امتحان اور آزمایش کی وہ گھڑی جو کئی مہینے سے سروں پر منڈلا رہی تھی‘ اب قوم کے سامنے ہے اور صدارت پر قابض جنرل پرویز مشرف نے دستور‘ قانون ‘ آدابِ سیاست اور اصولِ اخلاق کو بالاے طاق رکھ کر پورے فوجی کروفر کے ساتھ موجودہ اسمبلیوں سے وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور سپریم کورٹ تک کو ایک دھمکی آمیز بیان سے نوازا ہے کہ ’’اگر میں صدر منتخب ہوگیا تو ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء تک چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہوجائوں گا‘‘۔
الیکشن کمیشن نے بھی ۱۹۸۸ء کے انتخابی قواعد میں ۱۰ستمبر یہ تبدیلی کر کے (اس تبدیلی کی منظوری بھی جنرل پرویز مشرف ہی سے لی گئی ہے) کہ صدر کے انتخاب پر دستور کی دفعہ ۶۳ کا اطلاق نہیں ہوگا‘اپنی تابع داری کا بھرپور اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیرغور (sub judice) ہے کہ صدر دو عہدے رکھ سکتا ہے یا نہیں اور کیا فوج کا چیف آف اسٹاف صدارت کا امیدوار بن سکتا ہے یا نہیں‘ لیکن عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کردیا ہے اور دستور کی دفعہ ۶۳ کی بے دخلی کے ساتھ ایک اور ترمیم یہ بھی کردی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے سوا کوئی اور ریٹرننگ آفیسر کسی امیدوار کے کاغذات کو رد یا قبول نہیں کرسکتا۔ .ُ
جنرل صاحب نے جس آخری مُکے کی دھمکی دی تھی‘ اس کا بھرپور استعمال شروع ہوگیا ہے۔ اس کاآغاز ۱۰ستمبر کو جناب نواز شریف کے ساتھ بدسلوکی‘ سپریم کورٹ کے ۲۳ اگست کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں اپنے ملک میں واپس آنے کے حق سے محروم کرنے‘ نیز ان کے اغوا اور ملک بدری سے کیا گیا‘ اور اب ہر ممکن ہتھکنڈے سے جمہوری سیاسی جدوجہد کا راستہ قوت سے روکنے اور ریاست کی مشینری کو حزبِ اختلاف کے قائدین اور سیاسی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری‘ راستوں کی بندش‘ اور جمہوری احتجاج کے ہر عمل کو ناکام بنانے کا عمل زورشور سے پورے ملک میں جاری ہے۔
اس وقت قوم کو اور اس کے ساتھ‘ قوم اور دستور کی حفاظت کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے __سپریم کورٹ __ دونوں کو ہماری تاریخ کے نازک ترین امتحان سے سابقہ ہے۔ سپریم کورٹ کا امتحان یہ ہے کہ اس نے بڑی عظیم قربانی اور جدوجہد کے بعد ۲۰ جولائی کو جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے‘ وہ اس کی حفاظت کرپاتی ہے یا’نظریۂ ضرورت‘ کے جس دیو استبداد کو دفن کرنے کی بشارت دی گئی تھی اسے اور بھی گہرا دفن کیا جاتا ہے یا خدانخواستہ نئی زندگی دینے کا سامان کیا جاتا ہے؟
صدارتی انتخاب اور اس کے لیے اہلیت کے سلسلے میں جو مقدمات اس وقت سپریم کورٹ کے زیرسماعت ہیں‘ ان کا فیصلہ چند دن میں آنے کی توقع ہے اور ہم یہ امید رکھتے ہیں اور یہی دعا کرتے ہیں کہ عدالت پوری آزادی اور دیانت کے ساتھ دستور کے مطابق حق و انصاف کی روشنی میں خالص میرٹ پر فیصلہ کرے۔ ہم کوئی بدگمانی نہیں کرنا چاہتے لیکن کسی خوش فہمی کی بھی گنجایش نہیں۔ اصل مسئلہ ملک اور قوم کے مستقبل کا‘ اس کی آزادی اور حاکمیت کا‘ اور اس ملک کے آیندہ کے نظامِ حکمرانی کا ہے کہ یہ ملک جمہوریت اور دستور اور قانون کی بالادستی کا گہوارہ بنتا ہے یا خدانخواستہ آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کی دلدل میں گھرا رہتا ہے اور ایک تباہی کے بعد دوسری تباہی کا سفر شروع کر دیتاہے؟
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس نازک لمحے پر قوم اور عدالت دونوں کی توجہ ایک بار پھر نہایت اختصار سے اصل مسائل (issues) پر مرکوز کرا دیں۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے‘ دستوری نظام کا تقاضا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور پاکستان کی ۶۰سالہ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کی طرح عدالت نے بھی بودے سہاروں کے بل بوتے پر ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت دستوری اور جمہوری نظام کو فروغ دینے اور اس کے تحفظ کرنے کے باب میں ہمیشہ وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی قوم کو ان سے توقع تھی اور جو بے لاگ عدل و انصاف کی اعلیٰ روایات سے مطابقت رکھتا ہو۔ بلاشبہہ قانون کے مسلمہ اصول courts' right to revisit کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسانوں کا اعلیٰ ترین ادارہ بھی غلطی کرسکتا ہے اور اس کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ___اس لیے کہ اصل فیصلہ تو پھر تاریخ کے قاضی ہی کا ہوتا ہے اور تاریخ بڑی بے لاگ نقاد ہے۔ نیز درست فیصلہ وہی ہوتاہے جو قوم کے ضمیر کی آواز ہو‘ اس لیے کہ ملک کے اصل نگہبان ۱۶ کروڑ عوام ہیں‘ جو قرارداد مقاصد کے واضح الفاظ میں اللہ کی حاکمیت کے تابع حکمرانی کے اختیارات کے اصل امین (trustee) ہیں اور ان کے دیے ہوئے اختیار کے تحت جس کا اظہار ایک طرف دستور اور قانون کی شکل میں ہوتاہے تو دوسری طرف ان کی آزاد مرضی سے منتخب ہونے والے افراد اور ادارے انجام دیتے ہیں اور ان سے بار بار متعین وقفوں سے مینڈیٹ (اختیار) حاصل کرتے ہیں۔ قانون کسی کی ذاتی مرضی کا نام نہیں بلکہ اس پورے دستوری نظام اور اداراتی انتظام سے عبارت ہے اور عدلیہ کا اس میں بڑا اہم مقام اور کردارہے۔ بات نامکمل رہے گی اگر اس امر کی تذکیر بھی نہ کی جائے کہ عوام اور تاریخ دونوں اپنا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ بڑا کھرا فیصلہ ہوتا ہے لیکن ایک آخری فیصلہ جو سب سے بھاری ہے‘وہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور اس فیصلے سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ عدالت اور عوام سب کو اس آخری فیصلے کے پورے احساس اور شعور کے ساتھ اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہیے کہ کامیابی کا یہی راستہ ہے۔
اس وقت عدالت اور قوم دونوں کے سامنے اصل سوال ایک اور صرف ایک ہے ___ یعنی ملک کا مستقبل کا نظام کیساہوگا ___آمریت یا جمہوریت‘ شخصی حکمرانی یا دستور اور قانون کی بالادستی‘ انصرامِ حکومت کا عوام کے حقیقی نمایندوں کے ہاتھوں میں ہونا یا جبر اور قوت سے مسلط کیے جانے والے افراد کی حکمرانی‘ اور واضح الفاظ میں سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت بلکہ بالادستی یا فوج کے کردار کا دستور کے مطابق سول قیادت کے ماتحت صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہونا۔ عدالت کے فیصلے کا اصل موضوع یہی ایشو ہے‘ مجوزہ صدارتی انتخاب کامرکزی نکتہ بھی یہی مسئلہ ہے‘ ملک میں سیاسی جماعتوں‘ وکلا اور سول سوسائٹی کی جدوجہدکا محور بھی یہی چیز ہے‘ اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کی جدوجہد کا محور بھی یہی چیز ہے‘اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کا مرکزی موضوع بھی یہی فیصلہ کن امر ہے۔
عدالت میں جس مرکزی سوال پر بحث ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ:
کیا موجودہ اسمبلیاں نیا صدر منتخب کرسکتی ہیں‘ یا اس کا سیدھا راستہ غیر جانب دار نظام کے تحت‘ آزاد اور معتمد علیہ الیکشن کمیشن کے ذریعے‘ شفاف انتخابات ہیں جن کے ذریعے قوم نیامینڈیٹ دے اور اس کی روشنی میں صدر‘ پارلیمنٹ اور انتظامیہ سب اپنا اپناکردار ادا کریں۔
دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص فوج کے چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور کیا کوئی قانون یا ضابطہ کسی فردکو یہ ’حق‘ دے سکتا ہے؟
تیسرا مسئلہ جو ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں کی بنا پر پیدا کردیا گیا ہے‘ یہ ہے کہ کیا صدر کے انتخاب کے لیے دستور کی دفعہ ۶۳ لاگو ہوتی ہے یا نہیں؟ دستور میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اہلیت کے لیے دو شقیں ہیں یعنی دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳۔ لیکن کیا صدر کے لیے صرف دفعہ ۶۲ لاگو ہوتی ہے اور دفعہ ۶۳ کا اس انتخاب سے کوئی تعلق نہیں‘ جیساکہ سرکاری حلقے دعویٰ کررہے ہیں اور الیکشن کمیشن سے انھوں نے اس تعبیر کے مطابق ضوابط کار میں تبدیلی کرا لی ہے۔
چوتھا مسئلہ جو نسبتاً ٹیکنیکل نوعیت کا ہے یہ ہے کہ کیا اس مرحلے پر عدالت عظمیٰ کو اس باب میں مداخلت کرنی چاہیے؟
عدالت جو بھی فیصلہ کرے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام کی تفہیم کے لیے ان چاروں امور کے بارے میں چند اہم گزارشات پیش کردیں:
سب سے پہلے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ دستور کے تحت ہمارے ملک کا نظام پارلیمانی نظام ہے اورآٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم میں جو بھی اختیارات صدر کو دیے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں توازن اختیارات میں جو بھی سقم رونما ہوا ہے ‘اس کے علی الرغم نظامِ حکومت پارلیمانی ہے اور چند صواب دیدی اختیارات (discretionary powers) کے سوا صدر‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے جو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر‘ حکومت کا سربراہ نہیں’’مملکت کا سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی نمایندگی کرتا ہے‘‘۔ دفعہ ۴۱ کی اس حیثیت کا تقاضا ہے کہ صدر غیر جانب دار ہو‘ جماعتی سیاست سے بالا ہو‘ اور غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہو۔ عدالت نے متعدد فیصلوں میں اس اصول کو بیان کیا ہے کہ جس نے صدر کی اس حیثیت کو ایک قانونی تقاضے (settled law) کا درجہ دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ’میاں نواز شریف بنام صدر پاکستان‘ (PLD 1993 SC 473) کے فیصلے میں اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
بلاشبہہ وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر صدر کو دستور میں غیر جانب دار مقام حاصل ہے‘ اور اس حیثیت میںاس کو ریاست کے تمام عمّال میں سب سے زیادہ احترام اورعزت کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس اعلیٰ منصب کے وقار کی حفاظت وبقا کے لیے اور دستورکے تحت غیر جانب دار حیثیت سے صدرکو سیاسی جھگڑوں سے اپنے کو الگ رکھنا چاہیے۔ اگر صدر سیاسی کھیل کی کشش سے اپنے کو دُور نہ رکھ سکے یا وہ اسمبلی میں دوسرے سیاسی عناصر کے ساتھ فریق بنے تو قومی معاملات میں ایک غیرجانب دار ثالث اور وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر اس کی حیثیت مجروح ہوجائے گی۔
سپریم کورٹ کی طرف سے دستور کے اس واضح تقاضے کی نشان دہی کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف جو کردار ادا کر رہے ہیں‘ وہ دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی بلکہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے مترادف ہے جو ان کے اس عہد کے بھی خلاف ہے جو بطور صدر دستور کی اطاعت اور فرماں برداری کے لیے وہ ایک نہیں دو بار لے چکے ہیں اور اس باب میں صرف ان کے یہی کارہاے نمایاں انھیں آیندہ انتخاب کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں‘ اس لیے کہ دستور کی دفعہ ۴۷(۱) کے تحت ’’دستور کی خلاف ورزی یا فاش غلط روی کے کسی الزام میں اس کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ مواخذے کا ایک خاص طریق کار ہے مگر دستور کی خلاف ورزی دستور کے تحت عہدہ صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والا ایک جرم ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والی دوسری بات ان کا چیف آف اسٹاف کا عہدہ ہے۔ اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ سترھویں ترمیم کے ذریعے انھیں دوعہدے رکھنے کی رخصت دے دی گئی تھی تب بھی یہ تو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ حد ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کو ختم ہوگئی اور پارلیمنٹ سے جس قانون کا سہارا لے کر اسے آج تک توسیع دی گئی ہے‘ وہ خود سترھویں ترمیم کی ضد ہے اور ایک فاسد قانون (bad law) ہے۔ نیز یہ توسیع اس معاہدے (covenant) کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک کے لیے یہ رخصت دی گئی تھی۔اس معاہدے کا عوام کے سامنے اقرار جنرل صاحب ۲۴ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے خطاب میں کیا ہے جسے سترھویں ترمیم کے ساتویں نکتۂ اقرار (seventh point of agreement) کے طور پر انھوں نے تسلیم کیا ہے۔ یکم جنوری ۲۰۰۵ء سے دو عہدوں کے باعث ان کی صدارت امرواقع (de facto) تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن امر جائز (de jure) کسی پہلو سے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ پانچ سال کے لیے وردی میں صدارت کے امیدوار بن سکتے ہیں‘ خواہ منتخب ہونے کے بعد وردی اتارنے کا وہ وعدہ ایک بار پھر کیوں نہ کر رہے ہوں۔ جس نے پہلا وعدہ وفا نہ کیا ہو‘ اس کے دوسرے وعدے پر اعتبار کون کرے گا۔ لیکن مسئلہ آیندہ پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو صدارت کے لیے پیش کرنے والے امیدوار کی الیکشن کے وقت اہلیت کا ہے اور وہ جنرل صاحب کو حاصل نہیں۔ اس لیے کہ دستور اور کسی بھی قانون کے تحت ایک حاضرسروس جرنیل کو کسی سیاسی عہدے کے لیے اپنے کو امیدوار بناکر پیش کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا بلکہ یہ ایک جرم ہے جس کی سزا ملک کے قانون کے تحت ۱۰ سال قید ہے‘ اور وہ تمام افراد بھی اس سزا کے مستوجب ہوسکتے ہیںجو کسی فوجی افسر کو ایک سیاسی عہدے کے لیے نامزد کریں۔
اسی نااہلیت سے فرار کی خاطریہ ڈراما رچایا جا رہا ہے کہ دستور کی دفعہ ۶۳ کا اطلاق صدارتی امیدوار پر نہیں ہوتا۔ دیکھیے عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن عقل و تجربے دونوں اس بارے میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں چھوڑتے۔ دستور کی دفعہ ۴۱ (۲) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ:
کوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ کم از کم ۴۵ سال کی عمر کا مسلمان نہ ہو اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو۔
انگریزی میں الفاظ shall not be qualified for election ہیں اور پھر قومی اسمبلی کی رکنیت کے سلسلے میں بھی is qualified to be elected ہیں۔
اب جو بقراطی نکتہ لایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دفعہ ۶۲ qualifications بیان کرتی ہے اور دفعہ ۶۳disqualifications۔ساتھ ہی اعتراف کیا جاتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کے لیے تو ۶۲ اور ۶۳ دونوں لاگو ہیں لیکن صدر کے لیے ۶۳ لاگو نہیں۔
اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ۶۲ اور ۶۳ دونوں مل کر اہلیت کا تعین کرتی ہیں اور یہ دونوں دفعات composite ہیں‘ separable نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اہلیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ’عدم اہلیت‘ کی کوئی بات اس میں نہ پائی جاتی ہو۔ یہ منفی پہلو ہے۔ جس میں کوئی بھی عدم اہلیت کی بات پائی جائے گی‘ وہ پہلے ہی مرحلے میں اہلیت کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔ البتہ جس میں عدم اہلیت کی کوئی کیفیت نہ ہو‘ وہ بھی آپ سے آپ اہل نہیں بن جاتا بلکہ اس میں مزید اہلیت کی کچھ مثبت صفات ہونی چاہییں۔ اس طرح منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کے تناظر میں کسی شخص کی اہلیت کا تعین ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی صدارت کے سلسلے میں دائر کیے جانے والے ایک مقدمے میں یہی فیصلہ دیاتھا کہ ’نااہلیت‘ اور ’اہلیت‘ کے بارے میں دستور کی دفعات کو ملا کر لیا جائے گا۔ یہی عقل کا تقاضا ہے لیکن ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ کیسے کیسے لائق فائق حضرات یہ فرما رہے ہیں کہ منفی صفات (دفعہ ۶۳) کا اہلیت اور اس کی مثبت صفات (دفعہ ۶۲) سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن وہ ایک لمحہ اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ جس سترھویں ترمیم کا اتنا شور ہے‘ خود اس میں صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ دفعہ ۴۷ (۷ بی):
بشرطیکہ آرٹیکل ۶۳ کی دفعہ ۱ کا پیراگراف د: دسمبر ۲۰۰۴ء کے ۳۱ویں دن سے نافذ ہوگا۔
ساری بات بھول جائیے اور اسے بھی نظرانداز کردیجیے کہ دفعہ ۶۳ میں کیا گنجایش ہے اور کیا نہیں ہے‘ صرف یہ بات کہ دستور کی اس شق میں صدر کے لیے دفعہ ۶۳ کے operative ہونے کا واضح اقرار موجود ہے اس دلیل کے تار وپود بکھیر دیتا ہے کہ دفعہ ۶۳ کا تعلق صرف رکن اسمبلی سے ہے‘ صدر سے نہیں۔
رہا یہ مسئلہ کہ کیا موجودہ اسمبلیاں اگلے پانچ سال کے نئے صدر کا انتخاب کرسکتی ہیں یا نہیں‘ اس کا تعلق دستور اور علم سیاست کے ایک بنیادی اصول سے ہے۔ معاملہ اسمبلی کا ہو یا صدر کا‘ ایک خاص مدت کے بعد انتخاب کی ضرورت صرف ایک وجہ سے ہوتی ہے اوروہ یہ ہے کہ عوام‘ جو اصل حکمران ہیں اور جن کی تائید اور اعتماد کے بغیر نظام کو جواز (legitimacy) حاصل نہیں ہوتا‘ ان سے زندگی میں صرف ایک بار استصواب کافی نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے ان سے نیا مینڈیٹ لیے بغیر نظامِ حکمرانی جمہوری اور دستوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نیا انتخاب دراصل نیا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسمبلی اپنا مینڈیٹ ختم کرچکی ہو وہ آیندہ کے لیے کسی اور کو مینڈیٹ کیسے دے سکتی ہے؟ اتنی صاف بات اور ایسے مسلمہ اصول کو نظرانداز کرکے قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں اور بظاہر پڑھے لکھے لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر صوبائی اسمبلیاں‘ سینٹ کے ارکان کو ۹ سال کے لیے منتخب کرسکتی ہیں تو قومی اسمبلی‘ سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں صدر کو ۱۰ سال کے لیے کیوں منتخب نہیں کرسکتیں حالانکہ یہ صریح خلط مبحث ہے۔ سینٹ ناقابلِ تحلیل ہے اور اس میں نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تین سال کے بعد نصف ارکان کا نیا انتخاب ہوتا ہے اور اس پورے عمل میں سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں فطری تبدیلی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ رہا معاملہ صدر کے انتخاب کا تو وہ الیکٹرول کالج کے ہر بار نئے مینڈیٹ کا تقاضا کرتا ہے اوریہ مینڈیٹ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نئے انتخاب ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ورنہ اسے صریح انتخابی دھاندلی کے کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔
البتہ اس سلسلے میں ایک اعتراف ضروری ہے۔ ایل ایف او کے ذریعے دستور کی دفعہ ۲۲۴ میں ایک لفظ کی تبدیلی سے قومی اسمبلی کے انتخاب کے دورانیے کو تبدیل کردیا گیا جس نے موجودہ دھاندلی کے لیے گنجایش پیدا کی ورنہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے ۶۰ دن پہلے نئے انتخاب کے لیے آپ سے آپ تحلیل ہوجاتیں۔ ہمیں اس غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ سترھویں ترمیم کے موقعے پر ایم ایم اے کی مذاکراتی ٹیم نے اس دُور رس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا۔ اصل دفعہ یہ تھی:
"A general election to the National Assembly or a Provincial Assembly shall be held within a period of sixty days immediately PRECEDING the day on which the term of the Assembly is due to expire".
ایل ایف او کے ذریعے لفظ PRECEDING کو تبدیل کر کے FOLLOWING لکھ دیا گیا۔ اس کی آج implication یہ ہے کہ اسمبلیوں کا انتخاب ۱۶ اکتوبر کے ۶۰دن بعد تک کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ اصل دستوری شق کی روشنی میں یہ انتخاب ۱۶ اکتوبر سے پہلے ۶۰ دن قبل ہوجانا چاہیے تھا۔ اس طرح صدر کی مدت (پانچ سال) ختم ہونے سے پہلے اسمبلیوں کے انتخابات لازماً ہوچکے ہوتے۔ کمال ہوشیاری بلکہ عیاری سے یہ یک لفظی ترمیم دستور میں کی گئی اور ’انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدورمات‘ کے مترادف ہم سب یہ دھوکا کھا گئے۔ ضمناً یہ بھی عرض کردیں کہ دستور کی دفعہ ۴۱ (۷ بی) میں بھی اگر ۶۳ (۱ڈی) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا اندراج کرا لیا جاتا تو پھر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد باوردی صدارت کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی چور دروازہ باقی نہ رہتا۔ خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ ان پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈالی جائے اور دستوری اور قانونی معاملات کو جس قانونی مہارت اور عرق ریزی سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘ اس کا پورا پورا اہتمام کیا جائے۔ جو دھوکا حکمرانوں نے دیا‘ وہ صریح وعدہ خلافی تھی اور دو عہدوں کا قانون دستور اور معاہدہ دونوں کے خلاف تھا مگر کچھ کوتاہیاں ہماری طرف سے بھی رہیں جن کے بارے میں آیندہ سبق سیکھنا ضروری ہے۔
رہا معاملہ ان امور کے بارے میں عدالت کی مداخلت کی ضرورت کا‘ تو ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری دستور کے تحت قانون کی تعبیر اور دستور کی حفاظت کی ہے اور اس وقت دستور اور اس کے تحت وجود میں آنے والا پورا نظام معرضِ خطر میں ہے۔ اگر اس وقت عدالت عظمیٰ اپنے فرض منصبی کو ادا نہیں کرتی تو تاریخ اور یہ قوم اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس موقعے پر ہم عدالت عظمیٰ اور قوم دونوں کو اپنے الفاظ میں نہیں‘ سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمدیعقوب علی (جو بعد میں چیف جسٹس بنے) کے اس تاریخی ارشاد کی طرف متوجہ کریں گے جو انھوں نے عاصمہ جیلانی کے مشہور زمانہ کیس میں رقم کیے تھے:
میونسپل کورٹس کے جج جنھوں نے دستور کے تحفظ‘ بقا اور دفاع کاحلف اٹھایا ہے‘ حلف نہیں توڑیں گے اور نہ اعلان کریں گے کہ غاصب کی بالاتر قوت کی وجہ سے وہ اپنے قانونی فرائض سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اگر ججوں کو معلوم ہو کہ ریاست کے انتظامی عہدے دار ان کے احکامات نافذ کرنے کے لیے رضامندنہیں ہیں تو ان کے لیے صرف یہی راستہ کھلا ہے کہ اپنا منصب چھوڑ دیں۔ جو لوگ غاصب کی خدمت کرنے کے خواہش مند ہوں وہ اس کے مسلط کردہ لیگل آرڈر کے تحت عہدہ سنبھال سکتے ہیں لیکن یہ ججوں کے ذاتی فیصلے اور صواب دید پر منحصر ہے‘ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا۔ اگر وہ دوسرا راستہ اختیار کریں تو وہ یہ تسلیم کر رہے ہوں گے کہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ اور یوں غاصب کے شریک کار ہوجائیں گے۔ یہی نتیجہ ہوگا اگر وہ اپنے حلف کو نظرانداز کردیں‘ قومی نظام کی تباہی کو جائز تسلیم کرلیں اور غاصب کے غیر قانونی‘ انتظامی اقدامات کو تسلیم کریں۔
آج جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن جنرل یحییٰ خان کی پوزیشن سے سرِمُو بھی مختلف نہیں۔ کیاآج کی عدالت اپنا فرض ادا کرے گی اور حقیقی فراست اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کا بول بولا کرکے اس ملک میں عدلیہ کی عزت اور وقار اور اس پر عوام کے اعتماد کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کرنے کا کارنامہ انجام دے گی؟
بلاشبہہ عدالت دستور اور قانون کے دائرے میں ہی اپنافیصلہ دے گی اور یہی اس کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عدالت دستور اور قانون کے الفاظ کے ساتھ اصولِ قانون‘ تعبیر ِدستور کے مسلمہ قواعد اور اپنے فیصلوں کے سیاسی اور اخلاقی مضمرات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ یہ ’نظریۂ ضرورت‘ کی قبیل کی کوئی شے نہیں بلکہ اس کا تعلق مقاصدِ قانون اور روحِ دستور سے ہے___ یعنی ملک میں دستور کا بنیادی ڈھانچا اور نظامِ حکومت کے اصول اور فریم ورک۔ دستور کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس کے چار ہی بنیادی ستون ہیں:
1 قرارداد مقاصد اور دستور کا اسلامی کردار
2 پارلیمانی جمہوریت
3 وفاقی نظام
4 عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام
ان چاروں بنیادی ستونوں کی روشنی میں اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت جنرل مشرف اور ان کے صدارتی انتخاب کا تعلق محض ایک فرد کی ذات سے نہیں بلکہ وہ اب عنوان ہیں اس پورے سیاسی‘ نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کا جس میں آج ملک اور قوم مبتلا ہیں۔ اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ مرکوز کیے بغیر اس کش مکش کا صحیح شعور و ادراک ممکن نہیں جو آج درپیش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب وردی اتار کر نئے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے عام شہری کی طرح دستور کے تحت صدارت کے حصول کے لیے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔وہ چاہتے ہیں کہ وردی سمیت اپنے کو قوم پر مسلط کردیں اور پھر اپنے زیرانتظام اور صرف اپنی مرضی کے مطابق انتخابات کا ڈھونگ رچائیں۔ موجودہ اسمبلیوں سے اور وردی کے ساتھ صدارت کا انتخاب جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور جمہوریت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کھلی کھلی شخصی آمریت کے لیے راہ ہموار کرنے کی سازش ہے ۔ اور اگر اس کا راستہ اس پہلے قدم پر نہ روکا گیا تو پھر دستور کی بالادستی اور عوام کی ان کے حقیقی نمایندوں کے ذریعے حکمرانی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
اب تو یہ مداخلت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ امریکا‘ برطانیہ اور اس کے اشاروں پر چلنے والے دوسرے حکمران آیندہ کے سیاسی دروبست کی صورت گری فرما رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد بنانے کا کام ان کے اشارے پر اور ان کی عملی شراکت سے ہو رہا ہے‘ اور کسے ملک میں آنے دیا جائے گا اور کسے اغوا کرکے ملک بدر کردیا جائے گا‘ اس کام میں بھی حکمران‘ بیرونی ایجنسیاں‘ برطانیہ کا دفترخارجہ اور امریکا کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ سب ملوث (involve) ہیں۔اس کے بعد ہماری آزادی اور خودمختاری کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔
اس وقت قوم کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ آیندہ اس کے حکمران امریکا اور برطانیہ کے مقرر کردہ اور پسندیدہ افراد ہوں گے یا وہ جو پاکستانی قوم کے معتمدعلیہ‘ صرف اپنی ملت کے مفاد اور عزائم کے ترجمان ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں۔ بھارتی کالم نگار پرافل بیدوائی (Praful Bidwai) جس کے مضامین پاکستانی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں‘ کتنا لطف لے کر ہماری قیادت کے امریکا کے کٹھ پتلیوں کا کردا ر ادا کرنے کا ذکر کرتا ہے:
امریکا پاکستان کے معاملات میں جارحانہ طور پر مداخلت کر رہا ہے اور اس کی فوجی حکومت کو خفیہ لیکن مضبوط حمایت فراہم کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکا کا کہناہے کہ نوازشریف کی جلاوطنی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے‘ سب کو معلوم ہے کہ جنوبی وسطی ایشیا کے اسسٹنٹ سکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر خاص اس موقع پر‘ جب کہ نواز شریف کے اخراج کا ڈراما روبۂ عمل تھا‘ اسلام آباد میں موجود تھے۔ رچرڈ بائوچر نے عملاً واشنگٹن کے وائس راے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور اس مفروضے پر کہ طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکا کی جنگ میں وہ ایک قابلِ اعتماد حلیف ہے‘ حکومت کو مشورہ دینے اور اس کی بقا یقینی بنانے کے لیے ہر چھٹے ہفتے اوسطاً ایک چکر لگاتے رہے۔ اسلام آباد میں ڈپٹی سکرٹری آف اسٹیٹ اور سابق نیشنل انٹیلی جنس ڈائرکٹرجان نیگرو پونٹے بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔ واضح رہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ مشرف اور پاکستان کی سیاسی طاقتوں خصوصاً مسز بھٹو کی پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے نظام کی براہِ راست نگرانی کرے۔ گذشتہ مہینے ہی پرویز مشرف ایمرجنسی لگانے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن رات کو ۲ بجے سکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس نے ۱۷منٹ کی طویل ٹیلی فون کال میں انھیں اس سے متنبہ کیا۔ ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکا کا رویہ کیا ہوگا۔ اگر وہ اپنے مخصوص فوری مقاصد کے حصول کے طریقے کے مطابق، یعنی ’کسی بھی قیمت پر دہشت گردی کے خلاف‘اس کی اصل دل چسپی ہوئی تو پرویز مشرف کے ان مہم جویانہ اقدامات کا ساتھ دے گا جو وہ پُرتشدد ہنگاموں کو محدود رکھنے کے لیے اور کسی طرح اس ڈیل کو بچانے کے لیے کرے جو وہ مسزبھٹو سے کرنا چاہ رہا ہے…
امریکا بے نظیر بھٹو کی شراکت اقتدار کی ڈیل صرف اس لیے نہیں چاہتا ہے کہ انھوں نے امریکا کا کہا پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ بلکہ اس لیے بھی کہ اسے اندیشہ ہے کہ نوازشریف معتدل اسلامی ایم ایم اے سے پھر مل جائیں گے۔
بھارت ہی کی ایک دوسری کالم نگار سیما مصطفی ایشین ایج میں لکھتی ہے:
یہ بالکل واضح ہے کہ انھوں نے مکمل کنٹرول کی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ وہ پاکستان آتے جاتے ہیں اوربہت مدت ہوئی کہ ان کے بیانات نے اس ملک کی خودمختاری کی مقدس حد کو پار کرلیا ہے جسے انھوں نے اپنا اتحادی کہا ہے‘ اور جس کی اندرونی سیاست میں انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہے۔صدر مشرف کو پھر امریکا سے کھلی اجازت مل گئی ہے۔ بش انتظامیہ کی طرف سے ان کی حمایت بالکل واضح الفاظ میں کی جارہی ہے…
کسی کو بھی پاکستان میں حقیقی جمہوریت واپس آتی نظر نہیں آرہی۔ امریکا سترپوشی (figleaf) کے طور پر اسے استعمال کر رہا ہے تاکہ علاقے میں اپنی مسلسل موجودگی برقرار رکھے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی حامی قیادت کو برسرِاقتدار لاسکے۔ موت کا بوسہ اپنا زہر قوم میں پھیلا رہا ہے‘ جب کہ کسی کے پاس بھی مطلوبہ تریاق نہیں ہے۔
لندن کے اخبار گارجین میں Declan Walsh رقم طراز ہے:
مشرف کے سیاسی عزائم کے لیے بھی گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ موجودہ پارلیمنٹ سے ۱۵ستمبر اور ۱۵ اکتوبر کے درمیان صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ طاقت ور حلیف ان کی پشت پر ہیں‘ خاص طور پر برطانیہ اور امریکا۔ وہ پرویز مشرف کو ایک نیوکلیر اسلحے سے مسلح ملک کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا محفوظ ترین بہترین خیال کرتے ہیں۔
سعودی انٹیلی جنس چیف کی ایک ایسی مداخلت کے بعد‘ یعنی ان کا گذشتہ ہفتے پاکستان آنا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ اب نواز شریف جدہ میں بے بس ہیں۔ پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل اشفاق کیانی نے بھی حالیہ بھٹو مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صرف یہی بات کہ مسلم دنیا میں امریکا اور برطانیہ کے اہم ترین حلیفوں کے معاملات میں خفیہ سربراہوں کو بالادستی حاصل ہے‘ جمہوریت کی نازک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے--- (گارجین‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۷ء)
قوم کو اس نظریاتی کش مکش سے نکالنے اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں قومی یک جہتی اور مفاہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کی راہ میں جرنیلی قیادت اور امریکا سے حکمرانی کی پرچیاں حاصل کرنے والے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
یہ پانچ بڑے بڑے مسائل ہیں جو اس وقت قوم کے سامنے ہیں اور آنے والے انتخابات ہی وہ میدان ہیں جن میں ان تمام مسائل اور چیلنجوں کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ راستہ صرف ایک ہے ___ منظم اور پُرامن عوامی قوت کے ذریعے صدارتی انتخاب کے ڈھونگ کو روکنا اور آزاد اور شفاف انتخابات کو حقیقت بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری اقدام یہ ہیں:
اگر حکومت اس خالص دستوری اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا‘ اسمبلیوں سے استعفے‘ عوام کو متحرک کرنا اور عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد‘ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک کو غیروں کی گرفت سے محفوظ رکھا جاسکتاہے اور اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی گرفت سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ ایک ملک گیر پُرامن لیکن مؤثر عوامی جدوجہد ہی کے راستے سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس سلسلے میں غفلت‘ کوتاہی‘ اور سمجھوتوں کی تلاش سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جن دِیوں میں جان ہوگی وہ دِیے رہ جائیں گے
اونٹ بے چارہ تو ویسے ہی بدنام ہے کہ جسے دیکھو فٹ سے کہہ دیتا ہے: ’اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی‘۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے بینکر وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی حکومت کے دعووں اور کارناموں پر زمینی حقائق کی روشنی میں نظر ڈالیے تو اونٹ سے ہمدردی بڑھ جاتی ہے کہ بے داد کے اصل مستحق کون ہیں اور بدنام کون!
’کشکول ٹوٹنے‘ کی بات گذشتہ چند سال سے اس تکرار کے ساتھ کہی گئی ہے کہ اب، جب کہ الیکشن کے موسم کی آمد آمد ہے‘ ہر سرکاری ترجمان کی زبان پر اس طرح رواں ہے کہ لوگ اسے حکمرانوں کا تکیہ کلام سمجھنے پر مجبورہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس حکومت کے کارپرداز ہٹلر کے وزیراطلاعات (بہ الفاظ صحیح تر دروغیات) کے اس ’نسخۂ کیمیا‘ پرعمل پیرا ہیں کہ ’’ایک جھوٹ کا اس تکرار سے اظہار کرو کہ لوگ اسے سچ ماننے لگیں‘‘۔
جس طرح صد ربش اور امریکی انتظامیہ نے خصوصیت سے نائن الیون کے بعد ہر محاذ پر اور خصوصیت سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ (امریکا کی سلامتی کو خطرہ اور’عراق کے عام تباہی کے اسلحہ‘ (weapons of mass destruction) کے عنوان سے جس ڈھٹائی سے تھوک کے بھائو غلط بیانیوں کو اپنی پالیسی کا مؤثر آلہ بنایا ہے اسی طرح جنرل پرویز مشرف ، وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کے اشتہار بازوں نے’معاشی فتوحات‘ کا سماں باندھا ہوا ہے لیکن وہ ابراہم لنکن کے اس تاریخی قول کو شاید بھول گئے کہ ’’سب انسانوں کو کچھ دیر کے لیے اور کچھ افراد کو بڑی دیر تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر تمام انسانوں کو مستقل طورپر جھانسہ دینا ممکن نہیں‘‘۔ انسانی کیفیات اور تاریخ دونوں کا فیصلہ ہے کہ جھوٹ اورغلط بیانی خواہ کیسی ہی تکرار اور کتنی ہی تحدّی سے کی جائے بالآخر اس کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے اور پھر دونوں کا دودھ کاد ودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔ جادو سر چڑھ کر بولے یا نہ بولے مگر سچ کابالآخر بول بالا ہوکر رہتا ہے اور یہی اللہ کا قانون بھی ہے کہ جب حق ظاہر ہوجاتا ہے تو پھر باطل کے لیے پادر ہوا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس لیے کہ باطل کا تو مقد ر ہی ہے کہ حق کی آمد پردم دبا کر میدان چھوڑ دے۔(جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا )۔
اگست ۲۰۰۷ء میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پاکستان پر قرضوں کی اصل بوجھ کے جو اعدادوشمار شائع کیے ہیں وہ ’کشکول توڑدینے‘ کے فسانے کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سال میں‘ یعنی ۲۰۰۳ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک موجودہ حکومت نے بیرونی ممالک اور اداروں سے ۱۵ ارب ڈالر (۱۵ بلین ڈالر) کے نئے قرضے حاصل کیے ہیں۔ اب‘ یعنی اگست ۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کا کل حجم ۴۰ارب ڈالر (۴۰بلین ڈالر) سے متجاوز ہے۔ لطف یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء کے چار برسوں میں پاکستان نے ۷ء۹ ارب ڈالر کی مالیت کے قرض واپس بھی کیے ہیں جس کے نتیجے میں ۲۰۰۳ء میں کل بیرونی قرضہ جو اس وقت ۳۵ء۳۳بلین ڈالر تھا کم ہوکر ۶۴ء۲۳ارب ڈالر ہوجانا چاہیے تھا مگر ۱۵ارب ڈالر سے زائد کے نئے قرضے لے لیے گئے جن کی وجہ سے یہ دوبارہ ۶۹۹ء۳۸ بلین ڈالر کی حدوں کوچھونے لگا‘ اور اس میں اگر دوسری غیر ملکی ذمہ داریوں (liabilities) کا اضافہ کر لیا جائے تو اگست ۲۰۰۷ء میں وہ ملک جس کے کشکول توڑنے کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں ۱۷۲ء۴۰ بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت ان قرضوں کی وجہ سے صرف سود کی مد(debt-servicing) میں پاکستان کو ۳۱۴ء۳ بلین ڈالر سالانہ ادا کرنا پڑ رہے ہیں جو دراصل نئے قرضے لے کر ادا کیے جاتے ہیں اور قرض کا اصل بار نہ صرف کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ اس گراں باری کے باوجود ملک کی پیداوار ی صلاحیت (productive capacity) میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہوتا۔
جنرل پرویز کی حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں اور کل بیرونی ذمہ داریوں کا موازنہ کیا جائے تو صورت حال یہ بنتی ہے:
۲۰۰۰ء ۲۰۰۷ء
اگر ہم ایک نظرمیں کشکول ٹوٹنے کی کرامات کو دیکھنا چاہیں تو کچھ یہ تصویر سامنے آتی ہے:
واضح رہے کہ ملک میں کی جانے والی جس بیرونی سرمایہ کاری کا بڑا شور ہے وہ ملک کی عام صنعتی پیداوار بڑھانے کا قرارواقعی ذریعہ نہیں بنی بلکہ اس کا سارا بہائو سروس انڈسٹری کی طرف سے جس میں برقی مواصلات (telecommunications) اور بنکاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے یا اسٹاک ایکسچینج میں سٹّے (speculation) پر مبنی سرمایہ کاری ۔
تازہ اعدادوشمار کی روشنی میں یہ ادارے نفع کی شکل میں جو مبادلہ خارجہ ملک سے باہر لے جارہے ہیں وہ ۲۰۰۷ء میں ایک بلین ڈالر کے قریب ہوگیا ہے اورسال گذشتہ میں اس رقم میں ۶۰فیصدی اضافہ ہوا ہے۔
اس کے ساتھ اگر ملکی قرضہ جات (domestic debt) پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو ہماری ’فاقہ مستی‘ کی تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ اس حکومت نے اسٹیٹ بنک کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی ۲۰۰۶ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک صرف ۱۱ مہینوں میں ۳۴ء۳۰۲ ارب روپے کے قرضے لیے جس کے نتیجے میں حکومت پر قرض کا کُل بار بڑھ کر ۵۹۹,۲ ارب روپے ہوگیا جو اگر ڈالر کی شکل میں ظاہر کیا جائے تو ۶ء۴۲ بلین ڈالر بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بیرونی اور ملکی قرضوں کا بوجھ ۷ء۸۲ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ قرضے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے سلسلے میں بڑا محدود کردار ادا کر رہے ہیں اوریہ اربوں روپے بڑی حد تک سرکار کی شاہ خرچیوں اور ملک میں ہر سطح پر کرپشن کی وجہ سے صرف دولت مندوں اور مفاد پرست طبقات کی ہوس زر اندوزی کی نذر ہورہے ہیں‘جب کہ بوجھ ملک کے ۱۶ کروڑ عوام پر پڑ رہا ہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ تشویش کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس صورت حال کو پیدا کرنے کا بڑا سبب بجٹ کا خسارہ ہے جو ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱۳۴ارب روپے تھا،جو ۰۷-۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۵۳ء۳۷۷ ارب روپے ہو چکا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ہے جو اس سال ۱۷ بلین ڈالر سے زیادہ ہے اور توازن ادایگی (balance of payments) کا خسارہ ۶ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا ہے۔
ایک طرف قرضوں کا یہ پہاڑ ہے اور تجارت اور ادایگیوں اور بجٹ کا خسارہ ہے اور دوسری طرف عوا م کی غربت اور بھوک۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ۲ ڈالر یومیہ فی کس آمدنی کو بنیاد بنایا جائے تو ملک کی کل آبادی کا ۷۳ فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔بے روزگاری جو ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ۵فی صد سے کچھ زیادہ تھی اب بڑھ کر ۷ اور ۸ فی صد ہو چکی ہے۔ اور مہنگائی کا یہ حال ہے کہ غریب تو غریب متوسط طبقے کے لیے بھی زندگی کی کم سے کم ضروریات بھی پورا کرنا محال ہے___کیا یہی وہ معاشی فتوحات ہیں جن کی خاطر اس جرنیلی آمریت نے ملک کی آزادی، سلامتی اور حاکمیت تک کو امریکا کی گرفت میں دے دیا ہے؟
سنت کے متعلق لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اپنی زندگی میں کیا ہے وہ سب سنت ہے۔ لیکن یہ بات بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔ دراصل سنت اس طریق عمل کو کہتے ہیں جس کے سکھانے اور جاری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو مبعوث کیا تھا۔ اس سے شخصی زندگی کے وہ طریقے خارج ہیں جو نبیؐ نے بہ حیثیت ایک انسان ہونے کے یا بہ حیثیت ایک ایسا شخص ہونے کے جو انسانی تاریخ کے خاص دور میں پیدا ہوا تھا‘ اختیار کیے۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک ہی عمل میں مخلوط ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں یہ فرق و امتیاز کرنا کہ اس عمل کا کون سا جز‘ سنت ہے اور کون سا جز عادت‘ بغیر اس کے ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی اچھی طرح دین کے مزاج کو سمجھ چکا ہو۔
اصولی طور پر یوں سمجھیے کہ انبیا علیہم السلام انسان کو اخلاقِ صالحہ کی تعلیم دینے اور زندگی کے ایسے طریقے سکھانے کے لیے آتے رہے ہیںجو فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا [الروم ۳۰:۳۰] کے ٹھیک ٹھیک منشا کے مطابق ہوں۔ ان اخلاقِ صالحہ اور فطری طریقوں میں ایک چیز تو اصل و روح کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری چیز قالب و مظہر کی حیثیت۔بعض امور میں روح اور قالب دونوں اسی شکل میں مطلوب ہوتے ہیں جس شکل میں نبی اپنے قول و عمل سے ان کو واضح کرتا ہے اور بعض امور میں روح اخلاق و فطرت کے لیے نبی اپنے مخصوص تمدنی حالات اور اپنی مخصوص افتاد مزاج کے لحاظ سے ایک خاص عملی قالب اختیار کرتا ہے اور شریعت کا مطالبہ ہم سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اس روحِ اخلاق و فطرت کو اختیار کرلیں‘ رہا وہ عملی قالب جو پیغمبر نے اختیار کیا تھا تو اسے اختیار کرنے یا نہ کرنے کی شرعاً ہم کو آزادی ہوتی ہے۔ پہلی قسم کے معاملات میں سنت روح اور قالب دونوں کے مجموعے کا نام ہے‘ اور دوسری قسم کے معاملات میں سنت صرف وہ روحِ اخلاق و فطرت ہے جو شریعت میں مطلوب ہے نہ کہ وہ عملی قالب جو صاحبِ شریعت نے اس کے اظہار کے لیے اختیار کیا۔
مثال کے طور پر دین کا منشا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔ اس کے لیے نبی نے بعض اعمال تو ایسے اختیار کیے جن کی روح اور عملی قالب دونوں سنت ہیں اور دونوں کی پیروی ہم پر لازم ہے‘ مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘زکوٰۃ وغیرہ اور بعض طریقے آپ نے ایسے اختیار کیے جن کی روح تو ہمارے اعمال میں ضرور پائی جانی چاہیے لیکن قالب کی ہوبہو پیروی کرنا لازم نہیں ہے‘ بلکہ ہم کو آزادی دی گئی ہے کہ ہم اس روح کے ظہور کے لیے جو عملی قالب مناسب سمجھیں اختیار کریں‘ مثلاً دعائیں اور وہ عام اذکار جو حضوؐر وقتاً فوقتاً کرتے تھے۔ ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہٖ انھی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضوؐر مانگتے تھے‘ البتہ سنت کی پیروی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعائوں کے طرز اور ان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھیں اور جن الفاظ میں بھی دعائیں مانگیں‘ ان کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کی روح موجود ہو۔
اسی طرح اذکار میں سنت صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مختلف حالات واعمال میں خدا کو یاد کرتارہے‘ اس سے استعاذہ کرے‘ اس سے مدد مانگے‘ اس کا شکر ادا کرے اور اس سے طلبِ خیر کرے۔ اس سنت کو حضوؐر نے اپنی عملی زندگی میں اُن مختلف اذکار کے ذریعے سے ظاہر اور جاری کیا جو حدیث میں مذکور ہیں۔ اگرکوئی شخص ان اذکار کو لفظ بلفظ یاد کر کے اسی طرح ان کا التزام کرے جس طرح حدیث میں بیان ہوا ہے تو یہ مستحسن یا مستحب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس سنت کواچھی طرح ذہن نشین کرکے کسی دوسرے طریقے سے اس پر عمل درآمد کرے اور اس کے لیے دوسرے الفاظ اختیار کرلے تب بھی وہ بدستور متبع سنت رہے گا اور اس پر خلاف ورزیِ سنت کا الزام عائد نہ ہوگا۔
یہی فرق تمدنی اور معاشرتی حالات میں بھی ہے‘ مثلاً لباس میں جن اخلاقی و فطری حدود کو قائم کرنا نبیؐ کے مقاصدبعثت میں تھا وہ یہ ہیں کہ لباس ساتر ہو‘ اس میں اسراف نہ ہو‘ اس میں تکبر کی شان نہ ہو‘ اس میں تشّبہ بالکفار نہ ہو‘ وغیرہ۔ اس روحِ اخلاق و فطرت کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس لباس میں کیااُس میں بعض چیزیں توایسی ہیں جن کی پیروی جوں کی توں کرنی چاہیے‘ جیسے ستر کے حدود اور اسبالِ ازار سے اجتناب اور ریشم وغیرہ کے استعمال سے پرہیز‘ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو حضوؐر کے اپنے شخصی مزاج اور قومی طرزِ معاشرت اور آپ کے عہد کے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو سنت بنانا نہ تو مقصود تھا‘ نہ ان کی پیروی پر اس دلیل سے اصرار کیا جاسکتاہے کہ حدیث کی رُو سے اس طرزِ خاص کا لباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہنتے تھے‘ اور نہ شرائع الٰہیہ اس غرض کے لیے آیا کرتی ہیں کہ کسی شخصِ خاص کے ذاتی مذاق یا کسی قوم کے مخصوص تمدن‘ یا کسی خاص زمانے کے رسم و رواج کو دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت بنا دیں۔
سنت کی اس تشریح کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو چیزیں اصطلاحِ شرعی میں سنت نہیں ہیں ان کو خواہ مخواہ سنت قرار دے دینا مِن جملہ ان بدعات کے ہے جن سے نظامِ دینی میں تحریف واقع ہوتی ہے۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ اوّل‘ ص ۱۹۶-۱۹۷)
یہ حدیث مسلمانوں کے لیے بہت باعثِ تقویت ہے۔ ویسے تو لوگ آپس میں ملے جلے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ ساتھ بیٹھنا‘ کھانا‘ پینا ہم انسانوں کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر یہ سب اللہ کی محبت میں ہو اور اللہ کی خاطر ہو تو اس کے جواب میں اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ محبت کرے ‘ اس کے لیے تو ہر منزل آسان ہوجاتی ہے۔ دین اور دنیا دونوں میں بھلائی کے دروازے کھل جاتے ہیں‘ اور قیامت کے دن وہ لوگ انبیا‘صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوں گے۔
اس حدیث میں رسولؐ اللہ کی لائی ہوئی کتاب کو قبول کرنے والے کو ایسی زمینوں سے تشبیہہ دی گئی ہے جن میں سے ایک تو بارش کے پانی کو جذب کر کے سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے اور دوسری اگرچہ سرسبز نہیں ہوتی‘تاہم بارش کے پانی کو روک لیتی ہے جس سے لوگ اور اللہ کی دوسری مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔ اسلام بارانِ رحمت کی مانند ہے۔ اس رحمت سے وہی لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں جو اس کی طرف بڑھتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ جب کوئی شخص اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے تو وہ خود بھی پُرسکون ہوجاتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی تسکین کا باعث بن جاتا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان اس کا پیامبر بن جاتا ہے اور لوگوں کے لیے فیض کا باعث بن جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ اسلام کو قبول نہیں کرتے‘ وہ چٹیل زمین کی طرح ہوتے ہیں‘ نہ خود اپنے لیے فائدہ مند ہوتے ہیںاور نہ دوسروں کے لیے۔
نیکی بہت قیمتی چیز ہے۔ ایک مسلمان نیکی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور کسی نیکی کو بھی کم تر سمجھ کر نہیں کھوتا۔ حتیٰ کہ ایک ایسا شخص جس سے کوئی خاص قلبی تعلق نہیں ہوتا لیکن اگر اس سے ملاقات ہوجاتی ہے تو انتہائی عاجزی‘ انکسار اور محبت سے اس سے ملتا ہے۔
دوزخ انتہائی ہولناک جگہ ہے اور اس میں صرف وہی لوگ داخل کیے جائیں گے جنھوں نے اللہ کو ناراض کیاہوگا۔ جب یہ فرمایا جا رہاہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ انتہائی خراب چیزیں ہیں۔ سرکش اس کو کہیں گے جو پابندی قبول کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو پابند نہ کرسکا‘ یعنی خرابیوں کے علم کے باوجود من مانی کی۔ اُجڈ‘ جاہل شخص کو کہا جاتا ہے۔ اصل میں تو زیادہ تر خرابیاں جہالت ہی کی بنا پر وجود میں آتی ہیں۔ آنکھیں بند کرلینا‘ دل کو پردے میں بند کرلینا اور کچھ سمجھنے کی کوشش نہ کرنا پہلی خرابی ہے اور پھر اس کے بعد انسان خرابیوں کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تکبر بھی ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو ہرجگہ ذلیل کرتی ہے۔ تکبر کی بنا پر انسان لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان تینوں بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
مال و دولت اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے۔ اللہ نے جس کے مقدر میں جتنی دنیا رکھی ہے اس سے زیادہ اس کو نہیں مل سکتی۔ اگر عقل‘ علم اور محنت سے یہ چیز حاصل ہوتی تو سارے ہی عقل مند‘ عالم اور محنتی دولت مند ہوتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہ خداکی دین ہے‘ جس کو بھی دے دے۔ اب جس کو مال ملا اس کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اس مال کو مالک کی مرضی سے خرچ کرے۔ جب وہ اللہ کی مرضی سے خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اور ذرائع کھول دیتا ہے۔ صرف دنیا ہی نہیں بلکہ اگلی دنیا جس میں ہر انسان کو لازماً جانا ہے‘ بہترین ہوجاتی ہے۔ دوسری صورت میں یہ مال دنیا ہی میں نہیں‘ بلکہ آخرت میں بھی وبالِ جان بن جائے گا۔
اس حدیث میں دو اور باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے: ایک یہ کہ لوگوں کی زیادتیوں کو معاف کرنا اور انکسار اختیار کرنا۔ یہ دونوں ایسی عادتیں ہیں کہ اگر ان کو کوشش کر کے اختیار کرلیا جائے تو بہت حد تک انسان خوش اور مسرور رہتا ہے اور لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔
آج دنیا اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اس میں وہ حُسن اور کشش پیدا کردی گئی ہے کہ دل کھنچا چلا جاتا ہے اور ایک کے بعد ایک آرزوئیں اور خواہشیں انگڑائیاں لیتی رہتی ہیں۔ آرزوئیں اور خواہشیں توانسان ہونے کے ناطے پیدا ہوں گی لیکن اگر ان کو کوشش کر کے طول نہ دیاجائے اور ان پر قدغن لگائی جائے تو اسی میں آخرت کی بھلائی ہے۔
اسلام ایک بہت بڑی دولت ہے۔ یہ دولت جس کوخدا کی رحمت سے ملی اس کو اس کی قدر اور حفاظت کرنی چاہیے۔ اس کی حفاظت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے جتنا رزق اس کو ملا صبروشکر کے ساتھ استعمال کرے اور قناعت اختیار کرے۔ دوسروں سے امیدیں لگانا اور اپنی ضروریات کو بڑھانا اور پھر گلہ شکوہ کرنا ایک مسلمان کی شان نہیں ہے۔ اس سے مسلمان کا دین اور ایمان داغ دار ہوتا ہے‘ اور پھر دن رات اس کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ خدا اور بندوں دونوں سے گلہ شکوہ کرتا رہتا ہے۔
کیا آپ کا وصیت نامہ آپ کے تکیے کے نیچے موجود ہے؟ نہیں تو! بھلا زندگی میں اس کا کیا کام___ جی نہیں‘جلدی کیجیے۔ آپ کے اوپر دو راتیں بھی ایسی نہ گزریں کہ آپ کا وصیت نامہ آپ کے پاس تیار نہ ہو۔ ذرا یاد تو کیجیے کہ سورئہ بقرہ آیت ۱۸۰ میں اللہ تعالیٰ کیا فرما رہے ہیں: ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے خیر (مال) چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے‘ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کسی ایسے مسلمان بندے کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جایداد‘ سرمایہ‘ امانت‘ قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہیے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں گزار دے مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا اس کے پاس نہ ہو‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)
وصیت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم دیا جائے خواہ وہ کام زندگی میں ہو یا بعد الموت۔ البتہ عرف عام میں اُس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم بعدالموت ہو۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں آنے والے لفظ خیر کے بہت سے معنوں میں سے ایک معنی مال کے بھی آتے ہیں‘ جیسے سورئہ عادیات میں ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ o (العٰدیٰت:۸)۔ (معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیع‘ جلد۱‘ ص ۴۳۸)
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ’دو راتیں نہ گزریں‘، اس امر پردلالت کرتے ہیں کہ اس کام کے لیے موت کے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ نہ معلوم موت کب اور کس حال میں آئے اور اُس وقت انسان کو اتنی مہلت ملے یانہ ملے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی ہمارے پاس ہو جسے ہم وصیت کے الفاظ سنا سکیں۔ بعض اموات حادثاتی یا ناگہانی بھی ہوتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہ گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو۔ (معارف الحدیث‘ منظورنعمانیؒ،ج ۶‘ص ۱۸۹)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے وصیت کی حالت میں انتقال کیا‘ یعنی اس حالت میں جس کا انتقال ہوا کہ اپنے مال اور معاملات کے بارے میں جو وصیت اس کو کرنی چاہیے تھی‘ وہ اُس نے کی اور صحیح اور لوجہ اللہ کی تو اس کا انتقال ٹھیک راستے پر شریعت پر چلتے ہوئے ہوا‘ اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہوگی‘‘۔(سنن ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ ج ۷‘ ص ۱۹۰)
یہ حدیث وصیت کے ہر وقت تیار کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے لیکن بات صرف یہی نہیں کہ یہ وصیت اللہ کی رضا (لوجہ اللّٰہ) کی خاطر ہو بلکہ کسی حق دار کو کسی بھی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ: ’’(کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) کوئی مرد یا کوئی عورت ۶۰سال تک اللہ کی فرماں برداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں‘ پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حق داروں کو) نقصان پہنچادیتے ہیں اور ان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے‘‘(مسنداحمد‘ ترمذی‘ سنن ابی داؤد و ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ جلد۷‘ ص ۱۹۷)۔ ذرا غور کیجیے‘ ۶۰سال کی عبادت کے بعد بھی دوزخ کا واجب ہونا‘ آخر کیوں؟
دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانونِ وراثت کے باضابطہ اعلان سے پہلے صاحبِ دولت حضرات کے لیے وصیت ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس سے تعین کیا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد اس کے مال و دولت اور جایداد پر کس کا حق ہے۔ اس ضمن میں وہی طرزِعمل رائج الوقت تھا جوباپ دادا سے چلا آرہا تھا۔ چونکہ یہ اصول و ضوابط انسانوں کے وضع کیے ہوئے تھے اس لیے اوّل تو حسبِ ضرورت بدلتے رہتے تھے‘ نیز اکثر انصاف سے بھی بے گانہ ہوتے تھے۔ عورتیں اور بچے اس ناانصافی کا خصوصی ہدف تھے۔ زندگی کے آخری لمحات تک وصیت لکھنے کا یہ کام ملتوی رکھا جاتا۔ اگر کہیں لکھا بھی جاتا تو صاحبِ جایداد اپنی مرضی سے جسے چاہتا اور جیسے چاہتا نوازتا اور جسے چاہتا محروم کردیتا‘ کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ کبھی یوں ہوتا کہ مرنے والا مر جاتا اور وصیت کی عدم موجودگی کے باعث اُس کا مال پسماندگان میں باہمی رنجشوں‘ تنازعات اور تعلقات کے ٹوٹنے کاباعث بن جاتا‘ گویا وصیت کا قانون ہونے کے باوجود حالات انتہائی دگرگوں تھے۔
اس فضا میں ایک عادلانہ اور منصفانہ قانون کی اشد ضرورت تھی‘ خاص کر ایسی بالادست ہستی کا دیا ہوا قانون جس کی خلاف ورزی آسان نہ ہو۔ یوں اِن حالات میں اللہ تعالیٰ نے قانونِ وراثت نازل فرمایا‘ اور نزدیکی رشتے داروں کے حصے ازخود مقرر فرما دیے۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتاہے تو گناہ گار ہوتا ہے اور ربِ کائنات کو ناراض کرتا ہے۔ لیکن قانونِ وراثت (النساء ۴:۷-۱۴)کے آجانے کے بعد بھی کُل مال کے
حصے پر صاحب ِ مال کو وصیت کا اختیار دیا گیا تاکہ دُور کے رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی مدد یقینی بنائی جاسکے۔ اس سے دین اسلام میں اقربا کے حقوق کی ادایگی اور خبرگیری کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔
اسلام میں انسانی تعلقات و معاملات کی اہمیت واضح ہے۔ معاشرے کے استحکام کی بنیاد انھی تعلقات پر ہے‘ خاص کر وہ افراد جن کا تعلق ایک گھرانے یا خاندان سے ہو۔ حالات شاہد ہیں کہ وہ صاحبِ حیثیت اشخاص جنھیں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہے خصوصاً مال و دولت سے‘ وہ اگر اپنی زندگی میں یہ فیصلہ نہ کردیں کہ کس چیز پر کس کا حق ہے‘ توان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی مال آپس کے تعلقات میں کدورتیں ڈالتا ہے‘ بلکہ بسااوقات بات بڑھتے بڑھتے خون خرابے تک جاپہنچتی ہے۔
مال سے انسان کی دل چسپی طبعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے شریعت نے مال و دولت کی متوازن اور منصفانہ تقسیم کا قانون مقرر کیا‘ اور اُس پر عمل کی تاکید فرمائی تاکہ لوگ اُسے حکمِ الٰہی سمجھ کر بروقت انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘ جب کہ انسان سوچتا ہے کہ اگر ہم نے کسی کو اس کی زندگی میں وصیت تحریر کرنے کا مشورہ دیا تو وہ سوچے گاکہ ’’انھیں ابھی سے ہمارے مرنے کے بعد تقسیم ہونے والے مال کی فکر لاحق ہوگئی‘‘۔ بلاشبہہ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وصیت نامے کے ذریعے ہی عزیزوں‘ رشتے داروں اور وارثوں کے درمیان بعد میں پیدا ہونے والے تنازعات اور غلط فہمیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باضابطہ قانون بن جانے کے بعد وصیت کی شرعی حیثیت کچھ اس طرح سے ہوگئی:
۱- جن وارثوں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں اُن میں نہ تو وصیت کے ذریعے کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جاسکتاہے‘ اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جاسکتی ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۰)
۲- وصیت کُل جایداد کے صرف ایک تہائی ( )حصے کی حد تک کی جاسکتی ہے ۔ وہ بھی ایسے قرابت داروں کے لیے جو وارث نہ ہوں اور ایسے لوگوں کے لیے جو قرابت نہ رکھتے ہوں لیکن اس بات کے مستحق ہوں کہ ان کے لیے وصیت کی جائے۔ (ایضاً)
۳- لیکن اگر وارثوں کی اجازت اور خوشی شاملِ حال ہے تو ایک تہائی سے زائد بلکہ پورے مال کی بھی وصیت جائز ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۴۰)
۴- جس شخص پر کسی کے حقوق واجب ہوں‘ یا کسی کا قرض ہو یا کسی کی امانت رکھی ہو اس پر واجب ہے کہ وصیت میںاس کا ذکر کرکے متعلقین کو ادایگی کی ہدایت کرے۔
۵- ایک تہائی مال کی وصیت لکھنے والا اپنی زندگی میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے بالکل ختم بھی کرسکتا ہے ۔ (ایضاً‘ ج ۱‘ ص ۴۴۱)
۶- وصیت کی بعض شکلیں فرض ہیں‘ مثلاً ایسے والدین جو غیرمسلم ہوں یا بہن بھائی جو غیرمسلم ہوں‘ ان کا وراثت میں حصہ نہیں‘ اس لیے ان کے لیے وصیت فرض ہے۔
وصیت نامے میں مالی وصیت اور لوگوں کی امانتوں وغیرہ سے متعلق لکھنا بے شک اہم حصہ ہے‘ مگر چونکہ قرآن پاک میں‘ اللہ تعالیٰ نے لفظ خیر (البقرۃ ۲:۱۸۰) استعمال کیاہے‘ اس لیے وصیت کی اس تحریر کو کسی خاص دائرے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی یہ بات یقینی نہیں کہ ہرآدمی اس حد تک صاحبِ جایداد ہو کہ اس کا ترکہ قابلِ تقسیم ہو۔ اب اگر کسی کا جی چاہے تو آخر وہ اپنے وصیت نامے میں کیا لکھے؟ اس میں بے شمار باتیں شامل کی جاسکتی ہیں جو بلاشبہہ معاشرے میں باعثِ خیر ہیں اور ہوسکتی ہیں۔
انسانوں کی اس بستی میں سب کی ضرورتیں اور حالات مختلف ہیں۔ تربیت ِ اولاد اور دیگر معاملات میں انسان اپنی زندگی ہی میں نہیں مرنے کے بعد بھی کچھ باتوں کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کے لیے زبانی تاکید بھی کرتا ہے مگر ممکن ہے بعد میں یہ تاکید کسی کو یاد رہے اور کسی کو نہیں۔ ایسا بارہا دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے متعلقین کی زندگی میں ان کی نصیحتوں اور اچھے عمل کی قدر نہیں کرتے لیکن ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی نصیحتیں اور عمل ان کی زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یوں وصیت نامہ ہی وہ ذریعہ نظر آتا ہے جس میں ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے رشتوں کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے وصیت نامے میں کیا کیا شامل کرسکتے ہیں تاکہ ہماری اولاد بعض کام کر کے نہ صرف ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوارے:
۱- آج زندگی میں اپنی اولاد کو اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے اور بعد میں دعا کرتے رہنے کی تاکید لکھیے اور یہ بھی ضرور لکھیے کہ کس طرح مرنے والا قبر میں اِن دعائوں کا منتظر رہتا ہے۔
۲- آپس کے حقوق و لحاظ کی تاکید لکھیے۔ جڑ کر رہنے کے فوائداور بکھر جانے کے نقصانات تحریر کیجیے۔
۳- کسی خاص بچے کے لیے خاص نصیحت کے پیشِ نظر ہدایات تحریر کیجیے۔
۴- اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہوئے انھیں آخرت میں اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا بتایئے اس لیے کہ دنیا میں بہت سی کوششیں بظاہر ناکام نظر آتی ہیں‘ اور اچھے کام تو اللہ پر ایمان نہ رکھنے والے بھی بہت کرتے ہیں۔
۵- تربیتِ اولاد اور ان کے دینی فہم کے حصول کے لیے آپ آج جو محنت اور کوشش کررہے ہیں‘ انھیں مختصراً ضبطِ تحریر میں لایئے۔ ممکن ہے کل آپ نہ رہیں تو آپ کے لکھے ہوئے یہ الفاظ ہی اولاد کی زندگی بدل دیں۔
۶- باقاعدہ بیٹھ کر ایسی باتوں کی فہرست مرتب کیجیے جن کے لیے آپ کی خواہش یا ضرورت ہو کہ آپ کی غیر موجودگی میں انھیں کس کس طرح ہونا چاہیے۔
۷- خاندانی معاملات میں اُن معاملات کی طرف توجہ دلایئے جن سے بچنا یا جن کی پابندی آپ کے پسماندگان کوسکون و راحت فراہم کرے۔ اس ضمن میں اولاد کو ان کی شادیوں کے بعد کے رہن سہن سے متعلق ہدایات بھی مفید ہوں گی۔
۸- خاندان یا احباب میں سے کسی خاص فرد کے بارے میں کوئی ہدایت ہو تو وہ لکھیے۔
۹- اپنی ذات یا اپنے کسی ادھورے کام کی تکمیل کے لیے کوئی ہدایت ہو توتحریر کیجیے۔
۱۰- اپنی اولاد (بہن بھائیوں) کو ایک دوسرے کی زندگی کے اہم معاملات کا خیال رکھنے کی ازحد تاکید لکھیے‘ مثلاً تعلیم‘ شادی یادیگر ضروریات۔ ضروری نہیں کہ والدین اپنے تمام بچوں کی ساری ضروریات و فرائض اپنی زندگی ہی میں پورے کرچکے ہوں۔
۱۱- اپنی زندگی کے ساتھی سے متعلق نصیحت ضرور کیجیے کہ آپ کے بعد آپ کے شوہر یا بیوی کا کس طرح خیال رکھا جائے۔
۱- سب سے پہلے صفحے پر اسے کم از کم ایک بار پڑھ لینے کی ’وصیت‘ لکھیے۔
۲- آج جب آپ اسے لکھ رہے ہیں تو کھلے عام اس کا تذکرہ کیجیے۔ اس کی نشان دہی کیجیے کہ کس کاپی میں ہے اور کہاں رکھا ہے‘ چھپاکر مت رکھیے کیونکہ آپ کا تو ایمان و یقین ہے کہ موت کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ آپ کے اہلِ خانہ کو اس کی بابت علم ہوناچاہیے۔
۳- اسے پڑھنے کے فوائد ابھی سے ہی متعلقین کو سمجھایئے۔
۴- اسے پنسل یا ہلکی سیاہی سے نہیں‘ قلم سے نمایاں لکھیے اور اس کے لیے مجلد کاپی کا انتخاب کیجیے تاکہ عرصۂ دراز تک چلے۔
۵- ایک صفحے پر صرف ایک وصیت لکھیے اور ترتیب کا خیال رکھیے۔
۶- ایک ساتھ سارا وصیت نامہ لکھنے نہ بیٹھ جایئے۔ سب کام ایک نشست میں ختم کرنے کا خیال ممکن ہے آپ میں سُستی پیدا کردے اور آپ اسے آج کل پر ٹالتے رہیں‘ جب کہ آپ کو یہ کام پہلی فرصت میں ’شروع‘ کرنا ہے، ’ختم‘ نہیںکرنا۔ پھر جوں جوں خیال آتارہے اُس دن کی تاریخ ڈال کر لکھتے جایئے۔ گویا یہ آپ کے روز مرہ کاموں میں سے ایک اہم کام ہے۔
۷- ایک مؤثر وصیت نامے کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ضرررساں نہ ہو‘ یعنی کسی کو اذیت پہنچانے والا نہ ہو (دیکھیے سورۂ نساء‘ آیت ۱۲)۔ اس ضرر رسانی میں جہاں بہت سی دوسری چیزیں شامل ہیں‘ مثلاً غیرمتوازن وصیت‘ جھوٹی شہادتیں‘ فرضی واقعات درج کر دینا اور وصیت کو حق داروں کے خلاف کردینا وغیرہ‘ وہاں یہ چیز بھی یقینا شامل ہے کہ وہ فرائضِ منصبی جو ہر مرد اور عورت کو اپنی زندگی میں بذاتِ خود ادا کرنا لازم ہیں انھیں غفلت‘ لاپروائی‘ معاملاتِ زندگی کو کھیل سمجھ لینے کی وجہ سے چھوڑ دینا‘ اور اب وصیت لکھتے ہوئے اپنے متعلقین کے اُوپر غیرضروری بوجھ ڈالتے ہوئے انھیں ادا کرنے کی تاکید کرنا۔ اس طرح آپ اللہ کے آگے جواب دہی سے بچ نہیں سکتے بلکہ آپ تو دہرے مجرم ہوگئے۔ اوّل تو اپنے اُوپر عائد فرائض کی عدم ادایگی‘ پھر اسے خواہ مخواہ دوسرے کے سر پر لاد دینا___ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر زندگی کے کسی بھی میدان میں کمی رہ گئی ہے تو اب ’کم وقت میں زیادہ کام‘ کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی سعی کیجیے۔ پھر اس کے بعد کی کسی چھوٹی موٹی کسر کو پورا کرنے کے لیے آپ ضرور وصیت کرسکتے ہیں۔
۸- جس وقت آپ کو احساس ہو کہ اس کا بیش تر حصہ مکمل ہوچکا تو اس کی فوٹوکاپی بنوا کر دو ایک قریبی بااعتماد لوگوں کے پاس بھی رکھوا دیجیے‘ چاہے وہ آپ کی اولاد میں سے ہوں یا کوئی دوسرا قریبی رشتے دار ہو۔
وصیت اور وراثت کی اصطلاحات میں بھی فرق ہے‘ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قانونِ وراثت و وصیت سے متعلق چند اہم نکات ہیں جو پیش نظر رہنے چاہییں:
۱- میراث کے حق دار صرف مرد نہیں بلکہ عورتیںاور بچے بھی ہیں۔
۲- میراث بہرحال تقسیم ہوگی خواہ کتنی ہی کم ہو۔ حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور ۱۰ وارث ہیں تو اُسے بھی ۱۰ حصوں میں تقسیم ہوناچاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث باقی سب کے حصے خرید لے۔
۳- قانونِ وراثت ہر قسم کے مال و املاک پر جاری ہوگا۔
۴- قریب تر رشتے دار کی موجودگی میں بعید تر رشتے دار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۳۲۴)
۵- مرنے والے کے مال سے پہلے کفن دفن کا انتظام ہوگا‘ اس کے بعد اگر میت کا قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اگر قرضہ ادا کرنے میں تمام مال ختم ہوجاتا ہے تو وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی۔ لیکن اگر قرض نہیں تو اب ایک تہائی ( )مال پر وصیت لاگو ہوگی۔ بالفرض وصیت نہیں ہے تو پھر تمام مال شرعی وارثوں میںتقسیم کردیا جائے گا ۔خیال رہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو فرض اور واجب کے درجے میں ہوں ان سے متعلق وصیت فرض ہے‘ اور جو سنت اور مستحب کے درجے میں ہوں ان کی وصیت مستحب ہے۔ تمام صورتوں میں تحریری وصیت مستحب ہے‘ فرض نہیں۔ قانونِ وراثت کے آنے کے بعد صرف مال پر وصیت کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی صاحبِ مال ایسی وصیت کی حاجت محسوس نہ کرتا ہو تو تمام مال وارثوں کا ہوگا۔
۶- تقسیم ِ وراثت قربت کی بنیاد پر ہوگی‘ ضرورت کی بنیاد پر نہیں۔ دُور کا رشتے دار خواہ کتنا ہی ضرورت مند ہو مگر قریب کے رشتے دار کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں۔ ہاں‘ ایسا شخص وصیت سے لے سکتا ہے یا کوئی وارث اپنا حصہ لینے کے بعد پھر جس کو دل چاہے دے سکتا ہے۔
۷- میراث کے حصے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ اب اِن کو کم زیادہ یا تبدیل کرنے کا کسی کو حق نہیں‘ نہ محروم کرنے سے کوئی شرعی وارث محروم ہوتا ہے‘ البتہ محروم کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔
۸- وہ دور کے رشتے دار جو ضرورت مند ہوں اور تقسیم کے وقت موجود بھی ہوں انھیں بھی کُل مال میں سے تمام بالغ ورثا کی رضامندی سے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے۔ یہ نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ شکرانہ ہے اُن لوگوں کی طرف سے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی محنت کے یہ مال عطا فرمایا۔
۹- ایسے رشتے داروں کو اگر دیا جائے تو نابالغ اور غیرحاضر شرعی وارث کے حصے سے نہ دیا جائے۔ جو حصہ پاچکے ہیں وہ اپنے حصے سے دیں تو زیادہ مناسب ہے۔
۱۰- اگر ایسے رشتے دار اپنے حق سے تجاوز کرکے شرعی حق داروں کے برابر مطالبہ کریں تو کوئی ان کا یہ ناجائز مطالبہ پورا کرنے کا پابند نہیں مگر بات احسن انداز سے ہو‘ دل شکنی نہ کی جائے۔
۱۱- کسی شخص کو ضرر رساں وصیت کرتے ہوئے پائیں تو لازم ہے کہ اُسے اِس ظلم سے باز رکھیں۔
۱۲- میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکے میں شامل ہیں۔ انھیں حساب میں لگائے بغیر صدقہ کر دینا جائز نہیں۔
۱۳- ترکے کی تقسیم سے پہلے اُس مال سے مہمانوں کی تواضع کرنا‘ صدقہ خیرات کرنا جائز نہیں۔ ایسا کرنے والے سخت گناہ گار ہیں‘ اور اس صدقے سے میت کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
ایک بزرگ کسی کی عیادت کو گئے۔ ان کے سامنے ہی وہ آدمی مر گیا۔ بزرگ نے چراغ بجھا کرکے اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر چراغ جلایا اور فرمایا: وہ چراغ وارثوں کی امانت تھا۔
۱۴- غرض کہ تقسیم سے پہلے وارثوں سے ’اجازت‘ لے کر بھی صدقہ کرنا جائز نہیں۔ مبادا کوئی شرما شرمی میں اجازت دے دے مگر دل سے راضی نہ ہو۔ (معارف القرآن‘ ج ۲)
صنفِ نازک وہ طبقہ ہے کہ جس کے حقوق واضح طور پر بتائے گئے اور ان کی حفاظت کو ہرممکنہ طریقے سے لازم بنایا گیاہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کے معاملے میں مرد و عورت برابر ہیں۔ دونوں کے حقوق صاف صاف بیان کردیے گئے مگر صدافسوس انھیں پورا کرنا تو دُور کی بات ہے‘ ان کی مکمل آگاہی بھی عام نہیں ہے۔ عورتوں کی اکثریت اپنے اُن حقوق سے واقف ہی نہیں جو اسے اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں رائج باپ دادا کے اکثر اصول اور سوچ کے مخصوص انداز عورتوں کو محرومی‘ ذہنی تنائو اور انتشار کے علاوہ کچھ نہیںدے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان غلط رسوم و رواج کو ختم کر کے اللہ رب العالمین کے قوانین سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اس طرح اُس عذابٌ مُّھِیْن سے بچنے کی تیاری کی جائے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے احکامِ وراثت والی آیات کے آخر میں کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی پر بے جا اسراف ‘ جہیز کی شکل میں بے پناہ سامان‘ شادی کے بعد بچوں کی ولادت (خاص کر پہلی بار) کے لیے والدین کا خرچ اٹھانا‘ ان کے علاج معالجے کی ضرورت پڑنے پر انھیں والدین کے گھر چھوڑ دینے کا عام رواج ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور ان اخراجات کا تقسیم وراثت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ شادی کے بعد عورت کی کفالت اور ضروریات پورا کرنے کی تمام ذمہ داری اس کے شوہر کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔
آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ خواتین سے متعلق وراثت کا شرعی قانون کیا ہے:
۱- عورت مردکی طرح وراثت کی جائز حق دار ہے‘ نہ کسی طرح محروم کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا حصہ ہی معاف کرانے کا کسی کو بھی حق ہے۔ البتہ اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے کیونکہ اُس پر کسی کی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
۲- اگر مرنے والا مسلمان مرد ہے تو دیکھا جائے گا کہ اُس نے بیوی کا مہر ادا کیا یا نہیں۔ اگر نہیں تو پہلے تمام مال سے مہر ادا ہوگا۔ بالفرض مال صرف اتنا ہے کہ مہر کی ادایگی کے بعد ختم ہوجاتا ہے تو پھر صرف مہر ادا کیا جائے گا اور کسی طرح کی وراثت تقسیم نہیں ہوگی۔ اگر مال مہر سے زائد ہے تب وراثت تقسیم کی جائے گی۔
۳- اگر کسی خاتون کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ اس کا مہر اس طرح شوہر کی وفات پر دیاگیا تو اب وہ مہر کی رقم کے علاوہ وراثت سے اپنا مقررہ جائز حصہ بھی پائے گی۔ یہ نہیں کہہ دیا جائے گا کہ تم نے ابھی ابھی تو مہر لیا ہے اب اپنی وراثت چھوڑ دو…
۴- قرآن کریم نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصے کو ’اصل‘ قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایا۔ چنانچہ سورئہ نساء‘ آیت ۱۱ کا ایک حصہ ہے۔ ’’لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصے کے بقدر ملے گا‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۲۱)
احکامِ وراثت کا خاتمہ جس آیت پر ہوتا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَاص وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ o (النسآء۴:۱۴) اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا‘ اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔
اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- قانونِ وصیت و وراثت اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں۔ ان کے خلاف کرنا اِن سے تجاوز کرنا ہے۔
۲- اس تجاوز کی سزا دوزخ کی آگ ہے۔
۳- یہ آگ کسی محدود مدت کے لیے نہیں ’ہمیشہ‘ کے لیے ہے۔
۴- اس آگ میں ’رسوا کن‘ عذاب (عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) دیا جائے گا (اگرچہ قانونِ وراثت پر ایمان کی صورت میں بالآخر عذاب سے نجات ہوجائے گی لیکن طویل عرصے تک عذاب مھین تو بھگتنا پڑے گا)۔ آج کے قانون وراثت پر عمل نہ کرنے والے اور وصیت سے غفلت برتنے والے مسلمان غور کرلیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی زندگی اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فرائضِ منصبی کی تکمیل کی توفیق اور مہلت عطا فرمائے۔ آمین
دین کا صحیح شعور ہو یا نہ ہو‘ تاہم یہ حقیقت ہے کہ خواتین میں دینی احساس مردوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میلاد کی محفلیں‘ نعت خوانی کی مجلسیں‘ نذرونیاز‘ تیجا‘ چالیسواں‘ نوحہ خوانی‘ یہ سب دراصل خواتین ہی کے دم سے قائم ہیں اورمسلمان معاشروں میں ان کے چرچے خواتین ہی کی بدولت ہیں___ یہی خواتین اگر دین کا صحیح شعورحاصل کرلیں‘ قرآن و سنت کی صحیح تعلیم سے واقف ہوجائیں‘ دین کے صحیح تصور اور صحیح فہم سے آشنا ہوجائیں اورانھیں واقعی یہ احساس ہوجائے کہ وہ بھی خیراُمت کا حصہ ہیں‘ تو ہمارے گھروں کی فضا‘ خاندانوں کے حالات اور معاشرے کے طورطریق سب بدل جائیں۔
خداکی کتاب کا یہ خطاب کہ مسلمانو! تم خیر اُمت ہو‘ تمھیں لوگوں کی فلاح و ہدایت کے لیے اٹھایا گیا ہے‘ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو‘ برائیوںسے روکتے ہو اور تم واقعی خدا پرایمان رکھتے ہو___ یقینا تمام مسلمانوں سے ہے۔ یہ خطاب صرف مردوں سے نہیں عورتوں سے بھی ہے۔ لازمی طور پر خواتین بھی اس حکم کی پابند ہیں‘وہ بھی دین کی نمایندہ اور دین کی ترجمان ہیں اور دین کی دعوت و تبلیغ ان کا بھی دینی فریضہ ہے___ بے شک ہر وہ خاتون جو خدا پر ایمان رکھتی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے حلقۂ کار میں دینِاسلام کی تبلیغ کرے۔ اپنے محرم مردوں کو دین سمجھنے اور دین پر عمل کرنے کی تلقین کرے اور خواتین میں عمومی حیثیت سے دین کی اشاعت کے لیے جدوجہد کرے۔ اگر خواتین میں اپنے منصب کا یہ احساس بیدارہوجائے تو گھروں میں اسلامی زندگی اور اسلامی روایات و تہذیب کا چرچا رہے‘ اسلامی تعلیمات تازہ رہیں‘ اور ہمارے گھرواقعی اسلام کے لیے فداکار سپاہی تیار کرنے کا مدرسہ بن جائیں۔
مغربی تہذیب کے زبردست غلبے نے اور پھر موجودہ تعلیم و تربیت نے دین سے دُوری اور بے گانگی کی عام فضا پیدا کردی ہے۔ اس بے دینی اور جاہلیت کا مقابلہ اگر کیا جاسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ ہم اپنے گھروں کی طرف توجہ دیں‘ گھر میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ ہماری خواتین دین کو سمجھنے‘ دین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے‘ دین کی روشنی میں اپنے گھر کے ماحول کو سدھارنے اوردین ہی کے مطابق بچوں کی تربیت اور پرورش کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے عزیز مقصدسمجھنے لگیں۔ گھروں میں دینی فضا قائم رکھنے کا اہتمام اور بچوں کو دین کے مطابق اٹھانے کا اہم کام خواتین ہی انجام دے سکتی ہیں۔
دورِ سابق میں جب اسلامی تعلیمات کا چرچا تھا‘ عورتیں شروع ہی سے بچوں میں اسلام کی رغبت پیدا کردیتی تھیں۔ بچے دین کی معلومات اور دینی عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا عام چرچا تھا۔ بچوں کوعام طور پر دعائیں یاد ہوتی تھیں: سوتے وقت کی دعا‘اُٹھتے وقت کی دعا‘ مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا‘ مسجد سے نکلتے وقت کی دعا‘ کھانا شروع کرتے وقت کی دعا‘ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کی دعا‘ پھل کھاتے وقت کی دعا‘ نیا لباس پہنتے وقت کی دعا‘ آئینہ دیکھتے وقت کی دعا‘ غرض بچوں کو یہ دعائیں اس طرح یاد ہوتی تھیں کہ وہ شوق اوردل بستگی کے ساتھ ان کو رٹتے رہتے تھے اور یہ معمولی بات نہ تھی۔ دراصل ان سادہ لوح بچوں کے پاک ذہنوں میں اس وقت جو نقوش ثبت ہوجاتے تھے ان کی آیندہ زندگی انھی نقوش کی آئینہ دار ہوتی تھی اور یہ زندگیاں اسی لیے اسلام کا پیکر ہوتی تھیں۔
ماں کی محبت بھری گود میں بیٹھ کر جو کچھ وہ رٹ لیا کرتے تھے‘ پھر زندگی بھر اُسے کبھی نہ بھولتے تھے۔ انھی بنیادوں پر ان کی زندگیاں استوار ہوتی تھیں‘ پھر نہ انگلستان کی فضا اُنھیں بدل سکتی تھی‘ نہ زمستانی ہوائیں ان پر اثر کرتی تھیں‘ اور نہ کوئی خوف اور لالچ ان پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ وہ جہاں رہتے تھے دین کے دردمند اور دین کے داعی اور حامی بن کر رہتے تھے___ تاریخ اسلامی کی جن عظیم ہستیوں پر ہم فخر کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو یاد کرکے سردُھنتے ہیں وہ دراصل کارنامے ہیں ان گودوں کے جن میں یہ عظیم ہستیاں پل کرجوان ہوئی تھیں۔ اگر آپ اپنی تاریخ دُہرانا چاہتے ہیں اور اپنی عظمت رفتہ کو آواز دینا چاہتے ہیں‘ توضرورت ہے کہ آپ ایسی گودیں مہیا کرنے کے لیے کوشش و کاوش کریں___ اگر ہم واقعی یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ بنے اور ہمارے سماج میں اسلامی اقدارو روایات کا چرچا ہو‘ ہر طرف اسلامی روایات اور تعلیمات کا تذکرہ ہو‘ تو اس کا کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنی عورتوں میں دین کا شعور پیدا کریں۔ گھر کے ماحول کو دین کے لیے سازگار بنائیں اور اپنی خواتین کو متوجہ کریں کہ وہ اپنے گھروں کو دین کا مدرسہ بنائیں۔ اگر ہمارے گھر دین کا مدرسہ بن جائیں تو پھر باہر کاماحول ہمارے گھروں میں ہرگز کوئی انقلاب لانے کی جرأت نہ کرسکے گا‘ بلکہ گھر کی یہ فضائیں باہر کے ماحول میں خوش گوار انقلاب لائیں گی اور اس انقلاب کا مقابلہ آسان نہ ہوگا۔
گھر کے ماحول پرسب سے زیادہ جو چیز اثرانداز ہوتی ہے‘ وہ ایک نیک دل‘ وفاشعار‘ دردمند‘ عالی حوصلہ اور دین دار خاتون کا اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت ہی ہوتی ہے۔ خواتین کی مدد اورتعاون کے بغیر نہ گھر کے ماحول میں سدھار آسکتا ہے اور نہ باہر کی فضا میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ کوئی ایسا خوش گوار پاکیزہ انقلاب جس کی جڑیں بہت مضبوط ہوں اور جو واقعی انسانوں کے قلب و دماغ کو بدل سکے، اسی وقت لایا جاسکتا ہے جب خواتین اس کی داعی بن جائیں اور وہ اپنے شب وروز اس کے لیے وقف کردیں۔
گھروں میں اسلامی تعلیم کی آسان کتابیں ضرور رکھیے۔ ان کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیجیے۔قرآن پاک کی تفسیر و ترجمے‘حدیثِ رسولؐ کے ترجمے‘دعاؤں کی کتابیں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متعلق کتابیں ضرور گھروالوں کے لیے فراہم کیجیے۔ پھر اپنے اوقات میں سے کچھ وقت ضرور فارغ کیجیے کہ گھر کے سارے افراد بیٹھ کر اجتماعی طور پر کچھ مطالعہ کریں‘ غوروفکر کریں‘ تبادلۂ خیال کریں‘ اور پھر یہ کوشش بھی کریں کہ دین کا جو علم و شعور حاصل ہوتا جائے اس کے مطابق دھیرے دھیرے زندگیوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے گھر کی فضا بدلی ہوئی ہے___ اور یقین کیجیے کہ اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہے کہ آپ کے گھر اسلامی زندگی کا حسین نمونہ بن جائیں___ اور آپ کے گھر والے اسلام کے داعی اور نمایندہ بن کر زندگی گزارنے لگیں۔
تمام دنیاوی امور میں اﷲ تعالیٰ ہی حَاکِم (ruler) اور شَارِع (law giver)ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی حاکمِ اعلیٰ (sovereign) ہے۔ اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ کافی نہیں ہے کہ وہ خَالِق (creator)ہے اور ربّ (sustainer) ہے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اُسے خالق بھی تسلیم کیا جائے اور ربّ بھی، مالک بھی تسلیم کیا جائے اور بادشاہ بھی، صاحبِ تصرّف بھی تسلیم کیا جائے اور حاکم اور شارع بھی۔ آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دی جانے والی شریعت کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے ، کیونکہ ’تکوینی اقتدار‘ کے ساتھ ساتھ ’تشریعی اقتدار ‘بھی اﷲ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ اسی کو توحید تشریع یا توحید حاکمیت کہا جاسکتا ہے۔ جو ہستی آسمانوں پر حکمرانی کر رہی ہے ، صرف اُسی کو ہی اِس کرۂ ارض پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔
ہمارے دور میں‘ جب کہ جمہوریت اور سیکولرزم کی صدائیں ہر طرف بلند ہو رہی ہیں اور اسلامی عقائد اور اسلامی ثقافت و تہذیب پر تابڑ توڑ حملے مسلسل کیے جارہے ہیں ، ہر پڑھے لکھے مسلمان کے لیے لازمی اور ضروری ہوگیا ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی (توحیدِ تشریع) کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کو صرف خالق ہی نہیں‘ بلکہ رب بھی تسلیم کیا جائے۔ خالق و رب ہی نہیں‘ بلکہ اُسے حاکم اور شارع بھی تسلیم کیا جائے۔ بحیثیت حاکم اور بحیثیت شارع نہ صرف اُس کی تکوینی حاکمیت تسلیم کی جائے بلکہ تشریعی حاکمیت کو بھی مانا جائے۔
مغرب یہ چاہتا ہے کہ وہ اِسلام کو عیسائیت کی طرح چرچ اور مسجد میں محدود کر دے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ قرآن و سنت کے مطابق دنیا میں کہیں کوئی حکومتِ الٰہیہ قائم ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک میں عدالتی نظام قائم ہو۔ وہ تو چاہتا ہے کہ سُود پر مشتمل معاشی نظام کو مسلمان ردّ نہ کر دیں اور غیر سودی نظامِ معیشت کو اپنے اپنے ملکوں میں رائج اور نافذ کریں۔
مغربی جمہوریت ، ایک مادر پدر آزاد جمہوریت ہے، جو کسی روحانی اور اَخلاقی حدود و قیود کی پابند نہیں۔ اس میں عوام کو اور عوام کے منتخب نمایندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کے فیصلے کرسکیں۔ اسلام ایسی آزاد جمہوریت کا قائل نہیں۔ جمہوریت میں عوام الناس کی رائے کو ریفرنڈم کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے ، یا عوام کے منتخب نمایندوں کی رائے کو پارلیمنٹ میں دیکھا جاتا ہے۔
دستورِ پاکستان میں قراردادِ مقاصد کے ذریعے حاکمیتِ الٰہیہ کو تسلیم کیا گیا ہے‘ اور آٹھویں ترمیم کے ذریعے اِسے دستور کا ایک مستقل حصہ قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہر اُس قانون کا جائزہ لے ، جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ یہ چیز مغرب کی نگاہ میں بری طرح کھٹکتی ہے اور مختلف طریقوں سے اس کی یہ کوشش ہے کہ اِس دستور کو ترکی کی طرح سیکولر بنا دیا جائے۔
سیکولرزم کا مطلب لامذہبیت یا لادینیت نہیں ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ سیکولرزم مذہب کو گھر ، مسجد اور عبادت خانوں تک محدود کر دیتا ہے۔ سیکولرزم کا توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اُلوہیت سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ، لیکن وہ توحیدِ تشریع‘ یعنی حاکمیت الٰہی کی مخالفت کرتا ہے۔ اسلام اور سیکولرزم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
سیکولرزم یہ گوارا نہیں کرتا کہ ایک سیکولر اسٹیٹ میں اسلامی سزائیں (حدود) نافذ ہوں۔ سود پر پابندی ہو ، موسیقی اور رقص پر پابندی ہو ، عریانی اور فحاشی پر پابندی ہو ، البتہ سیکولرزم عبادات کی اجازت دیتا ہے ، چنانچہ وہ تصوف کو پروان چڑھاتا ہے جس کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ مغرب کی سیکولر دنیا کے نزدیک تصوف ایک ایسا فلسفہ ہے ، جس سے اُن کے سیاسی اور مالی مفادات پر زد نہیں پڑتی اور وہ تصوف کے ساتھ پُرامن بقاے باہمی کے اُصولوں پر کار بند رہ سکتی ہے۔ اس کے برخلاف سیکولرزم کی اسلامی شریعت (Islamic Law) سے ازلی دشمنی ہے۔ سیکولرزم کے نقطۂ نظر سے فوج داری قوانین ، معاشی قوانین ، عائلی قوانین وغیرہ میں ، خدا اور مذہب کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ان تمام امور میں عوام کی رائے ، اُن کی خواہشاتِ نفس اور اُن کے نمایندوں کی رائے ہی حاکمِ اعلیٰ ہے۔
ہر مسلمان پر یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ جس اللہ نے ہمیں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اُسی نے چورکا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ جس اللہ نے ہمیں روزوں اور حج کا حکم دیا ہے ، اُسی نے امیروں سے زکوٰۃ وصول کرنے‘ غیر شادی شدہ زانی مرد و خواتین کو کوڑے لگانے اور شادی شدہ زانی مرد وخواتین کو رجم کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس اللہ نے ہمیں سچ بولنے کا اور امانتوں کا پاس و لحاظ کرنے کا حکم دیا ہے ، اُسی نے ہمیں وصیت اور وراثت کے احکام دیے ہیں۔ اُسی نے سود ، فحاشی ، عریانی اور زنا کو حرام ٹھیرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے بعض کو قبول کر کے ، بعض کو مسترد نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسلام کو صرف ذاتی اعمال تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ اسلام ایک نظامِ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ شارع ہے ، وہ عبادات کا بھی حکم دیتا ہے اور معاشرتی قوانین کا بھی، وہ معاشی قوانین کا بھی حکم دیتا ہے اور اَخلاقیات کی تعلیم بھی۔ وہ ایک مضبوط اجتماعیت پر مبنی ریاست (state) کا حکم بھی دیتا ہے ، جہاں اسلام کا نظامِ عدل رائج ہو۔
حکمرانی ، اقتدار اور بادشاہت ، اللہ ہی کی ہے ، جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اِس حقیقت کا نام ’توحیدِ ملوکیت ‘ ہے۔ اِسی کا دوسرا نام ’توحیدِ حاکمیت‘ ہے۔درج ذیل آیات پر غور کیجیے:
لَـہُ الْمُلْکُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ج (الزمر ۳۹: ۶) بادشاہی اسی کی ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے۔
لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ والْاَرْضِ (الزمر ۳۹:۴۴) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔
وَلَـمْ یَـکُنْ لَّـہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان ۲۵:۲) بادشاہی میں اُس کا کوئی شریک نہیں (وہ تنہا حکومت کر رہا ہے)۔
بِیَدِہٖ مَـلَـکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ (یٰٓس ۳۶:۸۳) ہر چیزکی بادشاہی ، اسی کے ہاتھ میں ہے۔
مَلِکِ النَّاسِ o (الناس ۱۱۴:۲) انسانوں کا بادشاہ ہے۔
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِo (الشورٰی ۴۲:۴۹) زمین اور آسمانوں کی بادشاہی صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔
خیال رہے کہ زمین کی بادشاہت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ فرعونوں ، نمرودوں اور بالادست ریاستوں کے حکمرانوں کو سوپر پاور سمجھنا شرک فی الملوکیت ہے۔ کمزور مسلمان ، کافروں کی قوت سے مرعوب ہو جاتے ہیں ، لیکن اللہ نے ہمیں قرآن میں حکم دیا ہے کہ:
لَا یَـغُـرَّنَّـکَ تَـقَـلُّبُ الَّذِینَ کَـفَرُوْا فِـی الْبِلاَدِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶) دنیا کے ملکوں میں ، خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت ، تمھیں کسی دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔
ہمارے زمانے میں بھی ، جب کمزور مسلمان امریکہ کی عراق پر ، اور روس کی شیشان کے شہر گروزنی پر بمباری ، تسلّط اور مسلمانوں کی مسکینی ، بدحالی ، شکست خوردگی، بے بسی اور لاچاری کے مناظر کو اخبارات میں پڑھتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں تو ان بڑی طاقتوں کے جاہ و جلال سے مرعوب ہو کر اُمّتِ مسلمہ کے مستقبل سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اﷲ کے وہ شیر ، جن کی نگاہوں میں اﷲ کی قوت ، طاقت ، اقتدار ، بادشاہی اور ملوکیت سمائی رہتی ہے ، دنیا کی طاقتوں کو تنکے سے بھی حقیر سمجھتے ہیں۔ خود کو اﷲ کی فوج کا سپاہی سمجھ کر باطل کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ اﷲ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اﷲ ہی کو تنہا صاحبِ اقتدار سمجھتے ہیں۔ اُسی سے ڈرتے ہیں۔ یہی توحیدِ حاکمیت یا توحیدِ ملوکیت ہے۔
توحیدِ تشریع ، توحیدِ حاکمیت کے حوالے سے ، درج ذیل نکات پر مشتمل قرآنی آیات پر غور کیجیے:
خالق ھی کو حکم و امر کا حق حاصل ھے
اَلَالَـہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط تَبٰـرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰـلَمِیْنَ o (الاعراف ۷:۵۴) سن لو ! اُسی کی ’ خلق‘ ہے اور اسی کا ’اَمر‘ ہے ، بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ خالق ہی کو‘ حاکم و آمر ہونے کا حق حاصل ہے۔
بَلْ لِّـلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْـعًا ط(الرعد ۱۳:۳۱) بلکہ سارا اَمرو اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
یُـدَبِّـرُ الْاَمْرَ ط (یونس ۱۰:۳) (اللہ ہی) کائنات کا انتظام چلا رہا ہے (اَوامر اور اَحکامات کی تدبیر کر رہا ہے)۔
یَـتَـنَـزَّلُ الْاَمْرُ بَـیْـنَـھُنَّ لِتَـعْـلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لا (الطلاق ۶۵:۱۲) ان (زمین اور آسمانوں ) کے درمیان ’حکم‘ نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ ہی خالق بھی ہے اور حاکم بھی۔ اللہ ایسا حاکم ہے ، جس کے ہاتھ میں سارے اختیارات ہیں۔اللہ ہی مدبّر ہستی ہے۔ وہ ایسا مدبّر ہے ، جو اپنی حکمت اور دانائی کو اپنی قدرت اور طاقت سے دنیا میں نافذ کر کے رہتا ہے۔
اِسی لیے اُسے بہترین حاکم خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ اور اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ کہا گیا۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o (المآئدۃ۵:۴۴) اور جو لو گ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں۔
(قرآن میں دوسری جگہ ایسے لوگوں کو فاسق اور ظالم بھی کہا گیا ہے۔)
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط (الانعام ۶:۵۷) فیصلے (حکم) کا سارا اختیار ، اللہ ہی کو ہے۔
اَلَالَہُ الْحُکْمُ قف وَ ھُوَ اَسْرَعُ الحٰسِبِیْنَ (الانعام ۶:۶۲) خبردار ہو جائو ! فیصلے کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ اور وہ حساب لینے میںبہت تیز ہے۔
مندرجہ بالا آیات میں مشرکینِ مکہ کے خود ساختہ قوانینِ حلال و حرام کا اِبطال بھی کیا گیا ہے۔ سورئہ شوریٰ میں ، اللہ تعالیٰ نے اِن سے سوال کیا ہے:
اَمْ لَـھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَـہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَـا لَـمْ یَـاْذَنْ بِـہِ اللّٰہُ ط (الشوریٰ ۴۲:۲۱) کیا ان کے کچھ شریک خدا ہیں ، جنھوں نے ان کے لیے وہ دین ٹھیرایا ہے ، جس کا اذن اللہ نے نہیں دیا۔
سورئہ شوریٰ کی اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱- مشرکین مکہ کا عقیدہ تھا کہ شرکاء (یعنی الِھۃ ، غیرُ اللّٰہ اور مِن دُونِ اللّٰہ) نے دین کی شریعت سازی کی ہے۔
۲-مشرکینِ مکہ کے اس عقیدے اور اس شریعت کی اللہ تعالیٰ نے ہرگز اجازت نہیں دی۔
۳- الدین سے مُراد ، محکومیت ، اِطاعت ، سپردگی اور بندگی ہے ، جس میں اِسلام کے سارے احکام بھی شامل ہوتے ہیں ، اور اِس جنس کی ساری دیگر چیزیں بھی۔
۴- شَرَعُوْا لَھُمْ ’’ اُن کے لیے قانون سازی کی ‘‘ سے مُراد ، حلال و حرام کے احکام اور وہ دیگر تمام احکام ہیں ، جو احکامِ الٰہی سے متصادم ہوتے ہیں۔
وَھُوَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ط لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ ز وَلَـہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ o (القصص ۲۸:۷۰) اور وہ اللہ ہی ہے، جس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ، دنیا اور آخرت میں اسی کے لیے تعریف ہے۔ حکم دینا ، اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے۔
اللہ تعالیٰ نہ صرف حاکم ہے ، بلکہ خَیْرُ الْحَاکِمِیْن ہے ، اَحکمُ الْحَاکِمِیْن ہے۔ وہ خَیْرُ الْفَاصِلِین ہے۔ فرمایا گیا :
وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ o (الاعراف ۷:۸۷) اور وہی (اللہ) سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
اَلَـیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ o (التین ۹۵:۸) کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟
دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ بعض عدالتیں ماتحت ہوتی ہیں اور اُن کے اوپر بڑی عدالتیں ہوتی ہیں جنھیں ہم سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کہتے ہیں۔ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو بڑی عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا آخری حاکم ہے ، جس کے فیصلوں کے بعد کوئی اُن میں ترمیم نہیں کر سکتا‘ اِضافہ نہیں کر سکتا اور نظرثانی نہیں کر سکتا۔ وہ آخری اتھارٹی ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں مقدمات کئی کئی سالوں تک لٹکتے رہتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فی الفور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ فرمایا گیا:
وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَـقِّبَ لِحُکْمِہٖ ط وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (الرعد ۱۳:۴۱) اللہ حکومت کر رہا ہے ، کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّـقَوْمٍ یُّـوْقِـنُـوْنَo (المآئدۃ ۵:۵۰) اللہ پر یقین رکھنے والوں کے نزدیک ، اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
دنیا کی عدالتوں میں دیکھا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ جج ہوتے ہیں اور جیوری کے کئی ممبر ہوتے ہیں ، جج آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ بعض اوقات فیصلے متفقہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ کی عدالت اِن سب سے مختلف ہے۔ اُس کے فیصلے تمام تر عدل پر مبنی ہوتے ہیں ، جس میں غلطی کا کوئی اِمکان نہیں ہوتا۔ اُس کی شہادت مکمل ہوتی ہے۔ اُس کا علم ہر چیز پر محیط ہوتا ہے۔ وہ نیتوں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ اُسے اپنی حکومت میں اور اپنے احکامِ حکومت میں نہ کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ وہ کسی کو اپنے فیصلوں میں شریک کرتا ہے۔ یہی بات سورۃ الکھف میں بیان کی گئی ہے:
وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِـہٖٓ اَحَدًا o (الکھف ۱۸:۲۶) اور وہ اپنی حکومت اور اپنے احکامِ حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
معلوم ہوا کہ وہ اپنے حکم و اختیار میں کسی کو ساجھی نہیں بناتا ، کیونکہ وہ خود علیم و حکیم ہے ، اُسے کسی اور سے مشورے کی حاجت نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی حاکمِ مطلق ہے۔ وہ کسی کے دبائو میں نہیں ہے‘ نہ وہ کسی کے ڈر سے عدل و انصاف کا خون کرتا ہے‘ اور نہ کسی کی محبت اور مروّت میں ظلم پر مبنی فیصلہ کرتا ہے۔ دنیا کی عدالتوں پر اور عدالتوں کے فیصلوں پر ظالم حکمرانوں اور دیگر لوگوں کا دبائو ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے وہ عدل سے اِنحراف کرتی ہیں۔ لیکن یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہیں۔ فرمایا گیا:
اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْـدُ o (المآئدۃ ۵:۱) یقینا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اصل شارع ہے۔ صرف اُسی کے فیصلے حق پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور وہی ایک ہستی ایسی ہے ، جو ۱۰۰ فی صد صحیح فیصلے کر سکتی ہے۔قرآن کہتا ہے:
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ ط یَـقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَـیْـرُ الْفٰصِلِیْـنَ o (الانعام ۶:۵۷) نہیں ہے کسی اور کا فیصلہ اور قانون ، مگر اللہ کا (یعنی فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے) ، وہی امرِ حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط اَمَرَ اَلاَّ تَـعْـبُدُوْٓا اِلَّا ٓ اِیَّاہُط (یوسف ۱۲:۴۰) فرماںروائی اور اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ، اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا ، تم کسی کی بندگی اور اطاعت نہ کرو!
زمین و آسمان میں اُسی کی حکومت ہے‘ یعنی تکوینی حکومت بھی اُسی کی ہے اور تشریعی حکومت بھی اُسی کی ہونی چاہیے۔ جبری دنیا میں بھی اُسی کی حکومت ہے اور اِختیاری دنیا میں بھی اُسی کی حکومت ہونی چاہیے۔ تکوینی حکومت بھی ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور اُس کی شریعت بھی عیب سے پاک ہے۔ چونکہ وہ حکیم اور علیم ہے ، اسی لیے ہر دو دائروں میں اس کے احکام کامل علم اور کامل حکمت پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ اس نکتے کو سورۃ الزخرف میں کھولا گیا ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّ فِـیْ الْاَرْضِ اِلٰـہٌ ط وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ o (الزخرف ۴۳:۸۴) وہی ایک ، آسمان میں بھی اِلٰہ ہے اور زمین میں بھی اِلٰہ ، اور وہی حکیم و علیم ہے۔
وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۷) آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔
وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَo (الرحمٰن۵۵:۹) انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تو لو ! اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو !
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ص (النور ۲۴:۲) زانیہ عورت اور زانی مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے مارو!
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا (المآئدۃ۵:۳۸) اور چور خواہ عورت ہو یا مرد ، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو !
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْـقِصَاصُ فِی الـْقَتْلٰی ط اَلـْحُرُّ بِالْـحُرِّ وَالْـعَبْدُ بِالْـعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط (البقرۃ ۲:۱۷۸) تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں ، قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے ، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔
وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ط (البقرۃ ۲:۲۷۵) حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
معلوم ہوا کہ سود کی حرمت ، جان کے بدلے جان کے قصاص کا حکم ، چوروں اور زنا کرنے والوں کی سزائیں وغیرہ وغیرہ‘ یہ سب اُسی کا تشریعی قانون ہے۔
شارعِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی عطا کردہ شریعت و قانون کے مطابق‘ عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ فرمایا گیا:
وَ اِنْ حَکَمْتَ فَـاحْکُمْ بَـیْـنَھُمْ بِالْقِسْطِ ط (المآئدۃ ۵: ۴۲) اور (اے نبیؐ !) فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو!
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَـیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْـعَـدْلِط (النسآء ۴: ۵۸) اور (اے مسلمانو! ) جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو!
قرآنِ مجید میں نازل کردہ وحیِ جلی اور اَحادیث میں بیان کردہ وحیِ خفی ، دونوں کے نزول کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ علیم و حکیم عادل اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دنیاوی فیصلے کیے جائیں۔ کہا گیا :
اِنَّـآ اَنْـزَلْـنَــآ اِلَـیْکَ الْـکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِـتَحْکُمَ بَـیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ط (النسآء ۴: ۱۰۵) اے نبیؐ ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے، تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے ، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو!
سچے اور مخلص مسلمان اللہ تعالیٰ کو شارع مان کر ، اُس کی شریعت کے قوانین کے مطابق ہی سارے فیصلے کرتے ہیں۔ اپنے تمام اِختلافی معاملات کو قرآن و سنت کی طرف پھیرتے ہیں۔ اِس کے برخلاف ، منافقین اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے فیصلوں سے پہلوتہی کرتے ہیں اور جی چراتے ہیں۔ سورۂ آل عمران میں منافقین کی اِس روش پر روشنی ڈالی گئی ہے:
یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِـیَحْکُمَ بَـیْـنَھُمْ ثُـمَّ یَـتَـوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّـنْـھُمْ (اٰلِ عمرٰن ۳: ۲۳) اُنھیں جب کتابِ الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے ، تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے ، تو ان میں سے ایک فریق اِس سے پہلو تہی کرتا ہے۔
سچے اور مخلص مسلمانوں ، ججوں اور حکمرانوں پر ، ہمیشہ اہلِ باطل کا دبائو ہوتا ہے کہ وہ اہلِ باطل کی خواہشات کے مطابق فیصلے کریں اور اللہ کے قانون کو پسِ پشت ڈال دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی واضح طور پر حکم دیا کہ وہ مَا اَنْـزَلَ اللّٰہُ کے مطابق فیصلے کریں‘ اور لوگوں کی خواہشات (اَھْوَآئَ ھُمْ)کی پیروی نہ کریں۔ معلوم ہوا کہ تحکیمِ اِلٰہی کے راستے میں ، اہلِ باطل کی خواہشاتِ نفسانی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
وَاَنِ احْکُمْ بَـیْـنَھُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَـتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ (المآئدۃ ۵:۴۹) اے نبی ؐ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ، اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو! اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
فَاحْکُمْ بَـیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَـتَّبِعِ الْھَوٰی (صٓ ۳۸:۲۶) لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر ! اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر!
منافقین کے طرزِ عمل کے بالکل برعکس ، سچے اور مخلص مسلمان ، اللہ تعالیٰ کی شریعت کے فیصلوں کو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہہ کر قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِـہٖ لِـیَحْکُمَ بَـیْـنَھُمْ اَنْ یَّـقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط (النور ۲۴:۵۱) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں ، تاکہ رسول ؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کریں تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
ہمارے حکیم خالق نے ، ہماری بھلائی کے لیے ، قرآن و سنت میں ، حکمت پر مبنی احکام عطا فرمائے ہیں۔ اِن حکیمانہ احکام و قوانین سے ہٹ کر جو لوگ فیصلہ چاہتے ہیں وہ گویا جاہلیت کے قوانین اور ایامِ جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق فیصلے چاہتے ہیں۔ یہی وہ سوال ہے ، جو سورئہ مائدہ میں اُٹھایا گیاہے۔ حُکْمُ اللّٰہ کے مقابلے میں حُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃ ہوتا ہے ، جو باپ دادا کی رسومات اور بدعات پر مشتمل ہوتا ہے۔
اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِـیَّـۃِ یَـبْـغُوْنَط (المآئدۃ ۵:۵۰) تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟
اپنے وقت کی ظالم و جابر ، سرکش و متکبر ، بے لگام قوتیں ، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے ، مخلص مسلمانوں پر اپنے ظالم قوانین مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، لیکن سچے مسلمان ، طاغوت کی عدالت کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور وہ اپنے تمام اِختلافی معاملات کے لیے مَا اَنْزَلَ اللّٰہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اِس کے برخلاف منافقین ، اپنے دنیاوی فائدوں کے لیے اپنے معاملات کے فیصلوں کے لیے طاغوتی عدالتوں سے فریاد کرتے ہیں۔ فرمایا گیا :
یُرِیْـدُوْنَ اَنْ یَّـتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَـدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّـکْـفُرُوْا بِـہٖط (النسآء۴:۶۰) مگر (یہ منافقین ) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے ’طاغوت کی طرف‘ رجوع کریں ، حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہاں غیر اسلامی قوانین اور غیر اسلامی عدالتوں کو طاغوت کہا گیا ہے ، جو اللہ کے نازل کردہ احکام سے متصادم ہوتی ہیں۔
ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو حَکَم، یعنی جج تسلیم کرے ، جب کہ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے نازل کردہ تفصیلی کتاب موجود ہے۔ چنانچہ خود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ سوال کرایا گیا :
اَفَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْـتَـغِیْ حَکَمًا وَّھُوَ الَّذِیْٓ اَنْـزَلَ اِلَـیْـکُمُ الْـکِتٰبَ مُفَصَّلًا ط (الانعام ۶: ۱۱۴) تو کیا میں اللہ کے سوا ، کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ؟ حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمھاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟
سورۂ ممتحنہ میں دارالاسلام کی شہریت کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ دارُ الکفر اور دارُالاسلام میں مقیم افراد کے حق مہرکے تبادلے کے احکام کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ہجرت کرنے والی خواتین کو جانچنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اِن نئی مہاجرات میں کوئی جاسوس ہو۔ ان تمام احکام کو اللہ کا حکم (حُکْمُ اللّٰہ)کہا گیا۔ یہ سارے قوانین اللہ کے علم اور اللہ کی حکمت و دانائی پر مبنی ہیں۔ اِن قوانین کا مقصد بھی اِسلامی ریاست کو مضبوط کرنا اور مسلمانوں کے اِجتماعی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَـیْـنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo (الممتحنۃ ۶۰:۱۰) یہ اللہ کا حکم ہے ، وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ریاست اور شہریت کے قوانین بھی توحیدِ حاکمیت‘ یعنی تشریع کا حصہ ہیں۔
سورئہ مائدہ میں مَا اَنْـزَلَ اللّٰہکے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو الْکَافِرُوْن اور الظَّالِمُوْن اور الْفَاسِقُوْن کہا گیا ہے۔ فرمایا گیا :
وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ o (المآئدۃ ۵:۴۴) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں۔
وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ o (۵:۴۵)
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی ظالم ہیں۔
وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ o (۵:۴۷)
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی فاسق و گناہ گار ہیں۔
چیزوں کو حلال یا حرام کرنا بھی ، اللہ تعالیٰ کا تشریعی اختیار ہے ، چنانچہ فرمایا گیا:
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ط (النحل ۱۶:۱۱۶) اور یہ جو تمھاری زبانیں ، جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر ، اللہ پر جھوٹ نہ باندھو!
اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۱۶) جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں ، وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔
قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّـنْـہُ حَرَاماً وَّ حَلٰلاً ط قُلْ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَo (یونس ۱۰: ۵۹) اے نبی ؐ ! ان سے کہیے ! تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمھارے لیے اتارا تھا ، اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرالیا۔ ان سے پوچھیے ! اللہ نے کیا تم کو اس کی اجازت دی تھی ؟
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج(التحریم ۶۶:۱) اے نبی ؐ ! آپؐ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں ، جو اللہ نے آپؐ کے لیے حلال کی ہے؟
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط (المآئدۃ ۵:۸۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جو پاک چیزیں اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں ، انھیں حرام نہ کر لو‘ اور حد سے تجاوز نہ کرو۔
مشرکینِ مکہ توحیدِ خالقیت اور توحیدِ ربوبیت کے قائل تھے ، لیکن توحیدِ اُلُوہیت اور توحیدِ حاکمیت یعنی توحیدِ تشریع کے منکر تھے۔ سورئہ انعام میں ان کے شِرک فی التشریع کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کے عین برعکس توحید فی التشریع کی وضاحت کی ہے۔
مشرکینِ مکہ کے شرک فی التشریع کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مثالیں دی گئی ہیں:
۱-مشرکینِ مکہ اپنی کھیتیوں اور اپنے چوپایوں میں اللہ کا حصہ بھی مقرر کرتے تھے اور اپنے دیگرشرکا کا حصہ بھی مقرر کرتے تھے۔(الانعام ۶:۱۳۶)
۲- بعض مویشیوں اور بعض کھیتیوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ ممنوع ہیں۔ (۶:۱۳۸)
۳-بعض چوپایوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ ان پر سواری حرام ہے اور بعض پر یہ اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ (۶: ۱۳۸)
۴- بعض جانوروں کے پیٹ میں پائے جانے والے (زندہ) بچوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ صرف اُن کے مردوں کے لیے حلال ہیں اور عورتوں کے لیے حرام ہیں ، البتہ اگر یہ بچہ مُردہ پیدا ہوتا تو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے حلال ہو جاتا۔
توحید فی التشریع کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مثالیں دی گئی ہیں:
۱- اُن جانوروں کا گوشت جائز ہے ، جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ (۶:۱۱۸)
۲-اُن جانوروں کا گوشت ناجائز بھی ہے اور فسق بھی ، جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ (۶:۱۲۱)
۳- مُردار ، بہتا خون ، سور کا گوشت اور وہ جانور ، جو غَیرُ اللّٰہ کے لیے نامزد کیا گیا ہو‘ کے سوا وحی میں کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ (۶:۱۴۵)
۴- شرک ، والدین کی نافرمانی ، اولاد کا قتل ، ظاہری اور باطنی فحاشی ، اور قتلِ نفس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھیرایا ہے۔ (۶:۱۵۱)
شریعت ساز اور قانون ساز
مندرجہ ذیل آیت پر غور کیجیے اور اَرباب، یَعْـبُدُوا اور اِلٰہ کے الفاظ پر خصوصی توجہ فرمائیے:
اِتَّخَذُوْٓا اَ حْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ج وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَطسُبْحٰنَہُ (التوبۃ ۹:۳۱)
انھوں نے (یعنی یہودیوں نے) ا پنے علما اور درویشوں کو ، اللہ کے سوا ، اپنا رَب بنا لیا ہے ا ور اسی طرح (عیسائیوں نے ) مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک ’معبود‘ کے سوا کسی کی ’عبادت‘ (بندگی) کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا ، وہ جس کے سوا ، کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے‘ بے عیب پاک ہستی ہے۔
اس آیت میں‘ علما اور درویشوں کی عبادت سے مراد، ان کی اطاعت ہے۔ قرآن و سنت کے مقابلے میں ، علما ، صوفیا، تارکُ الدّنیا فقرا (رُھبان) اور گوشہ نشینوں کے ارشادات کو ماننا اور اُن پر عمل کرنا، شِرک فی الحکم ہے۔ قرآن و سنت کے حلال وحرام کے اُصولوں کو ترک کر کے ، اَحبار (علما) اور رُھبان (راہب صوفیا) کے تصنیف کردہ حلال و حرام کوماننا بھی شرک ہے اور اُن کو اَرباب بنانے کے مترادف ہے ، جیسا کہ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں نبی کریم ؐ نے حضرت عدی ؓ بن حاتم سے وضاحت فرمائی۔
فقہاے امت ، علماے کرام اور ماہرینِ قانونِ شریعتِ اِسلامی ، ذیلی اور فروعی امور میں ، قرآن و سنت کے سائے تلے ، نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کر سکتے ہیں۔ لیکن اجتہاد کے صحیح ہونے کے لیے تین شرائط ضروری ہیں:
۱- اجتہاد کسی نصِ قرآنی کے خلاف نہ ہو۔
۲- اجتہاد کسی حدیثِ متواتر اور حدیثِ صحیح کے خلاف نہ ہو۔
۳- اجتہاد اجماعِ امت کے خلاف نہ ہو۔
مغربی جمھوریت اور تشریعی توحید
عوام کے بااعتماد نمایندوں کے ذریعے نظامِ سلطنت کو چلانا جمہوریت ہے۔ اسلام اس کا مخالف نہیں۔ ظاہر ہے خلفاے راشدین ؓ بھی صحابہ کرام ؓ کے بااعتماد نمایندے تھے اور انھوں نے بلاجبرو اِکراہ ‘ ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، لیکن ’ مغربی جمہوریت ‘ ایک بالکل مختلف چیز ہے۔
مغربی جمہوریت کی رو سے ، عوام کے با اعتماد نمایندوں کی اکثریت کو پارلیمنٹ یا اسمبلی میں خدائی قانون اور تشریعی قوانین میں تغیر و تبدل کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ شرک فی التشریع ہے۔ اسلام پارلیمنٹ کی ایسی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ البتہ اگر پارلیمنٹ ، خدائی قانون اور تشریعی قوانین کے ماتحت رہ کر ، فروعی معاملات میں مندرجہ بالا تین شرائط کے مطابق قانون سازی کرے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
’مستقبل‘ کا لفظ اپنے اندر بڑی کشش اور دل فریبی رکھتا ہے۔ مستقبل بنانے کے لیے ہم ساری زندگی تگ و دو کرتے ہیں‘ اور اپنی زندگی کے بہترین سال اپنے مستقبل کی تعمیر میں صرف کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں اُس چیز کی محبت رکھ دی ہے جو فوری ملنے والی ہو‘ جو نفعِ عاجل ہو‘ اور یہ محبت اس امتحان کے لیے ضروری تھی جس میں اس کو ڈالا گیا ہے‘ وہاں اس نے اس کی فطرت میں مستقبل کی آرزوئوں‘ تمنائوں اور خوابوں کے لیے جدوجہد‘ کوشش اور قربانی کا جذبہ بھی رکھ دیا ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل کر انسانی وجود کی تخلیق کو تکمیل کا درجہ عطا کرتی ہیں۔
حال اور مستقبل‘ آج اور کل کے لحاظ سے اگر ہم انسانوں کو اور انسانی گروہوں کو تقسیم کرنا چاہیں تو دو قسم کے گروہ نظر آئیں گے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو حال مست ہیں‘جن کی نظر آج کے نفع پر ہوتی ہے‘ جو آج کا کام آج کر کے لمبی تان کر سوتے ہیں اور جن کے نصیب میں آج کی روٹی آئے تو وہ اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی نگاہ مستقبل پر مرکوز کردیتے ہیں۔ آج کے ہرلمحے اور اپنی ہرکوشش کا نتیجہ وہ مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تقسیم بہت واضح اور صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔
اگر ہم مختصر الفاظ میں اسلام اور مسلمان کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی کہ اسلام مسلمان کو مستقبل کے لیے جینے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مستقبل جس کا وجود موت کی سرحد سے بھی ماورا ہے‘ اور جو اتنا عظیم الشان ہے کہ زمین و آسمان بھی اس کے وسعت میں سماجائیں۔ قرآن مجید کی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ دوڑو‘ بھاگو ‘سعی اور کوشش کرو اور ایک دوسرے سے سبقت لے جائو اور آگے بڑھو۔ حرکت خود مستقبل کی طرف لے جاتی ہے۔ گویا مسلمان وہ ہے کہ جو اپنے حال کے ہرلمحے پر اس طرح سے نگاہ ڈالتا ہے کہ کل اس کا کیا نتیجہ نکلنے والاہے۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔
قرآن کی دعوت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ ہرانسان یہ دیکھے کہ اس نے آج‘ کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ یہ کل وہ ہے جو زندگی کی سرحد سے ماورا اپنا وجود رکھتی ہے اور جو زندگی کی سرحد کے اس پار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا جس کی فطرت ہی میں ایک واضح مستقبل کی تعمیر ہو‘ وہ صرف آج کے نفع‘ آج کی سعی اور جدوجہد پر قانع نہیں ہوسکتا‘ اس کی نگاہ ہمیشہ کل پر رہے گی۔
یہ بھی واضح رہے کہ اسلام کے معنی تحریک کے ہیں‘ جب کہ تحریک کے معنی حرکت اور جدوجہد کے ہیں۔ حرکت کے معنی ایک زمانے سے دوسرے زمانے کی طرف سفر کے بھی ہیں‘ یعنی حال سے مستقبل کی طرف سفر۔ تحریک وہ ہے جو مستقبل کی طرف سفر جاری رکھے۔ اگر وہ حال پر قانع ہوکر رہ جائے اور حال ہی کی کارکردگی پر مطمئن رہے تو یہ تحریک نہیں بلکہ جمود ہے۔ تحریک کی نگاہ ہمیشہ آنے والے کل پہ ہوگی۔ آنے والا کل‘ آج کی اس کی جدوجہد کو بارآور کرے اور نتیجہ خیز بنائے‘ یہی اس کا مقصود ہوگا۔
اگر زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو رات اور دن کی گردش ایک ایساعمل ہے جو مسلسل حال کے لمحات کو ماضی میں بدلتا ہے‘ مستقبل کو حال بنا دیتا ہے‘ اور مستقبل کا اگلا لمحہ آپ کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے۔ آج تک وقت کی حقیقت اور ماہیت کو کوئی نہیں سمجھ سکا۔ یہ وقت کا وہ پھیر ہے جس سے ہم سب واقف ہیں کہ گھڑی ٹک نہیں کرتی کہ حال ماضی بن جاتا ہے‘ مستقبل حال‘ اور مستقبل کا نیا لمحہ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ مستقبل کا یہ لمحہ ایک سیکنڈ کے برابر بھی ہوسکتا ہے‘ ایک برس کے برابر بھی ہوسکتا ہے اور یہ صدیوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہر آن وقت کے ماضی‘ حال اور مستقبل میں بدلنے سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ انھی لمحات میں سے بعض لمحات ایسے آتے ہیں کہ ایک لمحے میں ہزاروں مہینوں کا کام ہوجایا کرتا ہے اور ایک بالکل نئے مستقبل کی بنیاد پڑجاتی ہے۔ اس طرح بعض لمحات ایسے آتے ہیں کہ ایک لمحے کی غفلت مستقبل کی منزل کو صدیوں دُور کر دیا کرتی ہے۔
وہ انسان جنھوں نے اپنا دامن اسلام کے ساتھ وابستہ کیا ہو‘ اپنے وقت‘ اپنی کوششوں اور اپنی مساعی کی اس قدروقیمت سے کبھی غافل نہیں ہوسکتے۔ آج دنیا تاریخ کے جس موڑ پرکھڑی ہے‘ وہ کچھ ایسا ہی لمحہ ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے کہ جب لمحے بھر کی غفلت انسان کوا پنے مستقبل سے صدیوں دُور پھینک سکتی ہے‘ اور ایک لمحے کی محنت اور توجہ انسان کواپنی منزل سے قریب بھی کرسکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا زیر و زبر ہورہی ہے اور ہر طرف تغیر وتبدل کا عمل جاری ہے۔ ایسی کیفیت میں اسلامی تحریک کے لیے‘ جو عالمی انقلاب کا خواب دیکھ کر وجود میں آئی اور جس نے امامت عالم پر اپنی نگاہیں جمائیں‘ اور جس نے دنیا کو نئی تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کے لیے انسانوں کی ایک نئی ٹیم بنانے کا کام اپنے ذمے لیا‘ سوچنے کا لمحہ ہے کہ وہ کہاں کھڑی ہے‘ اور اسے کیا کرنا چاہیے کہ وہ تاریخ کے اس چیلنج کا جواب دے سکے‘ جواُسے اس کی منزل سے قریب کردے۔
تاریخ کے اس چیلنج کو بہت مختصراً سمجھنے کے لیے ذرا ذہن میں اس تصویر کو تازہ کیجیے کہ جب چھٹی صدی عیسوی کے ایک دن‘ صبح صادق سے چند لمحے پہلے‘ اللہ تعالیٰ نے غارِحرا میں اپنی ہدایت کی پہلی چند کرنیں اپنے محبوبؐ کے قلبِ مبارک میں داخل کیں تو دراصل انسانیت کا مستقبل ایک روشن صبح کے اندر تبدیل ہوگیا۔ یہ صبح ایک ہزار سال تک رہی۔ اگرچہ اس میں تاریکی کے دور بھی آئے لیکن ایک ہزار برس تک اسی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین دنیا کے امام اور قائد بنے رہے۔ یہ ابھی تین چار سو سال پہلے کی بات ہے کہ وہ امامت کے اس منصب سے دست بردار ہونے لگے اور اس سے دست کش ہوتے چلے گئے۔ وہ مغرب کہ جہاں وہ کبھی ایک دفعہ شمال سے آئے اور فرانس کے وسط تک پہنچے‘ اور ایک دفعہ مغرب سے آئے اور جرمنی کی سرحدوں تک دستک دی‘ وہی مغرب کھڑا ہوااور اس نے ان کو ایک ایک کر کے انھی علاقوں میں مغلوب کرنا شروع کردیا جہاں وہ غالب اور حکمران تھے۔ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ ہندستان‘ مصر‘ عراق‘ شام‘ فلسطین‘ تیونس‘ الجزائر‘ مراکش‘ نائیجیریا‘ سینیگال‘ افریقہ‘ ایشیا‘ یورپ‘ غرض کوئی جگہ باقی نہ رہی جہاں پر اُمت مسلمہ کو امامت کے منصب سے بے دخل نہ کردیا گیا ہو۔
جتنا حیرت انگیز انقلاب چھٹی صدی عیسوی کا تھا جس کو ایک مستشرق یوں بیان کرتا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کی صدا نے عرب کے بسنے والے بدوؤں اور گلہ بانوں کو اس جذبے سے سرشار کیا کہ ۱۰۰سال کے عرصے میں اسپین کے مرغزاروں سے لے کر چین کے ساحل تک مکہ کے یتیم بچے محمد بن عبداللہ کا نام پکارا جانے لگا اور آوازہ بلند ہونے لگا۔ ایسا معجزہ تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا۔
تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہی محمد رسولؐ اللہ کے پیرو اور متبعین ایک ایک کر کے ایک ایک علاقے سے اپنی امامت اور حکومت سے بے دخل کردیے گئے۔ ایک لکھنے والے کے الفاظ میں‘ ۱۹۲۰ء میں‘ یہ عالم تھا کہ اگر نگاہ دوڑائی جائے تو ساری دنیا میں صرف چار مسلم ممالک براے نام آزاد تھے جو اس وقت بڑے غیراہم ملک تھے‘ اور وہ تھے سعودی عرب‘ یمن‘ افغانستان اور ترکی۔ ان ملکوں کے حکمرانوں کے بارے میں بھی آج یہ کہاجاتا ہے کہ یہ مغربی طاقتوں کے بعض صورتوں میں آلۂ کار تھے اور بعض صورتوں میں تنخواہ دار تھے۔ یہ حال تھا اس صدی کی ابتدا میں مسلم دنیا کا۔
تحریک اسلامی جو امامتِ عالم کے منصب پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہے‘ جو عالمی انقلاب کا علَم ہاتھ میں تھام کر آگے بڑھی ہے‘ آج وہ خواہ کتنے ہی مسائل میں گھری ہوئی ہو‘ اس بات سے آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ بالآخر اس کا مقابلہ مغرب کی اسی غالب تہذیب سے‘ قوت اور عسکری طاقت سے‘ علم و فن اور ترقی سے ہے جو اب مغرب کے جغرافیائی حدود کے اندر محدود نہیں ہے بلکہ جکارتہ‘ ریاض‘ قاہرہ اور کراچی میں بھی اپنا وجود اور غلبہ رکھتی ہے۔ اس کی زبان بولی جاتی ہے۔ اس کے ادارے قائم ہیں۔ دستور اور پارلیمنٹ‘ عدالت اور بنک اور کاروبار اور تجارت‘ سب پر اسی کی چھاپ‘ اسی کی مہر اور اسی کا غلبہ ہے۔
اسلامی تحریک کے وہ داعی جو اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو آج کے مسائل میں بری طرح گھرا ہوا اور محصور سمجھتے ہیں‘ اگر وہ اپنے ماضی کے اس نعرے اور اس دعوت کو اپنے ذہن میں تازہ رکھیں کہ ہم دنیا کی امامت اور ساری دنیا میں انقلاب لانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں‘ تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنا بڑا چیلنج ہے جو ان کو درپیش ہے۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ مستقبل آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ وہ ملت اسلامیہ کا منتظر ہے‘ لیکن مستقبل کی حیثیت من و سلویٰ کی نہیں ہے کہ وہ خودبخود آپ کی گود میں آن گرے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی فرد‘ کسی قوم‘ اورکسی تہذیب کے لیے کوئی ایسا مستقبل نوشتۂ تقدیر نہیں کیا ہے کہ جواس کو خودبخود حاصل ہوجائے۔ مستقبل اسی کا ہے جو اس کے لیے جدوجہد کرے‘ اس کے لیے محنت اور بھرپور کوشش کرے۔
وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o وَاَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے‘ اور یہ کہ اس کی سعی عن قریب دیکھی جائے گی۔
گویا انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ جدوجہد کرتا ہے۔ پھر جیسے جیسے گردش لیل و نہار حال کے لمحات کو ماضی اور مستقبل کو حال بناتی چلی جائے گی‘ اس جدوجہد کے نتائج و ثمرات سامنے آتے چلے جائیں گے‘ اور سواے اپنے کیے اور کمائی کے کوئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس کو علامہ اقبال نے آج سے نصف صدی سے بھی پہلے بڑے واضح الفاظ میں شیطان کی زبان سے ادا کروایا تھا ؎
جانتا ہے ، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں ، اسلام ہے
یہ اس زمانے کی بات ہے جب کوئی کمیونزم کے زوال کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن شاعر کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ ابلیسیت کے نظام کے لیے اگر کوئی فتنہ ہے تو وہ اسلام اور ملّت اسلامیہ ہے کہ جو اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ مگر مغرب کے کتنے ہی مرثیے پڑھے جائیں‘ اس کی خرابیوں کو کتنا ہی کھول کھول کر بیان کیا جائے اور اس پر کتنے ہی تبرے کیوں نہ بھیجے جائیں اوراس کے خلاف کتنے ہی نعرے کیوں نہ بلند کیے جائیں‘ لیکن یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ مغرب کبھی خودبخود زوال پذیر نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام اورمسلمانوں کے لیے جو مستقبل لکھ دیا ہے‘ وہ صرف محنت‘ بلندنظری‘ قوتِ اجتہاد اور جہادو قربانی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ اس کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ تحریکِ اسلامی جو امامتِ عالم پر نگاہ رکھتی ہے اور وہ انقلاب لانا چاہتی ہے جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے‘ جو تہذیب و تمدن کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے اٹھی ہے‘ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اس کا ادراک رکھے اور فہم حاصل کرے کہ دراصل کرنے کا کام کیاہے؟
اگر ہم نبی کریمؐ کی زندگی پر غور کریں یا سید مودودیؒ کے افکار کا جائزہ لیں تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام ساری انسانیت کے لیے اورسارے عالم کے لیے نجات کا علَم بردار ہے۔ اسی طرح جس تحریک کا اسلامی تحریک ہونے کا دعویٰ ہو‘ اس کی نگاہ بھی تنگ دائروں کے اندر محصور ہوکر نہیں رہ سکتی۔ جس کی نگاہ آخرت میں اس جنت کے اُوپر ہو جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں‘ اس کی نظر‘ اس کی فکر‘ اس کی جدوجہد اور اس کی سرگرمیاں دنیا میں تنگ نظری کا شکار نہیں ہوسکتی ہیں۔
آج دنیا عرصۂ محشر میں ہے اور اُمت بھی عرصۂ محشر میں ہے۔ یہ دورجدید جس سے ہم گزر رہے ہیں‘ اس کی چند خصوصیات کا بھی مختصراً آپ کے سامنے ذکر کرتا چلوں۔
آج کے دور میں جس تیزی سے تغیرات برپا ہو رہے ہیں‘ اس کا کوئی تصور آج سے ۱۰۰سال پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بات کسی محدود خطے کی ہو یا ذرائع ابلاغ کی وسعت کی‘انسانی آبادی کی ہو یا انسانی وسائل کے استعمال کی‘ سائنسی ترقی کی ہو یا قدرت کے رازوں کے انکشاف کی‘ تغیرو تبدل کی جو رفتار اس صدی میں ہے ‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایک اندازے کے مطابق پہلے جو کام ایک سال میں ہوا کرتا تھاوہ اب ایک ایک گھنٹے میں ہوجاتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
اسی کے نتیجے میں جو دوسری تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کرئہ ارض جو بہت سے براعظموں پر مشتمل ہے‘ ایک چھوٹا سا گائوں بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں کوئی واقعہ رونما ہوجائے‘ چند لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان قائد بحراوقیانوس کے ساحل پر کھڑے ہوکر کہتا تھا کہ اے خدا! اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ سمندر کے پار بھی زمین ہے‘اور وہ امریکا کی زمین تھی‘ تو میں اپنے گھوڑے سمندر میںڈال دیتا اور اس سرزمین تک جاپہنچتا۔ اس وقت دنیا اس قدر بٹی ہوئی اور اتنے فاصلوں پر تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔ مگر آج کی دنیا میں‘ کسی ملک‘ کسی گوشے اور افریقہ کے کسی تاریک ترین جنگل میں ہونے والا واقعہ بھی پوری دنیا کی آنکھوں سے چھپا نہیں رہ سکتا۔ یہ وہ دو چیزیں ہیں کہ جو بالکل واضح اور صاف طور پر ہمارے سامنے ہیں۔
مستقبل کی یہ منزل ہمارے افکار اور ہماری تحریک میں اس لیے نہیں آگئی ہے کہ ہمارے لٹریچر میں موجود ہے بلکہ پوری کی پوری سیرت رسولؐ اسی بات پر گواہ اور شاہد ہے۔
ہمارے سیرت نگار جس واقعے کو انتہائی مبالغے کی زبان میں یوں اداکرتے ہیں کہ جب حضوؐر اس دنیا میں تشریف لائے تو فارس کے آتش کدے بجھ گئے اور کسریٰ کے مینار گرگئے مگر استعارے کی یہ زبان چند برسوں میں ایک حقیقت بن گئی۔
مکہ میں جو چند مٹھی بھر آدمی کوڑوںاور پتھروں کی زد میںتھے ان کو یہ خوشخبری سنائی جاتی تھی کہ پورا عرب تمھارے قدموں میںہوگا اور عجم تمھارے زیرنگیں ہوگا۔ خانہ کعبہ کی دیوارسے ٹیک لگائے جب حضوؐر سے صحابہ کرامؓ آکر شکایت کرتے کہ اب تو مظالم کی حد ہوگئی ہے‘ دعا کیجیے تو ان کو یہ خواب دکھایا جاتا کہ ایک وقت آئے گا کہ ایک تنہا عورت عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرے گی اور کوئی اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔
جب دو آدمی مدینے کا سفر کر رہے تھے جو ہماری زبان میں ہجرت کا سفر تھا‘ اور ہمارے دشمنوں کی زبان میں دو آدمی اپنی جان بچا کر دشمنوں سے بھاگ رہے تھے اوراس وقت جب سراقہ نے ان کو دیکھ لیا تو یہ خواب بھی دکھایاگیا کہ سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔
غزوئہ خندق کے موقع پر سارا عرب اُمنڈ آیا تھا اور مدینہ پر چڑھ دوڑا تھا اور مدینہ کے مٹھی بھرانسان اس وقت ہلاکت کی زد میں تھے‘ جب کہ چند گز کی خندق تھی جوان کو ہلاکت سے بچائے ہوئے تھی۔ اس وقت بھی خندق کی کھدائی کے دوران جب ایک سخت چٹان پر کدال کی ضرب لگنے پر چنگاریاں نکلتی ہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ مجھے قیصر کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ دوسری ضرب پڑتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ مجھے کسریٰ کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ غرض مٹھی بھر جماعت بھی اس سے غافل نہیں تھی کہ یہ کام محض مکہ اور مدینہ کا نہیں ہے‘ یا محض عالمِ عرب کا نہیں ہے بلکہ یہ کام تو پورے عالم میں انقلاب برپا کرنے کا ہے۔
جو تحریک اور جماعت حال میں گم ہوکر رہ جائے‘ وہ بالآخر ماضی کے اوراق کا ایک نقش بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو تحریک اور جماعت مستقبل کے لیے کمربستہ ہوکر جدوجہد کرے اوروہ صفات اپنے اندر پیدا کرے جس سے مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ ہوسکتا ہے‘ بالآخر اللہ کی مشیت اس کے لیے مستقبل کو مقدر کر دیتی ہے۔
عصرحاضر میں‘ اُمت مسلمہ کو درپیش آج کے چیلنج میں اصل حیثیت مغرب کی ہے۔ مغرب سے میری مراد وہ جغرافیائی خطہ نہیں ہے جس کو ہم یورپ کے نام سے پکارتے ہیں‘بلکہ مغرب کی وہ تہذیب ہے جو جکارتہ سے لے کر رباط تک ہر مسلمان ملک میں سرایت کرچکی ہے‘ اس کے قلب میں داخل ہوچکی ہے‘ اس کے گھروں میں داخل ہورہی ہے‘ اس کی عورتیں اور بچے اس کی زد میں ہیں۔
ایک امریکی پروفیسر کے الفاظ میں: آپ کہتے ہیں کہ ہماری تہذیب و تمدن آپ کے ہاں سے رخصت ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کہیں چلے جائیں آپ کو جین اور کوکاکولا دونوں چیزیں نظر آئیںگی۔ ہماری تہذیب سے اگر کوئی بچا ہو تو وہ کوکاکولا کی کشش سے اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا‘اور کوئی نوجوان ہو تو وہ جین پہننے سے باز نہیں رہ سکتا۔
مغرب کو بھی اسلام سے ایک ہزار سال تک اسی چیلنج سے سابقہ رہا ہے۔ مغرب کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ایک ہزار سال تک مغرب کے سوچنے والے‘ مغرب کے سیاست دان اور حکمران‘ سب کو اسی بات کی فکر تھی کہ اسلام اور مسلمانوں سے کیسے بچا جاسکے۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ میں مائیں اپنے بچوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کرتی تھیں کہ ذرا ٹھیک رہوورنہ ترک آجائیں گے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب اسپین میں تہذیب کی شمعیں اور جنوب میں عثمانیوں کی تلوار‘ دونوں ایک پیغام تھے اور مغرب اس سے لرزہ براندام تھا۔ پھر ۱۸ویں صدی میں وہ لمحہ بھی آیا کہ مغربی مفکرین نے کہا کہ اب وہ خطرہ ٹل چکا ہے۔ وہ وحشی‘ وہ بدو‘وہ بکریاںچرانے والے‘ وہ کھجوروں کے کاشت کار جوعرب سے نکل کر آئے تھے اور جنھوں نے ایک ہزار سال تک سسلی‘ اسپین‘ ہنگری‘ یوگوسلاویہ‘ بلغاریہ اور مشرق وسطیٰ میں حکومت کی‘ اور بیت المقدس پر قبضہ کیا اور فلسطین کو ہم سے چھین لیا___ اب ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔
ابھی ۲۰ویں صدی ختم ہونے کو نہیں آئی تھی کہ مغرب کو اس بات کا احساس ہوا کہ چھٹی صدی میں جو تہذیب‘ جوتمدن‘ جو عقیدہ اور جو نظام دنیا کے سامنے آیا تھا وہ آج بھی اپنے اندر اتنی قوت رکھتا ہے کہ قوموں کی قوموں کو کھڑا کرسکتا ہے۔ انقلابِ ایران سے خواہ ہمیں اختلاف ہو یا اتفاق اور اس انقلاب کی خرابیاںاپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس انقلاب کے بعد مغرب اور اسلام کا تعلق اب وہ نہیں ہوسکتا جو ۱۰۰سال سے تھا۔ اس لیے کہ مغرب نے اس بات کو بخوبی جان لیا ہے کہ اسلام میں اتنی قوت ہے کہ وہ ایک پوری قوم کو اُٹھا کرکھڑا کرسکتا ہے جو ان کے مہرے کو اٹھاکر پھینک دے اور ان کے نظام کو درہم برہم کردے۔ ۱۹۷۸ء کے بعد سے کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ مفکرین‘ مدبرین‘ سیاست دانوں کے بیانات کا طومار بندھ گیا کہ اب اگر خطرہ ہے تو اسلام اور مسلمانوں سے ہے۔
اسلام اور مغرب کے حوالے سے درپیش اس چیلنج کے چند پہلو بہت اہم ہیں جو ہمارے سامنے رہنے چاہییں۔ یہ ہماری گفتگو کے تین حصوں، یعنی ’مستقبل، چیلنج اور ہم‘ میں سے تیسرے لفظ ’ہم‘ جو میری نظر میں اس گفتگو کا سب سے اہم حصہ ہے‘ کی وضاحت پر بھی مبنی ہوگا۔
مستقبل کے چیلنج کا سامنا بھی وہی لوگ کرسکتے ہیں جواس کاادراک اور اس کا شعور رکھیں۔ اگر اس بات کو پوری طرح سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کا خواب دیکھیں کہ کل ہمارا ہوگا۔ جو لوگ اُونچے اُونچے خواب نہیں دیکھ سکتے وہ دنیا میں بڑے بڑے کام بھی نہیں کرسکتے۔ میںنے آپ کو وہ خواب دکھائے جو غارِحرا سے لے کر غزوۂ خندق تک دیکھے جاتے رہے اور دکھائے جاتے رہے۔ اگر ایک حوالے سے ان خوابوں کو دیکھا جائے تو جنون کی حد تک وہ پاگل پن دکھائی دیں گے اور لوگ کہتے تھے کہ یہ مجنون ہے‘ پاگل ہے (نعوذباللہ)‘ ایسی باتیں کرتا ہے کہ سارا عرب و عجم‘ قیصروکسریٰ کے سارے خزانے ہمارے زیرنگیں ہوں گے‘ اور کسریٰ کے کنگن سراقہ کے ہاتھوں میں ہوں گے۔ یہ خواب کون دیکھ سکتا تھا اور کہاں پورا ہوسکتے تھے لیکن اس خواب کو عام خواب کے معنوں میں نہ لینا چاہیے‘ اس لیے کہ نبی کے خواب بھی سچے ہواکرتے ہیں۔
آج بھی وہی اسلامی تحریک مستقبل کی تعمیر کرسکتی ہے جو اپنے نبی کی طرح یہ خواب دیکھے کہ لندن‘ واشنگٹن‘ ماسکو‘سب ہمارے ہیں‘ہمارے بن سکتے ہیں اور یہ ہمارا مقدر ہیں۔ لیکن یہ ہم کو اس وقت ملیں گے جب ہم اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کریں گے۔
مستحق کا لفظ آیا تو اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں اور آپ کے سامنے یہ چیز رکھوں کہ وہ کون سے ضروری پہلو ہیں کہ جن کے بغیر ہم مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ نہیں کرسکتے اور یہ مستقبل ہمارا نہیں بن سکتا۔ میں مشہور برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ کے ایک تجزیے کا تذکرہ کروں گا۔ جب کمیونزم کا زوال ہوا تو اس نے ایک مختصر مگر جامع تجزیہ پیش کیا کہ تاریخِ عالم میں وہ کون سے بڑے بڑے واقعات ہوئے کہ جنھوں نے تاریخ کا رخ پلٹ دیا اور انسان کو ایک نئی زندگی اور نئے مستقبل سے روشناس کیا۔ اس نے اس میں ہجرت کے واقعے کا بھی حوالہ دیا کہ یہ واقعہ بھی ایسا تھا کہ جس نے تاریخ کا رخ پلٹ دیا اور بدل کر رکھ دیا۔
اس تجزیے کے مطابق کمیونزم کا زوال کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ جس سے انسان کی قسمت یا تقدیر بدل جائے۔ پھر وہ لکھتا ہے کہ وہ کون سے مسائل ہیں کہ جن کے گرد آنے والی دنیا میں انقلاب برپا ہوگا اور انسانیت کے لیے نیا مستقبل نئے سرے سے تعمیر ہوگا۔ وہ کہتاہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جو غیب کی دھند میں پوشیدہ ہیں جن کی طرف مسلمان بنیاد پرست اور عیسائی بنیاد پرست دونوں اشارہ کر رہے ہیں۔ ان مسائل کا تعلق سیاست اور معیشت سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق عالمِ غیب ‘ یعنی خدا‘ آخرت اور رسالت وغیرہ سے ہے۔ مذہبی حوالے سے بظاہر یہ بات بڑی خوش آیند ہے لیکن آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ مسلمان بنیاد پرست اور نہ عیسائی بنیاد پرست اس کے اہل دکھائی دیتے ہیں کہ وہ انسانیت اور دنیا کو اس نئے مستقبل سے روشناس کروا سکیں جس کی کلید ان کے ہاتھوں میں ہے اور جس کے گرد دنیا میں انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ ان میں وہ بصیرت اور قوت نظر نہیں آتی‘و ہ قوت اجتہاد نہیں پائی جاتی کہ وہ دنیا کے تہذیب و تمدن کے امام بن کر دنیا کو ایک نئے مستقبل سے روشناس کروا سکیں۔
میں نے اس تجزیے کا تذکرہ اس لیے بھی کیا کہ یہ پہلو بھی نگاہوں کے سامنے رہے کہ اہلِ مغرب مسلمانوں کے بارے میں اور دنیا کے مستقبل کے حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں۔
جس کو ساری انسانیت کا امام بننا ہو‘ اس کو ہر لحاظ سے اپنے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی اور ایک دنیا کو اپنے اندر سمونا ہوگا اور ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اسے اپنے دل کے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی‘ وہ وسعت کہ جس میں سارے لوگ سماجائیں‘ دماغ کی وسعت کہ جو سارے افکار کامقابلہ کرسکے‘ عمل کی وسعت کہ جوسارے انسانوں کو اپنے اندر سمیٹ سکے۔ جس کا دل تنگ ہو‘ جس کی نظر تنگ ہو‘ جس کا دماغ محدود ہو‘ جو اپنے ناک سے آگے نہ دیکھ سکتا ہو‘وہ ساری دنیا کا امام نہیں بن سکتا۔ صحابہ کرامؓ قیصروکسریٰ کے دربار میں کھڑے ہوکر کہا کرتے تھے کہ ہم تو اس لیے آئے ہیں کہ تم کو دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعت تک پہنچا دیں۔
جو اس جنت کا طلب گار ہو جس کی وسعت میں زمین وآسمان سما جائیں‘ نہ اس کا دل تنگ ہوسکتا ہے نہ نگاہ‘ نہ اس کا دماغ تنگ ہوسکتا ہے نہ فکر سطحی اور نہ اس کی نظر محدود ہوسکتی ہے۔ جس طرح ایک پرندہ سب انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپالیتا ہے‘ اسی طرح وہ سارے انسانوں کواپنے ساتھ لے کرچل سکتا ہے۔ اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہرقسم کے حالات اور ماحول میں اپنے مشن کے اوپر‘ اپنے موقف کے اوپر تمام انسانوں کو جمع کرسکے۔ لہٰذا امامتِ عالم کے لیے مقاصد میں‘ دل میں‘ فکر میں‘ نظر میں اور رویوں میں تنگی کے بجاے وسعت ناگزیر ہے۔ اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ دین تو ہے ہی اس لیے کہ اس کے اندر سب لوگوں کو سمیٹ لیا جائے۔ یہ لوگوں کو بھگانے یا کاٹ پھینکنے کے لیے نہیں آیا۔یہ تو آیا ہی اس لیے ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ اسی بات کے پیش نظر نبی کریمؐ نے بشروا ولا تنفروا کی ہدایت کی‘ یعنی خوش خبری کی شیرینی سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچو اور متنفر مت کرو۔ اس لیے کہ مسلمانوں کو تو ساری دنیا کا امام بننا ہے۔ لہٰذا وہ معمولی معمولی بحثوں اور مسائل اور تنگ نظری کے اندر مبتلا نہیں ہوسکتے۔
اگر مسلمانوں کی ۴۰۰ سال کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو جب مسلمان ایک کے بعد ایک ملک فتح کرتے ہوئے دنیا کے امام بنتے چلے جارہے تھے‘ ان کے درمیان اختلافات بھی تھے (سقیفہ بنی ساعدہ سے اختلافات شروع ہوگئے تھے)‘ جو سیاسی بھی تھے اور فقہی بھی‘ مگر ان سب کے باوجود وہ ایک تھے۔ چار امام اور بہت سے سیاسی اختلافات ہونے کے باوجود ان کے اندر وسعت تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکیں۔ اگر چند سو آدمی پورے اسپین پر غلبہ حاصل کرسکتے تھے اور چند سو آدمی پورے ہندستان پر غلبہ پاسکتے تھے‘ اورچند تاجر جاکر ہندستان کے ساحل‘ ملایشیا اور انڈونیشیا‘ ہرجگہ اسلام پھیلا سکتے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان کے دل و نگاہ میں وسعت تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتے تھے‘ اپنے اندر جذب کرسکتے تھے۔ ہررنگ‘ ہر مسلک اور ہرقسم کے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ اس لیے کہ جس کو امامتِ عالم کا منصب سنبھالنا ہو‘ اس کا ناگزیر تقاضا وسعت قلبی اور اختلافات کے باوجود لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔
امامتِ عالم کے منصب کے حصول کے لیے اس سے کوئی مفر نہیںکہ اسلامی تحریک دعوتِ عام کے میدان میں اُتر جائے۔ سید مودودیؒ نے پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی یہ کہا تھا کہ اب ہماری تحریک دعوتِ عام اور توسیع کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اب ہماری منزل اپنی دعوت کو بڑے پیمانے پر پھیلانا ہے‘ جلد سے جلد پھیلانا ہے‘ لوگوں تک پہنچنا ہے اور اپنے آپ کو وسیع سے وسیع تر کرنا ہے۔ اب یہی ہماری منزل ہے۔ انھوں نے تحریک اسلامی اوراس کا آیندہ لائحہ عمل میں یہ بات کھول کر بیان کی ہے۔
جماعت اسلامی کے قیام کے ایک ہی سال کے بعد سید مودودیؒ نے اس بات کو واضح انداز میں بیان فرما دیا تھا کہ جس طرح تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا‘ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام پھیلائے بغیر کوئی انقلاب برپا ہوسکے۔ اربوں انسانوں کو ہماری دعوت اور پیغام سے واقف ہونا چاہیے۔ کروڑوں انسانوں کو اس حد تک اس سے متاثر ہونا چاہیے کہ وہ اس کو حق مانیں اور اس کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے بغیر نہ اس ملک میں انقلاب آسکتا ہے اور نہ دنیا میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ دعوتِ عام ملک میں اور ملک سے باہر‘ اس کا خواب انھوںنے جماعت اسلامی کے قیام کے بالکل ابتدائی دور میں بھی دکھایا تھا اور اس کے بعدبھی دکھایا۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس کو طے کیے بغیر اس کا کوئی امکان نہیں کہ امامتِ عالم کا منصب اور آج کے دور کے چیلنج کا ہم مقابلہ کرسکیں۔
انبیاے کرام ؑکا اسوہ کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میری مثال ایسی ہے کہ کہیں آگ جل رہی ہو اور تم لوگ ہو کہ پروانوں کی طرح دوڑ دوڑ کر اس آگ میں گر رہے ہو‘ اور میں ہوں کہ کمر سے پکڑپکڑ کر تمھیں اس آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
جو لوگ انبیا ؑکے اس مقام سے واقف ہوں اور جو نبیؐ کی دی ہوئی اس تمثیل کو ذہن میں رکھتے ہوں اور یہ جانتے ہوں کہ وہ آگ بھڑک رہی ہے جس میں دنیا کی قومیں سر کے بل گر رہی ہیں کہ جن کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانا ہماری ذمہ داری ہے‘ وہ آخر اس جذبے سے کیسے خالی ہوسکتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں لوگوں کو اس آگ میں گرنے سے بچانا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہا ہے‘جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ یہی وہ تعریف ہے جو ہم اپنے لٹریچر میں‘ اپنی تقریروں میں اور اس آیت میں سنتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
شاید ان دو لفظوں کے اندر جو وسعت اور گہرائی ہے اس پر ہم نے پوری طرح غور نہیں کیا ہے۔ یہ اُمت تو برپا ہی ساری انسانیت کے لیے کی گئی ہے۔ یہ محض اپنے لیے برپا نہیں کی گئی ہے‘ یہ صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں کی گئی ہے‘ بلکہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے‘ یہ سارے انسانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ لہٰذا اس کی دعوت سارے انسانوں کے لیے عام ہونی چاہیے۔
وہ لوگ جنھیں ایک معاشرے کو بدل کر ایک نئے معاشرے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا ہو‘ ایک نئے معاشرے کی قیادت کو سنبھالنا ہو‘ ان کے لیے بھی‘ اور جسے سارے عالم کی قیادت سنبھالنا ہو‘ اس کے لیے بھی یہ مسئلہ ہے کہ سارے کے سارے انسان کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے‘ ایک معیار کے نہیں ہوسکتے۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ساری کی ساری بھیڑیں یا تو سفیدہوں یا کالی۔ عملاً صورت حال تو یہ ہوگی کہ کالی اورسفید بھیڑوں کے درمیان ۹۹ فی صد بھیڑیں وہ ہوں گی ‘ جن کی سفید اور کالی کھالوں کے اوپر سیاہ اور سفید دھبے موجود ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال انسانی معاشرے کی بھی ہے۔
انسانی معاشرے کو اس صورت حال سے کوئی مفر نہیں۔ مدینے کے معاشرے میں عبداللہ بن ابی جیسے رئیس المنافقین بھی تھے اور ضعیف الایمان لوگ بھی تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو میدانِ جہاد میں نبی کریمؐ کو تنہاچھوڑکر پلٹ آیا کرتے تھے‘ اور وہ لوگ بھی تھے کہ حضوؐرمنبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے ہیں اور وہ آپؐ کو چھوڑ کر مالِ تجارت کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔ ان سارے لوگوں کی مثالیں قرآن مجید کے اندر موجود ہیں۔
یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ ایک رنگ میں‘ ایک معیار پر قائم ہوجائے۔ لہٰذا جن کو معاشروں کو لے کر چلنا ہو‘ جن کو پوری کی پوری ریاستوں کو لے کر چلنا ہواور جن کو سارے کے سارے عالم کو اپنے ساتھ لے کرچلنا ہو‘ ان کو اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی کہ وہ ہرقسم کے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکیں۔ گناہ گار بھی آئیں تو شفقت پائیں اور گناہ سے مغفرت اور نجات پائیں۔
یہ ایک عملی دشواری ہے کہ ایک بگڑے ہوئے معاشرے کو بدلناہے اوراس بگڑے ہوئے معاشرے کے انسانوں کی اصلاح کے ذریعے انھیں ایک قوت میں ڈھالنا ہے۔ بظاہر یہ ایک متضاد بات ہے۔ اسی لیے بعض دفعہ لوگ مایوس ہوجاتے ہیں کہ عوام ایسے ہیں‘ جاہل ہیں‘ کالانعام ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کے ذریعے یہاں پر اسلامی انقلاب برپا ہوجائے۔ تحریک اسلامی کو تو ابھی اسی ملک کے عوام سے واسطہ درپیش ہے۔ اگر ہم عالمی چیلنج کا سوچیں تو افریقہ کے جنگلات میں‘ نیویارک اور واشنگٹن میں اور ٹوکیو میں‘ ساری دنیا میں بسنے والے انسانوں سے ہمیں معاملہ کرنا ہے۔ ان سب تک ہمیں محمدرسولؐ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ انھیں کس طرح سے ایک قوت میں ڈھالنا ہے‘ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو اُمت مسلمہ کو درپیش ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: دو ہی طریقوں سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُوْمِنِیْنَ o (انفال ۸:۶۲)
وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے تمھاری تائید کی۔
مومنین کی یہ جماعت انسانوں ہی کے ذریعے بن سکتی ہے۔ حضوؐر کی روش ہمارے سامنے ہے۔ ہرطرح کے لوگ آتے تھے اور آپؐ سے فیض پاتے تھے۔ کمزور بھی آتے تھے اور گناہ گار بھی اور مضبوط ایمان والے بھی‘ سب مل کر آپؐ کے ساتھ کام کرتے تھے جو آپؐ کے پیش نظر تھا۔
سیدقطبؒ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں‘ آخری پارے میں ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہیںاور اس سے آپ کے سامنے پورا منظر آسکتا ہے کہ کس طرح معاشروں کو چلایا جاسکتا ہے اور معاشروں پر غالب آیا جاسکتا ہے۔
ایک شخص حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی ضرورت کا اظہار کیا اور کہا کہ میری کچھ مدد کیجیے۔ آپؐ نے اس کی کچھ مدد کی مگر وہ اس کی نظر میں کم اور ناکافی تھی۔ اس پر اس نے کہا: آپؐ اچھے آدمی نہیں ہیں‘ آپؐ کا قبیلہ بھی اچھا نہیں ہے‘ آپؐ فیاض نہیں ہیں اور آپؐ کے آباواجداد بھی فیاض نہیں تھے۔ اس نے بہت کچھ کہہ ڈالا۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ کے چہرے غصے سے سرخ ہوگئے اور ہونے بھی چاہییں تھے۔ وہ اس کو مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے مگر آپؐ نے ان کو روک دیا۔
یہ کہہ کرآپؐ اپنے حجرے میں چلے گئے۔ پھر اس آدمی کو بھی اندر بلایا اور اس کو مزید کچھ دیا اور کہا کہ اب تو خوش ہو۔ اس نے کہا کہ آپؐ بڑے اچھے آدمی ہیں‘ بڑے فیاض ہیں‘ بڑے اچھے خاندان کے ہیںاور آپؐ سے بہتر کوئی آدمی نہیں۔ حضوؐر نے فرمایا: اچھا‘ ابھی باہر جو بات تم نے کہی تھی‘ میرے ساتھی اس سے بہت ناراض ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کل تم پھر آئو اور جو بات تم نے ابھی کہی ہے ان سب کے سامنے بھی دہرائو۔ اس نے کہا کہ مجھے کیا تامل ہے‘ میں آجائوں گا۔
اگلے دن آپؐ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ آدمی پھر آیا۔ آپؐ نے پورا واقعہ صحابہ کرامؓ کے سامنے بیان کیا کہ کل یہ شخص آیا تھااوراس نے جو بات کہی تھی اس سے تمھیں رنج ہوا تھا۔ اب یہ کچھ اور بات کہتا ہے وہ بھی تم سن لو۔ جب اس نے کل والی بات دہرائی اورحضوؐر کی فیاضی بیان کی تو صحابہؓ بہت خوش ہوئے۔
اس پر آپؐ صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوئے اور یہ بات ہم سب کے لیے بہت اہم اور بہت غور طلب ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی اُونٹنی کا مالک ہو اوروہ اس اُونٹنی پر سوار ہوا تو وہ بے قابو ہوگئی‘ اور اس کے ساتھی ڈنڈے لے کر اس اُونٹنی کو قابو میں کرنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ مگر وہ انھیں دیکھ کر مزید بدک گئی۔ اس پر مالک نے ان سے کہا کہ ٹھیرجائو۔ اس اُونٹنی کا معاملہ تم میرے اُوپر چھوڑ دو‘ میںاس کو سدھار لوں گا۔ اس کے بعد اس اُونٹنی کے مالک نے اپنے ہاتھ میں کچھ چارہ لیا اور وہ اس اُونٹنی کو دکھایا۔ جب اُونٹنی نے دُور سے چارہ دیکھا تو وہ پلٹ آئی اور آہستہ آہستہ قریب آتی گئی۔ جب وہ مالک کے بالکل قریب آگئی تو مالک نے چارہ اس کے سامنے ڈال دیا۔ جب وہ چارہ کھانے میں مصروف ہوگئی تو اس نے اس کے اُوپر کجاوہ کسا‘ اس پر بیٹھا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔
ان الفاظ کے اندر جوحکمت پوشیدہ ہے ان پر غور کیجیے۔ ان معاشروں پر کجاوہ کس کر سواری کرنے کے لیے اور ان پر بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے کے لیے‘اور ان کی قیادت سنبھالنے کے لیے‘ ان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لینے کے لیے ہمیں اُونٹنی کے اس مالک کی طرح بننا پڑے گا جس کی مثال سیرت کے اس واقعے کے اندر موجود ہے۔
ایک اور پہلو جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ سب سے اچھا دین وہ ہے جو ’حنیفیت‘ اور ’سہل‘ پر مبنی ہو۔ حنیفیت یہ ہے کہ آدمی صرف اللہ کاہوجائے اور ’سہل‘ کا مطلب آسانی ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہرشخص پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالا جائے۔ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اس پہلو کو بھی ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔
جب کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے‘ اور یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا کا منظر تھا تو ایک وفد حضوؐر کے پاس آیا۔ ایک شخص نے حضوؐر سے پوچھا کہ آپؐ کا قاصد ہمارے پاس آیا اوراس کا یہ کہنا ہے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بناکر بھیجا ہے۔ کیا وہ سچ کہتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں‘ وہ سچ کہتا ہے۔ اس نے آپؐ کو قسمیں دے دے کر پوچھا کہ کیا واقعی آپؐ کو اللہ نے رسول بنایا ہے؟ پھر وہ کہتا ہے کہ کیا نماز پڑھنے کا حکم واقعی اللہ نے آپؐ کو دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ پھر وہ روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھتا ہے کہ کیا واقعی آپؐ کو اللہ نے حکم دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ اس طرح اس نے حج اور دوسری چیزوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر یہی آپؐ کو اللہ نے حکم دیا ہے تو میں ان پانچ ارکان میں نہ کمی کروں گا نہ زیادتی۔ اس کے بعدوہ چلا گیا۔ جب وہ چلا گیا تو حضوؐر نے فرمایا کہ اگر تمھیں کسی ایسے آدمی کو دیکھنا ہو جو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو اس شخص کو دیکھ لو۔ مگر سب سے یہی مطالبہ نہیں تھا۔ بعض لوگوں سے یہ مطالبہ تھا کہ تم کسی سے کچھ نہ مانگو گے‘ یہاں تک کہ اگر گھوڑے کا کوڑابھی نیچے گرجاتا تو وہ دوسروں سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر ہمیں دے دو بلکہ خود نیچے اُتر کر اٹھا لیتے تھے۔ بہت سوںسے جان ومال کی بیعت اور عہد لیا جاتا تھا۔
گویا آپؐ ہر ایک سے اس کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق معاملہ فرماتے۔ لہٰذا سب کو ایک سانچے میں فٹ نہیں کیا جاسکتا بلکہ مختلف انسانوں کی مختلف سوچ‘ مزاج‘ صلاحیت اور استعداد کی بنا پر الگ الگ معاملہ کیا جانا چاہیے۔ ایک ہی ڈنڈے سے سب کو ہانکنا خلافِ حکمت ہے۔
دین کی حنیفیت اور اس کے یسر ہونے میں ایک نہایت اہم بات ہے جو ہمیشہ نظروں کے سامنے رہنی چاہیے۔ وہ یہ کہ ہم بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ دین کا کوئی گوشہ اسلام کے دائرے سے باہر نہیں۔ کھانا کھانا بھی ثواب تھااور پانی پینا بھی۔ شعروشاعری بھی حج کے راستے میں ہوا کرتی تھی اور حج پر جاتے ہوئے پوری پوری رات شعر سنتے گزرجایا کرتی تھی۔ یہ خلفاے راشدین کا واقعہ ہے۔ یہاں تک کہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں بھی آپؐ نے فرمایا کہ یہ بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ گویا کوئی بھی چیز دین سے باہر نہیں۔ یہاں تک کہ آپؐ نے جب دو تہوار مقرر فرمائے تو آپؐ نے فرمایا: کھیل کود‘ کھاناپینا اور تفریح بھی دین میں شامل ہے۔
زندگی کو دو حصوں میں نہیں بانٹا جاسکتا کہ دین پر عمل کرنا ہو تو تحریک میں آئو اور اگر باقی دنیوی کام کرنے ہوں تو تحریکی دائرے سے باہر جاکر کرو۔ کوئی تحریک اس طرح پورے کے پورے انسانوں کو لے کر نہیں چل سکتی۔ پھر اس کا حشر یہ ہوتا ہے کہ لوگ بٹ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک حصہ تو اقربا‘ رشتہ داروں‘ شادی بیاہ کی مجلسوںاور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے لیے ہوتا ہے جہاں وہ دین کی ہدایت اور احکام کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں‘ جب کہ دوسرا دائرہ دعوت دین اور تنظیم اور اس کی سرگرمیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی زندگی کے ایک دور میں‘ نوجوانی کے عالم میں‘ تحریک کے کارکن بن جاتے ہیں‘ ۲۴ گھنٹے اسی کام میں لگاتے ہیں۔ دوسری طرف جیسے ہی عملی زندگی کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو اکثریت ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوجاتی ہے۔ پھروہ پوری زندگی کو دین کے دائرے میں رہتے ہوئے نباہ نہیں پاتے اور دینی و دنیاوی تقسیم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میں محض کارکنوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم عام انسانوں کو ساتھ لیے بغیر انقلاب نہیں لاسکتے۔ جب بھی انقلاب لانا ہوگا تو عام انسانوں کی پوری زندگی کو دین کے ماتحت لانا ہوگا یہ دینی و دنیاوی تقسیم کو لازماً ختم کرنا ہوگا۔
اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس بات کو واضح فرما دیا ہے کہ دین میں کچھ چیزیں ہیں کہ جو فرائض کا درجہ رکھتی ہیں اور کچھ نوافل کا۔ دونوں کا مقام و مرتبہ ایک جیسا نہیں ہے۔ اس بات کو ایک حدیث میں بھی واضح کیا گیا ہے جو امام نوویؒ نے اربعین نووی میں درج کی ہے کہ کچھ چیزیں ہیں جو فرائض کے طور پر آئی ہیں‘ ان فرائض کو کبھی ضائع مت کرنا۔ کچھ چیزیں ہیں کہ اللہ نے ان کو حرام قرار دیا ہے‘ ان حرام چیزوں میں کبھی نہ پڑنا۔ اللہ نے کچھ حدود عائد کردی ہیں‘ ان حدود سے باہر نہ نکلنا۔ ممکن ہے کہ حدود کی بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئے۔ اس بات کو ایک مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ سڑک پر ٹریفک کے لیے لائن بنی ہوتی ہے۔ گاڑی کو اس لائن میں چلانا ہوتا ہے اور ٹریفک سگنل کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اب کوئی تیزچلے یا آہستہ یا رُک جائے‘ اسے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا ہوتی ہے اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے گاڑی چلانا ہوتی ہے۔
اسی طرح زندگی میں اسلام نے کچھ حدود مقرر کردی ہیں‘ لہٰذا ان کی پابندی کرنا ہوگی۔ ایک بڑے دائرے میں اللہ تعالیٰ خاموش رہا ہے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ سے کوئی غلطی ہوگئی‘ یا یہ کہ وہ بھول گیا ہے‘ بلکہ یہ تمھارے لیے باعثِ رحمت ہے۔ لہٰذا زندگی کے معاملات میں ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔
اسلام کے پیغام سے پوری انسانیت کو روشناس کرانے کے لیے اور ایک عالمی انقلاب برپا کرنے کے لیے اجتہاد بھی ناگزیر ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: تہذیب و تمدن کے وہ معمار جن کے اندر اجتہاد کی یہ صلاحیت ہوکہ وہ ہرمسئلے کو اسلام کی روشنی میں حل کرسکیں‘ جو نت نئے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں ڈھونڈ سکیں‘ وہی دنیا کے امام بن سکیں گے۔ لہٰذا دورِ جدید میں جہاں تغیر، تبدل کی رفتاراتنی تیزہے وہاں اجتہاد بھی ناگزیر ہے۔
سید مودودیؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا اور روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں ان کے یہ الفاظ موجود ہیں کہ کسی ایک ملک میں اسلامی انقلاب نہیں آسکتا جب تک کہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کے حق میں راے عامہ ہموار نہیں کی جاتی ہے۔ انھوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب ڈش انٹینا اور ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ جب جٹ ہوائی جہاز نہیں تھااور پلک جھپکنے میں ایک خبردنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نہیں پہنچتی تھی۔ یہ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب انھوںنے خداداد بصیرت کے تحت یہ فرمایا تھا: مسقبل کے چیلنج اور عالمی اسلامی انقلاب کے پیش نظر عالمی راے عامہ کی تشکیل کی اہمیت آج کل سے زیادہ ہے بلکہ ناگزیر ہے۔
آخری بات جو میں سمجھتا ہوں کہ ضروری ہے اور جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور جس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا‘ وہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پوری کوشش کرنی ہے لیکن قوت صرف اللہ کے پاس ہے اور اس کی مدد کے بغیر کوئی معرکہ سر نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کے دل اس کے ہاتھ میں اس طرح ہیں کہ جس طرح دو انگلیوں کے درمیان ہوں۔ وہ چاہے تو پلک جھپکنے میں لوگوں کے دل پلٹ سکتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے حصے کی پوری محنت کرنا ہے۔
فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْص وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰیج (الانفال ۸:۱۷) پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اوراے نبیؐ،تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔
درحقیقت کام کرنے والی ذات وہی ہے‘ ہم تو صرف بہانہ ہیں۔ لیکن اس بہانے کو اپنی پوری قربانی‘ جدوجہد‘ اجتہاد‘ جہاد‘وسعتِ نظر‘ وسعتِ قلب اور اس شعور اور ادراک سے کرنا ہے کہ یہ ہمارا خواب ہے اور اس خواب کی تعبیر ہم ہیں۔ اگر عرب کے بدو اور چرواہے دنیا کے امام بن سکتے ہیں توکوئی وجہ نہیں ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں لوگ جو اسلام کی پکار پر جمع ہوچکے ہیں وہ دنیا کے امام نہ بن سکیں۔ یہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور منتظر ہے کہ کب ہم اس میں داخل ہوں۔میری نظر میں یہ وہ صفات ہیں جن کے بغیر اس عظیم الشان چیلنج کا جواب نہیں دیا جاسکتا جو آج ہمارے دروازے پردستک دے رہا ہے۔(کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
زیرنظر مضمون ایک مسلم امریکی این جی او آزاد مسلم کولیشن (Free Muslim Coalition)کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ این جی او امریکی امداد سے چل رہی ہے اور اسلامی تعبیرات کی امریکی تشریح کرنے میں خاصی مستعد ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی غلط تعبیرات پھیلائی جارہی ہیں۔ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ میڈیا کے شعبے میں جو ترقی مغرب نے کی ہے‘ بدقسمتی سے وہ مسلم ممالک میں نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ آج کے عالمی گائوں میں اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ذیل میں اس مضمون سے ماخوز ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
آج کل پوری مسلم دنیا، خصوصاً عرب ممالک میں جمہوریت کے فروغ کے بارے میں بہت سی باتیں کی جارہی ہیں۔ امریکا اور مشرق وسطیٰ میں موجود بعض مقامی گروپ بھی اس کام میں شامل ہیں۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد اس مثبت تحریک کو مزیدتقویت ملی ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے حق میں جو بات سب سے زیادہ پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عرب ممالک کے عوام کا حکومت میں مؤثر کردار ہی دہشت گردی کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
آزاد مسلم کولیشن‘ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے فروغ کی پُرزور حمایت کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی خبردار کرتی ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے فروغ سے پہلے سیکولرزم کو فروغ نہ دیا گیا اور دہشت گردی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ بنیاد پرست اسلامی ریاستوں کے قیام کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ یہ اسلامی ریاستیں بالآخر جمہوریت کی قاتل ثابت ہوں گی۔
اس ضمن میں الجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ الجیریا میں‘ جوکہ ایک سیکولر ملک ہے‘ ۱۹۹۲ء میں جمہوری پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ وہاں کے عوام نے اسلامی بنیاد پرستوں کو حکومت کے لیے منتخب کیا۔ باقاعدہ حکومت کے قیام سے قبل ہی چند نئے منتخب نمایندوں نے اعلان کردیا کہ یہ جمہوریت (جس کے بل بوتے پر وہ اسمبلی تک پہنچے تھے) اسلام سے متصادم ہے اور جوں ہی باقاعدہ حکومت کا قیام عمل میں آئے گا‘ وہ اس جمہوری نظام کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ اس نئے واضح انتہا پسندانہ موقف کی وجہ سے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا گیا اور ملک مارشل لا کی نذر ہوکر مستقل خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔
مشرق وسطیٰ میں انتہاپسند اسلامی ایجنڈے کے ہاتھوں ایک سیکولر ملک کے یرغمال بنائے جانے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد بہت سے عربوں نے اسلامی ریاستوں کے قیام پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس کی بنیاد بہت سے مسلمانوں میں پایا جانے والا یہ نظریہ ہے کہ ان کے ممالک کا استحکام‘ اسلامی ریاستوں کے قیام میں ہی پوشیدہ ہے۔ ان کی نظر میں صرف اسلام ہی انھیں شخصی حکومتوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ اس کی واضح مثال عراق ہے جہاں سیکولر اقتدار کے خاتمے کے بعد مذہبی جنونیوں کی طرف سے ایک منظم تحریک کا آغاز کیا گیا تاکہ سیکولر جمہوریت کے بجاے مذہبی حکومت قائم کی جاسکے۔
بدقسمتی سے انتہاپسند مسلمان نہایت کامیابی سے سیکولرزم کی ناکامی کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ درحقیقت انتہاپسند مسلمانوں کی طرف سے پھیلایا جانے والا یہ گمراہ کن نظریہ کہ مسلمان مکمل طور پر مذہبی نہیں ہیں اور یہ کہ مسلم دنیا کے تمام مسائل کا حل سخت ترین اسلامی قوانین کی طرف لوٹنے میں ہے‘ جداگانہ اسلامی ریاستوں کے قیام سے زیادہ خطرناک ہے۔
اسلامی ریاستوں کے قیام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ’’ہم سرمایہ دارانہ نظام کو دیکھ چکے‘ ہم نے کمیونزم اور سوشل ازم کو بھی آزما لیا اور یہ تمام نظام ہاے زندگی ناکام ہوگئے‘ اس لیے اب ہم اسلام کو آزمائیں گے‘‘۔
یہ نظریہ سرے سے غلط ہے۔ اسلام ایک ترقی یافتہ ریاست کا خاکہ نہیں ہے بلکہ صرف ایک مذہب ہے۔ قرآن میں ایک مکمل ریاست کے قیام کے باب میں مکمل رہنمائی موجود نہیں ہے۔ جتنی بھی موجود سلطنتیں اسلامی انتہا پسندوں کی قائم کردہ ہیں‘ وہ سب فاشسٹ نظریات کی حامل‘ قدامت پسند اور جمہوری خصوصیات کے فقدان کا شکار ہیں۔
جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ہے‘ یعنی ایک ایسا نظام جہاں حکمرانوں کو منتخب کیا جائے اور وہ منتخب جمہوری اداروں کے سامنے جواب دہ ہوں۔ اگر آج عرب ممالک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں تو عوام لازمی طور پر متعصب اسلامی انتہاپسندوں کو منتخب کریں گے۔ ان انتہا پسندوں کا اقتدار میں آنا جمہوریت اور سیکولرزم کی موت ہوگی۔ ہمیں عرب اور اسلامی معاشروں میں جمہوریت کی روح پھونکنے سے پہلے وہاں سے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
کولیشن اس بات کی حمایت تو کرتی ہے کہ عوام کو حکومت کرنے کا حق ہونا چاہیے‘ مگر ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ حکومت کے نظام کی مضبوطی کے لیے اسے سیکولر جمہوریت کے تحت ہونا چاہیے تاکہ عوام کو جنس‘ نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر تمام حقوق مہیا کیے جاسکیں۔ اسی سیکولر ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے کولیشن میڈیا کے ذریعے‘ تعلیمی اداروں کے اندر اور سیاسی ایوانوں میں اس حوالے سے نئی بحثیں چھیڑ رہی ہے‘ تاکہ حکومتی ایوانوں میں خصوصاً مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں‘سیکولرزم کی اہمیت کو واضح کیا جاسکے۔
یہ این جی او اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلمانوں کو سیکولرزم کے فوائد سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اگر ان کی حکومتیں انھیں امن اور خوش حالی دینے میں ناکام رہی ہیں تو اس کی وجہ ان حکومتوں کا سیکولر ہونا نہیں تھا۔ کولیشن اس بات پر بھی مکمل یقین رکھتی ہے کہ جب تک دہشت گردی کو شکست نہیں دی جاتی اور اسلامی انتہاپسندی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا‘ تب تک جمہوریت کا عمل بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
سوال: میرے شوہر ایک سخت مزاج اور تنہائی پسند انسان ہیں۔ انھیں میرا خواتین سے زیادہ ملنا جلنا بھی پسند نہیں۔ ہم لوگ دیارِغیر میں ہیں جہاں انسان ویسے ہی تنہائی اور ڈپریشن کا شکار رہتا ہے۔ میرے چار بچے ہیں‘تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ جب سب سے چھوٹی بیٹی اسکول جانے لگی تو تنہائی کی وجہ سے مجھے زیادہ ہی ڈپریشن ہونے لگا۔ تنہائی اور دیگر وجوہ کے علاوہ ایک وجہ دوسرے لڑکے کی خواہش بھی تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے بچے کی خواہش کا ذکر کیا تو انھوں نے سختی سے ڈانٹ دیا۔ میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتی تھی جو میں نے اپنے شوہر کو بتائے بغیر چھوڑ دیں اور نتیجے میں ہمارے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوگئی۔ اس بیٹی کی پیدایش کو دو سال ہونے کو ہیں‘ لیکن میرے شوہر نے میری زندگی عذاب بنارکھی ہے کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے‘ تم گناہ گار ہو۔اب تو مجھے بھی لگتا ہے کہ جیسے میں گناہ گار ہوں۔ میرا علم بہت محدودہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں‘ کیا میں نے ایسا کر کے واقعی کوئی گناہ کیا ہے؟ اگر لڑکا ہوجاتا تو شوہر کا مزاج اتنا نہ بگڑتا لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ میرے شوہر پانچ وقت کے نمازی اور بہت پرہیزگار انسان ہیں لیکن اس بات کو سننا بھی پسند نہیں کرتے کہ بیٹیاں دوزخ کی آگ سے ماں باپ کے لیے ڈھال ہوں گی۔ ہروقت مجھے طعنے دیتے ہیں کہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ زیادہ بچے پیدا کر کے تم جنت کے زیادہ قریب ہوگئی ہو۔ وہ ایسی کوئی نصیحت یا قرآن کی بات جو ان کے اپنے مفادات کو متاثر کرے‘ سننا پسند نہیں کرتے۔ بعض اوقات میں سوچتی ہوں‘ یہ کیسی نمازیں ہیں جو ایک آدمی کو انسان اور سچا مسلمان نہیں بنا سکتیں۔
بسااوقات خودکشی کا خیال آتا ہے۔ تنگ دستی کے علاوہ بھی بہت سے مسائل انسان کو مرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ خاص طور پر شوہر اور سسرال والوں کے رویے ہمارے معاشرے میں ایک عورت کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ کیا کسی بھی قسم کے حالات میں خودکشی کی کوئی صورت نکلتی ہے؟ اگر آپ صبر کی تلقین کریں گے تو کیا اس کی بھی کوئی حد ہے‘ جب کہ میں اپنی ساس کو ۷۰ سال کی عمر میں بھی اپنے سسر کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھتی ہوں۔ اب کوئی کہاں تک صبر کرے؟
جواب: آپ کے سوالات ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض ایسے نازک پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں جو بظاہر اسلام کی دعوتِ انقلاب میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلے سوال کا تعلق ہمارے معاشرتی رویوں کے ساتھ ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اچھے خاصے دین دار مرد بھی اپنی نمازوں‘ نفلی روزوں اور قیام اللیل کے باوجود اپنی بیوی اور خاص طور پر بیٹیوں کے حوالے سے منفی اور خلافِ شریعت رویوں کا شکارہیں۔ قرآن کی دعوت رویوں کو تبدیل کرنے کی دعوت ہے کہ انسان کا رویہ اپنے خاندان کے ساتھ کیا ہو اور وہ اللہ کی بندگی کے دعوے کو کس طرح اپنے طرزِعمل سے ثابت کرے۔
خاندان میں بچیوں کی پیدایش پر ہونے والا ردعمل آج سے نہیں قبل اسلام ہی سے ایک معاشرتی مسئلہ رہا ہے۔ قرآن کریم نے انتہائی جامع اور بلیغ انداز میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے… اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘ (التکویر۸۱:۱-۹)۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی بیٹی پر جو ظلم قبل از اسلام ہوتا رہا اور جس کی پشت پر مرد کا خودساختہ بڑائی‘ اَنا اور صنفِ نازک کو اپنے سے کم تر سمجھنے کا تصور تھا‘ اس باطل فکر کو ختم کر کے انسانوں کو صحتِ فکری کے ساتھ نیا اندازِ فکردیا جاسکے۔ قرآن کریم نے سورۂ نساء کے آغاز میں انسان کے خودساختہ تصوراتِ برتری جنس کو رد کرتے ہوئے یہ اصول بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے‘ اس لیے ترکیبی طور پر مرد اپنی برتری اور عورت کی کم تری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
پھر ایک قدم آگے جاکر یہ اصول بھی سمجھا دیا کہ فوقیت اور برتری کی بنیاد کیاہوگی: محض جنسی فرق یا تقویٰ اور عملِ صالح؟ ساتھ ہی یہ بات بھی تعلیم فرما دی کہ شوہر بیوی سے اپنا حق مانگتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کرے‘ اللہ کا باغی بن کر اور اس کی ہدایات کی من مانی تاویل کرکے آمر اور جابر نہ بن جائے بلکہ اپنے جائز حق ِ زوجیت کو بھی اللہ کے خوف اور رضا کی بنیاد پر مانگے۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ(النساء ۴:۱) ’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو‘ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو‘‘۔
یہ اسلام کا انقلابی کارنامہ تھا کہ اس نے اجتماعیت اور خاندانی زندگی کو عبادت کا درجہ دیا‘ جب کہ غیراسلامی ذہن کل بھی اور آج بھی عبادات سے مراد ذاتی روحانی اعمال لیتا رہا ہے اور عائلی اور معاشرتی معاملات کو اپنے رواج اور روایات کی بنا پر طے کرتا رہا ہے۔ اگر کسی خاندان میں عورت کو گھر کی خادمہ اور شوہر کے پائوں کی جوتی سمجھنے کی روایت رہی ہے‘ تو نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کے باوجود‘ اسلام اس طرزِعمل سے بالکل بری ہے۔
آپ کو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو اور آپ کے شوہر کو ایک سے زائد بچیاں دیں۔ اگر ان کی صحیح تربیت کی جائے تو خاتم النبیین‘ صادق الامین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق اس کا اجر جنت کا وعدہ ہے۔ یہ کوئی طفل تسلی نہیں‘ یہ اُس ہستی کا فرمان ہے جس کے لیے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ‘ اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔
شریعت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تحفظِ نسل ہے اور سورئہ نساء کی پہلی آیت میں جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے‘ یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ’’ اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے ایک مرد اور عورت سے بہت سے افراد کو زمین پر پھیلا دیا‘‘۔ گویا ازواج کا ایک مقصد اولاد میں برکت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایسی عورت سے شادی کی جائے جو نیکی میں دوسروں سے بڑھ کر ہو اور جو زیادہ اولاد کا ذریعہ بنے۔ اس لیے آپ کی خواہش کہ ایک سے زائد بچے ہوں‘ ایک جائز خواہش کے ساتھ ساتھ سنت پر عمل کی بنا پر ان شاء اللہ اعلیٰ اجر کا باعث بھی ہوگی۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کرلیں کہ جس کام پر اللہ کے رسولؐ خوش ہوں‘ اس کا کرنا اچھا ہے یا شوہر کی ایک ایسی خواہش پوری کرنا جس سے اللہ کے رسولؐ کی خواہش ٹکراتی ہو۔
شوہر کی اطاعت ہو یا والدین کی اطاعت‘ دونوں کے لیے شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اصول یہ ہے کہ اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوگی (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق)۔ اس لیے آپ کا زیادہ اولاد کی خواہش کرنا شوہر کی نافرمانی میں شمار نہیں کیا جاسکتا‘ نہ اسے دھوکے سے حمل ٹھیرا لینا کہا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت نے شوہر اور بیوی کے تعلق کو سکون‘ لذت اور حصولِ اولادِ صالح‘ تینوں کے مجموعی عمل سے تعبیر کیا ہے۔ یہ رشتۂ زوجیت کے عناصرترکیبی ہیں اور شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق میں شامل ہیں۔ جو چیز حقوق میں شامل ہو‘ اس کا کرنا مقبول‘ اور نہ کرنا مردود ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کے شوہر کو‘ اگر ان کے دل میں خدا کا خوف ہے‘ خدا کے حضور اپنے انجام سے ڈرنا چاہیے۔
آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ایک کے مقابلے میں تین بچیوں اور ایک بچے کے والدین کی حیثیت سے آپ اور آپ کے شوہر دونوں جنت کے زیادہ مستحق ہوگئے ہیں‘ کیونکہ نبی کریم ؐنے دو یا تین بچیوں کی صحیح اسلامی تربیت کرنے پر ایسے والدین کے لیے جنت کی بشارت دی ہے‘ اور ہمارا ایمان ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد حق و صداقت پر مبنی ہے۔
دین سے دُور اور قرآن و سنت سے براہ راست وابستہ نہ ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عبادت کا ایک بہت محدود تصور رواج پاگیا ہے جس میں صرف نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کو کُل عبادات سمجھ لیا گیا ہے۔ بلاشبہہ بندوں کا اللہ پر حق یہی ہے کہ اس کی عبادت اس کے بتائے ہوئے طریقے سے کی جائے لیکن وہ خود یہ فرماتا ہے کہ بندوں کا حق اداکرنا بھی عبادت ہے‘ بلکہ بعض اوقات معروف عبادات سے زیادہ اجر کا باعث ہے۔ حقوق العباد میں والدین‘ بیوی ‘ بچے‘ رشتے دار‘ پڑوسی‘ حتیٰ کہ اجنبی بھی شامل ہیں۔ بعض بظاہر مادی کام‘ مثلاً ایک شخص کا اکل حلال حاصل کرنا‘ اپنی منکوحہ سے اپنی ضرورت پورا کرنا بھی عبادت کا حصہ ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسولؐ کی اطاعت کا مظہر ہے۔
اسی بنا پر شیطان کا سب سے زیادہ مہلک وار حقوق کے معاملے ہی میں ہوتا ہے۔ وہ خصوصی طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادایگی میں ٹانگ اڑا کر خوش ہوتا ہے۔ اسلام نے جتنا حق اولاد کی پیدایش کے بارے میں شوہر کو دیا ہے‘ اتنا ہی بیوی کو دیا ہے‘ حتیٰ کہ ایک حدیث میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اگر شوہر اپنا مادہ بیوی کے جسم سے باہر خارج کرنا چاہتاہو تو بیوی کی اجازت سے ایسا کرے۔ گویا یہ بیوی کا حق ہے‘ یہ محض شوہر کی مرضی کی بات نہیں ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اسلام عقدِنکاح اور شادی کے بعد شوہر اور بیوی کو ایک اکائی میں پیوستہ خاندان سمجھتا ہے۔ اب وہ محض دو افراد نہیں ہیں بلکہ ایک متحد خاندان ہیں۔ اس لیے مقابلہ انفرادی حقوق میں نہیں ہوتابلکہ اب خاندان کے حقوق کے پیش نظر ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی‘ محبت و احترام اور لطف و عنایت کے ساتھ معاملات کیے جاتے ہیں۔ حقوق العباد سے نظری واقفیت اگر رویے اور طرزِعمل میں تبدیلی پیدا نہ کرے تو ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لیتے ہوئے احتسابِ نفس اور استغفار کے ساتھ شعوری طور پر اپنے طرزِعمل کی اصلاح کی فکر کرنا چاہیے۔
آپ کا دوسرا سوال پہلے سوال ہی کا نتیجہ ہے۔ اولاً، اگر آپ کے سسرصاحب آپ کی معمرساس کے ساتھ سختی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے منافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو اپنے اہلِ خانہ سے محبت و احترام سے پیش آتا ہے وہ اعلیٰ کردار کا انسان ہے‘ اور پھر فرمایا کہ میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت کرتا ہوں۔
خودکشی کا تعلق تین امور کے ساتھ ہے‘ اولاً: ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قوت کا انکار کرتے ہوئے یہ سمجھنا کہ معاملے کا حل اس کے اپنے ہاتھ میں ہے‘ اور چونکہ وہ اپنی حد تک حصولِ مقصد میں ناکام ہوچکا ہے اس لیے مایوسی کی بنا پر خود کو ختم کرسکتا ہے۔ ثانیاً: ایک شخص کا یہ سمجھنا کہ اس کی جان اس کی اپنی پیداکردہ ہے‘ وہ اس کا مالک ہے۔ اس کا جسم اس کی ملکیت ہے‘ وہ اسے جب چاہے کسی کے حوالے کردے یا خود ختم کردے۔ ثالثاً: اس کا یہ سمجھنا کہ اس کے ساتھ جو معاملہ درپیش آیا ہے وہ اتنا سنگین ہے کہ اس سے زیادہ اور کوئی سنگینی نہیں ہوسکتی اور یہ شدتِ احساس اسے اپنی جان کو ضائع کرنے کا حق دیتی ہے۔ اگر عقلی طور پر دیکھا جائے تو یہ تینوں بنیادیں غلط اور باطل ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت ایک سکتے میں آئے ہوئے شخص ہی کو نہیں بلکہ اگر وہ چاہے تو ایک مُردے کو بھی زندہ کرسکتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تذکرے میں قرآن کریم اس کی شہادت فراہم کرتا ہے۔ اس بناپر قرآن و سنت خودکشی کو حرام قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی جان کا اِلا بالحق ضائع کرنا قرآن وسنت کی رو سے حرام ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا تذکرہ ہمیں بتاتا ہے کہ شدید ترین تکلیف میں بھی صبرجمیل ہی اسلام ہے۔
اگر کسی کو اس دنیا میں تکالیف اور ہرقدم پر طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہرہر تکلیف کے بدلے میں اللہ نے اپنے بندے سے ۱۰ سے ۷۰گنا زیادہ اجر کاوعدہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ قابلِ غور بات ہمارے معاشرے میں بظاہر دین دار شوہروں کا غیراسلامی رویہ ہے جس میں وہ اسلام کے نام پر بیویوں کو اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ خواتین کے اسلامی حقوق کی کھلی پامالی ہے۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قرآن کے دیے ہوئے صالح نظام خاندان و معاشرے سے بغاوت ہے۔ ہم ہمیشہ خواتین کو صبر کی تلقین کرتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مرد اپنے رویے اور طرزعمل کو قرآن و سنت کے علم کی بنا پر‘ محض سنی سنائی کہانیوں کی بنا پر نہیں‘درست کریں اور بیویوں کے حقوق کی پامالی سے بچ کر اپنے آپ کو آخرت کی سخت جواب دہی سے بچائیں۔ عائلی معاملات میں مردوں کی تعلیم خواتین کو نصیحت سے کم اہم نہیں ہے جسے ہم نے مکمل طور پر فراموش کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے شوہر کو توفیق دے کہ وہ اپنی زیادتی پر شرمندہ ہوکر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسولؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو وہ مقامِ احترام دیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک تھا۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: ’رسائل و مسائل‘ (اگست ۲۰۰۷ء) میں اجتماعی شب بیداری کو بدعت بلکہ مکروہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کی علّت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو‘ ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور قرین ثواب سمجھنا بدعت ہے‘ لیکن ایسی بدعت جو عبادت کی انفرادی شکل کو اجتماعی شکل دے مکروہ کا درجہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اجتماعی شب بیداری مکروہ شمار ہوگی۔ اجتماعی شب بیداری جس میں فہم قرآن‘ سماعت قرآن اور درس قرآن و حدیث ہوتا ہے‘ کسی بھی طرح انفرادی طور پر نہیں کی جاسکتی۔ پھر مولانا نے اپنی علّت کی کوئی سند بھی تحریر نہیں فرمائی۔
اجتماعی شب بیداری تعلیم و تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے جسے عصرِحاضر کی اسلامی تحریکوں نے اپنا کر ہزاروں افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ میرے خیال میں کسی ایسی راے سے اجتناب کیا جائے جو دعوت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ہمیں ان تمام اقدامات کی حمایت کرنا چاہیے جن سے خیر کا پہلو نکلتا ہو‘ جو دعوت کے فروغ کا باعث بنیں۔ رات بھر کیبلز دیکھنے کے بجاے اگراجتماعی طور پر کسی سورہ کا ترجمہ پڑھ لیا جائے تو اس سے بدعت کا پہلو نہیں نکلتا۔ اگر اجتماعی تہجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور قبروں پر جانا اسوۂ رسولؐ ہے تو درس قرآن و حدیث کو بدعت یا مکروہ قرار دینا کسی طور پر بھی موزوں نہیں ہے۔ اگر بیان شدہ علّت کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اسلامی تحریکوں کے دعوت و تبلیغ کے تمام طریقے مکروہ و بدعت قرار پائیں گے۔
ج: اسلامی تحریک کی اجتماعی شب بیداری تعلیم و تربیت کی نوعیت رکھتی ہے اور تعلیم و تربیت کے لیے اجتماع کی تاریخ مقرر کرنا اور اس کو پروگرام کے مطابق عملی جامہ پہنانا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے۔ اس کے متعلق سوال نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس کا جواب دیا گیا ہے۔ سوال قبرستان میں ایک مخصوص رات کو جانے اور قبروں سے لپٹ کر رونے اور اس اجتماعی عمل کو ثواب سمجھنے کے متعلق ہے۔ اگر اسے ثواب نہ سمجھا جائے‘ انفرادی عبادت اور اجتماعی کو یکساں سمجھا جائے‘ اور کوئی مکروہ اعمال بھی نہ کیے جائیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے۔
آپ نے جس صورت کا سوال میں ذکر کیا ہے اور اسلامی تحریک کی جو شب بیداریاں ہیں وہ انتظامی اور تربیتی نوعیت کی ہیں۔ ان کو دینی ضرورت سمجھا جاتا ہے‘ اور اسی لیے وہ بدعت نہیں ہیں۔ لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام مسلمانوں کی صواب دید پر ہے۔اس کے لیے اگر وہ کوئی انتظام کریں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی آزادی اور اختیار کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مختلف جائز صورتوں کو جن کو شریعت نے اجتماعی شکل نہیں دی‘ اپنی طرف سے ان کو ثواب کی بنیاد پر اجتماعی شکل دینا بدعت ہے۔ تراویح کی جماعت شریعت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ تہجد کی جماعت اتفاقاً اگر ہوجائے تو قباحت نہیں لیکن اس کا پروگرام بناکر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا‘ اور اسے انفرادی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب سمجھنا درست نہیں ہے۔ اُمت میں اجتماعی تراویح تو ہے مگر اجتماعی تہجد نہیں ہے۔ جواب کی یہ عبارت بالکل واضح ہے: ’’کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور اسے ثواب سمجھنا بدعت ہے‘‘۔
آپ نے اسلامی تحریک کی جن اجتماعی شب بیداریوں کا ذکر کیا ہے‘ ان کے متعلق یہ بات نہیں سمجھی جاتی کہ وہ انفرادی طور پر مطلوب ہیں اور ان کو عبادت کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا بلکہ تعلیم و تربیت کاوسیلہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ازخود بلادلیل نہیں ہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی محفلیں ان کی دلیل ہیں‘ اور اجتماعی پروگرام کو ثواب کا درجہ نہیں دیا جاتا کہ اس طرح کریں تو ثواب ہے اور کسی دوسری رات کو کسی اور طرح کریں تو اس میں ثواب نہیں ہے۔
اس طرح تربیتی پروگرام کے بعد اتفاقاً قبرستان میںجانا درست ہے۔ مگر یہ نہ سمجھا جائے کہ اس طرح اجتماعی شکل میں جانا مغفرت اور ثواب کا باعث ہے اور انفرادی شکل میں جانے کا ثواب کم ہے۔ ثواب کی کمی زیادتی کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل چاہیے جو ہمیں نہیں ملتی۔ اگر ضعیف حدیث ہوتی تب بھی فرق کیا جا سکتا تھا‘ لیکن یہاں اجتماعی زیارتِ قبور کے بارے میں ضعیف حدیث بھی نہیںہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صحابہؓ کو اہتمام کے ساتھ اجتماعی طور پر لے کر زیارتِ قبور کے لیے نہیں گئے۔ پس اتفاقاً کوئی اعتراض نہیں‘ البتہ اجتماعی شکل کو ثواب کا درجہ دے کر اس کا اہتمام کرنا مناسب نہیں ہے۔ امید ہے کہ آپ جواب کا دوبارہ مطالعہ کریں گے تو آپ پر بات واضح ہوجائے گی۔ یہ بات میں نے اپنی راے کی بنیاد پر نہیں‘ فقہا کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں لکھی ہے‘ اور اجتماعی شکل کے بارے میں جو انتہاپسندانہ راے ہے اس کی بھی تردید کی ہے۔ البتہ مکروہ کے ساتھ تنزیہی کا لفظ رہ گیا ہے جو خلافِ اولیٰ کے قریب کی نامناسب صورت کو کہا جاتا ہے‘ اس کا اضافہ کرلیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح بات کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔ (مولانا عبدالمالک)
ہندستان میں اشاعت اسلام کی تاریخ ایک جامع اور وسیع موضوع ہے۔ اس موضوع پر اگرچہ بہت سی مفصل کتب موجود ہیں لیکن ایسی کتاب کی جو مستند مراجع کے ساتھ یک جا اور قابلِ اعتماد تفصیل فراہم کرسکے کمی تھی۔ مفتی محمدمشتاق تجاروی کی یہ کتاب اسی مقصد کے حصول کی جانب ایک مستحسن کاوش ہے۔
ہندستان میں اشاعتِ اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ یہ درحقیقت انفرادی کاوشوں کا ثمرہ ہے (ان میں بھی صوفیہ کا کردار نمایاں ہے) اور قبولِ اسلام بھی زیادہ تر انفرادی سطح پر ہوا ہے۔ ان کاوشوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: صوفیہ‘ علما‘سلاطین اور تجار۔ ’صوفیہ کی تبلیغی خدمات‘ کے تحت اشاعتِ اسلام میں صوفیہ کی گراں قدر خدمات‘ ان کا طریق تبلیغ و حکمت عملی اور اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے‘ نیز معروف صوفیۂ کرام کی خدمات کا مختصر اور جامع تعارف بھی دیا گیا ہے۔ صوفیہ کے بعد علماے کرام کی تبلیغی خدمات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں ایک دل چسپ پہلو یہ اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ مسلم حکومت کے عہد عروج میںتبدیلیِ مذہب کے واقعات کم ہوئے اورعہدزوال میں اسلام کی اشاعت بڑی تیزی سے ہوئی (ص ۷۸)۔ ۱۹۳۳ء کے پہلے ۵۰ سالوں میں تقریباً ۶۱ لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کیا... پروفیسر آرنلڈ کے بقول سالانہ ۶لاکھ تک لوگوں نے اسلام قبول کیا (ص ۹۶)۔ دورِ زوال میں تبلیغی مساعی کا سہرا زیادہ تر علما کے سر جاتا ہے۔ معروف علماے کرام کی خدمات کا مختصر جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
سلاطین کی تبلیغی خدمات کے جائزے میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ اشاعتِ اسلام میں سلاطین کانمایاں کردار نہ تھا۔ مسلمان سلاطین پر جبریہ اور جزیے کے ذریعے اشاعت اسلام‘ نیز جنگی قیدیوں کو جبریہ مسلمان کیا گیا جیسے اعتراضات کا ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔
ایک باب مسلمان تاجروں کی تبلیغی خدمات اور ان کے اثرات پر مبنی ہے۔ ہندستان میں اشاعتِ اسلام کا پہلا تعارف عرب تاجر تھے۔ ان کی معاشرت‘ حسنِ سلوک اور کردار نے اشاعتِ اسلام میں نمایاں کردار ادا کیا اور ذات پات پر مبنی معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے۔
مصنف نے صوفیہ اور بزرگانِ دین کی تبلیغ اور اصلاح کے علاوہ مسلم معاشرے کے لیے اُن کی بعض سیاسی اور معاشرتی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً جب مغلوں نے ملتان پر حملہ کیا (۱۲۷۳ء) تو حضرت بہائوالدین زکریاؒ نے ایک لاکھ روپے دے کر شہر کو اُن کی لوٹ مار سے بچایا۔ شیخ جلال الدین سلہٹ نے مسلمان سلطان سکندر آف بنگال نے جب گائے کے ذبیحہ کے مسئلے پر قتل ہونے والے مسلمان بچے کا بدلہ لینے کے لیے حملہ کیا تو شیخ نے ۳۶۰ مریدین کے ہمراہ اُن کے ساتھ جنگ میں شرکت کی۔ (ص ۴۰-۴۱)
اس کتاب کی اشاعت سے جہاں ہندستان میں اشاعتِ اسلام کے موضوع پر ایک مختصر‘ جامع اور مستند مطالعہ سامنے آیا ہے‘ وہاں یہ صوفیہ‘ علما‘ حکمرانوں اور تاجروں کے لیے بھی اشاعتِ اسلام اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے غوروفکر اور تحریک کا باعث ہوگا۔ (عرفان احمد)
اسلام اور مغرب کی کش مکش‘ تہذیبوں کا چیلنج‘ بنیاد پرستی‘ دہشت گردی اور تہذیبی اور ثقافتی یلغار جیسی اصطلاحات زبانِ زدعام ہیں۔ اس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی واشنگٹن کی قیادت میں ثقافتی‘ عسکری اور سیاسی یلغار کے خلاف یہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے کہ یہ مغربی تہذیب کا کیا دھرا ہے۔ البتہ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں کہ مغربی تہذیب کے فکری ارتقا‘ بتدریج نشوونما اور طاقت ور قوتِ نافذہ کے بارے میں عالمِ اسلام میں اور بالخصوص اُردو زبان و ادب میں ٹھوس مطالعہ نہیں ہوا‘ اور نہ کسی تحقیقی ادارے نے اس کو باقاعدہ موضوع تحقیق بنایا ہے (وسائل کی کمی نہیں‘ اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے)۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد اس موضوع نے ایک نئی جہت لی ہے اور قرآن‘ پیغمبرؐاسلام‘ غزوات‘ صحابہؓ کے جھگڑے‘ شیعہ سُنّی کی تفریق‘ زکوٰۃ‘ وراثت‘چار شادیوں کا حق‘ جہاد‘ ذِمّیوں کے حقوق جیسے الزامات پس منظر میں چلے گئے ہیں اور اسلام دہشت گردی کا ہم معنی قرار پایا اور پھر مسلمان کو دہشت گردی کی نشوونما میں شریک ٹھیرایا جا رہا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تہذیبی کش مکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ اسلام کو درپیش اس چیلنج کا کیسے سامناکیا جائے___ زیرنظر کتاب اس کا ایک علمی و تحقیقی جواب ہے۔
بنیادی طور پر یہ کتاب سہ روزہ دعوت، دہلی کی اشاعتِ خاص ہے جسے پرواز رحمانی نے مرتب کیا ہے‘ اور ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کرنے کے پیش نظر منشورات نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔اس کتاب میں ۲۰ مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ مغرب کے تاریخی کردار‘ تہذیبی چیلنج‘ امریکی زوال‘ دہشت گردی‘ عصری چیلنج‘ احیاے اسلام کی تحریک‘ عقلیت پسندی‘ نظامِ معاشرت‘ یہودیت اوردورِ جدید اور دیگر اہم موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔
شہناز بیگم کا اٹھایا گیا یہ سوال اہم ہے کہ مختلف مذاہب‘ عقائداور فلسفے نے عورت کو کیا حق دیا؟ اس کا تقابلی مطالعہ کیوں نہیں کیا گیا؟ فضیل الرحمن ہلال عثمانی کا تجزیہ ہے کہ جب آپ مغربی سائنس و ٹکنالوجی استعمال کریں گے تو آپ کو اُن کی اخلاقیات بھی استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علی الرغم راستہ اختیار کرناچاہیے۔ ظفرالاسلام خان نے فرانس فوکویاما اور ہن ٹنگٹن کے پیش کردہ نظریات کا پردہ چاک کیا ہے۔ سیدعبدالباری کا خیال ہے کہ مغرب کے تہذیبی استعمار کی راہ اگر کوئی نظریہ اور تہذیبی تصور روک سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ خرم مراد اور پروفیسر خورشید احمد کے مقالات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔
اس کتاب کے مطالعے سے جہاں کئی اور موضوعات غوروفکر اور تحقیق کے لیے اُبھریں گے وہاں غلبۂ اسلام کی عالم گیر جدوجہد سے وابستہ قیادت اور کارکن بھی کئی نئے موضوعات پر سوچنے کی راہیں پائیں گے۔ (محمد ایوب منیر)
بیروت کے ایک ادارے دارالمعروفہ نے امام ابن قیمؒ کی معروف کتاب اعلام الموقعین کا ایک حصہ فتاویٰ رسولؐ اللّٰہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ زیرنظر کتاب اُس کا ترجمہ ہے لیکن ابویحییٰ محمدزکریا نے اصل مصادر و مراجع سے رجوع کر کے پوری تحقیق کے بعد کتاب مرتب کی ہے۔ پھر ابواب اور فصلوں کی ترتیب میں بھی حسبِ ضرورت ردوبدل کیا گیا ہے۔
کتاب میں ان احادیث کو بلحاظ موضوع جمع کیا گیا ہے جن میں نبی کریمؐ نے وقتاً فوقتاً زندگی کے مختلف امور و مسائل پر صحابہ کرامؓ کے سوالات کے جواب دیے۔ جملہ ذخیرئہ فتاویٰ کو ۲۵ابواب (عقیدہ‘ ایمان اور توحید‘ تفسیرقرآن‘ افضل اعمال‘ نبوت اور وحی‘ طہارت‘ نماز‘ موت اور میت‘ روزہ‘ زکوٰۃ و خیرات‘ حج‘ ذکرِالٰہی‘ نکاح‘ میراث‘ کسبِ معاش اور جہاد وغیرہ) کے تحت ضمنی عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ترتیب سوال جواب کی شکل میں ہے۔ سوال اُردو اور جواب میں پہلے حدیث کا عربی متن‘ پھر اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔پاورق حواشی میں اسناد اور حوالے درج ہیں۔
بلاشبہہ کتاب بڑی محنت سے مرتب کی گئی ہے۔ کتابت اور آرایش کا انتظام بھی خوب ہے۔ ص ۳۸۸ پر’کبیرہ گناہوں کا بیان‘ کے زیرعنوان ایک سوال (یارسولؐ اللہ! کبیرہ گناہ کیا ہیں؟) کے جواب میں عربی متن حدیث پانچ سطروں میں اور اس کا ترجمہ چھے سطروں میں درج ہے‘ اور یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہ ’بہت سی احادیث کا مجموعہ ہے‘۔ بعدازاں اس کی تشریح میں ۱۸۴ کبیرہ گناہوں کی فہرست دی گئی ہے جس کے مطابق ’نمازی کے سامنے سے گزر جانا بھی کبیرہ گناہ‘ ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس مختصر حدیث سے اتنی طویل فہرست کیسے اخذ کی گئی ہے؟ بحیثیت مجموعی کتاب لائقِ مطالعہ اور مفید ہے۔ عام قاری کو قابلِ قدر رہنمائی ملے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)
قادیانیت اور ختم ِنبوت کے موضوع کے حوالے سے محمد متین خالد کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ اس موضوع پر آپ کی متعدد وقیع کتب سامنے آچکی ہیں۔ اب انھوں نے تحفظ ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت پر ایک عمدہ کتاب شائع کی ہے۔
’مقامِ مصطفیؐ ‘باب سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے جو آپؐ کا ایمان افروزاور حبِ رسولؐ سے سرشار تذکرہ ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں‘ جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کے خلاف صحابہؓ کا جہاد‘ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت اور ہرزہ سرائیاں جیسے موضوعات بھی زیربحث آئے ہیں۔ حبِ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ پر مبنی ایمان افروز واقعات اور عظیم شخصیات کا تذکرہ کتاب کا جہاں دل چسپ اور اہم حصہ ہے وہاں اجمالاً تاریخ سے آگہی بھی دیتا ہے (چند نام: علامہ محمد اقبال‘ ثناء اللہ امرتسری‘ انورشاہ کشمیری‘ احمد علی لاہوری‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ظفر علی خاں‘ شورش کاشمیری‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ پیر کرم شاہ ازہری‘ عامر عبدالرحمن چیمہ شہید وغیرہ)۔ گستاخانِ رسولؐ سے مسلمانوں کا رویہ اور ان کے انجام پر بھی ایک باب ہے۔ مصنف نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ قادیانیوں کا مکمل سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیاجائے۔ اس لیے کہ رواداری کی اجازت صرف ان کافروں کے لیے ہے جو محارب اور موذی نہ ہوں۔ قادیانی اپنی شرانگیزیوں کے باعث اس زمرے میں نہیں آتے(ص ۲۸۰)۔ آخر میں تحفظ ختمِنبوت کی اہمیت کے پیش نظر اسے فریضہ امربالمعروف ونہی عن المنکر قرار دیتے ہوئے رہنمائی دی گئی ہے کہ کیسے اس فرض کو ادا کیا جائے۔ بلاشبہہ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ (امجد عباسی)
محمودعالم کے سات مضامین اور ۱۹ کتب پر تبصروں کا یہ مجموعہ محمد عارف اقبال نے مرتب کیا ہے۔ محمودعالم مرحوم ہندستان اور سعودی عرب میں مختلف تعلیمی اور علمی اداروں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کتاب کے مضامین پڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے لیے ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے سامنے میزان قرآن و حدیث ہی ہے۔ ’اہلِ قلم کی اخلاقی ذمہ داریاں‘ اس مجموعے کا ایک اہم مضمون ہے جس میں انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ قلم کو اللہ تعالیٰ نے بطور امانت انسان کے سپرد کیا ہے۔ اس کے ذریعے عدل و انصاف‘ امن و امان اور خیروفلاح مقصود ہونا چاہیے نہ کہ فاسقانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اس کی حُرمت کو پامال کیا جائے۔
محمودعالم کے خیال میں اُمت مسلمہ کے زوال پر ایک افسوس اور نوحہ توکیا جا رہا ہے لیکن اسے زوال سے نکالنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نظر نہیں آتی ماسوا چند افراد (شکیب ارسلان‘ علامہ اقبال اور مولانا مودودی) کی اہم کوششوں کے۔ دورِحاضر کے سربراہانِ حکومت اور راہنما اُمت کو پستی سے نکالنے کے بجاے تہذیب مغرب کی غلامی پر رضامند رہنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ان کے مضامین میں خاصا تنوع ہے (مطالعۂ کتب کیوں اور کیسے؟ اہلِ قلم کی اخلاقی ذمہ داریاں‘ کلامِ حافظ میں اخلاقی اور روحانی تعلیمات‘ تفسیرقرآن: ایک جائزہ‘ انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ)۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے محمودعالم کا موضوع اعلیٰ انسانی اخلاقی اقدار ہیں اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیراہونا ہے۔ زوال اُمت پر فاتحہ خوانی کرنے کے بجاے شکیب ارسلان‘ علامہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کو اپنا کر نئی صبح کی نوید کا پیغام دینا فرضِ اولیں ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)
محترم قاضی حسین احمد نے بطور امیرجماعت اسلامی پاکستان‘ جماعت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں (دسمبر ۱۹۸۷ء تا جنوری ۲۰۰۶ء) میں جو افتتاحی اور اختتامی تقریریں کیں‘ انھیں حافظ شمس الدین امجد نے مرتب کیا ہے۔ ان تقریروں میں بنیادی طور پر‘ اجلاس سے متصل گزرے ہوئے قومی و ملّی حالات پر تبصرہ ہے۔ چونکہ بڑے مسائل (کشمیر‘ افغاستان‘ فلسطین‘ پاکستان میں آئینی معاملات اور آمریت و جمہوریت کا قضیہ وغیرہ) ایک ہی نوعیت کے رہے ہیں‘ البتہ ان مسائل سے منسلک افراد کے نام بدلتے رہے ہیں‘ اس مناسبت سے مسئلے کے ساتھ متعلقہ افراد کے رویے بھی زیربحث آئے ہیں۔بہ ایں ہمہ ۱۹ برس کے واقعات پر جماعت اسلامی کے موقف کو جاننے کا یہ ایک ماخذ ہے۔ (سلیم منصور خالد)
لال مسجد اور جامعہ حفصہ اسلام آباد پر مسلط کیے جانے والے خونیں آپریشن کا تذکرہ ایک مدت تک ہمارے دینی‘ سیاسی اور اجتماعی مباحث کا حصہ بنا رہے گا۔ زیرنظر کتب کے مرتبین نے اس سانحے کے فوراً بعد قومی اخبارات میں شائع ہونے والے مختلف کالموں اور مضامین کو اس انداز سے مرتب کردیا ہے‘ کہ زمانے کی فصل کے باوجود مستقبل میں قاری یہ دیکھ سکے گا اور محسوس کرسکے گا کہ رنج و الم کی اس فضا میں اہلِ قلم اور خصوصاً کوچۂ صحافت سے وابستہ افراد نے کس انداز سے اسے دیکھا‘ محسوس کیا اور بیان کیا۔ (س-م-خ)
جامعہ عثمانیہ‘ پشاور کے مہتمم مولانا مفتی غلام الرحمن کی مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک شام اور اُردن کی روداد سیروسیاحت جو العصر کی خصوصی اشاعت ’ارض قرآن نمبر‘کے نام سے شائع کی گئی ہے۔دمشق‘ حلب‘ حمص اور ان کے نواحی علاقوں کے آثار‘ مساجد‘ مقابر اسی طرح اُردن کے مختلف علاقوں‘ شہروں‘ عمارتوں کی زیارت کی تفصیل دی گئی ہے۔ شام اور اُردن میں صحابہ کرامؓ کثیرتعداد میں مدفون ہیں۔ مفتی صاحب نے بلال حبشیؓ، امیرمعاویہؓ، خالد بن ولیدؓ، زیدبن حارثہؓ، جعفر بن ابی طالبؓ، عبداللہ بن روادؓ، ابوعبیدہ بن الجراحؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ وغیرہ اور بعض اکابر اُمت (ابن عربی‘ صلاح الدین ایوبی اور امام نووی وغیرہ) کے مقابر و مزارات دیکھیے۔ بعض تاریخی مقامات‘ مثلاً: اصحابِ کہف کا غار‘ پیٹرا کی عمارتیں‘ جنگِ موتہ کا میدان‘ بحرمردار‘ میدانِ یرموک وغیرہ کا مشاہدہ بھی کیا۔ شام کے ایک پُرفضا مقام نبع فیجہ میں ساری رونق خوش ذائقہ پانی کی فراوانی سے ہے۔ بتاتے ہیں کہ سیاحت کے فروغ کے لیے ہوٹلوں میں شراب پیش کی جانے لگی تو چشمے خشک ہونے لگے اور کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ شراب بند کرنے پر دوبارہ پانی کی فراوانی ہوگئی۔ اسلوب واضح‘ دل چسپ اور نیم عالمانہ مگر رواں دواں ہے۔ (ر-ہ)
رمضان المبارک کی آمد پر حسب روایت ترجمان القرآن (ستمبر ۲۰۰۷ء) میں اس مناسبت سے خصوصی تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ سید مودودیؒ نے بجا توجہ دلائی ہے کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں اصل رکاوٹ دعوتِ دین کی تڑپ میں کمی ہے۔ مولانا عبدالمالک نے احادیث کے انتخاب میں رمضان کے فیوض وبرکات کا اختصار سے جائزہ پیش کرکے عمدہ تذکیر کی۔ ’تہجد کے انعام‘ مؤثر اور عمل کی ترغیب دلانے والی تحریر ہے۔ نماز میں تعدیل ارکان سے عموماً غفلت برتی جاتی ہے‘ صحیح توجہ دلائی گئی ہے۔ ’تجوید و قرأت کی فضیلت‘ میں جہاں خوش الحانی کی تاکید اور صحیح نہ پڑھنے پر قرآن کی لعنت کا سزاوار ٹھیرایا جانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے‘ وہاں یہ پہلو وضاحت طلب ہے کہ جو لوگ اہلِ زبان نہیں وہ کوشش کے باوجود بہرحال مخارج کی اس طرح ادایگی نہیں کرسکتے جس طرح کہ کی جانی چاہیے تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟
’پاکستان کے تعلیمی نظام میں امریکی مداخلت‘ (ستمبر۲۰۰۷ء) یقینا ایک غورطلب تحریر ہے۔ نصابِ تعلیم جو ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکا ہے۔ ’روشن خیالی‘ کے نام پر نصابِ تعلیم میں رد و بدل کرکے نئی نسل کو اسلام کے نظریۂ حیات سے دُور کیاجا رہا ہے اور ذہنی غسل کے ذریعے غیرمحسوس طور پر مغربی تہذیب کا نفوذ کیا جا رہا ہے جو نہایت تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان میں احیاے اسلام کی تحریکوں کوچاہیے کہ اس مذموم طاغوتی سازش کا صحیح ادراک کرتے ہوئے اس محاذ کو کھلا نہ چھوڑیں۔ اس سے نئی نسل ہی نہیں خود پاکستان کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔
’رسائل و مسائل‘ (ستمبر ۲۰۰۷ء) میں ’ایک سے زائد حج‘ کے تحت علامہ یوسف قرضاوی کی تحریر نظر سے گزری۔ اس میں اُمت مسلمہ کے مفاد کے پیش نظر ایک اہم پہلو کی طرف بجا توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
’پاکستان فیصلہ کن دوراہے پر‘ (اگست ۲۰۰۷ء) ہماری انتہائی گراوٹ کی صحیح تصویر ہے۔ اگر مولانا حضرات کی کچھ غلطیاں بھی ہوں‘ تب بھی یہ holocaust اُن حدود سے کوسوں باہر ہے۔
۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء پونچھ شہر پر حملہ ناکام ہونے کے بعد جو میری مخالفت کے باوجود کیا گیا تھا‘ مجھے راجوری پر حملے کی اجازت ملی۔ سازوسامان پہنچایا گیا۔ میرے منصوبے میں سب سے پہلے توپ خانے سے راجوری پر پمفلٹ گرانا تھا تاکہ سویلین شہر سے باہر ایک کھلے علاقے میں چلے جائیں اور سویلین آبادی کسی طرح آپریشن کی زد میں نہ آئے۔ مگر یحییٰ خان نے بھی ایوب خان کی طرح تقریر پڑھی اور لڑکھڑاتی زبان سے ہندستان کو دھمکی دی اور جنگ بندی ہوگئی۔ ہمارا آپریشن یادوںتک رہ گیا۔ اسلام پر چلنے والے لوگ اخلاق کے علاوہ اپنی اچھائی کیسے ثابت کرسکتے ہیں کہ دشمن بھی اُس کا اعتراف کرے۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا قتل عام‘ اتنی معصوم روحوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا حکم صرف ہلاکو خان ہی دے سکتا تھا۔ پاکستان کی ہستی اور آئیڈیالوجی کو بے عزت کرنے کا قبیح کارنامہ کیسے سرزد ہوا۔ یہ مکروہ ترین حرکت شاید کوئی کافر بھی نہ کرتاسواے اسرائیلیوں کے۔ اس دکھ کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔
’مسلم ریاست میں دعوت و جہاد کامنہج‘ (اگست ۲۰۰۷ء) کے لیے ڈاکٹر اختر حسین عزمی قابلِ مبارک باد ہیں۔ موصوف نے تبلیغ و تعلیم اور عملی جہاد کے درمیان آج کی صورت حال میں احتجاج اور راے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اور طریقۂ کار کی نشان دہی قرآن اور سیرت و سنت رسولؐ اور فقۂ اسلامی کے حوالوں سے کی ہے۔ اس سے فکروعمل کے لیے نئے دریچے کھلیںگے‘ نیز نہ صرف مسلم ریاستوں میں بلکہ خود ہمارے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں‘ نئے انداز سے کام کرنے کا نقشہ بن سکتا ہے۔
’مسلم ریاست میں دعوت و جہاد کا منہج‘ میں موجودہ صورت حال میں تبدیلی کے لیے آئینی جدوجہد کی اہمیت کو خوب اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کے لیے دردِ دل رکھنے والے جدید ریاست کی تشکیل میں آئینی اداروں اور دستوری جدوجہد کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
دوسرا اعتراض‘ جو پبلک میں تو دبی زبان سے مگر نجی صحبتوں میں بڑی کافرانہ جسارتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ یہ ہے کہ اسلامی قانون میں بہت سی چیزیں قرونِ وسطیٰ کی تاریک خیالی کے باقیات میں سے ہیں جنھیں اس مہذب دور کے ترقی یافتہ اخلاقی تصورات کسی طرح برداشت نہیں کرسکتے‘ مثلاً ہاتھ کاٹنے اور درّے مارنے اور سنگسار کرنے کی وحشیانہ سزائیں۔
یہ اعتراض سن کر بے اختیار ان حضرات سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
جس دور میں ایٹم بم استعمال کیا گیا ہے‘ اس کے اخلاقی تصورات کو ترقی یافتہ کہتے وقت آدمی کو کچھ تو شرم محسوس ہونی چاہیے۔ آج کا نام نہاد مہذب انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے اس کی مثال تو قدیم تاریخ کے کسی تاریک سے تاریک دور میں بھی نہیں ملتی۔ وہ سنگسار نہیں بم بار کرتا ہے۔ محض ہاتھ ہی نہیں کاٹتا‘ جسم کے پرخچے اُڑا دیتا ہے۔ درّے برسانے سے اس کا دل نہیں بھرتا‘ زندہ آگ میں جلاتا ہے اور مُردہ لاشوں کی چربی نکال کر ان کے صابن بناتا ہے۔ جنگ کے ہنگامۂ غیظ و غضب ہی میں نہیں‘ امن کے ٹھنڈے ماحول میں بھی جن کو وہ سیاسی مجرم‘ یا قومی مفاد کا دشمن‘ یا معاشی اغراض کا حریف سمجھتا ہے ان کو دردناک عذاب دینے میں وہ آخر کون سی کسر اُٹھا رکھتا ہے؟ ثبوت جرم سے پہلے محض شبہے ہی شبہے میں تفتیش کے جو طریقے اور اقبالِ جرم کرانے کے جو ہتھکنڈے آج کی مہذب حکومتوں میں اختیار کیے جا رہے ہیں وہ کس سے چھپے ہوئے ہیں... فرق جو کچھ واقع ہواہے وہ دراصل اخلاقی قدروں میں ہے۔ ان کے نزدیک جو جرائم واقعی سخت ہیں اُن پر وہ خوب عذاب دیتے ہیں اور دل کھول کر دیتے ہیں‘مثلاً ان کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرنا‘ یاان کے معاشی مفاد میں مزاحم ہونا۔ لیکن جن افعال کو وہ سرے سے جرم ہی نہیں سمجھتے‘ مثلاً شراب سے ایک گونہ بے خودی حاصل کرلینا‘یا تفریحاً زنا کرلینا‘ ان پر عذاب تو درکنار‘سرزنش اور ملامت بھی انھیں ناگوار ہوتی ہے۔ اور جرم نہ سمجھنے کی صورت میں لامحالہ وہ ناگوار خاطر ہونی ہی چاہیے۔ (’اسلامی قانون‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد۳۱‘ عدد۳‘ رمضان ۱۳۶۷ھ‘ جولائی ۱۹۴۸ء‘ ص ۶۲-۶۳)