مضامین کی فہرست


نومبر ۲۰۱۴

انسانی تاریخ میں برپا ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظرآتا ہے جیسے مکافاتِ عمل کا ایک سلسلہ ہے جس پر غور کرنے سے کامیابی یا زوا ل اور تباہی کا راستہ واضح شکل میں نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اگر تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرلی جائیں تو سورج کی روشنی بھی منظر کو صاف طور پر نہیں دکھاسکتی۔ قرآن کریم نے اسی انسانی فطرت کے پیش نظر جگہ جگہ اور باربار نئے سے نئے پیرایے میں اہلِ دانش، اہلِ ہوش اور اہلِ فکر کو پکارا ہے: کدھر جارہے ہو؟  این تذھبون! آنکھیں کھولو، مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ، زمین کو، آفاق کو، اپنی ہستی کو تجزیاتی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کردہ اشیا میں ایسی خوب صورتی ، ایسا تناسب، ایسا حُسن رکھ دیا ہے جو ہر دیکھنے والے کو اس کی قدرت، کمال اور قوت سے آگاہ کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والے کے پاس نگاہِ بینا ہو اور اس نے عقل کے دروازے بند نہ کردیے ہوں۔ فرمایا گیا: دیکھو آسمانوں اور زمین میں، رات اور دن کے اختلاف میں منہ بولتی روشن نشانیاں ہر اُس فرد کے لیے رکھ دی گئی ہیں، جو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔  (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰)

کلامِ عزیز کی روشن آیات اور حق و صداقت کے یہ جواہر باشعور تحریکی کارکنوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ: بازار میں اور دفتر میں، گھر میں اور مسجد میں، جہاں کہیں بھی ہوں، اس کی حمد، اس کے کلام پر غوروفکر اور اس کے حضور رات کی تنہائی میں اپنی بندگی کا ثبوت پیش نہیں کریں گے، ان کے کام میں برکت پیدا نہیں ہوگی۔

اس عظیم کتابِ ہدایت، ذکریٰ اور نور کے سایے میں زندگی گزارنے کا عہد کرنے والے ہرلمحے اپنے رب سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں ان افراد میں سے کردے، جنھیں وہ خود جہنم کی آگ سے محفوظ کر دے گا اور اپنے دامنِ عفو و مغفرت میں، اپنی اُس رحمت میں جس کی وسعتیں زمین اور آسمانوں کی مجموعی وسعتوں سے زیادہ ہیں، لیتے ہوئے نہ صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی میں، یہاں کے کاروبارِ حیات میں شرمندگی اور ناکامی سے بچاتا رہے، اوران میں شامل نہ کرے جو اپنے اُوپر ظلم کرنے والے ہوں۔ ان ابدی کلماتِ ہدایت کو اگر روزمرہ کی زندگی کی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو نقشۂ عمل بڑا واضح نظر آتا ہے۔

  • اوّلاً :اس بات کا شعوری طور پر اعلان کہ اصل قوت، اقتدار اور حاکمیت صرف اور صرف  اللہ رب العالمین کی ہے۔ چنانچہ اردگرد پائی جانے والی بیرونی قوتیں ہوں یا عوام کی طاقت،   عالمی منڈیوں پر سرمایہ دارانہ نظام قابض ہو یا نام نہاد سائنسی اور ٹکنالوجی پر عبور رکھنے والوں کے عظمت و کمال کے یک قطبی دعوے، یا پھر حکومت پر قابض افراد کا اپنی انتظامیہ اور قانونی اداروں اور عسکری قوت کی بنا پر بزعمِ خود ناقابلِ فنا اور غالب قوت ہونے کا دعویٰ ہو__ ان تمام ظاہری قوتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اللہ کے جو بندے حق کی گواہی کے لیے کھڑے ہیں، وہ بندے صرف  ایک بات کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا، اس کی صداے حق نے بندگیِ رب کی دعوت دی اور ہم نے بندگی کی اس دعوت کو قبول کر لیا۔ ہم نے اپنے آپ کو، اپنے نفس، اپنی برادری،اپنے خاندان، اپنی نسلیت، اپنی زبان، اپنے رنگ اور خون، اپنی سیاسی وابستگی ، اپنی مسلکی وفاداری، اپنے مادی مفادات، اپنے بزرگوں کی روایات و رسوم، غرض ہرہر چیز کو نکال کر صرف اُس ہستی کی بندگی میں دے دیا جو تمام مراسمِ عبودیت، قربانیوں ، دعائوں، سجدوں اور اعترافات کی مستحق ہے___ اسی کا نام توحید ہے۔

اس اعلانِ توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے والا ہر شخص اور خصوصیت سے  تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ وہ جس مالک کی بندگی میں آنے کا اعلان زبان سے کرتا ہے، اُس عہد کا پاس کرتے ہوئے اُس نے اپنی زندگی کے ایک دن میں، ہفتے کے   سات دنوں میں اور مہینے کے ۳۰دنوں میں کتنا وقت اپنے کاروبار اور پروفیشن کی ترقی میں صرف کیا، اور کتنے لمحات احتسابِ نفس کرتے ہوئے، اپنے ہرہرکام کو ستایش اور خودپرستی کی شکل میں نہیں، بلکہ اپنے کام میں کمی اور کمزوری تلاش کرنے میں صرف کیے۔

معاشرتی بگاڑ اور فریضۂ اقامت دین

یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے، جو بدنظمی کے عادی اور قانون شکنی پر فخر کرتے ہیں، جو مادیت کے غلام اور سیاسی مفادات کے بندے ہیں۔ یہ لوگ ہلڑبازی،     ناچ گانے کے رسیا ہیں۔ ہماری باتیں سن کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ بھلا ہم انھیں کیسے تبدیل کریں؟ کیوں نہ ہم بھی انھی نسخوں کو استعمال کریں؟ شاید اسی طرح بات دلوں میں اُتر جائے! لیکن وہ شعور جو قرآن کریم دیتا ہے وہ ایک نئے زاویے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ حسنِ صوت کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن چیخ پکار اور دھمکیوں کی سیاست کی جگہ حکمت ِدعوت اورموعظۂ حسنہ کی حکمت عملی سے روشناس کراتا ہے۔

یہ حکمت عملی وہی ہے جو انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اختیار کی۔ یہ دعوت بھی وہی ہے جسے   انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اپنے دور کے اُن جباروں، ناچ گانوں کے رسیا اور اپنی ذاتی عظمت اور اپنی شخصیت اور بزعمِ خود اپنی کرشمہ سازی پر فخر کرنے والوں کے سامنے پیش کی۔ یہ لوگ انبیا ؑ کی دعوت کا مذاق اُڑانے کے عادی تھے۔ اس کے باوجود انبیاے کرام ؑ بددل نہیں ہوئے، مایوس نہیں ہوئے اور انھوں نے دعوت کا کام جاری رکھا۔ ایسے افراد ہر دور میں رہے ہیں اور دعوتِ دین کا اعجاز یہی ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو گمراہی کے گرو سمجھے جاتے ہوں، انھیں خیارکم فی الاسلام میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ دعوت ان لوگوں کو جو ہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہوں،   پلک جھپکتے شمعِ رسالت کے پروانے بنادیتی ہے۔ یہی تو وہ چیلنج ہے، جسے ایک داعی اور ایک کارکن کو اپنے رب کی نصرت پر بھروسے کے ساتھ آگے بڑھ کر اختیار کرنا ہے۔ یہی اقامت ِ دین کا تقاضا ہے۔

اس دعوت اور دعوت کے طریق کار کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نمود و نمایش اور ریا کا کوئی دخل نہ ہو۔ خودستائی اور ہربات کی تان ’میں‘ پر آکر نہ ٹوٹتی ہو۔ اس دعوت کے طریقے میں حکمت ِ دین کو اختیار کیا گیا ہو، یعنی دعوتی ترجیحات متعین ہوں اور ایک ترتیب سے ،ایک منصوبے کے تحت اقدامات کیے جائیں۔ اگر رب کریم نے ایسے مواقع پیدا کردیے ہوں کہ کسی مقام پر برسوں سے قابض سیاسی قوتوں کی نااہلی، خرابی اور بدمعاملگی کی بنا پر عوام کوئی اور راستہ تلاش کرنے لگے ہوں، تو ایسے حالات میں اپنے رب کے ساتھ اپنی وابستگی میں اضافہ، اپنی کمزوریوں کا جائزہ اور اس کی نصرت کے سہارے روشن مستقبل کی حکمت عملی پر بلاتاخیر دن رات کی محنت سے کام میں لگ جانا ہی دینی مصلحت ہے۔

اقامت ِ دین کی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ کو دن اور رات کی متاعِ حیات سمجھتے ہوئے اختیار کیا جائے، اس تگ و دو اور جہاد کا مقصد نہ محض حصولِ اقتدار ہو، نہ عوامی مقبولیت و شہرت،     نہ علمی کمال کا اعتراف، بلکہ صرف اور صرف وتوفنا مع الابرار کی تمنا اور اس تمنا کی تکمیل کے لیے ہمہ تن شہادتِ حق میں مصروف ہوجانا ہو۔

اس جدوجہد میں مصروف ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا ہر چھوٹا یا بڑا عمل، وہ جو عالم الغیب والشہادہ ہے ،اسے اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے اور ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ایک عام دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں کسی اجتماع گاہ میں کرسیوں کی صف بنانا، یا دریاں بچھانا، یا شرکاے اجتماع کا خوش دلی سے استقبال کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے، لیکن وہ جو  سراپا رحم و رحمت ہے، وہ ایسے کام کو بھی جس میں جیب سے ایک پیسا خرچ نہ ہو رہا ہو، ایک صدقہ قرار دیتا ہے۔ لکھنے والے اس چھوٹے سے عمل کو بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے اس نے اپنی جیب سے سونے کا پہاڑ اللہ کی راہ میں انفاق کر دیا ہو۔

مستقبل کی حکمت عملی کے تقاضے

اقامت ِ دین کی مستقبل کی حکمت عملی کا ہدف جہاں اس دنیا میں متوقع نتائج کے تناظر میں ہونا ہے، وہاں اُس سے بھی زیادہ آخرت میں کامیابی کے نقطۂ نظر سے طے ہونا چاہیے۔ اس دنیا میں سیاسی اتحاد ہو یا معاشی اتحاد، وقتی افہام و تفہیم ہو یا طویل المیعاد اسٹرے ٹیجک تعاون، ایسے تمام معاہدوں پر غور کرتے ہوئے مقصود و مطلوب حصولِ اقتدار نہیں بلکہ حصولِ رضاے الٰہی ہونا چاہیے۔ اس جادۂ حق پر عمل کرتے ہوئے حصولِ مقصد کے لیے عمرنوح ہی کیوں درکار نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے یہود و نصاریٰ کے حوالے سے بُرہانِ قاطع ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ وہ کبھی اسلامی جماعت کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ اگر یہودو نصاریٰ کے رویے پر اصولی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو وہ طرزِعمل غیریہودی اور غیرنصاریٰ میں بھی پایا جاسکتا ہے، یعنی جو اپنے وعدوں کو مسلسل توڑنے اور ان کے خلاف عمل کرنے کی ایک تاریخ رکھتے ہوں۔

اس تناظر میں تحریکاتِ اسلامی کو اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے یہ سخت فیصلہ کسی نہ کسی مرحلے میں کرنا پڑتا ہے کہ ایک وقتی مفاد کو ترجیح دی جائے یا ابدی کامیابی کے لیے طویل جدوجہد کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میںحکمت دین (جو اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے) کے ساتھ زمینی حقائق کا جامع علم رکھنا انتہائی اہم اور ضروری ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کہیں مڈٹرم انتخابات کا معاملہ ہو تو اپنی مقبولیت و شہرت کا اظہار کرنے کے لیے ہرہرمقام سے افراد کو قیادت کے لیے کھڑے کر دینا جذباتی اعتبار سے تو شاید قابلِ فہم ہو مگر طویل عرصے کی حکمت ِعملی کے اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ہماری کامیابی کا انحصار اصولی اور اخلاقی برتری پر ہے، عوامی برتری پر نہیں۔ ممکن ہے قریب تک دیکھنے والی نگاہ کے لیے ایک اچھا کام ہو، لیکن وہ جو دُور رس نگاہ رکھتا ہو اس کے لیے فوری اور بھاری کامیابی کی جگہ وہ عمل جو چاہے چھوٹا نظرآئے مگر دیرپا ہو اور مطلوبہ تبدیلی کے لیے مؤثر ذریعہ بنے، کہیں زیادہ اہم ہے۔ انبیاے کرام ؑ اور اہلِ حق کی نظر ظاہری سے زیادہ اس کامیابی پر رہی ہے جو جوہری اعتبار سے دین کے قیام کے لیے ممدومعاون ہو اور سب سے بڑھ کر جو آخرت میں جواب دہی کے وقت ساتھ دے سکے۔ گویا سیاسی حکمت عملی ہو یا انسانوں کو دین کی طرف بلانے کے ذرائع، ہرشعبے میں اصل ہدف آخرت کی کامیابی اور ’ابرار‘ کے ساتھ جنت میں داخلے کی طلب ہو، تو پھر دنیوی اعتبار سے بھی مفید اور دیرپا اثرات رُونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی یہی توشۂ نجات ہوں گے۔ اس پس منظر میں ہماری کامیابی اور ناکامی کا معیار محض دنیا طلب قوتوں سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی یہاں کی ظاہری ہاری ہوئی بازی بھی بہت بڑی کامیابی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

ایک ظاہربین نگاہ کے لیے تو قریب المیعاد کامیابی ہی قوت کا مظہر ہوتی ہے کہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہوجائے۔ کسی طرح ایک مروجہ نظام کو چیخ پکار کے ذریعے ایک نام نہاد، غیرمنصفانہ، غیرجمہوری نظام قرار دے کر گلی کوچے میں ہلڑبازی کرنے والوں کی مدد سے گرا کر کرسیِ اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ مگر ایسی تبدیلی صرف قصرِاقتدار کے پہرے داروں کی تبدیلی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن وہ جو بجاے خود نہ اقتدار کا طالب ہو، نہ سیدھے یا ٹیڑھے قوتِ نافذہ پر قبضہ کرلینے کو فتح سمجھتا ہو، بلکہ اُس کے لیے اصل مقصود اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی ہوتی ہے، وہ اُس راستے کو اختیار کرتا ہے جو چاہے طویل ہو لیکن ہرقدم انبیاے کرام ؑ کے نقوشِ پا کی پیروی میں آگے بڑھ رہا ہو۔

وہ جو روشن مستقبل اور اُخروی کامیابی کے لیے پکارتے ہیں، جو نمازوں میں خشیت اختیار کرتے اور اپنی عبادات میں توازن و اعتدال اختیار کرتے ہیں، جو اپنے وعدوں اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں، جو اپنی پاک بازی پر قائم رہتے ہیں، جو اپنے اہلِ خانہ کو اپنے عمل سے دعوت دے کر نارِ جہنم سے بچانے والے ہوتے ہیں___ ایسے ہی اہلِ ایمان کے لیے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں صرف ۲۰ افراد ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ دنیا ہجوم جمع کر کے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے اور غضب ناک ہجوم کے بل پر نظاموں کو تہس نہس کرنے کا اعلان کرتی ہے، جب کہ ربِ کریم ان اہلِ ایمان کی صرف ۲۰ کی نفری کو جنھیں ہم کسی شمارقطار میں نہیں لاتے ۲۰۰؍افراد پر بھاری ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ وہ ۲۰؍ افراد کیا اپنی قوتِ ایمانی،  ایثار و قربانی، مقصد کی لگن، منزل کے واضح شعورسے کس حد تک آگاہ ہیں۔ اگر ان کا تصورِ منزل دھندلا گیا ہو، اگر ایثاروقربانی کی جگہ نفسا نفسی ہو، اگر قوتِ ایمانی کی جگہ محض افرادی قوت کو کامیابی کا پیمانہ بنابیٹھیں، تو یہ قصور حکمت ِعملی کا نہیں ان افراد کا ہے جو آغازِ سفر ہی کو اپنی منزل سمجھ بیٹھے ہوں۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو راہِ حق میں داعی بن کر نکلا ہے، کیا اُس نے واقعی وہ ہجرت کی ہے جو اسے ان تمام تعلقات اور وابستگیوں سے آزاد کرے، جو ماضی میں اس کی زندگی کا حصہ رہی ہیں؟ کیا وہ اب بھی اپنے کاروبار میں وسعت و برکت کی بنا پر اپنے آپ کو طاقت ور انسان سمجھتا ہے؟ کیا وہ اب بھی قیادت و سربراہی کرنے والے افراد کے اردگرد رہ کر اپنے مستقبل کے روشن امکان تلاش کرتا ہے؟ کیا وہ منظرنامے میں نظر نہ آنے کو پسند کرتا ہے اور اُس اینٹ کی طرح جو منوں  ملبے کے بوجھ تلے دب کر بنیاد کا حصہ بن جاتی ہے اور جسے کبھی کوئی پرچم لگاکر نمایاں نہیں کیا جاتا، خاموش کارکن کی حیثیت سے اپنے دعوتی کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ کیا وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف جدوجہد کرتے وقت نہ صرف اپنے وقت، اپنی صلاحیت، اپنے مال، بلکہ اپنی جان کو بھی بازی پر لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔

ایسے افراد کے لیے ان جنتوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جہاں ہر وہ شے ہے جو ایک متلاشیِ حق کو خوش، مطمئن اور مسرور کرسکتی ہے۔ اس حقیقی منزل تک پہنچنے کا راستہ جس وادی سے گزرتا ہے، وہ یہی چند روزہ دنیا ہے جہاں اصل کارزارِ حیات حق و باطل کی کش مکش ہے۔ جہاں ایک شخص کو صرف اور صرف ہدایتِ الٰہی اور سنتِ رسولؐ سے اپنی حکمت عملی اور  طریق کار کو اخذ کرنا ہے۔ ہمارے لیے غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہم ان ۲۰؍افراد میں سے ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ وہ ہستی کر رہی ہے جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے!

اس منزل کے حصول کے لیے جو وصیت قرآن کریم فرماتا ہے وہ بڑی واضح، عملی اور جامع ہے، یعنی اہلِ ایمان کا صبر کی روش کو اختیار کرنا اور مضبوطی کے ساتھ، یکسو ہوکر اسلامی دعوت میں لگ جانا۔ موعظۂ حسنہ اور حکمت کے ساتھ دین کو بلاکسی تردد اور مداہنت کے پیش کرنا۔ وہ ایوانِ حکومت ہو یا عوامی اجتماع، حق کی بات کو پہنچانا اور اس میں کمی بیشی نہ کرنا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ بعض سیاسی اتحادوں سے وقتی فائدے ہوسکتے ہیں، جو شاید دعوت کی توسیع میں آسانی پیدا کردیں گی، اس کے باوجود ان قوتوں کے ساتھ شامل نہ ہونا جو اپنی ذاتی زندگی میں اور سیاسی تاریخ میں دین کا احترام نہ کرتی ہوں۔ عقل کہتی ہے کہ کشاکش کا حصہ بننے سے تنہا صدیوں تک جدوجہد کرنا زیادہ برکت کا باعث ہے۔

بلاشبہہ بعض مشروط اتحاد ایسے ہوسکتے ہیں جو وقتی مصلحت کی بنا پر کیے جائیں لیکن وہاں بھی اس بات کا خیال رکھنا کہ تحریک کسی ایسے کام میں تعاون نہ کرے جو دین کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہو۔ جس طرح کفر ملت واحدہ ہے ایسے میں قرآن کریم چاہتا ہے کہ اسلامی جماعت کے افراد کی پہچان صبر، ربط باہمی اور تقویٰ ہو: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۲۰۰) ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر پر قائم ہوجائو، صبر پر ثبات کے ساتھ قائم رہو، آپس میں جڑجائو، ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سے، تمھارے دل اور تمھارے احساسات سب یک جان ہوجائیں‘‘۔

اصْبِرُوْا کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا اور فوری طور پر کہا گیا وَ صَابِرُوْا، یعنی یہ ایک انفرادی صفت ِ محمودہ نہیں ہے بلکہ اسے اجتماعی طور پر اختیار کیے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس صبر کا مفہوم    نہ صرف انفرادی طور پر استقامت ہے بلکہ تحریک کا مجموعی طور پر اس طرزِعمل کو اختیار کرنا ہے جو  اس کے اخلاص، تقویٰ، بے لوثی اور صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول کا مظہر ہو۔

تحریکاتِ اسلامی کی مستقبل کی حکمت عملی میں جائزہ و احتساب کو مرکزیت حاصل ہے کہ ہماری آج تک کی پالیسی میں کہاں خلا تھا، کہاں عاجلانہ اقدام کیا گیا، اور کہاں مستقبل کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی اختیار کی گئی، جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصول ہوں، تو پھر وہ غیبی نصرت، جس کا وعدہ ماضی میں انبیاے کرام ؑ کی اُمتوں سے کیا گیا تھا، جس کا وعدہ اُمت محمدیہؐ سے کیا گیا ہے، وہ نصرت آئے گی۔

حالیہ سیاسی بحران: چند غورطلب پہلو

قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع بارہا آتے ہیں جب دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھے کہ ملک میں افراتفری ہے،قانون کو پامال کیا جا رہا ہے، حکومت اور مہذب معاشرہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے، حکومت ماضی اور حال سے کوئی سبق لیے بغیر اپنی روش پر قائم ہے، معیشت غیرمستحکم ہے، ثقافتی یلغار جاری ہے۔ جس ملک کو پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے وہ ہماری شہری آبادی پر بم باری کر رہا ہے اور سیاسی بیانات میں خصوصاً کشمیر کے حوالے سے وہ باتیں دہرا رہے ہیں جن کا ہرلفظ زہر، عناد اور تکبر سے بھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں دارالحکومت میں دھرنے کی شکل میں دو سیاسی جماعتوں نے اپنی حمایت اور قوت کے مظاہرے کے ساتھ ایسی صورت حال پیدا کردی کہ اچھے خاصے باشعور افراد بھی ملک کی سالمیت، یک جہتی اور تحفظ کے حوالے سے خاصے فکرمند نظر آتے ہیں۔

اس تناظر میں کیا ایک عام شہری سیاسی منظرنامے کے پیش نظر مستقبل کو روشن اور کامیابی سے ہم کنار دیکھ رہا ہے یا اُس میں ہمت اور ارادے میں کمی اور شدید مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے؟ اس حوالے سے برقی ابلاغ عامہ نے خصوصاً جو کردار ادا کیا ہے، قوم اسے کس نگاہ سے دیکھتی ہے، اور اس عرصے میں جو سیاسی مطالبات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں، ان کے کیا اثرات ملک کے اندر اور عالمی تناظر میں پاکستان کی تصویر (image) پر پڑ رہے ہیں؟ ملک میں سیاسی ارتقا کے نقطۂ نظر سے دو جماعتوں کی مہم جمہوری روایت کو تقویت دے گی یا تبدیلی یا انقلاب کا نعرہ دوبارہ قوم کو اُس مقام پر لاکھڑا کرے گا کہ ماضی کے چار مارشل لائوں کی طرح ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ سیاسی بساط کو لپیٹ دیا جائے، اور فوج ملک کی نجات دہندہ بن کر ایک پیشہ ورانہ نمایندہ حکومت  اپنی سرپرستی میں قائم کرنے کے بعد یہ طے کرے، کہ اسے دوبارہ اپنی بیرکوں میں واپس جانا ہے، یا ماضی کی طرح کم از کم ۱۰ برسوں کے لیے ملک میں اصلاح کے نام پر فوج کو سابقہ فوجی سربراہوں کی طرح جمہوریت کے احیا کے نام پر جمہوریت کا قتلِ عام کرنا ہے؟

یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج قوم کے ہرباشعور فرد کو پریشان اور متفکر کر رہے ہیں۔ یہ سوالات کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ ماضی میں جب بھی فوج نے سیاسی اقتدار سنبھالا تو اسی نوعیت کے سوالات قوم کے ذہن میں اُبھرے تھے۔ اب ان کی شدتِ تاثیر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ عامہ مسلسل مایوسی اور الزام تراشی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک جانب حکومت مخالف صحافتی اتحاد اور دوسری جانب حکومت حمایتی صحافتی اتحاد جس طرح حالات کا رُخ دکھا رہا ہے،   اس نے ابلاغ عامہ کی غیرجانب داری اور معلومات کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کرنے اور براہین پر مبنی واقعات پیش کرنے پر سے قوم کے اعتماد کو اُٹھا دیا ہے اور ابلاغ عامہ صحافتی دیانت (professional integrity) سے عوام کو حالات و واقعات سے مطلع کرنے کے بجاے خود سیاسی پریشر گروپوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔

جب برقی ابلاغ عامہ دن کے کم از کم ۱۰ گھنٹے مسلسل دو متضاد تصاویر پیش کر رہے ہوں،  ایک حکومت کے اقدامات کی توثیق اور عقلی جواز اور دوسری جانب چند ہزار افراد کے ایک ہجوم کا مطالبہ کہ اپنی ناکارہ کارکردگی کی بنا پر حکومت ِوقت مستعفی ہوجائے اور پانچ سال تک انتظار کرنے کے بجاے فوری طور پر مستعفی ہوجائے اور چند ماہ میں تازہ انتخابات کرائے جائیں، تو نہ صرف مغالطہ بلکہ حالات سے مایوسی کا رجحان بھی تقویت پکڑنے لگتا ہے۔

ان حالات سے نجات کی راہ کیا ہو اور کس طرح فوج کی دخل اندازی کے بغیر حالات کو  صحت مند اور تعمیری رُخ پر لے جایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہرباشعور شہری کو  غور کرنے کی ضرورت ہے۔

دو سیاسی جماعتوں کے گذشتہ مہینوں کے احتجاجی منظرنامے نے بعض بنیادی پہلو اُجاگر کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کے عوام پاکستان میں دو پارٹیوں اور فوج کے یکے بعد دیگرے ملک پر حکمرانی کرتے رہنے سے تنگ آچکے ہیں اور اب دو نام نہاد بڑی پارٹیاں عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکی ہیں۔ دونوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ فرق صرف انیس بیس کا ہے۔ جب ایک پارٹی پانچ سال حکومت کرتی ہے تو لوگ ایک ایک دن گن کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں کب ان سے نجات دے گا، اور جب دوسری پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو محض چند دن کے لیے تویہ احساس اُبھرتا ہے کہ شاید یہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر نادم ہوکر قوم کو معاشی، سیاسی، اخلاقی اور اندرونی وبیرونی خطرات سے محفوظ کرنے میں کوئی پیش رفت کرے گی، لیکن چند ماہ کے بعد ہی یہ اُمید دم توڑتی نظر آتی ہے اور پھر تبدیلی کے انتظار کی گھڑیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

لیکن آخر کب تک؟ یہی وجہ ہے کہ حالیہ احتجاج نے قوم کی ایک نفسیاتی ضرورت کو پورا کیا اور اسے بلندآواز سے یہ اعلان کرنے کا موقع دیا کہ وہ دو موروثی سیاست والی جماعتوں کی جگہ ایک تیسری نجات دہندہ قوت کی منتظر ہے۔ یہ ایک انتہائی مثبت طرزِعمل ہے جو اُبھر کر سامنے آیا ہے۔

اس فضا میں جو سوالات ہرباشعور شہری کے ذہن میں اُبھر رہے ہیں وہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ ملک کی آبادی کا تقریباً نصف یا ۶۰ فی صد حصہ نوجوان آبادی کا ہے اور کم از کم ایک سیاسی پارٹی نے ان نوجوانوں کو سابقہ انتخابات اور حالیہ احتجاج کی مہم میں شامل کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ اگر نوجوانوں کو صحیح طور پر متحرک کیا جائے تو ملکی حالات میں اصلاح کے لیے ایک تیسرے عنصر کا اُبھرنا اور کامیاب ہونا ایک ممکن بات ہے۔ بزرگ اور معمر سیاست کاروں کی سیاسی دانش مندی، تجربہ اور حکمت کے اعتراف کے ساتھ اب دَور نوجوان قیادت کا ہی ہے۔ اس لیے وہی سیاسی جماعت قیادت کی زیادہ مستحق ہوگی جو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کر ان کی قوت کو تعمیری رُخ دے اور روایتی سیاست سے ہٹ کر قومی مفادات کے حصول اور عوام کی مشکلات کے حل کے لیے خود قوم کی عملی شرکت کے ذریعے تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ تبدیلی کی ضرورت پر قومی اجماع ہے لیکن تبدیلی کون سی؟ اور نوجوانوں کو متحرک کرنے والا کون سا نعرہ؟مستقبل کی تعمیرواصلاح کی کون سی حکمت عملی اور کون سا ٹھوس قابلِ عمل منصوبہ قوم کو اس دلدل سے نکال سکے گا؟

۱۸ کروڑ انسانوں نے اپنی آنکھوں سے تبدیلی کے نام پر ہرشب نوجوانوں کو موسیقی اور رقص میں مصروف جو منظر دیکھا، اس پر قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ تبدیلی لانے کے دعوے دار   ایک جانب جس معاشی اور سیاسی حل کا ذکر کر رہے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی واضح پروگرام ہے اور کیا ایسی ٹیم موجود ہے جو اہلیت اور دیانت کے ساتھ انقلابی تبدیلیوں کا سفر کامیابی سے انجام دے سکے؟ محض جوش اور بھنگڑوں کے ذریعے تو یہ کام انجام نہیں پاسکتا۔ اس کے لیے جہاں نوجوان خون ازبس ضروری ہے، وہیں مقصد اور منزل کا صحیح شعور رکھنے اور اعلیٰ صلاحیت اور اچھے اخلاق کی حامل نئی قیادت بھی بشرط لازم ہے۔ ضرورت ایسے نوجوانوں کی ہے جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے دیے ہوئے تصورِ پاکستان پرسنجیدگی سے یقین رکھتے ہوں۔ جن کے شب و روز اس ملک کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف ہورہے ہوں، جنھیں محض موسیقی اور رقص کی کشش کھینچ کر نہ لائی ہو بلکہ وہ سوچ سمجھ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن سے اعلیٰ کارکردگی اور بہترین اخلاق دونوں کی توقع کی جاسکے۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو جس طرح ایک طوفان کی طرح تبدیلی کا نعرہ اُبھرا اور اسے پذیرائی ملی، اس رفتار سے شام کی محفلوں، بیانات اور عمل میں تضاد نے اُس تیسرے راستے (option ) کی اُمید کی لَو کو مدہم کردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انھیں محض شورشرابے اور اُچھل کود کی جگہ ایک واضح نقشۂ عمل دے کر متحرک کیا جائے، تاکہ قوم مایوسی اور نااُمیدی سے نکل سکے اور نوجوان علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے سکیں۔

ملک کی دو آزمودہ سیاسی پارٹیوں اور دیگر جماعتوں نے اس سیاسی ارتعاش کے دوران جس عزم کے ساتھ دستورِ پاکستان کی پاس داری پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے، چاہے اس کا سبب ان کی اپنی کوئی ذاتی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود یہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے مقابلے میں جن جماعتوں نے دستور اور اسمبلی کے ادارے کو یا عدلیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ماوراے دستور اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، شاید انھیں جلد یا بدیر اپنے موقف کی کمزوری کا احساس ہوجائے گا۔

سیاسی عمل کا تحفظ اور تسلسل ملکی مسائل کے دیرپا حل کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک سے افلاس، بھوک، تعلیم کی کمی، مغرب کی اندھی تقلید اور غلامی، ریاستی اداروں کی کمزوری، فرقہ واریت، اسلام کے نام پر تشدد کا استعمال، اور تشدد کو دُور کرنے کے بہانے اسلام پر ہاتھ صاف کرنے کی خواہش، جہاد کو دہشت گردی سے وابستہ کرنا، بعض علاقائی اور قبائلی روایات کو پہلے اسلام قرار دینا اور پھر ان کے پردے میں دراصل اسلام پر تنقید کرنا، ان مسائل کو جو ہمارے آج اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، انھیں بلاضرورت اُبھار کر پیش کرنا___ یہ اور ان جیسے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ قوم کے سامنے ایک ایسا واضح اور قابلِ عمل نقشۂ کار پیش کیا جائے جو بجاے نظری حل پیش کرنے کے، عملی حل پیش کرے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کا فیصلہ تو مفکرِپاکستان علامہ اقبالؒ اور بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ کے ۱۰۰ سے زیادہ ارشادات کی روشنی میں قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں دوٹوک الفاظ میں رقم کیا جاچکا ہے کہ اس ملک کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ دستور میں دیے ہوئے قومی پالیسی کے اصولوں کی روشنی میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، مفاد پرست طبقات کی گرفت سے قوم کو نجات دلائی جائے اور تعمیرو تشکیلِ نو کے لیے صحیح ترجیحات کے تعین کے ساتھ ان پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی اور مدت کے تعین کے ساتھ نقشۂ کار پیش کیا جائے، تاکہ قوم جس تیسری قیادت کی تلاش میں ہے، اُس قیادت کی طرف سے قوم کے سامنے ایک قابلِ عمل منصوبہ آسکے۔ نعروں، احتجاجوں اور دھرنوں کی جگہ معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی، ضلعی سطح پر پیش آنے والے مسائل کے حل شریعت کی روشنی میں ترتیب دینے کے ساتھ، ملک کے نوجوانوں کو اُس تبدیلی کے عمل میں مصروف کیا جائے جو مصلحانہ جہاد کا درجہ رکھتی ہو۔

تحریکِ اسلامی کے لیے امکانات

قرآنِ کریم نے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت ِعملی شیطان کی سو حکمت ِعملیوں پر غالب ہوتی ہے۔ پاکستان لازمی طور پر ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جب عوام نے ایک تیسرے حل اور تیسری پسند کے بارے میں کھل کر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی نے اس بحران میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنے ناقدین اور حامیوں اور حمایتیوں دونوں کی نگاہ میں ایک اچھا مقام حاصل کیا ہے، اور آج پاکستانی عوام اس بات کے شاہد ہیں کہ سنجیدہ،  بے لوث، قابلِ اعتماد اور تعمیری رُخ پر لے جانے والی قیادت تحریک میں موجود ہے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ بلاتاخیر ملک کے نوجوانوں کو تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے شہروں اور ضلعوں کی بنیاد پر ایک منصوبۂ عمل بنایا جائے۔ اس میں اس بات کا خیال رہے کہ   ہم کن تعمیری سرگرمیوں کو اختیار کرسکتے ہیں اور کم سے کم مدت میں نوجوانوں کی کتنی تعداد کو دعوتِ حق سے روشناس کرانے کے بعد ان کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ کردار کی تبدیلی اور    خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی بندگی اختیار کیے بغیر نوجوانوں کا کوئی جمِ غفیر ایک ہجوم تو فراہم کرسکتا ہے، حقیقی سماجی تبدیلی نہیں لاسکتا۔

آج تحریک کے لیے سنہری موقع ہے کہ تاریخ اسلامی تحریک کو ایک کلیدی کردار کی دعوت دے رہی ہے جس میں ملک و ملّت سے تمام مخلص اور خیرخواہ عناصر کو جمع کر کے اور نوجوانوں کی قوت کو صحیح طور پر منظم کر کے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست کی اس منزل کی طرف رواں دواں کیا جاسکتا ہے جو تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد اور ہدف تھا۔

اس تبدیلی کی بنیاد محض ہمارے دعوے نہیں ہوسکتے۔ ہمیں قوم اور خصوصیت سے نوجوانوں کو  متعین طور پر ایک ایسا منشور اور نقشۂ کار دینا ہوگا جو ان کی اُمنگوں، قوتوں اور صلاحیتوں کو تعمیری اور مثبت رُخ پر لے جائے، اور وہ ہنگاموں اور بھنگڑوں کی ثقافت سے نکل کر اقبال کے شاہینوں کی طرح نئے اُفق اور نئے محاذوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سہارے ملک و ملّت کا پرچم سربلند کرسکیں۔

قرآنِ کریم تعداد کی قوت کی جگہ تقویٰ، ایمان، اخلاص اور ایثار و قربانی کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تعمیر چاہتا ہے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا وہ صرف ایسے ۲۰ باشعور، مخلص، عادل نوجوانوں کو تربیت دے کر یہ اصول بیان کرتا ہے کہ یہ ۲۰ اللہ کے سپاہی، ۲۰۰ مسلح اور اعلیٰ ٹکنالوجی سے لیس افراد کو بآسانی شکست دے سکیں گے۔ گویا سوال صرف ۲۰ نوجوانوں کا ہے۔ یہ تربیت یافتہ نوجوان جن کے سامنے منزل واضح ہو اور لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرلیا گیا ہو، اپنے سے ۱۰گنا زیادہ باطل نظام کے ماننے والوں پر بھاری رہیں گے۔ یہ اعلان اُس کی طرف سے ہے جو انسانوں اور کائنات کا خالق ہے۔ جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ نوجوانوں کو متحرک و سرگرم کرکے  ملک گیر پیمانے پر عوام کی انتظار کی گھڑیوں کا جواب فراہم کیا جائے!

 یہ سوالات کہ کوئی اقلیت ایک غالب اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے اپنے وجود اور مفاد اور حقوق کو کیسے محفوظ رکھے، اور کوئی اکثریت اپنے حدود میں وہ اقتدار کیسے حاصل کرے جو اکثریت میں ہونے کی بنا پر اسے ملنا چاہیے؟ اور ایک محکوم قوم کسی غالب قوم کے تسلّط سے کس طرح آزاد ہو؟ اور ایک کم زور قوم کسی طاقت ور قوم کی دَست بُرد سے اپنے آپ کو کس طرح بچائے؟، اور ایک پس ماندہ قوم وہ ترقی و خوش حالی اور طاقت کیسے حاصل کرے جو دنیا کی زور آور قوموں کو حاصل ہے؟___ یہ اور ایسے ہی دوسرے مسائل غیر مسلموں کے لیے تو ضرور اہم ترین اور مقدم ترین مسائل ہوسکتے ہیں مگر ہم مسلمانوں کے لیے یہ بجاے خود مستقل مسائل نہیں ہیں، بلکہ محض اُس غفلت کے شاخسانے ہیں جو ہم اپنے اصل کام سے برتتے رہے ہیں اور آج تک برتے جارہے ہیں۔ اگر ہم نے وہ کام کیا ہوتا تو آج اتنے بہت سے پیچیدہ اور پریشان کُن مسائل کا یہ جنگل ہمارے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اور اگر اب بھی اس جنگل کو کاٹنے میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجاے ہم اس کام پر اپنی ساری توجہ اور سعی مبذول کر دیں، تو دیکھتے دیکھتے نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے پریشان کن مسائل کا یہ جنگل خود بخود صاف ہوجائے۔ کیونکہ دنیا کی صفائی و اصلاح کے ذمہ دار ہم تھے۔ ہم نے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنا چھوڑا تو دنیا خاردار جنگلوں سے بھر گئی اور ان کا سب سے زیادہ پر خار حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا۔

افسوس ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور سیاسی رہنما اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہر جگہ ان کو یہی باور کرائے جا رہے ہیں کہ تمھارے اصل مسائل تحفظِ قوم اور مادّی ترقی کے مسائل ہیں۔ نیز یہ حضرات ان مسائل کے حل کی تدبیریں بھی مسلمانوں کو وہی کچھ بتا رہے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھی ہیں۔ لیکن میں جتنا خدا کی ہستی پر یقین رکھتا ہوں، اتنا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ آپ کی بالکل غلط رہنمائی کی جارہی ہے، اور ان راہوں پر چل کر  آپ کبھی اپنی فلاح کی منزل کو نہ پہنچ سکیں گے۔

اصل مسئلہ

 میں آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ میرے علم میں آپ کا حال اورآپ کا مستقبل معلّق ہے اِس سوال پر، کہ آپ اُس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسولؐکی معرفت پہنچی ہے، جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے، اور جس کے تعلق سے آپ ___خواہ چاہیں یا نہ چاہیں ___بہرحال دنیا میں اسلام کے نمایندے قرار پائے ہیں۔

اگر آپ اُس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اُس کی سچی شہادت دیں، اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے، تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سُرخ رو ہو کر رہیں گے۔ خوف اور حزن، ذلّت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ  سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں، چند سال کے اندر چَھٹ جائیں گے۔ آپ کی دعوتِ حق اور سیرتِ صالحہ دلوں کو اور دماغوں کو مسخّر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی چلی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت و دیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ آئمہ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظریے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ جو طاقتیں آج ان کے کیمپ میں نظر آرہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہو گا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہو گی۔ مادّہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پا سکے گی، اور یہ آج کا دَور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالم گیر و جہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بے وقوف ہو گئے تھے کہ عصاے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کانپ رہے تھے۔

یہ مستقبل تو آپ کا اس صورت میں ہے، جب کہ آپ اسلام کے مخلص پَیرو اور سچے گواہ ہوں۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا رویّہ یہی رہا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر باربنے بیٹھے ہیں، نہ خود اس سے مستفید ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس کا فائدہ پہنچنے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر  نمایندے تو اسلام کے بنے ہوئے ہیں، مگر اپنے مجموعی قول و عمل سے شہادت زیادہ تر جاہلیت، شرک، دنیا پرستی اور اخلاقی بے قیدی کی دے رہے ہیں۔خدا کی کتاب طاق پر رکھی ہے اور رہنمائی کے لیے ہر امامِ کفر اور ہر منبعِ ضلالت کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ خدا کی بندگی کا ہے اور بندگی ہر طاغوت کی ‘کی جارہی ہے۔ دوستی اور دشمنی، نفس کے لیے ہے اور فریق دونوں صورتوں میں اسلام کو بنایا جا رہاہے۔ اور اسی طرح اپنی زندگی کو بھی اسلام کی برکتوں سے محروم کر رکھا ہے اور دنیا کو بھی اس کی طرف راغب کرنے کے بجاے اُلٹا متنفّر کر رہے ہیں، اور بعید نہیں کہ مستقبل اس حال سے بھی بدتر ہو۔

اسلام کا لیبل اتار کر کُھلّم کھُلّا کفر اختیار کر لیجیے تو کم از کم آپ کی دنیا تو ویسی ہی بن جائے گی جیسی امریکا، روس اور برطانیہ کی ہے۔ لیکن ’مسلمان ‘ہو کر ’نامسلمان‘ بنے رہنا اور  خدا کے دین کی جھوٹی نمایندگی کر کے دنیا کے لیے بھی ہدایت کا دروازہ بند کر دینا، وہ جرم ہے جو آپ کو دنیا میں بھی پنپنے نہ دے گا۔ اس جرم کی سزا جو قرآن میں لکھی ہوئی ہے، جس کا زندہ ثبوت یہودی قوم آپ کے سامنے موجود ہے، اس کو آپ ٹال نہیں سکتے، خواہ متحدہ قومیت کے ’اہون البلیتین‘ کو اختیار کریں یا اپنی الگ قومیت منوا کر وہ سب کچھ حاصل کرلیں جو مسلم قوم پرستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ٹلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اِس جُرم سے باز آجائیے۔

ھمارا مقصد

اب میں چند الفاظ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم کس غرض کے لیے اُٹھے ہیں:

 ہم ان سب لوگوں کو، جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں، یہ دعوت دیتے ہیں کہ: وہ اِس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر ہر ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی میں بھی قائم کرے، اور اجتماعی طور پر پوری قوم اپنی قومی زندگی میں بھی نافذ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں ،اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملات میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں، اور بحیثیت ِمجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً اسے قائم کریں،اور اپنے قول اور عمل سے دنیا کے سامنے اُس کی سچی گواہی دیں۔

ہم اُن سے کہتے ہیں کہ: مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمھاری زندگی کا اصل مقصد ’اقامت ِ دین‘ اور ’شہادتِ حق‘ ہے۔ اس لیے تمھاری تمام سعی و عمل کا مرکز و محو ر اِسی چیز کو ہونا چاہیے۔ ہر اُس بات اور کام سے دست کش ہو جائو جو اس کی ضد ہو اور جس سے اسلام کی غلط نمایندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویّے پر نظرثانی کرو، اور اپنی تمام کوششیں اس   راہ میں لگا دو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہو جائے۔ اس کی شہادت تمام ممکن طریقوں سے ٹھیک ٹھیک ادا کر دی جائے ، اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جو اتما مِ حجّت کے لیے کافی ہو۔(شہادتِ حق، ص ۱۷-۲۰)

ھمارا طریقۂ کار

یہی جماعت ِاسلامی کے قیام کی واحد غرض ہے۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے جو طریقہ ہم نے اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہیں اور انھیں صاف صاف بتاتے ہیں کہ اسلام کیا ہے، اُس کے تقاضے کیا ہیں، مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں، اور مسلمان ہونے کے ساتھ کیا ذمّہ داریاں [آپ پر ]عائد ہوتی ہیں؟

اس چیز کو جو لوگ سمجھ لیتے ہیں، ان کو پھر ہم یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کے سب تقاضے انفرادی طور پر پورے نہیں کیے جا سکتے۔ اِس کے لیے اجتماعی سعی [کوشش] ضروری ہے۔ دین کا ایک بہت ہی قلیل حصہ انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو تم نے قائم کر بھی لیا تو نہ پورا دین ہی قائم ہو گا اور نہ اس کی شہادت ہی ادا ہو سکے گی۔ بلکہ جب اجتماعی زندگی پر نظامِ کفر مسلّط ہو تو خود انفرادی زندگی کے بھی بیش تر حصوں میں دین قائم نہ کیا جا سکے گا اور اجتماعی نظام کی گرفت روزبروز اس انفرادی اسلام کی حدود کو گھٹاتی چلی جائے گی۔ اس لیے پورے دین کو قائم کرنے اور اس کی صحیح شہادت ادا کرنے کے لیے قطعاً ناگزیر ہے کہ تمام ایسے لوگ جو مسلمان ہونے کی ذمہ داریوں کا شعور اور انھیں ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، متحد ہو جائیں اور منظم طریقے سے دین کو عملاً قائم کرنے اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دینے کی کوشش کریں اور ان مزاحمتوں کو راستے سے ہٹائیں جو اقامتِ دین و دعوتِ دین کی راہ میں حائل ہوں.....

ہماری کوشش یہ ہے، کہ اول تو ایک ایک شخص اسلام کا زندہ گواہ ہو، پھر ان افراد سے ایک ایسی منظم سوسائٹی نشوونما پائے جس کے اندر اسلام اپنی اصل اسپرٹ میں کام کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہو، اور بالآخر یہ سوسائٹی اپنی جدو جہد سے نظامِ باطل کے غلبے کو مٹا کر وہ نظامِ حق قائم کرے جو دنیا میں اسلام کی مکمل نمایندگی کرنے والا ہو۔

بس یہ ہے ہمارا مقصد اور یہ ہے ہمارا پروگرام - ہم صرف اصل اسلام اور بے کم و کاست پورے اسلام کو لے کر اٹھے ہیں۔ مسلمانوں کو ہماری دعوت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آئو، ہم سب مل کر اس کو عملاً قائم کریں اور دنیا کے سامنے اس کی شہادت دیں۔

درسِ قرآن سورئہ مزمل

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱۵-۱۶) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھردیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔

آیات کا پس منظر

یہ سورئہ مزمل کی آیات ہیں۔ سلسلۂ بیان کو ذہن میں تازہ کرلیں۔ سب سے پہلے    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے لیے ہدایات دی گئی ہیں کیونکہ رسولؐ اللہ سے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ پر ایک بڑا بھاری قول (کلام) نازل کیا گیا ہے۔ اس لیے اس قول کے بار کو سنبھالنے کے لیے اور اس کی بھاری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے جس تربیت کی ضرورت تھی پہلے وہ بیان کی گئی ہے۔ آپؐ کو یہ ہدایت کی گئی کہ آپؐ تہجد کی نماز کے لیے راتوں کو کھڑے رہا کریں۔    آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ، اور اس کے اندر قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں، یعنی آہستہ آہستہ اور سمجھ کر۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اِِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا o (المزمل ۷۳:۵)، یعنی ہم نے آپؐ پر ایک بڑا بھاری قول نازل کیا ہے۔

کلامِ الٰہی ایک ایسی چیز ہے جس کے اُوپر یہ نازل ہو، اس کے اُوپر بھی نہایت بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے اور جن لوگوں تک وہ پہنچے ان پر بھی بھاری ذمہ داری عائدہوجاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی ہلکی پھلکی چیز نہیں ہے کہ جیسے آپ نے ایک ناول پڑھا اور رکھ دیا۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر یہ نازل ہوئی اس کا چین [اطمینان] سے، پائوں پھیلا کر سونا مشکل ہوگیا۔ جس پر یہ نازل ہوئی اس نے یہ سمجھا کہ اب اس پر کھربوں انسانوں بلکہ بے شمار انسانوں کی جو قیامت تک آنے والے ہیں، ان کی ہدایت و ضلالت (گمراہی) کی ذمہ داری میرے اُوپر آن پڑی ہے۔ اگر اس ہدایت کو ان تک پہنچانے میں میری طرف سے ذرہ برابر بھی کوتاہی ہوگئی، تو کل قیامت کے روز یہ حجت پیش کی جاسکتی ہے کہ  جن صاحب پر یہ ہدایت نازل ہوئی تھی انھوں نے ہم تک اسے پہنچایا ہی نہیں۔ اسی طرح سے  جن لوگوں کے پاس یہ ہدایت پہنچے ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ خدا کا کلام تمھارے پاس آگیا تھا اور تمھیں بتا دیا گیا تھا کہ کس راستے میں انسان کی نجات ہے اور کس راستے میں انسان کی تباہی ہے، تم نے خود اس پر کہاں تک عمل کیا اور بندگانِ خدا کو کہاں تک اس سے آگاہ کیا؟ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن یا تو تمھارے حق میں حجت ہے یا تمھارے خلاف حجت ہے‘‘۔

یہ قرآن آکر یونہی پڑا نہیں رہ جاتا۔ یہ یا تو اس شخص کے حق میں حجت ہوگی جس کے پاس یہ آیا۔ وہ خدا کے سامنے یہ حجت پیش کرسکتا ہے کہ مجھے آپ نے جو ہدایات دی تھیں ان پر مَیں نے خود بھی عمل کیا ہے اور اسے دوسروں تک بھی پہنچا دیا ہے۔ یہ حجت اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نجات کے لیے کافی ہوگی اگر یہ صحیح ہے اور اسے پیش کیا جاسکے۔ اگر ایک آدمی اس پوزیشن میں  نہیں ہے کہ خدا کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہہ سکے کہ میں نے خود بھی اس ہدایت پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک بھی پہنچایا، تو یہ اس کے خلاف حجت ہے کہ جب یہ ہدایت تمھارے پاس آئی تو تم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ اسی لیے یہ فرمایا کہ ایک بڑا بھاری قول ہم تمھارے اُوپر نازل کر رہے ہیں، اور اس کی تربیت کے لیے یہ ساری تیاری ہے۔

پھر بتایا کہ رات کو اُٹھنے کا فائدہ کیا ہے؟

رات کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے بارے میں فرمایا کہ یہ آدمی کے قلب اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرتی ہے۔ یعنی جو کچھ آدمی زبان سے دعویٰ کر رہا ہے واقعی اس کے دل میں بھی یہی کچھ ہے۔جو آدمی رات کو عبادت کے لیے خاموشی سے اُٹھتا ہے اور اس کے متعلق کسی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ یہ شخص رات کو اُٹھتا ہے اور خدا کی عبادت کر رہا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلصانہ تعلق ہے۔ اس کے بغیر یہ کام ہوہی نہیں سکتا کہ اس کا خدا کے ساتھ مخلصانہ تعلق ہو اور اس دوران نمایش کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس کے دل میں اخلاص ہوتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اور پرورش پاتا رہتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے وہ کبھی ٹھنڈا نہیں پڑنے پاتا۔ اسی وجہ سے آدمی کے دل و دماغ کے درمیان موافقت کے لیے اسے اخلاص کا بہترین نسخہ بتایا گیا ہے۔ یہ ایک آدمی کے قول کو بالکل راستی پر قائم رکھتا ہے۔ اس صورت میں آدمی جو کچھ بھی بولے گا وہ ایمان داری سے بولے گا اور اس کے دل میں بھی وہی بات ہوگی اور اس پر وہ مضبوطی سے قائم رہے گا۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ جو کام تمھارے سپرد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے دنیا تمھاری دشمن ہورہی ہے اور ہوگی، اس کام میں تم اس کے بغیر ثابت قدم نہیں   رہ سکتے کہ رب المشرقین و مغربین کو اپنا وکیل بنائو اور اپنا سارا معاملہ اس کے حوالے کر دو۔    وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) اور جو باتیں یہ لوگ تمھارے خلاف بناتے ہیں اس پر صبرجمیل کرو۔ ان دو باتوں کی یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ اپنی طاقت پر، یا اپنے ساتھیوں کی طاقت پر، یا دنیا کی کسی طاقت پر بھروسا نہ کرو۔ صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو اور اپنے معاملات اس کے حوالے کر دو۔ اس لیے کہ رب مشرق و مغرب تو وہی ہے۔ ساری کائنات کا مالک وہی ہے اور ساری طاقتوں کا مالک وہی ہے۔ دوسرے یہ کہ جو باتیں بھی وہ بنائیں ان پر صبر کرو اور صبر ہی نہیں بلکہ صبرجمیل کرو۔

صبرجمیل سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی خون کا گھونٹ پی کر چپ ہو رہے، ورنہ اس کے دل میں یہ ہو کہ کسی طرح موقع ملے تو میں اس سے انتقام لوں۔ یہ مجبوری کی خاموشی ہے اورمجبوری کا تحمل ہے۔ صبرِ جمیل اس چیز کا نام ہے کہ ایک آدمی بالکل ٹھنڈے دل سے یہ راے قائم کرے کہ میں حق کے لیے جو کام کر رہا ہوں اگر یہ لوگوں کو ناگوار ہے تو ان کی اپنی نادانی کی وجہ سے ہے اور یہ ان کی جہالت ہے کہ جو چیز ان کے لیے آبِ شفا ہے وہ اس کو اپنے لیے زہر سمجھ رہے ہیں، اور  اس کے پیش کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں۔ یہ نادان اور بے وقوف لوگ ہیں۔ میرا کام ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے کوشش کروں۔ اگر یہ نہیں مانیں گے تو اپنا بُرا کریں گے لیکن ان پر غصے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سخت پریشانی کی حالت سے دوچار ہو اور شدید بخار میں مبتلا ہو اور ہذیان کی کیفیت میں ڈاکٹر کو گالیاں دے رہا ہو۔ اس صورت حال میں وہ ڈاکٹر سخت   بے وقوف ہوگا جو اُلٹا اس پر غصہ ہو بلکہ وہ یہ سوچے گا کہ یہ اس قدر بُری حالت کو پہنچ گیا ہے کہ اسے اپنے ذہن پر قابو نہیں رہا۔ اس صورت میں ڈاکٹر اس مریض کو برداشت کرے گا تو یہ صبرجمیل ہوگا۔ وہ اس کی اصلاح میں لگا رہے گا اور کوشش کرے گا کہ اس کی یہ حالت درست ہو۔ اس لیے یہاں دو باتیں فرمائی گئی ہیں، یعنی اللہ پر بھروسا کرو اور صبرجمیل کرو۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا گیا کہ جو لوگ تمھارے خلاف شرارتیں کررہے ہیں، اگر ان کو اس دنیا میں سزا نہ بھی ملی اور یہ شرارتیں کرتے رہے تو پھر ان کے لیے آخرت میں معافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پر عموماً آخرت کا ذکر کرتے ہیں۔ آخرت کا عذاب ایسا ہے کہ اس سے کوئی ظالم بچ نہیں سکتا، جب کہ دنیا کا عذاب ایسا نہیں کہ لازماً ہر ظالم پر نازل ہوجائے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: درسِ قرآن سورئہ مزمل: ۱-۱۴، عالمی ترجمان القرآن،اکتوبر ۲۰۰۵ء)

کفار کو تنبیہہ

یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے اور اس کے بعد کفارِ مکہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔

اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل۷۳:۱۵-۱۶)   تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح    ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھردیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔

اس ترتیب میں خود ایک تنبیہہ موجود ہے ’جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول ؑ بھیجا تھا‘___ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو فرعون کا انجام ہوا تھا یہ انجام ان لوگوں کا ہوگا جو رسولؐ کی بات نہیں مانتے۔ آگے چل کر اس بات کو کھول بھی دیا گیا ہے۔

یہاں دیکھیے کہ کفارِ مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات دینے کے بعد مخاطب کیا جارہا ہے اور یہ ہدایات قرآنِ مجید میں دی گئی ہیں تاکہ وہ بھی سن لیں کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ رسولؐ کو خاموشی کے ساتھ ہدایات دی گئی ہوں اور دنیا کو پتا ہی نہ چلا ہو کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں، بلکہ رسولؐ کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ بھی اسی کلام میں بیان کی گئی ہیں جس کو رسولؐ نے پڑھا ہوگا اور ساری دنیا کو سنایا ہوگا اور ساری دنیا بعد میں اس کو سنتی رہے گی۔

اس کا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ مخاطب ہوں، جو مان نہ رہے ہوں اور کفر کے رویے میں پڑے ہوئے ہوں، ان لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں اور کس کام پر یہ رسول مامور ہے اور اس کو کس طرح کام کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

جب یہ چیز لوگوں کے سامنے آجائے گی کہ اس رسولؐ کو یہ ہدایات دی گئی ہیں، یہ اخلاق سکھائے گئے ہیں، یہ اس کی تربیت کا انتظام کیا گیا ہے، تو اس کے بعد مخالفین میں سے جس کے اندر ذرّہ برابر بھی انسانیت ہوگی، ذرہ برابر بھی شرافت ہوگی، وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اس کے بجاے اگر یہ ہدایات دی گئی ہوتیں کہ جو تمھیں ایک بات کہے تم اسے دس سنائو، یا جو تمھیں ستائے تم اس کے خلاف ایک جماعت تیار کرو جو ان کی خبر لے، یا یہ کہ تم خفیہ طور پر اس طرح سے تیاریاں کرو کہ ایک روز اُن کا تختہ اُلٹ دو۔ اگر اس طرح کی ہدایات دی گئی ہوتیں تو ان کو سننے کے بعد مخالفین میں سے ایک ایک آدمی جس کے اندر مخالفت کا ذرا سا بھی جذبہ باقی ہوتا تو وہ مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا۔

اس کے برعکس جب ان کو یہ سنایا گیا کہ میاں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر خدا کی عبادت کرو تاکہ تمھارے دل و زبان میں پوری طرح سے موافقت پیدا ہو، تاکہ تمھارے دل میں اخلاص پیدا ہو، خدا کے بھروسے پر کام کرو، جو کچھ تمھارے پاس ہے اس پر بھروسا نہ کرو۔اس کے بعد جو مخالف تھے اگر وہ ایمان لانے کے لیے نہ بھی تیار ہوں لیکن جس کے اندر ذرا سی بھی شرافت ہوگی تو وہ کہے گا کہ اس طرح کے آدمی کو گالی دینے کے کیا معنی ہیں، اس طرح کے آدمی کو پتھر مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر نہیں ماننا تو نہ مانو لیکن آدمیوں کی طرح اس کا مقابلہ کرو۔ یہ ہدایات کھلم کھلا publically لوگوں کو سنا دی گئیں کہ رسولؐ کو ان ہدایات کے ساتھ کام پر مامور کیا گیا ہے۔

شھادتِ حق کے تین پہلو

تیسری چیز یہ فرمائی گئی کہ ہم نے یہ رسول تمھاری طرف شَاہِدًا عَلَیْکُمْ (گواہ) بناکر بھیجا ہے، یعنی شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے گھر میں چپکے سے جو کام کرتے ہو اس کو بھی یہ رسول دیکھ رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ تم صحرا میں اگر تنہا ڈاکا مار رہے ہو تو رسولؐ اس کو دیکھ رہا ہے اور گواہی دے رہا ہے۔

اس کے دراصل تین مطلب ہیں۔

ایک یہ کہ یہ رسولؐ تمھارے سامنے حق کی گواہی دے رہا ہے جیسے آپ کہتے ہیں:  اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کہ مَیں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اسی طرح رسولؐ کے ذمے پہلا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر گواہی دے کہ حق کیا ہے؟ اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ گواہی قیاس یا فلسفے کی بناپر نہیں ہوتی۔ کوئی آدمی اگر اپنا فلسفہ بنائے کہ حقیقت غالباً   یہ ہوگی وہ اس پر گواہی نہیں دے سکتا کہ حقیقت یہ ہے۔ گواہی صرف وہی شخص دے سکتا ہے اور شہادت کا یہ اصول ہے کہ کوئی شخص عدالت میں جاکر یہ کہے کہ جناب میرا یہ خیال ہے کہ ایسا ہوا ہوگا تو عدالت اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ عدالت اس سے کہے گی کہ تمھاری آنکھوں دیکھی بات ہے تو بیان کرو، یا تم جانتے ہو تو بیان کرو۔ لیکن عدالت اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی کہ میں نے سنا ہے۔ سنی سنائی بات کو عدالت نہیں مانتی اور عدالت اس بات کو بھی نہیں مانتی کہ میرا یہ قیاس ہے، یا میرا   یہ گمان ہے کہ ایسا ہوا ہوگا۔ اس وجہ سے رسولؐ کو جو شہادت دینی ہے اس کی وجہ سے رسولؐ اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہے کہ وہ آنکھوں دیکھی بات کی شہادت دے، حقیقت اس کو معلوم ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت کا مشاہدہ کرایا ہے، اور وہ یہ علم رکھتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔   کوئی دوسرا تو قیاس کرے گا کہ یہ یہ علامات ایسی ہیں اور یہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر مَیں   اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کائنات کے کئی خدا نہیں ہوسکتے۔ صرف ایک خدا ہے۔ بہرحال یہ قیاس ہے۔ رسول اپنے علم کی بنا پر یہ شہادت دیتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں۔ وہ اپنے علم کی بنا پر شہادت دیتا ہے کہ فرشتے ہیں، آخرت ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے، نیز جنت اور دوزخ ہوگی۔ ان ساری چیزوں کے بارے میں وہ اپنے علم کی بنا پر شہادت دیتا ہے۔ یہ پہلی چیز ہے۔

دوسری چیز جو شہادت کے لیے ضروری ہے اور رسول شہادت کے جس مقام پر کھڑے کیے گئے ہیں وہ یہ ہے کہ جس چیز کو وہ حق قرار دے رہے ہیں خود ان کی اپنی زندگی بھی ٹھیک ٹھیک اس حق کا مظاہرہ کرنے والی ہو۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ جب رسول کھڑے ہوکر یہ کہتا ہے کہ لوگو! تمھارے اُوپر نماز فرض ہے۔ اس کے بعد اگر رسول ایک وقت کی نماز بھی چھوڑ دے تو شہادت ختم ہوجائے گی۔ اس نے نماز کی فرضیت کی جو شہادت لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر دی ہے وہ اپنی اس شہادت کو جھٹلا دے گا اگر وہ ایک وقت بھی اس کے خلاف عمل کرے گا۔ ایسے ہی معاملہ تمام گناہوں کا ہے۔ جن جن گناہوں کے متعلق رسول نے یہ کہا ہے کہ یہ گناہ ہیں ان سے تم بچو۔ یہ چیز حرام ہے اس سے تم پرہیز کرو۔ اگر رسول کی زندگی میں نعوذباللہ کوئی ایک بُرائی بھی ان میں سے ہو تو اس کے بعد اس کی شہادت ختم ہوجاتی ہے بلکہ اس کی شہادت اُلٹی پڑجاتی ہے۔ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب آپ نے توہم سے یہ کہا تھا کہ فلاں فعل بُرا ہے اور آپ اسے خود کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ شہادت جھوٹی ہوجائے گی۔ اس کا یہ کہنا بھی اس کی برائی ہے اگر اس کا عمل اس کے خلاف ہوگا جس کی وہ شہادت دے رہا ہے۔

اس وجہ سے دوسری چیز جو رسول کے سپرد کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس پاکیزہ زندگی کا مشاہدہ کرا دے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جس طرح کا انسان یہ قرآن بنانا چاہتا ہے اس طرح کا انسان بنانے کے لیے اس رسول کو مامور کیا گیا ہے کہ وہ کیسا انسان ہوتا ہے؟ اس کی زندگی کس قسم کی ہوتی ہے؟ اس کے اخلاق کیسے ہوتے ہیں؟ اس زندگی کے اندر فرائض کیا ہیں؟ اس کے اندر محرمات کیا ہیں؟ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی اخلاقی، روحانی اور مادی ترقی کے لیے درکار ہیں؟ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو اس راستے میں مانع ہیں؟ یہ شہادت بھی رسول کو اپنی زندگی میں دینی ہوتی ہے۔

 تیسری شہادت جس کے لیے رسول کو شاہد بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑے ہوکر رسول یہ گواہی دے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن تک مَیں نے آپ کا کلام پہنچادیا تھا۔ اگراس گواہی میں ذرہ برابر بھی کمی یا کوتاہی ہو یا ذرہ برابر بھی یہ غلط گواہی ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خود رسول کے خلاف prosecute (مقدمہ)کیا جاتا ہے، اور وہ لوگ جن کے خلاف رسول کو گواہی دینے کے لیے کھڑا کیا جاتا ہے بچ نکلتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس یہ حجت ہوتی ہے کہ حضور ہمیں تو متنبہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے رسول کے شاہد ہونے کی تیسری حیثیت یہ ہے کہ وہ آخرت میں اللہ کی عدالت میں کھڑے ہوکر یہ گواہی دے گا کہ ان لوگوں تک میںنے اللہ کا کلام پہنچا دیا تھا اور ان لوگوں کو مَیں نے اسلام کی پوری پوری دعوت دے دی تھی۔ اس کے بعد پھر ان لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم ہوگا۔ پھر ان سے بازپُرس ہوگی کہ جب یہ چیز تم تک پہنچ گئی تو اس کے بعد تم نے کیا کیا؟

رسولؐ کے شاہد ہونے کے بارے میں غلط تصور

رسولؐ کے شاہد ہونے کی یہ تین حیثیتیں ہیں۔ لوگ ان کے غلط معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کو اس لیے شاہد بنایا گیا ہے کہ وہ قیامت تک لوگوں کے اعمال کے اُوپر گواہی دے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھتا رہے کہ کون اپنے حجرے میں کیا کر رہا ہے؟ کون رات کی تاریکی میں کیا کر رہا ہے؟ اور کون جنگل میں کیا کر رہا ہے؟ یہ بالکل لغو بات ہے۔ اللہ کے رسول پر اتنی بڑی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اور اپنے رب سے لَو لگانے کے بعدوہ ہر ایک کو بیٹھا ہوا دیکھتا رہے کہ کون کیا کیا کر رہا ہے؟ کوئی گناہ کر رہا ہے تو اسے بھی بیٹھا    وہ دیکھتا رہے، کوئی شراب پی رہا ہے تو اس کو بھی دیکھتا رہے۔ رسول کے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا۔ جو لوگ رسول کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں وہ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کو اللہ تعالیٰ کے  حضور پہنچنے کے بعد بھی روحانی سکون میسر نہیں ہے۔ دنیا میں بھی جب تک تھے یہاں بھی گالیاں کھاتے رہے، پتھر کھاتے رہے اور مخالفین کی دشمنیاں بھگتتے رہے۔ اب ان کے سپرد یہ کام ہے کہ رات کی تاریکی میں زانیوں اور چوروں کو دیکھتے رہیں اور سرپر کھڑے ہوکر گواہی دیں۔ یہ بالکل لغو اور مہمل بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کا مطالبہ سواے اللہ تعالیٰ کے اور کسی سے نہیں ہوسکتا۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی انسان کو وہ بصارت نصیب ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے کہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت دیکھ رہا ہے۔ کبھی اس کی نگاہ کسی خاص چیز کو دیکھنے میں اتنی مشغول نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسری چیز کو نہ دیکھ سکے۔ کائنات میں جس وقت، جہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ یہ بصارت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اگر ایسا رسول کوئی ہو تو پھر اس میں اور اللہ تعالیٰ میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ ایسا نبی اگر کوئی ہو تو اسے شہادت کے لیے سماعت کی بھی ضرورت ہوگی جو دنیا کی ہرآواز کو ہروقت سنتا رہے اور کبھی اس کے کان ایسے مشغول نہ ہوں کہ اگر وہ اس وقت کسی چیز کو سن رہا ہو تو کسی دوسری چیز کو نہ سن سکے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں۔ اگر یہ سماعت بھی مخلوق کے لیے ہو تو پھر خدا اور بندے کے درمیان فرق کیا باقی رہ گیا۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عطا ہے۔ وہ سماعت اور بصارت جو اللہ تعالیٰ کی ذاتی ہے وہ اس نے اپنے بندے کو بخش دی۔ وہ صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے خدائی اپنے بندے کو بخش دی۔ وہ خود خدا ہے اور یہ بخشے ہوئے خدا ہیں۔ اس طرح کی مہمل باتیں وہ دینی مبالغہ ہے جس کے اندر اہلِ کتاب مبتلا ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب نے حضرت عیسٰی ؑ کی عقیدت میں ان کو خدا اور خدا کا بیٹا اور تین خدائوں میں سے ایک قرار دیا، یہ سب مبالغے کا نتیجہ تھا اور عقیدت کی زیادتی تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے درمیان یہ تصور بھی پیدا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کے معنی ہی یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو بالکل خدا بنا کر چھوڑ ڈالا ہے اور فرق صرف اتنا باقی رکھا ہے کہ وہ اصلی خدا ہے اور یہ عطائی خدا ہیں۔

اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۵) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔

اس جگہ ایک اور نکتہ ذہن میں ملحوظ رکھیے۔ عام طور پر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ حضرت موسٰی ؑ صرف بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے رہائی دلانے کے لیے اور مصر سے نکالنے کے لیے مامور کیے گئے تھے۔ یہ بات غلط ہے۔ ان کے مشن کا یہ بھی ایک حصہ تھا جس طرح قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ صرف اس کام کے لیے بھیجے گئے تھے اور  اس قوم کو ہدایت دینے کا کام ان کے سپرد نہیں کیا گیا تھا۔

یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اے اہلِ مکہ ! ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح کہ فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ جس طرح موسٰی ؑ نے فرعون کو اسلام کی دعوت دی تھی، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کو دعوت دی۔

فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱۶) (پھر دیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اُس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔

یہ کفارِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر تم اس رسولؐ کے مقابلے میں وہ روش اختیار کرو گے جو فرعون نے اختیار کی تھی تو پھر وہ نتیجہ دیکھو گے جو فرعون نے دیکھاتھا۔

بچوں کو بوڑھا کر دینے والا دن

فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ o السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖ ط  کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۷-۱۸)

 اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جائو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے۔

یعنی اگر آج تم نے اس رسولؐ کا انکار کیا اور پھر دنیا میں پھلتے پھولتے بھی رہے اور تم پر آج کوئی عذاب نازل نہ بھی ہوا، تمھاری تجارتیں چلتی رہیں، تمھارے کاروبار خوب کامیاب رہے، تمھاری مشیخیت اور سرداری چلتی رہی، تمھاری اولادیں پھلتی پھولتی رہیں۔ اگر یہ ہوا بھی تب بھی  اس بات کا امکان نہیں ہے کہ تم آخرت کے عذاب سے بچ سکو گے۔

پھر فرمایاگیا کہ اس روز کیسے بچو گے جس دن کی سختی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ یہ محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دن واقعی بچے بوڑھے ہوجائیں گے بلکہ جو بچے تھے ان سے بازپُرس ہونی ہے، جو بوڑھے یا جوان تھے ان سے بازپُرس ہونی ہے۔    یہ محاورہ ہے۔ اُردو زبان میں بھی ہم اس محاورے کو استعمال کرتے ہیں اور عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ کسی دن کی انتہائی سختی کو بیان کرنا ہو تو کہتے ہیں کہ بچوں کے بال سفید ہوگئے۔ اسی طرح سے بتایا گیا ہے کہ ایسا سخت دن ہوگا کہ جس میں تکلیف انسان کی برداشت سے باہر ہوگی۔ آسمان پھٹا پڑ رہا ہوگا۔ کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا ’’اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دن کبھی نہ آئے۔ اس دن کا آنا یقینی ہے۔ اس دن کی تم نے کیا تیاری کی ہے؟اگر اس رسول کا تم انکار کرتے ہو تو اس روز اللہ کے عذاب سے کس طرح بچ سکوگے؟

قرآن ایک نصیحت ھے

اِِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ ج فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا o(المزمل ۷۳:۱۹) یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔

تذکرہ کے معنی یاد دہانی، نصیحت اور سبق دینا ہے۔ وہ سبق دینا ہے جس سبق کو انسان بھول گیا ہے۔ ایک سبق وہ ہے جو انسان کی فطرت میں اترا ہوا ہے، اور ایک سبق وہ ہے جس کی مزید تائید تمام انبیاے کرام ؑ کرتے آئے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا میں مشکل ہی سے کوئی آدمی ایسا ہوگا جس کے کان میں یہ بات نہ پڑی ہوکہ خدا ہے۔ بلاشبہہ انکار کرنے والے انکار کریں لیکن یہ کہ خدا ہے___ یہ آواز ہر ایک کے کان میں پڑ رہی ہے۔ کئی مذاہب دنیا میں ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ خدا ایک نہیں ہے۔ اس کے باوجود دُوردراز کے انسانوں تک بھی یہ بات پہنچ رہی ہے بجز اس کے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ جنگل میں پڑا رہ گیا اور جانوروں میں پلا بڑھا۔ اس کا معاملہ الگ ہے ورنہ دُوردراز کے انسانوں کے کان میں بھی یہ آواز پہنچ رہی ہے۔

اسی طرح سے یہ بات کہ مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور جاکر جواب دہی کرنی ہے، اس کا تصور بھی تمام انسانوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ آدمی کے اندر بھی یہ احساس موجود ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم دنیا میں جو چاہیں عمل کریں اور اس کے بعد ہماری بازپُرس نہ ہو۔ یہ احساس ہرانسان کی فطرت کے اندر بھی اُترا ہوا ہے،اور یہ بات کانوں میں ضرور پڑی ہے۔ اس لیے کہ انبیا ؑ نے صدیوں تک ہزارہا برس تک اس کا اتنا صور پھونکا ہے کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہوگا جس کے کان میں یہ بات نہ پڑی ہو۔ اسی وجہ سے انبیا ؑ کو یاد دہانی کروانے والے اور قرآنِ مجید کو ذکر کہا گیا،  یعنی یاددہانی اور نصیحت۔ قرآنِ مجید کوئی نئی چیز آدمی کے دماغ میں نہیں اُتارتا۔ وہ چیز جو پہلے سے انسان کے دماغ میں موجود ہے اگروہ اسے بھول گیا ہو تو وہ اسے تازہ کرتا ہے۔

اسی لیے فرمایا گیا کہ رسولؐ نے حق کی گواہی دے دی ہے، تم تک حق پہنچادیا ہے۔ اگر رسولؐ کی بات نہ مانو گے اور فرعون کی طرح روش اختیار کرو گے تو خدا کی پکڑ سے نہ بچ سکو گے۔ نیز اس دن سے کیسے بچ سکو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا۔ لہٰذا قرآن تو ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔

نمازِ تہجد میں تخفیف

اِِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ o (۷۳:۲۰) اے نبیؐ، تمھارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دوتہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو، اور تمھارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔

یہ سورئہ مزمل کا دوسرا رکوع ہے۔ سورئہ مزمل کا پہلا رکوع مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوا تھا۔ دوسرا رکوع مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ پہلے رکوع کے ڈیڑھ سال بعد یہ نازل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات ٹھیک معلوم نہیں ہوتی ہے، اس لیے کہ آگے چل کر اس میں جہاد کا ذکر آتا ہے۔ یہ ذکر آتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں لڑنے کا سلسلہ مکہ مکرمہ میں نہیں مدینہ منورہ میں شروع ہوا تھا۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ یہ رکوع مکہ معظمہ میں ایک سال بعد نازل ہوا تھا صحیح نہیں ہے۔ اس حصے کو جو ایک طویل مدت کے بعد نازل ہوا ہے اس کو سورئہ مزمل میں اس وجہ سے شامل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی دور میں   رسولؐ اللہ کو اور آپؐ کے ذریعے آپؐ کے ساتھیوں کو تربیت کا ایک کورس کروایا گیا۔ یہ بتایا گیا تھا کہ جس کارِعظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کارِعظیم کے لیے آپ اپنے آپ کو کس طرح تیار کریں اور اس وقت آپ کو کہا گیا کہ رات کو کھڑے رہا کرو۔ قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o (۷۳:۲-۳) ’’رات کو آدھی رات سے کچھ کم یا آدھی رات سے کچھ زیادہ اللہ کی عبادت میں کھڑا رہا کرو‘‘۔یہ تربیت کا کورس اس زمانے میں تھا جب مکہ معظمہ میں ایک شدید کش مکش جاری تھی۔ دشمنی پورے زور کے ساتھ شروع ہوگئی تھی اور اہلِ ایمان اور اہلِ کفر کے درمیان ایک زبردست کش مکش تھی ۔ اس موقعے پر یہ ہدایت کی گئی کہ تم اپنے آپ کو اس کارِعظیم کے لیے کس طرح تیار کرو۔

اس کے بعد جو حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا اس میں اس کورس کے اندر کچھ تخفیف اور نرمی کی گئی ہے۔ اس وجہ سے اس حصے کو جو غزوئہ بدر کے کئی سال بعد نازل ہوا اسی سورہ میں شامل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ پہلا رکوع کئی سال پہلے نازل ہوا ہے اور دوسرا رکوع کئی سال بعد نازل ہوا ہے، ان کو یہ سمجھنے میں پریشانی پیش آتی ہے کہ سورت کے آغاز میں تہجد کے لیے کوئی حکم ہے اور سورت کے آخر میں کوئی اور حکم ہے۔ ایک ہی سورت میں یہ دو چیزیں کیسے ہیں؟

یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم راتوں کو، کبھی دو تہائی رات، کبھی ایک تہائی را ت اور کبھی آدھی رات اللہ کی عبادت کے لیے کھڑے رہتے ہو۔ اور یہی حالت بہت سے ان لوگوں کی ہے جو تمھارے ساتھ ایمان لائے ہیں،یعنی دوسرے اہلِ ایمان بھی اس طرح سے رات رات بھر کھڑے رہتے ہیں۔

وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ ط ( ۷۳:۲۰) اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے۔

اللہ رات اور دن کا حساب لگاتا رہتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ تم کتنی دیر کھڑے رہتے ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم حساب نہیں لگا سکتے۔ اس لیے کہ اس زمانے میں گھڑیاں تو تھیں نہیں کہ گھنٹے بجتے اور آدمی آواز سنتا۔ راتوں کی تاریکیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اُٹھتے تھے اور نماز کے دوران میں ان کی ساری توجہ کلامِ پاک کی طرف ہوتی تھی جس کو وہ نماز میں پڑھتے تھے۔ اس لیے اندازہ ہی نہ رہتا تھا کہ رات کو ہم کتنی دیر کھڑے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم حساب نہیں لگاسکتے لیکن ہم حساب لگاتے رہتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ عبادت میں تمھاری کتنی رات گزر گئی ہے۔

عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ (۷۳:۲۰) اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کرسکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی۔

یہاں فَتَابَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری توبہ قبول کرلی ہے بلکہ یہاں اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس خلوص کے ساتھ تم اپنے رب کی عبادت کر رہے ہو اور جس طرح سے تم عبادت کے لیے راتوں کو کھڑے رہتے ہو، اس وجہ سے اللہ تم پر مہربان ہے۔ توبہ کے ایک معنی کسی طرف جھکنے کے بھی ہیں۔ اس لیے فَتَابَ عَلَیْکُمْ  کامطلب یہ ہے کہ تمھاری طرف جھکا اور تمھاری طرف متوجہ ہوا، یعنی تم پر مہربان ہوا۔

فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط ( ۷۳:۲۰)  اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔

لہٰذا جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، اتنا پڑھ لو۔ اب اتنی زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نماز میں طول زیاد تر قرآن کی طویل قراء ت کی وجہ سے ہوتا ہے، باقی جتنی تسبیحات اوردُعائیں وغیرہ ہیں وہ ساری مختصر اور ملی جلی ہوتی ہیں، اس لیے فرمایا کہ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، اتنا پڑھو۔

عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی لا وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ز فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ لا (۷۳:۲۰) اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوںگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔

 اُوپر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہوا اور یہاں وجہ بیان کی گئی ہے کہ تم پر کیوں نرمی کی جارہی ہے؟ اس لیے نرمی کی جارہی ہے کہ کچھ لوگ بیمار ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تجارتی سفر کرنے والے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو لڑائیوں کی مصروفیت پیش آرہی ہے۔ اس حالت میں حکم کی وہ شدت باقی نہیں رکھی گئی جو کہ پہلے تھی۔ اس حالت میں نرمی کردی گئی۔ واضح رہے کہ رات کو تہجدپڑھنے کو معاف نہیں کردیا گیا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ رات کو تہجد پڑھنا بندکردو ۔ فرمایا گیا کہ تہجد کی لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو وہ پڑھو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بسااوقات رات رات بھر کھڑے رہنے کی نوبت آجاتی تھی۔ لیکن آپؐ کا بالعموم معمول یہ تھا کہ رات کے آخری حصے میں آپؐ  اُٹھتے تھے۔ تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد ایسے وقت پر تہجد کی نماز ختم کرتے تھے جب صبح کی اذان ہونے والی ہوتی تھی۔ صبح کی اذان ہوتی تھی تو اس کے بعد آپؐ  دو رکعت نفل پڑھ لیتے تھے اور پھر آپؐ  فرض نماز کے وقت تک لیٹ جایا کرتے تھے تاکہ آپؐ  پھر اُٹھ سکیں۔رات کے آخری حصے میں تہجد پڑھنے میں وہ تکلیف نہیں ہوتی تھی جتنی کہ پوری پوری رات یا آدھی رات تک تہجد پڑھنے میں ہوتی تھی۔

محفوظ سرمایہ کاری

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (۷۳:۲۰)’’اور نماز قائم کرو‘‘۔یہاں نماز قائم کرنے سے مراد فرض نماز ہے۔ وہ نماز جو پانچ وقت فرض کی گئی ہے اس کو قائم کرو۔ نمازِ تہجد میں تمھارے لیے تخفیف کردی گئی ہے لیکن نماز کی اقامت میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ نماز باقاعدگی سے ادا کی جائے۔

وَاٰتُوا الزَّکَـٰوۃَ (۷۳:۲۰) ’’اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘۔یہاں زکوٰۃ سے مراد وہ فرض زکوٰۃ ہے جو لازم کردی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جتنی زکوٰۃ فرض ہو لازماً نکالی جائے۔

وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط (۷۳:۲۰) ’’اور اللہ کو اچھا قرض دو‘‘۔یہ وہ زکوٰۃ و صدقات ہیں جو نافلہ ہیں۔ وَاٰتُوا الزَّکَـٰوۃَ میں فرض زکوٰۃ ہے اور وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا میں صدقات نافلہ (نفلی صدقات) ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں زکوٰۃ سے زائد، زیاد ہ سے زیادہ آدمی جو کچھ خرچ کرے وہ صدقات نافلہ ہیں۔

وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ (۷۳:۲۰) جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پائوگے۔

یعنی اپنے مرنے سے پہلے اپنی عاقبت کے لیے جو کچھ بھلائی تم آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے پاس موجود پائو گے۔ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ ایک پائی بھی جو تم نے خدا کے ہاں خرچ کی ہے اللہ کے ہاں وہ موجود پائو گے۔ کوئی نیک کام جو تم نے یہاں کیا ہے وہ ضائع ہونے والا نہیں۔

آدمی جو نیک کام کرتا ہے اس کے متعلق قرآنِ مجید میں دوسری بات اکثر یہ فرمائی گئی ہے کہ تم اسے آگے بھیج رہے ہو۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی رئیس آدمی کہیں آگے سفر کرنے کے لیے جانا چاہتا ہے تو قبل اس کے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچے وہ اپنا خیمہ و سامان اور عیش کے سارے سامان پہلے ہی بھیج دیتا ہے تاکہ جب وہ وہاں پہنچے تو سب کچھ پہلے ہی سے وہاں موجود ہو اور اس کے خیمے لگے ہوں۔ اس چیز سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ دنیا میں آدمی جو کچھ بھی نیک کام کر رہا ہے وہ اپنی عاقبت کے لیے آگے روانہ کر رہا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچے گا تو اسے موجود پائے گا۔

ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (۷۳:۲۰) وہی زیادہ بہترہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا گویا اسلام ایک آدمی کو جو اخلاقی تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے پاس جو کچھ ہے وہ اس نے استعمال کرلیا تو وہ اس دنیا میں استعمال ہوگیا۔ یہاں اپنی ذات پر خرچ کرلیا یا دنیا کی خاطر جو کچھ خرچ کرلیا وہ یہاں ختم ہوگیا۔ اس سے کسی اجر کا سوال آگے نہیں ہوگا۔ جو کچھ آگے چل کر آدمی کے کام آنے والی چیز ہے وہ مال، وہ محنت اور وہ کوششیں ہیں جو دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے،اس کے دین کی سربلندی کے لیے اور خلق کی بھلائی کے لیے آدمی کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آگے جانے والی ہے اور آگے محفوظ رہنے والی ہے۔ اگر ایک آدمی نے اپنے عیش کے لیے بہت شان دار محل بنا لیا ہے جس وقت وہ مرے گا وہ محل یہاں چھوڑ جائے گا۔ وہ محل وہاں منتقل ہونے والا نہیں ہے۔ البتہ جو بھلائی انسان نے اس دنیا میں کی ہے، اللہ کی راہ میں جو نیک کام کیے ہیں، یہ سارے کام آگے منتقل ہونے والے ہیں۔ یہ ضائع ہونے والے نہیں ہیں۔ یہ محض ایسا نہیں ہے کہ موت کی ایک ہچکی کے ساتھ سب کچھ ختم ہوگیا اور آگے کچھ نہیں ہے، بلکہ وہ آگے محفوظ رہنے والے ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ جو کچھ تم نے آگے بھیجا ہے وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر زیادہ ہے۔ دنیا میں آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے، فرض کیجیے کہ اپنی نیک نامی کے لیے خرچ کرتا ہے، تو اس کو اس کا اجر مل گیا اور نیک نامی ہوگئی یا اس کی شہرت ہوگئی، تعریفیں ہوگئیں۔ یہ یہاں اس کا اجر ہوگیا۔ اب آگے اس کے کسی اجر کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔اس کے مقابلے میں جس آدمی نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ہے اس کے اجر کی کوئی انتہا نہیں، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا اجر ہے اور ترقی کرنے والا ہے۔

یہ اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کے لیے ایک بکری ذبح کروائی او ر وہ تقسیم ہوگئی اور تھوڑا سا گوشت باقی بچ گیا۔ جب آپؐ گھر تشریف لائے تو آپؐ نے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا بکری ساری تقسیم کردی گئی ہے ؟ گھر والوں نے عرض کیا کہ ساری تقسیم کردی گئی ہے لیکن کچھ تھوڑا سا گوشت بچا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو کچھ تقسیم کردیا گیا ہے وہ بچا ہوا ہے، یہ بچا ہوا نہیں ہے۔ جو اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا گیا وہ اصل میں بچا ہوا ہے۔

یہ اسلام کی قدریں ہیں۔ اس معاملے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وہ چیز جو اللہ کی راہ میں آدمی نے خرچ کی وہ ضائع نہیں ہوگی بلکہ وہ محفوظ رہے گی۔ جو وہ اپنی ذات پر خرچ کرتا رہا ہے، یا اپنی اغراض پر، یا مفادات اور خواہشات پر خرچ کرتا رہا ہے، البتہ وہ ضائع ہوں گی۔

نیکی کے بعد استغفار

وَّاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (۷۳:۲۰) اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔

اب یہ دیکھیے کہ ان نیکیوں کا حکم دینے کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرلو۔ آدمی راتوں کو تہجد کی نماز بھی پڑھ رہا ہے، اللہ کی راہ میں جنگ بھی کر رہا ہے، اللہ کی راہ میں نمازیں بھی قائم کر رہا ہے، زکوٰۃ بھی دے رہا ہے اور قرضِ حسن بھی دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ اللہ سے استغفار کرو، یعنی گناہ پر ہی اللہ سے استغفار نہ کرو بلکہ نیکیوں پر بھی استغفار کرو۔ یہ ہے اسلام کا نقطۂ نظر! یہ نہیں ہے کہ اس بھروسے پر اطمینان سے گناہ کرو کہ اللہ معاف کردے گا۔ گناہ کرو اور آکر توبہ اور استغفار کرلو۔ یہ اسلام کا نقطۂ نظر نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں نیکیاں کرو، جانیں لڑائو اور راتوں کو کھڑے رہو اور پھر استغفار کرو۔

استغفار کیا ہے؟ استغفار کے اصل معنی ہیں: چشم پوشی کی درخواست کرنا۔ مغفرت کہتے ہیں درگزر اور چشم پوشی کو کہ کسی سے کوئی قصور ہوگیا تو اسے معاف کر دیا۔ اس کے قصور کو نہ دیکھا اور ویسے ہی درگزر کردیا۔

چشم پوشی کی درخواست کرنا یہ ہے کہ ہم سے جو کچھ ہوسکا حضور وہ خدمت ہم نے انجام دے دی۔ اس میں جو کچھ کوتاہی ہے اس سے درگزر فرمایئے۔ایک مومن کا کام یہ نہیں ہے کہ نیکی کرنے کے بعد غرور اور فخر میں مبتلا ہو کہ میں اتنا بڑا نیک آدمی ہوں۔ تہجد کی نماز پڑھے اور غرور میں مبتلا ہوجائے۔ یہ اس بندے کا کام نہیں ہے جو راتوں کو تہجد کی نماز پڑھتا ہو۔ یہ مومن کا کام نہیں ہے۔ جس آدمی کے دل میں یہ کبر اور فخر پیدا ہوگیا تو اس نے اپنی تہجد کو ضائع کر دیا۔ جس آدمی کے دل میں نیکی کرنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ میں تو بڑا نیک آدمی ہوں، حقیقت میں وہ بد آدمی ہے۔ وہ نیک آدمی نہیں ہے۔ اس نے اپنے اس غرور کی وجہ سے سب کچھ ضائع کر دیا۔

سچے مومن کی شان یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان لڑانے، مال خرچ کرنے اور محنتیں کرنے کے بعد پھر اللہ سے مغفرت کی دعا کرے کہ جو کچھ میرا فرض تھا میں وہ انجام نہیں دے سکا۔ جو مجھے کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کرسکا۔ جو کچھ عمل میں نے کیا ہے اس میں بیسیوں کوتاہیاں اور بیسیوں قصور ہیں۔ اگر آپ درگزر نہ کریں گے تو یہ سب کچھ ضائع چلا جائے گا۔ آپ درگزر فرمائیں اور چشم پوشی فرمائیں تو تب یہ قبول ہوسکتا ہے ورنہ میں جو تحفہ لایا ہوں وہ اس قابل نہیں ہے کہ آپ کی بارگاہ میں قبول ہو۔ یہ ہے نیکیاں کرنے کے بعد استغفار کرنے کا مفہوم۔

استغفار ہی تمام نیکیوں کو حقیقت میں نیکی بناتا ہے۔ اگر نیکی کرنے کے بعد استغفارنہ ہو تو وہ حقیقت میں نیکی نہیں بنتی۔ نیکی اس وقت بنتی ہے جب آدمی خدمت بجا لانے کے بعد بجاے غرور کے انکسار میں مبتلا ہوتا ہے، اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے، اور زیادہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور تربیت کی درخواست کرتا ہے۔

اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۷۳:۲۰) یقینا اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔

یعنی جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی سے جھکنے والے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ درگزر اور چشم پوشی ہی کا معاملہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ معاملہ دو قسم کا ہے: ایک وہ بندے جو اللہ کے مقابلے میں گھمنڈ اور استکبار اختیار کرتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ کا معاملہ بے حد سختی کا ہے۔ جو خدا کے مقابلے میں کبر اختیار کرے، اس کے مقابلے میں اپنی ناک کو بڑا سمجھے، اور اس کے مقابلے میں گھمنڈ برتے، اس کے ساتھ پھر اللہ کا معاملہ بڑا سخت ہے۔اس کے برعکس جو شخص عاجزی اختیار کرے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بے انتہا نرمی، رحمت اور مہربانی کا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ عاجزی اختیار کرو اور استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ درگزر کرنے والا ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

آج ملک میں ہر طرف تصادم اور نفرتوں کا طوفان برپا ہے۔ اگر بدی کو بدی ہی سے بدلنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے نتیجے میں ملک اور قوم کی قسمت میں بدی ہی آئے گی اور اللہ کے بندے خیر اور فلاح سے محروم رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اصلاحِ احوال کا جو راستہ بتایا ہے وہ بدی کو بھلائی اور نیکی سے بدلنے کا مبنی برحکمت راستہ ہے وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)۔

جماعت اسلامی پاکستان کا کُل پاکستان اجتماع عام ۲۱-۲۳نومبر۲۰۱۴ء کو لاہور میں منعقد ہو رہا ہے۔  یہ لمحہ ہماری قومی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس موقعے پر اس امر کی ضرورت ہے کہ قیادت اور امامت کے اسلامی فارمولے کو ذہنوں میں اچھی طرح راسخ کرلیا جائے اور یہ فارمولا عبارت ہے اللہ تعالیٰ سے مکمل وفاداری، قول وعمل میں یکسانی اور نفرتوں کومحبتوں میں تبدیل کرنے کی سعی مسلسل سے۔ اقبال نے اس دعوتی، اصلاحی اور انقلابی منہج کو بڑے خوب صورت انداز اور صحیح ترتیب سے یوں بیان کیا ہے     ؎

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے جماعت اسلامی کی ایک مرکزی تربیت گاہ میں تحریک کے کارکنوں کو دعوت کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ہم ان کے اس خطاب کو اس اجتماعِ عام کے موقعے پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور پاکستان کے تمام بھائیوں اور بہنوں کی تذکیر کے لیے پیش کررہے ہیں۔مدیر

کسی بھی تحریک کو ایسے کارکنوں اور ایسے گروہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ولولے اور جذبے سے سرشار ہو۔ یہ جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگوں کو اپنے نصب العین اور مقصد سے عشق ہو۔ اس کے لیے جان کی بازی لگانے پر آمادہ ہوں۔ مال کی قربانی اور وقت دینے کے لیے تیار ہوں۔

یہ وہ محبت ہے جو قرآن کریم پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قرآن کریم مسلمانوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور ان کے راستے سے محبت کرو۔ ان سے تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت کرو۔ پھر ان کو یہ تنبیہ کرتا ہے کہ اگر تمھاری دوسری محبتیں اس محبت پر غالب آجائیں تو یہ ’فسق‘ ہے۔ اس کے نتیجے میں پھر آپ اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ واَبْنَـآئُ کُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ ا قْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبََّ اِلَیْکُمِْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِِِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی القَوْمَ اْلفٰسِقِیْنَ o (التوبۃ۹:۲۴) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے، وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز واقارب اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ   اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی راہنمائی نہیں کیا کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے اس کو ’فسق‘ قرار دیا ہے کہ آدمی پر اپنے والد، بھائی، بیوی، بیٹی، برادری، مال اور تجارت کی محبت غالب ہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت مغلوب ہو۔ اس محبت کو تمام محبتوں سے اُوپر رکھو۔ اللہ سے محبت، اللہ کے رسول سے محبت، اللہ کے راستے میں ہمہ گیر، ہمہ پہلو اور زندگی بھر جدوجہد سے محبت___ ان کو تمام محبتوں سے بالا تر رکھو گے، تبھی منزل تک پہنچ سکتے ہو۔ دوسری جگہ پر فرمایا:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ِباَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف۶۱:۱۰-۱۱)   اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

پھر فرمایا گیا کہ ایک اور چیز بھی تمھیں دی جائے گی جو تمھیں دل پسند ہے، تمھیں مرغوب ہے، اور وہ ہے اللہ کی طرف سے نصرت۔ جس کے نتیجے میں دنیا کی فتح ملے گی:

وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo (الصف۶۱:۱۳) اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

یہ دنیا کی فتح، آخرت کی فلاح، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید انھی لوگوں کو ملتی ہے جو اللہ کے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اسلحہ ہے جس کے نتیجے میں ولولہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کا مقصد، زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کو بالادست کرنے کی آرزو، اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب اللہ کی محبت تمام دوسری محبتوں سے بڑھ کر ہو۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِلّـلّٰہ ، (جو ایمان والے ہیں، وہ اللہ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کافر اپنے آبا واجداد، اپنے ملک، اپنی برادری، اپنے رسم ورواج اور  اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اسی کو زندگی کی اعلیٰ قدر تصور کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں  اللہ کے بندے،اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں بڑی قربانی کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کو تو یہ یقین ہوتا ہے کہ میری یہ زندگی عارضی ہے اور ایک اچھی زندگی میرا انتظار کررہی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو اس سے بہتر ہے۔ جو پاے دار اور  دائمی ہے۔ جو ہمیشہ کے لیے ہے اور جہاں کی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی تو چندروزہ اور ختم ہونے والی ہے۔ یہ دارلقرار نہیں، دارالامتحان ہے۔ میں نے اِس عارضی زندگی سے اُس مستقل زندگی میں جانا ہے۔یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جن کے نتیجے میں بندۂ مومن ایک ولولے اور ایک جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کے اندر یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ میں جس راستے پر جارہا ہوں، یہی کامیابی کا راستہ ہے۔

آپ کے مقابلے میں خود غرض اور مفاد پرست لوگ ہیں اور اُن کی نہ ختم ہونے والی لڑائی ہے۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ اپنے نفس اور غرض کے بندے ہیں۔ ان کا کوئی مقصد اور کوئی نصب العین نہیں ہے۔ یہ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے کام نہیں کررہے ہیں۔ جب تک وطن عزیز کا اختیار غرض کے ان بندوں کے ہاتھ میں ہوگا، اس وقت تک یہ بحران ختم نہیں ہوگا۔ سارا منظر لوگوں کے سامنے ہے۔ ملک میں لوٹ کھسوٹ ہے، بدامنی ہے۔ یہاں خوف کی ایک فضا اور دہشت کا راج ہے۔ اس فضا کو اہلِ غرض ختم نہیں کرسکتے۔یہ ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

لیکن ان کے مقابلے میں آپ کے پاس ایک مضبوط دلیل ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ خاتم الانبیا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ پھر انھی کے زیرسایہ آپ کا صاف ستھرا کردار ہے، جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آپ کی لیڈر شپ کسی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہے۔ آپ کی قیادت عوام میں سے اُبھری ہے۔ آپ لوگوں کے اندر رہتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ کسی بھی اسکینڈل میں، پلاٹوں کی فہرست میں ان کے نام نہیں۔ کسی بھی دور میں جماعت اسلامی کے بارے میں کوئی کچھ نہیں پیش کرسکا۔ کوئی ایسی بات آتی ہے تو ہم عدالتوں میں جاتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے کوئی ہمارے بارے میں معمولی چیز لے کر نہیں آسکا ہے۔ صاف ستھری قیادت اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے دیا ہوا نظام… جس پر لوگوں کا ایمان اور عقیدہ ہے۔ پھر آپ کیوں لوگوں کے پاس نہیں جاسکتے؟ بلکہ مجھے اصل میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ مجھے یہی رکاوٹ نظر آتی ہے کہ ہمارے لوگ خول کے اندر بند ہیں اور اپنے خول سے باہر نہیں نکلتے۔ آپ اپنے خول سے نکلیں۔ لوگوں کے پاس جائیں۔

بلدیاتی انتخاب جیتنا ایک مشکل کام ہے۔ بلدیاتی انتخاب جیتنے کے لیے نیچے تک، محلے کی سطح تک آپ کا کارکن ہونا چاہیے۔ جب تک عام محلے کی سطح پر کارکن مضبوط نہ ہو، عوام کے ساتھ رابطہ نہ ہو، بلدیاتی انتخاب نہیں جیت سکتے۔ جب آپ نچلی سطح پر لوگوں تک پہنچیں تو ان سے کہیں کہ ہم تو انسانیت کی خدمت کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ہم تو ایک پاک صاف اور ستھری انتظامیہ دینے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔

یہی محبت کا پیغام لے کر ترکی میں اسلامی تحریک کے کارکن جب عوام تک پہنچے، ایک ایک فرد سے رابطہ کیا تو نہ صرف لوگوں کے دل ان کے لیے کھل گئے، بلکہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی نے ان کے قدم چومے اور اسلامی تحریک کو مقبولیت ملتی چلی گئی۔

اس طرح یہ دعوت پھیلتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں تحریک کو عوامی مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر لوگ اپنے خول کے اندر بند رہیں، اپنے گھروں کے اندر رہیں، کسی سے بات نہ کریں، لوگوں کے پاس نہ جائیں اور یہ انتظار کریں کہ میں تو گھر بیٹھا ہوں، دعوت کا یہ کام کوئی دوسرا ساتھی کرلے گا تو یہ ایک غلط انداز ہوگا۔ لوگوں کو کیسے پتا چلے گا کہ آپ کے پاس حق ہے؟ اس سے لوگ اس غلط فہمی کا شکا ر بھی ہوجاتے ہیں کہ یہ لوگ مغرور ہیں۔ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو کسی شمار قطار میں بھی نہیں سمجھتے۔ جب آپ الگ تھلگ رہیں گے تو لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلیں گی۔ جب آپ میں سے عظیم اکثریت لوگوں کے پاس جائے گی اور آپ لوگوں کے ساتھ محبت سے بات کریں گے، ان کو کہیں گے کہ ہم آپ کی خدمت کے لیے آئے ہیں تو ان کی غلط فہمیاں دُور ہوں گی۔

آج لوگ ایسے گروہ کے منتظر ہیں جو خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر لوگوں کے پاس جائے۔ ملک ایک بحران میں مبتلا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ایک جہاز میں بیٹھے ہیں اور جہاز ڈوب رہا ہے، اس کو بچانے کی فکر ہونی چاہیے۔ افسوس صد افسوس کہ لوگ اس کے اندر اپنی اپنی سیٹوں کی حفاظت میں تو مشغول ہیں کہ جہاز کے اندر جو سیٹ ہے، صرف وہی زیادہ آرام دہ    بن جائے، زیادہ خوب صورت بن جائے۔ لیکن جس جہاز میں کرسی ہے، اس کرسی کا جہا ز ڈوب رہا ہے تو بتائیے آپ کی کرسی کیسے بچے گی؟ آپ نے بہت خوب صورت گھر ایک بڑے جہاز میں بنایا ہے۔ جب وہ جہاز ڈوب رہا ہے تو وہ خوب صورت گھر کیسے بچ سکتا ہے؟

جب چاروں طرف کا ماحول اور معاشرہ آپ کا دوست نہ ہو اور پاک صاف ستھرا نہ ہو تو آپ بھی نہیں بچ سکیں گے۔ آپ اپنے بچوں کو بہت زیادہ پاک صاف بنادیں،  چاروں طرف معاشرے کے اندر پھیلی ہوئی گندگی کے اندر آپ ایک خوب صورت جگہ بنابھی لیں گے، تو آپ کے بچے اس گندگی سے کیسے بچ سکیں گے؟ یقینا یہ گندگی آپ کے گھر کا بھی احاطہ کرے گی اور آپ کے بچے بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے پورے معاشرے کو، پورے جہا ز کو بچانے اور اس کی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے۔ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے ساتھ معاشرے کی بھی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ انسان کو اصلاح کی شروعات اپنی ذات سے کرنی چاہیے۔ اپنی ذات کا حق پہلے ہے۔ اسی طرح جب تک آپ کی اپنی ذات اس دعوت کا عملی نمونہ نہیں ہوگی، اس وقت تک آپ اعتماد کے ساتھ لوگوں کے پاس نہیں جاسکیں گے۔ جب آپ کے گھر میں اچھا ماحول نہیں ہوگا، آپ معاشرے میں روشنی نہیں پھیلاسکیں گے، لیکن ذات اور گھر کے ساتھ ساتھ محلے اور معاشرے کی بھی فکر ہونی چاہیے۔ اس کے لیے جس جذبے اور جس ولولے کی ضرورت ہے وہ  ولولہ اور وہ جذبہ پیدا کیجیے۔ وہ جذبہ اور ولولہ اللہ کے ساتھ زیادہ بہتر اور گہرا تعلق پیداکرنے کے نتیجے میں بڑھتا ہے۔ آپ اس جذبے سے سرشار ہوجائیں گے تو آپ کو قرار نہیں آئے گا جب تک آپ وہ مقصد حاصل نہ کرلیں جو بالاتر مقصد ہے۔

مقصد کو بالاتر بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ عوامی محبوبیت حاصل کی جائے۔ عوامی تائید حاصل ہو اور عوام کے پاس پہنچا جائے۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ محبت کی زبان استعمال ہو اور محبت کو اپنا ذریعہ بنایا جائے۔ اس طریقے سے آپ عوام کے دلوں میں جگہ بناسکتے ہیں۔ یقینا محبت ہی فاتحِ عالم ہے!

قیادت کے لغوی اور اصطلاحی معنی تو اپنی جگہ لیکن قیادت کا اصل مفہوم ایسی صلاحیت ہے جس سے دو سروںپر اثر انداز ہوا جاسکے، اور جس سے افرادِکار میں تحرک ، فعالیت اور جذبۂ عمل پیدا کیا جائے، اور اس کے نتیجے میں مطلوبہ معیار کے مطابق طے شدہ اہداف کا حصول ممکن ہوسکے۔

قیادت کی صفات کیا ہیں اور ایک اچھا قائد کیسا ہوتا ہے؟ اس مضمون میں ایک قائد، ناظم  یا امیر کے لیے چند عملی پہلوئوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تاکہ مؤثر قیادت سامنے آسکے۔

 جذبہ و دانش

تحریکوں کی کامیابی کے لیے جذبہ(passion) اوردانش(wisdom) دونوں کی اہمیت ہے۔ نہ تو محض جذبے سے سرشار ہجوم فائدہ مند ہے اور نہ محض مجلس ہاے دانش سے ہی انقلابات کشید ہوتے ہیں۔افرادِ کار میں جذبہ بیدار کرنا اور برقرار رکھنا قائد کی اولین ذمہ داری ہے۔    اسی طرح اہلِ دانش سے استفادہ کرنا بھی اہل قیادت کا کام ہے۔ جذبہ و دانش میں خلیج کی تحریک کو بڑے نقصانات ہیں۔قیادت کو چاہیے کہ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے حکمت ِ عملی بنائے۔ بصیرت، حکمت، پختہ سوچ، عمدہ تجزیہ،اصابت راے، اگر قوت ِ عمل میں نہ ڈھلے تو سرگرمیاں ہوں گی مگر ثمرآور نہ ہو سکیںگی،جوش و جذبہ تو ہوگا مگر مؤثر نہ ہو سکے گا،تحرک تو ہوگا مگر پیش قدمی نہ ہوگی۔

بعض اوقات تنظیمی درک رکھنے والے افراد خود کو میدانِ عمل کے دانش ور سمجھنے لگتے ہیں اور سوچنے سمجھنے والے افراد خود کو تنظیمی حرکیات کے ماہر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہر دو گروہوں کی اپنی حد ِ استعداد ہے، دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور دونوں طرح کے افراد مطلوب ہیں۔ اعلیٰ ذہنی صلاحیت ،تفکر و تدبر اور قوتِ عمل کے امتزاج سے کام کا معیار اور رفتار مثالی ہوسکتی ہے۔ذمہ داریوں پر فائز افراد تحریک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور سوچنے سمجھنے والے افراد تحریک کا دماغ۔قیادت کو چاہیے کہ دونوں طرح کے افراد کو مرکزی دھارے کا حصہ بنائے اور ان کے درمیان نفسیاتی بُعد اور دُوری ختم کرے۔

مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور متخصصین کا فورم ضلعی یا بالائی سطح پر قائم ہوسکتاہے۔ یہ فورم شوریٰ کے ساتھ سہ ماہی بنیادوں پر نشستیں رکھ سکتا ہے۔ اس طرح تنظیمی قوت کو اگر تحقیق وتخصص سے تقویت ملے گی تو کام کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔

 مشیر اور مشاورت

دنیاوی و دینی امور میں فیصلہ سازی کے لیے مشیروں کے اہمیت مسلمہ ہے۔ سیرتِ نبویؐ، خلافت ِ راشدہ،آثارِ صحابہؓ اور اسلاف کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ مشیران کے انتخاب کی کتنی اہمیت ہے۔دنیاوی لحاظ سے بھی ایک مثالی انتظام کاری میں صائب الراے،بیدار مغز،با صلاحیت اور اعلیٰ استعداد رکھنے والے افراد کی مشاورت میں شرکت کو کامیابی کا زینہ سمجھا جاتاہے۔

حضرت عمرؓ نے اپنی شوریٰ میں کیسے کیسے جلیل القدر اصحاب جمع کیے تھے! وہ ان سے اختلاف بھی کرتے ، بہترین تجزیاتی صلاحیت کی مدد سے صورت حال کا جائزہ لیتے،اصابت ِ راے اور پختہ فکر کی بدولت ٹھوس اور مدلل راے کا اظہار کرتے۔مسلمانوں کی حکمران تاریخ میں اچھے اور بُرے مصاحبین اور مشیروں کا بڑا حصہ ہے۔اداروں،تنظیموں اور حکومتوںکے عروج و زوال میں مشیروں کا کردار سب پر واضح ہے۔ اچھے بُرے ،ہر دو طرح کے افراد تاریخ کا حصہ ہیں۔ جی حضوری اور خوشامدی طرزِ مشاورت کسی بھی تنظیم یا ادارے کے لیے زہر ِ قاتل ہے۔رفتہ رفتہ اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنی راے سے ہٹ کر کسی دوسری رائے کو سننے کا حوصلہ نہیں رہتابلکہ اس سے  بڑھ کر یہ کہ اختلاف ِ راے رکھنے والا فرد مطعون و مذموم قرار پاتا ہے،لہٰذا مشیروں کی تلاش میں  اس امر پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ مشاورت کے فورم میں اس طرح کی فضا کو پروان چڑھایا جائے جہاں آزادانہ اظہارِ رائے کا ماحول ہو اور مختلف زاویوں سے کسی بھی معاملے پر کھل کر بحث کی جاسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذمہ داران اس بات کا بھی اہتمام کرسکتے ہیں کہ متعین فورم کے علاوہ بھی غیر رسمی مشاورتی فورم تشکیل دیں جو یقینا فیصلہ سازی کا فورم نہیں ہوگا بلکہ یہاں مختلف استعداد و مہارت رکھنے والے کے اجتماع سے گتھیوں کے سلجھنے کے امکانات روشن ہوں گے۔

منصوبہ و جائزہ

منصوبہ(planning)اور جائزے(evaluation)کی اصطلاحات اور ان کے معنی و مفہوم سے ہم واقف ہیں۔سال کے آغاز میں منصوبہ بنانا اور آخر میں جائزے کا عمل تحریکی زندگی میں معمول کی بات ہے۔یہاں توجہ طلب دو باتیں ہیں۔سال کے آغا ز میں منصوبہ بندی کے لیے بالعموم گذشتہ سال یا زیادہ سے زیادہ چند برسوں کے منصوبۂ عمل کی روشنی میں مستقبل کے لیے نیامنصوبۂ عمل تیار ہو جاتا ہے۔عشروں پر محیط ہماری روایات ،کارکنوں کی دی ہوئی تجاویز، دانش وروں سے کچھ ملاقاتیں،سینیر حضرات سے نشستوں وغیرہ سے اس نئے منصوبۂ عمل میں ’نیا پن ‘شامل ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قیادت کو سائنسی انداز میں منصوبۂ عمل کی سرگرمی کو انجام دینا چاہیے۔منصوبہ تو اپنی جگہ مگر منصوبے کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ اس سوال کا جواب تلاش کیا جا نا چاہیے۔ہماری ٹیم ،افرادِ کار یا انسانی وسائل کی کیفیت کیا ہے؟ ان کی استعداد، صلاحیت اور مہارتیں کیا اور کون سی ہیں؟ان میں کمی اور خامیاں کیا ہیں؟سماجی حقائق کیا کہتے ہیں؟ماحول کی مکمل جانچ کیسے کی جائے گی؟ گذشتہ جائزے میں بہتری کا خاکہ کیا تجویز کیا گیا تھا؟، اسی طرح سیاسی حرکیات ،تنظیمی قوت،سماجی شعور،اور اپنے وژن اور مشن کی روشنی میں جملہ وسائل، یعنی انسانی، مالی،مادی اور اطلاعاتی وسائل کے مکمل آڈٹ کے بعد مستقبل کے لیے منصوبۂ عمل تیار کرنا ضروری ہے۔دور بین اور دور اندیش قیادت کو یہ کام بہر صورت کرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں جائزے کے عمل کا جائزہ بھی لیاجانا چاہیے۔ ’ جائزے کا جائزہ‘ لے کر ہم مروجہ کمزوریوں کو جان سکیں گے اور مؤثر طریقے سے اس اہم کام کو انجام دے سکیں گے۔یاد رکھنا چاہیے کہ سال کے آغاز میں منصوبے سے شروع ہونے والا چکر، جائزے پرمکمل نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اگلی منصوبہ بندی کے لیے پہلی سیڑھی ہے۔ گویا جائزہ’ پہلے مرحلے سے پہلے ‘کا عمل ہے۔

 توازن ِ زندگی

زندگی میں توازن کی اہمیت سے ہم خوب واقف ہیں۔توازن فطرت کا دوسرا نام ہے۔دین اسلام چونکہ دین ِ فطرت ہے، اس لیے یہ ایک متوازن نظام زندگی ہے۔ نبی کریم ؐ کی زندگی کا کمال تھا کہ آپؐ زندگی کے تمام پہلوئوں میں توازن قائم رکھتے۔آپؐ بیک وقت ایک مہربان باپ،محبت کرنے والے شوہر تھے۔ایک بہترین منتظم، بے مثال قائد اور نڈر سپہ سالار تھے۔جہاں ِ قوتِ ارادی اور مضبوطی شخصیت سے جھلکتی وہاں تواضع،حلم اور نرمی سے بھی مالا مال تھے۔ گویا اسلامی تحریک کے ایک قائد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ توازن میں ہی حُسن ہے۔کیا ہم بحیثیت باپ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں؟بچوں کی تربیت پر کتنی توجہ ہے؟۔میاں بیوی کے حقوق کا معاملہ کیا ہے؟والدین کے حقوق کی ادایگی کی کیا کیفیت ہے؟ان تمام معاملات میں غفلت و لاپروائی کوفریضۂ اقامت ِ دین کے راستے میں قربانی تصور کرناایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ خانگی معاملات پر بھی توجہ دے اور اسے درست رکھے۔قائد کو اپنی ذات سے بننے والے خاندانی نظام کی فکر کرنی چاہیے اور اسے بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچانا چاہیے۔ مزید یہ کہ خاندانی نظام کی تعمیر اور اس کو مستحکم کرنا،گویا خاندان کی حفاظت ،تعمیر اور استحکامِ قیادت کے لیے ضروری ہے۔ اللہ کے دین کے کام کا مطلب کیا ہے؟۔اس کی کلیت اور جامعیت کیا ہے؟اس کا جاننا بھی ضروری ہے۔

تحصیلِ علم کی جستجو

قیادت کے اہم فرائض میں تعلیم و تذکیر بھی شامل ہے۔تعلیم بغیر آموزش (learning) کے ممکن نہیں ۔منتظم بہت ہوتے ہیں اور اچھے منتظمین کی بھی کمی نہیں۔لیکن ایسا قائد یا منتظم جو افراد کی کردار سازی کرے،مطلوب قائد وہی ہے۔جو انھیں اخلاق و آداب سکھلائے،زندگی کے رموز سے آگاہی دے،اخلاقِ حسنہ نکھارے اور اخلاقِ رذیلہ کی کانٹ چھانٹ کرے۔گویا تعلیم و تذکیر قیادت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔قائد قوت ِ علم سے جتنا مالا مال ہوگا اس کی قیادت میں اتناہی اعتبار اور وزن ہوگا۔علم ایک بے مثل قوت ہے ۔یہ دو افراد کے درمیان فرق کو واضح کر دیتا ہے۔

قائد کو علم میں اضافے کے لیے شعوری کوشش کرنی چاہیے ۔مطالعۂ کتب، سنجیدہ علمی مجالس، مثبت گروہی مباحث،ذہنی نشوونما کے لیے مؤثر نسخے ہیں۔ اس میں قرآنِ مجید کا مطالعہ سرفہرست ہے۔  تفہیم القرآن کے ساتھ ساتھ معروف تفاسیر کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ اسی طرح احادیث کے بنیادی ذخیرے سے آگہی، فقہ میں عمومی نوعیت کی معلومات ناگزیر ہیں۔گویا ان علومِ عالیہ کے خزانے سے مالامال قیادت مرجعِ خلائق بن سکتی ہے۔اسی طرح سماجی علوم ،سیاسی تحریکوں کا مطالعہ، انقلاباتِ عالم سے واقفیت،قوموں کے عروج و زوال کے اسباب سے آگہی قیادت کی اہلیت، استعداد اور قوت میں اضافہ کرے گی۔ اسی طرح قیادت اپنی ذمہ داریوں کے دوران سیرت ِ نبویؐ کا از سر ِ نو مطالعہ کرے،جذب کرے،ماہیت ِ قلب(transformation) کے لیے خود کو آمادہ اور تیار کرے۔سیرت کا مطالعہ در اصل کسوٹی ہے،جس سے اپنی شخصیت کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ روے زمین پر گزرنے والے عرصۂ حیات میں خلافت ِ راشدہ کا زریں دور بے مثل اور یکتا ہے۔ اس دور کا مطالعہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ انتظامیات اور گڈ گورننس کے باب میں عمر بن خطابؓ اور عمر بن عبد العزیز ؒکی حکمت ِ عملی،فیصلے، طریقۂ کار،انتظامی امور،مالی ڈسپلن اور انسانی تعلقات کا مطالعہ قیادت کے لیے ناگزیر ہے۔ اسی طرح دنیا بھر کی مؤثر شخصیات کی سوانح کا مطالعہ یقینا ہماری سوچ کو وسیع اور کشادہ کرے گا۔ بزنس میں کامیاب تجربے جاننے سے قائدانہ صلاحیت میں گونا گوں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ فلسفہ،معاشیات،عمرانیات،اور ابلاغیات جیسے علوم کی بنیادی معلومات و استعداد قیادت کو بہترین اور مثالی قیادت میں تبدیل کرے گی۔

زمینی حقائق اور تنظیمی مصروفیات کے پیشِ نظر تحصیلِ علم کے اہداف بظاہر ممکن نظر نہیں آتے۔ اس سلسلے میں چند عملی اقدام کیے جا سکتے ہیں۔سب سے پہلے تو خود ایک فرد میں اس ہدف کا حاصل کرنے کا شعور ،جذبہ اور عزم ہونا چاہیے۔ شورائوں اور مشاورتی فورم میں اس طرف توجہ دلائی جائے اور آموزش کے اہداف مقرر کیے جائیں۔ہر فرد کے لیے مطالعے کے لیے وقت نکالنا شاید مشکل ہو، لہٰذا رجحان و صلاحیت کے اعتبار سے چند افراد کو یہ کام دیا جا سکتا ہے جو تیاری کر کے حاصل مطالعہ پیش کرنے کا اہتمام کریں۔دفاتر میں یا علیحدہ سے لرننگ ریسورس سینٹر کے قیام کو بھی ترجیح دی جائے۔ضلع کی سطح پر ان امور کی انجام دہی کے لیے فورم بنا یا جا سکتا ہے جو ذمہ داران کے لیے سہولت و خدمت فراہم کرے ۔ صوبائی سطح پر اس عمل کی رہنمائی کا معقول بندوبست کیا جائے۔

سادہ طرزِزندگی

تصنع سے پاک سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنا عمومی طور پر تو سب کے لیے اور خصوصی طور پر ان کے لیے ضروری ہے جن کو لوگ اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ دنیا کے عظیم انسانوں نے معمول کی زندگی گزاری۔وہ معاشرے میں چھپی ہوئی تہوں سے واقف ہوتے ہیں اور ان کی قیادت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔ اگر واقفیت ہی نہ ہو تو قیادت چہ معنی؟ہوائوں میں اڑنے والوں کو زمینی حقائق سے کیا علاقہ؟زمین اور بر سرِ زمین معاملات کا وہی اِدراک کر سکتے ہیں جو اپنے آپ کو زمین ہی پر رکھتے ہیں۔اگر اپنی شخصیت کے اوپر ہی غلاف در غلاف کا معاملہ ہو جائے تو سماجی حرکیات سے آگاہی تو ایک طرف، فرد خود اپنی شخصیت کا غلام بن جاتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں اجنبی بننے کے بجاے اس کا حصہ بننا چاہیے اور اس کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو ان تمام مراحل سے گزارنے کے لیے تیار ہو۔

کام کا تصور ِ کلیت

ہرادارے اور تنظیم کے مختلف منصوبے ہوتے ہیں۔بعض اوقات مختلف زاویوں سے کام ہوتا ہے۔ انتظامی طور پر درجنوں شعبہ جات سے انھیں تقویت ملتی ہے۔ تحریک میں مختلف افراد کو   ان کے میلان اور استعداد کے مطابق شعبہ جات اور مختلف منصوبے تفویض کیے جاتے ہیں۔تنظیم کو چلانے والے،سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ،بلدیات سے متعلق افراد ،تعلیم سے وابستہ افراد،  شعبہ خدمت میں مصروف رجالِ کار و دیگر یہ سب تحریک کے گلدستے کے پھول ہیں، ان سب کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اگر سیاسی امور کو انجام دینے والے دیگر افراد یا کام کو کم تر درجہ دیں، یا شعبۂ تعلیم میں مصروف لوگ اپنے آپ ہی کو نقیب ِ انقلاب سمجھیں، یا خدمت کے شعبے سے وابستہ افراد اسی کام کو ہی تبدیلی کا ذریعہ سمجھیں اور تنظیم کو چلانے والے بقیہ سب کو بے وقعت جانیں، تو تحریک کو قوت و استحکام نہیں مل سکتا ۔تبدیلی کے کام کی جامعیت اور وسعت جاننے کی ضرورت ہے،’’میں ایک بڑے کل کا محض ایک جزو ہوں‘‘اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، لہٰذا تبدیلی کے لیے مکمل تصور کا ادراک ضروری ہے۔ قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح کے افراد، مختلف النوع منصوبوں اور معاون شعبہ جات کو یکساں اہمیت دے اور تبدیلی کے لیے ہر ایک کی اہمیت کو محسوس کرے۔

 تصورِ امانت

کیا یہ بات اہم نہیں ہے کہ اخلاقِ حسنہ کے مجسم پیکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ نے نبوت کے لیے مبعوث کیا تو وہ نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کے لقب سے معروف تھے۔ امانت کے تصور کی وسعت کیا ہے؟قیادت کو اس ضمن میں خود بھی اور اپنی ٹیم میں بھی احساس پیدا کرنا چاہیے۔وسائل ہمارے پاس امانت ہیں۔ قائد کے پاس انسانی ،مالی اور مادی وسائل ہوتے ہیں اور وہ انھیں تصرف میں لاتا ہے۔ مجلس اور فورم کے فیصلے اور گفتگو بھی امانت ہے۔ اسی طرح اختیارات بھی امانت ہیں۔ چنانچہ قیادت کا اُجلاپن اس میں ہے کہ وہ انسانی وسائل کا درست استعمال کرے، اپنے پیچھے چلنے والوں کی فکر کرے ،مالی لحاظ سے سادگی اور میانہ روی کا مظاہرہ کرے۔ مالی معاملات میں شفافیت کو برقرار رکھے اور اسی طرح ذاتی و تنظیمی حوالے سے مادی وسائل کے استعمال میں فرق ملحوظ رکھے۔ یہ سب اعلیٰ اوصاف ہیں،بہترین قدریں ہیں اور دین میں مطلوب ہیں۔

اھلیت

اہلیت پر افرادِ کار کا تقرر دراصل نصف کامیابی ہے۔بظاہر اس معمولی عمل کی اہمیت  قرآنی تعلیمات میں واضح ہے،احادیث ِ نبویؐ میں اس کی تاکید ہے،سیرت ِ نبویؐ میں عملی مثالیں ہیں اور خلافتِ راشدہ میں اس کی توثیق ہے۔ امانتوں کو اہل افراد کے سپرد کرنے کی کس قدر تاکید ہے، اور نااہلوں کو مناصب پر فائز کردینے پر کیسی وعید ہے، اسے ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ کام کی اہلیت و استعداد نہ رکھنے کے باوجود کسی کو ذمہ داری سونپ دینا در اصل ظلم ہے۔فقہ کی کتابیں کھولیے:’’ ایک چیز گویا اپنی جگہ سے ہٹا دی گئی‘‘۔نقصان اس فرد کا بھی کہ کام نتیجہ خیز نہ ہو تو تاثر خراب اور تنظیم کا بھی کہ کام مطلوبہ رفتار اور معیار کا نہ ہواور وسائل کا زیاں ہو جائے۔

اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والی اجتماعیت روے زمین پر اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ اسلامی تحریک کی ہر سطح کی قیادت،انتہائی مخلص،باصلاحیت اور درد دل رکھنے والے بہترین افراد پر مشتمل ہے۔ وطنِ عزیزکی دیگر دینی و سیاسی جماعتیں اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتی ہیں۔     ایسی وفاشعار قیادت اور ایسے ایثار کیش کارکنان کو دجالیت کے اس پُرفتن دور میں اور مادیت کے اس طوفان میں بہت بڑا چیلنج درپیش ہے،انفرادی حیثیت میں تہذیب ِ نفس اور اجتماعی حیثیت میں اصلاح معاشرہ۔چیلنج ایسا کہ زُہد و رُشد بھی متاثر نہ ہو اور تبدیلی کا خواب بھی دھندلا نہ ہو۔

 

مضمون نگار رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد میں سینیر ریسرچ فیلو ہیں

قرآن مجید میں اہلِ ایمان کے لیے ایک اعزاز کا ذکر کیا گیا ہے کہ اُن کی اُس اولاد کو بھی ، جو اپنے عمل کے لحاظ سے اگرچہ اُس مرتبے کی مستحق نہ ہو گی جو اُن کے آبا کو اُن کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آبا کے ساتھ ملا دی جائے گی(الطور ۵۲:۱۷-۲۸)۔ انھی آیات میں اس اعزاز کے پانے والوں کی ایک صفت جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ بہت ہی قابلِ توجہ ہے: ’’یہ(جنت میں پہنچ جانے والے) لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے)حالات پوچھیں گے۔ اور کہیں گے کہ ہم پہلے(دنیا میں) اپنے گھر والوں میں(اللہ سے) ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے‘‘۔(الطور۵۲:۲۵-۲۶)

سورئہ حا قہ میں ارشاد فرمایا : ’’اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: لودیکھو! پڑھو میرا اعمال نامہ، میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے‘‘ (۶۹: ۱۹-۲۰)۔ اس کے برعکس جس کو اُس کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ یا پیٹھ پیچھے دیا جائے گا، اُس کے بارے میں فرمایا: ’’وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اُس نے سمجھا تھا کہ اُسے کبھی (اپنے رب کی طرف) پلٹنا ہی نہیں ہے۔پلٹنا کیسے نہ تھا۔ اُس کا رب اُس کے (کرتوت) دیکھ رہا تھا‘‘۔(انشقاق ۸۴: ۱۳-۱۵)

ان آیات میں بڑی وضاحت سے دو کردا رسامنے آتے ہیں۔ پہلے وہ لوگ جنھیں اُن کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اُن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں میں مگن ہو کر اللہ سے غافل نہیں ہو جاتے تھے بلکہ اس ماحول میں بھی اللہ سے ڈرتے رہتے تھے اور انھیں یہ احساس رہتا تھا کہ انھیں ایک دن اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ دوسرے وہ لوگ جنھیں اُن کا نامۂِ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے، اُن کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے گھروالوں میں مگن ہوتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتے تھے۔ انھیں یہ احساس نہیں رہتا تھا کہ اُنھیں ایک دن اپنے رب کے پاس حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے اور فرمایا:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔(المنٰفقون ۶۳:۹)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ     غفور و رحیم ہے۔ (التغابن ۶۴: ۱۴)

احادیث میں اہلِ ایمان کے لیے ایک اور اعزاز کا ذکر ہے۔ مسلم میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی طویل روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہنم کے اوپر پُل (صراط) رکھا جائے گا اور شفاعت شروع ہو گی۔اور لوگ کہیں گے: اے اللہ! ہمیں بچا، اے اللہ!ہمیں بچا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ پُل کیسا ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ ایک پھسلنے کا مقام ہوگا وہاں آنکڑے ہوں گے اور کانٹے جیسے ملکِ نجد میں ایک کانٹا ہوتا ہے جس کو سعدان (ٹیڑھے منہ والا)کہتے ہیں۔اہلِ ایمان اُس پر سے پار ہوں گے۔بعض پلک جھپکنے میں، بعض بجلی کی طرح، بعض پرندے کی طرح، بعض تیز گھوڑوں کی طرح اور بعض اُونٹ کی طرح۔کچھ لوگ پُل (صراط)سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ کچھ لوگوں کو خراشیں آئیں گی لیکن وہ بھی پار ہو جائیں گے۔ (ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک آدمی پُل صراط کو گھسٹ کر عبور کرے گا)اور کچھ لوگ جہنم میں گرجائیں گے‘‘۔

تصور کریں اُن کی خوشی کا جو پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی پُل صراط سے صحیح سلامت گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

 پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اہلِ ایمان جب اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ پائیں گے توقسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی بھی اپنے حق کے لیے اتنا جھگڑنے والا نہیں ہے جتنا وہ اپنے اُن بھائیوں کے لیے جو جہنم میں گر چکے ہوں گے،اللہ سے جھگڑنے والے ہوں گے۔وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے۔ (اللہ تعالیٰ)کہے گا اچھا جاؤ اور ہراُس شخص کو نارِجہنم سے باہر نکال کے لے آؤ جس کو تم جانتے ہو‘‘۔

کیا آپ اُن کی خوشی کا اندازہ کر سکتے ہیں ، جنھیں پتا چلے گا کہ وہ جہنم میں گر جانے والے اپنے جاننے والوں کو نکال سکتے ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان جھگڑنے والوں میں شامل کردے اور اپنے اُن جاننے والوں کو جو جہنم میں گر چکے ہوں نکالنے کی توفیق دے۔آمین !

آپؐ نے مزید ارشاد فرمایا: ’’اللہ آگ کو گنہگاروں کے چہروں کو جلانے سے روک دے گا (تاکہ اہل ایمان انھیں پہچان سکیں)اور مومنین بہت سے آدمیوں کو جہنم سے نکال لیں گے‘‘۔(مسلم)

یہ بات قابلِ غور ہے کہ اہلِ ایمان اتنے نازک موقعے پر بھی اپنے جاننے والوں کو یاد رکھیں گے اور اُن کے لیے اللہ سے دُعا کریں گے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کی دُعا قبول کرتے ہوئے اُنھیں یہ اعزاز بخشے گا کہ وہ جسے جانتے ہوں اُسے جہنم سے نکال لیں۔

تصویر کا ایک رُخ تو یہ ہے کہ اہلِ خانہ بھی اہلِ ایمان کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائیں گے (دیکھیے: مضمون ’اہلِ خانہ کے ساتھ جنت میں‘ بحوالہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۱۴ء)۔  اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں اس منظر کے دوسرے رُخ کا بھی ذکر کیا ہے:

’’قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمھاری اولاد۔ اُس روز اللہ تمھارے درمیان جدائی ڈال دے گا، اور و ہی تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۳)

کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا، چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔(فاطر۳۵:۱۸)

ان آیات میں تو صرف اتنا ذکر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ایک اور مقام پر اس سے بھی سخت کیفیت کا ذکر ہے: ’’آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی۔ اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا‘‘۔(عبس۸۰:۲۳-۲۷)

پھر اس سے بھی بڑھ کر کہ نہ صرف ایک دوسرے سے دُور بھاگیں گے بلکہ اپنی نجات کے بدلے ان سب قریبی رشتہ داروں کو فدیہ میں دینے کو تیار ہوں گے۔ ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے: ’’جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا۔ اور پہاڑ رنگ برنگ کے دُھنکے ہوئے اُون جیسے ہو جائیں گے۔ اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو،اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھااور روے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اُسے (عذاب سے) نجات دلا دے‘‘۔ (المعارج ۷۰: ۸-۱۴)

اسی تناظر میں ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں: ’’اُس روز مُنافق مردوں اور مُنافق عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم بھی تمھارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ مگر اُن سے کہا جائے گا پیچھے پلٹ جاؤ اور اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ پھر اُن کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اُس دروازے کے اندر رحمت ہی رحمت ہوگی اور باہر عذاب ہی عذاب۔ وہ مومنوں سے  پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم (دنیا میں) تمھارے ساتھ نہ(رہتے) تھے؟ مومن جواب دیں گے ہاں، مگر تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا، موقع پرستی کی، شک میں پڑے رہے، اور جھوٹی توقعات تمھیں فریب دیتی رہیں، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا، اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز(شیطان)تمھیں اللہ کے معاملے میں دھوکا دیتا رہا۔ لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنھوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا۔ تمھارا ٹھکانا جہنم ہے، وہی تمھاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے‘‘۔(الحدید ۵۷: ۱۳-۱۵)

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورئہ تحریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تُند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘۔(التحریم۶۶:۶)

پھر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد بھی اپنے آپ کو آگ سے بچانے کا سامان نہیں کیا ہو گا اُن سے کہا جائے گا: ’’اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے‘‘۔(التحریم۶۶:۷)

اس کے بعد ان اہلِ ایمان کو جو ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، کہا جارہا ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ۔ بعید نہیں کہ اللہ تمھاری بُرائیاں تم سے دُور کر دے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور اُن لوگوں جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ: ’’اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ  سختی سے پیش آؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔ (التحریم۶۶:۶-۹)

اسی طرح سورئہ حدید میں منافق مردوں اور منافق عورتوں کو متنبہ کرنے کے بعد اہلِ ایمان کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ اگر تم اب تک غفلت میں پڑے رہے ہو تو اب بھی وقت ہے کہ خوابِ غفلت سے جاگو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ۔یہ بہت ہی قابلِ غور ، قابلِ توجہ اور فکر کرنے والی آیت ہے ۔ خطاب کفار اور منافقین سے نہیں اہلِ ایمان سے ہے:

کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟ خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اُس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے، ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں، شاید کہ  تم عقل سے کام لو۔ (الحدید ۵۷: ۱۶-۱۷)

اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ایمان کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

علامہ اقبال نے اُمت اسلامیہ کو ہمہ گیر سطح پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری اُمت اسلامیہ کی تاریخ میں جامعیت کے لحاظ سے عدیم المثال شاہکار ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو مختلف جہات سے اتحاد و یگانگت کا سبق دیا۔ وہ اپنی نظم ’بزمِ انجم‘ میں باہمی اتحاد کو ستاروں سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے

جو بات پاگئے ہم تھوڑی سی زندگی میں

ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے

پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں

علامہ اقبال اُمت اسلامیہ کے اتحاد میں مغربی تصورِ قومیت کو نہایت تباہ کن خیال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رنگ، نسل، وطن، ذات اور برادری اسلامی اتحاد قائم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اُمت اسلامیہ کا اتحاد وحدت مذہب و تمدن پر قائم ہے۔

اس سلسلے میں علامہ اقبال اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ: ’’قدیم زمانے میں ’دین‘ قومی تھا، جیسے مصریوں، یونانیوں اور ہندیوں کا۔ بعد میں نسلی قرار دیا، جیسے یہودیوں کا۔ مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیویٹ ہے۔ جس میں انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن ’اسٹیٹ‘ ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ ’دین‘ نہ قومی ہے نہ نسلی ہے، نہ انفرادی اور نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اور اس کا مقصد یا وجود فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد اور منظم کرنا ہے‘‘۔

علامہ اقبال جس قومیت کے قائل ہیں، اس کا دائرہ اسلام کے اندر ہے اور اس کی بنیاد وہ دینی معتقدات پر رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں    ؎

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

وہ مزید کہتے ہیں کہ    ؎

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں

اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی

وہ مزید کہتے ہیں کہ    ؎

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

ایک اور جگہ کہتے ہیں:

اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کم زور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے

قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اسلام کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اجتماعیت و اتحاد قائم کیا جائے۔ حضرت عمرؓ کے الفاظ میں: لااسلام الا بالجماعۃ ولا جماعۃ الا بالامارۃ ولا امارۃ الا بالطاعۃ ’’جماعت کے بغیر اسلام نہیں اور امارت کے بغیر جماعت نہیں اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں‘‘۔

وہ مسلمانوں کو ایک ملّت میں گم ہوجانے کا درس دیتے ہیں اور ایک عالم گیر ملّت کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں جس کا خدا، رسولؐ، کتاب، کعبہ، دین اور ایمان ایک ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

وہ اجتماعیت و اتحاد کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

فرد را ربط جماعت رحمت است

جوہر اورا کمال از ملّت است

تا توانی باجماعت یار باش

رونق ہنگامۂ احرار باش

(فرد کے لیے جماعت رحمت ہے۔ اس کی خوبیوں کو ملّت ہی کے ذریعے کمال حاصل ہوتا ہے۔ جہاں تک ہوسکے جماعت کے ساتھ وابستہ رہو اور آزاد لوگوں کے ہنگامے کی رونق بنے رہو)۔

وہ فرد اور جماعت کے ربط کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ایک جگہ کہتے ہیں کہ:

فرد تا اندر  جماعت گم شود

قطرہ وسعت طلب قلزم شود

فرد تنہا از مقاصد غافل است

قوتش آشفتگی را مائل است

(فرد جب جماعت میں گم ہوجاتا ہے تو وہ وسعت طلب قطرے کی طرح سمندر بن جاتا ہے۔ تنہا آدمی اپنے مقاصد سے غافل ہوجاتا ہے اور اس کی طاقت انتشار کی طرف مائل ہوتی ہے)۔

وہ کہتے ہیں کہ فرد کی بھرپور توانائی کا اظہار اجتماعیت کے ساتھ ہی پورے طور سے ہوسکتا ہے    ؎

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

ملّت کے ساتھ رابطۂ اُستوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے ، اُمیدِ بہار رکھ

وہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں ک رنگ و خون کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ملک، قوم، نسل اور وطن کی مصنوعی حدبندیوں نے نوعِ انسانی کا شیرازہ منتشر کرکے رکھ دیا ہے اور اس کا علاج سواے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسلامی معاشرے کے تصور کو رائج کیا جائے اور کم از کم مسلمان خود کو اسی معاشرے کا حصہ بنا لیں:

یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمز مسلمانی

اُخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا

نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو

اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہوجا

یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی

تو اے شرمندۂ ساحل! اُچھل کر بے کراں ہوجا

غبارآلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پَر تیرے

تو اے مرغِ حرم !اُڑنے سے پہلے پَرفشاں ہوجا

وہ انتشار و افتراق کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد کہتے ہیں کہ:

تعصب چھوڑ ناداں دہر کے آئینہ خانے میں

یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے بُرا تو نے

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

رشتہ وحدت چوں قوم از دست داد

صد گرہ بر روئے کارے ما افتاد

ما پریشاں در جہاں چوں اختریم

ہمدم و بیگانہ از یک دیگریم

باز ایں اوراق را شیرازہ کن

باز آئین محبت تازہ کن

(جب قوم نے اتحاد کا رشتہ چھوڑ دیا تو ہمارے کام میں سیکڑوں گرہیں پڑگئیں۔ ہم دنیا میں ستاروں کی مانند بکھرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں۔ ان اوراق کی پھر سے شیرازہ بندی کرو اور محبت کے آئین کو پھر تازہ کرو)۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

بتان شعوب و قبائل کو توڑ

رسومِ کُہن کے سلاسل کو توڑ

یہی دینِ محکم ، یہی فتح باب

کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب

وہ ایک دوسرے زاویے سے مزید کہتے ہیں کہ:

ربط و ضبطِ ملّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات

ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مُقدم ہوگئی

اُڑ گیا دنیا سے ُتو مانندِ خاکِ رہ گزر

وہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک ازلی ، ابدی، آفاقی اور عالم گیر پیغام ہے۔ اس کا مقصد تمام نوعِ انسانی کو اخوت کی لڑی میںپرو کر ایک وسیع تر ملّت اسلامیہ کاقیامِ عمل میں لانا ہے۔ اسلام، ہر قوم اور ہرملک کے لیے راہِ ہدایت ہے۔ اس لیے اس کے پیروکاروں کو رنگ و نسل اور ملک و وطن کے امتیازات مٹاکر یک جا ہوجانا چاہیے اوردنیاے انسانیت کے لیے ایک عالم گیر برادری کی مثال پیش کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ’جمعیت اقوام‘ کی تنظیم پر طنز کرتے ہوئے   کہتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ پیدا ہونا اصل ہے نہ کہ قوموں کا ایک جگہ اکٹھا ہوجانا:

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام

پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم

تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم

مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام

جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم

علامہ اقبال اتحاد کے لیے اسلامی قومیت کی درست فکر کو لازمی خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلامی قومیت کی بنیاد اسلام پر ہے۔ ملک و نسب، نسل اور وطن پر نہیں۔ اس تصور کی انھوں نے عمربھر شدومد سے تبلیغ کی۔ قومیت کے متعلق نظریات کے حوالے سے اقبال ایک ارتقائی عمل سے گزرے اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ نسلی، جغرافیائی، لسانی حوالے سے اقوام کی تقسیم مغرب کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے۔ اس لیے انھوں نے دنیابھر کے مسلمانوں کو اپنے نظریۂ ملت سے ایک ہونے کا پیغام دیا تاکہ مغرب کی ان سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے اور مسلمان اقوامِ عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام ایک بار پھر حاصل کرسکیں۔ اس مسئلے میں ان کا ارتقائی عمل بالکل ظاہروباہر ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں میں وطن سے ان کی گہری محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے اوّلین اُردو مجموعہ بانگِ درا کا آغاز ایک ایسی نظم سے ہوتاہے جو    وطن پرستی کے بلندپایہ جذبات سے بھرپور ہے۔ اس کا شمار ان نظموں میں ہوتا ہے جو حصولِ تعلیم کی غرض سے ان کے یورپ جانے سے قبل لکھی گئی۔ مثلاً اپنی نظم ’تصویر درد‘ میں وہ ہندستان کی قسمت پر آنسو بہاتے ہوئے کہتے ہیں:

رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو

کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردُوں نے

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

’ترانہ ہندی‘ ان کی وہ مشہور اور مقبول نظم ہے جو ہندستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔ اس میں انتہائی دل نشین طریقے سے اپنے وطن کے ساتھ گہرے لگائو اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

سارے جہاں سے اچھا ہندستان ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

غربت میں ہوں اگر ہم ، رہتا ہے دل وطن میں

سمجھو وہیں ہیں ہم بھی، دل ہو جہاں ہمارا

اس زمانے کی ایک اور نظم ’ہندستانی بچوں کا گیت‘ ایک ایسی نظم ہے جس کے ایک ایک لفظ سے وطن پرستانہ جذبات کا اظہار ہوتا ہے:

بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سینا

نوحِؑ نبی کا آکر ٹھیرا جہاں سفینا

رِفعت ہے جس زمیں کی بامِ فلک کا زینا

جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

اسی طرح اپنی نظم ’نیا شوالہ‘ میں انھوں نے یہ کہہ کر اپنی وطن پرستی کی انتہا کردی تھی کہ     ؎

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے  ُتو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ جوں جوں اقبال فکری ارتقا کے مراحل طے کرتے گئے، ان کے وطن پرستانہ جذبات دھیمے اور ملت پرستانہ جذبات گہرے ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ وطن کی محبت کے نظریے سے قطعاً کنارہ کش ہوگئے۔ مگر یہ اعتراض بالکل درست نہیں ہے۔ طاہر فاروقی سیرتِ اقبال میں لکھتے ہیں: ’’وطنیت کا وہ نظریہ جس کی تبلیغ سیاست ِ مغرب کی طرف سے ہوئی ہے، آپ اس کے شدید مخالف ہیں اور اقوام و ملل کے حق میں اس کو سمِ قاتل خیال کرتے ہیں۔ لیکن وطنیت کا یہ مفہوم کہ ہندی،عراقی، خراسانی،افغانی، روسی، مصری وغیرہ ہونے کے اعتبا ر سے ہرفرد کو اپنے وطن ولادت سے تعلق اور نسبت ہے، اس کے آپ قائل اور معترف ہیں‘‘۔

ان کی پختگی کے دورکی تصانیف جاویدنامہ ، پس چہ باید کرداے اقوام مشرق  اور مثنوی مسافر میں بھی حب ِ وطن کے لطیف جذبات کا اظہار جابجا ہوا ہے۔ جاویدنامہ  کا وہ حصہ تو خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جہاں انھوں نے ’قلزم خونیں‘ کے تحت روحِ ہندوستان اور   اس کے نالہ و فریاد کی خوب تصویر کشی کی ہے۔ انھوں نے میرجعفر اور میرصادق جیسے وطن کے غداروں کو ننگِ آدم، ننگ دیں، ننگِ وطن قرار دے کر ان کی روحوں کو ایک قدر ناپاک ثابت کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے پر علامہ اقبال نے اپنے ایک مضمون میں حتمی گفتگو کی ہے۔

علامہ اقبال وطنیت کے مسئلے پر مارچ ۱۹۳۸ء کے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ: ’’میں نظریۂ وطنیت کی تردید اس زمانے سے کر رہا ہوں، جب کہ دنیاے اسلام اور ہندستان میں اس نظریے کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا۔ مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتدا ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ یورپ کی دلی اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریۂ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب ہوگئی۔ (بحوالہ سیرتِ اقبال)

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:’’اگر بعض مسلم علما اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ’دین‘ اور ’وطن‘   اسی تصور کے تحت یک جا رہ سکتے ہیں تو میں مسلمانوں کو ہر وقت متنبہ کرتا ہوں کہ اس راہ کا مرحلہ اوّل تو لادینی ہوگی، اور اگر لادینی نہیں تو اسلام کو محض ایک اخلاقی نظریہ سمجھ کر اس کے اجتماعی نظام سے لاپروائی۔(بحوالہ سیرتِ اقبال)

علامہ اقبال وطنیت کو اسلام کی عالم گیر روح کے منافی خیال کرتے ہیں۔دوسرے لفظوں میںوہ اس کو شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس نئے بت کو توڑنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بانگِ درا کی ایک نظم ’وطنیت‘ جس کا ذیلی عنوان ہے: ’’وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘‘۔ انھوں نے بڑی وضاحت سے اپنے اس خیال کا اظہار کیا ہے:

اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور

ساقی نے بِناکی روشِ لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے

غارت گرِ کاشانۂ دین نبویؐ ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے ، ُتو مصطفوی ہے

وہ کہتے ہیں:

ما مسلمانیم و اولاد خلیل

از ابیکم گیر اگر خواہی دلیل

اصل ملّت در وطن دیدن کہ چہ

باد و آب و گل پرستیدن کہ چہ

بر نسب نازاں شدن نادانی است

حکم او اندر تن و تن فانی است

ملّت ما را اساسِ دیگر است

ایں اساس اندر دل ما مضمر است

حاضریم و دل بغائب بستہ ایم

پس زبند این و آں  وارستہ ایم

مدّعائے ما ، مآل ما یکے ست

طرز و انداز و خیالِ ما یکے ست

ما ز نعمت ہائے او اخواں شدیم

یک زبان و یک دل و یک جاں شدیم

(ہم حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کی اولاد ہیں۔ اگر تم دلیل چاہتے ہو تو قرآن کی آیت ملّۃ ابیکم ابراھیم سے دلیل حاصل کرو۔قوم کی بنیاد وطن میں دیکھنا کیسا! ہوا، مٹی اور پانی کو کیا پوجنا! نسب پر فخر کرنا حماقت ہے۔ اس کا تعلق جسم سے ہوتا ہے اور جسم فانی ہے۔ ہماری قوم کی بنیاد دوسری ہے۔ یہ بنیاد ہمارے دل کے اندر پوشیدہ ہے۔ ہم حاضر ہیں لیکن ہم نے دل کو غائب (اللہ تعالیٰ) سے وابستہ کر رکھا ہے۔ پس ہم کسی بھی طرح کی پابندی سے آزاد ہیں۔ ہمارے طورطریقے اور ہمارا خیال ایک ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمت (اسلام) سے بھائی بھائی بن گئے۔ ہم ایک زبان، ایک دل اور ایک جان ہوگئے)۔

اس کی عملی مثال پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال ایک جگہ کہتے ہیں     ؎

اسود از توحید احمر می شود

خویش فاروق و ابوذر می شود

(توحید کے ذریعے کالا گورا بن جاتا ہے، یعنی اس کا ہمسر بن جاتا ہے اور حضرت عمرفاروق ؓ اور حضرت ابوذرؓ کا قرابت دار ہوجاتا ہے)۔

وہ مزید کہتے ہیں   ع

ہر ملک ملکِ ما ست کہ ملکِ خداے ماست

(ہر ملک ہمارا ملک ہے کیونکہ ہمارے خدا کا ملک ہے)۔

حضرت کعب بن زہیرؓ نے جب ’قصیدہ بردہ‘ کہا تھا تو انھوں نے اس میں آپؐ کی شان میں یہ شعر بھی کہا تھا کہ:

ان الرسول لنور یستضاء بہ

وسیف من سیوف اللہ مصلول

(رسولؐ کی ذات بلاشبہہ نور کی مانند ہے جس کے ذریعے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور اللہ کی تلواروں میں سے سونتی ہوئی ایک تلوار ہیں)۔

انھوں نے پہلے (سیف من سیوف الھند، ہندستانی تلواروں میں سے ایک تلوار، اس زمانے میں ہندستانی تلوار اپنی تیزی اور اچھائی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھی) کہا تھا، تو آپؐ نے اس کو ناپسند فرمایا اور (سیف من سیوف اللّٰہ، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار) کہنے کو کہا۔

علامہ اقبال کہتے ہیں:

جوہر ما بامقامے بستہ نیست

بادۂ تندش بجا مے بستہ نیست

صورت ما ہی بہ بحر آزاد شو

یعنی از قیدِ مقام آزاد شو

(ہمارا جوہر کسی ایک مقام سے وابستہ نہیں ہے۔ اس کی سخت شراب کسی ایک جام تک محدود نہیں ہے۔ مچھلی کی مانند سمندر میں آزاد رہو، یعنی کسی مقام کی قید سے آزاد ہوجائو)۔

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہجرت کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو یہ درس دیا جائے کہ ان کی قومیت کی بنیاد وطن نہیں بلکہ نظریۂ توحید ہے:

عقدۂ قومیتِ مسلم کشود

از وطن آقاے ما ہجرت نمود

حکتمش یک ملت گیتی نورد

بر اساس کلمۂ تعمیر کرد

قصہ گویاں حق ز ما پوشیدہ اند

معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند

ہجرت آئینِ حیاتِ مسلم است

ایں ز اسباب ثبات مسلم است

معنی او از تنک آبی رم است

ترک شبنم بہر تسخیریم است

بگذر از گل گلستاں مقصود تست

ایں زیاں پیرایہ بند سود تست

(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم قومیت کا عقدہ حل کر دیا۔ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وطن سے ہجرت کی۔ آپؐ کی حکمت نے دنیا میں پھرنے والی قوم کی تعمیر کلمۂ توحید کی بنیاد پر کی۔ قصہ سنانے والوں نے ہم سے حق کو پوشیدہ رکھا اور ہجرت کے معنی غلط سمجھائے۔ ہجرت مسلمان کی زندگی کا دستور ہے۔ یہ مسلمانوں کے ثبات و استحکام کا ایک سبب ہے۔ اس کا مطلب تھوڑے پانی سے گریز اور دریا کی خاطر شبنم کو ترک کرنا ہے۔ اے مسلماں! پھول کو چھوڑ دے کیونکہ تیرا مقصود تو باغ ہے اور پھول چھوڑنے کا یہ نقصان تیرے فائدے کی خاطر ہے)۔

اسلام حسب و نسب کے حوالے سے تشخص کا قائل ہے نہ کہ تفضّل کا۔ حضرت سلمانؓ سے کسی نے نسب پوچھا تو آپ نے کہا کہ سلمان بن اسلام۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:

نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم

چمن زادیم و از یک شاخساریم

تمیز رنگ و بو بر ما حرام است

کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم

(ہم نہ افغانی ہیں نہ ترکی اور نہ تاتاری۔ ہم ایک چمن اور ایک شاخسار (اسلام) سے ہیں۔ ہم پر رنگ و بو کی تمیز حرام ہے۔ ہم ایک نئی بہار کے پروردہ ہیں)۔

ایک دوسری جگہ انھوں نے کہا ہے    ؎

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اتحاد کے لیے ایک مرکز درکار ہوتا ہے اور ہمارا مرکز بیت الحرام ہے:

قوم را ربط و نظام از مرکزے

روزگارش را دوام از مرکزے

رازدار و راز ما بیت الحرام

سوزما ہم سازِ ما بیت الحرام

تو ز پیوند حریمے زندۂٖ

تا طواف او کنی پایندۂٖ

(قوم ایک مرکز کے ساتھ ہی مربوط اور منظم ہوتی ہے۔ اس کی زندگی کو مرکز ہی سے دوام حاصل ہوتا ہے۔ ہمارا رازدار اور ہمارا راز بیت الحرام ہے۔ ہماری آرزوئوں اور تگ و دو کا محور بیت الحرام ہے۔ تو بیت الحرام سے وابستگی کے ذریعے زندہ ہے۔ جب تک تو اس کا طواف کرتا رہے گا، قائم رہے گا)۔

علامہ اقبال اتحاد کے لیے وسعتِ نظری کو لازمی خیال کرتے ہیں ۔ فقہی و کلامی مباحث میں کشادگی و وسعت کی وکالت کرتے ہیں اور تنگ نظری پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:

نہ فلسفی سے ، نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو

یہ دل کی موت ، وہ اندیشہ و نظر کا فساد

فقیہِ شہر کی تحقیر! کیا مجال مِری

مگر یہ بات کہ مَیں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

ملت اسلامیہ کا اتحاد اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب اس کو صالح اور باشعور افراد میسر ہوں۔ ہرشخص اپنے آپ میں مثلِ انجمن ہو اور انھی سے اسلامی قیادت تشکیل پاتی ہو۔ اس کے لیے علامہ اقبال کا یہ شعر نہایت جامع ہے    ؎

نگہ بلند، سخن دل نواز ، جاں پُرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرکاررواں کے لیے


(بہ شکریہ وحدتِ جدید، بھارت، وحدت اُمت ِ رسولؐ نمبر)

 

۲۳ سے ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک سوڈان کے دارالحکومت میں حکمران جماعت ’قومی کانگریس‘ کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ۱۵برس قبل اس سے الگ ہوکر اپنی نئی جماعت بنالینے والے اس کے بانی سربراہ جناب ڈاکٹر حسن الترابی بھی نہ صرف اجتماع میں شریک ہوئے بلکہ انھوں نے اس سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں جب کہا کہ نہ تو یہ پارٹی، اس کا نظام،     اس کے اہداف و مقاصد میرے لیے نئے ہیں اور نہ آپ میں سے اکثر شرکا ہی ، تو پورے اجتماع میں آنسوئوں اور نعروں کا ملاپ دکھائی دیا۔ ۱۵برس کی دُوری اور اختلافات کے بعد اکثر شرکا کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ۸۲سالہ ترابی صاحب کو براہِ راست دیکھ اور سن پارہے تھے۔ ترابی صاحب نے بھی اس عرصے کا اکثر حصہ یا تو جیل میں گزارا یا پھر حکومت اور حکومتی جماعت کی شدید مخالفت میں۔

حالیہ اجتماعِ عام کی سب سے اہم اور خوش کن حقیقت یہی تھی کہ نہ صرف ترابی صاحب بلکہ اِکا دکا کے علاوہ باقی تمام پارٹیوں کے مابین ایک قومی یک جہتی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ گذشتہ جنوری میں شروع ہونے والے اس قومی مذاکراتی عمل کا سہرا، صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کے سرجاتا ہے۔ اس دوران کُل جماعتی اور دو جماعتی مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ مختلف اُمورپر اختلافات رکھنے کے باوجود اب تمام جماعتوں کے مابین تعاون اور مثبت و تعمیری اپوزیشن کا ایک نیا دور شروع ہوسکے گا۔ اس وقت صرف ایک مؤثر جماعت نے خود کو اس عمل سے خارج رکھا ہوا ہے اور وہ ہے سابق وزیراعظم صادق المہدی صاحب کی جماعت ’حزب الامۃ‘۔ خود صادق المہدی صاحب ناراض ہوکر قاہرہ جابیٹھے ہیں۔ جنرل سیسی کے زیرسایہ جابیٹھنا بذاتِ خود ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے۔

حکمران جماعت ’المؤتمر الوطنی‘یا قومی کانگریس،تحریکِ اسلامی سوڈان کا سیاسی بازو ہے۔ تحریک اسلامی کی دعوتی و تربیتی سرگرمیاں الحرکۃ الاسلامیۃ کے نام سے ہی جاری ہیں۔ المؤتمرالوطنی میں شرکت و شمولیت نسبتاً آسان عمل ہے۔ تقریباً پونے چار کروڑ کی آبادی میں اس کے ارکان کی تعداد اس وقت تقریباً پونے سات لاکھ ہے۔ پارٹی دستور کے مطابق ہرپانچ سال بعد اس کا    تین روزہ اجتماع عام ہوتا ہے۔ اسی میں خفیہ راے دہی کے ذریعے پارٹی کے صدر اور ۴۰۰ رکنی مجلس شوریٰ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ تین روزہ اجتماع عام بنیادی طور پر نمایندگان کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تقریباً چھے ماہ کے دوران بنیادی یونٹس کے ۱۸ہزار اجتماع عام ہوتے ہیں۔ ان میں نمایندگان منتخب ہونے والے ارکان۱۲ہزار مقامی اجتماعات منعقد کرتے ہیں، پھر ۱۰۷ ضلعی اجتماع عام ہوتے ہیں، اور بعدازاں ۱۸ صوبائی اجتماع مرکزی اجتماع عام کے لیے نمایندگان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سات اجتماع شعبہ جاتی بھی ہوتے ہیں جن میں خواتین، نوجوان، مزدور، کسان اپنے نمایندگان منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح بالآخر ۶ہزار نمایندگان کا یہ اجتماع عام حتمی صورت اختیار کرجاتا ہے۔

حالیہ اجتماع عام کا ایک اہم ترین فیصلہ نئی مجلس شوریٰ ، پارٹی سربراہ کے انتخاب کے علاوہ  اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے ملک کے صدارتی انتخاب کے لیے اپنا نمایندہ منتخب کرنا بھی تھا۔ یہ کوئی سنی سنائی یا ذرائع ابلاغ کی بات نہیں بلکہ بعض معاملات میں صدر عمرالبشیر سے اختلاف رکھنے والے اہم پارٹی رہنمائوں نے بھی بتایا کہ صدر عمرالبشیر کسی صورت آیندہ صدارتی اُمیدوار نہیں بننا چاہتے تھے۔ انھوں نے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سامنے حتمی معذرت کردی تھی۔   شوریٰ نے بھی ان کی بات پر پوری سنجیدگی سے غور کیا، لیکن پھر اس نتیجے تک پہنچی کہ موجودہ علاقائی، بین الاقوامی اور ملکی حالات میں ان کی معذرت قبول نہیں کی جاسکتی۔ خفیہ راے دہی ہوئی اور مجلس شوریٰ نے عمرحسن البشیرہی کو آیندہ صدارتی اُمیدوار قرار دیا۔ شوریٰ کا فیصلہ آنے کے بعد بعض مقامی ذرائع ابلاغ اور بالخصوص علاقائی ذرائع ابلاغ نے اس فیصلے پر کڑی تنقید شروع کر دی۔ پارٹی کے اندر سنگین اختلافات کی خبریں چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اجتماع عام کے دوران جماعت ۱۵برس بعد ایک بار پھر تقسیم ہوجائے گی۔ خود صدر عمرالبشیر نے تین روزہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں ان خبروں اور پروپیگنڈے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بعض دوستوں نے ہمیں یہاں تک مشورہ دیا کہ آپ اجتماعِ عام منسوخ کردیں۔ اجتماع ہوا تو اختلافات پھوٹ پڑیں گے اور شوریٰ کے فیصلوں سے بغاوت کردی جائے گی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اختلافات کی آرزو رکھنے والوں کی خواہش کے برعکس ہم پہلے سے بھی زیادہ یکسو ہوکر جارہے ہیں‘‘۔ ان کے خطاب سے قبل کانفرنس سیکرٹریٹ کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا گیا کہ خفیہ راے دہی کے ذریعے ۹۳ فی صد نمایندگان نے صدرعمرالبشیر ہی کو پارٹی کا آیندہ سربراہ اور صدارتی اُمیدوار منتخب کیا ہے۔

صدربشیر کو اپنے دورِ اقتدار میں سنگین خطرات اور چیلنجوں کاسامنا رہا ہے۔ خود پارٹی کے بانی صدر اور اصل فکری رہنما ڈاکٹر حسن الترابی سے اختلافات اب بھی سنگین تر ہیں۔ جنوبی سوڈان میں ۲۲سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی تقریباً تمام ملکی وسائل ہڑپ کرتی رہی۔ کئی بار دیگر پڑوسی ممالک کی طرف سے فوج کشی کروائی گئی۔ عرب اور مسلم ممالک نے قطع تعلق بلکہ محاصرہ کیے رکھا۔ جنوبی شورش سے نجات کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کرواتے ہوئے غالب اکثریت کی راے کے مطابق جنوب کو الگ کردیا، تو کچھ ہی عرصے بعد مغربی علاقے دارفور میں بغاوت اور پڑوسی ممالک سے براہِ راست مداخلت کروا دی گئی۔ چین کی مدد سے طویل جدوجہد کے بعد ملک میں پٹرول دریافت کیا گیا تھا، لیکن جنوبی علیحدگی کے بعد پٹرول کے سب کنویں انھیں دینا پڑے۔ اقتصادی حالت جو قدرے سنبھلنے لگی تھی، ایک بار پھر ڈھلوان پر آگئی۔ بین الاقوامی عدالتوں میں سوڈان اور اس کے صدر پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کردیے گئے۔ عمرالبشیر کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ دھمکی دی گئی کہ کسی بھی بین الاقوامی سفر کے دوران انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کردیں، جو آج بھی جاری ہیں۔ کئی عالمی بنک سوڈان کے ساتھ  کوئی مالی معاملات نہیں کرسکتے۔ متعدد بار فوج کے اندر سے بغاوت کروانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور الشفا نامی ادویات بنانے کے کارخانے میں کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر خود امریکا حملہ آور ہوگیا۔ لیکن ایسے خطرات اور الزامات کے باوجود المؤتمر الوطنی اور عمرالبشیر کا تعمیری سفر جاری رہا۔

اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں آنے اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص کرپشن کی ایک پائی کے قریب بھی نہ پھٹکے، چہار جانب اشارۂ ابرو کے منتظر رہنے والے جان نثار ساتھیوں کے جلو میں رہنے کے باوجود، دل و دماغ میں تکبرکا خناس اپنی جگہ نہ بناسکے، تو ایسا شخص یقینا آج کا ولی اللہ کہلانے کا حق دار ہے۔ عمرالبشیر ہی نہیں، ان کی جماعت کی   غالب اکثریت نے خود کو ان دونوں آزمایشوں میں سرخرو ثابت کیا ہے۔ ویسے تو سوڈانی معاشرہ دیگر تمام عرب ملکوں کی نسبت انتہائی ملنسار، متواضع، بے تکلف اور باہم مربوط معاشرہ ہے، لیکن بالخصوص حکومتی ذمہ داران ہرشخص کی دسترس میں اور تقریباً ہرپروٹوکول سے بے نیاز ہیں۔ اب بھی صدرعمرالبشیر ہی نہیں، ان کے کئی قریبی اور اہم ذمہ داران نے بذاتِ خود وزارتیں اور مناصب چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد جماعت کے فکری رہنما سمجھے جانے والے  علی عثمان طٰہٰ طویل عرصے سے ملک کے نائب صدر اول تھے، خود انھوں نے اصرار کرکے اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ تفصیلی ملاقات میں اس پارٹی اجلاس کا حال سنا رہے تھے جس میں انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ کہنے لگے کہ صدرالبشیر نے جب مجلس کو میرے فیصلے سے آگاہ کیا، تو دیر تک میرے بارے میں بہت جذباتی انداز میں کلمات خیروتحسین کہتے رہے۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو ایک خاتون رکن کھڑی ہوکر کہنے لگیں: برادرم صدرصاحب! (صدر البشیر کو اسی طرح مخاطب کیا جاتاہے: الاخ الرئیس) آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اسی طرح ہے، تو پھر بھلا الشیخ علی کو جانے ہی کیوں دیا؟ پوری مجلس زعفران زار ہوگئی اور صدرصاحب نے کہا: یہ بات خود الشیخ علی ہی سے پوچھیں۔

مناصب کو امانت و امتحان سمجھے جانے کی یہ ایمانی روح، ربِ ذوالجلال کی طرف سے تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے ایک عظیم انعام ہے۔ اجتماعِ عام کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خود صدرالبشیر کا جملہ بھی ملاحظہ کیجیے: اَلْمَنَاصِبُ فِی أَعْیُنِنَا أَمَانَۃٌ وَ اِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃ ’’ہماری نگاہ میں عہدے اور مناصب ایک امانت ہیں اور یہ عہدے قیامت کے روز رُسوائی اور ندامت کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِمبارک ہی سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا: اِلَّا مَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (یہ عہدے روزِ قیامت رُسوائی اور ندامت ہیں) الا یہ کہ ان پر فائز ذمہ داران ان مناصب کا حق اور ان کے مکمل تقاضے پورے کریں۔

اندازہ یہی ہے کہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے انتخابات میں عمرحسن البشیر دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے۔خود ان کی طرف سے کی جانے والی دستوری ترمیم کے بعد اب یہ ان کی آخری ٹرم ہوگی۔ پارٹی اور ملکی دستور میں انھوں نے ترمیم کروا دی ہے کہ کوئی بھی صدر دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اصل سوال سوڈان کو درپیش خطرات و مسائل کا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہر دور میں اُس کی نصرت اپنے اِن مخلص بندوں کے شاملِ حال رہی ہے ۔ ایک اہم ذمہ دار بتا رہے تھے کہ جنوبی سوڈان کا پٹرول چلے جانے کے بعد اللہ نے ملک میں برکتوں کے کئی نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ زمین سونا اُگلنے لگی ہے، فصلیں کئی گنا زیادہ پیداوار دینے لگی ہیں۔ اصل سونا بھی بڑی مقدار میں دریافت ہوا ہے۔ عام لوگ تھوڑی سی کھدائی کے بعدسونا نکال رہے ہیں۔    صرف گذشتہ برس میں ریاست نے اپنے عوام سے ۱۲؍ارب ڈالر کا سونا خریدا ہے۔ ان کے بقول:  ہمیں رزق کے بارے میں کبھی بھی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں صرف اخلاص کے ساتھ درست راستے پر چلنا اور کوشش کرنا ہے، رزق کا مالک تو رب العالمین ہے جس نے اپنی ایک صفت ’’الرزاق‘‘ بتائی ہے اور اپنی ساری مخلوق کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔

اجتماعِ عام کے دوسرے روز شام کے سیشن میں بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں کا خطاب تھا۔ اس میں ۴۵ ممالک سے درجنوں ذمہ داران شریک تھے۔ چین، شمالی کوریا، مراکش اور موریطانیہ کے اعلیٰ سطحی سرکاری وفد بھی شریک تھے۔ کئی اسلامی تحریکات کے ذمہ داران بھی شریک تھے۔ اکثر نے اپنے ملکی حالات کے علاوہ تحریکی صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔ تیونس میں انقلاب کے بعد ۲۶؍اکتوبرکو ہونے والے پہلے عام انتخابات سب کی توجہ اور دُعائیں حاصل کر رہے تھے۔ افریقی ممالک سے آنے والے مہمان زیادہ تھے۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق اپنے اکثر    عرب احباب کی بے رُخی کے باعث ہم نے بھی اپنی توجہ افریقی ممالک پر مرکوز کردی ہے۔ ساتھ ساتھ عرب ممالک سے بھی ریاستی تعلقات بحال و مستحکم کرنے کی سعی جاری ہے۔ اسی ماہ صدربشیرنے سعودی عرب اور مصر کا دورہ کیا ہے اور اُمید ہے کہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔

مجھے بھی اس سیشن میں گفتگو کا موقع دیا گیا تو کشمیر، پاکستان، جماعت، تحریکی فکر اور دیگر اُمور کے علاوہ بنگلہ دیش کا تفصیلی ذکر کیا۔ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر قائدین کی گرفتاری کا بتایا۔ الحمدللہ شرکا نے جواب میں انتہائی گرم جوشی اور محبت کا اظہار کیا۔ اس سیشن سے واپس آتے ہی  بنگلہ دیش سے محترم پروفیسر صاحب کی حالت نازک ہونے اور پھر دنیا کے دکھوں سے ان کے  آزاد ہوجانے کی اطلاع ملی۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے بے اختیار آنسو اور دعائیں اُمڈ آئیں۔ اپنے سوڈانی میزبانوں کے علاوہ دنیابھر کی تحریکوں سے روابط کا آغاز کردیا۔ بدقسمتی سے اگلے روز جمعہ تھا اور اکثر عرب ممالک میں سفارت خانے بند تھے وگرنہ ہماری بھرپور کوشش اور خواہش تھی کہ نمازِجنازہ میں تحریکاتِ اسلامی کی نمایندگی ہوسکے۔

تقریباً ہر ملک میں مرحوم کے لیے نمازِ جمعہ کے بعد غائبانہ نمازِ جنازہ کا اعلان کیا گیا۔ خرطوم کے اجتماعِ عام میں موریطانیہ سے آئے ہوئے عالمِ ربانی علامہ محمدالحسن الدد نے نمازِ جنازہ پڑھائی، جب کہ تحریکِ اسلامی سوڈان کے سربراہ الزبیر الحسن نے نماز سے قبل پروفیسر صاحب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مجھے خرطوم کی مرکزی جامع مسجد جانے کا حکم ملا۔ خطبۂ جمعہ میں معروف اسکالر ڈاکٹر عصام البشیر نے بھی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا اور پھر غائبانہ نمازِ جنازہ کے بعد مجھے بنگلہ دیش کے بارے میں اظہارِ خیال کا کہا گیا۔ مسجد میں کئی مسلم سفرا سمیت عوام کی بڑی تعداد تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔باقی دو روز کا قیامِ سوڈان بھی عملاً پروفیسرصاحب کے ذکرخیر ، اس سلسلے میں بیرونی احباب سے روابط اور تعزیتی کلمات ہی کے لیے وقف ہوگیا۔ سب اس پر متفق تھے کہ ڈھاکہ میں پروفیسر غلام اعظم صاحب کی نمازِ جنازہ اور دنیابھر میں غائبانہ نماز ان کی مظلومیت و براء ت اور ظالم حسینہ واجد حکومت کے جرائم کے خلاف واضح  عوامی ریفرنڈم ہے۔ کئی احباب نے امام ابن تیمیہؒ کا یہ جملہ یاد دلایا کہ ’’ہم میں سے کون غلطی پر ہے اور کون حق پر؟ اس بات کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے‘‘۔ سوڈانی عوام نے بھی اس موقعے پر اپنا فیصلہ شہیدِ زندان پروفیسر غلام اعظم صاحب کے حق میں دیا ہے۔

۲۰۱۴ء میں افغانستان کے صدارتی انتخابات کا تنازع بالآخر حل کر لیا گیا ہے اورایک معاہدے کے تحت دو صدارتی امیدواروں ڈاکٹراشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پانے کے بعد نئے صدر نے حلف اٹھالیا۔ اس طرح حامدکرزئی کے طویل دور صدارت کا ۱۰سالہ خاتمہ اور اس کے جانشین کے تعین کا مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ نئے صدر نے حلف اٹھانے کے بعد اگلے روز امریکا کے ساتھ اس دو طرفہ معاہدے پر دستخط کر دیے جس کا امریکی حکومت کو ایک طویل عرصے سے انتظار تھا اور اس کے لیے اس کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے، کیونکہ سابق صدرحامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس معاہدے کی رو سے اب امریکی صدر باراک اوباما اپنی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج دسمبر ۲۰۱۴ء تک نکال سکیں گے اور نسبتاً طویل عرصے تک اپنی افواج کا ایک حصہ افغانستان میں بر قرار رکھیں گے ۔

ان دونوں معاہدوں کا ایک تفصیلی جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ان چند اہم عوامل کا تذکرہ کریں جو موجودہ دور میں افغانستان کی عالمی سطح پر اہمیت اور واحد سوپر پاور امریکا کے   اس کے بارے میں جاری رویے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر    فوج کشی کی اور پھر ایک دہائی تک وہ دنیا کے اس غریب ترین ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنے کے لیے کوشاں رہا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے پورے افغانستان کو بمباری سے     تباہ و برباد کیا۔ سابق سوویت یونین کی اس جارحیت کے نتیجے میں ۱۵لاکھ افغان جاں بحق ہوئے ہیں، ۵۰لاکھ سے زائد افغان شہر ی پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ پوری دنیا نے اس جارحیت کی مذمت کی اور بالآخر افغان مجاہدین کی لازوال قربانیوں اور عالمی طاقتوں کی کوششوں سے وہ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد۲۰۰۱ء میں امریکا اپنے تمام اتحادیوں اور لائو شکر سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا اور طاقت کے بے تحاشا استعمال کے بعد یہاں کی اسلامی امارت کو ختم کرنے اور اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا ۔

 گذشتہ ایک دہائی میں امریکی حکومت نے اربوں ڈالر خرچ کر کے افغانستان میں اپنی مرضی کا جمہوری نظام قائم کرنے کی کوشش کی ۔ صدارتی ،پارلیمانی ، صوبائی ہر سطح پر انتخابات ہوتے رہے لیکن وہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا، اس کی ہلکی سی جھلک آپ ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے نتائج میں دیکھ سکتے ہیں۔ جب ناکام ہونے والے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے دوسرے مرحلے کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا، تو اس کے بعد دوبارہ گنتی کا اہتمام ہو اجس کو ’ووٹ آڈٹ‘کا نام دیا گیا۔ عالمی مبصرین کی موجودگی میں دونوں صدارتی امیدواران کے نمایندوں کے سامنے ووٹوںکی دوبارہ گنتی کی گئی اور جعلی ووٹوں کو مسترد کیا گیا، تو آخر میں کسی بھی حتمی نتیجے کا اعلان تک نہ کیا جا سکا۔گویا پورا انتخابی عمل جو کئی مہینوں پر محیط تھا اور جس پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے تھے، بے نتیجہ رہا اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی کوششوں سے دونوں سیاسی شخصیات کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں نئی کابل حکومت وجود میں آئی ۔ اب آئیں ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

پہلا معاہدہ

۲۰ستمبر ۲۰۱۴ء کو طے پانے والے اس معاہدے کا عنوان ہے: ’’قومی اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے دو انتخابی ٹیموں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ‘‘۔ اس معاہدے کا آغاز اللہ کے بابرکت نام سے کیا گیا اور اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ اس کے ذریعے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا ایک قانونی حل طے کیا جائے گا ۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ہمارا محبوب وطن افغانستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ یہاں ایک مضبوط آئینی حکومت کا قیام عمل میں آئے جو سیاسی استحکام اور اجتماعی سوچ کی حامل ہو ۔

موجودہ دور کی نزاکتوں کے پیش نظر ضروری ہے کہ ایک ایسی وسیع البنیاد قومی فکر پیدا کی جائے جو سیاسی اصلاحات اور بنیادی تبدیلیوں کو انگیز کر سکے ۔ قوم کی واضح اکثریت کی نمایندگی کرتے ہوئے دوسرے مرحلے کی انتخابی ٹیمیں اپنی قومی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ایک قومی وحدانی حکومت قائم کر رہی ہیں ۔ اس معاہدے کے تین بنیادی نکات درج ذیل ہیں:

  1. اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کو تسلیم کیا جائے گا اور اس کے فراہم کردہ اصولوں ، جہاد کے مقاصد کے حصول اور افغان عوام کی جدوجہد کے پیش نظر ایک قومی و اصلاحی پروگرام بنایا جائے گا۔
  2.  سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں قومی حکومت کا قیام ، صدارتی فرمان کے ذریعے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کی تخلیق، لویہ جرگہ کا انعقاد جس میں ایگزیکٹو وزیر اعظم کے منصب کا قیام، اہم حکومتی عہدوں کی تعیناتی ،اتفاق راے اور میرٹ اور انتخابی اصلاحات کو عمل میں لایا جائے گا۔
  3. جس طرح دونوں پارٹیوں نے باہمی اتفاق سے الیکشن آڈٹ کا کام مکمل کیا اسی طرح سیاسی محاذ پر بھی دونوں مل کر کام کریں گے ۔ اس کے لیے مشترکہ کمیشن مقرر کیا جائے گا جو مل کر تمام معاملات طے کرے گا۔

بعد میں اس معاہدے پر دونوں صدارتی امیدواروں ڈاکٹر محمد اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے دستخط ثبت کیے ۔ معاہدے کے گواہ کے طور پر افغانستان میں امریکی سفیر جیمزبی کننگھم اور اقوام متحدہ کے نمایندے جان کیوبس نے بھی دستخط کیے۔

معاہدے میں بین الاقوامی برادری کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جس نے سیاسی اور تکنیکی معاونت فراہم کی، اور متعلقہ پارٹیوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس معاہدے پر عمل درآمد اور قومی حکومت کے قیام کی حمایت کرتے رہیں گے ۔

اس معاہدے کے بعد ۲۹ستمبر کو ڈاکٹر اشرف غنی نے افغان صدارتی محل (ارگ)میں ہونے والی ایک بڑی تقریب میں نئے افغان صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ۔ اس موقعے پر جنرل عبدالرشید دوستم اور سرور دانش نے نائب صدور کی حیثیت سے حلف اٹھایا ، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے چیف ایگزیکٹو (CEO)کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ یہ وہ منصب ہے جو خاص ان کے لیے نئے معاہدے میں تخلیق کیا گیا ہے ۔ تقریب حلف برداری میں صدر پاکستان ممنون حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے علاوہ متعدد ممالک کے سربراہان اور نمایندوں نے شرکت کی۔ نئی حکومت کو اب کابینہ سازی کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لیے دونوں گروپوں کے ممکنہ امیدوار کابل میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور زبردست جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے ۔

دوسرا معاہدہ

دوسرا معاہدہ جو ریاست ہاے متحدہ امریکا اور اسلامی جمہوریہ افغانستان کے درمیان طے پایا وہ باہمی دفاع اور سلامتی کے لیے تعاون کا معاہد ہ ہے جس پر حلف اٹھانے کے بعد اگلے ہی روز ڈاکٹر اشرف غنی احمدزئی نے دستخط کیے ۔ یہ وہ معاہدہ تھا جس کی امریکی حکومت کو بہت جلدی تھی اور عرصۂ دراز سے وہ اس موقعے کے انتظار میں تھے ۔ چنانچہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر نئی کابل انتظامیہ کے سربراہ سے دستخط کروا لیے گئے ۔

معاہدے کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں نے اس کو خاصی عرق ریزی سے تیار کیا ہے ۔ اس کی ۲۶دفعات ہیں ۔ جس میں تفصیل سے ان تمام معاملات و تنازعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو تادیر افغانستان میں امریکی افواج کے قیام سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اس معاہدے کے جواز کے طور پر جو حوالے دیے گئے ہیں، ان میں ۲مئی ۲۰۱۴ء کو افغانستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ معاہدہ ، ۲۱مئی ۲۰۱۴ء کو شکاگو میں سربراہان مملکت کانفرنس کا اعلامیہ، اور ۲۰۱۳ء میں افغانستان کے لویہ جرگہ کی قرار داد شامل ہیں۔ اس کا اصل مقصد افغانستان کی سا لمیت، آزادی ،جغرافیائی سرحدوں اور قومی وحدت کی حفاظت ہے ۔ معاہدے کی تمہید میں باربار افغانستان کے داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصول کو دہرایا گیا ہے ۔ معاہدے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس ملک کو القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ پڑوسی ممالک کے خدشات کے پیش نظر اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی اڈے اور افواج ان کے خلاف بہر صورت استعمال نہیں کی جائیں گی ۔

معاہدے کی ۲۶ دفعات کے عنوانات حسب ذیل ہیں: اصلاحات کی تشریح ، مقصد اور دائرہ اختیار ، قوانین ، افغانستان کی دفاعی صلاحیت کی ترقی اور استحکام ، دفاع اور سلامتی کے لیے باہمی تعاون کا طریقۂ کار ، بیرونی جارحیت کا سد باب ، طے شدہ سہولتوں اور اڈوں کا استعمال ، جایداد کی ملکیت ، اسلحہ اور آلات کی اسٹوریج اور استعمال ، جہازوں ،کشتیوں اور گاڑیوں کی نقل و حرکت ، ٹھیکہ داری کے ضابطے ، اشیا ے صرف اور مواصلات ، افرادِ کار کی قانونی پوزیشن ، اسلحہ اور یونیفارم کا استعمال ، ملک میں آنے اورجانے کے ضابطے ، درآمدات و برآمدات ، محصولات ، ڈرائیونگ اور پیشہ ورانہ لائسنس کا اجرا ، موٹر گاڑیوں کے لائسنس ، ضروری خدمات، مثلاً ڈاک ، بینکاری وغیرہ ، زرمبادلہ ، قانونی دعوے ، ضمیمے ، تنازعات اور معاہدے ، مشترکہ کمیشن اور معاہدے کی تاریخ نفاذ اور خاتمے کا طریقہ۔ گویا کوشش کی گئی ہے کہ جزئیات میں جا کر امریکی مفادات اور کارروائیوں کو قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔

اس معاہدے کے تحت ہر ہر معاملے میں امریکی مفاد کو ترجیح دی گئی ہے اور پھر بھی دعویٰ  کیا جا رہا ہے کہ افغان امور میں عدم مداخلت اس معاہدے کا سب سے اہم نکتہ ہے ۔ یہ معاہدہ   یکم جنوری ۲۰۱۵ء سے لاگو ہو گا اور اس کی مدتِ کار کا کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے، یعنی خاتمے کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ایک پارٹی اس کو ختم کرنا چاہے تو اس کے لیے      اس دوسری پارٹی کو دوسال کا تحریر ی نوٹس دینا پڑے گا۔ اس معاہدے کے تحت امریکی افواج کو درج ذیل مقامات اور شہروں میں اپنے اڈے قائم کرنے یا برقرار رکھنے کی اجازت ہو گی: کابل ، بگرام ، مزار شریف ، ہرات ، قندہار ، شوراب (ہلمند )،گردیز ، جلال آباد اور شین ڈھنڈ۔ اس کے علاوہ بھی اگر کسی اور مقام پر امریکی فوج چاہے تو اپنی موجودگی رکھ سکے گی، صرف وزارت دفاع سے اس کی اجازت لینی ہو گی ۔

جن مقامات کے ذریعے امریکی افواج افغانستان میں داخل یا خارج ہو سکیں گی ان میں بگرام کا ہوائی اڈا ،کابل کا بین الاقوامی ہوائی اڈا ، قندہار ، شین ڈھنڈ ، ہرات ، مزارشریف اور شوراب کے فضائی مستقر ، زمینی راستے طورخم ، سپین بولدک ، طور غنڈی (ہرات )،ہیرتان بندر (بلخ )اور شیرخان بندر (قندوز) شامل ہیں۔ اس میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ جن پڑوسی ممالک سے امریکی افواج گزر کر افغانستان میں داخل ہوں گی آیا ان سے کوئی معاہدہ کیا گیا ہے یا اجازت لی گئی ہے یا نہیں، جس میں پاکستان بھی شامل ہے ، واضح نہیں۔

اس معاہدے میں جس انداز سے افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر اب تک عالمی ادارے اور حقوق انسانی کے دعوے دار خاموش ہیں ۔ بین الاقوامی ضابطوں میں اس کی کس قدر گنجایش ہے، اس پر بھی کوئی بات نہیں کر رہا ہے ۔ اس کے اخلاقی پہلوئوں پر بھی کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے ۔ ایک عجیب سی خاموشی ہے ۔ اس پر کسی حکومت نے اب تک اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا ۔اس پرکوئی بھی نہیں بول رہا ہے،   حتیٰ کہ افغانستان کے دو اہم اور بڑے پڑوسی اور حریف ممالک روس اور چین کے علاوہ امریکا مخالف ایران بھی اس معاہدے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ یورپین یونین ، او آئی سی ، اقوام متحدہ کے ادارے ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ، ہیومن رائٹس کمیشن، سب کے سب خاموش ہیں ، جیسے ان سب کے لب سی دیے گئے ہوں۔

امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے بھی اس معاہدے کا نہ صرف خیر مقدم کیا ہے بلکہ اسے افغانستان کے استحکام اور امن و سلامتی کے لیے ناگزیر بھی قرار دیا ہے ۔ حیرت ہے کہ پاکستا ن جس پر افغانستان میںمداخلت اور طالبان کی تحریک مزاحمت کی پشتیبانی کا الزام تسلسل کے ساتھ لگتا رہا ہے، اس کی جانب سے اس نام نہاد دو طرفہ معاہدے کو سراہا گیا ہے ۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جس معاہدے کی تحسین بھارت کی جانب سے کی جا رہی ہے اسے پاکستان کے مفاد میں کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ اس خطے میں ڈیورنڈ لائین کے آرپار لگی آگ کا واحد ذمہ دار امریکا ہے؟ کیا امریکا افغانستان میں اپنی کھلی جارحیت اور پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی پشتیبانی کے الزامات سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟  یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکا جب تک اس خطے میںموجودرہے گا تب تک یہاں نہ تو امن کی خواہش پوری ہو سکتی ہے اور نہ یہ خطہ ہی ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ افغان امریکا دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کا حکومت پاکستان کی جانب سے خیر مقدم تو شاید پاکستانی حکمرانوں کی مجبوری ہو گی لیکن اس کا ایک قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کسی بھی سیاسی اور مذہبی راہنما کو بھی اس یک طرفہ معاہدے پر لب کشائی کی ہمت نہیں ہوئی، جن میں نام نہاد قوم پرست راہنمائوں سے لے کر مذہبی راہنما تک شامل ہیں ۔

تاہم، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خیبر ایجنسی کے اپنے حالیہ دورے کے موقعے پر پاک افغان بارڈر پر واقع سرحدی علاقے لنڈی کوتل میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کے دوران افغان امریکا سیکیورٹی معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر جن تحفظات کا اظہار کیا ہے،  اس کا افغانستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے دیکھنے والوں کی غالب اکثریت نے زبردست خیر مقدم کیا ہے ۔ واضح رہے کہ سراج الحق صاحب نے مذکورہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے طالبان اور حکمت یار گروپ کے ساتھ مذاکرات کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں، البتہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ٹھیرانے کے معاہدے پر تشویش ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی میں تمام ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشیں ہوں گی اور اس سے ہمسایہ ممالک میں بے چینی برقرار رہے گی۔ انھوں نے امریکی افواج کی دسمبر۲۰۱۴ء کے بعد افغانستان میں موجودگی کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک کی جس بے چینی کا ذکر کیا ہے عملاً تو یہ بات افغانستان کے ہر پڑوسی ملک کے دل کی آواز ہے، لیکن چونکہ یہ ممالک اپنی کمزوریوں اور سیاسی مجبوریوں، نیز بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے افغان امریکا معاہدے پر کھل کر کچھ کہنے سے معذور ہیں، اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ اس معاہدے پر ان کی خاموشی کو جس ظاہری رضامندی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، وہ دراصل ان ممالک کی ’دیکھو اور انتظار کرو‘ پالیسی کا مظہر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک نے گذشتہ ۱۳ سالہ خاموشی کے باوجود امریکا کی اپنے پڑوس میں موجودگی کو نہ تو دل سے قبول کیا ہے اور نہ وہ اس موجود گی کو آیندہ ہی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے۔ وہ ایسا کیوں نہیں کریں گے اس کی حقیقت سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے ۔

علاقائی اور عالمی تبدیلیوں نے ترکی کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اُس کے لیے  علاقائی اور عالمی سیاست میں کردار ادا کرنے کا انحصار کئی باتوں پر ہے:

  1. امریکا اور یورپی یونین کے تعلقات ترکی کے ساتھ کیا رُخ اورنوعیت اختیار کریں گے؟ امریکا کی نسبت یورپی یونین کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا ترکی کی ترجیحات میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود امریکا کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
  2. عرب ریاستیں عالمی جغرافیائی سیاست میں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ اُنھیں محض تیل اور گیس کے چشمے سمجھ کر اُن کا سیاسی کردار متعین نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ عرب ممالک دنیا بھر کے نہایت اہم بحری محلِ وقوع پر واقع ہیں اور ترکی کو یہاں نفوذ کی بہرحال ضرورت ہے۔ اسی طرح اس خطے کے اندر ایران کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے جس نے گذشتہ ۳۰سال کے دوران متعدد ممالک، تحریکات اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے روابط کا ایک گہرا نظام قائم کرلیا ہے۔ اس صورت حال میں ترکی   اپنا یہ کردار عالمی طاقتوں کے ساتھ تصادم مول لے کر ادا نہیں کرنا چاہتا۔ قفقاز میں روسی اثرونفوذ  قائم ہے۔ البانیا اور بوسنیا میں وسطی یورپ کے ممالک اپنے اثرات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ترکی عالمِ عرب کو اپنا ہدف بنائے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔
  3. حالیہ عرب انقلابات نے سیاسی اعتبار سے ترکی کے کردار کو ایک نمونے کے طور پر خطے میں اہم بنا دیا ہے۔ عرب علاقائی صورت حال نے ترکی کو یہ موقع بھی فراہم کردیا ہے کہ وہ ایک تیسرے اور درمیانے فریق کی حیثیت سے عرب ممالک کے داخلی اختلافات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
  4. اقتصادی لحاظ سے ترکی سرمایہ کاری کو عرب ممالک میں خسارے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ۲۰۱۱ء کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ترکی برآمدات مصر اور یمن میں ۲۴ فی صد، تیونس میں ۲۰فی صد، لیبیا میں ۴۳ فی صداور شام میں ۵ فی صد کم ہوگئی تھیں۔ لیبیا اور شام کے حالات زیادہ خراب ہونے کی بنا پر اس شرح میں مزید کمی ہوگی۔

عرب انقلابات کے دوران اور بعد میں عرب ممالک کے حوالے سے ترکی نے کئی اہم مواقع پر اپنے موقف میں تبدیلی کی۔ خصوصاً لیبیا اور شام کے حوالے سے ترکی نے موقف بدلا اور یہ اپنی جگہ ضروری تھا۔ عرب بہار کے دوران ترکی کو داخلی طور پر کچھ انتشار و انارکی کی صورت حال سے سابقہ رہا۔ اس بنا پر ترکی اور دیگر علاقائی ممالک کے مابین تعلقات میں تعطل بھی رہا۔خصوصاً شام، عراق اور ایران کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ ہوچکے تھے۔

مستقبل میں ترکی کے علاقائی کردار کو کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے:

  1. ترکی کردار میں بھتری اور پیش رفت: اس کا انحصار ان اُمور پر ہے کہ  اردگان حکومت کو علاقائی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے قومی تائید حاصل رہے۔ کرد مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے داخلی اصلاحات کی تکمیل کا مکمل موقع ملے اور اس میں کامیابی حاصل ہوجائے۔ ترک خارجہ سیاست عمومی امریکی سیاست کے ساتھ اتفاق کرتی رہے۔ امریکا، یورپ اور عالمِ عرب کو ایران کے کردار کو متوازن رکھنے کے لیے ترکی کے کردار کی ضرورت برقرار رہے۔
  2. علاقائی منظرنامے میں ترکی کردار کا خاتمہ: یہ امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ کُردوں سے مصالحت میں اردگان حکومت کی ناکامی اس میں اہم عامل ہوگی۔ موجودہ ترکی کا علاقائی کردار ختم ہوجانے میں سیکولر اور اسلامی طاقتوں کے تصادم کو بھی دخل حاصل ہوگا۔ ایک عامل یہ بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں ترکی خود کو ایک پُل کے طور پر     پیش کرنے میں ناکام رہے۔

مذکورہ امکانات و خدشات کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو گذشتہ چند مہینوں میں ترکی نے بعض اہم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور بعض مواقع پر اپنے موقف میں حیرت انگیز لچک بھی دکھائی ہے۔ امریکا ’داعش‘ کے معاملے میں ترکی سے حمایت اور سرگرم تعاون کا خواہاں ہے، جب کہ ترکی   ’داعش‘ سے پہلے آمربشارالاسد کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ترکی اپنے جنوب میں موجود فضائی اڈے سے امریکا کو فضائی کارروائیوں کی اجازت دے بلکہ وہ ترک فضائیہ کو بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکا نے ترکی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ شام اور عراق میں مجاہدین کے داخلے پر پابندی سخت کرے اور ان کی مالی مدد بھی بند کی جائے۔

ترکی صدر اور وزیراعظم دونوں کی ترجیحات امریکا سے مختلف ہیں۔ وہ شام کی مقامی جنگ کو اپنے ملک میں داخل ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اس معاملے میں حق بجانب بھی ہیں کہ ترکی اس وقت ۱۶لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ شامی شہر کوبانی سے گذشتہ ہفتے ایک لاکھ ۶۰ہزار مزید شامی کُرد خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی میں داخل ہوگئے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی میں کُردوں کی ہنگامہ آرائی اور لڑائی، شام کے دارالحکومت دمشق کی مرہون منت ہے۔ ترکی حکومتی ذرائع نے کہا ہے کہ کچھ لوگ ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم ’کُرد ورکر پارٹی‘ یا ’داعش‘ میں سے کسی ایک کو قبول کرلیں، مگر ترکی حکومت داعش کو بھی اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح ’کُردورکر پارٹی‘ کو۔

اس صورت حال نے امریکی مطالبات میں کچھ شدت پیدا کردی ہے اور ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ترک صدر اردگان نے خطے کے مسائل پر جان دار موقف اپنایا۔ داعش کے خلاف جنگ کے بجاے شامی آمر بشارالاسد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مصری فوج کے سابق سربراہ اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور نام نہاد صدرسیسی کے خلاف احتجاج کیا کہ اسے اقوامِ متحدہ کی اسمبلی میں شرکت کا حق حاصل نہیں۔ یہ ایک آمراور غیرجمہوری سربراہِ مملکت ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ بان کی مون کی طرف سے ناشتے کی دعوت ٹھکرا دی کہ: ’’جس دعوت میں مصری آمر جنرل عبدالفتاح سیسی ہوگا مَیں وہاں نہیںجائوں گا‘‘۔

رجب طیب اردگان کی توانا آواز اور جرأت مندانہ اظہار راے کو برطانوی روزنامہ گارڈین نے یوں بیان کیا ہے: امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے ہارورڈ یونی ورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران ترکی پر الزام عائد کیا کہ وہ شام اور عراق میں سرکردہ سُنّی جماعت داعش کی حمایت کر رہا ہے۔ طیب اردگان نے امریکی نائب صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اس بیان پر معذرت کرے اس پر امریکی نائب صدر کو معذرت کرنا پڑی۔ ان حالات کے باوجود ابھی ترک امریکا تعلقات  اس قدر کمزور نہیں ہوئے جس قدر ۲۰۰۳ء میں ہوگئے تھے۔ جب ترکی نے امریکی افواج کو       اپنی سرزمین سے عراق پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ داعش کے خلاف برسرِپیکار شام کی کُرد جمہوری پارٹی کو امریکا نے اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا تو ترکی نے سخت احتجاج کیا، مگر دوسرے ہی روز یہ خبر آگئی کہ ترکی ان کُردوں کو اپنی حدود سے گزر کر کوبانی کے معرکے میں شریک ہونے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگیا ہے۔

سوال : سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟

ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول و احکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالاتِ موجودہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔ عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح فہم اور آمادگیِ عمل بہت کم ہے۔ اسلام  جس ذہنی و عملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر   اسلامی قوانین کو نافذ کردیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رُونما ہوجائے۔ سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کاجذبہ اُوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجاے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صورتِ حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟

جواب :

اس مسئلے کی اگر پوری وضاحت کی جائے تو اس کے لیے بڑے تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔ لیکن مختصر جواب یہ ہے کہ بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں مذہبی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ایک قوم جو خدا اور اس کے رسولؐ کی حاکمیت اور بالادستی پر ایمان رکھتی ہو،اجتماعی اور قومی زندگی کی باگیں اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں، اپنا نظامِ حیات وہ خود تعمیر کرنے کے قابل ہو اور کوئی دوسری کافرانہ طاقت اس پر کوئی کافرانہ نظام مسلط کرنے والی نہ ہو، تو کیا اس قوم کے افراد کے لیے یہ جائز اور درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اخلاقی وعظ و نصیحت تو کرتے رہیں گے مگر اپنی ہیئت ِ حاکمہ کو غیراسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس صورت ِ حال کو گوارا کرلیں، تو گو ہم انفرادی ارتداد کے مرتکب نہ ہوں، اجتماعی اور قومی حیثیت سے ہم ضرور ارتداد کے مرتکب ہوں گے۔

پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اجتماعی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع و وسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ ظاہرہے کہ ان ذرائع میں تعلیم و تربیت، معاشرتی اصلاح، ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ انھی کے ساتھ ساتھ حکومت کے قانونی اور سیاسی ذرائع و وسائل بھی ہیں۔ حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر،  نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ اب آخر کیا وجہ ہے کہ اخلاقی انقلاب لانے کے لیے حکومت کے وسائل کو بھی استعمال نہ کیا جائے۔ہمارے ووٹوں اور ہمارے ادا کردہ ٹیکسوں اور مالیوں کے بل پر ہی تو حکومت کا سارا نظام چل رہا ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب   ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میںلگے رہیں۔(سیّد مودودی، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۱۷۹-۱۸۸)


سوال : اسلام اور جمہوریت

جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انھیں کس طرح دُور کرسکتا ہے۔ وہ نقائص درج ذیل ہیں:

  1.  دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاً آخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر اور چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ زرگری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور امرا کی حکومت (Plutocracy) یا ایک محدود طبقے کی حکومت (Oligarchy) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا کیا حل ممکن ہے؟
  2. عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بیک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟
  3. عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح، بے حس اور شخصیت پرست ہے اور خودغرض عناصر انھیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔
  4. عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اوران کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری ادارات میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟

جواب :

آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

اوّلین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اور وہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہِ کار رہیں؟یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہِ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہوجانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔

دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمارشکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں،ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔

  1. اوّل یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیا گیا او ر اس بناپر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختارِ مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بناپر  مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتاہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
  2. دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
  3. سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار مضبوط راے عام پر ہے اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو۔ ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (ایضاً، ص ۲۷۹-۲۸۳)


سوال : متبنٰی کی ولدیت کی شرعی حیثیت

سورئہ احزاب آیت نمبر۵ کے حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل سوالوں کے جواب مطلوب ہیں:

  1. کیا کسی گود لیے گئے یا متبنّٰی کو کسی بھی صورت میں اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی ولدیت سے پکارا یا لکھا جاسکتا ہے؟
  2. اگر نادانستگی یا غلطی سے بچے کے پیدایشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ، اسناد اور نکاح نامے میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے پالنے والے یا گود لینے والے کی لکھ دی گئی ہو تو کیا اس میں تبدیلی ضروری ہے؟
  3.  ایسے غلط اندراج جس میں ولدیت حقیقی باپ کی بجاے گود لینے والے کی تحریر ہو اگر اس کو تبدیل نہ کیا جائے تو شرعاً یہ کس درجے کا جرم ہوگا؟
  4. اختصار کے ساتھ اس حکم کی حکمت بھی بیان فرما دیں تو شکرگزار ہوں گا۔
  5. جن بچوں کے لیے یہ فتویٰ درکار ہے وہ اب بالغ ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں زیرتعلیم ہیں، جب کہ اُن کے تمام کاغذات میں لے پالک والد کا نام لکھا ہوا ہے۔  اب اگر اُن کے تمام کاغذات میں نام تبدیل کرایا جائے گا تو یہ مسئلہ پیدا ہوگا کہ پہلے اُن کے لے پالک والدکا نام کیوں لکھا گیاتھا؟ وہ قانونی گرفت میں آسکتے ہیں کیوں کہ اُن کے لے پالک والد سعودی عرب میں ملازم ہیں جہاں ان کے خلاف دھوکادہی کا مقدمہ ہوسکتا ہے۔

جواب :

  1. کسی گود لیے یا متبنّٰی کو کسی بھی صورت میں اپنے باپ کے سوا کسی اور کی ولدیت سے نہیں پکارا جاسکتا اور نہ لکھا ہی جاسکتا ہے۔
  2. اگر نادانستگی یا غلطی سے بچے کے پیدایشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ ، اسناد اور نکاح نامے میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے لے پالک کی لکھ دی گئی ہو تو اس میں تبدیلی ضروری ہے۔
  3. ایسے غلط اندراج جس میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے گود لینے والے کی تحریر کی گئی ہو اگر اسے تبدیل نہ کیا گیا تو قرآنِ پاک کے صریح حکم کی خلاف ورزی اور دورِ جاہلیت کی روایت اور رسم و رواج پر عمل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے: اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ(احزاب ۳۳:۵) ’’انھیں اپنے باپوں کے نام کے ساتھ پکارو‘‘۔ اگر کاغذات میں اپنے حقیقی باپ کے بجاے گود لینے والے یا متبنّٰی بنانے والے کا نام لکھا گیا ہے تو وہ اس حکم کی صراحتاً خلاف ورزی ہے۔ یہ شرعاً اس درجے کا حکم ہے جس درجے کا حکم نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے حکم کی خلاف ورزی کے لیے ہے۔
  4.  بچے اگرچہ بالغ ہوچکے ہوں پھر بھی ولدیت کی تبدیلی لازم ہے۔ رہی یہ بات کہ اس میں حکمت کیا ہے تو حکمت نسب کی حفاظت ہے اور وراثت وغیرہ کے احکام پر عمل درآمد ہے۔ اگر تبدیلی نہ کی گئی تو کل ان لوگوں کی اولاد کا دادا وہ بن جائے گا جس کو کاغذات میں والد لکھا گیا ہے اور اس کی اولاد کے ساتھ ان لوگوں کی اولاد کا نکاح ناجائز ہوجائے گا جو حکمِ شرعی کو تبدیل کردینا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ تبدیلی کے لیے جو مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہو، اس کا سامنا کیا جائے۔ان شاء اللہ شریعت پر عمل کرنے کے نتیجے میں نفع ہوگا، نقصان نہیں ہوگا۔ دل سے حقیقی باپ کے نام کے اندراج کا عزم کرلیں۔ پھر اس کے لیے دعا کرتے رہیں اور تدبیر بھی سوچتے رہیں، مثلاً لے پالک والد، ملازمت سے ریٹائر ہوجائیں تو قانونی گرفت میں آنے کا اندیشہ نہ رہے گا۔ اُس وقت تبدیلی کرا لی جائے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

     

عہدنبویؐ میں اختلافات: جہات، نوعیتیں اور حل، پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی۔ ناشر:دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۴۶۔قیمت:درج نہیں۔

انسانوں میں اختلافِ فہم موجود ہے۔ صحابہ کرامؓ میں بھی تھا اور اس کا مظاہرہ متعدد مواقع پر ہوا۔ اختلافِ فہم ، لفظی یا معنوی لحاظ سے تفسیرقرآن میں بھی ہوا۔ متعدد انتظامی اُمور میں بھی اختلافِ فہم رُونما ہوا۔ مصنف کے خیال میں یہ اختلافاتِ صحابہؓ فکرِ انسانی کی آزادی کے حق کو تسلیم کر کے معاشرے میں بہتری کی صورت پیدا کرنے کے مترادف تھے۔ اس اختلاف کی اجازت فطرتِ الٰہی نے دی تھی۔ نیز اس کی سہولت خود حضور اکرمؐ نے بھی عطا کی تھی۔ (ص۶)

حضور اکرمؐ کی راے سے صحابہ کرامؓ کی مختلف راے متعدد مواقع پر رُونما ہوئی۔ غزوئہ بدر سے پہلے مکہ کے قریشی لشکر سے مقابلہ کرنے کے معاملے میں بعض صحابہؓ تذبذب میں تھے اور جنگ کے خلاف تھے۔ میدانِ بدر میں اسلامی لشکر کے پڑائو کے لیے جگہ کے انتخاب میں اختلاف فہم کی بناپر فنِ جنگ کے ماہر حباب بن منذر کی راے قبول کرلی گئی۔ غزوئہ اُحد میں دَرّے میں مقررکیے گئے تیرانداز دستے کے افراد میں اختلافِ فہم ہوا جس کے نتیجے میں ۱۰؍ تیرانداز دَرّے میں موجود رہے۔ باقی لوگ فتح حاصل ہوجانے کا گمان کرتے ہوئے مالِ غنیمت حاصل کرنے کی خاطر اپنی جگہ چھوڑ گئے۔ خالد بن ولید نے اسی دَرّے سے حملہ کر کے مسلمانوں کی فتح کو بُری طرح متاثر کیا۔(ص۱۷)

صحابہ کرامؓ کا آپس میں بھی اختلافِ فہم کا مظاہرہ ہوا۔حضرت خالدؓ بن ولید نے قبیلہ بنوجذیمہ کے بعض افراد کو قتل کردیا تھا ، ان میں مسلمان بھی تھے۔ مقتول مسلمانوں کے عزیزوں نے حضوراکرمؐ سے شکایت کی تو آپؐ  نے بیت المال سے مقتولوں کی دیت ادا کی۔

حضور اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ نے’شارع‘ کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ آپؐ  نے جن معاملات میں صحابہ کرامؓ، ازواجِ مطہراتؓ اور دیگر افراد میں رفع اختلاف کے لحاظ سے جو راے دی، صحابہ کرامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ نے اسے دل و جان سے قبول کرلیا۔ یہ لوگ اپنی راے سے دست بردار ہوگئے۔ یوں ہمیں اسوۂ نبویؐ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے معاملات میں اختلافی صورت پیدا ہوجانے میں اسوئہ نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے اختلاف ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

کتاب کے مبحث اول میں رسولِ اکرم سے صحابہ کرامؓ کے اختلافات میں مالی اُمور، معاشرتی معاملات، انتظامی معاملات اور فقہی اختلافات کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ازواجِ مطہرات کے حوالے سے رسول اکرمؐ سے ان سے اختلافِ فہم کی مثالیں دی ہیں اور باہمی اختلافات کے تذکرے میں صلح صفائی اور اختلاف رفع کرنے کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔مبحث دوم میں عہدنبویؐ میں صحابہ کے باہمی اختلافات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی، ازدواجی، معاشی، اقتصادی، سیاسی اور فوجی معاملات میں اختلافات کی تحقیق کی گئی ہے۔ ان تمام اختلافات میں حضوراکرمؐ ان کی اصلاح کرتے اور اختلافات کا ازالہ فرما دیتے تھے کہ اس کام کے لیے آپؐ   مامور تھے(ص ۱۷۶)۔ غیرمنصوص معاملات میں اگر قطعی کوئی حکم جاری فرما دیتے تو صحابہ کرامؓ بلاچوں و چرا اس پر عمل کرلیتے تھے اور اگر نبیؐ کی طرف سے کوئی حکم قطعی نہ تھا تو اپنی راے و فکر اور آزادیِ خیال و عمل کو راہنما بناتے تھے (ص ۱۷۹)۔ حضور اکرمؐ کے عہد میں یہ اختلافات اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے تمام صحابہ کرامؓ بنیانِ مرصوص بن کر رہے۔ تحمل، بُردباری اور برداشت کا مادہ پختہ ہوا۔ یہی حضوراکرمؐ کے بہترین معاشرے کا طرئہ امتیاز ہے۔ اختلافات کی پیدایش اور ان کا ازالہ دوطرفہ حقوق کی پاس داری میں ممکن تھا۔

امید ہے اس کتاب کے مطالعے سے اختلاف راے کی صورت میں تحمل و برداشت کی صفات پیدا ہوں گی۔ (ظفرحجازی)


سیرتِ نبویؐ پر اعتراضات کا تاریخی جائزہ، ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۸۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیا و رُسل کو مبعوث کیا۔ ان میں سے بعض کے حالات وضاحت سے قرآن میں ذکر کیے گئے ہیں اور بعض کے حالات بہت مختصر ہیں۔ حضور اکرمؐ اللہ کے آخری نبیؐ ہیں اور آپؐ  کی تعلیمات چوں کہ تمام انسانوں کے لیے ہیں، اس لیے قرآنِ مجید میں آپؐ  کے متعلق تفصیلاً بتایا گیا ہے کہ آپؐ  کی بعثت کی غایت کیا ہے۔ آپؐ  کے مخالفین نے قبولِ حق سے کیوں انکار کیا اور کس کس طرح سے دعوتِ دین میں رکاوٹیں ڈالیں۔ آپؐ  کی حیاتِ طیبہ کا گوشہ گوشہ آج بھی اسی طرح منور ہے جس طرح بعثت کے وقت روشن تھا۔  سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں رسولِ اکرمؐ کے حالات و تعلیمات نہایت احتیاط سے جمع کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود غیرمسلم قوموں نے حضور اکرمؐ پر اعتراضات کیے اور آپؐ  کی تعلیمات کوجھٹلایا۔ حضوراکرمؐ  کے عہد میں کفار اور مشرکین نے بھی طرح طرح کے الزامات عائد کیے تھے اور مخالفت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں معاندین اسلام کی ریشہ دوانیوں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ۱۱؍ابواب میں مستشرقین کے مختلف اعتراضات کا متعدد عنوانات کے تحت جواب دیا گیاہے۔ پہلے باب میں حضور اکرمؐ پراعتراضات کا تاریخی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں وحی کی کیفیت نزول پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضور اکرمؐ کے زمانے میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ  قرآنِ مجید حضور اکرمؐ کی اپنی تصنیف ہے، جب کہ دنیا بھر کے اہلِ علم کے لیے قرآنِ مجید کا یہ چیلنج آج بھی موجود ہے کہ تمھیں اگر قرآنِ مجید کے منزل من اللہ ہونے میں کچھ شک ہے تو تم بھی ایسی کوئی ایک ہی سورت بنالائو (البقرہ ۲:۲۳)۔ اپنے عجز کے باوجود یہ اعتراض آج بھی دہرایا جاتا ہے۔ اس اعتراض کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ معجزاتِ نبویؐ کا انکار آج کے دور کا بڑا فتنہ ہے۔ دین کو عقل پر پرکھنے کے مدعی ہر ایسی بات کا انکار کردیتے ہیں جو ان کی عقل میں نہ آئے یا حواسِ خمسہ سے معلوم نہ کی جاسکے۔ ان اعتراضات کا بھی شافی جواب دیا گیا ہے۔ معراجِ نبویؐ کی حقیقت، تعلیماتِ نبویؐ پر مسیحیت کے اثرات، غزواتِ نبویؐ کے محرکات، تعدد ازدواج اور نکاح زینبؓ پر اعتراضات کے بھی تحقیقی اور علمی جوابات دیے گئے ہیں۔ غرض اس کتاب میں سیرت النبیؐ پر    ان تمام بڑے بڑے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جس نے آج کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو دین کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کیا اور بعدازاں انکار و اعراض کی راہ پر ڈال دیا۔ مصنف نے علمی، تحقیقی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے مدلّل جواب دیے ہیں جو یقینا اہلِ علم کو اپیل کریں گے۔ سیرت النبیؐ پر مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں پر جو کتابیں تصنیف کی گئی ہیں،یہ کتاب ان میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔(ظفرحجازی)


سورئہ فاتحہ __ کلید قرآن، مولانا فاروق احمد۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت:۱۷۵ روپے۔

سورۃ الفاتحہ کی متعدد تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ ہر مفسر نے اپنے اپنے انداز میں قرآن کی غواصی کی ہے۔ مولانا فاروق احمد نے تحریکِ اسلامی کے کارکنان کو قرآن سے وابستہ کرنے کے لیے الفاتحہ کی عام فہم اور سادہ زبان میں تشریح کی ہے۔ اس مختصر سی کتاب میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر، معنی و مفہوم، الفاظ کی تشریح اور آمین کا مفہوم اور مسنون ہونا وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں سورئہ فاتحہ کا منفرد انداز میں مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ سورئہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے جس کے کُل کلمات ۲۶ ہیں، جب کہ قرآن مجید کے کُل کلمات کی تعداد ۸۰ہزار ہے۔ قرآنِ مجید میں سورئہ فاتحہ میں آنے والے الفاظ کا بار بار اعادہ ہوتا ہے۔ سورئہ فاتحہ کے کلمات اور الفاظ کو ذہن نشین کرنے کے نتیجے میں تقریباً ۴۰ہزار الفاظِ قرآنی پر دسترس حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کی تفصیل کتاب میں دی گئی ہے۔ تھوڑی سی مشق سے قرآنِ حکیم کے معانی و مفہوم کو آسانی کے ساتھ جانا جاسکتا ہے۔(عمران ظہور غازی)


حیا کا آئینہ ، مولانا محمد فیصل مدنی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۱۲۵ روپے۔

حیا محض اسلامی شعار ہی نہیں ہے بلکہ ان اقدار میں سے ہے جو قوموں کے عروج و زوال میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ سید مودودی نے اپنی معرکہ آرا کتاب پردہ میں مغرب کی     مادہ پرست اور بے حیا تہذیب کس طرح سے معاشرتی اقدار کو تباہ کرتی اور اخلاق کا جنازہ نکالتی ہے، اس کا علمی و تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ اس سے حیا اور پردے کے جامع تصور اور معاشرتی انحطاط و انتشار کی اہمیت بخوبی اُجاگر ہوتی ہے۔ عصرِحاضر میں اخلاقی انحطاط مزید کھل کر سامنے آگیا ہے اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں مسلم ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ایسے میں حیا کے جامع تصور کو اُجاگر کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں ۴۵؍احادیث کی روشنی میں حیا کے جامع تصور کو واضح کیا گیا ہے۔ عفت و پاک دامنی، نکاح، پردہ و غضِ بصر، اُم الخبائث، موسیقی، تشبہہ، اختلاط مرد و زن، بے حیائی کے اثرات اور اسلامی اقدار و معاشرتی روایات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ احادیث کی تشریح میں قرآن و حدیث سے استدلال کے ساتھ ساتھ مختصراً عصری مسائل و مباحث بھی بیان کیے گئے ہیں۔ قریبی اعزہ سے پردے کے ضمن میں مولانا مودودی کی راے بھی درج کردی جاتی تو معتدل نقطۂ نظر سامنے آجاتا۔ آخر میں احادیث کے راویوں کا مختصر تذکرہ بھی دیا گیا ہے جس سے صحابہ کرامؓ کی سیرت کے ساتھ ساتھ ان کے قرآن و حدیث سے شغف اور علمی ذوق سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اپنے موضوع پر احادیث کا جامع مجموعہ ہے۔(امجد عباسی)


۱۰۰ عظیم مسلم شخصیات، مرتب: میربابر مشتاق۔ ناشر: عثمان پبلی کیشنز، اے-۸، بلاک بی-۱۳، ریلوے ہائوسنگ اسکیم، گلشن اقبال، کراچی۔ فون: ۴۸۷۴۰۷۴-۰۳۶۴۔ صفحات:۴۹۶۔ قیمت: ۵۴۰ روپے۔

تاریخ محض کسی قوم کا ماضی ہی نہیں ہوتی بلکہ قوم کے عروج و زوال، ترقی و تنزل، نشیب و فراز اور جدوجہد کے مراحل کی آئینہ بھی ہوتی ہے۔ سوانحی ادب اور نام وَر شخصیات کے تذکرے سے شخصیت کی خدمات کے ساتھ ساتھ اس عہد کی تاریخ اور جدوجہد سے بھی مختصراً آگہی ہوجاتی ہے۔ میربابر مشتاق نے مسلم تاریخ کی اسی اہمیت کے پیش نظر ۱۰۰؍ اہم شخصیات کے حالات یک جا کردیے ہیں۔ اس طرح کے مطالعوں سے نوجوان نسل میں اپنے ماضی کے بارے میں خوداعتمادی اور  احساسِ تفاخر پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مختلف اَدوار مختلف پہلوئوں سے نظر کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ طرزِتحریر ایسا ہے کہ قاری روانی سے پڑھتا چلا جاتا ہے۔

شخصیات کا انتخاب سات دائروں میں کیا گیا ہے۔ اصحابِ رسولؐ میں خلفاے راشدینؓ، امام حسنؓ، امام حسینؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ محدثین و فقہاے اُمت، محقق و مجدد اور مفسر، صوفیا و مصلح، مجاہدین اسلام، سلاطین و قاضی اور سائنس دان و سیاح اس دائرے میں شامل ہیں۔ چند شخصیات: امام ابوحنیفہ، امام غزالی، ابن خلدون، ڈاکٹر حمیداللہ، علامہ محمداقبال، امام خمینی، سیّد مودودی،امام حسن البنا، قاضی حسین احمد، حسن بصری، جنید بغدادی، مولانا محمد الیاس، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد رضاخان بریلوی، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، عمرمختار، قاضی شریح، ٹیپوسلطان، بوعلی سینا، ابن بطوطہ وغیرہ۔ شخصیات کی ترتیب الف بائی یا ترتیب زمانی کے مطابق ہوتی تو زیادہ بہتر تھا۔ کچھ ناموں کی کمی محسوس ہوتی ہے، تاہم یہ فطری امر ہے کہ     اس طرح کے انتخاب میں کچھ نام رہ جائیں۔

اُمت مسلمہ کے شان دار ماضی، تاریخی اَدوار، احیاے اسلام کی جدوجہد اور عہدساز شخصیات سے آگہی، بالخصوص نوجوان نسل کو اپنے مشاہیر اور ہیروز کو جاننے کے لیے اس مفید کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔(محمد ایوب منیر)


سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بین الاقوامی اسفار، مرتبہ: نورورجان۔ مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور ۔فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔  صفحات:۷۱۲۔ قیمت: ۶۱۵۔ روپے۔

مولانا مودودیؒ مختلف اوقات میں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے علاوہ تین بار علاج کے لیے اور ایک بار ارضِ قرآن کے آثار و مقامات کی سیاحت اور تحقیق کے لیے بیرونِ پاکستان سفر پر روانہ ہوئے۔

زیرنظر کتاب میں انھی مواقع پر شائع ہونے والے مختلف اخباری مضمونوں کے ساتھ ساتھ، ان اسفار پر تین مستقل کتابوں کو بھی کتاب کا حصہ بنادیا ہے۔ جن میںپہلے سفردورہ مشرق وسطیٰ (سفرِعرب و حج بیت اللّٰہ) ستمبر ۲۰۱۲ء، منشورات، لاہور، سفر نامہ ارض القرآن از محمدعاصم الحداد، ۱۹۷۰ء (حالیہ اشاعت الفیصل، لاہور) اور سیّد مودودی کا سفرِ عرب، ازخلیل احمد حامدی، ادارہ معارف اسلامی شامل ہیں۔

یہ تینوں کتب مارکیٹ میں موجود ہیں، مگر یہاں پر ان کی شمولیت یاتلخیص کا جواز نہیں دیا گیا (اگر مستقل کتب کو یوں نئی کتب میں شامل کرنے کا سلسلہ چل نکلا تو اس سے پیچیدگی پیدا ہوگی)۔ بہرحال مولانا مودودی کے ان اسفار میں مقصدیت کا رنگ گہرا ہے، جو دیگر مسافروں کو سبق دیتا ہے کہ زندگی کے لمحے کس طرح ایک اعلیٰ نصب العین کے لیے گزارنے چاہییں۔(سلیم منصور خالد)


شاہراہِ روزگار پر کامیابی کا سفر، محمد بشیر جمعہ۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب بالمقابل زینب مارکیٹ، ۲/۲۶۸- آر اے لائنز، عبداللہ ہارون روڈ، صدرکراچی-۷۵۵۳۰۔ فون: ۲۹۸۷۶۳۸-۰۳۲۳۔ صفحات: ۵۱۲۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

شاہراہِ روزگار پر کامیابی کا سفر ، محض ایک کتاب نہیں بلکہ درجنوں کتابوں کا خلاصہ ہے۔ کتاب کے ۲۰ ؍ابواب میں تمام ضروری موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ موضوعات اپنے پڑھنے والے کو جہاں نئے تصورات و خیالات سے آشنا کرتے ہیں وہاں تحرک کا باعث بھی بنتے ہیں۔ موضوعات میں سے چند: ترقی اور کامیابی کے لیے اشارات، شاہراہِ روزگار کے سنگ میل، ملازمت کیسے تلاش کریں؟ انٹرویو بارے ضروری اُمور، کامیاب زندگی کے لیے درکار صلاحیتیں، مثبت رویّے۔ اسی طرح کامیابی کے ۱۰۰؍اُصول،گھریلو زندگی میں کامیابی کے راز، مکاروں اور چال بازوں سے کیسے بچا جائے، اور سب سے بڑھ کر انسانی زندگی پر اللہ سے تعلق کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیز دعائیں، اذکاراور وظائف کی صورت میں عمدہ لوازمہ فراہم کیا گیا ہے۔ یہ روزگار بارے رہنمائی کا ایک اہم اور عمدہ ذریعہ اور جامع دستاویز ہے۔ اس سلسلے میں دستیاب کتابیں زیادہ تر انگریزی میں ملتی ہیں یا پھر ترجمے ہوتے ہیں۔ تنہا اور گروپ کی صورت میں کتاب کے مطالعے کے لیے بھی رہنمائی دی گئی ہے۔نوجوان نسل کے لیے ایک مفید رہنما کتاب ہے، جب کہ تعمیر سیرت اور کردارسازی کے لیے بھی عمدہ لوازمہ اور غوروفکر کا ساماں ہے۔

کتاب کیا ہے ایک گلدستہ اور خوب صورت دستاویز ہے۔ دیدہ زیب اور بامعنی سرورق کے ساتھ پُرکشش انداز میں پیش کی گئی ہے۔ یہ کتاب بطور تحفہ دینے اور ہرلائبریری کی زینت بننے کے لائق ہے۔(عمران ظہور غازی)


قومیں جو دھوکا دیتی ہیں، رون ڈیوڈ، مترجم: رضی الدین سیّد۔  ملنے کا پتا: توکل اکیڈیمی،    دکان نمبر۳۱، نوشین سنٹر، اُردو بازار ، کراچی۔ فون: ۸۷۶۲۲۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات:۱۲۷۔ قیمت:۱۵۰روپے۔

یہ حقیقت کس سے مخفی ہے کہ اسرائیلی ریاست، فلسطین کی ریاست پر قبضہ کر کے قائم کی گئی ہے۔ رون ڈیوڈ سمیت کئی مغربی محققین اسرائیل کے خوف ناک عزائم کے حوالے سے کتابیں یا مضامین تحریر کرچکے ہیں۔ اسرائیل اردگرد کے ممالک خصوصاً سعودی عرب اور عراق پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اُمت کو اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ زیرتبصرہ کتاب Arabs and Israel کی تلخیص ہے۔ مترجم نے اہم موضوعات کا خلاصہ دودو، تین تین صفحات میں کردیا ہے۔مصنف نے تاریخی دستاویزات اور حوالوں سے بھی اسرائیل میں یہودیوں کی غیرفطری آمد کا جائزہ لیا ہے۔ یہودیوں نے اردگرد کے ممالک کو دائمی طور پر اپنے تسلط میں لانے کے لیے جو فوجی و غیرفوجی تفصیلی منصوبے تیارکر رکھے ہیں اُس کا سرسری جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ تاہم کچھ مقامات پر غیرمعمولی اختصار اور اصطلاحات کا ترجمہ کھٹکتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو مختصر طور پر سمجھنے کے لیے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ ترجمہ رواں دواں ہے۔(محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  1. اسوۂ حسنہ ، ایک سماجی مطالعہ ،عبداللہ جاوید۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،اے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی- فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [زیرتبصرہ کتابچے میں مختلف معاشرتی پہلوئوں، مثلاً اسلام کی اخلاقی تعلیمات، والدین کے حقوق، زوجین کی مثالی زندگی، بچوں کی تربیت، گھریلو اور خاندانی زندگی، تجارت کا فروغ، مخلوط سماج اور سیرتِ رسولؐ ،مثالی حکمران، امن عالم اور ملک کی خیرخواہی جیسے موضوعات کے مقاصد، متعلقہ واقعاتِ سیرت اور احادیث کے ذریعے مضامین کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ ان نکات کی بنیاد پر جامع مضامین مرتب کیے جاسکتے ہیں۔]
  2. رہنماے ترجمۃ القرآن ، قاری حبیب الرحمن قریشی۔ ناشر: باسط کاپی کارنر ۷-الکریم مارکیٹ ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۴۳۵۰۶۶۴-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔[قرآنِ مجید کے فہم اور تعلیمات کو  عام کرنے کے لیے اس کتاب میں قراء ت کے قواعد اور عربی زبان کے قواعد اور صرف و نحو مروجہ طریقوں سے ہٹتے ہوئے سہل انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے مطالعے سے ایک طالب علم میں مختصر عرصے میںترجمہ قرآن کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔ قواعد و ضوابط کی عملاً مشق کے لیے معروضی مشقیں بھی دی گئی ہیں۔]
  3. کلام اقبال (موضوعاتی ترتیب سے)، مرتب: ابن غوری۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۴۴۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [اقبال کی اُردو نظموں اور اشعار کو مختلف موضوعات    کے تحت یک جا کیا گیا ہے۔ عنوانات: عقل وخرد، عقل ودل، عقل و جنون، عقل و نگاہ، مدرسہ، خانقاہ، وغیرہ۔ تعداد ۲۳۲ ہے۔ کوئی دیباچہ شامل ہے، نہ یہ بتایا ہے کہ اس کتاب کی ضرورت یا اہمیت کیا ہے؟ اور کیا اس میں پورے ’کلیاتِ اقبال اُردو‘ کا احاطہ کرلیا گیا ہے؟ بظاہر کتاب کی افادیت: مضمون نویس یا مقرر کسی خاص موضوع پر اشعار تلاش کرنے کی زحمت سے بچ سکتا ہے۔ پاورق میں شعر کے مجموعے اور غزل یا نظم کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔]

     

متین فکری ، اسلام آباد

چراغ حسن حسرت کی ایک کتاب سرکارِ مدینہ اور آپؐ کے خلفاے راشدین پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے تبصرے (اکتوبر ۲۰۱۴ء) میں اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ ناشر نے مصنف کے نام کے ساتھ مولانا کا سابقہ لگا دیا ہے حالانکہ کلین شیوڈ حسرت مولانا تھے نہ اپنی تصانیف پر یہ لفظ لکھتے تھے، نہ خود کو مولانا سمجھتے تھے۔  ہاشمی صاحب نے لفظ ’مولانا‘ پر اپنے ریمارکس دے کر بڑی دل چسپ بحث چھیڑ دی ہے۔ شاید انھیں نہیں معلوم کہ  کم و بیش صدی پون صدی پہلے یہ لفظ اہلِ علم و تحقیق کی تکریم کے لیے لکھا اور بولا جاتاتھا۔ اس کے لیے باریش ہونا شرط نہیں تھا۔ محترم غلام رسول مہر بہت بڑے عالم اور محقق تھے.... کلین شیوڈ تھے لیکن مولانا کہلاتے تھے۔ اقلیم ادب کی ایک اور اہم شخصیت صلاح الدین احمد یاد آرہے ہیں۔انگریزی لباس پہنتے اور سر پر سرلا ہیٹ لگاتے تھے۔ اب یہ بتانا ضروری نہیں کہ وہ کلین شیوڈ تھے لیکن مولانا کہلاتے تھے۔ ’ادبی دنیا‘ کی پیشانی پر ان کے نام کے ساتھ مولانا لکھا جاتا تھا۔ اخباری دنیا کی اہم شخصیت عبدالمجید سالک معروف معنوں میں مولانا نہ تھے لیکن صحافت میں اپنے مقام و مرتبے کے سبب وہ بھی مولانا کہلاتے تھے اگرچہ باریش نہ تھے، بھنویں تک منڈواتے تھے لیکن اپنے تبحرعلمی کی وجہ سے مولانا مشہور تھے۔ اب ان کے نام کے ساتھ مولانا نہ لکھا جائے تو ان کی شخصیت احاطۂ اِدراک میں نہیں آسکتی۔

چراغ حسن حسرت اپنی علمیت کے باوجود جس ذوق کے اسیر تھے اسے دیکھتے ہوئے ایک خالص مذہبی کتاب کا ان کے قلم سے نکلنا انتہائی حیرت کی بات ہے۔ ان کا علمی ذوق خالصتاً ادبی تھا۔ اس میں مذہب کی چاشنی سرے سے تھی نہیں۔ مجھے شبہہ ہے کہ مذکورہ کتاب کسی اور کا شاہکار ہے جسے مولانا چراغ حسرت کے نام منڈھ دیا گیا ہے۔


محمد افضل خان منصوری ،بحرین، سوات

موجودہ دور میں مسلمانوں کی پستی اور ناکامی کا سبب کیا ہے؟ ’فرض آپ کو پکار رہا ہے!‘‘ (اکتوبر ۲۰۱۴ء) نے اس سوال کا بہترین حل اور مثبت جواب پیش کیا ہے۔ جتنا اسلام کو نقصان دشمنانِ دین نے پہنچایا ہے یا پہنچا رہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ نقصان اسلام اور نظامِ خلافت کو ان لوگوں نے پہنچایا ہے جو اسلام کا ناقص تصور دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو مسجدوں، مدرسوں اور عبادت گاہوں تک محدود کر کے رہبانیت کا درس دیتے ہیں۔ اسلام کے اس ناقص تصور کی وجہ سے آج دنیا کی امامت اور اقتدار اسلام کے دشمنوں اور خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔


غلام الرحمٰن ساجد ،باجوڑ ایجنسی فاٹا

عالمی ترجمان القرآن دنیا بھر کے مسلمانوں کی آواز ہے جس نے ہر دور میں حق اور سچ کا ساتھ دیا۔ ’جھوٹ اور بنگلہ دیش حکومت ساتھ ساتھ‘(اکتوبر ۲۰۱۴ء) سلیم منصور خالد صاحب کا مضمون انتہائی فکرانگیز اور معلومات سے بھرپور ہے اور جس سے بنگلہ دیش حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ دراصل حسینہ واجد اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو قابلِ مذمت ہے۔ تحریر میں اتنی روانی، سلاست اور دل چسپی ہے کہ میں نے تین بار پڑھا، خاص کر عبدالکریم خوندکر نے شیخ مجیب الرحمن کی۷مارچ ۱۹۷۱ء کے تقریر کا حوالہ دے کر تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔


 

قانون کی اساس اگر دین اور شریعت پر رکھی جائے تو اس سے قوانین کے اندر ایک اور خوبی اور خصوصیت ایسی پیدا ہوجاتی ہے جو عام لادینی وضعی قوانین کے اندر کبھی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ خصوصیت معاملات کی حلّت و حُرمت اور جواز و عدمِ جواز کا وہ دینی تصور ہے جو ان سے کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔مثال کے طور پر ایک قاضی اگر ظاہری بیانات و شہادات کو دیکھ کر کسی فریق کو اُس کے جائز حق سے زائد یا اُس سے علاوہ کچھ دلا دیتا ہے تو فی الحقیقت اُس فریق کے لیے یہ ناجائز فائدہ ہرگز جائز اور حلال نہیں ہوجاتا۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے بھی ایک مرتبہ ایسا ارشاد فرمایا تھا کہ اگر تم میں دو فریق میرے سامنے کوئی قضیہ پیش کریں تو ہوسکتا ہے کہ  تم میں سے ایک آدمی زیادہ چرب زبان ہو اور مَیں اس کی باتوں کی بناپر اُسے غیر کا حق دلا دوں لیکن یہ چیز اُس شخص کے لیے عذاب کی موجب ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی قانون پر مبنی عدالتیں بھی فیصلہ ظاہر حالات ہی پر کریں گی، لیکن جن لوگوں پر قانون کا اطلاق اور نفاذ ہوتا ہے، ان کے حق میں قوانین و احکام کا باطنی ، اخلاقی اور دینی پہلو کالعدم نہیں ہوجاتا۔ اس لیے اگر وہ سچے مسلمان ہیں تو قانون کی روح کے بھی خلاف جانے اور اُس سے ناروا استفادہ کرنے سے وہ ہمیشہ سختی سے پرہیز کریں گے۔ عام دنیوی قوانین کے ظاہر کی آڑ میں ان قوانین کے اصل منشا کو ناکام بنانے کی کوششوں سے جو تکلیف دہ صورتِ حال عام معاشروں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ صورتِ حال ایک صحیح اسلامی معاشرے میں اسلامی قانون کے نفاذ کے وقت کبھی رُونما نہیں ہوسکتی.....

اس طرح سے قانون کے سارے ڈھانچے پر ایک دینی اور روحانی رنگ غالب آجاتا ہے اور اُسے ایک ایسا احترام ، وقار اور تقدس حاصل ہوجاتا ہے جو انسانی قوانین کے کسی مجموعے کو نصیب ہونا ممکن ہے۔ اسلامی قانون کی حکمرانی فقط جسم کے اعضا وجوارح پر نہیں ہوتی، بلکہ اُس کی اصل حکومت دل اور دماغ پر ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس چیز کی ضرورت بہت کم رہ جاتی ہے کہ قانون کی ظاہری طاقت انسان کو ہروقت اطاعت و تسلیم پر مجبور کرتی رہے۔ قانون کی خلاف ورزی کا کوئی موقع اگر پیدا ہوتا بھی ہے تو اُسے غنیمت سمجھ کر  استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ محض خدا سے ڈر کر نفس کو اتباعِ ہویٰ سے روک لیا جاتا ہے۔(کیا قانونِ ملکی کی بنا دین پر رکھنا مضر ہے؟ شیخ مصطفی احمد الزرقا الشامی، ترجمان القرآن، جلد۴۳، عدد۲، صفر۱۳۷۴ھ ، نومبر ۱۹۵۴ء، ص۴۴-۴۵)