۱۷مارچ ۲۰۱۲ء کو صدر آصف علی زرداری صاحب نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور پانچویں بار تسلسل کے ساتھ خطاب کو ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا۔ تاریخ کا فیصلہ تو ان شاء اللہ ضرور آئے گا اور تاریخ کا قاضی ہمیشہ بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے، لیکن جس طرح ان چاربرسوں میں صدرزرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عوام کے عطا کردہ اس تاریخی موقعے کو نہ صرف ضائع کیا، بلکہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، اس نے ۶۵سالہ آزادی کے ان چار برسوں کو پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور بنا دیا ہے۔ یہ تقریر قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق اور اپنے اور اپنی قوم کو دھوکا دینے کی بڑی افسوس ناک کوشش ہے۔ بلاشبہہ جناب آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے اپنے اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے لیے سیاسی چالاکیوں اور نمایشی اقدامات (gimmicks)کی فراوانی کے باب میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ہمیں افسوس اور دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بظاہر اس کھیل میں پیپلزپارٹی کی یہ قیادت تو کامیاب رہی ہے لیکن پاکستان اور پاکستانی قوم ہار گئی ہے۔ ملکی زندگی کے ہرشعبے میں بگاڑ اور تباہی کے آثار روزافزوں ہیں لیکن اس قیادت کا حال یہ ہے کہ ع
کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
صدرصاحب کی تقریر کو بار بار پڑھ جایئے لیکن جن کامیابیوں اور فتوحات کا وہ ذکر فرما رہے ہیں زمین پر ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ نہ معلوم صدر صاحب کس دنیا کی باتیں کر رہے ہیں اور کسے یقین دلا رہے ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘۔
اصولی طور پر صدر مملکت کے سالانہ دستوری خطاب کا مرکزی نکتہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا منصفانہ جائز ہوتا ہے، جس میں کامیابیوں اور ناکامیوں اور کوتاہیوں کی بے لاگ نشان دہی کی جاتی ہے اور آیندہ سال کے لیے حکومت کے منصوبوں، نئی پالیسیوں اور خصوصیت سے قانون سازی کے لیے ایک مکمل پروگرام دیا جاتا ہے۔ لیکن زرداری صاحب کی یہ پانچویں تقریر کسی اعتبار سے بھی صدرمملکت کی تقریر نہ تھی___ بس زیادہ سے زیادہ اسے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کی تقریر کہا جاسکتا ہے۔ اس سال کی تقریر میں ایک نئی بات یہ تھی کہ صدرصاحب نے وزیراعظم صاحب کی تعریف و توصیف کی اور ان کی سمجھ داری اور جرأت کو خراجِ تحسین پیش کیا جس کا کوئی تعلق وزیراعظم صاحب کی کارکردگی سے نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ این آر او کیس کے سلسلے میں زرداری صاحب کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے انھوں نے عدالت ِ عالیہ سے محاذآرائی کا جو ڈراما رچایا ہے اور ’شہادت‘ اور کسی متوقع شش ماہی جیل یاترا کے بارے میں جو گوہرافشانیاں وہ فرما رہے ہیں، ان کا صلہ دینے کے لیے زرداری صاحب نے وزیراعظم صاحب پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے کا کام انجام دیا ہے۔
زرداری صاحب نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں اس تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کہی۔ امریکا سے تعلقات جس نازک دور میں ہیں، اس کی بھی کوئی جھلک اس تقریر میں نہیں ملتی۔ افغانستان میں جس طرح امریکا بازی ہارگیا ہے اور پاکستان کو جس طرح وہ نشانہ بنا رہا ہے اس کی مذمت کے لیے، پھر ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، اور ۲مئی اور ۲۶نومبر کے سلالہ کے واقعات___ ان سب پر کچھ کہنے کے لیے ان کے پاس ایک جملہ بھی نہیں ہے۔کشمیر کے مسئلے کو ٹالنے کے لیے ایک جملۂ معترضہ میں اس کا بے جاسا ذکر کیا ہے۔ ڈرون حملوں پر مذمت کا ایک لفظ بھی ارشاد فرمانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے برعکس اپنے کارناموں میں ان باتوں کا اعادہ فرماتے ہیں جو ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں بھی بیان کرچکے ہیں، یعنی این ایف سی اوارڈ (۲۰۰۹ئ) اور اٹھارھویں ترمیم (اپریل ۲۰۱۰ئ)۔ بلوچستان کے سنگین مسئلے کے بارے میں اُسی معافی کی درخواست کا اعادہ کردیا ہے جو تین سال پہلے کرچکے تھے اور اس کے بعد نہ صرف مسئلہ اور بھی سنگین ہوگیا ہے، بلکہ لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشوں کے تحفوں نے مسئلے کے حل کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے اصل قاتلوں کے سلسلے میں بھی ان کی تقریر خاموش ہے۔
اس وقت ملک کا اصل مسئلہ ملک کی آزادی، حاکمیت، عزت و وقار اور نظریاتی شناخت کی حفاظت کا ہے لیکن صدر صاحب کی تقریر میں اس کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ ملک میں لاقانونیت، غربت، بے روزگاری، مہنگائی کا جو طوفان ہے اور توانائی کے بحران نے جس طرح صنعت کے ۶۰،۷۰ فی صد کو مفلوج کردیا ہے، اس کا کوئی اِدراک صدرمملکت کو نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ صدرصاحب اور عوام کے درمیان خلیج اتنی بڑھ گئی ہے کہ انھیں عوام کے مسائل اور مصائب کا کوئی احساس ہی نہیں، اور ان کی نگاہیں اشرافیہ اور مفاد پرست طبقات کی خوش حالی اور شاہ خرچیوںکی چکاچوند سے اتنی خیرہ ہیں کہ ان کو عوام کی زبوں حالی اور کس مپرسی کی کوئی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ وہ معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا ایسا نقشہ کھینچ رہے ہیں اور سرکار کی پالیسیوں کی ایسی حسین تصویرکشی کر رہے ہیں کہ انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا وہ اور عوام ایک ہی پاکستان میں رہتے ہیں؟ یونیسیف کے تازہ ترین سروے کے مطابق آج پاکستان کی آبادی کا ۵۸ فی صد کم غذائیت کا شکار ہے۔ گذشتہ چار برس میں ۲کروڑ۸۰لاکھ افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے گرچکے ہیں۔ اسی طرح شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد ۷کروڑ ۴۰لاکھ ہوگئی ہے لیکن صدرصاحب کا ارشاد ہے کہ: ’’حکومت کی معاشی پالیسیوں کا صرف ایک ہدف تھا: عام آدمی تک فوائد پہنچنے کو یقینی بنانا‘‘۔
صدرصاحب نے معاشی حالات کے بارے میں جو اعداد و شمار دیے ہیں وہ اتنے گمراہ کن ہیں کہ ان کی دیدہ دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ افراطِ زر اور مہنگائی کو ۲۵ فی صد سے کم کرکے ۱۲ فی صد پر لے آیا گیا ہے۔ گویا اسے آدھا کردیا گیا ہے لیکن حقائق کیا ہیں؟ فروری ۲۰۰۸ء میں جب پی پی پی اقتدار میں آئی ہے مہنگائی کی شرح۱۲ فی صد تھی جو ان کے دور کے پہلے چھے مہینوں میں بڑھ کر ۲۵ فی صد ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے بجٹ میں ہدف ۱۰ فی صد سے کم کا رکھا گیا تھا، یعنی زیادہ سے زیادہ ۹ فی صد، لیکن اسٹیٹ بنک کی ۲۰۱۱ء کی سالانہ رپورٹ کی رُو سے سالِ رواں میں افراطِ زر ۵ئ۱۲ فی صد ہوگا۔ اور اگر ان چار برسوں میں واقع ہونے والی مجموعی مہنگائی کو لیا جائے تو وہ ۱۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ان کا دعویٰ ہے کہ ملک کی برآمدات ۲۵ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس اضافے کی وجہ برآمدات میں اضافہ نہیں، عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت میں اضافہ ہے جو ۹۸ سینٹ فی پونڈ سے بڑھ کر دو ڈالر اور ۴۰ سینٹ ہوگئی تھی اور جس کی وجہ سے برآمدات میں ۵ئ۳ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا تھا۔ اب قیمتیں پھر گر گئی ہیں اور گذشتہ تین ماہ میں برآمدات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح مبادلۂ خارجہ کے ذخائر کا دعویٰ بھی ایک مغالطے پر مبنی ہے۔ ۱۸ارب ڈالر کا جو دعویٰ کیا ہے وہ بھی ایک دھوکا ہے۔ یہ صورت حال جون ۲۰۱۱ء کی ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ء میں جب صدرصاحب خطاب فرما رہے تھے یہ ذخائر صرف ۱۶ارب ڈالر ہیں اور ان میں بھی ساڑھے سات ارب ڈالر آئی ایم ایف سے حاصل شدہ قرض ہے جس کی ادایگی اس سہ ماہی سے شروع ہوگئی ہے۔
صدر صاحب نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ جب وہ برسرِاقتدار آئے ہیں ملک پر بیرونی قرضے کا بار ۴۰ ارب ڈالر تھا جو اب بڑھ کر ۶۱ ارب ڈالر ہوگیا ہے، یعنی ۲۱ارب ڈالر کا اضافہ ان چار برسوں میں ہوا ہے۔ اگر ملک کے اندرونی قرضوں کو لیا جائے تو ان میں ۱۰۰ فی صد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں بیرونی اور اندرونی قرضوں کا حجم ۴ہزار۸سو ارب روپے تھا جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۱۰ہزار ۴ سو ارب روپے ہوگیا ہے اور اگر سالِ رواں کے نئے قرضوں کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو قرض کا مجموعی بوجھ ۱۲ہزار ارب روپے کو چھو رہا ہے۔ یہ ہے وہ خطرناک معاشی دلدل جس میں اس قیادت نے ملک کو پھنسا دیا ہے۔
صدرصاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دور میں بجلی کی پیداوار میں ۳۳۰۰ میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صریح مغالطے پر مبنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فی الحقیقت اتنا اضافہ ہواہے تو پھر بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوں ہورہی ہے؟ بجلی کی پیداواری صلاحیت تو کسی وقت بھی کم نہیں تھی۔ ملک ۱۹ہزار میگاواٹ پیدا کرسکتا ہے مگر عملاً پیداوار ۱۰ سے ۱۲ہزار میگاواٹ کے درمیان ہورہی ہے، جو کچھ مواقع پر ۸ اور ۹ہزار میگاواٹ تک گرچکی ہے۔ اس کی اصل وجہ بدانتظامی اور کرپشن ہے۔ گردشی قرض بھی اس کی ایک وجہ ہے جسے چاربرس میں بھی ختم نہیں کیا جاسکا ہے، اور اس سال بھی یہ ۳۰۰؍ارب روپے سے متجاوز ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ حکومت کی شاہ خرچیوں اور مصارف کا آمدن سے کہیں زیادہ ہونا ہے، جس کے نتیجے میں مالی خسارہ بڑھ رہا ہے جس کے لیے قرضے لیے جارہے ہیں اور نوٹ چھاپے جارہے ہیں۔ اب صرف سود کی مد میں سالانہ ایک ہزار ارب روپے ادا کرنے پر نوبت آگئی ہے جو دفاع اور ترقیاتی بجٹ دونوں کے مجموعے سے بھی زیادہ ہے۔
یہ ساری چیزیں نہ صدرصاحب کو نظرآرہی ہیں اور نہ ان کی تقریر میں ان مسائل اور چیلنجوں کے حل کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی پایا جاتا ہے۔ اس تقریر میں حقائق سے اغماض اور جھوٹے دعوئوں اور خوش فہمیوں کی بہتات کے سوا کچھ نہیں۔ جب ملک کی قیادت حقائق سے آنکھیں بند کرلے اور خیالی دنیا میں مگن ہو تو اصلاحِ احوال کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حالات کو سنبھالنے کا اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا کہ جلد از جلد نئے، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے، تاکہ قوم دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو زمامِ کار سونپ سکے جو پوری قوم کو اعتماد میں لے کر اور ان کے دُکھ درد کے پورے احساس کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ ان کی مشکلات کو اپنی مشکلات بناکر زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح اور تعمیرِنو کا کام انجام دے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، کمی دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی ہے، جو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کے مفاد میں کام کرے، جو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر قوم کو مشکلات سے نکالے اور جو سیاست کو عبادت کے جذبے سے انجام دے___ عوام میں سے ہو، عوام کے دکھ درد میں شریک ہو، عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اوردستور ، قانون اور اخلاقی اقدار کے فریم ورک میں اچھی حکمرانی کے ذریعے، پاکستان کی اس کی اس منزل کی طرف پیش قدمی یقینی بنائے جس کے لیے اقبال کے وژن اور قائداعظم کی قیادت میں برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی اور جسے تین لفظوں میں اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست اور معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔
جناب چیئرمین! میرے لیے آج کا دن غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس معزز ایوان میں ۱۲ مارچ ۱۹۸۵ء کو میں نے قدم رکھا اور چیئرمین صاحب کے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں نے کی اور آج میں الوداعی خطاب کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، جماعت اسلامی کی تائید اور آپ حضرات کے تعاون سے میں نے اس ایوان میں ۲۱ سال گزارے ۔ یہ دور ایسا ہے کہ جس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتا کیونکہ یہ میری زندگی کے بڑے فیصلہ کن سال رہے ہیں۔ وسیم سجاد صاحب کے ساتھ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم اس ایوان کے سب سے زیادہ لمبی مدت تک خدمت انجام دینے والے رکن ہیں۔ اس کی یادیں ہمیشہ رہیں گی اور میں ہمیشہ اس ایوان کے مضبوط تر، مؤثر ہونے اور پاکستان کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے دعا گو رہوں گا۔
جنا ب والا! میں اپنے فرض میں کوتاہی کروں گا اگر سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا نہ کروں ۔ ہر چیئر مین نے اپنے اپنے اندازمیں اس ایوان کو چلانے کی کوشش کی ہے لیکن میری نگاہ میں آپ کا ایک قابل قدر کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے لیاقت کے ساتھ دستور، قانون اور ضوابط کی پابندی کا اہتمام کیاہے، تو دوسری طرف (جو سب سے مشکل کام تھا) ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی کے باوجود آپ نے اس منصب کے تقدس کا پاس کیا اور اس کے کام کو چلانے میں آپ نے توازن، اعتدال ، افہام وتفہیم اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا مظاہرہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ اچھی مثال قائم کی ہے۔ میں آنے والے چیئرمین صاحب سے بھی بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ وہ اس روایت کو قائم رکھیں۔ یہ جمہوریت کی جان ہے اور اس ایوان کی عزت، تقدس اور حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ میں کھلے دل سے آپ کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور آپ کے لیے اپنی نیک دعائیں پیش کرتا ہوں۔ اس موقعے پر ڈپٹی چیئرمین جناب جان جمالی صاحب کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ انھوں نے آپ کی عدم موجودگی میں ایوان کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اور شگفتہ اندا ز میں چلایا اور تمام معاملات کو انجام دینے میں مثبت کردار ادا کیا۔
سینیٹ کا عملہ بھی ہمارے شکریے اور مبارک باد کا مستحق ہے، خصوصیت سے راجا محمدامین صاحب اور ہمارے سیکرٹری افتخار اللہ بابر صاحب، ان کے معاونین محبوب صاحب، انور صاحب اور وہ دوسرے تمام افراد جو اس ایوان کو چلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر میں ان افراد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو سٹیج پر تو نہیں بیٹھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی خدمات بڑی گراں قدرہیں، حالانکہ وہ خود گمنامی میں ہیں مگر ان کی وجہ سے ہم سب اپنا اپنا کام مؤ ثر اندا ز میں ادا کرسکے ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے اخباری رپورٹرز حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے ہماری تقاریر کو محفوظ کیا ہے۔ انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے گو، ابھی مزید بہتری کی گنجایش اور ضرورت ہے لیکن بہر حال میں ان کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرتا ہوں۔ اسی طرح میں سینیٹ کے تمام نائب قاصدوں اور محافظ حضرات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ نیز پریس، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے متعلق تمام افراد کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں جنھوں نے ہماری بات کو قوم تک پہنچانے میں نمایاں کردار اد اکیا۔
___ اس سلسلے کی اہم ترین چیز سینیٹ قواعد کی از سر نو تدوین اور ترتیب ہے۔ یہ کام ملک کی آزادی کے فوراً بعدہونا چاہیے تھا مگر کسی نے اس کی فکر نہ کی۔ یہ سینیٹ تھا جس نے میری تحریک پر اس کام کا آغاز کیا اور ۱۹۸۸ء میں ایسے قواعد و ضوابط مرتب اور نافذ کیے جو اس ایوان کی کارکردگی کو دستور کے تقاضوں کے مطابق مؤثر انداز میں انجام دینے میں ممدو معاون ہوں۔
___ دوسرا بڑا اہم کام ملک کی تاریخ میں پہلی بارپارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں شعبۂ تحقیق (Research Departmnet)قائم کرنے سے متعلق ہے۔ الحمدللہ اس شعبے کے قیام کی تجویز بھی میں نے دی تھی اور اس کے قیام کے بعد، اس کی نگرانی میں بھی چیئرمین سینیٹ اور دوسرے رفقاے کار کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی تقریباً اسی انداز میں یہ دونوں کام کیے، یعنی قواعدِکار کی تشکیلِ نو اور تحقیقی شعبے کا قیام۔ گو،سینیٹ میں ابھی ارکان کے لیے تحقیق اور معاونت کی وہ سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیںجو ان کا حق ہے لیکن اس سمت میں آغاز کار ہوگیا ہے۔مجھے خوشی ہے سینیٹ میں قومی اسمبلی کے مقابلے میں ارکان کی تعدادایک تہائی سے بھی کم ہے لیکن سینیٹ کے شعبۂ تحقیق میں اس وقت ۱۱؍افراد کام کر رہے ہیں، جب کہ قومی اسمبلی میں یہ تعداد صرف نو ہے۔
___ اسی طرح میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سینیٹ نے اپنے گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین کی ضرورت کے وقت مدد کے لیے اسٹاف ویلفیئر فنڈ قائم کیا جو ایک نیا تصور ہے۔میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کے آغاز کی تجویز و تحریک کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی۔ اس کے نتیجے کے طور پر گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین میں سے ایک بڑی تعداد کو ہر سال ۳۰،۴۰ لاکھ روپے کی مدد مل رہی ہے۔ میں اس وقت خاص طور پر سینیٹ کے آنے والے اراکین سے درخواست کروں گا کہ اس ادارے کو مضبوط اورمزید مستحکم کریں اور اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں۔ یہ بڑی روشن روایت ہے جو ہم نے قائم کی ہے۔ اس کو جاری رکھنا ضروری ہے۔
___ اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ہمیں یہ بات بھی اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ سینیٹ نے ان ۲۰ سالوں میں خود اس ادارے کے وقار اور کارکردگی کو بڑھانے میں مفید خدمات انجام دی ہیں۔ بلاشبہہ یہ کام خواہ سُست رفتاری ہی سے ہواہو، لیکن اس سلسلے میں ہمارے قدم آگے ہی بڑھے ہیں۔ جب ۱۹۷۳ء میں سینیٹ قائم ہوا تو اس کے ارکان کی تعداد صرف ۶۳تھی۔ اس کے بعد اس میں ٹیکنو کریٹس کا اضافہ ہوا، خواتین کا اضافہ ہوا، غیر مسلموں کا اضافہ ہوا جس سے یہ تعداد بڑھی اور آج ہماری تعداد ۱۰۴ ہے۔ بات صرف تعداد کی نہیں، اس سے بھی اہم چیز اس ادارے کو فیڈریشن کے ایوان بالا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات حاصل ہونے چاہییں، ان کے حصول کے لیے بھی ہم نے برابر کوشش کی اور آج سینیٹ کئی اعتبار سے زیادہ بااختیار اور زیادہ متحرک ادارہ ہے۔
مثال کے طور پراگر آپ اختیارات کو دیکھیں تو جس وقت یہ قائم ہوا، اس وقت بالکل لولا لنگڑا سینیٹ تھا اور اس کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن آٹھویں ترمیم اور، اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے سے ہم نے بڑی منظم کوشش کی ہے کہ سینیٹ کے کردار کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکے اور آہستہ آہستہ اس کے قدم آگے بڑھے ہیں، لیکن ابھی بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ اس لیے میں آج یہ بات کہنا چاہتا ہوں اور خاص طور پر جو ارکان اب اس ایوان میں شامل ہورہے ہیں، میں ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی سینیٹ کو وہ مقام نہیں ملا ہے جو ایک فیڈریشن کے پورے نظام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے ضروری ہے۔
___ اس سلسلے میں دو تین چیزیں بڑی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ سینیٹ کو وہی پوزیشن حاصل ہونی چاہیے جو قومی اسمبلی کی ہے، اور یہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک سینیٹ کے ممبران کاانتخاب بالغ راے وہی کی بنیاد پر عوام کے بلاواسطہ ووٹوں سے نہ ہو ۔ میں نے جتنا بھی غور کیا، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلاواسطہ انتخاب کے بغیر سینیٹ فیڈریشن کی حفاظت کا وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جس کے بغیر فیڈریشن مکمل نہیں ہوتی۔ البتہ میں اس راے کا سختی سے قائل ہوں کہ یہ انتخاب متناسب نمایندگی کی بنیادوں پر ہونا چاہیے تاکہ تمام سیاسی قوتوں کواس ایوان میں ان کی عوامی تائید کے تناسب سے نمایندگی مل سکے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جہاں ہم سینیٹ کے بلاواسطہ انتخاب کو ضروری سمجھتے ہیں، وہیں طریقہ انتخاب کے لیے بھی متناسب نمایندگی کے اصول پر اصرار کرتے ہیں تاکہ اس میں تمام نقطہ ہاے نظر اپنا اپنا مقام حاصل کر سکیں۔ یہ ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔ اس کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔
اس موقعے پر میں یہ اعتراف بھی کرناچاہتا ہوں کہ موجودہ طریقۂ انتخاب میں روپے پیسے کا چلنا ، سیاسی جوڑ توڑ اور مقتدر اداروں اور افراد کے کردار سے جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ اس ادارے کے دامن پر ایک بڑا ہی بدنما دھبا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں بھاری اکثریت کا دامن پاک ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں کچھ مقامات پر یہ گندپھیلایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مقتدر ادارے پر لوگوں کے اعتماد کو بڑی ٹھیس لگی ہے۔ وجہ واضح ہے کہ اگر دیگ کے چند چاول بھی زہر آلودہوں تو اس سے سارا پکوان متاثرہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمارا دستوری کردار مؤثر ہونا چاہیے اور ہماری اخلاقی پوزیشن بھی مستحکم اور بے داغ ہونی چاہیے۔مستقبل میں دونوں پہلو ئوں سے اصلاح فیڈریشن کو اور اس ملک کو مضبوط کرنے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے معاون ہوں گی۔
___ سینیٹ اور قومی اسمبلی عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کاایک ادارہ ہے۔ یہ قوم کی زبان ہے، اس لیے قرادادوں ، توجہ دلائو نوٹس اور وقت کے مسائل پر آواز اٹھانا ایک کار منصبی ہے۔ اس کے لیے ہم نے ضوابط کار میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور اب قراردادوں کے علاوہ صفر گھنٹہ (Zero Hour) کااضافہ کیا ہے جو ایک مفیدتبدیلی ہے۔ اس طرح ارکان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ہر روز issues of the day(آج کے مسائل)کو اٹھا سکیں۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے اور عوام کے جذبات کے اظہار کے لیے بہت ضروری ہے۔، ساتھ ہی آپ کو معلوم ہے کہ تحریکِ التوا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام کی مشکلات ، ان کے مسائل کو ایوان میں لایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلوسے سینیٹ نے بڑی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ اگر آپ تحریکِ التوا کی تعداد لے لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس اعتبار سے ہم نے کیا کردار ادا کیاہے۔اوسطاً ۱۸۰۰ سے ۲۰۰۰ تک التوا کی تحریکیں ہر سال آتی رہی ہیں اور مجھے اور جماعت اسلامی کے دوسرے ارکان کو بھی سعادت حاصل رہی کہ ان میں تقریباً ۲۰فی صد، یعنی ۱۰۰سے زیادہ تحریکیں ہم نے پیش کی ہیں۔
___تیسری چیز پالیسی سازی میں کردار ہے۔ بلاشبہہ پالیسی بنانااور اس کی تنفیذ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن صحیح پالیسی کی نشان دہی میں سینیٹ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں بھی پارلیمنٹ کے سامنے بنیادی پالیسیوں کو پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ نے اپنا کردارقرارِ واقعی ادا نہیں کیا ۔ یہ بات ریکارڈ پر لاتے ہوئے ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ ریاستی پالیسی کے رہنما اصول کے بارے میںدستور جولازم کرتا ہے کہ ہر سال اس کی رپورٹ آئے، پہلے قومی اسمبلی اور اب دونوں ایوانوں میں ، لیکن یہ خانہ برسوںسے خالی رہا ہے اور کسی نے بھی اس کی فکر نہیں کی۔ سینیٹ نے اس مسئلے کو اُٹھایا ہے اور اس سال پہلی بار حکومت نے مجبور ہو کر نئے سال کی رپورٹ اس ایوان میں پیش کی ہے۔ پہلے یہ نہیں آیا کرتی تھی۔ جناب چیئرمین! اس سلسلے میں آپ کا بھی کردار ہے کہ ہمارے مسئلہ اٹھانے پر آپ نے اصرار کیا اور اب وہ رپورٹیں آرہی ہیں۔ اس طرح سینیٹ پالیسی سازی میں بھی بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔
___ پارلیمنٹ کا چوتھا کردار میری نگاہ میں بہت ہی اہم ہے اور وہ انتظامیہ (executive) پر نگرانی (oversight)اور ان کی جواب دہی (accountability) ہے۔ یہ عمل ماضی میں بہت کمزور اور غیر مؤ ثر تھا۔ لیکن اس سینیٹ نے کمیٹی سسٹم کو مؤثر بنا کر انتظامیہ کے محاسبے کومضبوط کیاہے۔ جناب والا! کمیٹی سسٹم کے بارے میں آپ کو یاددلائوں گا کہ ہم نے سینیٹ کی کمیٹیوں کو اپنے صدر کو منتخب کرنے کا اختیار دیا، جب کہ ماضی میں متعلقہ وزیر صدر ہوتا تھا اور اس طرح احتساب ناممکن ہوگیا تھا۔ پھر کمیٹیوں کو از خود مسائل پر کارروائی کرنے کا اختیار دیا اور انھیں معلومات حاصل کرنے کے لیے با اختیار بنایا گیا ۔ یہ ایک تاریخی تبدیلی اور اضافہ (historic innovation) ہے، یعنی مجالسِ قائمہ سے آگے بڑھ کر Functional Committees (مجالسِ عمل درآمد)کا تصور بھی متعارف کیا۔ فنکشنل کمیٹی کا تصور یہ ہے کہ وہ مسائل کی بنیاد پر قائم کی گئی ہیں، اور ان میںجن معاملات کے لیے کمیٹیاں قائم کیںان میں بنیادی حقوق کا مسئلہ ،کم ترقی یافتہ علاقوں کے مسائل اور حکومت کے اعلانات اور وعدوں کے فالواَپ کے کاموں کو اہمیت دی۔ اس طرح انسانی حقوق، کم ترقی یافتہ علاقوں اور انتظامیہ کے احتساب اور عوامی مسائل پر توجہ کو مرکوز کرنے اور ضروری سفاشات مرتب کرنے کا کام شروع کیا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان چاروں وظائف کو سامنے رکھ کر ہمیں سینیٹ کی کارکردگی اور اس کے کردار کے ارتقا کو دیکھنا چاہیے۔ میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جہاں اس پہلو سے سینیٹ نے میری نگاہ میں بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے، وہیں چند مسائل ایسے ہیں جو میں اپنے اس الوداعی خطاب میں چاہتا ہوں کہ ریکارڈ پر بھی آجائیں اور آنے والے سینیٹ کے ارکان بھی اس کی فکر کر سکیں ۔
جناب والا! دوسری بات جس کا آپ نے بھی نوٹس لیا اور ہمیں بھی اس کو بار باراٹھانا پڑا وہ وزرا حضرات کی عدم دل چسپی ہے۔ دستوری اعتبار سے پوری کابینہ بشمول وزیر اعظم سینیٹ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس باب میں لا پروائی اور سہل انگاری کارویہ کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ ہم نے آیندہ کے لیے اپنے قواعد میں یہ بھی ایک بہت اہم نیا اضافہ کیا ہے کہ وزیراعظم سینیٹ میں آئیں اور وقت دیں۔ PILDAT کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف ۲۵منٹ کے لیے اس ایوانِ بالا میںتشریف لائے۔ ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء میں یہ ۲۵منٹ بھی کم ہو کر ۱۵منٹ رہ گئے ہیں۔ یہ شرمناک بات ہے۔میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو اُٹھائیں کیونکہ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ قانون سازی کے باب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تین سال میں سینیٹ میں کل آٹھ قوانین پیش ہوئے ہیں اور کل ۴۹ قوانین ایسے ہیں جو یہاں سے منظور ہوئے ہیں۔جب میں اس کا بھارت کی راجیہ سبھا سے موازنہ کرتا ہوں تو راجیہ سبھا میں ان تین برسوں کے اندر ۱۳۲قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ امریکا میں قانون سازی کی سالانہ اوسط ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہمار ے ہاں قانون سازی اب بھی بہت پیچھے ہے اور آرڈی ننس اب بھی جاری ہو رہے ہیں۔ گو، اس پر دستورکی۱۸ویں ترمیم کے ذریعے پابندیاں لگادی گئیں ہیں لیکن آیندہ سینیٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میدان میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔
اس کے بعد تحاریک استحقاق کا مسئلہ ہے۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ زمرہ ہے جس میں برابر اضافہ ہواہے، یعنی۲۰۰۸ئ-۲۰۰۹ء میں استحقاق کی تحریکوں کی تعداد ۲۵تھی۔ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں یہ تعداد ۳۱ ہوگئی اور ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء تو معلوم ہوتا ہے کہ استحقاق کی تحریکوں کے لیے فصل بہار کا درجہ رکھتا ہے۔ اس سال ۶۱تحریکات ایوان میں پیش ہوئیں لیکن ان میں سے بیش تر کا تعلق چھوٹے چھوٹے ذاتی مسائل سے تھا۔ قومی اور اصولی معاملات پر بمشکل چار یا پانچ قراردادیں تھیں۔ اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریکِ التوا اور توجہ دلائو نوٹس کے بارے میںایک خاص پہلو کی طرف مَیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۹۳توجہ دلائو نوٹس سینیٹ نے وصول کیے لیکن ۹۳میں سے صرف آٹھ پر ایوان میں گفتگو ہوسکی۔۲۰۱۰ئ- ۲۰۱۱ء میں ۱۰۲توجہ دلائو نوٹس آئے لیکن صرف تین پر بحث ہوسکی۔ ایوان میں زیر بحث آنے والی تحاریک کے بارے میں ہماری یہ کارکردگی کوئی اچھی مثال پیش نہیں کررہی۔
تحریکات التوا کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۱۸۲ایسی تحریکیں ارکان کی طرف سے داخل ہوئیں لیکن ان میں سے صرف ۱۱؍ایوان میں بحث کے لیے منظور ہوسکیں اور ان ۱۱ میں سے بھی صرف تین پر بحث کی گئی ۔ یہی کیفیت تقریباً ہر سال رہی ہے جو نہایت تشویش ناک صورت حال کی غمازی کرتی ہے ۔
اس موقعے پر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت بھی جو ہمارا نامکمل ایجنڈا ہے اس میںصرف تحاریکِ التوا کے سلسلے کی ۱۷تحریکیںبحث کے لیے ایجنڈے میں ہونے کے باوجود ایوان میں بحث سے محروم ہیں۔ان پر آج تک کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ان میں سے چھے ایسی ہیں جن میں ، میں خود اور جماعت اسلامی کے میرے دوسرے ساتھی تجویز کنندہ ہیں۔ قواعد کے مطابق اب وہ ختم ہوجائیں گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس موقعے پر آپ لوگوں کو یہ یاد دلائوں کہ یہ کام کرنے کے ہیں۔ سینیٹ فقط مجلسِ مباحثہ (debating society)نہیں ہے۔ ہمیں ان چاروں ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے جو دستور اور جمہوری روایات کی روشنی میں ہمارے سپرد ہیں۔اس لیے زیرالتوا کام پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد میں نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ صرف مختصر نکات کی شکل میں ان امور کی نشان دہی کروں گا جو میری نگاہ میں اس وقت سینیٹ، پارلیمنٹ ، حکومت اورقوم کے سامنے سب سے اہم مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بات اسی پر ختم کروں کہ ان مسائل کی طرف توجہ دینا اصل چیلنج ہے اور اس میں اگر ہم نے کوتاہی برتی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
آزادی اور نظریاتی شناخت کے بعد ملک کی اخلاقی قوت کی حفاظت اور ترقی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اخلاقی حالت کو بہتر کرنا اور یہ دیکھنا کہ ہم کہاں تک خیر اور شر کے درمیان فرق کر رہے ہیں، یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ مسلمان اور غیر مسلم میں یہ فرق نہیں ہے کہ ان کی شکل ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ وہی دو آنکھیں ، وہی دوکان ، وہی ایک ناک، وہی ایک زبان اور وہی دودو ہاتھ پائوں___ پھر فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ مسلمان ایک اخلاقی معیار کو شعوری طور پر قبول کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے آخری سانس تک ان اخلاقی اقدار کی پاس داری کروں گا۔ اگر ہم ان اقدار کی پاس داری نہیں کر رہے ہیں تو ہم دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ جناب والا! یہی وجہ ہے کہ دوسرے مسائل کی طرف آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو جس طرف متوجہ کروں گا، وہ ملک کی اخلاقی اصلاح اور تعمیر ہے۔
اگلا مسئلہ کرپشن کا ہے جس کے بارے میں میرے دوسرے ساتھیوں نے بھی کہا ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جا رہا ہوں لیکن یہ ایک سرطان کی طرح قومی معیشت کو کھارہی ہے۔ صرف گذشتہ چار برسوں میں ۸ہزار۶سو ارب کا نقصان اس کی وجہ سے ہوا ہے ۔ یہ ایک بڑا ہی سنگین مسئلہ ہے۔ پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری بقا کے لیے دو چیزوں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ غذا صاف اور خالص میسر آئے، اور دوسرے توانائی کی ضروریات پوری ہوں۔ یہ دونوں اس وقت مفقودہیں۔اس کے لیے فوری طور پرمنصوبہ بندی اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
آخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے گذشتہ تین سالوں میں کئی اہم قوانین اس ایوان میں پیش کیے ہیں جو ا بھی منظور نہیں ہوئے ہیں، ان میں لاپتا افراد کے بارے میں دستوری ترمیم، مہنگائی کے مسئلے پر قانون ، صحافیوںکے حقوق کا قانون، بے روزگار اور معذور افراد کی مدد کرنے کا قانون اور مہنگائی پر کنٹرول کا مسئلہ جیسے قانون زیادہ اہم ہیں۔ یہ پانچ چھے قوانین بل کی صورت میں اس وقت زیر غور ہیں۔ ان کو جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے پیش کیاہے۔ ان میں سے ایک جس کا تعلق صحافیوں سے ہے اس کومسلم لیگ کے ساتھیوں نے co-sponsorکیا ہے وہ جاری رہے گا۔ میرے علم کی حد تک پارلیمانی روایات یہ ہیں کہ ایک مرتبہ جو مسودۂ قانون ایوان میں زیر غور آجائے وہ ایوان کی ملکیت ہے۔ قانون تجویز کرنے والے ممبراگر ممبر نہ بھی رہیں تب بھی ایوان کا فرض ہے کہ وہ اس پر غور کرے، اسے قبول کرے یا رد کرے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اس ایوان کے دوسرے ارکان ان تمام قوانین کےco-sponsorبن جائیں تاکہ یہ قوانین معلق نہ رہیں اور جلد ازجلد کتابِ قانون کا حصہ بن جائیں ۔
آخر میں، میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے جس احساس کا اظہار کرناچاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تین دن کی اس پوری بحث کو سنتا رہا ہوں اور پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہوکر میرے معزز بھائیوں اور بہنوں نے جس طرح میرا ذکر کیا ہے، اس کے لیے جہاں مَیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہیں اس حقیقت کا بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی فراخ دلی اپنی جگہ لیکن میرا دیانت دارانہ احساس یہ ہے کہ میں حق ادا نہیں کرسکا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جو بھی کوتاہی اس پورے دور میں میری طرف سے رہی ہو ، یا میرے کسی بھی ساتھی کو خواہ اس کا تعلق انتظامیہ سے ہو یا اراکین سے، اگر میری کسی بات سے کبھی کوئی دکھ پہنچا ہو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ میری نیت کبھی نہیں تھی اور میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔ اگر میری وجہ سے انھیں کوئی تکلیف پہنچی ہو تو یقین ہے کہ وہ مجھے معاف کردیں گے۔
آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان مشکلات اور خرابیوں کے باوجود الحمدللہ پاکستان جمہوریت کی طرف گامزن ہے اور میں پاکستان اور خود اس ایوان کے مستقبل کے بارے میں بہت پُراُمید ہوں۔ جہاں حالات کا حقیقت پسند انہ جائزہ ضروری ہے تاکہ ہم کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، وہیں دوسری طرف اُمید رکھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے، اور تاریخ کا پیغام ہے کہ انسانوں کی کوششیں بالآخر ثمربار ہوتی ہیں۔ اس لیے اپنی تقریر کو اس احساس کے اظہار پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ:
یوں اہل توکل کی بسر ہوتی ہے
ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
شکریہ ،و آخردعوانا ان الحمدللّہ رب العالمین!
جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین اراکینِ سینیٹ پروفیسر خورشیداحمد، پروفیسر محمد ابراہیم اور محترمہ عافیہ ضیا صاحبہ قومی ، بین الاقوامی، دینی اور عوامی ایشوز پر سینیٹ میں اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر پروفیسر خورشیداحمد نے۱۱مارچ ۲۰۱۲ء کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعت اسلامی کے اراکین سینیٹ کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا۔
وفاقی حکومت یوٹیلٹی سٹوروں میں مختلف اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں معذور افراد کے لیے ۳۰ فی صد کی خصوصی چھوٹ فراہم کر ے گی۔ حکومت ہوائی اڈوں، پارکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر عوامی مقامات پر معذور افراد کے لیے وہیل چیئرز کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ حکومت پاکستان بیت المال اور زکوٰۃ اور عشر کے محکموں میں معذور اور محتاج افراد کو ماہانہ بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی بھی پابند ہوگی۔ اس کے علاوہ معذور افراد کے بچوں کی شادی پر انھیں مبلغ ایک لاکھ روپے کی رقم بطور خصوصی امداد فراہم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ معذور افراد کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے کے لیے مبلغ ۵۰ہزار روپے کے بلاسود قرضے کی فراہمی کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
اس بل میں ایسے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر ٹکنالوجی کے ذریعے معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے جو نابینا، بہرے اور جسمانی معذور افراد کے لیے ایک عام سہولت کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ ٹیوب ویل آپریٹر، دفتر شکایات جیسے محکموں اور یوٹیلٹی بلوں: گیس، بجلی اور محکمہ پانی جیسے محکموں میں حکومت کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایسے تمام اداروں میں معذور افراد کے تقرر کو ترجیح دی جائے۔ کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا نجی ادارے، کمپنی میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے تمام معذور افراد کو اس بل کی منظوری کے چھے ماہ کے اندر اندر مستقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ۷۰سال سے زائد عمر کے سول و فوجی پنشنروں کی حالت ِ زار پر تحاریک جمع کرائی گئیں۔
وزیراعظم کی طرف سے تیل کی قیمت میں اضافے کو عوامی دبائو کے تحت واپس لینے کے فیصلے پر امریکی اہل کاروں کی تنقید، پی آئی اے کی طرف سے ترکش ایئرلائن کے ساتھ کیا گیا معاہدہ، ریمنڈڈیوس کی رہائی کے خلاف، مستونگ میں ایران جانے والے زائرین کو بس سے اُتار کر قتل کیے جانے کے خلاف، کے ای ایس سی انتظامیہ کی طرف سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کے خلاف، وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاپان حکومت کو قرض کے لیے معاہدات کی مطلوبہ قانونی ضرورت کی بروقت تیاری نہ کرنے کا معاملہ، صوبہ پنجاب میں گیس لوڈشیڈنگ کے باعث صوبے بھر میں صنعتی یونٹس کی بندش، ووٹرلسٹوں میں ۴۵فی صد سے زائد بوگس ووٹ، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر میں تاخیر، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے ۱۹۹۹ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک نکالے گئے ملازمین، تحصیل پھالیہ کے یونین کونسل چک جانوکلاں کے دیہات میں کسانوں کے رقبے پر سائنس ایویلوایشن ڈویژن نیوکلیئر پاور پراجیکٹ لگانے کے منصوبے پر مبنی مسائل اُٹھائے گئے۔ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانے کے لیے کیے گئے اقدامات، بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور ان کے ایجنڈے کو زیربحث لانے اور آئوٹ آف ٹرن مکانات کی الاٹمنٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ، آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز کوارڈی نیشن کونسل کے مطالبات، نیب کے نئے چیئرمین فصیح بخاری کا تقرر، نئے پاور پراجیکٹس کے حوالے سے نیپرا کی کارکردگی کو زیربحث لانے، سندھ میں سیلاب کی وجہ سے متاثرین کی مشکلات اور حکومت کا رویہ، وفاقی محتسب کے عہدے کا طویل عرصہ تک خالی رہنا، نارنگ منڈی میں نادرا سوئفٹ سنٹر کا قیام، مختلف فوڈ آئٹمز میں سُور کی چربی کے اجزا کی آمیزش، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن شدید مالی مشکلات سے دوچار، آئیسکو کا غیرقانونی طور پر بجلی صارفین سے خفیہ چارجز کی مد میں اربوں روپے کی وصولی، پی آئی اے انتظامیہ کی طرف سے سپیئرپارٹس کی سپلائی کے لیے کنٹریکٹ میں پبلک پروکیورمنٹ رولز ۲۰۰۴ء کی خلاف ورزی و دیگر مسائل کو اُٹھایا گیا۔
پلڈاٹ (PILDAT) (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency) کے مطابق جماعت اسلامی کے سینیٹروں کی کارکردگی بے حد نمایاں رہی۔ ان تین برسوں میں کُل۳۷ تحاریکِ التوا پیش کی گئیں جن میں سے ۲۶ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیں۔ کُل ۲۷نجی بل پیش کیے گئے جن میں سے ۸ جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے پیش کیے۔ صرف ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء میں ۱۰۶ توجہ دلائو نوٹسوں میں سے ۷۳ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیے۔ (اسکورکارڈ، ۲۰۰۸-۲۰۱۱ئ، پلڈاٹ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن یا ایک رات گھر سے نکلے تو دیکھا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ بھی اپنے گھروں سے باہرنکلے ہوئے ہیں۔آپؐ نے دونوں سے پوچھا: اس وقت اپنے گھروں سے باہر کیسے نکلے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐاللہ! بھوک کی وجہ سے باہر نکلے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں بھی بھوک کے سبب نکلا ہوں۔ اچھا، تو آئو چلتے ہیں۔ وہ آپؐ کے ساتھ چل پڑے۔ آپؐ ایک انصاری صحابیؓ کے گھر تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔ جب ان کی بیوی نے آپؐ کو دیکھا تو آپؐ کا اھلًا مرحبا کے کلمات سے استقبال کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: فلاں آدمی (آپ کا شوہر) کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا: وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے۔ اتنے میں وہ انصاری بھی آگئے۔ انھوں نے رسولؐ اللہ اور آپؐ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھ کر الحمدللہ کہا، اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا: آج کے دن کوئی بھی ایسا میزبان نہیں ہے جو مجھ سے زیادہ مکرم و معزز ہو۔
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ یہ کہہ کر وہ باغ میں چلے گئے۔ کھجوروں کا ایک بڑا خوشہ لے کر آگئے جس میں مختلف قسم کی کھجوریں تھیں۔ خوشہ آپؐ کے سامنے رکھا اور عرض کیا: اس سے کھجوریں تناول فرمائیں۔ پھر چھری پکڑی تاکہ بکری ذبح کرکے گوشت تیار کریں اور وہ بھی آپؐ کی خدمت میں پیش کریں۔ آپؐ نے ان کے ارادے کو بھانپ کر فرمایا: دودھ دینے والی بکری نہ ذبح کرنا۔ وہ گوشت بھی تیار کر کے لے آئے۔ آپؐ نے کھجوریں اور گوشت کھایا اور ٹھنڈا میٹھا پانی پیا۔ جب کھانے اور پانی سے سیر ہوگئے تو ابوبکرؓ اور عمرؓ سے فرمایا: قیامت کے روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم بھوکے نکلے تھے، پھر اس حال میں اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہو کہ ان نعمتوں سے سیر ہوگئے۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب الضیافۃ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی زندگی بسر کی، اس کا ایک نمونہ اس حدیث سے سامنے آتا ہے۔ ۷ہجری میں حضرت ابوہریرہؓ مسلمان ہوئے ہیں، یہ واقعہ اس کے بعد کا ہے۔ فتوحات بھی ملیں، خیبر بھی فتح ہوا، یہودیوں کی زمینیں بھی قبضے میں آئیں، کھجوروں کے باغات بھی آپ کو مل گئے لیکن اس کے باوجود گھروں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ بعض اوقات کھانے کے لیے کچھ بھی نہ ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کا عموماً یہی حال تھا، اس لیے کہ قبضے میں آنے والے خزانے اپنے گھروں میں جمع کرنے کے بجاے فقرا و مساکین اور مسافروں میں تقسیم کردیے جاتے تھے۔ یہ ہے وہ حکومت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی۔ کاش! آج کے مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو اپنے پیش نظر رکھ کر ایسی حکومت قائم کریں جو حکومت کے خزانوں سے حاجت مند مسلمانوں اور شہریوں کی ضروریات پوری کریں۔
o
حضرت اُمیمہ بنت رقیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اور چند عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، تو آپؐ نے فرمایا: یوں کہو کہ ہم اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق اطاعت کریں گی۔ اس پر میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولؐ ہم پر ہمارے نفسوں سے بڑھ کر مہربان ہیں۔ ہم نے درخواست کی کہ یارسولؐ اللہ! ہم سے مبارک ہاتھ سے مصافحہ کر کے بیعت لیں تو آپؐ نے فرمایا: میں عورتوں کے ساتھ مصافحہ نہیں کرتا، بلکہ زبانی بیعت لیتا ہوں اور ایک سو عورتوں سے بھی اسی طرح بیک وقت چند زبانی کلمات سے بیعت لیتا ہوں جس طرح ایک عورت سے۔(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ باب الصلح)
دین اسلام آسان دین ہے اور انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس کی استطاعت ہمارے اندر نہ ہو۔ خواتین کو بھی وہی احکام دیے ہیں جن پر وہ آسانی سے عمل کرسکتی ہیں اور جہاں انھیں مشکلات پیش آسکتی ہوں وہاں انھیں استثنا دیا گیا ہے، مثلاً حدود و قصاص کے معاملات میں عورتوںپر گواہی کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ عورتوں کے ساتھ مردوں کا مصافحہ کرنا مغربی کلچر ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی طیب و طاہر معصوم ذات اگر عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتی تو دوسرا کوئی کیسے مصافحہ کرسکتا ہے؟
o
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے ایک آدمی کھانا کھا لے تو یوں دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاطْعَمْنَا خَیْرًا مِّنْہُ، ’’اے اللہ! ہمارے اس کھانے میں ہمیں برکت عطا فرما اور ہمیں اس سے بہتر کھانا عنایت فرما‘‘۔ اور جب دودھ پیے تو یوں دعا کرے: اے اللہ! ہمیں اس دودھ میں برکت عطا فرما اور ہمیں زیادہ دودھ عنایت فرما۔ کوئی چیز بھی کھانے اور دودھ دونوں کی جگہ نہیں لیتی مگر دودھ۔ اس لیے جب دودھ پیے تو کسی اور چیز کے بجاے دودھ کی کثرت کی دعا کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
کھانا ہو یا دودھ اس وقت تک کارآمد نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ اسے برکت نہ دے دے۔ کھانا اور دودھ آدمی کے لیے اس وقت بابرکت ہیںجب وہ جزوِ بدن بن جائیں اس کی وجہ سے جسم میں مفید صحت خون دوڑے، بلڈپریشر اور شوگر وغیرہ جیسی کسی بھی بیماری کا سبب نہ بنے، اس کے بجاے جسم میں قوت پیدا کرے اور انسان مستعد اور فعال ہو، اپنے فرائض دنیوی و دینی اچھی طرح سے ادا کرے۔ اس لیے کھانے میں برکت کی دعا ضروری ہے۔ پھر دودھ کی اہمیت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذہن نشین کرا دی کہ دودھ کھانا اور پانی دونوں کا مجموعہ ہے۔ دودھ کی افادیت قدیم اور جدید طب اور عوامی تجربات سے اچھی طرح واضح ہے۔ حکومت اور دودھ فروشوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو خالص دودھ فراہم کریں۔ اسی طرح باقی چیزوں میںبھی ملاوٹ سے پرہیز کریں۔ آج زیادہ بیماریاں اس وجہ سے پھیل گئی ہیں کہ خالص اور قدرتی غذائیں میسر نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی کمزور ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائوں کا سلسلہ بھی ختم ہے، اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اور عملِ صالح کی برکتوں سے بھی ہم محروم ہیں۔
o
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: گھر کے کام کاج کیا کرتے تھے، جب اذان سنتے تو مسجد کے لیے نکل جاتے۔ (بخاری، کتاب النفقات)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بے پناہ تھیں۔ آپؐ پر قرآن پاک اُترتا تو آپؐ اسے اپنے سینے میں محفوظ کرتے، اپنے صحابہ کرامؓ کو یاد کراتے، اس کی تعلیم دیتے، اس پر عمل کرتے اور عمل کراتے، اس کی تبلیغ کرتے، اس کی تنفیذ کے لیے جہاد کرتے لیکن اس کے باوجود گھر کے کاموں میں اہلِ خانہ کے ساتھ ہاتھ بٹاتے اور گھر میں عبادت کے ساتھ مسجد میں حاضری کی بھی پوری طرح پابندی فرماتے، خود جماعت کراتے اور نماز کے بعد لوگوں سے عمومی ملاقاتیں بھی کرتے اور لوگوں کے مسائل بھی حل کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لیے بڑا نمونہ ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ تمام فرائض کو مستعدی سے ادا کریں اور اہلِ خانہ کی بھی رعایت کریں اور ان کے کاموں میں انھیں بھی مدد دیں۔
o
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت حسن بصری نے بیان کیا کہ معقل بن یسار کی بہن ایک آدمی کے نکاح میں تھی۔ اس نے اسے طلاق دے دی۔ عدت میں اس سے رجوع نہ کیا۔ مدت گزرنے کے بعد دوبارہ معقل بن یسار کو اس سے نکاح کا پیغام بھیجا تو معقل بن یسار نے اس کے طرزِعمل پر غیرت کھائی اور کہا کہ پہلے طلاق دی، پھر عدت میں بھی اس سے رجوع نہ کیا۔ میری بہن کی اس قدر تذلیل کی اب پھر نکاح کرنا چاہتا ہے۔ میں اپنی بہن کو اس کے ساتھ کبھی بھی نکاح نہ کرنے دوں گا جب کہ بہن بھی دوبارہ نکاح پر راضی تھی۔ اس پر اللہ عزوجل نے قرآن پاک کی یہ آیت اُتاری: وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ(جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کرلیں،تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں،جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں البقرہ۲:۲۳۲) ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے آیت پڑھ کر سنائی تو انھوں نے غیرت و حمیت چھوڑ دی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھک گئے۔ (بخاری، کتاب الطلاق)
صحابہ کرامؓ کی یہ شان تھی کہ انھوں نے اپنی انانیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے قربان کر دیا۔ اللہ کے حکم کے سامنے انھوں نے سر جھکا دیے۔ آج کے مسلمان اپنی جاہلی رسوم و روایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اُونچا کیے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ملکی نظام میں بھی اپنی پسند و ناپسند کو اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کے مقابلے میں ترجیح دی ہوئی ہے، نتیجتاً اسلامی نظام معطل ہے اور لادینی نظام قائم و نافذ ہے۔ کاش آج مسلمان معقل بن یسار اور صحابہ کرامؓ کو نمونۂ عمل بنا کر جاہلیت کے بتوں کو توڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کو عملی جامہ پہناکر اپنی عظمت رفتہ کو بحال کردیں۔
وطنِ عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی اساس پر وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘ کے ایمان افروز نعرے پر رکھی گئی تھی۔ مدینہ کی بے مثال اسلامی ریاست کے بعد ہماری تاریخ میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے۔ اس ریاست کا قیام اہلِ پاکستان کے لیے جہاں ایک بڑا اعزاز تھا، وہیں بہت بڑی آزمایش بھی تھی۔ بد قسمتی ہے کہ اس سرزمین کو صبغۃ اللہ کا نمونہ بنانے کے بجاے بوجوہ غیر اسلامی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ اگر یہ ریاست اسلامی رنگ میں رنگ جاتی تو آج عالمِ اسلام کی قیادت کر رہی ہوتی۔ آج اس کی سالمیت بھی خطرے میں ہے۔ سیکولرازم، لسانی و علاقائی تعصبات، مذہبی منافرت و فرقہ واریت اور جاہلی عصبیتوںنے اس نظریاتی ریاست کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ا سلام دشمن قوتیں بالخصوص امریکا ،بھارت اور اسرائیل کی تثلیثِ خبیثہ ہمارے ملک کی سا لمیت کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی رہتی ہیں۔ ان غیر ملکی دشمنوں کو ہمارے نااہل حکمرانوں کی پالیسیاں اور نالائقیاں بھی تقویت پہنچاتی ہیں۔ دشمنانِ اسلام و پاکستان کو ملک کے اندر سے بھی کچھ عناصر مل جاتے ہیں جو ان کا کھیل کھیلتے ہیں۔
اسلام دشمن قوتیں دورِ نبوت و دورِ صحابہ کرام میں بھی امت کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور فتنے اٹھانے میں مشغول رہتی تھیں۔ مدینہ کے انصار دو قبائل اوس و خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے درمیان جاہلی دور میں قبائلی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ مدینہ کے یہودی ان کو لڑا کر ایک طرف ان کی قوت کو ضعف میں بدلتے اور دوسری طرف ان کو سودی قرض میں جکڑتے اور ان کے ہاتھ اپنا اسلحہ فروخت کرتے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے اور بنو نضیرو بنو قینقاع کی خزرج کے ساتھ دوستی تھی۔ اسلام کی آمد کے ساتھ دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کی جگہ دوستی اور نفرت کی جگہ محبت کے جذبات موج زن ہوگئے۔ یہود کو اس سے بہت مایوسی ہوئی۔ آخر انھوں نے اپنا شیطانی مکر استعمال کیا۔ صحابہ کی ایک مجلس میں جنگ ِ بعاث کا تذکرہ چھیڑ دیا اور فریقین کے شعرا کے پرجوش رجزیہ اشعار پڑھنے لگے۔ اوس و خزرج کے جذبات بھڑک اٹھے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بارے میں سوچنے لگے۔ اسی دوران میں نبی اکرمؐ کو اس واقعے کی اطلاع ملی۔ آپؐ فوراً موقع پر پہنچے اور فریقین کو سخت سرزنش کی۔ حضور پاکؐ کی سرزنش اور تذکیر سن کر اوس و خزرج زاروقطار رونے لگے اور ایک دوسرے سے والہانہ بغل گیر ہوگئے۔
قرآن نے بھی اس واقعے کا پورا نقشہ کھینچا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمھیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ تمھارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے، جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں اور تمھارے درمیان اس کا رسولؐ موجود ہے؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پالے گا…سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا ‘‘۔(اٰل عمران ۳:۱۰۰، ۱۰۱ ، ۱۰۳)
دشمنانِ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایسے فتنے اٹھا کر صحابہ کرامؓ کی قدسی جماعت کے درمیان آگ بھڑکانے سے باز نہ آئے، وہ آج کیوں نچلے بیٹھیں گے۔ ان کا آلۂ کار بن جانا کس قدر نقصان دہ ہے، ہر صاحبِ ایمان اور کلمہ گو کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اُمت مسلمہ کے درمیان قتل و غارت گری کے بازار گرم کرنا نہ اسلام کی خدمت ہے، نہ اُمت مسلمہ کی، نہ خود قاتلوں کی۔ یہ سراسر تباہی ہے جو خسر الدنیا والاٰخرۃ کے زمرے میں آتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عفریت ننگا ناچ، ناچ رہا ہے اور اتنی قیمتی جانوں کو ہڑپ کر چکا ہے کہ جسدِ ملی ’ تن ہمہ داغ داغ شد‘ کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ آئے دن وحشیانہ وارداتیں اور بہیمانہ قتل و غارت گری کی خبریں ذرائع ابلاغ سے شائع اور نشر ہوتی رہتی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود ہی نہیں ہے۔ ۲۸فروری۲۰۱۲ء کو راولپنڈی سے گلگت جانے والی چار بسوں سے مسافروں کو اتار کر شناخت کے بعد ان میں سے ۱۹؍افراد کو اندھا دھند فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔ ان مقتولین میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اس واقعے میں ۱۰؍افراد شدید زخمی ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان بسوں کو شمالی علاقہ جات کے قریب ہربن کے مقام پر ۱۴؍افراد نے صبح ۸بجے کے قریب روکا۔ یہ افراد فوجی وردیوں میں ملبوس، مسلح نقاب پوش تھے۔ اس واقعے سے ایک روز قبل نوشہرہ میں ایک سیاسی جلسے میں بم دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میںسات افراد جاں بحق اور ۳۲ زخمی ہوگئے۔ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، صدر اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور پولیس افسران تک سب واقعے کی مذمت کرتے اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ مجرموں کو جلد پکڑ کر کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک ان گھناونے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا نہیں دی جاسکی۔ یہ حکمرانوں کی ایسی نااہلی و ناکامی ہے جس کے باعث وہ حق حکمرانی کھو چکے ہیں۔
فرقہ واریت کے نام پر بھڑکائی گئی آگ نے شیعہ سُنّی فساد کے روپ میں بے شمار قیمتی جانوں کو ہڑپ کیا ہے۔ قتل ہونے والوں میں دونوں جانب سے بے گناہ و معصوم شہری گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ پوری امت کا نقصان ہے۔ اس کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو سنجیدگی سے سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے نہایت بلیغ انداز میں دردِ دل کے ساتھ امت کو سمجھایا تھا ؎
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہُشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہُشیار باش
ہماری راے میں بیش تر واقعات میں امریکا ، بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیوں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں، جن کے پیش نظر پاکستان کی سا لمیت کو ختم کرنا ہے۔ بلوچستان میں قتل و غارت گری کے پیچھے علاقائی و قبائلی عزائم ہوتے ہیں۔ کراچی کی قتل وغارت گری میں بھی لسانی عصبیتوں کا دخل ہے، جب کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بالخصوص گلگت بلتستان کے علاقوں میں مذہبی منافرت اس کا سبب ہے۔ گلگت کے اس افسوس ناک واقعے سے ایک ماہ قبل شمالی علاقے دیامیر میں سُنّی مسلک کے دوافراد مارے گئے تھے۔ بعض حلقوں کے نزدیک یہ اس واقعے کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ وقتاً فوقتاً شیعہ سُنّی فسادات کی طرح سنیوں کے درمیان بھی بریلوی اور دیوبندی، حنفی و سلفی اور اسی طرح جہادی و غیر جہادی کے نام پر منافرت پھیلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اسلام میں قتلِ ناحق کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے [ناحق] قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا‘‘۔ (المائدہ۵:۳۲)
اس مضمون پر بہت سی احادیث میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ کسی کلمہ گو کے ناحق قتل کا مرتکب دائمی جہنمی ہوگا (ابی داؤد، حدیث ۴۲۷۰ بروایت حضرت ابوالدردائؓ)۔ کسی غیر مسلم ذمی کو قتل کرنے کو بھی اتنا بڑا جرم قرار دیا گیا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ یہ خوشبو ۴۰برس کی مسافت تک پہنچتی ہے (بحوالہ نسائی، حدیث ۴۷۵۴ بروایت حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ)۔ ایک کلمہ گو کو قتل کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ کتاب اللہ میں بھی اس کی سزا دائمی جہنم قرار دی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘(النسائ۴:۹۳)۔ یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کا مشہور واقعہ اس کی بہت اچھی وضاحت کرتا ہے۔ ایک جنگ میں حضرت اسامہؓ نے ایک محارب و مقاتل دشمن کو قتل کیا، جب کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا۔ حضرت اسامہؓ نے اجتہاد کیا کہ وہ محض اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے ورنہ وہ تو اسلامی فوجوں کے مد مقابل لڑتا رہا تھا۔ جب آنحضوؐر کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپؐ حضرت اسامہؓ سے سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ قیامت کے دن تم اللہ کو کیا جواب دو گے جب وہ کلمہ پڑھتا ہوا اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ!دراصل اس نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، دل سے تو وہ کافر ہی تھا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ حضرت اسامہؓ خود بیان کیا کرتے تھے کہ آنحضوؐر کی ناراضی سے میں اس قدر پریشان ہوا کہ میں نے دل میں کہا: اے کاش! میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے سرزد نہ ہوتی۔ (بخاری)
اسلام کی رُو سے ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ باطن کا معاملہ بندے اور رب کے درمیان ہے اور وہ قیامت کو ہر شخص کے بارے میں عدل و انصاف کا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ پاکستان میں ہرکلمہ گو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ عقاید و مسالک اور فروعات میں اختلافات یقینا ہیں۔ یہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔ ان کی بنیاد پر اختلافِ راے کی گنجایش تو یقینا موجود ہے مگر کسی بھی شخص یا گروہ کو ہتھیار اُٹھا لینے اور دوسروں کو قتل کرنے کا جواز نہ قرآن و سنت میں ملتا ہے نہ ملکی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص واجب القتل ہے تو اس کا طریقِ کار بالکل واضح ہے اور مجاز عدالتیں اور ادارے اس کے متعلق فیصلہ صادر کردیں تبھی اس کا خون مباح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی صورت ایسی نہیں کہ کوئی فرد یا گروہ اپنی ذاتی حیثیت میںقانون کے تقاضے پورے کیے بغیر کسی انسانی جان کو ہلاک کردے۔
حکومت کی نااہلی نے حالات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ انارکی اور طوائف الملوکی نے پوری پاک سرزمین کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان حکمرانوں سے امن و امان کی توقع بالکل عبث ہے۔ اکابر ملت کو مسالک کی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر سرجوڑ کے بیٹھنا چاہیے۔ ملّی یکجہتی کو نسل کے انداز میں پھر سے متحد ہو کر چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ منافرتوں کی جگہ پھر سے ہم آہنگی اور دشمنی کی جگہ اخوت کو فروغ دینے کی امید دینی شخصیات اور انھی قوتوں سے وابستہ ہے۔ جب ملّی یک جہتی کو نسل وجود میں آئی تھی اور متحارب گروہ ایک میز پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئی تھیں اور ہر ایک نے تسلیم کیا تھا کہ ہمارے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے کے بارے میں شدید تصورات و تحفظات حقیقت سے بہت بعید تھے۔ اب پھر وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کو جنگی اور ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ اس میں سب کا بھلا ہے ورنہ یہ آگ جس طرح اس سے پہلے بے شمار گھرانوں کو برباد کر چکی ہے اسی طرح مزید نقصان کا باعث بنے گی۔ نفرت و عصبیت کی وبا مزید پھیلے گی تو ناقابلِ تلافی نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب نصیحت فرمائی ہے جو آج بالکل ہمارے حسبِ حال ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دین اسلام کے ذریعے عزت و تکریم بخشی ہے۔ یہ دین اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا بیان ہے: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اس نعمت کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی کہ اپنے بہترین رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اس دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، اپنی بہترین کتاب قرآن مجید کو اس دین کی کتاب کے طور پر نازل فرمایا اور ہمیں یہ چیزیں عطا کر کے اُمت ِ وسط بنایا تاکہ ہم انسانیت کے سامنے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیں۔
جنابِ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انسانیت کے لیے کتابِ الٰہی قرآن مجید اور عالم گیر رسالت ِ رحمت چھوڑی ہے، ان کے ساتھ انسانیت کو اُمت بھی وراثت میں دی ہے۔ وہ اُمت جو اس رسالت پر ایمان، اس کے احکام کے نفاذ اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔
یہ اُمت اپنے بہترین گروہ سے شروع ہوئی، بلکہ انسانی تاریخ کے بہترین گروہ سے اس کی ابتدا ہوئی، یعنی اصحابِ رسولؐ کا گروہ! یہ قرآنی اور ربانی گروہ جس نے حضرت محمدؐ کے مدرسۂ نبوت میں تربیت حاصل کی۔ انھیں آپؐ کے ہاتھ سے سندِ فضیلت عطا ہوئی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنo (اعراف ۷:۱۵۷)، لہٰذا جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائے، اور اس کی حمایت و نصرت کی اور اس روشنی کی پیروی اختیار کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌo (انفال ۸:۷۴)، جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کی راہ میں گھربار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطائوں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُo (التوبۃ ۹:۱۰۰) وہ مہاجر اور انصار جنھوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی گروہ کے بارے میں فرمایا ہے: بہترین لوگ میرے عہد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے۔ (بخاری، مسلم)
صحابہ کرامؓ اُمت ِمسلمہ کا پہلا گروہ ہیں۔ جس طرح ان کی خوبیاں، فضائل اور رفعتِ مقام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں کیا ہے اسی طرح مجموعی طور پر اُمت ِمسلمہ کے چار اوصاف قرآن مجید نے بیان کیے ہیں:
یہ ایک جامع توازن کی حامل اُمت ہے جس نے روحانیت و مادیت اور دین و دنیا کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ اس نے زمین کو آسمان سے ملایا ہے، روح اور مادے کا امتزاج پیدا کیا ہے، مخلوق کو خالق سے جوڑ دیا ہے، حقوق اور فرائض کے درمیان توازن پیدا کیا ہے۔ اس نے دو روشنیوں، وحی اور عقل کو یک جا کیا ہے۔ گویا یہ نورٌ علٰی نور ہے۔ اس اُمت نے اعتدال و توازن کی تعلیم انسانیت کو دی ہے۔ عبادت اور معاملاتِ زندگی میں اعتدال قائم کرنے کی غرض سے فرمایا گیا کہ عبادت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: تم پر تمھارے بدن کا بھی حق ہے، تمھارے دل کا بھی حق ہے، تمھارے اہل کا بھی حق ہے، تم پر میل ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی حق ہے اور تمھارے رب کا بھی حق ہے۔ ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی مسلمان کے لیے فرمایا: ایک وقت تمھارے دل کے لیے ہونا چاہیے اور ایک تمھارے رب کے لیے (ساعۃ وساعۃ)۔ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا: کیا اُونٹنی کا گھٹنا باندھنا چاہیے، یا اللہ پر توکل کر کے رہنے دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو (ترمذی)۔ صحابہ کرامؓ فرمایا کرتے تھے: اپنی دنیا کے لیے اس طرح کام کرو گویا تمھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور اپنی آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا تمھیں کل مرجانا ہے، یعنی دنیا کی نسبت آخرت کے کاموں کو زیادہ تیزی سے انجام دیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت برپا ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک پودا ہو تو اگر وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اس پودے کو لگا سکتا ہے تو ضرور لگا دے (احمد)۔ غور کیا جائے کہ قیامت برپا ہونے کے بعد تو کوئی بھی نہیں رہے گا جو اس پودے کا پھل کھائے، لہٰذا اسے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟یہ اس لیے کہ مسلمان زندگی کی آخری سانس تک کام کرتا، پیداوار بڑھاتا اور دوسروں کو کچھ عطا کرتا ہے کیونکہ وہ نیک کام کے ذریعے ہی اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔
اس بنا پر اُمت مسلمہ ممتاز ٹھیرتی ہے کہ یہ دعوت کی حامل اُمت ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والی اُمت ہے، دنیا کی اصلاح کی علَم بردار اُمت ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔
اُمت محمدیہؐ اپنے عقیدے و عبادت، قبلے و شریعت ، اقدار و روایات، اسلوب و منہج اور مقصد میں مشترک ہونے کی بناپر اُمت ِواحدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)، ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔ پھر فرمایا: وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُط وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo (اٰل عمرٰن۳:۱۰۵)، ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنھوں نے یہ روش اختیار کی، وہ سخت سزا پائیں گے‘‘۔تیسرے مقام پر فرمایا: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (انفال۸:۴۶)، ’’اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی‘‘۔
اسلام نے اس وحدت کو تین اساسی احکام میں مجسم کردیا ہے: ۱- وحدتِ مرجع ۲- وحدتِ دار ۳-وحدتِ قیادت۔
ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِــعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۱۸)، اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے، لہٰذا تم اس پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔
یہ شریعت مسلمانوں کو متحد کرتی ہے انھیں منتشر نہیں کرتی۔ ان کے درمیان قرب پیدا کرتی ہے دُوری نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ (الانعام۶:۱۵۳)، ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندہ کردیں گے‘‘۔
اُمت ِاسلامیہ ۱۳ صدیاں اُمت ِواحدہ رہی ہے جس کی ایک حکومت تھی۔ قیادت بھی ایک تھی جو خلافت ِ راشدہ، امویہ، عباسیہ، یا عثمانیہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ سیاسی قیادت اس نظام کو قائم رکھنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ اس میں کوتاہی جائز نہیں تھی۔ بالآخر اس تاریخی قلعے کو گرا دیا گیا اور وحدتِ اُمت کو پارہ پارہ کر دیا گیا لیکن سیاسی قیادت کی اس وحدت کے ضائع ہوجانے کے باوجود اُمت قائم اور موجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، کوئی وہم نہیں۔ یہ ایک دینی، تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حقیقت ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ حج کے موسم میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرلے، یا کسی ایسے موقع پر مسلمانوں کے جذبات کو دیکھے جب ان کے مقدسات پر کوئی کیچڑ اُچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈنمارک میں بنائے گئے خاکوں کا مسئلہ ابھی کل کی بات ہے۔ اسی طرح ہالینڈ میں قرآن پر بنائی گئی فلم، سوئٹزرلینڈ میں میناروں کی تعمیر کو روکنے کے لیے قرارداد کی منظوری، یا فلسطین میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم جیسے واقعات پر اُمت کے جذبات کو دیکھا جاسکتا ہے۔
۴۰ برس قبل یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے منبر پر جارحیت کی تو اُمت ِ اسلامیہ زمین کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک متحرک ہوگئی اور انہدامِ خلافت کے بعد پہلی مرتبہ اس نے اپنی قیادت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مسجد اقصیٰ کی واگزاری کے لیے، چوٹی کی قیادت کی صورت میں جمع ہوں۔ اس کے نتیجے میں ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ قائم ہوئی جو مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ اُمت ِاسلامیہ کی نمایندگی کرسکے۔ یہ تنظیم کمزور اور اس کا دائرۂ اثر محدود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم مؤثر ہو اور عالمِ اسلام کو درپیش مسائل کے سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس وقت حالات بہت گمبھیر ہیں۔ اُمت عراق، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن اور سوڈان میں باہمی قتل و غارت سے دوچار ہے۔
ہم نے علما کے تعاون سے ’عالمی اتحاد براے علماے مسلمین‘ قائم کی ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسے بڑے بڑے مسائل پر علماے اُمت کو ایک نکتے پر جمع کریں جن مسائل کے بارے میں کلمۂ حق کہنے، اُمت کو اس کے فوائد و نقصانات سے آگاہ کرنے اور تفرقہ و آویزش سے بچانے کی ضرورت ہو۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ تصادم، جنگ اور خون ریزی سے بچا جائے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اُمت کی قیادت اور اس کے حکمران اللہ، رسول اور مومنوں کی خاطر ٹھوس موقف اپنائیں، اپنے اختلافات کو ترک کردیں، اپنے کردار کی اصلاح کریں اور حجۃ الوداع میں کی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر کان دھریں کہ: ’’میرے بعد کافرانہ کام نہ کرنے لگ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو‘‘ (بخاری،مسلم)۔ حکمرانوں میں سے صاحب ِ وسائل اور اہلِ بصیرت آگے بڑھیں، اُمت کے دفاع کی غرض سے باہمی تعاون کاماحول بیدار کریں۔ اُمت کی مشکلات دُور کرنے کی کوشش کریں، اس کے شیرازے کو مجتمع کریں اور اس کے تشخص کو بحال کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
مسلمان حکمرانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اُمت ِمسلمہ کے پاس ایسے مادی و معنوی وسائل موجود ہیں جو اُمت کو دنیا میں صف ِ اوّل کی قوموں میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ ان نعمتوں، طاقتوں کو اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا کہ یہ اُمت کے لیے فائدے اور رفعت کا باعث بنیں۔
ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے یوں مناجات کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِیْ o وَأَصَلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِی فِیْھَا مَعَاشِی o وَأَصَلِحْ لِیْ آخِرَتِی الَّتِی اِلَیْھَا مَعَادِیْ o وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَارَۃً لِیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍo وَالْمَوْتَ رَاحَۃً لِیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ o (مسلم)، ’’اے اللہ! میرے لیے میرا دین نفع بخش بنادے کہ یہ میرے معاملے کی آبرو ہے، اور میرے لیے میری دنیا کو بھی درست فرما دے کہ اس میں میری معاش ہے اور میرے لیے میری آخرت بھی بہتر بنا دے کہ میرا آخری ٹھکانا وہی ہے۔ اے اللہ! زندگی کو میرے لیے ہر خیر میں اضافے کا باعث بنا دے، اور موت کو ہرقسم کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا دے‘‘۔
اُمت ِ اسلامیہ کے پاس یہ مادی و روحانی وسائل اُمت کو ایک شان دار مستقبل کی خوش خبری دیتے ہیں اور اس خوش خبری کی طرف ہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنo (الصف۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ مگر افسوس ہے کہ اُمت نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور تہذیبی و روحانی اور اقتصادی و انسانی قوتوں سے جس طرح کام لینے کی ضرورت تھی نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ روشن چراغ اس کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ مصائب کا حل موجود ہے مگر وہ مسائل سے دوچار چلی آرہی ہے۔
بے پناہ وسائل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے پاس غلبۂ اسلام کی بشارتیں بھی ہیں جو ہمارے اس یقین کو مزید پختہ کردیتی ہیں کہ مستقبل ہماری اُمت اور ہمارے دین کا ہے۔
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًاo (الاحزاب ۳۳:۳۹) ’’اور جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے‘‘۔
غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں اس بشارت کا اضافہ بھی حقائق و واقعات نے کردیا ہے کہ مغرب جس کی تہذیب نے کئی صدیاں دنیا کی قیادت کی ہے لیکن اس قیادت کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ روحانی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس نے بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل پر دوہرے معیارات اپنا رکھے ہیں۔ قرآن کی زبان میں ایک چیز کو ایک سال حلال ٹھیراتے ہیں اور دوسرے سال حرام قرار دے لیتے ہیں (التوبہ۹:۳۷)۔ اس نے دنیا میں الحاد کا رجحان عام کیا ہے جس کے نزدیک کائنات کا کوئی معبود نہیں اور انسان کے اندر کوئی روح نہیں، دنیا کے بعد کوئی آخرت نہیں۔ اسی طرح اس نے اباحیت کو رواج دیا ہے جس نے مرد کی مرد کے ساتھ اور عورت کی عورت کے ساتھ شادی کو جائز قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ تمام ادیان اور انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر انسانیت نے اس کو برقرار رکھا تو ایک دو نسلوں کے بعد وہ تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح امریکا جو مغرب کا سردار ہے پوری دنیا سے اس طرح معاملات کرتا ہے گویا وہ ایسا معبود ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ اسرائیل جو اس کا بغل بچہ ہے امریکا اس کے ہرجائز و ناجائز اور ظلم و زیادتی بلکہ چنگھاڑتے ہوئے ظلم کی حمایت کر رہا ہے۔ زمین پر ایسی ناحق،متکبر اور سرکش تہذیب کو زوال آہی جانا چاہیے اور اس کی جگہ کسی اور کو لینی چاہیے، کیونکہ یہ قانونِ الٰہی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ o (الانبیاء ۲۱:۱۰۵)، ’’ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے‘‘۔
دم توڑتی تہذیب کی جگہ لینے کے لیے جو قوم تیار ہے، وہ اُمت ِاسلامیہ ہی ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ اُمت اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے پیغام کی حامل بن جائے، اپنے رب کی طرف رجوع کرلے، اپنے ذاتی معاملات کو درست کرلے اور اپنے آپ کو تبدیل کرلے تاکہ اللہ بھی اس کو بدل دے کیونکہ یہ بھی قانونِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد۱۳:۱۱) ،’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
اگر اُمت اپنی بُری حالت کے باوجود اس تہذیب کی وارث بننے اور انسانیت کی قیادت کرنے کی تمنا رکھتی ہے تو یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا! اللہ کا طریق کار کبھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)، ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔
رُوے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان بلاامتیاز رنگ و نسل، زبان اور زمان و مکان، ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن کے ماننے والے صاحب ِ شریعت اور صاحب ِ مشن قوم ہیں۔ آج عالمِ اسلام ۵۷سے زائد ممالک پر مشتمل ہے جن کی مجموعی آبادی ایک ارب۵۰کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ گویا دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، جب کہ سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۹۰کروڑ ۲۰لاکھ ۹۵ہزار ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ باعثِ فخر ہے کہ انھوں نے تیرھویں صدی تک یورپ میں علم کی روشنی پھیلا کر اہلِ مغرب کو بھی جہالت کی تاریکی سے نکالا جس کا اعتراف ۳۱مارچ ۲۰۰۶ء کو جامعہ الازہر میں خطاب کے دوران برطانیہ کے پرنس چارلس نے ان الفاظ میں کیا: ’’ہم اہلِ مغرب پر مسلمان علما اور محققین کا یہ احسان ہے کہ جب یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا، تو انھوں نے علم کی روشنی پھیلائی‘‘۔ آسٹریلیا کے چانسلر کا کہنا ہے: ’’ہم حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت سے راہ نمائی لے کر دن رات ترقی کر رہے ہیں‘‘۔
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب سیزدے مومنٹ میں لکھا ہے: ’’اگرچہ عالمِ اسلام سیاسی ترقی میں اہلِ مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے لیکن ہماری تہذیب پیدایشی طور پر اعلیٰ و ارفع نہیں۔ یہ بات مسلمانوں کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ وہ نہ صرف مادیت سے نفرت کرتے ہیں بلکہ مغرب کی بے لگام آزادی کو بھی یکسر مسترد کرتے ہیں‘‘۔ صدر نکسن نے آگے لکھا ہے: ’’۷۰۰ء سے ۱۲۰۰ء تک مسلم دنیا نے معیاری سائنسی علوم کی ترویج، قانون سازی، مذہبی رواداری، بہتر معیارِ زندگی اور دنیا پر حکمرانی کے حوالے سے عیسائی دنیا کی قیادت کی ہے‘‘۔ یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب بغداد اسلامی جدید علوم کا مرکز تھا۔ افسوس کہ جہالت اور زوال مسلمانوں کا مقدر بن گیا اور آج مسلمان اپنی بے عملی و بنیادی اخلاقیات کے فقدان اور شہادتِ حق سے پہلوتہی کی وجہ سے ربانی وعدہ وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی صداقت اور ہمہ گیر سچائی ثابت کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔
آج عالمِ اسلام اپنی بڑی افرادی قوت، وسائل کی فراوانی اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود عالمی برادری میں نہ صرف اپنا مقام بلکہ احساسِ سود وزیاں بھی کھو بیٹھا ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (اوآئی سی) کی حیثیت بھی مُردہ گھوڑے سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود مسلمان تاریخ کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مسلمان اپنی زبوں حالی، بے وقعتی، بے توقیری، غربت، مفلسی، جہالت، فرقہ بندی، نااتفاقی اور پس ماندگی کا ذمہ دار قسمت اور تقدیر کو ٹھیرا کر اپنی خستہ حالی پر صبروشکر کرتے نہیں تھکتے، حالانکہ اُن کی پس ماندگی کا سبب قسمت یا تقدیر نہیں، بلکہ اُن کی جہالت اور بے عملی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح مشرق سے آنے والی روشنی مغرب کے احیا کا باعث بنی، اب مشرق کے مسلمان دنیاے مغرب کی ترقی کو اسلامی افکار کے تناظر میں اپنائیں اور اُمت مسلمہ کی نشاَتِ ثانیہ کی کوشش کریں۔ بے عملی کی دنیا میں محض جذباتی دعویٰ کہ ’’اسلام میں سارے مسائل کا حل موجود ہے‘‘ کی خوش فہمی میں مبتلا رہنے کے بجاے اسلامی و جدید سائنسی علوم کے امتزاج اور سیاسی، اقتصادی، فنی اور عسکری میدان میں حقیقی ترقی کے ذریعے اپنے ناتواں جسم میں جان ڈال کر اپنی بقا کی فکر کریں۔ آخرت کی فلاح کا راستہ بھی دُنیاوی فلاح سے کترا کر نہیں بلکہ اُس کے اندر سے ہوکر گزرتا ہے۔
درحقیقت عالمِ اسلام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی زوال کے پیچھے مسلمانوں میں بدترین قسم کی فرقہ بندی، باہمی دشمنی، یہود و نصاریٰ کی دوستی اور تہذیبی غلامی، قرآنی احکامات سے دُوری، دینی قیادت کی سیاسی قیادت سے جدائی، شیطان کے پیروکاروں کی بیداری و ہوشیاری مگر اللہ کے شیروں کی رُوباہی و گراں خوابی جیسی کمزوریاں کارفرما ہیں۔ خلفاے راشدین کے بعد بیمار اُمت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کی خاطر حضرت امام حسینؓ نے جان کی قربانی دی۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بھی اُمت مسلمہ کو پھر سے پٹڑی پر چڑھانے کی کوشش کی لیکن دولت اور اقتدار کے پُجاری اسے کہاں برداشت کرسکتے تھے۔ گو، مسلمانوں کے دورِانحطاط میں بھی فقہاے عظام، علماے کرام اور بزرگانِ دین نے اسلام اور اسلامی تہذیب کے ڈھانچے کو بچانے اور افراد کی روحانی اصلاح کی خاطر گراں قدر خدمات انجام دیں، لیکن اُن کی تمام تر قابلِ قدر علمی و فکری کاوشیں عالمِ کفر اور ان کے آلۂ کار جدت پسند مسلمانوں کی منظم ریاستی سازشوں کے سامنے مؤثر ثابت نہ ہوسکیں۔ آخرکار اسلام کا اجتماعی نظام روز بروز متاثر اور کمزور ہوتا گیا، کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ غیرمنظم بھلائی، منظم برائی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ آیا اُنھیں ایک بار پھر اپنی عظمت ِ رفتہ کی بازیابی کے لیے منظم کوشش کرنی چاہیے، یا رضا بہ قضا ہوکر دنیا میں اپنی بے حیثیتی، رسوائی اور بے بسی پر کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرتے رہیں اور لمبی لمبی تسبیحیں لے کر محض اذکار کے عوض جنت کی خریداری ہی کو اصل دین سمجھ کر قناعت اور عافیت کی زندگی گزارنے پر اکتفا کیا جائے؟ اس مناسبت سے علامہ اقبالؒ نے بالِ جبریل کی ایک رباعی میں بڑا حکیمانہ اور سبق آموز موازنہ کیا ہے:
یاوُسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یاخاک کی آغوش میں تسبیح و مُناجات
وہ مذہب مردانِ خود آگاہ و خدامست
یہ مذہب مُلّا و جمادات و نباتات
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے لیے زندگی کے میدان میں منظم انداز میں اُترنا ہی عین سنتِ نبویؐ ہے۔ اگر محض اذکار، دعائوں، دموں اور پھونکوں ہی سے کام ہوسکتا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غارِحرا سے نکل کر بدر، اُحد اور خندق کے غزوات میں اپنے صحابہؓ کو آزمایش میں ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔
خدا کے فضل سے اس وقت عالمِ اسلام میں بے شمار دینی ادارے اور تحریکیں نیک نیتی سے دین اسلام کی تبلیغ اور دعوت کے کام میں مصروف ہیں۔ لیکن دنیاے اسلام میں عالمِ کفر کے ذہنوں کو سمجھنے اور اُن کی علمی سطح پر عقلی دلائل کے ساتھ بات کرنے، اُن کے باطل افکار و نظریات پر ضرب لگانے، اہلِ مغرب کی سازشوں اور خواب آور گولیوں سے اُمت مسلمہ کو آگاہ کرنے کے لیے عملاً بہت تھوڑے لوگ ہیں۔ جدت پسند مسلمانوں اور اسلام کے نادان دوستوں کی سوچ بدلنے اور دشمنانِ دین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے والی صرف دو ہی منظم، فعال، متحرک اور جان دار اسلامی تحریکیں ہیں، یعنی: دنیاے عرب میں اخوان المسلمین اور جنوبی ایشیا میں جماعت اسلامی۔ عالمِ اسلام اور پوری دنیا میں اسلام کے عادلانہ نظام کے عملاً نفاذ کے لیے یہ تحریکیں بھرپور جدوجہد کر رہی ہیں جو کہ اس وقت کہیں بھی نافذ نہیں ہے۔ دین اسلام کی تبلیغ، احیا اور بقا کی محنت کے حوالے سے یہ دونوں تحریکیں بُرائی کے گھنے درختوں کا جُھنڈ کاٹے بغیر ،اُن کی چھائوں میں بیج بوکر فصل کاٹنے کی اُمید نہیں رکھتیں۔ ان کے برعکس دوسری تمام تحریکیں ہمہ وقت پُرامید رہتی ہیں۔ گویا تصورِ دین کی کم فہمی کی وجہ سے مسلمان اقامت دین کی بھاری ذمہ داری اُٹھانے کے بجاے محض چند مخصوص عقائد کی پاس داری، رسومات اور عبادات کی تبلیغ کر کے زمینی حقائق کے برعکس تصوراتی خوش عقیدگی کی فضا میں باطل کو شکست دینے کا تصور کیے بیٹھے ہیں۔ اسی لیے دورِحاضر میں تصورِ دین کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ کو ایک ہی کشادہ شاہراہ پر لایا جاسکے، ورنہ اگر مسلمانوں میں فرقہ بندی، جہادگریزی، غفلت اور بے عملی اسی طرح جاری و ساری رہی تو دنیا سے اسلامی تہذیب کی مزید شکست و ریخت کا خدشہ ہے۔
مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ اور رہزنِ انسانیت کا طعنہ دینے والا مغرب اپنی تہذیب کے فروغ کے لیے تمام تر وسائل بروے کار لا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم یورپی معاشرے میں عورت کو چڑیل سمجھ کر جلایا جاتا تھا۔ مغرب میں عورتوں کو جایداد کا حق ۱۸۷۰ء میں ملا، جب کہ مسلمان عورتوں کو ساتویں صدی میں یہ حق حاصل تھا۔ مزید یہ کہ اس مہذب قوم کے ہاتھوں جنگ ِ عظیم میں ۱۵ کروڑ انسان ہلاک ہوچکے ہیں، اور آج بھی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر لاکھوں معصوم انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مغرب کے اس ثقافتی اور تہذیبی حملے کے ردعمل میں جہاں اُمت مسلمہ کا ایک طبقہ اپنی اسلامی ثقافت سے بے گانگی اور بے زاری کو وقت کا تقاضا خیال کر رہا ہے وہاں ایک بڑی تعداد اسلامی تہذیب کی بقا کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہے۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے اندر فرقہ واریت اور قوم پرستی کے فروغ کا رُجحان بڑھ رہا ہے، اور اُس کی قوتِ برداشت ختم کر رہا ہے۔ اس طرح مسلم معاشرے اپنی تنظیم اور ڈسپلن کھو رہے ہیں۔ گویا اُمت مسلمہ کو داخلی انتشار کے ساتھ بیرونی عسکری، اقتصادی، نظریاتی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ بھی درپیش ہے۔ ان حالات میں تحریک اسلامی کی خواہش ہے کہ گھر کی چھت اور دیواروں کو مضبوط کر کے اُمت مسلمہ کو باہر کے طوفان سے بچایا جائے۔
جماعت اسلامی عہدِحاضر میں اقامت دین ، رجوع الی القران، تصورِ دین کی اصلاح اور عالمِ اسلام خصوصاً کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کے مظلوم مسلمانوں کی ترجمان ایک منظم اسلامی تحریک ہے۔ اس کا مقصد اور نصب العین تحریک تجدید و احیاے دین کے ذریعے مسلمانوں کی روحانی اصلاح کے ساتھ اُمت مسلمہ میں فرقہ بندی اور بے عملی ختم کرنا ہے، تاکہ پھر سے مسلمانوں کے وجود میں سیاسی قوت اور وزن، بازو میں طاقت، دماغ میں فکروتدبر، دل میں حوصلہ و عزم، قلم میں جان اور آنکھوں میں اجتماعی بصیرت پیدا ہو۔
آج کل دنیاے اسلام میں کئی ایک مذہبی تحریکیں دین کی حقیقی خدمت کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ ان حالات میں ایک عام آدمی عجیب مخمصے میں ہے کہ وہ کس کے پیچھے چلے اور کس کی بات پر اعتبار کرے، اور یہ کیسے جانے کہ کون سی جماعت حق کی مؤثر نمایندگی کر رہی ہے۔ لہٰذا حق کی مؤثر نمایندہ جماعت کو سمجھنے کے لیے یہ قول یاد رکھنا ہی کافی ہے: ’’اگر تم حق کو نہیں پہچان سکتے تو باطل کے تیروں پر نظر رکھو، جہاں پر لگیں وہی حق ہے‘‘۔ اسلام اور کفر کی اس کش مکش میں دشمنانِ دین نہ صرف اپنے بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود اپنے جدت پسند حلیفوں اور اسلام کے نادان دوستوں کے تیر بھی تحریک ِاسلامی پر برسا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی محض لوگوں کا ہجوم نہیں بلکہ یہ دینی فہم و شعور سے آراستہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بشمول سیاست دانوں، سائنس دانوں، جرنیلوں ، ڈاکٹروں، پروفیسروں، انجینیروں، علما، دینی اسکالروں، صحافیوں، ماہرین قانون، ماہرین تعلیم، اساتذہ، بیوروکریٹس، وکلا، اطبا، سرکاری ملازمین، کاروباری حضرات، طلبہ الغرض زندگی کے ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے بیدار مغز افراد کی ایک منظم اور مضبوط ٹیم ہے۔ جس کے پاس دینی و دنیاوی مسائل خصوصاً اسلام اور اُمت مسلمہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھنے اور مستشرقین کے اعتراضات و الزامات کا منطقی، مدلل اور تفصیلی جواب دینے کی خداداد صلاحیت موجود ہے، اور قافلۂ علم و دانش کے اس سیلِ رواں میں آج بھی قیمتی اضافے ہورہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دورِحاضر کے بگڑے ہوئے معاشرے میں اگر کوئی شخص تحریکِ اسلامی کے پیغام ’قصۂ زمین برسرِ زمین‘ کو نہیں سمجھتا یا سمجھنے کے بعد حیلہ و بہانہ بناکر ساتھ دینے میں بے حوصلگی دکھاتا ہے وہ یقینا کیچڑ میں پڑے موتی کی قدروقیمت سے انکاری ہے۔
خدا کے فضل سے تعلیم یافتہ طبقہ اسلام کو سمجھ رہا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ توحید کیا ہے اور توحید کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں؟ اس کے اندر اگر کوئی کوتاہی ہے تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے جان لڑانے، مالی قربانی دینے، خطرات مول لینے اور اپنا وقت کھپانے کی ہمت نہیں دکھا رہا ہے جو اسے دکھانی چاہیے۔ جہاں تک ناخواندہ اور سادہ لوح عوام کا تعلق ہے وہ اسلام کو چند ایک مذہبی عقائد و رسومات اور عبادات کی حد تک جانتے ہیں مگر اسلام کے تقاضوں اور مطالبات کا اُنھیں علم تک نہیں۔ اقامت دین کی بات انھیں اجنبی لگتی ہے، لہٰذا یہ تعلیم یافتہ طبقے ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں سمجھائیں اور تصورِ دین کے بارے میں ان کی سوچ بدل دیں۔ یاد رہے کہ اسلام کی ابتدائی تعلیم و تبلیغ بھی کتابوں اور رسالوں سے نہیں زبانی تلقین سے ہوئی تھی۔
جماعت اسلامی اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے قوت، جذبات اور دہشت گردی کا شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے کے بجاے اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپنا کر معروف جمہوری طریقے سے اسلامی اور تعمیری انقلاب لانے پر یقین رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست مخالفت براے مخالفت کی نہیں بلکہ مخالفت براے تعمیروتحفظ ِانسانیت ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں مثبت رجحانات کی حوصلہ افزائی اور منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوئی اور ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ سیاست براے تعمیر معاشرہ کی شمع زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ خونِ جگر جلانے سے روشن ہوتی ہے۔ گویا صالح نظام کے قیام کے لیے فاسد قیادت کے خلاف فکری، سیاسی اور حربی میدانوں میں معرکہ آرائی سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ تاہم، اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت دین کی یہ بھاری ذمہ داری صرف اللہ کے وہ سپاہی ہی اُٹھا سکتے ہیں جو راتوں کے تہجدگزار، دن کے شہسوار اور مسلمانوں کی لُغت اور یادداشت سے محوشدہ جہاد کے علَم بردار بنیں۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں رہ کر بغیر سیاسی کش مکش کے محض وعظ و تبلیغ اور انفرادی اصلاح کی کوششوں سے نہیں ہوسکتا۔
تعجب کا مقام ہے کہ بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو ’سیاسی اسلام‘ کا طعنہ دینے کے باوجود اکثر مذہبی قائدین اور روحانی پیشوا خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لڑی جانے والی جنگوں، دعوتی خطوط، معاہدوں، وفود، عدالتی فیصلوں، قیدیوں کی رہائی و تبادلہ، بیت المال کے انتظام و انصرام، مالِ غنیمت کی تقسیم، دیت اور شرعی سزائوں، نظامِ زکوٰۃ و دیگر تمدنی معاملات کے متعلق احکامات اور واقعات کا ذکر بڑے فخر سے کرتے تھکتے نہیں۔ یہ لوگ اسلام کو سیاست سے دُور رکھنے والے قبیلہ بنوعامرکے سردار بحیرہ بن فراس کی وہ پیش کش یاد کیوں نہیں کرتے جس نے دین اسلام کی دعوت کا روشن مستقبل تاڑتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تعاون کا سودا کچھ اس طرح سے کرنا چاہا کہ مخالفین پر فتح حاصل کرنے کے بعد اقتدار پر اس کا حق تسلیم کیا جائے مگر حضوؐر نے انکار کردیا۔ اسی طرح انسانیت کی کشتی کو طوفانی موجوں سے نکالنے کے لیے جو پاکیزہ کردار لوگ آپؐ کے اردگرد جمع ہوگئے تھے، حضوؐر نے انھیں تمدن سے منقطع ہوکر لمبی لمبی تسبیحیں لے کر مساجد، خانقاہوں، جنگلوں اور غاروں میں بیٹھ کر فقیر، درویش، حضرت جی اور صوفی بننے کی نصیحت نہیں کی، بلکہ انھیں لے کر انسانیت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو بدی اور ظلم و زیادتی کے خوف ناک بھنور سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچایا۔ آپؐ کے رفقا بدی کی طاقت سے بھاگ کر آرام و سکون اور عافیت کی زندگی گزارنے والے بھولے بھالے صوفی اور روحانی پیشوا نہ تھے بلکہ وہ مُصلح ، باعمل، بیدار، بے داغ، متحد، بہادر، بے باک، باشعور، خوددار، غیور، معاملہ فہم، فعال، متحرک اور انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ حکمرانی کی صفات اور خصوصیات سے بھی آراستہ تھے۔
جماعت اسلامی محض چند ایک مذہبی عقائد و رسومات کی تبلیغ کرنے والی فرقہ وارانہ اور خاندانی جماعت نہیں، بلکہ یہ دین میں فروعی اختلافات کو غیرضروری اہمیت اور فرقہ وارانہ تعصب کی ہَوا دینے کے بجاے دورِحاضر میں دین اسلام کا پیغمبرانہ ماڈل عملاً نافذ کرنے کی خواہش مند ہے۔ تحریک اسلامی اسلام کو کمزوری، غلامی اور خالص روحانی وظیفہ سمجھنے کے بجاے طاقت اور عزت کا منبع اور انقلاب انگیز تحریک سمجھتی ہے اور دنیا کی امامت سے مفسدین کو ہٹانے پر یقین رکھتی ہے۔
اُمت مسلمہ کی ذہنی پراگندگی اور انتشار کے تناظر میں جید علما اور دیارِغیر کے نام وَر اسکالروں کی آرا کی روشنی میں علمی ذہانت اور دیانت سے سنجیدہ فیصلہ کرنا ہی مناسب ہوگا۔ نام وَر عالم دین مولانا سید سلیمان ندویؒ کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ نے اس پُرفتن دور میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ کی شکل میں ہمیں ایسا دماغ فراہم کردیا ہے جس نے ہمیں اسلام پر مغرب کے حملوں کے جواب سے مستغنی کردیا ہے‘‘۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کی راے میں جدید تعلیم یافتہ نسل پر ذہنی و عملی طور پر جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ نے گہرا اور وسیع اثر ڈالا۔ اُنھوں نے اس نسل کی سیکڑوں بے چین روحوں، ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسلام کے قریب لانے اور اس کا گرویدہ بنانے اور اُن کے دل و دماغ میں اسلام کا اعتماد و وقار بحال کرنے کی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے۔ دورِ جدید میں مطالعۂ مذاہب کے مشہور اسکالر پروفیسر جان ایل ایسپوزیٹو (John L. Esposito) رقم طراز ہیں: ’’عالمِ اسلام میں وہ تصورات کارفرما ہیں جو حسن البنا، سید مودودی اور سید قطب نے اپنی تحریروں میں پیش کیے تھے‘‘۔ ایک اور مغربی اسکالر مارشل جی ایس ہوڈگسن (Marshall G.S. Hodgson) لکھتے ہیں: ’’دورِ جدید میں شریعت کے اطلاق کا نظریہ انتہائی ترقی یافتہ شکل میں جس نے پیش کیا وہ بھارت اور پاکستان کی جماعت اسلامی کی تحریک ہے‘‘۔ ایک فرانسیسی دانش ور گیلس کپل (Gilles Kepel) لکھتے ہیں: ’’فکرمودودیؒ نے طلبہ، مزدوروں اور اُردو صحافت و ادب کی دنیا میں مارکسزم کو زبردست شکست دی ہے‘‘۔ اسی طرح امریکا کی مینی سوٹا یونی ورسٹی کے ڈاکٹر قیصر فرح کے مطابق: ’’پاکستان میں اسلامی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کی آواز اگر کسی نے اُٹھائی ہے تو وہ صرف اور صرف مولانا مودودیؒ اور ان کی برپا کردہ تحریک جماعت اسلامی ہے‘‘۔
آیئے! عظمت ِ رفتہ کی بحالی، غلبۂ دین،اُمت ِ مسلمہ کے فرضِ منصبی اور مشن کی تکمیل کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے، اور اس جدوجہد میں جماعت اسلامی کا ساتھ دے کر اپنا فرض ادا کیجیے۔ اس کے نتیجے میں ہی خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو دنیا کی رہنمائی اور فرماں روائی کے منصب سے ہٹایا جاسکے گا اور زمامِ کار مومنین و صالحین کے ہاتھ میں آسکے گی۔ نظامِ زندگی بھی ٹھیک ٹھیک اللہ کی بندگی کے راستے پر چلے گا اور اسلامی انقلاب کی منزل سر ہوگی، ان شاء اللہ!
مضمون نگار سابق ڈی سی او ہیں اور چترال میں مقیم ہیں
۱۵فروری ۱۹۶۰ء کو ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی طرف سے دو نشستوں میں ایک مجلس مذاکرہ منعقد کی گئی تھی، جس کا موضوع ’بنک کا سود اور انشورنس اسلامی نقطۂ نظر سے‘ تھا۔ مسئلے کی دینی و علمی اہمیت کی وجہ سے اس مذاکرے کی مختصر روداد ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی، اپریل اور جولائی ۱۹۶۰ء سے پیش ہے۔ (مدیر)
پہلی نشست کے شرکا: پروفیسر میاں شریف، جسٹس ایس اے رحمن، مولانا مودودی، غلام احمد پرویز، منظور احسن عباسی، یعقوب شاہ، ڈاکٹر انور اقبال قریشی، مولانا جعفرشاہ پھلواری۔
ادارہ ثقافت اسلامیہ کا وسطی ہال گنجایش کی حد تک بھرچکا تھا اور اب صوفوں کے بعد کرسیاں بھرنے کی باری تھی، حتیٰ کہ بعد میں بعض میزبانوں کو پیچھے کھڑا ہونا پڑا۔ مجلس کی کارروائی کا صحیح وقت چار بجے شام تھا لیکن جسٹس ایس اے رحمن اور مولانا مودودی کے انتظار کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی تھی۔ قبل اس کے کہ آپ کارروائی کی روداد سنیں، ایک نظر شرکاے مجلس پر بھی ڈال لیجیے۔ درمیانی صوفے پر مولانا مودودی، جسٹس ایس اے رحمن اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائرکٹر پروفیسر شریف (میاں صاحب) رونق افروز ہیں۔ ان کے بائیں طرف کے صوفوں پر پروفیسر منظوراحسن عباسی، پھر یعقوب شاہ، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور غلام احمد پرویز ہیں۔ اگلے صوفوں پر ادارے کے بعض ممبران اور دوسرے معزز مہمان ہیں۔ پیچھے کھڑے ہونے والوں میں ادارے کے ایک رفیق مولانا جعفرشاہ پھلواری بھی ہیں۔ دائیں طرف بھی معزز مہمان ہیں جن میں زیادہ تر مقامی کالجوں کے پروفیسر ہیں۔
مجلس کا آغاز کرتے ہوئے میاں محمدشریف صاحب نے بنکنگ اور انشورنس کے سود کی اسلامی نقطۂ نظر سے مختلف وضاحتوں کا خلاصہ پیش کیا، اور اس کے بعد شرکا کو ایک ایک کاپی اس سوال نامے کی دے دی گئی جس پر مباحثہ ہونا تھا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ: آنحضرتؐ کے زمانے میں قرض لین دین کے کیا طریقے رائج تھے؟
اس سوال پر پروفیسر منظوراحسن عباسی نے ایک بہت مختصر لیکن جامع مقالہ پیش کیا، اور دراصل اس موضوع پر مزید بحث اسی مقالے کی روشنی میں شروع ہوئی۔ عباسی صاحب نے اپنے مضمون میں وہی سب کچھ بیان کیا تھا جو عام طور سے اس موضوع پر لکھنے والے پیش کرتے رہتے ہیں، لیکن جسٹس ایس اے رحمن اور یعقوب شاہ صاحب نے اس کو مدلّل تسلیم نہیں کیا۔
سوال یہ تھاکہ موطا امام مالک میں قرض لین دین کی جن صورتوں کا ذکر ہے، ان سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس زمانے میں تجارتی مقاصد کے لیے بھی قرض لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی تاریخ کی کسی کتاب میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آتی جس کے پیش نظر یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ حضوؐر کے زمانے میں بھی تجارتی مقاصد کے لیے قرض لیا جاتا تھا اور اس پر سود وصول کیاجاتا تھا۔ اس نکتے پر سب سے زیادہ زور سابق آڈیٹر جنرل یعقوب شاہ صاحب دے رہے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر ایک کتابچہ بھی قلم بند فرمایا ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ: جس ’ربو.ٰ‘ جاہلیت کو قرآن میں ممنوع اور حدیث میں مطعون ٹھیرایا گیا ہے وہ عرب کا رائج الوقت ’ربو.ٰ‘ تھا اور اس زمانے میں دنیا میں کہیں پر بھی نہ تجارتی قرضے لینے اور نہ ان پر سود کا سوال تھا۔ تجارت کے لیے قرض لین دین پر سود بعد کا رواج ہے اور مدت میں اختلاف کی وجہ سے اس سود کو حرام قرار دینا حکمت اور مصلحت کے منافی ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ پوری کارروائی دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس مجلس مباحثہ میں تجارتی سود کے جواز میں استدلال کرنے والوں میں یعقوب شاہ صاحب اور اس کے خلاف راے رکھنے والوں میں مولانا مودودی اپنی اپنی ٹیم کے لیڈر تھے۔ چنانچہ ادھر شاہ صاحب اور ان کے ہم مکتب حضرات اس پر زور دے رہے تھے کہ ’تجارتی سود‘ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ ادھر مولانا مودودی ۱۳۰۰ سال سے بھی پیچھے ہٹ کر نینوا اور بابل کی تہذیبوں میں سے آثار پیش کر رہے تھے۔ مولانا نے یہ جواب دیا کہ: ’’۱۳سو سال پیچھے تو درکنار تجارتی سود کا وجود تو بابل کے کھنڈرات نے ثابت کر دیا ہے اور بعض کتبوں میں بنک کے حسابات اور قرض لین دین اور ان پر سود کی تفصیلات تک برآمد ہوئی ہیں‘‘۔ یہ واضح رہے کہ بابل کے جن کھنڈرات کا مولانا مودودی نے حوالہ دیا وہ آج سے کم سے کم تین چار ہزار سال پرانی تہذیب کی یادگار ہیں لیکن مولانا کی یہ دلیل شاہ صاحب کی تسلی کے لیے کافی نہیں تھی۔ آپ اس سے پہلے ولیم جیمز ایشلے (Ashley) کے حوالے سے یہ دلیل پیش کرچکے تھے کہ یورپ میں تجارتی قرضوں کا رواج دسویں صدی کے بعد سے شروع ہوا۔ اب آپ نے بابل کے کھنڈرات کے جواب میں مہابھارت کے اوراق پارینہ پیش کردیے جن میں بتایا گیا تھا کہ اگر تم سینگوں کی تجارت کے لیے قرض لو گے تو نفع میں سے ۱۶/۱ دینا پڑے گا اور اگر کُھر کی تجارت کے لیے لو گے تو ۸/۱۔ اور اس طرح یہ سود نہیں بلکہ مضاربت کی تعریف میں آتا ہے۔
دلائل کی گرما گرمی جارہی تھی۔ کمرشل انٹرسٹ کے مصنف مولانا جعفرشاہ اس مباحثے میں حصہ لینے کے لیے نہایت بے چینی سے موقع ڈھونڈ رہے تھے اور شاید یہی عصبی کش مکش دُور کرنے کے لیے انھیں بار بار اہلِ مجلس کی نظریں بچا کر پان کھائے جانا پڑ رہا تھا۔ اتنی سی دیر میں دوسری گلوری منہ میں رکھ کر ہال میں واپس ہوئے ہی تھے کہ میاں محمدشریف صاحب نے مولانا جعفر سے اظہارِ خیال کا تقاضا کیا، پھر کیا تھا ع تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز
مولانا جعفرشاہ نے ایک سانس میں اپنے پورے کتابچے کا خلاصہ سامنے رکھ دیا۔ ان کے سارے دلائل فی الحقیقت یعقوب شاہ صاحب کے دلائل کی تائید میں تھے اور کیوں کہ یعقوب شاہ صاحب کے نقطۂ نظر سے قرآنی حرمت کا انحصار عرب کے رواج پر ہے نہ کہ کہیں اور کے معاشی لین دین سے۔ اس نقطۂ نظر سے مولانا مودودی کو بھی اختلاف تھا اور پروفیسر منظور عباسی، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور دوسروں کو بھی، بلکہ ان لوگوں کا اصرار تو یہ تھا کہ سود کے احکام مطلق ہیں اور ان کو مخصوص عرب کے وقتی رواج کا تابع نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے اگر تلاش کیا جائے تو کتابوں میں تجارتی سود یا تجارتی لین دین کے ثبوت فراہم ہوجائیں گے۔ لیکن دوسری طرف یعقوب شاہ اور ان کے ساتھی اس پر مُصر تھے کہ اگر تاریخ، عرب قدیم میں اس رواج کو واضح الفاظ میں ثابت کرتی ہے تو وہ ان احکام کو تجارتی سود پر بھی حاوی سمجھیں گے ورنہ نہیں۔ دراصل سوال نامہ عین وقت پر تقسیم کیا گیا اور جواب دینے والوں کو تیاری کا کوئی موقع نہ مل سکا۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ فی الحال اس بحث کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھا جائے۔
اب دوسرا سوال یہ تھا کہ:’’ربو.ٰ کی تعریف کیا ہے؟‘‘ پروفیسر منظوراحسن صاحب نے اس کے جواب میں اپنے ایک مقالے کا خلاصہ پیش کیا، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ’ربو.ٰ‘ زیادتی مطلق کو کہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے اپنی تقریر میں ’ربو.ٰالفضل‘ اور ’ربو.ٰ النسیہ‘ کو خلط ملط کردیا۔ جسٹس ایس اے رحمن نے اس تعریف کو چیلنج کرتے ہوئے پوچھا کہ جس ’ربو.ٰ‘کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے، وہ موجودہ قسم کا تھا یا مخصوص۔ اس پر مولانا مودودی نے ’ربو.ٰ‘ کی تعریف میں قرآن کی آیات پیش کیں اور بتایا کہ ان آیات (البقرہ۲: ۲۷۸-۲۸۰) کی روشنی میں راس المال سے زائد کو ’ربو.ٰ‘ قرار دیا گیا ہے۔وہ آیات یہ ہیں:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ج وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ج لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ o وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o(البقرہ ۲:۲۷۸-۲۸۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سُود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ تمھارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو، اور جو صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔
اس موقع پر غلام احمد پرویز صاحب نے ’ربو.ٰ‘کی ایک نئی تعریف پیش کی۔ آپ نے قرآن پاک کی دو مختلف آیتوں کو ملا کر یہ تشریح کی کہ: ’’قرآن کی رُو سے انسان محنت کا معاوضہ لے سکتا ہے، سرمایے کا نہیں، کیوں کہ سرمایے کا معاوضہ سود ہے‘‘۔ لیکن پرویز صاحب کی اس جدید ’اسلامی تعریف‘ پر کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ اور اسی دوران میں مباحثہ اس سوال پر شروع ہوگیا تھا کہ راس المال سے زائد وصول کرنے پر وہ علّت کون سی ہے جو اسے حرام قرار دیتی ہے۔ جعفرشاہ صاحب نے لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ کو عدم جواز کی اور الا ان تراض منکم کو جواز کی علّت قرار دیا۔ لیکن مولانا مودودی نے لَا تَظْلِمُوْنَ والی آیت کو علّت کے بجاے معلول ٹھیرایا اور بتایا کہ: ’’اب تک کسی مُفسر نے اس کے وہ معنی نہیں لیے جو یہاں لیے جارہے ہیں‘‘۔ اس موقع پر ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور جسٹس ایس اے رحمن بھی اپنی اپنی دلیلیں اور جوابی دلیلیں پیش کرتے رہے۔ اور آخر بات گھوم پھر کر وہیں آگئی کہ جس راس المال پر یہ زیادتی وصول کی جاتی تھی، وہ کس مقصد کے لیے قرض لیا جاتا تھا۔ جب اس گفتگو کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا توتیسرا اور اسی طرح پھر چوتھا سوال زیربحث آیا لیکن آخر میں یہی طے پایا کہ جب تک ’ربو.ٰ‘ کی صحیح صحیح تعریف متعین نہ ہوجائے اور آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے رواج کا پتا نہ چل جائے، اس مسئلے پر مزید مباحثہ کرنا بے نتیجہ رہے گا۔
اب انشورنس کے مسائل زیربحث آئے لیکن مودودی صاحب نے یہ اپیل کی:’’چوں کہ انشورنس کا سودی کاروبار سے گہرا تعلق ہے، اس لیے اس کی بحث بھی ملتوی رکھی جائے‘‘۔ آپ نے اس موضوع پر ایک مقالہ پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
مباحثے کی کارروائی تین ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی اور درمیان میں صرف نمازِ مغرب کے لیے کارروائی کو ملتوی کیا گیا۔ غلام احمد پرویز صاحب نے مودودی صاحب کی اقتدا کی، لیکن ثقافت ِ اسلامی کے بعض خاص ممبران شریکِ جماعت نہ ہوئے۔بحیثیت مجموعی یہ مباحثہ کافی حد تک خوش گوار فضا میں ہوتا رہا۔ یہ ہماری قوم کی بدنصیبی ہے کہ ارباب حل و عقد اختلافی مسائل کے تصفیے کے وقت اپنے مقام سے کافی گر جاتے ہیں۔ کہیں معاملہ فقہی موشگافیوں اور جذباتی اختلافات کی نذر ہوجاتا ہے، اور کہیں حد سے زیادہ پارلیمانیت سارے مقصد کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ اس کے برعکس اس مباحثے کا ماحول باوقار اور عالمانہ تھا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس میں زیادہ تر حصہ لینے والے بھی باوقار تھے۔ پھر میاں صاحب نے بھی بڑی حکمت کے ساتھ نظم و ضبط قائم رکھنے کی کوشش کی اور سارے وقت تک اسپیکر کے سے فرائض انجام دیتے رہے۔ باقی کارروائی رمضان المبارک کے بعد ہونا طے پائی۔
’بنکاری، سود اور بیمہ اسلامی نقطۂ نظر سے‘___ اس موضوع پر دوسری مجلس مذاکرہ ۲۹ اور ۳۰؍اپریل کو پھر اسی مقام پر منعقد ہوئی۔ اس مرتبہ ڈاکٹر انور اقبال قریشی نہیں پہنچے تھے اور غلام احمد پرویز صاحب نے شریک نہ ہونا ہی مفید سمجھا تھا۔ البتہ میاں افضل حسین (سابق وائس چانسلر پنجاب یونی ورسٹی اور ممبر تعلیمی کمیشن)، علامہ علائوالدین صدیقی، اور مولانا محمدعلی مجتہد نئے شرکا میں خاص طور پر قابلِ ذکر تھے۔ موضوع وہی تھا، یعنی پہلا سوال یہ کہ: ’’آنحضرتؐ کے زمانے میں تجارتی قرضوں کا اور ان پر سود کا رواج تھا یا نہیں تھا‘‘___ مولانا مودودی، پروفیسر منظور احسن عباسی، جناب ابوحمزہ شامی اور مولانا محمدجعفر پھلواری نے اس موضوع پر مقالے پڑھے۔
مباحثے کا آغاز مولانا مودودی کے مقالے سے ہوا۔ مولانا نے اپنے مضمون کو تین مباحث میں تقسیم کیا تھا۔ ایک یہ کہ حضوؐر کے زمانے میں اور اس سے قبل عرب اور پاس پڑوس میں ہرقسم کے قرضے لیے اور دیے جاتے تھے، یا صرف صرفیاتی قرضے؟ پھر یہ کہ ان قرضوں پر سود کی وصولی ہوتی تھی یا نہیں؟ اور آخر میں یہ کہ عرب میں اصل سے زیادہ رقم وصول کرنے کے لیے ’ربو.ٰ‘ کی ہی اصطلاح مستعمل تھی یا کوئی اور؟
پہلے حصے کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی نے اس زمانے اور اس سے قبل کے زمانے کا مالی اور تجارتی پس منظر پیش کیا، اور ثابت کیا کہ: ’’صرف عرب میں تجارتی قرضوں اور سود کا رواج نہیں تھا، بلکہ عرب کے پڑوس کے ممالک میں بھی آپ نے خاص طور سے یہود اور قریش کی زمانۂ قدیم سے تجارت اور دوسرے ممالک سے ان کے تجارتی تعلقات پر روشنی ڈالی، اور اس پر زور دیا کہ مکہ چونکہ اپنے وسائلِ پیداوار کے لحاظ سے صفر کے برابر تھا، اس لیے اس کو ہر زمانے میں خودکفیل رہنے کے لیے بیک وقت کئی ممالک سے تجارتی وابستگی رکھنا پڑتی تھی۔ قریش اور بنوثقیف وغیرہ نہ صرف اپنی ضروریات کے لیے تجارت کرتے تھے، بلکہ دوسرے قبیلوں میں بھی تھوک فروشی کرتے تھے اور اس کا انحصار قرض پر ہوتا تھا۔ پھر قریش غیرممالک کے مالی اور تجارتی اداروں سے گہرا تعلق رکھتے تھے، اس لیے یہ بھی ناممکن تھا کہ وہ ان ممالک کے رواج سے واقف نہ ہوتے ہوں۔ مثلاً ان لوگوں کے تجارتی تعلقات شام سے تھے اور جہاں پر یہ حال تھا کہ مہاجن تو درکنار مندر بھی بنک کا کام انجام دیتے تھے اور زرعی مقاصد کے لیے سود پر قرض دیا کرتے تھے۔ اسی طرح قدیم زمانے میں ان لوگوں کے بابل سے تعلقات تھے بلکہ بابل تو کافی عرصے تک شمالی عرب پر قابض بھی رہ چکا تھا۔ یہاں یہ حال تھا کہ تجارتی اور غیر تجارتی مقاصد کے سود کی مختلف شرحیں تھیں‘‘۔
مولانا مودودی نے مزید بتایا: ’’اسی طرح اسیر، اور یونان سے بھی یہ لوگ تجارت کرتے تھے۔ اسیر میں صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے ۲۵ فی صد شرح سود رائج تھی اور یونان میں ۱۲ سے ۳۰فی صد تک تجارتی سود وصول کیا جاتا تھا، بلکہ یہاں تو ۵ویں صدی عیسوی ہی میں باقاعدہ بنک قائم ہوچکے تھے۔ یونان اور شام کے ساہوکاروں کا یہ حال تھا کہ انھوں نے پہلی صدی ہی میں روم کے ہرہرحصے میں بنک قائم کردیے تھے اور آگسٹن نے ۴ سے ۱۰ فی صد تک شرحِ سود مقرر کر دی تھی‘‘۔
مولانا مودودی نے عرب کے یہودیوں کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے ۲لاکھ درہم سود پر قرض دیا تھا۔ ان میں مولانا نے سب سے زیادہ زور قیصرِروم کے قرض پر دیا۔ قیصرِروم نے ٹھیک حضوؐر کے زمانے میں ایران سے جنگ کرنے کے لیے کلیسا سے بھاری قرض لیا تھا۔ اس پر سود کی رقم بھی ادا کی تھی۔ مولانا نے استدلال کیا کہ: ’’اس لڑائی سے عربوں کی دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ قریش میں روم کی فتح و شکست کے معاملے میں شرطیں لگائی گئی تھیں اور ان میں کا ہرہرشخص جنگ کے مختلف مرحلوں سے پوری دل چسپی رکھتا تھا، حتیٰ کہ اس جنگ کے متعلق قرآن میں پیش گوئی نازل ہوچکی تھی: غُلِبَتِ الرُّوْمُ o فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ o (الروم ۳۰:۲-۳) ’’رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے‘‘۔ آخر کیسے ممکن تھا کہ عربوں کی اور خود حضوؐر کی تجارتی سلسلے میں آئے دن کی آمدورفت رہتی ہو، حتیٰ کہ اس ملک کی جنگ اور صلح سے بھی گہری دل چسپی ہو، لیکن انھیں یہ نہ معلوم ہو کہ یہاں صرفیاتی قرضوں کے علاوہ بھی قرضوں کا رواج ہے اور ان پر سود لیا اور دیا جاتا ہے اور یہ کہ اس جنگ کے لیے قیصرِروم نے سودی قرض لیا ہے۔ ان حقائق سے انکار ایک ایسا طرزِفکر ہے جس کو عقلِ سلیم تسلیم نہیں کرسکتی‘‘۔
مضمون کے تیسرے حصے میں مولانا مودودی نے تفاسیر کے حوالے سے ’ربو.ٰ‘ کی حیثیت پر روشنی ڈالی۔ پھر بعض احادیث پیش کیں، جن سے واضح طور پر ثابت ہوتا تھا کہ حضوؐر تجارتی مقاصد کے لیے قرض کے تخیل سے آشنا تھے۔ یہ حدیث بخاری نے متعدد موضوعات کے تحت پیش کی ہے اور نسائی نے بھی اس کو اپنی سنن میں داخل کیا ہے۔ اس حدیث میں ایک بنی اسرائیلی کا قرض لے کر تجارت کے لیے سمندر پارجانا اور پھر اس کی خوش معاملگی پر اس کی نیت اور اس کے مال میں برکت ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح حضوؐر کے دور میں غیرصرفیاتی قرضوں کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ خود حضوؐر نے عبداللہ بن ربیعہ سے جنگ ِحنین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ۴۰ہزار درہم کا قرض لیا تھا‘‘۔(مکمل مقالے کے لیے دیکھیے: سود از مولانا مودودی، ص۱۹۸-۲۲۷)
مولانا مودودی کا مقالہ کافی مدلّل اور مسکت تھا لیکن بعد کے دو مزید مقالوں نے جو دراصل اسی دعوے کی تائید میں تھے، بحیثیت مجموعی ایک ایسا تاثر پیدا کیا جس کے بعد مخالفین کے لیے حجت کی گنجایش تو نکل سکتی تھی، دلیل کی نہیں۔
پروفیسر منظور احسن عباسی صاحب السنۂ قدیمہ سے شغف رکھتے ہیں اور پرانی دستاویزیں پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ آپ نے رازی کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ: ’’اس زمانے میں اجتماعی قرضے عام تھے جو بین القبائل نوعیت کے ہوتے تھے۔ بعض اوقات چند ساہوکار مل کر بڑے بڑے قرضے دیتے اور ان پر سود وصول کرتے تھے، جیسے بنومغیرہ اور بنوعباس کی شراکت۔ اسی طرح بنوثقیف اور بنوقریش۔ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عرب میں تجارتی قافلے افراد سے زیادہ پورے قبیلے کے نمایندہ ہوتے تھے، اور ان میں قبیلے کے ہرہرفرد کا حصہ ہوتا تھا۔ قافلے کو روکنے کے معنی ناکہ بندی کرکے ایک پورے شہر کی مالیات کو متاثر کرنا اور انھیں ان کی شرارت کامزا چکھانا ہوتا تھا۔ عرب میں حکومتیں نہیں تھیں، خودمختار قبیلے ہی اسٹیٹ تھے اور قبیلے کی تجارتی ناکہ بندی بالکل وہی معنی رکھتی تھی جو آج کے دور میں نہرسوئز سے گزرنے میں اسرائیل کے جہازوں پر پابندی رکھتی ہے۔
جناب ابوحمزہ شامی نے اپنے مقالے میں حضوؐر کے زمانے کی مثالوں کے بجاے حضوؐر کے فوراً بعد کے زمانے میں تجارتی قرضوں کی شمولیت کی کئی مثالیں پیش کیں، اور بتایا کہ تجارت کے مختلف طریقے، مالیات کی ترقی یافتہ تکنیک، بنکاری کا اعلیٰ نظام، یہ سب چیزیں دراصل پہلی اور دوسری صدی ہجری ہی میںتشکیل پاچکی تھیں، لیکن اس زمانے کے اَئمہ اور فقہا کا متفقہ فیصلہ تھا کہ سود جہاں بھی ہو، حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک یہ ادارے مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے سود سے پاک رہے۔ مثالوں میں موطا امام مالک کی مشہور مثال جسے اکثر مضاربت کے جواز میں بھی نقل کیا جاتا ہے، کافی زیربحث رہی۔ اس کے علاوہ آپ نے مختلف واقعات چھوڑ کر یہ تھیوری بھی قائم کی کہ زبیر بن عوام کے پاس حضرت عثمان، عبداللہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن عوف اپنی ودیعات [جمع شدہ پونجی] جمع کرایا کرتے تھے۔ اس طرح خود زبیر بن عوام ایک چلتے پھرتے بنک تھے، جہاں سودی کاروبار حرام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مرتے وقت آپ کے پاس ۲۲لاکھ درہم موجود تھے۔ امام ابوحنیفہ کا واقعہ اس سے زیادہ اہم ہے۔ ان کے پاس قرض اور امانتوں کی رقم کی مجموعی مقدار ۵کروڑ درہم سے زیادہ تھی۔ امام اعظم ایک طرف تو قرض امانتیں رکھتے تھے اور دوسری طرف یہی رقم دوسروں کو کاروبار کے لیے بطور قرض دے دیتے تھے، لیکن سود کو آپ بھی حرام قرار دیتے تھے۔ اسی طرح ابوحمزہ شامی صاحب نے ہند بنت عتبہ کی مثال بھی پیش کی تھی، جس نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیت المال سے تجارت کے لیے ۴ہزار درہم قرض لیے تھے۔ہند بن عتبہ کی روایت مولانا محمدعلی مجتہد کے نزدیک احاد میں سے تھی، لیکن مولانا مودودی اس کو بطور ثبوت کے تسلیم کرنے پر زور دے رہے تھے۔ یہ واقعہ حضوؐر کے وصال کے صرف ۱۳سال بعد کا نقل کیا جاتا ہے۔
ابوحمزہ شامی صاحب کی پیش کی ہوئی مثالوں میں سب سے زیادہ معرض بحث موطا کی مشہور روایت آئی، جس میں عراق کے گورنر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کے دونوں صاحبزادوں کو کچھ سرکاری رقم مرکزی بیت المال میں پہنچانے کے لیے دی تھی۔ اس پر شامی صاحب کا استدلال تھا کہ یہ رقم امانت کے بجاے بطورِ قرض دی گئی تھی، تاکہ مرکز میں بحفاظت پہنچ سکے۔ اس رقم سے ان دونوں نے کاروبار کرڈالا اور نفع اپنی جیب میں رکھ کر اصل رقم بیت المال میں داخل کردی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے محض اقربانوازی کے امکان کو ختم کرنے کے لیے ایک نظیر قائم کرنی چاہی اور منافع کا مطالبہ بھی کردیا۔ بالآخر ثالثوں نے بیچ میں پڑ کر نصف منافع ان دونوں کو دلایا اور نصف بیت المال میں۔ اس مثال پر یعقوب شاہ صاحب سود کے جواز میں استدلال کررہے تھے اور مودودی صاحب، شامی صاحب اور عباسی صاحب سود کی حُرمت پر۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد تمام حضرات اس پر متفق ہوئے کہ یہاں تقسیم منافع کسی اصول، حکم یا قانون کے تحت وصول نہیں کیا گیا ہے، بلکہ مضاربت کو قانونی شکل دے دی گئی ہے۔
شامی صاحب نے جہاں اپنے مقالے کو واضح مثالوں اور ٹھوس دلیلوں سے سجایا تھا، وہیں یہ بات کھٹکتی تھی کہ اس کے آغاز میں انھوں نے اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور ایک تہائی حصے میں اپنے میزبانوں (یعنی ادارہ ثقافت اسلامیہ) کا اچھی طرح ’پول کھولا‘ اور ’متجددین‘ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور پھر موضوع پر کچھ دلیلیں پیش کر کے الگ ہوگئے۔
ابوحمزہ شامی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ تم لوگ ہر بے دینی کو دین قرار دینے اور ہرحرام کو حلال ٹھیرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے ہو۔ اب تجارتی سود جیسے بڑے حرام کو حلال کرنا چاہتے ہو، اس کے بعد ’تجارتی زنا‘ کو جائز قرار دو گے لیکن اللہ نے چاہا تو ہم تمھاری ایک نہ چلنے دیں گے اور ڈھول کا سارا پول کھول کر رکھ دیں گے۔ حلال کرنا ہے تو سرکاری روپیہ حلال کرو، محرمات نہیں۔ شامی صاحب کے اس تبصرے سے ادارہ ثقافت کے ممبروں پر جو گزری ہوگی اس کو وہی جانتے ہیں۔ لیکن اس تمہید سے بعض دوسرے سنجیدہ حضرات کی طبیعت بھی مکدر ہوگئی تھی اور جسٹس ایس اے رحمن نے اس طرف توجہ بھی دلائی۔ کہیں کہیں عباسی صاحب نے بھی نوکِ قلم تیز کردی تھی، لیکن بس چھینٹوں کی حد تک۔
تبصروں اور بحث و تمحیص سے پہلے مولانا جعفر پھلواری نے بھی ایک مختصر سا مقالہ پڑھا۔ مولانا پھلواری کے مقالے نے اول الذکر تینوں مقالوں سے ہٹ کر ایک بالکل نیا ہی نکتہ اُٹھایا، لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہ دی اور نہ اسے موضوع بحث بنایا گیا۔ آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ: ’’حضوؐر کے زمانے میں تجارتی قرضوں کا رواج ہو یا نہ ہو، بہرحال اس زمانے کے پیچیدہ حالات میں اس زمانے کے لحاظ سے فرق ہے۔ پہلے سود کی اسپرٹ جبروظلم تھی اور اب باقاعدہ ایجاب و قبول کے بعد سود لیا جاتا ہے۔ قرض لینے والا ایک سے دس پیدا کرتا ہے اور بخوبی سود ادا کرتا ہے۔ احکامِ سود کی علّت میں اس اختلاف کی بنا پر موجودہ بنکاری پر سود کے احکام کا انطباق نہیں ہوسکتا۔
مولانا جعفر کی بات اگر اتنی ہی مبہم اور مختصر رہے تو بظاہر بڑی دل لگتی معلوم ہوتی ہے۔ زید ایک لاکھ قرض لیتا ہے اور اس سے ۱۰ لاکھ کماتا ہے۔ آخر ۵ہزار روپے سود کے ادا کردینے سے اس پر کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات اتنی سادہ اور مختصر نہیں ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دراصل تجارتی سود ذاتی ضروریات کے قرض پر سود سے زیادہ ظالمانہ اور خطرناک ہے، کیونکہ اس میں سود کا اثر صرف ایک شخص کی ذات پر پڑتا ہے لیکن اس تجارتی سود کا سارا اثر قوم پر پڑتا ہے، کیونکہ سودی قرض لینے والا سود کی ساری رقم قیمت فروخت میں لگادیتا ہے۔ اس طرح گویا سود کی رقم ادا تو صارفین کرتے ہیں لیکن قرض کا فائدہ قرض خواہ اور سود کا فائدہ سود خور حاصل کرتا ہے۔ بات موٹی سی ضرور ہے لیکن اتنی موٹی بھی نہیں ہے کہ ’باریک عقل‘ کا ’پردہ‘ بن جائے۔
بات کچھ عجیب سی تھی لیکن تھی حضوؐر کے زمانے میں تجارتی قرضوں کے رواج کے فقدان کے دعوے میں، سب سے زیادہ پیش پیش محترم یعقوب شاہ صاحب تھے۔ لیکن آج کی مجلس میں وہ اس وقت افتاں و خیزاں پہنچے، جب شامی صاحب اپنا مقالہ ختم کرنے والے تھے۔ پھر بھی شاہ صاحب نے میدان میں اُترتے ہی ’فری اسٹائل‘ دلائل شروع کردیے اور آخر مجبور ہوکر مولانا مودودی کو اپنے مقالے کا کچھ حصہ دوبارہ پڑھنا پڑا۔ شاہ صاحب کو حیرت بار بار اس بات پر ہورہی تھی کہ ولیم جیمز ایشلے نے تو یہ لکھا ہے کہ یورپ میں دسویں صدی عیسوی تک تجارتی قرضوں کا رواج نہ تھا، آخر یہ عرب میں کیسے رائج ہوگیا؟ اس طرزِفکر کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو بڑے خطرناک نتائج حاصل ہوں گے۔ پھر دل چسپ بات یہ کہ خود شاہ صاحب نے ’ایشلے‘ کی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا، بلکہ اس کا اقتباس ڈاکٹر انور اقبال قریشی صاحب کی کتاب سود میں ملاحظہ فرمایا ہے، اور اب اس کو ایک الہامی دعویٰ سمجھتے ہیں، حالانکہ اگر یورپ کی معاشی تاریخ کا غائر مطالعہ فرماتے تو خود ڈاکٹر صاحب کو یہ اقتباس نکالنے پر مجبور کرتے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ وہ حضرات جو تجارتی قرضوں کے وجود ہی سے لاعلمی کا اظہار فرماتے ہیں۔ پہلے پرنسپلز آف پولیٹیکل اکانومی کا مطالعہ فرمائیں، پھر ۵ہزار سالہ تجارتی، مالی اور معاشی تاریخ کا اور بعد میں خود ٹھنڈے دل سے راے قائم کریں۔ اگر یہ حضرات صرف قرآن کا غائر مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائے کہ لین دین میں بے ایمانی ثمود کا اور سودخواری قومِ یہود کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔
اس مباحثے میں ایک اور دل چسپ نکتہ سامنے آیا اور وہ قانونی ’ربو.ٰ‘ اور معنوی ’ربو.ٰ‘ میں امتیاز کا تھا۔ مولانا مودودی نے بتایا کہ لین دین کے بعض معاملات میں کھلم کھلا سود کا عنصر پایا جاتا ہے، جیسے علانیہ طور پر نقد کے مقابلے میں قرض فروخت کی قیمت میں اضافہ۔ لیکن بعض معاملات میں صرف نیت اور روح کی حد تک سود کا عنصر ہوتا ہے، جیسے گاہک سے واقفیت کی بنیاد پر قرض فروخت کی قیمت بغیر کسی سوال جواب یا بغیر ادایگی کی شرط معلوم کیے بڑھا دی جائے۔
یہ کارروائی تقریباً تین گھنٹے جاری رہی۔ مولانا محمد علی مجتہد پہلی مرتبہ تشریف لائے تھے اور آج صرف کارروائی سنتے رہے، البتہ کبھی کبھی مولانا مودودی پر چھینٹ اُڑا دیتے تھے۔ آج کے مقالے جتنے علمی اور مدلّل تھے، مباحثہ اتنا علمی اور مدلّل نہیں ہوا۔ حالانکہ اس مجلس میں شرکت کرنے والے سب کے سب سنجیدہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معزز حضرات تھے۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے سرچ انجن گوگل کی فحش مواد(pornography)کی سرچ کے حوالے سے پاکستان کے دنیا میں سر فہرست ہونے کے چرچے اس وقت مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا میں بھی کیے جارہے ہیں۔ یہ رپورٹ گذشتہ سال، یعنی ۲۰۱۱ء کے اعداد و شمار کی بنیا د پر ترتیب دی گئی ہے لیکن کوئی بھی شخص گوگل ٹرینڈز (Google Trends) کے ذریعے کسی بھی سال اور کسی بھی خاص علاقے کے حوالے سے کسی بھی لفظ کی سرچ کا ڈیٹا دیکھ سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس وقت میڈیا نے واویلا کیا تھا جب جولائی ۲۰۱۰ء میں متعصب مغربی خبررساں ادارے فاکس نیوز کی طرف سے گوگل کے اس ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان کے فحش مواد تک رسائی میں سر فہرست ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔ بعد ازاں گوگل کے ترجمان نے اسی ماہ یہ کہہ کر اس کی تردید بھی کردی تھی کہ اس طرح کی کوئی بھی رپورٹ اغلاط سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ فاکس نیوز نے اس رپورٹ کی بنیاد پر اپنی خبر کی شہ سرخی میں پاکستان کو پورنستان (Pornistan) قراردیا تھالیکن گوگل کے ترجمان تھیریسے لم (Therese Lim) نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا ایک بہت محدود نمونے (sample)کو بہت بڑے پیمانے پر عموم دینے (generalize) کے مترادف ہے۔
۱-کئی فحش الفاظ ، یا ایسے الفاظ جو فحش مواد تک رسائی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، کی سرچ (تلاش) میں اگرچہ پاکستان سرفہرست ہے، تاہم کئی اور ممالک ایسی اصطلاحات کی تلاش میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ ان میں ویتنام ، فلپائن ، جنوبی افریقہ ، برطانیہ ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے انفرادیت ، شخصی آزادی ، تفریح اور لائف سٹائل کے خوب صورت عنوانوں سے یہ انسانیت سوز’ تحائف‘ دنیا کو دیے ہیں۔ یہ اعدادو شمار شہروں کے حوالے سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں جن میں دہلی ، بنگلور، چنائی ، ممبئی، سڈنی، میلبورن، ہنوئی ، لاس اینجلس اور ڈیلا س سر فہرست ہیں۔
۲- یہ تمام ڈیٹا گوگل کے ذریعے فحش مواد کی تلاش میں فی کس تلاشوں(Per person searches) پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے ایک اعتراض یہ ہے کہ اگرچہ گوگل فی الواقع اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی ایک سرچ انجن ہیں جن کے ذریعے انٹرنیٹ پر تلاش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں گوگل کے ذریعے زیادہ سرچ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں دیگر سرچ انجن زیادہ معروف نہیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ویب سائٹ کا براہِ راست نام نہ جاننے والے ہی سرچ انجنوں میں الفاظ کے ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو براہ راست ویب سائٹس کا تعارف ہو، وہ اس کا ایڈریس درج کر کے براہ راست اس تک پہنچ جاتے ہیں ۔
۳- دنیا کی چھٹی سب سے بڑی آبادی ہونے کے ناطے سبھی دائروں اور شعبوں میں پاکستان کے صارفین و استعمال کنندگان کا زیادہ ہونا ایک بدیہی امر ہے۔
۴-گوگل ہی کی رپورٹ کی مطابق بہت سے دیگرمثبت الفاظ بھی ہیں جن میں پاکستان سرفہرست یا دوسرے تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ مثلاًلفظ'Muhammad(PBUH)'، ’اسلام‘، ’اللہ‘ اور ’قرآن ‘،’ایجوکیشن ‘، ریسرچ، جابز کے الفاظ کو گوگل ٹرینڈز پر دیکھیے۔ اس بات کو مغربی میڈیا اور اس کی پیروی میں پاکستانی میڈیا دونوں گول کردیتے ہیں۔
گوگل کی رپورٹ پر اعتراضات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں گذشتہ عشرے میں نہ صرف انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ہر قسم کے فحش مواد تک ہر عمر کے افراد کی رسائی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ۱۵سے ۲۰ملین لو گوں کی انٹر نیٹ تک رسائی ہے۔ بازاروں میں ہر طرح کی سی ڈیز، ڈی وی ڈیز بلا قید عمر فروخت کی جارہی ہیں۔ موبائل کے ذریعے نوجوان بچے اور بچیاں اس مصیبت میں دھڑادھڑ گرفتار ہورہے ہیں اور کیبل پر دکھائے جانے والے نیوز اور تفریحی چینل بلاتفریق ہر ناظر کو اشتعال انگیز مناظر دکھارہے ہیں۔ ڈراموں، فلموں یہاں تک کہ اشتہارات تک میں عریانیت اور فحاشی معمول بنتی جارہی ہے۔ مخلوط تعلیمی ادارے اور ان میں بلا روک ٹوک نوجوان طلبہ و طالبات کے مخلوط کلچرل شو جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ سڑکوں پر لگے بل بورڈز ایک خاص کلچر کی نمایندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسرسوشل میڈیا نے پوری کردی ہے جو ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ ہر اچھے موبائل پر دستیاب ہے اور جس کے ذریعے سے ہر رطب و یابس کو پلک جھپکتے شیئر کیا جاسکتا ہے۔ اس سیلاب بلا کو روکنا جن کی ذمہ داری تھی، وہ خود اس میںپھنسے ہیں۔ عوام ہیں کہ انھیں یہ احساس تک نہیں ہورہا کہ ہماری آیندہ نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
جہاں تک انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا معاملہ ہے ،ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق Pakistan Telecommunication Authority(پی ٹی اے) نے ۱۳ہزار ایسی ویب سائٹس کو بلاک کردیا ہے ، جو بظاہر خوش آیند ہے کہ ان ذمہ داروں کو کچھ تو احساس ہوا ہے۔ لیکن جب اس کاموازنہ انٹرنیٹ پر موجود ایسی فحش ویب سائٹس سے کیا جاتا ہے جو اس وقت موجود ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر ان میں ہزاروں کا اضافہ ہورہا ہے تو اس رکاوٹ کی وقعت بہت کم رہ جاتی ہے۔ نیزپی ٹی اے کے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری براے انفارمیشن ٹکنالوجی نواب لیاقت علی خان نے یہ بھی اعتراف کیا کہ حکومت پاکستان کے پاس ان ویب سائٹس کو روکنے کا کوئی فول پروف مکینزم موجود نہیں ہے ۔دوسری طرف یہ معاملہ انٹرنیٹ سروس دینے والی مقامی کمپنیوں (ISPs) کے کاروبار سے بھی جڑا ہے۔ ایک ایسی ہی کمپنی کے افسر نے بتایا کہ اس وقت گھروں میں لگے ان کے کنکشنوں پر ۳۰سے ۴۰ فی صد افراد فحش مواد تک رسائی چاہتے ہیں۔ اگر وہ ان ویب سائٹس کو بلاک کرتے ہیں تو ان کے کاروبار کو نقصان ہوسکتا ہے۔گویا سرمایہ داری نظام کی سوچ کے عین مطابق حکومت کا کاروبار چونکہ ISPsکے ساتھ وابستہ ہے اور ان کا کاروبار اس قسم کے مواد کی ترویج یا کم از کم اجازت کے ساتھ، لہٰذا اعلانات سے آگے بڑھ کر کوئی بھی عملی اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔
The licensee shall not broadcast , transmit, retransmit or relay the pornographic or obscene contents of any type. (پیمرا قوانین، پروگراموں کے عمومی معیار، دفعہ ۶)
اسی طرح کیبل پر نشر ہونے والے مواد کے لیے بھی قوانین موجود ہیں۔سوال محض ان پر عمل درآمد کا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسا نہیں ہورہا۔ ہمارا مذہب، ہماری ثقافت اور ہمارا کلچر کوئی بھی اس سب کی اجازت نہیں دیتا مگر اس کے باوجود ہم سب خاموش ہیں ۔ لیکن معاملہ محض مذہب کا نہیں ہے، دنیا کے ایسے ممالک جو خود کو سیکولر کہتے ہیں ، اس قسم کے مواد اور ویب سائٹ کو روکنے اور بنیادی انسانی اخلاقیات کی حفاظت کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ مغرب میں باشعور طبقات سرکاری ٹیلی وژن (جس میں عموماً کارٹون ، موویز، اشتہارات دکھائے جاتے ہیں) کو بے ہودہ ڈبّے (Idiot Box)سے موسوم کرتے ہیں جس سے بچوں کو دور رکھنے کی بات شدومد سے کی جارہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ پر آنے والی ایک خبر کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ پی ٹی اے نے ان چینی کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے جو چین اور سعودی عرب کو پورن بلاکنگ سروسز فراہم کررہی ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی اے کو اس مقصد کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے گئے اور معاملہ بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں چینی نظریات کے خلاف ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ فحش ویب سائٹ کی ایک بہت بڑی تعداد کو بلاک کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سخت قوانین بھی موجود ہیں بالخصوص Child Online Protection Act (1998)جو تمام کمرشل ویب سائٹس تک سے یہ کہتا ہے کہ وہ کم عمر نوجوانوں اور بچوں سے ایسی تمام اشیا اور معلومات کو دُور رکھیں جو ان کے لیے کسی بھی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ ان میں فحاشی پر مبنی مواد بھی شامل ہے۔ اسی طرح فیس بک اور سوشل میڈیا پر بھی پابندی ہے۔ ملائشیا میں فحش مواد کے متعلق سخت قانون موجود ہے اور اس قسم کے مواد کو دیکھنے، رکھنے یا پیش کرنے پر چار سال تک کی قید دی جاسکتی ہے۔۲۰۰۵ء میں یہ قانون بننے کے بعد سے اب تک سیکڑوں افراد کو یہ سزائیں اور بھاری جرمانے بھگتنے بھی پڑے ہیں۔ سعودی عرب میں فحش نگاری کے خلاف انتہائی سخت قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے سیکولر ہمسایہ ملک ہندستان نے خاصے اقدامات کیے ہیں۔ واضح رہے کہ پوری دنیا میں چین اور امریکا کے بعد ہندستان انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ ابھی حال ہی میں ہندستان کے چیف جسٹس نے ملک میں تمام فحش ویب سائٹس کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ہندستانی پینل کوڈ کا سیکشن۲۹۲ ملک میں ہر قسم کی فحش کتب کی خریدو فروخت، فحش نگاری اور فحش معلومات کے تبادلے پر پابندی عائد کرتا ہے، اور ان جرائم میں ملوث ہونے والے افراد کو دو سال تک کی قید اور بھاری جرمانے کا سزاوار سمجھتا ہے۔
عریانیت یا فحش پھیلانے والی ویب سائٹس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا بے محابا اور بے لگام استعمال بھی ہمارے ہاں ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین بخوبی جانتے ہوں گے کہ فحش مواد کو پھیلانے کے عمل میں فحش ویب سائٹس کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی بہت زیادہ دخل ہے۔ ہمارے ہاں گذشتہ سال فیس بک پر کچھ عرصے کے لیے پابندی عائد کی گئی تھی لیکن پھر اسے بحال کردیا گیا، حالانکہ اس پر اب بھی توہین رسالت اور توہین اسلام پر مشتمل مواد موجود ہے۔ تاہم، فحاشی اور عریانیت کا معاملہ بہت سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ فحش وڈیو، تصاویر، مضامین حتیٰ کہ بچوں کے لیے فحش ویڈیو گیمز کی ان ویب سائٹس پر بھرمار ہے۔ اس حوالے سے چین کی مثال ہم اوپر پیش کرچکے ہیں، اور اسی حوالے سے ہندستان میں بھی متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں۔
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹوں پر ایک اور ا الزام یہ ہے کہ ان سے انسانوں کا حقِ تخلیہ (Right to Privacy)بری طرح متاثر ہواہے، کیونکہ ان ویب سائٹس کے ذریعے انسان کی ذاتی زندگی کی بہت سی معلومات لاکھوں لوگوں تک پہنچتی ہیں جن کی مدد سے کسی بھی انسان کو جذباتی طور پر پریشان کیا جاسکتا ہے۔ نیوز ویک کی ایک تحریر کے مطابق سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس لوگوں میں دنیا سے ایک غلط طرح کے رابطے یا رشتے کا احساس پیدا کرتی ہیں اور اس سے تنہائی پسندی کا رجحان پیدا ہورہا ہے۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے ایک اور انتہائی فحش عمل آن لائن جنسی گفتگو ہے جس کے باعث فحاشی اور برائی کا سیلاب مزید تیزتر ہوتا جارہا ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اجنبیوں سے دوستی کیاکیا گل کھلاتی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اب ان ویب سائٹس کی وجہ سے جو آفات آرہی ہیں ان میں ایک بڑی آفت طلاق کے رجحان میں خطرناک اضافے کی صورت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ مصر میں اسی رجحان کو بنیاد بنا کر چند علما نے ان ویب سائٹس کو حرام بھی قرار دیا ہے۔
بات محض انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد، اس تک بلاروک ٹوک رسائی اور اس میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے کردار تک محدود نہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا حد سے متجاوز استعمال اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ حد سے زیادہ وقت گزارنے کے سبب ہمارے معاشرتی رویے اور اقدار تباہ ہورہی ہیں۔ اس تباہی کی ایک قیمت ہم اداکررہے ہیں اور باقی ہماری آیندہ آنے والی نسلیں ادا کریں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال ہو یا الیکٹرانک میڈیا کا، اس حد تک رکھا جائے جہاں تک یہ مفید رہے، اور غیر مفید سرگرمیوں کو حکومت مانیٹر بھی کرے اور محدود بھی۔ لیکن دوسری طرف محض حکومت کی کوششوں سے معاملہ ختم نہیں ہوگا، اس کے لیے ان تمام لوگوں کو مل کر اپنی اقدار اورروایات کی پاس داری کافرض ادا کرنا ہوگا جو اس ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں۔ عوامی سطح پر منظم جدوجہد اور سماجی دبائو کے تحت جہاں حکومت کو مؤثر اقدامات اُٹھانے کے لیے مجبور کیا جائے وہاں معاشرتی سطح پر عوام میں دین کا شعور بیدار کرنے، اخلاقی اقدار کے تحفظ اور فحاشی و عریانی کے خاتمے کے لیے انفرادی اور اجتماعی دائرے میں اصلاحِ معاشرہ پر مبنی منظم اجتماعی جدوجہد بھی ناگزیر ہے۔ معاشرے کی اسلام پسند اور محب ِ وطن قوتوں اور درد دل رکھنے والے عناصر کو اس کے لیے ہراوّل دستے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اخلاقی انحطاط و زوال سے بچنا چاہتے تو اخلاقی بگاڑ کو ہرسطح پر روکنا ہوگا۔
نائیجیریا براعظم افریقہ کے مغرب میں بحیرۂ اٹلانٹک کے طویل ساحل کے تقریباً وسط میں حبشی النسل قبائل کی ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی دنیا کی ساتویں بڑی آبادی پر مشتمل مملکت ہے۔ اس کا رقبہ اور آبادی، دونوں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ برطانوی قوم کی توسیع پسندی اور ہوس ملک گیری کے نتیجے میں یہ علاقہ بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی کالونی قرار پایا، اور برطانوی حکومت نے ۱۹۱۴ء میں اس کے ۲۵۰ سے زائد قبائل پر نائیجیریا نام کا ملک برطانوی کالونی کی صورت میں تشکیل دیا۔ یہ سب قبائل اپنے عقائد، مذہب، روایات اور عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ اس مملکت کا شمالی علاقہ زیادہ تر صحارا کے ریگستان میں واقع ہے اور حوسا اور چند دوسرے قبائل پر مشتمل ہے۔اس علاقے کی ۷۰فی صد آبادی مسلمان ہے، جب کہ بقیہ آبادی عیسائی ہے اور روایت پرستوں پر مشتمل ہے۔
نائیجیریا میں اسلام شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک، مثلاً مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر وغیرہ اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن، سعودی عرب کے راستے داخل ہوا۔ مغربی نائیجیریا میں زیادہ تر پروبا قبائل آباد ہیں اور ان کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔ مشہور بندرگاہ لاگوس اسی علاقے کے ساحل پر واقع ہے، جو نائیجیریا کا پہلا دارالخلافہ تھا۔ مشرقی علاقہ بھی زیادہ تر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ اس علاقے کی جانب سے برطانوی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور عیسائی مبلغین کا طائفہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس علاقے میں اگبو اور دوسرے قبائل رہتے تھے جن کی اکثریت کو ان مبلغین نے عیسائی بنا لیا۔ اسی لیے اس علاقے کے قبائل یا تو عیسائی ہیں اور جو عیسائی نہ بن سکے وہ اپنی روایت پرستی پر قائم رہے۔ اس علاقے کی ساحلی پٹی پٹرول سے مالامال ہے، اور یہاں سے دنیا کا بہترین پٹرول حاصل ہوتا ہے۔
بین الاقوامی حالات اور ملک میں اندرونی تحریکوں کے دبائو کے تحت برطانوی آبادکاروں کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آزاد ملک قرار پایا۔ آزادی کے فوراً بعد ملک فوجی انقلاب کی نذر ہوگیا۔ ایک عیسائی جنرل برونسی کی قیادت میں یہ خونیں ثابت ہوا۔ معروف سیاسی اور مذہبی رہنما قتل کردیے گئے جو زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھے۔ ان میں ابوبکر تفاوا بلیوا اور احمد بیلو قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں گہری خلیج پیدا ہوئی۔ کچھ عرصے بعد مسلمان اور عیسائی فوجی جرنیلوں پر مشتمل ایک نئی فوجی قیادت اُبھری۔
۱۹۶۷ء میں مشرقی نائیجیریا کے اگبوقبائل کے ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے اس علاقے کو بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا کر علیحدہ کرلیا۔ برطانیہ، فرانس، اور دوسری مغربی حکومتوں نے اس نئی حکومت کی مدد کی، کیونکہ اس علاقے میں دنیا کا بہترین پٹرول نکلتا ہے اور یہ عیسائی علاقہ ہے۔ مرکزی حکومت کی خفیہ مدد مصر، لیبیا اور سوڈان نے اس بغاوت کو فرو کرنے میں کی۔ بغاوت ناکام ہوئی مگر اس میں ۱۰لاکھ سے زائد افراد کام آئے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ باغی لیڈر کرنل ایمسکا اجوکو ،کو حال ہی میں (اوائل مارچ ۲۰۱۲ئ) نائیجیرین حکومت کی طرف سے عزت و احترام سے دفنایا گیا اور نائیجیریا کے صدر نے اس کے جنازے میں بذاتِ خود شرکت کی ہے۔
برطانوی استعمار کے دوران عیسائیت نائیجیریا میں داخل ہوئی اور عیسائی مبلغین کی سرگرمیوں کے باعث مشرقی علاقوں کے قبائل نے عیسائیت اختیار کی۔ پھر برطانوی دور میں قائم کیے گئے تعلیمی اداروں کے ذریعے بھی عیسائیت کو فروغ ملا۔ ہر ادارے میں بائبل اور عیسائیت کی تعلیم لازم تھی۔ عالمی عیسائیت نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں براعظم افریقہ میں بڑے پیمانے پر عیسائیت کی تبلیغ اور عیسائی براعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت بے شمار مبلغین مغربی ممالک اور امریکا سے لائے گئے۔ یہ تحریک ہزار جتن کے باوجود کامیاب نہ ہوسکی۔ دل چسپ مناظر یہ دیکھنے میں آئے کہ مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کا صدر جو خود عیسائی مبلّغ تھا اور عیسائیت کی تبلیغ و توسیع کا ذمہ دار تھا، اس کے اپنے گھر کے افراد نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح نائیجیریا میں عیسائی بشپ کی اپنی بیٹی اموجہ سے مسلمان ہوگئی کہ اسے مسلمانوں میں شادی کے بندھن کے طریقے بڑے سادہ اور پُراثر نظر آئے۔
نائیجیریا میں اسلام اور عیسائیت ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رہے۔ لہٰذا یہاں کچھ عرصے بعد کہیں نہ کہیں عیسائی مسلم فساد ضرور ہوتا ہے۔ دونوں طرف سے بڑی تعداد میں اموات ہوتی ہیں اور گرجا اور مساجد اور گھر جلائے اور مسمار کردیے جاتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۹۹۹ء سے اب تک مذہبی اور سیاسی فسادات ۱۶ہزار انسانوں کو نگل چکے ہیں۔ صرف ۲۰۱۱ء میں شمالی نائیجیریا میں ۸۰۰؍افراد موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ اسی سال کے دوران میں بائوچی، بنوئے،نساروا اور ترابا ریاستوں میں ۱۲۰؍افراد فساد کی نذر ہوئے۔ یہ سب ریاستیں شمالی نائیجیریا کی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ فسادات ہوتے کیوں ہیں؟ مشرقی اور جنوبی ریاستوں کے عیسائی افراد روزگار اور تجارت کی غرض سے شمالی نائیجیریا آتے ہیں اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرنا اور قبضہ جمانا شروع کردیتے ہیں۔ عیسائیت اور اسلام کی بنیاد پر بُغض و عناد جو پہلے سے ہی ہے اور اس پر قبائلی عناد بھی۔ بس پھر کہیں سے شعلہ بھڑکتا ہے، علاقے کے باسی دوسرے علاقے کے واردین کو علاقہ چھوڑنے کو کہتے ہیں اور یہی فساد کی جڑ بن جاتا ہے۔ اس کے ردعمل میں عیسائی علاقوں میں بھی یہی صورت پیدا ہوتی ہے۔
بوکوحرام گروپ خالص مقامی لوگوں پر مشتمل سمجھا جاتا ہے مگر اس کو کیا کہیے کہ اقوام متحدہ کے آفس کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں اس گروہ کا تعلق القاعدہ سے تلاش کرلیا گیا ہے۔ یہ اس طرح ہوا کہ اس گروپ کے سات ممبران جو نائیجر (نائیجیریا کی ہمسایہ اسٹیٹ) سے گزر رہے تھے، جب گرفتار ہوئے تو ان کے قبضے سے ملنے والی بعض چیزوں کا تعلق القاعدہ سے پایا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو القاعدہ نے ’اسلامی مغرب‘ میں تربیت بھی دی تھی۔
تیونس سے شروع ہونے والی بہار نے کئی عرب ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مصر، لیبیا اور یمن میں بھی آمریت کا جنازہ نکل گیا۔ اب دیریا سویر شام کی باری ہے۔ اس بہارِ جاں فزا سے افریقہ کے دیگر ممالک بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مغربی افریقہ کا ملک سینیگال اس کی بہترین مثال ہے جہاں دارالحکومت ڈاکار اور دیگر شہروں میں عوام صدر عبد اللہ واد کے خلاف سر سے کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ سینیگال مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کا کُل رقبہ ایک لاکھ ۹۶ہزار ۷سو۲۳ مربع کلومیٹر، یعنی پاکستان کے رقبے کا ایک چوتھائی ہے، جب کہ آبادی ایک کروڑ ۲۳ لاکھ ہے، یعنی پاکستان کی آبادی کا پندرھواں حصہ۔ ملک معاشی لحاظ سے پاکستان سے بھی غریب ہے۔ فی کس آمدنی۱۶۰۰ ڈالر فی کس سالانہ ہے، جب کہ پاکستان کی تقریباً۲۱۰۰ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ سینیگال کی آبادی ۹۶ فی صد مسلمان ہے البتہ قدیم مذہبی رسومات اور روایاتِ بت پرستی بیش تر آبادی میں اسی طرح پائی جاتی ہیں، جس طرح ہمارے ہاں ہندوانہ تہذیب اور رسوم و رواج کا چلن ہے۔
سینیگال نے ہم سے ۱۳ برس بعد، یعنی ۱۹۶۰ ء میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کی۔ پانچ مقامی قبائلی زبانوں کے علاوہ فرانسیسی یہاں کی سرکاری زبان رہی ہے۔ اب عربی کی طرف بھی بہت زیادہ رجحان ہے۔ افریقہ کا یہ ملک اس لحاظ سے دیگر بیش تر افریقی، لاطینی امریکی اور ایشیائی و عرب ممالک سے ممتاز و ممیز ہے کہ یہاں فوجی انقلابات کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہاں کی فوج ہے بھی نہایت مختصر۔ سینیگال کے بحیثیت مجموعی اپنے ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہی رہے ہیں البتہ اپنے پڑوسی ملک مالی کے ساتھ اس وقت کچھ تلخیاں پیدا ہوئی تھیں جب دونوں ممالک نے آزادی کے بعد آپس میں ایک وفاق قائم کیا، مگر چار ہی ماہ بعد یہ وفاق بکھر گیا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس علیحدگی میں بھی نہ کوئی گولی چلی، نہ فسادات ہوئے۔ یوں ان افریقی ممالک نے مہذب ہونے کا ثبوت دیا۔ سینیگال کے پڑوس میں سبھی ممالک چھوٹے چھوٹے ہیں۔ ان میں گامبیا، ماریتانیہ، مالی، گِنی اور گِنی بسائو شامل ہیں۔ یہاں اسلام کی روشنی تقریباً اُسی دور میں پہنچی جب مسلمان شمال مغربی افریقہ سے ہسپانیہ کی طرف منتقل ہوئے۔
سینیگال میں صحیح اسلامی تعلیم کا فقدان رہا ہے۔ اس کے باوجود شمال مغربی افریقہ کے عرب ممالک الجزائر، لیبیا، تیونس اور مراکش کے اسلامی جہاد کی وجہ سے یہاں بھی ایک محدود طبقے میں جہادی جذبات پروان چڑھے۔ سنوسی تحریک، عبدالقادر الجزائری اور عمرمختار سے محبت کرنے والا ایک مختصر حلقہ ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں موجود ہے۔ تحریک ِآزادی میں بھی یہ لوگ پیش پیش تھے، مگر فرانسیسی استعمار نے ان کو ہمیشہ زیرعتاب رکھا۔ بدقسمتی سے عیسائی مشنری اور قادیانی بھی یہاں اپنی سرگرمیاں فرانسیسی دور ہی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بے پناہ وسائل رکھتے ہیں۔ تاہم، یہ بات باعث ِ اطمینان ہے کہ سینیگال کی آبادی نے عیسائیت یا قادیانیت کو قبول نہیں کیا۔
سینیگال میں اسلامی تحریک بالکل نئی اور قوت کے لحاظ سے ابھی بہت محدود ہے۔ تاہم، مصر اور سعودی عرب کی جامعات سے فارغ ہوکر آنے والے نوجوان عقائد و افکار کے لحاظ سے درست اسلامی سوچ کے حامل ہیں۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ہوکر ۱۹۹۹ء میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام ’جماعت عبادالرحمن‘ ہے۔ اس کے سربراہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ مسلمان استاد احمد جاں ہیں۔ وہ مولانا مودودی کے مداح ہونے کے ساتھ تحریکِ اسلامی پاکستان سے بھی متعارف ہیں۔ والی سعودی عرب نے بھی اس ملک میں کافی کام کیا ہے اور ان کے موجودہ نمایندے استاد رجب مصری ہیں۔ اسلامی تحریک کے لیے ایسے قابل نوجوانوں کا وجود بساغنیمت ہے۔ ان کا کام محدود تھا مگر گذشتہ سال کی عرب بہار نے جب اسلامی بہار کا روپ دھارا تو ان کی جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ ابھی وہ انتخابی معرکے میں اُترنے کے قابل نہیں مگر ان کے منظم کام کی وجہ سے تمام اپوزیشن پارٹیاں ان کی حمایت کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کی برتری اور جمہوریت کی حقیقی بحالی و تحفظ کی یقین دہانی کرانے والے صدارتی اُمیدوار کی حمایت کریں گے۔ طلبا میں ’طلبا عبادالرحمن‘ کے نام سے ان کی ملک گیر تنظیم موجود ہے جو فعال ہے اور مستقبل میں قوت میں اضافے کا باعث ہوگی۔ پاکستان سے اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر انتظاربٹ اور دیگر ماہرین امراضِ چشم اطبا کی نگرانی میں گذشتہ چند برسوں سے افریقہ کے جن ممالک میں فری میڈیکل کیمپ لگائے ہیں ان میں سینیگال بھی قابلِ ذکر ہے۔ ان کیمپوں کی وجہ سے بھی عباد الرحمن تنظیم کو اخلاقی و عمومی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ یہاں فرانس اور بھارت نے سونے کی کانوں اور کھاد کی فیکٹریوں کے ذریعے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ پاکستان کا اس ملک کے ساتھ محض سفارت خانے کی حد تک تعلق ہے۔
سینیگال پر مختلف اوقات میں پرتگال، فرانس اور برطانیہ نے اپنے استعماری پنجے گاڑے مگر آخر میں ۱۸۴۰ء سے ۱۹۶۰ء تک یہ سرزمین فرانسیسی کالونی ہی رہی۔ یورپ اور امریکا میں افریقی آبادی کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تو اس کا سب سے بڑا اڈا بھی اسی ملک میں تھا۔ فرانس نے سینیگال کو آزادی دینے سے قبل اپنا ایک سدھایا ہوا شاگرد لیوپولڈ سیدار سینغور، کمال چابک دستی سے اس ملک پر مسلط کر دیا۔ موصوف خاندانی لحاظ سے مسلمان تھے مگر فرانسیسی تہذیب و ثقافت کے دل دادہ، فرنچ زبان کے شاعر اور آزاد ملک کی حکمرانی کے باوجود اس بات کے خواہش مند کہ انھیں فرانسیسی شہریت مل جائے۔ انھیں اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔ ہاں، فرانس کی سرپرستی میں اس ملک پر ایک جماعتی نظام کے تحت اس نے ۲۰سال حکمرانی کی۔ اس عرصے میں اس نے جو قانون، جب چاہا اور جیسے چاہا بنایا اور پھر جب چاہا اسے تبدیل کر دیا۔ وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ سیکولرازم اور سوشلزم کا دل دادہ صدر سینغور ہر روز معاشی پالیسیاں بدلتا تھا۔ ملک کی معیشت تباہ ہو رہی تھی۔ اس دوران میں اس نے ایک مفید اور انقلابی کام بھی کر دکھایا۔ ۱۹۷۳ء میں اس نے دیگر چھے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ’مغربی افریقی معاشی کمیونٹی‘ کی بنیاد رکھی جس سے ان سب کو کم و بیش تجارتی فوائد حاصل ہوئے۔ سینیگال اقوام متحدہ ،او آئی سی اور افریقن یونین کا ممبر ہے۔
سینیگالی عوام بھی اپنے صدر سے تنگ آچکے تھے۔ عوامی پریشانی نے ابھی کوئی احتجاجی رنگ یا انقلابی لہر کا روپ نہیں اختیار کیا تھا کہ اپنے خلاف عوامی نفرت کا احساس کرتے ہوئے صدر سینغور نے اقتدار سے استعفا دے دیا۔ تیسری دنیا کے ممالک اور وہ بھی پس ماندہ افریقہ میں یہ مثال یکتا ہے۔ دراصل سینغور کے اقتدار سے ہاتھ اٹھانے کی وجہ اس کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی اقتصادی ابتری اور عوام الناس کی شدید پریشانی اور غم و غصہ تھا۔ اس نے یہ شاطرانہ چال بھی چلی کہ اپنے نائب عبدہٗ ضیوف کو اقتدار سونپ دیا۔ ضیوف نے کسی حد تک عوام کے لیے سیاسی آزادی کا راستہ ہموار کیا مگر ہنوز ملکی سیاست یک جماعتی سیاسی پارٹی کے گرد ہی گھومتی رہی۔ نئے صدر نے معاشی صورتِ حال کو سنبھالا دینے کے لیے اپنے پیش رو کی قومیائی ہوئی بیش تر کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کر دیا۔ ملک کے اندر خام لوہا اور فاسفیٹ کی اچھی خاصی مقدار موجود ہے، اسے ترقی دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد ضیوف نے کثیرالجماعتی سیاست کی اجازت دی۔ حکومت کے مخالفین نے اپنی سیاسی جماعت بنالی جس کے بعد کئی نئی جماعتیں بھی وجود میں آنے لگیں۔
ضیوف کے ۲۰سالہ دورِا قتدار کے بعد مارچ ۲۰۰۰ء میں صدارتی الیکشن ہوئے تو اپوزیشن کے نمایندے عبد اللہ واد نے ۶۰ فی صد ووٹ حاصل کرکے صدارتی الیکشن جیت لیا۔ ۲۰سال صدارتی منصب پر فائز رہنے کے بعد اپنی عبرت ناک شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ضیوف نے بڑی خوش اسلوبی سے اقتدار نو منتخب صدر کے حوالے کر دیا۔ اب ملک کے اندر سیاسی آزاد یاں بھی تھیں اور مختلف پارٹیاں اپنے اپنے پروگرام کے تحت اپنے منشور بھی پیش کر رہی تھیں۔ عبد اللہ واد اگرچہ انتخاب کے ذریعے برسر اقتدار آیا مگر وہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے جو اصلاحات کیں، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ان اصلاحات میں سے ایک یہ تھی کہ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا نیز انھیں جایداد اور وراثت کا حق بھی قانون میں دے دیا گیا۔ اس عرصے میں عبد اللہ واد نے اپوزیشن کے دبائو پر دستور میں ایک ترمیم کی، جس کے تحت کوئی بھی صدر دو میقات سے زیادہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔
عبد اللہ واد ۲۰۰۱ء میں منتخب ہوا تھا، پھر ۲۰۰۷ء میں، اور اب ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے لیے دوبارہ اُمیدوار بن گیا ہے۔ اپوزیشن نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ دستور میں ترمیم کے بعد دستور کی دفعہ ۲۷ اور ۱۰۴ واضح طور پر کسی بھی منتخب صدر کے لیے دو سے زیادہ مرتبہ صدارتی انتخاب لڑنا ممنوع قرار دیتی ہیں۔ عبد اللہ واد نے یہ مکرو حیلہ اختیار کیا ہے کہ اس کا پہلا انتخاب دستوری ترمیم سے قبل ہوگیا تھا، اس لیے اسے اس مرتبہ بھی انتخاب میں حصہ لینے پر کوئی دستوری قدغن نہیں ہے۔ حزبِ مخالف کی تمام پارٹیاں صدر کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں۔ دارالحکومت ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں اور کئی جگہ سرکاری عمارتوں کو توڑ پھوڑ کے ذریعے نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں کے اثرات سینیگال میں بھی پہنچ گئے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی ’’سوشلسٹ پارٹی آف سینیگال‘‘ کے صدارتی امیدوار عثمان تنور دیانگ نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عبد اللہ واد صدارت پر غاصبانہ اور غیر دستوری قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دستور کی خلاف ورزی کرکے اس نے خود کو مجرم ثابت کر دیا ہے۔ اب عوامی غیظ و غضب سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے۔
اس دوران میں عبد اللہ واد نے دستوری مجلس کے پانچ ارکان سے تصدیق کروالی ہے کہ اس کا یہ الیکشن تیسرا نہیں، دوسرا شمار ہوگا۔ اپوزیشن صدارتی امیدوار نے کہا کہ یہ ہزاروں کا مجمع جو فیصلہ دے رہا ہے، وہ درست ہے یا پانچ افراد کا فیصلہ درست تسلیم کیا جائے۔ اس موقع پر مجمع عام میں صدر عبد اللہ واد کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ ایک دوسرے صدارتی امیدوار ابراہیم فال نے کہا: ’’صدر واد کے اس خود غرضانہ موقف کے نتیجے میں پورا ملک مستقل طور پر تشدد اور بدامنی کا شکار ہوجائے گا۔ اگر صدر نے اپنی حکومتی مشینری کے ذریعے پرتشدد راستہ اختیار کیا تو عوام اس سے زیادہ قوت کے ساتھ اس کا جواب دیں گے‘‘۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے تمام طبقے بھی صدر کی راے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ ایک نوجوان سینیگالی آرٹسٹ یوسف اندور نے کہا کہ سینیگال کا ہر شخص آج سڑکوں پر نکل آیا ہے اور لوگوں کے چہروں سے واضح طور پر پڑھا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ صدر کی رخصتی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرِ امور سینیگال مختار ولد سیداتی نے کہا: ’’سینیگال میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی جذبات پروان چڑھ رہے ہیں جو عالم عرب میں دیکھے گئے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے عرب میڈیا بہت مقبول ہو رہا ہے۔ یہ بات ہر گز بعید نہیں کہ عرب دنیا میں رونما ہونے والا انقلاب ان تمام افریقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے جو عربی ثقافت سے متاثر ہیں اور اس لحاظ سے سینیگال بہت نمایاں ہے ‘‘۔
گذشتہ ۲۰۰ برس سے عالمِ اسلام محکومی و زوال کا شکار ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ایک دو ملکوں کے سوا، باقی تمام مسلمان ممالک مغربی استعماری طاقتوں کے غلام بن چکے تھے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں عالمِ اسلام میں احیاے اسلام کی تحریکیں بھی کام کرنے لگی تھیں، جن کے سربراہوں کے سامنے اوّلین مسئلہ مغربی ممالک کی غلامی سے نجات کا حصول تھا۔ ان تحریکوں کے آٹھ درخشندہ ستاروں کے متعلق، ان کی سوانح اور افکار پر مشتمل کتاب ایک شیعہ اہلِ علم علی رہنما نے Pioneers of Islamic Revivalism کے عنوان سے شائع کی جس کا دوسرا اڈیشن ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب اسی اڈیشن کا تنقیدی اضافوں کے ساتھ ترجمہ ہے۔
کتاب کے آغاز میں ۴۰صفحات کا ’پیش لفظ‘ مترجم و مؤلف کی ژرف نگاہی، تاریخ فہمی اور عالمی حالات پر محکم گرفت کے علاوہ ان کی تنقیدی بصیرت اور احیاے اسلام کے لیے ان کے سوزوگداز سے معمور جذبات کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے زوالِ اُمت کے اسباب و علل پر بحث کرتے ہوئے ہندستان کے حالات کا معروضی جائزہ پیش کرتے ہوئے سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تحریک احیاے اسلام کا تعارف بھی کرایا ہے۔
کتاب میں پانچ غیرمسلم اہلِ علم کی نگارشات ہیں جن کا تعلق مغربی جامعات کے ان شعبوں سے ہے جو مسلم ممالک کے حالات کے خصوصی مطالعے کے لیے قائم ہیں۔ مصری رہنما محمدعبدہٗ پر مضمون لبنانی عیسائی خاتون یونی حداد نے لکھا ہے۔ محترمہ امریکی جارج ٹائون یونی ورسٹی کے شعبہ ’ہسٹری آف اسلام‘ اور ’عیسائی مسلم تعلقات‘ میں پروفسیر ہیں۔ حسن البنا شہید پر مضمون امریکی دانش ور ڈیوڈ کامنز کے قلم سے ہے جو ڈکنسن کالج میں ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ سید قطب شہید پر تحقیقی مقالہ مغربی اسکالر چارلس ٹرپ کے قلم کا مرہونِ منت ہے۔ لبنانی رہنما موسیٰ الصدر کے متعلق مضمون بوسٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر آگسٹس رچرڈ نورٹن کے قلم سے ہے۔ سید جمال الدین افغانی پر تحقیقی مقالہ نکی آر کیڈیا کی محققانہ نظر کا رہینِ منت ہے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی پر سوانحی اور ان کی فکرونظر پر تحقیقی مضمون سید ولی رضانصر کے بصیرت افروز تنقیدی نقطۂ نظر کا حامل ہے جس میں ۷۰ سے زائد حوالہ جات ہیں۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کی انقلاب انگیز شخصیت پر باقرمعین نے قلم اُٹھایا ہے۔
مترجم نے ان غیرمسلم مضمون نگاروں کے نقطۂ نظر سے اختلاف بھی کیا ہے اور اپنی اختلافی آرا بھی درج کی ہیں۔ ان مضامین کا مرکز و محور وہ شخصیتیں ہیں جو دنیا میں احیاے اسلام کے لیے متحرک رہیں اور ان کی فکرواستدلال نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحرک کیا ہے۔ اس کتاب سے غیرمسلم اہلِ علم کے نقطۂ نظر کا علم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی تحریکوں کو کس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور کس قسم کے تاثرات پھیلا رہے ہیں۔ آج مسلم ممالک میں احیاے اسلام کی تحریکوں کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ایک صدی کی حق و باطل کی کش مکش نتیجہ خیز ہوتی نظرآرہی ہے۔ ترکی، مصر، ایران، تیونس، لیبیا اور شام کے حالات نہایت حوصلہ افزا ہیں۔
مسلمانوں کو مغربی استعمار کی غلامی سے نجات دلانے اور احیاے اسلام کے لیے کام کرنے والی ان تحریکوں کے بانیوں کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان انقلابی شخصیتوں کی فکر اور لائحہ عمل کے بارے میں حق اور مخالفت میں ان کی زندگی میں بھی بہت کچھ لکھا گیا اور اب بھی لکھا جا رہا ہے۔ کتاب کے مندرجات کے بارے میں قارئین کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ اسلوبِ بیان عام فہم ہے، ترجمے کے فنی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔ احیاے اسلام کی تحریکوں سے دل چسپی رکھنے والوں اور عام قارئین کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (ظفرحجازی)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لائے تھے جو ہرلحاظ سے مثالی تھا۔ اخوت، محبت ، امدادِ باہمی اور ایثار اس معاشرے کا طرئہ امتیاز تھا۔ یہی زیرنظر کتاب کا موضوع ہے۔ کتاب میں ۱۰ صحابہ کرامؓ کے جودو سخا کے روح پرور واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں انفرادی امداد، غریبوں، یتیموں، بیوائوں، ناداروں، بے کسوں کے ساتھ تعاون کی مثالیں بھی ہیں، اور اجتماعی فلاحی منصوبوں: نہروں کی کھدائی، سڑکوں، پُلوں، مہمان خانوں، مساجد کی تعمیر، راستوں پر پانی کا انتظام اور چراگاہوں کے بندوبست پر رقم خرچ کرنے کے واقعات بھی۔ ان واقعات کو پڑھ کر آج کے مادہ پرست ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا محرک تھا جس کی بدولت صحابہ کرامؓ نے انفاق و ایثار کے ایسے لازوال نمونے پیش کیے ؟مصنف نے کتاب کے ابتدا میں ’صحابہ کرامؓ میں انفاق کے اسباب و عوامل‘کے عنوان کے تحت اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حُبِ الٰہی، فکرِآخرت اور دنیا کے مال و اسباب سے بے رغبتی، وہ عوامل ہیں جن کی بدولت صحابہ کرامؓ فقروتنگ دستی سے بے نیاز ہوکر انفاق فی سبیل اللہ کرتے تھے۔
کتاب میں صحابہ کرامؓ کی آمدنی کے ذرائع و وسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس سے یہ درس ملتا ہے کہ فلاحی و رفاہی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس معاشرے کے ارکان جائز ذرائع سے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے تگ و دو بھی کریں۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک مفید اور فکرانگیز کاوش ہے، جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گوناگوں خوبیوں کے حامل آسمان نبوت کے یہ ستارے اپنی اپنی جگہ پر ایک مکمل سماجی اور رفاہی ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ آج بھی بڑھتی ہوئی مادہ پرستی اور نفسانفسی کا علاج اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
محمد ریاض اچھروی ۳۰،۳۲ برس سے برلن، جرمنی میں مقیم ہیں۔ اُردو ، جرمن میں دستک نامی رسالہ نکالتے ہیں۔ مسجد بلال، برلن میں فہم قرآن کلاس کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے طریقۂ تدریس سے بھی استفادہ کرچکے ہیں۔ تذکیر بالقرآن کی غرض و غایت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’قرآن کا پیغام اس کی اصل روح کے ساتھ آدمی کے دل و دماغ میں گہرا اُتر جائے تاکہ آدمی کا عمل اس کی روشنی میں بہتر سے بہتر ہو۔ یہ قرآن مجید کی تفسیرکم اور تذکیر زیادہ ہے‘‘۔ ’تقریظ‘ میں حافظ محمد ادریس تحریر کرتے ہیں کہ ’’ایک عام قاری کے لیے یہ ایک بہت اچھی اور مفید تذکیر ہے۔ ہر آیت کے ترجمے اور تشریح کے بعد مؤلف نے قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ خود کس مقام پر کھڑا ہے، اور دین پر عمل پیرا ہونے کی تذکیر و تنبیہ کی ہے۔ تشریح کے دوران احادیث کی معروف کتب اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔تذکیر بالقرآن میں مولانا فتح محمد جالندھری کے ترجمے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ امید ہے سورۃ الفاتحہ سے سورۃ التوبہ کے بعد دیگر حصے بھی جلدمنظرعام پر آئیں گے۔ (محمد ایوب منیر)
روزنامہ زمیندار اُردو کا ایک قدیم اخبار ہے جسے مولانا ظفر علی خاں کے والد محترم مولانا سراج الدین احمد خاں نے ۱۹۰۳ء میں لاہور سے جاری کیا۔ حق گوئی و بے باکی کی پاداش میں انگریزی حکومت نے اسے کئی بار بند کیا مگر کسی نہ کسی طرح نکلتا ہی رہا۔اقبالیاتی لوازمے پر مشتمل متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں، مثلاً: حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے، سفرنامۂ اقبال، اقبال کا سیاسی سفر ، افکار و حوادث اور گفتارِ اقبال وغیرہ۔ زیرنظر کتاب کی مرتب ڈاکٹر اخترالنساء کو گفتارِ اقبال پر تحقیق کے دوران میں احساس ہوا کہ اگرچہ گفتارِ اقبالمیں روزنامہ زمیندار کا کچھ اقبالیاتی لوازمہ موجود ہے۔ اس کے باوجود، اس سلسلے کی بہت سی تحریریں اور متفرق لوازمہ ہنوز منظرعام پر نہیں آیا۔ انھوں نے نہایت عرق ریزی سے یہ لوازمہ تلاش کیا اور اسے مختلف عنوانات کے تحت ابواب بندی کرکے کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔
روزنامہ زمیندار سے اخذ کردہ لوازمے میں، علمی و سیاسی سرگرمیوں کی خبریں، اقبال کی تقاریر، بیانات، تبصرۂ کتب، مکاتیب اور تار وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں تصانیفِ اقبال پر مضامین اور تبصرے، ان کی اشاعت کے متعلق اشتہارات، اطلاعات، رپورٹیں، تجزیے، تبصرے، تار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اقبال کی چند نظمیں، سوانحی مواد، معاصرین اور احباب سے تعلّقِ خاطر، انجمنیں، ادارے اور افکار و حوادث میں ذکرِاقبال بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ الغرض روزنامہ زمیندار سے اقبال و اقبالیات سے متعلق ہرطرح کی تحریریں اور لوازمہ تلاش و اخذ کرکے کتاب میں شامل کردیا گیا ہے۔ سارے لوازمے کو بڑے سلیقے کے ساتھ زمانی اعتبار سے چھے ابواب میں تقسیم کرکے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس پر حواشی و تعلیقات مستزاد ہیں جو محترمہ اخترالنساء کے محنتِ شاقہ پر دال ہیں۔ ۱۳صفحات کا مفصل دیباچہ بھی لائق مطالعہ ہے۔ یہ کتاب اقبالیاتی ذخیرے میں عمدہ اضافہ ہے اور اس کی اشاعت سے اقبال کی تفہیم اور اقبالیات کی تحقیق میں بہت مدد ملے گی۔ (قاسم محمود احمد)
انبیا و رسل کی سرزمین فلسطین، مکۃ المکّرمہ اور مدینہ منورہ کی طرح مقدس مقامات میں شمار ہوتی ہے مگر امریکا و مغرب کی آشیرباد سے قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست اور اس کے غاصبانہ قبضے کے باعث مسلمانوں کا یہاں آناجانا کم ہی ہوتا ہے۔ اس لیے فلسطین و اسرائیل کے حالات و واقعات کے بارے کسی مسلمان کا سفرنامہ کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے محمد اظہر علی اور ان کی اہلیہ طویل عرصے سے ناروے میں مقیم ہیں۔ ان کا بیٹا چونکہ اسرائیل میں یونیسکو کے دفتر میں ملازم تھا، اس بنا پر انھیں فلسطین و اسرائیل دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے اس ۱۰روزہ سفر کے دوران انھوں نے جو دیکھا اُسے رقم کردیا۔ سفرنامہ عمدہ اسلوب اور معیاری واقعات نگاری، اعداد و شمار، معلومات اور واقعات عبرت کا مرقع ہے۔ اپنے نام پسِ آئینہ کوئی اور ہے سے شاعری کی کتاب معلوم ہوتی ہے مگر پڑھنے سے پتاچلتا ہے کہ یہ سفرنامہ فلسطین و اسرائیل ہے۔ مسجد اقصیٰ اور فلسطین و اسرائیل کے تاریخی مقامات اور ۵۰سے زائد عنوانات کے تحت معلومات جمع کی گئی ہیں، جب کہ آخر میں چند یادگاری تصاویر کتاب کا حُسن دوچند کرتی ہیں۔ آغازِ کتاب میں مصنف نے اس معرکے کو سر کرنے کی داستان بیان کی ہے۔ یہ سفرنامہ فلسطین کی حقیقی اور سچی تصویر پیش کرتا ہے اور اسرائیل کے ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ سفری ادب میں یہ ایک قابلِ قدر ، دل چسپ اور مفید اضافہ ہے۔ اسرائیل و فلسطین سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے براہِ راست حاصل شدہ معلومات اور واقعاتِ عبرت پر مبنی ایک خوب صورت سفرنامہ۔(عمران ظہور غازی)
جہاں زیب کالج سیدوشریف (سوات) میں سالِ اوّل کا طالب علم اپنے کزن کے قتل میں دھر لیا گیا۔ بے گناہ ملزم کے والد نے تھانے دار کو ۲ لاکھ روپے کی رشوت دینے سے انکار کیا تو ملزم پر بے پناہ تشدد ہوا، مقدمہ چلا اور آخر سزاے موت سنائی گئی۔ اس عرصے میں سہیل فدا نے اپنے دادا اور والدہ کی دعائوں، مطالعے کی طرف طبعی رغبت اور (سب سے بڑھ کر) والد کی حوصلہ افزائی کے سہارے بفضلہ تعالیٰ پے درپے تعلیمی امتحانات پاس کیے۔’بین الاقوامی تعلقات‘ میں ایم اے کیا۔ ایک اپیل کے نتیجے میں وفاقی شریعت کورٹ نے سزاے موت عمرقید میں بدل دی۔ بی کلاس کی سہولت ملی، ایم اے تاریخ میں کیا۔ انگریزی ادب میں ایم اے کا نتیجہ مارچ ۲۰۱۲ء میں آنے والا ہے اور سہیل فدا کی رہائی بھی اسی سال متوقع ہے۔
کہنے کو تو یہ ایک نوعمر طالب علم کی آپ بیتی ہے مگر اس سے ہمارے عدالتی نظام، جیلوں، حوالات، پولیس کے طور طریقوں خصوصاً ’تفتیش‘ کے نام پر انسانیت سوز مظالم اور حربوں کے مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں (زیادہ تر منفی)۔ مثبت یہ کہ اگر کوئی ملزم یا مجرم اپنی تعلیمی استعداد بڑھانا چاہے تو برطانوی عہد سے جاری قانون اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور مختلف تعلیمی امتحانات پاس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سزا میں کمی ہوتی جاتی ہے جیساکہ سہیل فدا کے ساتھ ہوا۔
یہ مختصر آپ بیتی ملزموں، مجرموں اور خود حاکموں کے لیے بھی سبق آموز ہے۔ حاکم تو کیا سبق لیں گے، ہاں کوئی نرم دل اور دردمند شخص جیلوں اور پولیس تفتیشی طریقوں کی اصلاح کا بیڑا اُٹھائے تو اس داستان سے مدد ملے گی۔سہیل فدا قابلِ تعریف ہیں کہ انھوں نے رشوت طلب کرنے والے تھانے دار ، تشدد کرنے والے پولیس اہل کاروں، جیل میں امتحان لینے کے لیے آنے والے پروفیسر ممتحنوں اور تشدد سے اَدھ موے ملزم کو مزید ریمانڈ کے لائق (فٹ) اور تشدد کی علامات و نشانات کے باوجود اسے ہٹّا کٹّا قرار دینے والے جیل کے ڈاکٹروں کے خلاف کسی طرح کے انتقامی جذبات کا اظہار نہیں کیا (زندگی میں کامیابی کے لیے صبروتحمل کا یہ وصف غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے)۔
پانچ برس تک سزاے موت کی تلوار سہیل فدا کے سر پر لٹکتی رہی، مگر نماز اور ’’اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع‘‘ (ص ۱۰۳) کرنے سے ان کی گھبراہٹ کافور ہوجاتی۔ انھی پانچ سالوں میں سہیل نے ایم اے تک کی تعلیم مکمل کی اور بہت کچھ غیرنصابی عمومی مطالعہ بھی کیا۔ ایک جگہ بتایا ہے: معروف کمیونسٹ سبطِ حسن کی تحریروں نے میرے مذہبی معتقدات کو کچھ عرصے کے لیے ہلاکر رکھ دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے ڈر اور کال کوٹھڑی میں اس کی مدد کی شدید ضرورت بالآخر سبطِ حسن کے کچھ نظریات کی بہ نسبت کہیں زیادہ طاقت ور ثابت ہوئی۔ (ص ۱۱۴)
۲۰۱۲ء میں متوقع رہائی کے بعد وہ تعلیمی شعبے میں خدمات انجام دینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ کتاب کا حُسنِ اشاعت و اہتمام لائقِ داد ہے، مگر قیمت افسوس ناک طور پر زیادہ، بہت ہی زیادہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
’خلفاے راشدینؓ نے جس طرح اپنا دورِ حکومت گزارا (مارچ ۲۰۱۲ئ)، اگر ہمارے ملک کے حکمران ان کی تقلید کریں، تو عوام ان کے لیے دعا ے خیر کریں گے، اور اگر انحراف کریں گے تو پھر ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کاش! ہمارے حکمران اپنا رویہ درست کریں تو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔
’مزید کامیابیاں اور سازشیں‘ (مارچ ۲۰۱۲ئ) کے مطالعے سے جہاں عالمِ عرب کے مسائل کا علم ہوا، وہاں اخوان المسلمون کی طویل جدوجہد اور کامیابیوں کو جان کر ایک نیا عزم اور ولولہ بھی ملتا ہے۔
’منصب کی طلب‘ (فروری ۲۰۱۲ئ) تحریک اسلامی سے وابستگان کے لیے ایک بنیادی اہمیت کا حامل، یاد دہانی اور سبق کی حیثیت رکھنے والااہم مضمون ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی انتخابی کامیابی کے تناظر میں ڈاکٹر انیس احمد نے تحریکِ اسلامی پاکستان کے لیے جو غورطلب نکات پیش کیے ہیں،چشم کشا ہیں۔
دادا جان مرحوم و مغفور کی وساطت سے ترجمان القرآن سے رابطہ تو زندگی کے اس دور سے ہی ہوگیا جب اس کے مضامین سمجھ سے بالاتر تھے۔ نور اور پھر بتول کو پڑھنا دل چسپ لگتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ماہنامے کی اہمیت واضح ہونے لگی۔ پھر تو ہرتحریر علم و عمل کے لیے مہمیز ثابت ہوئی، اور ہرماہ ترجمان کا شدت سے انتظار رہنے لگا۔ اللہ تعالیٰ اس بہترین رہنمائی پر اجرعظیم سے نوازے، آمین!
’عورتوں کی باجماعت نماز‘ (فروری ۲۰۱۲ئ) پر ڈاکٹر عبدالحی ابڑو کا مضمون پڑھا۔ مدلل انداز میں فقہ حنفی کی رُو سے اس مسئلے کو واضح کیا گیا ہے۔ حقیقتاً ایک طویل عرصے سے اس موضوع پر فقہ حنفی کا دوسری فقہوں سے اختلاف سننے میں آتا رہتا تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کیا جائے۔ الحمدللہ مسئلہ سمجھ میں آگیا اور واضح رہنمائی ملی۔
وضاحت: ’رسائل و مسائل‘ (مارچ ۲۰۱۲ئ) میں جادو کے علاج کے لیے جن قرآنی آیات کو پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے وہ یہ ہیں: سورئہ اعراف ۷:۱۱۷ تا۱۲۰، سورئہ یونس ۱۰:۸۱ تا۸۲، اور سورئہ طٰہٰ: ۲۰: ۶۸ تا۶۹
اِس کا علاج بجز اِس کے اور کچھ نہیں کہ جس طرح ۴۸ء -۴۹ء میں نظامِ اسلامی کے لیے ایک پاکستان گیر مطالبہ پوری قوت کے ساتھ اُٹھا تھا اور اسی کی بدولت یہ لوگ قرارداد مقاصد پاس کرنے پر مجبور ہوئے تھے، اسی طرح اب پھر تمام ملک سے دستورِ جدید کے لیے ایک متفقہ مطالبہ اُٹھے....
۱- ملک کا قانون اسلامی شریعت ہوگی۔
۲- کوئی ایسی قانون سازی نہ کی جاسکے گی جو شریعت کے احکام یا اصولوں کے خلاف ہو۔
۳- تمام ایسے قوانین کو منسوخ کیا جائے گا (خواہ بتدریج ہی سہی) جو شریعت کے احکام اور اصولوں سے متصادم ہوتے ہوں۔
۴- حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ اُن برائیوں کو مٹائے جنھیں اسلام مٹانا چاہتا ہے، اور اُن بھلائیوں کو فروغ دے جنھیں اسلام فروغ دینا چاہتا ہے۔
۵- لوگوں کے شہری حقوق (تحفظِ جان و مال و آبرو، آزادی تحریر و تقریر، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ نقل و حرکت) کو اُن کا جرم کھلی عدالت میں ثابت کیے بغیر، اور انھیں صفائی کا موقع دیے بغیر سلب نہ کیا جاسکے گا۔
۶- لوگوں کو حق ہوگا کہ انتظامیہ یا مقننہ اگر اپنے حدود سے تجاوز کرے تو وہ ملک کی عدالتوں سے چارہ جوئی کرسکیں۔
۷- عدلیہ انتظامی حکومت کی مداخلت سے آزاد ہوگی۔
۸- حکومت اس بات کی ضامن ہوگی کہ ملک میں کوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی (غذا، لباس، مکان، علاج اور تعلیم) سے محروم نہ رہے۔
اِن اُمور کی صراحت کے بغیر اگر کوئی دستور بنابھی دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ اہلِ ملک کے کسی کام کا نہ ہوگا۔(’اشارات‘،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۱-۲، رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ئ، ص ۷)