مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۰۲

انسان نے سمندروں اور آسمانوں کو مسخرکر ڈالا ہے اور فطرت کی طاقتوں کو اپنی خدمت میں لگا لیا ہے۔ اس نے اپنے معاملات کے لیے وسیع اور پیچیدہ ادارے اور تنظیمیں قائم کر لی ہیں۔ بہ ظاہر وہ مادّی ترقی کے اوجِ کمال پر جا پہنچا ہے۔

انسان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے کائنات میں اپنی حیثیت پر خوب اچھی طرح غور کر لیا ہے۔ اس نے اپنے حواس اور تجربات سے حاصل کیے ہوئے علم اور عقل کی روشنی میں حقیقت کی تعبیر کرنا شروع کر دی ہے۔ اپنی قوت استدلال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی قوتوں میں نودریافت شدہ اعتماد نے اس کا رشتہ روایت سے‘ وحی کی صداقت سے‘ تجربے سے بالاتر معاملات سے غرض یہ کہ اپنے بارے میں ہدایت کی کسی بھی صورت سے توڑ دیا ہے۔

وہ اس اعلیٰ مقام سے دُنیا کو اپنے نظریات‘ اپنے رجحانات اور پسند کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ’’عالم نو‘‘ جو اس نے پیدا کر لیا ہے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ایک انتہائی خطرناک فریب خوردگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ٹکنالوجی کی بے مثال ترقی اور مجموعی مادّی ترقی کے باوجود انسان کی حالت انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ طاقت ور کمزور کو دبا رہا ہے۔ امیر غریب پر مسلط ہے اور دولت کی ریل پیل کے باوجود غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ستم یہ ہے کہ غریب ممالک غریب تر ہو رہے ہیں اور امیر ملکوں میں بھی غریبوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً بے زر‘ زردار کے خلاف صف آرا ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ناانصافی اور استحصال کا بازار گرم پاتا ہے۔ وہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ‘ افراد کی معاشرے سے اجنبیت اور اس کے اداروں سے دُوری سے دوچار ہے۔ یہاں تک کہ انسان آج خود کو خود سے دُور دیکھ رہا ہے۔ وہ تمام انسانی دائروں اور سرگرمیوں میں اعتماد اور اختیار کے غلط استعمال کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اگرچہ اس نے ہوا میں اُڑنے اور سمندرمیں مچھلیوں کی طرح تیرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ تو کر دیا ہے‘ تاہم وہ زمین پر ایک اچھے انسان کی طرح رہنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی یہ ناکامی اس امر کو مشکوک بنادیتی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کو واضح رہنما خطوط کے بغیر چلا سکتا ہے۔

انسان اپنے آپ کو دونوں طرح سے مشکل میں پاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ تہذیب و تمدّن کی معراج کو پہنچ چکا ہے لیکن بامِ عروج پر پہنچتے ہی وہ اپنے آپ کو ایک نئے اور بڑے خلا میں موجود پاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی تراشیدہ تہذیب کو اپنی ہی دریافت شدہ قوتوں سے خطرے میں پاتا ہے۔ وہ پریشان ہو کرایسے آسروں اور سہاروں کی تلاش میں لگ جاتا ہے جو اس کی زندگی کو تباہی سے بچا سکیں‘ اور وہ اپنے محبوب خوابوں کی تعبیرسے محروم نہ ہو۔ اسے احساس ہے کہ اس کا تصور جہاں ان واضح معیارات سے خالی ہے جو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں اس کے ممد ومعاون ثابت ہوں۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کا علم اورمہارت‘ اس کو وہ عالم گیر معیار یا میزان عطا کرنے میں ناکام ہیں جو اسے اچھے اور برے کا فرق بتا سکیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ تبدیلی اور تبدیلی کی رفتارنے اس کے قدم اُکھاڑ دیے ہیں۔ اس کو اضافیت اور ثبات نے محرومی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ اب انفرادی یا اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد کے طور پر کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جو ٹھوس اور دائمی ہو۔ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ‘ انسان جس سمت کی طرف بہے جا رہا ہے ‘ وہ خود اس کے بارے میں مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ اسی مخمصے سے نجات حاصل کرنے میں ناکامی بلکہ احساسِ نااہلیت اسے مایوسی اور افسردگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انسان روز بروز خود غرض اور اپنے اہل و عیال اور انسانیت کی اجتماعی ضروریات سے لاپروا ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کو ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے: وہ اپنے کو حیوان کے علاوہ کچھ اورنہ سمجھے۔ اورافسردگی کے عالم میں اپنے کو ایک ’بے لباس بندر‘ قرار دے ‘یا پھر وہ سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان اور معاشرے کے لیے ایک نئے نمونے یا تصور (paradigm)کی تلاش میں لگ جائے۔

تہذیب کا بحران

اکیسویں صدی کے اس پہلے عشرے میں انسان اسی تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہے۔ بیسویں صدی کے بڑے بڑے فلسفی تاریخ دانوں: اوسوالڈ سپنگلر مغرب کا زوال‘ آرنلڈ ٹائن بی تاریخ کا مطالعہ اور پٹرم سوروکن معاشرتی و ثقافتی علومِ حرکیات اور ہمارے عہد کے بحران کا خیال ہے کہ مغرب کی غالب لادینی تہذیب ‘ انسان دوستی کے خوش نما سُر اور تال کے باوجود اورمادّی خوش حالی یا فوجی طاقت کی بے کراں وسعتوں کے باوجود ایک کرب ناک بحران میں مبتلا ہے۔ وہ طاقتیں جنھوں نے اس تہذیب کے عروج اور غلبے کے لیے راہ ہموارکی تھی‘ اپنی توانائی کھو چکی ہیں۔ اب انتشار اور تنزل کی طاقتیں قوت و استحکام کی طاقتوں پر حاوی ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ لنگرگاہیں جو جہازوں کو تحفظ فراہم کرتی تھیں اب بے وزن ہو رہی ہیں۔ وہ اقدار جو لوگوں کو جوڑتی تھیں اب ابتری کی حالت میں ہیں۔ یہ روگ ایک یا چند علاقوں تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ زندگی کا سارا دریا اسی آلودگی کا شکار ہو گیا ہے۔

جدید تاریخ کے ایک باشعور تجزیہ نگار جوزف اے کمیلیری (Joseph A. Camilleri)نے ہمارے وقتوں کے اس بحران کا منظرنامہ نہایت خوبی سے یوں بیان کیا ہے:

موجودہ انسانی بحران اتنا شدید اور ہمہ گیر ہے کہ اس کے تجزیے کی کوشش بھی ایک مشکل عمل ہے    چہ جائے کہ اس کا حل جو بظاہر ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس بحران کے سامنے انسانی عقل و فہم اور فکر کی قوتیں شکست کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان دنوں وہ لاکھوں انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ جن کی غیر محفوظ ہستی غربت‘ پس ماندگی اور بھوک جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ انسانی زندگی کی یہ ناخوش گوار صورت حال ان اقوام کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے جو بیرونی حملے یا اندرونی انتشار کے خطرے کی زد میں ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کا وسیع دائرہ ‘دہشت اور خوف کے خطرناک اور غیرمستحکم ’’توازن ‘‘ پر انتہائی نزاکت کے ساتھ استوار ہے ۔

وقت‘ خلا اورحرکت کے روایتی تصورات کو ٹکنالوجی کے انقلاب اور طاقت پسند استحصالی ثقافت نے اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرتی فساد‘ نفسیاتی عدم تسلسل اور اخلاقی خلا پیدا ہوا ہے‘ جس نے ضمیر کا ایک شدید بحران ہی نہیں پیدا کیا بلکہ حقیقت سے بڑے پیمانے پر فرار اختیار کرنے کی راہ بھی سجھائی ہے۔

جو بحران اکیسویں صدی کے انسان کے سامنے ہے وہ واقعی عالم گیر حیثیت کا حامل ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ لاتعداد مردوں اور عورتوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ دُور رس معنی میں یہ تمام انسانی تعلقات اور اداروں کے تانے بانے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس نے انسان کے فطرت کے ساتھ رشتے کو مسخ کردیا ہے۔ کوئی انسانی معاشرہ‘ کوئی فرد‘ کرئہ ارض کا کوئی گوشہ خواہ وہ کتنا ہی دُور افتادہ یا الگ تھلگ ہو‘ کتنا ہی طاقت ور یا خوش بخت ہو‘ اس بدنظمی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔جو سارے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس عالم گیر بحران کو بنیادی عدمِ توازن کا نام دے سکتے ہیں‘ جو انسان کی اس کے ماحول کے ساتھ حیاتیاتی و ثقافتی مطابقت اور ربط کی صلاحیت کو محدود کر کے اسے تباہ کر دیتا ہے۔

جدید صنعتی معاشرے میں یہ مریضانہ رویے عام ہیں: کچھ ہونے یا کچھ بن جانے کے بجائے سب کچھ رکھنے اور حاصل کرنے کا رویہ‘ طاقت کا جنون‘ دوسروں کو آزاد کرنے کے بجائے ان پر غلبہ حاصل کرنے کا جنون ‘شراکت کی ایک وسیع تر معاشرتی حقیقت میں شرکت کے بجائے احساس اجنبیت کی طرف لپکنے کا رجحان‘ فراغت کو تخلیقی اور منفعت بخش مصروفیات میں صرف کرنے کے بجائے محض وقت گزارنے اور اسے ضائع کرنے کا رجحان‘ اندرون کی طرف توجہ کے بجائے بیرون میں مداخلت کا نفسیاتی مزاج جو جنس‘ نسل‘ مذہب یا قومیت کی بنیاد پر تفریق کو بڑھائے‘ تنازعات کو طاقت کے استعمال یا دھونس سے حل کرنے کا رجحان۔ ان سماجی امراض کو جدید صنعتی معاشرے میں دولت‘ طاقت اور علم کی تہ در تہ شکلوں میں اداراتی شکل دی گئی ہے۔ انسانی ضروریات پورا کرنے کو فوقیت دینے کے بجائے صنعتی پیداوار کی اجارہ داری قائم رکھنے سے مریضانہ رویوں کی اداراتی شکل اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب نہ صرف انسانی زندگی کا اعلیٰ معیار محفوظ نہیں‘ بلکہ اس کی بقا خطرے میں ہے--- اگر آج انسانی تہذیب کی زوال پذیر حالت کی صحیح تشخیص یہ ہے توپھر کوئی جستہ جستہ‘ یا عارضی یا محدود طریقہ علاج اسے دُور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نوعِ انسانی کے نامیاتی (organic) ارتقا کو قائم رکھنے کے لیے ایسی فضا فراہم کرنا اور ایسے جوابات تلاش کرنا ہوں گے جو اپنی اصل میں انقلابی اور عالمی ہوں۔

کونسل آف کلب روم کی تازہ ترین رپورٹ پہلا عالم گیر انقلاب (۱۹۹۱ء) جو اس سے پہلے والی رپورٹ ترقی کی حدود (۱۹۷۲ء) کے بعد منظرعام پر آئی ہے نہ صرف اس بحران کا تازہ ترین اشاریہ ہے‘ بلکہ ایک کھلی اپیل بھی ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ‘ انسانی فطرت کی بنیادی مبادیات کی طرف لوٹ کر تلاش کیا جائے۔

رپورٹ کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے: نئی صدی کے آغاز پر بنی نوع انسان بے یقینی کی گرفت میں محسوس ہوتی ہے‘ بلکہ ہزاریے کا اختتام اپنی وسیع تر سرعت پذیر تبدیلی کے ساتھ بے یقینی کی زیادہ گہری کیفیت لا رہا ہے۔

یہ رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ باوجود بے مثال معاشی ترقی کے تقریباً ایک اعشاریہ تین ارب لوگ جوعالمی آبادی کے ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیںشدید بیماری یا بھوک کا شکار ہیں۔ یہ رپورٹ معاشی ناہمواریوں‘ کھلی عدم مساوات‘  حددرجہ عام اور شدید غربت بہ مقابلہ دولت کی فراوانی‘ ہر قسم کے ذہنی و نفسیاتی دبائو اور چپقلشوںکو جو مختلف جغرافیائی علاقوں میں سر اٹھا رہی ہیں‘ غیر متنازعہ حقائق کے طور پر ریکارڈ پر لاتی ہے۔ یہ رپورٹ آج کی صورت حال کو اس حقیقت کی بڑھتی ہوئی آگہی کے طور پر پیش کرتی ہے کہ ’’نسل انسانی جس طرح مادی فوائد کے لیے فطرت کا استحصال کر رہی ہے‘ اس سے دراصل وہ اس سیارے کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے‘‘۔ انسانی بے اطمینانی کے حوالے سے رپورٹ بتاتی ہے:

’’پہلے عالم گیر انقلاب کی غیر معمولی تبدیلیوں کی پیدا کردہ صدماتی لہروں کی زد سے کوئی علاقہ یا معاشرہ نہیں بچ سکا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ نے ماضی سے ورثے میں ملے ہوئے سماجی تعلقات‘ عقائد اور انسانی رشتوں کو توڑ دیا ہے اور مستقبل کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بھی نہیں دیا۔ شکوک اور مایوسی کی بہت سی وجوہ ہیں: اقدار اور حوالوں کا غائب ہو جانا۔ دنیا کی روز افزوں پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال‘ نئے عالم گیر معاشرے کے استدراک میں حائل مشکلات‘ نئے غیر حل شدہ مسائل مثلاً ماحولیاتی ابتری کا سلسلہ اور جنوبی ممالک کی انتہائی غربت اور پس ماندگی‘ نیزذرائع ابلاغ کے اثرات جو کسی سنگین حقیقت اور کسی ناگہانی مصیبت کے المیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

اس چیلنج کی ماہیت اور وسعت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے:

اس سے پیش تر تاریخ میں انسان کبھی بھی اتنے خدشات و خطرات سے دوچار نہیں ہوا۔ اس کو بغیر کسی تیاری کے ایک پتھر یا گولے کی طرح دنیا میں پھینک دیا گیا ہے جہاں وقت اور فاصلے کا احساس ختم ہو چکا ہے۔ انسان کو ایک سمندری طوفان کے اندرکھینچ لیا گیا ہے جہاں اسباب و نتائج ایک ایسا جالا بنتے ہیں جس سے باہر نکلنا محال ہے۔ صدی کے اس آنے والے موڑ پر ہر جہت سے آنے والی مظاہر قدرت کی فراوانی نوع انسان پر چھا گئی ہے۔ حقیقت ان الفاظ سے زیادہ ہے کیونکہ روایتی ڈھانچے اور ادارے مسائل کی موجودہ پیچ درپیچ تہوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ مزید خرابی یہ ہے کہ دقیانوسی اور غیر موزوں ڈھانچے حقیقی اخلاقی بحران میں رائج کیے جا رہے ہیں۔ آج معاشرے کو جس خلا کا سامنا ہے اس کی تصدیق نظامِ اقدار کی ٹوٹ پھوٹ‘ روایات پر شکوک و شبہات‘ نظریات کے انہدام‘ عالم گیر وژن کے فقدان اور جمہوریت کے رائج طریقوں کی محدودیت وغیرہ سے ہوتی ہے۔ افراد خود کو بے یارومددگار پاتے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف ان خطرات کا سامنا ہے اور دوسری طرف پیچیدہ مسائل کا بروقت جواب دینے اور برائی کی شاخوں کی جڑ پر وَار کرنے کی اہلیت وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔

بڑی دل چسپ اور معلومات افزا بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ ان مسائل کے حوالے سے بنی نوع انسان کو دعوت دیتی ہے کہ وہ قرآن پاک کی سورۃ العصر پر غور کرے:

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o  (العصر ۱۰۳:۱-۳)

زمانے کی قسم! انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے ‘جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

اسلامی متبادل

تہذیب کے بحران کا معروضی تجزیہ یہ ضرور بتائے گا کہ نوعِ انسانی ایک نازک مقام پر کھڑی ہے۔ موجودہ صورت کے جاری رہنے میں تباہی لازمی ہے۔ اس کی بقا کا انحصار اس پر ہے کہ نوع انسانی کی اخلاقی بنیادوں کی بازیافت سے نیا آغاز کیا جائے‘ اور انسانوں اور معاشرے کے ایسے تصور کو تسلیم کیا جائے جو دنیا‘ نوعِ انسانی اور اس کی تقدیر کا ادراک اخلاقی بنیادوں پر کرے۔

اس مقام پر انسانوں کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کی دی ہوئی ہدایت سے رشتہ استوار کریں۔ یہ انھیں ان کے خالق سے آگاہ کرتا ہے‘ اور انھیں ان کی تخلیق کا مقصد بتاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان کو اس کے مقام سے آگاہ کرتا ہے اور ایک بھرپور اور ثمرآور زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ان کو آخرت کے بارے میں بتاتا ہے۔ ان کو دوسرے انسانوں کی قدر و قیمت سے آگاہ کرتا ہے اور ہر چیز کو حق اور انصاف کے تابع کر دیتا ہے۔ یہ ان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اپنے ساتھ‘ تمام مخلوق کے ساتھ اور اپنے خالق کے ساتھ سکون سے رہیں۔

اس حقیقی چیلنج کے پیش نظر جو آج بنی نوع انسان کو درپیش ہے یہ کہنا چاہیے کہ اصل مسئلہ محض کسی نئے اقتصادی نظام یا نئی عالم گیر سیاسی تنظیم کا نہیں ہے‘ بلکہ اس نئے عالمی نظام کا ہے جو انسان کے نئے تصور اور معاشرے اور انسان کی تقدیر کے متعلق ایک مختلف وژن پر مبنی ہو۔ اصلاح کے لیے جو کوشش عالمی مذاہب کے زیراثر عموماً‘ اور اسلام کے زیراثر خصوصاً کی جائے‘ اس کا آغاز یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ سمجھنے اور اس کے حل تک پہنچنے کے لیے اس تصور کو درست کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

اصل ضرورت یہ نہیں ہے کہ بڑی ساختوں (superstructures) میں بعض تبدیلیاں لانے کے بارے میں کچھ رعایتیں تلاش کی جائیں بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ان بنیادوں کو پرکھا جائے جن پر سارا معاشرتی ڈھانچہ اور معیشت کی عمارت تعمیر کی گئی ہے ۔ ان مقاصد کا جائزہ لیا جائے جو ثقافت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی تعلقات میں پایا جانے والا بحران‘ ان تصورات اور ان اداروں کا جو ان کے حصول کے لیے بنے‘ قدرتی نتیجہ ہے۔ اس لیے اسلام کا پیغام یہ ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے افراد اور معاشرے کا درست وژن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے حالات درست ہو سکتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی لائیں۔

تبدیلی کا طریقۂ کار اور حکمت عملی جیسی کہ یہ معاصر مغرب میں نشوونما پا رہی ہے اور روبہ عمل ہے ‘ اس سے یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ انسانوں میں انقلابی تبدیلی صرف اس صورت میں لائی جا سکتی ہے‘ جب ماحول اور اداروں کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی طور پرازسرنو تعمیر پر زور دیا جاتا ہے۔ اس طریقے کی ناکامی کی وجہ :انسانوں کو ‘ ان کے عقائد‘ ان کے محرکات‘ ان کی اقدار اور ان کی ذمہ داریوں کو مرکز توجہ نہ بنانا ہے۔ اس طریقے نے انسان کے دل و دماغ میں تبدیلی کو نظراندازکیا ہے اور اصل توجہ باہر کی دنیا میں تبدیلی پر مرکوز کی ہے۔ جو شے ضروری ہے وہ انسانوں کے اپنے اندر اور ان کی معاشرتی و معاشی کیفیت میں مکمل تبدیلی ہے۔ مسئلہ محض بناوٹ یا ساخت کا نہیں ہے لیکن ساختی انتظامات کو بھی نئی شکل دینا ہوگی۔ نقطہء آغاز انسانوں کے دل اور روح اور حقیقت (reality)کے تصور اور زندگی میں ان کے مقام اور مقصود زندگی کو ہونا چاہیے۔

معاشرتی تبدیلی کے اسلامی نقطۂ نظر میں ان تمام عناصر کو ملحوظ رکھا گیا ہے:

۱- معاشرتی تبدیلی مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تاریخی قوتوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ اگرچہ بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا وجود زندگی اور تاریخ کی ایک حقیقت ہے‘ مگر تاریخ میں کوئی جبر نہیں ہے۔ تبدیلی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور پھر اسے بروے کار لایا جاتا ہے ۔ یہ تبدیلی بامقصد ہونی چاہیے‘ اور منزلِ مقصود کی جانب رواں رکھنے والی ہونی چاہیے۔

۲- انسان ہی تبدیلی کا سرگرم اور اصل عامل ہے۔ زمین پر اللہ کے نائب یعنی  خلیفہ فی الارض (viceregent) کی حیثیت سے تمام دوسری قوتیں ان کے تابع کر دی گئی ہیں۔ اس کائنات کے الوہی انتظام کے اندر اور اس کے قوانین کے تحت اپنی قسمت بنانے یا بگاڑنے کے ذمہ دار خود انسان ہی ہیں۔

۳- ضرورت ہے کہ تبدیلی صرف ماحول اور بیرونی نظام کی نہ ہو بلکہ مرد و زن تمام انسانوں‘ سب کے دل اور روح کے اندر بھی تبدیلی لائی جائے۔ یعنی ان کے رویوں میں‘ ان کے محرکات میں‘ ان کی وابستگیوں میں اور ان کے ارادوں میں کہ وہ اپنے اندر کو اور اپنے آس پاس سب کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے متحرک کر دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی تبدیلی وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد ایمان اور اعتقاد پر ہو۔

۴-  زندگی باہمی تعلقات کا ایک تانا بانا ہے۔ تبدیلی کا مطلب ہے کہ بعض تعلقات بعض جگہوں پر منقطع ہوں۔ اس میں یہ خطرہ ہے کہ تبدیلی معاشرے میں افراد کے درمیان عدمِ توازن کا ایک آلۂ کار بن جائے۔ ایک حالت توازن سے بہتر ارتقائی حالت کی طرف‘ یا ایک عدم حالت توازن سے حالت توازن کی طرف لے جانے والی منظم اور مربوط‘ اسلامی معاشرتی تبدیلی کم سے کم انتشار اور عدمِ توازن کی کیفیت پیدا کرے گی۔لہٰذا ‘تبدیلی کو متوازن‘ بتدریج اور ارتقائی ہونا چاہیے۔ اختراع (innovation)کو انجذاب (assimilation)کے ساتھ ملانا ہے۔ یہ منفرد اسلامی طرز ہی ہے جو ارتقائی مدار پر انقلابی تبدیلیوں کی طرف لے جاتا ہے۔

اگر یہ بنیادی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں تو یہ نئے عالمی نظام کے مسائل سے نبٹنے کی ہماری حکمت عملی کو تبدیل کر دیں گی۔

اسلام اللہ کی آخری اور مکمل ترین ہدایت کا حامل ہے۔ یہ مجموعہ قوانین‘ زندگی کا عملی نمونہ ہے جو اللہ پاک نے ‘ جو خالق و مالک کائنات ہے‘ نسل انسانی کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کیا ہے۔ اسلام انسانوں کا اللہ سے اور اس کی تخلیقات سے ایسا تعلق قائم کرتا ہے کہ وہ تمام موجودات سے تعاون کرتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ اس جہت (dimension)سے غفلت نے انسانی زندگی کو درماندہ کر دیا ہے اور نوع انسانی کی مادی فتوحات اورکامیابیوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔ لادینیت کی گرفت نے انسانی زندگی کو اس کی روحانی اہمیت سے محروم کر دیا ہے‘ تاہم روحانی عظمت‘ پینڈولم کو دوسری انتہا کی طرف جھولا دینے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مادیت اور روحانیت کی یک جائی ہی سے مطابقت اور توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ زندگی نام ہی جسم اور روح میں یک جائی کا ہے اور موت اس رشتے کے ٹوٹ جانے کا نام ہے۔ یہی معاملہ تہذیب کی زندگی اور بالیدگی کا ہے۔ نہ محض روحانیت پر مبنی نظام‘ زندگی کے مسائل کا حل ہے اور نہ صرف مادی اور طبعی عوامل پر مبنی۔ دونوں کا امتزاج اور یک جائی ہی انسانی زندگی میں توازن اور ہم آہنگی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔

یہی راستہ ہے جس کی اسلام وکالت کرتا ہے۔ یہ انسانی وجود کی ساری وسعت کو روحانی اور مذہبی بناتا ہے۔ اس طرح یہ انسانی مرضی کو اللہ کی مرضی سے ہم آہنگ کرنے کی علامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اسی طریقے سے انسانی زندگی کو امن و سکون میسر آسکتا ہے۔ اللہ کے ساتھ تعلق کے رشتے کو دریافت کر کے ہی لوگ اپنی زندگی میں سکون پاتے ہیں۔ نیز فطرت کے ساتھ بھی بیرونی و اندرونی ہر طرح سے سکون اسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان اور فطرت ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ وہ ایک مشترکہ جدوجہد میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں تاکہ تخلیق آدم کے مشن کی تکمیل کریں۔ اس مربوط نقطہء نظر میں ماحول کی کارفرمائی سے غفلت کی کوئی گنجایش نہیں۔اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم آج نئے عالمی نظام کی تلاش میں زندگی کے کسی ایسے نئے ڈھب کی جستجو کریںجوانسانی مسائل کو کچھ مختلف طریقوں سے سلجھائے ۔ یہ حل جو محض محدود قومی یا علاقائی مفادات کے تناظر میںنہ ہو‘ بلکہ اس کے پیش نظر یہ بھی ہو کہ کیا درست اور کیا نادرست ہے ؟ کس احسن طریقے سے ہم انفرادی‘ قومی اور عالمی سطحوں پر ایک منصفانہ انسان دوست عالمی نظام کی نشوونما کے لیے کوشش کر سکتے ہیں؟

یہ حقیقت کہ موجودہ نظام بے انصافی اور استحصال سے عبارت ہے ‘کسی شک و شبے کے بغیر ثابت ہو چکی ہے۔ اسلام کے مطابق‘ موجودہ نظام اس لیے ناکام ہے کہ یہ انسانوں کے آپس کے اور معاشرے‘ فطرت اور دنیا سے تعلقات کے غلط تصور پر مبنی ہے۔ نئے نظام کی تلاش ہم کو اس مقام پر لاتی ہے جہاں انسانوں اور ان کے کردار کے نئے تصور کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ عالمی مذاہب کے نقطۂ نظر سے عموماً اور اسلام کے  نقطۂ نظر سے خصوصی طور پر بحث کا مرکز‘ فرد اور معاشرے کے نئے وژن کی طرف مبذول ہونا چاہیے‘ جو انسانی شعور اور اقدار کی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے ہو‘ جو نئی ثقافتی تبدیلی کی طرف لے جائے۔

اسلام معاشرتی تبدیلی کے لیے ایک تحریک ہے۔ یہ نہ صرف معاشرے کا واضح تصور دیتا ہے اور تاریخ میں مطلوبہ تبدیلی برپا کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرتا ہے‘ بلکہ معاشرتی و معاشی پالیسی کے لیے واضح رہنما خطوط بھی مہیا کرتا ہے۔ وہ ایسے کلیدی ادارے قائم کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس پالیسی کے نفاذکے ضامن ہوںاورباقاعدہ لیڈرشپ کے تحت منظم جدوجہد کریں تا کہ یہ مقاصد زمان و مکان کے اندر حاصل ہوں۔

اُمت مسلمہ مذہب کے بارے میں تحریکی سوچ رکھتی ہے۔ سوچ کا یہ آہنگ انفرادی‘ معاشرتی اور عالمی یعنی تین سطحوں پر عمل کرتا ہے۔ انفرادی سطح پر جب تک افراد اپنے کردار کے بارے میں پختہ ایمان‘ نیا شعور اور نیا تصور نہ رکھتے ہوں‘ یہ تبدیلی برپا نہیں کی جا سکتی۔ دوسری سطح معاشرے کی ہے۔ اولاً یہ قومی سطح پر ہوگی‘ بعد میں ساری دنیا کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکمت عملی یہ ہے کہ یہ فرد کے اندر نئے شعور کی تخلیق سے آغاز کرتی ہے‘ جو اس کی اقدار کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور پھر صحیح زندگی کے قیام کے لیے کوشش کرتا ہے‘ جو وقتی مصلحت پر مبنی نہ ہواور نہ ذاتی یا گروہی مفادات کو اولیت دے بلکہ وہ  اسی پر پیش قدمی کرے جوسچ اور حق ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک انفرادی مسئلے کو عالم گیر سطح پر دیکھا جائے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ایک شخص ناحق قتل کیا جاتا ہے تو یہ گویا تمام نسل انسانی کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی ایک زندگی بچا لیتا ہے تو گویا وہ ساری نسل انسانی کو بچا لیتا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اس طرح ایک انفرادی واقعے کو ایک عالمی مسئلے اور ایک اصول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک واقعہ اقدار کی قدروقیمت کی ایک پوری دنیا سامنے لے آتا ہے۔

اسلام موجودہ حالت (status quo) کا دفاع نہیں کرتا۔یہ انسانی زندگی پر‘ خود مسلمانوں کی زندگیوں پر اور مسلم معاشرے کی تنظیم پر تنقید کرتا ہے۔ موجودہ مسلم معاشرہ‘ اسلامی معیار کے حوالے سے بہت پست سطح تک گر چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کی اصلاح اور تشکیل نو کرنی ہے تاکہ وہ معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی قدریں اور ادارے قائم ہوں جو انسانی تعلقات میں انصاف کو قائم کر سکیں۔ اسلام سیاسی اقتدار کو اپنے اخلاقی تصورات کے تحت لانا چاہتا ہے۔ اسلام کے لیے برپا تحریکوں کے نتیجے میں ایسے معاشرے اور ایسی ہی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ اسی طرح مسلمان دنیا میں اپنا نظریاتی کردار ادا کر سکیں گے۔ یعنی پہلے وہ اپنے گھر کو درست کریں‘ ایک مثالی معاشرہ بنانے کے لیے اپنے وسائل کو وقف کریں‘ جہاں ان کو سیاسی قوت حاصل ہو‘ اور پھر عدل و انصاف کی خاطر اس اصول پر عمل کرتے ہوئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے قحط زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنایا تھا‘ (حالانکہ وہ سیاسی طور پر آپؐ کے ساتھ بحالت جنگ تھے) اس میں دوسروں کو شریک کریں۔

ذہنوں میں یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ اسلامی ریاست کبھی بھی انسانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں رہی۔ اس کا مقابلہ ان اداروں اور ان قیادتوں سے رہا ہے جو جنگجو سیاسی قوت کی نمایندگی کرتے تھے۔ یہ بات ایک نئے مثالی عالمی نظام کی طرف رہنمائی میں نوعِ انسانی کی مددگار اور معاون ثابت ہو سکتی ہے‘ جہاں دوست دشمن سب کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے اور جہاں دولت میں ضرورت مند کا حصہ ہو‘ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ انصاف کا تقاضا ہے۔

یہ عالمی نظام جن بنیادی اقدار پر قائم ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱- توحید (اللہ کی وحدانیت اور اقتداراعلیٰ): یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کا نظریہ کائنات اور زندگی کا نظام قائم ہے۔ یہ خدا کے انسانوں سے اور انسانوں سے انسانوں کے تعلقات کے اصول بیان کرتا ہے۔ توحید محض ایک مابعدالطبیعیاتی نظریہ نہیں ہے۔ معاشرتی حقیقت کے بارے میں انسانی فکر اس عقیدے کا جزو لاینفک ہے۔ انسانی تعلقات میں عدل کا قیام اس دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ عدل صرف اپنوں سے نہیں بلکہ دشمنوں اور محکوموں سے بھی ۔اللہ کی وحدانیت اور اس کے اقتدار اعلیٰ پر ایمان کا مطلب ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور ان کے حقوق (حقوق العباد) دراصل اللہ کے حقوق (حقوق اللہ) کی فطری توسیع ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

]ترجمہ[تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘ جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔ (سورہ الماعون ۱۰۷:۱-۷)

۲- استخلاف  (نیابت) : اسلام اس دنیا میں انسانوں کی حیثیت کا تعین بطور خلیفہ اللہ کرتا ہے‘ یعنی وہ اللہ کے ماتحت اس کے نمایندے اور زمین پر اس کی مرضی قائم کرنے کے لیے مامور ہیں۔ ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے انسانوں کے تصرف میں دے دی گئی ہے‘ تاکہ وہ اپنے اس کردار کی تکمیل کر سکیں۔ تمام طبعی و دیگر وسائل ہمارے ہاتھوں میںقدرت کی ایک امانت ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم مالک نہیں بلکہ اللہ کے نمایندے ہیں‘ اور ہمارا پہلا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آقا کی مرضی و منشا کو پورا کریں۔ کائنات کی ہرچیز کے‘ اپنی ذاتی صلاحیتوں اور تمام مقبوضات و مملوکات کے ہم امین ہیں۔ ہمیں امانت کی حدود کے اندر رہ کر تمام اقتدار و اختیار کو بروے کار لانا ہے ۔جو کچھ ہم کرتے ہیں ہم اس کے لیے جواب دہ ہیں۔ یہ اصول دنیا کے معاملات میں ہماری عملی شرکت کو شرط قرار دیتا ہے ‘تاکہ زندگی کی تکمیل کی راہ تلاش کی جائے۔ اس سے ہمیں یہ ترغیب ہوتی ہے کہ ہم تمام مخلوقات سے بحیثیت دشمن نہیں بلکہ بحیثیت ایک دوست اور شراکت دار پیش آئیں ‘جو انھی مقاصد کی تکمیل کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

انسانوں کی مساوات و اخوت کا اسلامی تصور اور امت کی نظریاتی برادری اس خلافت‘ امانت اور قیادت کے لازمی عناصر ہیں۔

۳- انسانوں کے درمیان قیامِ عدل: انسانوں کے درمیان قیامِ عدل ان بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ‘جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور اپنی رشد و ہدایت سے سرفراز کیا۔ سب انسانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جو اللہ نے دیے ہیں۔ اس طرح سب اللہ کی نعمتوں کے منصفانہ طور پر حصہ دار ہیں۔ ناداروں اور ضرورت مندوں کو امیروں کی دولت اور معاشرے پر حق حاصل ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ کوئی ہنر سیکھ لیں ‘تاکہ اپنی روزی باعزت طور پر کما سکیں۔

۴- سیاسی اور معاشی طاقت فی نفسہ برائی یا  شر نہیں: یہ خیر کے قیام کا ذریعہ اور ان حدود کی پابند ہیں جو خالق نے ان کے لیے مقرر کی ہیں۔ اس طرح یہ دین اسلام کے مشن کا حصہ ہے کہ سیاسی اور معاشی طاقت کو ہم کام میں لائیں‘ تاکہ اخلاقی مقاصد پورے ہوں۔ انھیں ظلم و استحصال کے آلۂ کار بننے سے بچانے کے لیے اس طرح استعمال میں لانا چاہیے کہ وہ عدل کے مقاصد کی خدمت کریں ‘نیکی اور اچھائی کو ترقی دیں ‘ شر اور برائی کو روکیں۔

۵-  اللّٰہ اور انسان کے درمیان فیصلہ کن امر‘ اللّٰہ کی ہدایت: انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس ہدایت کے بارے میں صحیح یا غلط رویے پر ہے۔ اللہ کی رہنمائی اس کی کتاب قرآن مجید اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ دونوں واضح طور پر ان تصورات‘ اقدار اور اصولوں کو بیان کرتے ہیں جن کی ہمیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو حق اور انصاف کی بنیادپر تعمیر کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ اس رہنمائی کے اندر ایک طے شدہ طریق کار موجود ہے ‘جو بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔ اس کی حدود کے اندر ارتقا اور نشوونما ہوتا ہے۔ صرف الہامی ضابطہ حیات سے وابستگی ہی انسان کو خود روی اور ناانصافی میں دوبارہ مبتلا ہو جانے سے باز رکھنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔

یہ ہیں وہ بنیادی اصول جن پر اسلام عالمی نظام کی تعمیرنو کرنا چاہتا ہے۔

اسلام نے صرف انفرادی اور اجتماعی زندگی اور ملکی اور عالمی نظام کے لیے بنیادی رہنمائی ہی فراہم نہیں کی ہے بلکہ نئے نظام کے قیام کے لیے ایک واضح حکمت عملی بھی دی ہے جو زمان و مکاں کی تحدیدات (limitations) سے بالا ہے۔

اس جہت میں اسلام کا پہلا احسان یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا جائزہ لینے کا طریق کار بتاتا ہے۔ اسلام حقیقت کی روحانی قدر پر مبنی کلی نقطۂ نظر اختیار کرتا ہے۔ یہ سب انسانوں کو ان کے مکمل وجود کے حوالے سے ان کے خالق اور اس کی ساری مخلوق سے تعلق کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ مادی اور روحانی‘ طبعی اور اخلاقی ثنویت کا قائل نہیں۔ یہ دین کو دنیا سے جوڑ دیتا ہے اور زندگی کو ایک مربوط ہم آہنگ اکائی بنا دیتا ہے۔ یہ جنس (gender)کے کمپلیکس سے بھی آزاد ہے اور مرد و زن کو مساویانہ طور پر اللہ کے نائب سمجھتا ہے اور ان کے لیے یہاں اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابی کے لیے ایک جیسا معیار رکھتا ہے۔

عصرحاضر کے تمام نظریات‘ اور جزوی تبدیلی پر مطمئن ہو جانے والے بعض مذہبی رویوں کے برخلاف اسلام مکمل تبدیلی کا علم بردار ہے۔ یہ فرد کی تطہیر و تزکیہ کرکے معاشرے کی تعمیرنو کرتا ہے اور اس طرح یہ فرد اور معاشرے کو مزید ارفع مقصد کے حصول کا اہل بناتا ہے ‘یعنی انسانوں کے درمیان قیام عدل کے ذریعے اللہ کی مرضی کو پورا کرنا۔

اسلام کا طریقہ اقدار پر مبنی ہے‘ نہ کہ انفرادی یا قومی مصلحتوں پر۔ پھر اس کا نقطۂ نظر مثبت اور تعمیری ہے‘ نہ کہ محض منفی یا تخریبی۔ یہ ہر انسان کی مکمل اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی بہبود چاہتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں میں عملاًانصاف کی عمل داری دیکھنے کا موقف رکھتا ہے۔ یہ عالم گیر بھلائی اور انصاف کے اصولوں کا علم بردار ہے اور انسانی برادری کو دعوت دیتا ہے کہ آئو اس کو قائم کرو۔ یہ افراد کی دیانت اور ان کے انسانی حقوق کو یقینی بناتا ہے جن کی ضمانت ان کے خالق نے انھیں دی ہے۔ اسلام اس جذبے کو اُبھارتا ہے کہ انسان ایسا معاشرتی نظام قائم کرے جس میں امن‘ عزت اور انصاف کا بول بالا ہو۔

ایسے عالمی نظام کے قیام کے لیے اسلام کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ قومیت کا لحاظ رکھے بغیر تمام انسانوں کو یہ راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ مشرق یا مغرب‘ شمال یا جنوب‘ ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ کے مفادات کی بولی نہیں بولتا۔ یہ نئے عالمی نظام کو دنیا کے تمام حصوں کے تمام انسانوں کے لیے قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس عالمی نقطۂ نظر کے ذریعے اسلام تصورات اور اصولوں کے ایک نئے شعور کو آگے لانا چاہتا ہے ‘جن پر انسانیت کی ازسرنو تعمیر کی جانی چاہیے ۔یہ نوعِ انسانی کو دعوت دیتا ہے کہ انسانی فکر اور عمل کی تعمیرنو کے لیے اس کے مضمرات پر غور کرے۔

اسلام ایک معاشرتی تحریک بھی برپا کر تا ہے۔ ایک ایسی بین الاقوامی تحریک جس میں ان تصورات اور اقدار کو تسلیم کرنے والے ایک نیا عالمی نظام قائم کریں۔ اسلام کا پرزورمطالبہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں خلوص نیت کے ساتھ یہ نمونہ قائم کر لیا جائے۔ اگر مسلم دُنیا ان اصولوں پر نئے سرے سے اپنا معاشرتی نظام تعمیر کرلے تو اس کی جیتی جاگتی مثال بن سکے گی‘ تاہم مسلمانوں کی حقیقی صورت حال اس مثالی تصور سے بہت دُور ہے۔ ایک دفعہ یہ نمونہ (ماڈل) دنیا میں کہیں بھی ‘کسی بھی مقام پر قائم ہو جائے تو ہر کوئی اس سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسے دھوپ سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے امکانات بڑی حد تک اس اسلامی تحریک پر منحصرہیں جو فقہی اور مسلکی تنگنائیوں کی دلدل میں پھنسنے کے بجائے نظامِ نو کے قیام کے لیے اس عالمی جدوجہد کی قیادت کر رہی ہے۔

اسلامی نشات ثانیہ اور نیا عالمی نظام

اسلامی احیا کی جدید تحریک اپنی آفاقیت اور گیرائی کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ مسلم معاشروں میں سیاسی نظریات نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی‘ مگر مختصر اور دکھاوے کی کامیابی کے بعد ناکام ہوئے۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی عرب قوم پرستی جس نے عرب دنیا کو سبز باغ دکھائے آخرکار ناکام ثابت ہوئی۔ شام اور عراق میں بعث پارٹی کی نام نہاد سوشلسٹ عرب قوم پرست حکومتیں بھی پورے طور پر ناکام رہی ہیں اور اگر کسی مسخ شدہ صورت میں موجود ہیں تو محض اس لیے قائم ہیں کہ وہ صرف ظلم و جبرکے سہارے قائم ہیں۔ آج ساری دنیا میں اشتراکی فریب کا پردہ چاک ہو چکا ہے‘ روس ہو یا مشرقی یورپ‘ لاطینی امریکہ ہو یا وسطی امریکہ یا افریقہ۔ دیوارِ برلن کا انہدام اور سوویت یونین کا انتشار سوشلزم کی قبر کا کتبہ بن گئے اور سوشلزم تاریخ کے پس منظر میں گم ہو گیا‘ تاہم اسلام نے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے نسلی اور ثقافتی مختلف النوع لوگوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہاں کوئی عرب اسلام نہیں‘ نہ پاکستانی اسلام‘ نہ ایرانی اسلام اور نہ ترکی اسلام۔ یہاںصرف اسلام ہے۔ اس طرح اسلامی عالمیت میں وحدت تو ہے مگر یکسانیت (uniformity)  نہیں۔ اسلام میں   یہ وسعت ہے کہ وہ ایک طرف اپنے ابدی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیتا جو یک رنگی کا ذریعہ بنتے ہیں تو دوسری طرف اس کے لیے فریم ورک میں یہ گنجایش ہے کہ مقامی اور مخصوص ضرورتوں کو اسی طرح سمولیتا ہے جس طرح ایک باغ میں پھولوں کی مختلف روشیں اور پھلوں کے درختوں کی متنوع قطاریں۔

مسلمان عموماً اور حالیہ نشات ثانیہ کے بہت سے قائد خصوصاً نسلی طور پر مختلف ہیں لیکن وہ خود احتسابی سے گریز نہیں کرتے۔ مذہبی روایت میں موجود علامات و احوال کا وہ اجتہادی بصیرت کے ساتھ پھر سے جائزہ لینے کو تیار ہیں۔ اس کا مقصود اسلام کے ابدی اصولوں کے قیام کے لیے روحانی‘ سیاسی‘ معاشرتی و اقتصادی تصورات کی تعبیر اور تعمیرنوہے۔ اسے اسلامی احیا کی روح یعنی اسلام کی اصل بنیاد تک پہنچنا قرار دیا جا سکتا ہے۔

اپنے اصل ماخذ کی طرف اس مراجعت کو مسلمان ‘طاقت کے منبع سے وابستگی کی صورت میں دیکھتے ہیں مگر اہل مغرب اور سیکولر اشرافیہ اس پر ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل چپکا دیتے ہیں۔ عقائد کا احیا اور اقامت دین وہ لازمی بنیادیں ہیں جس پر اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ اس کا کسی نوع کی بھی مبینہ بنیاد پرستی سے کوئی واسطہ نہیں جو رجعت پسندی‘ تشدد اور تاریخی رومانویت سے عبارت ہے۔

یہ تازہ سوچ‘ ایک نیا عہد‘ توانائی‘ لچک اور (سب سے بڑھ کر) ایک ایسی اہلیت عطا کرتی ہے جس سے حالیہ مشکلات کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اسلام کو تہذیب و ثقافت کے سرچشمے اور معاشرے کی تشکیل نو کے ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے ازسرنو دریافت کر رہے ہیں۔

اسلامی نشات ثانیہ کا موجودہ مرحلہ تقاضا کرتا ہے کہ مغربی نمونوں (models)کی غلامانہ نقالی سے  احتراز کیا جائے اور ایک چھان پھٹک والی بصیرت اختیار کی جائے کہ بیرونی تہذیب سے کیا لینا چاہیے اور کیا نہ لینا چاہیے۔ خذ ما صفا ودع ماکدر کی میزان پر یہ کام انجام دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے ثبات اور لچک دونوں کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی معاشرہ بہت سے طریقوں سے مغربی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجنبی ثقافتوں کے تسلط کو اپنی ثقافت کی قیمت پر جاری رکھا جائے۔

مبصرین اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں: کیا مسلم ممالک ترقی‘ ٹکنالوجی اور ایسے ہی دوسرے راستوں کو مسترد کر سکتے ہیں؟ صاف بات ہے وہ مسترد نہیں کرنا چاہتے۔ حقیقی سوال یہ ہے کہ کس قسم کی ترقی مطلوب ہے‘ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ ان کی قوموں کو جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ ماضی کے سامراجی منصوبوں کا ایک نیا ہیولا ہے۔ ماضی میں جسے ’’سفید فام نسل کی ذمہ داری‘‘ قرار دیا جا رہا تھا وہ آج  ’’نئے عالمی نظام‘‘ کے نام پر مغربی تہذیب و ثقافت کو باقی دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا پر مسلط کرنا ہے۔   یہ سامراجی کھیل معاشی‘ اجتماعی‘ اخلاقی اور نظریاتی ترقی میں اضافے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اُلٹا اسے نقصان   پہنچا دے گا۔ مسلمان‘ مسلمان ریاستوں کے باہمی تعلقات‘ وسیع تر سیاسی اور اقتصادی تعاون کے امکانات کے بارے میں پریشان ہیں۔ کیا مسلم ممالک‘ جن کو استعمار نے اپنے مفادات کے تحت نئی جغرافیائی شکل دی ہے‘ ازسرنو تشکیل پائیں گے یا اسی طرح قومی ریاستوں کی حیثیت سے ہی آگے بڑھیں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی تاریخ کے پہیے کو اُلٹا نہیں گھما سکتا۔ مسلمانوں کو اپنے آبا و اجداد کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو ترقی دینا ہوگی۔ ایک نقطۂ آغاز کے طور پر قومی ریاست کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ گو محدود قومی دائرے میں پابند رہنے کے جذبے کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ کیونکہ اسلام‘ ملّت کے تشخص کو اُبھارتا ہے‘ تاہم آج قومی ریاستوں کے جغرافیائی وجود کو سیاسی حقیقت کے طور پر اس لیے قبول کیا جائے گا کہ ان کو اگر بالجبر توڑا گیا تو اس سے سیاسی خلا پیدا ہو جائے گا جو لامحالہ فساد کا باعث ہوگا۔ اس کے لیے مسلم معاشرے یا امت میں ایک وحدت کا احساس پرورش کرنا ہوگا اور مسلم ریاستوں کے مابین زیادہ ربط و تعاون کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ اسلامی نظریے کے مطابق ہر قومی ریاست آخرکار ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ارتقا پذیر ہو جائے گی اور اس طرح مسلم علاقوں پر مشتمل اسلامی دولت مشترکہ کی ہیت تعمیر ہوگی۔

شاید اس تصور کا احساس مغرب کو بھی ہو گیا ہے ‘اس لیے غلط طور پر اس سے خوف زدہ ہو کر کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ (مغرب) سوچتا یا سمجھتا ہے کہ :’’مسلمان ریاستوں میں اسلامی افکار کی اشاعت و ترویج  ’’ایک خطرہ‘‘ ہے اور ’’فساد ‘‘کا پیش خیمہ ہے جس کو روکنا ضروری ہے‘‘۔

مغرب عام طور پر اسلامی نشات ثانیہ کی ظاہری اور امکانی طاقت کا اندازہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے اسلامی تحریکات کے ارکان پر:’’بنیادپرست‘ انقلاب پسند‘ انتہا پسند‘ متعصب ‘ دہشت گرد‘ مغرب مخالف‘ عصرحاضر کے مخالف ‘‘وغیرہ کے لیبل لگا دیے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی تنگ نظراور ناشائستہ اتہام بازی اور دشنام طرازی کبھی باہمی افہام و تفہیم میں معاون نہ ہو گی۔ مغرب وہی غلطیاں کر رہا ہے جو اس کے پیش روئوں نے نوآبادیات کے دور میں کی تھیں‘ یعنی یہ کہ معاشرتی و سیاسی منظرنامے کو دوسری تہذیبوں کے معاشرتی و سیاسی تنوع سے صرفِ نظر کر کے صرف اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے بیان کرنا۔اسی طرح کا نقطۂ نظر نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ انسانیت کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ یہ رویہ مغرب کے اہل علم‘ پالیسی سازوں اور عامتہ الناس میں یکساں طور پر غلط فہمیوں کو بڑھاتا ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ اپنی تاریخ کے ایسے دَور سے گزر رہی ہے جس کو اس کے حامی ایک اضطرابی دَور مانتے ہیں‘ تاہم یہ نقائص اسلامی احیا کی شناخت نہیں بن سکتے‘ نہ ایسا ممکن ہے کہ بدعنوانی اور فحاشی کی لپیٹ میں آئے ہوئے مسلم ممالک سے کوئی ہما آسمانِ اُمید پر محوپرواز ہوجائے۔

مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودہ تکلیف دہ صورت حال صرف معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی برائیوں سے عبارت نہیں‘ بلکہ اس کا دائرہ کہیں وسیع تر ہے۔ ان کا تجزیہ گہرائی تک جاتا ہے اور اخلاقی انحطاط اور اقدار کے بگاڑ کا مسئلہ سامنے لاتا ہے۔ بعض لوگ اس آگاہی کا صاف صاف اور بعض کم واضح طریقے سے اظہار کرتے ہیں‘ تاہم افسوس کی بات ہے کہ اسلامی احیا کے مغربی تجزیے میں یہ عناصر موجود نہیں ہوتے۔ روحانیت کا پہلو اکثرنظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے نزدیک یہی اصل مسئلہ ہے۔ اس پر کلام کرنے کے بجائے اسلامی نشات ثانیہ کو سادہ لوحی کے ساتھ‘ لوگوں کی مادی ترقی میںکمی کے باعث محرومی اور نااُمیدی کے احساس اور اسلام کے ذریعے اقتصادی اور تکنیکی ترقی کی اُمیدوں سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسا یک طرفہ تجزیہ مسلم معاشرے کے مزاج سے لاعلمی اور ناواقفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح یہ بھی غلط بات ہے کہ اسلامی احیا کو ترقی سے محروم مسلمانوں کی دولت مند مغرب کے مقابلے میں ناراضی کا ردّعمل قرار دیا جائے۔ یقینا استعماریت کے ورثے کے خلاف ردّعمل ایک کردار ادا کرتا رہا ہے ‘جس کا اظہار سیاسی غم و غصے میں زیادہ رہا ہے۔ اس ہنگامے یا اضطراب کی ان سب سے بڑھ کر وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے نے مغرب سے تصورات اور اقدار درآمد کر کے انھیں عوام پر نافذ کرکے ایک عدم اطمینان کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اشرافیہ کے یہ لوگ جو اداروں اور حکومتی نظام کو چلاتے ہیں‘ غیر ملکی قوانین اور قواعد زبردستی لوگوں پر ٹھونستے ہیں۔ مزیدبرآں مسلمان کم و بیش اپنی اکثر حکومتوں سے نالاں ہیں‘ کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ اپنی تہذیب و ثقافت کو نظرانداز کر کے (مغربی لادینی اقدار اور نمونہ ہاے ترقی کو رائج کر کے) مغربی مفادات کو تحفظ دیتی ہیں۔

آج کی اسلامی تحریکات‘ قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت یا تعلیمات پر گہرے یقین اور اخلاص کا اظہار کرتی ہیں۔ اس یقین و اظہار کا منظر علاقے کے بیش تر سیاسی اداروں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اہل مغرب اپنی بوکھلاہٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے ’’اسلامی عفریت کی بیداری‘‘ کا نام دینے سے دریغ نہیں کرتے‘ جب کہ درحقیقت یہ دین اسلام کی اور اس کے وابستگان کی قسمت کی بیداری ہے۔ مسلم روحانیت اور تصور نے مسلمانوں کے اندر ایک نئی منزل کا نشان اور ذاتی قربانی سے بے نیاز ہو کر اپنی دنیا کی تعمیرنو کے لیے غیر متزلزل وفا کا احساس پیدا کر دیا ہے۔

نوآبادیاتی دور میں قیادت صرف ذاتی اغراض تک محدود تھی۔ اس ورثے نے مسلم دنیا کو پراگندہ کر دیا  تھا اور ان کے معاشرے اخلاقی اقدار سے محروم اور بدعنوانی کی آماج گاہ بن گئے تھے۔ استحصال معمول بن گیا تھا۔ مسلمانوں کی اس میں اپنی کمزوریاں بھی ہیں‘ جن کی وجہ سے ان کی تہذیب زوال پذیر ہوئی ‘لیکن ان کے درمیان آج کرپشن کا جو بازار گرم ہے یہ ایک نیاعمل ہے۔ عام طور پر مسلمان اس انحطاط کا ذمہ دار لادینی مغربیت کو قرار دیتے ہیں۔

جدیدیت کی بعض تعبیرات کی روشنی میں مسلم معاشرے کو لامذہب بنانے کی مہم کا آغاز کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ آزاد روی یا لبرل ازم کو اسلامی اقدار پر حاوی کر دیا جائے۔ یوں ایک دھماکا خیز مرکب بنایا گیا جس نے اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کر کے سماجی زندگی کو مسخ کر ڈالا اور ایک خلا پیدا ہو گیا۔ ذاتی منافع خوری‘ ترقی اور معاشرتی و معاشی استحصال نے اقتصادی و مادی ترقی کے نام پر اس خلا سے خوب فائدہ اٹھایا۔

اسلامی احیا ایسے تباہ کن رجحانات سے بغاوت کا نام ہے۔ مثال کے طور پر یہ اسلامی اخلاقی اقدار پر ازسرنو ایمان لانے اور امت کے مادی و انسانی وسائل کو معاشرتی انصاف اور خود انحصاری کے لیے بروے کار لانے کا خواہاں ہے۔ احیاے اسلامی ‘مسلمانوں کی ایک مثبت نظریاتی تحریک ہے‘ جو مسلم دنیا کے معاشرتی و معاشی نظام کی اسلامی اقدار پر ازسرنو تعمیر کی علم بردار ہے۔ اس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں۔ اس کو لامحالہ بین الاقوامی برادری سے واسطہ پڑے گا جن میں سے بعض سے اس کے اختلافات بھی ہوں گے۔

مغربی تہذیب پر مسلم تنقید سیاسی مخالفت کا اظہار نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دو تہذیبوں کے مابین ایک فکری اور عملی مقابلہ ہے ۔جن میں سے ایک اسلامی اقدار پر مبنی ہے اور دوسری مادّیت‘ قومیت اور آزاد روی پر قائم ہے۔ اب انسانی معاشروں کے سامنے انتخاب کی راہ واضح ہو گئی ہے: الہامی اصول یا لادین مادّی ثقافت۔ یہاں زور انتخاب پر ہے۔ لادینیت‘ خواہ سرمایہ دارانہ ہو یا سوشلسٹ اور قوم پرستانہ‘ کسی بھی نظریے پر اجارہ داری نہیں رکھتی۔ اسلامی احیا مادّیت کے دنیاوی شکنجوں سے رہائی کی راہ دکھاتاہے۔ یہ انسانیت کے انتخاب کو وسعت عطا کرتا ہے لہٰذا ‘اس کو ایک موقع اور ایک برکت کے طور پر دیکھنا چاہیے ‘ نہ کہ ایک دھمکی یا خطرے کے طور پر۔ (ترجمہ: قاضی محمد اقبال‘ اور مسلم سجاد)

اس ماہ کے اشارات مدیر ترجمان القرآن کی ایک تقریر کے ترجمے اور تلخیص پر مشتمل ہیں جو لسبن (Lisbon) پرتگال میں ایک عالمی کانفرنس میں کی گئی اور جس کا انگریزی متن امریکہ سے شائع ہونے والی کتاب World Faiths and the New World Order میں شائع ہوا ہے۔

 

اخذ و ترجمہ: عبدالرحمن الکاف

الشیخ محمد محمود الصواف جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل ایک معروف عالم دین تھے۔ عراق میں اخوان المسلمون کے مراقب عام رہے۔ اپنے علمی مقام و مرتبے کی بنا پر انھوں نے عراقی ریڈیو پر روزانہ درس قرآن علٰی مائدۃ القرآن (قرآنی دسترخوان پر) کے ذریعے بھی خدمات انجام دیں۔ وزیراعظم نوری السعید کے دور میں اخوان پر ظلم و ستم توڑا گیا۔ شیخ الصواف نے بھی قیدوبند کی صعوبت برداشت کی۔ بعد میں مخدوش حالات کے پیش نظرعراق سے سعودی عرب منتقل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے وزارت تعلیم میں نمایاں خدمات انجام دیں اور ریڈیو پر دروس من کتاب اللّٰہ کے عنوان سے تقاریر کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ سعودی عرب میں علمی اعتبار سے شیخ موصوف کی پذیرائی ہوئی۔ انھوں نے عراقی اور سعودی ریڈیو کی تقریروں سے یہ کتاب ترتیب دی‘ جس کا نام انھوں نے فاتحۃ القرآن  وجزعم الخاتم للقرآن (تفسیر و بیان) رکھا ہے۔ اس تفسیر کو بہت سراہا گیا۔

قرآن کریم ایک ناقابل تقسیم وحدت

شیخ محمد الصواف کے ہاں قرآن کریم (از اول تا آخر) ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ اس حقیقت کو انھوں نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں اس طرح واضح کیا ہے:

فاتحۃ القرآن ___ سورئہ فاتحہ ___ اور خاتمۃ القرآن ___ سورۃ الناس ___میں ایک گہرا ربط‘   ہم آہنگی اور معنوں میں یک جہتی پائی جاتی ہے۔ ایک مسلمان قرآنی گلستان اور اس کے وسیع سمندر میں   اللہ رب العالمین ‘ رحمن و رحیم کے شکروثنا کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ اس سے اس کی ہدایت‘ حمایت‘ سرپرستی طلب کرتے ہوئے اس کا یہ سفر قرآن کریم کے موتیوں کی تلاش میں غوطہ زن ہونے سے شروع ہوتا ہے جس میں وہ ہر سو قرآنی انوار میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنا سفر ختم کر لیتا اور اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے تو وہ  رب الناس (بندوں کے رب) کی پناہ طلب کرتا ہے۔ قرآن کے خاتمے میں جو رب الناس ہے وہی   آغاز میں رب العالمین ہے‘ تو دیکھوکتنا گہرا ربط ہے ان دونوں سورتوں میں ___ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الناس میں۔ آخری سورہ میں جو ملک الناس (لوگوں کا مالک اور بادشاہ) ہے وہی سورۃ الفاتحہ میں مالک یوم الدین ہے۔ اس طرح مالک اور رب بھی ایک ‘ الٰہ اور معبود بھی ایک‘ جس سے مدد طلب کی جائے وہ بھی ایک اور دیّان (چھا جانے والا/ دبوچنے والا/ چت کرنے والا) بھی ایک ہی ہوا۔ وہی رحمن اور رحیم اور وہی الہادی العظیم ہے۔ اسی نے وہ قرآن نازل فرمایا ہے جس کے پہلے اور آخری حصے میں ایک ایسی چیز پائی جاتی ہے جو اس کے ہر لفظ کو اس سے پہلے آنے والے لفظ سے اس طرح جوڑتی ہے جیسے روح ‘ جسد سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسا مرتب اور مرصّع ہار ہے جس کا ہر کلمہ اپنے سے پہلے اور بعد کے کلمے سے اس طرح مربوط ہے جس طرح ہاتھ مٹھی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔

اس آخری سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس (کہو کہ میں لوگوں کے رب کی پناہ طلب کرتا ہوں) فرماکر صرف اپنے آپ سے مدد طلب کرنے اور پناہ طلب کرنے کا حکم دیا ہے‘ جب کہ سورہ فاتحہ میں طلب ِامداد کو صرف اپنی ذاتِ شریفہ و مبارکہ کے لیے مخصوص کرنے کا حکم یہ کہہ کر دیا تھا:  اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘ اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)۔

یہ ایک دوسرا انداز ہے یہ کہنے کا کہ مصحف شریف میں جو کچھ بھی ہے وہ ایک ہی شے ہے جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ وہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ ابتداے کتاب سے انتہاے کتاب تک‘ اس دین میں‘ اس عظیم اسلام میں اور اس کی کتابِ عظیم میں‘ سارے ہی معاملات کی باگ ڈور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ صرف اس کی طرف متوجہ ہو کر اور اس کی ربوبیت و الوہیت کا اس کے اسماے مبارکہ اور صفاتِ عالیہ کے ساتھ اقرار کر کے اور قول و عمل کو صرف اس کے لیے خالص کر کے‘ اس کی پناہ طلب کر کے اور مدد مانگ کر اور اس پر بھروسا کر کے اور اس کی چادر کو تھام کر اور اس میں پناہ اور عافیت طلب کرتے ہوئے اور اس کے دروازے کے آگے کھڑے رہ کر کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جس کو شکست نہیں دی جا سکتی‘ کیونکہ اس کا اقتدار سب سے وسیع اور قوی ہے___ شدائد میں اسی کی پناہ طلب کی جاتی ہے۔ برے حالات میں اسی کو پکارا جاتا ہے کیونکہ وہ مدد دینے اور کمک پہنچانے والا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ایسا بادشاہ نہیں ہے جس کی آغوش میں پناہ لی جا سکے۔ جب اچانک کوئی دشمن دھاوا بول دے تو اسی کی دہائی دی جاتی ہے۔ جب کوئی دشمن گھر میں در آئے تو وہی یومِ جزا کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نہ تو مالک ہی ہے اور نہ جزا دینے والا۔ دنیا میں وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جو اپنے اقتدار میں کسی اور کی شراکت قبول نہیں کرتا ہے‘ اور آخرت میں وہ تنہا جزا و سزا کا مالک ہے۔

فاتحۃ القرآن میں ہم اللہ سے سیدھے راستے کی ہدایت طلب کرتے ہیں اور سورۃ الناس میں وسواس الخنّاس(جو جنوں اور انسانوں کے سینوں میں وسواس پیدا کرتا ہے) سے اس کی پناہ کے طالب ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملعون وسواس (جو جنوں اور انسانوں کی طرف سے ہوتا ہے) کا مقصد تمھیں جادئہ حق سے دُورکرنا اور تمھیں گمراہیوں کے اندھیروں میں دھکیلنا ہوتا ہے۔ تم ختم قرآن پر  اللہ سے دعا کرتے ہو کہ وہ تمھیں گمراہی سے بچائے اور اس راہِ حق پر گامزن رکھے جس کی طلب تم نے  فاتحۃ الکتاب میں کی تھی۔ دیکھو اس گہرے اور قوی ربط کو جو اوّل کتاب اور آخر کتاب میں پایا جاتا ہے اور وہ اپنے اسی مدار میں گھوم رہی ہے۔ جب تم اس مبارک سفر سے (جس میں ہدایت ہی ہدایت ہے‘ نور ہی نور ہے اور دلیل ہی دلیل ہے) فارغ ہوتے ہو‘ تلاوتِ قرآن کر کے‘ تم ان شیاطین سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہو تاکہ وہ تم کو جادئہ حق سے ہٹا کر گمراہیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے نہ چھوڑ دیں اور وہ تمھیں اُس پر عمل کرنے سے منع نہ کر سکیں جو تم نے قرآن پڑھ کر سیکھا اور حاصل کیا ہے۔ اگر انھوں نے تمھارے سامنے گناہ کو حسین بنا کر پیش کیا اور تمھیں ورغلایا تاکہ وہ تمھیں تمھارے ربّ کی کتاب سے دُور کریں اور اس سے ملاقات میں حائل ہوں اور اس سے سرگوشی میں تم وحشت محسوس کرو تو تمھیں چاہیے کہ قرآن کی تلاوت کرو۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’جو شخص یہ چاہے کہ اپنے رب سے بات چیت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ قرآن کی تلاوت کرے‘‘۔

انھوں نے اگر تم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تو تم ان پر غالب رہو گے کیونکہ تم نے اللہ کی پناہ طلب کی تھی۔ اس لیے تم اپنے رب الرحمن الرحیم کی طرف لوٹو‘ جو رب العالمین ہے۔ پھرایک اور بار اس سفر تلاوتِ قرآن پر چل پڑو اور پھر وہاں سے شروع کرو جہاں تک تم پہنچے تھے۔ اسی طرح اس راہِ الٰہی اور طریق ربانی پر اُن مسافروں کی طرح چلتے رہو جو ایک سفر سے فارغ بھی نہیں ہوتے ہیں کہ دوسرے سفر پر چل پڑتے ہیں۔ تم بھی کتاب اللہ کے سفر پر‘ اللہ کے نور کی روشنی میں‘ چلتے ہی رہو‘ بغیر اُکتائے ہوئے اور بغیر تھکے ہوئے‘ ایک ختم قرآن سے دوسرے ختم قرآن کی طرف‘ اور جب جب ختم کرو پھر شروع کرو اور سفر کو جاری رکھو اور اپنے ربّ کے فضل اور اس کی توفیق و ہدایت سے آگے ہی آگے بڑھتے رہو۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین عمل منزل پر پہنچ کر پھر سفر پر چل پڑنا ہے‘‘، یعنی قرآن کو شروع کر کے آخر تک پڑھنا اور پھر شروع کر دینا۔

قرآن کریم کے نظم اور اس کے اوّل سے آخر تک ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ہونے کے سلسلے میں اتنی شان دار بحث میں نے آج تک کہیں نہیں پڑھی ہے۔

تفسیر سورۂ فا تحہ

’’المعنٰی العام‘‘ (عام معنیٰ) کے تحت لکھتے ہیں:

سورہ فاتحہ اپنے پہلو میں سارے ہی اہم قرآنی موضوعات و مطالب کو لیے ہوئے ہے۔ وہ قرآن کے اہم مقاصد و اہداف پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں وہ قرآن کے اعلیٰ مقاصد پر محیط ہے۔

اس سورہ نے ہمارا تعارف رب الوجود وربِ معبود کے تین مبارک ناموں سے کرایا ہے بلکہ یہ تین نام اسماے حسنیٰ کے مرجع و مدار ہیں‘ اور وہ ہیں‘ اللہ‘ الرب‘ الرحمن۔ ان ناموں نے اللہ تعالیٰ کی حقیقی وحدانیت کو ثابت کیا ہے۔ یہی وہ ربّ ہے جس نے اس دین کو نازل فرمایا جو دین توحید ہے۔ اس سورہ نے قیامت کے دن کو ثابت کیا ہے جب بندوں کے بھلے اور برے اعمال کا بدلہ ایک ایسا خالق اور ربّ مقصود دے گا جو ان صفات میں یکتا ہے اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ اس دن فیصلے صادر کرنے میں یکا و تنہا ہوگا۔ اس کا حکم عدل پر مبنی ہوگا اور ترازو کے پلڑوں کی برابری کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ سب کچھ مالک یوم الدین کے مفہوم میں آتا ہے۔

اس کا نام الرحمن ہے۔ کیوں کہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ اس کے بندے ہدایت پائیں تاکہ وہ کمال کے اعلیٰ درجات تک پہنچ سکیں اور دنیا اور آخرت میں سعادت کی بلندیوںکو چھو سکیں۔

رحمت الٰہی کا ایک اور تقاضا یہ بھی تھا کہ پانی برسایا جائے‘ نباتات اُگائے جائیں‘ اناج پیدا کیے جائیں‘ زمین سے چشمے اُبل پڑیں‘ دریا بہیں‘درخت بارآور ہوں اور ملک آباد ہوں۔ اب رہا دلوں اور رُوحوں کی زندگی کا معاملہ اور ان کے آباد ہونے کا تقاضا تووہ اللہ کے رسولوں کے ذریعے پورا کیا گیا تاکہ وہ بندوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کر سکیں ‘ان کو گمراہی‘ ظلم‘ فساد اور مہلک اعمال سے بچا سکیں‘ ان کے دلوں کی مادیت کے طوفان کے مقابلے میں حفاظت کر سکیں اور ان کو اخلاقی بحران اور بے راہ روی سے دُور کرسکیں۔

اس سورہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ ہی کی‘کی جانی چاہیے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق ہے ہی نہیں۔ اسی طرح مدد بھی صرف اور صرف اسی سے طلب کی جانی چاہیے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) ‘اور یہ کہ ہدایت اور ضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے‘وہ جس کو چاہے ہدایت سے نوازے اور جس کو چاہے گمراہ کر دے۔ اس لیے ہدایت کی طلب بھی خاص اسی سے کی جانی چاہیے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ)۔ اسی طرح اس سورہ نے گزری ہوئی قوموں کی داستانیں بیان کی ہیں جن پر اللہ نے رحم فرمایا‘ اورہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ انبیا‘ شہدا‘ صالحین‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کی صحبت بہت ہی حسین و جمیل اور پرلطف ہے (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ)۔ اس کے مقابلے میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک گئے‘ جنھوں نے سرکشی کی روش اختیار کی اور غضب ِ الٰہی کے مستحق قرار پائے (الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)۔

اگر آپ نے اس مقدمے کو غور سے پڑھا ہے تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ دراصل کہنا چاہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ اس منارئہ نور کی طرح ہے جس کی شعاعیں ہر طرف حرکت پذیر ہو کر جہازوں کی سمندر کے اندھیروں میں رہنمائی کرتی ہیں۔ اس طرح قرآن کریم کی ہر ہر سورہ‘ ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ میں سورئہ فاتحہ کی شعاعیں دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہیں‘ مثلاً ۳۰ ویں پارے کی پہلی سورہ عَمَّ یَتسآء لون ہی کو لیجیے۔ اس کا ربط سورہ فاتحہ کے الفاظ یوم الدّین سے بآسانی پیدا کیاجا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں کفار‘ اس کے بارے میں سوال جواب کر کے ‘ اختلاف کا شکار ہو رہے ہیں۔ آگے چل کر خود اللہ تعالیٰ نے قیامت کے واجب الوقوع ہونے کے بارے میں سوال کر کے مثبت جوابوں کی راہ ہموار کی ہے اور اس دن کی کیفیات‘ کوائف اور حالات بیان کیے ہیں (اگرچہ یہ میری طرف سے اضافہ ہے مگر یہ شیخ موصوف کی تحریر سے ازخود مترشح ہوتا ہے)۔

چند سورتوں کا باہمی ربط

آیئے اب ہم الشیخ الصواف کی سورتوں کے درمیان نظم قائم کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیں۔ سب سے پہلے ہم سورہ النّبا  ہی کو لیتے ہیں۔ اس کا ربط انھوں نے اس سے ماقبل سورۃ المرسلات سے اس طرح قائم کیا ہے:

اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المرسلات کا اختتام قیامت کے دن کے ذکر سے فرمایا اور اس کے جھٹلانے والوں کو یہ کہہ کر دھمکی دی کہ:  وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ o فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ م بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَo (المرسلات ۷۷:۴۹-۵۰) ’’تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لیے۔ اب اس (قرآن) کے بعد اور کون سا کلام ایسا ہو سکتا ہے جس پر یہ ایمان لائیں؟‘‘ سورہ کا آغاز اللہ تعالیٰ نے نبا ٔ عظیم اور قیامت کے ذکر سے کیا اور وہ دلائل پیش کیے جو قدرتِ الٰہی پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قدرت رکھتا ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے اعمال کی جزا پانے کے لیے رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں۔

اس کے علاوہ ان دو سورتوں المرسلات اور النّبا کے درمیان ایک اور پہلو سے بھی تعلق پایا جاتا ہے۔ دونوں سورتوں میں جنت اور جہنم کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ متقین کن نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور جھٹلانے والے کس قسم کے عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ سورۃ النّبا میں ان امور کی تفصیلات کا ذکر ہے جو سورۃ المرسلات میں اجمالاً بیان کیے گئے تھے۔ سورۃ المرسلات میں اللہ تعالیٰ نے یوم الفصل کے بارے میں سوال پر اکتفا فرمایا تھا:

لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ o لِیَوْمِ الْفَصْلِ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الْفَصْلِ o (المرسلات ۷۷: ۱۲-۱۴) کس روز کے لیے یہ کام اٹھا رکھا گیا ہے؟ فیصلے کے روز کے لیے۔ اور تمھیں کیا خبر کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے؟

سورۃ النّبا  میں اس دن کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہوگا:

اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا o یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا o وَّفُتِحَتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا o وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَکَانَتْ سَرَابًا o (النّبا ۷۸:۱۷-۲۰)

بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی‘ تم فوج در فوج نکل آئو گے اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا‘ اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔

سورۃ النّبا کا سورۃ النازعات سے ربط

سورۃ النّازعات کے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں:

اس کی ۴۶ آیات ہیں اور یہ سورۃ النّبا کے بعد نازل ہوئی۔ اس کو النازعات ‘ السامرہ اور الطامۃ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو النّبا کے بعد جگہ دی گئی کیونکہ جس دن زوردار جھٹکا ہوگا تو بڑی خبر (النبأ العظیم) کی ابتدا ہوگی۔ بالفاظِ دیگر یہ زوردار جھٹکا ’’بڑی خبر‘‘ کے دن کی شروعات میں سے ہے۔ اس کا ذکر الشیخ موسیٰ جار اللہ نے اپنی کتاب ترتیب السور وتناسبھا میں کیاہے۔

پھر وہ: صِلَۃُ السُّوَرَۃِ بِالَّتِیْ قَبْلَھَا (اس سورہ کا ماقبل سورہ سے تعلق) کے تحت لکھتے ہیں:

سورۃ النّبا میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرایا تھا اور ان کو جہنم کی دھمکی دی تھی جو بدانجام ہونے کی دلیل ہے اور یہ کہ اس میں‘ ان کو‘ جو عذاب دیا جائے گا وہ ان کے عناد اور باطل پر اصرار اور نبی امینؐ کو جھٹلانے کے برابر ہوگا۔

اس سورہ میں اللہ تعالیٰ قسم کھاتے ہیں کہ موت کے بعد زندہ کیا جانا ایک ایسی حق بات ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے… جب انھوں نے دنیا میں دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کیا اور اس پر تعجب کا اظہار کیا تو ان کو جواب دیا گیا کہ الٰہ عظیم کے ہاں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ صرف ایک چیخ کا معاملہ ہے جو پلک جھپکنے سے بھی کم مدت میں گونج اُٹھے گی اور پھر اچانک لوگ ایک بہت ہی بڑے میدان میں اپنے رب کے آگے نمودار ہو جائیں گے۔

قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہی مجرم قسم کھائیں گے کہ وہ دنیا میں ایک گھڑی ہی رہ پائے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی قبروں سے تیزی سے برآمد ہوں گے‘ ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہوئے‘ گویا کہ ان کو کسی قربان گاہ کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔ اس حال میں کہ ان کے دل منہ کو آ رہے ہوں گے اور آنکھیں خوف سے بھری ہوں گی اور وہ اپنے رب کی طرف اس کا عادلانہ فیصلہ سننے کے لیے دیکھ رہے ہوں گے۔ ان میں بعض بدبخت اور بعض خوش بخت ہوں گے۔

سورۃ الاعلٰی کا ماقبل ومابعد سورتوں سے تعلق

اب ہم نصف کے قریب سے ایک سورہ کو لیتے ہیں‘یہ دیکھنے کے لیے کہ ’’شیخ الصواف‘‘ نے کس طرح اس کا اگلی اور پچھلی سورتوں سے ربط بیان کیا ہے۔ یہ سورۃ الاعلیٰ ہے۔ مناسبتھا لما قبلھا (اس کی ماقبل سورہ سے مناسبت) کے تحت وہ کہتے ہیں:

سابقہ سورۃ الطارق ‘ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدایش کا ذکر فرمایا اور اسے یاد دہانی کروائی کہ: فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ o (الطارق ۸۶:۵) ’’پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ اور نباتات کی تخلیق کی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا کہ:  وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ o (الطارق ۸۶: ۱۲) ’’اور پھٹ جانے والی زمین کی‘‘وغیرہ۔ یہاں اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے خلق انسان کا ذکر کیا ہے کہ اس نے اس کو پیدا کیا اور اس کو ٹھیک ٹھیک انداز میں بنایا اور اس کی تقدیر لکھ کر اس کی ہدایت کا سامان مہیا کیا۔ بعدازاں نباتات کی پیدایش کا حال سابقہ سورہ سے زیادہ وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ یہ فرماتے ہوئے کہ:  وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی o فَجَعَلَہٗ غُثَآئً اَحْوٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۴-۵) ’’جس نے نباتات اُگائیں پھر اُن کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنا دیا‘‘(تاکہ خشک ہو کر بھی جانوروں کے چارے کا کام دے)۔ انسان کی پیدایش کا قصہ بھی یہاں زیادہ وضاحت کے ساتھ اور زیادہ عمومیت اورتفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

سورۃ الغاشیہ سے سورۃ الاعلٰی کی مناسبت

سورۃ الاعلیٰ میں حق تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس کی خلقت میں مومن اور کافر پائے جاتے ہیں اور جنت اور نار بھی موجود ہے مگر یہ بات وہاں اجمالاً کہی گئی تھی۔ اس سورہ میں اس کی تفصیلات کا ذکر ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ لوگ دو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں: ایک گروہ جنتی ہے تو دوسرا دوزخی۔ پھر بعض آفاقی حقائق کی طرف توجہ مبذول کی اور اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ یہ کہتے رہیں کہ ان کو ہر حال میں اپنے ربّ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

اختصار کے باوجود اس میں ان امور کی تفصیل وارد ہوئی ہے جن کا ذکر سورۃ الذاریات کی ابتدا میں کیا گیا تھا۔ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ (الذّٰریٰت ۵۱: ۵-۶) ’’حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمھیں خوف دلایا جا رہا ہے وہ سچی ہے اور جزاے اعمال ضرور پیش آنی ہے‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الغاشیہ کو سورۃ الاعلیٰ کے بعد اس لیے رکھا کہ اس کے خاتمے کی شرح بیان کی جاسکے اور وہ یہ آیت ہے:  بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o  وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۶-۱۷)’’مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے‘‘، جب کہ اس سورۃ الغاشیہ کا خاتمہ ان کلمات پر ہوا ہے: اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَھُمْ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ o (الغاشیہ ۸۸:۲۵-۲۶) ’’ان لوگوں کو پلٹنا ہماری طرف ہی ہے‘ پھر اِن کا حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعلیٰ کا خاتمہ آخرت کی طرف رغبت کے ساتھ کیا تھا کہ وہ: خَیْرٌ وَّاَبْقٰی (بہتر اور دیرپا) ہے اس فانی دنیا کے مقابلے میں۔ یہاں اس سورہ میں ‘ اس آخرت کے حالات کے بیان سے آغاز کیا جا رہا ہے جس کی پچھلی سورہ میں ترغیب دی گئی تھی۔

سورۃ الاخلاص کا ربط

سابقہ سورہ ’’تبّت‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اہل توحید اور رسولؐ کے دشمن ہیں۔ وہ اللہ کے‘ اسلام کے اور حق کے ہر جگہ اور ہر وقت دشمن ہیں‘ خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا دُور کے لوگ‘ کیونکہ وہ رسالۂ توحید کے دشمن ہیں۔ اس سورہ میں توحید کا ذکروبیان ہے۔اس میں توحید کی حقیقت کو کھولا گیا ہے۔ یہ کتابِ عزیز کی وہ سورہ ہے جس کی عظمت سے غالباً ہر اُمتی آگاہ ہے۔ اس کے معنوں کی انتہا کا کوئی شخص ادراک نہیں کر سکتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے معنوں کی انتہا کو صرف اس سورہ کو نازل کرنے والا ہی جانتا ہے۔ یہ قرآن کی مقدس ترین سورہ ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔

توحید چونکہ دین اسلام کی بنیاد اور اس کی انتہا ہے ‘ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کتاب عزیز کے آخر میں جگہ دی کیونکہ خاتمۂ کتاب کے بعد صرف پناہ مانگنے کی گنجایش رہ جاتی ہے جیسا کہ سورہ فاتحہ سے پہلے صرف بسملہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) ہی مناسب ہے۔ گویا کتاب کی ابتدا اللہ کے نام سے ہوئی اور اس کی انتہا اور خاتمہ اس کی ذاتِ مبارکہ کے ذکر اور اس کی صفات کے بیان پر ہوا جو توحید ِ خالص سے عبارت ہے۔

سورۃ الاخلاص کا سورۃ الفلق سے تعلّق

اللہ تعالیٰ نے سورہ ’’اللّھب ‘‘ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا ذکر کیا اور سورہ اخلاص میں توحید کو بیان فرمایا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ یکا و تنہا اور باقی رہنے والا ہے۔ یہی وہ ذات ہے جس کی دہائی مدد کے طالب دیا کرتے ہیں اور اسی سے فتح طلب کرنے والے مدد مانگتے ہیں اور ضرورت مند اسی کا سہارا طلب کرتے ہیں اور اُسی کی پناہ میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔

اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اور اس کے بعد کی سورہ میں پناہ کا ذکر کیا ہے‘ یعنی سورۃ الناس میں یہ واضح کر دیا ہے کیونکہ وہ الوہیت و ربوبیت میں یگانہ ہے اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ‘ اس لیے لوگ اس کی پناہ کے طالب ہوں۔ اسی کے لیے حکم خاص ہے اور اسی کی طرف تم لوٹنے والے ہو۔

آپ نے دیکھا کہ کس طرح الشیخ الصواف نے سورۃ اللّھب ‘ الاخلاص‘ الفلق اور الناس میں ربط و مناسبت پیدا کر کے ان کو سورہ فاتحہ سے جوڑ دیا اور ان سب کو اول سے آخر تک ایک ہی نظم میں اس ہار کی طرح پرو دیا جس کا ہر ہیرا اور ہر موتی اپنی اپنی جگہ پر چمک پیدا کر رہا ہو اور بحیثیت مجموعی ایک دوسرے سے مل کر یہ ہیرے اور یہ موتی ہار کو نہایت درجہ خوب صورت اور جاذبِ نظر بناتے ہوں۔

 

کسی بھی نظریے کے ماننے والے جب فرقوں اور گروہوں میں بٹ جائیں اور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق اوراخوت و محبت کی فضا باقی نہ رہے بلکہ وہ افتراق و انتشار اور باہمی حسد اور بغض میں مبتلا ہوجائیں تووہ نظریہ اپنی صداقت و حقانیت کے باوجود کمزور دکھائی دیتا ہے۔ وہ کتابوں کی سطور اور ماننے والوںکے صدور سے نکل کر عملی دنیا میں نافذ نہیں ہو سکتا۔ اس کی برکات سے لوگ محروم رہ جاتے ہیں‘ اس لیے کہ اچھی سے اچھی چیز بھی جب تک عملاً سامنے دکھائی نہ دے اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ روٹی اورپانی کے ذہنی‘ کتابی اور لفظی وجود سے بھوک اور پیاس سے نجات نہیں مل سکتی اور عدل و انصاف کے ذہنی منصوبوں‘ کتابی تحریروں اور تقریروںسے ظلم سے نجات نہیں مل سکتی۔ یہی حال اسلامی نظام اور اسلامی شریعت کا ہے کہ اس کے ماننے والے اور چاہنے والے جب فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکے ہیںاور ایک دوسرے کو شکست دینے اور نیچا دکھانے میں مصروف ہیں تو اسلامی نظام اور اسلامی شریعت اپنی صداقت و حقانیت کے باوجود مسلمانوں کے اپنے ممالک میں بھی مغلوب ہے‘ غالب نہیں ہے۔ ذہنوں‘ کتابوں اور تحریروں میں تو موجود ہے مگر عملاً نافذ نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اندرونی و بیرونی طاغوتی قوتیں اسلامی نظام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں لیکن اُمت ِمسلمہ کی غفلت اور فرقہ واریت بھی کچھ کم رکاوٹ نہیں ہے‘ بلکہ اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو اصل رکاوٹ یہی گروہ بندی اور فرقہ واریت ہے۔ اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر کھڑے ہو جائیں تو طاغوتی قوتوں کو بھی سرنگوں کیا جا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نفاذ شریعت کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اتحاد اُمت اور بیداری ملت کی تحریک چلانا ضروری ہے۔

اتحاد اُمت کی بنیادیں

اُمت مسلمہ اور ملت اسلامیہ فرقوں اور گروہوں کے مصنوعی اور سطحی اتحاد کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں جسد واحد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار(بنیان مرصوص) کی طرح اُمت واحدہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ’’وحدت اُمت‘‘ اور ’’اتحاد ملت‘‘ کی بنیاد کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس دین کی بنیاد پر یہ اُمت اور یہ ملت وجود میں آئی ہے وہی دین ملت کے اتحاد کی بنیاد ہے اور وہ ہے دین اسلام۔ دین اسلام کے اصول و فروع دونوں کا سرچشمہ اور مآخذ قرآن و سنت ہے۔ اس لیے اتحاد کی بنیاد قرآن و سنت ہی بن سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی اور چیز اتحاد کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

تفرق اور گروہ بندی

قرآن و سنت کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے کہ تفرق‘ گروہ بندی‘ افتراق اور اختلاف ممنوع اور ملی اتحاد کے منافی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تفرق سے کیا مراد ہے؟ کیا ہر قسم کا اختلاف تفرق ہے؟ کیا ہر قسم کا اختلاف مذموم اور ممنوع ہے یا اس کی کوئی قسم قابل تحسین اورمباح بھی ہے؟

اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیں تفرق کی مذمت اور ممانعت کے بارے میں آیات کی تفسیر و تاویل کی طرف رجوع کرنا پڑے گا تاکہ ان آیات کے سیاق و سباق‘ شان نزول اور احادیث و آثار کی روشنی میں تفرق اور اختلاف مذموم کی اصل حقیقت واضح ہو جائے۔

عربی لغت میں ہر قسم کے اختلاف کو تفرق نہیں کہا جاتا بلکہ اس اختلاف کو تفرق کہا جاتا ہے جو اُمت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والا ‘ اُمت کو الگ الگ فرقوں اور ٹولیوں میں بانٹنے والا اوران کے درمیان اخوت و الفت کے تعلقات کو عداوت و منافرت میں تبدیل کرنے والاہو۔ تفرق کی مذمت اور ممانعت میں قرآن کی چھ آیات آئی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی یہ ہے:

اور تھام لو اللہ کی رسّی کو سب مل کر اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور یاد کرو اللہ کی اس مہربانی کو جو تم پر کی گئی تھی‘ جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پس الفت ڈال دی اللہ نے تمھارے دلوں میں تو بن گئے تم اللہ کی اس مہربانی سے بھائی بھائی۔ (اٰل عمران ۳:۱۰۳)

اس آیت میں پہلے تو حکم دیا گیا ہے کہ حبل اللہ یعنی قرآن و سنت پر مجتمع اور متحد ہو جائو ۔اس لیے کہ اُمت کی وحدت اور ملت کے اتحاد کی بنیاد یہی ہے۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ آپس میںپھوٹ نہ ڈالو‘ فرقوں اور گروہوں میں اس طرح نہ بٹو کہ ملی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے اور تم اتحاد ملت کی بنیادوںپر متحد و مجتمع ہونے کے بجائے متفرق اور منتشرہوجائو۔ اس کے بعد دور جاہلیت کی حالت یاد دلائی گئی ہے کہ تمھارے درمیان دشمنیاں اور جتھہ بندیاں تھیں اور قبائلی و گروہی عداوتیں اور عصبیتیں تھیں جو اسلام کی وجہ سے ختم ہو گئیں اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ اب اسلام لانے اوردین واحد پر متحد ہو جانے کے بعد اگر تم نے اتحاد ملت کی بنیادوں کو نظرانداز کر کے باہمی تفرق کی روش دوبارہ اختیار کی اور وہی پرانی قبائلی جتھہ بندیاں اور دشمنیاں شروع کردیں تو اخوت و الفت کی نعمت سے محروم ہو جائو گے۔ اس آیت کے شان نزول اور سیاق و سباق اور کلمات کے معانی تینوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ تفرق سے مراد وہ جتھہ بندی اور فرقہ بندی ہے جو حسد و عناد اور گروہی عصبیت پر مبنی ہو۔ امام ابن جریر (م: ۳۱۰ھ) نے بھی آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔

اور الگ نہ رہو اللہ کے دین سے اور اس کے عہد سے جو اس نے اپنی کتاب میں تم سے لیا ہے کہ آپس میں الفت و محبت کارویہ اختیار کرو اور اللہ و رسول کی اطاعت پر (حبل اللہ) متحد و مجتمع ہوجائو۔ (تفسیر ابن جریر‘ ج۴‘ ص ۳۲)

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بھی ایک دوسرے سے حسد کرنے‘ ایک دوسرے سے منہ موڑنے اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے سے روکا گیا ہے اور اللہ کے ایسے بندے بن جانے کا حکم دیا گیا ہے جو آپس میں بھائی بھائی ہوں۔

تفرق مذموم کی تین قسمیں

قاضی ابوبکر ابن العربی (م ۵۴۳ھ) نے تفرق ممنوع اور اختلاف ممنوع کی تین قسمیں بیان کی ہیں جو ملی اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

۱-  ایک قسم وہ اختلاف اور تفرق ہے جو حسد و عناد اور قبائلی و علاقائی یا گروہی عصبیت پر مبنی ہو‘ کسی علمی تحقیق اور دلیل یا مذہبی عقیدے پرمبنی نہ ہو۔ اس کی ممانعت سورہ آل عمران میں ولا تفرقوا کے الفاظ میں اور اسی مفہوم کی دوسری آیات و احادیث میں آئی ہے ۔ یہی زیادہ خطرناک تفرق ہے۔

۲-  دوسری قسم اسلام کے بنیادی عقائد سے جان بوجھ کر انکار کرنا‘ اختلاف کرنا اور پھوٹ ڈالنا ہے۔ یہ اختلاف وانکار چونکہ لاعلمی کی وجہ سے نہیں کیا جاتا بلکہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے اس لیے اس کی اصل وجہ بھی حسد و عناد اور خودسری و سرکشی ہوتی ہے۔ اس نوع کے تفرق کا ذکر سورہ شوریٰ (آیت: ۱۳‘۱۴) میں ہوا ہے۔ یہاں انبیا اور ان کی اُمتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو‘ یعنی سب مل کر اس پر ایمان لائو‘ اس پر عمل کرو‘ اس کو قائم کرو۔ پھر اختلاف و انکار کی اصل وجہ پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:  وَمَا تَفَرَّقُوْا اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا م بَیْنَھُمْ ط (۴۲:۱۴) ’’اور تفرقہ نہیں ڈالا انھوں نے مگر ان کے پاس علم آجانے کے بعد ڈالا ہے آپس کی ضد کی وجہ سے‘‘، یعنی توحید پر مبنی دین اسلام سے اختلاف کرنے والوں کا یہ اختلاف غلط فہمی اور لاعلمی پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس اختلاف و انکار کا باعث صرف نفسانیت ‘ عداوت اور بغاوت ہے۔ اس قسم کے تفرق کا ذکر سورہ آل عمران میں اس طرح ہوا ہے کہ:  وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَاُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (۳:۱۰۵) ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے پھوٹ ڈالی اور اختلاف کیا باوجود اس کے کہ ان کے پاس کھلی دلیلیں آگئی تھیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔

ابن جریر نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اہل کتاب کی جانب اشارہ ہے جنھوں نے واضح دلیلیں آجانے اور حق کو جاننے کے باوجود اللہ کے دین اور ا س کے امر ونہی کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ظاہر ہے کہ اس قسم کا اختلاف و تفرق اُمت مسلمہ کے افراد یا جماعتوں کے درمیان نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ دین سے انکار تو کوئی مومن مسلمان نہیں کر سکتا۔

۳-  تیسری قسم تفرق کی یہ ہے کہ فروعی اور اجتہادی مسائل میں ایک دوسرے سے براء ت اور قطع تعلق کیا جائے اور ایک دوسرے کی تفسیق کی جائے اور گمراہ قرار دیا جائے۔ یہ بھی ممنوع ہے۔ آرا کا یہ اختلاف قرآن و سنت کی تعبیر میں ہے اور تعبیر و اجتہاد کا اختلاف اُمت کی وحدت کے منافی نہیں ہے لیکن جو شخص اور گروہ اس نوع کے اجتہاد اور تعبیر کے اختلاف کو فرقہ واریت اور گروہ بندی کا ذریعہ بناتا ہے اور مخالف رائے رکھنے والوں کو گمراہ قرار دیتا ہے اور ان کی تفسیق اور تذلیل و تحقیر کرتا ہے وہ یہودیوں کے طریقے پر چلتا ہے اور قابل مذمت ہے۔ (احکام القرآن لابن عربی‘ اٰل عمران‘ آیت ۱۰۳)

اجتہادی اختلاف اتحاد اُمت کے منافی نہیں

اجتہاد نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے اور قیاس و اجتہاد میں اختلافِ آرا فطری ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ تمام مجتہدین ہر معاملے میں ہمیشہ متفق ہوں بلکہ ان کے درمیان کبھی اتفاق رائے ہوتا ہے اور کبھی اختلاف رائے۔ اگر اختلاف مطلقاً مذموم و ممنوع ہوتا تو اسلام میں اجتہاد کی اجازت نہ ہوتی لیکن نہ صرف یہ کہ اجازت دی گئی ہے بلکہ اسے موجب اجر بھی قرار دیا گیا ہے۔

حضرت عمروؓ بن عاص سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ قاضی جب فیصلہ کرنے کے لیے اجتہاد کرے اور صحیح فیصلے تک پہنچ جائے تو اس کو دگنا اجر ملے گا‘ اور جب فیصلہ کرتے وقت اجتہاد میں غلطی کرے تو پھر بھی اس کو ایک اجر ملے گا۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الاعتصام‘ باب اجر الحاکم اذا اجتھد)

یہ حدیث اگرچہ عدالتوں کے حکام اور قاضیوں کے بارے میں آئی ہے لیکن دوسرے فقہا اور مجتہدین کے اجتہاد کا حکم بھی یہی ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں صحابہ کرامؓ کو اخوان اور رحما کہا گیا ہے‘ یعنی بھائی بھائی اور آپس میں رحمت و شفقت کرنے والے‘ حالانکہ ان کے درمیان فقہی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف آرا موجود تھا۔ سنن ترمذی پڑھنے اور پڑھانے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ اس کے مختلف ابواب میں امام ترمذیؒ صحابہ کرامؓ کا کبھی اتفاق رائے نقل کرتے ہیں اور کبھی اختلاف رائے نقل کرتے ہیں۔ صحابہ کا اختلاف کبھی نصوص کی تعبیر و تشریح میں ہوتا تھا اور کبھی ان کے اجتہاد پر مبنی ہوتا تھا۔ مشہور محدث ابن عبدالبر (م: ۴۶۳ھ) نے ۲۲ ایسے مسائل لکھے ہیں جن میں صحابہ نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا تھا اور پھر کہا ہے کہ تمام اختلافی مسائل کا احاطہ کتاب کے ایک باب میں نہیں کیا جا سکتا۔ (جامع بیان العلم‘ ج ۲‘ ص ۸۵-۸۷)

اگر نصوص کی تعبیر و تشریح میں اختلاف یا قیاس و اجتہاد پر مبنی اختلاف بھی ملّی اتحادکے منافی ہوتا اور افتراق و عداوت کاموجب ہوتا تو پھر صحابہ کرامؓ اخوان اور رحماء بینھم کیسے ہوسکتے تھے؟ فروعی مسائل میں تعبیر و تشریح اور قیاس و اجتہاد کا اختلاف جب فرقہ وارانہ عصبیت کی شکل اختیار کر لے تو پھر وہ عداوت و تفرق کا سبب بن جاتا ہے اور اُمت کی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اختلاف رائے کی افادیت

اجتہادی اور علمی اختلاف نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مفید بھی ہے۔ اس سے مفید اور صحیح رائے معلوم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ذہنی و فکری نشوونما ہوتی ہے اور عوام کے لیے یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ اختلاف کے ساتھ جس رائے کو مفید تر اور اپنے حالات کے ساتھ زیادہ مناسب سمجھیں اسے اختیار کرلیں بشرطیکہ وہ قطعی نصوص اور اجماع کے خلاف نہ ہو۔ پانچویں خلیفہ راشد عمرؒ بن عبدالعزیز (م :۱۰۱ھ) نے فرمایا ہے کہ: ’’مجھے تو یہ پسند نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ اختلاف نہ کرتے اس لیے کہ اگر ایک ہی رائے ہوتی تو لوگ تنگی میں ہوتے۔ صحابہ مسلمانوں کے پیشوا ہیں جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کی رائے پر عمل کرے تو اس کے لیے آسانی اور فراخی ہوگی‘‘(جامع بیان العلم‘ ابن عبدالبر‘ ج ۲‘ ص ۸۰)۔ مدینہ منورہ کے مشہور فقہا سبعہ میں سے ایک فقیہ اور تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر (م: ۱۰۶ھ) (خلیفہ اول کے پوتے) فرماتے ہیں: ’’اللہ نے اصحاب رسول کے اختلاف آرا سے لوگوں کے لیے آسانی اور فراخی فراہم کی ہے۔ ان کی آرا میں سے جس پر بھی تم عمل کرو گے‘ تمھارے دل میں کوئی شبہہ نہیں رہے گا‘‘۔ (ایضاً)

رجا بن جمیل نقل کرتے ہیں: ایک روز عمر بن عبدلعزیز اور قاسم بن محمد دونوں آپس میں علمی مذاکرہ کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کسی صحابی کاقول نقل کرتے جو قاسم کے نقل کردہ قول کے مخالف ہوتا۔ اس پر قاسم کو پریشانی ہوتی کہ صحابہ میں یہ اختلاف رائے کیوں تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے تو سرخ اُونٹ ملنے (قیمتی خزانہ ملنے) کے مقابلے میں صحابہ کرام کے اختلاف پر زیادہ خوشی ہوتی ہے‘‘۔ (ایضاً)

اس ساری بحث سے میرا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ تفرق و گروہ بندی کی مذمت اور ممانعت کے بارے میں وارد شدہ آیات و احادیث سے اختلاف رائے کی کلی ممانعت ثابت نہیں ہوتی بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ فروعی مسائل میں اجتہادی آرا کا اختلاف اُمت کی وحدت اور ملّت کے اتحاد کے منافی نہیں ہے۔ وحدت و اتحاد کو جو بھی نقصان پہنچے گا ایک دوسرے کو گمراہ اور فاسق قرار دینے سے‘ تذلیل و تحقیر سے اور مسجدیں الگ کر کے ایک دوسرے کی اقتدا میں نمازیں نہ پڑھنے سے پہنچے گا جو یہودیوں کا طریقہ ہے۔ اُمت مسلمہ کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہودیوں کی عادات سے محفوظ رکھے۔ آمین!

مشہور محدث امام بغوی (م: ۵۱۶ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’علما کے درمیان فروعی اختلاف اختلاف رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں پر دین میں کوئی تنگی باقی نہ رہے۔ اس قسم کا اختلاف ایک دوسرے سے الگ ہونے اور قطع تعلق کرنے کا باعث نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ فروعی اختلاف تو صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی موجود تھا حالانکہ وہ آپس میں بھائی بھائی تھے اور ان کے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے‘‘۔ (شرح السنۃ‘ ج ۱‘ ص ۲۲۹‘ طبع بیروت ۱۹۷۱ء)

قاضی ابن العربی (م: ۵۴۳ھ) لکھتے ہیں: ’’اختلافِ ممنوع سے مراد وہ اختلاف ہے جو فتنے‘ تعصب اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشارکا موجب ہو۔ جو اختلاف فروعی مسائل میں ہو وہ شریعت کی خوبیوں میں شامل ہے‘‘۔ (احکام القرآن ‘ ابن عربی‘ ج ۱‘ ص ۳۸۲)

اختلافی مسئلہ منکر میں شامل نہیں

منکر کے معنی ہیں ناپسندیدہ چیز۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو چیز کسی مجتہد اور فقیہ کی رائے میں ناپسندیدہ اور دوسرے مجتہد اور فقیہ کی رائے میں وہ چیز بری اور ناپسندیدہ نہ ہو بلکہ مباح ہو تو وہ بھی اس منکر میں شامل ہے جس سے روکنا اور اس کے ازالے کے لیے جدوجہد کرنا اہل ایمان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اگر اختلافی اور اجتہادی مسئلہ منکر میں شامل ہوتا تو مجتہد کو اللہ کے دربار میں اجر و ثواب نہ ملتا۔ ازروے حدیث مجتہد اگر نفس الامر میں غلطی پر بھی ہو پھر بھی جب تک اسے اپنی غلطی معلوم نہ ہو جائے اس وقت تک اسے اپنی تحقیق پر عمل کرنے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر اجر ملے گا۔

ظاہر ہے کہ جس چیز پر اجر دینے کا وعدہ کیا گیا ہو وہ منکر‘ یعنی گناہ کیسے قرار دی جا سکتی ہے؟ منکر کی بنیاد یہ ہے کہ جس چیز سے اللہ و رسولؐ نے صریح الفاظ میں منع کیا ہو‘ یا اس کے ممنوع ہونے پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ثابت ہو چکا ہو‘ یا بعد میں کسی وقت اُمت کے مجتہدین کا اس کے عدم جواز پر اتفاق ہو گیا ہو‘ جس کو اہل ایمان بری چیز سمجھتے ہوں۔ یہ اس منکر میں شامل ہے جس کے ازالے کی کوشش کرنا اہل ایمان کا فرض ہے۔

ابن جریر طبری (م :۳۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’ہر وہ چیز منکر اور برائی ہے جس کو اللہ ناپسند کرتا ہو اور جس کو اہل ایمان قبیح سمجھتے ہوں۔ اسی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کو منکر کہا جاتا ہے کیونکہ اہل ایمان اس کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کے ارتکاب کو بڑا جرم سمجھتے ہیں‘‘۔ (تفسیر ابن جریر‘اٰل عمران ۳:۱۱۰)

امام جصاص (م: ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’معروف سے مراد اللہ کا حکم ہے… اور منکر وہ ہے جس سے اللہ نے منع کیا ہو‘‘۔ (احکام القرآن‘ آل عمران۳:۱۱۰)

اجتہادی مسائل میں ہر ایک کو اپنی رائے پر یا کسی مجتہد کی رائے پر عمل کرنے کی آزادی ہے لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے مجتہد کو یا اس کے متبع کو اپنی رائے پر عمل کرنے سے روکے اور اس کے خلاف محاذ آرائی‘ پوسٹربازی اور جلسہ بازی شروع کر دے۔ تحریر و تقریر یا علمی مذاکرے کے ذریعے اپنی رائے کے راجح ہونے اور دوسرے کی رائے کے مرجوح ہونے کے دلائل بیان کیے جا سکتے ہیں مگر یہ کام بھی بحث و تحقیق کے مراکز‘ علمی مذاکروںاور بحث و مباحثہ کی مجالس میں ہونا چاہیے۔ عوامی جلسوں میں ایسی بحثیں چھیڑنا مناسب اور مفید نہیں ہے۔

نہی عن المنکر کا اطلاق

اجتہادی اور اختلافی مسائل میں نہی عن المنکر کا حکم جاری نہیں ہو سکتا۔

امام سفیان ثوری نے فرمایا ہے کہ: ’’جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو ایسا کام کر رہا ہو جس کے جواز میں اختلاف ہو اور تیری رائے اس کے خلاف ہو تو تم اس کو اس کام سے نہ روکو‘‘۔ (حلیۃ الاولیا‘ ابونعیم اصفہانی‘ ج ۲‘ ص ۳۶۸‘ طبع بیروت ۱۹۸۷ء)

امام غزالی نے نہی عن المنکر اور احتساب کے لیے ایک شرط اس طرح بیان کی ہے کہ: ’’اس کا منکر اور برائی ہونا اجتہاد کے بغیر معلوم و معروف ہو۔ جو چیز اجتہادی اور اختلافی ہو اس پر احتساب نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (احیا العلوم‘ ج ۲‘ ص ۳۵۳‘ طبع بیروت‘ ۱۹۸۶ء)

امام نووی فرماتے ہیں کہ : ’’علما اس کام سے منع کرتے ہیں جس کے ناجائز ہونے پر ائمہ مجتہدین کا اجماع ہو۔ جو اختلافی ہو اس سے روکنا جائز نہیں ہے۔ اجتہادی مسائل میں لوگوں کو کسی ایک مجتہد کی رائے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ (نووی بر مسلم‘ ج ۲‘ ص ۲۳‘ طبع قاہرہ ۱۹۸۷ء)

ابوجعفر منصور نے دو مرتبہ اور اس کے بعد ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے اجازت طلب کی کہ ہم آپ کی کتاب موطا کو پورے ملک میں واجب العمل قانون کے طور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن امام مالکؒ نے فرمایا کہ لوگوں کو اپنی آرا پر عمل کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔ اس لیے کہ میری تحقیق پر سب کا متفق ہو جانا مشکل ہے‘‘۔ (الانتقا لابن عبدالبر‘ ص ۴۱ و اعلام الموقعین‘ ج ۲‘ ص ۳۶۲)

اتحاد اُمت اور علماے دین کا اتحاد

ملت کا اتحاد علماے دین کے اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ علماے دین ملت کے دینی قائدین ہیں۔ جب قائدین میں افتراق و انتشار ہو اور وہ فرقوں اور گروپوں میں بٹ چکے ہوں اور انھوں نے ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کے لیے فرقہ بندی ‘ گروہ بندی اور صف بندی کر لی ہو اور اپنی علمی قوت اور تحریر و تقریر کی صلاحیتیں اتحاد اُمت کی بجائے افتراق اُمت کے لیے‘ اور غلبہ اسلام کے بجائے اپنے اپنے فرقوں اور گروپوں کو غلبہ اور برتری دلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو قائدین کا یہ افتراق و انتشار ان کے متبعین میں اور اماموں کا یہ تفرق و تحزب ان کے مقتدیوں میں بھی پھیلے گا اور ملّی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا جیسا کہ آج کل بکھرا پڑا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقوں کی بنیاد پر جماعتوں کی تنظیم اور مسجدوں و مدرسوں کی تعمیر کی روش اخلاص کے ساتھ ترک کر دی جائے۔ جب فرقوں اور اجتہادی مسلکوں کی بنیاد پر نہ مسجدیں بنیں گی‘ نہ مدرسے بنیں گے‘ نہ تنظیمیں بنیں گی اور نہ جلسے اور کانفرنسیں ہوں گی بلکہ ساری سرگرمیاں قرآن و سنت اور دین اسلام کے نام پر ہوں گی تو اس کے نتیجے میں اخوت اسلامی کی روح افزا اور ایمان افروز فضا بنے گی اور ملّی اتحاد کا منظر برسرِزمین آنکھوں سے نظر آجائے گا۔

 

اللہ تعالیٰ نے والدین کو جس اعزازسے نوازاہے وہ اسلام کے سوا دُنیا کا کوئی بھی مذہب اور کوئی تمدن عطا نہیں کر سکا۔ مائیں تو ساری دنیا میں قابل احترام ہیں مگر ایک مسلمان ماں کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی محبت میں مٹھاس اور اس کے دل میں ایثار و قربانی کا بے مثل جذبہ رکھ دیا ہے۔ اپنی صفت رحمت و شفقت سے وافر حصہ اس رشتے کو عطا کر دیا۔ وہ رب العزت خود خالق ہے ‘صفت ِتخلیق عورت کو عطا کر کے اسے عظمت کی بلندیوںتک پہنچا دیا۔ اپنے بچے سے محبت کا یہ انداز اس خالق کائنات اور رب العالمین نے ہی عطا کیا ہے کہ تکلیف پہ تکلیف اُٹھا کر ماں بچے کو جنم دیتی ہے‘ مگر اس پہ ایک نظر ڈالتے ہی تمام دکھ‘ تکالیف بھول جاتی ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہے کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی بچوں کو پیار کرتی ہے اورہر چھوٹا بچہ اس کے لیے کشش رکھتاہے۔ مگر یہ محبت اور کشش عورت ہونے کے ناطے فطری جذبے تک محدود رہتی ہے۔ یہی نوعمر لڑکی جب تخلیقی مراحل کا حصہ بن کر خود ماں کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو بچہ اور اس کا ہر کام اس کی زندگی کا مشن بن جاتا ہے۔ اپنے بچے کا آرام ماں کی اوّلین ترجیح ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت و شفقت اور رحم کی یہ صفت نہ رکھ دیتا تو شاید دنیا میں بچوں کی سب سے بڑی دشمن ماں ہی ہوتی۔ جس قدر تکلیف دہ مرحلوں سے ماں پرورش کے دوران گزرتی ہے‘ اس کا اندازہ اُسی ذات باری تعالیٰ کوہے‘ جبھی تو ایک مسلمان ماں کو اعلیٰ ترین ’’اعزازات‘‘ سے نوازا گیا۔ ان عظمتوں کو حاصل کرنا‘ اور انھیں شعوری طور پر برقرار رکھنا بھی مائوں کی ذمہ داری ہے۔ والدین کی ذمہ داری اسی روز سے شروع ہوجاتی ہے‘ جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے والدین کو بہت سے ادوار اور بے شمار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

اگر اُمت مسلمہ کے ہر گھرسے ایک بچہ بھی اسلام کے انسانِ مطلوب کی صورت میں نصیب ہو جائے تو آیندہ ایک دو عشروں میں ہی دُنیا میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا ہو سکتا ہے۔ اس خوش نصیبی کو پانے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی اور تطہیر افکار و اعمال ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی بھی فرد یا قوم کے مقدر کو سنوار سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کرکے قوم کی تعمیرنو میں اپنا حصہ ادا کریں‘ اور ایک مہم کے طور پر ہر مسلمان کو اس کی اہمیت کا شعور دیا جائے۔کسی بھی مرد و عورت کی عملی زندگی کا آغاز نکاح سے ہوتا ہے۔ پھر باقی پوری زندگی میں دونوں نسل نو کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو جاتے ہیں۔ کسی مرحلے میں عورت کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور کہیں مرد کی‘ اور اس میں مختلف مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔

پہلا مرحلہ: نکاح ‘ زوجین کا باہمی تعلق

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ نکاح کا رشتہ دو اجنبی مرد و عورت کو باہم مضبوط رشتے میں جوڑ دیتا ہے۔ حقوق و فرائض کی ادایگی میں بدنیتی وہ زہر ہے جو ہر اچھے سے اچھے کام کو عیب دار بنا دیتا ہے‘ بلکہ ہرے بھرے پھل دار باغ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ زوجین کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کا کتاب و سنت کی روشنی میں پورا شعور ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ شادی سے پہلے بچوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ کریں۔

زوجین کا باہمی تعلق: میاں بیوی کا باہمی تعلق ’’ایک دوسرے کے لیے لباس‘‘ کا ہی ہونا چاہیے۔ معنوی طور پر بھی‘باطنی اور روحانی طور پر بھی۔ زوجین کا باہم رشتہ محض صنفی جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہ سمجھا جائے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوجین کے باہم تعلق کو جس شائستگی اور وقار کے ساتھ نبھانے کاطریقہ بتایا ہے اس کو مدنظر رکھا جائے۔ زوجین کو باہم محبت بڑھانے کے لیے‘ اس کو قائم و استوار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے‘ جس سے میاں بیوی کے دلوں میں دُوری پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں بیوی کے درمیان‘ رنجش‘ جدائی یا بدگمانی ڈال کر ہوتی ہے اور یہ کام کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتاہے۔

نسل نو کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنا والداور والدہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دی ہے اور اس کھیتی میں جس قسم کا بیج ہوگا ویسا ہی پھل نصیب ہوگا۔ جس طرح ایک جاہل‘ نالائق‘ ذمہ داریوں سے لاپروا باغباں اپنے کھیت اور باغ سے کماحقہ ٗ رزق حاصل نہیں کر سکتا‘ اسی طرح اسلامی شعور اور ذوقِ آگہی سے بے بہرہ مرد اور عورت اپنی اولاد سے پوری طرح فیض یاب نہیں ہو سکتے۔

دوسرا مرحلہ : پیدایش سے پہلے اور بعد

ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لیے باعث سعادت اور معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوگا۔ بچوں کی پیدایش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا‘ چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو‘ نرم سے نرم الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔

بچے کا تعلق ابتدائی دنوں ہی سے ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سا خلیہ (cell)محض ایک جرثومہ نہیں‘ بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہء آغاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لیے اُسے منتخب کیا ہے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے‘ نہ اپنی تکلیف کو دوسروں کے لیے باعث آزار بنائے بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے روز مرہ کے فرائض کو اجر کے حساب سے زیادہ نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔

باپ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لیے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟ ہمہ وقت اللہ کا ذکر‘ نماز کی پابندی‘ باوضو رہنا‘ پاکیزہ گفتار ہونا‘ جسمانی ‘ روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے اس میں اُس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے‘ جو والدین کی زندگی کا سرمایہ اور توشۂ آخرت ہے۔ اس زمانے میں جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے۔

مدت حمل میں بچہ ماں سے خوراک ہی حاصل نہیں کرتا‘ بلکہ وہ اس کے جذبات‘ احساسات‘ خوشی اور غم میں بھی شریک ہوتا ہے۔ ماں کی افسردگی‘ بے چینی اور بے آرامی کا بھی اُس پر اثر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ کیا سوچتی ہے؟ اس کا دل کن جذبوں سے آراستہ رہتا ہے؟ بچے کی شخصیت اسی کا پرتو ہوتی ہے۔

ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو ’’مثالی مسلمان‘‘ بنانا چاہتی ہوگی تو وہ ضرور شعور و آگہی کے ساتھ ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی‘ خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان اور لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کااثر یہ ہوا کہ نومولود کی جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔

ایک ذمہ دار اور حسّاس مسلمان ماں وہ ہے‘ جو زمانۂ حمل میں قرآن پر غوروفکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انجام دے اور علم کی محفلوں میں پورے انہماک سے شریک ہو۔ یہ ہماری دیکھی آزمائی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوںمیں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات و اطوار میں نمایاں تبدیلی محسوس کی‘ جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہا تھا۔

ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبروقناعت اور قوت برداشت کی صفات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں‘ مثلاً بغض‘ کینہ‘ حسد‘ تکبر‘ اور جھوٹ ‘ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا‘ لایعنی‘ غیر ضروری بحث مباحثہ و گفتگو سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقینا اس کی عبادت‘ ذکرو تسبیح‘ نماز‘ روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادایگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہوگی۔

جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی اعلیٰ اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار اور اعلیٰ ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف‘ جھگڑالو‘ پژمردہ حاسد‘ احساس برتری یا احساس کمتری کی ماری‘ ناشکری اور بے صبری عورت قوم و ملّت کو اعلیٰ کردار کا سپوت کیسے دے سکتی ہے۔

بیرونی ماحول اور ماں کے اپنے فکروعمل سے جنین اثرات قبول کرتا ہے۔ اس بات کا تجربہ مشاہدہ کرنے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ نے حاملہ خواتین کو مختلف ماحول اور سرگرمیوں میں رکھا۔ اس جائزے میں ایک یورپی ماں کا اپنا تجربہ ہے: ’’جب میں نے یہ بات سنی کہ جنین پہ ماحول کا اور ماں کے اپنے اندازِ فکر وعمل کا اثر ہوتا ہے تو میں نے کمپیوٹر کی تعلیم سیکھتے ہوئے اپنے بچے کو شعوری طور پر مخاطب کر کے ہر سبق دہرایا اور ہر عمل میں اُس کو اپنے ساتھ محسوس کیا۔ پیدایش کے چند سال بعد وہ بچہ کمپیوٹر کے بارے میں رازداں نکلا‘‘۔

اسی ادارے نے تحقیق کے بعد بتایا کہ ’’پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ صرف جینیاتی (موروثی) اثرات ہی مزاج بنانے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مگر اب ماحول کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ پژمردہ مائوں کے بچے بھی پژمردہ پیدا ہوتے ہیں۔ جیرالڈین ڈاسن نے واشنگٹن یونی ورسٹی میں منعقدہ ایک سیمی نار میں اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ: ’’جن بچوں کی مائیں پژمردگی کا شکار ہوتی ہیں‘ ان کے بچوں کے دماغ کا بایاں حصہ جس کا تعلق خوشی‘ دل چسپی اور دیگر مثبت عادات سے ہے‘ اپنا کام بہتر طریقے پر انجام نہیں دے سکتا‘‘۔

اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرُعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصاً شوہر کا رویہ اورانداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیرمعمولی صورت حال میں شوہر کی ذمہ داریاں بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ رفیقہ حیات کی ذہنی ‘ جسمانی‘ روحانی طمانیت کے لیے شوہر کو بھرپور طریقے سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرضِ عین ہے جس کی اس سے بازپرس ہوگی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دُنیا میں لانے کے لیے عورت کو جتنی آسانیاں آرام‘ ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے ‘ لازماً اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پائیں گے۔

حاملہ خاتون کو کچھ بیماریوں سے حفاظتی ٹیکے اور دوائیاں دی جاتی ہیں‘ تاکہ خاتون اور اس کا بچہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔ بالکل اسی طرح کچھ روحانی بیماریوں سے بھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں۔ ہر عورت اپنے عیب و محاسن کا جائزہ لے اور جو عیوب انسان کی زندگی کو عیب دار بناتے ہیں ان سے بچنے کے لیے مکمل توجہ کے ساتھ کوشش کرے‘ جس طرح رمضان میں اہتمام کر کے کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جسمانی بیماریوں کا علاج ضروری ہے تو اخلاقی بیماریوں کا سدِّباب بھی ہونا چاہیے۔

تیسرا مرحلہ: ولادت‘رضاعت ‘ ابتدائی چند سال

نومولود‘ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو بچہ جننے کی تکلیف برداشت کرنے پر بے حساب اجر وثواب کی بشارت سنائی ہے۔ اگر ایمان و ایقان کی کھیتی شاداب ہو اور اس پورے عمل کو اللہ اور رسولؐ کی رضا کا وسیلہ سمجھا جائے تو پھر درد کی ہر لہر کو برداشت کرنے پر بے حد و حساب ثواب ملتا ہے۔ نومولود لڑکا ہو یا لڑکی‘ خوشی کا اظہار فطری ہے۔ لڑکی اللہ کی طرف سے رحمتوں کا پیغام لے کر آتی ہے اور ایک فرشتہ گھروالوں کو ان رحمتوں کی خوش خبری سناتا ہے۔ جس عورت کے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرے‘ دل میں تنگی و ناگواری نہ لائے تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی خوش خبری سنائی ہے۔

نام: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بچوں کو اچھے نام دو۔ عبداللہ‘ عبدالرحمن‘ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں‘‘۔ انبیا علیہم السلام کے ناموں پہ بچے کا نام رکھنے کی تلقین کی گئی۔ معنی کے لحاظ سے پسندیدہ‘ بامعنی‘ خوب صورت‘ خوشی‘ کامیابی‘ سکون و وقار والے ناموں کا اہتمام کرنا سنت نبویؐ ہے۔

لڑکے یا لڑکی کا جو بھی نام منتخب کیا جائے‘ اس کو پورے شعور کے ساتھ دل کی گہرائی سے احساس کرتے ہوئے پکارا جائے‘ کہ یہ نام نہیں حقیقت میں ایک دعا ہے‘ ایک آرزو ہے‘ تمنا ہے‘ آئیڈیل ہے جس کو پانا ہے۔ بچوں کو پیار ہی پیار میں بے معنی ناموں سے پکارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

رضاعت: پیدایش کے فوراً بعد ہر جان دار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے‘ چاہے اُس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانوروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو ایک دوسرے کی بو (smell)سے پہچانتے ہیں۔

قدرت نے نوزائیدہ شیرخوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع ہی سے ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دُور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بو اور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔

بچہ رات کو بھوک سے روئے اور ماں اپنی نیند کی قربانی دے کر پوری محبت اور خوش دلی سے اسے دودھ پلائے تو فرشتے اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ہمارے لیے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام‘ آیاتِ الٰہی ‘لوری کی صورت میں سناتی تھیں۔

بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو ۴۰ دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔ اس زمانے میں بچہ زیادہ تر سویا رہتا ہے۔ ماں بھی اکثر کاموں سے فارغ ہوتی ہے اور زیادہ تربچے کے قریب ہی رہتی ہے۔ گھر کی دیگر ذمہ داریاں عموماً دوسرے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران کیسٹ کے ذریعے ہلکی آواز میںقرآن پاک کی تلاوت بچے کے سرہانے لگا دی جائے۔ سوتے جاگتے بچے کو قرآن پاک کی تلاوت سے مانوس کیا جائے۔

بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے ’’اللہ‘‘ کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ‘ بسم اللہ‘ السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بچے کی زبان کھل جائے تو بچہ کو سورہ فرقان کی یہ آیت یاد کروائی جائے:

الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا o (الفرقان ۲۵: ۲)

وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ‘ جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے‘ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

ابتدائی چند سال: پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ: ’’صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔ مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ : ’’بچپن کا ماحول بھی بچے کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچپن کے تجربات پتھر پہ لکیر ہوتے ہیں‘‘۔ مثبت اور خوش گوار مشاہدات‘ جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ اعتماد‘ قوتِ فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔

دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لیے بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لیے ایک صحت مند تصورِ ذات بہت ضروری ہے۔ بچے کا ابتدائی تصور ذات‘ اُسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کرتے ہیں۔ بہرحال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے‘ البتہ بعد کے حالات اُس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘ ماحول اسے یہود و نصاریٰ بنا دیتے ہیں‘‘۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہائو کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہے۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔

چند سال کا بچہ ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کااظہار کرنا چاہتا ہے‘ تاکہ اگلے مرحلے میں وہ اپنے ذہن کی مزید نشوونما کر سکے۔

بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے‘ جس طرح جسمانی غذا بہ تدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہوگی‘ کم ہوگی‘ بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔ بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے ‘ نامکمل اور ناقص ہو تو بچہ روحانی طور پر کمزور‘ بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے‘ اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لیے بھی پیدایش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدایش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ وہ نیت کی درستی‘ فرائض کی ادایگی میں پابندی اور قلب و نگاہ کو شعوری مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے!

بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے اور ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اُسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے۔ یا اُس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس کام سے خوش ہوں گے۔ شروع ہی سے بچے کے قلب و ذہن اور رگ و پے میں اللہ تعالیٰ کی محبت‘ رضا اورخوشی کا احساس بھی اسی طرح دلانا چاہیے۔

مسلمان مائوں کے لیے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انھی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی سرفرازی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالیٰ کو تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید!

والدین کا اپنا طرزعمل بچوں کے لیے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرزعمل کو  نوٹ کرتے اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو آپس میں یا دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے‘ یا آپس میں کھیلتے ہوئے‘ ان کی سرگرمیوں اور پلاننگ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین‘ رشتہ داروں اور استادوں سے کیا سیکھ رہے ہیں اور ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ کی حقیقت بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔

چوتھا مرحلہ: نماز کی پابندی

ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود‘ اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے ‘ شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دُور کرنا چاہتاہے‘ اسی لیے اس کی ادایگی نفس پر گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں: ’’بے شک نمازبے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ مرد حضرات خود باجماعت نماز کی پابندی کریں‘ لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت‘ انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ بازار جانے‘ کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو پیدا کی جائے۔

نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اُسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر میں ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادایگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اُٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اُٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ--- صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر فجر کی پوری نماز کی (فرض و سنت کے ساتھ) پابندی کرائی جائے۔

دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بہ تدریج باقی نمازیں۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ‘ شعور‘ آگہی اوردعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔

پردے کی پابندی: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب تیرے اندر حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔ سب سے پہلے تو خود والدین کو اس لفظ کا معنوی و حقیقی‘ اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو‘ انداز و اطوار ‘ حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیردیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط و شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی باقاعدہ عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا۔

لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔  اگرچہ سالگرہ منانا اسلامی تہذیب کا رواج نہیں ہے‘ تاہم سالگرہ کا دن بچے میں خود احتسابی کے تصور کے ساتھ متعارف کروا دیا جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چھوٹے بچے کو سالگرہ کے دن اخلاقی نصاب کا کوئی ایک قرینہ سکھایا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ جس ماحول میں گفتگو سے لے کراعمال تک حیا نہ ہو اُس میں بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جاگزیں ہو سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے ‘ جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لے رہے ہوں اور سب حیا سے عاری ہو جائیں تو انھیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے۔

گھروں میں نوعمری میں ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخاست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہی ہوتے ہیں۔ انتہائی چھوٹی عمر میں بھی مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کیا جائے یا بچوں کو وہاں نہ بھیجا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسی عمر میں بچوں کو مخلوط اداروں میں بھیجنے سے پہلے یہ شعور دیا جائے کہ کان‘ آنکھ اور دل کے بارے میں حساب دینا ہو گا۔

معاشرتی تقاضے: بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بچوں کے درمیان عدل اور انصاف کا برتائو اہم نکتہ ہے۔

والدین کی طرف سے بچوں کے درمیان بلاوجہ تفریق و امتیاز‘ نہایت قابل گرفت بات ہے۔ خصوصاً ایسے والدین کی طرف سے جو خود تو صالح ہیں اور اولاد کی طرف سے پریشان ہیں کہ وہ حق کو نہیں سمجھتی۔ ایسے بچوں کے ساتھ متشددانہ رویہ حالات کو مزید خراب کر دیتا ہے۔ پہلے عرض کیا جا چکا کہ بچے کا اپنے والدین خصوصاً ماں کے ساتھ مناسب تعلق قائم نہ ہو--- ماں کی مصروفیات چاہے کتنی ہی صائب اور ضروری کیوں نہ ہوں--- بچے سے دُوری اور لاتعلقی اپنا اثر دکھا کر رہتی ہے۔ بعد میں اگر حالات درست ہو جائیں‘ تعلق بحال ہو جائے‘ کمی دُور ہو جائے تو فبھا ورنہ یہ تعلق کی کمی اور تشنگی دُور نہیں ہوپاتی۔ بعض اوقات تو منفی ردعمل سامنے آتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ لڑکوں کو ’’قوام‘‘ کے درست معنی سمجھائیں‘ اور بتائیں کہ وہ عورتوں کے آقا اور مالک نہیں بلکہ وہ ان آبگینوں کے نازک جذبات ‘ احساسات‘ خواہشات اور ضروریات کے نگہبان ہیں۔ ہمارے معاشرے نے جو جھوٹی شان ‘ تمکنت‘ رعونت‘ کرختگی اور آمرانہ روش لڑکوں کے ذہنوں میں بے جا طور پر بٹھا دی ہے‘ وہ اسلام اور اخلاق دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ عورت کو بحیثیت ماں‘ بیٹی‘ بیوی اور بہن کے قدرومنزلت دی جائے۔ یاد رہے‘ کہ ظلم کے کھیتوں میں کبھی بھی محبتوں اور شفقتوں کے پھول نہیں کھلتے۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی‘ بہن اور بیٹی کے ساتھ ظلم یا خود پسندی کا رویہ اختیار کرے گا‘ تو ویسا ہی بیمار معاشرہ پیدا ہوگا‘ جیسا ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمیں اس معاشرے کو نہیں بدلنا؟

عمومی سیرت و کردار کی پختگی:  بچوں سے اپناتعلق (قلبی و ذہنی) مضبوط کرنے کے لیے گھرمیں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوش گوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پہ تبادلۂ خیال ہو۔ بچوں کے آپس میں تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔ بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔

والدین عموماً بچوں کی بہت سی عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظراندازکرتے رہتے ہیں‘ مگر بالغ ہوجانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ بچے توغلط رخ پہ جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش‘ تعلیم و تربیت ہر سال‘ ہر مہینے‘ ہر ہفتے‘ ہر دن اور ہر گھنٹے اور ہر لحظے کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری (ڈیوٹی) ہے۔

جب زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم‘ مصائب و آلام سے گزر کر ایک ثمربار درخت بنتا ہے۔ اس وقت اس درخت (باغ) کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا‘فائدہ اٹھانا اور آیندہ کی منصوبہ بندی کرنا عقل مندی کی نشانی ہے۔ اسی طرح جوان اولاد‘ والدین کے لیے ثمربار درخت ہے۔ اس وقت اس کو ضائع کرنا‘ اس سے لاپروا ہونا‘غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا‘ ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔

نفسیاتی‘ ذہنی‘ جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لاکھڑا کرتی ہیں۔

اس وقت والدین کی شفقت‘ اعتماد‘ گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انھیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی و جسمانی اور ارتقائی مراحل قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لیے باپ کی بھرپور توجہ‘ رہنمائی اور محبت اسے بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا ‘اس عمر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اپنا بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔

اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال‘ ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے‘ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ‘ بہنیں‘ خالائیں‘ پھوپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں‘ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پرُاعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد‘ والد‘ بھائی‘ ماموں‘ چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتے دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں‘ تو شائستہ اطوار اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔

معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہِ راست پرلانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔

پانچواں مرحلہ: رشتوں کی تلاش

والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کی مناسب وقت پر شادی کر دیں۔ اس میں کسی قسم کی طمع و حرص اور اَنا کا دخل نہ ہو۔ نیک نیتی سے اُسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کریں‘ جو معیار اللہ اور اس کے رسولؐ نے قائم کیا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ والدین اپنے بیٹے کے لیے پسند و ناپسند کا پیمانہ دوسرا رکھیں اور اپنی بیٹی کے لیے کوئی مختلف پیمانہ مقرر کریں--- اسی طرح جو بلند معیار اپنی بیٹی کے لیے ہے‘ وہی دوسروں کی بیٹی کے لیے قائم نہ رکھا جائے تویہ کھلی منافقت اور سراسر بدنیتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ تعلیم‘ خاندان‘ اسٹیٹس اورمعاش میں کفو کو نظرانداز نہ کریں۔ لیکن‘ جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ شعورو آگہی‘ اندازِ فکروفہماور نظریات میں بھی ’کفو‘ کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ازدواجی زندگی اور تربیت اولاد کے سلسلے میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے قائم کرنے کے لیے جو ترتیب بتائی ہے اسی کو مدنظر رکھا جائے‘ یعنی: دین‘ حسب نسب‘ شکل و صورت۔ جس چیز کو سب سے آخر میں رکھا گیا ہے لوگ اسی کو اول و آخر قرار دیتے ہیں۔ اگر کام کی فطری ترتیب کو اُلٹ دیا جائے تو معاشرہ ابتری کا شکار ہو جاتا ہے۔

بچے کی تربیت میں دیگر رشتہ داروں کا کردار

ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام بہت سی خوبیوں اور کئی خرابیوں کا مرقع ہے۔ بچے کی شخصیت پہ مثبت و منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہر گھر میں بچے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں اور پودوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ اس باغیچے کے باغبان والدین ہی ہیں اور باغبان ہی اپنے پودوں اور پھولوں پھلوں کا اصل میں ذمہ دار اور نگہبان ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ پودوں کی نشوونما کس نہج پہ شروع ہوئی اور اب کس مرحلے میں ہے۔ پودوں کی کانٹ چھانٹ اور کیاریوں کی صفائی ستھرائی باغبان کا ہی کام ہے۔ ایک ترتیب دیے گئے باغیچے میں پھول‘ پھل پودے جب بہار دے رہے ہوتے ہیں تو باغبان ہی نہیں دیگر دیکھنے والے بھی آسودگی اور نظروں میں تراوٹ محسوس کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ بہتر سے بہترین بنانے کی لگن سے کوئی والدین غافل نہیں ہوتے۔ فرق صرف دنیا یا آخرت میں سرخرو ہونے کے تصور میں ہے۔

بچوں کی وہ خوشیاں جن کا تعلق حصولِ دین سے ہو‘ ان میں سب کو بھرپور خوشی منانی چاہیے‘ مثلاً علم قرآن و حدیث کے حصول پہ خوشی‘ چھوٹے بچے کی دُعا‘ آیت یا دینی امور میں نمایاں کامیابی‘ نماز‘ روزہ‘ غرض ہر نیکی کا صلہ خوشی‘ محبت ‘ حوصلہ افزائی اور انعام کی صورت میں دیا جائے۔ دین سے بے بہرہ لوگ دنیاوی کامیابیوں پہ جشن مناتے ہوں تو مسلمان بچے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوششوں میں ہونے والی کامیابیوں کی خوشیاں کیوں نہ منائیں؟--- وہ تقریبات جو شرعاً جائز ہیں ان کوباوقار طریقے سے اسلامی تہذیب و فکر کے ساتھ منایا جائے۔

اُمت مسلمہ جس پرآشوب دَور سے گزر رہی ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ کہ آج ہی صدق دل سے ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور نسل نو کی بحیثیت ایک مسلمان کے‘ دوا اوردُعا دونوں کے ساتھ آبیاری کرے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے نسل نو کو مثالی مسلمان قوم بنانے کے لیے نصرت و حمایت کی دُعا کرتے ہیں:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا  قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴)

اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے کر ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔

 

عمومی زندگی میں ہمارے معاملات افراد‘ معاشرہ اور اداروں سے ہوتے ہیں۔ ہماری شخصیت کا اظہار ہمارے معاملات کے انداز‘ ہمارے گفتگو کے طریقے اور اس کے رویے سے ہوتا ہے۔ ہم کبھی کسی ایک فرد سے معاملہ کر رہے ہوتے ہیں‘ کبھی چھوٹے سے گروپ کے ساتھ‘ کبھی تنظیم اور کبھی عوام الناس کے ساتھ۔ عام طور پر یہ دائرہ فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے تک محدود رہتا ہے۔ اس فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے میں گھر‘ گھرکے افراد‘ اہل خانہ‘ دوست ‘ احباب‘ رشتے دار‘ پڑوسی‘ دفتر کے لوگ‘ کاروباری حلقہ اور سماجی‘ معاشرتی‘ مذہبی اور سیاسی تنظیمیں آجاتی ہیں۔ ہمیں ان ہی کے ساتھ معاملات کرنے ہوتے ہیں اور ان ہی معاملات کے باعث ہماری شخصیت کی قدر ہوتی ہے۔

ذیل میں اسی حوالے سے معاشرتی‘ معاملاتی اور استحکامی عناصرکے نکات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان پر غور کیجیے اور لائحہ عمل بنایئے تاکہ لوگ آپ کو قبول کر لیں اور کچھ عرصے کے بعد لوگ آپ کے بارے میں تبصرہ کریں کہ:  ع کتنا بدل گیا ہے انسان!

عوام الناس کے لیے مطلوبہ خوبیاں

لوگ عام طور پر ان خوبیوں اور باتوں کو پسند کرتے ہیں:

  • دوستانہ انداز: آپ کا رویہ ایسا ہو کہ لوگ اس میں اُنسیت اور دوستی کو محسوس کریں۔ اس رویے کے باعث لوگ آپ کے قریب آئیں گے اور آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔
  • انصاف پسندی: اپنی غلطی کا اعتراف کرنا‘ دوسروں کی اچھی بات کو مان لینا‘ معاملات میں توازن‘ حقوق کی پاسداری اور تقسیم کے معاملات میں وسیع القلبی کی عادات‘ آپ کو معروف اور مقبول بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔
  •  باہمی تعاون: جن لوگوں کے ساتھ آپ گزارا کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کی کوشش کیجیے لیکن ایسا نہ ہو کہ اپنے کام کو قربان کر دیں۔ دوسروں کی دُنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت تباہ مت کیجیے۔ تعاون کے معنی ضرورت کے وقت ساتھ دینا ہے۔ ان کے معاملات پر حاوی ہونا اور مداخلت کرنا نہیں۔
  • قابل اعتماد:  اپنی شخصیت میں وہ عناصر اور عادات مستحکم کیجیے جو اخلاقی عناصر کے ذیل میں آتی ہیں‘ یعنی سچائی‘ امانت اور ایفاے عہد۔ ان عناصر کے ذریعے آپ ایک قابل اعتماد فرد کے طور پر نمایاں ہوں گے اور لوگ آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے قبول کریں گے۔
  •  پرعزم: اپنے عزائم کو بلند رکھیے۔ اپنی زندگی کا نصب العین بنایئے۔ اپنی زندگی کے مختلف مراحل کی منصوبہ بندی کیجیے۔ مقاصد اور سنگ میل بنایئے۔ اس کے مطابق شیڈول بنایئے اور روز بروز ترقی کرتے رہیے۔ آپ کا آج کا دن گذشتہ کل سے بہتر ہو۔ آپ آنے والے دن کی ایسی تیاری کریں کہ وہ آج سے بہتر ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص تباہ ہو گیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے ہوئے‘‘۔ بہتری اور خوب سے خوب تر کی طرف آیئے تاکہ آخرت میں مایوسی نہ ہو۔
  •  اپنی اور دوسروں کی عزت: آپ اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے‘ اس کی خامیوں کو دُور کیجیے۔ اس میں اچھائیاں اور خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اپنی شخصیت میں حلم‘ طمانیت اور وقار پیدا کیجیے تاکہ آپ خود اپنی ذات میں اپنی عزت کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جن لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں وہ بھی عزت اور وقار کے ساتھ کیجیے۔ آپ عموماً عزت دے کر ہی عزت حاصل کرتے ہیں۔
  •  وفاداری:  وفاداری ایک ایسی صفت ہے جو آپ کے چہرے پر نہیں لکھی ہوتی بلکہ مشکلات اورآزمایشوں کے وقت اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کی ضد غداری ہے اور خود غرضی‘ غداری کا پیش خیمہ ہے۔ اپنے گھر‘ ادارے اور تنظیم کے ساتھ وفادار رہیے۔ عموماً اسی کی قدر ہوتی ہے۔
  •  استقامت‘ استحکام اور تسلسل: اس صفت کے ذریعے آپ نہ صرف ترقی کرتے ہیں بلکہ لوگوں میں بھی آپ کی شخصیت کا ایک تاثر قائم رہتا ہے۔
  •  شائستگی اور تواضع: اپنی شخصیت میں نکھار‘ گفتگو میں شیرینی‘ چہرے پر مسکراہٹ‘ لباس میں متانت اور معاملات میں تواضع پیدا کیجیے۔ یہ صفات آپ کی رفتارِ کامیابی کو بڑھائیں گی۔
  •  دُور اندیشی: آپ فیصلوں اور معاملات کے حوالے سے دُور اندیشی کا ثبوت دیجیے۔ جذباتی‘ جلدباز اور انتقام پسند مت بنیے۔ حسب ضرورت اپنی شخصیت میں ٹھہرائو پیدا کیجیے۔
  •  آواز کا بہتر استعمال: اپنی آواز کا استعمال سیکھیے۔ اس کی تربیت کیجیے۔ آواز کی شیرینی‘ الفاظ کی ادایگی‘ ہاتھ اور انگلیوں کا مناسب استعمال اور مسکراہٹ‘ آپ کو ہر دلعزیز بنانے میں کارآمد ثابت ہوں گی۔
  •  سمجھنا اور ہمدردی کرنا: لوگوں کی باتیں سننے اور انھیں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ سننا ایک صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت کو سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ افراد کو سمجھنا‘ ان کی ضروریات کا اندازہ لگانا اور اس کے مطابق کام لینا اور کام دینا کامیابی کے متلاشی انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترغیب دینے کی صلاحیت بھی اس میں بہت کام آتی ہے۔
  •  مل کر کام کرنا اور کنٹرول رکھنا: اس دنیا کے اکثر کام اور معاملات تنہا انجام نہیں پاتے۔ اس کے لیے افراد اور گروپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ افراد اور گروپ کو ٹیم بنانا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا اور ان سے کام لینے کی صلاحیت بہت ضروری ہے۔ اپنے کام اور ذمہ داریوں پر اپنا کنٹرول رکھتے ہوئے لوگوں کے ساتھ ٹیم ورک کی صلاحیت پیدا کیجیے۔
  •  نظم و ضبط : اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کیجیے۔ توازن اور اعتدال پیدا کیجیے۔ یہ عادات آپ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ساتھ دیں گی‘ اور آپ کو غیر ضروری محنت نہیں کرنی پڑے گی۔
  •  صلاحیت اور رویہ: اپنی ذات میں اپنے کام اور معاملات کے حوالے سے صلاحیت (competence) پیدا کیجیے۔ یہ علم‘ عمل اور تجربے کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے جب لوگوں سے معاملات ہوں تو پھر اخلاقی اقدار کا لحاظ رکھ کر کیجیے تاکہ آپ کامیاب ہو سکیں۔

معاشرتی مطابقت

ضد‘ غصے اور ہٹ دھرمی کے بغیر اپنی بات کو سمجھانے اور منوانے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔ اس بات کے حوالے سے منطق کے چار سوالات اپنی ذات سے ضرور پوچھ لیجیے۔ امید ہے ان چار سوالات کے جوابات ہی آپ کا ۵۰ فی صد مسئلہ حل کر دیں گے:

۱-  میں کیا بات کر رہا ہوں (کیا‘what)۔ علم کی طرف اشارہ ہے۔

۲- یہ بات کیوں کر رہا ہوں (کیوں‘why)۔ اس بات کا مقصد کیا ہے۔ آپ کے رویے کی جانب اشارہ ہے۔

۳- یہ بات کیسے کی جائے (کیسے‘ how)۔ اس کا تعلق طریقہء کار سے اور آپ کی بات کرنے کی صلاحیت سے ہے۔

۴- یہ بات کب کی جائے (کب‘ when)۔ اس کا تعلق وقت کی مناسبت سے ہے۔

کسی گفتگو اور کام سے پہلے آپ کے ذہن میں یہ چار سوالات اور ان کے جوابات ہیں تو آپ موثر‘ مستعد اور کامیاب ہیں۔ بات کرنے اور بات منوانے کا سلیقہ آپ کو بہت اچھا سیلزمین‘ مبلغ اور داعی بنا دے گا۔

معاشرتی مطابقت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رویے کے ذریعے دوسروں پر اعتماد کا اظہار کریں۔ اس کے باعث لوگ اپنی ذات میں اعتماد محسوس کریں گے اور آپ کے ساتھ اور آپ کے لیے کام کریں گے۔

گفتگو میں چڑچڑے پن اور ضد سے بچتے ہوئے اپنے دلائل میں نرمی اور شائستگی پیدا کیجیے۔ یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہوگی۔

مفاہمت پیدا کرنا

اس دنیا اور معاشرے میں ہم ہر ایک سے لڑ کر اور حجت اور دلیل بازی کے ساتھ نہیں رہ سکتے‘ مفاہمت پیدا کیجیے۔ ہر چیز کو اپنی انا کا مسئلہ مت بنایئے۔ جہاں جھکنا ضروری ہو وہاں جھک جایئے۔ کرکٹ کی دنیا میں آج تک ’’چھکا‘‘ اُچھل کر نہیں لگا ہمیشہ جھک کر لگا ہے۔ ذیل کی تمثیل امید ہے گھریلو زندگی اور کاروباری و سماجی معاملات میں مدد دے گی۔

ایک دریا کے اُوپر لکڑی کا ایک فٹ چوڑا پل تھا۔ اس پل پر ایک طرف سے ایک بکرا آ رہا تھا۔ وہ ابھی بیچ پل پر ہی پہنچا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرا بکرا آگیا۔ دونوں آمنے سامنے ہو گئے۔ آوازیں تیز ہوگئیں اور قریب تھا کہ دونوں دریا میں گرتے‘ اسی اثنا میں ایک بکرے نے دوسرے کو تجویز پیش کی کہ ’’یار میں بیٹھ جاتا ہوں تو میرے اوپر سے گزر جا‘‘۔ اس نے ایک لمحے کی قربانی‘ اپنی اَنا کی قربانی دے کر دونوں کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا۔ یہی لمحے ہیں جس میں اَنا اور ’’میں‘‘ انسان کو تباہ کر دیتے ہیں اور قوموں کو صدیوں تک نقصان پہنچتا ہے۔ کہتے ہیں کہ لمحوں نے غلطی کی اور صدیوں نے سزا پائی۔

ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں بھی ان جیسی مثالوں سے سبق نہیں لیتے اور قرآن اور احادیث کی روشنی میں عمل اور ردعمل کے بجائے شیطان کی آگ میں جھلس جاتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں۔

مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم:

    __       دوسروں کے نقطۂ نظر کو سننے اور اس کے بعد سمجھنے کی کوشش کریں۔

    __       اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے حقائق پیش کیجیے اور بغیر حقائق اپنی رائے مت پیش کیجیے۔

    __       ہمیشہ موقع شناس رہیے مگر خود غرض مت بنیے۔ موقع دیکھ کر بات کرنے کوشش کیجیے۔ اچھے اور بہتر انداز سے بات کرنے کی کوشش کیجیے۔

    __       تبدیلی قبول کرنے کے لیے اپنی قوت فیصلہ کی تربیت کیجیے۔

ملاقات کے لیے ضروری باتیں

    __       جب آپ کسی واقف سے ملیں تو خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملیں‘ اور اگر وہ اجنبی ہے تب بھی اپنا تعارف کرانے کے بعد خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ پیش آیئے۔

    __       مجلس میں ‘ لوگوں میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیجیے۔

    __       مثبت رویے کا اظہار کیجیے۔

    __       پہلی ہی ملاقات میں بہت زیادہ وعدہ مت کر لیجیے ورنہ پریشان ہوں گے۔

اداروں کے لیے مطلوبہ خوبیاں

جن اداروں سے آپ وابستہ ہوں‘ تو ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں جنھیں پورا کرنا ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ کے لیے آگے بڑھنے کی راہیں کھلتی رہیں گی۔ یہ صفات معاون ثابت ہوسکتی ہیں:

    __       ادارے کے ذمہ داروں کی طرف سے دی گئی ہدایات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت۔

    __       اپنے ذمہ دار‘ برابر اور ماتحت افراد کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت۔

    __       بھروسا کرنے کی صلاحیت۔

    __       کام کو چیلنج سمجھنے اور اسے اُمنگ کے ساتھ کرنے کی صلاحیت۔

    __       نئے نئے کام اور ٹکنالوجی کو سیکھنے کا جذبہ اور ترقی کرنے کی صلاحیت۔

    __       وفاداری اور ایمان داری کی صلاحیت۔

    __       تنقید قبول کرنے کی صلاحیت۔

      __     اپنے حصے کا کام اچھے‘ موثراور احسن طریقے سے اور وقت پر کر کے دینا۔

   __        اوقات کی پابندی۔

   __        اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینا اورمعافی مانگ لینا۔

    __       دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت۔

    __       صحیح انداز میں ہدایات دینے کی صلاحیت۔

    __       اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی صلاحیت۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے بہت پہلے ہی مغرب اور اسلام اور اہل مغرب اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات‘ اہل دانش اور عوام میں گفتگو اور عام بحث کا موضوع بن گئے تھے۔ ۱۹۹۶ء میں ہن ٹنگٹن نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا جو نظریہ پیش کیا تھا‘ یہ اُس برسات کا پہلا قطرہ نہیں تھا‘ تاہم اس کے بعد تو اس طرح کے موضوعات پر مضامین اور کتابوں کا ایک سیلاب ہے‘ جس کے تھمنے کے آثار نہیں۔ زیرنظر کتاب  Muslims and the West: Encounter and Dialogue (مسلمان اور مغرب: مڈبھیڑ اور مکالمہ) جسے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور جارج ٹائون یونی ورسٹی واشنگٹن کے سینٹر فار مسلم کرسچین اسٹینڈنگ نے شائع کیا ہے‘ اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے‘ جو ۱۹۹۷ء میں منعقدہ مذاکرے میں پڑھے جانے والے ۱۲ منتخب مقالات کا مجموعہ ہے‘ جو ’’اسلام آباد کی سحرآگیں فضا‘‘ میں ساری دنیا کے منتخب ’’علما‘ مفکرین‘ کارپردازانِ سرکار اور ذہن کو تشکیل دینے والوں‘‘ کے سامنے پیش کیے گئے۔

کتاب کے ابتدایئے میں مرتبین میں سے ایک (ایسپوزیٹو) کے ۱۹۹۰ء میں شائع شدہ مضمون کا ایک اقتباس ہے۔ ایک مسلمان‘ اپنے عیسائی دوست سے کہتا ہے: ’’مجھے یہ بات غمگین کر دیتی ہے کہ اتنے بہت سے لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ تاریخ کا اگلا دور‘ آپ کی دنیا اور میری دنیا میں تصادم کا دور ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھڑے ہوئے ہیں اور ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ ماضی میں بھی کئی دفعہ ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرائی ہیں لیکن یسوع کی پیدایش کے تقریباً  ۲ ہزار سال بعد‘ اور ہمارے محمد ]یونہی لکھا ہے[ کی پیدایش کے ۱۴۰۰ سال بعد مجھے یہ سوال کرنے دیجیے کہ کیا اب پھر ایسا ہونا ضروری ہے؟‘‘

مرتبین کے خیال میں ایسا ضروری نہیں۔ آگے کیا ہوگا‘ اس کا انحصار ان دو تہذیبوں کے قائدین کی دانائی‘ وژن‘ وسیع القلبی ‘ برداشت اور دُوربینی پرہے۔

کلیدی مقالے (Muslims and the West in History)میں اسماعیل ابراہیم نواب نے امید ظاہر کی ہے کہ ’’ان دو عظیم تہذیبوں کے وارثین‘ امن وتعاون کے بیج بوئیں گے اور ان شاء اللہ اس فصل سے تمام انسانیت کو فائدہ ہوگا‘‘۔ مغرب میں اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں‘ دُور ہوں گی۔ ۱۸ ویں/۱۹ ویں صدی میں مسلم ملکوں پر مغرب کے غلبے کی تلخیاں ختم ہو جائیں گی اور جو کروڑوں مسلمان مغرب میں مقیم ہیں ان کے مقامی باشندوں سے تعلقات بتدریج خوش گوار ہوں گے۔ عبدالرحمن قدوائی نے انگریزی ادب میں عرب مسلم امیج کا جائزہ لیا ہے۔ مغربی مورخ‘ ادیب‘ شاعر مسلمانوں اور اسلام کو کیا دیکھتے ہیں: چمک دار آنکھوں‘ ہوا میں اُڑتے بالوں والی حوریں کس طرح انگریزی ادب میں رقص کرتی نظر آتی ہیں۔ حسین مُطلب کے مضمون کا بھی یہی موضوع ہے۔ انھوں نے صلیبی جنگوں‘ نوآبادیاتی ادوار اور پھر آج کی دُنیا میں مغربی سیکولر فکر اوراسلامی فکر کا ایک تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں باہمی مفاہمت اور باثمر تعلقات کے لیے مسائل کی جڑوں تک پہنچنا ضروری ہے۔ رحمت دائوت اغلو نے بھی ان دو تہذیبوں کے باہمی ادراک کا جائزہ لیا ہے: ہم ایک دوسرے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ اس ’’عالمی عہد‘‘ میں اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ محمد خالد مسعود اور جین اسمتھ کا بھی یہی موضوع ہے‘ اورباہمی ’’غلط فہمیوں‘‘ کو دُور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ مستنصرمیر کا کہنا ہے کہ جدیدیت کے چیلنج سے یہودی اور عیسائی جس طرح عہدہ برآ ہوئے ہیں‘ مسلمانوں کے لیے اس میں رہنمائی کا سامان ہے۔ جدیدیت مسلمانوں پر بھی وہی اثرات مرتب کرے گی‘ جو اس سے پہلے دو ’’اہل کتاب‘‘ پر کر چکی ہے۔

مسلمان‘ غیروں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ مختلف مسلم ممالک اور معاشروں میں شماریاتی طریق سے اس کا جائزہ ریاض حسن نے لیا ہے: مسلمانوں کی اکثریت‘ مستقبل میں اسلام کے رول کے بارے میں پرُامید ہے‘ تاہم بعض مسلم ممالک (مصر) میں بہت سے لوگوں کا عیسائیت اور یہودیت کے بارے میں بھی یہی خیال ہے۔ لیکن مصنف کے نزدیک اکیسویں صدی کے ’’ہم آہنگ‘‘ مستقبل کے لیے مسلمانوں اور دوسری دنیا کے درمیان بہتر مفاہمت کی ضرورت ہے۔

تماراسون (جدیدیت‘ اسلام اور مغرب) کہتی ہیں کہ مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ سارے مسلمان عقل کے خلاف اور حکومت الٰہیہ کے قائل نہیں۔ مسلمان بھی سمجھ لیں کہ مغرب‘ مذہب کے خلاف اور لادینی نہیں ہے۔ اس تفہیم سے ایک باثمر مکالمے کی صورت پیدا ہوگی۔ مظفراقبال نے ابتدائی دور سے عہدجدید تک مسلم عیسائی تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے خیال میں اسلام فہمی کے بارے میں مغربی ذہن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کا تصورِ اِلٰہ ہے۔ مغرب‘ غیر مذہبی نظر تو آتا ہے‘ مگر حقیقتاً وہ عیسائی رسومِ عبادت میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو تعددِ ازواج‘ عورت کے مرتبے‘ دہشت گردی اور اس طرح کے معاملات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمیوں کو دُور کرنا ہوگا۔

اِی وون یزبک حداد کا مقالہ Islamism: A Designer Ideology for Resistance, Change and Empowerment فکرانگیز اور کچھ مختلف ہے۔ کہتی ہیں: ’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح ان تمام مسلمانوں کی فکر کے لیے استعمال ہونے لگی ہے‘ جنھیں صہیونی‘ لبرل اور امریکہ حامی مسلم حکمراں پسند نہیں کرتے۔ اسلام کی نشات ثانیہ سے انھیں خوف آتاہے۔ بن گوریان: ’’اسلام کے علاوہ ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں‘‘۔ شمعون پیرز: ’’جب تک اسلام اپنی تلوار نہیں رکھ دیتا ہم خود کو محفوظ نہیں محسوس کریںگے‘‘۔ اسحقٰ رابین: ’’مذہب اسلام ہی ہمارا واحد دشمن ہے‘‘۔ حداد کہتی ہیں کہ مغرب کی قابل احترام اقدار کو ساری دنیا میں نافذ کرنے کا مقدس عزم آج کے امریکہ ہی کا مشن نہیں‘ بلکہ یہ تو کئی صدیوں سے سارے یورپ کا خواب ہے۔ ساری دنیا کو مہذب بنانے کا ٹھیکہ اب امریکہ کے حصے میں آیا ہے۔ بقول یوسف القرضاوی اسلام اگر امور مملکت‘قانون و اختیار‘ اور عملی زندگی سے کنارہ کش ہو کر عیسائیت کی طرح ایک رسمی و رواجی مذہب کی طرح باقی رہے تو مغرب کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اب یہ فیصلہ خود مسلمانوں کو کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

ولی رضا نصر نے States and Islamization میں مسلم دنیا میں ریاستی سطح پر اسلام کے عمل دخل پر روشنی ڈالی ہے۔ پچھلے دو عشروں میں پبلک پالیسی اور سیاست میں اسلام کی دخل اندازی بڑھی ہے‘ تاہم بہت سے مسلم حکمرانوں نے اسلام کو سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ وہ مسلم ملکوں کی تین اقسام کرتے ہیں: استردادی لامذہبی (ترکی‘ الجزائر)‘ موقع پرست اسلامیت والے (مصر‘ ترکی‘ اُردن‘ انڈونیشیا) اور کلی اسلام نافذین (پاکستان‘ ملائیشیا)‘ تاہم ہر صورت میں اسلام کو ریاستی اختیار و اقتدار مستحکم کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا۔

اسلام آباد کے اس علمی شغل (مذاکرے) اور اس کے نتیجے میں ولادت پانے والی اس خوب صورت کتاب کے مقاصد میں اسلام اور مغرب کے ایک دوسرے کے بارے میں ادراک‘ ان کی اہمیت اور صحت‘ مسلمانوں اور اہل مغرب کے تعلقات کے بارے میں مسائل‘ باہم بہتر تفہیم اور تعلقات کے امکانات اور ان کے لیے مطلوبات کا جائزہ لینا تھا‘ تاکہ ’’ایک صحیح معنوں میں‘ پرامن‘ باہم روادار‘ کثیر الجہتی عالمی معاشرہ‘‘ وجود میں آسکے۔

بقاے باہمی ‘ بلاشبہ ایک مقصد عالی ہے‘ تاہم بدقسمتی سے بہت سے مسلمان امکان کو ناممکن ہی خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی مشیت‘ جس کی تکمیل کے مسلمان مکلّف ہیں‘ یوں بیان کی گئی ہے: ’’وہ ]اللہ ہی تو ہے[ جس نے اپنے پیغام بر کو ہدایت اور دین حق ]زندگی کے صحیح راستے کی طرف رہنمائی[ کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کر دے… محمد ]صلی اللہ علیہ وسلم[اللہ کے رسول‘ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں ]دین حق کے منکرین[ پر سخت ہیں اور آپس میں شفیق و رحیم ہیں… اُن کی مثال… اس کھیتی کی طرح ہے‘ جس نے اپنی کونپل نکالی‘ پھروہ سخت ہوئی اور موٹی ہوگئی اور اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی… کہ کسانوں کو اس سے خوشی ہوتی ہے‘ اور کافروں کو اُن سے غصہ اور جلن…‘‘ (الفتح ۴۸:۲۸- ۲۹)

Muslims and the West: Encounter and Dialogue)‘ مرتبین: ظفر اسحاق انصاری‘ جان ایل ایسپوزیٹو‘ ناشر: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ فیصل مسجد‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۵۳+۲۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)

 

ترجمہ و تلخیص :مسلم سجاد

۱۱ ستمبر کے بعدکی ’نئی دنیا‘ میں امریکہ اور یورپ کے درمیان تعلقات کے حوالے سے برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ کا یہ مطالعہ یقینا ہمارے قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوگا۔

آج امریکہ اور یورپ کو ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے جو آنے والے عشروں میں ان کے تعلقات پر اثرانداز ہوگا۔ یہ مسئلہ عراق ہے۔

امریکی انتظامیہ فیصلہ کر چکی ہے کہ صدام حسین کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے۔ مسئلہ اب صرف کب اور کس طرح کا ہے اور اسی سے امریکہ اور یورپ کے باہمی تعلقات کے بارے میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یورپ کو فوری طور پر جس مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ صدام کا تختہ اُلٹنے میں امریکہ کا ساتھ دے یا نہ دے‘ اور بش انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اگر یورپ تعاون پیش کرے تو بھی قبول کیا جائے یا نہیں۔ اگر وہ یہ تعاون قبول کرے تو اس سے کمیونزم کے خلاف ۲۰ ویں صدی کے دوسرے نصف کی جنگ کی طرح ۲۱ ویں صدی کے اوائل کی جنگ میں مغربی محاذ کی تشکیل ہوگی۔ عراق کا مسئلہ یورپی رائے عامہ میں متنازع ہوگا جیسا کہ یقینا ہوگا‘ تب بھی یہ تعلق مضبوط ہوگا--- لیکن اگر یورپی ممالک ساتھ نہ دیں‘ یا بش ان کی پیش کش ٹھکرا دے‘ تب بھی لڑائی ہوگی لیکن یہ صرف امریکہ کی کارروائی ہوگی۔

یورپ غیر متعلق نہیں ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اس کا اہم کردار جاری رہے گا۔ لیکن اگر یورپ کو کنارے لگا دیا گیا تو نئے ایجنڈے کا تعین اور اس کی قیادت امریکہ کرے گا اور یورپ کا اس حوالے سے کوئی کردار نہیں ہوگا کہ مستقبل کے خطرات کا سامنا کس طرح کیا جائے۔ کسی فریق نے ابھی طے نہیں کیا ہے کہ کیا کرنا ہے لیکن فیصلے جلد کیے جانے ہیں جو نہ صرف عراق بلکہ امریکہ اور یورپ کے مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گے۔

مسٹر بش کی ’’برائی کے چکر‘‘والی تقریر کے جواب میں یورپ میں بڑا شور مچا ہے۔ فرانس‘ جرمنی اور یورپی برادری کی جانب سے ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے۔ فرانس کے وزیرخارجہ کے بقول یورپی ممالک محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ غصے میں دہشت گردی اور مشرق وسطیٰ کے مسئلے کی بنیادی وجوہات کونظرانداز کر رہا ہے۔ جب مسٹر بش القاعدہ کے خلاف اتحاد کی آواز بلند کر رہے تھے تو فلسطینی ریاست کا تذکرہ ہوا لیکن اس کے بعد سے امریکہ ایریل شیرون کی غنڈا گردی کی پالیسیوں کو مسلسل ہری جھنڈی دکھا رہا ہے۔ یورپی ممالک کا خیال ہے کہ صدام کو ہٹانے سے پورا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا لیکن امریکہ عرب عوام کی رائے کو حقیر گردان کر اس کے لیے تیار ہے۔

یورپی ردعمل پر امریکہ کے غم و غصے کو کھل کر رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔ کولن پاول نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ امریکی رویے سے غیر مطمئن عناصر سے بات کریں گے لیکن دوسرے صاف کہتے ہیں: ’’یہ مغربی تہذیب کی جنگ ہے۔ اگر یورپی ممالک اپنے کو اس کا حصہ سمجھنے سے انکار کرتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اگر وہ دست بردار ہونا چاہتے ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔ ہم انھیں اپنی حاشیہ برداری کرنے دیں گے!‘‘

یورپ میں دو رائے ہیں: ایک یہ کہ ایران‘ عراق اور شمالی کوریا کے لیے ہماری اپنی پالیسی ہونا چاہیے اور ہمارے لیے صدام کا تختہ اُلٹنے میں ساتھ دینا ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری رائے مسٹر بلیئر کی ہے کہ ہمیں صدام کو تباہ کن اسلحہ بنانے اور استعمال کرنے سے روک دینا چاہیے۔ اگر یورپ تعاون کی پیش کش کرے تو اس پر امریکہ میں تین رائے ہیں۔ پہلی دو کے مطابق اس پیش کش کو مسترد کر دینا چاہیے مگر ان کی وجوہات مختلف ہیں۔

پہلی کے مطابق ماوراے اوقیانوس اتحاد سے جو کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا کیا جا چکا ہے۔ عراق کے لیے کوئی مدد لی جائے تو وہ بجائے نیٹو کے انفرادی طور پر ممالک کی جانب سے ہو‘ جیسے آسٹریلیا اور کویت سے۔ آخر خلیج کی جنگ بھی اسی طرح لڑی گئی۔ اس رائے کے مطابق صدام کے زیادہ خطرناک اسلحے بنانے سے پہلے بہت کم وقت ہے۔ یورپ کو ساتھ لینے میں وقت ضائع ہوگا اور موقع نکل جائے گا۔

دوسری رائے کے مطابق نیٹو کو سرد جنگ کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرنے میں مصروف رہنا چاہیے اور یورپی سلامتی کے نظام میں روس اور یوکرائن کو شامل کرنا چاہیے۔ تقسیم کار ہو‘ امریکہ بڑی جنگیں لڑے اور یورپی ممالک اپنی توجہات یورپ پر رکھیں اور باقی دُنیا امریکہ کے لیے چھوڑ دیں۔

تیسرے نقطہء نظر کے مطابق یورپی ممالک سے تعاون اور اشتراک ہونا چاہیے۔ نیٹو کا تعلق صرف یورپ کے دفاع سے نہیں ہے بلکہ مغرب پر اثرانداز ہونے والی تمام باتوں کے دفاع سے ہے۔ اس لیے اسے دہشت گردی اور تباہ کن اسلحے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بحث کا اصل نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ مشترکہ طور پر کیا جائے یا علیحدہ۔ امریکہ کے نقطہء نظر سے تین سوال ہیں: ۱- کیا ہم یورپ پر بھروسا کر سکتے ہیں؟ ۲- ہمیں ان سے کیا فائدہ ہوگا؟ ۳-جب انھیں اپنے مفاد کے مطابق ہی چلنا ہے تو کیا ہمیں ان کی بات سننا چاہیے؟

بہت سے یورپی ممالک امریکہ کے یک طرفہ انداز سے ناخوش ہیں اور اس کے بارے میں کچھ نہ کرسکنے کی اپنی کیفیت پر چیں بجبیں ہیں۔ دوسرے ‘اپنی بے بسی کا احساس کرتے ہوئے امریکہ سے تعلق توڑنا نہیں چاہتے۔ اٹلی اور اسپین کے وزراے اعظم نے برائی کے چکر والی تقریر کو خوش آمدید کہا۔ برطانیہ بھی ‘ کم سے کم مسٹر بلیئر کے منہ سے صحیح بات ہی کہہ رہا ہے لیکن جرمنی اور فرانس کا علیحدہ معاملہ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ یورپ کی طویل تاریخ میں امریکہ کے اقدامات سے مطابقت پیدا کرنے کا ایک اور موقع ہو سکتا ہے۔

امریکہ کو اولیت دینے والے کہتے ہیں کہ فرض کریں کہ یورپی ممالک صدام کے خلاف سیاسی حمایت کریں لیکن اس کا عملی فائدہ کیا ہوگا؟ ان کے دفاعی بجٹ شرم ناک حد تک کم ہیں۔فوجی ٹکنالوجی میں وہ ہم سے ایک نسل پیچھے ہیں۔ افغانستان میں ہمیں ان کی ضرورت نہ تھی۔ اس استدلال کو مسترد کرنا مشکل ہے اس لیے کہ یہ ایک حد تک درست ہے۔ لیکن دوسری رائے کے لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان کے وقت امریکہ انتظار نہ کرسکتا تھا۔ عراق کے معاملے کی یہ صورت حال نہیں ہے۔ اس نقطہء نظر میں یورپ کی عسکری صلاحیت مسلسل کم ہونے کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ پوری دُنیا میں دفاع پر جو اخراجات کیے جاتے ہیں امریکہ اس کا ۴۰ فی صد خرچ کرتا ہے۔ پنٹاگون کا بجٹ نیٹو کے سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے ملک‘ یعنی برطانیہ سے ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ وسائل کا یہ فرق ٹکنالوجی کے فرق میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ تعجب خیز نہیں کہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل کھلے عام یورپی ’’بونوں‘‘(pygmies) کے بارے میں پریشانی کااظہار کرتے ہیں۔ آنے والے سال میں امریکہ فوجی بجٹ میں جو چھلانگ لگانے والا ہے اس سے فوجی طاقت کے فرق میں مزید اضافہ ہوگا اور یہی بش انتظامیہ کے بارے میں یورپ میں خطرے کی گھنٹی کا سبب ہے۔ امریکہ میں اپنی فوجی طاقت کا شعور بیدار ہو رہا ہے اور یورپ اس کا احساس کرکے اس طاقت کے اطلاق اور اپنی کمزوری پر پریشان ہے۔

دونوں میں یہ فرق یورپی طاقتوں کی کئی برسوں کی غفلت کا نتیجہ ہے جنھوں نے اپنے بجٹ رفاہی خدمات پر صرف کرنے کو ترجیح دی۔ اسے جلدی تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور بہت سے اسے تبدیل کرنا چاہتے بھی نہیں۔ وہ جیسے حالات ہیں ان کو پسند کرتے ہیں۔ وہ مکھن کے بجائے بندوقیں نہیں چاہتے۔ اس لیے کہ وہ خطرے کو قریب محسوس بھی نہیں کرتے۔ یورپ کی کمزوری پر امریکی بالکل پریشان نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اس سے انھیں عمل کی آزادی ملتی ہے۔ اگر یورپ نے طاقت بڑھا لی تو فیصلہ سازی میں دخل مانگے گا۔     فی الحال کسی کا بھی مفاد نئے توازن قائم کرنے میں نہیں ہے۔

موجودہ صورت حال میں بھی یورپ کا حصہ صفر نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نوعیت میں خفیہ معلومات کے تبادلے‘ نگرانی اور مالی پابندیوں کی اہمیت فوجی طاقت سے کم نہیں۔ اس لیے شبہات اور مشکلات سے قطع نظر یورپی ممالک صدام حسین کے خلاف مہم میں حصہ لینے پر رضامند ہو سکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اصل بحث تیسرے سوال پر ہے کہ اگر یورپ کسی نہ کسی طرح امریکہ کی بات ماننے پر مجبور ہے تو کیا مسٹر بش کو یورپی ممالک کے خیالات کو وزن دینا چاہیے؟ کئی وجوہات سے‘ ایسا کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات دونوں کو قریب لائے ہیں۔ القاعدہ کی نفرت کا دوسرا نشانہ یورپ ہے۔ ان کے جال یورپ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کو بے اثر بنانے کے لیے یورپ کی پولیس اور جاسوسوں کی ضرورت ہے۔

لیکن تعاون کی ان وجوہات کا امریکہ میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی انتظامیہ ہے جسے اپنی طاقت کا خوب احساس ہے۔ بیش تر افراد کے پاس اس سوال کا کہ کیا کیا جائے‘ ایک ہی جواب ہے: جو امریکہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر امریکہ یورپی ممالک کی مدد کے بغیر صدام کا تختہ اُلٹ دے تو کیا انھیں شکایت ہوگی؟ کیا وہ نیٹو اور یورپی برادری کی توسیع کے خلاف ہو جائیں گے؟ بلاشبہہ نہیں۔

تعاون کا سبب وہ کام ہو سکتے ہیں جو امریکہ چاہتا ہے کہ یورپی ممالک کریں چاہے یورپی ممالک اسے اپنے مفاد میں نہ سمجھیں۔ مثال کے طور پر وہ فتح کے بعد آگے بڑھ کر تعمیرنو کا کام کریں جسے امریکہ اپنے لائق نہیں سمجھتا۔

امریکہ عراق کے مسئلے پر روس سے جھگڑا نہیں چاہتا۔ اس کی تدبیر یہ ہے کہ روس اور نیٹو کا تعاون بڑھے اور اس کے لیے یورپی ممالک کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ پھر بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں یورپی ممالک کو امریکہ کے برابر یا زیادہ خفیہ معلومات اور سفارتی وزن حاصل ہے۔ اگر امریکہ عراق پریورپ کو نظرانداز کرے تو یورپ دنیا کے دوسرے اہم حصوں میں امریکہ کو نظرانداز کرسکتا ہے۔

امریکی انتظامیہ کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کانٹے کا سوال یہ ہے کہ اسے اقدام کرنے کی بلاروک ٹوک آزادی ہو یا یورپ کا لحاظ رکھے۔ اس کا جواب مسٹر بش ہی دے سکتے ہیں۔ مسٹر بش ماوراے اوقیانوس اتحاد کو ۲۱ ویں صدی میں ایک نیا جواز دیں یا ۱۱ ستمبر کی ہلاکتوں میں ایک کا مزید اضافہ ہو: ماوراے اوقیانوس اتحاد کا مستقبل! (ہفت روزہ اکانومسٹ‘ ۹-۱۵ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۳۰-۳۲)

 

دُنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان آج جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ایک منظر بھارت کے صوبہ گجرات میں حالیہ مسلم کُش منظم قتل و غارت اور آتش زنی کا سلسلہ ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ممکن بنا دیا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ اپنوں اور غیروں سب کو معلوم ہو جائے‘ بلکہ وہ بچشم سر دیکھ لیں‘ کہ بے بس‘ بے گناہ اور معصوم مسلمان آبادیوں پر کس کس طرح کے کیا کیا ظلم روا رکھے گئے۔ سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے کا دعویٰ رکھنے والی مرکزی اور صوبائی حکومت نے اپنے شہریوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کیا۔ نہ وہ عالمی ٹھیکے دار جاگے‘ جو خود چاہے کتنے ہی حقوق پامال کریں‘ لیکن دوسروں کو انسانی حقوق کے درس دیتے نہیں تھکتے۔ بھارت میں بسنے والے بے بس مسلمانوں پر ظلم کرنے والے بھارتی ہندو ان کے اپنے ہیں‘ اور نئے عالمی نظام میں اپنوں کو سب کچھ کرنے کی آزادی اور پھر اس پر مکمل تحفظ ہے۔ اتنا کہ کلنک کے ٹیکوں کے باوجود وہ بدنام بھی نہیں ہوتے۔

گودھرا کے واقعے کو بنیاد بنا کر ردعمل کے عنوان سے پوری ریاست میں وحشت و درندگی کا جو سوچا سمجھا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں‘ متاثرہ لوگوںکے ایک گروپ کی ای میل کے مطابق ۱۲ مارچ ۲۰۰۲ء تک ۵ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ ۵۰ ہزار بے گھر افراد ۲۵ ریلیف کیمپوں میں ہیں (اور یہاں بھی ان پر حملے کیے گئے)۔ برودہ میں ۱۲‘ احمدآباد میں ۱۰ اور متاثرہ دیہاتوں میں تمام مساجد شہید کر دی گئی ہیں‘ کئی کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ای میل میں تباہ شدہ محلوں اور دیہاتوں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ گلمرگ سوسائٹی میں ۷۲ افراد گھربار سمیت جلا دیے گئے۔ لوناوادا کی ہائی وے پر ۴۲ افراد ٹرک میں جلا دیے گئے۔ برودہ کی بیسٹ بیکری میں ۱۸ افراد جلائے گئے۔ نارودا پاٹا کے قریب ایک کنویں میں مسلمانوں کی ۳۵۰ لاشیں پھینکی گئیں۔ خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی (جلانے کا کام تو اتنے فخر سے کیا گیا کہ باقاعدہ بینر لگایا گیا:  Learn from us how to burn Muslims ۔ نیوز ویک‘ ۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۶)

منصوبے کے تحت املاک اور جایداد تباہ کی گئیں۔ اس رپورٹ کے مطابق شہر اورہائی وے پر مسلمانوں کے ۲۰۰ ہوٹل جلا دیے گئے۔ نواں بازار اور منگل بازار دو کپڑا مارکیٹ ہیں‘ یہاں ۱۶۳ دکانیں تباہ کر دی گئیں۔ جس جگہ مسلمان کم تعداد میں تھے ان کی جایداد جلا دی گئی۔ مکانات اور مسجدیں جلانے کے لیے ایل پی جی گیس اور آکسیجن سلنڈر استعمال کیے گئے۔ پٹرول کا ٹرک ساتھ چلتا تھا۔ فسادی گروہوں کو خوراک‘ اسلحہ اور طبی امداد پہنچانے کا مکمل انتظام تھا۔ ہر طرح کا اسلحہ مہیا کیا گیا۔ انھیں خوراک اور شراب کے علاوہ ۵۰۰ روپے روز کے دیے گئے۔ مارے جانے پر خاندان کو ۲ لاکھ روپے دیے گئے۔ گرفتاری کی صورت میں تمام اخراجات اور قانونی امداد وشوا ہندو پریشد کے ذمے ہے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ ایک محلے کے چاروں طرف پانی جمع کر کے اس میں برقی رو چھوڑ دی گئی اور پھر گھروں پر آتشیں گولے پھینکے گئے‘ جو گھروں سے نکلے وہ برقی رو سے مارے گئے۔

اس سارے قتل و غارت کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایودھیا سے واپس آنے والے فسادی یاتریوں (کارسیوکوں) کی ریل کی بوگیوں کو جلانے کا ردعمل قرار دے کر جواز عطا کیا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ سابرمتی ایکسپریس کے ساتھ ۲۷ فروری کی صبح پیش آیا۔ یہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ واشنگٹن پوسٹ کے ہندو   نامہ نگاروں نے اپنے اخبار کو جو رپورٹ ارسال کی (اور جس کا مکمل ترجمہ روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی نے شائع کیا) اس کے مطابق آگ اتفاقیہ لگی اور اس وجہ سے پھیل گئی کہ بوگی میں سوار سیوک چولھے اور تیل ساتھ لیے ہوئے تھے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ریل میں سوار کارسیوکوں نے ایک مسلمان کے ٹی اسٹال سے مفت چائے پینے کے بعد پیسے مانگنے پر اس کی مارپٹائی شروع کی تو اس کی بیٹی اسے بچانے آئی جسے کارسیوکوں نے بوگی S-6 میں لے جاکر بند کردیا اور ہر طرح کی کوشش کے باوجود بھی نہیں کھولا۔ ٹرین چل پڑی۔ کچھ نوجوانوں نے زنجیر کھینچی تو ٹرین اگلی آبادی میں رکی۔ لڑکی کو اب بھی واپس نہ کیا گیا تو کچھ نوجوانوں نے بوگی پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ عینی شاہدوں کے مطابق ایودھیا سے گودھرا تک ٹرین میں اور اسٹیشنوں پر مسلسل غنڈا گردی کی جاتی رہی۔ جہاں گاڑی رکتی لوٹ مار کرتے۔ گودھرا اسٹیشن پر لوٹ مار کا سلسلہ پچھلے ۲۰ دن سے جاری تھا۔

ان رپورٹوں کے ہوتے ہوئے بھی‘ نیوزویک نے واقعے کو اس طرح لکھا ہے: ’’صبح کے کچھ دیر بعد جیسے ہی ٹرین گودھرااسٹیشن میں داخل ہوئی تو مقامی مسلمانوں کا ایک گروہ انتظار کر رہا تھا۔ پٹرول سے بھری بوتلیں پھینکیں گئیں جس سے بوگیوں میں آگ لگ گئی--- آنے والے دنوں میں اب ہندوئوں کی باری تھی۔ مسلم آبادیوں میں ہجوم پھیل گئے اور…‘‘ (۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء)۔ بیرونی نامہ نگار فسادات کو ۴۷ء کے فسادات سے جوڑتے ہیں اور پھر ۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت پر ہونے والے فسادات سے ۔ ان کی نظروں سب کچھ جیسے معمول کی کارروائی ہے جو بھارت میں ہوتی رہتی ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے!

اگر ریاست میں کوئی ذمہ دار اور غیر جانب دار حکومت ہوتی تو گودھرا کے واقعے کے بعد احتیاطی اقدامات کرتی اور شہریوں کو جانی اور مالی نقصان سے بچاتی۔ بوکر پرائز جیتنے والی ناول نگار ارون دھاتی رائے نے درست کہا ہے کہ:’ ’جس بھارتی شہری کا بھی پولیس اور ریاست سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر ذمہ داران حالات پر قابو پانا چاہتے تو صرف ایک گھنٹے میں پا سکتے تھے‘‘۔ (نیوزویک‘ ۱۸ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۵۸)

نہ صرف یہ کہ قابو نہیں پایا گیا بلکہ تمام اخباری رپورٹیں یہی بتاتی ہیں کہ ہر سطح سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہندستان ٹائمزنے ۲ مارچ کے اداریے میں لکھا ہے: ’’انتظامیہ کو ممکنہ ردعمل کے خلاف تیاری کا پورا موقع ملا تھا۔ مناسب اقدامات سے بہت سی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن اس حکومت نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ایودھیا تحریک کو تقویت پہنچانے میں وشوا ہندو پریشد کی سیاسی اور انتظامی دونوں لحاظ سے مدد کی۔ ایسی حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مسائل پیدا ہونے پر جانب داری سے کام نہیں لے گی‘‘۔

قتل و غارت کی اس تازہ لہر کے پس منظر میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ۱۵ مارچ کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا اعلان تھا۔ وشوا پریشد کی اس مہم میں آر ایس ایس‘ سنگھ پریوار‘ شیوسینا سب ہی ساتھ ہیں۔ بی جے پی اتحادیوں کی وجہ سے حکومتی مجبوریوں کے تحت کھلم کھلا تو ساتھ نہیں دیتی‘ لیکن اس کی مکمل حمایت اس مہم کو حاصل ہے۔ فی الاصل تو ان سب کا منصوبہ بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا یا دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔

انھی دنوں چار صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اترپردیش اور اترانچل جیسے اہم صوبے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ پنجاب میں بھی اس کے اتحاد کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ منی پور میں بھی اس کے مخالفین برسرِاقتدار آگئے تھے (اترپردیش میں ۴۰۳ کے ایوان میں‘ بی جے پی کو ۸۸ سیٹیں ملیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۶۶ کم ہیں۔ پنجاب میں ۱۱۷ کے ایوان میں ۳ نشستیں ہیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۱۵ کم ہیں)۔

ان انتخابات میں بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹ نہیں ملے اور وہ مسلمانوں کو اپنی شکست کا سبب گردانتی ہے۔ اس لیے گودھرا کے واقعے کو بہانہ بنا کر دراصل انتقام لیا گیا۔ اسی لیے قتل و غارت روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ دوسری طرف ۱۱ ستمبر کے بعد مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کا عزم و حوصلہ توڑنے کی ایک پالیسی نظر آتی ہے۔ گجرات کے دورے پر جانے سے پہلے وزیردفاع جارج فرنینڈس نے اس واقعے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا شبہہ ظاہر کیا۔ دوسری طرف گجرات کے وزیراعلیٰ فریندر مودی نے واقعے کو منظم دہشت گردی قرار دے کر تحقیقات کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ آواز ملک کے کسی کونے سے نہیں اُٹھ رہی کہ گودھرا کے واقعات کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اب عالمی سطح پر یہی روایت بنتی جا رہی ہے کہ ’’حادثات‘‘ سے اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں اور حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جس طرح آج تک امریکہ میں کانگریس یا سینیٹ کمیٹی میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کے لیے کسی خفیہ ایجنسی یا وزارت دفاع کو وضاحت پیش نہیں کرنا پڑی۔

ان حالات میں کہ گجرات کے ۲۶ شہروں میں کرفیو لگا ہے اور فسادات بھارت کے دوسرے علاقوں میں پھیلنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں بھارت کے مسلمان تو اپنے تحفظ کے لیے کچھ نہ کچھ لائحہ عمل بنا رہے ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مسلمان بھائیوں کا کیا فرض ہے؟ کیا وہ سب اتنے ہی بے بس اور بے اختیار اور بے وسیلہ ہیں کہ خبریں پڑھیں‘ دیکھیں ‘ افسوس کرلیں اور بس!

یقینا ایسا نہیں ہے۔ اس وقت دنیامیں دہشت گردی کے خلاف جو فضا ہے‘ اس میں مسلمان طاقتوں کو منظم کوشش کرنا چاہیے کہ اس کا رخ دہشت گردی کی ان حقیقی کارروائیوں کی طرف موڑیں۔ عالمی رائے عامہ کا دبائو ہی بھارت کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے ہر طرح کے اداروں کو منظم اور مسلسل کوشش کرنا ہوگی۔

اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) نے افغانستان کے مسئلے پر اپنے غیر موثر اور بے جان ہونے کا ثبوت دیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اس کے پلیٹ فارم سے مسلم اقلیتوں کے تحفظ کا کافی کام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کسی وفد کو آکر حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور رپورٹ تیار کرنا چاہیے اور بھارت کو تنبیہ کرنا چاہیے۔ اگر ۱۰‘ ۱۵ مسلم سربراہان مظلوم مسلمانوں کی ہمدردی میں صرف بیانات ہی دے دیتے تو شاید بھارت کو کچھ فرق پڑ جاتا۔ خادم الحرمین کا تو یہ فرض تھا کہ وہ اس پر اپنی آواز بلند کرتے۔

سب سے اہم ذمہ داری پاکستان کی ہے۔ حکومتی سطح پر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی بیدار ہو کر‘ دوسرے مسلمانوں کو ساتھ لے کر بھارت کاناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بیداری‘ شعور اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میںچرچ پر افسوس ناک حملہ (۱۷ مارچ) ہوا تو صدر بش نے فوراً ردعمل ظاہر کیا اور امریکہ کی سفیر نے پاکستان کے ٹی وی پر آکر سختی سے کہا: ’نو مور‘("No more")۔ کیا اتنی بڑی امت مسلمہ بھارت کو ’نو مور‘ نہیں کہہ سکتی؟

ان حالات پر سوچنے کا ایک نقطہء نظر یہ بھی ہے کہ تہذیب‘ جمہوریت اور انسانی اقدارکے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود آج انسان اسفل السافلین ہونے کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے؟یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو مسترد کر کے جو راہ بھی اپنائی جائے گی وہ دنیا و آخرت کے خسران کی راہ ہوگی۔ یہ حالات --- اور دنیا بھر میں پیش آنے والے ایسے ہی واقعات جن میں کوئی کمی نہیں آئی --- پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ آج ‘انسانیت سکون سے محروم ہے۔ اس کی پیاس بجھانے کا سامان صرف اس کے خالق کے بتائے ہوئے راستے میں ہے!

 

نماز میں گریہ و زاری اور ریاکاری

سوال: نماز پڑھنے کے دوران میری کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ میں گریہ و زاری کے انداز میں روسکتا ہوں لیکن مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے میں اپنے آپ کو اس لیے روکتا ہوں کہ یہ ریاکاری کے دائرے میں آجائے گا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں تصنع نہیں کر رہا اور بناوٹی طور پر نہیں رورہا‘ فی الواقع میری یہ کیفیت ہے‘ کیا تب بھی اس پر ریاکاری کا اطلاق ہوگا؟ مجھے عملاً کیا کرنا چاہیے؟ کیا اس کیفیت کے اظہار کو گھر کی تنہائی کی نمازوں تک محدود کر لوں؟

جواب:  نماز کے اندر آپ کی یہ کیفیت تو مطلوب و محمود کیفیت ہے۔ سورہ انفال میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ ان کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں (۸:۲)۔ سورہ زمر میںہے کہ قرآن سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں‘ جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳)۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے: اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے (۱۷:۱۰۹)۔ سورہ مریم میں ہے: ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ (۱۹:۵۸)

جب ایک شخص نے دور جاہلیت میں اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکا دینے کا واقعہ بیان کیا تو آپؐ  رو دیے اور آپؐ  کے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کرو۔ اس نے دوبارہ بیان کیا اور آپؐ  اسے سن کر اس قدر روئے کہ آپؐ کی داڑھی آنسوئوں سے تر ہوگئی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بھی روتے تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن شخیرسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ کے سینے سے رونے کی آواز اس طرح سے آتی تھی جیسے کہ ہنڈیا کے جوش مارنے کے وقت کی آواز ہوتی ہے۔ (مسند احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میںفرمایا: ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘ تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ابوبکرؓ رقیق القلب ہیں۔ اپنے آنسو نہیں روک سکتے۔ وہ جب قرآن پاک پڑھتے ہیں تو روتے ہیں۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرؓ کو کہو کہ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ آپؐ کی بیماری کے دوران میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی نے امامت کرائی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے واقعات میں آتا ہے کہ وہ صبح کی نماز میں سورہ یوسف پڑھ رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے: اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ (میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ ۱۲:۸۶)‘تو ان کے رونے کی آواز سنی گئی۔ (بخاری)

اسی بنا پر فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص نماز کے دوران اللہ کے جلال‘ قرآن پاک کی آیات یا دوزخ کے تصور سے آواز سے رو پڑے تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب     بے اختیار آواز نکل آئے اور تلاوت قرآن پاک سننا اور سنانا متاثر نہ ہو۔ جب ایک آدمی امام کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تو اسے دوسروں کے خشوع و خضوع اور نماز اور امام کی قرأت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ تمام احتیاطی تدابیرکے باوجود رقت کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ آواز سے رونا شروع کردے تو اس سے نماز میں فرق نہیں پڑے گا۔

اس لیے نماز باجماعت میں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ بلند آواز سے نہ روئے تاکہ دوسروں کی نماز خراب نہ ہو اوروہ رونے والے کی طرف متوجہ ہوکر اپنی نماز کی طرف توجہ نہ چھوڑ دیں‘ نیزاس کے نتیجے میں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ ریاکاری کا مرض پیدا ہو جائے۔ اس لیے بھی احتیاط کرنا چاہیے۔

ریاکاری کے حوالے سے توانسان خود ہی اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ ریاکاری کے اندیشے سے نیک کام چھوڑتے چلے جانا‘ شیطان کی تدبیر بھی ہو سکتی ہے۔ انفاق کے بارے میں بھی حکم ہے کہ خفیہ کرو اور اعلانیہ بھی کرو۔ نیک اعمال کے مشاہدے سے نیک اعمال کی ترغیب ہوتی ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن جو شخص اپنے دل کا مرض محسوس کرے‘ اسے احتیاط کرنا چاہیے۔

ریاکاری کا تعلق دل سے ہے‘ اپنے دل پر نظر رکھنا چاہیے۔ ریاکار وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے سامنے ایک کام کو کرے لیکن جب لوگ دیکھ نہ رہے ہوں تو اسے نہ کرے۔ لوگوں کی موجودگی میں خشوع و خضوع کرے‘ عمدہ اور اعلیٰ کھانوں کو ہاتھ نہ لگائے‘ لیکن گھر میں سب کچھ کرے۔ لوگوں کے سامنے روزہ دار‘ نمازی‘ تہجدگزار کی شکل میں پیش ہو لیکن فی الحقیقت روزہ‘ نماز اور تہجد سے اسے کوئی شغف نہ ہو‘ جیسے کہ مدینہ کے منافقین کا طرزعمل تھا۔ ریاکار بھی دراصل منافق ہوتا ہے۔ حقیقی کیفیات اور ظاہر و باطن میں ہم آہنگی ہو توپھر ریاکاری نہیں ہوتی۔

رہی یہ بات کہ لوگوں کے سامنے کیا کام کرنا ہے اور تنہائی میں کیا کام‘ تو اس کا ضابطہ یہ ہے کہ ہرجائز کام اور ہر عبادت لوگوں کے سامنے کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جو کیفیت جائز اور مستحسن ہے اسے لوگوں کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ رونا بھی اسی قسم کی کیفیات میں سے ایک کیفیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ صحابہ کرام اور سلف صالحین نے کھلے عام بھی اس سے پرہیز نہیں کیا۔ نماز میں ایسی کیفیت طاری ہو اور نماز میں آنسو بہنے لگیں تو انھیں روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ریاکاری نہیں ہے۔ آدمی مغلوب ہو جائے اور رونے کی آواز نکل آئے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ریاکاری یہ ہے کہ رونا نہ آتا ہو لیکن لوگوں کے سامنے بزرگی‘ تقویٰ اور ولایت ظاہر کرنے کے لیے روئے‘ اور گھر میں جب کوئی نہ دیکھ رہا ہوتو اس وقت نماز میں خشوع وخضوع بھی نہ ہو‘ آنسو بھی نہ آئیں اور بے اختیار آواز بھی نہ نکلے۔ آپ نے اپنا جو حال لکھا ہے یہ ریاکار کا حال نہیں ہے بلکہ نیک لوگوں کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کیفیت میں ترقی فرمائے۔ (مولانا عبدالمالک)

پریشان کن گھریلو مسائل کا حل

س:  ایک تحریکی بزرگ کی بیٹی سے میری شادی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی برادری سے باہر تحریک کی بنیاد پر شادی کی تھی۔ ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ میں تحریکی کام کروں گا تو میری اہلیہ میرا ہاتھ بٹائے گی اور میرا گھر اسلام کا ایک خوب صورت گلدستہ ہوگا۔ مگر شادی کے بعد میرا سارا تصور خاک میں مل گیا۔ میری اہلیہ ایم ایس سی ہیں۔ نماز بھی وقت کی پابندی سے ادا نہیں کرتیں۔ میں نے بڑی حکمت سے اسلام کی بنیادی تعلیم سکھانے کی کوشش کی اور حلقہ خواتین کے اجتماع میں بھی بھیجا۔ گھریلو کام میں بھی تعاون کیا مگر بہتری کے بجائے خرابی ہو رہی ہے۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ گھر کا ماحول ناخوش گوار ہو گیا ہے۔ ازدواجی تعلقات بھی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔میری اہلیہ ملازمت کرتی ہیں‘ وہ ساری تنخواہ اپنی مرضی سے خرچ کرتی ہیں۔ میں نے اس پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا ہے۔ میری اہلیہ کبھی کبھی رات کا کھانا بھی نہیں پکاتیں اور مجھے کھانا خود پکانا پڑتا ہے۔ ان حالات میں میرے سوال یہ ہیں:

          ۱-  مجھے اپنی اہلیہ کے رویے پر خاموش رہنا چاہیے‘ یاان کو طلاق دے دینی چاہیے؟ کیوں کہ اصلاح کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔

          ۲-  کیا جب بیوی اپنے خاوند کی جائز خواہش پوری نہ کرے‘ تو مرد کو دوسری شادی کر لینی چاہیے تاکہ گناہ سے بچ سکے۔

          ۳-  اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو کیا ایک فرد اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر گوشہ نشین ہو سکتا ہے؟

ج: آپ نے اپنے خط میں جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے بعض بنیادی مسائل اور تضادات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ آپ نے نیک نیتی کے ساتھ یہ چاہا کہ آپ کی شادی ایک تحریکی خاتون سے ہو تاکہ وہ دعوتی کام میںآپ کی معاون ہو سکے۔ ان شاء اللہ اس نیک نیت کا اجر آپ کو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ضرور ملے گا چاہے آپ کی اہلیہ نے آپ کی توقعات پوری نہ کی ہوں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خلوص نیت کو ضائع نہیں فرماتے۔ البتہ جو بات تشویش طلب ہے وہ یہ کہ اگر ایک تحریکی گھرانے میں پرورش پانے والی اور ایم ایس سی تک تعلیم یافتہ خاتون کا رویہ وہی ہے جو آپ نے تحریر فرمایا ہے تو ہمارے نظام تربیت میں لازماً کوئی بنیادی خامی ہے۔ اس کا حل دورحاضر کا معروف نعرہ یعنی خواتین کا empowerment نہیں ہو سکتا۔ اصل مسئلہ اقدار حیات اور مقصد حیات کا ہے جو محض اختیارات کی منتقلی سے حل نہیں ہو سکتا۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ معاشرتی ظلم و استحصال کا دائرہ محض خواتین تک محدود نہیں ہے‘ بعض مرد بھی اس استحصال کا شکار ہیں جو ایک وسیع تر معاشرتی بحران کی علامت ہے۔ اگر اسے نظرانداز کیا گیا تو پھر تباہی کے ریلے کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ہمیں اپنے خاندان کے نظام تربیت اور اہل خانہ میں مقصدحیات کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے ان تھک محنت کرنی ہوگی ورنہ تحریکی گھرانے بھی اس لاعلاج مرض سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے خاندانی معاملات میں اصلاح کی تمام کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہ کر سکے تو انبیا کرام کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے تجرد اختیار نہیں کر سکتا۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کے اسوہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمہ وقت اصلاح و دعوت کے عمل میں مصروف رہنے کے باوجود وہ اپنے اہل خانہ کو تبدیل نہ کر سکے لیکن اس بنا پر نہ کسی جنگل میں جا کر بیٹھ گئے‘ نہ ان سے قطع تعلق کرلیا بلکہ آخر وقت تک صبرواستقامت کے ساتھ اصلاح کی کوشش میں لگے رہے۔ اس لیے نہ تجرد اس کا حل ہے نہ ازدواجی تعلق منقطع کردینا اور نہ خاموش رہنا۔ ایک داعی کو بار بار اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دعوت حق کو پہنچانے کے لیے جو اسلوب اور طریقہ اس نے اختیار کیا ہے اس میں کس طرح مناسب تبدیلی کی جائے کہ بات زیادہ موثر ہو جائے۔ گو قلب کی دنیا کو بدلنا اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن ہر داعی کو مسلسل اپنے طریق دعوت کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ بعض اوقات اصلاح کے لیے اچھے انداز میں زبانی طور پر متوجہ کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات خاموش رہ کر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خاموشی مستقل نہیں ہوتی۔ صرف کسی خاص موقع پر حکمت کے پیش نظر خاموش ہونا اور بعد میں اس پہلو کی طرف متوجہ کرنا بھی دعوت کا ایک طریقہ ہے۔

آپ کی اہلیہ اگر کام کرتی ہیں تو جو کچھ معاوضہ انھیں ملتا ہے وہ ان کی ملکیت ہے اور انھیں اسے خرچ کرنے کا پورا حق ہے۔ گھر میں کھانا پکانا آپ دونوں کا باہمی رضامندی کا معاملہ ہے۔ رواجی طور پر ہم نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ایک اچھی بیوی کو لازماً کھانا پکانے کا ماہر بھی ہونا چاہیے اور گویا یہ شوہر کا ایک حق ہے۔ ہماری معلومات کی حد تک شریعت نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ یہ محض باہمی خوشی کا معاملہ ہے۔ ایک  بیوی شوہر سے اس کی استطاعت کے مطابق گھریلو کاموں کے لیے ایک خدمت گار کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔

اگر معاملہ اتنا حد سے گزرگیا ہے کہ آپ طلاق دینے پر غور کر رہے ہیں تو یہ یاد رکھیے یہ جائز کاموں میں سے وہ کام ہے جو اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے والا ہے۔ اس لیے نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کی اہلیہ کو بھی اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے سے بچنا چاہیے اور دونوں کو اپنے طرزعمل کی اصلاح کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔

دوسری شکل جو آپ نے لکھی ہے وہ بلاشبہہ شریعت کی ایک جائز شکل ہے۔ لیکن اس کے بارے میں بھی آپ کی اہلیہ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگروہ اپنا طریقہ تبدیل نہیں کریں گی تو آپ مجبوراً عقدثانی پر غور کریں گے تاکہ حالات خراب نہ ہوں اور خاندانی مودت و رحمت میں کمی نہ آئے۔ بعض اوقات حالات سے متاثر ہو کرہم ایک کام کر بیٹھتے ہیں اور پھر بچوں کا مستقبل اور خود دو گھروں کی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے۔ اس لیے جو حالات بعد میں پیش آنے والے ہیں ان پر غور کرکے اپنے وسائل کا حقیقی انداز میں جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کرنا مفید ہوگا۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر بھی جب بظاہر ایک شخص کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہوتا‘ اصلاح حال کی پرخلوص کوشش کی جائے تو خاندان میں دوبارہ سکون و محبت قائم ہو جاتا ہے۔ اگر انتخاب گناہ کی زندگی اور جائز شرعی طریقے میں ہو تو لازماً جائز ہی کو اختیار کیا جائے گا۔ لیکن ایسے تمام فیصلے اہل خانہ کو پورے اعتماد میںلے کر ہی ہونے چاہییں تاکہ اتمامِ حجت پوری وضاحت کے ساتھ ہو اور محض ایک قانونی نکتے کے طور پر نہ ہو۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

 

Chechnya: Politics and Reality  ]چیچنیا: سیاسیات اور حقائق[ ‘ ذیلم خاں یندربی۔ ناشر: الدعوۃ الاسلامیہ و انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز‘ پشاور۔ صفحات: ۱۶۹۔ قیمت: درج نہیں۔

ذیلم خاں یندربی‘ چیچنیا کی جنگ آزادی کے صف اول کے مجاہد اعظم ہیں۔ روسی اور چیچن زبان کے شاعر و ادیب اور چیچنیا کی پہلی سیاسی پارٹی ’’وائی ناخ‘‘ کے بانی ہیں۔ جمہور اشکیریہ کے نائب صدر اور صدر بھی رہ چکے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل اور بین الاقوامی اداروں کی مسلم دشمنی اور چیچنیا میں روسیوں کے عزائم پر اُن کی گہری نظر ہے۔یہ تصنیف ان کے مختلف مضامین اور نظموں کا مجموعہ ہے جو اُن کی علمی بصیرت اور انسانی درد و جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔

کتاب کا آغاز چیچنیا کی مختصر تاریخ‘ جغرافیے اور وسائل سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد چیچنیا کے مسلمانوں کی روسی مظالم کے خلاف مزاحمت کے ۴۵۰ سالہ جہاد کا تذکرہ ہے‘ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ جدوجہد آزادی دراصل شیخ منصور‘ امام شامل اور عبدالرحمن ‘کے روسی ظلم و وحشت کے خلاف جہاد کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ اور یہ کہ چیچن عوام نے کبھی بھی روسی استعمار کو تسلیم نہیں کیا۔ روسیوں نے چیچنیا کی تحریک آزادی کو عارضی طور پر دبایا ہے لیکن اسے کچلنے میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

مصنف تفصیل سے تذکرہ کرتے ہیں کہ روسی ایک وحشی قوم ہے جس میں انسانی ہمدردی اور ایفاے عہد کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ۱۲ مئی ۱۹۹۷ء کو روسی صدر یالتسن اور جمہوریہ اشکیریہ کے صدر ارسلان مسعودوف کے مابین امن و سلامتی کا معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن اس معاہدے پر دستخط کے چند روز بعد ہی روسی افواج نے بلاجواز چیچنیا پر ظالمانہ حملہ کیا اور چنگیز و ہلاکو کے مظالم کی یاد تازہ کی۔ خواتین کی عصمت دری کی‘ بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔ گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیے۔تعلیمی اداروں‘ عجائب گھروں‘ کارخانوں اور پٹرولیم کی تنصیبات کو تباہ و برباد کر دیا۔

روسی افواج کے مقابلے کے لیے خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ جس جواں مردی کا مظاہرہ کیا اور جو قربانیاں دیں ان کی نظیر عہدجدید میں نہیں ملتی۔ مسلمان قیدیوں کو اذیت ناک طریقے سے روسی جیل خانوں اور کیمپوں میں وحشی جانوروں کی طرح رکھا گیا اور بے دردی سے قتل کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہے۔ مصنف یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ یہی صورت حال اگر عیسائی اقلیت کے کسی مسلمان ملک میں ہوتی تو یہ ادارے شوروغل اور احتجاج کی قیامت برپا کر دیتے۔ مصنف پروفیسر ہن ٹنگٹن کے ’’تہذیبی ٹکرائو‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ مغربی دُنیا کی سیاست کا محور ’’مسلمانوں کی نفرت‘‘ ہے‘ جب کہ اسلام ’’تہذیبی ٹکرائو‘‘ کے بجائے انسانی اقدار پر مبنی ’’تہذیبوں کے ملاپ‘‘ کا پیغام دیتا ہے۔ مصنف مثالیں دے کر واضح کرتا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کس طرح مغربی استعماری قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان سے امن و سلامتی‘ انصاف اور خیر کی توقع کرنا بے سود ہے۔

کتاب کے آخر میں چیچنیا میں جہاد اور اسلام کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب سے انکشاف ہوتا ہے کہ چیچنیا کے عوام ۴۵۰ سال سے مسلسل روسی استعمار کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں۔ وہ دلائل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جہاد نہ صرف مسلمانوں کے لیے حصول تقویٰ‘ آزادی اور عزت و آبرو سے رہنے کا ذریعہ ہے بلکہ دُنیا میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا بھی واحد حل ہے۔ یہ کتاب چیچنیا میں روسیوں کے خلاف جہاد اور مغربی ممالک کی سازشوں کی بہترین پیراے میں تصویر کشی کرتی ہے جو مصنف کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے اور ایک قیمتی تاریخی دستاویز ہے۔ ایک نقشہ بھی شامل ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ چیچنیا چاروں اطراف سے غیرمسلم اقوام میں گھرا ہوا ہے۔ کسی مسلم ملک کے ساتھ اس کی کوئی سرحد نہیں ملتی۔ضرورت ہے کہ اس کتاب کا اُردو ترجمہ بھی شائع کیا جائے۔ (ڈاکٹر محمد ساعد)


Economics: An Islamic Approach ‘ ]اقتصادیات: اسلام کا نقطۂ نظر[ ڈاکٹر محمدنجات اللہ صدیقی۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ‘ اسلام آباد و دی اسلامک فائونڈیشن‘ برطانیہ: ملنے کا پتا: بک ٹریڈرز‘ بلاک ۱۹‘ مرکزF-7 ‘ اسلام آباد۔صفحات: ۹۹۔ قیمت: درج نہیں۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ وہ اسلام اور اسلامی معاشیات پر ۱۲ سے زائد کتب کے مصنف اور مترجم ہیں۔ اسلامی معاشیات پر ان کی تحقیق و تصنیف اس زمانے سے جاری ہے جب اس موضوع پر کام کی روایت عام نہ ہوئی تھی۔ ۱۹۶۶ء میں شرکت و مضاربت کے شرعی اصول‘ ۱۹۶۸ء میں اسلام کا نظریہ ملکیت (اول‘ دوم) ۱۹۶۹ء میںغیر سودی بنک کاری سامنے آئیں اور دوسری بہت سی اہم کتب ہیں۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا یہ کام اسلامی معاشیات پر جدید انداز میں کام کرنے والوں کے لیے چشم کشا ہے اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

زیرتبصرہ کتاب ان کے سات مقالوں پر مشتمل ہے۔ ان میں مصنف نے اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مسلم یونی ورسٹیوں میں علم معاشیات کی تدریس‘ اس کے اہداف اور ان میں تبدیلیوں کی ضرورت واضح کر کے تجاویز دی ہیں۔ ایک باب معاشیات کے نصاب میں مطلوب تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔ معاشیات پر مختلف نقطہ ہاے نظر اور اسلامی نقطہء نظر کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر خورشید احمد نے اس کتاب کو اسلامی معاشیات کے تعارفی کورس میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)


جہاد افغانستان‘ ملک احمد سرور۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ ۲۳- راحت مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۲۴۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

ملک احمد سرور کا شمار اُن نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے افغان جہاد (۱۹۷۹ء-۱۹۸۹ء) کے مختلف معرکوں پر اپنی رپورٹوں‘ مضامین اور تجزیوں کے ذریعے روس کے استعماری کردار کو بے نقاب کیا۔

جہاد کے دوران افغان قائدین‘ کمانڈروں اور مجاہد خاندانوں سے ان کا براہ راست رابطہ رہا۔مجاہدین نے جرأتوں کی حیرت انگیز داستانیں رقم کیں‘ اور بعض خاندانوں نے بے مثل قربانیاں پیش کیں۔ مصنف نے اس طرح کے یک صد سے زائد ایسے واقعات کو سادہ الفاظ میں قلم بند کیا ہے۔ ان ایمان افروز واقعات کو پڑھ کر دو باتیں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ افغان قوم نے اپنی آزادی کے تسلسل کے لیے جو قربانیاں پیش کی ہیں‘ اُس کا موازنہ کسی اور قوم کی جدوجہد سے مشکل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ ایمان‘ ہجرت‘ جہاد اور شہادت کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نہ صرف زمین پر‘ بلکہ آسمان سے بھی اُن کی نصرت کرتا ہے اور آنکھوں کے سامنے معجزے رُونما ہوتے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں جہاد کشمیر کے سلسلے میں پیش آنے والے واقعات پر بھی اور بعض تحریریں شامل ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ نوجوانوں کے قلوب میں ایمان کا نور پیدا کرے گا۔ (محمد ایوب منیر)


مقالات تعلیم‘ پروفیسر عبدالحمیدصدیقی۔ مرتب: پروفیسر زاہداحمد شیخ۔ ناشر: اعلیٰ پبلی کیشنز‘ یوسف مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۱۶۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

پروفیسر عبدالحمید صدیقی اہل علم و دانش کے اس کاروان شوق کے نمایاں صاحب قلم تھے جو سیدمودودی کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے اور جنھوں نے اسلوب کی خوب صورتی اور استدلال کی قوت کو یک جا کرتے ہوئے ٹھوس علمی موضوعات پر انتہائی وقیع سرمایہ علم تخلیق کیا۔ پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے ماہنامہ ترجمان القرآن کے اشارات و مقالات کو ایک نیا رنگ دیتے ہوئے حیات اجتماعی کے گوناگوں مسائل پر اتنا قابل قدر اور معتبر مواد فراہم کیا جو ایک طویل عرصے تک طالبان علم کی رہنمائی کرتا رہے گا۔

’’تعلیم‘‘ پروفیسر صاحب کا خصوصی موضوع ہے۔ انھوں نے اسلامی نظام تعلیم کے بنیادی اجزا کا تعین کرنے اور ان اجزا کی تحقیقی صورت گری کے حوالے سے‘ عہدنو کے مسائل سے ہم آہنگی کو خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے۔

علم اورتعلیم کا عمل انسانی زندگی کا وہ بنیادی اور دائمی وظیفہ ہے جو بہرطور قیامت تک جاری رہے گا۔ علم کی ترویج اور تسلسل کے حوالے سے جدید ذرائع‘ نئے میکانکی اور تدریسی عوامل‘ نئے تقاضے اور نئے وسائل سامنے آتے رہیںگے۔ انسانی زندگی کے ارتقا اور سائنس کی پیہم نمو کے باعث نئے علوم بھی متشکل ہوتے رہیں گے لیکن حیات انسانی کے باطنی‘ اخلاقی اور روحانی پہلوئوں کے اعتبار سے علم کی ایک متعین صورت ہمیشہ جوں کی توں موجود رہے گی۔ انسان کچھ بھی بن جائے وہ بنیادی طور پر انسان ہے اور علوم جدید پر اس کی دسترس کے باوجود اس کی انسانیت کا تحفظ‘ دراصل اس جوہر تخلیق کا تحفظ ہے جو خالق کائنات نے اسے تفویض کیا ہے۔ یہ جوہر ہی انسانیت کی بقا اور اس کے حقیقی ارتقا کا ضامن ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اسلام کے ان ارفع مبادی کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے جو اسلامی ہدایات سے منور ہیں اور جن کو اپنا کر ہی انسان اس کرئہ ارضی میں ایک برتر مخلوق کی حیثیت سے اپنا کردار متعین کر سکتا ہے۔

مقالات تعلیم میں اسلامی نظام تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے حوالے سے ایسا مواد شامل ہے جو تعلیم کے میدان میںکام کرنے والوں کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بحث ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے کہ دینی مدارس کا کردار کیا ہونا چاہیے اور جدید علوم کی یلغار میں ان روایتی مدارس کو کس نوع کی تعلیم دینی چاہیے۔ تعلیم کے موضوع پر پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی کچھ تحریروں پر مشتمل یہ مجموعہ ارباب اختیار کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ (ڈاکٹر مشتاق الرحمٰن صدیقی)


مولانا مودودی کا سفر سعودی عرب‘ خلیل احمد حامدی‘ مرتب: اختر حجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۷۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

استاذ خلیل احمد حامدیؒ (م: ۱۹۹۴ء) بڑے باصلاحیت اور ذی علم انسان تھے۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے پیغام کو بلادِ عرب و افریقہ میں پھیلانے کے لیے شبانہ روز کام کیا۔ عربی زبان و ادب پر وہ اہل زبان کی سی گرفت رکھتے تھے۔ خطابت و انشا میں کمال درجے کی قدرت کے مالک تھے۔ داعی تحریک اسلامی‘ مولانا مودودیؒ کے دست راست کی حیثیت سے وہ مختلف اسفار میں مولانا مودودیؒ کے ہم رکاب رہے۔

حامدی صاحب ان اسفار کی مختصر رودادیں اشاعت کے لیے دے دیا کرتے تھے۔ یہ ۱۹۸۳ء کی بات ہے‘ تبصرہ نگار نے ایسی تمام سفری رودادیں ایک ترتیب کے ساتھ استاذ مرحوم کی خدمت میں پیش کیں‘ تاکہ وہ اپنی ڈائریوں کی مدد سے مکالمات کو زیادہ تفصیل سے مرتب کر دیں اور اشخاص و واقعات کا مختصر پس منظر بھی واضح کر دیں۔ حامدی صاحب نے اس ضخیم مسودے پر گرم جوشی سے کام شروع کر دیا تھا مگر افسوس کہ وہ مکمل نہ ہو سکا‘ تاہم ایسے ہی اسفار کا ایک حصہ اخترحجازی نے موجودہ کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔

استاذ خلیل احمد حامدیؒ نے اپنے وسیع مطالعے کی بنیاد پر: تاریخ‘ ادب‘ مشاہدے اور جذبے کو اس تحریر میں سمود یا ہے‘ مثلاً انھوں نے سعودی سرزمین پر امریکی کمپنیوں کی تلاشِ تیل کی سرگرمیوں کے نقطۂ آغاز کو مختصراً (ص ۵۲-۶۳) بیان کیا ہے۔ ۱۹۶۰ء کی اس تحریر میں یہ بھی بتایا ہے: ’’آرامکو (امریکی تیل کمپنی) کی جس کائنات کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں‘ اس کی حیثیت ایک مستقل ریاست کی ہے۔ اگر امریکہ کی ۴۸ ریاستیں امریکہ میں پائی جاتی ہیں تو سعودی عرب کا مشرقی صوبہ امریکہ کی ۴۹ ویں ریاست ہے‘ بلکہ شرق اوسط پر امریکہ کی ۴۸ ریاستیں اس قدر گہرا اثر نہیں ڈال رہی ہیں‘ جس قدرگہرا اثر یہ ۴۹ ویں ریاست ڈال رہی ہے‘‘ (ص ۶۵)۔ اخوان المسلمون کی خدمات کا تذکرہ ان لفظوں میں کیا ہے: ’’اخوان المسلمون نے اپنی کمزوریوں کے باوجود اس دور میں عرب ممالک کے اندر وہ کام کیا ہے جو زہاد و اتقیا سے بن نہ پڑا۔ طریق انبیا کا نام لے لینا تو بہت آسان ہے‘ مگر انبیا کی سنت کے مطابق راہ خدا میں جام شہادت نوش کرنے کے لیے کتنے مدعی تیار ہوں گے؟‘‘ (ص ۴۳)۔ ایک ہم وطن پاکستانی دوست کو وہاں سعودی لباس میں دیکھ کر اپنے احساسات کو اس طرح بیان کیا: ’’اگر پاکستانی لباس‘ اہل نجد کی نگاہ میں کھٹکتا ہے تو ان کے دل سے اس کھٹک کو پوری قوت کے ساتھ دُور کرنا چاہیے۔ کوئی قوم اپنے لباس کو دوسروں کی نگاہ میں معزز بنانا چاہتی ہو تو پہلے اسے خود اس کا احترام کرنا ہوگا‘‘ (ص ۸۰)۔ شاہ سعود نے جب مولانا مودودیؒ سے ملاقات کی تو اس وقت مجلس پر بھرپور شاہی کروفر اور دبدبہ چھایا ہوا تھا۔ حامدی صاحب نے ملاقات کا تاثر معلوم کرنے کے لیے مولانا سے پوچھا تو‘ مولانا مودودی نے فرمایا: ’’میں ظاہری نمود و نمایش کے جال میں کبھی نہیں آ سکتا۔ ]البتہ[ علمی خدمت و تعاون ہر موقع پر کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ (ص ۹۰)

کتاب میں اس نوعیت کے دلچسپ مشاہدات‘ مکالمات اور حوالہ جات جگہ جگہ سامنے آتے ہیں۔ یہ کوئی روایتی انداز کا سفرنامہ نہیں ہے بلکہ ایک بڑے انسان کی مقصدیت بھری سرگرمیوں کا عکس ہے۔ اللہ تعالیٰ حامدی صاحب کی علمی خدمات کو قبول فرمائے۔ (سلیم منصور خالد)


واردات و مشاہدات‘ عبدالرشید ارشد۔ ناشر: مکتبہ رشیدیہ‘ ۲۵ لوئرمال بالمقابل ناصرباغ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۰۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

فاضل گرامی عالم دین عبدالرشید ارشد صاحب گذشتہ کئی عشروں سے بعض رسائل و جرائد میں کالم لکھتے رہے جنھیں زیرنظر کتاب میں یک جا کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات (عیدالاضحیٰ‘ شب خیزی‘ خواب اور ان کی تعبیر‘ گالی بکنا‘ یورپ کی نقالی وغیرہ) بعض اسفار کی روادادیں‘ بعض شخصیات (سید سلیمان ندوی‘ ابوالحسن علی ندوی وغیرہ) سے ملاقاتیں‘ متعدد اکابر بزرگوں اور علماے دین سے عقیدت‘ بیسیوں دینی‘ ملّی‘ صحافتی اور سیاسی شخصیات کے تعزیتی تذکرے اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔ چند ایک ذاتی ڈائری کے اوراق اور مضامین (دو قسطوں میں تبلیغی جماعت پر اعتراضات کا دفاع کیا ہے)---

مولانا ارشد اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ و دل چسپ اور عبارت عام طور پر رواں ہے۔ قرآن و حدیث کے ٹکڑے‘ اقوال اور اردو اور فارسی کے اشعار بھی لاتے ہیں۔ ان کی تحریر ملّت کے بارے میں خیرخواہی اور دردمندی کے جذبات سے مملو ہے۔ وہ موضوع سے ہٹ کر ایک آزادانہ رو میں اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرتے ہیں اور انھیں خود اس کا احساس ہے: ’’یہ وارادات اِدھر اُدھر کی باتوں میں طویل ہوگئی اور واردات کا مطلب یہی ہے بس جو دل میں آتا گیا بغیر کسی ترتیب اور قاعدے کے لکھتا گیا‘‘(ص ۶۲۳)۔ ’’چند تمہیدی سطور لکھتے لکھتے کئی صفحات پرُ ہو گئے لیکن ایک بات رہی جا رہی ہے‘‘۔ (ص ۱۸۶)

وہ پاکستان کی ملّی اور قومی صورت حال پر افسردہ اور رنجیدہ ہوتے ہیں اور قوم کی معاشرتی خرابیوں‘ بے قاعدگی‘ بدنظمی اور بددیانتی پر کڑھتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک دن سید سلیمان ندوی مرحوم آزردہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اس قوم کے انجام سے ڈرتا ہوں کہ اس کو آزادی مل گئی لیکن اس کی تربیت نہیں ہوئی۔ (ص ۳۰)

اختصار و اجمال تحریر کی خوبی ہے۔ اگر مصنف مطالب و مفاہیم کو برقرار رکھتے ہوئے بیانات کو مختصر کر دیتے تو کتاب اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور باعث ِ افادیت ہوتی۔ بایں ہمہ یہ معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ مصنف نے ۳۰‘ ۴۰ سالہ پرانی تحریروں پر نظرثانی بھی کی لیکن سید سلمان ندوی کے بارے میں اس جملے (آج کل کسی غیر ملک میں کسی یونی ورسٹی میں لیکچرار ہیں) پر نظرثانی اور تصحیح نہ کر سکے۔ کتاب اچھے معیار پر طبع کی گئی ہے اور ارزاں ہے۔ اگر اشاریہ بھی شامل کتاب ہوتا تو کیا بات تھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)

سید عرفان منور گیلانی ‘ ڈنمارک

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا مضمون: ’’مسلمان اور معاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ اسلام غلبہ چاہتا ہے لیکن بھول جاتے ہیں کہ غلبہ حاصل کرنے کے لیے قوت درکار ہوتی ہے۔ اُمت مسلمہ میں اس امر پر اتفاق رائے ہے کہ قوت کے اصل سرچشمے ایمان اور عمل صالح ہیں‘ مگر عمل صالح کے متعلق تصورات بہت مسخ ہو چکے ہیں۔ بدر کے ۳۱۳ یقینا ایمانی قوت سے ہی لشکر قریش پر غالب آئے تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو دعا کی تھی اس میں یہ پہلو غالب نظر آتا ہے کہ تیاری کی پوری کوشش کی گئی ہے مگر اس سے زیادہ بن نہیں پایا۔ ہمارا عملی رویہ اس کے برعکس ہے۔ محض ایمان لے آنے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ ایمان کے تقاضے نہ پورے کیے جائیں تو اُس کا دعویٰ بے معنی ہے۔کیا قرآن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا تذکرہ جان کی بازی لگا دینے کے ساتھ ساتھ نہیں کرتا؟ تکوین ثروت اگر مطلوب نہ ہوتی تو اسلام ’’خرچ‘‘ پر اتنا زور نہ دیتا۔ نجات اللہ صدیقی صاحب کی مساعی قابل قدر بھی ہیں اورقابل غور بھی۔

صابر نظامی ‘  قصور

’’مسلمان اورمعاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) سے اسلام میں معاشی عوامل کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔ درحقیقت آج‘ جب کہ اشتراکی نظام ناکام ہو چکا ہے اور امریکہ اور برطانیہ حکومتی زور پر سرمایہ داری نظام کو مکمل ناکامی سے بچانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں --- اسلام کے معاشی نظام کو بھرپور انداز میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔  اس کے لیے موثر ادارے قائم کیے جائیں‘ مساجد‘ مدارس‘ تعلیمی اداروں‘ تحریر و تقریر‘ غرض ہرسطح پر موثر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انتخابی پروگرام اور جلسے جلوسوں میں بھی معاشی نعروں کو رواج دینا چاہیے۔

حافظ محمد صدیق ساقی ‘ کوٹلی آزاد کشمیر

’’مسلمان اور معاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) ایک چشم کشا تحریر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو قوم معاشی طور پر مضبوط نہ ہو اُس کی عزت و ناموس کا تحفظ ایٹم بم بھی نہیں کر سکتا!

خلیل الرحمٰن ‘ لالہ موسٰی

’’مسلمان اور معاشی عوامل‘‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۲ء) سے بہت سی غلط فہمیاں دُور ہوئیں۔ اُن کے مقالے میں ایک لفظ ’’تکوین ثروت‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا اگر آسان مترادف یا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوتا تو فہم میں آسانی ہوتی۔ اگر بات آسان پیرایے میں کی جائے تو زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

گل زادہ ‘ لاہور

’’ابلاغ عامہ کے لیے تصویر کا استعمال‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے اس مسئلے پر مولانا مودودیؒ کے نقطۂ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے علماے کرام کی طرف سے ویڈیو پروگراموں کی حمایت اور جواز کو بنیاد بنا کر ہر قسم کی تصویر کو جائز قرار دیا ہے۔ میری رائے میں ویڈیو کے مثبت پروگرامات جن میں اسلام کے احکامِ ستر کا خیال رکھا گیا ہو‘ اُن کی تیاری اور اشاعت میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس سے ہر قسم کی تصویر کا جواز نکالنا اور قاضی حسین احمد صاحب کی تصویر کو بہتر ابلاغ کا ذریعہ قرار دینا افسوس ناک ہے۔

مولانا مودودیؒ  تفہیم القرآن (جلد چہارم‘ ص ۱۸۰ تا ۱۸۹) میں اس مسئلے کے بارے میں اسلام کے احکام کو تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’اس تفصیل سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح ارشادات‘ صحابۂ کرامؓ کے عمل اور فقہاے اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رُو سے ایک مسلّم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متاثر لوگوں کی موشگافیاں بدل نہیں سکتیں‘‘۔ (ص ۱۸۷)

طلحہ داؤد ‘ لاہور

خلیل الرحمن چشتی نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر والی حدیث کو مختلف حوالوں سے ایک باطل حدیث قرار دیا ہے (مدیر کے نام‘ مارچ ۲۰۰۲ء)۔ واضح رہے کہ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں جہاد کی تشریح کرتے ہوئے اسے مستند حدیث کے طور پر نقل کیا ہے۔ (ج ۳‘ ص ۲۵۴)

عبداللّٰہ گوہر‘ کراچی

نیوز ویک(۱۸ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۲۸) کے مطابق: ’’بورس بریزو وسکی (Boris Brezovsky) کسی وقت روس کاسب سے زیادہ طاقت ور بہت بڑا بزنس مین اور بادشاہ گر تھا‘ اب جلاوطن ہو کر لندن میں زندگی گزار رہا ہے۔ اس نے ایک ٹی وی دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۹ء میں ماسکو اور دوسرے شہروں میں ہونے والے بم دھماکے جس میں ۳۰۰ افراد ہلاک ہوئے تھے‘ روس کی خفیہ پولیس ایف ایس بی (FSB) نے اسٹیج کیے تھے۔ روس کے صدر پوٹن نے ان کا الزام چیچن دہشت گردوں پر رکھ کر انھیں کچلنے کے لیے سفاک فوجی مہم شروع کی۔ اگر پوٹن نے اپنے کریک ڈائون کے لیے جواز فراہم کرنے کی خاطر معصوم روسیوں کو ہلاک کروا دیا تو کیا یہ غداری نہیں؟‘‘۔ امریکہ کی ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کی پالیسیاںدیکھ کر بجا طور پر خیال ہوتا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حملے بھی کسی جامع پلان کا حصہ تھے اور خود manageکیے گئے۔ دیکھیں اس کی حقیقت کب کون بتاتا ہے!

 

کامل پندرہ سال ایسے افراد کی تیاری میں صرف کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حق پرستوں کی ایک مُٹھی بھر جماعت تیار کی‘ جو صرف عرب کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کی اصلاح کے لیے سچا عزم رکھتی تھی اور جس میں عرب کے علاوہ دوسری قوموں کے بھی افراد شامل تھے۔ اس جماعت کو منظم کرنے کے بعد انھوں نے وسیع پیمانے پر سماج کی اصلاح کے لیے عملی جدوجہد شروع کی اور صرف آٹھ برس میں پندرہ لاکھ مربع میل پھیلی ہوئی سرزمین عرب کے اندر مکمل اخلاقی‘ معاشی‘ تمدنی اور سیاسی انقلاب برپا کر کے رکھ دیا۔ پھر وہی جماعت    جسے انھوں نے منظم کیا تھا عرب کی اصلاح سے فارغ ہو کر آگے بڑھی اور اس نے اس زمانہ کی مہذب دُنیا کے بیشتر حصے کو اس انقلاب کی برکتوں سے مالا مال کردیا جو عرب میں رُونما ہوا تھا۔

آج ہم نئے نظام نئے نظام (نیوآڈر) ]یوں ہی لکھا ہے[کی آوازیں ہر طرف سے سُن رہے ہیں لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جن بنیادی خرابیوں نے پرانے نظام کو آخرکار فتنہ بنا کر چھوڑا وہی اگر صورت بدل کر کسی نئے نظام میں بھی موجود ہوں تو وہ نیا نظام ہوا کب؟ وہ تو وہی پرانا نظام ہوگا جس کے کاٹنے اور ڈسنے سے جاں بلب ہو جانے کے بعد ہم نئے نظام کا تریاق مانگ رہے ہیں۔ انسانی اقتدار اعلیٰ ‘ خدا سے بے نیازی و بے خوفی‘ قومی و نسلی امتیازات‘ ملکوں اور قوموں اور طبقوں کی سیاسی و معاشی خود غرضیاں‘ اور ناخدا ترس افراد کا دنیا میں برسرِاقتدار ہونا‘ یہ ہیں وہ اصلی خرابیاں جو اس وقت تک نوع انسانی کو تباہ کرتی رہی ہیں اور آیندہ بھی اگر ہماری زندگی کا نظام انھی خرابیوں کا شکار رہا تو یہ ہمیں تباہ کرتی رہیں گی۔ اِصلاح اگر ہو سکتی ہے تو اُنھی اصولوں پر ہو سکتی ہے جن کی طرف انسانیت کے ایک سچے بہی خواہ نے اب سے صدیوں پہلے ہماری محض رہنمائی ہی نہ کی تھی بلکہ عملاً اصلاح کر کے دکھا دی تھی۔ (یہ تقریر ۳۰ مارچ ۱۹۴۲ء کو نشرگاہ لاہور سے نشر کی گئی تھی اور باجازت آل انڈیا ریڈیو یہاں نقل کی جاتی ہے)

(’’میلاد النبیؐ  ‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۰‘ عدد ۲‘ صفر۱۳۶۱ھ‘ اپریل ۱۹۴۲ء‘ ص ۵۸)