مارچ ۲۰۲۰

فہرست مضامین

اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو!

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم | مارچ ۲۰۲۰ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ ___! یہ قرآنِ مجید کی بڑی جامع پکار اور بار بار متوجہ کرنے والی یاددہانی ہے، جس پر اہلِ ایمان کو زندگی کے تمام معمولات سرانجام دیتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ اپنی توجہ دینی اور مہلت ِ عمل ختم ہونے، یعنی موت آنے سے پہلے پہلے اپنی خطاؤں، قصوروں اور غلطیوں کی معافی طلب کرنی چاہیے ، اور یہ عمل باربار دُہرانا چاہیے۔ اپنے خالق و مالک اور معبودِ حقیقی کے حضور استغفار کرنا نہ تو شرم کا باعث ہے، نہ عار کی بات۔ یہ تو بندگی کی شان اور اُس کے اور ربّ کے درمیان معاملہ ہے۔ مگر ہے بہت اہم اور انسان کے دائمی مستقبل، یعنی آخرت کے لیے انتہائی فیصلہ کن۔
اِس بات کا قوی امکان ہے کہ بشری تقاضوں اور انسانی فطرت کے زیراثر انسان سے خطائیں سرزد ہوں، قصور اور کوتاہیاں ظاہر ہوں، اپنے ربّ کے حق میں بھی اور اُس کے بندوں، مخلوق کے حق میں بھی۔ مگر اللہ ہمارا خالق و مالک، آقا و مولا جو بہت رحمٰن و رحیم ہے، نے اپنے بندوں کو بھی نہ تو گناہوں، خطاؤں کی ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ ا ہے، نہ کسی بندگلی میں دھکیلا ہے، جہاں تلافیِ مافات کی کوئی صورت نہ ہو اور نہ کوئی واپسی ہی کا راستہ میسر ہو۔ توبہ ایسا ہی ایک اللہ کو بے حد پسندیدہ عمل ہے جو انسان کو ضمیر کا بوجھ اور قصورو خطا کی دلدل سے نجات عطا کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ اور اُس کے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان ہی نہیں، کائنات کے تمام انسانوں کو توبہ و استغفار کی بار بار دعوت دی اور تلقین کی ہے۔

توبہ کا مفہوم: توبہ کا لفظی معنٰی پلٹنا، واپس آنا ، رجوع کرنا ہے۔ انسان سے اگر کوئی ایسی خطا اور قصور سرزد ہوجائے، جو شرعی طور پر بھی ممنوع ہو اور اخلاقی طور پر بھی۔ جب بھی اُسے اپنی غلطی اور کوتاہی کا احساس ہو، وہ اپنے اُس رویے سے رجوع کرے، غلطی کی اصلاح اور تلافی کرنے کا فیصلہ کرے، غلط راستے کو فوری طور پر ترک کرکے درست رویہ اور سمت اختیار کرلے ، تو تائب کہلائے گا اور اُس کا یہ رویہ توبہ کے مترادف ہوگا۔ یہ کس قدر جہالت اور حماقت ہوگی کہ ایک انسان کو اُس کے راستے، رویّے، عمل یا عقیدے کی غلطی کا علم بھی ہوجائے اور وہ اُس کی خرابیوں، خامیوں ، ہلاکتوں اور نقصانات و بُرے نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود اُسی راستے پر چلتا رہے۔ کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ایسا ممکن ہے، نہ مناسب۔ یقینا وہ درست راستے کی طرف پلٹ کر جانب ِ منزل روانہ ہوگا۔
اسلامی تعلیمات میں توبہ کا تعلق انسان کے عقائد و اعمال سے ہے۔ اِن سب کی تفصیل اور درست راستوں کی وضاحت اور مطلوب اعمال و عقائد کی نشان دہی، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی تعلیمات ، احکامات، یعنی قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے تو ہرگز جائز ہے    نہ ممکن کہ وہ اِن بتائے گئے راستوں، اُصولوں اور عقائد و اعمال سے مختلف رویوں کا انتخاب کریں۔ اس حوالے سے اُن پر لازم ہے کہ وہ حددرجہ محتاط رہیں۔ قرآن و حدیث، سنت ِ طیبہ اور سیرتِ طیبہ کے ساتھ علماو صلحا و اتقیاے اُمت کے ساتھ فکری و عملی طور پر وابستہ رہیں۔ یقینا گمراہی کے امکانات کم ہوجائیں گے۔ اور اگر شیطان کے بہکاوے، بشری کمزوریوں یا کسی دوسری وجہ سے اُن سے قصور، خطا، اور غلطی سرزد ہوجائے تو اُن پر لازم ہے کہ فوراً  تَـابَ وَاَصْلَحَ ،درست راستے کی طرف پلٹ کر، اپنی غلطی کی اصلاح اور تلافی کرکے رب، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں مغفرت طلبی کے لیے رجوع کریں۔ اسی عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ گناہ کرنے سے انسان کے دل پر سیاہ نقطے پڑ جاتے ہیں اور اگر وہ انسان توبہ کرلے تو یہ سیاہی دُور ہوجاتی ہے، بصورتِ دیگر یہ سیاہی سارے دل پر پھیل کر انسان کو توبہ و استغفار اور غلطی کے احساس و شعور سے محروم کر دیتی ہے۔

خطاکار بندے اور اللہ کا  تعلق : قرآنِ عظیم میں گناہ سرزد ہوجانے کو دل پر مَیل چڑھ جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ  (المطففین ۸۳:۱۴) ’’خبردار! لوگوں کے دلوں پر میل کچیل کی تہیں چڑھی ہوتی ہیں‘‘۔ انسان طبعاً گندگی کو ناپسند کرتا اور کراہت محسوس کرتا ہے۔ مگر جب میل کچیل کی تہیں بڑھ جائیں، تو اُس کی ناگواری کی حِس دَم توڑ دیتی اور اُس سیاہی، گندگی اور اُس کی بُو کو قبول کرلیتی ہے۔ پھر وہ شخص اِس کے وجود اور شعور سے عاری ہوجاتا ہے اور اُسے دُور کرنے کی فکر سے بے نیاز۔ اسلام نے تو معمولی سے معمولی گندگی اور کراہت کی ہرچیز خواہ وہ منہ کی بدبو ہو ، بالوں، ناخنوں میں بے ہنگم اضافہ، یا جسم سے خارج ہونے والی ریح، خون، پیپ یا کوئی اور صورت کو ناپسند کیا ہے۔ غسل، وضو، صفائی کا حکم اس طرح دیا کہ اُسے نصف ایمان گردانا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ طہارت و پاکیزگی کا علَم بردار دین دل کے زنگ، آلودگی، میل اور سیاہی کو پنپنے دے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معروف حدیث کے مطابق دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیساکہ لوہا اگر وہ کھلی فضا میں پڑا رہے تو نمی سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ دل گناہوں سے زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔اس زنگ کو دُور کرنے اور دل کو مجلّٰی و مصفّٰی بنانے کا طریقہ تلاوتِ قرآن اور موت کے ذکر کی کثرت کو بتایا گیا۔ بالکل اسی طرح دل کے میل، گندگی اور آلایشوں سے نجات و خلاصی کا دوسرا اور بنیادی طریقہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق اللہ اپنے اُس خطاکار بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو اپنےقصور و خطا کی معافی طلب کرنے کے لیے اُس کی بارگاہ میں سرجھکائے، ہاتھ اُٹھائے اور توبہ کرے۔اُس شخص کی خوشی سے بھی زیادہ، جو لق ودق صحرا میں سفر کرتے ہوئے اپنے سامانِ زیست سے لَدی ہوئی اُونٹنی سے محروم ہوجائے، اُسے اپنی موت سامنے نظر آرہی ہو، پھر اچانک وہ اُونٹنی اُسے مل جائے۔ نااُمیدی، مایوسی اور ہلاکت کے اندیشوں سے نجات کے عالم میں اُس کی ناقابلِ بیان خوشی کا جو انداز اور اظہار کا جو بے ساختہ پن ہوگا اور خوشی و بے خودی کے عالم میں وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُسے اپنا بندہ اور خود کو اُس کا ربّ کہہ گزرے، تو اللہ ربّ العالمین اُس پر غصہ کرنے کے بجاے مسکرا دیتے ہیں۔ اللہ کی یہ خوشی توبہ کرنے والے بندے کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اللہ یقینا يَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ  ’’اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتے ہیں‘‘ مگر اس کے لیے ایک مہلت طویل بھی ہے اور محدود بھی۔ انسان سے ساری زندگی میں بلااِرادہ بے شمار قصور سرزد ہوں، لیکن اگر موت سے پہلے اور زندگی کی آخری ہچکی سے قبل توبہ کرلے، تو اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے___ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ۔ مگر یہ مہلت اس طرح محدود ہے کہ کسی کو کیا خبر کہ اُس کی موت کب آئے گی، وہ کتنا اور جیئے گا اور کب اُس کی آخری ہچکی ظہورپذیر ہوگی؟ اِس اعتبار سے توبہ کی مہلت بہت قلیل ہے۔ بندے کو غلطی کا احساس ہونے کے بعد توبہ میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اور فوراً ربّ، رحمٰن اور رحیم کی بارگاہ میں سر جھکا دینا اور ہاتھ اُٹھا دینے چاہییں۔
اگر انسان جان بوجھ کر گناہ، قصور اور خطا نہ کرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق جسے امام مسلمؒ نے اپنے مجموعۂ احادیث میں شامل کیا کہ ایک دن میں بندئہ خدا ایک سو بار بھی خطا کرے اور اللہ کے حضور معافی طلب کرے تو اُس کی توبہ قبول کی جاتی ہے۔  تُوْبُوْا اِلَی اللہِ  وَاسْتَغْفِرُوْہُ  ’’اللہ سے توبہ اور استغفار کرتے رہا کرو‘‘۔ فَاِنِّیْ  اَتُوْبُ فِیْ الْیَوْمِ مِأَۃَ مَرَّۃٍ ۔ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دن میں سو بار خطائیں اور قصور سرزد ہوتے تھے۔ یقینا وہ تو معصوم عن الخطا تھے۔ یہ تو اُمت کے لیے تعلیم ہے کہ خواہ خطائیں ہوں یا نہ ہوں، وہ بار بار بارگاہِ الٰہی میں توبہ اور مغفرت طلب کرتے رہیں۔ ممکن ہے اُن سے اَنجانے میں کچھ ایسے قصور سرزد ہوگئے ہوں، بڑے یا چھوٹے، جن کا اُنھیںشعورو اِدراک نہ ہوسکا ہو۔ یوں وہ بھی معاف ہوجائیں گے۔ اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی اللہ کو اپنے بندوں کا اپنی بارگاہ میں بار بار پلٹنا، رجوع کرنا اور توبہ کرنا ، استغفار کرنا یقینا بہت محبوب ہے۔اور یہ استغفار بندوں کے لیے دیگر بے شمار انعاماتِ الٰہی کا موجب بن جاتا ہے۔
توبہ کے حوالے سے قرآنِ عظیم نے دو مختلف رویوں کی نشان دہی کی۔ ایک حضرت آدم  و حوا علیہما السلام کا رویہ اور دوسرا شیطانِ مردود کا طرزِعمل۔ اللہ ربّ العزت نے حضرت آدم ؑ و حواؑ کو جنّت میں ایک مخصوص درخت کے پاس جانے اور اُس کا پھل کھانے سے منع کیا۔ جب اُن سے غلطی سرزد ہوگئی، تو فوراً اُس کا احساس و ادراک ہوجانے کے بعد ربّ العزت کی بارگاہ میں پلٹے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مغفرت کے خواستگار ہوئے: رَبَّنَا  ظَلَمْنَآ  اَنْفُسَنَا ’’اے ہمارے پروردگار ہم سے بھول ہوگئی اور ہم نے خود اپنے ہاتھوں خود پرظلم ڈھا لیا‘‘۔ وَ  اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا  وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ  مِنَ الْخٰسِرِیْنِ ۝۲۳  (الاعراف ۷:۲۳)’’اے مالک! اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقینا ہم بڑے خسارے سے دوچار ہوجائیں گے‘‘۔
دوسری طرف جب شیطان مردود نے اللہ کے بے شمار انعامات، احسانات، تقرب و فضیلت عطا کیے جانے کے باوجود اللہ کے حکم کی مخالفت کی، بجاے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور طالب ِ مغفرت ہونے کے سرکشی، بغاوت اور طغیانی کا راستہ اپنایا۔ اپنی اصلاح اور توبہ کے بجاے اپنی غلطی کا الزام بھی اللہ پر لگا دیا۔ لہٰذا، اللہ نے اُس پر ہمیشہ کے لیے توبہ کے دروازے بند کردیے اور اُسے اپنی بارگاہ سے مستقلاً خارج کر دیا۔

قبولیتِ توبہ کی شرائط: قبولیت ِ توبہ کے لیے قرآن میں چند شرائط کا ذکر ہے۔ پہلی یہ کہ انسان اپنی غلطی کا احساس ہوجانے پر حضرت آدم ؑ و حواؑ کی طرح اعترافِ خطا کرے۔ خودکو کسی فریب کا شکار ہونے دے نہ کسی بے بنیاد اور بے حیثیت سہارے کے آسرے پر رہے۔ اللہ کے سوا معاف کرنے اور سزا سے بچانے پر کوئی ذرّہ برابر بھی قادر نہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ معافی کے لیے انسان اللہ کی طرف رجوع کرے۔ کسی قسم کی فکری و عملی بغاوت، سرکشی اور بے نیازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ انسان کودنیا بھر میں کہیں امان مل سکتی ہے نہ سکون، سواے رب العالمین، پروردگار و مالک، رحیم و کریم خداے برحق کے دامنِ عفو وکرم اور سائبانِ رحمت کے۔تیسری شرط یہ ہے کہ وَاَصْلَحَ  ، انسان فی الفور اپنی غلطی کی اصلاح، کوتاہی کی تلافی کرے، بگڑی ہوئی بات کو درست کرلے۔ یہ گناہ، خطا اور کوتاہی برقرار رہے،توبہ کی قبولیت اور مغفرت کی اُمید کی جائے، ناممکن ہے کہ بارآور ہو، توبہ قبول اور معافی مل سکے۔ قرآن میں یہ دونوں شرائط بار بار دُہرائی گئیں: تَابُوْا  وَاَصْلَحُوْا ، اس کے ساتھ ایک اور شرط لگائی گئی: وَبَیَّنُوْا ، اپنی غلطی کو اچھی طرح جان کر  اس عزم و ارادے اور اعلان کو واضح کیا جائے کہ وہ دوبارہ اس بُرے کام اور غلطی سے شعوری طور پر خود کو دُور اور باز رکھے گا۔ اس عزم و اعلان کے بغیر بھی توبہ کی قبولیت ممکن نہیں۔
توبہ کی قبولیت کی ایک اہم شرط ندامت اور اللہ کے حضور آنسو بہاکر، گڑگڑاکر توبہ کرنا ہے۔ جو شخص توبہ کی فوری قبولیت کا خواہش مند ہو، اُس پر لازم ہے کہ دل میں اپنے گناہ اور خطا پر شرمندگی محسوس کرے اور حتی الوسع تلافی کے بعد اللہ کے حضور پیش ہو۔ گناہ اور خطا پر بغاوت، سرکشی، اطمینان کا احساس اور پشیمانی کے جذبے سے عاری توبہ شاید زبان سے بھی اچھی طرح ادا نہ ہوسکے اور توبہ توبہ کے لفظ ادا ہو بھی جائیں تو دل کا حال تو اللہ خوب جانتا ہے۔ توبہ لوگوں کو دکھانے، جتانے کے لیے نہ کی جائے۔دل کے خالص جذبے، شرمندگی کے قوی احساس، غلطی کے واضح شعور، تلافی اور عاجزی کے ساتھ ربّ، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں چھپ چھپا کر، لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر، سجدے میں گرکر، آہ و زاری کے ساتھ پیش کی جائے، تو توبہ کہلائے گی۔
توبہ کرنے والے پرلازم ہے کہ حُسنِ عمل کے ذریعے اپنے ربّ کو اپنی سچائی اور خلوصِ نیت کا یقین دلائے ۔اگرچہ اللہ کو سب کچھ خبرہے۔ نیتیں، ارادے، عزائم، سینے کے راز، سب کچھ۔ تاہم، عملِ صالح بھی مطلوب ہے، جو اس توبہ کو مزید مؤثر و کارگر بنا دے گا۔ سورئہ مریم میں ارشاد الٰہی ہے: مَنْ تَابَ  وَاٰمَنَ  وَعَمِلَ  صَالِحًا(مریم ۱۹:۶۰) ’’جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل اختیار کرلیں‘‘۔
توبہ کے ساتھ تلافیِ مافات اس لیے ضروری قرار دی گئی کہ مہلت ِ عمل اور زندگی محدود ہونے کے باعث ممکن ہے کہ گناہ وخطا کی تلافی یا حُسنِ عمل کا موقع میسر نہ آئے، اگر تاخیر کی جائے۔ بالکل اُسی طرح جیسے فرعون نے مرتے وقت ایمان لانے اور توبہ کرنے کا اعلان کیا، مگر اُس کے پاس مہلت ِ عمل ختم اور موت کا لمحہ حتمی طور پر قریب آچکا تھا۔ لہٰذا یہ بھی توبہ کی شرائط میں سے ہے کہ گناہ کے فوراً بعدتوبہ کی جائے، اس کو نہ تو مؤخر کیا جائے، نہ ٹالا جائے۔ قرآن نے رہنمائی عطا کی: اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَي اللہِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ(النساء۴:۱۷)۔ اس آیت میں ایک اور پہلو سے رہنمائی کی گئی۔ اللہ پر توبہ کی قبولیت واجب ہے، مگر اُن لوگوں کے لیے جو محض نادانی میں گناہ و خطا کربیٹھیں اور پھر فوراً توبہ کرلیں۔ جان بوجھ کر اور مسلسل اور عرصۂ دراز تک گناہ کیے چلے جانا اور وقت ِ آخر توبہ کی رسمی کارروائی توبہ کے دروازے بند کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔ سورۃ النساء میں ارشادِ الٰہی ہے: وَلَيْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ۝۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ (النساء۴:۱۸) ’’مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی‘‘۔
ساری زندگی خوب جی بھر کر گناہ کیے اور خطائیں کیں اور موت آنے پر توبہ کرنا چاہی، ایسے لوگوں کے لیے توبہ کا دروازہ بندہے۔ البتہ وقت ِ آخر کوئی گناہ ہوگیا، ندامت کے احساس، تلافی کے جذبے اورسچے عزم کے ساتھ توبہ کی جائے، تو موت کی آخری ہچکی سے پہلے توبہ کادروازہ کھلا رہتا ہے، مگر عادی مجرم اور سرکش و باغی انسان کے لیے نہیں۔
سورۃ النساء ہی میں قبولیت ِ توبہ کے کچھ اور پہلو بتائے اور دُہرائے گئے:تَـابُوْا، لوگ  توبہ کریں، وَاَصْلَحُوْا، کیے گئے گناہ یا خطا کی تلافی اور اصلاح احوال کرلیں۔ وَاَعْتَلَمُوْا بِاللہِ  ، اللہ کی تعلیمات، احکامات ، ہدایات، اللہ کی ذات سے جڑ جائیں،یعنی شیطان اور بُرائی کے راستوں سے یکسر خود کو علیحدہ کرکے اللہ کے راستے پر چلنے لگیں۔ وَاَخْلَفُوْا  دِیْنَھُمْ لِلٰہِ ، اپنے دین، یعنی  نظام و معاملات و معمولاتِ حیات کواللہ کے لیے خالص، اُس کے اور رسولؐ کے احکامات و قوانین اور  فرامین کے تابع کرلیں، تو اُن کی توبہ قبول ہوگی، اور فَأُوْلٰئِکَ  مَعَ  الْمُؤْمِنِیْنَ  ، ایسے لوگوں کا شمار اور معاملہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوگا۔
ایسے لوگ جو اِن شرائط کو پورا اور ہدایات کو اختیار کرتے ہوئے بارگاہِ ربّ العالمین میں توبہ کے لیے دست ِ دُعا اُٹھائیں گے، آنسو بہائیں اورگڑگڑائیں گے تو اللہ فرماتے ہیں: اَنَا  التَّوَابُ الرَّحِیْمِ ، میں بہت بہت توبہ قبول کرنے والا اور اپنے بندوں پر اُن کی توقعات سے بڑھ کر رحم و کرم کا معاملہ کرنے والا ہوں۔ اللہ ایسی سچّی اور مخلصانہ توبہ کرنے والوں کو بہت محبوب رکھتا ہے، اِنَّ اللہَ  یُحِبُّ  التَوَّابِیْنَ  ۔اللہ جس سے محبت کرے، اُس کی نیک بختی، خوش نصیبی اور سعادت کا کیا ٹھکانہ ہوگا، اور کون بندہ ایساہوگا جو گناہ و خطا بھی کرے اور اللہ کی محبت اور رحم و کرم کا متمنی نہ ہو اور بے نیازی کا رویہ اختیار کرے۔

توبہ کرنے والوں کے لیے انعامات: قرآن بتاتا ہے کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو   متعدد انعامات سے نوازتا ہے۔ حضرت آدم ؑ نے جب جنّت میں اپنے قصور پر معافی مانگی، تو اللہ ربّ العالمین نے اُنھیں نبوت عطا کرکے انسانیت کی رُشد و ہدایت کے منصب پر فائز کردیا اور انسانوں کا باپ، جدالاجداد بنا دیا اور قیامت تک اُن کی نسل کو تکریمِ آدمیت اور شرفِ انسانیت سے بہرہ وَر کرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔
ظلم، زیادتی اور گناہ و خطا کے بعد توبہ اور اصلاحی اعمال کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ بھی بندے کی طرف متوجہ ہوتا اور اُسے اپنی رحمتوں اور مغفرتوں کے حصار میں لے لیتا ہے۔ سورۃ المائدہ میں ارشاد الٰہی ہے: فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ يَتُوْبُ عَلَيْہِ۝۰ۭ(المائدہ ۵:۳۹)۔ گویا اللہ بھی اُس کی طرف توجہ فرمائے گا۔ ایک دوسری جگہ سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا: مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢ ا بِجَــہَالَۃٍ  ثُمَّ تَابَ مِنْۢ  بَعْدِہٖ  وَاَصْلَحَ۝۰ۙ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵۴ (الانعام ۶:۵۴)۔ جو شخص نادانی سے کوئی خطا کربیٹھے، پھر اُس کے فوراً بعد اللہ کی طرف پلٹ آئے، توبہ واستغفار کرے اور غلطی کو درست کرلے، تو اللہ بہت معاف اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ اپنے بندے کی طرف رُخ نہ کرے، توجہ نہ کرے، اُس کی توبہ قبول نہ کرے ، اُسے معاف نہ کرے، اُس پر اپنے رحم و کرم کا سایہ نہ کرے۔ اللہ کا بندے کی طرف پلٹنا یہی ہے کہ وہ اُسے معاف کردے، اُس کے دامن سے اُس قصور کو دھو ڈالے ، اور اُس پر اپنے انعامات کی بارش برسا دے اور اُس کو اہلِ ایمان میں شمار کرتے ہوئے اپنی محبت سے نوازے۔
اللہ توبہ کرنے والے بندوں پر ایک اور بڑاا نعام یہ کرتا ہے کہ اُن کی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے ۔ سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوا: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ (۲۵:۷۰)، توبہ، ایمان اور عملِ صالح اُس بندے کو اس انعام کے اہل بنادیتے ہیں کہ ربِّ کریم اپنی خاص رحمت سے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا انوکھا انعام کرتا ہے، جو اُس کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اس قدر لطف و کرم، بخشش و عطا صرف اُسی کا کام ہے۔

توبۃ النصوح: اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار اہلِ ایمان کو متوجہ کرکے توبہ کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلانا اپنے بندوں پر رحم و کرم کے سوا کسی اور چیز کا ثبوت نہیں۔ بس یہ کہ اُس کے بندے اُس کی طرف پلٹ آئیں، اُس کی بارگاہ میں عاجزی، اِلحاح و زاری اور مغفرت طلبی کا رویہ اپنائیں۔ زبان سے توبہ توبہ کرنے کے بجاے عملی طور پر توبہ کے سچے اور حقیقی راستے کا انتخاب کریں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ قصور و خطا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اس سے خبردار اور محتاط رہنا لازم ہے، مگر گناہ سرزد ہونے کی صورت میں، جو ناممکن نہیں___ اللہ کی بارگاہ میں پلٹنا، توبہ کرنا، قصور کا اعتراف کرکے معافی مانگنا ،اُس کی تلافی ، اصلاح کرنا ہی بچاؤ اور دین و دنیا کی سلامتی کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے۔ بندگانِ خدا سے مطلوب ’توبۃ النصوح‘ ہے۔ ایک سچی، کھری، پُرعزم اور آیندہ نہ کرنے کے پختہ ارادے کی توبہ۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ توبہ کے بے شمار کھلے دروازوں اور مواقع کے باوجود توبہ کیوں نہیں کرتے؟ اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ   اِلَی اللہِ  وَیَسْتَغْفِرُوْنَہُ  ط (المائدہ ۵:۷۴)۔کیوں اُس سے مغفرت نہیں مانگتے حالانکہ وَاللہُ  غَفُوْرٌ  رَحِیْمٌ  ، اللہ بہت معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔توبہ نہ کرنا اور اس آس و اُمید پر بیٹھے رہنا کہ اللہ معاف کر ہی دے گا، درست رویہ نہیں۔ یہ خام خیالی اور حددرجہ جہالت و حماقت ہے کہ انسان گناہ پر گناہ کرتاچلا جائے۔ توبہ و استغفار سے منہ موڑے رکھے اور اللہ پر توقع اور اُمید باندھے کہ وہ توبہ و مغفرت طلبی کے بغیر ہی اس کے گناہ دھو ڈالے گا۔
اہلِ کفر بھی اگر اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں، اللہ و رسولؐ پر ایمان لاکر، حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیں،اپنے ماضی کو بھلا کر گناہوں کی سچے دل کے ساتھ معافی طلب کریں، تو لازماً بخشے جائیں گے، مگر اُن پر لازم ہوگا کہ بقیہ زندگی کو اللہ کے احکام اور شریعت کے قوانین کے مطابق بسر کریں اور سابقہ گناہوں سے محتاط رہیں۔
اہلِ ایمان کو توبہ و مغفرت طلبی کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ رَبَّنَا  لَا تُزِغْ  قُلُوْبَنَا  بَعْدَ  اِذْ ھَدَیْتَنَا ، اے ہمارے ربّ، ہدایت و راستی عطا کرنے کے بعد، دلوں کو ہرقسم کی فکری و عملی کجی، خرابی، ٹیڑھ اور گندگی و آلودگی سے بچاتے رہنا۔ وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ  رَحْمَۃً ج ،  اور اپنی جناب سے ہمیں رحمت سے نوازتے رہنا۔ اِنَّکَ  اَنْتَ الْوَھَّابُ  (اٰلِ عمرٰن ۳:۸)،  اے پروردگار! آپ بہت عطا کرنے والے ہیں۔ مغفرت، رحم، کرم، انعام، ہدایت و راستی، سلامتیِ فکروعمل، ایمان پر استقامت و استقلال اور استحکام، سب عطا فرما۔ آمین!