مضامین کی فہرست


۲۰۱۳ فروری

ہمارے محسن اور قائد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’اشارات‘ کا ایک مخصوص اسلوب اختیار   کیا تھا۔ حتی الوسع ہم نے اس کے اتباع کا اہتمام کیا ہے۔ اس ماہ محترم قاضی حسین احمدکے تذکرے کی خاطر اس منہج میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھی مولانا مرحوم کے دور میں دو مثالیں موجود ہیں: ایک ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال پر اور دوسرے،     مولانا مسعودعالم ندوی کے وصال پر___ مولانا نے ’اشارات‘ ہی میں اللہ کے ان فیصلوں پر اپنے احساسات کا اظہار کیا تھا۔ مَیں بھی اس ماہ عام روایت سے ہٹ کر ایک شاذ نظیر پر عمل پیرا ہورہا ہوں۔ مدیر

اتوار ۶جنوری ۲۰۱۳ء نمازِ فجر سے فارغ ہوکر حسب ِ عادت سیل فون کو بیدار (on) کیا تو ایک دم ایس ایم ایس کی یلغار رُونما ہوئی۔ ۲۰ سے زیادہ ایس ایم ایس تھے لیکن پیغام ایک ہی دل خراش اطلاع تھی کہ محترم قاضی حسین احمد کا انتقال ہوگیا ہے___  اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ دل کو یقین نہیں آرہا  تھا۔ ابھی ۱۰ دن پہلے پروفیسر عبدالغفور احمد کا جنازہ ساتھ پڑھ کر اسی جہاز سے ہم کراچی سے اسلام آباد آئے تھے۔ صرف ایک دن پہلے جمعہ کی نماز ساتھ پڑھ کر گرم جوشی سے ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تھے۔ اب یہ کلیجہ پھاڑ دینے والی خبر کہ جو اللہ کا پیارا تھا، وہ اللہ کو پیارا ہوگیا!

اللہ کا حکم ہرچیز پر غالب ہے، اس کے فیصلے کے آگے سرِتسلیم خم ہے، مگر دل پارہ پارہ ہے اور آنکھیں اَشک بار ہیں۔ ۱۲ دن کے اندر اندر اپنے دو محبوب ساتھیوں، بزرگوں اور قائدین سے یوں محروم ہوجانا    ؎

مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

بات تو معلوم ہوچکی تھی مگر پھر بھی رفقا سے تصدیق چاہی۔ میت اسلام آباد سے پشاور  لے جائی جاچکی تھی۔ نمازِ جنازہ ۳بجے پشاور میں تھی۔تلاوت اور دعاے مغفرت کے بعد پشاور کے لیے رخت ِ سفر باندھا۔ برادرم خالد رحمان اور ڈاکٹر متین رفیق سفر ہوئے۔ پہلے راحت آباد ان کے گھر پہنچے اور پھر موٹروے کے پاس اجتماع گاہ میں محترم قاضی صاحب کے جسدخاکی کے پاس  کرسی نشین ہوگیا کہ کھڑے رہنے کی سکت نہ تھی۔ جس چہرے کو ۴۰ برس مسکراتے اور ہم کلام ہوتے دیکھا تھا آج اسے ہمیشہ کی نیند سوتے ہوئے مگر پُرنور حالت میں آخری بار دیکھا اور معاً لوحِ قلب پر ربِ کائنات کے یہ الفاظ اس طرح رُونما ہوئے جیسے آج ہی نازل ہورہے ہوں:

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰)، اے نفسِ مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش ہو اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔

قاضی حسین احمد صاحب ایک سچے انسان، اللہ کے ایک تابع دار بندے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق، اُمت مسلمہ کے بہی خواہ، تحریکِ اسلامی کے مخلص خادم، کلمۂ حق کو بلند کرنے والے ایک اَن تھک مجاہد اور پاکستان کے حقیقی پاسبان تھے۔ اللہ کے دین کے جس پیغام اور مشن کو طالب علمی کی زندگی میں دل کی گہرائیوں میں بسا لیا تھا اسے پورے شعور کے ساتھ قبول کیا، اپنی جوانی اور بڑھاپے کی تمام توانائیاں اس کی خدمت میں صرف کردیں۔ اس دعوت کو اپنا اوڑھنا  بچھونا بنا لیا، اس کی خاطر ہرمشکل کو بخوشی انگیز کیا، ہر وادی کی آبلہ پائی کی، ہر خطرے کو خوش آمدید کہا، ہرقربانی کو بہ رضا و رغبت پیش کیا اور پورے خلوص، مکمل دیانت، اور ناقابلِ تزلزل استقامت کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک اس کی خدمت میں لگے رہے۔ بلاشبہہ وہ ان نفوس میں سے ہیں جن کے بارے میں ہم سب ہی نہیں در و دیوار بھی گواہی دے رہے ہیں کہ:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ  وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)، ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو  سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔


قاضی حسین احمد ۱۲جنوری ۱۹۳۸ء کو صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے ایک مردم خیز گائوں  زیارت کاکاخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم قاضی عبدالرب نے، جو ایک معروف عالمِ دین اور جمعیت علماے ہند کے اعلیٰ عہدے دار تھے اور دیوبند مکتبۂ فکر کے گل سرسبد تھے، ایک روایت کے مطابق مولانا حسین احمد مدنی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام انھی کے نام پر رکھا اور یہ ہونہار بچہ قدیم اور جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر ۴۹سال کی عمر میں  امام عصر ، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قائم کردہ جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہوا اور پاکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام میں دینِ حق کی دعوت کو بلند کرنے اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی عالم گیر جدوجہد میں گراں قدر خدمات انجام دینے کی سعادت سے شادکام ہوا۔ جماعت اسلامی کے تیسرے امیر کی حیثیت سے ۲۲برس تحریک کی قیادت کی اور ملک کے طول و عرض ہی میں نہیں دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کی دعوت کو پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ ۲۰۰۹ء میں جماعت کی امارت سے فارغ ہونے کے باجود جوانوں کی طرح سرگرمِ عمل رہا۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں ایک عالمی کانفرنس وحدتِ اُمت کے موضوع پر منعقد کی اور جدوجہد کے منجدھار میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔

ان کی زندگی کوششِ پیہم، جہدِ مسلسل ، عزم و استقامت اور جہاد فی سبیل اللہ کی زندگی تھی___ ایک ایسا دریا جس کی پہچان اس کی روانی، تلاطم اور بنجر زمینوں کی فراخ دلی کے ساتھ سیرابی سے تھی، جس نے اپنی ذات کو اپنے مقصدحیات کی خدمت کی جدوجہد میں گم کردیا تھا، جس کی لُغت میں آرام اور مایوسی کے الفاظ نہ تھے اور جس نے زمانے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا تھا۔ اقبال نے جس زندگی کا خواب دیکھا تھا، قاضی صاحب اس کا نمونہ تھے    ؎

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
ُجوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

قاضی حسین احمد کی دینی تعلیم اور تربیت مشفق باپ کے ہاتھوں ہوئی۔ قرآن سے شغف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ طالب علمی کے دور ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے نسبت قائم ہوگی اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر کا پورے شوق سے مطالعہ کیا اور    ان کے پیغام کو حرزِجاں بنالیا۔ جمعیت سے تعلق رفاقت کا رہا جو جماعت اسلامی تک رسائی کے لیے زینہ بنا۔ ان کے اصل جوہر جماعت ہی میں کھلے۔ پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیے میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ریاست سوات میں جہان زیب کالج سیدوشریف میں بطور لیکچرار تدریسی کیریئر کا آغاز کیا لیکن تین ہی سال میں اس وقت کی ریاست کے ماحول میں وہ ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیے گئے اور ریاست بدری پر نوبت آئی۔ اس کے بعد اپنی خاندانی روایات کا احترام کرتے ہوئے کاروبار (فارمیسی) کو آزاد ذریعۂ معاش بنایا اور ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرلی۔ جلد ہی پشاور اور پھر اس وقت کے صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بھی بھرپور شرکت کی اور اس کے صدر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے قیم مقرر ہوئے اور اس حیثیت سے ۱۹۸۷ء تک خدمات انجام دیں۔

یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پی این اے نے مارشل لا کے نظام کو جمہوریت کی طرف لانے اور انتخابات کا راستہ ہموار کرنے کے لیے حکومت میں شرکت کا فیصلہ کیا، تو جماعت کی طرف سے دیے گئے اولین ناموں میں پروفیسر عبدالغفور احمد، چودھری رحمت الٰہی اور قاضی حسین احمد کا نام تھا،لیکن قاضی صاحب کے غالباً افغانستان میں اس وقت کی تحریکِ مزاحمت سے قریبی تعلقات کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقا نے ان کے نام پر اتفاق نہ کیا اور پھر یہ نگہِ انتخاب محمود اعظم فاروقی پر پڑی۔میری شرکت پی این اے کے کوٹے پر نہیں تھی، حتیٰ کہ سیاسی ٹیم کے حصے کے طور پر بھی نہیں تھی۔ مجھے کابینہ کے بن جانے کے ۱۰ دن بعد بحیثیت ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن شریکِ کار کیا گیا اور یہی وہ حیثیت تھی جس کی بنا پر مجھے پلاننگ اور معیشت کا وزیر مقرر کیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب امیرجماعت محترم میاں طفیل محمد صاحب نے چودھری رحمت الٰہی صاحب کی جگہ جو اس وقت قیم جماعت تھے محترم قاضی صاحب کو قیم کے لیے تجویز کیا اور مرکزی شوریٰ نے انھیں قیم مقرر کیا اور اس طرح ملکی سطح پر ان کے تاریخی کردار کا آغاز ہوا۔

مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء سے ۱۹۷۲ء تک قید کے زمانوں کو چھوڑ کر جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ میاں طفیل محمدصاحب نے ۱۹۷۳ء سے ۱۹۸۷ء تک ۱۵سال تحریک کی قیادت کا عظیم اور نازک کام انجام دیا، اور ۱۹۸۷ء سے ۲۰۰۹ء تک اس خدمت کا سہرا محترم قاضی حسین احمد کے سر رہا، اور ۲۰۰۹ء سے عزیزمحترم سیّد منور حسن صاحب اس عظیم منصب پر مامور ہیں۔ جماعت اسلامی میں امیرکا انتخاب ارکان نے ہمیشہ اپنی آزاد راے کے ذریعے کیا ہے۔ کسی بھی سطح پر اُمیدواری کا کوئی شائبہ کبھی بھی نہیں پایا گیا۔ ۱۹۷۲ء سے مرکزی شوریٰ ارکان کی رہنمائی کے لیے تین نام ضرور تجویز کرتی ہے مگر ارکان ان ناموں کے پابند نہیں اور جسے بہتر سمجھیں اسے اپنے ووٹ کے ذریعے امیر بنانے کے مجاز ہیں۔ الحمدللہ یہاں نہ وراثت ہے اور نہ وصیت،       نہ اُمیدواری ہے اور نہ کنوسنگ۔ اسلام کے حقیقی جمہوری اصولوں کے مطابق قیادت کا انتخاب ہوتا ہے اور بڑے خوش گوار ماحول میں تبدیلیِ قیادت انجام پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس روشن راستے پر قائم رکھے۔

میں آج اس امر کا اظہار کر رہا ہوں کہ ۱۹۸۷ء کے امیر جماعت کے انتخاب کے موقع پر شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے تھے ان میں محترم قاضی صاحب کے علاوہ محترم مولانا جان محمد عباسی اور میرا نام تھا۔ میں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت جنوبی افریقہ میں قادیانیت کے سلسلے میں ایک مقدمے کی پیروی کے لیے کیپ ٹائون میں تھا، اور قاضی صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے لیے برابر دعائیں کر رہا تھا۔ مجھے ان کے انتخاب کی خبر کیپ ٹائون ہی میں ملی اور مَیں سجدۂ شکر بجالایا۔ الحمدللہ قاضی صاحب نے اپنی صلاحیت کے مطابق اللہ کی توفیق سے جماعت کی بڑی خدمت کی اور جس تحریک کا آغاز سید مودودی نے کیا تھا اور جس پودے کو میاں طفیل محمد صاحب نے اپنے خون سے سینچا تھا، اسے ایک تناور درخت بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے بلندیِ درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!


قاضی حسین احمدصاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۳ء میں مرکزی شوریٰ کے موقعے پر ہوئی۔ میں اس زمانے میں انگلستان (لسٹر) میں مقیم تھا اور اسلامک فائونڈیشن کے قیام میں لگا ہوا تھا۔ شوریٰ کے اجتماع کے بعد رات کو دیر تک باہم مشورے ہماری روایت ہیں۔ جس کمرے میں قاضی صاحب ٹھیرے ہوئے تھے، اس میں ڈاکٹر مراد علی شاہ کی دعوت پر ہم تینوں مل کر بیٹھے اور آدھی رات تک افغانستان کے حالات پر بات چیت کرتے رہے۔ قاضی صاحب افغانستان کا دورہ کرکے آئے تھے۔ جو نوجوان وہاں دعوتِ اسلامی کا کام کر رہے تھے، وہ ظاہرشاہ کے زمانے ہی میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے لگے تھے اور اشتراکی تحریک اور قوم پرست دونوں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے تھے لیکن دائود کے برسرِاقتدار آنے کے بعد حالات اور بھی خراب ہوگئے۔ مجھے اس علاقے کے  بارے میں پہلی مفصل بریفنگ قاضی حسین احمد صاحب نے دی جو کئی گھنٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مراد علی شاہ بھی اپنے مخصوص انداز میں لقمے دیتے رہے لیکن صورتِ حال کی اصل وضاحت (presentation ) قاضی صاحب کی تھی، اور اس طرح افغانستان اور پورے خطے کے حالات سے ان کی واقفیت اور خصوصیت سے افغانستان کے مسئلے میں گہری وابستگی (involvement) کا مجھے شدید احساس ہوا۔ انھوں نے خالص فارسی لہجے میں اقبال کا یہ قطعہ بھی پڑھا جس کی صداقت پر ان کو یقین تھا:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است

از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا

(ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے اور اس پیکر کے اندر ملت ِ افغان دل کی مانند ہے۔ اُس کے فساد سے سارے ایشیا کی خرابی ہے اور اس کی اصلاح میں سارے ایشیا کی اصلاح ہے۔)

افغانستان کے حالات پر جس گہری نظر اور وہاں کے لوگوں سے تعلق کی جو کیفیت میں نے قاضی صاحب میں دیکھی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے جہادِ افغانستان کے پورے دور میں ان کے ساتھ ان معاملات میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ ۱۹۹۳ء میں، افغان مجاہدین کی تنظیموں میں اختلافات دُور کرنے کے لیے مصالحتی کمیشن میں ان کے ساتھ ایک ماہ مَیں نے بھی افغانستان میں گزارا اور اس وقت جس مجوزہ دستوری نقشے پر اتفاق ہوا تھا اور جسے میثاقِ مکہ کی بنیاد بنایاگیا تھا ،اس کی ترتیب میں کچھ خدمت انجام دینے کی سعادت مجھے بھی حاصل رہی ہے، لیکن تحریکِ اسلامی نے افغانستان کے سلسلے میں جو کردار بھی ان ۴۰برسوں میں ادا کیا ہے اور اس کے جو بھی علاقائی اور عالمی اثرات رُونما ہوئے ہیں، ان کی صورت گری میں کلیدی کردار محترم قاضی حسین احمد ہی کا تھا۔ اپنے انتقال سے پہلے بھی وہ اس سلسلے میں بہت متفکر تھے اور اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے سرگرم تھے، اور فاٹا میں ان پر خودکش حملے کے علی الرغم وہ افغانستان کے لیے خود افغانوں کے مجوزہ،   (یعنی افغان based) حل کے لیے کوشاں تھے، اور پاکستان اور افغانستان کو یک جان اور دو قالب دیکھنا چاہتے تھے۔ ۲۰۱۲ء میں جماعت اسلامی کے جس وفد نے صدرحامدکرزئی اور ان کی ٹیم سے مذاکرات کیے تھے، وہ بظاہر میری سربراہی میں گیا تھا لیکن اصل میرکارواں قاضی صاحب ہی تھے اور ہم سب ان کے وژن کی روشنی میں اصلاحِ احوال کی کوشش کر رہے تھے۔

قاضی صاحب کی اصل وفاداری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور اس وفاداری کے تقاضے کے طور پر اُمت مسلمہ اور اس کے احیا کو اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے سوچ سمجھ کر وہ راستہ اختیار کیا تھا جس کی طرف ہمارے دور میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے رہنمائی دی تھی اور وہ ان خطوطِ کار پر یقین رکھتے تھے جن پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔  اس کے مقصد، طریق کار اور دستور کی وفاداری کا جو حلف انھوں نے اُٹھایا تھا، اسے عمربھر نبھانے کی انھوں نے مخلصانہ اور سرگرم کوششیں کیں۔ وہ لکیرکے فقیر نہ تھے مگر اس فریم ورک کے وفادار تھے جسے انھوں نے سوچ سمجھ کر قبول اور اختیار کیا تھا۔

مجھے الحمدللہ ان تینوں امراے جماعت کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے جن پر ماضی میں امارت کی ذمہ داری تھی اور موجودہ امیر کے ساتھ بھی میرا دیرینہ تعلق ہے۔   مولانا مودودیؒ کی فکر اور دعوت سے تو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوگیا تھا، گو خاندانی تعلقات کی وجہ سے ان کی ذات سے نسبت اس سے بھی بہت پرانی ہے۔ رکنیت کا حلف میں نے ستمبر ۱۹۵۶ء میں لیا اور ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں شریک ہوں۔ مولانا محترم کے لٹریچر کے ترجمے، ادارہ معارف اسلامی کراچی اور چراغِ راہ سے وابستگی کی وجہ سے مولانا محترم کے ساتھ ۲۲برس کام کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ میاں طفیل محمدصاحب کے ساتھ بھی ان ۲۲برس کے ساتھ ان کی اپنی امارت کے ۱۵سال اور امارت کے بعد ۲۰ سال قریبی تعلق رہا۔ اسی طرح قاضی صاحب کے ساتھ ۱۹۷۳ء کی پہلی ملاقات، ۱۹۷۸ء میں ان کے قیم مقرر ہونے اور پھر ۱۹۸۷ء میں امیرمنتخب ہونے سے لے کر ان کے انتقال تک رفاقت کی سعادت رہی۔ بلاشبہہ ان تینوں امرا کا اپنا اپنا انداز ااور مزاج تھا اور ہر ایک کا اپنا اپنا منفرد کردار بھی تھا لیکن اصل چیز وہ وژن (vision) ہے جس پر جماعت اسلامی قائم ہوئی، وہ مقاصد ہیں جو اس کی جدوجہد کے لیے متعین ہوئے، وہ طریق کار اور حکمت عملی ہے جو اتفاق راے سے طے ہوئی اور جس کا ایک حصہ دستور میں اور باقی جماعت کی قراردادوں میں موجود ہے اور جس کی تشریح ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے لٹریچر میں ہے۔ اس فریم ورک کے اندر ہر امیر نے تحریک کی قیادت اور رہنمائی کی ہے اور شوریٰ کے مشورے سے نظامِ کار کو چلایا اور   ترقی کے مراحل طے کیے ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف تاریخی تسلسل ہے وہیں اس کے ساتھ فطری تنوع بھی ہے کہ ع

ہر گلے را رنگ و بوے دیگر است


مولانا مودودیؒ اس تحریک کے موسّس اور وژن ہی نہیں، اس کے پورے نظامِ فکروعمل کے صورت گر تھے ۔ انھوں نے تحریک کا ایک تصور دیا جس کا جوہر اُمت کو قرآنِ پاک کے اصل مشن اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب سے ازسرِنو رشتہ جوڑنے کی دعوت ہے۔ روایت کا احترام اس کا حصہ ہے مگر روایت کی اسیری سے آزادی اور اصل منبع سے تعلق استوار کرکے اس کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق نبوت کے مقصد اور مشن کے حصول کے لیے نقشۂ کار وضع کرنے اور عملی جدوجہد کرنے کی دعوت اس کا مرکزی تصور ہے۔ اس انقلابی عمل کے لازماً چار پہلو ہیں:

اوّلًا: اصل مقاصد سے جڑنا، قرآن و سنت کے دیے ہوئے تصورِ دین کو سمجھنا اور پھر اس ہمہ گیر تصور کی روشنی میں اقامت ِ دین اور شہادتِ حق کی ذمہ داری کو سمجھنا، اس کو ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سعی و جہد کو منظم اور مربوط انداز میں انجام دینے کی کوشش کرنا، اس کے لیے ضروری نظامِ کار بنانا اور افرادِ کار کو اس انقلابی جدوجہد میں لگا دینا۔  ایک جملے میں ساری توجہ کو مقصد نبوت کی صحیح تفہیم اور اسے زندگی کا مقصد بنانا ہے۔

ثانیاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خود اپنی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیا جائے، زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، موجود الوقت کمزوریوں کی نشان دہی کی جائے، طاقت کے سرچشموں کو فعال اور متحرک کیا جائے اور نیا راستہ اختیار کیا جائے۔

ثالثاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وقت کے نظام، غالب تہذیب اور اس کی بنیادوں، مقاصد، اہداف اور مظاہر کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ اپنے دور کی کارفرما قوتوں کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے اور متعین کیا جائے کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو مثبت ہیں اور ان سے استفادہ ممکن ہے، اور کون کون سی چیزیں منفی بلکہ سمِّ قاتل ہیں اور ان سے کس طرح بچاجائے۔ نیز کس طرح تاریخ کے دھارے کو موڑا جائے تاکہ شر کی قوتوں کے غلبے سے نجات پائی جاسکے اور دین حق اور منہج نبویؐ کا غلبہ اور خیر کی قوتوں کے لیے کامیابی حاصل کی جاسکے۔

رابعاً: ان تینوں کی روشنی میں آج کے دور میں تحریک اسلامی کے لیے صحیح راہِ عمل کو مرتب کیا جائے، تاکہ زندگی کے ہرمیدان میں اسلامی تصورِ حیات کے مطابق اور زندگی کے اسلامی اہداف کے حصول کے لیے ہمہ گیر جدوجہد ہوسکے اور اس کے لیے مناسب نظامِ عمل تشکیل دیا جاسکے۔

مولانا مودودیؒ نے جو تاریخ ساز کام کیا، وہ یہی ہے کہ انھوں نے ان چاروں اُمور کے بارے میں دیانت اور علمی مہارت کے ساتھ دو اور دو چار کی طرح واضح ہدایات مرتب کیں، دلیل سے اپنی بات کو پیش کیا۔ جن نفوس نے اس دعوت کو قبول کیا ان کو جماعت کی شکل میں منظم کیا اور انفرادی اور اجتماعی قوت کو اُس تبدیلی کے لیے مسخر کیا جو مطلوب تھی۔ جماعت کے نصب العین کا تعین کیا ، اس کے طریق کار کو واضح کیا اور اس کے حصول کے لیے چار نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا جسے پوری جماعت نے دل و دماغ کی یکسوئی کے ساتھ قبول کیا، یعنی:

۱- عقیدے کا احیا ، فکری اصلاح، دورِحاضر کی فکر کا محاسبہ اور اسلامی افکار کی تشکیل نو۔

۲- تمام انسانوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کرنا اور ان میں سے جو اسے قبول کریں ان کو منظم کرنا، ان کی تربیت کرنا اور اخلاقی اور مادی ہر اعتبار سے انھیں اس تاریخی اور انقلابی جدوجہد کے لیے تیار کرنا۔

۳- معاشرے کی اصلاح اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اقدار اور احکام کی روشنی میں تعمیروتشکیلِ نو، خاندان کا استحکام، مسجد اور مدرسے کی تنظیم نو، اور تعلیم، خدمت ، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام اور افراد اور اداروں کی نئی صف بندی۔

۴-ان تینوں کی بنیاد پر نظام کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت کی جدوجہد، تاکہ فرد اور معاشرہ ہی نہ بدلے بلکہ پورا نظام تبدیل ہو اور معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، عدالت، سب کی اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں تعمیرنو ہوسکے، اور اس طرح دین کی اقامت واقع ہوسکے۔

مولانا مودودیؒ کی امارت میں یہ سارے کام ہوئے، اور اس طرح ان کے دور کو فکروعمل ، فرد اور جماعت، سب کے لیے تشکیل و تعمیرنو کا دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دور میں اُمت مسلمہ کی تاریخی روایت کی حفاظت اور احیا کے ساتھ روایت کے ان پہلوئوں سے نجات کی بھی کوشش کی گئی جو اس تصور سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، اور اس طرح ایک نئی روایت کے قیام کی سعی کی گئی، جو اس پیغام اور نظامِ تہذیب کی شناخت بن سکے۔ یہ دور تعمیر کے ساتھ ایجاد، اختراع اور اجتہاد کا دور بھی تھا اور اس میں تسلسل کے ساتھ تبدیلی کا بھی ایک بڑا اہم کردار تھا۔ اہداف کا تعین، نظامِ کار کا دروبست، حکمت عملی، پالیسیاں، غرض ہرجگہ روایت اور جدت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ارتقا کا ایک عمل ہے جو اصل ماخذ سے مکمل وفاداری کے ساتھ نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک رواں دواں دریا کی مانند موج زن نظر آتا ہے جو ایک فکری دعوت، اخلاقی احیا کی ایک منظم جدوجہد اور ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں نئے اہداف، نئی راہیں اور نئے تجربات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس طرح کہ اصل بنیاد سے رشتہ مضبوط تر ہوتا جائے۔ اصل شناخت پر کوئی بیرونی سایہ نہیں پڑنے دیا جاتا لیکن پیغام اور اہداف میں صبحِ نو کی سی تازگی موجود رہتی ہے، گویا    ؎

فصل بہار آئی ہے لے کر رُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن رنگِ قدامت آج بھی ہے

لوگ بہت سی چیزوں کو آج نیا کہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد اسلامی جمعیت طلبہ کی شکل میں طلبہ کی جو آزادتنظیم دسمبر ۱۹۴۷ء میں قائم ہوئی، اور جس کی برکتوں سے آج تک ہم سب فیض یاب ہورہے ہیں۔ وہ مولانا ہی کے ایما پر قائم ہوئی تھی۔ اسی طرح حفاظتی نظربندی (Preventive Detention) اور سیفٹی ایکٹ کے خلاف اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے شہری آزادیوں کی انجمن (Civil Liberties Union)  لبرل اور لیفٹ کے عناصر کی ہم رکابی میں مولانا مودودیؒ کی قیادت میں قائم ہوئی تھی اور محمود علی قصوری صاحب بھی اس   میں برابر کے شریک تھے۔ ادب اور لیبر کے محاذ پر تنظیم سازی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہوئی تھی۔  اسلامی دستور کی تحریک کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا مگر دستور کے لیے مشترک محاذ ۱۹۵۰ء میں لیاقت علی خاں صاحب کی دستوری سفارشات کے اعلان کے بعد ہی قائم ہوگیا تھا اور ۱۹۵۱ء اور ۱۹۵۳ء کی علما کی سفارشات ان کی مساعی کا حاصل تھیں۔ اتحاد کی سیاست کاآغازمولانا محترم کے دور میں ہوا ہے اور COP (Combined Opposition Parties ، متحدہ حزبِ اختلاف)  کا قیام عمل میں آیا جس میں اسلام پسند قوتوں کے ساتھ سیکولر قوتیں بھی شریک تھیں اور سہروردی صاحب ، مجیب الرحمن صاحب بھی اس کا حصہ تھے۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف مشترک جدوجہد اسی زمانے میں ہوئی۔ انتخابات میں شرکت کا سلسلہ بھی اس زمانے میں ہوا۔ ۱۹۵۱ء کے پنجاب میں صوبائی انتخابات میں شرکت اور ۱۹۵۸ء کے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں کامیابی کا تعلق اسی دور سے ہے۔ آج بڑے اجتماعات کا چرچا ہے۔ ختم نبوت کی تحریک کے دوران اجتماعات کو کون بھول سکتا ہے اور اگر ان کو ایک خاص معنی میں سیاسی تبدیلی کے لیے کیے جانے والا مظاہرہ نہ بھی کہا جائے، لیکن ۱۹۷۰ء کا ’شوکت ِ اسلام مارچ‘ پاکستان کی تاریخ کا پہلا    عظیم عوامی مظاہرہ تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ پھر ۱۹۷۷ء کے قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے، جن میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تبدیلی کا طبل بجا رہا تھا۔

مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مولانا مودودی کی امارت کے دور میں تعمیروتشکیل کے ساتھ جدت و اختراع اور ضرورت کے مطابق نئے تجربات اور نئی راہوں کی تلاش ہماری روایت کا حصہ ہے۔ مولانا مودودی صاحب کی بصیرت کا یہ بھی شاہکار ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں جماعت کا نظام اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی ریت ڈالی اور اپنے اصرار پر ۱۹۷۲ء میں امارت سے فارغ ہو کر قیادت کے تسلسل اور نظام کو خودکار بنانے کا راستہ تحریک کو دکھایا ،اور اس طرح جماعت بانیِ جماعت کی زندگی ہی میں امارت اور مشاورت کے ایک ایسے نظام پر قائم ہوگئی جس کا انحصار فرد پر نہیں اجتماعی نظام پر ہے۔ یہ ایک انقلابی اقدام تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ  تبدیلی (transition ) ایک بڑا مشکل اور نازک عمل تھا اور اس کا سہرا (credit) محترم میاں طفیل محمد صاحب کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے جماعت کی زندگی میں خلا نہیں پیدا ہونے دیا۔ بلاشبہہ ان کے دور میں تسلسل (continuity)، استحکام (consolidation) کو مرکزی اہمیت حاصل رہی، اور ندرت اور جدت کی جگہ روایت اور جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کی حفاظت کا پہلو غالب رہا لیکن اس وقت کی یہی ضرورت تھی۔ان کے دور میں بھی بڑے سخت مقامات آئے۔ فوجی حکومت سے معاملات کرنا اور ملک کو فوجی حکمرانی کے دور سے تصادم کے بغیر نکالنا، سیکولر قوتوں کا نیا کردار اور  اس کا مناسب انداز میں مقابلہ، افغانستان میں روس کی مداخلت اور جہاد افغانستان میں پاکستان اور عالمِ اسلام کا کردار، ان سب چیلنجوں کے مقابلے کے لیے مؤثر اقدامات کیے گئے لیکن اس دور کا اصل کارنامہ جماعت کو بانیِ جماعت کی عدم موجودگی میں اپنے اصل مقصد، مشن اور مزاج پر قائم رکھنا تھا۔ الحمدللہ بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور جماعت اور اس کی شوریٰ کے تعاون سے محترم میاں طفیل محمدصاحب کی قیادت میں تحریک نے اس مرحلے کو کامیابی سے سر کیا۔


۱۹۸۷ء میں امارت کی ذمہ داری قاضی صاحب پر پڑی۔ قاضی صاحب نے اس نظام کے تسلسل کو جاری رکھا جس کی حفاظت میاں صاحب محترم نے کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی، اجتہاد اور جدت کی اس نہج کو پھر مؤثر اور متحرک کیا جو مولانا مودودیؒ کے دور کا حصہ تھی۔ ۳۱۳ساتھیوں کی معیت میں کاروانِ دعوت و محبت کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ فوجی حکمرانی اور سرمایہ داری، جاگیرداری اور ظلم کے نظام کے خلاف آواز بلند کی اور تحریک کو ایک نیا ولولہ دیا۔ اس زمانے میں سیاسی بساط بدل گئی۔ ملک کے حالات اور عالمی صورت حال کی بھی تیزی سے قلب ِ ماہیت ہوئی۔ اس میں نئے اقدامات کی ضرورت تھی۔ جماعت کی اندرونی تنظیم اور ملک اور دنیا میں اس کا کردار، یہ سب نئے اطراف میں پیش رفت (initiative) کا تقاضاکر رہے تھے۔ قاضی صاحب نے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ۱۹۹۰ء میں مینارِ پاکستان پر کُل پاکستان اجتماع کیا اور اس کے بعد تسلسل کے ساتھ کُل پاکستان اجتماعات کی روایت کو تازہ کردیا۔ جماعت کی دعوت اور تنظیم کی وسعت ان کی اولین ترجیح رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کی نئی صف بندی ان کی توجہ کا مرکز رہے۔ متفق کے لیے عملاً ’ممبر‘ کی اصطلاح بھی ان کی اولیات میں سے ہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ کی سرگرمیوں کی بھی وہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

نوجوانوں کو منظم اور متحرک کرنے اور ظلم کی قوتوں کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے ’پاسبان‘ کا تجربہ انھوں نے کیا۔ اس تجربے میں قاضی صاحب کا کردار مرکزی تھا اور خرم مراد مرحوم اور میری پوری تائید ان کو حاصل تھی اورمحمد علی درانی نے بھی اس کی تنظیم میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ بات ریکارڈ پر آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ’پاسبان‘ کا نام مَیں نے تجویز کیا تھا۔ افسوس کہ یہ تجربہ اس نہج پر نہ ہوسکا جس طرح ہم چاہتے تھے اور جو ہمارا وژن تھا، مگر یہ بھی جماعت کی برکت ہے کہ جب شوریٰ میں اس کے بارے میں بے اطمینانی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی تو خوش اسلوبی سے ’پاسبان‘ کو ختم کردیا گیا اور ’شبابِ ملّی‘ کا ادارہ قائم کیا گیا جو اب بھی متحرک ہے۔ ’شباب ملّی‘ کا نام ہمارے مرحوم بھائی خلیل حامدی نے تجویز کیا تھا۔ اسی طرح پاکستان اسلامی فرنٹ کا تجربہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور خرم مراد مرحوم اور مَیں بھی اس میں قاضی صاحب کے  دست و بازو تھے۔ مجھے اس امر کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ یہ تجربہ بھی ہمارے تصور کے مطابق کامیاب نہ ہوسکا، اور ہمیں اعتراف ہے کہ اس کے لیے جتنا ہوم ورک ہونا چاہیے تھا اور جتنا جماعت کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری تھا وہ ہم بوجوہ نہ کرسکے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدت و اجتہاد کے جو اقدامات (initiatives) ہم نے ۹۰ کے عشرے میں لیے تھے، گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے مختلف ممالک میں انھی خطوط پر کیے گئے تجربات کامیاب ہوئے ہیں اور آج وہی تبدیلی کے لیے ماڈل بن رہے ہیں۔ قاضی صاحب محترم کی وفات پر یہ سارے خیالات دل و دماغ میں ہجوم کیے ہوئے ہیں اور میں تحریکی زندگی میں ان کے ۲۲سالہ دور کو ترقی کے اس سفر کے اہم مراحل کے طور پر دیکھتا ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ تسلسل کے ساتھ تبدیلی اور جدت و اجتہاد جو وقت کی ضرورت تھے، اس سمت میں تحریک نے باب کشا کوششیں کیں۔

انسانوں اور جماعتوں کی تاریخ میں ضروری نہیں کہ ہرتجربہ ہراعتبار سے کامیاب ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرتجربے کے بعد اس کا جائزہ لیا جائے، کامیابی اور ناکامی دونوں کے وجود کو متعین کیا جائے، اور ہرتعصب سے بالا ہوکر اپنے تجربات کی روشنی میں نئے تجربات کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجتہاد کے دواجر ہیں، اگر صحیح ہو، لیکن اگر معاملہ خطا کا ہو، تب بھی سبحان اللہ ایک اجر تو ہے ہی ۔ محترم قاضی صاحب نے جماعت کے سیاسی کردار کو ایک نئی جہت دی۔ متحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے) کے تجربے میں ان کا بڑا کردار تھا۔   دینی قوتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور فرقہ وارانہ اور گروہی عصبیتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے بڑی مستعدی کے ساتھ کوششیں کیں جو بڑی حد تک کامیاب رہیں۔ملّی یک جہتی کونسل  ان کے دور کا ایک نہایت کامیاب تجربہ اور قومی خدمت ہے، جسے جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

کشمیر کے مسئلے کو بھی انھوں نے بڑی جرأت اور بالغ نظری سے اُجاگر کیا، ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ مجھے ان کے ساتھ آٹھ مسلم ممالک میں کشمیر کے قومی وفد جس کی قیادت   محترم قاضی صاحب کر رہے تھے، میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کی تشکیل اور پروگرام کی تمام تنظیم جماعت اسلامی نے کی تھی، مگر اس میں دوسری جماعتوں کے نمایندوں کو بھی شریک کیا گیا تھا۔اس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے بیرسٹر مسعود کوثر (جو آج گورنر خیبرپختونخوا ہیں) اور آغا ریاض، مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے اور جمعیت علماے اسلام کے محترم قاضی عبداللطیف شریک تھے۔ اس میں میڈیا کے نمایندے بھی شامل تھے۔ ۵فروری کو تحریکِ آزادیِ کشمیر کے ساتھ ’یومِ یک جہتی‘ کے طور پر شروع کرنے، ہر سال منانے اور اسے سیاسی زندگی کا ایک حصہ بنادینے میں بھی   قاضی صاحب اور جماعت ہی کا بنیادی کردار ہے۔

عالم اسلام کے تمام ہی مسائل میں قاضی صاحب کی گہری دل چسپی تھی اور وہ حضور اکرمؐ کے اس ارشاد کی عملی مثال تھے کہ یہ اُمت ایک جسمِ واحدکی مانند ہے اور جس کے ایک عضو کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ دسیوں ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے دیکھا کہ جس طرح ہم پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے بے چین ہوتے ہیں، اسی طرح وہ عالمِ اسلام کے ہر مسئلے کے لیے بے چین ہوتے تھے اور جو بن پڑتا،  کرنے کے لیے مستعد رہتے تھے۔ خلیج کی جنگ کے موقعے پر میں بھی محترم قاضی صاحب کے ساتھ عالمی اسلامی تحریک کے ایک وفد کا حصہ تھا۔ ہرملک میں جس درد کے ساتھ اور جس جرأت کے ساتھ انھوں نے کویت پر عراق کے حملے کے مسئلے کو پیش کیا اور اس جنگ سے اُمت کو بچانے کے لیے کوشش کی، وہ ان کا بڑا قیمتی کارنامہ تھا۔ صدام حسین سے ملاقات میں جس جرأت سے انھوں نے اسے اس جنگ کو ختم کرنے کی دعوت دی، اس نے سب کو متاثر کیا، اور خود صدام کے اعلیٰ حکام میں سے کچھ نے بعد میں ہم سے کہا کہ یہی بات ہمارے دل میں بھی ہے مگر ہمیں رئیس کے سامنے کہنے کی جرأت نہیں، آپ نے حق ادا کردیا۔


قاضی صاحب بھی ایک انسان تھے اور ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ بہت جلد راے قائم کرلیتے تھے اور اپنے ردعمل کا اظہار بھی کردیتے تھے۔ اظہار اور کمیونی کیشن کے باب میں بھی بہت سے مواقع پر انھیں اپنے ساتھیوں کے شکوہ و شکایات سے پالا پڑا، لیکن بحیثیت مجموعی انھوں نے تحریکِ اسلامی کی قیادت کی ذمہ داری بڑی بصیرت اور خوش اسلوبی سے انجام دی۔ ان ۴۰برسوں میں میرے اور ان کے درمیان بڑا ہی قریبی تعلق رہا جس کی بنیاد اخلاص، باہمی اعتماد، مشاورت اور ایک دوسرے کے احترام پر تھی۔ میں شروع ہی سے ایک نظری اور ایک گونہ کتابی انسان ہوں اور قاضی صاحب اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک حرکی وجود رکھتے تھے۔ جرأت اور استقامت کے ساتھ جہدِمسلسل کا شوق، جلدی نتائج حاصل کرنے کی تمنا اور سپاہیانہ جلال ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ علمی اور ادبی ذوق ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قرآن ان کا اُوڑھنا بچھونا تھا تو اقبال کا کلام ان کی روح کا نغمہ۔ صداقت اور شجاعت کے ساتھ جہاد، شہادت اور کچھ کرڈالنے کا عزم ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔

اگر میں یہ کہوں کہ وہ جلال اور جمال کا مرقع تھے تو شاید غلط نہ ہو۔ ان کی طبیعت میں جلال کے پہلو بھی تھے، مگر صرف جلال نہیں جمال کا پہلو بھی وافر مقدار میں تھا اور بالعموم غالب رہتا تھا جس کی وجہ سے جلال کے لمحات بھی ایک لُطف دے جاتے تھے۔میرا اور ان کا رشتہ بڑا دل چسپ تھا۔ عمر میں مَیں ان سے بڑا تھا اور اس بڑائی کا وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی احترام کرتے تھے لیکن میں ان سے ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ عمر میں خواہ مَیں بڑا ہوں لیکن تحریک میں آپ ہی بڑے ہیں اور  ہم دونوں نے دلی طور پر ایک دوسرے کو اپنے سے بڑا سمجھ کر رفاقت کے یہ ۴۰سال بڑے خوش گوار ماحول میں گزارے۔ بلاشبہہ اس عرصے میں دوچار مشکل لمحات بھی آئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے تعلقات میں کبھی کھچائو یا تلخی پیدا نہیں ہوئی۔ کبھی انھوں نے میری راے کو قبول کرلیا اور  کبھی میں نے اپنی راے کو ترک (surrender)  کردیا۔ اس طرح محبت اور رفاقت کا یہ سفر بڑی خوش اسلوبی سے طے ہوتا رہا    ؎

محبت کیا ہے؟ تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا

مولانا محترم نے جو شفقت اور پیار دیا، وہ ایک لمحے کے لیے بھی بھولا نہیں جاسکتا۔ دوسروں کے سامنے وہ مجھے پروفیسر خورشید کہتے تھے لیکن جب مجھ سے بات کرتے تھے تو ’خورشیدمیاں‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے جس کی لذت اور حلاوت آج تک محسوس کرتا ہوں۔ میرے والدین اور اساتذہ کے بعد مولانا ہی نے مجھے ’خورشید میاں‘ کہہ کر خطاب کیا (منور بھائی کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ مولانا نے ان کو ’منورمیاں‘ اور میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انیس کو ’انیس میاں‘ کہا ہے)۔ محترم میاں صاحب ہمیشہ پروفیسر خورشید ہی کہتے رہے لیکن قاضی صاحب نے ہمیشہ ’خورشید بھائی‘ کہا جس کا دل پر گہرا نقش ہے۔یہ ان کی محبت اور شفقت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

آج قاضی صاحب ہم میں نہیں، کل ہم بھی نہیں ہوں گے، ان کی باتیں یاد رہیں گی۔ ان کی خدمات صدقۂ جاریہ ہیں جن سے ہمارے ساتھی اور ہمارے بعد آنے والے سب ہی مستفید ہوتے رہیں گے اور ان شاء اللہ وہ بھی اس کے اجر سے شادکام ہوتے رہیں گے۔ ان کی پاک صاف زندگی، ان کے علمی اور ادبی ذوق، ان کی تحریکی خدمات، اُمت کے لیے ان کی دوڑ دھوپ اور قربانیاں، پاکستان کی تعمیر اور تشکیلِ نو کے لیے ان کی مساعی، اپنوں اور غیروں سب سے محبت، دعوت اور خدمت کی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق کی استواری، امارت کی ذمہ داریوں کو خلوص، دیانت، محنت، قربانی و ایثار، مشاورت اور انصاف کے ساتھ ادا کرنے کی کوششیں___ یہ سب روشنی کے ایسے مینار ہیں جو ایک زمانے تک ضوفشاں رہیں گے۔ اس طرح وہ ہم سے رخصت ہونے کے باوجود ہمارے درمیان ہیں اور رہیں گے۔

ان کے انتقال پر ان کے چاہنے والوں اور ان سے اختلاف رکھنے والوں، بلکہ ذہنی بُعد تک رکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے ان کی زندگی کا ایک ایسا پہلو سامنے آتا ہے جو زندگی میں شاید اتنا نمایاں نہ تھا، یعنی ہر ایک سے خلوص اور شفقت سے معاملہ کرنا، اختلاف میں بھی حدود کا لحاظ، سختی کے ساتھ نرمی، خفگی کے ساتھ پیار، مخالفین کے ساتھ بھی ہمدردی اور پاس داری۔ ہم تو شب و روز ان کی شخصیت کے اس پہلو کو دیکھتے اور اس کا تجربہ کرتے تھے مگر جس پیمانے پر اور   جس یک زبانی کے ساتھ سب ہی شرکاے غم نے ان پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا ہے، اس سے مولانا محمد علی جوہر کی اس پیش گوئی کی دل نے تائید کی    ؎

جیتے جی تو کچھ بھی نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کھلے

میں اپنے رخصت ہونے والے بھائی کے بارے میں اپنی تاثراتی گزارشات کو اقبال کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں جو محترم قاضی حسین احمد کی شخصیت کا آئینہ اور ان کے بعد ذمہ داری کے مقام پر فائز تمام افراد کے لیے ایک پیغام ہے     ؎

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے

 

آج سے ۵۰ برس قبل ملک میں صدر ایوب کا دورِ حکومت تھا۔ عوام گوناگوں مسائل سے دوچار تھے۔ اس موقع پر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پشاور کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قومی زندگی کے لیے پانچ بنیادی اصول پیش کیے جن پر اتفاق راے کرکے ملک کے تمام مقتدر ادارے چلیں تو ملک کے سب مسائل حل ہونے کا راستہ ہموار ہوگا۔ آج بھی پاکستانی قوم اسی نوعیت کے بحران سے دوچار ہے۔ آج بھی یہ پانچ اصول تمام سیاسی قوتیں اور مقتدر ادارے اخلاص سے قبول کرلیں تو پاکستان آیندہ پانچ سال میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام حاصل کرلے گا اور یہاں کے باشندے دنیا کی ہی نہیں، آخرت کی کامیابیاں بھی حاصل کریں گے۔ ادارہ

  •  اسلامی نظام ھی مسائل کا حل ھے: اس بات کو طے شدہ امر سمجھا جائے کہ پاکستان میں اسلام کو نافذ ہونا ہے، اور یہ اسلام قرآن و سنت کا اسلام ہے..... اگر اس بات کو طے شدہ امر سمجھ لیا جائے تو ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ دُور ہوجائے گی۔ جس چیز نے پاکستان کو  کھوکھلا کیا ہے وہ سرکاری مشینری میں بدعنوانی ہے۔ کرپشن سرکاری مشینری میں اتنی پھیل چکی ہے کہ ان کی رگ رگ میں سرایت کرگئی ہے اور یہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اس وقت کرپشن مارشل لا سے پہلے سے دو سو گنا زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ اخلاق کا دیوالیہ نکل رہا ہے، بداخلاقیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر ان سب چیزوں کی اصلاح کسی چیز سے ہوسکتی ہے تو وہ اسلام ہے اور اسلام کے ذریعے چند برسوں میں حالات بدل جائیں گے۔ اگر یہ خیال ہے کہ یہاں یورپ اور امریکا سے فلسفہ لاکر اصلاح کی جائے گی تو اسے دل سے نکال دیں کیونکہ یورپ اور امریکا کے نظریات اپناتے اپناتے آپ کو سو ڈیڑھ سو سال لگ جائیں گے اور تب جاکر آپ کہیں اسلام کو ختم کر کے یہاں مادہ پرستی لاسکیں گے کیونکہ پاکستان میں ۹۹ فی صد افراد مسلمان ہیں اور بچے کی پیدایش سے لے کر اس کی موت تک ہرمرحلے پر خدا کا نام لیا جاتا ہے اور اسلام ساتھ ساتھ چلتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں قرآن کی محبت ہے۔ ایسی صورت میں اسلام کو فراموش کرانے اور متبادل نظام کو یہاں لانے میں ڈیڑھ سو سال کا عرصہ درکار ہے۔البتہ اگر اسلام کے ذریعے یہاں اصلاح کی جائے تو پانچ سال کے عرصے میں مکمل اصلاح کی جاسکتی ہے اور اس حالت میں پاکستان کیا سے کیا ہوجائے گا۔
  •  ملک عوام کا ھے: اس بات کو ماننا پڑے گا کہ یہ ملک پاکستان کے باشندوں کا ہے، کسی طبقے یا گروہ کا نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کا کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عوام کو نظرانداز کر کے خود اختیارات سنبھال لے۔ اگر یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا کہ ایک شخص یا طبقہ قوم کو محروم کر کے خود اختیارات سنبھال لے تو اس ملک کو خانہ جنگی سے نہیں بچایا جاسکتا، اور اس طرح اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو محروم کرنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور یہ دوڑ کبھی ختم ہونے کو نہ آئے گی۔ اس لیے یہ اصول تسلیم کیا جائے کہ یہ ملک عوام کا ہے اور انھوں نے ہی اس پر حکومت کرنی ہے۔
  •  عوام کے منتخب نمایندوں کی حکومت:اس اصول کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ملک میں حکومت کرنا اس ملک کے باشندوں کے نمایندوں کا کام ہے اور سرکاری ملازموں کا کام ان کی اطاعت کرنا ہے، حکمرانی کرنا نہیں۔ اگر کسی سرکاری ملازم کو عوامی حکمرانوں کی پالیسی سے اتفاق نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفا دے کر اپنے نظریات کی بنیاد پر انتخاب لڑے۔ سرکاری ملازم کی حیثیت سے اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیاسی گروہ بندیاں کرے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر عرض کرتا ہوںکہ ڈپٹی کمشنر کو پورے ضلع کے انتظامات امانت کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ پورے ضلع کے مالک بن جائیں اور اس کو اپنی جایداد بنالیں۔ ضلع ان کی جایداد نہیں ہے۔ ہرطبقے کے سرکاری ملازموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب ان کے ہاتھ میں طاقت دی جاتی ہے تو یہ قوم کا ان پر اعتبار ہے، وہ ان کی شرافت پر یقین کر کے یہ خطرہ مول لیتی ہے۔ قوم کو کسی حالت میں دھوکا نہیں دینا چاہیے۔ سرکاری ملازم اگر اقتداراعلیٰ پر فائز ہونا چاہتے ہیں، وہ استعفا دے کر انتخابات لڑیں اور عوام سے اپنے نظریات پر اعتماد حاصل کریں۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو قوم کے نمایندوں کے تحت کام کریں۔
  •  صاف اور شفاف انتخابات:ملک کے حقیقی نمایندے وہ ہیں جن کو ملک کے عوام اپنی آزادیِ راے سے منتخب کریں، نہ کہ دھاندلیوں، لالچ یا سرکاری اثر سے جیتنے والے قوم کے نمایندے ہیں۔ وہ دشمن اور غاصب ہیں۔ ان کی انھی حرکتوں سے قوم اب تک خراب ہوتی رہی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔اگر اب تک کے انتخابات میں جمہوری طریقوں کو اپنایا جاتا تو یہاں جو تباہی آئی ہے وہ نہ آتی۔ انھی انتخابات سے حالات خراب ہوتے چلے گئے ہیں۔ اگر حالات نے کوئی سبق سکھایا ہے تو قسم کھا لینی چاہیے کہ آیندہ انتخابات میں نہ خود بددیانتی کریں گے اور نہ کسی کو بددیانتی کرنے دیں گے۔ جو آدمی ایسا ہے یا کرے گا تو اسے قوم کا دشمن اور غاصب تسلیم کرنا چاہیے۔ دھاندلی سے پیدا ہونے والے خطرے کو محسوس کیا گیا تو آیندہ حالات خراب نہ ہوں گے۔
  •  عوام کی راے کا احترام:ہر آدمی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی راے کو ملک کے باشندوں کے سامنے پیش کرے اور انھیں اپنے اعتماد میں لے۔ کسی کو اس کی راے غصب کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے وہ کسی کو اپنی راے تسلیم کرانے نہیں دیتا۔ لہٰذا اس حق کو مان لیا جائے کہ جو شخص عوام کا اعتماد حاصل کرکے اقتدار حاصل کرے اس کا اقتدار جائز، اور دوسرے راستوں سے حاصل کردہ اقتدار ناجائز ہوگا۔ اگر یہ اصول تسلیم نہ کیا گیا تو کسی صورت میں بھی عوام کی زندگی ہموار نہ ہوسکے گی۔ (۲۹؍اگست ۱۹۶۲ء کو پشاور میں خطاب)۔(، ہفت روزہ شہاب، ۱۶ستمبر ۱۹۶۲ء)

 

 سوال: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو    بہ حیثیت رسول جو ذمہ داری دی گئی تھی، وہ کتاب اللہ کی تشریح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے نبیؐ) یہ ذکر ہم نے تمھاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اُتاری گئی ہے‘‘ (النحل۱۶:۴۴)۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ کو اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں جو احکام وہدایات دیے جارہے ہیں، ان کی آپؐ وضاحت اورتشریح فرمادیں، تاکہ لوگوں کو کلام اللہ کے سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے۔

یہ فریضہ منصب ِرسالتؐ کا ایک اہم جز ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ذمہ داریاں آپؐ کے سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐ  کی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے، بلکہ یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے (النساء۴:۶۴،۸۰، محمد ۴۷:۳۳) اس کے ساتھ آپؐ کو کچھ اختیارات بھی عطا کیے تھے۔ فرمایا: ’’جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رُک جاؤ‘‘ (الحشر۵۹:۷)۔ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ  فرائض نبوت کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہی بصیرت اور حکمت عطا فرمائی تھی، جس کی بنیاد پر آپؐ  مقاصد قرآن کی گہرائیوں تک پہنچتے تھے۔ یہ بصیرت اور حکمت لازمۂ نبوت تھی، جو کتاب کے ساتھ آپؐ  کو عطا کی گئی تھی اور اسی کی بدولت آپؐ  لوگوں کو تعلیم خداوندی کے مطابق عمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ قرآن میں اس کا بہ کثرت تذکرہ ملتا ہے (ملاحظہ کیجیے البقرہ ۲:۱۲۷، ۱۲۹،۱۵۱،اٰل عمرٰن۳:۱۶۴، الجمعۃ ۶۲ :۲)۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے (القیامۃ۷۵:۱۹)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیمات واحکام کی جو تشریح وتعبیر آپؐ  اپنے قول وعمل سے کرتے تھے وہ آپؐ  کے ذہن کی پیداوار نہ تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک ہی آپؐ  پر قرآن نازل کرتی تھی اور وہی آپؐ  کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی اور اس کے وضاحت طلب امور کی تشریح بھی کرتی تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ آپؐ  کے ذرائع معلومات کتاب اللہ کے علاوہ بھی ہیں، جو قرآن سے ثابت ہیں۔ سورۂ بقرہ میں ہے: ’’اور وہ قبلہ جس کی طرف تم پہلے رُخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے‘‘ (۲: ۱۴۳)۔ چونکہ قبلۂ اوّل کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں پایا جاتا، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ  کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں۔ لہٰذا حضوؐر کی زندگی کا وہ کارنامہ جو آپؐ  نے بعث کے بعد اپنی ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں انجام دیا وہ قرآن کے منشا کی توضیح وتشریح کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں منصب ِرسالتؐ کے دیگر کاموں کی ادائی ہے۔ اس تفصیل سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب شارح کا تھا، نہ کہ ’شارع‘ کا۔ لیکن بعض علما آپؐ  کے لیے شارع کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات (Legislative Powers)عطا کیے تھے۔ اس بات کا تذکرہ انھوں نے اپنی تصانیف، خاص کر سنت کی آئینی حیثیت میں زور و شور سے کیا ہے اور ایک دوجگہ آپؐ  کو ’شارع علیہ السلام‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ مولانا مرحوم کی علمی صلاحیتوں کا قائل ہونے کے باوجود ان کا یہ نظریہ ناچیز کی عقل وفہم سے پرے ہے۔ کیوں کہ شارع تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، جس کا قرآن میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت تو صرف شارح کی تھی۔

مولانا مودودیؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات حاصل ہونے کی جتنی بھی دلیلیں دی ہیں وہ سب دراصل تشریح کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’اگر تم کو جنابت لاحق ہوگئی ہوتو پاک ہوئے بغیر نماز نہ پڑھو‘‘۔ (النساء۴:۴۳) اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؐ  نے بتایا کہ جنابت کیا ہے اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ یعنی غسل کیسے کیا جائے گا؟ یہ سب اضافی باتیں تشریح وتفسیر کے زمرے میں ہی آئیں گی۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دوسگی بہنوں کو بہ یک وقت ایک مرد سے نکاح کرنے سے منع فرمایا (النساء۴:۲۳)۔ اس کی تشریح وتوضیح آپؐ  نے یوں کی کہ جس طرح دوسگی بہنیں ایک جگہ جمع نہیں کی جاسکتیں اسی طرح خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دوتہائی دیا جائے‘‘ (النساء۴:۱۱) ۔یہاں یہ نہیں بتایاگیا کہ اگر صرف دولڑکیاں ہوں تو ان کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی وضاحت آپؐ  نے یوں فرمائی کہ دو لڑکیاں ہونے کی صورت میں بھی دونوں کو ترکے میں سے دوتہائی دیا جائے گا۔

یہاں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ سورۃ النحل آیت ۴۴ میں جس طرح حضوؐر کو قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح کا حکم دیاگیا ہے، اسی طرح قرآن میں تشریعی اختیارات عطا کرنے کا کہیں ذکر نہیں کیاگیا ہے۔ اس لیے آپؐ  کے تشریعی اختیارات کے حق میں مولانا مودودیؒ نے جو دلائل دیے ہیں اور جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔

یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ یہ دین کی کوئی فروعی بحث نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق بنیادی عقائد سے ہے۔ مولانا مودودیؒ کی راے مان لینے سے اوّل توعقیدۂ توحید پرزد پڑتی ہے۔ دوسرے حضوؐر کے اختیارات میں غلو کے باعث فرقہ واریت کو تقویت پہنچتی ہے، جس سے     ملت اسلامیہ کے مزید کم زور ہونے کا اندیشہ ہے۔اُمید ہے کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے۔

رسولِؐ اکرم کی تشریعی یا توضیحی حیثیت

جواب:اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے اپنا جو کلام آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اسے قرآن کہا جاتا ہے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال وغیرہ کو، خواہ ان کا تعلق قرآن کی تشریح وتبیین سے ہویا وہ دیگر معاملات سے متعلق ہوں، ان کے لیے حدیث کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایک مسئلہ ابتدا سے یہ زیر بحث رہا ہے کہ دین کے معاملے میں احادیث حجت ہیں یا نہیں؟ بعض گروہ اور افراد ایسے پائے گئے ہیں، جو ان کی حجیت کا انکار کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ماضی بعید میں ’خوارج ‘ نامی گروہ کو شہرت ملی اور ماضی قریب میں اس قسم کے افکار رکھنے والے ’اہل قرآن‘ کہلائے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں صرف ’قرآن‘ حجت ہے۔ وہی احکام قابلِ قبول اور لائق نفاذ ہیں جو قرآن سے ثابت ہیں۔ اللہ کے رسول دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ آپؐ  کا اصل کام صرف قرآن کو اللہ کے بندوں تک بے کم وکاست پہنچادینا تھا۔ اس کی تعبیر وتشریح کے طور پر آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اپنی بشری حیثیت میں کیا، جسے قبول کرنے کے ہم پابند نہیں ہیں۔ آپؐ  نے احکام قرآن کی اپنے عہدکے اعتبار سے تعبیر وتشریح فرمائی اور ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ ان کی تعبیر وتشریح اپنے زمانے کے اعتبار سے کریں۔

جمہورِاُمت نے اس فکر کو قبول نہیں کیا ہے اور اسے گم راہی قرار دیا ہے، چنانچہ خوارج اور اہل قرآن دونوں کا شمار فرق ضالّہٗ (گم راہ فرقوں) میں ہوتا ہے۔ جمہور کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور ثابت شدہ اقوال وافعال دین میں اسی طرح حجت ہیں جس طرح قرآن حجت ہے، اگرچہ ان کا درجہ قرآن کے بعد آتا ہے۔ ان کی حجیت کے دلائل خود قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، ان کے فیصلوں اور احکام کو    واجب التعمیل قرار دیا ہے اور ان کی مخالفت سے ڈرایا ہے۔ چند آیات درج ذیل ہیں:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الاَمْرِ مِنکُمْ فَاِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ (النساء۴:۵۹) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کو جو تم میں سے صاحب ِامرہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیردو، اگر  واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔

فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَیَجِدُوْا فِیْ اَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاْ تَسْلِیْمًا (النساء۴:۶۵) (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں۔

وَمَآ اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا(الحشر۵۹:۷)جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ۔

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْیُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (النور ۲۴:۳۶) رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔

قرآن سے حدیث کے تعلق کے تین پہلو ہیں:

۱- کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں قرآن میں مذکور احکام ہی کا تذکرہ بطور تاکید وتائید آیا ہے، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائی کا حکم اور شرک، جھوٹی گواہی، والدین کی نافرمانی اور ناحق قتل نفس کی ممانعت وغیرہ۔

۲-بہت سی احادیث قرآن کی تفسیر وتشریح کرتی ہیں۔ چنانچہ قرآن میں کوئی حکم مجمل بیان ہوا ہے، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ کوئی حکم قرآن میں مطلق مذکور ہے، احادیث میں اس کے سلسلے میں بعض قیود عائد کردی گئی ہیں۔ کسی حکم کا تذکرہ قرآن میں عمومی صیغے میں ہے، احادیث میں اس کی تخصیص کردی گئی ہے، مثلاً قرآن میں نمازقائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور حج کرنے کے احکام ہیں۔ احادیث میں نمازوں کے اوقات، رکعتوں کی تعداد، ادائی نماز کا طریقہ، زکوٰۃ کی مقدار اور حج کے مناسک وغیرہ بیان کردیے گئے ہیں۔ قرآن میں خرید وفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں خریدوفروخت کی جائز اور ناجائز صورتیں اور سود کی تفصیلات مذکور ہیں۔

۳- کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں ایسے احکام بیان کیے گئے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ یہ بھی واجب الاتباع ہیں، مثلاً نکاح میں دوایسی عورتوں کو جمع کرنے کی حرمت جن کے درمیان پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کا رشتہ ہو، یا شکاری درندوں اور پرندوں اور گھریلو گدھوں کی حرمت، یا مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننے کی حرمت ، یا میراث میں دادی کا حصہ، یا شادی شدہ زانی کو   رجم کی سزا ،یا دیت کے احکام وغیرہ (اصول الفقہ، محمد ابوزہرۃ، دارالفکر العربی القاہرۃ، ۱۹۵۸ء ص۲۱۱، علم اصول الفقہ، عبدالوہاب خلاف، مکتبۃ الدعوۃ، الاسلامیۃ، قاہرہ، ص ۳۹-۴۰، السنۃ و مکانتہا فی التشریع الاسلامی، ڈاکٹر مصطفی السباعی، المکتب الاسلامی بیروت، ص۴۱۴-۶۱۴)

یہ تقسیم جمہور کے نقطۂ نظرسے ہے۔ بعض علما جن میں علامہ شاطبیؒ صاحب الموافقات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، حدیث کی صرف اوّل الذکر دوقسمیں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جملہ احادیث قرآن کی تشریح وتبیین کے قبیل سے ہیں۔ کوئی حدیث ایسی نہیں جس کی   اصل قرآن میں موجود نہ ہو۔ مثال کے طور پر حدیث میں درندوں اور شکاری پرندوں کی حرمت کا تذکرہ ہے۔ اس کی اصل آیت قرآنی: وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰئِثَ (الاعراف ۷:۵۱) میں موجود ہے۔ حدیث میں مذکور احکام دیت کی اصل آیت فَدِیَۃٌ مُسَلَّمَۃٌ اِلیٰ اَھْلِہٖ (النساء۴:۲۹) میں پائی جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: الموافقات فی اُصول الشریعۃ، ابواسحاق الشاطبی، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، ۴/۲۱-۷۱)

موجودہ دور میں عالم اسلام کے مشہور فقیہ شیخ ابوزہرہ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ انھوں نے حدیث کی مذکورہ بالا تینوں قسمیں بیان کرتے ہوئے ہر قسم کی مثالیں دی ہیں۔ پھر تیسری قسم کی مثالوں کے ضمن میں لکھاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ ان تمام مثالوں کی اصل کتاب الٰہی میں موجود ہے۔۔۔ ہم سنت میں مذکور ایک حکم بھی ایسا نہ پائیں گے جس کی اصل قریب یادُور سے قرآن میں موجود نہ ہو۔ اسی لیے بعض علما نے فرمایا ہے: سنت میں جو حکم بھی مذکور ہے اس کی اصل اللہ کی کتاب میںضرور پائی جاتی ہے۔ اس راے کو امام شافعیؒ نے الرسالہ میں نقل کیا ہے۔ ان کے بعد شاطبیؒ نے بھی اپنی کتاب الموافقات میں اس کا اثبات کیا ہے۔۔۔ تم سنت میں کوئی ایک حکم بھی ایسا نہ پاؤ گے جس کے مفہوم پر قرآن اجمالی یا تفصیلی انداز سے دلالت نہ کرتا ہو‘‘۔(اصول الفقہ،  ابوزہرہ، ص ۱۱۳-۱۱۴)

حقیقت یہ ہے کہ احادیث کی تقسیم کے سلسلے میں علما کا یہ اختلاف کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔  اس لیے کہ جمہوراُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اور ثابت شدہ تمام احادیث اور احکام ، خواہ انھیں مستقل حیثیت دی جائے یا قرآن کی تشریح وتببین کے قبیل سے مانا جائے، واجب التعمیل ہیں۔ جو علما تمام تراحادیث کو قرآن کی شارح ومبّین قرار دیتے ہیں وہ بھی اس سے اختلاف نہیں کرتے۔ اسی بنا پر موجودہ دَور کے مشہور شامی عالم ڈاکٹر مصطفی سباعی نے اس اختلاف کو لفظی قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

خلاصہ یہ کہ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ سنت میں کچھ ایسے نئے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں منصوص اور صراحت سے مذکور نہیںہیں۔ پہلا فریق کہتا ہے کہ اس سے اسلامی قانون سازی میں سنت کی مستقل حیثیت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سنت سے ایسے احکام ثابت ہیں جو اللہ کی کتاب میں مذکور نہیں ہیں۔ دوسرا فریق تسلیم کرتا ہے کہ وہ احکام قرآن میں صراحت سے مذکور نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ احکام کسی نہ کسی پہلو سے نصوصِ قرآن کے تحت آجاتے ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث، جس سے ایسا حکم ثابت ہوتا ہو جو قرآن میں مذکور نہیں ہے، وہ ضرور قرآن کے کسی نص یا اس کے کسی اصول کے تحت داخل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ وہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے اس پر عمل درست نہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ دونوں فریق اس بات کے قائل ہیں کہ سنت میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیںہیں۔ ایک فریق سنت کو مستقل تشریعی حیثیت دیتا ہے۔ دوسرا فریق اسے مستقل حیثیت نہیں دیتا، لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔(السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی، مصطفی السباعی، ص۴۲۰)

گذشتہ صدی میںانکار سنت کا فتنہ ہندستان میں زور وشور سے اٹھا۔ اس کے علم برداروں کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب صرف اللہ کا پیغام قرآن کی شکل میں انسانوں تک پہنچادینا تھا۔ وہ کام آپؐ  نے کردیا۔ اس کی تعبیر وتشریح کا جو کام آپؐ  نے انجام دیا وہ آپؐ  کی شخصی حیثیت میں تھا۔ ہم صرف احکام قرآن پر عمل ونفاذ کے مکلف ہیں، ارشاد اتِ رسولؐ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ اسلامی قانون کا ماخذ صرف قرآن ہے، سنت کو بھی ماخذ قانون قرار دینا درست نہیں۔ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے جو علما میدان میں آئے ان میں سے ایک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی تھے۔ انھوں نے ان منکرین سنت سے لوہا منوا لیا اور ان کے افکار ونظریات کے تاروپود   بکھیر کررکھ دیے۔ اپنی تحریروں میں مولانا مودودیؒ نے پورے زور وقوت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب محض ایک ’نامہ بر‘ کا نہیں تھا، بلکہ آپؐ  کو معلم ومربیّ،      راہ نما وپیشوا، حاکم وفرماںروا، قاضی، کتاب اللہ کا شارح ومفسر اور شارعِ قانون بھی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ آپؐ  کی اطاعت وپیروی اور آپؐ  کے دیے ہوئے احکام پر عمل مسلمانوں پر فرض ہے اور  سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔ جو شخص سنت سے آزاد ہو کر قرآن کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے وہ حقیقت میں قرآن کا پیرونہیں ہے۔ مولانا کی یہ تمام تحریریں پہلے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے ’منصب رسالت نمبر‘ میں شائع ہوئیں، بعد میں سنت کی آئینی حیثیت کے نام سے کتابی صورت میں ان کی اشاعت ہوئی۔ یہ مولانا کی بہترین کتابوں میں سے ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے پوری اُمت کی طرف سے دفاع سنت کا فرض کفایہ ادا کردیا ہے۔

قرآن سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال وارشادات وحی الٰہی پر مبنی تھے: وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحیٰ(النجم۵۳:۳) ’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ آپؐ  کے تمام اجتہادات کی بنیاد قرآن یااللہ تعالیٰ کی بہ راہ راست رہ نمائی ہوتی تھی۔ شیخ ابوزہرہؒ نے لکھا ہے:

اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ قانون سازی میں رسول کے اجتہاد کی بنیاد قرآن اور ان کے اندروں میں ودیعت شدہ قانون سازی کی روح اور اس کے اصول ومبادی پر تھی۔ آپؐ  جو احکام وقوانین وضع کرتے تھے ان کے معاملے میں قرآنی بیانات پر قیاس کرتے تھے یا قرآنی قانون سازی کے عام اُصولوں کو تطبیق دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سنت میں مذکورہ احکام کامرجع وماخذ قرآن کے احکام ہیں۔‘‘ (اصول الفقہ، ابوزہرہ، ص۴۰)

اسی بناپر علما نے سنت کو اسلامی قانون کا دوسرا بنیادی ماخذ قرار دیا ہے اور اس سے   ثابت شدہ احکام کو مسلمانوں کے لیے حجت اور واجب التعمیل مانا ہے۔ شیخ عبدالوہاب خلّاف فرماتے ہیں:

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے جن اقوال، افعال اور ’تقریرات‘ کا صدور ہوا ہے اور ان کا مقصود قانون سازی اور اقتدا ہے اور وہ ہم تک صحیح سندوں سے ، جن سے قطعیت یا ظنِ غالب کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، پہنچے ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے حجت  اور قانون سازی کا سرچشمہ ہیں، جن سے اجتہاد کرنے والوں کو شرعی احکام کا استنباط کرنا ہے۔ گویا احادیث میں وارد ہونے والے احکام سے قرآن میں مذکوراحکام کے ساتھ ایک ایسا قانون تشکیل پاتا ہے جس کی اتباع مسلمانوں کے لیے ضروری ہے ۔۔۔اگریہ توضیح وتشریح کرنے والی احادیث مسلمانوں کے لیے حجت نہ ہوتیں اور ان کی حیثیت واجب الاتباع قانون کی نہ ہوتی، تو قرآن کے فرائض کا نفاذ اور اس کے احکام پر عمل ممکن نہ ہوتا۔ ان توضیحی احادیث کی اتباع اسی پہلو سے واجب ہے کہ ان کا صدور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوا ہے، اور وہ ایسی سندوں سے مروی ہیں جو قطعیت یا ظن غالب کا فائدہ دیتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہرحدیث جس میں کوئی حکم یا قانون مذکور ہوااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت صحیح ہو وہ حجت اور واجب الاتباع ہے، خواہ اس کے ذریعے قرآن میں مذکور کسی حکم کی تشریح وتبیین ہورہی ہو یا اس میں کوئی ایسا حکم بیان کیاگیا ہو جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو۔ اس لیے کہ ان تمام احادیث کا سرچشمہ وہ معصوم ذات گرامی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تبیین کی ذمہ داری دی تھی اور قانون سازی کی بھی۔ (علم اصول الفقہ، عبدالوہاب، خلّاف، ص ۸۳-۹۳)

موجودہ دور کے مشہور فقیہ شیخ وہبہ زحیلیؒ نے لکھاہے:

علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنتِ نبوی شرعی احکام کے استنباط کے معاملے میں قرآن کی طرح واجب الاتباع ہے، اور یہ کہ وہ قانون سازی کا دوسرا سرچشمہ ہے۔۔۔ ثابت شدہ سنت اپنے تمام مشتملات میں واجب الاتباع ہے، خواہ وہ قرآن کے مجمل احکام کی توضیح کررہی ہو، یا اس کے مطلق احکام پر کچھ قیود عائد کررہی ہو، یا کوئی ایسا نیا حکم بیان کررہی ہو، جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو، اس لیے کہ آخر کار اس کا خاتمہ وحی الٰہی پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت سے اس کااعلان کیا ہے۔ فرمایا: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ، اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ (النجم۵۳: ۳-۴) ۔(الوجیز فی اصول الفقہ، وھبۃ الزحیلی ، دارالفکر دمشق،ص ۳۹-۴۱)

شریعت کے بنیادی مصادر اور رسولؐ بحیثیت شارع

گذشتہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر دو ہیں۔ ایک قرآن، دوسرا حدیث۔ جناب مستفسر کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہے۔ وہ جہاں یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں مذکور احکام کی توضیح وتشریح فرمادیں، وہیں یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپؐ  کو دوسری بہت سی ذمہ داریاں بھی سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐ  کی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آپؐ  کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہ راہ راست ہدایات ملتی تھیں اور آپؐ  کے تمام اقوال وافعال  اللہ تعالیٰ کی راست نگرانی میں اور اس کی عطا کردہ بصیرت وحکمت کی روشنی میں انجام پائے تھے۔ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ رسول کو ’شارع‘ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپؐ  کا کام صرف اللہ کی شریعت کو اس کے بندوں تک پہنچادینا تھا۔ شارع حقیقت میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے۔

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شارع حقیقی صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ وہی حاکم ہے اور تمام شرعی احکام اسی کے دیے ہوئے ہیں، خواہ اس نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب قرآن میں کردیا ہو یا  اس کی ہدایت کے مطابق اس کے رسولؐ نے انھیں بیان کیا ہو۔ اس بات پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ شیخ عبدالوہاب خلّاف نے لکھا ہے:

علما کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مکلّفین کے تمام افعال کے لیے شرعی احکام کا سرچشمہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے، خواہ اس کے حکم کااظہار بہ راہ ست ان نصوص سے ہو جن کی اس نے اپنے رسولؐ کی طرف وحی کی تھی، یا اجتہاد کرنے والے استنباطِ احکام کے شرعی دلائل کے واسطے سے اس تک رسائی حاصل کریں۔ اسی لیے وہ متفقہ طور پر ’حکم شرعی‘ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ اس سے مراد مکلّفین کے افعال سے متعلق اللہ تعالیٰ کا خطاب ہے۔ اس کے لیے ان کے درمیان یہ اصول مشہور ہے: لاحکم الا اللّٰہ، حکم کااختیار صرف اللہ کو ہے۔ یہ اصول اللہ کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے: اِنِ الحُکُمُ اِلاَّ لِلّٰہِ(الانعام۶:۵۷) ’’ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے‘‘۔ (علم اصول الفقہ، عبدالوہاب، خلّاف،ص۹۶)

اسی لیے اصطلاحی طور پر لفظ ’شارع‘ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کیاجاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد رمضان حسن لکھتے ہیں:’’شارع احکام دینے اور قوانین وضع کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔ شارع اور حاکم صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ اس کا ارشاد ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ… (الشوریٰ۴۲:۳۱) ’’اس نے تمھارے لیے دین کا طریقہ مقرر کیا ہے۔۔۔‘‘ (معجم اُصول الفقہ، خالد رمضان حسن، الطرابیشی للدراسات الانسانیۃ، مصر،۱۹۹۸ء، ص ۵۵۱)

لیکن بعض علما، لفظ ’شارع‘ کا استعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کرتے ہیں۔ ایسا وہ مجازاً کرتے ہیں۔ زبان وبیان اور بلاغت کے پہلوؤں سے اس کی گنجایش موجود ہے۔ اس لیے اسے بھی غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔ شرعی احکام کے بنیادی سرچشمے دو ہیں: ایک قرآن، دوسرا حدیث۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو حدیث کہتے ہیں۔ جب دونوں سے شرعی احکام حاصل ہوتے ہیں تو دونوں کو شارع کہا جاسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کو حقیقتاً اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجازاً ۔ بعض علماے اصول نے اس کی رعایت سے لفظ ’شارع‘ کا یہ مطلب بتایا ہے: الشارع ھو مبیّن الاحکام،’’شارع احکام بیان کرنے والے کو کہا جاتا ہے‘‘(القاموس المبین فی اصطلاحات الاصولیین، ڈاکٹر محمود حامد عثمان، دارالتراجم الریاض، ۲۰۰۲ء، ص۱۸۵)

اس کی تائید وتصویب قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرکا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ (الاعراف ۷:۱۵۷)،’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔

اس آیت میں تحلیل وتحریم کی نسبت صراحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کی گئی ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ تحریم وتحلیل کے جو کام آپؐ  نے کیے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اختیارات کی بنا پر کیے ہیں، اس لیے وہ بھی قرآنی احکامِ تحلیل وتحریم کی طرح واجب الاتباع ہیں۔ یہی مضمون بعض احادیث میں بھی مذکور ہے۔ ایک حدیث حضرت ابورافعؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لاَاُلْفِیَنَّ اَحَدَکُمْ مُتَّکِئاً عَلیَ اَرِیْکَتِہٖ یَاتِیْہِ الاَمْرُ مِنْ اَمْرِیْ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَوْ نَھَیْتُ عَنْہُ فَیَقُوْلُ: لاَنَدْرِیْ مَاوَجَدْنَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اتَّبِعْنَاہ۔(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، ۵۰۶۴)’’میں ہرگز تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہو اور اس کے پاس میرے اوامر ونواہی میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہنے لگے: ہم نہیں جانتے۔ ہم جو کچھ اللہ کی کتاب میں پائیں گے صرف اسی کی اتباع کریں گے‘‘۔ اس مضمون کی اور بھی متعدد احادیث مروی ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے: ابوداؤد، ۰۵۰۳، ۴۰۶۴، ترمذی،۳۶۶۲، ۴۶۶۲، ابن ماجہ ،۱۲،۱۳)

اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ شرعی احکام وقوانین دینے کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرح مختار مطلق تھے اور آپؐ  کو کلی اختیار حاصل تھا کہ اللہ کی راہ نمائی اور بصیرت کے بغیر جو چاہیں قوانین وضع کریں تو یقینا اس کی زد عقیدۂ توحید پر پڑتی ہے اور اس سے آپؐ  کے اختیارات کے معاملے میں غلو ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپؐ  کو اللہ تعالیٰ کی مکمل ہدایت، وحی اور راست نگرانی میں تشریعی اختیارات (Legislative   Powers) حاصل تھے، اس بنا پر وہ آپؐ  کے لیے بھی ’شارع‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ایسا کرنا غلط نہیںہے۔ اس سے نہ عقیدۂ توحید پر زد پڑتی ہے نہ آپؐ  کے اختیارات میں غلوثابت ہوتاہے۔


مقالہ نگار تصنیفی اکیڈمی، بھارت کے سیکرٹری اور سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں

انسانوں کی تربیت کرنا، ان کی کارکردگی کو بڑھانا، اُنھیں اُوپر اُٹھانا، اُن کی ذات کو   زیادہ سے زیادہ مفید بنانا، اُن کی خامیوں کوکم سے کم کرنا اور اُنھیں اس قابل بنانا کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر اپنے آپ کو کامیاب بنائیں ___ ہر دور میں معلمین، مصلحین اور مفکرین کی توجہ اور کام کا اہم نکتہ رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے انبیا کا جو سلسلہ قائم کیا اُس کی بڑی وجہ بھی انسان کی ذات کی اصلاح، اس کا تزکیہ اور زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتوں سے اسے آراستہ کرنا تھا۔ ہر پیغمبر کا یہ بنیادی فرض رہا ہے کہ وہ انسانوں کی اصلاح کرے،اُن کی کمزوریوں کو دُور کرنے کی سعی کرے اور انھیں معاشرے کا مفید شہری بناتے ہوئے اپنے رب کا تابع فرمان بنائے تاکہ انسان دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو۔ اسے دنیا اور آخرت دونوں میں عزت ،سرفرازی اور سکون حاصل ہو اور وہ انجام بد سے بچ سکے۔

تزکیہ اور تربیت جہاں ایک داعی کا اہم ترین فریضہ ہے وہیں ایک بڑا کٹھن، صبر آزما اور حوصلے اور جرأت کا کام بھی ہے ۔اس ضمن میں چند اہم اُمور ایسے ہیں جو اگر داعی کی نگاہ سے اوجھل ہوجائیں تو نہ صرف مایوسی ڈیرہ ڈالنے لگتی ہے بلکہ بعض اوقات داعی کی تمام تر کوششیں اُلٹ نتائج کا باعث بنتی ہیں۔ اس مضمون میں چند ایسی ہی باتوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اگر ان اُمور پر نظر رکھتے ہوئے تزکیہ اوراصلاح کی کوششیں کی جائیں گی تو وہ   نہ صرف زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوں گی، بلکہ اس ضمن میں پیش آنے والے مسائل کو بھی کم کرنے کا باعث بنیں گی۔

انسان خوبیوں اور کمزوریوں کا مجموعہ

قرآن مجید میں جہاں انسان کی عظمت کا اقرار و اظہار ہے، وہیں پر اس کی بعض کمزوریوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے تا کہ دونوں پہلو سامنے رہیں۔ ایک طرف اس امرکا اظہار ہے کہ:   لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین ۹۵:۴ ) ’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے‘‘۔دوسری طرف قرآن اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ وَخُلِقَ اْلِانْسَانُ ضَعِیْفاً(النساء۴:۲۸ ) ’’اور انسان کو طبعاً کمزور پید ا کیا گیاہے‘‘۔ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلًا (الاحزاب۳۳:۷۲ ) ’’بے شک انسان ظالم بھی ہے اور جاہل بھی‘‘۔ اَوَلَمْ یَرَ اْلِانْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہ ُمِنْ نُطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(یٰسین ۳۶:۷۷) ’’کیاانسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پس وہ کھلا جھگڑالو بن گیا‘‘۔

ایک طرف قرآن انسان کی عظمت کا اقرار اس طرح کرتا ہے کہ اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (البقرہ ۲:۳۰)’’بے شک میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ‘‘، اور دوسری طرف انسان کی اس کمزوری کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ: وَلَقَدْ عَھِدْنَـآ اِلٰٓی اٰدَ مَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’اور تحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم ؑ سے عہد لیا لیکن وہ بھول گیا اورہم نے اس میں عزم نہیں پایا‘‘ ۔کہیں اس بات کا تذکرہ ہے کہ: اَلَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰلکَ فَعَدَلَکَ (الانفطار۸۲:۷)’’جس نے تمھیں پیدا کیا نک سک سے درست کیا اور ٹھیک ٹھیک متناسب بنایا‘‘، اور کہیں یہ کہا گیا ہے کہ: وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا (بنی اسرائیل ۱۷:۱۱) ’’اوربے شک انسان بڑا جلد باز ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) ’’اورانسان واقعی بڑا ناشکرا ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا o (بنی اسرائیل۱۷:۱۰۰) ’’واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہو ا ہے‘‘۔

کسی بھی داعی اور مصلح کے لیے اور بالخصوص جو افراد قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں اُن کے لیے اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہر انسان خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، تعلیم یافتہ ہو یا  اَن پڑھ ،قائد ہو یا کارکن، حتیٰ کہ کسی نیکی یا شر کے کام کا  علَم بر دار ہی کیوں نہ ہو، اُس میں خوبیاں بھی ہوں گی اور کمزوریاں بھی۔خوبیوں اور کمزوریوں کے تناسب میں فرق ہو سکتا ہے لیکن یہ بات بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزوریوں اور خامیوں سے پاک صر ف ایک ذات ہے اور وہ خود خالق کائنات ہے۔ سبحان اُسی کی صفت ہے اور وہ اپنی اس صفت میں یکتا ہے۔ اپنی ذات میں ہرخامی، کمزوری اور عیب سے پاک صرف اللہ بزرگ و برتر کی ذات ہے۔ انسانوں میں جو جتنا زیادہ اپنے آپ کو غلطیوں سے پاک رکھتا ہے وہ اتنا ہی اللہ رب العالمین کو محبوب ہے ۔انبیا کی معصومیت بھی ان معنوں میں ہے کہ اگر کبھی بشر ی کمزوری کی بنا پر اُن سے کسی غلطی کا صدور ہونے لگے تو اللہ رب العالمین خود اُن کی حفاظت فرماتا ہے اورانھیں اُس غلطی سے بچا لیتا ہے یا اُن کی اصلاح فرما دیتا ہے۔ سورئہ یوسف میں اللہ رب العالمین اپنی اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ ج وَھَمَّ بِھَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ ط ( یوسف،۱۲:۲۴)،’’وہ (زلیخا) اس کی طرف بڑھی اور یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی بُرہان نہ دیکھ لیتا‘‘۔

یہ غلطی ضروری نہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سلسلے میں ہی ہو، بلکہ پالیسی اور طرز عمل کے درست نہ ہونے کے سلسلے میں بھی ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر حضوؐر ایک دفعہ کچھ سرداروں کو دین کی دعوت دے رہے تھے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ ابن مکتوم نبیؐ سے کچھ پوچھنے کی جسارت کر بیٹھے۔ بشری تقاضے کے تحت حضوؐر کو یہ بات ناگوار گزری تو اللہ رب العالمین نے فوراً اصلاح کرتے ہوئے پوری اُمت کو یہ سبق دے دیا کہ اللہ کے نزدیک وہ زیادہ اہم ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کی یہ آیات سامنے رہیں: یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ( التحریم ۶۶:۱ )،’’اے نبیؐ! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے آپ اس سے کیوں کنارہ کشی کرتے ہیں؟‘‘ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ (التوبہ ۹:۴۳ )، ’’اللہ آپ کو معاف کرے۔ آپ نے ان کو کیوں اجازت دی؟‘‘

صحابہ میں حضرت عمر ؓ کی مثال کو سامنے رکھیے۔ اُن کا مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا لیکن اللہ نے نبوت کا سلسلہ میرے اُوپر بند کر دیا ہے۔ حضرت عمر ؓوہ ہیں کہ جن کی راے کے درست ہونے کی تصدیق کئی مرتبہ خود اللہ رب العالمین نے کی۔ لیکن ذراغور کیجیے کہ جب حضرت عمر ؓ تورات کے چند اوراق لیے نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بارگاہ رسالتؐ سے انھیں کیا جواب ملا۔اسی طرح جب جیش اسامہؓ کے بارے میں حضرت عمر ؓ نے خلیفہ وقت کو قائل کرنا چاہا تو حضرت ابوبکرؓ نے انھیں کتناسخت جواب دیا اور وقت نے یہ بات ثابت کی کہ خلیفہ کی بات درست تھی۔حضرت حاطبؓ کاخط والا واقعہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔

ان تمام باتوں سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ تزکیہ اور تربیت کرنے والوں کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ممکن ہے کہ بڑے سے بڑا شر رکھنے والا انسان بھی اپنے اندر کوئی خوبی رکھتا ہو اور اُس کی بنا پر اللہ رب العالمین اُس کے لیے ہدایت کے دروازے کھول د ے ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بڑے سے بڑے خیر کے علَم بردار سے کسی غلطی اور کوتاہی یا کمزوری کا ظہور ہو جائے۔ لہٰذاداعی اور مصلح کاکام اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا اور اُسے درست سمت میں رکھناہے نہ کہ کسی کی کمزوری اور خامی کو بہانہ بنا کر مایوس ہو کر بیٹھ رہنا ہے۔

اس چیز کو ذہن میں رکھنے سے دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔

  •  اپنی ذات کے حوالے سے: اگر یہ حقیقت سمجھ میں آ جائے تو انسان میں اپنی بعض خوبیوں کو دیکھ کر تکبر اورغرور کا رویہ پیدا نہیں ہو گا، نہ وہ دوسروں کو ہی حقیر سمجھے گا۔ اُس کی نگاہ فوراً اپنی خامیوں پر جائے گی جس سے اُس کے اندر کمزوریوں کو دُور کرنے اور خوبیوں کو پروان چڑھانے کا جذبہ کبھی سرد نہ پڑے گا،نیز اپنی بعض کمزوریوں اور خامیوں کو دیکھتے ہوئے مایوسی اور احساسِ کمتری کا شکار بھی نہیں ہوگا جو انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کااہم ترین ہتھیار ہے۔
  • دوسروں کے حوالے سے: ۱- ایک یہ کہ جب بندہ سمجھ لیتا ہے کہ غلطیوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے تو پھر انسانوں میں سے کسی کی محبت اور عقیدت اُس حد سے آگے نہیں بڑھتی جہاں سے شرک اور بت پرستی کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان انسانوں کو ہی خالق کے ساتھ شریک ٹھیرا کر اُن کی پوجا اور پرستش شروع کر دیتا ہے ۔پہلی قوموں نے اپنے انبیا کو اسی لیے خدائی میں شریک بنا ڈالا کہ عقیدت حد سے بڑھ گئی تھی۔

۲- دوسرا یہ کہ جب انسان ذمہ دار اور قیادت کے منصب پر فائز لوگوں کے غلط فیصلے دیکھتا ہے یا اُس کے سامنے اُن کی کوئی ذاتی کمزوری آتی ہے تو وہ مایوس ہو کر اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتا، بلکہ اُن کی اصلاح کی طرف اور زیادہ متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس سے تحریکوں میں بددلی نہیں پھیلتی اور نشانات منزل راستے کی گردو غبار میں دھندلے نہیں ہوتے۔

۳- اسی طرح جب ایک قائد اور ذمہ دار اپنے ماتحت افراد میں کوئی کمی اور کوتاہی دیکھتا ہے تو جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ تندہی کے ساتھ اُن کی اصلاح پر لگ جاتا ہے۔

آئیڈیل بننا / بنانا ممکن نھیں

اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ ہر انسان خوبیوں اور کمزوریوں کا مرقّع ہے، تو یہ بات بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ ہر انسان کے لیے ہر حوالے سے آئیڈیل بننا یا بنانا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ غیر مشروط اطاعت اللہ رب العالمین کے بعد صرف انبیا کی ہے۔ یہ صرف نبی ہوتا ہے جو اپنی اُمت کے لیے آئیڈیل ہوتا ہے۔ اُسی کی پیروی ہی میں انسان کی نجات ہے، باقی سب کی اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے تابع ہو گی ،لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارے لیے انسانوں میں آئیڈیل ذات صرف رسولؐ اللہ کی ہے۔ اس کے بعد جو جتنا نبیؐ کے قریب ہو گا اتنا ہی ہمارے لیے قابل احترام ہو گا لیکن اُس کا کوئی عمل، حکم یا نظریہ اور راے یہ مقام کبھی نہیں پا سکتا کہ اُس میں اصلاح کی گنجایش نہ ہو ۔ نہ کسی کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ اور رسول ؐ کی ہدایت کے مخالف کوئی حکم دے تواُس کی بھی غیر مشروط اطاعت کرنا ہو گی۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس بات کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم آئیڈیل کی طرف دیکھنا یا سفر کرنا چھوڑ دیں۔ ہرگز نہیں، آئیڈیل تو ہوتا ہی اس لیے ہے کہ ہر وقت مرکز نگاہ رہے ۔ہر قدم اُس کی طرف اُٹھے، ہر منصوبہ اُسی کے لیے ہو، لیکن اگر کام میں کمزوری رہ جائے ،کوئی قدم ڈگمگا جائے یا کسی غلطی اور کوتاہی کا صدور ہو جائے تو انسان کسی جھنجھلاہٹ،مایوسی اورشک کا شکار نہ ہو ۔ گویا آئیڈیلزم کا بھوت سر پر سوار کرنا درست نہیں کہ ایسا اور ایسا کیوں ہوا؟ اور چونکہ یہ ہوا ہے لہٰذا ہماری ساری کی ساری محنت اکارت گئی ۔اب تحریک میں پہلے کی طرح روحانیت نہیں رہی، ہم اپنے مقصد سے ہٹ گئے ہیں، یا اب پہلے کی طرح کا اخلاص نہیں رہا وغیرہ وغیرہ، یا اس بنیاد پر کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے، کوئی مسئلہ نہ بن جائے، ہم لوگوں پر تحریک کے دروازے بند کر دیں یا راستہ اتنا پیچیدہ کر دیں کہ کوئی آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ یاد رکھیے اگر حضوؐر کی تیار کردہ جماعت میں گروپنگ ہوسکتی ہے تو اب بھی ہو گی۔ اگر اُن میں لڑائیاں ہو سکتی ہیں (باوجود اپنے تمام تر اخلاص کے) تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔اگر نبی ؐ کا تربیت یافتہ فرد کسی موقع پر کمزوری دکھاسکتا ہے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے اور جس طرح نبیؐ کی جماعت میں چند افراد کو قرآن منافقین کا نام دے سکتا ہے تو یہ مسائل اب بھی پیش آ سکتے ہیں۔ لہٰذا تحریکوں میں آئیڈیلزم نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہو گا۔

ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ یقینا منزل کی طرف سفر ہی کامیابی کی کنجی ہے۔اپنی خوبیوں کو بڑھانا ہو گا، غلطیوں کی اصلاح کرنا ہو گی ،کمزوریوں سے صرف نظر کرنا ہو گا،   اللہ سے اپنے لیے معافی مانگنا ہو گی اور دوسروں کو خود معاف کرنا ہو گا۔ خوبیوں کی تعریف کرنا ہو گی اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا ہو گی ۔اللہ کے رسولؐ نے شاید اسی لیے فرمایا تھا، جو اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے گا ،اللہ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ دوسروں کو معاف کرنے والے اُن کی غلطیوں سے صرف نظر کرنے والے اور اُن پر احسان کرنے والے اللہ کو بڑے پسند ہیں ۔اس ضمن میں محترم خرم مرادؒ نے نبی کریمؐ کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں اور بڑی مفید ہدایات دی ہیں (کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے، ص ۱۳۳-۱۳۹)

ھر مسئلہ حل کرنے کے لیے نھیں ھوتا

یاد رکھیے مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں۔ مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن مسئلہ تو بہر حال مسئلہ ہے چاہے کسی قسم کا ہو۔ گھروں میں ،گلی محلے میں، اداروں میں اور تحریکوں میں مسائل ہوتے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مسائل قبرستان میں نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ وہاں زندگی نہیں ہوتی، جہاں زندگی ہو گی وہاں مسائل بھی ہوں گے۔ یہ مسائل غیروں کے پیدا کردہ بھی ہو سکتے ہیںاور اپنوں کے بھی، بلکہ کچھ مسائل تو انسان خود اپنے لیے پیدا کر لیتا ہے۔

۱- بعض مسائل حقیقت میں موجود نہیں ہوتے ،ہم فرض کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہی چیز ہمارے لیے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ صرف اپنی سوچ کو بدل لینے سے ہی بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔اپنی سوچ اور روّیے کو بدل لینا تو بعض اوقات بہت سے حقیقی مسائل کو بھی ختم کر دیتا ہے، لہٰذا سب سے پہلے تو یہ بات سوچنی چاہیے کہ اس مسئلے میں میرا کیا کردار ہے؟ اور میں اس کو کیسے حل کر سکتا ہوں؟مجھے اپنے اندر کیا تبدیلی لانا ہو گی کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے یا آیندہ کبھی پیدا نہ ہو۔ فرض کریں ایک بچہ آپ سے نفرت کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ اُس سے نفرت کرتے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ آپ اپنے اخلاص کے ساتھ جب اُس کی اصلاح پر توجہ دیتے ہیں تو حکمت عملی میں کسی خرابی کی وجہ سے یہ اخلاص منفی انداز میں آگے منتقل ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اُسے جھڑکتے ہیں یا اُسے اُس کے جائز حقوق سے بھی محروم کر دیتے ہیں، یا اُس کے مسئلے کو سمجھنے کے بجاے اپنی راے پر اصرار کرتے ہیں تو ایسی صورت حال میں صرف اپنی سوچ اور روّیے کی اصلاح ہی ممکن ہے کہ بچے کی اصلاح کا سبب بن جائے۔

۲- دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں ہر مسئلے کو فوراً ہی حل کیا جائے۔ بعض اوقات صرفِ نظر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ایسا اس صورت میں تو اور بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ جب ایک مسئلے کا ختم کرنا دوسرے بہت سے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جائے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کے بارے میں جب آنحضوؐر سے کہا گیا کہ اس فتنے کو ختم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے، تو محسنِ انسانیت ؐ کا جواب یہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ’’محمد ؐ اپنے ساتھیوں کو مروا رہا ہے ‘‘۔ مقصد یہ تھا کہ اس ایک مسئلے کو ختم کرنے سے کئی دوسرے مسائل جنم لیں گے، لہٰذا آپؐ نے در گزر کرنے کی پالیسی ہی جاری رکھی حالانکہ یہ ایسا شخص تھا کہ جس کی منافقت کے بارے میں کوئی دو راے نہ تھیں۔ نبیؐ کا اس معاملے میں طرزِعمل تو یہاں تک تھا کہ آپ اُس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی   اُٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن اللہ رب العالمین نے خود منع فرما دیا: ’’اور آیندہ ان میں سے جو کوئی مرے تو اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اُس کی قبر پر کھڑے ہونا ‘‘۔(التوبہ ۹:۸۴)

۳- پاکستان کی اس وقت کیا صورت حال ہے؟ ہم نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں چند چھوٹے مسائل کو حل کرنے کے لیے غیروں کے کہنے پر اور اُن کی سازش کا حصہ بن کر اپنی ساری قوت جھونک دی، اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اب وہ چھوٹے مسائل ایک عفریت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ جب تک ہم نے حکمت کے ساتھ اُن مسائل کو  حل کرنے اور بعض جگہوں پر صرف ِنظر رکھنے کی پالیسی رکھی ، ہم اطمینان میں تھے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے۔ آج نہ گورنمنٹ کی رِٹ باقی ہے نہ ملک سے محبت اور ہمدردی باقی رہی ہے، بلکہ اُلٹا ہم کئی دوسرے مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ بعض مسائل کو بروقت حل ہونا چاہیے اور مسائل کو جوں کا توں نہیں رہنا چاہیے لیکن ایسا ہم صرف اپنی بساط کی حد تک کر سکتے ہیں۔ ہمیں مسائل کے بجاے امکانات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ جو بندہ صر ف مسائل کو حل کرنے میں ہی اپنی ساری قوت جھونک دیتا ہے، وہ منزل کی طرف سفر نہیں کر سکتا ۔اُس کی پیش قدمی رُک جاتی ہے اور مسائل کے دبائو کے اندر مستقبل کے لیے سوچنے، منصوبہ بنانے اور آگے کی طرف بڑھنے کا عمل نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے ذمہ داران کو بالخصوص اس چیز کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول دبائو سے پاک ہو اور شیطان مسائل میں اُلجھا کر ہمیں منزل کی طرف پیش قدمی سے روک نہ دے۔

خرم مراد مرحوم نے اس عنوان پر بڑی خوب صورت بات کہی ہے کہ ’’آپ یہ سمجھ لیں کہ سارے مسائل حل نہیں ہوں گے اور تنظیم کو اپنی قوتوں کا ایک حصہ اگر مسائل کو حل کرنے میں لگانا چاہیے، تو میں یہ کہنے کی جرأت کر وں گاکہ بعض مسائل کو حل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ مسائل حل کرنے میں جتنی قوت کھائیں گے اُس قوت سے ہم کئی گنا زیادہ قوت اور پیدا کرسکتے ہیں ‘‘۔(تحریک کے تقاضے ،ص ۸۲)

۴-تزکیہ اور تربیت کا عمل ایک مسلسل عمل ہے۔یہ عمل کسی مشین کا سا عمل نہیں ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک مخصوص طرز اور قسم کی شے حاصل ہو جائے۔ یہ ایک مسلسل ہونے والا عمل ہے۔ کسی ایک کتاب کے پڑھنے سے، کسی ایک اجتماع میں شرکت سے، یا کوئی چلہ لگانے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوتا۔ تذکیر، تزکیہ اورتربیت ہر وقت ہر جگہ اور ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ایک مستقل اور جامد شے کا نام نہیں ہے۔ یہ گھٹتا او ربڑھتا رہتا ہے۔ حضرت حنظلہؓ کا واقعہ اس بات کی بڑی عمد ہ اور خوب صورت تصدیق کرتا ہے اور معلم انسانیت ؐ کا جواب رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنے ایمان کی فکر کرو اور اس فکر سے کبھی غافل نہ ہو۔ نماز روزانہ دن میں پانچ مرتبہ یہ تربیت کرتی ہے ۔روزہ ہر سال پورا ماہ مسلسل ہماری تربیت کرتا ہے۔قرآن کا پڑھنا ہرنماز میں لازمی ہے۔ یہ تمام باتیں اس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمیں کسی بھی مقام پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں رہنا، بلکہ مسلسل اس کام کو کرتے جانا ہے ۔قرآن نے یہ دُعا بھی سکھائی ہے: رَبَّناَ لاَ ُتزِغْ قُلُوبَناَ بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا (اٰل عمرٰن۳:۸)،اے ہمارے رب ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ کرنا۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اس سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی غلطی کے بعد سچے دل سے توبہ کرے اور آیندہ نہ کرنے کا عہد کرے اور نیکی کے راستے پر گامزن ہوجائے، تو اللہ اُن گناہوں کو نہ صرف معاف کر دیتا ہے بلکہ انھیں نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے: 

 اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (الفرقان۲۵:۷۰)،اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو یہی لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کر دیں گے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

قرآن اُن لوگوںکو خوش خبری سناتا ہے جو بار بار پلٹنے والے ہیں:

اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (التوبہ۹:۱۱۲)، اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے وہ مومن جو    اللہ سے بیع کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ، ان مومنوں کی خوش خبری دے دو۔

اللہ کا بندے سے رویہ کیا ہے اور انسانوں کا کیا ہونا چاہیے۔ ذرا دیکھیے:

وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء۴:۱۱۰)،اور جو کوئی برائی کا مرتکب ہو یا ا پنے آ پ پر ظلم کر بیٹھے  پھر وہ اللہ سے معافی چاہے تو اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے بار بار کسی ایک غلطی کا صدور بھی ہو سکتا ہے اور کسی نئی غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بات کسی کو الجھن میں نہ ڈالے کہ اس طرح تو غلطی کرنے کا کھلا لائسنس مل جائے گا۔ نہیں، توبہ کے سہارے پر کسی مومن کا اپنی غلطی کو دہرانا دُرست نہیں اور نہ ایسی کوئی توبہ قبول ہی ہوتی ہے جس میں مزید گناہ کی خواہش موجود ہو۔ توبہ تو ہوتی ہی وہ ہے جو سچے دل کے ساتھ اور پشیمانی کے جذبے سے ہو، لیکن انسان ہونے کے ناطے یہ تو ہو سکتا ہے کہ انسان سچے دل کے ساتھ توبہ کرے لیکن اُس غلطی کا صدور اُس سے پھر ہو جائے۔

غلطی اور کوتاہی کی عمومی و جوہات میں ایک بڑی وجہ انسان کا بھول جانا ہے (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا’’پس وہ بھول گیااور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ۔ طٰہٰ ۲۰:۱۱۵)۔ لہٰذا تزکیہ اور تربیت کا کام مسلسل کرنے اور ہونے والا کام ہے۔ کسی بھی لمحے اور کسی بھی منصب تک پہنچنے کے بعد اس سے اعراض نہیںبرتنا چاہیے، نہ نتائج کے سامنے آنے پر ہی تزکیہ کاکام روک دینا چاہیے۔

غلطیوں اور کوتاھیوں کے عمومی اسباب

بعض اوقات غلطی او ر کوتاہی کے سبب کو دُور کر دینا ہی اصلاح کا سبب بن جاتا ہے۔   اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے اس بات پر بڑی توجہ دی ہے کہ اُن اسباب کوکم کر دیا جائے جو غلطیوں اور گناہوں کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اسباب کا جائزہ لیں تو چند ایک بڑے سبب درج ذیل ہیں:

  • علم کی کمی: بندے کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ غلطی کر رہا ہے بلکہ بعض اوقات تو ایک آدمی کسی غلط کام کو ثواب سمجھ کر کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے سے اس کی بے شمار مثالیں دے سکتے ہیں۔ ایسے عالم میں لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا کرنا، انھیں تعلیم سے آراستہ کرنا، اُن کے سامنے حق اور باطل کو کھول کھول کر بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ انبیا کی بعثت کا ایک بڑا مقصد یہی قرار پایا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اُن کی رب کی تعلیمات کو کھول کھول کر بیان کر دیں۔ اسی لیے سچے مصلحین تطہیر افکار اور تعمیر افکار کو اپنی جدوجہد میں ترجیح اول پر رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ علم کی کمی قرآن اور حدیث کے علم کو عام کیے بغیر دُور نہیں ہو سکتی۔
  • بہول جانا:غلطی اور گناہ کی ایک بڑی وجہ انسان کا بھول جانا ہے۔ یہ ایک بشری تقاضا ہے جو ہر وقت اور ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انسان کو بار بار یاد دلایا جائے کہ اُس کا مقصد زندگی کیا ہے؟اُس نے اپنے رب کے ساتھ کیا وعدہ کیا ہے؟ نماز اس مسئلے کے حل کی بہترین مثال ہے۔ قرآن کی تلاوت اور ذکر اذکار سے اپنی زبان کو تر رکھنا اس کا بہترین علاج ہے۔
  •  قوت ارادی کی کمی: انسان فطری طور پر کمزور پیدا ہوا ہے ،خود قرآن نے کہا:  وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’ہم نے اس میں عزم نہیں پایا‘‘۔ مطلب یہ کہ ورغلائے جانے پرانسان ثابت قدم نہ رہ سکا ۔اسی لیے اسلام ہمیں اجتماعی زندگی اور اجتماعی جدوجہد کا    درس دیتا ہے تاکہ قوتِ ارادی کی کمی اجتماعیت کی قوت سے دُور ہو جائے ۔
  •  غلط فھمی: داعین اور ذمہ داران کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ بعض اوقات کسی فرد کا ارادہ تو نیکی کا ہوتا ہے لیکن دیکھنے والا اُسے غلط سمجھ رہا ہوتا ہے، یا بندے کا قصور نہیںہوتا  لیکن اُس کا قصور بنا دیا جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العالمین نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں کہ کسی فاسق کی خبر پر یقین نہ کرو جب تک کہ تصدیق نہ ہو جائے۔ بہت زیادہ گمان نہ کرو ،تجسس اور غیبت نہ کرو ،اور کسی دوسرے پر بہتان نہ لگائو (تفصیل کے لیے سورۃ الحجرات)۔
  •  کبر و غرور، نفس پرستی اور غصہ: یہ اور اسی طرح کی کچھ اور بیماریاں ہیں جو کئی دوسری غلطیوں کا باعث بنتی ہیں، لہٰذا ن کو دُور کرنے کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے مولانا مودودی ؒ نے تحریک اور کارکن کے آخری باب میں بڑی مفید بحث کی ہے۔

 تربیت کی اصل ذمہ داری انسان کی اپنی ھے

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تزکیے کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود اُس کے اپنے اوپر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نہ صرف خیر و شر کی تمیز دی ہے : فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس۹۱:۸)،’’پس ہم نے اسے نیکی اور بدی دونوں الہام کردیں‘‘، بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ دنیا میں اُس کو یاد بھی دلایا جائے: ’’اور کوئی اُمت نہیں مگر اس میں ایک خبردار کرنے والا گزر چکا ہے‘‘۔(فاطر۳۵:۲۴)

قرآن نے اہل جہنم کا ایک مکالمہ بیان کیا ہے کہــ’’ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم تو اپنے بڑوں اور سرداروں کے پیچھے لگے رہے پس انھوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا۔یااللہ! ان کود گنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر‘‘(الاحزاب ۳۳:۶۷-۶۸)۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ـ’’جس وقت کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی وہ دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔جب سب لوگ اس میں جمع ہو جائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ   اے ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا ،سو ان کو دوزخ کا عذاب دو گنا دے۔اللہ فرمائے گا کہ سب ہی کا دو گنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۳۸، ۳۹)

ا نسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوںاور تربیت نہ ہونے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیراتا ہے،حالانکہ کوئی انسان ،کوئی کتاب اور کوئی تقریریا اجتماع کسی دوسرے کی تربیت نہیں کر سکتا جب تک کہ خود انسان کا اپناارادہ نہ ہو ۔یہ تو تربیت کے ذرائع ہیں جو سہولت بہم پہنچاتے ہیں۔   یہ انسان کو منزل کی طرف گامزن رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے مدد گار تو ہیں لیکن ذمہ دار نہیں۔     ذمہ داری انسان کی اپنی ہے۔ خرم مراد مرحوم نے بڑی خوب صورت بات لکھی ہے کہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کہ کوئی فرد اجتماعیت کو اپنی خرابیوں اور کمزوریوں کا ذمہ دار ٹھیرانا شروع کردے کہ چونکہ یہ نہیں ہوا،اس لیے تربیت نہیں ہو رہی۔

نماز کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’بے شک نماز برائی اور بے حیائی سے بچاتی ہے ‘‘(العنکبوت۲۹:۴۵)۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نماز کی ادایگی کرنے والے انسان بھی بعض اوقات برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔  اس میں قصور نماز کا نہیں انسان کا اپنا ہوتا ہے کہ نماز جس مقصد کے لیے تھی اُس نے اس پر توجہ نہ دی۔ اس لیے تربیت کے ذرائع استعمال ہونے چاہییں، اُن سے مدد لینی چاہیے لیکن فرد کو بھی  بری الذمہ قرار نہیں دینا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْھَا ج وَلَا تَزِ رُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی ج (الانعام، ۶:۱۶۴) ،’’ہرشخص جو کماتا ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے۔کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا‘‘۔ تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْخَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ  (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا ۔اس کے لیے ہے جو اس نے کمایا۔اور تمھارے لیے ہے جو تم نے کمایا۔اور جو کچھ وہ کرتے رہے تھے اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ (فاطر ۳۵:۱۸)،’’اور جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے۔اور اللہ ہی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘۔

 ھدایت کا انحصار اللّٰہ کی توفیق پر

یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِیْ ج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (الاعراف ۷:۱۷۸)، ’’جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں‘‘۔ داعی کا کام کوشش کرنا ہے، اتنی کوشش کہ حق ادا ہو جائے۔ وَجَاھِدُوْ فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج۲۲:۷۸)، ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔

 یہ درست ہے کہ اچھی تقریر، اچھی مثال، داعی کا اخلاص، داعی کا اپنا طرزِعمل اور اس طرح کے دیگر عوامل کسی فرد کو ہدایت کی طرف لانے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن یہ سب عوامل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اگر اللہ کی طرف سے توفیق اور اعانت نہ ہو۔ نبی ؐ سے بہتر کون سا داعی ہو سکتا ہے؟ آپؐ سے بہتر دلائل کس کے پاس تھے؟آپؐ کے اخلاص پر کون شبہہ کر سکتا ہے؟ کس کو حق ہے کہ آپؐ کے طرزِعمل پر نکتہ چینی کرے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابولہب جو رشتے میں آپؐ کا   سگاچچا تھا ایمان نہیں لایا تھا۔ بعض لوگوں کے بارے میں تو اللہ رب العالمین نے واضح اعلان فرمادیا تھا کہ اے میرے نبیؐ آپ ان کی ہدایت کے لیے بہت حریص ہیں لیکن اللہ تو صرف اُس کو ہدایت کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے : ’’(اے محمدؐ)آپ ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو جائیں (مگر)اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیتااور ایسے لوگوں کا پھر کوئی مددگار نہیں ہوتا‘‘ (النحل ۱۶:۳۷)۔ اسی لیے اہل ایمان کو ہدایت کی گئی کہ اگر کبھی شیطان کی طرف سے تم کوئی رکاوٹ محسوس کرو، یا وہ تمھیں ہدایت سے ہٹانے کی کوشش کرے تو فوراً اللہ سے مدد طلب کرو بے شک وہ سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی۔(اعراف ۷:۲۰۰)

جب ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے تو لوگوں کی اصلاح کے لیے داعی کا نقطۂ نظر اور طرزِعمل یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ ا ب اُس کی نفرت مریض سے نہیں مرض سے ہو گی۔ اب کسی فرد کی غلطی کو دیکھ کر اُس کا اضطراب زبان سے اظہار میں اسے  محتاط بنا دے گا۔ داعی اپنے رب سے ہاتھوں کو پھیلا کر اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے دُعائیں کر رہا ہو گا۔ یہ چیز اُس کی زبان میں شیرینی اور اُس کی حکمت عملی میں اخلاص کی ضمانت بن جائے گی، اور محاسبہ اور احتساب کی محفل نصیحت، ہمدردی، سچائی ،اخلاص اور محبت کی عمدہ مثال بن جائے گی۔

تنقید اور محاسبے کا طریق کار

بعض اوقات اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے اختیار کیا گیا طرز عمل بھی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اُس کی عزت ِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس لیے تنقید اور محاسبہ ہمیشہ علیحدگی میں ہونا چاہیے۔ جب تک متعلقہ فرد سے علیحدگی میں بات نہ کر لی جائے اُس کے متعلق کسی دوسرے کے کان میں اُس کی بھنک بھی نہ جانی چاہیے۔

غیبت کی تعریف ہی یہ کہ ہے کہ اپنے کسی بھائی کی برائی اُس کی پیٹھ کے پیچھے بیان کرے جو واقعتا اُس میں موجود ہو۔ اگر برائی موجود ہی نہیں تو یہ بُہتان ہے۔ ذرااندازہ لگائیے قرآن غیبت کو کتنا بُرا فعل قرار دیتا ہے جس کو ہم جوش اصلاح میں بڑے فخر اور تکبّر کے ساتھ کرجاتے ہیں: ’’کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، دیکھو تم خود اس سے کراہت کرتے ہو‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۲)۔اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی کی عزت، وقار اوراحترام میں فرق نہ آئے۔ اگر کسی کی عزت مجروح ہو گی تو اس سے اصلاح کے بجاے اور بگاڑ پیدا ہوتاہے۔ اکثر اوقات دوسرا فرد اپنی غلطی پر ڈٹ جاتا ہے اور تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ قرآن نے اس کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اورجب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو،تو اُسے اپنی عزت کا خیال گناہ پر جما دیتا ہے، پس اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۶)

انفرادی طور پر بھی بات کرنے کا انداز یہ ہونا چاہیے کہ ایک غلطی فہمی کو دُور کرنا مقصد ہے۔ فرد کو مجرم نہیں ٹھیرانا چاہیے۔ بات اگر اشارے کنائے میں ہو جائے تواور زیادہ بہتر ہے ۔ بڑے سے بڑا مجرم ہی کیوں نہ ہو بات نرمی سے ہونی چاہیے:’’ دونوں فرعون کی طرف جائو بے شک    وہ سرکش ہو گیا ہے۔ پس اس سے نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے‘‘ (طٰہ ۲۰:۴۳-۴۴)۔ اگر اس سے اصلاح نہ ہو تو کسی ذمہ دار فرد کی مدد لینی چاہیے جو بہتر انداز میں فرد کو متوجہ کرسکتا ہو اور اگراس سے بھی اصلاح نہ ہو تو پھر اجتماعی فورم کا استعمال کرنا چاہیے۔نیز اگر کوئی فرد اپنی غلطی دُور کر لیتا ہے تو کبھی اُس کی سابقہ غلطی کا تذکرہ زبان پر نہیں لانا چاہیے، یہ انتہائی غلط اور فتنہ پیدا کرنے والی بات ہو گی اور اللہ کے نزدیک انتہائی بُرا فعل ہے۔

تزکیۂ نفس، انسانوں کی اصلاح اور ان کی کمزوریوں کو دُور کر کے خوبیوں کو پروان چڑھانا کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھیریں ایک ہمہ گیر اور کٹھن کام ہے جو بہت سے تقاضوں اور حکمت پر مبنی ہے۔ اگر مذکورہ بالا چند اہم اُمور کو پیش نظر رکھا جائے تو اُمید ہے کہ تزکیہ و تربیت کا عمل نتیجہ خیز ثابت ہوگا اور فرد کی تربیت کے لیے بہت سی راہیں کھلیں گی۔


مقالہ نگار جماعت اسلامی گجرات کے نائب قیم ہیں

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲)

ہم ایک ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں فاصلے سمٹ رہے ہیں، رابطے کے ذرائع  تیز تر اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار زیادہ سے زیادہ طاقت ور اور ہلاکت خیز ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے ماحول میں بہتر باہمی مفاہمت، عظیم تر امن، ہم آہنگی اور تعاون کے ساتھ ایک واحد آفاقی گائوں(گلوبل ولیج) کی فضا کو پروان چڑھانا انتہائی ضروری ہے۔ تمام قوموں کی خوش حالی کا انحصار ایسے ہی تعاون پر ہے۔ یہ عالم گیریت کا پہلا مقصد ہے۔ باہمی تعاون پر مبنی ایسی فضا کی عدم موجودگی تہذیبوں کے تصادم کا سبب بن سکتی ہے، جو ہر ایک کے لیے بُرا ہوگا، خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کے لیے، جو اپنے خلاف جارحانہ عزائم کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں رکھتے۔ مزید یہ کہ ان کے پاس وہ وسائل ہیں جو بہت محدود ہیں اور وہ انھیں لڑائی جھگڑوں میں جھونکنے کے بجاے ان کا بہتر استعمال کرتے ہوئے اپنی ترقی پر صرف کرنا چاہیں گے۔ آج کی دنیا میں یہ پوچھا جانا بالکل برمحل ہے کہ ایسی عالم گیریت کے حوالے سے اسلام کا موقف کیا ہے؟

انسانیت کا اتحاد اور عالم گیریت

قرآن کا پیغام

آئیے دیکھیے کہ اس بارے میں قرآن کا حکم کیا ہے؟ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے۔ یہ وحی پر مبنی تمام مذاہب کے عقائد اور اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ نے پوری دنیا کے اندر مختلف اوقات میں اپنے رسول بھیجے۔ ان سب پر اللہ کی طرف سے سلامتی اور رحمتیں ہوں۔ یہ سارے رسول ایک ہی پیغام لے کر آئے جس کی نشان دہی قرآن میں واضح طور پر یوں کی گئی ہے کہ ’’اے نبیؐ! تم کو جو کچھ کہا جارہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں کو نہ کہی جاچکی ہو‘‘۔ (حم السجدۃ ۴۱: ۴۳)

کوئی نیا نبی اسی وقت آیا کرتا تھا جب پچھلے نبی کی تعلیمات بھلا دی جاتیں یا ان میں تحریف ہوجاتی۔ یہ سارے نبی لوگوں کو متحد کرنے کے لیے آئے، تقسیم کرنے کے لیے نہیں، بالخصوص اسلام کے معاملے میں۔ کیوں؟ وجہ بہت سادہ ہے۔ تمام انسان اللہ کے خلیفہ یا نائب ہیں، اس لیے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس بنا پر اس دنیا میں انھیں سب کی فلاح یعنی بھلائی کے لیے بھائیوں کی طرح امن و سلامتی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اسلام میں ایک اللہ اور انسانیت کے اتحاد کے تصورات کو قرآن میں اس طرح واضح کیا گیا ہے:’’انسانوں کو ایک قوم کی حیثیت سے پیدا کیا گیا تھا مگر بعد میں اپنے اختلافات کی وجہ سے وہ الگ الگ ہوگئے‘‘۔ (یونس۱۰:۱۹)

سوال یہ ہے کہ اگر انھیں ایک قوم کی حیثیت سے پیدا کیا گیا تھا تو وہ الگ الگ کیوں ہوگئے؟ قرآن اس سوال کا جواب بھی دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:’’لوگوں میں جو تفریق ہوئی وہ اس کے بعد ہوئی کہ علم ان کے پاس آچکا تھا اور اس بنا پر ہوئی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے‘‘۔ (الشوریٰ۴۲:۱۴)

یہ علم جو ان کے پاس آیا وہ جہاں بینی پر مبنی ہے اور دینی معیارات کے مطابق عقائد، اخلاقی اقدار، اداروں اور اداراتی معیشت کی تشکیل کرتا ہے۔ اللہ کی طرف سے اس دنیا میں بھیجے گئے تمام رسولوں کا ایک بڑا مقصد انسانیت کو باہمی برتاؤ کی ضروری اقدار اور اصول فراہم کرنا تھا۔ یہ اصول بتاتے ہیں کہ لوگوں کو اس دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح معاملات کرنے چاہییں کہ یہاں مختلف قوموں، انسانی گروہوں اور خاندان کے تمام ارکان کے درمیان عدل و انصاف، تعاون اور یک جہتی پروان چڑھے۔ تاہم، عدل، تعاون اور یک جہتی کے اصول لازماً غالب نہیں رہتے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گیا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور باہم ظلم و زیادتی کرنے کا داعیہ (بغیا بینہم) ہے، اور اس جذبے کی وجہ مخصوص مفادات، بے انصافی، حسد، استحصال، معاہدوں اور ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ ان عوامل کی بنا پر پُرامن، باہمی روابط اور تعلقات استوار نہیں ہوپاتے۔ اس کیفیت کے علاج کے لیے اللہ کی جانب سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سمیت، اس دنیا میں بہت سے رسول بھیجے گئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کہتا ہے:’’ ہم نے تمھیں پوری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ (الانبیاء۲۱:۱۰۷)

رحمت، بے انصافی، استحصال اور تفریق کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ یہ سب کی ضروریات کی تکمیل، خاندانی اتحاد، سماجی یک جہتی، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے۔ یہ ہے وہ چیز جو رحمت سے مراد ہے۔ اسلام لوگوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، توڑنے کے لیے نہیں۔ قرآن انسانیت کے اتحاد کا علم بردار ہے۔ یہ خود انسان ہیں جو اس مقصد کے لیے درست ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

سنت نبویؐ کا پیغام

قرآن اسلامی تعلیمات کا صرف ایک حصہ ہے، دوسرا حصہ سنت نبویؐ ہے اور سنت نبویؐ کا حکم بھی بہت واضح ہے: ’’انسانیت اللہ کا کنبہ ہے اور ان میں اللہ کا سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے، جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے‘‘۔۱؎ یہ کنبہ صرف مسلمانوں پر مشتمل نہیں ہے۔ اس میں دنیا کے تمام لوگ شامل ہیں بلا لحاظ اس کے کہ وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم، گورے ہیں یا کالے، امیر ہیں یا غریب اور مرد ہیں یا عورت۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان فرمایا:’’اے لوگو، سنو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی غیر عرب پر کوئی فوقیت ہے نہ کسی غیر عرب کو کسی عرب پر، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری ہے نہ کسی کالے کو کسی گورے پر، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے‘‘۔۲؎

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:’’تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔۳؎  اس لیے تمام انسان ایک ہی خدا کے بندے ہیں اور برابر ہیں۔ ان کے ساتھ صرف عزت و احترام کا سلوک ہی کافی نہیں بلکہ ان کی مدد بھی ضروری ہے۔ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے لیے اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے۔ یوں اتحاد انسانیت اور عالم گیریت دراصل بنیادی طور پر اسلام کی تعلیم ہے۔ لوگوں کا قتل عام، ان کے گھروں اور جایدادوں کو تباہ کرنا،    بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذریعے پورے کے پورے ملکوں کو برباد کردینا، جیساکہ حال ہی میں امریکا نے عراق و افغانستان میں کیا، اسلام یا وحی پر مبنی کسی بھی مذہب کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔

عدل، باھمی امداد اور تعاون کی ضرورت

یہ گفتگو ہمیں اس بنیادی سوال تک لاتی ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جو افتراق و انتشار کے ماحول کو جنم دیتے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں؟ قرآن کی رُو سے، جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی، یہاں بغیا بینہم (ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کا داعیہ) ہے۔ اس ظلم و زیادتی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عدل و انصاف اور باہمی امداد و تعاون کو عمارت سازی میں کام آنے والی اینٹوں کے طور پر استعمال کیا جائے۔ انصاف اور باہمی امداد و تعاون کے بغیر، ایسی عالم گیریت محال ہوگی جو سب کے لیے یکساں طور پر مفید ہو۔ اگر یہ دو باتیں موجود ہوں تو         نہ صرف اقتصادی وسائل کی یک جائی عمل میں آئے گی بلکہ سماجی اور سیاسی ہم آہنگی بھی ہوگی۔

قرآن و سنت کی تعلیمات

قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور کتاب اور میزان کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگ عدل قائم کرسکیں (الحدید۵۷:۲۵)۔ لہٰذا محض    محمدصلی اللہ علیہ وسلم، یا آدم، نوح، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہی نہیں، بلکہ اللہ کے تمام نبیوں کے مقاصد میں سے ایک اولین مقصد، دنیا میں عدل کا قیام تھا۔ یہ اس لیے کہ عدل کے بغیر انسانیت کے اتحاد کو حقیقت بنانا اور امن و ہم آہنگی قائم کرنا مشکل ہے۔ عدل و انصاف، قرآنی ہدایات کی رو سے، اس مقصد کے لیے ناگزیر ہے۔ اس آیت میں جس کا ترجمہ اُوپر درج کیا گیا ہے، ’کتاب‘ سے مراد قرآن ہے، جو جہاں بینی کا علم اور برتاؤ کے اصول فراہم کرتا ہے۔ ’میزان‘ کا مطلب صحیح اور غلط میں امتیاز کے لیے قرآن اور سنت میں دیے گئے معیارات ہیں۔ اس سے زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے درست توازن کا قیام بھی مراد ہے جو نظام فطرت میں پایا جاتا ہے۔ اگر انسان ان اصولوں کے مطابق عمل کریں تو ان کے درمیان اتحاد اور عالم گیریت فروغ پائے گی۔ برتاؤ کے ان اصولوں کے نفاذ کے بغیر، دنیا میں عدل و انصاف نہیں ہوگا، چنانچہ امن اور ہم آہنگی بھی نہیں ہوگی۔ قرآن واضح طور پر بیان کرتا ہے:’’جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم اور    بے انصافی سے آلودہ نہیں کیا، امن انھی کے لیے ہے اور وہی سیدھی راہ پر ہیں‘‘۔ (الانعام۶:۸۲)

یہ ہے قرآن کا فیصلہ۔ اگر آپ اس دنیا میں امن اور ہم آہنگی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے، حتیٰ کہ بجاے خود عقیدہ بھی کافی نہیں۔ عقیدے کا نفاذ بے انصافی اور ظلم کے خاتمے کے ذریعے کیا جانا ہے، لہٰذا عدل اسلام کا ایک بنیادی مطالبہ ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مزید زور یہ وضاحت کرکے دیا ہے کہ بے انصافی یوم حساب کی تاریکی کی جانب لے جاتی ہے۔ ۴؎رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ’ظلمات‘ کی جو اصطلاح استعمال کی وہ ’ظلمہ‘ کی جمع ہے۔ جس کا مطلب گہرا اندھیرا ہے جس میں کوئی شخص کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ آخرت میں ان لوگوں کے لیے صرف اندھیرا ہوگا جو ظالم اور بے انصاف ہیں۔ بے انصافی جتنی بڑی ہوگی، اندھیرا بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔

اتحادِ انسانیت اور عالم گیریت کا دوسرا تقاضا، زندگی کے تمام گوشوں میں سماجی یگانگت کے فروغ کے لیے باہمی امداد و تعاون ہے۔ یہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ان لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ صرف یہی ضروری نہیں کہ غربت اور مصائب کا ازالہ کیا جائے اور باہمی مفاہمت کو فروغ دیا جائے، بلکہ ایسی ہر چیز سے اجتناب کیا جائے جو یک جہتی کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ ایسی ایک چیز ’تحمل و برداشت‘ کا فقدان ہے۔ ثقافتوں اور مذاہب میں اختلافات کو برداشت کرنا، انتہائی اہم ہے۔ یہ توقع رکھنا فضول اور غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ تمام ممالک بالادست مغربی ثقافت و تہذیب کی اقدار اور طرز زندگی کو اپنالیں گے۔ دوسری تہذیبوں اور مذاہب کی تحقیر کی کوئی کوشش لازماً منفی رد عمل پیدا کرے گی اور عالم گیریت کے مقصد کو نقصان پہنچائے گی۔ جہاں تک باہمی امداد اور تعاون کا تعلق ہے تو اسلام کی ہدایات اس حوالے سے بھی بہت واضح ہیں۔ قرآن کہتا ہے:’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو، مگر گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو‘‘۔  (المائدہ۵:۲)

جہاں تک تحمل و برداشت کی بات ہے تو مسلمانوں نے اس معاملے میں قابلِ قدر مثال قائم کی ہے۔ اسلام کے دورِ عروج میں مسلم دنیا تحمل و برداشت کا بہترین نمونہ تھی۔ سانڈرس کے بقول، اس زمانے میں مسلم دنیا میں ایسی برداشت پائی جاتی تھی، ’’جس سے باقی پورا یورپ ناواقف تھا‘‘۔ ۶؎

اس تحمل و برداشت کے نتیجے میں مسلم دنیا مختلف علوم اور ان کے اطلاق کے ہر شعبے کے  علما و فضلا کے لیے باہمی رابطے کی جگہ بن گئی تھی۔ اس دور میں مسلم دنیا میں مسلمان، عیسائی، یہودی، زرتشتی اور صابی سب مل کر کام کرتے تھے۔۷؎ تمام علمی موضوعات پر پوری آزادی کے ساتھ اور کسی روک ٹوک کے بغیر مباحثہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے ہمہ گیر علمی پیش رفت کی راہیں کھلتی تھیں۔ اس دور میں اسلام کی تیز رفتار ترقی کا یہ بھی ایک سبب تھا۔ تحمل و برداشت کی یہ صلاحیت، اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ تھی۔ بقول جارج سارٹن ’’دینی عقیدہ مسلمانوں کی زندگی پر ناقابل تصور حد تک غالب تھا‘‘۔ ۸؎

چند مسلمان علما کے افکار

یہ دیکھنے کے بعد کہ قرآن اور سنت، عدل و انصاف کے بارے میں کیا کہتے ہیں، آئیے چند بڑے مسلمان مفکرین کے نظریات پر ایک نگاہ ڈالیں۔ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں کہ ’’عدل ہر ایک کے لیے، ہر ایک چیز کے حوالے سے ناگزیر ہے۔ بے انصافی کسی صورت جائز نہیں۔ معاملہ کسی مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، حتیٰ کہ کسی ظالم کے ساتھ بھی عدل کے خلاف معاملہ کرنے کی گنجایش نہیں‘‘۔۹؎

ہمیں اپنے ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ جب ابن تیمیہ ’ہر چیز کے لیے انصاف‘ کو ضروری قرار دیتے ہیں تو اس سے محض انسان نہیں بلکہ جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے اور ماحول، سب مراد ہوتے ہیں۔ ہر چیز میں یہ سب شامل ہیں، لہٰذا انصاف کو ہر چیز کے لیے، ہر ایک کے لیے یقینی بنانا چاہیے، حتیٰ کہ اُس کے لیے بھی جو خود انصاف کی راہ پر نہ ہو، یعنی ظالم ہو۔

ابن خلدون بھی، جو ایک عظیم مؤرخ اور سماجی سائنس دان تھے، یہ بات بڑے پُر زور انداز میں یوں کہتے ہیں کہ ’’ظلم و بے انصافی تہذیب کے لیے تباہ کن ہے‘‘۔ ۱۰؎ یہ بات انھوں نے ۶۰۰سال پہلے کہی تھی، جب کہ ترقیاتی معاشیات، ابھی چند عشروں پہلے تک، ترقی میں عدل و انصاف کے کردار پر متفق نہیں تھی۔ بعض ماہرین معاشیات کا اصرار تھا کہ انصاف تعیش ہے اور انصاف کے ساتھ ترقی ممکن نہیں۔ تاہم، تجربے نے ترقیاتی معاشیات کو اب یہ سکھا دیا ہے کہ ترقی، انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے پچھلی صدی کی آٹھویں اور نویں عشرے میں سوچ تبدیل ہوئی اور اب ماہرین معاشیات عام طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ ترقی کے لیے انصاف ناگزیر ہے۔ ابن خلدون اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ۶۰۰ سال پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا اور اس نے کہہ دیا تھا کہ ترقی انصاف کے بغیر نہیں ہوسکتی۔۱۱؎

ان حقائق کی بنا پر ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا یہ عمومی تقاضا ہے کہ انصاف کو ہر صورت میں یقینی بنانا چاہیے اور ترقی کے فوائد میں سب کی یکساں شرکت ہونی چاہیے۔ انصاف کے بغیر نہ صرف ترقی کے عمل کو نقصان پہنچے گا، بلکہ باہمی تنازعات سر اٹھائیں گے اور تعاون کی فضا متاثر ہوگی۔ اس صورت میں باہمی قربت و یگانگت اور عالم گیریت کو حقیقت بنانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک جیسوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ رکھا جائے اور جو باہم برابر نہیں، ان کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جائے۔ اس نکتے کو معاشی، سماجی اور سیاسی یک جہتی و یگانگت کے موضوع پر ذیل میں کی گئی بحث میں مزید واضح کیا گیا ہے۔

معاشی یگانگت و یک جھتی

معاشی قربت و یگانگت نہایت اہم ہے کیونکہ یہ باہمی انحصار کو بڑھاتی ہے اور باہمی انحصار جتنا زیادہ ہو، تنازع اور جنگ کا امکان اتنا ہی کم ہوجاتا ہے۔ معاشی انحصار تجارت کو بڑھاتا، ترقیاتی عمل کو نشوونما دیتا اور نتیجتاً باہمی انحصار کے دائرے کو مزید وسیع کرتا ہے۔ ابن خلدون استدلال کرتے ہیں کہ ترقی کا دارومدار ستاروں (قسمت) یا سونے اور چاندی کی کانوں پر نہیں، بلکہ معاشی سرگرمی، تقسیم کار اور تخصص پر ہے اور جواباً یہ چیزیں منڈی کی وسعت پر منحصر ہیں۔۱۲؎

عالم گیریت منڈی کی توسیع میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح یہ اشیا خدمات کی طلب کے اضافے میں مددگار بنتی ہے، روزگار کے مواقع کو بڑھاتی ہے، شرح نمو کو بلند کرتی ہے اور تمام لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ اس سے تجارت میں توسیع کی اہمیت واضح ہے۔ لوگ اس معیارِزندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور تنازعات سمیت ہر اس چیز کی مزاحمت کرتے ہیں جو اس معیار کو نقصان پہنچاتی ہو۔

یورپی ملکوں میں شرح ترقی فی الوقت کم ہے۔ شرح ترقی کو بڑھانے کے متعدد طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک عالم گیریت کے ذریعے منڈی کی توسیع ہے۔ اگر غریب ملک امیر ہوجائیں تو یورپی اور امریکی اشیا و خدمات کے لیے ان کی طلب بڑھ جائے گی۔ منڈی کے حجم میں یہ اضافہ ترقی کے عمل کو تیز کرنے میں مدد دے گا، آمدنیوں میں اضافے اور سائنس اور تعلیم کے فروغ کا باعث بنے گا۔ لہٰذا منڈی میں توسیع، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سب کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔

موجودہ عالم گیریت کی نوعیت اور مسائل

اسلامی معاشیات میں معاشی یگانگت کو فروغ دینے کے لیے مضبوط منطقی بنیاد موجود ہے۔ یہ اس لیے کہ معاشی یگانگت جتنی زیادہ ہوگی جیسا کہ پہلے حوالہ دیا گیا، تنازع کے امکانات اتنے ہی کم اور انسانی اتحاد اور عالم گیریت کے اسلامی ہدف کے حصول کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ تاہم، جس قسم کی معاشی عالم گیریت کا تجزیہ دنیا میں آج ہورہا ہے، اس کے ذریعے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں جاری موجودہ عالم گیریت منڈی کی توسیع   عدل و انصاف کے بجاے لبرلائزیشن کے ذریعے کرنے پر زور دیتی ہے اور فی الحقیقت انصاف کو     اکثر فراموش کردیا جاتا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جب صنعتی ملکوں کی برآمدات بڑھتی ہیں تو  ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں بھی ترجیحاً بلند نرخوں پر اضافہ ہونا چاہیے، اگر ان ملکوں میں غربت اور بے روزگاری کو کم کرنا مقصود ہے، لہٰذا عالم گیریت کو محض صنعتی ملکوں کی تجارت میں توسیع کا   علَم بردار نہیں ہونا چاہیے بلکہ ترقی پذیر ملکوں کی تجارت کو بڑھانے کے لیے بھی کارگر ثابت ہونا چاہیے۔ ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں اس وقت تک اضافہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان کی برآمدات کی راہ میں حائل تمام پابندیاں دور نہ کردی جائیں اور ان کی پیداواری صلاحیت میں بھی بہتری رونما نہ ہو۔

اس لیے ان پابندیوں کا خاتمہ لازمی ہے جو ان کی برآمدات کے فروغ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہ تجارت کی لبرلائزیشن کا ایک جزو ہے۔ تاہم، اس سے اس وقت تک پورا فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک ترقی پذیر ملکوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی توسیع نہ ہو، تاکہ وہ مزید برآمدات کے قابل ہوسکیں اور پیداواری صلاحیت انسانی وسائل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی ترقی کے بغیر نہیں بڑھ سکتی۔ یہ انتہائی اہم امور ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو اپنے سماجی اور فزیکل انفراسٹرکچر اور پیداواری سرگرمیوں کو بہتر بنائے بغیر، ان سے اپنے تمام محصولات کے خاتمے کا مطالبہ، ان ملکوں میں درآمدی سازوسامان کا سیلاب، ان کی اپنی صنعت اور زراعت کی تقریباً مکمل تباہی کی راہ ہموار کرے گا، لہٰذا ترقی پذیر ملکوں میں عالم گیریت صرف بتدریج ہی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر اسے طاقت کے بل پر مسلط کیا گیا تو اس کے نتیجے میں کئی مسائل جنم لیں گے۔ ان میں سے ایک ان کی متعدد صنعتوں کا بند ہوجانا ہے۔ یہ چیز ان کی زراعت کو بھی نقصان پہنچائے گی، بے روزگاری میں اضافے کرے گی، سماجی اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرے گی، اور ایسے نتائج کا سبب بنے گی جو ان اہداف کے بالکل برعکس ہوں گے جو عالم گیریت سے مقصود ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ترقی پذیر ملک اسی صورت میں عالم گیریت کی جانب پیش رفت کرسکتے ہیں جب ان کی پیداواری صلاحیت میں توسیع اور ان کی برآمدات میں اضافہ ہو۔ فی الوقت ایسا نہیں ہورہا ہے۔ انھیں اپنے انفراسٹرکچر اور انسانی وسائل کی ترقی کے ذریعے اپنی پیداواری صلاحیت کو وسعت دینے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی مدد درکار ہے۔ ایک ایسے بندوبست کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ان کی تعلیم، ٹکنالوجی، انتظامی معاملات اور پیداوار کے طریقوں کا معیار بہتر ہو۔ یہ ساری بہتریاں بہت ضروری ہیں، کیونکہ ان کے عمل میں آنے سے ترقی یافتہ ملکوں کو بھی کچھ عرصے بعد جواباً اس کے اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔ ان کی اشیا و خدمات کے لیے ترقی پذیر ملکوں میں مانگ بڑھے گی۔ اس کے نتیجے میں ان کے اپنے ملکوں میں پیداوار میں اضافہ کی شرح بلند ہوگی اور بے روزگاری میں کمی آئے گی۔ وہ خود اپنی معاشی کارگزاری کو بہتر بنانے کے لائق ہوسکیں گے۔ اس طرح ہر ایک کو فائدہ پہنچے گا۔

فی الوقت جاری عالم گیریت کا عمل اس نوعیت کا نہیں ہے۔ متعدد اشیا عالم گیریت سے باہر رکھی گئی ہیں۔ تیل، پٹرول اور کیمیکل اشیا اس سے خارج ہیں۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ بھی اس سے باہر تھا اور حال ہی میں شامل کیا گیا ہے۔ زرعی اشیا آج تک اس سے باہر ہیں۔ زرعی اشیا پر جو مالی اعانتیں یورپ، امریکا اور جاپان سمیت صنعتی دنیا میں دی جاتی ہیں وہ ترقی پذیر دنیا میں زراعت کی توسیع میں قابل عمل نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ زراعت میں مقابلتاً فوقیت کے باوجود ان ملکوں کی زرعی پیداوار کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

مختصر یہ کہ ترقی یافتہ دنیا ان اشیا اور خدمات پر عائد محصولات ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جن کی پیداوار میں اسے مقابلتاً فوقیت حاصل ہے لیکن جواباً ترقی پذیر دنیا کو ان چیزوں کے حوالے سے یہ سہولت مہیا کرنے کو تیار نہیں جن میں اسے فوقیت حاصل ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں اور خود اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جو عالم گیریت واقع ہوئی وہ زراعت ہی میں توسیع کے ذریعے ہوئی تھی۔ جاپان کو دیکھیں یا امریکا کو، یہ زراعت ہی ہے جس میں پہلے توسیع ہوئی۔ اس نے صنعتی ترقی کے لیے وسائل فراہم کیے۔ اگر ترقی پذیر ملکوں میں زراعت کا دائرہ نہ پھیلتا تو ان کی ترقی کا عمل متاثر ہوتا اور آخری نتیجے کے طور پر پوری دنیا میں صنعتی ملکوں کو بھی نقصان پہنچتا، لہٰذا زراعت کی توسیع ملکوں کے لیے انتہائی اہم ہے اور اس کے لیے ترقی یافتہ دنیا میں زراعت پر دی جانے والی مالی اعانتوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ صنعتی ملکوں کو ایک ہی ہلّے میں تمام مالی اعانتوں کا خاتمہ کردینا چاہیے۔ یہ اقدام حکمران سیاسی جماعتوں کے لیے خودکشی کا عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، وہ اسے تدریج کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں، اس واضح شعور کے ساتھ کہ یہ وہ عمل ہے جو ترقی پذیر ملکوں کو اپنی زراعت کو وسعت دینے اور اپنے وسائل میں اضافہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے درکار ہے اور یہ ان کی صنعتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ معاشی قربت و یگانگت ایک دھیما عمل ہے چنانچہ صنعتی ملکوں سے مالی اعانتوں کے فوری خاتمے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، تاہم اسے بتدریج رُوبہ عمل لایا جانا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہورہا۔ صنعتی دنیا میں اس بات کی مستقل جدوجہد جاری ہے کہ زرعی اشیا پر دی جانے والی مالی اعانتیں برقرار رہیں اور ان کے خاتمے کے مطالبے کو ٹالا جاتا رہے۔ اس رویے کے ساتھ کوئی گلوبلائزیشن نہیں ہوسکتی۔

دوسری چیز جسے ذہن میں رکھا جانا چاہیے، ترقی کے مختلف مراحل ہیں جن سے ترقی پذیر ممالک فی الوقت گزر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ دوسروں سے بہت آگے ہیں۔ اس لیے ان سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ مقابلتاً غریب ترقی پذیر ممالک، اداروں کی تعمیر،  صحت مند اور مستحکم مالیاتی تعاون کے حاجت مند ہیں۔ اچھی حکمرانی کے بغیر ان مقاصد کا حصول مشکل ہے۔ تاہم، ترقی پذیر ملکوں کی ترقی کے لیے یہ تمام چیزیں ناگزیر ہیں۔ ان اہداف کے حصول میں وقت لگے گا۔ اس لیے یہ توقع رکھنا انتہائی غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ ترقی پذیر ممالک اپنے تمام محصولات فی الفور ختم کردیں گے۔ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف ان ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لیے مزید مصائب کا سبب بنے گا۔ اس لیے ترقی پذیر ملکوں میں عالم گیریت کو ایک دھیما عمل سمجھا جانا چاہیے۔ ان ملکوں میں ترقی کے لیے درکار ضروری عوامل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محصولات میں بتدریج کمی کے لیے اچھی طرح سوچا سمجھا پروگرام تیار کیا جانا چاہیے۔

جہاں تک تیل کا معاملہ ہے تو یہ بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر ایک تیل کی بلند قیمتوں کی شکایت کر رہا ہے۔ تیل کی بلند قیمت کی وجہ لازمی طور پر تیل پیدا کرنے والے ملک نہیں ہیں۔ تیل کی بلند قیمت دو عوامل کی بنا پر ہے۔ ان میں سے ایک گھٹتے ہوئے ذریعے کے لیے جس کا متبادل موجود نہیں، بین الاقوامی طلب کا بڑھنا ہے، جب کہ دوسرا سبب عملی طور پر تمام صنعتی ملکوں میں تیل پر عائد محصولات کی اونچی شرح ہے۔ بعض ممالک میں محصولات تیل کی پمپ پرائس کے غالب حصے پر مشتمل ہوتے ہیں، جب کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو اس قیمت میں ملنے والا تناسب بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرو کیمیکلز پر بھاری محصولات عائد ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں متعدد پیٹرو کیمیائی صنعتیں جدید ترین مشینری سے لیس ہیں چنانچہ ان کی کارکردگی زیادہ     اچھی ہے۔ اگر پیٹرو کیمیکلز کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے دائرہ کار میں شامل کیا جائے تو یورپی ملکوں کو اپنی صنعتوں کو وقت کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی مشینری تبدیل کرنا پڑے گی۔

اس کے علاوہ بھی بعض مسائل ہیں۔ موجودہ عالم گیریت اصولوں کے مطابق نہیں بلکہ مذاکرات کے مطابق ہے۔ امریکا اور یورپی ملکوں جیسے صنعتی ممالک کی مذاکراتی صلاحیت، ترقی پذیر ملکوں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ وہ مذاکرات کی میز پر وکیلوں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین معاشیات اور قانونی مشیروں کے ساتھ جاتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس مذاکرات کی میز پر اپنی اعانت کے لیے مشکل سے ایک دو اشخاص ہوتے ہیں۔ صنعتی ملکوں کی جانب سے ذہن کو  تھکادینے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے لے جائے جانے والے ماہرین کی تعداد اوسطاً سات ہوتی ہے، جب کہ ترقی پذیر ممالک اس کا نصف بھی مہیا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ نہ ان کے ماہرین ویسے اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں جیسے صنعتی ملکوں کی طرف سے آتے ہیں۔۱۳؎ اس لیے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ مذاکرات منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انداز میں منعقد ہوں گے؟ اس طرح یہ پورا عمل ابتدا ہی سے غیر منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے صدر ڈاکٹر احمد علی نے بجا طور پر نشان دہی کی ہے کہ ’’ڈبلیو ٹی او میں ترقی پذیر ملکوں کا پہنچنا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص گھنے جنگل سے گزر رہا ہو جو جھاڑ جھنکاڑ، پر پیچ راستوں اور سدھائے ہوئے دیوہیکل درندوں سے بھرا پڑا ہو‘‘۔۱۴؎ عالم گیریت، عدل و انصاف کے بغیر نہیں آسکتی اور اگر انصاف کو ملحوظ رکھا جائے تو ترقی پذیر ملکوں کو متعدد مراعات دی جانی چاہییں۔ تمام ترقی پذیر ملکوں کو یکساں مراعات کے بجاے ان کی ترقی کے مرحلے کے مطابق مراعات ملنی چاہییں۔

سماجی یگانگت ثقافتی تنوع کے ساتھ

عالم گیریت کے لیے درکار ایک اور چیز سماجی قربت و یگانگت ہے۔ مختلف ملکوں میں بہتر باہمی مفاہمت کے لیے یہ ضروری ہے۔ یہ چیز ایک آفاقی گاؤں کی تعمیر کے لیے راستہ ہموار کرے گی۔ تاہم آفاقی گاؤں کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ اس میں ایک یکساں اور سب کے لیے قابل قبول تہذیب و ثقافت رائج ہوگی۔ اس کے بجاے اسے ایک ایسا گاؤں بنانا ہوگا جس میں ثقافتی تنوع اور رنگا رنگی ہو۔ ایسا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہم دوسری ثقافتوں کو محض برداشت نہ کریں بلکہ ان کا احترام کریں اور ان کی تحقیر سے گریز کرنا بھی سیکھیں۔ یہ توقع رکھنا کہ دنیا کے تمام ممالک ایک ہی مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنالیں گے، غیر صحت مند اور غیر حقیقت پسندانہ ہی   نہیں بلکہ ایسا ہدف ہے جس کا حصول ناممکن ہے۔ کسی بالادست قوم کی جانب سے باقی دنیا پر    اپنا کلچر مسلط کرنے کی کوشش پر دوسرے ملک ناخوش ہوں گے۔ دنیا میں کلچر کے نام سے کوئی ایسی اعلیٰ و ارفع اور یک رنگ چیز نہیں ہے جس میں صرف خوبیاں ہی ہوں اور جو کمزوریوں سے یکسر    پاک ہو، جب کہ تنوع اور رنگا رنگی سے دنیا کی خوب صورتی میں اضافہ ہوگا۔

دوسرے لفظوں میں ہمیں سماجی عالم گیریت کو تنوع اور ایک دوسرے کی ثقافتوں اور مذاہب کے احترام کے ساتھ مقصود بنانا چاہیے۔ ہمیں دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کی اچھی چیزوں کو اپنانے اور ان چیزوں سے دور رہنے کے لیے جو ہمارے نزدیک اس کے برعکس ہوں، عقل و دانش سے کام لینا چاہیے۔ اختلاف و تنوع کے ساتھ اتحاد سے یہی صورت مراد ہے۔ دوسری قوموں پر  اپنا کلچر مسلط کرنے کی کوشش، سماجی گلوبلائزیشن کو وجود میں لانے کا غلط طریقہ ہے۔ اس عمل میں مسلسل اصلاحات، برداشت اور باہمی احترام سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں۔

قرآن مسلمانوں کو دوسرے انسانوں کی مذہبی علامات یا خداؤں کو برا کہنے سے روکتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ قرآن کہتا ہے: وہ لوگ علم نہ رکھنے کی بنا پر اللہ کو برا کہنے لگیں گے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں مزید بتاتا ہے کہ ایسا اس لیے ہوگا کیونکہ ہم نے تمام لوگوں کے لیے ان کے اعمال کو پرکشش بنادیا ہے اور وہ لوگ اس رویے سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ قرآن اپنے اس بیان سے اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ کسی کے مذہب، اقدار اور ثقافت کی تحقیر و توہین کے نتیجے میں لوگ ہمارے اپنے مذہب اور ثقافت کی تحقیر و توہین کریں گے۔ اس طرح یہ عالم گیریت کا بدترین طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے:’’اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے___ سواے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں___ اور ان سے کہو کہ ’’ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مُسلم (فرماں بردار) ہیں‘‘۔ (العنکبوت ۲۹:۴۶)

لہٰذا اگر ہمارا اللہ اور ان کا اللہ ایک ہی ہے اور ہم سب کو اسی نے تخلیق کیا ہے تو ایک دوسرے کو برا کیوں کہیں؟ مگر اس کے مطابق ہو نہیں رہا۔ مغربی دنیا میں فی الوقت جو کچھ ہورہا ہے وہ اسلام، قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر مسلسل لعن طعن ہے۔ یہ غرور و تکبر اور اندھے تعصب کا اظہار ہے، تحمل و برداشت اور مفاہمت کا مظاہرہ نہیں۔ امریکا (گوانتاناموبے) میں قرآن کے بیت الخلا میں پھینکے جانے کے واقعے کو مسلم دنیا کی جانب سے ایک دوستانہ کارروائی کے طور پر  کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ اور اس ماحول میں عالم گیریت کیسے وقوع پذیر ہوسکتی ہے؟

سماجی اور معاشی عالم گیریت ایک دوسرے سے گہرے طور پر مربوط ہیں۔ سماجی یگانگت کے بغیر معاشی یگانگت مشکل ہے اور لوگوں کے درمیان مزید اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیے بغیر سماجی یگانگت پیدا کرنا ممکن نہیں۔ توہین آمیز واقعات، جو امریکا اور اسی طرح خاصی تعداد میں یورپ میں پیش آئے، کوئی تازہ معاملہ نہیں ہیں جو نائن الیون کا نتیجہ ہو۔ یہ واقعات ایک ایسے ذہنی رویے کی عکاسی کرتے ہیں، جو صدیوں پر محیط ہے۔ اس کا مظاہرہ صلیبی جنگوں میں ہوا تھا اور اس کے بعد قرآن، محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر مسلسل حملوں کی شکل میں برابر ہوتا چلا آرہا ہے۔ یہ رویہ  بین الاقوامی ہم آہنگی اور عالم گیریت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

سیاسی یگانگت

سیاسی قربت و یگانگت کا یہ مطلب نہیں کہ ایک سوپرپاور کی چھتری تلے دنیا کی تمام قوموں کو ایک قوم بنا دیا جائے۔ سیاسی یگانگت ایک ایسی مقتدرہ ہی کے تحت حقیقت بن سکتی ہے جو انصاف کی ضامن ہو، تنازعات کو کم کرے، اور تمام ملکوں میں امن اور خوش حالی کو فروغ دے۔ اقوامِ متحدہ سے اس کام کی انجام دہی کی امید لگائی گئی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔   اقوامِ متحدہ کی قراردادیں اسرائیل کی سنگ دلی اور امریکا کی مدد اور چشم پوشی کی بنا پر مسلسل پامال ہوتی چلی آرہی ہیں۔ ایک منصفانہ عالمی نظام کو حقیقت بنانے کا خواب بھی، جھوٹے الزامات کی بنیاد پر عراق پر امریکا کے حملے کی وجہ سے بکھر چکا ہے۔ اس حملے کے پیچھے دو مقاصد کار فرما تھے۔ ایک تو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے تسلسل کو یقینی بنائے رکھنا، اور دوسرے اس علاقے کے تیل پر تسلط حاصل کرنا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ خود یورپی ملکوں کے مفاد کے بھی خلاف تھا۔ کوئی اکیلا ملک جو اس علاقے کے تیل پر کنٹرول رکھتا ہو، پوری دنیا پر تسلط قائم کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔ وہ چین، جاپان، حتیٰ کہ بعض یورپی ملکوں کو ایسی پالیسیوں کو ماننے پر مجبور کرنے کے لیے جنھیں وہ پسند نہیں کرتے تیل کے لیے راستہ دینے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس صورت حال سے بے پناہ مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ یوں مشرق وسطیٰ کے تیل کا ایک سوپرپاور کے کنٹرول میں لے آیا جانا، ایک انتہائی ناخوش گوار معاملہ ہے۔ امریکا کویت کو عراق سے بچانے کے لیے کویت گیا تھا لیکن پھر وہ خود نو آبادیاتی طاقت بن گیا۔ کویت اب عملاً امریکی کالونی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد امریکا نے عراق پر حملہ کیا تاکہ دونوں ملکوں کے تیل پر اپنا کنٹرول قائم کرلے اور پورے علاقے کے ملکوں کے تیل کو اپنے دائرۂ اثر میں لے آئے۔ ایران نے مزاحمت کا اعلان کیا اور شاید اسی بنا پر اسے ’برائی کے محور‘ کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

عراق پر تسلط قائم کرنے کے لیے امریکا کی کوششوں نے اس ملک کو بری طرح تباہ کردیا ہے۔ ۱۵ لاکھ سے زیادہ مرد، عورتیں اور بچے قتل کردیے گئے، ملک کے بنیادی ڈھانچے، صنعت اور زراعت کو برباد کردیا گیا، اور بحیثیت مجموعی ایک خوش حال ملک کو انتہائی غریب بنا دیا گیا۔ عراق کو اس حالت میں واپس آنے کے لیے جس میں یہ ۱۹۷۰ء میں تھا کم از کم دو عشروں تک جدوجہد کرنا پڑے گی۔ کئی یورپی ملک اس بات پر قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے عراق کی اس غیر ضروری اور سنگ دلانہ بربادی میں امریکا کی طرف داری نہیں کی (ایسی ہی جارحیت کا نشانہ افغانستان کو بھی بنایا گیا ہے)۔

ایک مسلم ملک پر اس دلیل کی بنیاد پر حملہ کرنا کہ اس کا مقصد اس ملک میں جمہوریت کا قیام ہے، قطعی احمقانہ ہے۔ جمہوریت طاقت کے بل پر نہیں لائی جاتی۔ اس مقصد کے لیے متعدد اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اقدامات پر گفتگو یہاں ممکن نہیں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ مسلم ملکوں میں سماجی، معاشی اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسے ہر ایک مانتا ہے   لیکن اس اصلاح کو عمل میں لانا آسان نہیں۔ یہ کام بتدریج ہی ہوسکتا ہے۔ مغربی دنیا تعلیم اور  سماجی و معاشی بہتری میں تعاون کرکے اصلاحات کی رفتار کو تیز کرسکتی ہے۔

سیاسی یگانگت بلاشبہہ دنیا کی ضرورت ہے، تاہم اسے طاقت کے استعمال کے ذریعے قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کام صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں، ایک دوسرے کے مذاہب اور تہذیب و ثقافت کا احترام کریں، ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ان سماجی تنازعات سے گریز کریں جو دوسروں کے مذہب، ثقافت اور عقائد کی توہین و تحقیر کا نتیجہ ہیں۔ اگر ہم اس طور پر آگے بڑھیں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوسکتا۔

آخری بات

ہم بات اس پر ختم کرسکتے ہیں کہ عالم گیریت پوری دنیا کی عظیم تر خوش حالی کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، معاشی عالم گیریت، سماجی اور سیاسی عالم گیریت سے الگ نہیں۔ یہ عالم گیریت کے پورے عمل کا ایک حصہ ہے۔ یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک ہم عدل و انصاف، باہمی مفاہمت اور تعاون کو کھیل کے اصولوں، یعنی ان قوانین کی پابندی کرتے ہوئے یقینی نہ بنائیں جو انبیاے کرام ؑ ہم تک اخلاقی اقدار کے ذریعے لائے۔

حواشی

۱:            تبریزی، مشکوٰۃ المصابیح، نمبر ۴۴۹۸، ج دوم، ص ۶۱۳، بہ سند شعب الایمان از بیہقی۔

۲:            بحوالہ القرطبی، تفسیر قرآن، آیت ۴۹: ۱۳، ج ۱۶ ، ص ۳۴۲۔

۳:            تبریزی، مشکوٰۃ المصابیح، نمبر ۴۹۶۹، ج دوم، ص ۶۰۸، بہ سند ابوداؤد اور ترمذی۔

۴:            مسلم ، مسلم، نمبر ۶، کتاب البر والصلہ والادب، باب تحریم الظلم، از جابر ابن عبد اللہ (ج ۴، ص ۱۹۹۶)

۵:            المنذری، الترغیب والترہیب نمبر ۲ (ج ۳، ص ۳۹۰) بہ سند مسلم، ابوداؤد ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم)

۶:            24۔ Saunders, "The Muslim World on the Eve of Europe's Expansion

۷:            ایضاً۔

۸:            Sarton, "Introduction to the History of Science", vol.1, 503.

۹:            ابن تیمیہ، معجم الفتاویٰ، ج ۱۸، ص ۱۲۲۔

۱۰:         ابن خلدون، مقدمہ، ص ۲۸۸۔ مزید دیکھیے روزنتھال کا ترجمہ، ابن خلدون،  اور عیساوی کی تالیف "Arab Philosophy of History"

۱۱:         ابن خلدون، مقدمہ، ص ۲۸۷۔

۱۲:         ایضاً ۳۶۰ اور ۴۰۳۔ 

۱۳:         ورلڈ بنک، ’ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ‘، ص ۵۵۔

۱۴:         اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، Proceedings of Seminar on Accession to WTO"


مقالہ نگار معروف ماہر اقتصادیات ہیں۔ سعودی عرب کے اسٹیٹ بنک اور اسلامی ترقیاتی بنک کے مشیر رہے ہیں

۲۶ دسمبر ۲۰۱۲ء کو عزیزی سید طلحہ حسن کے ولیمے میں شرکت کے لیے کراچی گیا اور اس مبارک تقریب سے فارغ ہوکر قصرناز میں قدم ہی اُٹھا تھا کہ یہ دل خراش ایس ایم ایس موصول ہوا کہ برادرم محترم و مکرم پروفیسر عبدالغفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں __ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

کراچی کے سفر کے مقاصد میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کی عیادت سرفہرست تھی۔ تقریب میں ان کے صاحب زادے عزیزی طارق سے ۲۷دسمبر کو ان کے گھر آنے کا پروگرام طے کیا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ ۲۷ کو عیادت نہیں، تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا ہوگا اور اسی شام ان کے جنازے میں شرکت کرکے ، ان کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا ہوگا___  لیکن یہ تو صرف محاورہ ہے، ہمیشہ یہاں کون رہا ہے، جلد یا بدیر، ہر ایک کو اس سفر پر روانہ ہونا ہے، بس دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والی زندگی میں اپنے فضل و کرم سے اپنے ان بندوں کی رفاقت نصیب فرمائے جو اس کے جوارِرحمت میں ہوں۔

پروفیسر عبدالغفور احمد تحریکِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور ملک و ملّت کا زریں اثاثہ تھے۔  تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ اور خدمت اور سیاست، ہر میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ۱۱جون ۱۹۲۷ء کو یوپی کے مشہور علمی اور دینی گہوارے بریلی میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ   یونی ورسٹی سے ۱۹۴۸ء میں ایم کام کی سند حاصل کی اور اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤ میں بطور لیکچرار اپنے تدریسی کردار کا آغاز کیا۔ اگلے ہی سال ہجرت کر کے کراچی آئے اور ایک پرائیویٹ  تجارتی ادارے میں اکاؤنٹ کے شعبے میں ذمہ داری سنبھالی۔ پھر اُردو کالج میں تجارت اور  حسابیات (Accounting) کے لیکچرار کی اضافی ذمہ داری سنبھال لی اور یہ سلسلہ ۱۹۶۱ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس اور     جناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۲ء تک جاری رہا جس کے بعد قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ہمہ وقتی بنیاد پر پارلیمنٹ اور جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے۔

مولانا مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی کی دعوت سے طالب علمی کے دور ہی میں روشناس ہوئے۔ غالباً ۱۹۴۴ء میں ان کے کالج کے ایک قریب ترین دوست جناب انوریار خاں نے مولانا محترم کی کتاب خطبات ان کو دی جس نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ مولانا کا   بیش تر لٹریچر پڑھ ڈالا لیکن جماعت سے ان کا باقاعدہ تعلق کراچی میں ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا۔ جلد ہی کراچی کی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں جماعت اسلامی نے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں شرکت کی۔ ۱۰۰ میں سے ۲۳نشستوں پر جماعت نے انتخاب لڑا اور الحمدللہ ۲۳ کی ۲۳نشستیں جیت لیں۔ غفورصاحب کارپوریشن میں جماعت کے گروپ لیڈر مقرر ہوئے اور اس طرح ملک کے سب سے اہم شہر کے سیاسی اُفق پر ایک روشن ستارے کے طور پر نمودار ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوئے، پھر کراچی کے امیر بنے (۱۹۷۲ء تا۱۹۷۷ء) اور ۱۹۷۹ء سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور اس کی سیاسی کمیٹی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جنرل ایوب کے دور میں ۱۹۶۴ء میں امیرجماعت اور مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان کے ساتھ ساڑھے نومہینے جیل میں رہے۔۱۹۷۰ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں بھی ساری دھاندلی کے علی الرغم جماعت کے ۹ منتخب ارکان میں شامل تھے، اور ۱۹۷۲ء سے قومی اسمبلی میں دستور سازی، جمہوریت کے تحفظ، ختم نبوت اور نظامِ مصطفی کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) (۱۹۷۷ء تا ۱۹۷۹ء) کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ۱۹۷۸ء تا۱۹۷۹ء میں وفاقی وزیرپیداوار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۵ء تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ پروفیسر صاحب نے پاکستان کے سیاسی حالات پر آٹھ کتابیں مرتب کیں جو پاکستان کی تاریخ کا ایک مستند ماخذ ہیں۔

پروفیسر عبدالغفور صاحب سے میرا پہلا تعلق تو شاگرد اور استاد کے رشتے سے ہے۔ گو مَیں نے بلاواسطہ ان سے پڑھا نہیں لیکن جب میں گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکانومکس میں بی کام کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو وہ اُردو کالج اور کچھ دوسرے پروفیشنل اداروں میں پڑھا رہے تھے اور میرے استاد متین انصاری صاحب کے قریبی دوست تھے جس واسطے سے مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ بی کام میں وہ میرے ممتحن بھی رہے اور اس طرح بلاواسطہ استاد بھی ہوگئے۔ نیز جماعت میں میرے سینیر تھے، اور مَیں نے تحریکی زندگی اور ملکی سیاست دونوں کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ۱۹۶۴ء میں ساڑھے نو مہینے ہمیں جیل میں ایک ہی کمرے میں باقی ساتھیوں کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کا مفصل ذکر تذکرۂ زنداں میں آیا ہے۔ میرے لیے وہ بڑا قیمتی تجربہ اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا ایک نادر موقع تھا۔ میں نے ان کو ایک نفیس، باذوق، خداترس، محبت کرنے والا، بے غرض اور راست باز انسان پایا جو اپنے چھوٹوں سے بھی کچھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ مَیں نے ان ۶۰برسوں میں ان سے شفقت، محبت اور عزت کا جو حصہ پایا وہ زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مقام کو بلند تر کرے کہ ان سے  ہم نے یہ سیکھا کہ انسانوں سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔ دوست تو دوست ان کا تو عالم یہ تھا کہ ان کے مخالف بھی ان کو اپنا سمجھتے تھے اور انھوں نے بھی اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات اور باہم محبت و احترام کے رشتوں میں در آنے کا موقع نہیں دیا۔ نفرت اور دشمنی کا تو دُور دُور تک کوئی وجود ہی نہ تھا    ؎

ساز دل توڑ کے بھی، چھیڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا

غفور صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی، نفاست، انکسار، محبت اور شفقت تھا۔ تصنع کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی کے کسی پہلو میں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ سلیقے اور نرمی سے بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اختلاف میں شائستگی اور دوسرے کے موقف کا احترام ان کا طریقہ تھا۔ انھوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد سے بالا ہوکر اپنے اجتماعی تعلقات کو استوار کیا، اور ہرشخص کے ساتھ عزت اور مروت کا رویہ اختیار کیا جس نے ہردل میں   خود ان کے لیے عزت و احترام کا چشمہ رواں کردیا۔

ملک کی سیاسی زندگی میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انھوں نے بڑی حکمت، بے باکی اور بے غرضی سے انجام دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جو کچھ بھی تھا اس کو سنبھالنے اور ایک نئی زندگی دینے کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۲ء کے بعد قومی اسمبلی میں اور اس کے باہر ہوئی، اس میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کا جو اثر تحریکِ اسلامی اور اس کے بہی خواہوں پر پڑا تھا، اس کا جس سمجھ داری اور جرأت سے انھوں نے مقابلہ کیا وہ ہماری تحریکی اور  ملکی زندگی کا ایک تابناک باب ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کے بنانے میں ان کا اور اس وقت کی  حزبِ اختلاف کے ارکان کا بڑا تاریخی کردار ہے۔ ۱۹۷۲ء ہی میں ایک پہلے سے بنائے ہوئے مسودۂ دستور کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ایک قسم کی   سول آمریت کا خطرہ ایک حقیقت بنتا نظر آرہا تھا،لیکن ایک چھوٹی سی اپوزیشن نے جس میں پروفیسر عبدالغفور احمد، مولانا ظفر احمد انصاری ، مولانا مفتی محمود ، خان عبدالولی خان ، جناب شیرباز مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہم نے بڑی حکمت کے ساتھ اس مجوزہ دستور کو صرف ایک عبوری دستور کے طور پر تسلیم کرکے وقت کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک دستوری کمیٹی بنا ئیں بلکہ نئے دستور کی تدوین کا کام کریں۔ اس میں جناب ذوالفقار علی بھٹو، جناب محمود علی قصوری اور جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کا بھی اہم کردار رہا اور یہ معجزہ رُونما ہوا کہ ۱۹۷۳ء میں ایک متفقہ دستور بن سکا جس نے اب تک پاکستان کے سیاسی نظام کو ساری دراندازیوں اور سیاسی اور عسکری طالع آزمائیوں کی زوردستیوں کے باوجود جمہوریت کی پٹڑی پر قائم رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا اس پورے عمل میں ایک مرکزی کردار تھا۔

اسی طرح سیاسی اختلافات کے باوجود، سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لیے اتحاد قائم کرنے اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کاکردار منفرد تھا۔ دستور سازی اور پھر سیاسی تحریکات میں ان کے کردار کو دیکھ کر جناب الطاف گوہر اور جناب خالد اسحق جیسے افراد نے میرے اور دوسرے دسیوں افراد کے سامنے یہ راے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت پروفیسر عبدالغفور صاحب جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو یہ ملک دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے، بلکہ الطاف گوہر نے تو ڈان کے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لیے مطلوب وزیراعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا۔

پروفیسر عبدالغفور صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور شدید اختلافات کے درمیان مشترکہ باتوں پر اتفاق راے پیدا کرنے کی صلاحیت کے دوست اور دشمن سب قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہرحلقے میں ان کی عزت تھی۔ جماعت کے اندرونی معاملات میں بھی پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سیاسی اُمور میں زیادہ نمایاں تھا۔ مَیں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوا۔  اس وقت تک مرکزی شوریٰ کی قراردادیں خود مولانا مودودی ہی مرتب فرماتے تھے۔ اس کے بعد محترم نعیم صدیقی، محترم صدیق الحسن گیلانی، محترم اسعد گیلانی اور مجھے اس عمل میں شریک کیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار بڑھتا گیا اور گذشتہ ۳۰برسوں میں سیاسی قراردادوں پر ان کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سیاسی قرارداد شوریٰ کی سب سے اہم قرارداد ہوتی ہے اور اس کو شوریٰ کی پوری بحث کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے۔ ارکانِ شوریٰ کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے لیکن جس کمیٹی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے اس نے پروفیسر عبدالغفور احمد کی سربراہی میں کام کیا ہے۔ محترم چودھری رحمت الٰہی اور مجھے اس کمیٹی میں کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ایک مدت تک اولین مسودہ پروفیسر عبدالغفور صاحب ہی تیار کیا کرتے تھے۔ پھر باقی کمیٹی کے ارکان اپنا حصہ شامل کرتے تھے۔ اس کے بعد امیرجماعت قرارداد کو دیکھتے تھے اور آخیر میں شوریٰ میں ارکان کے مشوروں سے کمی یا اضافہ کیا جاتا تھا۔ گو، یہ ایک اجتماعی عمل تھا لیکن اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کا کردار بہت ہی اہم تھا اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔

پروفیسر عبدالغفور صاحب جماعت اسلامی کے ان چند لوگوں میں سے تھے جن کو مولانا مودودیؒ سے براہِ راست استفادے کا موقع ملا، اور پھر جن کو محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کی خدمات ۶۲سال کی طویل مدت پر پھیلی ہوئی ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کی قبر کو جنت کا گوشہ بنادے، انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے مقام کو بلند تر فرمائے اور جو خلا ان کے رخصت ہوجانے سے ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، انسان سب فانی ہیں لیکن یہ دین، اسلامی تحریک، اور خیراور فلاح کی جدوجہد وہ سلسلہ ہے جسے قیامت تک جاری رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دعوت اور اس پیغام کو مضبوط اور مؤثر بنائے تاکہ ظلمتیں چھٹیں اور نورِ حق غالب ہوکر رہے۔ آمین!

 

یہ انجینیررضاسعیدی ہیں۔ ۱۷ سال مدرسہء یوسف علیہ السلام (یعنی جیل) میں رہے،  اس وقت حکومت میں اقتصادی اُمور کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ڈاکٹر منصف با سالم ہیں،۱۵ سال  مدرسۂ یوسف میں گزارے اور اس وقت وزیر تعلیم عالی ہیں۔ یہ عبد الکریم ہارونی ہیں، ۱۷ سال جیل میں گزارے، اس وقت وزیر مواصلات ہیں۔ یہ فتحی العیادی ہیں، ۲۰ سال ملک بدری کی زندگی گزاری، اس وقت جماعت کی مجلس شوریٰ کے اسپیکر ہیں___ تحریک نہضت کا ایک کارکن تیونس میں ہمارے پانچ روزہ دورے کی اختتامی نشست میں اپنے اہم ذمہ داران کا تعارف کروا رہا تھا۔

پوری مجلس بالخصوص ہم مہمانوں پر سناٹا طاری تھا۔ سب حیران ہورہے تھے کہ آخر     اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی باوقار و محترم شخصیت رکھنے والے یہ کیسے عجیب لوگ ہیں؟ کیا یہ دیوانے ہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی ساری تعلیم، اپنا مقام و مرتبہ، اپنے اہل و عیال اور دنیا کی ہر نعمت اپنے دین اور نظریے پر قربان کردیے۔ تحریک اسلامی سے براء ت کا اظہار کردیتے تو ساری کلفتیں دور ہوجاتیں، لیکن انھوں نے الٹ فیصلہ کیا۔ اللہ سے بغاوت اور اس کے دین سے دست برداری سے انکار کرتے رہے، اور نتیجتاً جیلوں میں مزید عذاب و تشدد جھیلتے رہے۔

ہماری اس حیرت اور مجلس میں تعارف کا سلسلہ جاری تھا:یہ ڈاکٹر رفیق عبد السلام ہیں ساری جوانی ملک بدری میں گزار دی، اب ملک کے وزیر خارجہ ہیں۔ یہ عبد اللطیف مکی ہیں ۱۲ سال جیل میں رہے، اب وزیر صحت ہیں۔ یہ عبد الحمید ہیں ۱۷سال جیل میں رہے، اب تحریک میں تنظیمی اُمور کے ذمہ دار ہیں۔ یہ نور الدین العرباوی ہیں ۱۷ سال جیل میں رہے، اب سیاسی جماعتوں سے روابط کے ذمہ دار ہیں۔ یہ محمد عکروب ہیں ۱۷سال جیل میں رہے۔ یہ ریاض الشعیلی ہیں پانچ  سال جیل میں رہے..... بات کاٹتے ہوئے راشد غنوشی صاحب نے تبصرہ کیا: ’’صرف پانچ سال___ یعنی بھرپور دسترخوان پر بھی صرف سینڈوچ پر اکتفا___؟‘‘ پوری مجلس نے قہقہہ لگایا، لیکن ہم سب سننے والوں کا تعجب جوں کا توں تھا۔ یا پروردگار یہ تیرے کیسے پراسرار بندے ہیں۔ یہ کیسا ذوق خدائی، کیسی لذت آشنائی ہے؟ سالہا سال کی قید و بند بھی ان کے ارادوں، اور حوصلوں کو شکستہ نہ کرسکی۔ اس حیرت کے ساتھ ہی یہ امر بھی قدرت کی طرف سے ایک مکمل پیغام پہنچا رہا تھا کہ دیکھو ۱۷،۱۷ سال تشدد سہنے والے مظلوم آج ایوان اقتدار میں ہیں، جب کہ جلاد عبرت کا نشان!

ہم ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے تیونس آئے تھے۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ کانفرنس میں شریک تقریباً تمام مہمان شرکا پہلی بار تیونس آئے تھے۔ اس سے پہلے اس اہم اور برادر اسلامی ملک کے دروازے، مغربی سیاحوں اور ان کی آوارگی کے لیے تو کشادہ تھے، لیکن مسلم ممالک کے اکثر شہریوں بالخصوص اسلامی شناخت رکھنے والے ہر غیر تیونسی پر بند تھے۔ غیر تیونسی ہی کیا    خود ایک کروڑ ۶ لاکھ نفوس پر مشتمل تیونس کی ساری آبادی بھی عملاً ایک قید خانے ہی میں بند تھی۔ گذشتہ دور حکومت میں ۳۰ ہزار کارکنان تو صرف تحریک نہضت کے گرفتار رہے۔ سیکولر ذہن رکھنے والے ہزاروں افراد بھی گرفتارِ بلا رہے۔ بائیں بازو کی ایک جماعت کے سربراہ اور معروف دانش ور منصف المرزوقی جو اس وقت نہضت کے حلیف اور اس کے تعاون سے منتخب صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہیں، بھی گرفتار رہے۔ چونکہ ان کا تعلق اسلامی تحریک سے نہیں تھا، چار ماہ کی قید تنہائی کے بعد ہی مغربی دنیا اور نیلسن منڈیلا کی ذاتی مداخلت پر رہا کردیے گئے، پھر وہ فرانس چلے گئے۔ ان کے لیے بھی ملک واپسی کے دروازے ۱۰سال بعد بن علی کے زوال کے بعد ہی کھلے۔

تیونس شمالی افریقہ کا ایک انتہائی خوب صورت اور زرخیز ملک ہے۔ دار الحکومت کانام   بھی تیونس ہی ہے۔ اگرچہ ایک لاکھ ۶۲ہزار ایک سو۵۵ مربع کلومیٹر کے کُل رقبے کا ۳۰ فی صد صحراے اعظم کا حصہ ہے، لیکن باقی سرزمین زرخیز ہے۔ بحیرۂ روم پر ۱۳۰۰ کلومیٹر لمبا ساحل    خاص طور پر خوش گوار ہے۔ یہاں نورِ اسلام کی کرنیں حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ کے زمانے ہی میں پہنچ گئی تھیں۔ یورپ کی جانب خلافت عثمانیہ کی پیش رفت میں بھی تیونس کا  کردار نمایاں تھا۔ یہاں سے پھیلنے والی علم کی روشنی نے ساری مسلم دنیا کو منور کیا۔ یہاں واقع جامعۃ الزیتونہ ( الزیتونہ یونی ورسٹی) مصر کی معروف جامعۃ الازہر سے بھی پہلے قائم ہوئی تھی۔ جامعہ الازہر کے پہلے سربراہ جناب محمد الخضر حسین جامعۃ الزیتونہ ہی سے بھیجے گئے تھے۔     ابن خلدون اور علامہ الطاہر بن عاشور جیسے جلیل القدر علما کا تعلق بھی تیونس ہی سے ہے۔ الزیتونہ   ان کی مادر علمی تھی۔ الجزائر کے مردِ حُر امام عبد الحمید ابن بادیس بھی الزیتونہ کے دروس علمی سے مستفید ہوئے۔ بدقسمتی سے سابق حکمرانوں نے الزیتونہ  کے اس منارہء نور کو ایک بے جان جسم بنا دیا۔

کانفرنس کے تمام سیشن ایک بڑے ہوٹل میں منعقد ہوئے تھے لیکن اختتامی سیشن تاریخی جامعۃ الزیتونہ کے ہال میں رکھا گیا تھا۔ طلبہ، اساتذہ اور شرکا کے جمگھٹے میں سے ہم بمشکل راستہ بناتے ہوئے یونی ورسٹی کے ’سب سے بڑے‘ ہال کے اندر پہنچے تو سخت حیرت ہوئی۔ ہال میں بارہ بارہ کرسیوں کی ۱۲ قطاریں تھیں، یعنی عظیم اور تاریخی یونی ورسٹی کے سب سے بڑے ہال میں  کُل صرف ۱۴۴ نشستیں تھیں۔ راہ داریوں اور سیڑھیوں پر لوگ بیٹھے تھے، باقی طلبہ کھڑکیوں سے لگے بیٹھے تھے یا پھر باہر میدان میں کھڑے کارروائی سن رہے تھے۔ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالسلام جلیل بہت فعال، متحرک اور خوش گوار شخصیت کے مالک ہیں۔ خیر مقدمی کلمات میں بتایا کہ آپ کو ہوٹل کے ’تنگ‘ ہال سے اس ’بڑے‘ ہال میں اس لیے لائے ہیں کہ آپ خود گذشتہ دور کی  علم دوستی کا مشاہدہ کرسکیں۔ اس موقع پر جناب راشد غنوشی نے اعلان کیا کہ ان شاء اللہ ہم الزیتونہ کا اصل مقام بحال کرتے ہوئے اسے افریقہ کی سب سے اہم یونی ورسٹی بنائیں گے۔

جامعۃ الزیتونہ کی طرح دار الحکومت تیونس میں قائم جامع مسجد زیتونہ بھی عالم اسلام کا ایک روشن تارا ہے۔ ۵۰ ہجری میں جلیل القدر صحابی حضرت عقبہ بن نافعؓ نے رومیوں کو شکست دیتے ہوئے شمالی افریقہ کے پہلے باقاعدہ شہر قیروان کی بنیاد رکھی تھی۔ قیروان اب تیونس کا اہم شہر ہے اور اس کی جامع مسجد عُقبہ بن نافعؓ ایک انتہائی اہم اور یادگار ثقافتی ورثہ۔ دونوں مساجد علم کا گہوارا ہوا کرتی تھیں۔ ہر دور میں ان کا یہ مقام مسلّمہ تھا۔ مساجد کے ساتھ عظیم الشان لائبریریاں بھی قائم تھیں جنھیں ’دار الحکمت‘کہا جاتا تھا۔ لیکن ۱۵۷۳ء میں ہسپانوی فوجوں نے اسے تاراج کردیا، اس کی نایاب لائبریریاں برباد کردیں، لیکن اصل بربادی ۱۹۵۶ء میں خود تیونس کے ایک سپوت اور خودکو ’ولی امرالمسلمین‘ قرار دینے والے، فرانسیسی استعمار کے غلام حبیب بورقیبہ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس نے الزیتونہ یونی ورسٹی کی طرح جامع مسجد زیتونہ میں بھی تدریس کے دروازے بند کردیے۔   وہ مسجد جس کے درجنوں ستون اور ۱۲ دروازے دنیا بھر سے مشتاقان علم کے لیے اپنے بازو وا کیے رکھتے تھے۔ ہر ستون کے ساتھ کوئی نہ کوئی نابغۂ روزگار، علم کے خزانے لٹایا کرتا تھا۔ بورقیبہ نے  اسے زنجیروں اور تالوں کی نذر کردیا۔ علماے کرام کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔

تیونس نے ۱۹۵۶ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ حبیب بورقیبہ پہلے صدر بنے۔ ۱۹۸۷ء میں وزیراعظم زین العابدین بن علی نے ڈاکٹروں سے یہ رپورٹ جاری کرواتے ہوئے اس کا تختہ الٹ دیا کہ’’ بورقیبہ کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔ پھر بن علی اس وقت تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا جب تک عوامی انقلاب نے دو سال قبل ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو اسے فرار ہونے بر مجبور نہ کردیا۔ آزادی کے ۵۵ برس تک پورا ملک ایک ہی ٹولے بلکہ دو افراد کی گرفت میں رہا۔ اس دوران ظلم و جبر کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ خود بھگتنے والوں کی زبان سے بھی سنیں تو اپنے کانوں پر یقین نہ آئے۔

بورقیبہ اور بن علی کی مشق ستم کا شکار رہنے والے علی سخیری اس وقت شیخ راشد الغنوشی کے مرافق خاص ہیں۔ میں نے جب ان سے باصرار پوچھا کہ آخر یہ طویل اسیری اور مظالم برداشت کیسے کرلیے؟ کہنے لگے: انھوں نے ہمیں عزتِ نفس سمیت ہر شے سے محروم کرنا چاہا، لیکن ہزار کوشش کے باوجود وہ ہمارے دلوں میں بسے ایمان کا خزانہ نہ لوٹ سکے۔ بس اسی ایمان کے سہارے ہم زندہ و سرخرو رہے۔ ہمارے جیلر سب سے زیادہ طیش میں اس وقت آتے تھے جب ہم میں سے کوئی ان کے سامنے نماز ادا کرلیتا۔ باجماعت نماز کی کوشش تو انھیں پاگل کردیتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ نماز سے روکنے کے لیے وہ ہمیں اجتماعی طور پر مکمل بے لباس کردیتے۔ قیدیوں کو ان کے باپ، دادا یا تحریکی قائدین کے ساتھ اکٹھے کسی تنگ کوٹھڑی میں اس حالت میں ٹھونس دیا جاتا کہ کسی کے بدن پر کپڑے کا چیتھڑا تک باقی نہ رہنے دیا جاتا۔ ایسا انسانیت سوز سلوک کرتے ہوئے عام طور پر یہ طعنہ بھی دیا جاتا: ’’لو ذرا اب باجماعت نماز ادا کرکے دکھاؤ‘‘۔

 ایک اور سابق اسیر سعد بتارہے تھے کہ ’’شرفِ انسانیت سے محروم کردینے کی کوشش کرنا تو ان فرعون حکمرانوں کا سب سے پہلا اقدام ہوتا تھا۔ گرفتار شدگان خواتین ہوں یا مرد، بوڑھے ہوں یا بچے، عموماً اذیت کی سب سے پہلی ’خوراک‘ بے لباسی ہی کی صورت دی جاتی۔ ایک اور اسیر بتارہا تھا کہ انھوں نے ہماری کوٹھڑی کی چھت میں ایک سوراخ بنادیا تھا تاکہ وہاں سے اچانک جھانکتے ہوئے ’جرم نماز‘ کا ارتکاب کرنے والوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا جاسکے۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا: اب بھلا اپنے رب کے ساتھ ملاقات کرنے سے بھی کوئی کسی کو روک سکتا ہے۔ ہم الحمد للہ ہمیشہ فرائض ہی نہیں، نوافل کا اہتمام کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ ہمیں ٹکٹکی میں کس دیا جاتا، چھت سے ٹانگ دیا جاتا، ہم اس حالت میں بھی اللہ کے حضور سجدۂ بندگی بجا لانے میں کامیاب ہوجاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک کہ ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ یا ’’نمازمومن کی معراج ہے‘‘، جتنا اس حالت میں سمجھ میں آتا تھا، اس سے پہلے کبھی سمجھ میں نہ آیا تھا۔

فرعونی دور بالآخر لَد گیا۔ تیونس سمیت کئی ممالک میں عوام کو ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لینا نصیب ہوا۔ اب موجودہ دور میں نئے چیلنج اور خطرات درپیش ہیں۔ ایک طرف گذشتہ نصف صدی تک ملک لوٹنے والے اور اپنے اندرونی و بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اسلام سے کھلم کھلا دشمنی رکھنے والے ہیں۔ ۵۷ سال تک ایک مخصوص ماحول اور یک طرفہ پروپیگنڈے کے سایے میں پلنے والی نئی نسلوں کا قابل لحاظ حصہ بھی نادانی، غفلت یا لاعلمی کے باعث گاہے ان کا ہم زباں بن جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا خطرناک ہتھیار بھی تاحال اسی گروہ کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری طرف عہد سابق سے اظہارِ براء ت کرنے والے عوام کی غالب اکثریت ہے۔ باہم منقسم ہونے اور ابلاغیاتی وسائل نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر کمزور ہوتی محسوس ہوتی ہے، لیکن شکر ہے کہ بن علی سے نجات کے بعد اکثر اہم مواقع پر یک جائی کا اظہار کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

ملک میں دستور سازی کا عمل آخری مراحل میں ہے۔ حالیہ دستور ساز اسمبلی آیندہ جون جولائی تک دستور بناکر تحلیل ہوجائے گی اور دوبارہ عام انتخابات ہوں گے۔ حالیہ اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی تحریک اسلامی نے ۵۷ سالہ غلاظت و فساد سے نجات پانے کے لیے صبروحکمت اور  تدریج کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کی اس پالیسی کو کچھ لوگ پسپائی بلکہ بعض اوقات اقتدار کی خاطر اصول و نظریے سے دست برداری کے طعنے دینے لگتے ہیں۔ یہ طعنے سن کر اپنی جوانیوں اور بڑھاپے کے طویل مہ و سال جیلوں کی نذر کردینے والوں کے ہونٹوں پر کڑوی سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ بعض اوقات بے اختیار کہہ بھی اٹھتے ہیں کہ پسپائی اور دست برداری اختیار کرنا ہوتی تو ’تلواروں کے سایے میں نماز عشق‘ کیونکر ادا کرتے ۔

اس ضمن میں شیخ راشد الغنوشی نے ایک بہت بنیادی اور آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل بات کہی۔ دستوری مسودے میں ’شریعت‘ اور ’حاکمیت اعلیٰ‘ جیسے الفاظ درج کرنے کے خلاف پروپیگنڈا اور محاذ آرائی عروج پر جاپہنچی، تو انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ انقلاب کے پہلے ہی مرحلے میں مکمل تبدیلی نہیں آسکتی اور جان رکھو کہ تغییر النفوس أولی من تغییر النصوص، نفس کی تبدیلی متن، (text) کی تبدیلی سے مقدم ہے۔ نفوس تبدیل ہوجائیں تو نصوص تبدیل کرنا بآسانی ممکن ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے بعض اسلامی گروہ اور افراد اس طریق کار سے اختلاف کرتے ہوئے فوری اور زبردستی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ تیونس کی حالیہ مخلوط حکومت کو بورقیبہ اور بن علی کی باقیات کی طرف سے جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بعض اوقات اسلامی گروہوں کی مخالفت اس سے بھی شدید ہوجاتی ہے۔ سابقہ دور میں حجاب کو تاریک خیالی قرار دیتے ہوئے قانوناً ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ عریانی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ شراب نوشی پانی کی طرح عام کردی گئی تھی۔ نسلوں کی نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھیں۔ بعض اسلام پسند حضرات کا اصرار ہے کہ تبدیلی آگئی، اب بیک جنبش قلم تمام احکام نافذ کردیے جائیں۔ انھوں نے شراب کے رسیا، عریانی کے ماروں اور بے حجابی کے دل دادہ افراد کو دعوت کے ذریعے قائل کرنے اور حسن سلوک سے تبدیل کرنے کے بجاے شراب خانوں کو بموں سے اڑانے کا راستہ اختیار کرلیا۔ سیاحوں پر قاتلانہ حملے شروع کردیے اور پولیس تھانوں پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کارروائیوں کو مغربی اور عہد سابق کے وفادار ذرائع ابلاغ نے اسلام مخالف پروپیگنڈے کے لیے خوب استعمال کیا، اور خود سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن میں بھی دین اور شریعت کے حوالے سے سنگین سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔

دعوت، محبت اور تربیت کے جاں گسل اور طویل راستے پر چلنے کے بجاے زبردستی اور عجلت کے راستے پر چلنے کا یہ رجحان کئی جگہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ صہیونی حصار کے شکار غزہ میں حماس کی حکومت چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اچانک ایک قصبے میں مسلح گروہ اٹھااور ایک مسجد پر قبضہ کرتے ہوئے اعلان کردیا، کہ حماس کی حکومت اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کررہی،    ہم نفاذ شریعت کا اعلان کرتے ہیں۔ حماس کے ذمہ داران نے سمجھایا کہ اللہ کے بندو! کیا صہیونی مظالم، اس کا حصار، فوجی حملے اور اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرنے والے فلسطینی دھڑوں کی مخالفت و عناد کچھ کم تھا، کہ اب آپ نے بھی ایک نیا بحران کھڑا کردیا ہے؟ لیکن وہ نہ صرف مصر رہے بلکہ ایک خود ساختہ عدالت سے احکامات جاری کرنے لگے، بالآخر انھیں زبردستی ہٹانا پڑا۔

یہی عالم لیبیا میں بھی جابجا دکھائی دیتا ہے۔ ۴۳ سال تک بلا شرکت غیرے حکمران رہنے والے معمر قذافی نے اقتدار چھوڑنے کے بجاے اپنے ہی شہریوں کے خلاف مکمل جنگ شروع کردی۔ نتیجتاً مہلک ہتھیارایک بڑی آبادی کے ہاتھ آگئے۔ اگرچہ اکثر ہتھیار جمع کر لیے گئے ہیں لیکن کئی مسلح گروہ اور قبائل اپنی الگ مسلح شناخت پر مصر ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے میں دھماکے، حملے یا بغاوت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ الجزائر، موریتانیا اور مالی سمیت شمالی افریقہ کے کئی مسلم ممالک میں یہ مسلح رجحان اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ ان تمام کارروائیوں کو القاعدہ اور طالبان کا نام دیتے ہیں، لیکن پروپیگنڈا اسلام کے خلاف کرتے ہیں۔

’مالی‘ کسی زمانے میں افریقہ میں اسلامی تہذیب کا ایک روشن تارا ہوا کرتا تھا۔ وہاں حالیہ مسلح کارروائیوں نے پورے ملک کو باقاعدہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ اگرچہ وہاں مسلح جدوجہد میں صرف اسلام پسند ہی نہیں سیکولر گروہ بھی شریک تھے، لیکن دنیا بھر میں ان کا نام کہیں نہیں آتا۔’اتحاد افریقی علما‘ نام کی ایک تنظیم کی طرف سے موصولہ تفصیلی تجزیے کے مطابق،  حکومت مخالف مسلح تنظیمیں دوطرح کی تھیں: (۱) ’قومی تحریک براے آزادیِ ازواد۔ یہ وہاں ازواد کے علاقے میں ایک خود مختار سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ (۲) نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والی مسلح تحریکیں۔ جن میں تین گروہ نمایاں ہیں ’انصار الدین‘ یہ سب سے بڑا گروہ ہے، ’تحریک توحید و جہاد‘ اس میں مالی کے علاوہ موریتانیا کے کئی نوجوان شامل ہیں، ’القاعدہ‘ اس میں مالی کے علاوہ الجزائر کے نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں مالی کی آزادی کے بعد سے ’ازواد‘ کی علیحدگی کی یہ چوتھی اور بڑی کاوش ہے۔ اس کے آغاز ہی میں شمالی مالی کے تین صوبوں پر مسلح عناصر کا قبضہ ہوگیا، اور انھوں نے آزاد ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ تین صوبوں پر مشتمل   یہ علاقہ ملک کے کُل رقبے کا دوتہائی ہے۔

بعد ازاں سیکولر اور اسلامی تنظیموں کے مابین لڑائی ہوئی۔ سیکولر گروہ کو شکست ہی ہونا تھی وہ بری طرح شکستہ بھی ہوگئے۔ اگر نئی اعلان کردہ ریاست کا قیام ہی ناگزیر تھا، اور اس میں حکمت سے کام لیا جاتا، تو شاید نقشہ مختلف ہوتا، لیکن بدقسمتی سے وہاں صرف چند ظاہری سزاؤں کا نفاذ کرتے ہوئے، ہاتھ کاٹنے، رجم کرنے اور خواتین پر پابندیاں عائد کرنے پر زور دیا گیا۔ نتیجتاً پورے علاقے میں انتشار پھیل گیا۔ لوٹ مار اور قتل و غارت شروع ہو گئی۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب شہری پڑوسی ممالک اور اڑھائی لاکھ کے قریب جنوبی صوبوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ اسی صورت حال کو ذرائع ابلاغ میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے بالآخر فرانس نے اپنا تاریخی استعماری عہد زندہ کردیا۔ امریکا اور فرانس نے ہر ممکن کوشش کی کہ تیونس اور مصر سمیت دیگر مسلمان ممالک کو بھی اس فوج کشی میں شریک کرلیا جائے، لیکن انھوں نے صاف انکار کرتے ہوئے فرانس کو بھی اس مہم جوئی سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ استعماری طاقتیں بنیادی طور پر مسائل حل کرنے نہیں، صورت حال کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کے لیے کارروائیاں کرتی ہیں۔ اسی لیے فرانس نے بھی مالی پر مکمل جنگ مسلط کردی۔ مسلح گروہوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، لیکن عوام کی مصیبتیں بھی دوچند ہوگئیں۔ مزید کئی لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہوگئے اور افریقہ کو ایک بار پھر یورپی کالونی بنانے کا آغاز ہوگیا۔ یقینا فرانس کو اس فوج کشی کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ کچھ بعید نہیں کہ افغانستان کی طرح افریقہ میں ایک نئی دلدل وجود میں آجائے۔ فرانسیسی افواج کے قبضے اور موجودگی، مسلح افراد اور جماعتوں کے لیے مسلسل مہمیز کا باعث بنے گی۔ ریاست بنانے یا چلانے میں ناکام ہونے والے، گوریلا کارروائیوں میں یقینا کامیاب رہیں گے۔

مالی کا پورا مسئلہ بہت گنجلک اور اہم ہے۔ اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بات ہورہی تھی حکمت عملی طے کرنے کی۔ مسلح جدوجہد میں شریک مسلم نوجوان اُمت کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں۔ یہ قدسی نفوس نہ ہوں تو جہاد جیسا عظیم فریضہ پوری اُمت پر قرض بنتا چلا جائے۔ ایک کے بعد دوسری بلا اسے پھاڑ کھانے کے لیے امڈتی چلی آئے، لیکن مسلح جہاد اوردعوتی و تربیتی جہاد کے اپنے اپنے میدان ہیں۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق میں مسلح جہاد یقینا فرض عین ہے اور اس کی اعانت اُمت کا فریضہ ہے، لیکن مثال کے طور پر پاکستان، ترکی ، مصر یا تیونس کو دیکھیں، تو بانیان تحریک اسلامی سید ابو الاعلی مودودیؒ اور شہید امام حسن البنا ؒنے آغاز ہی میں یہاں مسلح اور خفیہ سرگرمیوں سے احتراز کرکے نقشہء کار واضح کردیا ہے۔

تحریک نہضت تیونس کی کوشش ہے کہ عوام اور دین کی حقیقی تعلیمات کے درمیان کھڑی کردی جانے والی دیواریں گرا دی جائیں۔ عوام کو اسلامی تعلیمات کے چشمۂ صافی سے سیراب کیا جائے۔ شیخ راشد الغنوشی نے بعض متشدد گروہوں کے ساتھ بند دروازوں میں ہونے والی ایک نشست میں اپنا دل ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اصل مقابلہ سابقہ    دین دشمن دور کی باقیات سے ہے۔ اسلام دشمنی کی آہنی دیواریں گر جانے کے بعد اب ہمیں زیادہ سے زیادہ تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارا پورا معاشرہ عملاً سیکولر بنادیا گیا ہے۔ ہمیں کچے پھل توڑنے کے بجاے صبر کا دامن تھامنا ہوگا۔ قرآن و سنت کے پیغام میں اتنی قوت ہے کہ مثبت صورت میں عوام کے سامنے لایا جائے تو یقینا وہ سب اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اکثر حاضرین نے ان کی راے سے اتفاق کیا، لیکن بدقسمتی سے مجلس کی یہ پوری بات خفیہ طور پر ریکارڈ کرکے ذرائع ابلاغ کو دے دی گئی۔ پروپیگنڈے کا ایک نیا طوفان برپا کردیا گیا کہ ’’غنوشی  شدت پسندوں کے ساتھ مل کر سازشیں تیار کررہا ہے‘‘۔

تیسری جانب حلیف جماعتوں کے اندرونی معاملات و اختلافات بھی بچوں کو بوڑھا کردینے کے لیے کافی ہیں۔ آئے دن لگتا ہے کہ مخلوط حکومت گرنے والی ہے۔ گاہے بعض وزرا کے خلاف جھوٹے اسکینڈل بھی گھڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن رب ذو الجلال کی توفیق سے حکومت اور دستور ساز اسمبلی نے اکثر وبیش تر معاملات پر قابو پالیا ہے۔ تحریک نہضت اور اس کی قیادت کو یقین ہے کہ دستور کی تکمیل کے بعد انتخابات کا چیلنج بھی بخوبی گزر جائے گا اور دنیا کو ایک ایسی کامیاب، فلاحی ریاست کا حقیقی منظر دیکھنے کو ملے گا کہ جو شاید فی الحال ’اسلامی‘ نام نہ رکھتی ہو، لیکن قرآن و سنت کے نور کامل سے روشن راستوں پر گامزن ہو۔

 

تاجکستان سابق سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والا وسطی ایشا کا سب سے چھوٹا ملک ہے ۔وسطی ایشیا کے جنوب میں واقع یہ ملک ایک لاکھ ۴۳ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں افغانستان، کرغیزستان، ازبکستان اور مشرقی ترکستان(صوبہ سنکیانگ) سے ملتی ہیں۔ ۲۰۰۷ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً۷۰ لاکھ ہے جن میں ۸۰ فی صد کا تعلق تاجک اور ۱۵ فی صدکا ازبک قوم سے ہے ۔یہاں روسی، قرغیزی ، ترکمانی ، یوکرائنی اورکئی دیگر نسلوں کی قومیں بھی آباد ہیں۔ مسلمان آبادی کا تناسب ۹۶ فی صد ہے ۔بڑے پیمانے پرروسیوں کی آباد کاری کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد ۸۳فی صد رہ گئی تھی، لیکن ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۷ء کے عرصے میں جاری خانہ جنگی اور خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے روسی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عیسائی اور یہودی نقل مکانی کر گئے۔ ملک میں شرح خواندگی حوصلہ افزا ہے اور تقریباً ۹۸فی صد آبادی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تاجکستان معاشی اعتبار سے کمزور ملک ہے جس کا سارا دارومدار بیرونی امداد پرہے۔ ۲۰۰۱ء میں ریڈ کراس نے تاجکستان اور ازبکستان کو قحط زدہ قرار دے کر عالمی برادری سے امداد کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۴ء کے بعد اب اس کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ کُل رقبے کا ۹۳فی صد پہاڑی سلسلہ ہے اور صرف پانچ فی صد قابل کاشت ہے جس کی وجہ سے بنیادی اشیاے خوردنی درآمد کرنے پر کثیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے، جب کہ ملک میں صنعت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

  •  تاریخی پس منظر: وسطی ایشیا کا یہ علاقہ مشہورمسلمان فاتح قتیبہ بن مسلم کے ہاتھوں پہلی صدی ہجری ہی میں اسلام کے نور سے منور ہوااور مسلسل اسلام ہی نے اس پورے خطے میںحکمرانی کی ۔غزنویوں کے بعدجب مغل حکمرانوں نے زمام حکومت سنبھالی تو رفتہ رفتہ ان کی گرفت اس علاقے پر کمزور پڑگئی اوربالآخر ۱۹۱۷ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد کمیونسٹ روس نے یہاں پر اپنا قبضہ جمالیا۔ ۱۹۲۹ ء میں تاجکستان سابق سویت یونین کے ایک ماتحت ریاست کے طور پر شامل کرلیا گیا اور تقریباً ۷۰سال اس کے زیر تسلط رہا۔دسمبر ۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس ٹوٹا تو تاجکستان نے بھی علیحدگی کا اعلان کردیا۔

آزادی کے بعد حزب نہضت اسلامی نے اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن نے روس اور اوزبکستان کے ایما پر ملک میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز کیا ۔ حزب نہضت نے ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے قومی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی اور حکومت اپوزیشن کے سپرد کردی۔ سابق کمیونسٹ حکمرانوں کے ساتھی صدر امام علی رحمانوف نے حکومت سنبھالتے ہی اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ،جس کے نتیجے میں پُر تشدد مظاہرے شروع ہوئے جو بالآخر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئے۔

  •  حزب نھضت اسلامی:استاد سید عبداللہ نوری نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے اشعار اور مولانا مودودی ؒکی تحریروں سے متاثر ہوکر ۱۹۷۳ء میں ’مسلم نوجوانوں کی بیداری‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کا ہدف معاشرے کی اصلاح اور مسلمانوں کے درمیان پھیلائے ہوئے غلط عقائد کے خلاف جدوجہد تھا۔تاہم، کچھ ہی عرصے بعد نوجوانوں کی اس تنظیم نے اپنا دائرۂ کار وسیع کرتے ہوئے سیاسی تحریک کی شکل اختیار کرلی ،جس نے آگے جاکر تاجکستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی جدوجہد شروع کرتے ہی روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی نے تحریک کے خلاف کارروائی شروع کی ۔متعدد بار تحریک کے روح رواں سید عبداللہ نوری کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیاگیا۔ ایک مرتبہ سخت سردی کے موسم میں انھیں شاگردوں سمیت سائبیریا کے قیدخانے میں بند کردیا گیا۔جون ۱۹۸۶ء میں تنظیم کانام تبدیل کرکے ’حزب نہضت اسلامی تاجکستان‘ رکھ دیا گیا۔
  •  خانہ جنگی: مئی ۱۹۹۲ء میں ماسکونواز حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف حزب اختلاف کو شامل حکومت نہ کیا بلکہ ان کے خلاف سخت انتقامی کارروائیاں شروع کردیں، جس کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوگئے اور حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۷ء تک جاری رہا ۔ کمیونسٹ حکومت نے روس اور ازبکستان کی مدد سے ایک لاکھ سے زائدافرادکو شہید کیا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر افغانستان، کرغیزستان اور روس کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔سید عبداللہ نوری نے دیگر قائدین کے ساتھ مل کرافغانستان کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنایا۔

حزب نہضت کے مجاہدین نے مسلح جدوجہد جاری رکھی اور ملک کے اہم حصوں اور سرکاری عمارتوںپر قبضہ کرلیا۔ مجاہدین یکے بعد دیگر علاقے فتح کرتے ہوئے دارالحکومت کے قریب پہنچ گئے کہ اس دوران افغانستان کے اندرونی حالات خراب ہوگئے، نیز وسطی ایشیا میں روس، امریکا اور چین کے مفادات میںبھی تصادم پیداہوگیا، چنانچہ حزب نہضت کی قیادت حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوئی۔ نہضت اسلامی کے صدرسید عبداللہ نوری کی صدارت میں قائم مصالحتی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ طویل مذاکرات کیے اور آخر کار ۲۷جولائی ۱۹۹۷ء کو ماسکو میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین امن معاہدہ طے پایا۔ یوں یہ طویل خانہ جنگی اختتام کو پہنچی ۔ امن معاہدے میں ۳۰ فی صدسرکاری مناصب اور وزارتیں حزب نہضت کو دیے جانے کا فیصلہ ہوا، تاہم یہ وعدہ تاحال پورا نہیں ہوا۔

  •  سیاسی صورت حال:سابق سوویت یونین سے آزادی کے بعد رحمن نبیوف ملک کے صدر منتخب ہوئے، تاہم حالات کی کشیدگی اور امن وامان کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے ۲۰۰۴ء میں مستعفی ہوئے اور امام علی رحمانوف ملک کے صدر بن گئے ۔۱۹۹۹ء میں وہ دوسری مدت کے لیے تاجکستان کے صدر منتخب ہوئے ۔ملکی قانون کے مطابق کوئی شخص تیسری مرتبہ صدارتی امیدوار نہیں بن سکتا، تاہم رحمانوف کی حکومت نے ۲۰۰۳ء میں دستوری اصلاحات کے نام سے قانون میں کئی تبدیلیاں کیں، جن میں یہ قانون بھی ختم کردیا گیا۔ چنانچہ ۲۰۰۶ء کے صدارتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے وہ تیسری دفعہ ملک کے صدر بن گئے۔

۲۰۱۰ء کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے حزب نہضت نے بھر پور انتخابی مہم چلائی اور حکومتی بدترین دھاندلی کے باوجود ۶۰ فی صد نشستوں،یعنی۶۳نشستوں میں سے۳۷ پر کامیابی حاصل کی لیکن حکومت نے نتائج تبدیل کرتے ہوئے صرف ۱۰فی صد نشستوں پر اسلامی پارٹی کی کامیابی   کا اعلان کیا۔ انتخابات کے نتائج نے حکومت کو اپنے حقیقی حجم سے آگاہ کردیا چنانچہ اس نے اسلام پسندوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں اضافے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن پارٹی قیادت کے مطابق ان کارروائیوں سے جماعت کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ نومبر۲۰۱۳ء میںپھر صدارتی انتخابات ہوں گے ۔ حکمران پارٹی نے موجودہ صدر کو ایک مرتبہ پھر میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے اور توقع ہے کہ حزب نہضت اسلامی موجودہ صدر امام علی رحمانوف کی موجودگی میںاپنے صدارتی امیدوار کے بجاے، کسی دوسرے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرے گی۔

حکومت کی اسلام دشمن پالیسیاں

تاجکستان نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن روسی اثر ورسوخ تاحال قائم ہے۔روس کی کوشش ہے کہ یہاں پر اسلامی شعائر اور قوانین کی جڑیں مضبوط نہ ہوں۔ حکومت کی طرف سے ملک میںاسلامی شعائر کے خاتمے اور اسلام پسندوں کو کچلنے کے لیے پے درپے حملے روس ہی کے ایما پر ہورہے ہیں۔

موجودہ حکومت تاجکستان کے اسلامی تشخص کے خاتمے کی پالیسی پر ایسے کاربند ہے جیسے اس کا اصل ہدف بس یہی کام ہے ۔ تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں اسکارف لینے پر مکمل پابندی ہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ حجاب ایک خاص نظریے کی عکاسی کرتا ہے جو کہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے ، حالانکہ ملکی دستور واضح طور پر عوام کوشخصی آزادی کی ضمانت دیتا ہے ۔ آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی انفرادی آزادی کو تحفظ فراہم کرے۔ حکومت نے اس کے برعکس کئی اسلامی مراکز ، حفظ و تعلیم قرآن کے مدارس ، عربی زبان سکھانے والے سینٹر اور۱۹۹۰ء کے بعد قائم کی جانے والی تمام مساجد کو یہ کہہ کر تالے لگا دیے ہیں کہ یہ غیرقانونی ہیں اوریہاں پر تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔

امام علی رحمانوف کی حکومت نے دارالحکومت کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے پربھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ دارالحکومت کے مئیر محمد سعید کے مطابق لاؤڈ اسپیکر پراذان کی وجہ سے دیگر ادیان کے پیروکار اور قائدین کو اذیت پہنچتی ہے۔ کمیونسٹ حکومت نے ایک کالے قانون کے ذریعے ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی مساجد آمد پر بھی پابندی لگائی ہوئی ہے اور اب صرف عمر رسیدہ افراد ہی مساجد میں جاکر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس قانون کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے حکومت نے دارالحکومت کی تمام مساجد میں سیکیورٹی کیمرے بھی نصب کر دیے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ نماز پڑھنے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ چنانچہ اگر راستے میں جاتے ہوئے نماز کے وقت میں کوئی نماز پڑھنا چاہے تو قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔

حکومت نے ۴۰سال سے کم عمر افراد پر داڑھی رکھنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے،   جب کہ پہلے سے باریش نوجوانوں کی داڑھیاں زبردستی منڈوائی گئی ہیں۔ اب یہ خبریںبھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومت بچوں کے محمد اور عبداللہ جیسے نام رکھنے پر بھی پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غورکررہی ہے۔ مسلم ممالک میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبہ کے اہل خانہ کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو وطن واپس بلائیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ چنانچہ پاکستان سمیت تمام عرب ممالک کی دینی جامعات اور مدارس میں پڑھنے والے طلبہ تعلیم اُدھوری چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

حکومت نے نہضت اسلامی کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی بھی بہت کوشش کی، لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بڑی تعداد میں لوگوں کے اسلامی رجحان کو دیکھ کر حکومت بہت خوف زدہ ہے اورنہضت اسلامی کو چھوڑنے پرارکان کو بھاری معاوضہ اور بڑے بڑے پلاٹ دینے کی پیش کش بھی کی گئی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔

تاجکستان میںحق وباطل کایہ معرکہ اور کش مکش جاری ہے ۔ یہاں کے نوجوانوں کا جذبہ اور اسلام کے ساتھ گہری وابستگی کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے بے شمار رکاوٹوں کے باوجودان شاء اللہ اسلامی بیداری کی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوگی۔


مضمون نگار سیّد مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ لاہور میں استاد ہیں

 

1 تصوف کیا ہے، ڈاکٹر تابش مہدی۔ ناشر: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند-۲۴۷۵۵۴، یوپی۔ صفحات:۴۰۔ قیمت: ۲۵ روپے ۔  2کیسے کیسے لوگ تھے، ڈاکٹر تابش مہدی۔ ناشر: الفاروق پبلی کیشنز، اے/۵-جی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔ 3طوبیٰ، تابش مہدی۔ ناشر: ادبیات عالیہ اکادمی، اے/۵-جی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔  4تابش مہدی ایک سفرمسلسل، ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی۔ ناشر: مولانا مبین الدین فاروقی اکادمی، حمزہ کالونی، نیوسرسیّدنگر، علی گڑھ-۲۰۲۰۰۲۔ صفحات: ۳۲۸۔ قیمت: ۳۲۵ روپے۔

ڈاکٹر تابش مہدی (حال نائب مدیر زندگی نو، دہلی) بھارت کی اُردو دنیا میں ایک شاعر، نقاد اور محقق کی حیثیت سے معروف ہیں۔ علی گڑھ کے ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی کے الفاظ میں: ’’انھوں نے اپنی فہم و فراست، لیاقت و ذہانت، دیانت و امانت، محنت اور لگن کی بدولت ادبی حلقوں میں اپنی نمایاں شناخت قائم کرلی ہے‘‘۔ وہ متعدد ادبی اور دینی جرائد سے وابستہ رہے، کالم نگاری بھی کی۔ادبی تحقیق و تنقید کے علاوہ دینی تحقیق پر بھی متعدد کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔ انھوں نے چند مضامین مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے دفاع میں بھی لکھے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ’’انھوں نے کتابوں، کتابچوں، مضامین، مقالات اور مقدموں اور تبصروں کا [ایک] بڑا انبار لگا دیا ہے‘‘۔ اس وقت ان کی تین کتابیں پیش نظر ہیں۔

  •  تصوف کیا ہے؟ میں تصوف کے معانی و مفہوم، اس کی اِصطلاحوں اور اس کی تاریخ پر اختصار اور جامعیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ ’تصوف بھی کتاب اللہ کی تفسیر اور حدیث ِ رسولؐ کی شرح ہے۔ اس سے الگ یا اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ہے۔ شریعت اور طریقت میں فرق کرنا گم راہی کی دلیل ہے، جو لوگ شریعت پر عامل نہیں وہ صوفی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ پس ہمیں تصوف کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے۔
  •  کیسے کیسے لوگ تھے، میں ۳۰صحابہ اور صحابیات کے سبق آموز اور بامعنی واقعات کو مؤثرانداز اور عام فہم اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اُمت مسلمہ میں عظیم شخصیات کا وجود ہمیشہ سے کسی وقفے کے بغیر جاری رہا ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا‘‘۔ (ص ۱۰)
  •  طوبٰی،تابش صاحب کی شاعری کا مجموعہ ہے جس میں حمدونعت اور مناقب خلفاے راشدین پر تقریباً ۹۰ نظمیں شامل ہیں۔ غالب حصہ نعتوں کا ہے (تعداد ۶۶)۔ مولانا محمد واضح رشید حسنی ندوی تابش صاحب کو ’باکمال‘ شعرا کی صف میں شامل کرتے ہیں جنھیں ایک طرف دین کی قدروں کا  لحاظ ہے تو دوسری طرف وہ فنِ شعر پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ یہ ان کا امتیاز ہے کہ وہ رسولؐ اللہ سے محبت کے اظہار میں حدود سے تجاوز نہیں کرتے۔ مولانا عزیز الحسن صدیقی، حافظ محمدادریس،   مولانا حسن احمد صدیقی، مولانا شاہ ظفراحمد صدیقی جون پوری، مولانا محمد رابع حسنی ندوی اور ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی نے بھی تابش مہدی کی شاعری خصوصاً ان کی نعت گوئی کو سراہا اور اس کی تعریف کی ہے۔
  •  تابش مہدی: ایک سفرِمسلسل، ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی کی تصنیف ہے جس میں ان کے سوانح اور شخصیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ، ان کے فکروفن کا تعارف اور تجزیہ شامل ہے۔ تصانیف کے تعارف کے بعد، مضامین اور تبصروں اور ریڈیو سے ان کے نشریوں کی فہارس بھی دی گئی ہیں۔ مختلف شاعروں اور ادیبوں کی تصانیف پر تابش مہدی کے بیسیوں مقدمات اور دیباچوں کی فہرست بھی شامل ہے۔ اسی طرح مختلف علمی اداروں کی طرف سے انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات اور اوارڈوں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ یہ کتاب تابش مہدی کی ہمہ جہت شخصیت کے علمی اور ادبی کارناموں کا ایک جامع اور عمدہ تعارف ہے۔ ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سٹی اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ایک باصلاحیت تخلیق کار کی خدمات کا اعتراف اور تذکرہ تخلیق کار کا دل بڑھاتا ہے۔ اس اعتبار سے فاروقی صاحب نے زیرنظر کتاب مرتب کر کے ایک اہم علمی ضرورت کی تکمیل کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)

زکوٰۃ، معنی و مفہوم، اہمیت، فضائل و مسائل،  مفتی منیب الرحمن۔ ناشر: مکتبہ نعیمیہ، دارالعلوم نعیمیہ، بلاک ۱۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۱۴۵۰۸-۰۲۱۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ کتاب مرکزی رویت ِہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین و صدر تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان مفتی منیب الرحمن کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ مصنف نے ’زکوٰۃ کی حکمت‘ کے عنوان سے کتاب کا آغاز کرتے ہوئے ’عشر‘ اور ’مصارفِ زکوٰۃ‘ کے دو مزید عنوانات کے تحت رواں تبصرے کے انداز میں قدیم و جدیدفقہا و علما کی فقہی آرا کا حوالہ دے کر مسائلِ زکوٰۃ کو نہایت مختصر الفاظ میں قلم بند کردیا ہے۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے جدید معاشی مسائل کے تناظر میں بیش تر مسائلِ زکوٰۃکی وضاحت کی ہے۔ ۴۰صفحات پر زکوٰۃ کی اہمیت و فضیلت کے بیان سے متصل زکوٰۃ کے مسائل کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔ صنعت و حرفت، زیورات و زراعت، ملازمت و مزارعت میں زکوٰۃ کے مسائل کی مختلف نوعیتوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ مصارفِ زکوٰۃ کا بیان کتاب کے نصف حصے پر مشتمل ہے۔ دینی مدارس ، رفاہی و فلاحی تنظیمیں، کس حد تک زکوٰۃ کے عامل کے طور پر کام کرسکتی ہیں اور صرف و تقسیمِ زکوٰۃ میں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ایسے بیسیوں چھوٹے چھوٹے مسائل کو اختصار کے ساتھ جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ مصنف نے مختلف فقہا کو  حوالے کے طور پر درج کیا ہے لیکن غالب مآخذ اور حوالے حنفی فقہا اور خصوصاً اہلِ سنت، علما اور فقیہان کے درج ہیں۔ ان علما کی متعلقہ عربی عبارتوں کو بھی درج کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کتاب کی ضخامت مزید سمٹ جاتی اور ۱۸۰ کے بجاے ۱۲۵ صفحات کی کتاب بن جاتی۔

زکوٰۃ مفتی منیب الرحمن صاحب کے دل چسپ اندازِ گفتگو کی آئینہ دار ہے۔ ایک جگہ مصنف رفاہی اداروں کو حکومت کے مقابلے میں زکوٰۃ مستحقین پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دیتے   (ص ۱۳۵)، اور دوسری جگہ اپنے دینی ادارے کے اخراجات پورا کرنے کے لیے اہلِ خیر سے زکوٰۃ، صدقات، فطرہ، فدیہ، کفارات و نذر کی رقوم و عطیات کا مطالبہ کرتے ہیں (ص ۱۷۷، ۱۷۸)۔ اسی طرح مفتی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: زکوٰۃ وکیل کو دینے سے ادا ہوجاتی ہے (ص ۱۲۳)، اور دوسری جگہ لکھتے ہیں: زکوٰۃ محض وکیل کو دینے سے ادا نہیں ہوتی (ص ۱۴۸)۔ زکوٰۃ کی ادایگی میں تملیک کا مختلف مقامات پر ایسا بیان بھی اُلجھائو پیدا کرتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ مصنف بہت کم صفحات پر بہت سے اہم مسائل کو سمونے میں کامیاب رہے ہیں۔ (حافظ محمد ارشد)


رہبر تخریج حدیث، ڈاکٹر محمد اقبال احمد اسحاق۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، تقسیم کار: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون : ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۱۵۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو شریعت میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قرآنِ کریم کی تشریح و تفسیر بھی ہمیں احادیث اور سنت ِ رسولؐ کی روشنی میں ملتی ہے۔ اس بنیادی اہمیت کے  پیش نظر آپؐ کی احادیث کو محفوظ رکھنے کا فریضہ ہر دور میں سرانجام دیا گیا۔ آپؐ کی طرف جھوٹی روایت کی نسبت کرنے والے کو آگ میں اپنا ٹھکانا بنانے کی وعید سنائی گئی۔

تخریجِ حدیث اہلِ علم اور محققین کی ایک معروف اصطلاح ہے جس میں کسی بھی حدیث کو اُمہات الکتب میں اصل متن کے ساتھ پرکھا جاتا ہے اور تخریج و حوالے کے بعد ہی وہ حدیث مستند متصور ہوتی ہے۔ زیرنظر کتاب علمِ حدیث کے اسی اہم گوشہ ’فن تخریجِ حدیث‘ سے متعلق ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب میں عام فہم اسلوب استعمال کیا ہے اور احادیث کی تخریج کے لیے   چار طریقے ازروے متن اور چار طریقے ازروے سند احسن انداز میں واضح کردیے ہیں۔ان آٹھ طریقوں کی مثالیں انتہائی آسان انداز میں پیش کردی گئی ہیں۔ مزیدبرآں فنِ حدیث کی کتابوں کی اقسام، جملہ اقسام کی تعریفات اور مشہور کتابوں کا مختصر تعارف بھی شامل کردیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے۔ (حافظ ساجد انور)


اسلامی معاشرے کے لازمی خدوخال، مولانا سمیع الحق۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامع ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد نوشہرہ۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: درج نہیں۔

ہمارے اعلیٰ دینی مدارس میں نصاب کی مختلف درسی کتب پڑھاتے ہوئے یقینا نہایت اعلیٰ معیار پرلیکچر دیے جاتے ہیں۔ اب ریکارڈنگ اور طباعت و اشاعت کی سہولیات عام ہوجانے سے یہ علمی خزانے کلاس روم کی چار دیواری سے باہر بھی دستیاب ہونے لگے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب  مولانا سمیع الحق کے وہ درس ہیں جو انھوں نے امام ترمذی کی جامع السنن کے ابواب البر والصلۃ پڑھاتے ہوئے مدرسے میں دیے اور ان کے شاگرد مفتی عبدالمنعم نے انھیں ریکارڈ کرکے لکھا اور اس کی بنیاد پر یہ ۴۰۰صفحے کی نہایت مفید کتاب تیار کردی۔ ہمیں ہر انسان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے اور حسنِ معاشرت کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کتب میں فضائلِ اخلاق اور رذائل پر وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ والدین اور دیگر رشتہ داروں، پڑوسیوں، یتیموں، بیوائوں، غرض معاشرے کے ہرطبقے سے حُسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ ایک عام سادہ سا بیان نہیں ہے، بلکہ مولانا سمیع الحق صاحب نے جس موضوع کو لیا ہے اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کے مختلف پہلو واضح کیے ہیں۔

مکمل کتاب کا مطالعہ آپ کو اسلام کا ایک نہایت حسین خوش گوار تاثر دیتا ہے۔ کاش! کہ ہم سب مسلمانوں کی زندگیاں اپنے پیارے رسولؐ کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق ہوں۔ (مسلم سجاد)


وادی مہران کی علمی و دعوتی شخصیات، مؤلف: مولانا امیرالدین مہر، نظرثانی:عبدالوحید قریشی۔ ناشر: سندھ اسلامک پبلی کیشنز، حیدرآباد۔ فون: ۷۸۵۳۷۲-۰۲۲۲۔ صفحات: ۴۳۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مولانا امیرالدین مہر سندھ کی ایک معروف علمی و دعوتی شخصیت ہیں اور تقریباً ۲۵ سے زائد اُردو اور سندھی میں علمی اور دعوتی کتب کے مؤلف ہیں۔ وہ باب الاسلام سندھ کی تحریکی و جماعتی (جماعت اسلامی) سرکردہ شخصیات کی سوانح حیات اور ان کی دعوتِ دین کی سرگرمیاں احاطۂ تحریر میں لائے ہیں۔ کتاب میں ۵۰ شخصیات کا تذکرہ ہے۔

شخصیات کے اُٹھ جانے کے بعد اُن کی سوانح اور حالات و واقعات کو صحیح طور پر تحریر میں لانا بڑی جان جوکھوں کا کام ہے اور اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کا اظہار خود مؤلف نے کیا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں تقریباً ۱۰سال صرف کیے۔ لاہور، اسلام آباد اور سندھ کے بیش تر علاقوں کے کئی سفر کیے، جاننے والوں اور مرحومین کے عزیز واقارب سے ملاقاتیں کیں، تب کہیں جاکر یہ کتاب مرتب ہوسکی۔ مؤلف نے مرحومین کی دینی و جماعتی سرگرمیاں، سوانح، دعوت کے کام کرنے کا طریقہ اور جذبہ اور دعوت پھیلانے کی تڑپ بڑی خوب صورت اور پُراثرانداز میں قلم بند کی ہیں جس سے مطالعہ کرنے والے کو مہمیز ملتی ہے، اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کے کارکنوں او ر ذمہ داران کا جو تاثر اُبھرتا ہے وہ جماعت کا حقیقی اثاثہ ہے۔ اس کتاب سے قبل بھی اسی طرح کی بعض کتب شائع ہوئی ہیں مگر یہ ایک منفرد کتاب ہے اور تحریکی لٹریچر میں مفید اضافہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو تحریکِ اسلامی کے کارکن اور ذمہ داران اپنی یادداشتیں تحریر میں لائیںتاکہ تحریکی لٹریچر شائع کرنے میں دقتیں کم ہوں، اور بعد میں آنے والے ان کے تجربات سے دعوت کے کام کو آگے بڑھانے میں فائدہ اُٹھا سکیں۔ کتاب خوب صورت اور جاذبِ نظر ہے۔ (شہزاد الحسن چشتی)


دیارِ غیر میں اپنوں کے درمیان، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ حافظ محمد ادریس صاحب کا تیسرا سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے اپنے سابقہ اسفارِبرطانیہ کی کچھ جھلکیاں اور واقعات بھی شامل کردیے ہیں (مثلاً: مانچسٹر ہوائی اڈے پر کسی سابقہ سفر میں پیش آمدہ واقعہ جو دل چسپ ہے اور پاکستانیوں سے بُغض رکھنے والے بھارتیوں کی متعصب ذہنیت کی مثال بھی ہے)۔ موصوف نے یہ سفر جولائی اگست ۲۰۱۱ء میں کیاتھا۔ اس کے کچھ حصے ہفت روزہ ایشیا میں شائع ہوتے رہے، اب کچھ ترمیم اور تبدیلیوں کے ساتھ اسے کتابی شکل دی گئی ہے۔ایک ماہ پانچ دن کے اس سفر میں حافظ صاحب نے مانچسٹر،لنکاشائر، لندن، راچڈیل، کیتھلے، بریڈفورڈ، لیڈز، بلیک برن، لوٹن، برنلے، نیلسن، مڈلینڈ، پیٹربرا، وال سال اور برمنگھم میں احباب اور عزیزوں سے ملاقاتیں کیں، خطبے دیے اور تقریریں کیں۔ حافظ صاحب کا مشاہدہ قابلِ داد ہے ۔انھوں معمولی جزئیات تک کا ذکر کردیا ہے۔

جدید ایجادات نے روے زمین کی طنابیں اس طور کھینچ دی ہیں اور انٹرنیٹ نے ہرچیز کو اس قدر طشت ازبام کردیا ہے کہ کوئی بات نئی انوکھی معلوم نہیں ہوستی۔ حافظ صاحب نے اس سفر میں ظاہر کی آنکھ سے بھی تماشا دیکھا اور دل کی آنکھ بھی کھلی رکھی۔ یوں ظاہری و باطنی مشاہدات قلم بند کیے مگر ان کے سفرنامے میں ابن بطوطہ کے بیان کردہ عجائبات قسم کی کوئی چیز نہیں ملے گی جو قاری کو حیران کرے۔ البتہ ان کے مشاہدات قارئین کے لیے معلومات کا سامان ضرور فراہم کرتے ہیں۔ حافظ صاحب یوکے اسلامک مشن کی دعوت پر برطانیہ گئے تھے۔ مختلف شہروں میں مشن کے پروگراموں میں شریک رہے۔ سامعین کو رہنمائی دی۔ ان کے سوالوں کے جواب دے کر انھیں مطمئن کیا۔ اس سفرنامے سے برطانیہ میں مشن کی سرگرمیوں، اجتماعات اور اثرات کا پتا چلتا ہے اور مشن کے ارکان اور مسافرنواز احباب کے محبت آمیز سلوک کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ اس تفصیل میں دعوتوں، عصرانوں اور ضیافتوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔

اگر کوئی شخص برطانیہ جا رہا ہو خصوصاً پہلی بار، تو اس کے لیے یہ کتاب ایک اچھا رہنما (گائیڈبک) بھی ہے۔ مسجدابراہیم برنلے کے امام اور خطیب مولانا محمد اقبال کے بقول ’’یہ سفرنامہ محترم حافظ صاحب کی خوب صورت پھولوں سے بھری ایک زنبیل ہے‘‘۔ طباعت اور پیش کش مناسب اور قیمت بہت مناسب ہے۔ لفظ اللہ کا اِملا تصحیح طلب ہے۔ (ر- ہ )


خوشیوں بھری زندگی کیسے؟ ، پروفیسر ارشد جاوید۔ تقسیم کار: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۳۷۳۵۲۳۳۲-۰۴۲ؒ صفحات:۲۹۵۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔

پروفیسر ارشد جاوید کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ہماری آپ کی زندگیاں بہتر کرنے کے لیے، یعنی بدلنے کے لیے، انھوں نے اب تک ۱۲ نہایت مفید اور عملی کتابیں لکھی ہیں۔ یہ بارھویں زیرتبصرہ ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر انگریز ی میں کافی کتب دستیاب ہیں۔ لیکن وہ ان کے اپنے تہذیبی ماحول اور نفسیات سے متعلق ہیں۔ ہمیں زندگی کے ہرمعاملے میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل ہے۔ ارشد جاوید صاحب اس رہنمائی سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔ وہ پاکستانی معاشرے کے مسائل کے پس منظر میں لکھتے ہیں، اس لیے کام کی باتیں بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے ۱۳مختلف عنوانات کے تحت خوشیوں کے راستے میں رکاوٹیں اور ان کا حل پیش کیا ہے۔ اس میں ایک مسئلہ ڈپریشن بھی ہے جو ان کی کسی مکمل کتاب کا موضوع بن سکتا ہے۔ پھر انھوں نے ۳۰عنوانات کے تحت خوشیوں کے حصول کے راستے بتائے ہیں۔

آخری نکات سے پہلے لکھتے ہیں:’’ہرفرد اپنی زندگی کو خوش گوار بناسکتا ہے اور ہرفرد بہت حد تک اپنی خوشیوں کا ذمہ دار ہے۔ خوشی خودبخود حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے آپ کو بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ منصوبہ بندی کرنی ہوگی‘‘۔کتاب میں جگہ جگہ مختلف مقاصد کے حصول کے لیے مشقیں بھی بیان کی گئیں کہ کس طرح لیٹیں، کیا جملے دہرائیں یا کیا سوچیں وغیرہ وغیرہ۔سب کچھ بتانے کے بعد، ان کے علاوہ آخری باب میں جو عملی طریقے بتائے ہیں وہ ۱۴۳ ہیں۔ ان میں سے بعض کے ذیلی عنوانات ۲۰،۲۱ بھی ہیں۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ خوش ہونا کتنا مشکل کام ہے اور اس کے لیے کتنی سخت محنت کرنا پڑے گی۔ میرا جیسا انسان سوچتا ہے کہ اس سے تو مَیں ناخوش ہی بھلا۔(م - س)

تعارف کتب

  •  برصغیر میں مطالعۂ قرآن، محمد رضی الاسلام ندوی۔ ملنے کا پتا: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۰۲۱۴۱۵-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔ [ہندستان میں قرآن کریم کی تفسیر و تشریح، فہم اور قرآنی تعلیمات کی اشاعت کے لیے مثالی کام ہوا ہے۔ زیرنظر کتاب اس کے جائزے پر مبنی ہے۔ سرسیّد احمد خاں کی تفسیر اور مابعد تفاسیر کا جائزہ، بیسویں صدی میں عربی میں تفسیروعلومِ قرانی کا تعارف، برعظیم پاک و ہند کے معروف مفسرین قرآن کی تفسیری خدمات، اور آخر میں گذشتہ دو عشروں میں قرآنی موضوعات پر شائع ہونے والی اہم تصانیف کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اپنے موضوع پر جامع کتاب۔ اس سے قبل بھارت سے شائع ہوچکی ہے (تفصیلی تبصرے کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن، فروری ۲۰۱۱ء)۔]
  •  ربیع الاوّل کے واقعات ، پروفیسر عبدالجبار شاکر۔ ناشر: کتاب سراے ، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۴۷۔ قیمت: درج نہیں۔ [یکم ربیع الاوّل پہلی ہجری کو نبی کریمؐ کا غارِ ثور سے مدینہ کی طرف سفرِ ہجرت کا آغاز، اور ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۱ہجری کو وصالِ رسولؐ ،اور اس دوران تقویمِ اسلامی کے مختلف سالوں میں ماہِ ربیع الاوّل میں پیش آنے والے دیگر تاریخی واقعات کا مختصر تذکرہ جو پروفیسر عبدالجبار شاکر کی ریڈیائی تقاریر پر مشتمل ہے۔ سیرتِ رسولؐ اور تاریخ اسلام کا منفرد مطالعہ۔]
  •  پیارے نبیؐ کی پیاری مسکراہٹیں ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق کالوٹا۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزدمقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۲۵۶۷۳-۰۲۱۔ صفحات: ۱۶۳۔ قیمت: ۲۶۰ روپے۔ [مزاح، خوش طبعی یا مذاق انسانی شخصیت کا حصہ ہے۔ نبی کریمؐ غلبہ دین کے کٹھن فریضے کی ادایگی کے باوجود صحابہ کرامؓ سے مزاح فرماتے تھے۔ احادیث اور کتب ِ سیرت سے آپؐ کے مزاح کے واقعات کے تذکرے سے آدابِ مزاح اور آپؐ کا اسوہ پیش کرتے ہوئے نسلِ نو کی ذہن سازی اور تربیت کا سامان کیا گیا ہے۔ پیش کش دل کش ہے۔]
  •  پاکستان اور سیکولرازم ، احمد امام شفق ہاشمی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک-۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ [پاکستان کی نظریاتی اساس اور تہذیبی شناخت کو منہدم کرنے کے لیے مغربی دانش ور اور میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نام نہاد لبرل دانش ور اور  قلم کار بھی سرگرمِ عمل ہیں، اور حقائق اور تاریخ کو مسخ کرکے قوم بالخصوص نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں مختصراً تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد اور آزادی کی جدوجہد کی صحیح تصویر کے ساتھ سیکولر عناصر کے اعتراضات کا مدلل جواب فراہم کیا گیا ہے۔ سیکولرازم اور نظریۂ پاکستان کے حوالے سے ایک اہم، مختصر اور جامع کتاب۔]
  •  پاک فضائیہ کا شاہین ، ظہورالدین بٹ۔ ناشر: ادارہ ادب اطفال، رحمن مارکیٹ، اُردوبازار، لاہور ۔فون: ۳۷۸۰۰۷۸۹-۰۴۲۔ صفحات: ۶۶۔ قیمت: ۴۰ روپے۔[نئی نسل کو اس کے ہیروز اور تاریخ سے آگاہی کے لیے مصنف نے ’نشانِ حیدر‘ سیرز کے تحت ناول لکھے ہیں۔ پاک فضائیہ کا شاہین  راشد منہاس شہید کی شخصیت اور کارہاے نمایاں پر مبنی اسی سلسلے کا ایک ناول ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کے لیے معلوماتی اور دل چسپ ناول۔]

 

دانش یار ، لاہور

’پنجاب میں تعلیم کس رُخ پر؟‘ (جنوری ۲۰۱۳ء) سے تازہ تعلیمی المیے کا علم ہوا۔ طارق محمود صاحب نے اپنی تحریر میں حکومت پنجاب کی ذہنی ظلمت کا تذکرہ کیا ہے۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کے پیرو اب ملّی علم و اقدار کے انہدام کے لیے بگٹٹ دوڑ لگا رہے ہیں۔ ان کے اقدامات سے خصوصاً انگریزی کو پہلی جماعت سے رائج کرنے کی پالیسی سے واضح ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اپنے زیرحکمرانی خطے میں ایسے نوجوان پسند نہیں کرتی جو دستور کے آرٹیکل ۱، یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کی لاج رکھنے کے لیے اپنے اندر  اعمالِ حسنہ کے لیے کوئی تڑپ محسوس کرتے ہوں۔ آرٹیکل۲ کے تحت قرآن و سنت کے خلاف کوئی پالیسی وضع نہ کرنے کا حلف یہ لوگ بھی اُٹھاتے ہیں، اور جب اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو غیراہم شمار کردیا جائے تو نئی نسل کو اس نظریے اور جدوجہد کا کیسے علم ہوگا جو قیامِ پاکستان کا سبب بنی۔اسلامی نظام کا نفاذ جن کا نصب العین ہے ، ان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ عوام کو ’دوکفِ جو‘ پر بکنے کی ہولناک آفات سے آگاہ کریں۔

عبدالرشید عراقی ، گوجرانوالہ

’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) میں دورِحاضر کے جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے، اس کا سبب اسلامی تعلیمات سے دُوری ہے، اور مغربی تہذیب و تمدن اختیار کرنا ہے۔ مغرب میں مقیم مسلمان خاندان جہاں مغربی تہذیب کا شکار ہوجاتے ہیں، وہاں ہمارا معاشرہ بھی اس سے متاثر ہونے لگا ہے۔    جنسی بے راہ روی سے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی اولاد کی تربیت کی جائے اور نام نہاد آزادی سے اجتناب کیا جائے۔

احمد علی محمودی ،حاصل پور

’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) جنسیت پر ایک طائرانہ تاریخی جائزہ اور انسانی زندگی میں جنسیت کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے عمدہ تحریر ہے۔ اسلام نے جنسی زندگی کے حوالے سے جن  ہدایات و رہنمائی کااہتمام کیا ہے، اس کا مضمون کے آخر میں سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ اگر جنس کے بارے میں اسلامی رہنمائی کے حوالے سے مفصل تحریر شائع کی جائے تو یقینا موجودہ دور میں سب کے لیے ہی مفید ہوگی۔

عبدالجبار بھٹی ،پتوکی

’رسائل ومسائل‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) کے تحت لکھا گیا ہے کہ:شرعی پردے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث نے قیامت تک کے لیے متعین کردیا جس میں آپؐ سیدہ عائشہؓ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان بچی بالغ ہوجائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھکا ہوا ہو (ص ۱۰۱)۔ ان سطور سے پہلے جملے میں محض سر ڈھانکنے کو حجاب قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے    سیدہ عائشہؓ کو نہیں، بلکہ حضرت اسماءؓ کو یہ ہدایت فرمائی تھی۔ حدیث کی راوی خو د حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں۔دوسری گزارش یہ ہے کہ مولانا مودودی سمیت علماے کرام کی ایک بڑی تعداد کی راے میں چہرے کا پردہ احکاماتِ پردہ میں سے ہے۔ لہٰذا کھلے چہرے کے ساتھ پردے کو ’شرعی پردہ‘ قرار دینا مناسب نہیں۔

محمد شکیل ،ٹوبہ ٹیک سنگھ

انقلابِ ایران کے وقت بھی یہ بتایا گیا کہ یہ خالص اسلامی انقلاب ہے اور آیت اللہ خمینی کے علاوہ سیدمودودی اور علامہ اقبال کی تحریروں سے پھوٹا ہے لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہاں دیوانی، فوجداری، مالیاتی، تجارتی قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے کیا کام ہوا ہے؟ نظامِ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو کس حد تک اسلامی اقدار سے ہم آہنگ کیا گیا ہے؟ پھر سوڈان کے عمرالبشیر کو مردِمومن بنا کر پیش کیا گیا مگر اُس نے وہاں کی اسلامی تحریک کے جناب ڈاکٹر حسن ترابی کو نظربند کردیا اور معاملات بہت دُور تک چلے گئے۔

اب ترکی کی حکومت کو ’رول ماڈل‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جسے خود نجم الدین اربکان مسترد کرچکے ہیں۔ کیا صرف گڈگورننس کا نام ہی ’اسلامی حکومت‘ہے؟ اگر یہی تصور ہے تو پھر برٹش انڈیا میں ’اسلامی حکومت‘ کہی جاسکتی ہے۔ مصر کی موجودہ حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود مصر کو ’اسلامی جمہوریہ‘ قرار نہیں دے سکی۔ اسے عبوری دور کی مجبوریاں تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اسے ’رول ماڈل‘ قرار دے کر اپنانے کی تحریک چلانا سید مودودی کی فکر سے انحراف اور خوداعتمادی میں کمی کی دلیل ہے۔ کیا ہمیں اپنے ’نظریۂ انقلاب‘ پر یقین نہیں رہا؟ پاکستان، ترکی، مصر اور دیگر ممالک کے ’دستوری حالات‘ پاکستان سے یکسر مختلف ہیں۔ عبوری دور کو کس طرح رول ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے۔

خبیب انس ،کراچی

جن ممالک میں اسلامی نقطۂ نظر سے مثبت تبدیلی آئی ہے، ان کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی تحریکِ اسلامی اپنے لیے درست رہنمائی حاصل کرے۔ ہرملک کے اپنے مخصوص حالات اور پس منظر ہے اور اس کے مطابق طریق کار اپنانا ہی درست حکمت عملی ہے۔ لیکن ہماری معلومات کے لیے ہمارے ’تھنک ٹینکس‘ کے نمایندوں کو وہاں سال چھے ماہ کے قیام کے بعد معروضی مطالعے تیار کروانے چاہییں اور صرف سرخیوں اور اخباری رپورٹوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔

احمد علی محمودی  ،حاصل پور

’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) جنسیت پر ایک طائرانہ تاریخی جائزہ اور انسانی زندگی میں جنس کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے عمدہ تحریر ہے۔ اسلام نے جنسی زندگی کے حوالے سے جن ہدایات و رہنمائی کا اہتمام کیا ہے، اس کا مضمون کے آخر میں سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مفصل تحریر شائع کی جائے تو یقینا موجودہ دور میں سب  کے لیے ہی مفید ہوگی۔

محمد احتشام الدین ، لاہور

ملک میں نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے۔ شفاف انتخابات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوموٹونوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمشنر اور حکومت کو پابند کریں کہ وہ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کے تحت انتخاب لڑنے والے نمایندوں کی جانچ پڑتال کریں اور ایسے نمایندوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیں جو آئین کے مقرر کردہ اصولوں پر پورا نہ اُترتے ہوں۔ نیز پاکستان کے دستور کی اِن دفعات کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد حکومت کو پابند کرتی ہے کہ پاکستانی عوام کو اسلام کے احکام سے روشناس کرائے اور اُن کے لیے اسلام پر عمل کرنے کو آسان بنائے۔ پاکستان کے دستور کی ان دفعات پر عمل کرنے پر حکومت کو حکم جاری کیا جائے۔

فقیر واصل واسطی ، لاہور

’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ء) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا     معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟

محمد اصغر ، پشاور

’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ء) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ء) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)

ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس  فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور   ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔

واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔

بشیر بن یسار حضرت انسؓ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ مدینہ تشریف لائے (شام گئے تھے، وہاں سے واپس آئے تھے)۔ ان سے کہا گیا: آپ نے ہمارے ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مقابلے میں کیا تبدیلی دیکھی ہے ؟ انھوں نے جواب میں کہا: میں نے کوئی تبدیلی نہیں دیکھی سواے اس کے کہ تم صفیں پوری طرح سیدھی نہیں رکھتے۔ (بخاری، کتاب الاذان،ص ۱۰۰)

صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ ہماری دینی حالت ٹھیک اسی طرح ہو    جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی۔ اسی واسطے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور اپنے زمانے کے حالات کا موازنہ کرتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے حالات کے علم کو تازہ رکھتے تھے تاکہ اسی طرح خطوطِ مستقیم پر گام زن رہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے۔ اسی فکرمندی کی نشان دہی وہ سوال کرتا ہے جو اہلِ مدینہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انسؓ سے اس وقت کیا جب وہ شام سے واپس آئے تھے۔ آپ نے بظاہر ایک معمولی بات کی طرف توجہ دلائی لیکن اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم ضرور بھریں، سیرت کے جلسے بھی کریں اور جلوس بھی نکالیں لیکن یہ بھی سوچیں کہ نبی اکرمؐ کے زمانے میں آپؐ نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اس میں نمازوں کی پوری پابندی ہوتی تھی، روزے بھی  تمام مسلمان رکھتے تھے، اسلامی نظام پوری طرح قائم تھا، عدل و انصاف کا دور دورہ تھا، اس سے ہم کتنا قریب ہیں۔ ہماری کوشش ہونا چاہیے کہ وہی معاشرہ قائم کیا جائے ، اور اس دور کو واپس لایا جائے۔


حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت ایک بنُی ہوئی چادر جس کے کنارے اس کے ساتھ بُنے ہوئے تھے (اسے کسی کپڑے سے کاٹا نہ گیا تھا بلکہ مکمل چادر بنی ہوئی تھی)   پیش کرتے ہوئے عرض کیا: میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے تاکہ آپؐ اسے پہنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر لے لی۔ اس بات کے اظہار کے ساتھ کہ آپؐ کو اس کی حاجت تھی (گویا خاتون کے ہدیے کا شکریہ ادا کیا کہ بروقت اس نے ہدیہ پیش کیا ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے گھر سے پہن کر واپس تشریف لائے تو ایک آدمی نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا: کس قدر خوب صورت چادر ہے یارسولؐ اللہ! مجھے عطا فرما دیجیے۔ اس پر لوگوں نے اس شخص سے کہا: آپ نے اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو لیتے ہوئے اظہار فرمایا کہ آپؐ  کو    اس کی حاجت تھی اور تمھیں معلوم ہے کہ آپؐ سوال کو رد نہیں فرماتے۔ اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ یہ میرا کفن بنے۔ حضرت سہلؓ کہتے ہیں وہ چادر ان کا کفن بنی تھی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  سے منسوب ہر چیز سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ آپؐ  کی ذات، آپؐ  کا لباس، آپؐ  کا غُسالہ (وضو کا پانی)، آپؐ  کے صحابہ ؓ، آپؐ کے اہلِ بیتؓ، سب کی محبت مومن کی صفت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘ (بخاری)۔ اسی طرح فرمایا: ’’تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے مَیں لے کر آیا ہوں (مشکوٰۃ المصابیح)۔صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  کے لباس، آپؐ  کی نشست و برخاست، آپؐ  کے چال چلن، آپؐ  کی سیرت اور آپؐ  کے دین کے ساتھ عشق و محبت پوری طرح دکھائی دیتی محسوس ہوتی اور مشاہدے میں آتی ہے جیسے برف کے قریب بیٹھ کر ٹھنڈک اور آگ کے قریب بیٹھ کر حرارت محسوس ہوتی ہے۔   اسی طرح صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت برستی نظر آتی ہے۔

مذکورہ حدیث میں جس صحابیؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چادر مانگ لی یہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ یا عبدالرحمن بن عوفؓ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر کو تھوڑی دیر پہنا تو انھیں اس چادر سے محبت ہوگئی، اس لیے کہ وہ چادر آپؐ  کے جسمِ اطہر کو چھو گئی اور متبرک ہوگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی عام صحابی کے سوال بلکہ کسی بھی شخص کے سوال کو رد نہ کرتے تھے تو اپنے قریبی ساتھی کی دلی خواہش اور طلب کو کیسے رد فرما دیتے۔ آپؐ  نے وہ چادر اُتار کر انھیں پیش کردی۔ انھوں نے اسے دنیا میں اپنا لباس بنانے کے بجاے اُخروی زندگی کا لباس بنایا کہ آپؐ  کی یہ متبرک چادر قبر میں ان کی شناخت ہو کہ یہ ہے وہ شخص جس نے نبیؐ کے لباس کو اپنا لباس بنا لیا اور اس وجہ سے وہ محترم ہے۔ اس حدیث سے نبیؐ کی سخاوت کی نرالی شان ظاہر ہوتی ہے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: رسو لؐ اللہ تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ کیوں نہ ہوں کہ اللہ کے رسولؐ تھے اور اللہ نے انھیں انسانیت کو نوازنے اور ان پر سخاوت کرنے ہی کے لیے بھیجا تھا۔ آپؐ  رحمت للعالمین تھے، آپؐ  کی سب سے بڑی سخاوت قرآن و سنت کا نظام ہے۔ کاش! ہم اس کا شعور پیدا کریں اور قرآن و سنت کے نظام کو تمام نظاموں کے مقابلے میں محبوب جان کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور رحمت للعالمینؐ کا عظیم، بے نظیر و بے مثال تحفہ جان کر اسے محبوب بنالیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق کا حق ادا کردیں۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا جس کے پاس ایک عورت بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ  نے اسے دیکھا تو فرمایا: اللہ کی بندی، اللہ سے تقویٰ اختیار کر اور صبر کر۔ اس نے کہا: اے آدمی! اپنا کام کر، میری مصیبت تجھ پر نہیں آئی۔ وہ آپؐ  کو پہچان نہ سکی تھی۔ اس لیے یہ جملہ اس کی زبان سے نکل گیا۔ کوئی شخص اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس عورت سے کہا: تجھے پتا بھی ہے یہ شخصیت کون تھی؟ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وہ پریشان ہوکر آپؐ  کے گھر کی طرف دوڑی کہ معذرت کرے۔ دروازے پر پہنچی تو دیکھا کہ یہاں کوئی محافظ نہیں ہے، اندر چلی گئی۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! غلطی ہوگئی آپؐ  کو پہچان نہ سکی۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا: صبر تو اس وقت معتبر ہوتا ہے جب صدمہ تازہ ہو (بعد میں تو خود بخود صبر آجاتا ہے)۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح، تزکیہ و تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ خاتون کو قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا تو موقعے پر نصیحت کا کلمہ کہہ دیا۔ اس نے ناگوار بات کی تو آپؐ  نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، اپنا تعارف بھی نہ کرایا، نہ اسے ڈانٹ ڈپٹ ہی کی۔ اس میں دعوت و تربیت اور وعظ و نصیحت کے لیے بڑا عمدہ نمونہ ہے۔ آج واعظین لوگوں سے ناراض ہوجاتے ہیں اور انھیں طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، خصوصاً مخالفین کو۔ نبی کریمؐ کی سیرت کا یہ روشن پہلو دعوتی خطوط کو نمایاں کر رہا ہے کہ ناگوار بات سن کر اسے پی جانا چاہیے۔ ایسا کیا جائے تو زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ بھٹکنے والا سیدھی راہ پر چلتا دکھائی دے گا۔ واعظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ  صبر سے کام لے۔ صبر سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے اور معاشرے میں خوش گوار اور اُلفت و محبت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئی (جب کہ وہ مرض الموت میں تھے)، تو انھوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: تین سحولی (یمن کے بنے ہوئے) سفید کپڑوں میں جس میں قمیص اور پگڑی نہ تھی۔ پھر پوچھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس دن فوت ہوئے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: سوموار کے دن۔ پھر پوچھا: آج کون سا دن ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: سوموار کا دن۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: مجھے اُمید ہے کہ شام تک میری روح قبض ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ سوموار کا دن ختم ہوا، منگل کی رات شروع ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی روح قبض ہوگئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک کپڑا جو انھوں نے بیماری کے دوران پہنا ہوا تھا اور اس پر زعفران کا داغ تھا، کو دیکھا تو فرمایا: اسے دھو ڈالنا، دو اور کپڑے ملا کر مجھے ان میں کفن دے دینا۔ حضر ت عائشہؓ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: یہ کپڑا تو پرانا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: زندہ لوگ نئے کپڑے کے زیادہ حق دار ہیں۔ پرانا کپڑا قبر میں جسم سے نکلنے والی پیپ کے لیے ہے۔ چنانچہ ایک پرانے کپڑے اور دو نئے کپڑوں میں حضرت ابوبکرؓ کو کفنایا گیا اور منگل کی رات کو ان کا جنازہ ہوا اور رات ہی کو تدفین بھی ہوئی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

 حضرت ابوبکرصدیقؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ انھوں نے اپنی بیماری میں اگر کچھ پوچھا تو یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس دن فوت ہوئے۔ انھیں طلب اور تڑپ تھی کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کفن دیا جائے اور یہ شوق اور ولولہ تھا کہ اسی دن آپؓ کی وفات ہو جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ ان کی یہ طلب اور تڑپ اللہ تعالیٰ نے پوری کردی بلکہ اس سے بھی زیادہ آپؓ کو دنیوی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں آپؐ کے ’صاحب‘ ہونے کے مقام پر فائز کردیا، اور حضرت عائشہؓ کے حجرۂ مبارکہ میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں قبر عطا فرمائی۔کتنی اُونچی شان ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو عطافرمائی  ع  یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا!

محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی دنیا کے ہر گوشے میں ربیع الاوّل کے مہینے میں آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوئوں پر غور کرتے اور اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں اور جس طرح رمضان الکریم میں گھر گھر قرآن کی تلاوت کی مبارک آواز فضائوں کو گرما دیتی ہے، اسی طرح اس مہینے میں اسکول ہوں یا بازار، ایوانِ حکومت ہو یا ہمہ وقت منکر (لغویات اور لہوولعب) میں مصروف ٹی وی چینل، کم از کم ایک دن کے لیے درود و سلام ہر لہوالحدیث پر غالب آجاتے ہیں۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمان کا تعلق ہی کچھ ایسی نوعیت کا ہے کہ چاہے وہ سال بھر دین کی ہرتعلیم سے کتنا ہی غافل رہا ہو، اس مہینے میں وہ رسولؐ اللہ سے اپنی نسبت کو کسی نہ کسی شکل میں تازہ کرلیتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو چراغاں کر کے اپنے دل کی تاریکی میں روشنی کی کچھ رمق پیدا کرلیتا ہے۔ صدیوں کی غلامی اور آزادی کے بعد کی بے راہ روی بھی اسے اس راکھ میں دبی ہوئی چنگاری سے محروم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وہ خاص ترکیب ایمانی ہے جو ایک بظاہر ’سیکولر مسلمان‘ کو بھی شاتمین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مظاہروں، دھرنوں اور پُرجوش بیانات پر آمادہ کرتی ہے اور مغرب و مشرق کے اصحابِ دانش کے لیے ایک معمّہ کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ مغرب اپنی تمام تر مادیت، مغربیت اور لادینیت کے باوجود مسلمانوں کو اس نعمت سے محروم نہیں کرسکا۔

سوال یہ ہے کہ کیا حُب ِ رسولؐ کا بہترین اظہار صرف جلسوں، جلوسوں، بجلی کے قمقموں اور رنگارنگ محفلوں میں بہترین ترنم کے ساتھ مدحِ رسولؐ کرنے سے ہوسکتا ہے یا قرآن کریم انسانیت کی اس عظیم ہستیؐ سے محبت کے اظہار کا کوئی اور طریقہ تجویز کرتا ہے؟ قرآن کریم نے اس مسئلے کو محض دو آیات میں آسان بناکر قیامت تک کے لیے حل کردیا ہے۔ فرمایا گیا:  قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ (اٰل عمرٰن ۳:۳۱)’’اے نبیؐ،لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘‘، اور مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء ۴:۸۰)’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔ گویا اللہ سے محبت کا حق ادا کرنا ہو تو اللہ کے محبوب کی تعریف و توصیف کے ساتھ ان پر ایمان اور ان سے محبت کے اظہار کا اصل طریقہ ان کی اطاعت کو اختیار کرنا ہے، اور اس اطاعت کادائرہ پوری زندگی اور  اس کے ہرعمل سے ہے، خواہ وہ ہاتھ ملانے کا طریقہ ہو یا مسکراتے ہوئے رُخِ مبارک کے ساتھ ہراہلِ ایمان کا استقبال کرنا ہو۔ وہ بازار میں فروخت ہونے والے مال کی کوالٹی کا جانچنا ہو یا پڑوس میں رہنے والی کسی غیرمسلم ضعیف خاتون کی تیمارداری۔ یہی آپؐ  کا خلق عظیم ہے اور یہ اس کی پیروی کا کرشمہ ہے کہ دوست ہو یا دشمن آپؐ  کا ہرسچا پیرو ہرکسی کے لیے رحمت بن کر دل و نگاہ میں مقام پیدا کرلیتا ہے۔

قرآنِ کریم نے آپؐ  کی صفاتِ حمیدہ کے حوالے سے جہاں اخلاق [خلق] کی اصطلاح استعمال کی ہے، وہیں رحمت للعالمینؐ کے لقب سے بھی نواز ا ہے۔ اس رحمت کے یوں تو بے شمار پہلو ہیں لیکن موجودہ حالات کی روشنی میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم چار پہلوئوں پر خصوصی توجہ دی جائے:

اوّلاً: اس رحمت کا تعلق اس نور اور ہدایت کے ساتھ ہے جو خود اپنے لیے فرقان، ذکریٰ اور قرآن جیسے نام استعمال کرتا ہے۔ آپؐ اس لیے رحمت للعالمینؐ ہیں کہ آپؐ  تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے کتابِ ہدایت اور سامانِ رحمت لانے والے ہیں۔ یہ وہ کلام ہے جو انسانوں کے لیے سرتاسر رحمت ہی رحمت ہے۔ اس کی ہرہرآیت انھیں گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکال کر نور کی پاکیزہ کرنوں سے منور کردیتی ہے۔ اس کلامِ رحمت میں وہ ہستی جو الرحمن اور الرحیم ہے، اپنے بندوں کی نادانیوں اور بھول ہی نہیں، جان بوجھ کر غلطیوں کا ارتکاب کرنے پر بھی رحمت و مغفرت کی اُمید جگاتا اور اپنے کمالِ کرم و رحمت سے ان کے بڑے بڑے گناہوں کو اظہارِندامت پر معاف فرمانے کا وعدہ فرماتا ہے، اور کس کا وعدہ اُس سے زیادہ سچا ہوسکتا ہے جو مکمل طور پر صدق اور حق ہے، جو اپنے بندوں پر ایک ماں سے بھی زیادہ شفقت و رحمت فرمانے والا ہے۔ ایسا کلام رحمت لانے والا انسانوں کے لیے رحمت نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ اسے اور کس نام سے پکارا جاسکتا ہے؟

دوسرا اہم پہلو جو مطالبہ کرتا ہے کہ مقامِ محمود پر فائز علم اور رہنمائی کے اس سرچشمے اور تمام انسانوں کو علم سے مالا مال کردینے والی اس ہستی کو رحمت للعالمینؐ کہہ کر پکارا جائے۔ آپؐ  ہی کا عمل وہ اسوہ ہے جس میں ہرہرقدم پر رحمت کا اظہار ہوتا ہے۔ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رحمت عالم کے سامنے جب دو کاموں میں انتخاب کا معاملہ ہوتا تو اپنی اُمت کو یُسر فراہم کرنے اور عُسر سے نکالنے کے لیے آپؐ  جو عمل زیادہ آسان ہوتا، اسے پسند فرماتے۔ چند اصحابِ رسولؐ جب اُمہات المومنینؓ سے دریافت کرتے ہیں کہ آپؐ  کے شب و روز کس طرح گزرتے ہیں اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ آپؐ  عبادات و معاملات کے درمیان کیا حسین توازن قائم کرتے ہیں، تو واپسی پر راستے میں وہ سوچتے ہیں کہ ایسا معاملہ آپؐ  کے ساتھ خاص ہو، عام انسانوں کے لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو خصوصی رخصت دے دی ہو، اور اس بنا پر  آپؐ اُس شدت سے عبادت نہ کرتے ہوں جس کی اُمید میں وہ اُمہات المومنینؓ سے معلومات کرنے گئے تھے۔ ان میں سے ایک ارادہ کرتا ہے کہ وہ تمام رات قیام کرے گا۔ دوسرا طے کرتا ہے کہ وہ ہردن روزے سے ہوگا، اور تیسرا قصد کرتا ہے کہ وہ بیوی کے پاس نہیں جائے گا۔     رحمت للعالمینؐ کو جب اس کی اطلاع ملتی ہے تو آپؐ  ان کو طلب فرماتے ہیں اور جن دو کلمات سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ آپؐ  اللہ کے رسولؐ اور ان سے زیادہ اللہ کی خشیت اور تقویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود رات کے کچھ حصے میں عبادت، اور کچھ میں آرام فرماتے ہیں، بعض دنوں میں روزہ رکھتے اور بعض میں نہیں رکھتے، اور پھر یہ بات فرمائی کہ نکاح آپؐ  کی سنت ہے جس سے معلوم ہوا کہ جو اللہ کے رسولؐ کی سنت سے رغبت نہیں رکھتا اس کا آپؐ  سے کوئی تعلق نہیں [فلیس منّی]۔

تقویٰ اور خشیت کی تعریف اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر رحمت بن کر بیان فرماتے ہیں کہ رات کے کچھ حصے میں قیام، صرف بعض دنوں میں روزہ، اور خاندان کی زندگی سنتِ رسولؐ سمجھتے ہوئے گزارنا۔ یہاں بھی رحمت اور یُسر کا پہلو غالب ہے ، جب کہ دنیا کے دیگر مذاہب میں تقویٰ اور بندگی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان گھربار کو چھوڑ کر  جنگل بیابان میں، کسی پہاڑی کے دامن میں، کسی غار میں جاکر بیٹھ جائے اور اس طریقے سے چنددنوں میں مرجع خلائق بن جائے! کیا یہ عمل ایسے فرد کو رحمت للعالمینؐ سے جوڑنے والا ہوگا یا توڑنے والا؟ گویا عبادات ہوں یا معاشرت توازن و اعتدال کی عملی مثال، وہ رحمت ہے جو آپؐ  کی حیاتِ مبارکہ میں ہمارے لیے مثال بن کر نظر آتی ہے۔

تیسرا اہم پہلو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ  نہ صرف انسانوں بلکہ تمام موجودات کے لیے رحمت و شفقت کا مظہر و مرکز ہیں۔ انسانوں کے ساتھ تو آپؐ  کا تعلقِ رحمت کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ جب آپؐ  ایک صحابیؓ سے وہ واقعہ سماعت فرماتے ہیں جس میں اُس صحابیؓ نے قبلِ اسلام اپنی بیٹی کو ایک غیرآباد کنویں میں ڈال کر مارنا چاہا اور وہ کنویں میں گرائے جانے کے باوجود اپنے  شقی القلب باپ کو پیار سے پکارتی رہی، تو رحمت للعالمینؐ آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ بات انسانوں تک محدود نہیں، جب ایک باغ میں تشریف لے جاتے ہیں اور ایک اُونٹ کو تکلیف سے ہنکارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو رحمت للعالمینؐ اس کے لیے بھی رحیم و کریم ہونے کے سبب اس کے مالک کو نصیحت کرتے ہیں کہ اسے مناسب غذا دی جائے اور اس پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے۔ پرندوں پر آپؐ  کی شفقت و رحمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یوم الحساب آپؐ  اُس چڑیا کے بھی وکیل ہوں گے جسے بغیر ضرورت ناحق نشانہ بنایا گیا۔ یہ آپؐ  کی محبت و شفقت تھی جس نے خادمِ حدیث و سنت کو ابوہریرہؓ (بلّی کے باپ)کی کنیت دلوائی۔

آپؐ  کے رحمت للعالمینؐ ہونے کا ایک بہت نمایاں پہلو آپؐ  کا دونوں عالموں، یعنی   اس دنیا میں اور آخرت میں واقع ہونے والے دوسرے عالم میں اپنی اُمت کے لیے سراپا رحمت ہونا ہے۔ قرآن کریم شہادت دیتا ہے کہ آپؐ  مشرکینِ مکّہ کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے دعوتِ دین میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا کہ آپؐ  ان کے غم میں خود کو      نہ گھلائیں،آپؐ  ان پر وکیل نہیں ہیں، آپؐ  کاکام صرف ابلاغِ دعوت ہے۔ آپؐ  کی یہی محبت و لگن تھی کہ جب تک آپؐ  اس دنیا میں رہے، ہرہرعمل سے اُمت کے لیے آسانی کی شکل نکالی اور ایسے ہی عالمِ آخرت میں اللہ کے ان بندوں کی اللہ تعالیٰ کے اذن سے شفاعت فرمائیں گے جنھوں نے حق کی خاطر اپنے نفس اور مال کو اللہ کی راہ میں لگایا۔ گویا آپؐ  دونوں عالموں کے لیے رحمت ہی رحمت ہیں۔

قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ جو ہستی ہرمعاملے میں انسانوں کے لیے رحمت ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ قرآن کی طرح وہ بھی یومِ حساب فریاد کرے کہ اسے اُس کے ماننے والوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا، پسِ پشت ڈال دیا تھا اور محض سال میں ایک دن اس کی یاد میں جشن منا کر اپنے خیال میں اس کی محبت و شفقت کا قرض اُتار دیا تھا؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور محبت کا اہم ترین تقاضا نظامِ ظلم و کفر کے خلاف جہاد، اور معروف اور بھلائی کے قیام کے لیے اپنے گھر میں، معاشرے میں، اپنی تجارت میں، اپنی سیاست میں، غرض زندگی کے ہرمعاملے میں بندگی و اطاعت کو صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خالص کردینا ہے۔ قرآن نے اس سلسلے میں جو قولِ فیصل ہمیں سنایا ہے وہ ہرلمحے نگاہوں کے سامنے رہنا چاہیے:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ (اٰل عمرٰن ۳:۳۱) ، اے نبیؐ،لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ط (النساء ۴:۸۰)، جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۳)، اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔

وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا o(النساء ۴:۶۱)، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آئو رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔

 

تزکیہ نفس کی ضرورت، ہرشخص کے لیے

[ان] مباحث سے تین باتیں واضح ہوئیں:

۱- ایک یہ کہ تزکیہ تمام دین و شریعت کی غایت اور تمام انبیا ؑ کی بعثت کا اصلی مقصود ہے۔ دین میں جو اہمیت اس چیز کو حاصل ہے، وہ اہمیت دوسری کسی چیز کو بھی حاصل نہیں ہے۔ دوسری ساری چیزیں وسائل و ذرائع رکھتی ہیں اور یہ چیز غایت و مقصد کی حیثیت رکھتی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی تمام سرگرمیاں، خواہ ظاہر میں کتنے ہی مختلف پہلو کیوں نہ رکھتی ہوں، لیکن باطن میں ان کا ہدف انسان اور انسانی معاشرے کے تزکیے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

۲-دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ تزکیے کا سرچشمہ اور اس کا منبع و مصدر کتاب اللہ ہے۔ اسی کی تعلیم سے تزکیے کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اسی کے اسرار و حقائق ہیں جو نبی کے ذریعے سے واضح ہوکر اس تزکیے کی تکمیل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہی نکتہ ہے کہ سورئہ بقرہ [۱۲۹، ۱۵۱] اور سورئہ جمعہ [۲] کی جو آیتیں ہم نے اُوپر نقل کی ہیں ان میں تزکیے کو تلاوتِ آیات کے ساتھ اس طرح وابستہ کیا ہے کہ    یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ تزکیہ درحقیقت تلاوتِ آیات ہی کے ثمرات و نتائج میں سے ہے۔ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ (تم کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور تمھارا تزکیہ کرتا ہے)،   یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ (ان کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے)۔

۳- تیسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ تزکیے کا عمل انسانی معاشرے کے کسی خاص گروہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام افراد اور تمام گروہوں بلکہ پورے معاشرے سے یکساں طور پر ہے۔ کوئی شخص بھی اس کے بغیر آخرت میں نجات اور فلاح نہیں حاصل کرسکتا۔ اِس کی حیثیت دین میں صرف ایک فضیلت کی نہیں ہے بلکہ ہرشخص کے لیے ایک ناگزیر انفرادی ضرورت کی ہے۔      یہ نجات اور فلاحِ آخرت کے لیے ایک ضروری شرط ہے جس کو پورا کیے بغیر کوئی شخص بھی جنت میں نہیں داخل ہوسکتا۔ (’تزکیہ نفس‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد۳۹، عدد۵، جمادی الاولیٰ، ۱۳۷۲ھ، فروری ۱۹۵۳ء، ص ۴۷)

پہلا ایڈیشن ختم ہوکر دوسرے ایڈیشن کی ترسیل شروع ہوچکی ہے۔ ا س دوسرے ایڈیشن میں     مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے نظرثانی فرما کر کئی مقامات پر ترمیم و اضافے کردیے ہیں۔ فہرست موضوعات بھی دوبارہ نئی ترتیب سے ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کی گئی ہے۔ طبع اوّل کی غلطیوں کی تصحیح بھی کردی گئی ہے۔

متوسط طبقے کی خواہش کے پیش نظر قسم سوم بھی طبع ہوچکی ہے۔

l ہدیہ قسم اوّل، مجلد مع بکس -/۱۲/۲۰                ہدیہ قسم دوم، مجلد مع بکس -/۴/۱۸

 ہدیہ قسم سوم مجلد بغیر بکس               -/۱۱     

محصول ڈاک تقریباً                -/۴/۱      دیگر اخراجات بذمہ خریدار

قسم اوّل و دوم میں حسب ِ سابق خصوصی جلدیں بھی مل سکیں گی جو فرمایش کے مطابق فراہم کی جائیں گی۔

مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان - اچھرہ، لاہور

تحریک اسلامی کو سمجھنے کے لیے

 (جدید) دستور جماعت اسلامی             آٹھ آنے     روداد جماعت اسلامی حصہ اوّل          ایک روپیہ

 روداد جماعت اسلامی حصہ دوم          چودہ آنے  روداد جماعت اسلامی حصہ سوم         دو روپے

 روداد جماعت اسلامی حصہ چہارم      ایک روپیہ بارہ آنے                 روداد جماعت اسلامی حصہ پنجم        دو روپے

روداد جماعت اسلامی حلقہ خواتین       بارہ آنے  دعوت دین اور اس کا طریق کار           دوروپے بارہ آنے

منشور جماعت اسلامی          تین آنے، اور جماعت اسلامی، اس کا مقصد ، تاریخ اور لائحہ عمل  ایک روپیہ

کامطالعہ کیجیے

مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان، اچھرہ، لاہور، پاکستان

یا ___ اپنے شہر کے کتب فروشوں سے طلب کریں

(ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۷۲ھ ، جنوری۱۹۵۳ء، اشتہار اندرونِ سرورق و پشت)