہیں جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ صرف ہورہا ہو؟ گویا کہ بنکوں کا قیام اور قومی ادارات کا فروغ اور اعتقاد و اخلاق کی اصلاح اور یتیموں اور بیوائوں کی پرورش کا سارا کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رُکا پڑا ہے۔ اِدھر یہ بند ہوئی اور اُدھر قومی اداروں پر روپیہ برسنا شروع ہوجائے گا۔
اور اگر آپ کی قومی تنظیم ایسی ہی مکمّل ہے کہ سارے [ملک] کا روپیہ جمع کرکے آپ ہرسال ایک تجارتی بنک کھول سکتے ہیں تو ذرا سی تکلیف گوارا کرکے پہلے ملک بھر کے سینما ہالوں اور قحبہ خانوں اور بدکاری و اسراف کے دوسرے اڈوں پر تو اپنے ایجنٹ مقرر فرمایئے تاکہ مسلمانوں کا جس قدر روپیہ وہاں ضائع ہوتا ہے وہ قومی فنڈ میں وصول ہونا شروع ہوجائے۔ اس طرح آپ ہر سال نہیں ہر روز ایک تجارتی بنک کھول سکیں گے۔
پھر اگر آپ میں کچھ تعمیری قوت ہے تو قربانی کی تخریب کے بجاے آپ اُسے زکوٰۃ کی تعمیر ہی میں کیوں نہیں صرف فرماتے کہ تنہا اسی ایک چیز سے آپ وہ تمام قومی ضروریات پوری کرسکتے ہیں جن کی خاطر قربانی بند کرنے کی تبلیغ آپ نے شروع کی ہے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ مسلمانوں میں یہ ذہنیت پیدا ہوگئی کہ جن جن مذہبی مراسم میں روپیہ صرف ہوتا ہے اُن کو بند کر کے وہ روپیہ قومی اداروں اور تجارتی بنکوں پر صرف ہونا چاہیے، تو معاملہ صرف قربانی ہی پر رُکا نہ رہ جائے گا۔ کل کوئی اور بندۂ خدا اُٹھ کر کہے گا کہ یہ حج، جس پر کروڑوں روپیہ ہر سال خرچ ہور ہا ہے، اور جس کا کوئی فائدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، اِسے بند ہونا چاہیے، اور اس روپے سے تجارتی بنک کھلنے چاہییں! سارا معاملہ اصل میں اقدار ہی کا ہے۔ جب ایک دفعہ معیارِ قدر بدل گیا، پھر آج قربانی بند ہوگی اور کل خواہ آپ نے چاہا یا نہ چاہا، حج کی باری آکر رہے گی۔(تفہیمات، دوم، ص ۲۴۱- ۲۴۲)
دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جارہی ہے اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دَور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بُری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگاکر دیکھتے ہیں کہ ہرسال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اُٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جا رہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیراسلامی اندازِفکر سے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہرسال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرِحج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ کی لادینی حکومت نے ۲۵سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہرروز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی لیکن بُرا ہو اُن ملّائوں کا کہ انھوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگاکر صدیوں سے انھیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس [سابق سوویت یونین] میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں۔ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہراس چیز کو ’ملّائوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟ (ایضاً، ص ۲۶۰-۲۶۲)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا نظامِ معیشت ایک مستحکم اور پُر رحمت معاشی نظام ہے، جس کی بنیاد انسان دوستی پر ہے۔ ’’جو کچھ ہے، انسان کے لیے ہے اور جو کچھ بھی کیا جائے گا، انسانوں ہی کے لیے کیا جائے گا‘‘، یعنی اصل اہمیت انسان کی اور اُسے آسانی اور سہولت مہیا کرنے کی ہے، جب کہ دیگر معاشی نظاموں میں ذاتی مفادات، خواہشاتِ نفس اور پرستش دولت و وقار کو تمام تر اہمیت حاصل ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جوہری فرق ہے جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشی نظاموں کو ایک دوسرے سے جدا کرتاہے۔ لہٰذا بنیادی مقاصد کے شدید اختلاف کے باعث ہی ہردو کے معاشی اقدامات بھی بالکل جدا جدا ہوتے ہیں۔ ایک کے اقدامات انسانوں کے باہمی احترام اور ان کی لازوال فلاح و بہبود کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، جب کہ دوسرے نظام کے اقدامات سے سنگ دلی، انسانوں کی بے احترامی اور آمدوخرچ میں استحصال کا راستہ کھلتا ہے۔
مغربی نظام معیشت کا رائج الوقت مادی اصول یہ ہے کہ قیمتوں کا تعین طلب و رسد کی فضا سے ہوتا ہے۔ بظاہر دل کو لگنے والا یہ اصول اندر سے دراصل ایک جارح اصول ہے۔ مغربی ماہرین معیشت فرماتے ہیں کہ مارکیٹ میں جب طلب اشیا میں اضافہ ہوگا تو لازم ہے کہ وہاں قیمتوں میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہو، اور جب رسد اشیا (supply) میں اضافہ ہوگا تو قدرتی طور پر اشیا کی قیمتوں میں بھی اسی حساب سے کمی ہوگی۔ حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ جب اشیا کی رَسد میں اضافہ ہوا ہے تو عموماً ان اشیاء کی قیمتیں نہیں گر سکی ہیں، یا اگر گرائی گئی ہیں تو متناسب لحاظ سے نہیں گرائی گئی ہیں۔ خصوصاً ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں تواس کلیے پر بہت ہی کم عمل ہوتا ہے۔ تاہم اپنی جگہ پر یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اگر طلب بڑھ بھی جائے تب بھی اشیا کی قیمتیں بڑھا دینا محض منافع خوری اور بے رحمی کا ایک طریقہ ہے۔ ان ’سنہری‘ موقعوں پر تاجران و صنعت کاران کی دیرینہ تمنا ہوتی ہے کہ مذکورہ اصول کو آڑ بنا کر ڈھیروں منافع ایک ساتھ کما لیا جائے۔ حالانکہ انسان دوستی کے لحاظ سے اگر اس طرزِعمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب ضرورت کے مارے ہوئے لوگوں کو کم از کم پرانی قیمت پر تو اشیا کی فراہمی جاری رکھی ہی جانی چاہیے۔ انسانوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے رحمی سے اپنی جیبیں بھرنا مغربی طرزِ معیشت تو ہوسکتا ہے،اسلامی نہیں۔ اگر مارکیٹ میں اشیا کی قلّت پائی جاتی ہے اور ان کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے تو وہاں موجود ذخیرۂ اشیا کو تو بہرحال ایک مقام پر آکے ختم ہو ہی جانا ہے، خواہ پرانی قیمت پر فروخت کرکے یا خواہ من مانی زائد قیمت پر نکاسی کرکے۔ اس لیے ایسے موقعوں پر بے رحمی اختیار کرنا اور ناجائز منافع خوری کا فیصلہ کرنا کہاں کی انسان دوستی اور کہاں کا ’سنہرا‘ اصول ہے؟
اس کے برعکس اسلامی نظامِ معیشت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ضرورت کے موقعوں پر ہم اپنے بھائیوں کے لیے دستِ تعاون مزید دراز کریں اور منافع جاتی لحاظ سے اگر قیمتیں کم نہ کرسکیں تو انھیں کم از کم اتنی بلندی پر تو نہ لے جائیں کہ ضرورت مند فرد سسکنے اور مرنے پر تیار ہوجائے۔ خلیفۂ ثانی حضرت عثمان غنیؓ بذاتِ خود ایک بڑے تاجر و کامیاب درآمد و برآمد کنندہ تھے۔ لیکن مکّے کے ایک سنگین قحط کے دوران آپؓ نے اشیاے خوردونوش سے بھرے ہوئے کئی اُونٹوں کو مکّے کے شہریوں میں فی سبیل اللہ محض مفت تقسیم کروا دیا حالانکہ مکّے کے تمام بڑے تاجر آپ کو مذکورہ مال کی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر پیش کش کررہے تھے۔ کیا حضرت عثمانؓ کے لیے یہ ایک بہترین موقع نہیں تھا کہ وہ بھی ایک عام تاجر کی مانند مذکورہ اصول پر عمل کر کے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لیتے؟ لیکن اس موقع پر انھوں نے محض خوفِ خدا اور انسان دوستی کا ثبوت دیا۔ اسلام دراصل کاروباری شخصیات کو آنے والی دوسری دنیا کے منافع کی طرف بھی متوجہ رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔
معیشت کے سلسلے میں ایک معروف حدیث یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو۔ اگرچہ یہ ایک مختصر سی ہدایت ہے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے یہ ایک ایسا زریں اصول ہے جس کی بنیاد پر ملازمین کو دکھ اور غم سہنے کا کوئی موقع ہی نہ ملے۔ پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی ادایگی کر دینے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اوّل تو ملازم کو اس کی گھریلو معیشت چلانے میں کبھی کوئی دقت پیش نہ آئے، اور دوسرے آجر کے خلاف اس کے دل میں کبھی کوئی کینہ نہ پیدا ہو۔ ملازموں سے کام تو پورا لینا لیکن معاوضوں کے لیے انھیں تڑپانا، استحصال نہیں تو اور کیا ہے! ہمارے تمام آجران اگر اس سنہرے اصول پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ملازموں کی جانب سے انھیں کبھی ہڑتال یا فیکٹری کا پہیہ آہستہ کر دو اور مظاہروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خود صنعتی امن قائم رکھنے کے لیے بھی یہ ایک سنہرا اصول ہے۔
ایک دوسری ہدایت میں آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تمھارا غلام (ملازم) دھوئیں، گرمی اور دھوپ سے گزر کر تمھارے کھانے کے لیے کچھ لائے تو تم پر لازم ہے کہ اس کھانے میں سے کچھ حصہ اسے بھی دیا کرو۔ یہ ہدایت آپؐ نے اس لیے جاری فرمائی کہ خوراک کی تیاری کی مشقت کے بعد اس خوراک میں ملازم کا حصہ ازخود بن جاتا ہے۔ یہ اصول گویا ملازموں کے اضافی فوائد، مثلاً بونس، گریجوئیٹی اور دیگر فوائد کی طرف رہنمائی کرتا ہے کیونکہ کھانا پکانے کی تنخواہ تو ملازم کی پہلے سے طے ہوتی ہے، البتہ کھانا کھلانا اس کا ایک اضافی حق بن جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مختصر ہدایت ہے لیکن اس سے آپؐ نے ملازمین کے حقوق کا مزید تعین کیا ہے۔ یوں ایک طرف آجر و اجیر کے درمیان بہترین رشتہ استوار ہوتا ہے، اور دوسری جانب ملازم کو بھی ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔
ایک اور اہم ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ معیشت کے معاملے میں تم اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو جب کہ نیکیوں کے معاملے میں تم اپنے سے اُوپر والوں کو دیکھو۔ آپؐ کی یہ مختصر سی ہدایت کیا ہے، گویا ہماری زندگی کے بہت سے معاملات کو ازخود درست کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ کھاتے پیتے اور صاحب ِ ثروت لوگوں سے مقابلہ کر کے گویا ہم اپنی ذاتی معیشت کو خود ہی غیرمتوازن کرنے کا سامان کرتے ہیں، اور حسد، طبقاتی کش مکش، حرام آمدنی اور قرض کے دروازے کھولنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اپنے سے کم حیثیت افراد کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر ہماری اپنی زندگی میں اطمینان و قناعت کا رنگ اُبھرتا ہے بلکہ اس کے برعکس یہ جذبہ بھی زور کرتا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی ان کم استطاعت والے اپنے بھائیوں کی مدد کو آگے بڑھیں۔ یہ ہدایت بھی گویا فضول معاشی کش مکش اور بے جا اصراف کی جڑ کاٹتی ہے۔
معاشی حالات مزید درست کرنے کی خاطر آپؐ نے ایک ہی نوعیت کی مزید کئی اور ہدایات بھی دی ہیں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’محنت اور جدوجہد کرکے رزق حاصل کرنے والا شخص اللہ کا بہت محبوب ہوتا ہے‘‘۔ ایک موقع پر آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بے عمل بن کر تم مسلمانوں (معاشرے) پر بوجھ نہ بنو۔ اسی کے ساتھ آپؐ نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ بظاہر ایک ایک سطر کے یہ تین مختصر سے ارشادات ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان میں انسانی زندگی کی کم از کم آدھی معیشت پنہاں ہے۔ معیشت کا تمام تر دارومدار دراصل معاشی نقل و حرکت اور پیداواری عمل میں شرکت پر ہوتا ہے۔ معاشی سرگرمی جتنی تیز اور پیداواری نقل و حرکت جتنی زیادہ ہوگی، معاشرے میں معاشی بہتری بھی اتنی ہی زیادہ آئے گی۔ اسی لیے ہدایت کی گئی ہے کہ انسان محنت مزدوری (پیداواری عمل) میں ضرور حصہ لے اور نکمّا بن کر گھر میں نہ بیٹھ جائے۔ اسے بھیک اور مفت خوری سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے بلکہ معاشرے کا فعال حصہ بننا چاہیے، اور معاشرے پر کبھی بوجھ نہ بننا چاہیے۔ یہ تمام اقدامات نجی و ملکی معیشت درست کرنے کا آسان نسخہ ہیں۔ ہدایت کی گئی ہے کہ نیچے والا ہاتھ بننے کے بجاے اُوپر والا ہاتھ بننے کی جدوجہد کرو کیونکہ نیچے والا ہاتھ عموماً غیرپیداواری (non-productive) ہوتا ہے۔
اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا ایک واقعہ ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک بار جب آپؓ نے چند نوجوانوں کو مسجد میں بیٹھے ذکر اذکار کرتے دیکھا تو انھیں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اُٹھو اور محنت مزدوری کر کے اپنا رزق حاصل کرو۔ یاد رکھو کہ آسمان سے کبھی سونے اور چاندی کے سکّے نہیں گرتے۔ جو شخص محنت و مزدوری کا عادی ہوگا،اسے جب شام میں مزدوری ملے گی تبھی اسے صحیح معنوں میں حقیقی مسرت حاصل ہوسکے گی۔ (لاتحزن از حیدرقرنی، سعودیہ)
ایک موقع پر نبی کریمؐ نے محض چند الفاظ میں ایک اہم معاشی نکتہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس چیز کے پیسے میرے پاس نہیں ہوتے، میں وہ چیز نہیں خریدتا‘‘۔ اپنی ذاتی و قومی معیشت درست کرنے کا یہ کتنا سادہ سا نسخہ ہے۔ اسراف، فضول خرچی اور ہوسِ زر کی اس نسخے سے جڑ کٹ جاتی ہے۔ محض شان و شوکت، آرایش و سجاوٹ، نقالی اور نام و نمود کی خاطر انسان آخر خود کو کیوں ہلاکت میں ڈالے اور کیوں قرضوں اور دُہری تہری ملازمتوں کی دلدل میں پھنسے؟ قرضوں اور حرام آمدنیوں نے کسی انسان/معاشرے کی معیشت آخر کب سدھاری ہے، بلکہ یہ تو ذہنی و روحانی دونوں لحاظ سے نقصان کے سودے ہیں۔ کتنی بڑی بات ہے کہ انسان اپنی کوئی جائز خواہش محض اسی وقت پوری کرسکے، جب کہ اس کے پاس اس کے حصول کے جائز ذرائع موجود ہوں۔ وسائل نہ ہوں تو وہ بس قناعت ہی کا رویّہ کیوں نہ اپنائے؟ یہ وہ معاشی سبق ہے جو ایک عام فرد پر منطبق ہونے کے ساتھ ساتھ اداروں اور حکومتوں پر بھی یکساں لاگو ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس مختصر سی سنہری ہدایت پر عمل کر کے ہمارا وطن بھی ان بھاری قرضوں کی دلدل سے نکل سکے جن کے باعث ہمارے حکمرانوں نے اسے غیرملکی قوتوں کے ہاتھوں میں دھکیل دیا ہے۔
دولت اگر تالوں اور خزانوں میں بند کر کے رکھ دی جائے اور اسے گردش میں نہ رکھا جائے تو معیشت پر اس کے ہمیشہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ معاشیات کا واضح کلیہ یہی ہے کہ دولت کو مسلسل گردش میں رکھا جائے۔ اسلام بھی اس اہم کلیے سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لیے اس نے معاشرے میں سود کو جبراً روکنے اور زکوٰۃ کو قانوناً نافذ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سودی نظام کے تحت سرمایہ کروڑوں لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر محض چند افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوتا ہے، جب کہ نظامِ زکوٰۃ میں دولت چند صاحب ِ ثروت لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر لاکھوں کمزور لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی ہے۔ دولت کو جمود سے روکنے اور زر کو گردش میں لانے کے لیے یہ ایک بہت بڑی ہدایت ہے۔ اسی لیے اسلام نے اس کے نفاذ کے لیے قوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے، جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کرتے وقت دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر انھوں نے زکوٰۃ کی مد میں اُونٹ کی ایک رسّی بھی روکی تو میں ان سے ضرور جہاد کروں گا۔ زکوٰۃ کی مانند نبی کریمؐ نے انسانی ذاتی اقتصادیات درست رکھنے کی خاطر عید میں فطرے، معذوری کی صورت میں روزوں کے فدیے اور عیدالاضحی میں قربانی کے گوشت کی تقسیم کی بھی ہدایات فرمائی ہیں تاکہ سرمایہ (روپیہ اور اشیا دونوں) گردش میں رہیں۔ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر نفلی صدقات کے لیے بھی مسلمانوں کو مسلسل اُبھارا گیا ہے۔ اسی طرح وراثت کے اسلامی اصولوں پر بھی سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ جایداد کی تقسیم آگے منتقل ہوتی رہے اور معاشرے میں آسودہ حال لوگوں کا تناسب بڑھتا رہے۔
ایک بار آپؐ نے فرمایا تھا: قیامت کے دن مَیں تین آدمیوں کا مخالف ہوں گا، جن میں سے ایک وہ ہوگا جو مالک ہے اور مزدور سے کام تو پورا لیتا ہے، لیکن اس کی مزدوری اس کی محنت و صلاحیت کے مطابق ادا نہیں کرتا۔ معاشرے کو استحصال اور نفرتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ بھی ایک عمدہ معاشی ہدایت ہے جو اگرچہ مختصر ہے لیکن اپنے ہمہ گیر اثرات رکھتی ہے۔
پیداواری عمل میں مسلسل شرکت، راہِ قناعت کی جانب رغبت، آجروں کے استحصالی رویے کی مذمت، اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی مسلسل ہدایات کے باوجود معاشرے کا کوئی فرد یا گھرانہ اگر بے یارومددگار، غربت کا شکار، اور لاوارث و لاچار رہتا ہے تو پھر حکومت (ریاست) خود اس شخص کی مدد کو آتی ہے اور اس کی تمام ضروریات کو اپنے سر لے لیتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقروض و صاحب ِ اولاد فرد کی وفات کے بعد مَیں اس کا کفیل ہوں گا۔ اس کے وارثین اپنے مسائل کے حل کے لیے میرے (یعنی حکومت کے) پاس آئیں۔ نیز فرمایا: جس مرد و عورت نے اپنے پیچھے کوئی ذمے داری چھوڑی تو اس کی ادایگی کرنا ہماری (سربراہِ مملکت کی) ذمے داری ہے، جب کہ اس کی چھوڑی ہوئی وراثت سے ہمارا (ریاست کا) کوئی تعلق نہیں ہوگا، یعنی واجبات حکومت کے ہوں گے اور اثاثہ جات وارثین کے ہوں گے۔ انسان کی معاشی زندگی سدھارنے کی یہ کتنی بڑی ہدایت ہے جس کا اعلان اسلام ازخود کرتا ہے۔
اسلامی نظامِ معیشت کے یہ چند نمایاں پہلو ہیں: lقیمتوں کے تعین کے لیے طلب و رسد کے اصول کو استعمال نہ کیا جائے l مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے l ملازم کو اس کی محنت کے عوض حقِ اُجرت کے علاوہ کچھ اور فوائد بھی پہنچائے جائیں lمعیشت کے معاملے میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھا جائے lمحنت اور جدوجہد کرکے رزق حاصل کیا جائے l بے عمل بن کر معاشرے پر بوجھ نہ بنا جائے l لینے والا ہاتھ بننے کے بجاے دینے والا ہاتھ بنا جائے l خواہ مخواہ قرض لے کر خریداری نہ کی جائے l زکوٰۃ ادا کی جائے lسود کو ممنوع قرار دیا جائے l مزدور کو اس کی صلاحیت کے مطابق پورا معاوضہ دیا جائے lاسلامی حکومت ’جو کچھ نہیں رکھتے‘ کی کفالت کرے۔ ان قیمتی نکات پر اگر غور کیا جائے تو ہر صاحب ِ دانش پکار اُٹھے گا کہ اقتصادیات کو کسی بھی سطح پر درست کرنے کے لیے ان سے بہتر کوئی اور اصول نہیں ہوسکتے۔
امریکا میں لفظ ـ’اسلام‘ اور اس کے بنیادی تصورات کے بارے میں جاننا چاہیں تو کتابوں کی کسی دکان میں داخل ہو جائیں۔ خون خشک کردینے والے عنوانات اور سرورق فوراً آپ کو اپنی طرف متوجہ کرلیں گے۔ یہ سنسنی خیز ، صحافیانہ ادب مسلمانوں کی امریکا دشمنی اور اس کے خلاف دہشت گردی کے لرزا دینے والے منصوبوں کو طشت از بام کر تا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ الماریوں میں ایسی کتابیں بھی موجودہیں جن میں نہایت سنجیدہ اور محققانہ انداز میں مسلم تہذیب کی ناکامی اور اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کی پیش گوئیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ وہیںکسی گوشے میں، اسلام کے فلسفۂ مذہب اور تاریخ سے متعلق ، بیزار کن اور پیچیدہ نثرمیں نصابی مباحث پر مبنی کچھ جائزے اور مطالعات بھی مل جاتے ہیں۔ شاید چند ایک مسلمان مصنفین کی اسلام کے خلاف الزام تراشیوں کے جواب میں دفاعی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ،معذر ت خواہانہ انداز کی تحریریں بھی مل جائیںاورآخر میں دو تین تراجمِ قرآن--- ایک اجنبی زبان کا پر اسرار اور ناقابل فہم متن۔ تو پھر اسلام سے شناسائی کیسے ہو؟ ۱؎
یہ وہ سوال ہے جو کارل ارنسٹ (Carl Ernst) نے اپنی کتابـ Following Muhammad: Rethinking Islam in the Contemporary World (بر نقشِ کف پاے محمدؐ) کے مقدمے میں، اپنی تصنیف کا جواز پیش کرتے ہوئے اٹھایاہے۔ کارل ارنسٹ کا نام امریکا میں مطالعات اسلامی کے پروفیسر کی حیثیت سے نیا نہیں۔ وہ کئی برس سے نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی میں مطالعۂ اسلام کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کیرولینا مرکز براے مطالعۂ مشرقِ وسطیٰ اور تہذیب اسلامی کے ڈائرکٹر ہیں۔ ان کی زیرمطالعہ کتاب ۲۰۰۳ء میں پہلی بار نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور عربی، فارسی، ترکی، جرمن اور کورین زبانوں میںاس کے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ ہندستان اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں طبع ہوچکی ہے۔ اس کتاب نے علمی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی اور کئی عالمی ایوارڈ بھی حاصل کیے ۔۲؎
کتاب کے مقدمے ہی میں انھوں نے چند ذاتی تجربات کے ذریعے اس پس منظر سے واقف کر دیا ہے جس میں نہ صرف اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت اجاگر ہوتی ہے بلکہ نائن الیون کے بعد امریکا میںتیزی سے ابھرنے اور پھیلنے والے اسلام مخالف جذبات کی شدت اور نوعیت بھی ظاہرہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب انھوں نے ۲۰۰۲ء میں تصنیف کی تھی جب نائن الیون کا واقعہ رونما ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا ۔ اس تصنیف کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کی متعصبانہ اور بنیاد پرستانہ تفہیم سے دور رہتے ہوئے اس کی مذہبی روایت اور عصری تاثر کا، ایک مختلف اور ہم دردانہ مگر تجزیاتی اور استدلالی مطالعہ پیش کیا جائے ۔
یہ کتاب دراصل اس خصوصی دل چسپی کا مظہر ہے جو نائن الیون کے بعدپیدا ہونے والے حالات میں، اسلام اور اس کے عقائد، نظام ِ معاشرت اور فکری اساس کے بارے میں مغرب، بالخصوص امریکا میںپیدا ہوئی ہے جہاں اسلام کا سنجیدگی، دل چسپی اور فکری آزادی سے مطالعہ کیا جارہا ہے۔ کارل ارنسٹ نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں (ارنسٹ،ص xix) اور اس کتاب کی تصنیف کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے اس انسان دوست تاثر کو اجاگر کیا جائے جوصوفیہ کی تعلیمات کا عطر ہے اور انسانیت کے تحفظ کی خاطر،بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت اور تحمل کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگرچہ انھیں اپنے اس مقصد کی راہ میں حائل دوطرفہ دشواریوں کا بھی احساس ہے جن کا ایک پہلو تو یورپ اور امریکا میں اسلامی نظریات و نظام حیات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے، اور دوسرا خود مسلمانوں کے انتہا پسندعناصر کی سرگرمیوں کا ردعمل ہے جو اسلام کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تاہم ان کا یہ اعتراف کہ اسلام کا غیر جانب دارانہ مطالعہ اس لیے ضروری ہے تاکہ امریکیوں کو معلوم ہو سکے کہ مسلمان بھی انسان ہیں اور انسانیت کے کل کا ایک جزو ہیں (ایضاً، ص xvii)، اصل صورت حال کا چشم کشا اشارہ ہے۔
کتاب کل چھے ابواب پر مشتمل ہے جس میں اسلام کابطور مذہب اور نظام حیات مطالعہ کیا گیا ہے۔کئی مقامات پر یہ مطالعہ اس قدر جامع اور گہرا نہیں مگر مجموعی طور پر مصنف کا نقطۂ نظر بے تعصبی اور غیر جانب داری پر مبنی ہے۔ تاہم اس کتاب کا پہلا باب جسے، اس مضمون میں موضوعِ بحث بنایا گیاہے،کئی حوالوں سے اس لائق ہے کہ اس کے مندرجات کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے اور ان کی روشنی میں مغرب میں پھیلنے والے اسلام کے منفی تاثر کے اسباب و محرکات پر غور کیا جائے۔ اس باب کا عنوان ہے ــ’’اسلام :مغرب کی نظر میں‘‘۔
اسلام اور مغرب دومختلف نوعیت کی اصطلاحات ہیں۔ مغرب ایک جغرافیائی اصطلاح ہے جو کسی خاص خطۂ زمین سے وابستہ ہے، جب کہ اسلام کا تعلق معتقدات و نظریات سے ہے۔ دونوں کے درمیان ایسی کوئی یکسانیت موجود نہیں جس کی بنا پر دونوں کا تقابل کیا جا سکے۔ لیکن یہ تقابل عہدِحاضر کی فکری جستجو کا اہم محور بن چکا ہے۔ برنارڈ لیوس نے اس تقابلی مطالعے کا جواز پیش کرتے ہوئے ’مغرب‘ کی لسانی اصطلاح کو قرونِ وسطیٰ میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’عیسائی دنیا‘ (Christendom) کا متبادل قرار دیا ہے۔۳؎ نشاتِ ثانیہ کے بعد یورپ میں مذہبی تشخص نے ثانوی اور سیکولر نظریات نے اولین اہمیت حاصل کر لی تو یورپ، جو پہلے عیسائی دنیا سمجھا جاتا تھا، خود کو مغرب کہنے لگا ۔ گویا مغرب سے وہ ممالک مراد ہیں جہاں یورپی نشاتِ ثانیہ کے بعد سیکولر ازم کا دعویٰ کیا جانے لگا۔ دوسری طرف اسلام سے وہ خطے یا ممالک مراد لیے جاتے ہیں جہاں اسلامی نظام رائج ہے۔ یہ بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور ارنسٹ نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ مذہبی تصورات کی وحدت کے پس پشت تکثیریت کارفرما ہوتی ہے اور انھیں مختلف طرح سے دیکھا ، سمجھا اور برتا جاتا ہے، لہٰذاپوری اسلامی دنیا کو عصر جدید میں ایک یکساں اکائی قرار دینا معاملے کو غیر ضروری طور پر سادہ کرلینے کے مترداف ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ ماضی کو رد کرنے اور حال کو حقیقت کی واحد میزان خیال کرنے کا عمل بھی نظر ثانی کا محتاج ہے۔ جدیدیت کی جس منہ زور لہر نے ماضی کے مقابلے میں،زمانۂ حال کو مغرب کا خیر مطلق قرار دے رکھا ہے، ارنسٹ نے اس پر تنقید کی ہے کیوںکہ حال ایک نہ ایک دن ماضی ہو جاتا ہے اور اگر ماضی فرسودہ اور بے معنی ہے تو حال بھی اس تہمت سے پاک نہیں رہ سکتا۔ مغرب میں مذہب کومحض حال کی روشنی میں پرکھنے کا عمل جاری ہے اور یہی عمل درست نتائج کے استنباط میں حائل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد و احکامات کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کی لسانی تاریخ اور مختلف عصری تناظرات میں ان کا استعمال بھی قابلِ غور ہے جس کے بغیر مذہب کی روح تک نہیں پہنچا جاسکتا۔
ارنسٹ نے اہلِ مغرب ، بالخصوص امریکی قوم کی نفسیات اور احساسِ برتری کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں مگر وہ اپنے علاوہ دیگر اقوام کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا اسے ضروری نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب (یعنی یورپ اور امریکا) اور باقی دنیا کے درمیان اجنبیت اور لاعلمی کی ایک گہری خلیج حائل ہے۔ افہام و تفہیم کا عمل اگر ہے بھی تو نامکمل اور یک طرفہ، یعنی ایجادات، اشیا اور تصورات و نظریات کا بہاؤ مغرب سے دنیاے دگر کی جانب ہے۔ اس عمل کو عہدِ حاضر میں عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کا نام دے دیا گیا ہے.... مذہبی اصطلاحات اور لسانی اظہارات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے تاریخی تناظر کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ یورپ کا اسلام کے خلاف تعصب نوآبادیاتی نظام کا کوئی قابلِ قبول جواز پیش کرنے کی کاوش ہوسکتا ہے اور معاصر اسلامی حلقوں میں مغرب مخالف واویلا اسی نوآبادیاتی تسلط کے ردعمل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ نیز اس بات سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ دونوں طرف کے سیاسی حلقے اور حکمران اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے مذہب کو ایک آلۂ کار اور ہتھکنڈے کے طور پر بھی استعمال کرتے آئے ہیں۔ مذہبی جذبات کے اس استحصال کی مثالیں تاریخ کے صفحات سے لے کر زمانۂ حال تک موجود ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مغرب میںکسی مذہب کا ایسامنفی تاثرقائم نہیں ہوا جیسااسلام کا۔ گاندھی نے ہندومت کا عدم تشدد کا فلسفہ دنیا میں متعارف کرواکے خاصا مثبت تاثر قائم کر لیا اور دلائی لامہ نے تو دنیا بھر میں بدھ مت کا خوش گوار تعارف کروا دیا۔یورپ اور امریکا میں گذشتہ صدی کے دوران یہودیت کے بارے میں بھی بہت مثبت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ یہوددشمنی اگرچہ بیسویں صدی کے آغاز تک عام تھی لیکن ہو لوکاسٹ اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔عیسائیت یونہی مغربی اکثریت کامذہب ہے اور اسے کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں رہا۔اب رہا اسلام تو ذرائع ابلاغ مسلسل اس کا ایک منفی تاثر قائم کرتے آئے ہیں اور یہ تاثر کم و بیش پو رے مغرب میں نفوذ کر چکا ہے۔
یہ منفی تاثر کیوں قائم ہوا؟ مسلمانوں کے ماضی اور حال کا رشتہ کس حد تک استوار ہے؟ مسلمانوں کے خلاف یہ مخاصمانہ جذبات جنھیں مغرب میں قبول عام حاصل ہو چکاہے، کیا جواز رکھتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جنھیںاٹھانا اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ تعجب خیز امر تو یہ ہے کہ یورپ اور امریکا میں سامی النسل یہودیوں سے دشمنی کو کوئی معزز شخص جائز نہیں سمجھتا ۔ اس بات پر کم و بیش عوام الناس کا اتفاق ہے کہ یہودیوں کے بارے میں تحقیر آمیز کلمات ادا کرنا یا ان کی توہین کرنا ، خواہ یہ جسمانی خصا ئص کی بنا پر ہو یا رویے کی بنا پر، قابلِ نفرت اور بداخلاقی کا مظہر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھی عوام کا تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے تک اس بات کا قائل نظرآتا ہے کہ اسلام بذاتہ عورتوں پر ظلم کرنے والا اور تشدد پسند مذہب ہے۔ شماریاتی اعتبار سے بھی اس امر کا تجزیہ دل چسپ نتائج پیش کرتا ہے۔دنیا میں یہودیوں کی آبادی ایک کروڑ ۷۰ لاکھ ہے جو سکھوں کی آبادی سے کچھ کم ہے۔ ظاہر ہے یہ سمجھنا مضحکہ خیز ہو گا کہ اتنی بڑی آبادی کا ہر فرد ایک جیسی خصوصیات اور یکساں عادات و اطوار کا مالک ہو گا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے بھی کچھ اوپر ہے اور اتنی بڑی آبادی کے ہر فرد کو ایک جیسی خصوصیات کا حامل قرار دے دیا جاتا ہے جو یقینا بہت بڑی غلطی ہے۔
حقیقت یہ ہے، اورجیسا کہ مطالعۂ اسلام کے ایک نام وَر اسکالر، مارشل ہوجسن (Marshal Hodgson ۔ ۱۹۶۸ئ- ۱۹۹۲ء ) نے اپنی معرکہ آرا کتاب The Ventures of Islam: Conscience and History in the World Civilization میںکہا ہے،کہ گذشتہ ۲۰۰ سال سے کسی علیحدہ اسلامی دنیا کا وجود نہیں ہے،نہ سیاسی طور پر، نہ معاشی طور پر، نہ تہذیبی و ثقافتی طور پر اور نہ عسکری اعتبار سے۔ اکثر مسلم ممالک کی تقدیر اس تمام عرصے کے دوران کسی نہ کسی طور پر یورپ اور امریکا سے وابستہ رہی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے، کثیر القومی تجارتی ادارے، ذرائع ابلاغ کے دیو اور انٹر نیٹ کی دنیا نے ایک ایسی دنیا کی تشکیل کی ہے جس میں کسی ایک کلچر کو دوسرے کے اثرات سے پاک رکھنا کم و بیش ناممکن ہے۔ دوسری طرف اگر ۵۰ سے زیادہ مسلمان ممالک کی جانب دیکھا جائے تو ان کا تہذیبی و ثقافتی تنوع، لسانی ، نسلی اور گروہی اختلافات اور نظریاتی و فرقہ وارانہ اختلافات حیران کن ہیں۔
مغرب اور اسلام یادوسرے لفظوں میں عیسائی دنیا اور دنیاے اسلام کے درمیان روابط کی تاریخ کھنگالتے ہوئے ارنسٹ نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی نسبت عیسائیوں کے مسلمانوں کے بارے میں مخاصمانہ جذبات و تاثرات نے موجودہ نفرت انگیزفضا تیار کرنے میں زیادہ بڑا کردار ادا کیا ہے۔ قرون وسطیٰ میں عیسائیوں کی نسبت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ قریبی تعلقات قائم رہے ہیںاور حال ہی میں اسرائیلی ریاست کے قیام تک دونوں ایک دوسرے کے رفیق و معاون رہے ہیں۔ مصنف کا یہ نقطۂ نظرنہ صرف اسلامی مؤرخین کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے جوعیسائیوں کی نسبت یہودیوں کو اسلام کا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کا سرا پہلی اسلامی ریاستِ مدینہ میں یہودیوں کی اسلام دشمنی سے ملاتے ہیں،بلکہ ان کے ہم عصر برنارڈ لیوس نے بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک دوسرے کا ازلی ہمسایہ اورکئی مشترک اوصاف کا مالک قرار دیا ہے۔ (لیوس، ص vii)۔مگر ارنسٹ نے قرون وسطیٰ سے لے کر اب تک ، عیسائیوںکی مسلم دشمنی کا جو اجمالی جائزہ پیش کیا ہے وہ ان کے اس دعوے کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ عیسائی راہب بحیرہ (جس نے پیغمبرؐ اسلام کو نبوت کی بشارت دی تھی) کی کردار کشی سے لے کرموجودہ زمانے تک عیسائی دنیا میں اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کاسلسلہ جاری رہا ہے۔۴؎
پیغمبرؐ اسلام کی حیاتِ مقدسہ پر حملے
اسلام عیسائیت کو ایک الہامی مذہب قرار دیتا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان بالاتفاق [حضرت] عیسیٰ ؑ اور [حضرت] مریمؑ کو لائقِ تعظیم سمجھتے ہیں۔ دوسری طر ف قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک عیسائیوں نے مسلمانوں کی ان کے پیغمبر سے عقیدت اور والہانہ شیفتگی کو ہمیشہ زخم لگانے کی کوشش کی ہے۔[حضرت] محمدؐ کی وہ تمام صفات جوان کے ایمان کا جزو ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک محترم، مثالی اور لائقِ تقلید ہیں،عیسائی مصنفین نے انھیں منفی انداز میں، خامیوں کے طور پر پیش کیا۔ حیاتِ[حضرت] محمدؐپر اہلِ مغرب کی سب سے سخت تنقیدآپؐ کی عسکری مہمات اور تعدّدِ ازدواج سے متعلق رہی ہے۔ دونوں مذاہب کے درمیان نقطۂ نظر کا یہ اختلاف کئی صورتیں اختیار کرتا چلا گیا۔ ایک طرف کلیسائی اکابر کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ کلیسائی دائرے سے باہر کسی کو پیغمبرانہ عظمت حاصل ہو سکتی ہے اور دوسری طرف مسلمان صدق دل سے کلیسائی عقائد ، بالخصوص تثلیث کے عقیدے کو، اصل مسیحی تعلیمات سے روگردانی اور گم راہی خیال کرتے تھے۔
مسلمان [حضرت] محمد ؐ کو رحمۃ للعالمین خیال کرتے ہیں اور [حضرت] عیسٰی ؑ کو روح اﷲ اور کلمۃاﷲ قرار دیتے ہیں ۔ عیسائی مصنفین اس رویے کے بالکل برعکس، مسلمانوں کی[حضرت] محمدؐ سے غیر معمولی عقیدت اور شیفتگی کو ٹھیس پہنچانے اور[حضرت] محمد ؐکی سیرت و کردار کو مسخ کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ اگرچہ چند ایک مصنفین نے بے تعصبی سے حیات [حضرت] محمد ؐ رقم، کرنے کی کوشش بھی کی مگر اکثریت کا رجحان منفی تاثر کو ابھارنے کی طرف ہی رہا اور اکثر صورتوں میں اس انتہا تک جا پہنچا کہ بہتان طرازی اور کذب و افترا کی نوبت آن پہنچی۔۵؎
ارنسٹ نے اس سلسلے میں ہمفرے پریڈاکس (Humphery Prideaux) کی برس ہا برس تک مؤثر اور مقبول رہنے والی انگریزی کتاب The True Nature of Imposture Fully Displayed in the Life of Mahomet (پہلی مرتبہ ۱۶۹۷ء میں لندن سے شائع ہوئی تھی)کا حوالہ دیا ہے۔ یہاں اس موضوع پر حافظ محمود شیرانی (۱۸۸۰ئ- ۱۹۴۶ئ)کے ایک قدرے غیر معروف انگریزی مضمون، بعنوان Early Christian Legends and Fables Concerning Islam کا ذکر بے جا نہ ہو گا جو ۱۹۱۱ء میں انگلستان سے شائع ہوا ۔ اس مضمون میں شیرانی نے بالتفصیل رقم کیا ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے ادب اور مذہبی تصانیف میںاسلام، مسلمانوں اور(حضرت ) محمد ؐ کے بارے میں کیسی کیسی افسانہ طرازی کی جاتی رہی ہے۔یہ حکایات نہ صرف دروغ گوئی کی بدترین مثال ہیں بلکہ اپنے تخلیق کاروں کی ذہنی سطح اور اخلاقی حالت کا پتا بھی دیتی ہیں۔حال ہی میںیورپی اخبارات میں شائع ہونے والے کارٹونوں اوراس امر کو جائز سمجھنے والے یورپی ذہن کو سمجھنے کے لیے ان مآخذ کا مطالعہ ضروری ہے۔ حافظ محمود شیرانی نے اپنے مضمون میں عیسائی ادب سے متعدد مثالیں پیش کی ہیں جو پیغمبر اسلام کی کردار کشی کی مرتکب ہوئیں۔۶؎
صلیبی جنگوں کے محرکات و اثرات
قرونِ وسطیٰ میں عیسائی اور مسلم دنیا کے درمیان اس مخاصمت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب صلیبی جنگیں بھی تھیں جن میں عیسائی شہزادوں نے رومن کیتھولک چرچ کی بھرپور اعانت سے ترکوں اور عربوں سے ارض ِمقدس کا قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کئی صدیوں تک جاری رہنے والی ان جنگوں میں سیاسی اور مذہبی قوتوں کا حیرت انگیزگٹھ جوڑ سامنے آیا اور اس کے نتیجے میں یہودیوں کا قتل عام اور عیسائی شہرقسطنطنیہ کا سقوط عمل میں آیا۔ ہسپانوی شہنشاہ نے پوپ کی بھر پور استعانت سے غرناطہ فتح کیا اور ہسپانیہ کی مسلمان آبادی کے انخلا یا انھیں جبری عیسائی بنانے کا حکم دیا۔ ہسپانوی تخت کی یہی مسلم دشمنی بالواسطہ طور پر امریکا کی دریافت کا سبب بھی بنی ۔ کولمبس (۱۴۵۱ئ-۱۵۰۶ئ) کی مہم کو ہسپانوی شاہی تائید اس لیے حاصل ہوئی تھی کیوں کہ وہ مشرق بعید سے مصالحہ جات کی تجارت کے راستوں پر مسلم اجارہ داری سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ تاہم، جنوب مشرقی یورپ میں عثمانی ترکوں کی پیش رفت ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ کی فتح، بلقان ریاستوں پر قبضے اور وسطی یورپ کے لیے سترھویں صدی تک ایک خطرے کی صورت جاری رہی، اور سترھویں صدی کے اوائل تک انگریز مصنفین عثمانیوں کو پورے یورپ کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ۔۷؎
نسلی برتری کے اس تصور کی شدت اور ہمہ گیری کا اندازہ معروف فرانسیسی مفکر، ارنسٹ ریناں (۱۸۲۳ئ-۱۸۹۲ئ) کے پیرس میں دیے جانے والے ایک لیکچر (۱۸۸۳ئ) سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے یہ استدلال پیش کیا کہ اسلام سائنس اور ٹکنالوجی کے حصول کے لیے موزوں نہیںکیوں کہ اسلام ایک عربی مذہب ہے اور عرب ، سامی النسل ہونے کے باعث اس دقت نظری اور باریک بیں ذہن سے محروم ہیں جو سائنس اور ٹکنالوجی کے لیے لازمی ہے۔ان دنوں معروف مسلم مصلح جمال الدین افغانی ( ۱۸۳۸ئ-۱۸۹۷ئ)، بھی عارضی طور پر پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے ریناں کے اس دعوے کو چیلنج کر دیا اور یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر آمرانہ اور غیر سائنسی ہوتے ہیں، یہ دلیل پیش کی کہ چوں کہ اسلام عیسائیت کی نسبت ایک نو عمر مذہب ہے اس لیے اس کے تحت سائنسی اور عقلی روح کے کارفرما ہونے میں کچھ اور وقت لگے لگا۔ اس تردید کے بعد ریناں نے فراخ دلی سے اعتراف کیا کہ اس کا نقاد بلاشبہ فلسفیانہ تفکر کا مالک ہے لیکن اس کی وجہ یہ بتائی کہ افغانی کاتعلق سامی النسل عربوں سے نہیں بلکہ آریائی نسل سے ہے۔(ایضاً، ص ۲۰-۲۱) نسلی برتری کا یہ نظریہ انیسویں صدی میں عام ہی نہیں بلکہ فیشن بھی سمجھا جاتا تھا۔
عیسائی مشنری سرگرمیاں بھی نوآبادیاتی دور میں بھرپور طریقے سے کارفرما رہیں۔ مذہبی مناظرے اور منظم تبلیغی جماعتوں نے مفتوحہ علاقوں پر گہرے اثرات مرتب کیے اور مسلمانوں کے مذہبی مناظروں میں استعمال ہونے والی زبان ، اسلوب، تکنیک اور طرز استدلال پر بھی ان مشنریوںکا واضح اثر نظر آتا ہے۔ تاہم نو آبادیاتی انتظامیہ کے اراکین ، مذہبی اثرات سے بھی زیادہ جس محرک کے زیر اثرنظر آتے ہیں وہ یورپ کی تہذیبی اور سائنسی برتری اور عظمت کا یقین ہے۔ مثلاً لارڈ میکالے (۱۸۰۰ئ-۱۸۵۹ئ)کی رپورٹ Minute on Indian Education میں انگریزی کو برطانوی ہند کی سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دینے کے حق میں جو دلائل پیش کیے گئے وہ نوآبادیاتی طاقتوں کی ذہنیت کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔۱۰؎
ارنسٹ سمجھتے ہیں کہ اکثر مستشرقین علمی لگاؤ کے باعث ان مطالعات میں مصروف ہوئے اور انھیں اندازہ تک نہیں تھا کہ ان کے پیش کردہ نظریات و خیالات اس قسم کے سیاسی نتائج کی بنیاد ثابت ہوں گے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ مستشرقین کے اس مطالعے کے نتیجے میںمشرق، بالخصوص اسلام کے بارے میں چند بندھے ٹکے نظریات رواج پا گئے جو آج تک مطالعاتِ مشرق میں رہنما اصول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک نظریہ مشرق کی مابعد الطبیعیاتی فضا کے بارے میںہے جس کے تحت یہ فرض کیا گیا کہ مشرقی ممالک کی تہذیب و ثقافت اور زندگی کا ہر پہلو مذہب سے گہرے طور پر منسلک ہے اور اس کی تمام جہات کو محیط ہے۔ ’پُراسرار مشرق‘ کا یہ نقطۂ نظر یورپی رومانویت کی پیداوار تھا اور اس نے مشرق کے حقیقت پسندانہ مطالعے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کیے رکھی۔مستشرقین کی ایک اور مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ انھوںنے نسلی برتری کے تصور کو قبول کیے رکھا اور اسی کے زیر اثر مشرقی اور ایشیائی تاریخ کو سامی اور آریائی نسل کے درمیان تصادم کی صورت میں دیکھا اور سمجھا۔ تیسری بڑی غلط فہمی مستشرقین کو یہ رہی کہ مذہب اور تہذیب و ثقافت کا زبان سے گہرا اور بنیادی تعلق ہے اور محض اس کی زبان کا علم حاصل کر کے کسی قوم کے مذہب اور تہذیب سے مکمل شناسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
چناں چہ مسلمانوں کے تاریخی ارتقا، عصری حقائق ، بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور تہذیبی و ثقافتی تنوع کو نظر انداز کر کے، چند عربی متون اورایک لغت کی مدد سے اسلام کو سمجھنے اور بیان کرنے کا عمل عروج پر پہنچ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر بغاوت کو اسلامی شدت پسندی پر محمول کیا گیا اور بالکل سامنے موجود حقیقت کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا کہ یہ سیاسی غلامی کے خلاف فطری انسانی ردعمل تھا۔
ایک شاہکار الف لیلۃ ولیلہ کافرانسیسی ترجمہ۱۱؎ عربوں ( یعنی مسلمانوں) کی جنسی دل چسپیوں کے بارے میں یورپ کی توجہ کا مرکز بنا، اورانیسویں صدی میں مسلمانوں کے ’حرم‘ کی ہیجان انگیز کہانیوں کو فرانسیسی مصوروں نے برہنہ یورپی طوائفوںکی مدد سے تصویر کیا۔ مسلمان عورتوں کے روایتی لباس اور معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کے مواقع نہ ہونے کے باعث، مغربی سیاحوں کی قوت متخیلہ نے بھی خوب کرشمے دکھائے اور جدید یورپی اور امریکی عوام و خواص اس مفروضے پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان عورت اپنے انسانی حقوق سے بالکل محروم ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے وہ مسلمان اور عیسائی عورتوں کی حالت زار کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی قطعاًکوشش نہیں کرتے۔ مغرب میں عورت کو جتنی بھی آزادی حاصل ہوئی ہے، تاریخی اعتبار سے وہ بالکل کل کی بات ہے۔ ۱۸۷۰ء تک انگریز عورتوں کو جایداد کی ملکیت کا حق حاصل نہ تھا،جب کہ مسلمان عورت کو شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ حق ساتویں صدی سے حاصل رہاہے۔ ۱۷۱۶ء میں جب لیڈی میری وارٹلی مانٹیگ۱۲؎ نے برطانوی سفیر کی بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے ساتھ قسطنطنیہ کا سفر کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ عثمانی امرا کی بیگمات بڑی بڑی جاگیروں کی مالک تھیں اوراپنی جایداد کی دیکھ بھال تنہا، کسی مرد کی معاونت کے بغیر کر سکتی تھیں۔ انھیں تو یہ بھی محسوس ہوا کہ مسلمان عورتوں کے نقاب نے عورتوں کو مردوں کی چبھنے والی نگاہوںسے محفوظ کر کے ایک نوع کی آزادی کا احساس دے رکھا ہے۔
اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہب کی آڑ لے کر عورت کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ شمالی افریقہ ، مشرق قریب اور ایشیاکے کئی مسلمان معاشروں میں عام رہا ہے لیکن کیا یہ بات پورے یقین اور اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ یورپ اور امریکا میں اس رویے پر پوری طرح قابو پا لیا گیا ہے؟ یہ انتہائی منافقانہ عمل ہے کہ مسلمان معاشروں کو اس عدم مساوات پر مطعون کیا جائے جس پر ابھی تک یورپ اور امریکا خود پوری طرح قابو نہیں پا سکے۔
ارنسٹ نے اسلام اور مغرب کے درمیان کش مکش کی پوری تاریخ بیان کرنے کے بعد چند بہت معنی خیز سوال اٹھائے ہیں۔ انھوں نے اس بیّن حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ عہد حاضر میں مسلمانوں کے متعلق صرف اور صرف منفی تاثرات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل نشر کیا جا رہا ہے۔ پروپیگنڈے کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ پوری کی پوری مسلم تہذہب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے پر کوئی بھی معترض نہیں ہوتا۔ حالاں کہ کیایہ ممکن ہے کہ کوئی ایسی تہذیب جو ایک ہزاربرس سے زیادہ کی مدت تک ، دنیا کے تقریباً نصف حصے میں پھلتی پھولتی رہی ہو، پوری کی پوری منفی عوامل پر مبنی ہو؟ اور دوسری طرف اس کے مد مقابل تہذیب ان تمام برائیوں اور الزامات سے ہمیشہ پاک رہی ہو جو مسلمانوں کے سر ڈالے جارہے ہیں؟ مثلاً تمام مسلمانوں پر بلکہ مذہب اسلام پر تشدد پسندی کاالزام لگا یا جاتا ہے تو کیا انیسویں صدی کی مغربی استعمارپسندی اور ناجائز تسلط کو عیسائیت کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے؟ اسی طرح حالیہ تاریخ میں ، ۱۹۹۶ء میں راسخ العقیدہ عیسائی سربوں کے ہاتھوں ایک دن میں چھے ہزار مسلمان مردوں اور بچوں کا قتل کیا، پوری عیسائی دنیا کا عمل قرار دیا جانا چاہیے؟ مسلمان معاشروں پرعورتوں کو مناسب مقام نہ دینے کا الزام ہے لیکن مغربی ٹکنالوجی کے شاہ کار انٹرنیٹ پر موجود پورنو گرافی (عریاں تصاویر و فلم) کی لاکھوں ویب سائٹس، اور مغرب میںٹیلی ویژن، اخبارات اور اشتہارات کے ذریعے عورت کو ایک جنسی کھلونے کی حیثیت سے پیش کرنا کیا عورت کے احترام پر مبنی عمل ہے؟
اس مقصد کے لیے ارنسٹ نے اپنے مطالعۂ اسلام کی بنیاد اس مفروضے پر قائم کی ہے کہ تمام مسلمان یکساں نہیں۔ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہیں اور اپنے اپنے معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی حقائق کے مطابق اپنے تہذیبی طرز عمل کو ترتیب دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا سوچنا مسلمانوں کو انسانیت کے دائرے سے خارج کرنے کے مترداف ہے کیوں کہ انسان انفرادی اور قومی سطح پرتنوع کا وصف رکھتے ہیں۔پھر ان کے طرزِ عمل کو ان کے تاریخی تناظر میں سمجھنے کے بجاے محض ایک ہی گھسے پٹے رجحان کے تابع سمجھنا بھی بہت بڑی غلطی ہے، اور اس سے بھی بڑی غلطی یہ ہے کہ اگر مسلمان تشدد پسند ہیں تو اس عمل کا جواب بھی تشدد ہی کے ذریعے دیا جانا چاہیے۔
اگرچہ اس معاملے میں ارنسٹ کا مشاہدہ مسلمان تہذیب کی روح تک نہیں پہنچتا۔ دراصل مسلم تہذیب مسلمان معاشروں کی باطنی روح کے مترادف ہے، جب کہ اسلامی دنیا کا جغرافیائی اور ثقافتی تنوع تہذیب کی ظاہری سطح پر نمودار ہوتا ہے۔ اس کی مثال کسی جدید سکائی سکریپر کی سی ہے جس کی بنیاد مشترک ستونوں پر قائم ہوتی ہے لیکن عمارت کی ظاہری شکل و صورت میں تنوع پایا جاتا ہے۔ ایک ہی عمارت میں دفتر بھی قائم ہیں، رہایشی مکان بھی اور بازار اور دکانیں بھی۔ ہر اکائی بظاہر ایک دوسرے سے جدا مگر در حقیقت ایک ہی کل کا جزو ہے۔ اسلامی تہذیب بھی کچھ مشترک بنیادی عقائد اور مسلّمات کی بنا پر تعمیر ہوتی ہے مگردنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مسلمان اپنے اپنے جغرافیائی حقائق، موسم، آب و ہوا اور تاریخی تناظر کے مطابق جزوی تفصیلات مرتب کر لیتے ہیں اور یوں ایک روح کا اظہار مختلف پیکروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ تاہم ارنسٹ کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ دنیا بھر کی ثقافتیں ایک دوسرے پر مسلسل اثر انداز ہو رہی ہیں اور یہ بھی کہ مسلمان حکم رانوں کی سیاسی نااہلی کے باعث کم و بیش تمام مسلمانوں کی تقدیر مغربی ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ معاشی ، سیاسی اور تاریخی اختلافات اپنی اپنی جگہ انفرادی خطوں کی پالیسیوں پر یقیناًاثر انداز ہوتے ہیں اورانھیں نظر انداز کردینا خلافِ فطرت ہو گا۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگراہلِ مغرب کے لیے مسلمانوں کو سمجھنا ضروری ہے تو کیا مسلمانوں پر یہ لاز م نہیں کہ وہ بھی دیگر تہذیبو ں اور معاشروں کو سمجھیں اور انھیں کلیتاً ردکر دینے کی پالیسی پر عمل پیرا نہ ہوں۔ارنسٹ نے اس سوال کے جواب میں یاد دلایا ہے کہ نوآبادیاتی دور میں جب کم و بیش ۹۰ فی صد مسلمان آبادی مغربی استعمارکے زیر اثر آگئی تھی ، مغرب کی عیسائی طاقتوں نے جبراً اپنی زبانیں، نظامِ تعلیم اور تہذیب ان پر نافذ کر دی تھی اورانھی میں سے ایک ایسا طبقہ تیار کردیا تھا جو نہ صرف ان کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے آلۂ کار بنا بلکہ ان کی تہذیبی و معاشرتی روح کو بھی اچھی طرح سمجھ گیا۔ اصل مسئلہ امریکا اور یورپ میں رہنے والے اہلِ مغرب کا ہے جن کی خود پسندی انھیں آئینہ دیکھنے کی فرصت تک نہیں دیتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی نظریات کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے اسلامی اصطلاحات اور نظریات کے تاریخی ارتقاکوپیش نظر رکھا جائے اور جدید اسلامی معاشروں کا مطالعہ کھلے ذہن اور لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی اقدار کے تناظر میںکیا جائے۔
۱- ارنسٹ، کارل ڈبلیو، ۲۰۰۵ء (۲۰۰۳ئ) Following Muhammad: Rethinking Islam in the Contemporary World ، دہلی: یدا پریس، ص xiii۔ xv
۲- سوانح اور تصانیف کی تفصیل کے لیے: http://www.unc.edu/~cernst/
۳- لیوس، برنارڈ، ۱۹۹۳، Islam and the West ، نیویارک، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۳
۴- نوآبادیاتی دور میں مسلم علما، خصوصاً ہندستانی مسلم علما نے اس کے برخلاف عیسائیت اور اسلام کے درمیان یگانگت پر بہت زور دیا تھا،تاہم اس کے محرکات بھی مذہبی نہیں تھے۔
۵- مثلاًبارھویں سے چودھویں صدی تک انتہائی مقبول رہنے والی قدیم ترین فرانسیسی رزمیہ (epic) نظم La Chanson de Roland جس میں معروف دیومالائی شخصیت شارل میگنے کی ہسپانوی مسلمانوں سے جنگ کا حال بیان کیا گیا ہے۔ یہ نظم چار ہزار سے زیادہ مصرعوں پر مبنی ہے اور اس کا قدیم ترین نسخہ آکسفورڈ میں ہے۔
۶- شیرانی، حافظ محمود، Early Christian Legends and Fables Concerning Islam ، لوزاک اینڈ کمپنی، ۱۹۱۱ئ، لندن۔
۷ مصنف نے یہ بات رچرڈ نولز (Richard Knolles) کی کتاب ، The General Histories of the Turks, from the first beginning of that nation to the rising of the Othoman familie; with all the notable expeditions of the Christian princes against them, لندن: اے سلپ، ۱۶۳۰ء کے حوالے سے بیان کی ہے
۸- رڈ یارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling) کی معروف نظم ، جو ۱۸۹۹ء میں فلپائن پر امریکی حملے کے آغاز میں، ایک رسالے McClures میں شائع ہوئی اور جس کی توجیہ یہ کی گئی کہ سفید فام نسلوں پر باقی کی دنیا کو تہذیب سکھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یوںیورپی استعمار پسندی کو اخلاقی جواز دینے کی کوشش کی گئی۔
۹- کارل مارکس نے کہا تھا Asia fell asleep in history. ایشیا اس وقت تک بیدار نہیں ہو سکتا جب تک کوئی بیرونی طاقت (مثلاً مغربی اقوام)، اس کی اصلاح احوال کی ذمہ داری نہیںاٹھاتی۔
۱۰- میکالے کی رپورٹ کے یہ الفاظ، جو ارنسٹ نے بھی نقل کیے ہیں، قابلِ غور ہیں:
I have no knowledge of either Sanscrit or Arabic- but I have done what I could do to form a correct estimate of their value. I have read translations of the most celebrated Arabic and Sanscrit works. I have conversed both here and at home with men distinguished by their proficiency in the Eastern tongues. I am quite ready to take the Oriental learning at the valuation of the Orientalists themselves. I have never found one among them who could deny that a single shelf of a good European library was worth the whole native literature of India and Arabia. The intrinsic superiority of the Western literature is indeed, fully admitted by those memebers of the Committee who support the Oriental plan of education. ، ارنسٹ، ص۲۲
۱۱- اس ترجمے کے فرانسیسی مترجم ژاں انطونی گالاں (Jean Antoine Galland) تھے اور یہ ۱۷۰۴ سے ۱۷۱۷ء کے درمیان شائع ہوا۔
۱۲- لیڈی میری وو ٹلی مانٹیگ (Lady Mary Wortly Montague، ۱۶۸۹ء ۔ ۱۷۶۲ئ) برطانوی طبقۂ اشرافیہ کی نمایندہ خاتون ادیب ، جن کی پہچان ان کے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے ترکی میں اپنے قیام کے دوران لکھے ۔ ان خطوط کی بنا پر انھیں پہلی مغربی خاتون ادیب کہا جاتا ہے جنھوں نے مسلم شرق کے بارے میں سیکولر انداز میں تبصرہ کیا ۔
۱۳- یہ مباحث اس سے پہلے ایڈورڈ سعید اپنی کتابCovering Islam(۱۹۸۱ئ) میں پیش کر چکے ہیں۔ [دیکھیے:’مغربی میڈیا اورمسلم دنیا‘ ایوب منیر، ترجمان القرآن، دسمبر۲۰۰۱ئ]
(بہ شکریہ مجلہ معیار، (جولائی -دسمبر ۲۰۱۰ئ) بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)
نجیبہ عارف بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
علامہ عنایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ ۱۹ستمبر ۲۰۱۰ء کو ۷۵برس کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ ان کی وفات سے ملت اسلامیہ پاکستان اور جماعت اسلامی ایک مایہ ناز خطیب، مخلص اور بے لوث داعی الی اللہ سے محروم ہوگئی۔ علامہ صاحب علم و فضل، ذہانت و فطانت، فصاحت و بلاغت اور تحریر و تقریر کے میدان میں صفِ اوّل کی شخصیات میں شامل تھے۔
علامہ عنایت اللہ منڈی بہائوالدین کے ایک گائوں ہیڈ فقیریاں میں ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ مکمل کیا اور کچھ حصہ حفظ بھی کیا۔ مڈل اور میٹرک تک سکول کی تعلیم حاصل کی، پھر مدرسہ عربیہ چوکیرہ میں مولانا سید احمد شاہ کے مدرسے میں داخل ہوگئے جو مفکرِاسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متاثر اور ان کے نظریۂ اقامت دین سے متفق تھے اور جید عالم دین، مبلغ، داعی اور مربی تھے۔
علامہ صاحب نے یہاں رہ کر علوم عربیہ و اسلامیہ کے ماہر اساتذہ اور مذاہب اسلامیہ اور ادیانِ باطلہ پر عبور رکھنے والے محققین سے استفادہ کیا۔ مذاہب اسلامیہ کا تعارف اور ادیانِ باطلہ کی تردید اس مدرسے کا امتیاز تھا۔ اسی لیے علامہ صاحب کو اس میدان میں سبقت حاصل تھی۔ موقوف علیہ (مشکوٰۃ جو حدیث کی ۱۰ کتب سے ماخوذ احادیث کا جامع مجموعہ ہے اور تفسیر جلالین اور ہدایۃ اوّلین و اخیرین اور شرح عقائد و تفسیر بیضاوی اور اصولِ تفسیر پر مشتمل نصاب ہے) سے فراغت حاصل کی۔ اس دوران میں ان کی زبان و بیان کی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آگئیں اور وہ اسٹیج کی زینت بن گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ علامہ کا لقب ان کے استاذ و مربی سید احمد شاہ چوکیروی نے طالب علمی کے دوران ہی میں انھیں دے دیا تھا اور یہ ان کے نام کا اسی زمانے سے مستقل حصہ بن گیا تھا اور پھر خطابت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ صحاح ستہ میں سندالاجازۃ خطابت کے دوران میں حاصل کی۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ سے دورہ تفسیر بھی اسی دوران میں شعبان و رمضان کے مہینے میں کیا اور تفسیری اسلوب اور مباحث اور مشکلات القرآن میں خصوصی قابلیت اور صلاحیت پیدا کی۔ فاضل فارسی و فاضل عربی کے امتحانات پاس کیے۔ میانوال رانجھا کے مشہور و معروف عالم دین استاذ العلما مولانا غلام رسول فاضل دیوبند اور مولانا سلطان محمود کٹھیالہ شیخان سے استفادہ کیا۔
آپ کے والد ایک متوسط درجے کے زمین دار تھے۔ فارسی زبان کا دینی نصاب پڑھا تھا اور اسے پڑھاتے تھے۔ علامہ صاحبؒ نے بھی یہ نصاب انھی سے پڑھا۔ والدہ کا نام فاطمہ بی بی تھا۔ علامہ صاحب پانچ سال کے تھے کہ فاطمہ بی بی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ بھائی کا نام محمد شفیع، ایک بہن کا نام غلام عائشہ اور دوسری کا نام مریم بی بی تھا۔ مریم بی بی تقریباً ۹۰برس کی ہیں، جب کہ باقی بہن بھائی فوت ہوگئے ہیں۔ علامہ صاحبؒ کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ چھے بیٹے شادی شدہ اور دو بیٹے زیرتعلیم ہیں۔
فراغت کے بعد شاہی مسجد منڈی بہائوالدین میں خطابت کے منصب پر فائز ہوگئے لیکن بعد میں محکمہ اوقاف کے زیراہتمام مرکز کو چھوڑ کر مدنی مسجد میں منتقل ہوگئے اور ساری زندگی مدنی مسجد کے منبر سے منڈی بہائوالدین اور گردونواح کے مسلمانوں کو جواہر خطابت سے فیض یاب کرتے رہے۔ ان کو سننے والوں کا ایک مستقل حلقہ وجود میں آگیا جو ان سے گہری محبت اور عقیدت رکھتا تھا۔ منڈی بہائوالدین کی مدنی مسجد کو علامہ صاحبؒ کی بدولت پورے ملک میں شہرت حاصل ہوگئی۔ علامہ صاحب یہیں سے دعوتی اورتبلیغی دوروں پر روانہ ہوتے اور یہیں واپس آجاتے۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ نے حضرت استاذ العلما مولانا محمد چراغ ؒ، مولانا مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ کی سرپرستی اور تعاون سے ۱۹۶۳ء میں جمعیت اتحاد العلما کی بنیاد ڈالی تو اس تنظیم میں جن علماے کرام کو شمولیت اور کام کی سعادت نصیب ہوئی ان میں علامہ عنایت اللہ صاحب سرفہرست تھے۔ جمعیت اتحاد العلما پاکستان کو جلد ہی علما کی تنظیموں میں نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔ اس سے صفِ اوّل کی علمی شخصیات مولانا عبدالعزیزؒ کوئٹہ، مولانا معین الدین خٹک، مولانا گوہر رحمان، مولانا عنایت الرحمن، علامہ عبدالرشید ارشد، مولانا عبدالرحیم چترالی، مولانا نثار احمد اور بعض مشائخ منسلک ہوگئے، اور یہ تنظیم جماعت اسلامی کے لیے تقویت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ مشرقی پاکستان [بنگلہ دیش]اور مغربی پاکستان کے دعوتی اور تبلیغی دورے پر جاتے۔ استاذ العلما حضرت مولانا محمد چراغ صاحب اور مفتی سید سیاح الدین ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔ بڑے مدارس کا دورہ اور ان کے اساتذہ سے ملاقاتیں اور بعض مدارس میں علما کے اجتماعات سے خطابات ہوتے۔ مشرقی پاکستان کے تقریباً تمام بڑے مدارس میں علما کے اجتماعات منعقد ہوئے اور ان سے خطابات کیے۔ مغربی پاکستان میں علما و مشائخ کنونشنز منعقد کیے گئے۔ بڑی بڑی دو روزہ، سہ روزہ کانفرنسیں منعقد کیں جن میں مولانا مظاہری کے ساتھ علامہ عنایت اللہ اور علامہ عبدالرشید ارشد کے خصوصی خطابات ہوتے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات اور ۱۹۷۷ء کے انتخابات اور تحریک میں مولانا مظاہریؒ کے ساتھ مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل، علامہ عنایت اللہ، علامہ عبدالرشید ارشد اور علامہ غلام رسول راشدی نے بھرپور شرکت کی۔
جمعیت اتحاد العلما اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے علامہ عنایتؒ اللہ نے بامقصد خطابت کی۔ علما اور عوام کو ایک عقیدے اور نصب العین کے گرد جمع اور منظم کرنے میں حصہ لیا۔ اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کی۔ لہلہاتے کھیتوں کی طرح سرسبز و شاداب تنظیم کو کھڑا کرنے، اس کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ عنایتؒ اللہ اس قافلۂ انقلاب کے بہت بڑے حدی خواں تھے۔ ان کے نغموں نے اس قافلے کو جوش و جذبے اور عشق و محبت کے ساتھ رواں دواں رکھا۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی نے جو مختلف مہمات اور عشرے ترتیب دیے، ان کو کامیاب بنانے کے لیے اور علما کو ان میں شریک کرنے کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ علما کی شمولیت کی بدولت یہ مہمات مؤثر اور بارآور ثابت ہوئیں۔
علامہ صاحب اپنی ذہانت و فطانت اور قرآن و حدیث کے مضامین اور نصوص و آیات کے استحضار کی بنا پر ہرموضوع پر خطاب کے لیے تیار ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے سامعین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ علامہ صاحب خود تحریر فرماتے ہیں: نوجوانوں کے ایک اجتماع میں تقریر کے لیے جو موضوع تجویز ہوا وہ تھا: ’سائنس اور اسلام‘۔ ایک خیال آیا کہ منتظمین سے کہہ دیا جائے کہ میں اس موضوع کا حق ادا کرنا تو دُور کی بات ہے، اس پر زیادہ دیر بول بھی نہ سکوں گا اور تیاری وغیرہ کا تکلف سفر میں کہاں ممکن ہوگا، لیکن دوسری سوچ نے اسے بھی تکلف ہی گردانا کہ نوجوانوں اور وہ بھی برطانیہ میں مقیم مسلم نوجوانوں سے کچھ نہ کہنے کے بجاے کچھ کہنا ہی مناسب ہے۔ زیادہ معلومات فراہم نہ ہوسکیں تو خطابت سے محظوظ ہوں گے۔ اسی خطابت ہی کا کرشمہ ہے کہ اس مسافر نے ہرقسم کے موضوعات پر خطابت کے جوہر دکھائے ہیں‘‘ (راقم کے نام ارسال کردہ مضمون سے اقتباس)۔ اس موضوع پر خطاب کے نکات میں انھوں نے قرآنِ پاک میں مذکور آیات انفس و آفاق کا تفصیل سے ذکر کیا اور ان کے تذکرے کا مقصد قرآن پاک کے حوالے سے ذکر کیا کہ َتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر ۵۹:۲۱) ’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنھیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ ان میں غوروفکر کریں‘‘۔ ان نشانیوں میں جو قومیں غور کرتی ہیں فلاح پاتی ہیں۔ غور سے مراد تحقیق و تجربہ ہے جسے آپ ریسرچ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا یہ خطاب علمی و تحقیقی نکات سے مزین ہے۔
علامہ صاحب حسنِ اخلاق، عزم و ہمت، جرأت و شجاعت اور صبرواستقامت کا پیکر تھے۔ ساری زندگی دین کی اشاعت و ترویج اور اس کی اقامت کے لیے جدوجہد اور تحریک کو منظم اور قوت بخشنے میں کھپا دی۔ اندرون و بیرون ملک سفروں میں رہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مسافر کہتے تھے۔ وَاعْبُدْ رَبُّکَ حَتّٰی یَاتَیکَ الْیَقِیْنَ کا پیکر بن کر سامنے آئے۔ عمر کے آخری چند برسوں میں بیماریوں کا شکار رہے لیکن ان کے صبر، خندہ پیشانی اور گفتگو میں کبھی بھی اس بات کا اظہار نہ ہوتا کہ وہ بیماری سے دوچار ہیں۔ دوستوں سے ملنا، ان کے احوال معلوم کرنا، ان کے لیے دعائیں اور حوصلہ افزائی کرنا اور کسی نے کچھ اعانت کردی ہو تو اس کا شکریہ ادا کرنا، ان کی عادت اور مزاج تھا جو آخر وقت تک قائم رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ اور جنت الفردوس میں انبیا، صدیقین اور شہدا و صالحین کی معیت نصیب فرمائے،آمین!
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰالِ وَالْاِِکْرَامِ o (الرحمٰن ۵۵: ۲۶-۲۷) ہر چیزجو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں جو صداقت بیان کی گئی ہے بارہا مطالعہ کے باوجود ہم اسے اکثر بھول جاتے ہیں، لیکن بعض حادثات ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس وقت اس آیت کا مفہوم ذہن میں تازہ ہوتا ہے کہ ہرچیز جو اس دنیا میں ہے، فنا ہوجانے والی ہے اور صرف اللہ ذوالجلال والاکرام کی ذات باقی رہنے والی ہے۔ کل تک یہ بات وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ آج ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے ساتھ نہ ہوں گے۔
میں کراچی میں تھا جب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے انتقال کی خبر ملی (۲۶ستمبر ۲۰۱۰ئ)۔ یہ خبر میرے لیے ناقابلِ یقین تھی۔ ابھی چند ہفتے قبل ہم نے رابطہ عالم اسلامی کے پچاسویں یومِ تاسیس کی تقریب میں مکہ مکرمہ میں شرکت کی، ایک ساتھ جہاز میں سفر کیا اور حرم شریف میں نمازوں میں شرکت کی تھی۔ مکہ مکرمہ جاتے وقت میں اور میری اہلیہ جہاز میں بیٹھے تھے کہ غازی صاحب جہاز میں داخل ہوئے اور مجھے دیکھ کر انتہائی گرم جوشی کے ساتھ جھک کر میری پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر یہ کہا کہ میں قطر میں تھا تو ڈاکٹر منذر قحف صاحب نے بااصرار کہا تھا کہ جب آپ ڈاکٹر انیس سے ملیں تو میری طرف سے ان کی پیشانی پر بوسہ دیں___ اللہ اکبر! کل کی بات ہے اور آج ہم ایک ایسے صاحب ِ علم سے محروم ہوگئے جو نہ صرف اپنے علم و تقویٰ بلکہ برادرانہ تعلق کی بنا پر ہمارے گھر کا ایک فرد تھا۔
۱۹۸۰ء میں جب بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد نے تصورسے نکل کر ایک قابل محسوس شکل اختیار کی تو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کو، جو اس سے قبل مختلف سرپرستیوں میں رہا تھا، یونی ورسٹی کا حصہ بنا دیا گیا اور مرحوم ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا صاحب، جو ادارے کے سربراہ تھے اور ڈاکٹر محمود غازی جو ادارے میں ریڈر تھے مع دیگر محققین کے یونی ورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب ان سے ملاقات نہ ہوئی ہو۔ اکثر حسین حامد حسان صاحب جو اس وقت کلیہ شریعہ کے ڈین تھے اور بعد میں یونی ورسٹی کے صدر بنے، سرشام ہی مجھے ڈاکٹر حسن محمود الشافعی اور اکثر ڈاکٹر غازی کو اپنے گھر بلا لیتے اور رات گئے تک یونی ورسٹی کے بہت سے مسائل پر ہم سب مصروفِ مشورہ رہتے۔ دعوۃ اکیڈمی کا قیام ۱۹۸۳ء میں عمل میں آیا اور مجھے اس کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جن افراد نے ہر مرحلے میں میرے ساتھ تعاون کیا ان میں ڈاکٹر حسن شافعی اور محمود غازی پیش پیش تھے۔ بعض وجوہ کی بنا پر میں دعوۃ اکیڈمی سے الگ ہوا تو ڈاکٹرغازی نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور جب میں دوبارہ اکیڈمی کا ڈائرکٹر جنرل بنا تو وہ اکثر یہ کہتے کہ میں آپ کا خلیفہ ہوں اور آپ میرے خلیفہ ہیں۔
ڈاکٹر غازی کی یادداشت غضب کی تھی اور برس ہا برس گزرنے کے بعد بھی واقعات کی ترتیب و تفصیل بیان کرنے میں انھیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب اثرانگیز خطیب اور پُرفکر تحریر کی بنا پر اس دور کے چند معروف اصحابِ علم میں سے تھے۔ ان کے قرآن کریم، حدیث، سیرت پاک، فقہ، شریعت اور معیشت و تجارت کے موضوع پر خطابات کتابی شکل میں طبع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں قانون بین المالک، اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، اسلامی بنک کاری: ایک تعارف، ادب القاضی اور قرآن مجید، ایک تعارف شامل ہیں۔ وہ ایک دردمند دل رکھنے والے محقق، عالم، مفکر اور فقیہہ تھے۔
پاکستان میں سودی بنکاری سے نجات کے لیے جن لوگوں نے کام کیا اور خصوصاً جب معاملہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں گیا اور پھر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس مسئلے کا جائزہ لیا تو اس میں غازی صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ فیڈرل شریعہ کورٹ میں جس طرح ڈاکٹر فدا محمدخان صاحب نے فیصلے کی تحریر میں کردار ادا کیا ایسے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس خلیل الرحمن صاحب اور ڈاکٹر غازی کا اہم کردار رہا۔
۸۰ کے عشرے میں جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے حوالے سے عدالتی کارروائی میں پاکستان کے جن اصحابِ علم نے عدالت ِ عالیہ کو اس مسئلے پر رہنمائی فراہم کی ان میں مولانا ظفراحمد انصاری، پروفیسر خورشید احمد صاحب، جسٹس افضل چیمہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر غازی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ دعوۃ اکیڈمی کے ساتھ میرے طویل تعلق میں شاید ہی کوئی پروگرام ایسا ہو جس میں ملک کے اندر یا ملک سے باہر کوئی تربیتی کورس ہو اور اس میں ڈاکٹر غازی نے شرکت نہ کی ہو۔
ڈاکٹر غازی کو اُردو، عربی اور انگریزی میں خطاب کرنے میں عبور حاصل تھا۔ وہ فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ ڈاکٹر غازی نے صدر جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں مذہبی امور کے وزیر کے فرائض بھی انجام دیے اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے صدر اور نائب صدر کے علاوہ یونی ورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی علمی خدمات کی بنا پر انھیں ملک اور ملک سے باہر ایک معروف اسکالر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔
ڈاکٹر غازی ایک حلیم الطبع انسان تھے۔ اکثر اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی کی چھیڑچھاڑ سے خود بھی محظوظ ہوتے اور کبھی اپنے بڑے ہونے کے حق کو استعمال نہ کرتے۔ نجی محفلوں میں ان کی حاضر جوابی اور ذہانت ہمیشہ انھیں دیگر حاضرین سے ممتاز کرتی۔ مہمانوں کی تواضع میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ ان کی وفات نے جو خلا پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کی علمی صفوں میں پیدا کیا ہے وہ عرصے تک ان کی یاد کو تازہ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے قرآن کریم سے تعلق اور دین کی اشاعت کے لیے خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین!
آج سے ۶۱ سال پہلے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات اہلِ علاقہ بابری مسجد میں عشاء کی نماز ادا کرکے گھروں کو چلے گئے۔ ہر چیز حسب ِ معمول تھی لیکن اگلی صبح فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے تو عجیب منظر تھا۔ مسجد کے اندر ’رام‘، ’لکشمن‘ اور’ سیتا‘ کے بت رکھے تھے ۔ مسلح ہندو ان کا پہرا دیتے ہوئے اعلان کررہے تھے کہ رات یہاں ’رام‘ کا ظہور ہوگیا ہے اور اب یہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ محلے کی مسلم آبادی نے قریب واقع تھانہ فیض آباد میں اس قبضے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی، بدقسمتی سے کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ صدیوں سے قائم تاریخی مسجد پر اچانک ہندو قبضے سے علاقے میں اشتعال پھیلنے لگا، تو صوبائی اور مرکزی حکومت نے مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے سے عارضی طور پر منع کردیا۔ بعد ازاں یہ پروپیگنڈا پورے ملک میں پھیلایا جانے لگا کہ صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی یہ مسجد ’رام‘ کی جاے ولادت ہے۔ ظہیر الدین بابر نے رام مندر ڈھا کر مسجد تعمیر کردی تھی۔ مسجد کا گنبد عین اس جگہ کے اُوپر بنایا گیا ہے جہاں رام نے جنم لیا تھا۔ کئی عشرے تک یہ پروپیگنڈا کرنے کے بعد بالآخر ۱۹۹۲ء میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے سورماؤں نے ملک بھر سے اپنے مسلح کارکنان کو جمع کرکے تاریخی مسجد پر دھاوا بولا اور اسے شہید کرتے ہوئے وہاں ایک چھولداری میں رام کا بت نصب کر دیا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں نے اس گہرے گھائو کی ٹیسیں محسوس کیں۔ ہرطرف سے احتجاج سامنے آیا۔ ہندو بنیے نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے عدالت کے سردخانے میں ڈال دیا۔ ۱۸سال انتظار، تحقیقات اور بحث و تمحیص کے بعد جو فیصلہ آیا تو یہ کہ ’’صدیوں پرانی جس مسجد کو جنونی ہندؤوں نے شہید کردیا تھا، اس کا ایک تہائی مسلمانوں کو دیا جائے باقی پر اب ان کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ وہاں اب باقاعدہ رام مندر تعمیر کردیا جائے‘‘۔ گویا ڈاکو آکر گھر پر قابض ہوگئے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار ریاست نے یہ فیصلہ صادر کیاکہ گھر کا صرف ایک تہائی اہل خانہ کو دے دیا جائے، باقی پر ڈاکوؤں کا قبضہ قانونی قراردیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد ہندستان سے موصول ہونے والے ایک مضمون میں بابری مسجد اور ہندوئوں کے دعوے کے بارے میں بہت سے دل چسپ حقائق یک جا کیے گئے ہیں۔ آیئے ان میں سے چند چشم کشا نکات کا جائزہ لیتے ہیں:
’راماین‘ کے مطابق رام نامی خدا دوسرے دور کے آخر میں ۸لاکھ ۶۹ہزار ایک سو ۱۰ سال قبل پیدا ہوا۔ یعنی تقریباً پونے نو لاکھ سال پہلے پیدا ہونے والے رام کی جاے پیدایش اس قدر دقیق انداز سے معلوم ہے کہ اس کا بابری مسجد کے گنبد تلے واقع ہونا بھی یقینی ہے۔
معاملہ صرف بابری مسجد کی شہادت پر ختم نہیں ہوا، اب یہی متعصب ٹولہ سیکڑوں دیگر مساجد کے بارے میں بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ سب رام جنم بھومیاں تھیں، انھیں بھی منہدم کرکے رام مندر تعمیر کریں گے۔ کچھ لوگ اس خدشے کی سنگینی کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے طے کردیا ہے کہ بابری مسجد کے عدالتی فیصلے کو اسی طرح کے کسی دوسرے مقدمے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں کیا اس سے پہلے کوئی ایسا قانون نہیں تھا کہ جو دوسروں کی ملکیت پر قبضہ کرنے سے روکتا ہو؟ اگر پہلے ان قوانین نے تعصب کی آگ کو نہیں روکا تو آیندہ کوئی قانون اسی طرح کے جنونیوں کو کیسے روکے گا؟
بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے عدالتی فیصلے کا اگر کوئی ایک مثبت پہلو ہے تو وہ یہ کہ دنیا اب ہندوازم کا اصل چہرہ زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکے گی۔ دنیا دیکھ سکے گی کہ ۱۸کروڑ سے زائد ہونے کے باوجود، مسلمان وہاں کس طرح بے سہارا اور ہندو تعصب کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس سے پہلے گجرات کے قتلِ عام کی تحقیقاتی رپورٹیں بھی مکار ہندو کو بے نقاب کرچکی ہیں کہ خود سرکاری سرپرستی میں کچھ ہندوئوں کو قتل کیا گیا اور پھر اس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈالتے ہوئے ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے وحشی پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے پہلے ایک اور سرکاری رپورٹ ’سچر رپورٹ‘ میں بھی واضح اعتراف کیا جا چکا ہے کہ اتنی بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ہندستانی مسلمانوں کو معاشرے میں نکّو بناکر رکھا گیا ہے۔ نہ ملازمتوں میں مناسب حصہ اور نہ تعلیم و ترقی میں برابری کے مواقع۔ بابری مسجد فیصلے کے بعد اب ہندوئوں کا یہ مطالبہ زور و شور سے سامنے آیا ہے کہ اذانوں پر پابندی لگائی جائے، ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے۔ نقاب پر پابندی لگائی جائے اس سے دہشت گردی پھیلتی ہے۔
انصاف اور انسانی حقوق کی اس واضح توہین کے باوجود ہندستان کے لیے امریکی اور عالمی سرپرستی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمان ملکوں سے دوستی بڑھانے اور سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے وعدے، ایٹمی پروگرام میں مزید تعاون اور دہشت گردی کی جنگ میں اپنے حلیف اوّل پاکستان کو چھوڑ کر امریکی صدر کے طویل ہندستانی دورے، سب انھی مسلمان دشمن پالیسیوں کو مزید آگے بڑھانے کے پیغامات ہیں۔ اُمت مسلمہ صرف اس قرآنی آیت ’’تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پائو گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پائو گے جنھوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالِم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرورِ نفس نہیں ہے‘‘ میں ’’اور جنھوں نے شرک کیا‘‘ پر غور کر لے، پوری حقیقت بے نقاب ہوجائے گی۔
۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کی صبح ریڈیو پاکستان سے خبریں سنیں تو میں بھاگم بھاگ ۵- اے ذیلدار پارک پہنچا اور بغیر اجازت سید مودودی رحمہ اللہ کے کمرے میں جاگھسا۔ مولانا میز پر کہنی ٹکائے لکھنے میں مصروف تھے۔ اچانک میرے آجانے پر قلم روکا، ہاتھ اٹھایا تو آستین سرک کر کہنیوں پر آٹکی۔ مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مسلسل لکھتے رہنے اور میز پر ٹکے رہنے سے ان کی کہنی سے کلائی تک گٹے پڑ چکے تھے___ ۱۹۷۱ء کے ہنگاموں سے جان بچا کر مغربی پاکستان آنے والا ایک عزیز ساتھی ۳۵ سال بعد اس واقعے کی تفصیل سنا رہا تھا۔
مولانا نے اطمینان سے پوچھا:کیسے آنا ہوا؟ میری سانس پھولی ہوئی تھی، میں نے شدت جذبات سے کہا: مولانا! شیخ مجیب قتل ہوگیا۔ مولانا نے بغیر کوئی تبصرہ کیے سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بیٹھیے‘۔ میں بیٹھ گیا تو مولانا نے تسلی سے پوچھا: اب بتائیے کیا ہوا؟ آپ کو کس نے بتایا؟ میں نے کہا: مولانا میں نے خود ابھی ریڈیو سے سنا۔ بنگلہ دیش میں فوج نے تختہ الٹ دیا ہے اور شیخ مجیب قتل ہوگیا ہے۔ مولانا نے کہا: کتنے بجے کی خبروں میں سنا؟ خبریں اُردو تھیں یا انگریزی میں؟ میں نے کہا: ’’مولانا ابھی ۱۰ بجے کی انگریزی خبروں میں سنا ہے۔ مولانا نے میری تصدیق کرتے ہوئے کہا:ہاں ۱۰ بجے انگریزی خبریں نشر ہوتی ہیں۔ مولانا نے خبر کے بارے میںاپنی تسلی کرلی اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔ میں نے مولانا کا سکوت دیکھ کر حیرت اور کسی حد تک جذبات سے پوچھا: مولانا! آپ کو یہ سن کر خوشی نہیں ہوئی؟ مولانا مودودی نے جواب نفی میں دیا۔ میں نے مزید حیرت سے پوچھا: اس شخص نے ملک توڑا، ہمارے اتنے ساتھیوں پر ظلم ڈھائے، اتنی بڑی تعداد میں قتل کروائے، پھر بھی اس کے قتل پر آپ خوش نہیں ہوئے۔۔؟ مولانا نے افسوس بھرے لہجے میں کہا: مجھے خدشہ ہے یہ قتل وہاں کا آخری قتل نہیں ہوگا۔ سیاسی قتل و غارت اور انتقام کا سلسلہ کئی نسلوں تک چل سکتا ہے۔ ہم سے الگ کردیے جانے والے ہمارے بھائیوں میں سے کسی بھی بنگالی یا غیر بنگالی کا قتل، خوں ریزی اور تمام تر نقصان، سراسر ہمارا ہی نقصان ہوگا۔
۳۵ برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد آج پھر مولانا مودودیؒ کی یہ بات حرف آخر ثابت ہورہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا قتل، ایک کے بعد دوسرا انقلاب اور ایک کے بعد دوسری شورش اس عزیز اور برادر ملک کو مسلسل آبلہ پا کیے ہوئے ہے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں حسینہ شیخ مجیب الرحمن کی ’عوامی لیگ‘ کو اتنی ’بڑی اکثریت‘ ملی کہ خود پارٹی قیادت کے لیے بھی حیرت کا باعث بنی۔ انتخاب سے پہلے تقریباً تین سالہ عبوری دور میں مسلح افواج اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر کلیدی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ انتخابات کے بعد عوامی لیگ کے پاس قیمتی موقع تھا کہ وہ ملک میں تعمیر و ترقی کا ایک نیا باب شروع کرتی۔ مگر ایسا کرنا اس کی ترجیحات میں شامل نہ تھا، انتخابی مہم کے دوران ہی انتقام کا نعرہ بلند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں ہونے والے کشت و خون کی تمام تر ذمہ داری ۴۰ سال بعد اپنے سیاسی مخالفین پر ڈال دی گئی۔ انھیں جنگی مجرم قراردیتے ہوئے سزاے موت دینے کی گردان شروع کر دی گئی۔
برسر اقتدار آتے ہی ملکی اداروں کو باہم لڑوادیا گیا۔ بنگلہ دیش بارڈر فورس اور بنگلہ دیش فوج کے مابین جھڑپوں کی آڑ میں، بھارتی بارڈر فورس کے ذریعے فوج کے ۷۶ فوجی افسر قتل کروادیے گئے۔ ان افسروں کو فوج میں بھارت مخالف عناصر سمجھا جاتا تھا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے الزام میں ۱۵ فوجی افسروں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کردی گئی۔ ۳۵ سال پرانے اس مقدمے میں جو چھے افسر ہاتھ لگے، چند روز کی براے نام عدالتی کارروائی کے بعد انھیں پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ نہ کوئی تحقیق نہ تفتیش اور نہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا کوئی موقع۔ دنیا میں بھی کہیں اس ’انصاف‘ کا چرچا نہیں ہوا۔ انسانی حقوق، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کی چیمپیئن عالمی قوتیں سب اس پر خاموش رہے۔ یہ واقعی انصاف تھا تو ان سب کو اس پر اظہار اطمینان کرنا چاہیے تھا اور اگر ظلم تھا تو اسے بے نقاب کرنا چاہیے تھا لیکن .....
اس انوکھے انصاف کے لاشے ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے کہ پورے ملک میں وسیع تر محاذ آرائی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار ہدف دستور کی اسلامی دفعات، ملک کی اسلامی شناخت، اسلامی لٹریچر اور اسلامی جماعتیں تھیں۔ ملک کی اسلامی شناخت کا تعین کرنے والی دستوری شقیں تبدیل کرکے، سیکولر شناخت لازم کرنے والے الفاظ شامل کر دیے گئے۔ سرکاری لائبریریوں، مدارس اور دفاتر میں مولانا مودودی کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اسلام پسند عناصر بالخصوص جماعت اسلامی کے قائدین کو مختلف حیلوں بہانوں سے گرفتار کرنا شروع کردیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی، سیکریٹری جنرل علی احسن مجاہد، ملک کے مایہ ناز مفسر قرآن مولانا دلاور حسین سعیدی، اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل قمر الزمان اور عبد القادر ملا صاحب سمیت اب تک گرفتار شدگان کی تعداد کئی ہزار ہوچکی ہے۔ مزید کئی ہزار کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ان حضرات بالخصوص نظامی صاحب کو جاننے والا ہر شخص ان کی شرافت، ایمان داری اور قانون کی پاس داری کی گواہی دے گا۔ لیکن ان حضرات پر الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ ۱۹۷۱ء میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے لاکھوں انسانوں کو قتل کیا۔ کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بعض بنگلہ دیشی ذمہ داران سے ملاقات ہوئی۔ وفد میں شریک حکمران عوامی لیگ کے ایک اہم وزیر نے کھلم کھلا اعتراف کیا کہ ’’یہ سراسر ایک سیاسی مسئلہ ہے کوئی عدالتی مسئلہ نہیں۔ ۴۰سال بعد کسی پر کوئی سنگین الزام لگانا اور اسے ثابت کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے، لیکن---‘‘ اس لیکن کے بعد وزیر موصوف کچھ نہ کہہ پائے، لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ سارا کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے۔
حسینہ شیخ کی عوامی لیگ اپنے روز تاسیس ہی سے بھارت نواز جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ حالیہ دور حکومت میں یہ جادو خوب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی نظریاتی شناخت مسخ کرنے سے لے کر اسلامی عناصر کی سرکوبی تک اور بنگلہ دیش کے ریاستی اداروں میں جابجا بھارت نواز عناصر ٹھونس دینے سے لے کر، تمام ریاستی پالیسیوں میں بھارتی مفادات کی آب یاری تک، ہرقدم تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر اس سال جنوری میں حسینہ شیخ کے دورۂ بھارت کے دوران ہونے والے علانیہ اور خفیہ معاہدوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ ان میں سے ایک زمینی راستوں سے نقل و حمل کا معاہدہ، بھارت کے دیرینہ خواب کی تکمیل کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کا جغرافیائی محل وقوع، بھارتی مفادات کے لیے انتہائی اہم ہے۔ بھارت کی تیل و معدنی وسائل سے مالا مال سات ریاستیں ایسی ہیں کہ ان کے اور باقی ہندستان کے درمیان بنگلہ دیش واقع ہے۔ اس وقت ان ساتوں ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت اپنی ان ریاستوں کے ساتھ صرف تقریباً ۳۳کلومیٹر چوڑی دشوار گزار پٹی کے ذریعے جڑا ہوا ہے، جب کہ بنگلہ دیش کے ساتھ بھارتی سرحدوں کی لمبائی ۳ہزار ۴ سو ۶ کلومیٹر ہے۔ بھارت ہمیشہ خواہاں رہا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ خشکی کے راستوں کا ایسا معاہدہ کر لے کہ یہ سارا سرحدی علاقہ، اس کے لیے ایک گزرگاہ کی حیثیت اختیار کرجائے۔ اس سے نہ صرف اپنی ان ریاستوں تک اس کی رسائی آسان ہوجائے گی بلکہ بنگلہ دیش میں بھی ہر جانب پاؤں پھیلائے جاسکیں گے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو اس دام میں پھانسنے کے لیے ایک ارب ڈالر یعنی، ۸۴ارب روپے کا قرض دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
اس معاہدے کے علاوہ، حسینہ شیخ نے کھلُنا اور چٹا گانگ کی بندر گاہ ہندستانی استعمال میں لانے کے معاہدے بھی کیے ہیں۔ غیر قانونی سمگلنگ کے ذریعے ہندستانی مصنوعات کی یلغار اس کے علاوہ ہے، جس سے ملکی صنعت ٹھپ ہوتی جارہی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ہندستانی تسلط صرف اقتصادی میدان میں ہی نہیں، ملک کی تمام تر اندرونی و بیرونی پالیسیاں بھارتی شکنجے میں جکڑی جارہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف کارروائیوں کا اصل سبب بھی ان جماعتوں کا ہندستانی تسلط کی سازش کی راہ میں مزاحم ہونا ہے۔
جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنان کی گرفتاری، بزرگ قیادت پر جنگی جرائم کی تہمت، ہولناک ابلاغیاتی جنگ، پورے ملک پر پولیس راج اور سرکاری سرپرستی میں عوامی غنڈا گردی کے ذریعے، خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنے کے بعد اب بھارت مخالف سمجھی جانے والی خالدہ ضیاء کی سیاسی جماعت بی این پی سے بھی جھڑپیں شروع کردی گئی ہیں۔ ان کے کارکنان کو بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں میں شدت اس وقت آئی جب ۱۱؍اکتوبر کو سعید آباد ضلع سراج گنج میں بی این پی کی طلبہ تنظیم سابق صدر حسین محمد ارشاد کے عہد اقتدار میں قتل ہوجانے والے اپنے کارکن نذیر الدین جہاد کی یاد میں ’یومِ جہاد شہید‘ منارہی تھی۔ اس موقع پر رکھے گئے اجتماع سے سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو بھی خطاب کرنا تھا، جب کہ حکومت کی خواہش تھی کہ وہ یہاں خطاب نہ کریں۔ جلسے کا اعلان کرنے پر عوام کی اتنی بڑی تعداد اُمڈ آئی۔ لوگ جلسہ گاہ کے قریب سے گزرنے والی ریلوے لائن پر بھی دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اس وقت وہاں سے ایک ٹرین گزرنے کا وقت تھا۔ یہ سہ پہر کے تین بجے کا وقت تھا۔ دن کی روشنی میں ریلوے لائن پر بڑا ہجوم دیکھ لینے کے باوجود ٹرین کے ہندو ڈرائیور نے گاڑی نہ روکی اور وہاں جمع بہت سے افراد کو کچلتے ہوئے گزر گیا۔ چھاترودل کے چھے کارکنان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے اور پھر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہ واقعہ دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین ایک اور نزاع و تصادم کی بنیاد بن گیا۔ اس کے بعد سے مسلسل ہنگامے جاری ہیں اور خالدہ ضیاء کے درجنوں کارکنان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے تمام تر انتقامی کارروائیوں کے باوجود اپنے روایتی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومتی میڈیا نے مسلسل طعنہ زنی اور طنز و تشنیع کرتے ہوئے کارکنان کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ نظامی صاحب ، مجاہد صاحب، سعیدی صاحب جیسے بزرگ رہنماؤں کو بھاری پولیس نفری کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو دونوں طرف کھڑے اوباش ان پر آوازے کستے ہیں: ’’پاکستانی ایجنٹ --- پاکستانی دلال--- پاکستانی جاسوس--- لیکن جماعتی زعما یہ آیت پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں: وَّاِِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(الفرقان ۲۵:۶۳)۔ گذشتہ دو ماہ میں تین بار ایسا ہوچکا ہے کہ اچانک مرکز جماعت کو ہرطرف سے گھیر کر چھاپے مارے، درجنوں سادہ اور وردی پوش افراد نے آکر ایک ایک کمرہ چھان مارا اور اپنے تئیں خوف و دہشت کی ایک فضا قائم کرنے کے بعد واپس چلے گئے۔ گرفتار شدہ رہنمائوں کو متعدد بار پولیس جیل سے تفتیشی مراکز لے جایا جاتا ہے، ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ جماعت اسلامی کے کارکنان سڑکوں پر آنے کے بجاے گھر گھر رابطے کا کام کررہے ہیں۔ عدالت میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ کائنات کا مالک خبیر و قدیر اللہ تعالیٰ اس آزمایش اور تندی باد مخالف کو بھی ان کے لیے بلندی پرواز اور مزید کامیابیوں کا ذریعہ بنائے گا۔ یہ مقدمہ ہر حوالے سے بے بنیاد، غیرقانونی اور غیراخلاقی ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام صرف بھارتی اشارے پر کیے جانے والے کسی ظالمانہ فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔
جنگی جرائم کے کئی مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ، اعلیٰ پائے کے برطانوی وکیل اسٹیون کولیس نے بھی ۱۳؍ اکتوبر کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک سیمی نار سے خطاب کرتے ہوئے برملا کہا ہے: یہ پورا مقدمہ، اس کے لیے بنایا جانے والا خصوصی ٹربیونل، اور کارروائی کا طریق کار، خود بنگلہ دستور، بین الاقوامی قوانین اور جنگی جرائم کے مقدمات کے لیے مطلوبہ کوائف و دستاویز سے متصادم ہے۔ ججوں کی تقرری اور ان کی واضح جانب داری سب پر عیاں ہے اور اس صورت میں ملزمین کے خلاف آنے والا عدالت کا ہر فیصلہ واضح انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔
بنگلہ دیش کی عمومی فضا بھارت مخالف ہے۔ بھارت کی متکبرانہ و سازشی ذہنیت کے باعث یہ بات یقینی ہے کہ بنگلہ دیش اس کی باج گزار ریاست کی حیثیت اختیار نہیں کرسکے گا۔ البتہ امریکی اور اسرائیلی سرپرستی میں پورے خطے میں مسائل پیدا کرتا رہے گا۔ امریکا بھارت کو بنگلہ دیش کے علاوہ افغانستان میں بھی مکمل طور پر حاوی اور مؤثر قوت بنانا چاہتا ہے۔ بھارتی فلموں، گانوں اور بے حیائی کلچر کے ذریعے افغانوں کے دل و دماغ مسحور کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ بھارت وہاں تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کر رہا ہے۔ ان کی آڑ میں جاسوسی کا گہرا، وسیع اور مضبوط جال بھی بُن رہا ہے۔ مستقبل کی افغان فوج اور پولیس میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے لیکن یہ عجیب امر ہے کہ صرف بنگلہ دیش یا پاکستان ہی کو نہیں بھارت کے تمام پڑوسی ممالک کو بھارتی تعلّی سے شکایات ہیں۔ چین، نیپال، سری لنکا، میانمار اور بھوٹان سب کے ساتھ بھارت کا کوئی نہ کوئی تنازع چلتا رہتا ہے۔ بھارت اگر انصاف، برابری اور احترامِ باہمی کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے خطے پر قبضے کے خواب دیکھنا نہیں چھوڑے گا تو نہ صرف پڑوسی ممالک کے لیے بحرانوں کا باعث بنتا رہے گا بلکہ خود بھی بہت جلد اور یقینا مکافاتِ عمل کا شکار ہوگا۔
سوال: شریعت کے مختلف ستون ہیں، مثلاً عبادات، اخلاقیات اور معاملات۔ ان میں ترجیح کس طرح متعین ہوگی؟ مثال کے طور پر ایک شخص عبادات میں بہت اچھا ہے لیکن معاملات اور اخلاقیات بالکل ادا نہیں کرتا تو کیا ایسی صورت میں وہ عبادات کے اجر کا مستحق ہوگا؟ اسی طرح اگر معاملات اور اخلاقیات میں بہت اچھا ہو لیکن عبادات میں کمزور ہو تو کیا اللہ کے نزدیک اس کا رتبہ بہ نسبت پہلے کے زیادہ ہوگا؟
جواب: آپ نے اپنے سوال میں عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے حوالے سے یہ جاننا چاہا ہے کہ ان میں ترجیح کیا ہوگی، یعنی اگر ایک شخص یہ سمجھتا ہو کہ وہ انسانوں کی خدمت کے خیال سے سیلاب زدگان یا زلزلہ کے متاثرین کا کسی کچی آبادی کے رہنے والوں کی طبی امداد میں لگا ہوا ہے، ان میں کھانا تقسیم کر رہا ہے، اس لیے اذان ہورہی ہے تو ہوتی رہے، وہ بعد میں جب فرصت ہوگی نماز پڑھ لے گا تو کیا اس کا ایسا کرنا شریعت کے اصولوں کی روشنی میں درست ہے؟
یہ بات ہمارے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ اسلام دو چیزوں سے عبارت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت، اور جس طرح اللہ اور رسولؐ چاہتے ہوں اللہ کے بندوں اور دیگر موجودات کے حقوق کی ادایگی، ان میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی ابہام۔ فرائض کی اوّلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالت ِ جہاد میں بھی نماز کی پابندی کا حکم ہے۔ گو اس کی شکل بدل جاتی ہے اور بجاے مکمل نماز بیک وقت پڑھنے کے ایک ایک رکعت کی شکل میں اسے ادا کیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ پہلے فوج کا ایک حصہ امام کے پیچھے ایک رکعت نماز ادا کرتا ہے، جب کہ دوسرا حصہ دشمن کے مدمقابل حفاظت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایک رکعت ادا کرنے کے بعد سپاہی دشمن کے مدمقابل حفاظت کے لیے چلے جاتے ہیں، جب کہ پہلے سے حفاظت پر مامور سپاہی امام کے پیچھے کھڑے ہوکر ایک رکعت ادا کرتے ہیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دونوں باری باری اپنی بقیہ رکعت ادا کرلیتے ہیں۔ اگر صرف عقل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا تو جان کی حفاظت اور دفاعی ضرورت کے پیش نظر عقل یہی فیصلہ کرتی کہ پہلے اپنی اور دوسروں کی جان بچانے کے لیے میدانِ جہاد میں فتح حاصل کرو۔ اس کے بعد یکسوئی اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا۔ لیکن شریعت کی بنیاد ادلہ (دلیل)، مقصد اور حکمت تینوں پر ہے۔ دلیل قرآن و سنت سے، مقصد شریعت کے اصولوں سے، اور حکمت دین کے فہم کی بنیاد پر تلاش کی جاتی ہے۔ چنانچہ حالتِ جہاد میں نماز کی ایک رکعت کا اس طرح ادا کرنا کہ اسلحہ رکھ دیا ہے اور بقیہ اہلِ ایمان جنگ میں مصروف ہیں اور نمازیوں کی حفاظت بھی کر رہے ہیں عین شریعت، مقاصد اور عقل کے مطابق ہے۔
اخلاق اور معاملات میں کوئی تفریق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اسلام میں معاملات کی بنیاد اخلاق پر ہے۔ اخلاق چند نظریاتی باتوں اور اصولوں کا نام نہیں ہے بلکہ عمل کا نام ہے۔ اس بنا پر اُم المومنین سیدہ عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق دیکھنا ہو تو قرآن میں دیکھ لو۔ جو کچھ قرآن نے کہا، آپؐ نے اسے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ڈھال دیا۔ گویا جس طرح اداراتی علوم کے ماہرین تجارتی اخلاقیات پر کتب لکھتے ہیں، جامعات میں پڑھاتے ہیں اور اچھی خاصی فیس لے کر ورکشاپ میں مشق کراتے ہیں، اسی طرح نہ صرف تجارت بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہرکام کا ایک اخلاق ہے۔ نماز کا اخلاق خشیت ہے۔ زکوٰۃ کا اخلاق اخفا اور اظہار کے ساتھ دینا ہے۔ لیکن اس طرح کہ وہ کسی پر احسان ہے نہ خیرات بلکہ مستحق کو اس کا حق پہنچانا ہے۔ ایسے ہی جہاد کا اخلاق یہ ہے کہ اسے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس میں نہ نمایش مقصود ہے نہ کسی تمغے کا حصول۔ والدین کے ساتھ اخلاق، ان کے حقوق کی ادایگی ہے۔ ایسے ہی ہمسایہ کے ساتھ اخلاق، اس کے حقوق کی ادایگی ہے۔ گویا اسلام میں تمام معاملات اخلاق کے تابع ہیں۔
ان دو گزارشات کے بعد اگر آپ کے سوال پر غور کیا جائے تو اوّلاً معاملات اور اخلاقیات میں کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ ثانیاً، عبادت اللہ کا بندے پر حق ہے۔ اسی طرح حقوق العباد کا ادا کرنا نہ صرف معاملات بلکہ عبادت کے دائرے میں بھی شامل ہے۔ والدین کے حقوق ہوں یا ہمسایے اور اقربا یا احباب اور دیگر مستحقین کے، ان کی ادایگی کا سبب صرف ایک ہی تو ہے، یعنی رب کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم۔ اس لیے حقوق العباد کی ادایگی عبادت کی طرح اجر کا باعث ہے۔ لیکن عبادات میں بعض فرض ہیں، بعض سنت، بعض سنت مؤکدہ اور بعض نفل۔ ایسے ہی حقوق العباد ادا کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر نماز کا وقت ہے اور جماعت ۱۵:۶ پر ہے، جب کہ ایک سرجن کو ۵بجے سے سرجری کا آغاز کرتا ہے جو تین گھنٹے جاری رہے گی تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ سرجری کا وقت ۲۵:۶ سے رکھے تاکہ نماز ادا کرنے کے بعد حقوق العباد کی طرف متوجہ ہو یا وہ ایک جان بچانے کے بدلے قضا نماز ادا کرے۔
عام حالاتِ زندگی میں صورت حال، اس کے مقابلے میں بہت آسان ہوگی۔ مندرجہ بالا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے ایسے کام جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں، بہ آسانی اس طرح ادا کیے جاسکتے ہیں کہ فرائض کی ادایگی بھی متاثر نہ ہو اور اللہ کے حقوق کے ساتھ انسانوں کے حقوق بھی ادا کیے جاسکیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: آج کل خواتین میں ویکسنگ، تھریڈنگ وغیرہ کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اس کے بارے میں اسلامی احکامات کیا ہیں؟ کس حد تک جسم کے بالوں کی صفائی کا حکم ہے اور شرعاً اس کے لیے کون سے ذرائع جائز ہیں؟ حوالوں کے ساتھ تفصیل سے بتایئے تاکہ میں لڑکیوں اور عورتوں کو آگاہ کرسکوں۔
ج: اسلام ایسی زیب و زینت جو محض مصنوعی اور جھوٹی ہو، جس میں مرد یا عورت کا اصلی چہرہ اور ساخت تبدیل ہوجائے، کی اجازت نہیں دیتا۔ مرد اور خواتین کا جسم کے غیرضروری بالوں کو صاف کرنا تو فطرتِ انسانی اور انبیاء علیہم السلام کی سنت میں داخل ہے۔ عورت کے سر کے بال چھوٹے ہوں تو انھیں بڑا اور زیادہ دکھلانے کی خاطر، اس کے ساتھ انسانوں، مردوں یا خواتین کے بالوں کو جوڑنا ممنوع ہے، ایسا کرنے والی اور ایسا کرانے والی عورت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔ اس سلسلے میں صرف ایسے جان داروں کے بال جو حلال اور پاک ہوں (مُردار نہ ہوں) جن کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہو کہ یہ عورت کے اپنے بال نہیں ہیں، یا اُون اور دھاگوں کے بنے ہوئے بال پیوند کیے جاسکتے ہیں۔
بھووں کے بڑھے ہوئے بالوں کو بقدرِ ضرورت قینچی سے کاٹا جاسکتا ہے۔ چہرے یا جسم کے کسی حصہ میں سوئی سے گود کر رنگ بھرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ چہرے پر قدرتی چھوٹے چھوٹے بال جو دیکھنے والے کو نظر بھی نہیں آتے ان کو نوچنے اور ختم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جسم کے باقی حصوں، ہاتھوں، بازووں، سینے اور ٹانگوں اور پیٹھ کے بالوں کو مشین یا کسی دوسری چیز سے صاف کردینے کی اجازت نہیں ہے۔ زینت کی یہ تمام صورتیں جھوٹے میک اپ کا درجہ رکھتی ہیں۔ عورت کے چہرے پر غیرقدرتی اور غیرطبعی بال نکل آئیں، مثلاً بعض خواتین کے چہرے پر ڈاڑھی کی طرح کے کچھ بال ایک جگہ یا مختلف جگہوں پر نکل آئیں تو ان کو نوچنے کی اجازت ہے کیونکہ ان کو نوچنا حسن کی جھوٹی نمایش میں نہیں آتا بلکہ عیب کی اصلاح ہے۔
ویکسنگ اور تھریڈنگ کی وہ تمام شکلیں جو مندرجہ بالا اصولوں کی حدود میں نہ ہوں، مکروہ ہیں اور زیب و زینت کی جھوٹی نمایش اور بناوٹ کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات درج ذیل ہیں:
۱- اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ایک لڑکی دلہن بنی ہے اور اسے چیچک نکل آئی ہے، جس کی وجہ سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں۔ کیا میں اس کے بالوں کے ساتھ بال ملا کر پیوند کردوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم، کتاب اللباس والزینۃ)
۲- ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے اور جڑوانے والی اور گودنے اور گودوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم)
۳- عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گدوانے والیوں، بالوں کو نوچنے والیوں، نچوانے والیوں اور خوبصورتی کی خاطر دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنے والیوںپر لعنت کی ہے۔ (مسلم)
۴- بالوں کو بنانے، ویکسنگ اور تھریڈنگ غیرمحرم مردوں یا آزاد منش عورتوں سے کرانا بھی مکروہ فعل ہے۔ زیب و زینت کی معروف صورتیں سرخی، سرمہ مہندی، جب کہ حُسن کا گھر کی چار دیواری سے باہر بے پردگی کے ساتھ مظاہرہ نہ ہو، جائز ہیں۔
امید ہے آپ بچیوں کو تعلیم و تربیت دے کر اسلامی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور زیب و زینت کے لیے نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ اور اسلامی حجاب سے مستور خواتین کے ادارے قائم کریں گی۔(مولانا عبدالمالک)
س: ’رسائل و مسائل‘ میں ’سود پر قرض کے لیے تصدیق کرنا‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) کے تحت جواب سے ایک اُلجھن پیدا ہوگئی ہے۔ اگر سنار یا فرد تقسیم فراہم کرنے والا شخص محض تصدیق کرتے ہیں اور سود پر قرض لینے والے کو تنبیہہ کرتے ہیں تو وہ گناہ گار نہ ہوں گے، لیکن جب یہ واضح ہو کہ سونے کے زیور یا فرد تقسیم کی تصدیق سود پر قرض لینے کے لیے کروائی جارہی ہے اور اس غرض کے لیے بنک نے ان کا تقرر کیا ہو تو اس موقع پر محض تنبیہہ کرنے کا کیا فائدہ؟ کیا یہ سود کے عمل میں شرکت نہیں ہے؟
ج: ایک صورت تو یہ ہے کہ جب ایک آدمی پٹواری سے زمین کی فرد نکلوائے اور تصدیق کروائے، اسی طرح سونے کے کھرا کھوٹا ہونے کی تصدیق کسی سنار سے کروائے، اس کے بعد بنک کو قرض کی درخواست دے۔ اس صورت میں سودی قرض لینے کا آغاز مذکورہ کارروائی کے مکمل ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ لہٰذا تصدیق کنندگان گناہ گار نہیں ہوں گے۔ اس کے بجاے اگر کوئی شخص درخواست پہلے دے اور پھر بنک اسے ہدایت کرے کہ تصدیقات کروا کر لے آئے، تو ایسی صورت میں سودی سلسلے کا آغاز تصدیقات سے پہلے شروع ہوگیا اور تصدیقات سودی قرض کے معاملے کے آغاز اور انتہا کے درمیان میں واقع ہوگئیں۔ اس صورتِ حال میں جواب یہ ہے کہ جب تصدیقات کرنے والوں کو علم ہے کہ یہ تصدیقات سودی قرض لینے کے لیے ہیں بلکہ ان کا تقرر ہی بنک کی طرف سے اس غرض کے لیے کیا گیا ہے تو ان کا تصدیق کرنا اور اس غرض کے لیے بنک کا دلال اور مددگار بننا سودی کاروبار میں شرکت ہے۔ ہمارے پہلے جواب کا تعلق پہلی صورت سے ہے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )
س: ’رسائل و مسائل‘ (اگست ۲۰۱۰ئ) کے ضمن میں صلوٰۃ التسبیح کی باجماعت ادایگی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر نمازِ تہجد اتفاقاً بغیر کسی پروگرام کے باجماعت ادا کی جائے تو بلاکراہت جائز ہوگی۔
ہم مشرق وسطیٰ میں قیام پذیر ہیں اور یہاں پر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں باقاعدہ پروگرام کے تحت قیام اللیل (تہجد) کا باجماعت اہتمام ہوتا ہے، نیز تحریکی حلقوں میں بھی شب بیداری کے پروگرام کے آخر پر قیام اللیل باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیا یہ قیامِ لیل درست ہے؟ مزید یہ کہ یہ راے کسی ایک مسلک کی ہے یا ائمہ اربعہ کا اس پر کوئی فتویٰ ہے؟
ج: امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا معروف مسلک یہ ہے کہ نوافل کی جماعت، جب کہ اس کے لیے باقاعدہ پروگرام ترتیب دے کر لوگوں کو جمع کیا گیا ہو، مکروہ تنزیہی ہے۔ یہ حکم دونوں قسم کی جماعتوں کو شامل ہے، یعنی مردوں کی نوافل میں جماعت اور خواتین کی نوافل میں جماعت دونوں مکروہ تنزیہی ہیں۔ مکروہ تنزیہی خلاف اوّل کے قریب ہے۔ لیکن امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور فقہا احناف میں سے بعض فقہا کے نزدیک نوافل کی جماعتیں بلاکراہت جائز ہیں، جب کہ ان کو معمول نہ بنایا جائے بلکہ کبھی کبھار پڑھی جائیں۔
اس قول کے مطابق شب بیداری اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں قیام اللیل کی خاطر جماعت بلاکراہت جائز ہے۔ البتہ صلوٰۃ التسبیح میں قراء ت کے ساتھ تسبیحات بھی جہراً پڑھنا یہ نمازوں کے آداب اور طریقے کے خلاف ہے۔ نماز میں رات کے وقت صرف قراء ت اُونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے اور دن میں قراء ت بھی سراً پڑھی جاتی ہے اور تسبیحات تو بہرحال سراً پڑھی جاتی ہیں۔
صلوٰۃ التسبیح کی ادایگی کے ضمن میں گذشتہ جواب (رسائل و مسائل، اگست ۲۰۱۰ئ) میں اختصار کے سبب جو اشکال پیدا ہوتا ہے مندرجہ بالا وضاحت سے ان شاء اللہ رفع ہوجائے گا۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )
قرآنِ حکیم شریعت ِ اسلامیہ کا مصدر اوّل ہونے کے اعتبار سے اُمت مسلمہ کے لیے ایک اٹل قانون ہے۔ اس الٰہی قانون کی حُرمت کو دانستہ یا نادانستہ توڑنا اُمت کے لیے باعث ِ ہلاکت ہے اور اس کو حرزِجاں بنالینا عروج و نجات کا مژدئہ جاں فزا۔ علامہ یوسف القرضاوی کی عربی تالیف کیف نتعامل مع القرآن الکریم (ہم قرآن پر عمل کیسے کریں؟) اسی حقیقت کا بیان ہے۔ انھوں نے قرآن حکیم کی عظمت و حفاظت، جمع و تدوین، اس کی تلاوت و تعلیم کے آداب و فضیلت، قرآن حکیم کے اعجاز و تفوق سے اپنی بات کو شروع کر کے عقیدہ و عمل کے بیان کے ساتھ ساتھ حقوق و فرائض اور معاملاتِ انسانی کے لیے قرآنی ہدایت کو پیش کیا ہے۔ تلاوتِ قرآن مجید کے انسانی زندگی پر اثرات کو خصوصاً بیان کیا گیا ہے۔ انسانی زندگی کے دستور و منشور کے طور پر قرآنِ مجید کی فرد اور معاشرے کے لیے ہدایات بھی بیان کی گئی ہیں۔ انفرادی و اجتماعی معاملات کے ساتھ حکومت و سیاست اور دعوت و ارشاد کے نکات بھی زیربحث آئے ہیں۔
پروفیسر خورشیداحمد صاحب ’پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: یہ اُردوخواں طبقے کے لیے ایک بڑا قیمتی علمی تحفہ ہی نہیں زندگی کو قرآن کے سایے تلے گزارنے کے لیے نسخۂ عمل بھی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے قرآن کے پیغام کو بڑے مؤثر انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ پوری زندگی کا نقشۂ کار قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ (ص ۱۸)
ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب نے اس کتاب کو اپنی تحقیق و تعلیق اور تلخیص و تجزیہ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کتاب بہت مفید اور اہم ہے لیکن یہ کمی رہ گئی ہے کہ ۲۷۸ صفحات کی کتاب میں ابواب بندی واضح نہیں جس سے قاری کو مطالعے کے دوران دقت پیش آتی ہے۔اسی طرح مصنف کے متن اور مترجمہ کی تحقیق و تعلیق کے درمیان بھی کوئی امتیاز نہیں ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ-۲۵۶ھ) نے لاکھوں احادیث میں سے چند ہزار احادیث کو اپنی قائم کردہ شرائط پر پرکھ کر فقہی ترتیب کے مطابق یک جا کیا ہے۔ بخاری کی الجامع الصحیح میں بار بار آنے والی احادیث کے بغیر احادیث کی تعداد تقریباً ۴ہزار ہے۔ امام بخاری کا یہ تکرارِ حدیث ایک حدیث سے متعدد مسائل اخذ کرنے کی بنا پر ہے۔ عنواناتِ ابواب سے امام بخاری کی فقہی بصیرت اور وسیع نظری کا اظہار ہوتا ہے۔
زیرنظر کتاب میں بخاری کی مکرر احادیث کو چھوڑ کر احادیث کا مفہومی ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ترتیب اصل کتاب کے مطابق ہے، البتہ احادیث کی اسناد اور ابواب کے عنوانات حذف کردیے گئے ہیں۔ طویل اور مفصل احادیث کے مضامین کو مختصر کیا گیا ہے۔ مؤلف نے اتنی بڑی فنی کتاب کے مفہوم کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑی محنت کی ہے اور اپنی حد تک کتاب کو عام فہم بنانے کی پوری سعی کی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بخاری کی اصل اہمیت اس کی ’صحت‘ کے ساتھ ساتھ اس کے اخذِ مسائل کے پہلو سے بھی ہے، لہٰذا امام کے اخذِ مسائل کو نظرانداز کرکے اس سے بہتر عنوانات قائم کرنا کارے دارد ہے۔ حذفِ تکرار کی بنا پر بعض ضروری باتیں بھی شامل ہونے سے رہ گئی ہیں۔ عنوانات کی تبدیلی نے بھی بہت سے ابہامات پیدا کردیے ہیں۔ عنواناتِ ابواب کی تبدیلی سے بعض احادیث سے اخذ کردہ امام کے بہت اہم مسائل نظرانداز ہوکر رہ گئے ہیں۔ باریک خط اور اغلاط کی کثرت سے بھی کتاب کی ساکھ متاثر دکھائی دیتی ہے۔ بخاری پر ہونے والا کوئی بھی کام امام بخاری کے ذاتی حزم و احتیاط کے پیش نظر پوری دقت نظر سے انجام دیا جانا چاہیے۔ (ا- ر)
احیاے اسلام کے لیے تحریکیں بھی اُٹھیں اور انفرادی مساعی بھی کی گئیں۔ بیسویں صدی میں تو یہ موضوع یونی ورسٹیوں کی اعلیٰ تعلیم کا نصاب بن گیا۔ بہت سے علما و اساتذہ نے اس پر قلم اٹھایا۔ ان میں سے ایک کاوش بغداد یونی ورسٹی کے شعبۂ اسلامیت کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کی اصول الدعوۃ (اصولِ دعوت) کے نام سے سامنے آئی۔ مصنف نے دعوتِ اسلام پر اظہارِ خیال سے پہلے اسلام کا ایک جامع تعارف پیش کر کے دعوت کے جواز بلکہ فرضیت کو ثابت کیا ہے۔ کتاب کا نصف سے زیادہ حصہ اسلام کے معنی و مفہوم، مدعا و مقصود اور طریق و نظام کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اسلام کی تعریف، خصوصیات، اور زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام کی تعلیمات (اخلاق، معاشرت، اِفتا و احتساب، حکومت، معیشت، جہاد اور عدالت) پہلے باب کا موضوع ہے، جو قریباً ۴۸۰ صفحات پر محیط ہے۔ اس کے بعد دعوت کا موضوع چار ابواب قریباً ۳۰۰صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔ داعی کا مفہوم، صفات، معاونات، اخلاق، دعوت کے مخاطبوں کی اقسام اور ان کی نفسیات پر دوسرے اور تیسرے باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ چوتھے اور پانچویں باب میں دعوت کے اسالیب، طریقوں اور وسائل کا بیان ہے۔ ان ابواب میں مرض کی تشخیص و علاج اور مخاطبینِ دعوت کے شبہات اور ان کے ردّ اور ازالے کا طریقِ کار بتایا گیا ہے۔
کتاب کی جامعیت، افادیت اور اہمیت کا اندازہ پہلے باب کے مطالعے ہی سے ہوجاتا ہے کہ مصنف نے اختصار مگر ٹھوس دلائل اور ضروری تفاصیل کے ساتھ اسلام کا تعارف کرایا ہے۔ اختصار کے باوجود ہرپہلو اور موضوع کی جزئیات تک کا احاطہ مصنف کی وسیع نظر اور موضوع پر دسترس کا اظہار ہے۔ کارکنان کے ساتھ ساتھ مربی حضرات بالخصوص قائدین تحریک کے لیے اس کتاب کا مطالعہ غوروفکر کے کئی گوشے وا کرے گا۔ مترجم نے بڑی محنت سے مباحث کو آسان بناکر پیش کیا ہے۔(ا- ر)
اُردو ادب میں خاکہ نگاری ایک مستقل صنفِ نثر کی حیثیت رکھتی ہے مگر بہت سی دوسری اصناف (ناول، ڈراما، آپ بیتی، نظم وغیرہ) کی طرح خاکہ نگاری کی حتمی تعریف بھی متعین نہیں ہے، تاہم جو مضمون کسی معروف یا غیر معروف شخصیت پر لکھا جائے، اور وہ شخصیت خواہ کسی بھی شعبۂ حیات سے متعلق ہو اور مضمون طویل ہو یا مختصر___ وہ خاکہ کہلاتا ہے۔
زیرنظر کتاب کے ۴۰ خاکوں میں سے بعض (اخترشیرانی: ۱۲ص۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی: ۱۷ص)، تو مائل بہ طوالت نظر آتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی مصنف اختصارپسند ہیں (حسین احمد مدنی: ۲/۱ ۲ص۔ مولانا احمد سعید دہلوی: ۴/۱ ۲ص۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ۴/۱ ۲ص) ۔تین تین یا چارچار صفحات میں پیش کردہ جھلکیاں بھی قاری پر بعض شخصیات کا دیرپا نقش مرتسم کرتی ہیں۔ اس میں حکیم محمود احمد برکاتی کی سادہ اور بامحاورہ زبان اور دل کش اسلوب کو دخل ہے۔ کسی شخص سے ان کا جتنا واسطہ رہا، یا کسی شخصیت میں انھیں کوئی خاص بات نظر آئی، یا انھوں نے کسی کو جتنا کچھ دیکھا___ ان کا بیان اسی کے بقدر اکتفا کرتا ہے۔ برکاتی صاحب کے ان خاکوں کو دل چسپ واقعات، طرزِ بیان کی سادگی، جامعیت اور اثرانگیزی کے اعتبار سے ’گُہرپارے‘ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ یادوں کی اس بازیافت میں (سرورق پر عنوانِ کتاب کے ساتھ ’بھولتی یادیں‘ کی وضاحت درج ہے۔) چار شہروں (ٹونک، اجمیر، دہلی، کراچی) کی معروف اور غیرمعروف معاصر شخصیات سے ملاقاتوں اور باتوں کا ذکر ملتا ہے۔
برکاتی صاحب کی منصف مزاجی نے افراد و شخصیات کی شخصی خوبیوں کے ساتھ، اُن کی بعض خامیوں کا بھی مختصراً ذکر کر دیا ہے مگر ایسے مہذب لب و لہجے میں کہ کسی خامی کے ذکر سے متعلقہ شخصیت مجروح نہیں ہوتی۔ اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی کے بقول: یہ چند ’’یادگار زمانہ لوگوں کی قلمی تصویریں ہیں‘‘ (ص ۵)۔ مصنف نے ان قلمی تصویروں میں بعض باکمال لوگوں کو گوشۂ گم نامی سے نکال کر (صفحۂ قرطاس پر ہی سہی) زندگی بخش دی ہے۔
مولانا حکیم محمود احمد برکاتی، ایک جیّد عالمِ دین، اور بلندپایہ محقق ہیں مگر شگفتہ بیانی ان کے دل کش اسلوب کا نمایاں وصف ہے جو قاری کو مجبورکرتی ہے کہ ان خاکوں کو مسلسل پڑھتا جائے۔
محمود احمد عباسی کا خاکہ عبرت انگیز ہے۔ خلاصہ یہ کہ عباسی عربی جانتے تھے نہ فارسی۔ انھیں کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ وہ دل سے یزید دوست اور شیعہ دشمن نہیں تھے۔ دانستہ یا نادانستہ کسی اسلام دشمن تحریک یا طاقت کا آلۂ کار تھے اور افتراق بین المسلمین کی مہم میں سرگرم تھے۔ اسی طرح یہ کہ نیاز فتح پوری کی دین دشمنی کی مہم میں، ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کیا کرتے تھے (ص۱۶۳)۔ برکاتی صاحب، مولانا حسین احمد مدنی کے کانگریسی نقطۂ نظر کے مخالف مگر ان کے حُسنِ اخلاق کے مدّاح ہیں۔ کہتے ہیں مولانا مدنی نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی لیکن جب پاکستان بن گیا تو پھر اس کی ترقی کے لیے پُرخلوص طور پر خواہش مند رہے (ص۹۳)۔ بحیثیت مجموعی کتاب بہت دل چسپ، نہایت معلومات افزا اور سبق آموز ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اسلامی نظامت تعلیم، پاکستان میں نظامِ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی داعی ہے اور زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب پہلی جماعت سے انٹرمیڈیٹ سطح تک کے طلبہ کے لیے کلامِ اقبال سے ایک انتخاب ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ ۱۲ سال کی عمر تک کے طلبہ، دوسرا حصہ ایلیمنٹری جماعتوں کے طلبہ اور تیسرا حصہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح کے طلبہ کے لیے ہے۔ مرتبین نے کلامِ اقبال کے انتخاب میں طلبہ کی ذہنی سطح کا خیال رکھا ہے۔ ہر نظم کے متن کے ساتھ اس کا مختصر تعارف اور مشکل الفاظ کے معانی بھی دیے گئے ہیں جس سے کلامِ اقبال کی تفہیم کسی قدر آسان ہوگئی ہے۔ کلامِ اقبال اساتذہ کے لیے ایک معاون کتاب ہے۔ ابھی مزید مشکل الفاظ و معانی شامل کرنے اور شعروں کی تشریح کرکے، تفہیم کو سہل بنانا ضروری ہے۔
ابتدائی جماعتوں اور انٹر کے طلبہ کی ذہنی سطح میں خاصا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب ہوتا کہ یہ انتخاب الگ الگ شائع کیا جاتا۔ الفاظ و معانی کے ساتھ تراکیب کی توضیحات اور بعض تلمیحات کا پس منظر بھی واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مضامین کے اختتام پر حیاتِ اقبال کے اہم اور دل چسپ واقعات کے اقتباسات دینے کی گنجایش تھی جس سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
دعوتِ دین، درسِ قرآن اور ایک مربی کی حیثیت سے تحریکی حلقوں میں ڈاکٹر فرحت علی برنی (م: اگست ۲۰۰۹ئ) ایک معروف نام ہے۔ سعودی عرب، خلیجی ممالک، یورپ اور امریکا میں آپ کے دروس قرآن سے بذریعہ کیسٹ ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا ہے۔ مرحوم انڈسٹریل انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی تھے۔ کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی، جدہ سے وابستہ رہے۔ اور ۲۰۰۳ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد امریکا چلے گئے مگر زندگی کے آخری ایام اسلام آباد میں گزارے۔ آپ نے تمام عمر قرآن کے پیغام کو عام کرنے اور احیاے اسلام کی جدوجہد میں گزاری۔یوں وہ ان سعید روحوں میں سے تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا۔
ڈاکٹر فرحت علی برنی بہترین مقرر تھے اور مؤثر درسِ قرآن دیتے تھے۔ زیرنظر کتاب سورئہ حم السجدہ کی سات آیات (۳۰-۳۶) پر مبنی ایک درسِ قرآن ہے۔ آیاتِ قرآنی کا پس منظر، اہم نکات، قرآن و حدیث سے استدلال کے ساتھ آیات کا فہم واقعاتی انداز میں پیش کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ پر آیات کا انطباق اور درپیش مسائل پر رہنمائی دی گئی ہے، نیز تحریکی تقاضوں کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ اسلوبِ بیان عمدہ ہے اور قدیم و جدید علوم کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ استقامت کی مثالوں میں امام مالکؒ اور امام حنبلؒ کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ مرتب نے ڈاکٹر صاحب کے علمی ورثے کو افادۂ عام کے لیے وضاحتی حاشیوں اور حوالوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا ہے اور دیگر کیسٹوں کو کتابی صورت میں لانے کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریکی لٹریچر میں یہ ایک مفید اضافہ ہے۔ (امجد عباسی)
کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے عام طور پر دو طرح کے مجلات شائع ہورہے ہیں۔ کالجوں کے رسالوں میں بالعموم طلبہ اور طالبات کی نگارشات (افسانے، ڈرامے، مزاحیہ مضمون، نظمیں، غزلیں، ادبی سرگرمیاں، کھیلوں وغیرہ کی رودادیں) شائع ہوتی ہیں۔ یونی ورسٹی کے مجلات کا مزاج تحقیقی اور تنقیدی ہوتا ہے اور انھیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیار پر شائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دارارقم ماڈل کالج راولاکوٹ آزاد کشمیر کے ضخیم مجلے ارقم میں متذکرہ بالا دونوں نوعیتوں کی تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر ظفرحسین ظفر کے مضامین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیار پر پورے اُترتے ہیں۔ البتہ مجموعی طور پر اور مقداری اعتبار سے بھی رسالے میں طلبہ و طالبات کی نگارشات کا پلّہ بھاری ہے۔ طالب علمانہ معیار کے لحاظ سے یہ تحریریں اچھی ہیں اور لکھنے والوں کے روشن مستقبل کی غماز ہیں۔ انگریزی رسالے میں طلبہ و طالبات کی خاصی بڑی تعداد کی انگریزی نظمیں، انگریزی کے روزافزوں اثرات (تسلط) کا ایک نتیجہ ہے۔ ایک گوشہ کلامِ اقبال فارسی کے مترجم عبدالعلیم صدیقی مرحوم کے لیے اور ایک گوشہ کشمیری مزاح نگار کبیرخان کے لیے مختص ہے۔ کتابوں پر تبصرے بھی شامل ہیں اور کالج کے اساتذہ اور رسالے کے مدیران کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں کی تصویریں بھی شامل ہیں۔ (قاسم محمود احمد)
’اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) میں مولانا مودودیؒ کے قلم سے مسلمان ممالک اور اُمت مسلمہ کا جو تجزیہ کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی صاحب فکرونظر نے ۲۱ویں صدی کے مسلم ممالک کا حال لکھ دیا ہے۔ بعدازاں اسلامی تحریکوں اور ان کے کارکنوں کے لیے مولاناؒ نے جو لائحہ عمل تجویز کیا ہے، وہ بھی سنہرے حروف سے لکھنے جانے کے قابل ہے۔ آج نصف صدی سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد اسلامی تحریکوں کو ان معیارات پر اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم نے عوام کے ایک بڑے طبقے کو اسلامی نظام کی ضرورت اور اہمیت کا قائل کر کے اس کے لیے عملی جدوجہد پر تیار کرلیا ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ آج اسلامی نظام، نظام کی تبدیلی کی جدوجہد میں زیربحث ہی نہ رہا ہو؟ آج بھی نظام کی تبدیلی کے نعرے اور دعوے تو کیے جارہے ہیں، لیکن اسلامی نظام ہی ملک اور عوام کے مسائل کا اصل حل ہے___ اس پر جس شدت سے زور دیا جانا چاہیے، اس کی کمی محسوس ہورہی ہے۔
’زائر حج___ حرمین میں‘(اکتوبر ۲۰۱۰ئ) حج کے مختلف سفرناموں سے حج کے مراحل___ خانہ کعبہ پر پہلی نظر سے لے کر روضۂ رسولؐ پر حاضری تک کی کیفیات اور آخر میں خدا کی حقیقی بندگی کی دعوت جو کہ حج کی اصل غرض و غایت ہے، کی طرف توجہ کا اس عمدگی سے تذکرہ کیا گیا ہے کہ قاری اپنے آپ کو حرمین میں موجود پاتا ہے۔ ’استحکامِ پاکستان اور قوم کی ذمہ داری‘، پروفیسرمحمد منور مرزا کی تحریروں میں سے اچھا انتخاب ہے اور ملکی استحکام کے لیے قوم کے کردار کو بخوبی اُجاگر کیا گیا ہے۔ ’اسلام سے انحراف کا اختیار‘ میں سیکولر اور لادین طبقے کی علمی بدیانتی اور ذہنیت پر بروقت گرفت کی گئی ہے۔
ہمارا ملک جس انتشار سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ داعیانِ اسلام باہمی اختلافات اور تعصبات کو نظرانداز کرتے ہوئے قوم کو چند منکرات کے خاتمے اور چند معروف کے قیام کے لیے متحد کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔
’مجالسِ حرم‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) میں ترکی کے حالات سے آگہی ہوئی۔ یہ امرخوش آیند ہے کہ اسلامی تحریک کے حامی لوگوں کے دورِ اقتدار میں ملک نے مروجہ پیمانوں پر ترقی کا سفر بھی جاری رکھا ہے (ص ۸۲)، اور اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں اقتدار اور اُس کی ذمہ داریوں کا اہل ثابت کیا ہے۔ اسی طرح ریفرنڈم میں ۵۸ فی صد ووٹوں کا حصول بھی جمہوری انقلاب کی بڑی واضح مثال ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۰ء میں شروع ہوئی اور آج ۲۰۱۰ء میں کئی ناموں اور قائدین کی تبدیلی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اہم اہداف کے حصول پر منتج ہوئی ہے۔ یقینا ترکی کے مخصوص پس منظر میں یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس تناظر میں ہمارے ملک کی اسلامی تحریک کے لیے بھی سبق ہے۔ کیا ہم بھی اپنے آپ کو عوام کے اعتماد کا حق دار ٹھیرا چکے ہیں، یا کسی مرحلے پر عوام میں ہم بھی زیربحث ہیں کہ اس ملک میں ترقی اور تبدیلی کا سفر اسلامی تحریکوں کے ساتھ چل کر ہی طے ہوسکتا ہے؟
امریکی سامراج کی اُمت مسلمہ کے خلاف سازشوں کے مختلف حربوں میں سے ایک حربہ فرقہ واریت کو ہوا دینا اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ گذشتہ دنوں صوفیاے کرام کے مزاروں پر حملے اسی سازش کا شاخسانہ ہیں۔ امریکا کی اس سازش کو قومی یک جہتی سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت چند بنیادی نکات پر اتفاق راے اور ملّی یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔
مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!
اب یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ہندستان کی تاریخ کا وہ عارضی دور عن قریب ختم ہونے والا ہے جس میں ایک بیرونی قوم کے مٹھی بھر افراد یہاں حکومت کر رہے تھے اور وہ مستقل دور شروع ہونے والا ہے جس میں واحد قومیت، جمہوریت اور لادینی کے اصولوں پر اسی ملک کی اکثریت یہاں حکومت کرے گی۔ اس موقع پر ہمارے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ اس آنے والے دور کے خطرات مسلمانوں کے سامنے صاف صاف کھول کر پیش کردیں، کیونکہ ہمارے سامنے یہ بات بالکل واضح تھی کہ اس نظام میں کوئی آئینی تحفظ مسلمانوں کو اور ان کی تہذیب کو اکثریت اور اس کی تہذیب میں گم ہونے سے نہ بچا سکے گا۔ اس صورت میں ہمارے لیے اپنے نصب العین کا حصول اگر ناممکن نہیں تو نہایت دشوار ضرور ہوجائے گا۔ چنانچہ اسی خطرے کو محسوس کر کے ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۹ء تک مسلسل تین سال ان صفحات میں وہ مضامین لکھے جاتے رہے جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ اوّل و حصہ دوم اور ’مسئلہ قومیت‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان مضامین میں ہم نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ اگر انھوں نے واحد قومیت کا اصول تسلیم کرکے ایک جمہوری لادینی نظام کے قیام کو قبول کرلیا تو یہ ان کے لیے خودکشی کا ہم معنی ہوگا۔
ہمیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ان تین سالوں کے دوران میں مسلمانوں کے اندر کانگریسی نظریے کا زوال اور اپنی جداگانہ قومیت کے احساس کا نشوونما جو کچھ بھی ہو ا، وہ ہماری ان کوششوں کا نتیجہ تھا، مگر اس بات سے شاید ہمارا کوئی مخالف بھی سچائی کے ساتھ انکار نہیں کرسکتا کہ نتیجے کے ظہور میں کچھ ہماری کوششوں کا دخل بھی تھا۔ (’اشارات‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد۱، محرم ۱۳۷۰ھ، نومبر ۱۹۵۰ئ، ص۶-۷)