کشمیر کی تحریک جہاد ایک بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ بھارت کے حکمرانوں‘ امریکی سیاست کاروں اور خود ہماری قیادت کی طرف سے جس نوعیت کے سگنل مل رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ عالمی رجحانات‘ سامراجی سیاست کے پیچ و خم اور خود ملکی حالات کی روشنی میں تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور ان خطرات کی نشان دہی کی جائے جو پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک کو درپیش ہیں۔ نیز ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ حکمت عملی کے خدوخال بھی واضح کیے جائیں تاکہ مستقبل کے امکانات سے فائدہ اٹھایاجا سکے۔
مذاکرات‘ مگر کس قیمت پر: کشمیر کا مسئلہ محض کسی زمین اور علاقے کا جھگڑا نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کی حفاظت اور سوا کروڑانسانوں کی آزادی‘ سلامتی اور ان کے نظریاتی اور دینی مستقبل کا سوال ہے۔ جس اصول پر اور جس فارمولے کے تحت ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور بھارت انگریزی اقتدار سے آزاد ہوئے ہیں‘ انھی کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر کی مستقل حیثیت پر ہوتا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے قول و قرار کے علی الرغم ریاست کے بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور ۵۳ سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ظلم کے شکنجے میں کس کر تعذیب کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے‘ جن کی عظیم اکثریت مسلمان ہے اور پاکستان سے محبت کرنے والی ہے‘ اس سامراجی قبضے کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ وہ روزِ اوّل سے اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۴۷ء میں مسلم کانفرنس نے ‘ جو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی‘ کھلے بندوںپاکستان سے الحاق کا اعلان کیا اور جب ڈوگرہ حکمرانوں اور بھارت کی قیادت نے سازش کے ذریعے ان پر فوج کشی کے ذریعے بھارت کا تسلّط قائم کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے عملی بغاوت کے ذریعے ریاست کے ایک تہائی حصے کو آزاد کرا لیا۔ اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں اور عالمی ادارے کے تحت جنگ بندی اور استصواب کے وعدے کے بعد مزاحمت کی تحریک عوامی سیاسی جدوجہد کی شکل میں جاری رہی لیکن جب جبر و ظلم کے نظام نے ایسی صورت پیدا کر دی کہ عملی جہاد کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو ۱۹۸۹ء سے جہاد کا آغاز کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔اسی جہاد کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کے حکمران کسی حل کی بات کرنے لگے ہیں‘ گو اپنی روایتی مکّاری اور چال بازی کے ساتھ۔ اس پورے زمانے میں عالمی رائے عامہ اور انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن مفاد پرستی اور سامراجی عزائم نے بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں اور ضمیر پر بے حسّی طاری کیے رکھی۔ بھارت کی ۷ لاکھ افواج کے مظالم کو روکنے کے لیے کوئی موثر کارروائی نہ کی گئی۔ پاکستانی قوم اور حکومتوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہد میں مقدور بھر ان کا ساتھ دیا اور یہ کشمیری مجاہدین کی قربانیاں اور مسلمانان جموں و کشمیر کے صبر واستقلال کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کو ’’رمضان‘‘ اور ’’جنگ بندی‘‘ کا احساس ہونے لگا ہے ورنہ‘ نہ رمضان اس سال پہلی مرتبہ آیا ہے اور نہ جہاد کا آغاز سنہ ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے اور نہ حریت کانفرنس کوئی نئی مخلوق ہے جس کی دریافت (وہ بھی جزوی اور selective) اب ہو رہی ہے!
پاکستانی قوم اور کشمیری مسلمان دل و جان سے امن کے خواہاں ہیں لیکن امن محض حالت جنگ کے نہ ہونے کا نام نہیں۔ امن تو حق و انصاف ہی کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جنگ بندی نہیں‘ ان اسباب اور حالات کو تبدیل کرنا ہے جن سے مجبور ہو کر مسلمانان جموں و کشمیر بھارت کی فوجی یلغار کے خلاف جہاد بستہ ہوئے ہیں۔ بھارت کی دل چسپی صرف جہادی دبائو سے نجات میں ہے‘ جب کہ جہادی اور عوامی قوتوں کا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے تاکہ ا ہلِ کشمیر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے بین الاقوامی اہتمام میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کر سکیں۔ اس طرح اصل ایشو یہ نہیں کہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ مذاکرات تو پچھلے ۵۰ برسوں میں بارہا ہو چکے ہیں اور لاحاصل رہے ہیں۔ مذاکرات وہی مفید ہو سکتے ہیں جو اصل مسئلے کے بارے میں ہوں اور اس فریم ورک میں ہوں جو مسئلے کے حل پر منتج ہو سکیں۔ پاک بھارت تعلقات کی ۵۰ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ بھارت نے جنگ بندی یا مذاکرات کا سہارا صرف اسی وقت لیا ہے جب اس پر دبائوناقابل برداشت ہوا اور محض اس دبائو سے نجات کے لیے یہ حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۲ء میں بھارت نے یہی کھیل کھیلا تھا اور اقوام متحدہ اور امریکہ اور برطانیہ نے اسے وہ چھتری فراہم کی جس کے تحت اس نے پناہ لی۔ تاشقند اور شملہ کے معاہدات میں مذاکرات کے راستے مسئلہ کشمیر کے حل کا وعدہ کیا گیا مگر ۳۵ اور ۲۸ سال محض طفل تسلیوں میں گنوا دیے گئے اور کوئی نتیجہ خیز بات چیت واقع نہ ہو سکی۔ ان سارے تجربات کی روشنی میں اگر کسی قابل عمل نظامِ کار کے بغیر محض امریکہ کے اثر و رسوخ یا بھارت کے وعدوں کی بنیاد پر جہادی دبائو کو ختم یا کم کیا گیا تو نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ حالات کا صحیح صحیح جائزہ لیا جائے اور اپنے اور دنیا کے دوسرے تجربات کی روشنی میں موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔
تشویش کے پہلو : مسئلہ کشمیر کے موجودہ مرحلے اور آیندہ کے خطرات اور امکانات کی تفہیم کے لیے سب سے پہلے بنیادی حقائق کو ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔
اوّل: اصل مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل اور مستقل حیثیت کا ہے۔ بھارت کی
’’اٹوٹ انگ‘‘ کی رٹ کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے اقوام متحدہ ‘ یوروپین یونین‘ او آئی سی سب نے متنازع تسلیم کیا ہے‘ خود بھارت نے ماضی میں تصفیہ طلب مانا ہے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے گواہی دے کر اسے متنازع تسلیم کرا لیا ہے۔ پھر معاملہ لائن آف کنٹرول اور اسے بین الاقوامی سرحد بنانے کا نہیں‘ بلکہ پوری ریاست جو ایک سیاسی اکائی تھی اور ہے‘ اسے اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع فراہم کرنے کا ہے۔ اس طرح اس تنازع کے چار فریق ہیں: بھارت‘ پاکستان‘ کشمیری عوام اور اقوام متحدہ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک فراہم کرتی ہیں جس کے ذریعے کشمیری عوام اپنا مستقبل طے کر سکتے ہیں۔ سہ فریقی مذاکرات ضروری ہیں لیکن ان کا مقصد اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے مطلوبہ اقدام ہونا چاہیے‘ کسی نئی بحث کاآغاز یا کسی نئے سامراجی کھیل کی صف بندی نہیں۔
دوم: ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آج بھارت ‘ اور خصوصیت سے اس کی بی جے پی کی متعصب قیادت کسی درجے میں بات چیت کا عندیہ دے رہی ہے تو اس کی وجہ نہ دل کی تبدیلی ہے اور نہ دل کی آرزو میں کوئی تغیر۔ یہ محض ان معروضی حالات کا نتیجہ ہے جو جہادی جدوجہد کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں اور جن کے تین پہلو ہیں:
۱- ۵۳ سال تک جبری قبضے اور گذشتہ بارہ سال میں خصوصی طور پر غیر معمولی عسکری قوت کے بے محابا استعمال اور ۷۰‘ ۸۰ ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل کے باوجود بھارت محض عسکری قوت سے اہل جموں و کشمیر کو دبانے میں ناکام رہا ہے اور اب ہر سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی صورت میں اور کسی شرط پر بھی رہنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے لیے مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں۔ اس کی فوجی قیادت بار بار اس کا برملا اعلان کر رہی ہے‘ اور خود فوج کے بارے میں جو رپورٹیں آرہی ہیں وہ صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ فوج میں بغاوت‘ اضطراب‘ نفسیاتی دبائو‘ بے اطمینانی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ملک میں بحیثیت مجموعی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ محض قوت سے کشمیر کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ نیز معاشی اعتبار سے یہ کھیل روز بروز مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے مشہور ماہنامہ سیمی نار نے اپنا دسمبر ۲۰۰۰ء کا پورا شمارہ کشمیر میں پائے جانے والے ان زمینی حقائق کے لیے مخصوص کیا ہے۔ دی ہندو‘ ہندستان ٹائمز اور فرنٹ لائنکے مضامین اس بڑھتے ہوئے احساس کا مظہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف سطح پر کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن صاف اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ساری توجہ اس پر ہے کہ کسی طرح جہادی دبائو ختم ہو جائے اور پھر کوئی ایسا کھیل کھیلا جا سکے جس کا سیاسی فائدہ بھارت کو ہو‘ اور اہل کشمیر کسی دوسرے جال میں پھنس جائیں۔ نیز پاکستان کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ صرف جہادی دبائو اور کشمیر کو قبضے میں رکھنے کی قیمت کا ناقابل برداشت بنتے جانا ہے جو بھارت کو مذاکرات کی طرف لا رہا ہے اور مزید لائے گا۔
۲- پاکستان کا اس مسئلے کے بارے میں مضبوط اصولی‘ موقف اور بھارت کے ساتھ پاکستان کا کھل کر ایک نیوکلیر قوت بن جانا ہے جس کی وجہ سے بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جنگ کے دائرے کو بڑھا کر وہ اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا۔
۳- عالمی رائے عامہ کا نیا رجحان اس علاقے کو نیوکلیر جنگ کے خطرے سے محفوظ کرنے کے لیے اسے کشمیر کے مسئلے میں دل چسپی پر مجبور کر رہا ہے۔ دنیا کا ضمیرسو رہا تھا۔ یہ صرف نیوکلیر استعداد کا اظہار تھا جس نے پی-۵ اور جی-۷ اورسلامتی کونسل اور خصوصیت سے امریکہ کو اس مسئلے میں دل چسپی لینے پر مجبور کیا اور جس کا اظہار حال ہی میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ہنری ہیوگ شیلٹن نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ: ’’ایشیا کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کی اونچی سرحدوں‘ ٹوکیو کے اسٹاک ایکسچینج کے فلور اور شنگھائی اور ہانگ کانگ کے خصوصی اقتصادی خطوں میں ہوگا‘‘۔ اس احساس کے باوجود کوشش یہ نہیں ہے کہ اصل مسئلے کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے بلکہ کوشش یہی ہے کہ کوئی ایسا متبادل راستہ نکال لیا جائے جس سے مسئلہ تحلیل (diffuse) ہو جائے۔لیکن بہرحال عالمی دبائو ایک عامل کی حیثیت سے رونما ہو رہا ہے اور اگر جہادی دبائو جاری رہتا ہے اور پاکستان کوئی کمزوری نہیں دکھاتا تو یہ عالمی دبائو بھی لازماً بڑھے گا۔ وقت جہاد کشمیر کی تحریک کے حق میں ہے۔
ان تینوں عوامل کا نتیجہ ہے کہ بھارت‘ امریکہ اور متعلقہ حلقوں میں کسی نہ کسی حل کی تلاش کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان پر روز بروز دبائو بڑھ رہا ہے جسے خصوصیت سے دو وجوہ نے تشویش ناک بنا دیا ہے۔ ایک پاکستان کی معیشت اچھی حالت میں نہیں ہے۔ قرضوں کا بوجھ‘ مہنگائی کا طوفان‘ بے روزگاری کا سیلاب‘ بیرونی پابندیوں کی کاٹ‘ ان سب کا فائدہ اٹھا کر ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک حکومت کو گھیرنے اور کارنر کرنے میں مصروف ہیں اور پھر فوجی حکومت اپنی بین الاقوامی قبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ دربدر کی ٹھوکریں کھائی جا رہی ہیں‘ مجرموں کو فرار کی راہیں دکھائی جا رہی ہیں‘ امریکہ کی خوشنودی کے لیے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ میٹنگیں کر رہے ہیں۔ اگرچہ چیف ایگزیکٹو نے کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف پر قائم رہنے کا بار بار اعلان کیا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنا‘ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کنٹرول لائن سے فوجوں کی واپسی‘ بھارت کی نام نہاد یک طرفہ جنگ بندی (جب کہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے) کے اعلان پر maximum restraint (انتہائی صبروتحمل) کا اعلان‘ ملک میں جہادی تنظیموں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی کوشش‘ بھارت سے تجارت کی پینگیں بڑھانے کی سعی‘ حریت کانفرنس کو بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کی شہہ‘ وزارت خارجہ کے ترجمان کا حریت کانفرنس کو ایک قسم کے مینڈیٹ دینے کا اعلان‘ وزیر خارجہ کے پھسپھسے اور ڈانواں ڈول بیانات‘ اعلان لاہور سے نئی وابستگی اور بھارت کی طرف سے ٹریک ٹو اور ٹریک تھری ڈپلومیسی کرنے والے سابق فوجیوں‘ دانش وروں اور خواتین کی یلغار اور خود ہماری طرف سے نیازنائیک اور ڈاکٹر مبشر جیسے حضرات کی بھاگ دوڑ اور مخصوص دانش وروں اور کالم نگاروں کا ’’لچک‘‘ (flexibility) اور ’’حقیقت پسندی‘‘ (realism) کا درس --- یہ سب وہ چیزیں ہیں‘ جو تشویش میں اضافہ کرتی ہیں اوراصولی موقف کو کمزور کرنے والی ہیں۔
اوسلو ماڈل : اس پورے تناظر میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس چیز کو اوسلو عمل (Oslo process) کہا جاتا ہے وہ ہے کیا؟ اور اس کے مسئلہ کشمیر کے لیے کیا مضمرات ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کے مسئلے کی طرح اقوام متحدہ کا عطیہ اور ۵۲ سال پرانا ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں کے سلسلے میں تین بار جنگ کی نوبت آ چکی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ فلسطین کے میدانِ جنگ میں اسرائیل کو ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۷ء میں مکمل بالادستی اور ۱۹۷۲ء میں جزوی بالادستی رہی جب کہ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں ضرور شکست ہوئی مگر ۱۹۶۵ء اور پھر ۱۹۸۷ء کی جنگی مشقوں اور ۱۹۹۸ء میں نیوکلیر استعداد کے اظہار کے نتیجے میں ہماری اور عربوں کی عسکری کارکردگی (performance) بڑی مختلف رہی ہے اور الحمدللہ پاکستان ایک مستحکم پوزیشن میں ہے جو بھارت کی کسی بھی جارحیت کے خلاف ایک دفاعی حصار ہے۔
کیمپ ڈیوڈ کا عمل ۱۹۷۸ء میں اور اوسلو ۱۹۹۳ء میں شروع ہوا اور ۲۰۰۰ء میں عملاً اس پورے کھیل نے دم توڑ دیا اور بالآخر فلسطینیوں کو انتفاضہ الاقصیٰ کا آغاز کرنا پڑا جس نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین میں ایک نئی روح پھونک دی ہے‘ اور اسرائیل کے ٹینک اور ہیلی کاپٹر نوجوان کے پتھروں کے آگے بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کے اہم پہلوئوں کی مختصر وضاحت کردی جائے تاکہ فلسطین کے اس تجربے سے سبق لیا جا سکے جسے کیمپ ڈیوڈ / اوسلو عمل کہا جاتا ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:
۱- مسئلہ فلسطین کے ایک جامع اور ہمہ جہتی حل (comprehensive solution) کے بجائے قدم بہ قدم (step by step) اور ایک ایک جزو کو الگ الگ لے کر (piecemeal) مرکزی مسئلے/ مسائل کے حل کی طرف مراجعت کی جائے۔ مرکزی مسئلے اور مستقل حیثیت کو سب سے آخر میں لیا جائے۔ اعتماد قائم کرنے والے اقدام کیے جائیں۔ زمین کے ٹکڑوں کے بدلے امن کی ٹکڑیاں حاصل کی جائیں اور اسی طرح ایک لمبے عرصے میں آہستہ آہستہ کوئی حل نکالا جائے۔
۲- اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کو پس پشت رکھا جائے اور مذاکرات کے ذریعے نئے حل تلاش کیے جائیں۔
۳- عالمی اداروں اور دوسری حکومتوں کو باہر رکھا جائے۔ صرف اسرائیلی اور فلسطینی مسئلے کا حل نکالیں۔ صرف امریکہ مددگار اور مصالحت کا کردار ادا کرے۔ دوسرے عرب ممالک کو ایک ایک کر کے الگ کر دیا جائے۔ البتہ ان سب ممالک سے اسرائیل کے الگ الگ معاہدے ہوں۔ ان سے اسرائیل کے امن معاہدے ہو جائیں اور اسرائیل کے جواز کو وہ قبول کر لیں۔ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں اور اس طرح فلسطینیوں اور مسئلہ فلسطین پوری عرب اور اسلامی دنیا سے کاٹ کر ایک کونے میں لگا کر تنہا کر دیا جائے۔ اس طرح فلسطین کے حل میں ان کا کوئی کردار نہ ہو بلکہ مسئلے کو دو فریقی مذاکرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے جنھیں اسرائیل جس طرح چاہے جوڑ توڑ کر کے اپنے حق میں استعمال کرے۔
۴- فلسطینی ریاست کا قیام‘ بیت المقدس کی حیثیت اور حاکمیت اعلیٰ (sovereignty) کے مسائل کو مؤخر کیا جائے اور ساری توجہ محدود بلدیاتی اختیارات‘ جزوی کنٹرول اور معاشی ترقی و تجارت پر مرکوز کی جائے۔
۵- ’’تشدد کا خاتمہ‘‘ کو سب سے زیادہ اہمیت کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ اس کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی ذمہ داری ہو کہ وہ اسرائیل کے تحفظ کی ضامن بنے اور جہادی قوتوں کو قابو میں کرے۔ آزادی کی تحریک کو تشدد (terrorism)قرار دے کر‘ امن اور اسرائیل کے تحفظ کو سلامتی کی مشترک حکمت (joint security strategy) کے تابع کیا جائے۔
۶- امن کے اس طویل عمل کے دوران اسرائیل کو یہ موقع حاصل رہا کہ عربوں کے علاقوں میں نئی نئی آبادیاں بنا لے اور پورے فلسطین کے ۷۸ فی صد پر تو اسے پہلے ہی (یعنی ۱۹۷۶ء سے قبل سے) مکمل قبضہ اور حاکمیت حاصل ہے البتہ رہے سہے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل ۲۲ فی صدمیں سے بھی پہلے صرف ۳ فی صد اور پھر آہستہ آہستہ مزید ۲۷ فی صد پر صرف قبضہ (بغیر حاکمیت) فلسطینیوں کو دیا جائے۔ عملاً اس وقت بھی مغربی کنارے پر ۴۰ فی صد اور غزہ کی پٹی میں ۸۰ فی صد فلسطینیوں کے تحت آیا ہے۔ باقی پر اسرائیل ہی کا قبضہ ہے اور ان علاقوں میںاسرائیلی آبادکاروں (settlers) کی تعداد میں کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کے معاہدوں کے بعد ۲ لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ نیز تمام سڑکوں اور راستوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ ہے قدم بہ قدم حل کی عملی شکل!
۷- ہر نئے مرحلے پر فلسطینیوں سے نئی مراعات (concessions) کا مطالبہ۔
۸۔ فلسطینیوں کی اسرائیل پر سیاسی‘ عسکری اور معاشی محتاجی (dependence)۔
۹- پہلے آخری سمجھوتے کے لیے ۱۹۹۹ء کی حد طے کی گئی تھی مگر اب آخری مراحل کو مزید تین سے
چھ سال کے لیے مؤخر کرنا اور کیمپ ڈیوڈ کے ۲۲ برس بعد بھی اصل مسئلے یعنی فلسطینی حاکمیت‘ بیت المقدس کی حیثیت اور ۵۰ لاکھ فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کے مسئلے کو لٹکائے رکھنا۔
۱۰- اس پورے عمل میں نئے نئے تصورات پیش کیے گئے ہیں مثلاً اقتدار بغیر حاکمیت اعلیٰ(control without sovereignty)‘مشترک حاکمیت اعلیٰ (joint sovereignty) ‘منقسم حاکمیت اعلیٰ (divided sovereignty) ۔حالانکہ یہ سب محض خوش نما الفاظ اور صریح دھوکہ ہیں۔
دو عشروں کے تجربات کے بعد فلسطینیوں کو اور خود مغربی اقوام کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ تجربہ صرف اسرائیل کے مفاد میں تھا اور عربوں کو شکست اور ہزیمت کے سوا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حال ہی میں خود شیرون نے اعلان کیا ہے کہ ’’اوسلو اب مردہ ہے‘‘ (Oslo is dead!)۔ چند مغربی تجزیہ نگاروں کی رائے بھی قابل ملاحظہ ہے۔
رابرٹ فسک (Robert Fisk) لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا شرق اوسط کا نمایندہ ہے اور عالمی سیاست کا ایک ماہر شمار ہوتا ہے وہ لکھتا ہے:
یہ سال تھا کہ جھوٹ بالکل واضح ہو گئے۔ امن کا عمل (peace process)‘ پس قدم (back track)‘ متنازع (disputed) اور ایک طرح کی حاکمیت اعلیٰ (sort of sovereignty) کی اصطلاحیں اتنی ہی بے معنی ثابت ہوئیں جتنا کہ ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال امریکی محکمۂ خارجہ کے سفارت کاروں اور صحافیوں نے کیا۔ اوسلو کے معاہدہ امن کی ناانصافی‘ عرب سرزمین پر مسلسل جاری قبضہ‘ عربوں کو مشرقی یروشلم واپس کرنے سے اسرائیل کا صاف انکار‘ عرب سرزمین پر یہودی آباد کاری کی پُرجوش توسیع بالآخر اس سب کے خلاف فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے (۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔
ایک عیسائی فلسطینی مصنف اور دانش ور پروفیسر ایڈورڈ سعید (Edward Said) بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا:
فلسطینیوں کی حیثیت سے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ اس اوسلو باب کو جتنی تیزی سے ممکن ہو‘ بند کر دیں اور اپنے اصل کام کی طرف لوٹ آئیں جو آزادی کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو اہداف سے قریب تر اور اپنے طریقۂ کار میں واضح ہو۔ جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کو اس لیے شکست ہوئی کہ کالوں کے ساتھ ساتھ گوروں نے بھی اس کے خلاف لڑائی لڑی (روزنامہ ‘ ڈان‘ جنوری ۸‘ ۲۰۰۰ء)۔
فلسطین کے مسئلے کا حل اوسلو نہیں‘ انتفاضہ ہے۔ دی گارڈین کا شرق اوسط کا نمایندہ پوری عرب دنیا کا فیصلہ یوں بیان کرتا ہے:
اس دوسری انتفاضہ نے کئی برسوں میں پہلی بار فلسطینیوں کو موقع دیا ہے کہ اسرائیل سے اقدامی کارروائی(initiative) چھین لیں۔ اس طرح اب فلسطینی قیادت زیادہ توانا بھی ہے اور زیادہ متحمل بھی۔ فلسطینی بالعموم اور خاص طور پر بعض زیادہ انقلابی نوجوان رہنما اور بنیاد پرست بھی‘ سب
حالیہ مہینوں کی قربانیوں کے بعد زیادہ پُرعزم ہیں کہ ایسی کوئی چیز قبول نہ کریں جو ایک سیل آئوٹ (sell out)سمجھی جائے (دی گارجین مارٹن‘وولاکاٹ‘ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔
فلسطین کے بارے میں اوسلو کا یہ حشر اور انتفاضہ کا پُرجوش احیا کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے بھی ایک انتباہ اور جہادی تحریک کے تحفّظ اور ترقی کے لیے ایک نشان راہ ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم یازک رابن کی بیوی لیہ رابن (Leah Rabin) نے اپنے شوہر کی سوانح (Rabin: Our life, His Legacy) میں صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ رابن نے بحیثیت کمانڈر اِن چیف عرب انتفاضہ کے خلاف جبر و قوت کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسرائیل ایک ایسی قوم پر حکمرانی نہیں کر سکتا جو اس کے اقتدار میں رہنے کے لیے تیار نہ ہو اور یہی وہ چیز ہے جس نے اسے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا قائل کیا۔
تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ صرف آزادی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے ہی آزادی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے: لا یقطع الحدید الا الحدید۔ یعنی لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ جہاد ترک کر کے مذاکرات لاحاصل ہوتے ہیں۔ جہاد کمزور کر کے آپ دشمن کے لیے صرف تر نوالا بن سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کا عسکری دبائو موثر ہو‘ اصولی موقف مضبوط ہو‘ آپ کی صفوں میں اتحاد اور آپ کی فکر میں پختگی ہو تو مذاکرات کی میز پر بھی آپ غالب اور کامیاب رہ سکتے ہیں ورنہ جنگ کے میدانوں میں حاصل کی ہوئی بالادستی امن کے مذاکرات کی میز پر شکست میں بدل سکتی ہے۔
مسئلہ کشمیر میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی دل چسپی اور اس کے ساتھ امریکہ کی بھارت سے دوستی اور روز افزوں تزویری شراکت (strategic partnership) حتیٰ کہ نیوکلیر تجربے کے بعد عائد ہونے والی پابندیوں میں تخفیف (جب کہ پاکستان پر یہ پابندیاں اور بھی سخت کر دی گئی ہیں) اور بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اور ان کے درمیان معاشی ہی نہیں عسکری اور خفیہ معلومات کے امور میں تیزی سے اضافہ‘ اہم شخصیات کے دورے‘ اور نام نہاد تشدد کے خلاف تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی تیاری کے پس منظر میں کشمیر پر اوسلو عمل مسلّط کرنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ فلسطینی تو اوسلو کو دفن کر رہے ہیںاور کچھ کشمیری اور پاکستانی دانش ور اوسلو عمل کے پرچارک بن رہے ہیں۔ آج فلسطین کا چپہ چپہ اور اہل فلسطین کا ہر ہر زخم پکار پکار کر کہہ رہا ہے ؎
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
پس چہ باید کرد: پاکستانی حکومت‘ قوم اور کشمیری قیادت اگر اس سبق کو سمجھ لے اور بھارت سے اوسلو نہیں‘ جہاد کی قوت کے سائے تلے اپنے حقوق حاصل کرنے کی بات کرے تو ان شا ء اللہ کامیاب ہو گی۔ عرب نیوز کے نمایندے نے سری نگر کے ایک ۲۱ سالہ نوجوان طالب علم الطاف حسین کا بھارت کی یک طرفہ جنگ بندی پر تبصرہ شائع کیا ہے جو ہماری وزارت خارجہ اور بہت سے دانش وروں کی نکتہ سنجیوں پر بھاری ہے:
بھارتی حکومت کے اقدام کو کشمیری گروپوں نے جس طرح حقارت سے ٹھکرایا ہے‘ الطاف حسین نے اس کی بڑی تحسین کی ہے: ’’ہماری جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارتی اقدام کا یہ بہت اچھا توڑ ہے۔ ہمارے لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بھارت پر بھروسا نہ کریں‘‘ (عرب نیوز‘ نومبر ۲۴‘ ۲۰۰۰ء)۔
ہم حکومت‘ وزارت خارجہ‘ مجاہد رہنمائوں اور حریت کانفرنس کے قائدین کو یہی مشورہ دیں گے مذاکرات ضرور کریں مگر:
--- فلسطینیوں کے اوسلو تجربے سے سبق سیکھ کر‘
--- جہادی دبائو کو مطلوبہ سطح پر برقرار رکھ کر‘
--- اپنے اتحاد اور سیاسی قوت کو مجتمع رکھ کر‘
--- اپنے اصولی موقف پر مضبوط رہ کر‘
--- اپنی قانونی اور سیاسی بنیاد سے انحراف کیے بغیر‘
--- اپنے عوام کو اعتماد میں لے کر ‘اور
--- جزوی‘ قدم بہ قدم طریقے کے بجائے اصل اور مرکزی مسئلے پر توجہ مرکوز کر کے‘
___ ایک جامع اور مکمل پیکج پر
___ اور دو فریقی نہیں سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے!
ہمیشہ یاد رکھیے:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے یا کسی چیز سے منع کرتا ہے‘ یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی‘ اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ ابتداً آدمی صرف کلمہ ٔ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے‘ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو‘ بلکہ اس میں تنزل اور ارتقا دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اُس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے۔ اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو‘ اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سربلندی کے لیے لگن اور دُھن جتنی بڑھتی چلی جائے ‘ ایمان اُسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے‘ یہاںتک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے‘ اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار و تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے‘ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پائو‘ یا یہ دگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں ‘ اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابوحنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لایزید ولا ینقص ’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۸۲-۸۳)۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o (الانفال ۸:۲) سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الٰہی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سراطاعت جھکا دے‘ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف‘ اس کی رائے اور تصورات و نظریات کے خلاف‘ اس کی مانوس عادتوں کے خلاف‘ اس کے مفاد اور اس کی لذت و آسایش کے خلاف‘ اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا اور رسولؐ کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر لے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے‘ اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا ‘ اور اگر ا س نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔ نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشوونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے ۔اور اسی طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقا بھی ہو سکتا ہے اور تنزل بھی۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے‘ خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۱۳۰-۱۳۱)۔
]صلح حدیبیہ کے موقع پر اس کیفیت کو یوں واضح کیا گیا:[
ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِھِمْ ط (الفتح ۴۸:۴) وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔
’’سَکِینَت‘‘ عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثباتِ قلب کو کہتے ہیں‘ اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اُس کے نازل کیے جانے کو اُس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اُس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اُتاری گئی اور کیسے وہ اِس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کے لیے مکۂ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا‘ اگر مسلمان اُس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے‘ یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفارِ قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں‘ اُس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی سازوسامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے‘ اور اِس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی‘ تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رُونما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رونما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا‘ اور جب انھوں نے چھاپے اور شب خون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی‘ اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی‘ اور جب ابوجندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آکھڑے ہوئے‘ ان میں سے ہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آکر اُس نظم و ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں‘ اُس وقت اگر وہ حضورؐ کی نافرمانی کرنے پر اُتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر‘ دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا۔ اسی کی بنا پر انھوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔ اسی کی بنا پر وہ خوف‘ گھبراہٹ‘ اشتعال‘ مایوسی‘ ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میںپورا نظم و ضبط برقرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انھوں نے شرائطِ صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر سرتسلیم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اُتاری تھی‘ اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔
]ایمان بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ[ ایک ایمان تو وہ تھا جو اِس مہم سے پہلے اُن کو حاصل تھا‘ اور اُس پر مزید ایمان اُنھیں اِس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمایشیں پیش آتی چلی گئیں اُن میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص‘ تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ اُن آیات کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے‘ بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمایشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان‘ مال ‘ جذبات‘ خواہشات ‘ اوقات‘ آسایشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمایش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے‘ اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب
وہ ابتدائی سرمایۂ ایمان بھی خطرے میںپڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ ص ۴۵-۴۶) ‘ ( ترتیب و تدوین: امجد عباسی)۔
کسی بھی قوم کا عروج اس پر منحصر ہے کہ وہ فکرونظر اور علم و دانش کی کس شاہ راہ پر گامزن ہے۔ فلک بوس عمارتیں‘ دعوت نظارہ دیتی ہوئی شاہ راہیں‘ دل کش اور جاذبِ نظر مراکز تجارت ترقی و کامرانی کے سطحی مظاہر ہیں جن سے قوم ووطن کی حقیقی عظمت و رفعت کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ فی الحقیقت ذہنی آزادی‘ افکار و خیالات کی وسعت و ہمہ گیری‘ انسانیت دوستی پر مبنی تعلیمات اور علوم نافعہ کی اشاعت ایک فرد‘ معاشرہ اور قوم کی زندگی کا نوشتۂ تقدیر تیار کرتی ہیں اور دوسری طرف اقوام عالم میں عظمت سے روشناس کراتی ہیں۔ علم و دانش وہ متاع بیش بہا ہے جو فرد اور معاشرے‘ دونوں کی زندگی کو انقلاب آشنا کر دیتی ہے‘ فکر کی کجی ختم ہوتی ہے‘ سوچنے سمجھنے کے انداز مہذب اور نشست و برخاست کے طریقے شائستہ ہو جاتے ہیں‘ مصروفیات و مشغولیات کا رُخ بدل جاتا ہے اور شب و روز میں حیرت انگیز تغیر رونما ہوتا ہے جس کی بنا پر ظلمتوں کا سدباب ہو جاتا ہے اور شاہ راہ زندگی روشن ہو جاتی ہے۔
مخلوقات اراضی و سماوی میں انسان کو شاہ کار کی حیثیت حاصل ہے۔ قوت فکر و شعور کی نعمت سے اُسے نوازا گیا۔ چاند و سورج‘ آسمان و زمین‘ شجر و حجر اور پوری کائنات اس کی خدمت میں مصروف ہے۔ انسان کو تسخیر کائنات کا پروانہ عطا کیا گیا: وَسَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ط (الجاثیہ ۴۵:۱۳) ’’اور اس نے زمین و آسمان کی ساری ہی چیزیں تمھارے لیے مسخر کر دی ہیں‘‘۔ مخدوم کائنات اور اشرف المخلوقات انسان کی تخلیق کا مقصد بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں واضح فرما دیا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات ۵۱:۵۶) ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔
اسلام میں عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ ہر شعبۂ حیات میں خوفِ خدا کی دلوں پر حکمرانی ہو اور اس کی ہر سعی و عمل پر مرضی مولا کے اشتیاق کی چھاپ ہو۔ اللہ رب العزت سے محبت اور تخلیق انسانیت کی عظیم و مقدس غایت کو کماحقہ عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا جب تک کہ علم و فضل کی ضیا پاشیوں سے قلب و ضمیر روشن نہ ہوں۔ اللہ کا دین ایک امانت عظمیٰ کی شکل میں جن بندگانِ خدا کو ملا ہے ان میں سے ہر ایک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اسے خدا کے ان بندوں تک پہنچائے جو اللہ کے دین سے دور ہیں اور اس نعمت کی قدر و عظمت سے آشنا نہیں ہیں۔ اس مقصد کی بازیابی کے لیے بھی ضروری ہے کہ علم و حکمت کی شمع فروزاں کی جائے اور اس کی دولت گراں بہا سے فیض یاب ہوا جائے۔
علم جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور اس کا فیض پورے معاشرے پر جاری و ساری رہتا ہے۔ خوگر علم اخلاق فاضلہ اور اعمال حسنہ کا علم بردار بن کر حیات اُخروی کی ابدی مسرتوں کے حصول کے گُر جان لیتا ہے۔ علم و حکمت کے زیور سے آراستہ ہونے والوں کے سامنے کائنات کی ساری نشانیاں کھلی ہوئی کتاب ہوتی ہیں‘ انھیں حق و باطل میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مختلف پیرایۂ بیان میں علم اور اہل علم کی فضیلت بیان کرنی ہے: قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط (الزمر ۳۹:۹) ’’اے محمدؐ! فرما دیجیے کہ کیا جو لوگ زیور علم سے آراستہ ہیں وہ اور جو اس سے محروم ہیں وہ ‘ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
قرآن اس شخص کو چشم بینا کا متحمل نہیں قرار دیتا جو علم و حکمت کے جوہر سے محروم ہو اور پھر اس کے نتیجے میں راہِ حق پر گامزن ہونے کے بجائے ظلمتوں کا ہم نشین بن جائے۔ قرآن کی نگاہ میں علم کی روشنی رکھنے والا شخص ہی بینا ہے اور اس کے برعکس جو اس سے محروم ہے وہ نابینا اور بے بصارت ہے۔ بینائی سے محرومی تاریکیوں سے عبارت ہے۔ وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ o وَلاَالظُّلُمٰتُ وَلاَالنُّوْرُ o (الفاطر ۳۵:۱۹-۲۰) ’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہیں‘ نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں‘‘۔ ایک مقام پر ایمان و ایقان اور علم و عرفان کی نعمت سے بہرہ ور ہونے والوں کے رفع درجات کا اعلان ہوتا ہے: یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط (المجادلہ ۵۸: ۱۱) ’’اللہ تم میں سے اہل ایمان اور علم سے نوازے جانے والے لوگوں کے درجات کو بلند کر دیتا ہے‘‘۔
احادیث نبویؐ بھی علم و فضل کی قدر و منزلت پر سند فراہم کرتی ہیں۔ اللہ کے محبوب ترین بندے خاتم النبیینؐ نے اہل علم و دانش کو انبیا کرام کا ورثہ قرار دیا ہے۔ ان العلماء ھم ورثۃ الانبیا (الصحیح للبخاری‘ ج اوّل‘ کتاب العلم‘ ص ۱۶) ’’بلاشبہ علما ہی انبیا ے کرام کے وارث ہیں‘‘۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر آسمان کے ان درخشاں تاروں سے ان علما کی تعبیر کی جو منزل مقصود تک رسائی کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ ’’اہل زمین میں علما ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحروبر کی ظلمتوں میں راہِ یاب ہوا جاتا ہے‘‘ (مسند احمد‘ ج ۳‘ ص ۱۵۷) ۔
اسلام میں علم و دانش کی فضیلت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبوداور ہدایت و کامرانی کے لیے معزز ترین ضابطۂ زندگی کے نزول کا آغاز بھی اِقْرَاْ (العلق ۹۶: ۱) ’’تو پڑھ‘‘ کی مبارک تعلیم سے ہوتا ہے۔ اس کے معاً بعد وحی الٰہی کے جو الفاظ کتاب الٰہی میں محفوظ ہیں‘ ان کی روشنی میں علم کی روح‘ انسان کی حیثیت‘ اوراللہ کے مقابلے میں انسان کو نوازے گئے علم کی حقیقت پوری طرح عیاں ہے : اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۴) ’’تو پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمھارا رب کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے علم کی نعمت سے بہرہ ور کیا۔ اس نے انسان کو وہ کچھ بتایا جس سے وہ ناآشنا تھا‘‘۔ تحصیل علم کو رب حقیقی کے نام کے ساتھ مشروط کر کے دراصل قرآن نے اس فکر کا علم بلند کیا ہے کہ علم دراصل پوری انسانیت کے لیے متاع محبوب ہے‘ اور اس کی اہمیت و افادیت اسی وقت مسلمہ ہو سکتی ہے‘ جب کہ خالق حقیقی کو فراموش نہ کیا جائے۔
اسلام علوم و فنون کے مابین جائز و ناجائز کا‘ مستحسن و قبیح اور دینی و دنیوی ہونے کے اعتبار سے کوئی خط امتیاز نہیں کھینچتا بشرطیکہ یہ مالک حقیقی کے بے پایاں احسانات کے استحضار کے ساتھ اور مرضی مولا کے حصول کے پیش نظر کیے جا رہے ہوں۔ جغرافیہ‘ تاریخ‘ معاشیات‘ سیاسیات اور انگریزی کی تعلیم بھی حالات کے تقاضوں کے پیش نظر بسااوقات دینی ضرورت بن جاتی ہے بشرطیکہ خوشنودی رب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی جائے۔ چنانچہ چاند کا سفر‘ ستاروں کی گزرگاہوں کی یافت‘ سورج کی شعاعوں کی تسخیر‘ خلائوں کی سیر‘ دریا کی موجوں اور سمندر کی لہروں پر گرفت‘ یہ سب مسعود و مبارک بن جاتے ہیں اگر انسان ذکر الٰہی سے اپنی شب تاریک میں قندیل روشن کر لے اور انسانیت کی ظلماتِ حیات کو سپیدی سحر سے بدل دینے کا عزم کر لے۔
اسلامی عبادات کی روح تقویٰ ہے۔ یہ مخصوص اوقات میں محدود مقامات پرایک خاص قسم کی پُرتکلف کیفیت پیدا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ خشیت الٰہی سے عبارت ہے۔ دلوں کی دنیا پر جب خوفِ خدا کے قانون کی حکمرانی ہوتی ہے تو پھر کسی خود ساختہ قانون کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی پولیس کا ڈنڈا برائیوں کا قلع قمع کرنے میں محرک ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ دن کی روشنی ہو یا رات کی تاریکی‘ چوراہا یا شاہ ر ا ہوں یا بند کوٹھری‘ آبادی ہو یا ویرانہ‘ رزم گاہ ہو یا بزم گاہ‘ ہرجگہ یہ خشیت الٰہی ایک ضابطہ بن جاتی ہے۔ علم و فضل وہ دولت گراں مایہ ہے جو فرد اور معاشرے کی فلاح کی ضمانت ہے۔ اگر تقویٰ کی روح نہ رہے تو انسان کی زندگی میں امن و سکون عنقا ہو جاتا ہے اور پھر یہ صراط مستقیم سے منحرف ہو کر اپنی ناکامی و نامرادی کا نوشتۂ تقدیر خود اپنے ہاتھوں تیار کر لیتا ہے۔ ایک بڑے سے بڑا فلاسفر‘ ماہر سے ماہر طبیب‘ علم کیمیا اور علم طبیعیات کا ماہر ‘ ریاضیات و شماریات کا حاذق‘ خلائوں کا ہم نشیںاور سمندروں میں اپنی دنیا بسانے والا اگر مالک حقیقی کی اطاعت و وفاشعاری اور خشیت الٰہی کے زیور سے آراستہ نہیں ہے توقرآن کی نگاہ میں علم و فضل کا حامل نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن وسنّت اور فقہ و سیرت کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والے بندگان خدا کی زندگیاں خشیت الٰہی سے محروم ہیں تو قرآن انھیں علما کی فہرست میںشامل نہیں کرتا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤا ط (الفاطر ۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔
تحصیل علم کے لیے تقویٰ مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ علوم وفنون کی تحصیل کے مراحل میں اگریہ اہم ترین اصول پیش نظر نہ ہو تو علم حقیقی روح سے عاری ہو جاتا ہے اور پھر بندئہ مومن کا مقصد حیات رضاے الٰہی مجروح ہو کر دولت کمانا‘ شہرت و ناموری حاصل کرنا اور جاہ و اقتدار طلب کرنا‘ علم کے مقاصد بن جاتے ہیں۔ جب یہ سطحی چیزیں مقصد حیات بن جائیں تو ایک طرف انسانوں کے مابین اخوت و محبت اور ہمدردی و غم گساری کے جذبات بتدریج معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اور ظلم و ناانصافی‘ کجی و ہٹ دھرمی اور بغض وعناد کے مظاہر فروغ پاتے ہیں اور مستزاد--- یہ کہ رشد و ہدایت کی شاہ راہ سے گریز کرتے ہوئے شعوری اور غیر شعوری طور پر ضلالت و گمراہی کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی محروم القسمت لوگوں کے بارے میں کتاب اللہ میں یہ قول فیصل موجود ہے: صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ o (البقرہ ۲: ۱۸) ’’یہ بہرے ہیں‘ گونگے ہیں‘ اندھے ہیں‘ یہ اب نہ پلٹیں گے‘‘۔
اس کے برعکس علم حقیقی حق شناسی کی ضمانت بنتا ہے۔ آیات بینات ‘ امثال و قصص اور احکام و ہدایات علم و دانش کے انھی علم برداروں کے لیے سودمند ثابت ہوتے ہیں جو ہر قسم کے تحفظات سے بری ہو کے للّٰہ اور فی اللہ تدبر و تفکر کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ اس صداقت پر کتاب اللہ کی یہ سند ملاحظہ کی جائے۔ فرمایا جاتا ہے: وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ ج وَمَا یَعْقِلُھَآ اِلاَّ الْعٰلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۳) ’’اس طرح کی مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں مگر انھیں وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ دوسرے مقام پر حقیقی علم و فضل کی نعمت سے متمتع ہونے والوں کا طرز عمل یوں سراہا جاتا ہے: وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِیْ اُنِزْلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ھُوَ الْحَقَّ لا (سبا ۳۴:۶) ’’اور (اے نبیؐ!) علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے‘‘۔
قرآن مجید میں علم کا مقام و مرتبہ اخلاق و کردار سے مشروط ہے۔ دولت علم سے متمتع ہونے کے بعد ایک شخص کے اندر جہاں بہت سی خوش گوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہاں تواضع اور خاکساری کا وصف بھی اس کی ذات کو مزین کر دیتا ہے۔ اسے ایک طرف وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً کے مطابق اپنے علم کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ج وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلِمْہٖٓ اِلاَّ بِمَاشَآئَ ج (البقرہ ۲:۲۵۵) ’’وہ بندوں کے سامنے موجود اور اوجھل ساری چیزوں کو جانتا ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز اس کی مشیت کے بغیر ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی‘‘ کے ارشاد کے مطابق رب العالمین کے سرچشمۂ علم و فضل ہونے کا اسے ایمانِ کامل ہوتا ہے۔ اس سے اس کے اندر شکرکے جذبات نشوونما پاتے ہیں اور اس کے اندر کبر اور سرکشی کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں بلکہ خدا کی عطا کردہ نوازش کا احساس اور خالق دوجہاں کے ہی منبع علم ہونے کا ایمان تواضع و انکساری کے لیے مہمیز کرتا ہے۔ الخلق عیال اللّٰہ کی تعلیم نبویؐ کو مستحضر رکھتے ہوئے اور حقوق العباد کے تلف ہونے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اور جواب دہ شخصیت گردانتا ہے‘ چنانچہ خدمت خلق کے جذبے سے معمور ہو کر اس کے بازو دوسروں کے لیے جھک جاتے ہیں۔ اس کے اندر گیرائی و گہرائی ہوتی ہے لیکن سکوت و خاموشی اس کا شعار ہوتا ہے۔ علم و حکمت کی متاع بے بہا سے اس کی شخصیت بلاشبہ بھاری بھرکم ہو جاتی ہے لیکن وہ شجر ثمربار کے مانند ہوتا ہے جو ہر خاص و عام کی خاطر و مدارت کے لیے جھکا رہتا ہے۔ اس طرح اُسے عباد الرحمن کی ربانی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز مل جاتا ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان ۲۵:۶۳) ’’رحمان کے بندے (فی الحقیقت) وہ لوگ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں‘‘۔
انسان اور جانور میں جہاں بہت سے امتیازات ہیں ان میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ جانور عقل و شعور سے محروم رہتا ہے‘ اس لیے اسے حدود و قیود کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس انسان اس وصف کا حامل ہوتا ہے۔ یہ نعمت خداداد اس کی حرکات و سکنات نیز مسائل حیات اور مشاغل زندگی کو منضبط رکھنے کے لیے مؤثر ثابت ہوتی ہے جس کی بدولت جائز و ناجائز‘ مستحسن و قبیح اور حلال و حرام کی تمیز کرتے ہوئے اقطاع عالم اور انواح حیات میں وہ سرگرم عمل رہتا ہے اور اللہ کی حدود کا احترام ملحوظ رکھتا ہے۔
علم کے مقابلے میں ’’جہل‘‘ کا لفظ قرآن مجیدمیں حقائق کی یافت سے محرومی‘ عناد و تکبّر‘ ضد و ہٹ دھرمی اور تعصّب و تنگ نظری کی بنا پر حقائق و معارف سے اعراض و انحراف کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔ آفاق و انفس کی شہادتیں‘ توحید‘ رسالت اور آخرت کے دلائل‘ پیغمبران خدا کی سرگذشتیں اور اقوام بائدہ کے انجام علم سے بے بہرہ اشخاص کے لیے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار باریہ حقیقت ذہن نشین کراتا ہے کہ کائنات کی نشانیاں اور آفاق و انفس کی شہادتیں ان لوگوں کے لیے سودمند نہیں ہوتیں جو علم و آگہی کی نعمت غیر مترقبہ سے شرف یاب نہیں ہوتے۔ جو لوگ تدبر و تفکر کو کام میں نہیں لاتے اور حقائق کی جستجو میں سرگرداں نہیں ہوتے‘ ان کے لیے خالق دوجہاں کی نشانیوں میں خیر کا پہلو حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا اور بسااوقات ان کا عمل حقائق سے دوری‘ اللہ عزوجل پر افتراپردازی اور اپنے ساتھ نوع بشری کی گمراہی پر منتج ہوتا ہے۔ یہ انتہائی شنیع حرکت ہے کہ اللہ رب العزت کے بے پایاں احسانات کو فراموش کرتے ہوئے ایک انسان اس کی طرف خلافِ شان باتوں کا انتساب کرے اور خود پیکر ضلالت بن کر نوعِ انسانی کی گمراہی کا سبب بنے۔: ’’پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہنمائی کرے‘‘۔ جہل و ناواقفیت کی سنگینی اس آیت کریمہ میں بھی عیاں ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ق (لقمان ۳۱:۶) ’’اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکا دے‘‘۔
مولانا مودودی کی یہ وضاحت بھی معنی خیز ہے:
جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کا طریقہ سراسر علم ہے کیونکہ اس کی طرف خدا نے رہنمائی کی ہے جو تمام حقائق کا علم رکھتا ہے۔ اور اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے جاہلیت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانۂ قبل اسلام کو جاہلیت کا دور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس وگمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کر لیے تھے (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۴۷۹)۔
جہل کے اس عام مفہوم کے علاوہ قرآن اس کا ایک اور مفہوم بھی واضح کرتا ہے۔ بعثت نبویؐ سے قبل کے انسانی معاشرے کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ قرآنی مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا دور دورِ جاہلیت سے موسوم ہے۔ اگرچہ یہاں قادرالکلام شعرا‘ نابغہ روزگار ادبا اور نادر المثال فصحا جنھیں اپنی قوت گویائی اور زبان دانی پر ناز تھا‘ موجود تھے۔ وہ اپنی قابل رشک صلاحیتوں کی ہی بنیاد پر دوسروں کو طفل مکتب کہہ دینا بھی اپنا پیدایشی حق سمجھتے تھے۔ قرآن پاک اگر انھیں جاہل قرار دیتا ہے تو اس بنیاد پر کہ علوم و معارف سے آگہی کے باوجود ضد و عناد اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید اور ہٹ دھرمی کی بنا پر حق شناسی کی نعمت سے محروم تھے۔ قرآن کے معانی اور اسرار و رموز سے آگہی کے لیے کلام عرب بھی قیمتی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ قرآن پاک کے اوّلین مخاطب اہل عرب تھے اور یہ بعید از قیاس ہے کہ ذات باری تعالیٰ ایسے اسلوب و زبان میں گفتگو کرے جو مخاطب کے فہم و دانش کے معیار کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ جہل کے اس دوسرے مفہوم کا تعیین نابغۂ روزگار جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کے اس شعر سے ہوتا ہے:
الا لایجھلن احد علینا - فنجھل فوق جھل الجاھلین
خبردار! کوئی ہمارے خلاف جہالت پر آمادہ نہ ہو‘ ورنہ ہم تمام جاہلوں کی جہالت سے بڑھ جائیں گے (جمھرۃ اشعار العرب‘ ص ۱۲۸)۔
حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کو خداے واحد کی عبادت کی دعوت دی تو قوم نے ان کے ساتھ تمسخر کیا اور سند کے طور پر عذاب الٰہی طلب کیا۔ پیغمبر وقت نے اللہ تعالیٰ کو سرچشمۂ علم قرار دیا اور اپنی حیثیت واضح کرتے ہوئے ان کی اخلاقی گراوٹ کی تصویرکشی کی: قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ ز وَاُبَلِّغُکُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَلٰکِنِّیْٓ اَرٰکُمْ قَوْمًا تَجْھَلُوْنَ o (الاحقاف ۴۶:۲۳) ’’اور جس چیز کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے‘ اُسے تم لوگوںتک پہنچا دیتا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو‘‘۔ حضرت موسیٰ ؑنے اپنی قوم کو رشد و ہدایت کی تلقین کی اور گائے ذبح کرنے کے حکم الٰہی کو ان کے گوش گزار کیا تو انھوں نے پیغمبر کی شان میں نازیبا کلمات کہے۔ اس پر پیغمبر نے ان کی جہالت سے پناہ مانگی: قَالُوْآ اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ط قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ o (البقرہ ۲:۶۷) ’’ کہنے لگے کہ کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰ ؑنے کہا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں‘‘۔
دعوت و تبلیغ کی راہ میں ایسے صبرآزما مراحل آتے ہیں کہ داعیحق کے قدموں میں لغزش آجاتی ہے لیکن ایسے سنگین حالات میں بھی داعی کے منصب دعوت کے مقام کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ صبروثبات قدمی کا طریقہ اختیار کرے۔ دعوت کے اس مقدس مشن میں ایسے مخاطبیں بھی سامنے آتے ہیں جن کے اذہان و قلوب پر ضد و عناد اور آبا پرستی اور تقلید جامد کی وجہ سے حق کی روشن شعاعوں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ کبر و غرور کے نشے میں بدمست ہو کر دعوت صالحہ سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ تعصّب و تنگ نظری اور آبا پرستی و تقلید محض کو قرآن جہل سے تعبیر کرتا ہے اور ایسی نامبارک روش اختیار کرنے والوں کو الجاھلین یا الجاھلون سے موسوم کرتا ہے۔ داعی ٔحق کو قرآن تلقین کرتا ہے کہ اس مبارک کام میں وہ حکمت کا طریقہ اختیار کرے۔ دعوت کی راہ میں جب کبھی ایسے لوگ منظرعام پر آئیں جو اگرچہ علم و فن کی ثریا پر کمندیں ڈالے ہوں لیکن حق کی باتوں کو سننے اور سمجھنے کے لیے اپنے دل و دماغ کے دریچوں کو مقفل رکھتے ہوں‘ یا ایسے لوگ سامنے آئیں جو کسی کالج یا مدرسے سے سند فراغت تو حاصل کر چکے ہوں لیکن تعصّب و تنگ نظری کا حصار اور بے جا رسوم اور روایات کا طوق سلاسل ان کے قبول حق میں سدّراہ بن رہا ہو تو داعی سے ایسے نامساعد موقع پر حکمت کو روبۂ عمل لانے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ یہاں ایسے ناقدروں سے اعراض کی تلقین کی جاتی ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo (الاعراف ۷: ۱۹۹) ’’اے نبیؐ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو اور جاہلوں سے نہ الجھو‘‘۔
قرآن جہل کو امّ الامراض قرار دیتا ہے جس کی سنگینی سے یہ ناپایدار زندگی تعفن کا شکار ہو جاتی ہے۔ آدمی جانور بن جاتا ہے اور ضلالت و گمراہی کے قعر عمیق میں گر کر حیات ابدی کی مسرتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ قرآن کی نظر میں وہ جہالت انتہائی سنگین قرار پاتی ہے جو کبر‘ ہٹ دھرمی اور توہم پرستی پر مبنی ہو۔ اس قسم کی جہالت کے علم بردار مادّی علوم و فنون کی نمایاں منزلوں کو طے کرنے کے باوجود دعوت کی لذت و شیرینی اور سحرانگیزی و اثر آفرینی سے نہیں پگھلتے اور اپنے موقف پر نظرثانی کو منافی شان سمجھتے ہیں۔ ان کی طرف سے بسااوقات مفاہمت کی پیش کش بھی ہوتی ہے۔ اسوئہ رسولؐ ہمارے سامنے ہے۔ علم برداران کفر وشرک اور اساطین قریش سمجھوتوں کی پالیسی کے ذریعے دعوت پر قابو پانا چاہتے تھے لیکن اللہ رب العزت کو ان کی یہ ادا انتہائی ناگوار لگی اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کفر و جہالت کے ان علم برداروں کی تنبیہ کروائی: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ o (الکافرون ۱۰۹:۶) ’’(اے نبیؐ! کہہ دو کہ) تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین‘‘۔ حق بہرحال حق ہے اور باطل بہرحال باطل ہے۔ حق کی سرشت میں ظہور وغلبہ ہے اور باطل کے لیے شکست و ہزیمت مقدر ہے۔ قل جآء الحق وزھق الباطل ان البال کان زھوقًا اے نبیؐ! اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ چنانچہ حق و باطل کی رزم گاہ میں دعوت اور داعی کی عظمت و خودداری کا تقاضا یہ ہے کہ فکرونظر کی جہالت پر مبنی معاہدوں اور سمجھوتوں سے بے نیازی برتے اور اعلان کر دے: لَنآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ز سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لاَنَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَo (القصص ۲۸ : ۵۵) ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ تم کو سلام ہے‘ ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘۔
دین اسلام ایک عظیم ترین امانت ہے جو کلمۂ طیبہ کے علم برداروں کے کاندھوں پر ہے۔ بے کم و کاست اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس امانت کو ان لوگوں تک پہنچائے جو اللہ رب العزت کی اس دولت عظمیٰ سے محروم ہیں۔ جوجتنا زیادہ ناواقف اور گم گشتۂ راہ ہے و ہ اتنا ہی زیادہ محتاج و مستحق ہے کہ اس تک اللہ و تبارک تعالیٰ کی یہ امانت روشن اور منزہ شکل میں پہنچائی جائے۔ حالات کے ناخوش گوار اور نامساعد ہونے کی بنا پر اگر انھیں حصولِ علم کی توفیق نہ ملی ہو یا قسّام ازل کی مشیت کے مطابق عقل و فہم کی نعمت سے محروم ہوں تو یہ اور بھی زیادہ لائق توجہ ہیں۔ نذیر و بشیر ہونے کی حیثیت سے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ یقین ہو جائے کہ مخاطب کے سامنے وہ خیروشر کے تمام گوشے کماحقہ نمایاں ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنے موقف پر مصر رہتا ہے اور اپنی ہی روش کو محبوب اور قابل تقلید سمجھتا ہے تو داعی کے لیے ایسے مدعو یا مخاطب سے اغماض و اعراض کا اقدام مناسب ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی شخص کو قرآن اصل جاہل قرار دیتا ہے اور اس سے دُور رہنے کی تلقین کرتا ہے: وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان ۲۵: ۶۳) ’’ اور جب جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام‘‘۔
علم دولت بے بہا ہے جس سے جینے کا سلیقہ آتا ہے۔ دوسری طرف یہ کسی فرد و معاشرہ اور ملک و قوم کے معنوی وجود کی ضمانت بن کر اقوام عالم میں زندہ قوم کی حیثیت سے روشناس کرانے کا وسیلۂ بھی بنتا ہے۔ یہی وہ نعمت ہے جو حق شناسی‘ تواضع و خاکساری اور حدود اللہ کے احترام کے زرّیں سبق سکھاتی ہے بشرطیکہ علم و دانش کی یہ متاع روح تقویٰ اور خشیت الٰہی سے مالا مال ہو۔ بصورت دیگر علم و دانش میں کوئی شخص ثریا کاہم نشیں بن جائے لیکن اگر اپنی زندگی کی شب تاریک کو روشن نہیں کر سکا اور خالق حقیقی کو پہچاننے سے قاصر رہا تو وہ علم کی حصول یابی سے محروم ہے۔ اس کے بالمقابل جہل کا لفظ قرآن پاک میں ناواقفیت اور تعصب و تنگ نظری اور ضد وعناد کی بنا پر اپنے موقف پر جمے رہنے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور بلاشبہ جہل کے یہ دونوں معانی حق شناسی سے محرومی اور جادئہ مستقیم سے دوری پر منتج ہوتے ہیں۔ قرآنی تصریحات کے مطابق جہل بمعنی عدم واقفیت ایک اتفاقی امر و حادثہ ہے۔ جو شخص اس ناخوش گوار امر سے دوچار ہے‘ اس کے قبول حق کے امکانات روشن ہوتے ہیں بشرطیکہ متعلقہ امور و مسائل کے اسرار و رموز بے نقاب کر دیے جائیں۔ اس کے برعکس وہ جہل جو تمام حقائق سے آشنا ہونے کے باوجود ضد و ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اپنے نظریۂ و عمل سے تمسک اختیار کرنے سے عبارت ہے‘ یہ انتہائی سنگین اور مہلک مرض ہے۔ اس کا تعلق فکر ونظریہ سے ہے۔ اسی جہل کو قرآن جاہلیت سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ فکری جہالت میں مبتلا افراد سے ان کے نظریۂ وعمل کی تبدیلی کے لیے اصرار حکمت کے خلاف اور دعوت و داعی کی عظمت و شان کے منافی ہے۔ آج اگر فرد یا معاشرہ قرآن کے نظریۂ علم کو قبول کرتے ہوئے علم کی حقیقی روح سے اپنے آپ کو مزین کرلے اور جہالت کی تمام تر ظلمتوں کو خیرباد کہ دے‘ بالخصوص تعصّب و تنگ نظری اور ضد و عناد کے دلدل سے نکل کر اپنا رخت سفر باندھ لے تو یہ بعید نہیں کہ فرد و جماعت‘ ملک و قوم بلکہ پورا معاشرہ انسانی حق و صداقت ‘ اخوت و محبت‘ اتحاد و اتفاق‘ وسعت فکروعمل اور خوش گوار اور شایان انسانیت تبدیلیوں کا روح پرور منظر کا دعوت نظارہ دے رہا ہو!۔
گلوبلائزیشن ]عالم گیریت[کے ظاہری معنی پوری دنیا کو ایک مارکیٹ بنانا اور ان تمام رکاوٹوں کو دُور کرنا ہے جو بین الاقوامی تجارت میں حائل ہیں تاکہ سرمایہ بلاروک ٹوک ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر کر سکے‘ اور جس جگہ بھی اس کی ضرورت ہو‘ وہاں سرمایہ کاری کی جاسکے۔ اور اسی طرح محنت بھی ہر جگہ کا سفر کر سکے اور جہاں بھی اس کو زیادہ اُجرت ملے‘ وہاں اپنی خدمات پیش کر سکے۔ اس میں سرمایہ اور محنت‘ دونوں کا بھلا ہے۔ دونوں کا بہترین استعمال مضمر ہے۔ اس حکمت عملی کے وکیل مغربی ممالک ہیں جن کی طاقت ان کا کثیر اور فاضل سرمایہ ہے‘ ان کی ٹکنالوجی ہے‘ اوران کے قصیدہ گو ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان کا ہنر اپنے حقیقی مقاصد کی پردہ پوشی ہے ۔ ان کا کام یہ ظاہر کرنا ہے کہ وہ انسانیت کے درد سے تڑپ رہے ہیں لیکن ان کی عملی تدابیرسے حرص و آز چھپائے نہیں چھپتے۔
گلوبلائزیشن کے حقیقی معنی نجی سرمایہ کاری کا فروغ ہے۔ اس پر عائد ہر قدغن کو دُور کرنا ہے۔ ہم کو یہ بتایا جاتا ہے کہ مسابقت (competition)اور آزاد مارکیٹ معاشی ترقی کا سب سے موثر منہج ہے۔ اس سے ملک کی سرمایہ کاری میں غیر معمولی اضافہ ہوگا‘ پیداوار کی متناسب تقسیم ہو گی اور کارکردگی بھی بڑھے گی۔ بہتر سامان بھی پیدا ہوں گے‘ اور ہر شخص اپنی ضرورت پوری کر سکے گا‘ جب کہ اس کے بالمقابل سرکاری ملکیت کا ۵۰ سالہ تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ پیداوار‘ تقسیم‘ کوالٹی اور کمیت ہر لحاظ سے ناکام رہی ہے۔
اس تصویر گری میں کئی اہم باتیں قصداً پوشیدہ رکھی جاتی ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کی لائی ہوئی مسابقت غیر مساوی فریقوں کے درمیان ہوگی۔ ان میں سے ایک فریق سرمایہ دار ہے‘ طاقت ور ہے‘ ٹکنالوجی سے لیس ہے‘ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی عظمت اور سطوت
سے بہرہ ور ہے ‘ جب کہ دوسرا فریق کمزور ہے‘ پس ماندہ ٹکنالوجی پر منحصر ہے اور جس کی پیداوار کا بیشتر حصہ چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور چند ایکڑ زمین پر بھروسا کرنے والے کسانوں‘ مقروض صنعتی اکائیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان مسابقت کا کیا سوال؟ سرمایہ دارانہ آزاد معیشت میں ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے۔ ہر طاقت ور کمزور کو روندتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہی داستان یہاں بھی لکھی جائے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں نجی سرمایہ کاری کی اصطلاح سے مراد غیر ملکی سرمایہ ہے۔ سرمایہ دار چاہے ملکی ہو یا غیر ملکی‘ اس کو عوام کی مانگ اور ضرورت سے سروکار کم ہوتا ہے۔ اس کو منافع کی جستجو ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ ملک کو اور عوام کو جن اشیا کی ضرورت ہے یا جن میدانوں میں ضرورت ہے‘ وہ نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پورے ہو سکتے ہیں--- یا تو خام خیالی ہے یا دھوکا ۔ لیکن اگر سرمایہ دار غیر ملکی ہو تو اس کے مقاصد اور ملک کی ضرورت میں ہم آہنگی کا تصّور بھی محال ہے۔ اس کو ان میدانوں کی تلاش ہو گی جہاں وہ زیادہ نفع حاصل کر سکے۔ چنانچہ اس کی ترجیحات اسی تلاش پر منحصر ہوں گی۔
تیسری بات جو قصداً نظرانداز کی جاتی ہے‘ یہ ہے کہ کیا غریب ممالک اور غریب عوام پر بھی سرمایہ کاری کے اثرات مرتب ہوں گے؟ اگر غریب اور امیر ممالک کے درمیان پہلے سے دولت اور آمدنی کا تفاوت ہو تو آیا اس گلوبلائزیشن کے نتیجے میں وہ تفاوت بڑھے گا یا کم ہوگا؟ اس سوال کو اب تک قابل غور نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تمام دنیا ایک مارکیٹ بن جائے گی تو اس طرح کا تفاوت خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ملک کے اندر اگر عدم مساوات پہلے سے موجود ہے تو وہ بڑھے گی یا کم ہو گی؟ اور اگر عوام کا ایک معتدبہ حصہ افلاس زدہ ہے تو اس کی حالت بہتر ہوگی یا مزید خراب ہو گی۔ نیز معاشی عدل و انصاف بڑھے گا یا گھٹے گا؟
چوتھی بات یہ بھی پوشیدہ رکھی جاتی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری‘ صرف سرمایہ نہیں لائے گی بلکہ وہ حکومت کی معاشی پالیسی کو بھی متعین کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں آرہا ہے جن میں سے ہر ایک کا بجٹ ہندستان کے قومی بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ کمپنیاں بیرونی تجارت پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ مثلاً سرمایہ کاری کہاں کی جائے گی اور کب کی جائے گی؟ ان کے پیدا کردہ سامان کی قیمت کیا ہوگی؟ کتنا منافع ملک میں رکھا جائے اور کتنا باہر بھیجا جائے؟ ملکی پیداوار کے کن اہم عناصر پر کیا پابندیاں لگائی جائیں؟ اور اگر کسی ملک کی اہم برآمدات خام مال اور زرعی پیداوار ہوں تو ان کی بین الاقوامی مارکیٹ میں کیا قیمت مقرر کی جانی چاہیے؟ ان تمام پالیسیوں پر اثر ڈالنے کی کوشش بیرونی سرمایہ کر رہا ہے اور مستقبل میں اس کا دائرہ کار مزید بڑھے گا تاکہ عوام اور ان کی پارلیمان کے ہاتھ سے یہ اختیارات بالفعل نکل جائیں۔ حکومت کے پاس اس کے سدباب کے کیا ذرائع ہیں؟ اور اگر یہ رفتہ رفتہ ہاتھ سے نکلتے گئے تو جمہور و عوام کی بے بسی کا کیا حال ہوگا؟ چنانچہ نارتھ سائوتھ ڈائیلاگ‘ جیٹ(Gatt) ‘ ڈنکل تجاویز‘ جی-۷
یہ تمام اس کی قطعی علامت ہیں کہ خارجی تجارت‘ زرعی پیداوار‘ اور معاشی پالیسی رفتہ رفتہ ملک کے دائرہ اختیار سے نکلتے چلے جائیں گے۔
گلوبلائزیشن اور پرائیویٹ بیرونی سرمایہ کاری کے وکیل اس پہلو کو بھی نظرانداز کرتے ہیں کہ اس معاشی پالیسی کی انسانی لاگت کیا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جو بے روزگار ہوسکتے ہیں؟ بڑے بڑے ڈیم کے نتیجے میں کتنے لاکھ انسان ہیں جو بے گھر ہو جاتے ہیں؟ ماحول کی آلودگی میں کتنا اضافہ ہو جاتا ہے؟ انسانی سماج کے اخلاق اور اس کی ہم آہنگی (harmony) پر کتنے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ سرمایہ دار کے نزدیک صرف ایک ہی لاگت معتبر ہے اور وہ ہے مالی لاگت۔ مغربی سرمایہ دار کے زیرنگرانی ماحولی آلودگی کی مہم بڑے زور و شور سے چل رہی ہے جس سے ہماری حکومت اور عدلیہ بھی متاثر ہے۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ دنیا میں ماحول کی آلودگی کے ذمہ دار مغربی صنعتوں کے بجائے غربت و افلاس میں مبتلا ممالک کو قرار دیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ وہ ممالک جو دنیا کے ۸۰ فی صد سے زیادہ صنعتی اور دوسرے وسائل کے ممالک ہیں‘ دنیا کے ماحول کی آلودگی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ غریب اس ماحولی آلودگی اور کثافت کے ذمہ دار ہیں جو بے چارے گھروں کے نام پر فٹ پاتھ پر زندگی گزارتے ہیں‘ اور دو وقت کے کھانے سے بھی محروم ہیں۔
ہمیں گلوبلائزیشن کی برکتوں اور بیرونی سرمایہ کاری کی نعمتوں کے ضمن میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس طرح جدید ترین ٹکنالوجی بھی آئے گی اور آرہی ہے۔ یہ بھی سرمایہ داروں کی ایک چال ہے کہ انھوں نے ٹکنالوجی کے معنی بدل دیے ہیں۔ ٹکنالوجی کے حقیقی معنی اپنے وسائل کی اس طرح ترتیب اور تنظیم ہے کہ ان کے کم سے کم مقدار میں استعمال سے زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کیے جا سکیں لیکن اب ٹکنالوجی کے معنی جدید ترین مشینری‘ سافٹ ویئر اور میٹریل کے سمجھے جاتے ہیں جس کی بدترین مثالیں خود ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ چنانچہ ہم اپنے داخلی وسائل کو یکسرنظراندازکرتے ہیں اور جدید ٹکنالوجی کی چمک دمک پر اتنے فریفتہ ہیں کہ معاشیات کے بنیادی اصول سے بھی صرف نظر کر لیتے ہیں۔ چنانچہ قرض ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ زیرآسمان زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور قحط ہے کہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ سیلاب ہے کہ ہر سال تباہی لاتا ہے۔ پانی کی عدم دستیابی ہے جو ملک کے بہت سے حصوں میں عوام کا مقدر بن گئی ہے۔ بیرونی ٹکنالوجی مہنگی ہے اور ہمارے وسائل کم ہیں۔ اس لیے پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ بس دو ہی راستے ہیں: یا تو انسانوں کو مرنے دیا جائے‘ یا ملک کو رہن رکھ دیا جائے۔ ٹکنالوجی ‘ وسائل کے بہترین استعمال کا نام ہے‘ اندھا دھند استعمال کا نہیں۔ سرمایہ دار تو یہ چاہتا ہے کہ اس کا سامان اور اس کی تکنیک بکے‘ اس کو اس سے غرض نہیں کہ ملک کو اس کی ضرورت ہے یا نہیں‘ یا متبادل سامان اور تکنیک کم قیمت پر دستیاب ہے یا نہیں۔
ہم نے اوپر یہ کہا تھا کہ گلوبلائزیشن درحقیقت سرمایہ داری کے غلبے کا نام ہے۔ اس کے ذریعے مغرب کا فاضل سرمایہ پوری دنیا بالخصوص تیسرے ممالک پر اپنا استعمار قائم کرنا چاہتا ہے‘ اور اس تہذیب اور ثقافت کے تسلط کا خواہاں ہے جو مغرب کی شناخت ہے۔ اس دور میں غلبے کے لیے فوجوں کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ مال و زراور ٹکنالوجی زیادہ موثر ہیں۔ اور عامتہ الناس کی یہ آرزو کہ وہ افلاس اور مرض سے نجات پا جائیں‘ اور اس کے مظلوم طبقات کی یہ تمنّا کہ اسے اعتبار اور اختیار حاصل ہو جائے--- مغربی سرمایہ کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبلائزیشن کی ضلع جگت میں خواتین کو بااختیار بنانا (empowerment of women)‘ ازالہ غربت‘ ماحول کی آلودگی کا سدِّباب اور آبادی پر کنٹرول جیسے نعرے بھی شامل کر لیے گئے ہیں۔ مگر امرواقعہ سرمایہ پرستی کی وہی قدیم ہوس ہے جو اس پوری حکمت عملی کی
رگ و پے میں دوڑ رہی ہے۔
گلوبلائزیشن اور آزاد مارکیٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کو اس کی پروا نہیں ہے کہ تیسری دنیا کے عوام کی ضروریات کیا ہیں۔ وہ ہر شے کو اس کی مارکیٹ سے ناپتا ہے بلکہ وہ اس چیز کو بھی جس کے قدرت نے وافر خزانے فراہم کیے تھے‘ مثلاً پانی کو بھی کمیاب (scarce) بنا کراس کی خرید و فروخت کرنا چاہتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اور اس کے حواریوں کی نظر اس پر ہے کہ ہندستان میں ایک ارب لوگ بستے ہیں۔چنانچہ یہ عظیم الشان مارکیٹ ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اندازہ ہے کہ پوری غریب دنیا میں تقریباً ایک ارب لوگ ایسے ہیں جن کو پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ صرف ہندستان میں تقریباً ۴۰ فی صد لوگوں کو صاف اور صحت مند پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ چنانچہ عالمی واٹر فورم (World Water Forum)کی حالیہ کانفرنس میں جو ہیگ (ہالینڈ) میں منعقد ہوئی تھی‘ یہ تجویز پیش کی گئی کہ اگر مارکیٹ میں پانی کی قیمت مقرر کر دی جائے تو ۲۰۱۵ء تک دنیا سے پانی کی کمی دُور ہو جائے گی۔بالفاظ دیگر ‘ پانی بھی بکنے لگے گا۔ سرمایہ داروں کی رال ہر اُس چیز پر ٹپکتی ہے جس کے متعلق ان کو یہ بھنک پڑ جائے کہ اس کی کمی ہونے والی ہے۔ گذشتہ دہائی سے دنیا کے مختلف ماہرین‘ خاص کر وہ لوگ جو ’’ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ‘‘ شائع کرتے ہیں یا جو FAO (Food and Agricultural Organization)سے وابستہ ہیں‘ برابر پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ آیندہ چند دہائیوں میں پوری دنیا میں پانی کی قلّت ہوگی۔ اس لیے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نج کاری کی اس ذہنیت کے نتیجے میں حکومت ہند بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ اب اعلیٰ تعلیم‘ حکومت کی ذمہ داری نہیں رہ جائے گی بلکہ جو شخص اس کی قیمت ادا کر سکے‘ وہ اسے حاصل کر سکے گا۔ چنانچہ پروفیشنل کالجزاور ادارے پرائیویٹ زمرے میں دیے جا رہے ہیں۔ صحت کی بھی مارکیٹ ویلو مقرر کی جا رہی ہے۔ اگر آپ کے پاس رقم موجود ہے تو آپ علاج کرا سکتے ہیں ورنہ سرکاری ہسپتالوں پر تکیہ کیجیے جہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں کا سا معاملہ کیا جاتا ہے۔ اگر آمدنی اچھی ہے تو اپنی ذاتی سیکوریٹی بازار سے خرید لیجیے ورنہ چوروں‘ اُچکوں کے رحم و کرم پر زندگی گزاریے۔
گلوبلائزیشن اور نج کاری کے نام پر حکومت سے یہ کہا جاتا ہے کہ اشیاے ضروریہ پر سے تمام سبسڈی ختم کر دی جائے۔ اس لیے کہ یہ معاشی کارکردگی (efficiency)کے خلاف ہے۔ جس کے پاس ہندستان میں پیسہ نہ ہو‘ وہ کوکنگ گیس کیوں خریدے؟ اگر وہ غریب ہو تو شکر کیوں استعمال کرے؟ اپنے گھر میں مٹی کے تیل کا چراغ کیوں جلائے؟ اس طرح تو حکومت کے خزانے پر بہت بار پڑتا ہے۔ رہ گیا یہ سوال کہ ایک جمہوری حکومت کی کیا یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کمزور‘ غریب اور نادار عوام کا سہارا بنے؟ امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں تک پہنچائے؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہاں’ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ سبسڈی کے مالی بار سے بیرونی سرمایہ دار اور اس کے نمایندوں ‘ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کو کیا دلچسپی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ضروریات زندگی کے بیشتر اجزا کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے سے پیشتر ان کی قیمتوں کو نفع بخش بنانا ضروری ہے۔ صحت‘ تعلیم‘ بجلی‘ پانی--- ان سب کی بازار کی قیمتوں کو منافع بخش بنائے بغیر نجی زمرے کو دل چسپی نہیں ہو سکتی۔
اس کی سب سے اہم مثال ]غیر ملکی کمپنیوں[ کی پیدا کردہ بجلی کی قیمت ہے۔ ]بھارت میں[ مہاراشٹر اسٹیٹ الیکٹرسٹی بورڈ کے تخمینے کے مطابق اس پلانٹ کی بجلی کی قیمت دگنی ہے‘ اور بعض حیثیت میں سات گنی ہے ]پاکستان میں یہی صورت حبکو اور دوسری غیر ملکی کمپنیوں کے تحت بجلی کی فی یونٹ قیمت کی ہے[۔ وہ پانی جو مفت میں دستیاب ہے ‘ جب ورلڈ واٹر فورم کی تجویز کردہ اسکیم کے تحت آجائے گا تو ایک لیٹر پانی کی قیمت کم از کم ۲ تا ۵ ڈالر ہوگی۔ اسی طرح تعلیم‘ خاص کر پروفیشنل تعلیم ہندستان جیسے ملک میں انجینیرنگ کے لیے ۳ لاکھ تک عطیات اور میڈیکل میں ۱۰ تا ۲۰ لاکھ کے عطیات کی قیمت پر ملے گی۔ مستقبل کے بازاروں کی اسی قیمت کے پیش نظر سبسڈی کو ختم کرنے کی پُرزور وکالت کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا کبھی یہ حساب لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سرکار کے غیر ضروری اخراجات پر کتنی رقم صرف ہوتی ہے؟ کتنے منسٹروں کے سکریٹری اور ان کے انڈر سکریٹری‘ جوائنٹ سکریٹری پر کیا رقمیں خرچ ہوتی ہیں؟ ان کانفرنسوں پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے جو بلاضرورت غیر ممالک میں کی جاتی ہیں؟ کیا کبھی کسی دانش ور اور ماہر معاشیات نے یہ اندازہ بھی لگانے کی کوشش کی ہے کہ سبسڈی کے نتیجے میں نادار اور کمزور افراد کی کارکردگی اور ان کی صحت پر کتنے مثبت اثرات پڑتے ہیں یا کتنے مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں؟ جو لوگ سڑکوں کو نجی زمرے کے حوالے کر کے ان پر چلنے کی قیمت لینا چاہتے ہیں‘ جن کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ڈیم کے بنانے سے کتنے لاکھ انسان بے گھر ہو جاتے ہیں‘ وہ انسانوں کو صرف معاشی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ ان کا پیمانہ بیم و رجا صرف کھنکتے سکّے ہیں اور بس۔
مغربی سرمایہ داروں اور گلوبلائزیشن کے وکیل‘ اپنی محفل شعروسخن میں (جس کو وہ کبھی مذاکرہ کہتے ہیں‘ کبھی مکالمہ‘ کبھی فورم اور کبھی کنونشن) انسانی حقوق‘ جمہوریت ‘ حریت فکرونظر اور کتنے ہی سہانے نام لیتے ہیں لیکن ان کی عملی پالیسیوں پر صرف تجارتی مفادات غالب رہتے ہیں۔ چین میں ’’تینامن اسکوائر‘‘ کے خونی ڈرامے کے بعد امریکہ نے کتنا شور مچایا تھا! مگر اس کے تجارتی مفادات نے اسے اجازت نہ دی کہ وہ اپنے تعلقات کو اس موہوم آئیڈیل کی بھینٹ چڑھائے۔ چنانچہ تجارتی اور معاشی روابط بڑھتے چلے گئے۔ ہندستان میں جب بی جے پی کی حکومت بنی تو واشنگٹن سے اس کی ناپسندیدگی کی علامتیں ملی تھیں۔ بعضوں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ فاشسٹ حکومت کو جمہوریت اور حقوق انسانی کا علم بردار امریکہ چلنے نہیں دے گا۔ مگر ہندستان کے وسیع و عریض بازار نے اور امریکہ کے سرمایہ داروں کی حرص نے کچھ اور ہی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔پہلے صدر کلنٹن نے ہندستان کے مستقبل کی تعریف کی کہ یہ ملک عنقریب سافٹ ویئر اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی قیادت کرے گا۔ چنانچہ ان کی رخصتی کے چند ماہ بعد امریکہ نے سافٹ ویئر انجینیروں کو نسبتاً زیادہ فیاضی سے ویزا دینے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد ایک لمبا سلسلہ ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مقتدر‘ بل گیٹ تشریف لائے۔ پھر دوسرے کارپوریٹس کے چیئرمین تشریف لائے‘ ان میں سے جنرل الیکٹرک (GE)کے چیئرمین جان ویلچ (John Welch)کے بیان سے بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ آپ نے فرمایا کہ آپ ایک ارب گاہکوں کا بازار ہیں‘ اگر آپ نے ہمارے آلہ جات (equipments) نہ خریدے تو ہم مستقبل کے دوسرے انقلاب تک نہ پہنچ سکیں گے۔ اس لیے انھوں نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں حکومت ہند سے بنیادی سہولتوں میں فوری بہتری لانے کی اپیل کی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں چھ عدد بڑی کمپنیاں ہیں جو پاور پروڈکشن کے میدان میں غالب ہیں جن میں جی ای بھی ایک کمپنی ہے۔ مگر ترقی یافتہ دنیا میں مختلف اسباب کے تحت ان کے آلہ جات کی مانگ تقریباً صفر ہے۔ اس لیے انڈیا اور چین کی مارکیٹ ان کا ہدف بن گئی ہیں۔ یہی معاملہ اس تمام فاضل سرمایے کا ہے جو مغربی ممالک میں نفع بخش میدانوں کی تلاش میں ہے۔ ان ممالک میں اب زیادہ نفع بخش میدان موجود نہیں ہیں۔ اس لیے کبھی وسط ایشیا کی تلاش ہے اور کبھی جنوب مشرق ایشیا کی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت میں سمٹنا ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ وہ بازار پر اجارہ داری حاصل کرنے کے لیے چھوٹے سرمایہ داروں کو راستے سے ہٹاتا ہے۔ مگر اس دور میں ٹکنالوجی اور مارکیٹ کی دوررس تبدیلیوں کے نتیجے میں اب ملٹی نیشنل کارپوریٹس کا سکّہ چل رہا ہے۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی محض چار یا پانچ ایسے کارپوریشن ہیں جو دنیا کے ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ جس طرح کی اور جو بھی خبر سنانا چاہیں ‘ وہی خبریں نشر ہوتی ہیں۔ اور جس طرح کا تفریحی اور ثقافتی پروگرام نشر کرنا چاہیں‘ وہی نشر ہو سکتے ہیں۔ یہ براہِ راست بھی ہوتا ہے اور بالواسطہ بھی۔ براہِ راست ان کے اپنے اداروں سے‘ اور بالواسطہ اس طرح کہ ان کے پروگرام اور خبروں کے سحر سے کم وسائل والے ادارے اور حکومتیں مسحور ہوتی ہیں یا پھر ان سے پروگرام خریدتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت دنیا میں وہی سچائی ہے جو یہ سرمایہ دار کمپنیاں بتانا چاہیں۔ وہی فکرونظرمقبول ہے جسے یہ مقبول بناناچاہیں۔ اجارہ داری (monopoly) پہلے ناپسند کی جاتی تھی مگر اب اس نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے جو پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہے۔ اس کو قیمتوں پر کنٹرول حاصل ہے‘ اورفکرونظر پر بھی۔ گلوبلائزیشن کے یہ کارندے اب تک تیسری دنیا کو اپنے زیراثر نہ لا سکے تھے مگر انھوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے بھی ایک نہایت اہم کام لینا شروع کیا ہے۔
انھوں نے تیسری دنیا کے ممالک کے دانش وروں اور پالیسی سازوں کو یہ یقین دلایا کہ ازالہ غربت کا تمھارا دیرینہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم نجی معیشت کو فروغ نہ دو گے۔ ان کی اس حیلہ سازی میں سابق سوویت یونین کی ناکامی نے خاصا اہم کردار ادا کیا‘ اور دوسری طرف ہندستان میں پبلک سیکٹر کی کارکردگی نے اس پروپیگنڈے کی تائید کی۔ ہم کو یہ یقین دلایا گیا کہ پبلک سیکٹرکو درست کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اس تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ پبلک زمرے کی صنعتوں کی ناکامی کے حقیقی اسباب کیا ہیں اور کیا عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کی تمام معاشی سرگرمیوں کو یک لخت موقوف کر دیا جائے؟ پبلک سیکٹر میں بعض ایسی معاشی سرگرمیاں شامل ہیں جو کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے‘ مثلاً تعلیم‘ صحت‘ امن عامہ۔ اگر حکومت ان میدانوں سے بھی دامن جھاڑ کر الگ ہو جائے تو وہ حکومت کہلانے کے لائق نہ رہ جائے گی۔ عوامی فلاح و بہبود کے تمام ناگزیر کاموں کا انجام دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور خاص کر ایسے ممالک کی حکومت کی جہاں عوام کی ایک بڑی تعداد مفلس‘ کمزور اور نادار ہے۔ مغربی دانش وروں کی یہ دلیل کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا‘ بے محل اور غلط ہے۔ اس لیے کہ امریکہ میں بنیادی سہولتوں کو نجی زمرے کے حوالے کر دینے کے نتیجے میں بلیک اور نیگرو‘ نہایت خراب زندگی گزارتے ہیں‘ جب کہ ان کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے۔ پھر ایسے ملک میں جہاں خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۵ فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے‘ یہ نسخہ کس طرح کارآمد ہو سکتا ہے۔
مغرب کی فکری غذائوں پر پرورش پائے ہوئے لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ پبلک سیکٹر کی اصلاح ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں سب سے دل چسپ مثال بجلی اور ہائیڈل پاور کے شعبے سے دی جاتی ہے کہ تیسری دنیا کے آفیسر اور حکومتیں نہایت کرپٹ ہیں اور عوام بجلی کی چوری میں ماہر ہیں۔ چنانچہ بجلی کی تقسیم (T&D)کے درمیان جو خسارہ ہوتا ہے وہ ۳۵سے ۴۰ فی صد ہوتا ہے۔ اس ضمن میںیہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ زیادہ تر نقصان بجلی کی چوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ بڑی بڑی چوریاں صنعت کار کرتے ہیں‘ عوام نہیں جن کے پاس بجلی کے دو تین بلب ہوتے ہیں اور دو ایک پنکھے۔ چھ سات سال پیشتر مدھیہ پردیش کے ایک جائزے کے مطابے ۷۰ فی صد صنعت کار بجلی کی چوری کی کرتے تھے جن کی میزان ۵۰۰ کروڑ روپے تک پہنچتی تھی۔ کچھ یہی حال اڑیسہ‘ آندھرا پردیش‘ اترپردیش اور دہلی کا ہے ] پاکستان میں یہ خسارہ اوسطاً ۳۰ سے ۳۵ فی صد ہے جو دراصل بجلی کی چوری کے لیے ایک آڑکا کام کرتا ہے[۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کی اصلاح ناممکن ہے؟ کیا نجی زمرے میں پاور منتقل کرنے سے صورت حال بالکل بدل جائے گی؟
ترقی پذیر ممالک نے گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اپنی معاشی ترجیحات میں جس طرح کی تبدیلیاں کی ہیں‘ اس کا اندازہ کرنے کے لیے اتنا ہی ذکر کافی ہے کہ حکومتوں نے سیکڑوں اشیاے صرف پر سے درآمدی پابندیاں ہٹا دی ہیں جن میں بہت سی زرعی پیداوار بھی ہیں اور جن میں سے بیشتر چھوٹے اور اوسط درجے کے کسانوں ‘ یا صنعتی کارخانوں کی ملکیت تھیں اور جن پر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا روزگار منحصر ہے‘ مثلاً کافی‘ دودھ‘ غلہ‘ چینی‘ روٹی‘ ناریل اور بعض دوسری اشیا۔
کئی ممالک میں یہ سب کچھ اس حال میں ہو رہا ہے جب کہ دودھ کی پیداوار فاضل ہے‘ ناریل کی فصل معمول سے زیادہ تھی‘ شکر میں سپلائی ضرورت سے زیادہ تھی اور حکومت کے گوداموں میں ]کئی کئی ملین ٹن[ غلہ سڑ رہا تھا۔ ]جس کے نتیجے میں ان اشیا کی قیمتیں گر رہی ہیں اور کاشت کار کی قوت خرید میں کمی واقع ہورہی ہے[۔ ٹیکسٹائل کی ملیں نہایت خراب صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس پالیسی کا متوقع نتیجہ یہ ہے کہ بیرونی دنیا کی عبقری کمپنیاں دودھ‘ مکھن‘ گھی‘ کافی‘ شکر‘ ناریل کے تیل اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ]ایسے ممالک میں[ ڈمپ (dump) کریں گی جیسا کہ جاپانی صنعت کار کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کا اثر روزگار پر کیسا پڑے گا‘ وہ ظاہر ہے۔ اس ضمن میں سب سے سنگین سوال یہ ہے کہ روزگار کا کیا بنے گا؟ کیا ملٹی نیشنل کمپنیاں سامان کے ساتھ روزگار بھی فراہم کریں گی؟
گلوبلائزیشن کے وکیلوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ازالہ غربت میں اس حکمت عملی کا رول نہایت موثر ہوگا۔ لیکن خود عالمی بنک کی رپورٹ اس کے برخلاف شہادت دیتی ہے۔ اس رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے بنک کے صدر نے کہا کہ اس میں نہ صرف یہ کہ غربت کا جائزہ لیا گیا ہے بلکہ اس کے اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے اور وہ تدابیر بتائی گئی ہیں جن پر عمل کر کے ازالہ غربت کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ عالم کاری (globalization)کے نتیجے میں دولت مند مزید امیر ہوئے ہیں‘ جب کہ غریبوںکی مجموعی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ آیندہ صدی میں اندیشہ ہے کہ دنیا کی ۶ ارب کی آبادی میں تقریباً ۳ ارب لوگ یومیہ دو ڈالر سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے جن میں ۴۴ فی صد لوگ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ آزاد معیشت میں منافع کی تقسیم غیر مساوی ہے۔ خود ہندستان میں حکومت کے اعتراف کے بموجب خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اب بڑھ کر ۳۵ فی صد ہو گئی ہے۔
عالمی سطح پر جو غیر عادلانہ رجحانات پیدا ہو رہے ہیں‘ ان کے اسباب پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں جو کثیر بیرونی سرمایہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں آرہا ہے‘ اس پر اب اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ اپنے منافع کا کتنا حصہ اپنے ملک کو منتقل کرتا ہے اور کتنا حصہ تیسری دنیا میں پھر سرمایہ کاری میں لگاتا ہے۔ مثلاً ہندستان میں پہلے بیرونی سرمایے پر متعدد پابندیوں کے ساتھ یہ پابندی بھی تھی کہ وہ ایک متعین شرح سے زیادہ منافع اپنے ملک کو منتقل نہیں کر سکتا۔ مگر اب اس طرح کی کوئی بھی پابندی نہیں عائد کی جاتی۔ اندازہ ہے کہ ایک خطیر رقم ہر سال معطی ممالک کو دی جاتی ہے جو کبھی کبھی آنے والے سرمایے سے کچھ زیادہ یا اس کے برابر ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا سبب سودی سرمایہ ہے۔ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک اس وقت ایک ایسی مشکل میں گرفتار ہیں جس نے ان کو سرمایہ درآمد کرنے والے ممالک سے اب سرمایہ برآمد کرنے والا بنا دیا ہے۔ لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کو قرض اور اعانت (جی ہاں‘ اعانت جو کم شرح سود پر ہوتی ہے) ملا کر جو رقم ملتی ہے‘ اس سے کہیں زیادہ اور کہیں قدرے کم سود اور اصل زرکی واپسی میں خرچ ہو جاتی ہے۔ اس طرح ان ممالک کو اپنے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ ایشیا میں پاکستان کے متعلق یہ اعداد و شمار ملے تھے کہ بیرونی قرض اور اعانت کا بس ۱۱‘ ۱۲ فی صد ترقیاتی کاموں کے لیے بچتا ہے۔ ہندستان کے متعلق صورت حال یہ ہے کہ جو کچھ وہ ہر سال سود اور اصل زر کی واپسی میں ادا کرتا ہے‘ وہ اس رقم سے زائد ہوتی ہے جو اسے قرض کی شکل میں ملتی ہے۔ اس طرح پوری دنیا میں غریب ممالک سے مسلسل اور متعینہ شکلوں میں دولت امیر ممالک کو منتقل ہو رہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح خود ملک کے اندر دولت غریبوں سے امیروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ پہلی حقیقت کے ثبوت کے طور پر سرمایے کے بین الاقوامی نقل وحمل کے اعداد و شمار ملاحظہ کر لیجیے اور ان کا موازنہ ایشیا کی تجارت اور بین الاقوامی نقل و حمل سے کر لیجیے۔ ظاہر ہے کہ غریب ممالک سے سرمایہ امیر ممالک کی طرف منتقل ہو گا تو اس خلیج میں اضافے کا سبب ہوگا۔
ازالہ غربت کی جتنی بھی اسکیمیں گلوبلائزیشن کے زیرسایہ بنائی جاتی ہیں‘ ان سب میں اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ سرمایے پر اگر اجتماعی مفادات اور اخلاقی حدود کی گرفت نہ ہوگی تو وہ انسانی معاشرے میں ظلم کو پروان چڑھائے گا اور اقتدار کی تمام کنجیاں اپنے دست تصرف میں لینے کی کوشش کرے گا۔ ملکی عوامی کی ضروریات اور ترجیحات کونظرانداز کر کے وہ صرف اپنے منافع کو پیش نظر رکھے گا۔ سرمایے کو غیر مادی لاگت کی پروا نہیں ہوتی بلکہ صرف مالی لاگت کی پروا ہوتی ہے۔
اوپر کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہوگا کہ آزاد معیشت کے برعکس ‘ پابند معیشت اور منصوبہ بند سرکاری معیشت سراسر خیر ہے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ انسانیت دوستی اور اخلاقی اقدار سے بے نیاز جو بھی معیشت ہوگی‘ اس کے نتائج انسانیت کے حق میں خیر کبھی نہیں ہو سکتے۔ وہ معاشیات اور وہ معاشرہ جو سیکولر نظریۂ حیات پر زندگی کی تعمیر کرنا چاہے گا‘ وہ ہمیشہ افراط و تفریط میں مبتلا رہے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سیکولر تصّورحیات انسان کو خواہشات کا پابند محض ایک جانور سمجھتا ہے جو صرف اپنی خواہش زدہ عقل اور حرص و آز پر مبنی تجربے سے اپنی راہِ عمل نکالتا ہے‘ورنہ کیا وجہ ہے کہ اسے اتنی بدیہی حقیقت سے بھی گریز ہے کہ اگر انسان خدائی ہدایت سے صرف نظر کر لے تو اسے مقاصد حیات کا تعین کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ وہ خود کو اپنی ناقص عقل اورخواہشات کے حوالے کر کے تنازع للبقا کی زندگی تو گزار سکتا ہے لیکن حسن خلق‘ ایثار اور نصیحت و خیر خواہی اور انسانیت دوستی پر مبنی سماج نہیں بناسکتا۔ جدیدماہرین معاشیات نے خدائی ہدایت کو ردّ کرنے کے بعد خود غرض اور مادی نفع نقصان کو محرک عمل قرار دیا تھا‘ اور اخلاق اور اجتماعی بہبود کو ہر حسابیات سے خارج کر دیا تھا۔ انھوں نے سرمایے اور صرف سرمایے کو انسان کی معاشی جدوجہد میں کلیدی کردار عطا کر کے محنت (یعنی انسان) کو نظرانداز کر دیا تھا۔ خدائی ہدایت کا یہ استرداد دونوں ہی متبادل نظام معاشیات میں مشترک تھا۔ ان میں سے ایک اپنا تماشا دکھا کر گزر گیا مگر دوسرے کو قدرت نے پھر حیات بخش دی ہے جو بہرحال حقیقی حیات نہیں ہے بلکہ آکسیجن کے سہارے قائم ہے (بہ شکریہ ماہنامہ زندگی نو‘ جنوری ۲۰۰۱ء)۔
ترجمہ: میاں محمد اکرم
مسلم عیسائی مکالمے کا آغاز تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ہوگیا تھا‘ لیکن صلیبی جنگوں نے اور بعد میں ان کے تذکروں نے اسے اپنا ایک آہنگ دیا۔ ماضی قریب میں یورپی ممالک میںمسلم ممالک سے جا کربسنے والے افراد اور خاندانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے رابطے کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ عملی رویے‘ روایت اور تاریخی پس منظر سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ آنے والی صدی اور عہدحاضر کے اپنے تقاضے ہیں۔ دونوں طرف کی قیادت کے لیے یہ غوروفکر کا ایک اہم موضوع ہے تاکہ صحیح بنیادوں پر نقطۂ نظر تشکیل پائے‘ اپنے اپنے پیرووں کو اس کی تلقین کریں جو درست عملی رویے اپنائیں۔
یورپ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں کے اداروں KEN) اور (CCEE نے ایک مشترکہ ’’اسلام ان یورپ کمیٹی‘‘ قائم کی جس نے اکتوبر ۱۹۹۴ء اور مارچ ۱۹۹۵ء میں جینیوا میں اپنے اجلاس کیے اور رپورٹ تیار کی جس میں باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ریسی پروسٹی (reciprocity) کو تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا تھا‘ یعنی جو رویہ اور سلوک ایک فریق اختیار کرے‘ دوسرے کو بھی وہی اپنانا چاہیے۔یہ ان کے نزدیک تعلقات کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کی بہترین منطقی بنیاد تھی۔
اس پر محترم خرم مراد نے جو اس وقت اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے ڈائرکٹر جنرل تھے‘ یہ موقف اختیار کیا کہ ادلے کا بدلہ‘ جیسے کو تیسا‘ کوئی اچھی اخلاقی بنیاد نہیں۔ دین کی تعلیم تو یہ ہے کہ کوئی تمھارے ساتھ برا سلوک کرے پھر بھی تم اس کے ساتھ اچھا ہی سلوک کرو۔ دوسروں کو ان کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دینا اصل بات ہے۔ مضبوط استدلال کے ساتھ انھوں نے اپنا یہ موقف عیسائی قیادت کو ارسال کیا۔ یہ فائونڈیشن کے جریدے Encounter میں شائع کیا گیا (ستمبر ۱۹۹۶ء)۔ اس کی روشنی میں عیسائی قیادت نے اپنے موقف پر نظرثانی کی اور دستاویز میں یہ تبدیلی کی۔ کمیٹی کے سیکرٹری نے اسلامک فائونڈیشن کو یہ خط لکھا:
مجھے افسوس ہے کہ اب یہ ممکن نہیں کہ ہم خود خرم مراد کو جواب دے سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس تمام بحث و مباحثے کے بعد جو نئی دستاویز تیار ہوئی ہے‘ خرم مراد اس کی قدر کرتے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم نے اس میں خرم مراد کی تحریر سے اقتباسات لیے ہیں اور فیصلہ کیا ہے کہ عیسائی مسلم تعلقات کے لیے ریسی پروسٹی کے پورے تصور کو ہی مسترد کر دیں (۲۶ فروری ۱۹۹۷ء)۔
ہم محترم خرم مراد کی تحریر کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جو عیسائی مسلم تعلقات کے حوالے سے ایک مستقل نوعیت کی حامل دستاویز قرار دی جا سکتی ہے (ادارہ)۔
میں نے اسلام اِن یورپ کمیٹی کی اس دستاویز کو بہت غور سے پڑھا ہے (Encounter‘ مارچ ۱۹۹۶ء)۔ مجھے یہ رپورٹ پڑھ کر خوشی ہوئی‘ اس لیے کہ آج کے دور میں ‘جب کہ ہر طرف باہمی نفرت‘ عدم رواداری‘ تنازعات‘ خوں ریزی اور نسل کشی کا دور دورہ ہے‘ خداے واحد کی زمین پر ’’ایسی بنیاد اورطریقہ معلوم کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ہمیں اپنے اپنے خدا کی ایک دنیا میں ‘ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کے قابل بنائے‘‘ (ص ۷۵)۔
آج ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ایک ایسے نئے اور تازہ نقطۂ نظر کی ہے جو علمی اور ابلاغی دنیا میں جاری بے ثمر اور فرسودہ بحثوں سے الگ ہو کر نئے راستے کا نقطۂ آغاز بن جائے۔ میرا احساس ہے کہ یہ دستاویز جو طویل غوروفکر کا نتیجہ ہے یہ توقع پوری نہیں کرتی۔ چرچ کے رہنما ذہن و قلب کی جس وسعت اور کشادگی پر اتنا زور دیتے ہیں‘ اور صحیح دیتے ہیں‘ اس کے ہوتے ہوئے یہ مشکل نہ ہونا چاہیے تھا۔ مجھے امید ہے کہ میں جو معروضات پیش کر رہا ہوں وہ ان پر غور کریں گے اور اگر اتفاق کریں گے تو اس دستاویز کے خلا اور تناقصات میں سے کچھ کو دُور کریں گے جو میرا خیال ہے کہ اس دستاویز میں موجود ہیں‘ کیونکہ سب کی خواہش ہے کہ یہ مکالمہ آگے بڑھے۔
دستاویز میں سب سے زیادہ زور ریسی پروسٹی پر ہے‘ لیکن کیا ریسی پروسٹی وہ جامع بنیادفراہم کر سکتی ہے جو ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے‘ جو بنیادی طور پر ایک اخلاقی‘ روحانی اور معاشرتی تجربہ ہے‘ ضروری ہے؟ کیا یہ ہمارے ایمان و عقیدے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریسی پروسٹی اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے ایک کمزور‘ بہت ہی مبہم اور اخلاقی طور پر غیر اطمینان بخش بنیاد نظر آتی ہے۔
اوّل‘ ریسی پروسٹی کا مطلب بہت آسانی سے‘ بالکل منفی معنوں میں‘ یعنی برائی کے بدلے میں برائی‘ لیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو دستاویز نے خود تسلیم کیا ہے اور اسے بائبل کے خلاف ہونے کی بنیاد پر مسترد کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس دستاویز میں اس سے بھی زیادہ اہم بات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام اور عیسائیت کی مقدس کتابیں‘ قرآن اور بائبل‘ دونوںاس منفی بات کو مسترد کرنے سے بہت آگے بڑھ کر اس ریسی پروسٹی سے بھی منع کرتی ہیں جو صرف اچھائی کے بدلے میں اچھائی کی تعلیم دے۔ درحقیقت وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر برائی کے بدلے میں اچھائی‘ اختیار کرنے پر شدت سے اُبھارتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نیکی ہے‘ جس کی دین نے تعلیم دی ہے‘ خاص طور پر انصاف اور ہمدردی‘ وہ دوسروں کے ساتھ کرنا چاہیے خواہ دوسرا ہمارے ساتھ وہی نیکی کر رہا ہے یا نہیں۔ اگرچہ کہ وہ دوسرا ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو یا ماضی میں اس نے ہمارے ساتھ کوئی بہت بڑی زیادتی ہی کیوں نہ کی ہو۔ اس بارے میں قرآن پاک یہ کہتا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ ’’اور جب بات کہو‘ انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتے دار ہی کا کیوں نہ ہو‘‘ (الانعام ۶:۱۵۲)۔ اسی طرح یہ فرمایا گیا کہ لوگوں سے بھلی بات کہو (البقرہ ۲: ۸۳) ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر قرآن یہ ہدایت دیتا ہے: ’’اور اے نبیؐ ‘ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو‘‘ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)۔
میں چاہتا ہوں کہ چرچ کے رہنما سوچیں: کیا ہم اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ یہ اعلان کریں کہ ہمارے باہمی تعلقات کی راہ نما یہ بنیادی اخلاقی تعلیم ہو گی اور یہ ساتھ زندگی گزارنے کا اوّلین اصول ہوگا‘ نہ کہ ریسی پروسٹی کے لیے کوئی اپیل۔ افسوس تو یہ ہے کہ ریسی پروسٹی کا دکھانے کے لیے بھی کوئی نمونہ آج کی سیکولر ریاستوں کے علاوہ ان کے پاس نہیں ہے۔ کیا یہ بات اخلاقی لحاظ سے زیادہ برتر اور ثمرآور نہ ہوتی کہ وہ عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے برے سلوک کے اپنے احساس کے بارے میں اپنا استدلال‘ ریسی پروسٹی کے بجائے‘ مسلمانوں کے عقیدے اور کتاب کی بنیاد پر پیش کرتے۔ اس قسم کے دلائل کہ: ’’مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہونا چاہیے کہ وہ عیسائیت کو قبول کر سکیں کیونکہ ہم بھی عیسائیوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اسلام قبول کر لیں‘‘ ‘ عقیدے یا اخلاق کی بنیاد پر اپیل کے بجائے تجارتی لین دین کا رویہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دوسروں کو ان کی اقدار و روایات سے مخلص ہونے میں بھی کوئی مدد نہیں دیتا۔
دوم: ریسی پروسٹی میں کچھ سنگین خامیاں ہیں۔ زیربحث دستاویز میں ان مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کوئی قابل اطمینان حل سامنے نہیں آتے۔ ریسی پروسٹی کا اظہار تو عملی رویوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواداری نہ پائے جانے کے بارے میں جو مثالیں دستاویز میں دی گئی ہیں وہ حقیقی اور ٹھوس رویے سے متعلق ہیں‘ تاہم آخر میں ذہن و قلب کی ریسی پروسٹی کی دعوت دی گئی ہے۔ لیکن اس سے کیا مراد ہے؟ یہ بالکل نہیں بتایا گیا۔ ہم اتنے وسیع المعانی اور مبہم وعظوں پر تکیہ نہیں کر سکتے‘ یہ خالی خولی لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خالی خولی نصیحتوں سے اچھے باہمی روابط کو فروغ نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی ان سے: ’’دنیا کو ناقابل بیان مصائب اور خوں ریزی سے بچایا جا سکتا ہے‘‘ (ص ۷۵)۔
اگر ہم مذہب کی تبدیلی‘ عبادت گاہوں کی تعمیر‘ سیاسی حقوق اور توہین کے قوانین جیسے معاملات میں رویے کی ریسی پروسٹی کے خواہاں ہیں توسب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم کس فریق سے توقع کریں کہ وہ یہ رویہ اختیار کرے۔ مسلمان اور عیسائی دونوں غیر واضح وجود ہیں۔ مغربی ممالک عیسائی ریاستیں ہیں یا نہیں ہیں اور مسلمان ممالک اسلامی ہیں یا نہیں ہیں--- اتنا الجھا ہوا سوال ہے کہ دستاویزنے بھی اسے چھوڑنے کو ہی ترجیح دی ہے۔
درحقیقت ریسی پروسٹی سے متعلق اس قسم کے سوال اور دیگر معاملات ریاستوں اور حکومتوں کے دائرے میں آتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب کی سیکولر حکومتیں اپنے عیسائی ہونے کو کھلے عام تسلیم کر سکتی ہیں؟ اور کیا وہ عیسائیوں کی جانب سے یہ ذمہ داری لیں گی؟ اسی طرح‘ کیا مسلمان ریاستیں مسلمانوں کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر تیار ہیں؟ شاید یہ ریاستیں اس کے لیے بخوشی تیار ہوجائیں لیکن ان مسائل پر وہ اپنے ہی عوام کے ساتھ مسلسل لڑائی جھگڑے میں مصروف ہیں۔
ریسی پروسٹی کی واضح حدود کار اور اس کے ذمہ دار افراد کی غیر موجودگی میں یہ مسئلہ لاینحل اور متنازع رہتا نظر آتا ہے۔ دستاویز نے معاملے کو اٹھایا تو ہے لیکن اس کے حل کے لیے کوئی اشارہ دیے بغیر ہی اسے چھوڑنا پڑا ہے۔
مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ: ’’یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک کو عموماً عیسائی ممالک تصور کیا جاتا ہے حالانکہ وہ عیسائی نہیں ہیں‘‘ (ص ۷۱)‘ جب کہ مسلمان ممالک مسلمان ہیں۔ مگر ہمیں سوچنا چاہیے کہ مغربی ممالک عیسائی ریاستیں کیوں نہیں ہیں؟ ان تمام ممالک میں سربراہ مملکت کے لیے عیسائی ہونا ضروری ہے۔بعض جگہ عملاً اور بعض جگہ قانوناً۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ صرف مسلمان ہوسکتا ہے تو برطانیہ کے حکمران کے لیے بھی عیسائی ہونا ضروری ہے۔ اگر شاہ برطانیہ اسلام قبول کر لے تو کیا پھر بھی وہ برطانیہ کا بادشاہ رہ سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ تمام یورپی ممالک عیسائیت کو اپنے ’’قومی ورثے کا ایک نہایت اہم حصہ تصور کرتے ہیں‘‘ (ص ۷۱)۔ ان کا اپنے کلیسا کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ سیاسی‘ قانونی‘ معاشی اور تعلیمی معاملات پر کلیسا سے باقاعدہ مشورہ کرتے ہیں اور کلیسا کی تنقید کے لیے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اس بات کو یہ دستاویز بھی تسلیم کرتی ہے۔
اس صورت حال کے بارے میں مسلمان جو کچھ محسوس کرتے ہیں--- اور یہ اہمیت رکھتا ہے--- اس کا دستاویز میں کوئی تذکرہ نہیں۔ یعنی یہ کہ عالمی سطح پر یہ ریاستیں کھلا کھلا عیسائی موقف اختیار کرتی ہیں۔ عیسائی مشنریوں اور غیر سرکاری تنظیموں (N.G.O)کو کھلے طور پر امداد فراہم کرتی ہیں‘ اور ان کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے بچانے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرتی ہیں‘ اور مسلمان ممالک میں عیسائیوں کے مسائل پر عیسائیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ عام طور پر ان ممالک میں قانون سازی اور عدالتی امور میں عیسائیوں کے حق میں مداخلت کرتی ہیں۔
ایک مثال دیکھیں: اگر پاکستان میں ایک عیسائی پر ملکی قانون کے تحت توہین رسالتؐ کا مقدمہ چلایا گیا تو مغربی ممالک کے صدور‘ وزراے اعظم‘ وزراے خارجہ‘ سفارتی نمایندے اور ذرائع ابلاغ موقع پر کود پڑے اور ہر ممکن طریقے سے اس میں مداخلت کی‘ مقدمے کی سماعت پر اثراندازہوئے‘ اور قانون توہین رسالتؐ کو تبدیل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ہو سکتا ہے کہ اعلیٰ مقاصد کی علم برداری ان کے پیش نظر ہو‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ صرف اس لیے اس معاملے میں چیمپئن بننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک انسان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور اس کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم اس مداخلت کو خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ ہر انسان کے حقوق مقدس ہیں اور انھیں پامال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔
حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سارا شور وغوغا اور دبائو صرف سلامت مسیحوں‘ تسلیمہ نسرینوں اور اسی قماش کے لوگوں کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیکڑوں اور ہزاروں عبداللہ اور محمد اور علی نامی لوگوں کے معاملے میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا جن کو مسلسل اذیتیں دی جاتی ہیں اور انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمان اپنے ہی ممالک میں‘ اپنے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے والی حکومتیں ان مغربی ممالک کی معاونت‘ امداد اور سہاروں سے قائم ہیں جن کے بارے میں دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں۔ان لوگوں کے حق میں تو کوئی سرگوشی بھی سنائی نہیں دیتی اور اگر ہوتی ہے تو وہ تائید وتحسین کی ہوتی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کم طاقت ور نام نہاد مسلم ریاستیں اسی انداز میں طاقت ور ملکوں کی حکمرانی میں دخیل ہو سکتی ہیں؟ یقینا نہیں۔ اس پر ہمیں افسوس ہوتا ہے ۔ ہمیں شک گزرنے لگتا ہے کہ روشن خیالی اور سیکولرزم صرف نمایشی نعرے ہیں اور درونِ خانہ یہ ممالک پوری طرح عیسائی ہیں‘ خاص طور پر جب معاملہ اسلام کا ہو یا مسلمانوں کا۔ اس صورت حال پر دیانت داری سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلمان ممالک کی صورت حال کو بھی صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف انقلابی عنصر کا نقطۂ نظر ہی نہیں ہے کہ یہ حکومتیں اسلامی نہیں ہیں بلکہ سب مسلمان سمجھتے ہیں کہ ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے جو ہم کو گزارنا چاہیے۔ اگر موقع دیا جائے تو تقریباً تمام لوگ نفاذ شریعت کے حق میں ووٹ دیں گے۔ عیسائیوں کے حوالے سے کچھ ناانصافیاں موجود ہیں جن کی کوئی مسلمان تائید نہیں کرتا لیکن یہ اِکا دکا ہیں‘ جب کہ اس سے زیادہ سنگین ناانصافیاں اور مظالم مسلمان حکومتوں کی طرف سے مسلمان عوام پر روا رکھے جا رہے ہیں۔
ریسی پروسٹی ایک متنازع فیہ بحث ہے‘ جو ایسی ہی رہے گی‘ کیونکہ اس بات پر اتفاق رائے کا ہونا کہ ’’اچھے سلوک ‘‘سے کیا مراد ہے اور ریسی پروسٹی کے کیا معنی ہیں‘ مشکل ہے۔
آیئے تبدیلی مذہب کے حق کو لیں۔ یہ بات درست ہے کہ اسلامی قانون جیسا کہ وہ اس وقت ہے ایک مسلمان کو ‘ جو اس قانون کو تسلیم کرے‘ کسی دوسرے مذہب مثلاً عیسائیت کو قبول کرنے سے منع کرتا ہے۔ یہ موقع نہیں ہے کہ اس قانون کے درست یا غلط ہونے پر بحث کی جائے یا اس قانونی مسئلے پر ازسرنو غور کیا جائے… یہاں مجھے صرف ریسی پروسٹی سے بحث ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مغرب میں کسی عیسائی کے قبول اسلام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے یا بہت کم رکاوٹ ہے۔ لیکن کیا ایسا روشن خیالی اور انسانی آزادی کے احترام کا نتیجہ ہے یا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست اور معاشرے کی نظر میں مذہب اتنا بے حیثیت ہوچکا ہے کہ ان کی نظر میں تبدیلی مذہب یا ارتداد بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں؟ لیکن مغربی عیسائی ممالک مسلمانوں کے درمیان کفر و ارتداد کو نہ صرف برداشت کرتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ لیکن یہ آزاد رو اور روشن خیال ریاستیں یا معاشرے کسی ایسے ’’مذہب‘‘ یا ’’مذہبی عمل‘‘ یا عبادت کے طریقے کو برداشت نہیں کرتے جو ان کے خیال میں ان کی اقدار اور قوانین سے جنھیں وہ اہم سمجھتے ہیں‘ انحراف یا تجاوز کرنے والے ہوں۔ مثال کے طور پر وہ یہودیت یا سامیت کے خلاف کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے لیکن اس کے مقابلے میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام یامسلمانوں اور عربوں کو برا بھلا کہنے کی اور اسلام دشمنی کی پوری اجازت دیتے ہیں اور اس بات کو ہرگز برا نہیں سمجھا جاتا (گویا کہ عرب سامی النسل نہیں ہیں)۔ وہ ہر قسم کے سیاسی رجحانات کے لیے آزادی کو برداشت کرتے ہیں‘ مگر جیسا کہ امریکہ میں ہوا‘ کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیتے ہیں۔ وہ اسلام قبول کرنے یا مسلمان ہو جانے کا حق تو دے سکتے ہیں لیکن مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جیسا کہ فرانس میں ہوا۔ اور اسی طرح حلال ذبیحہ کرنے کا حق نہیں دیتے‘ جیسا کہ جرمنی میں ہے۔ نماز جمعہ کے لیے کام میں وقفے کا حق دینے کے لیے تیارنہیں‘ جیسا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے۔
تو کیا میرے کلیسا کے دوست اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اصل مسئلہ تبدیلی مذہب‘ عقیدے کی آزادی‘ اظہار رائے کی آزادی یا انسانی حقوق کا نہیں ہے۔ یہ حقوق کہیں بھی مطلق یا بے قید نہیںہیں۔ ہر جگہ کفر و ارتداد کو اختیار کرنے پر پابندیاں ہیں۔ اس طرح صرف حقوق ہی دائو پر نہیں لگے ہیں‘ بلکہ کچھ دوسرے سوالات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں‘ یعنی یہ کہ: ۱- تبدیلی کس (مذہب) سے کس طرف؟ ۲- کفر یا انکار کس (مذہب) کے خلاف؟ ۳- کس قسم کی بات پر پابندیاں؟
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مسلم ممالک کے رویے اور قوانین جو مغربی عیسائی ممالک سے مختلف نظر آتے ہیں‘ درحقیقت بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ وہ ان ممالک میں اس لیے موجود ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ان کا ایمان اب بھی اہمیت رکھتا ہے اور نہ صرف ان کے دلوں کی دنیا کے لیے‘ بلکہ ان کی سماجی اور سیاسی زندگی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے مغربی ممالک دوسرے تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور ان کا سارا زور سیاسی اور معاشی اہمیت رکھنے والوں پر ہوتا ہے۔ یہ رویے اور قوانین اسی نسبت سے بدلیں گے جس نسبت سے لوگوں کی نظر میں اسلام کے عقیدے کی اہمیت اور مرکزیت کم ہو گی۔ آخر اب بھی‘ دو بڑے مسلمان ممالک--- انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں عیسائیت کو اختیار کرنے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے یا بہت کم ہے۔
میں نے تبدیلی مذہب کے سوال کو کچھ زیادہ تفصیل سے لیا ہے کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں--- اور اگر میں غلط ہوں تو میری تصحیح کی جائے ---کہ دستاویز کے استدلال میں اسے مرکزی اہمیت حاصل ہے: ’’عیسائیوں کو سب سے بڑی شکایت اسلام سے عیسائیت کو قبول کرنے کے سوال پر ہے‘‘ (ص ۷۴)۔ مگر کیا مسلمانوں کے ذہن وقلب میں ریسی پروسٹی کے لیے جذبہ بیدار کرنے کے اس ابتدائی اقدام میں کیا ہمارے سامنے بڑا اور اہم کام مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا حق ہے؟ اس بات کو ماننا مشکل ہے‘ مگر یہ موجود ہے۔ دوسری صورت میں‘ اس کی کیا توجیہ کی جائے!
ایک تنازع یہ بھی ہے کہ دراصل کون کیا کر رہا ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ بے فائدہ بحث ہے۔دستاویز میں یہ بات درست طور پر کہی گئی ہے کہ دونوں اطراف سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا رویہ درست ہے‘ جب کہ دوسرے کا نہیں ہے۔ اگر باہمی تعلقات کی بنیاد اسی پر ہے‘ نہ کہ ریسی پروسٹی سے ماورا عقیدے‘ اخلاق اور اقدار پر مبنی معیار پر تو یہ مسئلہ باقی رہے گا۔
مسلمانوں کے خلاف کس طرح امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کو کس طرح پامال کیا جاتا ہے‘ اس پر آواز بلند کرنے کے بجائے‘ میں کچھ ایسے معاملات پر اپنی گزارشات پیش کروں گا جن کا تذکرہ دستاویز میں مسلمانوں کے رویے کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
قانون توہین رسالتؐ: پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالتؐ کے بارے میں اندرون پاکستان اور بیرون ممالک کے عیسائی اور بڑی بڑی عیسائی قوتیں شدت سے یہ چاہتی ہیں کہ یہ قانون مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ بڑے پیمانے کی عوامی مزاحمت کا اندیشہ نہ ہوتا تو پاکستان کی حکومتیں دبائو کے آگے جھک چکی ہوتیں۔ لیکن میں قانون کی مخالفت کی وجوہات کو اخلاص سے سمجھنا چاہتا ہوں۔
کیا عیسائی توہین رسالتؐ کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں؟ مجھے امید ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہیں گے۔
کیا وہ سمجھتے ہیں کہ توہین رسالتؐ کوئی گناہ اور جرم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے۔ کیونکہ کفر و ارتداد سے متعلق قوانین آج بھی ان کی کتب میں موجود ہیں گو کہ متروک ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں مذہب پر عمل بھی متروک ہو گیا ہے۔
دنیا کے ہر قانون میں ایک معمولی آدمی کی اہانت کو بھی قابل سزا جرم سمجھا جاتا ہے۔ کیا ایک ایسے شخص کے معاملے میں یہ جرم نہیں ہے جس سے ایک ارب سے زائد مسلمان اپنی جان اور اپنے والدین سے بھی بڑھ کر محبت کرتے ہیں اور جن کی توہین کو یہ لوگ اپنی توہین سے بھی بڑا جرم تصور کرتے ہیں۔
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین مقصود نہیں ہے اور اسے جرم تسلیم کیا جاتا ہے تو صرف قانون کے غلط استعمال کا استدلال رہ جاتا ہے۔ یقینا اس قانون کے غلط استعمال کی بعض مثالیں ہیں‘ میں ان کی مذمت کرتا ہوں لیکن کیا قانون کا غلط استعمال اس قانون کو ختم کر دینے کے لیے کافی بنیاد فراہم کرتا ہے؟ کیا قاتل کو سزاے موت دینے کا قانون اس لیے ختم کر دیا جائے کہ پاکستان میںاس کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ اور مسلمان مسلمان سے اپنے باہمی تنازعات میں اسے ایک دوسرے کے خلاف اور باہمی بدلے لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قانون کے غلط استعمال کے امکانات کو ہر ممکن حد تک روکنے کے حوالے سے مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔ امید ہے کہ میرے دوست اس بات کو محسوس کریں گے کہ عیسائیوں کا اس قانون کے خلاف شوروغوغا کتنا بے بنیاد ہے۔
نفاذ شریعت: ہر جگہ مسلمانوں کی یہ دلی خواہش ہے کہ وہ شریعت کے مطابق زندگی گزاریں۔ یہ خواہش ان کے ایمان اور اساسی دستاویزات (قرآن و سنت) کا بنیادی تقاضا ہے۔اس معاملے میں مسلمانوں سے تعاون کرنے اور ان کی اس خواہش کا احترام کرنے کے بجائے عیسائی اس پر معترض ہوتے ہیں اور نفاذ شریعت کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ ایسی کوششوں کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی دبائو بھی ڈلواتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے لیے یہ رویہ ناقابل فہم اور ریسی پروسٹی کے بالکل برعکس ہے۔ اتنا شوروغوغا کیوں؟
کیا ایک عیسائی مملکت میں بہت سے قوانین‘ خاص طور پر پرسنل لا بائبل یا عیسائی شریعت (جیسی کچھ بھی وہ ہے) سے ماخوذ نہیں ہیں؟ یقینا‘ ایسا ہی ہے۔ کیا وہ صرف اس لیے جائز اور دستوری قوانین نہیں ہیں کہ عیسائی قانون ساز اداروں اور عدالتوں نے انھیں نافذ کیا ہے اور انھیں درست قرار دیا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔
کیا مسلمانوں کو ان قوانین کی پابندی کسی چون و چرا کے بغیر کرنا پڑتی ہے؟ یقینا ایسا ہی ہے۔
پھر یہی پیمانے مسلم ممالک کے لیے کیوں نہیں ہیں؟
کیا جمہوریت کا‘ جسے مغرب جمہوریت تسلیم کرتا ہے‘ یہ تقاضا نہیں ہے کہ عوام کو اپنے معاملات چلانے کے لیے قوانین بنانے کا حق حاصل ہے؟ یقینا انھیں کوئی ایسے قوانین نہیں بنانا چاہییں جو کسی اقلیت کے عقیدے اور مفادات کے خلاف ہوں‘ لیکن کیا کسی اقلیت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ۹۹ فی صد اکثریت کو ویٹو کر دے اور ان قوانین کے نفاذ سے ان کو روکے جنھیں وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اتنے دیانت دار ہیں کہ انسانی عقل کے بجاے الہامی رہنمائی کو اپنا مآخذ قرار دیتے ہیں۔
امید ہے کہ میرے عیسائی دوست مذکورہ بالا سوالات پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ اس لیے کہ ریسی پروسٹی کا حقیقی مفہوم آخرکار اس کے علاوہ کچھ نہ نکلے گا کہ اپنے اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کے جذبے کا احترام کیا جائے‘ جیسا کہ مذکورہ بالا دستاویز میں تسلیم کیا گیا ہے۔
اسلام پر نظرثانی: دوسرا اہم نکتہ جس پر دستاویز میں زور دیا گیا ہے یہ ہے کہ: ’’مسلمان اپنے بنیادی مآخذ کا ازسرنو جائزہ لیں کہ ساتویں صدی کے مقابلے میںآج کی بالکل مختلف دنیا میں انھیں کس طرح سمجھا جائے--- بیسویں صدی کے اواخر کے حالات میں ان روایات کے تحت اللہ تعالیٰ کو ہم سے کس طرح کی زندگی گزارنا مطلوب ہوگا ‘‘(ص ۷۵)۔
مسلمانوں سے اسلام پر ازسرنوغور کرنے کی یہ فوری اپیل اس صورت میں قابل فہم ہو سکتی ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ اسلام پر اس طرح کے ازسرنو غور کے بغیر اس طرح کی ریسی پروسٹی روبہ عمل نہیں آسکتی جس کا تصور اس دستاویز میں پیش کیا گیا ہے۔
اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں‘ اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی صاحب فکر مسلمان ہر دور میں‘ اور آج کے دور میں بھی‘ اس نوعیت کے مسلسل غوروفکر کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ کوئی مسلمان بھی اس ذمہ داری سے پہلوتہی کرنا یا بچنا نہیں چاہے گا۔ آج امت کو اپنے احیا کے لیے خود اس فکر نو کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی فکر نو مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ میرے عیسائی دوست اس اہم مسئلے کے بعض پہلوئوں پر غوروفکر کریں۔
اوّل: ہمیں یہ تشخیص کرنا چاہیے کہ ساتویں صدی کے عرب کے مقابلے میں آج کی بیسویں صدی میں دنیا کس انداز سے مختلف ہو گئی ہے۔ ٹکنالوجی اور فطرت کی تسخیر کی نوعیت اور پیمانے کے لحاظ سے؟ یقینا۔ تنظیموں اور باہمی تبادلوں کی ہیئت کے لحاظ سے؟ یقینا۔ زندگی کی آسایشیں اور لوگوں کو حاصل متبادلات کے پیمانے کے لحاظ سے؟ یقینا۔ طبعی دنیا کے بارے میں علم کی مقدار کے لحاظ سے؟ یقینا۔ لیکن کیا انسانی فطرت بدل گئی ہے؟ کیا اس کے اندر گناہ کرنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے یا کم ہو گیا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اگر کچھ ہوا ہے تو صرف یہ کہ فخر‘ خود کفالت‘ جارحیت‘ تلون مزاجی‘ حرص اور نفرت وغیرہ جیسے عناصر میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا انسان کے اندر اللہ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے خدا بنانے‘ اور درحقیقت خود اپنے کو سب سے بڑا خدا قرار دینے کا رجحان ختم ہو چکا ہے؟ کیا چوری‘ زنا اور قتل و غارت جیسے جرائم کم ہو گئے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ کسی تازہ جائزے میں ان تمام پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
دوم‘ اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی سپردگی میں دے دینا۔ وہی اللہ جو ساتویں صدی کا خدا بھی تھا اور بیسویں صدی کا خدا بھی ہے ‘ اور آنے والے ہزاریے کا بھی ہوگا۔ وہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا ہے۔ اس لیے مسلمان جب بھی اللہ کی مرضی کی تعبیر اور تفہیم اور اس کے رسولؐ کی سنت میں اس کے اظہار کا نیا جائزہ لیں گے ‘ وہ ان باتوں میں سے جنھیں وہ آج بھی اللہ کی مرضی کے مطابق سمجھتے ہیں‘ صرف اس لیے تبدیل نہیں کر دیں گے کہ وہ بات بیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی‘کیا ان کا فریضہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ وہ حالات کو تبدیل کریں بجائے اس کے کہ وہ اللہ کی مرضی کو تبدیل کر دیں۔
سوم: مسلمانوں نے حال ہی میں ۳۰۰ سالہ نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ اب ایک تو وہ زوال کا شکار ہیں۔ دوسرے‘ انھیں اپنے ایمان‘ اقتدار اور تہذیب سے دور بھی کیا گیا ہے اور آزادی کے فوراً بعد سے انھیں نئے ورلڈ آرڈر اور عالمی معیشت کے جال میں الجھا دیا گیا ہے۔ ہر بیرونی طاقت‘ جو اتفاق سے‘ بہ یک وقت مغربی بھی ہے اور عیسائی بھی‘ ان کا دم گھوٹ رہی ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ آزاد نہیں ہیں‘ دبائو میں ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے غوروفکرکے اس عظیم الشان کام کو سنبھالنے کے لیے نہ عزم ہے نہ ارادہ‘ نہ صلاحیت ہے نہ ادارے‘ اور سب سے اہم بات: نہ ہی آزادی!
چہارم: صرف وہی نئی فکر قائم رہے گی جسے مسلمان واقعی اسلامی تسلیم کریں‘ جنھیں ایسے ادارے اور شخصیات انجام دیں جو علم و تقویٰ کے حامل ہوں۔ اسلام اور جمہوریت میں عدم مطابقت کے بارے میں جو کچھ کہا جائے‘ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قوانین کی تشکیل کا عمل جمہوری عمل رہا ہے‘ جسے مسلمانوں نے بالعموم قبول کیا‘ وہ باقی رہے‘ جنھیں نہیں کیا وہ نہ رہے‘ مٹ گئے۔ امید ہے کہ ہمارے دوست اس بات کو محسوس کریں گے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آج تک اسلام اور مسلمانوں کو بیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور نام نہاد نظرثانی کے لیے جو کوششیں بھی ہوئی ہیں وہ ان مطلق العنان آمروں نے کی ہیں جو اپنے لباس‘ کھانے پینے کے طریقوں‘ رہنے سہنے کے انداز‘ غوروفکر کے پیمانوں اور حکمرانی کے طریقوں‘ ہر لحاظ سے مغربی اور عیسائی نظر آتے ہیں۔ اس لیے مسلمان چیخ اٹھتے ہیں کہ یہ سب غلط ہو رہا ہے (Muslim cry: foul)۔ عیسائیوں کو احساس شکست ہوتا ہے‘ اس لیے کہ ان کا اسلام میں کسی سینٹ پال کے ظہور کا وژن عملی شکل اختیار نہیں کرتا۔ پھر تو ناصر‘ ایوب‘ سوئیکارنو اور بھٹو جیسے لوگ بھی وہ کچھ دینے میں ناکام رہتے ہیں جو عیسائی سمجھتے ہیں کہ ریسی پروسٹی کا تقاضا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان ایک دفعہ آزاد ہو جائیں اور اہل افراد اس کام کو کریں ‘تومسلمان کفر و ارتداد‘ توہین رسالتؐ ‘حدود‘ اقلیتوں کے حقوق اور انسانی حقوق جیسے امور پر دوبارہ غور میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ اس وقت بھی بحث جاری ہے لیکن مذکورہ شرائط پوری نہ ہوں تو یہ نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔
ریسی پروسٹی کا بہت کچھ تعلق طاقت کے توازن سے بھی ہے۔ چرچ کے رہنمائوں نے نقطۂ آغاز کے طور پر سیکولر ممالک میں ریسی پروسٹی کی نشان دہی کی ہے۔ یہ غلط نقطۂ آغاز ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک فریب اور دھوکا ہے۔ مملکتوں کے درمیان ریسی پروسٹی کی کیا بات کی جائے‘ جب غیر مساوی ریاستوں کی جانب سے شہریوں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہ کیا جاتا ہو۔ مثلاً یوسف رمزی کو پلک جھپکتے میں کسی قانونی چارہ جوئی کے شائبے کے بغیر امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے لیکن کیا پاکستان بھی اسی طریقے سے اپنے مجرم امریکہ سے طلب کر سکتا ہے!
عدم توازن سے مذہبی صورت حال پر بھی اسی طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ طاقت ور عیسائیوں کے مقابلے میں وہ کمزور ہیں۔ مسلمانوں کی یہ تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی رائے ٹھونسنے والے‘ ضدی‘ رواداری سے عاری‘ کتابوں کو جلانے والے‘ دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ان کے عقیدے کو پرتشدد‘ عیاشی اور قتل و غارت کو فروغ دینے والا کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ اگروہ توہین رسالتؐ پر احتجاج کریں تو ان کو وعظ کیا جاتا ہے کہ اگر وہ برطانوی شہری بننا چاہتے ہیں تو بائبل کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔
آخر میں‘ میں ایک قابل افسوس پس نوشت:
بوسنیا میں جو نسل کشی کی گئی ہے کیا اس پر اس دستاویز میں apart from Bosnia (یعنی بوسنیا سے قطع نظر) کے الفاظ کے علاوہ کچھ اور نہیں لکھا جاناچاہیے تھا؟ جہاں اجتماعی قتل ہوئے‘ اجتماعی قبریں بنیں اور اجتماعی زیادتی کے لاتعداد واقعات ہوئے اور جہاں ان کی ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی‘ کیا مہذب اور روشن خیال عیسائی یورپ کے وسط میں مسلمانوں پر ہونے والے اس ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہ تھی؟
بوسنیا میں مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے پس منظر میں‘ کیا مسلمانوں اور عیسائیوں کی مشترکہ امدادی ایجنسیوں کا کام یہ یقینی بنانے کے لیے کافی ہے کہ دنیا کو ناقابل بیان مصائب اور خون خرابے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ محض ریسی پروسٹی سے کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے خوشی ہو گی کہ اگر مجھے بتایا جائے کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کس طرح ہو سکتا ہے۔میں کلیسا کے رہنمائوں سے پھر عرض کروں گا کہ وہ اپنی دستاویز پر دوبارہ غور کریں گے تو شاید وہ مجھ سے اتفاق کریں کہ اس پیچیدہ معاملے میں نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے۔
میری رائے میں دستاویز میں لکھے گئے الفاظ ’’باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات‘‘ (ص ۷۰)‘ میں بعض جملوں کا اضافہ کر کے اس طرح سے تحریر کیا جانا چاہیے:
for each others faith and their right and endeavour to live by their
faith as they understand it.
تعلقات جو ایک دوسرے کے عقیدے کے باہمی احترام اور تعاون اور ان کے عقیدے کے مطابق‘ جیسا بھی وہ اس کو سمجھتے ہوں‘ زندگی گزارنے کے ان کے حق اور کوشش پر مبنی ہوں۔
کیونکہ بالآخر ان سب بحثوں کا مرکزی نکتہ‘ تمام تلخیوں اورتمام جھگڑوں کا بنیادی سبب ایک دوسرے کا اس طرح سے احترام اور تعاون کے لیے تیار نہ ہونا ہے کہ ہر ایک اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار سکے۔
انسان کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار ہے۔ خالق کائنات نے اس کے جسم کو مٹی سے بنا کر اس میں اپنی روح پھونکی تو اس کا تعلق زمین اور آسمان دونوں سے قائم ہو گیا۔ یہ ایک منفرد حیثیت ہے جس کی وجہ سے انسان کو کائنات میں افضل ترین مقام حاصل ہوا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے انسان کوبہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘ (التین ۹۵:۴)۔ اسی بنا پر اسے خالق کی نیابت اور خلافت کا مقام حاصل ہوا۔
رب العالمین نے انسان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کا بہترین بندوبست کیا ہے۔ روحانی ضروریات وحی کے ذریعے پیغمبروں کی وساطت سے پوری کیں اور جسمانی ضروریات کے لیے زمین کوہر قسم کے وسائل سے مالا مال کر دیا: ’’ کوئی چیزایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں‘ اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیںایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں‘‘ (الحجر ۱۵:۲۱)۔ مزید فرمایا: ’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا‘ زندوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی‘‘ (المرسلات ۷۷: ۲۵- ۲۶)۔ ان آیات کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیںکہ کرئہ زمین کروڑوں اور اربوں سالوں سے بے حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ ہر قسم کی نباتات‘ ہر قسم کے حیوانات ‘ اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ سے طرح طرح کے اتھاہ خزانے نکلے چلے آ رہے ہیں۔
انسان میں روح و جسم کا نہایت حسین امتزاج ہے اور یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کس کی اہمیت زیادہ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود بے مقصد ہو جاتا ہے‘ بقول اقبالؒ ؎
تن بے روح سے بے زار ہے حق
خداے زندہ زندوں کا خدا ہے
نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ اسلام میں انسان کی جسمانی
ضروریات کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مغرب کو تو معیشت کی اہمیت کا احساس کم و بیش ۱۰۰ سال پہلے ہوا اور اقتصادیات کے مضمون کو اہمیت دی جانے لگی مگر قرآن مجید نے ۱۴۰۰ سال پہلے معیشت کے اصول تفصیل سے بیان کر دے۔ انھی اصولوں پر عمل کر کے مسلمان خلفا اور حکمرانوں نے رعایا کی بنیادی ضروریات کا ایسا بہترین بندوبست کیا اور ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی کہ موجودہ دور کی فلاحی ریاستیں اس کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہیں۔ اسلام کے معاشی نظام کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ غیر جانب دار ماہرین کا اتفاق ہے کہ موجودہ دنیا کی معاشی مشکلات کا حل اسلامی نظام معیشت میں ہی ہے۔
انسانی وجود کے بقا اور جملہ ضروریات کا تعلق اور انحصار زمین پر ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات ہیں جن سے زمین کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ’’اس ]زمین[ میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا‘‘ (حم السجدہ ۴۱: ۱۰)۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے مطابق برکتوں میں دھاتیں اور دیگر تمام ضروریات کی اشیا شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام نباتاتی‘ حیواناتی اور دھاتی وسائل کے علاوہ جدید دور میں جو مصنوعی اشیا انسان بنا رہا ہے‘ یا مستقبل میں بنا سکتا ہے ان کے لیے خام مال زمین سے ہی حاصل ہوگا۔ اسی طرح تمام صنعتوں میں استعمال ہونے والا خام مال اور توانائی زمین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اراضی چاہے میدان ہو یا پہاڑ‘ وادی ہو یا ریگستان‘ یا دلدل وغیرہ‘ نہایت ہی اہم وسیلہ بلکہ دولت ہے۔ الحمدللہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے ارضی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ اگر توجہ دیتے اور احکام الٰہی کے مطابق استعمال میں لاتے تو اس میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ آج ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے قائد ہوتے۔
مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ’’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (الاعراف ۷: ۹۶)۔ پاکستان کے قدرتی وسائل ایک وسیع موضوع ہے۔ یہاں صرف زرعی وسائل پر کچھ ضروری امور پیش کیے جا رہے ہیں۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب و تمدن کے فروغ میں زراعت کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ مستقل رہایشی بستیوں کا آغاز زراعت سے ہی شروع ہوا۔ پیداوار بڑھنے کے ساتھ کچھ افراد بنیادی ضروریات کی فکر سے آزاد ہوئے اور انھوں نے انسانی اعلیٰ اقدار کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس طرح تہذیب و تمدن اور ثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ قرآن مجید میں وسائل اور علوم کے بارے میں جو ارشادات ہیں‘ راقم کی معلومات کی حد تک‘ سب سے واضح اور زیادہ زراعت کے بارے میں ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’کبھی تم نے سوچا‘ یہ بیج جو تم بوتے ہو‘ ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا ان کے اُگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو‘‘ (الواقعہ ۵۶: ۶۳-۶۵)۔ ایک دوسری جگہ یوں فرمایا: ’’اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا‘ پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بہ تہ لگتے ہیں۔ یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا۔ اس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں۔ (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اسی طرح ہوگا‘‘ (ق۵۰: ۹-۱۱)۔
وسائل کے ماہرین نے زرعی وسائل کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ زرعی زمین ایک منفرد قدرتی وسیلہ ہے جس کا رقبہ تو متعین ہے‘ اس لیے کہ بڑھایا نہیں جا سکتا لیکن صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ کم بھی نہیں ہوتا اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے پیداوار بڑھتی جاتی ہے اور یہ رقبہ ہمیشہ کے لیے قابل استعمال رہتا ہے۔ لیکن اگر بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو پیداوار کم ہوتی جاتی ہے بلکہ سیم‘ تھور اور کٹائو وغیرہ سے بالکل ختم بھی ہو سکتی ہے۔ اراضی کی اس اہمیت کی بنا پر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ زمین کو کسی کی ذاتی ملکیت نہ سمجھا جائے‘ بلکہ یہ آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے تو ۱۴۰۰ سال پہلے مفتوحہ علاقوں کی اراضی کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ہے اور مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
دنیا میں انھی قوموں نے ترقی کی ہے جنھوں نے اپنے ارضی اور زرعی وسائل کی طرف پوری توجہ دی ہے‘ پیداوار کو اتنا بڑھایا ہے کہ چند فی صد افراد اپنے ملک کی ضروریات پوری کر کے بڑی مقدار میں زرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہے ہیں اور دیگر ممالک کو مغلوب کیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کی افرادی قوت کا ۳ فی صد سے بھی کم حصہ زراعت میں ہے‘ مگر اپنے ملک کی تمام آبادی کی زرعی ضروریات جن میں خوراک اور صنعتی خام مال بھی شامل ہے‘ انتہائی سستے داموں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میںزرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہا ہے اور دوسرے ممالک کو مغلوب کیا ہوا ہے۔ ہالینڈ ایک بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس میں زرعی زمین تو بہت ہی محدود ہے مگر اس کے باوجود برآمدات میں زراعت کا حصہ ہالینڈ کی اہم ترین برآمد‘ قدرتی گیس کے برابر ہے۔ زراعت میں سائنس اور جدید طریقوں کے استعمال کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل جیسے ممالک جن کا قدرتی ماحول زراعت کے لیے موزوں نہیں ہے اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بہت سی زرعی اشیا برآمد بھی کر رہے ہیں۔
جدید دور میں زراعت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اب یہ نہ صرف انسان کو بنیادی ضروریات مہیا کرتی ہے بلکہ اقتصادیات‘ معاشیات ‘ سیاست اور دفاع میں بھی اس کی اہمیت ہے۔اس کی ایک مثال تو ہماری اپنی ہے کہ ہم نے ۱۶-F طیارے خریدنے کے لیے جو کثیر زرمبادلہ دیا تھا اس کی گندم خریدنے پر مجبور ہوئے۔ اسی ضمن میں ٹرپس معاہدہ ترقی یافتہ ممالک کی تیسری دنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے‘ بلکہ ان کو تباہ کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسے جینیاتی بیج تیار کیے گئے ہیں جن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ان بیجوں میںایسے کیمیائی اجزا داخل کر دیے جاتے ہیں کہ ان پر کیڑے مکوڑے حملہ نہ کر سکیں مگر مضر کیڑوں کے ساتھ انسان دوست کیڑے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصل جو انسان اور حیوان استعمال کرتے ہیں مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ بیج دوبارہ کاشت بھی نہیں ہو سکتے اور ان کو تیار کرنے کی ٹکنالوجی بھی ترقی پذیر ممالک کو منتقل نہیں کی جا رہی تاکہ ترقی یافتہ ممالک کا ہی کنٹرول رہے۔
ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوں کے مضر اثرات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں ان کے استعمال پر پابندی لگانے کے مطالبا ت ہو رہے ہیں۔ بعض ممالک میں کسانوں نے جینیاتی بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوںکے مضر اثرات سے آگاہی کے بعد تیار فصلوں کو جلا دیا ہے۔ چنانچہ اب ان بیجوں کو تیار کرنے والے ممالک اور کمپنیوں کی توجہ ترقی پذیر ممالک پر ہے۔ اس تباہی سے بچنے اور ترقی یافتہ ممالک کے غلبے سے نجات حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے زرعی وسائل کو مقامی ٹکنالوجی اور وسائل کے ذریعے استعمال کریں۔
اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہرقسم کے وسائل سے خصوصاً زرعی وسائل سے نوازا ہے۔ نہایت زرخیز وسیع وعریض میدان ہیں جو ہزاروں فٹ گہرائی تک دریائوں کی لائی ہوئی زرخیزمٹی سے بنے ہوئے ہیں جو ان میدانوں میں قدرت نے دریائوں کا جال بچھایا ہے اور میدانوں کا ڈھلان آبپاشی کے لیے نہایت موزوں ہے۔ چنانچہ نامعلوم زمانے سے آب پاشی کی جا رہی ہے اور زراعت ہمیشہ اہم ترین منافع بخش پیشہ رہا ہے۔قدیم ترین‘ لیکن اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ شہری آبادیوں‘ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کا انحصار آب پاشی اور زراعت پر تھا۔ آب و ہوا کے لحاظ سے بھی پاکستان کی سرزمین کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ آب و ہوا کا تعلق سطح سمندر سے بلندی اور خط استوا سے فاصلے پر ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سرزمین کی سطح سمندر سے بلندی صفر سے لے کر ۸ ہزار ۶ سو ۱۱ میٹر تک ہے اور شمالاً جنوباً پھیلائو بھی ۲۳ درجے عرض بلد سے ۳۷ درجے عرض بلد تک ہے جواچھا خاصا ہے۔ نتیجتاً آب و ہوا میں اتنا تنوع ہے جتنا کسی اور ملک میں نہیں ہے۔
اس کا اثر یہ ہے کہ جتنی اقسام کی فصلیں اور پھل سبزیاں وغیرہ پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں کسی اور ملک میں نہیں ہوتیں۔ کم درجہ حرارت میں پیدا ہونے والی فصلوں سے لے کر زیادہ درجہ حرارت والی فصلیں تجارتی پیمانے پر پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک غیر ملکی زرعی ماہر یہاں آیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ وادی پشاور میں گنا اور چقندر ساتھ ساتھ کاشت کیے جا رہے ہیں۔ اگر ہمارے کاشت کاروں کو موزوں ماحول اور مناسب سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ زراعت میں غیر معمولی کارنامے دکھا سکتے ہیں۔
زراعت کے لحاظ سے موزونیت کی وجہ سے ہی برعظیم کے مسلمان حکمرانوں نے زراعت کی طرف توجہ دی اور ایسا زرعی نظام قائم کیا جس کی بنا پر معاشی ترقی ہوئی اور برعظیم کو سونے کی چڑیا کہا جانے لگا۔ زراعت کے لیے بہترین علاقہ وادی سندھ ہے جو تقریباً سب پاکستان میں شامل ہے۔ برعظیم کے مسلمان حکمرانوں نے زراعت پر پوری توجہ دی۔ آب پاشی کا ایسا موزوں نظام قائم کیا جسے بعد میں انگریزوں نے ترقی دے کر وادی سندھ میں دنیا کا منفرد اور عظیم نظام قائم کیا۔ یہاں پر زراعت کے لیے بہترین ماحول ہونے کی وجہ سے یہ اتنی منافع بخش ہے کہ انگریزوں نے ایک نہر نجی سرمایے سے بنائی۔ اس پر لگایا گیا سرمایہ اتنا جلدی واپس ہوا اور اتنا منافع حاصل ہوا کہ برطانیہ کے سرمایہ داروں نے برصغیر میں نہریں بنانے کے لیے اتنا سرمایہ مہیا کر دیا کہ حکومت کے لیے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
آج بھی اگر زراعت کی طرف مناسب توجہ دی جائے تو حیرت انگیز نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسی سال حکومت نے گندم کی کاشت کی طرف معمولی توجہ دی تو ایک لمبے عرصے کے بعد اس سال ہم گندم کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے خاصی مقدار میں گندم برآمد کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اصل میں برعظیم کے زرعی وسائل کے صحیح استعمال کا آغاز مغلوں کے زمانے سے ہوا جنھوں نے اپنے وقت میں جدید ترین نہری نظام قائم کیا۔ زرعی زمینوں کا ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ آج تک معمولی رَدّ و بدل کے ساتھ وہی نظام قائم ہے۔ زمینوں کی اقسام بھی وہی چلی آ رہی ہیں اور محکمہ مال کا نظام بھی وہی ہے یہاں تک کہ موجودہ محکمہ مال کا اہم کارکن جسے پٹواری کہتے ہیں مغلوں کے زمانے کا پٹواری ہے جو زمین کا ریکارڈ رکھنے کے علاوہ پیداوارکی تقسیم (بٹوارہ) بھی کرتا تھا۔ اب یہ نظام ختم کر کے کمپیوٹرائزڈ ہونا چاہیے۔
ان حقائق کے پیش نظر‘ زرعی جغرافیہ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے‘ راقم دعوے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ زراعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو جن وسائل سے نوازا ہے‘ دنیا بھر میں یہ منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ اگر آزادی کے بعد زراعت کی طرف مناسب توجہ دی جاتی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم زرعی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر زرمبادلہ بھی کما رہے ہوتے اور زرعی خام مال استعمال کرنے والی صنعتوں میں بھی ترقی کی ہوتی۔ باوجود مشکلات کے ۱۹۵۵ء تک پاکستان زرعی پیداوار میں خودکفیل رہا۔ باباے قوم حضرت قائداعظمؒ کی رحلت اور ان کے چند مخلص ساتھیوں کے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیں ایسے سیاست دان رہنما ملے جنھوں نے وطن کے قیمتی وسائل کو یا تو نظرانداز کیا یا پھر ذاتی مفاد کے لیے لوٹا۔ غلامی کے دور میں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے بڑے زمین داروں اور کاشت کاروں کا جو نظام قائم کیا آزادی کے بعد اسے ختم کر کے مقامی ضروریات اور حالات کے مطابق زرعی نظام قائم کرنا ضروری تھا۔ بھارت میں پنڈت نہرو نے زرعی اصلاحات کیں‘ جاگیردارانہ نظام کو ختم کر کے ملکی ضروریات اور حالات کے مطابق کاشت کاروں کو مناسب رقبہ زمین کا مالک بنایا۔ حکمرانوں نے ملک کے مفاد میں زراعت کی طرف مناسب توجہ دی اور آج بھارت زرعی لحاظ سے ایک اہم ملک ہے۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد کثیر مقدار میں زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔
پاکستان میں انگریزکے پروردہ جاگیرداروں نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور منصوبہ بندی کے تحت آپس میں گٹھ جوڑ سے بیوروکریسی اور فوج میں بھی اپنے لوگوں کو داخل کر لیا۔ یوں ہر شعبے پر جاگیرداروں کا قبضہ ہو گیا۔ دکھلاوے کے لیے تین دفعہ زرعی اصلاحات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا مگر عملاً جاگیردار ہی سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اب بڑے بڑے صنعت کار‘ تاجر اور بیوروکریٹ بھی ان سے مل گئے ہیں۔ ملک میں ایک اعلیٰ طبقہ وجود میں آگیا ہے جن کی آپس میں رشتے داریاں ہیں‘ ان میں سے جس کسی کی بھی حکومت ہو‘ ایک دوسرے کے مفاد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ان لوگوںکا ہی زرعی وسائل بلکہ دیہی آبادی پر عملاً قبضہ ہے۔ ان لوگوں نے اتنی دولت اور جایدادیں جمع کر لی ہیں کہ ان کو معلوم کرنا اور حساب لگانا بھی مشکل ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات زندگی کی وجہ سے ہم عصر دنیا میں قدرتی وسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔انسان کی تمام ضروریات قدرتی وسائل سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ ان میں زرعی وسائل کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے زرعی وسائل کو جدید سائنسی طریقوں اور منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال کر کے ان سے ممکنہ حد تک فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ نہایت محدود زرعی وسائل والے ممالک بھی ان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر زرعی وسائل سے مالا مال پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے‘ اس کی ایک مختصر سی روداد پیش کی جاتی ہے۔
قدرتی وسائل کی کھپت تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے ان کی حفاظت یا بچاکر استعمال کرنا (resource conservation) بہت اہم ہو گیا ہے۔ علم الوسائل (resource studies)میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل کو ممکنہ حد تک بہترین طریقے سے منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے تاکہ کم از کم استعمال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اقتصادی ترقی کا عمل جاری رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بات سیاسی جماعتوں کے منشور میں بھی شامل ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے زراعت کے لیے بہترین حالات کے ساتھ وسیع اراضی سے نوازا ہے۔ سروے آف پاکستان کی اٹلس کے مطابق پاکستان کا کل رقبہ (بہ شمول آزاد کشمیر اور گلگت) ۸ لاکھ ۴۷ ہزار ۵ سو ۴۹ مربع کلومیٹر ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کا رقبہ بھی شامل کر لیا جائے اور ان شاء اللہ پاکستان میں شامل ہو گا تو کل رقبہ ۱۰ لاکھ ۴۴ ہزار ۲ سو ۵۲ مربع کلومیٹر ہو جائے گا۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کا رقبہ پاکستان کے ایک ضلع سے بھی کم ہے۔ آبادی کے بارے میں بعض ممالک اور بین الاقوامی ایجنسیاں اپنے مقاصد کی خاطرغیر ضروری تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔ حالانکہ آبادی اس وقت تقریباً ۱۴۱ فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا کے کم گنجان آباد ممالک میں شمار کی جاتی ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کی فی مربع کلومیٹر آبادی پاکستان سے کئی گنا ہے مگر پھر بھی اقتصادی لحاظ سے وہ بہت ترقی یافتہ ہیں۔
پاکستان کے زرعی وسائل کے استعمال میں دو طرح کی غفلت کی جا رہی ہے۔ ایک تو اراضی کی تقسیم اور ملکیت کا انتہائی غیر منصفانہ نظام ہے اور دوسرا صحیح منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
ارضی وسائل کا بہت بڑا حصہ بڑے بڑے زمین داروں کے قبضے میں ہے۔ یہ قومی وسائل یا تو انگریزوں نے ان لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے یعنی قوم کے ساتھ غداری کے عوض دیے‘ یا ان لوگوں نے آزادی کے بعد ایک دوسرے کی معاونت سے خود قبضہ جما لیا۔ ایسے لوگوں کی آمدنیاں مختلف ذرائع سے اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو اراضی کے مناسب استعمال سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں انتہائی پرتعیش محلات میں رہتے ہیں۔ فارغ اوقات غیر ممالک میں گزارتے ہیں۔ بعض نے وہاں بھی جایدادیں بنا رکھی ہیں۔ ان کی پاکستان میں جمع کی ہوئی دولت غیرملکی بنکوں میں ہے اور وہی ممالک اس سے مستفید ہوتے ہیں‘ جب کہ کاشت کاروں کی حیثیت ان لوگوں کے غلاموں کی طرح ہے۔ محنت غریب کاشت کار کرتے ہیں اور پیداوار کا بڑا حصہ زمین داروں کے حواری اور نمایندے لے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ارضی وسائل کا صحیح استعمال کیسے ممکن ہے۔ یہی زمین دار بڑے صنعت کاروں اور بیوروکریسی کی معاونت سے حکومت پر قابض رہتے ہیں اور ہر قسم کی اصلاح کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ کروڑوں بلکہ اربوں روپوں کے زرعی اور دیگر قرضے لے کر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور پھر معاف کروا لیتے ہیں۔
ملک کی ۷۰ فی صد دیہی آبادی کا بڑا حصہ چھوٹے کاشت کاروں پر مشتمل ہے جو یا تو مزارع ہیں یا چھوٹے رقبوں کے مالک۔ زرعی اخراجات بڑھنے کی وجہ سے ان کا گزارا اب زمینوں پر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی کافی تعداد بیرون ملک یا ملک کے بڑے شہروں کی طرف محنت مزدوری کے لیے جا رہی ہے۔ مزید زرعی زمینیں بے کار ہو رہی ہیں اور شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے متعدد مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
زرعی وسائل سے غفلت کا دوسرا پہلو منصوبہ بندی کا فقدان یا غلط منصوبہ بندی ہے۔ موجودہ دور میں وسائل سے پورا فائدہ اٹھانے کے لیے صحیح منصوبہ بندی لازمی ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی غفلت برتی جا رہی ہے۔ منصوبہ بندی کے لیے وسائل کی استعداد (quality)کے مطابق صحیح اعداد و شمار لازمی ہوتے ہیں۔ سروے آف پاکستان کی اٹلس کے مطابق پاکستان کا رقبہ ۱۸ کروڑ ۹۶ لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے۔ اس میںبہت کم حصہ ایساہے جو جنگلات‘ آبادی یا مستقل برف پوش ہونے کی وجہ سے زیرکاشت نہیں لایا جا سکتا۔ اب تو آئس لینڈ‘ گرین لینڈ‘ انٹارکٹکا اور دنیا کے دیگر بہت کم درجہ حرارت والے علاقوں میں بھی فصلیں اگائی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل جیسے انتہائی خشک صحرائوں میں اتنی فصلیں اگائی جا رہی ہیں کہ برآمد کی جا رہی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک کے پہاڑی علاقوں میں محنتی اور تجربہ کار کاشت کار ایسی اونچی ڈھلانوں پر فصلیں اگاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ راقم زرعی جغرافیہ کے طالب علم کی حیثیت سے یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ سوائے مستقل برف پوش چوٹیوں کے پاکستان کے تمام رقبے کو زیر کاشت لایا جاسکتا ہے۔ ہمارے کاشت کار تو معجزے دکھا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں مناسب ماحول اور سہولتیں مہیا کی جائیں۔ مگر ارضی وسائل سے غفلت کی حالت یہ ہے کہ وطن عزیز کے کل رقبے کے صرف ایک چوتھائی حصے کے بارے میں ہی معلومات دستیاب ہیں جو کہ غیر یقینی ہیں۔ ان معلومات کی فراہمی کا ذریعہ Pakistan Agricultural Census Organization ہے جس نے آخری سروے ۱۹۹۰ء میں کیا اور ۴ کروڑ ۷۰ لاکھ ایکڑ رقبے کے بارے میں کچھ معلومات جمع کیں۔ یہ رقبہ پاکستان کے کل رقبے یعنی ۱۸ کروڑ ۹۶ لاکھ ایکڑ کا تقریباً ۲۵ فی صد ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں اس پر کوئی اعتبار بھی نہ کرے گا ۔جو معلومات ہیں وہ بھی غیر یقینی ہیں۔ زمین کی اقسام کے بارے میں معلومات تو ناقابل یقین ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ذریعہ محکمہ مال کا پٹواری ہے جس کی تعلیم میٹرک تک ہوتی ہے اور زراعت وغیرہ میں اس کی کوئی تعلیم و تربیت یا تجربہ نہیں ہوتا‘ جب کہ اقسام زمین کا تعین کرنا‘ تجربے‘ مہارت اور نئی تربیت کا متقاضی ہے جو ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔
اراضی کے اعداد و شمار ناقابل اعتبار ہونے کا عملی تجربہ راقم کو ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پڑھے گئے مقالے کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کے دوران ہوا۔ پاکستان میں زرعی اعداد و شمار جمع کرنے کا کام پاکستان ایگریکلچرل سینسس آرگنائزیشن کے علاوہ چار مزید محکمے کرتے ہیں‘ یعنی محکمہ مال‘ ایگریکلچرل ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ‘ بیورو آف اسٹیٹکس اور ڈسٹرکٹ اسٹیٹیکل آفس۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب اداروں کے مہیا کیے گئے اعداد و شمار میں واضح فرق ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کا رقبہ ایگریکلچر سینسس کے مطابق ۱۰ لاکھ ایکڑ ہے ‘ جب کہ ڈسٹرکٹ اسٹیٹکس آفس کے مطابق یہ ۲۹ لاکھ ایکڑ ہے۔ چونکہ نظام یکساں ہے اس لیے گمان یہی ہے کہ یہی حالت تمام ملک میں ہو گی۔واضح رہے کہ اعداد و شمار غلط ہونے کے علاوہ مختلف محکمے ایک ہی کام میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں صحیح منصوبہ بندی کیسے کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں وسیع اور بہترین زرعی وسائل سے نوازا ہے۔ ہم ان کا مناسب استعمال نہ کر کے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں‘ اقتصادی اور معاشی پس ماندگی کا شکار ہیں اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ وسائل کا‘جو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں‘ بہترین استعمال کیا جائے۔
تفصیلی زمینی سروے : پہلی ضرورت ملکی ارضی وسائل کا تفصیلی سروے ہے ۔ سروے ٹیموں میں نہ صرف زراعت بلکہ دیگر متعلقہ محکموں اور اداروں کے ماہرین‘ زراعت اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ماہرین شامل ہوں۔ تمام اراضی کے جغرافیائی حالات‘ ملکیت‘ اقسام اور صلاحیت کے بارے میں تفصیلی نقشے بنائے جائیں جن کی بنیاد پر ملکی حالا ت اور وسائل کی روشنی میں مکمل منصوبہ بندی کی جائے ۔ اسی طرح کی ایک مشہور سروے رپورٹ ۵۰‘ ۶۰ سال قبل لندن یونی ورسٹی میں جغرافیہ کے بین الاقوامی شہرت کے پروفیسر ایل ڈی سیٹنپ نے برطانیہ کے زرعی وسائل کے بارے میں لکھی تھی جس کی روشنی میں برطانیہ میں زرعی وسائل سے مکمل فائدہ اٹھایا گیا بلکہ کئی دیگر ممالک نے بھی انھی خطوط پر کام کیا۔
حقیقی زرعی اصلاحات کا نفاذ : پاکستان میں جب ایسی مفصل رپورٹ تیار ہو جائے تو سب سے پہلے زرعی اصلاحات کی جائیں جو واقعی زرعی اصلاحات ہوں۔ پہلے ماہرین یہ فیصلہ کریں کہ ملک کے مختلف حصوں میں حالات کے مطابق ایک خاندان کی ملکیت کتنی زمین ہو کہ جس کا صحیح استعمال کر کے باعزت زندگی گزاری جا سکے۔ جن لوگوں کے پاس اس سے زیادہ زمینیں ہیں عام طور پر یا تو انگریز بہادر نے ان کو اپنی خدمات یعنی قوم سے غداری کے صلے میں دی ہیں‘ یا آزادی کے بعد انھوں نے ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہیں۔ ایسی زمینیں بلامعاوضہ لے لی جائیں۔ بہرکیف جہاں کسی کی جائز ملکیت بھی ضرورت سے زائد ہے اسے جائز معاوضہ دے کر واپس لے لیا جائے۔ جہاں پر کروڑوں بے زمین یا کم زمینوں کے مالک کاشت کار دن رات محنت کے باوجود اپنے بال بچوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے وہاں پر ایسے لینڈ لارڈز کی کہاں گنجایش ہے جن کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ان کی زمینیں کتنی ہیں۔ اسلامی اصول بھی یہی ہے کہ زمین اس کی ہے جو کاشت کرتا ہو۔ اس لیے زائد زمینوں کو کاشت کاروں میں تقسیم کر دیا جائے۔
پیشہ ورانہ رہنمائی کا اہتمام :حکومت کے متعلقہ محکمے مناسب مالی اور پیشہ ورانہ امداد مہیا کریں۔ کئی دیگر ممالک کی طرح کاشت کاروں کو فصل بونے سے پہلے یہ بھی بتا دیا جائے کہ کون سی اور کتنی زمین میں کون سی فصل کاشت کی جائے۔
پیداوار کی مناسب قیمت کا تعین : زرعی پیداوار کی مناسب قیمت اور اس کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ کاشت کاروں کو تاجروں اور مڈل مین کے استحصال سے بھی بچایا جائے۔
متعلقہ اداروں کی تنظیم نو: زراعت اور اس سے متعلقہ اداروں کو ایک یا کم سے کم محکموں میں مدغم کر دیا جائے جن کا آپس میں قریبی عملی رابطہ ہو۔ متعلقہ محکموں کے تمام ملازمین‘ چاہے کسی لیول کے ہوں‘ اپنے آپ کو کاشت کاروں کا معاون بلکہ خادم سمجھیں۔ غلامی کے وقت کے افسرانہ رویہ کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ملازمین کاشت کاروں کے پاس جا کر مطلوبہ ضروریات مہیاکریں۔ یہی طریقہ کار دنیا میں رائج ہے۔ بھارت نے بھی اسی پالیسی کی وجہ سے زراعت میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔
زرعی زمین کی تقسیم کا قانون: اس کے ساتھ ایک اور ضروری قدم یہ اٹھانا چاہیے کہ کم از کم پیداواری اور اقتصادی یونٹ سے نیچے زرعی زمین کی مزید تقسیم کو قانوناً ختم کر دیا جائے۔ اسلامی وراثت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وارثین کو زمین کے بدلے انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے جائز قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔ دنیا کے بعض ممالک میں یہ طریقہ کار کامیابی سے چل رہا ہے۔
اگر حکومت مندرجہ بالا اقدامات اٹھا لے‘ تو اس کی یہ خدمت آزادی دلانے والے محسنین سے کم نہیں ہو گی۔ راقم کو پورا یقین ہے کہ اگر اخلاص سے زراعت میں یہ تبدیلیاں کر دی جائیں تو چند سالوں میں ہم نہ صرف ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو سکتے ہیں بلکہ جس مقصد کے لیے وطن عزیز حاصل کیا گیا تھا وہ بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔
سائنسی علوم خصوصاً انفارمیشن ٹکنالوجی نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ قوموں کی اقتصادیات تبدیل ہوئی ہے اور کئی ممالک نے کم از کم دنیوی بلندیوں کا سفر شروع کر دیا ہے‘ لیکن مسلمان ممالک مجموعی طور پر سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں کوئی کارہاے نمایاں انجام نہیں دے سکے۔ یہاں سائنس اور ٹکنالوجی کی اہمیت کا بیان تو بہت ہوتا ہے‘ لیکن آزادی کے بعد بھی‘ اس طرف قرار واقعی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جن ممالک میں وسائل کی افراط ہے‘ وہاں بھی فکر نہیں کی گئی کہ اس میدان کی دوڑ میں بعد میں شامل ہونے کی وجہ سے خصوصی منصوبہ بندی کر کے کسر پوری کی جائے۔
اس حوالے سے پاکستان میں خوش گوار تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ وزارت سائنس کا قلم دان ایک نامی گرامی سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمن کے حوالے کر کے‘ مطلوبہ بجٹ بھی دیا گیا ہے جو معمول کے بجٹ سے ۵ ہزار فی صد زیادہ ہے۔ ان کی رہنمائی میں اس میدان میں آغازِ کار ہوا ہے۔ پی ایچ ڈی اور دیگر کے لیے‘ ملکی اور بیرونی وظائف کا اعلان ہی نہیں ہوا ہے‘ اچھی علامت یہ ہے کہ وظائف دیے جانے شروع ہو گئے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ چند برسوں میں اس کے نتائج نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ ایٹمی دوڑ میں تو پاکستان نے بھارت سے آگے بڑھ کر دکھایا ہے‘ اب انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بھی مقابلہ شروع کیا ہے جس میں بھارت کا مقام ساری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی یہ صورت حال ۵۳ سال کی اپنی حوصلہ شکن کارکردگی اور امت مسلمہ کے عمومی پس منظر میں خصوصی طور پر حوصلہ افزا اور خوش آیند ہے۔ سائنس کے عالمی منظر پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں تحقیق کار‘ تحقیقی مراکز میں مستقبل کے نقشے وضع کر رہے ہیں۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ سے منسلک سائنس دانوں کی تعداد امریکہ میں ساڑھے ۹ لاکھ سے زائد اور جاپان میں ۸ لاکھ ہے‘ جب کہ پاکستان میں صرف ۱۲ ہزار ہے۔ ساری دنیا کی سائنس و ٹکنالوجی ریسرچ کے مصارف کا تخمینہ لگایا جائے تو اسلامی دنیا کا حصہ صرف ایک فی صد بنتا ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں‘ جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی کتب اور مقالات کی سالانہ تعدادایک ہزار سے زائد نہیں۔امریکہ میں معیاری جامعات‘ جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے‘ اُن میں ہر ایک کاسالانہ بجٹ ایک ارب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ جوہری دھماکے سے سرخرو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف ۸ کروڑ ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں اور یہاں سائنس کے مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ افراد سالانہ ہے۔
مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ۵۶ خود مختار اسلامی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ایک ہزار ایک سو ۵۰ ارب امریکی ڈالر ہے‘ جب کہ جرمنی کی ۲ ہزار ۴ سو ارب ڈالر اور جاپان کی ۵ ہزار ایک سو ارب ڈالر ہے۔ تمام مسلم ممالک میں سائنس و ٹکنالوجی کی تحقیق پر مجموعی طور پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے‘ جرمنی اُس سے دُگنی اور جاپان چار گنا زائد رقم خرچ کرتا ہے۔
آج سائنس اور ٹکنالوجی مادیت کی علامت بن گئی ہے۔ جب مسلمان سائنس کے بھی امام تھے تو یہ صورت نہ تھی۔ مسلمانوں کو دنیا کی امامت سنبھالنا ہے تو اپنی تہذیب اور اقدار کا علم ہاتھ میں لے کر سائنس کے میدان میں مغرب سے آگے بڑھنا ہوگا۔ مغرب مادیت کے سیلاب میں بہا چلا جا رہا ہے‘ اخلاقی قدریں ختم ہو رہی ہیں‘ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے‘ زندگی سکون سے محروم ہے۔ بدقسمتی سے اس کے عالمی اثرات کے تحت مسلم معاشرے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو سائنس کے میدان میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے‘ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ تہذیب و ثقافت اور اقدار مغرب سے نہ لیں۔ اب تو رابطوں میں اضافے اور آسانی کی وجہ سے ۲۱ ویں صدی کے عالمی گائوں میں ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ زندگی گزارنے کے لیے ہم مسلمانوں کے پاس خالق کائنات کا جو پیغام ہے‘ مغرب اپنے مسائل کا حل اس میں تلاش کرے۔
مسلم سجاد
منجیکی فرقے کے ۱۳ رہنمائوں نے کینیا کے وسطی صوبے سے‘ نیروبی سے ۵۰۰ کلومیٹر دور ساحلی شہر ممباسہ آکر اسلام قبول کیا۔ یہاں ائمہ و خطبا کی انجمن نے ان کا استقبال کیا۔ منجیکی تنظیموں کے مرکزی رہنما جن کا نام اب ابراہیم ہے‘ اور بانی رکن محمد جینحا اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اہم صوبائی رہنما اور خاتون رہنما خدیجہ دنگاری‘ سب ہی نعمت ایمان سے مشرف ہوئے۔ اب ہر ہفتے ۱۰۰ سے زائد افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔
کی کی یو میں منجیکی کا مطلب کثرت افراد ہے۔ گروپ بیش تر کی کی یو برادری پر مشتمل ہے‘ تاہم تائے تا‘ کانجن‘ دودوبو اور دوسرے قبائل کے افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ کل تعداد کا اندازہ ۳ لاکھ ہے۔
منجیکی کہتے ہیں کہ ان کے رسوم و رواج مسلمانوں سے زیادہ مختلف نہیں اور یہ بھی اسلام قبول کرنے کی ایک وجہ ہے۔ کینیا کے مسلمانوں نے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے اسلام کی پیروی کرنے اور اس کا پیغام پھیلانے کی تلقین کی۔ اس فرقے کے لوگوں کو سگریٹ نوشی اور شراب کی ممانعت ہے۔ مغربی لباس کو جسم کے نشیب و فراز ظاہر کرنے کی وجہ سے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے طوائفوں کا لباس سمجھا جاتا ہے۔ پتلون اور منی اسکرٹ اسی لیے ممنوع ہیں۔ یہ لوگ ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرنے اور جن لڑکیوں کی مرد نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہ ہورہی ہو‘ ان سے شادی کرنے کو قابل تحسین قرار دیتے ہیں۔
مسلمان کینیا کی آبادی کا ۲۵‘۳۰ فی صد ہیں۔ قومی سیاست میں اچھا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ دوسرے افریقی ملکوں کی طرح کینیا کا بھی اصل مسئلہ اچھی حکمرانی (گڈگورننس ) ہے۔ مسلمانوں نے ان لوگوں سے اپنے کو علیحدہ رکھا ہے جو انقلاب کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں‘ اس لیے کہ اس سے معاشی اور سیاسی انتشار پیدا ہوگا۔ مسلمانوں نے عموماً صدر ڈینیل موئی کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اس کی جیت مسلمانوں کے ووٹ کی مرہون منت تھی۔ اب دو برس بعد انتخابات ہونا ہیں۔ دستور پر نظرثانی کے عمل نے سیاست دانوں اور کلیسا کے ذمہ داروں دونوں کو بیچ سے تقسیم کر دیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں صدر موئی دوسری پانچ سالہ مدت ختم کریں گے‘ اسی لیے جانشینی کی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
منجیکی کے قبولِ اسلام کے کیااثرات ہوں گے؟ کینیا کے گرجوں کی قومی انجمن (NCCK) اس پر ناخوش ہے اور اس نے اس پر سیکیورٹی رسک کا واویلا شروع کر دیا ہے۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے کہ کیا اس کے پیچھے کوئی مذموم مقاصد ہیں؟ کلیسا کے رہنمائوں نے اپنے پیروکاروں کو منجیکیوں سے دُور رہنے کا انتباہ بھی دیا ہے۔
حکومت سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اوّل: منجیکی قبولِ اسلام کے باوجود بھی کی کی یو ہونے کی وجہ سے صدر موئی کی حمایتی ثابت نہ ہوں گے۔ دوم: بالکل ممکن ہے کہ حکومت کے مخالف مسلمان‘ منجیکیوں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔
مسلم رہنما نہیں چاہتے کہ اس قبولِ اسلام کو سیاسی رنگ دیا جائے۔ وہ حکومت کے حق میں ووٹ دیں‘ یا مخالفت میں‘ اس کا تعلق اس سے نہ جوڑا جائے۔ حکومت کو ضرور یہ چاہیے کہ منجیکی کے بارے میں اپنی پالیسی پر غور کرے۔ گروپ کے لیڈر ابراہیم واوانگے نے حکومت سے یہی بات کہی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ منجیکیوں کی رائے اپنے حق میں استوار کرے (ماخوذ ماہنامہ امپیکٹ‘ لندن‘ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔
اگرچہ اصول معاش کے بارے میں اِکاّ دکاّ مفکرین نے ازمنہ قدیم میں بھی سوچا اور لکھا ہے‘ تاہم معاشیات بطور ایک علم کے ‘زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کی صورت گری انیسویں صدی کے آخر میں ہوئی۔ ستم یہ ہوا کہ آغاز ہی سے اس علم کی آبیاری لادین‘ آزاد خیال اور غیر مسلم مفکرین کے ہاتھوں ہوئی۔ اس وقت تقریباً سارا عالم اسلام غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس صورت حال میں دیگر علوم کی طرح معاشیات کے نظریات میںبھی مسلمان اساتذہ اور مفکرین مغربیوںکے خوشہ چین بن گئے۔
اس صدی کے وسط میں‘ جب آزادی کی لہر عالم اسلام میں پھیلنے لگی اور مسلمان مفکرین (ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سرفہرست ہیں) نے اس روایت کو توڑ کر ہر میدان میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کابیڑا اٹھایا تو معاشیات کی اسلامی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں۔
پروفیسر خواجہ نسیم شاہد کی کتاب ’’اسلامی معاشیات: نوعیت اور بنیادیں‘‘ اسلامی معاشیات پر موجود قلیل لٹریچر میں ایک قابل قدراضافہ ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر خواجہ نسیم شاہد مُلک کے ایک معروف معاشیات دان ہیں جو کالج اور یونی ورسٹی کی ہر سطح کی کلاسوں کو پڑھانے کا تقریباً ۳۵ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا شمار ان معدودے چند لوگوں میں ہوتا ہے جوگھسی پٹی راہوں پر چلنے کے بجائے اپنی راہ خود تراشتے ہیں۔
انھوں نے اسلامی معاشیات کی ایسی جامع تعریف و ضع کی ہے جو مشہور و معروف اسلامی معیشت دانوں کی وضع کردہ تعریفوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مکمل ہے۔ ان کی وضع کردہ تعریف یہ ہے: ’’اسلامی معاشیات وہ جامع‘ عمرانی علم ہے جو انسان کے اس اسلامی طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے جو اسلامی معاشرہ (یا اس کے ماڈل) میں متبادل استعمال رکھنے والے کمیاب مگر جائز ذرائع کی مدد سے فلاح کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو‘‘۔
یوں تو یہ تعریف جامع اور مکمل ہے لیکن اگر الفاظ میں معمولی ردوبدل کر دیا جائے تو یہ تعریف ہر لحاظ سے بہتر ہو جائے گی جو یوں ہو گی: ’’اسلامی معاشیات ایک جامع عمرانی علم ہے جو ایسے انسان کے طرزِ عمل کا مطالعہ کرتا ہے جواسلامی معاشرے (یا اس کے ماڈل) میں متبادل استعمال رکھنے والے کمیاب مگر جائز ذرائع کی مدد سے فلاح کے حصول کے لیے کوشاں ہو‘‘۔
۱۶۰ صفحات کی یہ کتاب پیش لفظ اور حواشی و حوالہ جات کے علاوہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان میںاسلامی معاشیات کی نوعیت و وسعت‘ نظریاتی اساس‘ اس کے اسالیب تحقیق اور اس کی اخلاقی بنیادوں کو (جو ۲ ابواب پر مشتمل ہیں) مثالوں‘ نقشوں‘ گرافوں اور چارٹوں سے واضح کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے معاشیات کے طالب علم کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح جاگزیں ہو جاتی ہے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادوں کو قرآن و سنت اور خلفاے راشدین کے عمل میں تلاش کرنا چاہیے۔ اسے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ اسلامی معاشیات اور لادینی معاشیات کا نقطۂ نظر ایک دوسرے کا الٹ ہے۔ ان کے مقاصد مختلف ہیں۔
پروفیسر خواجہ نسیم شاہد کی رو سے لادینی معاشیات میں حلال و حرام کا تصور غائب ہے۔ جب کہ اسلامی معاشیات میں حلال و حرام کا تصور موجود ہے۔ اسلامی‘ معاشی نظام کا ایک اہم خاصا زکوٰۃ کے ذریعے پسماندہ طبقات و افراد کی امداد ہے۔ زکوٰۃ محصول سے الگ چیز ہے۔ لادینی معاشی نظام میں محصول کے علاوہ کسی دیگر ذریعے سے کوئی حصہ پسماندہ طبقات اور افراد کی امداد کے لیے مختص نہیں کیا گیا۔ مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی اقتصادی نظام انسانوں کو اشتراکی اور سرمایہ دارانہ معاشی نظاموں کی افراط و تفریط سے بچاتا ہے اور معاشرے میں فطری انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ لادینی نظام معیشت میں محض عدل اعلیٰ ترین قدر ہے جب کہ اسلامی نظام معیشت میں عدل کے علاوہ احسان کو افضل ترین قدر تسلیم کیا گیا ہے۔ عدل کا مطلب ہر فرد کو اس کا حق ادا کرنا ہے۔ جب کہ احسان کا مطلب کسی شخص کو اس کے جائز حق کے علاوہ کچھ زائد دینا ہے جس کا محرک رضاے الٰہی ہے۔
کتاب اپنے مندرجات اور طباعت کے لحاظ سے اعلیٰ پائے کی ہے۔ البتہ کہیں کہیں ہجوں کی اور دیگر طباعتی اغلاط رہ گئی ہیں۔ مثلاً صفحہ ۵ پر خانقاہوں کی جگہ خانقانوں‘ صفحہ ۵۱ پر توجیہہ کے بجائے توضیع‘ صفحہ ۵۱ ہی پر منطقی استقرا کے بجائے منطقی استخراج اور صفحہ ۶۷ پر مجروح کے بجائے مجروع چھپ گیا ہے۔ مصنف نے "Behaviour"کا ترجمہ ’’رویہ‘‘ کیا ہے‘ جس کا موزوں ترجمہ’’ طرز عمل’’ یا ’’کردار‘‘ ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ’’رویہ‘‘ تو "Attitude" کا ترجمہ ہے۔ یقینا ان معمولی اغلاط کی اگلی اشاعت میں تصحیح کر لی جائے گی۔ بہرحال کتاب شستہ ادبی انداز میں لکھی گئی ہے۔ قاری مؤلف کے اندازِ تحریر کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میری رائے میں یہ کتاب ملک میں اسلامی نظام معیشت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ قیمت زیادہ نہیں۔ اسے معاشیات‘ بالخصوص اسلامی معاشیات کے اساتذہ اور طلبا کو ضرور پڑھنا چاہیے (پروفیسر نیاز عرفان)۔
اکثر بڑے یا معروف لوگوں کو اپنی نجی زندگی کے بارے میں کچھ لکھنے کا موقع نہیں ملتا ‘ یا پھر بعض اصحاب اس کام کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ حالاں کہ ان شخصیات کے ذاتی احوال جاننے کے لیے بہت سے لوگوں کو اشتیاق ہوتا ہے ۔ بیش تر صورتوں میں یہ شوق ایک ناتمام حسرت کا شکار ہو کررہ جاتا ہے۔ ایسے معروف لوگوں سے دل چسپی کی باتیں دریافت کر کے عام افراد تک پہنچانے کے لیے جستجو‘ لگن اور حاضر طبیعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہفت روزہ پیمان کراچی کے معاون مدیر (۱۹۷۱ء-۱۹۷۶ء) ان مہم جو صحیفہ نگاروں میں سے ہیں‘ جنھوں نے اس سلسلے میں مفید خدمات انجام دی ہیں۔
زیرنظر کتاب ۱۲ معروف عالم اور خطیب حضرات سے دل چسپ گفتگوئوں اور مصاحبوں کا مرقع ہے۔ سوال و جواب کی سطح بلند اور تعلیم و آگہی کا کینوس خاصا وسیع ہے۔ تاہم دو باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں‘ اوّل یہ کہ: انٹرویو نگار‘ شیعہ سنی فرقہ واریت کی آنچ کو ٹھنڈا کرنے اور اس خلیج کو پاٹنے کی پیہم جستجو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس فرقہ وارانہ تنائو کو محسوس کرتے ہوئے باہم اشتراک و اتحاد اور احترام کے رشتوں کو استوار کرنے کے لیے شعوری طور پر اور بڑے تسلسل سے سوال اٹھاتے ہیں‘ جو واقعی ایک بڑی خدمت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ خطابت اور فن تقریر کے رموز کو آشکارا کرنے کے لیے کرید کرید کر سوال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آغا شورش کاشمیری اور شیعہ علما کرام کی آرا بڑی دل چسپ ہیں۔
مولانا مودودی کا انٹرویو (ص ۳۱ تا ۶۲) اور ان کے معمولات کی روداد بڑی دل چسپ ہے جو درحقیقت فاضل مرتب کی موعودہ کتاب کی جھلکیوں پر مشتمل ہے۔ علامہ رشید ترابی اور مولانا احتشام الحق تھانوی سے ملاقاتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ محراب و منبر سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات سے عطر بیز ملاقاتوں کی رودادیں اردو کے مکالماتی ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے (سلیم منصور خالد)۔
فری میسن ہمارے ملک میں کچھ لوگوں کی خاص دل چسپی کا موضوع ہے۔ عبدالرشید ارشد صاحب نے تھنکرز فورم ریاض ‘ سعودی عرب کے حوالے سے اسی دل چسپی کی تسکین کی کوشش کی ہے اور پہلی سے تیسری ڈگری تک کے لاجوںمیں ہونے والی کارروائی کی مصدقہ و مسلمہ روداد پیش کر دی ہے (یوں ابھی ۳۰ ڈگریاں باقی ہیں!) کتاب کا انتساب مرحوم مصباح الاسلام فاروقی کے نام ہے جن کی دو کتابوں نے ۶۰ کے عشرے میں اس موضوع کو ملک میں متعارف کروایا تھا۔ انتساب میں ان کی موت کو ’’طبعی‘‘ لکھ کر غالباً کوئی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی اگر فری میسن نے ساری کی ساری خرید لی تو بازار میں نہیں ملے گی۔ کتاب پڑھ کرحیرانی ہوتی ہے کہ ۲۰ ویں صدی میں بھی یہ تمام عجیب و غریب اور جاہلانہ رسومات اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ ادا کرتے ہیں (مسلم سجاد)۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزگذشتہ ۲۰ سال کے عرصے میں امت مسلمہ کو درپیش معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی اہمیت کے حامل متنوع موضوعات پر بلند پایہ تحقیقی کتب شائع کر چکا ہے۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سید نواب حیدر نقوی ہمارے ملک کے نامور معاشی محقق اور صاحب طرز مصنف ہیں جن کے قلم سے ترقیاتی و زرعی معاشیات اور معاشی نظامات کے تقابلی مطالعے کے مختلف پہلوئوں پر گراں قدر کتب اور مقالات منصّۂ شہود پر آچکے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے پاکستان میں‘ بالخصوص گذشتہ عشرے کے دوران میں‘ اقتصادی منصوبہ بندی کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی کا معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے اور بتایاہے کہ اس حکمت عملی نے ملکی معیشت کے میلانِ نمو کو نہ صرف بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ ملکی معیشت کی اساسات کو مضمحل کر کے اسے گھمبیر بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے۔ ان میں شرح افزایش کا بحران‘ ملکی وسائل کو متحرک کرنے کا بحران‘ ادایگیوں کے توازن کا بحران‘ بیرونی قرضوں کا بحران اور آمدنیوں کی تقسیم کا بحران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مصنف کے نزدیک اس صورت حال کا جلد اور مؤثر انداز میں مداوا نہ کیا گیا تو ملکی معیشت ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ مصنف کی نگاہ میں اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے معاشی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس عمل کی شاہ کلید یہ ہے کہ معیشت کی شرح افزایش کو اس قدر بڑھا دیا جائے کہ کم سے کم وقت میں فی کس آمدنی موجودہ سطح سے دگنی ہو جائے۔
اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاست اور منڈی (state and market) دونوں قوتوں کے متوازن ارتباط کو بروے کار لانا چاہیے۔
محترم نقوی صاحب نے ملکی معیشت کو بحرانوں کے گرداب سے نکال کر اصلاح و افزایش کی راہ پر ڈالنے کاجو ماڈل پیش کیا ہے وہ تکنیکی اعتبار سے وزن رکھنے کے باوجود اپنے اندر روایتی قسم کا رنگ ہی لیے ہوئے ہے ۔ ہمارے ہاں معاشی اور سیاسی دائروں میں مفاداتی گروہ اس قدر قوی ہو چکے ہیں کہ سرکار اور بازار دونوں ان کے سامنے بے بس ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ’ہم غریب ہیں اس لیے کہ ہم غریب ہیں‘ بلکہ یوں ہے کہ ’ہم غریب ہیں اس لیے ہم کرپٹ (بددیانت) ہیں‘۔ اصل مسئلہ اخلاقی بحران کا ہے جب تک اس بحران پر قابو نہیں پایا جاتا کسی بھی معاشی بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔ادایگیوں کے توازن کے بحران کا حل برآمدات میں اضافے سے وابستہ ہے۔ سرمایہ یعنی بددیانت اہل کار رشوت کی دیواریں کھڑی کر کے اور بازار یعنی برآمدکنندگان ملاوٹ اور گھٹیا معیار کی اشیا سپلائی کر کے منڈیوں سے ملک کو محروم کر دیتے ہیں وغیرہ۔ جب تک اس انسان کے معیار اخلاق و کردار کو بہتر بنانے کے عمل کو اقتصادی منصوبہ بندی کا جزو اعظم نہیں بنایاجاتا‘ فنی اور تکنیکی اعتبار سے درست ترقیاتی ماڈل ملک کی تقدیر ہرگز نہیں بدل سکتے۔ محض آبادی کی شرح افزایش کو کم کر کے معاشی خوش حالی کے خواب ایک سراب کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔اب وقت ہے کہ ماہرین روایتی انداز سے ہٹ کر پاکستان کے اساسی نظریے اور اسلامی اقدار پر مبنی (value-based) ترقیاتی ماڈل تیار کریں جن میں اصل اہمیت انسان یعنی خلیفۃ اللّٰہ کو حاصل ہو۔
اب نجات کی یہی ایک راہ ہے (عبدالحمید ڈار)۔
پروفیسر اکبر رحمانی کئی سال سے تعلیمی مجلہ ’’آموز گار‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب اس کے اداریوں کا انتخاب ہے جو ’’بڑے اہم‘ قابل غور اور فکرانگیز خیالات کے علاوہ تعلیم و تدریس سے متعلق ان کے تجربات کا نچوڑ ہیں‘‘ (مقدمہ از ضیاء الدین اصلاحی)۔ ان اداریوں کا تعلق بھارتی مسلمانوں کی تعلیمی اور ملّی زندگی سے ہے۔ ڈاکٹر اکبر رحمانی معلّم رہے‘ نقد و تحقیق سے بھی ان کا واسطہ رہا ہے۔ انھوں نے اردو ذریعہ تعلیم‘ تعلیم کے گوناگوں مسائل و موضوعات (امتحانات میں نقل نویسی‘ طلبہ میں بے راہ روی کا رجحان‘ مخلوط تعلیم‘ پرائمری تعلیم‘ دینی مدارس کا نصاب‘ معلم کا منصب‘ تاریخ کی درسی کتابیں‘ اقلیتوں کے تعلیمی حقوق‘ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب وغیرہ) پر مختصر مگر جامع انداز میں ایک ایسے ہوش مند معلم کا موقف پیش کیا ہے جسے اپنے ملی تشخص پر اصرار ہے اور وہ اسی لیے مسلمانوں کی نژادِ نو کے مستقبل کے بارے میں فکرمند بھی ہے۔ انھوں نے اربابِ تعلیم کو‘ اور خود بھارتی مسلمانوں بالخصوص متعلمین اور ماہرین تعلیم کو تعلیمی دنیا کے اہم نظری و فکری اور پیشہ ورانہ مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس طرح یہ پُراز معلومات کتاب بھارتی مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر غوروفکر کی دعوت دیتی ہے--- انھیں سوچنا ہوگا کہ ایک مخالفانہ اور بعض صورتوں میں متعصبانہ ماحول میں‘ انھیں کس طرح اپنا راستہ نکالنا ہے (رفیع الدین ہاشمی)۔
ہمارے ملک میں سائنس اور سائنسی تعلیم کی جو قدروقیمت ہے‘ سائنس دانوں کی حیثیت اور مقام بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں۔ سوائے چند ایک سائنس دانوں کے (جنھیں ’’قومی ہیرو‘‘ کا درجہ حاصل ہو گیا ہے) ہم اپنے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سائنس دانوں اور ان کے کارناموں سے بڑی حد تک بے خبر ہیں۔ زیرنظر کتاب میں پاکستانی سائنس دانوں کے حالاتِ زندگی اور ان کی کارکردگی سے آگاہی کی اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان کے کچھ سائنس دان تو ایسے ہیں جن کا نام تقریباً ہر شخص جانتا ہے (ڈاکٹر عبدالقدیر خاں‘ پروفیسر عبدالسلام‘ سلیم الزماں صدیقی اور پروفیسر عطا ء الرحمن وغیرہ) لیکن ان کے علاوہ بھی کئی سائنس دان پاکستان کے اندر رہتے ہوئے عالمی معیار کی تحقیق کر رہے ہیں۔ ان میں قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر ریاض الدین سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ قائداعظم یونی ورسٹی‘ پنسٹیک‘ عبدالقدیر خاں ریسرچ لیبارٹریز‘ اور ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے کیمیا‘ کراچی سے منسلک کئی سائنس دان نمایاں ہیں۔ بعض پاکستانی سائنس دان ایسے بھی ہیں جو بیرون ملک اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام سرانجام دے رہے ہیں اور انھیں وہاں نہایت اعلیٰ مرتبہ و مقام حاصل ہے (مثلاً ڈاکٹر محمد منور چودھری جو برطانیہ کی مشہور زمانہ کیونڈش لیبارٹری کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر ہیں)۔
مصنف نے (۶۰ سے زیادہ) سائنس دانوں سے متعلق معلومات جمع کر کے انھیں مرتب کرنے کے لیے خاصی محنت اور جاں فشانی سے کام کیا ہے۔ ان کی یہ کوشش لائق تحسین ہے۔ تاہم مصنف خود چونکہ سائنس کے شعبے سے منسلک نہیں ہیں اور کتاب کی تالیف میں جن مآخذ پر انحصار کیا گیا ہے‘و ہ بھی لازمی طور پرمستندنہیں ہیں لہٰذا کئی مقامات پر ایسی باتیں آگئی ہیں جو حقائق کے خلاف ہیں مثلاً صفحہ ۶۳ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر امان اللہ (کون امان اللہ؟ یہ کچھ نہیں بتایا گیا) کو نیوٹن اور آئن سٹائن کے بعد تیسرا بڑا سائنس دان مانا جاتا ہے۔ اسی طرح کراچی کے پروفیسر قادر حسین کے اس دعوے کو (کئی دوسرے ناقابل اعتبار دعووں سمیت) پذیرائی بخشی گئی ہے کہ انھوں نے قانونِ بقائے توانائی کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایک ایسی مشین ایجاد کی ہے جو کم توانائی حاصل کر کے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہے۔ شاید مستند ذرائع سے تصدیق کیے بغیر‘ محض اخباری بیانات پر انحصار کرنے سے یہ صورت پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان کے بعض صفِ اوّل کے سائنس دانوں (مثلاً حمید احمد خاں‘ فیاض الدین‘ سہیل زبیری‘ اسلم بیگ‘ قاسم مہدی‘ وقار الدین احمد اور انور وقار وغیرہ) کا اس کتاب میں کوئی تذکرہ نہیں ہے جب کہ بعض ایسی شخصیات کے بارے میں معلومات شامل کی گئی ہیں جن کی ملک و قوم کے لیے دیگر خدمات تو یقینا قابل قدر ہیں تاہم سائنسی تحقیق میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک سائنسی تحقیق سے منسلک بے شمار پاکستانیوں میں سے صرف ایک کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کے زیرترتیب حصہ دوم میں ایسی تمام کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یوں تو یہ کتاب بیش تر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہو گی لیکن طالب علموں میں عمومی طور پر اس کا مطالعہ سائنس کی طرف رغبت پیدا کرے گا اور سائنس کے طالب علموں کو تحقیق کی راہ اختیار کرنے پر ابھارے گا (فیضان اللّٰہ خان)۔
پروفیسر رشید احمد انگوی نباتیات کے استاد ہیں‘ ملی اور دینی جذبے سے سرشار ہیں اور ’’انھیں ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی کا غم بے چین رکھتا ہے‘‘۔ علامہ اقبال کی تلقین انھیں اپنے جذبات سے ہم آہنگ محسوس ہوئی۔ زیرنظر مجموعۂ مضامین اسی ہم آہنگی اور احساساتِ دینی و ملّی کی ترجمانی کرتا ہے۔ تقریباً تین درجن مختلف عنوانات کے تحت مصنف نے اپنے دردمندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ]عنوانات: تعلیم کی اہمیت‘ مغربی نظام تعلیم کا حاصل‘ مکتب کا جواں‘ غلام قوموں کا غلام ضمیر‘ مسلمان اور قرآن‘ فقر و استغنا‘ فرنگی‘ عالم عرب اور اسلامی دنیا‘ فکر اقبال اور اکیسویں صدی وغیرہ و غیرہ[۔ ہر شذرے کا آغاز کلامِ اقبال سے ہوتا ہے۔
انتساب ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے نام ہے۔ مصنف نے ’’فکر اقبال کے تمام گوشے بہت وضاحت سے پیش کیے ہیں‘‘ (مقدمہ از پروفیسر ظفر حجازی)۔ کتاب نہایت اہتمام سے خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہے (ر-ہ)۔
مصنف نے خواتین کے حقوق کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ گیارہ ابواب میں خواتین کی حیثیت‘ سماجی کردار‘ حقوق‘ فرائض‘ سربراہی‘ وراثت اور مغرب میں حالتِ زار جیسے اہم اور وسیع موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے‘ ابواب کے عنوان نجانے کیوں تجویز نہیں کیے گئے۔
حرفِ آغاز میں ڈاکٹر خان تحریر کرتے ہیں: قومی اور ملّی زندگی میں خواتین کی صحیح تعلیم و تربیت زندگی کے ہر شعبے میں نہایت عمدہ اور فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ مرد کا بگاڑصرف ایک فرد کا بگاڑ ہو سکتا ہے مگر عورت کا بگاڑ پوری نسل بلکہ نسل در نسل تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر خان نے اسلامی نقطۂ نظر سے خواتین کے لیے متعین حقوق پر بحث کی ہے اور قرآن و سنت کو اپنا ماخذ بنایا ہے‘ ڈاکٹر خان نے قرآنی آیات اور اُن کی تفسیر کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلا م کے پیروکار خود ہی قرآن کی تعلیمات سے روگردانی کر رہے ہیں اور اس کا خمیازہ انھیں معاشرتی نظام میں خلل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مختلف ابواب میں مصنف نے مغربی تہذیب اور اسلامی معاشروں میں اس کے نفوذ پر خصوصاً روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ مغرب کی اندھا دھند نقالی مسلمان خواتین ہی کو نہیں پوری مسلم امت کو شدید نقصان پہنچائے گی۔ ہر باب کے آخر میں حواشی اور کتاب کے آخر میں مجموعی کتابیات درج ہے۔ موضوعات منتشر ہیں‘ تاہم اپنے موضوع پر یہ ایک اچھی تحریر ہے (محمد ایوب منیر)۔
جیبی تقطیع۔ ہدیہ: درج نہیں۔ ] باری تعالیٰ کے ۹۹ صفاتی نام نفیس رقم کی خوب صورت کتابت میں۔ ابتدا میں مرتب نے وظیفہ
اسماء الحسنیٰ کا طریقہ بتایا ہے جس سے ’’ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے‘‘[۔
ڈاکٹر انیس احمد نے طالبہ کو جو جواب دیا ہے (’’تقدس کا مجروح ہونا‘‘ ‘ جنوری ۲۰۰۱ء) وہ ایک پہلو سے تو بہت خوب ہے‘ لیکن کئی پہلوئوں سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی کوئی تدبیر نہیں بتائی گئی کہ دوسرے فریق کو ایکسپوز کیا جائے تاکہ وہ آیندہ کسی اور کے ساتھ اس طرح کی کارروائی سے باز رہ سکے۔ یا کم سے کم یہ یقین ہی حاصل کیا جائے کہ وہ بھی تائب ہو گیا ہے۔ اس طرف بھی اشارہ کیا جانا چاہیے تھاکہ ذمہ داری سے بری وہ بزرگ اور والدین بھی نہیں ہیں جو دنیا دیکھنے کے باوجود اپنی لڑکیوں کو اس طرح کی ٹیوشن کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہمارا وہ نظام بھی تبصرے کا موضوع بننا چاہیے تھا جس میں اس طرح کے واقعات روزافزوں ہیں اور واقع ہو جائیں تو تدارک کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ شریعت کے احکامات جس میں اس طرح کی تنہائی کو سرے سے منع کیا گیا ہے‘ ان کی حکمت بھی واضح ہوتی ہے کہ جہاں شیطان تیسرا ساتھی ہو‘ وہاں ہر چیز ممکن ہے۔
’’پاکستانی معاشرے کی مزاجی کیفیت‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) میں لسانی عصبیتوں کے حوالے سے یہ بیان کہ ’’چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہو گئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے‘‘ (ص ۶۴)‘ امر واقعہ کے خلاف ہے۔ عوام اپنے مسائل اور محرومیوں سے پریشان ضرور ہیں لیکن ایک عام آدمی محب وطن ہے‘ پاکستان کی سلامتی و یک جہتی کا خواہاں ہے‘ اور ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتا ہے۔ وہ صوبائی عصبیتوں کو ملک کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔ اس لیے آپ کے رسالے میں ایک محدود حلقے کے تاثر کا اتنے عموم اور قطعیت سے بیان صدمے کا باعث ہوا۔ عبدالکریم عابد جیسے کہنہ مشق صحافی کا قلم محتاط ہونا چاہیے تھا۔
’’۶۰ سال پہلے‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) میں سید احمد شہیدؒ کی تاریخ شہادت ۲۴ ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۱۸۳۰ء درج ہوئی ہے۔ درست ۶ مئی ۱۸۳۱ء‘ ۲۴ ذی القعدہ ۱۲۴۶ھ ہے (اردو دائرہ معارف اسلامی‘ جلد ۲‘ جامعہ پنجاب‘ لاہور‘ ۱۹۶۶ء‘ ص ۱۴۱)۔ غالباً صاحب کتاب سے سہواً ہوا ہے لیکن علمی اور تاریخی اعتبار سے اس کی اصلاح بہت اہم اور ضروری ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن کا صرف اہلِ زبان ہی مطالعہ نہیں کرتے بلکہ کم پڑھے لکھے بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس لیے اسے معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم بھی ہونا چاہیے۔ ’’ذکر صدقے کی فضیلت کا‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) عام فہم معلوم نہیں ہوتا‘ مثلاً ’’اللہ کے احسان کی کچھ نہایت نہیں ہے‘‘ (ص ۲۶)۔ اسی طرح اسی صفحے پر حدیث کا ترجمہ دیکھیے: ’’عذاب کی گئی عورت ایک بلی کے پیچھے کہ اس کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ بھوک سے مرگئی‘‘۔ کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ بلی مر گئی یا عورت۔ تجویز ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی سے متعلق بھی مضامین شائع کیے جانے چاہییں۔
گذشتہ عشرے میں ترجمان القرآن نے علمی معیار اور پیش کش اور توسیع اشاعت کے حوالے سے جس غیر معمولی پیش رفت کا مظاہرہ کیا‘ وہ قابل ستایش اور غیر معمولی ہے‘ تاہم پرچہ یکسانیت کا شکار ہوتا نظر آتاہے۔ اشارات میں اجتہادی امور کو منظرعام پر لایا جائے۔ اخبار امت کے مآخذ بھی محدود ہیں۔ کتاب نما میں عام کتب کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ رسائل و مسائل فقہی امور کی نذر کیے جا رہے ہیں‘ جب کہ یہ سلسلہ اجتہادی امور کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ ترجمان القرآن صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں پڑھا جاتا بلکہ یہ ایک عام قاری کا بھی رسالہ ہے۔اس لیے عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیار کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ ترجمان القرآن ایک ہمہ جہت علمی و فکری مجلہ بن جائے۔
رسائل و مسائل (دسمبر ۲۰۰۰ء) میں این جی اوز اور دینی جماعتوں کا موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل یہ ساری بحث ہی بے معنی معلوم ہوتی ہے کہ پاکستانی قوم کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے حل کے لیے کس فریق کی کارکردگی زیادہ قابل ستایش ہے۔ دینی جماعتیں استحصال کی حامی ہیں نہ تمام این جی اوز مغربی و صیہونی لابی کی آلہ کار۔
بلاشبہ دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کا معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں شروع سے ایک فعال کردار رہا ہے‘تاہم یہ کہنا کہ این جی اوز کا پاکستان کی ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں‘ اور حقیقی مسائل سے وہ لاتعلق ہیں‘ ایک مبالغہ آمیز تجزیہ و تبصرہ ہے۔ اصل مقصد توپاکستان اور پاکستانی عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود ہے‘ چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ بعض این جی اوز پر تنقید کی گنجایش بلکہ ضرورت اس پہلو سے ہے کہ پاکستان کی اساس جن بنیادی نظریات و تصورات پر استوار ہے‘ ان این جی اوز کے مقاصد اور معاشرتی ترقی کے لیے مجوزہ لائحہ عمل ان کی جڑ کاٹ دینے کے مترادف ہیں۔ مسئلے کا حل رپورٹ برائے رپورٹ دینے کے بجائے قلب کے مرض اور فکر کی اس ٹیڑھ کی اصلاح میں ہے جو این جی اوز کے مقاصد اور لائحہ عمل میں بالعموم پائی جاتی ہیں۔ یہ حکمت دین کا تقاضا ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن (دسمبر ۲۰۰۰ء) میں مغرب اور اسلام (ص ۶۸-۶۹) پر تبصرہ نظر سے گزرا جس میں ڈاکٹرمراد ہوف مین کے خطبات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ فاضل تبصرہ نگار نے ان کے ایک جملے ’’خواتین کے چہروں کا پردہ کرنے کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں‘‘ پر ڈاکٹر موصوف کو نیم بے خبری کا طعنہ دیا ہے۔ میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ درج ذیل سب حوالے قرآن حکیم کی آیت ولایبدین ۔۔۔۔ الا ما ظھرمنھا سے متعلق ہیں۔حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کا قول ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ نہیں اور یہی رائے امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کی ہے اور امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی یہی ہے (بحوالہ فتاویٰ ابن تیمیہ‘ مطبوعہ سعودی عرب ۱۳۹۸ھ‘ ۲۲:۱۰۹)۔ یہی امام مالکؒ کا مذہب ہے اور وہ اس میں پہنے ہوئے کپڑوں کو بھی شمار کرتے ہیں (بحوالہ التسہیل (محمد بن حمد بن جزی الکلی) ۳:۶۴)۔ مندرجہ ذیل مفسرین کی رائے بھی یہی ہے کہ چہرے اور ہاتھ پردے میں شامل نہیں۔ جامع البیان لاحمد بن جریر الطبری‘ مطبوعہ دارالفکر ‘۱۱۹:۱۰ (ص ۱۸)۔ الکشاف لزمخشری‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ (۳:۶۱)۔ لزمخشری نے تو چہرے اور ہاتھ کھلا رکھنے کی حکمت بھی بیان کی ہے۔ احکام القرآن لابی بکر محمد بن عبداللہ المعروف بابن العربی‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ لبنان‘ ۳:۱۳۶۹۔ انھوں نے زینت ظاہری اور زینت خفی پر بڑی خوب صورت بحث کی۔ التفسیر الکبیر لامام فخر الرازی‘ مطبوعہ ایران‘ ۲۳:۲۰۵۔ البحر المحیط لابی حبان بن محمد بن یوسف الاندلسی‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ‘ ۶:۴۱۲۔ مدراک التنزیل لابی البرکات النسفی‘ مطبوعہ حنفی دہلی‘ ۲:۴۷۔ تفسیر المراعی لاحمد مصطفی المراء ‘ مطبوعہ دارالفکر‘ لبنان‘ ۶:۹۹۔ فی ظلال القرآن‘ مطبوعہ دارالشرف‘ ۴:۲۵۱۳۔ اس موضوع پر دو نہایت قیمتی کتب عربی میں دورحاضر کے سب سے بڑے محدث شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ کے قلم سے نکلی ہیں: ۱- حجاب المرأۃ المسلمۃ فی الکتاب والسنۃ‘ مطبوعہ المکتب الاسلامی‘ دمشق۔ ۲- جلباب المرأۃ المسلمۃ فی الکتب السنۃ‘ مطبوعہ المکتبہ الاسلامیۃ‘ عمان‘ الاردن۔ کیا فاضل تبصرہ نگار ان سب کو بھی نیم بے خبر قرار دیں گے؟
ترجمان القرآن کا نیا سرورق دل موہ لینے والا‘ جاذب نظر اور انتہائی خوب صورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ ان دنوں تحریریں بھی آسان پیرائے میں آرہی ہیں جو ایک اچھا اقدام ہے۔ کیونکہ ہمیں آپ سے مشکل پیرائے میں تحریروں پر اکثر شکایت رہتی ہے۔ تاہم اخبار امت کے صفحات بڑھائیں اور عالم اسلام اور اسلامی تحریکوں کے متعلق باقاعدگی سے اور مفصل تحریریں دیں۔
مجھے فجی آئے تقریباً ایک سال اور چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ یہاں پاکستان کے متعلق کم ہی مواد پڑھنے کو ملتا ہے صرف روزنامہ جنگ‘ کراچی آتا ہے اور وہ بھی چار سے چھ ہفتے کا باسی ہوتا ہے۔ یہاں کی اسلامی لائبریری میں ترجمان کی پرانی کاپیاں تو کافی نظر آئیں لیکن ۱۰‘ ۱۲ سال سے تو کوئی جماعتی لٹریچر یا رسالہ وغیرہ کچھ نہیں آیا۔یہاں آکر ترجمان کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی۔
فجی کے پڑوس میں ایک اور جزیرہ ناواٹو کے نام سے ہے وہاں اشاعت اسلام کا کام گذشتہ چند سالوں سے ہوا ہے۔ نائیجیریا سے ایک مسلمان قانون دان‘ وہاں دعوتی سرگرمیوں میں بڑی دل چسپی لے رہے ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ تین چار سالوں سے کافی لوگ مسلمان ہوئے ہیں‘ جب کہ ابھی تک وہاں باقاعدہ کوئی مسجد نہیں ہے۔ عموماً گھروں پر یا پھر چھوٹے سے مرکز بنا کر گزارا کر رہے ہیں۔اس وقت وہاں ۴۰۰ کے قریب لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ اس جزیرے سے پہلا مسلمان نوجوان فجی میں ایک اسلامی ادارے سے چار سال کا کورس کر کے واپس گیا ہے۔ وہی وہاں سب سے بڑا عالم دین ہے۔ یہاں سے عموماً لوگ تبلیغی جماعت کے توسط سے بچوں کو پاکستان میں تبلیغی مدارس میں بھیجتے ہیں۔ یہ بچے پاکستان سے واپس وہی ذہنیت اور فکر لے کر آتے ہیں۔ ہمارے لیے دعوتی نقطۂ نظر سے بڑا مفید ہوگا کہ بچے سید موودی انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم اور تربیت حاصل کریں اور پھر وہ عصری تقاضوں اور ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہاں دعوت کا بہترین کام کریں۔
یہاں تحریکی کتابیں اور فکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج سے تقریباً کوئی ۲۵ سال قبل انڈیا سے تحریکی لٹریچر آتا رہا۔ اس حوالے سے بھی اگر کوئی انتظام ہو سکے تو بہت بڑا نیکی کا کام ہوگا۔ یہاں اگرچہ لوگ اردو سمجھ لیتے ہیں اور اپنے مخصوص (ہندی ‘ اردو انگریزی ملا کر) لہجے میں بولتے بھی ہیں لیکن انگریزی پڑھنا اور سمجھنا زیادہ آسان ہے۔ اس لیے انگریزی لٹریچر ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن امت کے لیے فکری رہنما کا کردار ادا کر رہا ہے۔ خدا تعالیٰ اسے مزید ترقی دے۔ آمین۔ گزارش ہے کہ ’پاکستانی میڈیا‘ پر گرفت کے لیے خصوصاً الیکٹرانک ذرائع ابلاغ پر تبصرہ‘ تنقید اور رہنمائی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ شائع کیا کریں۔ یہ محاذ بھی اہمیت رکھتا ہے!
چونکہ میرے پیش نظرتحریک اسلامی کا احیا ہے‘ اس لیے مجھے بھی.... تدریج کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کرنی پڑی ہے…. ترجمان القرآنکی زندگی کے ابتدائی چار سال اس کوشش میں صرف ہوئے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں گمراہی کی جو جو شکلیں پیدا ہو گئی ہیں ان پر گرفت کی جائے اور اسلام سے جو روز افزوں بُعد اُن میں پیدا ہو رہا ہے‘ اسے روکا جائے۔ ابھی یہ کوشش جاری ہی تھی کہ ۱۹۳۷ء میں یکایک یہ خطرہ سامنے آگیا کہ ہندستان کے مسلمان کہیں اس وطنی قومیت کی تحریک کے شکار نہ ہو جائیں جو آندھی اور طوفان کی طرح ملک پر چھاتی چلی جا رہی تھی۔ یہ ظاہر بات ہے کہ ہم موجودہ ظالمانہ حکومت کے خواہ کتنے ہی مخالف ہوں‘ اور ہمارے دل میں اس کے پنجے سے نکلنے کی خواہش چاہے کانگریسی حضرات سے بھی بڑھی ہوئی کیوں نہ ہو‘مگر ہم کسی طرح بھی یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ جو لوگ اِس وقت تک تھوڑے یا بہت اسلام کے حلقۂ اثر میں ہیں اُن کو ہندستانی قوم پرستی کی تحریک اپنی ربط ِ عوام کی تدبیروں سے‘ اور اپنی واردھا اسکیم اور ودیامندر اسکیم کے ذریعے سے‘ اور اپنے سیاسی و معاشی تفوق کے زور سے اپنے اندر جذب کر لے ‘ اور ان کے نظریات اور ان کی زندگی کو اتنا متغیرکر دے کہ ایک دو پشتوں کے بعد ہندستان کی آبادی میں اسلام اُتنا ہی اجنبی ہو کر رہ جائے جتنا جاپان یا امریکہ میں ہے۔
اس خطرے کو اور زیادہ پریشان کن جس چیز نے بنا دیا وہ یہ تھی کہ محض انگریزی اقتدار سے آزاد ہونے کے لالچ میں مسلمانوں کے مذہبی رہنمائوں کا ایک سب سے زیادہ بااثر طبقہ اس وطنی قوم پرستی کی تحریک کا معاون بن گیا اور اس نے انگریز دشمنی کے اندھے جوش میں اِس چیز کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیں کہ اس تحریک کا فروغ ہندستان میں اسلام کے مستقبل پر کس طرح اثرانداز ہوگا۔لہٰذا اس خطرے کا سدِّباب کرنے کے لیے میں نے ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ ۱۹۳۷ء کے آخر میں اور پھر دوسرا سلسلہ ۱۹۳۹ء کے آغاز میں شائع کیا۔ ان دونوں مجموعوں میں میرے پیش نظر صرف یہ چیز تھی کہ مسلمان کم از کم اپنی مسلمانیت کے موجودہ مرتبے سے نیچے نہ جانے پائیں اور اپنے تشخص کو گم نہ کر دیں۔ اس لیے میں نے ان کے اندر اسلامی قومیت کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کی‘ ان کو اس جمہوری لادینی نظام حکومت کے نقصانات سے آگاہ کیا جو واحد قومیت کے مفروضے پر ہندستان میں قائم کیا جا رہا تھا ‘ اُن آئینی تحفظات اور ’’بنیادی حقوق‘‘ کی حقیقت واضح کی جن پر اعتماد کر کے مسلمان اس مہلک جمہوری دستور کے جال میں پھنسنے کے لیے آمادہ ہو رہے تھے‘ اور ان کے سامنے شعبہ دارالاسلام کا نصب العین پیش کیا تاکہ کسی نصب العین کے موجود نہ ہونے سے خیالات اور اعمال کی جو پراگندگی ان کے اندر پیدا ہو گئی ہے وہ بھی دور ہو اور ان کو نظر جمانے کے لیے ایک ایسا مطمح نظر بھی مل جائے جو نہ تو اصل اسلامی نصب العین کی سمت سے ہٹا ہوا ہو اور نہ اتنا زیادہ بلند ہو کہ اس کی بلندی کو دیکھ کران کی ہمتیں پست ہو جائیں (مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (حصہ سوم) ‘ابوالاعلیٰ مودودیؒ‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۷‘ عدد ۶‘ ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ‘ فروری ۱۹۴۱ء‘ ص ۴۱۲-۴۱۳)۔