مضامین کی فہرست


جون۲۰۰۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور بھارت نے پاکستان کو بے دست و پا کرنے کے لیے آزادی کے فوراً بعد اس شہ رگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سازش‘ دھوکے‘ فوج کشی‘ بدعہدی غرض ہر حربے اور ہتھکنڈے کا بے دریغ استعمال کیا اور بالآخر ریاست جموں و کشمیر کے دوتہائی حصے پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

بھارت کے اس ناجائز قبضے کو نہ صرف پاکستان اور کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے بھی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے ریاست کی حیثیت (status ) کو متنازعہ قرار دیا اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے اس حق کو تسلیم کیا کہ انھیں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جس کے عملی اظہار کا ان کو موقع ملنا چاہیے۔

برطانوی محقق الیسٹرلیمب (Alastair Lamb)نے تو دو اور دو چار کی طرح یہ ثابت کردیا ہے کہ قانونی طور پر بھارت سے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کبھی ہوا ہی نہیں تھا لیکن یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ جب بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنا مقدمہ اس بنیاد پر لے کر گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر اس کا حصہ ہے جس پر پاکستان اور اس کے قبائل نے دراندازی کی ہے تو سلامتی کونسل نے ایک نہیں سات بار اس امر کا اظہار کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام استصواب راے کے ذریعے کریں گے ___ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسئلہ کشمیر    اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اقوامِ متحدہ کے مبصرین لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ڈیوٹی دے رہے ہیں۔تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک پاکستانی قوم کا متفقہ مؤقف یہی رہا ہے کہ کشمیر‘ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تحریک پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی ہر پہلو کا تقاضا ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہو اور اسی حقیقت کا اظہار جموں و کشمیر کے معتبر نمایندوں نے جولائی ۱۹۴۷ء میں الحاقِ پاکستان کی قرارداد کی شکل میں کردیا تھا۔ جس کی باقاعدہ توثیق اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے کی جانی تھی جسے بھارت نے آج تک نہیں ہونے دیا۔

جھاد آزادی کی نازک صورت حال

جموں و کشمیر کے عوام اپنے اس حق کو استعمال کرنے کے لیے ۵۷ سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جہادِ حریت میں پانچ لاکھ سے زیادہ کلمہ گو جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہزاروں عصمتیں لٹ گئی ہیں‘ بستیوں کی بستیاں تباہ ہوچکی ہیں‘ ہزاروں افراد اس وقت بھی جیلوں میں محبوس ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر سے مسلمانوں کی والہانہ وابستگی کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمزوری نہیں آئی ہے‘ البتہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد معاہدۂ تاشقند اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدے کی شکل میں پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف پر اصرار اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کے عہد کے ساتھ مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی راہ قبول کرنے کی جو غلطی کی اس کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے مسئلے کو آج تک معلّق رکھا ہوا ہے اور اپنی گرفت کو مضبوط کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو سیاسی‘ معاشی‘ عسکری ہر اعتبار سے بھارت میں ضم (integrate) کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے ایک طرف جبر اور ظلم کے ہر ہتھکنڈے کا بے محابا استعمال کیا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان کو بار بار لایعنی مذاکرات کے جال میں پھنسانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ’’کامیاب سیاست‘‘ کے کرتب دکھاتا رہا ہے۔

انھی حالات سے مجبور ہوکر جموں و کشمیر کے غیور اور آزادی پسند مسلمانوں نے بھارت کے استبدادی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ  ۱۹۸۹ء سے پوری ریاست عملاً حالتِ جنگ (state of war) میں ہے اور بھارتی اقتدار کی عملداری فوج کی بندوقوں کے سایے تک محدود ہوگئی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی سات لاکھ فوج کے جارحانہ اقدامات کے باوجود بھارت کی سامراجی حکومت اور اس کے شریکِ جرم مقامی کٹھ پتلی حکمران اپنے اقتدار کو مستحکم نہیں کر سکے۔ آزاد مبصرین کی نگاہ میں اس بارے میں آج بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کی حکمرانی اور تسلط پر کسی شکل میں بھی راضی نہیں اور وہ دہلی کی حکومت سے مکمل طور پر بے تعلق (alienated) ہیں۔ یہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت (ground reality) ہے جسے نظرانداز کرکے بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے درمیان کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کسی معاملہ بندی (understanding) کا تصور ہمالہ سے بھی بڑی غلطی (Himalyan blunder) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کا مشہور صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر بھارت کی کشمیر پالیسی کا بڑا ہوشیار مؤید اور علم بردار ہے اور پاکستانی قیادت کو لچک کے وعظ دیتا رہتا ہے لیکن وہ بھی باربار یہ اعتراف کرچکا ہے کہ کشمیری عوام دہلی کی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارت کے مشہور اخبار انڈین ایکسپریس میں دفاع اور سلامتی کے امور کا ایک تجزیہ نگار اجائے شکلا (Ajai Shukla)اپنے ۵ مئی ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے مضمون میں اعتراف کرتا ہے:

کشمیری دل کی گہرائیوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے سیاسی عزم نے اور جن لوگوں نے اس کے لیے جانیں دی ہیں‘ ان سے وفاداری کے احساسات نے پرورش کیا ہے۔

پاکستان کے جو لبرل اور روشن خیال صحافی چند ماہ قبل کشمیر کے دورے پر گئے تھے وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو کسی صورت تیار نہیں خواہ پاکستان سے الحاق کے بارے میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو اور ان میں ایک تعداد پاکستان سے اس کی پالیسیوں کے انتشار اور ژولیدہ فکری کی بنیاد پر مایوس ہو۔ ایک اور لبرل صحافی خالد حسن (ڈیلی ٹائمز کے واشنگٹن کے نمایندے) ابھی کشمیر ہوکر آئے ہیں اور وہ فرائی ڈے ٹائمز (شمارہ ۶سے۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ) میں لکھتے ہیں کہ:

بھارت سے علیحدگی کا احساس مکمل ہے۔ کوئی بھی کشمیری اپنے آپ کو بھارتی نہیں سمجھتا۔ جب میں کشمیری کہتا ہوں تو میری مراد وادی کے مسلمان ہوتے ہیں۔ نہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں جیسا کہ کبھی پہلے چاہتے تھے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی قیمت پر جو پالیسیاں اختیار کیں‘ اس سے لوگ دل برداشتہ ہیں۔ جس سے بھی بات کرو‘ ایک ہی جواب ملتا ہے: آزادی۔ آج کے کشمیر کی حقیقت شہدا کے وہ قبرستان ہیں جہاں تقریباً تمام قبریں ان نوجوانوں کی ہیں جن کی فصل جوانی کی پہلی بہار ہی میں کاٹ دی گئی۔ (دی فرائی ڈے ٹائمز‘ ۶-۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ)

جنرل پرویز مشرف نے اپنی دلّی کی ملاقاتوں کے بعد جن توقعات کا اظہار کیا ہے اور پھر سفما(South Asian Free Media Association) کے زیراہتمام جنوبی ایشیا کی پارلیمانی کانفرنس کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جس ’’سنہری لمحے‘‘ کی بات کی ہے اس کا زمینی حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملّت اسلامیہ پاکستان اور اس کی حقیقی قیادت کے لیے سب سے بڑی ضرورت حالات کے بے لاگ جائزے اور صحیح حکمت عملی مرتب کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی خوش فہمیوں کے خمار میں ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جو ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم خدانخواستہ ہمیشہ کے لیے اپنی شہ رگ سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کشمیر پالیسی پر مسلسل قلابازیوں پر مبنی جنرل صاحب کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بھارت سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے۔ دراصل پاکستان کے اصولی مؤقف کی قربانی اور کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر یہ حکمران کشمیری عوام کی قربانیوں سے بے وفائی ہی کے مرتکب نہیں ہو رہے بلکہ اپنے سوا کروڑ بھائیوں اور بہنوں کو دھکے دے کر بھارت کے تسلط اور امریکا کی گرفت میں دینے میں معاونت کررہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کی نظریاتی اساس پر ضرب کاری لگانے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج پاکستان کا نظریاتی تشخص‘ اس کی قومی سلامتی اور اس کے وسیع علاقوں کے لیے مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی کے امکانات سب دائو پر لگ چکے ہیں۔

ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام ضروری پہلوئوں پر کھل کر بات کی جائے اور قوم کو بیدار کیا جائے کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک کو ایک خطرناک راستے پر لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے‘ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوجاتی ہے تو دراصل یہ اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں برپا کی جانے والی تحریکِ پاکستان کی نفی اور اس جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو ایک انقلابِ معکوس (counter revolution) کے ذریعے دوبارہ جنوب ایشیا میں ضم کرنے پر منتج ہوسکتی ہے۔ نئے نقشہ جنگ کو سمجھنے کے لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی کے نئے آہنگ اور جنوبی ایشیا کی نئی شیرازہ بندی کا صحیح ادراک ضروری ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک نیا سیاسی‘ معاشی اور نظریاتی منصوبہ ہے جس میں اس علاقے کے بارے میں امریکا کی نقشہ بندی‘ اس میں بھارت کا کردار اور اس منصوبے کو روبہ عمل لانے میں کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تحلیل (liquidation) ‘ علاقے کی اسلامی قوتوں کی کمرشکنی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا شامل ہے تاکہ ایک ’’سیکولرپاکستان‘‘ کا فروغ ہو جو ’’سیکولرانڈیا‘‘ کے ساتھ مل کر جنوب ایشیا کا ایک پیادہ بن جائے اور بالآخر امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ (strategic partnership) کا ایک دم چھلّا بن کر رہ سکے۔ جنرل پرویز مشرف امریکا کے جس کھیل کا ایک کردار بن گئے ہیں اس میں بات کشمیر سے چل کر‘ بھارت دوستی اور جنوبی ایشیا کے نئے وژن تک پہنچتی ہے جو سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج کشمیر پالیسی کی تبدیلی کا تعلق کشمیر سے تو ہے ہی‘ مگر یہ کشمیر پر ختم نہیں ہوجاتی‘ بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو قربانی کا بکرا بناکر پاکستان کے اس تصور اور کردار کو ختم کرنا بھی اس کا ہدف ہے جو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے مسلمانوں کا تصور تھا اور پاکستان کا قیام جس منزلِ مقصود کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلیوں اور اس کے مضمرات پر بات کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اور خود امریکا کا اصل ہدف سامنے رہے تاکہ جنرل صاحب کی کشمیر پالیسی کے خطرناک رخ کا صحیح صحیح ادراک ہوسکے۔

بہارتی حکمت عملی اور صدر مشرف

کلدیپ نیر نے دہلی مذاکرات اور پاکستان کی کشمیرپالیسی کی تبدیلی پر کھل کر جو کچھ لکھا ہے اسے قوم کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔ ڈان کے ۱۶ اپریل اور ۲۶ اپریل ۲۰۰۵ء کے شماروں میں کشمیر کے مسئلے پرموصوف کے دو مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور بین الاقوامی بساط پر کھیلے جانے والے کھیل کے خدوخال کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۶ اپریل کو No Halfway Stop for Musharaf کے عنوان سے‘ چودھری شجاعت حسین کے جامع مسجد دہلی کے خطاب کے پس منظر میں‘ پاک بھارت دوستی کے اصل اہداف کو نمایاں کرتے ہوئے‘ موصوف کا ارشاد ہے کہ پاکستان کا اصل تصور ‘جو ان کی نگاہ میں قائداعظم کا تصور تھا___ اسلامی نظام نہیں سیکولرزم تھا۔

He wanted it to be a secular polity not mixing religion with politics. He died an unhappy man because during his lifetime he saw the country being mutilated and deformed in the name of Islam.

وہ چاہتے تھے کہ یہ ایک سیکولر معاشرہ ہو‘ جس میں مذہب کو سیاست سے نہ ملایا جائے۔ وہ اپنی موت کے وقت ایک ناخوش انسان تھے اس لیے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے ملک کو اسلام کے نام پر مسخ اور بدہیبت ہوتے دیکھا۔

شکر ہے کہ کلدیپ نیر صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کے اس ’’تخریبی عمل‘‘ کا اظہار قائداعظم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا ورنہ ہمارا لبرل طبقہ تو سارا الزام جنرل ضیاء الحق کے دور کو دیتا ہے۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:

پاکستان میں کیوں ایسا جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا جیسا کہ بھارت میں ہے۔

پھر کھل کر ارشاد ہوتا ہے کہ:

ان کو جان لینا چاہیے کہ وادی صرف اس لیے پاکستان کو نہیں مل سکتی کہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ دو قومی نظریہ اب صرف تاریخ ہے۔ جناح‘ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا چاہتے تھے۔ صدر مشرف وادی میں جناح کی منطق کا اطلاق نہ کر کے آدھے رستے میں رک گئے۔ درحقیقت اسلام آباد نے کشمیریوں کی مقامی جدوجہد کو اخلاقی و سفارتی حمایت کے نام پر اسلامی قرار دے کر‘ اس کو بہت نقصان پہنچایا۔

موصوف اس کے بعد اس بھارتی ضد کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر کو پاک بھارت دوستی کے مذاکرات میں اولیت کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔

میں اب تک نہیں سمجھ سکا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشمیر کا یرغمال کیوں ہوں؟ اگر کشمیر سے ان کا تعلق توڑ دیا جائے تو حل تک پہنچنا آسان ہوگا۔

جب ۱۰ سابق پاکستانی سفارت کاروں نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی سفارت کاروں کے سامنے کشمیر کی مرکزیت پر اصرار کیا تو کلدیپ نیر صاحب اس پر برافروختہ ہوئے اور فتویٰ دے دیا کہ:

پاکستان کے سابق سفرا نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا کیونکہ انھیں کشمیر کا خبط تھا۔ وہ کہتے یہی تھے کہ سارے مسائل کا حل صرف کشمیر کے مسئلے کے حل پر مبنی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سفارت کار پاکستان کے اصولی مؤقف کی مؤثر ترجمانی کر رہے تھے مگر کلدیپ نیر صاحب بھارت کے مؤقف پر انھیں لانا چاہتے تھے‘ اور سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے کو مسئلے کا حل قرار دے رہے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:

اصل حل یہ ہے کہ سرحدوں کو نرم ہونا چاہیے تاکہ انھیں پار کرنا ایسا ہوجائے جیسے ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا۔ ’’شجاعتوں‘‘ اور ’’مشاہدوں‘‘ کو اس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے‘ نہ کہ اس طرف یا اس طرف مسلمانوں کے علاقوں کے نقشے بنانا۔

دہلی میں مشرف موہن سنگھ مذاکرات کے بعد جو ’’روشنی‘‘ ان کو نظر آئی ہے اور جو پسپائی پاکستان کے مؤقف میںرونما ہوئی ہے ‘اس کا ادراک بھی کلدیپ نیر ہی کے الفاظ میں ضروری ہے جسے وہ عالمِ انبساط میں بالآخر ہری جھنڈی (Green Light Finally) کے عنوان سے ۱۶اپریل کی اشاعت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے احساسات کا اظہار جس زبان میں کرتے ہیں اس میں ان کی خوشی ہی پھوٹی نہیں پڑتی بلکہ پاکستان کی بے بسی اور بے حسی دونوں کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

صدر مشرف کے دہلی کے دورے کے کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہاں یہ بحث گرم ہے کہ کیا وہ تبدیل ہوگئے ہیں؟ اور ہوگئے ہیں تو کیوں۔

میں نے سابق وزیراعظم اِندر گجرال سے پوچھا کہ کیا مشرف بدل گیا ہے؟ گجرال نے جواب دیا: اس کے پاس کیا راستے ہیں؟ اس کے ملک کو اَن گنت مسائل کا سامنا ہے۔ اسے دِکھ رہا ہے کہ بھارت بڑے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے امریکی دوستوں نے اسے بتا دیا ہے کہ کشتی کو نہ ڈبوئے۔ (وزیر خارجہ نٹورسنگھ نے‘ مشرف کی دہلی میں آمد سے دو روز قبل اپنے واشنگٹن کے دورے میں اس بات کو محسوس کرلیا تھا)۔

بھارتی ایڈیٹروں سے ملاقات میں مشرف نے پہلے تو ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ایک نئے دل کے ساتھ آئے ہیں (مطلب تھا کہ آگرہ کی ناکام سربراہی کانفرنس کے بعد)۔ پھر انھوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ امریکا میں نائن الیون کے حملوں نے انھیں تبدیل کر دیا ہے۔ ظاہر تھا کہ امریکا نے اسے واضح الفاظ میں (in no uncertain terms) بتا دیا تھا کہ واشنگٹن سرحد پار دہشت گردی کو سنجیدگی سے لے گا (take serious note)۔

مشرف نے من موہن سنگھ کو جو یقین دہانی کروائی تھی‘ اسے دہرایا کہ دہشت گردوں کو امن کے عمل کو ناکام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ جنگجوئوں کو پاکستان کا کوئی علاقہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ (کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد نے اس بارے میں دہلی کو تحریر بھی دی ہے)

اس امر کی کافی شہادت ہے کہ دہلی کے بارے میں اسلام آباد کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ کشمیر اعتماد سازی کے اقدامات میں سے ایک قدم ہوگیا ہے‘ نہ کہ مرکزی مسئلہ (core issue)‘ یا ایجنڈے کی پہلی شق۔ پاکستان نے بھارت کی اس یقین دہانی کو بھی تسلیم کرلیا ہے کہ وہ کسی مرحلے پر کشمیریوں کو بھی‘ یقینا آخری فیصلے سے قبل‘ مذاکرات میں شریک کرے گا۔

مشرف یقین رکھتا ہے کہ اگر سرحدیں اور لائن آف کنٹرول تبدیل نہیں کی جا سکتیں‘ تو سرحدوں کو نرم اور غیرمتعلق بنانا (جیساکہ وہ اسے کہتے ہیں) بہتر ہے۔

کلدیپ نیر کی یہ تحریر ہزار تقریروں اور بیانات پر بھاری ہے اور بھارت اور پاکستان دونوں کی کشمیر پالیسی کے بارے میں تازہ ترین صورت حال کی عکاس ہے۔

اقبال نے شاید کسی ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا ہوگا کہ   ؎

دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ

بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

’مشرف ھمارا بھترین ساتہی‘

جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کی حالیہ تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی اور بھارت کی ثقافتی یلغار اور سیکولر نظام کے فروغ کی باتوں میں کلدیپ نیر تنہا نہیں‘ ہر طرف سے یہی آواز اٹھ رہی ہے۔ عین اس زمانے میں‘ غالباً بھارت کی تاریخ میں پہلی بار‘ قائداعظم کی دریافتِ نو (rediscovery) کا ایک شرانگیز سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ قائداعظم پر ایک بھارتی دانش ور پروفیسرآسیانیندا (Asiananda) کی ایک کتاب Jinnah - A Corrective Reading of Indian History شائع ہوئی ہے۔ اس کی تقریب رونمائی اپریل ۲۰۰۵ء کے وسط میں جنرل پرویز مشرف کی دلّی یاترا   سے دو دن پہلے بھارت کے وزیردفاع پرناب مکرجی اور وزیر پٹرولیم مانی شنکرآرگر کی موجودگی    اور سرپرستی میں منعقد ہوئی تھی۔ کتاب کا مرکزی خیال ہے کہ محمد علی جناح اسی درجے کے ایک "great secular" لیڈر تھے جیسے پنڈت نہرو (دی ہندو‘ ۱۵اپریل ۲۰۰۵ئ)

بھارت کے ایک اور دانش ور رفیق دوسانی کی تازہ ترین کتاب: Prospects for Peace in South Asia حال ہی میں امریکا سے شائع ہوئی ہے اور یہ صرف انھی کی نہیں‘ بلکہ بھارت اور امریکا کے دانش وروں کی مشترک سوچ کا ماحصل ہے۔ دوسائی خود بھی امریکا کی مشہور اسٹینفورڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں اور اس کتاب میں ان کے علاوہ امریکا کے کلیدی ادارے  ووڈرو ولسن سنٹر کے ڈائرکٹر رابرٹ ہتاوے اور ایک دوسرے پالیسی ساز ادارے اسٹمسن سنٹر کے پروفیسرمائیکل کریپن سب کا تجزیہ شامل ہے۔ ان کی نگاہ میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے حسبِ ذیل رجحانات پروان چڑھے ہیں۔ m علاقے میں مذہب کے کردار کا فروغ(اسے وہ مذہبی انتہاپسندی کہتے ہیں)

  •  بھارت اور پاکستان کے نیوکلیر طاقت بننے کا عزم‘ داعیہ اور سانحہ
  • پاکستان کی آرمی کا سیاست میں کود جانا
  • قومی شناخت کی مرکزیت۔

اس کتاب میں بھارت کے عالمی عزائم اور اس کے لیے پاکستان سے کسی نہ کسی شکل میں معاملات طے کرنے کی ضرورت اور دوسری طرف پاکستان کی اس مجبوری کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی‘ سیاسی اور معاشی قوت کی وجہ سے بہرحال پاکستان کو بھی کہیں نہ کہیں سمجھوتا کرنا ہے اور ان کی نگاہ میں اس کے لیے سب سے مناسب وقت یہی ہے۔ لیکن اس کتاب کا بھی ٹیپ کا بند یہی ہے کہ جنرل مشرف اس کام کو انجام دینے کے لیے بہترین شخص ہیں اور یہ اس لیے کہ وہ اور جنرل جہانگیر کرامت دونوں ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے علم بردار ہیں۔

ہماری نگاہ میں اس منظرنامے کی سب سے مؤثر ترجمانی بھارت کے ایک اور دانش ور سوبا چندرن نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مگر نہایت کھلے انداز میں کی ہے۔ موصوف بھی اس وقت امریکا کے علمی اور پالیسی ساز حلقوں ہی میں سرگرم ہیں اور دہلی کے Institute of Peace and Conflict سے وابستہ ہیں۔ان کے ارشادات بڑے گہرے غوروفکر کے متقاضی ہیں اور کشمیر کے بارے میں امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کا ارشاد ہے کہ اس وقت بھارت کے اصل اہداف یہ ہیں:

(ا) امن کی بات چیت کے عمل کو بہرصورت برقرار رکھا جائے۔

(ب) کشمیر کے بارے میں یہ سمجھوتا کہ سرحد پار دہشت گردی حد سے نیچے رہے‘ خواہ مکمل طور پر ختم نہ بھی ہو۔

(ج) مستحکم اور سیکولر پاکستان۔

موصوف کانٹے کی بات یوں کہتے ہیں:

اگر جنرل مشرف ان تین عنوانات سے بھارت کے مطالبے کو پوراکرسکیں‘ تو ان سے معاملہ کرنا بھارت کے مفاد میں ہوگا۔ بھارت کو جو مسئلہ طے کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی صورت حال میں کیا وہ بہترین رفیق کار ہیں۔

اور ان کا مشورہ یہی ہے کہ:

ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف صحیح آدمی نہ ہوں‘ لیکن وہ پاکستان میں بھارت کے بہترین  ساجھی ہیں۔ وہ قابلِ اعتماد ہوں یا نہ ہوں‘ نتائج صرف وہی دے سکتے ہیں۔

پروفیسر سوبا چندرن ان وجوہ کی طرف بھی واضح اشارہ کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ بھارت کے منصوبے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو بہترین ساجھی سمجھتا ہے۔

بھارت نے آج تک کسی متبادل (option) کی بات نہیں کی۔ وہ اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تغیر سرحد کی بات کرتا ہے مگر جنرل صاحب کا ذہن کیا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اتنے حل پیش کیے ہیں‘ کہ اب اس میں کوئی شک نہیں وہ کسی نہ کسی سمجھوتے پر آمادہ ہوجائیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مؤقف سے اتنا ہٹ گئے ہیں کہ مزید سمجھوتوں کی انھی سے توقع ہے۔ نیز جو بھارت کا اصل مقصد اور فوری ہدف ہے‘ یعنی کشمیر میں تحریکِ مزاحمت ختم ہوجائے‘ یا کمزور ہوجائے اور منقسم رہے وہ صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جہادی تحریک دم توڑ دے۔ یہاں بھی موصوف کی نگاہ میں جنرل صاحب کا کردار ہی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سوبا چندرن کہتے ہیں:

وہ واحد آدمی ہیں جو سرحد پار دہشت گردی کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھارت کے مفاد میں ہوگا کہ مسلح جدوجہد قابلِ برداشت حد سے نیچے رہے‘ تاکہ نئی دہلی اور سری نگر کے درمیان کسی عمل کا آغاز ہوسکے اور لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔

موصوف کی نگاہ میں جنرل پرویز مشرف ہی وہ شخصیت ہیں جو اس ہفت آسمان کو سر کیے جانے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ غور کیجیے کہ اصل ہدف سری نگر اور مظفرآباد میں راہداری نہیں‘ لائن آف کنٹرول پر اپنی گرفت مضبوط کر کے سفر کو آسان بنانا ہے جیساکہ کلدیپ نیر نے کہا کہ ایک گلی سے دوسری گلی میں جاسکیں‘ لیکن اصل مقصد سری نگر اور دہلی کے رشتوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ کشمیر بدستور بھارت کے نقشے کے مطابق ہی رہے۔

پھر سب سے اہم اسٹرے ٹیجک ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اس معاملے میں اس طرح ملوث ہو کہ بھارت کے اہداف حاصل ہوسکیں اور پاکستانی عوام بھی کوئی منفی تحریک نہ اٹھا سکیں اور جو بات یا جو حل بھی امریکا‘ بھارت اور جنرل صاحب طے کرلیں‘ اسے ملک کے عوام پر مسلط کیا جاسکے۔ سوباچندرن اپنے تجزیے میں صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ:

پاکستان میں سیاسی قیادت کمزور ہے اور مستقبل قریب میں بھی ایسی ہی رہے گی۔ دوطرفہ سطح پر جو کچھ طے کیا گیا ہے‘صرف مشرف وہ فرد ہیں‘ جو اسے نافذکرسکتے ہیں۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں بہت اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نواز شریف لاہور پروسس کو آگے نہ بڑھا سکے۔ اگر یہ ایک حقیقت ہے‘ تو فوج سے براہِ راست معاملہ طے کرنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ اگر مشرف آج اسے کنٹرول کرتے ہیں تو بھارت کو ان سے معاملہ کرنا چاہیے۔ جنرل میں اتنا حوصلہ تھا کہ اس نے تسلیم کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔ اور ایک نرم سرحد کو عارضی حل سمجھا جاسکتا ہے۔

اور ٹیپ کا بند بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ جنرل صاحب خواہ ویسے بھارت کو پسند نہ ہوں لیکن اس لیے ضرور پسند ہیں کہ:

حقیقت یہ ہے کہ صرف جنرل مشرف ہی بھارت سے کیے گئے سمجھوتے کو پاکستان میں زبردستی نافذ (impose) کر سکتے ہیں۔

اس جملے کا ایک ایک لفظ اہم ہے۔ جنرل صاحب ایک ’’ناگزیر برائی‘‘ ہیں لیکن مطلب براری کے لیے ضروری ہیں۔ جو بات بھارت سے طے ہو وہ پاکستان کے عوام کے وژن تصورات‘ احساسات اور مفادات کے خلاف ہوگی اور اسے ملک پر مسلط (impose) کرنا ضروری ہوگا اور یہ جنرل صاحب اور فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لیے جنرل صاحب امریکا اور بھارت دونوں کے لیے بہترین مہرے ہیں یا کھل کر بات کی جائے تو ترپ کا پتہ ہیں! اور یہی وہ مجوزہ کردار ہے جس کے لیے ان کی وردی بھی ضروری ہے۔ امریکا اور بھارت کی جمہوریت نوازی اپنی جگہ‘ لیکن اس سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے جس کردار کی ضرورت ہے‘ اُسے فوجی لباس ہی میں ہونا چاہیے اور فوج کی قیادت بھی اسی کے پاس ضروری ہے‘ اور اسے اس روشن خیال اعتدال پسندی کا علم بردار ہونا چاہیے جو دراصل سیکولرزم کا دوسرا عنوان ہے اور جس کا اصل ہدف پاکستان کو اسلامی تشخص‘ اور جہاد فی سبیل اللہ سے محروم کرنا ہے۔

امریکا بہارت ملی بہگت

کشمیر کے سلسلے میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے اس علاقے کے بارے میں امریکا کے عزائم اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ اور خود اقوام متحدہ کی ساختِ نو (restructuring ) کے پس منظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر آپ امریکا کے سابق وزیرخارجہ سٹروب ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India کا بغور مطالعہ کریں اور خصوصیت سے کارگل کے واقعے کے سلسلے میں‘ اور پھر اس کے نتیجے میں بھارت اورامریکا میں جو فکری اور سیاسی  ہم آہنگی ہی نہیں بلکہ اعتماد باہمی‘ اور مفادات کا اشتراک رونما ہوا‘ اس نے اس اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی راہ ہموار کی‘ جو اَب جارج بش کے دور میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جسونت سنگھ نے ٹالبوٹ اور کلنٹن کے کردار اور تعاون کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ امریکا کے اس کھیل پر مہرتصدیق ثبت کر دی جو وہ پاکستان اور بھارت کے تنازع کا فائدہ اٹھا کر بھارت سے دوستی اور نئی پارٹنرشپ کے حصول کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جسونت سنگھ کا بیان غور کرنے کے لائق ہے:

ہمارے اور ہمارے پڑوسیوں کے درمیان گذشتہ چند مہینوں میں کچھ خوفناک باتیں ہوچکی ہیں۔ لیکن اس اختتام ہفتہ میرے اور آپ کے ممالک کے درمیان کچھ نئی اور بہت اچھی چیزیں واقع ہوئی ہیں جو بھروسے اور اعتماد سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں اور میرے وزیراعظم اس کے لیے آپ کے صدر کے شکرگزار ہیں۔

اب یہی وہ اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ ہے جو مسئلہ کشمیر کو تحلیل (liquidate) کرنے‘ سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے‘ تحریکِ جہاد کو ختم کرنے اور پاکستان اور بھارت کو نئے سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی رشتوں میں جکڑنے کے ایک نئے قسم کے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے احیا کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور اس کا اصل اور آخری ہدف اسلامی احیا کے راستے کو روکنا ہے۔ دیکھیے ہنری کسنجر کس چابک دستی سے اس مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنے ایک تازہ مضمون Implementing Bush's Vision  میں وہ یوں رقم طراز ہے:

"Now India, in effect a strategic partner, not because of compatible domestic structures but because of parallel security interests in South East Asia and the Indian ocean and vis-a-vis the radical Islam" (The Nation May 17th, 2005).

اب بھارت اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے‘ ایک جیسے داخلی نظام کی بنا پر نہیں‘ بلکہ جنوبی مشرقی ایشیا اور بحرہند میں انقلابی اسلام کے مقابلے میں سلامتی کے متوازی مفادات کے حصول کے لیے۔

سیاست کا نقشہ اب بالکل واضح ہے۔ امریکا اور بھارت کے تعاون کا مقصد چین کے خلاف محاذ آرائی ہی نہیں‘ بلکہ بھارت کو ایک علاقائی قوت سے بڑھ کر ایک عالمی قوت بنانا ہے جس کے بارے میں گذشتہ ایک سال میں ایک درجن سے زائد امریکی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور تازہ ترین رپورٹ مئی کے دوسرے ہفتے میں شائع ہونے والی کارنیگی انڈوومنٹ کی رپورٹ ہے یعنی  South Asian Seesaw: A New US Policy on the Subcontinent جسے اس ادارے کے ایک سینیر اسکالر ایشلے جے ٹیلنگ نے مرتب کیا ہے اور جو اپنی رپورٹ کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کے افکار کا پرتو قرار دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی صاف اعتراف ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کو ایف-۱۶ طیّاروں کی پیش کش پر بھارت کی طرف سے جو بس واجبی سی تنقید کی گئی ہے‘ وہ اسکیم کا حصہ اور امریکی بھارت ملی بھگت ہے جو نئی امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے:

علاقے کی تشکیل کے لیے امریکا کی غیرعلانیہ نئی حکمت عملی کا نتیجہ: ایک عالمی قوت (global power) کے طور پر بھارت کو آگے بڑھانا‘ جب کہ پاکستان کو بھی ایک کامیاب ریاست ہونے کے لیے مدد پہنچانا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے بھارت کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنا‘ اسے ایک عسکری قوت بنانا اور اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے عالمی نظام کا حصہ بنانا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ گویا بھارت ایک عالمی طاقت ہوگا اور پاکستان اس کی ایک باج گزار اور طفیلی ریاست!

قومی کشمیر پالیسی سے انحراف

جنرل مشرف کہتے ہیں کہ وہ اہلِ کشمیر کے مفادات سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہوئے مگر صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا اور خلافِ حقیقت ہے۔ جو کچھ وہ عملاً کررہے ہیں‘ وہ امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کے فریم ورک کے بالکل مطابق ہے۔

ذرا ذہن میں تازہ کرلیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے:

۱-  روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ کہا ہے کہ سیکولرزم اسلام سے متصادم نہیں اور پاکستان کو اپنے سیکولر امیج کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔

۲-  امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اس طرح شرکت کی ہے کہ امریکا سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ امریکا کے جتنے سپاہی افغانستان میں ہلاک ہوئے ہیں ان سے زیادہ پاکستان کے فوجی‘ خود پاکستان کی سرزمین پر ایسے لوگوں کے تعاقب میں مارے گئے ہیں جو امریکا کو جتنے بھی مطلوب ہوں لیکن وہ پاکستان کے لیے کبھی خطرہ نہ تھے اور اگر آج وہ جنرل مشرف کے مخالف ہوگئے ہیں تو محض اس لیے کہ جنرل صاحب محض امریکا کی محبت میں ان کے خون کے پیاسے ہیں اور انھوں نے اپنی فوج کو ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے انھیں آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے۔ ناردرن ایریا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسن کے بقول (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۵ئ) شمالی علاقہ جات میں ۷۰ ہزارپاکستانی فوجی ۶۶۹ چوکیوں پر سرگرم ہیں جو اب تک ۴۸ آپریشن کرچکے ہیں جن میں ۳۰۶ افراد مارے گئے ہیں بشمول ۱۵۰ غیرملکی‘ جب کہ خود پاکستانی فوج کے ۲۵۱ جوان اور افسر ہلاک ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ تعداد ساڑھے تین سال میں افغانستان میں مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ ہے۔ کیا ملک میں کوئی فرد یا ادارہ ایسا نہیں جو احتساب کرے اور پوچھے کہ کس کی جنگ کون لڑ رہا ہے اور کس قیمت پر؟

۳- کشمیر جس کے بارے میں فروری ۲۰۰۲ء تک کہا جا رہا تھا کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں مرکزی ایشو (core issue) ہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے حل کیے بغیر‘ بھارت سے کوئی سیاسی یا تجارتی معاملہ نہیں کیا جاسکتا اور کشمیر کی تحریکِ جہاد‘ آزادی کی جنگ ہے جسے کسی اعتبار سے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا‘ ایک ایک کر کے ان سب پر مؤقف کو تبدیل کرلیا گیا۔ بھارت کی cross-border infiltration اور cross-border terrorism کی زبان ہم بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے پروٹوکول پر دستخط کر دیے گئے اور پاک بھارت مذاکرات کو نہ صرف بھارتی مطالبے کے مطابق‘ اس نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کا اعادہ بھارتی قیادت دن رات کر رہی ہے اور کشمیر کے اپنے اٹوٹ انگ ہونے کے دعوے کے ساتھ کر رہی ہے بلکہ بھارت کے دوستی کے عمل میں پیش رفت کو کشمیر کے مسئلے کے حل سے بے تعلق (delink) بھی کر دیا گیا۔ نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ہم نے اٹھا کر رکھ دیا۔ متبادل حل کے طور پر تقسیمِ کشمیر کی تجویز پر بھی غور ہونے لگا اور وہ بھی مشترک کنٹرول اور محدود خودمختاری کی باتوں کے ساتھ۔ اب اصل مسئلہ ہی بدل گیا ہے‘ بھارت کے ناجائز قبضے سے جموں و کشمیر کی نجات اور جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا مطالبہ جو اوّل دن سے پاکستان کا اصول اور قومی مؤقف تھا اور ہے اور جسے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں ملک و قوم کا وہ مؤقف قرار    دیا گیا ہے جس پر کوئی فرد سمجھوتا کرنے کا مجاز نہیں‘ اب اس کا ذکر غائب ہے اور بات صرف     نرم سرحدوں (soft border) اور سرحدات کو غیرمتعلق بنانے (making borders irrelevant ) کی ہو رہی ہے جس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکا اور بھارت کے مجوزہ ’’حل‘‘ پر سمجھوتا کرلیا جائے جس کے اہم اجزا یہ ہیں:

(ا) کشمیر کی مستقل تقسیم

(ب) دونوں حصوں میں کسی خاص شکل کی ’’خودمختاری‘‘

(ج) بھارت کے عمل دخل اور دراندازی کے لیے مستقل گنجایش

(د) امریکا کے لیے علاقے میں داخلے کی کھڑکی کھولنا۔

اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کشمیر کی تحریکِ آزادی کا گلا گھونٹ دیا جائے‘ یا وہاں کی قیادت کو اس نئے نظام کا حصہ بنا لیا جائے یا پھر ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھارتی فوج کے ہاتھوں ختم ہوجانے‘ یا مجبوری کے عالم میں غلامی کی کسی نئی شکل پر آمادہ ہوجانے کا سامان کیا جائے۔

آپ سات متبادلات (seven options) کا جائزہ لیں‘ یا تیسرے حل (third option) کی بات کریں‘ یا امریکی اسٹڈی گروپ اور فاروق کٹھواری جیسے لوگوں کی پیش کردہ اسکیموں کو دیکھیں‘ سب کا مرکزی خیال یہی ہے اور اب جنرل صاحب جو نقطہ نظر پیش فرما رہے ہیں وہ اس امریکی بھارتی ایجنڈے سے مختلف کوئی چیز نہیں۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے نائب مدیر  سدھارتھ وراداراجن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کی دلّی ملاقات کے بعد حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس میں اپنے اصولی مؤقف سے پاکستان کی پسپائی اور بھارت کے اپنے ایجنڈے کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانے کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ Slaying the Demons of Distrust ‘نیوزلائن‘ مئی ۲۰۰۵ئ)

اور جس اعتماد (trust) پر اب سارا کاروبار مملکت چلانے اور بھارت سے کشمیر سمیت سارے معاملات طے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اس کا حاصل تو صرف یہ نظر آرہا ہے کہ مقصد اور ترجیح بھارت کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کے اہداف‘ مقاصد اور مفادات‘ پاکستانی عوام کی تمنائیں اور عزائم اور سب سے بڑھ کر انصاف اور عدل کے تقاضے‘ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقوق اور ان کی آزادی سب ثانوی بلکہ غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ دیکھیے بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک تازہ اشاعت میں اس صورت حال کو کس طرح پیش کیا ہے:

"Now that the April Foreign Policy euphoria is over, the party poopers are out with full force. The question is again being asked : Can we trust Gen Musharraf?

اب‘ جب کہ خارجہ پالیسی کا اپریل کا سرخوشی کا عالم گزر چکا ہے‘ پارٹی کے ڈھنڈورچی پوری طاقت سے میدان میں آگئے ہیں‘ یہ سوال پھر پوچھا جا رہا ہے: کیا ہم جنرل مشرف پر بھروسا کرسکتے ہیں؟

یہ سوال اٹھانا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے واقعتا کوئی چیز دی ہے۔ لیکن سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قطعاً کوئی رعایت نہیں دی۔ سرحد کے ردوبدل‘ کشمیر میں سی بی ایم کی ترجیح‘ سب پر ہماری پوزیشن پہلے جیسی ہے۔ اس وقت تو ہم سے زیادہ پاکستان کو ایڈجسٹمنٹ کرنا ہے۔

اس کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے سلامتی اوّلین اہمیت کی حامل ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ نیز پاکستان پر امریکی دبائو شدید ہیں اور وہ پاکستان کو یہ بھی خوف دلاتے ہیں کہ زمینی حالات بدل گئے ہیں اور اب کشمیر میں پاکستان کی تائید بہت کم ہے‘ لکھتے ہیں:

کشمیر کے اندر پاکستان کی حمایت اپنی زیریں ترین سطح پر ہے۔ پاکستان پر امریکی دبائو بھی اپنی کاٹ دکھا رہا ہے اس لیے کہ ان کا دہشت گردی کے بارے میں تصور تبدیل ہوچکا ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)

ان تمام امور کے ساتھ اس بات پر بھی غور کریں کہ جنرل صاحب نے تازہ ترین دعویٰ یہ بھی کر دیا ہے کہ:

میرا خیال ہے کہ حل موجود ہے۔ مجھے اس پر یقین ہے اور میں وہ حل جانتا ہوں کہ جو بھارت‘ پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے۔ (ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)

اس میں وہ بھارت کی ’’سیکولر حساسیت‘‘ (secular sensitivity) کے آگے بھی سپرڈالتے نظر آرہے ہیں اور دو قومی نظریہ‘ حق خود ارادیت اور حاکمیت کے تمام اصولوں کو ترک کرکے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ:

اس لیے ضروری ہے کہ یہ عوام کی بنیاد پر‘ علاقے کی بنیاد پر ہو۔ علاقہ متعین کیا جائے لوگوں کو سیلف گورننس دی جائے‘ غیرفوجی علاقہ بنایا جائے اور کچھ ایسے کام کریں کہ سرحدوں کا سوال غیرمتعلق ہوجائے۔

اس پوری تقریر میں زیادہ سے زیادہ اپنی حکمرانی (maximum self governance) اور سرحدوں کو غیرمتعلق بنانا کلیدی تصورات ہیں جن کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ تو باقی ہی نہیں رہا۔ بھارت جوچاہتا تھا کہ جموں و کشمیر کے علاقے دونوں ملکوں کے زیراثر رہیں‘ ان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دے دی جائے (جو خود بڑا دھندلا تصور ہے اور جس کا تجربہ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے زمانے میں ہوچکا ہے) اور یہ اضافہ کردیا جائے کشمیر کے تمام حصوں کے درمیان سرحد غیرمتعلق ہوجائے۔ سرحد محض ایک سرحدی لکیر کا نام نہیں‘ یہ کسی ملک یا علاقے کی حاکمیت کی علامت ہے۔ اور اگر یہی غیرمتعلق ہوجائے تو پھر سیاسی آزادی اور علاقائی سلامتی دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

واضح رہے کہ من موہن سنگھ نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد جو پہلی بات کی‘ وہ نرم سرحدوں کی تھی۔ اسی بات کو اب جنرل صاحب دہرا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دہلی میں ان کے اس ارشاد کو بھی شامل کر لیجیے کہ کشمیر کے مستقبل کے نظام میں حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کا بھی کردار ہوگا۔ اور شاید اس نہلے پر دہلا لگاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پانی کے مسائل کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ بگلیہار اور کشن گنگا کے ڈیم وغیرہ کے سلسلے میں مشترک نگرانی کا نظام قائم کیاجائے۔

اس سارے معاملے  کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ متبادل حلوں کے اس سارے کھیل نے خود کشمیری قیادت کو بانٹ دیا ہے اور ان کے درمیان شدید کنفیوژن کی کیفیت ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس منقسم ہے اور اب ایک طرف میرواعظ عمر فاروق اور عمرعبداللہ (نیشنل کانفرنس) کے ساتھ ایک محاذ پر جمع ہونے کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف سردار عبدالقیوم اپنی تاریخی پوزیشن تبدیل کرکے سات حلوں کے گن گانے لگے ہیں اور کشمیریوں کو ’’کسی بھی قسم کی خودمختاری‘‘ مل جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ البتہ مجاہدین اور وہ کشمیری لیڈر جو اپنی اصولی پوزیشن پر مردانہ وار ثابت قدم ہے اور ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہے‘ سید علی شاہ گیلانی ہے جو پاکستان کا سب سے مضبوط قلعہ ہے لیکن وہ اب یہ کہنے پر مجبورہوگیا ہے کہ ’’ہم نہ تھکے ہیں اور نہ دبے ہیں لیکن پاکستان کی قیادت غالباً تھک گئی ہے اور وہ اب کشمیر کی تحریکِ حریت کی وکالت ترک کر کے بھارت کے مؤقف کی وکالت پر اتر آئی ہے‘‘۔ وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہتے ہیں:

آج کشمیر ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کے مسائل اہم ہوگئے ہیں۔ صحافیوں‘اداکاروں‘ گلوکاروں اور عوامی وفودکی آمدورفت شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان اور بھارت باہم شیروشکر ہورہے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ برقرار ہے اور یہاں ظلم و ستم کا بازار اسی طرح گرم ہے‘ بلکہ فوجی مظالم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہم زنجیرغلامی کو کاٹنے کے لیے اپنا کام کرتے رہیں گے‘   بے وفائی کرنے والوں کی اپنی منزل تاریک ہے۔

ذھنی شکست خوردگی

جنرل پرویز مشرف اپنی خطرناک قلابازی (u-turn) کے باوجود قوم سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ان پر بھروسا کیا جائے‘ وہ کشمیر کے کاز سے کبھی بے وفائی (betray) نہیں کریں گے۔ قوم ان کے اس اعلان پر کیسے بھروسا کرسکتی ہے؟ قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ تین سال سے کشمیر کے مسئلے پر وہ مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ قول و قرار کے معاملے میں سخت ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں ایوب‘ یحییٰ اور ضیاء کی طرح نہیں ہوں کہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کروں لیکن عملاً انھوں نے ایوب اور ضیاء ہی کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ بھی رچایا اور جس طرح ضیاء الحق نے ۹۰ دن کا وعدہ کر کے وعدہ خلافی کی‘ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی دسمبر ۲۰۰۴ء میں وردی اتارنے کا عہدوپیمان کرکے عہدشکنی کی۔ دستور کی حفاظت کا حلف لے کر دستور کو پامال کیا‘ سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کا عہد کرکے فوج کو سیاست میں ملوث کیا اور اب اسے بدستور ملوث رکھنے پر مصر ہیں۔ اس ریکارڈ کی موجودگی میں ان کے عہدوپیمان پر کون بھروسا کرسکتا ہے۔ اور ان کے الفاظ اور حقیقت کے فرق کو کون نظرانداز کرسکتا ہے کہ موصوف نے کوئٹہ میں اسٹاف کالج میں خطاب کرتے ہوئے‘ یہاںتک کہہ دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے‘ نظامِ حکومت وزیراعظم چلا رہے ہیں اور فوج کا سیاست میں کوئی دخل نہیں! کیا دن کو رات اور رات کو دن کہنے اور چوری اور سینہ زوری کی اس سے تابناک مثال بھی مل سکتی ہے؟

پھر وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کے دبائو میں فیصلے نہیں کرتا حالانکہ جس طرح امریکا کے    دبائو میں وہ ۲۰۰۱ء سے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں اور اب بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں (واضح رہے کہ ۶ جنوری ۲۰۰۱ء کے پاک بھارت اعلامیے کے بارے میں امریکا کے     سابق وزیرخارجہ کولن پاول کا یہ اعلان اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس کا مسودہ ان کا تیار کردہ تھا (ملاحظہ ہو‘ ڈان ۱۱ مئی ۲۰۰۵ء کے شمارے میں سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد کا مضمون CBMs:not a final solution) وہ بالکل واضح ہے۔ اور باب ووڈ ورڈ کی کتاب    Bush at War میں پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کے ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالنے (abject surrender) کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس کی روشنی میں کون اس بات پر یقین کرے گا کہ جنرل پرویز مشرف کے بنیادی فیصلے واشنگٹن میں نہیں‘ اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ خود ان کے وزیر کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بش کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارا حشر بھی افغانستان اور عراق جیسا ہوتا۔ کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ یہاں فیصلے بیرونی دبائو کے تحت ہو رہے ہیں یا ملکی حاکمیت اور قومی وقار اور مفادات کے مطابق۔

جنرل صاحب بار بار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے حالات بدل گئے ہیں‘ اورنائن الیون کے بعد اب قوت کے استعمال سے سیاسی فیصلے نہیں ہو سکتے‘ حالانکہ نائن الیون کا اگر کوئی سبق ہے تو صرف یہ کہ اس کے بعد صرف قوت ہی کے ذریعے فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو کمزور ہے یا قوت کا استعمال کرنے کا عزم اور داعیہ نہیں رکھتا‘ اس کے مقدر میں محکومی کے سوا کچھ نہیں۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوت کا جواب قوت ہی سے دیاجاسکتا ہے اور امریکا اپنی ساری عسکری اور ٹکنالوجیکل برتری کے باوجود‘ نہ پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مسلط کرنے میں کامیاب ہے اور نہ عراق پر‘ بلکہ پوری دنیا نائن الیون کے بعد‘ پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم کرنے کی حکمت عملی یکسر ناکام ہوگئی ہے‘ نیز دہشت گردی کے اسباب دُور کرنے کے بارے میں زبانی جمع خرچ کے باوجود‘ اس سمت میں کوئی مؤثر اقدام دنیا میں کسی جگہ بھی‘ (بشمول فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ) نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے کشمیر میں امریکا اور بھارت کے دبائو میں جنرل پرویز مشرف نے تو تحریکِ آزادی سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے اور اسے دہشت گردی کے خانے میں رکھ دیا ہے لیکن بھارت کی ریاستی دہشت گردی اسی طرح جاری ہے بلکہ روز افزوں ہے۔ دوسری طرف حق خودارادیت ہی سے دست برداری کا راستہ اختیار کر کے ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری‘‘ علاقائی تقسیم اور کھلی سرحدوں کی باتیں ہورہی ہیں جو تنازع کے اسباب دُور کرنے کے بجاے‘ ان کو دائمی شکل دینے اور نہ ختم ہونے والی پنجہ آزمائی کا سامان فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

سیدھی اور واضح بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ذہنی شکست قبول کرچکے ہیں اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاسی ملمع آرائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت میں عدمِ مساوات کوئی نئی بات نہیں اور دنیا میں سیاسی نقشے اس عدمِ مساوات کے باوجود بدلے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ کیا آج افغانستان میں امریکی افواج اور نہتے عوام کے درمیان قوت کی مساوات ہے؟ کیا عراق میں یہ مساوات ہے؟ کیا دنیا کے ۱۴۰ ممالک جو گذشتہ ۵۰سال میں عظیم اور طاقت ور استعماری قوتوں کے چنگل سے جنگِ آزادی لڑکر آزاد ہوئے ہیں عسکری مساوات کے ساتھ جدوجہد کر رہے تھے؟ کیا بھارت کو ۱۹۸۹ء کے بعد کشمیر میں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ عسکری مساوات پر مبنی ہے؟ آج بھی جس جہادی تحریک سے بھارت پریشان ہے اور تلملا رہا ہے اس کے بارے میں اس کے اپنے چیف آف اسٹاف کا قول ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار مجاہد (جنھیں وہ دہشت گرد کہتا ہے) میدان میں ہیں اور بھارت کی ۹ لاکھ فوج ان کو قابو نہیں کر پا رہی ہے۔بات مساوات کی نہیں‘ اصل مسئلہ ایمان‘ عزائم اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے استقلال اور پامردی کا ہے۔ کارگل کے معرکے میں بھی اصل فاتح بھارتی فوج نہیں وہ شہید کرنل ہے جس نے تن تنہا بھارتی فوج کو خون کے آنسو رلا دیے اور جس کی شجاعت اور استقامت پر بھارتی فوج نے بھی رشک کیا!

پاکستان کوئی کاغذی مملکت (banana republic) نہیں۔ یہ ریاست الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور اور ایک عظیم قوم کی روایات کی امین ہے جو اپنے ایمان‘ عزت اور آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے باب میں شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ پاکستانی قوم نے گذشتہ ۵۷ برسوں میں اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کو جو وسائل فراہم کیے ہیں اور جسے آپ خود ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت کہتے ہیں وہ کس لیے ہے۔ کیا بین الاقوامی تعلقات کا یہ ایک مسلمہ اصول نہیں کہ جنگ خارجہ پالیسی کا ایک آلہ ہے (war is an instrument of foreign policy)۔ اگر جنگ امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ اسرائیل‘ بھارت کے لیے خارجہ سیاست کا ایک آلہ کار ہے تو دوسروں کے لیے کیوں ممنوع ہے۔ بلاشبہہ جنگ نہ مطلوب ہے  اور نہ محمود‘ لیکن اگر ضرورت پڑے تو آزادی اور  حاکمیت کی حفاظت کے لیے یہی مؤثر ترین راستہ ہوتا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں اور پہلے سے اس دروازے کو بند کردینا دراصل اپنی آزادی اور حاکمیت کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ یہ مذہبِ گوسفنداں تو ہو سکتا ہے‘ اسے کیشِ مرداں قرار نہیں دیاجاسکتا۔

پھر ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بس یہ نادر موقع ہے جسے اگر ہم نے گرفت میں نہ لیا تو ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے زیادہ ناسازگار وقت اس مسئلے کے حتمی حل کے لیے کبھی نہ تھا۔ اس وقت تو ضرورت اس کی ہے کہ تحریکِ آزادی کی حفاظت کی جائے‘ مناسب تیاری ___ عسکری اور معاشی اور سب سے بڑھ کر ملک میں قومی مفاہمت اور یک رنگی ___ جاری رکھی جائے اور صحیح وقت کا انتظار کیا جائے۔ بھارت کے لیے قبضے کی قیمت (cost of occupation) کو جتنا بڑھایا جا سکتا ہو‘ بڑھایا جائے‘ لیکن پورے تحمل اور حکمت و تدبیرکے ساتھ۔ یہ وقت دوستی کی پینگیں بڑھانے کا نہیں‘ مسئلے کو زندہ رکھتے ہوئے رکھ رکھائو کے ساتھ مناسب وقت کے انتظار کا ہے۔ نیز ہر اس اقدام سے مکمل اجتناب کیا جائے جو جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی قومی تحریکِ مزاحمت کو کمزور کرنے والی یا ان کی توقعات پر اوس ڈالنے والی ہو۔ اور یہی رائے ان تمام افراد کی ہے جن کی نگاہ دنیا کے حالات‘ پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت اور بھارت کے اپنے حالات پر ہے۔ جنرل صاحب کی یہ      بے قراری کہ ان کے عہدِحکومت اور من موہن سنگھ کے عہدحکومت میں مسئلے کا آخری حل نکل آئے‘ خودغرضی اور بے بصیرتی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی خارجہ سیاست کے تمام اہم کردار متنبہ کر رہے ہیں کہ یہ وقت جلدبازی میں کوئی اقدام کرنے کا نہیں ہے۔

تجربہ کار سفارت کاروں کا اضطراب

آغا شاہی اور حمید گل تو بار بار کہہ چکے ہیں لیکن اب تو وہ لوگ بھی بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو خاموش سفارت کاری سے آگے کبھی نہ بڑھتے تھے۔ مثلاً:

سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد جو کارگل کے وقت بھی اس عہدے پر فائز تھے ڈان میں اپنے مضمون: CBMs: Not a Final Solution (۱۱مئی ۲۰۰۵ئ) میں متنبہ کرتے ہیں کہ یہ وقت فیصلے کا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

ہر صورت میں‘ دونوں ملکوں کے تعلقات کی اشتعال انگیز تاریخ اور ماضی کے تجربات کے پیش نظر غیرحقیقی امیدیں قائم کرنے یا نتائج نکالنے میں محتاط ہونا چاہیے۔ دونوں طرف بداعتمادی اور اندیشوں کی گہری جڑیں ہیں‘ اور محض شعلوں پر پھونکیں مارنے یا نیک خواہشات کرنے سے یہ تحلیل نہ ہوجائیں گے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے گہرائی میں جانا ہوگا۔

اعتماد سازی کے اقدامات بہتر ماحول پیدا کرنے کے لحاظ سے اس عمل میں معاون ہوسکتے ہیں لیکن یہ تنازعات حل کرنے کا متبادل نہیں ہیں۔ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ لچک کی یک طرفہ پیش کشوں کے باوجود صدرمشرف متنبہ کرتے رہے ہیں کہ جب تک تہ میں پوشیدہ مسائل حل نہ پیش کیے جائیں گے‘ تنازعات پھر بھڑک اٹھیں گے۔ جو کام پیش نظر ہے‘ وہ آسان نہیں ہے۔ متعلقہ مسائل کی پیچیدگی کے بارے میں کوئی فریب نظر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان کی مزید ضرورت ہے اور اسے برقرار رکھنا چاہیے لیکن جلدبازی میں ایسے فیصلوں کی طرف نہیں جانا چاہیے جو دونوں ممالک میں داخلی طور پر حکومت یا شخصیات کی تبدیلی کے بعد برقرار نہ رہ سکیں۔

ہمیں ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھارت کے لیے اپنی تبدیل شدہ پالیسی کے بارے میں قومی اتفاق راے پیدا کریں۔ اس کے لیے شفافیت اور داخلی محاذ پر حقیقی قومی کوشش کے ذریعے اعتماد سازی کی ضرورت ہوگی‘ بحث اور اتفاق کے لیے ہوٹلوں کی لابیوں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹری چیمبرز میں تمام متعلقہ سیاسی عناصر کے اشتراک کے ساتھ۔

ایک سابق سفیر جاوید حسن ڈان (۱۸ مئی ۲۰۰۵ئ) میں Kashmir: The  Time Factor کے عنوان سے اپنے مضمون میں حالات کی سنگینی پر قوم اور قیادت کو متنبہ کرتے ہیں اور صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ وقت آخری حل کے لیے سب سے زیادہ ناموزوں ہے۔ اس وقت بہترین حکمتِ عملی اس مسئلے پر holding on operation (برقرار رکھنے کا عمل) ہے نیز آخری فیصلے کے لیے تیاری کی جائے جو ان کے خیال میں اگلے ۲۵ سال میں ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

اگر ہم ربع صدی کے اس طویل وقفے کے بعد بھارت کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن میں ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی سیاسی استحکام کو مضبوط کرنا چاہیے۔ قومی سطح پر ایک منظور شدہ سیاسی فریم ورک کے اندر جس میں نمایندہ اداروں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے‘ افراد پر انحصار کے بجاے ادارے تعمیر کیے جائیں‘ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنایا جائے اور میرٹ پر فیصلے کرنے کے اصول پر عمل کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے قومی وسائل کا زیادہ بڑا حصہ معاشی ترقی کے لیے مختص کر کے تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنی معاشی منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ اس کا تقاضا ہوگا کہ ہم اپنے دفاعی اخراجات پر سخت کنٹرول کریں اور ممکنہ کم ترین قیمت پر قابلِ لحاظ سدّجارحیت برقرار رکھیں۔

کشمیر کے تنازعے کے عاجلانہ آخری حل کی توقع یا تو موجودہ حقائق کے بارے میں شدید غلط فہمی پر مبنی ہے یا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس کے ماضی سے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ مفروضہ اتنا مایوس کن اور شکست خوردہ ہے کہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا گذشتہ ایک دو سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ بھارت کشمیر کے آخری حل کے لیے ہماری  بے صبری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سے یک طرفہ رعایتیں حاصل کرے گا۔

سابق سفیر اور خارجہ سیکرٹری اقبال اخوند اپنے مضمونKashmir: denouement or sell out  ( ڈان ‘۲۹ اپریل ۲۰۰۵ء )  میںاپنے شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کرتے ہیں کہ جلدی میں کوئی اقدام نہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:

کشمیر کے تنازعے کا معاملہ تو ایک طرف رہا‘ مشرف من موہن سنگھ معاہدہ ایسا ہے جو سیاچن یا بگلیہار یا تنازعے کے دوسرے ضمنی مسائل تک کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ یہ سری نگر مظفرآباد بس سروس‘ ٹرکوں کے ذریعے تجارت کے اضافے اور منقسم ریاست کے دوسرے علاقوں اور شہروں کے درمیان بھی ایسی ہی سروس کے اجرا کی تجویز دیتا ہے۔ کیا لائن آف کنٹرول کی یہ نرمی (ایک طرح کا جواز فراہم نہ بھی کرے تب بھی) عملاً اس کو استحکام دینے کے مصداق نہیں ہے؟

اس طرح ہمارے آپشن کم ہوجاتے ہیں‘ (اور کافی عرصے سے کم ہیں) کہ اپنی پوزیشن پر کھڑے رہیں یا میدان جیسا بھی ہے‘ اس میں کھیلیں۔ لیکن جب کوئی کشمیر پر ہمارے اصولی مؤقف پر قائم رہنے کی بات کرتا ہے تو اس کے ٹھیک ٹھیک کیا معنی ہوتے ہیں؟مسئلہ کشمیر کا اساسی غیرمتبدل اصول (صرف اس لیے نہیں کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہوا ہے) حق خود ارادیت کا اصول ہے اور یہ کشمیری عوام کو نظرانداز کر کے کنٹرول لائن پر سمجھوتے کو خارج از بحث قرار دیتا ہے۔ شروع ہی سے بھارت اس بات کے حق میں رہا ہے کہ ’’جس کو ملے وہی پائے‘‘ کے اصول پر تقسیم کرلی جائے لیکن اب اس ملک میں کچھ امن کے حامی ایسے ہیں جو آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ یقینا پاکستان کے پاس کشمیر پر بھارت کے قبضے کو قبول کرنے اور جائز قرار دینے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ اور نہ کوئی عملی سیاسی دلیل ہے کہ وہ اپنا حصہ رکھنے کے تبادلے میں ایسا کرے۔

بلاشبہہ معاہدئہ دہلی پر خاصا شور شرابا ہے مگر یہ ماحول دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی اہمیت کے بغیر نہیں ہے جہاں کے عوام جذباتی ہنگامہ آرائی کی لہروں کے ساتھ ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف بہہ جانے کے عادی ہیں۔ کشمیر میں بس سروس اور تجارتی راستے کھولنے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ ایسا آغاز ہیں جن کے حتمی نتیجے کی کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ منقسم کشمیریوں کا باہم ملنا جلنا خود اپنی ایک حرکیات پیدا کرسکتا ہے۔ بھارت کو بھی زمینی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا اور اس کے مضمرات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت کا کشمیر کو ۵۰برس سے اپنا اٹوٹ انگ کہنے نے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ ہمیشہ کی طرح غیریقینی رہے گا۔

کسی بھی صورت میں کشمیر پر پیش رفت خط مستقیم پر نہیں ہوگی۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے بھارت سے مذاکرات میں پاکستان کسی ہموار میدان میں نہیں کھیل رہا۔

سفارتی میدان میں آپ کا کھیل کرکٹ نہیں ہوتا۔ آپ اس پر انحصار نہیں کرسکتے کہ کوئی انضمام نامی سفارت کار آخری گیند پر چوکا لگائے اور ٹرافی جیت لائے۔

قائداعظم یونی ورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر اعجاز حسین کی بات بھی ریکارڈ پر لانے اور اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے‘ وہ لکھتے ہیں:

مشترکہ اعلامیے میں جنگ بندی پر کوئی دفعہ نہیں ہے‘ وادی سے بھارتی افواج کو واپس بلانے پر کوئی وعدہ نہیں ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے ریاستی دہشت گردی کے اقدامات کو روکنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں سیاچن‘ سرکریک یا بگلیہار پر کسی پیش قدمی کا کوئی بیان نہیں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اُمیدوں سے بھی زیادہ کامیابی کے وعدے حیران کن ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے جو مبالغہ آمیز دعویٰ کیا ہے‘ اس کی کیا بنیاد ہے؟ انھوں نے اسے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کی تلاش میں بھارتی قیادت کے خلوص کے حوالے سے بیان کیا۔ واہ‘ کیا سادگی ہے!

مشترکہ بیان کے مطابق امن کا عمل ناقابلِ واپسی ہے۔ یہ مشرف کے اس سابقہ دعوے سے بہت نیچے اترنا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں ناکامی امن کے عمل کو روک دے گا۔ اس پسپائی کے بعد ایک اور پسپائی آئی۔ صدر نے اپنی سابقہ پوزیشن کی جو گذشتہ سال کئی موقعوں پر بیان کی تھی کہ کشمیر کا تنازع حل کرنے کے لیے ایک حتمی تاریخ کا تعین کیا جائے‘ خود ہی تردید کردی۔ ان قلابازیوں پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ان کی بھارت پر عنایات کا تسلسل ہے۔ بشمول اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دستبرداری‘ کشمیر کے حل کے لیے نارملائزیشن کی اہمیت اور کشمیر میں روا مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینا۔ کہا جا سکتا ہے کہ امن کے عمل کو ناقابلِ واپسی قرار دے کر کشمیر پر یوٹرن کو مکمل کرلیا گیا۔

پس کشمیر کی پالیسی جس پر صدر عمل پیرا ہیں اور جس کی مغرب اور بھارت حمایت کر رہے ہیں‘ امن کے عمل کی کامیابی کے لیے خوش آیند نہیں۔ کشمیر پر کوئی امن دیرپا ہونا ممکن نہیں ہے جو کشمیر پر قومی اتفاق راے کی مضبوط بنیادوں پر نہ ہو۔ صدر کو یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر پاکستان کی کئی حکومتوں کا قبرستان بن چکا ہے۔

فیصلے کی گہڑی

یہ ہے پاکستانی تجربہ کار سفارت کاروں اور دانش وروں کی سوچ جو قوم کی اجتماعی سوچ کی نمایندگی کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف اسے یکسرنظرانداز کرکے جس ایجنڈے پر بگٹٹ رواں دواں ہیں‘ وہ صرف ہزیمت اور تباہی کا راستہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو اس میں مزید پیش قدمی سے روکا جائے اور قوم اپنے تشخص‘ آزادی‘ اسٹرے ٹیجک مفادات اور اپنے ڈیڑھ کروڑ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو۔ جس مشکل مقام پر جنرل صاحب نے ہمیں پہنچا دیا ہے‘ اس کی بڑی وجہ ملک میں فردِ واحد کا اقتدار اور قومی اداروں کے ذریعے اور قوم کو اعتماد میں لے کر قومی امور پر فیصلے نہ کرنے کا رجحان ہے جو ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ یہی جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق ہے۔ جمہوریت میں اگر ایک طرف دستور کی بالادستی ‘ قانون کی حکمرانی اور قومی احتساب اور جواب دہی کا نظام مؤثر ہوتا ہے تو دوسری طرف فیصلہ سازی کے لیے اداروں پر انحصار کیا جاتا ہے‘ اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں قومی امور پر فیصلہ قومی اتفاق راے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشمیر پالیسی کے صحیح خطوط پر مرتب ہونے اور چلائے جانے کا انحصار جمہوریت کی مکمل بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہے۔ جنرل صاحب جو کچھ کر رہے ہیں اس میں نہ انھوں نے کابینہ کو اعتماد میں لیا ہے‘ اور نہ پارلیمنٹ کو‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی تک کو کسی معاملے میں شریکِ مشورہ نہیں کیا گیا۔ بس ایک شخص حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پالیسی سے انحراف کر رہا ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق رہا ہے اور جو خود دستور میں مرتسم ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایک بار پھر قوم کے تمام ذمہ دار عناصر پاکستان کی اصولی پالیسی کا اعادہ کریں اور قوم کو بیدار کریں تاکہ انحراف کرنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور تحریکِ آزادی کشمیر کے شہیدوں کے خون سے بے وفائی نہ کرنے دی جائے ‘خواہ اس کے لیے جدوجہد کتنی ہی طویل اور صبرآزما کیوں نہ ہو۔

سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں جیسا کہ چین اور بھارت کے درمیان ہے۔ ہمارے سامنے اصل ایشو ریاست جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے جس کی پشت پر انصاف کے مسلمہ اصول‘ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور جمہوریت کی متفق علیہ روایات ہیں اور جن کا تقاضا ہے کہ ریاست کے ڈیڑھ کروڑ انسان اپنی آزاد مرضی سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہی وہ حق ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ جغرافیہ‘ تاریخ‘ عقیدہ‘ ثقافت‘ معیشت ہر اعتبار سے ان کی تقدیر پاکستان سے وابستہ ہے اور انھوں نے ہر ممکن طریقے سے اس کا اظہار بھی کردیا ہے خواہ اس کا تعلق گھڑی کے وقت سے ہو‘ یا قومی ترانے سے‘ کھیل سے ہو یا سیاست سے‘ تہواروں سے ہو یا رسوم و رواج سے___ ان کے قومی ہیرو پاکستان کے اکابر ہیں‘ بھارت کے نہیں___  لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان اور خود اہلِ کشمیر کا مؤقف یہ ہے کہ ان کو اپنی رائے کے اظہار اور اپنے مستقبل کو طے کرنے کا باقاعدہ موقع ملنا چاہیے۔

پاکستان ان کے اس حق کا وکیل ہی نہیں‘ اس پورے معاملے میں ایک بنیادی فریق ہے۔ گوجھگڑا زمین کا نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس طرح زمین کا مسئلہ بھی ریاست کے باسیوں کے مسکن ہونے کی حیثیت سے متعلق ہے کہ مکین اور مکان لاینفک ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اصل ایشو بھارت کے ناجائز قبضے سے نجات اور اہلِ کشمیر کا اپنی آزاد مرضی سے تقسیمِ ہند کی اسکیم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا ہے‘ زمین کی بندربانٹ اصل ایشو نہیں۔

پھر یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ کشمیر کے لوگ آسانیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ تو اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور روزانہ شہادتیں پیش کر کے اور ہر ہر شہید کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کر کے‘ اپنے عزم اور مستقبل پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسئلہ ریلیف نہیں بھارت کے تسلط سے آزادی ہے۔

پاک بھارت دوستی کی کوئی بھی کوشش اسی وقت مفید ہوسکتی ہے جب وہ عزت اور برابری کے مقام سے ہو اور وہ اسی وقت بارآور ہو سکتی ہے جب اس کا ہدف بنیادی تنازع کے حق وا نصاف کے مطابق طے کیا جانا ہو جو تمام بگاڑ اور تصادم کا باعث رہا ہے۔ جو کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے‘ وہ سراب ہے اور دھوکا___  اس سے کبھی بھی حقیقی دوستی جنم نہیں لے سکتی اور نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم یہ کہنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حق و انصاف سے ہٹ کر جو بھی عارضی حل تلاش کیا جائے گا‘ وہ مزید تصادم اور تفرق کو جنم دے گا۔ پاکستانی قوم کسی ایسے انتظام کو کبھی قبول نہیں کرے گی جو کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے بے وفائی پر مبنی ہو اور محض وقتی مفادات کے حصول کو سب کچھ سمجھ کر کیا گیا ہو۔ نیز کشمیری عوام بھی اپنی جدوجہد کو بے ثمر ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور نہ وہ اپنے شہیدوں کے لہو سے غداری کے لیے تیار ہیں۔ ان کی جدوجہد بہرحال جاری رہے گی۔ اس لیے پاکستانی حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ سراب کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں اور اصل حقائق کی روشنی میں مسائل کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ سب سے زیادہ اپنی قومی یک جہتی کی فکر کریں اور وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے وہ قوت حاصل کریں جس کے بغیر ہم نہ اپنی آزادی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے حق و انصاف کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں‘ اس لیے کہ ع

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات


(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے‘ سیکڑہ پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)

دہشت گردی کے نام سے چھیڑی جانے والی جنگ میں امریکی حکومت جو کارروائیاں کررہی ہے خود امریکی تجزیہ نگار ان کے بے سمت اور ناکام ہونے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ’’دل‘ دماغ اور ڈالر‘‘ کے عنوان سے ۱۰ اقساط پر مشتمل ایک اہم رپورٹ تیار کرنے والے امریکی دانش ور ڈیوڈ کیپلن نے اعتراف کیا ہے کہ ’’۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء سے لے کر ۲۰۰۴ء کے وسط تک‘ عالمِ اسلام سے متعلق امریکی پالیسیاں کسی ایسی مرکزی قیادت کے بغیر چل رہی تھیں جسے امریکا کی اس نظریاتی اور فکری جنگ کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہو‘‘۔ ۲۰۰۰ء میں امریکی وزارت دفاع کے نائب سربراہ پول ولفووٹیز نے ایک بیان میں کہا تھاکہ ’’ہماری جنگ نظریات اور اذہان کی جنگ ہے‘‘۔ ایک سال کے بعد کونڈولیزارائس نے بیان دیا کہ ’’ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے افکار ونظریات کی جنگ جیتنا ہوگی‘‘۔

امریکی ذمہ داران پوچھ رہے ہیں کہ ’’دنیا امریکا سے نفرت کیوں کرتی ہے؟‘‘ خود صدر بش بھی یہ ’’معصومانہ‘‘سوال دہرا چکے ہیں۔ لیکن پھر اس سوال کے جواب تک پہنچے بغیر یا اسے نظرانداز کرتے ہوئے مسلم دنیا میں امریکا سے نفرت ختم کرنے کے لیے تقریباً ایک ارب ۳ کروڑ ڈالر خرچ کر دیے گئے۔ اس غرض سے عربی اور دیگر کئی زبانوں میں ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن کھولے گئے‘ فلمیں بنائی گئیں‘ مشہور فلمی ستاروں کو انسانی امداد کے مختلف پروگراموں کا نمایندہ بناکر مسلم دنیا کے دورے کروائے گئے۔ رسالے‘ کتابیں اور رپورٹیں شائع کی گئیں۔ عراق میں صدام کی آمریت کے خاتمے اور افغانستان و عراق کے تاریخی ’’انتخابات‘‘کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ امریکی سفرا نے مسلم اسکولوں کے دورے کیے۔ بچوں میں کتابیں اور چاکلیٹ تقسیم کیے‘ اسکولوں کی دیواروں پر رنگ و روغن کرنے کی سماجی تقریبات منعقد کرکے تصویریں بنوائی گئیں۔ انڈونیشیا‘ پاکستان اور کئی مسلم ملکوں میں امریکی امداد سے مساجد میں سفیدیاں کی گئیں‘ درباروں پر حاضریاں دی گئیں۔ غرض یہ سب کچھ کیا گیا لیکن جائزوں نے یہی بتایا کہ دنیا میں امریکا سے نفرت کم نہیں‘ زیادہ ہی ہورہی ہے۔

امریکی دانش وروں کا کہنا ہے کہ: سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ نسبتاً آسان تھی کیونکہ وہ ایک بے خدا سیاسی نظریے کے خلاف تھی‘ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت مشکل ہے کیونکہ اس کا تعلق دین سے ہے۔ ایک تھنک ٹینک ’نکسن سنٹر‘ کی دانش ور زینو پاران لکھتی ہے: ’’امریکیوں کے لیے مخصمہ یہ ہے کہ اب ہمیں دین اسلام جیسے مذہب سے نظریاتی چیلنج درپیش ہے جو جدوجہد کا دین ہے۔ اس کے گرد سیاسی اہداف کا ہالہ ہے‘ قیادت ہے‘ افواج ہیں… یہ دین کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر امریکی پالیسی ساز کسی راحت کدے میں بیٹھ کر بحث کریں۔ یہ ایک فاشسٹ نظریہ ہے‘‘۔

’’فاشسٹ نظریے‘‘ کے مقابلے کے لیے امریکا نے مسلم دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی ایک جنگ شروع کی ہے۔ لیکن دوسری طرف....

گوانتاناموبے کے فوجی پنجروں میں بند سیکڑوں ’’دہشت گردوں‘‘ سے کیے جانے والے امریکی ’’حسنِ سلوک‘‘ کی تفصیلات سے دنیا بے خبر تھی۔ تین سال سے زائد عرصے تک آہنی پنجروں کے مہمان رکھنے کے بعد ان میں سے کچھ ’’دہشت گردوں‘‘ کورہائی ملنا شروع ہوئی تو امریکی  ’’خوش نما‘‘ چہرے کے کچھ مزید خدوخال دنیا کے سامنے آئے۔ قیدیوں پر تشدد اور انھیں عذاب دینے کے بارے میں تو شاید ہر شخص کے ذہن میں کوئی نہ کوئی خاکہ بنتا ہو… لیکن جو کچھ ان قیدیوں نے بیان کیا اور نیوزویک سمیت مختلف رسائل و اخبارات اور ٹی وی چینلوںنے ان کا کچھ حصہ شائع اور نشر کیا‘ وہ ان سب اندازوں اور خاکوں سے کہیں بڑھ کر گھنائونا تھا۔

چند ہفتے پیشتر رہا ہونے والے مراکش کے ایک نوجوان محمد مزوز نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمیں عذاب و اذیت دیتے تھے لیکن سب سے سخت روحانی عذاب دینے کے لیے وہ ہمارے سامنے نعوذ باللہ قرآن کریم پھینک کر اس پر پیشاب کر دیتے تھے۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے تھے۔ ہم نماز پڑھنے لگتے تو سامنے مختلف فحش جنسی حرکات میں لگ جاتے۔ ایک نوجوان سے دورانِ تفتیش‘ ایک خاتون امریکی فوجی نے اپنے مخصوص دنوں کی غلاظت اس کی داڑھی پر مل دی…‘‘ ایک نہیں دسیوں گواہیاں ہیں۔ گوانتاناموبے کا چپہ چپہ امریکی کیمروں کی زد میں رہتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے پاس تو پل پل کی رپورٹ ہوگی لیکن یہ خبریں آنے کے باوجود اب تک کوئی شفاف تحقیق نہیں کی گئی۔ کسی مجرم کے جرم کا تعین نہیں کیا گیا۔ اب تک یہ ضمانت نہیں دی گئی کہ اب کبھی وہاں اس طرح کی بہیمیت کا ارتکاب نہ ہوگا۔

تین سال بعد رہائی پانے والے ایک اور قیدی بدرالزمان بدر نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے جنگلوں میں کموڈ لگے ہوئے تھے۔ بعد میں ساری غلاظت ایک ڈرم میں جمع ہوجاتی‘ جس میں سے مشینیں کھینچ کر لے جاتیں۔ اسی غلاظت میں نعوذ باللہ قرآن بھی پھینک دیا جاتا۔ ہم احتجاج کرتے‘ بھوک ہڑتال کرتے‘ وہ قہقہے لگاتے…

انسانیت وا خلاق سے عاری ان خبروں کے آنے کے بعد سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل پر آرے چل رہے ہیں۔مسلسل مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ محترم قاضی حسین احمد کی اپیل پر ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء کا عالمی یومِ احتجاج بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ یہ احتجاج مسلسل جاری رہے گا‘ لیکن کیا امریکی دانش ور اور پالیسی ساز یہ سمجھنے میں کامیاب ہوں گے کہ دنیا میں امریکا سے نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ مسلمانوں کے دل و دماغ جیتنے کی اس جنگ میں امریکا کیوں شکست کھا رہا ہے؟

ضرورت ہے کہ امریکی معاشرے کے فہمیدہ عناصر آگے بڑھ کر اپنے حکمرانوں اور میڈیا کے گمراہ کردہ عوام کو یہ سمجھائیں کہ نفرت ختم کرنے اور عام مسلمانوں کی نظر میں پسندیدہ ہونے کے لیے امریکا کو صرف یہی کرنا ہے کہ وہ ایک طرف فلسطین‘ کشمیر‘ چیچنیا اور دوسرے مقاماتِ ظلم پر اپنا رسوخ حق و انصاف کے لیے استعمال کرے‘  افغانستان اور عراق کے عوام سے معافی مانگے اور فوجیں واپس نکال لے‘ مسلم ممالک میں حقیقی جمہوری قوتوں کو برسرِکار آنے دے‘ آمروں کی سرپرستی بند کردے‘ دوسری طرف اپنے ملک میں مسلمانوں سے باعزت سلوک کرے۔ یہ ’’عظیم‘‘ امریکا کے لیے کیوں ناممکن ہے؟ اس کی قیمت پوری انسانیت کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس نے اپنے غصے کو دفع کیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو دفع کر دیں گے‘ اور جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کردیں گے‘ اور جس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی‘ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیں گے۔ (طبرانی‘ ابویعلٰی)

اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ہر ایک کو‘ تین نہایت اہم باتوں کی طرف    دل کش انداز سے متوجہ کیا ہے:

الف: غصے میں ہوش و حواس مختل ہوجاتے ہیں‘ انسان کو اپنی زبان اور حرکات و سکنات پر قابو نہیں رہتا۔ اول فول بکنے لگتا ہے۔ ماتحتوں پر ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ شوہر ہے تو بیوی زد میں آجاتی ہے۔ باپ ہے تو اولاد اس کا تختۂ مشق بنتی ہے۔ غصے کو پی جانا اصل بہادری ہے۔ غصے کو رفع کرنے کی ترکیب بتائی گئی ہے کہ پانی پی لے‘ کھڑاہے تو بیٹھ جائے‘ بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ ایسا کرنے سے تعلقات کے دائرے میں جو نقصانات ہوسکتے تھے اس سے تو انسان بچتا ہی ہے‘ اصل کشش اللہ کے رسولؐ کا یہ وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو دفع کردیں گے۔ غصہ پی جانے والے کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔

ب: زبان کی بے احتیاطی جو گُل کھلا سکتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ جبڑوں کے درمیان والی چیز کی حفاظت پر‘ ایک دوسری حدیث میں جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی‘ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کریں گے۔ اپنے اعمال نامے سے آدمی خود ہی سب سے زیادہ واقف ہے۔ اگر ہر انسان کا کیا دھرا سب کے سامنے آجائے تو وہ منہ چھپاتا پھرے گا۔ اس لیے انسان‘ ستار العیوب سے درخواستیں کرتا ہے کہ اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے۔ یہاں اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی زبان کی حفاظت کرے‘ یعنی اُسے غیبت‘ بدگوئی اور فحش گوئی سے بچائے‘ گالم گلوچ‘ جھوٹ‘ بہتان اور افترا سے بچائے۔ اور اگر صاحبِ قلم ہے تو اپنے قلم کو ان منکرات سے بچائے۔

ج: تیسری بات کیا پیاری بات ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی‘ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیں گے‘ یعنی نقد اور کھرا سودا۔ لیکن معافی طلب کرنے کے لیے واقعی معافی مانگنا چاہیے۔ زبان پر معافی ہو اور اعضا و جوارح اور قلب و ذہن ٹھیک اسی وقت گناہوں میں مصروف ہوں تو پھر تو یہ معافی کی طلب نہ ہوئی۔ نیک نیتی سے معافی کی طلب بالآخر ترکِ معاصی کی طرف لے جائے گی۔ ان شاء اللہ!

o

حضرت معاویہ بن حیدہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین طرح کی آنکھیں دوزخ کی آگ کو نہیں دیکھیں گی: ایک وہ جس نے جہاد فی سبیل اللہ کے موقع پر رات کو پہرہ دیا‘ دوسری وہ جو اللہ تعالیٰ کی خشیت میں رو پڑی‘ تیسری وہ جو اللہ کے محارم (جن کا دیکھنا اللہ نے حرام کیا ہے) کو دیکھنے سے رُک گئی۔ (طبرانی)

ہماری زندگی کی سب سے زیادہ دلی آرزو یہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دوزخ کی آگ سے بچائے۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ کی مختصر دعا اس خواہش کا اظہار ہے جو ضرور بار بار کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی صالح اعمال بھی ہونے چاہییں تاکہ یہ آرزو پوری ہو۔ اس حدیث مبارکہ میں اللہ کے رسولؐ نے نگاہ کے حوالے سے تین باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر نگاہوں کے استعمال میں ان کا خیال رکھا گیا ہو تو دوزخ میں داخلے کی نوبت نہ آئے گی۔

اوّل :جہاد کے دوران راتوں کو پہرہ دیا جائے۔ جہاد کی تعریف کو وسیع سمجھا جائے جیسا کہ وہ ہے‘ تو اللہ کی راہ میں راتوں کو کام کرنے والے بھی اس تعریف میں آئیں گے۔

دوم: جس کی آنکھوں نے اللہ کی خشیت میں آنسو بہائے۔ نماز میں قرآن سنتے ہوئے‘ یا خود پڑھتے ہوئے‘ یا تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے‘ کتنے ہی مواقع پر اللہ کی خشیت انسان پر طاری ہوتی ہے۔ اس موقع پر آنسو نہ آئیں تو کوشش کرکے کچھ آنسو بہا لینا چاہیے۔

سوم: کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کن چیزوں کو دیکھنا اللہ نے حرام کیا ہے۔   اس کے مواقع ہمیشہ ہی رہے ہوں گے لیکن آج کل کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔ چلتے پھرتے‘ کام کرتے‘ دفتروں میں ‘ اداروں میں‘ اِدھر اُدھر نظر اٹھائیں‘ جرائدو رسائل پڑھیں‘ ٹی وی دیکھیں‘ مواقع ہی مواقع--- نظروں کو محارم سے بچانے اور دوزخ سے بچنے کے۔

o

حضرت رکب مصریؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خوش خبری ہے اس کے لیے جس نے اپنے علم پر عمل کیا‘ اپنے زائد از ضرورت مال کو خرچ کیا‘ اور بلاضرورت باتوں سے پرہیز کیا۔ (طبرانی)

اس حدیث میں بھی تین باتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ یہ تین کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے خوش خبری دی ہے۔ پہلا یہ ہے کہ اپنے علم پر عمل کریں۔ سچ یہ ہے کہ آج مسئلہ علم کی کمی کا نہیں‘ عمل کی کمی کا ہے۔ علمی دھماکے کے اس دور میں دینی معلومات بھی سب کے حصے میںزیادہ ہی آرہی ہیں۔ اس حوالے سے آزمایش بھی بڑھ گئی ہے۔ برائی اور اچھائی کا‘ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے‘ کس سے منع کیا گیا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ لیکن خوش خبری اس کے لیے ہے جو اپنے علم پر عمل کرے۔ دوسرا عمل جس پر خوش خبری دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے زائد از ضرورت مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ ضرورت کا تعین بڑا نازک مسئلہ ہے۔ ہر شخص اپنے معیار کے لحاظ سے اپنی ضروریات کا دائرہ متعین کرتا ہے‘ لیکن ہر شخص خود ہی جانتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ کتنا مال اس کے پاس ہے۔ عظمت تو اس میں ہے کہ ضرورت سے زائد سب مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے۔ محض زکوٰۃ ادا کرنے کو کافی نہ سمجھا جائے۔ آج کل اُمت مسلمہ جس نازک دَور سے گزر رہی ہے اور اللہ کے دین پر جو وقت آپڑا ہے‘ اُس کا تقاضا ہر مسلمان سے‘ خصوصاً ان افراد سے جو اِن باتوں کا شعور رکھتے ہیں یہ ہے کہ ایک اوسط معیار پر اپنی زندگی گزاریں‘ رہن سہن خوراک پوشاک میں واقعی سادگی اختیار کریں۔ پھر جو کچھ بچ جائے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں‘ تب ہی وہ اس خوش خبری کے مستحق ہوں گے۔

خوش خبری پانے والا تیسرا شخص وہ ہے جو خواہ مخواہ کی لغو باتوں میں وقت ضائع نہ کرے۔ آج کل اسی طرح کے سوال بہت بڑھ گئے ہیں۔ محض وقت گزاری اور خوش وقتی کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ تفریح منع نہیں‘ لیکن ہرلمحے کا جواب دینا ہے‘ تب ہی خوش خبری ہے۔

o

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک حدیث    بار بار بیان کرتے ہوئے سنا۔ اگر ایک بار یا دو بار بیان کرتے ہوئے سنا ہوتا تو میں اسے نہ بیان کرتا۔ لیکن میں نے ایک دو بار نہیں‘ بلکہ سات سے بھی زیادہ مرتبہ سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

بنی اسرائیل میں کِفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے پرہیز نہیںکرتا تھا۔ [ایک دفعہ] ایک خاتون اس کے پاس مدد کے لیے آئی‘ تو اس نے اسے ۶۰ دینار اس شرط پر دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا‘ توجب اس نے اس کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کیا تو وہ خاتون کانپ اٹھی اور روپڑی۔ کِفل نے پوچھا: تجھے کس چیز نے رُلا دیا۔ اس خاتون نے جواب میں کہا کہ یہ وہ برائی ہے جس کا ارتکاب میں نے کبھی نہیں کیا۔ اب مجھے میری محتاجی نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے تو میں اللہ کی خشیت سے کانپ اٹھی ہوں۔ (خاتون کی اس نیکی اور پاک دامنی نے اسے متاثر کیا) اس نے کہا: تو اللہ کے خوف سے کانپتی اور روتی ہے تو میں اس سے خشیت اور آہ و بکا کا زیادہ سزاوار ہوں۔ اچھا جو دینار تجھے دیے ہیں وہ تیرے ہوئے۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی بھی اس کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اس نے یہ عزم کیا اور پھر اسی رات وہ فوت ہوگیا۔ صبح کے وقت اس کے دروازے پر لکھا تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے کِفل کی مغفرت کر دی ہے‘‘۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا۔ (ترمذی)

اس حدیث کا ایک سبق تو یہ ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار انسان بھی‘ زندگی کے کسی مرحلے پر اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے۔ ہر انسان کی فطرت میں جو نیکی ہے وہ کسی واقعے کو دیکھ کر عود کر آتی ہے۔ اس لیے کسی کی اصلاح سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کتنی ہی مجبوری کا عالم کیوں نہ ہو‘ اللہ سے  بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کے خوف کا اظہار جسم کی کیفیت سے یا زبان سے ہو‘ وہ دوسرے دیکھنے والے پر غیرمعمولی اثر رکھتا ہے۔ یہ بات کہ راوی حضرت ابن عمرؓ نے یہ حدیث رسولؐ اللہ سے سات بار سنی اور یقینا اس سے زیادہ بار بیان کیا گیا ہوگا‘ ایک طرف اس حدیث سے ملنے والے سبق کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور دوسری طرف دعوت و تربیت کے لیے ‘ایک ہی بات بار بار کہنے کی حکمت اور ضرورت کو سامنے لاتی ہے۔

طب و صحت کی اپنی ایک دنیا ہے۔ امراض کی تشخیص‘ ان کا علاج‘ مختلف ذہنی و جسمانی معذوروں سے تعامل اور ان کی بحالی‘ اور پھر اس سارے عمل کے دوران حاصل ہونے والی معلومات اور تجربے اور پھر ان کی روشنی میں بیماری سے بچائو کی تدبیریں___ ہر ہرچیز اپنی جگہ ایک موضوع ہے۔ اس شعبے کا براہ راست تعلق انسانی زندگی سے ہے۔ اس کا ایک ذیلی شعبہ‘ جس کی اہمیت ہر معاشرے بالخصوص مسلم معاشرے میں بہت زیادہ ہے‘ وہ طبی اخلاقیات اور قانونِ طبی ہے۔

جیسے ہی کوئی بیمار ہو یا اسے کسی اور وجہ سے کسی طبی ادارے سے سابقہ پیش آجائے‘ اخلاقیات سے متعلق معاملات و مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہت سی شکلیں ہیں۔ ہرشخص کو طب اور طبیب سے کچھ نہ کچھ واسطہ بھی رہتا ہے‘ مگر اس شعبے کا اخلاقی‘ قانونی یا فقہی رخ عموماً نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہی ہے کہ گریجویشن کی سطح تک جو بنیادی طبی تعلیم دی جاتی ہے وہ سیکولر ہوتی ہے۔ پھر اس پر مستزاد غیرملکی زبان ہے‘ جو طلبہ کے قلب و روح میں راسخ مذہب‘ معاشرے اور ثقافت کے اثرات کو مسخ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی دنیا کی اُن چند قوموں میں سے ایک ہیں جن کے لیے اپنی زبان میں تعلیم ایک عار ہے۔

اخلاقی و قانونی اھمیت

دین اسلام میں علاج معالجے اور اس کے اخلاقی و قانونی پہلو کی اہمیت‘ قرآن مجید کی ذیل کی آیات‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث اور کچھ فقہی آرا سے واضح ہوتی ہے:

  • وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔

قرآن مجید کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ:

  • یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَـآئٌ لِّمَا فِی   الصُّدُوْرِ لا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (یونس ۱۰:۵۷) اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری سے شفا کو رب العزت کی نعمت قرار دیا کہ:

  • وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْن (الشعرا ۲۶:۸۰) اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ‘ امراض سے شفا بھی تھا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امراض و تکالیف سے لڑنے اور علاج و اسباب کو اختیار کرنے پر زور دیا‘ تاکہ مسلمان جسمانی‘ قلبی اور روحانی طور پر صحت مند رہیں۔ اس سلسلے میں آپؐ کی چند احادیث حسب ذیل ہیں:

  • حضرت جابرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ:

ہر مرض کی دوا موجود ہے ‘ جب مرض کا علاج ہوجائے تو اللہ کے اذن سے وہ مرض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ (مسلم)

اس حدیث میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ امراض کے لیے دوا موجود ہے۔ اسے استعمال کرو‘ مگر یقین یہی رکھو کہ شفا تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔

فقہا میں سے امام شافعی‘ طب کے بارے میں حسّاس معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چند فرمودات حسب ذیل ہیں:

  • علم دو قسم کا ہے (اِنَّمَا الْعِلْمُ عِلْمَانِ ، عِلْمُ الْاَدْیَانِ وَعِلْمُ الْاَبْدَانِ) علمِ دین اور علمِ دنیا۔

علم کی جو شاخ‘ دین سے متعلق ہے وہ تو فقہ ہے ‘اور جسموں کا علم طب ہے۔

  • فرائض و واجبات اور حلال و حرام سے واقفیت کے بعد طب سے بہتر کوئی علم نہیں‘ مگر اہل کتاب اس ضمن میں ہم سے سبقت لے چکے ہیں۔ ایک تہائی علم ہم سے چِھن چکا ہے اور وہ یہود و نصاریٰ کے حوالے ہوگیا ہے۔ (آداب الشافعیؒ ومناقبہ للرازیؒ)

اس بارے میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ امراض سے واقفیت اور ان کے علاج میں مہارت حاصل کرنا‘ مسلمانوں کے تمام معاشروں کے لیے ضروری ہے۔ البتہ علما نے اسے  فرضِ کفایہ قرار دیا ہے کہ اگر بقدرِ ضرورت چند افراد اس فن میں ماہر موجود ہوں تو بقیہ معاشرے پر سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ علاج معالجہ توزیادہ بڑی بات ہے‘ اسلام میں فقط مریض سے ملاقات کرنے کا بھی بڑا اجر ہے۔ فرمان رسولؐ ہے: صبح کے وقت ایک مسلمان سے صرف ملاقات و عیادت کرنا‘ شام تک کے لیے ہزاروں فرشتوں کی دعا کا مستحق بنا دیتا ہے‘ اور اسی طرح شام کے وقت کسی کو جا کے ملنا صبح تک کے لیے یہی انعام دلواتا ہے اور پھر اسی پر بس نہیں‘ بلکہ جنت میں مزید انعام کا وعدہ بھی ساتھ ہی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا ہے کہ:

اِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔(احمد)

ظاہر ہے عمومی اخلاق ہی شخصیت کی تکمیل میں اہم عنصر ہوتے ہیں۔ لیکن اطبّا میں یہ اضافی خوبیاں بھی مطلوب ہیں:

  • مریض سے نرمی و شفقت
  •   ان کے رازوں کی حفاظت
  •   بدنظری سے پرہیز 
  • انھیں منشیات نہ دینا
  • جنسی عدم توازن سے پرہیز
  • تکبر اور بڑے پن سے اجتناب۔

امام رازیؒ کہتے ہیں کہ طبیب کو لوگوں کا رفیق ہونا چاہیے اور رازوں کا چھپانے والا بھی اگرچہ کہ انھی کی خدمت کی ہو۔ کیوں کہ طبیب کو لوگوں کے ان رازوں سے واقفیت ہوتی ہے جنھیں وہ اپنے قریب ترین اعزا سے بھی چھپاتے ہیں۔ امام صاحب مزید فرماتے ہیں کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی مریض کو شدید مرض سے شفا ہوجاتی ہے تو بعض اطبا میں تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور ان کی بات چیت کا انداز کرخت ہوجاتا ہے۔ جب حقیقتاً ایسا ہی ہو تو جان لو کہ وہ شخص بنیادی انسانی اخلاق سے محروم ہے۔ اس فن کے لوگوں کے لیے خوش اخلاقی ہی لازمی اور بنیادی خوبی ہے۔ مزید یہ کہ طبیب کو محنت سے تشخیص اور علاج کرنے کے باوجود شفا کے لیے بھروسا‘ اپنی مہارت پر نہیں بلکہ صرف اللہ کی ذات پر کرنا چاہیے۔ (البرازیؒ، اخلاق الطیب)

غیر محرموں پر ’’نظر‘‘ اور ’’مَس‘‘ کا معاملہ بھی اسلام کے نزدیک اہم ہے۔ بنیادی حکم اس معاملے میں یہی ہے کہ:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ (النور ۲۴:۳۰)

اور مومنین سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچائے رکھیں۔

یہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اسی لیے علما نے علاج کے سلسلے میں بھی ترتیب یہی بتائی ہے کہ مسلمان خاتون کا علاج مسلمان طبیبہ کرے۔ اگر وہ میسر نہ ہو تو طبیبہ کتابیہ ورنہ پھر طبیبہ کافرہ۔ اگر کوئی خاتون طبیبہ موجود ہی نہ ہو تو پھر مسلمان طبیب اور اس کی عدم موجودگی میں کافر طبیب۔ مسلمان طبیب کے لیے اس سلسلے میں آداب یہ بتائے گئے ہیں کہ وہ فقط حسبِ ضرورت ہی معائنہ کرے اور وہ بھی عورت کے محرم کی موجودگی میں‘ اور مس کرنا ضروری نہ ہو تو مَس نہ کیا جائے‘ اور جب ضروری ہو تو دستانے وغیرہ پہن کر ہی ہو۔

طب کے اخلاقی پہلو کے ساتھ ساتھ‘ اس کا قانونی و فقہی پہلو بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک طبیب کو علاج معالجے کے ساتھ ساتھ عبادات اور دینی امور کے علاوہ‘ روز مرہ معاملات میں بھی اہم فقہی و قانونی مشورے دینا ہوتے ہیں اور یہ پہلو عام طور پر معالج سے اوجھل رہتا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل دی جارہی ہے تاکہ اطبا حضرات اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران اسے ملحوظ رکھیں۔

مسلمان طبیب کے لیے لازمی صفات

۱- اللہ کا تقویٰ ۲- اخلاص ۳- فقہی امور سے واقفیت ۴- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام ۵- امانت ۶- حسنِ اخلاق۔

ہر مسلمان طبیب کو یاد رکھنا چاہیے کہ کام تو صرف اللہ کی مرضی سے پورا ہوگا۔ شفا صرف اللہ ہی کے ہاتھ ہے‘ نہ طبیب کی حذاقت میں نہ دوا کے کمال میں۔ یہی تقویٰ اسے غیرضروری اور غیراخلاقی حرکات سے روک سکتا ہے اور یہی تقویٰ اور خدا خوفی‘ اسے دواساز اداروں کے اشتہارات کا حصہ بننے سے بچا سکتی اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے سے باز رکھ سکتی ہے۔

طبیب جس قدر اپنے علم و فن اور اپنے مریض سے مخلص ہوگا اتنا ہی اس کی کامیابی کا امکان اور آخرت میں اس کے لیے اجر کا موقع ہے۔ فقہ سے واقفیت اس شعبے کی خصوصی ضرورت اور اطبا سے مطلوب اہم صفت ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں حکم دیا تھا کہ لَابَیْعٌ فِیْ سُوْقِ الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ لاَ یَفْقَہُ اَحْکَامَ الْبَیُوْعِ، مسلمانوں کے بازاروں میں وہ لوگ کاروبار نہ کریں جنھیں خرید و فروخت کے احکام معلوم نہ ہوں۔ اس قول سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلم معاشرے میں ایسے طبیب نہیں ہونا چاہییں جنھیں متعلقہ اصول و قواعد معلوم نہ ہوں۔

شریعت کے احکام عموماً واجب‘ مستحب‘ مکروہ‘ حرام اور مباح کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ پھرحالتِ اضطرار کے احکام الگ تفصیل رکھتے ہیں۔ دوائوں اور علاج کے سلسلے میں بسااوقات ایسی صورت بھی درپیش ہوتی ہے کہ فوری فیصلہ درکار ہوتا ہے۔ یہاں وہ معاملات بھی سامنے آتے ہیں جنھیں براہِ راست قانونِ طبی (medical  jurisprudence) سے واسطہ ہوتا ہے یعنی کس معاملے میں طبی بنیاد پر‘ کس قدر سہولت و رعایت یا سزا و جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ حالتِ مرض کا اکثر اوقات عبادات سے تعلق ہوتا ہے‘ اور اسی وجہ سے طبی مسائل دو قسم کے ہوسکتے ہیں: ۱- عبادات اور دینی امور سے متعلق ۲- معاملات سے متعلق۔

عبادات و امور دینی میں طبی رائے

دورانِ حمل (fetal stage) سے موت تک مسلسل‘ ہر انسان کا طب کے شعبے سے واسطہ رہتا ہے۔ اس لیے زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جہاں طبیب کی رائے ضروری ہوجاتی ہے‘ مثلاً مختلف عبادات و ذمہ داریوں کی ادایگی میں سہولت اور تخفیف کے لیے۔ معاملہ چونکہ عبادات سے متعلق ہے اس لیے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ شرائط ذکر کر دی جائیں جن کا طبیب میں پایا جانا ضروری ہے۔ جس کے بعد ہی اس کی رائے قبول کی جا سکتی ہے۔

امام نوویؒ تیمم کی رخصت دینے کے لیے طبیب میں ان صفات کی موجودگی لازمی قرار دیتے ہیں: طبیب مسلم‘ ماہر‘ نیک و صالح ہو۔ اگر اس میں یہ صفات موجود نہ ہوں تو اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہوا کہ عبادات کے معاملے میں طبیب کی رائے اسی وقت قبول کی جائے گی‘ جب کہ وہ مسلم ہو اور مزید یہ کہ عادل ہونے کی شرط‘ جب اسلام کے ساتھ ملا کر دیکھی جائے تو خود بخود یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسے فقہ اسلامی سے ضروری واقفیت بھی ہونی چاہیے اور اس کا خود اُس پر عمل پیرا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوگا‘ ورنہ جسے اعمال کی بنیاد پر جزا و سزا کا یقین و ایمان حاصل ہو‘ پھر وہ عاقل و دُوراندیش بھی ہو تو پھر اُس کے لیے بے عمل ہونا محال ہی ہوتا ہے۔

  • رائے بسلسلہ طھارت و تیمم: غسل اور وضو اگر واجب ہو تو حالتِ اضطرار میں تیمم ان کا قائم مقام بن سکتا ہے بشرطیکہ پانی استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہو‘ زخم مندمل ہونے کی رفتار سست ہوجانے کا ڈر ہو۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور شوافع میں سے شمس الدین رملیؒ کی بھی ہے‘ اس اضافے کے ساتھ کہ اپنے ذاتی تجربے پر بھروسا نہ کیا جائے (نہایۃ المحتاج)۔مگرابن حجر عسقلانیؒ کی رائے ہے کہ مریض اپنے گذشتہ تجربے کی روشنی میں بھی‘ پانی کا استعمال کرنے کے بجاے تیمم کر سکتا ہے بالخصوص جب کہ طبیب موجود نہ ہو۔
  • جبیرہ پر مسح: جبیرہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو ہڈی وغیرہ کے ٹوٹ جانے پر زخمی حصے کو باندھ کر رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

حضرت علیؓ سے روایت ہے: میرے بازو (کلائی سے اوپر) کی ہڈی ٹوٹ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’جبیرہ‘‘ پر مسیح کرلو۔ (ابن ماجہ)

احناف میں سے ابن ہمامؒ کہتے ہیں کہ اگر زخم پر مسح کرنے سے نقصان ہوتا ہو تو ’’جبیرہ‘‘ پر مسح جائز ہے‘ اور اگر مضر نہ ہو تو ناجائز۔ (شرح فتح القدیر)

  • دورانِ نماز ترکِ قیام:فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مریض کھڑا ہونے سے عاجز ہو‘ یا کھڑا ہونے سے شدید مشقت ہو یا زخم مندمل ہونے میں تاخیر ہوسکتی ہو تو نماز میں کھڑا ہونا ضروری نہیں‘ لیٹ کر یا بیٹھ کر‘ حسبِ ضرورت نماز پڑھی جا سکتی ہے‘ اور اس صورت میں ان شاء اللہ ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: اگر بندہ مریض یا مسافر ہو جائے تو اس کے لیے وہی کچھ لکھا جاتا ہے‘ جو صحت مند اور مقیم ہونے کی صورت میں لکھاجاتا ہے۔

یہاں وہ مسائل بھی سامنے آتے ہیں کہ بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی صورت میں سجدہ کیسے کرے اور لیٹ کر نماز پڑھنے کی صورت میں قبلہ رخ ہونے کی کیفیت کیا ہو؟ ان جیسے معاملات کا علم ایک مسلمان طبیب کو لازماً ہونا چاہیے۔

  • نماز جمعہ: فقہا اس بارے میں بھی متفق ہیں کہ مریض پر جمعے کی نماز میں شرکت ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر مسجد جانا اس کے لیے ناقابل برداشت ہو‘ یا شدید کمزوری یا بڑھاپا ہو‘ یا مسجد تک جانا زخموں کے اندمال میں رکاوٹ ہو۔ اصلاً یہاں بھی طبیب کی رائے کی تقریباً ویسی ہی اہمیت اور گنجایش ہے جیسی غسل /وضو کے بجاے تیمم کے معاملے میں تھی۔
  • رمضان کے روزے: قرآن مجید میں فرمانِ الٰہی ہے: وَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط (البقرہ ۲:۱۸۴) ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو‘ تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے‘‘۔ فقہا میں اس بارے میں اختلاف نہیں ہے کہ مرض روزے میں تخفیف کا سبب ہے۔ اس معاملے میں ضابطہ یہ ہے کہ مرض ایسا ہو جس میں روزہ رکھنے سے شدید ضرر کا اندیشہ ہو‘ یا زخم بھرنے میں دیر ہوجانے کا ڈر ہو‘ یا کسی عضو میں تکلیف کا خطرہ ہو۔ لیکن اگر ایسے امراض ہوں جن پر روزے رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مثلاً جوڑوں کا درد‘ انگلیوں میں تکلیف یا پھوڑا پھنسی وغیرہ تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑنا مباح نہیں ہے اور مشتبہ معاملوں میں سابقہ تجربے یا ماہر مسلم طبیب کی رائے پر اعتماد کرنا ہوگا۔ (ابن عابدین‘ ردالمختار‘ امام نووی‘ المجموع بشرح المہذب‘ ابن قدامہ‘ المغنی)
  • خواتین کے لیے روزوں میں رعایت:حاملہ خاتون اور شیرخوار بچوں کی ماں‘ یہ دونوں صورتیں روزہ چھوڑ دینے کے لیے کافی عذر ہیں۔ بشرطیکہ روزہ رکھنے سے ماں یا بچے کے لیے کسی نقصان کا اندیشہ ہو۔ یہ خوف فقط خیال یا وہم پر مبنی نہ ہو‘ بلکہ ظنِ غالب ہو یا پچھلے تجربے کی بنیاد پر ایسا کیا جائے‘ یا ماہر مسلمان طبیب کی رائے ہو۔ (ابن عابدین‘ رد المختار‘ الزحیلی‘ وھبۃ الزحیلی)

یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ جدید طبی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ مجرد حمل یا دودھ پلانے کا عمل‘ دونوں کسی عام خاتون میں روزہ رکھنے سے متاثر نہیں ہوتے۔

یہ وہ چند اہم روز مرہ معاملات ہیں جن میں طبی رائے اثرانداز ہوتی ہے‘ اور جب تک رائے دینے والے کو خود ان کی اہمیت کا صحیح شعور نہیں ہوگا ظاہر ہے وہ ان سب باتوں سے لاپروائی برتے گا۔ اسی لیے مسلمان طبیب کے لیے‘ کم از کم فقہ کے متعلقہ امور سے واقفیت پر بار بار زور دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے عبادات اور امور دینی میں غیرمسلم طبیب کی رائے پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ (امام نوویؒ، المجموع)

روزمرہ معاملات سے متعلق طبی رائے

  • مرض الموت: فقہا کے نزدیک اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیوں کہ ایسی حالت میں بہت سے شرعی معاملات پیشِ نظر ہوتے ہیں‘ جن کا طبیب سے براہ راست واسطہ نہیں بھی ہوتا‘ اس لیے مرضِ الموت کو پہچاننے پر اچھا خاصا زور دیا گیا ہے۔

اس بارے میں احناف اور شوافع کہتے ہیں کہ موت کے واقع ہونے کا گمان غالب ہوجائے۔ حنابلہ: وہ مرض جو موت سے متصل ہو اور جس سے موت کا واقع ہونا یقینی ہو۔ مالکیہ: وہ مرض جس کے بارے میں اہلِ طب کی رائے ہو کہ اس سے موت واقع ہوسکتی ہے اگرچہ غالب گمان یہ نہ ہو۔

یہاں مالکیہ کی تعبیر خصوصی دل چسپی کی حامل ہے کہ اس حالت میں طبیب کی رائے ہی اہم ہے‘ نہ کہ لوگوں کا غالب گمان۔

  • عقدِ زواج کے بعد خلوتِ فاسدہ: اگر یہ بات ثابت کر دی جائے کہ خلوت فاسد تھی تو اس کے بہت سے دُور رس اثرات و نتائج ہوتے ہیں‘ مثلاً مہر‘ عدت وغیرہ کے معاملات۔ اس معاملے میں بھی طبیب کی رائے ضروری ہوجاتی ہے۔
  • زوجین میں موجب تفریق امراض: جمہور فقہا کے نزدیک زوجین میں سے ہر دو کویہ حق حاصل ہے کہ وہ مندرجہ بالا صورت حال میں تفریق یا علیحدگی طلب کریں۔ اس معاملے میں بھی جج جس رائے پر تفریق کا حکم دے گا وہ طبیب کی رائے ہی ہوگی۔ جدید دور میں بالخصوص متعدی امراض جن کا ابھی تک قابلِ بھروسہ علاج موجود نہیں مثلاً ایڈز‘ اس پہلو سے قابلِ غور ہوسکتے ہیں۔
  • اسقاط حمل: فرمانِ خداوندی ہے:

وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ (الفرقان ۲۵:۶۸)

اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے۔

فقہا کا اتفاق ہے کہ قرارِ حمل کے چار ماہ بعد بلاعذر اسقاط حرام ہے‘ یہ موجب غرہ یعنی پانچ فی صد دیت کا سبب ہے۔ البتہ اس مدت سے پہلے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اجازت دیتے ہیں‘ بعض کے نزدیک مکروہ اور بعض اسے حرام کہتے ہیں۔ اس معاملے میں امام غزالیؒ کا اصول قابلِ ترجیح ہے کہ اسقاط پہلے دن سے حرام ہے‘ جس طرح زندہ بچی کا دفن کرنا‘ جب کہ ماں کی زندگی کو یقینی خطرہ ہو اور بچے میں زندگی کے آثار ہوں‘ تب بھی اسقاط ہوسکتا ہے۔ (الکمال بن الھمام شرح فتح القدیر۔ ابومحمد‘ ابن حزمؒ، ابوحامد الغزالیؒ، احیاء العلوم)

  • میت سے زندہ بچے یا قیمتی اشیا کا نکالنا: ابن عابدین ؒاپنے حاشیے میں لکھتے ہیں کہ اگر خاتون کا انتقال ہوجائے اور بچہ زندہ متحرک ہو تو اسے نکالنا چاہیے۔ (ردالمختار)

امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ اگر حاملہ خاتون کا انتقال ہو جائے اور بچہ زندہ ہو تو میت کے پیٹ کو شق کرنا چاہیے‘ کیونکہ اس سے ایک زندگی کی بقا منسلک ہے (المجموع)۔ لیکن شرط یہ ہے کہ بچہ چھے مہینے یا زیادہ مدت کا ہو۔ یہاں یہ بھی رائے موجود ہے کہ اگر میت نے ہیرا نگل لیا ہو اور اس کا مالک طلب کرے تو بھی پیٹ سے ہیرا نکال کر اس کے مالک کو لوٹایا جائے گا۔

ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ اگر غالب گمان یہ ہو کہ پیٹ میں بچہ زندہ ہے تو مردہ ماں کے پیٹ کو شق کیا جائے گا کہ اس میں میت کے ایک جز کے اتلاف کے باوجود ایک زندگی کی بقا ہے۔ اسی طرح مال بھی پیٹ شق کر کے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ زندوں کے حقوق کو اولیت حاصل ہے (المغنی)۔

ابن حزمؒ الظاہری کہتے ہیں کہ حاملہ ماں کا انتقال ہوگیا ہو‘ جب کہ بچہ چھے ماہ سے زیادہ مدت کا زندہ اور متحرک ہو تو پیٹ شق کر کے بچہ نکال لیا جائے گا جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط (المائدہ ۵:۳۲) ’’اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔(المحلی)

ان میں اصولوں کی بنیاد پر بعض جدید ماہرین‘ تعلیمی اور قانونی ضرورتوں‘ مثلاً اسبابِ موت کے تعین کے لیے میت کی چیرپھاڑ(dissection of dead bodies) کی اجازت کے قائل ہیں۔ یہ موضوع خود بڑی طویل بحث کی گنجایش رکھتا ہے۔ بالخصوص‘ جب کہ مکمل اعضا والے مصنوعی انسانی جسم کم از کم تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہ آسانی دستیاب بھی ہیں۔

  • نجس اور حرام چیزوں سے علاج: اس بارے میں فقہا کسی ایک رائے پر متفق نہیں ہیں۔ اسی لیے یہاں طبیب کے کردار اور فقہی معاملات سے‘ اُس کی واقفیت کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں فقہا کی مجموعی رائے تین قسم کی ہے۔
  • عدم جواز:  جمہور فقہا کی رائے میں‘ شراب اور دوسری ناپاک اور حرام چیزوں سے علاج مطلقاً ممنوع ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ طارق بن سوید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شراب کے بارے میں پوچھا جو دوا کے طور پر بنائی جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: شراب دوا یا علاج نہیں بلکہ مرض ہے (مسلم)۔ اللہ نے جو تم پر حرام کر دیا‘ اس میں تمھارے لیے شفا نہیں ہے۔ (الشوکانی، نیل الاوطار)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے (ہی) امراض اور دوا اتارے ہیں اور ہر مرض کی دوا ہے ‘ لہٰذا علاج کرو مگر حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔ (ابوداؤد)

  • جواز: شافعیہ کے ہاں ناپاک چیزوں سے علاج کی اجازت دی گئی ہے سوائے منشیات کے‘ بشرطیکہ ان نجس اشیا کو ان کی خالص شکل میں استعمال نہ کیا جائے بلکہ دوسری اشیا کے ساتھ ملا کر استعمال کیا گیا ہو۔ دلیل اس کی فرمانِ الٰہی ہے: اِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ (الانعام ۶:۱۱۹) ’’اور اضطرار میں کوئی چیز حرام نہیں رہتی‘‘۔ مزید یہ کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام چیزوں سے علاج کو مباح کر دیا تھا۔ (بخاری)
  • حرام اشیا سے علاج کا جواز‘ بشرطیکہ شفا یقینی ھـو: اس صورت میں‘ جب کہ اس چیز کے بجاے پاک و طاہر دوا موجود نہ ہو اور دوسری بات یہ کہ مسلمان طبیب کی    پیشہ وارانہ رائے بھی یہی ہو۔

احناف‘ مالکیہ اور شوافع میں سے بعض فقہا کا میلان اسی طرف ہے۔ جیسا کہ عبادات و امور دینی کے متعلق رائے قبول کرنے کے لیے‘ طبیب میں کچھ بنیادی خصوصیات ضروری قرار دی گئی تھیں اسی طرح معاملات ذیل میں کچھ خصوصیات کا طبیب میں ہونا ضروری ہے۔

جہاں جہاں امور دینی شامل ہو جائیں بالخصوص عبادات‘ تو وہاں غیر مسلم طبیب کی رائے قبول کرنا ناجائز ہے۔ (امام نوویؒ)

ائمہ احناف ہر ایسے مسلمان طبیب کی رائے کو قبول کرتے ہیں جو ظاہراً غیرفاسق ہو۔ (ابن عابدین‘ رد المحتار‘ علی الدر المختار)

مالکیہ ایسے غیر مسلم طبیب کی رائے پر بھی اعتماد کے قائل ہیں جو امور دین سے واقف ہو۔ اگرچہ کہ واحد خاتون طبیب ہی کیوں نہ ہو‘ کیونکہ یہاں معاملہ واقعے کا ہے نہ کہ گواہی کا (النووی، المجموع‘ ابن قدامہ‘ المغنی)۔ جہاں تک معاملہ امور دینی سے غیرمتعلقہ معاملات کا ہو تو وہاں جمہور فقہا غیرمسلم طبیب سے مدد و علاج کو جائز قرار دیتے ہیں۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں: میں جب بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی‘ اپنا دستِ مبارک میرے سینے کی درمیانی ہڈی پر رکھا‘ یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی اور فرمایا: تمھیں سینے / دل کا مرض ہے۔ حارث بن کلدہ سے رجوع کرو کیونکہ وہ علاج معالجہ کرنے والا آدمی ہے (جب کہ حارث بن کلدہ کافر تھے)۔ (ابوداؤد)

ابن القیمؒکہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرہجرت میں‘ راستہ بتانے کے لیے  ایک غیرمسلم عبداللہ بن اریقط کی خدمات مستعار لی تھیں۔ یہ ایک ثبوت ہے کہ کافر سے بھی طب‘ دوائوں‘ حساب کتاب وغیرہ کے سلسلے میں رجوع کیا جا سکتا ہے۔

یہ لازمی نہیں ہے کہ اعتقاداً جو شخص کافر ہو اس کی کسی بھی بات کا بھروسا ہی نہیں ہوسکتا‘ اگر ایسا ہوتا تو سفرِہجرت میں راستہ بتانے کے کام سے زیادہ حساس اور کیا معاملہ ہوسکتا ہے۔

امام احمدؒ کہتے ہیں کہ غیرمسلم اسپیشلسٹ طبیب سے علاج کروانا ٹھیک ہے کیونکہ طبی معاملات میں اس کی واقفیت اور تجربہ قابلِ اعتماد ہے اور یہ جائز ہے۔

انھی اصول و قواعد کی بنیاد پر نئے مسائل و معاملات کے لیے حسبِ ضرورت قانون سازی جاری رہتی ہے‘ مثلاً: ملازمتوں کے دوران ملازمین کے ہونے والے نقصانات کااندازہ اور طبی بنیادوں پر ان معاوضوں کی ادایگی کا مشورہ‘ مختلف حوادث میں ہونے والے نقصان کا اندازہ اور پھر دیت کی ادایگی‘ دورانِ کام ہونے والے صحت کے نقصانات‘ مثلاً کارخانوں کے شور‘ یا رنگروٹوں کی تربیت کے دوران مسلسل فائرنگ کے شور سے ضعفِ سماعت‘ کیمیائی کارخانوں وغیرہ میں کام سے سینے کے امراض‘ یا لیبارٹریوں کے ملازمین کا ایڈز اور اس جیسے امراض کے علاج معالجے کے نتیجے میں‘ ان امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے کا ازالہ اور واقعتا امراض میں مبتلا ہوجانے کی صورت میں معاوضے کا اندازہ‘ یہ سب صورتیں طبی قانون کے نظام (medical  jurisprudence) کا ہی حصہ ہیں۔

طبیب کی جواب دھی

دوسرے تمام لوگوں کی طرح‘ اطبا بھی اپنے کام اور ذمہ داری کے سلسلے میں جواب دہ ہیں۔ یہ ذمہ داری دو قسم کی ہوتی ہے:  ۱- معاہداتی  ۲- قانونی یا فوجداری

  • معاھداتی جواب دھی: فقہا نے اس بارے میں اس قسم کے معاہدے کو تو جائز ہی کہا ہے کہ علاج کے لیے طبیب سے معاہدہ ہو‘ مگر اس میں ایک مدت معینہ میں مرض سے شفا کی شرط بھی شامل ہو‘ اس بارے میں اتفاق نہیں۔ حنابلہ میں سے قاضی ابویعلٰی اس کے قائل نہیں ہیں کیونکہ بیماری سے شفا کا وقت نامعلوم ہوتا ہے‘ البتہ جمہور فقہا اس کے قائل ہیں کیونکہ حضرت ابوسعید خدریؓ نے ایک قبیلے کے سردار کے علاج کا معاوضہ لینا اس شرط کے ساتھ ہی منظور کیا تھا کہ شفا ہوگی تب‘ اور یہ بات رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں بھی لائی گئی تھی اور آپؐ نے اسے غلط نہیں کہا تھا۔
  • قانونی یا فوجداری جواب دھی: اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر مندرجہ ذیل شرائط پوری ہو رہی ہوں تو چاہے نتیجہ نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو‘ طبیب پر اس کی کوئی جواب دہی نہیں ہے:

۱- طبیب تعلیمی ادارے سے باقاعدہ تربیت یافتہ اور اپنے فن سے واقف و ماہر ہو۔

۲- اس کی نیت مریض کو شفا پہنچانا ہو‘ نقصان پہنچانے کی نہ ہو۔

۳- اپنے پیشے کے اصول کار کے مطابق کام کرے۔

۴- مریض یا اس کے ولی کی اجازت حاصل ہو۔ (ابن عابدین رد المختار۲ الدرزیر‘ شرح الکبیر مع حاشیہ الدسوقی‘ ابن قدامہ‘ المغنی)

اگریہ شرائط پوری ہو گئی ہوں‘ ضروری طریقے اور اسباب بھی اختیار کر لیے گئے ہوں‘ کام پیشہ ورانہ اصول و قواعد کے مطابق اور پوری ذمہ داری سے کیا گیا ہو تو پھر اگر نتائج بالکل مختلف ہی کیوں نہ نکلیں‘ طبیب پر نہ کوئی گناہ ہے نہ کوئی سزا۔

اجازت کا معاملہ دو مختلف پہلو رکھتا ہے۔ سب سے پہلے یہ اجازت متعلقہ ادارے اور محکمے سے لینی چاہیے جو اس جدید دور میں ’’اولی الامر‘‘ کی اجازت کے قائم مقام ہے‘ اور دوسری جانب ہرمریض یا اس کے ولی سے انفرادی سطح پر بھی ضروری ہے۔ البتہ اس دوسری قسم کی اجازت کے بارے میں حسب ضرورت استثنا ہو سکتا ہے۔

ابن القیمؒ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ایمرجنسی میں مریض یا اس کے ولی کی رضامندی سے اس لیے استثنا ہے کہ مریض کے ہوش و حواس معطل اور اس کا ولی غیرموجود ہوسکتا ہے‘ جب کہ جان بچانے کے لیے فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں رضامندی یا اجازت سے استثنا مصلحت کا تقاضا ہے۔ (زاد المعاد)

شدید اور بڑی غلطیوں کی جواب دھی

اگر کسی طبیب سے ایسی غلطی سرزد ہوجائے‘ جو لاپروائی یا دانستہ طور پر نہ ہوئی ہو اور ایسی ہی غلطی کسی بھی دوسرے ہم پیشہ سے ہوئی ہو یا ہوتی ہو‘ تو ایسی صورت میں اسے جواب دہ اور ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ البتہ شدید اور بڑی غلطیوں کے لیے طبیب کو ضامن وجواب دہ ٹھہرایا جائے گا۔ پھر بھی یہ خیال رہے کہ شفا نہ ہونے پر طبیب کا مؤاخذہ نہیں کیا جا سکتا۔

طبیبِ جاھل

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ یُعْلَمْ مِنْہٗ طِبٌّ فَھُوَ ضَامِنٌ (ابوداؤد)

جو آدمی تجربے کے بغیر طبیب بن بیٹھا وہ (نقصان کی صورت میں) جواب دہ ہوگا۔

لہٰذا طب سے ناواقف شخص کے لیے لوگوں کا علاج معالجہ کرنا ناجائز ہے اور ہر ایسا شخص جو متعلقہ اداروں سے باقاعدہ سند یا اجازت یافتہ نہ ہو اور پھر بھی خود کو طبیب کہے اور (لوگوں کا علاج/ جراحت کرے) تو نقصان کی صورت میں وہ جواب دہ ہے‘ اور اس کے علاج کے نتیجے میں اگر موت واقع ہوجائے یا کوئی عضو ضائع ہوجائے تو وہ دیت کی ادایگی یا معاوضے کی ادایگی کا پابند ہوگا اور اسے طب کی پریکٹس سے قانوناً روک دیا جائے گا۔ (ابن الاخوہ‘ معالم القربہ فی احکام الحسبہ)

شریعتِ اسلامی کی روشنی میں طبی اخلاق و قوانین کے بارے میں یہ چند تمہیدی باتیں ہیں‘ امید ہے کہ علما اور ماہرین طب اس موضوع پر کماحقہ توجہ دیں گے۔(ماخوذ : ارشادات للطبیب المسلم‘ مستشفٰی قنفذہ‘ سعودیہ)

دنیا کا ہر متمدن انسان‘ فطرتاً امن پسند اور بہرحال پُرسکون اور خوش گوار زندگی کا خواہاں ہے۔ دہشت و بربریت اور بدامنی و بے چینی سے اس کی طبیعت ابا کرتی ہے۔ مذہب اسلام‘ انسان کی اس فطری ضرورت کا بہرصورت پاس و لحاظ رکھتا ہے اور اسے ایک ایسا نظامِ حیات عطا کرتاہے جس کے اصول و مبادی‘ اوامر و نواہی اور احکام و مسائل امن و سلامتی کی حسین لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ یہ جس ذاتِ عالی کا نازل کردہ دستورِ حیات ہے اس کی ایک صفت ’السلام‘ یعنی مرجع امن و سلام بھی بیان ہوئی ہے (الحشر ۵۹:۲۳)‘ جو اپنے بندوں کو امن و سلامتی کے گھر کی طرف بلاتی ہے‘ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ ط(یونس۱۰:۲۵) ‘اور جس کی نگاہ میں معیاری مومن وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمانوں کا امن و سکون خطرے میں نہ پڑے۔ (بخاری‘ مسلم )

مقامِ افسوس ہے کہ آج دنیا‘ اسلام کے پُرامن پیغام کو فراموش کر کے ببانگِ دہل یہ اعلان کر رہی ہے اور میڈیا بھی اس میں اپناسارا زور صرف کر رہا ہے کہ اسلام (نعوذ باللہ) دہشت و سفاکیت پھیلانے والا مذہب اور عہدِ تاریکی کی یادگار ہے۔ اس کے ماننے والے بنیاد پرست‘ دہشت گرد‘ مذہبی دیوانوں کا ٹولہ اور قومی و عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اسی طرح سارے   مسلم ممالک دہشت گردی کی آماجگاہ اور اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) جیسی کتابیں لکھ کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسلام کا درون و بیرون خون آلود ہے‘ Islam's borders, are bloody so are innards۔(سموئیل پی ہن ٹنگٹن‘ ۱۹۹۶ئ‘ ص ۲۸)

مغربی مفکر فریڈ ہالی ڈے کے بقول یہ سب مفروضے اس گروہ کے تصنیف کردہ ہیں جو مغرب میں رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلم دنیا کو کمیونزم کے زوال کے بعد ایک دشمن میں تبدیل کردے (فریڈ ہالی ڈے‘ Islam and the Myth of Confrontation ‘IB Tawaris Publishers نیویارک‘ ۱۹۹۵ئ‘ ص ۶)

یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی چھوٹی موٹی واردات سے لے کر‘ ۱۱ ستمبر جیسے واقعات کا سرا مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے اور مغربی مفکرین اور میڈیا ان کی یہ مسخ شدہ تصویر اس خوب صورتی سے پیش کرتا ہے کہ دیکھنے والا دیکھتے ہی بلاتامل پکار اُٹھے  ع

بوے خون آتی ہے اس قوم کے افسانے سے

حالانکہ زمینی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روے زمین پر اسلام ہی ایک ایسا نظریہ اور نظامِ حیات ہے جس کی رگ و پے میں امن و سلامتی کی روح کارفرما ہے اور جس کا خمیر  صلح و سلامتی سے تیار ہوا ہے۔ یہ محض عقیدت مندانہ جذبہ آفرینی نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ آج سے ۱۴ سو سال قبل جب انسانیت زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی‘ ایک صحراے عرب کیا‘ بلکہ ساری دنیا میں بدامنی و ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ خوف و دہشت کا دور دورہ تھا‘ امن و قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی تھی‘ اعلیٰ انسانی قدروں کا جنازہ اٹھ چکا تھا‘ بچیاں زندہ درگور کر دی جاتی تھیں‘ غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا‘ عورتیں ہر طرح کے حقوق سے محروم تھیں اور طاقت ور کمزور کو نگلے جا رہا تھا___!

ایسے پُرآشوب دور میں اسلام مسیحاے انسانیت بن کر مرغزار عرب سے ہویدا ہوا اور نہایت حکیمانہ انداز میں یہ اعلان کیا کہ وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُــئِلَتْ o  (التکویر۸۱:۸)۔ اب عورتوں کو حق زیست سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّط (الانعام۶:۱۵۱)‘ اب کسی کو ناحق قتل نہیں کیا جائے گا‘ لیکن ظالم بھی بخشا نہیں جائے گا۔ من قتل عبدہ قتلناہ ومن جدع عبدہ جدعناہ(ابوداؤد‘ کتاب الدیات‘ باب من قتل عبدہ أو مثل بہ أیقاد منہ؟)۔ اب غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo (النجم۵۳:۳۹) ۔ دنیا میں خونی اشتراکیت کا وجود نہ ہوگا۔ توخذ من أغنیائِھِم وترد علی فقرائھم (بخاری‘ کتاب الزکوٰۃ‘ باب وجوب الزکوٰۃ)۔ اب سرمایہ داروں کی بالادستی قائم نہیں رہے گی۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ(المائدہ ۵:۹۰)۔ اب شراب و قمار کے نشے میں انسانیت سوز جرائم وجود میں نہیں آئیں گے۔ وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ (الاعراف۷: ۸۵) ۔ لوگوں کی حق تلفیاں اب نہیں ہوں گی۔ الناس بنو اٰدم وآدم من تراب(احمد: مسند ۶/۵۷۰‘ دار احیاء التراث العربی‘ بیروت‘ لبنان‘ ۱۹۹۴ئ)۔ اب رنگ و نسل اور قومیت کے آرے سے انسانیت کو چیرا نہیں جائے گا۔ وَلَاتُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا  (الاعراف۷:۵۶) ’’زمین فتنہ وفساد کی آماجگاہ نہیں بنے گی اور اگر کوئی شخص یا گروہ راہِ امن و سلامتی کا روڑہ بنے گا تو پھر اس سے جنگ کی جائے گی‘‘۔ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْتُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِط  ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o  (المائدہ ۵:۳۳) ’’اس کا اثر یہ کہ ۲۵ سال کی مختصر مدت میں سارا جزیرۂ عرب امن و سکون کا گہوارا بن گیا اور ایسا گہوارا امن کہ رسولؐ کی پیشن گوئی کے مطابق ایک عورت سونا چاندی اُچھالتے ہوئے‘ قادسیہ سے صنعا تک تنہا سفر کرتی تھی اور کوئی اسے ٹوکنے والا نہیں تھا (بخاری: کتاب الاکراہ‘ باب من اختار الضرب والقتل والھوان علی الکفر۔ ابوداؤد: کتاب الجہاد‘ باب فی الأسیر یکرہ علی الکفرہ)۔ لیکن آج اس کے برعکس امن کی ہزارہا کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ قومی و عالمی سطح پر امن مذاکرات ہورہے ہیں اور حقوقِ انسانی کی کمیشن بحال ہے۔ لیکن نتیجہ صفر سے آگے نہیں بڑھتا۔ آخر کیوں؟ وجہ ظاہر ہے کہ  ع

جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا

معاصر تصورات امن اور ان کے مضمرات

اسلام کے تصور امن کی مزید وضاحت سے قبل‘ معاصر تصوراتِ امن اور ان کی مضرات سے واقفیت ضروری ہے‘ تاکہ دور جدید میں اسلامی تصورِ امن کی معنویت کا اندازہ ہوسکے‘ کیوں کہ اشیا اپنے اضداد سے پہچانی جاتی ہیں‘ تعرف الاشیاء بأضدادھا۔

عام طور پر امن کا اطلاق معاہدئہ عدمِ جنگ اور قومی و بین الاقوامی تعلقات کی خوش گواری پر ہوتا ہے۔ کشاف اصطلاحات سیاست میں امن کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’ایسی صورت حال  جب اندرونی طور پر ریاست کے حالات‘ پُرسکون اور دیگر ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات حسبِ قاعدہ ہوں‘‘۔(محمد صدیق قریشی‘ کشافِ اصطلاحات سیاسیات‘ ص ۴۴۹‘ مقتدرہ قومی زبان‘ اسلام آباد‘ ۱۹۸۶ئ)

اور رچرڈ اسموک کے بقول: عام طور پر جب لوگ لفظ امن بولتے یا لکھتے ہیں تو اس کا سیدھا سادا مفہوم عدمِ جنگ لیتے ہیں۔ یہ امن کی منفی تعریف ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے معنی جنگ کے علاوہ کچھ اور ہیں جو اس کے مثبت کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو جنگ کی طرح وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اور یہ امن ایسے حالات کا نام ہے جس میں جماعت یا ملکوں کے درمیان احترامِ باہم اور صحیح معنوں میں باہم سرگرم تعاون کی فضا پائی جاتی ہو۔ اور پھر یہ بڑھ کر بالآخر پوری دنیا کو اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ اسموک رچرڈ‘ Smoke Richard with Willism Harman, Paths to Peace ‘ویسٹ ویو پریس‘ لندن‘ ۱۹۸۷ئ‘ ص ۲)

اس تعریف سے دو تصورات امن سامنے آتے ہیں: مثبت تصورِ امن اور منفی تصورِ امن۔

منفی تصور امن یہ ہے کہ ملک و سماج میں ذاتی تشدد نہ ہو‘ اس میں ملیٹری سائنس پر زوردیا جاتا ہے اور تخفیفِ اسلحہ اور اس کے کنٹرول کی بات کی جاتی ہے۔

مثبت امن یہ ہے کہ ساختی تشدد نہ ہو اور مساوی طور پر سب کے ساتھ سماجی انصاف کا اہتمام کیا جائے۔ اس میں سماجی ڈھانچے کے علم پر زور دیا جاتا ہے اور عمودی ترقی میں دل چسپی لی جاتی ہے۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ Johson L.G. Conflicting Concept of Peace in Contemporary Peace ‘سیج پریس‘ لندن‘ ۱۹۸۷ئ‘ ص ۱۲)

اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں تصوراتِ امن کسی درجے میں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن ان کے حصول کے جو ذرائع بتائے گئے ہیں وہ بلاشبہہ نظری محض اور غیرعملی ہیں۔ مثلاً:

عالمی حکومت

ارسطو اور دانتے نے حصولِ امن بذریعہ عالمی حکومت کے نظریے کی وکالت کی تھی۔ عصرِحاضر میں برٹرنڈرسل اس کا سرگرم حامی رہا ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ World Encyclopedia of Peace ‘پرگیمن پریس‘ والیم ۲‘ ص ۳۸۴-۳۸۵)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فی زمانہ قتل و غارت گری کے بغیر مجوزہ عالمی حکومت کا قیام ممکن ہے اور اگر ممکن بھی ہے تو اس کے زیرسایہ‘ پرامن بقاے باہم کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے؟ اور کیا یہ ضروری ہے کہ قوتِ مقتدرہ غیر جانب دار ہو اور وہ قوت کا غلط استعمال نہ کرکے صرف قیامِ امن کے لیے کوشش کرے۔ مسلم دنیا کے خلاف امریکا کی موجودہ روش سے‘ اس نظریے کی حقیقت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی عدالت

اس نظریے کے حاملین کا کہنا ہے کہ جب تک عالمی سطح پر کوئی ایسا ادارہ وجود میں نہیں آتا‘ جو ریاستوں کے مابین تمام حل طلب مسائل کا عدل و انصاف پر مبنی تصفیہ کرسکے۔ اس وقت امن کا تصور محال ہے۔ اس تصور کا بانی پینتھم کو قرار دیا جاتا ہے (ایضاً‘ والیم ۲‘ ص ۷۷-۷۸)۔ لیکن اس نظریے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہاں کسی قوتِ نافذہ کی بات نہیں کی گئی ہے جو اس عدالت کے فیصلہ کو نافذ کراسکے۔

عدمِ مزاحمت کااصول

بہت سے مفکرین کا خیال ہے کہ کسی بھی شے سے مزاحمت نہ کی جائے۔ اس طرح وہ خود اپنی موت آپ مرجائے گا اور امن کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ ٹالسٹائی کو اس نظریے کا زبردست حامی بتایا جاتا ہے (ایضاً‘ والیم ۱‘ ص ۴۶۵)۔ گاندھی جی کا اہنسا پرمودھرما بھی اسی نظریے سے متاثر نظر آتا ہے۔ لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو عدمِ مزاحمت کا اصول بھی بے حد غیرمنصفانہ اور ظالمانہ ہے اور اس کی تباہ کاریاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ مغرب میں بے لگام آزادی اور فحاشی و عریانی اور اباحیت پسندی کے غیرفطری تجربے کے نتیجے میں‘ خاندانی و معاشرتی نظام کا بگاڑ اس کی واضح مثال ہے۔

تحفظِ ا جتماعی

امن بذریعہ تحفظ اجتماعی کا نظریہ‘ پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی ہوش ربا ہلاکتوں کے   پسِ منظر میں وجود میں آیا جس کی بنیاد پر ۱۹۲۰ء میں جنیوا میں ’انجمن اقوام‘ کی تشکیل عمل میں آئی ‘ جس کا مقصد حقوقِ انسانی کی حفاظت‘ بین الاقوامی امن وسلامتی کو برقرار رکھنا‘ اور دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں آنے سے روکنا قرار دیا گیا۔ لیکن واقعات نے ثابت کر دیا کہ انسانی حقوق کے اس منشور کی حیثیت ایک خوش نما دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کی ناکامی کے اسباب میں سے چند کا ذکر یہاں مناسب ہے۔

۱- اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد اور فیصلوں کا نفاذ رضاکارانہ ہے۔ اس کے پیچھے کوئی قوتِ نافذہ نہیں ہے۔

۲- بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلے بڑی حد تک سفارشی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

۳- سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کو حق استرداد (right of veto) حاصل ہے۔ جب کوئی فیصلہ ان میں سے کسی کے مفاد کے خلاف جاتا ہے تو وہ آسانی سے اسے ویٹو کر دیتا ہے۔

۴- سلامتی کونسل میں ریاستوں کے قومی مفاد کو تسلیم کیا گیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: مشتاق احمد‘ قانون بین الاقوام‘ عزیز پبلشرز‘ لاہور‘ بحوالہ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی ‘عصری اور اسلامی تصور امن ایک تقابلی مطالعہ‘ قرآن و سنت اکیڈمی‘ نئی دہلی‘ ۲۰۰۲ئ‘ ص ۷۰ تا ۸۲)۔چنانچہ ریاستیں درونِ ملک کتنی ہی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور اپنے شہریوں پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کریں اگر حقوقِ انسانی کمیشن اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ بھارت میں گجرات کے حالیہ واقعات کے تئیں‘ مرکزی حکومت کے مؤقف سے اس حقیقت کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج انجمن اقوام متحدہ ہو یا سلامتی کونسل‘ ان کی حیثیت ایک خاموش تماشائی سے کم نہیں رہ گئی ہے۔ خلیجی جنگ کے بعد پابندیوں کے باعث عراق میں پانچ لاکھ بچوں کی ہلاکت‘ ۱۹۸۶ء میں لبنان میں اسرائیل کے ذریعے ۱۷ ہزار ۵ سو شہریوں کی تباہی‘ ۱۹۹۶ء میں قانا نامی ایمبولینس پر میزائل سے امریکی حملہ‘ امریکا کے اتحادی اسرائیل کی پروردہ لبنانی ملیشیا کا مہاجر بستیوں میں قتل و غارت‘ لوٹ مار اور عصمت دری کا بازار گرم کرنا‘ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم ایریل شارون کے اشارے پر‘ صابرہ اور شتیلہ کے مہاجر کیمپوں میں ہزاروں بے گناہوں کا قتلِ عام۔ چیچنیا‘ کوسووا اور الجزائر میں لاکھوں مسلمانوں کی تہ تیغی‘ اور برما کے روہنگیا مسلمانوں کا بہیمانہ قتل‘ اور اقوام متحدہ میں ظالموں کے خلاف کسی طرح کی قرارداد پاس نہ ہونا‘ اس ادارے کی فعّالیت کو مشکوک کرتی ہے۔

معاصر تصوراتِ امن کی یہی وہ خامیاں ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں قیامِ امن کا مسئلہ بڑا مشکل اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔ دولت کی غیرعادلانہ تقسیم نے دنیا کو عیش و تنّعم اور فقروافلاس کی دوانتہائوں پر کھڑا کر دیا ہے۔ گلوبلائزیشن کی لعنت نے عالمی بنک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق‘ دولت مند طبقے کو زیادہ امیر بنا دیا ہے‘ جب کہ غریبوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ میں آیندہ غربت و افلاس کی شرح میں اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے(فضل الرحمن فریدی‘ ماہنامہ زندگی نو‘ جنوری ۲۰۰۱ء کالم اشارات)۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ جس امریکا میں ایک ائرہوسٹس اپنے کپڑوں کی ڈرائی کلیننگ پر چھے ہزار ڈالر خرچ کرتی ہے‘ وہیں ایسے کالے لوگوں کی بھی اکثریت پائی جاتی ہے جو گاربیچ ٹن (کوڑے دان) میں سے غذائوں کے ٹکڑے چنتے ہیں۔

آج دنیا میں آرٹ اور ثقافت کی آزادی کے نام پر فحش لٹریچر‘ سینما ‘ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی و بدکاری کی اشاعت کے سبب جنسی جرائم آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ ۲۰۰۲ء کی رپورٹ ہے کہ صرف ہندستان میں ایک سال کے اندر ۱۶ ہزار ۴ سو ۹۶ زنا بالجبر‘۳۲ ہزار ۹ سو ۴۰  چھیڑچھاڑ اور ۱۱ ہزار ۲۴ عورتوں کے ساتھ نازیبا حرکتوں کے واقعات پیش آئے۔ کیا یہی حقوقِ نسواں کی حفاظت ہے؟ اس سے بڑھ کر عدل و انصاف کا دوہرا معیار اور کیا ہو سکتا ہے کہ برطانیہ‘ سلمان رشدی کو جس کی ہرزہ سرائی سے کروڑوں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی‘ مکمل سکیورٹی فراہم کرتا ہے اور جب مسلمان اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ تو بنیاد پرستی ہے۔ لیکن مشتبہ ملزم اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی وجہ سے‘ نہتے افغانستان کے خلاف آپریشن بلیواسٹار کا مظاہرہ ہوتا ہے اوروہ کارپٹ بم کے ذریعے تہ تیغ کر دیے جاتے ہیں۔ اسرائیل کو یہ آزادی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف ہر طرح کی جارحیت کو روا رکھے اور نوع بہ نوع آلاتِ حرب تیار کرے۔ اس سے دنیا کو اجتماعی تباہی کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ لیکن محض شبہے کی بنیاد پر عراق کو تباہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس weapons of mass distruction ہیں۔ پھر بعد میں اس مزعومہ استبقائی جنگ کو جنگ براے مکمل آزادی کا نام دے کر اس کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی دنیا میں جاہلانہ طبقاتی نظام قائم ہے۔ The End of History کا امریکی نعرہ اسی ظالمانہ نظام کے زیراثر ہے اور جس کے استحکام کے لیے ظلم و جارحیت کے سارے ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں۔ تو پھر ایسی تکلیف دہ اور غیر یقینی صورت حال میں کیا قیامِ امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا؟ اور دنیا حقیقی امن و سلامتی سے آشنا ہوسکے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب مغربی دنیا کو دینا ہے۔

اسلام کا تصور امن

مغربی و عصری تصوراتِ امن کے برخلاف‘ اسلام ایک فطری‘ دیرپا‘ جامع‘ منظم اور انسانی طبیعت سے ہم آہنگ تصورِ امن پیش کرتا ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں: ایک سلام اور دوسرا صلح۔ سلام اس امن کو کہتے ہیں جس میں نزاع شروع ہونے سے پہلے‘ کسی بھی طرز کے اقدامات کے ذریعے‘ امن و امان قائم اور بحال رکھا جائے‘ اور صلح اس امن سے عبارت ہے جو نزاع شروع ہونے کے بعد کسی بھی نوع کی کوشش سے قائم ہو(عبدالرحمن کیلانی: مترادفات القرآن اللغویۃ‘ ص ۶۱۹۔۶۲۰‘ مکتبہ دارالاسلام‘ لاہور)۔ گویا یہ عارضی شے ہے۔ چونکہ اسلام مستقل امن و سلامتی کا خواہاں ہے اس لیے وہ تصور ’سلام‘ پر سب سے زیادہ زوردیتا ہے اور اس کے لیے وہ سب سے پہلے فرد کے اندر امن کا احساس پیدا کرتا ہے اور اس کے ضمیر ووجدان میں عقیدئہ و اخلاق کی ایسی جوت جگاتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مجسم امن و سلامتی بن جاتا ہے۔ کیونکہ انسان جب متعدد معبودوں کی پرستش کے باوجود بھی‘ روحانی امن و سکون سے محروم رہتا ہے تو اسلام کا نظریۂ توحید اسے تسلی دیتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ  (الانعام ۶:۸۲)‘ یعنی امن و سکون تو اہلِ توحید کے لیے مقدر ہے۔جب اسے دوسروں کے عیش و تنّعم کے مقابلے میں اپنی بدحالی دیکھ کر پریشانی لاحق ہوتی ہے تو عقیدۂ قضا و قدر اس کے لیے سامانِ تسکین ثابت ہوتا ہے۔ جب وہ بے راہ رو ہونے لگتا ہے تو عقیدئہ آخرت اور اُس کی ہولناکی اُسے راہِ راست پر لے آتی ہے‘ اور جب وہ کسی کا حق مارنے اور قتل و خون کا ارادہ کرتا ہے تو اسلام کا نظریۂ قصاص و جنایات اس کے پائوں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ اس طرح فرد کی زندگی امنِ حقیقی سے آشنا ہوجاتی ہے۔

بعینہٖ اسلامی عبادات بھی امن پروگرام کی تنفیذ میں غیرمعمولی کردار ادا کرتی ہیں۔ مثلاً نماز برائیوں سے روکتی ہے‘ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت ۲۹:۴۵)‘ خلق خدا کے حقوق کی یاد دہانی کراتی‘ نفس کو سرکشی اور اِستکبار سے روکتی ہے اور اس کے اندر جذبۂ شکر پیدا کرتی ہے۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا o وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o اِلاَّ الْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَآئِمُوْنَ o وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ- (المعارج۷۰: ۱۹-۲۵)

زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ سے غریبوں‘ معذوروں‘ یتیموں اور بے کسوں کی داد رسی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد۹۰:۱۱-۱۶)۔ صدقے سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُـزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْط (التوبۃ ۹:۱۰۳)۔

روزے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ غریبوں کا دکھ درد سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے بدکاری و فحاشی پر ضرب پڑتی ہے۔ یامعشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء (بخاری: کتاب النکاح‘ باب قول النبیؐ من استطاع منکم الباء فلیتزوج۔مسلم: کتاب النکاح‘ حدیث عبداللّٰہ بن مسعود)

حج جذبۂ وحدت پیدا کرتا ہے‘ تفریق رنگ و نسل مٹاتا‘ ہر طرح کی برائیوں اور جنگ وجدال سے روکتا ہے اور تمام انسانیت کے فلاح و بہبود کانظم کرتا ہے۔ اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ج فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَلا وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّط (البقرہ۲:۱۹۷)

فرد کے بعد اسلام خاندان کی طرف متوجہ ہوتاہے اور اس کی سلامتی کے لیے سب سے پہلے ازدواجی زندگی کا پُرسکون تصور پیش کرتا ہے‘ بقاے امن کی خاطر اختلاط مرد و زن کو حرام اور عورتوں کے لیے پردہ لازم ٹھہراتا ہے۔ بدامنی پھیلانے والے عناصر کو قرار واقعی سزا کا مستحق قرار دیتا ہے کہ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍص(النور ۲۴:۲)۔ اسی طرح اگر زوجین کے مابین نباہ کی کوئی صورت باقی نہیں رہ پاتی ہے توخاندانی امن کو برقرار رکھنے کے لیے طلاق کی بھی اجازت دیتا ہے۔ آج آزادیِ نسواں کی دعوے دار مغربی دنیا کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ مغربی معاشرے میں خواتین کے چہرے کی شادابی غائب ہوچکی ہے‘ ان کا قلبی سکون لٹ چکا ہے کیونکہ ان کا فیملی سسٹم بگڑا ہوا ہے۔ نتیجتاً‘ وہ اسلام کو اپنے لیے جاے امان تصور کرنے لگی ہیں۔

فرد و خاندان کے بعد اسلام معاشرے میں قیامِ امن کی سعی کرتا ہے اور سدِّذرائع کے اصول پر عمل کرتے ہوئے‘ بدامنی پھیلانے والے عناصر کو بیخ و بن ہی سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرتا ہے‘ مثلاً معاشرے میں بدامنی: اختلاف و انشقاق سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: وَلَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُم (الانفال ۸:۴۶)

  •  امانت میں خیانت سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا (النسائ۴:۵۸)  فقروفاقہ سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ (التوبۃ ۹:۶۰)
  • ناانصافی کے پیٹ سے جنم لیتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدہ ۵:۸)
  • بدعہدی سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتاہے: وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًاo (بنی اسرائیل۱۷: ۳۴)
  • ظلم کی پشت پناہی اور تعصب سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: وَلَایَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط (المائدہ ۵:۸)۔ بدامنی جبر و اکراہ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے‘ اسلام اعلان کرتا ہے: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِقف (البقرہ ۲:۲۵۶) معاشرے میں بدامنی لادینی سیاست سے پھیلتی ہے‘ بقولِ اقبال  ع    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام کی نگاہ میں ذوقِ جمال اور فارغ البالی ممنوع نہیں‘ بلکہ وہ اسے بنظرِاستحسان دیکھتا ہے۔ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِط (الاعراف ۷:۳۲)۔ لیکن آرٹ‘کلچر اور فنونِ لطیفہ کے نام پر اشاعتِ فحش کی مذمت بھی کرتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌلا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط (النور۲۴:۱۹)

اس طرح جب فرد اور معاشرے میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کی روک تھام ہوجاتی ہے اور وہ امن و سکون کا نگہبان اور گہوارہ بن جاتا ہے تو اسلام قومی و بین الاقوامی سطح پر قیامِ امن کی کوشش کرتے ہوئے‘ ساری انسانیت کو ایک اکائی قرار دیتا ہے‘ اخوت کی جہانگیری قائم کرتا ہے۔ رنگ و نسل کی تفریق مٹاتا اور معیارِ فضیلت تقویٰ قرار دیتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْـقٰکُمْط (الحجرات۴۹:۱۳)

اسلامی تصورِ امن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر انسان کی جان اور خون کو محترم قرار دیتا ہے۔ اس کی نگاہ میں قتلِ ناحق سب سے بڑا گناہ ہے (بخاری: کتاب الشہادات‘ باب ماقیل فی شھادۃ الزور۔ مسلم: کتاب الایمان‘ باب بیان الکبائر واکبرھا)۔ حتیٰ کہ وہ کسی ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل تصور کرتا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ کوئی شخص محض عقیدہ‘ زبان اور قومیت کی بنیاد پر حقِ زیست سے محروم نہیں ہو سکتا۔ اسلام مخلوط سوسائٹی میں پرامن بقاے باہم کا نظریہ ہی نہیں پیش کرتا‘ بلکہ وہ عملاً اس کے استحکام کے لیے بھی کوشش کرتا ہے۔ وہ جہاں یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے غیرمسلم بھائیوں سے خندہ پیشانی سے ملو اور ان کے سلام کا گرم جوشی سے جواب دو‘ وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَاط (النسائ۴:۸۶)۔ وہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے‘ ہر مذہب کے مذہبی رہنمائوں کی تکریم بھی سکھاتا ہے۔

وَلَاتَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام  بِغَیْرِ عِلْمٍط (الانعام ۶:۱۰۸)۔ لیکن اسلام کی ان تمام واضح تعلیمات کے باوجود‘ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلمان علیحدگی پسند‘ جنگجو اور ملکی و عالمی سلامتی کی راہ کے روڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی بعض کارروائیوں میں کسی نام نہاد اسلام پسند افراد یا گروہ کے ملوث ہونے کے سبب‘ سارے اسلام اور مسلمانوں کو ہی بدنام کرنا عام سی بات ہوگئی ہے۔ اور اس کارروائی کو اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن جیکو (Jaco) الفا‘ ایل ٹی ٹی ای‘ پی ایل اے‘ وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو ہندو‘ یہودی یا مسیحی دہشت گردی نہیں قرار دیا جاتا۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ آج اسلام کے نظریۂ جہاد کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلوار لیے ہوئے خونیں آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلا آ رہا ہو جہاں کسی کافر کو دیکھتا ہو‘ پکڑ لیتا ہو اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہو کہ بول لا الٰہ الا اللہ ورنہ سرقلم کر دوں گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں جہاد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اس عمل کو ذروۃ سنام الاسلام کہا گیا ہے۔ لیکن کب؟ جب کہ حقوق انسانی پامال کر دیے جائیں‘عبادت گاہوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہو‘ اہلِ اسلام کی جان و مال‘ عزت و آبرو اور گھربار خطرے میں پڑجائیں۔ ظلم ہی ظلم ہو اور اصلاح کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے۔ ایسی صورت میں وہ فتنے کے ازالے اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے جنگ کا حکم دیتا ہے۔ وہ کسی بھی حال میں امریکا کی طرح آپریشن بلیواسٹار‘ اور آپریشن ان ڈیورنگ فریڈم کا بگل نہیں بجا دیتا‘ بلکہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ دورانِ جنگ محاربین کے بوڑھوں‘ بچوں‘ اپاہجوں‘ مذہبی رہنمائوں اور عورتوں سے تعرض نہ کیا جائے۔ مقتولین کا مثلہ نہ کیا جائے اور آتش زنی‘ لوٹ مار‘ قتل عام‘ بم ھماکے‘ مفتوحین کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور نسلی تطہیر سے پرہیز کیا جائے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، الجہاد فی الاسلام)۔ کیا اس طرح کے بلند جنگی اخلاقیات کسی اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں۔

عصرِحاضر کا سب سے بڑا کرب یہ ہے کہ جب جنگ کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو قصداً معاصر تہذیبوں کی جنگی بربریت اور خوں آشامی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور جہادِ اسلامی کی وحشت ناکی نمک مسالے کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ فرانس میں جمہوری انقلاب کے دوران بیک وار بیسیوں سروں کی ناریلوں کی طرح اڑانے والی گلوٹین کے ذریعے ۶۶لاکھ انسانوں کا صفایا کردیا گیا۔ روس میں اشتراکی انقلاب کے دوران کروڑوں جانیں تلف ہوئیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بالترتیب ۷۳ لاکھ ۳۸ ہزار اور ایک کروڑ ۶ لاکھ ۸۵ ہزار آدم زادوں کا آفتابِ حیات گل ہوا۔ اہنسا پرمودھرما کے پجاریوں کی مہابھارت بھی‘ ایک روایت کے مطابق ایک کروڑ انسانوں کے خون سے رنگین ہے (سید اسعد گیلانی، رسول اکرمؐ کی حکمتِ انقلاب‘ ص ۶۵۸-۶۵۸‘ کریسنٹ پبلشنگ کمپنی‘ دہلی‘ ۱۹۹۳ئ)۔ اسی طرح حالیہ دنوں افغانستان اور عراق کے خلاف امریکا کی غیرمتوازن اور بلاجواز جنگ میں کتنی معصوم جانیں ہلاک ہوئیں اور کس قدر املاک برباد ہوئیں وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پھر بھی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ جنگیں عادلانہ تھیں اور عادلانہ ہیں۔ لیکن رسولؐ اللہ کی قیادت میں کل ۸۲ غزوات و سرایا میں‘ صرف ۹۱۸ افراد کی شہادت و ہلاکت کو دہشت و بربریت و سنگ دلی تصور کیا جاتا ہے۔ (ایضاً‘ ص ۶۵۷)

مختصر یہ کہ اسلام نے امن کا جو تصور دیا ہے وہ جامع‘ دیرپا اور ساری انسانیت کے لیے یکساں مفید ہے۔ اس کے برعکس معاصر تصوراتِ امن وقت کی پیداوار‘ انسانی تجربات کی اختراع اور الٰہی نظام کے تابع نہ ہونے کے سبب ناقابلِ عمل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے تصورِ امن سے دنیا کو واقف کرایا جائے۔ یقینا وہ دن دُور نہیں جب دنیا یہ اعتراف کرلے گی کہ  امن عالم فقط دامنِ اسلام میں ہی ملے گا۔

تجاویز

آخر میں قیامِ امن کے تعلق سے چند تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔

  • انسانیت کا احترام: انسانی ترقی کے لیے عزتِ نفس کا خیال ازحد ضروری ہے۔ آج دنیا میں قیامِ امن کی کوششیں اس لیے ناکام ہو رہی ہیں کہ اس کے نزدیک حکومت و قومیت اور لسانیت انسانیت پر مقدم ہے‘ اور ناقابلِ انکار صداقت ہے کہ جب تک تقدس انسانیت کے بجاے‘ تقدیس حکومت و قومیت اورلسانیت کا جذبہ کار فرما رہے گا‘ دوسروں کی حق تلفی ہوتی رہے گی۔ ظلم و بربریت کا عفریت‘ انسان کے ذہن و دماغ پر سوار رہے گا اور دہشت گردی کے مظاہرے ہوتے رہیں گے۔
  • مخلوط معاشرت اور صحت مند مکالمہ: اس دنیا میں مذاہب اور تہذیبوں کا اختلاف امرواقع ہے جس کو مسلح تصادم اور معرکہ آرائی سے ختم نہیںکیا جا سکتا۔ باہمی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے لیے فضا خوش گوار رکھنی چاہیے‘ تاکہ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزاری جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس نہج پر پیدا کیا ہے کہ وہ حسنِ خلق‘ احسان اور انصاف سے متاثر ہوتا ہے۔ لیکن دھونس اور دھاندلی سے اس کے اندر ضد اور خودسری پیدا ہوتی ہے۔
  • پرامن اختلاف راے اور آزادیِ اظھار: حصولِ امن کے لیے پرامن اختلاف راے اور مذہبی اظہار کی آزادی ضروری ہے۔ اس کے بغیر قیامِ امن محال ہے۔ ۱۱ستمبر کے واقعات کے بعد ‘افغانستان کے خلاف امریکا کی مسلح کارروائی کے تناظر میں‘ ہیومن رائٹس واچ کے ڈائرکٹر نے کہا تھا:

اگر امریکا کی قیادت میں انسداد دہشت گردی کی مہم‘ پُرامن اختلافِ راے اور مذہبی اظہار خیال پر حملے سے آہنگ ہوجاتی ہے تو یہ اس چیز کی بنیاد کھوکھلی کر کے رکھ دے گا جس کو حاصل کرنے کے لیے امریکا کوشش کر رہا ہے۔ (دی ہندو‘دہلی‘ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ئ)

  • اسباب تشدد اور اس کا انسداد: دہشت گردی کی کارروائیاں اور تشدد بہرحال قابلِ مذمت ہے۔ اس سے باز رکھنا انسانیت کی خدمت اور خیرخواہی ہے۔ لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ کہ اگر معاملات کی اصلاح کے جائز اور معقول راستے بند کردیے جائیں گے اور محض قوت‘ ہٹ دھرمی‘ مفاد پرستی‘ تعصب‘ مادی و عسکری برتری اور علاقائی یا عالمی بالادستی کے مذموم مقاصد کے لیے‘ دوسرے انسانوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے گا اور ناانصافی ہوتی رہے گی تو اس کا فطری ردعمل ہوگا۔ اصل مسئلہ تشدد کے اسباب کی کھوج اور اصلاح کا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ بموں‘ میزائلوں اور انسانی بستیوں پر آگ برسانے سے نہیں لڑی جاسکتی۔ یہ جنگ تو اسی نوعیت کی ہے جو غربت‘ افلاس‘ بیماری اور جہالت جیسے فتنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے۔
  • الاسلام ہو الحل : اس وقت دنیا میں قیامِ امن کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسلام کے تصورِ صلح سے زیادہ قریب ہے اور یہ ایسے معاہدے سے جو ترغیب و ترہیب‘ مسلح مداخلت اور اثرورسوخ کے استعمال کے نتیجے میں ہو‘ عمل میں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حصولِ امن کی عارضی صورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو اسلام کے تصور ’سلام‘ سے قریب کیا جائے جو کہ ایک مثبت اور دائمی امن ہے۔

ترجمہ: امجد عباسی

عراق‘ افغانستان اور گوانتاناموبے کی جیلوں میں امریکی اور برطانوی افواج جن گھنائونے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں اور جس سہل انگاری کے ساتھ مغربی اقوام کی قیادتیں‘ اقوام متحدہ‘ جنگی جرائم پر گرفت کرنے والی نام نہاد بین الاقوامی عدالت انھیں نظرانداز کر رہی ہے یا جرم   ثابت ہونے پر اعلیٰ حکام کے عدم شرکت کے سرٹیفیکیٹ جاری کر کے متعلقہ افراد کو تنزلی یا جرمانے سے نواز رہے ہیں‘ وہ ان اقوام کے اخلاقی افلاس کا آئینہ دار ہے اور اس کے ساتھ خود مسلمان    اور عرب ممالک کے حکمرانوں اور بااثر طبقات کی بے حسی اور مجرمانہ معاونت (criminal complicity) کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا جس منافقت کی گرفت میں ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر دعوے کر رہے ہیں دنیا میں امن‘ جمہوریت‘ آزادی اور اعلیٰ انسانی اقدار کی ترویج کے‘ اور عملاً ہر انسانی قدر کو بے دردی سے پامال کر رہے ہیں اور مزید کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گوانتاناموبے میں جو کچھ کیا جا رہا ہے اور صرف ابوغریب ہی نہیں عراق کی ہر جیل میں معصوم انسانوں سے ناکردہ جرائم کا اعتراف کرانے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ انسانی ضمیر کے لیے تو چیلنج ہے ہی‘ لیکن اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اقوام جنھیں مہذب ہونے کا دعویٰ ہے اور جو روشن خیالی کی پیامبر ہیں ان کا اصل کردار کیا ہے۔ اور یہ آج ہی نہیں ان کا مستقل وطیرہ ہے۔ ہر بے خدا اور اخلاق باختہ تہذیب کا تاریخ میں یہی رویہ رہا ہے۔

مئی ۱۹۴۵ء میں دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہوئی تھی‘ اور اس ماہ (مئی ۲۰۰۵ئ) اس کی ۶۰ سالہ تقریبات منعقد کی جارہی ہیں۔ اس موقع پر جرمنی‘ اٹلی اور جاپان کی بہیمانہ کارروائیوں کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ جیسے مظالم جرمنی‘ اٹلی اور جاپان نے کیے خود امریکی اور برطانوی اور اتحادی افواج کا رویہ اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔

اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں--- ہاں‘ اندھے وہ حکمران اور دانش ور ہیں جن کو مغربی اقوام کا یہ وحشیانہ کردار نظر نہیں آتا اور جو انھیں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کا علم بردار قرار دے کر ان کی خوش نودی حاصل کرنے اور ان کی چاکری کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کی ۶۰ سالہ تقریبات کے موقع پر لندن کے روزنامے دی گارڈین میں کیمبرج یونی ورٹی کے تاریخ کے استاد ڈاکٹر رچرڈ ڈریگٹن(Richard Dragton) کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جو پاکستان کی موجودہ قیادت اور لبرل دانش وروں کے لیے بھی اپنے اندر عبرت اور موعظت کا کافی سامان رکھتا ہے‘ اور ان تمام افراد کے لیے بھی چشم کشا لوازمے کا حامل ہے جو اس آبروباختہ تہذیب سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسے اپنے لیے نمونہ سمجھتے ہیں۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔ مضمون کا ترجمہ پیش ہے۔ (مدیر)

۱۹۴۵ء میں تمام جنگوں کے خاتمے پر‘ فاتح طاقتوں نے تاریخ کو ایسا رخ دیا کہ اشرافیہ کے مفادات پورے ہوں۔ اس طرح جنگی پروپیگنڈے کو غیرمعمولی نئی زندگی مل گئی۔ جیسے ولادی میرپوٹن نے ظاہر کیا ہے کہ حُبِ وطن کے لیے لڑی جانے والی جنگ عظیم روس میں ایک کلیدی سیاسی وسیلہ ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں بھی جنگ عظیم دوم کا مخصوص تصور جوش و خروش سے زندہ رکھا جاتا ہے اور کم خوش کُن تعریفی یادداشتوں کو دبا دیا جاتا ہے۔

پانچ سال قبل‘ ایک ممتاز امریکی ماہر سماجیات رابرٹ للّی نے فوجی دستاویزات کی بنیاد پر ایک کتاب Taken by Forceمرتب کی ہے۔ یہ دراصل ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان یورپ میں امریکی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر جو آبروریزی کی‘ اس کا ایک مطالعہ ہے۔ اس نے اپنا مسودہ ۲۰۰۱ء میں اشاعت کے لیے اپنے ناشر کو دیا تھا مگر نائن الیون کے بعد اس کے امریکی ناشر نے اسے دبا دیا اور ۲۰۰۳ء میں یہ کتاب پہلی مرتبہ فرانسیسی ترجمے کی شکل میں منظرعام پر آئی۔

سرخ فوج کا جنسی تشدد توانتھونی بیور کے ذریعے ہمارے علم میں ہے لیکن ہم یہ نہیں جاننا چاہتے کہ امریکی اور برطانوی فوج نے کس بڑے پیمانے پر آبروریزی کی۔ للّی کے مطابق امریکی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کے کم از کم ۱۰ ہزار واقعات پیش آئے۔ دیگر ہم عصروں کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر جنسی جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور ان پر کوئی سزا نہ دی گئی۔ ٹائم میگزین کی ستمبر ۱۹۴۵ء کی رپورٹ کے مطابق: ہماری اپنی فوج نے اور ہمارے ساتھ ساتھ برطانوی فوج نے لوٹ مار اور آبروریزی میں پورا حصہ لیا… ہم بھی زناکاروں کی فوج (army of rapists) سمجھے جاتے ہیں۔

برطانوی اور امریکی عوام دوسری جنگ عظیم کے صرف خوش گوار پہلو جانتے ہیں۔فلمیں‘ عام تاریخی کتب اور سیاسی تقاریر جنگ کو اینگلو امریکی بہادری کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور سرخ فوج کا مرکزی کردار بھلا دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ جمہوریت کے لیے تھی۔ امریکی یقین رکھتے ہیں کہ انھوں نے دنیا کے بچائو کے لیے جنگ لڑی۔ برطانوی سلطنت کے معذرت خواہوں‘ جیسے نائل فرگوسن کے لیے جنگ ایک ایسا غسل تھا جہاں فتوحات‘ غلامی اور استحصال کے صدیوں کے گناہ دھو دیے گئے۔ ہم ہمیشہ کے لیے اچھے لوگ قرار دے دیے گئے۔ ہم خوش خوش گاسکتے ہیں: دو عالمی جنگیں اور ایک ورلڈکپ۔

یہ تمام ایک معصومانہ مذاق لگتا ہے لیکن حب الوطنی کے تخیلات کی دھار بڑی تیز ہوتی ہے۔ ہٹلر کے خلاف جنگ براے خیر (good war)نے ۶۰ سال کی جنگ بازی کو جواز عطا کردیا۔ یہ برطانوی اور امریکی طاقتوں کے لیے ایک اخلاقی بلینک چیک ہوگیا ہے۔ ہم فاشزم کے خلاف جنگ کی کھلی اور خفیہ اپیلوں کی بنیاد پر بم باری کرنے‘ مثلہ بنانے اور بغیر مقدمے کے جیل میں ڈالنے کے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔

جب ہم نوریگا‘ مائیلوسووچ اور صدام جیسے سفاک دوستوں سے اپنی دوستی ختم کرتے ہیں تو ان کو ’’ہٹلر‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ ان کے خلاف ’’جنگ براے خیر‘‘ میں تمام قابلِ مذمت کارروائیاں بھلائے جانے کے قابلِ ضمنی نقصان بن جاتی ہیں۔ سربیا اور عراق میں شہری ٹھکانوں کو تاخت و تاراج کرنا‘ ابوغریب اور گوانتاناموبے میں تعذیب‘ فلوجہ میں اجتماعی سزا کا جنگی جرم‘ سب ’’جمہوریت کی قیمت‘‘ کے نام پر بھولی بسری یادیں قرار دیے جاتے ہیں۔

ہمارا جمہوری استعمار یہ بات بھلانے کو ترجیح دیتا ہے کہ فاشزم کی اہم اینگلو امریکی جڑیں ہیں۔ ہٹلر کے خواب کی بنیاد برطانوی سلطنت تھی۔ نازی مشرقی یورپ میں اپنا امریکا اور آسٹریلیا بنانا چاہتے تھے جہاں نسلی صفائی اور غلاموں کی بے گار نے آبادکاری کے لیے زمین تیار کی۔ اور مغربی یورپ میں انھیں اپنے ہندستان کی تلاش تھی جہاںسے محاصل‘ مزدور اور فوجی حاصل کیے جاسکیں۔

جرمنی اور جاپان کے اپنے پڑوسی علاقوں میں بالادستی کے دعووں کو لاطینی امریکا میں امریکا کی استعماریت نے واضح مثالیں فراہم کیں۔ امریکی اور برطانوی اصلاحِ نسلِ انسانی کے کلیدی نظریہ ساز تھے اور انھوں نے نسلی تفریق کو قابلِ احترام بنا دیا۔ نظربندی کیمپ ایک برطانوی ایجاد تھے‘ اور عراق اور افغانستان میں گروہی مزاحمت کو کچلنے کے لیے فضائی طاقت کے استعمال میں پہل کرنے والے برطانوی تھے۔

ہم اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ برطانوی اور امریکی اشرافیہ نے فاشسٹوں کو مدد فراہم کی تھی۔ صدربش کے دادا جن پر ۱۹۴۲ء میں‘ دشمن سے تجارت کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا‘ ان طاقت ور اینگلو امریکی لوگوں میں سے ایک تھے جو ہٹلر اور مسولینی کو پسند کرتے تھے اور ان کی مدد کے لیے جو کچھ ممکن تھا انھوں نے کیا۔ ان آمریتوں سے مصالحت خواہی کی سرکاری پالیسی تو برفیلے تودے کا محض نظر آنے والا سرا تھا‘ درحقیقت ان کو دی جانے والی عملی امداد بہت زیادہ تھی۔ فاشسٹ حکمرانوں کو واشنگٹن اور لندن میں انتہائی احترام کا مقام دیا گیا۔ ہنری فورڈ نے ہٹلر کی پیدایش پر ۵۰ہزار مارک کا تحفہ دیا۔

ہم اس بات کو بہت کم یاد رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے ۱۹۴۰ء میں جنگی جرائم کاارتکاب کیا تھا۔ ڈرس ڈن (Dresden) کی تباہی‘ ایساشہر جو عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور زخمیوں سے بھرا ہوا تھا اور جس کی کوئی فوجی اہمیت نہ تھی‘ شہری آبادیوں پر ہمارے بم باروں کے کیے ہوئے مظالم کی سب سے زیادہ معروف مثال ہے۔ ہم جنگی قیدیوں کے ساتھ جاپانیوں کی بدنام بدسلوکی کو تو جانتے ہیں لیکن قیدی جاپانیوں کے قتل اور تعذیب کو یاد نہیں کرتے۔

جنگی نامہ نگار ایڈگار جونز نے ۱۹۴۶ء میں لکھا: ’’ہم نے قیدیوں کو بے دردی سے گولی مار دی‘ ہسپتالوں کا صفایا کر دیا‘ لائف بوٹس پر گولے برسائے‘ دشمن شہریوں کو قتل کیا‘ زخمی دشمنوں کو ختم کر دیا‘ ہم نے زندہ انسانوں کو مُردوں کے ساتھ گڑھوں میں پھینک دیا‘ اور دشمن کی کھوپڑیوں کو اُبالا تاکہ ان سے گوشت نکل جائے اور ان کو میزوں کی زینت بنایا جاسکے‘‘۔

۱۹۴۱ء کے بعد ہم نے بہت سے فاشسٹ طریقے اُدھار لیے۔ نورمبرگ میں صرف چند مجرموں کو سزا دی گئی‘ زیادہ تر ہماری مدد سے بچ نکلے۔ ۱۹۴۶ء میں پراجیکٹ پیپرکلپ کے ذریعے ایک ہزار سے زائد نازی سائنس دانوں کو خفیہ طور پر امریکا لایا گیا۔ ان میں کرٹ بلومے بھی شامل تھا جس نے آئوش وٹس میں اعصابی گیس کا تجربہ کیا‘ اورکانرڈ شیفر بھی شامل تھا جس نے ڈیخائو میں ملزموں کے جسم میں زبردستی نمک داخل کیا۔ دوائوں اور سرجری کے ذریعے ذہنوں پر قابو پانے کے لیے تجربات سی آئی اے کے پراجیکٹ بلیوبرڈ کا حصہ تھے۔ جاپان کے ڈاکٹر شیرو اشی کو جس نے منچوریا میں جنگی قیدیوں پر تجربات کیے تھے‘ حیاتیاتی اسلحے پر مشورے دینے کے لیے میری لینڈ لایا گیا۔ بیلسن کو آزاد کروانے کے ایک عشرے کے اندر اندر برطانوی فوجی مائو مائو کو کچلنے کے لیے کینیا میں اپنے نظربندی کیمپ چلا رہے تھے۔ الجزائر میں فرانسیسیوں نے تعذیب کی تکنیک گسٹاپو سے مستعار لیں‘ پھر یہ امریکیوں نے لاطینی امریکا کی آمریتوں کو ۶۰ اور ۷۰کے عشرے میں پہنچائیں۔ امریکا کے کیوبا اور ڈیگوگارشیا کیمپوں میں آج ہم ان کو زیراستعمال دیکھتے ہیں۔

جنگ کے نتیجے میں ظلم کو تقویت ملتی ہے اور وہ اپنے زور پر آگے بڑھتا ہے۔ Taken by Forceکا سبق ہے کہ کس طرح امریکی فوجی اپنے جنسی تشدد میں اضافہ کرتے چلے گئے‘ اور فوجی حکام اس کی گرفت کرنے میںآہستہ آہستہ نرم پڑتے چلے گئے۔ ٹھیک اس وقت‘ جب کہ ہم نازی ازم کی خرابیوں کو یاد کرتے ہیں اور جنھوں نے ان کو شکست دی ان کے حوصلوں کی تعریف کرتے ہیں‘ ہمیں دوسری عالمی جنگ پر اپنی خود اطمینانی کی کیفیت میں کمی لانی چاہیے۔ خاص طور پر ہمیں ان لوگوں پر بداعتمادی کرنا سیکھنا چاہیے جو اس کو حالیہ جنگ کے جواز کے لیے پیش کرتے ہیں۔

یوں تو کسی بھی ملک کے لیے تعلیمی نظام کی اہمیت مسلّمہ ہے لیکن ایک نظریاتی مملکت کے لیے توتعلیم کی فکری جہت اور اس کے معیار کو‘ وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے قیام کے فوری بعد قائداعظم ؒنے اس بات کو بخوبی اُجاگر کیا کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کیا ہوگا اور تعلیمی پالیسی کی تشکیل میں کیا تعلیمی اہداف و مقاصد پیشِ نظر رکھے جائیں گے۔ اس کا ایک بھرپور اظہار انھوں نے‘ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود‘ پاکستان تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۲۷نومبر تا یکم دسمبر ۱۹۴۷ء کے موقع پر کیا۔ کانفرنس میں وہ خود شریک نہ ہوسکے مگر اپنے پیغام میں پاکستان کے تعلیمی نظام کے خدوخال بخوبی واضح کر دیے تاکہ صحیح خطوط پر نظامِ تعلیم تشکیل پاسکے۔

المیہ یہ ہے کہ آج نصف صدی بعد پاکستان کے تعلیمی اداروں میں قائداعظم کے افکار سے کھلم کھلا انحراف کیا جارہا ہے اور جو کچھ پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے‘ وہ مملکتِ پاکستان کے بنیادی نظریے سے صریحاً متصادم ہے۔ اس ضمن میں چند پہلو ملاحظہ کیجیے: لڈی ڈانس‘ بھنگڑے‘ گانے بجانے‘ میراتھن ریس‘ مینابازاروں‘ تلک لگانے اور بسنت منانے کے ساتھ بڑے تواتر‘ اور کثرت کے ساتھ محافل موسیقی (میوزک شو) کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف کہتے ہیں: مجھے موسیقی پسند ہے۔ میں کلاسیکل پاپ موسیقی پر نوجوانوں کے ساتھ جھوم سکتا ہوں‘دنیا میں پاکستان کا نرم تاثر(soft image) پیدا کرنے کے لیے موسیقی اور ثقافت [غالباً مغربی اور ہندووانہ] کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران آرٹسٹوں کو نظرانداز کیا گیا‘ جس    کے باعث انتہاپسندوں نے ہمارے [؟] بارے میں قائم نرم تاثر کو ملیامیٹ کر دیا‘‘۔ (روزنامہ نواے وقت‘ لاہور‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)

پاکستان بنانے والوں نے تو یہاں کے طالب علموں کی شخصیت کو ایک متوازن اور صحت مند انسان بنانے کے لیے پہلی کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس (نومبر‘ دسمبر ۱۹۴۷ئ) کی قرارداد نمبر۴ میں ایک مختلف لائحہ عمل دیا تھا‘ مگر وہ فرد جو قیامِ پاکستان کے وقت چار سال دو ماہ کا کم سن بچہ تھا‘ آج اسی قوم کی ملازمت کے دوران اختیارات کی امانت کا ناجائز استعمال کر کے حکمران بننے کے بعد اپنی اس قوم کو کسی اور ہی منزل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ موصوف کے وزیرتعلیم بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل ہیں اور قوم کو للکار کر کہتے ہیں: ’’ہم پاکستان میں اتاترک کا نظامِ تعلیم لائیں گے‘‘۔ جنرل موصوف غالباً نہ اتاترک سے واقف ہیں اور نہ وہ نظام تعلیم و تعلّم کا حدود اربعہ جانتے ہیں۔ اُن کی شہرت  فقط یہ ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں فرسودہ ریلوے انجنوں کی سوداکاری کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

پاکستانی نظام تعلیم کی تشکیل کے حوالے سے پہلی قومی کانفرنس میں جو قرارداد منظور کی گئی تھی‘ اس میں تو نسلِ نو کو جسمانی تربیت دینے اور دفاعی صلاحیت پیدا کرنے کے مجاہدانہ کردار کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن جنرل ضیا الحق کے دور میں نجی شعبے کو جو آزادی ملی اور نجی شعبے‘ بالخصوص   بیکن ہائوس سسٹم وغیرہ نے برگ و بارلانا شروع کیے تو سوچا گیا کہ چونکہ نجی شعبہ اپنے محدود کیمپسوں میں نیشنل کیڈٹ کور کی تربیت کا اہتمام نہیں کرسکتا‘ اس لیے جو لڑکے‘ لڑکیاں لازمی فوجی تربیت سے ۲۰نمبروں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ اُن سے یہ تھوڑا سا امتیاز بھی چھین لیا جائے (اور انٹری ٹیسٹ کے نام پر مخصوص طبقوں کو آگے بڑھنے کی مزید سہولت بہم پہنچائی جائے)۔ یوں ۱۹۹۷ء میں نواز شریف صاحب کی حکومت نے تعلیمی اداروں سے این سی سی کے خاتمے کا اعلان کیا اور اب ’پاکستانی اتاترک‘ نے قوم کی رگوں سے جہاد‘ تربیت اور قومی جذبے کی اُمنگ کو کھرچ دینے کے لیے راگ‘ رنگ اور مستی کی لہر کے ساتھ مخلوط و بے باک کلچر کی ترویج کو ترقی قرار دیا۔

طلبہ و طالبات کے لیے مخلوط میراتھن ریس کے پروگرام کو دیکھیے: گوجرانوالہ کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ افسر (تعلیم) نے ضلع بھر کے طلبہ و طالبات کے کالجوں کے پرنسپلوں کو اپنے خط (مورخہ ۳۱ مارچ ۲۰۰۵ئ) میں حکم دیا: ’’وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات کے مطابق مِنی میراتھن ریس ۲۰۰۵ئ‘ ۳ اپریل ۲۰۰۵ء کو گوجرانوالہ اسٹیڈیم میں منعقد ہوگی۔

  • پہلا مرحلہ: تین کلومیٹر‘ مرد‘ ۹ بجے صبح اور تین کلومیٹر‘ عورتیں‘ ۹ بج کر ۱۵ منٹ صبح قائداعظم ڈویژنل پبلک اسکول ‘ جی ٹی روڈ سے ریس شروع کریں گے۔
  • دوسرا مرحلہ: ۱۰ کلومیٹر‘ مرد‘ ۱۰ بجے صبح۔ ۱۰ کلومیٹر‘ عورتیں۔ ۱۰ بج کر ۱۵ منٹ صبح قائداعظم ٹائون‘ علی پور بائی پاس سے شروع کریں گے۔

آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنے تدریسی عملے [خواتین اور مردوں]‘ نیز اپنے کالج کے طالب علموں [لڑکوں‘ لڑکیوں] کو لے کر میراتھن ریس کے مقام آغاز پر پہنچ جائیں۔ آپ (سرکاری ملازموں)کی حاضری‘ گوجرانوالہ جناح اسٹیڈیم میں ریس کے آغاز اور ریس کے اختتام پر لگائی جائے گی۔

پاکستان بنانے والی مسلم لیگ۱۹۴۷ء میں نسلِ نو کی تعمیرذات کے لیے ایک الگ لائحہ عمل رکھتی تھی‘ جب کہ آج کی مسلم لیگ یہ راستہ اختیار کر رہی ہے جس میں اسکولوں اور کالجوں کی لڑکیوں کو تین سے دس کلومیٹر تک شہر کی سڑکوں پر دوڑایا جائے۔ یہ کون سی تعلیم اور کون سی صحت مند سرگرمی ہے! یہ صحت مند سرگرمی سے زیادہ‘ پاکستان کو ’’اسلام کی دقیانوسی‘‘ چادر سے نکال کر روشن خیالی کے اسٹیڈیم میں لانے اور تماش بینی کا بندوبست ہے۔

پاکستان کے نظام تعلیم کو آغاخان فائونڈیشن کے ادارے آغا خان بورڈ کے حوالے کرنے کا فریضہ انجام دینے والے جنرل مشرف اور ان کے وزیرتعلیم بعض اوقات حاکمانہ لہجے میں فرماتے ہیں: ’’ہم آغا خان بورڈ کو جاری وساری کرکے دکھائیں گے‘‘۔ اگر واقعی یہ ایک نجی ادارہ ہے تو پھر ہمارے حکمران اس کے دفاع کے بارے میں اتنے حسّاس کیوں ہیں؟ کیا آج تک کبھی کسی حکمران نے اور خاص طور پر کسی فوجی طالع آزما نے کسی پرائیویٹ ادارے کے لیے یوں سینہ تان کر دفاع کی جرأت دکھائی ہے؟ ان کی یہی سرگرمی بے شمار اندیشوں کو جنم دیتی ہے‘ حالانکہ خود آغا خان فائونڈیشن کی دستاویزات‘ عملی اعلانات اور اس پر تضادات کی بھرمار سے ہمارے حکمرانوں کی وکالت کا سارا کھیل چوپٹ ہوتا نظر آتا ہے۔

آغا خان بورڈ کے افسراعلیٰ شمس قاسم لاکھا ایک ٹیلی وژن پروگرام میں بڑے پرسکون اور دلیل کے بغیر بات کرتے دیکھے گئے‘ جب کہ وزیرتعلیم جنرل جاوید اشرف سطحی الزام تراشی میں لپٹے اور غصے کی حالت میں گرجتے پائے گئے۔ جنرل جاوید اشرف نے ۳۰ مارچ ۲۰۰۵ء کو پاکستان کے تمام ارکان قومی اسمبلی وارکان سینیٹ کو ایک خط (نمبر ای ایم ۲۰۰۵ئ) بھیجا‘ عنوان تھا: ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ‘ اے فیکٹ شیٹ‘‘۔ یہ فیکٹ شیٹ (حقائق نامہ) کیا تھی؟ تین صفحے کا تضادات سے بھرپور اور حقائق سے کوسوں دُور بیان اور اس کے ساتھ جنرل مشرف صاحب کا منظور کردہ آرڈی ننس‘ پھر آغا خان فائونڈیشن کے شمس لاکھا کا بیان بھی ہر رکن اسمبلی کے ہاتھ میں تھمایا گیا۔ اس میں پیش کردہ استدلال اپنے کیس کا دفاع کرنے سے قاصر ‘اور محض سیاسی پروپیگنڈا تھا۔

الماری کی زینت بننے والے دستور پاکستان کے مطابق جو صوبے اپنے دائرہ اختیار میں تعلیمی نظم و ضبط کے لیے خودمختار ہیں‘ انھیں جنرل جاوید اشرف کا یہی ’’فیکٹ شیٹ‘‘ والا وثیقہ بھیج کر دبائو میں لانے اور جکڑنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب کی حکومت نے‘ ارکان اسمبلی کے نام بھیجے جانے والے اس وثیقے کی ہوبہو نقل صوبہ بھرکے اسکولوں اور کالجوں کے پرنسپلوں کو ارسال کردی۔ کیا حکومت پنجاب بھی ایک ایسی نجی این جی او کی کاروباری مہم میں ’عوامی رابطہ کاری‘ کی حصہ دار    بن چکی ہے؟ وہ این جی او جسے اپنا بورڈ چلانے کے لیے مکمل آزادی حاصل ہے‘ جس کا ’’تصورِ قومی نصاب‘‘ بالکل جدا ہے‘ جس کے اقدامات کو پاکستانی عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘ جس کی فیسوں کا تعین اس کی ’نیک نیتی‘ پر چھوڑدیاگیا ہے‘ اور جس کے لیے پورا وطن عزیز کھلی چراگاہ ہے۔

وفاقی وزیرتعلیم یہ کہتے ہیں کہ: ’’آغا خان بورڈ تو ’او‘ لیول، ’اے‘ لیول کے لیے ہے‘ تاکہ زرمبادلہ بچایا جائے۔ پھر یہ بورڈ پاکستان کا قومی نصاب ہی پڑھائے گا‘‘۔ سوال کیا گیا: ’’جناب‘ پاکستان میں تو ’او‘ لیول ، ’اے‘ لیول کا نہ کوئی نصاب ہے اور نہ نظام۔ پھر بھلا یہ کس طرح قومی نصاب کے دائرے میں آئے گا؟‘‘ جواب حقارت آمیز خاموشی کی صورت میں ملا۔ پھر وزیر صاحب نے کہا: ’’پاکستان کا تعلیمی معیار اور یہ بورڈ بڑے خراب ہوچکے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیرتعلیم نے پاکستان کے قومی اور سرکاری نظام تعلیم کو درست کرنے کے لیے وزارت کا قلم دان سنبھالا ہے‘     یا خرابی دیکھ کر اسے ٹھکانے لگانے‘ بیچ دینے اور قومی زندگی سے غیرمتعلق بنانے کا بیڑا اٹھایاہے؟

دوسری طرف او/اے لیول سے مقتدر طبقے کاعشق خاصّے کی چیز ہے۔ گذشتہ اڑھائی برسوں کے دوران سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کم از کم سات مرتبہ وزارت ہاے تعلیم‘ خزانہ اور داخلہ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ: ’’پاکستان سے کتنے طلبہ و طالبات او/اے لیول کا امتحان دے رہے ہیں؟ ان کے نتائج کا تناسب کیا رہا؟ امتحان کی رجسٹریشن‘ امتحان کے انعقاد کی مد میں گذشتہ تین برسوں کے دوران (سال بہ سال) کتنا زرمبادلہ خرچ ہوا؟‘‘--- متعلقہ وزارتوں نے پہلے تو جواب ہی نہیں دیا‘ اور جب بار بار یاد دہانیوں سے مجبور ہوکر جواب دیا تو کہا: ’’ہمارے پاس معلومات نہیں‘‘۔ پھر پوچھا گیا تو جواب ملا: ’’چونکہ او/اے لیول پاکستانی نظام تعلیم نہیں ہے‘ اس لیے جواب نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ یہ کیسی گڈگورننس اور شاندار نظامِ حکومت ہے کہ جس کی آنکھوں کے سامنے قوم کے اربوں روپے پاکستان سے باہرجا رہے ہیں‘ اس کے ہزاروں بچے بچیاں بیرون پاکستان امتحان دے رہے ہیں‘ مگر حکومت کی کسی ایجنسی‘ کسی ادارے یا وزارت کے پاس اس کا ریکارڈ تک نہیں ہے۔ اور لطف یہ کہ اسے ایک قابلِ رشک اور قابلِ تقلید نظام قرار دے کر کہا جارہا ہے کہ یہی نظام آغا خان بورڈ لائے گا۔ حالانکہ آغاخان بورڈ بھی ایک بیرونی ایجنسی کا سوداکار نمایندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانی بورڈ کے کرتا دھرتا اور نصابی ڈھانچے کے نگران پاکستانی نہیں بلکہ برطانوی ہی مقرر کیے گئے ہیں۔

آغا خان بورڈ کی طرف سے پاکستان کے ’’قومی نصاب کی پابندی‘‘ کا پے درپے اعلان‘ ہاتھی کے دکھاوے کے دانتوں کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس میں بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر نصاب پاکستان کا ہونا ہے تو محض ایک مشینی انداز سے امتحان لینے کی زحمت کرنے میں آغا خان یونی ورسٹی کو کیوں اتنی دل چسپی ہے؟ اور اتنے سے کام کے لیے یو ایس ایڈ کی کروڑوں ڈالر کی امداد‘ امریکی سفیر کی بے چینی‘ اور حکومتی عقابوں کا اضطراب کیا صرف اور صرف امتحان لینے دینے کے لیے ہے؟ نہیں! یو ایس ایڈ کی ویب سائٹس اور آغا خان ایجوکیشن سروس‘ آغا خان یونی ورسٹی اور اس کا بورڈ تصویر کا دوسرا منظر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے ۱۱‘۱۲ اگست ۲۰۰۳ء کو نصابِ تعلیم پر گول میز کانفرنس منعقد کی‘ جس میں نصابی تبدیلیوں پر غور کیا گیا۔ پھر اسی تسلسل میں مارچ ۲۰۰۴ء کے دوران مزید اجلاس کیے۔ اس کے بعد جولائی اور ستمبر ۲۰۰۴ء کو اسی نوعیت کے بھرپور اجلاس میں نصابی جائزے کے لیے ۱۸ پینل بنائے گئے جنھوں نے مختلف سطحوں پر سامنے آنے والے ردعمل کا جائزہ لیا۔ صرف اس مشق کے لیے ۱۳ لاکھ امریکی ڈالر صرف کیے گئے۔

پاکستان کیا‘ دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے نظام تعلیم سے مطمئن نہیں‘ لیکن وہ ملک اسے بیچ دینے یا اکھاڑ پھینکنے کے بجاے اسے بہتر بنانے کی سبیل سوچتے ہیں۔ مگر یہاں نہ صرف اس کی مذمت کی جارہی ہے بلکہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں پاکستان کے عام اسکولوں اور دیہی علاقوں کے ذہین اور محنتی طالب علموں کے جو عظیم کارنامے نظر آتے ہیں‘ اور پھر دفاع وطن کے لیے جوہری و میزائل ٹکنالوجی میں جو پیش رفت دکھائی دیتی ہے‘ بالیقین کہا جاسکتا ہے کہ اس عظیم قومی ذہانت و محنت میں آپ کو کسی عیسائی مشنری تعلیمی ادارے‘ اولیول گروپ یا اعلیٰ طبقاتی انگلش میڈیم کا کوئی رول ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔ میڈیکل اور زراعت میں انھی کم مایہ اور غریب مگر ملک و قوم کے وفادار سائنس دانوں کی عظمت کے نقوش پرآج مسلم دنیا خصوصاً ملایشیا‘ ترکی اور مصر کے سائنس دان بھی رشک کرتے ہیں۔ پھر بھی یہی بے چارے مذمت اور تحقیر کے حق دار ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان کے قومی نظام تعلیم کے جسدِملّی سے روح محمدؐکی بچی کھچی رمق کو نچوڑ کر رکھ دینا امریکی سامراج کا ہدف ہے۔ اس کے لیے انھوں نے پاکستان کی وزارت تعلیم کو بے دست و پا بناکر‘ ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اور ہر ٹکڑے پر چار چار عالمی این جی اوز کو بٹھا دیا ہے جن کی وفاداریوں کا مرکز پاکستان میں نہیں بلکہ سات سمندر پار ہے۔ ان این جی اوز کی حکمرانی وزارت ہاے تعلیم اور ادارہ ہاے نصابیات سے لے کر اساتذہ کی تربیت اور انھیں دفتری اور انتظامی گُر سکھانے تک پھیلی ہوئی ہے۔ بڑے انتظامی عہدوں پر لاکھوں روپوں کی تنخواہوں والے باس بٹھائے اور سابق اعلیٰ فوجی افسران مسلط کیے جا رہے ہیں‘ جنھیں نہ تعلیم کے رموز سے شناسائی ہے اور نہ اجتماعی زندگی کے پیچ در پیچ سلسلوں سے نبردآزما ہونے کی کوئی تربیت حاصل ہے۔ البتہ وہ اُوپر سے ملنے والے حکم کو یونٹی آف کمانڈ کے اصول پر نچلے عملے پر اندھا دھند نافذ کرنے کا پیشہ ورانہ تجربہ ضرور رکھتے ہیں۔ غالباً ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکا کو ایسے ہی فدوی مگر کروفر کے حامل افراد کار کی ضرورت ہے۔

روزنامہ  ڈیلی ٹائمز‘ لاہور (۲۰ اپریل ۲۰۰۵ئ) کے واشنگٹن میں متعین نمایندے خالد حسن نے رپورٹ دی کہ: ’’ایجوکیشن ان اسلامک ورلڈ‘ ٹاپ یو ایس پرییارٹی‘‘ (یعنی: مسلم دنیا میں تعلیم: امریکا کی ترجیح اول)۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکا نے طے کیا ہے [کہ مسلم دنیا کی] وزارت ہاے تعلیم کو فنی معاونت کے لیے مادی وسائل فراہم کیے جائیں گے‘‘۔ الزبتھ چینی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری نے یہ بیان امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے‘ تعلیم اور دہشت گردی کی مناسبت سے دیا۔ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت سینیٹر رچرڈلوگر نے کی جن کے سامنے اسلام آباد سے انٹرنیشنل کرائسز گروپ (ICG) کی ڈاکٹر ثمینہ احمد‘ عالمی بنک کے سابق اعلیٰ عہدے دار شاہد جاوید برکی ‘ اُردن کے وزیر مال ڈاکٹر بسیم‘ امریکی حکومت کے متعدد اعلیٰ افسروں اور یوایس ایڈ کے جیمز کنڈر نے بیانات دیے۔ جیمزکنڈر نے کہا: ’’امریکا کو [مسلم دنیا کے] نوجوانوں تک پہنچنا چاہیے‘‘۔ ثمینہ احمد نے کہا: ’’نائن الیون کے بعد بڑی خطیر مالی معاونت کے باوجود پاکستان کے تعلیمی ماحول کو خاطرخواہ طریقے سے متاثر نہیں کیا جاسکا‘ جس کا ایک سبب پاکستان کی غیرمؤثر تعلیمی بیوروکریسی ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستانی حکومت مذہبی عناصر کے دبائو کے سامنے قدم نہیں جماپاتی جنھوں نے پاکستان کے نصاب تعلیم کو یرغمال بنا رکھا ہے‘‘--- یہ سب چیزیں اُس ایجنڈے کا حصہ ہیں‘ جن کے تحت پاکستان کے پورے تعلیمی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی سرگرمی عروج پر ہے۔

مخلوط تعلیم کو رواج دینے میں ذوق شوق ‘ تربیت اساتذہ کے بے شمار قومی ادارے موجود ہونے کے باوجود امریکا اور آغا خان فائونڈیشن کی مدد کا حصول‘ نصابات کو عدم مرکزیت کی دلدل میں دھکیلنا‘ اعلیٰ تعلیمی ڈھانچے کو غیرمؤثر اور کاروباری نشیب کی طرف دھکیل دینا‘ عورتوں اور طالبات کی تعلیم و تربیت اور مخصوص ذہن سازی پر خصوصی ارتکاز‘ میڈیا کی آزاد روی بلکہ آوارہ خرامی کی سرپرستی اور اس کام کے لیے مخصوص این جی اوز کو کھل کھیلنے کا سامان مہیا کرنا--- یہ سب چیزیں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کے بعد برق رفتاری سے مسلم دنیا‘ بالخصوص پاکستان کے تعلیمی نظام کو پامال کر رہی ہیں۔ اگر معاملات کی یہی رفتار رہی اور اہل سیاست اور اہل اقتدار نے اپنی آنکھوں پر بدستور ذاتی مفادات کی پٹی باندھے رکھی تو اب سے چار سال بعد کا پاکستان‘ نہ اقبال کا پاکستان ہوگا اور نہ قائداعظم کا پاکستان۔ ایوب خاں کی طرح آج کے حکمران بھی ماضی کی کتابوں میں بند پڑے ہوں گے‘ تاہم وہ مجبور و مقہور پاکستان این جی اوز کا پاکستان ہوگا۔ جہاں بظاہر چہرے پاکستانیوں کے ہوں گے لیکن‘ دل اور دماغ عالمی این جی اوز مافیا کی گرفت میں ہوں گے۔

اس ساری صورت حال میں سپریم کمانڈر صدر بش اپنے مددگار کمانڈروں کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لے رہے۔ C.Span ٹیلی وژن نیٹ ورک پر ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ء کی شام انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’جنرل مشرف نے عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمارے کسی دبائو کے بغیر ہی درست سمت میں چلنے کے لیے انھوں نے متعدد راستے اختیار کیے ہیں۔ بہت سے مواقع پر‘ میں نے جنرل مشرف سے بات چیت کے دوران یاد دلایا کہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے عمل میں وہ خاص طور پر پاکستان کی تعلیمی پالیسی کو تبدیل کریں اور اس تعلیمی پروپیگنڈے کا خاتمہ کریں جو ان کے اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے‘‘ (یکم فروری ۲۰۰۵ئ‘  قومی اخبارات)۔ سامراج کی ایک خوبی کا اعتراف کرنا چاہیے‘ اور وہ یہ کہ جب کوئی فرد اُن کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اُن کا مددگار بنتا ہے‘ تو وہ اس کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے خلاف گواہی دینے والے کو شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ایسا کام اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک کہ آپریشن مکمل نہیں ہوتا۔ سرزمین ہند میں گوری اقوام نے بار بار یہی ڈراما کیا تھا اور اس صدی میں توا س کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘ تو ایک بہانہ ہے۔ دراصل یہ جنگ اسلام اور قرآن کے خلاف ہے‘ اسلام کے دیے ہوئے خاندانی نظام اور سیرت محمدیؐ کے خلاف ہے اور اس سے بڑھ کر  مسلم اُمت کو ایک کم تر کمیونٹی بنانے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ اس کام کے لیے تعلیم کا میدان اوّلیت کا حامل ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ بقول اکبر الٰہ آبادی مرحوم:

دل بدل جائیں گے‘ تعلیم بدل جانے سے

عراق میں مارچ ۲۰۰۳ء سے امریکا کی ڈیڑھ لاکھ فوج موجود ہے۔ ۲۰مارچ ۲۰۰۵ء کو قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر‘ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے‘ ان کے مطابق دو سالوں میں۱۵۲۰ امریکی مارے گئے‘ ۱۱ ہزار ۲ سو شدید زخمی اور معذور ہوئے‘ جب کہ جنگی صورتِ حال‘ موت اور گوریلا حملوں کے خوف سے ایک لاکھ امریکی ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ ماہرین جنگ کے تجزیوں کے مطابق عراق میں اپنی مدت قیام مکمل کرکے واپس جانے والے فوجیوں میں دوبارہ کسی محاذ پر جاکر لڑنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی (روزنامہ ڈان‘ ۲۰ مارچ ۲۰۰۵ئ)۔ واضح رہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ امریکا اپنی فوجیوں کی ہلاکتیں چھپاتا ہے۔

عراق کو آزادی دلانے کے لیے آنے والا امریکا‘ عراقیوں کے لیے صدام سے سوگنا بدتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ جمہوریت‘ انتخابات‘ دستورساز اسمبلی‘ دستور سازی اور عراقیوں کی حکومت کے پردے میں امریکا اپنی حکمت عملی کے تحت اپنے منصوبوں اور سازشوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن اسے اپنے اندازوں سے بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اے ایف پی کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے جو تفصیل دی ہے‘ اس کے مطابق  امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ صدام کے حامیوں سے خطرہ نہیں‘ اس لیے ان سے لڑنے کے بجاے امریکی اور اتحادی فوجوںکو مذہبی انتہاپسندوں ہی سے لڑنے کو ترجیحِ اول بنانا ہوگا۔ (ڈان‘ ۹مئی۲۰۰۵ئ)

امریکی حکومت اور اس کے عراق میں متعینہ جرنیل ‘جعفری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جنگجو گوریلا قوتوں سے سختی سے نمٹے۔ حکومت کی کامیابی کے لیے نظرآنا چاہیے کہ وہ واقعی کچھ کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں حکومت کے ترجمان اپنی رپورٹیں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے کافی مزاحمت کاروں کو ہلاک کرکے اور بڑی تعداد میں اسلحے کے ذخیروں پر قبضہ کرلیا ہے مگر امریکی اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ جنرل جارج کیسی کا کہنا ہے کہ ابومصعب الزقاوی کی کارروائیاں روز افزوں ہیں اور شام کی سرحد سے غیرملکی مداخلت کار عراق میں مسلسل داخل ہو رہے ہیں۔ عبوری وزیراعظم ابراہیم جعفری کے ترجمان لیث قبہ نے اپنی حکومت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان قائم کرنے اور شورش پسندوں کو قابو کرنے کے لیے امریکی جرنیلوں سے مشورے مسلسل جاری رہتے ہیں۔ تاہم امریکی جرنیل اور عراق کی کٹھ پتلی حکومت کوئی مثبت نتیجہ آج تک حاصل نہیں کرسکے۔ (مضمون جوناتھن فائنر اور بریڈلے گراہم‘ روزنامہ ڈان‘ ۱۵ مئی ۲۰۰۵ئ)

دوسری طرف‘ نومنتخب اسمبلی کو اس سال کے اختتام تک دستور بنانا ہے ورنہ یہ تحلیل ہوجائے گی۔ دستور بن جانے کے بعد‘ نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ ملک میں ۴۰ سے ۴۵ فی صد تک سنی ہیں مگر ان کو کرد اور عرب قومیتوں میں تقسیم کر کے ۲۰ فی صد کردسنیوں کو اس تعداد سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ سنی جماعت سنی عرب حزب اسلامی کے ترجمان ناصرالعانی نے مطالبہ کیا ہے کہ دستور سازی کے لیے نام نہاد پارلیمنٹ کے بجاے تمام گروپوں کے مستند نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی جائے‘ ورنہ دستور تسلیم نہیں کیا جائے گا (ڈان‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)۔ پارلیمنٹ نے ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل جو ۵۵ رکنی کمیٹی قائم کی ہے اس میں صرف دو سنی ارکان شامل ہیں۔ ابراہیم جعفری نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سنیوں کے جذبات کا احترام کریں گے۔  سنی جماعت بااثر ہے اور اسے شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سابق عبوری وزیراعظم ایاد علاوی اور مشیربراے قومی سلامتی قاسم دائود نے بھی جو شیعہ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ دستوری کمیٹی کا بھی ممبر ہیں‘ سنیوں کے مذکورہ بالا مطالبے کی پُرزور تائید کی ہے۔ یہ کمیٹی اپنا مجوزہ مسودہ ۱۵ اگست تک تیار کرنے کی پابند ہے۔ یہ مسودہ مجلس کی منظوری سے ۱۵اکتوبر تک قومی استصواب راے (ریفرنڈم) کے لیے پیش کیا جائے گا۔

قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر ‘ یہ جائزے لیے جارہے ہیں کہ کس نے کیا حاصل کیا۔ متحدہ عرب امارات کے معروف عربی اخبار الخلیج میں ایک عرب تجزیہ نگار عبدالالہ بلقزیز نے ۲۰مارچ کو اپنے مضمون ’’عراق جنگ کے دو سال‘‘ میں لکھا ہے کہ تیل کے تاجروں‘ بش‘ ڈک چینی اور ان کے رفقاے کار نے اپنے اہداف میں سے تین حاصل کر لیے ہیں۔ پہلا ہدف تیل کی دولت پر قبضہ تھا جو پورا ہوچکا اور وہ سارے اخراجات مع منافع یہاں سے حاصل کررہے ہیں۔ دوسرا ہدف اسرائیل کا تحفظ تھا‘ اس کے حصول کے لیے بھی وہ بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘ اور تیسرا ہدف عراق کی تقسیم تھی جو سنی‘ شیعہ اور کرد میں کردی گئی ہے۔ امریکی عوام کو اس سے کیا ملتا ہے؟ اس کا جواب بہت جلد دنیا کے سامنے آجائے گا کیونکہ تیل کی دولت تو یہ دہشت گرد امریکی حکمران خود ہی ہضم کررہے ہیں۔

وقتی طور پر تیل کی دولت پر قبضے کے باوجود ‘عراق میں امریکا کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:

۱- امریکا اور بحیثیت مجموعی استعمار کی تاریخ بتاتی ہے کہ حریت پسند قوموں پر استعماری تسلط کبھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ویت نام‘ کمبوڈیا‘ کوریا‘ جنوبی افریقہ‘ الجزائر اور بہت سی دیگر مثالیں بالکل واضح ہیں۔

۲- عراق میں مزاحمت بے پناہ قربانیوں کے بعد بڑھ رہی ہے‘ کم ہونے کے دُور دُور تک آثار نظر نہیں آتے۔

۳- قابض فوجوں کے پاس قبضے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے‘ اس لیے ان کے حوصلے سارے مادی وسائل کے باوجود پست ہوچکے ہیں۔

۴- قابض فوجوں نے قیدیوں پر ابوغریب اور دیگر جیلوں میں جو ننگ ِانسانیت مظالم ڈھائے ہیں‘ عالمی راے عامہ اس پر شدید غم و غصے اور امریکا سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔ اس میں خود امریکی راے عامہ بھی شامل ہے۔ امریکا کے دو ماہرین سروے ڈیموکریٹ پیٹرہارٹ اور ری پبلکن بِل میک انٹرف نے بتایا ہے کہ امریکی ووٹر عراق پر امریکی پالیسی سے نفرت کا اظہار کر رہا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)

اس ساری صورت حال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ عراقی قوم اس آزمایش سے کندن بن کر نکلے گی۔ عراق سے مقامی آمریت کا خاتمہ تو ہوگیا ہے‘ اب بیرونی قبضہ بھی ختم ہوگا۔ اگر عراق حقیقی جمہوریت کے راستے پر چلا تو اس سے اسلامی قوتوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔

کیبل نیٹ ورک کا استعمال

سوال: میرا تعلق تحریک سے وابستہ ایک گھرانے سے ہے مگر میرے شوہر حافظِ قرآن ہونے کے باوجود گھر میں کیبل لانے کے ذمہ دار ہیں۔ میں ٹی وی اور لوکل چینل شوق سے دیکھتی تھی‘ پھر کیبل بھی دیکھنا شروع کر دی۔ لیکن اب میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ کیبل اخلاق و کردار کو تباہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ میری شادی کو ابھی چار سال ہوئے ہیں اور میری دو چھوٹی بچیاں ہیں۔ بچیوں اور شوہر کو منع کرتی ہوں مگر منع کرنے پر کبھی تو وہ رک جاتے ہیں اور کبھی دیکھتے رہتے ہیں۔ دیگر اہلِ خانہ بھی ٹی وی اور کیبل کو برا جانتے ہیں مگر دیکھنے سے اجتناب نہیں کرتے۔ ایسے میں میرا کردار کیا ہونا چاہیے‘ جب کہ   ٹی وی میرے اپنے کمرے میں موجود ہے۔

جواب: آپ نے اپنے خط میں جس عملی تضاد کا ذکر کیا ہے‘ تحریکات اسلامی کی کامیابی کی راہ میں وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ شعوری طور پر اسلام کے مان لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک شخص اپنی فکر‘ نظر‘ فہم‘ معاملات و تعلقات کو جذبات و احساسات کے بجاے عقلی رویے کا عادی بنائے۔ اس کی نظر‘ سماعت اور طرزِعمل نفسی خواہش کی بنا پر نہ ہو‘ بلکہ وہ اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں دے دے۔ اس کا شعار قرآن کریم کی وہ آیت بن جائے جسے آپ اور میں بارہا سنتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے‘ یعنی قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لاَ شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمْرِتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲)‘کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں۔

جہاں تک سوال کسی گھر میں کیبل کے ہونے یا نہ ہونے کا ہے‘ موجودہ دور میں    صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ‘ یعنی پی ٹی وی کے مختلف چینل کسی کیبل کے محتاج نہیں ہیں اور ہر گھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ وہ خود اتنے عریاں اور فحاشی کا ذریعہ بن گئے ہیں کہ اگر کیبل نہ بھی ہو جب بھی ایک شخص کے اہلِ خانہ اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ جہاں کہیں برائی ہو رہی ہو‘ قرآن کریم نے وہاں سے ایک مومن کے گزر کا جو طریقہ بتایا ہے وہ بڑا واضح ہے‘ یعنی وہ ایسی لغو اور غیراخلاقی چیز پر سے گزر جاتے ہیں اور اس سے چپک کر نہیں رہ جاتے۔ (الفرقان ۲۵:۷۲)

قرآن کریم نے ہمیں سماعت‘ بصارت اور قلب (فواد) کی جواب دہی کی طرف بھی  متوجہ کیا ہے اور دو ٹوک انداز میں ہدایت کر دی ہے کہ ان ذرائع کو (جو دراصل حصولِ علم کے  ذرائع ہیں) فحش اور عریانیت سے آلودہ نہ ہونے دیا جائے۔ ایک مرتبہ یہ عمل شروع ہو جائے تو پھر حدیث کی روشنی میں یہ غیرمحسوس داغ یا دھبہ‘ جو نگاہ پر قلب پر اور دماغ پر لگ جاتا ہے‘ آہستہ آہستہ پورے قلب کو اپنی تاریکی میں لپیٹ لیتا ہے۔

اس اصولی صورت حال کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ آج تحریک اسلامی کے مرکز میں واقع کوئی گھر ہو یا ملک کے دور ترین گوشے میں کوئی کچی آبادی‘ آپ کو ہر جگہ پر ٹی وی انٹینا‘ ڈش یا زیرزمین کیبل کے آثار مل جائیں گے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عالمی ابلاغی انقلاب کے بعد معلومات اور اپنے آپ کو دنیا کے واقعات سے آگاہ رکھنے کا ایک اہم اور سریع ذریعہ ٹی وی اسکرین ہے‘ تو صرف معلومات کے حصول کی حد تک اس کا استعمال ایک ضرورت (مجبوری) بنتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر ہونے والے ناچ گانے اور ڈرامے میں ہر قاتلِ اخلاق کردار کا شوق اور توجہ سے نظارہ کیا جائے۔

اس میں خود آپ کو اور آپ کے بزرگوں اور آپ کے شوہر کو اپنے نفس پر ضبط کرنا ہوگا اور اپنی نگاہ اور سماعت کو بھی اللہ کی بندگی میں دینا ہوگا۔ اللہ کی بندگی جزوی نہیں ہوسکتی کہ گلے کی حد تک اس کے کلام کی تلاوت کر دی جائے اور نگاہ اور سماعت پر اس کا عمل دخل نہ ہونے دیا جائے۔

آپ نے دو بچیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ گو وہ ابھی چھوٹی ہیں لیکن دو سال کی عمر سے ہی ایک بچہ اپنے ماحول سے الفاظ‘ طرزعمل اور رویے کو اخذ اور جذب کرتا ہے۔ اگر وہ آج کیبل کی عادی ہوں گی تو پھر اُن کے بڑے ہونے پر‘ آپ انھیں مارپیٹ کے ذریعے بھی اس عادت سے نجات نہیں دلا سکتیں۔ اگر بچیوں کے لیے کارٹون دیکھنا‘ آپ کے خیال میں ان کی ’’شرعی ضرورت‘‘ ہے تو پھر ہر کارٹون کا تجزیہ کر کے انھیں یہ بھی بتائیں کہ فلاں کردار کیوں غلط ہے اور انھیں اس سے بچنا چاہیے۔ اگر آپ یہ اصلاحی کام نہیں کر سکتیں اور بچیوں کو محض خاموش اورمصروف رکھنے کے لیے انھیں کارٹون نیٹ ورک کے حوالے کر دیتی ہیں تو جو کچھ بچیاں دیکھیں گی اس کے اثرات ان کے ذہن اور یادداشت میں آپ کے نصیحتی خطبات سے کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوں گے۔ پانچ یا دس سال بعد ان کے ذہن سے ان اثرات کو محو کرنا آسان نہیں ہوگا۔

کیبل اگر آپ کی ضرورت ہے تو پھر اس کے پروگراموں کو محدود رکھیے اور جو پروگرام آپ کے خیال میں مضر نہیں ہیں‘ مثلاً نیشنل جیوگرافک کی کوئی تعلیمی documentary یا Discovery کا کوئی ایسا پروگرام جو اخلاق کو خراب نہ کرتا ہو‘ ایسے پروگراموں کو دیکھتے وقت بھی اپنے ذہن کو کھلا رکھیے اور جہاں ضروری ہو تجزیہ و تبصرہ کر کے اس کے مضر اثرات کو دُور کرنے کی کوشش کیجیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


مشکوک آمدنی اور دعوتِ دین

س: بعض لوگ مشکوک آمدنی کی بنا پر حلال و حرام میں بہت حسّاس ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا کوئی رفیق یا کوئی فرد جس تک میں دعوت دین پہنچانا چاہتا ہوں‘ اگر اُس کے گھر والوں کی کمائی کا ذریعہ حرام ہے تو کیا میں اُس کے ہاں کھاپی سکتا ہوں؟ یا اگر کبھی اُس نے کھانے وغیرہ کی دعوت دی تو میں کیسے ردّ کر سکتا ہوں‘ جب کہ دعوت قبول کرنا سنت رسولؐ ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ تحقیق کے بعد ہی کسی کی دعوت یا تحفہ قبول کرتے تھے۔ اگر کسی شخص کی کمائی کے بارے میں ہمیں شک ہو یا معلوم ہو کہ اُس کی کمائی حرام ہے‘ تو ایسی صورت میں کیا رویہ اپنایا جائے؟

ج: حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہہ حلال (بھی) واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے‘ اور دونوں کے درمیان شبہے کی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا‘ اس نے اپنے دین و آبرو کو محفوظ کرلیا‘‘۔ (بخاری ‘مسلم)

اس حدیث میں ہماری رہنمائی کے لیے تین بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اول: حلال کواللہ تعالیٰ نے واضح اور ظاہر کر دیا ہے اور طیبات کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے___ یہ طیبات اور حلال نہ صرف کھانے پینے میں‘ بلکہ بصارت‘ سماعت‘ معاملاتِ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلال نگاہ وہ ہے جو صرف ان اشیا کو دیکھے جن کا دیکھنا اخلاقی طور پر درست ہے۔ ایسے ہی صرف ان چیزوں کو کھایا اور پیا جائے جو بجاے خود پاکیزہ اور صحت بخش ہوں۔

دوسری بات یہ سمجھائی گئی ہے کہ حرام کو واضح اور متعین کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اس سے مکمل طور پر بچا جائے اور اس کے قریب بھی نہ پھٹکا جائے۔ قرآن و حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ کوئی شخص اپنی پسند ناپسند سے کسی چیز کو حلال و حرام قرار نہیں دے سکتا ۔ حتیٰ کہ اللہ کے رسول کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی چیز کو‘ جسے اللہ نے اس کے لیے حلال کیا ہو‘ اپنے اُوپر حرام کرلے۔ (التحریم ۶۶:۱)

اسی بنا پر امام مالکؒ نے جو اصول بیان کیا ہے اس پر تقریباً تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے کہ اصلاً تمام اشیا مباح ہیں جب تک انھیں قرآن و سنت حرام قرار نہ دے دیں۔ وجہ ظاہر ہے      اِنَّ الْحَلَالُ بَیِّنٌ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ’’یہ دونوں چیزیں شریعت نے ظاہر اور واضح کر دی ہیں۔

تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جن معاملات میں قرآن و سنت کا واضح حکم موجود نہیں ہے‘ یعنی مشتبہات‘ تو ان میں احتیاط کا رویہ اختیار کیا جائے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دین اہلِ ایمان کو غیر ضروری طور پر مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ قرآن کریم نے یہ اصول دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دیا کہ اللہ تعالیٰ دین میں آسانی چاہتا ہے (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ حدیث میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے کہ دین میں آسانی اختیار کی جائے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ کے سامنے ایک راستہ آسان اور ایک قدرے مشکل ہوتا تو آپؐ آسان کو اختیار فرماتے تھے‘ تاکہ آپؐ اپنی سنت کی پیروی میں اُمت کو غیر ضروری طور پر دقت اور مشکل میں نہ ڈالیں۔

آپ کی جانب سے احتیاط کا رویہ اختیار کرنا اچھی عادت ہے۔ لیکن اس کی بنا پر اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹ لینا اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہو جانا بھی دین کا مدّعا نہیں ہے۔ دین کے تمام احکام کی بنیاد ظاہر پر ہے۔ اگر تحقیق کے بعد ایک بات آپ پر ظاہر ہو کہ ایک شخص دین کا باغی اور دشمن ہے تو آپ لازماً اس کے ہاں کھانا کھانے سے بچیں۔ لیکن محض  گمان کو سورۃ الحجرات میں گناہ شمارکیا گیا ہے۔ (الحجرات ۴۹:۱۲)

ایک بات یہ بھی سمجھ لیجیے کہ جب تک ایک شخص کا اپنا حصولِ رزق کا طریقہ صحیح ہے‘ اسے اپنے ذہن کو ہر شبہے سے خالی کر کے‘ اللہ کے دیے ہوئے رزق کو مناسب طور پر استعمال کرنا چاہیے اور ہر شخص کی روزی کو آلودہ سمجھ کر اس سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کا یہ کہنا کہ ایک شخص کو جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اُس کے والد کس طرح روزی کماتے ہیں اور وہ اپنے گھر کا کھانا استعمال نہ کرے‘ عقل کے منافی ہے۔ جب تک آپ کو تحقیق سے یہ معلوم نہ ہو کہ ایک شخص کی روزی حرام ہے‘ محض گمان کی بنا پر اس سے قطع تعلق کرنے کی بنیاد علم نہ ہوگا بلکہ ظن و گمان ہی ہوگا جس سے قرآن کریم نے سورۃ الحجرات میں منع کیا ہے۔ اسلام کا مثبت اصول یہ ہے کہ جب تک ایک چیز کے ممنوع ہونے کا حکم نہ ہو اسے مباح سمجھا جائے۔

اس لیے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اگر کسی نے آپ کو مدعو کیا یا کھانے کو کوئی چیز بھیجی تو اسے استعمال کرنے میں تردّد نہ کریں۔ جب تک آپ تحقیق سے یہ نہ جان لیں کہ وہ حرام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب! (ا -ا)

سید مودودی سرحد میں، پروفیسر نورورجان۔ ناشر:کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۱۔ قیمت: ۹۰ روپے۔

پروفیسر نور وَرْجان ‘ قبل ازیں متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کرچکے ہیں‘ مثلاً مولانا معین الدین خٹک: احوال و آثار (لاہور‘ ۲۰۰۱ئ) اور اسلام اور عصرِحاضرکا چیلنج از مولانا معین الدین خٹک (لاہور‘ ۲۰۰۱ئ) وغیرہ۔ سید مودودی سرحد میں پروفیسر موصوف کی تازہ تحقیقی کتاب ہے جس میں انھوں نے صوبہ سرحد میں جماعت اسلامی کو منظم کرنے اور وہاں دعوتِ دین پہنچانے کے ضمن میں سید مودودی کے کارنامے کی تفصیل بیان کی ہے۔

انھوں نے مختصر مدت میں اخبارات اور جماعت کے جملہ رسائل کا ریکارڈ دیکھا‘ پڑھا اور یہ کتاب مرتب کر دی۔ میری نظر سے ایسی کوئی کاوش ابھی تک نہیں گزری جس میں سید مودودیؒ کے دوروں کو اس طرح مرتب انداز میں پیش کیا گیا ہو۔ میرا اور ارباب عون اللہ مرحوم کا یہ خیال تھاکہ سید مرحوم صوبہ سرحد میں سات مرتبہ تشریف لائے مگر پروفیسر موصوف نے سیدکے ۱۲دورے ثابت کیے ہیں۔

سید مودودی سرحد میں پروفیسر نورورجان کی بہترین کاوش ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے‘ میں زمانۂ ماضی میں کھو گیا۔ دوروں کا چشم دید گواہ ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامّل نہیں کہ تحقیق قابلِ داد ہے اور پیرایۂ بیان عمدہ ہے۔ محسوس ہوتا ہے‘ قاری سید مودودیؒ کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہا ہے۔ دوروں سے متعلق بعض نادر دستاویزات بھی شاملِ کتاب ہیں۔

اسلامیہ کالج پشاور میں مولانا مودودیؒ کی تقریر ’اسلام اور جاہلیت‘ (فروری‘ ۱۹۴۱ئ) سے قبل ایک واقعے کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں۔ ہوا یہ تھا کہ سید مرحوم و مغفور کے دورے سے قبل انگریز کی مرکزی حکومت کی طرف سے مقامی انتظامیہ کو ہدایت موصول ہوئی تھی کہ مولانا مودودی پشاور میں تقریر کے لیے آنے والا ہے۔ یہ خطرناک آدمی ہے‘ اس کی نگرانی کی جائے۔ متعلقہ تھانے کے منشی تاج محمد آف اکبرپورہ نے یہ انگریزی حکم نامہ پڑھ کر اس پر عمل درآمد کیا۔ مگر بعد میں جب تاج محمد نے مولانا مودودیؒ کی کتاب تنقیحات پڑھی تو اس قدر متاثر ہوئے کہ مولانا مودودیؒ کو خط لکھ کر جماعت اسلامی کا رکن بننے کی درخواست کی۔جواب ملا: پولیس اور فوج کے ملازمین کو جماعت اسلامی کا رکن نہیں بنایا جاتا۔ تاج محمد مرحوم نے پولیس کی ملازمت سے استعفا دیا اور جماعت کی رکنیت اختیار کرلی۔

مؤلف نے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع تک‘ جگہ جگہ سے تحقیق کرکے‘ استفسارات کرکے‘ اور انٹرویو لے کر ۱۹۱ صفحات کی مختصرکتاب میں بیش قیمت اور مفید معلومات یک جا کر دی ہیں یعنی دورے کب کب کیے؟ تقریریں اور ان کے سامعین میں سرکردہ افراد کون تھے اور ان کے تاثرات کیا تھے۔ یہ معلومات بعد میں مرتب ہونے والی مفصل کتابوں کے لیے مفید اور معاون ثابت ہوں گی۔

پروفیسر موصوف‘ سید مودودیؒ کے بیرونی سفروں کی روداد بھی مرتب کردیں تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔ کتاب دیدہ زیب ہے اور قیمت مناسب ہے۔ (سید فضل معبود)


معلمِ اخلاق، حافظ ثنا اللہ ضیائ۔ مکتبہ اسلامیہ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت (مجلد): ۱۱۵ روپے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ایک ایسی نہ ختم ہونے والی تصویر ہے جس کے کسی رخ کا کتنا ہی احاطہ کیوں نہ کیا جائے‘ تشنگی کا احساس باقی رہتاہے۔ زیرتبصرہ کتاب کو سیرت پر اوّل انعام ملاہے۔ پیش کش کے لحاظ سے اس خوب صورت کتاب میں ۲ سو سے زیادہ عنوانات کے تحت آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ ایک دفعہ کوئی اسے ہاتھ میں لے لے تو سیرتؐ کی کشش اور خوب صورت پیش کش‘ کتاب کو خود پڑھواتی ہے اور قاری کے سامنے اوّل تا آخر آپؐ کی زندگی کے تمام گوشوں کاکوئی نہ کوئی عکس سامنے آتا ہے۔ اگر ہم کچھ موضوعات کا ذکر کر دیں تو اس سے کتاب کی وسعت متاثر ہوگی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہر واقعے کے ساتھ حدیث کی کتاب کا حوالہ اسی صفحے پر درج کیا گیا ہے جس نے اس کتاب کی قدروقیمت میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔ (مسلم سجاد)


یہ تیرے پُراسرار بندے، طالب الہاشمی۔ طٰہٰ پبلی کیشنز‘ ۲۲‘ اے‘ ملک جلال الدین وقف بلڈنگ‘ چوک اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحا ت: ۹۶۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

امام عبداللہ الذہبی کا قول ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف و اکابر کے صحیح اور سچے حالات سے بے خبر ہے اور اس کو علم نہیں کہ اس کے راہبروں اور بزرگوں نے دین و ملّت کی کیا خدمت انجام دی ہے‘ ان کے اعمال کیسے تھے‘ وہ کیا کرتے تھے اور کیا کہتے تھے‘ وہ قوم تاریکی میں بھٹک رہی ہے‘ اور یہ تاریکی اُس کو گمراہی میں بھی مبتلا کرسکتی ہے۔

جناب طالب الہاشمی ایک خوش بخت انسان ہیں کہ ان کی تمام تر تحریری اور تصنیفی صلاحیتیں بزرگانِ سلف اور اکابرِ دین و ملّت کے قابلِ تقلید نمونوں کو‘ بذریعہ تحریر‘ افرادِ اُمت تک پہنچانے   میں صرف ہو رہی ہیں۔ سیرت النبیؐ، تاریخ اسلام اور اکابرِ اُمت ان کے مرغوب موضوعات ہیں۔ یہ تیرے پُراسرار بندے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سے پہلے یہ کتاب دس گیارہ مرتبہ چھپ چکی ہے۔ زیرنظر اڈیشن میں بہت سے اضافے کیے گئے ہیں۔ اب یہ دل پذیر تذکرہ     ۱۲۰ مشاہیرِ اُمت کے ذکر و اذکار پر مشتمل ہے جن میں ۸۰ صحابہ کرام اور ۴۰ دیگر اکابر ہیں۔

جناب طالب الہاشمی مشاہیر کی زندگیوں کے قابلِ رشک اور لائقِ تقلید پہلوئوں کی تصویرکشی سہل زبان اور سادہ اسلوب میں کرتے ہیں۔ تاریخِ اسلام کی یہ قدآور شخصیتیں اسلامی طرزِحیات کا عمدہ نمونہ ہیں۔ احوال وواقعات کے بیان میں مصنف نے صحتِ زبان کے ساتھ ساتھ لوازمے کے استناد کا بھی اہتمام کیا ہے۔

گو یہ کتاب طویل ہے‘ لیکن اس کے اندر ذکرِ اخیار‘ ایسا دل چسپ ہے کہ مطالعہ کرتے ہوئے ‘اُکتاہٹ نہیں ہوتی بلکہ بعض کرداروں سے ایک عجیب قربت اور دل بستگی کا احساس ہوتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ اُمت کی تعمیر و ترقی اور سربلندی میں کس کا اور کتنا خونِ جگر شامل ہے۔ اس کتاب میں بھی فاضل مصنف نے حسبِ سابق صحتِ املا و اعراب اور رموزِ اوقاف کا حتی الوسع پورا اہتمام کیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مشارق‘ اسدملتانی‘ مرتب: جعفر بلوچ۔ دارالکتاب‘ کتاب مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۳۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

اسدملتانی (۱۹۰۲ئ-۱۹۵۹ئ) ایک نامور شاعر‘ادیب اور ہمدردِ ملک و ملّت شخص تھے۔ علامہ اقبال نے ’آیندہ پنجاب کی ادبی روایات کو برقرار رکھے جانے کی اُمیدیں‘ جن دو نوجوانوں سے وابستہ کی تھیں‘ اسدملتانی ان میں سے ایک تھے (دوسرے: محمد دین تاثیر تھے)۔ مولانا ماہرالقادری کے نزدیک: ’’وہ ایک مصلح اور صاحبِ پیغام شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں سادگی و سلاست‘ بندش کی چُستی اور صفائی کے ساتھ گہرا خلوص اور فکر کی بلندی پائی جاتی ہے۔ علامہ اقبال سے وہ شدید متاثر تھے‘‘۔

پروفیسر جعفر بلوچ نے مرحوم کا حمدیہ و نعتیہ کلام جمع و مرتب کیا ہے۔ پروفیسر موصوف‘ قبل ازیں اقبالیاتِ اسد ملتانی کے عنوان سے‘ اقبال سے اسدمرحوم کے ربط و ضبط کی تفصیل‘ نیز اسد کی اقبالیاتِ نظم و نثر جمع کر کے شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر مجموعے کے ابتدا میں‘ اسد کی شاعری پر سیرحاصل تبصرہ ہے‘ پھر اس بارے میں متعدد اکابر (حامد علی خاں‘ ضمیر جعفری‘ محمد عبدالرشید فاضل اور منشی عبدالرحمن خاں وغیرہ) کی آرا دی گئی ہیں۔

اسدملتانی کے ہاں فکرونظر اور اظہار و اسلوب میں ایک پختگی‘ ٹھیرائو اور توازن ملتاہے۔ یہ مجموعہ ایک سچے اور کھرے مسلمان شاعر کے جذبات کا آئینہ ہے۔ حمدونعت کے اس مجموعے میں چھوٹے چھوٹے قطعات کی صورت میں‘ سفرِحج کے مختلف مراحل کے منظوم تاثرات بھی شامل ہیں۔ کتابت و طباعت عمدہ اور معیاری ہے۔ (ر- ہ)


یہودیت‘ یوسف ظفر۔ ملنے کا پتا: ۳۵- رائل پارک‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۱۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

دنیا بھر میں یہودیت کے پیروکار تقریباً اڑھائی کروڑ ہوں گے لیکن جس قوم نے ماضی میں  حددرجہ ہزیمتیں اٹھائیں مگر دورِ جدید میں مادی اور سیاسی کامیابیاں سب سے زیادہ حاصل کیں‘ وہ یہود ہی ہیں۔

یوسف ظفر مرحوم نے یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کی تفصیلی تاریخ بیان کرنے کے بعد‘ موجودہ دور میں مسلم یہودی مخاصمت کو تاریخ کے پس منظر میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے پیش لفظ میں بجا طور پر لکھا ہے کہ اُردو زبان میں یہودیت کے موضوع پر اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد اور وقیع کاوش ہے۔

مصنف نے بتایا ہے کہ بنی اسرائیل‘اوائل ہی میں اخلاقی انحطاط کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ ذلت و پستی کے اس درجے پر راضی ہوچکے تھے کہ اپنے بچوں کا قتلِ عام بھی انھیں فراعنۂ مصر کے خلاف بغاوت پر نہ اُکسا سکا اور وہ اپنی بچیوں کی بے حُرمتی کو بھی گوارا کر گئے (ص ۳۵)۔ پھر انبیا کے انکار‘ اور پیرویِ نفس کے نتیجے میں یہودیوں کو مختلف ادوار میں طرح طرح کی ذلتوں اور ہزیمتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ آج بھی یہودی ربی جلاوطنی اور بے آبروئی کے اُس دور کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں اور وہ سامعین کو بھی رُلاتے ہیں‘ تاکہ یہ واقعات اُنھیں اسرائیل کی حفاظت پر چوکنّا رکھیں۔ پھر یوسف ظفر نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودیوں کے طرزِعمل اور اسلامی ریاست کے خلاف ان کی سازشوں کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ دورِ جدید میں یہودیوں نے اقتصادیات‘ بنک کاری‘ سفارت کاری‘ اور مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کر کے اپنی دھاک بٹھالی ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ یہودی ریاست کے قیام کے لیے تھیوڈور ہرزل نے سخت محنت و کاوش کی۔ یہ بھی تاریخ کا ایک دل چسپ باب ہے کہ بہت سے معروف لوگ‘ مثلاً آئن سٹائن‘  بل گیٹس‘ سگمنڈ فرائیڈ اور کارل مارکس یہودی النسل ہیں۔ اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ئ) کی بنیاد پر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل قائم ہوا تو صہیونیوں نے فلسطینی مسلمانوں سے اپنی چار ہزار سالہ بے بسی اور ذلت کا انتقام لینے کی ٹھان لی (حالانکہ مسلمان ان کی ذلت کے ذمہ دار نہ تھے) اور آج فلسطین میں چھے ماہ کے بچوں سے لے کر اسّی سالہ بوڑھے تک اُن کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔

یوسف ظفر نے نہایت قیمتی اور چشم کشا معلومات پر مبنی کتاب لکھ کر مسلم اہلِ دانش کو دعوتِ غوروفکر دی ہے۔ ہمیں ایسی جامع‘وقیع اور مبنی برحقائق مزید کتابوں کی ضرورت ہے تاکہ بقول محمد افضل چیمہ: ’’ہرپاکستانی کو یہودیوں کے خبثِ باطن‘ ان کی نفسیات اور شرم ناک تاریخی کردار سے روشناس کرایا جائے‘‘۔ (محمد ایوب منیر)


شرح اسلامی قانونِ شفعہ، سلیم محمود چاہل۔ پتا: ضیاء الحق روڈ‘ سول لائن‘گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۳۷۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

قانونِ شفعہ بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات‘ بالخصوص قرآن کریم سے ماخوذ ہے۔ ہمارے ہاں یہ قانون ۱۹۱۳ء کے ایکٹ کی شکل میں نافذ العمل رہا۔ تاہم اس دوران میں ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۲ء کے مارشل لا ریگولیشن ۲۵ میں ۱۹۱۳ء کے اس ایکٹ میں ترمیم کر کے شفعہ کے حق داروں کی فہرست(دفعہ ۱۵) میں سب سے بنیادی استحقاق مزارع کو دے دیا۔ یہ چیز سوشلسٹ فکر سے قریب تر اور اسلامی تعلیمات سے بعید تر تھی۔ سلیم محمود چاہل نے اس قانون کے مضمرات پر سیرحاصل بحث کی ہے‘ اور عدل کے ایوانوں میں اٹھنے والے مباحث کو پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس ضمن میں بلاشبہہ شریعت پنج کے جج صاحبان یا فقہا کی آرا سے تشریحی امور پر اختلاف کی گنجایش کو راست‘ متوازن اور عدل پر مبنی اسلوب میں بیان بھی کیا جا سکتا ہے۔

مصنف نے اس موضوع کے حوالے سے حدیث اور سنت کی تغلیط‘ فقہ کی تردید اور دینی روایت کی تحقیر کو اپنا ہدف بنانے کی کوشش کی ہے۔ تشریح و تعبیر میں اختلاف اور بحث کی گنجایش سے ہرگز انکار نہیں لیکن ایک الجھے ہوئے اسلوب میں چند درچند مباحث‘ واقعات اور باتوں کو انھوں نے کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اصل موضوع خبط ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ قانون شفعہ کی بحث کا سہارا لے کر ذخیرۂ حدیث کو یوں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا کہ ادب اور انصاف ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ (سلیم منصور خالد)


اُمّتِ مسلمہ کے موجودہ مسائل اور ان کا حل‘ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں،  ڈاکٹر صہیب حسن۔ ناشر: جمعیت اہل حدیث‘ ۸۰ ہائی روڈ‘ لیوٹن‘ لندن‘ای ۱۵‘ ۲ بی پی‘ صفحات:۳۶۔

یہ کتابچہ ایک لیکچر پر مبنی ہے‘ جس میں قرآن‘ حدیث اور سنّتِ رسولؐ کی روشنی میں‘ عالمِ اسلام کی موجودہ صورتِ حال کا اصولی تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیش تر اسباب و علل اور نتائج تو ظاہر ہیں۔ مجرد اصول بیان کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا‘ اس کے لیے لامحالہ‘ منصوبۂ کار اور دائرۂ کار بھی پیش کیا جائے تو کسی بہتری کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔

کتابچے میں جہاں اُمتِ مسلمہ کے سیاسی و اجتماعی مسائل پر اشارے کیے گئے ہیں‘ وہاں ابہام یا تضاد کا تاثر اُبھرتا ہے ‘ اور اُمت کے اجتماعی معاملات کے لیے قاری رہنمائی کا منتظر رہ جاتا ہے۔ دو تین جملے بلاتبصرہ پیش ہیں: ’’خلافت کا نفاذ اسلام کے مجموعی نظام کا ایک حصہ تھا‘ نہ کہ غایت۔ لیکن عصرِحاضر کی جن جن [اسلامی]تحریکوں نے اسے غایت کے طور پر اپنایا‘ انھیں کہیں نہ کہیں شرکیات [شرک] سے صرفِ نظر کرنے یا اس کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر مجبور ہونا پڑا‘‘ (ص۷)۔ ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی اور تجدیدی تحریک‘ خالص توحیدِ الٰہی کا بول بالا کرنے اور شرکات کی بیخ کنی کے لیے شروع [ہوئی] تھی‘ دو سو سال گزرنے کے باوجود‘ اس کے بابرکت اثرات سعودی عرب میں دیکھے جا سکتے ہیں‘ جن میں شریعت کا نفاذ سرِفہرست ہے‘‘ (ص ۸)۔ ’’مجلسِ عمل ایک انتہائی خوش آیند کوشش ہے‘ لیکن یہ اتحاد بغضِ معاویہ کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے‘‘ (ص۲۴)۔ یہ اور ایسی ہی دیگر متضاد آرا‘ غوروفکر‘ تبصرے اور تجزیے کا تقاضا کرتی ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طاغوت کا مقابلہ محض چند اصولی باتوں کی تذکیر سے ہوگا؟ یا مثبت طور پر علمی‘ اجتماعی اور سیاسی سطح پر اداروں کی تشکیل سے یہ جواب دیا جائے گا۔ (س- م- خ)


تعارف کتب

  • خطبۂ حجۃ الوداع ، ڈاکٹر نثار احمد۔ ناشر: کتاب سرائے‘ الحمد مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۵۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [خطبۂ مذکورہ کے متن پر یہ ایک قابلِ ستایش تحقیق ہے۔ مکمل عربی متن‘ اُردو ترجمہ‘ تاریخی پس منظر اور توضیح و تشریح کے ساتھ خطبے کے اہم نکات اور مباحث پر تحقیقی و توضیحی گفتگو۔ بقول جناب محمود احمد برکاتی: ’’ڈاکٹر نثار احمد نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے اور میری نظر سے آج تک اس خطبے کا مکمل اور مستند متن نہیں گزرا‘‘۔ اُردو اور عربی میں سیرت اور متعلقاتِ سیرت کی اہم کتابوںکا جائزہ لیتے ہوئے‘ اس خطبے کے سلسلے میں ان کتابوں کی ایک ایک کمی اور کوتاہی کی نشان دہی بھی کی ہے۔]
  • قرآن اور کائنات، حاجی غلام حسن۔ ناشر: صادق پبلی کیشنز‘ اولمپک پلازا‘ الکریم مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۸۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [مختلف عنوانات‘ مثلاً: اللہ تعالیٰ کی نشانیاں‘کائنات ایک مرکز کے گرد متحرک ہے‘ فرشتے‘ روح‘ اللہ آسمانوں اور زمین کانور ہے اور عرش وغیرہ کے تحت آیاتِ قرآنی مع اُردو اور انگریزی تراجم یک جا کی گئی ہیں۔ کچھ توضیحات بھی شامل ہیں۔ دیباچہ نگار ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کے بقول ’’کائنات اور قیامت پر مبنی آیات کی تشریح موجودہ سائنس کی روشنی میں کی گئی ہیں۔ اس سے پہلے ایسی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کی صحت کے بارے میں فیصلہ کرنا سائنس دان حضرات کا کام ہے‘‘۔ اشاریہ بھی شامل ہے۔]
  • کفار کے تہواروں میں شرکت، مولانا عبدالصبور ۔ ناشر: ادارہ التعلیمات الاسلامیہ‘ نوشہرہ خورد‘ ضلع نوشہرہ۔ صفحات:۳۵۔ قیمت: درج نہیں۔[مؤلف کہتے ہیں کہ اہلِ اسلام پر مختلف النّوع فتنوں‘ گمراہیوں اور بدعتوں کا زوردار حملہ ہو رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہود و نصاریٰ اور ہندوئوں کے تہواروں اور ان کی عیدوں (بسنت‘ ویلنٹائن ڈے‘ اپریل فول‘ ہیپی نیوایئر وغیرہ) منانا یا ان میں شرکت کرنا بالکل ناجائز ہے۔ قرآن و حدیث اور اقوال صحابہؓ و تابعین وغیرہ سے استدلال کیا گیا ہے۔]

بچوں کی نفسیات

علم النفس کو تعلیم و تربیت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ مائیںاور باپ گھروں میں اور استاد مدرسوں میں‘ اگر مستقبل کے انسان کو تعمیر کرنے کی ذمہ داری اپنے سرلیتے ہیں تو پھر انھیں یہ جاننا چاہیے کہ بچہ کیا ہے؟ اس کے ذہن میں کیا کیا تحریکیں نشوونما پاتی ہیں؟ وہ خارج سے کس کس طرح اثرپذیر ہوتا ہے؟ اس میں عمر کے ارتقا کے ساتھ کیا کیا دماغی تغیرات ہوتے چلے جاتے ہیں؟ متعلقین کے مختلف سلوک اور رویے‘ اس میں کون کون سی اچھی یا بری صفات کو اُبھارتے ہیں؟ وغیرہ۔ مگر افسوس ہے کہ اُردو زبان میں علم النفس پر بہت کم سرمایۂ کتب پایا جاتا ہے اورنفسیاتِ طفلی کے معاملے میں تو ہنوز ’’عالم طفلی‘‘ ہے۔ جناب شیرمحمداختر صاحب کی پیشِ نظر کتاب‘ اسی کمی کو ایک حد تک پورا کرتی ہے۔ اگرچہ انگریزی زبان میں اس موضوع پر جو کتابیں پائی جاتی ہیں‘ یہ کتاب ان کی برابری نہیں کرسکتی‘مگر اُردو کی حد تک یہ بساغنیمت ہے اور خصوصاً اس لحاظ سے تو بہت زیادہ قابلِ قدر ہے کہ سادگی ٔبیان کی وجہ سے‘ عام تعلیم یافتہ والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے قابلِ فہم ہے۔ لیکن دوسری طرف اس میں بنیادی فساد یہ ہے کہ احوالِ نفس کو یورپ کے تصور انسان اور  نظریۂ اخلاق کی روشنی میں دیکھا گیا ہے‘ حالانکہ اس تصور اور اس نظریے کی آنکھ بھینگی ہے اور اپنے بھینگے پن کی وجہ سے نفسِ انسانی میں بہت سے ٹیڑھ اسے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اس کتاب کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ بچے کو سال خوردہ سمجھ کر جو مطالبات اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں‘ اور جنھیں قبل از وقت پورا کرنے کے لیے جھاڑ جھڑک کے ساتھ لاٹھی استعمال کرنے تک نوبت پہنچتی ہے‘ ان مطالبات کو ملتوی کیا جائے۔ اس وقت تک‘ جب کہ بچہ انھیں پورا کرنے کے قابل ہوجائے۔ غالباً اس مطالبے سے بہت سے ذی فہم حضرات‘ بچے کو اپنا ہم عمر سمجھنے سے تائب ہوکر بچہ سمجھنے پر آمادہ ہوجائیں گے اور پھول کی اس ننھی منی نازک پتی پر‘ اُن چٹانوں کو لادنے کی مہم سر کرنے سے باز آجائیں گے جنھیں صرف ایک ہوش مند جوان آدمی ہی  اٹھا سکتا ہے۔ [بچوں کی نفسیات پر مطبوعہ ایک کتاب پر تبصرے سے]۔ (’’مطبوعات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ جلد۲۶‘ عدد ۳-۶‘ ربیع الاول تا جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ‘ مارچ تا جون ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۹۰-۱۹۱)