جنگ دو دھاری تلوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ جہاں انسانیت کے لیے فساد فی الارض سے نجات کا وسیلہ بن سکتی ہے، وہیں وہ اسے ایک عظیم تر فساد کی آگ میں جھونکنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے جو قانون دیا ہے، اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں قرآن اور سنت نبویؐ میں محفوظ ہے، اس میں اس بارے میں ایسی رہنمائی دی گئی ہے جو انسانیت کو فساد سے بچاسکے اور عدل وا نصاف کی راہیں ہموار کرسکے۔
اس قانون کی رُو سے جنگ کے باب میں دو اہم ترین شرطیں واضح کردی گئی ہیں ، یعنی: اول یہ کہ جنگ زر اور زمین کے حصول، محض سیاسی قوت، معاشی بالادستی اور دوسرے مفادات، تعصبات یا محض جہاں گیری اور اپنی قوت کے غلبے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ مبنی برحق جنگ وہی ہوسکتی ہے جو دفاع یا ظلم کے مقابلے کے لیے ہو۔ اس اصولی اور ابدی ہدایت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جنگ کے جواز کو حق اور عدل سے مشروط کردیا۔ اس کے ساتھ دوسری اہم تحدید یہ بھی کردی کہ خود جنگ کے دوران ہر قسم کے ظلم اور انسان سوز زیادتیوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ دشمن کی عسکری قوت پر بھرپور ضرب ہو لیکن عام انسانوں، خصوصیت سے معاشرے کے ان تمام عناصر کے جان، مال اور آبرو کی مکمل حفاظت کی جائے جو شریکِ جنگ نہیں ۔ (non-combatants) دشمن کی عبادت گاہوں، عورتوں، بچوں، حتیٰ کہ پھل اور سایہ دار درختوں اور کھڑی فصلوں تک کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس لیے کہ جنگ کا ہدف صرف حقیقی امن اور انصاف کا حصول ہے اور جنگ کے دوران میں عام انسانوں اور بستیوں کو تباہی سے بچانا اور امن کے پیامبر ہونے کا ثبوت پیش کرنا جنگ کے آداب کا حصہ ہے۔
اسلام کی ان تعلیمات کا دورِ جدید کے بین الاقوامی قانون کے ارتقا پر واضح اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ سولھویں صدی کے بعد جو قانون وجود میں آیا ہے، اس میں سفارت کاری کے اصول و آداب کی حد تک ہی سہی، بین الاقوامی کنونشنز (conventions) پر مبنی برحق جنگ (just war) اور جنگ کے دوران عدل و انصاف کے اہتمام (justice in war) کے اصولوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جن اقوام کو ’مہذب‘ اقوام ہونے کا دعویٰ ہے، انھوں نے ان دونوں حیات بخش اور امن پرور اصولوں کو بُری طرح پامال کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین اور اندوہناک مثال دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر وہ جنگ ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر مسلط کی ہے اور عالمی دہشت گردی کا ایک شرم ناک خونیں باب رقم کردیا ہے۔
بظاہر ۲۰۱۴ء میں افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی کے اعلانات کیے جارہے ہیں، مگر ان کے باوجود جنگ و جدال اور ریاستی اور مزاحمتی دہشت گردی کی آگ کے ٹھنڈے ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ اگر امریکی افواج ہزیمت و شرمندگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر افغانستان سے واپس چلی بھی جائیں، تب بھی یہ علاقہ اور دنیا کے دوسرے حساس علاقے جنگ کی آگ میں سلگتے رہیں گے اور کسی نہ کسی طرح ان ممالک پر مغرب زدہ نام نہاد لبرل سیکولر نظام کے حاشیہ بردار اور وہاں کی سیاسی اور عسکری قوت کے گٹھ جوڑ سے عوام کو، خصوصیت سے اُمت مسلمہ کو، اپنی گرفت میں رکھا جائے گا، تاکہ اس کے قومی و معدنی وسائل کی لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے، اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو کھل کھیلنے کے مواقع حاصل رہیں۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے نام پر شروع کی جانے والی جنگ کو ۱۲برس ہوگئے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان ۱۲برسوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا نے کیا حاصل کیا اور کیا کھویا اور اس سے بھی بڑھ کر اس کے نتیجے میں ان ممالک کو کیا ملا، جو امریکا کے حلیف بنے یا جن کو امریکا نے اپنا ہدف بنایا۔اس لیے کہ اس جنگ کی سب سے بڑی حقیقت ہے ہی یہ کہ مغربی اقوام نے اسے اُمت مسلمہ کی سرزمین پر لڑا ہے، اور وقتی اسباب جو بھی ہوں، اپنے عالمی ایجنڈے کے مطابق لڑا ہے۔ بظاہر مقصد القاعدہ کو ختم کرنا تھا، پھر طالبان ہدف بنے، پھرعراق کے ایٹمی ہتھیار جن کا کوئی وجود نہ تھا۔ پھر جمہوریت کے فروغ، عورتوں کے حقوق کی پاس داری، تعلیم کے فروغ اور معاشی ترقی کے خواب دکھائے گئے، لیکن اصل مقاصد صرف اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر عمل تھا اور اس کے لیے ان ممالک میں، خصوصیت سے افغانستان، عراق، یمن اور خود پاکستان میں ایسے عناصر کو آلۂ کار بنایا گیا جو ملک و ملّت کے مفادات کو ذاتی اقتدار اور مفادات پر بے دریغ قربان کرنے کو تیار ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ اس پورے دور کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور اس کی روشنی میں آگے کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس موضوع کا حق ایک مقالے میں ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ موضوع تو ایک یا ایک سے بھی زیادہ کتابوں کا تقاضا کرتا ہے۔ مغرب میں یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور مسلمان اہلِ علم کو بھی اپنے مقاصد، اہداف اور مفادات کی میزان پر اس دور کی پالیسیوں اور رُونما ہونے والے نتائج اور حالات کا صحیح صحیح تجزیہ کرکے نفع و نقصان کے پورے اِدراک کے ساتھ آگے کا نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اس وقت ۱۱مئی کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومتیں وجود میں آگئی ہیں جن میں عوام نے تبدیلی کا پیغام دیا ہے۔ اگر نئی حکومتیں اس تاریخی موقع کو ضائع کردیتی ہیں اور امریکا ہی کے احکام پر عمل پیرا رہتی ہیں تو اس سے بڑی غداری کا تصور بھی مشکل ہے۔
اس جنگ کے ۱۲برس پورے ہونے پر نئی حکومت اور پوری قوم کو دعوت غوروفکر دینے کے لیے ہم چند اہم گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کی اہمیت اس بحث کے پس منظر میں مزید بڑھ گئی ہے کہ اس نازک وقت پر بھی پاکستان کی امریکی جنگ میں شرکت اور اس کی تمام تباہ کاریوں کا مزہ چکھنے کے باوجود شمالی علاقہ جات ہی نہیں، پورے پاکستان میں فوجی آپریشن اور قوت کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نئی اور وسیع تر معرکہ آرائی کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔ یوں ملک کو ایک نہ ختم ہونے والی خونیں جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس میں امریکی اور اس کی حلیف بھارتی لابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیکولر اور لبرل قوتیں پیش پیش ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نظرآرہا ہے کہ اس میں خود اسلام اور پاکستان کے ناراض دوستوں کا بھی ایک کردار ہے ، یا انھیں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو اس کے عالمی اور ملکی پس منظر میں دیکھا جائے اور جو بھی پالیسی بنائی جائے، وہ بہت سوچ سمجھ کر، قوم اور اس کی قیادت کو اعتماد میں لے کر، تاریخی تجربات سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنائی جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے ملک کے حقیقی مفادات اور قومی مقاصد کے حصول کے لیے صحیح معنی میں ایک قومی پالیسی ہونا چاہیے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے لازمی ہے کہ عوام کے عقائد، وژن، احساسات اور توقعات کی روشنی میں پالیسی بنائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو پالیسیاں بیرونی مفادات کے حصول کے لیے بنی ہوں یا جن کی تشکیل جبر اور دبائو کے تحت ہوئی ہو، یا جن کے محرکات غرور، طاقت کا زعم، انتقام اور غصہ ہوں، وہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ایک بار نہیں بار بار طاقت کا زعم رکھنے والوں نے ایسی پالیسیاں بنائی ہیں اور ان کے نتیجے میں انسانیت کو ظلم و طغیان کی آگ میں دھکیلا ہے، بڑے بڑے علاقے تاراج کیے ہیں، لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے، اور اربوں اور کھربوں ڈالر کے وسائل اس آگ میں جھونک دیے ہیں۔
اکیسویں صدی کا آغاز بھی ایسے ہی تباہ کن اور اندوہناک حالات میں ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی، جس کا آغاز بظاہر آسٹرین شاہی خاندان کے ڈیوک فرانسس فریڈرک کے قتل سے ہوا، جسے ۲۸جون ۱۹۱۴ء کوسرائیو کے مقام پر ہلاک کردیا گیا تھا،اور اس ایک چنگاری سے ایسی آگ بھڑکی کہ پورا یورپ استعماری جنگ کی آماج گاہ بن گیا۔ انجام کار ۵۰لاکھ فوجی اور عام شہری موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ امریکا پہلی بار یورپی جنگوں میں شریکِ کار بن گیا، نئی ٹکنالوجی انسانیت کی خدمت کے بجاے اسے تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے لگی۔ پھر بیسویں صدی ۱۰۰ سے زیادہ جنگوں کا میدان بن گئی، جن میں دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے ۵کروڑ انسانوں سمیت ۱۰کروڑ انسان لقمۂ اجل بنے۔
اکیسویں صدی نے دوسرے عشرے کا بھی انتظار نہ کیا کہ اس کے دوسرے ہی سال میں نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات رُونما ہوگئے۔ یوں انسانیت کو ایک دوسرے ہی قماش کی جنگ کی آماج گاہ بنادیا گیا۔ استعماری قوتوں نے ویت نام اور افغانستان کے تجربات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جنگ، جو ماضی میں دو ممالک یا چند ممالک کے درمیان فوجی معرکے سے عبارت تھی اور جس کی نوعیت، جس کا ہدف، جس کا میدان اور علاقہ بڑی حد تک متعین ہوتا تھا، اس کے تصور ہی کو بدل ڈالا گیا۔ حکومت اور غیرحکومتی عناصر (نان اسٹیٹ ایکٹرز ) میں تصادم، ریاست کی حدود کے اندر تو مختلف شکلوں میں ہوتا تھا مگر اب جنگ ریاستوں اور غیرریاستی مہم جُو عناصر کے تصادم تک بڑھا دی گئی اور اسے بھی عالمی سطح تک پھیلا دیا گیا۔ اس طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ایک طرف ریاست یا ریاستیں فریق بن گئیں تو دوسری طرف ایک مبہم، غیرمتعین عنصر، جو مکانی اعتبار (space wise) سے بھی بے حدوحساب علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح پوری دنیا اس جنگ کا میدان بنادی گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون کس کے خلاف لڑرہا ہے مگر ہرطرف خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ملک کے ملک تاراج کیے جارہے ہیں۔
دہشت گردی کی تاریخ پیدایش۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں۔ یہ تو صدیوں سے انسانی معاشرے میں ایک دھونس، دھاندلی اور جبر کے ’نظام‘ کی حیثیت سے موجودرہی ہے۔ کچھ کے لیے پسندیدہ راستے کے طور پر اور کچھ کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ برداشت۔ خود امریکا میں دہشت گردی کے واقعات امریکی ری پبلک کے قیام سے ۲۰۰۱ء تک بارہا اور بڑی ہولناک شکلوں میں ہوتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں نیویارک کے ٹریڈ سنٹر ( ۱۹۹۳ء) کو ہدف بنایا گیا اور اس کے ذمہ دار افراد کو ملک کے فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ یمن کے سمندر میں یوایس کول نامی بحری جہاز کا واقعہ رُونما ہوا اور اس کو بھی اسی طرح ملکی قانون کے تحت نمٹایا گیا۔ پھر اوکلاہوما کا خونیں واقعہ رُونما ہوا، جس میں ۱۶۸؍افراد کو ایک سفیدفام قدامت پرست امریکی دہشت گرد نے ہلاک کیا اور ۷۰۰؍ افراد زخمی ہوئے، لیکن اس واقعے پر بھی قانون کی مشینری ہی حرکت میں آئی، طبل جنگ نہیں بجایا گیا۔ لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء ایک ایسا واقعہ بن گیا جس کی بنیاد پر عالمی قانون اور ملکی فوج داری قانون دونوں کے پورے نظام فکروعمل ہی کو بدل کررکھ دیا گیا۔
امریکی صدر جارج بش اور پوری مغربی دنیا نے اس کے زیراثر، دہشت گردی کے اس قابلِ مذمت واقعے کو جس میں ۲ہزار۹سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں امریکا میں موجود ہرنسل، ملک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد لقمۂ اجل بنے تھے، ’امریکا کے خلاف جنگ‘ قرار دیا۔ ناٹو نے دفعہ ۵ کا سہارا لے کر امریکا پر حملے کو ناٹو پر حملہ قرار دیا۔ اقوام متحدہ نے بھی ایک مبہم قرارداد میں قوت کے استعمال کے لیے ایک ایسا بودا سا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، جس کو علمی قانونی حلقوں میں چیلنج کیا گیا۔ امریکی کانگریس نے بھی ایک مجہول قرارداد کے ذریعے امریکی صدر کو دہشت گردی کے خلاف ہر ذریعہ اور قوت استعمال کرنے کا پروانہ دے دیا۔ لیکن اب اس کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں اور اس بحث کی روشنی میں امریکی صدر کے لیے شام پر فوج کشی کی اجازت حاصل کرنا مشکل ہوگئی ہے۔۱؎
یہ ۱۲سالہ جنگ جدید مغربی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی بے حساب ہیں۔ اس کا کوئی جواز نہ بین الاقوامی قانون میں ہے اور نہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں، جو صرف دفاعی جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ اگر واضح خطرے کے پیش نظر اور حقیقی دفاع کے لیے چارٹر میں اقدام میں پہل کی گنجایش پیدا کی گئی ہے، تو وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی حدود میں اور اقوام متحدہ کو اطلاع ہی نہیں اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والی فوج کی شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ لیکن امریکی صدر نے طاقت کے زعم میں، امریکا کے سامراجی اہداف کے حصول کے لیے، جن کی ایک مدت سے منصوبہ سازی کی جارہی تھی، اس عجیب و غریب جنگ کا آغاز کیا۔ صرف القاعدہ نہیں، افغانستان اور اس کے ساتھ عراق، ایران اور شمالی کوریا پر بھی اپنے جنگی اور جارحانہ عزائم کے اظہار کے ساتھ دبائو کا آغاز کیا۔ اس کے لیے یہ اصول وضع کیا کہ جو امریکا کے ساتھ نہیں، وہ دہشت گرد ہے یا دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جنگی اقدام کے لیے ایک جائز ہدف ہے۔
صدربش کے یہ الفاظ اس جنگ کے اصل اہداف کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سامنے رہنے چاہییں:
یہ ہے وہ ذہن (mind-set)، جسے سمجھے بغیر اس نام نہاد جنگ کی حقیقت، اس کے اصل عزائم اور اہداف اور امریکا کی عالمی سیاست میں اس کے کردار کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ ۱۲برسوں میں جو ناقابلِ انکار شہادتیں سامنے آگئی ہیں، ان کا احاطہ جگہ کی تنگی کے باعث یہاں ممکن نہیں۔ تاہم ان کے صحیح اِدراک پر ہی پاکستان کے لیے ایک قومی مفادات سے ہم آہنگ قومی سلامتی پالیسی بن سکتی ہے اور دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکلنے اور ملک میں حقیقی امن اور رواداری کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔
دہشت گردی ایک تاریخی اور سیاسی مسئلہ ہے، جس کا مقابلہ دہشت گردی پر قابو پانے کی سیاسی اور غیرسیاسی حکمت عملی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی کی بلاشبہہ کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ میں اس مسئلے پر ۶۰برس سے بحث جاری ہے۔ اقوام متحدہ نے جہاں عام حالات میں سیاست میں قوت (violence) کے استعمال کو ناروا اور ناقابلِ قبول قرار دیا ہے، وہیں خاص سیاسی حالات میں حق خود ارادی کی مسلح جدوجہد کو ’دہشت گردی‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
قانون، سیاسیات اور سماجیات کے محققین اس پر متفق ہیں کہ ’دہشت گردی‘ کے اسباب کے تعین اور ان کے حل کے بغیراس سے نمٹنا ناممکن ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے سیاسی حکمت عملی ہی مؤثر ہوسکتی ہے، گو کہ مخصوص حالات میں کچھ حدود کے اندر ریاستی قوت کے استعمال کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ محض قوت کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی بیش تر مساعی بُری طرح ناکام رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں دہشت گردی میں بالعموم اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے دہشت گردی کو ملکی دستور اور قانون کے ڈھانچے میں اور سیاسی اور انسانی حالات کی روشنی میں حل کرنے ہی میں خیر ہے۔ ہر دوسرا راستہ ایسی قباحتوں اور خرابیوں کی طرف جاتا ہے جو انسانی معاشرہ، امن و امان، عدل و انصاف، جمہوریت اور آزادی کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہیں۔
امریکا کے تھنک ٹینک رانڈ کارپوریشن نے افغانستان میں ۱۲برس تک لڑی جانے والی جنگ کے پس منظر میں دنیا میں دہشت گرد تنظیموں، کارروائیوں اور مسلح تحریکوں کو قابو کرنے کی عالمی کوششوں کا جائزہ لیا ہے، اور اس رپورٹ کے نتائجِ تحقیق صاف اشارہ کررہے ہیں کہ بالآخر مذاکرات کے علاوہ کوئی اور راستہ مؤثر نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی ان تمام دہشت گرد تحریکوں کے مقابلے اور بڑے خون خرابے کے بعد بالآخر جو حل نکلا ہے اس کی تصویر کچھ ایسی ہے:
جن مقامات پر قوت کے ذریعے سیاسی بنیادوں پر رُونما ہونے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، ان میں سب سے زیادہ ’کامیاب مثال‘ سری لنکا کی پیش کی جاتی ہے جہاں ۱۹۸۳ء میں تامل ٹائیگرز نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ خودکش بمباری کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا ’سہرا‘ بھی انھی کے سر ہے۔ سری لنکا کے ایک صدرمملکت اور ایک فوجی سربراہ کو بھی انھوں نے دہشت گردی کا نشانہ بناکر ہلاک کیا۔ ۲۶سال پر پھیلی ہوئی اس دہشت گردی اور اس کے خلاف فوجی قوت کے بے دریغ استعمال میں ۴۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ۳۰ہزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عام شہری تھے۔ ۲۰۰۹ء میں سری لنکن فوج کو غلبہ حاصل ہوا، لیکن ایسی بے دردی سے قتل عام کے بعد کہ پوری دنیا چیخ اُٹھی اور چارسال سے اس نسل کشی (genocide) کے خلاف دنیابھر میں آواز اُٹھائی جارہی ہے اور سری لنکا کی سیاسی اور فوجی قیادت پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا مطالبہ ہورہا ہے۔
اگر ہم سری لنکا کے مخصوص جغرافیائی، نسلی، لسانی اور تاریخی پہلوئوں سے صرفِ نظر بھی کرلیں اور اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیں کہ یہ مسئلہ ایک مخصوص اور محدود علاقے اور اس کی خودمختاری یا آزادی سے متعلق تھا، تب بھی جس قیمت پر یہ فتح حکومت کو حاصل ہوئی، وہ عسکری حل کو دوسروں کے لیے پُرکشش نہیں بناسکتا۔ لیکن تعجب ہے کہ ہمارے ملک کا لبرل سیکولر طبقہ اور امریکی اور بھارتی لابی کے ہم نوا بڑھ چڑھ کر اس خونیں حکمت عملی کے اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں اور اخبارات اور ٹی وی کے ٹاک شو اس سے بھرے پڑے ہیں، لیکن تاریخ اپنا لوہا منوا کر رہتی ہے۔
ابھی ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو سری لنکا میں علاقائی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان کے نتائج نے اس حکمت عملی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ جافنا اور تامل علاقے میں TNA (The Tamil National Alliance) جو سابق تامل ٹائیگرز کا سیاسی محاذ تھا، اسے ان انتخابات میں حیران کن کامیابی ہوئی ہے۔ صدر راجا پاکسا کی پارٹی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹی این اے نے ۳۸میں سے ۳۰ نشستیں حاصل کی ہیں، جب کہ صدر مہندرا راجا پاکسا اور ان کے اتحادیوں کی کولیشن کو صرف سات نشستیں ملی ہیں۔ ایک نشست مسلمانوں کی جماعت نے حاصل کی ہے۔
رائٹر کے نمایندے نے اسے صدر راج پاکسا کے لیے، جو ۲۰۰۵ء سے صدر ہیں، ’شرمناک شکست‘ قرار دیا ہے۔ اس نے عوام کے اس فیصلے کو اس انتخاب کا اصل پیغام قرار دیا ہے: ’’یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک بھرپور پیغام ہے کہ تاملوں کی ضرورت ایک سیاسی حل ہے‘‘۔
اس انتخاب میں ۶۸ فی صد نے ووٹ ڈالے اور ٹی این اے نے جافنا جو تحریک کا مرکز ہے، اس میں ۸۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ اس کے علاوہ دوسرے ملحقہ علاقوں میں بھی ان کو ۸۱فی صد اور ۷۸ فی صد ووٹ ملے۔ یہ ہیں وہ تمام علاقے، جہاں فوج نے اندھی قوت کے ذریعے تحریک کو ختم کیا تھا، مگر پہلا موقع ملتے ہی عوام نے انھی مطالبات اور ایشوز کو اُٹھا دیا، جن کو ختم کرنے کے لیے عسکری آپریشن اختیار کیا گیا تھا اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ سُلاکر امن کا پیغام دیا تھا۔ ٹی این اے کے فتح یاب نمایندے ایم اے سماندھیران نے صاف الفاظ میں اعلان کیا ہے :
ہم نے جو سیاسی موقف اختیار کیا تھا، یہ اس کی ایک بڑی تائید ہے۔ ہمارے عوام تشدد اور دھمکیوں کے سامنے جھکے نہیں، کھڑے رہے ہیں۔ اب صدر کو اس فیصلے کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ (ڈیلی سٹار، ۲۲نومبر ۲۰۱۳ء)
ٹی این اے نے مزید مطالبہ کیا ہے کہ: ’’تمام علاقے سے فوج واپس بلائی جائے، جس نے علاقے میں بے پناہ مظالم کیے ہیں‘‘۔ عالمی سطح پر بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوج کی زیادتیوں پر محاسبہ ہو، عالمی قوانین کے مطابق ان سب لوگوں پر مقدمہ چلایا جائے جو جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور سیاسی مفاہمت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اس سارے خون خرابے کے بعد بات پھر سیاسی حل ہی پر آکر رُکی ہے اور امریکا کے دانش ور بھی اس کی تائید کر رہے ہیں۔
’دہشت گردی‘ کے مسئلے کا کوئی حل سیاسی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے سوا نہیں۔ یہ نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس عمل کو بروقت اور صحیح انداز میں کیا جائے یا بعد از خرابیِ بسیار___ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ اس عمل کو سبوتاژ کرانے میں امریکا، بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ ہے اور ان کے گماشتے یہ کھیل کھیل رہے ہیں___ بلاواسطہ بھی اور بالواسطہ بھی۔ حالانکہ افغانستان میں خرابیِ بسیارکے بعد امریکا سیاسی حل کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور ؎
آنکہ داناں کند ، کند نادان
لیک بعد از خرابیِ بسیار
کی تصویربنا ہوا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے امریکا کے طور طریقوں کے بارے میں ایک بار بڑی پتے کی بات بڑے لطیف انداز میں کہی تھی جو آج بھی حقیقت کا رُوپ دھارتی نظر آرہی ہے، یعنی:’’ہم، امریکیوں کو ہمیشہ ان لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں، جو صحیح کام تب کرتے ہیں جب وہ دوسرے تمام ذرائع کو ہرطرح سے آزما چکے ہوتے ہیں‘‘۔
امریکا اور برطانیہ کے بڑے خصوصی تعلقات ہیں، اس لیے بالآخر امریکا ان سے صحیح معاملہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے، لیکن پاکستان اور دوسرے ممالک اتنے خوش نصیب کہاں___ وہ تو غلط اقدامات کی چکّی ہی میں پستے رہتے ہیں۔
افغانستان پر امریکی حملہ عالمی قانون، عالمی چارٹر براے انسانی حقوق، ریاستی حاکمیت، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر اور خود امریکی دستور سے بھی متصادم تھا۔ لیکن طاقت کے زعم، سیاسی اور معاشی غرور و استکبار اور جذبۂ انتقام سے سرشار امریکی قیادت نے قانون کے راستے کو ترک کرکے، اندھی قوت کا استعمال کیا اور چھے ہفتے میں افغانستان کو خاک و خاکستر بنانے، القاعدہ کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے اور طالبان کو ان کی حکم عدولی کی سزا دینے کے لیے ایک ’گلوبل وار آن ٹیررزم‘ کا آغاز کیا۔ ۱۲برس پر پھیلے ہوئے خون خرابے کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اب افغانستان سے بے نیل و مرام نکلنے اور طالبان سے مفاہمت اور مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
امریکا اور ناٹو کے ۴ہزار سے زیادہ فوجی افغانستان میں ہلاک ہوچکے ہیں، جو۱۱ستمبرکے واقعے میں جاں بحق ہونے والوں سے زیادہ ہیں۔ زخمی ہونے اور اپاہج ہوجانے والے فوجیوں کی تعداد ۳۰ہزار سے زائد ہے۔ جو امریکی فوجی واپس ہوئے ہیں، ان میں خاص طور پر اور خود ان فوجیوں میں جو افغانستان میں ہیں خودکشی عام ہے۔ پھر وہی افغان فوج اور پولیس جسے اربوں ڈالر خرچ کر کے اور بڑے چائو کے ساتھ تربیت دے کر طالبان کے مقابلے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اس کے جوانوں نے امریکی اور ناٹو فوجیوں ہی پر حملے شروع کردیے ہیں اور اس کے لیے Green on Blue (سبز بمقابلہ نیلا) کی نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ اب خود افغان فوج اور امریکی اور ناٹو کی افواج ایک ہی محاذ پر کھڑی نظر نہیں آتیں۔ نہ صرف اعتماد کا رشتہ ختم ہوچکا ہے بلکہ عملاً بھی ان کے درمیان رابطے کو کم کیا جارہا ہے، بلکہ امریکی افواج کو افغان افواج سے محفوظ رکھنے کی تدابیر بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ بن گئی ہیں۔
جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکی حکام نے اس پر بُرا منایا تھا کہ تھنک ٹینکس اور کچھ فوجی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا پر ۱۰۰؍ارب ڈالر کی چپت پڑسکتی ہے۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ یہ بتارہا ہے کہ امریکا کو فوج اور افغانستان پر ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زیادہ ہرسال خرچ کرنا پڑرہے ہیں اور صرف افغانستان میں ان ۱۲برسوں میں ۱۲۰۰؍ارب ڈالر کا بوجھ امریکی معیشت پر پڑچکا ہے۔ اگر عراق کی جھوٹ پر مبنی جنگ کے اخراجات اور یمن وغیرہ میں دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اخراجات کو بھی شامل کرلیا جائے تو بلاواسطہ اخراجات ۳ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن اگر بلواسطہ معاشی بوجھ کا اندازہ کیا جائے تو وہ ۵ہزار ارب ڈالر سے متجاوز ہیں، جو امریکا کے سالِ رواں کے کُل جی ڈی پی کا ۳۰ فی صد بن جاتا ہے۔
پھر اس جنگ کا جو کردار ۲۰۰۸ء سے رُونما ہونے والے معاشی بحران کے باب میں رہا ہے، اس کا بھی جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا اس جنگ کے عذاب میں جھلستی نظر آرہی ہے۔ امریکا میں ۲ہزار۹سو افراد کی ہلاکت ایک سانحہ تھا، جس کی تمام دنیا نے مذمت کی۔ خود طالبان نے سرکاری طور پر اور مُلّاعمرنے اپنے بیان میں اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ سابق افغانی صدر اور طالبان کے مخالف پروفیسر برہان الدین ربانی نے نہ صرف مذمت کی، بلکہ دعوے سے کہا کہ افغانستان سے کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی کوئی کارروائی کرسکے یا کرواسکے۔ لیکن جرم بے گناہی کی سزا میں ڈیڑھ لاکھ افغان موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، اور ۳۰لاکھ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
اسی طرح عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۰لاکھ بتائی جاتی ہے، جس میں ۵لاکھ بچے بھی ہیں۔ خود پاکستان میں ۴۰ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں فوجی جوانوں اور افسران کی تعداد ۵ہزار سے متجاوز بتائی جاتی ہے، جب کہ کتنے اصل دہشت گرد مارے گئے کسی کو علم نہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی نگاہ میں اپنے چند ہزار فوجیوں یا عام شہریوں کی ہلاکت تو اہمیت رکھتی ہے، لیکن باقی دنیا میں صرف اس ۱۲سالہ جنگ میں کتنے معصوم انسانوں کو لقمۂ اجل بنادیا گیا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ حالانکہ جو کردار امریکا نے اس جنگ میں اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں ہرآزاد اور باضمیر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ امریکی اور ناٹو قیادت نے انسانیت کے خلاف بڑے پیمانے پر جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن ان کا حساب دینا ہوگا۔
یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ امریکا افغانستان اور پوری دنیا میں اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔ عراق سے ذلیل و خوار ہوکر اسے نکلنا پڑا، البتہ عراق کو اس نے تباہ کردیا اور وہاں آج بھی خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ امریکا نے اس جنگ کے آغاز میں ایک دعویٰ کیا تھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، مگر عملاً دنیابھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ القاعدہ جو افغانستان میں ایک پناہ گزین گروہ تھا، اب دنیا کے طول و عرض میں ایک قوت بن گیا ہے۔ اگرچہ امریکیوں کے دعوے کے مطابق اس کی مرکزی تنظیم کمزور ہوگئی ہے، لیکن اس ایک القاعدہ کے بطن سے اب درجنوں القاعدہ گروہ رُونما ہوگئے ہیں۔ جو راستہ انھوں نے اپنے حالات کی مجبوری میں اختیار کیا تھا، وہ اب دنیا کے دوسرے حصوں میں بلاروک ٹوک اختیار کیا جا رہا ہے اور امریکا کے تمام دعوے خاک میں مل گئے ہیں۔
امریکی خود جنگ سے تنگ آگئے ہیں۔۱۲برس کے کارناموں کا حاصل یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ عوام جنگ سے تنگ ہیں اور تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں امریکی آبادی کی جتنی عظیم اکثریت (۷۵ فی صد) اپنے کو غیرمحفوظ سمجھ رہی تھی، ۲۰۱۳ء میں بھی عدم تحفظ کی یہی صورت حال برقرار ہے۔ شام پر فوج کشی کے عندیہ کا اظہار کرکے خود امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو کہنا پڑا: ’’امریکی عوام جنگ سے بے زار ہیں اور میں بھی بے زار ہوں‘‘ لیکن پھر ٹیپ کا بند وہی تھا کہ عالمی قانون اور ریڈلائنز کی حفاظت کے لیے فوجی قوت استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
فارن افیئرز امریکا کا مؤقر ترین مجلہ ہے۔ اس کے تازہ ترین شماروں میں اس جنگ اور اس میں استعمال ہونے والے ذرائع، خصوصیت سے ڈرون حملوں کی ناکامی کا واشگاف اعتراف کیا گیا ہے۔ اپنے مضمون Why Drones Fail? میں پروفیسر اوڈری کورتھ کرونن اعتراف کرتا ہے:
ڈرون حملوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ القاعدہ کا پروپیگنڈا بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا ہے، بلکہ انھوں نے اس میں نمایاں طور پر اضافہ کردیا (فارن افیئرز، جولائی/اگست ۲۰۱۳ء،ص ۴۶)۔
وہ کہنے پر مجبور ہے کہ:
پُرتشدد جہادیت، جو نائن الیون سے بہت پہلے بھی موجود تھی جب ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ آخرکار ختم ہوگی تو اس کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔
اور یہ کہ:
واشنگٹن اب اپنے آپ کو جغرافیائی طور پر پھیلے ہوئے غیرمتعین دشمن کے ساتھ ایک مستقل جنگ میں پاتا ہے، جس کا نائن الیون کے اصل سازش کرنے والوں کے ساتھ بڑا ہی موہوم تعلق ہے۔ اس نہ ختم ہونے والے مقابلے میں امریکا کے لیے اپنے دشمنوں کے تعداد میں بہت بڑھ جانے اور ملک پر حملہ کرنے کے ان کے جذبے میں اضافے کے اندیشے ہیں (ص ۴۸)۔
ڈرون حملوں سے امریکا کو جو کچھ حاصل ہورہا ہے وہ منفی ہے:’’لیکن اس وقت واشنگٹن جو واحد یقینی کام کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے عالمی حمایت کم ہوجائے اور مقامی آبادی اس سے برگشتہ ہوجائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)
فارن افیئرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر /اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan میں صاف اعتراف کیا ہے کہ اب امریکا کے سامنے مکمل شکست یا طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں:
اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں ہے: ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ یہ کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔ (ص ۵۰)
حالات کے مفصل جائزے کے بعد لکھتا ہے: ’’طالبان کے ساتھ صلح ایک کڑوی گولی کی طرح نگلنا ہوگی، مگر اس مرحلے پر یہ دوسرے متبادل کے مقابلے میں کم درجے کی قربانی ہوگی‘‘۔(ص۵۵)
اسے اعتراف ہے کہ مشکلات حائل ہیں، لیکن پھر بھی راستہ یہی ہے۔ انجامِ کار اس کا برملا مشورہ اس کڑوی گولی کو نگلنا ہی ہے:
مذاکرات کی بنیاد پر تصفیے میں رکاوٹیں بہت ڈرانے والی ہیں، تاہم اس طرح کا معاملہ ابھی بھی افغانستان میں امریکا کے لیے سب سے آخری بُرا متبادل ہے۔ اگر وائٹ ہائوس تصفیے کی ایک سنجیدہ کوشش کی قیمت قبول کرنے کے لیے رضامند نہیں ہے ، تو پھر یہ وقت ہے کہ امریکا اپنے نقصان کم کرے اور افغانستان سے ابھی باہر آجائے۔(ص ۵۷)
انگلستان کے مؤقر جریدے Prospect (پراسپیکٹ)نے ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ایک پورا حصہ جس موضوع کے لیے وقف کیا، وہ یہ ہے:
Admit it - We Lost: Why did the Afghan war go wrong?
تسلیم کرو! ہم ہار گئے ہیں: افغان جنگ کیوں غلط تھی ؟
مضمون نگار رسالے کا مدیر ہے اور اس نے صاف الفاظ میں اس ۱۲سالہ ناکام تجربے کے بارے میں کہا ہے کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی۔ ہمارے سارے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں تھے‘‘ اور یہ کہ انگلستان کے لیے یہ جنگ نہ صرف ناکام جنگ تھی، بلکہ ناکام ترین جنگ ثابت ہوئی، جو عراق میں جنگ کی شکست سے بھی کچھ زیادہ ہی ناکام رہی۔ وہ افواج جو افغانستان کو امن اور سلامتی فراہم کرنے اور طالبان کا قلع قمع کرنے کے لیے گئی تھیں، ان کا سپریم کمانڈر ،یعنی ملک کا وزیراعظم اب یہ کہنے پر مجبور ہے کہ: ’’طالبان کے ان سارے ’دقیانوسی خیالات‘ اور ’غیرمہذب طور طریقوں‘ کو بھول کر، جو جنگ کا سبب قرار دیے گئے تھے، ہم افغانستان میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ ہم طالبان کی ان کے ملک میں واپسی چاہتے ہیں‘‘۔
برون وین مڈوکس نہ صر ف جنگ کی تباہ کاریوں کو بیان کرتے ہوئے شکست کا اعتراف کرتا ہے اور جنگ کے خاتمے اور افواج کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، بلکہ ایک آزاد اور مؤثر تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتا ہے، تاکہ جنگ میں جانے اور جنگ میں ادا کیے جانے والے کردار کا بھرپور محاسبہ ہوسکے اور آیندہ ایسے تباہ کن تجربات سے بچاجاسکے۔ شاید یہ اس جنگ کا سایہ ہی تھا جس نے برطانوی وزیراعظم کو شام پر فضائی حملہ کرنے کا شوق پورا کرنے سے محروم رکھا۔
افغانستان میں جنگی ناکامی اور دہشت گردی کے مسئلے کے فوجی حل کے دیوالیہ پن اور سیاسی حل کی ضرورت پر حال ہی میں ایک بڑی دل چسپ کتاب شائع ہوئی ہے جس میں ہمارے سیاست دانوں اور عسکری قیادت کے لیے چشم کشا حقیقتیں درج ہیں۔ یہ کتاب افغانستان میں برطانیہ کے سابق سفیر شیرارڈکوپل نے اپنے افغانستان میں قیام کے دوران کی یادداشتوں پر مشتمل Cables from Kabul کے نام سے لکھی ہے جو ہارپر پریس لندن نے شائع کی ہے۔ اس کے مفصل اقتباسات دی سنڈے ٹائمز نے اپنی ۲۳جولائی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع کیے ہیں۔ ان میں سے چند ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں، جو توقع ہے کہ اُن تمام افراد کے لیے بڑے مفید ہوں گے جو کُل جماعتی کانفرنس کے تجویز کردہ سیاسی حل اور مذاکرات کے ذریعے امن کی حکمت عملی کو ہدفِ تنقید بنارہے ہیں، بلکہ اس جنگ کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ مزید فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو بگاڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں:
آہستہ آہستہ یہ واضح ہوگیا کہ طالبان کمزور ضرور ہوئے ہیں، لیکن شکست سے بہت دُور ہیں۔ انھیں امن کے عمل میں مصروف کرنے کے بجاے امریکیوں نے یہ یقین کرنے کی تباہ کن غلطی کی کہ وہ طالبان کو محض طاقت سے شکست دے سکتے ہیں۔ عراق کی غلط مثال کی پیروی کرتے ہوئے وہ فوجوں کی تعداد میں باربار اضافہ کرتے رہے۔
یہی نہیں افغانستان کے آزادی پسند لوگوں پر باہر سے دستور مسلط کیا گیا اور عوام اور مزاحمت کرنے والی قوتوں سے یورپ میں تیار ہونے والے اس دستور پر عمل کی توقع کی گئی: اس کے بعد ہم نے جو مہینے گزارے، ان میں ہم نے ایک امریکی کو یہ اجازت دے کر اپنی غلطی میں اضافہ کیا کہ وہ افغانوں پر ایسا دستور نافذ کرے، جو ایک فرانسیسی نے مرتب کیا تھا۔ یہ اٹھارھویں صدی کے یورپی دستوری نمونے کا مکمل چربہ تھا، جو افغانستان کے اصل سیاسی جغرافیے اور تاریخ کے بالکل خلاف تھا۔ اس میں اگلے ۲۰برسوں میں ۱۴قومی انتخابات تجویز کیے گئے تھے۔ دستوری کانفرنس میں موجود بیش تر افغان مندوبین کی خواہشات کے برعکس، بہت محبوب افغان بادشاہت کو بھی ختم کردیا گیا۔ یہ وہ دستور ہے جس کے لیے ہمارے سپاہی لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔
طالبان اور دوسرے آزادی پسند عناصر نے اگر کچھ لچک کا مظاہرہ بھی کیا، تو اس کا بھی ان کو کوئی مثبت ردعمل نہ ملا۔ نتیجتاً افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج جنگ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے۔ ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کوشش بھی کی، مگر لاحاصل:
القاعدہ سے علیحدگی کے واضح اشارے کے طور پر طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان کو ایک ایسے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جہاں سے دوسرے ملکوں پر حملے کیے جائیں۔ اس بات کی شہادت بھی موجود تھی کہ پٹھان کسانوں میں جو سوچنے سمجھنے والے تھے اور جو طالبان کی افواج کا بیش تر حصہ تھے، وہ اپنے گھروں اور کھیتوں کو واپس جانا چاہتے تھے۔ مگر ان زیادہ معتدل رجحانات کے ساتھ کام کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے بجاے ناٹو کا جواب یہ تھا کہ: ’تشدد میں اضافہ کردیا جائے‘۔ ۲۰۱۰ء کے موسم گرما میں جب افغانستان میں کمانڈر کی حیثیت سے جنرل اسٹینلے کے بجاے جنرل ڈیوڈ پیٹرس آیا، تو اسپیشل فورسز کے فضائی حملوں اور رات کی کارروائیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناٹو کے نئے کمانڈر کے آنے کے بعد فضا سے بمباری تین گنا بڑھ گئی۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر اوباما کے پہلے خصوصی نمایندے رچرڈ ہال بروک نے اپنے سفارتی کیریئر کا آغاز جنوبی ویت نام میں خارجہ افسر کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف طاقت کا استعمال بغاوتوں کو دبا تو سکتا ہے، مگر ان کو ختم نہیں کرسکتا۔
امریکی حکمت عملی کا ایک اور اہم حصہ افغانستان میں اپنی پسند کے سیاست دانوں کو مضبوط کرنا اور اپنی خواہشات اور مفادات کے مطابق فوج اور پولیس تیار کرنا تھا۔ اس پر بھی اربوں ڈالر ہرسال خرچ کیے گئے، معاشی ترقی کے منصوبوں سے بھی زیادہ۔ مگر اس کا حشر بھی قابلِ دید ہے:
افغانستان کو مغربی فوجوں کے بجاے افغان فوجوں کے ذریعے گیریژن (حفاظتی نقطۂ نظر سے تعیناتی ) کی حکمت عملی کی کامیابی کی سب باتوں کے باوجود، افغان فوج اور پولیس کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔ مزید جیساکہ افغانستان کے ایک اعلیٰ برطانوی افسر نے بتایا ہے ساڑھے تین لاکھ کی فوج ہرسال ۵۰ہزار ملازمت سے بھاگنے والے برداشت نہیں کرسکتی۔
برطانوی سفیر کی نگاہ میں سیاسی حل ہی واحد حل ہے، جس کے بارے میں وہ بڑے وثوق سے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے، سفیرصاحب کے اس تجزیے میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے بھی بڑا سبق ہے، بشرطیکہ وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان تاریخی حقائق پر غور کریں:
جیساکہ دنیا کے بیش تر تنازعات میں ہوتا ہے بشمول شمالی آئرلینڈ، وہی بات افغان جنگ کے لیے بھی درست ہے، یعنی وسیع حدود میں ایک ہی دانش مندانہ حل ہے۔
شمالی آئرلینڈ سے جو دوسرا سبق سیکھا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے آغاز سے ہی یہ یقینی بنایا کہ فوجی کوششیں ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوں، جو باغیوں کو نئے دستوری تصفیے میں کوئی مقام دیتی ہوں۔ بہت پہلے ۱۹۷۲ء میں، جو خونیں اتوار کا سال تھا، جب سیکرٹ انٹیلی جنس سروس کے بہادر افسروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ آئرلینڈ کے طول و عرض میں سفر کریں تاکہ پرویژنل آرمی کونسل کو یہ پیغام جائے کہ اگر IRA (آئرش ری پبلکن آرمی)تنازعے کو ختم کرنا چاہتی ہے تو مذاکرات کا راستہ کھلا ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغان جنگ میں امریکا ایک بہت آسان اور یک رُخے نقطۂ نظر پر جما رہا، یعنی کائوبوائے والا رویہ! سوچ کے دائرے بڑے محدود رہے: اچھے لوگ اور بُرے لوگ، افغان افواج اور دہشت گرد طالبان۔ بیش تر امریکی گہرے قدامت پسند اور شدت سے مذہبی بنیاد پرست طالبان اور القاعدہ کے عالمی عرب جہادیوں کو ایک جیسا سمجھتے تھے۔
حالیہ دنوں تک اعتدال پسند طالبان سے معاملہ کرنا، تاکہ ان کے اور ان کے جنگ جُو، نہ ماننے والوں کے درمیان دراڑ ڈال کر انھیں ان کے سابق عرب مہمانوں سے علیحدہ کردیا جائے، اس کا مغربی حکمت عملی میں کوئی حصہ نہ تھا۔ دہشت گردوں سے بات چیت کرنا ان کو ممنون کرنا سمجھا جاتا تھا۔ جرنیلوں کو اجازت دی گئی کہ وہ فوجی فتح کا نہ صر ف وعدہ کریں بلکہ زیادہ حیرت انگیز طور پر اس کا اعلان بھی کردیں۔
افغانستان کے اندر اور اس کے ہمسایوں کے درمیان امن کے لیے واحد قابلِ عمل راستہ مذاکرات ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب جب ناٹو سنجیدگی سے بات کرنا چاہ رہی ہے، شاید طالبان نہیں چاہ رہے۔ افغانستان کی تکالیف ابھی کچھ عرصہ جاری رہیں گی۔
افغانستان جانے سے پہلے ۲۰۰۷ء میں ناٹنگم شائر کے ایک کارکن نے مجھ سے کہا: ’’تمھیں طالبان سے بات چیت کرنا پڑے گی‘‘۔ ہزاروں جانیں بچ جاتیں اور اربوں پائونڈ بچ جاتے اگر عقل عام کی اس معمولی بات پر تب عمل کرلیا جاتا، اب نہیں۔
کیا اب بھی یہ راستہ استوار ہوسکے گا؟ کہنا مشکل ہے، مگر راستہ اس کے سوا کوئی اور نہیں اور پاکستان میں تو افغانستان کے مقابلے میں ۱۰ہزار گنا زیادہ ضروری ہے۔ وہی قومی سلامتی پالیسی بارآور ہوسکتی ہے، جو حقائق پر مبنی ہو اور تاریخی حقائق، اور ہمارے حالات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنائی جائے۔ ملک اس وقت بڑے نازک مرحلے میں ہے اور طالبان کا نام لینے والے چند عناصر کی کارستانیاں بھی ایک منفی کردار ادا کررہی ہیں اور اس سمت میں ملک کو دھکیل رہی ہیں، جو علاقے کے لیے امریکی اور بھارتی عزائم کے لیے مفید اور ملک کی سیکولر لبرل لابی کی تمنا ہے۔
سیاسی عمل اور مذاکرات کو آغاز سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا جارہا ہے کہ بات چیت سے پہلے یہ اصول تسلیم ہونا چاہیے کہ دوسرا فریق دستور کو تسلیم کرے اور اس کے فریم ورک میں مذاکرات ہوں۔ سیاست، اور جنگ اس کا ایک حصہ ہے، کام ہی دوستوں اور دشمنوں دونوں سے معاملات کرنے کا ہے۔عین جنگ کے عالم میں بھی مذاکرات ہوتے ہیں اور فتح و شکست سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہائی جیکنگ اور اغواکاری کے واقعات بڑے تلخ اور صبرآزما ہوتے ہیں لیکن ہائی جیکر اور اغواکار سے بھی معاملات کیے جاتے ہیں۔ ایجاب و قبول کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ دستور کو پہلے منوانے کی بات وہ سیاسی بقراط بھی کررہے ہیں جو خود دستور کی اساس___ یعنی اسلام اور قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے کھلے کھلے داعی ہیں۔ جن کی دستور سے وفاداری کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی بھی بنیادی معاملے میں دستور کے واضح احکام پر اپنی راے کو فوقیت دینے اور دستور کے نفاذ کو بے اثر ( subvert)کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ دستور سود کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ سود کے محافظ ہیں۔ دستور فحاشی اور بداخلاقی کی مخالفت کرتا ہے، وہ اس کے فروغ میں مصروف ہیں۔ دستور قرآن و سنت کی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کو دین کے ہراثر سے پاک کردینا چاہتے ہیں۔ دستور قانون کی حکمرانی کا داعی ہے اور مقررہ قانونی کارروائی (due process of law) کے بغیر کسی شہری کو اس کی آزادیوں سے محروم نہ کیے جانے کی ضمانت دیتا ہے، اور ان کا عمل یہ ہے کہ ہزاروں افراد لاپتا ہیں اور ریاست کی عمل داری (writ) کی کسی کو فکر نہیں۔ پھر جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے، اس علاقے کو تو دستور کے ان پاسبانوں نے دستور کی دسترس سے خود ہی باہر کردیا ہے اور دوسروں سے دستور کو پہلے ماننے کی بات کررہے ہیں۔ ہم بھی دل سے دستور کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لیے سرگرم ہیں لیکن جن حالات میں ملک کو ان حکمرانوں نے جھونک دیا ہے ان سے نکلنے کے لیے حکمت اور تدبیر کے ساتھ انسانی تاریخ کے کامیاب تجربات کی روشنی میں راستہ نکالنا ہوگا اور سیاسی عمل کو مؤثر بنانے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں یا ڈالی جارہی ہیں ان کو دُور کرنا ہوگا۔ اس دلدل سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔
اُوپر کی بحث کی روشنی میں نئی سلامتی پالیسی کیا ہونی چاہیے اور اسے کن کن پہلوئوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے؟ اس کے لیے چند اشارات پیش کیے جارہے ہیں۔
۱- قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ اسے عوام کی تائید حاصل ہو۔ حکومت کی اور عوام کے جذبات،احساسات، توقعات اور عزائم میں اگر بُعد ہوگا تو وہ پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردی کے سلسلے میں جنرل مشرف کے دور سے جو پالیسیاں ملک پر مسلط کی گئی ہیں، ان کو قوم کی تائید حاصل نہیں رہی اور صحیح نتائج نہ نکلنے میں بڑا دخل اس اندرونی تضاد کا ہے۔
۲- دہشت گردی کے مسئلے کی اصل حقیقت کو سمجھے بغیر کوئی پالیسی نہیں بن سکتی۔ اس مسئلے کے کم از کم چار پہلو ایسے ہیں، جن کا سمجھنا اور ان کی روشنی میں صحیح پالیسی بنانا ضروری ہے:
اوّل: مسئلے کا گہرا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی، علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی اور اس پر عمل درآمد بشمول ڈرون حملے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت، معیشت اور فوج کے معاملات پر ان کے اثرات، افغانستان میں ان کی کارروائیاں اور ان کے پاکستان پر اثرات سے ہے۔ اس لیے محض دہشت گردی کے خلاف پالیسی کے کوئی معنٰی نہیں۔ خارجہ پالیسی، افغانستان میں امریکا کا کردار اور پاکستان کی اس میں شرکت اور خود پاکستان میں اس کے اثرات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو الگ کر کے کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی جاسکتی۔ یہ وہ بنیادی بات ہے، جس کو پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء، اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے اس پر تفصیلی ۶۰نکات سے زیادہ پر مبنی اپنی رپورٹ دی ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔
دوم: دہشت گردی کے خلاف پالیسی اور بغاوت کے خلاف پالیسی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کو گڈمڈ کرنے کے نتائج بڑے خوفناک ہوسکتے ہیں۔ سری لنکا کی مثال سرکاری حلقے اور میڈیا باربار دے رہے ہیں، لیکن وہ اس مغالطے پر مبنی ہے کہ بغاوت کے خلاف پالیسی کو دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنایا جاسکتا ہے۔ سری لنکا کا مسئلہ کئی اور پہلوئوں سے بھی مختلف ہے اور اس کی بھی جو قیمت قوم کو دینا پڑی ہے اور مسلسل دے رہی ہے، وہ ایک الگ پہلو ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ اور ملک میں مستقلاً آمرانہ نظام کا قیام الگ پہلو ہے، لیکن اپنی اصل اور جوہر کے اعتبار سے وہ پالیسی دہشت گردی کے خلاف مؤثر نہیں ہوسکتی۔
سوم: پاکستان میں جس چیز کو دہشت گردی کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ افغان طالبان الگ شے ہے۔ جسے پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے، وہ بھی مختلف عناصراور گروہوں کا مرکب ہے، جس میں باہم کوئی ربط یا وحدتِ نظم نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد ایک الگ شے ہے۔ مرکز گریز اور علیحدگی پسندی کے لیے کام کرنے والے گروہ مختلف نوعیت کا چیلنج پیش کرتے ہیں، جب کہ عام مجرموں نے جس طرح اس صورت حال کا فائدہ اُٹھایا ہے یا کچھ مخصوص سیاسی اور مذہبی گروہوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے لیے الگ الگ حکمت عملی اور اقدام کی ضرورت ہوگی۔اسی طرح کراچی کا مسئلہ اپنا الگ رنگ رکھتا ہے اور اس میں سیاسی اور دوسرے عناصر سے نبٹنے کے لیے الگ حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔
چہارم: ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی، شدت پسندی، تشدد، فرقہ واریت، عدم رواداری ___ ہر ایک کا اپنا مخصوص مسئلہ ہے اور اصلاح کا راستہ مختلف ہے۔ ان سب کو باہم دگر ملادینا سخت نقصان دہ اور غیرحقیقت پسندانہ پالیسی ہے۔
ان چاروں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ہر پہلو کے لیے الگ پالیسی اور اقدامات درکار ہوں گے۔ یہ سب مجموعی قومی سلامتی پالیسی کے اجزا ہوں گے، لیکن ہر ایک کو مجموعی پالیسی کے فریم ورک میں دیکھنا ہوگا۔
۳- بنیادی مسئلے کا حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، لیکن دوسرے متعلقہ پہلوئوں کے لیے دستور اور قانون کے دائرے میں ریاستی قوت کا صحیح استعمال بھی درکار ہوگا۔ اس کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، ان سب کا اہتمام ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کی قراردادوں میں یہ بار بار کہا گیا کہ مسئلے کا اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ البتہ اس کے لیے اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے اپنے آداب کے ساتھ پیش رفت اور رکاوٹ (deterrance) دونوں ضروری ہیں۔ موجودہ حالات میں اس فریم ورک میں نیا نقشۂ کاربنانا ہوگا۔
۴- حکومت کی پالیسی کی سطح پر ناکامی کے ساتھ پانچ مزید پہلو ہیں، جن کے لیے مناسب اقدام کرنے ہوں گے:
کوئی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان پانچ اُمور کو صحیح طور پر طے نہ کرلیا جائے۔
۵-پاکستانی سیاست، دہشت گردی کے خلاف اقدام، مذہبی منافرت، علیحدگی پسندی کی تحریکیں، ان سب میں بیرونی قوتوں کے کردار کو محض ’سازش‘ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مداخلت اور کردار بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کئی ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار خطرناک حد تک موجود ہے۔ امریکا اور بھارت بڑے کردارہیں لیکن مقامی قوتیں بھی اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ جامع پالیسی کے ذریعے ان تمام پہلوئوں کا بھی پورا پورا توڑ کرنا ضروری ہے۔
۶- قومی سلامتی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام پہلوئوں کا اِدراک کیا جائے اور حقیقت پسندی، جرأت، بیرونی دبائو سے آزاد ہوکر، قومی مفاد میں اور قوم کو اعتماد میں لے کر اس کے عزائم اور احساسات کی روشنی میں اسے تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں اس وقت برطانیہ کی اس مثال کو پیش نظر رکھا جائے کہ برطانوی حکومت جو شام پر حملہ کرنا چاہتی تھی، اسے کس طرح پارلیمنٹ اور عوام کی راے کے دبائو میں پالیسی بدلنا پڑی ہے۔ امریکا میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں عوام کی راے کو جس بے دردی سے نظرانداز کیا گیا وہ مہلک تھا۔ اب اس روش کو یکسر تبدیل ہونا چاہیے اور نئی پالیسی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر بنانے کی ضرورت ہے۔
۷-یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے، کہ اس نوعیت کے تنازعات اور دہشت گردی کے باب میں پیدا ہوجانے والے حالات میں مذاکرات کا کوئی ایک ٹریک نہیں ہوسکتا۔ نیز مذاکرات ٹی وی شو کے ذریعے نہیں کیے جاتے۔ ہمارے مخصوص حالات میں اس امر کی ازبس ضرورت ہے کہ مذاکرات، مذاکرات سے پہلے کے اقدام اور ان کی ترجیحات، مذاکرات کے اصل اہداف اور سب سے بڑھ کر ملک کے حالات اور علاقے کی روایات کی روشنی میں بہت سوچ سمجھ کر، مشاورت کے ساتھ اور اپنے حالات کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے۔
۸- یہ امر بھی سامنے رہے کہ مذاکرات اور پورے سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں بہت سرگرم ہیں اور ہوشیار بھی ہیں۔ ان تمام خطرات، رکاوٹوں اور دراندازیوں کی بھی پیش بندی کرنا ہوگی جو اس نوعیت کے حالات کا لازمی حصہ ہیں۔ اس کام کے لیے اہداف کا صحیح صحیح تعین، روڈمیپ کا شعور اور اس کی تیاری، مفید قوتوں سے تعاون اور مخالف اور مذاکرات کو درہم برہم کرنے والی قوتوں کو قابو کرنے اور ان کے شر سے اس عمل کو محفوظ بنانے کے لیے کب اور کون سی تدابیر ضروری ہیں، ان کا اِدراک اور اہتمام بھی ضروری ہے۔ ایسے پیچیدہ حالات میں غیرحکیمانہ حل کی تلاش اور جلدبازی میں حکمت عملی میں تبدیلیاں تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان مسائل کی اہمیت اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھ کر حکمت اور استقامت کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے اور راستے کی مشکلات اور مواقع کو سامنے رکھ کر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی قومی اہداف کے حصول کے لیے کوشش کی جائے، اور کسی بھی معاملے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور جذبات اور اندرونی و بیرونی دبائو، دونوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے___ وما علینا الا البلاغ
۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے کراچی کے امن وامان پر اپنی رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا کہ سال رواں کے ابتدائی چھے ماہ میں کراچی میں ۱۷۲۶؍ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔یہ تعداد سال ۲۰۱۲ء میں ۱۲۱۵تھی۔گویا اس سال کے ابتدائی چھے ماہ کراچی کی تاریخ کے بد ترین بد امنی کے چھے ماہ قرار پائے۔
کراچی کی تشویش ناک صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف ستمبر کے ابتدائی دنوں میں کراچی تشریف لائے۔گورنر ہائوس میں تمام سیاسی جماعتوں، تاجروں، صحافیوں اور سوسائٹی کے دیگر افراد کو جمع کیا اور ان سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف متعین اہداف کے ساتھ اقدام شروع کیا جائے گا۔
کراچی کی بدامنی اور تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال پر عوامی دبائو کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں نے اس اعلان کو قبول کر لیا لیکن سیاسی فضا ابھی تک خدشات سے مکدّر ہے۔ دوپولیس والوں کے قتل کے الزام میں جب پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک رہنما کو گرفتار کیا تو ایم کیو ایم نے فوری طور پر شہر بند کروا کر اس کا جواب دینے کی کوشش کی ۔کراچی میں امن کی بیش تر کوششوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شہر کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے ا ور عموماًیہ اقدامات سیاسی دل چسپی سے خالی نہ ہونے کے سبب کبھی ایک اور کبھی دوسرے کو نشانہ بنانے کے مترادف ہوتے ہیںاور اکثر مجرم سرخرو ہوجاتے ہیں اور کوئی ایک طبقہ نشانہ بن جاتا ہے۔ایسے اقدامات ابتدا ہی میں سیاسی دبائو میں آجاتے ہیں۔گویہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ اقدام کراچی میں امن کی بحالی کتنی ممکن بنائے گا لیکن اقدام کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں واضح کمی نظر آرہی ہے۔ بڑے بڑے مجرم بیرون ملک یا بیرون شہر منتقل ہوگئے ہیں اور ستمبر کے ابتدائی ۲۰دنوں میں ٹارگٹ کلنگ کی تعداد ۱۰۰ تک نہیں پہنچی، جب کہ ۲۰۱۳ء کے پچھلے آٹھ مہینوں میں یہ تعداد ہمیشہ ۲۰۰ماہانہ سے زیادہ رہی تھی۔
صحافتی ذرائع کے مطابق ۱۵ستمبر تک ابتدائی ۱۰ دنوں میں رینجرز نے ۳۰۰؍ افراد گرفتار کیے ہیں۔پولیس نے ۹۷۵ چھاپوں میں ۱۲۳۲ مجرموں کو گرفتار کیا ہے۔ ان دنوںمیں ۳۵ٹارگٹ کلرز اور ۵۰مشتبہ بھتہ خور بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ ۱۲۳۲گرفتار شدگان میں سے چند ہی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات لگی ہیں، جب کہ ۲۲۴ناجائز اسلحے ،۲۲۸منشیات ،۳۱ ڈکیتی اور ۲۳۱پچھلے مقدمات میں مفرور ہیں۔آپریشن سے پہلے ایجنسیوں نے وزیر اعظم کو ۴۵۰؍انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست فراہم کی تھی لیکن اس فہرست کے۵ فی صد لوگ بھی گرفتار نہیں ہوئے۔ اقدام کا اصل سبب بننے والے ٹارگٹ کلنگ ،دہشت گردی، بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث افراد بہت کم قانون کے شکنجے میں آئے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے چند ملزمان مری اور لاہور سے بھی گرفتار ہوئے ۔
اگلے دنوں میں اقدام کی کامیابی کو جانچنے کے چار اہم پیمانے ہوں گے :
۱- نوگو ایریا زکا خاتمہ:پورے شہر میں نوگو ایریاز بنے ہوئے ہیں جن میں ایک طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا داخلہ ممکن نہیںہے تو دوسری طرف عام شہری کو داخل ہونے سے پہلے پرائیویٹ لوگوں کی تفتیش سے گزرنا پڑتا ہے ۔ان نوگو ایریاز میں آمدورفت مختلف سیاسی جماعتوں اور مافیائوں کے زیر اثر ہے۔کامیاب اقدام نوگو ایریاز کے خاتمے کا باعث ہوگا۔
۲- ناجائز اسلحے کی بازیابی:۲۹؍ اگست کو سپریم کورٹ میں کراچی بد امنی کیس کے موقع پر ڈی جی رینجرز نے کراچی میں قبائلی علاقہ جات سے آنیوالے ناجائز اسلحے پر بات کی۔ انھوں نے ۱۹ہزار ناٹو کنٹینرز کی گمشدگی کا حوالہ دیتے ہوئے پورٹ اور شپنگ کے سابق وزیر کی جانب اشارہ کیا اوربتایا کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اس کی تحقیقات کررہی ہیں (ایکسپریس ٹربیون، ۳۰؍اگست ۲۰۱۳ء)۔۱۹ستمبر کو سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کیس کے موقع پر اس ناجائز اسلحے کی برآمدگی کے لیے کرفیو لگا کر کارروائی کرنے کا مشورہ دیا۔ (روزنامہ جنگ، ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء)
کراچی ناجائز اسلحے سے بھرا پڑا ہے ۔متحارب گروہوں کے درمیان لڑائیوں میں دستی بم اور راکٹ لانچرز کا استعمال اب کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔گذشتہ ۱۰ برسوں میں جس بڑے پیمانے پر جدید اسلحہ یہاں آیا ہے اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسلحے کی صفائی کے بغیر کراچی میں پایدار امن کی جانب پیش قدمی ممکن نہیں۔
۳- قربانی کی کہالیں: پورے ملک میں عید الاضحی اور رمضان المبارک مذہبی عقیدت کے ساتھ منائی جاتی ہے لیکن کراچی کے شہری اس موقع پر خاص اذیت سے دو چار ہوتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر انھیں قربانی کی کھال اپنی مرضی سے دینے کی آزادی سے محروم کیا جاتا ہے تو رمضان المبارک کے موقعے پر فطرانہ اور زکوٰۃ زبردستی وصول کر لیے جاتے ہیں جس کا ’نصاب‘ بھی دہشت گرد متعین کرتے ہیں۔ماہ اکتوبر میں عید الاضحی کے موقع پر کراچی کے شہری اگر اپنی مرضی سے کھال دینے کے قابل ہوگئے اور دہشت گرد گروہ انھیں دبائومیں نہ لے سکے تو یہ جاری اقدام کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اس کے نتیجے میں حکومتی رٹبحال ہو گی۔
۴- بلدیاتی انتخابات : ۲۴ستمبر ۲۰۱۳ء کے اخبارات میں ۱۱مئی کے انتخابات کے بارے میں چھپنے والی رپورٹ نے انتخابات کی شفافیت کا پردہ چاک کر دیا ہے ۔نادرا نے این اے-۲۵۸ کے فنگر پرنٹس کا جائزہ لیا ۔جانچ کے لیے بھیجے جانے والے ۳۲ہزار ۸سو۶۵ ووٹوں میں سے صرف ۲۴۷۵ ہی جانچ کے بعد جائز قرار پائے۔ اس میں سے ۴ہزار ۸سو ۶۰ پر ایسے شناختی کارڈ نمبر کا اندراج تھا جو نادرا نے آج تک جاری ہی نہیں کیے۔ ۴۳۵شناختی کارڈ کسی دوسرے حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ۶۵۸ ووٹروں نے دو پولنگ اسٹیشنوں میں ۱۴۰۴ ڈپلی کیٹ ووٹ ڈالے۔ ایک فرد نے آٹھ ووٹ ڈالے۔ اسی طرح ایک دوسرے شناختی کارڈ پر ۱۱ووٹ ڈالے گئے۔ کائونٹر فائل ۳۸۶ پر انگوٹھے کا نشان تھا ہی نہیں (روزنامہ ڈان، ۲۴ستمبر ۲۰۱۳ء)، جب کہ این اے -۲۵۸ سے کہیں زیادہ دھاندلی کا عمل دوسرے حلقہ جات میں ہوا ہے۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ جعلی ٹھپہ مینڈیٹ ہے۔ انتخابات میں عوام ووٹ ڈالنے کی آزادی سے محروم رہتے ہیں اور جعل ساز اصل عوامی خواہش کو ٹنوں ٹھپوں کے نیچے دفن کردیتے ہیں۔ امکان ہے کہ دسمبر /جنوری تک بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔یہ سوال ہر ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ آیا جاری اقدام عوامی خواہش اور جمہوری راے کو سامنے آنے کا موقع دے گا ؟
کراچی میںامن کے حصول کے لیے اہلِ کراچی کے اصل مسائل کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یوں تو پورے ملک کی طرح یہاں بھی بے روزگاری اور مہنگائی جرائم کے پنپنے کا باعث ہے اور جرائم پیشہ گروہ بے روزگار نوجوانوں کی باقاعدہ بھرتی کرتے ہیں۔چونکہ بدامنی کی وجہ سے صنعتیں منتقل ہو رہی ہیں، اس لیے بے روزگاری میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ایک طویل عرصے تک امن سمیت کراچی کے دیگر مسائل کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مرض انتہائی سنگین ہو گیا ہے ۔کراچی کا پڑھا لکھا طبقہ جہاں کرپٹ نظام سے بے زار نظر آتا ہے، وہیں وہ اپنے دائرے میں ایک واضح شناخت کے ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہتا ہے۔لیکن معاشرے میںجاری قتل وغارت اور دبائو اسے آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لیے سرمایہ اور صلاحیت بڑی تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں ۔حکومت میںموجود گروہوں کی نظر میں کراچی سونے کا انڈا دینے والی وہ مرغی ہے جس سے اپنے مفادات جلد از جلد حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنے کی تیاری جاری رہتی ہے۔
اس ساری صورت حال میں میڈیا اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔جیو سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ولی خان بابر کے قاتل تو کیا گرفتار ہوتے ایک کے سوا تمام گواہان اور تفتیش کر نے والے تمام پولیس افسران قتل ہو چکے ہیں۔سما ٹیلی ویثرن کی اینکرپرسن جاسمین منظور نے اپنے بلاگ میں ۱۳؍ اگست۲۰۱۳ء کو ’’میری خاموشی کے پیچھے سچ‘‘ تحریر کیا ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے جاسمین منظور کو ملنے والی دھمکیاں منظر عام پر آئیں۔انھوں نے عجلت میں اپنے اہل خانہ کو کراچی سے باہر منتقل کیا اور سما ٹیلی ویژن پر ان کا پروگرام بھی جاری نہ رہ سکا۔(Jasmine 2013 blogspot.com) ان کی تحریر اہل حل و عقد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
کراچی میں جرم طاقت ور ہے، جب کہ قانون خوف زدہ نظر آتا ہے۔ گذشتہ ۱۰ برسوں میں سیکڑوں پولیس افسران کا قتل ہوا ہے، جب کہ مجرم گرفتار نہیں ہوئے ۔سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس میں ڈی آئی جی سائوتھ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ ۱۹۹۲ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران کو چُن چُن کر قتل کر دیا گیا،جب کہ ایک اور سماعت کے موقع پر کراچی میں ۳۳ہزار سے زائد مفرور ملزمان کی موجودگی کا اعتراف بھی قانون نافذ کرنے والے اداروںکی جانب سے کیا گیا۔ مشرف دور میں سندھ کے وزیر داخلہ نے، جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا،انتہائی مہلک جرائم میں ملوث ۳۵ملزمان کو پیرول پر رہا کردیا تھا۔جس کے بارے میںسپریم کورٹ کے حکم پر ابھی تک تحقیقات جاری ہیں ۔(دی فرنٹیر پوسٹ، ۳نومبر ۲۰۱۲ء)
کراچی میں قانون کی بالادستی ختم ہو چکی ہے اور عام آدمی کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت سے ریاست لاتعلق بنی ہوئی ہے۔یہاں جزا وسزا کا وہ نظام جو کسی بھی معاشرے میں حکومتی رٹ کے ذریعے قائم ہوتا ہے، آج ریاستی طور پر ناپید ہو چکا ہے اور مافیا کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ ان مافیائوں کے حکم سے انکار موت کو دعوت دینا ہے، جب کہ ریاست مفلوج ہو چکی ہے۔ SCPS (Sindh Criminal Prosecution Service) کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں مجرموں کو سزا ملنے کی شرح ۶۶ء۱۱ فی صد ہے لیکن کراچی میں یہ شرح ۲ فی صد سے بھی کم ہے ۔
یہ شرح برطانیہ میں ۹۰ فی صد ،آسٹریلیا میں ۸۵ فی صد ،امریکا میں ۸۵ فی صد اور جاپان میں ۹ء۹۹ فی صد ہے۔گویا کراچی میں پکڑے جانے والے مجرم کے لیے رہائی کے ۹۸ فی صدسے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔۲۰۰قتل کامجرم اجمل پہاڑی بھی عدالتوں سے صاف ستھرا ہو کر رہا ہوجاتا ہے۔شیرشاہ قتل کے واقعے میں تمام ملزمان نے خود گرفتاری پیش کی لیکن ان کے خلاف کوئی گوا ہ آنے کوتیار نہ ہوا اورنتیجتاًسب باعزت بری ہو گئے۔SCPSکے اعدادو شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں ۶۶ہزارمعلق مقدمات میں سے ۲۹ ہزارسے زائد صرف کراچی کے مختلف اضلاع میں ہیں۔ سندھ اسمبلی میں پاس ہونے والا گواہوں کے تحفظ کا بل (Witness Protection Bill ) ایک اچھی کوشش ہے لیکن یہ بھی عام آدمی کے اعتماد کو بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گا۔پہلے مرحلے میںپولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے مطابق پولیس میں مجرموں کے مخبر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بار بار کی سیاسی بھرتیوں نے پولیس کے ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔قومی اسمبلی میں دہشت گردی کے خلاف قانون سازی پر گفتگو جاری ہے ۔اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ حقوق انسانی اور پُرامن شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ دہشت گردوں کا راستہ بند کر نے کے لیے مؤثر قوانین بنائے جائیں۔
اس وقت بھی پولیس دیانت دار اور اہل افسران سے یکسر خالی نہیں ہے جنھیں میرٹ پر کام کرنے کا موقع دیا جائے تو جرائم پیشہ افراد کو پیچھے دھکیلنے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی پولیس کی استعداد اور اسلحے کو بھی مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن سب سے اہم بات مستحکم حکومتی عزم اور ارادے کی ضرورت ہے کہ جرائم کی سر کوبی کے لیے کوئی سیاسی دبائو قبول نہ کریں ۔
وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے اعلان کردہ نگران کمیٹیوں میں سے ابھی تک سول سوسائٹی پر مشتمل نگران کمیٹی نہیں بن سکی۔اس میں جہاں پی پی پی کے تحفظات ہیں، وہیں کراچی کے مخصوص حالات میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے بھی آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں نظرآتے۔
کراچی امن کا متلاشی ہے ۔اگلے تین ماہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ طے شدہ اہداف حاصل کرنے کے لیے آپریشن جرائم میں وقفہ ہے، یا جرائم کی بیخ کنی کے لیے فیصلہ کن قدم؟ کراچی آپریشن کے ذریعے کتنا پُرامن ہوگا؟ آپریشن کی سمت ،رفتار اور نتائج اس بات کو واضح کردیں گے۔
جہاں تک قربانی کے سنت اور مشروع ہونے کا تعلق ہے، یہ مسئلہ ابتدا سے اُمت میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔
سب سے بڑا ثبوت اس کے سنت اور مشروع ہونے کا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِمبارک سے لے کر آج تک مسلمانوں کی ہرنسل کے بعد دوسری نسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ دوچار یا دس پانچ آدمیوں نے نہیں بلکہ ہر پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنے سے پہلی پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں سے اس طریقے کو اخذ کیا ہے اور اپنے سے بعد والی پشت کے لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں تک اسے پہنچایا ہے۔ اگر تاریخِ اسلام کے کسی مرحلے پر کسی نے اس کو ایجاد کر کے دین میں شامل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ تمام مسلمان بالاتفاق اس کو قبول کرلیتے اور کہیں کوئی بھی اس کے خلاف لب کشائی نہ کرتا؟ اور کس طرح یہ بات تاریخ میں چھپی رہ سکتی تھی کہ اس طریقے کو کب کس نے کہاں ایجاد کیا؟ آخر یہ اُمت ساری کی ساری منافقوں پر ہی تو مشتمل نہیں رہی ہے کہ حدیثوں پر حدیثیں قربانی کی مشروعیت پر گھڑ دی جائیں اور ایک نیا طریقہ ایجاد کرکے رسولِؐ خدا کی طرف منسوب کردیا جائے اور پوری اُمت آنکھیں بند کر کے اسے قبول کربیٹھے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہماری پچھلی نسلیں ایسی ہی منافق تھیں تو معاملہ قربانی تک کب محدود رہتا ہے۔ پھر تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، بلکہ خود رسالت ِ محمدیہ اور قرآن تک سب ہی کچھ مشکوک و مشتبہ ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ جس تواتر کے ساتھ پچھلی نسلوں سے ہم کو قربانی پہنچی ہے اُسی تواتر کے ساتھ انھی نسلوں سے یہ سب چیزیں بھی پہنچی ہیں۔ اگر ان کا متواتر عمل اس معاملے میں مشکوک ہے تو آخر دوسرا کون ایسا معاملہ رہ جاتا ہے جس میں اسے شک سے بالاتر ٹھیرایا جاسکے۔
افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگ نہ خدا کا خوف رکھتے ہیں نہ خلق کی شرم۔ علم اور سمجھ بوجھ کے بغیر جو شخص جس دینی مسئلے پر چاہتا ہے بے تکلف تیشہ چلا دیتا ہے۔ پھر اسے کچھ پروا نہیں ہوتی کہ اس ضرب سے صرف اسی مسئلے کی جڑ کٹتی ہے یا ساتھ ہی ساتھ دین کی جڑ بھی کٹ جاتی ہے۔
دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جارہی ہے ، اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بُری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگاکر دیکھتے ہیں کہ ہرسال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اُٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جارہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیراسلامی اندازِ فکرسے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہرسال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرحج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ [ترکی] کی لادینی حکومت نے ۲۵سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہر روز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی۔ لیکن بُرا ہو اُن ملّائوں کا کہ انھوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگا کر صدیوں سے انھیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں___ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہر اس چیز کو ’ملّائوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟ (تفہیمات، دوم، ص ۲۵۹-۲۶۲)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ قریش اور وہ لوگ جو ان کے طریقے پر چلتے تھے، حج کے موقع پر مکہ اور منیٰ سے مزدلفہ تک جاتے، پھر وہاں ٹھیرنے کے بعد منیٰ واپس آجاتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو ’حمس‘ کہتے تھے، یعنی کعبہ کے متولی ہونے کے سبب اپنے آپ کو بڑی حیثیت کے مالک سمجھتے تھے۔ عربوں کے ہاں بھی ان کی بڑی حیثیت اور مقام تھا۔ اور باقی عرب میدانِ عرفات تک جاتے اور وہاں ٹھیرتے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ عرفات تک جائیں ، وہاں وقوف کریں، پھر وہاں سے واپس لوٹیں۔ اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا: ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرہ۲:۱۹۹) ’’پھر وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے سارے لوگ واپس لوٹتے ہیں‘‘۔(متفق علیہ)
حج قدیم اسلامی عبادت ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل اور دیگر تمام انبیا ؑنے حج کیے ہیں۔ عربوں میں اسلام سے پہلے یہ عبادت جاری تھی اور کافی حد تک اسلام کے مطابق تھی۔ اس میں چند تبدیلیاں کردی گئی تھیں، ایک یہ کہ حج کے مہینے کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ دوسری یہ کہ صفا اور مروہ پر اساف اور نائلہ کے بت رکھ دیے تھے۔ کعبہ کا طواف تو اللہ تعالیٰ کے لیے کرتے لیکن صفا اور مروہ کا طواف بتوں کے لیے کرتے تھے۔ ایک رسم یہ تھی کہ عام عرب بے لباس ہوکر طواف کرتے تھے، سواے ان لوگوں کے جن کا تعلق قریش سے ہوتا یا جن کو قریش کپڑے دے دیتے۔ ان کے علاوہ باقی لوگ بے لباس طواف کرتے تھے۔ ایک تبدیلی یہ تھی کہ قریش اپنی بڑائی کے سبب میدانِ عرفات تک نہیں جاتے تھے۔ ان ساری تبدیلیوں کا اسلام نے خاتمہ کردیا۔ ۹ہجری میں جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حج کرایا، اس سال ان تبدیلیوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا، اور ۱۰ہجری کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا، اس وقت ان تمام تبدیلیوں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حج کرایا جو خالص اسلامی تھا۔ اس کے بعد سے آج تک اسلام کے مطابق حج ہو رہا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک یہ دنیا قائم ہے۔ کعبۃ اللہ انسانوں کی زندگی اور اسلامی زندگی کا ذریعہ ہے۔ عبادات میں مسلمان کا رُخ کعبۃ اللہ کی طرف ہوتا ہے اور مسلمان ہرسال ایک ہی لباس میں کعبۃ اللہ کے گرد طواف اور میدانِ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ منیٰ میں شیطان کو کنکرمارتے اور حج کے شکرانے کے طور پر قربانیاں دیتے ہیں اور اس طرح شیطان اور شیطانی نظام کو مٹانے کا جذبہ لے کر لوٹتے ہیں۔ مناسک ِ حج کا اگر حجاج کرام کو شعور ہوجائے تو دنیا میں اسلامی نظام اور اسلامی حکومت قائم ہونے میں طاغوتی قوتیں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مناسک ِ حج کی حقیقت اور مقصد کا شعور عطا فرمائے، آمین!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے حجاج سے کتنی محبت ہے، اس کا اندازہ آپؐ کی اس دعا سے جو میدانِ عرفات اور مزدلفہ میں آہ و زاری کے ساتھ کی گئی ہے، واضح ہوجاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اخلاص کا ثبوت دیتا ہے ، توبہ کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کردینے کا عہد کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کا سامان فرما دیتے ہیں۔ اگر وہ حق داروں کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے حق داروں کے حقوق ادا کردیتے ہیں اور اپنے مخلص بندوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
حجاج کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی محبت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعائیں قبول فرمائیں۔ آج دنیا بھر سے حجاج سرزمین حرم میں جمع ہوتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں حج اور مدینہ طیبہ میں مسجد نبویؐ اور روضۂ رسولؐ پر حاضری دیتے ہیں ، اور ریاض الجنۃ میں نماز پڑھتے اور دعائیں کرتے ہیں۔ کاش! حجاج کرام اپنے حجاج بھائیوں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں سے اسی طرح سے محبت کریں، اسی طرح سے نیک تمنائیں اور ہمدردی و غم گساری کریں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کی تو اُمت مسلمہ دنیا کی مضبوط اور طاقت و ر اُمت کی حیثیت سے تسلیم کی جائے، اور طاغوتی طاقتیں انھیں گاجرمولی کی طرح کاٹنے ، ان کا خون بہانے اور ذلیل و خوار کرنے سے باز آجائیں۔
اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہوگئی کہ حج صرف اس صورت میں گناہوں سے پاک کرنے کا موجب ہے جب آدمی حج کے تمام آداب کی پابندی کرے اور گناہوں سے حج کے دوران بھی اجتناب کرے اور بعد میں بھی باز رہنے کا عزم کرے۔ قرآنِ پاک میں اس بات کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے کہ حج کے دوران ساتھیوں سے جھگڑا نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حج میں مسلسل سفر اور ہجوم اور طبیعت پر دبائو کی وجہ سے جھگڑے کا ماحول بن جاتا ہے ، اس لیے بطور خاص جھگڑے سے روکا گیا۔ حج سیروسیاحت کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کے لیے سفر کرنے کا نام ہے۔ یہ سفر عظیم عبادت ہے، اس میں ایک انسان احرام کی حالت میں لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے عشق و محبت کے جذبے کے ساتھ رواں دواں ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں اخلاص شرط ہے۔ اخلاص ہوگا تو یہ سفر عبادت بن جائے گا ورنہ محض آنا جانا ہوگا۔ اس لیے ہرحاجی کو اپنے اخلاص پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔
اسلام نے خواتین کو مردوں سے لڑنے، ان سے ٹکرانے اور جسمانی تکلیف اور عصمت و عفت کو داغ دارہونے سے بچانے کی خاطر انھیں جہاد کے بجاے حج کی نعمت سے نوازا جس میں ثواب تو جہاد کا ہے لیکن وہ تکالیف اور مصائب جو جہاد میں پیش آسکتے ہیں ان سے محفوظ رکھا۔ مردوں کا کام قتال ہے اور خواتین کا کام گھروں کی حفاظت اور بچوں کی تربیت اور حجِ مبرور ہے۔ کیسا عمدہ نظام ہے! مردوعورت ثواب میں تو برابر ہوگئے لیکن دائرۂ کار میں مختلف۔ آج کی دنیا میں عورت کو جس مشقت میں ڈال دیا گیا، خواتین پولیس اور فوج میں بھرتی ہوکر دُور دراز علاقوں اور ملکوں کا سفر کرتی ہیں، اپنے شوہروں سے دُور رہتی اور بچوں کو پیار دینے سے محروم رہتی ہیں۔ کیا یہ عورتوں کے ساتھ ظلم نہیں ؟ اسلام نے دنیا فتح کی ، مردوں نے سفر کیے۔ اگر کہیں خواتین گئیں بھی تو لڑنے کے لیے نہیں بلکہ شوہروں کی مدد اور مجاہدین کی مرہم پٹی کے لیے لیکن تنہا نہیں بلکہ اپنے شوہروں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ازواجِ مطہراتؓ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریکِ جہاد رہیں اور مناسب خدمات سرانجام دیں۔ بعض خواتین نے ہنگامی حالات میں قتال میں بھی حصہ لیا لیکن عام حالات میں وہ قتال سے الگ رہیں۔
حج فرض ہو یا اس کی نذر مانی ہو، دونوں صورتوں میں فرض ہوجاتا ہے۔ فرض حج آدمی خود نہ کرسکتا ہو تو دوسرا اس کی طرف سے حج کرسکتا ہے۔ اسے حج بدل کہا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ جس پر حج فرض ہے وہ کسی دوسرے کو اپنی جگہ حج کرنے کے لیے کہے۔ ایسی صورت میں دوسرا شخص اس کی طرف سے احرام باندھے گا۔ حج کے سارے اخراجات اس کے ذمہ ہوں گے جو حج کرائے۔ قربانی کی رقم بھی وہی دے گا جس کی طرف سے حج ہوگا، چاہے والد ہو یا کوئی اور۔ جس نے حج کی نذر مانی ہے اور فوت ہوگیا ہے تو وہ دوسرے کو وصیت کرے۔ دوسرا اس کی طرف سے حج کرے گا تو اس کی نذر پوری ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں اخراجات اس کے ترکے میں سے ہوں گے اور وصیت نہ کی ہو تو مستحب ہے کہ ورثا میں سے کوئی اس کی طرف سے حج کرے۔ ایسی صورت میں اخراجات وارث کے اپنے ہوں گے، البتہ ثواب حج کرنے والے اور کرانے والے، دونوں کو پہنچے گا۔
اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر آدمی خود حج پر نہ جاسکے وہاں جاکر اپنے لیے دعائیں نہ کرسکے تو حاجی جو حجِ مبرور کر کے واپس آیا ہے، اس سے دعائیں کرائے۔ اس طرح سے اس کمی کو پورا کرے جو حج پر نہ جانے سے ہوگئی ہے۔
یہ جامع دعا ہے، یعنی دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی اور دوزخ کی آگ سے نجات۔ جسے مراد مل گئی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ۷۰فرشتوں کی ڈیوٹی ہے کہ طواف کرنے والے اور طواف میں مذکورہ دعا پڑھنے پر آمین کہتے رہیں۔ جس دعا پر اتنے فرشتے آمین کہیں، وہ کیوں کر قبول نہ ہوگی، جب کہ فرشتے بھی اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہوں کہ آمین کہیں تاکہ میں دعا کو قبول کروں۔
ارشادِ الٰہی ہے: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام دنیاوالوں سے بے نیاز ہے‘‘ (اٰلِ عمرٰن ۳:۹۷)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو، اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو‘‘(مسلم)۔ جب ایک مسلمان حج کے سلسلے میں اس حکمِ ربانی اور ارشاد نبویؐ کی تعمیل کا تہیہ کرلیتا ہے تو وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے کہ کاش دن اور رات سمٹ جائیں تاکہ وہ حرم میں جاپہنچے اور ان سعادت مندوں میں شامل ہوجائے جنھیں اللہ رحمن نظررحمت سے دیکھتا ہے اور انھیں آتشِ جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔
موقف ِ عرفہ یومِ حشر یاد دلاتا ہے۔ جب اللہ اگلوں پچھلوں کو یک جا کرے گا۔ اس دن جن و انس، فرشتے، انسان اور اس کے اعمال، انبیا اور اُن کی اُمتیں، نیکوکاروں کا ثواب اور بدکاروں کی سزا سب یک جا ہوں گے۔اس دن کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ اس روز ہرکسی کو حاضر ہونا ہوگا، نہ کوئی پیچھے رہ سکے گا اور نہ کوئی آنے سے انکار کرپائے گا۔ اس دن کسی کے لیے اختیار و ارادہ نہ ہوگا، ہر کوئی نفسی نفسی پکار رہا ہوگا اور نجات کا متمنی ہوگا۔ عرفات میں دنیا کے ہرعلاقے کے مسلمان آتے ہیں، جب کہ روزِ حشر آدم ؑ سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کے انسان اکٹھے ہوںگے۔ میدانِ عرفات میں جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے دعائیں ہوتی ہیں تو حاجیوں کو مغفرت سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے ہی میدانِ حشر میں گنہگاراہلِ ایمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔ (الشعراء ۲۶:۸۸-۸۹)
قلب ِ سلیم وہ ہے جو شرک و گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو، جو بدعت سے محفوظ اور سنت پر مطمئن ہو، جو لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو۔ ایسے لوگ روزِ قیامت خوف سے امن میں ہوں گے۔ جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’لا الٰہ الا اللہ والوں پر نہ ان کی قبروں میں کوئی وحشت ہوگی، نہ حشرمیں۔ مَیں گویا لا الٰہ الا اللہ والوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے اس نے ہم سے پریشانی دُور کردی‘‘۔ (طبرانی)
آپؐ نے فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ سے زیادہ کسی بھی دن ذلیل و حقیر اور افسردہ و غضب ناک نہیں ہوتا، جب وہ اللہ کی رحمت کو اُترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف کرتے دیکھتا ہے‘‘ (موطا)۔ حضوؐر نے عرفہ کے دن کی شام اپنی اُمت کی خاطر مغفرت و رحمت کی بہ کثرت دعا کی تو اللہ کی طرف سے فرمایا گیا: میں نے تمھاری اُمت کو معاف فرما دیا سواے ان کے جنھوں نے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کی۔ آپؐ نے عرض کیا: اے پروردگار! تو ظالم کو بخشنے اور مظلوم کو (اس پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے) زیادہ اجروثواب دینے پر قادر ہے۔ اگلے روز صبح آپؐ مزدلفہ کے مقام پر اُمت کی خاطر دعا کرتے رہے۔ پھر آپؐ کچھ دیر بعد مسکرائے۔کسی صحابیؓ نے کہا: آپؐ ایسے وقت مسکرائے جب کہ آپؐ اس موقع پر مسکرایا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا: میں دشمنِ خدا ابلیس پر مسکرایا ہوں، جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ نے میری اُمت کے حق میں، میری دعا قبول فرمالی ہے اور ظالم کو بخش دیا ہے، تو وہ تباہی و بربادی مانگنے لگا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرایا ہوں۔(مسنداحمد)
قیامت کے دن شیطان کی حالت ِ زار کی منظرکشی رسالت مآب نے یوں فرمائی ہے: سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا۔ ابلیس کی ذُریت اس کے پیچھے ہوگی، وہ سب ہلاکت کو بلا رہے ہوں گے اور موت کو پکار رہے ہوں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا: آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔(مسند احمد)
علامہ ابن القیمؒ نے فرمایا: ہر عقل مندجانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:
حجاج کرام، صرف اللہ کی عبادت کی خاطر، مقدس سرزمین میں آتے ہیں۔ ان کا مقصد ِ وحید طلب ِ رضاے الٰہی ہوتا ہے۔ وہاں جانے میں، ان کی کسی نفسانی خواہش کا ہرگز دخل نہیں ہوتا۔ وہ زبانِ حال سے شیطان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اے ملعون، اگر تو نے اپنے خالق و پروردگار کی عبادت سے تکبر کیا تو دیکھ، ہم سب اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اگر تو نے اس کی نافرمانی کی تو ہم سب اس کے فرماں بردار اور عبادت گزار ہیں۔ حج کے موقع پر ان کے احساسات یہ ہیں کہ حاکم و محکوم، چھوٹے بڑے، مال دار و مفلس، سیاہ و سفید اور عربی و عجمی کے مابین کوئی فرق نہیں۔ گھر تیرا ہے، اقتدار تیرا ہے کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں، تقویٰ ہی واحد معیارِ فضیلت ہے۔ حجاج کرام میں یہ احساس پیدا ہونا، حج کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ان پر عملی طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ٹھیرایا ہے۔ مختلف شکلوں، رنگوں، قومیتوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود، کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں۔ رب کی نظر میں سب یکساں ہیں۔
حج مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر اور ان کی سالانہ کانفرنس ہے۔ حج مسلمانوں کے سیاست کاروں کے اتحاد اور علما کے اتفاق کا موقع، علم اور تعلیم دین کے فروغ کا ذریعہ، بھلائیوں کا موسم اور دنیا و آخرت کے منافع ملنے کا مقام ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حج میں نئی اسلامی ریاست کا عادلانہ دستور پیش فرمایا، جب کہ آپؐ کے خلفاے راشدینؓ حج کو اپنے صوبوں اور شہروں کے حالات سے باخبر رہنے کا ایک سنہری موقع سمجھتے تھے۔ مظلوموں کی دادرسی کی جاتی۔ غلط کار سرکاری افسروں___ خواہ وہ گورنر ہوں یا عام کارندے___ کی سرزنش کی جاتی۔
اسی سرزمین میں علم و تعلّم کا حکم نازل ہوا۔ اسی میں علما کی اہمیت و برتری بیان ہوئی۔ چنانچہ حج کے موقع پر حاجیوں میں قرآن کریم کے نسخے اور مفید شرعی کتب تقسیم کی جاتی ہیں، نیز حُرمین شریفین کے مختلف کتب خانے کتابیں فروخت کرکے علم کو عام کرتے ہیں۔ حج دنیا بھر سے آنے والے اہلِ علم کے ملنے کا سنگم ہے جہاں وہ باہم استفادہ کرسکتے ہیں، نئے پیش آمدہ حالات کے بارے میں اپنی راے ظاہر کرسکتے ہیں اور دوسروں کی آرا سے واقف ہوسکتے ہیں۔ نیز حجاج علماے کرام سے سوالات کر کے اپنی علمی پیاس بجھاسکتے ہیں۔ اہلِ علم اس موقع پر باہم متعارف ہوکر بعد میں رابطوں کے جدید ذرائع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرسکتے ہیں اور یوں اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرسکتے ہیں۔
اپنے اپنے علاقائی و مقامی لباس ترک کر کے احرام جیسے ایک ہی لباس میں ملبوس، ایک مقام پر ایک جیسی عبادت کرنے والے اور اپنی اپنی زبانوں میں عہدوپیمان باندھنے کے بجاے عربی زبان میں لبیک اللھم لبیک… بآواز بلند پکارنے والے دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان، اپنے آپ میں حج کی بدولت یک جہتی و یک رنگی کا احساس پاتے ہیں۔ اس سے وحدتِ اسلامی میں استحکام اور پختگی آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب ہی حاجی اپنے آپ کو ایک ہی بدن کے اعضا کی مانند سمجھتے ہیں۔ کاش کہ یہی احساسِ وحدت مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی، عسکری اور سیاسی وحدت میں بدل جائے اور مسلمانانِ عالم اس وحدت کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں۔
حج ایک لحاظ سے ایک سیاسی سالانہ کانفرنس بھی ہے کہ اس کی بدولت دنیا کے تمام مسلم زعما و قائدین کو مل بیٹھنے، باہم متعارف ہونے اور اپنی اپنی قوموں کے مسائل کا تذکرہ کرنے، ان کا حل پیش کرنے اور مسلم ممالک کے حالات جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔
حج نفوسِ انسانی کی تہذیب و تربیت کا ایک عالمی مدرسہ ہے، اس لیے کہ عزمِ حج کرنے کے ساتھ ہی حاجی کی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔ اسے اپنے نفس کو مؤدب و مہذب بنانے کا زریں وقت ملتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو تقویٰ کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ حاجی اپنے آپ کو بخل و کنجوسی کی مذموم صفت اور مال کی حرص سے پاک کرلیتا ہے، کیونکہ وہ حج کے سلسلے میں کافی بڑی رقم بطیب ِ خاطر خرچ کرتا ہے۔اپنے گھربار، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے دُور رہنے اور سفر کی مشقت اُٹھانے میں حاجی کی قوتِ ارادہ اور صبروبرداشت کی تربیت ہے۔ اپنے حاجی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر حج کرنے میں ایثار و قربانی، مساوات و برابری اور ’انانیت‘ کی نفی کی تربیت ہے۔ اس سے تکبر و غرور کا خاتمہ اور صرف اللہ کے لیے عبودیت کی تربیت ہوتی ہے۔ اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ وہ دنیا کی ایک بہت بڑی قوم کا ایک فرد اور عظیم الشان برادری کا رکن ہے۔ سب حاجیوں کو وحدت و یک جہتی کا احساس اور ایک ایسی بہترین اُمت سے نسبت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے برپا کی گئی ہے۔(ہفت روزہ الجمتمع، کویت، شمارہ نمبر ۱۷۷۹، ۱۷۸۰)
ایک عورت کے نقوشِ پا جس پر انسانیت کے قافلے شرف کے ساتھ دوڑ رہے ہیں، اور جب تک دنیا قائم ہے ’سعی‘کا یہ عمل جاری و ساری رہے گا۔ لبیک اللھم لبیک کی صدائوں کے ساتھ لوگ دیوانہ وار لپک رہے ہیں، منزلِ مراد پارہے ہیں، طواف کے بعد صفا اور مروہ کی سعی کررہے ہیں، اور اس واقعے کی یاد تازہ کر رہے ہیں جب حضرت ابراہیم ؑ کی زوجۂ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے لخت ِ جگر حضرت اسماعیل ؑ کے لیے پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں۔پیروں کی وہ دھول کیسی معتبر ٹھیری، مشقت کی وہ ادا کیسی پسند آئی، کیسا اکرام دیا رب نے ان نسوانی قدموں کے نشانات کو کہ اُمت کے مرد بھی کروڑوں کی تعداد میں ان نقوش پا پر دوڑ چکے ہیں کہ دوڑنے کی وہ ادا تو محبوبِ رب ٹھیری۔
آخر ایسا کیا تھا اس ادا میں جو قبولیت کی اس معراج کو پہنچی کہ شرفِ انسانیت قرار پائی، کمالِ نسوانیت قرار پائی۔ ایک عورت کی وہ قربانی جس نے صدیوں کو نور بخشا ہوا ہے، منور کیا ہوا ہے، ان قدموں کی وہ تابناکی، وہ ضوفشانی کہ انسانیت راہِ راست پر رہے گی جب تک ان قدموں کے نشانات اور اسی جذبے کو سنگ ِ میل بنائے رکھے گی۔ صدیوں کی گرد جھاڑیئے___ چشمِ تصور کو ماضی کے ان لمحوں میں وا کیجیے اور دیکھیے کہ حضرت ابراہیم ؑ جو خلیل اللہ ہیں، مسلم حنیف ہیں___ اب تک کی ہرآزمایش میں پورا اُتر چکے ہیں، عشق سے بڑھ کر فدائیت کی منزلوں میں ہیں___ حکمِ ربی ہوتا ہے کہ اپنی اہلیہ اور صاحب زادے اسماعیل ؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں۔ حکم ربی کی تعمیل فرماتے ہیں۔ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کو اس غیرآباد اور بنجرسرزمین میں چھوڑ کر چلے آتے ہیں۔ نہ آدم ، نہ آدم زاد، نہ سبزہ نہ پانی، نہ دُور تک کسی چرندپرند کا نام و نشان___ایسا ویران ایسا سنسان جنگل جہاں سانسوں کی بھی آہٹ محسوس ہوتی ہو۔ نومولود اور اس کی ماں اس ویرانے کو آباد کرنے آئے ہیں۔ امکانات اور نتائج پر نظر رکھنے والے تو سرجھٹک کر اسے دیوانے کی بڑ ہی کہیں گے۔ناممکن العمل اور ناقابلِ یقین ہی گردانیںگے، مگر یہاں تو تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے۔ عزیمتوں کی ناقابلِ تصور داستان کا ایک سنہرا باب!
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لیے توشہ بھی کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے: چمڑے کا تھیلا کھجوروں سے بھرا، اور ایک چھوٹا سا پانی کا مشکیزہ___ حضرت ہاجرہؓ کے حوالے کر کے حضرت ابراہیم ؑ پلٹ جاتے ہیں۔ اب کیا ہونا ہے؟ آگے کیا کرنا ہے؟ مستقبل کی صورت گری کیا ہوگی؟ آگے کے منصوبے کیا ہیں؟ اس ویرانے میں ان دو کمزور جانوں کا تیسرا پُرسانِ حال کون ہوگا؟ ایک نسوانی ذات کے ساتھ یوں بھی لاکھ تحفظات ہوتے ہیں___کون چھوڑتا ہے یوں محبت کرنے والی بیوی اور نورالعین کو___اگر کوئی جنگلی درندہ ہی آنکلا تو کیا ہوگا؟اندیشے ہیں، وسوسے ہیں، خطرات ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کو جو جاتے دیکھا تو حضرت ہاجرہؓ پیچھے لپکیں۔ کب آئیں گے واپس؟آگے کیا ہوگا؟ محبوب بیوی پکار رہی ہے، روک رہی ہے کہ سوالوں کے جواب تو دے کر جائیں لیکن ابراہیم ؑ رُک جاتے تو تاریخ ٹھیرجاتی___ زمان و مکان کی گردش رُک جاتی کہ تاریخ کو تو تیزی سے بغیر رکاوٹ کے اپنا یہ باب رقم کرناتھا۔ عشق و فدائیت کی یہ لازوال داستان اُدھوری رہ جاتی۔ اگر ابراہیم پلٹ کر دیکھ لیتے تو شفقت ِ پدری غالب آجاتی یا حضرت ہاجرہؓ کی بے چارگی پیروں کی زنجیر بن جاتی ۔ اس لیے صدائیں سماعتوں سے ٹکراتی رہیں اور حضرت ابراہیم ؑ نے پلٹ کر نہ دیکھا کہ یارا ہی نہ تھا دیکھنے کا! آخر ایک رقیق القلب دل کے مالک تھے___ وہ قلب جس کی مدح سرائی خود قرآن کرتا ہے، وہ شخصیت جس کا ذکر رب اس محبت سے کرتا ہے کہ خود لفظ ’محبت‘ معتبر ہوجاتا ہے۔
جب حضرت ابراہیم ؑ نے کسی صدا پر کان ہی نہ دھرا تو حضرت ہاجرہؓ ایک سوال کرتی ہیں۔ وہ سوال جس سے گردشِ افلاک لمحہ بھر کو ٹھیر سی جاتی ہے۔بس وہ سوال ہی انسانیت کی تاریخ کا بنیادی سوال تھا___ اور اسی سوال کے جواب میں انسانیت کی فلاحِ کل بھی مضمر تھی اور آج بھی مضمر ہے۔ اسی سوال کے جواب میں تو پیغمبربھیجے گئے___ شریعتیں اُتاری گئیں___ وہ سوال جو یکایک حضرت ہاجرہؓ کے پریشان حال، غمگین دل میں روشنی بن کر پیدا ہوا کہ ’’کیا اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟‘‘ اب اسی سوال کے جواب پر باقی ماندہ منصوبۂ رب تشکیل پانا تھا۔ تیزتیز چلتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے بن پلٹے اس سوال کا یک لفظی جواب دیا اور لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوگئے اور حضرت ابراہیم ؑکا وہ جواب تھا: ’ہاں‘۔ اس جواب نے خوف، وحشت، یاس کے سب سایے نگل لیے۔ ڈولتے وجود کو لمحوں میں قرار آگیا۔ تپتے ریگستان کو رحمتوں کی بدلیوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ اُمید اور آرزو نے ان نسوانی مُردہ قدموں میں جان ڈال دی۔ کیسا یقین___ بن دیکھے رب پر لازوال ایمان!
ایقان کی وہ دولت جس نے تاریخ کا دھارا موڑدیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سن کر حضرت ہاجرہؓ بے اختیار بول اُٹھتی ہیں: ’’پھر اللہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا‘‘۔ پھر پلٹ کر بھی حضرت ابراہیم ؑ کی سمت نہ دیکھا کہ اصلی وارث اور ولی جب اپنے حصار میں لے لے تو دنیاوی سہاروں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ کیسا روشن ہوگیا تھا وہ سینہ لمحہ بھر میں ایمان سے۔ بس وہ ایک لمحہ ہی ہوتا ہے، معرفت کا لمحہ جو جادوگرانِ فرعون کو بھی رب سے آشنا کرگیا تھا، تاریخ میں امر کرگیا۔ انسانیت نے لمحہ بھر میں صدیوں کا سفر طے کرلیا اور انسانیت کو ایک درس مل گیا کہ رب کی رضاکے راہی کبھی ہلاکتوں سے دوچار نہیں ہوتے، کبھی بے راہ نہیں ہوتے، کبھی مادی پیمانوں سے سودوزیاں کا حساب کر کے اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتے۔ بس دل کو رب کے حوالے کر کے جب منزل کو نظروں میں بسا لیتے ہیں تو ’زم زم‘ جاری ہوجایا کرتا ہے۔ صدیوں کی تاریخ سے چھنتی ایقان کی وہ روشنی آج بھی مشامِ جاں کو معطر کرنے کا سبب ہے۔
جب حضرت ہاجرہؓ ’ہاں‘کا جواب پاکر پلٹ گئیں تو حضرت ابراہیم ؑ کو بھی ایک گونہ قرار آگیا۔ پھر پہاڑی شینہ پر پہنچے۔ بیوی، بچہ نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ آسمان کی جانب دیکھا اور دل گرفتہ کھول کر رب کے سامنے رکھ دیا: ’’اے پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے‘‘ (ابراہیم ۱۴:۳۷)۔
حضرت ہاجرہؓ نونہال کو چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی ہیں اور خود قلب ِ مطمئنہ کے ساتھ مشک سے پانی پیتی ہیں۔ بے آب و گیاہ وادی، مکہ کی گرمی، مشکیزہ کب تک ساتھ دیتا؟ پانی بالآخر ختم ہوگیا۔ دھوپ کی تمازت،تنہائی، ننھی جان کا ساتھ، لیکن پاے استقلال میں کوئی لغزش نہیں۔ زبان پر کوئی شکوہ نہیں، کوئی بدگمانی نہیں۔دل اس یقین سے شاداں و فرحاں ہے کہ رب کی رضا کا سفر ہے۔ ہر صعوبت ایک سعادت ہے یہاں۔ لیکن جسمانی تقاضوں سے کہاں مفر ہے؟ ننھے اسماعیل ؑ پیاس کی شدت سے تڑپ رہے ہیں، خود بھی حلق میں کانٹے پڑچکے ہیں۔ معجزوں کے انتظار سے کب منزلیں ملا کرتی ہیں؟ سب توانائیاں اکٹھی کر کے پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ سامنے موجود پہاڑی صفا پر چڑھ جاتی ہیں۔ دُور دُور تک دیکھتی ہیں۔ اس بے آب و گیاہ میں تو سراب ہی سراب ہے۔ پہاڑی سے اُتریں، کُرتا سمیٹ کر نالے کے نشیب و فراز میں دوڑیں___ جیسے کوئی آفت رسیدہ دوڑتا ہے۔ انھیں کیا علم تھا کہ حالت ِ اضطرار میں اَٹا ہوا ان کا یہ ایک ایک قدم تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنے گا۔ رب کو کتنے محبوب تھے اپنی راہ میں اُٹھے ہوئے یہ قدم۔ تب نالے کو پار کر کے مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں اور بلندی پر پہنچ کر متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ شاید آبِ حیات کا کوئی سراغ پالیں۔ اب پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان بے چارگی سے دوڑ رہی ہیں، سماعتوں سے ننھے اسماعیل ؑکے رونے کی آوازیں ٹکرا رہی ہیں۔ حالت ِ اضطراب میں سات چکر لگالیتی ہیں، جب کہ دل اس سے مناجات میں مصروف ہے جو کہ مسبب الاسباب ہے۔ اصل میں تو تلاش اسی کی تھی۔ جستجو کا سفر اسی کی معرفت کے حصول کے لیے تھا۔ تب ایک آواز سنتی ہیں مروہ کی بلندی پر___ عشق اپنے امتحان میں پورا اُترا۔ حضرت ہاجرہؓ ہی سرخرو نہیں ہوئیں حضرت ابراہیم ؑ کے خلیل اللہ ہونے کی لاج بھی رکھ لی اپنی استقامت سے۔
فرشتہ نمودار ہوا۔ اپنی ایڑی زمین پر ماری اور صرف حضرت ہاجرہؓ اور نومولود ہی کے لیے نہیں، رہتی دنیا کے لیے آبِ حیات جاری ہوگیا۔ ہاتھوں سے جلدی جلدی حوض بنانے لگیں، ساتھ ساتھ چلّو بھربھر کر مشک میں ڈالنے لگیں۔ کتنا معتبر ہوگیا تھا پانی ان کے ہاتھوں کا لمس پاکر___ ایسا اکرام ملا تھا پانی کو کہ خوب جوش مار رہا تھا۔ حضرت ہاجرہؓ پانی محفوظ بھی کر رہی تھیں اور اس کو حکم بھی کر رہی تھیں کہ ’’زم زم، ٹھیرجا، ٹھیرجا‘‘___ خوب سیر ہوگئیں رحمت ِرب کو پاکر۔ فرشتے نے امر کردیا ان لمحوں کو جب کہا کہ ’’اپنی جان کا خوف نہ کرو، یہاں ایک گھر بنے گا جو یہ بچہ اور اس کاباپ مل کر بنائیں گے۔ اللہ اپنے بندوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (بخاری)
روایات میں ہے کہ اس وقت بیت اللہ کی جگہ زمین سے اُونچا ایک ٹیلہ تھا۔ اس بے آب و گیاہ وادی میں جب پانی دیکھا تو پرندے بھی آبسے اور پرندوں کے قافلوں کے ساتھ انسانوں کی آبادی بھی شروع ہوگئی۔ حضرت ہاجرہؓ کی سعی مقبول ٹھیری، معتبر ٹھیری۔ شوہر کی جدائی برداشت کی مگر حضرت اسماعیل ؑ کی تربیت میں کوئی کمی نہ آنے دی، اور ان کی پرورش کرکے اُمت کو قیادت فراہم کی۔ عورتوں کو نسوانیت پر فخر کرنا سکھایا۔ رہتی دنیا تک کے انسانوں کو زم زم کے تحفے سے فیض یاب کیا، جس کی ہربوند میں ان کی فدائیت اور عظمت کی خاموش سرگوشیاں ہیں۔
صرف ایک ’سعی‘ ہی نہیں، حج کے ہرعمل کو دیکھ لیجیے، تمام اعمال عاشقانہ ہیں اور بے تابانہ ہیں___ لبیک لبیک کا شور ہو یا کعبہ کا والہانہ طواف، حجراسود کو چومنا ہو یا صفا مروہ کی پُرجوش سعی۔ پسندیدہ بھی وہ ٹھیرا جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، جسم غبار میں اَٹا ہوا ہو کہ یہاں ہر ادا عشق کی ادا ہے۔ ایک گونہ بے خودی ہے، خود کو کھو کر کچھ پانے کی آرزو ہے۔ اور مطالبہ یہ کہ پورے دل اور دماغ کی حاضری کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطلق عبدیت کا اعلان درکار ہے کہ: ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔(الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)
حج کے افعال میں کوئی بحث و تمحیص اور فائدے کی بحث کی اجازت نہیں کہ اس عمل کا کیا فائدہ ہے؟ بس عبدیت کی شان بلاچوں و چرا اطاعت___ جس کی مثالیں وہاں کی زمین کے ہرذرّے پر بکھری پڑی ہیں اور جس میں دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے واضح سبق ہیں کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے مرد تو کیا اس اُمت کی عورتوں نے بھی کسی خطرے کی پروا نہ کی۔ ایک عورت کے لیے تنہا بیابان صحرا، ایک ننھا شیرخوار وجود___ کیا کیا خطرات نہ تھے لیکن اللہ کے دین کی سربلندی ہرخطرے پر غالب رہی۔ حضرت ہاجرہؓ کے اسوے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حاجات و ضروریات سب ایک ہستی سے وابستہ کرلی جائیں۔ وہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اسباب ظاہری پر بھروسا انسان کی مومنانہ شان کے خلاف ہے۔ حضرت ہاجرہؓ کی طرح آج بھی ہر سعی مشکور اور ہر دعا مقبول ہوسکتی ہے، اگر مسبب الاسباب کا حکم ہو تو___ کیا سعی کا یہ عمل، صفا و مروہ کے بیچ ریت کے وہ ذرّے جو حضرت ہاجرہؓ کے جذبۂ فدائیت سے مشک بار ہیں، حجاج کرام سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ فروغِ دین کے لیے اپنی محبوب ترین چیزوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔ بیوی بچوں کی زندگیاں بھی عبدیت کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں۔ ہجرت بھی کرنا پڑے، غریب الدیاری سے بھی سابقہ درپیش ہو تو بھوک اور پیاس کا خوف جدوجہد کے راستے میں مزاحم نہ ہو۔ پتھروں کے دور میں جانے کا خوف قومی حمیت کو نیلام کرنے کا سبب نہ بنے کہ رزق کے خزانوں کی کنجیاں اس کے پاس ہیں جو بے آب و گیاہ وادی میں ’زم زم‘ جاری کرنے پر کل بھی قادر تھا اور آج بھی ہے۔ اسباب کی کوششیں ضرور ہوں مگر ہم اسباب کے غلام نہ ہوں۔ غیرمتزلزل اعتماد اس ذات پر ہو جس نے حضرت ہاجرہؓ و اسماعیل ؑ کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان سے ایک ایسی نسل چلائی جس نے اُمت مسلمہ کو سرفرازی عطا کی۔
یہ ’سفر عشق‘ ایک انقلاب کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر شعوری طور پر اس سفر کے مراحل اور افعال انجام دیے جائیں تو لاکھوں حجاج کرام، اُمت مسلمہ کے جاں باز سپاہی کے روپ میں سامنے آئیں جو دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا عزم میدانِ عرفات سے لے کر پلٹیں کہ خانہ کعبہ سے، مسجد نبوی ؐ سے، منیٰ سے، عرفات سے، زم زم کے قطروں سے اور خاکِ حرم سے ایک ہی صدا آتی ہے اور وہ صدا ہے ___ کونوا انصاراللّٰہ، کون ہے اللہ کا مددگار؟
مضمون نگار ناظمہ حلقۂ خواتین صوبہ سندھ ہیں
مسلمانوں کو دعوت الی اﷲ کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے ۔ایک مسلم اورمسلمہ تمام عالم انسانی کے سامنے خدا کے دین کے داعی ہیں ۔سچا داعی وہ ہے جو لوگوں کو بلا تخضیص مذہب ،رنگ و نسل اور جغرافیائی حدود کے اﷲ کی طرف دعوت دے اور اس کار خیر میں مدعو کی خیرخواہی اور بھلائی کی چاہت میں لوگوں کی بھلائی کا حر یص بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ داعی کے لیے قرآن میں ناصح، خیرخواہ اور امین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ داعی اور داعیہ دو احساسات کے تحت یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ اول: انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ خدا کے دین کے امانت دار ہیں اور اس امانت کی ادایگی کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی سے لرزاں رہتے ہیں۔ دوم: انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ ان کو محبور کرتا ہے کہ تما م مخالفتوں کو سہتے ہوئے اور تمام مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے وہ مدعو کو اﷲکی رحمتوں کے سایے میں لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ دعوت کو قرآن میںانذار اور تبشیر(ڈرانا اور خوش خبری دینا ) کہا گیا ہے جو درحقیقت خود اﷲ رب العالمین کا کام ہے،مگر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے چاہا کہ یہ کام کسی معجزاتی اسلوب میں انجام نہ پائے بلکہ امتحان کے نقطۂ نظر سے انسانوں کے درمیان اُس کے پیغام کی پیغام رسانی خود انسان انجام دے۔ اس مشیت الٰہی نے انسان کے لیے عظیم ترین عمل کا دروازہ کھول دیا ۔
ایک بندے کا مقام اﷲ کی بندگی کرنا ہے ۔وہ نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج و عمرہ کی ادایگی کے ذریعے ، اخلاقی صفات کامظاہرہ کرنے کے ذریعے ، بندوں سے اپنے معاملات ہدایت ربانی کی روشنی میں طے کرنے کے ذریعے ،خدا کے آگے اپنی عبودیت ، بندگی اور عجز کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ دعوت الی اﷲ کا فریضہ انجام دینے کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کا اعزاز یہ ہوتا ہے کہ ـــوہ انصارُ اﷲ (اﷲ کا مدد گار )کا رتبہ حاصل کرلیتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ (الصف۶۱: ۱۴)، مومنو! اللہ کے مدد گار ہو جائو۔ جیسے عیسٰی ؑ ابن مریمؑ نے حواریوں سے کہا کہ(بھلا) کون ہیں جو اللہ کی طرف(بلانے میں) میرے مدد گار ہوں؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
اﷲسبحانہ و تعالیٰ کے ایک عاجز بندے کے لیے اس سے زیادہ معزز اورپُرکیف تجربہ کوئی اور نہیں کہ وہ یہ محسوس کرے کہ میں اپنے رب کے کام میں مصروف، اس کے ایک منصوبے کی تکمیل کررہا ہوں ۔دعوت الی اﷲ ایک پیغمبرانہ مشن ہے جو حضرت آدمؑ سے شروع ہوا اور اس کی تکمیل رسولؐ اﷲکی آمد پر ہوئی ۔اﷲکا دین ،اسلام ابتداے آفرنیش سے خدا کا دین ہے اور ہر قوم میں ہرنبی کو اﷲ نے اسی دین کے ساتھ بھیجا ۔قومیں اﷲ کے بھیجے ہوئے دین میں خرابیاں پیدا کرتی رہیں اور اﷲتعالیٰ اپنے ابنیا کے ذریعے ان خرابیوں کی اصلاح کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں کے اس دین کو بالکل صحیح اور تکمیلی صورت میں نازل فرما کر اس کو ہمیشہ کے لیے تبدیلی و تحریف کے خطرے سے محفوظ کردیا ۔یہ دین جو کسی خاص قوم کا نہیں بلکہ تمام بنی نوع آدم کا دین ہے قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے۔ جو اس دین کو تسلیم کرے وہ مسلم ہے اور جو نہ مانے وہ غیر مسلم ہے ۔یہ دین، اسلام نہ تو خدا کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق کرتا ہے ،نہ اس کی کسی کتاب کا انکا ر کرتا ہے اور نہ کسی پر اپنی مطلق فضیلت کا مدعی ہے۔ اس کا دعوی صرف یہ ہے کہ یہ تمام نبیوں کی تعلیم کا قابلِ اعتبار مجموعہ اور ان کی تعلیمات کو مکمل کرنے والا ہے ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہہ ساری دنیا کے لیے خداکے آخری پیغمبر ہیں ۔رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد اس ذمہ داری کواداکرنے کی کیا صورت ہے ؟یقینا آپؐ کے بعد آپؐ کی امت اس کارِ نبوت کی ذمہ دار ہے۔ آپ ؐ نے اپنی زندگی میں براہ راست اس فریضے کو سر انجام دیا۔ آپؐ کے بعد یہ کام بالواسطہ طور پر آپ ؐ کی امت کے ذریعے انجا م پائے گا۔ اس امت کی یہ لازمی ذ مہ داری ہے کہ وہ نسل در نسل ہر زمانے کے لوگوں کے سامنے اس دین کا پیغام پہنچاتی رہے جو آپؐ کو اﷲ رب العالمین کی طرف سے موصول ہوا تھا ۔ یہ پیغام قیامت تک کے انسانوں کے لیے راہِ ہدایت ہے جس کی حفاطت کا ذمہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے خود اٹھایا ہے ۔قرآنِ حکیم فرقانِ حمید میں اﷲتعالیٰ نے مذکورہ بالا حقیقت کی خود نشان دہی فرمائی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط (المائدہ ۵:۶۷)، اے پیغمبرؐ! جوارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو۔اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا)۔
بلاشبہہ اﷲرب العالمین نے پیغمبروں کے انتخاب میں مردوں کو ذمہ دار اورمسئول کی حیثیت سے نامزد کیا ،لیکن اس پیغمبر انہ مشن کو آگے لے کر چلنے میں کسی صنفی امتیاز کی نشان دہی نہیں کی۔ قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فریضے کے ذمہ دار مرد اور خواتین دونوں ہیں:
اورمومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے، اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،(وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہاے جاودانی [یا،ابد کے باغوں] میں نفیس مکانات کا (وعدہ کیا ہے)۔ اور اللہ کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے، یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ۹: ۷۱- ۷۲)
خواتین کو دعوت دین کی ذمہ داری تفویض کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے بزبانِ قرآن ارشاد فرمایا : وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا (الاحزاب۳۳: ۳۴)، ’’اور تمھارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت(کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بے شک اللہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔
آپؐ سے دین کی تعلیمات سننے، انھیں محفوظ کرنے، ان سے احکامات مستنبط کرنے اورانھیںدوسروں تک پہنچانے میں آپؐ کی ازواج مطہراتؓ اور دیگر صحابیات ؓ نے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ حضرت عا ئشہؓ آیاتِ قرآنی کی تفسیر کرتیں اور احادیث مبارکہ سے احکامات اخذ فرماتی تھیں۔ جلیل القدر صحابہ ؓ ان کی محفلِ درس میں شامل ہوتے تھے اور اپنے مابین اختلاف راے کی صورت میں انھیںحَکم اور اُن کی راے کو فیصلہ کن سمجھتے تھے ۔حضرت عائشہؓسے۲ہزار۲سو۱۰، حضرت اُم سلمہؓ سے ۳۷۸ اور دیگر صحابیات سے بھی بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ بعد کے اَدوار میں بھی خواتین قرآن اور حدیث کے علم کے حصول اور تحصیل میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ داعی دین اور داعیاتِ دین دونوں کو یہ فریضہ سر انجام دینا ہے ۔
داعیاتِ دین کو دعوت الی اللہ میں ان تمام اصولوں ، ترجیحات اور لائحہ عمل کوملحوظ رکھنا ہوگا جو انبیاے کرام ؑکی دعوت کا حصہ ہیں۔ نیز ان تمام علمی اور عملی اغلاط سے بچنے کا شعوری طور پر اہتمام کرنا ہوگا جس میں ہمارے مبلغین اور واعظین اکثر اوقات مبتلا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر میںدین کا مفہوم ادھورا اور دین کی تبلیغ کا مفہوم بھی محدود ہے۔
ایک داعیہ دین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو دین کا مکمل اور جامع تصور فراہم کرے ۔ اسلام کی بطور نظام حیات اور بطور نظام زندگی کی پہچان کرائے، کیونکہ دین اپنی تکمیلی شکل میں نازل ہو چکا۔ حکم رباّنی ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ۵: ۳)،(اور) آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
دین کے جامع تصور میں زندگی کے تمام دائروں میں اسلام پر عمل درآمد کا مطالبہ ہے۔ اسلام کو بطور روحانی نظام، بطور عائلی و معاشرتی نظام ، قانونی نظام، معاشی نظام، سیاسی نظام اور بین الاقوامی نظام سمجھنا اور سمجھانا ایک داعیہ کی اہم ذمہ داری ہے۔چنانچہ ایک داعیہ کو اپنے مخاطبین دعوت کے لیے ترتیب وار اور حکمت پر مبنی طریقے سے ان تمام پہلوئوں سے دین کی تعلیمات کو موضوع گفتگو بنانا ہو گا۔ ایمانیات اور عبادات پر کماحقہ راہنمائی کے ساتھ ساتھ عائلی اور معاشرتی دائروں میں___ گھریلو اور خاندانی زندگی کے حُسن انتظام، رشتہ داروں کے حقوق کی ادایگی، قوانین نکاح و طلاق اور وراثت، معاشرتی زندگی میں مسلموں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کا نبھائو، مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کے حوالے سے تعلیمات وقوانین، اسلامی معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، مسلم معاشروں میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ۔ ماحولیات کے ساتھ انسان کا تعلق، حیوانات ، نباتات، جمادات اور آبی ذخائر کے حوالے سے ہدایات، گھر کے ساتھ محلّہ ، سڑکوں ، باغات اور دیگر عوامی جگہوں پر صفائی کا خیال ۔ شہری املاک کی حفاظت، قانون کی پاسداری، مساجد کا احترام اور دیکھ بھال، رواداری، دہشت گردی___ ان تمام اُمور کو اسلام کے تحت موضوعِ گفتگو ہونا چاہیے۔ معاشی دائرے میں حلا ل وحرام، آمدنی کا فرق، کسب مال کی ترغیب، زائد از ضرورت مال اور محروم طبقات کے حقوق، زکوٰۃ اور صدقات، ریاست کے ذرائع آمدن، سود، اسلامی بنکاری، کاروبار کے اصول و ضوابط تمام موضوعات پر انسان الہامی ہدایت کا محتاج ہے۔ قانونی دائرے میں اسلام کے عائلی، دیوانی اور فوجداری قوانین، قانون سازی کے اختیارات، اسلامی قانون کے ذرائع، قوانین کے نفاذ کی شکلیں، ان تمام اہم موضوعات کی تفاصیل قرآن وحدیث اور فقہ میں موجود ہیں جو عوام الناس تک منتقل ہونا از حد ضروری ہے۔
سیاسی نظام کے دائرے میں حاکمیت اعلیٰ، یعنی حاکمیت الٰہی کا تصور ، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نیابت،خلیفۃ اللہ فی الارض کی حیثیت میں اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے ذمہ دار کی حیثیت میں سیاسی نظام کی بنیادیں، منصب خلافت یا امارت، شورائیت، مقتدر طبقے کے فرائض، اقتدار کے ذریعے دین الٰہی کا نفاذ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ، فلاحی ریاست کا قیام، ان تمام اُمور کی تفاصیل کو سمجھے بغیر ایک انسان کس طرح اسلام کو بطور نظام حیات سمجھ اور مان سکتا ہے۔
بین الاقوامی نظام کے تحت ایک مسلم ریاست کا دیگر ممالک سے روابط و تعلقات کی بنیادیں، غیر جانب دار اور بر سرِپیکار قوتوں کے ساتھ تعلق، بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق کی پاس داری، عالمی قوانین کے اختیار کرنے میں امکانات اور رکاوٹیں، جنگ اور جنگی قیدیوں کے حوالے سے تعلیمات___ یہ تمام وہ موضوعات ہیں جو اکیسویں صدی میں اسلامی ریاست کے خدوخال سمجھنے اور اس کے قابل عمل ہونے پر اعتماد عطا کریں گے۔
دعوت الی اللہ انسانوں کی فکری وعملی اصلاح کا وسیع کام ہے۔ یہ اہل خانہ کے اندرونی دائرے سے شروع ہو کر ، خاندان ، محلّہ ، شہر، ملک، تمام عالم اور نوع انسانی تک پھیلنے کا عمل ہے۔ دعوت کے مخاطب وہ لوگ بھی ہیں جو اسلام کو ماننے کے باوجو د اس کی تعلیمات سے بے خبر ہیں یا جانتے بوجھتے اس پر عمل کے لیے تیار نہیں ہیں، اور وہ لوگ بھی جو اسلام کے دائرے میں داخل نہیں ہیں اور اسے قبو ل کرنا بھی نہیں چاہتے۔ اس وسیع میدان میں اپنے حصے کی ادایگی میں داعیات کو ایک خاص ترتیب ملحوظ رکھنا ہو گی جو اس کام میںحسن اوراستحکام پیدا کرے گی۔ بصورت دیگر انسان بعد میں پہنچنے والے میدان میں پہلے سے محنت کر رہا ہو گا اور ابتدائی دائرہ اس کی نگاہوں سے اوجھل رہ جائے گا ۔ یہ بے تربیتی دعوت کے کام میں عدم توازن کے ساتھ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے گی۔
یقینا ہمارے اہل خانہ سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں دین کی حقیقت سمجھائی جائے، اللہ سے محبت اور اس کے تقاضے واضح کیے جائیں۔ داعیہ کو گھر اور بچوں کے حوالے سے ایک راعی، یعنی نگران کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور وہ اس بارے میں مسئول ہوگی۔ البتہ شوہر قوام کی ذمہ داری کی بنا پر تمام اہل خانہ بشمول بیوی اور بچوں کے لیے مسئول ہے، جب کہ خاتونِ خانہ کی مسئولیت میں شوہر کی ذمہ داری شامل نہیں ہے۔ تاہم شوہر سے محبت اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر وہ دین کی بنیادوں اور جزئیات سے ناواقف ہے تو پیار و محبت اور حکمت سے اس تک بھی دین کی دعوت پہنچائی جائے اور اصلاح طلب امور میں اصلاح کا راستہ سمجھایا جائے۔ فرمان الٰہی ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (التحریم ۶۶:۶)،مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش(جہنم) سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں۔ جوارشاد اللہ ان کو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
اس ارشاد میں قطع نظر مردوعورت کے اپنے گھر والوں کو اللہ کی ناراضگی اور اس کے انجام سے بچانے کی فکر کرنے کو کہا گیا ہے۔ ایک داعیہ اگر اپنے گھر کو اپنی دعوت کا پہلا میدان قرار دیتے ہوئے اس منزل کو سر کرے گی تو شوہر ، بچوں اور دیگر اہل خانہ کا تعاون اس کے لیے اگلی منزلوں کو حاصل کرنے میں ممدومعاون بن جائے گا۔ جو داعیات اپنے گھر کی اصلاح کو اہمیت نہیں دیتیں یا بوجوہ نظر انداز کرتی ہیں تو ان کے لیے شوہر اور بچے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
اپنے گھر کی اصلاح کے ساتھ داعیات کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اس دائرے کو وسیع کرتے ہوئے خاندان اور برادری کے بڑے دائرے تک اپنی دعوت کو پھیلا ئیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، خالہ پھوپھی، چچا ماموں، بھانجے بھانجیاں، یہ سب عزیز رشتے تمام انسانوں کی بہ نسبت ہماری توجہ کے زیادہ حقدار ہیں ۔ حکم ربانی ہے :وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(الشعرا ۲۶: ۲۱۴)، اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو [یعنی، ڈرائو]۔
خاندانی زندگی میں تانے بانے یوں جڑے رہتے ہیں کہ قدم قدم پر دوسرے کے محتاج اور تعاون کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ اس میل ملاپ میں ہمیں خوشیاں بھی حا صل ہوتی ہیں اور یہی تعلقات ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ داعیات کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے کہ خاندان میں دینی اقدار کے فروغ سے خاندانی تعلقات کو استوار رکھنا بھی آسان ہو گا اور دعوت دین کی راہ میں ان کی حمایت اور تعاون بھی حاصل ہو سکتا ہے۔خاندان میں دعوت کے کام سے غفلت ہمیں دوسروں کی نگاہ میں بھی غیر معتبر بنانے کا باعث ہو گی اور اللہ کے ہاں گرفت کی بھی۔
گھر اور خاندان کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے اس علاقے یا محلے میں دعوت دین کا کام آپ کی ذمہ داری ہے جہاں آ پ رہتی ہیں ۔یہ ذمہ داری والدین کے گھر ر ہتے ہوئے بھی ادا ہوسکتی ہے جہاں آپ پلی بڑھی ہیں اور شادی کے بعد سسرال میں یا جہاں شوہر رہایش پذیر ہیں ۔
اسلام میں ہمسایوں کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی ہے ۔پڑوس کوچار اطراف۴۰ گھروں تک محیط قرار دیا گیا ہے۔ دیوار برابر پڑوسی کے اور بھی زیادہ حقوق بتائے گئے ہیں ۔منجملہ حقوق کی ادایگی یا حسن سلوک میں اﷲکے راستے کی طرف دعو ت دینا ،قرآن سے تعلق جوڑنا، اﷲاور اس کے رسول کی اطاعت کی طرف راہنمائی کرنا دیگر دینی و دنیاوی معاملات میں اﷲکی رضا کا راستہ واضح کرنے کے لیے انھی کے درمیان رہنے والافرد بہت مؤثر ہو سکتا ہے ۔ ایک داعیہ کو اپنے ہمسایوںکے درمیان محبت سے میل ملاقات،ان کی خوشیوں اورغموں میں شرکت ،تحفہ و تحائف کا لین دین دعوت کے بے شمار مواقع فراہم کرتاہے۔ اپنے سماجی تعلقات کے دوران موقع کی مناسبت سے قرآن کے احکامات پہنچانا ،دینی کتب کی فراہمی ،دعا کا اہتمام یا باہم گفتگو میں دین کے مبادیات و جزئیات کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے اہل محلہ کو اﷲ کے قریب لانے کی کوشش ضروربار آور ہوں گی ۔
ایسی داعیات جو کسی ادارے میں ملازمت کرتی ہوں ان کے رفقاے کار بھی ان کے لیے کسی قدر اہل خاندان اور اہل محّلہ کے زمرے میں شا مل ہوں گے ۔ملازمت کے میدان میں ماتحت خواتین اسی طرح آپ کی رعیت میں شمار ہوں گی جس طرح گھرپر بچے اور ماتحت افراد ہوتے ہیں۔ ان پر ایک درجہ احکامی فوقیت ہونے کے ناطے آپ پر لازم ہے کہ دیگر دفتری احکام کے ساتھ ان کی توجہ اسلام کے تقاضے پورے کرنے پر بھی دلوائیں دیگر ساتھیوں کو بھی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ اﷲکی طرف دعوت دین کی متبادل تعلیمات کے ساتھ ساتھ ملازمت کے دوران مطلوب رویوں پر توجہ دلوانا بھی دعوت کے کام کا حصہ ہے ۔مثلاً رزق حلال کی اہمیت ، وقت کی پابندی اور ادارے میں ملازمت کے اوقات کار کی پابندی کارزق حلال کے حصول سے تعلق ،دفتری امور کی ذمہ داری سے ادایگی ،ادارے کے وسائل کو امانت سمجھتے ہوئے استعمال کرنا ،دفتری رفقا کے ساتھ حسن سلوک اور خیرخواہی کی تاکید ،دفتری سیاست اور توڑ جوڑ کی کوششوں سے اجتناب وغیرہ۔
اب تک جن معاشرتی دائروں میں دعوت واصلاح کے کام کا ذکر کیاگیا ہے وہاں آپ سب کو براہ راست جانتی اور پہچانتی ہیں اور آپ کے مخاطین بھی آپ کو ذاتی حیثیت میں جانتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر آپ کے شہر و وطن کی وسیع اجتماعیت اس بات کی متقاضی ہے کہ آپ اپنے فہم و ادراک اور علم کے بقدر اپنے ملک کی وسعتوں تک اﷲ کا پیغام پہنچائیں ۔آپ کے مخاطبین کا دائرہ جتنا وسیع ہوتاجائے گا آپ کو دعوت کے اسلوب میں بھی اسی مناسبت سے وسعت پیدا کرنا ہوگی۔ گفتگو اورتقریر سے آگے بڑھ کے تحریری اور تحقیقی اسلوب کا بھی سہارا لینا ہوگا ۔دوسروں کی لکھی ہوئی تحاریر کو استعمال کریں یا خود لکھیں اور لٹریچر تقسیم کر یں ۔
انفرادی اور اجتماعی سطح پر افراد اور اداروں نے جو دعوتی مواد ترتیب دیا ہے اس سے فائد ہ اٹھائیں۔ مذہبی اعتبار سے اہم مواقع، مثلاً رمضان المبارک ،قربانی ،عیدین ،محرم الحرام ،ربیع الاوّل، رجب ،شعبان صحابہ کرامؓ کی شہادت کی تواریخ ، امہات المومنینؓ اور بنات مطہراتؓ کی تاریخ پیدایش و و فات و دیگر اہم دنوں کو اپنی دعوت کے لیے اہم مواقع تصور کریں۔ان مواقع کے حسا ب سے خصوصی طور پر لٹریچر اکٹھا کر کے ایک فائل بنائیں ،اپنے گذشتہ دروس کو ایک جگہ جمع رکھیں تاکہ برمحل کام آسکیں۔اسی طرح ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے اہم ایاّم مثلاً یومِ آزادی، یومِ قراردادِ پاکستان ،یوم قائد اعظم ،یوم اقبال ،۶ ستمبر ،یوم تکبیر ،یوم مزدور ،یوم خواتین، یومِ اطفال و دیگر مواقع پر موقع کی مناسبت سے اسلام کا پیغام ،وسیع تراجتماعیت میں پہنچائیے۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے اخبارات ،جرائد و رسائل ،ریڈیو اور ٹی وی کو عوام الناس تک پیغامِ حق پہنچانے اور منکرات کی اصلاح کے لیے ذریعہ بنائیے ۔
مسلمانوںکے درمیاں تبلیغ و دعوت اور اصلاح معاشرہ کی کوشش ایک داعی اور داعیہ کے لیے اگر ایک جہت ہے تو دوسری جہت غیر مسلم دنیا کے سامنے اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔اس حوالے سے آپ کے مخاطبین دنیا کے تین سے چار ارب غیر مسلم افراد ہوں گے اور ان میں سے اگر خواتین کو مرکزو محور بنایا جائے تو نصف تعداد۔آپ اس میدان میں قدم رکھیں گی تو یہ اتنا وسیع میدان ہے کہ جب تک آپ میں قوت عمل اور آپ کی مہلت عمل باقی ہے، آپ کام کے نہ ہونے کی شکایت نہیں کر سکتیں۔
دعوت کے اس میدان میں اترنے کے لیے ایک داعیہ کو اپنے علم اور فہم کو بے انتہا وسعت دینا ہو گی۔قدیم وجدیدنظریات سے واقفیت ، مختلف مذاہب کا تعارف اور ان کے مابین انسانوں کے مختلف گروہوں کے مقام و مرتبہ کا تعین، انسانی حقوق کے نظریات اور ان کی پاس داری، اسلام مخالف افکار اور رویوں کی پہچان اور ان کا رد، مستشر قین اور ان کی فکر و تحریر سے واقفیت ، اسلام مخالف پروپیگنڈے کے طریقوں اور ذرائع کا استحضار اس میدان عمل کے لوازم ہیں۔ سوچ لیجیے کہ اس ضروری مہم کے لیے کیسے سرمایے کی ضرورت ہو گی؟
غیر مسلموں کو دعوت حق کے خوشگوار نتیجے کے طور پرایک اور میدان آپ کے سامنے آئے گا جو کہ راہ حق کو قبول کر کے آزمایشوں میں کود جانے والے افراد کی صورت میں ہوگا۔ آپ کے لیے ان نو مسلم خواتین کو دین کی بنیادی تعلیمات سمجھانے، احکامات پر عمل سکھانے، قرآنی دعائوں کے پڑھنے اور یاد کروانے کے ساتھ انھیں اپنے ماضی سے کٹ کر نئی اجتماعیت میں ضم ہونے کا حوصلہ بھی دینا ہو گا۔ انھیں ایک خاندان اور معاشرت میں اجنبیت کے احساس سے بچانے اور زندگی کے عملی مسائل میں تعاون پیش کرنے کا فریضہ بھی ایک داعیہ کی ذمہ داری ہو گا۔ اسلام آباد میں ایک ایسی ہی با ہمت نو مسلم داعیہ نے ’نیومسلمات کلب‘ کے عنوان سے نو مسلم خواتین کے لیے فورم قائم کررکھا ہے جو نو مسلمات کی دینی و دنیوی ضروریا ت کو پورا کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔
lمؤثر طبقات:داعیات دین کے لیے ایک اہم سوچ یہ ہونی چاہیے کہ تبلیغ میں اوّل مخاطب و ہ طبقات ہوں جن کے افکار ونظریات کی قیادت میں معاشرے کا نظام چل رہا ہے۔ درحقیقت معاشرے کے ذہین ، مقتدراور مؤثر طبقے ہی عوام الناس کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہی معاشرے کے طرزِ فکروعمل کی تشکیل کرتے ہیں۔ان کی اصلاح ہو جائے تو سارا نظام خود بخود راہ راست پر آجاتا ہے اور بصورت دیگر نیچے کے طبقات میں ہونے والی اصلاح بھی عارضی ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال قلب اور اعضا و جوارح کے مابین تعلق سے سمجھی جا سکتی ہے۔ اگر دل کمزور ہو تو اعضا وجوارح پر کوئی عمل جسم کو طاقت نہیں پہنچا سکتا۔
انبیاے کرام کی دعوت میں بھی ہمیں اس پہلو سے راہنمائی ملتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ پہلے سوسائٹی کے مقتدر ، باحیثیت اور فرماںروائی کے حامل طبقات کو مخاطب کیا۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ آزر کو ، جو کہ مذہبی رہنماتھے ، وحدانیت کی دعوت دی ۔ حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کی طرف بھیجا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے معزز افراد کو اپنی اولین دعوت کا ہدف بنایا۔
جامعات سے وابستہ مدرسات اور دیگر داعیات کا دائرہ کار ، عموماً معاشرے کی کم پڑھی لکھی اور معاشرتی طور پر غیر مؤثر خواتین اور بچیوں تک محدود رہتا ہے۔ سیاسی طور پر مؤثر سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں موجود خواتین ، اہم حکومتی مناصب پر فائز خواتین ، ججوں، وکلا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ خواتین ، ڈاکٹر وں، غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) سے وابستہ خواتین، تعلیمی میدان میں یونی ورسٹی، کالج اور سکول کی منتظم اعلیٰ، انتظامیہ اور خواتین اساتذہ ، فوجی اور سول اعلیٰ افسران کی بیگمات تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچانا اگر داعیات دین کی فہرست اور توجہ سے خارج ہے تو حقیقتاً معاشرے میں تبدیلی کے خواب دیکھنا محض شیخ چلیّ کے خواب ثابت ہوں گے۔
داعیاتِ دین کے لیے انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ وہ مائوں میں شعور بیدار کریں کہ ان کے ذمے بچوں کو محض لذیذ اور انواع و اقسام کے کھانے کھلانا، خوش نما لباس پہنانا اور مروّجہ تعلیمی نظام کے تحت تعلیم کے مراحل مکمل کروانا نہیں ہے، بلکہ بچوں کی جسمانی، ذہنی، فکری ، جذباتی، نفسیاتی ، روحانی اور دینی تربیت کی مکمل ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تربیت کے ان مراحل میں والدین کی مسلمہ حیثیت کے حوالے سے والدکے کردار کو روشناس کروانا بھی بالواسطہ داعیات کی ذمہ داری ہے۔
بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو جاں گزیں کرنا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے متعارف کروانا، آپؐ کی محبت اور ا تباع سکھانا ، نماز اور روزے کا عادی بنانا، اخلاقِ حسنہ، مثلاً سچائی ، غنا، بہادری ، حیا کو ان کے کردار کا حصہ بنانا، نیز اخلاقِ سیئہ، مثلاً: جھوٹ ، چوری ، بزدلی،بے حیائی، خودغرضی، غیبت وغیرہ سے بیزاری پیدا کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا حصہ نہ بننے دینا۔ اسی طرح ماں باپ کے ادب و محبت کے ساتھ اساتذہ کی عزت اور محبت سکھانا، بہن بھائیوں سے محبت کے رویوں کو سکول کے دوستوں اور پھر معاشرے کے دیگر روابط میں بروے کار لانا، جنت کا واضح نقشہ اور چاہت دل میں رکھتے ہوئے زندگی بھر اس کے حصول کے لیے کوشاں رہنے کی خواہش پیدا کرنا، ان تمام پہلوئوں سے واعیات دین کو گھروں میں رہنے والی یا ملازمت کرنے والی مائوں کو متوجہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ بچوں کو نقصان پہنچانے والے مادی ، جذباتی، روحانی ، نفسیاتی اور فکری افکار و اعمال سے ممکنہ حد تک بچانے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔
عصر حاضر میں خواتین سے متعلق مباحث خصوصی اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ مشرق ومغرب میں عورت کے حوالے سے صنفی امتیاز ، ناروا سلوک اور رسوم و رواج پر مبنی رویوں کے خلاف قانون سازی اور حکومتی اصلاحی اقدامات رُ وبہ عمل ہیں ۔ اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ اور حقوق اور فرائض واضح ہیں ۔ مرد وخواتین کے بحیثیت انسان ایک جیسے معاشرتی اور قانونی حقوق ہیں۔ البتہ اسلام میں فرائض کا دائرہ کار مرد اور خواتین کے لیے قدرے مختلف ہے ۔ دو ایک جیسے انسانی حقوق کی حامل اصناف مرد اور خواتین جب نکاح کے ذریعے ازدواجی بندھن میں بندھتے ہیں تو دونوں کے وجود سے ایک ادارہ ( خاندان ) وجود میں آتا ہے، جس کے تحت دونوں ذمہ دار ہستیاں اپنے ذمے متعین فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔اسی طرح معاشی زندگی میں بھی جدوجہد کا بنیادی میدان مردوں کے ذمے لگایا گیا تھا کیونکہ گھریلو ادارے کے حوالے سے کمانے کی ذمہ داری اور بیرونی کام اس کے ذمے تھے ۔البتہ خواتین کو علمی اور تہذیبی اعتبار سے اپنی نشوونما اور معاشرے کی تعمیر واصلاح میں اپنا حصہ ڈالنے پر کوئی پا بندی نہیں لگائی گئی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدلتے ہوئے عصری تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے معاشرے کے مختلف میدانوں،مثلاً تعلیم، طب، سماجی بہبود اور دیگر میںخواتین کی موجودگی لازمی ٹھیری۔
داعیات دین کو عورت اور خاندان کے حوالے سے اسلام کا بنیادی فلسفہ اور تعلیمات کا بہت واضح طور پر اِدراک اور استحضار ہونا چاہیے ۔اس حوالے سے مدلّل راہنمائی فراہم کرنے کے لیے ایک داعیہ کو مغرب کی عورت کا اپنے حقوق ومقام کے حصول کے لیے جدوجہد، اور اس راہ میں گمراہی، فکری کجی اور مغالطوں کا بھی علم ہونا چاہیے اور اسلام میں عورت کے مقام و مرتبہ اور حقوق و فرائض سے بھی کما حقہ آگاہی ہونی چاہیے ۔
بعینہٖ مغربی دنیامیںاقوام متحدہ کے زیر نگرانی خواتین کے حقوق کی عالمی جدوجہد کے آغاز ، اُتار چڑھائو ، امکانات، کامیابیوں ، مسائل، مسلم فلسفہ و فکر اور قانون سے تصادم ودیگر کا علم ہونا بھی ازحد ضروری ہے۔ اس طرح ایک مسلم داعیہ مسلم معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے اسلام کے تناظر میں جدوجہد جاری رکھ سکے گی اور عالمی ایجنڈے کے تحت ہونے والے اقدامات میں سے مثبت کو اپنانے اور منفی یا اسلامی فکر اور قانون سے متصادم کو رد کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہوگی اور اس حوالے سے طالبات ، خو اتین اور عوام الناس کی راہنمائی مؤثر طور پر کر سکے گی۔ مزیدبرآں عالمی سطح پر خواتین کے حقوق اور دیگر انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہد کے چند ایسے منفی پہلو ہیں جن کے آگے بند باندھنے کی کوشش وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ ان کا سیلاب تہذیبی ورثے کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ ان میں بنیادی طور پر نکاح کے بغیر ازدواجی اور خاندانی تعلقات کا فروغ ، ہم جنس پرستی اور ہم جنس افراد کی شادی، برہنگی کا حق، سیکس ورکر کے نام پر طوائفیت کو تحفظ اور فروغ، اسقاط حمل کا قانونی حق وغیرہ شامل ہیں۔ ان مباحث کے بارے میں بنیادی معلومات کا حصول، اسلام کا نقطہ نظر، علما کی راے، بین الاقوامی اور ملکی قوانین کا علم ایک داعیہ کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہر انسان کاامتحان اور میدانِ امتحان دنیا میں اس کی مہلت عمل کے ساتھ منسلک ہے ۔دنیا کے ا سٹیج ڈرامے میں ہر کردار اپنے متعین وقت پر داخل ہوتا اور ایک متعین وقت پر پردۂ اسکرین سے اوجھل ہوجاتاہے ۔ابتداے آفرینش سے تاحال دنیا جغرافیائی،طبعی، تاریخی ،سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے ۔ایک داعی دین مختلف پہلووں سے اپنے عصری تقاضوں سے غافل اور بے پرواہ رہتے ہوئے مؤثر نتائج حاصل نہیں کرسکتا۔یقینا آج کی داعیہ کے لیے بھی یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
آج کا دور زمانی اعتبار سے اکیسویں صدی ،مکانی اعتبار سے گلوبل ویلج ،تکینکی اعتبار سے انفارمیشن اور پوسٹ انفارمیشن دور ، تعلیمی اعتبار سے تحضّص،معاشی اعتبار سے صنعت سازی اور مادّیت پسندی، سیاسی اعتبار سے جمہوریت اور تہذبیی اعتبار سے عالمی یلغار اور استعمار کا دور ہے۔ چنانچہ داعیات دین کو زندگی کی حقیقت اور فلسفہ ، عقائد و نظریات، توحید ،آخرت کی جواب دہی، اخلاقیات کی بار آوری ، مفسدات کی بیخ کنی کے لیے ان تمام پہلوئوں سے امکانات ،مسائل، اور رکاوٹوں کو ذہن میں رکھتے ہوے دعوت الی اﷲکا فریضہ سر انجام دینا ہوگا ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا اِدراک بھی بہت ضروری ہے کہ مسلم دنیا کی حقیقت اس حوالے سے کیا ہے؟ یعنی اسلام کی تعلیمات اور مسلم معاشروں کی صورت حال کی خلیج کے بارے جاننا اور ماننا بہت ضروری ہے۔ معاشرے اور گھر میں خواتین کو ان کا جائز مقام نہ دینا ، مردوں کی طرف سے کفالت کی ذمہ داری کی عدم ادایگی، گھریلو تشدد اور ناروا سلوک، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، قرآن سے شادی ، وراثت کی عدم ادایگی، جنسی سراسیمگی اور زنا بالجبر وغیرہ مسلم معاشروں میں منفی رویوں اور رواج کی واضح صورتیں ہیں۔
دین کی دعوت دینے والے دیگر افراد جن کا تعلق خواہ کسی کی اپنی اختیار کردہ اجتماعیت سے ہو یا دوسرے گروہ سے، ان سے اخوت ومحبت کا تعلق رکھنا، دعوت دین کے لیے اپنے منصوبوں اور کاموں کی مناسب منصوبہ بندی کرنا، ان کا جائزہ لینا، کاموں کو نظم وترتیب سے انجام دینا، مشاورت کا اہتمام کرنا، صبر و استقامت کا رویّہ اختیار کرنا، دعوت کے مراحل اور تخاطب میں حکمت کا لحاظ رکھنا، مخاطبین کے ساتھ تخاطب اور معاملات میں حسن اخلاق کا پیش نظر رکھنا، تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا، مخاطبین کی تذلیل واہانت سے حتی الامکان بچنا، دعوت کے کام میں نمود و نمایش ، کبر و غروراور ریا سے بچنے کا خصوصی اہتمام کرنا، ضعفِ ارادہ کا شکار نہ ہونا اور شیطان کی اُکساہٹوں سے چوکنا رہنا، نیت کو بار بار اللہ کے لیے خالص کرنا اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائوں کا طلب گار رہنا___ یہ تمام وہ بنیادی اوصاف ہیں جو داعیات دین کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گے۔
مقالہ نگار انچارج دعوۃ مرکز براے خواتین ، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد - جنرل سیکرٹری ویمن ایڈ ٹرسٹ پاکستان ، صدر پاکستان برانچ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ہیں
جسمانی، نفسیاتی اور اجتماعی پہلوئوں سے انسان کا سلامت ہونا، یعنی بیماری اور معذوری کا نہ ہونا صحت ہے ۔تندرستی در اصل، بدن میں ہر چیز کے توازن کا نام ہے ۔ صحت کی حفاظت اور اس میں ترقی کی تدابیراور بیماری کا علاج خود صحت کے لیے بہت ضروری ہے ۔ابن رشد، عضو کے طبعی عمل کے انجام دینے اور طبعی اثر کو قبول کرنے کو صحت کہتے ہیں۔ ابن نفیس کا کہنا ہے کہ بدن درست اعمال انجام دے، یہ صحت ہے ۔
اعتدال صحت کی بنیاد ہے ۔ بدن اور جسم میں پائے جانے والے عناصر دراصل خوراک میں جو اجزا نمکیات، لحمیات ، چکنائی اور نشاستہ شامل ہیں، ان کا اعتدال اور توازن صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے۔ سورۂ رحمن میں ہے:اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِo(۵۵:۸) ’’میزان میں خلل نہ ڈالو‘‘۔ گویا توازن کو خراب مت کرو۔ جسم کا ہر ذرہ کائنات کے توازن کے لیے اساس ہے۔ سورئہ انفطار میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo(۸۲:۷) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے تجھ کو بنایا، برابر کیا اور اعتدال عطا کیا‘‘۔ سورۃ التین میں ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (۹۵:۴) ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر تخلیق کیا‘‘۔ سورئہ شمس میں آتا ہے : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o (۹۱:۷) ’’جان کی قسم ہے اور اسے تناسب دینے والے کی قسم‘‘۔ سورئہ بقرہ میں قیادت کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ طالوت اس لیے چُنا گیا ہے کہ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ط (۲:۲۴۷)، یعنی وہ تم پر علمی اور جسمانی فضلیت رکھتا ہے۔ ابن سینا فرماتے ہیں اعتدال انسان کی اس طبعی حالت کا نام ہے جو دوحدوں کے درمیان (افراط و تفریط) کا شکار نہ ہو (کتاب القانون،ص ۴)۔ حضوؐر نے قوی مومن کو ضعیف مومن سے افضل قرار دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے، حضوؐر نے فرمایاکہ اللہ سے عافیت مانگو کیونکہ ایمان کے بعد صحت اور عافیت سے بہتر کوئی چیز کسی کو نہیں ملی ۔(ابن ماجہ)
نبی کریمؐ نے بعض بیماریوں کا علاج بھی تجویز کیا ۔سنن ابوداؤد میں اسامہ بن شریکؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ علاج کرو ۔ ترمذی میں روایت ہے کہ ہاں، اے اللہ کے بندو علاج کرایا کرو۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری مگر اس کی شفا ضرور نازل کردی۔ جاننے والا اسے جان لیتا ہے اور جاہل اس سے بے خبر رہتا ہے ۔(مسند احمد)
امام ترمذی نے دوا اور پرہیزکے بارے میں ابو خزامہ ؓسے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: یہ بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے طاعون عمواس میں لشکر کے افراد کو وہیں پر بکھر جانے کے لیے تجویز دی اور فرمایا کہ ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی کی طرف ہی پلٹتے ہیں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ نہ بیمار وبا کی جگہ سے نکلے اور نہ کوئی وہاں داخل ہو۔آپؐ نے مریض کی عیادت کو واجب قرار دیا اور مرض پر صبر کرنے کی تلقین کی ۔مرض کی تکلیف پر گناہوں سے خلاصی کی بشارت دی اور مرض کی شفایابی کے لیے کئی قسم کی دعائیں سکھائیں۔
اہم ترین فکر زندگی کا توازن ہے، نیند میں، غذا میں، رویے میں، روش زندگی میں۔ سورئہ رحمن میں فرمایا گیا:’’آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو‘‘(۵۵:۷-۹)۔ سورئہ فرقان میں فرمایا: وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا (۲۵:۶۳)’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں‘‘۔ اسی طرح فرمایا: جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) ’’اور ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا‘‘۔ خرچ کرنے میں بھی حکم ہے: وَالَّذِیْنَ اِِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان ۲۵:۶۷) ’’اور جب (رحمن کے بندے ) خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی، ان کے درمیان رہتے ہیں‘‘۔ توازن اگر بگڑ جائے تو انسان بیمار ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک اہم پہلو متوازن غذا کا بھی ہے۔ نفسیاتی طور پر جذبات میں توازن خوف اور غصے کی حالت پر قابو پانا ہے۔ یہ بات قرآن بتاتا ہے کہ ایک فرد کی غیر متوازن زندگی پوری کائنات پر اثر انداز ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ انفرادی، خاندانی اور عائلی زندگی میں اس کے اثرات ہمیں نظر آتے ہیں لیکن بیمار شخص کے معاشرتی اور بین الاقوامی اثرات ہی نہیں بلکہ انسانی اور زمینی اثرات سے آگے بڑھ کر کائناتی اثرات ہیں۔
اسلام کا ایک اہم اصول لاضرر والاضرار ہے۔ انسان کے پاس اس کا اپنا بدن امانت ہے۔ اس کو نقصان پہنچانا اور دوسرے فرد کو یا معاشرے کو نقصان پہنچانا بھی جرم ہے۔ خود کشی اسی لیے حرام ہے۔ اپنا مال ضائع کرنا اور بُرے اعمال کے ذریعے اپنی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں۔ ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ’’ جس نے مومن کو نقصان پہنچایا، اس کے خلاف سازش کی، اس پر لعنت ہے ‘‘ (ابن ماجہ، ابوداؤد)۔ آپؐ کا ارشاد ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا اللہ تعالیٰ اس کو نقصان پہنچائے گا (ترمذی)۔ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ (النساء۴:۲۹) ’’تم اپنے آپ کو قتل مت کرو‘‘۔ (جان) ذات کا تحفظ فرض ہے۔ خاندان کے تحفظ کی بات بھی کی گئی ہے۔ تم میں بہتر وہ ہے جو اہل و عیال کے لیے بہتر ہے۔ عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے ،تیرے بچوں کا تجھ پر حق ہے۔ اس لیے حق دار کو اس کا حق دو۔ (بخاری)
اگر پرہیز اور امراض سے بچائو کے علاوہ حفظانِ صحت کے جو اصول اسلام اور طب میں مشترک ہیں، ان پر عمل کیا جائے تو عملی طورپر علاج کی نوبت ہی نہ آئے۔ حیرت ناک حد تک اسلامی تعلیمات واقعی زندگی بخش ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: دو ایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت ہے اور فرصت ہے (بخاری) ۔کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی۔ (ابن ماجہ)
حفظان صحت کے کچھ اصول ہیں: ۱- عادات ۲-جسمانی ساخت اور پرداخت ۳-ذہنی صحت ۴-معاشرتی صحت ۵-طبعی صحت ۶-لباس اور ماحولیاتی صحت ۔
خواہشات انسان کی زندگی کے پورے نظام کو بدل دیتی ہیں۔ مال و جاہ اور سیم و زر ان کے مختلف نام ہیں۔ منصب ،بیوی بچے اور اقتدار ان سب کی خواہش رہتی ہے لیکن یہ نعمت تب ہیں جب یہ ہدایت کے ساتھ ہوں۔ جذبات میں حسدسے پناہ کا سورئہ فلق میں ذکر آتا ہے کہ مجھے حسد کرنے والے کے شرسے محفوظ فرما۔ غصے کے لیے احکام ہیں: وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۴) ’’اور وہ اپنے غیظ و غضب پر قابو پاتے ہیں ‘‘۔
سکون اور طمانیت قلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد ۱۳:۲۸) ’’دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے‘‘۔ نفسیاتی امراض سے نجات کا ایک بڑا ذریعہ معاملات میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا ہے کہ مرض ، مالی یا جانی نقصان ،خوف ،بھوک میں انسان صبر کرے اور اللہ کا حکم اور اس کا فیصلہ قرار دے۔ لوگوں کے رویے انسان کو تکلیف دیتے ہیں۔ غلط رویوں کے لیے دین میں کوئی اجازت نہیں، مثلاً منافقت،تکبر، بے اعتنائی، نفرت، حسد، بُغض، تعصب ،تمسخر، مخالفت ،افتراق، ظلم، شک، بداخلاقی___ یہ تمام منفی رویے ہیں۔ سورۂ حجرات میں تمسخر، غیبت ،بدظنی ،تحقیر ،عیب جوئی کی حرمت کا حکم ہے۔ اسلام نظریاتی بھائی چارے کو قائم کرنے حکم دیتاہے اور تعصبات پر مبنی مملکتوںکے قیام کوانسانی حقوق کے خلاف قرار دیتا ہے۔
اسی طرح نشے سے بچنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنo (المائدہ ۵:۹۰) ’’شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔ شراب کوحرام قرار دیا گیا۔ چودہ سو سال بعد بھی اُ مت ان لعنتوں سے محفوظ ہے اور ان بیماریوں سے جو شراب نوشی اور نشوں سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہ تمام احکامات علاج نہیں، مرض سے بچنے کی اعلیٰ ترین تدابیر ہیں۔ اس لیے کہ مرض سے بچنے کی تدابیر بھی دین کا حصہ ہیں بلکہ ترجیحاً بہت اہم ہیں۔ درخت اور پودے لگانے کو صدقہ قرار دیاگیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو بنجر زمین کو آباد کرے وہ اس کی ہے۔ ترمذی کی ر وایت حضرت جابرؓ سے اور ابوداؤد میں بھی ہے جس نے بیری کاٹی (بلاجواز) اللہ اس کے سر کو دوزخ میں نیچا کرے گا ۔حضرت زبیرؓسے مسند احمد اور ابوداؤد میں روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: مرج وادی کا شکار اور پودے حرام ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو درخت لگارہا ہے اور دیکھے کہ قیامت آگئی ہے تو درخت لگادے۔ قرآن میں ماحول کو تباہ کرنے والا بڑا دشمن وہ ہے جو کھیتی اور جانوروں کو ہلاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو فساد پسند نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ’’جب اُسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۵)
اس طرح گھر کی صفائی، برتنوں کی صفائی اور گھر کے ماحول کی صفائی بھی فرض ہے۔ خوب صورت محل دیکھ کر ہی تو ملکہ سبا نے اسلام قبول کیا ۔ گھر کی تعمیر اور صفائی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس طرح کہ خانہ کعبہ کے لیے اللہ نے ابراہیم سے وعدہ لیا کہ ’’میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘۔(البقرہ۲:۱۲۵)
بدن، لباس، غذا اور ماحول کی صفائی کیوں ضروری ہے؟یہ واضح ہے کہ انسان کی کسی اہم ضرورت کی وجہ سے یہ احکامات دیے گئے ہیں۔ اب ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب صحت کے لیے علمِ فقہ میں اس بنیاد پر ہیں اور اولیت رکھتے ہیں کہ انسانی صحت کا دارومدار ان اہم اصولوں پر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے ،کہ صحت مقدم ہے، اور قیامت تک کے لیے صحت سے متعلق ایجادات، دوائیں، پرہیز یا شہروں کی منصوبہ بندی یا مملکتوں کے انتظامی ڈھانچوں کے جو بھی احکامات ہوں گے، ان کو مقاصد الشریعہ کے زمرے میں شامل رکھا جائے گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہواکہ پولیو کے قطرے بھی بیماری سے بچانے کے لیے ہیں۔ اس پر ان احکامات کا اطلاق ہوتا ہے ۔ ان سارے احکامات سے جب پتا چل گیا کہ انسانی زندگی کا تحفظ ہرچیز پر دینی لحاظ سے مقدم ہے، اور پھر زندگی کا انحصار صحت پر ہے، اور اللہ کو بھی قوی مومن پسند ہے تو پھر وہ ساری کاوش جو اس مقصد کے لیے ہو وہ باعث اجر و ثواب ہے۔
پوری دنیا سے پولیو ختم ہوگیا، سواے نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان کے۔ اس کام میں رکاوٹ وہ بہت سے معاشرتی، سیاسی، انتظامی اور مذہبی سوالات ہیں جن کے جوابات کی واقعی ضرورت ہے ۔ایک سوال یہ ہے کہ دنیا میں اتنے بہت امراض ہیں، اس ایک مرض کو ختم کرنے کے لیے امریکا اورپورا عالم کیوں کوشش کررہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے بچوں کو کسی ملک کی دشمنی یا اسلام دشمنی کی وجہ سے مرض کے حوالے کرنا خود ایک گناہ ہے۔ امریکا اور عالم کفر کی اسلام دشمنی میں کوئی شک نہیں۔ اپنے بچوں کو پولیو زدہ کرنے سے ہم بھی ان کی پالیسی کوا ختیار کرنے والے بن جائیں گے، حالانکہ اس کام کا اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ پولیو کے یہی قطرے ۵۳اسلامی ممالک میں استعمال کرکے ہی وہاں کے مسلمان ڈاکٹروں، علما اور حکمرانوں نے پولیو کا خاتمہ کیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے: ’’کسی قوم کی دشمنی تم کو عدل سے نہ ہٹا دے۔ خبردار عدل کرو اور تقویٰ کے قریب ترین چیز عدل ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ یہ بات بھی عام ہے کہ ان قطروں میں بانچھ پن کی دوا ہے۔ ان قطروں کی شیشی پر اجزا کے نام موجود نہیں۔ ہر دوا کی طرح اس پر زائدالمیعاد ہونے کی تاریخ درج نہیں۔ کراچی کے ایک مائیکرو بیالوجسٹ ڈاکٹر عدیل نے ان اعتراضات کا لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے جائزہ لیا اور علماے کرام کی موجودگی میں ان اعتراضات کو بے بنیاد ثابت کیا۔
اس مضمون میںعلما کے اسلام آباد ڈیکلریشن کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں راقم شریک تھا۔ اس ڈیکلریشن میں ڈرون حملوں کے سبب سے بے گناہ اورمعصوم بچوں کی شہادت کی مذمت جیسے اُمور پر بھی علما نے راے دی اور تین باتوں کو واضح کیا کہ پولیو کی ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے۔ تولیدی نظام کو نقصان پہنچانے والا کوئی جز اس میں شامل نہیں اور اس میں کوئی مضرصحت اور حرام چیز نہیں۔
مضمون نگار، نگران طبی فقہی بورڈ، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ہیں
’’ہمارا ملک مسلمان ہے، لیکن پابندیاں ایسی کہ غیرمسلموں کے ہاں بھی نہیں۔ ہمارے ہاں ۱۸برس سے کم عمر کا کوئی نوجوان مسجد میں نہیں جاسکتا۔ سرکاری اداروں یا تعلیم گاہوں میں نہ کوئی شخص چہرے پہ سنت نبویؐ سجاسکتا ہے، نہ کوئی خاتون یا بچی سرپہ اسکارف رکھ سکتی ہے۔ خواتین کو پردے کی آزادی ہے، لیکن صرف گھر کے اندر۔ گھروں میں ماں باپ بھی اپنے بچوں کو قرآن کریم یا دیگر دینی علوم کی تعلیم نہیں دے سکتے، اگر والدین اس ’جرم‘ کا ارتکاب کرتے پکڑے جائیں، تو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص اپنے گھر کے اندر یا مسجد کے علاوہ کہیں نماز ادا نہیں کرسکتا۔ ایسا ’سنگین جرم‘ بھی بھاری جرمانے کا موجب بنتا ہے‘‘___ شہروں میں نمازِ جمعہ کی اجازت ملنے کے لیے ۳۰ سے ۵۰ہزار تک اور دیہات میں ۱۰سے ۱۵ہزار تک نمازی دستیاب ہونے کا ثبوت ہو تو نمازِ جمعہ ادا ہوسکتی ہے وگرنہ نہیں۔ دینی مدارس پر پابندی ہے، صرف سرکاری طور پر رجسٹرڈ مدارس ہی متعین علوم پڑھا سکتے ہیں اور ۷۰اضلاع پر مشتمل ملک میں صرف ۱۷ رجسٹرڈ مدارس ہیں‘‘۔ تاجکستان میں تحریک نہضت کے صدر اور رکن اسمبلی محی الدین کبیری عالمی کانفرنس براے مسلم قائدین میں اپنا حال سنا رہے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ آج: حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، آزادیِ اظہار اور نہ جانے کن کن نعروں کا ورد کرنے والی دنیا میں ہورہا ہے۔
تاجکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام کے یہ مسلم رہنما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین ۲۵،۲۶ستمبر کو دو روزہ عالمی کانفرنس میں شریک تھے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان سیّد منورحسن کی دعوت پر مختصر وقت میں ۲۰ممالک سے ۴۰ سے زائد رہنما اور پارٹی سربراہ تشریف لائے اور اُمت محمدؐ کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہوئے، ان سے نکلنے کی راہیں تلاش کیں۔ بدقسمتی سے اُمت صرف مسائل ہی کا شکار نہیں، ایک دوسرے سے لاتعلق اور دُور بھی کردی گئی ہے۔ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے اسلام آباد سے صرف ۱۳۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی تقریباً اسلام آباد، کراچی جتنا، لیکن وہاں سے آنے والے مہمانوں نے بتایا کہ: ’’ہم تین روز میں لاہور پہنچے ہیں۔ دوشنبے سے کابل، کابل سے دبئی اور دبئی سے لاہور‘‘۔یہی حال موریتانیا سے تشریف لانے والے علامہ محمدالحسن الدیدو کا تھا۔ وہ دارالحکومت نواکشوط سے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم، وہاں سے استنبول، وہاں سے اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ علامہ محمدالحسن موریتانیا ہی نہیں، عالمِ عرب کے انتہائی قابلِ احترام عالمِ دین ہیں۔ قرآن کریم اور حدیث کے متون (texts)، پوری پوری اسناد کے ساتھ حفظ ہیں۔ یہ بھی بتادیتے ہیں کہ فلاں حدیث اس بندۂ فقیر نے اپنے استاد فلاں، انھوں نے فلاں اور انھوں نے فلاں سے سنی، یہاں تک کہ یہ سلسلہ خود رسول اکرمؐ تک پہنچ جاتا ہے۔ میرا مقصد کسی کی تعریف نہیں، یہ عرض کرنا ہے کہ اس کانفرنس میں کتنی اہم شخصیات، اپنے اخراجات پر، طویل سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائی تھیں۔
الاخوان المسلمون مصر کے رہنما آخری وقت تک ویزے کے لیے کوشاں رہے، لیکن انھیں ویزا ملا تو کانفرنس کا پہلا روز گزرجانے کے بعد۔ اسی طرح الاخوان المسلمون شام کے سربراہ بھی آخری لمحے تک ویزا حاصل نہ کر سکے۔ یہاں پر ہمیں یہ اعتراف بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے دیگر تمام مہمانوں کو ویزا دینے میں پورا تعاون کیا اور اکثر ویزے بلاتاخیر مل گئے۔
کانفرنس میں مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین، کشمیر، اراکان کے حالیہ بحرانوں کے علاوہ اُمت کو درپیش دیگر سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی چیلنجوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ امیرجماعت سیّدمنورحسن نے اپنے افتتاحی خطاب میں بنیادی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے مہمانوں کو دعوتِ مشاورت دی۔ الاخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید نے مصر کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’اگرچہ قتل و غارت اور گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں، لیکن باعث ِا طمینان امر یہ ہے کہ مصری عوام کی اکثریت نے اس انقلاب کو مسترد کردیا ہے۔ اب بھی روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ہفتے میں کم از کم دوبار ملک گیر مظاہرے ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے یونی ورسٹیاں کھل جانے کے بعد اس تحریک میں ایک نئی روح دوڑگئی ہے۔ حکومت نے جابرانہ آرڈی ننس جاری کرتے ہوئے کسی بھی طالب علم کو تعلیمی اداروں یا ہاسٹلوں سے بلانوٹس گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں، لیکن طلبہ خوف زدہ ہونے کے بجاے مزید فعال ہورہے ہیں۔
اخوان کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دینے اور تمام اثاثہ جات ضبط کرلینے کے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’اس سے پہلے بھی ۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۴ء بھی اخوان کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، لیکن الحمدللہ ان کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکی‘‘۔ جنرل سیسی کے مضحکہ خیز اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:’’عجیب منطق ہے۔ پہلے اخوان کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا، پھر اخوان کو کالعدم قرار دیا گیا اور اب ان گرفتارشدگان پر یہ مقدمات چلائے جارہے ہیں کہ ان کا تعلق ایک غیرقانونی تنظیم سے ہے‘‘۔
شام کی صورت حال پر بھی سب نے تفصیلی بات کی۔ ۱۹۷۰ء سے شامی عوام کی گردنوں پر مسلط اسدخاندان نے صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے گذشتہ پونے تین سال کے عرصے میں بچوں ، بوڑھوں اور خواتین سمیت ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد بے گناہ انسان تہِ تیغ کردیے ہیں۔ بظاہر شام کے مسئلے پر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف امریکا اور دوسری طرف روس کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن عملاً دونوں کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے شام کی مزید تباہی، اور شام کو اس کی قوت کے تمام مظاہر سے محروم کردینا۔ ۲۱؍اگست کو ڈکٹیٹر بشارالاسد کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور ڈیڑھ ہزار افراد کے قتلِ عام کے بعد، پورے خطے میں عالمی جنگ کا ایک ماحول بنا دیا گیا۔ امریکا اور روس بھی آمنے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوتے دکھائی دیے۔ پھر بالآخر جو مقاصد، امریکا جنگ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا، روس نے مذاکرات کے ذریعے حاصل کروا دیے اور اب اقوامِ متحدہ نے بھی کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ امریکی دھمکیوں کا مقصد بشار جیسے درندے کا خاتمہ نہیں، شام کو اس کی کیمیائی صلاحیتوں سے محروم کرنا تھا، کیونکہ اس سے صہیونی ریاست کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ شام کی صورت حال دنیا کے دوہرے معیار بھی مزید بے نقاب کررہی ہے۔ وہی دنیا جس نے ڈیڑھ ہزار افراد کے قتل کو بنیاد بناکر پورے خطے کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا، ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل پر صرف بیان بازی کررہی ہے۔ سنگین ترین بات یہ ہے کہ اس وقت یہی عالمی قوتیں شام کی تقسیم کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ جلد ہی ۱۹۱۶ء کے سایکس، پیکو (فرانسیسی اور برطانوی وزیرخارجہ) معاہدے کی طرح کیری،لافروف (امریکی اور روسی وزیرخارجہ) معاہدہ بھی مسلم خطے کو تقسیم کرتے ہوئے اسے تاریخ کا سیاہ باب بنادے ۔
تیونس سے تحریک نہضت کے بزرگ رہنما اور نائب صدر عبدالفتاح مورو اپنے وفد کے ساتھ شریک تھے۔ انھوں نے جہاں دعوت و تربیت کے میدان میں تحریکات کو درپیش مختلف چیلنجوں کا جائزہ لیا، وہیں تیونس کی منتخب حکومت ختم کرنے کے لیے اپوزیشن کی ماردھاڑ پر مبنی تحریک کا خلاصہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ: ’’گذشتہ چند ماہ میں مختلف اپوزیشن رہنمائوں کو قتل کرکے اس کی آڑ میں سیاسی بحران پیدا کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن صرف ۶۰ افراد پر مشتمل ہے، لیکن اپنی ہی برپا کی ہوئی اس قتل و غارت کو بنیاد بناکر اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے گذشتہ تقریباً دوماہ سے اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ دستور کا مسودہ بھی تقریباً تیار ہے، لیکن اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کے زیرسایہ حقیقی انتخاب ہوگئے، تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ مختلف وجوہ کی بنا پر تیونس میں فوجی انقلاب کا امکان تو ان شاء اللہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تحریک نہضت کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ شیخ راشد الغنوشی کی قیادت میں تحریک نہضت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات بھی کررہی ہے اور کوشش ہے کہ یا تو ریفرنڈم کے ذریعے بحران سے نکلا جائے یا پھر تحریکِ نہضت حکومت چھوڑ دے اور انتخابات کو ان کے نظام الاوقات کے مطابق اور منصفانہ بنانے کی بھرپور کوشش کرے‘‘۔
۷۲سالہ عبدالفتاح مورو نے ایک واقعہ سناکر تحریکات کو متوجہ کیا کہ ہمیں معاشرے کے کسی بھی فرد سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اس سے خیر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بتانے لگے کہ: ’’گذشتہ دور میں حکومت نے ہرطرف شراب نوشی اور فحاشی و تباہی کا دور دورہ کردیا۔ ہم ایک بار مسجد گئے تو وہاں ایک شرابی بھی صف میں آکر کھڑا ہوگیا۔ نشے میں دھت اور منہ سے بدبوکے بھبھکے… ہم نے کوشش کی کہ وہ مسجد سے نکل جائے تاکہ ہم سکون سے نماز ادا کرسکیں، لیکن وہ اڑ گیا کہ نہیں، میں نے بھی نماز پڑھنا ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ چلیں اسے چھوڑیں اور اس سے چند گز دُور جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ نماز شروع ہوئی، وہ نشئی بھی نماز پڑھنے لگا۔ ہم سب نے سلام پھیر لیا، لیکن وہ سجدے ہی میں پڑا رہا۔ معلوم ہوا کہ تیسری رکعت کے سجدے میں اس کی روح پرواز کرگئی تھی۔ ہم سب کے دل سے دعا نکلی کہ پروردگار اسے معاف فرما، آخری لمحے تو تیرے دربار میں حاضر ہوگیا تھا‘‘۔
بنگلہ دیش کے بارے میں بھی سب شرکا تشویش و الم کا شکار تھے۔ سب نے وہاں جاری مظالم اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر پوزیشن رہنمائوں کے خلاف سنائی جانے والی سزائوں کی مذمت کی۔ اب تک اس ضمن میں جو صداے احتجاج انھوںنے بلند کی تھی اس کے بارے میں بھی آگاہی دی اور آیندہ کے لیے حکمت عملی بھی۔ سب کو تشویش تھی کہ اگر حال ہی میں عبدالقادر مُلّا کی عمرقید کو سزاے موت میں بدلنے کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگیا، تو برادر اسلامی ملک میں بھڑکتی ہوئی احتجاجی آگ مزید پھیل جائے گی۔ یہ انتقامی سیاست نہ صرف ملک کو مزید بحرانوں کا شکار کردے گی، بلکہ قوم کو بھی مزید بُری طرح تقسیم کردے گی۔
کانفرنس میں اراکان [برما] کے بے نوا مسلمانوں کی زبوں حالی، اور یمن، صومالیہ اور پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں، مسئلۂ کشمیر، افغانستان و عراق پر امریکی قبضے اور تہذیبی یلغار کے حوالے سے بھی سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ امریکی استعماری قبضے کے خاتمے اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر بھی مفصل گفتگو ہوئی اور عبادت گاہوں اور معصوم شہریوں کو دھماکوں کا نشانہ بنانے پر بھی۔ اللہ تعالی کا انعام تھا کہ تمام تحریکات ان تمام موضوعات پر یک آواز اور یک سُو تھیں۔
افتتاحی خطابات اور پھر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی پہلا نکتہ یہی رکھا گیا کہ: ’’تمام اسلامی تحریکیں اپنے یومِ تاسیس ہی سے پُرامن جدوجہد پر استوار ہوئی تھیں۔ تقریباً ایک صدی کی جدوجہد کے دوران (اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی) اسلامی تحریکوں پر ابتلا و عذاب کے پہاڑ توڑے گئے، کالعدم قرار دیا گیا، پھانسیوں پر لٹکایا گیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھیں اسی پُرامن راستے سے ہٹایا نہیں جاسکا۔ آج مصر اور تیونس میں ان کی کامیابیوں پر ڈاکازنی کی کوششیں جاری ہیں۔ مصر میں خون کی ندیاں رواں ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود سب اسلامی تحریکیں اپنی پُرامن جدوجہد کے بارے میں مزید یک سُو ہوئی ہیں اور وہ اسی راہ پر چلتے رہنے کا عزم رکھتی ہیں‘‘۔
حماس کے سربراہ خالد مشعل کے خصوصی نمایندہ ڈاکٹر محمد نزال اور مقبوضہ کشمیر سے غلام محمد صفی اور قائم مقام امیرجماعت اسلامی آزاد کشمیر نورالباری کی موجودگی میں سب نے اس پر بھی اتفاق راے کا اظہار کیا کہ جہاں استعماری قوتیں قابض ہوں وہاں ہرممکن طریقے سے مزاحمت و جہاد، ان عوام کا قانونی و دینی فریضہ ہے۔ پوری اُمت کو ان کی مکمل پشتیبانی کرتے رہنا چاہیے۔
قیم جماعت لیاقت بلوچ نے کانفرنس کا اعلامیہ پڑھا۔ اس میں تمام نکات کا احاطہ کرلیا گیا اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اسلامی تحریکوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو یک جا اور یک جان کرنے کے لیے ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا، جو ان شاء اللہ مسلسل اور مستقل و مربوط مساعی منظم کرے گا۔
الحمدللہ! ملایشیا اور انڈونیشیا سے لے کر مراکش اور موریتانیا تک کی یہ تحریکیں جو کئی ممالک میں حکومتوں کا حصہ ہیں، اُمت اور بالخصوص پاکستان کی پشتی بان بن کر شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اسی جانب مراکش میں اسلامی تحریک کے سربراہ محمد الحمداوی نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ: ’’یہ صرف چند افراد کا اجتماع نہیں، یہاں آج گویا اُمت کے کروڑوں عوام جمع ہیں۔ میں مراکشی بھی ہوں اور اب خود کو پاکستانی بھی محسوس کر رہا ہوں‘‘۔
ہرحوالے سے اس کامیاب عالمی کانفرنس نے مصرو شام کے علاوہ بھی ہرجگہ مظلوم عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ تنہا نہیں، لیکن بدقسمتی اور ظلم کی انتہا دیکھیے کہ مصری اور بعض عرب ممالک کے میڈیا نے اس کانفرنس کے بارے میں وہ جھوٹ گھڑے کہ خود جھوٹ بھی ان سے پناہ مانگ رہا ہے۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو، جسے کئی عالمی ٹی وی چینلوں نے براہِ راست نشر کیا، مصری ذرائع ابلاغ نے ایک خفیہ کانفرنس بنادیا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کی کانفرنس کو اخوان کی ایک کانفرنس کہا، اور اسے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد کے خفیہ منصوبے بنانے کے لیے بلائی گئی کانفرنس قرار دے دیا۔ ایک چینل نے تو اسے پاکستانی حکومت و مقتدرہ کا شاخسانہ قرار دے دیا جو مصر میں مسلح تحریکیں برپا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی پوری عرب دنیا میں اُمت کی اس اہم کانفرنس کی خبر پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ اب اصل پیغام بھی مسلسل پہنچ رہا ہے۔
ظلم اور وہ بھی انصاف کے نام پر، ہمیشہ فسطائی اور ظالم قوتوں کا ہتھیار رہا ہے۔ جب ایسے ظلم کو میڈیا اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے تو پھر سوال اور جواب کی گنجایش کم ہی رہ جاتی ہے۔
ایسا ہی ظلم بنگلہ دیش میں ۶۵سالہ عبدالقادر مُلّا، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، جنھیں ۵فروری ۲۰۱۳ء کو قانون کی من مانی تاویل کرتے، من پسند عدالت سجاتے اور دفاع کے جائز حق سے محروم رکھتے ہوئے عمرقید سنائی گئی۔ وہ اس ظلم پر اپیل کے لیے سپریم کورٹ گئے، مگر ساڑھے سات ماہ تک بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عجیب و غریب تاریخ رقم کی۔ بنگلہ دیش کے معروف قانون دان محمد تاج الاسلام کے بقول: ’’جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ مگر یہ تماشا ہوا ہے۔
عبدالقادر مُلّا کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ جب ۱۹۷۱ء میں، دنیا بھر کی برادری میں ایک تسلیم شدہ ملک پاکستان کے مشرقی حصے میں ہندستانی فوج کی زیرنگرانی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مسلح کارروائیوں نے زورپکڑا، تب ملک توڑنے، بھارتی افواج کا ساتھ دینے، پُرامن شہریوں کو قتل کرنے اور قومی اِملاک کو تباہ کرنے والی مکتی باہنی کے مقابلے میں مسلح طور پر نہیں، بلکہ محض تبلیغ اور افہام و تفہیم کے ذریعے پُرامن رہنے اور شہری زندگی کو بحال کرنے کی جدوجہد میں عبدالقادر نے اپنی بساط کے مطابق کھلے عام رابطہ عوام مہم چلائی۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کا یہی ’جرم‘ آج ۴۲سال بعد ’جنگی جرم‘ بلکہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ بنا دیا گیا۔ عوامی لیگ نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے، ہندو آبادی کو خوش کرنے اور بھارت نواز سیکولر قوتوں سے تعاون لینے کی غرض سے اس مقدے بازی کا ڈراما رچایا۔
جوں ہی عبدالقادر مُلّا کو جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے سزاے عمر قید سنائی، حسینہ واجد سپریم کورٹ میں گئیں اور کہا:’’عبدالقادر کو عمرقید کے بجاے سزاے موت دی جائے‘‘۔ اور سیکولر لابی کے وہ کارکن جو سزاے موت کو ویسے ہی ختم کرنے کا علَم تھامے نظر آتے ہیں، وہ بھارتی سرکاری پشت پناہی (یہ الزام نہیں بلکہ اس بات کی گواہی بھارت کے معتبر اخبارات بھی پیش کرچکے ہیں) میں ’’عمرقید نہیں، سزاے موت چاہیے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ سڑکوں پر کیا آئے، خود حکومت کے اہل کاروں نے، عوامی لیگ کے عہدے داروں اور کابینہ میں بیٹھے وزیروں نے، اداکاروں اور گلوکاروں نے، پولیس کی حفاظت میں، اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پکنک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے شاہ باغ چوک کو سرکس کا گڑھ بنایا گیا، اور آخرکار ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو اپنی ’روشن دماغ‘ عدلیہ سے یہ فیصلہ لے لیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو سزاے موت دی جائے‘‘۔
برطانوی دارالامرا کے رکن لارڈ الیگزنڈ ر چارلس کارلائل نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء کو مسٹر ایچ ای ناوی پلے، ہائی کمشنر اقوام متحدہ براے انسانی حقوق، سوئٹزرلینڈ کے نام خط میں تحریر کیا:
میں نے برطانیہ کے کُل جماعتی گروپ براے انسانی حقوق کے رکن کی حیثیت سے ۷جون ۲۰۱۳ء کو آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی تھی کہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سخت ابتر ہے، اور یہ حالات روز بروز بدترین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر عرض کیا تھا کہ اس المیے کا سب سے بڑا محرک وہاں پر انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اور اس کی کارروائی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر آپ کے اس طرزِعمل پر حیرت ہوئی کہ آپ نے گذشتہ دنوںجنیوا میں خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بے حُرمتی کے مراکز کے طور پر شام، مصر اور عراق کا نام تو لیا، مگر عجیب بات ہے کہ انسانی حقوق کی ان قتل گاہوں میں آپ نے بنگلہ دیش کا نام نہیں لیا۔
[بنگلہ دیش کے] عام انتخابات سے صرف چند ماہ پیش تر ، یہاں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی یلغار کرنے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ جسے بڑھاوا دینے کے لیے اس حکومت کے قائم کردہ کرائمز ٹریبونل کے جانب دار اور سیاسی طور پر متحرک ججوں نے اپنے کھیل سے، بنگلہ دیشی معاشرے کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے۔ صفائی کے گواہوں کا اغوا اور دیگر غیرمہذب اقدامات نے عدالتی کارروائی جیسے جائز اور مقدس عمل کو تباہی سے دوچار کرا دیا ہے۔
جیساکہ میں نے اپنے جون کے خط میں آپ کو لکھا تھا کہ ’جرائم کے خلاف عالمی انصاف‘ کو لازماً جرائم کے خلاف محض قومی سطح پر دائرۂ سماعت میں نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ لازمی طور پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے معیارِ انصاف اور کارروائی کے عالمی معیار اور شفافیت کے مسلّمہ اصولوں پر بھی پورا اُترنا چاہیے۔ اس ضمن میں کسی بھی کم تر معیار کو اپنانے کا مطلب عدل و امن کے مجموعی ہدف کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہوگا۔
تاہم، اس ہفتے عبدالقادر مُلّا کے مقدمے میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فیصلے نے سخت پریشانی سے دوچار کیا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے گذشتہ عرصے میں دائر کی گئی درخواست پر ایک قدم آگے بڑھ کر عمرقید کو سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے اور اپیل کا حق بھی سلب کرلیا گیا ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے اقوام متحدہ کے گروپ براے ’من مانی نظربندی‘ کی گذشتہ برس کی اس رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، جس میں یہ بات واضح کی تھی کہ وہاں پر عالمی انصاف کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور اب اس فیصلے نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس سزا یافتہ قیدی کے نظرثانی کے حق اپیل کو سلب کرکے بین الاقوامی ضوابط کو روند ڈالا ہے، جس کی مذمت کرنا لازم ہے۔
میں عبدالقادر مُلّا کے اس فیصلے کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے اس تجزیے کی پُرزور تائید کرتا ہوں کہ:
Bangladesh: Death Sentence Violates Fair Trial Standards, 18th September (بنگلہ دیش میں ۱۸ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ مقدمات کے منصفانہ معیار کی خلاف ورزی ہے)۔
انھوں نے بجا طور پر اس معاملے کی نشان دہی کی ہے کہ [بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے زیرسماعت مقدمات کے بارے] بعد از وقت قوانین کی تبدیلی، مقدمے کی شفاف کارروائی کے بین الاقوامی قانونی نظریے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
[امریکی] وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی مدّمقابل خالدہ ضیا کو بات چیت کے ذریعے معاملات کا حل نکالنے کی دعوت خوش آیند ہے۔ تاہم، پاے دار امن کے لیے ضروری ہے کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو لازماً بین الاقوامی نگرانی میں اپنی کارروائی کرنی چاہیے۔
لارڈ الیگزنڈر کارلائل، نہ پاکستانی ہیں اور نہ جماعت اسلامی کے رکن اور کارکن وغیرہ، بلکہ وہ ایک پارلیمنٹیرین، مذہباً غیرمسلم اور پیشے کے اعتبار سے قانون دان ہیں۔انھوں نے اس مقدمے کو خالصتاً قانونی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دیکھا تو چیخ اُٹھے کہ: ’’یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہمارے ہاں کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی حسِ انصاف کو کیا ہوا، اور خود ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کی قومی حمیت کو کیوں گھن لگ گیا ہے؟
عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء کو ضلع فریدپور (مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش) کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں راجندر کالج، فریدپور سے گریجویشن کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ اسی دوران یونی ورسٹی کے ایک ہاسٹل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔ اسی معاشرے میں کھلے عام رہے اور عملی زندگی میں بطور صحافی خدمات انجام دیں۔ معروف اخبار روزنامہ سنگرام ڈھاکہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے رکن منتخب ہوئے۔
۵فروری کو جب نام نہاد عدالت نے عبدالقادر کو ڈیڑھ گھنٹے پر محیط وقت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا تو اس روز بی بی سی لندن کے نمایندے کے مطابق: ’’عبدالقادر نے بلندآواز میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا اور ججوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ کرنے پر تمھیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کرے گا‘‘۔ اور ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے کہا: ’’یہ عدالت کے رُوپ میں ایک شکاری چڑیل ہے‘‘۔ تاہم، جب باہر نکلے تو برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ کے نمایندے فلپ ہشز کے بقول: ’’عبدالقادر مُلّا، عدالت کے فیصلے پر واضح طور پر خوش نظر آرہے تھے، اور انھوں نے عدالت سے نکلتے وقت فتح کا نشان بلند کیا‘‘۔(۱۹فروری ۲۰۱۳ء)
جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ ان کی عمرقید پر بھارت نواز لابی اور بنگالی قوم پرست سیکولر لابی نے ’سزاے موت دو‘ مہم چلانا شروع کردی اور آخرکار ۱۷ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ لے لیا۔ ۲۰ستمبر کو عبدالقادر مُلّا کے بیٹے نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد بتایا کہ: ’’میرے ابا نے کہا ہے، بیٹا! میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ لڑکپن سے جس موت کی دعا مانگا کرتا تھا، اللہ کی خوش نودی سے وہ موت میرے سامنے ہے۔ اس پر غم نہ کرو، بلکہ اس کی قبولیت کے لیے رب کریم سے دعا مانگو‘‘۔ آج صورت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ خبر ہر خاص و عام میں گرم ہے کہ: ’’عوامی لیگ کم از کم عبدالقادر مُلّا کو تو سب سے پہلے سزاے موت ضرور دے گی‘‘___ مگر کیوں؟ جواب بڑا واضح ہے کہ ملک میں بدامنی کا ایک ایسا دور شروع ہوجائے کہ عوامی لیگ کی حکومت جو اگلے ماہ اپنی مدت ختم کررہی ہے وہ براہِ راست راے دہندگان سے بچ جائے اور وہاں کی عدلیہ، فوج اور ٹیکنوکریٹ کا ایک عبوری دورِحکومت ان انتقامی کارروائیوں کو جاری رکھ سکے۔
جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے فیصلے تو اُوپر تلے آہی رہے ہیں، اور اب ۲۲ستمبر کو اسی کرائمز ٹریبونل نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک بزرگ رہنما عبدالعلیم کے خلاف بھی ’۱۹۷۱ء میں انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی سماعت مکمل کرلی ہے اور کسی بھی وقت یہ فیصلے کا اعلان کرسکتی ہے۔ یاد رہے، عبدالعلیم، بنگلہ دیش کے مرحوم صدر ضیا الرحمن کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔
۲۱ستمبر کو حسینہ واجد نے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ (الجزیرہ ٹی وی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’خالدہ ضیا کی بی این پی سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، اس لیے ہم کبھی آپس میں نہیں مل سکتے‘‘۔ یہ نظریاتی اختلاف تین دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے: l بی این پی ، بنگلہ دیش کے دستور میں اسلامی شقوں کو لانے اور ان کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے، جب کہ عوامی لیگ نے آتے ہی ان دستوری شقوں اور قوانین کو ختم کردیا ہے۔lبی این پی، بنگلہ دیشی قومیت کی علَم بردار ہے (جس کا مطلب دو قومی نظریہ ہے)، جب کہ عوامی لیگ بنگلہ قوم پرستی کی پرستار ہے، جو دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ lبی این پی، بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر اور بنگلہ دیش کے اقتدارِاعلیٰ کے تحفظ کی علَم بردار ہے لیکن عوامی لیگ، بھارتی حکومت کے سامنے خود سپردگی اور تابع مہمل رہنے کے لیے بے تاب ہے۔
یہ ہیں وہ نظریاتی اختلافات، جن کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور بی این پی آپس میں حلیف ہیں اور عوامی لیگ ان کی دشمنی کے لیے ہرلمحے اور ہرقیمت پر مائل بہ جنگ ۔
سوال: کیا عورت حج یاعمرہ ادا کرنے کے لیے گروپ کی شکل میں نامحرم کے ساتھ جاسکتی ہے، جب کہ شوہر یا باپ کی طرف سے اجازت ہو؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: عورت عورتوں کی جماعت کے ساتھ گروپ کی شکل میں حج پر نہیں جاسکتی۔ اس لیے کہ محرم کے بغیر اس پر حج فرض نہیں ہے۔ رَے کی ایک خاتون نے ابراہیم نخعیؒ کی طرف خط لکھا کہ میں مال دار ہوں، مجھ پر حج فرض ہے اور میں نے حج نہیں کیا لیکن میرا محرم کوئی نہیں جو حج میں میرے ساتھ جائے۔ اس پر انھوں نے جواب دیا: تو ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف تک پہنچنے کی توفیق دی ہو، اس لیے تجھ پر حج فرض نہیں ہے۔
امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاقؒ، حسن بصریؒ اور ابراہیم نخعیؒ کے نزدیک محرم یا شوہر کا ہونا شرطِ استطاعت ہے۔ البتہ امام شافعیؒ کے نزدیک عورتوں کی جماعت میسر ہو تو خاتون حج پر جاسکتی ہے۔ بعض دیگر فقہا کے نزدیک ایسی صورت میں جب راستے میں امن ہو اور عورتوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرہ نہ ہو تو عورت تنہا بھی حج کرسکتی ہے۔ وہ اس کے لیے اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا کہ ایک عورت حیرۃ سے تنہا سفر کرکے آئے گی اور حج کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا(بخاری)۔ازواجِ مطہراتؓ نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت عثمانؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ کی حفاطت میں حج کیا۔ حضرت عمرؓ نے دونوںکو ان کی حفاظت کی خاطر بھیجا تھا۔ (بخاری)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر محرم کے بھی حج ہوسکتا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ پیش گوئی اور ازواجِ مطہراتؓ کا جلیل القدر صحابہ کی حفاظت میں حج کرنا، استثنائی حالات ہیں۔ عام حالات میں نہ امن ہے نہ اس طرح کی حفاظت، جس طرح کی حفاظت ازواجِ مطہراتؓ کو حاصل تھی۔ اس لیے محرم کے بغیر حج کرنا صریح احادیث کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان اور سعودیہ دونوں کے ہاں محرم کا ہونا شرط ہے، لہٰذا جب تک دونوں حکومتوں کے قوانین میں تبدیلی نہیں ہوتی اور محرم کی شرط ختم نہیں ہوتی، اس وقت تک اس شرط کی پابندی ضروری ہے۔ شوہر یا باپ کی اجازت محرم کی شرط کو ساقط نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی احکام پر صحیح معنٰی میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ واللّٰہ اعلم !(مولانا عبدالمالک)
س: دستور جماعت اسلامی کی رُو سے ارکانِ جماعت اپنی زکوٰۃ جماعت کے بیت المال میں جمع کرانے کے پابند ہیں۔ اس حوالے سے چند باتوں کی وضاحت کی ضرورت ہے تاکہ شرحِ صدر کے ساتھ اس امر کی پابندی کی جاسکے :
۱- قرآنِ مجید نے زکوٰۃ کی ادایگی کے لیے آٹھ مدات کا ذکر کیا ہے۔ ان مدات میں ترجیح کے اعتبار سے ایک ترتیب کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جماعت کے بیت المال میں زکوٰۃ جمع کرانے سے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ساری کی ساری زکوٰۃ یا اس کا ایک بڑا حصہ ’فی سبیل اللہ‘کی مد میں استعمال ہو۔ اس طرح امکان ہے کہ اجتماعی نظام کے ذریعے زکوٰۃ کی ادایگی تو کرلی جائے، لیکن مدات میں ترجیحی ترتیب کو برقرار نہ رکھا جاسکے؟
۲- بعض مقامات پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نظم جماعت کے پاس تمام زکوٰۃ جمع کرانے کے بعد آپ اپنے جاننے والے فقرا و مساکین کو ادایگی کے کے لیے، پھر نظم سے لے کر انھیں دے دیں۔ لیکن اس طرح وقت اور رابطوں کے ایک طویل سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یوں ایک آسان کام مشکل بن جاتا ہے۔ کیا یہ قرین حکمت ہے؟
۳- نظم جماعت اس امر کا اہتمام کرتا ہے کہ زکوٰۃ اور عمومی اعانت کا حساب الگ الگ رکھے، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی فنڈ سے پروگرامات کے شرکا کی تواضع بھی کی جاتی ہے، یا ہینڈبلز اور دعوت نامے چھپوائے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ دعوت ناموں کے بچ جانے اور استعمال نہ ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اس صورت میں کیا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟
ج: زکوٰۃ کی مدات قرآنِ پاک میں مقرر ہیں، ان میں کمی بیشی ممکن نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کو جو زکوٰۃ دی جاتی ہے، وہ اسے ان ہی مدات میںصرف کرتی ہے، صرف دعوت کے کاموں میں صرف نہیں کرتی۔
فقرا اور مساکین کو زکوٰۃ دینا مقصود ہو تو اس کی خاطر آپ کو حاجت نہیں کہ فقرا کا حصہ خود ادا کریں، البتہ عزیز و اقارب میں سے کوئی زکوٰۃ کا مستحق ہو اور آپ براہِ راست اسے زکوٰۃ دینا چاہیں تو مقامی اور ضلعی نظم کے علم میں لاکر ایسا کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں زکوٰۃ نظم جماعت کو دے کر واپس لینے کی حاجت پیش نہیں آتی۔
اصولاً اور عملاً زکوٰۃ کی مد سے حاصل ہونے والی رقم اور اعانت کے ذریعے ملنے والی رقم کو الگ الگ رکھا جاتا ہے، لیکن اگر کہیںا یسا نہیں ہو رہا تو وہاں پر فوراً اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔ زکوٰۃ کی رقم کے ایک حصے سے ایسی چیزیں چھپوائی جاسکتی ہیں جو لوگوں میں دعوت کی اشاعت کے لیے ہوں۔ پروگراموں کی اشاعت کے لیے ہینڈبل وغیرہ اگر چھاپے جائیں تو اس میں احتیاط ملحوظ رکھی جائے کہ اتنے ہی شائع کیے جائیں جن کی ضرورت ہو اور پھر انھیں پوری احتیاط سے لوگوں تک پہنچایا جائے، دفتروں میں پڑے نہ رہیں۔
یہ بات بطورِ خاص ذہن میں رکھیں کہ زکوٰۃ کی جن آٹھ مدات کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے ان میں کمی بیشی تو نہیں کی جاسکتی لیکن ضروری نہیں ہے کہ زکوٰۃ ان تمام مدات میں دی جائے، بلکہ ان آٹھ مدات میں سے کسی ایک مد میں بھی تمام زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً کسی وقت آپ اپنی زکوٰۃ صرف فقرا کودے دیں، یا کسی وقت کسی مقروض کو دے دیں اور کسی وقت جہاد فی سبیل اللہ میں دے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ (البقرہ۲:۲۷۱) ’’اگر تم صدقہ خفیہ طریقہ سے دو اور وہ صدقات فقرا کو دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔ اس آیت میں فقرا کو زکوٰۃ دینے کو زیادہ بہتر فرمایا ہے۔ فقرا زکوٰۃ کی آٹھ مدات میں سے ایک مد ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی رہا ہے کہ بعض اوقات آپ نے ایک مد میں زکوٰۃ دے دی، اور بعض اوقت دوسری مد میں، مثلاً ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ (زکوٰۃ) کا مال آیا تو آپؐ نے مؤلفۃ القلوب (نومسلم کی تالیف قلب کے لیے )دے دیا۔ پھر دوسری مرتبہ آیا تو آپؐ نے مقروضوں کو دے دیا۔ (ملاحظہ ہو تفسیر روح المعانی، جلد۱۰، ص ۱۲۴-۱۲۵، الجامع لاحکام القرآن، جلد۸، ص ۹۵، زادالمیسر، جلد۳،ص ۴۵۹)
اس لیے اگر کوئی شخص اپنی ساری زکوٰۃ فی سبیل اللہ کی مد میں دے دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ اسی طرح اگر جماعت کو زکوٰۃ دی جائے اور جماعت اسے فی سبیل اللہ، یعنی دعوت کے مختلف کاموں میں خرچ کردے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ ہاں، اگر کسی شخص نے اپنی زکوٰۃ کے لیے کوئی خاص مد تجویز کی، تو اسے اسی مد میں صرف کیا جائے گا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے کارکنوں کی ضیافت، کھانا اور دوسری ضروریات زکوٰۃ کی مد سے کی جاسکتی ہیں۔ جس طرح جہاد فی سبیل اللہ میں جہاد کرنے والوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے گی۔ ان کے لیے اسلحہ، گھوڑے اور کھانے پینے کی چیزیں خریدی جائیں گی۔ اسی طرح دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے سواری کا انتظام کیا جائے گا اور ہینڈبل اور دعوت نامے شائع کر کے دیے جائیں گے۔ یہ سب زکوٰۃ کا مصرف اور جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظامِ کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظامِ اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفرخرچ کے لیے، سواری کے لیے آلات و اسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جاسکتی ہے، خواہ وہ بجاے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دے دیں تو ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری رعایتیں دی جاسکتی ہیں‘‘(تفہیم القرآن، جلد۲، حاشیہ ۶۷، تفسیر آیت۶۰، ص ۲۰۸)۔ واللّٰہ اعلم !(مولانا عبدالمالک)
قرآن ایک سدابہار کتاب ہے اور تفسیر قرآن ایک سدابہار موضوع۔ مختلف زبانوں میں بلامبالغہ ہزاروں تفاسیر لکھی جاچکی ہیں، مگر نہ تو قرآنی موتیوں کی تلاش میں کمی آئی اور نہ اس ضرورت کے احساس میں۔ اُردو زبان بھی تفسیرقرآن کے لٹریچر کے تنوع سے مالامال ہے۔شاہ رفیع الدینؒ کے ترجمۂ قرآن سے لے کر زیرتبصرہ تفسیر تک سیکڑوں تفسیریں منظرعام پر آئی ہیں جن میں سے ہر ایک کا اپنا انداز اور اپنا مقام ہے اور ہر ایک کا اپنا فائدہ اور حُسن ہے۔ زیرنظر تفسیر میں مؤلفہ نے تیسیرالقرآن، عبدالرحمن کیلانی، تفسیر ابن کثیر(شاید اُردو ترجمہ)، تفسیر احسن البیان، حافظ صلاح الدین یوسف اور استاذہ نگہت ہاشمی صاحبہ کے لیکچروں کا خلاصہ انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔
انداز یہ اپنایا گیا ہے کہ آیت کے بعد سلیس اُردو زبان میں آیت کا ترجمہ درج کیا گیا ہے اور اس کے بعد ’خلاصۂ تفسیر‘کے عنوان سے حاصل مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ حوالہ دینے سے اجتناب کیا گیا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ تفسیر جن قارئین کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے اُن کے لیے حوالہ نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں تھا، بلکہ شاید طوالت اور اُکتاہٹ کا باعث بن جاتا۔ اس طرح یہ تفسیر اُن عام قارئین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے جو مختصر وقت میں قرآنی مفاہیم سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تفسیر کے شروع میں قرآنی ترتیب کے مطابق موضوعات کی تفصیلی فہرست دی گئی ہے جس سے کسی موضوع کی تلاش میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اگر کاغذ اور طباعت کا معیار بہتر ہوتا تو موضوع کے ساتھ انصاف ہوتا۔ (گل زادہ شیرپاؤ)
سفرِآرزو کے مصنف ملک مقبول احمد درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔ لیکن زیرنظر کتاب ان سب پر فوقیت رکھتی ہے کہ اس میں انھوں نے تشنۂ تکمیل آرزوئوں کے پورا ہونے کی رُوداد میں اپنے مشاہدات اور احساسات کو تصنع سے مبرا سادگی سے پیش کیا ہے۔ مصنف کو تین بار حج اور متعدد بار عمرہ ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس طرح ان کے مشاہدات کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے ان مقدس مقامات کی زیارت کے لیے پوری تیاری کی، وسیع مطالعہ کیا۔ اس سے انھیں اپنے مشاہدات اور تاثرات کو قلم بند کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور کتاب میں دل چسپی کا عنصر بھی قائم رہا۔
اب تک حج اور عمرہ کے متعدد سفرنامے شائع ہوچکے ہیں اور ہرمصنف نے اپنے انداز اور اپنے اسلوب سے قارئین تک معلومات بھی بہم پہنچائیں اور قلبی واردات اور ذہن پر مرتب ہونے والے تاثرات سے آگاہ کیا۔ سفرِآرزو کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخ، جغرافیہ، ثقافت اور روحانیت گھل مل گئے ہیں۔ مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ یہ سفرنامہ زیادہ سے زیادہ مفید اور دل چسپ ہو۔ چنانچہ انھوں نے مناسکِ حج و عمرہ کی ادایگی کے طریقہ ہاے کار اور مسنون دعائوں (مع تراجم) کے علاوہ بیت اللہ، چاہِ زم زم ، مختلف مساجد، غزوات اور قربانی و رمی کے مختصر پس منظر پر سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اندازِ بیاں کی سادگی ہی اس کا حُسن ہے۔ کتاب میں اہم مقامات کی رنگین تصاویر بھی موجود ہیں۔ اُمید ہے مقدس مقامات کی زیارت کو جانے والے اس سے کماحقہ مستفید ہوں گے اور یہ کتاب مصنف کے لیے خیروبرکت کا باعث بنے گی۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
زیرتبصرہ کتاب سیرت النبیؐ کے موضوع پر معروف تاریخ دان ڈاکٹر معین الحق کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب محمد، لائف اینڈ ٹائمز کا اُردو ترجمہ ہے جس میں حضور اکرمؐ کی زندگی کے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ان پر مغربی غیرمسلم مصنّفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔
کتاب کے کُل ۳۱ ابواب ہیں جن میں ظہورِاسلام سے قبل کے حالات سے لے کر حضور اکرمؐ کی وفات تک کے حالات و واقعات، مستند و معتبر مآخذ کے حوالوں سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی اساس اور بنیادی اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف کے خیال میں حضور اکرمؐ نے قرآن و سنت کے ذریعے جو ضابطہ حیات دیا، یہ ابدی ہے (ص ۲۹)۔ اسے قائم رکھنے کے لیے اسلامی ریاست تشکیل دی گئی۔ بعض مستشرقین نے حضوراکرمؐ کے غزوات و سرایا کو جارحانہ جنگیں قرا ر دیا ہے (ص ۳۲۲)۔ مصنف نے عہدنبویؐ کی جنگوں کے اسباب و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ انسانی تاریخ کی یہ ایسی جنگیں ہیں جن میں بہت کم قتل و غارت ہوئی۔ جارحیت کے مرتکب تو قریش تھے جو مکہ سے باربار حضور اکرمؐ پر حملہ آور ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حضور اکرمؐ کی جنگی حکمت عملیوں نے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کیا۔
حضور اکرمؐ کی شخصیت، آپؐ کی خصوصیات اور آپؐ کی امتیازی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی مصنف نے مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا ہے (۶۱۵)۔ مصنف نے حضور اکرمؐ کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترجمے کی روانی، بے ساختگی اور اسلوب نے اسے طبع زاد کتاب کی صورت دے دی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں زیرتبصرہ کتاب اپنے اسلوبِ بیان اور موضوع کی ندرت کے لحاظ سے نہایت اہم تصنیف گردانی جائے گی۔(ظفر حجازی)
مصنف ترکی نژاد عالم باعمل ہیں۔ ترکی کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی عبور ہے۔ آپ نے دین کی تبلیغ کا آغاز ازمیر کی جامعہ مسجد ’کستانہ بازاری‘ سے ملحق مدرسہ ’تحفیظ القرآن‘ سے کیا اور چلتے پھرتے واعظ کے طور پر اناطولیہ کے گردونواح میں واعظ کے طور پر کام کرتے رہے اور ۱۹۷۰ء میں تربیتی کیمپ لگانا شروع کیا اور باہمی گفت و شنید، افہام و تفہیم اور تعصب سے پاک دعوت و تبلیغ کی مؤثر تحریک بپا کی۔ اسی سلسلے میں وٹی کن سٹی میں پوپ کی دعوت پر ان سے ملاقات کی اور اسلام کی دعوت پہنچائی۔ مؤلف نے اسلام کے مختلف عنوانات پر ۱۶سے زیادہ کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے نو کتب اُردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے پہلی فصل: تبلیغ کا تعارف میں عنوانات کے تحت، خوب صورت اور مؤثرانداز میں تبلیغ کو قرآن و حدیث مبارکہ کی روشنی میں مقصد زندگی قرار دیا ہے۔ پھر اس کی ضرورت اور اہلیت کی شرائط بیان کی ہیں۔ اس کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ مختلف پیغمبروں ؑ کی دعوت و تبلیغ کے تاریخی واقعات بیان کیے ہیں۔
دوسری فصل: ’دعوت و تبلیغ کے اصول و ضوابط‘ کے تحت ۱۱ عنوانات کے تحت ہر وہ متعلق بات بیان کردی ہے جو دعوتِ دین کے لیے انتہائی ضروری ہے، مثلاً علم اور دعوت کا تعلق، اسلامی حقائق اور دورِحاضر سے آگاہی، جائز ذرائع کا استعمال، مخاطب کے مزاج سے آگاہی، دعوت کے لیے ایمان، تزکیہ اور اخلاص کی اہمیت، مستقل مزاجی وغیرہ۔ اسی طرح تیسری فصل: ’مبلغ تحریر کے آئینے میں‘ وہ تمام اہم خصوصیات بیان کردی ہیں جو مبلغ میں ہونا ضروری ہیں، مثلاً شفقت، ایثارو قربانی، منطقی طرزِاستدلال اور واقعیت پسندی، عفو و درگزر، شوق و اشتیاق وغیرہ۔ جگہ جگہ قرآن، حدیث اور تاریخ اسلامی سے استدلال کتاب کی جان ہے۔ ص ۵۷ کی درج ذیل تحریر سے کتاب کی اہمیت کا بہتر اندازہ کیا جاسکتا ہے: حقیقی ایمان اور اس کی بقا کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے: ۱- اپنی زندگی میںصرف حق بات کی پیروی کرے، ۲- ظلم کے خلاف گونگے شیطان کی طرح خاموش تماشائی نہ بنا رہے، ۳- زندگی اور موت کی پرواہ نہ کرے، ۴-ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے وضع کردہ مفاہیم کے دائرے میں رہے، ۵- امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھے۔ مذکورہ اُمور کے بغیر زندگی بالکل ہی بے فائدہ ہے۔
اس کتاب کے مقدمے میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد نے بڑی وقیع بات کہی ہے: ’’اس موضوع پر استاد عبداللہ کریم زیدان، استاد ابوالاعلیٰ مودودی، امام حسن البنا، استاد مصطفی مشہور، استاد عبداللہ بن بدیع سقر، استاد فتحی یکن اور دیگر اساتذہ نے جن مضامین دعوت پر اُمت کو متوجہ کیا تھا، استاد گولن کی یہ تحریر انھی خصوصیات پر ایک جامع لیکن مختصر تحریر ہونے کی بنیاد پر ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ہرمسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ کارِتبلیغ ایک اہم فریضہ ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے یہ کتاب نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔(شہزاد الحسن چشتی)
ڈاکٹر چندرا مظفر، ملیشیا کی سائنس یونی ورسٹی میں ’گلوبل اسٹڈیز‘ کے پروفیسر ہیں۔ وہ انگریزی اور ملائی زبانوں میں ۲۵ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں، اور بین الاقوامی سیاسی اور سماجی اُمور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ پیش نظر کتاب اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (IRD) ، شعبۂ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد نے شائع کی ہے۔ عصری اسلامی فکر کے مطالعے کے سلسلۂ کتب میں IRD کی یہ پہلی کتاب ہے۔ ادارے کے ڈائرکٹر پروفیسر ممتاز احمد کے بقول: ’’مسلمانوں کو درپیش عصری سوالات کے یہ تجزیے نہ صرف وقت کا تقاضا ہیں، بلکہ قرآن و سنت کی حُریت فکر پر مبنی ہیں‘‘۔ مصنف برٹرینڈرسل، نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، رچرڈ فالک اور ہمارے عہد کی عظیم درخشندہ ہستیوں کی روایت پر مضبوطی سے قائم ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مسلم اور غیرمسلم قارئین کو عصری اسلام میں تنقیدی اور اہم آوازوں سے آشنا کرنے کے لیے ان کا ادارہ کوشاں ہے۔ تصورات کی اس جنگ کو وہ مسلم دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
۱۳؍ابواب پر مشتمل یہ کتاب، چندرا مظفر کی مختلف تصانیف سے ماخوذ تحریروں سے ترتیب دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مسلم معاشرہ ایک عالمی استعمار کا شکار ہے۔ جبر پر مبنی یہ غلبہ خارجی بھی ہے اور داخلی بھی کہ ۱۲ویں صدی سے مسلم علما نے یا تو غالب مسلم حکمرانوں سے سمجھوتا کرلیا ہے ، اور اس طرح دین کی تفہیم کو اپنا اجارہ بنا لیا ہے، اور اب حال یہ ہے کہ مسلم اکثریت، فقہ اور حدود کے منتخب قوانین ہی کو اسلام تصور کرنے لگی ہے، اور قرآن کے آفاقی اصولوں سے اغماض برت رہی ہے۔ مصنف کے خیال میں اللہ پر ایمان اور اس کا پختہ شعور، خلیفۃ اللہ فی الارض کی انسانی حیثیت اور اس کی ذمہ داریاں، آفاقی اقدار اور اصولوں کے مطابق زندگی، زیادہ اہم ہیں۔ یہ قواعد و قوانین، عبادات اور دوسرے اوامر و نواہی پر فوقیت رکھتے ہیں‘‘ (ص ۱۱)۔ اپنے مضامین میں وہ ’مسلم ممالک‘ کو ہمیشہ ’اسلامی ممالک‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ ’تقلید‘ اور قوت اور استبداد کے ذریعے شریعت کو نافذ کرنے کی حکومتی روش پر تنقید کرتے ہیں۔
اسلام کے تصورِ مساوات کے ضمن میں وہ قرآنِ مجید کی متعدد آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں۔ چوں کہ سارے انسان ایک ہی جوڑے سے بنائے گئے ہیں اور کسی عرب کو غیرعرب پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی، اس لیے انسانوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ ’ترقی پسند اسلام‘ بمقابلہ ’روایتی، قدامت پسند اسلام‘ کی فکر پر باربار تنقید کرتے ہیں۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کو اپنے نقطۂ نظر کی سب سے بڑی سند بتاتے ہیں (ص ۱۶)۔ وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں مسلمانوں کو دوسرے گروہوں اور انسانوں سے ایک علیحدہ جماعت قرار دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اُن کو کوئی خاص رعایت دی جائے، بلکہ غرض محض یہ تھی کہ خطرات سے دوچار لوگوں کو معاندانہ رویے کے حامل معاشرے سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ (ص ۱۵)
افغانستان کا نام لیے بغیروہ کہتے ہیں کہ ایک مسلم ملک میں طویل جدوجہد اور قتل و غارت کے ذریعے جب ’اسلامی حکومت‘ قائم ہوئی، تو ہزاروں مسائل سے قطع نظر کرکے حکمرانوں نے خواتین کے حجاب کے قانون ہی کو اوّلیت دی۔ ایک دوسرے ملک [پاکستان] میں اداروں/دفاتر میں نماز کی ادایگی ہی کو اہمیت دی، حالانکہ غربت، بھوک، بیماری جیسے بیسیوں مسائل توجہ طلب تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام بحیثیت ایک ’نظامِ حیات، انصاف ہی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، مگر اسلامی /مسلم ملکوں میں غیرمسلموں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ افسوس ناک امتیاز برتا جارہا ہے (افغانستان، سوڈان، سعودی عرب) (ص ۶۸)۔ اقبال کا ’ترانۂ ہندی‘ ان کے خیال میں بہترین قومی نظم ہے۔ (ص ۱۷۶)
تقلید، جمود، انتہاپسندی، خود راستی کا تصور، امتیاز پسندی، اقتدار اور غلبے کی ہرصورت میں خواہش___ یہ آج کے مسلم معاشروں کی تصویر ہے۔ عالمی امریکی تسلط کے نتیجے میں دنیا کے ڈیڑھ ارب انسان انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بے انصافی کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔
انھیں بیش تر مغربی ذرائع ابلاغ سے بھی گِلہ ہے کہ وہ اسلام کو درست طور پر پیش نہیں کررہے۔ اُنھیں صرف مسلمان ہی انتہاپسند اور متشدد نظر آتے ہیں، حالاں کہ یہ ’خوبیاں‘ اُن کے ہاں بھی موجود ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اپنی فلموں اور سنجیدہ تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک ’فتنہ‘ اور ’خودکش بمبار‘ بناکر پیش کر رہے ہیں، جو ایک یک طرفہ فکر ہے۔
احیاے اسلام کی تحریکوں کو درپیش حقیقی چیلنج اب یہ ہے کہ وہ قرآن کی اصل رُوح کو دریافت اور بازیافت کریں، اور اس کے مطابق اپنے لائحہ عمل مرتب کریں۔ اس سلسلے میں وہ اقبال، جمال الدین افغانی، علی شریعتی اور فضل الرحمن کی کاوشوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ تاہم، مصنف کا یہ خیال بحث طلب ہے کہ اسلامی دنیا پر مغربی استعمار کے تسلط کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ مسلم معاشروں کی فکر میں ایک وسعت آئی ہے، اور وہ قدامت پسندی کے بجاے اب ’آفاقی اقدار‘ کی طرف رجوع کررہے ہیں۔
عمدہ کاغذ پر نفاست سے طبع شدہ اس کتاب میں جگہ کا ضیاع، اغلاط (ابوالکلام کی جگہ عبدالکلام ) اور اشاریہ کی عدم موجودگی کھٹکتی ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کی ادارت میں علمی و تحقیقی مجلہ، مغرب اور اسلام قابلِ قدر مضامین پیش کر رہا ہے۔ حال ہی میں ’مغربی افکار اور آج کی مسلم دنیا‘ کے زیرعنوان ۲۰۱۳ء کا پہلا شمارہ منظرعام پر آیا ہے۔ اداریے میں مغرب اور اسلام پر جدید مباحث کے تناظر میں مکالمے پر زور دیا گیا ہے۔
’اسلام اور مغرب: موجودہ مسائل اور مسلمانوں کا ردعمل‘ (پروفیسرخورشیداحمد)کے زیرعنوان مغرب اور مشرق کی اہم تحریکوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مسلم دنیا کہاں کھڑی ہے؟ صاحب ِ مضمون کی تجویز ہے کہ ’انسانیت اور مسلم اُمہ کی بھلائی کے لیے ضروری ہے کہ ’ایسے کو تیسا‘ اور جذباتی ردعمل کے بجاے، جس کے جواز پر بھی دلائل دیے جاسکتے ہیں، ہمیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا،تاکہ انسانیت کی مجموعی فلاح کے لیے ہم اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھال سکیں۔ اُن کا یہ جملہ قابلِ قدر ہے کہ ’’جب تک اسلامی تحریکیں لوگوں کو اُن کے موجودہ مسائل کا حل نہیں بتائیں گی، ہمارا تقسیم شدہ ووٹ ہمیشہ محدود رہے گا‘‘۔
تحقیقی مقالے کے بعد سوال و جواب شامل کیے گئے ہیں جو قابلِ قدر اور فکرافروز ہیں۔ اسی طرح ’تحقیق کے مغربی اور اسلامی اسلوب تحقیق کی اساسیات‘ (پروفیسر خورشیداحمد) ایک اہم مقالہ ہے جس میں سیکولرزم پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ عالم گیر دنیا کے لیے عالم گیر اخلاقیات پر پروفیسر انیس احمد نے قلم اُٹھایا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے عالمی معاشی بحران کا تجزیہ پیش کیا ہے اور بحران کے حل کے لیے نظری و عملی پہلوئوں اور اسلام کے معاشی قوانین پر عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ مجلہ اہلِ علم کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔(محمد ایوب منیر)
زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے مروجہ نظریات، فلسفے، عقائد اور رویوں سے ہٹ کر ہمیں ایک منفرد نظریے سے متعارف کروایا ہے۔ انھوں نے نوعِ انسانی کو عسکریت اور رعیت کے دو طبقات میں تقسیم کیا ہے اور پھر اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے پوری انسانی تاریخ، تاریخ کا بنیادی فلسفہ، قدیم و جدید ادب اور نظریات، عقائد، یونانی، ہندی اور قدیم تہذیبوں کے دیومالائی قصوں کا سہارا لیا ہے۔ اپنے نظریے کو پیش کرتے ہوئے مصنف ہمیں ڈارون، ہیگل، روسو، کارل مارکس اور سرسیّد وغیرہ سے متاثر نظر آتے ہیں، تاہم وہ اپنے نظریات مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔
موجودہ دور عسکریت پسندی، تشدد، ظلم و زیادتی اور استحصال کا دور ہے۔ دنیا اس وقت ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ روس کے زوال کے بعد امریکا تمام دنیا پر چڑھ دوڑا ہے اور جہاں چاہتا ہے ظلم و ستم کا بازار گرم کردیتا ہے۔ نائن الیون کے بعد اگرچہ عسکریت پسندی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن زیرتبصرہ کتاب اس موضوع پر مفید کتاب ہے جو ہمیں نہ صرف موجودہ دور کے عسکریت پسندانہ اور جدید نظریات کا فہم عطا کرتی ہے بلکہ گزرے ہوئے زمانوں کا وسیع اِدراک بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ کتاب موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے رہنمائی دیتی ہے۔(طاہر آفاقی)
پھر مارشل لا کے زمانے میں ۲۰ مارچ کے قریب خواجہ نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور سے میری ملاقات ہوئی اور ان سے مَیں نے کہا کہ آپ مرزا بشیرالدین محمود صاحب سے خود جاکر ملیں اور ان کو مشورہ دیں کہ اگر وہ واقعی مسلمانوں سے الگ ہونا پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت اس ملّت کا ایک جزو بن کر رہے، تو وہ صاف الفاظ میں حسب ِ ذیل تین باتوں کا اعلان کردیں:
(۱) یہ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معنی میں خاتم النبیینؐ مانتے ہیں کہ حضوؐر کے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ (۲) یہ کہ وہ مرزا غلام احمد صاحب کے لیے نبوت یا کسی اور ایسے منصب کے قائل نہیں ہیں جسے نہ ماننے کی وجہ سے کوئی شخص کافر ہو۔ (۳) یہ کہ وہ تمام غیراحمدی مسلمانوں کو مسلمان مانتے ہیں اور احمدیوں کے لیے ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا، ان کے امام کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنا، ان کو بیٹیاں دینا جائز سمجھتے ہیں۔
میں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ اگر آج مرزا صاحب ان باتوں کا واضح طور پر اعلان کردیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ سارا جھگڑا ختم ہوجائے گا....
پھر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خواجہ صاحب نے ’ربوہ‘ جاکر اس پر مرزا صاحب سے گفتگو کی، اور مرزا صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی جماعت کی مجلس شوریٰ بلا کر اس پر غور کریں گے۔ مگر اسی دوران میں میری گرفتاری عمل میں آگئی، اور بعد کی کوئی اطلاع مجھے نہ مل سکی۔ غالباً مرزا صاحب نے یہ دیکھ کر کہ حکومت پوری طاقت سے ان کی حمایت اور مسلمانوں کی سرکوبی کر رہی ہے، میری اس تجویز کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا ہوگا....
بہرحال میری ان کوششوں سے یہ بات عیاں ہے کہ مَیں نے اپنی حد تک اس نزاع کے تینوں فریقوں کو مصالحت پر آمادہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔ مگر ہرفریق نے مجھے ان کوششوں کی وہ بڑی سے بڑی سزا دی جو وہ دے سکتا تھا۔ ایک فریق نے بھرے جلسوں میں متعدد بار عوام کو میرے خلاف بھڑکایا، یہاں تک کہ ۶مارچ کی صبح کو ایک مشتعل مجمع میرے مکان پر چڑھ آیا۔ دوسرے فریق نے پانچ واجب القتل ’خونی ملائوں‘ میں مجھے بھی شمولیت کا شرف عطا کیا۔ تیسرے فریق نے مجھے گرفتار کرکے میرا کورٹ مارشل کرایا اور مجھے پہلے سزاے موت اور پھر چودہ سال کی قید بامشقت کی سزا دلوائی۔ (تحقیقاتی عدالت میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا تحریری بیان، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۱، محرم ۱۳۷۳ھ، اکتوبر ۱۹۵۳ء، ص ۴۸-۴۹)