بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
امریکہ عالم اسلامی کے خلاف جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ‘ ان سے اس کے مذموم عزائم دیکھنے والوں کی نظر میں کھلی کتاب کی طرح سامنے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ قرآن پاک کے مطالعے اور سیرتؐ پاک پر تدبر کرنے سے جو حکمت عملی ہمارے سامنے آتی ہے اسے دو نکات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے: ۱- استقامت ‘۲- حکمت۔
استقامت یہ ہے کہ اللہ پر پورا بھروسا کیا جائے اور اللہ کا دین‘ جیسا کہ وہ ہے‘ اس پر پورے اطمینان ‘ یقین محکم اور صبروثبات کے ساتھ ڈٹ جایا جائے۔ اپنے مقصد اور نصب العین‘ مستقبل کے بارے میں اپنے وژن اور اُمت مسلمہ کے حقیقی اہداف‘ اس کی قوت کے اصلی ذرائع‘ اور اقامت دین کے سلسلے میں اس کے اصول‘ مشن اور مخصوص عملی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور نہ کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ اسلام کی تراش خراش ہمارا طریقہ نہیں ہو سکتا اور اسلام کے دائرے کے اندر فکروتدبر‘ اطاعت اور اجتہاد‘ وفاداری اور رواداری‘ جدوجہد اور ایثار کے لیے جو خطوطِ کار‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیے ہیں ان پر ایمان اور احتساب کے ساتھ جم جایا جائے۔ اسلام اللہ کی ابدی ہدایت ہے۔ اس کی تعلیمات صبح نو کی طرح تازہ اور نکھری ہوئی ہیں۔ اعتدال اور توازن اس کا طرۂ امتیاز ہے ‘ لیکن یہ اس کے اپنے نظام کے اندر اور اس کا ابدی حصہ ہیں‘ اپنے نفس یا دوسروں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اسے موڈرن یا موڈریٹ نہیں بنایا جا سکتا۔
یہ حقیقت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ہی راہِ اعتدال ہے اور سارا توازن‘ رواداری‘ میانہ روی‘ اس کے دیے ہوئے حقوق و فرائض کے نظام میں اپنی کامل شکل میں موجود ہیں۔ اُمت مسلمہ ہے ہی امت وسط اور عقیدہ و عمل ہر اعتبار سے یہ اُمت مسلک اعتدال پر قائم ہے۔ مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور آپ پائیں گے کہ خدا اور انسان‘ معبود اور عبد‘ خدا اور پیغمبر کے رشتے اور حقوق و مقام کے باب میں کس طرح وہ افراط اور تفریط کا شکار رہے ہیں۔ اسلام نے نقطۂ عدل کو واضح کر دیا۔ خدا خدا ہے اور انسان انسان۔ لائق عبادت و عبودیت صرف اللہ ہے جو خالق سماوات والارض ہے۔ انسان کا مقام اللہ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ وہ کسی حیثیت سے بھی خدا کی ذات یا صفات میں شریک نہیں۔ حتیٰ کہ خداکے پیغمبر بھی‘ بہترین نمونہ اور قرب الٰہی میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کے باوجود خدا کے اقتدار میں کوئی شرکت نہیں رکھتے۔ یہی وہ اعتدال ہے جس پر کائنات قائم ہے۔
پھر آپ مذاہب کی تاریخ میں دین اور دنیا‘ روح اور مادہ‘ اس زندگی اور اُس زندگی کے باب میں افراط و تفریط کا سماں دیکھیں گے ۔لیکن اسلام نے یہاں بھی وہی راہ ِاعتدال اختیار کی اور دین و دینا کی یک رنگی‘ روح اور مادے کی ہم آہنگی‘ اور حسنات دنیا اور حسنات آخرت کے اجتماع کی شکل میں ایک متوازن اور مبنی برعدل تصورِ حیات کو نہ صرف پیش کیا بلکہ اس پر عملاً فرد اور اجتماع‘ ذاتی سیرت اور اجتماعی تہذیب کا نقشہ تعمیر کر کے دکھا دیا۔
اسی طرح قانون اور اخلاق‘ ظاہر اور باطن‘ لفظ اور معنی کے باب میں افراط و تفریط کے بے شمار نمونے‘ مذہب اور تہذیب دونوں کی دنیائوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اسلام نے پھر ایک راہِ اعتدل اختیار کی اور اس طرح اختیار کی کہ ثبات اور تغیر کے تمام تقاضے بھی بھرپور انداز میں پورے ہوئے اور قانون اور روحِ قانون دونوں کو بیک وقت حاصل کرنا انسان کے لیے ممکن ہوگیا۔
معاملہ فرد اور معاشرے کے تعلقات کا ہو یا مرد و زن کے رشتے کا‘ آزدی اور نظم وضبط کا ہو یا قیادت اور مشاورت کا‘ عبادت کا ہو یا کاروبارِ زندگی کا‘ باطن کی اصلاح ہو یا قانون اور نظام کی تبدیلی‘ دوستی کی بات ہو یا دشمنی کے آداب‘ ہر معاملے میں اسلام نے اعتدال کے راستے کو اختیار کیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملے میں اسلام کی اس شناخت کو بیان فرما دیا کہ بہترین عمل وہی ہے جو راہِ وسط پر قائم ہو: خیرالامور اوسطھا۔ دیکھیے قرآن و سنت نے کس طرح اسلام کے اس وصف کو نمایاں کیا ہے اور زندگی کا محور بنا دیا ہے۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط (البقرہ ۲:۱۴۳)
ہم نے تمھیں ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم انسانوں پر حق کے گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔
وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۸۱)
اور ہماری مخلوق میں ایک اُمت ہے جو ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتی ہے۔
وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo (الفرقان ۲۵:۶۷)
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔
وہ کھاتے پیتے ہیں مگر اسراف سے بچتے ہیں کہ اللہ کو اسراف پسند نہیں (وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo الاعراف ۷:۳۱)۔ انفاق فی سبیل اللہ ان کا وطیرہ ہے مگر اس میں بھی نہ وہ اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھتے ہیں اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑتے ہیں (وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا - بنی اسرائیل ۱۷:۲۹)۔ نوافل کا وہ اہتمام کرتے ہیں لیکن اس میں بھی اعتدال اور استمرار ان کا شعار ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں‘ قیام اللیل بھی کرتا ہوں اور آرام بھی‘ ازدواجی زندگی کا بھی اہتمام کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ اسلام ہی وہ دین اور نظامِ حیات ہے جو عبارت ہے زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال‘ توازن‘ عدل ‘ انصاف‘ ادایگی حقوق‘ فرائض کی پابندی‘ صلہ رحمی‘ احترامِ انسانیت‘مخالف کے معبودوں کو بھی بدزبانی سے محفوظ رکھنے اور دین میں ہر جبر اور اکراہ سے پرہیزسے۔ یہ ہے اسلام اور اسلام کی امتیازی شان۔ لیکن یاد رکھیے یہ ساری میانہ روی‘ اعتدال اور رواداری شریعت کے نظام کا حصہ ہے‘ اور منصوص اور مطلوب ہے--- لیکن میانہ روی کے نام پر اسلام میں قطع و برید‘ اعتدال کے نام پر فرائض اور واجبات سے رخصت‘ دوستی کی خاطر جہاد سے فارغ خطی‘ رواداری کے نام پر کفر اور ظلم سے سمجھوتہ--- یہ اسلام نہیں‘ اسلام کی ضد ہیں۔ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے احکام اور حدود کے بارے میں کوئی مداہنت اللہ کی ناراضی کو مول لینے کا راستہ ہے اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کا موجب ہو سکتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے محمود اور مطلوب قرار دیا ہے وہی ہمارا محمود اور مطلوب ہے اور جسے انھوں نے ناپسند کیا ہے اس سے برأت ہی ہماری میانہ روی اور رواداری ہے۔ اس لیے کہ اسلام نام ہی طاغوت سے بغاوت اور اللہ سے رشتے کو جوڑنے کا ہے--- فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لَاانْفِصَامَ لَھَاط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ البقرہ ۲:۲۵۶)۔ اسلام کے نظام اور فریم ورک میں بے پناہ آزادی ہے مگر یہ آزادی اس فریم ورک کے اندر ہے‘ اس فریم ورک کو توڑنے ‘ اس سے فرار اختیار کر کے یا اس کے باہر آزادی کی تلاش اسلام کے منافی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے اقبال نے یوں کہا ہے کہ ؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَمَّا جَآئَ نِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْز وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۶)
اے نبیؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے ان ہستیوں کی عبادت و اطاعت سے منع کر دیا گیا ہے جنھیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں‘ جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی کھلی نشانیاں آچکی ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ رب العالمین کے آگے سرتسلیم خم کر دوں۔
قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط قُلْ لاَّ ٓ اَتَّبِعُ اَھْوَآئَ کُمْلا قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ o (الانعام ۶:۵۶)
اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو‘ ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے اور کہو میں تمھاری خواہشات ذات کی پیروی نہیں کروں گا اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا اور راہِ راست پانے والوں میں سے نہیں رہا۔
وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ھم بَعْدَ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیِّ وَّلاَوَاقٍ o (الرعد ۱۳:۳۷)
اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ قرآن عربی تم پر نازل کیا ہے‘ اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمھارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمھارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔
وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّ تَّخَذُوْکَ خَلِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۳)
اے نبیؐ! ان لوگوں نے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمھیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمھاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمھیں اپنا دوست بنا لیتے۔
واذا قتلٰی علیھم ایاتنا بینت قال الذین لا یرجون لقاء نا انت لقرآن غیر ھذا … یوم عظیم o (یونس ۱۰:۱۵)
جب انھیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے‘ کہتے ہیںاس کے بجائے کوئی اور قرآن لائو یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ اے نبیؐ، ان سے کہو تیرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیروتبدل کروں۔ میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ میں ۔۔۔۔ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
یہ آیات بینات ایک آئینہ ہیں جن میں اہل حق کے موقف اور مثال اور اہل باطل کی خواہشات‘ ترغیبات اور مطالبات ہر دو کی مکمل تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے اور تاریخ کے اسٹیج پر کارفرما کردار کیسے ہی نئے ناموں اور نئی شکلوں میں نمودار ہو جائیں‘ اہل حق اور اہل باطل کا مسلک اوررویہ سرمو نہیں بدلتا۔ اس آئینے میں غیروں ہی کی نہیں بہت سے دوستوں کی اصل صورت بھی دیکھی جا سکتی ہے اور اس میں ہمیں وہ اسوہ بھی صاف نظر آتا ہے جو استقامت اور وفاداری کی راہ ہے۔ یہی ہمارا مطلوب و مقصود ہونا چاہیے۔
وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o وَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً o (الاحزاب ۳۳: ۲-۳)
پیروی کرو اس بات کی جس کی طرف رہنمائی تمھارے رب کی طرف سے تمھیں کی جا رہی ہے اور اللہ اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اللہ پر توکل کرو‘ اللہ ہی تمھارا وکیل ہونے کے لیے کافی ہے۔
ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o اِنَّھُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًاط وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍج وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ o ھذا بصآئرٍ للناسِ وھدًی ورحمۃً لقومٍ یوقنون o (الجاثیہ ۴۵: ۱۸-۲۰)
اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمھارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔
استقامت ہماری حکمت عملی کی پہلی بنیادہے‘ اور اس کا تقاضا ہے کہ مقصد‘مشن‘ اہداف اور منزل کے بارے میں نہ کوئی ابہام اور جھول رہے اور نہ کوئی کمزوری دکھائی جائے۔ وژن بہرصورت واضح اور ہر دھند سے پاک ہونا چاہیے۔ اس پر جم جانا‘ اللہ کا دامن تھامے رکھنا‘ صرف اس کی قوت پر بھروسہ کرنا اور صبر اور پامردی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹ جانا اہل ایمان کا شیوہ اور طرئہ امتیاز ہے۔ اس میں ان کی بقا اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راز ہے۔
اگر استقامت اس حکمت عملی کی پہلی بنیاد ہے تو اس کی دوسری بنیاد اور اتنی ہی اہم بنیاد حکمت اور دانش مندی ہے۔ استقامت کسی اندھی اور بہری قوت کا نام نہیں‘ استقامت کے لیے ضروری ہے کہ ساری جدوجہد پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ انجام دی جائے جس میں کلیدی کردار مقاصد کے صحیح شعور‘تدابیر کی مکمل تفہیم‘ نقشہ کار کی دقت نظر سے تیاری‘ وسائل اور لوازمات کے حصول کی موثر منصوبہ بندی اور تعمیرمنزل کی تمام ضروریات کا پورا پورا ادراک اور ان کو عملاً حاصل کرنے اور صحیح وقت پر صحیح انداز میں استعمال کرنے کا اہتمام ہوگا۔ قرآن پاک کے مطالعے اور سیرت خیرالانامؐ پر تدبر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکمت‘ کار نبوت کی انجام آوری کے لیے ایک لازمی شرط ہے اور بیک وقت استقامت اور حکمت پر مبنی راستہ ہی وہ راستہ ہے جس سے اہل دین اپنی منزل کو پا سکتے ہیں۔ ان کی حیثیت انسان کی دو ٹانگوں کی طرح ہے۔ پیش قدمی کے لیے دونوں ٹانگیں درکار ہیں‘ محض ایک کے سہارے منزل سر نہیں کی جا سکتی۔
حکمت کا تقاضا ہے کہ جہاں ہم دین میں کوئی قطع و برید نہ کریں اور نہ ہونے دیں بلکہ اللہ کے دین کو جیسا کہ وہ ہے مضبوطی سے تھام لیں وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم کسی اشتعال میں نہ آئیں‘ اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں‘ اسلام کی سکھائی ہوئی میانہ روی اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں‘ اپنی داعیانہ حیثیت کو نہ بھولیں۔ہماری لڑائی مرض سے ہے مریض سے نہیں‘ کفر سے ہے لیکن اہل کفر کو ایمان کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ہے‘ نیست و نابود کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کی ساری مخلوق کے کچھ حقوق ہیں اور ان کو دین حق کی طرف لانے کے کچھ آداب ہیں۔ ان کا احترام اور اہتمام ہی حکمت دین ہے۔ مالک کا حکم ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵)
اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف بلائو دعوت و حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (آل عمران ۳:۱۰۴)
تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پانے والے ہیں۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۳-۳۴)
اور اس شخص سے ا چھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
حکمت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم عدل و انصاف کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیں حتیٰ کہ مخالفت‘ جنگ و جدال اور مذاکرہ و مجادلہ‘ ہر میدان میں ہم عدل کی راہ پر قائم رہیں اور فراست ِ مومن کے ساتھ نرمی اور سختی‘ عفو و درگزر اور مقابلہ اور انتقام‘ ہاتھ روکنے اور دشمن پر وار کرنے کے تمام ممکنہ ذرائع اپنے اپنے صحیح وقت پر استعمال کریں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عدل اور قسط کے ساتھ احسان‘ بدلہ اور انتقام کے ساتھ عفوودرگزر جنگ کے ساتھ صلح‘ اور قوت کے استعمال کے ساتھ مذاکرے اور معاہدے کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے موقع اور محل پر ضروری ہے اور حکمت اور فراست اس کا نام ہے کہ ان میں سے ہر حربے کو اس کے صحیح وقت پر استعمال کیا جائے اور یہاں بھی اعتدال اور توازن پر کاربند رہا جائے۔ دیکھیے اس باب میں قرآن کس طرح ہماری رہنمائی اور تربیت کرتا ہے۔
قل امر ربی بالقسط (الاعراف ۷:۲۹)
تم کہہ دو‘ میرے رب نے عدل اور قسط کا حکم دیا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ ……… لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۰)
اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق سیکھ لو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوْا ………… بِمَا تَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵:۸)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس سے پوری طرح باخبرہے۔
فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ……… اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۹۴)
لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے‘ تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انھی لوگوں کے ساتھ ہے‘ جو اس کی حدُود میں توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا ……… خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل ۱۷:۱۲۶)
اگر تم لوگ بدلہ لو تو اُسی قدرے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔
وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃِ …… ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشوریٰ ۸۲:۴۰-۴۳)
برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘ پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کر دے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی‘ ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اُولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔
جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے‘ جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے‘ جو اپنے نفس کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے گھروالوں کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (ترمذی)۔
اس طرح اللہ نے مسلمانوں کو ہر لمحہ تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور صرف تیار رہنے ہی کا نہیں مقابلے کی قوت (deterrant power) کے حصول کو لازم کیا ہے۔ اور اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی ترغیب دی ہے۔
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ ……… وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (انفال ۸:۶۰)
اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیاربندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے--- اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔
وَاِنْ ………… اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ o (انفال ۸:۶۱-۶۲)
اے نبیؐ، اگر دشمن صلح وسلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جائو اور اللہ پر بھروسہ کرو‘ یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہیں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی۔
مقابلے اور معاملات میں غصہ اور اشتعال سے پرہیز کی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جب انھیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کر دیتے ہیں (واذا ما غضبوا ھم یغفرون - الشوریٰ ۴۲:۳۷) اس لیے کہ مومن غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہوتے ہیں (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس - آل عمران ۳:۱۳۰) علامہ قرطبی‘ امام رازی اور علامہ ۔۔۔۔ مالکی نے بہت خوب کہا ہے کہ عفوودرگزر کے نتیجے میں اگر فتنہ دب رہا ہے اور غلط کار اپنی روش سے باز آ رہا ہے تو عفو پسندیدہ ہے لیکن اگر عفوودرگزر سے مجرم کا حوصلہ بڑھ جائے اور اس کے غیض و غضب کو تقویت پہنچے تو انتقام لینا صحیح ہے۔ ان مواقع میں تمیز اور حسب حال رویہ کے اختیار کرنے کا نام ہی حکمت ہے۔
حکمت ہی کا ایک پہلو مکالمہ ‘ گفت و شنید اور ڈائیلاگ ہے اور وہ بھی صحت علوم کے ساتھ ساتھ شیریں کلامی کے ذریعہ (وقولوا للناس حسنًا - البقرہ ۲:۸۳) اس لیے کہ اللہ کی تعلیم ہے ہی یہ کہ وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ’’میرے بندوں (مسلمانوں) سے کہہ دو کہ وہی بات کہیں جو بہترین ہو (بنی اسرائیل ۱۷:۵۳)۔ اور ڈائیلاگ کے بھی آداب یہ ہیں کہ قدر مشترک کی طرف بلایا جائے (تعالوا الٰی کلمۃٍ سواء بیننا وبینکم----آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ آل عمران ۳:۶۷) نیز یہ کہ:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵)
اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔
وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)
نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔
یہ سب حکمت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔
اسی طرح یہ بات کہ کب قوت کا استعمال مطلوب ہے اور کب ہاتھ روک لینا اولیٰ ہے اور اس کا استعمال بھی حکمت ہی سے ہے۔ مکی زندگی اور مدنی زندگی ایک مدت ہیں لیکن کون سا طریقہ استعمال کیا جائے اس کا انحصار حکمت بالغہ پر ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ ……… وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً o (النساء ۴:۷۷)
تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جواُنھیں لڑائی کا حکم دیا گیا ہے تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ اِن سے کہو‘ دنیا کا سرمایۂ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے‘ اور تم پر ظلم ایک شمّہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ رہی موت‘ تو جہاں بھی تم ہو‘ وہ بہرحال تمھیں آکر رہے گی ‘ خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں رہو۔
حقیقت یہ ہے کہ حکمت کے پہلو اتنے ہیں کہ ان کا احاطہ ناممکن ہے۔ ہم صرف چند اشارات پر قناعت کر رہے ہیں اور جو کچھ عرض کیا ہے بطور مثال ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ استقامت اور حکمت دونوں کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے‘ کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور دونوں کے دامن میں جو وسعت اور تنوع ہے ان کا احاطہ بھی ضروری ہے۔ لیکن اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ استقامت اور حکمت ہی وہ راستہ ہے جس پر بیک وقت چل کر ہم آج بھی اسلام کے خلاف کی جانے والی ساری سازشوں‘ منصوبوں اور تحریکوں کا کامیابی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جس طرح سمجھوتا اور دشمن کے آگے سپر ڈال دینا موت کا راستہ ہے اسی طرح جذبات سے مغلوب ہوکر‘ مناسب تیاری کے بغیر‘ اشتعال اور تشدد کا راستہ بھی حق و ثواب کا راستہ نہیں۔ ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کے نام پر اسلام سے برگشتہ کرنے‘ باطل قوتوں سے سمجھوتہ کرنے یا راہِ حق سے فرار کی راہ اختیار کرنے میں دنیا اور دین دونوں کا خسارہ ہے لیکن اس یلغار کا مقابلہ بھی اسلام ہی کی بتائی ہوئی راہِ اعتدال و حق و انصاف پر جم جانے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کو اختیار کر کے ہمارے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریک اسلامی کو کامیابی سے ہم کنار کیا اور اسی راستے پر چل کر آج بھی ہم اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس وقت اُمت کے ارباب دانش‘ اسلامی تحریکات کے قائدین اور مسلمان ملکوں کی قیادت کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان قرآنی بنیادوں پر وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی جائے؟ اس حکمت عملی کی روشنی میں کیا پالیسیاں اور کیااقدامات تجویز کیے جائیں تاکہ اُمت اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے اور دنیا کو بھی نئے استعمار کی جارحیت سے محفوظ رکھا جاسکے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے خود اپنے گھر کی اصلاح کا نقشہ بنایا جائے۔ ان خطوط کار کا تعین بھی ضروری ہے جن پر دنیا کی دوسری اقوام‘ خصوصیت سے امریکہ سے آیندہ معاملات کیے جائیں۔ اس کے تین محاذ ہوں گے: ہر ملک کا اپنا محاذ‘ اُمت مسلمہ کا اجتماعی محاذ اور عالمی سطح پر نئے نظام اور اس کے قیام کے لیے منصوبہ بندی۔ بلاشبہہ امریکہ اور اس کے عزائم اس پورے معاملے میں ایک کلیدی مقام رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں ایک سوچے سمجھے موقف کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمانوں کے تمام اہل فکر اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات اور مسلمان حکومتوں کے کارپردازوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان امور پر غوروفکر اور مباحثے اور مذاکرے کا اہتمام کریں۔ اس سلسلے میں ہم اپنی گزارشات اُمت کے سوچنے سمجھنے والے عناصر‘ مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار حضرات ان لوگوں کی خدمت میں عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں جو اسلامی تحریکات اور مسلم ممالک کی قیادت پر فائز ہیں۔
ہماری اب تک کی گزارشات سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اُمت کے لیے غفلت اور فرار کا راستہ مکمل تباہی کا راستہ ہوگا۔ اس لیے مقابلہ اور مردانہ وار مقابلہ ہی زندگی اور بقا کا راستہ ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ حالات کے آگے سپر ڈالنے کے معنی محکومی اور موت کے ہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جس کے نتیجے میں ہم سوا ارب کی اُمت ہوتے ہوئے بھی خس و خاشاک سے زیادہ وزن کے حامل نہ ہوں گے اور بالآخر ایک نئی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے۔ یہ راستہ جس قوم نے بھی اختیار کیا‘ وہ تاریخ کے اوراق میں صفحۂ ہستی سے مٹ گئی‘ عبرت کا نشان بن گئی اور کبھی باقی نہیں رہی۔ افسوس کہ مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے طوعاً یا کرہاً ، لیکن عملاً اس تباہ کن راستے کو اختیار کر لیا ہے۔ کچھ شیطانی قوتوں کے باقاعدہ شریک کار بن گئے ہیں اور کچھ خاموش تماشائی یا نوالہ تر بننے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ یہ دراصل ذہنی‘ فکری اور عملی طور پر ہتھیار ڈال دینا ہے۔ دشمن کے رنگ میں رنگ جانا ہے‘ جسم کو بچانے کی موہوم امیدیں‘ ایمان‘ تہذیب‘ اقدار‘ نظریات اور تصورِ حیات تک کی قربانی دے دینا ہے۔ ترکی میں کمال ازم نے یہی راستہ اختیار کیا تھا۔ مغرب اور مغرب کے کاسہ لیس دانش ور‘ مسلمانوں کو آج بھی سیکولرازم اور قومیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر یہاں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ راستہ نہ صرف روحانی اور اخلاقی موت بلکہ تہذیبی موت کا ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ شریک کار نہ بنا جائے‘ نرم چارہ نہ بنا جائے اور بس اپنے آپ کو بچا لیا جائے۔ اسے تحفظ کی حکمت عملی (strategy of preservation) کہتے ہیں۔ اس حکمت عملی پر ایک طبقے نے ۔۔۔۔۔۔ استعماری یلغار کے پہلے دور میں بھی عمل کر کے دیکھ لیا لیکن افسوس اس سے تم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ بلاشبہ یہ حکمت عملی ہتھیار ڈال دینے (سرنڈر) کی پالیسی سے کچھ بہتر ہے۔ اس میں اپنے آپ کو مسجد‘ مدرسہ اور خانقاہ میں محصور کرکے تبلیغی سرگرمیوں تک محدود تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکافی‘ نامکمل اور نادرست ہے‘ جس میں خطرات کا مقابلہ کرنے کی حس پر جمود طاری ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخر مغلوبیت اور محکومیت ایسی اقوام کا مقدر بن جاتے ہیں۔
تیسرا راستہ تصادم اور انتقام کا راستہ ہے کہ جذبات میں آکرمیدان میں کود پڑو‘ بس جان کی بازی لگا دو‘ اڑادو اور تباہ کر دو اور جس چیز پر حملہ آور ہو سکتے ہو‘ حملہ کر ڈالو۔ یہ بھی کوئی دانش مندی کا راستہ نہیںاور نہ بھی کسی پہلو سے اسے آئیڈیل شکل کہا جا سکتا ہے۔ جذبات کی ایک اہمیت ہے‘ لیکن جذبات کے ساتھ ساتھ تفکر اور سوچ بچار کی بھی ضرورت ہے۔ قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریق کار کی تعلیم دی ہے وہ استقامت کے ساتھ حکمت سے عبارت ہے۔ اس میں قوت کا استعمال تو ایک ضروری عنصر ہے مگر قوت کا بے محابا استعمال یا بس اندھی انتقامی کارروائی کا کوئی مقام نہیں۔ اس میں قوت کو حکمت کے ساتھ استعمال کرنا شامل ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر تیاری اور صحیح حکمت عملی اور صحیح وقت کا تعین کیے بغیر جنگ کرنا‘ حماقت اور خودکشی ہے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سال تک مکہ میں اپنی دعوت اور اپنے مسلک کے اُوپر قائم رہتے ہوئے ظلم کو برداشت کیا‘ دعوت کے لیے نئے سے نئے راستے نکالے لیکن عسکری مزاحمت نہیں کی۔ مدینہ آنے کے بعد بھی یک لخت فوج کشی شروع نہیں کر دی‘ بلکہ دفاعی تیاریاں کیں‘ اپنی قوت کار کو منظم و مرتب کیا‘ دشمن کے خلاف اقدام میں پہل نہ کی اور اپنی اجتماعیت کو میثاقِ مدینہ کی شکل میں مستحکم کیا۔ یہودی جو بغل میں بیٹھے ہوئے تھے اُن سے معاملات طے کیے‘ اور جب جنگ مسلط کر دی گئی تو اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ بلاشبہہ رب کی مدد اور نصرت پر بھروسا کیا لیکن اس یقینی بھروسے کے ساتھ ساتھ مادی سطح پر تیاری بھی کی۔ جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا: اللہ پر توکل کرو‘ مگر اونٹ باندھ کر رکھو۔اگر اُونٹ کو آپ باندھیں گے نہیں‘ تدبیر اور حکمت اختیار نہیں کریں گے تو صرف توکل کی بنیاد پر کوئی ردعمل اسلامی ردعمل نہیں کہلائے گا--- گویا کہ محض جذباتی ہو کر‘ وقتی طور پر کچھ کر دینا‘ یہ بھی ایک راستہ ہے‘ مگر اس راستے میں خیر کے امکانات بہت ہی کم ہیں‘ البتہ تباہی اور برس ہا برس کی محنتوں پر پانی پھر جانے کا خطرہ ضرور ہے۔
میں جتنا بھی غور کرتا ہوں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں مسلم اُمت کم و بیش اسی نوعیت کے چیلنجوں سے دوچار ہے جو بیسویں صدی کے آغاز پر ہمیں درپیش تھے۔ بلاشبہہ گذشتہ پچاس سال میں ہم نے بہت کچھ پیش رفت کی ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے کہ سیاسی آزادی کے حصول اور معاشی وسائل کی فراہمی کے باوجود ہم ایک بار پھر ویسی ہی استعماری یلغار کی زد میں ہیں جس سے بیسویں صدی کے پہلے ربع میں ہمیں نبرد آزما ہونا پڑا۔ اس کربناک ماحول میں اللہ کے چند بندوں نے اُمت کی بیداری اور تنظیمِ نو کا بیڑا اٹھایا اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے بجاے استقامت اور حکمت کے ساتھ مقابلے کا راستہ اختیار کیا۔ جمال الدین افغانی‘ محمد عبدہ‘ علامہ محمد اقبال‘امیرشکیب ارسلان‘ سعید نورسی‘ حسن البنا شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے اپنے عصری حالات و ماحول کی روشنی میں ایک حیات بخش لائحہ عمل تیار کیا اور اُمت کو اس جادہ پر گامزن کیا۔ آج بھی ان سارے تجربات کو سامنے رکھ کر مقابلے اور تعمیرنو کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اصل اہداف کا تعین کر لیا جائے اور پھر ان اہداف کے حصول کے لیے دیکھا جائے کہ کن خطوط پر حکمت عملی وضع کی جائے۔ صرف تذکیر کی خاطر عرض ہے کہ اس سلسلے میں تین امور مرکزی اہمیت کے حامل ہیں‘ یعنی:
۱- اصل ہدف کا تعین‘ ہماری نگاہ میں وہ ہدف یہ ہے کہ ہمیں اپنے ایمان‘اپنے نظریے‘ اپنے نصب العین سے سرموانحراف نہیں کرنا چاہیے۔ جس چیز کا تقاضا ہمارا ایمان کرتا ہے‘وہ اسلام کے بارے میں ہمارا وژن ہے۔ اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر پختہ ایمان ہو۔ اس میں نبی پاکؐ کی سنت مطہرہ ہمارا طریقہ اور سہارا ہے۔ ہمیں اِس ہدایت کے ماخذ سے روشنی حاصل کر کے نقشۂ زندگی مرتب کرنا ہے۔ اس میں سب سے اہم چیز اپنی شناخت کا تحفظ ہے۔ اگر ہماری شناخت مجروح یا تحلیل ہو جائے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ گویا اس حکمت عملی میں ہمارا پہلا ہدف اپنے وژن‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت اور اپنی منزل کا تحفظ ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔
۲- دوسری چیز وہ قوت حاصل کرنا ہے جس سے ہم اپنے اِس وژن کو صحیح طور سے حاصل کر سکیں۔ یہ محض آنکھیں بند کر کے آگ میں کود جانے والی بات نہیں ہے‘ بلکہ اخلاقی اور اجتماعی قوت‘ مادی اور عسکری قوت کا حصول بھی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک منصوص ضرورت ہے۔ قرآن نے اپنے اندر مقابلے کی جو استطاعت پیدا کرنے‘ گھوڑوں کو تیار رکھنے‘ اور دیگر وسائل مہیاکرنے کا حکم دیا ہے‘ ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے اور اسے اپنی حکمت عملی میں مرکزی اہمیت دینا چاہیے۔
۳- تیسری چیز اُمت کی وحدت ہے۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن وحدت اور اپنی قوت کو مجتمع کرنا اشد ضروری ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ مسلم ممالک کے لیے فرداً فرداً اس سیلاب بلا کا مقابلہ مشکل ہے۔ بقا کا ایک ہی راستہ ہے کہ سب مل کر حالات کا مقابلہ کریں۔ اس سلسلے میں دینی قوتوں کا اتحاد پہلی ضرورت ہے لیکن یہ بھی کافی نہیں۔ صرف دین اور اپنی تہذیب کے بقا ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی مسلمان ملکوں کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ مل جل کر حالات کا مقابلہ کریں ورنہ خطرہ ہے کہ ’’تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!‘‘
ان اصولی لیکن عملی اعتبار سے فیصلہ کن (crucial) بنیادوں کی وضاحت کے بعد ہم مطلوبہ نقشہ کار کے خدوخال کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں لیکن آگے بڑھنے سے پہلے دو بہت ہی اہم امور کو ایک بار پھر بہت صاف الفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ان پر ساری نظری اور عملی حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار ہے۔
اولاً ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک صاحب دعوت اُمت ہیں اور مقابلے کے لیے قوت کوئی بھی ہو اور مقابلے کا زمانہ کچھ بھی ہو‘ ہمارا مقصد دشمن کی تباہی نہیں‘ انسانیت کی اصلاح اور فلاح ہے اور اللہ کے بندوں کو‘خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کسی بھی نظام کے تحت ہوں بالآخر اللہ کے راستے کی طرف لانا ہے۔ مقابلے‘ لڑائی اور جنگ میں بھی ہمارا مقصود دوسروں کی تباہی نہیں‘ ان کو خیر کی طرف بلانا ہے۔ اسی لیے آج امریکہ کے استعماری عزائم‘ فکری اور ثقافتی یلغار‘ معاشی شکنجوں اور جنگی کارروائیوں تک کے مقابلے میں ہمیں یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکی عوام کی تباہی ہمارا ہدف نہیں۔ پھر آج کی سوسائٹی کی جو ساخت ہے‘ اس میں امریکہ محض وہاں کی موجودہ قیادت اور انتظامیہ کا نام نہیں۔ خود اس معاشرے میں متعدد قوتیں برسرکار ہیں اور ان میں خیر اور شر دونوں عناصر موجود ہیں۔ ایک صاحب دعوت اُمت اور ایک داعی الی الخیر اُمت کی حیثیت سے ہمیں کوئی جذباتی یا یک رخا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔اس لیے ڈائیلاگ کا راستہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے اور بگاڑ کو محدود کرنے کے لیے جہاں کہیں سے ہمیں معاون و انصار مل سکیں اس کی ہمیں اتنی ہی فکر کرنی چاہیے جتنی اپنے حقیقی دفاع کی۔ ہر معاشرے میں کچھ خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں اور ہر ملک میں کچھ اچھے نفوس بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے مسلم اُمت کی دفاعی اور جنگی دونوں حکمت عملیوں کی بھی ایک امتیازی شان ہونی چاہیے اور عمومی تباہی کبھی ہمارا طریقہ نہیں ہو سکتا۔ شرمحض کا کوئی وجود نہیں اور خیر جہاں بھی ہو اور جس درجے میں ہو اس کو ہمیں اپنا اثاثہ بنانا چاہیے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی‘ جنگی نقشہ کار اور سفارت کاری میں ہمیں مقابلے اور مذاکرے کا ایک حکیمانہ امتزاج نظر آتا ہے۔ اسے آج بھی ہماری حکمت عملی کا امتیاز ہونا چاہیے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ جس طرح آج اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ بھی کوئی یک رخی (one dimensional) جنگ نہیں ہے۔ بلاشبہہ اس کی عسکری قوت اور فوجی بالادستی اس نقشہ جنگ میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔ آج امریکہ کی فوجی قوت دنیا کے باقی تمام ممالک کی مشترک فوجی استعداد سے بھی زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جس ملک پر چاہتا ہے‘ چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہے اور ایک کے بعد دوسرے کو نشانہ بنانے کے منصوبے بنا رہا ہے اور اقوامِ متحدہ کو بھی اپنی باندی سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ لیکن یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی کہ یہ جنگ بس ایک عسکری معرکہ ہے۔ نئے استعمار کے دوسرے رُخ --- فکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور اعلامی بھی اتنے ہی اہم اور نئی غلامی کی زنجیروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے کی حکمت عملی کو بھی کثیرجہتی (multi-dimensional) ہونا چاہیے ورنہ جس یلغار کی زد میں ہم ہیں اس کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا۔
ہماری حکمت عملی میں ان دونوں پہلوئوں کا پورا پورا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے۔ ہماری نگاہ میں پاکستان اور اُمت مسلمہ کو آج جس حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس کے تین پہلو ہیں--- ۱- نظریاتی اور اخلاقی ۲- تزویری (structural) ۳- اطلاقی (operational) ۔ ہم ان تینوں کے بارے میں چند گزارشات پیش کر رہے ہیں:
ہماری حکمت عملی کی اساس محض مفاد اور وقتی مصالح نہیں ہو سکتے۔ ملک کا مفاد‘ اُمت کا مفاد‘ بلکہ انسانیت کا مفاد بلاشبہہ اس کا ایک اہم حصہ ہے اور وقتی مصالح سے بھی صرف وہی صرفِ نظر کرسکتا ہے جس کے پائوں زمین پر نہ ہوں۔ لیکن کسی مسلمان‘ کسی مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ان کی حکمت عملی کی اساس ان کا ایمان‘ ان کا نظریہ‘ ان کا تہذیبی مشن اور ان کی اخلاقی استعداد ہو۔ اس لیے ہم جو بھی راستہ اختیار کریں اور جو بھی منصوبہ کار تیار کریں اس میں سب سے پہلی چیز اللہ سے تعلق‘ اپنے خلیفۃ اللہ ہونے کا شعور اور خیراُمت کی حیثیت سے اپنے تاریخی رول کا ادراک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی بقا اور اس کے احیا کے لیے جو حکمت عملی بھی وضع کی جائے گی اس کا اولیں نکتہ استعانت باللّٰہ ہے۔ اقبال نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت الم نشرح ہو جاتی ہے کہ اس پوری تاریخ میں مسلمانوں نے اسلام کو نہیں بچایا بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو بچایا ہے۔ مادی قوت‘ فکری محرک‘ عسکری اور سائنسی طاقت سب ضروری ہیں لیکن سب سے اہم چیز اللہ سے تعلق‘ اللہ کی مدد اور اسلام کی رسّی کو تھامنا ہے۔ نقطۂ آغاز ایک اور صرف ایک ہے:
الذین اذا اصابتھم … ا نا للّٰہ وانا الیہ راجعون (البقرہ ۲:۱۵۶)
جب ان پر تکلیف دہ مصیبت حملہ آور ہوتی ہے تووہ کہتے ہیں --- بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ
ان ینصرکم اللّٰہ ……… فلیتوکل المومنون (آل عمران ۳: ۱۶۰)
اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکے گا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعدکون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔
دوسری چیز اصلاح ذات ہے۔ اُمت کی ترقی کا کوئی راستہ محض وسائل کی فراوانی سے استوار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کوئی میکانکی عمل نہیں۔ اس میں اصل قوتِ کار مسلمان مرد اور مسلمان عورت ہے۔ ان کی حیثیت عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹوں کی ہے۔ اگر یہ اینٹیں کمزور اور خستہ ہوں گی تو عمارت مضبوط کیسے ہوگی؟
واضح رہے کہ ذات کی فکر اس معنی میں نہیں ہے کہ ہم تنومند ہو جائیں اور مال دار بن جائیں۔ بلاشبہہ اچھی صحت اور مالی قوت بھی درکار ہے‘ لیکن اصل قوت راسخ ایمان اور مضبوط کردار کی ہے۔ انفرادی تزکیے اور سیرت سازی کے ذریعے ہی اس اُمت کا ہر فرد اُمت کی قوت کا ذریعہ بن سکتا ہے اور پھر یہ گروہ ایک ایسا گروہ بن سکتا ہے جو لوہے کے چنوں کی مانند ہوں کہ کوئی آپ کو چبا نہ سکے اور کوئی چبانے کی کوشش کرے تو اپنے دانت تڑوا بیٹھے۔
تیسری چیزدعوت الی اللّٰہ ہے۔ دعوت الی اللہ ہی اُمت کو بیدار اور متحرک کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اس کے ذریعے ہم دنیا کے دوسرے لوگوں تک ایک پیغام کے علم بردار بن کر پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس کو اختیار کر کے اُمت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا رواج ہو سکے گا اور معاشرے کی اصلاح واقع ہو سکتی ہے۔ اس سے تعلیمی ترقی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ معاشرے کو متحرک اور تیار کیے بغیر مسلمان عسکری‘ سیاسی اور معاشی چیلنج کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔ خاندان‘ معاشرہ اور اجتماعیت ان سب کی قلب ماہیت اگر ہو سکتی ہے تو دعوت الی اللہ کو مرکز و محور بنا کر ہی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن سے ربط و تعلق اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا اور سیرت پاکؐ سے نسبت اور حضورؐ کی محبت اور اطاعت کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ کام باہر نکلے اور لوگوں تک پہنچے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ قرآن اور سیرت نبویؐ سے جو سبق ہم سیکھتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے عوام تک پہنچیں۔ انھیں بیدار کرنے اور ان کے اخلاق سنوارنے کے لیے سب مل جل کر کام کریں۔ جب تک ہم سب دعوت کے اس عمل میں مصروف اور متحرک نہیں ہو جاتے‘ اُمت کو وہ قوت میسر نہیں آسکتی جس سے وہ بیرونی خطرات کا مقابلہ کر سکے۔
اس سلسلے کی چوتھی چیز آپس میں رواداری اور اخوت کا پیدا کرنا اور اختلافات کے سلسلے میں برداشت اور تکثر(plurality) کی حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہے۔ لازمی ہے کہ ہم اپنے دینی‘ سیاسی اور تہذیبی اختلافات کو حدود میں رکھنا سیکھیں اور اختلاف مسلک کو جنگ و جدال اور تصادم کا رنگ نہ دیں۔ ضروری ہے کہ یہ احساس پیدا کیا جائے دین کے دائرے میں بھی فطری اختلافات لائق احترام ہیں۔ دوسرے الفاظ میں برداشت‘ افہام و تفہیم‘ ایک دوسرے کو قبول کرنا ہمارا طریقہ ہو۔ اس لیے کہ اُمت کی وحدت اگر قائم ہو سکتی ہے تو وہ ایمان کے بعد ایک دوسرے کو قبول کرنے سے اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے سے ہو سکتی ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب مسلم قیادت‘ اپنی ذات سے بلند ہو کر اختلاف کوحدود میں رکھناسیکھے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے درمیان تین روایات کو پروان چڑھانا ہوگا یعنی اختلاف کے باوجود باہم متحد رہنے کا جذبہ‘ دوسرا افہام و تفہیم کے جذبے سے مسلسل مکالمہ اور تبادلہ خیال اور تیسرے مشاورت اور نصیحت کے نظام کا احیاء مشاورت کا دائرہ صرف اپنے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ مشاورت کے دائرے کو زندگی کے تمام شعبوں میں رواج دیں۔
حکمت عملی کے نظریاتی اور اخلاقی یہ چار ستون ہیں جنھیں اساسی مقام دینا ناگزیر ہے۔
حکمت عملی کا دوسرا دائرہ تزویری (structural) ہے جس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کو اپنے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ان پہلوئوں کو محض وسطی مدت یا لمبی مدت کی اصلاحات کے نام پر معرض تعویق میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ان اصلاحات کی فوری ضرورت ہے اور اس باب میں ایک ایک دن کی تاخیر بھی ملک و ملت کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔
اس سلسلے کی سب سے پہلی ضرورت آزادی اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کا‘ جن کی ضمانت اسلام دیتا ہے‘ غیر مشروط تحفظ ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو سوچنے‘ سمجھنے والے ذہنوں پر قفل لگاتا ہے‘ اظہارِ خیال‘ افہام و تفہیم‘ بحث و مذاکرے کے مواقع سے اپنے ہی لوگوں کو محروم رکھتا ہے اور اصل حقائق اور رجحانات کو جاننے‘ سمجھنے اور ان کی روشنی میں صحیح رویے اختیار کرنے سے احتراز کرتا ہے وہ قوم کی تخلیقی اور تعمیری قوتوں کو مضحمل کر رہا ہے‘ اور جھوٹے استحکام کے نام پر فرد اور قوم دونوں کی ترقی کی راہیں مسدود کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویری اصلاحات کے باب میں یہ پہلی ضرورت ہے۔
دوسری چیز دوسروں کے مقابلے میں اپنی قوم پر اعتماد‘ اس کو پالیسی سازی میں شریک کرنا‘ حقیقی شورائی اور جمہوری نظام کی ترویج اور تمام قومی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں informed debate کی روایت کا قیام ہے۔ کسی ایک فرد پر انحصار ہماری سب سے بڑی اور خطرناک غلطی ہوگی۔ مجالس دانش (think tanks) کا قیام‘ کھلی بحث اور اجتماعی احتساب ہی میں ہماری ترقی اور قوت کا راز مضمر ہے۔
تیسری چیز تعلیم‘ تحقیق‘ ایجادو انکشاف اور مادی وسائل اور ٹکنالوجی کے میدان میں نہ صرف ترقی بلکہ مقابلے کی ترقی ازبس ضروری ہے۔
چوتھی چیزاصولی طور پر تو ہر دور میں لیکن خالص عملی اعتبار سے آج کی دنیا میں‘ خصوصیت سے عالم گیریت کے ایسے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہمیں ہماری معیشت اور ہماری تہذیب کو جڑ سے اکھاڑ دینے پر تلی ہوئی ہے‘ وہ کچھ دائروں میں ہر مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کی خودانحصاری ہے۔ خودانحصاری کے معنی ہر میدان میں خودکفالت نہیں کہ یہ قدرت کی تقسیم وسائل اور صلاحیتوں کے تنوع کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتی۔ نہ اس کے معنی دنیا سے کٹنا اور تجارت‘ معیشت‘ مالیات‘ ثقافت وغیرہ کے میدانوں میں دنیا سے الگ ہوجانے کے مترادف ہے۔ خود انحصاری کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم اپنے بنیادی‘ معاشی‘ مالیاتی‘ سیاسی اور ثقافتی فیصلے کسی دبائو اور مجبوری کے تحت نہیں بلکہ اپنے تصورات‘ اقدار‘ اصولوں اور منصفانہ مفادات کی بنیاد پر کر سکے اور اپنے اندر ایسی فکری‘ معاشی اور عسکری قوت فائق ہو کہ دوسرے اس کے فیصلوں پر ناروا انداز میں اثرانداز نہ ہو سکتے ہوں۔ اس کے برعکس سامراجی نظام کا خاصا یہ ہے‘ خواہ کسی شکل میں بھی ہو‘ کہ وہ دوسروں کو دنیا کا محتاج بناتا ہے اور ان کو فیصلے کی آزادی سے محروم کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلامی شخصیت کی نفی کے مترادف ہے اور تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ جو قوم اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکے اور اس کے وجود کا انحصار دوسروں پر ہو‘ وہ کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ اُمت مسلمہ کو بھی زمین و آسمان کے خالق نے جو مشن دے کر زمین پر برپا کیا ہے وہ ہے: شھداء علی الناسکا مقام۔
اگر یہ اُمت ہی دوسروں کی ذہنی اور فکری طور پر‘ نظریاتی اور تہذیبی طور پر‘ اسلامی اور ثقافتی طور پر‘ مادی اور سائنسی طور پر‘ سیاسی اور عسکری طور پر دست نگر ہو جائے تو پھر یہ اپنا تشخص کیسے برقرار رکھ سکتی ہے اور اپنا تاریخی کردار کیسے ادا کر سکتی ہے؟ آج پوری دنیا کو اور خصوصیت سے مسلم ممالک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اگر وہ سب سرجوڑ کر نہیں بیٹھتے اور مل جل کر ایک دوسرے کی قوت کا ذریعہ نہیں بنتے تو ڈر ہے کہ خدانخواستہ ایک ایک کر کے سب پٹ جائیں گے۔ اگر آج عراق نشانہ ہے تو کل ایران ہوگا اور پرسوں پاکستان‘ شام‘ سعودی عرب‘ انڈونیشیا‘ ترکی۔ یہ محض ایک واہمہ نہیں بلکہ آج کی دنیا کے geo-political حالات پر نظر ڈالنے والا ہرشخص اس نقشہ جنگ کو بچشم سر دیکھ سکتا ہے بلکہ یہ نشانہ بازی شروع ہوچکی ہے اور جن ۲۵ ممالک کے شہریوں سے امریکہ میں امتیازی سلوک قانون کے ڈنڈے کے زور سے شروع ہواہے ان میں سے ۲۴مسلمان ملک ہیں اور سرفہرست وہ ہیں جو اپنے کو امریکہ کا حلیف اور تاریخی اعتبار سے دوست سمجھے ہوئے ہیں۔ عراق کے خلاف محاذ محض عراق کے خلاف نہیں بلکہ ایک عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ ابھی ۱۲ جنوری ۲۰۰۳ء کے واشنگٹن پوسٹ میں صدربش کی دو صفحات پر مشتمل ایک نہایت خفیہ (top secret)دستاویز شائع ہوئی ہے‘ جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعہ سے صرف ۶ دن بعد یعنی ۱۷ستمبر کو ضبطِ تحریر لائی گئی تھی اس میں افغانستان کے خلاف جنگ کی ہدایات کے ساتھ وزارتِ جنگ (Pentagon) کے لیے یہ احکام بھی شامل ہیں کہ:
to begin planning military options for an invision of Iraq.
عراق پر حملے کے لیے عسکری متبادلات کی منصوبہ بندی شروع کرنا۔
اور پھر ۱۷ جنوری ۲۰۰۳ء کو اسی واشنگٹن پوسٹ میں یہ بات بھی آگئی ہے کہ مقصد عراق کے نام نہاد تباہی کے اسلحے پر قبضہ نہیں بلکہ عراق پر مکمل فوجی قبضہ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان پر قبضہ کی طرح امریکی فوج کے حاضر سروس جنرل کے تحت فوجی قبضہ ہے۔
افسوس کہ ہمارے کمانڈو صدر ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کا افغانستان اور عراق سے‘ اور عراق کا ایران‘ پاکستان اور سعودی عرب سے تعلق (linkage) دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اور اس خودفریبی میں مبتلا ہیں کہ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیڑ تو!‘‘ ہمیں اس خواب سے اب بیدار ہو جانا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ خودانحصاری اور اُمت مسلمہ کی وحدت کے سوا کوئی راستہ کسی کے لیے بھی بچائوکا راستہ نہیں۔ ہم مل کر ایک قوت بن سکتے ہیں اور الگ الگ ہر ایک پٹ جائے گا اور خدانخواستہ وہی ہوگا جو دولت عثمانیہ کے انتشار‘ تقسیم اور علاقائیت کے ہاتھوں سو سال پہلے ہوا یا شمالی عربوں‘ اور حجازیوں اور یمنی عربوں کی باہمی آویزش اور داخلی نزاعات کے نتیجے میں سات سو سال پہلے اندلس (اسپین) میں ہوا تھا۔ یہ اتحاد دین و ایمان اور نظریے اور تہذیب کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ بقاے باہمی کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن گیا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب ثروت کا اپنا مفاد اس میں مضمر ہے کہ وہ امریکہ پر انحصار کو کم کریں اور اپنے معاملات اور اپنے وسائل اپنے تصرف میں لائیں اور مسلم ممالک میں مقابلے کی قوت پیدا کریں۔ ستم ہے کہ اس وقت مسلم ممالک کا ۳.۱ ٹریلین یعنی ایک ہزار تین سو ارب ڈالر کا سرمایہ امریکہ اور یورپی ممالک میں لگا ہوا ہے اور اب اس رقم کو آسانی سے امریکہ اور یورپی ممالک سے واپس لانا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس رقم کا نصف بھی مسلم ممالک کی معاشی ترقی کے لیے صحیح ترجیحات کے ساتھ استعمال ہو تو چند سال میں مسلمان ممالک ایک عالمی معاشی قوت بن سکتے ہیں۔ جن ممالک اور افراد کا یہ سرمایہ ہے یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ اس کو مغرب کی گرفت سے نکالیں۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنی گردن ان ممالک کے ہاتھ میں دے دیں اور پھر اپنی آزادی اور خودمختاری کا خواب بھی دیکھیں۔ حالات ہمیں اس مقام پر لے آئے ہیں کہ مسلم ممالک میں معاشی‘ مالیاتی‘ تعلیمی‘ سائنسی‘ عسکری غرض ان سب میدانوں میں خودانحصاری کے حصول کو اولیت دی جائے۔ اس کے بغیران ممالک کے آزاد رہنے اور کوئی مثبت عالمی کردار ادا کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ نظریاتی اور اخلاقی اساس پر ایک مضبوط معیشت ‘ مادی وسائل کا حصول‘ ٹکنالوجی کے میدان میںمقابلے کی مہارت اور عسکری اعتبار سے اتنی قوت کہ آپ اپنا دفاع موثرانداز میں کر سکیں‘ پوری اُمت کی اجتماعی ضرورت ہے۔ وسائل موجود ہیں۔ امکانات کی کمی نہیں۔ کمی ہے تو وژن کی‘ منصوبہ بندی کی‘ اپنے ہی وسائل کے ٹھیک استعمال کی‘ سمجھ دار اور باصلاحیت قیادت کی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اب options کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کے اتحاد‘ مسلمان عوام کی بیداری اور اُمت میں مقابلے کی قوت کو ترقی دینے کے سوا زندہ رہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان بنیادی تبدیلیوں اور تزویری اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کا آغاز بلاتاخیر ہو جانا چاہیے لیکن ان کے پورے اثرات رونما ہونے میں ایک وقت لگے لگا۔ فوری تعاون کے راستے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ تعاون اور ربط باہمی (cooperation and coordination) سے آغاز کر کے اتحاد‘ انضمام اور انحصارباہمی (unity, integration and inter - dependence) کی طرف مراجعت کی جائے تاکہ ہمارا اتحاد محض اوپری انداز کا نہ ہو بلکہ اُمت مسلمہ اپنے تنوع کو باقی رکھتے ہوئے ایک حقیقی وحدت کی شکل اختیار کرلے۔ اگر یورپ صدیوں کے جنگ وجدال اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونے کے باوجود مصالح کی بنیاد پر ایک معاشی اور سیاسی وحدت بن سکتا ہے تو مسلمان اُمت کیوں نہیں بن سکتی۔ آج بھی اُمت کے عوام میں ہم آہنگی اور یگانگت ہے‘ حکمران اور مخصوص مفاد کے پرستار اصل رکاوٹ ہیں۔ لیکن اب یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ اپنے اس خول سے نکلیں اور وہ راستہ اختیار کریں جو اُمت کے اور خود اُن کے حق میں بہتر ہے۔
مسلمان عوام آج بھی ہر مسلم مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور جان اور مال سے اس میں شرکت اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عوامی جذبے کو اجتماعی نظام کی بنیاد بنانا زیادہ آسان ہے۔ اس گئے گزرے دور میںبھی آخر ۱۹۶۵ء کی جنگ کے موقع پر ایران اور عرب ممالک ہی نہیں ‘انڈونیشیا نے بھی بھارت سے اپنے تاریخی تعلقات اورنہروسوئیکارنو دوستی کی روایات کے باوجود کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور صرف سفارتی میدان میں ہی نہیں‘ عملی عسکری تعاون کے ذریعے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد پاکستان کی تیل کی ضروریات کو پورا کرنے میں سعودی عرب اور کویت نے جو تعاون کیا ہے وہ بھی محض خیالی چیز نہیں۔ اس کے باوجود صدر صاحب کا جنوری ۲۰۰۳ء میں لاہور کے دانش وروں کی محفل میں یہ ارشاد کہ ’’ہماری مدد کو کون آیا‘‘ ایک غیر حقیقت پسندانہ ارشاد ہے۔
حکمت عملی کا تیسرا اور فوری توجہ کا حصہ اطلاقی (operational) ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی ہے۔ امریکہ ایک عالمی قوت بلکہ واحد سوپر پاور ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف محاذ آرائی یا تصادم نہ مطلوب ہے اور نہ یہ کوئی راستہ ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ مسلمان ملک فرداً فرداً اور مل کر امریکہ کو ایک پیغام دیں--- ہم دوستی اور تعاون کا راستہ تو اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی ایسے نظام کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے جس میں ایک قوم کی بالادستی سب پر قائم کی جائے۔ شمالی کوریا نے جرأت مندانہ پالیسی کا ایک نمونہ پیش کیا ہے حالانکہ شمالی کوریا ایک غریب ملک ہے جس کی قومی دولت جنوبی کوریا کا بھی صرف چالیسواں حصہ اور تیل اور خوراک دونوں میں باہر کی سپلائی کا محتاج ہے۔ مسلم ممالک اپنے وسائل‘ جغرافیائی محل وقوع‘ معاشی دولت‘ سیاسی وزن (leverage) ہر اعتبار سے کہیں زیادہ موثر قوت بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ ذاتی مفاد کے چکر سے نکل کر اجتماعی قوت اور فلاح باہمی کا راستہ اختیار کریں۔ اس کے لیے عزم اور وژن کے ساتھ مکالمے (dialogue) اور اجتماعی تحفظ کے لیے سدجارحیت (deterrance) کا راستہ بیک وقت اختیار کیا جائے۔ اس وقت امریکہ نے جن ۲۵ ممالک کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک شروع کیا ہے ان میں سے ۲۴ ممالک مسلمان ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر فوری طور پر پہل قدمی کی ضرورت ہے۔ یہ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کے لیے ایک مناسب نقطہ آغاز ہے۔ بلاشبہہ ہر ملک کو اپنے تحفظ کا اختیار ہے لیکن دہشت گردی کے خطرے کے سدباب کے نام پر کچھ خاص ملکوں کو نشانہ بنانا اقوامِ متحدہ کے چارٹر‘ انسانی مساوات کے بنیادی اور مسلمہ اصول اور خود امریکی دستور کی پہلی دفعہ کے خلاف ہے۔ اس پر مستزاد کہ یہ پابندی selective اور discriminitary ہے یعنی دنیا کے ۱۹۰ ممالک میں سے صرف ۲۵ کے خلاف جو بظاہر دوست ملک ہیں اور ان کی عالمی سطح پر امریکہ سے کوئی مخالفت نہیں رہتی۔ بین الاقوامی قانون میں وہ نہ برسرِ جنگ ہیں اور نہ alien طاقتوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی طرح یہ پابندی جنس کی بنیاد پر امتیاز کی زد میں بھی آتی ہے کہ صرف ۱۶ سال کی عمر کے مردوں پر اس کا اطلاق ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دوسری جنگ کے بعد دنیا کے سارے ممالک میں اگر کسی ملک میں امریکیوں کے خلاف دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں تو وہ یونان ہے مگر وہ اس فہرست میں شامل نہیں۔ اگر معاملہ تارکینِ وطن اور خاص طور پر غیر قانونی تارکینِ وطن کا ہے تو امریکہ کے اپنے رپورٹر گواہ ہیں کہ ہر سال امریکہ میں ۳۰۰ ملین افراد باہر سے آتے ہیں جن میں سے ۲ ملین واپس نہیں جاتے۔ ان میںسب سے زیادہ لوگوں کا تعلق میکسیکو‘ یورٹوریکا ‘کیوبا اور دوسرے جنوبی امریکہ کے ممالک سے ہے لیکن یہ سب اس فہرست سے باہر ہیں۔ اس لیے سیاسی اور قانونی دونوں محاذ پر اس قانون اور مسلمانوں پر اس کے اطلاق کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلانی چاہیے۔
اسی طرح عراق کی جنگ کا مسئلہ اس لیے اہم ہے کہ عراق تو ایک عالمی استعماری جنگ کے آغاز کا صرف عنوان ہے۔ اصل مسئلہ اصول کا ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے بالا ہو کر امریکہ یا اس کے کسی اتحادی ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ محض کسی خیالی خطرے کا سہارا لے کر pre-emptive strike کے نام پر (جس کا بین الاقوامی قانونِ جنگ و صلح میں کوئی مقام نہیں) ایک دوسرے خودمختار ملک پر جو اقوامِ متحدہ کا رکن بھی ہے‘ فوج کشی کر سکتا ہے۔ کیا ملک کی حکومت بدلنے کے لیے کسی دوسرے ملک پر فوج کشی‘ قیادت کے قتل یا بغاوت کو منظم کرنے کا جواز ہے۔ اسی طرح کیا کسی بھی ملک کو اس بنیاد پر کہ اس کے پاس مہلک ہتھیار ہیں‘ نشانۂ جنگ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ وہ بنیادی ایشوز ہیں جو آج معرضِ خطر میں ہیں۔اگر دنیا کے دوسرے ممالک اور خصوصیت سے مسلم اور عرب ممالک خود کو ان فوجی جولانیوں اور جنگی تباہیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو آج عراق پر امریکہ کی دست درازی کو روکنا اس کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری کے وسط میں دنیا کے ۲۵ ممالک میں امریکہ کے جنگی عزائم کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے ہیں اور خود واشنگٹن‘نیویارک‘لاس اینجلز اور سان فرانسسکو جنگ کے خلاف نعروں سے گونج رہے ہیں۔ جرمنی اور فرانس نے بھی موثر احتجاجی آواز بلند کی ہے اور روس اور چین بھی اس صورتِ حال پر مضطرب ہیں۔ صرف اسرائیل اور بھارت اپنے اپنے استعماری عزائم کی وجہ سے بش کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن بھی کھل کر اس جارحیت کے خلاف شکایت کناں ہیں لیکن اس جارحیت کا اگلا ہدف بننے والے مسلم ممالک منقارزیر پر ہیں۔ یہ وقت جاگنے‘ احتجاج کرنے اور خارجہ پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا ہے۔ اس کے لیے پاکستان اور تمام مسلم ممالک کو بروقت اقدام کرنا چاہیے۔
دوسری فوری ضرورت امریکہ اور پوری مغربی دنیا سے معنی خیز مکالمے کا آغاز ہے جس میں صرف حکومتیں ہی نہیں‘ ان ممالک کے تمام موثر عناصر اور عوام مخاطب اور شریک ہوں۔ اس کے لیے میڈیا کی قوت کا استعمال ازبس ضروری ہے۔ آج دنیا کے ذہنوں پر امریکی میڈیا چھایا ہوا ہے جو خود پنجۂ یہود میں ہے۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کی ایک ننھی سی آواز ہے جس نے عرب دنیا میں کچھ آگاہی پیدا کی ہے لیکن ضرورت ایک ایسے طاقت ور میڈیا کی ہے جو مسلم ذہن اور عالم اسلامی کے جذبات اور مفادات کا ترجمان ہو لیکن یہ نہ محض سرکاری آواز ہو اور نہ ابلاغ کے جدید ترین اسالیب سے محروم۔ یہ وسائل ہمارے پاس ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں خود اپنا سیٹلائٹ فضا میں آویزاں کیا ہے جو اعلیٰ پیشہ ورانہ انداز میں ہماری آواز پوری دنیا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم اپنی سیاسی بازی محض اپنی بے تدبیری اور بے عملی کی وجہ سے ہار رہے ہیں جسے انگریزی محاورہ loosing by default کہا جاتا ہے۔ اس کی تلافی کی فوری ضرورت ہے اور یہ کام مناسب منصوبہ بندی سے ا نجام دیا جائے تو مہینوں نہیں‘ ہفتوں میں ہوسکتا ہے۔
ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ مسلم دنیا کے اتحاد کے ساتھ دنیا کے ان تمام ممالک‘ اقوام اور گروہوں کو ہمیں اپنے ساتھ ملانا چاہیے جو آزادیوں کے تحفظ‘ استعمار کے خلاف جنگ‘ بین الاقوامی قانون کی پاس داری‘ انصاف کے قیام کے مقاصد کے حصول کے لیے ہمارے معاون ہو سکتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر انھیں مناسب طور پر منظم اور استعمال کیا جائے تو یہ ساری قوتیں اس جدوجہد میں ہماری حلیف اور ساتھی ہیں اور مزید بن سکتی ہیں۔ مکالمے کا ایک کردار یہ بھی ہے کہ جہاں ہم حکومتوں سے مذاکرات کریں‘ وہیں دوسری سطح پر افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع کریں اور اس طرح دنیا کو سب کے لیے ایک زیادہ پُرامن اور منصفانہ بنانے کی خدمت انجام دے سکیں۔
تیسری ضرورت مکالمے کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور عسکری محاذوں پر ایسی منصوبہ بندی اور تنظیم کی ہے جو کمزور ممالک کے خلاف جنگی یلغار یا انھیں مغلوب کرنے کی چالبازیوں کے مقابلے میں سدجارحیت کا کردار ادا کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں وقت کی اہم ترین ضرورت مغرب پر انحصار کو ختم کرنا‘ مغرب سے موثر اور معنی خیز مکالمہ شروع کرنا اور خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی سدجارحیت کی طاقت کو وجود میں لانا ہے۔ یہ کام ٹھوس منصوبہ بندی اور مسلسل جدوجہد کا متقاضی ہے۔ اس کے لیے معاشی اور عسکری قوت اوراپنے وسائل پر اپنی گرفت ضروری ہے۔ نہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ یوں گھٹنے ٹیکتے چلے جائیں اور نہ اتنے قوی ہیں کہ فوری تصادم کاخطرہ مول لے سکیں۔ اس لیے استقامت اور حکمت سے راستہ نکالنے ہی میں اُمت کی نجات ہے۔ اس کے لیے جہاں نظریاتی استحکام ضروری ہے وہیں مادی قوت کا حصول اور اس کا صحیح صحیح استعمال بھی ضروری ہے۔ خطرات کا صحیح شعور اولیں شرط ہے لیکن بلاتیاری مقابلہ اور تصادم کے راستے کو اختیار کرنا بھی خود تباہی کا راستہ ہے۔ اس لیے جو بھی نقشہ کار وضع کیا جائے اسے پوری حکمت ‘ دانائی اورمومنانہ فراست سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے کی آخری چیز صحیح معاشی منصوبہ بندی اور مسلم ممالک میں ایک ہمہ گیر معاشی ترقی کا کریش پروگرام ہے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی معاشی بحالی کے لیے مارشل لا پلان بنایا گیا تھا اسی طرح اس وقت اسلامی دنیا میں معاشی ترقی‘ جدید ٹکنالوجی میں قوت کے حصول‘ بنیادی صنعتوں اور asset creation کے مقاصد کے لیے فوری اقدام درکار ہیں۔ مسلم سرمایے کو محفوظ کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے کہ وہ مسلم ممالک میں asset creation کے لیے استعمال ہو۔ ترکی کے ایک صاحب نظر سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی پہل قدمی پر D-8 کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اب وقت ہے کہ فوری طور پر اس وژن پر عمل ہو اور اسلامی ترقیاتی بنک‘ او آئی سی‘ اسلامک چیمبر آف کامرس اور دوسرے متعلقہ ادارے فوری طور پر ان ممالک میں متقابل فوائد اور تقسیم کار کے معاشی اصولوں کی روشنی میں معاشی ترقی کا ایک ماسٹر پلان بنائیں اور اس پر عمل شروع کریں۔ کم از کم ۸ مسلمان ملک ایسے ہیں جن کے پاس جدید ٹکنالوجی اس حد تک موجود ہے کہ وہ مسلم دنیا کے لیے ایک مضبوط اور وسیع صنعتی اساس تعمیر کرسکتے ہیں اور مسلم ممالک خود وسیع مارکیٹ ہیں جو اس کو معاشی استحکام دے سکتے ہیں۔ آج ایسے صاحب نظر لوگوں کی ضرورت ہے جیسے یورپ کو گائی مولے‘ ڈی گال اور ایدینور کی شکل میں میسرآگئے تھے۔ کسی بھی اطلاقی منصوبے کا یہ ایک بہت نہایت اہم حصہ ہے۔
آخر میں ہم یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور اس کی قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھے اور امریکہ کی خدمت میں درخواستیں بھیجنے کا رویہ ترک کرے۔ ایک باوقار ملک کی حیثیت سے اور امریکہ کے سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں اپنی خارجہ اور معاشی پالیسیوں کی تشکیل نو کرے۔ قوم پر اعتماد کرے اور اکتوبر کے انتخابات (خواہ وہ کیسے بھی خام کیوں نہ ہوں) کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ اور جمہوری اداروں کو طاقت ور کرے۔ انھیں ذریعہ بناتے ہوئے قومی بیداری پیدا کرنے اور دُور رس نتائج کی حامل نئی پالیسیاں تشکیل دینے کا یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور اس کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم یہ کلیدی کردار اسی وقت ادا کرسکتے ہیں جب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت ذاتی مفادات سے بالا ہو کر افہام و تفہیم کے ذریعے بنیادی امور پر ایک قومی اتفاق رائے پیدا کرے اور پھر دوسرے سارے ممالک کو ایک ایسے مرکزی پروگرام پر مجتمع کرنے کی کوشش کرے جس سے عالم اسلامی اپنی آزادی‘ معاشی وسائل اور نظریاتی تشخص کی قرار واقعی حفاظت کر سکے اور عالمی سطح پر انصاف کے قیام اور ایک ایسے عالمی نظام کے فروغ کے لیے سرگرم ہو سکے جو انسانیت کو جنگ‘ تباہی اور معاشی لوٹ کے موجودہ نظام سے نجات دلا سکے اور سب کے لیے عزت‘ آزادی اور انصاف کا ضامن ہو سکے۔ آج یہ صرف مسلمانوں ہی کی ضرورت نہیں انسانیت کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان اکیسویں صدی کو امن و انصاف کی صدی بنانے کے لیے ایک موثر کردار ادا کر سکتا ہے بشرطیکہ ہماری قیادت اپنے ذاتی مفادات کے خول سے نکلے اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو درپیش خطرات کا استقامت اور حکمت سے مقابلہ کرنے کا راستہ اختیار کرے۔
جمہوریت کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حکومتوں کو عوام کی خواہشات اور ضروریات کا کچھ نہ کچھ خیال رکھنا پڑتا ہے اور اگر جواب دہی کا موثر نظام موجود ہو تو یہی چیز وسائل کے بروقت استعمال اور عوام کی مشکلات کے حل کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ آمریت کے ادوار میں تو ساری توجہ ورلڈبنک ‘ آئی ایم ایف اور فوجی اور سول بیوروکریسی کی دل پسند ترجیحات پر مرکوز رہتی ہے‘ لیکن جیسے ہی الیکشن کے آثار رونما ہوتے ہیں فوجی حکومت بھی عوام کے لیے سہولتوں کی باتیں (کم ازکم باتیں) کرنے لگتی ہے اور الیکشن کے نتیجے میں رونما ہونے والی حکومتیں تو بڑھ چڑھ کر عوام کے مسائل ہی کو اپنی ترجیح بتاتی ہیں۔ اعلانات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اسی وقت خوش آیند ہے جب ان پر عمل ہو اور صرف نمایشی اقدامات پر قناعت نہ کی جائے‘ بلکہ حقیقی مسائل کو وسائل کے موثر استعمال‘ صحیح ترجیحات اور بدعنوانی کو لگام دے کر حل کیا جائے۔
اس پس منظر میں پنجاب کی صوبائی حکومت کا اپنی کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں (۴جنوری ۲۰۰۳ئ) یہ اعلان کہ صوبے میں میٹرک تک سرکاری اور ضلعی اداروں میں تعلیم مفت ہوگی۔ تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔ سرحد کی حکومت نے بھی اپنی دوسری اصلاحات کے ساتھ جن میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والے چند اقدامات پر گرفت اور اُردو کو سرکاری زبان بنانا شامل ہے ‘میٹرک تک مفت تعلیم کا اعلان (۲۱ جنوری ۲۰۰۳ئ) کر دیا ہے۔ ہم ان اقدامات کا خیرمقدم کرتے اور انھیں مستقبل کے لیے ایک نیک فال تصور کرتے ہیں۔ ہم اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ باقی دو صوبوں کی حکومتوں کو بھی اس سلسلہ میں جلد اقدام کرنا چاہیے‘ تاکہ پورے ملک میں سرکاری اور ضلعی حکومت کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں میٹرک تک تعلیم مفت ہو اور ملک کے طول و عرض میں کم از کم اس محدود میدان میں یکسانی پیدا ہو۔ ہم ان اقدامات کی خوش الحانی پر مایوسی کا کوئی سایہ ڈالنا نہیں چاہتے لیکن صرف امر واقعہ کے طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام نہاد عوامی دور کا آغاز جن چند اقدامات سے کیا تھا‘ ان میں ملک بھر میں میٹرک تک مفت تعلیم بھی شامل تھی لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ اصل میزان عمل ہے‘ اعلان نہیں اس لیے اب ان منتخب حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلہ پر لفظ و معنی ہر دو اعتبار سے پورا پورا عمل کروائیں۔
اس اقدام کی تحسین کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ تعلیم کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ سرکاری اسکولوں میں پرائمری تعلیم مفت ہے اور میٹرک تک تعلیم کے لیے ۵ روپے ماہانہ سے ۲۰ روپے ماہانہ تک فیس ہے۔ اس رقم کا بوجھ غریب عوام کی پشت سے اگر کم ہو جائے تو یہ اچھا ہے لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ فروغ تعلیم کے لیے یہ اقدام مشکل کشا ہوگا تو بڑا گمراہ کن ہوگا۔ غریب بچوں پر سرکاری اسکولوں میں فیس کے علاوہ سب سے زیادہ بوجھ کتابوں اور اسٹیشنری کا ہے جو فیس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ہر بچے کے والدین پر آٹھ سو سے ایک ہزار روپے تک کا بوجھ اس عنوان سے پڑتا ہے۔ پھر یونیفارم کا مسئلہ ہے‘ ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے چندہ ہے‘ پورے دن کے اسکولوں میں بچوں کی خوراک بھی ایک مسئلہ ہے۔ مفت تعلیم اسی وقت مفت ہو سکتی ہے جب ان سب کی ذمہ داری ریاست اور معاشرہ لے جو اس کا فرض ہے۔ بنیادی تعلیم ایک حق ہے جسے کاروباری ذہن سے ادا نہیں کیا جا سکتا۔
یہ سب بجا‘ لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار اتنا پست اورتعلیمی سہولتوں (بلڈنگ‘ صفائی‘ روشنی‘ پانی‘ لائبریری‘ اچھا استاد وغیرہ) کی فراہمی ایسی زبوں حالی کی تصویر پیش کرتی ہے کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی اداروں کی جو ریل پیل ہے اس کی اصل وجہ سرکاری اور ضلعی انتظام میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی بدحالی ہے۔ غریب سے غریب انسان بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ان اداروں کو قتل گاہیں سمجھتا ہے اور پیٹ کاٹ کر اور قرض لے کر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں بھیجنے کی فکر کرتا ہے۔ اصل مسئلہ سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار‘ ان کی بلڈنگ اور سہولتوں اور سب سے بڑھ کر اچھے تربیت یافتہ اور جذبے سے بھرپور اساتذہ کی فراہمی ہے۔ جب تک اس لحاظ سے صورتِ حال درست نہیں ہوتی عوام کا رجوع سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف نہیں ہو سکتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ محکمہ تعلیم تک کے افسر اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں بھیجنا پسند نہیں کرتے؟ اصل مسئلہ سرکاری تعلیم اور نجی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کے تفاوت کو دُور کرنا ہے اور جب تک آپ سرکاری تعلیمی اداروں کو اتنا پُرکشش نہیں بناتے کہ والدین نجی اداروں کا رُخ نہ کریں‘ تعلیم کا مسئلہ علیٰ حالہ باقی رہے گا اورگمبھیرنہ ہوتا جائے گا۔
پھر تعلیمی پالیسی کے مسائل بھی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں لانا‘ ان کے لیے نگرانی کا‘ خصوصیت سے نظریاتی اور ثقافتی معاملات میں بہت ضروری ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایک نہیں کئی کئی تعلیمی نظام چل رہے ہیں‘ کچھ اشراف اور متمول گھرانوں کے لیے اور کچھ مجبور اور بے وسیلہ طبقوں کے لیے۔ یہ چیز قوم کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ معاشی اور ثقافتی حیثیت سے ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے ۔ اس سے طبقاتی تفاوت ہی پیدا نہیں ہو رہا‘ طبقاتی جنگ کے لیے بھی زمین ہموار ہو رہی ہے۔ نجی اداروں میں بے مہار انداز میں پبلک اسکول‘ اور کونونٹ اسکول ہی کم مصیبت نہ تھے کہ انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم بنانے اور بیرونی تعلیمی نظاموں (او لیول/ اے لیول) سے رشتہ جوڑنے کے نتیجے میں ہمارے تعلیمی ادارے ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جن کے فکرونظر اور جذبات و احساسات کا رشتہ ملک سے باہر جڑ رہا ہے۔ وہ اپنے وطن اور اپنے گھر میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی معیار اور تعلیمی پالیسی کے یہ مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان کی طرف فوری توجہ دیں گی۔
مرکز اور صوبہ سندھ میں آنکھ مچولی کے مختلف کھیلوں کے بعد بالآخر ایم کیو ایم نے جنرل پرویز مشرف کی ذاتی مداخلت کے نتیجے میں اپنا گورنر مقرر کرا لیا اور صوبائی حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس وقت ہمارا موضوع ایم کیو ایم کا کردار نہیں‘ بلکہ ملک کی سیاست میں فوجی ایجنسیوں کا کردار ہے جس کا سب سے نمایاں سرٹیفیکیٹ خود جناب الطاف حسین نے اپنے گورنر کے تقرر اور سندھ کی حکومت بننے پر ان الفاظ میں دیا ہے۔ انھوں نے نام لے کر اپنی اس کامیابی کا سہرا جنرل پرویز مشرف (چیف آف اسٹاف)‘ جنرل احسان الحق (آئی ایس آئی کے ڈائرکٹرجنرل)‘ میجر جنرل احتشام ضمیر (آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائرکٹر) اور جنرل مشرف کے بیوروکریٹ معاون طارق عزیز کے سر باندھا ہے اور ان کا نہ صرف شکریہ ادا کیا ہے بلکہ انھیں اس عظیم خدمت پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اور ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ کم از کم اس بات کی حد تک الطاف حسین صاحب نے اصل حقائق کو بلاکم و کاست کھلم کھلا بیان کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج وہ اس پر ممنونیت کا اظہار کر رہے ہیں اور کل وہ انھی ایجنسیوں کو سب و شتم کا نشانہ بنا رہے تھے اور ان کے خون کے پیاسے تھے۔ صرف ریکارڈ کی خاطر عرض ہے کہ ایم کیو ایم کی سرکاری ویب سائٹ پر فوج‘ اس کی قیادت اور آئی ایس آئی کے ذمہ دار حضرات کے بارے میں گذشتہ سالوں بلکہ مہینوں تک میں جو کچھ آتا رہا ہے‘ اس پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ایم کیو ایم نے اپنے اس نظریاتی موقف کے ساتھ کہ:
ہندستان کی تقسیم انسانیت کی تاریخ کی عظیم ترین غلطی تھی۔
نام لے کر فوج اور اس کے اداروں کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور فوج اور پولیس کے ۴۸ اعلیٰ افسروں کو "most wanted people" قرار دیا۔ اس فہرست میں آئی ایس آئی‘ آئی بی اور ایف آئی اے کے نام سب سے اُوپر تھے۔ ان ناموں میں لیفٹیننٹ جنرل مظفرعثمانی‘ لیفٹیننٹ جنرل نصیراختر‘ لیفٹیننٹ جنرل اسعد درانی‘ میجر جنرل نصیراللہ بابر‘ کرنل عبید اور خفیہ ایجنسیوں کے طارق لودھی ‘ مسعود شریف اور رحمان ملک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جس آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر اور ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل کو آج پھول پہنائے جا رہے ہیں اس آئی ایس آئی کے بارے میں ان کی ویب سائٹ کا فتویٰ یہ ہے:
آئی ایس آئی بدنام زمانہ ہے۔ اسے ریاست در ریاست قرار دیا جاتا ہے یا پاکستان کی نہ دکھائی دینے والی حکومت۔ اس نے بھارتی کشمیر میں مسلمان باغیوںکو اسپانسر کیا ہے‘ اور طالبان کو کھڑا کیا ہے اور افغانستان میں اس کے باطن عرب مہمانوں کی سرپرستی کی ہے--- گو یہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کے پنجے پاکستانی سیاست‘ عدالت اور روز مرہ زندگی تک گڑے ہوئے ہیں۔ سب اس سے ڈرتے ہیں۔ کسی آئی ایس آئی افسر کی ایک زہریلی سرگوشی کسی کے کیریر کے تباہ کرنے‘ گرفتار کرنے یا اس سے بھی بدتر انجام تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔
ایم کیو ایم کو مبارک ہو کہ اس ’’زہریلی سرگوشی‘‘سے اب وہ گورنری اور وزارتوں پر متمکن ہے اور ’’تھا جو ناخوب‘‘ وہ خوب بلکہ خوب تر ہوگیا۔
ایم کیو ایم‘ جس کے بارے میں واقفانِ حال جانتے ہیں کہ اس کا قیام بھی اسی ’’سرگوشی‘‘کا رہینِ منت ہے‘ اور اس کی خون آشام جولانیاں بھی اس کی سرپرستی اور حفاظتی چھتری میں کراچی اور حیدرآباد کو خون کی ہولی کھلاتی رہی ہیں اور پھر اس کا دور ابتلا بھی انھی سرپرستوں کو آنکھیں دکھانے کی پیداوار تھا اور اب اس کا نیا ہنی مون بھی انھی کی کرشمہ سازی ہے--- یہ سب بجا‘ لیکن کیا یہ سب قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں! کیا ایجنسیوںکا ہماری زندگی میں اس طرح دخیل ہونا اور کھل کھیلنا گوارا کیا جا سکتا ہے؟ کیا حاضرسروس فوجی اور سول حکام کو اسی طرح سیاسی جوڑ توڑ اور بنائو بگاڑ کی کارفرمائی کی چھوٹ ملی رہنا چاہیے؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ’’بس بہت ہو چکا‘‘ (enough is enough)کہہ دیں تاکہ سول نظام فی الحقیقت سول اور جمہوری نظام کی صورت اختیار کرسکے۔
ورلڈ بنک کی ایک تازہ رپورٹ میں جو ۱۹۹۹ء کے حالات کے جائزے پر مشتمل ہے یہ وحشت ناک حقائق دنیا کے سامنے پیش کیے گئے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ۱۹۹۹ء میں ۱۷۵ ارب سگریٹ کام و دہن کو دھواں دار کرنے کا باعث ہوئے لیکن پاکستان‘ اس علاقے کی آبادی کا صرف دس فی صد ہونے کے باوجود‘ سگریٹ نوشی میں ۳۲ فی صد حصہ بٹانے والا ملک ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۵ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ ۱۵ سال کی عمر سے بڑے افراد کا تناسب اگر نکالا جائے تو اگرچہ علاقے کا اوسط ۱۵ پیک فی کس ہے لیکن پاکستان میں ۳۰ پیک فی کس سے متجاوز ہے۔ تپ دق اور سرطان جیسے موذی مرض اس کا عطیہ ہیں۔ پورے علاقے میں سگریٹ سے پیدا ہونے والے امراض میں ہر سال خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مردوں میں اس کا استعمال اور سگریٹ نوشی پر مبنی امراض سے اموات کا تناسب عورتوں میں کہیں زیادہ ہے۔ اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سگریٹ نوشی کے فروغ میں سب سے اہم کردار سگریٹ کے اشتہارات کا ہے۔ بھارت نے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے لیکن پاکستان میں اس کی کوئی فکر نہیں۔ اور ذرا سی آمدنی (ریونیو) کے لیے سگریٹ سے خودسوزی کی بلا کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے اپنے طور پر اشتہارات پر کچھ پابندیاں عائد کر کے اچھا اقدام کیا ہے مگر اسے بھی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک کی نئی جمہوری حکومت کو خودسوزی کے اس عمل کو لگام دینے کے لیے جلد موثر تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔
انسانی وجود کے کئی پہلو ہیں۔ وہ محض ایک بے جان مشین نہیں بلکہ روح بھی رکھتا ہے اور جسم بھی‘ عقل بھی رکھتا ہے اور احساس و جذبات بھی۔ ان میں سے ہر پہلو کے کچھ مخصوص تقاضے ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر کسی ایک پہلو ہی پر نظر رکھی جائے اور دوسرے پہلو کو یکسرنظرانداز کر دیا جائے تو یہ بڑی غلطی ہوگی‘ مثلاً ایک کارخانے دار اپنے کارکنوں کے جسموں ہی پر توجہ دیتا ہے کہ وہ کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور کتنی پیداوار ان سے حاصل ہوتی ہے اور ان کے احساسات و جذبات کو نظرانداز کر دیتا ہے‘ تو آخرکار کارکنوں کی معنوی پژمردگی کارخانے کی پیداوار پر بھی اثرانداز ہو کر رہتی ہے۔
آپ ایک شخص سے بات کرتے ہیں۔ آپ کا اندازِ گفتگو اس کے دل میںآپ کے لیے احترام و قدر بھی پیدا کر سکتا ہے اور بے قدری و بیزاری بھی۔ آپ کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘ آپ کے اندازِبیان سے محسوس ہو جاتا ہے کہ آپ دل سے شکریہ ادا کر رہے ہیں یا یہ محض ایک تصنّع اور بناوٹ ہے اور آپ صرف زبانی خانہ پُری کر رہے ہیں۔ ایک شخص آپ سے کوئی بات کہتا ہے‘ آپ پوری توجہ سے سنتے ہیں یا محض ہوں ہاں کر کے اسے ٹال دیتے ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی مختلف چیزیں آپ کے مخاطب کو آپ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ آپ ایک بامقصد و بامعنی بات کرتے ہیں یا بے مقصد اور لایعنی بات کرنے والے ہیں۔ اس لیے طرزِگفتگو میں شائستگی اور آداب کا لحاظ رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔
انسانی سلوک و معاملت کے پس پشت عوامل و محرکات کا دارومدار دراصل انسان کے عقیدے اور نظریۂ زندگی پر ہوتا ہے۔ ایک غیر مومن شخص سچ بولتا ہے‘ خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے‘ وعدہ کا پابند ہے اور اسی طرح دیگر امور میں بھی خوش گوار طرزِعمل اپناتا ہے تو اس کا محرک ذاتی شرافت‘ مصلحت اورکسی نفع کی امید یا نقصان کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاًایک شخص چوری نہیں کرتا لیکن اس کی وجہ نگرانی اور پکڑے جانے کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔اگر یہ مصلحت یا خوف باقی نہ رہے‘ تو وہ شخص اپنے حقیقی رنگ میں آجاتا ہے۔ آج بہت سے لوگ امریکہ اور یورپ کی دیانت داری کا ذکر ستایش کے ساتھ کرتے نہیں تھکتے لیکن اسی امریکہ کے ایک شہر میں آٹھ گھنٹوں کے لیے بجلی چلی جاتی ہے--- اور یہ بہت مشہورواقعہ ہے--- تو اس مختصر وقفے میں چوری کی ۵ ہزار وارداتیں درج کرائی جاتی ہیں کیونکہ بجلی چلے جانے کی وجہ سے کیمروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا اور لوگوں کو پکڑے جانے کا ڈر نہیں رہ گیا تھا۔
مومن کو اللہ کا نیک بندہ اور شریف انسان بننے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چنانچہ وہ بندگانِ خدا کے ساتھ حسن سلوک دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں کہ ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو‘‘۔ بہترین اخلاق پر مومن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کا امیدواررہتا ہے۔ خوش اخلاقی کامظاہرہ اس کی ذاتی مصلحت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقصدِ زندگی کا عین تقاضا ہوتا ہے‘ چاہے لوگ خوش ہوں یا ناراض‘ تعلقات خوش گوار ہوں یا ناخوش گوار‘ محبت و اعتماد حاصل ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو‘ وہ بہرصورت اپنے رب کو خوش رکھنے کے لیے کوشاں رہتاہے۔ یہی اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ اس سے بہترین اخلاق پر برابر قائم رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’انسان اپنے اچھے اخلاق کی بدولت مستقل طور پر رات کو نمازیں پڑھنے والے اوردن میں روزے رکھنے والے شخص کے درجات حاصل کر لیتاہے‘‘۔
خوش اخلاقی مومن کی بہترین صفات میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’مومن (دوسروں سے) مانوس ہوتا بھی ہے اور انھیں مانوس کرتا بھی ہے۔ اور جو ایسا نہ کرے اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ لوگوں میںسب سے بہتر وہ شخص ہے جولوگوں کوسب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔ (جامع صغیر)
اللہ تعالیٰ نے جس طرح بہترین اخلاق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ہم اللہ کے راستے کی طرف بھی لوگوں کوحکمت اور بہترین خیرخواہی کے ساتھ دعوت دیں۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶:۱۲۵) اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو‘ حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا تو سب سے اچھی بات ہے ہی‘بلانے کے لیے انداز بھی حکیمانہ اور دل کو موہ لینے والااختیارکرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے خود رسولؐ اللہ کی صفت نرم دلی بتائی ہے جو انسان کو خوش گوار سلوک کا پیکر بناتی ہے۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آل عمران ۳:۱۵۹)’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔
بہترین سلوک کی ایک شکل غلطیوں سے درگزر کرنا بھی ہے۔ یہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ کسی قدیم دانش ور کا قول ہے کہ لوگوں کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرنا نصف عقل ہے۔
اگر اخلاق کی پشت پر کارفرما عوامل بہترین اور پسندیدہ نہیں ہوتے توان کی بنیاد نہایت کمزور اور ناپایدار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اثرات بھی وقتی اور ناپایدار ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ماتحت اپنے افسر کے ساتھ بظاہر بڑے اخلاق سے پیش آتے ہیں‘ اس کی خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کے ریٹائر ہوجانے پراس سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر تعلق کی بنیاد خلوص اور بے غرضی ہوتی‘ تو ربط و تعلق کا یکسر خاتمہ نہ ہو جاتا۔
جس طرح اچھے اخلاق کی بنیاد خدا ترسی اور اس کی رضا کا حصول ہے‘ اسی طرح اس کے کچھ ضابطے اور احکام بھی ہیں جو ہمارے اپنے مقرر کردہ نہیں بلکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ جس چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ حرام اور قابل اجتناب ہے اور جس چیز کو لازم قرار دیا گیا ہے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ مثلاً والدین کے ساتھ حسن سلوک اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی طرح جن امور کی نشان دہی رسولؐ اللہ نے فرمائی ہے ان میں بھی کسی چوں چرا کی گنجایش نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے لیے ان میں سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے واقف ہونے کی ہم مسلسل اور سنجیدہ کوشش کرتے رہیں اور جس حد تک واقفیت ہو‘ ان پر عمل پیرا ہوں۔
لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ معاملہ کے کچھ فطری اصول وقواعد ہیں جو ساری دنیا میں اور تمام قوموں میں تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن انھیں تسلیم کرنے اور ماننے کا فائدہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہماری زندگی مخلصانہ طور پر ان ہی اصولوں پر استوار ہو اور حالات کی نرمی و سختی ہماری راہ میں حائل نہ ہو سکے۔
نارمل لوگوں کے ساتھ تو اکثر ان ہی قواعد کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ اس کے ساتھ اگر حسنِ سلوک ‘ عزت اوراحسان کا معاملہ کیا جاتا ہے تودل میں قدر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص نارمل نہیں ہے‘ تو اس سے معاملہ کرتے وقت اس کے مزاج و طبیعت کا لحاظ رکھا جائے۔
اپنے علم و ادراک اور فہم و شعور کے اعتبار سے بھی لوگوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ذہین اور سمجھ دار ہوتا ہے۔ دوسرا کم عقل اور کم فہم ہوتا ہے‘ اس کا علم بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت کے مطابق ہی ان سے گفتگو کی جائے۔ یہی نصیحت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس قول سے بھی ملتی ہے کہ ’’تم لوگوں سے اگر کوئی ایسی بات کروگے جو ان کے ذہن سے بلند تر ہو تو وہ بات ان کے لیے فتنہ بن جائے گی‘‘ (مسلم)۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ یا تو اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے یا غلط سمجھ بیٹھیں گے۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ لوگ اس شخص کو پسند کرتے ہیں جو ان میں ذاتی طور پر بھی دل چسپی لیتا ہو‘ ان کے خیالات و مسائل پر بھی توجہ دیتا ہو‘ جو ان کی ضروریات پوری کرتا ہو اور انھیں تحفے تحائف سے بھی نوازتا ہو۔ حدیث میں آتا ہے: ’’باہم تحفے دیا کرو‘ اس سے باہمی محبت پیدا ہوتی ہے‘‘ (مؤطا)۔ تحفہ چاہے معمولی قیمت ہی کا کیوں نہ ہو‘ اس سے توجہ اور یگانگت کا اظہار ہوتاہے۔ کھانے کی دعوت بھی لوگوں کے درمیان قربت پیدا کرنے کاذریعہ بنتی ہے۔
اگرچہ کسی شخص کو کسی کام کے کرنے یا اس سے باز رہنے کا مشورہ دینا بھی نیکی ہے‘ لیکن بہت سے لوگوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ آپ جس چیز کی طرف دعوت دینا چاہتے ہیں‘ حسنِ سلوک اور حسنِ اخلاق کے ذریعے دیں‘ اس سے بھی دل چسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ طبرانیمیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جولوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو خوش کر دیں‘ یا اس کی کوئی پریشانی دُور کردیں‘ یا اس کا کوئی قرض ادا کر دیں‘یا اس کی بھوک مٹا دیں۔ اگر آپ اپنے بھائی کے ساتھ اس کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آپ ایک مہینے تک مسجد میں اعتکاف کیے رہیں‘‘۔
اگر ذمّے داران اور ملازمین یہ سمجھ لیں کہ لوگوں کے معاملات جلدنمٹانا‘ بلاتاخیر ان کی ضرورت پوری کرنابھی حسنِ سلوک سے تعلق رکھتا ہے اور باعث اجر ہے‘ تو وہ جلد جلدمعاملات کو نمٹانے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لوگ ٹھیک طور سے اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے لگیں تو معاشرہ مثالی بن جائے اور ہم مغربی ممالک کی مثالیں نہ دیں۔
فرانس میں ایک بار ایسا ہوا کہ کارخانوں کے ملازمین نے ہڑتال کر دی ‘لیکن کچھ ملازمین ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے افسران اور ذمّے داران ان سے ذاتی روابط رکھتے تھے‘ مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے اور انھیں مشینوں کے بجائے باعزت انسان قراردیتے تھے۔ جن کارخانوں اوردفتروں میں ملازمین کے ساتھ ذمّے دار حضرات ہمدردی و انسانیت کاسلوک کرتے ہیں وہاں ملازمین بھی خوش دلی کے ساتھ ان کا حکم مانتے اور اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کارخانوں کی پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔
لوگوں کو یہ اچھا لگتا ہے کہ کوئی ان کی باتیں توجہ سے سنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ اپنی ہی باتیں سناتا رہے۔ اگر آپ اچھی گفتگو کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو پہلے اچھے سننے والے بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں آپؐ صحابہ کرامؓ کی ضرورتوں سے واقف ہو کر ان کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دُکھ سکھ ‘ ملازمت کے لیے تقرری‘ ترقی اور شادی و غمی وغیرہ سے متعلق لوگوں کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لینا اور ان کے ساتھ ہمدردانہ رویّہ اختیار کرنا محبت و یگانگت کا باعث ہوتا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ گفتگو میں بے مقصد تکرار اور بحث و مباحثہ پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو وہ آپ کی عزت کرے گا۔ انسان کے اندرچھپے ہوئے پاکیزہ جذبات کو اُبھارنا چاہیے اوراس پہلو کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کسی کو بھی اپنے مقابلے میں کم تر سمجھنا اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنا انسانیت و شرافت کا نہیں‘ شیطنت اور کمینگی کا خاصہ ہے۔ اپنے عیوب اور خامیوں پراور دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھنا حقیقی انسانی شخصیت کے ارتقا کا باعث ہوتا ہے۔ اپنے سے چھوٹے منصب یا عمر والوں کی بھی عزت کرنی چاہیے اوران سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔
جن لوگوں سے آپ کو سابقہ پڑتا ہے انھیں مناسب مواقع فراہم کر کے ان میں خود اعتمادی پیدا کیجیے۔ کسی کی صلاحیتوں کو نظراندازکرنا اس کے اندر دل شکستگی اور بیزاری پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ مومن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرتا ہے‘ تاہم انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ قدردانی اور حوصلہ افزائی کو پسند کرتا ہے۔
ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے انسانوں کا شکریہ نہیں ادا کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر بھی نہیںکیا‘‘۔ کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہنا اور اسے دُعا دینا بھی حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس سے مزید اچھے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہاں‘ کسی کی جھوٹی تعریف نہیںکرنی چاہیے۔
یہ بھی ایک بہت اہم اور پسندیدہ بات ہے کہ لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کی غلطیوں اور خامیوں کی حکمت و دانائی سے اصلاح کی جائے اور مثبت پہلو اُبھارا جائے۔ مثلاً ایک صاحب علم شخص آپ سے مشورہ کرتا ہے کہ وہ تجارت کرنا چاہتا ہے۔ آپ اس کے اندر نہ اس کا ذوق پاتے ہیں اور نہ اس کی صلاحیت‘ تو آپ اس سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایک صاحب ِ قلم و صاحب ِ فکر شخص ہیں‘ اس میدان کو نہ چھوڑیے۔ اس کے بجائے اگر آپ نے کچھ ایسی بات کہہ دی کہ وہ کوئی کاروباری صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو عین ممکن ہے کہ آپ کی بات اسے ناگوار ہو۔
یہ بات بھی لوگوں کو اچھی لگتی ہے کہ انھیں اچھے ناموں سے پکارا جائے‘ تحقیر آمیز انداز نہ اختیار کیا جائے۔
اس میں اختلاف رائے نہیں ہو سکتا کہ لوگ برسرِعام نصیحت کو ناپسند کرتے ہیں اور ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کے عیب اور برائیاں لوگوں کے سامنے بیان کی جائیں۔ اگر کسی شخص کونصیحت کرنا چاہتے ہیں تو تنہائی میں کیجیے۔ اس طرح وہ شخص نصیحت قبول کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوگا اور اس کے دل میں آپ کی قدر اور احسان شناسی کا جذبہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔
بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی نصیحت سے انسان فوراً مکمل طور پر بدل جائے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نصیحت کو سمجھنے‘ قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے لیے انسانی مزاج کو وقت درکار ہوتا ہے۔
انسان براہِ راست نکتہ چینی پسند نہیں کرتا۔ اسے یہ بھی گراں گزرتا ہے کہ اس سے حکم کے انداز میں کہا جائے کہ یہ کرو‘ وہ نہ کرو۔ اگر وہی بات مناسب موقع پر اور حکمت کے ساتھ کہی جائے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ زیادہ قابل قبول ہوگی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکمت و نرمی والا اسلوب اختیار فرماتے تھے۔ مثلاً کچھ خستہ حال لوگ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ ان کی حالت دیکھ کر متاثر ہوئے اور مسجد میں ان کی مدد پر اُبھارنے کے لیے لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی۔ لیکن بجائے براہِ راست حکم دینے کے آپؐ نے ماضی کے واقعے کے طور پر ذکر فرمایا کہ کسی نے دینار و درہم صدقہ کیا‘ کسی نے کپڑے اور کسی نے کھجور۔ اس کے بعد ایک انصاری کافی کھجور لاد کر لائے۔ بوجھ سے ان کے پیر کانپ رہے تھے۔ آپؐ کا چہرہ کھل گیا۔ دوسرے لوگ بھی لا لا کر آپؐ کے پاس ڈھیر کرتے رہے۔ آپؐ نے خوش ہو کر فرمایا: ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا اسے وہ طریقہ اختیار کرنے والوں کے برابر ثواب ہمیشہ ملتا رہے گا‘‘۔ (مسلم)
غور کیجیے آپؐ نے کس حکمت کے ساتھ لوگوں کو صدقہ کرنے پر اُبھارا اور پھر کس طرح صدقہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
ایک استاد اپنی میز کلاس روم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ طلبہ بھی اس کا ہاتھ بٹائیں۔ اب اگر وہ کہتا ہے کہ آئو یہ میز اُٹھا کر وہاں رکھ دیں‘ یا اس طرح کہتا ہے کہ اگر یہ میز اُٹھا کر وہاں رکھ دی جائے تو تم لوگوں کے خیال میں کیسا رہے گا؟ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلے گا‘ لیکن دوسری صورت طلبہ کے لیے زیادہ پسندیدہ ہوگی۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ جوکام کرانا چاہتے ہیں اس کی اہمیت مخاطب کے دل میں پیدا کردیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپؐلوگوں کو جو حکم دینے والے ہوتے پہلے اس کے بارے میں شوق پیدا کردیتے‘ مثلاً غزوئہ خیبر کے موقع پر ایک دن آپؐ نے فرمایا: ’’کل میں جھنڈا اس شخص کو دوںگا جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو محبت ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ ہر شخص تمنا کرنے لگا کہ کاش وہ شخص میں ہی ہو جائوں‘ یا مثلاً آپؐ نے حضرت ابوذرغفاریؓ کو امارت سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں تمھارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ کبھی دو آدمیوں کے بھی امیر مت بننا‘‘۔ (مسلم)
ایک شخص چند مہمانوں کوکھانے پرمدعو کرتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی اہلیہ کو براہِ راست حکم دیتا ہے کہ فلاں فلاں چیز پکا لو۔ پھر بعد میں نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں چیز کیوں بھول گئیں تو اس انداز میں‘ اور اس طریقے میں زمین آسمان کا فرق ہو جائے گا کہ وہ اپنی اہلیہ سے کہے کہ آج فلاں وقت کچھ مہمان آنے والے ہیں اور کھانے سے گھر والوں کے ذوق ومعیارکاپتا چلتاہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں کا سرنیچا نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میںاہلیہ زیادہ خوش دلی اور توجہ سے کام کرے گی۔
لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ ان کے عیبوں اور خامیوں کو تو تلاش کیا جائے اوران کی اچھائیوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی بات اسے ناپسند ہے تو کوئی دوسری بات پسند بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ (مسلم)
کوئی شخص بھی خامیوں سے مبرا نہیں ۔ اور نہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں خامیاں ہی خامیاں ہوں اور خوبی کوئی نہ ہو۔ ایسے شخص کی تلاش جس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہوں‘ کوئی بھی خامی نہ ہو‘ محض خیالی بات ہو گی۔ ہم بعض لوگوں کی کچھ چیزیں ناپسند کرتے ہیں لیکن جب وہ ہم سے دُورہو جاتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے اوروہ ان سے بدتر ثابت ہوتے ہیں تب پہلے لوگوں کی قدر معلوم ہوتی ہے۔
زندگی گزارنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک طریقہ منفی ہے۔ اس کی بنیاد لوگوں کی برائیوں ہی پر نظر رکھنے پر ہوتی ہے۔ اس میںغلطیاں اصلاح کی خاطر نہیں دیکھی جاتیں بلکہ خود غرضی اورلوگوں کے استحصال کا جذبہ اس کا محرک ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ مثبت ہے اوروہ یہ کہ آپ لوگوں کی خوبیوں پر توجہ دیں اوران کی حوصلہ افزائی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی فضیلت کا ذکرکرتے ہوئے اسی طریقے کی نشان دہی فرماتے ہیں: ’’میں تمھیں انصارکے بارے میں وصیت کرتا ہوں‘ کیونکہ یہ لوگ میرے خاص الخاص ہیں۔ انھوں نے اپنا حق ادا کر دیا (یعنی بیعت عقبہ میں جوعہد کیا تھا وہ پورا کر دیا)۔ اب ان کے حق کی ادایگی باقی رہ گئی ہے۔ لہٰذا ان میں سے جو اچھا کرے اسے قبول کرو اور جو کوئی غلطی کر جائے اس سے درگزر کرو‘‘۔(بخاری)
لوگ ایسے اشخاص کوناپسندکرتے ہیں جوان کی غلطیوں کو بھولتے نہیں بلکہ یاد رکھتے ہیں اورموقع بہ موقع یاددلاتے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو معاف کر دیتے ہیں تو اس پر احسان جتاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کردار کو سراہا ہے جو لوگوں کو معاف کردیتے ہیں‘ ان کی پردہ پوشی کرتے ہیںاور بھول جاتے ہیں۔ آپ جس کے ساتھ کوئی بھلائی کریں گے تو یہ عین متوقع ہے کہ وہ اس بھلائی کو نہیں بھولے گا لیکن احسان جتانے سے تو بھلائی تلخی میں بدل جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
اور یہ تو نہایت معیوب بات ہے کہ لوگوں کے ساتھ حقارت آمیز برتائوکیا جائے اور ان پر اپنی بڑائی جتائی جائے۔ اس کے بجائے انکسار و تواضع پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا ایک واقعہ ان کے ایک شاگرد نے بیان کیا ہے کہ امام صاحب ایک رات میرے گھر آئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا‘ میں نکلا توسلام کلام کے بعد فرمایا‘ آج میرے دل میں ایک چیز بار بارکھٹکتی رہی۔ میں دن میں گزرا تو آپ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ آپ سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ دھوپ میں کاغذ قلم لے کر لکھ رہے تھے۔ ایسا نہیں کرناچاہیے۔ سب لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھنا چاہیے۔ دیکھیے امام صاحب نے تنہائی میں کس خوب صورتی کے ساتھ نصیحت کی۔ اور یہ واقعہ بیان کرنے والے بھی ان کے وہی شاگرد ہیں۔ خودامام صاحب نے کسی سے بیان نہیں کیا۔ اپنے کسی ساتھی کو بھی سب کے سامنے ٹوکنا پسندیدہ نہیں ہے۔
دوستوں کو جلد جلد ملاقات نہ کرنے پر بھی ملامت نہیں کرنی چاہیے۔دراصل محبت کا تقاضا باربار کی ملاقات سے پورا نہیں ہوتا۔ کتنے دوست ایسے ہوتے ہیں جن سے بہت دنوں کے بعد ملاقات ہو پاتی ہے لیکن ان کی محبت پختہ اور مخلصانہ ہوتی ہے۔
لوگ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص اپنی غلطی پر مصر رہے۔ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ غلطی سے محفوظ رہنے کی ایک اہم تدبیر یہ بھی ہے کہ جس چیز کے بارے میںصحیح معلومات نہ ہوں‘ اس کے بارے میں اظہار رائے کرنے سے احتراز کیا جائے۔ کسی چیز کے بارے میں اپنی لاعلمی ظاہر کر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
انسان کی یہ خصلت بھی بدذوقی کی علامت ہوتی ہے اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کہ وہ ہر کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرے اور غلطیاں اورناکامیاں دوسروں کے سر ڈالے۔
جب بندہ اپنے پروردگارپرسچا ایمان رکھے گا اور آخرت کے محاسبے پر اوراس بات پر اسے پورا یقین ہوگا کہ ہر ایک نیکی اور بدی کا اسے بدلہ ضرور ملے گا تو اس کا یہ یقین اسے اس امر کا مستحق بنائے گا کہ اللہ کی ہدایت اسے سیدھی راہ اختیار کیے رہنے کا موقع عنایت کرے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرے گا‘ اس کی نافرمانی سے بچے گا‘ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے گا۔ دیانت دار و امانت دار بن کر رہنے کی کوشش کرے گا۔ ایفائے عہد کرے گا‘ نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرے گا‘ صداقت شعار ہوگا‘ اس کے لینے اور دینے کے پیمانے ایک ہوں گے اور اپنی پوری زندگی کو اسی اصول پر استوار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اَوْفُوْا الْکَیْلَ وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ o وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ (الشعرا ۲۶:۱۸۱-۱۸۲) ’’پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو‘ صحیح ترازو سے تولو‘‘۔ وہ خرید و فروخت میں کشادہ دلی سے کام لے گا۔ دوسروں پر اپنے حقوق کے تعلق سے نرمی اختیار کرے گا‘ کسی کے ساتھ دھوکا نہیںکرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ سامانِ تجارت کی قیمت بڑھا چڑھا کر نہیں بتائے گا‘ نہ جھوٹی قسمیں کھائے گا۔ وہ قیمتیں بڑھانے کے لیے ذخیرہ اندوزی بھی نہیںکرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے غذائی اشیا ۴۰ دن تک روکے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے دُور ہو گیا‘‘ (احمد و حاکم)۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پیش نظر رکھے گا کہ سچا دیانت دار تاجر نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوںاور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
اگر وہ کسان ہے تو زمین سے غلّہ وغیرہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے مقصد سے اس پر پوری توجہ دے گا کیونکہ پیداوار کے ساتھ اسے اجر و ثواب بھی ملے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’جو مسلمان بھی کوئی پودا لگاتا ہے یا کوئی کھیت بوتا ہے۔ اس سے انسان ‘ پرندے اور جانور جو بھی کھاتے ہیں اسے اس کا ثواب ملتا ہے‘‘۔
وہ لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرے گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو پسند ہو۔ پڑوسیوں کے کھیتوں کی بھی حفاظت کرے گا۔ بغیر اجازت ان میں داخل نہیں ہوگا اور نہ کوئی نقصان پہنچائے گا۔ کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو کترائے گا نہیں۔ بیج اور زرعی آلات کی ضرورت ہو تو وہ بھی دے گا اور اپنے مفید تجربات سے بھی انھیں فائدہ پہنچائے گا۔ کسی کی برائی نہیں کرے گا‘ نہ کسی سے حسد کرے گا۔ اگر وہ کوئی ہنرمند ہے تو یہ سمجھ کر کہ اللہ تعالیٰ کسی اچھے کام کا اجر ضائع نہیں ہونے دیتا اور یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب کوئی شخص کوئی کام کرے تو اسے اچھی طرح کرے‘‘ (بخاری) ۔ اپنے ہنر کے مطابق بہترین کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ لوگوں سے جو وعدہ کرے گا اسے پورا کرے گا۔ وقت پر کام پورا کر کے دے گا۔ کسی طرح کی فریب کاری نہیں کرے گا۔ اس طرح اس کی شہرت بھی بڑھے گی اوراس کی آمدنی بھی۔ ساتھ ہی وہ قوم و وطن کی خدمت کرکے دنیا و آخرت کی سعادت بھی حاصل کرے گا۔
اگر وہ ایک معلم و استاد ہے تو اپنے فرائض کی اہمیت محسوس کرے گا اور یہ سمجھے گا کہ طلبہ کی اصلاح کا دارومدار خود اس کی اصلاح پر ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو رہنمابنائے گا کہ ’’میں تم لوگوں کے لیے ویسا ہی ہوں جیسا باپ اپنے بیٹوں کے لیے ہوتا ہے‘‘۔ وہ طلبہ سے نرمی و محبت کا برتائو کرے گا‘ ان پر سختی نہیں کرے گا۔ اپنے شریفانہ سلوک و اخلاق سے ان کی عملی تربیت کرے گا۔ ان کی تعلیمی ترقی اور کامیابی کے لیے پوری کوشش کرے گا۔ انھیں بلندہمتی اور محنت سکھائے گا۔ ساتھ ہی وہ طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ بھی کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہم انبیا کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم لوگوں سے ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق برتائو کریں اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق ہی ان سے گفتگو کریں‘‘۔ اچھا استاد اپنے شاگردوں کو اپنا پورا علم سکھانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے کوئی مفید علم چھپایا وہ قیامت کے دن آگ کی لگام لگائے ہوئے پیش ہوگا‘‘۔ پھر اپنے علم کے مطابق عملی نمونہ بھی پیش کرے گا۔ تاکہ لوگوںپر علم کا فائدہ ظاہر ہو سکے اور وہ بھی علم سیکھنے کی کوشش کریں ورنہ لوگ اس کے علم کو بیکار سمجھ کر اس سے بے نیازی اختیار کریں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ ’’جب عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو جاہل علم سیکھنے ہی سے رُک جاتا ہے‘‘۔
اگر وہ شاگرد طالب علم ہے تو اپنے استاد کی عزت کرے گا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید نے اپنے کسی درباری سے پوچھا: آج کے دور میں سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے؟ اس نے جواب دیا: ہم تو امیرالمومنین (ہارون رشید)سے زیادہ کسی کو معزز نہیں جانتے۔ خلیفہ نے کہا: نہیں‘ کسائی مجھ سے زیادہ معزز ہیں‘ میں نے امین اور مامون (شاہزادوں) کو ان کے جوتے اُٹھانے کے لیے دوڑتے دیکھا ہے۔
غرضیکہ ہر طرح کے حالات اور اپنی ہر ایک حیثیت میں آئین و ضوابط اور پاکیزہ روایات کا پابند ہو کر رہنے کی کوشش کرے گا۔
خود بھی نیکی کرنا ایک انسانی ذمّے داری ہے اور دوسروں کو نیکی کرنے پر آمادہ کرنا بھی نہایت پسندیدہ کام ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی بھلائی کی طرف رہنمائی کی اسے (وہ بھلائی) کرنے والے جیسا ہی اجر ملے گا‘‘۔ (مسلم)
یعنی جس نے کسی دینی یا دنیاوی بھلائی کی طرف کسی شخص کی رہنمائی کی یا اسے آمادہ کیا‘ اسے بھی بھلائی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بہتر نیکی لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کسی قسم کی مدد کرنا‘ انھیں سہارا دینا‘ ضرورت مند کی داد رسی کرنا‘ معذور کی مدد کرنا‘ قرض دینا‘ کوئی چیز مستعار دینا‘ تحفہ دینا وغیرہ اچھی بات ہے۔
مسنداحمد میں حضرت ابوحزی جہنیؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی کے بارے میں دریافت کیا توآپؐ نے فرمایا: کسی بھی نیکی کو حقیروکم تر نہ سمجھو‘ چاہے کسی کو رسّی کا ایک ٹکڑا ہی دیا ہو یا جوتے کی کیل ہی دی ہو یا کسی کے برتن میں پانی ہی ڈالا ہو یا راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہی ہٹائی ہو یا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملے ہی ہویا ملنے پر اپنے بھائی کو سلام ہی کیا ہو وغیرہ۔
ابن حبان میں حضرت ابوذرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے بہت سے کام گنانے کے بعد فرمایا کہ اگر کچھ بھی نہ ہو سکے تو لوگوں کو ایذا رسانی ہی سے محفوظ کردے۔
مسلمان بھائی کے حقوق ادا کرنا بھی نیکیوں میں شامل ہے جیسے مریض کی عیادت کرنا‘ مظلوم کی مدد کرنا‘ سلام کرنا‘ دعوت قبول کرنا‘ جنازے میں شریک ہونا وغیرہ۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں: جو اپنے بھائی کے کسی کام سے جائے تو اس کا ہر قدم نیکی ہے۔ اسی طرح کسی تنگ دست پر قرض ہو تو اسے ڈھیل دیتے رہنا بھی نیکی ہے‘ حتیٰ کہ جانوروں سے اچھا برتائو کرنا بھی نیکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فی کل کبد رطبۃ اجر ’’ہر جان رکھنے والے جگر میںاجرہے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ایک زانی عورت نے پیاس سے تڑپتی ہوئی ایک بلی کو پانی پلا دیا تھا اس کی بخشش اسی بات پر کر دی گئی۔
جو مسلمان بھی کوئی درخت لگائے گا تو اس میں سے جو کھایا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا‘ جو اس میں سے چرا لیا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا‘ جو جانور یا پرندے کھا لیں گے وہ اس کا صدقہ ہوگا اوراس میں جو بھی کم ہو گا وہ اس کا صدقہ ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا صدقہ قیامت تک کے لیے ہوگا۔
تاریخ بخاری میں حضرت جابرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی کنواں کھودا تو انسانوں‘ جنوں‘ جانوروں اور پرندوں میں سے جو بھی پیاسا پیے گا اس کا ثواب اسے قیامت تک ملتا رہے گا۔
ایک دوسری روایت میں عمارت بنانے کے سلسلے میں بھی ایسا ہی قول منقول ہے۔ اس طرح کے کام اسی لیے صدقہ جاریہ کہلاتے ہیں۔ الغرض معاشرے کو صحت مند اور خوش گوار بنانے کے لیے حتی المقدور اچھے کام کرتے رہنا انسان کی ذمّے داری ہے اور یہی مثبت اور تعمیری طرزِعمل ہے جس سے معاشرہ امن و سکون اور محبت و یگانگت کا گہوارا بنتا ہے۔
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اس لیے خدمت ِ خلق یا بالفاظِ دیگر سماجی خدمات کی نہایت اہمیت ہے۔ ان کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے معاشرے کی خدمت کرتاہے بلکہ وہ پورا ماحول سازگار بناتا ہے جس میں خود اسے زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ دنیا کی دیگر قوموں نے سماجی خدمات میں حصہ لینا اپنی زندگی کا ایک اہم جز بنا رکھا ہے۔ تعلیمی اداروں‘ یتیم خانوں‘ بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہوں اور بیماروں کے لیے ہسپتالوں وغیرہ کا جال پھیلا کر وہ اپنے معاشرے کے دکھ درد کوبانٹنے کی کوشش بھی کرتی ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی انسانی سلوک کا ایک لازمی جز ہے کہ انسان حیوانوں کی سطح سے اُوپراُٹھ کر دوسرے بھائیوں کی ہمدردی اور راحت رسانی کو بھی اپنی ذمّے داریوں میں شامل سمجھے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے پہلے بھی اس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے جس کی وجہ سے قوم آپؐ کو اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی تھی۔ وحی کے نزول کے بعد جب آپؐ پر ایک طرح کی گھبراہٹ طاری تھی تو اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے انھی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ کوتسلی دی تھی کہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں‘ لوگوں کے لیے مشقت اٹھاتے ہیں‘ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کسر نہیںچھوڑتے اور لوگوں کی راحت رسانی کے لیے ایسے ایسے کام کرتے ہیں جو عام طور پر نایاب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ مسجد میں اعتکاف کر رہے تھے کہ ایک شخص پریشان و مغموم آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ آپ نے پریشانی کا سبب معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ فلاں شخص کا مجھ پر قرض ہے اور میں ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباسؓ فوراً مسجد سے نکل کر اُس شخص کے پاس گئے اور اس سے (مہلت دینے کے لیے) بات کی۔ مقروض شخص نے عرض کیا: آپ تو اعتکاف میں ہیں‘ کیا بھول گئے؟ آپ نے فرمایا: نہیں‘ بھولا نہیں‘ لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہ زیادہ دن کی بات بھی نہیں (اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے) کہ ’’جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لیے قدم اٹھائے اور پوری کر دے تو یہ اس کے لیے دس برس کے اعتکاف سے زیادہ بہتر ہوگا‘‘۔
مسلمان کی زندگی خیرخواہی‘ عالی ظرفی اور میانہ روی سے عبارت ہوتی ہے اور وہ پورے وقار اور ذمّے داری کے ساتھ اپنی ہرڈیوٹی انجام دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
انسانوں کے ساتھ سلوک میں یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ (حضرت آدم ؑ و حوا ؑ) کی نسل سے ہیں۔ ان میں کسی طرح کا نسلی امتیاز نہیں ہے۔ دنیا کی حیثیت ایک گلشن کی ہے اور مختلف قوم و وطن اور مختلف رنگوں کے لوگ اس گلشن کے رنگ برنگے پھولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اس گلشن کے حسن کا ذریعہ ہے ورنہ ایک ہی رنگ کے پھول اسے کشش سے محروم کر دیتے۔ پھر علم و فضل‘ صحت و جسم‘ مال و دولت وغیرہ کی تقسیم خدا کی طرف سے ہے۔ ان میں کسی بھی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا کے نزدیک بہتر صرف وہ ہوگا جوزیادہ پاک باز ہوگا‘ لہٰذا ذہن میں کسی طرح کے تعصب و تنگ نظری کو دخل نہیں دینا چاہیے اور جب ذہن میں کوئی تنگ نظری نہیں ہوگی تو معاشرے میں عدل و انصاف کابول بالا ہوگا جس سے پورا ماحول سازگار ہوگا۔
فرد معاشرے کا ایک جزو ہوتا ہے‘ اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ وہ اختلاف کا شکار ہوں بلکہ انھیں وحدت کا سبق دیا ہے۔ توحید کے ماننے والوں پر تو یہ اور بھی لازمی ہے کہ وہ وحدت کی لڑی میں پروئے رہیں‘ اسی لیے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب تنہانماز سے پچیس گنا رکھاگیا ہے۔ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان خود اپنے دائرے میں محدود ہو جائے بلکہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ دیگر بھائیوں کے ساتھ منسلک و مربوط ہو کر رہاجائے۔ باہمی پھوٹ تو طاقت ور قوموں کو بھی کمزور کر دیتی ہے اور کمزور قوموں کوتو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔
کسی بزرگ سے کہا گیا کہ جلدی سے مسجد پہنچیے‘ لوگ باہم لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے دریافت کیا: کس بات پر؟ بتایا گیا کہ کچھ لوگ تراویح آٹھ رکعتیں پڑھنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ ۲۰ رکعتیں۔آپ کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے۔ بزرگ نے کہا: میرا فیصلہ یہ ہے کہ مسجد بند کر دی جائے اور اس میں تراویح کی نماز کی اجازت نہ دی جائے‘ کیونکہ تراویح کی نماز نفل ہے اور مسلمانوں کا اتحاد فرض ہے۔ فرض کو ختم کرنے والی نفل نماز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
جب انسان کے ذہن میں یہ سب باتیں صاف رہیںگی‘ وہ کسی تعصب و تنگ نظری کا شکار نہیں ہوگا۔ بہترین کردار و اخلاق ہر وقت اس کے ذہن نشین ہوں گے تو اس کے طرزِعمل پر لازماً ان باتوں کا بہترین اثر پڑے گا اور بہترین سلوک کا نمونہ بن سکے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں تمھارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم میں برا وہ ہے جو اکیلا سفر کرتا ہے‘ اپنے غلام کو پیٹتا ہے اور کسی کو مدد نہیں پہنچاتا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:جو لوگوں کو ناپسند کرتا ہو اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیںاس سے زیادہ برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: جو کسی لغزش کو قبول نہیں کرتے نہ کوئی معذرت قبول کرتے ہیں نہ کوئی خطا معاف کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا: جس سے بھلائی کی امید نہ کی جائے اور جس کے شر سے محفوظ نہ سمجھا جائے۔ (طبرانی)
دین اسلام حصول علم اور بحث و تحقیق کو ایک پسندیدہ امر قرار دیتا ہے۔ اُمت مسلمہ پر یہ فرض کفایہ ہے کہ وہ اُن تمام شعبہ ہاے علوم میں دسترس اور مہارت پیدا کرے جو اس کے دین اور دنیا سنوارنے کے لیے مطلوب ہیںیہاں تک کہ علوم و فنون کے ہر اختصاص اور شعبے میں وہ خودکفیل ہو جائے اور اغیار کی محتاج نہ رہے۔ اسلام کا تصور علم یہ ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق کی طرح معیشت‘ سیاست‘ جنگ‘ سب کچھ دین کے تقاضوں پر پورے اُترنے والے ہوں۔ اسلام اس نظریے کا قائل نہیں کہ دنیاوی امور کا رشتہ دین اور اخلاق سے منقطع کردیا جائے۔ جیساکہ حریت علم‘ حریت اقتصاد‘ حریت سیاست وحرب کا نعرہ لگانے والے یہ باور کراتے ہیں کہ دین اور اخلاق کو ان امور سے الگ تھلگ رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح ترقی کی راہ کھوٹی ہوتی ہے‘ اس کا میدان تنگ ہو جاتا ہے اور حرکت و ایجاد ماند پڑ جاتی ہے۔ درحقیقت اسلام ایسے تمام نظریات کو رد کرتا ہے جس سے علم و اقتصاد اور سیاست وغیرہ میں بگاڑ اور فساد در آتا ہے اور یہ شرط عائد کرتا ہے کہ زندگی میں تمام کام دین کے تابع ہونے چاہییں۔
شریعت اسلامی کا مزاج جو تمام صریح نصوص‘ واضح فقہی اصول اور مقاصد عامہ کی رعایت سے اخذ شدہ ہے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسانی کلوننگ اختیار کی جائے۔ اس کے اختیار کرنے سے درج ذیل مفاسد پیدا ہونے کا یقینی خطرہ موجود ہے۔
تنوع کی نفی
پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تنوع کے ساتھ قائم کیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر آیا ہے۔ تخلیق عباد کے ساتھ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے رنگ مختلف ہیں۔ اس طرح مختلف رنگ کا ہونا تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید‘ سُرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘ ۔(فاطر ۳۵:۲۷-۲۸)
کلوننگ تصویر کائنات سے ان رنگوں کو مٹا دینا چاہتی ہے چونکہ وہ ایک ہی طرح کے متعدد اجسام ڈھالنے کی دعوے دار ہے۔ اس کے سبب انسانی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی معاملات میں مفاسد کا در آنا یقینی ہے۔ اس کا کچھ ادراک ہر صاحب عقل کر سکتا ہے اور مزید کچھ مفاسد شاید ابھی احاطۂ ادراک میں نہ آ سکیں۔
ایک ایسی درس گاہ کا تصور کیجیے جس میں کلوننگ سے پیدا شدہ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ کس طرح استاد ان طلبہ کی شناخت کا معمّا حل کر سکے گا؟ وہ کیسے معلوم کرے گا کہ ان میں کون کون ہے؟ اسی طرح ایک تفتیش کرنے والا پولیس آفیسر ارتکاب جرم پر مجرم کو کیسے گرفتار کر سکے گا‘ جب کہ ایک ہی چہرے‘ قدوقامت اور انگلیوں کے نشانات رکھنے والے بیسیوں افراد جاے واردات پر موجود ہوں؟ اسی طرح ایک شوہر اپنی بیوی کو کس طرح پہچانے گا‘ جب کہ اس کے سامنے صد فی صد مشابہ یا فوٹوکاپی کی گئی کئی عورتیں ہوں؟ وغیرہ وغیرہ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس بات کا ہرگز اطمینان نہیں ہے کہ کلوننگ شر کے لیے استعمال نہ ہو۔ آج جوہری طاقت اور دیگر مہلک ہتھیار بڑے پیمانے پر زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کون ہمیں یہ ضمانت دیتا ہے کہ بڑی طاقتیں اور ان کے حلیف کلوننگ کے عمل سے ایک قوی اور وحشی فوج تیار کر کے دیگر اقوام کو روند نہ ڈالیں گے؟ کون ہمیں یہ یقین دلا سکتا ہے کہ یہ بڑی طاقتیں کلوننگ کا استعمال صرف اپنے لیے خاص نہیں کر لیں گی اور دیگر اقوام کے لیے اس کے استعمال پر پابندی نہیں لگا دیں گی؟ جیساکہ ایٹمی اسلحے کے سلسلے میں انھوں نے کیا ہے۔
کلوننگ کی جو کچھ معلومات ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس سے رشتۂ ازدواج کی بیخ کنی ہوتی ہے اور اس کائنات کی سنتِ زوجیت پر ضرب پڑتی ہے جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مرد اور عورت کی شکل میں جوڑے بنائے ہیں۔ اسی طرح سے حیوانات میں پرند‘ چرند‘ کیڑے مکوڑے اور دیگر اصناف میں نر اور مادہ بنائے اور تمام نباتات میں بھی یہ سنت قائم و دائم ہے۔ جدیدعلوم سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جوڑے یا زوجیت کا تصور جمادات میں بھی موجود ہے‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بجلی‘ مثبت اور منفی عناصر سے عبارت ہے۔ یہاں تک کہ ایک ذرے (atom) کے اندر بھی الیکٹران اور پروٹان کی شکل میں یہ حقیقت جلوہ گر ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے:
پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔ (یٰسٓ ۳۶: ۳۶)
اس کے برعکس کلوننگ ایک جنس واحد کی تکرار اور دوسری جنس سے لاتعلقی کو فروغ دیتی ہے۔ اس پس منظر سے وہ امریکی عورت پوری طرح آگاہ ہے جس نے کہا کہ کلوننگ کی کامیابی کا یہ مطلب ہوگا کہ یہ دنیا مستقبل میں صرف اور صرف عورتوں کی ہوگی۔ دراصل کلوننگ اس فطرت سے بغاوت ہے جس پر اللہ نے انسانوں کی تخلیق کی۔ اس کے ذریعے انسانیت کی بھلائی کی تلاش ایک فعل عبث ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے عین مطابق صرف افزایش نسل ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی طمانیت اور تکمیل کی خاطر جنس مخالف کا محتاج رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
جواب میں ان کے رب نے فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت‘ تم ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ (آل عمران ۳: ۱۹۵)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو پیدا کیا اور انھیں جنت میں آباد کیا تو انھیں جنت میں بھی اکیلے نہیں چھوڑا بلکہ ان کے لیے ان کی پسلی سے ان کی زوجہ کو بنایا تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے باعث تسکین ہوں۔
پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی‘ دونوں جنت میں رہو‘‘۔ (البقرہ ۲:۳۵)
مرد اور عورت ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ان میں باہم اُنس اور مودت رکھی گئی ہے۔ ان کی اولاد کو ان دونوں کی مزید شدت سے ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس خاندان کے محتاج رہتے ہیں جہاں پر ماں کی محبت اور باپ کی نگہداشت انھیں میسر آئے۔ اور یہی تعلق انھیں اپنے خاندان اور معاشرے کی خیرخواہی پر اُکساتا ہے اور ان کے اندر جود و عطا‘ تفاہم باہمی اورخیرکے لیے تعاون جیسی کیفیات پیدا کرنے کا محرک بنتا ہے۔
لوگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ طویل تر عہد طفولیت انسانوں ہی میں پایا جاتا ہے جو کئی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس کے دوران بچہ اپنے ماں باپ اور خاندان کے مادی اور اخلاقی سہارے کا قدم قدم پر محتاج ہوتا ہے۔ اس کی تربیت مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ والدین اس سے پیار و محبت سے نہ پیش آئیں اور اپنی محنت کی کمائی اس پر خرچ نہ کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ جائے۔ والدین عام طور سے اولاد کے لیے جو کچھ کرتے ہیں اُس پر خوش رہتے ہیں‘ نہ اپنے احسانات شمار کرتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف ہی کا احساس اولاد کی پرورش میں مانع ہوتا ہے۔ لیکن کلوننگ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے فطری تعلق سے آزاد کرتی ہے اور اُس خاندان کی بنیاد ڈھا دیتی ہے جہاں انسان پرورش پاتے ہیں اور ان کی اولین تربیت ہوتی ہے۔
جس انسان سے مادہ لے کر کلوننگ کی جائے گی اور جو نومولود ہوگا‘ ان میں کیا رشتہ و تعلق ہوگا؟ یہ ایک بڑا معمّا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ نومولود ایک الگ وجود رکھتا ہے چاہے وہ اپنے محسن/ ہم زاد کی مکمل اور مماثل جسمانی‘ عقلی اور نفسیاتی صفات رکھتا ہو۔ لیکن وہ ایک معنی میں دوسرا بھی نہیں ہے بلکہ ان دونوں میں صرف زمانی اختلاف ہے۔ دیگر صفات کی مماثلت کے باوجود نومولود ایک نئی شخصیت میں ڈھل جائے گا۔ اسے مختلف ماحول اور ثقافت میسر آئے گی۔ چونکہ عقیدہ‘ سلوک اور معرفت کسب کیے جاتے ہیں‘ وراثت سے سرشت کا حصہ نہیں بن جاتے‘ اس طرح یہ نیا شخص ہی شمار کیا جائے گا۔ لیکن اس کا اپنے سینیر(senior)سے کیا رشتہ ہوگا؟ کیا وہ بیٹا ہوگا؟ یا بھائی ہوگا؟یا لاتعلق ہوگا؟ یہ ایک بنیادی سوال اُٹھے گا۔ بعض لوگ قیاس کرتے ہیں کہ وہ بیٹا ہوگا کیونکہ وہ اس کا جز ہے۔ لیکن یہ بات اسی وقت منطقی ہوگی جب کہ مادہ رحمِ مادر میں ڈالا جائے‘ اور اس کی طبیعی طریقے پر ولادت ہو۔ جیساکہ قرآن میں آتا ہے: ’’ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنا ہے‘‘ (المجادلۃ ۵۸:۲)۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نومولود کی ماں ہوگی اور باپ نہیں ہوگا۔
بعض حضرات کی رائے میں یہ جڑواں بھائی ہوگا لیکن بھائیوں کی اصل تو ماں باپ ہوتے ہیں اور جب اصل ہی نہ رہے گی تو فرع کیسے ثابت ہوگی۔
یہ تمام پیچیدگیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان تمام مفاسد سے بچنے کے لیے کلوننگ کا انکار کر دیا جائے۔
کلوننگ امراض کے علاج میں کس طرح استعمال ہوگی‘ یہ میں نہیں جانتا۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ کلوننگ شدہ انسان‘ طفل یا جنین بنائے جائیں تاکہ ان کے اعضا نکال کر مریض انسانوں کے علاج میں کام آئیں تو یہ صورت ہرگز جائز نہیں ہوگی۔ کیونکہ مخلوق باحیات ہے چاہے کلوننگ کے ذریعے ہی پیدایش ہوئی ہو۔ اس لیے اس کے اعضا ے جسم کو ضائع نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ ابھی مرحلۂ طفولیت یا جنین ہی میں کیوں نہ ہو۔ اس کی حرمت وقوع پذیر ہوچکی ہے۔
اگر کلوننگ سے مخصوص اعضاے جسم ہی کی پیداوار ہو سکے جیسے دل‘ جگر‘ گردے وغیرہ تاکہ محتاج مریض اور معذور افراد کے کام میں لائے جائیں تو یہ صورت مقبول ہے۔ دین میں پسندیدہ ہے اور باعث ثواب ہے۔ چونکہ یہ طریقۂ کار انسانیت کے لیے نفع بخش ہے اور یہ کسی دیگر مخلوق کو ایذا پہنچائے بغیر‘ نیز کسی حرمت کو پامال کیے بغیر یہ مقصد حاصل ہو رہا ہے--- اس لیے اس طرح کے تمام استعمال شرعی حدود کے اندر سمجھے جائیں گے بلکہ یہ مطلوب اور مستحسن کام ہوگا۔ بعض حالات میں بقدر ضرورت اس کی اہمیت و افادیت اور بڑھ جائے گی۔
اولاً یہ کہ کلوننگ جیسا کہ بعض تصور کرتے ہیں کسی جان دار کی بذاتِ خود تخلیق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ مادئہ تناسل کو مخصوص طریقے سے نشوونما دینا ہے۔ کلوننگ کے دوران ایک بالغ ذی روح کے جسمانی خلیہ (somatic cell) سے حاصل کردہ مرکزے (nucleus) کو ایک بیضہ (egg) میں داخل کیا جاتا ہے جس کا مرکزہ نکال لیا گیا ہو۔ اس طرح جس مولود کی نشوونما ہوتی ہے اُس میں اُس ذی روح سے جس سے somatic cell nucleus لیا گیا ہو مکمل جینیاتی مماثلت ہوتی ہے۔ اس پورے عمل کی بنیادبیضہ اور جسمانی خلیہ کا استعمال ہے جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ نشوونما اسی فطری دائرے میں ہو رہی ہے جس پر یہ سارا عالم قائم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے۔
ثانیاً یہ کہ شاید کلوننگ کے علم سے دین کے اساسی عقیدے حیات بعد موت کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی۔ دورِ قدیم کے مشرکین ہوں یا آج کے مادہ پرست‘ موت کے بعد زندہ کیے جانے کے تصور کو بعیداز حقیقت واہمہ سمجھتے رہے ہیں۔ مگر آج کلوننگ کی ٹکنالوجی یہ ثابت کر رہی ہے کہ صرف بیضہ اور خلیہ کے واسطے سے انسان اپنی اصل شکل و صورت پر پھر سے وجود میں آسکتا ہے۔ پس اگر اس معاملے میں انسان اتنی قدرت حاصل کر سکتا ہے تو کیا اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ انسانوں کو دوبارہ اس مادے سے زندہ کرے جو حدیث میں عجب الذنب کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے‘ جو انسان سے فنا نہیں ہوتا‘ یا کسی بھی واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ زندگی میں لا سکتا ہے جو ہمارے علم سے بعید ہے۔
وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے‘ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔ (الروم ۳۰: ۴۷)
۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جہاں مغرب کی ساری توپ و تفنگ کا رُخ عالم اسلام کی طرف پھر گیا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی زندگی حرام کی جا رہی ہے‘ وہیں میڈیا میں ’’اسلام‘‘ پھر سے ایک عنوان بن گیا ہے۔ ایک جانب موڈریٹ اسلام کے علم بردار ہر اُس چیز کو باطل قرار دیتے نظرآرہے ہیں جسے مغرب ناپسند کرتا ہے--- اور دوسری جانب ’’اعتدال‘‘ ان کے نزدیک اسلام اور مغرب کے درمیان کسی راستے کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ مجلسِ عمل کی جزوی کامیابی کے بعد ’’عورت‘‘ اور ’’پردہ‘‘ کے موضوع پر متعدد مضامین نظر سے گزرے۔ کہیں پردے (برقع) کو پھانسی کا پھندا قرار دیا گیا--- کہیں اسے ایک گٹھڑی میں بند کر دینے کے مترادف کہا گیا‘ اور کچھ تو اس حد تک پہنچے کہ ان کے خیال میں خیر کے غالب نہ آسکنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ خواتین کا حجاب اوڑھنا بھی ہے۔ افسوس اُمت مسلمہ کے ان اسکالروں پر‘ جنھیں دین کے پھیل نہ سکنے میں اُمت کی حد سے بڑھی ہوئی بے دینی نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی دین داری ہی نظر آتی ہے۔
ان حالات میں لازم ہے کہ پردے اور حجاب کی آیات کی وضاحت کی جائے تاکہ بہت سے ناپختہ ذہنوں کو شکوک و شبہات سے بچایا جا سکے۔
فی الوقت ہم اپنی بحث ان نکات تک محدود رکھیں گے جو سورۂ احزاب کی آیات ۵۳ اور ۵۹ اور سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱ پر بحث کرکے اٹھائے جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے:
آگے کچھ بھی لکھنے سے قبل ایک بات کا اظہار ضروری سمجھتی ہوں کہ ہر دور میں دین پر تنقید کرنے والوں نے خود کو ’’جدت پسند‘‘ کہا اور اپنے لیے ’’عقلیت پسند‘‘ کی اصطلاح استعمال کی--- اور تو اور حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہرنبی کی دعوت کو ’’اساطیر الاولین‘‘ کہہ کر ہی رد کیا گیا اور ایمان و عمل والوں کو ’’سفھا‘‘کہا گیا (اب ہمارے محترم مسلمان محققین اور دانش ور سوچ لیں انھیں یہ اصطلاحات کہاں تک زیب دیتی ہیں)۔
اصل میں دین اسلام ہی جدید ہے--- ’’جہالت‘‘ قدیم ترین ہے اور حیا‘ پردہ‘ جلباب جدید ہے۔ اس ضمن میں نام نہاد جدید معاشرے دراصل پھر سے قدیم ترین دور کی طرف لوٹ رہے ہیں جو بے پردگی ہی نہیں بے لباسی کا دور تھا-- (اور ہر بے پردگی کی انتہا بے لباس ہی ہوتی ہے) جو جہالت اور تاریکی کا دور تھا۔
اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے میں آغاز سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۳ سے کروں گی جسے صرف ’’اُمہات المومنین‘‘ کے لیے مخصوص قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ آیت حجاب کے بارے میں نہیں۔ آیئے اس پر غور کریں۔ ہم نے اس آیت کو آج تک ہر تفسیر میں ’’آیت حجاب‘‘ کے طور پر ہی پڑھا ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم میں پردۂ نسواں اور اس کی تفصیلات کے متعلق سات آیتیں نازل ہوئیں: چار سورۂ احزاب میں‘ تین سورۂ نور میں گزر چکی ہیں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پردے کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی یہی آیت ہے‘‘ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۱۰)۔
مولانا مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’یہی آیت ہے جسے آیت حجاب کہا جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱)
اب آیئے آیت کی طرف --- ترجمہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو‘ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں‘ اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آئو۔ مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہوجائو‘ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمھاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیںکہتے۔ اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ نبی ؐکی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمھارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوںسے نکاح کرو‘ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپائو ‘اللہ کو ہر بات کا علم ہے‘‘۔(الاحزاب ۳۳:۵۳)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح کا آغاز یوں کرتے ہیں: یہ اس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال بعد سورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا… اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص‘ خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو‘ آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دے دیا گیا۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۰)
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’آیت مذکورہ میں جتنے احکام آئے ہیں ان میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی ازواج مطہرات کو ہوا ہے مگر حکم عام ہے ساری اُمت کے لیے‘ بجز اس آخری حکم کے کہ ازواجِ مطہرات کے لیے یہ خصوصی حکم ہے کہ وہ آپؐ کی وفات کے بعد کسی سے نکاح نہیں کرسکتیں‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۰۳)
ہر دانش ور اتنی دانش تو رکھتا ہے کہ سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد ہی جان سکے کہ اس آیت میں سوائے اُمہات المومنین کے نکاح کی ممانعت کے--- کون سا حکم ہے جس سے کوئی مہذب معاشرہ صرفِ نظر کرسکتا ہو---
دوسروں کے گھروں میں بلااجازت داخل ہونا‘ کھانے کے اوقات تاکتے رہنا‘ عین کھانے کے وقت بغیر اجازت چلے آنا‘ کھانے کے بعد بیٹھ کر دیر تک گپیں ہانکتے رہنا کون سے مہذب معاشرے کے اصول ہیں--- جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے علاوہ کسی اور کو ممانعت کی ضرورت نہیں---؟ اس کو صرف نبیؐ کے گھر والوں کے لیے مخصوص مان لینا اور معاملہ ناسخ و منسوخ تک لے جانا ایک بڑی جسارت ہے جس کی تائید کسی تفسیر سے فراہم نہیں ہوتی‘--- صرف خیال آرائی کی جا سکتی ہے۔
اس آیت کے جو معنی مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ ’’یہ طریقہ تمھارے دلوں کو بھی پاکیزہ رکھنے والا ہے اور ان کے دلوں کو بھی‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’بظاہر یہ بات ایک غیر ضروری تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ کسی کو ان سے ایک گلاس پانی بھی مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے لیے بھی پردے کا اہتمام کرے۔ لیکن یہ کوئی تکلیف نہیں بلکہ دل کو آفات سے محفوظ رکھنے کی ایک نہایت ضروری تدبیر ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس زمانے کے مدعیانِ تہذیب اپنے کپڑوں کی صفائی کا تو بڑا اہتمام رکھتے ہیں۔ مجال نہیں کہیں پر ایک شکن یا ایک دھبہ بھی پڑنے دیں--- لیکن ان کے دل جس گندگی میں لت پت رہیں ان کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج۷‘ ص ۲۶۴)
مفتی محمد شفیع ؒرقم طراز ہیں: ’’اس میں بھی اگرچہ سبب نزول کے خاص واقعہ کی بنا پر بیان اور تعبیر میں خاص ازواجِ مطہرات کا ذکر ہے--- مگر حکم ساری اُمت کے لیے عام ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس جگہ یہ بات قابل نظر ہے کہ یہ پردے کے احکام جن عورتوں اور مردوں کو دیے گئے ہیں ان میں عورتیں تو ازواجِ مطہرات ہیں جن کے دلوں کو پاک صاف رکھنے کاحق تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت --- لیذھب عنکم الرجس اہل البیت--- میں مفصل آچکا ہے۔ دوسری طرف جو مرد مخاطب ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ ہیں جن میں بہت سے حضرات کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے۔لیکن ان سب امور کے ہوتے ہوئے ان کی طہارت قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ مرد و عورت کے درمیان پردہ کرایا جائے۔ آج کون ہے جو اپنے نفس کو صحابہ کرامؓ کے نفوسِ پاک سے اور اپنی عورتوں کے نفوس کو ازواجِ مطہرات کے نفوس سے زیادہ پاک ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ اور یہ سمجھے کہ ہمارا اختلاط عورتوں کے ساتھ کسی خرابی کا موجب نہیں‘‘۔ (معارف القرآن ‘ج ۷‘ ص ۲۰۰)
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس حکم کے بعد ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دل پاک رکھنا چاہیں انھیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ج ۴‘ ص ۱۲۱)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ آیت تو صرف اُمہات المومنین کے لیے ہے--- اور گھروں پر پردے لٹکا لیے تمام مسلمانوں نے--- اور آپؐ نے کسی کو منع بھی نہ فرمایا--- یا پھر مولانا مودودی ؒ اور دوسرے مفسرین غلط کہہ رہے ہیں‘ معاذ اللہ!
مولانا مودودیؒ تو اس سے بھی آگے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے‘ اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ’’تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے‘‘، اُس میں سے آخریہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کون سی روح ہے جو قرآن و سنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مل جاتی ہے؟‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱-۱۲۲)
مفتی محمد شفیع ؒنے حجاب کے احکامات کی پوری تفصیل اسی آیت کے ذیل میں بیان کی ہے اور اس میں اب کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ یہ کوئی ’’پیوند‘‘ یا ’’سہارا‘‘نہیں--- بلکہ اصل آیت حجاب یہی آیت ہے۔
اب آیئے سورہ نور کی آیت ۳۱ کی طرف۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اس میں منہ ڈھانپنے کا ذکر نہیں ہے اور الاما ظھر منھا کی تشریح میں چہرہ‘ خوب صورت لباس‘ سرمہ‘ چوڑیاں‘ مہندی لگے ہاتھ سب کچھ کھول دینے کو استثنا میں شامل کرتے ہیں۔ تو پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ لاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اور اِلاَّ مَا ظَھَرَمِنْھَا میں فرق کیا ہے؟
آیئے پہلے آیت کا ترجمہ دیکھیں: اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ اور بنائوسنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود بخود ظاہر ہو جائے‘ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے …(مکمل فہرست محرم رشتہ داروں کی)… وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘۔ (النور ۲۴:۳۱)
اس کی تشریح میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: ’’عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچائو کرنا چاہیے۔ بدکاری سے دُور رہیں۔ اپنا آپ کسی کو نہ دکھائیں۔ اجنبی غیرمردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں۔ ہاں‘ جس کا چھپانا ممکن ہی نہ ہو اس کی اور بات ہے‘ جیسے چادر ‘اُوپر کا کپڑا وغیرہ جس کا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لیے ناممکن ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ‘ پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے--- لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کر دی ہے‘‘۔ حضرت اسمائؓ والی حدیث (جس میں آپؐ نے ان سے فرمایا تھا کہ عورت جب بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے) بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ مُرسل ہے۔ خالد بن دریکؓ اسے حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا مائی صاحبہ سے ملاقات کرنا ثابت نہیں واللہ اعلم!‘‘ (تفسیر ابن کثیر‘ ج ۳‘ ص ۵۰۰)
مفتی محمد شفیعؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ’’عورت کے لیے اپنی زینت کی کسی چیز کو مردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان چیزوں کے جو خود بخود ظاہر ہو ہی جاتی ہیں اور عادتاً ان کا چھپانا مشکل ہے‘ وہ مستثنیٰ ہیں۔ ان کے اظہار میں کوئی گناہ نہیں۔ مراد اس سے کیا ہے؟ اس میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے فرمایا: ما ظھرمنھا میں جس چیزکو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ اوپر کے کپڑے ہیں‘ جیسے برقع یا لمبی چادر جو برقع کے قائم مقام ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مرادچہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ اس لیے فقہاے اُمت میں اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاںپردے سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے سے فتنے کا اندیشہ ہو تو ان کا دیکھنا جائز نہیں۔
’’قاضی بیضاوی اور خازن نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مقتضا اس آیت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اصل حکم یہی ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دے۔ بجز اس کے جو نقل و حرکت اور کام کاج کرنے میں عادتاً کھل ہی جاتی ہیں۔ ان میں برقع اور چادر بھی داخل ہیں اور چہرہ اور ہتھیلیاں بھی۔
’’جن فقہا نے چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنے کو جائز قرار دیا ہے وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو چہرہ وغیرہ دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ حُسن اور زینت کا اصل مرکز انسان کا چہرہ ہے اور زمانہ فتنہ و فساد اور غلبہ ہویٰ اور غفلت کا ہے--- اس لیے بجز مخصوص ضرورتوں کے‘ مثلاً علاج معالجہ یا کوئی شدید خطرہ وغیرہ‘ عورت کو غیرمحارم کے سامنے قصداً چہرہ کھولنا بھی ممنوع ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۴۰۱-۴۰۲)
مولانا مودودی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے‘ ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے: لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ’’وہ اپنی آرایش و زیبایش کو ظاہر نہ کریں‘‘۔اور دوسرے فقرے میں اِلاَّ بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے مَا ظَھَرَ مِنْھَا۔ ’’جو کچھ اس آرایش و زیبایش میں سے ظاہر ہو‘ ظاہر ہوجائے‘‘۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہ کرنی چاہیے‘ البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے (جیسے چادر کا ہوا سے اُڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا)‘ یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے‘ کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا توممکن نہیں ہے‘ اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔ اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حسن بصری‘ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس بعض مفسرین نے مَا ظَھَرَمِنْھَا کا مطلب لیا ہے ما یظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ (جسے عادتاً انسان ظاہر کرتا ہے)‘ اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرایشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں… یہ مطلب ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے۔ اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن للجصاص‘ ج ۳‘ ص ۳۸۸-۳۸۹)۔لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُعربی زبان کے کس قاعدے سے ہوسکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے اور ’’ظاہر کرنے میں‘‘ کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہرکرنے‘‘ سے روک کر ’’ظاہر ہونے‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو ظاہر کرنے کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ عہدنبویؐ میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں‘ اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا‘ اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی ناجائز ہے۔ رہا حجاب‘ تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیرمحرم مردوں کے درمیان حائل کیاگیا ہے اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکامِ حجاب کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن‘ج ۳‘ ص ۳۸۶)
یہ دونوں تفاسیر اتنی واضح ہیں کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔ حضرت اسماء کے --- باریک لباس والی روایت سترسے متعلق ہے (جسے ابن کثیر مرسل قرار دیتے ہیں)۔ اس سے حجاب پر استدلال غلط استدلال ہے۔ اور عورت کو عورۃ قرار دینے والی حدیث کو محض ایک تکریم قرار دے کر ستروحجاب سے نکال دینا--- گویا ’جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے‘ والی بات ہے۔ ورنہ ’’عورہ‘‘ کے مفہوم سے کون واقف نہیں۔
رہی یہ بات کہ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہی اس وقت جاتا ہے جب چہرہ کھلا ہو۔ اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِ بصر کا حکم دیا گیا‘ ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے اور نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں‘ جب کہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہوجائے اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسااوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیرمسلم عورتیں توبے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مستلزم ہے۔
’’اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورۂ احزاب میں احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہؓ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سو گئی۔ صبح کو صفوان بن معطل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آگیا--- وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانک لیا (بخاری‘ مسلم‘ احمد‘ ابن جریر‘ سیرت ابن ہشام)‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۸۱)
ہمارے لیے اُمہات المومنین ہی نمونہ ہیں۔ وہ چراغِ راہ ہیں۔ ان کے حجاب سے اشاعت دین کے راستے نہ رُکے تو ان شاء اللہ ہمارے حجاب سے بھی نہ رُکیں گے۔ ہمیں اس پر پوری طرح شرح صدر ہے کہ یہی ہمارے رب کا منشا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعبیر ہے۔
پھر بھی آیئے سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ پر بھی غور کرلیں کیونکہ یہ ہمارے موقف کی بھرپور تائید کرتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔
اس کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: سورۂ نور میں یاد ہوگا اعزہ و اقربا سے متعلق یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب وہ اجازت کے بعد گھروں میں داخل ہوں تو گھر کی عورتیں سمٹ سمٹا کر رہیں۔ اپنی زینت کی چیزوں کا اظہار نہ کریں اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مار لیا کریں۔یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بڑی چادروں (جلابیب) کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ یہ واضح قرینہ اس بات کا ہے کہ یہ ہدایت اس صورت سے متعلق ہے جب عورتوں کو باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس کا دوسرا واضح قرینہ یہ ہے کہ یہاں لفظ خمار‘ نہیں بلکہ جلباب استعمال ہوا ہے۔ جلباب کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے: ھو الراد فوق الخمار۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اُوپر لی جاتی ہے… قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انھیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی جلباب ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے۔ اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقع کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس برقع کو اس زمانے کے دلدادگان تہذیب‘ اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تودیں‘ لیکن قرآن مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے جس کا انکار صرف وہی برخود غلط لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اور رسول سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں۔ (تدبرقرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۶۹)
مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں: آیت مذکورہ میں حرہ آزاد عورتوں کے بارے پردہ کے لیے یہ حکم ہوا ہے۔ جلابیب جمع جلباب کی ہے جو ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے۔ اس چادر کی ہیئت سے متعلق حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اُوپر اوڑھی جاتی ہے(ابن کثیر)۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی:’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اُوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں‘‘ (واضح رہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے ستر میں ہتھیلیاں اور چہرہ کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن یہاں حجاب کے ذیل میں چہرہ ڈھکنے کا حکم دے رہے ہیں)۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۳۳)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اصل الفاظ ہیں: یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے۔ اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں۔ مگر جب اس کے ساتھ ’علٰی‘ کا صلہ آئے تو اس میں ’’اِرْخَائ‘‘ یعنی اُوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین اور مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا --- اس آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا پلّو اپنے اُوپر سے لٹکا لیا کریں‘ جسے عرفِ عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔
’’یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ السلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا… انھوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ ابن عباسؓ بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں… یہی تفسیر قتادہ اور سدی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔
’’عہدصحابہؓ اور تابعینؒ کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انھوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ امام ابن جریر طبری کہتے ہیں: یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ‘ یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوںبلکہ انھیں چاہیے کہ اپنے اوپر چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۹)
مولانا مودودیؒ اس آیت پر بحث سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا خلاف--- اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطہ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے--- بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۳۲)۔
سترکے احکامات میں بھی جو حضرات چہرہ اور ہتھیلیاں اور کلائی کو سترسے مستثنیٰ رکھتے ہیں انھوں نے بھی یہ شرط لگائی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا ڈر نہ ہو تو یہ استثنا ہے۔
مفتی محمد شفیعؒ نے آیت حجاب ( سورۂ احزاب ۵۳) کے تحت پوری تفصیل لکھی ہے جو اس بحث کو سمیٹتی بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: پردہ نسواں سے متعلق قرآن مجید کی سات آیات اور حدیث کی ۷۰ روایات کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مطلوب شرعی حجاب اشخاص ہے--- یعنی عورتوں کا وجود اور ان کی نقل و حرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو۔ جو گھروں کی چاردیواری یا خیموں اور معلق پردوں کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ اس کے سوا جتنی صورتیں حجاب کی منقول ہیں وہ سب ضرورت کی بنا پر اور وقت ضرورت اور قدرِ ضرورت کے ساتھ مفید اور مشروط ہیں۔
’’قرآن و سنت کی رو سے اصل مطلوب یہی درجہ ہے۔ سورۂ احزاب کی زیربحث آیت ۵۳ اس کی واضح دلیل ہے۔ اور اس سے زیادہ واضح سورہ احزاب ہی کے شروع کی آیت وَقَرْنَ فِی بیوتکن ہے۔ ان آیتوں پر جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا اس سے اور زیادہ اس کی تشریح سامنے آجاتی ہے۔ (اس کے بعد انھوں نے اُمہات المومنین کے حجاب کے واقعات لکھے ہیں اور مولانا مودودی کی تشریح گزر چکی ہے جس میں انھوں نے تمام صحابہ کرام کے گھروں پر پردے لٹک جانے کا ذکر کیا ہے)۔
’’شریعت اسلامیہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کی پوری رعایت کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کو ایسی ضرورتیں پیش آنا ناگزیر ہے کہ وہ کسی وقت گھروں سے نکلیں۔ اس کے لیے پردے کا دوسرا درجہ قرآن و سنت کی رُو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر سے پائوں تک برقع یا لانبی چادر میں پورے بدن کو چھپا کر نکلیں۔ یہ صورت بھی باتفاق فقہاے اُمت ضرورت کے وقت جائز ہے۔ مگر احادیث یہ ہدایات دیتی ہیں کہ خوشبو نہ لگائے ہوں‘ بجنے والا زیور نہ پہنا ہو‘ راستہ کے کنارے پر چلے۔ مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو وغیرہ۔
’’تیسرا درجہ شرعی‘ جس میں فقہا کا اختلاف ہے یہ ہے کہ سر سے پیر تک سارا بدن مستور ہو مگر چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی ہوں۔ جن حضرات نے الا ما ظھر کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی ہے ان کے نزدیک چونکہ چہرہ اور ہتھیلیاں حجاب سے مستثنیٰ ہوگئیں اس لیے ان کو کھلا رکھنا جائز ہو گیا۔ جن حضرات نے ما ظھر سے برقع جلباب وغیرہ مراد لی ہے وہ اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ جنھوںنے جائز کہا ہے ان کے نزدیک بھی یہ شرط ہے کہ فتنے کا خطرہ نہ ہو۔ مگر چونکہ عورت کی زینت کا سارا مرکزاس کا چہرہ ہے اس لیے اس کو کھولنے میں فتنے کا خطرہ نہ ہونا شاذونادر ہے اس لیے انجام کار عام حالت میں ان کے نزدیک بھی چہرہ وغیرہ کھولنا جائز نہیں۔
’’ائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام احمد بن حنبلؒ تینوں اماموں نے تو پہلا مذہب اختیار کرنے‘ چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی خواہ فتنے کا خوف ہو یا نہ ہو۔ امام ابوحنیفہؒ نے دوسرا مسلک اختیار فرمایا مگر خوفِ فتنہ کا نہ ہونا شرط قرار دیا۔ چونکہ عادتاً یہ شرط مفقود ہے اس لیے فقہا حنفیہ نے بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ (اس کے بعد وہ فتح القدیر ‘ مبسوط‘ شمس الائمہ سرخسی اور علامہ شامیؒ کے ردالمختار سے فتوے نقل کرتے ہیں جن میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے زمانے میں فتنہ کے خوف سے عورت کو چہرہ نہ کھولنا چاہیے نہ کہ عورہ ہونے کی وجہ سے)
آگے لکھتے ہیں: ’’اس کا حاصل یہ ہوا کہ اب بالاتفاق ائمہ اربعہ تیسرا درجہ پردے کا ممنوع ہو گیا کہ عورت برقع یا چادر وغیرہ میں پورے بدن کو چھپا کر مگر صرف چہرے اور ہتھیلیوں کو کھول کر مردوں کے سامنے آئے۔ اس لیے اب پردے کے صرف پہلے دو درجے رہ گئے کہ اصل مقصود‘ یعنی عورتوں کا گھروں کے اندر رہنا--- بلاضرورت باہر نہ نکلنا اور دوسرا برقع وغیرہ کے ساتھ نکلنا‘ ضرورت کی بنا پر بوقت ِ ضرورت و بقدر ضرورت‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص۲۱۷- ۲۲۰)
اس ساری بحث کو اگر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھا جائے تو شارع کا منشا یہی ہے جو اُوپر لکھا ہے اور صاف سمجھ میں آ رہا ہے--- اگر پردے کے حکم کو آپ شرعی حکم تسلیم نہیں کرتے‘ ایجابی حکم تسلیم کرتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اُس وقت اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جب معاشرہ پاکیزہ ترین نفوس پر مشتمل تھا توآج کے معاشرے‘ آج کے دورِ فتن میں آپ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی ترغیب دیتے ہیں جب شیطان ہر وقت کھلا پھر رہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جلباب کو خمربنا دیا گیا ہے--- اور الا ما ظھر منھا کی آڑ میں تمام تر زینت کھول دینے کو درست قرار دے دیا گیا ہے--- تاکہ تمام فتنہ پرور لوگ اپنے نفوس اور شیطانی نگاہوں کو خوب تسکین دے سکیں۔
کیا یہی وہ معاشرتی اصلاح کا تصور ہے جو قرآن نے پیش کیا اور جس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے عمل کر کے دکھایا---؟ اُمہات المومنین اور صحابیات کی سیرت طیبہ کیا یہی تصویر پیش کرتی ہے؟ جنت کی سردار خاتونؓ کا عمل کیا تھا---؟ جنت کی تلاش ان کے اسوہ حسنہ میں ہے یا کہیں اور---؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی کی زندگی کیسی تھی؟ اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتوں کی تلاش میں ہم تو اسی کی جستجو کریں گے۔ ساری دنیا کے مفسرین کسی معاملے میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو جس تفسیر کی شہادت اسوہ حسنہ اور اسوہ صحابہؓ سے ہوگی وہی تفسیر صحیح ہوگی۔ دانش وری اور عقلیت کے سارے فلسفے بیکار ہیں اگر وہ روحِ قرآنی سے خالی ہیں۔ وہ دانش و عقل کا سرچشمہ صحابہ کرامؓ کے مثالی معاشرے کے بجائے وہ آج کے گمراہ ترین معاشروں میں تلاش کرتے ہیں اور ان سے مرعوب ہو کر معذرتیں پیش کرتے ہیں‘ حجاب‘ ستر‘ اور عورۃ کے معنی بدلنے کی سعی کرتے ہیں۔ کس لیے---؟
کبھی آپ نے اس عورت سے پوچھا بھی سہی جو مکمل شرعی حجاب اُوڑھتی ہے۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق جلباب لیتی ہے‘ اپنی سج دھج دکھاتی نہیں پھرتی--- اس کے احساسات کیا ہیں---؟ یہ ہمدردی آپ کس سے کرتے ہیں؟ یہ باحجاب عورت کے کرب کا اظہار ہے یا اس عورت کے جذبات کا جس نے کبھی پردہ کیا ہی نہیں--- اور اس کے خلاف واویلا کرتی پھرتی ہے---؟
جس نے رب کی اطاعت کا مزہ چکھا ہی نہیں‘ جو دن رات ایک طرف رب کی نافرمانی کر رہی ہے--- دوسری طرف اس کے احکامات کو مغرب کی کسوٹی پرپرکھ کر کبھی ظالمانہ اقدامات--- کبھی پھانسی کا پھندا قرار دے رہی ہے‘ یہ تو اس عورت کے احساسات ہیں--- کبھی آپ نے معلوم کیا کہ جو شعوری طور پر اس حجاب کو اختیار کرتی ہے اس کے جذبات کیا ہیں؟---
اس کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے والے بھی جان لیں--- اس رب کی قسم جس نے یہ حجاب ہمارے اُوپر فرض کیا ہے‘ یہ کسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ آج کی پڑھی لکھی باشعور‘باحجاب عورت نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ ہم نے میڈیکل کی تعلیم--- ہائوس جاب‘ کلینک‘ سبھی کچھ مکمل حجاب میں کیا۔ ہماری ساتھیوں نے یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ پوزیشن بھی لی۔ آج ٹیچنگ بھی کر رہی ہیں‘ ریسرچ اسکالر بھی ہیں--- مختلف دوسرے اداروں میں کام بھی کر رہی ہیں اور اب اسمبلیوں میں بھی اپنے فرائض ادا کرنے کو موجود ہیں--- اس کے علاوہ کون سی ترقی ہم سے چاہتے ہیں---؟ منفی کام---؟ منفی شعبے؟۔ مردوں کی پسند کے وہ شعبے جہاں انھوں نے اپنی تسکین کے لیے بنی سنوری خواتین بھرتی کر رکھی ہیں---؟ ایسی ترقی پر ہم لعنت بھیجتی ہیں۔
بے حجابی‘ بے حیائی کا نکتہ آغاز ہے۔ اور یہ وہ خرابی ہے جو کبھی تنہا نہیں آتی‘مخلوط معاشرے کی تمام تر خباثتیں ساتھ لاتی ہے۔ گلوبل ولیج نے ان خباثتوں کو راز نہیں رہنے دیا۔ یہ اللہ کے خوف سے کیاگیا مکمل حجاب ہی اِن کا سدِّراہ بن سکتا ہے‘ کیونکہ فرمان رب کے مطابق…
ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّط (الاحزاب ۳۳:۵۳)
یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔
مرشدعام: ہمارے دستور کے مطابق نائب چننے کا اختیار مرشد عام کو حاصل ہے‘ وہ جسے چاہے اپنا نائب منتخب کر لے ۔ اب‘ جب کہ ہم مرشد عام کے انتخاب سے فارغ ہو چکے ہیں عنقریب نائب کے نام کا اعلان بھی کر دیاجائے گا ۔ جہاں تک اخوان المسلمون میں نئی نسل کے کردار کی بات ہے تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوںکہ اخوان کی قیادت حتیٰ کہ فیصلہ ساز ادارے مکتب الارشاد‘ میں بھی نوجوان موجود ہیں اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔میں یہاںڈاکٹر عبدالمنعم عبد الفتاح کی مثال دوں گا ۔ انھیں تقریباً سات سال قبل ۱۹۹۵ء میں قاہرہ میں ہونے والے مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مکتب الارشاد کا رکن منتخب کیا گیا تھا ۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۴۴ برس تھی ۔ مکتب الار شاد کی ساری قیادت باقاعدہ جمہوری طریقے سے منتخب شدہ ہے ۔
نوجوان مکتب الارشاد میں بھی موجود ہیں اور پیشہ ور تنظیموں اور پارلیمانی پارٹی میں بھی۔ بطور مثال میں میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عصام العریان کا نام لوں گا۔ انھیں اخوان المسلمون نے سیشن ۱۹۸۷ء کے لیے پارلیمنٹ میں اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے وہ کامیاب ہوکر پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔کیا آپ جانتے ہیں ان کی عمر اس وقت کیا تھی ؟ صرف ۳۱ برس ۔یہ مثال ان لوگوں کے اعتراضات کا شافی جواب ہے جو کہتے ہیںکہ اخوان نوجوانوں کے فعال کردار کے مخالف اور ان کے آگے آنے میں حائل ہیں ۔
عبد اللہ گل کی حکو مت ہمارے لیے خوشخبری ہے ۔ انصاف و ترقی پارٹی کو استنبول جیسے بڑے شہرکی مالی حالت سدھارنے کا کامیاب تجربہ بھی حاصل ہے اور پارٹی کے پاس مختلف علوم کے بہت سے ماہرین بھی موجود ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے ان کی ثابت قدمی کے لیے دعا گو ہیں۔
امریکہ کے ان تمام اقدامات کے بر عکس اسلام کی دعوت بڑھتی اور ترقی ہی کرتی جارہی ہے۔ دعوت کے پھیلائو کایہ سلسلہ اب کسی حال میں بھی رک نہیں سکتا۔امریکہ کی ظالمانہ روش کے خلاف تحریک اسلامی اور ساری امت کی جدو جہد میں دن بدن تیزی ہی آتی جائے گی۔
مسلمانوں کی غالب اکثریت کا ایمان ہے کہ مادی قوت ‘ایمانی قوت کا کبھی بھی مقابلہ نہیں کر سکتی ۔امریکہ اور اس کے حواری خاص طور پر وہ لوگ جنھیں امریکہ نے مسلم ممالک میںاقتدار پر مسلط کیا ہوا ہے ‘جو کچھ بھی کرلیں ان کی ہر کوشش کا انجام بالا ٓخر ناکامی ہے۔یہ لوگ اسلامی احکام و مبادی کی تبدیلی میںکبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اللہ تعالی خود ہی اپنے دین کی حفاظت کے لیے کافی ہے ۔اس کا فرمان ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ الحجر ۱۵:۹) گذشتہ کئی صدیوں سے قرآنی نصو ص اور صحیح احادیث نبویہ سے کھیلنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان کوششوں کا انجام ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہے: وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَo (یوسف ۱۲:۲۱)’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
میراخیال ہے کہ موتمر عالم اسلامی کی تنظیم کو فعال کرنابھی اس جانب پیش رفت کا باعث ثابت ہوسکتا ہے۔ سرمایہ کاروں کو باہم اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر آمادہ کرنا اور علماے کرا م اور مفکرین کے خیالات میں ہم آہنگی پیدا کرنا ‘علمی بحث و جستجو اور باہمی مکالمے کے مراکز کا قیام بھی اس سلسلے کی اہم کڑیاں ثابت ہو سکتی ہیں۔
جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو وہاں کے اپنے مخصوص حالات ہیں۔ (رسالۃ الاخوان ۱۳؍۱۲
سوال: میں نے ایک سال پیشتر پردہ شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے دورِ جاہلیت تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے ہدایت کے قابل سمجھا اور ہدایت دی۔ اب‘ جب کہ پورا پردہ شروع کیا ہے تو چہرے کے پردے کے حوالے سے اختلافی باتوں کا پڑھ کر طبیعت بہت بے زار اور افسردہ ہوتی ہے بالخصوص جب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ریسرچ اسکالر طارق جان کا نقطۂ نظر روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی کے کالم (۲۸‘ ۲۹ نومبر ۲۰۰۲ئ) میں چھپنے پر نظر سے گزرا۔مزید افسوس اس لیے بھی ہوا کہ وہ اس ادارے سے وابستہ ہیں جس کے آپ چیئرمین ہیں اور آپ جماعت اسلامی کے نائب امیر بھی ہیں۔ مجھے تو اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے سارے علما صرف سراب ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہم جیسے ہدایت کے پیاسے انھیں پانی سمجھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھیں تو بات واضح لگتی ہے کہ چہرے کا پردہ ضروری ہے۔ میری اس ذہنی اُلجھن کو دُور فرما دیجیے۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پردے کی نعمت سے سرفراز فرما کر جس سعادت سے نوازا ہے‘ اس پر میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو استقامت بخشے اور دنیا و آخرت دونوں میں اجرعظیم سے نوازے۔ کبھی پردہ مسلم معاشرے اور ثقافت کی پہچان تھا اور آج اسے اختیار کرنا ایک جہاد کے مترادف ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی سعادت سے نوازا ہے۔بلاشبہہ آپ کا اپنا شوق اور ہمت ہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو اس نعمت سے سرفراز کیا ہے۔
آپ نے روزنامہ جنگ کا جو تراشا بھیجا تھا میں نے اسے انگلستان کے قیام کے دوران ہی پڑھ لیا تھا۔ میں بلاتکلف عرض کرتا ہوں کہ برادرم طارق جان میرے عزیز ساتھی ہیں جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) میں ریسرچ فیلو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ البتہ وہ اپنے خیالات کے خود ذمہ دار ہیں۔ نہ وہ میرے خیالات کی ترجمانی کر رہے ہیں اور نہ آئی پی ایس یا جماعت اسلامی ہی کا یہ موقف ہے۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ میں اسی حجاب کا قائل ہوں جو ہمارے دور کے مقتدر علما بشمول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پیش کیا ہے۔ یہی قرآن پاک کی آیات اور احادیث نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے۔ میں چہرے کے حجاب کا قائل ہوں اور میری اہلیہ الحمدللہ اسی پر عمل کرتی ہیں۔ البتہ میں یہ بات ضرور آپ سے کہنا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ میں‘ ماضی میں بھی اور آج بھی‘ اسلامی تحریکات اور دینی حلقوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان جہاں حجاب کی فرضیت پر کوئی دو آرا نہیں‘ وہاں حجاب کی تفصیلات کے بارے میں ضرور محدود اور متعین اختلاف پایا جاتا ہے۔ ثقہ علما کا ایک گروہ چہرے کے حجاب کو ضروری سمجھتا ہے اور صرف آنکھ‘ ہاتھ اور پائوں کو ما ظھرمنھا کے ذیل میں شمار کرتا ہے‘ جب کہ ماضی کے علما اور فقہا میں سے بہت کم اور آج کے برعظیم پاک و ہند کے علما اور دوسرے اہل علم کے سوا ایک خاصی تعداد اس رائے کی حامی ہے کہ ہاتھ اور پائوں کے ساتھ بغیر زینت کے چہرہ کھلا رکھا جا سکتا ہے ۔ البتہ بال اور گردن ڈھکی ہونی چاہیے۔ عرب دنیا ‘ جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں کے علما اور اسلامی تنظیموں کا بحیثیت مجموعی یہی موقف ہے اور وہاں کی اسلامی تحریکات سے وابستہ خواتین اسی پر عامل ہیں۔ البتہ یہ وضاحت کر دوں کہ وہاں بھی ایک تعداد ایسے علما اور ان کے متبعین کی ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں۔
میں نہ اپنے آپ کو فتویٰ کا اہل سمجھتا ہوں اور نہ کبھی یہ جسارت کی ہے۔ میرا اپنا تعامل ان علما کی رائے کے مطابق ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں۔ لیکن یہ زیادتی ہوگی کہ جو لوگ اپنے دلائل کے مطابق چہرے کے حجاب کے قائل نہیں ہیں‘ انھیں اس زمرے میں ڈال دیا جائے جو بے پردگی اور مغربی ثقافت و بے حجابی کے قائل ہیں۔ ہمیں جہاں اس راستے کو اختیار کرنا چاہیے اور اسی پر استقامت کاثبوت دینا چاہیے جسے ہم شرعی دلائل یا معتبر علما کی رائے کے احترام کی بنیاد پر اختیار کرتے ہیں اور بجا طور پر اس پر ہمیں اطمینان اور فخرہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اجراور قبولیت کی توقع رکھنی چاہیے‘ وہیں اگر دوسرا نقطۂ نظر کچھ ایسے دلائل کی بنا پر ہے‘ جو خواہ ہمیں مطمئن نہ کر سکے لیکن جس کی نسبت شریعت کے ماخذ ہی کی طرف ہو تو ہمیں اس کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے اور کہیں کہیں یہ اختلاف بڑا ہی نمایاں اور بظاہر تضاد تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود صحیح راستہ یہی ہے کہ اس پورے اختلاف کو اپنی حدود میں رکھا جائے‘ تکفیر‘ تنقیص اور تضحیک کا راستہ اختیار نہ کیا جائے۔ عبادات سے لے کر معاملات بلکہ حدود کی سزائوں تک میںاختلاف پایا جاتا ہے۔ اسے اختلاف ہی رہنا چاہیے۔ افتراق اور تصادم کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ میں مثالیں دینے سے عملاً احتراز کر رہا ہوں اور صرف اصولی بات تک اپنی گزارش کو محدود رکھ رہا ہوں۔ البتہ اختلاف الفقہا کے موضوع پر کتابوں میں اس مسئلے پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور شاہ ولیؒ اللہ کی کتاب اس بارے میں ایک مفید علمی ماخذ ہے۔
میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ آپ نے جو عملی راستہ اختیار کیا ہے اس پر آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں لیکن چاہوں گا کہ آپ اگر اس بارے میں اعتدال اور توازن کا راستہ اختیار کریں تو وہ دین کے مزاج اور مصالح سے قریب ترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین پر قائم رکھے اور حق کو حق جان کر اس کے اتباع کی توفیق دے۔ (پروفیسر خورشید احمد)
س: میں ایک خوف زدہ شخص ہوں۔ ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔ والدین کے بارے میں ‘ بھائیوں کے بارے میں ہر وقت منفی خیالات آتے رہتے ہیں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ لیکن پھر بھی خود پر کنٹرول نہیں ہے۔ اس خوف کے لیے میں نے علاج بھی کروایا ہے مگر حالت جوں کی توں ہے۔
اصل میں مجھے اپنے نفس پہ کنٹرول نہیں ہے۔ میں نے ایک کام نہ کرنے کی توبہ کی‘ پھر توڑ دی‘ دوبارہ توبہ کی اس پر پھر قائم نہیں رہ سکا‘ بار بار توبہ کی اور توڑ دی۔ کیا مجھے اللہ معاف کر دے گا؟ کیا مجھے سکون مل سکے گا؟
ج: گناہ پر ندامت اور اس بات کا خوف کہ نفس پر قابونہ ہونے کی بنا پر کہیں کسی غلطی کا ارتکاب نہ ہو جائے لازمی طور پر ایک پریشان کن صورت ہے لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولیے کہ جب تک احساسِ گناہ دل میں پایا جائے گا اس وقت تک ان شاء اللہ ایمان بھی سرگرم رہے گا۔ دراصل انسان کا نفس ایک تو وہ ہے جو اپنے رب کے احسانات و انعامات کے احساس کے ساتھ پورے اطمینان کے ساتھ اس کی رضا کا پابند ہو جائے۔ یہ نفس مطمئنہ ہے۔ ایک نفس وہ ہے جو وساوسِ شیطانی کی بنا پر نفس کو برائی کی طرف اُکساتا ہے۔ یہ نفسِ امارہ ہے‘ اور تیسرا نفس وہ ہے جو غلط کام کے بارے میں سوچنے‘ یا برائی کی نیت کرنے‘ یا غلطی کربیٹھنے کے بعد انسان کو ملامت کرتا ہے۔ اسے نفسِ لوامہ یا ضمیر کہا جاتا ہے۔ آپ نے جس کیفیت کا ذکر کیا ہے بظاہر اس کا تعلق نفس کی اسی تیسری قسم کے ساتھ ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر افراد خود اپنے بارے میں اور ابلیس اور اس کی ذریت کے بارے میں صحیح تصور نہیں رکھتے اور فرائض دین کی پابندی کرنے کے بعد سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہم شیطان سے محفوظ ہو گئے۔ حالانکہ ہم نماز صرف دن کے پانچ اوقات میں پڑھتے ہیں‘ روزے عموماً صرف رمضان میں رکھتے ہیں‘ حج سال میں مخصوص دنوں میں ہوتا ہے‘ جب کہ شیطان نہ تو کوئی جزوقتی ورکر ہے‘ نہ وہ سرکاری ملازموں کی طرح وقت چرانے کا عادی ہے۔ وہ ۲۴ گھنٹے اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ مستعدی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو بہکانے میں لگا ہوا ہے۔ اس لیے اس کے حملے ایسے اوقات میں اور ایسے مقامات پر ہوتے ہیں جہاں ہم گمان بھی نہیں کر سکتے۔
اگر ایک شخص سے غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو وہ انبیا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت آدم ؑ کے الفاظ میں: رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف ۷:۲۳)‘ یا حضرت یونس ؑ کی زبان میں ادا کی گئی دعا: لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ o (الانبیا ئ۲۱:۸۷)‘ خلوصِ دل کے ساتھ اور دوبارہ غلطی کا ارتکاب نہ کرنے کے عزم کے ساتھ ادا کرے۔ قرآن کریم نے انسان کی اسی کمزوری کو جانتے ہوئے انسان کو ناامیدی اور پریشانی اور خوف سے بچانے کے لیے جو بنیادی تصور پیش کیا ہے وہ ہر مسلمان کے لیے ہدایت کی روشنی فراہم کرتا ہے۔ فرمایا: ’’(بندو) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘ جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے‘ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘ (الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہاں اہل ایمان کو اللہ کی مغفرت کی طرف تیزی اختیار کرنے کے ساتھ یہ بات بھی سمجھا دی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ان شاء اللہ ایسی جنت ہے جس کی وسعت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
قرآن کریم انسانی غلطیوں کے لیے ارتکاب فحش اور ارتکاب برائی (سوئ) کے الفاظ استعمال کرنے کے بعد اللہ کے بندوں کو وثوق کے ساتھ اُمید دلاتا ہے کہ رب کریم ان کی ندامت اور استغفار و توبہ کو آخر دم تک قبول کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وہی تو الرحمن والرحیم ہے۔ غافر الذنب اور قابل التوبہ ہے۔ فرمایا: ’’اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا‘‘ (النساء ۴:۱۱۰)۔ یہاں عمل سوء کا ذکر ہوا لیکن سورئہ آل عمران میں اس سے زیادہ سخت اصطلاح (فاحشۃ) کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’اگر کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے‘‘(۳:۱۳۵)۔
یہاں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اگر ایک شخص اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتا اور رب کریم کا ذکر اور استغفار کرکے اس کی طرف پلٹتا ہے تو رب کریم اس کی غلطیوں سے درگزر فرماتا ہے۔ وہی تو ہے جو بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کر سکتا ہے۔ حضرت انسؓ بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بندہ گناہ کرنے کے بعد معافی مانگنے کے لیے جب اللہ کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ کو اپنے بندے کے پلٹنے پر اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوشی ہوتی ہے جس نے اپنی اونٹنی جس پر اس کی زندگی کا دارومدار تھا‘ کسی بیابان میں گم کر دی اور پھر اس نے اچانک اسے پا لیا ہو۔ ایسے ہی آدمی کے توبہ کرنے پر اللہ خوش ہوتا ہے بلکہ اللہ کی خوشی اس کے مقابلے میں بڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ وہ رحم و کرم کا سرچشمہ ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔
اس طرح حضرت ابوموسٰی الاشعریؓ سے ایک روایت مسلم میں ہے جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں اللہ کی طرف پلٹ آئے‘ اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں اگر کسی نے گناہ کیا تو وہ دن میں اپنے رب کی طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے حتیٰ کہ سورج مغرب سے طلوع ہو‘‘۔
گویا قیامت کے ظہور تک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کی مغفرت کے لیے منتظر رہتا ہے۔ حضرت عبداللہؓبن عمر توبہ کی قبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’اللہ بندے کی توبہ سانس رکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے‘‘ (ترمذی)‘ یعنی جب انسان پر سکرات واقع ہو جائے اس سے قبل اگر وہ توبہ کر لے تو رب کریم اسے معاف کر دیتا ہے۔ گویا توبہ واستغفار کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ اس لیے نہ کسی خوف میں پڑنے کی ضرورت ہے نہ مایوسی کی۔ اگر ایک مرتبہ غلطی کے بعد معافی مانگ کر کبھی غلطی نہ کرنے کا عہد کیا گیا لیکن اس پر قائم نہ رہا گیا تو دوبارہ توبہ کے بعد توبہ پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی رضاکارانہ طور پر اپنے اُوپر یہ پابندی لگائی جائے کہ توبہ کے ہمراہ خصوصی نوافل یا نفلی روزے رکھ کر اپنے آپ کو دوبارہ غلطی سے بچانے کی کوشش کرے‘ یا اللہ کی راہ میں کچھ انفاق کر کے اپنے عزم کو مزید مستحکم کرے۔ یہی حصول سکون کا طریقہ ہے اور یہی فلاح و کامیابی کا وہ راستہ ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دکھایا ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
مولانا حمیدالدین فراہی (۱۸۶۲ئ-۱۹۳۰ئ) قرآنی علوم کے معروف محقق‘ مفسر اور ترتیب و نظم قرآن میں ایک نئے مکتب فکر کے بانی تھے۔ انھوں نے بقول مولانا مودودی ’’مسلسل چالیس برس تک قرآن کی خدمت کی اور معارفِ قرآنی کی تحقیق میں سیاہ بالوں کو سفید کیا۔ ] ان کی [ تفسیروں سے عرب و عجم کے ہزاروں مسلمانوں میں تدبر فی القرآن کا ذوق پیدا ہوا‘‘۔
زیرنظر کتا ب ان کے ’’سوانح حیات اور تصنیفی کام کے تحقیقی مطالعے‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ علمی منصوبہ ربع صدی قبل مصنف کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انھوں نے اس تحقیق میں بہت کھکھیڑاٹھائے۔ بارہا بھارت کے مختلف شہروں کا سفر کیا‘ بیسیوں بلکہ سیکڑوں لوگوں سے ملے‘ روایات اور بیانات جمع کیے اور متعلقہ اداروں سے بہت سا ریکارڈ حاصل کیا۔ پھر یہ علمی منصوبہ (جیسا کہ مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں ایک لمبی داستان کی صورت‘ اس کا پس منظر بتایا ہے) ’’سرخ فیتے‘‘ کی رکاوٹوں اور ’’حاسدوں‘ مفسدوں‘ فتنہ پردازوں اور شرپسند عناصر‘‘ کی تخریبی سازشوں کا شکار ہوتا ہوا’’ایک جمبوجیٹ کے ایئرکریش کی طرح تباہ ہو کر رہ گیا۔ اب یہ اس کے ملبے کا کچھ حصہ ہے جو پیش کیا جا رہا ہے‘‘ (ص ۹)۔ اگرچہ مصنف کہتے ہیں کہ ’’میرا یہ کام اپنی نظر میں بے وقعت ہے‘‘ مگر انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود جس محنت کے ساتھ مواد اکٹھا کیا اور پھر اسے مرتب کر کے موجودہ قاموسی جلد کی شکل میں شائع کیا ہے‘ وہ قابل داد ہے۔
کتاب میں مولانا فراہیؒ کی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل بھی جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاندانی پس منظر‘ شجرہ‘ تاریخ اور جاے پیدایش‘ عبدالحمید یا حمیدالدین؟ تعلیم کے مختلف مراحل‘ اساتذہ‘ ملازمتیں‘ اسفار‘ تلامذہ‘ بیماری‘ وفات‘ اولاد اور مطبوعہ و غیرمطبوعہ تصانیف‘ شخصیت کے تابناک پہلو وغیرہ۔ یہ کتاب اپنی جامعیت اور پھیلائو میں حالی کی حیاتِ جاوید کی یاد دلاتی ہے۔ ہمارا تاثر یہ ہے کہ ذکر فراہی میں حیات شبلی(سید سلیمان ندوی) اور حیاتِ سلیمان (شاہ معین الدین ندوی) سے کہیں زیادہ کاوش و محنت اور جگرکاوی سے کام لیا گیا ہے۔ اور ممدوح کی زندگی کی معمولی جزئیات تک کو جمع کردیا گیا ہے۔
جناب مصنف نے یہ کام بڑی لگن کے ساتھ انجام دیا ہے۔ مگر کہیں کہیں غیر ضروری تفصیل ملتی ہے اور کہیں وہ غیرمتعلق باتوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ اگر کچھ حشووزوائد نکال دیے جاتے تو کتاب اتنی ضخیم نہ ہوتی اور اس کے علمی معیار میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔
یہ بات کھٹکتی ہے کہ مصنف نے تفصیلی دیباچے میں کئی جگہ تلخ نوائی سے کام لیا ہے اور متن کتاب میں بھی کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے‘ جیسے انھوں نے مولانا ابوالخیر مودودی کی ’’بے خبری‘ غلط اندیشی اور بدگمانی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فراہی سے ابوالخیر صاحب کے ’’بغض وعناد‘‘پراُنھیں لتاڑا ہے‘ وغیرہ۔ ہماری رائے میں اس طرح کی تلخی کسی عالم یا اسکالر کے شایانِ شان نہیں ہے۔ بایں ہمہ اس علمی کارنامے پر اصلاحی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ایسی اہم اور عالمانہ سوانح عمری کے آخر میں اشاریے کی عدم موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پندرہ ابواب پر مشتمل یہ دونوں جلدیں طریقت کے باب میں کسی خوش کن تاثر کا اظہاریہ نہیں بن سکیں۔ اس کتاب میں خیالات اس قدر منتشر اور بے ربط ہیں کہ طریقت کے حقائق تک رسائی کارے دارد ہے۔ مراحلِ تصوف کا بیان ترتیب وار ہے اور نہ مکمل۔ تقدیم و تاخیر کا لحاظ بھی پیشِ نظر نہیں رہا۔ مؤلف کے نزدیک کوئی بھی بات کہیں سے شروع کرکے کہیں پر بھی چھوڑی جا سکتی ہے‘ چاہے حقیقت افسانے کا رُوپ دھار لے یا افسانہ حقیقت بن جائے۔ پھر طریقت کی حقیقت کے ضمن جس علمی اور تحقیقی اندازِ بیان کی ضرورت تھی‘ وہ یہاں مفقود ہے۔ زبان اور انشا کی غلطیاں اس پر مستزاد ہیں--- لگتا ہے کہ مؤلف درست اور صحیح زبان کے قائل ہی نہیں۔ پروف کی اتنی غلطیاں ہیں کہ شاید ہی کوئی صفحہ اس عیب سے داغ دار نہ ہو۔ اصولِ تالیف کا اس کتاب میں کہیں گزر نہیں--- یہ فقط ایک کتاب ہے‘ جس کے پانچ سو پندرہ صفحے ہیں۔ متضاد اور متناقض خیالات کے ترجمان۔ مغالطہ انگیزی قدم قدم پر دامن کشاں ہے۔ ربط اور تلازمے کی شدید کمی ہے۔ کتاب کی دونوںجلدیں پڑھ لینے کے بعد‘ کم از کم میں ذاتی طور پر یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ مؤلف طریقت کے مؤید ہیں یا مخالف---!
مؤلف نے علامہ اقبال کے کلام اور افکار سے بھی استدلال کیا ہے‘ مگر یک رُخا اور اکہرا--- معلوم ہوتا ہے کہ وہ افکار اقبالؒ سے براہِ راست فیض یاب نہیں ہوئے‘ محض اقبالیاتی ادب کے توسط سے اقبال تک پہنچنے کی سعی فرمائی۔ اس صورت میں مغالطے کا شکار ہونا بدیہی اور لازمی امر ہے‘ بصورتِ دیگر وہ طریقت اور مسائلِ طریقت کی یک رُخی تعبیر نہ فرماتے۔ مثال کے طور پر وحدت الوجود ہی کو لیں۔ بادی النظر میں یہ نظریہ یونانی فلاسفہ کے افکار کا ترجمان بھی ہے اور ویدانت کا پرتو بھی--- اسی طرح انگریزی اصطلاح Pantheism بھی اس کی مترادف اور ہم معنی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیوں کہ اگر اس نظریے کا بغور مطالعہ کیا جائے‘ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ نہ تو یونانی افکار کا ترجمان ہے اور نہ ہی ویدانت کا۔ اسے پین تھی ازم اور مونوازم سے بھی کچھ علاقہ نہیں۔ یہ ان سب نظریات سے بالکل علاحدہ ہے اور صرف اسلامی تعلیمات سے مستنیر--- مگر اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ٹھوس علمی اور تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ (عبدالعزیز ساحر)
متعدد اہل علم نے قرآن حکیم کے لغات تیار کیے ہیں۔ بعض تو ڈکشنری کے طرز پر اور بعض حروفِ تہجی کی ترتیب کے مطابق ہیں۔ بعض نے مفردات کو سامنے رکھا ہے۔ مولانا عبدالرحمن مرحوم نے تلاوتِ قرآن حکیم کی ترتیب کے مطابق الفاظ (اسماء ‘ افعال اور تراکیب و کلمات وغیرہ) کے معنی و مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ بعض الفاظ اور کلمات پر مفسرین اور اکابر کی رائے بھی دی ہے۔ انھوں نے ہر اہم کلمے کو درج کرنے کے بعد‘ پہلے اس کا مصدر یا مادہ (اگر ہو تو) بیان کیا ہے‘ پھر اس کلمے کی صرفی حیثیت اور نحوی مقام بتایا ہے) پھر اس کے مفہوم میں اہل لغت اور اہل تفسیر سے حوالے نقل کیے ہیں اور جہاں ممکن ہوا ہے وہاں صحیح احادیث سے کلمات کا مفہوم متعین کیا ہے‘‘ (ص ۶۰۷) ۔گویا یہ قرآن حکیم کے الفاظ کا ایسا لغت ہے جس میں کہیں کہیں معنی و مفہوم کی وضاحت اور تعین کے لیے مختلف مفسرین سے بھی مدد لی گئی ہے۔
یہ کام بڑی محنت کا تھا جسے مصنف ِ مرحوم نے اپنے تبحرعلمی کی مدد سے بخوبی مکمل کیا ہے۔ مولانا عبدالرحمن سکول میں مدرس تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد دیوبند سے دورئہ حدیث مکمل کیا اور پھر تصنیف و تالیف میں مصروف ہوئے۔
مطالعۂ قرآن اور فہمِ قرآن کے سلسلے میں عام قاری کے لیے یہ ایک مفید معاون کتاب ہے۔ ۱۹۵۶ء کی پرانی کتابت کا عکس شائع کر دیا گیا ہے۔ اگر ازسرنو مشینی کتابت (کمپوزنگ) کرائی جاتی تو ۶۰۰ صفحات کا یہ لغت چار‘ ساڑھے چار سو صفحات میں بخوبی سما سکتا تھا اور قیمت بھی کم ہوتی۔ (ر-ہ)
صاحب زادہ سید خورشید گیلانی مرحوم ایک ممتاز دانش ور‘ مذہبی مفکر‘ مصلح اور معروف کالم نگار تھے۔ انھوں نے فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر عمربھر ملّی یک جہتی‘ عالم اسلام کے اتحاد اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ اُمت مسلمہ کا ایک فرد ہونا ان کے لیے باعث افتخار تھا خود ان کے بقول ’’راقم ان لوگوں میں شامل ہے جسے کبھی کوئی گروہی سوچ مسحور نہ کرسکی‘‘۔
زیرنظر کتاب سید مرحوم کے ان ۷۸ کالموں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے عمرعزیز کے آخری چار ماہ (فروری تا مئی ۲۰۰۰ئ) میں تحریر کیے۔ موضوعات میں تنوع ہے اور عصرِحاضر کے عالمی اور ملکی مسائل پر ان کی جان دار آرا سامنے آئی ہیں۔ زیرنظر تحریروں میں انھوں نے ’’پاکستانی سیاست کے شب و روز‘‘ ، ’’مسئلہ کشمیر‘‘، ’’اکیسویں صدی‘‘،’’نواز مشرف ڈیل‘‘، ’’نواز شریف کی متوقع واپسی‘‘ اور ’’قیادت کا قحط‘‘ اور اسی طرح کے بہت سے عنوانات پر قلم اٹھایا ہے۔ لیکن موضوعی لحاظ سے غالب عنصر اُمت مسلمہ کے احوال کے بارے میں ہے۔ ’’ایک ضرورت‘ ایک نعمت‘‘ مرحوم کی آخری تحریر ہے۔
خورشید گیلانی نے اپنے منفرد اسلوب اور دل کش اندازِ تحریر کے ذریعے نہ صرف دلوں کو متاثر بلکہ مسخر کیا۔ جرأت اظہار ایک عطیہ خداوندی ہے جو انھیں وافر مقدار میں میسر تھا۔ خونِ جگر ہونے تک کی تحریریں اس لحاظ سے اہم اور منفرد ہیں کہ یہ بسترمرگ پر لکھی گئیں جب وہ کینسر جیسے موذی مرض کے سبب موت کے روبرو تھے۔
یہ تحریریں ملّت اسلامیہ کی فلاح و سربلندی کا شعور اور اتحاد بین المسلمین کے لیے ایک جذبہ و ولولہ پیدا کرتی ہیں اور عالمی تناظر میں اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اذہان کو نیا رُخ دینے میں مفید ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
کیا زندگی ایک المیہ ہے؟ نہیں‘ زندگی تو ایک نعمت ہے۔ مگر پاکستانی معاشرے میں خودکشیوں اور خود سوزیوں کے روز افزوں رجحان کے حوالے سے بلاشبہہ عام آدمی کے لیے زندگی ایک المیہ بن کر رہ گئی ہے۔ گلی کوچوں اور سڑکوں پر اور اخبارات کے صفحات پر بھی ہم ہر روز اُس کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن ہمارا مشاہدہ صرف اُس کے ظاہر اور سطح تک محدود رہتا ہے۔ ابوشامل نے زندگی کے المیوں کی تہ میں اُتر کر اُن کے اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا سماج اس قدر بدہیئت اور غیرمتوازن کیوں ہو گیا ہے؟ اس کا اندازہ ابوشامل کی بنائی ہوئی لفظی تصویروں سے ہوتا ہے۔
مصنف نے ایک عرصے تک ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی میں زندگی کے عنوان سے معاشرے کے نچلے غریب ‘ مفلس اور محروم طبقے کے کرداروں سے ملاقاتیں کیں‘ اُن کے انٹرویو لیے‘ اُن کے دلوں کے داغوں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ اُن میں چوکیدار ‘ اخبار فروش‘ نان بائی‘ گٹر صاف کرنے والے‘ اُونٹ والے‘ گدھا گاڑی والے‘ تالا چابی بنانے والے‘ گونگے‘ بہرے اور نابینا کردار شامل ہیں۔ ابوشامل اِن کرداروں کے ہم نوا‘ ہم درد اور غمگسار بن کر اُن کی دل کی باتوں کو سامنے لاتے ہیں‘ اُن کے دکھ درد‘ مصائب‘ پریشانیاں اور اُن کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور ساتھ ہی اُن کے آنسو---آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے حوالے سے ابوشامل نے حقیقی زندگی کو دریافت کیا ہے۔ معمولی اور چھوٹے آدمیوں کی گفتگو میں پتے کی باتیں بھی ہیں اور حکمت و بصیرت کی کرنیں بھی۔ یہ ایک ایسا سماجی اور عمرانیاتی مطالعہ ہے جو ہم جیسے کتابی لوگوں کے لیے معلومات انگیز اور چشم کشا ہے۔ دفتروں یا قہوہ خانوں اور ٹی ہائوسوں میں بیٹھ کر لفظوں کے طوطے مینا بنانے والوں اور سگریٹ کے مرغولوں کے درمیان جدیدیت‘ مابعد جدیدیت اور وجودیت پر بحثیں چھانٹنے والوں کے لیے بھی ابوشامل کے پیش کردہ کرداروں میں غوروفکر اور بہت کچھ اخذ و اکتساب کا سامان موجود ہے۔
یہ کہانیاں نہایت خوب صورت اور دل کش اسلوب میں پیش کی گئی ہیں۔ انداز تحریر نپاتلا ہے جس میں فکرانگیزی اور دعوتِ غوروفکر ہے۔ جو لوگ ان کو کہانی یا افسانے کے طور پر پڑھیں گے وہ ان سے لطف اُٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ایک ذہنی اور فکری غذا بھی حاصل کریں گے۔ (ر-ہ)
عصرحاضر میں فکرِانسانی کی تشکیل کے مبارک کام میں‘ جن چند نمایاں ترین شخصیات کا نام سامنے آتا ہے۔ اُن میں ایک رجلِ عظیم علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ئ-۱۹۳۸ئ) ہیں۔ اگر مسلم دنیا میں اسلامی فکر کی تعبیروتشریح اور احیاے اسلام کے لیے کوشاں رہنے والے محسنوں کا تذکرہ کیا جائے تو اقبال کا نام نامی صفِ اول میں نظر آئے گا۔
اقبالیات میں علامہ کی تحریرات‘ مکتوبات‘ خطبات اور ملفوظات کی جمع و تدوین کی ضرورت اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے متن کی صحت اور مختلف روایات کی جانچ پرکھ پر غیرمعمولی طور پر زور دیا جاتا ہے۔
مصنف کا ڈاکٹریٹ کا یہ مقالہ اپنے موضوع پر ایک کامیاب کوشش ہے جسے انھوں نے بڑی لگن اور اہتمام سے انجام دیا۔ اقبال کی تصانیف کے ایک ایک لفظ کے مطالعے کے بعد‘ ممکن حد تک متن کے تقابلی جائزے پیش کیے گئے ہیں۔ صحت متن کی اس کاوش میں انھوں نے کس قدر محنت اور جاں کاہی سے کام لیا‘ اس کا اندازہ زیرتبصرہ کتاب پڑھ کر ہو سکتا ہے۔
علم و تحقیق کی دنیا میں یہ تصنیف ایک قابل قدر اور رہنما کتاب کی صورت میں سامنے آتی ہے‘ جس سے طالب علموں کو کار تحقیق میں آگے بڑھنے کی تربیت ملتی ہے اور حسنِ تحقیق اور معیارِ تحقیق کی شاہراہ دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔موضوع کی مناسبت اور تحقیق کی مطابقت نے اسے ذخیرۂ اقبالیات میں گنتی کی چند بہترین اور زندہ کتب میں شامل کر دیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)
ربع صدی پہلے تک‘ بچوں کے لیے اقبال کے تعارف کا اولین اور بڑا ذریعہ ان کی نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ تھی مگر اب یہ وطن عزیز کے معدودے چند اسکولوں ہی میں پڑھی اور گائی جاتی ہے۔ ۲۰۰۲ء کو ’’سال اقبال‘‘ قرار دیا گیا لیکن جس انداز میں ہم نے یہ سال ’’منایا‘‘، بلکہ کہنا چاہیے کہ اسے ’’گزارا‘‘ وہ علامہ کے بقول: ’’رہ گئی رسمِ اذاں‘ روح بلالی نہ رہی‘‘کے مترادف تھا۔
اقبالیات پر کتابوں اور رسالوں کے انبار لگائے جا چکے ہیں لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ اقبال کو بچوں اور لڑکوں میں متعارف کرانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ تو شاید اس کا تشفی بخش جواب نہیں ملے گا۔ ربع صدی پہلے اقبال اکادمی پاکستان نے‘ پروفیسر سید محمد عبدالرشید فاضل سے سلسلہ درسیاتِ اقبال لکھوایا تھا‘ جو اس وقت کے لحاظ سے ایک اچھی چیز تھی--- لیکن میرا اقبال کے عنوان سے پانچ کتابوں کا ایک باتصویر اور رنگین خوب صورت سیٹ شائع ہوا ہے‘ اس نے اس باب میں اقبالیات کے ایک بڑے خلا کو نہایت احسن طریق سے پُر کر دیا ہے۔ اقبالیات میں اپنی نوعیت کا یہ ایک مثالی کام ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس کا اہتمام سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے کیا ہے (اقبالیات سے اپنائیت اور محبت کا دعویٰ تو پنجاب والوں کا زیادہ ہے---!)
بچوں اور طلبہ کے لیے اقبال کی منتخب نظموں‘ غزلوں اور رباعیات کے ساتھ ان کا تعارف‘ پس منظر‘ فرہنگ‘ ہر نظم سے متعلق سوالات اور نظم پر کچھ تبصرہ--- کہیں کہیں چوکھٹے میں ’’کیا آپ جانتے ہیں؟‘‘ عنوان کے تحت علامہ کی زندگی کا کوئی دلچسپ اورسبق آموز واقعہ درج ہے۔
میرا اقبالکی غرض و غایت چوتھی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں میں ’’اردو شاعری کا ذوق‘‘ پیدا کرنا اور انھیں’’اقبال کے افکار سے روشناس‘‘ کرانا ہے۔ منظومات کے جمالیاتی پہلو (قدرتی مناظر‘ پرندے‘ جانور) تصویروں کے ذریعے نمایاں کیے گئے ہیں۔ آخری دو دو صفحوں کو ’’بیاض‘‘ کا عنوان دے کر طلبہ کو اپنے پسندیدہ اشعار لکھنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ کچھ شبہہ نہیں کہ مرتبین نے یہ کام مہارت سے انجام دیا ہے۔ نظرثانی کرنے والی مجلس میں پہلا نام پروفیسر عنایت علی خاں کا ہے۔
بچوں‘ نوجوان طلبہ و طالبات کے لیے یہ ایک خوب صورت اقبالیاتی تحفہ ہے۔ ماہرین اقبالیات اور اقبالیاتی اداروں پر ایک قرض تھا جسے چکانے اور بہ حسن و خوبی چکانے کا کام ایک غیراقبالیاتی ادارے نے انجام دیا ہے۔ضروری ہے کہ سندھ کے ہی نہیں‘ ملک کے تمام اسکولوں میں خصوصاً نظریاتی نجی اسکولوں میں اسے شامل نصاب کیا جائے۔ (ر -ہ)
جنوری ۲۰۰۳ء کا ترجمان القرآن ادارے کی جدت پسندی کا مظہر بن کر موصول ہوا۔ پہلا تاثر تو یہ ہے کہ دل ترجمان کا یہ حلیہ قبول کر رہا ہے نہ نگاہیں‘ ممکن ہے یہ تاثر آخری نہ ہو اور اجنبیت مانوسیت میں بدل جائے۔
ترجمان القرآن کوبالخصوص پاکستان جو جماعت اسلامی کا اولین میدان عمل ہے‘ کے عوام کو نفسیاتی‘ معاشرتی اور معاشی عنوانات سے جو متنوع مسائل درپیش ہیں ان پر ٹھوس تحقیق کر کے جواب فراہم کرنا چاہیے۔ پاکستانیت‘ ترجمان القرآن میں کم کیوں ہے؟ معیشت و معاشرت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے مسلمانوں کو انفرادی سطح پر کیا کرنا چاہیے اور تہذیب و تمدن کے اسلامی تہذیب و تمدن بننے کے درمیان کون کون سے مرحلے دکھائی دے سکتے ہیں ان کا ذکر ترجمان کے صفحات میں بہت کم ہے۔
’’رسائل و مسائل‘‘ میں سوال پیش ہوتا ہے ‘ جواب دیا جاتا ہے لیکن سوال پھر اپنی جگہ برقرار رہتاہے۔ ’شادی سے قبل ملاقاتیں‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ)کے عنوان سے شائع ہونے والا سوال اس کی ایک مثال ہے۔
اسلامی تحریکوں کا تعارف ترجمان میں شائع ہوتا ہے لیکن ان تحریکات اسلامی پر تنقید کی جرأت دکھائی نہیں دیتی۔ ان تحریکات کے تجربات سے سیکھنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف النوع تحریکات سے تعمیری بحث مباحثے کو فروغ ملے۔ ماریاہولٹ کے مضمون کا جو ترجمہ جنوری کے شمارے میں شائع ہوا ہے زیادہ معلومات افزا نہیں۔
بانی ترجمان القرآن کی روح کو شاید موجودہ چھوٹے قد کے ترجمان کو دیکھ کر حیرت ہوئی ہوگی۔
ترجمان کا تازہ شمارہ موصول ہوا۔ نئے سائز کو دل نے قبول نہیں کیا۔
ترجمان القرآن نے مسلسل محنت کرکے جو نام کمایا ہے اس پر اللہ کا شکر بجا لانا اور ترجمان کی ٹیم کی محنت کو سراہا نہ جانا زیادتی ہوگی۔ پروفیسر خورشید صاحب جس عرق ریزی اور دل سوزی سے اشارات قلم بند کر رہے ہیں وہ زورِ قلم نہیں بلکہ خونِ جگر سے عبارت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں سلامت رکھے۔ آمین!
ترجمان کے سائز کو کم کرنا (حجم بڑھانے کے باوجود) میری نظر میں درست نہیں۔ ترجمانکا سمٹنا کچھ جچ نہیں رہا۔
مضامین کے انتخاب‘ عنوانات کے تنوع اور مسائل پر گرفت کے حوالے سے ترجمان اب الحمدللہ ایک ایسا رسالہ بن گیا ہے کہ جس کے نہ ملنے سے تشنگی کا احساس رہتا ہے۔
مجھے ترجمان القرآن سے دلی لگائو ہے اور مرحوم و مغفور استاذ خرم مرادؒ سے کیے گئے وعدے کے مطابق ترجمان کی اشاعت میں اضافے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔ جنوری ۲۰۰۳ء کے شمارے کا چھوٹا سائز بہت اچھا اور بھلا لگا۔ ترجمان کی انتظامیہ نے قارئین پر احسان کیا ہے کہ صفحے کا سائزکم مگر صفحات کی تعداد بڑھا کر مطالعے کے مواد میں اضافہ کر دیا ہے‘ جب کہ قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہ سائز اس لحاظ سے بھی بہت مناسب لگا کہ ہاتھ میں آسانی سے آتا ہے اور کتاب نما محسوس ہوتا ہے‘ مجھے امید ہے کہ قارئین اس تبدیلی کو پسند کریں گے۔
اس بار ’’اشارات‘‘ کے ساتھ ’’شذرات‘‘ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی مفید سلسلہ ہے۔ اس طرح کئی اہم مسائل زیربحث آسکیں گے اور تنوع بھی بڑھے گا۔ اللہ تعالیٰ ترجمان کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دے تاکہ یہ تشنگان فکروعمل کی پیاس بجھاتا رہے۔
کئی ساتھی ایسے ملے جنھیں نئے سائز کا ترجمان پسند نہ آیا۔ مجھے تو بہت پسند آیا‘ بلکہ اچھا لگا۔ شاید ہم لوگ طرزِ کہن پر اڑنا نہیں چھوڑ سکتے۔
جنوری ۲۰۰۳ء کا پورا شمارہ ہی بہت موثر ہے۔ البتہ ’’موڈریٹ اسلام کی تلاش‘‘ مولانا مودودیؒ کی اپنی تربیت کے لیے ہدایات‘ خرم مرادؒ کا خطبہ ’’دل کی زندگی‘‘ اور ’’ڈیپریشن کا قرآنی علاج‘‘ خاصے کی چیزہیں۔
’’موڈریٹ اسلام کی تلاش‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) میں پروفیسر خورشید احمد نے مغرب کی سازش کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مغرب اسلام کو نظامِ حکمرانی سے دُور رکھنا چاہتا ہے اور ایک دور رس حکمت عملی سے اسلام کو مٹانے پر عمل پیرا ہے۔ پروفیسر صاحب کا تجزیہ بروقت رہنمائی ہے۔
یوں تو یادِ رفتگاں میں آپ جو کچھ بھی لکھتے ہیں پڑھنے کے لائق ہوتا ہے مگر ڈاکٹر محمدحمیدؒاللہ کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا وہ خاص چیز ہے۔ اللہ آپ کو جزاے خیر دے۔
پروفیسر خورشید صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے اپنی ۴۰ سالہ خط و کتابت کا تذکرہ کیا ہے۔ بلاشبہہ ڈاکٹر حمیدؒاللہ سے سیکڑوں لوگوں کی خط و کتابت رہی۔ ان خطوط کو شائع کرنے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ان کی سیرت کا اہم پہلو ہے جو ابھی تک مخفی ہے۔ ان کی دیگر خدمات کا بھی تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ علم و تحقیق میں جو اسلوب انھوں نے اختیارکیا‘ کاش ہم اُسے برقرار رکھ سکیں!
’’یادِرفتگاں‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) میں پروفیسر خورشید احمد نے ڈاکٹرحمیدؒاللہ کی زندگی کا ایک انتہائی سبق آموز واقعہ بیان کیا کہ زندگی بھر میں ڈاکٹرحمیدؒاللہ صرف ایک مرتبہ کلاس میں تاخیر سے پہنچے اور تاخیر کا سبب اپنی والدہ محترمہ کی وفات بتایا۔ حقیقتاً تاریخ عالم کے روشن اُفق پر اُبھرنے والے ستارے اسی کردار اور پابندی کے حامل نظر آتے ہیں۔
صدق، لکھنؤ ۱۹۵۵ء سے اخذ شدہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا مضمون ’’رمضان کے بعد‘‘ فکر کو جلا بخشنے اور عمل پر اُبھارنے والا ہے۔ اسلاف جو اس صدی میں گزرے ہیں یا ماقبل‘ برعظیم پاک و ہند کے ہوں یا عالم عرب کے--- ایمان کو روشن کرنے والی تحریروں کے انتخاب کا یہ سلسلہ مفید ہے۔
’’غیرمسلموں کے قانونی و مدنی حقوق‘‘ میں حامد عبدالرحمن الکاف کے دلائل وزنی ہیں۔ اس صدی کی زندہ تحریکوں کے اکابر نے بھی تحقیق و اجتہاد کی ضرورت محسوس کی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ، سید قطب شہیدؒ، نمایاں ہیں۔ اب ‘ جب کہ ’’حزبیت‘‘ سے نکل کر ہم ’’اجتماعیت‘‘ کی طرف جانے لگے ہیں‘ تمام مکاتب فکر کے اکابر کو اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے۔
۶۰ سال پہلے
حساب آمد و خرچ جماعت اسلامی
(ازیکم ستمبر ۱۹۴۱ء تا ۳۱ دسمبر ۱۹۴۲ئ)
تفصیل خرچ
طباعت کتب۲؎ ۳-۱۵-۵۳۶۵
خرچ ڈاک ۶-۱۰-۵۸۹
کتب ایجنسی ۰-۰-۱۱۹۵
معاوضہ کارکنان ۰-۰-۶۷۴
اشتہار ۰-۸-۲۵
اسٹیشنری ۶-۴-۹۸
سفر خرچ ۰-۲-۲۸۶
مہمانِ خانہ ۶-۱۳-۴۶۵
اعانت اہلِ حاجت ۰-۴-۱۵۰
پریس ۳؎ ۳-۱-۳۱۳۷
قرض جو بعض ارکانِ ادارہ کو دیا گیا ۶-۲-۲۵۹
ادائے قرض۴؎ ۰-۰-۱۴۴۳
عربی تراجم۵؎ ۰-۰-۲۰
متفرق ۶-۱۳-۲۵۳
میزان ۰-۱۱-۱۳۹۶۳
تفصیل آمد
بقایا باختتام اگست ۴۱ئ ۰-۱۴-۷۴
فروخت کتب ۹-۱۵-۷۴۱۳
اعانت اہلِ خیر ۹-۱۳-۵۹۴۳
زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ ۳-۱۰-۶۱۶
قرض ۰-۰-۲۱۴۱
وصولی قرض ۶-۲-۱۵۰
متفرق ۳-۱۳-۶۶۴
میزان آمد ۶-۵-۱۷۰۰۵
میزان خرچ ۰-۱۱-۱۳۹۶۳
بقایا۱؎اختتام دسمبر۴۲ئ ۶-۱۰-۳۰۴۱
۱؎ اس کے علاوہ جماعت کے بک ڈپو میں ختم سال پر تقریباً چھ ہزار روپیہ کی کتابیں موجود تھیں اور مختلف تاجرانِ کتب اور بیرونی جماعتوں اور اشخاص کے ذمہ بک ڈپو کے ۱۷۲۲ روپیہ ایک آنہ چھ پائی واجب الادا تھے۔ ۲؎ ختم سال پر حسابات کی جانچ سے ۵۷ روپیہ ۲؍ کاغذ کے حساب میں زائد نکلے اور انھیں متفرق آمدنی میں شامل کر دیا گیا۔ اس طرح طباعت ِ کتب کے واقعی مصارف ۳-۱۳-۵۳۰۸ ہیں۔۳؎ پریس کی خریداری اور حمل و نقل اور ضروریات کی فراہمی کے سلسلہ میں جو رقمیں علی الحساب دی گئی تھیں ان میں سے ۴۵۰ روپے بعد میں واپس ہوگئے اور متفرق آمدنی میں شامل کر دیے گئے۔ اس طرح پریس کے حقیقی مصارف ۳-۱-۲۶۸۷ ہیں۔ ۴؎ نقد ادائیگی کے علاوہ ایک صاحب کے قرض میں ۱۲روپے بصورتِ کتب بھی ادا کیے گئے ہیں۔ اس طرح جماعت کے ذمہ واقعی قرض ۶۸۶ روپے ہیں۔ ۵؎ سال کے اواخر میں مولانا ابوالحسن علی صاحب کے زیرنگرانی جماعت کے لٹریچر کو عربی زبان میں منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ترجمے سب بلامعاوضہ کیے جا رہے ہیں۔ یہ رقم صرف تبییض اور ممالکِ عربیہ کے اخبارات و رسائل سے مراسلت پر صرف ہوئی ہے۔ (ترجمان القرآن‘ جلد ۲۲‘ عدد۱-۲‘ محرم و صفر ۱۳۶۲ھ‘ فروری ۱۹۴۳ئ‘ ص ۸)