سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


پاکستان میں [جس انتشار اور صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ  ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے ہیں۔

وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی  فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔

اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔

ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔

[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....

۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس   کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔

۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے    ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو  مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر  پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو  تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔

۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....

اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہرایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔

۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....

۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔

ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے  تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے  جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔

یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)

 

دوسرے تمام معاملات سے بڑھ کر جو چیز ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے وہ ہماری قوم کی دینی حالت ہے۔ اس حالت کا جب ہم جائزہ لے کر دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دینی حیثیت سے ہم مسلسل انحطاط کی طرف جارہے ہیں اور پاکستان بننے کے بعد یہ رفتارِانحطاط کم ہونے کے بجاے کچھ اور زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ یہ ہمارے نزدیک خطرہ نمبر۱ ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ___ بہت بڑا حصہ ___ احکامِ الٰہی سے بُعد رکھتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں علانیہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور ایسے نازک وقت میں بھی لوگ اُس سے باز نہیں آتے، جب کہ ہم اپنے آپ کو چاروں طرف سے خطرات میں گھِرا ہوا پاتے ہیں اور خدا سے نصرت مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں فرنگیت اور فسق و فجور کی رَو بڑھتی چلی جارہی ہے اور آج وہ کچھ ہو رہا ہے جو انگریز کے زمانے میں بھی نہ ہوتا تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آج بھی اسی طرح بے بس ہے جس طرح انگریز کے زمانے میں تھا، بلکہ اِس کے اُصول اور قوانین اور احکام اُس وقت سے کچھ زیادہ پامال کیے جارہے ہیں، جرأت اور جسارت کے ساتھ کیے جارہے ہیں، کھلم کھلا کیے جارہے ہیں، بڑے پیمانے پر کیے جارہے ہیں۔ ان کے خلاف چلنے کی علانیہ تبلیغ ہورہی ہے اور عوام الناس کو ان کے خلاف چلانے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں۔

اِس کے سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو دو ہیں۔ ایک یہ کہ سرکاری ملازمتوں سے، فوج اور سول دونوں قسم کی ملازمتوں سے،اُن لوگوں کو چُن چُن کر نکالا جارہا ہے جن کے اندر ایمان اور دین داری کی کچھ بھی رمق پائی جاتی ہے۔ اس طرح حکومت کی مشینری روز بروز اسلامی رُجحانات رکھنے والے عناصر سے خالی ہوتی جارہی ہے اور اُس پر کمیونسٹ اور دوسرے مخالف ِ دین عناصر قابض ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ فرنگیت کی اِس تبلیغ اور اس کو رواج دینے کی اِس منظم کوشش کا نشانہ خاص طور پر ہماری عورتیں بنائی جارہی ہیں۔ زور لگایا جارہا ہے کہ اسلامی تہذیب و اخلاق کے اُس آخری حصار کو بھی توڑدیا جائے جہاں ہر طرف سے پسپا ہوکر اُس نے پناہ لی تھی۔ طرح طرح سے تدبیریں کی جارہی ہیں کہ اس گہوارے کو بھی گندا کر کے رکھ دیا جائے جہاں ایک مسلمان بچہ سب سے پہلے آنکھ کھولتا ہے اور جہاں اسے مذہب، اخلاق، آدمیت اور اجتماعی برتائو کا پہلا سبق ملتا ہے۔

یہ سب کچھ اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے جن کا نام لے کر پاکستان مانگا گیا تھا اور جن کے اظہار و اعلان ہی کے طفیل اللہ تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں بخشا تھا۔ کہا یہ گیا تھا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین اس لیے درکار ہے کہ اس میں ہم مسلمان کی سی زندگی بسر کرسکیں، اسلام کو پھر سے زندہ اور تازہ کرسکیں، اور اسلام کی بنیادوں پر خود اپنے ایک تمدّن اور اپنی ایک تہذیب کی عمارت اُٹھاسکیں۔ مگر جب خدا نے وہ خطہ دے دیا تو اب کیا یہ جارہا ہے کہ اسلام کے رہے سہے آثار بھی مٹائے جارہے ہیں اور اُس تہذیب و اخلاق و تمدّن کی عمارت مکمل کی جارہی ہے جس کی  ِنیو یہاں انگریز رکھ گیا تھا۔

اس صورتِ حال کو ہم جس وجہ سے خطرہ نمبر۱ سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ صریح طور پر خدا کے غضب کو دعوت دینے کے ہم معنی ہے۔ ہم ہرگز یہ توقع نہیں کرسکتے کہ اپنے رب کی کھلی کھلی نافرمانیاں کرکے ہم اس کی رحمت اور نصرت کے مستحق بن سکیں گے۔

اس میں خطرے کایہ پہلو بھی ہے کہ پاکستان کے عناصر ترکیبی میں نسل، زبان، جغرافیہ، کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے۔ صرف ایک دین ہے جس نے اِن عناصر کو جوڑکر ایک ملّت بنایا ہے۔ دین کی جڑیں یہاں جتنی مضبوط ہوں گی اتنا ہی پاکستان مضبوط ہوگا، اور وہ جتنی کمزور ہوں گی اتنا ہی پاکستان کمزور ہوگا۔

اس میں خطرے کا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے ہاں جتنی زیادہ بڑھے گی، ہماری قوم میں منافقت، اور عقیدہ و عمل کے تضاد کی بیماری بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلامی احکام کی خلاف ورزی پھیلا دینا جس قدر آسان ہے ، ان کے دلوں سے اسلامی عقائد کو نکال پھینکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اب اگر صورتِ حال یہ ہو کہ مسلمان عقیدتاً فرض کو فرض، حلال کو حلال اور حرام کو حرام ہی سمجھتے رہیں مگر ان میں روز بروز ایسے افراد کی تعداد بڑھتی چلی جائے جو فرض کو فرض جانتے ہوئے ادا نہ کریں، حکم کو حکم مانتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کریں، اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس میں خفیہ اور علانیہ مبتلا ہوں، تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی آبادی کو روزبروز زیادہ منافق بنارہے ہیں، اس کے کیرکٹر کی بنیادیں ڈھیلی کررہے ہیں، اس کے اندر سے فرض شناسی اور پابندیِ قانون کی جڑیں کاٹ رہے ہیں، اور اس کو یہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اعتقاد کے خلاف عمل کرنے کی خُوگر ہوجائے۔ کیا کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ تپ دق کی بیماری جو ہماری مذہبی زندگی میں پھیلائی جارہی ہے، صرف مذہب کے دائرے تک ہی محدود رہ جائے گی؟ ہماری پوری قومی عمارت کو کھوکھلا کرکے نہ رکھ دے گی؟ جو مسلمان خدا اور رسولؐ کے ساتھ مخلص نہ رہے اُس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ قوم، وطن ، ریاست اورکسی دوسری چیز کے لیے مخلص ثابت ہوسکے گا؟

اس میں خطرے کا یہ پہلو بھی ہے کہ غیراسلامی اخلاق و اطوار کو رواج دینے کی کوششیں جتنی زیادہ بڑھ رہی ہیں، ملک کے دین پسند عناصر میں اُن کے مقابلے اور مزاحمت کا جذبہ بھی اتنا ہی زیادہ بڑھتا جارہا ہے، اور اس چیز نے ملک کو صریح طور پر دو کیمپوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اسلامی کیمپ اور دوسرا غیراسلامی کیمپ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ وقت ،جب کہ ہماری نئی مملکت ابھی ابھی قائم ہوئی ہے آیا اس بات کا متقاضی تھا کہ ہم اس کی تعمیروترقی میں مل جل کر اپنی ساری قومی طاقت صرف کردیتے، یا اس بات کا کہ ہم دو کیمپوں میں بٹ کر اپنی طاقتیں آپس کی کش مکش میں صَرف کرتے؟ کچھ سوچیے کہ یہ کش مکش ہمیں کدھر لے جارہی ہے اور آخر کہاں پہنچا کر چھوڑے گی؟

  •  اخلاقی حالت: دین کے بعد ہماری نگاہ میں دوسری چیز جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اخلاق ہے۔ اس حیثیت سے جب ہم ملک کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا عام اخلاقی انحطاط حقیقت میں ہمارے اس ملک کے لیے خطرہ نمبر۲ ہے۔

ملک کے تمام طبقے کیرکٹر کے بودے پن اور بے ضمیری میں مبتلا ہیں۔ اخلاقی خرابیاں ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہیں۔ تمام اخلاقی حدود توڑ کر رکھ دی گئی ہیں اور عام طور پر لوگوں کے دلوں سے یہ احساس مٹتا جارہا ہے کہ اخلاق بھی کوئی چیز ہے جس کے تقاضوں کا کچھ لحاظ آدمی کو کرنا چاہیے۔ عوام ہوں یا تعلیم یافتہ حضرات، سرکاری افسر اور اہل کار ہوں یا سیاسی لیڈر اور پارٹیوں کے کارکن، اخبارنویس ہوں یا اہلِ قلم، تاجر ہوں یا اہلِ حرفہ، زمین دار ہوں یا کسان، جس طبقے کو دیکھیے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی ذمہ داریوں کو بھول چکا ہے اور کسی ایسی حد سے واقف نہیں رہا ہے جس پر وہ اپنی اغراض و خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہوئے رُک جائے۔ ہرشخص اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ہر بدتر سے بدتر ذریعہ اختیار کرنے پر تُلا ہواہے۔ حرام اور حلال کی تمیز اُٹھ چکی ہے۔ گناہ اور ثواب کا احساس مٹ گیا ہے۔ بُرائی اور بھلائی کے فرق سے نگاہیں بند کرلی گئی ہیں۔ لوگوں کے ضمیر نے ان کے ذاتی مفاد کے آگے سپرڈال دی ہے۔ فرائض کو لوگ بھول چکے ہیں اور حقوق سب کو یاد ہیں۔ جھوٹ اور فریب اور چال بازی کام نکالنے کے مقبول ترین ہتھیار بن گئے ہیں۔ رشوت اور خیانت اور حرام خوری کے دوسرے ذرائع شیرمادر کی طرح حلال ہوگئے ہیں۔ مال والوں کے مال ضمیروں اور عصمتوں اور شرافتوں کے خریدنے میں صَرف ہورہے ہیں اور بیچنے والے دھڑلّے سے اخلاق کے وہ سارے جوہر بیچ رہے ہیں جو اُن کی نگاہ میں روپے سے کم قیمت رکھتے ہیں۔

مَیں اِس کو اِس ملک کے لیے خطرۂ عظیم سمجھتا ہوں۔ کیرکٹر ہی وہ اصل طاقت ہے جس کے بل پر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہے اور ترقی کرسکتی ہے۔ اگر اس طاقت سے ہم محروم ہو جائیں، اگر ہمارے اخلاق کی جان نکل جائے اور ہم بالکل حدود سے ناآشنا ہوکر رہ جائیں، تو ترقی کرنا تو درکنار ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔ (رُوداد جماعت اسلامی، ششم، ص ۶۱-۶۶)

 

جہاں تک قربانی کے سنت اور مشروع ہونے کا تعلق ہے، یہ مسئلہ ابتدا سے اُمت میں  متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔

سب سے بڑا ثبوت اس کے سنت اور مشروع ہونے کا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِمبارک سے لے کر آج تک مسلمانوں کی ہرنسل کے بعد دوسری نسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ دوچار یا دس پانچ آدمیوں نے نہیں بلکہ ہر پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنے سے پہلی پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں سے اس طریقے کو  اخذ کیا ہے اور اپنے سے بعد والی پشت کے لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں تک اسے پہنچایا ہے۔ اگر تاریخِ اسلام کے کسی مرحلے پر کسی نے اس کو ایجاد کر کے دین میں شامل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ تمام مسلمان بالاتفاق اس کو قبول کرلیتے اور کہیں کوئی بھی اس کے خلاف لب کشائی نہ کرتا؟ اور کس طرح یہ بات تاریخ میں چھپی رہ سکتی تھی کہ اس طریقے کو کب کس نے کہاں ایجاد کیا؟ آخر یہ اُمت ساری کی ساری منافقوں پر ہی تو مشتمل نہیں رہی ہے کہ حدیثوں پر حدیثیں قربانی کی مشروعیت پر گھڑ دی جائیں اور ایک نیا طریقہ ایجاد کرکے رسولِؐ خدا کی طرف منسوب کردیا جائے اور پوری اُمت آنکھیں بند کر کے اسے قبول کربیٹھے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہماری پچھلی نسلیں ایسی ہی منافق تھیں تو معاملہ قربانی تک کب محدود رہتا ہے۔ پھر تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، بلکہ خود رسالت ِ محمدیہ اور قرآن تک سب ہی کچھ مشکوک و مشتبہ ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ جس تواتر کے ساتھ پچھلی نسلوں سے ہم کو قربانی پہنچی ہے اُسی تواتر کے ساتھ انھی نسلوں سے یہ سب چیزیں بھی پہنچی ہیں۔ اگر ان کا متواتر عمل اس معاملے میں مشکوک ہے تو آخر دوسرا کون ایسا معاملہ رہ جاتا ہے جس میں اسے شک سے بالاتر ٹھیرایا جاسکے۔

افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگ نہ خدا کا خوف رکھتے ہیں نہ خلق کی شرم۔   علم اور سمجھ بوجھ کے بغیر جو شخص جس دینی مسئلے پر چاہتا ہے بے تکلف تیشہ چلا دیتا ہے۔ پھر اسے کچھ پروا نہیں ہوتی کہ اس ضرب سے صرف اسی مسئلے کی جڑ کٹتی ہے یا ساتھ ہی ساتھ دین کی جڑ بھی کٹ جاتی ہے۔

دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جارہی ہے ، اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بُری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگاکر دیکھتے ہیں کہ ہرسال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اُٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع  کیا جارہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے    بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیراسلامی اندازِ فکرسے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہرسال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرحج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ [ترکی] کی لادینی حکومت نے ۲۵سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہر روز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی۔ لیکن بُرا ہو اُن ملّائوں کا کہ انھوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگا کر صدیوں سے انھیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں___ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہر اس چیز کو  ’ملّائوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟ (تفہیمات، دوم، ص ۲۵۹-۲۶۲)

 

میں آپ کو اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں!

عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنھوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ قرآنِ مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی فکر کی، اِس کو پڑھا، سمجھا، اُس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اُس تربیت کا فائدہ اُٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں رمضان کے روزوں کی دو ہی مصلحتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) ، تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

دوسری یہ کہ مسلمان اُس نعمت کا شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے رمضان میں قرآنِ مجید نازل کر کے ان کو عطا کی ہے:

لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۵) ، تاکہ تم اللہ کی تکبیر کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اُس ہدایت پر جو اُس نے تمھیں دی ہے۔

دنیا میں اللہ جل شانہ ٗ کی سب سے بڑی نعمت نوعِ انسانی پر اگرکوئی ہے تو وہ قرآنِ مجید کو نازل کرنا ہے۔ تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے ، اس لیے کہ رزق اور اس کے جتنے ذرائع ہیں، مثلاً یہ ہوا اور یہ پانی اور یہ غلے اور اسی طرح معیشت کے جو ذرائع ہیں جن سے انسان اپنے لیے روزی کماتا ہے، مکان بناتا ہے، کپڑے فراہم کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہیں، لیکن یہ فضل و احسان اور اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں محض انسان کے جسم کے لیے ہیں۔ قرآنِ مجید وہ نعمت ہے جو انسان کی روح کے لیے، اُس کے اخلاق کے لیے اور درحقیقت اُس کی اصل انسانیت کے لیے نعمت عظمیٰ ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر اسی صورت میں صحیح طور پر بجالاسکتا ہے، جب کہ وہ اِس کے دیے ہوئے رزق پر بھی شکر اداکرے اور اُس کی دی ہوئی اِس  نعمت ہدایت کے لیے شکر ادا کرے جو قرآن کی شکل میں اُس کو دی گئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرنے کی یہ صورت نہیں ہے کہ آپ بس زبان سے شکر ادا کریں اور کہیں کہ اللہ تیرا شکر کہ تو نے قرآن ہمیں دیا، بلکہ اس کے شکر کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ قرآن کو سرچشمۂ ہدایت سمجھیں، دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس کی رہنمائی کا فائدہ اُٹھائیں۔

قرآنِ مجید آپ کو اپنی ذاتی زندگی کے متعلق ہدایت کرتا ہے کہ آپ کس طرح سے ایک پاکیزہ زندگی بسر کریں۔ وہ آپ کو ان چیزوں سے منع کرتا ہے جو آپ کی شخصیت کے نشوونما کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وہ آپ کو وہ چیزیں بتاتا ہے جن پر آپ عمل کریں تو آپ کی شخصیت صحیح طور پر نشوونما پائے گی اور آپ ایک اچھے انسان بن سکیں گے۔ وہ آپ کی اجتماعی زندگی کے متعلق بھی مفصل ہدایات آپ کو دیتا ہے۔ آپ کی معاشرتی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے گھر کی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے تمدن اور آپ کی تہذیب کا نقشہ کیا ہو؟ آپ کی ریاست کن طریقوں پر چلے؟ آپ کا قانون کیا ہو؟ آپ کی معاشرتی زندگی کا نظام کیسا ہو؟ کن طریقوں سے آپ اپنی روزی حاصل کریں؟ کن راہوں میں آپ اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کریں اور کن راہوں میں نہ کریں؟ آپ کا تعلق  اپنے خدا کے ساتھ کیسا ہو؟ آپ کا تعلق خود اپنے نفس کے ساتھ کیا ہو؟ آپ کا تعلق خدا کے بندوں کے ساتھ کیسا ہو؟ اپنی بیوی کے ساتھ، اپنی اولاد کے ساتھ، اپنے والدین کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ، اپنے معاشرے کے افراد کے ساتھ اور دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ، حتیٰ کہ جمادات اور حیوانات کے ساتھ اور خدا کی دی ہوئی تمام مختلف نعمتوں کے ساتھ آپ کا برتائو کیسا ہونا چاہیے؟ زندگی کے ان سارے معاملات کے لیے قرآنِ مجید آپ کو واضح ہدایات دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اُس کو اصل سرچشمۂ ہدایت مانے، رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اُن احکامات و ہدایات اور اُن اصولوں کو صحیح تسلیم کرے جو وہ دے رہا ہے اور اُن کے خلاف جو چیز بھی ہو، اُس کو رد کردے خواہ وہ کہیں سے آرہی ہو۔ اگر کسی شخص نے اِس رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن کو اِس نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اُس کی تعلیم و ہدایت کو زیادہ سے زیادہ اپنی سیرت و کردار میں جذب کرے، تو اِس نے واقعی اِس نعمت پر اللہ کا صحیح شکر ادا کیا ہے۔ وہ حقیقت میں اس پر مبارک باد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اُس پر تھا، اسے اُس نے ٹھیک ٹھیک ادا کردیا۔

رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کے لیے وہ آپ پر فرض کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ آپ اگر روزے کی حقیقت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کیا چیز ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اُس کی فرماں برداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینے تک آپ کو اِسی چیز کی مشق کراتا ہے۔ جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طور پر حلال ہیں وہ بھی اللہ کے حکم سے روزے میں حرام ہوجاتی ہیں اور اس وقت تک حرام رہتی ہیں جب تک اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہوجائیں۔ پانی جیسی چیز جو ہرحال میں حلال و طیب ہے، روزے میں جب اللہ حکم دیتا ہے کہ یہ اب تمھارے لیے حرام ہے تو آپ اس کا ایک قطرہ تک حلق سے نہیں اُتار سکتے، خواہ پیاس سے آپ کا حلق چٹخنے ہی کیوں نہ لگے۔ البتہ جب اللہ پینے کی اجازت دے دیتا ہے اُس وقت آپ اُس کی طرف اِس طرح لپکتے ہیں گویا کسی نے آپ کو باندھ رکھا تھا اور آپ ابھی کھولے گئے ہیں۔ ایک مہینے تک روزانہ یہ باندھنے اور کھولنے کا عمل اسی لیے کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری بندگی و اطاعت کے لیے تیار ہوجائیں۔ جس جس چیز سے وہ آپ کو روکتا ہے اُس سے رُکنے کی، اور جس جس چیز کا وہ آپ کو حکم دیتا ہے اس کو بجالانے کی آپ کو عادت ہوجائے۔ آپ اپنے نفس پر اتنا قابو پالیں کہ وہ اپنے بے جا مطالبات اللہ کے قانون کے خلاف آپ سے نہ منوا سکے۔ یہ غرض ہے جس کے لیے روزے آپ پر فرض کیے گئے ہیں۔

اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت کو اپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارک باد کا مستحق ہے، اور اس سے زیادہ مبارک باد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اُگل کر پھینک نہ دے بلکہ باقی ۱ ۱ مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اُٹھاتا رہے۔

آپ غور کیجیے! اگر ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کے لیے نہایت    قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اس کو فوراً اُگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اُسے حاصل نہ ہوگا، کیونکہ اُس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے کوئی موقع ہی نہ دیا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص غذا کھا کر اُسے ہضم کرے اور اُس سے خون بن کر اُس کے جسم میں دوڑے، تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اُس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھاکر اُسے جزوِبدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ [قے]کردیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اُٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت اِن روزوں نے آپ کو دی ہے ، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں، بلکہ باقی ۱۱ مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اِس رمضان سے حاصل کرلیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارک باد کا مستحق ہے کہ اُس نے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت پالی۔(تفہیمات، چہارم، ص ۱۶۶-۱۷۰)

 

حج کے معنی عربی زبان میں زیارت کا قصد کرنے کے ہیں۔ حج میں چونکہ ہرطرف سے لوگ کعبے کی زیارت کا قصد کرتے ہیں، اس لیے اس کا نام حج رکھا گیا....

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْــلًا ط وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن۳:۹۷) ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔

اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس کی شرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو حدیثوں سے ہوتی ہے: مَنْ مَلَکَ زَادًا وَّرَاحِلَۃً تُبَلِّغُہٗ اِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ اَنْ یَّمُوْتَ یَھُودِیًّا اَوْ نَصْرَانِیًّا، ’’جوشخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو، جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتاہو اور پھر حج نہ کرے تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہوکر مرنا یکساں ہے‘‘۔ مَنْ لَّمْ یَمْنَعْہُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَۃٌ ظَاہِرَۃٌ اَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ اَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ اِنْ شَآئَ یَھُوْدِیًّا وَّاِنْ شَآئَ نَصْرَانِیًّا،’’جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے، نہ کسی روکنے والے مرض نے،اور پھر اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر‘‘۔

اور اسی کی تفسیر حضرت عمرؓ نے کی جب کہا کہ ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور رسولؐ و خلیفۂ رسولؐ کی تشریح سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ فرض ایسا فرض نہیں ہے کہ جی چاہے تو ادا کیجیے اور نہ چاہے تو ٹال دیجیے بلکہ یہ ایسا فرض ہے کہ ہراس مسلمان کو جو کعبے تک جانے آنے کا خر چ رکھتا ہو اور ہاتھ پائوں سے معذور نہ ہو، عمر میں ایک مرتبہ اسے لازماً ادا کرنا چاہیے، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو اور خواہ اس کے اُوپر بال بچوں کی اور اپنے کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی کیسی ہی ذمہ داریاں ہوں۔ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود   حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کرکرکے سال پر سال یونہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ رہے وہ لوگ جن کو عمربھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے، اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔ ان کے دل میں   اگر مسلمانوں کا درد اُٹھتا ہے تو اُٹھا کرے، اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم پر ایمان کا جذبہ تو بہرحال ان کے دل میں نہیں ہے....


لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ(الحج ۲۲:۲۸)’’تاکہ لوگ یہاں آکر دیکھیں کہ اس حج میں ان کے لیے کیسے فائدے ہیں‘‘۔ یعنی یہ سفر کرکے اور اس جگہ جمع ہوکر وہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں کہ یہ انھی کے نفع کے لیے ہے اور اس میں جو فائدے پوشیدہ ہیں ان کا اندازہ کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ آدمی یہ کام کرکے خود دیکھ لے۔

حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق روایت ہے کہ جب تک انھوں نے حج نہ کیا تھا، انھیں اس معاملے میں تردد تھا کہ اسلامی عبادات میں سب سے افضل کون سی عبادت ہے، مگر جب انھوں نے خود حج کر کے ان بے حدوحساب فائدوں کو دیکھا جو اس عبادت میں پوشیدہ ہیں تو بے تامل پکار اُٹھے کہ یقینا حج سب سے افضل ہے۔

دنیا کے لوگ عموماً دو ہی قسموں کے سفروں سے واقف ہیں: ایک سفر وہ جو روٹی کمانے کے لیے کیا جاتا ہے، دوسرا جو سیروتفریح کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں قسم کے سفروں میں اپنی غرض اور اپنی خواہش آدمی کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ گھر چھوڑتا ہے تو اپنی غرض کے لیے، بال بچوں اور عزیزوں سے جدا ہوتا ہے تو اپنی خاطر۔ مال خرچ کرتا ہے یا وقت صرف کرتا ہے تو اپنے مطلب کے لیے۔ لہٰذا اس میں قربانی کا کوئی سوال نہیں ہے مگر یہ سفر جس کا نام حج ہے، اس کا معاملہ اور سب سفروں سے بالکل مختلف ہے۔ یہ سفر اپنی کسی غرض کے لیے یا اپنے نفس کی خواہش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اس سفر پر کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت نہ ہو، اس کا خوف نہ ہو، اور اس کے فرض کو فرض سمجھنے کا خیال نہ ہو۔ پس جو شخص اپنے گھربار سے ایک طویل مدت کے لیے علیحدگی، اپنے عزیزوں سے جدائی، اپنے کاروبار کا نقصان، اپنے مال کا خرچ، اور سفر کی تکلیفیں گوارا کر کے حج کو نکلتا ہے، اس کا نکلنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے اندر خوفِ خدا اور محبت ِ خدا بھی ہے اور فرض کا احساس بھی، اور اس میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ اگر کسی وقت خدا کی راہ میں نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ نکل سکتا ہے، تکلیفیں اُٹھا سکتا ہے، اپنے مال اور اپنی راحت کو خدا کی خوشنودی پر قربان کرسکتا ہے۔

نیکی اور تقویٰ کی رغبت

پھر جب وہ ایسے پاک ارادے سے سفر کے لیے تیار ہوتے ہیں تو اس کی طبیعت کا حال کچھ اور ہی ہوتا ہے، جس دل میں خدا کی محبت کا شوق بھڑک اُٹھا ہو اور جس کو ادھر کی لَو لگ گئی ہو اس میں پھر نیک ہی نیک خیال آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور لوگوں سے اپنا کہا سنا بخشواتا ہے۔ کسی کا حق اس پر آتا ہو تو اسے ادا کرنے کی فکر کرتا ہے تاکہ خدا کے دربار میں بندوں کے حقوق کا بوجھ لادے ہوئے نہ جائے۔ بُرائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے اور قدرتی طور پر بھلائی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ پھر سفر کے لیے نکلنے کے ساتھ ہی جتنا جتنا    وہ خدا کے گھر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اس کے اندر نیکی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو اس سے اذیت نہ پہنچے اور جس کی جتنی خدمت یا مدد ہوسکے کرے۔ بدکلامی و بیہودگی ، بے حیائی، بددیانتی اور جھگڑا فساد کرنے سے خود اس کی اپنی طبیعت اندر سے رُکتی ہے کیونکہ وہ خدا کے راستے میں جا رہا ہے۔ حرمِ الٰہی کا مسافر اور پھر بُرے کام کرتا ہوا جائے، ایسی شرم کی بات کسی سے کیسے ہو؟ اس کا تو یہ سفر پورے کا پورا عبادت ہے۔ اس عبادت کی حالت میں ظلم اور فسق کا کیا کام؟ پس دوسرے تمام سفروں کے برعکس یہ ایسا سفر ہے جو ہردم آدمی کے نفس کو پاک کرتا رہتا ہے ، اور یوں سمجھو کہ یہ ایک بہت بڑا اصلاحی کورس ہے جس سے لازماً ہراس مسلمان کو گزرنا ہوتا ہے جو حج کے لیے جائے....

اس میں وقت کی قربانی ہے، مال کی قربانی ہے، آرام و آسایش کی قربانی ہے، بہت سے دنیوی تعلقات کی قربانی ہے، بہت سی نفسانی خواہشوں اور لذتوں کی قربانی ہے.... اور یہ سب کچھ اللہ کی خاطر ہے۔ کوئی ذاتی غرض اس میں شامل نہیں۔ پھر اس سفر میں پرہیزگاری و تقویٰ کے ساتھ مسلسل خدا کی یاد اور خدا کی طرف شوق و عشق کی جو کیفیت آدمی پر گزرتی ہے وہ اپنا ایک مستقل نقش دل پر چھوڑ جاتی ہے جس کا اثر برسوں قائم رہتا ہے۔ پھر حرم کی سرزمین میں پہنچ کر قدم قدم پر انسان ان لوگوں کے آثار دیکھتا ہے جنھوں نے اللہ کی بندگی و اطاعت میں اپنا سب کچھ قربان کیا، دنیا بھر سے لڑے، مصیبتیں اُٹھائیں، جلاوطن ہوئے، ظلم پر ظلم سہے، مگر بالآخر اللہ کا کلمہ بلند کر کے چھوڑا اور ہر اس باطل قوت کا سرنیچا کرکے ہی دم لیا جو انسان سے اللہ کے سواکسی اور کی بندگی کرانا چاہتی تھی۔    ان آیاتِ بینات اور ان آثارِ متبرکہ کو دیکھ کر ایک خدا پرست آدمی عزم و ہمت اور جہاد فی سبیل اللہ کا جو سبق لے سکتا ہے، شاید کسی دوسری چیز سے نہیں لے سکتا۔ پھر طوافِ کعبہ سے اس مرکزدین کے ساتھ جو وابستگی ہوتی ہے اور مناسکِ حج میں دوڑدھوپ، کوچ اور قیام سے مجاہدانہ زندگی کی جو مشق کرائی جاتی ہے، اسے اگر آپ نماز اور روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ ساری چیزیں کسی بہت بڑے کام کی ٹریننگ ہیں جو اسلام مسلمانوں سے لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہراُس مسلمان پر جو کعبہ تک جانے آنے کی قدرت رکھتا ہو، حج لازم کردیا گیا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہرزمانے میں زیادہ سے زیادہ مسلمان ایسے موجود رہیں جو اس پوری ٹریننگ سے گزرچکے ہوں۔ (حقیقت حج سے ماخوذ)

 

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں، بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔

دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُم یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھرجو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل  ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔

بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی    طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے  خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے   آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے، تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔

اس طریقے کو چھوڑ کے جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور   اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے، تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے، اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب  یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں)، سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاںتک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے ہیں۔ اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔

یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّہ ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۷-۳۳۱)

 

  •  تراویح: آں حضورؐ کا عمل: حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بوریا کا ایک حجرہ بنایا۔ کئی راتوں تک اس میں نماز پڑھی یہاں تک کہ بہت سے لوگ آپؐ کے پیچھے جمع ہوگئے۔ پھر ایک رات لوگوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہ سنی۔ انھوں نے گمان کیا کہ حضوؐر سوگئے ہیں۔ بعض نے کھنکارنا شروع کیا کہ آپؐ  حجرے سے نکل کر ان کی طرف تشریف لائیں۔ آں حضوؐر نے باہر آکر فرمایا: مجھے تمھاری کیفیت معلوم ہے۔ مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ کردی جائے، اور اگر یہ چیز تم پر فرض ہوجاتی تو تم اس کو ادا نہ کرپاتے۔ اے لوگو! اس کو اپنے گھروں میں پڑھو۔ آدمی کی بہترین نماز اس کے گھر کی ہے، ماسواے فرض نمازوں کے‘‘(متفق علیہ)۔حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں نماز پڑھے تو اپنی نماز میں سے کچھ حصہ گھر کے لیے بھی رکھ لے۔ اس نماز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس گھر میں بھلائی کردے گا‘‘۔ (مسلم)

حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے۔ آپؐ نے تراویح میں ہمارے ساتھ قیام نہ کیا، یہاں تک کہ صرف سات دن رہ گئے۔ ۲۴رمضان کی رات کو حضوؐر نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی۔ جب چھے راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب پانچ راتیں رہ گئیں تو حضوؐرنے پھر قیام فرمایا، یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کاش!  آپؐ اس سے زیادہ قیام فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا : آدمی جس وقت امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ فارغ ہوجاتا ہے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔ جب چار راتیں  باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے  اپنے گھروالوں کو جمع کیا اور اپنی عورتوں کو اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر ہمیں فلاح کے فوت ہوجانے کا خطرہ ہوا (یعنی سحری کھانے سے رہ جانے کا خوف ہوا)۔ پھر بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

اس سے پہلے ایک روایت حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھی۔ اس طویل روایت میں حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے ۲۴ دن ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں دو مختلف رمضان کا ذکر کرتی ہیں۔ حضرت ابوذرؓ جس رمضان کا ذکر کر رہے ہیں وہ بعد کا واقعہ ہے۔ اس روایت میں حضرت ابوذرؓ نے حضوؐر سے درخواست کی کہ کاش! آپؐ زیادہ قیام فرماتے جس پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور اس وقت تک ساتھ رہتا ہے جب امام سلام پھیرے،  تو اس شخص کے لیے رات بھر کا قیام لکھا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت اپنے بندوں پر ایسی ہے کہ رات کی نماز جماعت کے ساتھ امام کے پیچھے پڑھتے ہیں، یعنی فرض ادا کرتے ہیں تو اس کا اجر رات بھر کے قیام کے برابر لکھا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ اپنے کرم سے جتنا چاہے عطا فرما دے۔ اس کا اصول ہے کہ سزا دیتا ہے تو صرف جرم کے مطابق، اور انعام دیتا ہے تو اپنی رحمت کے مطابق، یعنی آدمی کی خدمت سے کئی گنا زیادہ۔ اس لیے حضوؐر نے فرمایا کہ آدھی رات تک ہم نے تمھیں نماز پڑھائی، یہی کافی ہے، اجر تو اللہ ساری رات کے قیام کا دے گا۔ پھر حضرت ابوذر غفاریؓ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آں حضوؐر نے اپنے گھر والوں، بیویوں، بچوں اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور تراویح کی نماز پڑھائی۔ یہاں تک کہ انھیں اندیشہ ہوا کہ ہم فلاح سے رہ جائیں گے۔ پوچھا گیا کہ   فلاح کیا ہے تو حضرت ابوذرؓ نے جواب دیا: اس سے مراد سحری کا کھانا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ   راوی جس نے حضرت ابوذرؓ سے سوال کیا کہ فلاح کیا ہے کوئی دوسرا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے بتایا کہ قیام اتنا طویل ہوا کہ خدشہ ہوگیا کہ آج سحری کا کھانا مشکل ہی سے کھایا جائے گا۔ اس روایت سے یہ ثبوت بھی ملا کہ یہ پہلے رمضان کی طرح نہیں کہ جس میں آں حضوؐر نے تراویح کا انتظام کیا تھا، تو لوگ آپ کی آواز سُن کر جمع ہوگئے تھے اور اوائل رمضان میں تراویح پڑھی تھی، بلکہ اس بعد کے رمضان میں آپؐ نے اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور گھر کے بال بچوں کو بھی جمع کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس سے اس بات کا ثبوت بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ نے تراویح کا جو انتظام کیا تھا وہ خلافِ سنت نہ تھا۔ حضور اکرمؐ نے نہ صرف خود نماز پڑھی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ دیگر لوگوں کو جمع بھی کیا۔

حضور اکرمؐ نے باقی دن جو تراویح نہیں پڑھائی تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تراویح فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ حضوؐر نے لوگوں کو جمع بھی کیا ہے اور نہیں بھی۔ لوگوں کو ازخود جمع ہوجانے سے روکا بھی نہیں، تراویح پڑھائی بھی ہے اور نہیں بھی۔ اس طرح آں حضوؐر نے اپنے عمل سے یہ بتا دیا کہ فرض، واجب، سنت اور نفل کیا ہیں۔ تراویح نفل ہے جس پر آں حضورؐنے خود عمل کیا ہے مگر اس کو لازم نہیں کیا۔

  •  خلیفہ اوّل کا عمل:حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام کے لیے رغبت دلاتے تھے لیکن تاکیداً حکم نہیں دیتے تھے۔ آپؐ فرماتے تھے کہ جو شخص صحیح اعتقاد کے ساتھ ثواب کی خاطر قیامِ رمضان کرتا ہے اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں بھی یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانۂ خلافت میں بھی یہی معمول تھا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ خلیفہ دوم نے اپنے دوسرے نصف دورِ خلافت میں نمازِتراویح کو مساجد میں باجماعت ادایگی کی شکل میں اختیار فرمایا جو آج تک مسلمانوں میں رائج ہے۔ چونکہ آں حضوؐر نے اپنے ساتھ لوگوں کے جمع ہونے کو ناپسند نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے موقع پر لوگوں کو قیام کے لیے جمع بھی کیا، تو ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ نے جو انتظام قیامِ رمضان کے سلسلے میں کیا وہ خلافِ سنت نہیں ہے۔

  •  خلیفہ دوم کا عمل:حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری روایت کرتے ہیں کہ ایک شب حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ علیحدہ علیحدہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں اور کچھ لوگ ایک امام کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے فرمایا: اگر میں انھیں ایک امام کے پیچھے جمع کردوں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ پھر فیصلہ کر کے حضرت ابی بن کعبؓ کو امام مقرر کردیا۔ جب دوسری شب مسجد کی طرف آئے تو دیکھا اب لوگ ایک امام کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ کیا اچھی بدعت ہے اور جس نماز سے تم غفلت برتتے تھے۔ یہ زیادہ بہتر ہے کہ تم قیامِ لیل کرو۔ خود حضرت عمرؓ آخر شب کے قیام کو ترجیح دیتے تھے اور لوگ اوّل شب کو قیام کرتے تھے۔
  •  تراویح کی تعداد:حضرت سائب بن یزید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت تمیم داریؓ کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو ۱۱ رکعت جماعت سے پڑھائیں اور امام ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے جن میں تقریباً سو آیات ہوتیں۔ طویل قیام کی وجہ سے ہم لاٹھیوں کے سہارے کھڑے ہوتے تھے اور مسجد سے ہماری واپسی فجر کے قریب ہوتی۔ (موطا)

حضرت اعرجؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں  کفار پر لعنت کرتے تھے اور امام سورئہ بقرہ آٹھ رکعت میں پڑھتے اور اگر وہ اس سورہ کو ۱۲ رکعت میں ختم کرتے تو ہم سمجھتے کہ انھوں نے نماز میں تخفیف کی ہے (ایضاً)۔حضرت عبداللہ بن ابوبکر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رمضان میں قیامِ لیل سے فارغ ہوتے تو خادموں سے کہتے کہ کھانا لانے میں جلدی کرو تاکہ سحری چھوٹ نہ جائے۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ فجر (صبح صادق) طلوع نہ ہوجائے۔ (ایضاً)

نمازِ تراویح کے بارے میں اکثر احادیث میں قیامِ لیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بجاے خود اس بات کی دلیل ہے کہ قیام کرنے والا حسب توفیق قیام کرے۔تعداد رکعات کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تینوں احادیث میں بھی مختلف تعداد کا بیان اس معاملے میں کسی پابندی کو ظاہر نہیں کرتا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آسانی اور رمضان المبارک میں قرآن کا دورانِ نماز پڑھنا اس بات کا متقاضی تھا کہ تعدادِ رکعات میں مناسب اضافہ کرلیا جائے تاکہ طویل قیام کے لیے لاٹھیوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ لہٰذا تراویح کے سلسلے میں جس قدر بھی اختلافی آرا سامنے آتی ہیں ان کی بنیاد پر کسی نص یا حکمِ رسالت کی نفی نہیں ہوتی۔(افاداتِ مودودی،   درس حدیث مشکوٰۃ، باب الصلوٰۃ، مرتبین: میاں خورشید انور، بدرالدجیٰ خان،ص ۳۱۵-۳۲۰)

 

اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اُس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہوکر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ اِن صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اِس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔

بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میںلے لیتے ہیں، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگیِ حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیںکہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہرچیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو اُن کے اِس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اِس نے قرآن کی ایک آیت۱؎ کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اور اسلام کی


۱-            ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو  اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے،  اور ان کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (النور ۲۴:۵۵)

کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لامحالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنھوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تمکن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق وفجور کی ان تمام آلایشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنھیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے، جیسے سود، زنا، شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اِس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبیعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت وسیاست میں خوب ترقی کی جائے؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی وجہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً مفید اور ضروری ہیں؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نام رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد وضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان دہ طریقے بھی اختیار کر لے؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی ایمان اور عملِ صالح اور دین حق اور عبادتِ الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں؟

یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتاہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو  اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت ، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے، وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح وصاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمان داری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑسکتا ہے جن میں آیت ِ استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حلانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انھوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے،قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔

قرآن دراصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق وسباق سے پتا چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بولا گیا ہے:

اس کے ایک معنی ہیں:’’ خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا‘‘۔ اس معنی میں پوری اولادِ آدم زمین میں خلیفہ ہے۔

دوسرے معنی ہیں:’’ خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی ( نہ کہ محض امرتکوینی ) کے تحت اختیاراتِ خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میںصرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافروفاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔

تیسرے معنی ہیں: ’’ ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’نیابت‘ سے ماخوذ ہیں، اور یہ آخری معنی خلافت بمعنی ’ جانشینی‘ سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت ِعرب میں معلوم ومعروف ہیں۔

اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت ِاستخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جگہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں۔ اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جارہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش    نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چورا ہے پر لے پہنچنا اور امریکا سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو،ا س کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، الانبیاء حاشیہ ۹۹)

اِس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجودتھے۔     وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت ِ خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت ِخوف نہ صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدایش کی زمین ہی میں نہیں، کرئہ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابوبکر صدیق، عمر فاروق، اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سید نا علی کرم اللہ وجہہٗ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انھوں نے حضرت عمرؓ کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:

اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت وقلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ توا للہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائیدو نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اِس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ…  اللہ اس وعدے کو پوار کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیّم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے، اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور نوبت یہ آجائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہوگی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈآئے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں، بلکہ اللہ کی تائید ونصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے۔

دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت ِاستخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں۔(تفہیم القرآن، سوم، ص ۴۱۷-۴۲۰)

 

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ انَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (التحریم ۶۶:۶-۷) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوںگے، جس پر نہایت تندخُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوںگے، جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو حکم بھی انھیںد یا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔ (اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ایسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کررہے تھے۔

اھل و عیال کو جھنم سے بچانے کی فکر

واقعۂ تحریم اور ازواجِ مطہراتؓ کے واقعات بیان کرنے کے بعد اب تمام مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرشخص کو اپنی ذات ہی کی نہیں بلکہ اپنے گھروالوںکی بھی فکر کرنی چاہیے۔   آگے چل کر جو بات فرمائی گئی ہے اُس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان واقعات کوبیان کرنے سے مقصود ازواجِ مطہراتؓ کو لوگوں کی نگاہ سے گرانا نہیں ہے، بلکہ ان واقعات کے بیان سے مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وجہ سے معافی نہیںپاسکتا کہ اس کی نسبت کسی بڑے آدمی کے ساتھ ہے۔گویا جو اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑھ کر محبوب ہوتا ہے، اس کی اولاد بھی ہو، اس کی بیوی بھی یا ماں بہن بھی ہو، صرف اس وجہ سے معاف نہیں کردی جائے گی کہ اس کا رشتہ نبی کے ساتھ تھا۔ میزانِ آخرت میں اس کے اپنے اعمال ہی اس کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلے کرنے والے ہوں گے اور اس کے اعمال ہی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ اس کے مستقبل کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ اس کا رشتہ کس کے ساتھ ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے یہاں صاف صاف فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں ان کا یہ کام ہے کہ وہ نہ صرف اپنی فکر کریں بلکہ وہ اپنے گھروالوں کی بھی فکر کریں، نیز اپنی اولاد،بیویوں اور بیٹے بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں کی بھی فکر کریں کہ کہیں وہ آگ کے مستحق نہ ہوجائیں۔ اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو خدا کے غضب سے بچانے کی کوشش کریں۔

یہ جو فرمایا کہ اس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، یہ بات سورئہ بقرہ میں بھی کہی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے پتھروں سے مراد بت لیے ہیں لیکن بظاہر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر پتھروں سے مراد بت نہیں ہوسکتے۔

سورئہ بقرہ کے اندر جو سلسلۂ بیان آیا ہے اس میں اس سے مراد بت بھی لیے جاسکتے ہیں لیکن یہاں چونکہ مشرکین کا ذکر نہیں ہے بلکہ اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد اور گھروالوںکو آگ سے بچائو، تو ظاہر بات ہے کہ وہ پتھروں کو پوجنے والے نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کا ایندھن پتھروں کی نوعیت کا ہوگا، جیسے آپ کے ہاں پتھر کا کوئلہ ہوتا ہے جو عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں زیادہ دیر تک جلتا ہے اور آگ کو زیادہ تیز کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا:

عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ ، دوزخ پر ایسے ملائکہ مامور ہیں جو نہایت تندخُو اور سخت مزاج ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جس کو جس کام کے لیے پیدا کیا ہے اُسے اس کام کے لیے موزوں ترین ساخت عطا فرمائی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ملائکہ چونکہ نوری ہیں اس لیے وہ تمام یکساں صفات کے حامل ہوںگے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ جس قسم کی خدمات جس فرشتے کے سپرد ہیں،    اس کے اندر ویسی ہی صفات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ مثال کے طور پر جو فرشتے جنت کے لیے مقرر ہیں وہ نہایت متواضع، نرم مزاج اور بہت ادب اور لحاظ کرنے والے ہوں گے۔ اس کے برعکس جو فرشتے دوزخ کے لیے مقرر ہوں گے وہ جلّاد قسم کے فرشتے ہوں گے۔ ان کے ہاں رحم کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو تو اس کے دل میں رحم آجائے کہ مَیں ذرا اس کی آگ کو ہلکا کردوں۔ نہیں، ان فرشتوں کے ہاں رحم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح، مثلاً جو فرشتے لوگوں کو موت دینے کے لیے مقرر ہیں ان کے اندر یہ نفسیات اور یہ جذبات پیدا نہیں کیے گئے کہ کسی آدمی کی روح قبض کرتے وقت وہ یہ دیکھیں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،  اس کی جوان بیوی ہے، یا اس کے جوان والدین ہیں، ان کا دل صدمے سے پھٹ جائے گا۔    ان فرشتوں کے ہاں ایسی کسی بات کا کوئی سوال نہیں۔ ان کو حکم ہوتا ہے کہ فلاں کی روح قبض کرو،  وہ فرشتہ جائے گا اور اس کی روح قبض کرے گا۔ اس کو اس بات کی کچھ پروا نہیں ہوگی کہ اس کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔

اس بات کو اس طرح فرمایا کہ:  لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ، ’’اللہ ان کو جس بات کا حکم دے وہ اس کی حکم عدولی کبھی نہیں کرتے‘‘۔ اگر اللہ کا حکم ہے کہ فلاں پر رحم نہ کھائو، اس پر سختی کرو تو وہ ایسا ہی کرے گا کیونکہ اس کے سپردکام ہی یہ کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا: وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ، ’’جو کچھ حکم اُن کو دیا جاتا ہے وہی کچھ وہ کرتے ہیں‘‘۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِبلیس بھی فرشتہ تھا تو یہ بات غلط ہے۔ اس لیے کہ فرشتوں کی توفطرت ہی یہ ہے کہ ان کو جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل کی جائے۔   اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا اُن کی فطرت ہی میں نہیں ہے لیکن ابلیس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ قرآنِ مجیدہی میںبیان کیا گیا ہے، اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ابلیس پہلے فرشتوں میں سے تھا۔ 

پھر فرمایا:

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o  (اس وقت کہا جائے گاکہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔

جب کافروں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اس وقت ان سے یہ بات فرمائی جائے گی ۔   یہ اس لیے کہ عُذر کرنے کے جتنے مواقع تھے وہ دنیا میں موت آنے سے یا خدا کا عذاب آنے سے پہلے پہلے تھے۔ اب اس کے بعد جب جزا کا دور شروع ہورہا ہے، اس وقت معذرت کا کوئی سوال نہیں۔ اب تمھیں اپنے اعمال کی جزا کا سامنا ہے۔ اب عُذرخواہی کا کوئی موقع نہیں۔

توبۃ النصوح

یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لا یَوْمَ لاَ یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (۶۶:۸)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمھاری بُرائیاں تم سے دُور کردے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور اُن کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔

یہ جو فرمایا کہ توبۃ النصوح کرو، اس سے مراد ہے خالص توبہ، ایسی توبہ جو سچے دل کے ساتھ کی جائے۔ یہ لفظ نصیحت سے ماخوذ ہے جو عربی زبان میں خیرخواہی اور اِخلاص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (اُردو میں اس کا استعمال مختلف ہے)۔

نصوح وہ شخص ہے جو اپنا خیرخواہ ہے، اپنا بدخواہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سے کوئی قصور سرزد ہو، اور اس کے بعد وہ اللہ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتا، اُس سے معافی نہیں مانگتا، توبہ نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیںکہ وہ خود اپنا بدخواہ ہے۔ پہلے اس نے گناہ کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو اس نے اپنے ساتھ بدخواہی کی۔ دوسری طرف وہ اپنے رب کے سامنے توبہ بھی نہیں کرتا، ا س سے معافی بھی نہیں مانگتا، یہ اپنے ساتھ اس کی گناہ کے ارتکاب سے بھی بڑی بدخواہی ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے آپ کو خود خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہا ہے۔

اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص قصور کرتا ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے تو جس کا وہ قصور کرتا ہے وہ لامحالہ اس کو اس کے قصور کی سزا دے گا۔ اس طرح وہ شخص خود اپنی شامت کو بلاتا ہے۔ چنانچہ توبۃ النصوح کے معنی یہ ہوئے کہ جو شخص اپنا خیرخواہ ہو اور اپنی شامت نہ بلانا چاہتا ہو، بلکہ اپنی بھلائی چاہتا ہو،اس کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ خطا سرزد ہوجانے کے بعد اس پر نادم ہو، اور سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے، اس سے معافی چاہے۔

حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس طرح توبہ و استغفار کر رہا ہے کہ جلدی جلدی اپنی زبان چلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ’’الٰہی مجھے معاف کر، الٰہی مجھے معاف کر‘‘۔ حضرت علیؓ نے  اس سے فرمایا کہ یہ توبۂ کذابین ہے کیونکہ ایک آدمی، جس کو واقعی اپنے گناہ کا احساس ہو، اور وہ اپنے قصور کا اعتراف کر رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگے گا، نہ یہ کہ مارا مار زبان ہلاتا جائے۔ یہ تو توبۂ کذابین ہے۔ ایسے شخص کے دل میں نہ کوئی شرمندگی اور ندامت کا احساس ہے  اور نہ وہ سچے دل سے توبہ کر رہا ہے۔اس طرح ایک آدمی کا لہجہ بتا دیتا ہے کہ وہ کس قسم کی توبہ   کر رہا ہے۔

اس طرح جب نماز میں لوگ جلدی جلدی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ  کہتے ہیں تواس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا عرض کر رہے ہیں اور کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں۔ بس چند الفاظ ہیں جو وہ بے سوچے سمجھے بولتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے ہی توبۃ النصوح میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی کا لہجہ، اس کا چہرہ، اس کا اندازِ بیان، یہ ساری چیزیں یہ بتارہی ہوں کہ وہ واقعی اپنے خدا کے سامنے شرمندہ ہے اور  اس سے معافی مانگ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بس کچھ لگے بندھے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرکے یہ  سمجھ لے کہ اس نے سچ مچ توبہ کرلی ہے۔

اس کے بعد یہ جو بات فرمائی گئی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے تمھاری بُرائیاں دُور کرے گا، اس کے معنی یہ ہیں کہ توبہ کرنے سے آدمی کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں،  حتیٰ کہ شرک جس سے بڑا تو کوئی گناہ نہیں ہے اس سے بھی آدمی سچے دل سے توبہ کرے اور توحید پر کاربند ہوجائے تو اگر اس نے ساری عمر بھی شرک کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے___ توبہ کرنے کے بعد اگر آدمی کو گھنٹہ بھر بھی زندہ رہنے کا موقع نہ ملا ہو، تب بھی جو کچھ اس نے کیا ہوگا وہ سب معاف ہوجائے گا۔ قرآن مجید میں توبہ کی یہ خاصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ آدمی کے سارے گناہوں کو ساقط کردیتی ہے۔اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کوئی ضد نہیں ہے کہ ضرور اُن کو سزا دے کر ہی چھوڑنا ہے۔ اگر ایک شخص کو اپنے غلط رویّے کا احساس ہوگیا ہے اور وہ آیندہ ٹھیک چلنے کا عہد کر رہا ہے تو جس وقت بھی وہ ایسا کرے گا، اسی وقت اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا کیونکہ اللہ سے بڑھ کر اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اُسی کے تو پیدا کیے ہوئے اور اُسی کے تو پالے ہوئے ہیں۔ وہی ان سے محبت نہ کرے گا تو اور کون کرے گا۔ چنانچہ یہ فرمایا کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرلو گے تو میں تمھاری تمام بُرائیاں تم سے دُور کردوں گا،   ان کو تمھارے حساب سے ساقط کردوں گا، وہ تمھارے نامۂ اعمال میں موجود ہی نہیں رہیں گی بلکہ مٹادی جائیں گی۔

اس کے بعد فرمایا کہ جو لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے (اور جن کی توبہ قبول ہوجائے گی)، اس روز اُن کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر اس بات کی جو تفصیلات ملتی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز میدانِ حشر میں کامل تاریکی ہوگی، روشنی صرف ان لوگوں کو ملے گی جن کے پاس ایمان اور ایمان کے مطابق ڈھالے ہوئے اعمال اور اخلاق ہوں گے۔ اُس روز سایہ بھی ملے گا تو اُن لوگوں کو جن کو اللہ اپنے سایے میں    پناہ دے، اور روشنی بھی ملے گی تو ان لوگوں کو ملے گی جو اللہ کے پاس ایمان کا سرمایہ لے کر آئیں گے۔ وہی ایمان اُن کے لیے وہ نور بن جائے گا جس کے ذریعے سے وہ اپنے گردوپیش دیکھیں گے اور اپنا راستہ پائیں گے۔ جب ایک طرف اہلِ ایمان جنت میں جارہے ہوں گے تو دوسری طرف کفار اور مشرکین اور منافقین کامل تاریکی میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے جہنم کی طرف جارہے ہوں گے۔

احادیث میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ میدانِ حشر میں کسی آدمی کی روشنی کا انحصار وہاں اس بات پر ہوگا کہ کیسا کچھ مخلصانہ ایمان اور کیسا کچھ مخلصانہ عمل اس کے پاس تھا۔ نیز یہ کہ اُس نے دنیا میں اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کیا کچھ کام کیا تھا۔ اِسی پر اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ وہاں جاکر اس کو کیسی روشنی ملے گی، یعنی کتنی طاقت کا بلب اس کی ٹارچ میں لگا ہوا ہوگا اور یہاں دنیا میں اس نے اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے کتنی بجلی پیدا کی تھی جس کی طاقت کے مطابق اُتنا نور اس کو ملے گا۔

احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی شخص کا نور وہاں اتنا پھیلے گا کہ جیسے مدینہ سے صنعا تک کا فاصلہ ہے، یعنی ہزار میل کے لگ بھگ فاصلے تک اس کا نور پھیلے گا۔ گویا وہ کسی زبردست سرچ لائٹ کی طرح ہوگا جس کی روشنی دُور تک پھیلتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی شخص ایسا ہوگا کہ اس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہیں جائے گا، لیکن بہرحال وہ نور سے محروم نہیں ہوگا۔ جس درجے کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کے سرمایے کے ساتھ وہ میدانِ حشر میں پہنچے گا، اس کے پاس اسی درجے کا نور ہوگا، خواہ اپنے قدموں تک ہو اور خواہ ہزار میل تک ہو۔ پھر فرمایا کہ جب اہلِ ایمان کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا تو وہ کہہ رہے ہوں گے:

رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ، اے ہمارے رب ہمارے نور کو ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما۔

یعنی اگر یہاں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں کم نور ملا ہے تو اے پروردگار! ہمارے نور کو بڑھا دے، ہم سے درگزر فرما اور ہماری کوتاہیاں معاف کردے۔ گویا ہرآدمی یہ دیکھے گا کہ میرے پاس کتنا کم نور ہے اور مجھے کتنا زیادہ نور درکار ہے، اور اس کے لحاظ سے وہ اپنے رب سے اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا  کی درخواست کرے گا، اور یہ بھی دعا کرے گا کہ: وَاغْفِرْلَنَا، ’’ہمیں بخش دے‘‘۔

یہ بات وہ اس وجہ سے کہے گا کہ اس کے نور میں جو کچھ بھی کمی ہے وہ دراصل اس وجہ سے ہے کہ اس کے عمل میں کمی تھی۔ اسی لیے وہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرے گا کہ تو مجھ سے درگزر فرما اور اس کمی کی تلافی فرما کر میرے نور کو میرے لیے مکمل کردے۔

منافقین کے ساتھ معاملہ

یاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o (۶۶:۹)، اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔

یہاں کفار کے ساتھ منافقین کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ان دونوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں لازماً جہاد کو قتال کے معنی میں نہ لیا جائے۔ قتال اور چیز ہے اور جہاد اور چیز ہے۔ منافقین سے قتال اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ وہ حربی کافروں سے نہ جاکر مل جائیں، یعنی ان کافروں کے ساتھ جو برسرِ جنگ ہوں۔ چنانچہ جب تک قتال کی ضرورت نہ پیش آجائے۔ ان کے خلاف صرف جہاد کیا جائے گا۔

منافقین کے ساتھ جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ان کا زور توڑا جائے گا۔ اُن کو ذلیل و خوار اور بے وقعت کرنے کی کوشش کی جائے گی، اُن کی بات نہ چلنے دی جائے گی، اور اگر اُن کی کوئی مالی یا اخلاقی طاقت ہے تو اس کو توڑا جائے گا۔ اگر معاشرے میں ان کی دولت و امارت اور ریاست و سیادت کے اثرات پائے جاتے ہیں تو وہ توڑے جائیں گے۔ غرض یہ ہے کہ منافقین کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد کی جائے گی تاکہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور وہ بے حیثیت ہوکر رہ جائیں۔ اگر کسی معاشرے میں منافقین کا اثرورسوخ پایا جاتا ہو تو وہ اس معاشرے کو خراب کر کے رہتے ہیں۔ منافقین کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ ان کو بُرائی سے محبت اور بھلائی سے نفرت ہوتی ہے۔ اگر کہیں بھلائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہوتو منافقین کے حلقے میں ایک کہرام مچ جاتا ہے کہ کیا اب ہمارے ہوتے ہوئے اس معاشرے میں بھلائی بھی پھیلے گی! کیا اب لوگ نمازیں پڑھیں گے، زکوٰۃ دیں گے، مردوں عورتوں کے آزادانہ میل جول کو روکیں گے۔ کاروبار میں دیانت داری اور ایمان داری اختیار کریں گے۔ اس کے برعکس اگر کہیں برائی کا کوئی کام ہورہا ہو تو ان کو بڑی مسرت ہوتی ہے کہ لوگوں میں ’روشن خیالی‘ عام ہورہی ہے، آرٹ سوسائٹیاں قائم ہورہی ہیں، مصوری اور موسیقی کا چرچا ہو رہا ہے۔ اس طرح ان کے دل کھِل جاتے ہیں اور ان کی ساری طاقتیں بُرائی کو پھیلانے اور بھلائی کو دبانے میں صرف ہوتی ہیں۔ اگر کہیں کوئی بھلائی پنپ رہی ہو تو بیٹھ بیٹھ کر کانفرنسیں کریں گے، باہمی مشورے کریں گے کہ اس بھلائی کا کیسے سدّباب کیا جائے۔ آغاز ہی میں اس کی سرکوبی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ منافقین کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس جہاد سے مراد یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی ایسا رویّہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اُن کی حوصلہ افزائی ہو اور اُن کی ہمتیں بڑھیں۔ ان کے مقابلے میں اگر کوئی سخت کارروائی کرنا ضروری ہے تو اس سخت کارروائی سے اپنی نرم مزاجی کی بنا پر گریز نہ کیا جائے۔ جو وقت سختی کرنے کا ہے اس میں سختی ہی کرنی چاہیے۔ اس وقت اگر آدمی نرمی اختیار کرتا ہے تو یہ اسلامی اخلاق نہیں ہے۔ اسلامی اخلاق یہ ہے کہ جو مقام نرمی کرنے کا ہے وہاں نرمی کی جائے اور جو مقام سختی کرنے کا ہے وہاں سختی ہی کی جائے۔ جس مقام پر اللہ کے رسولؐ نے سختی کی ہے وہاں ہماری طرف سے نرمی کا مظاہرہ کرنے کا کیا جواز ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ منافقین کے ساتھ سخت برتائو کرو وہاں نرمی کیسے برتی جاسکتی ہے۔

آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی تعمیرکردہ مسجد ’مسجدِضرار‘ کیسے گرا دی تھی اور منافقین کو کس طرح سے مسجدوں سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ منافقین کا زور توڑنے کے لیے جو سختی کرنی ضروری ہے اس میں کمی نہ کرو۔ منافقین کا انجام یہ ہے کہ: وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ، ’’اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔

نجات کا مدار

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ط کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَo (۶۶:۱۰)، اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے کہ وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انھوں نے اپنے اِن شوہروں سے خیانت کی، اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی نہ کام آسکے۔ دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جائو آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جائو۔

یہاں جو چیز ذہن نشین کرائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے لیے یہ بات ذرّہ برابر بھی نافع نہیں ہے کہ اس کا رشتہ داری کا تعلق اللہ کے کسی نبی ؑسے یا کسی دوسرے نیک بندے سے ہے۔ یہاں جو چیز بھی نافع ہے وہ انسان کا اپنا عمل اور اس کا اپنا ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان اور عمل سے خالی ہو، اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق بن جائے، تو اس کے بعد وہ صرف اس لیے نہیں چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کسی نبی کا بیٹا ہے، یا کسی نبی سے اس کی رشتہ داری ہے۔ اس گرفت سے نبی کی بیویاں بھی نہیں بچ سکتیں۔ اس چیز کو قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کا ذکر ہے، اور سورئہ ہود میں   حضرت نوحؑ کے بیٹے کا ذکر ہے۔ وہاں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بتایاگیا ہے کہ جب حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو طوفان میں ڈوبتے ہوئے دیکھ لیا تو کشتی کنارے پر جالگنے کے بعد  اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ تو میرے بیٹے کو بچا لے کیوں کہ وہ میرے اہل میں سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ بجاے اس کے کہ اُن کی دعا قبول کر کے ان کے بیٹے کو بچالیا جاتا، اس بات پر سرزنش فرمائی گئی کہ وہ تیرا اہل نہیں ہے، وہ ایک بگڑا ہوا کام ہے، اُس کے لیے بخشش نہیں ہے، کیونکہ یہ موقع فیصلے کا ہے۔ جو موقع کفر اور ایمان کے فیصلے کا ہو اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا رشتہ دار ہے۔

سورئہ بقرہ میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ: اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ ۲:۱۲۴)، ’’میں تمھیں تمام دنیا کے انسانوں کا امام بناتا ہوں‘‘۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط (۲:۱۲۴)، ’’میری نسل کے متعلق کیا حکم ہے؟‘‘ فرمایا کہ: لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ o (۲:۱۲۴)، ’’میرا عہد ظالموں سے نہیں ہے‘‘۔تمھاری اولاد ہے تو ہو، لیکن جو ظالم ہوگا اس کے لیے میرا عہد نہیں۔

قریشِ مکہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں۔ عرب میں قریش کی پیری اور مشیخت چل ہی اس بل پر رہی تھی کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی اولاد ہیں۔ لیکن  سورئہ بقرہ میں دراصل قریش کو یہ سنایا گیا ہے کہ ابراہیم ؑکے ساتھ تمھاری نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں تمھارے لیے فخر اور عزت کا کوئی مقام پیدا نہیں کرتی، جب تک کہ تم خود ایمان پر قائم نہ ہوجائو۔

اسی طرح اہلِ کتاب، یعنی یہود اور نصاریٰ، حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاؑ کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ فخر تھا کہ ہم انبیا کی اولاد ہیں۔ ان سے صاف   طور پر فرما دیا گیا کہ: تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک اُمت تھی جو گزر گئی جو کچھ اُس نے کمایا وہ اس کے لیے ہے اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمھارے لیے ہے‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی کمائی کا کوئی فائدہ تمھیں پہنچے۔ تمھیں جو کچھ بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ اپنی کمائی کا ہوگا۔

احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے خاندان والوں کو پکار پکار کر فرمایا کہ ’’اے فاطمہؓ بنت محمدؐ ،اپنی عاقبت کی فکر کرلے، میں تیرے کسی کام نہیں آئوں گا‘‘۔ اپنی پھوپھی کو مخاطب کر کے فرمایا: اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اپنی عاقبت کی فکر کرو، میں تمھارے کسی کام نہیں آسکوں گا۔

اسی مضمون کو یہاں بیان کیا گیا کہ نوح اور لوط علیہما السلام دونوں کی بیویاں اگرچہ نبی ؑکی بیویاں تھیں لیکن چونکہ اُنھوں نے خیانت کی اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ان کو کوئی چیز بچانے والی نہ تھی۔ خیانت سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے نعوذباللہ کوئی بدکاری کی تھی۔ نہیں، بلکہ خیانت سے مراد یہ ہے کہ وہ نبی کی بیویاں ہوکر، نبی کے گھر میں بیٹھ کر نبی کے مشن کی مخالفت کرتی تھیں۔ لوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی کافر قوم سے ملی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم اس بستی سے نکل جائو، تو صاف طور پر ہدایت کردی کہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جانا۔ اور وہ اس طرح اپنی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی جس طرح ساری قوم مبتلا ہوئی۔ حضرت نوحؑ کی بیوی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس نے ساری عمر اُن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا اور نبی ؑکے اُس مشن کی مخالفت کی جس کے لیے انھوں نے اپنی ساری زندگی کھپا دی تھی۔

پھر یہ جو فرمایا کہ: وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ، ’’دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جائو‘‘۔ یہ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ کے الفاظ غیرضروری نہیں ہیں بلکہ ان میں واضح طور پر اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں، اُسی طرح سے  تم بھی چلی جائو۔ دوسرے لوگوں سے اللہ کی کوئی ذاتی عداوت نہیں ہے، اور تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو جہنم میں دھکیلا جا رہا ہو لیکن تمھیں اس وجہ سے بچالیا جائے،  جب کہ تم نبی ؑ کی بیویاں ہو۔ نہیں، بلکہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں اسی طرح تم بھی جہنم میں داخل ہوجائو۔ [العیاذ باللّٰہ]

دو مثالی خواتین

وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَم اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo (۶۶:۱۱)،  اور اہلِ ایمان کے معاملے میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے،  جب کہ اُس نے دعا کی:’’اے میرے رب، میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اُس کے عمل سے بچا لے، اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے‘‘۔

اُوپر پہلے کافروں کی مثال دی گئی تھی، اب یہاں ایمان لانے والوں کے لیے مثال دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیوی کو پیش کرتا ہے، جب کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ’’خدایا میرے لیے جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے، اور ظالم قوم سے نجات عطا فرما‘‘۔

فرعون جیسا دشمنِ دین اور دشمنِ خدا تھا، اس پر قرآنِ مجید میں نہایت سخت الفاظ میں لعنت بھیجی گئی ہے اور اس کو مردود قرار دیا گیا ہے۔ حضرت آسیہ فرعون کے گھر میں تھیں لیکن چونکہ ایمان لائی ہوئی تھیں اور اُس قوم کے عمل سے بیزار تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی مثال دیتا ہے کہ ان کو دیکھو کہ وہ کس گھر میں تھیں۔ لیکن ان کے لیے فرعون کی بیوی ہونا کسی نقصان کا مُوجب نہیں ہوا کیونکہ وہ ایمان لائی ہوئی تھیں۔ اس طرح اس بات کی پوری طرح صراحت کردی گئی کہ اگر کوئی عورت غلط راستے پر جائے تو نبی ؑ کی بیوی ہوتے ہوئے بھی سزا سے نہیں بچ سکتی لیکن اس کے برعکس ایک عورت کسی بدترین کافر اور دشمنِ خدا کے گھر میں رہتے ہوئے بھی مبتلاے عذاب نہیں ہوسکتی۔ مزیدبرآں ایمان کی وجہ سے اور اپنے عمل کی وجہ سے وہ ظالموں کے عمل سے بھی محفوظ رہے گی۔

پھر ارشاد فرمایا گیا:

وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ o (۶۶:۱۲)، اور [اللہ] عمران کی بیٹی مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اُس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی، اور اُس نے اپنے رب کے ارشادات اور اُس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی۔

حضرت مریم علیہا السلام کو یہاں کس وجہ سے بطورِ مثال پیش کیا گیا ہے؟ حضرت مریم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شدید آزمایش میں ڈالا تھا جس میں دنیا کی کسی دوسری عورت کو نہیں ڈالا گیا۔ حضرت مریم ؑکا قصہ سورۂ آلِ عمران میں بھی گزرچکا ہے، اور سورئہ مریم ؑمیں بھی بیان ہوا ہے۔اس میں جو بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی والدہ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ جوانی کی عمر کو اس حال میں پہنچیں کہ ان کی زندگی نہایت پاکیزہ تھی۔ ہروقت  اللہ کی یاد میں مصروف رہتی تھیں۔ غیرشادی شدہ اور کنواری تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اُن کے بطن سے حضرت عیسٰی ؑکو پیدا کرے۔

یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کے رحم پر اپنی خاص روح پھونکی۔ بغیر اس کے کہ ان کی شادی ہو، اُن کے ہاں اولاد پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک روح ان کے اندر پھونک دی اس طرح حضرت عیسٰی ؑپیدا ہوئے۔

سورئہ مریمؑ میں یہ قصہ آتا ہے کہ جس وقت وہ حاملہ ہوئیں تو ان کی جان اِس وجہ سے  گھلی جاتی تھی کہ میں یہاں اس عبادت گاہ کے اندر رات دن عبادت میں مشغول ہوں۔ کنواری لڑکی ہوں، شادی میری ہوئی نہیں ہے۔ اب یکایک میرا حمل ظاہر ہوا تو مجھ پر کیا گزرے گی، اور میری قوم کیا کہے گی۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے باخبر کردیا تھاکہ ہم تمھیں ایک عظیم آزمایش میں ڈالنے والے ہیں۔ تمھارے بطن سے ایک لڑکا پیدا کریں گے جو ایسا اور ایسا ہوگا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میری تو شادی ہی نہیں ہوئی، میرے ہاں بچہ کیسے پیدا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِسی طرح ہوگا۔ اللہ کی طرف سے جب یہ فیصلہ اُن کو سنایا گیا تو انھوں نے سرتسلیم خم کردیا۔یہ نہیں کہا کہ میں اپنے آپ کو اس آزمایش میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوں، بلکہ عرض کیا کہ اگر میرے رب نے مجھے اس آزمایش میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے منظور ہے۔

اس کے بعد سورئہ مریم ؑمیں یہ سارا قصہ آیا ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ حمل کے آثار ظاہرہو رہے ہیں تو وہ اپنا ٹھکانا چھوڑ کر نکل گئیں اور بیت المقدس میں جاکر پناہ ڈھونڈ لی۔ وہاں جب ان پر زچگی کا وقت آیا تو اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا، بالکل تن تنہا تھیں، نہ کوئی پانی پلانے والا تھا اور نہ کوئی غذا دینے والا۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پانی کا یہ انتظام کیا کہ ایک چشمہ جاری کیا، اور ان کے بالکل سر کے اُوپر جو کھجور کا درخت اُگا ہوا تھا، اس کے بارے میں ان سے کہا گیا کہ اس درخت کو ہلائو، تمھارے لیے تازہ کھجوریں گریں گی۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ایک مومنہ عورت کو اتنا بڑا مقام صرف اس وجہ سے ملا کہ اُس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے سامنے submit کردیا۔ وہ اللہ کی رضا کے سامنے بالکل سپرانداز ہوگئیں کہ میرا رب مجھ سے جو کام لینا چاہتا ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ یہ وہ چیز تھی جو اُن کے لیے اتنے بلند مرتبے پر پہنچنے کا باعث بنی۔

اس سے پہلے آغاز میں جو مضمون گزرا ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہراتؓ کی بعض غلطیوں پر تنبیہہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انھیں بتایا کہ یہ تین قسم کی عورتیں تمھارے سامنے بطور مثال ہیں۔ دو عورتیں نبی ؑ کی بیویاں تھیں لیکن غلط راستے پر گامزن ہوگئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نبی ؑ کی بیوی ہونا اُن کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوا۔ دوسری طرف ایک عورت جو بدترین دشمنِ دین کے گھر میں تھیں لیکن جب انھوں نے ایمان اور عملِ صالح کا راستہ اختیار کیا تو ان کے لیے جنت میں مکان بنایا گیا۔ ان تین عورتوں کے ساتھ ایک یہ حضرت مریمؑ ہیں جنھوں نے اللہ کی مرضی کے آگے سرجھکا دیا اور سخت ترین آزمایش سے گزرتے ہوئے بھی اُن کے قدم نہ ڈگمگائے۔ اس کا ثمر اُن کو یہ ملا کہ اُن کو وہ مقام حاصل ہوا جو دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں ہوا۔

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگرچہ اس سارے بیان میں بعض عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے لیکن اس لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے نتائج دونوں کے حق میں ایک جیسے ہیں۔ عورتوں کی طرح یہ اصول مردوں کے لیے بھی ہے کہ کسی نبی ؑ یا کسی اور برگزیدہ ہستی کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ اور تعلق بجاے خود نافع نہیں ہے، بلکہ دراصل جو چیز فیصلہ کن ہے وہ آدمی کا اپنا ایمان اور اس کا اپنا عمل ہے۔(کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

ایک انتباہ!

سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سید مودودی علیہ الرحمہ کا اہم خطاب۔ (ادارہ)

اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے، اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں، لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے، جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں، جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔

اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا، اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں، پنجابی ہیں، بنگالی ہیں، گجراتی ہیں، پٹھان ہیں اور سندھی ہیں، اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا، بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔

پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے، اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے، لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا، اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے، ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے، ان کے مال برباد کریں گے، مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔

اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبا کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے، ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے   جن سے لوگوں کی راے تیار کی جاسکتی تھی، جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے، ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے، اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی، بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔

تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا، وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی، بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔

لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اُٹھیں، مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے، اور وہی چیز پیدا ہوئی۔

بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان، بنگالی تہذیب، بنگالی ثقافت، ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی، مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجۂ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب، وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....

آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے، جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے، نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان، بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔

ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر، مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا، اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا، کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا، تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی، اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔

اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان [موجودہ پاکستان] رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے، پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں دی گئی، نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا، اس لیے یہاں بھی الحاد، دہریت، سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔

اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے     ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا، اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی   اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر، مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب، ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ، ص ۶-۱۰)

 

خرم مراد: حیات و خدمات کا نیا ایڈیشن ان شاء اللہ جلد شائع ہوگا

ھمارے قارئین یا ان کے جاننے والوں کے پاس محترم خرم مراد کے بارے میں کوئی مشاھدہ، کوئی تاثر، کوئی جذبہ محفوظ ھو تو اسے لکھ بہیجیے۔

ایسے بہت سے واقعات ہمارے رفقا کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اسے تاریخ کو منتقل کردیں تاکہ ان کی طرح دوسروں کے لیے ہدایت کا باعث بنیں اور انھیں بھی اُس صدقہ جاریہ میں اپنا حصہ لینے کا موقع ملے جو محترم خرم مراد کو مل رہا ہے۔ مختصر کی شرط نہیں، آپ جو بھی ان کے بارے میں لکھنا چاہیں، لکھیں۔ آپ جو کچھ بھیجنا چاہتے ہیں ۲۰دسمبرسے پہلے بھیج دیں۔

عالمی ترجمان القرآن

منصورہ، ملتان روڈ، لاہور- 54790

ای -میل: tarjumanq@gmail.com   مسلم سجاد

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ ج وَاللّٰہُ مَوْلٰـکُمْ جوَھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ o (التحریم ۶۶:۱-۲) اے نبیؐ! تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی  ہے؟ (کیا اِس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوش نودی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قَسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمھارا مولیٰ ہے، اوروہی علیم و حکیم ہے۔

اِس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کے سلسلے میں  حضوؐر کی اَزواجِ مطہرات کے متعلق تین واقعات پر تبصرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں احکام اور ہدایات دی ہیں۔ یہ تین واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آئے تھے۔ اَزواجِ مطہراتؓ سے کچھ قصور سرزد ہوئے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی     ایک لغزش تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی اور اس سلسلے میں احکام دیے۔

واقعۂ تحریم

اُوپر آغاز میں جو دو آیتیں درج کی گئی ہیں، اُن میں پہلا واقعہ یہ بیان ہو رہا ہے، فرمایا گیا:

ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج اے نبیؐ! تم اپنے لیے اُس چیز کو کیوں حرام کرتے ہو جس کو اللہ نے تمھارے لیے حلال کیا ہے؟

اس سلسلے میں احادیث میں جو تفصیل آئی ہے وہ یہ ہے کہ اُم المومنین حضرت زینبؓ کے ہاں کہیں سے شہد آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد بہت پسند تھا، اور آپؐ شہد بڑی رغبت سے استعمال فرماتے تھے۔ چنانچہ آپؐ روزانہ عصر کے بعد حضرت زینبؓ کے ہاں تشریف لے جانے لگے۔ اس چیز پر دوسری ازواجِ مطہراتؓ کو کچھ رشک ہوا کہ اب حضوؐر روز زینبؓ کے ہاں جانے لگے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائیں تو ہم آپؐ سے کہیں گے آپؐ کے منہ سے مَغافیر کی   ُبو آتی ہے۔ مَغافیر ایک خاص قسم کے پھول تھے جو مدینہ کے اطراف میں پائے جاتے تھے جن سے شہد کی مکھیاں رس چوستی تھیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ شہد کی مکھی جس علاقے میں ہوتی ہے وہ اُسی علاقے کے پھولوں سے رس حاصل کرتی ہے، اور جس چیز سے بھی   وہ رس حاصل کرتی ہے اُس کی بو یا مہک بھی اس کے شہد میں آجاتی ہے۔ اس وجہ سے ازواجِ مطہراتؓ نے آپس میں یہ طے کیا کہ ہم نبی اکرمؐ سے کہیں گے کہ آپؐ کے منہ سے مَغافیر کی بو آتی ہے۔

یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ کی بُو سے طبعاً سخت نفرت تھی۔ اس لیے آپؐ اپنا دہنِ مبارک اتنا صاف رکھتے تھے کہ وہ خوشبودار محسوس ہوتا تھا۔ یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ ایک پاکیزہ مزاج آدمی کبھی اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دوسرے لوگوں کو اس سے یہ شکایت ہو کہ اُس کے منہ سے یا کپڑوں سے یا جسم سے بو آتی ہے۔ پھر نبیؐ کا معاملہ تو بہت خاص ہے۔ نبی تو کبھی اس بات کو پسند نہیں کرسکتا کہ اس کے متعلق کوئی شخص یہ شکایت کرے کہ اس کے پاس سے بو آتی ہے۔ نبی کا کام تو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانا ہوتا ہے۔ اس لیے ایک داعی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسا عیب نہ ہو جس کی وجہ سے لوگ اس سے نفرت کریں، لوگوں کو اس کی کسی بات سے کراہت محسوس ہو، بلکہ اس کی ذات کو ہرلحاظ سے پُرکشش اور جاذبِ نظر ہونا چاہیے۔ لوگ اس کے قرب سے سکون حاصل کریں، بجاے اس کے کہ اس سے کراہت محسوس کریں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نہایت صاف ستھرے رہتے تھے۔ دن میں کئی کئی مرتبہ مسواک کرتے۔ رات کو سوتے وقت بھی مسواک کرتے تھے۔ سو کر جب بھی اُٹھتے تھے مسواک کرتے تھے تاکہ منہ سے بو نہ آئے۔ ہمیشہ عطر استعمال فرماتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ کے کپڑوں سے عطر کی خوشبو نہ آئے۔ اس لیے جب ازواجِ مطہرات نے وہ بات کہی تو حضوؐر کو شک پیدا ہوا کہ کہیں واقعی میرے منہ سے بو تو نہیں آتی۔ چنانچہ آپؐ نے قَسم کھا لی کہ اب میں یہ شہد استعمال نہیں کروںگا۔ آپؐ کے اس عزم پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی کہ آپ اُس چیز کو اپنے اُوپر کیوں حرام کرتے ہیں جس کو اللہ نے آپؐ کے لیے حلال کیا ہے؟

بظاہر یہ ایک بڑی معمولی سی بات ہے کہ کوئی شخص ایک چیز کو پسند نہ کرے اور یہ طے کرے کہ آیندہ وہ اسے استعمال نہیں کرے گا، لیکن عام آدمی کی بات الگ ہے، اور اللہ کے رسولؐ کی بات الگ ہے۔ اللہ کا رسول اگر کسی چیز کو چھوڑ دے اور فیصلہ کرلے کہ اب مجھے اس کو استعمال نہیں کرنا ہے تو وہ چیز صرف اللہ کے رسول ہی کے لیے نہیں، پوری اُمت کے لیے حرام ہوجائے گی۔ پوری اُمت اس کا استعمال ترک کردے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کے اختیارات کاملاً اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ اپنے رسول کی طرف بھی منتقل نہیں کیے ہیں۔ رسول کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ بطورِ خود کسی چیز کو حرام یا حلال کردے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس بات پر گرفت فرمائی کہ یہ کام آپ نے اپنے اختیار سے باہر جاکر کیا ہے۔ کوئی عام آدمی یہ کام کرتا تو کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن آپؐ نے یہ کیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قانونِ الٰہی میں ترمیم ہوجائے گی۔ جو چیز قانونِ الٰہی میں حلال ہے وہ آپؐ کی وجہ سے حرام ہوجائے گی۔ کم از کم اس سے اُمت کے اندر یہ خیال ضرور پھیل جائے گا کہ اورکچھ نہیں تو یہ چیز مکروہ ضرور ہے۔ اِسی وجہ سے حضوؐر نے اسے ترک فرمایا ہے۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جس کو اللہ نے حلال کیا ہے؟ پھر فرمایا: کیا تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اب اس میں اشارہ بیویوں کے قصور کی طرف بھی ہے کہ اُنھوں نے اپنے ایک ذاتی جذبے کی بنا پر، جو حضوؐرکی ایک دوسری بیوی سے رشک کا جذبہ تھا، اللہ کے رسولؐ کے دل میں ایک ایسی بات بٹھائی جس کی وجہ سے انھوں نے ایک حلال چیز کو   اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط ،’’تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا: وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ، ’’اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

اس موقع پر اس ارشاد کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ تم نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا ہے جس پر کوئی سزا ہو۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اس نے تمھاری اس لغزش سے درگزر فرمایا ہے۔ دوسرے اس سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ تمھیں بیویوں کی خوشی چاہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ جس ہستی کی مغفرت اور رحمت تمھیں درکار ہے وہ تو اللہ ہے۔ تمھارے لیے بیویوں کی خوش نودی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ صرف اللہ کی خوش نودی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ تم اللہ ہی کی مغفرت اور رحمت کے اُمیدوار ہو۔

اس کے بعد فرمایا کہ: قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْج ،’’ اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے‘‘۔ اللہ نے تمھارے لیے فرض کیا ، یا یہ طریقہ مقرر کیا ہے (دونوں معنی مراد ہیں)۔ ایک یہ کہ ایک آدمی اگر اپنی قسم کی پابندی سے نکلنا چاہے تو اس کے لیے قرآنِ مجید میں طریقہ بیان کیا جاچکا ہے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔

دوسرے معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیا ہے کہ تم ایسی قسموں کو توڑ دو اور کفارہ ادا کرو۔ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ اگر آدمی کسی ناجائز کام کی قسم کھا بیٹھے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کو توڑ دے کیونکہ اس کی پابندی کرنا غلط کام ہے۔ اگر اس نے جائز کام کی قسم کھائی ہو تو وہ اس کی پابندی کرے لیکن اگر کسی ناجائز کام کی قسم کھا لی ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ اس کو توڑے اور اس کا کفارہ ادا کرے۔

بعض احادیث میں آیا ہے کہ غلط قسم کا توڑنا ہی اس کا کفارہ ہے لیکن بعض دوسری احادیث میں ہے کہ قسم کو توڑ دیا جائے اور اس کا کفارہ بھی ادا کیا جائے۔ فقہا عموماً اسی بات کے قائل ہیں۔پھر فرمایا: وَاللّٰہُ مَوْلٰکُمْ ج وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، ’’اللہ تمھارا مولا ہے اور وہی علیم و حکیم ہے‘‘۔

اس مقام پر اللہ کی دو صفتوں کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کی جو صورتیں مقرر کی ہیں وہ علم اور حکمت کی بنا پر کی ہیں۔ جس چیز کو حلال کیا ہے علم کی بنا پر کیا ہے، جس چیز کو حرام کیا ہے علم کی بنا پر حرام ہے۔ اس کی تحلیل اور تحریم دونوں کے اندر اس کی حکمت کام کر رہی ہے کیونکہ اس کا ہرفعل علم اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے حلال و حرام میں تغیر و تبدل کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ اگر کسی قسم کا تغیر و تبدل ہوگا تو وہ علم اور حکمت کے خلاف ہوگا۔

افشاے راز

یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:

وَاِِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہُ وَاَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّاَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ          ہٰذَاط قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ (۶۶:۳) اور یہ معاملہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ نبیؐ نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبیؐ کو اس (افشاے راز) کی اِطلاع دے دی تو نبیؐ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اُس سے درگزر کیا۔ پھر جب نبیؐ نے اسے (افشاے راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا: آپ کو اِس کی کس نے خبر دی؟ نبیؐ نے کہا: ’’مجھے اُس نے خبر دی ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے‘‘۔

اس واقعے میں بہت سے پہلو ہیں جن کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

پہلی بات غور طلب یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں اس بات کا ذکر کس غرض سے کیا گیا ہے۔ غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک بیوی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے شوہر کا رازداں بنایا ہے، جیساکہ قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایاگیا: ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ(البقرہ ۲:۱۸۷)،  ’’یعنی تمھارا اور تمھاری بیویوں کا وہ تعلق ہے جو جسم اور لباس کا ہوتا ہے‘‘۔ سامنے کی بات ہے کہ لباس سے جسم چھپا ہوا نہیں ہوتا اور جسم سے لباس چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ بیوی کا یہ کام ہے کہ اگر اس کا شوہر اس سے راز میں کوئی بات کہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس راز کو اپنے تک رکھے، دوسروں کے سامنے اس کو افشا کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کا مقام عام لوگوں کی بیویوں کے مقام سے بلندتر ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ پھر اُمت میں بھی جو لوگ کسی ذمہ داری کے منصب پر ہوں، ان کی بیویوں کا کام عام بیویوں کی بدولت بدرجۂ اَولیٰ یہ ہے کہ اُن کے شوہروں کے ذریعے سے جو باتیں اُن کے علم میں آئیں وہ دوسروں کے سامنے اُن کو نہ کھولتی پھریں، کیوں کہ جس شخص کا منصب جتنا زیادہ   ذمہ داری کا ہو اگر اس کے گھر سے راز افشا ہونے لگیں اور وہ غیرمتعلق لوگوں تک پہنچ جائیں تو اس حرکت کی وجہ سے پوری قوم کی قوم نقصان اُٹھا سکتی ہے، ہلاکت کے خطرے میں پڑسکتی ہے۔ دنیا میں بہت سے بگاڑ اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ عورتوں کے علم میں جو راز اُن کے ذمہ دار شوہروں کی طرف سے پہنچے تھے انھوں نے ان کو عام لوگوں میں پھیلا دیا اور بات دشمنوں کے ہاتھ لگ گئی۔ چنانچہ پوری قوم پر اس کی وجہ سے تباہی آئی۔ اس طرح کے واقعات دنیا میں رُونما ہوتے رہے ہیں۔

تیسرا پہلو ازواجِ مطہراتؓ کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ تم اپنے منصب اور مقام کو سمجھو اور دیکھو کہ تم کس ہستی کی بیوی ہو۔ کتنے عظیم الشان منصب کے حامل انسان کی تم رفیقۂ زندگی ہو۔ ایسے عظیم الشان منصب کے حامل انسان کی بیویوں کا یہ کام نہیں ہے کہ اگر ان کے علم میں نبیؐ کی طرف سے کوئی راز کی بات آئے، تو وہ اسے دنیا کے سامنے پھیلا دیں۔ اس وجہ سے اس واقعے پر گرفت کی گئی اور قرآنِ مجید میں اس کا ذکر کیا گیا۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی کہ آپؐ کی بیوی نے وہ راز کھول دیا ہے جس کی حفاظت اس کی ذمہ داری تھی، تو اس کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ وہ راز کی بات کیا تھی۔ قرآنِ مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں آئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ’’اے نبیؐ!تمھاری بیوی نے یہ راز کھول دیا ہے‘‘۔ قرآنِ مجید میں اس بات کو کھول دینے پر ان کے قصور کے اُوپر تو گرفت کی گئی لیکن یہ کہیں نہیں بتایا گیا ہے کہ ’’اے نبیؐ! تمھاری بیوی نے یہ بات کھول دی ہے‘‘۔ یہ آیت اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ جو لوگ یہ لغو بات کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ مجید کے علاوہ اور کوئی وحی نہیں آتی تھی، وہ اس بات کاکیا جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ ، ’’جب رسولؐ نے اپنی بیوی کو خبردار کیا کہ تم نے یہ راز فاش کردیا ہے‘‘، اور قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ ہٰذَا ،’’اُس نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے؟‘‘ قرآن کہتا ہے:قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ ،آپؐ نے فرمایا کہ مجھے علیم و خبیر نے اس کی خبر دی ہے‘‘۔

اب وہ خبر کب دی گئی___ اس کا کوئی ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے۔ صرف خبر دینے پر جو گرفت کی گئی ہے اُسی کا ذکر قرآنِ مجید میں ہے، جب کہ ظاہر ہے کہ وہ خبر بہرحال وحی کے ذریعے سے دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہی نے آکر یہ کہا ہوگا کہ تمھاری بیوی سے یہ قصور سرزد ہوا ہے۔ چنانچہ اس پر قرآنِ مجید میں گرفت کی گئی۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ حضوؐر پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن یہ آیت اس معاملے میں نہایت صریح ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی دیکھیے کہ قرآنِ مجید میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں آیا کہ آخر وہ راز کی بات کیا تھی۔ معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید میں غیرضروری تفصیلات بیان نہیں کی جاتیں۔ اگر اس بات کا ذکر کرنا اُمت کے لیے مفید ہوتا تو ضرور کردیا جاتا۔ لیکن دراصل اُمت کو یہ بتانا مقصود تھا کہ جو شخص ذمہ داری کے جتنے بڑے منصب پر ہو اُس کی بیوی کو اتنا ہی زیادہ رازدار اور ذمہ دار ہونا چاہیے۔ یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولؐ کو وہ خبریں اور معلومات بھی دی جاتی ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دی جاتیں اور جن کے جاننے کا کوئی ذریعہ عام انسانوں کے پاس نہیں ہوتا۔

اس راز کی بات کے ضمن میں مختلف محدثین اور مفسرین نے یہ قیاس کیا ہے کہ فلاں بات ہوگی یا فلاں بات ہوسکتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں جس راز کا ذکر کرنا اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا ہے اس کو ٹٹولنا بھی ایک قصور ہے، ایک خطا ہے۔ اس وجہ سے کہ ازواجِ مطہراتؓ پر جب اس معاملے میں گرفت کی گئی کہ انھوں نے وہ بات عام کردی جو نہیں کرنی چاہیے تھی تو اب آپ اُسی راز کی بات کو تلاش کرنے اور ٹٹولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب کسی خاص حکمت کے تحت اس بات کو نہیں کھولا، تو اس کو کھول دینے کے بعد اس پر گرفت کرنا بے معنی ہوجاتا (واللّٰہ اعلم بالصواب)۔ بہرحال کوئی ایسی بات ہوگی جو اُمت کی فلاح سے تعلق رکھتی ہوگی۔ اِسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی راز تو ایسا نہیں تھا جو اُنھوں نے چپکے سے اپنی بیوی سے کہا ہو۔ اگر نعوذباللہ رسولؐ اللہ کا کوئی چھپا ہوا عیب ہوتا تو پہلے تو بیویوں ہی کا ایمان ختم ہوجاتا۔

پھر آپ یہ بھی دیکھیے کہ اگر کوئی شخص عیب دار ہو تو اس کی بیوی اس کا ساتھ تو دے سکتی ہے لیکن اس کی معتقد نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ نعوذ باللہ وہ راز کی بات کوئی عیب کی بات تھی جو آپؐ نے چھپا کر اپنی بیوی سے بیان کی تھی۔ ہرگز نہیں! بلکہ وہ یقینا اُمت کے مفاد و مصلحت کا کوئی اہم معاملہ تھا جس کا ذکر کسی مصلحت سے آپؐ نے اپنی کسی بیوی سے کیا ہوگا لیکن اس نے اس کو دوسروں پر ظاہر کر دیا جو مناسب نہ تھا۔

اس کے ساتھ کچھ اور مسائل بھی ہیں جن کا ذکر میں اس بحث کے خاتمے پر کروں گا۔

اُمھات المومنینؓ کے رویّے پر توجہ

اب اس کے بعد تیسرا واقعہ ہے۔ فرمایا گیا:

اِِنْ تَتُوْبَآ اِِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا  ج وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰــہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ o عَسٰی رَبُّہٗٓ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَـہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا o (۶۶:۴-۵)،اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ) کیونکہ تمھارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، اور اگر نبیؐ کے مقابلے میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل ؑ اور تمام صالح اہلِ ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیںکہ اگر نبیؐ تم سب بیویوںکو طلاق دے دے تو اللہ اُسے ایسی بیویاں تمھارے بدلے میں عطافرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، باایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔

پہلے یہاں خاص طور پر دو بیویوں کے اُوپر گرفت کی گئی ہے اور پھر آگے چل کر تمام ازواج کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل قصور تو دو بیویوں کا تھا لیکن باقی بھی کسی نہ کسی حد تک اس میں شریک تھیں، اس لیے ان کو بھی ان آیات میں مخاطب کیاگیا۔

احادیث سے اس معاملے کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انتہائی معاشی تنگی کا تھا اور آپؐ کے مالی حالات اس وقت انتہائی خراب تھے۔ جو سرمایہ تھا وہ زیادہ ترمکہ معظمہ میں کارِ دعوت میں خرچ ہوچکا تھا اور جو کچھ موجود تھا وہ چھوڑ چھاڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں مدینہ تشریف لے آئے تھے۔ پھر مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد آپؐ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کے کام میں صرف ہورہا تھا۔ اتنی فرصت نہیں تھی کہ اپنا کوئی کاروبار کر کے اپنی آمدن کا کوئی ذریعہ پیدا فرماتے، اور اس کے ساتھ نبی کا یہ مقام بھی نہیں ہے کہ وہ کسی سے مانگے۔ اس وجہ سے اس زمانے میں حضوؐر کے اُوپر ایسی تنگی کا وقت تھا کہ کئی کئی روز تک آپؐ کے گھر میں چولھا نہیں سلگتا تھا۔ یہ حالات ازواجِ مطہراتؓ خود بیان کرتی ہیں۔ مزید برآں صورتِ حال یہ تھی کہ جن دینی مصلحتوں کی خاطر آپ نے پے درپے کئی شادیاں کیں، وہ بھی اُمت ہی کی ضروریات کی وجہ سے کیں۔ کوئی اپنی ذاتی خواہش اس کی محرک نہیں تھی۔

ظاہر بات ہے کہ ذاتی خواہش ۵۵ برس کی عمر میں کہاں ہوسکتی ہے۔ جس شخص نے ۲۵سال کی عمر میں ۴۰ برس کی عورت سے شادی کی ہو، اور جب تک وہ زندہ رہیں تب تک وہی تنہا آپؐ کی بیوی تھیں۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ ۵۵ برس کی عمر میں جاکر اس کے اندر شادی کرنے کی خواہش جاگ اُٹھی ہو، اور وہ بھی اس مفلسی کی حالت میں۔ لہٰذا یہ بات کسی طرح قابلِ تصور نہیں ہوسکتی۔ یہ تو فقط اُمت ہی کے بعض مصالح کا تقاضا تھا جس کی خاطر آپؐ نے متعدد شادیاں کیں۔

حال یہ تھا کہ مدینہ منورہ آکر کوئی پختہ عمارت بننے کی نوبت نہیں آئی تھی جن میں   ازواجِ مطہراتؓ قیام پذیر ہوتیں۔ جس وقت تک مسجد نبویؐ کی توسیع کی ضرورت پیش نہیں آئی اُس وقت تک ازواجِ مطہراتؓ کے بالکل سادہ سے حجرے مسجد نبویؐ کی دیوار کے ساتھ متصلاً بنائے گئے تھے۔ بعد کے دور میں لوگ جاجاکر دیکھا کرتے تھے کہ آج ہم کن محلّات میں رہتے ہیں، اور جس ہستی کی بدولت یہ دولت ہمیں نصیب ہوئی ہے وہ ہستی خود کہاں رہتی تھی اور ازواجِ مطہرات کیسے زندگی بسر کرتی تھیں۔ ایک مدت تک یہی صورتِ حال رہی۔ اس صورتِ حال میں ازواجِ مطہراتؓ آپؐ کی رفاقت میں تھیں۔

فطری طور پر ایک عورت چاہتی ہے کہ اس کے پاس زیور ہو، سامانِ آرایش ہو، عمدہ کپڑے ہوں۔ آخرکار مدینہ طیبہ ہی میں کھاتے پیتے لوگ بھی موجود تھے۔ وہ ان کی بیویوں کو بھی دیکھتی تھیں۔ وہ قوم کے سردار کی بیویاں ہوتے ہوئے اپنی حالت کو بھی دیکھتی تھیں۔ وہ دیکھتی تھیں کہ ایک طرف اُن کے واجب الاحترام شوہر کاحکم لوگوں پر چل رہا ہے اور ساری کی ساری قوم   اُن کی مطیعِ فرمان ہے، اور اس قوم میں ایسے ایسے کھاتے پیتے لوگ ہیں کہ ان کی بیویاں اچھے سے اچھے کپڑے پہنتی ہیں، اور دوسری طرف قوم کے سردار کی بیویوں کا حال یہ تھا کہ اپنے کپڑوں کو    پیوند لگائے بیٹھی ہیں۔ اس لیے ان کے اندر اپنی محرومی کا احساس اُبھرنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ان کا بے صبر ہوجانا عین فطری امر تھا۔ ان حالات میں وہ حضوؐر سے نفقے کا مطالبہ کرتی تھیں اور آپؐ کو تنگ کرتی تھیں۔لیکن یہی بات اللہ کے رسولؐ کے لیے فطری طور پر پریشانی اور اذیت کا باعث بنتی تھی اور اس کا بار آپؐ کی طبیعت پر پڑتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پیشِ نظر آیات میں ازواجِ مطہرات کے اس رویّے پر گرفت فرمائی۔

اس معاملے کا ذکر سورئہ احزاب میں بھی کیا گیا ہے۔ وہاں بھی ازواجِ مطہراتؓ کو  مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ اگر تم کو دنیا چاہیے تو نبیؐ تم کو طلاق دے کر آزاد کردیتا ہے، لیکن اگر تم نبیؐ کا ساتھ دینا چاہتی ہو تو صبر سے کام لو اور جو مقام تم کو حاصل ہے اس مقام کے تقاضوں کو سمجھو!

یہ تھا ازواجِ مطہرات کا وہ قصور جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے یہ کہنے کا اختیار دیا گیا کہ چاہو تو نبیؐ کی رفاقت کا فیصلہ کرو اور جو کچھ تم کو دیا جاتا ہے اسے قبول کرو، ورنہ چاہو تو تمھیں طلاق دے کر آزاد کردیا جائے۔ دوسرا قصور (جو اُوپر مذکور ہوا) خاص طور پر دو ازواجِ مطہراتؓ کا تھا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواتین حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہ ؓ تھیں۔

احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کچھ زیادہ جَری ہوگئی تھیں۔ بعض اوقات گفتگو کا نامناسب انداز اختیار کربیٹھتی تھیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ کو اس طرزِعمل پر بُری طرح ڈانٹا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ اَزواجِ مطہراتؓ کے اس رویّے سے پریشان ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِیلا کرلیا۔ اِیلاء سے مراد تعلقات قائم نہ رکھنے کی قَسم کھالینا ہے جس کے اَحکام سورئہ بقرہ میں آئے ہیں۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص ۱۷۱-۱۷۳)

 پہلے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر تم توبہ کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے کیونکہ تمھارے دل راہِ راست سے ہٹ گئے ہیں۔ یعنی اس میں شک نہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہو، وہ تمھارے ساتھ محبت کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم رسولؐ کے مقابلے میں گستاخ ہوجائو۔ یہاں تک فرمایا کہ صرف یہ نہیں کہ تمھاری زبانیں خراب ہوگئی ہیں بلکہ فرمایا کہ تمھارے دل خراب ہوگئے ہیں۔ تمھارے دلوں میں یہ خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ تم رسولؐ کے مقابلے میں جرأت کرتی ہو۔ ارشاد فرمایا گیا: وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰــہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ o(۶۶:۴)،یعنی اگر تم دونوں نے رسولؐ کے مقابلے میں باہم جتھہ بندی کی تو یہ سمجھ لو کہ رسولؐ کا مولیٰ اللہ ہے، تمام مومنین رسولؐ کے ساتھ ہیں اور سارے فرشتے رسولؐ کے ساتھ ہیں۔ تم مقابلہ صرف رسولؐ کا نہیں کرو گی بلکہ تمھارا مقابلہ ساری کائنات کے ساتھ ہوگا۔ جس ہستی کے ساتھ اللہ، سارے مومنین اور سارے فرشتے ہیں، کیا تم اس کے ساتھ مقابلہ کرو گی؟

اس کے بعد تمام ازواجِ مطہراتؓ سے خطاب کر کے فرمایا: عَسٰی رَبُّہٗٓ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًاo (۶۶:۵)، ’’بعید نہیںکہ اگر نبیؐ تم سب بیویوںکو طلاق دے دے تو اللہ اُسے ایسی بیویاں تمھارے بدلے میں عطافرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، باایمان،اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ‘‘۔ دیکھیے اُوپر تثنیہ کا صیغہ تھا     جس میں دو ازواج مخاطب تھیں لیکن یہاں منکن جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس میں سب ازواجِ مطہراتؓ  شامل ہوجاتی ہیں۔ ان کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ اگر ہمارا رسولؐ تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کو تم سے بہتر بیویاں دے دے۔ وہ بہتر بیویاں کیسی ہوں گی؟

پہلی بات فرمائی کہ وہ مسلمات اور مومنات ہوں گی۔ جب مسلم کا لفظ مومن کے علاوہ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عملاً اطاعت کرنے والے شخص کے ہوتے ہیں۔ یہاں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لانے والی اور سچے دل سے اطاعت کرنے والی ہوں گی۔ وہ ایمان کے تقاضوں کو صحیح معنوں میں پورا کرنے والی ہوں گی۔

اس کے بعد فرمایا: وہ قٰنِتٰتٍہوں گی، یعنی اطاعت گزار ہوں گی۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کی اطاعت گزار ہوں گی اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی ہوں گی۔

پھر فرمایا: وہ تٰٓئِبٰتٍ  ہوں گی۔تائب کے معنی ایسے شخص کے ہیں کہ جب کبھی اس سے قصور سرزد ہوجائے، کوئی لغزش ہوجائے تو وہ اس پر نادم ہونے والا اور اس پر اپنے رب سے معافی مانگنے والا ہوتا ہے۔ گویا ان بیویوں کی یہ صفت ہوگی کہ وہ توبہ کرنے والی ہوں گی۔

مزید فرمایا: وہ عٰبِدٰتٍ ہوں گی، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار ہوں گی۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار ہوتا ہے اسی میں تائب ہونے کی صفت ہوتی ہے۔ وہ ہروقت اللہ کے حضور توبہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اسی کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ایمان کے تقاضے پورے کرنے والا ہوتا ہے۔ اس کا ایمان زندہ و بیدار ہوتا ہے۔ پھر فرمایا: وہ  سٰٓئِحٰتٍ ہوں گی۔

مفسرین نے سٰٓئِحٰتٍ  کے دو معنی بیان کیے ہیں۔ ایک معنی ہیں روزہ رکھنے والی اور دوسرے معنی ہیں کہ وہ رسولؐ کے ساتھ ساتھ زندگی کا عرصہ طے کرنے والی ہوں۔ یعنی وہ رسولؐ کا مکمل ساتھ دینے والی ہوں گی۔ رسولؐ جن حالات میں بھی ہوں گے وہ انھی حالات میں اس کے ساتھ رہنے پر راضی ہوں گی۔ وہ انھی حالات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے والی ہوں گی۔

ان کی مزید صفت یہ بیان کی گئی کہ: ثَــیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا، یعنی شادی شدہ بھی اور باکرہ بھی۔

ان بیویوں کی یہ ساری صفات بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کو ہرقسم کی عورتیں دینے پر قادر ہے۔

توھین صحابہؓ: چند غور طلب پھلو

اب مَیں ان تین واقعات کے متعلق مختصر طور پر چند باتیں کہنا چاہتا ہوں:

قرآنِ مجید میں جن ہستیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اُمہات المومنین ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ ان کا مقام صحابۂ کرامؓ سے بھی بڑا ہے۔ کیوں کہ صحابہ میں سے کسی کو بھی اُمت کا باپ نہیں کہا گیا، جب کہ اَزواجِ مطہراتؓ کو اُمت کی مائیں قرار دیا گیا۔ کیا اِن واقعات کا یہاں ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہوسکتا ہے، اور کیا ہم اس بات کا تصور کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ازواجِ مطہرات کا کوئی مقام اور احترام اُمت کے دلوں میں نہ رہے۔ وہی خدا جو  اُن کو اُمہات المومنین قرار دے رہا ہے، وہی خدا ان کے احترام کا حکم دے رہا ہے۔ وہی خدا یہاں اُن کے قصور بیان کر رہا ہے اور مسلسل ایک ہی سلسلۂ کلام میں ان کے تین قصور بیان کرتا ہے تو کیا اس کا مدعا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ چاہتا ہے کہ ان کا احترام اہلِ ایمان کے دلوں میں نہ رہے۔ پھر ظاہر بات ہے کہ اگر ازواجِ مطہرات ہی کا احترام لوگوں کے دلوں سے اُٹھ جائے تو صحابۂ کرامؓ کا کیا احترام باقی رہ سکتا ہے؟

پھر یہ بات بھی معلوم ہے کہ قرآنِ مجید میں صحابۂ کرامؓ کی بعض لغزشوں پر بھی کئی جگہ گرفت کی گئی ہے، مثلاً سورئہ جمعہ کی آخری آیت یہ ہے:

وَاِِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا نِ انْفَضُّوْٓا اِِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَـآئِمًاط (الجمعہ۶۲:۱۱) ، جب اُنھوں نے دیکھا کہ لہوولعب ہورہا ہے، تجارتی قافلہ آرہا ہے اور لوگ کاروبار کررہے ہیں تو وہ تمھیں اپنی جگہ کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف چلے گئے۔

یہ واقعہ مدنی زندگی کے آغاز میں پیش آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے ہیں۔ اس خطبے کے دوران میں مسجد کے باہر سے ڈھول تاشوں کی آواز آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت ہورہی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس بات کا ذکر قرآنِ مجید میں سورئہ جمعہ میں کیا گیا ہے۔ کیا قرآن میں یہ واقعہ بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام کا احترام اُٹھ جائے کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ یہاں ان جانے والوں کی تعداد بیان نہیں کی گئی لیکن ان کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید سارے صحابہ اُٹھ کر چلے گئے ہوں گے۔

یہ تو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ۱۲ کی تعداد باقی رہ گئی تھی لیکن قرآن مجید سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ ٹھیر بھی گئے تھے۔ اب سوچیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا ان ساری چیزوں کا ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اِن ہستیوں کا کوئی احترام لوگوں کے دلوں میں باقی نہ رہے؟

دراصل قرآنِ مجید میں ان چیزوں کا ذکر کرنے کی غرض یہ ہے کہ لوگ ان بزرگوں کو خدا یا خدا کی اولاد قرار نہ دے لیں، جیساکہ پچھلے انبیا ؑکی اُمتوں نے اپنے انبیا کو خدا کی اولاد قرار دیا یہاں تک کہ اس سے بھی آگے بڑھ کر بنی اسرائیل نے خود اپنے آپ کو Children of God (خدا کی اولاد) قرار دے لیا۔ لیکن صحابہ کرامؓ نہ خدا تھے نہ وہ خدا یا خدا کی اولاد، نہ خدائوں کی قسم کی کوئی مخلوق تھے۔ وہ انسان تھے، ان کی تربیت اللہ تعالیٰ نے کی اور اللہ کے رسولؐ نے ان کا تزکیہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اعلیٰ درجے کی خدمات کے بارے میں خودفرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ، ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوگئے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اعلیٰ درجے کی خدمات کی خود قرآن مجید میں تعریف کی ہے لیکن ان کے مقام اور مرتبے کی بلندی کے باوجود اُن سے جو قصور سرزد ہوئے اُن پر گرفت کی گئی، اور جیسا قصور تھا ویسی ہی سخت گرفت فرمائی گئی۔

جنگِ اُحد میں جن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑی ٹیلے پر تیرانداز بناکر بٹھایا تھا تاکہ اس جانب سے دشمن حملہ نہ کرنے پائے، اُن لوگوں نے جب دیکھا کہ کفار کو شکست ہوگئی ہے اور مالِ غنیمت لُٹ رہا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کے باوجود کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری بوٹیاں نوچ کر لے جارہے ہیں تب بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا،مگر وہ اس صریح ہدایت کے باوجود اس حکم کو نظرانداز کرگئے اور کفار کو شکست ہوتے دیکھ کر مالِ غنیمت لُوٹنے میں لگ گئے۔ اسی وقت کفار نے اُحد کے پیچھے سے حملہ کر کے جنگ کی صورتِ حال یک لخت بدل ڈالی۔

قرآنِ مجید میں اس واقعے پر سخت گرفت کی گئی ہے اور ان کو بتایا گیا کہ انھوں نے کیا غلطی کی ہے۔ توصحابۂ کرامؓ انسان تھے، ان سے بشری تقاضے سے قصور سرزد ہوئے اور جو قصور سرزد ہوا، قرآنِ مجید میں ان کا ذکر کر کے ان پر گرفت کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود قرآن کا منشا یہ نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے کہ ان کی ان غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے ان کا احترام اُٹھ جائے۔

اس تفصیل سے اُصولی بات یہ سامنے آئی کہ صحابۂ کرامؓ  کا اُتنا ہی احترام کیا جائے گا جتنا اللہ تعالیٰ خود چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اَزواجِ مطہراتؓ کے قصوروں پر گرفت فرمائی ہے اور مسلسل ان کے تین قصور گنوائے گئے، اور اس کے باوجود وہ اَزواجِ مطہراتؓ ہیں ،اُمہات المومنینؓ ہیں اور ہمارے لیے حددرجہ واجب الاحترام ہیں۔ ان کے قصوروں کا ذکر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم اُن کی توہین کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات کا ذکر کرنے سے دراصل یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین بے لاگ ہے۔ غلطی ہے تو غلطی ہے، صحیح ہے تو صحیح ہے___ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی لاگ لپیٹ نہیں ہے۔ اگر واقعتا کسی سے کوئی قصور ہوا ہے تو آپ خواہ اس کی کچھ بھی تاویلیں کریں کہ یہ قصور نہیں تھا۔ جب اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی کام غلط ہے، تو غلط ہے، اور صحیح ہے تو صحیح ہے۔ لوگوں پر یہ بات اس لیے واضح کردی گئی کہ آیندہ وہ ایسی غلطیوں سے بچیں جو پہلے لوگوں نے کیں، اور جن ہستیوں کا جو مقام اللہ نے قرار دیا ہے، اس کو اسی کے مطابق رہنے دیں۔ ورنہ اگر ایک دفعہ اپنے بعض مفروضوں کی بناپر کسی غلط کو صحیح قرار دے دیا جائے گا تو معیار ہی ختم ہو جائے گا، اور اس بات کی تمیز اُٹھ جائے گی کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیاہے___! (جاری)۔ (کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

جماعت اسلامی جس ملک میں کام کر رہی ہے اس کے حالات کے لحاظ سے اس نے اپنا طریق کار اختیار کیا ہے۔ کوئی دوسرا آدمی جو اسلامی دعوت کے لیے کسی اور ملک میں کام کر رہا ہو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہمارے طریقے کی پیروی کرے۔ وہ اپنے ملک کے حالات کے لحاظ سے کوئی دوسرا طریقۂ کار اختیارکرسکتا ہے۔ ہم اس کے لیے یہ لازم نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے ہی طریقے کی پیروی کرے۔

ہم اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کسی قسم کی خفیہ تحریک کا طریقہ اختیار کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ ہم اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ کسی طرح کی سازشیں کرکے کوئی فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی جائے اور اس طریقے سے اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ پھر یہ ہوگا کہ جس طرح ایک سازش کے نتیجے میں اسلامی حکومت قائم ہوگی اسی طرح ایک دوسری سازش کے نتیجے میں اس کا تختہ اُلٹ کر کوئی اور حکومت قائم ہوجائے گی۔

ہمارے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایک کھلی اور علانیہ دعوت سے اپنا ہم خیال بنائیں۔ اس میں وقت کی حکومت خواہ کتنی ہی رکاوٹیں ڈالے، ہرطرح کی تکلیفوں کو، ہر طرح کے نقصانات کو، ہرطرح کی سزائوں کو برداشت کرلیا جائے اور اپنی دعوت کو برابر جاری رکھا جائے، یہاں تک کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ہم خیال ہوجائیں۔ جب لوگ ہمارے   ہم خیال ہوجائیں گے تو ہم ان شاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی اپنے ملک میں اسلامی انقلاب   لے آئیں گے۔ (خطباتِ یورپ، ص ۹۱-۹۲)

یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ ہم اصلاحِ معاشرہ کا کام چھوڑ کر صرف انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں.... حالانکہ ہمارے لائحہ عمل کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں… پھر ووٹر کو صحیح انتخاب کے لیے تیار کرنا، اسے اسلامی نظام کے لیے تیار کرنا، اس کے اندر اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنا، اس کو صالح اور غیرصالح کی تمیز دینا، اس کو یہ احساس دلانا کہ ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمہ دار وہ خود ہے، اس میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا کہ وہ دھن دھونس، دھوکے، دھاندلی کا مقابلہ کرسکے اور اپنا ووٹ صحیح طور پر استعمال کرے___ یہ سارے کام کیا اصلاحِ معاشرہ کے کام نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو یہی کام ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرتے ہیں…

انتخابات سے الگ رہ کر آپ عقائد، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا کام تو کرسکتے ہیں لیکن صالح قیادت کو اُوپر لانے کے لیے ووٹروں کی سیاسی تربیت انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ووٹروں کو فاسد اور نااہل امیدواروں کے حوالے کرکے اور ان کے لیے میدان خالی چھوڑ کر آخر انتخابی عمل کی اصلاح کیسے ہوگی؟ جب نااہل کے مقابلے میں اہل اور فاسد کے مقابلے میں صالح موجود نہیں ہوگا تو ووٹر کے لیے صالح اور غیرصالح کے درمیان تمیز کیسے پیدا ہوگی؟

رہی یہ بات کہ چند نشستیں حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو میں عرض کروں گا کہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ اب تک آپ صرف پبلک میں آواز اُٹھاتے رہے ہیں، ایوانِ حکومت میں آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ بلند ہوگی۔ آپ کے چند لوگ بھی جب اربابِ اقتدار کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے، غلط چیزوں پر صاف صاف تنقید کریںگے،  دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کریں گے، تو یہ آواز بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ (تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۳۶، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۹-۱۵۰)

یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ ہم اس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا، اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں اس کو واضح طور پر نگاہ کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ ہمارا ہرقدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں، یا نہ کریں۔ نقطۂ آغاز تو لامحالہ یہی انتخابات ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظامِ حکومت تبدیل ہوسکتا ہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے جس سے ہم پُرامن طریقے سے نظامِ حکومت بدل سکیں اور حکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔

اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس، دھوکے، دھاندلی، علاقائی، مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اُچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہوسکیں۔ انتخابات دیانت دارانہ ہوں، لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول، مقاصد اور پروگرام پیش کریں، اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِفکر اور   معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اُس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرِنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہرحال آپ یک لخت جست لگاکر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۶-۲۷)

[خیال رہے کہ] یہ انتخابی ہتھکنڈے جو سیاسی پارٹیاں استعمال کرتی ہیں، اور جن کے استعمال میں زمامِ کار کے موجودہ مالک طاق بھی ہیں اور بے باک بھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ خودبخود متروک ہوجائیں گے؟ کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ لوگ آپ ہی اتنے نیک ہوجائیں گے کہ ان ہتھکنڈوں کے استعمال سے انھیں شرم آنے لگے گی؟ اور کیا آپ زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے اس ساعت ِ سعید کا انتظار کرنا چاہتے ہیں جب مقابلہ صرف شریف آدمیوں سے رہ جائے اور بُرے لوگ میدان سے ہٹ جائیں؟ اگر یہ آپ کی امیدیں ہیں، اور یہ وہ شرطیں ہیں جن کے پورا ہونے پر ہی آپ قیادت بدلنے کے اس واحد آئینی وسیلے سے کام لے سکتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ کبھی آپ کی یہ اُمیدیں اور یہ شرطیں پوری ہوں گی اور آپ اس کارخیر کے لیے آگے بڑھ سکیں گے۔

تبدیلیِ قیادت کے لیے آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ اس گندے کھیل میں پاکیزگی کے ساتھ آیئے۔ تمام بُرے ہتھکنڈوں کا مقابلہ صحیح طریقوں سے کیجیے۔ جعلی ووٹ کے مقابلے میں اصل ووٹ لایئے۔ دھن سے ووٹ خریدنے والوں کے مقابلے میں اصول اور مقصد کی خاطر ووٹ دینے والے لاکر دکھایئے۔ دھوکے اور فریب اور جھوٹ سے کام لینے والوں کے مقابلے میں سچائی اور راست بازی کا مظاہرہ کیجیے۔ دھونس اور زبردستی سے ووٹ لینے والوں کے مقابلے میں ایسے ووٹر پیش کیجیے جو بے خوف ہوکر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ دھاندلیوں کے مقابلے میں ٹھیٹھ ایمان داری برت کر دکھایئے۔ ایک دفعہ نہیں، دس دفعہ ناکامی ہو تو ہو۔ آپ کوئی تبدیلی یہاں لاسکتے ہیں تو اسی طریقے سے لاسکتے ہیں۔ اسی طرح آخرکار وہ وقت آئے گا، جب کہ سارے ہتھکنڈوں کے باوجود غلط کار لوگ شکست کھاجائیں گے۔ اسی طرح یہاں کے انتخابی نظام کی برائیاں بے نقاب ہوں گی۔ اسی طرح ان برائیوں کے خلاف عام نفرت اور بیزاری پیدا کی جاسکے گی۔ اسی طرح انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کا راستہ کھلے گا۔

پھر جس پبلک کی غفلت، بے حسی اور اخلاقی کمزوریوں کا آپ رونا روتے ہیں، اس کی اصلاح بھی آپ کے اسی عمل سے ہوسکے گی۔ اسی سے اس کا ضمیر بیدار ہوگا۔ اس سے لوگوں کو یہ اُمید بندھے گی کہ یہاں بھلے طریقوں سے بھی کام کیاجاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا خوف بھی  دُور ہوگا، ووٹ فروشی کا مرض بھی کم ہوتا جائے گا، اور راے عام کی اتنی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی کہ ہمارے عام ووٹر اغراض اور تعصبات کی بنا پر ووٹ دینے کے بجاے اصول اور نظریات کی بناپر بے لاگ طریقے سے ووٹ دینے کے قابل ہوجائیں گے۔

بلاشبہہ یہ ایک دشوار گزار گھاٹی ہے۔ اس میں ٹھوکریں لگیں گی، ناکامیاں ہوں گی، کمزور دل کے لوگ دل شکستہ بھی ہوں گے۔ تحریک سے دل چسپی رکھنے والوں میں سے بھی بہت سے لوگ مایوسی سے دوچار ہوں گے۔ اور ظاہر میں پبلک کا بھی ایک اچھا خاصا حصہ ان ابتدائی ناکامیوں کا غلط مطلب لے گا۔ لیکن منزلِ مقصود تک پہنچنے کا کوئی راستہ اس گھاٹی کے سوا نہیں ہے۔ اور مجھے اس میں اتنی بڑی ناکامی کا خطرہ بھی نہیں ہے جس کا ہوّا ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ساری ناجائز تدبیروں کے مقابلے میں، اسی غافل اور کمزور پبلک کے اندر سے، ٹھیٹھ اصولی طریق کار برت کر، چند لاکھ ووٹ ضرور لے کر دکھا دیں گے، اور یہ چیز ان شاء اللہ اس ملک کے تمام   اصلاح پسند اور دین پسند طبقوں میں یاس کے بجاے اُمید کی شمع روشن کردے گی۔ پھر میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ ایک انتخاب میں ایسے ووٹوں کا جو تناسب ہوگا وہ بعد کے انتخابات میں گھٹے گا نہیں، بلکہ ان شاء اللہ العزیز برابر بڑھتا ہی چلا جائے گا، یہاں تک کہ آخرکار میزان کا رُخ پلٹ کر رہے گا۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۴۷-۱۴۹)

یہ لائحہ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے، اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازن پر ہے۔ اس کا ہرجز دوسرے جز کا مددگار ہے، اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہوجائے گی، اور اس کے اجزا کے درمیان توازن برقرار نہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہوکر رہے گی۔

کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اتنا ہی بڑھاتے چلے جائیں جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوجائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اس کے مطابق واقعی تغیر رُونما ہوسکے۔ ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔

ان میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو، یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدحیات بنایا ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۰)

اہلِ حق کی اصل ذمّہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کردیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔  (رسائل و مسائل،  حصہ پنجم، ص ۳۲۸- ۳۲۹)

اِس میں شک نہیں کہ دُنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں، لیکن لوگوں کا ردو قبول ہرگز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔  خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اِس احسان کا شکریہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں (مکتوب بنام شورش کاشمیری، ایشیا، ۳جنوری ۱۹۷۱ئ)۔ (انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)