انتخابات کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ان سطور کی اشاعت تک حکومت سازی کا مرحلہ بھی صورت پذیر ہو چکا ہوگا۔ مستقبل کے لیے نیک تمنائیں اپنی جگہ لیکن پاکستان میں انتخابات کے نتائج ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں اَن گنت سوالات پیدا کر دیتے ہیں اور بعض اصولی مباحث بھی ازسر نو شروع ہوجاتے ہیں۔
سرفہرست بحث یہ ہوتی ہے کہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ ہیں یا نہیں؟ انتخابات جس طرح منعقد ہوتے ہیں، جس طریقے سے نتائج کا اعلان ہوتا ہے اور جس طرح ان میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں، کہیں ۲ لاکھ ووٹ بھی لمحوں کے اندر گن کر بتا دیے جاتے ہیں اور کہیں چند ہزار ووٹ بھی حتمی نتائج سے اپنے آپ کو ہم کنار نہیں کر پاتے، توبجا طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس انتخابی عمل کی کتنی اصلاح ممکن ہے ؟ اور سیاسی قیادت کو بروے کار لانے کا یہ طریقہ کہاں تک تبدیلی یا انقلاب کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ؟ اس مرتبہ بالخصوص الیکشن کمیشن کے غیر جانب دار ہونے اور انتخابات کو منصفانہ کرانے کی اپنے تئیں تمام تر کوششوں کے باوجود جس نوعیت کے انتخابات ہوئے ہیں، اور عوام کی توقعات کا جس طرح خون ہوا ہے انھوں نے ان تمام سوالات کو مزید تقویت فراہم کردی ہے۔
انتخابات پرتقریباً ہر جماعت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ شکایات کا ایک پلندا بار بار الیکشن کمیشن کا نام لے کر دکھایا اور سنایا جارہا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نہ صرف اس دل خراش داستان سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ دستاویزی ثبوتوں کا بھی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اسکرین اور صفحۂ قرطاس کی زینت بن گیا ہے اور شکوک و شبہات کے نقوش گہرے کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، لاہور ہو یا کراچی یا دوسرے چھوٹے بڑے شہر، ہرجگہ دھرنے دیے جارہے ہیں اور جماعت اسلامی تو ناقد اورستم زدہ تھی ہی، دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ (ن )، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت سب نے اس احتجاج میں جزوی یا کلی طور پر شرکت کی ہے۔
انتخابات میں الیکشن کمیشن اندھے بہرے کی حیثیت سے کام کرتا ہوا نظر آیا ہے۔ جن معاملات میں اسے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تھا بشمول آرٹیکل ۶۲، ۶۳ پر عمل درآمد، امیدواروں کی سکروٹنی، کراچی میں فوج کی معاونت سے ووٹر لسٹ کی تصدیق،نئی حد بندیوں، پولنگ اسٹیشنوں میں فوج کی تعیناتی ، ری پولنگ اور ری الیکشن کے حوالے سے جن مطالبات ودلائل پر توجہ دینی چاہیے تھی، وہ اس کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ فخر الدین جی ابراہیم اور ان کی ٹیم سے توقع تھی کہ وہ نئی روایت قائم کرے گی اور منصفانہ ، غیرجانب دارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے گی، لیکن اس ضمن میں قوم کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن کا عمل شروع ہوا تو آرٹیکل ۶۲، ۶۳ کے نفاذ اور اُمیدواروں کی سکروٹنی کے عمل کو مذاق بنا دیا گیا۔ قومی دولت لوٹنے ، قرضے ہڑپ کرنے ، ٹیکس ادا نہ کرنے ، کرپشن میں ملوث اور جعلی ڈگری والے انتخابی عمل سے باہر نہ کیے جا سکے۔ حد یہ ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے جن جعلی ڈگری والوں کو جیل بھجوایا انھیں بھی آزاد کرکے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر سرمایے کے غیر معمولی استعمال کے ذریعے میڈیا میں اشتہاری مہمات سے الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کرلیں اور امیدواروں کی انتخابی مہم میں پیسے کے بے د ریغ استعمال سے بھی نظریں پھیر لی گئیں، اور یوں قرضہ خور، ٹیکس چور، کرپشن میں لتھڑے ہوئے جعلی ڈگریوں والے اپنی دولت و ثروت کے بل بوتے پر عوام کی امنگوں کا خون کرتے اور الیکشن کمیشن اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا مذاق اڑاتے نظر آئے ۔
پھرالیکشن کے دن جس طرح ووٹ کا تقدس پامال کیا گیا، اس نے الیکشن کمیشن کی اہلیت اور انتظامات پربے شمار سوالیہ نشانات لگا دیے۔ اسی لیے فخرالدین جی ابراہیم پر اعتماد کا اظہار کرنے والے بھی چیخ اٹھے کہ کیا ان کی موجودگی میں یہی الیکشن ہونے تھے؟ اور کیا ایسے ہی الیکشن کا ہمیں انتظار تھا؟ یہ الیکشن کہ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ صاف ستھرے اور شفاف ہوں گے، انتخابی عمل میں یہ تمام اصطلاحیں بے معنی ہو کر رہ گئیں ۔ الیکشن نتائج کے حوالے سے جو واقعات سامنے آئے ہیں،ان کو دہرانے کا فائدہ تو نہیں ہے لیکن یہ الیکشن فی الحقیقت اس قابل نہیں ہیں کہ انھیں پوری طرح اور ہراعتبار سے قابلِ قبول قرار دیا جاسکے، نتائج کے حوالے سے تحفظات میں لازماً مزید اضافہ ہوگا۔ انتخابات کو جھرلو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، انجینئرڈ الیکشن کہا جاتا ہے، ان سب اصطلاحوں کا اطلاق اس الیکشن پر ہوتا ہے۔ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ جیت گئی، عوام ہار گئے، اور اس قدر سلیقے سے سارا کام ہوا کہ کم کم اس کا احساس ہے کہ عوام سے ـ’فتح‘ چھن گئی ہے۔
الیکشن سے قبل ایم کیو ایم کے علاوہ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پرمطالبہ کیا تھا کہ کراچی میں ووٹرلسٹوں کی فوج کی موجودگی میں ا ز سرنو تصدیق ہونی چاہیے ۔سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ دیا لیکن الیکشن کمیشن نے اس فیصلے پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں کیا ۔ محض ہاتھی کے دانت دکھانے کے لیے کمیشن نے کچھ کاسمیٹک اور نمایشی قسم کی چیزیں ضرور کیں لیکن فیصلے پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔نہ فوج کی موجودگی میں ووٹرز کی تصدیق ہوسکی اور نہ حدبندیوں کا معرکہ از سر نو انجام دیا جاسکا۔ محض ڈیکوریشن کے لیے دو چارحد بندیا ںکی گئیں جو نہ قابلِ ذکر تھیں اور نہ قابل فہم ۔ اہل کراچی و حیدر آبادیہ مطالبہ بھی زور شور سے اٹھاتے رہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر فوج ہونی چاہیے اور اس کے پاس اختیارات ہونے چاہییں تاکہ حسب ضرورت وہ کوئی کارروائی کرسکے۔ اس مطالبے کی حمایت میں جو دلائل دیے جاسکتے تھے اورجو تبادلۂ خیال اور گفتگو الیکشن کمیشن سے کی جاسکتی تھی وہ سب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا اور الیکشن کمیشن نے کوئی ایک مطالبہ بھی نہ مانا۔ اس لیے اہل کراچی کو تمام کوششوں اور کاوشوں اوریہ دیکھنے کے باوجود کہ ایم کیو ایم جیسی تنظیم وہاں دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہے، یہ خدشہ رہا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوسکیں گے اور یہی ہوا۔
بالکل اسی طریقے سے ملک کے دوسرے حصوں بالخصوص فاٹا میں جس طرح پولنگ ختم ہوتے ہی سارے ڈبے ایجنسیوںکے لوگ اٹھا کر لے گئے اور اپنے طور پر گنتی کرکے جگہ جگہ نتائج کا اعلان کیا،اسی طرح بلوچستان میں بھی انتخابی نتائج کی اپنی اپنی مرضی کے مطابق صورت گری کی گئی ، اس نے بھی صاف ستھرے اور شفاف الیکشن کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اس کے اندر سے شفافیت کی روح ہی نکال لی ۔ ایک لاکھ ۸۰ ہزار اور ۲لاکھ ووٹ جس طرح لمحوں کے اندر گن کر نتیجہ بیان کر دیا گیا، اور چند ہزار کا رزلٹ کئی دن بعد سامنے آیا، اس نے بھی سوالات کو جنم دیا اور طبیعتوں کے اندر ایک تکدر اور ردعمل کی کیفیت پیدا کی جس کی وجہ سے اب پہلے تو پورے ملک میں اور اب بھی کئی جگہ دھرنے ہو رہے ہیں۔
انتخابی عمل کو پراگندا کرنے اور پراگندا کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا بازار یوں تو پورے ملک میں گرم تھا مگر کراچی کا مسئلہ سب سے الگ اور ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شہر میں (اور حیدر آباد میں بھی ) اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ تھا۔ پولنگ اسٹیشنوںپر قبضہ کر لیا گیا، پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیااور ایم کیو ایم کے لوگ اپنی مرضی سے کارروائی کرتے رہے، ٹھپے لگاتے رہے۔یہ وہ حالات تھے جن میں ایک فوری رد عمل رونما ہوا جس کا کم از کم یہ اثر ضرو ر ہوا ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں اور دنیا بھرمیں اور کراچی میں بھی ان انتخابی دھاندلیوں اور الیکشن کو ہائی جیک کرنے کے گھناؤنے کھیل کا چرچا ہوا اور کراچی کے مسئلے کو الگ کرکے حل کرنے کی ضرورت کا احساس ہر سطح پر رونما ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں انتخابات منعقد ہی نہیں ہوئے اور اس پر ایک خاص گروہ کو حسب سابق مسلط کر دیا گیا۔ تاہم یہ بات اب طے شدہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی جماعت اور اس کی ضرورت ہے۔ اس کے خیال میںکچھ سیٹیں اس کی جیب میں ایسی پڑی رہنی چاہییں جس کے نتیجے میں کسی بھی حکومت کو گرانے اور بنانے میں اس کا رول موجود رہے اوروہ اپنی مرضی کی پالیسیوں کو پاپولر ، خوش نما اور ہردل عزیز ہونے کے طور پر بیان کرسکے۔
خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے تو مخلوط حکومتیں بہت کم نتائج دکھانے کی صلاحیت کامظاہرہ کر پاتی ہیں اور بہت سے خطوط جن کا اظہار کرکے ان پر چلنے کی بات کرتی ہیں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان پر چل سکیں۔ مخلوط حکومت کے صبح شام اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ گذشتہ حکومت میں اتحادیوں کا بلیک میلنگ اور دبائو کی سیاست پر مبنی کردار ہمارے سامنے ہے، البتہ خیبر پختونخوا میں جو جماعتیں مل کر حکومت بنانے جا رہی ہیں، ان کے حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان کا تاثر بدعنوان اور کرپٹ پارٹی کا نہیں ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن کرپشن بہت زیادہ ہے۔بے پناہ اوربے تحاشا کرپشن اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کرکے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بنانے اور اسے بیرون ملک میں جمع کروانے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔
اس اعتبار سے صوبے میں کرپشن فری حکومت عوام کے بہت سے دکھوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔ ہماری تمنا اور دعا یہی ہے کہ یہ حکومت تسلسل کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرے اور ایک اچھے ٹیم ورک کے ساتھ صوبے کے عوام کی خدمت کرے ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحا لی کا ہے۔ ڈرون حملوں ،ملٹری آپریشن اور خودکش حملوں، نیز گم شدہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے صورت حال خاصی ابتر ہے اور یہ مسئلہ مرکزی ہے، صوبائی نہیں ۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں وفاقی حکومت کیا پالیسی اختیار کرتی ہے؟ خارجہ پالیسی کو کس طرح سے دوبارہ ترتیب دیتی ہے؟ اس کی ترجیحات کا کس طرح از سر نو تعین کیا جاتا ہے؟ اس کا صوبے کی صورت حال پر اثر پڑے گا۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے باہمی تعاون سے ہی بہتری کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے اور کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں ترقی وخوش حالی اسی وقت ممکن ہے جب سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جائے اور سرمایہ کاری کے عمل کو تیز رفتاری سے بڑھایا جائے تاکہ ملکی پیداوار اور بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردی کا سد باب ہواور معاشرہ پُر امن راستے پر چل سکے۔
حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی لہر نے خیبر پختونخوا میںاپنا زیادہ اثر دکھایا اور ہم وہاں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔پنجاب میں ایک نہیں دو لہروں سے مقا بلہ تھا اور نتائج کے اعتبار سے وہاں مسلم لیگ (ن ) کا پلہ بھاری رہا۔ لیکن یہاں بھی ہمیں یہ نقصان ہوا کہ لوگوں کی جوبڑی تعداد آزمائے ہوئے لوگوں کی طرف نہیں جانا چاہتی تھی ، اس نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔ پیپلز پارٹی کے الیکشن ہارنے کابجا طور پر شور ہے اور اس کی مرکزی اسمبلی اور سندھ کے سوا صوبائی اسمبلیوں میں تعداد نمایاں طور پر کم ہوئی ہے، البتہ یہ کہنا درست نہیں کہ وہ میدان سے بالکل باہر کر دی گئی ہے ۔ قومی سطح پر بھی اس کی پوزیشن دوسری ہے اور صوبہ سندھ میں اس کو اکثریت حاصل ہے خواہ وہ کسی طرح بھی حاصل کی گئی ہو۔اس صوبے کی حد تک وہ کسی کو شامل کیے بغیر حکومت بنا سکتی ہے۔گو، نظر یہی آرہا ہے کہ ایم کیو ایم اپنی تمام بدنامیوں کے باوجود اس کی شریکِ اقتدار ہوگی۔ پیپلز پارٹی نے بدترین پانچ سالہ دور حکومت کے باوجود اتنا نہیں کھویا جتنا لوگ تصور کر رہے تھے اورتجزیہ نگار بتا رہے تھے ۔ گو، ان کی مرکزی مہم کمزور تھی، لیکن اشتہارات کے ذریعے اس نے ماضی قریب و بعید کی مہمات اور پوزیشن کو کیش کروایا۔ بالکل یہی معاملہ اس سے پہلے مسلم لیگ ق کے ساتھ ہوچکا ہے۔
۲۰۰۸ء میں یہ شور بہت مچا کہ مسلم لیگ ق الیکشن جیت ہی نہیں سکتی لیکن اس نے جو سیٹیں لی تھیں،وہ بعد میں حکومت بچانے کے کام آئیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جبراورظلم کی حکومت ہو یا آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والی حکومت، لوگ ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیںاور مسائل میں اضافہ کرنے اور امریکا کی غلامی کرنے والی پارٹی کی جھولی میں بھی کچھ نہ کچھ سیٹیں ضرور ڈال دیتے ہیں۔ یہ پہلے ق لیگ کے ساتھ ہوا اور اب پیپلز پارٹی کے ساتھ۔ جتنا غم و غصہ پریس اور میڈیا یا عوام کی سطح پر نظر آتا دکھائی دیتا تھا،اس کا صحیح معنوں میں کوئی ردعمل یا عکس انتخابی نتائج میں سے دکھائی نہیں دیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا سے مرکزی اسمبلی میں تین اور صوبائی اسمبلی میں سات، پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کرنے (خواتین کی دو نشستیں بھی متوقع ہیں)کے با وجود یہ احساس بجا طور پر پایا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی اس کامیابی سے دُور نظر آتی ہے جو ہمارے پیش نظر تھی اورجو نظم جماعت، امیدواران اور کارکنان کی آرا اور تجزیے کے نتیجے میں محسوس ہوتی تھی۔ بہت چھوٹے دائرے میں کامیابی ہوئی۔ کارکن اگرچہ اس لحاظ سے مطمئن ہوتا ہے کہ ہماری جدوجہد دین کے غلبے کی جدوجہد ہے اور ہمارے ذمے اپنے حصے کا کام کرنا ہے لیکن یہ بات پھر بھی درست ہے کہ ہم الیکشن کو تبدیلی کا ایک ذریعہ سمجھتے رہے اور سمجھتے ہیں، اس لیے یہ کارکردگی اور نتائج کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ جن پر سنجیدہ غور و فکر اور ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی ، معاشی، تہذیبی اور آبادی کے لحاظ سے منظرنامے کو سامنے رکھ کر مؤثر حکمت عملی اور نقشۂ کار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا ضرورت کے سلسلے میں کچھ اُمور کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چند حقائق کو ذہن میں تازہ کر لیں تا کہ ہمارا اصل مقصد اور ہدف سامنے رہے۔
بنیادی بات جس کی تذکیر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان محض ایک ’سیاسی‘،’مذہبی‘ یا ’اصلاحی‘ جماعت نہیں ہے بلکہ وسیع معنوں میں ایک نظریاتی تحریک ہے جو پوری انسانی زندگی کی اسلام کے جامع اور ہمہ جہتی نظریۂ حیات کی روشنی میں تعمیر نو کرنا چاہتی ہے تاکہ انسانی زندگی، اللہ کی بندگی میں گزاری جا سکے اور انسانوں کے درمیان عدل و احسان کی بنیاد پر یہ تمام معاملات مرتب اور منظم ہو سکیں۔ اس کے لیے جماعت اسلامی تمام ممکن تدابیر سے کام لے رہی ہے، جیسے اسلام کے علم کو پھیلانا، قدیم اور جدید جاہلیتوں کی پیدا کردہ گمراہیوں کو دور کرنا، سوچنے سمجھنے والے طبقوں کو علمی حیثیت سے یہ بتانا کہ اسلام ہمارے تمام مسائل کو کس طرح حل کرتا ہے۔ جماعت کا کام صرف یہ دعوتی خدمت ہی نہیں بلکہ اس نے ان تمام امور کی اصلاح اور مسائل کے حل کے لیے زندگی کے ہر گوشے میں سر گرم جد و جہد برپا کی ہے۔ اقامت دین ہمارا اصل ہدف اور منزل ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اصلاح کے لیے ہمہ گیر کوشش اس کا ذریعہ ہے۔ سیاست کی اصلاح، اچھی ’قیادت‘ کے بروے کار لانے کی سعی اور نظام حکمرانی کو اسلام کے اخلاقی، سماجی،فلاحی اور اصلاحی مقاصد کے لیے مؤثر طور پر استعمال کرنے کے لیے حالات سازگار کرنا اس کا ہدف ہے۔ پھر جس حد تک اختیارات حاصل ہوں انھیں استعمال کر کے تبدیلی لانا اس جد و جہد کااہم حصہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی نگاہ میں یہ جد و جہد بھی عبادت کا ایک حصہ ہے اور اس سے حاصل ہونے والی قوت کو استعمال کرنے کی سعی بھی جوانتخابی عمل میں ہماری شرکت کا سبب ہے، اس ہمہ گیر جد و جہد کا ایک ضروری حصہ ہے۔
جماعت اسلامی کی جد جہد کے اس اہم ترین پہلو کو جماعت کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے چند الفاظ میں یوں ادا کیا تھا کہ:
جماعت جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے وہ ایک اور صرف ایک ہے، اور وہ ہے اللہ کے دین کو عملاً پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کیا جائے، اس کے سوا اس جماعت کا کوئی مقصد نہیںہے۔ سیاسی کام بھی اگر ہم کرتے ہیں تو سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے ، محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق کے قیام میں مانع ہورہی ہیں۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تبدیلی کے جس راستے کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ ہمہ جہتی ہے اور اس کی ہر جہت دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہے۔ یہ راستہ ایمان کے احیا، فکر و ذہن کی تبدیلی، اخلاق و کردار کی تعمیر، اصلاحِ معاشرہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، انسانوں کی خدمت ، اور ان کو منظم جدو جہد کے لیے اجتماعی تبدیلی کے لیے سر گرم کرنے کا راستہ ہے۔ راے عامہ کی تعمیر اور سیاسی اور دیر پا تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کا مستقل طریقہ کار اس کے دستور میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے:
۱-وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسول کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہو گی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جد وجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
اس طریق کار کی روشنی میں اور پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر جماعت اسلامی نے جمہوری عمل میں ہر سطح پر مؤثر شرکت اور انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی اور سیاسی نظام کی نئی صورت گری کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس جد و جہد کی نوعیت اور حکمت کو یوں واضح کیا ہے:
یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ہم اس وقت، جس مقام پرکھڑے ہیں، اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں ، اس کو واضح طور پر سامنے رکھنا ہو گا، تا کہ ہمارا ہر قدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں یا نہ کریں، نقطۂ آغاز تو لا محالہ یہی انتخابات ہوں گے، چوں کہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظام حکومت تبدیل ہو سکتاہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے ، جس سے ہم پُر امن طریقے سے نظام حکومت بدل سکیں اورحکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس ، دھوکے، دھاندلی، علاقائی یا مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہو سکیں، انتخابات دیانت دارانہ ہوں۔
لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کر نے کا موقع دیا جائے ۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول ، مقاصد اور پروگرام پیش کریں اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہو سکتاہے کہ پہلے انتخابات میں ہم عوام کے طرزِ فکر اور معیار انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں، لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظام حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظام انتخاب پر نظر ثانی کر سکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخاب کو از سر نو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہر حال آپ یک لخت جست لگاکر اپنے انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
اس سلسلے میں مولانا محترم نے اپنے تمام کارکنوں کو صاف الفاظ میں یہ ہدایت بھی دی کہ ان کو نہ صرف صبر اور محنت سے جد وجہد جاری رکھنی ہے بلکہ اس کے جو آداب اسلام نے مقرر کیے ہیں ان کے پورے اہتمام کے ساتھ یہ جد و جہد کرنی ہے، اور وقتی نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے اصل مقصد کے حصول کے لیے ایمان اور احتساب کے ساتھ سر گرم عمل رہنا ہے:
اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ یہاں اسلامی نظام زندگی برپا ہو تو پہلے اس خیال کو ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ اصل کام بہر حال انتخاب جیتنا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے، بلکہ خوب سوچ سمجھ کر یہ طے کر لینا چاہیے کہ انتخاب صحیح طریقے سے جیتنا ہے خواہ اس کی کوشش کرتے ہوئے آپ ایک دو چار نہیں دس انتخاب ہارتے چلے جائیں۔ صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے انتخاب جیتنے کے لیے ہمیں عوام میں مسلسل کام کرکے اپنی قوم کی ذہنی سطح کو بلند کرنا پڑے گا۔ اس کے اخلاق کو بلند کرنا پڑے گا، تاکہ وہ اسلامی نظام کو سمجھنے کے قابل ہو سکے۔ اس کی راے کو تیار کرنا ہوگا کہ وہ بھلے اور برے میں تمیز کر کے غلط قسم کی اپیلوں کو رد کر دے۔ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ پروگرام قبول کر ے جو اسلامی اصول کے مطابق بھی ہو اور معقول و معتدل اور قابلِ عمل بھی۔ نیز ان لوگوں کو اپنے معاملات کی سر براہی کے لیے منتخب کرے جو اپنی اہلیت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں۔
تبدیلی کے صحیح اور غلط طریقوں کی نشان دہی کرتے ہوئے مولانا محترم نے اس تحریک اور اس قوم کو یہاں تک متنبہ کر دیا تھا کہ:
خدا کی قسم، اور میں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں، کہ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے ، وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی دہشت پسنددانہ تحریک کے ذریعے سے یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب پربا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہور ی ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ [ہماری یہ راے] ۔۔۔۔قطعاً کسی سے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعا ً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں اور ہمارے اوپر یہ الزام نہ لگنے پائے ۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوںسے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ ، یا کسی قسم کی سازش کے یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ذریعے اور جھوٹ اور اس طرح کی کسی اور مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں ، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے یہ اس طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔
جماعت اسلامی کے مقصد ، اس کی پالیسی اور اس کے طریق کار کے ان بنیادی نکات کی روشنی میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تحریک اسلامی کے بے لوث کارکنوں کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی تمام بشری کمزوریوں کے با وجود جماعت اسلامی اور اس کے کار کنوں نے حالیہ انتخابا ت میں اپنے بنیادی اصولوں اور اہداف کی روشنی میں پورے اطمینانِ قلب، ذہنی یکسوئی اور عملی انہماک کے ساتھ شرکت کی۔ اس نے قوم کے سامنے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک واضح پروگرام پیش کیا۔ اس کا منشور ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس میں پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصلاح کار کے واضح خطوط کار پیش کیے گئے ہیں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدینہ کے ماڈل کا جو نقشہ جماعت اسلامی کے منشور میں پیش کیا گیا ہے اس کی آواز ِبازگشت دوسری جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھی سنی جا سکتی تھی۔
مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں تین امور بالکل واضح ہیں:
اولاً: جماعت اسلامی محض ایک انتخابی جماعت نہیں وہ اقامت ِدین کے مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک ہے جس نے دین کا ایک واضح تصور ، امت اور انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے اور الحمد للہ اس فکر اور اس نقطۂ نظر کے اثرات ملک اور خطے میں ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمار ا اصل ہدف اقامت دین ہے اور سیاسی جد و جہد اس کا ایک حصہ ہے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔
دوم: جماعت اسلامی نے انسانی زندگی میں تبدیلی کے لیے جو طریق کار اختیار کیا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی ، قلب کی کیفیات، ذہن کے ادراک، فکر کی تشکیل، کردار کی تعمیر، اداروں کی اصلاح اور معیشت ، معاشرت، ثقافت، قانون اور حکمرانی کے نظام اور آداب کار سب ہی کی نئی صورت گر ی پر محیط ہے۔ یہ طریق کار منہج نبوی ؐ پر مبنی ہے اور ہر دور میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے یہی طریق کار مؤ ثر اور کامیاب ہو سکتا ہے۔
سوم: مقصد اور طریق کار کی روشنی میں جو بھی نظام کار ترتیب دیا جائے اور وقتی مصالح، حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں جو بھی پالیسیاں ترتیب دی جائیں،نیز مقصد کے حصول کے لیے جو بھی انتظامات اور اقدام کیے جائیں وہ اجتہادی نوعیت کے امور ہیں اور ان پر حالات اور تجربات کی روشنی میں سوچ بچار اور ترک و اختیار کا سلسلہ اصولوں سے وفاداری اور بدلتے ہوئے حالات کے اِدراک کے ساتھ دلیل اور مشاورت سے ہوتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے اور قرآن کے الفاظ میں اس حکمت کا حصہ ہے جس کی تعلیم نبوت کا ایک اہم وظیفہ تھی۔
جماعت اسلامی نے ملک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں جو طریق کار اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ اس کے نصب العین کا فطری تقاضا ہے، البتہ ملک میں رائج انتخابی نظام میں کن اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے اورپھر انتخابات میں شرکت کی صورت میں سیاسی ایجنڈے کی تشکیل، انتخابی مہم کے طور طریقے، اسلوب اور آداب وغیر ہ میں کیا روش اختیار کی جانی چاہیے اور اس میں کب کس نوعیت کی اور کس حد تک تبدیلیوں کی ضرورت ہے___ یہ وہ اُمور ہیں جن میں تجربات کی روشنی میں مشاورت کے ساتھ غور و فکر ہوتا رہنا چاہیے۔ عملی میدان میں کامیابی کے لیے اس عمل کو سنجیدگی سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
۲۰۱۳ء کے انتخابات کے باب میں ایک بڑا اہم سوال انتخابی نظام ، الیکشن کمیشن کے کردار اور اس پورے عمل میں مختلف عناصر اور قوتوں کے کردار کا ہے۔ اس سلسلے میں جن مشکلات اور چیلنجوں کا سابقہ رہا ہے، ان میں سے کچھ کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ اس نظام میں مطلوبہ تبدیلی کی کوششیں پوری دیانت داری اور معاملہ فہمی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ بنیں اور عوام اس نظام سے مایوس نہ ہو جائیں۔جماعت اسلامی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گی اور تمام سیاسی جماعتوں اورملک کے سوچنے سمجھنے والے افراد اور اداروں کو اس عمل میں بھر پور شرکت کی دعوت دیتی ہے، اس لیے کہ اگر انتخابی نظام کی اصلاح نہ کی گئی اوراسے ان غلطیوں اور خامیوں سے پاک نہ کیا گیا جو کھل کر سامنے آ گئی ہیں تو انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا جو ہر اعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔
دوسرا پہلو جماعت کی اپنی انتخابی مہم ، اس کی پالیسیوں، اہداف اور مقاصد کی کماحقہٗ وضاحت، اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کی خدمات، اور اس سلسلے میں رونما ہونے والے مثبت اور منفی پہلووں کا ہے۔ نیز یہ سوال بھی بہت سے ذہنوں میںموجود ہے کہ کیا تنظیمی یا سیاسی حکمت عملی کے میدانوں میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے یا یہ کہ کیا رائج الوقت اداراتی اور انتظامی ڈھانچے ہی کے بہتر اور مؤثر استعمال سے ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کیا جا سکتا ہے جن کا تجربہ ہوا ہے؟ یہ سب وہ سوال ہیں جن پر ہمیں پوری دیانت داری سے غور کرنا چاہیے۔ اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر مشاورت اور اندرونی حلقوں اور بیرونی مخلصین کے ساتھ تبادلۂ خیال کے ذریعے آیندہ کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے اسلام کی روشنی میں قوم کے سامنے ایک واضح راہ عمل پیش کی ، اس نے انتخابات میں جو نمایندے قوم کے سامنے پیش کیے وہ اپنی سیرت و کردار، اپنی صلاحیت کار، اور عوامی خدمت کے اعتبار سے بہت نمایاں تھے اور ان پر کسی حلقے سے بھی کسی قسم کی بد عنوانی یا بے قاعدگی کے باب میں انگشت نمائی نہیں کی جا سکی۔ نیز ہمارے کارکنوں نے جس جذبے، اَ ن تھک محنت اور قربانی اور ایثار سے یہ جد وجہد کی وہ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ ان سب پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ان تمام اُمور پر قلبی اطمینان کے علی الرغم یہ سوال اہم ہے کہ نتائج ہماری توقعات کے مطابق کیوں نہ ہوئے؟
اس امر کے اعتراف میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرے کے بڑے حصے تک ہم اپنی دعوت پہنچا ہی نہیں سکے ہیں۔ اپنے پیغام سے ان کو آگہی دے ہی نہیں سکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا پیغام قرآن و سنت کی تعلیم کے علاوہ کسی اور شے کا نام نہیں ہے۔ مختلف علاقوں میں بسنے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ مختلف سماجی تجربوں سے گزر کر قرآن و سنت سے کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ضرور پیدا کر لیتے ہیں مگر دعوت کو مقامی سانچوں کے اندر ڈھال کر پیش کرنے اور اسے پوری بلند آہنگی اور اپنی وسعتوں اور ہمہ جہت مقام کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لیے شب و روز محنت کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ’دیوانگی‘ اور ’جنون‘ کی کیفیتوںکا تعلق ہے، ہم کہاں تک وہ کیفیات اپنے تمام کارکنوں، معاونین اور ہمدردوں میں کم سے کم مطلوبہ حد تک بھی پیدا کر سکے ہیں؟ بلاشبہہ ہر دور کے اندر کچھ نام، کچھ مثالیں اور کچھ نمونے ضرور دیکھنے میں اور سننے کو ملتے ہیں اور کچھ لوگوں کے رویے واقعی متاثر کن ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی پوری جماعت نے رابطہ عوام کے نتیجے میں عوام کو اپنی دعوت اور پیغام کے ساتھ کہاں تک مکمل طور پرآگاہ اور ہم آہنگ کر لیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
الیکشن گھر گھر جا کر دستک دینے ، لوگوں کے دکھوں کو بانٹنے اور ان کے مسائل سے آگہی حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس میں ہم کتنے کامیاب ہوئے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ انتخابات کے موقعے پر جو جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ،اس کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کے نتیجے میں اس کے کئی رخ سامنے آسکتے ہیں۔بے چین، بے کل اور بپھرے ہوئے لاکھوں لوگ سڑکوں پر اژدہام کرکے انقلاب کی منزل کو قریب کرسکتے ہیں ، لوگوں کو یقین سے سرشار کر کے انھیں بڑی قربانی کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں۔ دعوت کے ابلاغ اور لوگوں کو ہم نوا بنانے کے حوالے سے آیندہ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ دعوت کو کیسے فروغ دیا جائے؟ اور جو رویے ہم اپناتے رہے ہیں ان کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اب تک دعوت کو تحریری اور تقریری طریقوں سے پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اس میں جدت کیسے پیدا ہو؟ اس پر بھی سوچنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں انتخابات جیتنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں ، جس طرح لائق انتخاب افراد (electables)کو مرکزی کردار دیا جاتا ہے، مقامی سطح پر انتخابی مہم کس طرح چلائی جاتی ہے اور ملکی سطح پر کس طرح لہریں اٹھائی جاتی ہیں، یہ سب امور بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سے کون سا طریقہ کس حد تک جائز اور قابل قبول ہے اور کن حدود کا اہتمام ضروری ہے کہ ان کی پامالی سے ساری جدوجہد کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے لیکن ان کے بغیر اگر یہ بازی سر نہیں کی جاسکتی تو پھر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ بھی بڑا قابلِ غور مسئلہ ہے۔
اسی طرح انتخابات کے حوالے سے بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ لوگ پیسا خرچ کرتے ہیں اور ایک حد تک اس بات کو درست مانا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس اتنا پیسا نہیں ہے جتنا دیگر لوگوں کے پاس ہے لیکن ہمارے پاس اس کا متبادل موجود ہے۔ ہمارا کارکن مفت کام کرتا ہے،پوسٹر اور جھنڈے لگاتا ہے، بلکہ مہمات میںاپنی جیب سے خرچ کرتا ہے۔ دوسری پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے۔ان کا تو ٹکٹ بھی لاکھوں روپے دینے کے بعد ملتا ہے۔ اگر شخصیتوں کو بنایا اور کھڑا کیا جائے اور ان کے حوالے سے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے تو ہماری معاشرتی روایت کے مطابق لوگ اس شخصیت کی طرف دیکھتے اوراس کی بات سنتے ہیں، اس طرح بعض رکاوٹوں کو بآسانی عبور کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کہاں احتیاط ضروری ہے اور کہاں نئے تجربات کی ضرورت ہے؟ یہ بھی غور طلب ہے۔
اس پس منظر میں کچھ اور بھی بنیادی سوالات ذہنوں میں کروٹیں لے رہے ہیں۔ خصوصیت سے ترکی، عرب دنیا، ملائیشیا اور دوسرے مسلم ممالک میں اسلامی قوتوں نے جو تجربات کیے ہیں، ان کو بھی غور سے دیکھنے اور ان کے تجربات کی روشنی میں سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن اپنے حالات کے مطابق نئی راہوں کی تلاش نہ صرف یہ کہ شجر ممنوعہ نہیںبلکہ وقت کی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ بلاشبہہ یہ راہ مسائل اور مشکلات سے عاری نہیں اور اپنی پیچیدگیاں بھی رکھتی ہے اور امکانات بھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انمل بے جوڑ پیوندکاری سے اجتناب کیا جائے اور اپنے حالات کے مطابق ایک سوچے سمجھے عمل کے ذریعے تسلسل کو مجرح کیے بغیر تبدیلی اور نئے تجربات کے امکانات کا جائزہ لیا جائے اور مفید اور قابلِ عمل اقدامات سے گریز نہ کیا جائے۔
انتخابات کا مرحلہ گزر جانے کے بعد کارکنان کو از سر نو کمربستہ ہونا چاہیے۔ معاشرے کی قدروں اور ترجیحات، دکھوں اور مسائل اور حالات کو بتدریج ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے کہ بندوں کا کام بندگی کرنا ہے اور بندوں کے رب کا کام ربوبیت اور خدائی کرنا ہے ۔ بندے اگر بندگی کا کام پورا کر لیں تو ان کا رب بھی اپنی مشیت کے تحت نئے فیصلے نازل کرتا ہے اور تبدیلیوں کا ایک نیا عنوان دُور تک پھیلاتا ہے ۔ اس پس منظر میں کارکنوں کو تازہ دم اور متحرک رہنا چاہیے اور اپنے اطراف کے معاملات میں دل چسپی لے کر منزل کے حصول کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے۔
تحریک اسلامی ایک جد و جہد اور کش مکش کا نام ہے۔ یہ جد وجہد اور کش مکش ہرزمانے میں جاری رہی ہے، آج بھی جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہے گی۔ فی الحقیقت یہ انبیا وصلحا کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنے پائوں غبار آلود کرنے والے در اصل انبیا ؑکے راستے کے راہ رو ہیں۔ یہ راستہ بہر حال پھولوں کی سیج نہیں لیکن جو اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلنے کا عزم کرتا ہے، اللہ کی مدد و نصرت اور تائید اس کے ہم رکاب ہو جاتی ہے، اس کا دست و بازو ہو جاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک اسلامی کا کارکن اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دُور کرے۔ جذبۂ صادق اور عزمِ صمیم کے ساتھ منزل کے حصول کے لیے جد و جہد کرے اور آگے بڑھے ۔ جتنے جذبے خالص ہوتے جائیں گے، منزل قریب آتی جائے گی۔ نشان منزل یہ ہے کہ دنیا کی بھلائیاں تحریک اور اس کے جلو میں چلنے والوں کا مقد ر بنتی چلی جائیںگی۔چراغ سے چراغ جلے، تاریکیاں چھٹ جائیں اور روشنی اس امت اور انسانیت کا مقدر بن جائے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا حامی و ناصر بن جائے، آمین!
امریکی صدر اوباما نے ۲۲مئی ۲۰۱۳ء کو واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں اپنی صدارت کے دوسرے دور کا اہم ترین خطاب کیا ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگی پالیسی، خصوصیت سے ڈرون حملوں کے بارے میں اپنے آیندہ لائحہ عمل کے خطوطِ کار بیان کیے ہیں۔ اس تقریر کا ایک خاص پس منظر ہے جسے سامنے رکھنا ضروری ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش نے کانگریس سے ایک مبہم قانون کے تحت افغانستان میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے لیے ہرذریعے کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی صرف افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف اقدام کے لیے چھتری فراہم کی تھی مگر امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس مبہم اختیار (authorization) کو دنیا بھر میں خصوصیت سے عراق، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں ہرطرح کے بے دریغ فوجی اقدامات کے لیے استعمال کیا۔ اپنی صدارت سے پہلے اوباما نے ایک سینیٹر کی حیثیت سے بش کے ان اقدامات کو چیلنج کیا تھا اور ۲۰۰۷ء میں اپنی انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں صاف الفاظ میں اعلان کیا تھا:
دستور کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسی صورتِ حال میں جس میں قوم کو درپیش کوئی فوری یا حقیقی خطرہ روکنا پیش نظر نہ ہو، یک طرفہ طور پر فوجی حملے کا اختیار دے۔ تاریخ نے ہم کو بارہا دکھایا ہے کہ فوجی حملہ اسی وقت سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے جب اس کا اختیار مقننہ نے دیا ہو اور وہ اس کی حمایت کرتی ہو۔
صدربش نے اپنے صدارتی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پوری دنیا میں فوجی کارروائیوں کی چھوٹ دی اور اپنے ماضی کے سارے دعوئوں کے باوجود صدر اوباما نے بھی اس جارحانہ پالیسی کو جاری رکھا بلکہ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، ان میں چند در چند اضافہ کردیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، بش کے دور میں کُل ۴۵ بار ڈرون حملے ہوئے، جب کہ اوباما کی صدارت کے پہلے ہی سال یہ تعداد ۵۳ ہوگئی اور اب تک ۳۲۰حملے ہوچکے ہیں جن میں ۳ہزار سے زائد افراد جاں بحق کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان سینیٹ کی دفاعی اُمور کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان میں ’عسکریت پسندوں‘ کی تعداد ۵۶۵ تھی، جب کہ عام معصوم شہریوں کی تعداد ۲ہزار۳سو۲۴ تھی جن میں سے متعین طور پر خواتین اور بچوں کی تعداد ۶۴۶ تھی۔ اوباما کے دور میں ڈرون حملوں کا دائرہ دوسرے ممالک تک بھی وسیع کردیا گیا اور یمن اور صومالیہ میں بھی بے دریغ ڈرون حملے کیے جارہے ہیں۔
ویسے تو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی ۱۲سالہ جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں لیکن ڈرون حملوں کے باب میں کئی سال سے امریکا اور خود مغربی دنیا میں تنقید اور احتساب کی مؤثر آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں جن کا اب کچھ نتیجہ بھی نکلنے لگا ہے۔ اس میں اہم نکات یہ ہیں:
۱- امریکی صدر اور انتظامیہ کو امریکی دستور کے تحت اس نوعیت کے حملوں کی اجازت نہیں تھی اور انتظامیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
۲- امریکی دستور اور فوجی قانون کے تحت ایک قانونی جنگ میں بھی فوجی قوت کے استعمال کا اختیار صدر اور پینٹاگان کو ہے۔ سی آئی اے ایک جاسوسی اور تجزیہ کرنے والا ادارہ ہے۔ فوجی اقدام کا اسے اختیار نہیں۔ حالیہ ڈرون حملے امریکی فوج نہیں، سی آئی اے کررہی ہے جو امریکا کے دستور اور جنگی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ نیز اس طرح انتظامیہ کے ان اقدامات کے باب میں کانگریس کی نگرانی اور اس کے سامنے جواب دہی سے بچ نکلنے کے چور دروازے بنے ہوئے ہیں۔
۳- ڈرون حملوں کے پورے عمل کو کانگریس اور عوام سے مخفی رکھا گیا ہے۔ حکومت نے بھی مجبوراً اب اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، اور یہ عوام سے دھوکا ہی نہیں،امریکی دستور اور جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔
۴- ایک ایسے ملک پر ڈرون حملے، جس سے امریکا برسرِ جنگ نہیں بلکہ جسے دوست ملک قرار دیتا ہے، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن اور معروف سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی ہے۔
۵- ڈرون حملوں میں محض مبہم اطلاعات یا اندازوں کی روشنی میں ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے جو ہر قانون کی خلاف ورزی اور نہ صرف جنگی جرم ہے بلکہ کچھ صورتوں میں نسل کشی (genocide) کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کا یہ خودساختہ اصول کہ مخدوش علاقے میں جو بھی مرد اسلحہ اُٹھانے کی عمر میں ہو، وہ متحارب (combatant) شمار کیا جاسکتا ہے اور اسے ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، ہرقانون اور ضابطے کے منافی ہے اور انسانیت کے قتل کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے جو بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ اس پر عمل انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
۶-ڈرون حملوں کے نتیجے میں نہ صرف حملوں کا نشانہ بننے والے علاقوں میں بلکہ متعلقہ ممالک اور پوری دنیا میں امریکا کے خلاف جذبات فروغ پارہے ہیں جو نفرت کے طوفان کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اس طرح معروف ’دہشت گرد‘ تو کم مارے جارہے ہیں، نئے دہشت گردوں کی فوج ظفرموج تیار ہورہی ہے اور اس طرح امریکا اپنے جنگی مقاصد میں ناکام ہو رہا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی اور روز بروز وسعت اختیار کرنے والی جنگ کی آگ میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ PEW کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈرون حملوں کی آبادی کے ۹۸ فی صد نے مخالفت کی ہے اور اس کی وجہ سے امریکا دشمنی کے جذبات کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ردعمل کی یہی کیفیت ہے۔ PEW ہی کے ایک سروے کے مطابق ان ممالک میں جو امریکا کے دوست ہیں اور اس جنگ میں امریکا کے ساتھ ہیں، وہاں ڈرون حملوں کے خلاف عوامی ردعمل سخت منفی ہے۔ یونان کی آبادی میں ۹۰ فی صد، مصر میں ۸۹ فی صد، اُردن میں ۸۵ فی صد، ترکی میں ۸۱ فی صد، اسپین اور برازیل میں ۷۶ فی صد، جاپان میں ۷۵ فی صد اور میکسیکو میں ۷۳ فی صد ڈرون حملوں کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔ امریکا میں ۲۶ فی صد مرد اور ۴۹ فی صد خواتین اس کے خلاف راے کا اظہار کررہی ہیں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں امریکا کی کانگریس میں بھی اس پالیسی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کانگریس کی کمیٹیاں اس کا جائزہ لے رہی ہیں اور علمی، اور عوامی سطح پر بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں اوباما نے پالیسی پر جزوی نظرثانی کی بات کی ہے، یعنی تعداد میں کمی، اہداف کا زیادہ احتیاط سے تعین، اعلیٰ ترین سطح پر فیصلے کا عندیہ، کسی عمومی نگرانی کے نظام کے امکانات کا جائزہ اور چھے ماہ کے بعد سی آئی اے سے لے کر پینٹاگان کی طرف ان اختیارات کے تبادلے کی کوشش۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود صدراوباما نے کہا:
جیسے جیسے ہماری لڑائی ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، امریکا کا خود اپنے دفاع کا جائز دعویٰ بحث کا آخری نکتہ نہیں ہوسکتا۔ کسی فوجی تدبیرکے قانونی یا مؤثر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دانش مندانہ بھی ہے اور ہرحال میں اخلاقی بھی۔ وہ انسانی ترقی جس نے ہم کو یہ ٹکنالوجی دی ہے کہ ہم نصف دنیا دُور جاکر حملہ کریں، اس نظم و ضبط کا تقاضا بھی کرتی ہے کہ ہم طاقت کے استعمال کو قابو میں رکھیں یا پھر اس کے غلط استعمال کا اندیشہ مول لیں۔
اوباما صاحب نے صاف لفظوں میں اصرار کیا ہے کہ پاکستان پر حملے جاری رہیں گے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت آیا ہے جب ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام نے ان جماعتوں کو عبرت ناک شکست دی ہے جو امریکا کی اس جنگ میں اس کے معاون تھے اور پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور سالمیت پر ان حملوں میں تعاون کر رہے تھے، یعنی ملوث تھے، یا کم از کم قوم کے مزاحمت کے مطالبے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ جن جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں ڈرون حملوں کو رُکوانے اور امریکا کی دہشت گردی کے نام پر اس جنگ میں سے پاکستان کو نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔
امریکا کے ڈرون حملوں کے جارحانہ اقدام کو پشاور ہائی کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے جو ۹مئی ۲۰۱۳ء کو دیا گیا ہے۔ اس میں عدالت نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:
۱-ڈرون حملے جو قبائلی علاقوں (فاٹا) خصوصاً شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سی آئی اے اور امریکی انتظامیہ کر رہی ہے، بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور یو این جنرل اسمبلی کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد اور جنیوا کنونشن سب کے خلاف ہیں، لہٰذا اس کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے جو عالمی عدالت انصاف یا جنگی جرائم کے خصوصی ٹربیونل ، جو اقوامِ متحدہ نے اس مقصد کے لیے قائم کیا ہو یا قائم کرے، کی حدود میں آتا ہے۔
۲- ڈرون حملے جو ان مٹھی بھر مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کیے جائیں جو امریکی حکومت، حکام یا افواج سے حالت ِ جنگ میں نہیں ہیں، اس موضوع پر بین الاقوامی کنونشن اور ضوابط کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ اس لیے یہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ کُلی طور پر غیرقانونی ہیں اور ریاست پاکستان کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہیں، کیونکہ اس کی حدود اور فضائی حدود میں اس کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی مرضی کے خلاف باربار مداخلت کی جاتی ہے۔ اس پر امریکا سے حکومت پاکستان کے احتجاج کے باوجود، اس کی اجازت کے بغیر اور مرضی کے خلاف یہ حملے برابر جاری ہیں۔
۳- شہری ہلاکتیں جیساکہ اُوپر بتایا گیا بشمول املاک، مویشی، جنگلی حیات اور ننھے بچے، دودھ پیتے بچے، خواتین اور چھوٹے بچوں کا قتل امریکی حکام بشمول سی آئی اے کا ناقابلِ معافی جرم ہے، اور عدالت یہی قرار دیتی ہے۔
۴-شہری ہلاکتوں، جایداد اور مویشیوں کو پہنچنے والے نقصان کی، ثابت شدہ حقائق اور اعدادوشمار کے پیش نظر، امریکا متاثرین کی امریکی ڈالروں میں مقررہ شرح کے مطابق تلافی کرنے کا پابند ہے۔
۵- حکومت پاکستان اور اس کی سیکورٹی فورسز یہ یقینی بنائیں گی کہ مستقبل میں ایسے ڈرون حملے پاکستان کی خودمختار حدود میں نہ کیے جائیں۔ اس حوالے سے مناسب تنبیہ کردی جائے اور اگر یہ نتیجہ خیز نہ ہو تو حکومت پاکستان اور ریاستی ادارے خصوصاً سیکورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہوگا کہ دستوری اور قانونی تقاضوں کے تحت پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے ڈرون کو گرا دیں۔
۶- حکومت پاکستان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جائے اور اگر وہاں کامیابی نہ ہو اور امریکی حکام بغیرجواز ویٹو پاور استعمال کریں تو جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے تاکہ اس خطرناک مسئلے کا مؤثرانداز سے حل ہوسکے۔
۷- حکومت پاکستان ایک مناسب شکایت درج کرائے گی جس میں ڈرون حملوں سے پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کا جو نقصان ہوا ہے، اس کی مکمل تفصیل ہوگی۔ اس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو کہا جائے گا کہ ایک آزاد وار کرائم ٹربیونل قائم کرے جس کا یہ مینڈیٹ ہو کہ تمام معاملات کی تحقیق و تفتیش کرے اور یہ حتمی فیصلہ دے کہ آیا یہ جنگی جرم کے مترادف ہے یا نہیں۔ پہلی صورت میں امریکی حکومت یا حکام کو ہدایت کرے کہ پاکستان کی فضائی حدود اور علاقے میں ڈرون حملے فوری طور پر روک دے، اور فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کی عالمی معیارات کے مطابق مقررہ شرح اور تناسب کے مطابق جان و مال کی تلافی کی جائے۔
۸- وزارتِ خارجہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مناسب قرارداد، اپیل اور ریکوزیشن کے لیے عدالت کی دی ہوئی ہدایات کے خطوط کی روشنی میں کم سے کم ممکنہ وقت میں تیاری کرے اور ساتھ ہی سلامتی کونسل سے یا جنرل اسمبلی سے (جو بھی صورت ہو) یہ مطالبہ کیا جائے کہ ایک قرارداد کے ذریعے سی آئی اے اور امریکی حکام کی یو این چارٹر اور یواین کے دیگر مختلف ضابطوں اور روایات کی خلاف ورزی کرنے پر ڈرون حملوں کی مذمت کرے، جیساکہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔
۹- اس صورت میں کہ امریکی حکام اقوام متحدہ کی قرارداد کی تعمیل نہ کریں، خواہ یہ سلامتی کونسل نے منظور کی ہو یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے، حکومت پاکستان ایک احتجاج کے طور پر امریکا سے ہرطرح کے تعلقات ختم کردے گی اور بطور احتجاج امریکا کو کسی بھی طرح کی لاجسٹک سہولیات فراہم نہیں کرے گی۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ تو بالکل واضح اور دستور، عالمی قانون اور پاکستان کے مفادات کے عین مطابق ہے لیکن اسے ملک کے میڈیا اور سیاسی قوتوں نے قرارِ واقعی اہمیت نہیں دی۔ عبرت کا مقام ہے کہ جس ملک پر یہ حملے ہورہے ہیں اور جس کی حاکمیت اور عزت کو یوں پامال کیا جا رہا ہے وہاں تو بات صرف تحفظات کی ہے لیکن خود امریکا کا ایک معروف کالم نگار کلائیو اسٹین فورڈ اسمتھ دی گارڈین لندن کی ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں عدالت کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کے احکام کی مکمل تائید کرتا ہے اور امریکا کو شرم دلاتا ہے___ یہ اور بات ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔
وہ لکھتا ہے:
پھر وہ ایک بالکل سامنے کی بات کہتے ہیں۔ پاکستانی افواج کا اوّلین فریضہ اپنے شہریوں کاتحفظ ہونا چاہیے۔ سیکورٹی فورسز کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ مستقبل میں اس نوعیت کے ڈرون حملے پاکستان کی خودمختار حدود میں نہیں کیے جائیں گے۔ پھر پہلے قدم پر ہی شوٹ کرنے کے بجاے، حکومت کو ’مناسب انتباہ‘ دینے کی ہدایت دی جاتی ہے لیکن اگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو تو پاکستان کی فضائیہ کو ڈرون طیارے فوراً گرا دینے چاہییں۔
گو، کہ مَیں خود ایک امریکی ہوں، اس ناخوش گوار صورت حال کے بارے میں استدلال کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ پاکستان سے کوئی بے پائلٹ ڈرونز کے ذریعے ٹیکساس میں دہشت گردی کرے تو میں یہ اُمید کروں گا کہ اوباما فوراً ہی فوجی طیارے بھیجے۔
یہ عدالتی فیصلہ کُل کا کُل جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سے بحث کرتا ہے۔ امریکا ۲۰۰برس سے زائد سے اپنے آپ کو ان نظریات کے علَم بردار کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ سی آئی اے کی ڈرون حملوں کی خفیہ مہم دونوں نظریات سے بُعد کی مظہر ہے اور گوانتاناموبے اور ابوغریب جیسے سابقہ المیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔
بات بہت واضح ہے۔ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت پر مسلسل حملے ہورہے ہیں، اور امریکا ہمارے خلاف اقدامِ جنگ کا مرتکب ہوا ہے۔ پاکستانی عوام ہرسطح پر اس اقدام کو فوری طور پر رکوانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ تین قراردادوں کی شکل میں انھیں حاکمیت پر حملہ قرار دے چکی ہے اور حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ان حملوں کو رکوانے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔
انتخابات میں عوام نے ایک بار پھر اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدالت عالیہ کے فیصلے نے دو اور دو چار کی طرح متعین کردیا ہے کہ حکومت اور قوم کو ان حالات میں کیا کرنا ہے۔ اب محترم میاں نواز شریف کا امتحان ہے اور ان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ حلف برداری کے بعد تقریر میں صاف الفاظ میں اعلان کردیں کہ یہ حملے کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ اگر امریکا پاکستان کے ساتھ دوستی کا رشتہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے ان کو فی الفور بند کرنا ہوگا۔
ایک گروہ میاں صاحب کو ابھی سے یہ سبق پڑھا رہا ہے کہ اصل مسئلہ معاشی اور انرجی کے بحران کا ہے۔ بلاشبہہ معاشی مسئلہ اور انرجی کا یہ بحران اہم ہیں لیکن آزادی، حاکمیت اور سالمیت پر حملوں سے زیادہ نہیں۔ اور اگر دقتِ نظر سے دیکھا جائے تو معاشی بحران کے پیدا کرنے میں امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ہماری شرکت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے صرف معاشی میدان میں سرکاری تخمینے کے مطابق ۱۱سال میں ۹۷بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور تباہی کا یہ سفر جاری ہے۔ معیشت کی اصلاح اور بحالی اور آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ الگ الگ شعبے نہیں ہیں۔ آج میاں نواز شریف جس صورت حال سے دوچار ہیں وہ مئی ۱۹۹۸ء سے مختلف نہیں ہے۔ اس وقت امریکا ایٹمی دھماکے روکنے پر مصر تھا اور رشوت اور دھمکی دونوں حربے استعمال کر رہا تھا لیکن ملک و قوم نے وہی فیصلہ کیا جو آزادی اور حاکمیت کا تقاضا تھا، خواہ اس کے معاشی اثرات منفی ہی کیوں نہ ہوں اور ہوئے، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں معاشی حالات تبدیل ہوگئے لیکن جو تحفظ اور دفاعی قوت حاصل ہوئی وہ ملک کی زندگی اور سلامتی کی ضامن بن گئی۔ آج پھر ایک تاریخی موقع ہے، حلف اُٹھانے کے فوراً بعد ذلت اور محکومی کی ان بیڑیوں کو کاٹ پھینکا جائے اور آزادی، حاکمیت اور عزت و وقار کی حفاظت کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور پہلا اور آخری موقع ہے۔ معاملہ محض تحفظات کا نہیں ہے، دوٹوک فیصلہ آج وقت کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتیں پہلے دن سے مضبوطی کے ساتھ اس موقف پر مصر ہیں اور اب تحریکِ انصاف بھی، جو پارلیمنٹ میں سب سے بڑی حزبِ اختلاف ہے، مسلم لیگ کے ووٹر اور ان سب پر مستزاد پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ جسے عدالتی حکم کی حیثیت حاصل ہے، ان سب کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے موقف کو دوٹوک انداز میں امریکا اور پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا جائے کہ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی خلاف ورزی ہیں اور ناقابلِ قبول ہے۔ اس پر کسی قسم کا سمجھوتا ممکن نہیں ہے۔
اگر اس موقع پر نئی حکمت عملی کا جرأت کے ساتھ اعلان نہ ہوا تو پھر یہ موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ میاں نوازشریف صاحب اس موقعے پر اپنی دینی اور ملّی ذمہ ادارکریں اور پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ذلت اور محکومی کے اس باب کو بند کریں، اور عزت اور برابری کی بنیاد پر نئے باب کے آغاز کا راستہ اختیار کریں اور تاریخ کا یہ سبق سامنے رکھیں کہ ع
یک لحظہ غافل بودم و صدسالہ راہ ہم دور شد
ایک مہذب معاشرے اور ریاست اور ایک انارکی زدہ معاشرے میں اصل فرق اور وجہِ امتیاز قانون کی حکمرانی یا اس کا عدم وجود ہے۔ قرآن نے ربِ کعبہ کے احسان کو جس شکل میں پیش کیا ہے وہ انسانی معاشرے اور تہذیب کے اصل جوہر کو دو اور دو چار کی طرح واضح کردیتا ہے، یعنی اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ(قریش ۱۰۶:۴) ’’جس نے انھیں بھوک سے بچاکر کھانے کو دیا اور خوف سے بچاکر امن عطا کیا‘‘۔ بھوک اور جان و مال کی پامالی کا خوف ہی معاشرے کو انارکی کی طرف لے جاتے ہیں اور امن و امان، قانون کی حکمرانی اور معاشی و معاشرتی انصاف کا قیام ایک معاشرے کو مہذب معاشرہ اور ترقی پر گامزن انسانی اجتماع بناتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے کہا کہ: وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلط(النساء ۴:۵۸) ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ نیز یہ کہ ایک بھی معصوم انسان کا بلالحاظ مذہب و نسل قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ حضرت علیؓ نے کتنی سچی بات کہی کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے، ظلم کے ساتھ نہیں‘‘۔
آج ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عدل و انصاف معدوم ہیں، قانون پابہ زنجیر ہے، اور ظلم و تشدد کا دور دورہ ہے۔ جن کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم کریں وہی قانون کے توڑنے والوں میں سرفہرست ہیں۔
ایک مہذب معاشرے میں طاقت کے استعمال کا بلاشبہہ ایک واضح کردار ہے لیکن یہ ریاست کا اختیار ہے۔ جو ریاست طاقت کے استعمال پر اپنی اجارہ داری (monopoly) کو قائم نہیں رکھ سکتی اور جو مختلف سرکاری اور غیرسرکاری اداروں اور شخصیات کو لوگوں کی جان، مال اور عزت سے کھیلنے کو روا رکھتی ہے وہ حکمرانی کا استحقاق کھودیتی ہے۔
لاقانونیت،سیاست میں تشدد کا بے دریغ استعمال اور دہشت گردی کا عفریت پاکستانی قوم کو ایک مدت سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ مسئلہ پورے ملک کا ہے مگر کراچی کی صورت حال غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ کراچی کم از کم ۳۰سال سے کچھ عناصر کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ ایک سیاسی گروہ نے اس راستے کو اختیار کر کے پورے شہر کو اپنی جاگیر بنا لیا۔ پھر متبادل قوتیں رُونما ہوئیں اور حکمرانی میں شریک ہوتے ہوئے بھی ہرپارٹی نے اپنی اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا اور بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے سے بڑھ کر گوشت پوست کے انسانوں کو گاجرمولی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے چلن کو عام کردیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں صرف کراچی میں ۷ہزار سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ کسی کے ایک اشارے پر یہ گروہ پورے شہر کو جب تک چاہے موت کی نیند سلاسکتا ہے اور کوئی نہیں جو ظالموں کو گرفت میں لاسکے۔
اس میں جہاں سیاسی عناصر کا خونیں کردار ہے وہیں حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے ہاتھ بھی خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ اور کراچی کے حالات پر اپنے فیصلے میں جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ کی روشنی میں نام لے کر اس دور کی حکمران جماعتوں، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، اس کی نام نہاد امن کمیٹی، اے این پی اور ان کے ساتھ طالبان، سُنّی تحریک اور چند دوسرے عناصر (صرف تین جماعتیں اس خونیں کھیل میں ملوث نہیں تھیں: جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف)کی نشان دہی کی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ لاپتا افراد اور اغوا کے واقعات پر گرفت کرتے ہوئے عدالت نے معاشرے کے دوسرے عناصر کے ساتھ خود سرکاری ایجنسیوں کے احتساب کا بڑی اُونچی آواز میں مطالبہ کیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!
اس سے پہلے کینیڈا کی ایک عدالت نے باقاعدہ طور پر ایم کیو ایم کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ یہ برطانیہ اور عالمی میڈیا میں شائع ہوا، لیکن پاکستانی میڈیا کو اسے شائع کرنے اور اس پر سوال اُٹھانے کی جرأت نہ ہوئی اور برسرِاقتدار پارٹی نے اسے شریکِ اقتدار کیے رکھا۔
صحافیوں کا قتل بھی اس خونیں کھیل کا ایک اہم حصہ ہے جس نے بھی حق بات کہنے کی جرأت کی، خواہ کتنی ہی دبی آواز میں اور اگر مگر کے ساتھ، اسے یا ٹھیک کردیا گیا یا جان سے مار دیا گیا۔ یہ واقعات صرف کراچی تک محدود نہیں۔ بدقسمتی سے ملک کے دوسرے مقامات پر بھی رُونما ہورہے ہیں لیکن کراچی کا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔
اس صورت حال کا ایک خاص پہلو، یعنی صحافیوں پر کیا بیتی کے بارے میں ایک بڑی ہی چشم کشا رپورٹ نیویارک کے ایک وقیع عالمی ادارے Committee to Protect Journalists - (CPJ) کی طرف سے شائع ہوئی جس کا نوٹس لینا اور اس میں پیش کردہ حقائق کی روشنی میں ضروری اقدام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ یہ رپورٹ ۵۱صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے نیویارک ٹائمز کی ایک سابقہ صحافی الزبتھ رابن نے مرتب کیا ہے اور مئی ۲۰۱۳ء کے وسط میں یہ امریکا سے جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:Roots of Impunity: Pakistan's Endangered Press and the Perilous Web of Militancy, Security and Politics. (پکڑ سے بے خوفی کی بنیادیں: پاکستان کا خطرات میں گھِرا پریس اور عسکریت پسندی، سیکورٹی اور سیاست کا خطرناک جال)
اس رپورٹ میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ تشدد، اغوا اور دہشت گردی کے ان واقعات میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ رپورٹ میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ایک صحافی مکرم خان عاطف کے قتل کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جس کے ہلاک کیے جانے کی ذمہ داری بظاہر طالبان نے قبول کی تھی مگر تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آگئی کہ اس سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اسے سلالہ پر امریکی حملے کی خبر کے اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کی سزا سرکاری ایجنسیوں نے دی۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
مکرم نے پاکستانی فوج کی سلالہ پوسٹ پر تباہ کن امریکی حملے کی خبر دی تھی۔اس کی رپورٹ نشر ہونے کے بعد اس کو فوجی اور خفیہ افسران کی جانب سے بار بار دھمکیاں دی گئیں۔ سی پی جے کے ذرائع کو یقین ہے کہ اس قتل کے پیچھے سرکاری افسران ہیں اور فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کا انکشاف وہ سرخ لکیر ہے جسے پار نہیں کیا جاسکتا۔
اس رپورٹ میں ان ۲۳ صحافیوں کے قتل کے بارے میں معلومات جمع کی گئی ہیں جو ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان پاکستان میں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ یہ جو دیگ کے ان چند چاولوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے حشر کے آئینے میں ان ۵۰ہزار سے زیادہ مظلوموں کی تصویر الم بھی دیکھی جاسکتی ہے جو ۲۰۰۱ء کے بعد لقمۂ اجل بنے ہیں۔
پوری رپورٹ رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان سناتی ہے لیکن چند اقتباسات حالات کی سنگینی اور ظالموں کے چہروں کو پہچاننے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں:
سی پی جے نے معلوم کیا ہے کہ قتل کے کم سے کم سات واقعات میں سرکاری فوجی یا خفیہ پولیس کے افسران کے مرتکب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ یہ ہدف زدہ افراد بالکل بے دھڑک قتل کردیے گئے۔ گذشتہ ۱۰برسوں میں کسی ایک صحافی کے قتل کا بھی کامیاب مقدمہ نہیں چلایا جاسکا۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں ولی خان بابر کے قتل کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ پولیس نے ایم کیو ایم سے وابستہ کئی مشتبہ افراد پکڑے لیکن دھمکیوں اور کلیدی افراد کے قتل نے مقدمات کو پٹڑی سے اُتار دیا۔ اس مقدمے کے پانچ گواہ یا قانون نافذ کرنے والے افسران قتل اور دو سرکاری وکیل کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کیے جاچکے ہیں۔
صحافیوں کو ایم کیو ایم کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں۔ سی پی جے کی رپورٹ میں ایک صحافی نے انٹرویو میں کہا کہ ایم کیو ایم کے بارے میں کوئی خبر شائع کرنے سے پہلے غیرمعمولی طور پر محتاط ہونا پڑتا ہے۔ وہ بات کو بھولتے نہیں ہیں۔ مَیں ۱۵۰رپورٹروں کا نگران ہوں۔ کسی کی بائی لائن لگے تو مجھے محتاط ہونا پڑتا ہے (ایک اخبار کے مدیرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا)۔
ایک ٹی وی آپریٹر نے کہا کہ ایم کیو ایم کیبل آپریٹر پر بھی دبائو ڈالتی ہے کہ جو پروگرام پارٹی کو پسند نہیں،اسے بند کیا جائے۔ ایک اور آپریٹر نے بتایا کہ ہمیں طالبان سے زیادہ ایم کیو ایم سے دھمکیاں ملتی ہیں۔اگر طالبان کی طرف سے دھمکی ملے تو آپ انتظامیہ سے مدد مانگ سکتے ہیں لیکن اگر ایم کیو ایم دھمکیاں دے تو یہ راستہ بھی نہیں۔ سی پی جے نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے پوچھا کہ ولی خان بابر کے قاتل پکڑے کیوں نہیں جاتے؟ ایک صحافی نے کہا کہ ہر کوئی ایم کیو ایم کی طرف انگلی سے اشارہ کرتا ہے۔(دی نیوز، ۲۴ مئی ۲۰۱۳ء)
سرکاری کارندوں کا اس گھنائونے اور خونیں کھیل میں ملوث ہونے کا معاملہ صحافیوں تک محدود نہیں ہے۔ کئی ہزارلاپتا افراد کا مسئلہ اعلیٰ عدالتوں میں کئی سال سے گردش کر رہا ہے اور ڈور کا سِرا ہے کہ مل ہی نہیں پارہا۔ ۲۴ اور ۲۵مئی کے صرف دو روز کے اخبارات سے صرف تین رپورٹیں یہاں دی جاتی ہیں جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ لاقانونیت اپنی تمام حدوں کو پھلانگ چکی ہے اور ہرجرم کے لیے طالبان کا نام لے لینا ایک سنگین مذاق بن چکا ہے۔ طالبان یا طالبان کے نام پر جو بھی قتل و غارت گری، اغوا اور دہشت گردی کا مرتکب ہے وہ قابلِ مذمت ہی نہیں، قابلِ گرفت اور قابلِ سزا ہے۔ لیکن آج لاقانونیت اور دہشت گردی کا مسئلہ نہایت پیچیدہ اور مختلف جہتی ہے اور اس کے لیے ہمہ جہتی حکمت عملی اور مؤثر اقدام کی ضرورت ہے۔ بات کہاں کہاں تک پہنچی ہے اس کا اندازہ ان رپورٹوں سے کیا جاسکتا ہے:
بلوچستان کی سیکورٹی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کے ہمدردوں، انتہاپسندوں اور عسکریت پسندوں کا نفوذ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس سال جنوری میں سی آئی ڈی کے اعلیٰ افسران ایس پی طارق منظور ، ڈی ایس پی قطب خاں اور ڈی ایس پی بلال کو فرنٹیر کور نے اغوا براے تاوان کے الزام میں گرفتار کیا۔ (دی نیوز، ۲۴ مئی ۲۰۱۳ء)
پاکستان کے فرقہ وارانہ جنگی تھیٹر میں کوئٹہ پولیس کے عملے کے خطرناک ترین دہشت گردوں سے رابطوں کی پریشان کن اطلاعات ملی ہیں۔ پیر کو ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس ریاض احمد سنبل نے دو سپاہیوں کی گرفتاری کا انکشاف کیا۔ (دی نیوز، ۲۵ مئی ۲۰۱۳ء)
پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔ اُمت رپورٹ کے مطابق ایسی ہی ایک واردات فیصل آباد میں ہوئی جس میں ایک مسیحی نوجوان بارودی مواد پھٹنے سے مارا گیا اور اس کے دو ساتھی گرفتار کے لیے گئے۔ دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ فیصل آباد میں گرفتار عیسائی گروہ طالبان اور لشکر جھنگوی کا نام استعمال کرتے تھے۔ تین ملزمان نے پادری قیصرشان کو طالبان کے نام سے خط لکھا پھر فون پر قتل کی دھمکی دے کر ۱۰لاکھ روپے طلب کیے۔ خوف زدہ کرنے کے لیے گھر پر دھماکا کرنے جارہے تھے کہ بارودی مواد موٹرسائیکل پر پھٹ گیا۔ دوبرس میں شہر کے تاجروں سے ۲۰کروڑ روپے بھتہ وصول کیا جاچکا ہے۔(نوائے وقت، ۲۵ مئی۲۰۱۳ء)
یہ صرف نمونے کے چند چاول ہیں۔ نئی حکومت نے دہشت گردی اور لاقانونیت سے ملک کو نجات دلانے کا وعدہ کیا ہے۔ کیا حکومت پوری جرأت کے ساتھ ان تمام عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے تیار ہے جو اس سارے خون خرابے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا کی جنگ میں شرکت کی جو قیمت اس مظلوم قوم نے ادا کی ہے وہ تاریخ کا ایک المیہ ہے لیکن اب مسئلے کو اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر حل کرنا ہوگا۔ نیز جو جو عناصر خود ملک میں اس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھا کر اپنے دوسرے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک خونیں کردار ادا کر رہے ہیں اور باربار سرکاری تحفظ میں آکر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں، ان سب پر قانون کی گرفت لاگو ہو۔ سرکاری ایجنسیوں کو بھی لگام دینے کی ضرورت ہے اور ان دوسری تمام قوتوں کو بھی گرفت میں لانا ہوگا جو اب تک اپنے اپنے انداز میں کھل کھیلتی رہی ہیں، اور آج اس کی ڈوریاں ہلانے والے ۴ہزار میل دُور سے آنسو بہابہا کر یہ رونا رو رہے ہیں کہ دوسرے اس کے نام پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضہ، انسانی جانوں کا اتلاف کرتے رہے ہیں حالانکہ اس کے اشاروں کے بغیر اس گروہ کے بام و دَر میں ایک پتّا بھی نہیں ہلتا۔ وقت آگیا ہے کہ ایک ایک معصوم جان کا اس کے قاتلوں سے حساب لیا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر آج اور کل تمام انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری عمال، ایجنسیاں، سیاسی گروہ، مذہب کے نام پر تشدد کرنے والے، فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے___ سب کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیے اور اپنے کیے کی سزا بھگتنی چاہیے۔ یہی قرآن کے اس ارشاد کا مطلب ہے: لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰآُولِی الْاَلْبَابِ (البقرہ ۲:۱۷۹)، ’’عقل و خرد رکھنے والو، تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘۔
حضرت معاویہ بن حکمؓ سے روایت ہے ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چرا رہی تھی، میں اس کے پاس آیا تو میں نے اپنی ایک بکری کو گم پایا۔ میں نے اس سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا: اسے بھیڑیے نے کھا لیا ہے۔ یہ سن کرمجھے لونڈی پر غصہ آیا اور میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ ماردیا۔ میں انسان تھامجھ سے یہ بشری کمزوری صادر ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا: تم نے لونڈی کو اس کے کسی قصور کے بغیر تھپڑ مار کر بہت بڑی زیادتی کی۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اسے اس زیادتی کے عوض آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے بھی مجھ پر بطور کفارۂ ظہار یا کفارۂ قسم، ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے، تو کیا اس کو اس کفارے کے عوض میں آزاد کردوں تو کفارہ ادا ہوجائے گا؟ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: اسے بلائو۔ اسے بلایا گیا تو آپؐ نے اس سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: آسمان میں۔ پھر پوچھا: میں کون ہوں، اس نے جواب دیا: آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔ (موطا امام مالک، مسلم)
صحابہ کرامؓ کی جو ایمانی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اس کے نتیجے میں اگر کبھی ان سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا گناہ ہوجاتا تھا تو جلد ہی انھیں اپنی غلطی اور زیادتی کا احساس ہوجاتا تھا اور وہ اس پر نادم ہوجاتے تھے۔ حضرت معاویہ بن حکمؓ سے اپنی لونڈی کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ انھوں نے اسے جو تھپڑ مارا وہ بلاوجہ تھا، بکری کو بھیڑیا کھا گیا، اس میں لونڈی کی غفلت کو دخل نہ تھا۔ وہ بکریوں کی نگرانی اور رکھوالی کر رہی تھی کہ اس دوران میں بھیڑیئے نے اچانک حملہ کیا اور ایک بکری کو لے گیا۔ لونڈی نے چھڑوانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ حضرت معاویہ بن حکمؓ کو احساس ہوگیا کہ انھوں نے بشری کمزوری کی بناپر بلاوجہ لونڈی پر غصہ نکالا اور بلاوجہ تھپڑ مارا۔ لہٰذا لونڈی کو آزاد کردینے کاارادہ کرلیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کا مقصد یہ تھا کہ ان پر اس سے پہلے ایک کفارہ بھی واجب ہوگیا تھا، قسم توڑنے کا یا بیوی کے ساتھ ظہار کرنے کا۔ انھوں نے پوچھا کہ اس لونڈی کو اگر مَیں اس کفارے کے عوض آزاد کردوں، تو کفارہ ادا ہوجائے گا؟ اور جو مجھ سے زیادتی ہوئی ہے اس کا مداوا بھی ہوجائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کو بلاکر دو سوال کیے۔ ان سوالات کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ وہ مومنہ ہے یا نہیں، کہیں زمینی معبودوں کی بندگی کی قائل تونہیں۔ جب اس کے جواب سے آپؐ کو اطمینان ہوگیا کہ وہ مومنہ ہے تو آپؐ نے اسے آزاد کر دینے کا حکم فرما دیا۔ اس لیے کہ کفارۂ قسم اور کفارۂ ظہار میں اس غلام کو آزاد کرنا کفارہ بنتا ہے جو مسلمان ہو، غیرمسلم غلام اور لونڈی کو آزاد کردینے سے کفارئہ قسم اور کفارئہ ظہار ادا نہیں ہوتا۔آپؐ کے فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ اس لونڈی کو آزاد کردینے سے کفارئہ قسم یا کفارئہ ظہار بھی ادا ہوسکتا ہے اور جو زیادتی تجھ سے ہوگئی ہے اس کا ازالہ بھی ہوجائے گا اور آخرت میں تم سے اس کا مواخذہ نہ ہوگا۔ صحابہ کرامؓ آخرت میں سزا بھگتنے کے بجاے دنیا میں اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کرکے اُخروی سزا سے بچنے کی تدبیر کیا کرتے تھے۔ آج ہم غفلت کا شکار رہتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو تلف کردینے کے باوجود پروا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی طرح کا احساس اور فکرمندی عطا فرما دے، آمین!
حضرت عمران بن حطان سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوذرؓ کے پاس آیا تو انھیں مسجد میں سیاہ چادر اُوڑھے تنہا بیٹھا ہوا پایا۔ میں نے عرض کیا: ابوذرؓ! یہ تنہائی کیسی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تنہائی بُرے ہم نشین کے مقابلے میں بہتر ہے اور صالح ہم نشین تنہائی کے مقابلے میں بہتر ہے، اور خیر کی بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموشی بُری بات پھیلانے سے بہتر ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
کیسی عمدہ اور جامع نصیحتیں ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے والا اپنی جھولیاں نیکی سے بھرے گا اور بُرائیوں سے محفوظ رہے گا۔ تنہائی میں اللہ کا ذکر ہو یا پھر صالح ہم نشین ہو تو اس کی صحبت سے فیض یاب ہوکر ایمان اور عمل میں اضافہ کرے گا ۔ اگر صالحین کی جماعت میسر ہوجائے جو اقامت ِ دین کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہو تو پھر انسان اس مقصد کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجائے گا جس کے لیے انبیاے علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں، یعنی غلبۂ دین اور حکومت الٰہیہ یا دوسرے الفاظ میں خلافت ِ راشدہ کا قیام۔ پھر خیر کی اشاعت امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں مصروف رہنا وہ سعادت ہے جو انبیاے علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس حدیث پر ہرمسلمان عمل کرے تو اُمت میں عظیم انقلاب برپا ہوجائے گا۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت کا ایک کفارہ یہ ہے کہ آدمی اس شخص کے لیے استغفار کرے جس کی غیبت کی ہے۔ کہے: اے اللہ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔ (رواہ البیہقی فی الدعوات)
جس کی غیبت کی جائے اس کا اصل کفارہ تو یہ ہے کہ آدمی اس سے معافی طلب کرے۔ اگر یہ نہ کہہ سکتا ہو کہ میں نے جو آپ کی غیبت کی ہے وہ معاف کردیں تو یوں کہہ دے کہ مجھ سے آپ کا جو حق تلف ہوا ہو، جو زیادتی ہوئی ہو وہ معاف کردیجیے، اور اگر متعلقہ شخص فوت ہوگیا ہو تو پھر غیبت کا کفارہ اس شخص کے لیے دعاے مغفرت ہے جس کی غیبت کی گئی۔ غیبت گناہِ کبیرہ ہے۔ قرآن پاک میں اسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لیے غیبت کے گناہ کے ازالے کے لیے آدمی کو فکرمند ہونا چاہیے۔ دنیا میں اس کا ازالہ نہ کیا جاسکا تو آخرت میں اس کا عوض دینا بہت مشکل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بندوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کو دنیا میں راضی رکھنے کی توفیق سے نوازے، آمین!
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی۔ وہ دونوں روزے سے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی تو ان دونوں سے فرمایا: تم دوبارہ وضو کرو، دوبارہ نماز پڑھو، اور جو روزہ رکھا ہے، اسے مکمل کرو لیکن اس کی قضا بھی کرو۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کس وجہ سے؟ آپؐ نے فرمایا: تم نے فلاں آدمی کی غیبت کی ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
غیبت کرنے والے کا وضو، نماز اور روزہ سب ناقص ہوتے ہیں۔ ان سے وہ اثرات مرتب نہیں ہوتے جو ان عبادات سے مرتب ہونے چاہییں۔ تزکیۂ نفس اور ایمان میں اضافہ او رتعلق باللہ حاصل نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ غیبت گناہِ کبیرہ ہے، اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب شخص کی نیکیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہیں۔ لوگ اس حقیقت سے بے خبری کی وجہ سے ایک طرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف کبیرہ گناہوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں کہ عبادات تو ادا کر رہے ہیں۔ تاجر ہو تو مال میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ دودھ میں پانی، ناقص گوشت اور کم تولنا، دیگر اشیاے خوردونوش میں ایسی چیزوں کی ملاوٹ جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کسی محکمے کا افسر ہے تو خیانت اور کرپشن اور رشوت کے ذریعے مال بنا رہا ہے۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہے، لیکن دل دنیا پرستی، زرپرستی اور شاہ پرستی کے مرض میں مبتلا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ روزے کو مکمل کرو اور اس کی جگہ ایک روزہ قضا بھی کرو، کا معنی یہ ہے کہ روزہ غیبت کے باوجود ٹوٹتا نہیں ہے لیکن ناقص ہوتا ہے۔ اس لیے ایک ایسا روزہ رکھو جو غیبت اور دوسرے کبیرہ گناہوں سے پاک ہو۔ دوبارہ وضو کرنے، دوبارہ نماز پڑھنے اور روزہ قضا کرنے سے غیبت کا گناہ ختم نہیں ہوتا۔ غیبت کا گناہ اس وقت ختم ہوگا جب اس شخص سے جس کی غیبت کی گئی ہے معافی طلب کی جائے اور اگر وہ فوت ہوگیا ہو تو اس کے لیے دعاے مغفرت کی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوسرے ارشادات میں اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ اس کو اس حدیث کے ساتھ شامل سمجھا جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں ان پر رات کے وقت بارشیں برسائوں اور دن کے وقت سورج طلوع کروں اور انھیں گرج کی آواز نہ سنائوں۔ (مسند احمد)
جب بندے اللہ تعالیٰ کے مطیع فرمان ہوجائیں، اور اس کے کام کرنے لگیں تو اللہ بندوں کے کام خود کرنے لگتا ہے۔ ہوائیں ان پر بارشیں برساتی ہیں، سرسبز ی و شادابی ملتی ہے، خوش حالی حاصل ہوتی ہے، معاشی حالت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ دنیا میں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، رات کو بارشیں اور دن کو سورج نمایاں نظر آتا ہے اور گرج و چمک کی تکلیف سے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی خوش حالی اور معاشی استحکام کا حصول اور تکالیف اور پریشانیوں سے نجات ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی دنیا بھی بناتے ہیں اور آخرت بھی سنوار دیتے ہیں۔ ان کی دنیا کی ہر طرح کی پریشانیاں دُور ہوجاتی ہیں۔ وہ کسی معمولی تکلیف سے بھی دوچار نہیں ہوتے، سورج کو بادل نہیں چھپاتے اور بارش پھر گرج اور چمک کے ساتھ برستی ہے۔ وہ اپنے گھروں میں آرام اور سکون کی نیند سوتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی بندگی میں کیوں سستی کی جائے، اس کے کاموں کے ذوق و شوق اور جذبے میں کیوں کمی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے، آمین!
عالمی تحریکات اسلامی کو اقامت ِ دین اور تبدیلیِ نظام کی جدوجہد میں عموماً پانچ بنیادی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
اوّلین مرحلہ مقصد ِ حیات کے شعوروآگہی کے نتیجے میں اپنی فکر اور ذاتی زندگی میں اصلاح اور تزکیہ کا عمل ہے۔ اس مرحلے میںایک فرد جو کل تک روایتی مذہبی ماحول میں پل بڑھ کر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم سمجھتا تھا کہ ایک خانہ عبادت اور تقویٰ کا ہے جس میں نمازوں کا اہتمام، روزے کی پابندی، عمرے اور حج کی سعادت اور کمائی ہوئی دولت اور کاروبار یا کاشت کاری میں سے ایک حصہ بطور زکوٰۃ کے ادا کردینا۔ یہ تمام کام اگر جزوی طور پر بھی کرلیے گئے تو ایک شخص کی شہرت دین دار فرد کی بن جاتی ہے اور وہ خود بھی مطمئن رہتا ہے کہ اُس نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا حق ادا کردیا۔ اس کے ساتھ اگر اُس نے والدین کی خدمت سال میں ایک مرتبہ اپنے کاروباری مرکز سے جاکر ان کو شکل دکھاکر کر دی یا انھیں کوئی رقم بھیج دی تو وہ سمجھتاہے کہ اس نے تمام فرائض پورے کردیے۔ دوسرا خانہ اس کی کاروباری اور پیشہ ورانہ زندگی کا ہوتا ہے جس میں وہ بطور تاجر، بطور طبیب، بطور استاد، بطور سرکاری ملازم مقررہ وقت پر حصولِ نفع کے لیے کام کرتا ہے اور جس شعبے سے تعلق ہو اُس کے رواج کو بنیاد بناکر شہرت حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ کاروباری ہے تو کاروباری برادری میں مروجہ طریقوں کی پیروی کرتا ہے، چاہے ان میں اسے جھوٹ بولنا پڑے اور اپنے مال کو فروخت کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق کو پامال کرنا پڑے۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوکر دوسروں سے آگے بڑھنا اور اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ سرکاری ملازم ہے تو اپنی تمام نمازوں اور روزوں کے ساتھ وہ اپنے سے اعلیٰ افسر اور اقتدار پر قابض افراد کو اپنا مالک اور رب مانتے ہوئے ہرلمحہ ان کی خوش نودی اور بندگی کے ذریعے اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہوا کے رُخ کو دیکھ کر چلتا ہے اور حکمران جماعت کے ہرحکم کو اپنی ذہانت کے استعمال سے نافذ کرنے میں سرگرم رہتا ہے۔
زندگی کے یہ دوخانے نہ صرف عام کاروباری انسان یا پیشہ ور افراد ہی نہیں، بلکہ ان میں سے بھی کچھ جو دین کے خدمت گار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی زندگی کو عملاً ان دو خانوں میں تقسیم کرنے کو عین دین کے مطابق سمجھتے ہیں اور اس طرح شعوری یا غیرشعوری طور پر دین و دنیا کے الگ الگ اصولوں پر عمل پیرا رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ منبرومحراب سے جس اعلاے کلمۃ الحق پر خطاب ہوتا ہے یا معاشرتی حقوق پر دل گداز اظہارِ خیال کیا جاتا ہے اپنے گھر اور اپنی برادری میں شادی بیاہ کے موقع پر ان تمام اصولوں اور خطابات کے برخلاف وہ تمام رسوم ادا کی جاتی ہیں جن کی بنیاد ہندومت، قبائلیت اور جاہلی برادری کے نظام میں پائی جاتی اور جو دین اسلام کی واضح تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر کہا جاتا ہے کہ آخر برادری میں رہنا ہے، اگر یہ سب کچھ نہ کیا گیا تو برادری والے کیا کہیں گے۔ زندگی میں یہ تقسیم آج کے دور کی پیداوارنہیں ہے۔ یہ تقسیم جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے، پائی جاتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے کہا تھا کہ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ(البلد ۹۰:۱۰) ’’ہم نے دونوں راستے دکھا دیے‘‘۔ حق و باطل کی نشان دہی اور اچھائی اور بُرائی کے راستوں کا علم ہونے کے باوجود، روایتی مذہبیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی بلکہ فخر سے اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ دین و دنیا دونوں میں توازن رکھنا ہی اسلام ہے۔ چنانچہ زندگی میں تقسیم کے ذریعے بیک وقت دو خدائوں کی بندگی کرنے کے فن کو کامیاب زندگی قرار دیا جانا ہے۔ قرآن کریم دوسری جانب یہ واضح ہدایت دیتا ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کرتے ہوئے انسان پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوجائے۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ(البقرہ ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔
تحریکاتِ اسلامی قرآن کریم کے اس مطالبے کو اپنی دعوت کا اوّلین نکتہ قرار دیتی ہیں اور جب بھی ایک شخص کا تحریکی شعور جاگتا ہے وہ زندگی میں اس تقسیم سے نجات حاصل کر کے اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں، اپنے کاروبار اور اپنے تمام ’دنیاوی‘ معاملات میں صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا بندہ بن کر اپنے تمام معاملات کو صرف اس کی رضا کا تابع فرمان کردینے میں لگ جاتا ہے۔
تحریکِ اسلامی کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی بھی پائی جاتی ہے جو پہلے جاہلیت کی زندگی گزارتے تھے اور نجی زندگی میں بھی اسلام کے احکام اور تعلیمات کی پاسداری نہیں کرتے تھے لیکن جب اللہ نے انھیں ہدایت دی تو بتدریج انھوں نے اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی کے تضادات دُور کرنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس دعوت کے نتیجے میں ایک نومسلم کے جذبے کے ساتھ اپنی زندگی کو مکمل طور پر عبدیت میں تبدیل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ ان کا اپنی ذات سے آگے بڑھ کر اپنے اہلِ خانہ کو اس نئے شعورِحیات سے واقف کرانا اور اپنی عملی زندگی کے نمونے کے ذریعے بندگیِ رب کی دعوت دینا ہے۔ تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اور ہرہم خیال فرد اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات پر جواب دہ ہے کہ جو ہدایت اُس تک پہنچی اس نے اسے اپنے اہلِ خانہ تک پہنچایا یا نہیں اور اپنے عمل سے کس حد تک اس دعوت کی عملی مثال پیش کی۔ اگر وہ بڑے بڑے اجتماعات میں تزکیۂ نفس پر تقاریر کرتا ہے اور گھر میں اس کا طرزِعمل ایک جابر اور نفس پرست انسان کا ہے اور وہ صرف اپنے آرام، اپنی سہولت، اپنی ذات کو اہمیت دیتا ہے تو اس نے خود ابھی تک دعوت کا صحیح شعور حاصل نہیں کیا۔ یہ مرحلہ آسان نہیں ہے، نہ مختصر ہے بلکہ مسلسل شعوری جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے اور عین ممکن ہے مسلسل کوشش کے باوجود بھی ایک کارکن اپنے اہلِ خانہ کو مکمل طور پر تحریکی شعور نہ دے سکے۔ قرآن کریم بعض انبیاے کرام ؑ کے واقعات بیان کرکے سمجھاتا ہے کہ یہ امکان بھی ہوسکتا ہے کہ بہترین کوشش کے باوجود ایک بیوی یا ایک بیٹا یا ایک بیٹی سربراہِ خاندان کی طرح دعوت کو اختیار نہ کرے۔ ایسی شکل میں قرآن نااُمیدی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ آخروقت تک کوشش کرتے رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اہم بات جو اس مرحلے میں ہرکارکن کے لیے قابلِ غور ہے وہ اس کی کامیابی سے بھی کہیں زیادہ اہم اس کی وہ پُرخلوص کوشش ہے جو اسے اِس دنیا اور آخرت دونوں جگہ بہترین اجر کا مستحق بناتی ہے، یعنی رضاے الٰہی کا حصول۔
تیسرا مرحلہ اپنے خاندان سے آگے نکل کر اہلِ محلہ اور اردگرد کے معاشرے کو دینی شعور سے آگاہ کرنے کا ہے اور اس میں سب سے زیادہ بنیادی کردار مسجد اور معاشرتی فلاح کے کاموں کا ہے۔اگر ایک کارکن مسجد میں نظر نہیں آتا اور ہر عوامی مظاہرے میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے تو یہ اس دعوتی مرحلے کی کمزوری کی علامت ہوگی اور ایک عام فرد اسے سیاسی کارکن تو سمجھے گا دین کا کارکن نہیں سمجھے گا۔ مسجد میں چندلمحات کے لیے قرآن کی تلاوت اور اگر ممکن ہو تو ایک ایسے حلقے کا قیام جو صرف قرآن کریم پر غور کرنے کے لیے قائم ہو، اس مرحلے کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان تمام مشکلات کے علی الرغم جو مساجد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں اگر حکمت سے کام کیا جائے تو قرآنی حلقے کا قیام ممکن ہے۔ آخر بعض تبلیغی جماعتوں کے افراد ہر مسجد میں کھڑے ہوکر مقررہ جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فرد یہ بات نہ کہہ سکے کہ نماز کے بعد پندرہ منٹ کے لیے قرآنی حلقہ ہوگا اس میں شرکت کی درخواست ہے۔
اگر یہ کام خلوصِ نیت سے ذاتی اَنا کو رد کرتے ہوئے کیا جائے گا تو ان مساجد میں بھی جہاں تحریک کے ساتھ فکری ہم آہنگی موجود نہ ہو وہاں بھی ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگر ایک کارکن جو اہلِ محلہ سے نہ ملتا ہے نہ ان کے غم اور خوشی میں شرکت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسجد میں اس کے اعلان پر لوگ درس میں شرکت کرلیں تو وہ خام خیالی میں مبتلا ہے۔ ایک کارکن کا طرزِعمل ہی اسے عوام الناس میں تحریک کی دعوت سے روشناس کرانے کا اصل ذریعہ ہوتا ہے۔
چوتھا مرحلہ اہلِ محلہ سے آگے بڑھ کر اپنے گائوں اور اپنے شہرمیں ان مواقع کا استعمال کرنا ہے جو تحریکی دعوت کو عام کرنے کا ذریعہ بن سکیں۔ یہ ماہانہ فکری حلقہ بھی ہوسکتا ہے ادبی حلقہ بھی، اور معاشرتی فلاح کے کاموں کا ایک سلسلہ بھی۔ یہ بیٹھک اسکول بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خواتین کے لیے طبی مشورہ اور امداد کا مرکز بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سلائی سکھانے کا ادارہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ محلے کے بچوں یا بچیوں کو مختلف درجوں میں کوچنگ فراہم کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ فلاحی کام وہ سنت ہیں جنھیں اگر خلوصِ نیت کے ساتھ کیا جائے تو دعوت کے پھیلنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بوڑھی خاتون کی عیادت کرنا اور حضرت ابوبکرؓ کا خلافت کے بعد بھی ایک بوڑھی خاتون کی بکریوں کا دودھ دوہنا خدمت ِ خلق کی وہ واضح مثالیں ہیں جن پر عمل کرنا سنت پر عمل کرنا ہے۔
شہروں اور گائوں میں طبی مراکز، تعلیمی مدارس، یتامیٰ اور ناداروں کے لیے تربیتی و تعلیمی اداروں کا قیام، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد یہ وہ اہم کام ہیں جو دعوت کے لازمی مراحل میں شامل ہیں۔ اگر تحریکی کارکن یا قائدین ایسے تعلیمی مراکز تو قائم کردیں جن میں سرکاری نظامِ تعلیم کے نصاب کے مطابق سیکڑوں اور ہزاروں بچوں کو تعلیم دی جارہی ہو لیکن ان طلبہ و طالبات کے ساتھ اساتذہ کا طرزِعمل کاروباری ہو، اور رضاے الٰہی کے حصول کی جگہ محض تنخواہ کا حصول مقصد بن گیا ہو تو پھر بظاہر تعلیمی شعبے میں کام پھیلنے کے باوجود اس کی دعوتی افادیت صفر بلکہ منفی صفر رہے گی۔ اس حوالے سے اعلیٰ ترین سطح پر اور انتظامی سطح پر یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی زیرنگرانی اسکولوں کا ایک سلسلہ (chain)موجود ہے جس میں ایک ایک اسکول سسٹم نے تین تین سو اسکول قائم کررکھے ہیں تو کیا ان اسکولوں کے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین تک دعوت مؤثر طور پر پہنچائی گئی یا نہیں؟ اگر اس بڑے دعوتی بنک کو ضائع ہونے دیا گیا اور محض ہراسکول میں طلبہ کی تعداد بڑھانے کو مقصد بنا لیا گیا تو پھر یہ دعوت سے صریح انحراف ہے۔ طلبہ کے والدین تک پیغام پہنچانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اسکول کے سالانہ پروگرام میں دین اسلام پر کوئی جوشیلی تقریر ہوجائے بلکہ اسکول کی نصابی سرگرمی کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ و طالبات میں دین کا شعور، بنیادی تصورات کی وضاحت اور ان کے ذریعے ان کے والدین سے قریبی رابطہ تاکہ ان کے سامنے ایک ایسا عملی ماڈل آسکے جس میں تعلیم میں اعلیٰ مہارت کے حصول کے ساتھ وہ اپنے بچے میں سیرت و کردار کی تبدیلی دیکھ سکیں اور خود ان کو والدین اساتذہ اجتماعات کے ذریعے دعوت کا شعور دینا، انھیں مختلف مواقع پر دعوت دے کر تبادلۂ خیال کے ذریعے تحریک سے قریب لانا۔اگر صرف تحریکِ اسلامی کے افراد کے قائم کردہ اسکولوں میں بچوں اور ان کے والدین تک دین کا صحیح تصور دیا جائے اور عملاً اسلامی اخلاق پر عمل کیا جائے تو نتائج کے لحاظ سے یہ کسی عظیم الشان جلسے یا دھرنے سے کم مؤثر نہیں ہوسکتا۔ اگر صرف اسکولوں کے سلسلے کو صحیح طور پر استعمال کرلیا جائے تو ہزاروں لاکھوں گھروں تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچ سکتا ہے اور یہ لوگ آخرکار اپنے سیاسی تصورات پر غور کرنے پر آمادہ ہوں گے اور ’دعوتی ووٹ‘ سیاسی ووٹ میں تبدیل ہوسکے گا۔
پانچواں مرحلہ قومی سطح پر اپنی دعوت کو مؤثر انداز میں ملک کے مختلف طبقات تک پہنچانے اور ملکی سطح پر ان افراد کو ایک تنظیم میں شامل کرنے کا ہے جو دعوت سے اتفاق رکھتے ہوں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں خود تحریکی ذہن رکھنے والے افراد خلوصِ نیت کے ساتھ ایک سے زائد طریق کار اور حکمت عملی کے ممکن ہونے کی بنا پر بعض اوقات مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس پانچویں مرحلے کے اوّلین حصے پر، یعنی اقامت دین کی دعوت کو کس طرح اس کے مخاطبین تک پہنچایا جائے؟ ایک سے زائد طریق کار کا وجود بارہا یہ سوال ذہن میں اُٹھاتا ہے کہ کیا جو طریق کار دعوت کے لیے اختیار کیا گیا ہے یہی سب سے زیادہ مناسب اور سنت انبیا کی روح اور مثال سے قریب ہے یا اس کے علاوہ دیگر طریقۂ ہاے کار بھی حصولِ مقصد کے لیے اختیار کیے جاسکتے ہیں؟
بعض حضرات کے نزدیک اگر صرف عبادات کے صحیح طریقے کی اصلاح کرلی جائے تو دین کی اقامت ہوجاتی ہے چنانچہ وہ عبادات کی ظاہری شکل پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ کچھ حضرات زندگی کے اسلامی ہونے کے لیے قلب کو مرکز قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قلب کی اصلاح ہر شے پر مقدم ہے اور اس غرض سے اذکار اور اوراد کا اہتمام ساری توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ بلاشبہہ مسنون اذکار و اوراد تزکیۂ نفس کا اہم ذریعہ ہیں لیکن اگر باقی اُمور کو نظرانداز کر کے صرف اذکار کو دین سمجھ لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاروبارِ حیات کے بہت سے اہم معاملات کو تزکیۂ قلب کی روح کے منافی سمجھتے ہوئے ترک کردیا جائے گا اور دین و دنیا کی تقسیم کو مزید مستحکم کردیا جائے گا اور اللہ والے افراد خانقاہوں اور زاویوں میں گوشہ نشین ہونے اور دنیاوی معاملات کو خیرباد کہنے میں اپنی عافیت سمجھیں گے۔ یہ طرزِفکر روحانیت میں اضافے کو بنیادی اہمیت دیتا ہے تاکہ قلب کی دنیا میں تبدیلی آجائے اور قلب اللہ تعالیٰ کے نور سے بھر جائے تو پھر نظامِ کفر ہو یا استحصالی معاشرہ ہر ایک فرد خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔
ایک طرف یہ رویہ ہے تو دوسری طرف منہج نبویؐ کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے اور قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہوئے انبیاے کرام ؑ کے طریق کار کے تجزیے کے نتیجے میں ایک نقطۂ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ اقامت دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حضرت سلیمان ؑ سلطنت اور حکومت کو قائم فرماتے ہیں۔ حضرت دائود ؑ کو اللہ تعالیٰ خلافت کے منصب پر خود فائز فرماتے ہیں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں مقامِ قیادت اور تھوڑے عرصے میں فاتحِ مکّہ کی حیثیت سے حضرت ابراہیم ؑ کے شہر میں داخل فرماتے ہیں۔ آپؐ مدینہ منورہ میں بین الاقوامی معاہدے کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کے فرماں روائوں کو مدینہ منورہ میں قائم شدہ اسلامی ریاست کے امیر اور اللہ کے نبیؐ کی حیثیت سے دعوتی خطوط تحریر فرماتے ہیں۔ قرآن کریم کی مقرر کردہ تعلیمات کو خاندانی معاملات میں، معیشت میں اور تعزیراتی معاملات میں حکومتی اختیارات کے ذریعے نافذ فرماتے ہیں۔ گویا عملاً کر کے دکھاتے ہیں کہ تزکیہ محض قلب کا نہیں بلکہ معیشت و سیاست کا تزکیہ بھی یکساں طور پر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
اس نقطۂ نظر کی روشنی میں جو طریق کار اور حکمت عملی تحریکاتِ اسلامی اختیار کرتی ہیں وہ انبیاے کرام ؑ کے طریق دعوت سے براہِ راست ماخوذ اور اسی پر مبنی ہوتی ہے۔
پانچویں مرحلے کے اس اوّلین پہلو کے ساتھ ہی جو دوسرا اہم پہلو ہمارے سامنے آتا ہے، اس کا تعلق دعوت سے متاثر افراد کی تنظیم، ان میں دعوت کی تطبیق اور جو لوگ دعوت سے اتفاق نہ کرتے ہوں ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا ہے۔ تحریکِ اسلامی کا تنظیمی ڈھانچا کیا ہو؟ کیا یہ ضروری ہے کہ تحریک ہر کام خود کرے یا وہ بعض مقاصد کے حصول کے لیے تقسیم کار کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی عمومی رہنمائی اور تائید کے ساتھ تحریک کے ہم خیال افراد کو معاشی خدمت ِ خلق یا سیاسی معاملات میں بڑی حد تک خودمختاری کے ساتھ کام کا موقع دینی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر اختیارکرے؟
اسی طرح اس مرحلے میں یہ امر بھی غورطلب ہوگا کہ کیا تحریک ہمیشہ سیاسی محاذ پر اپنی دعوت اور اصولوں کی بنا پر تنہا سیاسی محاذ پر کام کرے یا وقتی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں سے متعین وقت کے لیے تعاون کو حسب ِ ضرورت اختیار کرے؟ ایک زاویہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے کسی قیمت پر اتحاد یا اشتراک نہ کیا جائے اور مکمل طور پر اپنے افرادی اور مادی وسائل پر بھروسا کیا جائے، چاہے تحریک کو حصولِ مقصد میں سو دو سو سال لگ جائیں ۔ وہ ہر کام اپنے نظریاتی اصولوں کے مطابق کرے اور کسی کے ساتھ مخصوص اہداف کے لیے بھی تعاون و اشتراک پر غور نہ کرے۔
دوسروں سے عدم تعاون کے نقطۂ نظر کے لیے فکری بنیاد عموماً قرآن و سنت کے بعض جزوی احکام سے اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلام اور جاہلیت، اسلام اور طاغوت، اسلام اور کفر کا مقابلہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جو جماعتیں اپنے اہداف اور دعوت کے لحاظ سے قرآن و سنت کی تعلیمات سے انحراف کرتی ہوں وہ جاہلی جماعتیں ہیں اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں تعاون کرنا اسلام کے منافی ہے۔
اقامت دین اور قیامِ نظامِ اسلامی کی جدوجہد کے اس پانچویں مرحلے میں جو ملک گیر بنیاد پر دعوتِ دین کو حکمت کے ساتھ عوام الناس تک پہنچانے اور انھیں منظم کرنے کا ہے،دعوتی اور سیاسی تنظیم بندی بالعموم یک جان ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مکہ سے مدینہ منورہ آنے کے بعد اسلام کے عالم گیر دعوتی اصول بالخصوص دعوتِ توحید، معیشت اور سیاست کے شعبے میں انقلاب لانے کا سبب بنی۔ اس مرحلے میں تحریک اسلامی کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جس طرح اس کی دعوت کا منطقی اور قرآن و سنت پر مبنی ہونا عوام کو مطمئن کرتا ہے کہ یہ دعوتِ حق ہے، کیا وہی افراد جو اس کی دینی دعوت کو پسند کرتے ہیں تحریک کی سیاسی حمایت اور اُس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریکی کارکنوں کے خلوص اور قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی دعوت کو تو پسند کیا جا رہا ہو لیکن سیاسی فیصلے میں وفاداری، برادری، موروثی سیاست دانوں یا جذباتی نعرے بلند کرنے والوں کے ساتھ ہو اور اگر بالفرض ایسا ہے تو تحریک کی دعوت کی حکمت عملی اس پہلو کو حل کرنے کے لیے اور ان افراد کو جیتنے کے لیے جو دعوت کو تو پسند کرتے ہیں لیکن ووٹ ڈالتے وقت جذبات یا پرانی وابستگی سے متاثر ہوجاتے ہیں،کیا مؤثر اقدامات کرتی ہے؟ اس مرحلے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے اگر بعض ایسے سیاسی طبقات کے ساتھ وقتی اور جزوی تعاون کرنا پڑرہا ہے جو چاہے اپنی ذات میں اسلام کے اعلیٰ اصولوں پر عامل نہ ہوں لیکن اس تعاون کے نتیجے میں ملک میں اسلامی معاشرہ اور نظامِ عدل قائم کرنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہوں تو تحریک کا ان کے ساتھ تعاون کرنا وسیع تر حکمت عملی کا ایک جزو سمجھا جائے گا نہ کہ مداہنت کی کوئی شکل! بات بہت واضح ہے، ایسے حالات میں سیاست شرعیہ کا تقاضا ہے کہ ایسے جزوی تعاون کو اختیار کرکے بڑے مقصد کے حصول کے راستے کو ہموار کیا جائے۔ ایسا تعاون کفر اور طاغوت کے ساتھ تعاون قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عصرِحاضر کے تحریکِ اسلامی کے نام وَر مفکرین سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ نے اسلام اور جاہلیت کے حوالے سے جو تصور پیش کیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ایک جانب وہ طاغوتی نظام کے خلاف فکری، دستوری اور عملی جہاد کا تصور پیش کرتے ہیں اور دوسری جانب طاغوتی نظام کے زنجیری حلقے کو توڑنے کے لیے نقطۂ آغاز کے حوالے سے یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ اگر اصولی طور پر ایک ریاست اپنے آپ کو غیراسلامی ریاست قرار دیتی ہو،مثلاً خود کو سکیولر کہے تو اس کے ساتھ سیاسی معاملات میں شراکت نہ کرنا افضل ہوگا، جب کہ ایک ریاست اصولی طور پر خود کو اسلامی ریاست اپنے دستور کی دفعات کے ذریعے قرار دے لیکن نظامِ حکومت ابھی مکمل طور پر اسلامی نہ ہو تو اس کے معاملات کی اصلاح کے لیے دستور کی روشنی میں معاملات میں شراکت نہ کرنا دین کی حکمت کے منافی ہوگا۔ ایسے حالات میں اُمت مسلمہ کی فلاح اور حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنا، سیاسی جدوجہد کرنا اور اس جدوجہد میں دیگر جماعتوں کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے تعاون کرنا دین کی حکمت کے مطابق ہوگا۔ اس کی مثال ایک نومسلم کی حیثیت سے بھی سمجھی جاسکتی ہے جس کا صرف اقرارِ ایمان اسے مسلمان بنادیتا ہے۔ گو ابھی اسلامی شعور اور کردار کا حصول ایک وقت لے گا، بلکہ مدت عمر کا متقاضی ہوگا۔
حکمت عملی کے حوالے سے دوسرا اقدام مروجہ نظام میں موجود افراد کو اس تبدیلی کے لیے آمادہ کرنا ہوگا اور اس غرض سے پارلیمان ہو یا ایوانِ تجارت، جامعات ہوں یا سرکاری دفاتر، فوج ہو یا مذہبی اُمور میں رہنمائی کرنے والے افراد ہر ایک سے رابطہ، تبادلۂ خیالات اور ان تمام اداروں میں ایسے افراد کو داخل کرنا ہوگا جو ان مختلف محاذوں پر دین کے مفاد کا تحفظ کرسکیں۔ اسی کا نام دین کی حکمت ہے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں حضرت یوسف ؑ کے ایک ایسے نظام میں جو بظاہر شریعت الٰہی پر مبنی نہ تھا داخل ہوکر اس کی اصلاح کرنے کی حکمت عملی ہمارے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ اولوالالباب اس پر غور کریں اور حالات و مواقع کے لحاظ سے اللہ کے ایک برگزیدہ نبی ؐ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے چاہے پارلیمان ہو یا ایوانِ تجارت، عدلیہ ہو یا دیگر اہم ادارے، ان میں شمولیت کر کے اندر سے اصلاح کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہ سیاست شرعیہ اور مصلحت عامہ کے اصولوں کے منافی ہوگا۔
یہاں یہ بات واضح کردینی ضروری ہے کہ ایک اصولی اور دستوراً اسلامی ریاست اور ایک عملاً غیراسلامی ریاست میں دینی حکمت عملی یکساں نہیں ہوسکتی۔ دین کی بنیادی دعوت بلاشبہہ ایک ہی ہوگی، یعنی نفس، معاشرہ، معیشت اور سیاست کے خدائوں سے نجات حاصل کرکے صرف اور صرف خالق کائنات کی حاکمیت کا قیام اور اسلام کے نظامِ عدل کا قیام۔
ہم یہاں ایک اصولی، دستوری اور اسلامی ریاست کی بات کر رہے ہیں جس میں چاہے عملاً دین کی تمام تعلیمات پر سرکاری اداروں میں مکمل طور پر عمل نہ کیا جا رہا ہو۔ ایسی صورت حال میں تبدیلی کا عمل اسلامی منہج پر عمل کرتے ہوئے surgical operation سے بھی ہوسکتا ہے اور medical treatment سے بھی۔دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ ایک میں اندرونی طور پر تشخیص مرض کے بعد اندر سے اصلاح کرنے کے لیے معروف اور بّر کے ذریعے نظامِ فساد کی اصلاح کی تدبیر کی جاتی ہے۔ چنانچہ حسنات اور معروف میں بتدریج اضافے کے ذریعے فساد جسم کو ختم کیا جاتا ہے، جب کہ سرجری میں، اس صورت میں جب دوسری دوائیں کام نہ کریں تو فساد کا سبب بننے والے اجزا کو نشتر کے ذریعے تراش کر الگ کردیا جاتا ہے۔ ان دونوں کی بنیاد دین کے بنیادی اصولوں پر ہے۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ (ھود ۱۱:۱۱۴)، ’’بلاشبہہ بھلائیاں برائیوں کو دُور کردیتی ہیں‘‘۔ اس طرح فتنہ اور فساد کو دُور کرنے کے لیے جنگ کرنے کا حکم بھی قرآنِ کریم کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)، ’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے‘‘۔
قرآن کریم اور سنت مطہرہ تبدیلی کے دونوں طریقوں کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں اور ایک تیسرے قرآنی اصولِ استحسان اور مصلحت عامہ کے ذمہ دارانہ استعمال سے یہ فیصلہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ ایک مخصوص صورت حالات میں کس حکمت عملی کو اختیار کیا جائے۔ ان میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ فیصلہ کہ کب تک طبابت سے کام لیا جائے اور کب نشتر کا استعمال ہو، ایک اجتہادی اقدام ہے۔ اس لیے کسی ایک طریقے کو جائز اور حلال اور دوسرے کو مردود اور حرام قرار دے دینا، نہ دین ہے اور نہ دین کی تعلیم کردہ عقل و حکمت سے مطابقت رکھتا ہے۔
یہ سوال اُٹھاتے وقت کہ انتخابی سیاست میں ضرورتاً حصہ لینے کے باوجود اگر متوقع نتائج حاصل نہ ہوں تو پھر اس سرگرمی کا کیا جواز ہے؟ بات بہت آسان سی ہے، جسے ہم بالعموم شدتِ جذبات میں نظرانداز کرجاتے ہیں، یعنی ہمارا اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے یا ایک خاص تعداد میں نشستوں کا حصول؟ کیا سیاسی جدوجہد کا مقصد محض حصولِ اقتدار ہے یا اسلامی اخلاقی اصولوں پر مبنی دعوت کو عوام الناس تک پہنچا کر ان میں حق و باطل کے درمیان انتخاب کرنے کا شعور بیدار کرنا اور یہ یاد دہانی کرانا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات، برادری سے تعلق اور سیاسی وابستگی کے باوجود اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں۔اگر ہمارا مقصد اپنی دعوت پہنچانا اور دعوت کو بہتر طور پر پیش کرنے کے لیے ایوانِ نمایندگان میں پہنچ کر ملک میں اصلاح اور عدل کے نظام کا قیام ہے تو نشستوں کی کثرت یا قلت اور انتخاب میں بھرپور کامیابی یا ناکامی سے بلند ہوکر اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم نے کس حد تک صحیح حکمت عملی اور اخلاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو سرانجام دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان صالح افراد کی کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے، جو خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کو اپنا رب قرار دیتے ہوئے دین پر استقامت اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ انھیں لازمی طور پر زمین میں خلیفہ بناتا ہے۔سیاسی محاذ پر انتخاب میںکامیابی یا ناکامی ہو یا میدانِ جہاد میں کفروظلم کے مقابلے میں صف آرا ہوکر جان کی بازی لگانا ہر دعوتی جدوجہد اور جہادِ حق کے لیے قرآن کریم نے اسلامی عالمی اصول بیان کردیا ہے کہ آخرکار کامیابی اور سرفرازی دین کی ہوگی جو ایمان، خلوص، منزل کے شعور، دعوت الی اللہ اور ایثار و قربانی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) ، دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
اسی بات کو ایک دوسرے انداز سے یوں فرمایا گیا:
اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَo (احقاف ۴۶:۱۳) یقینا جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے، پھر اُس پر جم گئے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اصل غور طلب بات یہ ہے کہ کیا سیاسی جدوجہد میں ہم نے صرف اور صرف اللہ کو رب بناتے ہوئے استقامت اختیار کی یا اس جدوجہد میں جسے خالصتاً اللہ کے لیے ہونا چاہیے تھا کہیں ذات اور شخصیت تو درمیان میں نہیں آگئی یا چند لمحات ہی کے لیے سہی منصب کی طلب کا وسوسہ تو نہیں پیدا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے جب وہ فرماتا ہے کہ میں تمھیں سربلند (الاعلون) کروں گا تو وہ ایسا ہی کرتا ہے، کمی ہماری جانب سے رہتی ہے ۔ کبھی منصوبہ بندی میں کہ جو کام انتخابات سے ایک سال پہلے کرنے کا ہو ہم نے دو ماہ پہلے کیا ہو یا حالات کا تجزیہ کہ ہم نے محض معلومات کے ایک ذریعے پر بھروسا کیا ہو وغیرہ۔
کسی بھی جماعت کے لیے کامیابی کا حصول بڑی اہمیت رکھتا ہے خصوصاً ایسی جماعت کے لیے جسے اس کے ناقدین ملک کی سب سے زیادہ منظم، نظریاتی جماعت کہتے ہوں۔ لیکن اس سے زیادہ اہم اس کا اپنے اصولوں پر قائم رہنا اور استحصال، بدعنوانی، رشوت اور اقرباپروری پر مبنی نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی اور مکمل تبدیلی ہمارا اصل ہدف ہے لیکن اس ہدف کا سو فی صد حصول پورے طور پر ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ صحیح انداز میں کوشش ضروری ہے اور اس کا بار بار تنقیدی جائزہ بھی ضروری ہے لیکن خلاف گمان نتائج پر مایوسی کا کوئی جواز ہی نہیں۔ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کرتا ہے اور بعض اوقات بظاہر ناکامی بعد میں حاصل ہونے والی عظیم تر کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہے بشرطیکہ کوشش جاری رہے اور کبھی ہمت نہ ہاری جائے۔
یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ اہداف کا حصول نہ ہونے کی شکل میں اسلام اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ نااُمیدی کو کسی بھی راستے سے اپنے اندر داخل نہ ہونے دیں اور تجزیہ کر کے دیکھیں کہ ہماری جانب سے وہ کون سی کمی تھی جس کی بنا پر نتائج وہ نہ نکلے جن کی اُمید تھی۔ اس تجزیے کے ساتھ ہی اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی تبدیلی کے عمل کو آیندہ بہتر طور پر کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات کیے جائیں۔
یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی حکمت عملی کو ہرحالت میں دعوتی حکمت کا تابع ہونا چاہیے اور اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول رہنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے جو حکمت عملی وضع کی جائے اسے بھی وقتاً فوقتاً تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلے میں چند بنیادی نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
غورکرنے کی ضرورت ہے کہ جو دعوتی زبان استعمال کی گئی کیا وہ عوامی نفسیات سے مطابقت رکھتی تھی یا جن اُمور پر ہمیں زور دینا چاہیے تھا کیا کسی اور نے ان عنوانات کو اغوا کر کے عوام کے دل میں اُترنے کا ذریعہ بنایا۔ کیا تحریکِ اسلامی نے ظلم، بدعنوانی، عدم مساوات اور عدم تحفظ، دہشت گردی، معاشی استحصال، بے روزگاری اور صحت سے متعلقہ اُمور کو ایسی زبان میں جو عوام کو متاثر کرے سیاسی مہم میں تذکرہ کیا؟کیا تبدیلی کی ضرورت جیسے بنیادی اُمور پر عوام سے رابطے میں پہل کی اور انھیں یقین دلانے میں کامیاب ہوئی کہ وہ تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، یا ان موضوعات پر دیگر افراد نے زیادہ زورِ بیان کے ساتھ اپنی image بنائی، جب کہ تحریک اسلامی کے ایک پہلے سے قائم شدہ ذہنی خاکے کی بنا پر اسے ایک صالح افراد کی کم تعداد والی جماعت سمجھا جاتا رہا جس کو ووٹ دینے کے باوجود اس کے اکثریت میں آجانے کا امکان کم نظر آتا ہو۔
زکوٰۃ و صدقات کی وصول یابی اور تقسیم خود ایک ایسا عظیم کام ہے کہ جو بھی اسے صحیح طور پر کرے گا وہ عوام الناس میں مقبول ہوگا۔ اس کے ساتھ تعلیم، صحت ، آفات سے متاثر افراد کی خدمت، غرض یہ سارے کام جب اللہ کی رضا کے لیے کیے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی کرم سے دعوت کو مقبولیت دیں گے۔تحریک اسلامی کو آیندہ پانچ سالوں کے لیے ایک واضح منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے سال میں خدمت کے کام کو کہاں تک پہنچایا جائے اور آیندہ پانچ برس میں اس کا دائرہ کہاں تک ہو۔
بعض سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد حکومتی رقم کو اپنے آنجہانی لیڈروں کی فاتحہ سمجھتے ہوئے تقسیم کرکے ملک میں لاکھوں افراد کو اپنا ممنونِ احسان بنالیتی ہیں جو اخلاقی اور قانونی طور پر جرم اور گناہ ہے، جب کہ زکوٰۃ، صدقات و عطیات کی وصولی اور ان کی مناسب تقسیم ایک دینی فریضہ ہے اور تحریکاتِ اسلامی اس کی زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیں اور معاشرے کے نادار افراد کی جائز امداد اور ان کی سیاسی تعلیم کا بندوبست کریں۔ کیا اس سلسلے میں شعوری طور پر کوئی منصوبہ بنایا گیا اور اس پر احتساب کے ساتھ عمل کیا گیا؟ اس سلسلے میں لوگوں کی غلط فہمی کہ زکوٰۃ کی رقم کا سیاسی استعمال نہیں کیا جا رہا ،کا دُور کرنا بھی ضروری ہے۔
ان چند اُمور کو سامنے رکھتے وقت اور تنقیدی جائزہ لیتے وقت یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کامیابی کا پیمانہ نشستوں کی تعداد کبھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی کا اصل معیار یکسوئی، خلوص، بے لوثی، قربانی اور استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو بغیر کسی معذرت اور مفاہمت کے اپنے عمل سے پیش کرنا ہے۔ بہترین دعوت عملی دعوت ہے۔ زبان کی قوت بلاشبہہ ایک انعام ہے لیکن اس سے محرومی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکو اپنا نبی ؑاور رسول ؑبنانا پسند فرمایا اور ان کے بھائی ہارون ؑ کے ذریعے ان کی مدد فرمائی، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن سے عرب کے سب سے زیادہ فصیح قبیلے کی لغت اور زبان کو سننے اور اختیار کرنے کا موقع ملنے کے سبب کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم ادا کرنے کی صلاحیت سے نوازا گیا۔یہ تمام پہلو تنقیدی نگاہ سے باربار غور کرنے کے ہیں اور پھر آیندہ پانچ برسوں کے لیے بتدریج ایک حکمت عملی کی تیاری بلاتاخیر کرلینے کی ضرورت ہے۔ یہ حکمت عملی دعوتی حکمت عملی کے ضمیمے کے طور پر مرتب ہونی چاہیے تاکہ ہرہرمعاملے میں تحریک کے اصول عوام کے سامنے مثالی شکل میں آسکیں اور سیاسی فیصلے کرنے میں انھیں مدد فراہم کی جاسکے۔
منصوبہ بندی اور مستقبل کا لائحہ عمل تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے انتخابات یا اس جیسے دیگر امتحانات سے گزرنے کے بعد سالوں اور مہینوں کا انتظار کیے بغیر اس بات کی ضرورت ہے کہ تحریک اور تحریک سے باہر کے ایسے افراد پر مبنی ایک کمیٹی ترتیب دی جائے جو نہ صرف حالیہ انتخابات بلکہ گذشتہ تمام انتخابات کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے کر آیندہ چھے ماہ میں ایک مفصل حکمت عملی تجویز کرے، جسے آیندہ پانچ سالہ منصوبے کے طور پر ہرسال میں ترجیحات کی شکل میں مشاورت کے بعد نہ صرف قرارداد کی شکل دی جائے بلکہ ایک بااختیار شعبہ ان اقدامات کے نفاذ، ان کے ہر تین ماہ میں جائزے اور اس کی روشنی میں مزید اقدامات کروانے کا مجاز ہو۔ اختیارات کے بغیر کوئی کام نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ تجزیہ و تحلیل اگر حصول نتائج میں مددگارنہ ہو تو محض ذہنی ورزش ہی ہوگی جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آبادی دنیا کے کسی بھی خطے سے زیادہ ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش، ہر ایک میں تقریباً ۱۰ کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اس خطے کے مسلمان دنیا کے دیگر خطوں میں ہجرت کرکے بھی گئے ہیں جہاں انھوں نے اپنی آبادیاں اور بین الاقوامی روابط قائم کرلیے ہیں، اور وہ ایک سے دوسرے براعظم میں اپنی فعال تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی معروف ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا، اسلام کے احیا اور جدیدیت کے لیے بڑے پیمانے پر سرگرم کارکن اور مفکرین کی فراہمی کے حوالے سے بھی معروف ہے۔
اس مقالے میں، میری کوشش ہوگی کہ جنوبی ہندستان میں مسلم مفکرین کی حرکیات (حکمت عملی) پر احیاے اسلام کی عصری اسلامی تحریک بالخصوص شاعر مشرق علامہ اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) اور مفکر اور صحافی سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے افکار اور سیاسی سرگرمیوں کے تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے روشنی ڈال سکوں۔ جدید جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر دونوں کے افکار کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔۱؎
مولانا مودودی جماعت اسلامی کے بانی تھے، ایک ایسی تنظیم جو پاکستان میں اسلام کے ذریعے سماجی اصلاح چاہتی ہے۔ انھیں ’جدید اسلام کا انتہائی منظم مفکر‘ سمجھا جاتا ہے (سمتھ، ۱۹۵۷ء، ص ۲۳۴)۔ وہ ایک زود نویس مصنف تھے جنھوں نے اُردو میں اسلام پر ۱۴۰ سے زائد کتابیں اور مقالات لکھے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سرفہرست ترجمۂ قرآن (مولانا مودودی، ۱۹۷۶ء) اور ان کی تفسیر تفہیم القرآن (مولانا مودودی ۱۹۵۱ء-۱۹۷۲ء) ہیں، اور آج بھی برطانیہ، جنوبی مشرقی ایشیا اور دنیا میں کہیں بھی ان کے اس کام کے انگریزی تراجم سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اہم کتب کا بہت سی زبانوں جن میں انگریزی، عربی اور فارسی شامل ہیں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ بجاطور پر ان کا شمار ان مفکرین میں ہوتا ہے جنھوں نے احیاے اسلام کی تحریک کو جنوبی ایشیا کی سرحدوں سے ماورا فلسفیانہ بنیادیں فراہم کیں۔
مولانا مودودی ۱۹۰۳ء میں اورنگ آباد ، دکن کے شہر میں جنوبی ہند میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد [سیداحمد حسن] ایک وکیل تھے جو مسلم صوفیاے کرام کے سلسلے [سلسلۂ چشتیہ] سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ ان کی والدہ [رقیہ بیگم] ایک معروف شاعر کی پوتی تھیں جو مغل دربار، دہلی سے باقاعدہ وابستہ تھے۔ جنوبی ہند میں رہنے کے باوجود مولانا مودودی کو ان کے بچپن میں پابند کیا گیا کہ وہ گھر میں دہلی کی ٹکسالی اُردو بولیں (Maududi and the Making of Islamic Revivalism، سید ولی رضا نصر، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس ۱۹۹۶ء)۔ انھوں نے قرآن مجید کی تعلیم گھر پر حاصل کی، پھر انھیں مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔ جب ان کی عمر ۱۲سال تھی تو ان کے والد کو خرابی ِ صحت کی بنا پر بھوپال جانا پڑا، چنانچہ مولانا مودودی کو ایک سال بعد ہی مدرسہ چھوڑنا پڑا۔ اپنے خاندان کو مشکل حالات میں دیکھتے ہوئے ۱۹۱۸ء میں، ۱۵برس کی عمر میں، مولانا مودودی نے اپنے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی کے ساتھ اس بات کے پیش نظر انگریزی سیکھنا شروع کی کہ وہ صحافت کو ذریعۂ معاش بنا سکیں۔
اس زمانے میں ہندستان میں ترکی میں خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے پر بحث زوروں پر تھی جس نے جنگ عظیم اوّل میں شکست تسلیم کرلی تھی۔ برطانیہ نے ترکی کے خلاف جو سخت اقدامات اُٹھائے، اس سے ہندستان کے مستقبل کے بارے میں بھی تشویش پیدا ہوئی اور ہندوئوں اور مسلمانوں کی طرف سے برطانیہ مخالف تحریک اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مارچ ۱۹۱۹ء میں رولٹ ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے تحت ’برطانیہ مخالف تحریک‘کو قوت سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اپریل میں حکومت کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ جلیانوالہ باغ، امرتسر، (پنجاب) میں منعقد ہوا جہاں برطانوی انڈین فورس کے سپاہیوں نے مجمعے پر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں سرکاری ذرائع کے مطابق ۳۷۹؍افراد ہلاک ہوئے (انڈین نیشنل کانگریس کے مطابق تقریباً ایک ہزار)۔ یہ جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام تھا، اور اس کے نتیجے میں فوری طور پر برطانیہ مخالف جذبات بھڑک اُٹھے۔
نومبر میں آل انڈیا خلافت کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی اور ’برطانیہ مخالف عدم تعاون تحریک‘ کا جو تحریک خلافت کے نام سے جانی جاتی ہے، آغاز ہوا۔ اس تحریک نے حب الوطنی اور برطانیہ مخالف جذبات کو بھی اُبھارا تھا، اس لیے ہندو رہنمائوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ بقول شخصے لفظ خلافت ’خلاف‘ (مخالفت) کے مترادف سمجھا جاتا تھا اور اس کو حکومت برطانیہ مخالف اور ہرطرح کے سماجی اور اقتصادی استحصال کے مفہوم میں لیا جاتا تھا۔ اس تحریک کے مذہبی اور طبقاتی اختلافات سے ماورا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ (Kagaya and Hamaguchi، ۱۹۷۷ء، ص ۱۰۵)
نومبر ۱۹۱۹ء میں ہی تمام مسالک کی نمایندہ علما کی ملک گیر تنظیم جمعیت العلما ہند کا قیام بھی امرتسر میں عمل آیا۔ اس کی سرگرمیوں کا بنیادی اصول خلافت ِ عثمانیہ، ترکی کا وفادار رہنا تھا۔ یہ خلافت کا تحفظ اور شریعت کا نفاذ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی تھی، لیکن یہ بھی برطانیہ مخالف جذبے اور ہندستان سے محبت کے جذبے کے زیراثر تھی۔
تحریکِ خلافت میں پے درپے تشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ ۱۹۲۲ء میں گاندھی جی نے جو عدم تشدد اور عدم تعاون کی فکر کے علَم بردار تھے، عدم تعاون کی تحریکِ مزاحمت کے خاتمے کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں تحریک کے حامیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر احساسِ مایوسی پیدا ہوا۔ اس دھچکے کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں نے اپنے اندر استحکام پیدا کرنے کے لیے اپنی اپنی تحریکوں کا اجرا کیا، اور دونوں کے درمیان اختلاف مزید بڑھ گیا۔ ۱۹۲۳ء میں، ہندوئوں نے ہندو مذہب کے غلبے کے لیے شدھی (پاک) کرنے کے لیے شدھی تحریک، اور ہندوئوں کے استحکام اور ہندو بنانے کے لیے ہندو سنگھٹن تحریک کا آغاز مدن موہن مالوی کی ہدایت پر کردیا، جب کہ مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان یہ اختلاف جاری تھا کہ ۱۹۲۴ء میں ترکوں نے خود ہی خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کردیا، اور اس کے نتیجے میں تحریک خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔
اس دوران میں مولانا مودودی نے اپنے بھائی ابوالخیر مودودی کے ساتھ بطور صحافی ان شہروں کا سفر کیا جہاں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی، اور وہ مختلف رسائل کی ادارت میں مصروف رہے۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی نے مدن موہن اور گاندھی جی کے بارے میں بھی مضامین لکھے۔ (ولی رضا نصر، ۱۹۹۶ء، ص ۱۵-۱۶)
۱۹۲۱ء میں مولانا مودودی دہلی چلے گئے جہاں انھیں ہندستان کے علما کی تنظیم کے رہنمائوں سے شناسائی کا موقع ملا اور وہ ان کے اخبار مسلم کے مدیر بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں عربی سیکھنے اور اسلام کے مختلف شعبوں کے متعلق مزید مطالعے کا موقع بھی میسر آیا۔ اس سے قبل مدرسے کی تعلیم ادھوری چھوڑ دینے کے بعد اب انھوں نے اسلام کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔٭ ۱۹۲۳ء میں مسلم کی اشاعت عارضی طور پر معطل ہوگئی، چنانچہ مولانا مودودی بھوپال چلے گئے۔ ۱۹۲۴ء میں وہ واپس دہلی آئے اور ہمدرد کے مدیر بن گئے۔ یہ اخبار مولانا محمدعلی جوہر (۱۸۷۸ء- ۱۹۳۱ء) شائع کرتے تھے جو تحریکِ خلافت کے رہنما بھی تھے۔ ۱۹۲۵ء میں مولانا مودودی الجمیعۃ کے مدیر بن گئے۔ یہ ایک دوسرا اخبار تھا جو مولانا محمدعلی شائع کرتے تھے۔l
۱۹۲۶ء میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات میں شدت پیدا ہوگئی۔ سوامی شردھانند جو شدھی تحریک کا رہنما تھا اور کھلے عام مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کرتا تھا،
٭ مولانا مودودی نے مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری، دہلی میں حدیث، فقہ اور ادب میں فراغت اور تدریس کی سند حاصل کی۔ اسی طرح معروف عالم دین مولانا عبدالسلام نیازی سے بھی استفادہ کیا۔
ایک مسلمان کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس پر ہندوئوں نے مسلمانوں کو مجرم ٹھیرایا، اور گاندھی جی نے ’’اسلام کو تلوار کا مذہب قرار دیا، اور یہ کہ مسلمانوں کا مذہب اس قسم کے تشدد کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴)
اس کے جواب میں مولانا مودودی نے ایک مضمون ’اسلام کا قانونِ جنگ‘ کے عنوان سے لکھا جس میں انھوں نے مسلمانوں اور جہاد کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو رفع کیا، اور یہ مضمون الجمیعۃ میں ۲فروری ۱۹۲۷ء کو شائع ہوا۔ جب اس مضمون کی ۲۳/۲۴ قسطیں شائع ہوگئیں، تو اس کی مکمل نظرثانی کے بعد اسے کتابی صورت میں ۱۹۳۰ء میں الجہاد فی الاسلام کے نام سے شائع کیا گیا۔
اس کتاب کے پہلے اڈیشن کے دیباچے میں ۱۵جون ۱۹۲۷ء کو مولانا مودودی نے اس کتاب کے محرک کے بارے میں یوں لکھا: ’’دورِ جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں، ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیرووں کو خوں ریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے میں یورپ کو پوری کامیابی ہوئی اور [مغرب کی طرف]غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوموں نے اسلامی جہاد کے متعلق اس کے پیش کردہ نظریے کو بلاادنیٰ تحقیق و تفحص اور بلاادنیٰ غوروخوض اس طرح قبول کرلیا کہ کسی آسمانی وحی کو بھی اس طرح قبول نہ کیا گیا ہوگا.....
۱۹۲۶ء میں شدھی کی تحریک کے بانی سوامی شردھانند کے قتل کا واقعہ پیش آگیا جس سے جہلا اور کم نظر لوگوں کو اسلامی جہاد کے متعلق غلط خیالات کی اشاعت کا ایک نیا موقع مل گیا، کیونکہ بدقسمتی سے ایک مسلمان اس فعل کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اخبارات میں اس کی جانب یہ خیالات منسوب کیے گئے تھے کہ اس نے سوامی کو اپنے مذہب کا دشمن سمجھ کر قتل کیا ہے، اور یہ کہ اس نیک کام کے کرنے سے وہ جنت کا اُمیدوار ہے..... اور علانیہ قرآن کریم پر اس قسم کے الزامات عائد کرنے لگے کہ اس کی تعلیم مسلمانوں کو خونخوار و قاتل بناتی ہے۔..... ان غلط خیالات کی نشرواشاعت اس کثرت سے کی گئی کہ صحیح الخیال لوگوں کی عقلیں بھی چکرا گئیں اور گاندھی جی جیسے شخص نے، جو ہندو قوم میں سب سے بڑے صائب الراے آدمی ہیں، اس سے متاثر ہوکر بہ تکرار اس خیال کا اظہار کیا کہ: ’’اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کے فیصلے کی طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے‘‘۔ چونکہ ایسی عام بدگمانیاں اشاعت اسلام کی راہ میں ہمیشہ حائل ہوتی ہیں، اور ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں جن میں اسلام کی صحیح تعلیم کو زیادہ صفائی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ غبار چھٹ جائے اور آفتابِ حقیقت زیادہ روشنی کے ساتھ طلوع ہو، اس لیے میں نے فرصت کا انتظار چھوڑ کر اپنے اسی قلیل وقت میں جو ترتیب ِاخبار سے بچتا تھا پیش نظر مضمون کی تحریر و تسوید شروع کر دی۔..... ۲۳/۲۴نمبر [قسطیں] شائع کرنے کے بعد مَیں نے اخبار میں اس کی اشاعت بند کردی اور اب اس پورے سلسلے کو مکمل کرکے کتابی صورت میں پیش کر رہا ہوں‘‘۔ (دیباچہ، الجہاد فی الاسلام، ص ۱۵-۱۹)
اسی زمانے میں ، ہندستان میں مسلم دانش وروں میں اسلام پر تنقید بھی کی جارہی تھی۔ انیسویں صدی کے اواخر میں بہت سے مسلمانوں نے جہاد کے خلاف مضامین لکھے، اور بیسیویں صدی کے آغاز میں بہت سے علمی رسائل میں اسلام کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان حالات نے بھی مولانا مودودی کے اندر اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایک بحران کے خدشے کو بتدریج راسخ کیا۔ (خطوطِ مودودی، ۱۹۹۲ء، ص ۲۶، ۱۹۹۹ء، ص ۱۴۵-۱۴۷)
الجہاد فی الاسلام بڑے سائز کی ۶۰۰صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے جس میں مولانا مودودی مغرب کے تصورِ جنگ اور اسلام میں خاص طور پر جہاد اور جنگ کے مقاصد اور اہمیت کو مختلف حوالوں سے واضح کرتے ہیں۔ ان میں ’انسانی جان کا احترام‘، ’قتل بالحق اور قتل بغیر حق‘، ’ناگزیر خوں ریزی‘، ’جنگ ایک اخلاقی فرض‘، ’جہاد فی سبیل اللہ‘، ’نظامِ تمدن میں جہاد کا درجہ‘، ’مدافعانہ جنگ کی مختلف صورتیں‘، ’زمانۂ جاہلیت میں عرب کا طریق جنگ‘، ’روم اور ایران کا طریق جنگ‘، ’جنگ کا اسلامی تصور‘ ، ’ہندو مذہب میں تصورِ جنگ‘اور ’مسیحیت میں تصورِجنگ‘ جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب کے دوسرے نصف حصے میں تقریباً۱۵۰صفحات میں جنگ عظیم کے اسباب و وجوہ، لیگ آف نیشنز (جمعیت اقوام) کے قیام کا پس منظر، جنگ کے بین الاقوامی قانون کا مفہوم اور مغربی قوانین جنگ زیربحث آتے ہیں۔ یہ بالکل واضح اور اختصار و جامعیت کے ساتھ اُردو زبان میں لکھی گئی ہے۔ کتاب کے ابتدائی نصف حصے میں جہاد سے متعلق آیاتِ قرآنی اور احادیث اور ان کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں یورپی تاریخ اور قانون سے متعلق بہت سی انگریزی کتابوں سے اقتباسات بھی دیے گئے ہیں۔
اس کتاب میں مولانا مودودی استدلال کرتے ہیں کہ سامراجیت کے تحت حال ہی میں جو جنگیں لڑی جارہی ہیں، وہ قومی اور انفرادی مفادات کے حصول کے لیے لڑی جارہی ہیں، جب کہ نہ اسلام اور نہ مسلمان ہی کسی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں، اور قرآنِ مجید میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جب وہ کہتا ہے کہ: ’’مسلمانو، اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور خوب جان لو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲۴۴)۔ لہٰذا اسلام میں جنگ دراصل اسلام کے خلاف ظلم و زیادتی پر دفاع کے جواز کا نام ہے، اور یہ جدید جنگ کے تصور سے مختلف نوعیت رکھتی ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۵۰)
وہ جہاد کی اہمیت کو بار بار زیربحث لاتے ہیں، اور مسلمانوں یا اسلامی ریاست کے خلاف زیادتی کو عالمِ اسلام پر حملے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے دنیابھر کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاد کریں:
ایسی جنگ کو جو ظالموں اور مفسدوں کے مقابلے میں اپنی مدافعت اور کمزوروں، بے بسوں اور مظلوموں کی اعانت کے لیے کی جائے، اللہ نے خاص راہِ خدا کی جنگ قرار دیا ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ جنگ بندوں کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہے، اور بندوں کی اغراض کے لیے نہیں بلکہ خاص خدا کی خوشنودی کے لیے ہے۔ اس جنگ کو اُس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک خدا کے بے گناہ بندوں پر نفسانی اغراض کے لیے دست درازی اور جبروظلم کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا: قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ،’’اُن سے لڑے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے‘‘۔ اور حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا،’’یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے اور فساد کا نام و نشان اس طرح مٹا دے کہ اس کے مقابلے پر جنگ کی ضرورت باقی نہ رہے‘‘۔۲؎ (الجہاد فی الاسلام،ص ۴۰)
جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، ان سے خدا کی راہ میں جنگ کرو، مگر لڑنے میں حد سے تجاوز نہ کرو (یعنی ظلم پر نہ اُتر آئو) کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان ظالموں کو جہاں پائو قتل کرو، اور جہاں سے اُنھوں نے تمھیں نکالا ہے وہاں سے انھیں نکال باہر کرو، کیونکہ یہ فتنہ قتل سے زیادہ بُری چیز ہے۔ پھر جب تک وہ تم سے مسجدِحرام میں قتال نہ کریں تم بھی اس کے پاس ان سے قتال نہ کرو۔ لیکن اگر وہ تم سے وہاں جنگ کریں تو تم بھی انھیں مارو اور کافروں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ تم ان سے برابر جنگ کیے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پس اگر وہ (فتنہ برپا کرنے اور دین کے معاملے میں زیادتی کرنے سے) باز آجائیں تو جان لو کہ سزا ظالموں کے سوا اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ ماہِ حرام کا عوض ماہِ حرام ہے اور تمام آداب اور حرمتوں کے بدلے ہیں۔ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے اُس پر تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو۔ مگر اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ صرف متقیوں کے ساتھ ہے (جو حد سے تجاوز نہیں کرتے)‘‘۔
یہ حفاظت ِ دین اور مدافعت ِ دیارِ اسلام کا حکم ایسا سخت ہے کہ جب کوئی قوت اسلام کو مٹانے اور اسلامی نظام کو فنا کرنے کے لیے حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر فرضِ عین ہوجاتا ہے کہ سب کام چھوڑ کر اس کے مقابلے پر نکل آئیں اور جب تک اسلام اور اسلامی نظام کو اس خطرے سے محفوظ نہ کرلیں اس وقت تک چین نہ لیں۔ (ایضاً، ص۵۶-۵۷)
اسلامی حکومت اور اسلامی قومیت پر حملہ کرنا دراصل عین اسلام پر حملہ کرنا ہے، اور خواہ کسی دشمن کا مقصد اسلام کا مٹانا نہ ہو بلکہ محض مسلمانوں کی سیاسی قوت ہی کو مٹانا ہو، تب بھی اس سے جنگ کرنا مسلمانوں کے لیے ویسا ہی فرض ہوگا جیسا اسلام کو مٹانے والے سے جنگ کرنا ہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۸-۵۹)
مغربی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے مولانا مودودی اس کتاب میں روم کے غلامی کے نظام اور غلاموں کے شمشیرزنی کے مقابلوں کے تماشوں کا حوالہ دیتے ہیں جن میں ہزاروں انسان رومی امرا کے شوقِ تماشا کی نذر ہوگئے، اور ان کے ہاں انسانی جان کے عدم احترام پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف اسلام تھا جس نے دنیا کو انسانی زندگی کی صحیح قدروقیمت سے آگاہ کیا۔ (الجہاد فی الاسلام،ص ۲۷-۲۸)
یہ دلائل ان کے اس نظامِ حکومت کے تصور سے متعلق تھے جسے انھیں آیندہ برسوں میں پیش کرنا اور آگے بڑھانا تھا۔ گویا یہ ان کے اس دعوے سے وابستہ تھے کہ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کی ہے، جب کہ مغرب کے انسانوں کے ذریعے انسانوں کی حکومت کے غلط تصور نے جدید مغربی قوتوں کے استعمار کو پروان چڑھایا۔۳؎
مغرب کے ’انسانوں کے ذریعے انسانوں کی حکومت‘ کے تصور پر تنقید کرتے ہوئے مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں اس دعوے کو بار بار دہرایا کہ اسلام میں حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کے تحت انھوں نے ایک بڑی تحریک چلائی جس کی قیادت انھوں نے خود کی اور اس کے نتیجے میں ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی جس کے آغاز میں اس بات کو شامل کیا گیا ہے کہ ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘۔ اس طرح سے ان کے نظریات پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ اس لحاظ سے الجہاد فی الاسلام میں انھوں نے جو دلائل پیش کیے، بعد میں سامنے آنے والی ان کی تحریروں اور سیاسی سرگرمیوں نے ان سے تقویت پائی، اور غالباً اس کام کو ان کی سوچ کا آغاز کہا جاسکتا ہے۔
الجہاد فی الاسلام کو ہندستانی مسلمانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔ علامہ اقبال کے مطابق: ’’اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ جنگ و جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں انھیں کسی تاویل و تعبیر کے بغیر بڑے کروفر سے پیش کیا ہے‘‘۔ (ہفت روزہ چٹان، اپریل ۱۹۵۴ء)۴؎
الجہاد فی الاسلام کی اشاعت کے لیے سید سلیمان ندوی نے جو اسکالر تھے اور دارالمصنفین، اعظم گڑھ کے صدر تھے، مولانا مودودی کی حوصلہ افزائی کی۔ دارالمصنفین نے بطور ناشر الجہاد فی الاسلام کو شائع کیا، جب کہ سلیمان ندوی نے اس کے سرورق کا انتخاب کیا۔ پہلی بار جب یہ الجمعیۃ میں شائع ہوئی تو عنوان کے الفاظ تھے: ’جنگ‘ اور ’جہاد‘ میں فرق جس سے اس کا مقصد بھی واضح ہوجاتا تھا۔
الجہاد فی الاسلام کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس نے اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرتے ہوئے مغرب کے ’قوم‘ اور ’جنگ‘ کے تصورات کو واضح طور پر رد کردیا۔ اسلام کی مغربی فکر کے دائرے میں رہتے ہوئے تعبیر کرنے کے بجاے مولانا مودودی نے دنیا کی تاریخ بشمول عصرِحاضر کے مغربی تصورات جو تیزی سے پھیل رہے تھے کی توضیح اسلام کے دائرے، یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں کی۔
اس زمانے کے سماجی حالات میں ’جنگ‘ اور ’جنگ کے اصول‘ جیسے الفاظ جنگ عظیم اوّل کی وجہ سے ’عصرِحاضر‘ کی علامات بن چکے تھے۔ اس جنگ کی وجہ سے تحریکِ خلافت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ اس کتاب میں ’جنگ‘ کی بحث کے تحت مغرب کے تصورِجنگ کے تناظر میں ’جنگ‘ کے موضوع پر عمدہ بحث سامنے آئی ہے۔
دوسری طرف ہندستان میں بہت سے مسلمان دانش ور ’عصرِحاضر میں اسلام کی تشکیل جدید‘ کے بارے میں غوروفکر کر رہے تھے۔ ایسے میں مولانا مودودی نے ’عصرِحاضر‘ کے مغربی تصور کے برعکس اسلام کی فوقیت کے تناظر میں ایک منفرد انداز میں اس کی تعبیر کی۔مزیدبرآں عصرِحاضر کی اسلامی اقدار کے تناظر میں تعبیر کا یہ تصور ’قومیت‘ کے اس مغربی تصور کے بھی خلاف تھا جو کہ اس زمانے میں ہندستانی مسلمانوں میں مقبول ہو رہا تھا، اور مولانا مودودی نے اپنی بعد کی تحریروں میں بھی اس پر زور دیا۔ ان کو ’قومیت‘ کے مغربی تصور کے خلاف مسلمانوں کے ایک طبقے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور اسی طرح مغربی تصور کے تحت ’مسلمانوں کی مملکت‘ کے قیام کے خلاف بھی۔ انھوں نے اُمّہ کا تصور پیش کیا جو کہ سرحدوں اور قومیت کے تصور سے ماورا تھا۔ اس لحاظ سے مولانا مودودی وہ تصور پیش کر رہے تھے جو ہندستانی مسلمانوں کے ہم عصر سیاسی قائدین سے مختلف تھا۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مولانا مودودی کے تصورات منفرد تھے، تاہم اس زمانے میں، جب کہ ترکی میں سیکولرزم پروان چڑھ رہا تھا، دنیا بھر میں قومی حق خود ارادیت کی حمایت کی جارہی تھی، حتیٰ کہ ہندستان میں اس بات کے دلائل دیے جارہے تھے کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور مغربی اقدار کی بنیاد پر جدیدیت اور تعمیر ریاست کے منصوبے بنائے جارہے تھے، ایسے میں مولانا مودودی نے ایک ایسے فرد کی شاز مثال پیش کی جو اسلامی روایات کا احیا چاہتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ احیاے اسلام کی عالم گیر تحریکوں کے پیش رو تھے جنھیں احیاے اسلام کی عصری تحریکوں کے مفکرین میں ایک نمایاں حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
اس لحاظ سے الجہاد فی الاسلام کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے، اور شاید اس کا شمار ان کے نمایندہ کاموں میں سے ایک کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ جوانی کے ایام میں انھوں نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت تحریکِ خلافت میں شمولیت اختیار کرلی اور برطانیہ مخالف تحریک میں ہندوئوں کے ساتھ تعاون کی پالیسی کو اختیار کیا اور ہندو لیڈروں کی بھی تعریف کی۔ بعدازاں وہ برطانوی سامراجی پالیسی کے تحت ہندو مسلم تنازعے کو ہندو اور عیسائیت اور اسلام کے تصورات کے موازنے سے جان گئے، اور الجہاد فی الاسلام میں انھوں نے مختلف مذاہب کے موازنے سے ’جنگ‘ کو موجودہ زمانے کے علامتی تصور کے طور پر پایا اور اسلام کے استحقاق کو ثابت کیا۔ اس لحاظ سے ۱۹۲۰ء کا دوسرا نصف مولانا مودودی کے لیے ایک فکری نقطۂ انقلاب ثابت ہوا۔ ۱۹۳۱ء میں مولانا مودودی حیدرآباد واپس چلے گئے، اور ۱۹۳۲ء میں انھوں نے مجلہ ترجمان القرآن کا اجرا کیا اور لکھنے لکھانے میں اور زیادہ مصروف ہوگئے۔۵؎
۱۹۲۰ء تا ۱۹۴۰ء تک جب مولانا مودودی کی تحریری سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں، اسی زمانے میں ایک ہندستانی مسلمان شاعر اپنی شاعری سے مسلمانوں میں جذبۂ عمل اُبھار رہا تھا۔ یہ علامہ محمد اقبال تھے جن کا نام عقیدت و احترام سے پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔
علامہ اقبال ۱۸۷۷ء میں سیال کوٹ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۹ء میں پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے ایم اے کرنے کے بعد وہ لاہور میں ایک کالج میں استاد مقرر ہوگئے۔ انھیں پہلی مرتبہ اپنی ایک نظم کی وجہ سے اس وقت شہرت ملی جب یہ نظم ادبی مجلے مخزن کی افتتاحی اشاعت میں ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے وطن ہندستان کی محبت میں رومانوی شاعری کر رہے تھے، جو مذہب اور قوم کے تصور سے ماورا تھی۔۶؎
۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء میں انھوں نے انگلستان (کیمبرج) اور جرمنی (میونخ) سے تعلیم حاصل کی اور میونخ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۰۸ء میں انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جب اس کی لندن شاخ قائم ہوئی۔ اس وقت تک وہ اس بات کے قائل ہوچکے تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن نسلی برتری اور ریاستی سطح پر قومیت کا تصور ہیں۔ ہندستان واپسی پر وہ مسلم فلسفی بن چکے تھے اور انھوں نے فلسفۂ خودی پیش کیا جو خودداری اور فعالیت کا علَم بردار تھا، اور ان نظریات کا اظہار ان کی بیش تر اُردو اور فارسی شاعری سے ہوتا تھا۔
ہندستان واپسی پر کچھ عرصہ وہ تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے لیکن ۱۹۱۱ء میں انھوں نے وکالت شروع کر دی۔ ۱۹۱۵ء میں ان کے فارسی مجموعۂ کلام اسرارخودی کی اشاعت ہوئی۔ بعدازاں رموز بے خودی (۱۹۱۸ء فارسی زبان میں)، بانگِ درا (۱۹۲۴ء)، بالِ جبریل (۱۹۳۵ء)، ضربِ کلیم (۱۹۳۶ء) کی اشاعت سے ان کی بھرپور شاعری سامنے آئی۔ ان کا لاہور میں ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو انتقال ہوا۔
علامہ اقبال جس طرح سے ہندوئوں سے تعاون اور ہندستان سے محبت کے موقف سے پیچھے ہٹے اور انھوں نے ریاست کی سطح پر قومیت کے تصور کی نفی کی، یہ اسی راستے کی نشان دہی کرتا ہے جو مولانا مودودی نے اپنایا تھا۔ صرف یہی بات ان دونوں کے درمیان باہمی رابطے کا باعث نہ تھی۔ مولانا مودودی نے ۱۹۲۹ء میں علامہ اقبال کا حیدرآباد میں لیکچر سنا (ابوراشد فاروقی، اقبال اور مودودی، ۱۹۷۷ء، ص ۲۳)،۷؎ جب کہ علامہ اقبال نے مولانا مودودی کی الجہاد فی الاسلام پڑھی اور مجلہ ترجمان القرآن بھی پڑھا، اور وہ ایک دوسرے کی تحریریں پڑھتے تھے (ایضاً،ص ۲۰-۲۱)۔ تاہم، اس بات کو واضح کرنا بہت مشکل ہے کہ ایک کی سوچ پر دوسرے کا اثر تھا، البتہ یہ قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ مولانا مودودی علامہ اقبال کے تصوارات سے گہری ہمدردی رکھتے تھے (بشمول شاعری جس میں انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا)۔ وہ اپنی تحریروں میں اقبال کے اشعار کا حوالہ بھی دیتے تھے، جیساکہ انھوں نے اپنے مقالے ’قومیت اسلام‘ میں جو کہ ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا، علامہ اقبال کے سات اشعار کا حوالہ دیا (مولانا مودودی، مسئلہ قومیت،۱۹۷۸ء، ص۵۷)۔۸؎ جس طرح جاپانی کلاسیکی چینی شاعری سے بہت مانوس تھے، اسی طرح ہندستان کے مسلمان اسکالروں میں بھی اقبال کی شاعری بہت مقبول تھی۔۹؎
اقبال کی نظم ’ترانۂ ملّی‘ اسی انداز میں لکھی گئی ہے جس انداز میں ’ترانۂ ہندی‘ لکھی گئی تھی، جو کہ ان کے ابتدائی دور کی شاعری کی نمایندگی کرتی ہے۔ دونوں کے موازنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ہندستان کے لیے محبت کا جذبہ اُمت کی طرف منتقل ہوگیا ہے:
ترانۂ ہندی
سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اُونچا، ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بَیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندستان ہمارا
ترانۂ ملّی
چین و عرب ہمارا، ہندستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سایے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
(بانگِ درا)
اپنی نظم ’وطنیت‘ (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) میں علامہ اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وطن کا مغربی تصور جس کا سیاست دان تذکرہ کرتے ہیں، اسلام کے وطن کے تصور سے مختلف ہے جو کہ کسی مخصوص خطے تک محدود نہیں ہے۔ یہاں بھی اُمت کے تصور اور مغرب اور اسلام کے تصورات کے درمیان فرق کو محسوس کیا جاسکتا ہے:
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبویؐ ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
وہ بحر میں آزادِ وطن صورت ماہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
(بانگِ درا)
ایک مضمون ’قومی زندگی‘ میں جو کہ ان کے یورپ روانگی سے تھوڑا عرصہ قبل مجلہ مخزن میں دو اقساط میں ۵-۱۹۰۴ء میں شائع ہوا، اقبال نے ’اسلام کی نئی تعبیر‘ کی ضرورت کے بارے میں لکھا:’’یہ بہت اہم دور ہے، اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوسکتا جب تک تمام مسلمان متحد نہ ہوں اور روحانی انقلاب کے لیے متوجہ نہ ہوں… اگر کوئی جاپان کی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہے (جو جدید تقاضوں کی اہمیت کو جان گیا اور اپنے ثقافتی، اخلاقی اور سیاسی حالات کو ان کے مطابق تبدیل کرکے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا)، موجودہ حالات میں یہ ملک ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ لہٰذا دو باتیں بہت اہم ہیں۔ وہ ہیں ثقافتی اصلاحات اور تعلیم کا عام ہونا۔ مسلمانوں کے لیے ثقافتی اصلاحات کا سوال درحقیقت ایک مذہبی سوال ہے۔ یہ اس لیے کہ اسلامی ثقافت لازماً وہ ٹھوس شکل ہے جو مذہب اسلام سے اخذ کی گئی ہے، اور ہماری ثقافتی زندگی میں کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جو مذہب کے اصولوں سے آزاد ہو۔ میں اس اہم پہلو کو دین کے حوالے سے زیربحث نہیں لانا چاہتا، چونکہ ہمارے رہن سہن میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہے، اس لیے کہ یہ ایک ثقافتی تقاضا ہے کہ فقہا کے علمی کام کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے جسے اپنی کامل صورت میں اسلامی شریعہ کہا جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کے مصدقہ اصولوں میں کوئی خامی ہے جس کی وجہ سے وہ ہماری موجودہ ثقافتی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے، بلکہ میرا مطلب ہے کہ فقہا نے موقع محل کی مناسب سے قرآن و حدیث کے جامع اصولوں کی روشنی میں جو فیصلے کیے وہ یقینا ایک خاص زمانے کے لیے تو قابلِ عمل تھے لیکن موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں‘‘۔ (اقبال، ۱۹۸۴ء، ص ۱۵۴-۱۵۵)
اس زمانے میں اقبال کو ایک خدشہ لاحق ہوگیا کہ ہندو، جاپانیوں کی طرح جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر اپنی اصلاح کی ضرورت سے آگاہ تھے لیکن مسلمان ابھی تک اس سے باخبر نہ تھے۔ انھوں نے اس پر استدلال کیا کہ مسلمانوں کو اپنی خودی کو بیدار کرنا چاہیے نہ کہ حالت ِ جمود پر مطمئن رہنا چاہیے۔ انھیں آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال نے مولانا مودودی کے ساتھ اپنی اس فکر پر تبادلۂ خیال کیا کہ مسلمانوں کی نوآبادیاتی نظام سے آزادی ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ عالمِ اسلام سے متعلق ایک اہم سوال ہے۔
یورپ سے واپسی پر انھوں نے اپنے دوستوں سے بات چیت کرنا شروع کی کہ وہ پنجاب میں اسلام کے مطالعے کے لیے ایک ادارے کی تعمیر چاہتے ہیں جو کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے تاکہ اسلام کی تشکیل جدید کی جاسکے۔ حیدرآباد میں علامہ اقبال کے جس لیکچر میں مولانا مودودی نے شرکت کی تھی، اس میں بھی انھوں نے اسلام کی جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر سائنسی بنیادوں پر تشکیل جدید پر زور دیا تھا۔ یہ لیکچر ان چھے لیکچروں میں شامل تھا جو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے نام سے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئے (علامہ اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ۱۹۹۶ء)۔۱۰؎ ’اسلام کی تشکیل جدید‘ کے لیے ایک اسلامی تحقیقی ادارے کے قیام کا منصوبہ ان کی زندگی کے آخری برسوں میں ثمرآور ہوا۔ یہ دارالاسلام تھا!(جاری)
۱- یہ مقالہ یامانے سو (Yamane So) کا ۲۰۰۱ء میں لکھے گئے مضمون کا نظرثانی شدہ انگریزی ترجمہ ہے۔
۲- اسی طرح مولانا مودودیؒ جہاد کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’[مغرب کے طرزِ جنگ کے نتیجے میں] یہی فساد و بدامنی، طمع و ہوس، بُغض و عداوت اور تعصب و تنگ نظری کی جنگ ہے جس کی آگ کو فرو کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اُٹھانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے‘‘ (الحج ۲۲:۳۹-۴۰)۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۳۹-۴۰) یہ قرآن کی پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قتال کی اجازت دی ہے۔
۳- مولانا مودودیؒ عالمِ اسلام میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مغرب کے ’اقتداراعلیٰ‘ کے سیاسی تصور کو حاکمیت یا حاکمہ کے مفہوم سے سمجھا (Kosugi Yasushi، The Middle East today and Islamic Politics ۱۹۹۴ء،ص ۳۱)۔ وہ اس تصور کے نقاد تھے، لکھتے ہیں: ’’آج کل حاکمیت کے معروف تصور کی جمہوریت کے نام پر بہت زیادہ تعریف کی جاتی ہے، لیکن موجودہ ریاستوں میں بہت کم تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو عوام کی آسانی کے لیے قانون سازی کرتے ہیں اور ان کا نفاذ بھی کرتے ہیں‘‘ ( مولانامودودیؒ، ۱۹۹۰ء، ص ۲۵)۔ مزید زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انتخابات ایک جمہوری حکومت کے تحت منعقد ہوتے ہیں، لیکن یہ اس لحاظ سے نقصان دہ ہیں کہ جو لوگ دھوکا دیتے ہیں وہ اُنھی کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں جنھیں دھوکا دیا جاتا ہے، اور وہ ان پر حاکم بن جاتے ہیں‘‘۔ انھوں نے اس زیادتی کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا، برطانیہ اور کئی ممالک میں پائی جاتی ہے جو جمہوریت کے چیمپئن ہیں کہ جیسے یہ جنت ہوں‘‘۔ انھوں نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ ایک جمہوری نظام کے تحت معاشرے میں قوانین متعین نہیں ہیں بلکہ یہ عوام کی خواہشات کے بدلنے سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور اچھے اور بُرے معیار کا انحصار اس پر ہے کہ کون منتخب ہوا ہے (بطور حکمران وہ قوانین تبدیل کرسکتا ہے)۔ (ایضاً، ص ۶۷)
جمہوریت سے متعلق یہ سوالات بالآخر یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ اقتداراعلیٰ کہاں ہے؟ کیونکہ یہ اللہ ہے ’’ہرچیز پر جس کا اقتدار ہے‘‘ (المومنون۲۳:۸۸)۔ مولانا مودودی نے حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی کہ’’لوگو، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو‘‘ (الاعراف ۷:۳)، اور کہا کہ موجودہ دور میں خرابی کی جڑ انسان کے ذریعے انسان پر حکومت کے مغالطے میں ہے جو کہ خدا کے علاوہ حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتا ہے۔ انھوں نے اس بات کی بھی نشان دہی کی کہ اس کے نتیجے میں ہی بہت سے مسائل، مثلاً نسلی تفاوت اور امپریلزم سر اُٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاکمیت کے معروف تصور پر تنقید کرتے ہوئے جس کے نتیجے میں حکمران اور جن پر حکومت کی جاتی ہے (عوام) اور بدعنوان لوگوں کے درمیان تعلق پیدا ہوتا ہے، وہ زور دیتے ہیں کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ: ’’خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘ (الاعراف ۷:۵۴)، انھوں نے واضح کیا کہ ’’فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے‘‘ (یوسف ۱۲:۴۰)۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اللہ جو حاکمیت اعلیٰ کا مالک ہے، وہی قانون ساز ہے، اور ایک اسلامی ریاست پر شریعت (شریعہ) اور مشاورت (اجماع) کے ذریعے ہی حکومت کی جانی چاہیے‘‘ ۔ (مولانا مودودی، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات،۱۹۹۵ء، ص ۱۳۲-۱۳۴)
۴- یہ تاثرات ۲۵؍اپریل ۱۹۵۴ء کے ہفت روزہ چٹان میں شائع ہوئے۔
۵- ترجمان القرآن میں لکھنے والوں میں مولانا مودودیؒ کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی، مولانا مناظراحسن گیلانی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا عبداللہ عماری اور مولانا ابوالخیر محمدخیراللہ شامل ہیں۔
۶- علامہ اقبال کے حب الوطنی کے ابتدائی دور کے بارے میں جاپانی میں مطالعے کے لیے دیکھیے: Matsumura، ۱۹۸۲ء اور ۱۹۸۳ء۔
۷- دسمبر ۱۹۲۸ء اور جنوری ۱۹۲۹ء میں علامہ اقبال نے اسلام کی تشکیل جدید پر مسلم ایسوسی ایشن آف مدراس کی دعوت پر مدراس (چنائی)، حیدرآباد اور علی گڑھ میں لیکچر دیے۔
۸- مولانا مودودی، ۱۹۷۸ء ،ص ۵۷۔ یہ مقالہ ترجمان القرآن میں نومبر اور دسمبر کے شماروں میں شائع ہوا۔ یہ درست ہے ، جیساکہ ولی رضا نصر نے اس کی نشان دہی کی ہے کہ مولانا مودودی کے حامیوں میں اقبال اور مودودی کے درمیان تعلق اور ان کی سوچ کی ہم آہنگی پر زور دینے کا رجحان ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد دونوں شخصیات کے درمیان تعلق کے ذریعے مؤخرالذکر کا دفاع کرنا ہے، جب کہ علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں اور مولانا مودودی وہ ہیں جنھوں نے سیکولر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی تھی۔ لیکن جو بات اہم ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کرتے تھے، اور بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں نے ایک دوسرے کو متاثر بھی کیا۔ (ولی رصا نصر، ۱۹۹۶ء، ص ۳۶، ۱۵۳)
۹- علامہ اقبال کی شاعری ا س زمانے میں کس حد تک مسلمانوں پر اثرانداز تھی، اس کی ایک مثال یہ بیان کی جاتی ہے کہ ۱۹۴۶ء میں، بمبئی میں ہڑتالوں کے دوران مزدور نعرے لگاتے تھے: علامہ اقبال زندہ باد! (Kagaya، ۱۹۶۰ء)۔ کاگایا کے مطابق اقبال کی سوچ ۱۹۳۰ء کے ترقی پسند بھارتی مسلمان دانش وروں کی ترجمان تھی، اور یہ ان کی خامیوں اور طاقت کی ایک عمدہ مثال تھی (ایضاً، ص ۸۵)، جب کہ ۱۹۶۰ء میں طلبہ نظریاتی اور جذباتی دونوں حوالوں سے اقبال کے اصلاح پر مبنی تصورات کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت کے قیام کے خواہاں تھے‘‘۔ (Loc.cit)
۱۰- یہ کتاب نظرثانی کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے ۱۹۳۴ء (اقبال، ۱۹۹۶ء) میں دوبارہ شائع کی۔ یہ اقبال کا بہترین نثری کام ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے کیونکہ اس کے احکام اور اصول انسانی زندگی کے ہر زاویے اور شعبے کا احاطہ کرتے ہیں۔جنسیات بھی ایک ایسا ہی اہم ترین انسانی شعبہ ہے جو لوگوں کی زندگی، سوچ اور نفسیاتی تغیر و تبدل کو متاثر کرتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے رویّے بھی اثرات قبول کرتے ہیں۔جنسیات کے بارے میں تعلیم اور تجزیہ کی جانب توجہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں،لیکن اس سے یہ اخذ کرنا بھی مناسب نہیں ہے کہ آج سے چند صدیوں قبل اس کے متعلق سوچ اور خیالات ناپید تھے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ جنس کے بارے میں بات کرنا قدرے معیوب سمجھا جاتا تھا کیونکہ مروجہ اخلاقیات کی رو سے یہ ایک ممنوعہ (taboo ) موضوع تھا جس پر شرفا کی لب کشائی سماجی اور معاشرتی اصولوں کے تحت تقریباً ممنوع تھی۔مذہبی علما تو بالخصوص انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے اور جنس کے بارے میں محض اشاروں کنایوں سے خیالات کو قلم بند کرتے تھے۔ سامی اور غیر سامی مذاہب کے پیرو کار علما نے اپنا زورِ قلم جنس کو معیوب، قابلِ نفرین، اسفل اور شیطان کا ہتھیار سمجھنے اور کہنے میں دکھایا ہے۔
یہ سوچ اسلام سے قبل اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔ان حالات میں جنس کے بارے میں مثبت تعلیم بذات ِ خود ایک انقلابی اقدام تھا۔ قرآن نے اس بارے میں فلسفیانہ موشگافیوں اور مبہم اشارات کا سہارا نہیں لیا۔قرآن کے مطالعے سے ہمیں کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی (بلکہ حیوانی) زندگی کے اس اہم ترین شعبے سے درگزر کیا ہو یا واضح احکامات اور دستور العمل دینے سے گریز کیا ہو۔فرمان الٰہی ہے کہ ’ ’انسان کی پیدایش مٹی سے ہوئی اور پھر اس کی نسل حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کی‘‘ ( السجدہ ۳۲: ۷-۸)۔مزید یہ کہ ’’ اسی نے جوڑا، یعنی نر اور مادہ، پیدا کیا ہے‘‘ ( النجم ۵۳: ۴۵) اور ’’ پھر اسی جوڑے سے نر اور مادہ بنائے‘‘۔ ( القیامہ ۷۵: ۳۹) سورۂ نساء میں پھر کہا گیا کہ ’’ لوگو! اپنے پرودگار سے ڈروجس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا، اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کرکے) پھیلا دیے۔‘‘ ( النساء ۴: ۴)
ہر قسم کے اشتباہ کو رفع کرتے ہوئے اللہ نے انسان سے استفسار کیا کہ ’’ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟‘‘ (المرسلت ۷۷: ۲۰)۔واضح رہے کہ اس دور کا انسان جہالت میں رہنے کے باوجود اتنا بھی ناسمجھ اور فہم و فراست سے عاری نہیں تھا کہ عہد ِ قدیم کے انسان کی طرح بچے کی پیدایش کو مافوق الفطرت ہستیوں سے منسوب کرتا اور مرد کی ابویت سے لا تعلقی اختیار کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا انسان سے یہ استفسار اس امر کا ثبوت ہے کہ عورت اور مرد ، دونوں تخلیق کے اس بھید سے آگاہ ہوچکے تھے کہ ’’ وہ اُچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے‘‘ ( الطارق ۸۶: ۶)۔اور وہ پانی کیا ہے؟ اس کو بھی خالقِ کائنات نے خود ہی بیان کر دیا ہے کہ وہ ’’ جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘ (الطارق ۸۶: ۷)
تخلیق کی اساس کے بعد یہ بھی بتا دیا گیا کہ ’’ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا‘‘ (الدھر ۷۶: ۲) تاکہ کسی کو یہ اشتباہ نہ رہے کہ شاید مرد ہی علت ِ تخلیق ہے۔ اللہ نے واضح کر دیا کہ عورت کا رحم ’قرارِ مکین‘ ہے (المومنون ۳۳: ۱۳) جس میںنطفہ ڈالاگیا( النجم ۵۳: ۴۶)اور پھر وہی نطفہ ’ لہو کا لوتھڑا بنا‘ ( القیامہ ۷۵: ۳۸) یہاں ارسطو کا حوالہ دینا ضروری ہے کیونکہ یونانی فلسفیوں کا اثر اس قدر ہمہ گیر تھا کہ ان کی کسی بات سے اختلاف کرنا ناقابلِ تصور سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے بچے کی پیدایش کے ضمن میں بھی اپنے جن خیالات کااظہار کیا تھا انھیں سند کا درجہ حاصل ہو چکا تھا۔ ارسطو اس راے کاحامل تھا کہ پیدایش کے عمل میں مرد فاعل اور عورت مفعول ہے۔ عورت کی حیثیت ایک برتن کی سی ہے جس میں مرد اپنا بیج ڈالتا ہے۔ بالفاظِ دیگر عورت کا کردار صرف اتنا ہے کہ وہ مرد کے بیج کو اپنے جسم کے اندر حفاظت سے رکھتی ہے۔ پیدایش کے عمل میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔قرآن نے اس سوچ کو درست کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ بچے کی پیدایش میں عورت اور مرد دونوں کا حصہ ہے ۔عورت ایک خالی برتن (یا ّآج کی زبان میں ’گملہ‘)نہیں کہ جہاں بیج کی آبیاری ہوتی ہے، اس میں ’گملے‘ کا اپنا کوئی کردار نہیں۔دیکھا جائے تو عورت یہاں ’دوہراکردار‘ اداکرتی نظر آتی ہے۔ایک تو وہ مرد کے ’نطفہ‘ (بیج)کواپنے ’قرارِ مکیں‘ (رحم) میں محفوظ رکھتی ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے نطفہ کو بھی اس میں ملا دیتی ہے ۔ پھر وہی مخلوط نطفہ ’ لہو کا لوتھڑا‘ بن کر بتدریج انسانی صورت میں عورت کے جسم کے اندر پرورش پاتا رہتا ہے۔
قطرے کو گوہر ہونے تک کے مراحل بھی قرآنِ مجید میں بیان کر دیے گئے ہیں۔بات یہیں پرختم نہیں ہوئی۔انسان پیدا ہوا تو اس کی تمام ضروریات، خواہشات اور خیالات نے بھی جنم لیا۔شِیر خوری سے بچپن،لڑکپن، پھرجوانی ،کہولت اور بڑھاپا۔گویا انسان ان تمام شعوری اَدوار سے گزرتا ، بدن کی ضروریات اور خواہشات کی تسکین کرتا اور اس کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتا نظر آتا ہے۔انھی میں اس کی جنسی ضرورت کی تسکین بھی ہے۔قرآن نے اس سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا۔انسان کے اندر اس جذبے کو ’خود تخلیقی‘ نہیں کہا جا سکتا ، یہ اللہ کی جانب سے ودیعت کیا گیا ہے۔بالفاظ ِ دیگر، اللہ نے انسان کے اندر ایک ایسا طوفان ِ بلا خیز قید کر رکھا ہے جس کی پیدایش میں تو وہ بے بس و لاچار ہے مگر اسے مہمیز دینے یا لگام ڈالنے میں قوت ِ اختیار حاصل ہے۔
اللہ کو جنسی قوت اور جذبے کی شدت کا بخوبی علم ہے کیونکہ وہ خود ہی اس کا خالق ہے، لہٰذا اس نے اس کی تندی کے آگے بند باندھنے کا طریقہ بھی خود ہی بتا دیا۔ہم اسے ’جنسی جبر و قدر‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’ تم میں سے جو مرد اور عورت بے نکاح ہوںان کا نکاح کردو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں ۔۔۔۔۔۔‘‘ ( النور ۲۴: ۳۲)۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی نصیحت کر دی کہ ’’ اور جن کو نکاح کرنے کی حیثیت نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کیے رہیں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے‘‘ ( النور ۲۴: ۳۳)۔گویا اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انھیں تنگ دستی سے نجات دے تو پھر وہ بھی نکاح کر لیں۔اس وقت تک انھیں پاک دامن رہنے، جنسی لذائذ سے اجتناب کرنے اور حظ ِ جسمانی سے دور رہنے کا حکم ہے۔
سورۂ نور کی ان دونوں آیات میں تفصیل میں جائے بغیر اللہ نے جنس کی تحریک کو دبانے اور اسے منضبط کرنے کے لیے نکاح کا حکم دیا ہے تاکہ انسان ایک اخلاقی، قانونی اور مذہبی دائرے کے اندر رہتے ہوئے تسکین حاصل کرے۔اسلام میں عورت کو بھی اسی طرح کا ایک فرد سمجھا گیا ہے جیسے مرد۔بحیثیت انسان دونوں کے جذبات، احساسات،خواہشات اور جسمانی ضروریات میں کوئی فرق نہیں۔قرآن میں مردوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ ’ ’تمھاری بیویاں تمھاری کھیتی ہیں، جس طرح چاہو جائو‘‘ ( البقرہ۲ : ۲۲۳)۔انتہائی مختصر الفاظ میں جنسیات کے بارے میں ایسی بات کہہ دی گئی ہے جس کی وضاحت کے لیے مغربی علماے جنسیات نے لاکھوں صفحات بھر دیے ہیں۔ بلاشبہہ کہا جا سکتا ہے کہ ان چند الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے انسانی، اور بالخصوص مردوں کی جنسی روش، سوچ اور رویّے کا اظہار انتہائی جامعیت اور بلاغت سے کیا ہے۔
انسان کے جنسی جذبے کی شدت اور قوت کو قابو میں رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ماہ ِ رمضان کی راتوں میں بھی مطلب برآری کی اجازت دی ہے۔(البقرہ ۲: ۱۸۷)۔لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے مروجہ مذہبی اور سماجی رجحانات کے مدِنظر ماہ ِ صیام میں ایک قسم کا تجرد اختیار کیے ہوتا تھا۔ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس پابندی سے بہت سے لوگ (عورت اور مرد دونوں) کبیدہ خاطر بھی ہوتے ہوں گے۔ اللہ نے انھیں اس پابندی سے باہر نکال دیا کہ وہ افطار سے سحر تک لذتِ جسمانی کے لیے آزاد ہیں۔
ان دو چار احکام کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے جہاں بہت سے عقائد ِ باطلہ کا انہدام کیا وہاں جنسیات کے متعلق ایسے اصول وضع کر دیے جو انسانی فطرت کے لیے تسکین دہ ثابت ہوئے۔قرآن تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے، ایک کو دوسرے کی راحت کہتا ہے، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ دونوں کے جنسی جذبے کے آگے دیوار کھڑی کر دی جاتی۔اس نے ایک ایسا ضابطہ متعین کر دیا جس کے تحت دونوں اپنی اپنی جنسی ضرورت پوری کرنے کے اہل ہو گئے۔فرمانِ نبویؐ ہے کہ نکاح میری سنت ہے۔ اس میں ان کی اپنی ذاتِ مبارک بھی دکھائی دیتی ہے اور عام مسلمانوں کے لیے راہ بھی متعین ہوتی ہے کہ میں نے بھی شادیاں کی ہیں، اس لیے تم بھی ایک خاندان کی تشکیل اور جسمانی ضروریات کی تسکین آوری کے لیے شادی کرو تاکہ ایک اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔بخاری میں عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ تم ہر روز دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو عبادت میں کھڑے رہتے ہو۔کیا یہ صحیح ہے؟ میں نے کہا ، جی ہاں رسولؐ اللہ۔ آپؐ نے فرمایا:ایسا مت کرو۔روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو، رات کو عبادت بھی کرو، سو یا بھی کرو، کیونکہ تیرے بدن کا تجھ پر حق ہے،تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔
یہ ایک ایسی بلیغ نصیحت ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔سونے سے بدن کو آرام ملتا ہے اور انسان بیدار ہونے کے بعد چستی سے کام میں لگ جاتا ہے، اور بیوی کے حق سے آپؐ نے عورت کی جنسی تسکین کا جانب اشارہ کر دیا۔
کتب ِ احادیث میں جنسیات کے بارے میں فرمان نبویؐ کے احکامات او رنصائح پائے جاتے ہیں۔مومنین اکثر اوقات جہاد کے سلسلے میں گھروں اور بیویوں سے دور رہتے تھے۔ چند ایک نے آپؐ سے خصی ہونے کی اجازت چاہی تاکہ وہ جنسی دبائو سے آزاد ہو سکیں، مگر آپؐ نے انھیں منع فرمایا۔ اجازت نہ دینے کے پس پردہ جنسی قوت اور تحریک کا جذبہ کار فرما تھا جومعلمِ انسانیتؐ کی نظر میں انسانی زندگی کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔آپؐ نہیں چاہتے تھے کہ محض جہاد کی خاطر مومنین اپنے آپ کو خصی کریں اور حصول ِ اولاد کے علاوہ اپنی بیویوں کو بھی جنسی لذت کوشی سے محروم کر دیں۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ راوی ہیں کہ غزوہ ٔ تبوک سے واپسی پر میں نے آپؐ کو اپنی شادی کے بارے میں بتایا۔آپؐ نے استفسار کیا: کنواری سے یا ثیبۃ(بیوہ) سے۔ میں نے کہا: ثیبۃ سے۔آپؐ نے فرمایا : کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی؟ وہ تجھ سے کھیلتی، تو اس سے کھیلتا۔ مقامِ غور ہے کہ آپؐ حضرت جابرؓ سے کتنی حقیقت افروزبات کرتے ہوئے انسانی نفسیات کی عقدہ کشائی فرماتے ہیں کہ شادی کاایک مقصدآپس میں چہلیں کرنا بھی ہے، اور اس کے لیے کنواری لڑکی بہ نسبت ایک بیوہ کے زیادہ موزوں ہے۔اس ارشادِ نبویؐ میں اس امکان کو بھی مد ِ نظر رکھا گیا ہے (اگرچہ اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا گیا) کہ بیوہ یا مطلقہ ایک مرد کے ساتھ قربت کے دور سے گزر چکی ہوتی ہے، ممکن ہے وہ غیر ارادی طور پر موجودہ شوہر کا موازنہ سابقہ شوہر سے کر بیٹھے۔کنواری لڑکی چونکہ اس تجربہ سے نا آشنا ہوتی ہے اس لیے اس کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آہی نہیں سکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس کے ذہن کو من چاہے سانچے میں ڈھالنا قدرے آسان ہوتا ہے اور یوں میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا پیدا ہونا مشکل امر نہیں رہتا۔ ہم نے فرمانِ نبویؐ میں جس امکان کا ذکر کیا ہے اس کی تائید ان احادیث ِ مبارکہ سے ہوتی ہے۔
ایک صحابی ابو رکانہؓ نے جس خاتون سے شادی کی وہ ایک روز آپؐ کے پاس آ کر شکایت کرنے لگی کہ ابورکانہؓ بس میرا اتنا ہی کام چلا سکتے ہیں جتنا یہ بال (اس خاتون نے اپنے سرکے ایک بال کی طرف اشارہ کیا)۔اسی طرح حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی رفاعہ ؓ نے ایک عورت ، تمیمہ بنت وہب، سے شادی کی، پھر اس کو طلاق دے دی۔اس نے عبدالرحمن بن زبیر سے شادی کر لی۔ بعدازاں وہ عورت آپؐ کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسولؐ اللہ !میرے خاوند کے پاس تو صرف ایک کپڑے کا کنارہ ہے۔آپؐ نے فرمایا: تو پہلے خاوند کے پاس اس وقت تک نہیں جا سکتی جب تک دوسرے خاوند سے مزہ نہ اٹھائے اور وہ تجھ سے مزہ نہ اٹھائے۔
ان دونوں احادیث میں عورتوں نے آپؐ کے سامنے اپنی جنسی تشنگی کا ذکر کیا کہ ان کے خاوند ان کی جنسی پیاس بجھانے کے اہل نہیں۔اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اولاً، دوسری شادی کے بعد کچھ عورتوں میں ’دو مردوں‘ کے درمیان موازنے کی سوچ پیدا ہو جاتی ہے، اور ثانیاً یہ کہ عورتیں ایسے معاملات کا ذکر رسولؐ اللہ سے کیا کرتی تھیں اور آپؐ اس کا حل بھی بتا دیا کرتے تھے۔اسی طرح اُمِ المومنین حضرت اُمِ سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضرت انس ؓ کی والدہ، اُمِ سلیم، نے آپؐ سے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! اللہ حق بات کہنے سے شرم نہیں کرتا، اگر عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر غسل واجب ہے ؟آپؐ نے فرمایا: ہاں، جب پانی دیکھے‘‘۔ یہ حدیث بھی ثابت کرتی ہے کہ عورتوں میں جنس سے متعلق مسائل کا حل جاننے کی خواہش پائی جاتی تھی اور وہ آپؐ کے سامنے بلاحجاب ایسی باتیں پوچھ لیا کرتی تھیں۔ گویا آپؐ منجملہ دیگر اُمور، جنسی معاملات اور مسائل پر بھی گفتگو فرماتے اور سائل کو تسلی بخش جواب دیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے رحمت ِ عالمؐ کے ذریعے سے جن احکامات ، نصائح اور ضوابط کا نزول کیا وہ دین اور دنیا میں توازن کی شان دار مثال ہیں۔ اسلام کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت کا پیغام دینا ہی نہ تھا بلکہ ہر دور اور ہر علاقے کے لوگوں کی اخلاقی حالت کو انسانیت کی بلندترین سطح پر لانا بھی تھا۔عامۃ الناس کو برائی سے اجتناب کرنے، فحاشی و بے حیائی سے روکنے،اپنے حیوانی جذبات کو لگام دینے اور اللہ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی تلقین ،نصیحت اور حکم کامقصدانسان کی ذاتی، خاندانی اور معاشرتی زندگی میں بہتری پیدا کرنا ہے۔حیات ِ انسانی کے مختلف پہلوئوں میں سے زیر ِ مطالعہ مضمون میں جس اہم پہلو کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ جنسیت کے بارے میں اسلام کے وضع کردہ احکام اور اصول ہیں ۔ اس مضمون کے ابتدا میں جنسی معاملات سے متعلق قرآن اور احادیث ِ نبویؐ سے حاصل ہونے والی رہنمائی کا ایک اجمالی سا ذکر ہے۔
جنسی تعلقات کا ایک پہلوزنا بھی ہے۔ قانونی حدود سے باہر، یعنی بلا نکاح عورت مرد کا ایک دوسرے سے جسمانی تعلق زنا کے دائرے میں آتا ہے۔لوگوں کے لیے ایک مضبوط اخلاقی معاشرے کا قیام ہر مذہب کے اہم نصب العین میں شامل رہا ہے۔اگرچہ توریت اور انجیل میں زنا اور بے حیائی کی مذمت بڑے واضح الفاظ میں آ چکی تھی، باایں ہمہ ، معاشرے میں بے راہ روی، بگاڑ اوراخلاقی تنزل بتدریج ایک خطرناک صورت ِ حال اختیار کر تے جا رہے تھے۔ رسول اکرمؐ کی بعثت کے وقت حیا اور اخلاق نام کی اقدار تقریباً نا پید تھیں۔ مے خواری اور عورتوں سے ناجائز مراسم، بشمول زنا کاری، باعث ِ فخر ’کارنامے‘ سمجھے جاتے تھے۔اس دور میں عرب، اور بالخصوص مکہ میں نکاح اور شادی کی متعدد صورتیں رائج تھیں اور ان سب کو معاشرتی سند اور قبولیت حاصل تھی۔ اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اخلاقیات کی عدم موجودگی یا کمزوری معاشرے کو تباہی کی جانب لے جاتی ہے۔تاریخ ِ عالم سے بے شمار مثالیں اس کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ صرف قومِ لوطؑ کی تباہی کا واقعہ مدِ نظر رکھیں تو بے لگام جنسی جذبے کے عواقب و نتائج واضح ہو جاتے ہیں۔
زنا بالجبر ہو یا بالرضا، دونوں کے نتائج ذاتی اور خاندانی تباہی پر منتج ہوتے ہیں اور اگر اس فعل کے آگے بند نہ باندھے جائیں تو اس کے اثرات انتہائی خوفناک حد تک بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر، ہم صرف مغربی ممالک کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں کہ جہاں خاندانی اکائی اور نظام بالکل تلپٹ ہو کے رہ گیا ہے، عصمت و عفت کوایک ’بوجھ‘ سمجھا جاتا ہے اور معاشرے میں ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جنھیں اپنے باپ کے نام کا بھی علم نہیں۔ایسی صورت ِ حال کی پیش بینی کرتے ہوئے قرآن میں زنا کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بخشش اور اجر عظیم کی بشارت دی ہے(الاحزاب۳ ۳: ۳۵)۔پھر لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ’’ زنا کے پاس بھی نہ جاناکہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘ ( بنی اسرائیل ۱۷: ۳۲)۔اس کے باوجود اگر کوئی اس راہ پر چلنے سے گریزاں نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے ۱۰۰ کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے، اور یہ سزا چوری چھپے نہیں، بلکہ کھلے بندوں، لوگوں کی موجودگی میں دی جانی چاہیے، اور ایسے بدکاروں پر بالکل ترس نہیں کرنا چاہیے ۔(النور ۲۴: ۲)
لواطت، ہم جنسیت اور استمنا بالید (خود لذتی)بھی جنسی لذت کشی کے مختلف پہلو ہیں۔ اسلام اس بارے میں بھی لوگوں کو حدود کے اندر رہنے اور اعمالِ بد سے اجتناب کرنے کا حکم دیتا ہے۔’’ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں پر مائل ہوتے ہو؟ اور تمھارے پروردگار نے جو تمھارے لیے تمھاری بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو‘‘ (الشعراء ۲۶: ۱۶۵، ۱۶۶)۔ایک اور جگہ لواطت کی مذمت کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا: ’’ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت کے لیے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو؟حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو‘‘ (النمل ۲۷: ۵۵)۔ایسے لوگوں کو ’’حد سے نکل جانے والے‘‘ اور ’احمق‘ ہی نہیں کہا گیا بلکہ انھیں ایذا دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔(النساء ۴: ۱۶)
اسلام میں جنسیت کی متعین کردہ حدود اور ان سے تجاوز کر جانے والوں کے بارے میں احکام کا ایک اجمالی سا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان اوامر و نواہی کے اثرات دور رس ، ہمہ گیر اور بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ ان سے صرف ذاتی زندگی ہی نہیں، بلکہ اجتماعی (خاندانی، معاشرتی اور موجودہ و آیندہ نسلوں کی)حیات بھی متاثر ہوتی ہے۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حسنی مبارک کی حکومت نے میرے ذرائع آمدنی کومحدود کرنے کے لیے مجھے مصرکی یونی ورسٹیوں میں تدریس کا موقع نہ دیا۔لیکن میںسعودی عرب میں ملک سعودیونی ورسٹی میں اپنے تخصص کے میدان میں پڑھاتی رہی۔ حسنی مبارک کی حکومت کی طرف سے اسلام پسندوںپرعموماً اور ہمارے اوپر خصوصاً سخت سختیاں روا رکھی گئی تھیں، اس لیے میں نے اپنے خاندان کے ہمراہ ۳۲سال سعودی عرب میں گزارے۔
میرے شوہر سرجری کے پروفیسر ہیں۔ میری تین بیٹیاں اور د وبیٹے ہیں۔ بڑی بیٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اورماڈرن اکیڈمی میں ہیومن ڈویلپمنٹ کا مضمون پڑھاتی ہے۔ درمیان والی بیٹی نے کامرس میں ایم فل کیا۔ اس کے تین بچے ہیں اوروہ خاتون خانہ ہیں۔چھوٹی بیٹی انجینیر ہے۔ اس نے قاہرہ یونی ورسٹی سے ایم فل کیا ہے۔بڑابیٹا محمد الیکٹریکل انجینیر ہے اور اس وقت حرم مکی کی ایک ورکشاپ میں کام کرتا ہے۔ چھوٹا بیٹا حسن البناسویس شہرمیں وکالت کرتا ہے ، اور قانون میں ایم فل کا مقالہ لکھ رہا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ امی جان ؒ ہمارے گھر میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بھی بہت اچھا سلوک کرتی تھیں۔ انھیں گھر کے افراد ہی کی طرح سمجھتی تھیں۔ اگر بچوں میں سے کوئی کبھی کسی نوکرانی سے کوئی تلخ کلامی کربیٹھتا تو امی جان ایک جملہ کہہ کر ڈانٹتیں۔ وہ کہا کرتی تھیں: ’’ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو جن کا اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ‘‘۔اگرچہ امی جان زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن حلال اور حرام کے معاملے میں ہماری تربیت بالکل فطرت سلیمہ کے مطابق کرتی تھیں۔ انھوں نے ایک عالم دین کو ٹیوشن پڑھانے کے لیے رکھا ہوا تھا جو گھروں میں آکر بچوں کو فقہی معاملات اور اسلامی تعلیمات کا درس دیتے تھے۔
جب ہم ٹی وی دیکھ رہی ہوتیں توامی جان ہمیں کہتیں:’’خبردار یہ تمھیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کر دے‘‘۔ بس اتناکہہ کر چلی جاتیںلیکن ان کا یہ ایک جملہ تمام نصیحتوں سے بڑھ کر ہوتا تھا۔ ہم یاتو خود ہی ٹی وی بند کر دیتے یا کڑا دھیان رکھتے کہ کوئی خلاف شریعت بات نہ دیکھیں۔ یہ امی کا ایسا اسلوب تھا جو آج کل بڑی بڑی ڈگری والیوں کے ہاں بھی نہیں پایا جاتا۔
ایک اسلامی معاشرے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ سیاسی اور معاشی امور سمیت وہ تمام معاملاتِ زندگی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انجام دے۔ حکومتی قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ماہرین، فقہا اور علماے کرام سے مدد لے سکتی ہے۔اسی طرح جدید وسائل اور ٹکنالوجی سے مدد لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ خود رسول کریمؐ نے ہمیںبتایا ہے کہ ’’حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ جہاں بھی ملے، مومن اس کو حاصل کرنے کاسب سے زیادہ حق دار ہے‘‘ ۔
مختلف افراد اور اداروں کو بنکوں کے اصل سرمایے یا محنت میں شریک کر کے اصل سرمایے اور محنت کی نسبت سے منافع میں شریک کیا جائے۔افراد اور اداروں میں سے اگرکوئی کسی حصے کا مالک بننا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بتدریج منافع کی شرح کم کر لے تاکہ اس کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکے۔منافع کی شرح کے بارے میں بنک اور افراد یا ادارے مقررہ وقت تک کسی بھی شرح پر اتفاق کر سکتے ہیں۔
حلال متبادلات میں سے ایک زکوٰۃ کے نظام کو فعال بنانا بھی ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے زیر سرپرستی زکٰوۃ کا ادارہ بنائے ۔ اس کے لیے الگ بجٹ ہو، جس میں بنکوں اور افراد کے مال پر سال مکمل ہونے پر اور نصاب پورا ہونے کی شرط سے زکٰوۃ جمع کی جائے۔ماہرین کے مطابق ہمارے ملک میں اس طریقے سے ۱۸؍ارب مصری پاؤنڈ کی سالانہ رقم فراہم ہو سکتی ہے۔
اسلام کے معاشی نظام میں زکٰوۃ، اوقاف اور صدقات کے نظام کو متحرک کرکے تمام طبقات کے معاشی مسائل یقینی طور پرحل کیے جا سکتے ہیں۔زکٰوۃ کے ذریعے بے سہارا لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی سرمایہ فراہم کیا جاسکتاہے ۔پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے ایسے افراد کہ جن کے پاس مہارت تو ہے لیکن وسائل نہیں ہیں، انھیں ایسے آلات اور وسائل فراہم کیے جا سکتے ہیںجو انھیں ملکی پیداوار بڑھانے میںمدد دیں۔اگر کسی شہری کے پاس سرمایہ کم ہے تو اسے اسلامی بنکوں کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں میں شریک کر کے اس کے سرمایے کی نسبت سے منافع دیا جاسکتا ہے۔بڑے سرمایہ داروں کے لیے بھی یہی طریقہ کار ہونا چاہیے کہ ان کو شیئرز کا مالک بنایا جائے اور تجربہ کار اور ماہر لوگوں کوان کے تجربے اور مہارت کی مناسبت سے کمپنیوں کے منافع میں شریک کیا جائے۔
میں یقین سے کہتی ہوں کہ زکٰوۃ کے مصارف میں ہمارے تمام اقتصادی مسائل کا حل موجود ہے۔اس کی واضح مثال ہمیں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی سیرت میں ملتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں زکٰوۃ کے ذریعے پوری امت کو خودکفیل بنا دیا۔
گذشتہ دنوں سے عراق ایک مرتبہ پھر عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہو رہا ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد بظاہرلگتا تھا کہ عراق بتدریج پُرامن جمہوری راستے کی طرف بڑھے گا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد اس پر کئی عالمی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں کہ امریکی عراق کو تین حصوں: کردستان،سُنّی اور شیعہ عراق میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت مخالف تحریک روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔سُنّی آبادی کی طرف سے مسلسل یہ شکایات آرہی تھیں کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔موجودہ حکومت میں ان شکایات میں اضافہ ہوا اور نوبت احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں تک پہنچ گئی۔حکومت کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ سختی سے نپٹنے کا رویہ اپنایا گیا جس سے سنیوں میں غم وغصے کی لہر شدید ہوگئی۔گذشتہ چارماہ سے جاری احتجاج میں اب تک سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ درجنوں مساجد شہید کردی گئی ہیں اور بم دھماکوںکی وجہ سے املاک عامہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
صدام کے بعد عراق میںجتنی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیںوہ شیعہ حکومتیں ہیں۔ تجزیہ نگار یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عراق میں واقعی شیعہ آبادی اتنی اکثریت اور قوت رکھتی ہے کہ ہر انتخابی کھیل میں وہی برسر اقتدار آئیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پورے عرصے میں دونوںطرف (شیعہ اور سُنّی) سے لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں۔
عراق عملًا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔کردستان اپنی الگ شناخت ، الگ پارلیمنٹ، الگ پرچم اور الگ حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کسی بھی وقت باقی ملک سے کاٹ دیے جانے کے لیے تیار ہے۔ باقی ملک شیعہ اور سُنّی کی واضح تقسیم کی نذر کیا جاچکا ہے۔ اہل سنت آبادی جو کہ اکثریت رکھتی ہے ‘شاکی ہے کہ ان پر شیعہ حکومت مکمل طور پر ایرانی سرپرستی کے ساتھ مسلط رکھی جا رہی ہے۔ ملک کے سُنّی نائب صدر طارق الہاشمی پر مختلف گھناؤنے الزامات لگا دیے گئے، جو انھیں گرفتار کرنے اور سزاے موت دینے کے مطالبے کی صورت میں سامنے آئے۔ طارق الہاشمی اپنے آپ کو بچانے کے لیے بمشکل پہلے کرد علاقے اور پھر مختلف پڑوسی ممالک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور کردیے گئے۔
کویت سے شائع ہونے والے ہفت روزہ المجتمع نے اپنے شمارہ نمبر :۲۰۵۱، ۴ تا ۱۰مئی ۲۰۱۳ء میں ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے جس میںناصر شعبانی کے حوالے سے پُرامن مظاہروں کو کچلنے کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اسے دونوںملکوں کے مشترکہ مفاد میں قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عراق میں اصل حکمران ایرانی فوج کے ایک اہم ذمہ دار قاسم سلیمانی ہیں۔صرف یہی نہیں مذکورہ شخص لبنان، افغانستان اور شام میں ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے پر بھی مامور ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایران نے پاس داران انقلاب اور اعلیٰ فوجی افسران کے کئی وفود عراقی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں جنھوں نے عراقی ذمہ داران کے ساتھ مل کر مظاہرین کو کچلنے کے لیے عراقی حزب اللہ، البدر فورس اور جیش المہدی کے ساتھ مل کر پلان ترتیب دیے۔
ا س پورے فتنے سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ برادر ملک عراق کے تمام شہری ، سیاسی جماعتیں اور دوست پڑوسی ممالک باہمی احترام کی پاس داری اور عراق کی خود مختاری کااحترام کریں۔عراق کے اندرونی معاملات اورملکی امور میں مداخلت نہ کریں۔یہ بات طے ہے کہ عراق جیسے اہم برادر ملک کو ایک دفعہ پھر پورے عالم اسلام میںفتنوں اور اختلافات کا ایندھن بنانے سے تمام تر نقصان اُمت مسلمہ کا ہی ہوگا۔
سوال: عموماً کہا جاتا ہے کہ فی زمانہ مادیت کا غلبہ ہے روحانیت نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ: روحانیت کیا ہے
جواب: روحانیت،ایمان اور نورِ ایمان کا نام ہے۔ جب ایمان قوی ہوجاتا ہے تو پھر اعمال اسی طرح صادر ہوتے ہیں جس طرح زیرزمین پانی جوش مارتا ہے تو چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور پھر جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون قرآنِ پاک میں بھی پوری تفصیل سے بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کے لیے ایک مستقل کتاب ہے جسے کتاب الایمان کہا جاتا ہے۔ انسان روح اور جسم کا مرکب ہے۔ روح کی غذا ایمان ہے اور جسم کی غذا عمل ہے۔ ایمان کی وجہ سے روح میں روحانیت ہوتی ہے اور عمل کی وجہ سے جسم اسلام کا مظہر ہوتا ہے۔
اس مسئلے کو حدیث جبریل ؑ میں اچھی طرح واضح کیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان عقیدے کا نام ہے اور اسلام عمل کا نام ہے، اور احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کی جائے گویا انسان اللہ کو دیکھ رہا ہے، اور اگر یہ کیفیت اپنے اُوپر طاری نہیں کرسکتا تو پھر یہ کیفیت تو ایک حقیقت ہے کہ اللہ انسان کو دیکھ رہا ہے، لہٰذا اس کیفیت کو اپنے اُوپر طاری کرے۔ جب آدمی پر ان کیفیتوں میں سے کوئی کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو اسے ایمان اور اسلام کا کمال کہا جاتا ہے اور اس وقت آدمی جو عبادت کرتا ہے اس میں اعلیٰ درجے کا خشوع اور خضوع اور اخلاص ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے عمل بھی کامل درجے کا ہوتا ہے۔ نماز پڑھے گا تو وہ عام نماز نہ ہوگی بلکہ وہ مومن کی معراج ہوگی، اور روزہ ہوگا تو عام روزہ نہ ہوگا بلکہ تزکیۂ نفس کا اُونچا مرتبہ ہوگا، علیٰ ہذا القیاس۔ حج، زکوٰۃ، معاشرت، معیشت، سیاست، تمدن، حکومت ہر چیز قربِ الٰہی کی بلند ترین چوٹی ہوگی۔
اس کے بعد ترتیب کے ساتھ آپ کے سوالوں کا جواب عرض ہے:
۱- روحانیت ایمان کے بغیر نہیں ہوتی اور ایمان ہی روحانیت کی اساس ہے، اور عرفِ شرع میں روحانیت سے مراد یہ ہے کہ آدمی علم کے اس مرتبے پر فائز ہو جو ایمان کی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور پھر وہ قوتِ متحرکہ بن کر زندگی کی گاڑی کو چلاتا ہے۔ وہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرنے میں مصروف ہوتا ہے، دن ہو یا رات، سفر ہو یا حضر، خلوت ہو یا جلوت، اس کی سیر جاری رہتی ہے۔ اسے سالک کہا جاتا ہے اور اس کی رفتار کو سلوک کہا جاتا ہے۔ وہ جلوت میں ہوکر بھی خلوت میں ہوتاہے۔ وہ ہرلحظہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
۲- روح اور روحانیت میں تعلق یہ ہے کہ روحِ بدن کے لیے زندگی ہے، جب کہ روحانیت روح کے لیے قوتِ محرکہ ہے۔ روحانیت نہ ہو، یعنی ایمان نہ ہو، تو پھر روح بدن کے لیے زندگی کا باعث تو ہے لیکن یہ زندگی ایک حیوان کی سی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔(اعراف ۷:۱۷۹)
۳- اگر کوئی شخص فرائض، واجبات، سنن و مستحبات کا پابند ہے، منکرات سے بچتا ہے، نیکی اس کی طبیعت میں رچی بسی ہے، نیکی کرکے اسے مسرت اور بُرائی کر کے تکلیف ہوتی ہے تو اس میں روحانیت ہے۔ یہ وصف جس قدر زیادہ ہوگا اس قدر اس میں روحانیت ہوگی۔ حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’جب تجھے تیری نیکی خوش کردے اور تیری بُرائی تجھے تکلیف دے، غمگین کردے تو تومومن ہے۔ انھوں نے سوال کیا: یارسولؐ اللہ! گناہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جب ایک چیز کے بارے میں تیرے دل میں خلجان ہو کہ یہ صحیح ہے یا غلط تو اسے چھوڑ دے‘‘ (رواہ احمد، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)۔ گناہ سے بچنے کا آپؐ نے آسان نسخہ بتلادیا کہ صرف ایسے کام کو کرو جس کے جائز ہونے کا یقین ہو اور جس کے جواز میں تردد ہو تو اسے چھوڑ دو۔ گناہ سے بچ جائو گے اور نیکیاں ہی نیکیاں سمیٹتے رہو گے۔
۵- سالک سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی پیروی میں رواں دواں ہے اور آپ کے اسوئہ حسنہ اور سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہا ہے، اور بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کر رہا ہے۔ مجذوب وہ ہے جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسولؐ، اس کے دین کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔ ولی وہ ہے جو ایمان و عملِ صالح اور تقویٰ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی دوستی کے مقام پر فائز ہوگیا ہے۔ سورئہ یونس میں ولی کی یوں تعریف کی گئی ہے: الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ(یونس ۱۰:۶۳) ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیے ہوئے ہیں‘‘۔ قطب اور ابدال صوفیا کی اصطلاح ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ آدمی ولایت کے مقام پر ایسا فائز ہو کہ ایمان والوں کی ہدایت اور راہ نمائی کا مرکز و محور اور مرجع بن چکا ہو۔ ابدال کے بھی یہی معنی ہیں کہ ایک علاقہ اور ملک اس کی راہ نمائی اور تربیت پر جمع ہوچکا ہو۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، حسن بصری، فضیل بن عیاض، سعید بن جبیر، شیخ عبدالقادر جیلانی، سیدعلی ہجویری، معین الدین چشتی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، شاہ اسماعیل شہید، شاہ عبدالقادر، سید احمدشہید، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی، مولانا علامہ انورشاہ کاشمیری اور پھر عصرِحاضر میں مفکرِاسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی اور امام حسن البنا شہید، روحانیت، ولایت اور اس کے مقامات پر فائز ہوکر مرجعِ خلائق اور مرجعِ ہدایت بن گئے۔
۶- ہرکلمہ گو ایمان اور عملِ صالح کا مکلف ہے اور اسی لیے وہ روحانیت کا مکلف ہے۔
۷- جہاد فی سبیل اللہ روحانیت کی بلند ترین چوٹی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ، ایمان اور اسلام کی بلند ترین چوٹی ہے‘‘۔ آخرت میں فرائض ، واجبات اور اس کے سنن کے متعلق سوال ہوگا کہ یہی روحانیت کے مدارج ہیں (مشکوٰۃ، کتاب الایمان)۔ ایک عام آدمی جس کے پاس دین کا صحیح تصور ہو، عقیدۂ توحید پر قائم ہو اور فرائض، واجبات اور سنن ادا کرتا ہو، وہ روحانیت کی منزل پر فائز ہے، جیساکہ سورئہ یونس کی آیت سے واضح ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
اللہ تعالیٰ کے کلام کی تشریح و تفسیر کا کام حضور اکرمؐ کے زمانے ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو نئے نئے علاقوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ آخری پیغام پہنچا اور ساتھ ہی اس کے مطالب کی تشریح و تفہیم کا سلسلہ بھی قائم ہوتا گیا۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآنِ مجید کی ان تفاسیر کا جائزہ اور تعارف پیش کیا گیا ہے جو بیسویں صدی عیسوی میں منصہ شہود پر آئیں۔
کتاب میں مصنف نے تفسیری ارتقا کے جائزہ لیا ہے۔ مآخذ تفسیر کے ساتھ ساتھ عہدنبویؐ اور صحابہ کرامؓ کے دور کی تفسیری خصوصیات بھی تحریر کی ہیں۔ پاک و ہند میں لکھی گئی تفاسیر کے اجمالی تذکرے کے بعد بیسویں صدی کے تفسیری ذخیرے کے اوّلین نقوش واضح کیے ہیں۔
کتاب میں ۲۶ مکمل تفسیروں کا تعارف اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ ہرتفسیر کی خصوصیات، سنہ تکمیل اور اہم مباحث کا خلاصہ لکھنے کے ساتھ ساتھ تفسیری نمونے کا شذرہ بھی دیا گیا ہے۔ تفسیر کا مرکزی خیال لکھ کر اس کے مجموعی طرزِفکر اور اسلوبِ بیان کا اظہار بھی کیا ہے۔ حکیم سید محمد حسن نقوی کی تفسیر غایۃ البرہان فی تاویل القرآن کے بارے میں لکھا ہے: حکیم صاحب نے تصوف پر خاطرخواہ روشنی ڈالی ہے، نیز قرآنِ مجید کے فلسفیانہ مباحث کو بھی اختصار سے بیان کیا ہے۔ ثقیل اُردو زبان کا استعمال کیا گیا ہے‘‘ (ص ۱۱-۱۲)۔ دوسرے باب میں ۳۷ جزوی تفاسیر کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں تفسیری حواشی پر مشتمل ان تفاسیر کا ذکر کیا گیا ہے جو ہرچند کہ تفسیر ہی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن مصنف کے خیال میں انھیں تفسیری حواشی کہنا مناسب ہے۔ چوتھے باب میں پوری کتاب کے حوالے دیے گئے ہیں۔مصنف نے جملہ تفاسیر کے پہلے ایڈیشن سے لے کر اس کتاب کے سالِ تصنیف تک جتنے ایڈیشن مل سکے، ان سب کے کتابیاتی کوائف بھی درج کیے ہیں۔ اسلوبِ بیان علمی وقار کا حامل ہے۔ مصنف کی تحقیقی و تنقیدی محنت قرآن کے مطالعے کے شائقین کے لیے یقینا ایک نعمت ہے۔(ظفرحجازی)
حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ، آپؐ کی احادیث اور آپؐ کی سنت کی توضیح و تشریح کے لیے اہلِ علم ہر دور میں مستعد رہے ہیں۔ اُردو زبان میں بھی سیرت النبیؐ پر بے شمار کتابیں تحریر کی گئیں اور کتب احادیث کے تراجم و تشریحات پر مبنی متعدد کتب اہلِ علم میں متداول ہیں۔ مولانا خالدسیف اللہ رحمانی کو برعظیم کے علماے دین میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کی اس کتاب میں حضور اکرمؐ کی سیرت کے متعدد پہلوئوں پر ایمان افروز اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں مطالعہ سیرت کے مبادی بیان ہوئے ہیں۔ دوسرے باب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات قلم بند کیے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں سیرت النبیؐ کے سبق آموز پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور چوتھے باب میں اُمت مسلمہ پر نبیؐ کے حقوق بتائے گئے ہیں۔
مصنف کی یہ کوشش قابلِ تعریف ہے کہ سیرت النبیؐکے واقعات کے بیان میں ان سے حاصل ہونے والے سبق کو اُجاگر کیا گیا ہے تاکہ قارئین اسے آج کی زندگی میں راہنما بنائیں۔ یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ حضور اکرمؐ پر ہمارے ایمان کا تقاضا کیا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اسی ضمن میں ختم نبوت کے مباحث پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
اسلوبِ بیان داعیانہ اور واعظانہ ہے۔ سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوئوں کو علمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کوشش میں مصنف کا قلم افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوا۔ کتاب ہرچند کہ متعدد مضامین کا مجموعہ ہے، تاہم ان مضامین میں ایک معنوی ربط موجود ہے۔ سیرت النبیؐ کے موضوع پر یہ کتاب یقینا اپنے پُراثر بیان کے باعث قارئین کو پسند آئے گی۔(ظفرحجازی)
قصہ کہانی ادب کی وہ قسم ہے جس میں انسان کی دل چسپی بالکل فطری ہے۔اس طرح بات سمجھنا اور ذہن نشین کرانا آسان ہو تا ہے۔انسانی فطرت اور کہانی کی اثر آفرینی کے پیش نظر اسلام نے اس کو تفہیم و ترتیب کا ذریعہ بنایا ہے۔
زیر نظر کتاب معروف مسلم اسکالر مصطفی محمد طحان کی کتاب التربیۃ بالقصۃ کا اُردو ترجمہ ہے۔فاضل مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے احادیث مبارکہ میں بیان کیے جانے والے سبق آموز واقعات اور آسمان نبوت کے درخشاں ستاروں (صحابہ کرام ؓ) کی ایمان افروز داستانوں سے انتخاب پیش کیا ہے۔ہر قصے کے آخر میں اہم علمی مباحث اور عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔یوں یہ کتاب قرآن و سنت کے حوالوں سے مزین ۴۰ دروس کا خوب صورت گل دستہ ہے۔دل چسپ اور منفرد انداز ِ بیان کے واقعات ذہن کو متاثر، روح کو معطر اور انسان کو آمادہ بہ عمل کرتے ہیں۔بچوں اور بڑوں کے تزکیہ و تربیت کے لیے یکساں مفید ہے۔
مترجم نے ایسی قیمتی کتاب کو اُردو کے قالب میں ڈال کر اُردو دانوں کی بڑی خدمت کی ہے۔ ترجمہ اس طرح رواں دواں اور شُستہ کہ ترجمے کا گمان نہیں ہوتا۔ یہ کتاب جمعیت طلبہ عربیہ کی رکنیت کے نصاب میں شامل کی گئی ہے۔ یہ ہر لائبریری،ہر گھر بلکہ ہر فرد کی ضرورت ہے(حمید اللّٰہ خٹک)
علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور فکر و فلسفے کے ذریعے جہاں اُمت ِ مسلمہ کی بیداری جیسا کارنامہ انجام دیا، وہاں ان کی شاعری اُردو زبان و ادب کے فروغ کا باعث بھی بنی۔ علامہ اقبال سے پہلے اردو شاعری میں عام طور پر گل و بلبل، عاشق و معشوق اور ہجر و وصال جیسے مضامین کی کثرت تھی۔ اصلاحی شاعری کی اکا دکا مثالیں (نظیر اکبر آبادی،اکبر الٰہ آبادی اور مولانا حالی وغیرہ) اگرچہ موجود تھیں لیکن یہ علامہ اقبال ہیں جنھوں نے اُردو شاعری کو فلسفیانہ مضامین بیان کرنے کے قابل بنایا۔ انھوں نے فلسفہ و حکمت اور اصلاحِ امت کے لیے اُردو شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا ۔
یہ ایم فل اقبالیات کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس پر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی نے مصنفہ کو ڈگری عطا کی۔ اس میں انھوں نے علامہ اقبال سے پہلے اُردو ادب کی صورتِ حال پر نظر ڈالی ہے، بعدازاں اردو ادب کی ترویج و ترقی میں علامہ کے کردارپر بحث کی گئی ہے ۔ علامہ اقبال کے لسانی شعور ، ادبی نظریے اورزبان و بیان کی صحت کے لیے ان کی کاوشوں کو، ان کی اُردو شاعری اور مکاتیب کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ علامہ کے خطوط کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحت ِ زبان کے سلسلے میں نہایت حساس تھے ۔ ان کے خطوط ( بالخصوص بنام سید سلیمان ندوی اور مولوی عبدالحق) میں اصلاحِ زبان سے متعلق بہ کثرت بحثیں اور استفسارات موجود ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُردو زبان کے مسئلے کو کس قدر اہم سمجھتے تھے۔ اسی طرح علمِ بدیع، علمِ بیان اور علمِ عروض کی اہمیت کے متعلق بھی ہمیں ان کے خطوط سے رہنمائی ملتی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ہیئتی تجربات اور اجتہادات بھی کیے جس سے اردو شاعری کو ایک نئی جہت ملی۔ بعد ازاں ان کی تقلید میں کئی ایک شعرا نے شاعری کی ۔ان کے شعری حسن اور فکر و فلسفے کی وسعت اور کثیر الجہتی تصورات کے باعث آج اقبالیات کا ایک مکمل شعبہ وجود میں آ چکا ہے اور اقبال کی فکر و فلسفے کی تفہیم کے لیے ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان کی انگریزی کتابوں اور خطوط کے متعدد اُردو تراجم کیے گئے ہیں۔اس شعبے میں اُردو زبان میں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ بالواسطہ طور پرفروغِ اردو میں علامہ اقبال ہی کی دین (contribution)ہے۔
اس کتاب میں مصنفہ نے اپنے موضوع کو نہایت محنت سے سمیٹا ہے ۔ مقالے سے ان کی لگن ، توجہ اور محنت جھلکتی ہے۔ مقالے کے نگران ڈاکٹر وحیدقریشی مرحوم تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ تحقیقی اور علمی کتاب اور ذخیرئہ اقبالیات میں ایک اچھا اضافہ ہے۔(قاسم محمود احمد )
عبداللہ دانش ایک عرصے سے نیویارک میں مقیم ہیں، جہاں وہ مسلکی، گروہی کشاکش اور اختلافات سے بالاتر ہوکر اسلام کو قرآن اور صاحب ِ قرآن کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ مقالاتِ دانش ان کے خطبات اور مضامین کا مجموعہ ہے۔
۳۷موضوعات، اسلام، اُمت کا تصور، علم، مقصد تعلیم، طہارت اور پاکیزگی، نماز، حج، قربانی، شادی، حکمت ، خلق عظیم، عالم کون؟ قرآن، مغربی طریقے، شیطان کے حربے، دل کی زندگی، خرابیاں، تقویٰ اور پرہیزگاری، شہد، دو مکھیوں کا تذکرہ (شہد کی اور عام مکھی) اور دیگر مختلف موضوعات اور روزمرہ مسائل پر تحقیقی اور فکرانگیز تذکرہ عام فہم انداز میں کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ امریکی معاشرت اور اس کے اثرات کا بھی احسن انداز میں جائزہ لیا گیا اور اس کے کمزور پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ طویل عرصہ امریکا میں قیام کرنے کے بعد مصنف یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی طور پر سپریم پاور، ترقی یافتہ اور مہذب کہلوانے کے باوجود امریکی معاشرے کو اسلام کی ضرورت ہے جو ہرزمانے میں صراطِ مستقیم فراہم کرنے والا دین ہے۔ قرآن، حدیث، سلف کا طرزِعمل، اقبال ، حالی اور اکبر کے اشعار کے علاوہ عربی و فارسی اشعار کا بھی برمحل استعمال کیا گیا ہے۔ کتابیات سے کتاب کی افادیت اور وقعت مزید بڑھ جاتی۔(عمران ظہورغازی)
بجاطور پر شکایت ہوتی ہے کہ ڈرون حملے جیسے موضوع پر بیانات اور احتجاج ہوتے ہیں لیکن اس کے تمام پہلوئوں کا مطالعہ جیساکہ حق ہے نہیں کیا جا رہا ہے۔ حملے ہمارے ملک میں ہورہے ہیں اور کچھ معلومات ملتی ہیں تو بیرونی ذرائع سے ملتی ہیں۔ کیا جامعہ پشاور میں اس کے مطالعات کا مرکز قائم نہیں کیا جاسکتا؟ Narratives پبلشرز نے ڈرون حملے کے نام سے کتاب شائع کی تو حیرانی ہوئی۔ لیکن جب اندر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اوکسفرڈ تحقیقاتی گروپ نے جو رپورٹیں شائع کی ہیں ان کے تراجم علی عباس نے مرتب کردیے ہیں اور جیساکہ کہا گیا ہے ’’زیرنظر کتاب ڈرون حملوں کے حوالے سے چند اہم حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یوں یہ کتاب ڈرون حملوں پر ایک معتبر دستاویز قرار پاتی ہے‘‘۔
اس مختصر کتاب میں پانچ مختصر مضامین شامل ہیں جن کے مطالعے سے اس مسئلے کے قانونی اور بین الاقوامی پہلو واضح ہوجاتے ہیں اور متعلقہ حقائق اور اعداد و شمار بھی سامنے آجاتے ہیں۔ لکھنے والوں میں پروفیسر سوسان بریو، میری ارون سون، راشیل جوئس، پیٹربرگن، کیتھرین ٹائیڈس، سمیع یوسف زئی ہیں، جو سب اپنے میدان کے معروف نام ہیں، مثلاً پیٹربرگن سی این این کے تجزیہ نگار ’’اسامہ بن لادن جیسا مَیں جانتا ہوں‘‘ (Usama Bin Laden: as I know) کے مصنف، امریکی ادارے Counter Terrorism Initiative کے ڈائرکٹر اور نیوامریکا فائونڈیشن کے سینیر فیلو ہیں۔
سمیع یوسف زئی کے مضمون میں خودکش بم بار حنیف کی کہانی خود اس کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ اس میں یہ دل چسپ بات بھی آئی ہے کہ حنیف نے کسی مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہوگیا۔ اس لیے کہ پٹھان معاشرے میں دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہونا، جب کہ جواب کسی خاتون سے متوقع ہو اخلاق باختگی ہے۔ اس پیٹھ کرنے سے ہی اس نے ڈرون حملہ آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا۔ ڈرون حملوں سے دل چسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے یہ کتاب ایک ناگزیر کتاب ہے۔ اس دستاویز کو ہم بجا طور پر ایک معروضی مطالعہ قرار دے سکتے ہیں، محض جذبات کی کارفرمائی نہیں۔(مسلم سجاد)
دنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ آنے والے دنوں میں کیا انقلابی تبدیلیاں رُونما ہوں گی؟ حق و باطل کے معرکے اور عالمی اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جنگ (Armageddon) اور یاجوج ماجوج پر علمی و تحقیقی بحث کی گئی ہے۔ یاجوج ماجوج کے موضوع پر قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر مذاہب میں تذکرے، اور جدید تحقیقات ایک مختلف انداز میں سامنے لائی گئی ہیں۔ ’رُوے ارضی پر نسلِ انسانی کا پھیلائو‘ باب کے تحت ۶۰۰ قبل مسیح سے تاحال انسانی تہذیب کا ارتقا اور اہم تاریخی مراحل کا جائزہ اور یاجوج ماجوج کی تباہی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مؤلف کے نزدیک موجودہ مغربی تہذیب یاجوج ماجوج کے لشکروں ہی کا دوسرا نام ہے۔ مغربی تہذیب کا بے لباسی اور عریانیت کی انتہا پر پہنچنا اور انسانیت کا حیوانیت کی سطح تک گر جانا، درحقیقت آخری معرکے اور عالمی اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے مرحلے کا نزدیک آجانا ہے۔ اس اشاعت ِ خاص کا مقصد مستقبل قریب میں آنے والے حالات و واقعات کو سمجھنا ہے تاکہ اسلام کی سربلندی کے لیے جاری جدوجہد ایک نئے عزم اور ولولے سے کی جاسکے۔(امجد عباسی)
ایک اسلام، از جناب ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پی ایچ ڈی۔ شائع کردہ: کتاب منزل، لاہور، قیمت: (مجلد مع رنگین گرد پوش) چار روپے۔
یہ ’دو اسلام‘ اور ’دو قرآن‘ والے برق صاحب کی نئی پیش کش ہے اور بہت سے عجائبات و لطائف کی حامل۔ اِس کتاب کا اصل ہدف ملّا ہے، جو ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تمام ترقیوں میں حائل ہے، حقیقی اسلام سے ہٹاکر عوام کو اپنے پیچھے لگائے ہوئے ہے..... ڈاکٹر صاحب کا یہ اندازہ بالکل غلط ہے۔ آج کی دنیا اور آج کے عوام ملّا کی لیڈرشپ میں نہیں چل رہے ہیں، بلکہ ملحد اور مذہب سے منحرف مسٹروں کے زیرقیادت ہیں۔ خود ہماری سوسائٹی میں محلے کی چودھراہٹ سے لے کر مرکزی وزارت تک ملّا کہیں برسرِاقتدار نہ ملے گا، مسٹر ملے گا( جیسے کہ خود آپ ہی نے لکھا ہے کہ ’ہمارا ملّا اس قدر بے کار ہوچکا ہے کہ تکفین و تدفین کی رسومات کے علاوہ دنیا کے کسی اور میدان میں قیادت کے قابل ہی نہیں رہا، ص ۶۰)۔ ایک تنگ سے گوشے میں ملّاکا محض ذہنی سا اثر باقی ہے مگر اجتماعی عملی زندگی سے وہ مدت ہوئی کہ الگ کیا جاچکا ہے۔ آج وہ سوسائٹی میں اتنا گرا ہوا ہے کہ شاعر، ادیب اور صحافی ہی نہیں، گلی کا ایک لونڈا بھی اُس پر بے تکلف پھبتیاں کسنے کی مشق کرتا رہتا ہے۔ پس اس درجہ گرجانے والے ملّا کے خلاف اتنے فکری لائولشکر سے میدان میں آنا مضحکہ انگیز سی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اصل اسلام پر ناوک اندازی [تیرچلانا]کرنے کے لیے مُلّا کو سامنے رکھنا مفید گردانا گیا ہو ، تاکہ جو گالیاں وہ دراصل اسلام کو دینا چاہتے ہیں وہ بظاہر مُلّا پر برستی نظر آئیں۔
جو کچھ بھی ہو، غریب مرے ہوئے ملّا کو مارنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے شاہ مدار بن کر جس حُسنِ کلام سے کام لیا ہے، وہ کسی ادیب اور مصلح کو تو کیا، اپنی انسانیت کا احساس رکھنے والے ایک اوسط درجے کے شریف آدمی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ ہماری بے لاگ راے یہ ہے کہ اس میدان میں ڈاکٹر صاحب بازاری تقریر بازوں کی سطح پر اُتر آئے ہیں۔ بطور ’تبرک‘ یہاں ہم دو ایک جملے پیش کرتے ہیں: ’’بے شک اگر اعمال کے پارسل باندھنے کا کام حضرت مولانا کے سپرد ہوا تو یہ غیرمسلموں کے ہمالہ جتنے اعمال بھی اُٹھا کر باہر پھینک دیں گے اور اپنا ڈھیلا تک ہمراہ لے جائیں گے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب جہاں بھی ملّا پر برسے ہیں ایسی ہی گھٹیا زبان میں برسے ہیں..... بخلاف اس کے جہاں ڈاکٹرصاحب نے اپنے نظریات کو بالکل اثباتی طور پر پیش کیا ہے وہاں ان کا اندازِبیان سنجیدہ بھی ہے اور شگفتہ بھی۔ خاص طور پر جن مواقع پر موصوف اسلام کے عقائد کو اپنی اجتہادی فکر سے مجروح کیے بغیر پیش فرماتے ہیں، وہاں تو تحریر ادبیت اور اثرانگیزی کے لحاظ سے بالکل معیاری ہوگئی ہے۔(’مطبوعات‘نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۹-۴۰، جمادی الثانی، رجب ۱۳۷۲ھ، مارچ، اپریل ۱۹۵۳ء، ص ۳۹-۴۱)