۲۰۱۱ء اہل پاکستان کے لیے گوناگوں اور غیرمعمولی صدمات کا سال ہونے کی حیثیت سے تاریخِ پاکستان کے حوالے سے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
حادثات کا یہ سلسلہ جنوری میں ریمنڈ ڈیوس کے خونیں واقعے سے شروع ہوا۔ پھر ۲مئی (ایبٹ آباد) کا واقعہ رونما ہوا، ۲۲مئی کو کراچی میں مہران نیول بیس پر حملہ ہوا، ۲۶نومبرکو سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی افواج نے جارحانہ حملہ کیا اور گذشتہ تین ماہ سے ہم میمو سکینڈل میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ غرض حقائق پر پردہ ڈالنے اور قومی احتساب سے فرار کے لیے طرح طرح کی بھونڈی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ صاف نظرآرہا ہے کہ حکومت ِ وقت اس طرح ایک عیارانہ منصوبہ بندی کے تحت عدلیہ اور فوج کے درمیان تصادم اور تقسیم اختیارات کے دستوری فارمولے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے حکومتی اداروں کے درمیان کش مکش اور ٹکرائو کا خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پونے چار سال میں عوام کے اعتماد اور مینڈیٹ کو نہایت بری طرح پامال کیا ہے۔ اس وجہ سے موجودہ حکومت اخلاقی سطح پر اپنا حقِ حکمرانی کھوچکی ہے جو فروری ۲۰۰۸ء میں اسے حاصل ہوا تھا۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں اس وقت میمو سکینڈل نے غیر معمولی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ پھر اقتدار میں آنے کے بعد زرداری گیلانی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کی وضع کردہ تمام پالیسیوں کو جاری رکھا، حالانکہ قوم پہلے ہی دن سے ان پر ناخوش اور معترض تھی۔
یہی وہ چیز تھی جس نے امریکا کو یہ حوصلہ اور موقع دیا کہ اس نے افغانستان میں اپنے جنگی عزائم کو بروے کار لا کر سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کو ایک زینے کے طور پر استعمال کیا۔ یوں پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور حاکمیت کو پارہ پارہ کیا اور پاکستان کے سیاسی، معاشی اور تعلیمی شعبوں، حتیٰ کہ نظریاتی دائرے میں بھی اس کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ بڑے پیمانے پر تعاون کے حاصل کرنے کے بعد اسے نچلی سطح تک تعاون حاصل کرنے کی ہمت ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی اہل کار (operators) پاکستان کی سرزمین پر سرگرم عمل ہوگئے۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اس باب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر اور اس کے سرپرستوں نے ایک پاکستانی شہری کو کار کے ذریعے شہید کر دیا۔ پھر حکومتی رضامندی، اور اعانت سے امریکی پوری دیدہ دلیری سے قاتل کو چھڑا کر لے گئے۔ اس سانحے نے عوام اور تمام ہی سیاسی اور دینی قوتوں کو بیدار کر دیا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اس کی ایجنسیوں نے جو گھنائونا کردار ادا کیا، اُس نے عوام کو زرداری گیلانی حکومت سے مکمل طور پر مایوس کر دیا اور امریکا کو یہ حوصلہ ہوا کہ وہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کو ایبٹ آباد پر حملہ کرکے شیخ اسامہ بن لادن کے قتل کا ڈراما رچائے۔ تقریباً دو گھنٹے تک یہ عمل جاری رہا اور ایبٹ آباد کے تمام ہی باسی بچشم سر، اس فوجی آپریشن کا نظارہ کرتے رہے، لیکن فضائیہ، زمینی افواج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا کہیں بھی وجود نہ تھا۔
ستم بالاے ستم یہ کہ اگلے ہی دن صدرزرداری کا مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا مگر اس میں ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے خلاف مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہ تھا، بلکہ اس آپریشن کو ایک مشترک کارنامہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ وزیر اعظم گیلانی نے پاکستانی سرزمین پر امریکی حملے اور پاکستانی زمین پر موجود افراد کو (جو کوئی بھی ہو) قتل کرنے کے اس جُرم کو ’ایک فتح‘ قرار دیا۔ وزارتِ خارجہ کا پہلا بیان نہایت بودا اور شرم ناک تھا اور پیپلز پارٹی کے دو بڑے وکیلوں (یعنی امریکا میں ان کے سفیر جناب حسین حقانی اور برطانیہ میں ان کے ہائی کمیشن واجدشمس الحسن صاحب) نے نہ صرف اس واقعے پر امریکا کو اشیرباد دی بلکہ اس میں پاکستان کے تعاون کا ذلت آمیز دعویٰ بھی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی دستوری ذمہ داری کو ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور امریکا کے اس دھڑلے سے حملے پر تمام ایجنسیاں، ادارے اور ملک کی سرحدوں اور حاکمیت کا دفاع کرنے والی قوتیں محض تماشائی کا کردار ادا کرنے اور اپنے فرائض منصبی کی ادایگی سے یکسر قاصر رہیں۔ اس چیز نے بڑے بنیادی سوالات کو جنم دیا۔
امریکا کی دل چسپی شیخ اسامہ یا القاعدہ میں تھی لیکن اب تک یہ امر غیر ثابت شدہ ہے کہ اسامہ بن لادن واقعی ایبٹ آباد کے اس مکان میں موجود تھے جس پر امریکی فوجوں نے حملہ کیا، اور چار افراد کو قتل کرکے ایک لاش اپنے ساتھ لے کر دندناتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اس واقعے میں پاکستان کے لیے اصل اہمیت جس سوال کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا نے کس طرح اس جرأت و بے باکی کے ساتھ ہماری حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کو پامال کیا، ہماری سرزمین پر چار افراد کو کسی قانونی استحقاق، اور قانون کے مسلّمہ ضابطے کو تارتار کرکے اور ہماری حاکمیت کو پامال کرتے ہوئے بڑی بے دردی سے قتل کیا۔ ہمارے نزدیک یہ کم از کم تین حیثیتوں سے ایک جرمِ عظیم ہے:
۱- پاکستان کی حاکمیت اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی۔
۲- اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی کھلی کھلی خلاف ورزی۔
۳- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو بھی لولا لنگڑا اختیار امریکا اور ناٹو کو دیا تھا، یہ اس کی بھی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے کہ یہ اقدام افغانستان کے باہر فوجی آپریشن کے ذریعے کیا گیا ہے۔
ان تین قانونی اور سیاسی وجوہ کے علاوہ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ امریکا ہمیں اپنا نان ناٹو اتحادی قرار دیتا رہا ہے اور کم از کم پچھلے ۱۰ سال سے اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ لیکن ایک اتحادی، دوست اور رفیق کار کے خلاف اس قسم کی فوج کشی اور وہ بھی اس سینہ زوری کے ساتھ، اس نے امریکا سے ہمارے پورے تعلق کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی عوام ہی نہیں دنیا بھر کے انسانوں نے امریکا کو نہ صرف یہ کہ دوست ملک نہیں سمجھا ہے بلکہ خود امریکی اداروں کے تحت عوامی راے جاننے کے لیے جو سروے کرائے گئے ان کے مطابق تیسری دنیا کی اکثریت نے امریکا کو دوست نہیں قرار دیا۔ یہ ناراضی اور بے زاری امریکا کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی کار روائیوں کی تائید کرنے والے صرف ۷ فی صد ہیں، جب کہ ۹۳ فی صد نے امریکا کی پالیسیوں اور اس کے کردار کی یا پُرزور مذمت کی ہے یا وہ امریکا سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستانی عوام کو کبھی بھی امریکا کی دوستی پر اعتماد نہیں تھا۔ یہ صرف حکمران تھے جنھوں نے عوام کے جذبات کے علی الرغم امریکا سے دوستی کا رشتہ استوار کیا اور اس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کیا، لیکن اب وہ لمحہ آگیا جب خود ان کے لیے بھی یہ حملہ ایک شرم ناک تازیانے سے کم نہ تھا۔
۲ مئی کے واقعے پر ایک کمیشن قائم کر دیا گیا۔ یہ کمیشن چار ماہ سے اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ کمیشن حقائق کی پردہ پوشی نہیں کرے گا۔ قوم اور پارلیمنٹ کو تمام حقائق سے آگاہ کرے گا اور دوٹوک انداز میں ان تینوں سوالوں کے جواب فراہم کرے گا کہ جو کچھ ہوا، وہ کیا تھا؟ بروقت اس پر ردّعمل نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا، اور یہ کہ کس طرح اس کا تعلق نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے شریک کار ہونے سے ہے؟اس لیے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس شرکت کے نتیجے میں نہ صرف دوسروں کی جنگ ہم پر مسلط ہوئی بلکہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان وہ پاکستانی قوم برداشت کر رہی ہے جس کا نائن الیون کے مذموم واقعے سے دُور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ سرکاری اعلانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ۳۶ہزار عام پاکستانی شہری اور ۶ سے ۱۰ ہزار فوجی یا فرنٹیر کور اور پولیس کے افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کی آماج گاہ بن گئی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں جان و مال کا تحفظ باقی نہیں رہا۔ وہ فوج جس سے عوام محبت کرتے تھے اور جسے اپنی آزادی اور عزت کا محافظ سمجھتے تھے، اس کے اور عوام کے درمیان دُوریاں بڑھ گئی ہیں۔شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ (Robert Pape) نے اپنی تازہ ترین کتاب Cutting the Fuse میں جہاں افغانستان اور عراق کو امریکا کے مقبوضہ ممالک قرار دیا ہے، وہیں پاکستان پر ایک باب لکھا ہے۔ پاکستان کو بطور مثال امریکا کے بالواسطہ مقبوضہ (Indirect Occupied) ملک کے طور پر پیش کیا ہے جو نہ صرف باعث ِ شرم ہے بلکہ ہماری آزادی کو عملاً غلامی میں تبدیل کیے جانے کے مترادف ہے۔
اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں جو معاشی تباہی آئی ہے وہ ہر اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ وزارتِ خزانہ، امریکا سے ملنے والی ۵؍ ارب ڈالر کی امداد کے مقابلے میں نقصان کو ۶۷؍ارب ڈالر قرار دیتی ہے لیکن اس میں انسانی جانوں کے اتلاف، زخمیوں کی دیکھ بھال کے معاشی مصارف اور پورے ملک میں انفراسٹرکچر میں جو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان (wear & tear) ہوا اس کا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ اگر ان تمام چیزوںکو معاشی نقصان کی شکل میں شمار کیا جائے تو اس تباہی کی معاشی قیمت ۱۰۰ سے ۱۵۰ ارب ڈالر سے کم نہیں ہوسکتی جو ہماری پوری سالانہ قومی پیداوار کے قریب قریب ہے۔ اس سب کے باوجود ۲مئی کو امریکا کی ہوائی افواج نے پاکستان کی مقدس سرزمین پر حملہ کیا، اور پھر ۲۶ نومبر کو ایک دوسرا بڑا حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ہماری دو فوجی چوکیاں تباہ کردی گئیں۔۲۴ جوانوں کو شہید کردیا گیا،۱۷ زخمی ہوئے اور پورے دو گھنٹے تک امریکی ہیلی کاپٹر میزائلوں کی بارش کرتے رہے اور ان ہیلی کاپٹروں کو تحفظ دینے کے لیے ایف-۱۶ طیارے فضا میں موجود رہے۔ امریکا کے اس اقدام کو بین الاقوامی قانون میں Act of War کے علاوہ کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امریکی جارحیت اتنی گھنائونی اور خوف ناک تھی کہ فوج اور حکومت بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے پر مجبور ہوئی اور عوامی دبائو کے تحت حکومت کو تین اقدام کرنے پڑے، یعنی پاکستانی سرزمین پر ناٹو اور امریکیوں کے لیے سازوسامان اور اشیاے ضرورت کی سپلائی کے لیے راہ داری کے حقوق کو معطل کرنا، شمسی ایربیس کو خالی کرانا، اور بون کانفرنس میں عدم شرکت۔ بلاشبہہ یہ اقدام عوام کی خواہشات کے مطابق اور ان کے غم و غصے کو کسی حد تک کم کرنے کا باعث ہوئے لیکن یہ وقتی اقدام ہیں، اہم ترین مسائل کچھ اور ہیں جن کا قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی و عسکری قیادت کو دوٹوک انداز میں سامنا کرنا ہوگا، وہ مسائل یہ ہیں:
امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پاکستان کو جلد از جلد نکالنا اور اس سلسلے میں امریکا جو سامراجی اور خونیں کھیل اس علاقے میں کھیل رہا ہے اور اس میں پاکستان کو بطور ایک کارندے کے استعمال کر رہا ہے، اس سے مکمل طور پر اپنے کو علیحدہ (delink) کرنا ہے۔ دوسرے یہ کہ کھلے ذہن کے ساتھ اور آنکھیں بھی پوری طرح کھلی رکھ کر امریکا سے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے سفارتی و اقتصادی روابط اور تعلقات استوار کیے جائیں، البتہ اس کی بنیاد حقائق پر ہونی چاہیے۔ محض خوف، خواہشات اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر جو پالیسی بنتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ امریکا اور پاکستان میں جو طاقت کا عدم توازن ہے وہ ایک زمینی حقیقت ہے اور اسے کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ اس سے بھی بڑی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور بھی ہے۔ جہاں یہ ضروری ہے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کیا جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قیمت پر اور کسی بھی شکل میں خود اپنے حقوق اور مفادات کو پامال نہ ہونے دیا جائے اور ان کی مکمل حفاظت کی جائے۔
ان تمام نقصانات کے علاوہ جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے امریکا نے کم از کم تین حیثیتوں سے پاکستان کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت اور سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل میں تعلقات کی جو شکل بھی مرتب کی جائے، اس میں ان تینوں اُمور کے بارے میں دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ان میں امریکا کی مداخلت کسی صورت اور کسی حیثیت میں قبول نہیں کی جاسکتی:
۱- پاکستان کی آزادی اور حاکمیت اور پالیسی سازی کا غیرمشروط اختیار۔ بلاشبہہ جن امور کے بارے میں ہمارے اور امریکا کے سیاسی اور معاشی مقاصد اور اسٹرے ٹیجک مفادات مشترک ہوں، وہاں باوقار تعاون کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے، اور جہاں اُن میں اختلاف ہے، وہاں ہماری اوّلین ترجیح اپنے مقاصد کا حصول اور اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ان مقاصد اور مفادات پر امریکا یا کسی اور کی طرف سے کوئی آنچ بھی آسکے۔
۲- کسی بھی شکل میں پاکستان کی جغرافیائی ، زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی ناقابلِ برداشت ہے۔ امریکی فوجیوں کو زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی (بشمول ڈرون حملوں) کی اجازت نہ ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کی سرزمین پر امریکی جاسوسوں، فوجیوں یا دوسرے کارندوں کی موجودگی اور خفیہ آپریشن کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ویزے اور نگرانی کے نظام کو مؤثر بنایا جائے۔ پاکستان کی سرزمین پر جو محفوظ سازشی اڈے امریکیوں نے سفارت کاری کے نام پر یا کسی دوسری شکل میں قائم کیے ہوئے ہیں، ان کو بھی مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے، اور ان کے سفارت خانوں اور سفارت کاروں کو بھی صرف وہی سہولتیں حاصل ہوں جن کی گنجایش ویانا کنونشن میں دی گئی ہے۔
۳- اس وقت ملٹری اور سول امداد کے نام پر امریکا پر انحصار بلکہ اس کی محتاجی کی جو کیفیت ہے اس پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ’ایڈ‘ (aid)کی خطرناک خوراک کو بند کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی جو بھی دفاعی ضروریات ہیں وہ عالمی منڈی بشمول امریکا سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ جہاں تک امریکی معاشی امداد کا تعلق ہے اس سے مکمل طور پر معذرت کرلی جائے۔ جیساکہ ہیلری کلنٹن نے اپنی پاکستان یاترا کے دوران اشارہ دیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشی امداد سرتاسر ایک نقصان کا سودا ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس (۲۹ستمبر ۲۰۱۱ئ) کے ایک مضمون میں امریکا ہی کے ایک آزاد ادارے سنٹرل گلوبل ڈویلپمنٹ (Central Global Development) کے ایک تجزیے کے مطابق گذشتہ نوبرس میں پاکستان میں جو معاشی امداد آئی ہے وہ صرف ۳ئ۴؍ارب ڈالر ہے، دوسرے لفظوں میں ۴۸۰ملین ڈالر سالانہ تھی۔ اسے پاکستان کی ۱۸کروڑ آبادی پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ ۶۷ئ۲ ڈالر فی کس بنتی ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
یہ لاہور میں چھے انچ کے پیزا کی قیمت ہے جس پر پیزاہٹ کی طرف سے کوئی اضافی topping بھی نہیں دی جاتی۔
یہ ہے اس معاشی امداد کی حقیقت جس کے نتیجے میں ہمارے ہاتھوں میں امریکا کی ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو راہ داری کی سہولتیں امریکا اور ناٹو کو گذشتہ ۱۰برسوں میں حاصل رہی ہیں اگر دنیا کے معروف قاعدے کے مطابق ان پر راہ داری ٹیکس لگایا جاتا اور انھیں ٹیکس اور کسٹم سے مکمل استثنیٰ نہ دیا گیا ہوتا، تو کم از کم ۴ سے ۵؍ارب ڈالر سالانہ صرف سروس چارجز کی شکل میں وصول کیے جاسکتے تھے۔ ترکی نے non-lethal سامان کی راہ داری کے لیے ۶؍ ارب ڈالر سالانہ اسی امریکا سے وصول کیے ہیں، جس کو ہم نے یہ ساری سہولتیں مفت دے رکھی ہیں۔ اس سے بڑی قومی مفاد سے غداری اور کیا ہوسکتی ہے۔ ایک طرف یہ ڈھائی ڈالر فی کس کی امداد ہے جس کے ساتھ سیکڑوں شرائط بھی لگائی گئی ہیں اور جسے بالعموم اپنی خودپسند این جی اوز کے ذریعے ملک میں اپنی لابی بنانے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اس ۴۸۰ ملین ڈالر سالانہ کا مقابلہ پاکستانیوں کی ان ترسیلات سے کریں جو وہ اپنے ملک میں بھیج رہے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت یہ ترسیلات ۱۱؍ارب ڈالر سالانہ ہیں لیکن افسوس کہ ان کو بھی صحیح انداز میں دیرپا معاشی ترقی کے حصول اور خوش حالی کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا۔ آیندہ امریکا سے دوطرفہ تعلقات میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امریکا سے تمام معاملات تجارتی اور سفارتی بنیادوں پر دونوں ممالک کے مشترک مفادات کی روشنی میں استوار کیے جائیں گے، اور جو یک طرفہ کھیل امریکاکھیل رہا ہے اس کا باب اب بند ہونا چاہیے۔
امریکا اور ناٹو کو راہ داری کا جو حق دیا گیا ہے اس کو ہرگز اس وقت تک بحال نہ کیا جائے جب تک کہ امریکا سے تعلقات کا نیا فریم ورک طے نہ ہوجائے۔ نیزہرچیز ضبطِ تحریر میں لائی جائے اور قوم اور پارلیمنٹ کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔ اس کے بعد تجارت اور خود راہ داری کے معاملات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دنیا کے معروف قوانین اور ضوابط کے مطابق جو بھی سامان پاکستان کی سرزمین سے بھیجاجائے اس کی اسکریننگ ہو اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ بھیجی جائے جو پاکستان کے قانون یا مفاد کے خلاف ہو، نیز پاکستانی سرزمین پر اس کا کنٹرول پاکستانی اداروں کے ہاتھ میں ہو تاکہ اسمگلنگ اور اسلحے کے ناجائز پھیلائو کو روکا جاسکے، اور راہ داری کی اس سہولت پر دنیا کے معروف ضابطوں کی روشنی میں مکمل سروس چارجز اور ٹیکس وصول کیا جائے۔
۲مئی، ۲۲مئی اور ۲۶نومبر کے واقعات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ ہمارا انٹیلی جنس اور دفاع دونوں کا نظام نہایت خام اور نامکمل ہے۔ ہم کوئی راز فاش نہیں کر رہے ہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اور سول ایوی ایشن دونوں کا نظام ہرلمحے اتنا چوکس ہونا چاہیے کہ پاکستان کی فضائی حدود میں اگر کوئی بھی داخل ہو، خواہ دوست ہو یا دشمن (hostile) تو دو منٹ کے اندر انھیں معلوم ہوجائے کہ ہماری حدود میں کوئی داخل ہوا ہے اور پھر مناسب وارننگ کے بعد اگر یہ دشمنی پر مبنی دراندازی ہے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اس کے لیے تین قسم کے نظام وضع کیے گئے تھے۔ ان میں ایک electro magnatic pulse تھا جس کے لیے پورے ملک کو مختلف سیکٹر میں بانٹ کر ریڈار کا نظام نصب کیا گیا تھا۔ دوسرا مینول مانٹیرنگ نظام تھا جس کے لیے ہر ساڑھے سات کلومیٹر پر ایک انسانی انتظام ایسی دُوربینوںکے ساتھ، جو تقریباً تین کلومیٹر تک دیکھ سکتی ہوں تاکہ پورے بارڈر کی نگرانی کی جاسکے۔ تیسرا نظام ریڈیو مانٹیرنگ کا تھا۔ اس امر کے بے لاگ جائزے کی ضرورت ہے کہ یہ تینوں نظام افغان سرحد پر کیوں غیر مؤثر رہے اور اس سلسلے میں جو بھی افراد فرض کی عدم ادایگی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کا تعین اور ان کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے ایسی کوتاہی (lapse) نہ ہو۔ یہ بات بہت ہی حیران کن ہے کہ ۲مئی کی کوتاہی کے بعد ۲۶نومبر کو بھی اسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان چھے مہینوں میں دفاعی حوالے سے فضائی نگرانی کے نظام میں کوئی جوہری بہتری نہیں کی گئی۔ اس کی بھی جواب دہی ضروری ہے۔
ایک آخری بات جو ہم قوم اور قیادت دونوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، وہ ہے جس کا تعلق اُس بدنامِ زمانہ میمورنڈم سے ہے جو اس وقت پوری قوم، میڈیا، پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی اور سپریم کورٹ، ہر جگہ زیربحث ہے۔ یہ میمو ۲مئی کے واقعے کے فوراً بعد تیار کیا گیا ہے اور بظاہر اس کا پس منظر یہ ہے کہ فوج، سول حکومت کا دائرہ تنگ کررہی ہے اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ امریکی قیادت پاکستان کی فوجی قیادت کو لگام دے اور اسے مجبور کرے کہ وہ سول قیادت کے حسب ِ منشا کام کرے۔
بظاہر اس میمو کی تیاری میں مرکزی کردار امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور منصوراعجاز نے اداکیا ہے، جو ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری ہے جس کے والد مذہباً قادیانی تھے اور پاکستان کے نیوکلیئر اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ تھے۔ منصور اعجاز نے گذشتہ ۱۵/۲۰ برس میں ایک طرف بزنس مین کی حیثیت سے کافی دولت کمائی اور دوسری طرف امریکا کی اہم شخصیات بشمول سی آئی اے اور امریکاکی فوجی اور سیاسی قیادت سے اس کے مراسم تھے اور بزعمِ خود بیک چینل ڈپلومیسی میں بھارت، پاکستان، سوڈان اور متعدد ممالک کے سلسلے میں خدمات انجام دی ہیں۔ منصور اعجاز کس کردار کا شخص ہے یہ ہمارے لیے اتنا اہم نہیں جتنا میمو اور اس کے مندرجات کا مسئلہ اہم ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ میمو ایک حقیقت ہے اور یہ بھی ناقابلِ تردید امر ہے کہ یہ میمو جنرل جونز کے ذریعے اس وقت کے چیف آف اسٹاف ایڈمرل مولن کے ہاتھوں میں پہنچا۔ البتہ جو چیز تحقیق طلب ہے، وہ یہ ہے کہ اس میمورنڈم کے تصور کا آغاز کہاں سے ہوا اور فی الحقیقت کون سی شخصیت یا ادارہ ہے جو اس کے پیچھے ہے، اور دوسری طرف اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ تیسری بات یہ کہ اس وقت اس کی اشاعت کن مقاصد کے تحت ہوئی اور کون نشانہ ہے؟
یہ بات بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ میمو کا تعلق ۲مئی کے واقعے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات سے ہے۔ اسی طرح ۳مئی کا صدر زرداری کا واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والا مضمون، اس کے بعد میمو کی اشاعت، آئی ایس آئی کے سربراہ کی منصور اعجاز سے ملاقات، چیف آف اسٹاف کی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات اور اس پر اصرارکہ معاملے کی تحقیق کی جائے اور حسین حقانی کو بلایا جائے___ یہ سب بھی حقائق ہیں۔ ابتدا میں جنرل مولن نے میمو سے انکار کیا لیکن پھر منصور اعجاز کے ای میل اور ایس ایم ایس اور دوسرے شواہد کے اعلان کے بعد، میمو کے صحیح ہونے کا اعتراف کرلیا۔ جنرل جونز کے تین بیان قابلِ توجہ ہیں: پہلے بیان میں اعتراف کیا گیا کہ میمو ملا تھا اور ایڈمرل مولن کو بھیجاگیا تھا۔ امریکا کے ایک ٹی وی چینل پر اپنے دوسرے بیان میں انھوں نے تفصیلی اعتراف کیا۔ پھر سپریم کورٹ کے سامنے حسین حقانی کی صفائی کے لیے حلفیہ بیان داخل کر دیا جو اُن کا تیسرا بیان تھا۔ ان تینوں بیانات میں تضادات ہیں اور منصور اعجاز نے جونز سے اپنے تعلقات اور بات چیت کا جو ریکارڈ پیش کیا ہے اس سے خود جنرل جونز کا کردار خاصا مشکوک ہوگیا ہے، اور صاف نظر آرہا ہے کہ حسین حقانی کو بچانے کے لیے وہ سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود میمو میں کیا کہا گیا ہے؟ اس میمو کا موقع محل اور پس منظر یہ ہے کہ یہ ۲مئی کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اس سیناریو میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی فوج ایک طرف پریشانی اور ہزیمت کا شکار ہے تو دوسری طرف وہ اپنے اثرورسوخ اور کردار کو بچانے کے لیے سول حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کرنے والی ہے۔ میمو کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی سول حکومت خصوصیت سے صدرزرداری جمہوریت کی بقا کے نام پر امریکی چیف آف سٹاف اور اعلیٰ امریکی قیادت کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ فوج کو قابو میں کیا جاسکے اور اس کے دانت اس حد تک توڑ دیے جائیں کہ وہ پورے طور پر بظاہر سیاسی قیادت کے تابع ہوجائے، لیکن فی الحقیقت اس کو ایک ایسے مقام پر لے آیا جائے جو علاقے میں امریکی مقاصد اور اہداف کے حصول میں معاون ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں سول حکومت اور امریکا کے درمیان ایک نئے گٹھ جوڑ کا اہتمام کیا جائے اور ماضی میں امریکا اور فوج کا بلاواسطہ جو تعلق رہا ہے اُسے اس طرح نئے سانچے میں ڈھالا جائے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت مل کر فوج کو قابو میں کر سکے۔
امریکا کو ضمانت دی گئی کہ اگر وہ میمورنڈم میں بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو تو صدرمملکت اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ دفاع اور سیکورٹی کا پورا نظام امریکا کی منشا کے مطابق ازسرِنو مرتب کیا جائے گا اور واشنگٹن کی پسند کے افراد کو فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ امریکا کے خدشات کی روشنی میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی نگرانی کا طریق کار بھی ازسرِنو طے کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کے سلسلے میں فوج اور انٹیلی جنس کے بارے میں امریکی تحفظات کو دُور کیا جائے گا۔ بھارت سے معاملات کو امریکی حکمت عملی کے مطابق مرتب کیا جائے گا، اور آئی ایس آئی کو اس طرح قابو کیا جائے گا کہ اس کی وہ شاخیں جن کے بارے میں امریکا کو شبہہ ہے کہ وہ امریکی مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے گا۔ نیز اس کے اُس ونگ کو ختم کیا جائے گا جس کے بارے میں حکومت اور امریکا دونوں متفکر ہیں۔
اس میموکے تجزیے سے تین باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- پاکستان کے سیکورٹی معاملات میں امریکا کو کھلی مداخلت کی دعوت۔
۲- سول قیادت کا امریکا کے ساتھ ایک نیا عہد و پیمان اور امریکی مفادات کے تحفظ کی ضمانت۔
۳- ملکی سلامتی، آزادی اور حاکمیت کے باب میں پاکستان کے آزادانہ سیاسی، عسکری کردار کا خاتمہ اور امریکی ایجنڈے کی تکمیل کی ضمانت۔
اس طرح یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ میمو محض کاغذ کا پُرزہ نہیں (جیساکہ گیلانی صاحب نے دعویٰ کیاہے) بلکہ یہ تو ایک ’میثاقِ غلامی‘ ہے، اور اس کا مضمون سوچنے، اُسے لکھنے اور اسے پہنچانے والوں نے وہی کردار ادا کیا ہے جو تاریخ میں میرجعفر اور میرصادق ادا کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل کرداروں کا تعین کیا جائے اور پھر انھیں اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے۔ اس کے بعد، اگر ان کا جرم ثابت ہو تو انھیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ یہ کام پارلیمانی کمیٹی نہیں کرسکتی صرف عدالت کرسکتی ہے۔ بلاشبہہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی فرنسک (forensic) تحقیق اور مناسب بحث و تفتیش کے بعد اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرے۔ یہ مسئلہ بہرحال ایسا نہیں کہ اس کو سیاسی مصلحتوں یا ’مُکمُکے‘ کی کسی شکل کا سہارا لے کر داخلِ دفتر کر دیا جائے۔
ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کون قابلِ اعتماد ہے اور کس کا ماضی میں کیا کردار رہا ہے؟ ہمیں اس بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں کہ منصور اعجاز پاکستان کا دوست ہے۔ بلاشبہہ اس کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ امریکا کا وفادار ہے اور جو کردار وہ ادا کر رہا ہے وہ امریکا کے مفاد میں ہے۔ اسے پاکستان سے کوئی دل چسپی نہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ منصور اعجاز ماضی میں پاکستان، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بہت کچھ لکھتا رہا اور کہتا رہا ہے لیکن اس معاملے میں حسین حقانی صاحب بھی اس سے پیچھے نہیں رہے۔ ان کی کتاب Pakistan between Mosque & Military ان کے اپنے خیالات کا آئینہ ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس باب میں ان کے اور منصور اعجاز کے خیالات میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں انگریزی محاورے میں ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں (on the same page)۔ بہرحال میمو کی تحقیق و تفتیش معروف ضابطوں کے مطابق پوری دیانت اور شفافیت کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور اس معاملے میں دونوں کا کیا کردار رہا ہے، نیز یہ بھی پتا چلے کہ اس معاملے میں اُن کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما تھیں۔ ہمارے نزدیک اس کے پانچ امکانات ہوسکتے ہیں:
اوّل: سارا کھیل صرف منصوراعجاز نے محض اپنے ذاتی مقاصد اور ذاتی شہرت اور کچھ سیاسی و مالی مفادات کی خاطر کھیلا ہے۔ بظاہر امکان نہیں ہے کہ وہ پاکستان سے کوئی فائدہ اُٹھا سکے۔ فائدہ اسے امریکا ہی سے ہوسکتا ہے جس سے وہ اپنی وفاداری اور تعلقات کا برملا اعلان کرتا ہے۔
دوم: دستاویزی اور تائیدی شہادتوں کی بنا پر قرینِ قیاس ہے کہ منصور اعجاز کو حسین حقانی نے (جس سے اس کے ۱۰ برسوں پر محیط تعلقات ہیں) اس کام کے لیے آمادہ کیا ہو۔ یوں پورے معاملے میں یہ دونوں شریک ہوں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کیا حسین حقانی بظاہر محض اپنے بل بوتے پر یہ کردار ادا کرسکتا ہے؟
سوم: میمو کی داخلی شہادت، منصور اعجاز کی ایس ایم ایس اور ای میل کا ریکارڈ اشارہ کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس پردئہ زنگاری کے پیچھے کوئی اور ہے اور اشارہ صدرِ پاکستان جناب زرداری اور غالباً ایوانِ صدر کے ایک اور اعلیٰ افسر کی طرف ہے۔ اسے ہم حسین حقانی پلس کہہ سکتے ہیں اور اگر یہ صحیح ہے تو تعین ہونا چاہیے کہ اس کے پیچھے فی الحقیقت کون تھا؟ دوسرے الفاظ میں پورے معاملے کا بینی فشری، یعنی اصل فائدہ اٹھانے والا کون ہے؟
چہارم: کسی ایجنسی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے منصور اعجاز کو ذریعہ بنایا ہو۔ منصور اعجاز، جنرل جونز اور ایڈمرل مولن یہ تین تو کھلے کھلے کردار بالکل سامنے آگئے ہیں۔ ان میں سے ہرایک نے اپنے اپنے بیان کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، البتہ ان کے پیچھے کون ہے؟ کیا یہ کام سی آئی اے نے کرایا؟ یا اس میں موساد اور را کا بھی حصہ ہے؟ اصل مقصد پاکستانی آئی ایس آئی اور فوج کی گوش مالی ہے جس کے خلاف امریکی میڈیا جارحانہ محاذ آرائی کرتا رہا ہے، اور یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ پاکستان اور اس کی فوج کو بلیک میل کیا جائے۔ کیا ان ایجنسیوں نے سارا کھیل کھیلا اور پاکستان کے سابق سفیر کو بھی اس میں استعمال کیا گیا___ ان کی مرضی سے یا ان کو بے وقوف بناکر؟
پنجم: بظاہر ایک غیراغلب امکان یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس پورے ڈرامے کے پیچھے پاکستانی انٹیلی جنس کا ہاتھ ہو، تاہم اس میں دو چیزیں اس مفروضے کو ناقابلِ التفات بتاتی ہیں۔ ایک یہ کہ منصوراعجاز اور آئی ایس آئی کا اس سازش میں شریک ہونا ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ فوج اور آئی ایس آئی نے جو اسٹینڈ لیا ہے، جس طرح وہ معاملے کی تحقیق اور مجرموں کے تعین کے لیے اصرار کررہی ہے، اس سے اس امکان کی تردید ہوتی ہے۔
ہمیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی ان تمام پہلوئوں کا دیانت داری اور عرق ریزی کے ساتھ جائزہ لے گی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ اصل حقائق قوم کے سامنے آئیں اور جس کا جو کردار ہے، اس کے مطابق معاملہ کیا جائے۔
صدرزرداری اور وزیراعظم گیلانی کا کردار بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دینے والا ہے۔ منصوراعجاز کے مضمون کی اشاعت (۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ئ) کے بعد حکومت کی مستقل خاموشی نے معاملے کو اور بھی گمبھیر بنادیا۔ جب پانی سر سے اُونچا ہوگیا تو تردیدی بیانات جاری کیے گئے مگر وہ نہایت مبہم تھے۔ بعدازاں حسین حقانی کو بلا کر ایک طرف تو ان سے استعفا لیا گیا اور دوسری طرف انھیں ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم میں پناہ دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ وزیراعظم گیلانی کا اچانک یہ اعلان کہ میمو میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ فقط کاغذ کا پُرزہ ہے۔ وفاقی حکومت نے یہی موقف سپریم کورٹ کے سامنے اختیار کیا۔ اس کے برعکس چیف آف اسٹاف اور آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل نے میمو کو ملک کی سلامتی کے خلاف ایک خطرناک سازش اور فوج کو بدنام کرنے اور اس کا مقام گرانے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔
اگر میمو جھوٹ کا پلندا ہے تو پھر امریکا میں پاکستان کے سفیر سے استعفا کیوں لیا گیا؟ اگر تفتیش کے لیے ان سے استعفا لینا ضروری تھا تو صدرصاحب سے استعفا کیوں نہیں لیا گیا؟ اس معاملے میں ان کا نام بھی سرفہرست آتا ہے۔ بظاہر وہی اس پورے معاملے سے فائدہ اٹھانے والے نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور میڈیا کے بعض عناصر نے آئی ایس آئی کے چیف کے استعفے کی بات بھی کی ہے۔ یہ حقیقت نظرانداز کی جارہی ہے کہ میمو اگر صحیح ہے تو اس میں کلیدی کردار حسین حقانی اور صدرصاحب کا ہے۔ آئی ایس آئی کے چیف کے بارے میں جو بات ضمناً فون اور ای میل کے متن (transcript) میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے، منصور اعجاز کہتا ہے:
I was just informed by senior US intelligence that GD-SII Mr. P asked for, and received permission from senior Arab leaders a few days ago to sack Z. For what its worth.
امریکی خفیہ ایجنسی کے سینیر ذمہ دار نے ابھی مجھے بتایا کہ آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل، مسٹر پی کو ایک ذمہ داری سونپی گئی جس کے تحت انھوں نے سینیرعرب لیڈروں سے چند دن قبل یہ اجازت حاصل کی کہ مسٹر زیڈ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا یا برطرف کردیا جائے۔ اب ان معلومات کی کیا قدروقیمت ہے وہ جو بھی ہو؟
اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ امریکی انٹیلی جنس کی بات ہے جو منصور اعجاز کو بتائی گئی اور وہ خود بھی اس بارے میں شبہے میں مبتلا ہے جو یہ کہہ رہا ہے: for what its worth ۔اس کے برعکس حسین حقانی اور ان کے باس صاحب کا کردار کلیدی ہے جس کا کسی سنی سنائی بات سے تعلق نہیں ہے۔ اس طرح دونوں کو مساوی ذمہ دار قرار دینا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔ اسی متن میں ایک مقام پر یہ بھی آتا ہے کہ منصور اعجاز نے یہ بات بھی کہی:
it is interesting and heartening to see that many of the proposals made in the memo are being implemented in bi-lateral relationship. very good.
یہ بات بہت دل چسپ ہے اور باعث ِ مسرت بھی، کہ میمو کی بہت سی تجاویز پر دو طرفہ تعلقات کی روشنی میں عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بہت خوب!
اس جملے کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کہاں تک یکساں سوچ رکھتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ میمو کا جو بھی رِدّعمل ہوا ہو اور مولن نے میمو کی تاریخ کے ایک ہفتے کے اندر، امریکی انٹیلی جنس کے سامنے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان دیا، اگر اس کا رشتہ نہ بھی جوڑا جائے، تب بھی میمو کی اشاعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی قیادت اور پاکستانی قیادت کے درمیان تعاون کا کوئی نہ کوئی سلسلہ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ پارلیمانی کمیٹی اور سپریم کورٹ کو اس امر کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
میمو میں ایک اور بڑی اہم بات ہے جسے تحقیق کا محور ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ ۲مئی کے واقعے کے سلسلے میں امریکا اور پاکستان کی قیادت کے درمیان کسی درپردہ تعاون اور سمجھوتے کا اشارہ ہے۔ حسب ذیل جملے کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ منصور اعجاز لکھتا یا کہتا ہے:
By the way, I know a lot more than you give me credit for about the circumstances that led to May 1 and your role in that. Just FY1.
ویسے تو آپ نے مجھے ان حالات کے بارے میں جن باتوں کا سزاوار قرار دیا ہے جو یکم مئی٭ کے واقعات کا سبب بنی ہیں، اس سے زیادہ جانتا ہوںاور یہ بھی کہ ان میں خود آپ کا کیا کردار رہا ہے۔ بس FY1
٭ امریکا میں اس روز یکم مئی ہی تھا، مگر پاکستان میں ۲ مئی شروع ہوچکا تھا۔
جس پر حسین حقانی کا جواب یہ تھا:
Honorable ppl stick with one another. Take care.
عزت مآب براہِ کرم ڈٹے رہیے اور ایک دوسرے سے جڑے رہیے اور ذرا محتاط بھی رہیں۔
جب ہم اس جملے کو حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کے ٹی وی بیانات کے ساتھ دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی صدرصاحب کے ۳مئی کے مضمون (مطبوعہ:واشنگٹن پوسٹ) کو پڑھتے ہیں (جس میں حسین حقانی کے طرزِ تحریر کی صاف جھلک موجود ہے)، تو اس میں امریکا کی طرف سے پاکستان کی حاکمیت کی پامالی اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مذمت کا ایک لفظ بھی نظر نہیں آتا، بلکہ دبے لفظوں میں پاکستان اور امریکا کے تعاون کا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہاں زرداری صاحب کے دستِ راست جناب رحمن ملک کے ایک ٹی وی انٹرویو کا یہ تذکرہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ ہفت روزہ Pulse کا مضمون نگار لکھتا ہے:
عبدالرحمن ملک نے العریبیہ چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’آپریشن شروع ہوا تو ۱۵منٹ بعد مجھے اس سے آگاہ کر دیا گیا تھا‘‘ لیکن وزیرداخلہ امریکی افواج (SEALS) کے سامنے بے بس اور عاجز تھے۔ (ہفت روزہ Pulse، ۹-۱۵ دسمبر ۲۰۱۱ئ، ص ۱۴)
یاد رہے کہ یہ آپریشن ۴۰ منٹ جاری رہا۔ اس کے بعد ۴۰منٹ تک امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی حدود میں اُڑتے رہے۔اگر وزیرداخلہ آپریشن کے آغاز سے ۱۵منٹ کے بعد اس سے مطلع ہوچکے تھے تو پھر ایک گھنٹے تک وہ کیا کرتے رہے؟
ان سارے حقائق کی موجودگی میں پورے واقعے کو مذاق اور جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملک سے اس بے وفائی اور غداری میں کس کا کتنا ہاتھ ہے؟ اس کا تعین ہونا چاہیے، مگر پارلیمانی کمیٹی کا یہ کام نہیں کرسکتی کیوں کہ اس میں اکثریت پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی ہے۔ بلاشبہہ پارلیمانی کمیٹی کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے لیکن مسئلے کی صحیح اور غیرجانب دارانہ تحقیق اور ذمہ داری کا تعین صرف اعلیٰ ترین عدالت ہی کرسکتی ہے۔ پوری قوم اور تاریخ دونوں کی نگاہیں عدالت اور اس سے بے لاگ انصاف کی توقع پر لگی ہوئی ہیں۔
_______________
اس معاملے میں سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو....
عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان، رسولؐ پر ایمان، قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا.... اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا، جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کردیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔
اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار ہوں، ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہرشخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنے اُوپر پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سو د حرام ہو، زکوٰۃ فرض ہو، حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزقِ حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان، اخلاق، تعلیم، انصاف، اصلاح معیشت، اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہوجائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔
اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس، دھوکے، دھاندلی، علاقائی، مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اُچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہوسکیں۔ انتخابات دیانت دارانہ ہوں، لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول، مقاصد اور پروگرام پیش کریں، اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِفکر اور معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرِنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہرحال آپ یک لخت جست لگاکر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۱۹-۲۷)
اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک بارش بھی ہے۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہر قدرت میں سے ہرچیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستور ہے۔ کہیں معجزاتِ رسولؐ کو آیت کہا گیا ہے اور کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیت کہا گیا ہے۔ بارش چونکہ مظاہر قدرت میں سے ہے، لہٰذا یہ بھی اللہ کی آیت یا نشانی ہوئی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ، بہت سی آیات میں عالمِ بالا سے کرۂ ارض پر بارش برسانے کا ذکر فرماتا ہے اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے: اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً (الزمر ۳۹:۲۱)’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا‘‘۔ کہیں بادلوں سے پانی کے برسنے کا بیان ہے: اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o (الواقعہ ۵۶:۶۸-۶۹) ’’یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟‘‘وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا o لِّنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا o وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا o (النبا ۷۸:۱۴-۱۶) ’’اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعے سے غلّہ اور سبزی اور گھنے باغ اُگائیں‘‘۔بعض آیات میں آسمان سے رزق نازل کرنے کا بیان ہے: وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ (الجاثیہ ۴۵:۵) ’’اور اُس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو جلا اُٹھاتا ہے‘‘۔
کرۂ ارض پر موجود پانی کو اللہ تعالیٰ بخارات میں تبدیل فرماتا ہے، جو بادلوں کی صورت ہوا کے دوش پر آسمان (عالمِ بالا) کی طرف سفر کرتے ہیں اور جہاں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے پھیلا دیے جاتے ہیں اور زمین کے اُوپر ایک خاص فاصلے پر پہنچ کر بالعموم پانی کی بوندوں کی شکل میں زمین ہی پر برس پڑتے ہیں۔ بعض اوقات اولوں اور برف کے گالوں کی صورت میں بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بڑے خوش کن اور خوب صورت پیرایے میں بادلوں کے بننے اور ان سے پانی کے برسنے کو بیان فرماتا ہے:
کرۂ ارض پر موجود پانی سمندر، دریا، جھیلوں کی کھلی سطح، زمین کے مسام ، دودھیلے حیوانات (میملز) کی جلد پر موجود مسام اور درختوں اور پودوں کے پتوں پر ننھے ننھے سوراخوں سے ___ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کھلا ماحول، اس میں ہوا کی گردش اور ماحول کا درجۂ حرارت ہے اور یہ سورج کی تپش کا نتیجہ ہے۔ حکمت الٰہیہ کے تحت بخارات ہوا کے دوش پر عالمِ بالا کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ دراصل یہی بخارات بادل ہیں اور ان کی مقدار بادلوں کو گہرا یا ہلکا بناتی ہے۔ سمندر کی سطح سے ان بخارات کے ساتھ نمک کے نہایت مہین ذرات بھی بادلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ بادل جلد ہی ننھی آبی بوندوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بخارات کا پانی کسی بھی ننھے سے نمک کے ذرّے کے گرد جمع ہوجاتا ہے یا پھر کائناتی دھول کے ننھے سے ذرے کے گرد جمع ہوتا ہے۔ یہ کائناتی دھول کیا ہے اور اس کے ذرات کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک پردئہ اخفا میں ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک کیوبک سنٹی میٹر رقبے میں ۵۰-۵۰۰ ننھی آبی بوندیں ہوتی ہیں۔ پھر یہ بوندیں بارش کی شکل میں برسنے والی بوندوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہ کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی ابھی تحقیق طلب ہے۔ دو سائنس دانوں برگیرون اور فنڈیسن (Bergeron اور Findeisen) نے ۱۹۵۰ء میں مذکورہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جب بارش برستی ہے تو یہ ننھی آبی بوندیں، یعنی ایک مرکز کے گرد جمع شدہ پانی، عالمِ بالا سے زمین کی طرف جیسے جیسے گرتی ہیں تو ہر بوند پھیلتی ہے اور اس کی سطح کا رقبہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باعث آبی بوند کے گرنے کی رفتار ہوا کی رکاوٹ کے باعث کم ہوجاتی ہے اور بوند نہایت آہستگی سے زمین پر اس طرح گرتی ہے جیسے کسی پیراشوٹ کے ذریعے اُتری ہو، ورنہ بغیر رکاوٹ کے عالمِ بالا سے برسنے والی بوندیں زمینی مخلوق کا زندہ رہنا مشکل بنا دیں۔ یہ سب اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔
بارش کے برسنے کے موضوع پر مزید انسانی تحقیقات کے نتیجے میں اور بھی توجیہات سامنے آئیں گی، مگر بنیادی حقیقت وہی ہے جسے قرآنِ حکیم میں بیان کیا گیا ہے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا‘‘ (الزمر ۳۹:۲۱)۔ گویا اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی ہے، وہی اس کا مالک و آقا ہے اور اُس نے کرئہ ارض پر بارش برسانے کا نظام قائم کیا ہے۔ اس کے قوانین بنائے ہیں اور اس کے ذریعے زمین پر اپنی مخلوقات کے لیے رزق کے بہم پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ ان قوانین اور اس نظام کے معلوم کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور صرف اور صرف اللہ کی کبریائی بیان کرے اور فرشتوں کی طرح اس کی تسبیح بیان کرے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے۔ کسی فرشتے یا جِنّ یا انسان یا مٹی اور پتھر کے بنے بتوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ یہ کام کرسکیں۔ لہٰذا بارش برسنے کا عمل انسان سے خداے واحد پر ایمان کا متقاضی ہے۔
اس حوالے سے زمین پر بارش کے اثرات کے سلسلے میں پانی، ہوا، ماحول کی تپش، مٹی اور اس میں موجود زندہ اور مُردہ اجزا وغیرہ اہم ہیں۔
پانی ایک بے رنگ، بے ذائقہ مگر فرحت بخش ، بے بو، شفاف اور پتلا مائع ہے۔ اس کی اپنی کوئی شکل نہیں۔ جس برتن میں ڈالیں اس کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اُوپر سے نیچے کی طرف بڑی تیزرفتاری سے بہتا ہے اور بہنے کے دوران توانائی پیدا کرلیتا ہے۔ پانی کی اس توانائی کو انسان نے آبی بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اسی مقصد کے لیے بڑے چھوٹے آبی ذخائر بنائے جاتے ہیں۔ سورج کی شعاع جب پانی کی بوند سے گزرتی ہے تو سات رنگوں میں منتشر ہوکر قوسِ قزح بناتی ہے جس کو بالعموم بارش کے بعد آسمان کے ایک جانب سات خوب صورت رنگوں کے قوس میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کرۂ ارض کا ۴/۳ حصہ پانی ہے۔ اصل ذخیرہ تو سمندروں میں ہے جہاں کُل پانی کا ۹۷فی صد ہوتا ہے، یعنی کل ۳ فی صد میٹھا پانی ہے جو دریا ، جھیل، تالاب اور کنوؤں میں ہوتا ہے۔ زمین کی اُوپر کی سطح کے نیچے جذب شدہ پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے اور پودوں اور حیوانات کے جسموں میں بھی ایک خاص مقدار ہوتی ہے۔ سارے ہی زندہ حیات کے جسموں میں پانی ایک انتہائی اہم جز ہے۔ انسان کے جسم میں ہر وقت ۴۰ تا ۵۰ لٹر پانی موجود ہوتا ہے، یعنی انسان کی جسامت کا ۶۰ تا ۷۰ فی صد۔ پانی کی اہمیت اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب پیاس لگتی ہے۔ انسان اور دوسرے جان داروں میں ایک خاص مقدار سے کم پانی موت کا پیغام ہے۔ پانی کا یہ توازن جسم کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پانی کی قدرتی خصوصیات یوں تو بے جان اور جان دار دونوں کے لیے انتہائی اہم ہیں، مگر جان داروں کے لیے تو پانی آبِ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں مختلف قسم کے مائعات پیدا فرمائے ہیں مگر طبیعی اور کیمیاوی خصوصیات کے باعث صرف پانی ہی کو زندگی کے لیے لازمۂ حیات بنایا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانی میں ایک انتہائی اہم خصوصیت پیدا فرمائی ہے، جو اللہ کے رحمن ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔ پانی منفی چار (۴-) سینٹی گریڈ تک تو دوسرے مائعات کی طرح تبدیل ہوتا ہے مگر اس سے کم درجۂ حرارت پر یہ کثیف ہونے کے بجاے لطیف ہوجاتا ہے اور پھیلتا ہے۔ پھر جب پانی برف میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ برف، مائع پانی سے وزن میں ہلکی ہوتی ہے، لہٰذا برف پانی کی سطح پر تیرتی رہتی ہے، اس کی تہہ میں نہیں بیٹھتی۔ پانی کی یہ خصوصیت اس حقیقت کی غماز ہے کہ سردیوں میں دریائوں، سمندروں اور جھیلوں کا پانی اوّلاً تو منفی چار سینٹی گریڈ تک سرد ہوجاتا ہے مگر مزید سردی میں اپنی زیریں سطح پر ٹھنڈا ہوکر برف کی صورت سخت اور وزن میں ہلکا ہوجاتا ہے اور پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ برف کے نیچے اس پانی میں آبی حیات (پودے اور حیوانات) زندہ رہتے ہیں اور معمول کی زندگی گزارتے ہیں۔
یہ بھی اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پانی دوسرے مائعات کی طرح اپنی زیریں سطح، یعنی تلی یا تہہ کی جانب سے سرد ہونا شروع نہیں کرتا، بلکہ صفر سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت پر اپنی بالائی سطح پر سرد ہونا اور برف میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے اور برف بننے کے ساتھ ساتھ پھیلتا اور ہلکا ہوجاتا ہے، لہٰذا یہ برف سطح آب پر تیرتی رہتی ہے، تہہ میں نہیں بیٹھتی ہے۔ بس سطح آب سے ایک میٹر نیچے تک اس کی دبیز چادر قائم ہوجاتی ہے، اس میں رخنے اور دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کے ذریعے آبی جانور، مثلاً سیل یا پینگوئن وغیرہ سردی سے بچنے کے لیے پانی کے اندر اُتر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ برف کی دبیز تہہ اندر کے پانی کی حرارت کو جلد باہر کی طرف خارج نہیں ہونے دیتی اور برف کی تہہ سے حرارت کا گزر بہت سُست رفتار ہوتا ہے۔ پانی کی یہ منفرد خصوصیت اور اس کے اندر آبی حیات کا سرد علاقوں اور سرد حالات میں زندگی بسر کرنا ایک ایسا لطیف توازن ہے جس کا قوانینِ فطرت کے تحت خود بخود قائم ہو جانا ناممکن ہے۔
جانوروں کے انڈے اور چھلکے یا جھلّی کے اندر بھی جنین کے گرد پانی کی ایک مخصوص مقدار پیدا کی گئی ہے۔ اس پانی میں جنین پرورش پاتا ہے اور مخصوص وقت پر جھلّی اور چھلکا توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔ یہاں بھی پانی کی غیرموجودگی جنین کے نشوونما پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ دودھیلے حیوانات کے (مثلاً گائے، بھینس، بکری وغیرہ اور انسان بھی ان میں شامل ہے) رحم میں پرورش پاتے ہوئے جنین کے گرد تین پردے ہوتے ہیں جن میں پانی بھرا ہوتا ہے اور جنین درحقیقت اس پانی میں تیرتا رہتا ہے۔ اسی کے ذریعے اپنی غذا بھی حاصل کرتا ہے اور جسم میں پیدا ہونے والے گندے مادے بھی خارج کرتا ہے اور پیدایش کے وقت اس پانی کی قوت سے اپنے مقررہ وقت پر رحم مادر سے خارج کردیا جاتا ہے۔ پرورش پانے والے جنین کے گرد پانی کی کمی یا زیادتی اس کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا یہاں بھی پانی کا موجود ہونا اور متوازن ہونا لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۳۰)، ’’اور ہرزندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے‘‘۔
غور کریں کہ پانی کی یہ خصوصیات انسانی جسم کو کس طرح چاق چوبند رکھتی ہیں۔ انسانی جسم کا درجۂ حرارت بالعموم ۲۵ تا ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ اگر یہ درجۂ حرارت کسی ایک ہی درجے پر قائم ہوجائے اور طویل عرصے تک قائم رہے تو موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ایک طویل عرصے تک جسم کا درجۂ حرارت ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ پر قائم رہے تو انسان کے جسم کے اندر موجود پانی جو جسم کے افعال میں توازن قائم رکھتا ہے جس سے انسان چاق چوبند رہتا ہے، اس میں انتشار پیدا ہوجائے گا اور یہ توازن درہم برہم ہوجائے گا۔
وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ وَاِِنَّا عَلٰی ذَھَابٍم بِہٖ لَقٰدِرُوْنَo (المومنون ۲۳:۱۸)، اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا۔
وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ o (الزخرف ۴۳:۱۱)، جس نے (اللہ نے) ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اُتارا۔ اور اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو جِلا اُٹھایا۔
آسمان اور زمین، یعنی کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بیک وقت پانی کی اتنی مقدار نازل فرمائی جو قیامت تک کرئہ زمین کی ضروریات کے لیے اُس کے علم میں کافی تھی۔ وہ پانی زمین کے نشیبی حصوں میں ٹھیرگیا، جس سے سمندر اور بحرے وجود میں آئے اور زیرزمین پانی پیدا ہوا۔ اب اسی پانی کا اُلٹ پھیر (دوران) ہے جو گرمی سردی اور ہوائوں کے ذریعے ہوتا رہتا ہے۔ اسی سے بارشیں وجود پاتی اور زمین کے مختلف حصوں میں پانی پھیلایا جاتا رہتا ہے۔ یہی پانی بے شمار چیزوں کی پیدایش اور ترکیب میں استعمال ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ تو ایک قطرے کی کمی ہوتی ہے اور نہ ایک قطرہ اضافے کی ضرورت ہی پیش آتی ہے۔ ہزاروں سال سے اللہ کا قائم کیا ہوا پانی کا یہ مقداری توازن قائم ہے۔ انسان تو اس توازن میں بگاڑ پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں۔یہاں یہ حقیقت واضح رہے کہ پانی ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز، مثلاً ہوا، روشنی، گرمی، سردی، جمادات، نباتات، حیوانات، غرض ہرچیز، ہرنوع، ہرجنس اور قوت و طاقت، توانائی کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار مقرر ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے اور نہ بڑھتی ہے۔
قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَآئٍ مَّعِیْنٍ o (الملک ۶۷:۳۰) ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا تمھارے کنوؤں کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون ہے جو پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمھیں نکال کر لا دے گا۔
اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَo (الواقعہ ۵۶: ۶۸-۷۰) ’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اسے تم نے بادل سے برسایا ہے، یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بناکر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکرگزار نہیں ہوتے؟
وَّاَسْقَیْنٰـکُمْ مَّآئً فُرَاتًا o (المرسلات ۷۷:۲۷) اور تمھیں میٹھا پانی پلایا۔
بارش سے برسایا جانے والا پانی میٹھا اور پینے کے قابل ہوتا ہے۔ اگر اللہ بارش کا یہ نظام قائم نہ کرتا تو کرۂ ارض کے باسیوں کے لیے میٹھے پانی کا حصول ناممکن تھا، لہٰذا کرۂ ارض پر زندگی کا وجود ناممکن ہوتا۔ یہ صرف اللہ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے بارش کو میٹھے پانی کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے اور کرئہ ارض کی ساری مخلوق اس سے مستفید ہورہی ہے۔
سائنس دانوں کی یہ دل چسپ تحقیق ہے کہ کرۂ ارض کا سورج سے فاصلہ اور زمین کے محور کا سورج کے مدار کی سمت ۲۳ درجے کاجھکائو___ یہ دو وجوہ ہیں جن کے باعث کرۂ ارض کا درجہ حرارت ۲۰- تا ۱۲۰+ ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ یہی وہ درجۂ حرارت ہے جس میں جان دار اپنا وجود قائم رکھتی ہے ورنہ زمین پر بھی دوسرے سیاروں کی طرح جان دار کا وجود ناممکن ہوتا۔ تپش کا یہی وہ توازن ہے جو اللہ نے زمین پر قائم رکھا ہوا ہے۔ زمین پر پہاڑ میخوں کے ذریعے مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور ایستادہ ہیں، کسی طرف لڑھک نہیں جاتے۔ اس صورت میں یہ زمین کا توازن بھی قائم رکھتے ہیں تاکہ زمین کسی ایک طرف ڈھلک نہ جائے۔ پہاڑوں کے دامن میں قدرے گرم ماحول اور بلندی پر ٹھنڈا ماحول بھی توازن قائم رکھنے میں مددگار ہے۔
سورج کی حرارت جہاں پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے وہیں ایک اور اہم کام بھی کرتی ہے۔ زمین پر موجود پودوں کے سبز پتوں میں موجود خلیوں میں موجود سبزینہ (کلوروفل) نامی کیمیاوی مادہ موجود ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی اس میں جذب ہوجاتی ہے اور اس میں موجود پانی میں، جو پودے کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوکر تنے اور شاخوں اور پتوں کی نالیوں کے ذریعے آتا ہے، اس سے اور پتوں میں موجود آکسیجن گیس کے تعامل کے ذریعے گلوکوز نامی غذا بناتی ہے۔ گلوکوز دراصل بنیادی غذا ہیجو بعد میں نشاستے میں تبدیل ہوکر پودے کے مختلف حصوں میں جمع ہوجاتا ہے۔
ہوائیں پانی کے بخارات کو جو اَب بادلوں کی صورت ہوتے ہیں، اُٹھا کر عالمِ بالا کی طرف لے جاتی ہیں۔ پھر روے زمین میں پھیلا کر اللہ کے حکم کے مطابق جہاں جتنی ضرورت ہوتی ہے پانی تقسیم کرتی (برساتی) ہیں۔ پانی کی تقسیم میں بھی توازن ہے۔ کسی بھی علاقے کی سالانہ بارش کے ریکارڈ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بارش کا سالانہ ایوریج تقریباً یکساں رہتا ہے، یا کچھ کم یا زیادہ۔ بعض علاقوں میں بڑے عرصے تک بارش نہیں ہوتی اور خشک سالی کا شکار ہوجاتے ہیں مگر پھر جب بارش ہوتی ہے تو جل تھل ہوجاتا ہے، یعنی خشک سالی کے دوران میں بارش کی کمی کا حساب برابر کردیا جاتا ہے۔ (دیکھیے: الذاریات ۵۱: ۱-۲، اور الزخرف ۴۳:۱۱)
ہوائوں کے زیراثر آسمان پر اکثر طرح طرح کی شکلوں والے بادل چھا جاتے ہیں جن میں بار بار تغیر ہوتا رہتا ہے اور کبھی کوئی ایک شکل نہ خود قائم رہتی ہے اور نہ کسی اور شکل ہی سے مشابہ ہوتی ہے۔ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ (الذاریات۵۱: ۵) ’’قسم ہے مختلف شکلوں والے آسمان کی‘‘ ۔ یہ بادل سیاہ بھی ہوتے ہیں اور سفیدی مائل بھی۔ سیاہ بادلوں میں آبی بوندوں کے باعث منفی اور مثبت برقی بار پیدا ہوجاتا ہے اور جب یہ دونوں برقی بار آپس میں ملتے ہیں تو بادلوں میں شدید گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور آسمانی بجلی کی تیزروشنی اور کڑک و چمک بھی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ اس بجلی کو بسااوقات جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے، جب کہ وہ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں، یعنی ایسے کاموں میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ ایک طرح سے یہ اللہ کا ایسے لوگوں پر تازیانہ ہے (دیکھیے: الرعد۱۳: ۱۲-۱۳)۔ یہی بجلی ہے جسے انسان نے اپنی کاوشوں سے زمین پر اُتارا ہے اور اپنے اردگرد کے تاریک ماحول کو اُجالوں میں تبدیل کرلیا ہے۔ اللہ جب کسی مقام پر آسمانی بجلی گراتا ہے تو یہ اس مقام کی ہرچیز کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔
ہوائوں کے دوش پر پانی لیے ہوئے بادل ’خوش خبری ‘ لیے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ انسان خوش ہوتا ہے کہ اب بارش ہوگی، گرمی اور حبس ختم ہوگا، زمین نرم ہوگی اور سونا اُگلے گی۔ کھیت لہلہائیں گے، فصلیں پیدا ہوں گی، غلّہ اُگے گا، باغوں میں رنگ برنگے خوش نما پھول اور مختلف اقسام کے پھل پیدا ہوں گے اور اس طرح انسان اور جانوروں کے لیے رزق کا انتظام ہوگا۔ یہ سب اللہ کی رحمت ہے جو اپنی رحمت کے آگے ہوائوں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے۔ (دیکھیے الفرقان ۲۵:۴۸-۵۰)
یہی ہوائیں اور بارش کبھی خدا کے عذاب کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہے۔ یہی بارش ہے جسے اللہ نے طوفانِ نوحؑ میں تبدیل کر دیا اور حضرت نوحؑ کی قوم چند نفوس کے علاوہ بارش کے اس طوفان میں غرق کر دی گئی:
فَفَتَحْنَـآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْہَمِرٍ o وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ o وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ o تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا ج جَزَآئً لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ o وَلَقَدْ تَّرَکْنٰھَا اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ o (القمر ۵۴: ۱۱-۱۵) تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کردیا، اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا، اور نوحؑ کو ہم نے ایک تختوں اور کیلوں والی پر سوار کردیا جو ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ تھا بدلہ اس شخص کی خاطر جس کی ناقدری کی گئی تھی۔ اس کشتی کو ہم نے نشانی بناکر چھوڑ دیا۔ پھر کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟
قومِ لوطؑ پر پتھر برسائے گئے جسے اللہ نے ایک قسم کی بارش سے تشبیہ دی ہے: وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَّطَرًا ج فَسَآئَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَo (النمل ۲۷:۵۸)، ’’اور برسائی ان پر ایک برسات، بہت ہی بُری برسات تھی وہ ان لوگوں کے حق میں جو متنبہ کیے جاچکے تھے‘‘۔
وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط (العنکبوت ۲۹:۶۳) اور اگر تم اِن سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے مُردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اُٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔
وَمِنْ اٰیٰـتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ط اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاھَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی ط اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۹) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سُونی پڑی ہے، پھر جوں ہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک پھبک اُٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے۔ یقینا جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے، وہ مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ یقینا وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
آسمان سے پانی برستا ہے تو خشک اور مُردہ پڑی ہوئی زمین کی مٹی کے ذرات پھول جاتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ زمین کی اس پرت یا تہہ میں موجود لاکھوں بیکٹیریا جو طویل خشک سالی کے باعث مُردہ ہوگئے تھے بارش کے پانی کے باعث ’جاگ‘ اُٹھتے ہیں۔ ان کی نسل تیزرفتاری سے بڑھتی ہے۔ اپنے جسموں میں ہوا سے نائٹروجن لے کر اس کی تالیف (synthesis) شروع کردیتے ہیں، یوں زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بارش کے پانی میں موجود ہائیڈروجن (H2) اور آکسیجن (O) آئن علیحدہ ہوجاتے ہیں، جو بیکٹیریا کے خشک شدہ جینیاتی تشخص (genetic code) اور ڈی این اے (DNA) کو فعال بنا کر نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔ لہٰذا اب یہ بیکٹیریا (مائیکروب) زندہ اور متحرک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اللہ مُردہ کو زندہ کرنے کی صورت پیدا کرتا ہے۔
مٹی میں ننھے حیوانات جو خوابیدہ حالت، یعنی زندگی اور موت کی سرحد پر ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی ان میں بھی زندگی کی جولانیاں پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح بارش کے بعد بے شمار اقسام کے رینگنے والے، دوڑنے والے اور اُڑان بھرنے والے کیڑے مکوڑے جگہ جگہ متحرک نظر آتے ہیں۔ زمین میں بارش کے باعث زندگی کی ہماہمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس طرح اللہ مُردہ پڑی زمین کو زندگی سے بھر دیتا ہے۔مٹی میں مختلف قسم کے پودوں کے بے شمار بیج اور جڑیں بھی خوابیدہ حالت میں دفن ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی جوں ہی ان کے اندر جذب ہوتا ہے بیج کا خول نرم پڑتا ہے اور پھٹ جاتا ہے۔ بیج کے اندر کا جنین کا اکھوا نرم مٹی کو پھاڑ کر زمین کی سطح کے اُوپر نرم و نازک پتیوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور چہارطرف سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ پودوں کی خشک جڑوں پر موجود کلیاں پانی کے باعث پھوٹتی ہیں اور تازہ دم ہوجاتی ہیں۔
اس طرح اللہ ’مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے‘ (حم السجدہ)۔ قربِ آخرت اللہ کا حکم ملتے ہی فرشتہ صور پھونکے گا جو قربِ قیامت کا اعلان ہوگا: ’’ہول کھا جائیں گے وہ سب جو زمین و آسمان میں ہیں سواے ان لوگوں کے جن کو اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا‘‘ (النمل ۲۷:۸۷)۔ ’’وہ بس ایک دھماکا ہے جو یکایک انھیں اس حالت میں دھر لے گا جب یہ (اپنے دُنیوی معاملات میں) جھگڑ رہے ہوں گے‘‘ (یٰس ۳۶:۴۹)۔ اور ’’جو آسمانوں اور زمین میں ہیں مرکر گر جائیں گے سواے ان کے جن کو اللہ زندہ رکھنا چاہے‘‘۔(الزمر ۳۹:۶۸)۔ پھر تیسرا اور آخری صور پھونکا جائے گا جسے سنتے ہی تخلیقِ آدم، یعنی پہلے انسان سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والا ہرانسان ازسرِنو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ اسی کا نام حشر ہے۔ ’’اور سب کے سب اللہ واحد القہار کے سامنے بے نقاب ہوکر حاضر کیے جائیں گے‘‘ (ابراھیم۱۴:۴۸)۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اسی طرح ’’جس طرح اللہ مُردہ پڑی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے‘‘۔
اللہ کی شان ہے کہ زمین ایک ہے، زمین کے اجزا ایک ہیں، ہوا اور پانی ایک ہیں، مگر زمین کے کسی قطعے میں گیہوں کی فصل ہے تو کسی دوسرے قطعے میں دوسرے غلّے کی فصل۔ کہیں امرود کے پھل لگے ہوئے ہیں تو کہیں مسمّی اور آم کے پھل ہیں۔ پھر ایک ہی زمین سے اُگنے والے ایک ہی قسم کے پھل کوئی مزے میں بہتر ہے اور کوئی کم تر۔ ’’سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر اور کسی کو کم تر بنا دیتے ہیں‘‘ (الرعد ۱۳:۴)۔ پھر یہ سب وافر مقدار میں ہیں کہ انسان اور جانوروں کے لیے کافی ہیں مگر انسان اپنی خودغرضانہ حرکتوں سے خود بھی غذائی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بعض اوقات قحط کا عذاب اس پر مسلط ہوجاتا ہے۔
یہ بھی اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پانی ایک ہی ہوتا ہے مگر زمین کی خرابی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ غلّے کی ایک فصل پیدا ہوتی ہے تو اس کا بیج انسان کی اپنی غذا کے کام آتا ہے اور جب وہی فصل سوکھ جاتی ہے تو فصل کے پتے اور تنے اس کے جانوروں کے کام آتے ہیں۔ پھر مخصوص قسم کے پودوں کی فصل جانوروں کے لیے بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔
پودوں میں غذا کہاں سے آتی ہے؟ اللہ نے سبز پودوں میں غذا پیدا کرنے کا دل چسپ مگر پیچیدہ نظام بنایا ہے۔بارش کا پانی پودوں کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوکر شاخوں کے ذریعے پتوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ ’سبزپتے‘ کے ہرخلیے میں سبزینہ نام کا کیمیاوی مادہ ہوتا ہے جو سورج کی روشنی سے قوت حاصل کرتا ہے اور فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پتوں کے سوراخوں کے ذریعے پتے کے خلیوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اب پانی کی ہائیڈروجن اور آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کیمیاوی تعامل کرتی ہے جو سبز پتے میں موجود سورج کی روشنی کی قوت کو گلوکوز نام کے کیمیاوی شے میں منتقل کردیتا ہے۔ گلوکوز اس تعامل کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ یہ گلوکوز بعد میں نشاستے میں تبدیل ہوجاتا ہے جو ایک قوت بردار غذا ہے۔ یہ نشاستہ بیجوں، پھلوں اور جڑوں، پتوں اور شاخوں وغیرہ میں ذخیرہ ہوجاتا ہے۔ بس یہی چیز جب انسان کھاتا ہے تو پانی کے ذریعے حاصل کردہ توانائی انسان اور حیوانوں کے جسموں میں پہنچ جاتی ہے جو زندہ حیات کے اعضا کی حرکت کی بنیاد ہے۔ اگر یہ توانائی جسم میں نہ پہنچے تو جسم مُردہ ہوجائے گا۔
پانی +
کاربن ڈائی آکسائیڈ
پتّے کے سبزینے میں
گلوکوز +
آکسیجن
بارش کا پانی پودے کی جڑوں کے ذریعے پتّے میں پہنچتا ہے
فضا میں موجود ہوتی ہے اور پتّے کے سوراخوں کے ذریعے اندر آتی ہے
سورج کی روشنی سے حاصل شدہ توانائی
توانائی بردار ہے اور بطور غذا استعمال ہوتا ہے۔
گیس کی شکل میں پتّے سے باہر نکل جاتی ہے اور انسان اور حیوان کے سانس لینے میں استعمال ہوتی ہے۔
سبز پتّے کے سبزینے میں غذا کے تشکیل پانے کے عمل کا چارٹ
پھر یہی اللہ کا برسایا ہوا بارش کا پانی زمین کے اندر بہت نیچے تک نہ صرف یہ کہ جذب ہوتا ہے بلکہ زمین کے اندر سوتوں اور دریائوں کی شکل میں رہتا ہے اور کہیں کہیں چشموں اور جھیلوں کی صورت میں زمین کی سطح پر پھوٹ نکلتا ہے، ان سے انسان کو میٹھا اور شفاف پانی میسر آتا ہے۔ کنویں کھود کر بھی انسان یہ پانی حاصل کرتا ہے۔ بعض جگہ سمندر سے بھی پانی جذب ہوکر زمین کے اندر بھی اندر دُور دُور تک جاتا ہے اور شفاف اور میٹھے چشمے کی صورت میں کسی جگہ بھی نکل آتا ہے۔ خیال ہے کہ آبِ زم زم کا چشمہ بھی بحیرۂ عرب سے آیا ہوا چشمہ ہے۔ ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو، اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو ستوں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کردیا‘‘۔ (الزمر ۳۹:۲۱)
سولھویں صدی عیسوی میں ترک امیرالبحر نے اپنی کتاب مراۃ الممالک میں خلیج فارس کے اندر ایسے مقام کی نشان دہی کی ہے اور لکھا ہے کہ وہاں آبِ شور کے نیچے آبِ شیریں کے چشمے ہیں جن سے وہ خود اپنے بحری بیڑے کے لیے پانی حاصل کرتا تھا۔ بحرین کے قریب سمندر کی تہہ میں اس قسم کے بہت سے چشمے کھلے ہوئے ہیں جن سے لوگ میٹھا پانی حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح جبرالٹر کا نیم گہرا علاقہ بحر اٹلانٹک کے پانی اور میڈی ٹرے نین سمندر کے پانیوں کو آزادانہ گڈمڈ ہونے سے روکتا ہے۔ یہ صورت حال واضح طور پر مراکش اور اسپین کے علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اللہ کی شان کہ ایک فرانسیسی ماہر بحریات جیکویاوس کاسٹیو (Jaeques Yues Costeau) نے جب اس کا مشاہدہ کیا اور قرآن حکیم آیات (الرحمٰن ۵۵:۱۹-۲۴) اس کے سامنے آئیں تو اس نے بلاتکلف اللہ رب العزت کی بڑائی کا اعلان کیا اور مسلمان ہوگیا۔
موسم کی پھلی بارش:کسی علاقے میں موسم کی پہلی بارش علاقے میں بسنے والوں کے لیے خوشی و انبساط کا باعث ہوتی ہے۔ لڑکے بالے بارش میں نہاتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں مگر پہلی بارش نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ برستا پانی اپنے ساتھ ماحول میں موجود مختلف قسم کی مہلک گیسوں اور مہلک جراثیم کو لیے ہوئے ہوتا ہے جو نہانے والوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لہٰذا اس بارش میں غسل نہ کرنا بہتر ہے۔
مصنوعی بارش:انسان کوشش کرتا رہا ہے کہ بارش برسانے پر کسی طرح قابو پالے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اب تک کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ بخارات سے جو پانی بردار بادل بن جاتے ہیں ان پر بعض کیمیاوی چیزوں کا چھڑکائو کیا جاتا ہے، بادل اپنا پانی برسا دیتے ہیں لیکن یہ کام کسی محدود علاقے پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اس پر بڑے اخراجات اُٹھانے پڑتے ہیں۔ انسان کے لیے بارش کے سارے عمل پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہے۔
وقت، دولت، زندگی اور اسی طرح کی دیگر چیزیں قربان کرنا، کوئی شک نہیں کہ، بڑا دُشوار کام ہے،مگران چیزوںکے مادّی اور محسوس اشیا ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی میں کئی لحاظ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ آپ جوکچھ بھی قربان کریں گے،وہ نظر آنے والی چیز ہوگی۔ جو قربانی آپ دیںگے اُسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اطمینان کر سکیںگے ۔علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر ایسی قربانیوں کی ضرورت بالعموم کسی بحران یاآزمایش کے وقت پیش آتی ہے۔ مصیبت اورآزمایش کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جو انسان کے اندر کے جذبات کوتحریک دے کراُس سے اپنی بہترین چیزیں باہر نکلوا لاتی ہیں۔ایسے مواقع پر آپ صورتِ حال سے باخبر ہوتے ہیں،آپ کو احتیاجات کی فوری تکمیل کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور آپ جذبات سے مغلوب بھی ہوتے ہیں۔ نیز ایسی قربانیاں بنیادی طورپر ذاتی نوعیت کی قربانیاں ہوتی ہیں،اپنی مرضی سے دی جاتی ہیں، بالعموم ان قربانیوںسے باہمی تعلقات کا پیچیدہ جال نہیں الجھتا۔
وہ تو غیر مادّی اور غیر محسوس قسم کی اشیا کی قربانیاں ہیں جو نہ صرف زیادہ مشکل ہیں، فرداور معاشرے کے لیے زیادہ اہم ہیں اور جدوجہد میں کامیابی کے لیے زیادہ ضروری ہیں، لیکن انھی قربانیوں سے صرفِ نظر کرنے، یا انھی قربانیوں کو نظرانداز کردیے جانے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔اکثر اوقات ان قربانیوں کو قربانی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ان اشیاکی قربانی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ جس چیز کی قربانی دے رہے ہیں اُس کی جڑیں آپ کے دِل ودماغ کی پہنائیوں میں پیوست ہیں، وہ ٹھوس اور نظرآنے والی چیزیں نہیں ہیں، آپ کو اُن کی قربانی دیتے ہوئے دیکھا نہیں جا سکتا۔اوریہ قربانیاں صرف بحران و آزمایش کی گرما گرمی میں نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں، بغیر کسی کو دکھائے اور بغیر کسی کے علم میں لائے، ہرروز دی جاتی ہیں۔
اجتماعیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے اﷲ کی راہ میں جدوجہدکے وقت ایسی قربانیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ اس نوعیت کی قربانیاںہیں کہ آپ بمشکل ہی ان کو قربانیاں سمجھیں گے۔ مگر ایسی قربانیوں کے بغیرکوئی مضبوط ہم آہنگ اجتماعی زندگی وجود میں آسکتی ہے، نہ کامیابی کی اُمید کے ساتھ کوئی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔مثال کے طورپر اپنی پسندوناپسند کو لے لیجیے۔ دولت کی طرح اس کاحساب نہیں لگایا جاسکتا،مگر افراد، اشیا ا ور موقف سے متعلق اپنی پسند وناپسند کی آپ کو قربانی دینی ہوگی۔ایسی غیر محسوس اشیا کی قربانی دینے کے لیے در حقیقت نسبتاً بڑے جذبۂ قربانی کی ضرورت پیش آئے گی۔اﷲ کے کام میں انسان کو نہ صرف اپنی جان ومال، وقت اوروسائل کی قربانی دینی پڑتی ہے، بلکہ اپنی پسند وناپسند اور اپنی محبت و نفرت کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کا ارشادہے: ’’جس نے صرف اﷲ کی خاطر محبت کی اور صرف اﷲکی خاطر نفرت کی، اُس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی)
جب ہم صحابۂ کرام کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ: اﷲ اُن سے راضی ہوا ،اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے (رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ) کیوں؟کیوں کہ اُنھوں نے اپنی ذات کو اس حد تک فنا فی اﷲ کردیا تھا کہ اﷲ کی پسند اُن کی پسند، اور اﷲکی ناپسند اُن کی ناپسند بن گئی تھی۔ اُنھوں نے نہ صرف اپنی جان و مال کو اﷲ کے سپرد کردیا تھا بلکہ اپنی پوری ذات اﷲ کے حوالے کردی تھی۔
اس اہم ترین نوعیت کی قربانی کو عموماً ہم نظر انداز کردیتے ہیںجس کے بغیر اتحاد واتفاق کے مسالے سے تشکیل پانے والی اُس اجتماعیت کا بننا انتہائی مشکل ہے جو تنہا اﷲکے کام کو آگے بڑھاسکتی ہے۔آئیے ہم قربانی کی ان اقسام پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں۔ ان میں محبت، نفرت، رشتہ داریاں، پسند وناپسند، ترجیحات وتعصبات، آرزو اوراُمنگ، آرام و راحت، اُمیدیں اور توقعات، رسوم و رواج، اقدار اور رویّے، عہدہ ومنصب یامحض اَنا اور خودپسندی شامل ہیں۔
کنبے کی محبت دُنیاکا طاقت ور ترین اور غالب ترین رشتہ ہے ۔مہد سے لحد تک والدین کی محبت، بچوںکی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت،بھائیوں اوربہنوں کی محبت، بلکہ دوسرے رشتہ داروں کی محبت بھی ہماری زندگی کا محور بنی رہتی ہے۔ یہ محبتیں ہمارے تمام تعلقات پر غالب رہتی ہیں۔عام طورپر ہماری زندگی، ہمارا روزگاراورمال و متاعِ دُنیا کا حصول اُنھی کی محبت کی خاطر اور اُنھی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وقف ہوجاتاہے۔
ہم اپنے دل ودماغ، اپنی توجہ اور وفاداری اور اپنے وقت اور دولت پر کسی اور حق سے پہلے عام طورپر اس محبت کا حق تسلیم کرتے ہیں۔کنبے کی محبت کا تعلق ہمیں جس طرح جوڑے رکھتاہے اُس طرح کوئی اور تعلق نہیں جوڑ سکتا۔ہم اکثر لوگوںکو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ’مجھ پر سب سے پہلا حق میرے گھرانے کاہے‘یا کسی کو اس فخر کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں کہ’میری وفا اور میرا خلوص سب کچھ اپنے خاندان کے لیے وقف ہے‘۔ اس کے معقول دلائل ہیں۔ خاندان قدیم ترین اور اہم ترین انسانی ادارہ ہے۔ انسان نے اب تک جن تہذیبوں اور ثقافتوں کی تشکیل کی ہے، یہ اُن سب کا سنگِ بنیادہے۔ایسی مؤثر اور گہری محبت اور ایسی غالب وفاداری کے بغیر تہذیبی اقدار، معیارات اور طور طریقے اگلی نسل کو منتقل کیے جاسکتے ہیں، نہ ان کو محفوظ اور برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ کنبے کے بغیر آدمی، آدمی ہی نہیں رہتا، برباد ہوجاتاہے۔ پھر کنبے کی محبت بھی اﷲ کی راہ میں قربان کردینے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے واضح دلائل ہیں:
اوّل:آپ اُس وقت تک اپنی ذات کو اﷲ کے سپرد نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی زندگی، آپ کی محبت اور آپ کی وفاداری پر اﷲ کا حق سب سے مقدّم اور سب سے اہم حق نہ بن جائے۔ یوں کنبے کا حق اﷲ کے حق کا مطیع ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ امکان ہے کہ کنبے کی محبت ایک صاحبِ ایمان کو اﷲ کے احکام کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے پر مائل یا مجبور کردے۔
دوم:کنبہ ہمیشہ سے وہ مضبوط ترین قلعہ رہا ہے جس میں مستحکم اقدار، عقاید، رسوم ورواج اور طرزِ حیات وغیرہ مورچہ بند رہتے ہیں۔ مسلمان بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں اور اپنے معاشرے میں ایک تبدیلی لاناشروع کرتے ہیں۔آپ مستحکم بنیادوںپر قائم طرزِ زندگی کو چیلنج کرنا شروع کرتے ہیں اور اُسے اُکھاڑ پھینکنے کا آغاز کرتے ہیں۔باپ دادا کے طور طریقوں سے بغاوت اوراُن میں تبدیلی لانے کے خلاف پہلی مزاحمت خاندانی محبت کی حدوں کے اندرہی سے پیدا ہوگی ۔یہ بالکل فطری بات ہے۔
سوم:جوکچھ آپ کے پاس ہے اُسی کے بل بوتے پر آپ جہاد کا عزم کرتے ہیں۔آپ کی ہرچیز، بشمول خاندانی محبت کے حق پر، جہاد کا حق دیگر تمام حقوق سے فائق ہونا چاہیے۔کوئی چیز آپ کو جہاد کے راستے سے منحرف نہ کرسکے۔خاندانی محبت اگر کوئی رُکاوٹ نہ بنے، تب بھی آپ کواپنے فرض کی تکمیل کی خاطرکئی طریقوں سے یہ قربانی دینی پڑے گی۔
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم ہمیں آگاہ کرتاہے: وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸: ۲۸)،’’اورجان رکھوکہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اﷲ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔ اور ہمارے سامنے یہ بنیادی گہرا سوال رکھتاہے کہ تُم کس سے زیادہ محبت رکھتے ہو؟ اﷲ سے یا…؟
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَـآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo (التوبہ ۹:۲۴)،اے نبیؐ!کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جوتُم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ گھر جو تُم کو پسند ہیں، تُم کو اﷲ اور اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
خاندانی محبت کی قربانی مختلف صورتوں میں دی جاسکتی ہے، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ وہ اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری اور اُس کی رضا کے حصول کی جدوجہد میں کس انداز سے آڑے آتی ہے۔ پہلی مثال یہ ہے کہ خاندانی محبت مطالبہ کرتی ہے کہ والدین، خاندان کے بڑوں، باپ داداکے طورطریقوںیارسوم و رواج اورمعاشرے کی اطاعت کی جائے۔ اگرایسی اطاعت اﷲ کی اطاعت سے متصادم ہو تو اسے ترک کردینا چاہیے۔ آپ کو اپنی عقل، اپنے ضمیر، اپنے عقیدے اور اﷲ کی طرف سے آنے والی ہدایت کا کہا ماننا چاہیے:
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ شَیْئاً وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۰)، ان سے جب کہاجاتاہے کہ اﷲ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیاہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا ط اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo (العنکبوت ۲۹: ۸)، ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتاتو ان کی اطاعت نہ کر۔
مزید یہ کہ آپ جن سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کے عقیدے پر ایمان لانے سے انکار کرسکتے ہیں، یاوہ اﷲ اوراُس کے کام کی کھلی مخالفت پر اُتر سکتے ہیں۔ایسے مخالف رشتہ دار حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں گے، آپ کا تمسخراُڑائیں گے اور تضحیک کریں گے،آپ کو ستائیں گے، گھر سے نکال دیں گے اور آپ کو خاندان سے خارج کردیں گے۔ آپ کو ایسے ضرررساں اور مخالف ارکانِ خاندان سے اپنی محبت اور تعلق کے تمام جذبات کی قربانی دینی ہوگی۔اﷲ کی محبت اور اﷲ کے دُشمنوں کی محبت ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتی۔اُن کی محبت سے مکمل دست برداری جیسی بڑی قربانی دے کر ہی آپ اپنے عقیدے کو اپنے دل میںپختہ کرسکتے ہیں اور اپنا شمار اﷲ کی جماعت (حزب اﷲ) میں کرواکر اُس کی رضا وخوش نودی اور اُس کی جنت کا انعام حاصل کر سکتے ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیجیے، جو اﷲ کی راہ میں قربانی کا نمونۂ کامل تھے۔ سب سے پہلے اُنھیں اپنے والد کو چھوڑنا پڑا، حتیٰ کہ اُن کے لیے دُعاے مغفرت کرنے سے بھی اﷲ کے حکم پر دست کش ہوگئے،اور آخرکار اﷲ کے حضور اپنے لختِ جگر کا ذبیحہ پیش کرنے کو بھی تیارہوگئے۔ یا سیدنا لوط علیہ السلام کی مثال لیجیے جنھیں اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنا پڑا، کیوں کہ وہ اُن لوگوں کی ہم درد تھی جنھوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کی اُس دعوت پر کان دھرنے سے انکارکردیا تھاجو ایک اﷲ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے اُن کودی جارہی تھی۔ پھررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رفقا رضی اﷲ عنہم کی مثال لیجیے، باپ بیٹوں کے سامنے صف آرا تھے اور بیٹے باپ کے سامنے، حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں بھی، مگر اُن کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔
وہ لوگ جو ایمان لانے سے محض انکار کرتے ہیںاور مخالفانہ سرگرمیوں میں فعّال نہیںہوتے، اُن کے معاملے میں آپ کی قربانی کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اُن سے آپ کو اپنی دوستی ختم کردینی چاہیے، لیکن سلوک عادلانہ اور کریمانہ کرنا چاہیے۔ اُلفت و محبت کے تمام تعلقات کا خاتمہ انتہائی اقدام ہے، مگر ان تعلقات سے چھلانگ یک لخت ہی لگانی ہوگی۔ جولوگ آپ کے عقائد کو پسند نہیں کرتے یا اُن سے اتفاق نہیں رکھتے، اور اس بات کو راز بھی نہیں رکھتے،ایسے اعزہ و اقارب کے ساتھ مستقلاً رہنا آپ کوزیادہ مشکل میں مبتلا کرسکتا ہے اور بہت بڑی قربانی کا تقاضاکرتا ہے۔کیوں کہ جب آپ کے عقیدے اور ایمان کو بُرا بھلا کہا جائے گا تو آپ کو شدید اذیت ہوگی اس کے باوجود آپ کو ان کے ساتھ تحمل و برداشت سے پیش آنا ہوگا۔
ضروری نہیں کہ آپ کے اہلِ خاندان آپ کے نصب العین کی مخالفت ہی کریں، یا اس معاملے میں غیر جانب دار رہیں، وہ ہمدرد بھی ہو سکتے ہیں۔اس کے باوجود اُن سے محبت کے تقاضوں اور اﷲ سے محبت کے تقاضوں میں ٹکراؤ، یا اختلاف پیدا ہوسکتاہے۔ایسی صورتوں میں یہ بات نہ بھولیے کہ خود اچھے مسلمانوں سے محبت بھی بعض اوقات اﷲ کی محبت کی راہ سے بھٹکا سکتی ہے، لہٰذا قربانی کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے۔
اکثراوقات آپ کو مختلف اقسام کے نرم و نازک او رلطیف دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان کی مزاحمت کے لیے آپ کو متعدد طریقوں سے مسلسل قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان میں سے تمام صورتیں اتنی سادہ اور واضح نہیں ہوتیں کہ آپ آسانی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔کبھی ان کی ناپسندیدگی اور نامنظور ی آپ کے سامنے بظاہر یا بباطن بڑے سادہ انداز میں پیش کی جائے گی، مگراسے بھی رد کرنا ہوگا۔بعض اوقات التجائیں اور مطالبات پیش کرتے ہوئے محبت کا واسطہ دیا جائے گا، حقوق کاواسطہ دیاجائے گا اور اختیارات کاواسطہ دیا جائے گا، سب کا اسلام سے جواز بھی پیش کیا جائے گا،آپ کو ان سب کا مقابلہ مناسب طریقے سے کرنا ہوگا۔بیوی بچے محبت اورالتفات کے طالب ہوں گے، آپ کو سب میں توازن رکھنا ہوگا۔
ایسی صورت میں آپ کواُنھیں خوش رکھنے کی ضرورت پر اﷲ سے اپنے عہد کو غالب رکھنا ہوگا، اُن کا دِل نہ دُکھائیں، اُنھیں مایوس نہ کریں اور اُن کی اُمیدوں کو رد نہ کریں۔ بصورتِ دیگر آپ کو اُن سے ملنے والی مدداور تقویت سے دست کش ہوجانا پڑے گا اور اُن کی گرم جوشی اور جذباتی محبت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔آپ کو بڑے پیجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اگر وہ اﷲ کے کام میں آپ کی راہ کی رکاوٹ بن گئے تو ایک مقام پر پہنچ کر آپ کو اپنے ان فرائض ِذمہ داریوں، خدمت گزاری اور اُن کے حکم کی تعمیل سے ہاتھ اُٹھا لینا ہوگا۔
افراد کے مابین قائم ہونے والے الفت و محبت کے رشتوں میں سے ایک بڑا رشتہ دوستی کا تعلق ہے۔دوستیاں ہم مزاجی، مشترکہ مفادات و مقاصد اور مشترکہ اہداف کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ مسلمان کی حیثیت سے آپ کا ایک ہی ہدف اور مقصد ہے: اپنے پورے وجود کو مکمل طورپر اﷲ کے سپرد کردینا، لہٰذا بہت سی دوستیوں کی آپ کو قربانی دینی ہوگی اور اسی طرح بہت سی دُشمنیوں اورنفرتوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس نئے دوست بنانے ہوں گے۔کوئی شخص جسے آپ کبھی پسند نہیں کرتے تھے، اُس کے لیے آپ کے دِل میں جگہ نکل آئے گی، وہ آپ کو عزیز ہوجائے گا۔
خاندانی رشتے ہوں یا دوستیاں،سماجی تعلقات زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اپنی مدد وتعاون سے وہ آپ کو ضروری کمک اور طاقت فراہم کرتے ہیں۔آپ کو ایسی حیات بخش کمک اور سماجی تقویت کی قربانی دینی ہوگی کیوں کہ دوستیاںٹوٹ جاتی ہیں، رشتے بکھر جاتے ہیں اورحمایت سے ہاتھ کھینچ لیا جاتاہے۔محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جو صادق و امین اور قابلِ احترام رہنما تھے، یکایک (نعوذباﷲ) ’فاترالعقل‘، ’دیوانے‘ اور’ لوگوں کے دُشمن‘کہے جانے لگے تھے۔
دوستیوں اور رشتہ داریوں کی طرح آپ کی پسند وناپسند کا بھی آپ کی زندگی کے ہرحصے پر غالب اثر پایاجاتاہے۔ اس میں آپ کے خیالات، آپ کا نقطۂ نظر، آپ کا ذوق، آپ کامزاج، آپ کے جذبات واحساسات اور آپ کے رویّے اورآپ کا برتاؤ بھی شامل ہے۔ بسا اوقات ان میں سے ہرایک کی اپنے اپنے طریقے سے قربانی دینی پڑتی ہے۔
اپنا نقطۂ نظر اور اپنے خیالات آپ کو ہمیشہ عزیز رہتے ہیں۔ اپنے نظریے سے آپ کی جذباتی وابستگی صرف اسی صورت میں پختہ ہوتی ہے جب آپ اپنی زندگی کے نصب العین سے عہدِوفا استوار کرلیتے ہیں۔اس کے بعد آپ کے اندر صحیح اور غلط یا حق اورباطل میں امتیاز کی ایک طاقت وَر حِس پیداہوجاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہروقت یہ خیال آپ کے ذہن میں رہتاہے کہ اندازِ نظرصرف ایک ہی ہو سکتا ہے: صحیح یا غلط، اور آپ کو ہمیشہ درست طرزِ فکر اختیار کرناہے۔ تاہم آپ کے نظریات، کسی خاص معاملے پر آپ کی حکمت عملی اورآپ کے کام کرنے کا طریقہ، ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ ایسی صورت میں آپ کو اُنھیں چھوڑنا ہوگا، آپ کو اپنے ان نظریات سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی، یا اُن نظریات کے خلاف کام کرناہوگا۔لیکن جب تک آپ کسی معاملے میں اﷲ کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہ دیکھیں، آپ کو اپنی راے کی قربانی دینی ہے۔اجتماعیت کی زندگی کوطاقت ور بنانے کے لیے دی جانے والی یہ قربانی مال ودولت کی قربانی سے زیادہ اہم ہے۔
بعینہٖ آپ کو اپنے جذبات و احساسات بھی بے حد عزیز ہوتے ہیں۔بسا اوقات آپ کو اپنے ایسے مشاغل ترک کردینے پڑتے ہیں‘ جو اﷲ کی رضا وخوش نودی کے کام نہیں ہیں،خواہ وہ آپ کو مرغوب ہوں، آپ اُن میں کشش محسوس کرتے ہوں اور اُنھیں مفید سمجھتے ہوں، جب کہ بعض اوقات صرف اﷲ کی رضا وخوش نودی کی خاطر آپ کو ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جنھیں آپ پسند نہیں کرتے اور جو آپ کے مزاج کے خلاف ہیں۔ کئی مواقع پر آپ کو اپنے بولنے کی خواہش کو دبانا ہوگا اور خاموش رہنا ہوگا خواہ اپنی بات کہہ دینے کا کتنی ہی شدّت سے دِل کیوں نہ چاہ رہاہو۔ اور کسی موقع پر آپ کا خاموش رہنے کا جی چاہ رہا ہوگامگر بولنا پڑے گا۔ آپ کوشدید غصہ آئے گا اور انتقام کا جذبہ جوش ماررہا ہوگا، برابھلا سنانے کی خواہش پیدا ہورہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی زبان قابو میں رکھنی ہوگی۔ بعض مواقع پر آپ کو تنہائی اور سکون کی ضرورت محسوس ہورہی ہوگی مگر آپ کو بھرپور سماجی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں میں منہمک ہونا پڑے گا۔ اور بعض اوقات آپ کا دل لوگوں سے ملنے جُلنے کو چاہ رہا ہوگا، مگر اکیلے رہنا پڑے گا۔آپ کے اندر ’کچھ حاصل کرلینے‘ یا ’کچھ بن جانے‘ کی اُمنگ موجیں ماررہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی ان آرزوؤں سے مکمل طورپر دست بردار ہونا پڑے گا۔ آپ کو اپنی ذاتی خواہشات اور ذاتی منصوبے ردّی کی ٹوکری کی نذر کردینے ہوںگے۔
بہت سے عام معاملات میں بھی آپ کو اپنے ذوق اور مزاج کی قربانی دینی ہوگی۔ آپ کو ایسے انداز سے زندگی بسر کرنے، کھانے پینے، سونے اورپہننے پر مجبور ہونا پڑے گا جو آپ کو پسند نہیں، آپ کے مزاج کے مطابق نہیں، یاآپ کی ترجیحات اور آپ کے طرزِ زندگی سے لگّا نہیں کھاتا۔ آپ کو یہ طرزِ حیات قبول کرنا ہوگا، بغیرناک بھوں چڑھائے، برضا ورغبت، دوسروںکی دِل شکنی کیے بغیراوراُن کے لیے مشکلات اور انتشار پیدا کیے بغیر۔
اورآخرکار آپ کو اپنی انا، اپنی خود پسندی، اپنے متعلق حسین تصورات اور ان تصورات سے اپنی محبت، سب کچھ قربان کردینا ہوگا۔ یہ ظاہری اور باطنی بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اپنے آپ کو فنا کردینا صرف راہِ سلوک ہی کا ایک مرحلہ نہیں، اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے رستے پر چلنے کے لیے جو واحد چیز درکار ہے وہ بھی یہی ہے کہ آپ کواپنی اَنا، اﷲ کی رضا کی خاطر فنا کردینی ہوگی۔ ہماری خود پسندی، ہمارے نزدیک اتنی اہم چیز بن جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں ضد، ہٹ دھرمی، خودسری ، خودستائی، ڈھٹائی، اور دوسروں کی تذلیل جیسی بُری عادات پروان چڑھ جاتی ہیں۔ اپنی اَنا اور خود پسندی کی قربانی دینا زندگی کا سب سے کٹھن کام ہے، مگریہ کرنا ہی ہوگا۔
بعض قربانیاں زندگی میں ایک ہی بار دینی ہوتی ہیں، جیسے جان کی قربانی۔ کچھ قربانیاں بہت معمولی ہوتی ہیں مگر مسلسل دینی پڑتی ہیں۔ ان کے بعض غیر محسوس پہلوؤں کے سبب ان کا تسلسل ہی انھیں اہم بنادیتاہے۔پہلی بات تو یہ کہ ان کے معاملے میں آپ کو ہروقت چوکس اور چوکنا رہنا پڑتاہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کا موقع آئے اور آپ اونگھ رہے ہوں، بے اعتنائی سے بیٹھے ہوئے ہوں،غفلت اور بے دھیانی کی کیفیت میںہوں، یا موقع پہچان نہ سکیں۔ دوسرے یہ کہ ان قربانیوں کے لیے عزمِ مسلسل و متواتر درکار ہوتاہے،جس کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ قربانیاں اتنی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں کہ ان کے بَل پر کوئی سُورما نہیں بن سکتا، مگر کردار سازی، معاشرتی نظم وضبط اور کامیابی کے لیے ان کی اہمیت کسی لحاظ سے کم نہیں۔ مسلسل گرنے والا پانی کا ایک معمولی قطرہ بھی پتھر کی چٹان میں سوراخ کر دیتاہے۔چوتھے یہ قربانیاں بحران اور مصیبت کے وقت نہیں طلب کی جاتیں، بلکہ ان کی ضرورت عام حالات اور روزمرہ زندگی میں پیش آتی ہے۔اسی وجہ سے معمولی ہونے کے باوجودیہ قربانیاں پیش کرنا بہت دُشوار کام ہے۔کیوں کہ شدید بحران کے وقت، جب کسی بڑے چیلنج کا سامنا ہوتو کوئی بڑا اعزاز ملنے کی توقع پر اپنی اندرونی صلاحیتوں کو اُبھارنا، اپنے عزم و ارادے کو جگانا اور اپنی بہترین مساعی کو بروے کارلے آنا نسبتاً سہل ہوتاہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ ایک طرح سے آپ کو زندگی کے ہرلمحے چھوٹی چھوٹی___ بہت چھوٹی چھوٹی___ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کیوںکہ زندگی کے ہرہرقدم اور ہرہر ثانیے میں آپ کو دوچیزوںمیں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، خواہ یہ کتناہی چھوٹا معاملہ کیوں نہ ہو۔ اﷲ کی رضا و خوش نودی کی خاطر کسی بھی پہلو کا انتخاب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینے کا فیصلہ کررہے ہیں،یہاں تک کہ اگر آپ نمازِ فجر اداکرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ اپنی نیند اور گرم بستر کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔
ایک ایسے پہاڑی راستے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے جس میں گہری کھائیاں آتی ہوں، آڑی ترچھی ڈھلوانیں ہوںاور اندھے موڑ پڑتے ہوں، آپ زیادہ محتاط رہیں گے تاکہ محفوظ ڈرائیونگ کرسکیں اور تمام مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں۔ مگر کسی ایسے راستے پر جو ہموار ہو، حادثات سے محفوظ ہو، اُس میں کسی موڑکاسامنا نہ کرناپڑتاہو، کوئی رکاوٹ نہ پیش آتی ہو اور کوئی اُترائی یا چڑھائی نہ ہو تو اُس راستے پر آپ کے بے پروائی اور غفلت سے ڈرائیونگ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔یوںآپ کو کوئی حادثہ پیش آسکتاہے، یاآپ اپناکوئی موقع ضائع کر سکتے ہیں، یا اپنے راستے سے بھٹک سکتے ہیں،یابے دھیانی میں اپنی منزل سے دُور نکل سکتے ہیں۔
گویا روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر قربانیاں دینی پڑتی ہیں___ گھر میں، دفترمیں، بازار میں، معاشرتی تعلقات میں، تنظیمی سرگرمیوں میں، یہاں تک کہ تنہائی میں بھی___جن سے غفلت ہوسکتی ہے۔یہ قربانیاں دینا زیادہ دُشوار ہے، محض اِس وجہ سے کہ انھیں قربانی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔
کامیابی کے امکانات کی عدم موجودگی میں
جب دُنیاوی کامیابی سامنے نظر نہ آتی ہو تو ایسی صورت میں دی جانے والی قربانیوں کی مزید جہتیںسامنے آتی ہیں۔جب آپ کی جدوجہد کے ثمربار ہونے کے امکانات نظر آرہے ہوںتو نسبتاً زیادہ آسان ہوتاہے کہ آپ اپنا وقت، اپنا مال اور اپنی زندگی قربان کردیں، اپنی راے سے دست بردار ہوجائیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں جن کو آپ پسند نہیںکرتے یا اُن طریقوں کو اختیار کرلیں جو ذاتی طورپر آپ کو ناپسند ہیں۔ مگر جب کامیابی کے امکانات موہوم یا معدوم ہوںتویہ تمام کام انتہائی مشکل ہو جاتے ہیں۔ مایوسی کے لمحات میں، جب کامیابی کی کوئی اُمیدنظر نہ آ رہی ہویا شکست واضح انداز سے دکھائی دے رہی ہو، زیادہ امکان یہی ہوتاہے کہ لوگ اپنے وقت اور مال سے چمٹے رہیں، اپنی راے پر اصرار کریں اور اپنے ناپسندیدہ افراد، یا طورطریقوں کو ایک تنازع بناکر کھڑا کردیں۔ ایسی صورتوں میں دی جانے والی قربانیوں کا بہت بڑا اجر ہے۔
آپ اپنے اندر کی اُن صلاحیتوں کو کیسے بیدار کریں گے جو آپ میں قربانی کا جذبہ اور استعداد، پیدا کریں، پروان چڑھائیں اور برقرار رکھیں؟ آپ سے جوقربانی طلب کی جائے گی اُس کے لیے اپنے آپ کو کس طرح آمادہ وتیار کریںگے؟
ان میں سے کچھ طریقوں سے تو آپ کو قربانی کی اقسام پر بحث کے دوران ہی آگاہی ہوچکی ہے۔تاہم کچھ بنیادی اندرونی صلاحیتیں ایسی ہیں جن پر زیادہ زور دینے اورجنھیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور جو آپ کو خود اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ مگر سب سے پہلے ہم چند ایسے بنیادی اُصولوں کو دُہرالیتے ہیں جن پر ان صلاحیتوں کا انحصار ہے:
اوّل، قربانی اُسی صورت میں قربانی کہلائے گی جب آپ کوئی ایسی چیز قربان کریں جس کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے، یا جسے آپ عزیز رکھتے ہیں۔ایسی چیزوں کی قربانی آپ اُن سے زیادہ قیمتی، زیادہ محبوب،زیادہ پسندیدہ یا زیادہ ضروری اورزیادہ اہم چیزوں کی خاطر دیتے ہیں۔
دوم، آپ جس چیز کی قربانی دیتے ہیں اُس کی ظاہری شکل خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو___ وقت، مال، زندگی، پسند و ناپسند، نقطۂ نظر ___ آپ اصل قربانی ان چیزوں کی نہیں،بلکہ ان چیزوںکی محبت اور آپ کے نزدیک ان چیزوں کی جو قدر و قیمت ہے، اُس کی قربانی دیتے ہیں۔
سوم، اُس صورت میں ان چیزوں کی قربانی دینے پر آپ کے عزم و آمادگی میں مزید اضافہ ہوگا جب اﷲ کی محبت اور اُس کے انعامات کی قدروقیمت آپ کی نظر میں انتہائی شدّت و قوت کے ساتھ بڑھتی جائے گی اور جن چیزوں کی قربانی آپ دے رہے ہیں، وہ ان کے مقابلے میں آپ کو بے قیمت اور حقیر نظر آنے لگیں گی۔
محبت ہر شے کی بنیاد ہے۔ لہٰذا آپ بخوبی ادراک کرسکتے ہیں کہ قربانی دینے کے لیے جو اندرونی استقامت درکار ہے، اُس کے لیے آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے___اﷲ سے محبت کی۔ آپ کے دل میں اﷲکی محبت کتنی ہے؟ کیا آپ دُنیاکی ہر چیز سے زیادہ اُس سے محبت کرتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتاہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط(البقرہ ۲: ۱۶۵)، ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایک سادہ مگر انتہائی معنی خیز سوال کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ تمھیں کون زیادہ عزیز ہے؟اﷲ، اُس کا رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد یا باپ، بیٹے، بیویاں، بھائی، مال و دولت، گھربار، تجارت اورکاروبار ؟ (التوبہ ۹:۲۴)۔ صرف ایسی محبت سے جذبۂ قربانی خارج سے وعظ و نصیحت کی تحریک پر کی جانے والی نیکی کے بجاے اپنی اندرونی لگن سے کیے جانے والے عمل میں بدل جائے گا۔ تبھی آپ ایمانی تقاضوں کی تکمیل پر حقیقی خوشی اور مسرت سے سرشار ہوسکیں گے۔یاد رکھیے کہ ایمان بھی دو قسم کا ہوتاہے: ایک ہماری زبان پر رہتاہے اور یہ ایسا ایمان ہے جو بوجھ بن جاتا ہے۔ایک ایمان وہ ہے جو ہمارے دِل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتاہے اور یہ وہ ایمان ہے جو خوشی، اطمینان اور لطف کا باعث بنتاہے۔ جب یہ ایمان حاصل ہوجائے تو اگر آپ سے وقت، مال ودولت اورزندگی کی یا پسندوناپسند اور نقطۂ نظرکی قربانی طلب کی جائے گی تو آپ یہ چیزیں بخوشی قربان کردیں گے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے پاس ہوں اُس نے ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا: (اُن میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ) وہ دُنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اﷲ اور اُس کے رسولؐ سے محبت رکھتاہو‘‘… (بخاری، مسلم)
اﷲ سے ایسی محبت کس طرح کی جائے کہ وہ ہرشے کی محبت سے بڑھ جائے؟ اس مقصد کے لیے کوئی جامع فارمولا ہے، نہ ہوسکتا ہے، مگر چند چیزیں کارگر ہوسکتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز آپ کی اُن اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی جو قربانی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے درکار ہیں۔
ہروقت یاد رکھیے کہ اُس نے آپ کو کیسے پیدا کیا ہے، کس طرح آپ کی ضرورت کی ہرچیز آپ کو مہیا کی ہے، وہ کتنا رحیم وکریم ہے۔ اپنے وجود پر نظر ڈالیے، اپنے ارد گرد کی کائنا ت کا مشاہدہ کیجیے، آپ کو ہر طرف اُس کی رحمت ورافت، اُس کی حکمت اوراُس کی شان و شوکت نظر آئے گی۔ جب آپ اُس کی ان نشانیوں پر غور وفکر کریں گے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تو اُس سے آپ کی محبت میں اضافہ ہوگا۔ اُس کے ذکر کا ایک جزو اُس کی طرف رجوع کرنا اور اُس سے محبت کرنے میں اُس سے مدد چاہنا بھی ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے اس کے متعدد طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔
جب اورجتنا ممکن ہو، اﷲکا ذکر کریں، یہ بنیادی اور لازمی عمل ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کو اﷲکی محبت کے حصول میں مدد ملے گی، بلکہ جذبۂ قربانی بڑھانے کے لیے آپ کو جن دیگر وسائل کی ضرورت ہے وہ بھی حاصل ہوں گے، جیسے اُس کے حاضر وناظر ہونے کا احساس، اُس سے ملاقات اوراُس کے انعامات کی قدروقیمت کا حقیقی ادراک، اس دُنیاوی زندگی کی حقیقت اور دُنیا کی حیثیت کافہم، اُس کے حضور شکرگزاری اورعجز وانکسار کا اظہار، اس خوف سے لرزتے رہنا کہ اُس کا حق کبھی ادا نہیں کیاجاسکتا،اُس کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادہ اور تیار رہنا۔
زندگی ایسے گزاریئے جیسے آپ اُس کے سامنے موجود ہیں۔یاد رکھیے کہ: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط(الحدید ۵۷:۴)،’’وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تُم ہو‘‘۔جب آپ سے قربانی طلب کی جائے یا آپ از خود قربانی پیش کریں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ اُس کی نظروں کے سامنے ہیں۔ یہی بات وہ آپ سے ہروقت ذہن میں رکھنے کے لیے کہتاہے: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور ۵۲:۴۸)، ’’یقینا تُم ہماری نظروں میںہو‘‘۔ جب آپ اس یقینِ کامل کے ساتھ کوئی قربانی پیش کریں گے کہ جسے پیش کررہے ہیں وہ آپ کو دیکھ رہاہے اوراُس کادیاہوا اجر کئی گُنا زیادہ اور ابدی ہوگا، تو یہ آپ کے اندر وہ قوتِ محرکہ اور توانائی پیدا کردے گا جو آپ کو درکار ہے۔
یہ احساسِ حضوری کہ ہم اُس کے سامنے موجود ہیں، اُس کی نظریں ہم پر ہیں، وہ ہماری باتیں سُن رہاہے، جب ہم اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو مالک ہماری نگرانی کررہاہے اور بڑی سخاوت اور مہربانی کے ساتھ ہمیں اجرو ثواب سے نواز رہاہے___ یہ احساس جذبۂ قربانی کو اُبھارنے کا اوّلین ذریعہ ہے۔اس سے اﷲ پر بھروسا بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہے تو آپ اپنے تمام معاملات اُسی کے سامنے پیش کریں گے۔
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط(اٰل عمران۳:۱۸۵) ’’آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے۔‘‘ موت ہر شے کا اختتام نہیں ہے، اگلے مرحلے سے قبل کا وقفہ ہے۔اُ س مرحلے میں ہم اﷲ کے رُوبرو کھڑے ہوں گے۔
ہم میں سے کوئی شخص مرنا پسند نہیں کرتا، یہ انسانی فطرت ہے،مگرہمیں مرنا ضرورہے، اورموت کے بعدہی ہم پر ابدی زندگی اوراُس کی برکتوں کے دروازے کھلیں گے۔اگر آپ اس دُنیاوی زندگی کی حیثیت اور حقیقت کو سمجھتے ہیں اور آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کو اپنا بہترین اجر اﷲ سے ملاقات پر ملے گاتو آپ کے اندر دوقسم کے احساسات فروغ پائیں گے: ایک، اﷲ سے ملاقات کا شوق، تاہم اپنے اعمال کی کوتاہیوں کے سبب ایک خوف بھی دِل میں جاگزیں ہوگا۔ دوسرے، اِس دُنیا کی ہر چیز اﷲ کی راہ میں قربان کردینے پر آمادگی کا جذبہ جس کا اجر آپ کو آخرت میں ملے گا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم ایک دُعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اﷲ! مجھے اپنے وجہِ کریم کی زیارت کی لذت سے اوراپنی ملاقات کی تمنا سے بہرہ مند فرما‘‘ ۔(نسائی، احمد، حاکم)
قربانی کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، بڑی ہو یا چھوٹی، مادّی ہو یا غیرمادّی اسے ممنونیت اور عاجزی کے ساتھ پیش کیجیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اﷲ کی راہ میں دینے سے اپنے آپ کو مضمحل اور درماندہ محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔پھر کہنے لگتے ہیں کہ:’’ہم تو پہلے ہی بہت وقت دے چکے ہیں، ہم پہلے ہی بہت مال دے چکے ہیں، اب ہم اور کتنادیں؟ہم پہلے ہی بہت قربانی دے چکے ہیں، اب ہم سے مزید کیا چاہیے؟ایسا صرف اُسی صورت میں ہوتا ہے جب قربانی صرف ایک اﷲ کی رضا وخوش نودی کے حصول کے لیے نہ دی جارہی ہو، بلکہ کسی اور جذبے کے تحت دی جارہی ہو، یا جب آپ کو اس حقیقت کا احساس نہ ہوکہ اگرکچھ قربانی دینے کا موقع مل رہاہے توصرف اُس کے فضل و کرم سے مل رہاہے۔ہرقربانی عاجزی اور انکسار کے ساتھ پیش کیجیے۔
یہ بات صاف طورپر سمجھ لینی چاہیے کہ آپ جو چیز پیش کررہے ہیں وہ کسی فرد یاکسی تنظیم کو نہیں پیش کررہے ہیں۔ نہ وہ چیز آپ اﷲ کو ہدیہ کررہے ہیں، کیوں کہ وہ اتنا رحیم وکریم اورفیاض ہے کہ آپ سے کہتاہے کہ جوکچھ تُم اﷲکی راہ میں دیتے ہو وہ قرض ہے، جس کا کئی گُنا وہ تم کو لوٹادے گا۔ دراصل آپ ہر چیز اپنے آپ ہی کو دے رہے ہوتے ہیں۔کیاکوئی شخص اپنے آپ ہی کو مزید اور مزید دیتے رہنے سے تھک سکتا ہے؟
یہ خود غرضی نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہماری اُخروی خوش حالی اﷲ کے آگے سر جھکانے میں مضمر ہے۔قربانی کے ذریعے سے ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی بہتری لانا چاہتے ہیںاورہمیں آخرت میں بھی ایک کامیاب وکامران ابدی زندگی کی تمنا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہر وہ قربانی جو ہم دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو ہم اﷲ کی راہ میں قربان کرتے ہیں، ہماری قوم کومزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اﷲ کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے آپ کو قربانی دینے کاموقع دیا، آپ کو اپنے کام کے لیے طلب کیا، اور اپنی راہ میں قربانی دینے کی توفیق سے نوازا۔ اس کے برعکس بھی ہو سکتاہے۔ ہم بہکتے پھرنے کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ ہمیں مال کی قربانی دینے کا موقع ہی نہ ملے، یوں ہم ابدی انعامات کے حصول سے محروم رہ جائیں۔ آپ کو ہرقربانی جذبۂ تشکر اور احساسِ ممنونیت کے ساتھ دینی چاہیے۔ اُس کی طرف قبولیت کی آس کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔
عجز وانکسار بھی ضروری ہے۔کبھی یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ بہت ہوگیا۔جوں ہی اس بیماری کے جراثیم آپ کے دل میں داخل ہوں گے کہ آپ نے بہت کچھ کرلیا ہے، سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ آپ جوکچھ قربان کر رہے ہیں، وہ اﷲ کی طرف سے عائد ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ خیال رہنا کہ جتنی بھی قربانی دی جائے وہ کبھی کافی نہیں ہوگی، قربانی کی بنیاد ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ (المومنون ۲۳:۶۰)،’’وہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں ،مگر اُن کے دل لرزتے رہتے ہیں‘‘۔
وہ بنیادی قوتِ محرکہ جو آپ کو قربانی دینے پر آمادہ کرے خود آپ کے اندر موجود رہنی چاہیے۔ یہ اُمنگ اندر سے اُٹھنی چاہیے۔ اس کی جڑیں آپ کے قلب وروح کی گہرائیوں میں پیوست ہونی چاہییں۔نہ گروہی فیصلہ،نہ دیکھا دیکھی، نہ تنظیمی پابندی، نہ کوئی اور خارجی دباؤ آپ کو قربانی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے اُکسائے۔ان میں سے ہرچیز اہم ہے اور ہمارے رویّوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن اگر اﷲ کی رضا کے سوا کسی اور مقصد سے قربانی پیش کی جائے تو بڑے پیمانے پر قربانی دینا، یامسلسل قربانی دیے جانا، ہرقسم کے حالات میں انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ قربانی کے لیے عزم و ارادہ اور جذبہ اندر سے اُبھرنا چاہیے۔
قربانی دینے کا فیصلہ برضا و رغبت کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خود اپنے فیصلے کے تحت ، آپ کے پاس جوکچھ بھی موجود ہے اُس کی قربانی، اﷲ کی رضاکی خاطرپیش کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ کو راضی برضاے الٰہی ہوجانا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قربانی پیش کرتے ہوئے کسی کوزحمت اور تکلیف کا احساس بھی نہیں ہونا چاہیے۔جس وقت آپ اپنی محبت،اپنی پسند یا اپنی قابلِ قدر چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، تو تکلیف محسوس ہونا بشری تقاضاہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر آپ کوئی شے قربان کرتے ہوئے تکلیف نہ محسوس کریں تو وہ قربانی کہے جانے کی مستحق ہی نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر سے محض وہ چیز پھینک رہے ہیں جو آپ کے لیے بے کار ہے۔اس کے بجاے آپ کو جس قدر زیادہ دُکھ ہورہا ہوگاوہ اُتنی ہی قیمتی قربانی ہوگی۔مگر اس تکلیف اور دُکھ کی پشت پر آپ کا عہدِ وفا ہے۔وہ عہد جو آپ کو اپنی قیمتی چیز اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان کردینے کا ہے۔ اﷲ کی رضا حقیقتاً سب سے بڑھ کر قیمتی چیز ہے۔ آپ یہ تکلیف اور دُکھ اﷲ سے اپنی محبت کی وجہ سے برضا ورغبت برداشت کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے دل میں اﷲ کی محبت ہر چیز کی محبت سے بڑھ کر ہے۔
ہماری مدد ومعاونت کے لیے دو بنیادی چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو ہماری اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں، میں ان کو آپ کے سامنے پہلے ہی رکھ چکا ہوں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۱۵۳)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔
نماز کیاہے؟یقینا نماز ایک رسمی عبادت ہے۔چند جسمانی حرکات وسکنات پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ الفاظ بھی شامل ہیں جو ہم ابتدا سے آخرتک پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن نماز کا مجموعی مقصد اﷲ کا ذکر کرنا اور اﷲ کویاد رکھنا ہے۔یہی بات قرآن صاف اور واضح الفاظ میں کہتاہے: وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ ۲۰:۱۴)، ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔
صبر جامع المعانی لفظ ہے۔لغوی طورپر صبرکے معنی ہیں: رُک جانا اور بازرہنا۔ قرآن میں یہ لفظ وسیع مفاہیم میں استعمال ہوا ہے اور کئی صفات کا احاطہ کرتاہے: اپنے آپ کو روکے رکھنا، ارادہ کرنا، تحمل اورجذبۂ قربانی، نظم وضبط اورثابت قدمی۔یہ آپ کو اﷲ سے، اپنے کیے ہوئے عہد سے اپنے بھائیوں سے اورآپ کو اپنی اُخروی فلاح سے جوڑے رکھتاہے۔ نماز اور صبر کا دامن تھامے رکھنے سے آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو قربانی کے لیے ضروری ہے۔
اُن میں سے ایک ہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔ اُن کو ہرقابل تصورطریقے سے آزمایش میں مبتلاکرکے جانچا گیا۔ اُن کے والد ، اُن کا خاندان، اُن کے زمانے کی مذہبی اور سیاسی طاقتیں، سب اُن کے مخالف تھے۔اُنھوں نے سب کو چھوڑ دیا۔ اُنھیں آگ کے الاؤ میں پھینک دیا گیا۔اُن کو گھر سے نکال دیا گیا۔اُنھیں صحراؤں اور جنگلوںمیںبھٹکنا پڑا اور آخرکار اُنھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی۔ یہی کام غالباً دشوار ترین کام تھا۔وہ نہ صرف اپنے پیارے بیٹے کی قربانی دے رہے تھے بلکہ تسلیم شدہ انسانی اخلاق کی بھی قربانی دے رہے تھے۔تاہم، حتمی بات یہ ہے کہ تمام اخلاقیات اﷲ کی مرضی کی تابع ہیں۔اُس کو راضی رکھنا سب سے بڑا اخلاقی پیمانہ ہے۔ یقینا یہ صرف اﷲ کے نبی کا منصب ہے کہ وہ اُس کے براہِ راست حکم پر اﷲ کے متعین کردہ اخلاق سے ماورا یہ انتہائی قربانی اُس کے حضور پیش کردے۔تاہم، بعض مواقع پر ہم میں سے بعض کو بھی اﷲ کے واضح احکام کے مقابلے میں اپنے ذاتی اخلاقی فیصلوں کو معطل کرنا پڑتاہے۔ ان قربانیوں اورآخری قربانی کو پیش کرنے کے بعد ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ’امام النّاس‘ بنانے کا اعلان کیاگیا:
وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماًط (البقرہ ۲:۱۲۴)، یاد کروجب ابراہیمؑ کو اُس کے رب نے چند باتوںمیں آزمایا اور وہ اُن سب پر پورا اُترگیا، تو اُس نے (اﷲنے) کہا: میں تجھے سب انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔
اگرہم یہ کہتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے لیے اُٹھے ہیں، جہاں اسلام بنی نوع انسان کا رہبرو قائد ہوگا تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی طورپر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اُسوۂ مبارکہ کی پیروی اور تقلید کرنی چاہیے۔
دوسرانمونہ سیدنا ونبینا محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کاہے۔ خواہ وہ وادیِ مکہ ہو، جہاں آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، یا وادیِ طائف ہو، جہاں آپؐ پرسنگ باری کی گئی، یا اُحد کا میدان ہو، جس میں آپؐ کے دندان مبارک شہید کردیے گئے، یامدینے کی گلیاں ہوں، جن میں آپؐ کے دشمنوں نے آپؐ کے خلاف افترا پردازانہ پروپیگنڈا کیا، آپؐ نے ہمارے لیے قربانی کی افضل ترین مثالیں چھوڑی ہیں۔ایساہی آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے بھی کیا۔
جیسا کہ ہم پہلے جائزہ لے چکے ہیں، بنیادی طورپر قربانی کا مطلب جانور کاذبح کرنا ہے۔ حج کے دوسرے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا محمدصلی اﷲ علیہ وسلّم کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔حج خود ایک رسمِ عبودیت ہے جس میں انتہائی سخت مشقت بھری قربانیاں شامل ہیں۔ یہاں ہمیں دو اہم اسباق ذہن نشین کرلینے چاہییں:
اوّل:اﷲ کے یہاں قبولیت ہماری قربانی کے جانور کی نہیں ہوتی، بلکہ قبولیت ہمارے دلوں میں پائی جانے والی اﷲ سے محبت کی، ہماری اطاعت کی اور ہماری قربانی دینے کی نیت کی ہوتی ہے۔اس بنیادی اُصول کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے ، روح کو چھوڑ کرصرف رسم پر مطمئن نہ ہوجائیے ، البتہ رسم کو بھی ترک نہ کیجیے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط(الحج ۲۲: ۳۷)، نہ اُن کے گوشت اﷲ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمھارا تقویٰ پہنچتاہے۔
دوم:اعلیٰ ترین قربانی زندگی کی قربانی ہے۔اﷲ کی راہ میں اپنی حیاتِ دُنیوی کی قربانی دے کر آپ صرف ایک بار موت کو گلے لگاتے ہیں اور یہ آخری قربانی ہے۔ مگر آپ اُس صورت میں ہرروز اور ہر لمحے موت کو گلے لگاتے ہیں جب آپ دل کی گہرائیوں میں پیوست محبت کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں اوراپنے آپ کو مکمل طورپر اﷲ کے حوالے کردیتے ہیں، اور تمام اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کے باوجود اُس کی اطاعت وفرماں برداری کرتے رہتے ہیں۔ یوں آپ اپنی زندگی کی قربانی ایک بار نہیںدیتے، بار بار دیتے رہتے ہیں۔ یہ افضل ترین قربانی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo(الانعام ۶: ۱۶۲) کہو، میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔
آخر میں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم سے یہ تمام قربانیاں اس لیے طلب کی جاتی ہیں کہ ہم نے اپنے کاندھوں پراُس مشن کی تکمیل کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے جو اﷲکے رسولوں کوسونپا گیا تھا: ’تاکہ تم لوگوںکے سامنے گواہ بن کرکھڑے ہو‘ ۔ہمیں اپنے رب کا سچا بندہ بننا چاہیے اورانسانیت کا بے لوث خادم۔ بنی نوع انسان ہی کے لیے ہمیں ایک اُمت کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ہے۔ اس بعثت کا تقاضاہے کہ ہم زندگی کے ایک مشکل ترین کام کے لیے اپنے آپ کو تیارکرلیں۔
قربانی کے بغیر اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کاکام ہمیشہ صرف تقریروں کا یا خواب کا موضوع بنارہے گا۔اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں اپنا وقت، اپنامال، اپنی زندگی، اپنے وسائل اور اپنی ذاتی پسند وناپسند کی قربانی دینی ہوگی۔ تاہم ہماری بہترین کوششیں بھی کاملیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتیں۔ہم ڈگمگا سکتے ہیں، ڈانوا ڈول ہوسکتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ انسانی فطرت کاتقاضا ہے۔اﷲ صرف ہماری نیتوں اورکوششوں کو دیکھتاہے۔ہمیں اﷲسے رجوع کرنا چاہیے اور اُس سے مدد مانگنی چاہیے، مباداکہ جس وقت ہم سے قربانی طلب کی جائے اُس وقت ہماری بشری کمزوریاں ہم پر غالب آجائیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں اور خطاؤں پر اُس سے مغفرت طلب کرنی چاہیے:
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّا وقفۃ وَاغْفِرْلَنَا وقفۃ وَارْحَمْنَا وقفۃ اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۸۶)، اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جوقصور ہوجائیں، اُن پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار ! جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو.ُ ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
جولائی ۱۹۷۹ء میں لاس اینجلس (امریکا) میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ’مغربی ساحل کانفرنس‘ (West Coast Conference) میں نمازِ جمعہ کے موقع پر خرم مرادؒ کاخطاب جو Sacrifice کے عنوان سے شائع ہوا۔ ترجمہ: احمدحاطب صدیقی
(کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۲۵ روپے ۔ زیادہ تعداد میں لینے پر رعایت)
استفتا یا اہلِ علم سے زندگی کی پیچیدگیوں کے بارے میں شرعی رہنمائی طلب کرنا اسلامی معاشرتی زندگی کا لازمہ ہے۔اسی اہمیت کے پیشِ نظر متعدد عظیم المرتبت اَئمہ کرام کی استفتا کے موضوع پر مستقل تصنیفات ملتی ہیں، جن سے فتوے کی اہمیت، ضابطے اور آداب کی وضاحت ہوتی ہے، نیز سائل اور مفتی، ہردو کے فرائضِ منصبی اورذمہ داریوں اور ان سے متعلقہ احکامات کو بھی پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔آج اگراس موضوع کے حوالے سے مسلم معاشرے کے رویے کا تجزیہ کیا جائے ،تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ افتا واستفتا کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل بڑی حد تک شریعت ِ حنیفہ کی تعلیمات سے منحرف اور اَئمہ عظام کے مقرر کردہ اصولوں سے دُور ہو گیا ہے۔
آج افتا کے متعلق ہمارے اندر احساسِ ذمہ داری کا فقدان، جلدبازی،بلااثبات و مراجعہ ناپختہ راے کا اظہار ،باوجود نااہلی اور غیرمستند ہونے کے فتویٰ دینے کی جسارت، اس میں سہولت کوشی اور مستفتی [سائل] کی خواہشِ نفس کی مطابقت کا اہتمام کرنے جیسی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ مذکورہ بالا جملہ اُمور میں سے ہر ایک کے کچھ اسباب ہوتے ہیںجن کی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں۔ ان تمام امور میں سب سے زیادہ پُر خطر اور پُرفتن مسئلہ فتوے میں سہولت کوشی و تن آسانی کو مدنظر رکھنا ہے۔ فتوے میںحدِ اعتدال سے بڑھتا ہواسہولت پسندی کا یہ رجحان ایک طرح سے فقہی رخصتوں پر عمل کا قوی محرک بنتا ہے، جو ایک بے حد خطرناک رجحان ہے۔ہمارے زمانے میں اس بیماری نے ایک قسم کے فیشن کی صورت اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں عالمِ اسلام میں خودساختہ آرا و فتاویٰ کا ایک خودرو جنگل وجود میں آگیا ہے اور صنعتی اشیاے خورونوش کی طرح ہر نیا دن کچھ سرپھرے افکار کو جنم دیتا جاتا ہے۔ اس مضمون میں اسی حسّاس مسئلے کے کچھ پہلوؤں کے متعلق بحث کی گئی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق
عربی زبان میں رخصت کے لغوی معنیٰ تسہیل،تخفیف ،تیسیراور عدمِ تشدید کے آتے ہیں۔ (مقاییس اللغۃ، ابن فارس، ج۲، ص ۵۰۰۔ لسان العرب،ابن منظور، ج۷، ص۴۰)۔ شرعی رخصت کے اصطلاحی معنیٰ ہیں: ’’وہ حکمِ شرعی جو صعوبت سے سہولت کی طرف منتقل ہوا ہواور جس میں کسی عذر کے باعث آسانی پیدا کر دی گئی ہو۔ اگرچہ اصلی حکم کا سبب جوں کا توں اپنی جگہ قائم ہو‘‘۔ (رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب، تاج الدین سبکی، ج۲، ص ۲۶۔ مذکرۃ فی اصول الفقہ، محمدالامین شنقیطی،ص۶۰)
شرعی رخصت کے عام مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ ان گنجایشوں کی مشروعیت سے شارعِ حکیم کے پیشِ نظر یہ ہے کہ مکلفین پر تخفیف ہو اور احکامِ شریعت میں سہولت کا پہلو نمایاں رکھا جائے تاکہ ان پر عمل کا داعیہ باقی رہے اور بندگانِ خدا کی زندگی مشقت سے محفوظ رہ سکے۔ مثال کے طور پر جو شخص کسی وجہ سے پانی کے استعمال پر قادرنہ ہو ،یاپانی ناپید ہو گیا ہو، تو ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز ہے۔ارشادِ باری ہے:
وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا o (النسائ۴: ۴۳) اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو ،یا تم میں سے کوئی شخص رفعِ حاجت کر کے آئے،یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹّی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو،بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ قف وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاّ.ِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا ہے مردار،خون،سُور کا گوشت،وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو،وہ جو گلا گھُٹ کر،یا چوٹ کھا کر،یا بلندی سے گرکر، یا ٹکر کھا کرمرا ہو،یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے، لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے(لہٰذا حرام وحلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں اُن کی پابندی کرو)۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر اُن میں سے کوئی چیز کھالے ،بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
مذکورہ بالا دونوںمثالوں جیسی بے شمار مثالیں ہیں جو اسلامی شریعت میں رخصتوں کے ضمن میں آتی ہیں۔بندگانِ خدا کے لیے سہولتوں کی فراہمی کا اہتمام اور رخصتوں کی مشروعیت ایک ایسا اسلامی اصول ہے جس کی تائیدقرآن وسنت کی لا تعداد نصوص کی واضح دلالت سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ(البقرہ ۲:۱۸۵)’’ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ،سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط (الحج۲۲:۷۸) ’’اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے،اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘۔ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’تم لوگ اللہ کی عطا کردہ رخصتوں پر عمل پیرا ہونے کولازم پکڑو‘‘۔ [علیکم برخصۃ اللّٰہ الّذی رخص لکم] (مسلم،حدیث ۱۱۱۵،سنن نسائی، حدیث۲۲۵۸،مع تصحیحِ البانی)
قرآن و سنت میں وارد اس قسم کی آیات واحادیث کی روشنی میں علماے دین نے ایسے متعدد شرعی قواعد کا استنباط کیا ہے جو اسلام کی کشادگی اور عدل پروری کی جیتی جاگتی دلیل ہیں۔ متعدد اہلِ علم نے ان شرعی قاعدوں کومختلف تاریخی ادوار میں مستقل تصانیف کا موضوع بنایا ہے۔ زیربحث موضوع سے تعلق رکھنے والے چند شرعی قواعد یہ ہیں:
مذکورہ بالا آیات،احادیث اور معتبر شرعی قواعد سے ایک طرف جہاں اسلامی شریعت کے عمومی مزاج کا پتا چلتا ہے ،وہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاملاتِ زندگی میں مشقتوں پر سہولتوں کی ترجیح اور رخصتوں کی فراہمی کاپہلوکسی بھی انسانی نظامِ حیات کے لیے ناگزیر ہوتاہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ دین فطرت اسلام نے اس پہلو کی کما حقہ رعایت کی ہے۔(رفع الحرج فی الشریعۃ الاسلامیۃ،ضوابطہ وتطبیقاتہ، ڈاکٹر صالح بن حمید، ص۹۳، الدُرر البھیّۃ فی الرخص الشرعیّۃ،ڈاکٹر اسامۃ الصلابی، ص ۶۰)
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان شرعی رخصتوں سے مستلزم کچھ احکام ،شرائط اور ضابطے بھی ہوتے ہیں، جن پر علماے اصولِ فقہ نے اپنی کتابوں میں مستقل ابواب کے تحت سیرحاصل گفتگو فرمائی ہے۔یہاں شرعی رخصتوں کے مفہوم اور ان کی وضاحت کے لیے مثالیں اس لیے بیان کی گئی ہیں تاکہ قارئین کی نظر میں زیرِ نظر مضمون کے موضوع سے ان کا کسی قسم کا التباس باقی نہ رہے۔ہمارا موضوع فقہاے دین کی رخصتوں کا اتباع اور اس کی شرعی حیثیت ہے، اس پر تفصیلی کلام آگے آئے گا۔اس کے برعکس شرعی رخصتوں پر عمل کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیںہوتی ،بشرطیکہ تمام لوازمات پائے جائیں اور کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔اس مضمون کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں فقہاے اسلام کے مختلف اقوال میںتلاشِ بسیار کے بعد آسان ترین قول کو اختیار کرنا ،بذاتِ خود کس حد تک جائز ہے؟
رخصت ہاے فقہیہ کی پیروی یا اتباع کی اہلِ علم نے متعدد تعریفیں کی ہیں۔ اگرچہ ان تعریفوں کا منشا ومفہوم ایک ہے لیکن ان میں سے بعض تعریفیں بڑی دقیق ہیں۔ علامہ بدر الدین زرکشی ؒ کے نزدیک اتباع کی تعریف یہ ہے کہ انسان ہر فقہی مسلک سے اپنے لیے آسان جزیہ کو اختیار کرے (البحرالمحیط، ج ۶، ص ۳۲۵)۔جلال محلیٰ ؒ کے نزدیک تتبع یہ ہے کہ انسان اپنے پیش آمدہ مسائل میں ہر مسلک سے وہ لے جو اس کے لیے آسان ہو۔(شرح المحلی علی جمع الجوامع، ج۲،ص ۴۰۰) عصرِ حاضر میں بین الاقوامی اسلامی فقہی فورم (جدہ، سعودی عرب) نے اس کی جو تعریف اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ:انسان جان بوجھ کر ان مسلکی اجتہادات کو اختیار کرے جو کسی امر کو جائز قرار دیں، حالانکہ ان کے مقابلے میں اس امر کی ممانعت کے اجتہادات بھی پائے جاتے ہوں (قرارات و توصیات مجمع الفقہ الاسلامی الدولی، ۱۵۹-۱۶۰، قرار رقم:۷۰)۔ گذشتہ جملہ تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اتباع کا مطلب ہے کہ انسان دینی مسائل میں علماے کرام کا وہ قول اختیار کرے جو اس کے لیے سہولت کا حامل ہو،بایں طور کہ اس کا یہ بین المسلکی اتباع کسی دلیل کی قوت وفہم کی وجہ سے نہ ہو،بلکہ اس کا محرک خواہشاتِ نفس کی پیروی، شہوت پرستی یا شریعت سے ناواقفیت یا اعراض ہو۔
اتباع سے ملتا جلتا لیکن اس سے بے حد مختلف ایک مسئلہ تلفیق کا ہے۔تلفیق کا مطلب ہے کہ کسی ایک دینی مسئلے میں دو یا دو سے زیادہ فقہی اقوال کو اس طرح جوڑ کر دیکھا جائے کہ اس سے ایک ایسا تیسرا قول پیدا ہو جائے جس کو کسی مجتہد نے کبھی اختیارنہ کیا ہو۔(عمدۃ التحقیق فی التقلید والتلفیق،محمد سعید البانی، ص۹۱) بیش تر علماے کرام کے نزدیک تلفیق سرے سے ممنوع ہے، جب کہ بعض دیگر فقہا نے اس کو مشروط جائز رکھا ہے۔ جائز رکھنے والے فقہا میں نمایاں نام علامہ شہاب الدینؒ مالکی قرافی،علامہ ابن تیمیہؒ، علامہ ابن القیمؒ اور عبد الرحمن معلمیؒ کے آتے ہیں۔(التلفیق فی الاجتھاد والتقلید، ڈاکٹر ناصر المیمان، ص۱۸۱)۔ موجودہ زمانے میں بین الاقوامی اسلامی فقہی فورم(جدہ، سعودی عرب) نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ذیل میں ان کی تجویز کردہ شرائط کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے:
۱-تلفیق کے نتیجے میں کسی ممنوع وحرام چیز کاجواز برآمد نہ ہوتا ہو۔
۲- تلفیق کی رو سے مسلمان حاکمِ وقت کا کوئی فیصلہ مسترد نہ ہوتا ہو۔
۳- تلفیق سے کسی معمول بہ تقلیدی حکم کا ابطال نہ ہوتا ہو۔
۴- اجماع یا اس کے لوازمات متأثر نہ ہوتے ہوں۔
۵- کوئی ایسا حکم یا حالت ترکیب نہ پاتی ہو جس پرکبھی کسی مجتہد کا عمل نہیں رہا ۔
۱-تتبع کے ذریعے سے اختلافی مسائل میں اسہل وخفیف قول پر عمل درآمد ہوتا ہے،جب کہ تلفیق کے ذریعے کسی ایک مسئلے میں دو یا دو سے زیادہ اقوال کو جمع کرکے ان سے کسی شرعی حکم کا استنباط کیا جاتا ہے۔
۲-تلفیق کے ذریعے فقہا کے اقوال میں تصرف کر کے ایسا حکم نکالا جا سکتا ہے جو کسی مجتہد نے کبھی مستنبط نہ کیا ہو، جب کہ تتبع میں صرف موجودہ اقوال کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی اپنا مطلوب حاصل کیا جاتا ہے۔
۳-تلفیق کا عمل بسا اوقات اجماع کی مخالفت کا سبب بن جاتا ہے ،جب کہ تتبع میں نقضِ اجماع کا امکان نہیں ہوتا۔
۱- واجب رخصت،مثلاً حالتِ اضطرار میں مردار کا کھانا۔چونکہ انسانی جان بچانا واجب ہے اس لیے یہ رخصت بھی واجب ہوگی۔
۲- مستحب رخصت،مثلاً حالتِ سفر میں نمازیں قصر کرنا، جب کہ تمام شرطیں پائی جائیں اور کوئی مانع بھی نہ ہو۔
۳-مباح رخصت،مثلاً شدید اکراہ کی حالت میں قلبی ایمان رکھتے ہوئے کلمۂ کفر بول دینا۔
۴- خلافِ اولیٰ رخصت،مثلاً ماہِ رمضان میں کوئی ایسا مسافر روزہ نہ رکھے جس کے بارے میں یقین ہو کہ حالتِ سفرمیں روزہ رکھنے سے وہ تکلیف میں مبتلا نہیں ہوگا۔(تفصیل کے لیے دیکھیں: شرح الکوکب المنیر، ابن النجار، الدرر البھیۃ فی الرخص الشرعیۃ، ڈاکٹر اسامہ صلابی)
فقہاے اسلام کی رخصتوں اور غلطیوں کو دلیل بنا کر آسانیاں تلاش کرنا ایک مذموم عمل ہے۔ علماے کرام نے سختی کے ساتھ اس عمل کی ممانعت کی ہے۔بعض فقہا جیسے علامہ ابن حزمؒ ظاہری، ابن عبد البرؒمالکی،ابوالولیدؒ باجی،ابن صلاحؒ شافعی اور ابن نجارؒحنبلی وغیرہ نے اس کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے۔(مراتب الاجماع،ص۵۸۔ جامع بیان العلم وفضلہ، ج۲، ص۹۱۔ حاشیۃ الموافقات، ج۵،ص ۸۲۔ أدب المفتی والمستفتی،ص۱۲۵۔ شرح الکوکب المنیر، ج۴، ص۵۷۸)
۱- خلیفہ راشد ثانی حضرت عمرؓ ابن الخطاب فرماتے ہیں:’’دین کو تین چیزیں مسمار کر سکتی ہیں:کسی عالم کی لغزش،منافق کا قیل وقال اوراَئمۃ المسلمین کی گمراہی‘‘۔ (سنن دارمی،ج۱، ص۷۱۔ جامع بیان العلم وفضلہ،ج۲،ص ۱۳۵)
۲- امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:’’جوشخص علما کے نادر اقوال اختیار کرے گا وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا‘‘۔(سیر أعلام النبلائ،ج۷،ص ۱۲۶)
۳- عز بن عبد السلامؒ کہتے ہیں:’’اَئمہ میں سے کسی کی بھی تقلیدکرنا جائز ہے لیکن رخصتوں کا تتبع جائز نہیں‘‘۔(فتاویٰ العز بن عبد السلامؒ،ص۱۲۲)
۴- امام ذہبی ؒکہتے ہیں:’’جو مسالک کی رخصتوں اور مجتہدین کی غلطیوں کی تلاش بسیار کرتا ہے، اس کی ایمانی حالت کمزور ہوجاتی ہے‘‘۔(سیر أعلام النبلائ،ج ۸،ص ۸۱)
۵- حضرت ابراہیم ابن علیہؒ کہتے ہیں:جو شخص بھی علمی شذوذ [منفرد راے] کی پیروی کرتا ہے ،ضلالت اس کا مقدر ہوتی ہے‘‘۔ (ذیل مذکرۃ الحفاظ،ص۱۸۷)
ویسے تو اس مسئلے میں کبار علماے اسلام نے بڑی تاکید کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر ہم نے صرف چند اقوال ہی کو نقل کیا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مذکورہ بالا تمام اقوال کا حکم اس شخص کے لیے مخصوص ہے جو اتباعِ نفس، تساہل پرستی، شریعت سے اعراض یا تجاہل کے باعث ایسا کرتا ہے۔البتہ اگر محرک یہ سب چیزیں نہیں ہیں تو درج ذیل شرائط کی رعایت کرتے ہوئے فقہی رخصتوں کو اختیار کیا جا سکتا ہے:
۱- رخصتوں کی اجازت دینے والے فقہا کے اقوال کو شرعی اعتبار حاصل ہو،یعنی ان کا شمار شذوذ میں نہ کیا جاتا ہو۔
۲- ان رخصتوں کے اختیار کرنے کی کوئی ضروری وجہ پائی جائے ،مثلاً انفرادی یا معاشرتی سطح پر کسی واقعی مشقت کا ازالہ مقصود ہو۔
۳- رخصت اختیار کرنے والے کی علمی صلاحیت اتنی ہو کہ وہ بذاتِ خود فقہی مسائل میں بحث وتمحیص کر سکتا ہو، یا وہ کسی باصلاحیت خداترس عالم کے اعتمادپر ایسا کرے۔
۴- ان رخصتوں کا اختیار کرنا تلفیق کا سبب نہ بنتا ہو۔
۵- ان رخصتوں کو اختیار کرنے کا سبب کسی غیر شرعی مقصد کا حصول نہ ہو۔
۶- رخصت کے اختیار کرنے پر مکلف کا دل آمادہ و مطمئن ہو۔(قرارات وتوصیات مجمع الفقہ الاسلامی الدولی، ص۱۵۹-۱۶۰)
فقہی رخصتوں کا اتباع کرنے سے کچھ سلبی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،جو بسا اوقات بے حد سنگین منفی نتائج کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔متعدد اہلِ علم حضرات خصوصاًامام شاطبیؒ،امام نوویؒ، علامہ ابن صلاح ؒاورعلامہ ابن القیمؒ وغیرہ نے اس بارے میں تفصیل سے کلام کیا ہے ۔یہاں اس کی تلخیص مرتب انداز میں پیش کی جاتی ہے:
۱- رخصتوں کا اتباع کرنے سے اسلامی شریعت کے اصول ومقاصد کی مخالفت لازم آتی ہے۔شریعت اسی لیے نازل ہوئی ہے کہ انسان اپنی خواہشاتِ نفس کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔ جب کہ رخصتوں کا اتباع کرنے والا شخص ہمیشہ اپنی خواہشاتِ نفس کا اسیر بنا رہتا ہے۔
۲- رخصتوں کا اتباع تکالیفِ شرعیہ کے خلاف بلکہ عین تکلیفِ بشر کی ضد ہے،کیونکہ تتبع کی رو سے ہر شرعی حکم میں مکلف کو جو چاہے کرنے کی آزادی مل جاتی ہے اور یہ بالآخر اسقاطِ تکلیف کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
۳- دلیل کی اتباع چھوڑ کر اختلاف کی اتباع کرنا، اسلام کے عمومی مزاج کے خلاف ہے۔ ارشادِ باری ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o (النسائ۴:۵۹)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں،پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہترہے۔
۴- رخصتوں کا اتباع کرنے سے دین اور احکامِ شرع کے لیے اہانت واستخفاف کا رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔کیونکہ ایک مرتبہ جب یہ سیلاب بہ نکلتا ہے، تو کوئی اخلاقی ودینی بند بھی اس کے آگے کام نہیں دیتا۔
۵- رخصتوں کا اتباع کرنے میں انسان معلوم ومبرہن چیز کو چھوڑ کر مجہول وغیر ثابت چیز کو اختیار کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
۶- رخصتوں کا اتباع کرنے کے نتیجے میں شریعت کا سیاسی وحکومتی نظام پارہ پارہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کی بدولت اجتماعی قوانین کا نفاذ ناممکن ہوجاتا ہے جو عام انارکی وبدامنی پر منتج ہوتاہے۔
۷- رخصتوں کا اتباع دیر سویر انسان کو تلفیق اور اجماع کی خلاف ورزی پر آمادہ کردیتا ہے۔
اتباعِ رخصت دورِ حاضر میں
اس عنوان کے تحت ہم اختصار کے ساتھ مفتیان ومستفتین [سائلین] ہر دوحضرات کے موجودہ حالات کا مختصراًتجزیہ کریں گے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ بعض نام نہاد اہلِ علم حضرات ،فقہا کے ان اقوال وآرا تک سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں، جو واضح طور پر نصِ شرعی سے متصادم ہوتے ہیں۔ایسے حضرات کی بھی کمی نہیں ہے جو عصری تغیرات کا حوالہ دے کر اسلامی فقہ کی ازسرِ نو تدوین کا دم بھرتے نہیں تھکتے، حالانکہ اس طرزِ فکر کے جومسموم اثرات ونتائج سامنے آئے ہیں اور بعض حضرات نے جس طرح قرآن وسنت کے خلاف بے سروپا افکار وخیالات اختیار کیے ہیں، وہ دیدۂ بینا کے لیے قابلِ عبرت وموعظت ہے۔کہیں عورت کی امامت کو جواز بخشا جاتا ہے تو کہیں ارتداد اور دیگر جرائم کی شرعی حدود کے بطلان کی بات کی جاتی ہے۔کہیں غنا وسرودکو مباح بتایا جاتا ہے تو کہیںہرمسئلے میں مرد وعورت کی کامل مساوات کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔کہیں اجنبی عورت سے مصافحے اور تعارفی بوس وکنار کی وکالت ہوتی ہے توکہیں قصاص کی ازسرِ نو تشریح وتعبیر کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ملک کی قانون ساز کمیٹی کو تسلی دی جاتی ہے کہ وہ اپنے حساب سے جو بھی قانون بنانا چاہے بنائے، اس کو شرعی وفقہی استناد دیناہماراکام ہے۔(ان اقوال کے لیے دیکھیے: التعالم وأثرہ علی الفکر والکتاب،بکر ابو زید، ص۱۲۲۔ ارسال الشواظ علی من تتبع الشواذ، صالح شمرانی)
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی عالم یا مفتی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے اختیار وخواہش کے مطابق فتاویٰ کا انتخاب کرے؟اور کیا کوئی مفتی اپنی یا مستفتی کی خواہش کی موافقت میں کسی فقہی قول پر فتویٰ دے سکتا ہے؟امام ابن القیمؒ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا بہت بُرا فسق اور بہت بڑا گناہ ہے،واللہ المستعان‘‘(اعلام الموقعین، ج۴،ص ۱۸۵)۔ امام شاطبیؒ نے اس سوال کے جواب میں علامہ ابو الولید باجیؒ کا یہ قول نقل کر دیا ہے: ’’کسی کے لیے بھی جائز ،مناسب اور حلال نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دین میں ایسا فتویٰ دے جس کے حق ہونے کاوہ اعتقاد نہیں رکھتا،قطعِ نظر اس سے کہ اس کے فتوے سے کون راضی ہوتا ہے اور کون ناراض۔مفتی کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کا حکم بتاتا ہے ،پھر بھلا کیسے وہ اللہ کی طرف سے ایسا حکم بیان کرسکتا ہے جس کے حکمِ الٰہی ہونے کا وہ خود بھی معتقد نہیں۔اللہ نے ایسے مواقع کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا:
وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَ احْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ ط (مائدہ ۵:۴۹)’’ پس اے محمدؐ!تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرواوران کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنے میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیںجو خدا نے تمھاری طرف نازل کی ہے‘‘۔ (الموافقات،ج ۵، ص۹۱)
۱- دلائل اور طریقِ احکام کی طلب میں سہولت کوشی کرنا اس طرح کہ ناپختہ افکار وخیالات کو معتبر قرار دیتا ہو۔ایسا شخص اجتہاد کا حق ادا نہیں کرتا اور اس کا فتویٰ دینا یا اس سے فتویٰ پوچھنا دونوں جائز نہیں۔
۲- رخصتوں کی طلب اور مشتبہ امور کی تاویل وتوجیہ میں تساہل سے کام لیتا ہو۔ایسا شخص اپنے دین میں کوتاہ اور مذکورہ بالا پہلی قسم کے متساہل سے کہیں زیادہ گناہ گار ہے۔(قواطع الأدلۃ فی اصول الفقہ،ابو المظفر سمعانی،ج۳،ص ۴۳۸۔ البحر المحیط،بدر الدین زرکشی، ج۶، ص ۳۰۵)
حضرت قاضی اسماعیلؒ کہتے ہیں:’’میں عباسی خلیفہ معتضد باللہ کے یہاں حاضر ہوا تو اس نے ایک کتاب میرے ہاتھ میں دی۔میں نے کتاب کے مشمولات کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ کسی چاپلوس درباری نے فقہا کی غلطیوں اور رخصتوں کو مع دلائل جمع کرکے خلیفہ کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔میں نے کہا کہ اس کتاب کا مصنف ملحد وزندیق ہے۔خلیفہ نے کہا:کیا اس کتاب میں مذکورہ احادیث صحیح نہیں ہیں؟میں نے کہا:احادیث تو درست ہیں لیکن جس فقیہ نے نبیذ کو حلال کہا ہے اس نے متعہ کو حرام مانا ہے، اور جس نے متعہ کو مباح کہا ہے اس نے نبیذ کو حرام مانا ہے۔ دیکھیے ہر فقیہِ دین کا کوئی نہ کوئی موقف غلط ہوتا ہے،لہٰذا جو شخص ان کی غلطیوں کو جمع کر کے اسے اسلام بتائے تو اس کا دین باقی نہیں رہتا۔یہ سن کر خلیفہ نے اس کتاب کے تمام نسخوں کو جلانے کا حکم صادر کردیا‘‘۔ (السنن الکبریٰ، بیہقیؒ،ج ۱۰،ص ۳۵۶)
صحیح بات یہ ہے کہ شریعت کے اختلافی مسائل میں ،بقول شاطبیؒ، قرآن کے وضع کردہ ضابطے کی پیروی کی جانی چاہیے۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے بجاے ہمیں قرآن جو ضابطہ دیتا ہے وہ یہ کہ ہر متنازع معاملے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کیا جائے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْـلًا o (النسائ۴:۵۹)’ے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں،پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہترہے۔
لہٰذا اگر کسی مسئلے میں دو مجتہدین میں اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کا فیصلہ شرعی دلائل کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اور دو مسلکوں میں سے کسی ایک کو محض سہولت کوشی اور اتباعِ نفس کی خاطر راجح ماننا رجوع الی اللہ والرسول کے منافی ہے۔(الموافقات، الشاطبیؒ، ج۵، ص ۸۱-۸۲)
(ا)تساہل پرستی وسہولت کوشی۔
(ب) قربِ الٰہی کے احساس کی کمی۔
(ج) مختلف المسالک علما حضرات کے اقوال کو آپس میں موضوعِ بحث بنانا۔
(د) شریعت پر عمل کرنے میںاپنی سہولت سے ترک وانتخاب کرنا۔
(ہ)ایک سے زیادہ علماے کرام سے فتویٰ پوچھنا اور آسان ترین ودل پسند فتوے پر عمل کرنا۔
مذکوربالا اوصاف آج ہمارے بیش تر دینی بھائیوں کے طرزِ عمل پر صادق آتے ہیں۔ علماے ربانیّین نے ہمیشہ اس قسم کے غیر شرعی تصرفات پر شدت کے ساتھ نکیر فرمائی ہے،اوراس منحرف منہج کے پیروکاروں کو مختلف برے خطابات سے یاد کیا ہے۔حضرت معمرؒ نے انھیں اللہ کے بدترین بندے کہا ہے(معرفۃ علوم الحدیث،حاکم، ص۵۶۔ تلخیص الحبیر،ابن حجر، ج۳، ص ۱۸۷)۔ علامہ ابن نجارؒ نے انھیں فسق سے موسوم کیا ہے (مختصر التحریر، ابن نجار، ص۲۵۲)۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’عام آدمی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مختلف مسالک سے انتخاب کر کے ہر مسئلے میں آسان قول کو اختیار کرے‘‘(المستصفیٰ،ج ۲، ص ۴۶۹)۔ علامہ ابن عبد البرؒ نے اس عمل کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے (جامع بیان العلم وفضلہ،ج۲، ص۹۱۔ شرح الکوکب المنیر، ابن نجار، ج۴، ص۵۷۸)۔امام شاطبیؒ اور امام نوویؒ نے اس عمل کے منفی اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اگر مستفتی ہر ہر مسئلے میں مختلف مسالک کی موجودہ گنجایشوں کا تتبّع کرتاہے ،تواس کایہ عمل للہیت سے دُوری،خواہشاتِ نفس کی پیروی اور شارع کی نافذ کردہ تمام حدود وقیود کو مسمار کرنے کے مترادف قرار پائے گا‘‘۔ (الموافقات، ج،ص۱۲۳۔ المجموع، ج۱،ص ۵۵)
۱- سائل کے استفتا کا مقصد حق سے آگہی اور اس پر عمل کا جذبہ ہو،نہ کہ گنجایشوں کی تلاش یا خواہشِ نفس کی پیروی۔
۲- فتویٰ ان لوگوں سے طلب کیا جائے جن کا علمی تبحر اور خداترسی وتقویٰ معلوم ومعروف ہو۔ مناسب ہوگا کہ اپنی دانست میں معتمد ترین اہلِ افتا کا انتخاب کیا جائے۔
۳- مسئولہ حالت اور سوال کو من وعن، درست اور تفصیل سے بیان کیا جائے۔
۴- مفتی صاحب کے جواب کو پوری توجہ اور بیدار مغزی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے، اگر کوئی نکتہ سمجھ میں نہ آئے تو استفسار کیا جائے۔خود سے اس کے معنیٰ ومفہوم کا تعین نہ کرے،اور نہ فتوے کے کچھ اجزا ہی کو لے کر باقی کو نظر انداز کرے۔
ہمارے زمانے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس میں رخصتوں کو تلاش کرنا ایک رائج الوقت چلن بن گیا ہے۔اس بیماری کے عام ہونے میں بڑا ہاتھ بعض ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کی سائٹوں پر فتویٰ دینے والے نااہل مفتیان کرام کا بھی ہے، جب کہ دوسرابڑا ہاتھ اس مغرب زدہ مسلم طبقے کا ہے جس کی ساری تگ ودو کا مقصدومحور یہی بنا ہوا ہے کہ کسی بھی طرح ہر مغربی چیز کو اسلامی چوکھٹا فراہم کرکے مسلم معاشرے میں پھیلادیا جائے۔ اب یہ اقامتِ دین کے لیے اٹھنے والی دینی تحریکوں اور جماعتوں کے وابستگان اور علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دینِ حنیف پر مسلط اہلِ غلو کی غلط تحریفات، باطل پرستوں کے غلط انتسابات ودعوے اور جاہلوں کی دور ازکار تاویلات کا پردہ چاک کریں۔اس سلسلے میں چند تجاویز درج ذیل ہیں:
۱- اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کوآخری مرجع وحاکم کی حیثیت دی جانی چاہیے اور کسی بھی حالت میں کسی بھی دینی مسئلے میں ان سے رُوگردانی کی روش نہ اختیار کی جائے۔ ارشادِ باری ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النسائ۴:۶۵) نہیں اے محمدؐ،تمھارے رب کی قسم، یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کوفیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میںکوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o (النسائ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں،پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہترہے۔
قرآن وسنت کا وہی فہم معتبر ومعتمد علیہ ہونا چاہیے جو صحابہ کرامؓ نے سمجھا تھا۔کیونکہ وہ حضرات قرآن وسنت کی عملی تطبیق وتنفیذ کے چشم دید گواہ رہے ہیں اور اللہ کے رسولؐ نے ان کا تزکیہ فرمایا ہے، نیز ان کے نہج سے تمسک کا حکم دیتے ہوئے اس کے خلاف امور کو بدعتِ محدثہ قرار دیا ہے۔ارشادِ نبوی ہے:’’تمھارے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر اس کے بعد والے پھر اس کے بعد والے۔۔۔‘‘۔ [خیر کم قرنی ثمّ الذین یلونھم ثمّ الذین یلونھم۔۔۔] (بخاری، حدیث۲۶۵۱۔مسلم،حدیث ۶۶۳۸)۔ ’’تم پر لازم ہے کہ میری اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو،اور کس کر دانتوں سے دبا لو۔اور خبردار، دین میں پیدا ہونے والے امور سے بچنا،کیونکہ دین میںہر نیا معاملہ بدعت ہے اور ہر بدعت ایک گمراہی ہے‘‘۔ [علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء المھدیین الراشدین تمسکوا بھا وعضّوا علیھا بالنواجذ، وایّاکم ومحدثات الأمور فانّ کلّ محدثۃٍ بدعۃ وکلّ بدعۃٍ ضلالۃ] (سنن ابوداؤد، حدیث ۴۶۰۷۔ سنن ترمذی، حدیث ۲۶۷۶۔ سنن ابن ماجہ، حدیث۶۲)
۲- اجماع کی حجیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کو توڑنے یااس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششوں پر سخت موقف اختیار کیا جائے۔ارشادِ باری ہے:
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَ سَآئَ ت مَصِیْرًاo (النساء ۴:۱۱۵)،مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے،درآں حالیکہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو،تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جاے قرار ہے۔
وَ اِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۸۳) یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں،اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں،حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں،تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمھاری کمزوریاں ایسی تھیںکہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔
فَاسْئََلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (النحل ۱۶:۴۳)’’اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔
(۴)عوام الناس کو تتبع کے مہلک راستے اور اس کی مضرتوںسے آگاہ کیا جائے اور اس سلسلے میں تقاریر،خطبے،کتابیں،کیسٹس، رسالے، لیکچر اور انفرادی نصیحتوںوغیرہ جیسے وسائل سے کام لیا جائے۔
(۵)اس خطرے کے اسباب ومحرکات پر غور وخوض کرنے، نیز ان کا ازالہ کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر علمی مذاکرے اور ورک شاپوں کا انعقاد کیا جائے۔
(۶) ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ سائٹوں پر فتویٰ دینے کے لیے ایسے حضرات کا تقرر یقینی بنایا جائے جو علمی تبحر،فہمِ سلیم،حسنِ پیش کش اور اعترافِ خطا جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہوں۔
(۷)اس قسم کی کسی بھی راے یا موقف کا فوری محاسبہ کیا جائے اور اس عادت کے خوگر افراد پر مختلف اخلاقی طریقوں سے دبائو ڈال کراس عادتِ قبیحہ کے ترک پر آمادہ کیا جائے۔
سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کی تکمیل کے ساتھ ہی مغربی نو آبادیاتی طاقتوں کا ظہور ہوا۔مغربی طاقتوں نے نہ صرف عسکری بالادستی قائم کی، بلکہ اپنی تہذیب سے بھی مسلم معاشروں کو مرعوب کر دیا۔ مسلم دنیا کی اکثریت اِ س عسکری اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کی سکت سے تہی دامن تھی۔ جمود، تقلید اور ملوکیت جیسے عارضے مسلم معاشروں کو پہلے ہی کھوکھلا کر چکے تھے۔ مغرب کے عسکری، سیاسی، تہذیبی اور سائنسی طوفان کے سامنے مسلمانوں کی بے بسی تاریخ کا ایک سنگین المیہ ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ زوال پذیر مسلم معاشروں میں مغربی بالادستی کے خلاف ایک ہی وقت میں احیائی اور اصلاحی کوششیں شروع ہوئیں۔ان احیائی تحریکوں نے جہاد اور اجتہاد کو اپنا سلوگن بنایا۔ جمود زدہ ملّت میں حرکت اور ارتعاش کی ایسی فکری اور نظریاتی بنیادیں ان تحریکوں نے اٹھائیں کہ آج دنیا کے ہر خطے میں ان کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ اور محمد بن عبدالوہاب کو ان اسلامی تحریکوں کا پہل کار تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی وفات کے بعد دنیا کے مختلف خطوں میں بے شمار اسلامی احیائی تحریکیں منظم ہوئیں۔ شمالی افریقہ کی سنوسی تحریک، مہدی سوڈانی کی تحریک، اخوان المسلمون(مصر، عراق، شام)، برعظیم پاک و ہند کی تحریکِ مجاہدین، فرائضی تحریک (بنگال)اور جماعت اسلامی (ہندو پاکستان) جیسی تحریکیں انیسویں اور بیسویں صدی میں شروع ہوئیں۔ ان تحریکوں کی تنظیمی ساخت اور طریق کار مختلف ہونے کے باوجود مقصد کی یکسانیت نے انھیں ایک احیائی کہکشا ں بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مطابق :شمالی افریقہ کے اندر سنوسی تحریک بہت بڑی اور احیاے اسلام کی سب سے کامیاب تحریک تھی۔ اس کی بنیاد الجزائر کے صوفی رہنما اور مجاہد سیّد محمد ابن السنوسی نے رکھی۔ اس نے مسلمانوں کی از سرِ نو بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا۔اس تحریک نے عرب اور شمالی افریقہ کے ممالک میں تاریخی واقعات پر گہرا اثر ڈالا، خصوصاً حجاز ، مصر، لیبیا، الجزائر، شمالی نائیجیریا، چاڈ اور جنوب مغربی سوڈان اس میں شامل ہیں۔
سنوسی تحریک کا مقصد کتاب و سنت کی اساس پر عالم ِاسلام کا مکمل دینی احیا تھا۔ اس سلسلے میں دو باتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں ، ایک ردِ بدعات اور دوسری اجتہاد۔سنوسی الکبیر اس بات پر زور دیتے تھے کہ وہ باتیں جن کی سند قرآن و سنت سے نہیں ملتی، وہ ترک کر دینی چاہییں اور اُس اسلام کی طرف رجوع کرنا چاہیے ،جو دورِ اوّل میں روبہ عمل تھا۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے تھے کہ اجتہاد کے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔
سنوسی، احیاے اسلام کی منظم اور مربوط جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ یہ تحریک اسلام کا حقیقی اور انقلابی تصور رکھتی تھی اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو صحیح اسلامی اقدار کی حامل بنانا چاہتی تھی۔ اس تحریک کی غرض و غایت کسی ذاتی ریاست یا امارت کا حصول نہ تھا، بلکہ سنوسی یہ چاہتے تھے کہ تنظیمی بنیاد پر اسلام کے سیاسی ‘معاشی ‘ اخلاقی اور تمدّنی نظام کو اس کی حقیقی صورت میں بحال کیا جائے۔
اس تحریک کے بانی سیّد محمد بن علی السنوسی( ۱۷۸۷ئ-۱۸۵۹ئ) موجودہ الجزائر کے علاقے مستغانم کے گائوں وسیتا میں پیدا ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سنوسی ان کا خاندانی لقب تھا، جو ان کے روحانی جد امجد شیخ محمد ابن یوسف بن عمر بن شعیب السنوسی(۱۴۹۰ئ) سے منسوب ہے۔ سیّد غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ آپ نے بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کیا۔ فقہ ‘ حدیث اور دوسرے علوم سیکھے ۔اس کے بعد سیّد ایک پرانے اسلامی مرکز مزونا میں مزید تعلیم کے لیے چلے گئے۔ ان کے قلب و ذہن میں یہ احساس بچپن ہی سے پروان چڑھ رہا تھا کہ امّتِ مسلمہ دوسروں کی دست نگر بن گئی ہے اور امت کو موجودہ کیفیت سے نکالنے کے لیے اپنے حصے کاکام کرنا چاہیے۔
۱۸۰۴ء میں فاس کی قاراوین یونی ورسٹی چلے گئے، جہاں انھوںنے مزید تعلیم مکمل کی۔ یونی ورسٹی کے دوران سیّد صاحب کا رجحان تصوّف کی جانب ہوا۔ فاس میں قیام کے دوران پہلے آپ صوفیہ کے مشہور سلسلہ تاجنیہ سے منسلک ہوئے، جو بعد ازاں شیخ احمد بن ادریس سے گہرے تعلق پر منتج ہوا۔ اسی دوران میں سیّد عالم عرب کی مشہور اسلامی تحریک ( وہابی تحریک ) سے متاثر ہوئے۔ اس کا بہت امکان ہے کہ ۱۴۴۶ء میں سیّد نے عرب کی اس تحریک توحید سے جو محمد ابن عبدالوہاب نے شروع کی تھی اثرات قبول کیے۔(ایضاً، ص ۷۶)
آپ نے ۱۸۱۸ء میں فریضۂ حج ادا کیا ۔ ۱۸۳۱ء میں مصر پہنچے، جہاں الازہر یونی ورسٹی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔ ۱۸۳۲ء میں آپ مکہ معظمہ چلے گئے، جہاں آپ ۱۸۴۰ء تک مقیم رہے ۔ قیام مکہ کے دوران آپ تصوّف کے مشہور سلسلے ادریسیہ سے منسلک ہو گئے ۔ بہ ایں ہمہ محمدعلی بن سنوسی ’ سلسلۂ ادریسیہ ‘ کے ساتھ ساتھ ’ وہابی تحریک ‘ کے بارے میں بھی نرم گوشہ رکھتے تھے۔معاصر حالات کے گہرے تجزیے کے بعد سیّد محمد بن علی السنوسی نے احیاے اسلام اور اتحاد ِاُمّت کے عالم گیر تصورکے مطابق ایک منظم تحریک شروع کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ۔ اب وقت آچکا تھا کہ مسلمانوں کے احیا کی وہ تحریک چلائی جائے جو مسلم امہ کا ایک بڑا دلربا اور محبوب خواب تھا۔ ۱۸۳۷ء میںانھوںنے پہلا سنوسی زاویہ (خانقاہ) کی مکہ میں بنیاد رکھی۔
مکّہ میں قیام کے دوران سیّد صاحب نے علما اور دیگر لوگوں کے ساتھ گہرا رابطہ رکھا۔ بالآخر انھوں نے مکہ چھوڑنے کافیصلہ کیا۔ ۱۸۴۰ء میں مکّہ سے روانگی سے قبل انھوں نے سنوسی تحریک کے مستقبل کے صدر مقام کا انتخاب کرناتھا، ان کی خواہش تھی کہ یہ اسلامی دنیا کے مرکز میں اور مغربی طاقتوں کے اثر سے دور واقع ہو۔ مزید برآں روایتی علما کی مزید مخالفت سے بچنے کے لیے وہ تہذیب وثقافت کے قدیم مراکز سے دُور ہونا چاہتے تھے۔
وہ مکہ سے مصر پہنچے۔ یہاں بلاق میں تین مہینے انھوںنے قیام کیا، بعد ازاں ’فیوم ‘ سوا اور تریپولی میں بھی قیام کیا اور سنوسی تحریک کا مستقل مرکز قائم کرنے پر غورو خوض جاری رکھا ۔ بالآخر بن غازی کے مقام پر سنوسی تحریک کا مرکز بنا لیاگیا ۔
’ بن غازی‘ لیبیا کے ساحلی علاقے میں واقع تھا اور یہ مقام سنوسی قائدین کی خاص حکمت عملی کے باعث منتخب کیاگیا تھا۔ زاویوں کی تعداد میں تسلسل کے ساتھ اضافہ شروع ہوا، طرابلس ‘ سوڈان اور افریقہ کے بیش تر علاقوں میں سنوسی تحریک کے واضح اثرات محسوس کیے جانے لگے، تو محمد علی السنوسی نے سنوسی تحریک کا مرکز گہرے تجزیے کے بعد سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کے حامل علاقے جغبوب میں منتقل کر دیا۔سیّد اکتوبر ۱۸۵۶ء کے وسط میں یہاں پہنچے۔ جغبوب اہم تجارتی راستوں کا مرکز اور حجاج کرام کا معروف راستہ تھا اور معاصر عالمی طاقتوں کی باہمی آویزش سے بھی دور تھا۔ سیّد کی تحریک کے اثرا ت جلد ہی تیونس ‘ لیبیا ‘ مصر کے مغربی صحرا‘ سوڈان اور دوسرے افریقی علاقوں میں پھیل گئے۔
جغبوب میں منتقلی کے تین سال بعد سیّد ستمبر ۱۸۵۹ء میں فوت ہوئے اور جغبوب یونی ورسٹی کیمپس میں دفن ہوئے۔ سیّد کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے سیّد محمد المہدی السنوسی تحریک کے سربراہ مقرر ہوئے ۔ المہدی سنوسی کی قیادت میں سنوسی تحریک کے کام میں وسعت آئی۔ ’سنوسی اخوان ‘ کی تعداد ۴۰ لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس علاقے میں کوئی مقام ایسا نہ تھا، جہاں تک سنوسی تحریک کی دعوت نہ پہنچی ہو اور زاویہ قائم نہ ہوا ہو ۔
المہدی سنوسی کی وفات کے بعد سیّد احمد الشریف السنوسی (۱۸۷۵ئ- ۱۹۳۳ئ) سنوسی تحریک کے امیر مقرر ہوئے ۔ سنوسی تحریک نے عالمِ اسلام کو پیش آنے والے ہر مسئلے پر توجہ دی اور اس پر ردعمل کا اظہار بھی کیا ۔ سنوسی اتحادِ عالمِ اسلام کے داعی اور پر جوش حامی تھے۔ چنانچہ عالمِ اسلام کے اتحاد کے خلاف ہونے والی استعماری سازشوں پر سنوسی بہت بے چین تھے۔ ان ہی عالمی سازشوں میں سے ایک سازش عرب نیشنلزم تھا ۔خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے استعماری ایجنڈا تھا ۔ سنوسی تحریک نے اس مرحلے پر ترکوں کا ساتھ دیا۔علامہ اقبال نے بھی سنوسی تحریک کی تحسین کی ہے ؎
کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تُو نام و نسب کا حجازی ہے، پر دل کا حجازی بن نہ سکا
تحریک و دعوت میں وسعت تو ہوئی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تحریک میں داخلی مسائل بھی جنم لیتے رہے ۔۱۹۱۶ء میں سیّد ادریس اور سیّد احمد الشریف کے درمیان اختلافات ہوئے ، جس کے نتیجے میں سیاسی و عسکری قیادت سیّد ادریس کے سپرد ہوئی، جب کہ روحانی و تعلیمی محاذ سیّد احمد کے سپرد ہوا۔
سیّد ادریس نے اطالویوں اور برطانوی ذمہ داران کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ سیّداحمد پہلے جغبوب گئے، لیکن برطانوی حکام نے انھیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا ۔بالآخر آپ ۱۹۱۸ء میں ترکی چلے گئے جہاں کما ل اتا ترک کی حکومت میں آنے کے بعد وہاں سے نکال دیے گئے ۔ بیروت،یروشلم سے ہوتے ہوئے مدینہ چلے گئے ، جہاں انھوں نے معروف سکالر محمد اسد سے مل کر سنوسی تحریک کو مسائل اور چیلنجوں سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ۔ بے بسی کے عالم میں وہ مصر پہنچے، اس موقع پر غازی عمر مختار منظر عام پر آئے۔ سنوسی اخوان کو مخدوش حالات میں چھوڑتے ہوئے سیّد ادریس مصر چلے گئے۔ غازی عمرمختار جو ایک بہادر جنرل تھے، انھوں نے سنوسی اخوان کی ملٹری کمانڈ خود سنبھال لی۔
عمرمختار طلسماتی شخصیت کا حامل جرنیل تھا ،نو آبادیاتی نظام کے خلاف ۳۰برس تک جدوجہد کرتا رہا ۔ عمر مختار نے سنوسی تحریک کی قیادت بہت نازک اور مشکل مرحلے پر کی۔ برطانوی اور اطالوی فوجوں کے خلاف وہ ایک چٹان کی طرح ڈٹا رہا۔ بلاشبہہ عمر مختار کو مشہور مسلم سپہ سالاروں ‘ موسیٰ بن نصیر ‘ طارق بن زیاد ‘ محمد بن قاسم ‘ صلاح الدین ایوبی ‘ عقبیٰ بن نافع کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔عمرمختار تین عشروں تک متواتر جہاد میں مصروف رہا۔ اپنی زندگی کے آخری ۲۰مہینوں میں جب عمر ۷۵سال تھی، وہ ۲۳۶مرتبہ اپنے سے کئی گنا فوج کے خلاف لڑا، اور سنوسی تحریک کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کا ثبوت دیا۔
سیّد محمد بن علی السنوسی کی تحریک کا بنیادی مقصد ’’مسلمانوں کی اصلاح، فرنگی استعمار کی مدافعت اور اسلام کی اشاعت تھا ۔ ۲۲ برس کے عرصے میں انھوںنے ایک ایسی زبردست جماعت تیار کرلی، جس کا نظام سلطنتوں کے نظام سے زیادہ مکمل تھا، جس کا ہر شخص جماعتی مقاصد کی لگن میں ڈوبا ہوا تھا‘‘۔(ابو الاعلیٰ مودودی،الجمعیۃ، دہلی، ۲۲ جولائی ۱۹۲۵ئ)
سنوسی تحریک کے اثرات بہت گہرے اور دور رس تھے ۔ لیبیا اور شمالی افریقہ کے بدو قبائل تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔احیاے اسلام کے لیے سنوسی تحریک نے جن امور کی طرف علی الخصوص اہمیت دی تھی، ان میں ردِّ بدعات اور اجتہاد کو فوقیت حاصل تھی ۔ سنوسی تحریک کا یہ ایک واضح رجحان رہا کہ اسلام میں ایسی اصلاحات کر دی جائیں، جن سے یہ روح اسلام سے قطع نظر کیے بغیر زمانہ حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کر سکے۔
۱- برطانیہ ‘ فرانس ‘ اور اٹلی کے خلاف طویل اور تھکا دینے والی جنگیں ۔
۲- ذرائع وسائل کی قلت کے باعث وسیع تحریک کو مربوط نہ کیا جا سکا۔
۳- مختلف علاقوں ، زبانوں کے افراد کا مجتمع ہونا اور کسی ایک فکری و حدت میں سمویا نہ جانا۔
۴- روایتی ذرائع آمدورفت، مثلاً صرف اونٹوں کا استعمال۔
۵- سنوسی تحریک کے بانی محمد ابن السنوسی کی وفات کے بعد قیادت پر ان کے بیٹے کا متمکن ہونا اور اس کے بعد ایک سینئر لیڈر کے بیٹے کو قیادت پر فائز کرنا، سیّد محمد ادریس کی جانب سے قیادت کے مسئلے پر تنازع کھڑا کر دینا …
۶- سیّد ادریس (المہدی کے بیٹے) قیادت کی صلاحیت نہ رکھتے تھے، مشکل وقت میں انھوں نے تنازع کھڑا کیا ۔ سیّد احمد الشریف تحریک کی فعال ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔
۷- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوش عمل میں کمی آئی، رضاکارانہ کام کرنے والے کارکن کم ہوتے گئے اور قائدین اور رہنمائوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
مصر، تیونس اور اب لیبیا کے عوام نے استعمار اور اُس کے ایجنٹوں کے خلاف ایک جنگ جیت لی ہے۔ انسانی خدائی کا جوا ہمیشہ کے لیے اپنی گردنوں سے اتارنے کا معرکہ ابھی جاری ہے۔ تاریخ کا یہ سفر لمحوں میں طے نہیں ہوا۔ یہ صدیوں پر مشتمل ایک تاریخی عمل ہے۔ مصر کی اخوان المسلمون ہو، یا شمالی افریقہ کی سنوسی اخوان، اس جدو جہد کے پس منظر میں اُن کا کردار نمایاں اور نکھرا ہے۔
ماخذ: ڈاکٹر محمود احمد غازی سنوسیہ تحریک شمالی افریقہ میں (انگریزی)، اور ڈاکٹر معین الدین عقیل، اقبال اور جدید دنیاے اسلام۔
علی سخیری جو خود بھی آٹھ سال تک جیل میں گزار چکا ہے، اس بار ملا تو ہمراہ ایک اور ساتھی بھی تھا۔ علی نے تعارف کروایا: یہ عبد اللہ ہیں ۱۴سال صرف اس جرم کی پاداش میں جیل میں رہے کہ تعلق اخوان سے ہے۔ میں نے احترام و محبت سے پوچھا: ۱۴ سال کا پہاڑ سا عرصہ کیسے گزارا؟ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے صرف ان تین لفظوں میں جواب دیا: ’’الحمد للہ گزر گیا‘‘۔ میں نے اجروجزا کی دُعا دیتے ہوئے، تفصیل معلوم کرنے کے لیے دوبارہ اصرار کیا تو کہنے لگا: اب اس تلخ حقیقت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے زبان پر لانا مشکل ہے۔ تیسری بار میرے اصرار پر کہنے لگا: وہ انسان سے اس کا فخر انسانیت چھین لیتے ہیں۔ تم صرف اسی بات سے اندازہ لگالو کہ ایک بار ہم ۱۰ساتھیوں نے تمام تر پابندیوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے باجماعت نماز ادا کی، لیکن اس حالت میں کہ ہم میں سے کسی کے بدن پر کپڑے کی دھجی تک نہ تھی۔ اس صورت حال پر کوئی احتجاج کرتا تو اسے کئی کئی مہینوں کے لیے صرف ڈیڑھ میٹر لمبی چوڑی کوٹھڑی میں بند کردیا جاتا، جہاں صرف وہ ہوتا اور پتھریلی دیواریں۔ علی اور عبد اللہ جیسے ایک دو نہیں ہزاروں افراد ہیں۔ مرد ہی نہیں خواتین بھی گذشتہ ۶۴ برس سے اسی چکی میں پس رہی تھیں۔ ۲۰۱۱ء کا جنوری شروع ہوا تو دنیا کا کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چھلنی روح اور زخمی جسموں والے ان لاکھوں افراد کو اس بدترین ظلم و استبداد سے نجات مل جائے گی، لیکن ۲۰۱۱ء کا سال ختم ہونے سے پہلے پہلے اس قماش کے کئی جابر حکمران عبرت کا نشان بن گئے، جیلوں کی کوٹھڑیوں میں روندے جانے والوں کو قوم نے اپنے ماتھے کا جھومر بنانے کا اعلان کردیا۔ ظالم حکمرانوں کے سرپرست واویلا کرنے لگے اسلامسٹ آگئے۔ رب ذوالجلال کا فیصلہ غالب آیا: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o (القصص۲۸:۵) ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں‘‘۔
مراکش، تیونس اور مصر کے حالیہ انتخابات صرف اس حوالے سے ہی اہم ترین نہیں قرار پائے کہ ان میں اسلامی تحریک نے باقی تمام سیاسی جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس حوالے سے بھی اہم تھے کہ ان ملکوں میں پہلی بار اس طرح کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخاب منعقد ہوئے۔ معروف تجزیہ نگار رابرٹ فِسک بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ ’’صبح سویرے ایک ایک کلومیٹر لمبی لائنوں میں لگے مصری عوام کے سامنے مغربی جمہوریت شرما اور گہنا کر رہ گئی ہے۔ پولنگ کی رات ہونے والی بارش نے سردی میں مزید اضافہ کردیا تھا، لیکن مصری عوام کے جوش و خروش اور صبروتحمل میں کوئی سردمہری پیدا نہ ہوئی ‘‘۔
پورے مصر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے مرحلہ وار انتخاب کروائے جارہے ہیں۔ ووٹنگ دو روز تک جاری رہتی ہے، جب کہ گنتی عموماً تین چار روز تک جاری رہتی ہے۔ اس طرح ایک حصے کے انتخاب کا عمل مکمل ہونے میں ۱۰،۱۲ روز لگ جاتے ہیں۔ پورا انتخابی عمل عدلیہ کی زیر نگرانی ہورہا ہے۔ ہزاروں جج تینوں مرحلوں میں ملک کے مختلف اضلاع میں جاکر انتخابات کروارہے ہیں۔ اب تک دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں، جب کہ تیسرے مرحلے کے انتخابات کے لیے ۱۹ جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ۲۳دسمبر کو ہونے والے مظاہروں کے بعد اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ۲۳ جنوری کو منعقد ہوگا۔ قومی اسمبلی کو ’مجلس الشعب‘ اور سینیٹ کو ’مجلس الشوریٰ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سینیٹ کے لیے بھی عام انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات ۲۹ جنوری سے شروع ہونا ہیں جو ۱۱مارچ تک مکمل ہوں گے اور پھر ۳۰ جون ۲۰۱۲ء سے پہلے پہلے صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ اس طرح ۲۸نومبر ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والا انتخابی عمل اگلے سال کے وسط میں مکمل ہوگا۔
عبوری دستور اور انتخابی طریق کار کے بارے میں مطمئن ہوکر عوام انتخابات کی تیاریوں میں لگ گئے، لیکن پھر ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے والے عناصر نے انتخابات سے پہلے دستور بنانے کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کردی ۔ اس مطالبے میں محمد البرادعی اور عمر و موسی جیسے صدارتی اُمیدوار بھی شامل ہوگئے اور اعلان کیا گیا کہ ہم ۱۵ ملین دستخط جمع کرکے محضرنامہ تیار کریںگے کہ انتخاب ملتوی کرکے پہلے دستور بنایا جائے۔ اخوان نے کسی تصادم میں پڑے بغیر درجنوں دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھرپور عوامی ریفرنڈم نے روڈمیپ طے کردیا ہے، اب کسی بھی مرحلے میں اور کسی بھی شخص یا ادارے کو عوامی فیصلہ تبدیل کرنے کا حق نہیں۔ انتخابات چند ماہ ملتوی تو کیے گئے لیکن بالآخر انتخابی عمل شروع ہوگیا۔ سازشی عناصر بھی باز آنے والے نہیں ہیں۔ پہلے دستور کی رٹ کام نہ آئی تو ملک میں اچانک مسلم مسیحی فسادات شروع کروا دیے گئے۔ توڑ پھوڑ اور قتل و غارت ہوئی لیکن بالآخر فتنے کی یہ آگ بھی بجھ گئی۔ کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا (المائدہ ۵:۶۴) ،’’جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے‘‘۔ پھر میدان التحریر میں دوبارہ دھرنا اور ہنگامے شروع کردیے گئے۔ اخوان اس تحریک میں شامل نہ ہوئے اور انتخابات ہی کو اصل علاج قرار دیا لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ عسکری کونسل کی طرف سے ایسے بیانات اور اعلان آنے لگے کہ انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ بے وقعت لگنے لگی۔ ایک جرنل نے بیان دیا: ہوسکتا ہے کہ ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی کے لیے پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کے حجم کا لحاظ کیے بغیر ہرچھوٹی بڑی پارٹی سے پانچ پانچ ارکان لے لیے جائیں‘‘ (ریفرنڈم کے ذریعے منظور ہونے والے عبوری دستور میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ کمیٹی منتخب کمیٹی ہوگی)۔ پھر نائب وزیراعظم ڈاکٹر علی السلمی نے کئی بنیادی دستوری شقوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں جو بھی آئے، دستور جو بھی بنائے یہ نکات بہرصورت جوں کے توں رہیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ عسکری سپریم کونسل کی وضع کردہ یہ دستوری شقیں انتخابات، پارلیمنٹ یا دستورسازی کے ہر نظام سے بالاتر ہیں اور انھیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔
ایک درفنطنی یہ چھوڑی گئی کہ صدارتی انتخابات اس وقت تک نہیں کروائے جائیں گے جب تک ملکی دستور وضع کرکے اس پر عوامی ریفرنڈم نہیں کروالیا جاتا۔ گویا ایک تو سارا دستوری عمل موجودہ عبوری صدر فیلڈمارشل حسین طنطاوی کی زیر سرپرستی مکمل کیا جائے، اور دوسرے یہ کہ حالیہ عبوری فوجی حکومت کم از کم ۲۰۱۳ء تک جوں کی توں رہے۔ اس طرح کے بیانات و اعلانات کے دوران میدان التحریر میں فوجی کونسل کے خلاف مظاہرے جاری رہے۔اخوان باقاعدہ طور پر اس میں شریک نہ ہوئے، البتہ ۱۸ نومبر کو ہونے والے عوامی دھرنے میں اخوان نے ایک بار پھر پوری قوت سے میدان التحریر میں اُترنے کا اعلان کیا اور فوجی کونسل کو خبردار کیا کہ وہ حقیقی جمہوریت کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔ ساتھ ہی اخوان نے اپنے کارکنان کو ہدایت دی کہ کسی طور بھی اس پروگرام کو مستقل دھرنے کی شکل نہ دی جائے، بلکہ شام پانچ بجے لوگ میدان التحریر کو خالی کردیں۔ لاکھوں افراد شریک ہوئے اور شام کو مظاہرین کی اکثریت گھروں کو واپس چلی گئی لیکن ابھی چند سو نوجوان باقی تھے کہ ان پر پولیس نے دھاوا بول دیا، شدید تشدد کیا اور اس طرح انتخابات سے۱۰ روز قبل بدترین ہنگامے اور خوں ریزی شروع ہوگئی۔ تین روز میں ۴۵؍ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ اخوان نے واضح کیا کہ یہ بلاجواز تشدد قوم کو انتخابات سے محروم کرنے اور فسادات کی طرف دھکیلنے کی سازش ہے، ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہنگاموں کی تپش فوج تک بھی پہنچنے لگی اور اصل ہدف (یعنی اخوان) میدان جنگ سے دور انتخابی تیاریوں میں مصروف رہے، تو مظاہرین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے عبوری وزیراعظم عصام شرف کو قربانی کا بکرا بناکر برطرف کردیا گیا، کمال جنزوری کو عبوری وزارت عظمیٰ اور نئی کابینہ دے دی گئی۔
انتخابات کے پہلے ہی روز لوگوں کی بے مثال شرکت اور پہلے مرحلے کے نتائج سے ہی قوم کا اصل رجحان و اعتماد پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ مختلف اسلامی تنظیموں کو ۶۵ فی صد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ باقاعدہ سرکاری نتائج کے مطابق اخوان کو ۴۱ فی صد ووٹ ملے (اب کہا جارہا ہے کہ یہ ۳۷ فی صد ہیں)۔ دوسرے نمبر پر النور پارٹی کو ۲۴ فی صد (پہلے اعلان کے مطابق ۲۰فی صد)، اور تیسرے نمبر پر حزب الوسط کو ۶ فی صد ووٹ ملے ہیں۔
’النور‘ بنیادی طور پر تین دینی جماعتوں کا اتحاد ہے جس نے النور پارٹی کے بینر تلے انتخاب لڑ ا ہے۔ ان میں دو سلفی، یعنی اہل حدیث جماعتیں ہیں ’النور‘ اور ’الاصالۃ‘ اور تیسری البناء والتنمیۃ (تعمیر و ترقی پارٹی) ہے جو کہ سابقہ الجماعۃ الاسلامیۃ المسلحۃ کی نو تشکیل شدہ سیاسی جماعت ہے۔ یہ جماعت پہلے مسلح جدوجہد کی طرف نکل گئی تھی لیکن اب ان کی اکثریت پُرامن دعوتی و سیاسی سرگرمیوں کی طرف واپس آگئی ہے۔ اس وقت سلفی جماعتوں میں ایسے دھڑے بھی ہیں جو پہلے حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں کو واجب القتل قرار دیتے تھے، ایسے بھی ہیں کہ جو حاکم کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کو بھی حرام قرار دیتے تھے، اور وہ بھی ہیں کہ جو پہلے جمہوریت اور انتخابات کو کفر قرار دیتے تھے۔ حسنی مبارک کے جانے اور آزادانہ سیاسی جدوجہد کی اجازت ملنے کے بعد اب یہ سب حضرات مجتمع ہیں اور خود کو وقت و حالات کے مطابق ڈھالنے کی سعی کررہے ہیں۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے سے ان کی ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ عمومی طور پر ان کے ذمہ داران نے اپنے بیانات میں احتیاط برتی ہے، لیکن دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں نے کئی ایسے بیانات بھی دیے ہیں، جنھیں ذرائع ابلاغ نے معاشرے کو اسلامی حکومت سے خوف زدہ کرنے کے لیے بہت اچھالا ہے۔
انتخاب جیتنے والی تیسری دینی جماعت ’الوسط پارٹی‘ ہے جسے۶ فی صد ووٹ ملے، بنیادی طور پر اخوان ہی سے الگ ہونے والے بعض افراد پر مشتمل ہے۔ اخوان پر لگنے والی مسلسل پابندیوں کے تناظر میں بعض نوجوانوں نے، ابوالعلا ماضی کی سربراہی میں خود کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کی۔ آغاز میں بعض لوگوں کا تاثر تھا کہ اخوان نے خود ہی اپنے لیے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے، لیکن اخوان نے نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ ان حضرات کا اخراج کردیا۔ حکومت نے بھی پارٹی رجسٹرڈ نہ کی اور اس طرح یہ حضرات نہ اخوان میں رہے اور اور نہ اپنی جماعت بناسکے۔ حسنی مبارک کے زوال کے بعد سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہونے لگیں، تو سب سے پہلے الوسط کی سابقہ درخواست منظور کی گئی۔
دینی جماعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ ان کے مابین اختلافات نہ پیدا کردیے جائیں۔ معروف سیکولر اور متعدد مغربی تجزیہ نگاروں کی تحریروں کا اصل مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ اخوان اور النور کا مزاج، طریق کار اور ترجیحات مختلف ہیں، دونوں میں جھگڑا ہوگا۔ اس تجزیے کے پیچھے ان کی خواہش اور کوششیں بھی صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ بعض عرب ممالک بھی اختلافات کی آگ پر ڈالروں کا تیل ڈالنے کے لیے بے تاب ہیں، لیکن اخوان اور النور کی قیادت نے اسی اُمید کو توانا کیا ہے کہ ان شاء اللہ لڑانے والوں کے خواب پورے نہیں ہوں گے۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ کے دوران دونوں جماعتوں کے کارکنان نعرہ لگا رہے تھے: السلفیۃ والاخوان، اید واحدۃ فی کل مکان، ’’اخوان اور سلفی ہرجگہ یک مشت ہیں‘‘۔کئی اہم سلفی رسائل بھی لکھ رہے ہیں کہ اس وقت معاملہ سیٹوں یاوزراتوں کا نہیں، اسلام اور اس کی صحیح تصویر پیش کرنے کا ہے۔ حسنی مبارک سے نجات کے بعد اخوان نے ۱۸ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر جو اتحاد قائم کیا تھا، ’النور‘ پارٹی بھی اس کا حصہ تھی۔ ان دنوں محترم سید منور حسن، امیرجماعت اسلامی پاکستان کی قیادت میں مصر جانے والے وفد کو اخوانی قائدین نے بتایا تھا کہ: سلفی احباب سمیت اتحاد کی اکثر جماعتوں کو اس سے پہلے عملی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی قابل ذکر تجربہ نہیں ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی عمل پروان چڑھے اور اس میں مضبوط سیاسی جماعتیں بھرپور حصہ لیں۔
تیونس میں حالیہ منتخب حکومت تشکیل پاجانے سے بھی اختلافات کی سازشیں کرنے والے عناصر کو مایوسی ہوئی ہے۔ وہاں بھی اسلامی تحریک النہضۃ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے، اور دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ان سے کہیں پیچھے ہے اور بائیں بازو کی قدیم قوم پرست شناخت رکھتی ہے۔ وہاں بھی طویل ڈکٹیٹر شپ کے بعد سیاسی جماعتوں کے مابین سرپھٹول کی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں، لیکن جس سہولت، کامیابی اور حسن انتظام سے النہضۃ نے اکثر سیاسی قوتوں کو ساتھ ملایا ہے، اس پر اپنے حیران اور دشمن پریشان ہیں۔
اخوان کی یہ پالیسی طے شدہ ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنانے کی سعی کریں گے۔ تیونس اور مراکش کی نومنتخب حکومت ہو یا مصر میں چند ماہ بعد تشکیل کی منتظر مخلوط حکومت، ان سب کے سامنے حقیقی چیلنج اپنی ترجیحات کا درست تعین اور ان پر عمل درآمد ہے۔ مصر کے ایک عالم دین عبدالسلام البسیونی سے ملاقات ہوئی تو کہہ رہے تھے ترجیحات کا تعین اہم ترین مرحلہ ہے۔ مصر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جیسے اُولو العزم صحابہ کبار کی خلافت میں شامل رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ جیسے صحابیِ رسولؐ نے نظامِ ریاست چلایا، لیکن ابو الہول اور دور فراعنہ کے سیکڑوں بت صدیوں سے موجود تھے اور آج تک موجود ہیں۔ خود ریاست رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پورے دور خلافت راشدہ میں رومانی دینار رائج رہا جس پر صلیب بھی کندہ تھی (پہلا اسلامی سکہ اُموی دور میں ڈھالا گیا)۔ بتوں اور صلیب کا انکار عقیدۂ توحید کی بنیادی اساس میں شامل تھا، اسلام کا تعارف ہی لا الٰہ الا اللہ سے ہوتا ہے، لیکن حکمت، تدریج اور ترجیحات کے لازوال اصولوں کے تحت ہر کام کا اپنا وقت تھا۔
اسلامی تحریکوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج شخصی نظام حکومت کو ایسی باقاعدہ دستوری ریاستوں میں تبدیل کرنا ہے، جس میں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں۔ لوٹ مار اور کرپشن کے دروازے بند ہوں، لوگوں کو باعزت روزگار فراہم ہو، اور ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل پیش کیا جائے۔نئی بننے والی حکومتوں کو درپیش اقتصادی چیلنج کی ایک جھلک دیکھنا چاہیں تو صرف یہ جان لیجیے کہ مصری سٹیٹ بنک کے مطابق ملک میں دسمبر ۲۰۱۰ء میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ۳۶؍ ارب ڈالر تھے جو نومبر ۲۰۱۱ء میں ۲۰؍ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ عبوری عسکری کونسل میں مالی اُمور کے نگران بریگیڈیئر محمود نصر کے مطابق جنوری ۲۰۱۲ء تک یہ ذخائر صرف ۱۰؍ارب ڈالر رہ جائیں گے۔ گویا حالات اتنے بگڑ جائیں گے یا بگاڑ دیے جائیں گے کہ آنے والی حکومت اس پر قابو نہ پاسکے۔
اسلامی تحریکوں کی کامیابی کے فوراً بعد ذرائع ابلاغ نے عجیب و غریب سوالات کی دھول اڑانا شروع کردی ہے۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا خواتین کو کسی مخصوص لباس کا پابند بنادیا جائے گا؟ کیا سیاحت کہ جس پر دونوں ملکوں کی اقتصادیات کا بنیادی انحصار ہے، کی حوصلہ شکنی کی جائے گی؟ اسلامی تحریکوں کی قیادت ان مسائل سے بخوبی آگاہ ہے۔ان شاء اللہ ہر اقدام اپنے اپنے وقت پر انجام پائے گا اور دنیا کو اسلام کا حقیقی اُجلا چہرہ دیکھنے کو ملے گا۔ اخوان کے ذمہ دار کہہ رہے تھے ہمارے بھائی ہمارے لیے سجدوں کے دوران دُعا کیا کریں کہ اللہ ہماری مدد فرمائے۔ ریاست چلانے کی آزمایش پھانسیوں پر جھول جانے کی آزمایش سے بھی کڑی ہے۔ اللہ کی خاطر جینا بعض اوقات اللہ کی راہ میں مرنے سے بھی زیادہ دشوار ہوجاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ( بی این پی) کے دو لیڈر صلاح الدین قادر چودھری اور عبد العلیم، عوامی لیگی حکومت کے قائم کردہ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اپنی پچھلی مدتِ حکومت میں بھی جنگی جرائم کے الزامات لگا کر اپنے مخالفین کو نشانۂ انتقام بنانا چاہا تھا، مگر بوجوہ اپنے ان عزائم کو وہ عملی جامہ نہ پہناسکی۔ اس مرتبہ بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد عوامی لیگ نے اپنے ایجنڈے میں یہی ایشو سرفہرست رکھا۔ بنگلہ دیش تحریک میں مشرقی پاکستان کی بنگالی آبادی نے بھی بلاشبہہ کلیدی کردار ادا کیا تھا، مگر اس میں شک نہیں کہ اگر بھارت کی سرپرستی اور مکمل حمایت حاصل نہ ہوتی تو محض مکتی باہنی یا چھے نکاتی پروگرام کے علم بردار سیاسی کارکن یہ منزل سر نہ کرسکتے۔ خانہ جنگی کے اس عرصے میں جماعت اسلامی نے ایک محب وطن جماعت کی حیثیت سے مقدور بھر کوشش کی کہ بدامنی اور انتشار کے اس ماحول میں عوام کو تحفظ دیا جائے، تاہم ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو یہ سانحہ رونما ہوا کہ ملک دولخت ہوگیا۔
عوامی لیگ حکومت نے اپنی پے درپے ناکامیوں کے بعد، ۴۰ برس گزرنے پر سیاسی حربے کے طور پر اپنے مدِمقابل راست فکر قیادت کو نشانہ بنانے اور راستے سے ہٹانے کے لیے جنگی جرائم کے نام سے جو ٹربیونل قائم کیا ہے، اس پر عالمی اداروں اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے مکمل عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ ۲۰ نومبر ۲۰۱۱ء کو نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا دلاور حسین سعیدی پر باقاعدہ فردِ جرم عاید کی گئی۔ ان کے علاوہ جو لوگ سال سے زیادہ عرصہ ہوا، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیے گئے ہیں، ان میں جناب مطیع الرحمان نظامی امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور علی احسن محمد مجاہد قیم جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے علاوہ محمد قمر الزمان اور عبد القادر ملا شامل ہیں۔ پروفیسر نذیر احمد، حمیدالرحمان آزاد، مولانا رفیع الدین احمد، مولانا اے ٹی ایم معصوم، رفیق النبی، عبدالرحمان اور مولانا عبدالمنان کو بھی جماعت اور اسلامی چھاترو شِبر کے دیگر ۱۲ راہ نمائوں کے ساتھ گرفتار کرکے مختلف دیگر مقدمات میں ملوث کر دیا گیا ہے۔ اب تک دلاور حسین سعیدی صاحب کے بعد نظامی صاحب، مجاہد صاحب اور قمر الزمان صاحب پر بھی فردِ جرم عاید کر دی گئی ہے۔ استغاثہ نے ٹربیونل کے سامنے اظہار کیا کہ ابھی تک پوری تفتیش مکمل نہیں ہوسکی۔
اس دوران مولانا دلاور حسین سعیدی کے خلاف گواہیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان آرمی سے قریبی تعلق رکھا اور انھیں عوام کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ ان کے خلاف ۶۸ گواہ تیار کیے گئے ہیں۔ ان گواہوں پر مولانا سعیدی کے وکلا جرح کر رہے ہیں، جس کے دوران بہت دل چسپ تضادات سامنے آرہے ہیں۔ تاہم عمومی راے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر عرب ملکوں کی طرح کوئی عوامی ریلا سڑکوں پر نہ نکلا اور عرب عوامی لہر کی طرح بنگلہ دیش عوامی لہر کا سماں پیدا نہ ہوا تو ٹربیونل حکومتی اشارے پر فیصلے صادر کردے گا۔ ۷۱ سالہ مولانا سعیدی شوگر اور بلڈپریشر کے مریض ہیں، انھیں علاج معالجے کی سہولیات بھی حاصل نہیں۔ انھیں اپنے خرچ پر اپنے معالج سے ملاقات کا بھی کم ہی موقع دیا گیا ہے۔
روزنامہ بنگلہ دیش ٹوڈے میں ۱۲ دسمبر کو ایک رپورٹ چھپی ہے جس میں جماعت اسلامی کے وکیل بیرسٹر عبد الرزاق نے ٹریبونل کے سامنے یہ شکایت پیش کی کہ محض الزام لگنے سے کوئی شخص مجرم نہیں بن جاتا، جب کہ حکومتی ذرائع ابلاغ اور وزیر قانون بیرسٹر شفیق احمد ان لوگوں کو مجرم قرار دے رہے ہیں۔ چیئرمین ٹربیونل جسٹس نظام الحق نے ان کی شکایت کو مبنی برحق قرار دیا اور کہا کہ وہ خود بھی ذرائع ابلاغ کی اس روش کو دیکھ کر کڑھتے ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم صاحب (عمر:۸۹ سال) کو بھی گرفتار کرنے کے لیے حکومت مسلسل دھمکیاں دے رہی ہے۔
غیر جانب دار حلقے ان تمام الزامات کو مضحکہ خیز اور انصاف کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اہم پہلو جسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا وہ بنگلہ دیش میں مقیم بہاری آبادی پر ہونے والے طویل مظالم کی داستان ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے وقت اس آبادی کو علیحدگی پسندوں نے جس بُری طرح سے قتل و غارت گری، لوٹ مار اور عصمت دری کا نشانہ بنایا، اس کی داستانیں تو باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں مگر ان کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ بھارت کے تجزیہ نگار کلدیپ نائر نے بنگلہ دیش میں گذشتہ مہینے پانچ دن گزارے اور اس نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ ٹربیونل قانون و انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ کلدیپ نائر کے بقول حسینہ واجد بھارت کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ایک انٹرویو میں اس نے یہ بھی کہا کہ حسینہ واجد حکومت نے یک طرفہ طور پر بھارت کو ٹرانزٹ کے حقوق دیے ہیں، جن کے تحت بھارت آسام میں علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے لیے بنگلہ دیشی راہ داری استعمال کررہا ہے۔ حسینہ واجد لوگوں کی نظروں میں عزت و احترام کھو بیٹھی ہے۔ اس نے جنگی جرائم کا ٹربیونل قائم کرکے خوف و ہراس پیدا کرنے اور اگلے انتخابات سے قبل اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ خاصا خطرناک قدم ہے۔ (ہفت روزہ Blitz، ۴ دسمبر ۲۰۱۱ئ)
بنگلہ دیش کے معروف صحافی انوار حسین مانجو (جو مجلس قانون ساز کے ممبر اور وزیر بھی رہے ہیں اور بنگلہ دیش کے لیجنڈ صحافی تفضل حسین عرف مانک میاں کے فرزند ہیں) نے کہا ہے کہ ملک کے اندر حسینہ واجد حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایک بغاوت کی کیفیت عوام میں پیدا ہوگئی ہے۔ عوام الناس آج ہر مجلس میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں سیاست نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، محض لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ بنگلہ دیش کی عدالتوں کے بارے میں آج وکلا اور ماہرینِ قانون یہ کہہ رہے ہیں یہ عدالتیں انصاف کرنے کے بجاے حکومتی تیور دیکھ کر فیصلے صادر کررہی ہیں۔ (ایضاً)
عالمی ذرائع ابلاغ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹربیونل انصاف کے لیے قائم نہیں کیا گیا بلکہ حکمران اپنے راستے سے مخالفین کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اشرف الزمان خان، جو ان دنوں امریکا میں مقیم اور گرین کارڈ ہولڈر ہیں، ان پر بھی فردِ جرم عاید کرنے کے لیے استغاثہ نے کیس ٹربیونل میں پیش کر دیا ہے۔ ایک دوسری معروف شخصیت معین الدین چودھری جو برطانوی شہری ہیں، انھیں بھی البدر کا کمانڈر ہونے کے الزام کے تحت اسی فردِ جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ نیویارک ٹائمز (۳۰ نومبر ۲۰۱۱ ئ) میں ٹام فیلکس جے نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان لوگوں کو ان کی غیر حاضری میں سزا سنادی جائے گی۔ مضمون نگار نے تفصیلاً لکھا ہے کہ بہاری آبادی پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تو کوئی تذکرہ نہیں، البتہ بنگالی آبادی کے قتل عام کا بہت غلغلہ ہے۔ مضمون نگار کے بقول: انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے تو ان پر یہ الزام ثابت کرنا خاصا مشکل ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ۱۷۷۵ ایسے افراد کی فہرست غیر جانب دار لوگوں نے تیار کی ہے جن میں عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی مجرم قرار دیے گئے ہیں۔ مضمون نگار نے ایم اے حسن نامی ایک سماجی کارکن کا حوالہ دیا ہے جس نے جنگی جرائم کے حقائق جمع کیے ہیں، اس کے مطابق اگر جرم کا ارتکاب ہوا ہے تو مجرم دونوں جانب ہیں مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ قانونی کارروائی (انتقامی) یک طرفہ ہورہی ہے۔
ڈیلی سٹار ڈھاکہ (۱۲ دسمبر ۲۰۱۱ئ) کے مطابق مولانا دلاور حسین سعیدی کے خلاف حوالدار محبوب العالم کی گواہی پر مولانا کے وکیلِ دفاع بیرسٹر میزان الاسلام نے ایک دستاویز عدالت میں پیش کی، جس کے مطابق حوالدار نے وزیراعظم کی خدمت میں پیروج پور کے ڈپٹی کمشنر کی وساطت سے ایک درخواست پیش کی کہ اسے مکان تعمیر کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے امداد دی جائے۔ جب حوالدار پر جرح کی گئی تو استغاثہ کے وکلا نے شور مچایا کہ یہ دستاویز جعلی ہے اور ٹربیونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق نے سماعت اگلے دن تک ملتوی کردی۔ یہ ٹربیونل کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے، کچھ معلوم نہیں کہ اس سے کیا برآمد ہوگا؟ نیوز ویک نے ۲۳دسمبر کے شمارے میں بنگلہ دیش پر خصوصی نمبر شائع کیا ہے۔ بحیثیت مجموعی تمام مضامین بنگلہ دیش کی تخلیق ہی کے حوالے سے لکھے گئے ہیں، مگر بین السطور جگہ جگہ ٹربیونل اور اس کی انتقامی کارروائیوں کا حوالہ بھی ملتا ہے۔
بنگلہ دیش کے حالات سے باخبر اہلِ دانش کی راے ہے کہ عالمِ عرب میں طویل خاموشی اور مردنی کے بعد جو بیداری کی لہر اُٹھی ہے، اس نے ساری مسلم دنیا پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام سیاسی لحاظ سے بہت پختہ اور کئی تجربات کے حامل ہیں۔ موجودہ گھٹن کے نتیجے میں یہاں بھی بنگالی بہار کا سماں پیدا ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بعض اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو مگر اس میں تمھارے لیے بھلائی (پنہاں) ہوتی ہے‘‘۔
سوال: ہمارے حلقۂ احباب میں چند مسائل کے متعلق بحث و اختلاف کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ براہِ کرم ان کی صحیح حقیقت سے آگاہ کریں۔ مسائل درجِ ذیل ہیں:
۱- کیا حدیث میں یہ مذکور ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنی ماں کی جانب منسوب کیے جائیں گے؟ بعض اصحاب والدہ کی فضیلت اور اُس کے حقوق کے سلسلے میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
۲- کوئی باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو قتل کردے تو کیا اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا؟ اور کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ قاتل مقتول کا وارث ہے اور وہ اپنے آپ کو معاف کرسکتا ہے؟ جن جرائم کا حقوق العباد سے تعلق ہے، کیا اُن کے بارے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ جس فرد کی جان یا مال پر دست درازی ہوئی ہے، اگر وہ معاف کردے تو حق مارنے والے سے بازپُرس نہ ہوگی؟
۳- ماں باپ کی اطاعت کن اُمور میں اولاد پر جائز اور فرض ہے؟ کیا والدین کے حکم سے کوئی بیٹا شرعاً مجبور ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے؟
جواب: ۱- اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے والدین کے حقوق و واجبات پر بہت زور دیا ہے، اُن سے حسنِ سلوک کی بہت تاکید فرمائی ہے اور اپنے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق بیان کیے ہیں۔ بعض صحیح احادیث میں جہاں والدین سے صلۂ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ایک یا دو مرتبہ پہلے والدہ کا ذکر ہے اور اس کے بعد والد کا ذکر ہے، لیکن جس مضمون کا حوالہ سوال میں دیا گیا ہے، یہ کسی صحیح اور مستند حدیث میں وارد نہیں ہے۔ اگرچہ بعض حدیث کے مجموعوں میں ایک روایت اس طرح کی مذکور ہے، لیکن محدثین اور فنِ رجال کے ماہرین کے نزدیک یہ غیر صحیح ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
یُدْعَی النَّاسُ بِاُمَّھَاتِھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سِتْراً مِنَ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ،قیامت کے روز لوگوں کو اُن کی مائوں کے نسب سے پکارا جائے تاکہ اللہ کی جانب سے ان کی پردہ داری ہو۔
امام ابن جوزیؒ نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں اگرچہ بہت سی ان احادیث کو موضوعات سے خارج قرار دیا ہے جن پر ابن جوزیؒنے وضع کا حکم لگایا ہے، لیکن اس روایت کو تعقبات، باب البعث میں ابن عدیؒ کے حوالے سے منکر ہی لکھا ہے۔ منکر اُس ضعیف روایت کو کہا جاتا ہے جس کا راوی فحش غلطی، شدید غفلت یا فسق و فجور کا مرتکب ہو۔
والدین اور بالخصوص والدہ کے اکرام و احترام پر دلالت کرنے والی واضح نصوص جب کتاب و سنت میں موجود ہیں، تو اس کے بعد ایسی منکر یا موضوع روایت کا سہارا لینے کی کیا حاجت ہے، جس میں ماں کی افضلیت کا کوئی خاص پہلو نہیں نکلتا اور جو قرآن مجید (سورئہ احزاب) کی اُس آیت سے بھی مطابقت نہیں رکھتی جس میں لوگوں کو ان کے باپوں کے نسب سے پکارنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔
۲- یہ صحیح ہے کہ فقہا کی اکثریت اس امر کی قائل ہے کہ باپ اولاد کو قتل کردے، تو اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، لیکن یہ اس بنا پر نہیں کہ باپ بیٹے کا وارث یا ولیِ قصاص ہے اور وہ چاہے تو اپنے آپ کو معاف کردے۔ اپنے جرم پر اپنے آپ ہی کو قابلِ معافی قرار دینے کا تصور بالکل لغو ہے اور یہ بات بھی غلط ہے کہ ہرشخص جو مقتول کا وارث بن سکتا ہو، یا مطالبۂ قصاص کا قانونی حق رکھتا ہو، وہ اگر خود ہی قاتل ہو تو اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ باپ کو اولاد کے قتل کرنے پر قصاص سے صرف اس وجہ سے مستثنیٰ سمجھا گیا ہے کہ اُس کے حقوق اولاد پر بے حدوحساب ہیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک صحابی اور اُس کے بیٹے کی ناچاقی کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے بیٹے کو مخاطب کر کے فرمایا: اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ(البیھقی)، ’’تو اور تیرا مال و متاع سب تیرے والد کا ہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں اولاد کو والدین کی کمائی میں شمار کیا گیا ہے۔ اولاد کے بالمقابل، والدین کی اس غیرمعمولی مرتبت و منزلت کی بنا پر یہ استنباط کیا گیا ہے کہ والدین سے اولاد کا قصاص نہ لیا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ اگر والد اولاد کو ناحق قتل کرے تو عنداللہ بھی اُس سے بازپُرس نہ ہوگی۔
والدین کے ماسوا دوسرے اعزہ جنھیں وراثت یا قصاص کی ولایت اور مطالبے کا حق پہنچتا ہے، وہ اگر خود اپنے مورث کے قاتل ہوں تو وارث ہونے کے باوجود اُن سے قصاص لیا جاسکتا ہے اور اگر محض ورثہ حاصل کرنے کے لیے اُنھوں نے قتل کا ارتکاب کیا ہو تووہ ارشادِ نبویؐ کے مطابق محروم الارث بھی قرار پائیں گے۔
اسلامی شریعت کا یہ اصول بھی ہرگز نہیں ہے کہ جن جرائم کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اُن میں اگر مظلوم یا اس کا ولی معاف کردے تو ریاست ظالم یا مجرم سے مواخذہ نہیں کرسکتی۔ بہت سے جرائم جن کا تعلق انسان کی جان، مال یا آبرو سے ہے وہ حکومت کی دست اندازی کے قابل اور احتساب کے لائق ہیں اور وہ فریقین کے مابین قابل راضی نامہ بھی نہیں۔ مثال کے طور پر زنا، چوری یا ڈاکا، ایسے جرائم ہیں جن پر ریاست ہر حال میں گرفت کرے گی اور سزا دے گی ، کیونکہ انفرادی قتل تو بسااوقات ذاتی پُرخاش یا وقتی محرکات پر مبنی ہوسکتا ہے جس میں مقتول کے ورثا اگر دیت یا عفو و درگزر پر راضی ہوجائیں تو مزید انتقامی کارروائی ، خوںریزی اور فساد کا سدّباب ہوسکتا ہے، لیکن مذکورہ بالا اجتماعی جرائم کی نوعیت ایسی ہے جن میں نرمی یا چشم پوشی برتنے سے مزید شر اور فتنوں کے پھیلنے کا امکان قوی ہوجاتا ہے۔ قتل میں بھی اگرچہ مقتول کے اولیا، دیت لے لیں یا معاف کردیں تو قصاص کی سزا تو نافذ نہ ہوگی، لیکن بعض فقہا کا قول یہ ہے کہ اولیا کے راضی ہوجانے کے باوجود اگر اسلامی حکومت یہ سمجھے کہ فتنہ و فساد کے اسباب کا پوری طرح قلع قمع کرنے کے لیے قاتل کو کچھ تادیب و تعزیر ضروری ہے، تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔
۳- جو افعال خدا اور رسولؐ کے نزدیک ممنوع یا مذموم ہیں، اُن میں کسی کی اطاعت جائز نہیں، بقیہ اُمور میں والدین کی اطاعت جائز و مستحسن ، بلکہ اکثر حالات میں لازم ہے۔ جہاں تک باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینے کا سوال ہے، اس کا جواب بھی یہی ہے کہ بیٹا صرف اسی صورت میں طلاق دے، جب کہ والد کا حکم کسی مصلحت شرعی پر مبنی ہو، ورنہ ناحق طلاق خدا کی نگاہ میں بہرحال ناپسندیدہ اور مبغوض ہے۔
دراصل یہ مسئلہ آغاز میں اس طرح پیدا ہواتھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے سے کہا تھا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور اُنھوں نے تعمیلِ ارشاد کرتے ہوئے طلاق دے دی تھی، مگر ظاہر ہے کہ ہرباپ حضرت عمرؓ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمرؓ ایک جلیل القدر صحابیِ رسولؐ اور صاحب ِ اتقاء انسان تھے۔ اُن کی پاکیزہ زندگی اور بے مثال سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے اُن سے بجا طور پر یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ اُنھوں نے اس خواہش کا اظہار کسی معقول علّت اور دینی مصلحت ہی کے تحت کیا ہوگا جس کی وضاحت مناسب یا ضروری نہ ہوگی اور حضرت ابن عمرؓ نے اسی اعتماد کی بنا پر آپ کا کہا مان لیا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ نے وجہ بیان کر دی ہو مگر وہ آگے نقل ہونے سے رہ گئی ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک باپ جب چاہے، اپنے بیٹے سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرسکتا ہے اور بیٹے کے لیے اس کی تعمیل کیے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۶ئ)۔(جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص ۱۴۴-۱۴۸)
س: آج کل کاروبار اور تجارت میں پیشگی سودوں کا رواج عام ہے، یعنی بعض اجناس وغیرہ کا نرخ پہلے طے کرلیا جائے اور لین دین بعد میں ہوتا رہے۔ بعض علما اسے بیع سلم قرار دے کر جائز ٹھیراتے ہیں، لیکن بیع سلم کی تعریف عام طور پر معلوم نہیں ہے۔ براہِ کرم اس کی تعریف اور شرائط وغیرہ واضح طور پر تحریر کریں تاکہ خریدوفروخت کے معاملات میں جواز و عدم جواز کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور لاعلمی کی بنا پر کوئی غلط یا ممنوع کارروائی صادر نہ ہونے پائے۔
ج: شریعت میں بیع سلم سے مراد ایسی خریدوفروخت ہے جس میں قیمت تو نقد ادا کردی جائے گی، لیکن اُس کے عوض مال ایک متعین مدت کے بعد وصول کیا جائے۔ اس کے جائز اور صحیح ہونے کے لیے حدیث اور فقہ کی رُو سے جو شرائط لازم ہیں، اُن میں اہم ترین شرائط، جن پر قریب قریب اتفاق ہے، ذیل میں درج ہیں:
۱- مال اور اُس کی قیمت کا ٹھیک ٹھیک اور واضح تعین کیا جائے، اُس کا وزن، اُس کی نوعیت اور قسم وغیرہ کی ایسی تشریح کردی جائے کہ بعد میں اشتباہ یا اختلاف یا نزاع کی گنجایش نہ رہے۔
۲- مال ایسا ہونا چاہیے کہ اس نمونے یا اس قسم کا مال سودا کرتے وقت بازار میں بہ سہولت دستیاب ہو، یا عن قریب دستیاب ہوجانے کی توقع ہو۔
۳- جتنی مدت کے بعد مال وصول ہوگا، اُس مدت کا بھی ٹھیک تعین ہو۔
۴- قیمت بھی بالکل متعین اور مقرر ہو اور سودا کرتے وقت پیشگی ادا کردی جائے۔
۵- سودے میں مال کی واپسی اور بیع کی منسوخی کی شرط نہ ہو۔
۶- اگر مال کے نقل وحمل میں دقّت اور مصارف کا سامنا ہو، تو پھر اُس مقام کا بھی تعین ضروری ہے جہاں وہ مال مشتری کے سپرد کیا جائے گا۔(ایضاً، ص ۳۵۶-۳۵۷)
س: میرا بیٹا بیمہ پالیسی لینا چاہتا تھا۔ میں نے اسے منع کردیا۔ الحمدللہ اس نے پالیسی نہیں لی۔ بعدمیں اس نے بتایا کہ الفلاح بنک جو کہ مولانا تقی عثمانی نے بلاسود متعارف کرایا ہے، ان کی بیمہ پالیسی میں سود شامل نہیں ہے۔ کیا ان سے بیمہ پالیسی لی جاسکتی ہے؟
ج: آپ نے اپنے بیٹے کو بیمہ پالیسی لینے سے منع کیا اور بیٹے نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔ اس پر آپ دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس دینی جذبے کو آپ کے لیے دنیا اور آخرت میں رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنادے، آمین! مولانا تقی عثمانی صاحب محقق، عالمِ دین اور اسلامی معیشت کے ماہر ہیں۔ انھوں نے اگر کسی بنک کی پالیسی کو غیرسودی قرار دیا ہے تووہ درست ہے۔ اس بنک کی پالیسی لی جاسکتی ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
ہماری نگاہ میں کشمیر کے معاملے کی اصل اہمیت اور غیرمعمولی اہمیت کس وجہ سے ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے ایک وسیع علاقہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا اپنے ملک کی معیشت کے لیے کشمیر کو ناگزیرپاتے ہیں۔ یہ ایک قوم پرست اور وطن پرست کا نقطۂ نظر تو ہوسکتا ہے، مگر ایک حق پرست کا نقطۂ نظر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے لیے اس معاملے کی ساری اہمیت صرف اس وجہ سے ہے کہ کشمیر کے ۳۰،۳۵لاکھ مسلمانوں کا مستقبل ہم کو خطرے میں نظر آرہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جموں کے علاقے سے بکثرت مسلمان نکالے جاچکے ہیں؟ کس کو معلوم نہیں ہے کہ پٹھانکوٹ سے دلّی تک کا علاقہ مسلمانوں سے خالی ہوچکا ہے؟ کس سے یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ ہندستان نے قصداً ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اپنے اُن تمام علاقوں کو مسلمانوں سے خالی کرایا ہے جو مغربی پاکستان [موجودہ پاکستان] کی سرحد سے متصل واقع ہیں، اور اب اِسی پالیسی پر مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] کی طرف بھی عمل ہو رہا ہے؟
اس کو دیکھتے ہوئے کبھی یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ اگر کشمیر کی قسمت کا آخری فیصلہ ہندستان کے حق میں ہوگیا تو وہ زیادہ مدت تک اپنے انتہائی شمالی سرے پر ایک مسلم اکثریت کے علاقے کو برداشت کرتا رہے گا۔ کبھی نہ کبھی وہ وقت ضرور آئے گا جب کشمیر کی ساری مسلمان آبادی، مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی طرح گھروں سے نکالی جائے گی اور مارمار کر اس کوبیک بینی و دوگوش پاکستان کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ آج کشمیریوں کی جو مدارات ہندستان میں ہورہی ہے یہ ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے۔ یہ سب کچھ تو بس اسی وقت تک ہے جب تک کشمیر کا قضیہ معلّق ہے۔ اس کے یکسو ہوجانے کے بعد یہ ہرگز اُمید نہیں کی جاسکتی کہ ہندستان اس مسلم اکثریت کو پاکستان کے قریب یوں اطمینان سے بیٹھا رہنے دے گا۔ اس لیے اُن لاکھوں انسانوں کی خاطر جو کشمیر میں بستے ہیں، ان کی جان اور مال اور آبرو کی خاطر، اور ان کے پیدایشی انسانی حقوق کی خاطر ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انھیں ہندستان کے چنگل سے نکالا جائے، اور ہم صاف کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے ہم آخری حدود تک جانے کو تیار ہیں۔ (’مسئلۂ کشمیر‘، اجتماع کراچی کی افتتاحی تقریر، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۴، ربیع الثانی ۱۳۷۱ھ، جنوری ۱۹۵۲ئ،ص ۲۸-۲۹)