مضامین کی فہرست


جنوری ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور ___صدر زرداری کا طبلِ جنگ

جمہوریت میں عوام کے ووٹ اور انتخابی عمل کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے لیکن جمہوریت پر اس سے بڑے ظلم کا تصور مشکل ہے کہ اسے محض انتخابی عمل تک محدود کردیا جائے۔ قیادت کا انتخاب بلاشبہہ عوام کی آزاد مرضی سے ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے قیادت کی بار بار جواب دہی انتخابی عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔ تاہم جمہوریت کا اصل جوہر قانون کی حکمرانی اور  دستور کے تحت تمام اداروں کی کارفرمائی ہے، اور ان حدود کی پاس داری ہے جو کاروبارِ ریاست کی   انجام دہی کے ضمن میں ہرادارے کے لیے دستور نے قومی اتفاق راے سے مقرر کی ہیں۔ جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے بنیادی حقوق کا تحفظ، عدلیہ کی آزادی، راے کے اظہار کی ضمانت، صحافت کی آزادی اور قیادت کا پارلیمنٹ، قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ضروری ہے۔

جمہوری ریاست اور معاشرے میں تمام ادارے دستور اورقانون کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے درمیان مکمل تعاون اور توازن ہی جمہوری نظام کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔ جو بھی قانون سے بالاتر ہونے یا دستوری تحدیدات اور مواقع سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ دراصل جمہوریت پر تیشہ چلانے کا مجرم ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ یہاں جمہوری عمل کو خطرہ باہر کی قوتوں سے کہیں زیادہ، اندر کے طالع آزمائوں اور ذاتی مفاد کے اسیروں سے رہا ہے۔ اگر قوم اور ملک کی سیاسی قیادت موجودہ حالات میں دستوری نظام اور جمہوری عمل کے آداب و روایات کی مکمل پاس داری کے باب میں کسی طرح کی کوتاہی دکھاتے ہیں تو یہ ملک اور اس کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہوگا۔ فوجی آمر سے نجات، عدلیہ کی بحالی اور صحافت کی آزادی سے جمہوری عمل کے فروغ اور استحکام کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ ذرا سی غلطی سے خطرے میں پڑسکتے ہیں۔

قومی مصالحتی آرڈی ننس (این آر او) کے بارے میں ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کے سپریم کورٹ کے ۱۷ رکنی فل بنچ کے متفقہ فیصلے سے ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے اور اسے کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست سے بچانے کے جو روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں، وہ زرداری گیلانی حکومت کے جارحانہ اور گاہے بچگانہ رویے سے معرضِ خطر میں پڑ سکتے ہیں۔ ۲۷ دسمبر کو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری برسی پر صدر آصف علی زرداری صاحب نے جو تقریر کی ہے اور جس لب و لہجے میں کی ہے، وہ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک فالِ بد اور قومی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کی طرف سے پہلے بوکھلاہٹ اور پھرتصادم کی سیاست کے اشارے تو ۱۷دسمبر ہی سے ملنے لگے تھے، لیکن طبلِ جنگ اب ۲۷ دسمبر کو بجایا گیا ہے۔

نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کو جس طرح پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا ہے، اس نے ایک طرف ملک کی آزادی اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے، دوسری طرف ملک کو لاقانونیت، تشدد، خانہ جنگی، اور معاشی تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جس قومی یک جہتی اور سیاسی بالغ نظری کی ضرورت ہے، موجودہ برسرِاقتدار قیادت کادامن اس دانش سے خالی نظر آرہا ہے، اورجس راستے پر یہ قیادت آگے بڑھنے لگی ہے   وہ تصادم اور تباہی کا راستہ ہے۔ امریکا کی جنگ سے خلاصی، معاشی مسائل کے حل اور ملک      اور جمہوریت کی اصل دشمن قوتوں سے نبردآزما ہونے کے بجاے، وہ عدلیہ، فوج، میڈیا اور    حزبِ اختلاف کو نشانہ بنانے کی خطرناک حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان کا یہ عمل خود ان  کے لیے اور پھر وطن عزیز کے لیے ایک خودکش حملے سے کم نہیں۔ یہ وقت تصادم کا نہیں، قومی سلامتی اور پاکستانی قوم اور معاشرے کی حقیقی ترجیحات کی روشنی میں حقیقی قومی مفاہمت پیدا کرنے، اور دستور کی مکمل پاس داری کے ذریعے درپیش سنگین مسائل کا حل تلاش کرنے کا ہے۔

عوام نے پیپلزپارٹی کو جو اختیارِ حکمرانی فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے دیاتھا، بدقسمتی سے اسے موجودہ حکمرانوں نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے، اور اس کی ساری تگ و دو ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز نظر آرہی ہے۔ بدانتظامی اور بدعنوانی کے سیلاب نے پورے ملکی نظام کی چولیں ہلادی ہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور اصل مسائل کے حل کے لیے مل جل کر حکمت عملی اور نقشۂ کار بنانے اور اس پر سختی سے کاربند ہونے کا راستہ اختیار کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے ۳۱جولائی اور ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلوں کے ذریعے جو شمع روشن کی ہے، اس سے تاریکیوں کا سینہ چیرکر ملک کو ایک روشن مستقبل کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔ اس کا راستہ باہم مشاورت، دستور کا احترام، قانون کی پاسداری، مفاد کی سیاست سے اجتناب اور ملک کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے ساتھ عوام کی مشکلات اور مصائب کو حل کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔ پاکستان نہ کل ایک ناکام ریاست تھا اور نہ آج ایسا ہے۔ ناکامی اگر ہے تو وہ قیادت کی ہے اور ابھی وقت ہے کہ حالات کو تباہی کے راستے پر جانے سے بچانے کے لیے    قومی یک جہتی کے حصول اور صحیح حکمت عملی کی ترتیب و تنفیذ کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نام نہاد قومی مصالحتی آرڈی ننس کی اصل حقیقت اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مضمرات اور تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے۔ این آر او زدہ قیادت نے حالات کو جو زاویۂ نظر دینے کی کوشش کی ہے، اس کا پردہ چاک کر کے اصلاح اور نجات کی راہ کو واضح کیا جائے۔ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، دستور، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے تاکہ بدعنوانی کی سیاست سے نجات اور عوام کے حقوق کی حفاظت اور مسائل کے حل کی عوامی جدوجہد میں سرگرم حصہ ادا کیا جاسکے۔

ملکی تاریخ کا شرمناک باب

وہ آرڈی ننس جو جنرل پرویز مشرف نے فوجی وردی میں اپنے ناجائز صدارتی انتخاب (۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ئ) سے صرف ۲۴گھنٹے پہلے ’قومی مصالحت‘ کے نام پر جاری کیا تھا، وہ پاکستان کی تاریخ کا نہایت شرمناک فرمان تھا۔ یہ فرمان دنیا کی تاریخ میں اس پہلو سے منفرد تھا کہ بدعنوانی تو انسانی زندگی پر ایک بدنما اور قابلِ مذمت داغ کی حیثیت سے ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن اس داغ کو ’مفاہمت‘ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور سیاسی اصول و آداب کا خون کرکے بے حمیتی کے ساتھ دو سیاسی قوتوں کا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسے قانون قرار دینا، اور اس سیاہ کاری کو ’تمغاے بحالی جمہوریت‘ کا نام دینا نہ ماضی میں کہیں دیکھنے میں آیا اور نہ مستقبل میں کسی مہذب معاشرے میں یہ ممکن ہوگا لیکن یہ سیاہی جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے نہ صرف اپنے چہرے پر مَلی بلکہ پاکستان کے چہرے کو بھی داغ دار کیا۔ اب کہ جب سپریم کورٹ نے سیاسی قیادت کو اصلاحِ احوال کا ہر موقع فراہم کرنے کے بعد اس نام نہاد ’قانون‘ کو کالعدم قرار دیا ہے تو اپنی غلطی کے اعتراف کے بجاے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا افسانہ تراشا جا رہا ہے اور ملک کو ایک نئے تصادم اور انتشار کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

ریکارڈ کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے تمام حقائق بے کم و کاست پیش کیے جائیں۔ حق وانصاف اور پاکستان اور جمہوریت کے مفاد میں وہ راستہ اختیار کیا جائے، جو   اصلاحِ احوال کا ذریعہ بنے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت کسی کو ادا کرنی پڑے۔ ہم ان تمام حقائق کو جن کو سمجھے بغیر قوم اصل صورتِ حال کا ادراک اور خرابیوں کی تلافی کا اہتمام نہیں کرسکتی، پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

میثاقِ جمہوریت جس پر لندن میں ۱۴ مئی ۲۰۰۶ء کو دیگر چھوٹی پارٹیوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے اور جس کی تیاری میں تقریباً دو سال لگے، اس معاہدے کو سب ہی نے پاکستان میں جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی طرف ایک سنگِ میل قرار دیا۔ اس میں مِن جملہ اور عہدوپیمان کے، یہ باتیں طے کی گئی تھیں:

ا- بدعنوانی اور سیاسی انتقام سے نجات اور اربابِ اختیار کی حقیقی اور مبنی بر انصاف   جواب دہی کے لیے ایک ’سچائی اور مفاہمت کا کمیشن‘(Truth and Reconciliation Commission)قائم کیا جائے گا ،جو ۱۹۹۶ء سے تمام حالات کا جائزہ لے کر ملک کے مجرموں کی گرفت کرے، اور سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والوں کی پاک دامنی کے اظہار کی راہ ہموار کرے۔

ب- عوام کے مینڈیٹ کے مکمل احترام کے ساتھ اس میں یہ بھی عہدوپیمان کیا گیا تھا کہ:

ہم کسی فوجی حکومت، یا فوج کی حمایت یافتہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ کوئی پارٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے، یا اقتدار میں آنے کے لیے فوج کی حمایت حاصل نہیں کرے گی۔

لیکن جس وقت اس میثاق کی نوک پلک درست کی جارہی تھی اور اس پر دستخط ثبت کیے جارہے تھے، اسی وقت پیپلزپارٹی کی قیادت، دوسری سیاسی پارٹی (مسلم لیگ ن) اور قوم کو تاریکی میں رکھ کر جنرل پرویز مشرف اور اس کے باوردی نمایندوں سے سیاست کے نئے نقشے کے خدوخال طے کر رہی تھی جس کا حاصل نام نہاد ’قومی مصالحت کا آرڈی ننس‘ ہے۔اس کا اعلان پرویز مشرف نے ۵؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے اسمبلیوں سے استعفا دینے کے بجاے پرویز مشرف کے بے معنی صدارتی انتخاب کے بعد، اس کے ساتھ سیاسی اشتراک کا معاملہ طے کیا۔ اس طرح ملک پر وہ قانون مسلط کیا جس کے ذریعے قومی دولت لوٹنے، اختیارات کے غلط استعمال کرنے اور حتیٰ کہ فوجداری جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دستور، قانون اور اخلاق کے تمام تقاضوں کو بالاے طاق رکھ کر ’پاک دامنی‘ کا سرٹیفیکیٹ دیا جاسکے، تاکہ وہ اس ناپاک غسل کے ذریعے ایک بار پھر قوم کی قسمت سے کھیلنے کے لیے اقتدار پر براجمان ہوسکیں۔

جنرل پرویز مشرف سے اس زمانے میں سارے معاملات طے کرنے کی داستان خود  بے نظیرصاحبہ نے اپنی کتاب Reconciliation (مفاہمت)میں بیان کی ہے، جس سے چند اقتباس صرف اس لیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ اس دوغلی سیاست کا اصل چہرہ خود ان کے الفاظ میں دیکھا جاسکے: ’’مشرف کے دور کے آغاز سے ہی اس کی حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان مسلسل مکالمہ جاری رہا‘‘۔ (ص ۲۲۳)

اس کا ایک نمونہ موصوفہ کے الفاظ میں وہ رابطہ بھی ہے جو ۲۰۰۲ء میں آئی ایس آئی کے  اعلیٰ باوردی ذمہ داروں کی آصف زرداری صاحب سے ملاقات کی صورت میں سامنے آیا جس کے دوران میں خود ان سے، جب وہ کیلی فورنیا، امریکا میں تھیں مشورہ کیا گیا اور معاملہ طے کرنے   کے لیے شرائط پیش کی گئیں۔ پھر ۲۰۰۴ء میں آصف زرداری صاحب کی رہائی عمل میں آئی۔    اس کے بعد جنرل مشرف سے بے نظیر صاحبہ کی ملاقات کا انتظام شروع ہوا اور بقول بے نظیر بھٹو، جنرل صاحب کے نمایندوں سے بات چیت کرنے کے لیے میری اس شرط پر عمل ہوا کہ      جنرل مشرف نے خود مجھ سے ٹیلی فون کر کے اپنے نمایندوں کے مینڈیٹ کا اعتراف کیا۔        ادھر مئی ۲۰۰۶ء کے ’میثاقِ جمہوریت‘ پر دستخط ہو رہے تھے اور ساتھ ہی مشرف سے سلسلہ جنبانی   اپنے عروج پر تھا اور بالآخر اگست ۲۰۰۶ء میں جنرل مشرف سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اور بطور    اعتماد سازی اقدام اس قانون کو اسمبلی سے منظور کرایا گیا، جس میں حدود قوانین میں ترمیم کی گئی تھی۔

جنرل مشرف اور اس کی ٹیم سے جو معاملات طے ہو رہے تھے، ان میں لندن اور واشنگٹن کے حکمران بھی شریک تھے اور فوجی قیادت میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ بھی۔ اس سیاسی جوڑتوڑ اور معاملہ طے کرانے میں، یہ سبھی کردار گویا ’ضمانت کار‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر جنوری ۲۰۰۷ء اور جولائی ۲۰۰۷ء میں بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف کی ملاقاتیں ابوظبی میں     شیخ زاید کے محل میں ہوئیں اور اس طرح ہر دو اطراف کے نمایندوں کی شب و روز کی محنت سے اکتوبر ۲۰۰۷ء میں این آر او کی ولادت واقع ہوئی (ملاحظہ ہو، ص ۲۲۷-۲۳۰)۔ امریکا، انگلستان، بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف میں جرائم کی سیاہی کو پاک دامنی کا چوغا پہنانے کا جو معاہدہ ہوا،  اس کا اصل مقصد انھی کے الفاظ میں یہ تھا کہ موڈریٹ یعنی ’روشن خیال‘ قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے اور جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی مل کر آگے کے مراحل کو طے کریں:

جنرل مشرف اور ان کے نمایندے مجھے برابر یقین دلاتے رہے کہ اسٹرے ٹیجک فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، اعتدال پسند فورم بناکر مل جل کر کام کیا جائے۔

اس سلسلے میں دستاویزات کا باقاعدہ تبادلہ ہوتا رہا ،اور بے نظیر صاحبہکے الفاظ میں:  ’’این آر او کے تبادلے میں ہماری طرف سے یہ کیا گیا کہ ہم نے اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے،  گو کہ اس کو ووٹ بھی نہیں دیا‘‘۔ (ص ۲۲۹)

اس کہانی سے صاف ظاہر ہے کہ این آر او کا قانون اپنی اصل کے اعتبار سے دستور، قانون، سیاست اور اخلاق، ہر پہلو سے غلط اور گندا قانون تھا، بلکہ انگریزی محاورے میں:    it was conceived in sin and fraud [اس کی تشکیل میں دھوکا دہی اور گناہ دونوں شامل تھے]۔

اب یہ جناب نواز شریف ہی کی ’وسعت قلبی‘ ہے کہ اس پوری داستان سے واقفیت کے باوجود وہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں شریک ہوئے، پھر وعدہ خلافیوں کے نام پر باہر نکلے اور اب تک ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

قانون اور انصاف کا خون

آیئے اب دیکھیں کہ یہ قانون تھا کیا اور اس کے ذریعے کس طرح دستور، قانون، انصاف، سیاست اور اخلاق کو قتل کیا گیا۔

۱- اس کے ذریعے ۱۸۹۸ کے ضابطہ قانون فوجداری (Code of Criminal Procedure) کی دفعہ ۴۹۴ میں یہ ترمیم کی گئی کہ وہ تمام فوجداری مقدمات جو یکم جنوری ۱۹۸۶ء سے لے کر ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک قائم کیے گئے ہیں، ان کو مقدمے کی تکمیل کے بغیر ایک نظرثانی بورڈ کے ذریعے مرکز اور صوبوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔

۲-  عوامی نمایندگی کے قانون ۱۹۷۶ء میں یہ ترمیم کی گئی کہ ریٹرننگ افسر الیکشن کے نتائج کی ایک نقل امیدوار اور اس کے نمایندوں کو دے گا۔

۳- ’قومی احتساب آرڈی ننس ۱۹۹۹ئ‘ میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی رکن پارلیمنٹ اور  صوبائی اسمبلی کو، کسی پارلیمانی اخلاقی کمیٹی کی سفارش کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکے گا۔

۴- اسی ’قومی احتساب آرڈی ننس‘ میں یہ ترمیم کہ، نیب کے وہ تمام مقدمات جو ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل ملک کے اندر یا ملک سے باہر چلائے گئے ہیں، فوراً واپس لے لیے جائیں گے۔

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ فوجداری اور بدعنوانی کے وہ تمام مقدمات جو ۱۹۸۶ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان قائم کیے گئے ہیں، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر محض سیاسی مفادپرستی اور نام نہاد ’روشن خیال‘ قوتوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے ختم کردیے جائیں گے اور اس طرح دیوانی اور فوجداری دونوں نوعیت کے ملزموں کو ’مفاہمت‘ کے نام پر غسلِ بے گناہی دے کر فارغ کر دیا جائے گا۔

بلالحاظ اس امر کے کہ اس آرڈی ننس کا فائدہ کس کو پہنچا ہے اور کس کس قسم کے جرائم کی اس کے ذریعے ’تطہیر اور صفائی‘ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، ہم پہلے چند اصولی باتیں    عرض کریں گے جن کی تائید عدالتِ عظمیٰ کے مختصر فیصلے سے بھی ہوتی ہے:

ا- قانون کو سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے بالاے طاق رکھا جا رہا ہے اور ملزموں کو ان کے دفاع کا پورا موقع دے کر جرم کے ارتکاب کے تعین یا بے گناہی کے تعین کو یکسر نظرانداز کرکے، حتیٰ کہ سچائی اور اعترافِ گناہ کے قانون اور اخلاقی عمل تک سے بے نیاز ہوکر، محض سیاسی بنیادوں پر اور جوڑ توڑ کے ذریعے ملزموں کو قانون اور عدالت کی گرفت سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ عمل انصاف اور قانون کی حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں کی کھلم کھلا اور شرمناک خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ ریاست، مجرموں کو معاشرے کے نمایندے کے طور پر انصاف کے کٹہرے میں لاتی ہے۔ اصولِ قانون کا یہ مسلّمہ کلیہ و قاعدہ ہے کہ جو چیز معاشرے کے خلاف جرم ہے، اس کے مرتکب کو قانونی ضابطے کے عمل سے گزارے بغیر جرم کے الزام سے بری نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کا یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ جب ایک مقدمہ عدالت کے سامنے آگیا تو وہ اسے واپس لے سکے۔ جرم کا اثبات یا انکار اب عدالت کا کام ہے، سیاسی قیادت یا حکومت کی اجارہ داری نہیں ہے۔ حکومت کا دائرہ کار وہاں ختم ہوجاتا ہے، جب استغاثہ کسی مقدمے کو عدالت کے سامنے   لے آتا ہے۔ اس لیے یہ قانون اپنے پہلے ہی دن سے اصولِ قانون کے مسلّمات کے خلاف تھا اور قانون کی نگاہ میں ایک ’گھنائونا قانون‘ تھا، جس کا نفاذ ہی ایک جرم تھا، جس کی سزا اس قانون کے بنانے والوں کو ملنی چاہیے نہ کہ اس کے سہارے ملزموں کو غسلِ صفائی دیا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کے جرائم کو داخل دفتر کردیا جائے۔ معاشرہ اور ان جرائم کا نشانہ بننے والے مظلوم انسانوں کو بے سہارا چھوڑ دیا جائے اور ملک اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو غاصبوں کی ہوسِ زر پوری کرنے کے لیے چاندی کی پلیٹ پر سجا کر دے دیا جائے۔

ب- دستور نے جن بنیادی حقوق کی ضمانت تمام انسانوں کو دی ہے، ان میں قانون کی نگاہ میں برابری اور مساوات ایک بنیادی حق ہے (دفعہ ۲۵)۔ اس نام نہاد صدارتی فرمان کی شکل میں دستور کی اس شق اور انصاف کے بنیادی اصول کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے کہ یکم جولائی ۱۹۸۶ء اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کے درمیان کیے جانے والے جرائم، بدعنوانی اور لوٹ مار کو کھلی چھوٹ مل جائے۔ البتہ ان تاریخوں سے پہلے یا ان کے بعد کیے جانے والے جرائم تو جرائم رہیں اور مجرموں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے۔ نیز ان تاریخوں کے درمیان بھی فوجداری اور جواب دہی کے قانون کی گرفت میں آنے والے سب ملزموں کو خلاصی کی یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ صرف [اُن خصوصی] ملزموں یا مجرموں کو رعایت حاصل کو ہوگی، جن کے مقدمات کو سرکار واپس لے۔ اس عمل کو قانون کی زبان میں discrimination[امتیازی یا جانب دارانہ سلوک] کہا جاتا ہے جو دستور، قانون اور اخلاق کے خلاف ہے۔ اس طرح ’قانونی برابری‘ کے اصول کا خون کیا گیا ہے اور ایسا قانون ایک لمحے کے لیے بھی قانونی درجہ نہیں پاسکتا۔

قرآن و سنت اور دستور کی صریح خلاف ورزی

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ دستور نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے ساتھ پارلیمنٹ پر دو پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کی خلاف ورزی پارلیمنٹ اپنے قانون سازی کے اختیار کے استعمال کے باب میں نہیں کرسکتی ،اور نہ ان کے برعکس کوئی آرڈی ننس ہی انتظامیہ لاسکتی ہے۔ یہ پابندیاں دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۸ اور دفعہ۲۲۷ میں درج ہیں، یعنی بنیادی حقوق کے خلاف اور قرآن و سنت کے احکام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی اور یہ قانون ان دونوں دفعات کی رُو سے دستور پاکستان کے خلاف ہے۔

دستور کی دفعہ ۸ صاف الفاظ میں کہتی ہے:

آرٹیکل ۸- بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی قوانین کالعدم ہوں گے:

۱- کوئی قانون یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔

۲- مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا    کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے، اس   خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔

دستور کی دفعہ ۲۷۷ کہتی ہے:

تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔

قرآن و سنت کے احکام اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (النساء ۴:۵۸) مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں    اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

مسلمانوں کی صفت قرآن کے الفاظ میں یہ ہے کہ: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ o (المومنون ۲۳:۸) ’’اور جو امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔

خیانت کی ہر شکل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الانفال ۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ بنو حالانکہ تم جانتے ہو۔

وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۱) اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا اور ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔

اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزِ قیامت جب حساب کتاب کے لیے بارگاہِ الٰہی میں پیشی ہوگی اور آدمی کے پائوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک    مِن جملہ اور باتوں کے، اس سے یہ پوچھ گچھ نہ کرلی جائے گی: وَعَنْ مَالِہِ مِنْ أیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَا أَنْفَقَہٗ، یعنی مال کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں سے اسے حاصل کیا اور کن کاموں پر اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا۔

ارشادِ نبیؐ برحق ہے کہ جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اس زمین کی وجہ سے (اور اس کی سزا میں) زمین کے ساتوں طبق تک دھنسا دیا جائے گا۔

وَمَنْ اَخَذَ مِنَ الْاَرْضِ شَیْئًا بِغَیْرِ حَقّہِ خُسِفَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِلٰی سَبْعِ أَرْضِیْن (بخاری)

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ اِنْتَھَبَ نَھْبَۃً فَلَیْسَ مِنَّا (ترمذی) ’’جس نے کسی کی کوئی چیززبردستی چھین لی اور لوٹ لی تو وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے جہاں مسلمانوں کے درمیان ہدیوں کے تبادلے کو محبت میں اضافے کا ذریعہ قرار دیا ہے وہیں  حاکمِ وقت اور فرماں روا کے لیے ہدیوں کے لینے کی مخالفت کی ہے اور انھیں خیانت اور ایک طرح کی رشوت قرار دیا ہے: ھَدَایَا الْاِمَامِ غُلُوْل (امام وقت کے ہدیے غلول، یعنی ایک طرح کی رشوت اور خیانت اور ناجائز استحصال کی قبیل سے ہیں)

راشی اور رشوت دینے والے دونوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے: الرَّاشِیِ وَالْمُرْتَشِیِ کِلَاھُمَا فِی النَّار، اور حضوؐر کا ارشاد ہے:

لاَ یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ یَتَصَدَّقُ مِنْہٗ فَیُقْبَلَ مِنْہُ ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکَ لَہٗ فِیْہِ ، وَلاَ یَتْرُکُہُ خَلَفَ ظَھْرِہِ اِلَّا کَانَ زَادُہُ اِلَی النَّارِ (مسند احمد) ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ کسی ناجائز طریقے سے حرام مال کمائے اور اس میں سے پہلے صدقہ کرے، تو اس کا صدقہ قبول ہو اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میںبرکت ہو، اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قانون کے نفاذ میں انسانوںکے درمیان تفریق نہ کرو اور وہ قومیں جو کمزور لوگوں کو تو قانون کے مطابق سزا دیتی ہیں، مگر صاحب ِ اختیار اور طاقت ور اور بالائی طبقے کے لوگوں کو سزا سے بچا لیتی ہیں وہ تباہی کا راستہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر     فاطمہؓ بنت محمدؐ نے بھی چوری کی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔

یہ ہیں اللہ، اللہ کے رسولؐ اور خود ہمارے دستور کے واضح احکامات۔ این آر او ان سب کی کھلی کھلی خلاف ورزی تھا اور اپنے اعلان کے پہلے دن ہی سے ایک ناجائز حکم نامہ تھا۔ اچھا ہوا سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے ختم کر دیا، خس کم جہاں پاک۔

اس قانون سے فائدہ اُٹہانے والے

یہ تو اس قانون کے بارے میںاصولی پوزیشن تھی لیکن ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں پر کیا کیا الزامات تھے اور ان میں کیسے کیسے نام وَر شامل تھے    ؎

نہ من تنہا دریں میخانہ مستم

جنید وشبلی و عطار ہم مست

اس بدنامِ زمانہ قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی کُل تعداد ۸۰۴۱ بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے ۷۷۹۳ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ ۳۰۰ اہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے اپنے مقدمات ختم کرائے ہیں، جس کے نتیجے میں صرف ان ۳۰۰ افراد نے این آر او کے تحت۱۶۵ ارب روپے کی بدعنوانیوں، اختیارات کے غلط استعمال اور غبن کے مقدمات معاف کروا کر اپنے کو ’پاک‘ کرا لیا۔ دی نیوز اخبار کی ۲۰ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ اطلاع قابلِ اعتبار ذرائع سے دی گئی ہے: ۱۶۵ ارب روپے کا اندازہ اصل رقم سے بہت کم ہے، جب کہ صحیح رقم ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے اور اغلب یہی ہے کہ اصل رقم ایک ہزار ارب ہے تو صرف اتنی بات پیش نظر  رکھی جائے کہ صرف یہ رقم جو ۱۲؍ارب ڈالر بن جاتی ہے پانچ سال میں امریکا سے ملنی والی مدد (۵ئ۷ بلین ڈالر) سے کہیں زیادہ ہے اور ملک کے لیے بیرونی امداد کی بھیک مانگنے والی تمام رقوم سے زیادہ ہے۔ حکومتِ پنجاب نے جو ۷۷ افراد کی فہرست عدالتِ عظمیٰ کو بھجوائی ہے اس میں صرف ایک سابقہ رکن قومی اسمبلی نے ۱۷۰ ملین ڈالر کا فائدہ اٹھایا ہے۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی حکومت کے وزیرمملکت براے قانون افضل سندھو نے جو فہرست عدالت کو دی ہے (اور اب وہ اس وزارت سے فارغ کردیے گئے ہیں اور ان کی جگہ ایک ایسے سینیٹر کو وزارتِ قانون و انصاف کا قلم دان سونپ دیا گیا ہے جن پر حارث اسٹیل مل کے مقدمے میں ساڑھے تین کروڑ روپے ججوں کو خریدنے کرنے کے لیے دیے جانے کا الزام ہے اور بحیثیت وزیرقانون ’قومی احتساب بیورو‘ (NAB) کا محکمہ خود ان کے ماتحت ہوگا) اس فہرست کی رُو سے اس قانون سے عظیم ترین ’فائدہ‘ اٹھانے والوں میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن اور موجودہ صدرمملکت جناب آصف زرداری ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد یعنی ۳ہزار ۷ سو ۷۵ افراد بھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر جناب الطاف حسین کے  خلاف ۷۱ مقدمات تھے، جن میں سے ۳۱ کا تعلق قتل اور ۱۱ کا اقدامِ قتل سے تھا۔ واضح رہے کہ روزنامہ دی نیشن کی اطلاع کے مطابق (۱۹ نومبر ۲۰۰۹ئ) اس قانون کے آنے کے بعد ان آٹھ ہزار سے زائد مقدمات کی واپسی کے علاوہ نیب سے ۳۰۰ مزید ان مقدمات کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، جو ابھی زیرتفتیش تھے۔ اس کے علاوہ ساڑھے پانچ ہزار کے قریب مزید مقدمات ہیں جن کی ’قومی احتساب بیورو‘ اب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پیروی میں مشکل محسوس کر رہا ہے۔

قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں لیکن پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت صدرمملکت اور گورنر صاحبان کو ان کے دورِ اقتدار میں ہرقسم کی فوجداری جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دیا گیاہے، جو اسلامی احکام و روایات اور خود جمہوری ممالک کے تعامل سے متصادم ہے۔ کیا امریکا کے دو سابق صدور رچرڈ نکسن اور کلنٹن صاحبان پر عدالت کے ذریعے فوجداری تفتیش و جواب دہی کا معاملہ  نہیں ہوا، کہ جس کے نتیجے میں ۱۹۷۴ء میں صدرنکسن کو استعفا دینا پڑا۔ کیا اٹلی کے موجودہ وزیراعظم سلوایو بریاسکونی کو ایسی رعایت ختم کر کے وہاں کی عدالتِ عظمیٰ نے، ان کے خلاف مقدمات کا دروازہ نہیں کھولا۔ حتیٰ کہ اسرائیل میں اس کے ایک صدر اور ایک وزیراعظم پر دورِاقتدار میں کیا فوجداری اور کرپشن کے مقدمات قائم نہیں ہوئے؟ کیا اس مشق سے وہاں کا سیاسی نظام اور جمہوریت کسی خطرے کا شکار ہوئے؟ زرداری صاحب نے این آر او سے جس فیاضی سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کی تفصیل سینیر قانون دان جناب محمد اکرم شیخ نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ دی نیوز (۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ئ) میں دی ہے، جو اہلِ نظر کے لیے چشم کشا ہے۔

l ۱۵ فروری ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنے تمام زیرسماعت مقدمات سے این آر او کے تحت گلوخلاصی کی درخواست دی، اور ۲۸ فروری کو اس وقت پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے عدالت کو ہدایت دی کہ عدالت ان کے مقدمات کو تیزی سے نمٹا دے، نتیجہ یہ کہ ۲۴گھنٹے میں سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ ختم کر دیا۔

  • مارچ ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے محمدنوازشریف صاحب کے ساتھ ’معاہدۂ مری‘ کیا۔ اس کے چار دن بعد ۱۲مارچ کو سوئٹزرلینڈ کے ایس جی ایس کوٹیکنا مقدمے سے زرداری صاحب کو بری کر دیا گیا۔ ۱۴مارچ ۲۰۰۸ء کو ’بی ایم ڈبلیو مقدمہ‘ ختم ہوا۔ ۲۴ مارچ ۲۰۰۸ء کو جسٹس نظام اور ان کے صاحبزادے کے قتل کے مقدمے سے زرداری صاحب کو بری قرار دیا گیا۔ ۸؍اپریل ۲۰۰۸ء مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ ۱۶؍اپریل ۲۰۰۸ء عالم بلوچ کے قتل کے مقدمے سے موصوف کو فارغ کر دیا گیا۔ ۱۳ مئی ۲۰۰۸ء کو موصوف اور ان کے دوسرے شریکِ جرم واجد شمس الحسن (برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر اور سوئس مقدمے کی دستاویزات کے ۱۲ڈبوں کو بنفسِ نفیس سوئس عدالت سے لانے کی شہرت کے مالک) کے ساتھ اسمگلنگ کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ اسی طرح ۱۹ مئی ۲۰۰۸ء کو لاہور سے اسمگلنگ ہی کے ایک مقدمہ کاتیا پانچا کردیاگیا۔ یوں جناب چیئرپرسن مکمل ’غسل‘ کرنے کے بعد مملکت خداداد پاکستان کی صدارت کی کرسی پر رونق افروز ہوگئے۔

بلاشبہہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے سب افراد اب آزمایش کی کسوٹی پر ہیں۔ انھیں اپنے اُوپر عائد شدہ الزامات کا کھلے انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے اور ایک غیر جانب دار عدالتی انتظام کے سامنے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنا چاہیے، یا پھر اپنے کیے کی سزا بھگتنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اب اس دلدل سے نکلنے کا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری خود جناب آصف علی زرداری کی ہے۔

سب سے پہلے یہ پاکستان کے مجبور و مقہور عوام کا حق ہے کہ ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کا احتساب ہو اور حقیقی مجرموں کی قرارواقعی سزا ملے۔ قوم کی دولت ان سے واپس لی جائے، نیز جو لوگ بے جا طور پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنے ہیں، ان کی پاک دامنی قابلِ بھروسا اور شفاف عدالتی عمل کے ذریعے ثابت ہو، اور پاکستان کے عوام ان کے بارے میں مطمئن ہوسکیں۔ اس کے ساتھ پاکستان کی ساکھ کو ساری دنیا میں جو شدید نقصان پہنچا ہے، اس کی تلافی بھی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اب بڑے اور چھوٹے سب کو عدالت کے سامنے لایا جائے ،اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ملک ہی میں نہیں پوری عالمی برادری میں آصف زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ محض سیاسی شعبدہ بازی سے اب اس مسئلے کو قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ ۱۷؍دسمبر کے اخبارات نے جو کچھ لکھا، وہ ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے میں موجودہ برسرِاقتدار قیادت اپنا اصل چہرہ اور پاکستان کو درپیش اصل چیلنج کے صحیح خدوخال دیکھ سکتی ہے۔ ریکارڈ کی خاطر چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

لندن کے اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

پاکستان کے سیاسی لیڈروں میں بدعنوانی بہت پھیلی ہوئی ہے لیکن زرداری کی سرگرمیاں مبینہ طور پر جس بڑے پیمانے پر جاری ہیں اس نے تجربہ کار مبصرین کو بھی صدمے سے دوچار کر دیا۔ صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے غیرقانونی ذرائع سے دنیا بھر میں ۵ئ۱ارب ڈالر جمع کیے ہیں۔ نیب نے عدالت کو جو رپورٹ دی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ زرداری کی دولت ذرائع آمدن سے بہت زیادہ ہے۔ بیورو کے عہدے دار نے بتایا کہ کمیشن اور رشوت سے جمع رقم میں سے ۶۰ ملین ڈالر سوئس بنک میں زرداری اور بے نظیر بھٹو کے اکائونٹ میں ہیں۔ ایک سوئس عدالت نے زرداری اور بے نظیربھٹو کو مجرم قرار دیا اور چھے ماہ کی سزاے قید دی جسے اپیل پر معطل کردیا گیا۔ جناب زرداری عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوئے۔

نیویارک ٹائمز اس طرح اس مسئلے کو بیان کرتا ہے:

کسی دہشت گرد کے حملے کا نشانے بننے سے خوف زدہ مسٹر زرداری ایوانِ صدر سے شاذ ہی باہر آتے ہیں۔ گذشتہ ۱۰ دنوں میں جب سپریم کورٹ ان کے اختیارات پر بحث کر رہی تھی وہ بیش تر وقت ایوانِ صدر میں رہے۔ گذشتہ ہفتے جب این آر او پر سماعت شروع ہوئی توپاکستان کے ایک معروف اخبار نے ایک دفعہ پھر انھیں ایسے آدمی کی حیثیت سے پیش کیا جسے عام طور پر بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔

خلیج ٹائمز بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے: ’’بدھ کو آنے والے فیصلہ مایوس کن حد تک غیرمقبول زرداری پر ایک بڑا حملہ تھا جو اس کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔

حقائق کا سامنا کرنے کی ضرورت

بات صرف پاکستانی دانش وروں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں ہی کی نہیں، پوری دنیا زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ’ٹیسٹ کیس‘  سمجھتی ہے، اور اب اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں بچی۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ: ’’الزامات عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے اور ہم نے اتنی قید کاٹ لی ہے، اس لیے اب ہم قانون کی گرفت سے آزاد ہیں یا یہ کہ سب کچھ سیاسی انتقام کا شاخسانہ تھا‘‘۔

ہر کوئی جانتا ہے اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور مشہور قانون دان ایس ایم ظفر صاحب نے، کہ جو حقائق سے واقف ہیں، صاف لفظوں میں کہا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلے    نہ ہونے میں بڑا دخل اس حکمت عملی کا تھا کہ ملزموں نے عدالتی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے، باربار اور مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے۔ اس کا ثبوت وہ حلفیہ بیانات بھی ہیں جو ملزموں کے یا ان کے وکیلوں نے عدالت کے سامنے پیش کیے اور پیشی پر پیشی لیتے چلے گئے۔ سوئٹزرلینڈ کی عدالت کے سامنے زرداری صاحب کے وکیلوں نے ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ تک دیے کہ وہ ایسی بیماری (Dementia) میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے حافظہ متاثر ہوتا ہے اور مریض بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کھلی عدالت میںشفاف طریقے سے جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہو، وہ الزام ہی رہتا ہے۔ لیکن عدالتی عمل کی طوالت کا بہانہ بناکر جرم سے فرار کا کوئی جواز نہیں ہے۔ زرداری صاحب کے معاملے میں تو بین الاقوامی اداروں اور آزاد اخبارات کی اپنی تحقیق، کئی مغربی ممالک بشمول سوئٹزرلینڈ، اسپین، فرانس اور انگلستان میں عدالتوں کی تحقیق اور کارروائیاں بھی موجود ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۹جنوری ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں اپنے نمایندے جان ایف بورس (John F. Burus) کی مفصل رپورٹ جو House of Graft: Tracing the Bhutto Millions ___ A Special Reportکے عنوان سے شائع کی ہے، جس میں اخبار نے اپنے ذرائع سے تحقیق کا بھی حوالہ دیا ہے، جوقابلِ توجہ ہے:

بھٹو خاندان کے بارے میں پاکستانی تفتیش کاروں کی جانب سے دستاویزات سامنے آنے کے بعد مسٹر بھٹو اور مسٹر زرداری کے بارے میں کچھ تفصیل گذشتہ برس یورپی اور امریکی اخباروں میں آنا شروع ہوئی۔ لیکن زیادہ واضح تصویر اس وقت اُبھر کر سامنے آئی جب اکتوبر میں نیویارک ٹائمز کو دستاویزات کی کئی جلدیں فراہم کی گئیں۔ ٹائمز نے پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں تین ماہ تک خود تحقیقات کی اور ان مرکزی شخصیات سے انٹرویو بھی کیے جن کا ذکر پاکستانی تفیش کاروں نے کیا تھا۔ پاکستان میں تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت تک جن ۱۰۰ ملین ڈالر کا پتا چلا ہے۔ وہ بدعنوانیوں کی کل یافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ۱۹۹۶ء میں بے نظیر بھٹو کی برطرفی کے بعد جو تحقیقات شروع کی گئی تھیں ان سے معلوم ہوا تھا کہ ان کے خاندان اور ساتھیوں نے سرکاری کاموں کے تقریباً ہر دائرے میں___ چاولوں کے سودے، سرکاری زمین کی فروخت اور سرکاری ویلفیئر اسکیموں سے حصہ___ غیرقانونی منافع اور رشوت کی شکل میں ۵ئ۱ارب ڈالر تک جمع کیے۔

اس سلسلے کی سب سے ہوش ربا شہادت امریکا کے ادارے ’نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘ (NSA) کی وہ ٹیلی فون ریکارڈنگ ہے ،جو نومبر ۲۰۰۷ء میں خود محترمہ نے اپنے صاحبزادے بلاول زرداری سے دوبئی سے کی تھی، اور جس میں اپنے بنک اکائونٹس کی تفصیل اور ضروری ہدایات دی گئی تھیں۔ یہ پوری تفصیل رون سسکند (Ron Suskind) نے اپنی کتاب The Way of The World (مطبوعہ ۲۰۰۸ئ) میں دی ہے۔

یہ سب باتیں ساری دنیا میں زبان زدِخاص و عام ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ان الزامات سے گلوخلاصی ممکن نہیں۔ ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ الزامات میں بڑا وزن ہے اور واقعاتی شہادت زوردار ہے، تاہم مسئلے کا حل وہی ہے جو عدالت ِعظمیٰ نے تجویز کیا ہے، یعنی مقدمات اور الزامات کا کھلی عدالت میں مقابلہ۔ سب کو اپنے دفاع کا پورا حق اور موقع ملنا چاہیے مگر محض سیاسی انتقام کا واویلا حقائق سے فرار اور الزامات کو ختم نہیں کرتے بلکہ شبہات کو بڑھا دیتے ہیں۔

سرے محل اور سوئس بنک کے ۶۰ ملین ڈالر تو زرداری صاحب کے اپنے تحریری اعتراف کے مطابق ان کی ملکیت ہیں۔ لیکن جو دستاویزات موجود ہیں ان کے مطابق تو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس یہاں پاکستان میں ۲۲ کروڑ اور ملک سے باہر ۵ئ۱ بلین ڈالر کے اثاثہ جات ہیں۔ اگر یہ ہوائی بات ہے تو سچائی کو ثابت کرنا چاہیے اور اگر یہ رقوم اور اثاثہ جات ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کیسے حاصل کی گئیں۔ اس لیے کہ زرداری صاحب نے ۱۹۹۰ء میں پارلیمنٹ کے سامنے اپنے اثاثہ جات میں اپنی جس دولت اور آمدنی کا ذکر کیا ہے، اس سے تو آج کی دولت کے عشرعشیر کی بھی توجیہہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی محاذآرائی مسئلے کا حل نہیں۔ حقائق کا سامنا کرنے کے سواکوئی چارۂ کار نہیں ہے۔

ہم یہ سب حقائق بڑے دکھ بلکہ شرمندگی کے احساس کے ساتھ نذرِ قارئین کر رہے ہیں لیکن یہی ہے وہ داستان جس نے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پورے عالمی میڈیا میں ہماری سیاسی قیادت اور کارفرما عناصر کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے، وہ ہرپاکستانی کے لیے شرم اور خفت کا باعث ہے۔ ملک کو بدعنوانی کا جو ناسور کھائے جا رہا ہے، اس نے ملک کو اخلاقی بگاڑ، معاشی تباہی اور سیاسی خلفشار کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔

ہماری اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے کہ کھلی کھلی بدعنوانی و بددیانتی کے مرتکب افراد اپنے گھنائونے کرتوتوں پر نادم ہونے کے بجاے چوری اور سینہ زوری کی راہ پر گامزن ہیں۔ قتل اور اغوا کے ملزم سرعام کہہ رہے ہیں کہ ہم پر کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں ہے۔ گویا مال لوٹنے والوں کے مقابلے میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا، بوریوں میں لاشوں کے ’تحفے‘ بھیجنا اور زندہ انسانوں کو تعذیب اور ان کی ہڈیوں کو برموں سے چھیدنا (drilling) کوئی جرم نہیں، اجتماعی خدمت تھی۔ جو قوم اپنے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لاسکے، وہ اجتماعی بگاڑ اور تباہی سے بچ نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم نے عدالتِ عظمیٰ کے ۱۶دسمبر کے فیصلہ پر سُکھ کا سانس لیا ہے اور عدلیہ کے اس اقدام سے مظلوم انسانوں کی آنکھوں کو اُمید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے۔ لیکن جہاں اس ملک کے عوام اور تمام مظلوم طبقات نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور چین کا سانس لیا ہے، وہیں اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ مفاد پرست عناصر اور ان کے نام نہاد لبرل دانش ور میدان میں کود پڑے ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں اور اداروں کی کش مکش کا واویلا کر رہے ہیں۔

عدلیہ کے فیصلے پر اعتراضات

یہ بھی ایک عجب تماشا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کے ترجمانوں اور اس کے ہم نوا دانش وروں اور صحافیوں نے کھل کر تنقید کی ہے۔ بلاشبہہ ہر فیصلے کا قانون اور مسلّمہ اصولِ انصاف کی روشنی میں جائزہ لیا جاناچاہیے، تاہم جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم  کیا جاسکتا ہے: ایک سیاسی اعتراضات جن میں کہا گیا ہے عدالت نے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے اور فیصلے میں ایک سیاسی پیغام بھردیا ہے۔ کچھ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے کہ جج انتقام    لے رہے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ اسے ججوں اور فوجی مقتدرہ کی طرف سے ’جوابی حملہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

ہماری نگاہ میں یہ تمام اعتراضات نہ صرف یہ کہ حقائق سے کوئی نسبت نہیں رکھتے، بلکہ  بیمار ذہنوں اور مجرم ضمیروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کی ۲۷دسمبر ۲۰۰۹ء کی نوڈیرو کی تقریر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی پوزیشن کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہوئی ہے۔  ہمارا مشورہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت فرار اور تصادم کایہ راستہ اختیار نہ کرے۔ اس میں اس کا اور ملک کا خسارہ ہے۔ حقائق کا سامنا کرے اور دستور اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا دفاع کرے۔ اس کے بغیر اسے نہ سندِجواز حاصل ہوسکتی ہے اور نہ اعتبار ہی بحال ہوسکتا ہے۔

رہے دوسرے اعتراضات، تو ان کا دلیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم مختصراً ان کا جائزہ لیتے ہیں:

  • اختیارات سے تجاوز: پہلا اعتراض یہ ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی فعالیت (judicial activism) کا راستہ اختیار کر رہی ہے اور یہ اس کا اپنے دائرۂ کار سے باہر جانے اور انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے دائرۂ کار میں مداخلت کے مترادف ہے‘‘___ ہماری نگاہ میں عدالتی فعالیت اور عدالتی نظم و ضبط دونوں کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں اور دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں دونوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں۔

ہماری دیانت دارانہ راے ہے کہ مارچ ۲۰۰۹ء میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سے عدلیہ نے پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے اور دستور کے تحت دیے گئے اختیارات سے کہیں تجاوز نہیں کیا۔ دستور کی دفعہ (۳) ۱۸۴ بڑی واضح ہے کہ عدالت کو بنیادی حقوق کی حفاظت کے باب میں عوامی اہمیت کے مسائل پر ازخود کارروائی کا اختیار ہے۔ عدالت نے اس اختیار کو عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے پوری احتیاط سے استعمال کیا ہے۔ لیکن چونکہ اس کی زد حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں پر پڑتی ہے، اس لیے وہ اس پر چیں بہ جبیں ہیں۔ اس نوعیت کی عدالتی فعالت کی مثالیں امریکا، یورپی ممالک اور خود بھارت میں بے شمار موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے تو دہلی میں بسوں سے خارج ہونے والے دھوئیں تک کا نوٹس لیا اور حکومت نے عدالت کے احکام کی پاس داری کی۔

ہماری نگاہ میں اداروں کے تصادم کی جو بات کی جارہی ہے وہ حقائق کے منافی تو ہے ہی لیکن اس کے اندر ملک میں فساد، خرابی اور بگاڑ کی کیفیت پیدا کرنے کا خطرہ ہے اور یہ سب کے لیے بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ملک کی سیاسی قیادت، خصوصیت سے حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور برائی کو آغاز پر ہی مٹانے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

  • فرد یا جماعت کو ھدف بنانا: دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ: ’’اس فیصلے کے نتیجے میں خاص طور پر ایک فرد یا جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا کے کچھ عناصر اس سلسلے میں بہت منفی کردار ادا کررہے ہیں‘‘۔ ہماری نگاہ میں یہ الزام بھی کُلی طور پر بدنیتی پر مبنی ہے۔ عدالت کے مذکورہ فیصلے میں کسی فرد کا ذکر نہیں ہے۔ تمام بات اصولی اور عمومی حوالہ لیے ہوئے ہے۔ اب اگر اس کی زد چند خاص افراد یا جماعتوں پر پڑتی ہے تو یہ ان کو سمجھناچاہیے کہ اس کی وجہ ان کے اپنے رویے اور طور طریقے ہیں، جن کی اصلاح کے لیے انھیں فکر کرنی چاہیے نہ کہ آئینے میں چہرے کے داغ دیکھ کر وہ آئینے کو چکناچور کرنے کی سعی بلیغ فرمائیں۔

اس باب میں یہ بات بھی بڑی پریشان کن اور نقصان دہ ہے کہ میڈیا کی آزادی اور خصوصیت سے چند لائقِ احترام صحافیوں اور اینکرپرسنز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صدر سے لے کر وزیروں اور پارٹی لیڈروں تک نے ان پر رکیک حملے کیے ہیں۔ یہ آمرانہ ذہن اور مجرم ضمیر کی علامت ہے۔ قوم کو ایسی جارحیت کا دلیل کے ساتھ اور جم کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ ان پر اقتدار کا یہ حملہ ہرگز قابلِ برداشت نہیں۔ صحافیوں کو نشانہ بنانے کی بات تو اب اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ وزرا کے بچے تک ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر اس روش کا فوری طور پر اور سختی سے سدباب نہ کیا گیا تو یہ شاخسانہ ملک کی آزادی اور اس کے اداروں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

  • مھلت کیوں دی؟ ایک تیسرا اعتراض یہ ہے:’’اگر عدالت کو اس آرڈی ننس کو اس کے یومِ پیدایش سے  باطل قرار دینا تھا تو اس کو چار مہینے کی نئی زندگی عطا کرکے پارلیمنٹ کو کیوں بھیجا؟‘‘ بلاشبہہ ہماری نگاہ میں اس کی ضرورت نہیں تھی اور عدالت اپنے ۳۱ جولائی کے فیصلے میں بھی اسے باطل قرار دے سکتی تھی، لیکن غالباً اس نزاکت کی بنا پر ایسا نہ کیا گیا، چونکہ اس کو بظاہر سیاسی مصالحت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اس لیے یہ موقع پارلیمنٹ اور سیاسی عمل کو دیا جائے کہ وہ خود اس کی اصلاح کرلیں۔ پارلیمنٹ کا کام محض اس آرڈی ننس کی تائید اور منظوری نہیں بلکہ اس کی تبدیلی بھی ہوسکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلے تو اس کو اندھادھند طریقے سے منظور کرانے کی کوشش کی اور کمیٹی میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے اسے تقریباً منظور کرا لیا، لیکن پھر پارلیمنٹ اور عوام کا ردعمل دیکھ کر اسے واپس لیا۔ یہ ساری کارستانی حکومت کی بدنیتی کا بین ثبوت ہے۔ حالانکہ حکومت کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی پارٹیوں کو شریکِ مشورہ کرکے اس کو یکسر بدل ڈالتی اور بدعنوانی کی ’دھلائی‘ کے بجاے اسے حقیقی بدعنوانی پر گرفت کا قانون بنا دیتی۔ چونکہ پارلیمنٹ اس امتحان میں ناکام رہی اور عدالت نے بجاطور پر ایک غلط قانون کو غلط قرار  دے کر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے، اس پر اس کی تحسین ہونی چاہیے، نہ کہ نکتہ چینی!
  • دستور کی اسلامی دفعات پر اعتراض: چوتھا اعتراض سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے اوراس ملک کے نام نہاد لبرل طبقے کے ذہن کا ترجمان ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی حقوقِ انسانی کی علَم بردار خاتون بھی اس فیصلے پر تلملا اُٹھی ہیں کہ عدالت نے دستور کی دفعہ ۲ الف، ۶۲، ۶۳ اور ۲۲۷ کا حوالہ کیوں دے دیا۔ یہ اس طبقے کے اسلام سے گریزپا (الرجک) ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ ان کو یہ بھی اعتراض ہے کہ دستور میں یہ ترامیم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ پارلیمنٹ نے ان کی توثیق کی ہے، تمام جماعتوں نے ان کو قبول کیا ہے   اور میثاقِ جمہوریت میں دستور کے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کا جو عہدوپیمان کیا گیا ہے  اس میں یہ سب دفعات من و عن شامل ہیں۔ ایوب خان کے مسلط کردہ مسلم فیملی لاز پر توکبھی     یہ تشویش اس طبقے کونہیں ہوئی کہ ایک آمرمطلق نے اسے مسلط کیا تھا اور دستور میں بھی اسے تحفظ ایک آمر ہی نے دیاتھا، لیکن پاکستان کے اسلامی تشخص اور کردار کو دستور میں واضح کرنے والی جو ترمیم بھی ہوئی وہ ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔

اسی سلسلے میں یہ بے ہودہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ: ’’امانت، دیانت اور صادق و امین ہونے کا تعین کون اور کیسے کرے گا؟‘‘ حالانکہ دنیا کے تمام قانونی اور اخلاقی ضابطوں میں یہ   باتیں معروف ہیں۔ برطانوی دستور و قانون کے بہترین شارح سر آئیور جیننگز نے اپنی کتاب Cabinet Government(وزارتی حکومت) میں کھل کر یہ بحث کی ہے کہ جمہوریت میں اربابِ اختیار و اقتدار کے لیے سب سے ضروری وصف دیانت اور امانت ہے۔ اگر اہلیت کی کمی ہو تو وہ مشیروں اور اہل ترین افراد کی مشاورت سے دُور کی جاسکتی ہے، لیکن اگر دیانت نہ ہو تو پھر ایسے فرد کا حکمرانی کا حق ختم ہوجانا چاہیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے بددیانت اور بدعنوان افراد کبھی بھی عوام یا قانون کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکے۔

ان اعتراضات کے علاوہ ایک سلسلہ اس بدزبانی اور یاوہ گوئی کا ہے، جس کا سہرا   زرداری صاحب کے خاص حواریوں کے سر ہے۔ زرداری صاحب خود اداروں کے تصادم اور مخالفین کی آنکھ پھوڑنے کی باتیں کر رہے ہیں اور من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید کے مترادف جو گُل کھلا رہے ہیں ان پر ماتم تو کیا ہی جائے گا، لیکن وہ خطرے کی گھنٹی کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیر راہنما اور اسمبلی میں چیف وہپ خورشید شاہ صاحب ذرا محتاط انداز میں  ’سندھ کارڈ‘ ان الفاظ میں استعمال کرتے ہیں کہ:’’سندھ نے وفاق کے لیے دو وزراے اعظم کی قربانی دی ہے، اب مزید کوئی قربانی نہیں دیںگے‘‘، جب کہ سندھ کے صوبائی وزیر اور قومی اسمبلی کی اسپیکرصاحبہ کے شوہر نامدار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پاکستان کو توڑنے اور بموں سے جہاز اڑانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی صدر رانا آفتاب صاحب، سینیرصوبائی وزیر راجا ریاض مزاحمت کی سیاست کی وارننگ دیتے ہیں، لاشوں کو گرانے کی بات کرتے ہیں۔

یہ سارے بیانات بڑے تشویش ناک اور خطرناک رجحانات اور عزائم کی خبر دیتے ہیں۔ جمہوریت کو خطرہ عدلیہ یا صحافت سے نہیں، بدعنوانی کے مرتکب افراد اور تصادم کی سیاست کے   ان دعوے داروں سے ہے۔ اس روش کو برداشت کرنا ملک و قوم کے لیے زہر قاتل کی مانند ہے۔ تمام دینی اور سیاسی قوتوں کا فرض ہے کہ سیاست کے اس رُخ پر سختی سے احتساب کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اُترنے دیں۔

احتساب کے مؤثر نظام کی ضرورت

آخر میں ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں حکومت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے اس  اور دوسرے تمام فیصلوں پر دیانت سے ان کے الفاظ اور اس کی روح کے مطابق عمل کرے اور اس دوغلی سیاست کو ترک کردے کہ زبان سے کہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن عملاً اس فیصلے کے ہر تقاضے کو نہ صرف نظرانداز کرے بلکہ اس کے برعکس اقدام کرے۔

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر قومی احتساب کا مؤثر اور قابلِ اعتماد نظام قائم کیا جائے۔ نیب کا ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور  یہ وزارتِ قانون کی گرفت میں ہے جس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ آزادانہ قانونی کارروائی اور  ایسی قابلِ بھروسا عدالتی اتھارٹی جو سب کو شفاف انصاف دے سکے وقت کی اولین ضرورت ہے۔ میثاقِ جمہوریت میں دونوں بڑی جماعتوں نے اس کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کرپشن کے عفریت کو قابو میں کرنے کے لیے تفتیش اور تحکیم کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے کا وجود ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں جو مسودہ قانون حکومت لائی ہے، وہ غیرتسلی بخش اور ناقابلِ قبول ہے۔ وہ بدعنوانی کے تحفظ کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، اس کے خاتمے کا منبع نہیں بن سکتا۔ اس لیے اولین اہمیت احتساب اور تفتیش کے مناسب ادارے اور انتظام کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی اور بے لاگ طور پر اس ادارے کا قیام ہے ورنہ ملک بدعنوانی کی لعنت سے نجات نہیں پاسکے گا اور قومی دولت، قوم کی بہبود کے لیے استعمال ہونے کے بجاے چند مفاد پرستوں کی عیاشیوں کا سامان فراہم کرتی رہے گی۔ اس طرح ملک کو بالآخر تصادم اور انارکی کی طرف جانے سے روکنا مشکل ہوگا۔

تفتیش کا آزاد نظام، احتساب کا قابلِ اعتماد ادارہ اور آزاد میڈیا ملک کو اس دلدل سے نکالنے میں سب سے مؤثر کردار اداکرسکتے ہیں، نیز قانون کے ساتھ اخلاق کی قوت کا استعمال بھی وقت کی ضرورت ہے۔ کسی قوم کی قوت کا آخری منبع افراد اور قوم کا اخلاق ہے۔ خود قانون بھی اخلاق کے بغیر اپنا اصل کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اخلاق محض وعظ و نصیحت کا نام نہیں ہے، بلکہ ہرسطح پر کردارسازی اور قیادت کا بہتر نمونہ اس کا اصل سرمایہ ہے۔ مقصد کا شعور، خوداعتمادی، نظم و ضبط اور اتحاد اور یگانگت کے اصول ہی قوموں کو ترقی کی راہ پر لے جاتے ہیں۔ خود غرضی، ظلم اور حقوق کی پامالی، نفسانفسی اور تصادم زوال کا باعث ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے وقت ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو دستور ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا تھا، اس میں ایک بڑا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کرپشن اور بدعنوانی کے ساتھ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ لا اینڈ آرڈر کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کے بعد جس چیز کو قائداعظم نے سب سے اہم قرار دیا وہ رشوت اور کرپشن سے نجات ہے۔ قائداعظم کا ارشاد تھا:

(رشوت اور بدعنوانی) دراصل یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں گے، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ص ۳۵۸)

۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد قائداعظم کے اس ارشاد پر فوری عمل  کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیا یہ قوم اور قومی قیادت ایک بار پھر اس نادر موقع کو ضائع کر دے گی، یا وقت کی ضرورت کا احساس کرکے ہم سب اس لعنت کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون، اخلاق، راے عامہ اور اجتماعی اصلاح کا پُرامن اور معقول راستہ اختیار کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں گے؟

قائداعظم نے اپنا آخری پیغام اس قوم کو ۶؍ اگست ۱۹۴۸ء عیدالفطر کے موقع پر دیا اور آج ہم پاکستان کے تمام لوگوں کو اس پیغام کی یاد دیانی کراتے ہیں:

میں آپ سے یہ اپیل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں، آپ اسے الفاظ اور زبان کا کوئی سا جامہ پہنا دیں، میرے مشورے کا لُبِ لباب یہی نکلے گا کہ ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ (ایضاً، ص ۵۰۲-۵۰۳)

مولانا مودودیؒ ایک مدت تک لاہور میں مسجدمبارک میں باقاعدگی سے درسِ قرآن دیتے رہے۔ ان دروس میں تفہیم القرآن کے علاوہ بھی فہم قرآن کے نکات سموئے ہوئے ہیں۔ یہ درس کیسٹ میں محفوظ کر لیے گئے تھے لیکن کتابی صورت میں شائع نہ ہوپائے۔ سورئہ صف، رکوع اول کا درس     پیش ہے۔ جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن۔(ادارہ)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (الصف ۶۱:۱) اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے۔

یہ سورئہ صف کی ابتدائی آیت ہے اور یہی اس سورت کی مختصر تمہید ہے۔ فرمایا گیا: اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، یعنی زمین، آسمان کی تمام چیزیں اور دراصل پوری کائنات اس بات کا اظہار اور اعلان کرر ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص، عیوب اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ کوئی عیب اور کمزوری اس کے اندر نہیں ہے، وہ منزہ ہے تمام نقائص سے___  اور وہ زبردست ہے اور حکیم ہے۔

وہ عزیز ہے___ مراد یہ ہے کہ وہ ایسا زبردست ہے کہ کوئی چیز اس کے احکام کے نافذ ہونے میں مانع نہیں ہے۔ جو حکم وہ دے وہ نافذ ہوکر رہتا ہے، کوئی طاقت اس کے کسی حکم کی راہ میں مزاحم نہیں ہے___ اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، یعنی وہ جو کچھ فیصلہ کرتا ہے اور جو حکم بھی وہ دیتا ہے وہ حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کی فرماں روائی میں نادانی نہیں ہے بلکہ ہر وہ کام جو وہ کرتا ہے سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اللہ کی صفت عزیز کے ساتھ حکیم یا علیم کی صفت آتی ہے۔ یہ اس بات کو ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ کسی شخص کا ایسا زبردست اور طاقت ور ہونا کہ اس کے احکام نافذ ہو کر رہیں، اگر نادانی یا بے علمی کے ساتھ ہو، تو اس سے زیادہ خطرناک کوئی چیز دنیا میں نہیں ہوسکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے کہ اگرچہ اس کا ہر حکم نافذ ہوکر رہتا ہے اور کسی مخلوق کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اس کے حکم کے آگے سر جھکا دے لیکن اس غیرمعمولی اختیار اور قدرت کے ساتھ ساتھ وہ حکیم بھی ہے۔ اپنی طاقت کو وہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے، نادانی کے ساتھ نہیں___  اور وہ علیم ہے، یعنی جو کچھ کرتا ہے علم کی بنا پر کرتا ہے، جہالت کی بنا پر نہیں کرتا۔

اس پوری سورت میں جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو نفاق سے پاک ہونا چاہیے اور جس چیز پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے معاملے میں ان کا اخلاص غیرمشتبہ ہونا چاہیے۔ انسان کے لیے اس سے بدتر اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی چیز کو ماننے کا دعویٰ کرے اور پھر اس کے معاملے میں مخلص نہ ہو۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی اس چیز کو ماننے سے انکار کر دے لیکن ماننا اور پھر خلوص کے ساتھ نہ ماننا، یہ بدترین صفت ہے اور یہی نفاق ہے۔

قول و فعل میں تضاد

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o (۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ (قابلِ غضب) حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ہو۔

ایک آدمی کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا معبود نہیں مانتا، لیکن اس کے بعد اس کا اپنے نفس کو خدا بنانا، اپنی سوسائٹی اور برادری کو خدا بنانا، اپنی قوم کو خدا بنانا، حکومت کے بڑوں کو، مال داروں کو، اپنے پیرووں، پیشوائوں اور لیڈروں کو خدا بنانا___  یہ سب سراسر کفر کے مترادف ہے۔ جب ایک آدمی کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ اللہ ہی کو اپنا خدا اور معبود مانتا ہے تو اس کے بعد اسے دنیا میں کسی کی پیروی نہیں کرنی چاہیے، چاہے اس کی اپنی ذات کی ہو، یا خاندان، یا برادری یا وطن کی۔ کوئی فرد یا گروہ یا قوت اس کی اطاعت کی مرکز نہیں بننی چاہیے۔

اس طرح کسی آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ میں آپؐ  کو خدا کا رسولؐ مانتا ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو ہدایت آپؐ اس کو دے رہے ہیں، اس کے بارے میں وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔حضوؐر جس چیز سے منع کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع کر رہے ہیں۔ جس چیز کا حکم آپؐ  دے رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے دے رہے ہیں۔ اس طرح حضوؐر کو اللہ کا رسول ماننے کے بعد پھر آپؐ  کے احکام کی خلاف ورزی بھی کرنا اور آپؐ  کی ہدایات سے انحراف بھی کرنا اور جس چیز کو آپؐ  کہیں کہ یہ سخت ناپسندیدہ فعل ہے، اس کو بڑے اصرار کے ساتھ کرنا، اور جس چیز کا آپؐ  حکم دے رہے ہیں، اس سے فرار اختیار کرنا اور کہنا کہ یہ رجعت پسندی ہے، آج کل کی ثقافت کے خلاف ہے___  دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ آدمی سخت منافق اور جھوٹا اور بے ایمان ہے۔

کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں اللہ کے رسولؐ کو عزیز رکھتا ہوں، لیکن پھر وہ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے مفاد کے خلاف کام کرتا ہے، کسی شخص کا اس دین کو ماننے کا دعویٰ بھی کرنا اور اللہ اور رسولؐ کے دشمنوں کے ساتھ جاکر ملنا اور ان کے منشا کے مطابق کام کرنا ___  یہ سراسر منافقت ہے۔ یہ روش اختیار کرنے سے زیادہ اللہ کے غضب کے قابل کوئی بات نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ تم جس چیز کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہو، اگر تم اس کے خلاف عمل کرتے ہو تو یہ نہایت ناپسندیدہ فعل ہے، اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔

اھلِ ایمان کی روش

اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (۶۱:۴) اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

یہ دوسری بات ہے جو یہاں مسلمانوں کے ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ کی راہ کے سوا کسی اور راہ میں لڑنا بھی تمھارا کام نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں نہ لڑنا بھی تمھارا کام نہیں ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور جب میدانِ جنگ میں دشمنوںسے سابقہ پیش آئے تو مضبوط صف باندھ کر لڑو۔ اس طرح یہاں طریق جنگ کے بارے میں بھی ہدایت کردی گئی۔

قدیم زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ قبائل ایک دوسرے پر مختلف گروہوں کی شکل میں حملہ آور ہوتے تھے اور جواب میں دوسرے لوگ بھی منتشر گروہ کی شکل میں دشمن کا مقابلہ کرتے تھے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ جاہلیت کے دور کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کو اپنی جنگ میں صف باندھ کر لڑنا چاہیے۔ اس طرح اس زمانے میں مسلمانوں کو جو طریق جنگ سکھایا گیا، بعد میں پھر ساری دنیا نے اس کی پیروی کی۔ عرب میں اور بیرونِ عرب لڑائیوں میں مسلمانوں کو جو کامیابی ہوئی ہے اس کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ عرب کے لوگ چونکہ صف بستہ ہوکر لڑنا نہیں جانتے تھے اور منتشر گروہوں کی شکل میں لڑتے تھے، اس وجہ سے جو گروہ صف بستہ ہوکر لڑتا تھا، وہ آسانی سے مخالف گروہ کو دبا لیتا تھا۔

یہ دراصل ایک ضمنی ہدایت ہے جو اس آیت کے اندر دی گئی ہے۔ لیکن اصل بات جو ذہن نشین کرانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ گروہ ہے جو اس کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو۔ اس کی راہ میں سردھڑ کی بازی لگائے اور جب دشمن سے مقابلہ ہو تو پیٹھ نہ دکھائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی راہ میں لڑتا ہے تو وہ ایک حرام فعل کرتا ہے، اور اگر اللہ کی راہ میں لڑائی کا مرحلہ پیش آجائے لیکن وہ میدان میں نہیں آتا، تب بھی وہ گناہِ عظیم کا ارتکاب کرتا ہے۔

شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر کبھی دارالاسلام پر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو اوّلین فرض اس بستی کے لوگوں کا ہے کہ وہ اس کی مدافعت کریں۔ اس کے بعد یہ فرض آس پاس کی بستیوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اگر وہ بھی اس کی مدافعت کے قابل نہ رہیں، تو پورے ملک کے لوگوں پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ پوری دنیاے اسلام پر، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، سب کے اُوپر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے۔ جب اس طرح کا کوئی مرحلہ درپیش ہو اور لوگوں کو لڑائی کے لیے پکارا جائے اور وہ نہ آئیں تو وہ ایسے ہی گناہ گار ہیں جیسے کہ نماز کی پکار بلند ہونے کے باوجود اس کے لیے نہ آنا، اور جیسے روزے کا حکم ماننے سے انکار کرنا۔ گویا فرضیت کے اعتبار سے ایسے مواقع پر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ، نماز اور روزے کی طرح فرض ہے۔ اس فرض سے منہ موڑنے والے سے بڑھ کر مبغوض اللہ کے نزدیک کوئی نہیں اور اس فرض کو ادا کرنے والوں سے بڑھ کر اللہ کو محبوب کوئی نہیں۔

یھود کا طرزِعمل

اب اس کے بعد تیسری بات ارشاد فرمائی گئی، یعنی ایک ہی سلسلے میں ایک ہی موضوع پر الگ الگ ہدایات مسلمانوں کو دی گئی ہیں۔ یہ تیسری ہدایت ایک خاص تاریخی حوالے سے ہے:

وَاِِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِی وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ ط فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶۱:۵) اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) کی وہ بات جو انھوں نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ ’’اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو، حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں؟‘‘ پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس ارشاد سے مقصود یہ ہے کہ تم اپنے رسول کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کرنا جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اپنے نبی ؑ کے ساتھ اختیار کی تھی۔ فرمایا گیاہے کہ حضرت موسٰی ؑ کی قوم اُن کو اذیت دیتی تھی۔ اس سلسلے میں بعض باتوں کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور بعض کا ذکر بائبل میں آیا ہے۔ بہرحال یہود خود اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنگ کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سلسلے میں بہت سی باتوں کی خبر دی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ان کا ذکر موجود ہے۔

قرآنِ مجید میں متعدد واقعات اس سلسلے میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً فرمایا گیا ہے کہ جس زمانے میں مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور آلِ فرعون کو خدا کی بندگی اختیار کرنے کی طرف دعوت دے رہے تھے، اس زمانے میں بنی اسرائیل کے نوجوانوں نے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا لیکن باقی پوری قوم آپ کا ساتھ دینے سے کتراتی رہی، صرف اس خوف سے کہ کہیں ہم فرعون کے غضب کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کو دیکھ کر اس امر میں  کسی شک کی کوئی گنجایش نہیں تھی کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، لیکن صرف اس وجہ سے کہ کہیں فرعون کی حکومت کا غضب اُن کے اُوپر نازل نہ ہوجائے، انھوں نے اللہ کے رسول کا ساتھ نہیں دیا۔ نوجوانوں کی ایک مختصر تعداد جن کو یہ لوگ سرپھرے کہا کرتے تھے، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی۔ پھرایک طویل کش مکش اور ابتلا کے بعد جب وہ مصر سے نکلے تو مصر سے نکلنے کے بعد جس پہلی منزل پر جاکر رُکے وہاں انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کر دیا کہ گردوپیش    کی بت پرست قوموں کے جس طرح کے معبود ہیں، ایسا ہی ایک معبود ہمارے لیے بھی بنا دیں۔ اس سے آپ اندازہ کیجیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو انھوں نے کیسی اذیت پہنچائی ہوگی کہ جس قوم کو سالہا سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد مصر سے ظالموں کے چنگل سے بچاکر وہ لائے تھے، اور جس قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح فرعون کو اور اس کے لشکروں کو غرق کیا اور ان سے ان کو نجات بخشی، اس کے بعد شاید ۲۴ گھنٹے سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے بت پرستوں کی طرح کا ایک مصنوعی خدا مانگ لیا اور کہا:

اجْعَلْ لَّنَـآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ(اعراف ۷:۱۳۸) ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں۔

اس کے بعد قرآن مجید میں کچھ اور نظیریں بیان کی گئی ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کا حکم دیا کہ تم حضرت ہارون علیہ السلام کی قیادت میں یہاں ٹھیرو اور میں جاکر   کوہِ طور سے تمھارے لیے اللہ کی ہدایات لے کر آتا ہوں تو یہ لوگ آپ ؑ کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنابیٹھے۔ اسی طرح آگے چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اب چلو تاکہ فلسطین کا علاقہ فتح کیا جائے تو انھوں نے کہا کہ وہاں تو بڑے بڑے جبار ہیں۔ ہمارے اندر ان کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ تم اور تمھارا خدا جا کر لڑو، ہم یہاں بیٹھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جب تم اس ملک کو فتح کرلو گے تو پھر ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔

ان سارے واقعات کی طرف یہاں صرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بات کو یاد کرو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ کہا تھا کہ تم مجھے اس طرح کے افعال سے کیوں اذیت پہنچاتے ہو، جب کہ تم کو معلوم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس طرح اس واقعے کا ذکر کرکے دراصل مسلمانوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ تم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کرنا جو یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اختیار کی تھی۔

دلوں میں ٹیڑھ

فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(الصف ۶۱:۵) جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

دوسرے الفاظ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ تم اگر اپنے رسولؐ کی تکریم سے انکار کرو گے، اس کی اطاعت سے منہ موڑو گے اور غلط راستوں پر جانے کی کوشش کرو گے، تو اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا کردے گا۔

دلوں میں ٹیڑھ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم پھر سیدھی بات سوچنے کے قابل نہیں  رہو گے۔ جب سوچو گے، ٹیڑھی بات سوچو گے۔ جب تم نے اللہ کے رسول سے منہ موڑ لیا تو پھر تمھیں کبھی صحت فکرونظر نصیب نہیں ہوگی۔ ہر معاملے کو اُلٹی نگاہ سے دیکھو گے۔ جب کرو گے  اُلٹے فیصلے کرو گے۔ کسی قوم کے اُوپر اس سے بڑا اللہ تعالیٰ کا کوئی غضب نہیں ہوسکتا کہ اللہ اس کو سیدھی طرح سوچنے کی توفیق سے محروم کردے۔ ایسی قوم دشمنوں سے شکست کھاجانے کے بعد بھی اپنی ٹیڑھ پر قائم رہتی ہے۔ شکست کھا جائے، پٹ جائے، جوتے کھا لے لیکن اس کے بعد بھی وہ اُلٹی بات ہی سوچے گی، کبھی سیدھی بات سوچنا اس کو نصیب نہیں ہوگا۔ یہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہونے کی علامت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جاننے کے بعد کہ یہ اللہ کا رسول ہمارے درمیان موجود ہے کوئی قوم اس کی اطاعت سے انحراف کرتی ہے تو پھر اللہ اس کو کبھی توفیق نہیں دیتا کہ وہ سیدھے طریقے سے سوچے، صحیح نگاہ سے کسی معاملے کو دیکھے اور سیدھے راستے پر قائم رہے۔

وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶۱:۵) اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ وہ فاسق لوگوں کو ہدایت دے۔

فاسق کہتے ہیں اطاعت سے نکل جانے والے کو۔ اگر کوئی شخص اطاعت کو چھوڑ کر نافرمانی کی راہ اختیار کرے تو وہ فاسق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر قبولِ حق کے تقاضے ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو میں کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔

قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ جس کو ہدایت نہ دے اس کو کہیں سے یہ ہدایت نہیں مل سکتی، اس کی تفسیر یہ آیت کرتی ہے۔ اللہ کا کسی کو ہدایت نہ دینا، کسی کو گمراہی میں ڈال دینا، یہ اس کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہے کہ وہ تو ہدایت اختیار کرنا چاہتا تھا لیکن   اللہ تعالیٰ نے اس کو زبردستی گمراہی میں مبتلا کردیا۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے، دینِ حق سے انحراف کرتا ہے، ہدایت کے دائرے سے نکل جاتا ہے تو اس کے بعد پھر اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ ہدایت لیے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے پھرے اور کہے کہ لے لے یہ ہدایت۔ نہیں، بلکہ اصل صورت یہ ہے کہ اگر تمھیں ہدایت کی ضرورت نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمھاری خوشامد کر کے تمھیں ہدایت دے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص فسق اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا۔ پھر اس کی رہنمائی کرنا شیطان کا، اس کے اپنے نفس کا کام ہے، یا دنیا کے دوسرے گمراہوں کا کام ہے۔ اس کی رہنمائی کرنا اللہ کا کام نہیں۔ اللہ کبھی ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

نصاریٰ کا رویـہ

وَاِِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِِسْرَآئِیْلَ اِِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ط فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ o (۶۱:۶) اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم ؑکی وہ بات جو اُس نے کہی تھی کہ ’’اے بنی اسرائیل ، میں تمھاری طرف بھیجا ہوا اللہ کا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اُس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا‘‘۔ مگر جب وہ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا: یہ تو صریح دھوکا ہے۔

اُوپر یہ فرمایا گیا تھا کہ اہلِ کتاب کی سی روش اختیار نہ کرو، اب اس کی مزید توضیح میں یہ بات فرمائی گئی کہ جس طرح بنی اسرائیل کا رویہ اپنے رسول (حضرت موسٰی ؑ) کے ساتھ درست نہیں تھا اور انھوں نے صحیح رویہ چھوڑ کر اپنے رسول کو طرح طرح اذیتیں دیں، اس کے بعد ان کا یہی رویہ حضرت عیسٰی ؑ کے ساتھ رہا۔

وہ رویہ یہ تھا کہ جب حضرت عیسٰی ؑاُن کے پاس آئے اور انھوں نے اپنے آپ کو اللہ کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا اور راہِ ہدایت اختیار کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ آپ کے کھلے دشمن بن گئے۔

پہلی چیز میں صرف بنی اسرائیل مجرم ہیں اور دوسری چیز میں یہود و نصاریٰ دونوں مجرم ہیں۔ گویا اہلِ کتاب کی اس ساری روش کو اس ایک آیت میں بیان کر دیا گیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوکر آئے اور انھوں نے    بنی اسرائیل کو یہ دعوت دی کہ گمراہی کو چھوڑ کر راہِ راست اختیار کرو، اللہ تعالیٰ کی بندگی کو اپنا شعار بنائو، اور جن اخلاقی برائیوں میں تم مبتلا ہو، ان کو چھوڑ دو، تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ حضرت عیسٰی ؑکو رسول ماننے سے انکار کر دیا بلکہ ان کی دشمنی پر اُتر آئے اور رومی حکومت سے کہہ کر ان کے اُوپر مقدمہ چلوایا اور رومی عدالت سے آپ کو سزا دلوائی۔ پھر سزاے موت دلوانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ جس روز حضرت عیسٰی ؑکو سزا دی جانے والی تھی اس روز رومی عدالت کی طرف سے ایک ڈاکو  کے لیے بھی موت کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ رومی حکومت کا قاعدہ یہ تھا کہ اگر سزا کا دن بنی اسرائیل کی عید کا دن ہوتا تو ان کو یہ پیش کش کی جاتی تھی کہ تم سزاے موت کے ملزموں میںسے جس کو چاہو چھڑوا لو۔ چنانچہ دستور کے مطابق رومی گورنر نے انھیں پیش کش کی کہ آج دو آدمیوں کی پھانسی کا دن ہے، جن میں ایک حضرت عیسٰی ؑ ہیں اور دوسرا بَرّ ابا ڈاکو، تم بتائو کہ تم کس کو چھڑوانا چاہتے ہو؟  اس پر انھوں نے کہا کہ ہم اس ڈاکو کو چھڑوائیں گے۔ اس طرح انھوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام جیسی شخصیت پر ایک ڈاکو کو ترجیح دی اور یہ چاہا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام تو صلیب پر چڑھا دیے جائیں، لیکن بَرّابا ڈاکو کو چھوڑ دیا جائے۔

یہود کا یہ سارا غصہ کس بنا پر تھا؟ ان کا یہ سارا غصہ اس بنا پر تھا کہ بنی اسرائیل کے علما جن مکاریوں اور فریب کاریوں میں مبتلا تھے،اور جس طرح خدا کی شریعت کو تھوڑی قیمت پر بیچ رہے تھے اور اپنے مادی مفاد اور نفسانی خواہشات کی بنا پر بڑے لوگوں کے ہاتھ فتویٰ بیچتے تھے، ان کی اغراض کے مطابق خدا کی شریعت میں تحریف کرتے تھے، ان کی ان سب حرکات پر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو ٹوکا اور ان سے باز آنے کے لیے کہا تو ان کو خدا کا رسول ہی ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ ان کے جانی دشمن بن گئے۔ چونکہ تورات ان کے قبضے میں تھی اور وہ عام آدمی کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے تھے، اس لیے اس کی من مانی تاویلات کرتے تھے۔ حد یہ تھی کہ بنی اسرائیل تورات کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی جو خاص علما کی جماعت (priest class) تھی، تورات صرف اس تک محدود تھی، اور وہ بھی غلافوں کے اندر لپٹی رہتی تھی۔ اس بنا پر بنی اسرائیل کے عام لوگوں کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ تورات کے احکام کیا ہیں۔ جو کچھ ان کے مذہبی پیشوا ان کو بتاتے تھے کہ تورات کے احکام یہ ہیں وہ ان کو اسی طرح مان لیتے تھے۔ پھر وہ خاص یہودی علما تورات کے احکام کے اندر اپنی اغراض کے مطابق تغیر و تحریف کرتے رہتے تھے۔ جو حکم وہ چاہتے تھے اس کو بیان کرتے تھے اور بنی اسرائیل اس کو تسلیم کرتے تھے۔ حضرت عیسٰی ؑ نے آکر ان لوگوں کو ان چیزوں پر ٹوکا اور ان سے یہ کہا کہ تم جس اخلاقی مرض میں مبتلا ہو، یہی تمھارے نفاق کا سبب ہے۔ اس کو چھوڑ دو، اس پر وہ سب آپ کے دشمن ہوگئے۔

بنی اسرائیل کے اندر، جو حضرت عیسٰیؑ کی آمد سے پہلے پانچ چھے سو برس سے مارے کھدیڑے جا رہے تھے، عجیب توہمات رائج تھے۔ اسی زمانے سے ان کے ہاں پیشین گوئیاں چلی آرہی تھیں کہ ایک مسیح آئے گا جو تم کو اس عذاب سے نجات دلائے گا جس میں تم دنیا میں مبتلا ہو۔ بنی اسرائیل نے ان پیشین گوئیوں سے یہ سمجھا کہ وہ مسیح تلوار لے کر آئے گا اور جو قومیں ہم پر غالب اور حکمران ہیں ان کو مار کر ہمارا ملک ہمیں واپس دلائے گا اور ہم کو پھر حکمرانی کے تخت پر بٹھا دے گا۔ اس لیے جب انھوں نے حضرت عیسٰی ؑکو دیکھا کہ بجاے اس کے کہ یہ تلوار سے ہمیں ہمارے دشمنوں سے نجات دلائیں اور ہمیں پھر فلسطین کے اُوپر قابض ہونے کا موقع دیں، یہ تو اُلٹا ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم اپنے اخلاق درست کرو، حرام کو چھوڑو اور حلال کو اختیار کرو، یہ انھوں نے ہمیں کس چکر میں ڈال دیا۔ اس وجہ سے وہ حضرت عیسٰی ؑکے دشمن ہوگئے اور ان کو ماننے سے انکار کر دیا۔

یہ ان کا پہلا جرم تھا جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کا دوسرا جرم یہ تھا کہ حضرت عیسٰی ؑنے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی جو بشارت دی تھی اس کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عیسٰی ؑ کی یہ بشارت عیسائیوں کی تمام تحریفات کے باوجود اب بھی انجیل کے اندر موجود ہے۔ اگرچہ سب انجیلوں میں اب یہ بشارت موجود نہیں ہے، لیکن بعض انجیلوں کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ صراحت موجود رہی ہے۔ اب ان کو عیسائیوں نے مستند انجیلوں سے خارج کر دیا ہے، تاہم اب بھی ان کے نزدیک جو مستند انجیلیں موجود ہیں، ان کے اندر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معنوی بشارت موجود ہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ بشارت کے صریح الفاظ میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ بہرکیف اس بشارت کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہود و نصاریٰ نے آپؐ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس تکذیب کا الزام    بنی اسرائیل پر کم آتا ہے اور عیسائیوں پر زیادہ آتا ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل نے تو حضرت عیسٰی ؑ کو سرے سے رسول ہی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے انھوں نے ان کی دی ہوئی بشارت اور  پیش گوئی کو بھی ماننے سے انکار کر دیا لیکن عیسائی جو حضرت عیسٰی ؑ کو مانتے تھے، انھوں نے بھی ان کی بتائی ہوئی پیشین گوئی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

اس پیشین گوئی کے بارے میں موجود زمانے میں ہمارے اپنے ملک (متحدہ ہندستان و پاکستان) کے اندر ایک گروہ نے صریح تحریف کی ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکی پیش گوئی کے مصداق حضوؐر نہیں تھے بلکہ نعوذ باللہ ایک اور شخصیت ہے کیونکہ رسولؐ اللہ کا تو نام ہی احمدؐ نہیں تھا۔ ان کا نام تو محمدؐ تھا۔ اس لیے جس نبی کی آمد کی خوش خبری دی گئی تھی اس کا نام اب غلام احمد ہے۔ ان لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ ان کے باپ نے جب ان صاحب کا نام غلام احمد رکھا تھا تو کس احمد کے غلام کی حیثیت سے رکھا تھا؟ اگر رسولؐ اللہ کا اسم گرامی احمد نہیں تھا تو اس جعلی نبی کے والد نے ان کا نام کس احمد کے غلام کے طور پر رکھا تھا؟ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر بددیانت ہیں کہ ان کے اپنے تجویز کردہ نبی کا نام ہی جب غلام احمد ہے، احمد نہیں، تو اس کے باوجود وہ پھر انکار کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد نہیں تھا، اور یہ پیشین گوئی حضوؐر کے بارے میں نہیں تھی۔

صریح بھتان

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِِلَی الْاِِسْلاَمِط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۶۱:۷) اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے، حالانکہ اُسے اسلام (اللہ کے آگے سرِاطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جارہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

یہ بات جو فرمائی گئی کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے، اُس پر جھوٹ گھڑے درآنحالیکہ اس کو اسلام کی طرف دعوت دی جارہی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہو جو یہ جان لینے کے بعد کہ فلاں صاحب اللہ کے نبی ہیں، خواہ پچھلے انبیا کی پیشین گوئی کے مطابق، خواہ اپنی تعلیم کے مطابق، وہ ان کی نبوت کا انکار کرے، ان پر الزام رکھے کہ وہ جادوگر ہیں اور خود ایک کتاب تصنیف کر کے اس کو خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں، اس سے بڑا افترا کوئی نہیں اور اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ اس کے برعکس اگر دعوت دینے والا لوگوں سے یہ کہتا ہے کہ تم میری بندگی کرو تو آپ کو حق پہنچتا ہے کہ آپ اس کے خلاف لڑیں لیکن اگر دعوت دینے والا یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اور آپ اس سے لڑنے جارہے ہیں تو اس کے کیا معنی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی بندگی کی دعوت دینے والے کے خلاف لڑنا اللہ کی بندگی سے لڑنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ خدا کے رسول سے تمھاری دشمنی اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے کھڑا ہوا ہے، اس لیے تم اس کے مخالف ہو۔ نہیں، بلکہ تمھاری دشمنی اس بنا پر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے اور تم اللہ کی بندگی کی طرف آنا نہیں چاہتے۔ اور پھر صرف یہی نہیں کہ  تم اسے خدا کا نبی ماننے سے انکار کررہے ہو بلکہ اس کے اُوپر جھوٹے الزام لگا رہے ہو، بیہودہ بہتان گھڑ رہے ہو، اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۶۱:۷) ’’اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

اُوپر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا، یہاں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی فسق اور ظلم سے بچے۔ اگر کوئی شخص فسق اختیار کرتا ہے، یعنی جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اس کے پیچھے پیچھے ہدایت لے کر پھرے کہ تو اس کو قبول کرلے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ظلم پر اُتر آتا ہے___  اور ظلم کے معنی یہاں صداقت پر ظلم کرنا ہے___  ان معنوں میں کہ آدمی کے سامنے صداقت پیش کی جائے لیکن پھر وہ اس کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ انکار کا راستہ اختیار کرے بلکہ اُلٹا صداقت پیش کرنے والے کادشمن ہوجائے اور اس پر الزام اور بہتان لگانا شروع کر دے، تو یہ ظلم ہے اور جو لوگ اس طرح کا ظلم اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پھر کبھی ان کو ہدایت نہیں دیتا۔ جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے خلاف ظلم کی روش اختیار کی تو پھر اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے پیچھے ہدایت لیے لیے پھرے۔

باطل کی حقیقت

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلاکر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

یہ مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ سورئہ توبہ میں بھی آیا ہے۔ یہاں پھر اسی کو دُہرایا گیا ہے۔ گویا یہ لوگ اگر باتیں بناکر، الزامات لگاکر، بہتان گھڑ کر اور جھوٹے پروپیگنڈے کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو بجھا دیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے، اللہ کا نور بجھنے والا نہیں ہے۔ ہمیشہ دنیا میں یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر ایک آدمی خود سیدھی راہ پر چل رہا ہو، اور دوسرے لوگوں کو بھی سیدھا راستہ دکھا رہا ہو اور ایمان داری کے ساتھ اپنے طریقے کو معقول انداز سے لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہو، لیکن دوسرا شخص اس کے مقابلے میں طرح طرح کی غلط کارروائیاں کرتا ہے، اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرتا ہے، اس پر الزامات رکھتا ہے، بہتان لگاتا ہے، آخرکار وہ ناکام ہوکر رہتا ہے اور راست باز آدمی کو اللہ تعالیٰ کامیابی عطا کرتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کا جھوٹا پروپیگنڈا، اس کے الزامات، اس کے بہتانات اس آدمی کو زک پہنچا دیںگے جو سیدھے سیدھے طریقے سے اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے، لیکن یہ بات زیادہ دیر تک نہیں چلتی۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں، اور وہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں نے میدان مار لیا، میں نے ہزاروں آدمیوں میں غلط فہمیاں پھیلا دیں اور داعی الی اللہ کو بدنام کردیا، لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ جب ایک آدمی کسی پر جھوٹا الزام رکھتا ہے تو اس کا جھوٹ کبھی نہ کبھی کھل کر رہتا ہے، اور جس وقت دنیا کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا تھا اور اس نے جھوٹے الزامات لگائے اور بے بنیاد بہتان گھڑے تھے تو اس کے بعد اس شخص کی صرف اسی بات کا اعتبار نہیں جاتا بلکہ اس کی ساری باتوں کا اعتبار جاتا رہتا ہے۔ دوسری طرف جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ جس شخص کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اس سے دشمنی کی جارہی ہے لیکن وہ ان حرکتوں کے مقابلے میں شرافت کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کسی نازیبا بات کا جواب نہیں دیتا، جھوٹ کے جواب میں جھوٹ نہیں بولتا اور الزامات کے جواب میں الزام نہیں لگاتا تو لوگوں کے دلوں میں اس آدمی کی عزت خود بخود قائم ہوجاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قوانین میں سے ہے۔   اللہ تعالیٰ اس طریقے سے جھوٹ کو نیچا دکھاتا ہے اور سچائی کو سربلند کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ اپنے منہ سے جھوٹ کا جو طوفان اُٹھاتے ہیں، اُلٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اللہ کے نور کو بجھا دیںگے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، خدا کے دین کی روشنی پھیل کر رہے گی اور جھوٹے پروپیگنڈے آخرکار بالکل ناکام ہوکر رہیںگے۔ جھوٹ پر مدار رکھنے والوں کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوگی۔

وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (۶۱:۸) خواہ انکار کرنے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

دین غالب ھونے کے لیے آیا ھے!

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اس آیت میںاُوپر والے مضمون کو دوسرے الفاظ میں مزید زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دو اور مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے، ایک سورئہ فتح میں اور دوسرے سورئہ توبہ میں۔ فرمایا یہ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو دو چیزیں دے کر بھیجا ہے، ایک ہدایت اور دوسرے دینِ حق۔ درحقیقت یہ دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے، ایک ہی چیز کے  دو phase (مراحل) ہیں۔

دین حق سے مراد وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو انسانی زندگی کے لیے دیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ حلال و حرام کیا ہے، کس چیز میں انسان کی بھلائی اور کس چیز میں خرابی ہے۔ اور کیا چیزیں ہیں جوانسان کی ہلاکت اور تباہی و بربادی کی موجب ہوتی ہیں اور کیا چیزیں فلاح کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے فرائض کیا ہیں، ان کو کس طرح انجام دینا چاہیے۔ اس طرح زندگی کے مختلف دائروں میں جو قوانین اور احکام دیے گئے ہیں، خواہ وہ انسان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہوں، خواہ خاندانی اور قومی زندگی کے متعلق ہوں، وہ سب کے سب خدا کا دین ہیں۔ معاشرہ، معیشت، قانونِ جنگ، سیاست، غرض زندگی کے ہرشعبے کے متعلق جو ضابطے اور اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ سب دین ہیں۔ ایک ایسا دین جو سراسر حق کے مطابق ہے۔

دوسری چیز ہدایت ہے، یعنی ان احکام و فرامین پر عمل درآمد کے طریقوں کی طرف رہنمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ رہنمائی دے کر بھیجا کہ وہ دین حق کو غالب کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے۔ یہ بتایا کہ اس دین کو دنیا میں جاری اور نافذ کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتائیں تاکہ وہ اس کے مطابق کام کرے۔ اس طرح   اللہ تعالیٰ نے یہ دو چیزیں دے کر اپنے رسول کو بھیجا تاکہ وہ دنیا کو سیدھے راستے پر چلائے اور دینِ حق کو پورے دین پر غالب کردے۔دوسرے الفاظ میں دنیا جس طریقے پر چل رہی ہے، ان کے مجموعے کا نام دین ہے۔ پورے کے پورے دین سے مراد یہ ہے کہ جس جس شکل میں کوئی اپنی زندگی گزار رہا ہے، وہ اس کا دین ہے۔ اگر کوئی یہودیت پر چل رہا ہے تو یہودیت اس کا دین ہے۔ اگر کوئی نصرانیت پر چل رہا ہے تو نصرانیت اس کا دین ہے۔ اگر کوئی دہریت پر چل رہا ہے تو دہریت اس کا دین ہے۔ اگر کسی نے اپنے ہاں سیکولر نظام قائم کیا ہے تو وہ نظام اس کا دین ہے، اور اگر کسی نے کسی طرح کا مذہبی نظام قائم کیا ہے تو وہ مذہبی نظام اس کا دین ہے۔ یہ سارے کے سارے دین جو دنیا میں چل رہے ہیں ان سب کے لیے اَلدِّیْن کُلِّہٖ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

رسول کے آنے کا جو منشا اور جس غرض کے لیے اللہ نے رسول کو اپنا دین دے کر اور اس کے ساتھ اپنی ہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنے دین چل رہے ہیں، وہ ان سب کے اُوپر اللہ کے دین کو غالب کردے۔

یہ بات واضح رہے کہ دنیا میں کوئی بھی رسول کبھی اس لیے نہیں آیا ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں اور خدا کے رسولؐ کا لایا ہوا دین ان کے تابع بن کر رہے۔ اگر کوئی احمق    یہ سمجھتا ہے کہ رسول بھی اس کام کے لیے آتا ہے کہ دنیا میں کفر اور کفار کا غلبہ رہے اور اسلام ان کے تابع بن کر رہے اور وہ بھی وہی طریقے اختیار کرے جو دنیا کے طریقے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرے سے یہی نہیں جانتا کہ خدا کیا ہے، اس کا دین کیا ہے، اور اس کا رسول کیا ہے۔ خدا اس ساری کائنات کا مالک ہے تو اُسی کے دین کو یہاں غالب ہوکر رہنا چاہیے۔ دنیا کے کسی اور دین کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ رب کائنات کی اس سلطنت کے اندر جاری اور قائم رہے۔

اللہ جب اپنے رسول کو بھیجتا ہے تووہ اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے دین کو غالب کرے گا، نہ اس لیے کہ دوسرے دین غالب ہوں اور اللہ کا دین مغلوب بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات اور سلطنت کے اس حصے کا، جس کا نام زمین ہے، تنہا مالک ہے، اور مالک اپنے رسول کو اس لیے نہیں بھیجے گا کہ وہ دوسروں کی مرضی کے مطابق چلے اور جو لوگ خدا کی زمین پر مالک بن بیٹھے ہیں، وہ جاکر ان کا ماتحت بن جائے۔ نہیں، بلکہ وہ اللہ کا نمایندہ بن کر آئے گا اور ان کو اس بات کی دعوت دے گا کہ وہ اللہ کے مطیع بن کر رہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مطابق دنیا میں کام کریں۔ اس کو ہدایت ہی اس غرض کے لیے دی گئی ہے کہ وہ دنیا سے یہ کہے کہ جن طریقوں پر تم چل رہے ہو، وہ غلط ہیں اور جو ہدایات میں اپنے رب کی طرف سے تمھیں دے رہا ہوں، وہ صحیح ہیں اور انھی کی پابندی کرنا تمھارا فرض ہے۔

قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی نبی کسی قوم میں مبعوث ہوکر آیا تو اس نے لوگوں سے خطاب کرکے کہا: فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ(الشعرا ۲۶:۱۵۰) ’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ کوئی نبی کبھی یہ بات لے کر نہیں آیا کہ تم حکومت کرو اور میں تمھاری اطاعت کروں گا۔ نہیں، بلکہ اس نے یہی کہا کہ میں خدا کی طرف سے اس کا نمایندہ بن کر آیا ہوں،    اس لیے تم میری اطاعت کرو۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ ہم نے رسولؐ کو اس غرض سے بھیجا کہ  وہ اس دین کو پورے کے پورے دین پر غالب کر دے۔

وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۶۱:۹) خواہ یہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

ظاہر بات ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کے ساتھ کسی دوسرے دین کو ملائے بیٹھے ہوں گے اور خدا کے احکام چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی اطاعت کر رہے ہوں گے، ان کو یہ بات سخت ناگوار ہوگی کہ باقی سب کی اطاعت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی اطاعت کی جائے۔ لیکن قرآن واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ یہ بات ان کو ناگوار ہو تو ہوا کرے،اللہ کے رسولؐ کا کام یہ ہے کہ ان کی تمام ناگواری کے باوجود اور ان کی ساری مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کردے۔

ترجمہ: عبدالغفارعزیز

میں نے نئے سال کی دہلیز پر کھڑے شخص سے کہا :مجھے روشنی درکار ہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منور کرسکوں ۔

اس نے کہا :اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دو، وہ تمھیں منزلِ مقصود تک پہنچادے گا ۔

وقت کے قافلے کے ساتھ چلتا مردِ ناداں، زندگی کے ایک دوراہے پر کھڑا کبھی پیچھے کی طرف نظر دوڑاتا،تاکہ اس سفر میں پیش آنے والی تکالیف اور تھکن کو ذہن میں تازہ کرسکے--- پھر ایک نظر آگے کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتا، تاکہ اندازہ لگائے کہ ابھی اور کتنے مراحل طے کرنے ہیں۔

اے صحراے زندگی میں حیران و سرگرداں بھٹکنے والے دوست !کب تک اس تاریکی و گمراہی کا شکار رہو گے، حالانکہ تمھارے اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ موجود ہے :

رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں ، سلامتی کے طریقے بتاتاہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتاہے اور راہِ راست کی طرف  ان کی رہنمائی کرتاہے۔

اے حیرانی اور تھکن سے   ُ چور لوگوکہ جن کے سامنے راستے گڈمڈ ہوچکے ہیں!اے گم کردہ راہ انسانو! سنو خداے علیم و خبیر کیا کہہ رہاہے :

(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو ، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ،   اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو ۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتاہے ۔ وہ تو   غفورو رحیم ہے ۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو اس کے۔ (الزمر ۳۹: ۵۳-۵۴)

آئو اس کی پکار پر لبیک کہو ، اور پھر اس کے بعد دلی اطمینان ،ضمیر و نفس کی راحت اور اللہ تعالیٰ سے نیک اجر کا نظارہ کرو :

اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتاہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتاہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوااور کون ہے جو معاف کرسکتاہو؟ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کردے گا اور ایسے باغوں میں انھیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک اعمال کرنے والو کے لیے ۔(اٰل عمرٰن ۳ : ۱۳۵۔۱۳۶)

اے مصیبت زدہ اور گناہوں کے بوجھ تلے دبے میرے بھائی!میں تمھی سے مخاطب ہوں کہ میرے رب کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں ۔گناہ گاروں کا روتے ہوئے اس کی طرف پلٹ آنا اسے اپنے گھر کے طواف کرنے والوں سے زیادہ محبوب ہے ۔ کوئی نالۂ نیم شبی، اس سے مناجات کی کوئی گھڑی، ندامت اور افسوس کے چند آنسو، توبہ اوراستغفار کا کوئی کلمہ -اس سے تمھارے گناہ مٹادیے جائیں گے ، تمھارے درجات بلند کردیے جائیں گے اور اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہوجائو گے۔ یاد رکھو، ہر انسان بے حد خطاکار ہے اورخطاکاروں میں سب سے بہترین وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہو ۔

اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ (البقرہ ۲:۲۲۲)

دیکھو، اللہ تمھارے کتنا قریب ہے، عجب ہے کہ تمھیں اس کے قرب کا احساس ہی نہیں۔ چشمِ ہوش سے دیکھو، اسے تم سے کتنی محبت ہے لیکن تمھیں اس کی محبت کی قدر ہی نہیں ۔ تم پر اس کی رحمتیں کتنی زیادہ ہیں اور تم ہو کہ خوابِ غفلت سے جاگتے ہی نہیں، سنو، وہ حدیث قدسی میں کیا کہتا ہے:میرا بندہ مجھ سے جو بھی گمان کرے میں اسی کے مطابق اس سے معاملہ کرتاہوں، میں اپنے بندے کے گمان و خیال کے ساتھ ہوں۔ جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ وہ اگر مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتاہوں اور اگر مجھے کسی جم غفیر میں یاد کرتاہے تو میں اس سے بہتر جمِ غفیر میں اس کاذکرکرتاہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑھتاہے تومیں اس کی طزف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ بڑھتا ہوں ۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتاہوں ۔

دیکھو کیا فرمارہاہے :’’اے ابن آدم! میری طرف چل کر آمیں تیری طرف دوڑ کر آئوں گا‘‘۔ بے شک وہ رات کو ہاتھ پھیلا تا ہے تاکہ دن کے گنہگار توبہ کرلیں اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے گنہگار توبہ کرلیں۔وہ انسان پر اس کی مہربان ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے ۔    ’’بے شک اللہ لوگوں کے اوپر مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔‘‘(الحج ۲۲:۶۵)

میرے پیارے بھائی! جس نے وقت کے حقوق پہچان لیے اس نے درحقیقت زندگی کی قیمت پہچان لی، کیونکہ وقت ہی تو زندگی ہے ۔ جب زندگی کا پہیہ ہماری زندگی کے سفر کا ایک سال طے کرلیتاہے اور ہم دوسرے سال کا استقبال کرنے میں لگ جاتے ہیں تو ہم عملاً ایک دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں ہمیں اپنے ماضی کا بھی محاسبہ کرنا ہے اور مستقبل کا بھی حساب لگانا ہوتاہے تاکہ کہیں حساب کی اصل گھڑی اچانک سرپہ نہ آ جائے ۔ وہ گھڑی جو یقیناً آکر رہنی ہے ۔ ماضی کا محاسبہ اس لیے تاکہ ہم اپنی غلطیوں پر نادم ہوں ، اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا تدارک اور اپنی کج روی کو درست کریں کیونکہ ابھی موقع بھی ہے اور فرصت بھی۔ اور ہمیں مستقبل کو بھی دیکھنا ہے، تاکہ اس کے لیے بھرپور تیار ی کریں۔

یہ تیاری کیا ہے؟ پاک ،صاف ، سچا دل ، عملِ صالح اور نیکی اور خیر کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کا عزمِ صادق۔ مومن ہمیشہ دونوں پہلوئوں سے فکر مند رہتاہے :ایک طرف تو اسے اپنے سابقہ عمل کے بارے میں دھڑکا رہتاہے کہ پتا نہیں میرا یہ عمل اللہ کے ہاں کیا مقام پائے گا ۔ دوسری طرف باقی ماندہ مہلت کے بارے میں دل لرزتا رہتاہے کہ نہ جانے اس کے بارے میں  اللہ کا فیصلہ کیا ہوگا ۔ لہٰذا، ہر بندے کو خود اپنے آپ ہی سے اپنے لیے توشہ حاصل کرنا ہے، اپنی دنیا سے اپنی آخرت تعمیر کرناہے ۔ بڑھاپے سے بھی پہلے اور موت سے بھی پہلے پہلے ۔ حبیبِ مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں:

کوئی ایسا دن طلوع نہیں ہوتا جو پکار پکار کر نہ کہہ رہا ہو کہ اے ابنِ آدم !میں لمحۂ تازہ ہوں اور میں تمھارے عمل پر گواہ ہوں، مجھ سے جو چاہو حاصل کرو میں چلا گیا تو پھر قیامت تک دوبارہ نہیں آئوں گا۔

میں نئے سال کی مناسبت سے کچھ لکھنے بیٹھا تھا، میرا خیال تھا کہ میں ہجرتِ نبوی کی یاد میں کچھ لکھوں، اس کے کچھ واقعات سے دلوں کو گرمائوں لیکن میں بالکل دوسری سمت جا نکلا ۔ میں اپنے ان بھائیوں کے ساتھ راز و نیاز کرنے لگا جنھوں نے وقت کے حقوق ضائع کردیے ،جوزندگی کے اصل راز سے غافل رہے۔ صد افسوس کہ انھوں نے اس امتحان کو فراموش کردیا جس کے لیے    ہم سب کو وجود ملا ہے ۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (ملک۶۷: ۲) تمھارا رب وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتاہے ۔

میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا لیکن میں نے اچانک خود کو اپنے محترم اور عزیز بھائیوں سے مخاطب پایا۔ دل میں امید پیدا ہوئی کہ اس طرح شیطان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے رحمن کی پناہ میں آجائیں ، ہم سب رضاے خدا وندی کے اس قافلے میں شریک ہوجائیں ، جسے اس کی طرف سے مغفرت اور رضوان عطا ہوتی ہے ۔ ہماری زندگی کے رجسٹر میں نئے محرم الحرام کا آغاز ایک نئے اور صاف و سفید صفحے سے ہو۔ اگر پچھلے صفحات گناہوں کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے تھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے توبہ واستغفار کے ذریعے نیکیوں میں تبدیل فرمادے:

وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتاہے اور برائیوں سے درگزر فرماتاہے ۔ حالانکہ تم لوگوں کے سب اعمال کا اسے علم ہے ۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتاہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتاہے ۔ (الشورٰی: ۲۵،۲۶)

آئیے دیکھیں ہم پر پروردگار کی نگرانی کس قدر عظیم ہے :

ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں ، ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں اور (ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کررہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگر ان موجود نہ ہو۔

کیا انھوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں۔ ہم سب کچھ سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔ (الزخرف۴۳: ۸۰)

آئیے دیکھیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حساب کتنا دقیق ہوگا ۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸)جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی ، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ (مجلہ الاخوان المسلمون ،   محرم الحرام ۱۳۶۸ھ ، ۲ نومبر ۱۹۴۸ئ)

’’آپ نے مجھے یاد فرمایا تھا یا رسولؐ اللہ؟‘‘ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی۔ جلیل القدر صحابی کو اسلام قبول کیے ابھی چار ہی ماہ گزرے تھے۔ ’’اپنے کپڑے اور ہتھیار لے آئیں اور مجھے دوبارہ ملیں‘‘ :جواب ملا۔ آپؓ گھر جاکر سفر    کے لیے تیار ہوئے، واپس آئے تو آپؐ وضو کررہے تھے۔ آپؐ  نے چند لمحے غور سے اپنے صحابی کا چہرہ تکا، پھر سر جھکا کر فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک لشکر کا سربراہ بناکر بھیجوں‘‘۔ ساتھ ہی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا: ’’اس معرکے میں آپ فتح یاب رہیں گے، مالِ غنیمت بھی حاصل ہوگا‘‘ ۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے فوراً سرتسلیم خم کرتے ہوئے عرض کی: ’’یا رسول اللہ! میں نے مال کے لیے تو اسلام قبول نہیں کیا، میں نے تو اسلام ہی کی خاطر اسلام قبول کیا ہے۔ میں نے تو اس لیے اسلام قبول کیا ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو‘‘ ۔آپؐ  نے فرمایا :’’مالِ صالح اگر نیک بندے کے پاس ہو تو وہی سب سے بہترین مال ہے‘‘۔

۳۰۰ جان نثار صحابہ کا لشکر تیار ہوا، حضرت عَمر.ْ و بن العاص رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں جانے والا یہ لشکر جس معرکے کو روانہ ہوا، اسے’ذاتُ السَّلاسِل‘ کہا جاتا ہے۔ اس لشکرکی روانگی  غزوۂ مُوتہ سے اسلامی افواج کی واپسی کے چند ہی روز بعد ہورہی تھی۔ غزوۂ مُوتہ میں اہل اسلام کی ۳ہزار نفوس پر مشتمل فوج نے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا تھا۔ حضرت زید بن ثابت، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر قائدین ،ایک ایک کرکے شہید ہوگئے تھے۔ پھر حضرت خالدؓ بن ولید نے قیادت سنبھالی اور جان توڑ کوشش کے بعد، باقی لشکر کو بخیر و خوبی نکال لائے تھے۔ اس لشکر کی واپسی کے چند روز بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنو قضاعہ، جنھو ں نے مُوتہ میں رومیوں کا ساتھ دیا تھا، اس صور ت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، مدینہ منورہ پر چڑھائی کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ اس خطرے کی سرکوبی کے لیے آپؐ نے حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کی قیادت میں سابق الذکر لشکر روانہ کیا۔

حضرت عَمرْو نے حضرت خالد بن الولید کے ساتھ صفر ۸ ہجری میں اسلام قبول کیا تھا اور تمام عرب میں اپنی دانائی، حاضر دماغی اور ذہانت و فطانت کے حوالے سے خصوصی مقام رکھتے تھے۔ قبول اسلام کے چار ماہ بعد، یعنی جمادی الثانی ۸ہجری میں لشکر روانہ ہوا، ابھی راستے ہی میں تھا کہ معلوم ہوا، دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ سپہ سالار نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید کمک ارسال کرنے کا پیغام بھیجا۔ آپؐ  نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی قیادت میں مزید ۲۰۰ مجاہدین کا لشکر، اعانت کے لیے روانہ فرمایا۔ اس نئی فوج میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما جیسے انتہائی جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔ کمک پہنچی تو سوال اٹھا کہ اب مسلمان فوج کا قائد کون ہوگا؟ ایک راے یہ سامنے آئی کہ دونوں لشکر اپنے اپنے امیر کی امارت ہی میں رہیں، اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کی ذمہ داری میرے سپرد کی ہے، آپ لوگ ہماری نصرت کے لیے آئے ہیں، آپ کو بھی اصل فوج میں شامل ہوجانا چاہیے۔ قریب تھا کہ پورا لشکر دو فریقوں میں تقسیم ہوجاتا، حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح (جنھیں امینِ امت کا لقب عطا ہوا) آگے بڑھے اور فرمایا جناب عَمرْو! آپ کو معلوم ہے رخصت کرتے ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری بات کیا فرمائی تھی؟ انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب تم اپنے ساتھی سے جا ملو، تو دونوں ایک دوسرے کی بات تسلیم کرنا‘‘۔ اب اگر آپ کو میری راے سے اختلاف ہے تو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کروں گا۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے قیادت حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کے سپرد کردی۔

اب ۵۰۰ سرفروشوں کا یہ لشکر دن رات کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کی کوشش تھی کہ دشمن کو ان کے آنے کی خبر کانوں کان نہ پہنچ پائے۔آپ اکثر سفر رات کے وقت کرتے اور دن کا بیش تر حصہ کسی جگہ خاموشی سے پڑاؤ ڈال دیتے۔ شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے رات کے وقت سردی میں شدید اضافہ ہوجاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے تجویز دی کہ سردی کے علاج کے لیے، آگ تاپنے کی اجازت دی جائے۔ امیر نے آگ جلانے سے منع کردیا۔ سردی مزید بڑھی تو صحابہ نے حضرت عمر بن الخطابؓ سے بات کی۔ انھوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ آپ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ سے جاکر آگ جلانے کی اجازت لے لیں۔ وہ گئے اور امیر لشکر  سے بات کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساتھی اس بارے میں شاید پہلے بھی باربار کہہ چکے ہوںگے۔ اس مرتبہ انھوں نے دوٹوک انداز سے منع کردیا اور کہا :’’ان میں سے جس نے بھی آگ روشن کی اسے اسی میں پھینک دوں گا‘‘ (لا یُوقِدُ أَحَدٌ مِنْھُمْ نَارًا اَلاَ قَذَفْتُہٗ فِیْھَا) حضرت عمرؓ بن الخطاب نے یہ جواب سنا تو ناراض ہوگئے، لیکن حضرت ابو بکر صدیقؓ نے تحمل سے فرمایا: عمر! آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات مانیں، اختلافات پیدا نہ ہونے دیں۔ عمر! ہوسکتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے انھیں ہمارا امیر بنایا ہو کہ وہ جنگ اور اس کے فنون کے زیادہ ماہر ہیں‘‘، رضی اللہ عنہم اجمعین۔

قافلہ آگے بڑھتا رہا، جہاں جاتے خبر ملتی، بنوقضاعہ کے لوگ یہاں تھے، مدینہ منورہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کی آمد کا سن کر یہاں سے بھاگ گئے۔ کافی دور جاکر بنوقضاعہ کا باقی ماندہ لشکر ملا۔ آمنا سامنا ہوا لیکن عزم صمیم، وحدتِ صف، سمع و طاعت، شوقِ شہادت اور  ریاستِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے جذبے سے سرشار مسلم فوج کے سامنے، جلد ہی پسپا ہوگیا۔ کچھ صحابہ کی راے تھی کہ دشمن کا پیچھا کیا جائے، لیکن امیر نے پھر دوٹوک انداز میں منع کردیا۔ لشکر اسلام نے چند روز وہیں قیام کیا۔ مخالفین پر ریاست مدینہ کی دھاک بیٹھ گئی۔ اطراف شام تک اسلامی ریاست کی سرحدیں محفوظ ہوگئیں اور لشکر کامیاب و کامران واپس آیا۔ مسلمانوں میں ہرجانب خوشی ا و راطمینان کی لہر دوڑ گئی۔

کسی مناسب موقع پر بعض صحابہ کرامؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے امیر حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ کا ذکر کرتے ہوئے چار نکات پیش کیے:

___ انتہائی سرد راتوں میں بھی انھوں نے ہمیں آگ جلانے کی اجازت نہیں دی۔

___ حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر جانے کے بعد بھی انھوں نے، امیر رہنے پر اصرار کیا۔

___ دشمن کی ہزیمت کے بعد،انھوں نے اس کا پیچھا کرنے کی اجازت نہیں دی۔

___ انھوںنے ایک صبح پانی ہونے کی باوجود تیمم کرکے امامت کروائی، حالانکہ انھیں غسل کی ضرورت تھی۔

آپؐ نے انھیں بلا کر چاروں سوال کیے تو انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن تعداد میں زیادہ تھا۔ہم نے دشمن کی نگاہوں اور جاسوسوں سے بچ کر سفر طے کیا۔ مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے آگ جلانے کی اجازت دے دی تو دشمن کو ہماری اصل تعداد معلوم ہوجائے گی۔ دوسرے سوال کا جواب وہی دیا جو دوران سفر دے چکے تھے کہ یارسولؐ اللہ !آپؐ نے مجھے امیر متعین کرکے بھیجا تھا، یہ ساتھی کمک کے لیے آئے تھے۔ تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ میں نے انھیں دشمن کا پیچھا کرنے سے اس لیے روکا کہ مجھے خدشہ تھا کہ دشمن کہیں گھات لگا کر نہ بیٹھا ہو اور اچانک حملہ کر کے پانسا نہ پلٹ دے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی نگاہوں سے محفوظ رہنے، مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و نظم برقرار رکھنے اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے ان اقدامات کو درست قرار دیا۔ چوتھی بات کے بارے میں آپؐ نے دریافت کیا: یاعَمْرو أَصَلَّیْتَ بِأَصْحَابِکَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟’’ عمرو کیا جنابت کی حالت میں ساتھیوں کونماز پڑھائی؟‘‘ جواب ملا :یارسول اللہ !پانی شدید ٹھنڈا تھا میں نے اللہ تعالیٰ کا فرمان دیکھا: وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا   (النسائ۴:۲۹)’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ آپؐ  ہنس دیے اور کوئی تبصرہ نہ فرمایا۔

یہ تمام واقعات احادیث و سیرت کی مختلف کتب میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ مختلف روایات کی اسناد و صحت بھی مختلف ہے۔ ان کی بنیاد پر مختلف فقہی ابحاث و مناقشت بھی چھیڑی جاسکتی ہے۔ بعض جملوں کی صحت اور سند کے بارے میں سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے کہ ہماری اصل ذمہ داری ان سے حاصل ہونے والے دروس و اسباق پر غور کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ آئیے اب اسی نیت سے کچھ پہلوؤں کا دوبارہ مطالعہ کرتے ہیں۔

۱-            ذمہ داریوں کا تعین ہمیشہ مرتبے، یا تحریک میں گزارے جانے والی مدت و اسبقیت پر نہیں ہوتا۔حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ صرف چار ماہ قبل نعمت ِاسلام سے فیض یاب ہوئے تھے۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی جنگی صلاحیت، اس علاقے سے واقفیت اور فہم و فراست کے پیش نظر ۲۰،۲۰سال سے تحریک کے سرخیل کی حیثیت سے موجود صحابہء کبار کو آپ کی قیادت میں بھیج دیا۔ حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ اور حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہما جب اسلام قبول کرنے کے لیے تشریف لارہے تھے تو آپؐ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: رَمَتْکُمْ مَکّہ بِفَلَذَاتِ کَبِدِھَا ’’مکہ نے آج اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمھاری طرف اچھال دیا ہے‘‘۔ انھی دونوں ہستیوں کی وجہ سے اسلامی تحریک کو کئی صدمے جھیلنا پڑے تھے، آج جب وہ نور رسالت کے اسیر ہوکر مدینہ کھنچے چلے آئے تو آغوش نبوت نے وفور محبت سے انھیں اپنے دامن شفقت میں سمیٹ لیا۔ ان کی تکریم کرتے ہوئے ابوبکر و عمر اور امین امت رضی اللہ عنہم جمیعا کو ان کی سرداری میں دے دیا۔ اسلامی تحریک اگر نئے آنے والوں کو خوش آمدید نہ کہتی، ان کی تالیف و تکریم کا اہتمام نہ کرتی تو شاید کبھی اس قدر مضبوط، منظم اور کامیاب نہ ہوتی۔ قبول اسلام کے چند ہی ماہ اور ذات السلاسل کے دوماہ بعد یعنی رمضان ۸ ہجری میں فتح مکہ کا تاریخی واقعہ روپذیر ہورہا تھا اور حضرت خالد بن الولید چار مختلف اطراف سے مکہ میں داخل ہونے والے لشکروں میں سے ایک کی سربراہی کررہے تھے، یعنی اپنے قبول اسلام کے تقریباً چھے ماہ بعد۔ اس سے قبل غزوۂ مُوتہ میں تین قائدین کی شہادت کے بعد لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے، صحابہ کرام کو موت کے منہ سے نکال کر، قبولِ اسلام کے تقریباً تین ماہ بعد ’سیف اللہ‘ اللہ کی تلوار کا لقب حاصل کرچکے تھے۔

۲-            نئے آنے والے ساتھی کو اپنا امیر بنا دیے جانے پر ان عظیم شخصیات میں سے کسی کی طرف سے ادنیٰ تردد، تحفظات یا ناراضی و ناپسندیدگی کا اشارہ تک نہ ملا۔ یہی صورت ہمیں آں حضوؐر کی جانب سے متعین کردہ آخری لشکر، لشکر اسامہ بن زید کے بارے میں دکھائی دیتی ہے۔

۳-            جیسے ہی آپؐ  کے پاس کمک کی درخواست پہنچی آپؐ نے فوراً عظیم شخصیات کو مدد  کے لیے ارسال کردیا، اپنے ساتھیوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا۔

۴-            جب دو میں سے ایک کی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ آیا اور حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ نے اپنی دلیل پیش کی تو حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح نے فوراً خود آگے بڑھ کر دست برداری کا اعلان کیا۔ حالانکہ آپ کو دربار رسالت سے ’امینِ اُمت‘ کا خطاب حاصل ہوچکا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں اور نئے آنے والوں ہی کو عملی قیادت کے تجربات و تربیت سے  نہیں گزارا خود بزرگ صحابہ کرام کو بھی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا کہ ان کے نظم و ضبط اور  سمع و طاعت کی روح سے نئے ساتھی بھی فیض یاب ہوں۔

۵-            ایک دوسرے کی نفسیات تک کا خیال رکھنے کی عملی مثال بھی سامنے آگئی۔ عمر فاروقؓ کو حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کا دوٹوک انداز معلوم تھا اور اپنے مزاج کا اس سے بھی زیادہ علم تھا۔ آپ نے آگ جلانے کی تجویز دینے کے لیے نرم خو اور بزرگ شخصیت کے حامل صدیق اکبرؓ کو ارسال کیا، مبادا کہ ماحول میں کوئی تلخی آجائے۔

۶-            جب امام تیمم سے تھا اور پانچ سو باوضو بزرگ صحابہ مقتدی تھے۔ یہ سوال بھی موجود تھا کہ کیا غسل کے بجاے تیمم ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور یہ سوال بھی ہوسکتا تھا کہ سب باوضو ہیں، امام نے غسل کی جگہ تیمم کیا ہوا ہے تو کیا پیچھے والوں کی نماز ہوگی بھی یا نہیں۔ لیکن کسی نے اس فقہی مسئلے کو نزاع کا باعث نہ بنایا۔ کسی نے نہ کہا کہ نماز دہرا لیتے ہیں۔۔ الگ جماعت کروالیتے ہیں۔ سب نے باجماعت اور کامل یکسوئی سے نماز ادا کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسئلہ پیش ہوا تو آپؐ نے بھی مسکراہٹ اور خاموشی پر اکتفا کیا۔ علماے فقہ نے اس واقعے سے دونوں نتائج اخذ کیے۔ ایک گروہ نے مسکرانے اور خاموشی کو جواز و تاکید قرار دیا۔ آپؐ کا تبسم بھی مسائل شریعت کا فیصلہ کرتا ہے۔ آپؐ نے کسی کو اس کی نماز نہ ہونے یا نماز دہرانے کی تلقین نہیں فرمائی، جب کہ ایک گروہ نے آپؐ  کے اس لفظ کو: ’’کیا جنبی تھے اور ساتھیوں کی امامت کروالی‘‘ سے یہ اخذ کیا کہ آپؐ نے خود فرمادیا کہ ’’جنبی تھے‘‘ یعنی تیمم سے طہارت نہ ہوئی۔ لیکن فریق اول کا کہنا ہے کہ آپ نے تو بس صحابہؓ کا سوال دہرادیا، خود تو صرف تبسم و خاموشی سے موقف کی تائید کردی۔ اس حوالے سے بھی سب سے بنیادی امر یہی ہے کہ اس طرح کے فقہی اختلافات و آرا کو نہ تو صحابہؓ نے اختلاف و علیحدگی کا سبب بنایا اور نہ آپؐ نے اسے بحث و تمحیص کی بنیاد بننا دیا۔

۹-            اگرچہ حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بشارت دے چکے تھے کہ ’’فتح یاب ہوکر آؤ گے‘‘ لیکن قائد نے صرف خوش خبری کو بنیاد بناکر عمل اور جدوجہد ترک نہیں کردی۔ ہر وہ حکمت اختیار کی اور ہر وہ کوشش کی، جو معرکے میں کامیابی کے لیے ضروری تھی۔ قیادت اور نظم و ضبط میں کسی کو کوئی شک نہ رہنے دیا۔ پورا ایک لشکر ایک ہی اِمام، ایک ہی سربراہ کی زیرقیادت یک جا و متحد کیا۔ دشمن کی نظروں سے بچنے کے لیے رات کا سفر، آگ کا نہ جلانا اور دشمن کی کمین گاہ سے محتاط رہتے ہوئے اس کی شکست کے باوجود پیچھا نہ کرنا، سب عمل و جدوجہد ہی کے مظاہر ہیں۔ اگر نری بشارتوں ہی پر تکیہ کرنے والی قیادت ہوتی، تو شاید پھر یہ بشارت ہی حاصل نہ ہوتی۔

۱۰-         رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے ہی دشمن کے ارادوں اور ریاست اسلامی کو درپیش خطرات کا علم ہوا، تو آپ نے معرکے کو دشمن کی سرزمین میں منتقل کر دیا۔ خود آگے بڑھ کر فتنے کی سرکوبی کر دی۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ دوسروں کی جنگ کو آپؐ اپنی سرزمین پر کھینچ لائے ہوں اور جنگ کی آگ بھڑکاکر تمام دشمنوں کو اس پر مزید تیل چھڑکنے کا موقع فراہم کر دیا ہو۔

۱۱-         اس سفر اور بزرگ صحابۂ کبار کی قیادت کرلینے سے حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کا مقام مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے۔ خود روایت کرتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ذاتُ السلاسل میں جانے والے لشکر کا سربراہ بناکر بھیجا۔ اس میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ آپؐ  نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا امیر بلاوجہ نہیں بنادیا، آپؐ  کے دل میں میری قدرومنزلت ان سے بھی بڑھ کر ہوگی تو ایسا کیا ہے‘‘ میں نے حاضر ہوکر دریافت کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ  کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ آپؐ  نے (بے ساختہ اور دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے فرمایا) عائشہؓ سے۔ میں نے عرض کی: نہیں یارسولؐ اللہ! میں آپؐ  کے اہل خانہ کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔ آپؐ نے فرمایا: عائشہ کے والد سے۔ میں نے کہا: ان کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: عمرؓ سے۔ میں نے کہا: ان کے بعد۔ اس طرح آپؐ نے ایک ایک کرکے کئی صحابہ کے نام گنوادیے۔ میں نے پھر یہ سوچ کر مزید پوچھنا بند کردیا کہ کہیں میرا نام سب سے آخر میں نہ آجائے‘‘۔

یہ واقعہ بھی اسلامی تحریک کے ہر کارکن کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی ذمہ داریاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس کی قدرومنزلت کا تعین نہیں کرتیں۔ مدرسۂ نبوت نے نئے آنے والے طالب علم کی دل جوئی کی خاطر، نئے آنے والے کی دوٹوک، محتاط اور    حکیمانہ طبیعت کے پیش نظر، اس ذمہ داری کے لیے موزوں جانا اور وہ اس اعتماد پر پورے اُترے، لیکن مقام و مرتبے کا تعین اور آپؐ سے قربت کا حصول ذمہ داریوں کے تعین سے نہیں ہوتا۔

نئے طالب علم نے بھی اس خلافِ توقع جواب پر برا نہیں منایا، نہ دورِ جہالت ہی کا کوئی تعصب قریب آنے دیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ خود بھی قدرومنزلت کی انھی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ تب جیسے خود ہی اپنی پہلی راے کی سادگی کا خیال آیا ہو، بیان کیا کہ دیکھو بھلا میں بھی کیا سوچ بیٹھا تھا۔

۱۲-         رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی، جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ ابھی مُوتہ کو دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ذات السلاسل کے لیے لشکر ارسال کر دیا۔ اس معرکے کو دو ماہ نہ گزرے تھے کہ فتحِ مکہ کے عظیم معرکے کا آغاز ہوگیا۔ رمضان میں مکہ فتح ہوا اور تقریباً تین ہفتے بعد۵شوال ۸ ہجری کو غزوئہ حنین کے لیے لشکرِرسولؐ روانہ ہو رہا تھا۔ کسی طرف سے آواز نہیں آئی: ابھی ایک معرکے سے اور مہم سے سانس نہ لیا تھا کہ دوسرے میں جھونک دیا۔ سب نے بیک آواز لبیک کہا اور سرخ رو ہوگئے   ؎

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

رب ذو الجلال ہمیں اپنے دین کا صحیح فہم عطا فرما اور ہمارے لیے اس پر عمل کو آسان بنادے، آمین!

اسلامی نظامِ خاندان پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں یہ اعتراض بہت نمایاں ہے کہ اس میں مرد کا غلبہ پایا جاتا ہے اور عورت کو کم تر حیثیت دی گئی ہے۔ عورت رشتۂ نکاح میں بندھنے کے بعد ہر طرح سے اپنے شوہر پر منحصر اور اس کی دست نگر بن جاتی ہے۔ شوہر کو اس پر حاکمانہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اس پر حکومت کرتا، اسے مشقت کی چکّی میں پیستا اور اس پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو روا رکھتا ہے، مگر وہ کسی صورت میں اس پر صداے احتجاج بلند کرسکتی ہے، نہ اس سے گلو خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔

اسلام میں عورت کی مظلومیت و محکومیت کی یہ تصویر بہ ظاہر بڑی بھیانک معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ اعتراضات خاندان کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور ان کی حکمتوں کو صحیح پس منظر میں نہ دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔ سطور ذیل میں ان کا جائزہ لینے اور اسلامی نظامِ خاندان میں مرد او رعورت کی صحیح پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اسلام کا خاندانی نظام: چند امتیازات

اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان تمام معاملات میں مساوات برتی ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کی تفریق نہیں کی ہے۔ اس نے عورت کو مرد کی طرح تمام معاشرتی و تمدنی حقوق عطا کیے ہیں، مثلاً اسے حصولِ تعلیم، شوہر کے انتخاب، ناپسندیدہ شوہر سے گلو خلاصی، مہر و نفقہ اور  مال و جایداد کی ملکیت اور معاشی جدّو جہد کا حق حاصل ہے۔ اسے معاشرے میں مرد کی طرح ، بلکہ بعض حیثیتوں سے مرد سے بڑھ کر عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ الغرض اسلام نے عورت کو جن حقوق سے بہرہ ور کیا ہے ، مغربی معاشروں میں وہ حقوق عورت کو صدیوں بعد اور طویل کش مکش اور جدّو جہد کے نتیجے میں حاصل ہوسکے ہیں۔ لیکن مساوات کا مطلب بہرحال دونوں کے کاموں کی یکسانیت نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے درمیان کاموں کی منصفانہ تقسیم کی ہے اور دونوں کے  دائرۂ کار الگ الگ رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے دونوں کی فطری صلاحیتوں کی بھرپور رعایت کی ہے۔ عورت کے ذمے فطرت نے بچوں کی پیدایش و پرورش کا عظیم الشان کام سونپا ہے۔ اسی لیے اسلام نے عورت کو گھر کے اندر کے کاموں کی ذمہ داری دی ہے اور اس کی اہم مصروفیات کو دیکھتے ہوئے اسے وسائلِ معاش کی فراہمی سے آزاد رکھا ہے۔ مرد کے ذمے اسلام نے گھر سے باہر کے کام رکھے ہیں اور اسے پابند کیا ہے کہ وہ عورت کی معاشی کفالت کرے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔ خاندان کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلنے کے لیے کاموں کی تقسیم ضروری تھی۔ اگر ہرشخص ہرکام انجام دینے لگے تو کوئی بھی نظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا۔ بچوں کی پیدایش و پرورش کا کام صرف عورت ہی انجام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی کہ یہ کام بھی اس سے متعلق رہتے، مزید گھر سے باہر کے کاموں کا بھی اسے پابند بنادیا جاتا۔ ۱؎

مرد کی اضافی ذمہ داری- خاندان کی سربراھی

مرد اور عورت دونوں کے میدانِ کار کی وضاحت اور ذمہ داریوں کی تعیین کے ساتھ اسلام نے مرد پر ایک اضافی ذمہ داری عائد کی ہے اور وہ ہے خاندان کی سربراہی ۔ کسی بھی ادارے (Institution) کے منظم انداز میں سرگرم عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک سربراہ ہو، جو اس کے تمام کاموں کی نگرانی کرے، اس کے نظم و ضبط کو درست اور چاق چوبند رکھے، اس سے وابستہ تمام افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ماتحتوں اور اس کے درمیان محبت و خیر خواہی پر مبنی ربطِ باہم پایا جائے۔ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کو تحفظ فراہم کرے اور وہ لوگ بھی پوری خوش دلی کے ساتھ اس کے احکام بجا لائیں اور ان سے سرتابی نہ کریں۔ یہ ذمہ داری کسی ایک فرد ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اگر یکساں حقوق و اختیارات کے ساتھ ایک سے زائد افراد کو کسی ادارے کی سربراہی سونپ دی جائے اور ہر ایک اپنی آزاد مرضی سے اس ادارے کو چلانا چاہے تو اس کے نظم کا درہم برہم ہوجانا یقینی ہے۔ مرد اور عورت نظامِ خاندان کے دو بنیادی ارکان ہیں۔ اس کی سربراہی ان میں سے کسی ایک ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اسلام نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی ہے (ایضاً)۔ قرآن میں اسی کو ’درجہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْھِنَّ دَرَجَۃٌ  ط (البقرہ ۲:۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک (برتر) درجہ حاصل ہے۔

اسی ذمہ داری کی بنا پر مرد کو قرآن میں ’قوّام‘ (سربراہ) کہا گیا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَآ اَنفَقُواْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴) مرد عورتوں کے سربراہ ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

لفظ ’قـوّام‘ کی لغوی تشریح

اردو زبان میں بعض مترجمینِ قرآن نے لفظ ’قوّام‘ کو جوں کا توں باقی رکھا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’حاکم‘ ، ’افسر‘ ، ’سرپرست‘ یا ’سربراہ‘ کیا ہے، تاہم اس سے اس کے پورے مفہوم کی وضاحت نہیں ہوپاتی۔ عربی زبان میں قام کا ایک معنٰی نگرانی و خبر گیری ہے۔ قَامَ عَلَی الْاَمْر: کسی کام میں مشغول ہونا، کسی کام کو سنبھالنا، قَامَ عَلٰٓی اَھْلِہٖ: اہل و عیال کی دیکھ بھال کرنا، کفالت کرنا، خرچ اٹھانا۔

مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں: ’’عربی میں ’قام‘ کے بعد ’علی‘ آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی ، محافظت، کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے۔ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ میں بالاتری کا مفہوم بھی ہے اور کفالت و تولیت کا بھی۔ اور یہ دونوں باتیں کچھ لازم و ملزوم سی ہیں‘‘۔ ۲؎

ماہرین لغت کے اقوال سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ فیروز آبادی فرماتے ہیں: اس کا مطلب ہے مرد کا عورت کی کفالت کرنا اور اس کی دیکھ بھال کرنا۔ (مجدالدین الفیروز آبادی، القاموس المحیط، دارالفکر ،بیروت، ۱۹۹۵ئ، ص۴۷۴)

اس کی شرح میں علامہ زبیدیؒ نے لکھا ہے: ’’مرد کا عورت کی کفالت کرتے ہوئے اس کے کام انجام دینا۔ ایسا کرنے والے کو قوّام کہا جاتا ہے‘‘۔ (محمد مرتضٰی الزبیدی، تاج العروس، دارلیبیا للنشر والتوزیع، بنغاری)

لسان العرب میں ہے: ’’مرد نے عورت کی کفالت کی۔ ایسا کرنے والے کو قوّام کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ، یعنی مرد عورتوں کے امور کے  ذمہ دار ہیں، ان کے معاملات میں دل چسپی لینے والے ہیں‘‘۔(ابن منظور، لسان العرب، دارصادر بیروت، ۱۲/۵۰۳)

’قوّام‘ مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس میں کسی کام کو بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے اور خوب اچھی طرح اس کی نگرانی و محافظت کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ابوحیان اندلسی کہتے ہیں: ’’قوّام مبالغے کا صیغہ ہے، اس کے لیے قیّام اور قیّم کے الفاظ بھی مستعمل ہیں۔ اس کا معنٰی ہے وہ شخص جو کسی کام کو انجام دے اور اس کی محافظت کرے‘‘۔۳؎

مفسّرین کرام کی تصریحات

مفسرین کرام نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مردوں کے عورتوں پر قوّام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں، ان کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اور شوہروں کے جو حقوق عورتوں پر واجب ہیں ان کی ادایگی کی تاکید کرتے ہیں اور اس معاملے میں اگر عورتوں سے کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو ان کی گرفت کرتے ہیں، جس طرح کوئی  حکمران اپنی رعایا کی دیکھ بھال کرتا ہے اسی طرح وہ عورتوں کی دیکھ بھال کرتے اور ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ چند تصریحات ملاحظہ ہوں۔

ابوجعفر طبری (م۳۱۰ھ) فرماتے ہیں: ’’وہ اپنی عورتوں کی تادیب کا کام انجام دیتے ہیں اور اللہ نے ان پر اپنے اور ان کے شوہروں کے جو حقوق عائد کیے ہیں، ان کی ادایگی میں کوتاہی پر ان کی گرفت کرتے ہیں‘‘۔۴؎

یہی تشریح الفاظ کے فرق کے ساتھ ماوردی (م: ۴۵۰ھ) بغوی (م: ۵۱۰ھ) خازن (م:۷۴۱ھ) اور سیوطی (م:۹۱۱ھ) نے بھی کی ہے۔ ۵؎

زمخشری (م:۵۳۸ھ) نے لکھا ہے: ’’وہ انھیں (اچھے کاموں کا) حکم دیتے اور (برے کاموں سے ) روکتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ اس طرح معاملہ کرتے ہیں جس طرح حکمران رعایا کے ساتھ کرتے ہیں‘‘۔۶؎

اسی سے ملتی جلتی تشریح بیضاوی (م: ۶۸۵ھ) نسفی (م: ۷۰۱ھ) بقاعی (م:۸۸۵ھ) ابوالسعود (م:۹۴۰ھ) اور آلوسی (م:۱۲۷۰ھ) نے بھی کی ہے۔ ۷؎

امام رازی (م: ۶۰۶ھ) فرماتے ہیں: ’’یعنی انھیں عورتوں کو ادب سکھانے اور کوتاہی کی صورت میں ان کی گرفت کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے، اس پر (یعنی عورت پر) اس کا (یعنی مرد کا ) حکم چلتا ہے‘‘۔۸؎ 

علامہ ابنِ کثیرؒ (م۷۷۴ھ) نے لکھا ہے: ’’عورت پر مرد کے قیّم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا سردار، اس کا بڑا ، اس پر حکمران اور کجی کی صورت میں اسے ادب سکھانے والا ہے‘‘۔۹؎

مرد کو قوّام بنائے جانے کے اسباب

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات میں مردوں کو عورتوں پر قوّام بنائے جانے کے تذکرے کے ساتھ وہ اسباب بھی بیان کردیے گئے ہیں جن کی بنا پر انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دو اسباب مذکور ہیں۔ مفسرین کے بیان کے مطابق پہلا سبب وہبی ہے اور دوسرا کسبی۔ ۱۰؎

  • وھبی فضیلت: پہلے سبب کے ضمن میں قرآن نے بہ طریق اجمال بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض پہلوؤں سے مردوں کو عورتوں پر فوقیت بخشی ہے۔

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلَی بَعْضٍ (النسائ۴:۳۴) اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دو سرے پر فضیلت دی ہے۔

آیت کے اس ٹکڑے میں اگرچہ صراحت نہیں ہے کہ کس کو کس پر فضیلت حاصل ہے، لیکن سیاقِ کلام سے واضح ہے کہ یہاں مقصود مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا بیان ہے۔ پھر یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے۔ ورنہ افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو طبقۂ اناث میں بعض افراد ایسے ہوسکتے ہیں جنھیں بعض مردوں پر فضیلت حاصل ہو (ابوحیان، ۳/۳۳۵)۔ مزید یہ کہ یہاں صرف وہ فضیلت زیرِ بحث ہے جس سے مردوں کے لیے قوّامیت کا استحقاق ثابت ہوتا ہو۔ (اصلاحی،تدبرقرآن، ۲/۲۹۱-۲۹۲)

اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے:’’یہاں فضیلت بہ معنی شرف او رکرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنیٰ میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں ، یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوّام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے او رعورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے‘‘۔ (تفھیم القرآن، ۱/۳۴۹)

مفسرین کرام نے عورتوں پر مردوں کی فضیلت کے بہت سے وجوہ بیان کیے ہیں۔ مثلاً ابنِ کثیر نے نبوت، حکمرانی اور قضا کا تذکرہ کیا ہے (ابن کثیر، ۱/۶۴۱)۔ جصاص ، ماوردی،   ابنِ العربی، بقاعی، سیوطی وغیرہ نے صرف عقل و راے یا اس کے ساتھ جسمانی قوت، کمالِ دین اور ولایت کا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۱؎

امام رازیؒ فرماتے ہیں:’’عورتوں پر مردوں کو بہت سی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔ ان میں سے بعض حقیقی اوصاف ہیں اور بعض شرعی احکام۔ جہاں تک حقیقی اوصاف کا تعلق ہے تو ان کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: علم اور قدرت ۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کی عقل اور ان کا علم بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ انھیں پُرمشقت کاموں کو انجام دینے کی بھرپور قدرت حاصل ہوتی ہے۔ انھی دو اسباب سے مردوں کو عورتوں پر عقل ، دور اندیشی ، قوت، تحقیق و تصنیف، شہ سواری، تیراندازی کے معاملے میں فضیلت حاصل ہے اور یہ کہ ان میں انبیا اور علما ہوئے ہیں، وہ امامتِ کبریٰ اور امامتِ صغریٰ کے مناصب پر فائز ہوتے ہیں۔ جہاد، اذان، خطبہ، اعتکاف اور حدود و قصاص میں شہادت کے معاملے میں بالاتفاق اور امام شافعی کے نزدیک نکاح کے معاملے میں بھی انھیں فضیلت حاصل ہے۔ میراث میں ان کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ قتلِ عمد اور قتلِ خطا میں وہ دیت       ادا کرتے ہیں۔ نکاح میں انھیں ولایت حاصل ہے۔ طلاق، رجعت اور تعدّد ازدواج کا بھی انھیں حق ہے۔ اولاد ان کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں عورتوں پر مردوں کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں‘‘۔ (رازی، ۱۰/۸۰)

بہت سے مفسرین نے مذکورہ چیزوں کے ساتھ بعض اور وجوہِ فضیلت بیان کیے ہیں، مثلاً جمعہ و جماعت میں شرکت، تجارت، جنگوں میں حصہ لینا۔ انھوں نے بعض ایسی چیزوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کا کسی طرح وجوہِ فضیلت میں شمار نہیں ہوسکتا، مثلاً چہرہ کھلا رہنا، عمامہ باندھنا، داڑھی ہونا۔ ۱۲؎

شیخ محمد عبدہٗ  ؒ اور ان کے شاگرد رشید علامہ رشید رضاؒ نے اس موضوع پر بہت اچھی بحث کی ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے: شیخ محمد عبدہٗ  ؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ یہ کہتا کہ اس نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے تو بات مختصر بھی ہوتی اور زیادہ واضح بھی۔ لیکن اس کے بجاے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مرد اور عورت کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا ایک شخص کے بدن کے مختلف اعضا کا آپس میں ہوتا ہے۔ مرد بمنزلۂ سر کے ہے اور عورت بمنزلۂ بدن کے ۔ فضیلت کے جو اسباب قرآن نے بیان کیے ہیں ان میں سے ایک فطری ہے اور دوسرا کسبی۔ فطری سبب یہ ہے کہ مرد کا مزاج زیادہ قوی اور مکمل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی عقل زیادہ پختہ ہوتی ہے اور وہ معاملات کے تمام پہلوؤں پر ٹھیک طریقے سے غور و فکر کرسکتا ہے۔ مزید برآں کسبی اعمال میں بھی اسے کمال حاصل ہوتا ہے۔ مردوں کو کمانے، ایجاد و اختراع کرنے اور معاملات میں تصرف کرنے پر زیادہ قدرت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انھیں مکلّف قرار دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں پر خرچ کریں، انھیں تحفّظ فراہم کریں اور خاندانی معاشرے کی عمومی سربراہی کریں، اس لیے کہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے کا ایک سربراہ ہو جس سے عام مصالح کے سلسلے میں رجوع کیا جائے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/۶۹-۷۰)

اسی سیاق میں علامہ رشید رضاؒ بعض نکتوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا تذکرہ صراحت سے کرنے کے بجائے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس سے یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک بدن کے مختلف اعضا کے مثل ہیں۔ اس لیے نہ مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی طاقت کے نشے میں عورت پر ظلم کرے اور نہ عورت کو زیب دیتا ہے کہ اس کی فضیلت کو بار سمجھے اور اس چیز کو اپنی ناقدری گردانے، اس لیے کہ جس طرح کسی شخص کے لیے یہ عار کی بات نہیں ہے کہ اس کا سر ہاتھ سے یا دل معدہ سے افضل ہو، اس لیے کہ بعض اعضا کا دیگر اعضا سے افضل ہونا پورے بدن کے مفاد میں ہوتا ہے، جب کہ اس سے کسی عضو کو کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا، اسی طرح کمانے اور تحفظ دینے کی قوت و طاقت رکھنے کے معاملے میں عورت پر مرد کی فضیلت میں حکمت پائی جاتی ہے۔ کیوںکہ اس طرح عورت با آسانی اپنے فطری وظائف: حمل، ولادت اور بچوں کی تربیت وغیرہ انجام دیتی ہے۔ وہ اپنے گوشۂ عافیت میںبے خوف و خطر رہتی ہے اور وسائلِ معاش فراہم کرنے کی فکر سے بھی آزاد رہتی ہے۔ فضیلت کی غیر واضح تعبیر اختیار کرنے میں ایک دوسری حکمت بھی پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے، مردوں کے تمام افراد کی عورتوں کے تمام افراد پر نہیں ہے۔ اس لیے کہ بہت سی عورتیں ایسی ہوسکتی ہیں جو علم، عمل، بلکہ جسمانی قوت اور کمانے کی صلاحیت میں اپنے شوہروں سے افضل ہوں‘‘۔ (ایضاً، ۵/ ۶۸-۶۹)

آگے علامہ رشید رضاؒ نے مفسرین کی بیان کردہ وجوہِ فضیلت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’زیادہ تر مشہور مفسرین نے وجوہِ فضیلت میں نبوت، امامتِ کبریٰ، امامتِ صغریٰ، اذان، اقامت اور خطبۂ جمعہ وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کو حاصل یہ امتیازات ان کے کمالِ استعداد پر مبنی ہیں، لیکن یہ وہ اسباب نہیں ہیں جن کی بناپر مردوں کو عورتوں کے معاملات کی سربراہی تفویض کی گئی ہے۔ اس لیے کہ نبوت ایک اختصاص ہے جس پر اس طرح کا حکم مبنی نہیں ہوسکتا اور نہ ہر مرد کے ہر عورت سے افضل ہونے کی یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ تمام انبیا مرد تھے۔ یہی حال امامت و خطابت اور دیگر امور کا ہے ، جن کی صرف مردوں کے لیے مشروعیت کا تذکرہ مفسرین نے کیا ہے۔ اگر شریعت نے عورتوں کو جمعہ اور حج میں خطبہ دینے ، اذان دینے اور نماز کی امامت کرنے کی اجازت دی ہوتی تو بھی یہ امر اس چیز میں مانع نہ ہوتا کہ مرد بہ تقاضائے فطرت عورتوں کے قوّام ہوں۔ لیکن اکثر مفسرین دینِ فطرت کے احکام کی علّتیں بیان کرنے میں قوانینِ فطرت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور دوسرے پہلو تلاش کرنے لگتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ۵/۷۰)

  • کسبی فضیلت :عورتوں پرمردوں کی فضیلت کا دوسرا سبب قرآن نے یہ بیان کیا:

وَبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴) اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

شریعت نے افرادِ خاندان کی کفالت کرنے، ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے اور ان کے لیے وسائلِ معاش فراہم کرنے کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے اور عورت کو اس سے بالکل آزاد رکھا ہے۔ یہ چیز بھی مرد کو خاندان کی سربراہی کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ شیخ رشید رضا نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:’’عورتیں عقدِ زوجیت کے ذریعے مردوں کی سربراہی میں داخل ہوتی اور ان کی ماتحتی قبول کرتی ہیں۔ مہر کی شکل میں انھیں اس کا عوض اور بدلہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح گویا شریعت نے عورت کو ایک اعزاز بخشا ہے کہ اسے ایک ایسے معاملے میں مالی بدلے کا مستحق قرار دیا جس کا فطرت اور نظامِ معیشت تقاضا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس کا شوہر اس کاسربراہ ہو۔اس معاملے کو عُرف کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، جسے لوگ باہم رضامندی سے انجام دیتے ہیں۔ گویا عورت نے اپنی مرضی سے مطلق مساوات سے تنزل اختیار کرلی اور مرد کو اپنے اوپر ایک درجہ (سربراہی کا درجہ) فوقیت دینے پر تیار ہوگئی اور اس کا مالی عوض قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْھِنَّ دَرَجَۃٌ (البقرہ ۲:۲۲۸)  اس آیت سے مردوں کو وہ درجہ مل گیا جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے۔(ایضاً، ۵/۶۷-۶۸)

فقہاے کرام نے آیت کے اس ٹکڑے سے استنباط کیا ہے کہ مرد پر عورت کا نفقہ واجب ہے (جصاص، ۱/۲۲۹)۔ یہی مضمون قرآن کی دیگر آیات میں بھی مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ط (البقرہ۲: ۲۳۳) بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔۱۳؎

اس آیت کے ذیل میں فقہا نے ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ اگر کبھی شوہر بیوی کا نفقہ برداشت کرنے پر قادر نہ رہے تو اس کی قوّامیت باقی نہیں رہتی اور اس صورت میں بیوی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ مقصود باقی نہ رہا جس کی بنا پر نکاح کی مشروعیت ہوئی تھی۔ یہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ عورت کا نفقہ برداشت کرنے پر شوہر قادر نہ ہو تو بھی نکاح فسخ نہ ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِن کَانَ ذُوْ عُسْــرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلَی مَیْْسَرَۃٍ ط (البقرہ ۲:۲۸۰) اور اگر وہ    تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو۔ (قرطبی، ۵/۱۶۹، ابوحیان، ۳/۳۳۶، آلوسی، ۵/۲۴)

ایک علمی مجلس میں ایک خاتون کی جانب سے عہد حاضر کے مشہور عالم دین مولانا      سید جلال الدین عمری سے سوال کیا گیا کہ ’’قرآن مجید میں الرجال قوامون کہا گیا ہے۔ اس کے تحت بیوی کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خاوند جو بے روزگار ہے اور بیوی کا معاشی بار نہیں اٹھارہا ہے، یا وہ جسمانی طور پر معذور ہے اور اسے جسمانی تحفظ  نہیں دے سکتا، تو کیا پھر بھی وہ قوّام ہوگا؟‘‘ اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا: ’’آپ اس سے بھی زیادہ بھیانک مثال پیش کرسکتی ہیں۔ ایک آدمی نابینا ہے یا اپاہج اور معذور ہے۔ خود تعاون اور مدد کا محتاج ہے۔ عورت اس کی خدمت کرتی اور اس کے اخراجات برداشت کرتی ہے تو کیا اس صورت میں مرد کی حیثیت قوّام ہی کی ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے بہ حیثیتِ نوع مرد کو قوّام کہا ہے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی ہیں: ایک یہ کہ اللہ نے  مرد کو عورت پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔ یہ برتری جسمانی، ذہنی او رعملی تینوں پہلوؤں سے یا ان میں سے ایک یا دو پہلو سے ہوسکتی ہے۔ اسی برتری کی وجہ سے اسلام نے عورت کے مقابلے میں مرد پر سیاسی، سماجی اور معاشی ذمے داریاں بھی زیادہ ڈالی ہیں۔ مرد کے قوّام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عورت پر اپنا مال خرچ کرتا ہے ۔ یہ ایک عمومی بات ہے۔ استثنائی مثالیں ہردَور میں رہی ہیں۔ آج بھی موجود ہیں کہ ایک عورت ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مرد سے بہتر ہے اور اس کی معاشی حیثیت بھی مستحکم ہے اور وہ شوہر پر خرچ بھی کررہی ہے۔ اس کے باوجود مرد کے قوّام ہونے کی حیثیت ختم نہیں ہوجائے گی۔ ورنہ مرد اگر اپنے مرد ہونے کی وجہ سے اور عورت اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے باہم ٹکرانے لگیں تو گھر کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا‘‘۔ (اسلام کاعائلی نظام)

نگران نہ کہ داروغہ

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ شوہر کی حیثیت خاندان میں ایک نگرانِ اعلیٰ کی ہے، جس کے ماتحت بیوی بچے اور دیگر متعلقین پوری آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ شوہر ان کی کفالت کرتا ہے، انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور انھیں مکروہاتِ دنیا سے بچاتا ہے۔ اس کی مثال چرواہے کی سی ہے، کہ وہ ریوڑ میں شامل تمام بھیڑ بکریوں پر نظر رکھتا ہے، ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور انھیں بھیڑیوں کے حملوں سے بچاتا ہے۔ ایک حدیث میں یہی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:

اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِ بَیْـتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّـتِہٖ (بخاری،کتاب الاحکام، ۷۱۳۷، مسلم، کتاب الامارۃ، ۱۸۲۹) مرد اپنے گھر والوں کا راعی (نگراں) ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

شیخ محمد عبدہٗ ؒ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس آیت میں قوّامیت سے مراد وہ سربراہی ہے جس میں ماتحت شخص اپنے پورے ارادہ و اختیار کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ماتحت شخص پوری طرح مجبور محض ہوتا ہے، وہ کسی ارادہ و اختیار کا مالک نہیں ہوتا اور صرف وہی کام انجام دیتا ہے جس کی اس کا سربراہ اسے ہدایت دیتا ہے۔ بلکہ کسی شخص کے دوسرے پر قوّام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے جن کاموں کی رہ نمائی کرتا ہے، ان کے نفاذ کے سلسلے میں اس کی دیکھ ریکھ اور نگرانی رکھتا ہے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/ ۶۸)

مردوں کو سربراہی و نگرانی کے اختیارات تفویض کرنے کے ساتھ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مرد اپنے ان اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں، بلکہ اپنے زیر دست عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور محبت، شائستگی اور ہم دردی کے ساتھ پیش آئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء ۴:۱۹) ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِسْتَوْصوْا بِالنِّسَآئِ خَیْراً ۱۴؎ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ ۱۵؎ تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔

عورتوں کو اطاعت شعاری کی تاکید

دوسری طرف عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ مردوں کی اطاعت کریں۔ ان پر واضح کردیا گیا ہے کہ مردوں کو جو قوّامیت کی ذمہ داری دی گئی ہے، اس میں ان (عورتوں) کی حق تلفی نہیں ہے اور اس سے ان کی کوئی سبکی اور توہین نہیں ہوتی، بلکہ ایسا محض نظامِ خاندان کو درست اور چاق چوبند بنانے کے لیے کیا گیا ہے، اس لیے انھیں چاہیے کہ اپنے شوہروں کا کہنا مانیں، انھیں خوش رکھیں اور ان کی ہدایات سے سرتابی نہ کریں۔ چنانچہ زیر بحث آیت کا اگلا ٹکڑا یہ ہے:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط (النساء ۴:۳۴) پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔

آیت کے اس حصے میں نیک عورتوں کی دو صفات بیان کی گئی ہیں: ایک صفت ہے قانتات، یعنی اطاعت کرنے والی ۔ ’قنوت‘ کے لغوی معنیٰ اطاعت کے ہیں۔ قرآن کے دیگر مقامات پر اس کا استعمال ’اللہ کی اطاعت‘ کے معنیٰ میں ہوا ہے۔۱۶؎ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں بھی وہ اسی معنیٰ میں ہے، جب کہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ ’اطاعت‘ میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ شوہر کی اطاعت بھی شامل ہے۔

صالح عورتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے: حافظات للغیب، یعنی غیب کی حفاظت کرنے والیاں۔ غیب کا ایک مفہوم شوہر کی غیر موجودگی ہے، یعنی شوہروں کی عدم موجودگی میں وہ اپنے آپ کی ، بچوں کی اور شوہروں کے گھر اور مال و جایداد کی حفاظت کرتی ہیں۔ زمخشریؒ فرماتے ہیں: ’’غیب، موجودگی کی ضد ہے۔ یعنی جب ان کے شوہر ان کے پاس موجود نہیں ہوتے ہیں تو وہ ان کے غائبانہ میں ان کی چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔(زمحشری، ۱/۵۲۴)

ابن عطیہؒ نے اس مفہوم کو کچھ اور وسعت دی ہے۔ ان کے نزدیک غیب میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو، خواہ وہ اس کی موجودگی میں ہو یا غیر موجودگی میں۔ کہتے ہیں: ’’غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو او راس کی نگاہ سے پوشیدہ ہو اس میں دونوں حالتیں شامل ہیں۔ وہ کہیں باہر گیا ہو یا موجود ہو‘‘۔(ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۲/۴۷ بہ حوالہ ابوحیان، ۳/۳۳۷)

غیب کا دوسرا مفہوم ’راز‘ ہے ۔ اس صورت میں حافظات للغیب کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ رازوں کی حفاظت کرنے والی ہیں۔ علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے: ’’اس کا ایک دوسرا معنیٰ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے رازوں یعنی جو کچھ ان کے شوہروں اور ان کے درمیان خلوت میں ہوتا ہے، اس کی حفاظت کرنے والی ہیں‘‘۔(آلوسی، ۵/۲۴)

شیخ محمد عبدہٗ ؒ فرماتے ہیں:’’غیب سے مراد یہاں وہ بات ہے جس کو ظاہر کرنے میں شرم آئے، یعنی وہ ہر اس چیز کو چھپاتی ہیں جس کا تعلق ازدواجی معاملات سے ہو اور جو ان کے شوہروں اور ان کے درمیان خاص ہو‘‘۔۱۷؎

ابو حیان نے عطا و قتادہ سے منسوب جو قول نقل کیا ہے، اس میں یہ دونوں مفہوم شامل ہیں:  ’’وہ حفاظت کرتی ہیں اس چیز کی جس کا ان کے شوہروں کو علم نہ ہو، وہ اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہیں اور جو کچھ ان کے شوہروں اور ان کے درمیان ہوتا ہے اسے اِدھر اُدھر بیان نہیں کرتیں‘‘۔ (ابوحیان، ۳/۳۳۷)

انھی اوصاف کی بنا پر حدیث میں نیک عورت کو دنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:

اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، ۱۴۶۷) دنیا سامانِ زیست ہے اور دنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک عورت ہے۔

عورت کی سرکشی کی صورت میں مرد کی ذمہ داری

عورت اگر مرد کی قوّامیت تسلیم کرلے اور اطاعت شعاری کی روش اپنائے تو گھر جنت نظیر بن جاتا ہے ۔ مردو عورت دونوں حدود اللہ کا پاس و لحاظ کرتے، ایک دوسرے کے حقوق پہنچانتے اور انھیں ادا کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے اور  مل جل کر اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اگر عورت مرد کی قوّامیت تسلیم نہ کرے، اپنے آپ کو اس کے ماتحت نہ سمجھے، اور خود سری و سرتابی کا مظاہرہ کرے تو گھر جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس کا سکون غارت ہوجاتا ہے اور بچوں کی صحیح ڈھنگ سے پرورش نہیں ہوپاتی۔ اس لیے قرآن نے اس صورت میں مرد کی ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ ایسی سرکش و نافرمان عورت کی اصلاح و تربیت کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالّٰتِیْ تَخَافُونَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْھِنَّ سَبِیْلاً ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً (النساء ۴: ۳۴) اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدہ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اُوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔

اس آیت میں شوہروں کے ان اختیارات کابیان ہے جو انھیں بیویوں کی تادیب کے لیے دیے گئے ہیں۔۱۸؎  اس سلسلے میں چند نکات پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

۱-  آیت کے اس ٹکڑے میں عام عورتوں کا بیان نہیں ہے اور یہ حکم عام حالات میں نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ناگزیر علاجی تدبیر کے طور پر مخصوص صورت حال میں ان عورتوں کے سلسلے میں ہے جو ’نشوز‘ کا ارتکاب کریں۔ بیوی کانشوز یہ ہے کہ وہ خود کو شوہرسے بالاتر سمجھے ، اس کی مخالفت کرے اور اس سے نفرت کرے۱۹؎ لیکن اگر وہ اطاعت شعار ہو تو اس پر کسی طرح کی زیادتی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

۲- عورتوں کی جانب سے محض اندیشۂ سرکشی کی صورت میں مذکورہ اصلاحی تدابیر کو بروئے کار لانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس صورت میں ہے جب واقعتا ان کی طرف سے اس کا اظہار ہو۔ اس کا اشارہ آیت کے آخری ٹکڑے فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ  (پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہوجائیں) سے ملتا ہے۔ (ابوحیان، ۳/۳۳۹، ۳۴۲)

۳-  اس آیت میں رہ نمائی کی گئی ہے کہ سرکش عورتوں کی اصلاح کے لیے ان کے شوہر تین تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔ اول: انھیں سمجھائیں بجھائیں، دوم: ان سے خواب گاہوں میں علیٰحدگی اختیار کرلیں، سوم: انھیں ’ضرب‘ کی سزا دیں۔ قرآن کامنشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اصلاحی تدابیر میں تدریج ملحوظ رکھی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ بہ یک وقت تینوں تدابیر پر عمل کرلیا جائے۔۲۰؎

۴-  مارنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ بیویوں کی ضرور پٹائی کی جائے، بلکہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر دیگر تدابیر سے کام نہ چلے تو ناگزیر صورت میں یہ تدبیر بھی ممکن ہے۔اس صورت میں حدیث میں غیر معمولی احتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آںحضرت ؐکا ارشاد ہے:

۔۔۔ فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْباً غَیْرَ مُبَرَّحٍ (مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ؐ، ۱۲۱۸) اگر وہ ایسا کریں تو انھیں ایسی مار مارو کہ اس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔

’برّح‘ کا معنٰی ہے سختی کرنا، تکلیف پہنچانا۔ ’ضرب مبرّح‘ اس مار کو کہتے ہیں جس میں سخت چوٹ لگے۔ ابوحیان فرماتے ہیں:’’ضرب غیر مبرّح سے مراد وہ مار ہے جس سے نہ کوئی ہڈی ٹوٹے، نہ کوئی عضو تلف ہو اور نہ جسم پر اس کا کوئی نشان باقی رہے‘‘۔ (ابوحیان ، ۳/۲۴۱)

حضرت ابن عباسؓ سے ان کے شاگرد عطاؒ نے ’ضرب غیر مبرّح‘ کا مطلب دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جیسے مسواک سے مارنا‘‘۔ (طبری، ۸/۳۱۴)

مارنے کا مقصد عورت کو ذلیل و رسوا کرنا، یا اسے جسمانی اذیت پہنچانا نہیں، بلکہ اس کی اصلاح و تادیب ہے۔ اس لیے ناگزیر صورت میں غیر معمولی احتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔

یہ ملحوظ رہے کہ قرآن و حدیث میں ناگزیر صورت میں تادیب کی اجازت کے باوجود شریعت کاعمومی مزاج یہ معلوم ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس سے گریز کیا جائے۔ عہد نبوی میں ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنی بیویوں کی پٹائی کردی۔ وہ عورتیں ازواج مطہرات کے گھروں میں آکر اپنے شوہروں کی شکایت کرنے لگیں ۔ رسولؐ اللہ کو صورتِ حال کی اطلاع ملی تو آپؐ نے فرمایا:

لَقَدْ طَاَف بِاٰلِ مُحَمَّدٍ نِسَآئٌ کَـثِیْرٌ یَشْکُوْنَ اَزْوَاجَھُنَّ، لَیْسَ اُوْلٰٓئِکَ بِخِیَارِھِمْ ۲۱؎ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے پاس بہت سی عورتوں نے چکّر لگائے ہیں اور اپنے شوہروں کی شکایت کی ہے۔ یہ لوگ ان میںاچھے آدمی نہیں ہیں۔

جن لوگوں کو قرآن کا یہ حکم عورت کی توہین و تذلیل معلوم ہوتا ہے انھیں عورت کے باغیانہ تیور اور خود سری پر مبنی رویے میں مرد کی تحقیر و تذلیل کا پہلو نظر نہیں آتا۔

۵-  آیت کے آخری ٹکڑے میں صفاتِ الٰہی ’علی‘ اور ’کبیر‘ کا انتخاب بڑا معنیٰ خیز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے۔ عورتوں پر اپنی بالادستی کے زعم میں ان پر کسی طرح کی زیادتی نہ کرو اور یہ نہ بھولو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تم سے بڑی اور برتر ہے۔ ان پر ظلم و زیادتی کی صورت میں وہ تم سے انتقام لے سکتا ہے۔ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: ’’اس میں مردوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انھوں نے بلا سبب عورتوں پر زیادتی کی تو اللہ تعالیٰ جو بلند و برتر ہے، ان کا ولی ہے ۔ جو بھی ان پر ظلم و زیادتی کرے گا، اس سے وہ انتقام لے لے گا‘‘۔ ۲۲؎

حاصل بحث: خلاصہ یہ کہ اسلام کے نظامِ خاندان میں مرد اور عورت کو برابر کے حقوق سے بہرہ ور کیا گیا ہے، البتہ انتظامی ضروریات کی بنا پر مرد کو یک گونہ برتری دی گئی ہے۔ اسے خاندان کی سربراہی کی ذمہ داری دے کر اس کے ماتحتوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔

جن تہذیبوں اور معاشروں میں خاندانی نظام میں مرد اور عورت کو تمام معاملات میں یکساں حقوق دیے گئے ہیں، حتیٰ کہ قوّامیت کی بنا پر مرد کی یک گونہ برتری کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، ان میں خاندانی انتشار نمایاں ہے، زوجین کے درمیان تلخیاں، دوریاں اور نفرتیں پائی جاتی ہیں، طلاق و تفریق کی کثرت ہے اور گھروں کے اجڑنے اور بکھرنے کا تناسب بڑھا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی جائزہ رپورٹوں کے اعداد و شمار اس کے مظہر ہیں۔

بعض مسلم دانش ور اسلام میں حقوقِ نسواں کی پرزور وکالت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان عورت بھی ان تمام حقوق سے بہرہ ور ہے جو مسلمان مرد کو دیے گئے ہیں، لیکن وہ مساواتِ مرد و زن کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں کہ مرد کی قوّامیت عملاً ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے حقوق مساوی رکھے ہیں، لیکن نظامِ خاندان کو چلانے کے لیے اس نے مرد کو ’قوّامیت‘ کی ذمہ داری بھی عطا کی ہے۔ اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ (مضمون نگار، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ کے شعبہ تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں)

حوالہ جات

۱-            ملاحظہ کیجیے: مولانا سید جلال الدین عمری کی کتابیں: عورت اسلامی معاشرے میں، عورت اور اسلام، اسلام کا عائلی نظام، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کاجائزہ۔

۲-            مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، دہلی، ۱۹۸۹ئ، ۲/۲۹۱، مزید ملاحظہ کیجیے مولانا سید ابوالاعلی مودودی، تفہیم القرآن، ۱/۳۴۹، مولانا عبدالماجد دریابادی، تفسیر ماجدی،لکھنؤ، ۱/۷۳۰

۳-            ابوحیان الاندلسی، البحر المحیط، تحقیق: د۔ عبدالرزاق المہدی، بیروت، ۲۰۰۲ئ، ۳/۲۳۵، مزید ملاحظہ کیجیے  ابوعبداللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۹۸۷ئ، ۵/۱۶۹۔

۴-            ابوجعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان عن تاویل آی القرآن المعروف بتفسیر الطبری، تحقیق محمود محمد شاکر، احمد محمد شاکر، مصر، ۸/۲۹۰

۵-            ابوالحسن علی بن حبیب الماوردی، النکت والعیون المعروف بتفسیر الماوردی، ۱/۳۸۵، بغوی، ۱/۴۳۲، علاؤ الدین علی بن محمد الخازن، لباب التاویل فی معانی التنزیل المعروف بتفسیر الخازن، مصر، ۱/۴۳۲، جلال الدین السیوطی و جلال الدین المحلی، تفسیر الجلالین ، ص۱۰۶

۶-            ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری، الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التاویل، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ مصر، ۱/۵۲۳

۷-            ملاحظہ کیجیے ناصر الدین عبداللہ بن عمر البیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التاویل المعروف بتفسیر البیضاوی، دہلی، ۱۲۶۸ھ، ۱/۱۸۲، ابوالسعود محمد بن محمد بن مصطفی العمادی، ارشاد العقل السلیم الیٰ مزایا الکتاب الکریم، بیروت، ۱/۱۷۳، شہاب الدین السید محمود الآلوسی البغدادی، روح المعانی فی تفسیر القرآن والسبع المثانی، مصر، ۵/۲۳

۸-            فخرالدین الرازی، مفاتح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، تحقیق: عماد زکی البارودی، مصر، ۱۰/۸۰

۹-            عماد الدین اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیوبند، ۲۰۰۲ء

۱۰-         بیضاوی، ۱/۲۸۲، بقاعی، ۵/۲۷۰، ابوالسعود، ۱۷۳، آلوسی، ۵/۲۳، محمد رشید رضا، تفسیر المنار، مطبعۃ المنار، مصر، ۵/۶۹، قاضی محمد ثناء اللہ العثمانی پانی پتی، التفسیر المظہری، ندوۃ المصنفین ، دہلی

۱۱-         ملاحظہ کیجیے جصاص ، ۱/۲۲۹، ماوردی، ۱/۳۸۵، ابن العربی، ۱/۱۷۴، بقاعی، ۵/۲۶۹، سیوطی، ص۱۰۶

۱۲-         بغوی، ۱/۴۳۲، زمخشری، ۱/۵۲۳، بیضاوی، ۱/۱۸۲، نسفی، ۳/۱۲۸، خازن، ۱/۴۳۲، آلوسی، ۵/۲۳، پانی پتی، ۲/۲۹۴، تھانوی، ۱/۱۱۵، عثمانی، ۱۰۸، ۲/۲۹۴، سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، حاشیہ پر ترجمہ کنزالایمان ، از مولانا احمد رضا خان، مکتبہ جام نور جامع مسجد دہلی، ص۱۳۳

۱۳-         مزید ملاحظہ کیجیے سورۂ طلاق کی آیت نمبر ۷ اور مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ؐ، حدیث نمبر ۱۲۱۸

۱۴-         بخاری، کتاب النکاح، اور دیگرمقامات ، مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنسائ، ۱۴۶۸

۱۵-         جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النبی، ۳۸۹۵ ورواہ ابن ماجہ فی کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء عن ابن عباس

۱۶-         البقرہ۲: ۱۱۶، ۲۳۸، آل عمران ۳: ۱۷، ۴۳، النحل ۱۶: ۲۰، الاحزاب ۳۳:۳۱، ۳۵، الروم:  ۳۰ ۲۶، الزمر۳۹: ۹، التحریم ۶۶:۱۲

۱۷-         رشید رضا، ۵/۷۱، مزید ملاحظہ کیجیے اسی سیاق میں شیخ رشید رضا کی تشریح ، نیز اصلاحی، ۲/۲۹۲

۱۸-         سید جلال الدین عمری ،مسلمان عورت کے حقوق اوران پر اعتراضات کاجائزہ۔

۱۹-         نشوز المرأۃ ھو بغضہا لزوجھا ورفع نفسھا عن طاعتہ والتکبّر علیہ۔خازن، ۱/۴۳۳۔ ایسی ہی تشریح دیگر مفسرین او رماہرین لغت نے بھی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: ابوحیان، ۳/۳۴۰، ابن کثیر ، ۱/۶۴۲، قرطبی، ۵/۱۷۰- ۱۷۱، راغب اصفہانی ، ص ۴۹۵، اصلاحی ، ۲/۲۹۲-۲۹۳، رشید رضا، ۵/۷۷، جوہری، ۱/۴۳۸، ابن منظور، ۵/۴۱۸۔

۲۰-         زمخشری، ۱/۵۲۴، نسفی، ۱/۱۲۹، مودودی، ۱/۳۵۰، عثمانی، ص۱۰۹، اصلاحی، ۲/۲۹۳

۲۱-         سنن ابی داؤد، کتاب النکاح ، ۲۱۴۶، سنن ابن ماجہ، ۱۹۸۵، سنن دارمی، ۲۲۱۹

۲۲-         ابن کثیر، ۱/۶۴۳، رازی، ۱۰/۸۳، قرطبی، ۵/۱۷۳، ابوحیان، ۳/۳۴۳، رشید رضا، ۵/۷۷

اسلام اور اہلِ اسلام تقریباً ۷۰ برس تک(۱۹۱۷ء میں روس میں بالشویک انقلاب سے ۱۹۸۸ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست تک) کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف برسرِپیکار رہے۔ان نظریات کے ساتھ اہلِ اسلام نے اپنی جنگ، ذہن کی دُنیا سے نکل کر ذرائع ابلاغ، معیشت، معاشرت، سیاست یہاں تک کہ جنگی میدانوں میں بھی لڑی۔اس جنگ میں کمیونزم اور سوشلزم کو شکست اس لیے ہوئی کہ ان کا غیر فطری اور انسان کے جسمانی اور روحانی مفادات کے خلاف ہونا اہلِ اسلام نے بہت پُر زور دلائل کے ساتھ دُنیا کے تمام اہلِ علم و دانش اور عوام الناس پر ثابت کیا تھا(امریکی اور یورپی ممالک کی مخالفت سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت تھی ۔چونکہ ان ممالک میں برسرِ اقتدار طبقات خود بھی لادین اور سرمایہ پرست ہیں، لہٰذا کمیونزم اور سوشلزم کا لادین ہونا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا)۔مذکورہ دونوں نظریات اپنی نوع کے اعتبار سے اصل نظریات نہیں ہیں بلکہ لبرلزم اور سیکولرزم کے محض فروع ہیں۔

کمیونزم اور سوشلزم کا خالق کارل مارکس: ’’ایک غیر مذہبی شخص تھا جس کا باپ ہنرچ خاندانی طور پر ایک یہودی، ایک جرمن شہری اور پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اورفکری طور پر یورپ میں برپا (خدا بے زاری پر مبنی) تحریکِ احیاے علوم کے سرخیل فلسفیوں والٹئیراور کانٹ سے متاثر تھا۔کارل مارکس کے باپ نے یہودی ربیوں کے سلسلۂ نسب سے منسلک ہونے کے باوجود غالباً اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت ایوینجلیکل عیسائیت میں بپتسمہ لیا اور چھے برس کی عمر میں کارل مارکس کو بھی بپتسمہ دے دیا مگر اپنی عملی زندگی میں وہ ایک سیکولر، یعنی لادین شخص تھا۔ کارل مارکس کے کمیونزم کی شکل میں طبقاتی کش مکش کا علَم بردار ہونے کا پس منظر( یورپ میں ظالمانہ جاگیرداری نظام کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ۔مضمون نگار) شاید یہ تھا کہ اس کی قوم یہود کے ساتھ یورپ کے تنگ نظر عیسائی مذہبی لوگوں نے ازمنۂ وسطیٰ کے دوران بہت برا سلوک کیا تھا۔عیسائی اہلِ مذہب کے امتیازی سلوک نے اسے نفسِ مذہب ہی سے بے زار کردیا اور وہ بہت جلد مشہور خدا فراموش جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کا خوشہ چین بن گیا‘‘۔ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا)

اسلام چونکہ ایک دین(بمعنی مکمّل نظامِ زندگی) ہونے اور انسانوں کے تمام دُنیاوی اُمور میں خدا کی حاکمیت کا قائل اور علَم بردار ہے ،اور لبرلزم اور سیکولرزم کی تو بنا ہی خدا اور حیات بعد الموت سے انکار پر رکھی گئی ہے، اس لیے اسلام کے اصل دُشمن لبرلزم اور سیکولرزم ہیں ۔ مغربی ممالک چونکہ رسمی طور پر عیسائی اور خدا کے قائل ہیں، اس لیے ان ممالک میں حکومت ، معاشرت اور معیشت کی سطح پر لبرلزم اور سیکولرزم کے غلبے کو اہلِ اسلام نے عام طور پر کمیونزم اور سوشلزم کی طرح کا فوری خطرہ نہیں سمجھا۔ مغربی ممالک کا سیکولرزم ، کمیونزم اور سوشلزم کے زوال کے بعد اب خم ٹھونک کر    اسلام کے مدمقابل آ گیا ہے۔مغرب کاسیکولر دانش ور طبقہ اور وہاں کے ذرائع ابلاغ حکومتی قوت کی پشت پناہی کے ساتھ دینِ اسلام کے خلاف فکری لڑائی میں مشغول ہیں اور وہاں کی حکومتیں پوری فوجی قوت کے ساتھ اہلِ اسلام پر حملہ آور ہیں۔

اس جنگ میں مسلمان ممالک کے سیکولر حکمران بیش ترسیاست دان اپنے مفادات کی خاطر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلۂ کاربنے ہوئے ہیںاور مسلمانوں کی اکثریت لبرلزم اور سیکولرزم کو نہ سمجھنے کے باعث اس لڑائی کو ایک گومگو کی حالت میں دیکھ رہی ہے ۔لبرلزم اور سیکولرزم کے    وہ علَم بردار جو مسلمان ممالک کے شہری ہیں عوام الناس کو ایک دھوکے میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔یہ لوگ خدا، رسولؐ، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔    یہ لوگ سیاسی ، ادبی، صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ اور حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ معاشرے کے تمام شعبوں سے خدا اور اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔سیکولرزم کی ساخت کے عین مطابق یہ سیکولر حکمران یا دانش ور مسلمانوں کے عقائد ،مراسمِ عبودیت اور رسوم و رواج کی نہ صرف یہ کہ مخالفت نہیں کرتے بلکہ خود بھی ان کو اختیار کر کے عوام کو اپنے متعلق پکّے مسلمان ہونے کا تأثّر دیتے ہیں اور مسلمان عوام اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔آئیے دیکھیں کہ سیکولر اور لبرل ہونے کے دعوے دار مغربی دا نش وروں کے نزدیک سیکولرزم اور لبرلزم کا مفہوم کیا ہے کیونکہ ان اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر ہوسکتا ہے جو ان اصطلاحات کے خالق اور قائل بیان کریں۔

لـبرلـزم

لفظ ’لبرل‘، قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’لائیبر‘ ، (liber ) اور پھر ’لائبرالس‘ (liberalis)سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے ’’آزاد، جو غلام نہ ہو‘‘۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو  فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد  اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مرادایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو، اور لبرلزم سے مُراد اسی   آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اور نظامِ اخلاق و سیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔

یہ تبدیلی اٹلی سے چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی تحریکِ احیاے علوم (Renaissance یعنی re-birth)کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے آئی۔برطانوی فلسفی   جان لاک (۱۶۲۰ء -۱۷۰۴ئ) پہلا شخص ہے جس نے لبرلزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوںکر دے سکتا ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے   ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آگئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیر (۱۶۹۴ئ-۱۷۷۸ئ) اور روسو (۱۷۱۲ ئ- ۱۷۷۸ئ) اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انھی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا اور اسے ریاستی اُمور کی صورت گری کے لیے بنیاد بنا دیا گیا۔امریکا کے اعلانِ آزادی (American Declaration of Independence) میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہو کر دی گئی ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا، وکی پیڈیا اور اوکسفرڈ ڈکشنری)

سیکولـرزم

یہ لفظ قدیم لاطینی لفظ ’سیکولارس‘ (saecularis) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’وقت کے اندر محدود‘۔ عیسائی عقیدے کے مطابق خدا کی ذات وقت کی قید اور حدود سے آزاد اور ما ورا ہے۔تحریک احیاے علوم کے دوران یورپ میں جب عیسائیت کی تعلیمات سے بے زاری پیدا ہوئی اور خدا کے انسانی زندگی میں دخل(جو کہ اصل میں عیسائی پادریوں اور مذہبی رہنمائوں کی خدا کی طرف سے انسانی زندگی میں مداخلت کی غیر ضروری ، غیر منطقی، من مانی اور متشدّدانہ توجیہ تھی ورنہ اگر عیسائیت کی تعلیمات وہی ہوتیں، جو عیسیٰ ؑ نے دی تھیں تو خدا کے خلاف بغاوت پیدا نہ ہوتی ) کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی تو کہا جانے لگا کہ چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماورا ہے اور انسان وقت کی حدود سے مقیّد ہے لہٰذا انسانی زندگی کو سیکولر، یعنی خدا سے جدا (محدود)ہونا چاہیے۔ ’’اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں ۱۸۴۶ء میںمتعارف کروانے والا پہلا شخص برطانوی مصنّف جارج جیکب ہولیوک (۱۸۱۷ئ-۱۹۰۶ئ)تھا۔اس شخص نے ایک بار ایک لیکچر کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے عیسائی مذہب اور اس سے متعلق تعلیمات کا توہین آمیز انداز میں مذاق اڑایا جس کی پاداش میں اسے چھے ماہ کی سزا بھگتنا پڑی ۔جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے مذہب سے متعلق اظہارِ خیال کے لیے اپنا انداز تبدیل کر لیا اور جارحانہ انداز کے بجاے نسبتاً نرم لفظ ’سیکولرزم‘ کا پرچار شروع کر دیا‘‘۔(انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور وکی پیڈیا)

اس اصطلاح کے عام ہوجانے کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر تمام یورپ اور دُنیا بھر میں سیکولرزم کے معنی یہ ہوئے کہ ’’انسانی زندگی کے دنیا سے متعلق اُمور کا تعلق خدا یا مذہب سے نہیں ہوتا‘‘اور مزید یہ کہ ’’حکومتی معاملات کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔اس اصطلاح کے یہی معنی اب دنیا بھر میں انگریزی زبان کی ہر لغت اور انسائیکلوپیڈیا میں پائے جاتے ہیں اور اسی پر سیکولرکہلانے والے تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔’لبرلزم‘ کے مقابلے میں ’سیکولرزم‘ نسبتاً نرم اصطلاح ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق: یورپ کے ازمنۂ وسطیٰ میں مذہبی لوگوں میں یہ رجحان جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ انسانوںکی فلاح و بہبود سے متعلق دُنیاوی اُمور کو نظر انداز کرتے تھے اور لوگوں کو خدا سے تعلق جوڑنے کی اور ترکِ دُنیا کی تعلیم دیتے تھے۔اس رجحان کے خلاف رَدعمل پیدا ہوا اور یورپ کی تحریکِ احیاے علوم کے دوران میں سیکولرزم نمایاں ہوا اور لوگوں نے تمدّنی ترقی میں زیادہ دل چسپی لینی شروع کی۔ اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق اول یہ کہ’’سیکولرزم سے مُراد یہ عقیدہ ہے کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصوّرات کو ارادتاً دُنیاوی اُمور سے حذف کر دیا جائے۔اس کی یورپی فلسفیانہ توجیح یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظامِ عقائد ہے جس میں اخلاقی نظام کی بنیاد کلّی طور پر بنی نوعِ انسان کی دُنیا میں فلاح و بہبود اور خدا اور حیات بعد الموت پر ایمان سے انکار (یعنی ان کے عقائد سے اخراج) پر رکھی گئی ہے‘‘۔دوم یہ کہ ’’اس بارے میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ تعلیم خصوصاً وہ تعلیم جو عوامی سرمایے سے دی جا رہی ہو ، مذہبی عقائد اور مذہبی تعلیم کو آگے نہ بڑھائے‘‘۔ ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق سیکولرزم کے معنی ہیں: دُنیاوی اُمور سے مذہب اور مذہبی تصوّرات کا اخراج یا بے دخلی۔

سیکولرزم اور لبرلزم کا پس منظر

مندرجہ بالا دو اصطلاحات کو مکمل طور پر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اُس ماحول اور اُن حالات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث یہ اصطلاحات تشکیل پائیں۔ حضرت عیسٰیؑ کی پیدایش کے وقت مغربی اور مشرقی یورپ پربُت پرست(مشرک) رومن بادشاہوں کی حکمرانی تھی۔ حضرت عیسٰی ؑ آسمان کی طرف اُٹھائے جانے سے قبل دنیا میں ۳۰ یا ۳۳ برس رہے۔وہ بنیادی طور پر بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول تھے تاکہ ان کو تورات کی گمشدہ تعلیمات سے از سرِنو آشنا کریں۔ان کی اصل تعلیمات اِس وقت تقریباً ناپید ہیں۔موجودہ عیسائیت اور اس کے عقائدسینٹ پال کی دین ہیں۔سینٹ پال یاپولوس کا اصل نام سائول تھا جو ۱۰ عیسوی میں پیدا ہوا اور تقریباً ۶۷ء میں فوت ہوا۔یہ شخص بنیادی طور پر کٹر یہودی تھا۔یہ کبھی حضرت عیسٰیؑ سے نہیں ملا اور ان کی زندگی میںان کا اور ان کی تعلیمات کا سخت مخالف تھا اور ا ن کو یہودیت کے لیے سخت مضر سمجھتا تھا۔عیسیٰ ؑ کے دنیا سے اٹھا لیے جانے کے بعد یہ شخص عیسائی ہو گیا۔یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کے درمیان (اپنے خوابوں اور مکاشفات کے ذریعے) اس عقیدے کو عام کیا کہ’’ یسوع مسیح خدا کے ہاں اس کے نائب کی حیثیت سے موجود ہیں اور قیامت کے روز لوگوں کے درمیان فیصلے وہی کریں گے، اور یہ کہ اب نجات اس شخص کو ملے گی جو یسوع مسیحؑ کی خوشنودی حاصل کرے گا۔ اس کے لیے اب موسوی شریعت کی عملاً پابندی ضروری نہیں بلکہ محض یسوع مسیح ؑکے خدا کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا عقیدہ ہی نجات کے لیے کافی ہو گا‘‘۔یہی وہ شخص ہے جس نے پہلی بار یہ تعلیم بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری اقوام کو دینے کی بھی نصیحت کی۔بنیادی طور پر یہ وہ شخص ہے جسے جدید اصطلاح کی زبان میں ہم سیکولر کہہ سکتے ہیں۔عیسائی مبلغّین کی پہلی کانفرنس ۵۰ء میں منعقد ہوئی(جس میں سینٹ پال نے بھی شرکت کی) جس میں تورات کے کئی احکامات کی پابندی سے غیر اسرائیلیوں کو مستثنیٰ کردیا گیا، البتہ انھیں زنا،بت پرستی اور خون آمیز گوشت کھانے سے منع کیا گیا۔ اس وقت تک حضرت عیسیٰ ؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا نہیں ہو اتھا۔

عیسائیت کے عقائد کی تعلیم اور اشاعت رومن دور میں ممنوع تھی اور مبلغین پر بہت تشدد کیا جاتا تھا۔ تشدّد کا یہ سلسلہ اس وقت رکا جب رومن شہنشاہ کانسٹنٹائن نے تقریباً ۳۱۲ء میں عیسائیت قبول کر لی۔لیکن یہ محض عقیدے کی قبولیت تھی ورنہ کاروبارِ مملکت پرانے رومن طریقے ہی پر چلتا رہا اور اس معاملے میں کسی عیسائی عالم کا کوئی اعتراض ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔عیسائیت کے سرکاری مذہب بن جانے کے باوجود مملکت کے سیکولر ہونے کی یہ پہلی مثال تھی۔اس حکومتی سیکولر زم کی وجہ یہ تھی کہ سینٹ پال کی تعلیم کے مطابق عیسائی عقیدہ اختیار کرنے کے بعد دنیاوی معاملات سے خدا کا تعلق ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ ۳۲۵ء میں نیقیہ کے مقام(موجودہ ترکی میںازنک) پر تقریباً ۳۰۰عیسائی بشپ اکٹھے ہوئے جنھوں نے بحث مباحثے کے بعد اس عقیدے کا اعلان کیا کہ حضرت عیسٰیؑ خدا کے بیٹے اور اس کی ذات کا حصہ ہیں(اس طرح حضرت عیسٰیؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا کیا گیا)۔

تقریباً ۴۷۶ء میں جرمن گاتھ حکمرانوںکے ہاتھوں مغربی یورپ میں رومن سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ گاتھ چونکہ قبائلی طرزِ زندگی کے عادی تھے اس لیے انھوں نے کوئی مرکزی حکومت قائم نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی یورپ میں ہر طرف طوائف الملوکی پھیل گئی۔ہر جگہ چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں اور جاگیرداریوں نے جنم لیا اور باہم جنگ و جِدال شروع ہو گئی۔یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اس عرصے کو یورپ کا تاریک دور یا ازمنۂ وسطیٰ کہا جاتا ہے ۔ اسی دور میں عیسائیت میں پوپ کے منصب کا آغاز ہوا اور اسے مذہبی معاملات میں مکمل دسترس حاصل ہوگئی ، اس کا کہا خدا کا کہا سمجھا جانے لگا۔یہی دور تھا جب مصر کے صحرا میں رہنے والے کچھ عیسائی مبلغّین نے رہبانیت اختیار کی۔ ۵۰۰ء میں سینٹ بینیڈکٹ، روم میں لوگوں کی اخلاقی بے راہ روی سے اس قدر تنگ آ یا کہ اس نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہا اور ایک غار میں رہایش اختیار کی تاکہ اپنے نفس کو پاک رکھ سکے۔اس مقصد کے لیے اس نے اور لوگوں کو بھی دعوت دی۔جب ایک اچھی خاصی تعداد شاگردوں کی میسّر آگئی تو ۵۲۹ء میں اس نے باقاعدہ ایک راہب خانے کی بنیاد رکھی اور راہبوں کے لیے ضابطے تحریر کیے جو آج بھی راہب خانوں میں نافذ العمل ہیں۔ان ضوابط میں راہبوں کے لیے شادی کی ممانعت،مہمانوں سے آزادانہ ملنے پر پابندی، مخصوص لباس پہننے کی پابندی،سونے جاگنے،سفر کرنے اور ملنے ملانے، کھانے پینے کے آداب اور طریقے شامل تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ رہبانیت اختیار کرنے والوں نے پاکیِ نفس کے لیے غلو اور اس سے بڑھ کر انسانی جسم و جان پر بے جا پابندیاں اور تشدّد شروع کیا جو کہ انسانی فطرت کے خلاف تھا۔اسی کی تعلیم یہ لوگ عوام کو دیا کرتے تھے۔

رفتہ رفتہ یہ راہب لوگوں اور خدا کے درمیان واسطہ بن گئے اور مذہبی معاملات میں انھیں ایک ناقابلِ چیلنج اختیار حاصل ہو گیا۔ایک طرف ان راہبوں کے دُنیاوی اُمور سے الگ ہو جانے اور خود کو راہب خانوں تک محدود کرنے کے باعث حکومتوں کے لیے سیکولر ہونے کو ایک طرح کا کھلا میدان اور جواز فراہم ہوا، تو دوسری طرف راہبوں ، بشپوں اور پوپ کی اس مطلق العنانی نے اختیار کے غلط استعمال کو جنم دیا اور شہنشاہ کانسٹنٹائن کے عہد میں منعقدہ کونسل آف نیقیہ میں طے کردہ عیسائی عقیدے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت متشدّدانہ رویّہ اختیار کیا گیا۔ عیسائی دنیا میں سیکڑوں برس تک اس صورتِ حال کے جاری رہنے سے انسانی فطرت میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔پوپ چونکہ اٹلی کے شہر روم میں موجود تھا ، اس لیے تحریک احیاے علوم کا آغاز بھی(چودھویں صدی عیسوی میں) روم ہی سے ہوا۔اس تحریک کے اثرات سے لوگوں نے راہبوں اور پادریوں کی سوچ و فکر سے آزاد ہو کر سوچنا شروع کر دیا۔اس زمانے کے فلسفیوں اور دانش وروں نے دلائل کے ذریعے عیسائیت کے مذہبی عقائد کا غیر عقلی اور غیر فطری و غیر منطقی ہونا لوگوں کے سامنے ثابت کرنا شروع کیا۔سولھویں صدی عیسوی میں بائبل میں دی گئی کائنات اور زندگی سے متعلق بعض معلومات کے سائنسی طور پر غلط ثابت ہونے سے مذہبی عقیدے کی لوگوں پر گرفت بالکل کمزور پڑ گئی۔ یہ بغاوت عیسائیت کے ایسے قوانین اور ضوابط کے خلاف نہیں تھی جو حکومتی معاملات، طرزِ معاشرت، معیشت، وغیرہ سے متعلق ہوتے کہ ایسے قوانین تو عیسائیت میں تھے ہی نہیں بلکہ عیسائیت تو محض ایک عقیدے کا نام تھی جسے نیقیہ کی کونسل نے حضرت عیسٰیؑ کی تعلیم اور توریت کے احکامات کو نظر انداز کر کے سینٹ پال کے خوابوں اور روحانی مکاشفات کے نتیجے میں اختیار کیا تھااور انسان کی نجات کے لیے لازمی قرار دیا تھا۔یہ عقیدہ چونکہ یونانی دیومالا اور یونانی فلسفے کے زیرِ اثر پروان چڑھا تھا، اس لیے جدید سائنسی انکشافات و اکتشافات کی ذرا سی ٹھوکر بھی نہ سہہ سکا۔

انسانیت پر اثرات

یورپ کے عوام چونکہ راہبوں کے غیر فطری مذہبی رجحانات سے تنگ آ چکے تھے اور سارا یورپ عیسائی علما کے صدیوں تک جاری رہنے والے فقہی اور مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں کے نتائج کو بھی بھگت چکا تھا، اس لیے مذہبی عقیدے سے بغاوت یورپ کے اجتماعی ضمیر میں جلد جذب ہوگئی۔ Renaissance ،یعنی تحریک احیاے علوم کا زمانۂ عروج سترھویں تا انیسویں صدی عیسوی ہے۔ اس دور میں مذہب بے زار فلسفیوں، دانش وروں اور فلسفی سائنس دانوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور یونی ورسٹیاں قائم کیں جن کے ذریعے اپنے خیالات کو عام کیا۔اسی دور میں یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کی، جب کہ باقی دنیا خصوصاً اسلامی دنیا اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی آسان کوشی اور علما کی غفلت کے سبب علمی اور سائنسی طور پر پس ماندہ ہوچکی تھی۔یورپ میں مذہب بے زاری خدا کے انکا ر اور انسان کو بندر کی اولادسمجھنے تک جا پہنچی۔اب یورپ میں زندگی کی معراج یہ ٹھیری کہ: انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ساری جدوجہد کرے۔ تمام انسان بھی عام حیوانوں کی طرح حیوان ہی ہیں، لہٰذا اس دنیا میں بقا محض طاقت ور کو نصیب ہوگی۔ (چارلس ڈارون اور ہربرٹ سپنسر اس فکر کے علَم بردار تھے)۔

اس فلسفے کے عام ہو جانے اور سائنس اور ٹکنالوجی کا ہتھیا ر ہاتھ آجانے کے بعد یورپی اقوام کمزوراقوام پر ٹوٹ پڑیں۔مفتوحہ ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے یورپی اقوام نے وہاں اپنی جدید سیکولر اور لبرل فکر کی ترویج کے لیے کالج اور یونی ورسٹیاں تعمیر کیں۔ مفتوحہ اقوام کے تعلیمی ادارے،اُن کی زبانوں میں تعلیم اور عدالتوں کا نظام موقوف کیا اور معاشرت اور معیشت میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدّن کو رائج کیا جسے مفتوح اور مرعوب و شکست خوردہ لوگوں نے قبول کیا۔فاتح اقوام نے رزق کے ذرائع اپنے قائم کردہ جدید سیکولر تعلیمی اداروں کی اسناد کے ساتھ منسلک کر دیے۔ مفتوحہ اقوام کے نوجوان یورپ میں بھی تعلیم حاصل کرنے لگے(طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یورپی اقوام نے اپنے مفتوحہ ممالک میں سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیابلکہ ان تمام ممالک کو آزادی حاصل ہونے کے بعد خود اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑی)۔اس طرح یورپ کی خدا اورمذہب سے بغاوت پر مبنی فکر ،ادب، عمرانیات ،فلسفہ، آرٹ اور انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ البتہ لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد اب تک دینِ اسلام سے وابستہ ہے اور یورپ کی اس فکر کے خلاف ہے۔مسلمانوں کے ممالک میں اس مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نے ہرطرف انتشار اور فساد پیدا کردیا ہے۔

افراد، طبقات اور اقوم باہم دست و گریباں ہیں۔ سیکولر نظامِ تعلیم کے نتیجے میں خدا، رسولؐ اور احتساب بعد الموت پر اعتقاد کے کمزور پڑنے سے مادہ پرستی، لذت کوشی، حرص ،ظلم، عریانی و فحاشی، کاروباری ذہنیت ، دھوکا دہی ،قتل و غارت گری اور بد امنی ہر طرف پھیل چکی ہے۔

اسلام کا نظامِ حیات

عیسائیت کے برعکس اسلام محض عقیدے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو مذہب کے بجاے ایک دین بمعنی مکمّل نظامِ زندگی ہے جس کے اجزا قرآن و سُنّت میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہ نظام لگ بھگ  بارہ سو برس تک دُنیا کے ایک بڑے حصّے پر غالب ،حاکم اور مقتدر رہا۔ بادشاہ یا حکمران اگرچہ مطلق العنان اور سرکش بھی رہے مگر مسلمان معاشروں میںعدالتیں اسی نظام کے مطابق فیصلے کرتی رہیں، بازار میں(غیر سودی) تجارت اس کے قوانین کے مطابق ہوتی تھی، تعلیمی درس گاہوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی تھی،معاشرت کا پورا نظام اسی کی ہدایات کے مطابق تشکیل شدہ تھا اور حکمران     اِن اُمور کو اسلام کا جزو لاینفک سمجھتے تھے۔دینِ اسلام کی اصل تعلیمات گُم ہوئی ہیںنہ مسلمان علما نے کبھی پوپ کی طرح کسی فرد کو دینی معاملات میں(خدا اور رسولؐکے بجاے)کُلّی اختیارات کا حامل بنایا یا سمجھا، اور نہ مسلم علما نے ترکِ دنیا کے لیے ہی کبھی ایسا پُرتشدد رویّہ اختیار کیا جس سے دینِ اسلام اور علماے اسلام کے خلاف کوئی ہمہ گیر بغاوت پیدا ہوتی۔سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق علوم میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن کے خلاف ہو۔عقلِ سلیم (جس کے یہ سیکولر حضرات بہت قائل ہیں) کا تقاضا ہے کہ جو شخص خدا کو کائنات کی اجتماعی ہیئت کا آقا مانتا ہو(ظاہر ہے مسلمان کہلانے کے لیے کلمۂ شہادت پڑھنے والا ایک سیکولر شخص اتنا تو تسلیم کرتا ہی ہے) اسے اسی خدا کے احکام کو انسانی زندگی کی اجتماعی ہیئت میں بھی قابلِ اتّباع ماننا چاہیے کیونکہ انسان خود بھی تو اس کائنات کی اجتماعی ہیئت کا حصہ ہے۔یہ کوئی معقول بات نہیں کہ ایک شخص اسلام سے تو نہ پوچھے کہ اس کے پاس اجتماعی زندگی کے مسائل کا حل ہے یا نہیں لیکن مغرب کی تقلید میں یا مرعوبیت کے سبب، اسلام پسندی کی ’تہمت‘ سے بچنے کے لیے یا دین پسند ہونے کی صورت میں ’انتہا پسند‘ کہلائے جانے کے خوف سے پورے کے پورے دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کر دے۔

اسلامی ممالک میںخدا، حیات بعد الموت اور دینِ اسلام کی دُنیاوی اُمور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں آج جوبے اطمینانی پائی جاتی ہے، اس کا سرچشمہ یہی یورپ کی خدا اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرلزم اور کچھ نرم قسم سیکولرزم کہلاتی ہے۔پاکستان میںسیکولرزم کا نام لیے بغیر بھی بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ کو اس کی وکالت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔یہ سیکولر لوگ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کو کی جانے والی بانیِ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی محض ایک تقریر کو بنیاد بنا کر اور اس کی غلط اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی من مانی تشریح کر کے ان کو ایک آزاد منش(liberal)،غیر دینی(secular)اور محض ایک   قومی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاکہ عوام الناس کو زندگی کے ہر گوشے (خصوصاً حکومت، سیاست، معاشرت اور معیشت )سے متعلق موجود ا سلامی تعلیمات (جنھیں مِن و عَن قبول کرنے میں ان کا اپنا نفس مانع ہے)، اور حق پرست علما کو اسلام سے برگشتہ کر سکیں اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت بننے سے روک سکیں۔

دراصل لبرلزم اور سیکولرزم بھی کوئی بنیادی عقائد نہیںہیں بلکہ محض عیسائی راہبوں کے مذہبی تشدّد کے خلاف رَدعمل کا نام ہیں جو دُنیا کے اباحیت پسند نفس پرستوںکو بہت بھاتے ہیں ۔ وہ  جدید تعلیم یافتہ مخلص مسلمان جو کچھ مذہبی افراد کی تنگ نظری یا کوتاہ نگاہی کے شاکی ہیں انھیں سیکولرزم یا لبرلزم کا شکار ہو کرخدا کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے کے بجاے اسلام کی تعلیمات کا ان کے اصل ماخذ قرآن و حدیث سے مطالعہ کرکے، اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ ور علماے حق کے ساتھ بیٹھ کراجتماعی زندگی کے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے جن کا حل ان کے خیال میں کچھ تنگ نظر اور کوتاہ فکر مذہبی لوگوںکے بس کی بات نہیں۔ آج کے دگرگوں حالات میں بقا ، نجات، آزادی، عزت اور سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اہلِ اسلام خود    قرآن و سُنّت کے شفاف چشمے کی طرف رجوع کریں اور لبرلزم اور سیکولرزم کے خلاف اسلام کے دفاع کی جنگ ہر محاذ پر لڑیں،اورپھر دُنیا کے عام انسانوں کو اپنی قولی اور عملی شہادت کے ذریعے بتائیں کہ اسلام واقعی خدا کا دیا ہوا حیات بخش نظامِ زندگی ہے جس کے مقابلے میں لبرلزم اور سیکولرزم دُنیا   کے انسانوں کو محبت، سکون،امن ، خوش حالی،قناعت،ہمدردی، اطمینانِ قلب، خدا سے تعلق اور روحانی لگائو عطا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

ناشپاتی شکل کا جزیرہ سری لنکا، بھارت کے جنوب مشرقی ساحل سے ۳۱ کلومیٹر دُور واقع ہے۔ رقبہ ۶۵ ہزار ایک سو ۶۰ مربع کلومیٹر، جب کہ آبادی ۲ کروڑ سے زائد ہے۔ ۴۵ فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں شرح خواندگی ۹۱ فی صد سے زیادہ ہے۔ کولمبو دارالحکومت ہے۔ ملک میں ۶۵ فی صد بدھ، ۱۵ فی صد ہندو، ۹ فی صد مسلمان اور ۸ فی صد عیسائی ہیں۔ نسلی اعتبار سے سنہالی ۷۴ فی صد، تامل ۱۷ فی صد اور عربی النسل مسلمان ۷ فی صد ہیں۔

سری لنکا کے مسلمانوں کے بارے میں مسلم دنیا کا عام طور پر یہ تاثر ہے کہ وہ وہاں امن و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو چین، برما، بھارت، تھائی لینڈ جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ بلاشبہہ حکومتی پالیسی میں مذہباً اور نسلاً کوئی تعصب نہیں پایا جاتا مگر سنہالی بدھ اور ہندوئوں نے عملاً مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد مسلمان گھروں سے بے گھر ہوکر  گذشتہ کئی برس سے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

سری لنکا سے مسلمانوں کا تعلق پہلی صدی ہجری ہی میں قائم ہوگیا تھا اور مسلمان عربوں نے یہاں ساحل پر بستیاں قائم کیں۔ سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کی وجہ سری لنکا کے مسلمان ہی بنے تھے جن کے جہاز کو سندھ کے ساحل پر راجا داہر کے ڈاکوئوں نے لوٹ لیا تھا۔

سری لنکا کی ایک اور وجۂ شہرت حضرت آدم علیہ السلام سے منسوب پائوں کا ایک نشان بھی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اسلام سری لنکا میں تیزی سے پھیلنے لگا۔ شروع میں وہ عورتیں مسلمان ہوئیں جنھوں نے عرب تاجروں سے شادی کی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی اور ولندیزی حملہ آوروں کے ذریعے ملایا اور انڈونیشیا سے بھی مسلمان یہاں لائے گئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہندستان سے بھی مسلمان یہاں پر آئے۔

نسلی طور پر عرب مسلمان سری لنکا میں کُل مسلم آبادی کا ۹۵ فی صد ہیں اور ان کا تعلق شافعی مسلک سے ہے۔ سری لنکا کے مشرقی علاقے میں آباد یہ مسلمان تامل زبان بولتے ہیں، جب کہ مغربی ساحل پر آباد مسلمان، سنہالی اور انگریزی بولتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر تجارت اور زراعت سے وابستہ ہیں۔ مشرقی ساحل پر آباد مسلمان ماہی گیر اور تاجر ہیں۔ ملائی مسلمانوں کی تعداد ۵۰ہزار سے زیادہ ہے جو زیادہ تر ملایا سے ولندیزی فوج میں بھرتی ہوکر آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں یہ کُل مسلم آبادی کا ۵ فی صد تھے۔

سری لنکا میں آئینی طور پر مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے اور اہم مذہبی تہواروں پر سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق شریعت کورٹس میں تنازعات کے فیصلے کرانے کا حق بھی حاصل ہے۔ حکومت نے اسکولوں میں اسلامی تعلیم کی تدریس کا بھی اہتمام کیا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور وہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی شامل ہیں۔

مسلمانوں، تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں میں صدیوں تک کسی قسم کے نسلی اور مذہبی تنائو کا ذکر نہیں ملتا۔مذہبی و نسلی تعصب کا بیج یورپی حملہ آوروں نے بویا اور سب سے پہلا مسلم کش فساد جون ۱۹۱۵ء میں ہوا اور یہ مرکزی صوبوں سے مغربی اور شمال مشرقی صوبوں تک پھیل گیا۔ اس فساد کے دوران ۱۴۶ مسلمانوں کو شہید، اور ۴۰۰ سے زائد مسلمانوں کو زخمی کر دیا گیا، کئی سو خواتین کی عصمت دری ہوئی۔

۴ فروری ۱۹۴۸ء کو آزادی کے بعد سنہالی، بدھ حکومت نے جو پالیسی بنائی اس سے تامل مطمئن نہ تھے مگر مسلمانوں نے کسی بھی تنازع سے دُور رہنے کی پالیسی اپنائی۔ اور یہی پالیسی ان کے لیے آنے والے دنوں میں وبالِ جان بن گئی۔

سنہالی حکومت میں تنازع کی ابتدا اس وقت شروع ہوگئی جب تامل زبان کو نظرانداز کرکے سنہالی کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ سنہالی تعصب کا مزید مظاہرہ اُس وقت ہوا جب جزیرے کا نام سیلون کی جگہ سنہالی زبان میں سری لنکا رکھ دیاگیا۔ تاملوں نے آزادی کی تحریک شروع کر دی اور بھارت نے اس کی پشت پناہی کی کیونکہ بھارت میں ۶۳ ملین تامل ہیں۔

حکومت نے ایک خاص پالیسی کے تحت سنہالیوں کو مسلمان علاقوں میں آباد کرنا شروع کردیا۔ اس اقدام کو مسلمانوں نے اپنے لیے خطرہ سمجھا اور انھوں نے بھی تامل علیحدگی پسندوں کی حمایت کردی۔ ۱۹۷۶ء میں تامل یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ بنا۔ اس کے بعد لبریشن ٹائیگرز آف تامل وجود میں آگئی جس نے بلاامتیاز تمام مذاہب کی نمایندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کیا۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اِن میں شامل ہوگئی۔ مسٹر گاندھی کی کانگریس کی طرح لبرشن ٹائیگرز کا یہ دعویٰ بھی   غلط نکلا اور تامل مسلمان مایوس ہوگئے۔

کولمبو حکومت نے بھی تامل ہندوئوں اور تامل مسلمانوں میں خلیج بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی۔ اس طرح تامل ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔ مسلمان بستیوں پر حملے، قتل، اغوا اور لوٹ مار شروع ہوگئی۔

۱۹۸۰ء کی دہائی میں حکومت نے مسلمانوں کا تحفظ کرنے کے بجاے مسلمانوں سے کہا کہ تاملوں کے حملوں کے خلاف خود اپنی حفاظت کریں۔ اس سلسلے میں حکومت نے مسلمانوں کو ہتھیار بھی فراہم کیے۔ ان ہتھیاروں کی فراہمی کا ایک مقصد تامل ہندوئوں میں خلیج کو بڑھانا تھا۔ تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک اور بعض مسلمان تنظیمیں مسلمانوں کی عسکری تربیت کے لیے اسلحہ اور رقوم فراہم کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اپنی حفاظت کے نقطۂ نظر سے عسکری گروپوں نے جنم لیا جس سے مسلمانوں تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں کے درمیان فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلمانوں کو اقلیت میں ہونے کی وجہ سے بھی مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ پُرامن رہنے والے مسلمانوں کو ایک اندھی جنگ میں جھونک دیا گیا اور اب مسلمانوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسند مسلمانوں کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ ان حالات میں جہاں سری لنکا کے مسلمانوں کو صبر اور حکمت سے معاملات کو لے کر چلنے کی ضرورت ہے وہاں اپنے مسائل کے حل کے لیے اسلامی دنیا کی بھی توجہ چاہتے ہیں۔

انقلابی تبدیلی کے لیے فرد کا کردار

سوال: ملکی معاملات میں حکومت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اگر حکومت ملک کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے کردار ادا نہ کر رہی ہو اور مخلص اور دیانت دار قیادت بھی میسر نہ ہو، جب کہ سوسائٹی میں ایسے رویوں کا سامنا بھی ہو جو دین سے لاتعلق ہوں، تو ایک عام آدمی اصلاحِ معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ نے اپنے سوال میں جس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ اکثر مسلم ممالک میں حکومت ایسے افراد کے قبضے میں ہے جو اسے اپنی میراث سمجھتے ہیں اور عموماً آمریت اور سیکولر طرزِ حکومت کے دل دادہ ہیں۔ ظاہر ہے ایسی حکومتوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کریں گی یا تحریکاتِ اسلامی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گی، ایک غیرحقیقت پسندانہ بات ہوگی۔ ان حکومتوں کی کوشش تو یہی رہتی ہے کہ نظامِ تعلیم ہو یا نظامِ معیشت و معاشرت، ہر ہر شعبۂ حیات میں وہ مغرب کی اندھی نقالی کریں تاکہ انھیں ’روشن خیال‘ اور ’اعتدال پسند‘ سمجھا جائے۔ ان حکومتوں کی پالیسیوں کا مقصد مغرب کی غلامی کو مستحکم کرنا اور اسلامی فکر رکھنے والی جماعتوں کے کام میں مشکلات پیدا کرنا ہی رہا ہے۔

ایسے حالات میں آپ کا یہ سوال کہ ایک عام شخص اصلاحِ معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کیا کرسکتاہے، ایک بہت عملی سوال ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ غور طلب ہے کہ اگر معاشرے میں حکمران طبقے اور بااثر افراد میں انحراف نفوذ کر گیا ہو تو کیا انفرادی کوشش حقیقتاً مطلوبہ نتائج اور تبدیلی پیدا کرسکتی ہے، یا ایسے نامساعد حالات میں زمانے کی فضا سے اختلاف رکھنے والے افراد اپنے گھروں میں معاشرے سے کٹ کر تنہائی میں اپنے رب کا ذکر اور طاغوتی قوتوں کی بربادی کے لیے دعا کرتے رہیں اور معاشرے کو لادینی عناصر کی تخت و تاراج کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے۔

حق و باطل کی یہ کش مکش ہمارے اس دور ہی میں نہیں تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے اور اسلامی قوتوں نے بظاہر قلتِ تعداد کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اپنے خلوص اور استقامت کی بنا پر آگے بڑھ کر باطل قوتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ اپنے مخلص بندوں کے حوالے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ راہِ حق میں نکلنے والوں کی قلتِ تعداد کے باوجود انھیں اپنے سے کئی گنا زیادہ حزبِ مخالف پر برتری عطا فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو اگر تم میں سے ۲۰ آدمی صابر ہوں تووہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے… (الانفال ۸:۶۵)۔ گویا جب بھی نظامِ حق کے قیام کے لیے منظم جدوجہد کی جائے گی اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید غیبی سے اہلِ حق کی کم تعداد دشمنِ دین کے بظاہر زیادہ قوی، سازوسامان سے لیس لشکر پر غالب ہوگی۔ البتہ اولین شرط ان کا مومن اور صابر ہونا ہے۔

ایک مسلم اور مومن ایسے حالات میں بھی جب ابلاغِ عامہ عریانیت اور اخلاق دشمن فضا پیدا کرنے میں مصروف ہو اور حکمران مغرب کی ذہنی اور مالی غلامی پر فخر کرتے ہوں اور اس غلامی کو اپنے لیے وجۂ نجات تصور کرتے ہوں، نہ تو مایوس ہوسکتا ہے اور نہ جھنجھلاہٹ میں عقل و ہوش کا دامن چھوڑ سکتا ہے۔ اسے قرآن اور خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق کار پر عمل کرنا ہوگا۔

اس طریق کار میں اولین چیز اپنے دل و دماغ کو اس بات پر حتمی طور پر مطمئن کرنا شامل ہے کہ وہ قرآن وسنت ہی کو اپنا مآخذ اور ذریعۂ قوت سمجھتا ہے اور باطل کی بظاہر کثرت اور یلغار سے نہ خائف ہے اور نہ اس کے آگے ہتھیار ڈالنے یا کسی گوشے میں جاکر اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ استقامت اور صبر کے ساتھ، یعنی مسلسل جدوجہد کرنے ہی کو    اسوۂ انبیا سمجھتا ہے، اس لیے ۶۰، ۷۰ سال جدوجہد کرنے کے باوجود نہ مایوس ہے، نہ دل برداشتہ۔ اس طریق کار میں جو حکمت و برکت ہے، وہ کسی وقتی جذباتی فیصلے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔    تیسری بات یہ کہ وہ جس حال میں اور جہاں کہیں بھی ہے اسے اپنے جہاد کو جاری رکھنا ہے اور نظام باطل کی کمزوریوں کو واضح کرنے کے ساتھ وہ انسانی اثاثہ تیار کرنا ہے جو آخرکار مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے  شرطِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسلامی ریاست کا قیام نہ تو کسی یک شبینہ انقلاب سے ہوسکتا ہے اور نہ کسی جلوس کے مطالبے سے بلکہ اس کے لیے افرادِ کار کی وہ جماعت درکار ہے جو رات کو عبادت گزار ہو اور دن میں باطل معاشی نظام، باطل رسوم و رواج، باطل فکر اور باطل اقتدار کے خلاف عملاً تبدیلی لانے کی جدوجہد میں شامل ہو۔

اسلامی ریاست کی پہلی اینٹ ایک مسلمان گھرانے میں شوہر اور بیوی کا اپنے معاملات میں اسلام کو نافذ کرنا ہے۔ اس کی دوسری اینٹ ان والدین کا اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل پر آمادہ کرنا ہے۔ اس کی تیسری اینٹ اس مسلمان گھرانے کا اپنے طرزِعمل، اخلاق اور تعاونوا علی البر والتقویٰ اور امربالمعروف کے مثبت اصولوں کی مدد سے اپنے محلے کے افراد کے مسائل کے حل کرنے میں ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔ اس کی چوتھی اینٹ نہ صرف محلہ بلکہ ملک  میں ہونے والی نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں جس سطح پر بھی ممکن ہو، قلم سے، مال سے،  جسم و جان سے اپنا حصہ ادا کرنا ہے۔

گویا مثالی اسلامی ریاست اچانک کسی غیبی اعلان سے نافذ نہیں ہوگی بلکہ افراد کار کو    اور خصوصاً ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو تحریک کا ہم خیال سمجھتے ہیں، آگے بڑھ کر بتدریج لیکن  مستقل مزاجی یا صبر کے ساتھ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ قرآن کریم نے اس بات کو    سورئہ رعد میں بطور ایک اصول کے واضح طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

لہٰذا اگر صاحب ِ اقتدار ٹولہ چور ہو، ملک کا بدخواہ ہو، بیرونی طاقتوں کا غلام ہو، مفاد پرست ہو تو محض اس بات کا اظہار کرکے دل کی بھڑاس نکالنا کافی نہیں ہوسکتا۔ قوم کو اللہ کی بندگی کے راستے پر اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے، دبائو اور لالچ کے باوجود کسی مفاہمت اور وقتی طور پر باطل کا ساتھ دیے بغیر اپنے موقف کو دلیری اور اعتماد کے ساتھ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق اختیار کرنا ہوگا۔ جب قوم اپنے اوصاف کو تبدیل کرے گی تو قلتِ تعداد کے باوجود فتح یاب ہوگی اور باطل لرز کر اور خائف ہوکر یا تو میدان چھوڑے گا یا مقابلے پر آنے کے بعد شکست  کھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ابدی اور آفاقی اصول ہر دور میں ہر مقام پر یکساں ہیں۔ ہمارے لیے کوئی الگ شریعت نہیں آئے گی۔

ہمیں مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے اپنے گھر میں چھوٹے پیمانے پر اُس ریاست کو، اپنے محلے میں چھوٹے پیمانے پر اس ماحول کو، اور آخرکار اپنے ملک میں وسیع تر پیمانے پر ان اصولوں کو بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔ یہ طریق کار وہی ہے جو خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ میں اولین جماعت ِ مجاہدین میں عملاً نافذ فرمایا۔

یہی وہ طریق کار ہے جو تحریکاتِ اسلامی نے اختیار کرنا چاہا ہے اور اسی کو اختیار کرنے کے بعد ہم پاکستان میں ان شاء اللہ ایک مثالی ریاست قائم کریں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ رب کریم سے استعانت مانگنے کے ساتھ اصل کرنے کا کام ایسے افرادِ کار کی تیاری ہے جو ایمان، صبرواستقامت، حکمت دینی اور تفقہ فی الدین سے آراستہ ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلیِ اقتدار میں ایک عام شہری کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کردار کے ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عام شہری کو حالات کا صحیح شعور وآگہی ہو، اور ہمارے اہلِ علم اور دانش ور ملک کے معاملات کا تجزیہ ایک عام شہری کے لیے قابلِ فہم زبان میں پیش کریں اور بجاے نااُمیدی کے ان میں اعتماد، اُمید اور مستقبل کے روشن ہونے کے احساس کے ساتھ افراد اور نظام کی تبدیلی کے لیے ایک لائحہ عمل بھی پیش کریں۔

پریشان کن حالات میں تحریکِ اسلامی کی قیادت اور اس کے ہر کارکن پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نعروں، بیانات اور قراردادوں سے آگے نکل کر ملک گیر پیمانے پر عوامی مسائل کے حل کے لیے بستی بستی جاکر اپنے منشور اور اپنے track record کو عام شہری کے علم میں لائیں تاکہ افسردگی، نااُمیدی، غصہ اور نفرت کی جگہ مستقبل کے بارے میں پُرامید رویہ اور عوامی مہم کے ذریعے نااہلوں کی جگہ اللہ کا خوف رکھنے والے افراد کو قیادت پر لایا جاسکے۔ ایک عام شہری اپنے گھروالوں، محلے والوں اور شہروالوں کو نہ صرف حالات سے آگاہ کرسکتا ہے بلکہ انھیں منظم، پُرامن اور اجتماعی جدوجہد پر بھی آمادہ کرسکتا ہے۔

آج جو حالات پاکستان میں پائے جاتے ہیں ان میں ہرباشعور شہری متفکر اور پریشان ہے۔ اگر اس فکروپریشانی کا کوئی مثبت حل پیش نہ کیا گیا تو یہ مایوسی میں تبدیل ہوگی اور مایوسی عموماً شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کا فرض منصبی یہی ہے کہ وہ پُرامن جدوجہد اور فکری، عملی اور اجتماعی اصلاح کے ذریعے تبدیلیِ قیادت و امامت کو اپنے اہداف میں شامل کریں، اور حقائق پر مبنی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی افرادی قوت کو ان بے شمار شہریوں سے تبادلۂ خیالات کرنے کے بعد انھیں ساتھ لے کر ملک گیر پیمانے پر اصلاح کی تحریک کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کی راہ کو ہموار کریں۔(ڈاکٹر انیس احمد)

نشانات ارضِ نبویؐ، شاہ مصباح الدین شکیل۔ ناشر: فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، فضلی بک، سپرمارکیٹ، ۳/۵۰۷، ٹمپل روڈ، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۶۲۹۷۲۴-۰۲۱۔ صفحات: ۳۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے متعلقات، جناب شاہ مصباح الدین شکیل کا خاص موضوع ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے ۱۹۸۶ء میں سیرت احمدؐ مجتبیٰ پیش کی جس پر صدارتی اوارڈ ملا۔ ۱۹۹۲ء میں سیرت النبیؐ البم شائع کیا، ۲۰۰۵ء میں یہی البم زیادہ بہتر صورت میں نشاناتِ ارض قرآن کے نام سے منظرعام پر آیا۔ اب اسی کتاب کو نئے نام نشاناتِ ارضِ نبویؐ سے مزید بہتر، جامع اور کہیں زیادہ خوب صورت اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ ان کا حاصلِ حیات (life work) ہے۔

ابتدا حیات طیبہ کے مختصر بیان سے ہوتی ہیں جسے ماہ و سال کے آئینے میں پیش کیا گیا ہے۔ پھر جزیرہ نما عرب کی تاریخ، جغرافیہ، بعدازاں حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کے مختصر سوانح، تاریخ تعمیرکعبہ، بیت اللہ، رسولؐ اللہ کے آباواجداد، مولد النبی وغیرہ اور سیرت پاکؐ کے اہم تر واقعات کا ذکر ہے۔ اس کی مناسبت سے دسیوں عنوانات قائم کیے گئے اور بعض اوقات کسی ایک عنوان کے تحت ضمنی عنوانات دے کر تفصیل دی گئی ہے، جیسے مسجد نبویؐ کے تحت اسطوانے، محراب، منبر، مقصورہ، گنبد، ابواب اور مینار وغیرہ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کی موجودہ صورت کیا ہے؟ کہاں،  کس جگہ حدیث اور قرآن کے حوالے نماز و نوافل کا ثواب کتنا ہے؟ سب مقامات کی مختلف زاویوں سے لی گئی تصویریں، اس پر مستزاد۔ محراب (مصلّٰی) کے تحت ریاض الجنۃ میں محرابِ نبویؐ اور  محرابِ عثمانی کے تذکرے میں مسجدقبا، مسجد سلیمانی (ترکی)، مسجد بیجنگ (چین) اور مسجدقرطبہ (اسپین) کی محرابوں کی تصویریں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔

زیرنظر مرقعے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں ارضِ قرآن اور ارضِ نشانات نبویؐ (نجد و حجاز) اور فلسطین بلکہ عالمِ اسلام سے متعلق بیسیوں ایسے آثار کی تصویریں شامل ہیں جن کا وجود اب   مِٹ چکا ہے۔

شکیل صاحب نے جملہ موضوعات اور عنوانات سے متعلق تاریخی حقائق اور واقعات اور ضروری تفصیلات بھی مہیا کی ہیں۔ یوں یہ کتاب قدیم و جدید دور کی ایک بیش بہا تاریخی اور تصویری دستاویز بن گئی ہے۔ ہرصفحے کے نیچے موضوع کی مناسبت سے کوئی نعت یا شعر دیا گیا ہے۔

یہ مرقع مصنف کے برسوں کے مطالعے اور تحقیق کا ماحصل ہے۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے تحقیقِ مزید کے لیے سعودی عرب، لندن، امریکا اور کینیڈا کا مطالعاتی دورہ بھی کیا تھا۔ ابتدا میں مختلف اصحاب کی تقاریظ شامل ہیں لیکن ’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘ کے مصداق یہ مرقع دوسروں کی تعریف سے مستغنی، خود آپ اپنا تعارف ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کے لیے معلومات کا ایسا خزانہ ہے جس سے بقدرِ ظرف و توفیق تازگی ایمان اور حصولِ برکت ممکن ہے۔ اگر عازمینِ حج و عمرہ اس کا مطالعہ کریں تو مکہ اور مدینہ پہنچ کر وہاں کے دَر و دیوار، ماحول اور فضائوں میں زیادہ اپنائیت اور موانست محسوس کریں گے۔

دبیز آرٹ پیپر پر کئی رنگوں کی طباعت، ہرصفحہ آرٹ ورک سے مزین، بڑی تقطیع اور پروف خوانی میں دقتِ نظر کے اہتمام پر ناشر اور طابع کی کاوش بھی قابلِ داد ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


روشن قندیلیں، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶۔ صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

ہدایت سے سرفراز کوئی مرد ہو یا عورت، یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ پھر اس ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لینے کی توفیق پا لینا اس انعام سے بھی بڑا اعزاز واکرام ہے۔ بلاشبہہ رسول اکرمؐ پر ایمان لے آنے والے مرد و خواتین کو یہ بلند مقام نصیب ہوا بلکہ وہ اس ہدایت کو  قبول کرنے کی پاداش میں تعذیب و تشدد کی آزمایشوں سے استقامت کے ساتھ گزرے تو اُن  کے نصیب کی رفعت و عظمت میں اور اضافہ ہوگیا۔ ان اصحابِ کرام کی زندگیوں کے تذکرے   اہلِ ایمان کے لیے باعثِ ہدایت ہیں۔

صحابۂ و صحابیات رضی اللہ عنہم کی سیرت کو اس زاویۂ نظر سے پڑھنا کہ اُس سے ہمارے ایمان کو تازگی اور حرارت ملے، ہر مسلمان کی خواہش اور کوشش ہونی چاہیے، جس طرح صحابہ کرامؓ نے مسلمان ہونے کا حق ادا کیا، اسی طرح صحابیاتؓ نے بھی اس حق کو ادا کرنے میں کوئی کسر     نہ چھوڑی۔ سیرتِ صحابیاتؓ کی اس تاریخ کو ایک جھلک روشن قندیلیں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ۵۲صحابیات کے تذکروں پر مشتمل اس کتاب کا اسلوب روایتی سوانح سے قدرے مختلف اور ایک حد تک منفرد ہے۔ اُمہات المومنینؓ (ازواج النبیؐ)، بنات مطہرات (رسول اکرمؐ کی بیٹیوں) اور دیگر اہلِ عزیمت و عظمت صحابیاتِ رسولؐ کے حالات کو تاریخی واقعات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر صحابیہؓ کے تذکرے کے آخر میں چند سطور میں تحریر کا ماحصل دے دیا گیا ہے۔ ہر صحابیہؓ کے امتیازی وصف کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اُن کے اعزازات کا بیان بھی ہے۔ اُن کے ذاتی کارناموں کے اعتبار سے بھی اُن کی عظمت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس پہلو کو بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی صحابیہؓ کے بھائی، شوہر یا لختِ جگر کے عظیم کردار سے خود اس صحابیہؓ کی عظمت بھی نمایاں ہوتی ہے۔

صحابیات کی یہ سیرت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ قلم بند کی گئی ہے۔ تحریر کی روانی اور اسلوب کی یکسانیت آغاز سے لے کر کتاب کے آخر تک ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اس کا مقصدِ تحریر بخوبی پورا ہوتا ہے۔ ’’ان عظیم بناتِ اسلام کے مجرد واقعات بھی ایمان کی بالیدگی کا ذریعہ ہیں اور ہرواقعہ پڑھ کر انسان جھوم اُٹھتاہے مگر محض واقعات اور سوانح بیان کرنے کے بجاے یہ تمام سوانح آج کے دور میں حاصل ہونے والے دروسِ عبرت کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ ایک تذکیر کی کتاب ہے۔ اسے اسی نقطۂ نظر سے پڑھنا چاہیے‘‘ (ص ۲۰)۔ (ارشاد الرحمٰن)


اقبال، روح دین کا شناسا، سید علی گیلانی، ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۲۴۵ روپے۔

سیدعلی گیلانی خطۂ کشمیر میں تحریکِ اسلامی کے سرخیل اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے روحِ رواں ہیں۔ وہ تقریباً ۲۵ سال سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے آرہے ہیں۔ بڑھاپے کے ساتھ عارضۂ قلب اور سرطان جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں لیکن اس عالم میں بھی ان کے حوصلے اور جذبے تندرست و توانا اور مستحکم ہیں جس کی ایک دلیل زیرنظر کتاب ہے۔

علامہ اقبال کو عام طور پر اُردو شاعری کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن اقبال کی فارسی شاعری بھی اپنے اندر ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو رکھتی ہے۔ علی گیلانی نے اقبال کے فارسی کلام سے ان کی شخصیت کے اس منفرد پہلو کو اُجاگر کرکے فی الواقع ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ یہاں ہمیں اقبال ایک فلسفی اور شاعر سے بڑھ کر احیاے اُمت کے داعی اور نبی کریمؐ کے مشن کے علَم بردار نظر آتے ہیں۔ وہ مسلمان سے کہتے ہیں کہ اے لاالٰہ کے وارث! تو اپنی حقیقت کو پہچان اور دینِ حق کو لے کر اُٹھ، یہی تمھارے تمام مسائل کا حل اور علاج ہے۔

علامہ اقبال کے افکارِ عالیہ کا سرچشمہ قرآن و حدیث ہے۔ زیرنظر کتاب میں ۱۶موضوعات کے تحت افکار اقبال کی توضیحات شامل ہیں۔ سید علی گیلانی نے زمانۂ طالب علمی کا کچھ عرصہ لاہور میں گزارا اور یہیں ’پرندے کی فریاد‘ اقبال سے ان کے اوّلین تعارف کا سبب بنی۔ وہ لاہور کا ذکر انتہائی محبت سے کرتے ہیں۔ انھوں نے فکرِاقبال کے ترکیبی عناصر اور اس کے بتدریج ارتقا پر سیرحاصل گفتگو کی ہے اور یہ گفتگو زیادہ تر ان کے شعری شاہ کار جاوید نامہ کے حوالے سے کی گئی ہے۔

جاوید نامہ دراصل ایک تمثیل ہے۔ اس میں اقبال اور رومی مختلف افلاک کا سفر کرتے ہوئے عالمِ بالا میں مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ’قلزمِ خونیں سے ایک غدار کی فریاد‘ کے زیرعنوان گیلانی صاحب نے موجودہ تناظر میں ملک و ملّت کے غداروں کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرقی اقوام بالخصوص اہلِ ہندستان بظاہر آزاد ہوچکے ہیں مگر مسلم مشرق اب بھی استعماری قوتوں کے پنجۂ استبداد میں ہے۔ اس دگرگوں صورتِ حال سے چھٹکارے کے لیے ہم افکارِ اقبال کی روشنی میں اپنا لائحۂ عمل مرتب کرسکتے ہیں۔

سید علی گیلانی کا خیال ہے کہ تحریکِ آزادی اور تبلیغ دین کے کام میں ہمیں کلامِ اقبال سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اقبال روحِ دین کے شناسا ہیں۔ گیلانی صاحب کہیں کہیں اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور شعرِاقبال سے تائید حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے اسبابِ زوالِ اُمت کی نشان دہی کرتے ہوئے فکرِاقبال کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا ہے۔ ان کے خیال میں فکرِاقبال ہی دردِ ملّت کا درماں ہے۔

یہ کتاب علم و حکمت کا خزینہ ہے اور اپنے اندر عام قارئین کے لیے بھی دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ علی گیلانی کی تحریر خوب صورت اسلوبِ نگارش کا مرقع ہے۔ طباعت و پیش کش عمدہ اور معیاری ہے اور قیمت مناسب۔ (قاسم محمود احمد)


اُردو سرکاری زبان از چودھری احمد خاں (علیگ) ۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تعمیرافکار، عقب بقائی ہسپتال، ناظم آباد، کراچی۔ فون: ۳۳۵۴۶۲۵-۰۳۳۳۔صفحات:۴۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پاکستان کی بنیاد اسلامی تہذیب و تمدن ہے، اور برعظیم ہند میں اسلامی تہذیب و تمدن کا اہم ستون اُردو زبان ہے۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا مطالعہ کریںتو قدم قدم پر اُردو کا مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس زبان کی اہمیت کو جانتے ہوئے آں جہانی گاندھی نے اُردو کو قرآن کے حروف میں لکھی جانے والی زبان قرار دے کر ہی اس کی مخالفت کی تھی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانگرس‘ نے ۱۸۸۶ء سے ۱۹۳۸ء کے دوران اپنے ۳۸سالانہ اجلاسوں میں اُردو زبان کی ترقی و ترویج اور اسے سرکاری زبان بنانے کے لیے قراردادیں منظور کیں (ص۲۳)، اور پھر آل انڈیا مسلم لیگ نے تحریکِ پاکستان میں اسے اپنے ایجنڈے کا ایک مرکزی نکتہ قرار دیا۔ ۱۹۳۷ء میں صوبائی حکومت کے قیام کے دوران میں کانگرس نے منظم، مؤثر اور مسلسل کوشش کے ذریعے اُردو زبان کو کھرچ پھینکنے کے لیے جارحانہ پالیسی اپنائی۔ دراصل اُردو مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کا سب سے جان دار پہلو تھا، اسی لیے متحدہ قومیت کی علَم بردار کانگرس اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھی (افسوس کہ یہی کام پاکستانی مقتدرہ نے پاکستان میں کر دکھایا)۔

قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستانی قوم کی ایک سرکاری زبان اُردو پر اتفاق تھا۔ ہندو لابی کے زیراثر ڈھاکا میں اسے چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی تو قائداعظم نے اُردو زبان کے مسئلے پر کسی سمجھوتے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں پاکستان کے تینوں دساتیر نے اس کی مرکزیت کو تسلیم کیا، اور ۱۹۷۳ء کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے تو ۱۵ برس، یعنی ۱۹۸۸ء تک اسے ہر جگہ سرکاری طور پر رائج کرنے کا متفقہ فیصلہ بھی کررکھا ہے، مگر حکمران طبقوں نے دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔

آج صورت یہ ہے کہ بے جا طور پر انگریزی زبان کی لازمی تعلیم و تدریس اور انگریزی ذریعۂ تعلیم نے ہمارے تہذیبی اور قومی نظامِ حیات کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ سرکاری اداروں کی تمام تر خط کتابت اور جملہ کارروائیوں پر انگریزی کے بھوت کو مسلط کر کے، عملاً عوام کو   کاروبارِ ریاست سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا انگریزی کی پرستش کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ  عمومی سطح پر ہمیں احساسِ کمتری کے ناگ نے ڈس لیا ہے۔ اس عمل نے ہماری تاریخ، تہذیب، اخلاقیات اور روایات کو حقارت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ کیا پڑھا لکھا اور کیا اَن پڑھ، انگریزی کے چند الفاظ کی جگالی کو علم،وقار اور شائستگی کا معیار سمجھ بیٹھا ہے۔

زیرنظر کتاب نے اسی قومی المیے کو ترتیب، جامعیت اور اختصار کے ساتھ ایک مقدمے کی صورت میں یک جا پیش کرکے قابلِ تحسین کاوش کی ہے۔ فاضل مؤلف نے گذشتہ ڈیڑھ سو سال کے سرکاری اور غیر سرکاری ریکارڈ سے مؤثر تفصیلات کو غیرجذباتی انداز سے پرو کر رکھ دیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ ہماری بے عملی پر تازیانہ برساتا اور فداکارانہ عمل پر اُبھارتا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


ہندوستان کا اصل چہرہ (The Real Face of India)، ریاض احمد چودھری۔ ناشر: ریاض پبلشرز، فوکسی بلڈنگ، فرسٹ فلور، ۴۳- کمرشل ایریا، کیولری گرائونڈ، لاہور کینٹ، لاہور۔ فون: ۳-۳۶۶۱۰۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

قیامِ پاکستان کو ۶۲ سال گزرچکے ہیں۔ تین نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں اور نئی نسل ان اسباب و حالات سے پوری طرح آگہی نہیں رکھتی جو تقسیم ہند کا سبب بنے تھے۔ وطنِ عزیز کے حکمرانوںنے امریکا کے زیراثر خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک عشرے سے زائد عرصے میں بھارت سے دوستی بڑھانے کی جہاں بے شمار کوششیں کی ہیں، وہیں دانش وروں اور میڈیا کے اثرات کے تحت بڑے بڑے ذمہ داران کبھی تقسیمِ ہندکو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی، ہر پاکستان کے دل میںایک ہندوستان ساہو نے، پاکستان اور ہندستان کی کنفیڈریشن تو کبھی ملکی سرحد کو ظلم کی دیوار قرار دینے پر تلے رہتے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں انگریزی صحافت سے وابستہ صحافی ریاض احمد چودھری ہندستان کے اصل چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں اور اختصار و جامعیت کے ساتھ موضوع کا احاطہ ہی نہیں کرتے بلکہ ناقابلِ تردید اعداد و شمار بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ کتاب جہاں ایک طرف ہندو ذہنیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، وہاں چھے عشروں میں بھارت میں مسلم، عیسائیوں، سکھوں اور اچھوتوں کے ساتھ جو ظلم کیا جا رہا ہے اس کی مکمل تصویر بھی پیش کرتی ہے۔ ہندستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار کی جو تصویر کھینچی گئی ہے وہ قاری کے دل میں پاکستان کی اہمیت کو اُجاگر بھی کرتی ہے اور اس پس منظر میں سیاست دانوں کے بیانات کا جائزہ لینے، نیز امریکا، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی صورت میں قائم ہونے والی تکون کی سازشوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ (معراج الھدیٰ صدیقی)


سانجھ پئی چو دیس، سلمیٰ یاسمین نجمی۔ ناشر: شاہکار فائونڈیشن، ۳۵- اقبال ایونیو، گرین ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۹۴۵۴۲۹-۰۴۲۔ صفحات: ۷۲۳۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

پوٹھواری تہذیب و معاشرت کا عکاس، اُردو میں یہ پہلا ناول ہے۔ سلمیٰ یاسمین نجمی ایک معروف اور پختہ فکر قلم کار ہیں۔ ان کا شمار افسانوی ادب لکھنے والی ان معدودے چند خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے قلمی جہاد کے ذریعے اصلاحِ معاشرت کو زندگی کا نصب العین قرار دیا ہے۔  اس ناول کو پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دور میں یہ انھیں شہرتِ دوام دے گا۔

ٹیکسلا، حسن ابدال اور اس کے گردونواح کا پوٹھوار علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب اور صوبہ سرحد کے سنگم پر واقع یہ علاقہ زمانۂ قبل مسیح سے متعدد تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب اور معاشرت رکھتا ہے۔ مصنفہ نے اسی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے ان عناصر کو اُبھارا ہے جو کئی تہذیبوں کے ملاپ سے وجود میں آئے ہیں۔ ناول ایک ایسی عورت کی آپ بیتی ہے جو بظاہر نرم رو اور نرم خو ہے لیکن اندر سے چٹان کی طرح مضبوط اور حوصلہ مند ہے۔ جہالت کی ماری اور خودساختہ رسوم وقیود کی پابند تقدیر پرست عورت پوری تہذیب کی نمایندہ ہے اور مصنفہ نوکِ قلم سے اس معاشرت کی اصلاح کی خواہاں ہے۔ ناول کے چار درجن سے زائد کردار اجتماعی زندگی کے کئی پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے، قتل، انتقام، منشیات کا عام استعمال اور جاگیرداروں کا مخصوص طرزِ زندگی وغیرہ۔

اس ناول کے دو اور پہلو قابلِ ذکر ہیں: ایک یہ کہ مصنفہ نے محض اپنے تخیل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کہانی کے تار و پود اور لوازمے کے حصول کے لیے براہِ راست مشاہدے کا راستہ اختیار کیا۔ ’’میں نے لکھنے کا ارادہ کیا۔ اپنی ملازمہ رسیلا کے ساتھ گائوں گائوں گھومی.... بے شمار عورتوں سے ملی.... شادی بیاہ میں شرکت کی، واقعات جمع کیے، لُغت تیار کیا اور خدا جانے کیا کیا....میرؔ کی طرح سو غم جمع کیے تو دیوان ہوا‘‘ ___ اس طرح ان کے مشاہدات نے انھیں حقائق اور ان کے پس منظر سے آگاہی بخشی۔

ناول کی ایک اور انفرادیت اس کی خاص طرح کی زبان ہے۔ مصنفہ نے دیہی کرداروں کے مکالمے پوٹھواری زبان ہی میں تحریر کیے ہیں اور اس کی وضاحت کر دی ہے۔ راقم (مبصر) کو پوٹھواری ماحول و معاشرت میں ربع صدی تک رہنے کا اتفاق ہوا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے افسانوی ادب میں اس تہذیب اور کلچر کی اس سے بہتر عکاسی کسی نے نہیں کی۔ اُردو ادب کے قارئین کے لیے عموماً اور علاقہ پوٹھوار کے باسیوں کے لیے ایک خوب صورت ادب پارہ ہے۔ ناول کا عنوان امیرخسرو کے شعر سے ماخوذ ہے۔ ناول کا اشاعتی معیار، ناشر کے اُونچے ذوق کی دلیل ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تفہیم ترجمۂ قرآن، پروفیسر ریاض احمد طور۔ ملنے کاپتا: B-I ، ایجوکیشن ٹائون، وحدت روڈ، لاہور۔ صفحات:۲۹۴۔قیمت: درج نہیں۔

قرآن فہمی کا شعور عام کرنے کے لیے روایتی درسِ قرآن کے حلقوں کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر قرآن کلاسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک کوشش اُردو اور عربی میں تطابق پیدا کر کے قرآن پاک کو سمجھنے اور عربی متن کا اُردو ترجمہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہے۔ یہ جدید طریقۂ تدریس ہے۔ اس طریقے میں عربی گرامر کی مشکل اور پیچیدہ اصطلاحات کو استعمال کیے بغیر عام فہم انداز میں قواعد سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حسنِ اتفاق سے قرآنی عربی کے اکثر الفاظ اُردو میں مستعمل ہیں۔ اس سے قرآن فہمی میں مزید سہولت پیدا ہوگئی ہے۔ زیرنظر کتاب اسی طریقۂ تدریس کے مطابق قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے  اور پڑھانے کے لیے مرتب کی گئی ہے اور ۴۰ روزہ ترجمۂ قرآن کورس کے لیے سورئہ فرقان اور  سورئہ حجرات کے منتخب نصاب پر مبنی ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ۴۰ روزہ کلاس میں اس نصاب کی تدریس کے نتیجے میں ایک درمیانی ذہانت کا آدمی بھی ۵۰ سے ۷۰ فی صد قرآن کا ترجمہ سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس ابتدائی کورس کے بعد مزید مہارت اور فہم دین کے لیے دیگر کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ حقیقت مزید آشکار ہوکر سامنے آتی ہے کہ ’’ہم نے اس قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنا دیا ہے، تو ہے کوئی سوچنے سمجھنے والا‘‘۔ (طارق محمود زبیری)

عبدالرشید عراقی ، گوجرانوالہ

’پاکستان : سنگین خطرات اور ناکام قیادت‘ (دسمبر ۲۰۰۹ئ) کے مطالعے سے اس وقت ملک جن نازک حالات سے دوچار ہے، کا اندازہ ہوا۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ  اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے محب ِ وطن اور اسلام دوست قوتیں متحد ہوکر نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ جدوجہد کریں اور امریکاپر بھروسا نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ غیرمسلم (یہودی، عیسائی، ہندو) کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے، یہ فرمانِ الٰہی ہے۔ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا چھوڑ دیا اور امریکا کو اپنا مددگار اور دوست سمجھا تو پھر ہم کو عزت کے بجاے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔


شفیق الرحمٰن انجم ،قصور

’انتخابِ زوجین‘ (دسمبر ۲۰۰۹ئ) اہم اور نازک موضوع پر جامع اور پُرمغز تحریر ہے۔ صالح میاں بیوی ہی وہ بنیاد ہیں جن پر صالح معاشرے کی عمارت تعمیر ہوتی ہے،لہٰذا رشتے کی تلاش میں ترجیح اول سیرت،    اچھا خاندان اور دین داری ہونی چاہیے جسے عام طور پر رسماً لیا جاتا ہے۔ اس کوتاہی کی وجہ سے ہی ہمارا معاشرہ بھی خاندان کی توڑ پھوڑ جیسے مسائل کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ بجاطور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ تحریک اسلامی نکاح کو بوجھل بنانے والے عوامل کے خاتمے کے لیے آگے بڑھ کر مثال قائم کرے۔


سید زادہ ، باجوڑ ایجنسی

’اُمید اور یقین کے بیج بویئے!‘ (دسمبر ۲۰۰۹ئ) پڑھ کر دل کو تسکین حاصل ہوئی اور مایوسی دُور ہوئی۔ صرف زبانی جمع خرچ سے انقلاب نہیں آئے گا بلکہ صحیح معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمت مودودیؒ کے تحت ’تحریک اسلامی کا مستقبل‘ پڑھ کر مزید حوصلہ اور ایک نیا عزم اور ولولہ ملا۔ ’اشارات‘ بہت جامع اور اپنے موضوع کا حق ادا کر دیتے ہیں، تاہم مزید عام فہم ہونے سے زیادہ مؤثر ہوجائیں گے۔


ڈاکٹر اختر حسین عزمی ، فیصل آباد

ماہ دسمبر اور گذشتہ چندماہ قبل کے ’اشارات‘ میں حکومت کی غلامانہ ذہنیت کو واضح کیا گیا ہے۔ قوم    پی پی کی حکومت سے مایوس ہوگئی ہے۔ لیکن کیا ’اپوزیشن‘ کا موجودہ کردار امریکا نوازی سے کسی پہلو سے بھی خالی ہے؟ اس کا بھی تو بے لاگ تجزیہ ہونا چاہیے۔

راہِ حق کی آزمایشیں

تھڑدلے مایوسین کا دوسرا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مشکلات کو دیکھ کر ہول کھا جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی صدقِ دل سے حق کے حامی ہیں، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ جب تحریکِ حق کا قدم آگے بڑھتا ہے تو ان کے حوصلوں میں کچھ کچھ جان آنے لگتی ہے اور چاہتے ہیں کہ کاروانِ اسلام میں بڑھ کے جا شامل ہوں۔ ابھی یہ آگے بڑھنے کے لیے پَر تول ہی رہے ہوتے ہیں کہ تحریکِ حق کی کوئی نہ کوئی مشکل ان کے سامنے آجاتی ہے، بس مشکل سامنے آئی اور ان کے حوصلوں پر اَوس پڑ گئی۔ یہی لوگ ہیں جن سے یہ فقرے سننے میں آتے ہیں کہ:

’’حق تو یہی ہے، مگرلوگ اسے مانتے نہیں‘‘۔

’’تحریک ٹھیک ہے، لیکن اسے کوئی چلنے کب دیتا ہے‘‘۔

’’اسلامی نظام، ہمہ تن سعادت ہے، مگر اس کے مخالفین سخت رکاوٹیں ڈال رہے ہیں!‘‘

___وغیرہ! اور اِن فقرات کے پیچھے دنیا کی تاریک ترین نااُمیدی جھلک رہی ہوتی ہے۔ ان حضرات کو اس وادی کے نشیب و فراز سے آگاہی ہے نہیں، جس میں سے ہو کے اقامت دین کی شاہراہ نکلتی ہے۔ یہ منزل گاہِ حق کی طرف تیزرفتاری سے دوڑنے پر تیار ہیں، بشرطیکہ ان کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ سارے راستے میں قالین بچھے ہوئے ہیں، کارواں سرائیں بنی ہوئی ہیں، اور سبیلیں لگی ہوئی ہیں۔ بخلاف  اس کے اگر ان کو یہ خبر ہوجائے کہ راستے میں کاٹنے بھی آتے ہیں، جھاڑیاں بھی ہیں، چٹانیں اور کھائیاں  بھی ہیں، بلندیاں اور پستیاں بھی ہیں، پیچ اور خم بھی ہیں تو پھر یہ ایک لمبی سانس لے کے بیٹھ جاتے ہیں اوراپنے نماز، روزہ اور ذکر وتسبیح میں یا کاروبار اور بیوی بچوں سے دل چسپی لینے میں لگ جاتے ہیں۔

صدیوں سے جامد مسلمانی میں پڑے پڑے ان کے ذہنوں نے دین کا وہ تصور ہی گم کردیا ہے، جس کا نشہ مشکلات سے ٹکر لینے کا ولولہ پیدا کرتا ہے۔

کوئی تحریکِ اصلاح و انقلاب ایسی نہیں ایجاد ہوسکی ___ چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی،      جو آزمایش کی وادیوں سے باہر باہر ہی سے اپنا راستہ نکال کر کامیابی کی منزل پر پہنچ جائے۔ خاص طور پر تحریکِ حق کو تو بہت ہی خطرناک گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور جب کہیں ’اسلامی نظام‘ کے دروازے پر دستک دینے کی نوبت آتی ہے۔ (’ہمارا معاشرہ‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۳، عدد ۱-۳، محرم، صفر، ربیع الاول ۱۳۶۹ھ، دسمبر ۱۹۴۹ئ- جنوری ۱۹۵۰ئ، ص ۷۲-۷۳)