سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo(المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا ہے مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے  گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا___اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کردی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر ان میں سے کوئی چیز کھالے، بغیر اس کے گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

آج کے درس کے لیے میں نے ان آیات کو اس لیے منتخب کیا ہے کہ قریب کے زمانے میں ایک نیا فتنہ ہمارے ملک میں اُٹھا ہے۔ ہمارے دیے ہوئے ٹیکسوں سے خزانۂ سرکار میں جو رقم جمع ہوتی ہے اُس سے وہ ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ملک کی مجالس قانون ساز کو اور ملک کی حکومتوں کو، اور حکومتوں سے مراد صوبائی اور مرکزی حکومتیں ہیں، دینی معاملات میں قانون سازی کے حوالے سے مشورہ دے گا کہ ان میں کوئی چیز خلافِ اسلام اور خلافِ قرآن و سنت تو نہیں ہے۔ اس کا نام مشاورتی کونسل رکھا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کو اسلامی معاملات میں مشورہ دینے والی کونسل۔ اس کے ساتھ ایک اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے نام سے قائم کیا گیا ہے، یعنی اسلامی مسائل پر وہ تحقیقات کرکے اس کونسل اور حکومت کو یہ بتائے گا کہ شریعت اسلامی کے واقعی احکام کیا ہیں۔

اس تحقیقاتی ادارے میں جو نرالی تحقیقات ہورہی ہیں، وقتاً فوقتاً اس کے کچھ مسائل ہمارے سامنے بھی آتے رہتے ہیں۔ مثلاً اس کے اندر یہ تحقیقات کی گئی ہیں کہ قرآنِ مجید کی عبارت اور  اس کے الفاظ اصل میں حجت نہیں ہیں، اور علمِ ہدایت نہیں ہیں، بلکہ قرآن کے مقاصد کو سمجھ کر ان کو  عملی جامہ پہنانے کا حکم ہے نہ کہ بجاے خود قرآن کے الفاظ میں جو حکم دیا گیاہے اس کی پابندی کی جائے۔

اس میں حدیث کے متعلق بھی نرالی نرالی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اس میں سنت کا بھی ایک عجیب مفہوم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں زکوٰۃ سے متعلق ہمیں یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ جب چاہے ایک مجلس قانون ساز اس کی نئی شرح مقرر کردے۔ اس کے نصاب میں تبدیلی کرے، اس کی شرح تبدیل کرے، اس کے اختیارات اسے حاصل ہیں۔ اس میں زکوٰۃ کا تصور یہ پیش کیا گیا ہے کہ جس طرح حکومت کے اور ٹیکس ہیں ویسا ہی یہ ایک ٹیکس ہے۔

اسی سلسلے میں نئی تحقیقات ہمارے سامنے آئی ہیں کہ ایک ایسا جانور جس کو خواہ مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم، اور اس کو خواہ باقاعدہ اس طریقے سے ذبح کیا جائے جو اسلام میں مقرر ہے، یا کسی مشین، یا کسی آلے سے دفعتاً اس کی گردن اُڑا دی جائے، اور اس کے اُوپر اللہ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، بہرحال وہ حلال ہے۔

مسئلہ محض گوشت کی حلت و حُرمت کا نہیں ہے۔ معاملہ اس سے بہت آگے جارہا ہے۔  رفتہ رفتہ مسلمانوں کو دینی معاملات میں بے حس بنانے کی ایک اسکیم ہے کہ آہستہ آہستہ ایک ایک چیزلائی جائے اور ایک ایک چیز کے متعلق جو مسلمانوں کے صدیوں کے عقائد اور تصورات اور مسلّمات ہیں، ان کو ایک مرتبہ ہلا ڈالا جائے۔ جب ان کو ہلا ڈالا جائے گا تو اس کے بعد حرام و حلال کی قیود ختم ہوجائیں گی۔ پھر حلال وہ ہوگا جسے ہم حلال کہیں اور حرام وہ ہوگا جسے ہم حرام کہیں۔

اس وجہ سے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سارے مسئلے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اگرچہ میں اپنے مضامین میں بھی ان کی وضاحت کرتا رہا ہوں مگر بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک مضمون لکھتے وقت آدمی کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ اس وجہ سے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ بار بار اس کی توضیح کی جائے تاکہ ایک ایک پہلو سامنے آجائے۔

یہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہیں ان میں ابتدائی بنیادی حکم صرف یہ ہے کہ مُردار، خون، لحم، خنزیر اور جو کچھ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ حرام ہے۔ اس چیز کو قرآنِ مجید میں اس سورہ کے نزول سے پہلے سورۂ انعام میں بھی ان چاروں چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ سورئہ نحل میں بھی ان کی حُرمت بیان کی گئی ہے اور سورئہ بقرہ میں بھی ان کی حُرمت بیان کی گئی ہے لیکن یہاں سورئہ مائدہ میں اس حکم کی زیادہ واضح تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور زیادہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے میں نے اُن آیات کے بجاے اِن آیات کو لیا ہے کیونکہ ان میں زیادہ تفصیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلۂ بیان میں جو آیات آگے آرہی ہیں ان میں اس پورے مسئلے کو جو چھیڑا گیا ہے اس کا پورا پورا اور مکمل بیان ہے۔فرمایا گیا:

حلال و حرام کی بنیاد

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ (المائدہ ۵:۳) حرام کیا گیا تمھارے اُوپر مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور جو کچھ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔

اس سلسلے میں اس بات کو بھی سمجھ لیجیے کہ قرآنِ مجید میں حرام کی کوئی مخصوص اصطلاح نہیں ہے۔ یہ اصطلاحیں بعد میں فقہا نے استنباط کر کے وضع کی ہیں۔ قرآنِ مجید کے متعلق یہ بات نہیں ہے کہ جس چیز کو وہ قطعی ممنوع ٹھیرائے اس کے لیے لازماً حرام کا لفظ استعمال کرے، اور اگر وہ حرام کا لفظ استعمال نہ کرے تو قطعی ممنوع ہونے کا حکم نہیں ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔

اس کی وضاحت میں نے اس لیے کر دی کہ آج کل کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بتائو شراب کے لیے حرام کا لفظ قرآن میں کہاں ہے؟ حالانکہ ترکہ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا۔ جھوٹ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا، حتیٰ کہ عملِ قومِ لوطؑ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا، تو پھر اس کی حُرمت کا بھی انکار کرو۔ کہو کہ جس جس کے لیے حرام کا لفظ استعمال نہ ہوا ہو وہ سب حرام نہیں ہیں۔ حرام وہ ہے جس کے لیے لفظ حرام استعمال کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں یہ نرالے انداز ہیں لوگوں کے اجتہاد کرنے کے!

اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حُرمت و حلّت کے جو احکام کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں دیے ہیں ان کی بنیاد طبی نہیں ہے۔ اگر طبی بنیاد ہو تو اُس صورت میں جتنی چیزیں انسان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، ان سب کی حُرمت کے احکام قرآنِ مجید میں آتے یا حدیث میں آتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو جاننے کے ذرائع اس نے انسان کو عطا کردیے ہیں، جن چیزوں کا علم حاصل کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے، ان کے بارے میں وہ براہِ راست ہدایت نہیں دیتا۔ ان کے بارے میں انسان کا کام ہے کہ خود تحقیقات کرے اور خود معلومات حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ اُن چیزوں کے متعلق ہدایت دیتا ہے جن کے جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں۔ انسان جن چیزوں کو نہیں جان سکتا ان کے بارے میں وہ ہدایت دیتا ہے۔ کیونکہ ان کے بارے میں اگر ہدایت نہ دی جائے تو انسان غلطی کربیٹھتا ہے۔ اگر حُرمت و حلّت کی بنیاد صحت کے لیے نقصان دن ہونا ہوتا تو میرے خیال میں ان چار چیزوں سے پہلے سنکھیا کا ذکر کیا جاتا کیونکہ وہ تو مہلک ہے۔ان چار چیزوں سے پہلے ان زہروں کی تفصیل بھی دی جاتی جو آدمی کو ہلاک کردینے والے ہیں۔

اس چیز پر آپ غور کریںگے تو آپ کی سمجھ میں خود یہ بات آجائے گی کہ ان چار چیزوں کی حُرمت کو واضح الفاظ میں قرآن میں چار چار مقامات پر بیان کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کی حُرمت کا سبب آدمی کی سمجھ میں پوری طرح نہیں آسکتا۔ وہ ان کے بارے میں خود تحقیقات نہیں کرسکتا ہے۔ حُرمت کا اصل سبب وہ نقصانات ہیں جو آدمی کے اخلاق اور اس کی روح کو پہنچتے ہیں۔ وہ نقصانات نہیں ہیں جو آدمی کے جسم کو پہنچتے ہیں، اگرچہ یہ آدمی کے جسم کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ لیکن حُرمت کی اصل بنیاد جسم کے لیے نقصان دہ ہونا نہیں ہے بلکہ حُرمت کی اصل بنیاد اخلاق کے لیے نقصان دہ ہونا ہے۔ آدمی کی روح کے لیے ان کا نقصان دہ ہونا ہے۔ ان کے اندر کچھ ایسے اسباب ہیں کہ ان سے وہ بُری صفات انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں جو انسان کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ قرآنِ مجید کا یہ حکم آنے کے بعد اگرچہ ہم اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کریں، ہم ٹٹولیں تو کچھ چیزیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں لیکن ہم قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ حلت ِحُرمت وہی ہے۔

مثال کے طور پر میں عرض کرتا ہوں کہ مُردار ہے۔ مُردار کے متعلق یہ بات بالکل واضح معلوم ہوتی ہے کہ سلیم الطبع انسان، پاکیزہ انسان کی فطرت اس سے نفرت کرتی ہے، ایبا کرتی ہے، انکار کرتی ہے۔ اس کے استعمال کرنے کے لیے انسان کی طبیعت نفرت کرتی ہے۔

مثال کے طور پر خون ہے۔ خون کا استعمال کرنا لازماً انسان کے اندر خون خواری پیدا کرے گا۔ ایسی وحشی قومیں جو خون کو استعمال کرتی ہیں، جانور کو ذبح کرتی ہیں یا ہلاک کرتے ہی جس جگہ سے اس کا خون بہہ رہا ہو اس کو فوراً منہ لگا لیتی ہیں اور خون پی لیتی ہیں۔ یہ بہت طاقت بخشنے والی چیز ہے۔ کیونکہ انسان ہو یا جانور ، جو بھی ہو اس کے اندر جو قوت آتی ہے وہ خون ہی کے ذریعے سے آتی ہے۔ غذا کی تمام خصوصیات اور اس کی جو قوت بخش چیزیں ہیں وہ خون کے ذریعے سے آتی ہیں۔ اس لیے آدمی یہ سمجھے گا کہ خون بڑی مقوی چیز ہے۔ حالانکہ خون میں جو چیزیں قوت بخشنے والی ہیں اور اس کے اندر سے غذا دینے والی ہیں وہ ساری وہ ہیں جو آگے جاکر گوشت میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ خون کا مواد گوشت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ خون کا جو حصہ گوشت میں تبدیل ہوجائے وہ اصل میں مقوی چیز ہے۔ وہ اصل میں انسان کی تقویت کا سبب ہے۔ بہت سے دوسرے اجزا جو خون میں شامل ہوتے ہیں، انھی میں سے گروہ ان کو چھان کر پیشاب کی صورت میں باہر نکال دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خون میں کچھ ایسے اجزا تھے جب خون انسانی جسم کی ساخت تیار کرنے سے فارغ ہوگیا تو گردے نے انھیں چھانٹ کر پیشاب کی شکل میں باہر نکال دیا۔ نامعلوم اور کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو کسی اور شکل میں نکل آتی ہیں، مثلاً: انسانی پسینے میں سے میل نکلتا ہے۔ وہ بھی خون ہی کے اندر وہ اجزا ہوتے ہیں جنھیں پسینے کی صورت میں جسم سے نکالا جاتا ہے اور وہ میل باہر نکلتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں آتی ہیں لیکن جو بنیادی وجہ ہے وہ انسان کی روح اور اس کے اخلاق پر بُرے اثرات ڈالنے والی ہے۔

غذا کے انسانی تھذیب پر اثرات

مثال کے طور پر لحم خنزیر ہے۔ لحم خنزیر کے متعلق آج کل کی طبی تحقیقات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر بُرائیاں ہیں۔ اس کے اندر کچھ ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جیساکہ ابھی مَیں نے عرض کیا کہ اگر بیماری پیدا کرنا ہی حُرمت کا اصل سبب ہوتا تو پہلے سنکھیا کی حُرمت بیان کی جاتی۔ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ سور کے گوشت کا انسان کے اخلاق اور روح پر کیا اثر پڑتا ہے۔ آج تک انسان کی علمی تحقیقات اس طرف مائل نہیں ہوئی ہیں کہ یہ معلوم کریں کہ غذائوں کے استعمال کا انسان کے اخلاق، اس کی روحانیات اور اس کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے۔ جسم پر اثرات پڑنے پر تو بہت سی تحقیقات ہوگئی ہیں لیکن اخلاق پر غذائوں کا کیا اثر پڑتا ہے، اس کی تحقیقات آج تک بالکل ابتدائی مراحل میں ہیں۔ انسان ان کے بارے میں نہیں جانتا۔

تاہم ایک بات ایسی ہے جو واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ سور ایک ایسا جانور ہے جو انتہائی  بے حیا واقع ہوا ہے۔وہ انتہائی بے غیرت اور بے شرم واقع ہوا ہے۔ وہ ایک ایسا جانور ہے کہ اس کے سامنے اس کی مادہ کے پاس اگر کوئی دوسرا نر جائے تو اس کے اندر غیرت کے نام پر کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اس سے لڑ جائے۔

یہی چیز سور کھانے والی قوموں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ سور کھانے والی قومیں جہاں بھی پائی جاتی ہیں، ان کی تہذیب کے اندر یہ بے غیرتی شامل ہوگئی ہے۔ ہم جس چیز کو غیرت کہتے ہیں وہ اس کو حسد (jeliousy) کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک غیرت ایک بہترین جذبہ ہے۔ ہم اس کے لیے غیرت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس کے لیے حسد اور jeliousy کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جو آدمی کے اندر ایک عیب ہے۔ ہماری تہذیب تو یہ ہے کہ آدمی کی بیوی اس کے پاس بیٹھے اور دوسرے آدمی کی بیوی اس کے پاس بیٹھے۔ ان کی تہذیب یہ ہے کہ جب مل کر بیٹھیں گے تو ایک کی بیوی دوسرے کے پاس بیٹھے گی اور دوسرے کی بیوی پہلے کے پاس بیٹھے گی۔ اگر آدمی ایسا نہیں کرتا تو ان کی نظر میں وہ حاسد اور jelious واقع ہوا ہے۔ وہ کیو ں نہیں اپنی بیوی کے پاس دوسرے آدمی کو بیٹھنے دیتا؟ ان کے اندر اس بات کی کوئی شرم نہیں ہے کہ مجموعی ناچ میں ایک آدمی کی بیوی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ناچے۔ ان کے اندر اس کے بارے میں کوئی شرم نہیں ہے بلکہ وہ اس کو براخوفتگی اور وسیع القلبی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدک جو عین بے غیرتی ہے وہ ان کے ہاں وسیع القلبی ہے۔ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ اسی غذا کا کہ وہ ایک ایسا جانور استعمال کرتے ہیں، اور نہایت کثرت سے استعمال کرتے ہیں، جو نہایت بے غیرت واقع ہوا ہے۔

یہ چند چیزیں ہیں جو مَیں اس غرض سے بیان کر رہا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام ہیں ان کی بعض حکمتیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں، بعض سمجھ میں نہیں آتیں، اور بعض حکمتیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں آہی نہیں سکتیں۔ اگر انھیں بیان کیا جائے توو ہ ہمارے لیے اس وجہ سے بے کار ہیں کہ حکمت وہ بیان کرنی چاہیے جس کو دوسرا مخاطب جانچ کر دیکھ سکے کہ ہاں، واقعی یہ حکمت اس میں پائی جاتی ہے۔ اگر اس کے پاس جانچنے کے ذرائع نہیں ہیں تو اس کا بیان کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ میاں! یہ تمھاری روح کو خراب کرنے والی چیز ہے۔ اگر آپ کے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں کہ آپ یہ ناپ سکیں کہ اس سے روح کے اندر کیا خرابی اور کتنی خرابی پیدا ہوگی ، تو آپ کا اس سے یہ کہنا کہ آپ کی روح میں اس سے خرابی پیدا ہوگی اور یہ نہ کہنا کہ تمھاری روح کے اندر خرابی پیدا ہوگی، یکساں ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس اس کے جانچنے کے ذرائع نہیں ہیں۔ آپ تحقیق نہیں کرسکتے کہ جو بات آپ کو کہی گئی ہے وہ واقعی ٹھیک ہے، کس حد تک ٹھیک ہے، اور کس طرح اس کے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے ایسے احکامات ہیں جن کی حکمتیں اور مصلحتیں نہیں بتائی ہیں بلکہ صاف صاف کہا ہے کہ فلاں چیز تمھارے لیے ممنوع ہے۔

ایمان کی آزمایش کی بنیاد

اس کے ساتھ اس میں انسان کے ایمان کی آزمایش ہے۔ اگر ایک آدمی ایمان رکھتا ہے تو اس کے رب نے جس چیز سے منع کردیا وہ رُک جائے گا قطع نظر اس کے کہ ممانعت کی وجہ اسے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اگر وہ ممانعت کے جواب میں پلٹ کر یہ کہتا ہے کہ جناب اس کی حکمت مجھے بتایئے اگر اس کی حکمت مجھے سمجھ میں آئے گی تو میں آپ کا حکم مانوں گا اور نہ آئے گی تو نہ مانوں گا۔ وہ دراصل اپنی سمجھ کی اطاعت کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کر رہا۔ مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ حکم کی دلیل مانگے۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اس کا رب جب اسے حکم دے تو سر جھکا دے قطع نظر اس کے کہ اس کی وجہ اسے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اس کا پورا اعتماد اپنے رب پر ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے کہ وہی علیم ہے۔ ہر چیز کی حقیقت کو وہ جانتا ہے۔ وہی حکیم ہے جو حکم بھی دے رہا ہے دانائی کی بنا پر دے رہا ہے، اور وہ رب ہے اس کو حق پہنچتا ہے کہ جس چیز سے چاہے آپ کو منع کردے۔ کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں اس کی ملکیت ہیں، آپ کی ملکیت نہیں ۔

مثال کے طور پر آپ اپنے گھر کے مالک ہوں اور کوئی دوسرا شخص باہر سے آئے۔ آپ کو حق پہنچتا ہے کہ آپ اس کو یہ کہیں کہ میری فلاں فلاں چیزیں تو آپ استعمال کرسکتے ہیں اور فلاں فلاں چیزیں آپ استعمال نہیں کرسکتے۔ آپ کو اس کا حق پہنچتا ہے۔ اس کو یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا کہ آپ مجھے فلاں فلاں چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دیجیے اور آپ مجھے اجازت کیوں نہیں دیتے؟ اس لیے کہ مال آپ کا ہے، اس کا نہیں۔ آپ کو پورا حق پہنچتا ہے کہ اپنی چیزوں میں سے جس چیز کے استعمال کی چاہیں اجازت دیں اور جس چیز کی چاہیں اجازت نہ دیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جناب میرے گھر کے ہر حصے میں آپ جاسکتے ہیں لیکن فلاں کمرے میں آپ نہ جایئے گا۔  اس میں آپ قفل لگا دیں اور کہیں کہ اس میں جانے کا آپ حق نہیں رکھتے۔

وہ چونکہ رب ہے، تمام چیزیں اس کی ملکیت ہیں، آپ اس کے بندے ہیں۔ لہٰذا مالک کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے نوکر سے، اپنے غلام سے یہ کہے کہ میری فلاں فلاں چیزیں وہ استعمال کرسکتا ہے اور فلاں فلاں چیزیں استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔ میں تم کو منع کردیتا ہوں کہ میری ان چیزوں کو تم استعمال نہ کرو۔

اگر آپ اللہ کو رب مانتے ہیں تو رب کہتا ہے کہ سور کو تم نہ کھانا تو آپ کو رُ ک جانا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ جس جانور کو مَیں خود ماروں اسے نہ کھانا، تو آپ کو رُک جانا چاہیے۔ مُردار کے متعلق اس نے یہ حکم دے دیا کہ یہ میرا مارا ہوا ہے، لہٰذا جسے مَیں خود ماروں اس کو تم نہ کھائو۔ جس کو آپ خود ماریں اُس طریقے کے مطابق جیسے اس نے بتایا ہے، تو اسے آپ کھاسکتے ہیں۔

مُردار کی وضاحت

ان چار چیزوں کی حُرمت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے مُردار کی وضاحت فرمائی ہے۔ دوسری چیزیں تو واضح ہیں لیکن مُردار کی وضاحت فرمائی ہے۔

وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ(المائدہ۵:۳) وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گرکر، یا ٹکر کھاکر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا۔

ایک تو مُردار وہ ہے جو طبعی موت لیٹ کر مر گیا۔ اس کے علاوہ مزید مُردار وہ ہیں، مثلاً جو گلاگھٹ کر مرا، یا چوٹ کھا کر مرا، یا کسی بلندی پر سے گر کر مرا، یا دو جانوروں میں ٹکر ہوئی اور ٹکر کھا کے ایک جانور مر گیا، یا جس کو درندے نے پھاڑا۔ ان سب کی ممانعت فرمائی۔بنیاد کیا ہے؟ وہی مُردار، یعنی یہ سارے کے سارے مُردار ہیں اگر ان میں سے کسی شکل میں مرجائیں۔ کیوں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ خون جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، وہ خون ان شکلوں میں سے کسی شکل میں بھی نہیں نکلتا۔ چوٹ لگ گئی تو چوٹ کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جس جگہ چوٹ لگتی ہے اس کے آس پاس کا خون نکل جاتا ہے لیکن اس سے پورے جسم کا خون خارج نہیں ہوتا۔ ایسے ہی گر کر مرنے سے ہوتا ہے۔ اگر خون نکلے گا بھی، مثلاً سر پھٹ گیا ہے تو جس مقام پر چوٹ لگی ہے اس کے آس پاس کا نکل جائے گا۔ موت کسی صدمے سے واقع ہوگی یا کسی اور وجہ سے واقع ہوگی۔ اس وجہ سے واقع نہیں ہوگی کہ چونکہ جسم کا پورا خاندان نکل گیا ہے، اس لیے جان دار مر گیا ہے۔ یہ کسی صدمے سے واقع ہوگی۔ ایسے ہی دوسری شکلیں ہیں۔ ان ساری شکلوں میں چونکہ خون پوری طرح سے نہیں نکلتا ہے۔ موت کی وجہ کوئی اور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مرتا ہے۔ خون آس پاس کا  نکل کر رہ جاتا ہے یا بالکل نہیں نکلتا۔ اس وجہ سے یہ سب بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں قطع نظر اس کے کہ خون بہا ہو یا نہ بہا ہو۔ خون بہا بھی ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پورے کا پورا خون اس کے اندر سے نکل گیا ہے۔

ان چیزوں کو حرام قرار دینے کے بعد پھر فرمایا:

اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ(المائدہ۵:۳) بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کر لیا۔

تزکیہ کا لفظ زکاۃ سے نکلا ہے۔ زکاۃ کہتے ہیں اس بات کو، مثلاً اگر آگ راکھ میں دبی ہوئی ہے تو آپ کرید کر انگارے اُوپر نکال لائیں۔ اس کو کہیں گے کہ آگ کا تزکیہ ہوگیا، یعنی آگ کی حرارت کو آپ اُبھار کر اُوپر لے آئے۔ اس کو آگ کا تزکیہ کہیں گے۔

عربی زبان میں جانور کو ذبح کرنے کے لیے تزکیہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کا خون، اس کی روح، اس کے جسم کی حرارت، آپ ذبح کر کے اس کو اُبھار لاتے ہیں تاکہ وہ بالکل خارج ہوجائے۔ اس کے اندر کچھ باقی نہ رہے۔

یہاں اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکل آئی کہ جس کا تزکیہ نہیں کیا گیا وہ مُردار کی تعریف میں ہے۔ کسی مجموعے کے اندر سے جب استثنیٰ ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر یہ استثنیٰ موجود نہیں ہے تو وہ اس مجموعے میں شامل ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ فلاں فلاں چیزیں حرام ہیں سواے ان کے جن کا تم نے تزکیہ کرلیا۔ مطلب یہ ہے کہ صرف یہی حلال ہے۔ اگر تزکیہ نہیں کیا گیا تو یہ حرام ہے۔

تزکیہ کا مفھوم

آیئے دیکھیں کہ تزکیہ کے کیا معنی ہیں؟

تزکیہ کی وضاحت چونکہ قرآنِ مجید میں نہیں کی گئی ہے، اس لیے اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کی وضاحت کرنے کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد تھا۔ یہ بات واضح ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے اور بار بار اس کی فرضیت کا حکم دیتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ کتنی رکعتیں پڑھو؟ اس کی کیا شکل ہو؟ کیا شرائط ہیں؟ کیا اس کے ارکان ہیں؟ کیا اس میں فرائض ہیں؟ یہ ساری چیزیں قرآنِ مجید میں بیان نہیں کی گئیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جس کو لوگوں کی رہنمائی کے لیے قرآن دے کر بھیجا گیا تھا اس کا یہ کام تھا کہ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ اس حکم پر عمل کیسے کیا جائے؟ ایسا ہی معاملہ تزکیہ کا ہے۔

جب یہ فرما دیا گیا اور اتنا اہم حکم ہے کہ آپ جو غذا استعمال کر رہے ہیں اس کی حُرمت اور حلّت کے درمیان فرق اس تزکیے سے واقع ہوگا۔ یہ بڑا اہم حکم ہے جس کا روزمرہ زندگی میں سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اس لیے احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ تزکیے کی جگہ ٹھوڑی اور لبلبے کے درمیان والی جگہ ہے جسے لبّہ کہتے ہیں۔ یہ تزکیے کا مقام ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حضوؐر نے اس بات کو اور زیادہ واضح کر دیا کہ جانور کو گردن کے پیچھے سے ذبح نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے کہ اگر گردن کی پشت کی طرف سے ذبح کیا جائے گا تو سب سے پہلے حرام مغز جو دماغ سے جسم کا تعلق جوڑتا ہے، یہ پہلے کٹ جائے گا۔ جب یہ پہلے کٹ گیا تو اس صورت میں چونکہ جسم کے اندر جان ہی باقی نہیں رہے گی، موت فوراً واقع ہوجائے گی۔ اس لیے خون کھچ کر باہر نہیں آئے گا۔ یعنی مُنْخَنِقَۃُ (گلاگھٹ کر)، موقوذہ (چوٹ کھاکر)، متردیۃ (بلندی سے گرکر)اور نطیعۃ (ٹکر کھاکر) وغیرہ کی مُردار ہونے کی جو حلت بیان کی گئی ہے کہ تزکیے کے بغیر وہ سارے کے سارے حرام ہوجائیں گے کیونکہ وہ مُردار کے حکم میں ہیں۔

اس شکل میں بھی تزکیہ نہیں ہوتا جب پیچھے سے جانور کو ذبح کر دیا جائے۔ لکات جس کو حرام مغز کہتے ہیں جو جسم سے دماغ کا تعلق جوڑتا ہے۔ جب تک اس کے ذریعے سے جسم اور دماغ کا تعلق جڑا رہے تو اس صورت میں موت فوراً واقع نہیں ہوسکتی۔

دوسرا یہ کہ اس صورت میں جانور دیر تک تڑپے گا، حرکت کرے گا اور پھڑپھڑائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سامنے سے ذبح کرنے کی صورت میں جو دروازہ کھل گیا ہے، اس سے خون تیزی سے نکلے گا اور اس کے باربارحرکت کرنے یا پھڑپھڑانے سے ایک ایک قطرہ نکل کر باہر آجائے گا اور گوشت پوری طرح سے خون سے صاف ہوجائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ بتایا، احادیث میں تصریحات ہیں اور جن کی بنا پر فقہاے کرام نے نتائج اخذ کیے ہیں۔ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حلقوم (حلق) اور مری جس میں سے جانور اور انسان کی غذا گزرتی ہے، اور وہ دو رگیں جو حلقوم اور مری کو درمیان میں لیے ہوئے ہیں، جسے شہ رگ (jubler vain) کہتے ہیں، یہ چاروں کی چاروں کٹنی چاہییں۔ حرام مغز جڑا رہے اور یہ چاروں کی چار جب کٹ جائیں گی، تب پوری طرح سے خون کھچ کر باہر آئے گا۔ اگر یہ چاروں نہ کٹیں تو مری اور حلقوم کٹنے کے بعد ایک شہ رگ کٹ جائے، اگر دونوں نہ بھی کٹیں تو کم از کم ایک شہ رگ کٹ جائے۔ اس کے بغیر خون چونکہ باہر نہیں آسکتا اس لیے تزکیہ مکمل نہیں ہوسکتا۔

اب آپ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ کے الفاظ بیان فرما کر ان تمام جانوروں کو حرام قرار دے دیا جن کا باقاعدہ تزکیہ نہ کیا گیا ہو۔ اس لیے اگر کوئی ایسی چیز یا ایسا ذریعہ جانور کو ذبح کرنے کا اختیار کیا جائے جس سے تزکیہ نہیں ہوتا تو وہ مُردار کے حکم میں آئے گا۔ یک لخت اگر جانور کو ذبح کیا جائے گا، یعنی ایک ہی وار میں اس کی گردن کٹ کر الگ ہوجائے گی، تو وہ تزکیے کے بغیر چونکہ مرے گا اس وجہ سے وہ حرام ہے۔

ذبح کرتے ھوئے اللّٰہ کا نام لینے کی حکمت

اس کے بعد فرمایا:

وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ(المائدہ ۵:۳) اور جو ذبح کیا استھانوں پر۔

نُصب کسی ایسے پتھر، لکڑی یا کسی ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کسی جگہ اس غرض کے لیے نصب کر دی گئی ہو کہ غیراللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔ بتوں کے استھان، یعنی مشرکین اپنی مشرکانہ قربانیوں کے لیے جو قربان گاہیں بنا لیا کرتے تھے وہ سب نُصب تھیں، قطع نظر اس کے کہ وہاں کوئی قبر ہو، یا وہاں کوئی لکڑی یا پتھر گاڑ دیا جائے،یا وہاں کوئی بت ہو یا کوئی اور چیز ہو۔

یہ گویا تشریح ہے۔ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ  کی۔ اس سے آدمی یہ بات سمجھے گا کہ ذبح کرتے ہوئے اللہ کے نام کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے، تب وہ حرام ہوگا۔ گویا غیراللہ کا نام نہ لیا جائے۔ یہاں واضح کردیا گیا ہے کہ اگر استھان پر لے جاکر ذبح کیا گیا ہے تو خواہ کسی دوسرے کا نام نہ بھی لیا گیا ہو، تب بھی یہ حرام ہوگا۔ یعنی ذبح کرنے کی ایک شکل یہ ہے کہ اللہ کا نام لیا اور   اس کے ساتھ کسی اور کا نام لیا۔ ایک شکل اس کی یہ ہے کہ اللہ کا نام بھی نہیں لیا اور کسی اور کا بھی نہیں لیا۔ ایک شکل یہ ہے کہ صرف غیراللہ کانام لیا۔ شریعت اس شکل کو بھی حرام کرتی ہے جس میں    اللہ کے ساتھ کسی اور کا نام لے لیا جائے جو کہ صریح شرک ہے۔ شریعت اس کو بھی حرام کرتی ہے جس میں اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔ شریعت اس کو بھی حرام کرتی ہے جس میں اللہ کا نام نہیں لیا گیا، غیراللہ کا نام بھی نہیں لیا گیا مگر اسے ایک آستانے پر لے جاکر ذبح کیا جائے۔آستانے پر لے جاکر ذبح کرنا خود اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ نیت غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کی ہے چاہے غیراللہ کا نام نہیں لیا گیا۔

اس چیز پر اللہ تعالیٰ نے اتنا زور کیوں دیا ہے؟ یہاں میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو کیوں اہمیت دیتا ہے کہ جانور کو ذبح کرتے ہوئے اسی کا نام لیا جائے، کسی اور کا نام نہ لیا جائے اور اس کا نام ضرور لیا جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جب ایک غلام اپنے مالک کے مال میں تصرف کرنے لگے اور کوئی اس سے پوچھے کہ میاں یہ تم کس اختیار کی بنا پر تصرف کر رہے ہو تو وہ کیا کہے گا؟ میرے مالک نے مجھے اس کی اجازت دی ہے۔ اس کے نام پر مَیں تصرف کر رہا ہوں اور اس کی طرف سے کر رہا ہوں۔ اس نے چونکہ اجازت دی ہے اس لیے کر رہا ہوں۔ گویا ملکیت ِ حق کو تسلیم کرنا ہے یہ کہنا کہ مَیں مالک کی اجازت سے یہ کر رہا ہوں۔ ورنہ اس کے بغیر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ خود مالک بنے ہوئے ہیں۔ آپ مالک کے حقِ مالکانہ کا اعتراف نہیں کرتے۔

جانوروں کے بارے میں خاص طور پر کیوں کہا گیا ہے کہ ان کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لو؟ اسی وجہ سے کہ اگر آپ تزکیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ آپ جیسی دوسری جان دار مخلوق کے اُوپر اس نے آپ کو تصرف کے اختیارات دیے ہیں۔ باقی جتنی چیزوں پر آپ تصرف کر رہے ہیں وہ بے جان ہیں لیکن آپ ہی کی طرح دوسری جان دار مخلوق موجود ہے جس کے اندر آپ ہی جیسی جان ہے، اس کے اُوپر تصرف کا اختیار اس نے دیا ہے۔   یہ اس کا احسانِ عظیم ہے۔

دنیا میں جو تہذیب پھیلی ہے اس میں اس کا کتنا بڑا عمل دخل ہے۔ وہ آپ کے لیے سواری کا ذریعہ بنے۔ وہ آپ کے لیے پوشش کا ذریعہ بنے۔ وہ آپ کے لیے غذا کا ذریعہ بنے۔ ان کا گوشت اور دودھ غذا کا ذریعہ ہے اور ان سے نامعلوم کتنی چیزیں آپ بناتے ہیں۔ وہ ساری کی ساری آپ کے لیے غذا کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کے بال آپ کی ضروریات کا ذریعہ ہیں۔ ان کی ایک ایک چیز آپ کی غذا اور ضروریات کا ذریعہ بنائی گئی اور آپ کی ضروریات اس سے پوری کی گئیں، آپ کی پوشش کا ذریعہ اسے بنایا گیا۔ حالانکہ یہ وہ جانور ہیں جن کی ایک ٹکر آپ نہیں   سہہ سکتے۔ بیل، گائے، ہاتھی اور اُونٹ کو آپ دیکھیے، ان کی ایک ٹکر آپ نہیں سہہ سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیارات دیے اور طاقتیں عطا فرمائیں کہ آپ ان پر تصرف کر رہے ہیں۔ وہ آپ کے سامنے بے بس ہیں۔ جب چاہتے ہیں آپ ان کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے ہیں اور وہ ہل نہیں سکتے۔ جس طرح سے چاہیں ان کو پکڑ کر ان کا دودھ نکال لیتے ہیں۔ ذرا بھینس کو دیکھیے، اس کی طاقت کو ملاحظہ کیجیے، اور آپ کے آگے اس کے اس طرح سے بے بس ہوجانے کو دیکھیے کہ آپ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچے کو محروم کر کے اس کا دودھ نچوڑتے ہیں اور وہ نچوڑواتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان جو کیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ جب آپ اسے ذبح کرنے لگیں تو اللہ کا نام لے کر، اس کی اجازت سے ذبح کریں کہ اس مالک کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ عطا کی ہے اور اس کی اجازت سے ہم اسے ذبح کر رہے ہیں۔

اگر آپ ذبح کرتے ہوئے اس کا نام نہیں لیں گے تو آپ کو یہ غفلت لاحق ہوگی اور رفتہ رفتہ آپ اس غلط فہمی میں پڑجائیں گے کہ آپ ہی مالک ہیں اور آپ ہی کو یہ اختیار ہے کہ جس کو چاہیں زندہ رکھیں اور جس کو چاہیں کاٹ دیں۔ جس کو چاہیں آپ قتل کریں اور جس کو چاہیں زندہ رہنے دیں۔ جیساکہ نمرود نے کہا تھا کہ انا ابی وامی۔اس کا خدشہ ہے کہ آپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اس وجہ سے آپ کے عقیدے کو بچانے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ذبح کرتے وقت آپ اللہ کا نام لیں۔ غیراللہ کا اگر آپ نام لیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے مالک کو بھول کر جو مالک نہیں ہے اس کا نام لے رہے ہیں۔ اگر آپ اس کا نام نہیں لے رہے تو آپ اپنے مالک سے غافل ہیں اور خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس کا نام آپ لیں گے تو آپ کا عقیدہ صحیح ہوگا اور صحیح طور پر ایک موحد انسان اور اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان اور مطیع انسان بن کر رہیں گے۔

اس کے ساتھ فرمایا: وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ (۵:۳) ’’تمھارے لیے یہ بات حرام کی گئی کہ تم پانسوں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرو‘‘۔

پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے کی مختلف شکلیں ہیں۔ عرب میں اس کی مختلف شکلیں رائج تھیں۔ ایک شکل یہ تھی کہ بت سے معلوم کیا جائے کہ ہم میں سے کس کا کیا حصہ ہونا چاہیے؟ ہماری قسمت کیا ہے؟ اور ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کعبہ میں ہبل کے پاس تیر رکھے ہوئے تھے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ یہ کام کرو اور یہ نہ کرو۔ اس طرح کی مختلف عبادتیں ان پر لکھی ہوئی تھیں۔ جو تیر نکل آتا تھا اس کے معنی یہ تھے کہ ہبل کا یہ فیصلہ ہے کہ آپ یہ کام کریں۔ہبل نے آپ کو اس کی اجازت دی ہے کہ آپ یہ کام کریں یا اس کی اجازت نہیں دی ہے کہ آپ یہ کام   نہ کریں۔

یہ تمام احکام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ(۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں، لہٰذا اب تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔

پہلے لفظ الیوم کا مفہوم سمجھ لیجیے۔

کبھیالیوم کے معنی واقعی یہ ہوتے ہیں کہ آج کے دن یہ بات ہوئی اور کبھی اس کے معنی ’اب‘ کے ہوتے ہیں، یعنی جس زمانے میں، یا یہ وہ وقت ہے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ کہتے ہیں کہ آج حالات یہ ہیں۔ آج دنیا کا رنگ بگڑا ہوا ہے۔ آج لوگوں کی اخلاقی حالت خراب ہو رہی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج کے روز یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ زمانۂ ماضی کا ذکر نہیں ہے بلکہ زمانۂ حال کا ذکر ہے۔ اب وہ حالات ہیں کہ جن میں یہ واقعات پیش آئے ہیں۔

اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے کہ جب کفار مسلمانوں کے دین سے مایوس ہوگئے۔ دراصل یہ تاریخ کا ایک خاص اور مرحلہ اور stage تھا جس میں کفّار مسلمانوں سے مایوس ہوئے۔

کفّار کی طرف سے مایوس ہونے کا مطلب کیا ہے؟

ایک وہ وقت تھا کہ کفّار یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ ہم لالچ سے، یا دھوکا دے کر، یا دبائو ڈال کر، یا دھمکیاں دے کر کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر لیں گے۔ اس اُمید کے اُوپر وہ لڑ رہے تھے۔اپنی چالیں چل رہے تھے اور اپنی ساری تدبیریں کر رہے تھے اس اُمید پر وہ ظلم و ستم بھی ڈھا رہے تھے۔ اس اُمید پر وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ بھی دے رہے تھے، فریب بھی دے رہے تھے۔ یہ سارے کام وہ کر رہے تھے۔

ایک مرحلہ وہ آیا جب کفار کو معلوم ہوگیا کہ یہ اب ہلائے ہلنے والے نہیں۔ یہ دین جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، یہ اب ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہ اب قائم ہوگیا ہے اور یہ ہمارے مٹائے مٹ نہیں سکتا۔ مسلمان بھی اسلام پر ثابت قدم ہیں۔ اب ان کو ہٹایا نہیں جاسکتا، اور دین اسلام کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری طاقت سے اب باہر ہوگیا ہے۔

 یہ بات کس وقت پیش آئی؟

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مائدہ کا بڑا حصہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے۔  صلح حدیبیہ وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح میں صاف الفاظ میں فتح مبین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فتح مبین تھی جس سے یہ فیصلہ ہوگیا، پورے عرب کو یہ معلوم ہوگیا، کفار کو بھی معلوم ہوگیا اور مسلمانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ اب کفار کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ اب مسلمانوں کی چڑھ بن آئی ہے۔ اب مسلمانوں کے چڑھائو کا وقت ہے اور کفار کے اُتار کا وقت ہے۔ اس موقع کے اُوپر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اب وہ وقت آگیا ہے کہ کفّار تمھارے دین سے متعلق اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اس کو مٹا سکیں۔ تمھارے دین کو اب یہ طاقت حاصل ہوچکی ہے کہ اب یہ کفار کے مٹائے نہیں مٹے گا۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم ان سے خوف کھائو۔ پہلے توایک آدمی کے لیے اس بات کا خطرہ تھا کہ وہ صاف صاف اور کھلم کھلا اگر احکامِ الٰہی کی پابندی کرے گا تو اس کی پٹائی ہوگی۔ اس کو گھر سے نکال باہر کیا جائے گا۔اس کا مال چھین لیا جائے گا۔ اس کے اُوپر ظلم وستم ڈھائے جائیں گے۔ اس وجہ سے آدمی کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے اور  کھلم کھلانماز پڑھ سکے۔ ایک وقت ہمارے ملک میں ایسا آچکا ہے کہ ایک مسلمان کو پارکوں میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ مذاق اُڑایا جائے گا کہ لیجیے مُلّاجی نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہاں حالات خراب تھے۔

جب اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ کفار کو معلوم ہوگیا کہ اب یہ ہلاے نہیں ہلتے۔ اب ان کی ایک مضبوط آیات قائم ہوگئی ہے۔ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو ہمیں یہ شکست دے ڈالیں گے۔ جنگ ِ اَحزاب میں جس وقت کفار اپنا پورا زور لگاکر ناکام ہوکر چلے گئے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ اب وہ وقت آگیا کہ یہ تم پر چڑھ چڑھ کر آرہے تھے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے۔ پہلے ہم defenceive تھے، اب یہ defencive پوزیشن میں ہیں۔ اب ان کو دفاع کرنا پڑے گا۔ ان کے چڑھائو کا وقت گزر گیا۔

یہ وہی چیز ہے جب مسلمانوں کو یہ مقام حاصل ہوگیا تو اللہ نے کہا کہ اب تمھارے لیے میرے احکام کی پوری پوری اور کھلم کھلا تعمیل کرنے کا کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ پہلے وقت تھا خطرے کا اور خوف کا، لیکن اب یہ حالت نہیں ہے۔ اب اگر تم پیچھے ہٹے، اب اگر تم نے میرے احکام کی پوری پوری تعمیل کرنے میں تامّل کیا، تو اس کے بعد تم پکڑے جائو گے۔ اب ان سے ڈرنے کی تمھاری کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

اس سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر مسلمان کسی مقام پر ، کسی علاقے میں، دنیاکے کسی ملک میں محکوم ہوں، غلام ہوں، ان کے پاس طاقت نہ ہو۔ دوسرے کے احکام ان پر جاری ہو رہے ہوں، ان کے احکام دوسروں پر جاری نہ ہو رہے ہوں۔ ان کے پاس خود اپنے احکام جاری کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے اس بات کا عذر ہے اگر وہ کسی حکم کی تعمیل نہ کرسکیں کہ ہم بے بس ہیں۔ ہمیں کفّار کا خطرہ تھا۔ اب بھی ہندستان میں مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ایک مقام پر اگر وہ اذان دیں تو اس بات کا خطرہ ہے کہ ان پر حملہ کردیا جائے گا۔ رانچی میں یہ واقعہ پیش آچکا ہے۔ چنانچہ جن حالات میں مسلمان دبے ہوئے ہوں، مغلوب ہوں، کفار چیرہ دست ہوں اور اسلام کی دشمنی پر تلے ہوئے ہوں، ان حالات میں اگر کچھ احکام پر مسلمان عمل نہ کرسکیں، اپنی پوری کوشش کے باوجود کچھ احکام پر عمل کرنے میں ناکام رہ جائیں تو ان کے لیے عذر ہے۔

لیکن ایک وہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی بیرونی یا اندرونی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپ کے پاس وہ طاقتیں موجود ہیں جن سے آپ اپنے معاشرے میں پورے پورے اسلامی احکام نافذ کرسکیں۔ کفّارِ ہند یا کفّار انگریز جن سے آپ کل مغلوب تھے، وہ اب اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ بیرونی دنیا بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ریاست قائم رہنے کے لیے بنی ہے، اب یہ ختم نہیں ہوسکتی۔ اب مسلمانوں کے پاس اپنی طات ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں یہاں یہ بات فرمائی گئی ہے۔

فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ(۵:۳) اب تمھارے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ تم کسی سے ڈرو، اب مجھ سے ڈرو۔

’مجھ سے ڈرو‘ کا مطلب یہ ہے کہ میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تمھیں    مجھ سے ڈرنا چاہیے۔ اب تمھارے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وہ طاقت آجائے کہ کسی سے خدا کے سوا ڈرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ اس صورت میں اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر یا ان سے متاثر ہوکر احکامِ الٰہی میں ترمیمات کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں، تو اس کے بعد دنیا میں بھی خدا کے عذاب کا خوف ہے اور آخرت میں بھی۔

اب کون سی معقول وجہ ہے کہ آپ یہ روش اپنائیں۔ میں آپ کو مثال دے کر بتاتا ہوں کہ یہیودی تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی وہ رہتے ہیں، اپنی بستیاں الگ بساتے ہیں، اپنے محلے الگ بساتے ہیں، ان کی آبادیاں الگ ہوتی ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں، اپنے لیے ذبیحہ کا پورا انتظام کرتے ہیں جس طرح کہ آپ اس ملک میں کرتے ہیں۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے، امریکا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جس جگہ انھوں نے اپنے ذبیحہ کے خود انتظامات نہ کیے ہوں۔

butcher meat مشہور ہے، جسے چاہیے وہ حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی جس ذبیحہ کو وہ حلال نہیں سمجھتے اسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ جس ذبیحہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں، ذبیحہ کے جو احکام ہیں اس کے مطابق دنیا کے ہر حصے میں انھوں نے ذبیحہ کا انتظام کیا ہوا ہے۔

مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اس وقت انگلستان میں تین لاکھ مسلمان ہیں۔ صرف پیرس میں پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس وقت فرانس میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔صرف پیرس شہر میں پانچ لاکھ مسلمان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یورپین ممالک میں تو ہمارے حلال کھانے کا حصول بڑا مشکل ہے۔ ہم کیسے کھانا کھائیں؟ ہمارے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم مشینوں کے کٹے ہوئے ذبیحہ کو کھائیں۔ حلال ذبیحہ ہمیں کہاں میسر ہے۔ نتیجہ کیا ہوا کہ علماے کرام بالخصوص مصر اور شام کے علماے کرام نے بے تکلف فتویٰ دے دیا کہ خدا کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، مشینوں سے ذبح ہو یا ہاتھ سے ذبح ہو، مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم ذبح کرے، کھائو۔

یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی تھی کہ اب تمھارے لیے خوف کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر تم نے میرے احکام کی تعمیل کرنے مین کوئی تعامل کیا تو پھر ڈرو مجھ سے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں بھی میرے عذاب سے ڈرو اور آخر ت میں بھی میرے عذاب سے ڈرو۔

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

یہ ’آج‘ بھی اسی معنی میں ہے جو میں نے پہلے کیا تھا۔ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے بلکہ تاریخ کا خاص مرحلہ اور ایک خاص دور ہے۔

یہ بھی سمجھ لیجیے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ اس سورہ کے نزول کے وقت نازل ہوئی اور دوسرا اس موقع پر جب ۱۰ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام مکمل ہوگیا۔ تو اس موقع  پر یہ نازل ہوئی تھی۔ یہ وقت تھا جب آپؐ آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپس جارہے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد لوگوں کی سمجھ میں بات پوری طرح سے نہیں آئی تھی کہ کیا کہا جا ہا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن پوری طرح سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا اور اندھوں کو بھی نظر آنے لگا کہ اب آپؐ کا مشن تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ اس وقت اس آیت کو پھر دہرایا گیا کہ یہ وہ دور ہے جب اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا۔

دین کو مکمل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم کو دنیا میں جس جس چیز کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ پوری کی پوری ہدایت دے دی گئی ہے۔ جہاں مفصل قوانین بتانے کی ضرورت تھی وہاں مفصل قوانین بتادیے گئے ہیں، جہاں اصول دینے کی ضرورت تھی وہاں اصول دے دیے گئے۔ بہرحال اب تمھارا دین مکمل ہوگیا ہے۔

وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(۵:۳) اور میں اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔

اتمامِ نعمت کے دونوں معنی ہیں: ہدایت کی نعمت بھی تمام کردی، اور تم کو وہ اقتدار بھی بخش دیا جس سے تم میرے احکام کی تعمیل خود کرسکو اور دنیا میں میرے احکام کو نافذ کرسکو۔ اس میں دونوں نعمتیں ہیں، یعنی نعمت ِ ہدایت کی تکمیل بھی، اور اس نعمت کی تکمیل بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مغلوب نہیں رہنے دیا۔ مسلمانوں کو وہ طاقت عطا فرما دی کہ جس سے ان کو اس حالت سے نکال دیا کہ جس سے وہ اس کے احکام کی تعمیل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے، اور اس حالت کو پہنچا دیا جس میں وہ اس کے احکام کی تعمیل پوری طرح سے کرسکتے تھے اور دنیا میں اس کے احکام کو نافذ کرنے اور اس کے احکام کو غالب کرنے کے لیے جہاد کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت عطا کر دی تب فرمایا کہ میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (۵:۳) پھر اگر کوئی شخص مضطر ہو، مخصمے کی حالت میں ہو، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو، تو اللہ غفور و رحیم ہے۔

معلوم ہوا کہ جو چار چیزیں اُوپر بیان کی گئی ہیں، یعنی مُردار، خون، لحم، خنزیر اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، یا جو اللہ کے نام کے بغیر کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو۔ ان چاروں چیزوں کو جو چیز حلال کرنے والی ہے تو وہ وہ حالت ہے جس میں اضطرار لاحق ہو، مخمصے کی حالت ہو، اور آدمی گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ اس صورت میں ان میں سے کوئی ایک چیز اگر آدمی استعمال کرے تو پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پر حرام ہیں، کسی حالت میں ان میں اباحت کی گنجایش نہیں نکلتی، جیسے زنا۔ کسی حالت میں اس کے جواز کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ کسی حالت میں وہ مباح نہیں ہے۔

بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اضطرار کی حالت لاحق ہوجائے تو اس صورت میں ان کی حُرمت میں اباحت ہے۔ حُرمت کا حکم باقی رہے گا لیکن اضطرار کی وجہ سے عارضی طور پر وہ حُرمت ختم ہوجائے گی اور وہ مباح ہوجائے گی جب تک کہ وہ حالت باقی ہے۔ اضطرار اگر لاحق نہ ہو تو حرام چیز کی طرف جانے والا سخت گناہ گار ہے کیوں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہوا ہے۔

اضطرار کی حالت میں اگر وہ کوئی حرام چیز کھائے تو اس کے ساتھ شرط کیا ہے؟ فِیْ مَخْمَصَۃٍ ،یعنی ایسا سخت اضطرار ہے کہ جس میں آدمی کے لیے صبر کرنا اور برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کی جان کو خطرہ ہو۔ کوئی ایسی شدید تکلیف ہو کہ وہ برداشت سے باہر ہے۔ اور اس تکلیف کو رفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ حرام شے کو استعمال کیا جائے۔ اس صورت میں آدمی جس قدر ضرورت ہو اس کو استعمال کرسکتا ہے۔

یہاں غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ کی شرط لگائی گئی، یعنی یہ کہ اس وقت بھی آدمی کا دل گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ آدمی یہ خیال نہ کرے کہ چلو اچھا ہوا پانی نہیں مل رہا ہے، سخت پیاس کی حالت ہے، اب اس وقت موقع تو ملا ہے ذرا شراب چکھنے کا۔ اگریہ جذبہ پیدا ہوگیا تو وہ چیز حرام ہوگئی کیونکہ آدمی گناہ کی طرف مائل ہوگیا۔ اس سے نفرت باقی رہے، آدمی اس کو گناہ سمجھتا رہے کہ یہ حرام ہے، اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اجازت دی ہے مجبوراً اس اجازت سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ورنہ ہے تو حرام۔ لیکن گناہ کی طرف اگر مائل ہے تو پھر اجازت نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کو شدید بھوک لاحق ہوگئی اور اس کو کوئی چیز کھانے کے لیے نہیں مل رہی سواے سور کے گوشت کے۔ اب اس صورت میں وہ اتنا کھائے گا جتنا اس کی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہیں کرے گا کہ ……… سور کا گوشت اچھی طرح سے حاصل کیا۔ اس کے کچھ کباب بنائے، کچھ شامی کباب بنائے، اس کے ساتھ کچھ پراٹھے تیار کرنے کی فکر کرے اور یہ سوچے کہ ان کے ساتھ کھائوں۔    یہ جائز نہیں ہے۔ گناہ کی طرف اس کی ذرہ برابر رغبت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ حرام چیز ہے اور مجبوراً اسے کھا رہا ہوں۔

اب اگر ان میں سے کوئی چیز آدمی بغیر کسی اضطرار کے استعمال کرتا ہے، خود انتخاب کرتا ہے کہ میں اب ایسے طریقے سے ذبیحہ کروں گا جس میں تزکیہ نہ ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اضطرار لاحق نہیں ہے، کوئی مخمصہ لاحق نہیں ہے، صرف گناہ کی طرف جانے کا جذبہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں ہے۔ ورنہ ایک آدمی ہزار مرتبہ سوچے گا کہ میں اگر کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس کے اندر حرام ہونے کا امکان ہو کجا کہ حرام ہونے کا یقین ہو، تو وہ کبھی نہ کرے گا۔

اگر کوئی شخص یا حکمران حلال و حرام کے اتنے واضح احکامات کے بعد بھی حرام کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے۔ اب تو ہم انگریز یا ہندو سے مغلوب نہیں ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبہ  عطا کردیا ہے۔ اب تو ہمیں وہ طاقت اور وسائل دے دیے ہیں کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ اب تو ہمیں دنیا میں اللہ کے احکامات کے نفاذ اور اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد کرنا چاہیے نہ کہ ہم حرام کو حلال کرنے کے لیے بہانے تلاش کرتے پھریں۔مضبوط دلائل تو موجود ہیں۔

ایسی صورت میں کسی آدمی کا یہ تلاش کرتے پھرنا کہ فلاں چیز کو کسی نہ کسی طرح حلال کرلیا جائے۔ یہ اس آدمی کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اس شخص کا کام نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا ہو۔

اب اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر احکام الٰہی میں ترمیم کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے بعد وہ دنیا میں بھی خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے اور آخرت میں بھی خدا کے عذاب کا سامنا کریں گے۔ لہٰذا اب تمھارے پاس کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ دانش مندی اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دنیاوالوں سے ڈرنے کے بجاے اللہ سے ڈرو۔ مسلمانوں کی عظمت و سربلندی اور غلبہ دین کی راہ بھی یہی ہے۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے بل پر جس بحث کا آغاز ہوا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مجوزہ بل سے ہوتی ہوئی ہمارے اخبارات کے کالموں اور برقی ذرائع ابلاغ کے چینلوں پر خواتین پر تشدد تک آگئی۔ کئی کالم نگار اور وزیرقانون پنجاب حدیں پار کرگئے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے خواتین کے حقوق پر مکمل کتاب حقوق الزوجین لکھی ہے جو آج بھی حسب ِ حال ہے۔ اس کا ایک مختصر حصہ جو خاص اس پہلو سے متعلق ہے جو کچھ زیادہ ہی موضوع بنا ہوا ہے، پیش کیا جارہا ہے۔ جو مسئلے کے ہرپہلو سے تفصیل سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں، اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔(ادارہ)

اگر عورت اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے یا اس کے حقوق میں سے کسی حق کو تلف کرے تو ایسی صورت میں مرد پر لازم ہے کہ پہلے اس کو نصیحت کرے، نہ مانے تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے برتائو میں حسب ِ ضرورت اس کے ساتھ سختی کرے،اور اگر اس پر بھی نہ مانے تو وہ اس کو مار سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی اطاعت کرنے لگے:

وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ط(النساء ۴:۳۴)  اور جن عورتوں سے تم نشوز۱؎ دیکھو ان کو نصیحت کرو اور بستروں پر ان کو چھوڑ دو اور ان کو مارو۔ اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو پھر ان پر سختی کرنے کا کوئی طریقہ نہ ڈھونڈو۔

اس آیت میں وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ (یعنی بستروں پر ان کو چھوڑ دو) فرما کر  سزا کے طور پر ترکِ مباشرت کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر آیت ِایلاء (البقرہ ۲:۲۲۷) نے اس کے لیے ایک فطری حدمقرر کر دی ہے کہ یہ بستر کی علیحدگی چار مہینے سے زیادہ نہ ہو۔ جو عورت اتنی نافرمان اور شوریدہ سر ہو کہ شوہر ناراض ہو کر اس کے ساتھ سونا چھوڑ دے اور وہ جانتی ہو کہ چار مہینے تک یہ حالت قائم رہنے کے بعد شوہر ازروے احکامِ الٰہی اس کو طلاق دے دے گا، اور پھر بھی وہ اپنے نشوز سے باز نہ آئے، وہ اسی قابل ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ چار مہینے کی مدت ادب سکھانے کے لیے کافی ہے۔ اس سے زیادہ مدت تک یہ سزا دینا غیرضروری ہوگا۔ کیوںکہ اتنے دن تک اس کا نشوز پر قائم رہنا، یہ جانتے ہوئے کہ اس کا نتیجہ طلاق ہے، اس بات کی دلیل کے کہ اس میں ادب سیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، یا وہ حُسنِ معاشرت کے ساتھ کم از کم اس شوہر سے نباہ نہیں کرسکتی۔ نیز اس سے وہ مقاصد بھی فوت ہونے کا اندیشہ ہے جن کے لیے ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ رشتۂ مناکحت میں باندھا جاتا ہے۔ ممکن ہے ایسی حالت میں شوہر اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے کے لیے کسی ناجائز طریقے کی طرف مائل ہوجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عورت کسی اخلاقی فتنے میں مبتلا ہوجائے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ جہاں میاں بیوی میں سے ایک اس قدر ضدی اور شوریدہ سر ہو وہاں زوجین میں مؤدت و رحمت قائم نہ ہوسکے گی۔

امام سفیان ثوری سے وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ کے معنی میں ایک دوسرا قول منقول ہے۔ وہ کلام عرب سے استدلال کرکے کہتے ہیں کہ ھجر کے معنی، باندھنے کے ہیں۔ ھَجَرَ الْبَعیْرا اذا ربطہ صَاحِبْہٗ بِالْھِجَارِ۔ ہجار اُس رسّی کو کہتے ہیں جو اُونٹ کی پیٹھ اور ٹانگوں کو ملا کر باندھی جاتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ جب وہ نصیحت نہ قبول کریں تو گھر میں ان کو  باندھ کر ڈال دو۔ لیکن یہ معنی قرآنِ مجید کے منشاء سے بعید ہیں۔ فِی الْمَضَاجِعِ کے الفاظ میں قرآن نے اپنے منشا کی طرف صاف اشارہ کر دیا ہے۔ مضجع سونے کی جگہ کو کہتے ہیں اور سونے کی جگہ میں باندھنا بالکل بے معنی بات ہے۔

دوسری سزا جس کی اجازت زیادہ شدید حالات میں دی گئی ہے، مارنے کی سزا ہے۔ مگر اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قید لگادی ہے کہ ضربِ شدید نہ ہونی چاہیے:

اِضْرِبُوْھُنَّ اِذَا عَصَیْنَکُمْ فِی الْمَعْرُوْفِ ضَرْبًا غَیر مُبَرَّحٍ وَلَا بِضَرْبِ الْوَجْہِ وَلَا یقبح،اگر وہ تمھارے کسی جائز حکم کی نافرمانی کریں تو ان کو ایسی مارمارو جو زیادہ تکلیف دہ نہ ہو۔ منہ پر نہ مارے اور گالم گلوچ نہ کرے۔

یہ دو سزائیں دینے کا مرد کو اختیار دیا گیا ہے مگر جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، سزا اُس نافرمانی پر دی جاسکتی ہے جو مرد کے جائز حقوق سے متعلق ہو۔ نہ یہ کہ ہرجا و بے جا حکم کی اطاعت پر اصرار کیا جائے اور عورت نہ مانے تو اس کو سزا دی جائے۔ پھر قصور اور سزا کے درمیان بھی تناسب ہونا چاہیے۔ اسلامی قانون کے کلیات میں سے ایک کلیہ یہ بھی ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۲:۱۹۴) ’’جوکوئی تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے کی ہے‘‘۔ زیادتی کی نسبت سے زیادہ سزا دینا ظلم ہے۔ جس قصور پر نصیحت کافی ہے اس پر ترکِ کلام، اور جس پر ترکِ کلام کافی ہے اس پر ھجر فی المضاجع، اور جس پر ھجر فی المضاجع کافی ہے اس پر مارنا ظلم میں شمار ہوگا۔مار ایک آخری سزا ہے جو صرف شدید اور ناقابلِ برداشت قصور پر ہی دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی وہ حد ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے۔ اس سے تجاوز کرنے کی صورت میں مرد کی زیادتی ہوگی اور عورت کو    حق ہوجائے گا کہ اس کے خلاف قانون سے امداد طلب کرے۔ (حقوق الزوجین، ص۴۵-۴۸)

یہ نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں…

  •  اسلام کا مقصودِ حقیقی:مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹا کر خداے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سردھڑکی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃسب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں…
  •  اصلاح کی بنیاد: جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں بلکہ واقعی بادشاہ) تسلیم کر لیں اور اُس قانون پر جو خدا نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے بھیجا ہے، ایمان لے آئیں، اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اٹھیں، اُس کی رعیت میں سے جو لوگ باغی ہو گئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں اُن کا زورتوڑدیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔ نہیں، اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں بھی تمھاری سکونت ہو وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اٹھو، حکومت کے غلط اصول کوصحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شترِبے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق، آخرت کی ذمہ داری وجواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور جدوجہد کا نام جہاد ہے۔
  •  حکومت ایک کٹہن راستہ:حکومت اور فرمانروائی جیسی بد بلا ہے ہر شخص اُس کو جانتا ہے۔ اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اُٹھنے لگتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔ حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ آجانے کے بعد خدابننے سے بچنا اور بندۂ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔ پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بن گئے؟

لہٰذا اس شدید آزمایش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور  خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو۔ اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پاکر  تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ  تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو، تمھیں اس کامستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے، اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔

  •  عبادات__ ایک تربیتی کورس:یہ نماز اور روزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں۔ جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج ، پولیس، اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں، پھر اُن سے کام لیتی ہیں، اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام) بھی ان تمام آدمیوں کو، جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں، پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے، پھر اُن سے جہاد اور حکومت الٰہی کی خدمت لینا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جو کام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ انھیں صرف کارداں بنانے کی کوشش کرتی ہیں خواہ وہ کیسے ہی زانی، شرابی، بے ایمان اور بد نفس ہوں۔ مگر دینِ الٰہی کو جوکام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چوںکہ   سارا ہے ہی اخلاقی کام، اس لیے وہ انھیں کارداں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔

وہ ان میںاتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے، بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر وسرکش نہ ہوں بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں، بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں بہر حال دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔ اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتا ہے ، تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں، اب تم روے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو، لہٰذا آگے بڑھو۔ لڑکر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ … دوسرے تمام دینوںکی طرح دین اللہ بھی محض اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتا کہ آپ بس اس کے حق ہونے کو مان لیں اور اپنے اس اعتقاد کی علامت کے طور پر محض رسمی پوجا پاٹ کر لیا کریں۔ کسی دوسرے دین کے ماتحت رہ کر آپ اس دین کی پیروی کر ہی نہیں سکتے۔ کسی دوسرے دین کی شرکت میں بھی اس کی پیروی ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین کو حق سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اور یا تو اسے قائم کرکے چھوڑیں یا اسی کوشش میں جان دے دیں۔ یہی کسوٹی ہے جس پر آپ کے ایمان و اعتقاد کی صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔ آپ کا اعتقاد سچا ہوگا تو آپ کو کسی دوسرے دین کے اندر رہتے ہوئے آرام کی نیند تک نہ آ سکے گی کُجا کہ آپ اُس کی خدمت کریں اور اس خدمت کی روٹی مزے سے کھائیں اور آرام سے پائوں پھیلا کر سوئیں۔ اس دین کو حق مانتے ہوئے تو جو لمحہ بھی آپ پر کسی دوسرے دین کی ماتحتی میں گزرے گا  اس طرح گزرے گا کہ بستر آپ کے لیے کانٹوں کا بستر ہوگا، کھانا زہر اور حنظل کا کھانا ہوگا اور دینِ حق کو قائم کرنے کی کوشش کیے بغیر آپ کو کسی کل چین نہ آسکے گا۔ لیکن اگر آپ کو دین اللہ کے سوا کسی دوسرے دین کے اندر رہنے میں چین آتا ہواور آپ اس حالت پر راضی ہوں تو آپ مومن ہی نہیں ہیں، خواہ آپ کتنی ہی دل لگا لگا کر نمازیں پڑھیں، کتنے ہی لمبے لمبے مراقبے کریں، کتنی ہی قرآن و حدیث کی شرح فرمائیں، اور کتنا ہی اسلام کا فلسفہ بگھاریں…

  •  مومن صادق کی پھچان: جب اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین زمین میں قائم ہو اور کوئی مسلمان اپنے آپ کو اس حالت میں مبتلا پائے، تو اس کے مومن صادق ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اُس دینِ باطل کو مٹا کر اس کی جگہ دینِ حق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔ اگر کرتا ہے اور کوشش میں اپنا پورا زور صرف کر دیتا ہے، اپنی جان لڑا دیتا ہے اور ہر طرح کے نقصانات انگیز کیے جاتا ہے تو وہ سچا مومن ہے خواہ اس کی یہ کوششیں کامیاب ہوں یا ناکام۔ لیکن اگر وہ دینِ باطل کے غلبے پر راضی ہے یا اس کو غالب رکھنے میں خود حصہ لے رہا ہے تو وہ اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے۔(خطبات،ص۲۵۹-۴۷۸) (مرتب: امجد عباسی)

ایمان محض ایک مابعد الطبیعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رُو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے اور اس کے معاوضے میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات [جزئیات] کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع [معاہدہ] کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔

معاھدے کی نوعیت

جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیوںکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید وفروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے  خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیتاً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار، یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادے میں آزاد ہونا (free-will and freedom of choice)۔ اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہوجاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کردے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور ان اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں، مالک ہوگیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے، بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود ہی اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خدا کے حقوقِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہوکر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب ِ منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے، بلکہ اس معاملے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جوچیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا و رغبت (نہ کہ بہ مجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھر اس میں خودمختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کرلے، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خودبخود دست بردار ہوجا۔ اس طرح اگر دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو (جو تیری حاصل کردہ نہیں بلکہ میری عطا کردہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کردے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادا کروںگا۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کرلے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے، اور جو شخص اس سے انکار کردے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویّہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔

اللّٰہ سے معاھدے کے تقاضے

بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضَمُّنات  کا تجزیہ کیجیے:

۱- اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمایشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمایش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمایش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر   اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہوجائے۔

۲- دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رُو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضی شرع کسی کے غیرمومن یا خارج از ملّت ہونے کا حکم نہیں لگاسکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادعاے ملکیت سے کلیتاً دست بردار ہوجائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا، اپنے دل و دماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو،اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے مگر خدا کے ہاں یقینا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا، کیوںکہ اس نے خدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ   سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رُو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو، وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرزِعمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کردیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کرلینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔

۳- ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہرشعبے میں خدا کی مرضی کے تابع بن کر کام کرتاہے اور اس کے رویے میں کسی جگہ بھی خودمختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہوجائے اور وہ خدا کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کربیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ، اہلِ ایمان سے مرکب ہو، وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہوکر اختیار نہیں کرسکتا اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہوگا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہوکر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقاتِ نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا    نہ کریں، بہرحال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے، خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’مسلمان‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’غیرمسلم‘ کے نام سے۔

۴- اس بیع کی رُو سے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا، اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدۂ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدئہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا پورا رویۂ زندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبرؐ کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔

یہ اس بیع کے تضمنات ہیں، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خودبخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خریدوفروخت کے معاملے میں بھی قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا  نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا‘‘، بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے‘‘۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہوگی ، جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہوجائے اور   فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدئہ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحے تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۳۵-۲۳۷)

انسانی تاریخ سے مثالیں دینے کے بعد سورۂ ذاریات کے آخر میں آخرت کے حق میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت دی جارہی ہے۔

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۴۷) آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔

عربی زبان میں ید کے معنی صرف ہاتھ کے نہیں ہوتے بلکہ یہ لفظ طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں معاملہ فلاں شخص کے ہاتھ میں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی مٹھی میں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اختیار اور طاقت میں ہے۔

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍکا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی طاقت سے پیدا کیا ہے۔ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ’’اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں‘‘۔ موسِعون کے کئی معنی ہیں۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ یہ کام کرسکیں۔ دوسرے معنی موسِع کے وسیع کرنے اور پھیلانے والے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کا یہ مطلب ہوسکتا تھا کہ ہم وسیع ذرائع رکھنے والے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس کا ایک اور تصور بھی پیدا ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ کائنات صرف یہی نہیں کہ ایک حالت پر جم کر رہ گئی ہے بلکہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ پہلے نظریے کے مطابق اس کے اندر وسعت کا مفہوم تھا۔ اگر قدیم زمانے کا نظریہ اپنی جگہ صحیح ہو تو بِاَیْدٍکا لفظ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے اس آسمان کو بنایا ہے، اس کو تخلیق کیا ہے، اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں۔

یہاں اس کا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کا نظام درہم برہم کرنے کے بعد دوبارہ اس کو نہیں بنا سکے گا ، اور انسانوں کو موت دینے کے بعد دوبارہ ان کو پیدا نہیں کرسکے گا، انسانی جسم جب زمین میں بوسیدہ ہوکر ،اس کا ذرہ ذرہ منتشر ہوچکا ہوگا تو اس کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر نہیں ہے، جو شخص یہ خیال رکھتا ہے وہ غلط کہتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ کائنات کا نظام کس طرح بنا ہے؟ کس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اسے بناسکے؟ اور جس نے اسے بنایا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ انسان کو پیدا کرسکے۔ اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ اس نظام کو درہم برہم کرکے نئے سرے سے ایک دوسرا نظام بنادے۔

بَنَیْنٰھَاسے مراد صرف ایک عالم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پورا عالمِ بالا ہے جو ہماری زمین کے اُوپر قائم ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالم بالا سے مراد پوری کائنات ہے۔ چنانچہ جس کائنات کو ہم نے بنایا ہے ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔ ہم یہ طاقت رکھتے تھے کہ اس کو بنایا اور ہم یہ طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔

وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ o(۵۱ :۴۸) زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں۔

یعنی زمین کو بچھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ زمین جس طرح سے بنائی گئی ہے، جس طرح سے اس کے اُوپر ایسے مادوں کی سطح جمائی گئی ہے جس کی بدولت اس میں نباتات پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح اس زمین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس پر انسان اور حیوانات وجود میں آسکیں۔ پھر یہاں ہوا کا انتظام کیا گیا ہے، درجۂ حرارت کو ایک خاص حد کے اندر رکھا گیا ہے، جس طرح نظامِ شمسی میں، اسے سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے، جس طرح اس زمین پر جگہ جگہ پہاڑ   پیدا کیے گئے ہیں، جگہ جگہ میدان بنائے گئے ہیں اور دریا جاری کیے گئے ہیں۔ یہ سارا نظام اگر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ کیسے اسے بنایا گیا ہے اور اس کرئہ خاکی کو کس طرح اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس کے اُوپر زندگی وجود میں آسکے تو اسے اندازہ ہوگا کہ کتنے اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر جو موجودات ہیں، اس نے ان کو پیدا کیا اور انھیں باقی رکھنے کا انتظام کیا ہے۔ جتنی مخلوقات زمین میں آتی جاتی ہیں ان کے رزق کا سامان زمین سے نکلتا چلا آتا ہے۔ انسان نے جتنی ترقی کی ہے اس کی قابلیت اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ اور جسم میں رکھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرکے وہ سروسامان پیدا کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تمدن اور تہذیب کو ترقی دے سکے۔

آدمی میں خدا نے اگر یہ صلاحیت پیدا کی تھی کہ وہ کسی وقت جاکر موٹر بنا دے تو اس نے زمین کے اندر پٹرول بھی مہیا کر رکھا تھا۔ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنایا ہے اگر آدمی اس کو دیکھے تو اسے واقعی معلوم ہوگا کہ بڑا ہی عظیم الشان حکیم تھا اور بڑی ہی زبردست قدرت رکھنے والا اور حکمت رکھنے والا تھا جس نے اس زمین کو بچھایا اور اس قابل بنایا کہ اس میں مختلف مخلوقات پیدا ہوسکیں۔

اس کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمق یہ سمجھتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان زمین بنائی ہے اور عالم بالا میں اتنی عظیم الشان کائنات بنائی ہے وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا،  اس سے زیادہ تنگ دماغ کا آدمی اور کون ہوسکتا ہے، الا یہ کہ وہ ضد میں مبتلا ہو یا یہ کہ اس کی عقل اتنی تنگ ہو کہ وہ یہ تصور نہ کرسکے کہ جس خدا نے اتنا کچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی اسے پیدا کرسکتا ہے۔

وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo(۵۱ :۴۹) اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کی پوری کائنات میں ہر شے کا جوڑا ہے۔ ہر طرف آدمی کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں زوجیت کا قانون عمل پیرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کے مقابلے میں ایک دوسری چیز ایسی رکھی جائے کہ ان کا جوڑ بنے اور ان کے ملنے سے نتائج پیدا ہوں۔

انسانوں میں عورت اور مرد کا جوڑا بنایا گیا ہے اور اس کی بدولت نسلِ انسانی چل رہی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں نر اور مادہ کو ایک دوسرے کا جوڑا بنایا گیا ہے جس سے ان کی نسلیں چل رہی ہیں اور ہرنوع کو باقی رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسی طرح نباتات میں اللہ تعالیٰ نے ایسے جوڑے بنائے ہیں، جن کے ملنے سے ان کی پیداوار ہوتی ہے۔ مختلف عناصر میں ایک دوسرے کا جوڑ ہے اور ان کے ملنے سے ہنگامۂ وجود نظر آرہا ہے۔ یہ سب مختلف عناصر کے ملنے سے ہے۔ بعض عناصر (elements) کے ملنے سے اور جوڑ لگنے سے ہی نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، اور بعض عناصر آپس میں نہیں ملتے تو نئی چیزیں نہیں بنتی ہیں۔ اسی طرح نیگٹیو اور پازیٹو ایک دوسرے کا جوڑ ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ غرض اس پوری کائنات کو اگرآدمی دیکھے تو اسے محسوس ہوگا کہ اس قادرِ مطلق اور حکیم نے اس کائنات میں نئی نئی چیزوں کے بننے میں اور بے شمار اشیا کے وجود میں آنے کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔ یہ قانون زوجیت ہے۔ مختلف چیزوں کو ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے جن کے ملنے سے نئی نئی صورتیں وجود میں آتی ہیں، نئے نئے انتظام پیدا ہوتے ہیں۔

لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس بات پر غور کرو تو تمھیں خود معلوم ہوگا کہ دنیا کی یہ موجودہ زندگی کا بھی کوئی جوڑ ہونا چاہیے۔ دنیا کی یہ موجودہ زندگی ایک جنس ہے۔ اگر اس کا دوسرا جنس آخرت نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہوکر رہ جائے۔ تمھیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ قانونِ زوجیت خود اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ ایک آخرت ہو، ورنہ خود یہ دنیا بے نتیجہ رہ جائے گی۔

فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo(۵۱ :۵۰) پس دوڑو  اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں۔

یہ تمام دلائل بیان کرنے کے بعد اب فرمایا ہے کہ پس اللہ کی طرف آئو۔ مطلب یہ ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہوتا ہے تو اللہ سے بے نیاز اور اللہ کا باغی بنتا ہے۔ آدمی آخرت کا انکار بھی اس بنا پر کرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا اور جب آخرت کا انکار کرتاہے تو پھر اللہ کا مطیع نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔

انسان کو جو چیز آخرت کا انکار کرنے پر آمادہ کرنے والی ہے، وہ کیا ہے؟

اگر ایک انسان محض عقل کا بندہ ہو اور اس کے ساتھ خواہش لگی ہوئی نہ ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی یا نہیں ہوگی۔ لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تووہ عقل کی بنا پر نہیں کہتا۔ دنیا کا کوئی فلسفہ اسے یہ نہیں بتاتا۔ کوئی سائنس اسے یہ نہیں بتاتی کہ آخرت نہیں ہے۔ اگر آخرت نہیں ہوگی تو وہ اس کی کوئی عقلی یا سائنسی دلیل نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ آدمی یہاں تک جاسکتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی۔

اب جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تو دراصل اس کا جی نہیں چاہتا کہ آخرت کے ہونے سے اس پر جو اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں ان کو وہ قبول کرے۔ پھر اخلاقی پابندیوں کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس قانون کو مانے جو اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس قانون کو ماننے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کو مانے۔ اس وجہ سے انسان خدا کی بندگی نہیں کرنا چاہتا اور اس کا مطیع بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ اس لیے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے اور جب وہ آخرت کا انکار کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ ایک حالت پر نہیں ٹھیرتا۔ پھر وہ مسلسل گرتا ہے اور جتنا بھی گرتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔

فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo، پس دوڑو اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔

اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد یہ جو فرمایا ہے کہ ’’دوڑواللہ کی طرف‘‘ تو یہ بات خود اس بات کو بیان کرتی ہے کہ آخرت کو ماننے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت آپ سے آپ آجاتی ہے، اور آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ ہی انسان اللہ سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا کیا جا رہا ہے۔ رسولؐ اللہ فرما رہے ہیں کہ:دوڑو اللہ کی طرف۔ میں تو اللہ کی طرف سے تمھارے لیے صاف صاف متنبہ کرنے والا ہوں، یعنی ڈرو اس وقت سے جب وہ آئے۔ قبل اس کے کہ وہ آخرت برپا ہوجائے اور مرنے کے بعد تم جاکر دیکھو کہ جن چیزوں کا تم انکار کرتے تھے وہ یہاں سامنے موجود ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کرلو۔

وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo (۵۱:۵۱) اور نہ بنائو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمھارے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔

دنیا میں انسان کی طرف سے اللہ کے ساتھ جو بڑی گمراہی رہی ہے، وہ شرک ہے، دہریت نہیں۔ دنیا میں دہریے پہلے بھی براے نام رہے ہیں، آج بھی براے نام ہیں۔ دنیا میں موجودہ زمانے میں دہریوں کی جو بڑی سے بڑی تعداد پائی جاتی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس وقت بھی دہریے ایک فی ہزار بھی ہوں گے۔ اصل بُرائی جس میں انسان مبتلا رہا ہے        وہ دوسرے الٰہ ہیں۔ کہیں دوسرے انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں زندہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں مُردہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں تاروں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں دریائوں کو الٰہ بنایا گیا ہے،  غرض یہ کہ انسان نے اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بنائے۔ یہی اصل گمراہی ہے۔

اس چیز کا تعلق بھی آخرت کے انکار سے بڑا گہراہے۔ آخرت کا منکر کوئی ایسا سہارا چاہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی دوسری ہستیاں ہوں، تاکہ اگر آخرت ہو جیساکہ انبیاے کرام ؑ اس بات سے برابر مطلع کرتے رہے ہیں، تو وہ اس سے بچ سکے۔ جب سے انسان دنیا میں پایا جاتا ہے، انبیا ؑ بھی آتے رہے ہیں اور انبیا ؑ خبردار کرتے رہے ہیں کہ تمھیں مرنا ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے۔ انسان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں واقعی دوسری زندگی ہوئی اور وہاں جواب دہی کرنی پڑی تو کیا کریں گے؟ یہ چیز اس بات کا جواز بنتی رہی کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی بنائے جائیں جو انسان کا سہارا بنیں۔ ان کی بندگی کی جائے اور وہ انھیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکیں۔ گویا آخرت کا انکار اس چیز کا ایک بہت بڑا سبب رہا ہے، واحد سبب نہیں ہے، دوسر ے اسباب بھی ہیں۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ مت بنائو، میں اللہ کی طرف سے تمھیں متنبہ کرنے والا ہوں۔

 کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ  اَوْ مَجْنُوْنٌ o(۵۱ :۵۲)  یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔

اسی طرح (یونہی) کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ اس کے پس منظر میں کوئی چیز ہے۔ یعنی پس منظر میں لوگ رسولؐ اللہ کو کبھی ساحر یا جادوگر کہتے تھے اور کبھی مجنون۔کبھی یہ کہتے تھے کہ ان کے اُوپر  کسی جِنّ کا سایہ ہے، یہ دیوانے ہوگئے ہیں (معاذاللہ)اور اس وجہ سے یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کوئی پختہ دماغ شخصیت ہو اور وہ یہ کہے کہ تمھیں مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بعید از عقل آدمی ہی کھڑے ہوکر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ فلاں آستانہ جہاں سے ہماری آج تک مرادیں بَر آتی ہیں وہاں کچھ نہیں ہے، اور سارے کے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اس چیز کا نتیجہ ہوسکتا تھا کہ یہ شخص لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے، یا اگر یہ بات نہیں ہے کہ تم جان بوجھ کر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا رہے ہو تو  تم دیوانے ہو۔

کفارِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح سے باتیں کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہر زمانے میں اسی طرح سے ہوتا رہا ہے۔ جو نبی بھی آیا اور اس نے لوگوں کو آکر اس بات سے متنبہ کیا کہ اللہ کے سوا کسی کے ہاتھ میں اختیارات نہیں ہیں۔ کوئی ہستی تمھاری قسمت بنانے اور بگاڑنے والی نہیں ہے۔ کوئی دوسری ہستی تمھاری دُعائیں سننے والی اور ان کو قبول کرنے والی نہیں ہے۔ اس پر لوگوں نے یہی کہا کہ یہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، یا یہ دیوانہ ہے۔

اسی طرح جب اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آکر لوگوں کو متنبہ کیا کہ ’’تمھیں مرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے جانا ہے اور جواب دہی کرنی ہے‘‘ تو جس طرح آج یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ رہے ہیں اسی طرح سے پچھلے انبیا ؑ کو بھی کہتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں یہ سب ایک جیسے ہیں۔

اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o(۵۱ :۵۳) کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتا کرلیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔

اس ایک فقرے میں ایک پوری کی پوری داستان بیان کردی گئی ہے۔ ایک طویل استدلال ہے جو ایک ذرا سے فقرے میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آپس میں کچھ طے کیا ہے کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیں گے؟

مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے میں جن انسانوں نے خدا کے رسولوں کے مقابلے میں گمراہی اختیار کی ہے اور اس پر اصرار کیا ہے، وہ ہر زمانے میں ایک ہی طرح سے دلائل کیوں دیتے رہے؟ ہر زمانے میں لوگ ایک ہی طرح سے بات کیوں کرتے رہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اگلوں اور پچھلوں کی کوئی کانفرنس ہوئی ہو اور جس میں یہ طے ہوا ہو کہ جو نبی ؑ بھی آئے گا تو ہم یہ جواب دیں گے۔ نہیں، یہ بات نہیں ہے۔

ظاہر بات ہے کہ فرعون کی قوم اور قریش نے ایک وقت میں جمع ہوکر یہ طے نہیں کیا تھا کہ فرعون کی قوم بھی کہے کہ موسٰی ؑ ساحر ہیں اور قریش کے لوگ بھی کہیں کہ محمدؐ ساحر ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کانفرنس نہیں ہوئی۔آپس میں مل کر یہ طے نہیں کیا گیا تھا کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان یہ مشابہت کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ صدیوں پہ صدیاں گزرتی جاتی ہیں، ہزاروں برس گزرتے جاتے ہیں، قوم پر قوم ایسی آتی ہے کہ جس کے سامنے نبی آکر وہی ایک بات کہتا ہے اور وہ اس کے سامنے جواب میں وہی ایک رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍo وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo(۵۱ : ۵۳-۵۵) نہیں،بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ پس اے نبیؐ، ان سے رُخ پھیر لو، تم پر کچھ ملامت نہیں۔ البتہ نصیحت کرتے رہو، کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

ابتدا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک سردارِ قریش اور ایک ایک گروہ کے پاس جاتے تھے اور جاکر ان کو نصیحت کرتے تھے۔ خاص طور پر آپؐ کی کوشش یہ تھی کہ ان لوگوں کو سمجھاکر درست کیا جائے تاکہ پوری قوم درست ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے منہ پھیرلو تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمھارے اُوپر اب یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی کہ یہ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ تم نے ان کو نصیحت کرنے میں کوئی کوتاہی کی۔ نہیں، تم نے حق بات پہنچانے میں اور اپنی بات سمجھانے میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی ہے۔ ہمیں تمھاری طرف سے کوئی ملامت نہیں ہے۔انھوں نے سرکشی کا جو فیصلہ کیا ہے، تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں ہے۔

وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ،البتہ نصیحت کرو کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کلمۂ نصیحت سنانا چھوڑ دو، البتہ خاص طور پر اِن لوگوں کو نصیحت کرنے کی اب حاجت نہیں ہے۔ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ ایک ایک آدمی تک جاکر اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اب تمھارے اُوپر کوئی ملامت نہیں۔ اب عام نصیحت اور عام دعوت تم پھیلاتے چلے جائو۔ جو ایمان لانے والا ہے، اس کے لیے یہ نافع ہوگی۔ یعنی خاص طور پر بڑے بڑے آدمیوں کو سمجھانے کی کوشش کرنا، ایسی حالت میں، جب کہ دعوتِ عام پہنچ چکی ہو، قطعاً غیرضروری ہے۔ دعوت کے آغاز میں خاص خاص لوگوں کو مخاطب کر کے کہ چونکہ وہ قوم کے سردار ہیں، قوم کے بڑے ہیں، ان کے پاس طاقت اور اقتدار ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہیں، تو ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا درست ہے۔ کیوںکہ اگر وہ سمجھ جائیں تو پوری قوم سدھر جائے گی۔ لیکن  اگر دعوت عام پھیل چکی ہو، عام طور پر معلوم ہوچکا ہو کہ نبیؐ کیا چاہتے ہیں، خدا کے رسولؐ کاہے کے لیے آئے ہیں، خدا کی کتاب کیا تعلیم دیتی ہے اور یہ ساری باتیں پھیل چکی ہوں اور لوگوں کو معلوم ہوچکا ہو، تو اس کے بعد خاص خاص لوگوں کو مخاطب کرنے کی اب حاجت نہیں رہتی۔

اب دعوتِ عام آدمی پھیلاتا چلا جائے۔ اب تم دعوتِ عام پھیلائو کیوں کہ یہ تذکیر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ دعوتِ عام میں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کون آدمی ایمان لانے والا ہے اور کون ایمان نہیں لانے والا۔ ان میں جو آدمی ایمان لانے والا ہوگا اس کے لیے یہ تذکیر نافع ہوگی، اور جو آدمی ان میں ایمان لانے والا نہیں ہوگا وہ اپنی گمراہی میں پڑا رہے گا۔ دعوتِ عام پھیلانے والے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اگر وہ گمراہی میں پڑا ہوا ہو۔ اس وجہ سے کہ  اس نے دعوت پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے اور ادا کرتا چلا جا رہا ہے۔

بندگی کی دعوت

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (۵۱ :۵۶) میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔

یہاں خاص طور پر جنوں اور انسانوں کا ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کے اصل معنی تو ہیں بندگی اور اطاعت کے، اور یہ عبادت پوری کائنات کر رہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کر رہی ہے۔ سورج، چاند، زمین، آسمان، پتھر اور درخت، غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی بندگی نہ کر رہی ہو۔ اللہ کی بندگی سے باہر جانے والی کوئی چیز اس کائنات میں پائی ہی نہیں جاتی۔ اب خاص طور پر یہ فرمایا گیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد سفلی اور پیدایشی عبادت نہیں ہے، بلکہ اختیاری عبادت ہے۔

جِنّ اور انسان دو مخلوقات ایسی ہیں، کم از کم اس زمین کی حد تک پوری کائنات کے بارے میں ہم نہیں جانتے ہیں، جنھیں یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ تمھیں اس کی آزادی ہے کہ اللہ کی بندگی کرنا چاہو تو کرو اور اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو کرو۔ باقی کسی اور مخلوق کو یہ آزادی اور اختیار حاصل ہی نہیں ہے۔ کوئی دریا، پہاڑ اور درخت کافر نہیں ہوسکتا۔ کافر یا انسان ہوسکتا ہے یا جِنّ۔ اس لیے کہ انھیں یہ آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ جہاں تک ان کے اپنے دائرۂ اختیار کا تعلق ہے وہ اللہ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں اور نافرمانی کرنا چاہیں تو نافرمانی کریں۔

اس لیے فرمایا گیا کہ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ پیدا تو ہم کریں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی۔ ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم اُن کو رزق دیں اور یہ شکر بجا لائیں دوسروں کا۔ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ان کے سارے وجود کی پرورش تو ہم کر رہے ہیں، ان کو وجود میں بھی ہم لائیں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی اور جاکر ماتھا رگڑیں دوسروں کے سامنے، اور اطاعت کریں دوسروں کی اور قانون مانیں دوسروں کا۔ ہم نے انھیں اس لیے پیدا نہیں کیا تھا۔ ہم نے اس لیے پیدا کیا تھا کہ یہ ہمارے بندے ہیں اور ہماری ہی بندگی کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے انھیں اختیار دیا ہے اور یہ اختیار ان کی آزمایش کے لیے ہے۔ یہ ان کے امتحان کے لیے ہے کہ جہاں ہم ان کو اختیارات دیتے ہیں وہاں یہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں یا دوسری ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ اختیار تو انھیں آزمایش کے لیے دیا گیا ہے۔لیکن اس اختیار کا یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ ہماری بندگی چھوڑ کر دوسروں کی بندگی اختیار کرلیں۔ ان کو اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے دوسروں کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے۔

مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ o اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo(۵۱ :۵۷-۵۸) میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

یہ بندگی اور اطاعت کا مطالبہ اس لیے نہیں ہے کہ اگر یہ عبادت نہیں کریں گے تو نعوذباللہ اللہ تعالیٰ بھوکا مرجائے گا، یا اللہ تعالیٰ کی خدائی نہیں چل سکے گی۔ اللہ کی اطاعت اور بندگی کا مطالبہ اس بنا پر نہیں ہے کہ ہمیں ان سے کسی رزق یا کسی سہارے کی حاجت ہے۔ رزق دینے والے تو ہم ہیں۔

اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo، اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے، وہ زبردست طاقت رکھنے والا ہے، کسی کا محتاج نہیں۔

یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے، انھیں اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ یعنی ان کا خدا کی مخلوق ہونا خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس خدا کی عبادت کریں جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اس وجہ سے انھیں ہماری عبادت کرنی چاہیے ۔ اس لیے نہیں کہ ان کی عبادت کرنے کے ہم محتاج ہیں، ہماری خدائی ان کے عبادت کرنے پر موقوف ہے، یا یہ کہ یہ ہمیں رزق عطا کریں گے تو ہم جئیں گے۔

اس میں ایک لطیف تعریض (چوٹ) مشرکین کے معبودوں پر بھی ہے۔ مشرکین کے جتنے معبود ہیں ان کی خدائی ان کے بندوں کی عبادت کی بدولت چلتی ہے۔ جن انسانوں کی بندگی کی جارہی ہے، ان کی بندگی کیسے چل رہی ہے؟ ایک فوج ظفر موج ان کی اطاعت کر رہی ہے۔  پولیس ان کی اطاعت کر رہی ہے۔ عدالتوں کے اختیارات کی بدولت ان کی خدائی چل رہی ہے۔ عام لوگ انھیں ٹیکس دے رہے ہیں جن کی بدولت ان کو روپیہ ملتا ہے۔ اگر یہ سب لوگ ان کی اطاعت نہ کریں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کسی آمر کی آمریت نہیں چل سکتی، کسی بادشاہ کی بادشاہی نہیں چل سکتی۔ کسی ایسے طاقت ور شخص کے بارے میں جس کے متعلق آدمی سوچتا ہے کہ یہ بڑا زورآور ہے، اگر وہ قوتیں جن کے بل بوتے پر وہ اپنی خدائی چلا رہا ہے وہی قوتیں  اس کے خلاف ہوجائیں تو وہی صاحب خاک اور خون میں لوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح سے مُردہ معبود ہیں۔ ان کے مجاورین اور معتقدین دنیا میں چل پھر کر اور دنیا میں دوڑدھوپ کرکے لوگوں کو یہ یقین نہ دلاتے پھریں کہ یہاں سے مرادیں بَر آتی ہیں، یہاں سے بیٹا ملتا ہے، روزگار ملتا ہے، تو کوئی ان کی بندگی کرنے والا نہ ہو۔ اگر لوگ وہاں منّتیں اور نذرانے نہ چڑھانے جائیں تو کوئی ان کا مقبرہ تعمیر کرنے والا نہ ملے۔ جن کے پیچھے دوڑنے والا کوئی نہیں ہے، وہ بھی زمین میں پڑے ہوئے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی خدائی اُن کی بدولت چل رہی ہے جو ان کے بندے بنے ہوئے ہیں، ان کے اپنے بل بوتے پر نہیں چل رہی۔ اگر اس طرح خدائی چلنے والی ہوتی تو ہرمرنے والا اپنی خدائی چلا رہا ہوتا۔

ایسے ہی دوسرے معبود ہیں جو انسان نے بنا رکھے ہیں۔ کوئی معبود بھی ایسا نہیں ہے جو انسان نے بنا رکھا ہو اور اس کی خداوندی اپنے عبادت گزاروں کے بغیر نہ چل رہی ہو۔ یہاں بہت سے مندر ہیں جو ہندوئوں کے چھوڑ جانے سے ویران پڑے ہیں۔ اب وہاں کون سی کرامت ہے اور کون ہے جو وہاں گھنٹیاں بجاتا ہے۔ جب تک وہاں گھنٹیاں بجانے والے تھے اس وقت تک ان کی خداوندی چل رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میری خداوندی تمھارے چلانے سے نہیں چلتی۔ دوسروں کی خداوندی تمھارے چڑھاوے چڑھانے، نذرانے دینے اور ان کی بندگی کرنے سے چلتی ہے۔ لیکن مَیں وہ خدا ہوں جو رزق دینے والا ہے۔ میں خود اپنی طاقت کے بل پر حکومت کر رہا ہوں۔ میری خدائی تمھارے رزق دینے سے نہیں چل رہی۔ یہ تمھارے نذرانے چڑھانے کی محتاج نہیں ہے۔

یہ سب کچھ فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا جا رہا ہے:

فَاِِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوبًا مِّثْلَ ذَنُوبِ اَصْحٰبِھِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِo (۵۱ :۵۹) پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جیسا انھی جیسے لوگوں کو اُن کے حصے کا مل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔

یہاں ظلم سے مراد دوسرے انسانوں پر ظلم کرنا نہیں بلکہ حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے۔ لوگوں کو سمجھا دیا جائے پھر نہ سمجھیں تو اس کے معنی ہیں کہ وہ حقیقت پر ظلم کر رہے ہیں۔ لوگوں کو خدا کی طرف سے کوئی آدمی متنبہ کرنے والا اور حقیقت بتانے والا ہو، اس کے جواب میں اسے کہا جائے کہ تو ساحر اور مجنون ہے، تو یہ ظلم ہے۔ جو لوگ یہ ظلم کرتے ہیں  وہ اپنے خدا کے حق میں دوسروں کی خدائی مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کرکے فاسق بن رہے ہیں۔ یہ سمجھانے والے کی بات نہیں مانتے، اُلٹا اسے ملامت کرتے ہیں، اس کے اُوپر الزامات رکھتے ہیں، تہمتیں دھرتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ اس طرح کا ظلم کرنے والوں کے نصیب میں عذاب کا حصہ ہے جس طرح کہ ان سے پہلے ظلم کرنے والوں کے لیے عذاب کا حصہ تھا۔ یہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں یہ اپنے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی خدائی کو مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کر کے فاسق بن رہے ہیں۔

ذنوب کا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں بڑے ڈول کے لیے ذنوب بولا جاتا ہے۔ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے۔ یہ اس طرح پیدا ہوا کہ جب کوئی قافلہ کسی مقام پر جاکر اُترتا ہے جہاں پانی یا کوئی کنواں ہو تو اس جگہ قافلے کے پانی دینے والے سقّے ہوتے تھے جو ڈول لے کر ہر ایک کے حصے کا پانی نکالتے جاتے تھے کہ یہ ڈول فلاں کے حصے کا ہے اور یہ ڈول فلاں کے حصے کا۔ اس طرح سے ڈول نکالتے جاتے تھے اور لوگوں کو دیتے جاتے تھے۔

یہاں ذنوبکا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوا ہے کہ ان کے حصے کا بھی ڈول ہے جیساکہ ان سے پہلے والوں کے حصے کا ڈول تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان سے پہلی قوموں کو عذاب مل چکا، اِن کے عذاب کا حصہ بھی محفوظ ہے جو انھیں ملنے والا ہے۔ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنَ، ’’یہ جلدی نہ کریں‘‘ یعنی قریش کے لوگ نبی کریم ؐ کو باربار کہتے تھے کہ تم جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ تو فرمایا گیا کہ جلدی نہ کرو، تمھارا حصہ بھی تیار ہے۔

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ o(۵۱ :۶۰) آخر کو تباہی ہے کفر کرنے والوں کے لیے اُس روز جس کا انھیں خوف دلایا جارہا ہے۔

یعنی اگر اس دنیا میں عذاب نہ بھی آئے، اس دنیا میں پکڑ نہ بھی ہو، تب بھی وہ دن تو آنا ہے جس میں یقینا ہر ایک کی پکڑ ہوگی۔ یہاں سے بچ بھی نکلا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کامیاب ہوگیاکہ سب مزے بھی کیے، ظلم و ستم بھی کیا اور یہاں سے اطمینان سے بخیریت بھی گزر گیا۔ نہیں، ایک دن ضرور ایسا آنا ہے جب اس کے معاوضے میں ہر اس شخص کو جس نے کفر کا رویہ اختیار کیا اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)

 سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ارشاد ہوئی ہے اور آخرت کے حق میں اس میں مسلسل دلائل دیے گئے ہیں۔ پہلی دلیل ہوائوں کے نظم اور بارش کی تقسیم کی دی گئی ہے کہ کائنات کا یہ نظام حکیمانہ ہے، الل ٹپ نہیں۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ آخرت کے بارے میں محض گمان پر فیصلہ کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ فیصلہ علم اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے جو انبیا ؑلے کر آئے ہیں۔ تیسری دلیل یہ دی گئی کہ فاسق و فاجر اور متقی کا انجام ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے، یہ عقل کا تقاضا ہے ۔ پھر نفسِ انسانی کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا کہ خود اس میں آخرت کی نشانیاں ہیں۔

انسانی تاریخ سے استدلال

اب اس کے بعد آخرت پر ایک اور استدلال اس قصے سے شروع کیا جارہا ہے اور وہ ہے انسانی تاریخ۔

اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں تم مسلسل دیکھتے ہو کہ جزا اور سزا کا قانون اس زندگی کے اندر بھی نافذ ہے، اگرچہ اس زندگی میں پوری سزا نہیں ملتی۔ اس دنیا میں جو آدمی سزا کا مستحق ہو، بسااوقات اسے سزا مل جاتی ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کے اُوپر انسانوں کو بھی اختیارات دیے گئے ہیں۔بحیثیت مجموعی اگر اس بات کو دیکھیں تو انسانی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ قانونِ مکافات اس زندگی میں بھی کارفرما ہے۔ جہاں تک انسانی غلطیوں کا تعلق ہے اور جہاں انسان کا اختیار چلتا ہے اس جگہ بُرائی کا نتیجہ بظاہر تھوڑی دیر کے لیے عارضی طور پر اچھا ہوتا نظر آتا ہے، او ر بھلائی کا نتیجہ عارضی طور پر بُرا ہوتا نظرآتا ہے۔لیکن جہاں تک بحیثیت مجموعی قدرتی عوامل کا تعلق ہے جو عالمِ بالا سے انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، ان کے اندر تم دیکھو گے کہ جزا اور سزا کا قانون انسانی زندگی میں نافذ چلا آرہا ہے۔ یہ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ کائنات کی سلطنت کا مزاج یہ نہیں ہے کہ بُرے اعمال کی کوئی سزا نہ ہو اور بھلے اعمال کی کوئی جزا نہ ہو۔ نظامِ کائنات کو جو طاقت چلا رہی ہے اس کا مزاج یہی ہے کہ پورے عدل کے ساتھ جزا اور سزا نافذ کی جائے۔ اس ضمن میں یہاں انسانی تاریخ سے کچھ مثالیں پیش کی جارہی ہیں:

ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ o اِِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ط قَالَ سَلٰمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ o فَرَاغَ اِِلٰٓی اَھْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍo(الذٰریٰت۵۱ :۲۴-۲۶) اے نبیؐ، ابراہیم ؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمھیں پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے ہاں آئے تو کہا: ’’آپ کو سلام ہے۔ اس نے کہا: آپ لوگوں کو بھی سلام ہے___ کچھ ناآشنا سے لوگ ہیں‘‘۔ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا، اور ایک (بھنا ہوا) موٹا تازہ بچھڑا لاکر مہمانوں کے آگے پیش کیا۔

 یعنی ان کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ نے یہ محسوس کیا کہ ان سے کبھی پہلے ملاقات نہیں ہوئی۔ بالکل اجنبی سے لوگ ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑاان کے لیے لے آئے۔

حضرت ابراہیم ؑ چونکہ بڑے مہمان نواز تھے اور ہر طرف سے ان کے پاس لوگ آتے رہتے تھے، ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس کچھ ایسا انتظام ہو کہ ہروقت کچھ نہ کچھ کھانے کا سامان تیار رہتا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں بیان اس طرح کیا گیاہے کہ وہ گئے اور لے آئے۔ درحقیقت وہاں صورت یہ ہوئی ہوگی کہ حضرت ابراہیم ؑ گھر والوں کے پاس گئے ہوں گے اور کہا ہوگا کہ کچھ مہمان آگئے ہیں، ان کے لیے کچھ جلدی سے تیار کیا جائے اور جس وقت تیار ہوگیا تو آپ ؑ لے کر آگئے۔ دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں۔

قرآنِ مجید کا اندازِ بیان یہ ہے کہ تفصیلات کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ تفصیلات کو ہر آدمی اپنے ذہن میں سوچ لیتا ہے۔ واقعات کے صرف اہم اور بنیادی اجزا کو بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔

فَقَرَّبَہٗٓ اِِلَیْھِمْ قَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ o (۵۱:۲۷)  حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے آگے وہ بچھڑا بڑھایا اور ان سے کہا کہ آپ کھاتے کیوں نہیں ہیں؟

 اس سے خود بخود یہ بات نکلی کہ جب انھوں نے بچھڑے کو آگے بڑھایا تو وہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھارہے تھے۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں؟

فَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً ط(۵۱:۲۸) پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا۔

بدوی اور صحرائی علاقوں میں ہمیشہ یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مہمان کسی کے گھر آئے اور وہ اس کے آگے کھانا بڑھائے اور وہ کھانا کھالے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دوستانہ طریقے سے اور اچھی نیت سے آیا ہے اور اس کے دل میں بُرائی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ ان کے آگے  کھانا بڑھائیں اور وہ نہ کھائیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کسی بُرے ارادے اور دشمنی کے ارادے سے آئے ہیں۔ بدوی اور صحرائی قوموں کے اندر اتنے بنیادی اخلاق موجود ہوتے ہیں کہ وہ کسی کا کھانا کھانے کے بعد پھر اس پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ جہاں ابتدائی انسانی شرافت بھی باقی نہیں رہی ہے وہاں اس بات کا امکان ہے کہ مہمان کھانا بھی کھائے اور لُوٹ کر بھی لے جائے، بلکہ آپ کے ہاں مہینوں مہمان بھی رہے اور پھر آپ کے گھر پر ہاتھ صاف کرجائے۔

 چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ یہ دیکھ کر کہ یہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا رہے، ان سے ڈر گئے۔ ان کے دل میں اندیشہ پیدا ہوا۔ اس سے پہلے انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ آپ اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی اور میں آپ کو جانتا نہیں ہوں۔ اب، جب کہ وہ کھانا نہیں کھا رہے تھے تو ان کے دل میں خوف پیدا ہوگیا۔

قَالُوْا لاَ تَخَفْ ط وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍo(۵۱:۲۸) انھوں نے کہا: ڈریے نہیں، اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کا مژدہ سنایا۔

اب یہاں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ فرشتے تھے اور انھوں نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ یہ بات کہ انھوں نے ان کو ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کی بشارت دی، یہ خود بخود اس بات کا پتا دے دیتی ہے کہ درمیان میں کیا بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں، ہم اس وجہ سے آئے ہیں ۔ ہم فرشتے ہیں اور ہمارا کام کھانا کھانا نہیں ہے، اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ذی علم لڑکے کی بشارت دی۔ اس سے مراد حضرت اسحاق ؑ ہیں اور ان کی بشارت دی گئی تھی۔ اس سے پہلے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوچکے تھے۔ حضرت اسماعیل ؑ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: غلام حلیم، یعنی بُردبار لڑکا اور حضرت اسحاق ؑ کی تعریف میں فرمایا: غلام علیم، یعنی علم والا۔ اس کے بعد فرشتوں نے جس دوسری بات کی بشارت دی اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌo (۵۱:۲۹) یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی: بوڑھی، بانجھ!

یہ بوڑھی اور بانجھ اہلیہ، حضرت سارہؑ تھیں، حضرت ہاجرہ ؑ نہیں تھیں۔ حضرت ہاجرہ ؑ کے بانجھ ہونے کا کوئی ذکر کہیں نہیں آیا۔ ان کے ہاں اس سے پہلے اولاد پیدا ہوچکی تھی اور حضرت اسماعیل ؑ ان سے بڑے تھے، لہٰذا بانجھ ہونے کا خیال اگر ہوسکتا تھا تو حضرت سارہ ؑ کو ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر تقریباً ۱۰۰ سال تھی او ر حضرت سارہؑ کی عمر تقریباً ۹۶سال تھی۔ توریت میں اس کی تصریح ہے کہ اس وقت ان کی کتنی عمر تھی۔انھوں نے کہا کہ اتنی بڑی عمر میں جس کی آج تک اولاد نہیں ہوئی، جوانی گزر گئی، بڑھاپا آگیا اور بڑھاپے کا بھی آخری زمانہ آگیا۔ اب اسے خبر دی جارہی ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔

قَالُوْا کَذٰلِکِ لا  قَالَ رَبُّکِ ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُo (۵۱:۳۰) انھوں نے کہا: یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔

فرشتوں نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا:تیرے رب نے اسی طرح فرمایا ہے: وہ حکیم  اور علیم ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور دانا ہے۔ اس کی حکمت اس چیز میں مانع نہیں ہے کہ وہ کسی کو اولاد دیناچاہے اور نہ دے سکے، اور علیم ہے، اس لیے اسے معلوم ہے کہ تیرے ہاں اولاد ہوگی۔

ان کا کہنا کہ تیرے رب نے یہی فرمایا ہے اور وہ علیم اور حکیم ہے، لہٰذا تمھارے بوڑھے ہونے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تمھارے ہاں اولاد ہوگی۔ اللہ نے یہی فرمایا ہے اور وہ حکمت رکھنے والا اور علم والا ہے۔یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر مہربان ہوتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں خدمت کرتے ہیں، جان لڑاتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے خاص قانون پر عمل کرتا ہے۔ دنیا میں جو عام قانون اور فطری قانون (natural law) چل رہا ہے  اس کے اندر اتنی تبدیلی کردیتا ہے کہ بعض اوقات ان کو ایسی حالت میں اولاد کا انعام دیا جاتا ہے کہ جب ان کی بیوی بوڑھی اور بانجھ ہوچکی تھی اور وہ خود بوڑھے ہوچکے تھے۔ اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی بشارت دی اور اولاد سے نوازا۔

قومِ لوط پر عذاب

اس کے بعد وہی فرشتے جو حضرت ابراہیم ؑ کے پاس یہ خوش خبری لے کر آئے تھے اور جن کے ذریعے انھیں یہ انعام دیا گیا تھا، انھی فرشتوں کو آگے ایک اور مہم پر بھیجا جا رہا ہے۔

قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَo(۵۱:۳۱) ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اے فرستادگانِ الٰہی، کیا مہم آپ کو درپیش ہے؟‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے اس مہم کا فرشتوں سے سوال اس لیے کیا کہ فرشتے انسانی شکل میں آئے تھے اور یہ اسی وقت انسانی شکل میں آتے ہیںجب کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آنے والا ہو۔ ورنہ فرشتے غیرمحسوس طور پر کام کرتے ہیں لیکن جب وہ علانیہ آئیں اور انسانی شکل میں آئیں اور دوسرے مقامات پر اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئے بھی ایک غیرمعمولی شان کے ساتھ تھے، یعنی بہت ہی خوب صورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھ کر   حضرت ابراہیم ؑ نے بھانپ لیا کہ کوئی بہت بڑا معاملہ ہے جس کے لیے یہ آئے ہیں۔ اس لیے انھوں نے پوچھا کہ وہ مہم کیا ہے جس کے لیے آپ تشریف لائے ہیں؟ یعنی لڑکے کی بشارت دینا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے لڑکوں کی صورت میں آنا ضروری ہو۔ وہ تو وحی کے ذریعے بھی حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا جاسکتا تھا لیکن جب وہ مسافر بن کر اور خوب صورت لڑکوں کی صورت میں صحرا میں چلتے ہوئے آپ ؑ کے مکان تک پہنچے، تب حضرت ابراہیم ؑ کو محسوس ہوا کہ یہ کوئی بڑا معاملہ ہے۔

قَالُوْٓا اِِنَّآ اُرْسِلْنَـآ اِِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ o لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ o مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَo (۵۱:۳۲-۳۴) انھوں نے کہا: ’’ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسادیں جو آپ ؑ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں‘‘۔

مجرمین سے یہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم مراد ہے۔ یہاں ان کے نام کی تصریح نہیں ہے لیکن قصہ وہی ہے جو قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ یہاں اس قوم کا نام نہیں لیا گیا صرف قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت گردونواح میں اس سے بُری قوم اور کوئی نہیں تھی۔ اس کے لیے لفظ قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ اس سے مراد قومِ لوط ؑ ہے۔ ان فرشتوں نے کہا کہ ہمیں قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ،یعنی حضرت لوطؑ کی قوم کی طرف بھیجا گیا ہے۔ ان کے جرائم کا حال آپ سب جانتے ہیں اور قرآنِ مجید میں اس کا حال مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ہم ان پر ایسے پتھروں کی بارش برسا دیں جو پکی ہوئی مٹی کے ہیں۔ اس پکی ہوئی مٹی کے پتھر ان کے مقدر کیے ہیں کہ ان پر برسائے جائیں۔ اس علاقے میں آتش فشانی کے پتھر بہت کثرت سے ہیں۔

مسومۃ، یعنی ان لوگوں کے لیے نشان زدہ پتھر تھے جیسے اُردو زبان میں کہتے ہیں کہ دانے دانے پر مہر ہے۔ اسی طرح ایک ایک پتھر پر یہ نشان لگا دیا گیا تھا کہ یہ فلاں بدمعاش پر گرے، اور یہ فلاں ظالم پر ۔ گویا ایک ایک پتھر نشان زدہ تھا، یعنی جس جس کے حصے میں جو پتھر تھا وہ  اسے لگے۔

فَاَخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیْھَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ o(۵۱:۳۵-۳۶)  پھر ہم نے ان سب لوگوں کو نکال لیا جو اس بستی میں مومن تھے، اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

وہ بستی چونکہ خیر سے خالی ہوچکی تھی۔ اس پورے علاقے میں جس میں قومِ لوط ؑ آباد تھی، اس میں ایک گھر کے سوا کوئی گھر مسلم نہیں تھا۔ اس گھر کا بھی جو حال تھا، قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر آیا ہے کہ خود حضرت لوطؑ کی بیوی اپنی قوم سے ملی ہوئی تھی۔ گویا کہ وہ گھر بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ اس عورت کو بھی الگ کر دیا گیا،اس لیے کہ وہ بھی عذاب پانے والوں میں شامل تھی۔ صرف اہلِ ایمان کو بچایا گیا جو حضرت لوطؑ کے گھر میں تھے اور باقی پوری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔

وَتَرَکْنَا فِیْھَآ اٰیَۃً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ o(۵۱:۳۷)  اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔

اس نشانی سے مراد بحیرہ مُردار(Dead Sea)ہے  جو آج بھی اُردن کے قریب موجود ہے۔ دنیا میں اگر کوئی سمندر سب سے زیادہ گہرائی میں ہے، تقریباً سطح سمندر سے ۱۴۰۰ فٹ نیچے تو وہ بحیرہ مُردار ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ بھاری پانی اگر کسی سمندر کا ہے تو وہ بھی یہی ہے۔  اس کا پانی اتنا زیادہ نمکین ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ اتنا بھاری پانی ہے کہ آدمی گرجائے تو ڈوب نہیں سکتا۔ قومِ لوطؑ کے بڑے بڑے شہر آج بھی اسی کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس سمندر میں اب بھی کچھ مہمات بھیجی جارہی ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا ان شہروں کے کچھ آثار باقی ہیں؟ ان کے علاوہ ان کے جو شہر اُردن کی ریاست میں واقع ہوں گے، ان کا بھی پتا چلایا جاسکے۔

اب وہاں آتش فشانی پہاڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں خود بھی اس علاقے میں گیا ہوں اور جن دوسرے لوگوں نے اس علاقے کو دیکھا ہے ان کا بھی کہنا ہے کہ اس سے زیادہ ویران علاقہ شاید ہی دنیا میں کہیں ہو۔ ہرطرف تباہی ہی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں۔ آج تک وہ علاقہ بسا نہیں۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسانی تاریخ میں یہ دو چیزیں نمایاں ہیں ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے راستے میں خدمات انجام دی ہیں، ان کے اُوپر اللہ کی طرف سے کس طرح کے انعام ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو فسق و فجور اور نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے تو ان کے اُوپر تباہی نازل کی گئی اور آج تک ان کے آثارِ قدیمہ تاریخ میں محفوظ ہیں۔ گویا زمین کے اُوپر مستقل نشانیاں موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا اور جزا و سزا کا قانون جو اس دنیا میں نافذ ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آج آپ گناہ کریں اور کل آپ کو سزا مل جائے، یا جس وقت آپ گناہ کریں اور اسی وقت آپ کو سزا مل جائے، یا ایک قوم جس وقت گناہ کرے اسی وقت وہ پوری کی پوری تباہ کردی جائے۔  ہر ایک انسان کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے، ہر قوم کو مہلت دیتا ہے۔ افراد کی مہلت کچھ اور ہے اور قوموں کی مہلت کچھ اور۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی قوم اللہ کی مقرر کردہ حدود سے مسلسل تجاوز کرتی چلی جائے اور کسی بھی مرحلے پر جاکر وہ تباہ نہ کردی جائے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے کہ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والی قومیں کسی نہ کسی مرحلے پر تباہ نہ کردی گئی ہوں۔

قومِ لوط ؑ کے ذکر میں یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو فیصلے کا وقت ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کسی ظالم کے اُوپر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے تو پھر وہاں اخلاق کے اعتبار سے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قومِ لوطؑ کے اندر جو ایمان رکھنے والے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی طور پر بچالیا۔ اس فیصلے کے وقت تباہ صرف ان لوگوں کو کیا گیا جو حق کو جھٹلانے والے تھے۔

فرعون اور لشکرِ فرعون کی تباھی

وَفِیْ مُوْسٰٓی اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۳۸-۴۰) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) موسٰی ؑ کے قصے میں۔ جب ہم نے اُسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا: یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔ آخرکار ہم نے اُسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا۔

تاریخ سے یہ دوسری دلیل حضرت موسٰی علیہ السلام کی دی گئی ہے۔ یہاں چونکہ تاریخی واقعات کی طرف مسلسل اشارہ کرنا مقصود ہے، لہٰذا تفصیل بیان نہیں کی جارہی، صرف اشارے کر کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ قصہ قرآنِ مجید میں پوری تفصیل سے آچکا ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور قومِ لوط ؑ کے واقعے میں تمھارے لیے نشانی تھی، اسی طرح حضرت موسٰی ؑ کے واقعے میں بھی تمھارے لیے نشانی ہے۔

اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o (۵۱:۳۸)ہم نے اس کو سلطانِ مبین کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا۔

سلطان کا لفظ قرآنِ مجید میں مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں سند، کھلی دلیل (open authority) کے معنوں میں آیا ہے۔ یہ ایسی صریح دلیل تھی کہ جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والا یہ محسوس کرلیتا کہ یہ مامور من اللہ ہیں اور اللہ کے سوا کسی کی طرف سے نہیں ہے۔

حضرت موسٰی علیہ السلام جب فرعون کے دربار میں پہنچے ہیں تو قرآنِ مجید خود بتاتا ہے کہ اس سے پہلے وہ فرعون کے گھر میں پرورش پاچکے تھے اور ایک آدمی کو قتل کر کے فرار ہوگئے تھے۔ اگرچہ انھوں نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا ان کے ہاتھوں سے قتل ہوگیا تھا۔ لیکن فرعون کو معلوم ہوچکا تھا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور انھوں نے فرعون کی اپنی قوم کے آدمی کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد وہ فرار ہوگئے تھے۔ ۱۰ سال تک مدین کے علاقے میں رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جائو۔ ایک ایسا آدمی جس کے اُوپر قتل کا الزام ہو، پولیس جس کی تلاش میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے کہ فرعون کے پاس چلے جائو، اور اسے اللہ تعالیٰ صرف ایک لاٹھی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سیدھے فرعون کے پاس چلے جائو۔

اس حالت میں وہ لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنا تعارف کراتے ہیں کہ میں موسٰی ؑ ہوں اور بھرے دربار میں فرعون کو ہمت نہیں پڑتی اور نہ کسی سپاہی یا درباری کو ہمت پڑتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ یہ سلطان مبین یا کھلی ہوئی علامت نہیں تھی تو اور کیا تھی۔ یہی چیز تھی جس نے فرعون کے دل میں یہ خیال ڈال دیا اور اس کو ایسا مرعوب کیا کہ وہ ان کو گرفتار کرنے کا حکم نہ دے سکا کہ تم تو قتل کر کے فرار ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے اس لاٹھی سے اژدھا بنا کر دکھایا، اور یدِبیضا دکھایا، جس کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سورج زمین پر اُتر آیا ہو۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مسلسل معجزات ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ وہ پہلے مطلع کر دیتے ہیں کہ تمھارے ملک میں قحط آئے گا اور پھر ان کے ایک اشارے پر قحط آگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک کے اندر ٹڈی دَل آئیں گے اور ایک اشارے پر ٹڈ ی دَل پورے ملک میں نکل آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک میں مینڈکوں کا طوفان آئے گا اور ایک اشارے پر سارے ملک میں مینڈک نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ مسلسل معجزات دکھاتے چلے گئے اور اس کے بعد کوئی گنجایش یہ ماننے میں نہیں رہی کہ یہ مامور من اللہ کے سوا کوئی اور ہیں۔ خود قرآنِ مجید میں یہ فرمایا گیا کہ جب پوری قوم پر مینڈکوں، خون اور ٹڈی دَل کا عذاب  آتا تھا تو خود فرعون اور اس کے دربار کے لوگ حضرت موسٰی ؑسے درخواست کرتے تھے کہ اس عذاب کو ہمارے اُوپر سے ٹلوائو، یہ ٹل جائے گا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ مامور من اللہ ہیں جن کی بدولت اور جن کے کہنے سے یہ عذاب آرہا ہے۔ قرآن میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ انھوں نے حضرت موسٰی ؑ کا انکارکیا درآں حالیکہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ یہ شخص یقینا مامور من اللہ ہے اور یہ کام اللہ کی قدرت کے بغیر نہیں ہوسکتا، مگر باوجود اس کے چونکہ انھیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر ہم ان کی بات مان لیں گے تو پھر ہماری بادشاہی نہیں رہ سکتی۔ خدا کی بادشاہی ماننا پڑے گی اور رسول ؑ کو خدا کا نمایندہ ماننا پڑے گا۔ چونکہ بادشاہی کا انھیں چسکا لگا ہوا تھا، اس لیے وہ اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ اس طرح حضرت موسٰی ؑ سلطان مبین لے کر پہنچے۔

فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o (۵۱:۳۹) تو وہ اپنے بل بوتے پر   اکڑ گیا اور بولا یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔

رکن کہتے ہیں سہارے کو، یعنی جس چیز کو وہ اپنا سہارا سمجھتا تھا۔ اس کا لشکر، سلطنت، درباری، اعلی موالی، یہ سب سروسامان جو اسے حاصل تھا، یہی اس کے بھروسے کی طاقت تھی جس پر اس کا ایمان تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اس رکن ، اپنے اس سہارے اور اپنے بل بوتے پر اَڑ بیٹھا، اور  منہ موڑ لیا۔ اس نے اطاعت کی روش اختیار کرنے کے بجاے انحراف کی روش اختیار کی اور کہا کہ یا تم تائب ہوجائو یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کرشمے دکھا رہے ہو،  یہ تو سحر کی بنا پر ہے، اس سے تائب ہو۔ اور تمھاری یہ ہمت کہ مجھ جیسے فرماں روا کے مقابلے میں  کھڑے ہو۔ یہ ہمت ایک مجنون کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کا دماغ ٹھیک ہو اور     وہ ’اعلیٰ حضرت‘ کے سامنے کھڑا ہوجائے اور ان کو دعوت دے کہ تم میری اطاعت کرو، یہ کسی مجنون اور پاگل کے سوا کسی دوسرے کی بات نہیں ہوسکتی۔

 فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۴۰)آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر   رہ گیا۔

قرآنِ مجید میں اس سے پہلے بھی یہ بات اس قصے میں گزر چکی ہے۔ سب اس بات کو جانتے ہیں اور یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں بھی جو لوگ حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لائے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو سمندر کے اسی راستے سے گزار دیا۔ پھر وہی سمندر پھٹا، اس میں سے راستہ بنا اور اس راستے میں سے بنی اسرائیل کی اور ان کے ساتھ جو مصری مسلمان فوج تھی وہ ساری کی ساری اس سے گزری اور پانی دونوں طرف ٹھیرا رہا جب تک کہ یہ اس میں سے گزر نہ گئے۔ جب وہ گزر گئے اور فرعون اپنے پورے لشکروں کے ساتھ اسی راستے پر اُتر آیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا اور یک لخت وہ پانی جڑ گیا اور وہ پورے کا پورا لشکر اس میں غرق ہوگیا۔ یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے اور بنی اسرائیل کی بدولت اس زمانے میں بھی عرب کا بچہ بچہ اسے جانتا تھا اور ساری دنیا اس واقعے سے واقف تھی۔

اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ جب فرعون اور اس کی سلطنت کے اکابر نے مسلسل یہ روش اختیار کی۔قرآنِ مجید کے اشارات سے بھی معلوم ہوتا ہے اور بائبل اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی کہ حضرت موسٰی ؑنے مسلسل ۳۰ سال مصر میں تبلیغ کی ہے۔ فرعون مسلسل ۳۰سال تک مزاحمت کرتا رہا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حجت پوری کر دی۔ تمام نشانیاں اسے دکھا دیں جن کے دیکھنے کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ فرعون جان بوجھ کر خدا کے مقابلے میں شرارت کر رہا ہے۔ اس کے بعد جب فیصلہ کیا گیا تو اس طرح کیا گیا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا گیا۔ جو ایمان لانے والے تھے ان سب کو بچاکر الگ نکال دیا، اور جو ایمان سے خالی تھے انھیں اسی جگہ غرق کر دیا جہاں سے اہلِ ایمان کو نکالا گیا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ ہے جسے یہاں پیش کیا گیا ہے۔

قومِ عاد کی تباھی

وَفِی عَادٍ اِِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَo مَا تَذَرُ مِنْ شَیْئٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ o(۵۱:۴۱-۴۲) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) عاد میں، جب کہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔

اب تیسری قوم، قومِ عاد کا ذکر کیا جا رہا ہے۔یہاں مختصراً اشارے کیے گئے ہیں، تفصیل نہیں بیان کی گئی ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات یاد دلانا ہے کہ یہ واقعات ہوئے ہیں یا نہیں۔ عاد کی قوم سے متعلق تفصیلات قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہیں اور ان کی تاریخ بیان ہوئی ہے ۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر عذاب کس طرح آیا؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کے اُوپر ایک ہوا بھیجی جو عَقِیْم تھی۔ اس کے لفظی معنی ہیں جو بانجھ تھی۔ یہ ایسی ہوا تھی جس میں کوئی خیر نہیں تھی۔ یہ بارش لانے والی ہوا نہیں تھی۔ کسی آدمی کی تندرستی کے لیے ہوا نہیں تھی۔ زراعت کے لیے کوئی مفید ہوا نہیں تھی۔ گویا یہ کسی بھی طرح سے مفید ہوا نہیں تھی۔یہ بے فیض ہوا تھی جو کوئی مفید نتیجہ پیدا کرنے والی نہ تھی۔

مزیدبرآں اس ہوا کی حالت یہ تھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی، اس کو بوسیدہ کرگئی۔  جن لوگوں کو صحرائی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ بعض اوقات صحرا میں ایسی لُو چلتی ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں کہ آدمی لُو سے مر جاتا ہے بلکہ مرنے کے بعد اس کا جسم دیکھتے ہی دیکھتے گل سڑ جاتا ہے۔ اس طرح کی لُو راجستھان کے صحرائوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ ایسی  خوف ناک ہوا تھی کہ جس چیز کے اُوپر سے بھی گزری نباتات و حیوانات اور انسانوں کو اس نے نہ صرف ہلاک کر دیا بلکہ ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے کہ سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلسل یہ ہوا چلتی رہی اور اس میں لوگ اس طرح سے گر کر مرے کہ جیسے کھجور کے تنے گرے پڑے ہوں۔

قومِ ثمود کی تباھی

یہاں قومِ ثمود کا بطور نمونہ ذکر کیا گیا ہے:

وَفِیْ ثَمُوْدَ اِِذْ قِیْلَ لَھُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ o فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ فَاَخَذَتْھُمُ الصّٰعِقَۃُ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ o فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo (۵۱:۴۳-۴۵) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) ثمود میں جب ان سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلو۔ مگر اس تنبیہ پر بھی انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ آخرکار  ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کو آلیا، پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔

ان کا قصہ بھی قرآنِ مجید میں دوسری جگہ تفصیل سے آیا ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ بھی تمھاری تاریخ کا حصہ ہے۔ ثمود کا علاقہ حجاز کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً دو اڑھائی سو میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھیں نبی ؑ کے ذریعے سے متنبہ کیا گیا تھا کہ تمھارے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر اس وقت تک تم سنبھل گئے تو بچ جائو گے اور اگر اس وقت تک نہ سنبھلے تو تمھارے اُوپر عذاب نازل ہوجائے گا۔ ان کے لیے دن مقرر کر دیے گئے تھے کہ ان کے اندر درست ہوجائو اور اگر مزے کرنے ہیں تو مزے کرلو۔ اس کے بعد تمھارا خاتمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ وقت ختم ہوتے ہی، ان کے اُوپر عظیم الشان خطرناک زلزلہ آگیا۔ میں خود اس علاقے میں گیا ہوں اور وہاں واضح واضح نشانیاں اور علامات ملتی ہیں کہ اس پورے علاقے کو زلزلے نے تباہ کیا ہے۔ پورے پورے پہاڑ کھِیلکھِیل ہوکر رہ گئے۔ ان پر یک لخت وہ زلزلہ آیا۔ یہاں صاعقہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد بجلی کا کڑکا نہیں ہے بلکہ ایسے عذاب کو کہتے ہیں جو اچانک کسی پر آجائے۔ ان پر عذاب اچانک اس حالت میں آپڑا کہ  وہ اسے دیکھ رہے تھے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے عذاب نے انھیں آلیا۔

 فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo(۵۱:۴۵)پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔

یعنی جو جہاں گرا تھا وہ گر کر رہ گیا اور پھر اُٹھنے کی مہلت نہ ملی اور ان میں یہ طاقت نہ تھی کہ اپنا بچائو کرلیتے۔ جب خدا کا عذاب آتا ہے تو انسانی ذرائع ناکام ہوجاتے ہیں۔ خدا کی طرف سے جب کسی کو مارپڑے تو اس کی ساری تدبیریں ناکام رہ جاتی ہیں اور اس کا کوئی زور باقی نہیں رہتاکہ وہ اپنے بچائو کے لیے کچھ کرسکے۔مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی مدافعت کے لیے کچھ کرسکے۔ قومِ عاد کی تباہی میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ کھڑے نہ رہ سکے اور یہاں یہ بیان کیا گیا کہ ان میں کوئی یارا یا بل بوتا نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے بچاسکیں۔

قومِ نوح کی ھلاکت

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ o(۵۱:۴۶) اور ان سب سے پہلے ہم نے نوح ؑ کی قوم کو ہلاک کیا کیوںکہ وہ فاسق لوگ تھے۔

یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ ان پر کیا گزری اس لیے کہ ہر ایک جانتا ہے۔ ساری دنیا اس سے واقف ہے۔ دنیا میں بچہ بچہ اس قصے کو جانتا ہے۔ فرمایا گیا کہ نوح کی قوم کی صورت میں تمھارے لیے مثال موجود ہے۔ وہ ایک فاسق قوم تھی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں عذاب سے دوچار کر دیا تھا۔ اس کی تباہی کی وجہ اس کا فسق تھا۔ فسق عربی زبان میں نافرمانی کو کہتے ہیں۔ اطاعت سے نکل جانا فسق ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے نکل چکے تھے۔ انھوں نے نافرمانی اختیار کی اور آخرکار تباہ و برباد ہوگئے۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۱۵-۱۶) البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انھیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے۔

یہ سورئہ ذاریات کے پہلے رکوع کی آیات ہیں۔ سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور آخرت کے متعلق جو ان کے شبہات اور اعتراضات تھے اور اس کے انکار پر وہ اصرار کر رہے تھے، اس کے اُوپر استدلال بھی کیا گیا ہے اور ان کو تنبیہہ بھی کی گئی ہے۔

اس سے پہلے جو آیات گزر چکی ہیں ان کے اندر سب سے پہلے ہوائوں کے انتظام کو بطورِ دلیل کے پیش کیا گیا ہے۔ ہوائوں کا چلنا اور ان سے بارشوں کا آنا اور بارشوں کا ایک قاعدے کے مطابق اور ایک تنظیم کے ساتھ زمین کے مختلف حصوں پر تقسیم ہونا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا یہ نظام ایک حکیمانہ نظام ہے۔ یہ حکمت اور دانائی پر مبنی ہے، کسی بچے کا کھیل نہیں ہے۔ جب یہ حکیمانہ نظام ہے تو اس کے متعلق کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اس زمین پر انسان کو پیدا کرنے کے بعد، اس کو طرح طرح کے اختیارات دینے کے بعد، اس کے اندر اخلاقی حس پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو مرنے کے بعد خاک میں ملا دے گا اور معدوم کردے گا اور پھر کبھی اس کو اُٹھا کر یہ نہ پوچھے گا کہ اس نے دنیا کی زندگی میں کیا کام کیا اور  کس طرح کیا، درست نہیں۔ اگر یہ کسی بچے کا کھلونا ہوتا تو وہ اس سے کچھ دیر کھیلنے اور اس سے دل بہلانے کے بعد پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اسے توڑ ڈالتا اور پھر پلٹ کر نہ دیکھتا۔

درحقیقت اس کائنات کا نظام کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے۔ اس میں ہزارہا برس سے حق اور باطل کی کش مکش چل رہی ہے۔ ہزارہا آدمیوں نے حق کا ساتھ دیا اور لاکھوں آدمیوں نے باطل کو سربلند کرنے کے لیے کوشش کی ہے۔ لوگوں نے حق اور باطل کی اس کش مکش میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم سہے اور لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم کیے۔ یہ سب کچھ برپا ہونے کے بعد آخرکار دونوں کا ہی ایک جیسا انجام ہوجائے، ظلم کرنے والے سے کبھی نہ پوچھا جائے کہ تم نے کیوں ظلم کیا تھا اور مظلوم کی کبھی کوئی داد رسی نہ کی جائے، یہ حکمت اور انصاف کے خلاف ہے۔

استدلال یہ تھا کہ اس کائنات کا نظام ایک حکیمانہ نظام ہے اور اس کے اندر کسی شخص کا یہ تصور کرنا کہ یہ یونہی ختم کردیا جائے گا، بغیر اس کے کہ اس میں انصاف ہو، اس میں کوئی عدالت ہو، جس میں اعمال کی بازپُرس ہو، یہ ایک احمقانہ خیال ہے۔

اس کے بعد دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ محض گمان اور اٹکل سے یوں ہی الل ٹپ فیصلے کر دینا کہ اس کائنات میں انسان کا انجام کیا ہوگا؟ یہ ایک غلط بات ہے۔ اتنا بڑا اور اہم مسئلہ ہو اور اس چیز کو انسان محض اپنے گمان سے حل کردے درآں حالیکہ اس کے بارے میں انسان کے گمان مختلف بھی ہیں۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ تناسخ ہوگا۔ کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ مرکر یوں ہی مٹی ہوجائیں گے۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ مرکر اُٹھیں گے تو سہی لیکن کچھ لوگ سفارش کرکے اپنے متوسلین کو اور ان لوگوں کو جنھیں وہ نذرانے دیتے ہیں ان کے گناہ معاف کروا لیں گے۔ اس طرح آخرت کے متعلق لوگ مختلف گمان کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سارے گمان تو صحیح نہیں ہوسکتے۔ صحیح چیز یہ ہے کہ یہ اعتقاد علم پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ محض قیاس اور گمان پر۔

تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ تمھارے گمانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ تم بار بار چیلنج کے انداز میں پوچھتے ہو کہ کہاں ہے وہ آخرت اور وہ کیو ں نہیں آتی؟ وہ آخرت آئے گی اور آکر رہے گی اور جب وہ آئے گی تو تم آگ پر تپائے جائو گے۔ جن لوگوں نے بھی آخرت کا انکار کیا اور اپنے آپ کو غیرذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھا اور دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح رہ رہے ہیں، آخرکار ان کا جو انجام ہونا ہے وہ یہ ہے کہ وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ اور ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ یہ وہی چیز تو ہے نا جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے اور جس کو تم جھٹلاتے تھے۔

اس سلسلے میں مزید یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں آخرت کا انکار کرکے شتربے مہار کی طرح رہ رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو آخرت کا اقرار کرکے تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ تقویٰ اختیار کرنے والوں میں سے کوئی بھی شخص آخرت کا انکاری نہیں ہوتا۔ آخرت کا اقرار کر کے ہی آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے، لہٰذا جن لوگوں نے آخرت کا اقرار کر کے تقویٰ اختیار کیا وہ اُس وقت اللہ کی جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ جنت عربی زبان میں باغ کو کہتے ہیں، یعنی وہ وہاں باغوں میں ہوں گے۔ گویا ایک طرف آخرت کا انکار کرنے والے ہوں گے جنھیں وہاں آگ پر تپایا جائے گا، اور دوسری طرف آخرت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اور وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o (۵۱ :۱۶) جوکچھ ان کا رب انھیں دے گا وہ خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے قبل نیکوکار تھے۔

گویا یہ لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے نیک تھے۔ انھوں نے نیکوکاری اختیار کی تھی۔ اس لیے یہ لوگ جنت کے مستحق ٹھیرے ہیں۔

اب ان کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں کہ ان کی نیکی کیا تھی:

کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ o وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ o وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (۵۱:۱۷-۱۹) وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔

یہ ایسے لوگ تھے جو راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔ رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے، اللہ تعالیٰ سے درگزر اور مغفرت کی دعائیں مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں سائل اور مسکین کا حق تھا۔

ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ پر نیک کاموں کی فہرست بناکر یک جا پیش نہیں کی گئی۔ نیکی کس کو کہتے ہیں؟ یہ پورے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔  بدی کسے کہتے ہیں؟یہ بھی قرآن کے اول سے لے کر آخر تک لکھا ہوا ہے۔ مختلف مقامات پرجہاں کسی چیز کا کوئی بیان آتا ہے کہ نیک کون ہے اور بد کون، تو وہاں ایک دو نمونے کی چیزیں لے کر  چند صفات بیان کردی جاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں نیکی کے تمام کاموں کی فہرست موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ نمونے کی چند صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اصولی بات کی جاسکتی ہو۔ اسی طرح سے بدی ہے۔ مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ بدی کی مختلف چیزوں کی مذمت فرماتے ہیں۔ کسی ایک جگہ ان تمام صفات کو بیان نہیں کردیا گیا ہے جو بُری ہیں۔ موقع محل کے لحاظ سے ایک دو چیزیں بیان کی جاتی ہیں جن سے آدمی سمجھ سکتا ہے کہ بُرائی کیا ہے؟

یہاں بھی احسان اور تقویٰ کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کی وجہ سے یہ لوگ جنت میں جائیں گے وہ ان کا تقویٰ اور احسان ہے۔

تقویٰ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بُرائی سے اس بنا پر ڈرے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ ناپسندہے۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے وہ بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے گا۔

احسان اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بہتر سے بہتر رویہ اختیارکرنے کی کوشش کرے۔

آگے چل کر ان لوگوں کی بطورِ نمونہ دو صفات پیش کی گئی ہیں جن کے اندر تقویٰ اور احسان پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ راتوں کو کم ہی سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے ہیں۔ یہاں بطورِ نمونہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا کیا کام پسند ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس دنیا میں انسان کے تعلقات کو اگر آپ تقسیم کریں تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ ایک یہ کہ آدمی کا خدا سے کیسا تعلق ہے اور دوسرے یہ کہ بندوں سے آدمی کا کیسا تعلق ہے۔

یہاں پہلی چیز یہ بتائی گئی کہ خدا سے ان کا کیا تعلق ہے۔ خدا سے ان کا تعلق یہ ہے کہ   وہ رات کو کم سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں اُٹھ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔   اگر ایک شخص استغفراللہ، استغفراللہ پڑھ رہا ہو تو اس میں اس بات کا امکان ہے کہ وہ ریاکاری کررہا ہو اور اس میں خلوص نہ ہو۔ رات کے آخری حصے میں اگر کوئی شخص استغفار کرتا ہے تو اس وقت وہ اور اس کا رب ہوتا ہے اور درمیان میں کوئی اور نہیں ہوتا۔ اس وقت اگر کوئی آدمی استغفار کرتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ وہ خلوص کی بنا پر یہ کر رہا ہے ۔ اس کے دل کو لگی ہوئی ہے۔ وہ ریاکاری نہیں کررہا۔ اپنے رب سے پُرخلوص تعلق کی وجہ سے وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ رات کے آخری حصے میں جب کوئی دیکھنے اور سننے والا نہیں ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان یہ تعلق اس کے خلوص کا نتیجہ ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ وہ استغفار کرتا ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جو دنیا میں ظلم کرتا ہے، زیادتیاں کرتا ہے، حرام خوریاں کرتا ہے، لوگوں کے حقوق مارتا ہے لیکن پھر بھی اس کو استغفار کا خیال نہیں آتا۔ اللہ سے معافی مانگنے کا خیال تک اس کے دل میں نہیں آتا۔

دوسرا آدمی وہ ہے جو تقویٰ کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں اسے خیال ہوتا ہے کہ اس میں میرے رب کی ناراضی ہوگی، اس سے وہ پرہیز کرتا ہے۔ جن جن بھلائیوں کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ اس کے رب کو پسند ہیں، ان کو وہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ استغفار کرتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میرے رب کا میرے اُوپر جو حق تھا مَیں اس کو پوری طرح ادا نہیں کرسکا۔ اس کو یہ غلط فہمی نہیں ہوتی کہ میں نے اپنے رب کے سارے حقوق ادا کر دیے ہیں۔ میں تمام بُرائیوں سے بچ گیا ہوں اور کبھی مجھ سے کوئی بُرائی سرزد نہیں ہوئی۔ ساری نیکیاں اور بھلائیاں میں نے کرلی ہیں اور کوئی نیکی اور بھلائی مجھ سے نہیں چھوٹی۔  اس غلط فہمی میں وہ کبھی مبتلا نہیں ہوتا۔ سارے نیک عمل جو وہ کرسکتا ہے ان کو کرنے کے بعد اور ساری وہ بُرائیاں جن کو وہ کرسکتا ہے ان سے بچنے کے بعد بھی وہ اپنے رب سے درگزر ہی کی درخواست کرتا ہے، اور معافی ہی مانگتا ہے۔ یہ پہلی صفت ہے کہ خدا کے ساتھ اس بندے کا کیا تعلق ہے۔

دوسری صفت بھی بطورِ نمونہ لی گئی ہے کہ بندوں کے ساتھ اس کا کیسا تعلق ہے:

وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o(۵۱:۱۹) ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کا۔

یہاں اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ ایک وہ آدمی ہے جس پر دوسرے لوگوں کے قانونی حقوق عائد ہوتے ہیں اور وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ شرعاً اس پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ یہ بھی نیکی ہے ۔ لیکن اس سے آگے بڑے درجے کی نیکی یہ ہے کہ بظاہر کسی کا کوئی حق آپ پر نہیں آرہا۔ کسی قانون میں نہیں لکھا ہے کہ ایک آدمی آپ سے مدد مانگنے کے لیے آئے تو آپ پر لازم ہے کہ اس کی مدد کریں۔کسی قانون میں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلاں آدمی اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ جا کر اس کو پہنچائیں۔ کوئی فریضہ آپ پر اس طرح کا عائد نہیں ہوتا لیکن باوجود اس کے ایک آدمی ان لوگوں کے حق کو محسوس کرتاہے کہ جن کا حق اس پر ازروے قانون عائد نہیں کیا گیا۔ اس کے اُوپر کوئی فریضہ عائد نہیں ہے لیکن وہ اپنی جگہ یہ احساس رکھتا ہے کہ جو بندہ مدد کا محتاج ہے اور میرے پاس آکر اپنی حاجت ظاہر کرتا ہے، مجھ سے درخواست کرتا ہے کہ میں مدد کا محتاج ہوں،اس آدمی کا حق وہ اپنے اندر خود محسوس کرتا ہے۔ آپ خود یہ محسوس کرتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے درآں حالیکہ قانون نے وہ حق آپ پر عائد نہیں کیا۔ یہ ایک اخلاقی حق ہے لیکن ازروے قانون آپ پر لازم نہیں ہے۔

اسی طرح اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک آدمی آپ کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں حاجت مند ہوں اور میری مدد کیجیے۔ ایک دوسرا شخص ہے کہ جس کے علم میں ہے کہ یہ شخص اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے۔ اس کے گھر آج کھانے کو نہیں ہے۔ اس کے پاس کپڑے نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پہنا سکے۔ غرض کسی نہ کسی طرح آپ کے علم میں یہ بات آجائے کہ ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنے کے ذرائع سے محروم رہ گیا ہے۔ محروم اسی آدمی کو کہیں گے جو مدد مانگنے کے لیے مجبور ہے لیکن مدد مانگنے کے لیے نہیں آتا، اور جو آکر مدد مانگے وہ سائل ہے۔ جب آپ محسوس کریں کہ میرے پاس جو مال ہے اس میں اس کا بھی حق ہے۔ یہ صرف میرا مال ہی نہیں ہے کہ مَیں نے اسے کمایا ہے ۔ میرے بال بچوں کا ہی حق نہیں ہے کہ وہ میرے بال بچے ہیں۔ نہیں، بلکہ اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے جو اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اور ان حقوق کو   وہ محسوس کر کے ادا کردے۔اللہ کے بندوں کے ساتھ جو بہترین تعلق آپ محسوس کرسکتے ہیں وہ  اس کے اندر آگیا۔

ظاہر بات ہے کہ جو آدمی بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرتا ہو، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرے اور پھر انھیں ستائے بھی۔ ان کے ساتھ شرارتیں بھی کرے، ان پر طنز بھی کرے اور ان کے ساتھ زیادتیاں بھی کرے اور ان کے حقوق بھی مارے۔ اس کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔ بندوں کے ساتھ بہترین تعلق کی جو صورت ہوسکتی ہے، یہاں اس کا ایک نمونہ بیان کر دیا گیا ہے جس سے آپ تصور کرسکتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی اس کا خدا کے بندوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا۔

خدا اور اس کے بندوں کے ساتھ یہ تعلق رکھنے والے ہی محسن اور متقی ہیں اور اس طرح کے لوگ لازماً جنت میں جائیں گے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو آخرت کا انکار کرتے ہیں اور آخرت کے انکار کی وجہ سے اپنے آپ کو غیرذمہ دار سمجھتے ہیں اور دنیا میں اس طرح سے زندگی بسر کرتے ہیں کہ گویا ان کو کسی کے سامنے جاکر اپنا حساب نہیں دینا ہے، وہ آگ کے اُوپر تپائے جائیں گے۔

یہ جنت کے حق میں تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔ ایک استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کا نظام حکیمانہ ہے۔ دوسرا استدلال یہ ہے کہ تمھارے لیے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ تم اتنے بڑے اہم معاملے کا فیصلہ اٹکل پچو اور محض اپنے قیاسات و گمان کی بنیاد پر کرلو۔ تیسرا استدلال یہ ہے کہ    خود اخلاق کا تقاضا کیا ہے۔ انسان کے اندر جو اخلاقی حس رکھی گئی ہے کہ یہ نیکی ہے اور یہ بدی، تو کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز نہ کرسکے اور کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی کو مکینیکل سمجھتا ہے۔

ایک آدمی کو اگر گدھا لات مار دیتا ہے تو اس کو کبھی غصہ اس حیثیت میں نہیں آتا کہ اس گدھے نے جان بوجھ کر مجھے لات ماری ہے۔ ایک آدمی دوسرے کو لات مار دیتا ہے تو اس کو فوراً غصہ آجاتا ہے اور وہ اس سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ سوچے سمجھے افعال اور بے سوچے سمجھے افعال کے درمیان فرق کر رہا ہے۔ اس کے بعد وہ یہ بھی فیصلہ کرتا ہے کہ گدھے کے عمل میں نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، لیکن انسان کے عمل میں نیکی اور بدی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا سا بچہ کسی کو گالی دے دیتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ اپنی اس گالی کے لیے ذمہ دار ہے۔ بڑا آدمی اگر گالی دے تو دوسرا شخص لڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی نیکی اور بدی میں تمیز کر رہا ہے۔ ایک ایک آدمی اس فرق کو محسوس کر رہا ہے۔

دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں جو اس بات کو محسوس نہ کر رہا ہو کہ نیکی کس کو کہتے ہیں اور بدی کس کو کہتے ہیں، اور نیکی اور بدی میں فرق کیا ہے۔ لہٰذا انسان میں نیکی اور بدی کی تمیز موجود ہو اور اس کی پوری زندگی میں نیکی اور بدی کا امتیاز پایا جاتا ہو۔ اس کے بعد کوئی جواب دہی نہ کرنی پڑے تو اس کے کیا معنی! انسان میں اخلاقی حِس کا پیدا ہونا خود بخود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کی کہیں نہ کہیں جواب دہی ہونی چاہیے، اور وہ جواب دہی اس دنیا میں نہیں ہوسکتی۔

اس دنیا میں جواب دہی اس طرح ہوتی ہے کہ جو جوتے مارتے ہیں وہ بعض اوقات قوموں کے حکمران بن جاتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ان کے آگے سلامیاں پیش کی جاتی ہیں، ان کی تعریفوں کے لیے گیت گائے جاتے ہیں درآں حالیکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے کہ وہ کیسا آدمی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں لازماً ٹھیک ٹھیک انصاف ہو۔یہ تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔

آخرت پر عقلی استدلال

وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ o وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنo (۵۱:۲۰-۲۱) زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے ، اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں۔ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟

قرآنِ مجید حقیقت کی تلاش کا جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آدمی آنکھیں بند کرکے ایک تاریک کمرے میں بیٹھ کر منطقی دلیلوں اور قیاسات کی بنا پر راے قائم کرے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ کوئی آخرت ہے یا نہیں اور اس دنیا میں میری کیا حیثیت ہے؟ انسان کی کوئی جواب دہی ہے یا نہیں؟ اور ان کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی کے بارے میں کیا فیصلہ کرے۔

قرآن جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ اتنے بڑے اہم معاملات کے متعلق آدمی کو کوئی عقیدہ علم کے بغیر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو علم ہونا چاہیے نہ کہ قیاس اور گمان ہو۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے؟ اور یہ علم بغیر وحی کے کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ غیب کی جو حقیقتیں آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ان کے متعلق براہِ راست جاننے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آپ صرف ان چیزوں کو جان سکتے ہیں جنھیں آنکھوں سے دیکھ سکیں،  جن کی آواز اپنے کانوں سے سنیں، یا چھو کر دیکھ لیں، یا جسے آپ اپنی ناک سے سونگھ کر دیکھ لیں، یا زبان سے چکھ کر دیکھ لیں۔ ان کے متعلق تو آپ کسی نہ کسی حد تک  ایک فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو آپ کو اپنے تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوا۔ جو چیزیں آپ کی حس سے ماورا ہیں، جو کسی بھی طرح آپ کے مشاہدے میں نہیں آسکتیں، لامحالہ ان کے بارے میں کسی ایسے ذریعے ہی سے علم حاصل ہوسکتا ہے جس کو حقیقت کا براہِ راست علم ہو، اور حقیقت کا براہِ راست علم سواے خدا کے کسی کو نہیں۔

اسی طرح جو چیز آگے آنے والی ہے، یعنی آخرت، اس کے متعلق آپ کے پاس جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آخرت آئے گی یا نہیں آئے گی؟ اگر آپ قیاسات کی بنا پر راے قائم کریں گے تو وہ اٹکل پچو بات کریں گے۔ وہ ایسا ہی ہے کہ آدمی اندھیرے میں چلے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کہاں ٹھوکر کھائے گا۔ آخرت کے متعلق بھی جاننے کا ذریعہ سواے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی بتائے کہ تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور آخرت ہوگی اور ایسا اور ایسا ہوگا، او ر کوئی ذریعہ اس چیز کے جاننے کا نہیں ہے۔ بس وہی ایک ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی ؑ کو علم دیتا ہے۔ اب انسان کے پاس اس حقیقت کو جاننے کا اور اپنا یہ اطمینان کرنے کا کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے کہ میں نبی ہوں اور جو معلومات وہ دے رہا ہے ان کے متعلق آپ آنکھیں کھول کر چاروں طرف اس کائنات کو دیکھیں اور پھر خود اپنے وجود کو بھی دیکھیں، اور اس کے بعد یہ سوچیں کہ جو حقیقتیں نبی بتا رہا ہے، کیا واقعی وہ حقیقت ہیں اور دل کو لگتی ہیں؟ کیا واقعی وہ معقول ہیں؟ اس کائنات اور میرے اپنے وجود میں کچھ نشانیاں ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ نبی جو خبر دے رہا ہے وہی بات زیادہ صحیح ہے۔ یہ آپ کے پاس ایک ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ حقیقت کا راستہ ہی دوسرا بتاتا ہے اور وہ قیاس کا راستہ نہیں بتاتا۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے حقیقت کے علم تک پہنچ جائیں گے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے سے جانچ سکتے ہیں کہ نبی جو اطلاع آپ کو دے رہے ہیں، وہ زیادہ معقول ہے، یا جو دوسرے مختلف قیاسات قائم کر رکھے ہیں وہ زیادہ معقول ہیں؟

ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ نبی یہ کہتے ہیں کہ خدا ہے۔ کائنات کو دیکھیے۔ ایک عظیم الشان کائنات سے لے کر کرئہ زمین تک دیکھیے اور راے قائم کیجیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے بغیر قائم ہوسکتا ہے، یا یہ سب کچھ قائم کرنے کے لیے خدا درکار ہے؟ اگر ایک آدمی اندھے تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو وہ کہے گا کہ کائنات کا یہ explaination کہ اس کا کوئی خدا نہیں ہے یہ نہایت نامعقول ہے، اور یہ explaination کہ ایک حکیم قادرِ مطلق نے اس کو بنایا ہے اور وہ اس کو چلا رہا ہے، یہ زیادہ معقول ہے۔

اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے۔ انبیا ؑ خبر دیتے ہیں کہ آخرت ہوگی، تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور جواب دہی کرنی ہے، اور تمھارے اعمال جیسے ہوں گے اس کے لحاظ سے تمھارا مستقبل بنے گا۔ دوسری طرف ایک آدمی کہتا ہے کہ نہیں، کوئی آخرت نہیں ہوگی، مرکر مٹی ہوجانا ہے،   بالکل معدوم ہوجانا ہے۔ کائنات کو دیکھیے اور خود اپنے وجود کو دیکھیے اور اس کے بعد راے قائم کیجیے کہ ان دونوں میں سے کون سی بات زیادہ معقول ہے۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں اور خود تمھارے اپنے نفس میں نشانیاں ہیں۔ کیا تم کو نظر نہیں آتیں؟ لیکن یہ نشانیاں کن لوگوں کے لیے ہیں، لِّلْمُوْقِنِیْنَ، جو یقین لانے کو تیار ہوں۔ایک آدمی جو قسم کھا کر بیٹھ گیا ہے کہ مجھ کو نہیں ماننا، اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ وہ سب کچھ دیکھ کر بھی اس حال میں ہوگا کہ جیسے اسے کچھ نظر  نہیں آیا۔ لیکن جو آدمی یقین لانے کے لیے تیار ہے اور اس نے اپنے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں کرلیے ہیں، اس کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔

زمین میں جس طرف بھی آپ نگاہ اُٹھا کر دیکھیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ پورا نظام سراسر حکیمانہ ہے۔ اس نظام میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی آدمی کو اس زمین کے اُوپر وسیع اختیارات دے دیے گئے ہوں، بے شمار ذرائع اس کے قبضے میں دے دیے گئے ہوں، من مانی کرنے کے مواقع اس کو دے دیے گئے ہوں، جانوروں پر، انسانوں پر، تمام موجودات پر مختلف طرح کی چیزوں پر اس کو قدرت عطا کر دی گئی ہو، لیکن اس سے یہ نہ پوچھا جائے کہ تو نے ان ساری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا ہے؟ جو اختیارات تجھ کو دیے گئے تھے تو نے ان کو کیسے استعمال کیا؟ اس زمین کے نظام پر جو آدمی بھی غور کرے گا وہ ضرور محسوس کرے گا کہ اس کو کسی اندھے راجا نے نہیں بنایا ہے۔ یہ کوئی چوپٹ راج یا اندھیر نگری نہیں ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان زمین اور    اس کے بے شمارے ذرائع اور اس کے اندر تصرف کے اختیارات کسی کو دے دیے جائیں اور پھر پلٹ کر اسے پوچھا ہی نہ جائے کہ تو نے اس سب کا کیا کیا؟ ایسا کوئی اندھا راجا ہی کرسکتا ہے جو پلٹ کر پوچھے ہی نہ کہ تم نے کیا کیا؟ اگر آپ اپنے نوکر کو پانچ روپے دیتے ہیں تو اس سے بھی حساب لیتے ہیں کہ تو نے انھیں کہاں خرچ کیا۔ اس زمین پر انسان کو بے شمار اختیارات دے دیے جائیں، وسائل دے دیے جائیں اور پھر اس سے پلٹ کر نہ پوچھا جائے کہ تم نے ان چیزوں پر کیسے تصرف کیا اور انھیں کیسے استعمال کیا، تو یہ اندھیر نگری اور اندھا راج نہ ہوا تو اور کیا ہے؟ اسی طرح فرمایا گیا:

وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط(۵۱:۲۱) تمھارے اپنے نفس کے اندر نشانیاں ہیں۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمھارے اپنے نفس کے اندر نیکی اور بدی کا امتیاز موجود ہے۔ تمھارے اپنے نفس کے اندر یہ تصور موجود ہے کہ مختارانہ فعل کو ن سا ہے اور غیرمختارانہ فعل  کون سا ہے۔ آدمی اگر پلک جھپکاتا ہے تو وہ غیرمختارانہ فعل ہے اور اگر وہ کسی کو آنکھ مارتا ہے تو یہ مختارانہ فعل ہے۔ دونوں میں فرق ہے اور ہر آدمی اس فرق کو جانتا ہے۔ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو ان دونوں چیزوں میں امتیاز نہ کرسکتا ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے نفس میں یہ حِس موجود ہے۔ جب تمھارے نفس میں یہ حِس موجود ہے تو یہ خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمھارے اختیاری افعال اور غیراختیاری افعال کے درمیان کسی وقت فرق کیا جائے اور جو اختیاری افعال ہیں ان کے متعلق تم سے پوچھا جائے کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ اگر تم نے اپنے اختیارات سے نیکی کی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم کو تمام نیکیوں کا بدلہ نہ ملے۔ جن لوگوں نے ساری عمر حق پھیلانے کے لیے کام کیا ہو، ساری عمر خلقِ خدا کے ساتھ بھلائی کی ہو، جن لوگوں نے لوگوں کو ایسی روشنی دکھائی ہو کہ صدیوں تک خلقِ خدا ان سے فائدہ اُٹھاتی رہے، کیا وہ اس کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کو اس کا بھرپور انعام دیا جائے؟ کیا دنیا میں سبھی اس طرح کے لوگوں کو ان کا انعام ملا ہے؟ اگر انعام ملا بھی تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی تمام نیکیوں کا پورا پورا انعام تھا؟

اگر وہ اس کا پورا پورا انعام نہیں پاسکے اور نہیں پاسکتے۔ اس دنیا میں اس کا امکان نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی نے دنیا میں حق کی روشنی پھیلائی ہے اور دوہزار برس یا چار ہزار برس تک لاکھوں اور کروڑوں انسان اس کا فائدہ اُٹھاتے رہے ہیں اور اس دنیا میں اس کی نیکی کا پورا پورا اجر اس کو مل جائے، کیا اس بات کا کوئی امکان ہے؟ اگر اس کا کوئی امکان نہیں ہے، تو لامحالہ ایک وقت ایسا ہونا چاہیے کہ جب اس آدمی کو اس کی اس طرح کی نیکیوں کا بھرپور اجر مل سکے۔

اسی طرح اگر کسی نے اس دنیا کے اندر بدی کے بیج بوئے اور ہزارہا برس تک خلقِ خدا کے اندر وہ بدی کے بیج اپنے کانٹے بکھیرتے رہے، تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ اس کو اس دنیا میں اس کی پوری سزا مل سکے۔ اوّل تو بہت سے لوگ سزا پائے بغیر ہی چلے گئے۔ انھوں نے جو کچھ بُرے کام دنیا میں کیے لیکن ان کو اس کا کوئی نقصان نہ پہنچا۔ اسٹالن مرتے مر گیا اور دنیا کے اندر ظلم و ستم کرتا رہا، بتایئے اس کو کیا سزا ملی؟ آخر وقت تک اس کی ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔ لامحالہ اس طرح کا وقت ہونا چاہیے جب اس طرح کے لوگوں کی بھرپور گرفت ہو ، جنھوں نے لاکھوں انسانوں پر ظلم ڈھایا ہو اور جن کے مظالم کے اثرات و نتائج نہ معلوم کتنی صدیوں تک خلقِ خدا بھگتے گی اور کروڑوں آدمی اس سے متاثر ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخرت کی نشانیاں تو تمھارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ جس طرف زمین میں نگاہ اُٹھا کر دیکھیں آخرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ اگر تم اپنے نفس پر غور کرو گے تو اسی طرح آخرت کی نشانیاں پائو گے۔ لیکن تم کو اس لیے نہیں سوجھتا کہ تم آخرت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ آخرت پر ایمان لانے کے لیے اس پر یقین لانا ضروری ہے۔

آخرت کو تسلیم نہ کرنے کے لیے انسان خواہ کتنی ہی حجتیں کرلے،درحقیقت آخرت پر ایمان لانے کے لیے انسان صرف اس لیے تیار نہیں ہوتا ہے کہ اگر آخرت کو مان لے گا تو پھر دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح نہیں رہ سکے گا۔ اس کی یہ آزادی کہ جس کھیت میں چاہے منہ مارے، اور جہاں چاہے دوڑتا پھرے، اور جو کچھ چاہے کرتا پھرے، یہ آزادی، آخرت پر یقین رکھ کر کوئی شخص برت ہی نہیں سکتا۔ آدمی اپنی اس آزادی کی خاطر اور اپنے آپ کو اخلاقی بندھنوں میں پھنسانے سے بچانے کے لیے آخرت کا انکار کرتا ہے۔ جو آدمی یہ یقین لانے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کے لیے کوئی نشانیاں نہیں ہیں۔ وہ صرف اس وقت مانے گا جب آخرت میں فرشتے اس کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ اس سے پہلے وہ ماننے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہوگا۔

وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ o فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۲-۲۳) آسمان ہی میں ہے تمھارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔

یعنی جس طرح تمھارا بولنا یہ امر واقعہ اور حقیقت ہے کہ تم بول رہے ہو۔ اسی طرح یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ آخرت ہونی ہے اور یہ یقینا حق ہے۔ آسمان اور زمین کے رب کی قسم کھا کر کہا گیا ہے کہ یہ امرِ حق ہے۔ کیا چیز امرِ حق ہے؟ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ، یعنی آسمان میں تمھارا رزق ہے اور وہ چیز ، یعنی آخرت بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ آسمان میں رزق ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آسمان میں کہیں رزق رکھا ہوا ہے اور وہ لاکر پھینک دیا جائے گا، اور آسمان میں کہیں آخرت رُکی پڑی ہوئی ہے اور یک دم اسے کھول دیا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی نے جب کبھی خدا سے دُعا مانگنی ہوتی ہے تو ہمیشہ اُوپر کی طرف دیکھتا ہے۔ جب کبھی انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوران میں کوئی اشارہ کرتا ہے تو آسمان کی طرف کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آدمی کی فطرت میں یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو عالمِ بالا میں محسوس کرتا ہے۔ اسی چیز کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ عالمِ بالا ہی میں تمھارا رزق مقدر ہے اور عالمِ بالا ہی میں آخرت کا آنا بھی مقدر ہے۔

پہلی چیز رزق کا بیان اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں اگر آپ غور کرکے دیکھیں  گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسان کو اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے وہ لازماً اس کی اپنی کوششوں اور تدبیروں کا نتیجہ نہیں ہے۔

ایک شخص ایک رئیس کے ہاں پیدا ہوگیا۔ اس رئیس کے ہاں اسے جو عیش و آرام حاصل ہوا اور جو وراثت ملی، یہ بجز اس کے کہ کسی نے اس کو وہاں پیدا کر دیا تھا اور اس وجہ سے اسے یہ سب کچھ ملا، ورنہ ایسا نہیں ہے کہ وہ خود اپنی کوشش سے آیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ    ماں باپ کچھ خاص بچوں کو چھانٹ کر لے آئے ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی اور شخص کسی نفس کو چھانٹ کر وہاں پیدا کردے۔ معلوم ہوا کہ نہ وہ شخص خود اپنے انتخاب سے اس گھر میں آیا تھا  اور نہ اس کے ماں باپ اسے چھانٹ کر لائے تھے، اور نہ کسی ڈاکٹر نے یہ تجزیہ کیا تھا کہ اس شخص کے ہاں فلاں شخص نے پیدا ہونا ہے۔

اسی طرح سے انسان کو اس دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جائے، اور ہروقت انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کے لیے کوششیں کرتے اور اس کے لیے اپنا پورا سر مار لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بعض اوقات آپ کی کوششوں کے بغیر ہی ایک ایسی چیز آپ کو حاصل ہوجاتی ہے جو آپ کے لیے مفید ہوتی ہے۔

معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی ایسی ہستی ہے جو فیصلہ کرنے والی ہے اور وہ فیصلہ بھی بڑی باقاعدگی سے ہو رہا ہے اور الل ٹپ نہیں ہو رہا۔ وہ فیصلہ کسی حکیمانہ طریقے سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح جب انسان غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگاکہ رزق کی تقسیم بڑے حکیمانہ طریقے سے ہو رہی ہے۔ جس طرح سے تمھاری قسمت کا فیصلہ اس دنیا کی زندگی میں ہو رہا ہے اور کوئی حکیم اور قادرِمطلق کر رہا ہے، اُسی حکیم اور قادرِ مطلق کا یہ فیصلہ ہے کہ تمھارے اُوپر آخرت بھی آئے۔

فَوَ رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۳) آسمان اور زمین کے رب کی قسم وہ آکر رہے گی اور وہ امرحق ہے۔

رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ کی قسم کھا کر کہنے کا مدعا یہ ہے کہ کائنات کے خدا کے متعلق  تم اگر کوئی صحیح تصور قائم کرو گے تو لامحالہ تمھارا دل یہ گواہی دے گا کہ وہ اندھا راجا نہیں ہے اور   اس کی نگری چوپٹ نگری نہیں ہے۔ اس کے اندر لازماً یہ ضروری ہے کہ آخرت ہو اور اس کے اندر حساب کتاب ہو۔ (جاری)(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَالذّٰارِیٰتِ ذَرْوًا o فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا o فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا o فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا o اِِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ o (الذٰریٰت۵۱ :۱-۶) قسم ہے ان ہوائوں کی جو گرد اُڑانے والی ہیں، پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھانے والی ہیں، پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں، حق  یہ ہے کہ جس چیز کا تمھیں خوف دلایا جا رہا ہے، وہ سچی ہے اور جزاے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔

یہ سورئہ ذاریات ہے۔ اس کا اصل موضوع تنبیہہ اور آخرت کا برپا ہونا ہے۔ اس میں قسم کھاکر یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، یعنی مرکر دوبارہ اُٹھنا، اللہ تعالیٰ کے حضور میں سب انسانوں کا جمع ہونا اور جمع ہوکر اپنا حساب دینا، یہ سچا وعدہ ہے۔ یوم الدین، یعنی جزاوسزا کا دن واقع ہونے والا ہے۔

یہاں جس بات پر ان ہوائوں کی قسم کھائی گئی ہے جو بارش کا موسم آنے پر چلتی ہیں وہ یہ ہے کہ آخرت کا وقت آنے والا ہے اور یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ابتدا میں پراگندا ہوائیں چلتی ہیں اور خاک اُڑاتی ہیں۔ اس کے بعد پھر اپنے اُوپر بھاری بادل اُٹھاتی ہیں، یعنی پانی سے لدے ہوئے بادل۔ پھر ان کو لے کر چلتی ہیں۔ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (۵۱:۴) پھر ایک بڑے کام کی تقسیم کرنے والی ہیں۔ یہاں ’امر‘ سے مراد بارش ہے۔

ان دونوں چیزوں، یعنی ہوائوں اور بارش میں کیا مناسبت ہے؟

دراصل اس کی مناسبت یہ ہے کہ ہوائوں کا یہ انتظام اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ     اس کائنات اور دنیا کا یہ نظام نہ الل ٹپ بن گیا ہے اور نہ الل ٹپ چل رہا ہے کہ کوئی اندھی بہری طاقتیں ہزاروں لاکھوں سال سے اس نظام کو چلائے جارہی ہیں، بلکہ یہ ایک منظم کائنات ہے جس کی پشت پر ایک قانون بڑی باقاعدگی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں یہ قانون بنایا ہے کہ زمین گردش کرتی ہوئی ایک خاص حصے میں داخل ہوتی ہے تو اس پر گرمی کا موسم آجاتا ہے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں۔ جس وقت یہ بخارات بڑی تعداد میں عالمِ بالا میں جمع ہوجاتے ہیں تو اس وقت خاص قسم کی ہوائیں چلنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ ہوائیں ان بخارات کو بادلوں میں بدل دیتی ہیں اور پھر ان بھاری بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔سمندروں کے اُوپر سے اور مختلف خطوں کے اُوپر سے باقاعدگی سے گزرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہوائوں کے گزرنے کا قانون مقرر کر رکھا ہے اور ہرعلاقے سے وہ اسی حساب سے گزرتی ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا: فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ’’پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں‘‘۔ ایسا نہیں ہوتا، مثلاً کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے وہاں دو دن بارش ہوجائے اور کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے اور وہاں ایک دن بارش ہوجائے بلکہ باقاعدگی کے ساتھ پورے روے زمین پر بارش کے زمانے میں بارش ہوتی ہے۔ بالعموم جس ملک میں جس موسم میں بارش ہوتی ہے، اس زمانے میں وہاں بارش ہوتی ہے اور اس کی اوسط قائم رہتی ہے۔ اس میں تھوڑی بہت کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن ایک معمول قائم رہتا ہے۔

یہ ساری چیزیں اس بات کی متقاضی ہیں اور لازم ہے کہ اس کائنات میں ایک قدرت کے ساتھ ایک نظم قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے۔ اس نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنی زمین پر رہنے والوں اور اپنی زمین کے مختلف حالات کے لحاظ سے نظم قائم کیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حکیمانہ نظام ہے اور ایسا نظام نہیں ہے جس کو اندھی بہری قوتیں چلاتی ہوں۔ا گر اندھی بہری قوتیں اس نظام کو چلا رہی ہوتیں تو یہ نظام اس باقاعدگی کے ساتھ اور اتنی حکمتوں کے ساتھ قائم نہ رہتا۔

اب، جب کہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے تو پھر پورے نظام کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ  اللہ تعالیٰ اس زمین کے اُوپر انسان کو پیدا کرکے، اس کو عقل دے، تمیز دے، اختیارات دے، اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر اس کو قدرتیں عطا فرمائے یا وہ اپنے حاکمانہ اختیار کو استعمال کرے، اور یہ سب کچھ دینے کے بعد اس سے کچھ نہ پوچھے کہ جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے اس کا تو نے کیا کیا ہے؟ اس میں اخلاقی حِس پیدا کرے، نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کر کے اس کے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ نیکی کا نتیجہ اچھا ہونا چاہیے اور بدی کا نتیجہ بُرا ۔ اس کے ہاتھوں سے اس دنیا میں نیکی بھی ہو اور بدی بھی، وہ ظلم بھی کرے اور انصاف بھی۔ یہ سارے مختلف کام وہ زمین پر کرتا رہے اور اس کے بعد مرکر یہیں مٹی ہوجائے اور نہ کسی نیکی کا کوئی نتیجہ نکلے اور نہ کسی بدی کا کوئی نتیجہ۔ نہ کسی ظالم سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے ظلم کیوں کیا ؟ اور نہ کسی مُنصف کو اس کے انصاف پر انعام دیا جائے۔ اس چیز کی توقع کسی حکیمانہ نظام میں نہیں ہوسکتی بلکہ ایک اندھے بہرے نظام سے ہی ہوسکتی ہے۔

اگر یہ اندھا بہرا نظام ہے تو اس میں انسان کو بھی پیدا کیا گیا ہے جس کو اتنا کچھ دیا گیا ہے اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد وہ یہ کہتا ہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلارہی ہیں۔ دوسری طرف ان اندھی بہری طاقتوں میں یہ بات بھی ہے کہ وہ اخلاقی حِس بھی انسان میں پیدا کرتی ہیں اور نیکی اور بدی کی تمیز بھی۔ اس سب کے باوجود اگر کوئی انسان کہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلا رہی ہیں اور وہ اتنا ضدی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اگر ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے خود یہ محسوس ہوگا کہ جو طاقتیں زمین کو چلا رہی ہیں، گرمی اور سردی اور تپش کا قانون اور مختلف طاقتیں جو زمین میں کارفرما نظر آرہی ہیں، ان میں سے کسی میں بھی کوئی اخلاقی حس نہیں ہے۔ کسی کے اندر نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کسی کے اندر نیک اور بد کی تمیز نہیں پیدا ہوسکتی۔ یہ کوئی حکیم ہی ہے جس نے انسان کے اندر یہ اخلاقی حس پیدا کی ہے، جو مادی طاقتوں کے اندر کسی میں موجود نہیں ہے۔ نہ ہائیڈروجن میں ہے، نہ آکسیجن میں اور نہ پانی اور ہوا میں۔ اس نے صرف انسان میں ہی یہ اخلاقی حس اور نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کی ہے۔

یہ ایک حکیمانہ نظام ہے اور کسی بھی حکیمانہ نظام میں اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ  کسی کو اختیارات دیے جائیں اور اس سے پوچھا نہ جائے کہ اس نے ان اختیارات کو کیسے استعمال کیا؟ کسی کو طاقتیں عطا کی جائیں اور یہ دیکھا نہ جائے کہ اس نے ان طاقتوں کو کیسے استعمال کیا؟ نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کردی جائے اور پھر نیکی اور بدی کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہوائوں کا جو نظام تمھیں نظر آرہا ہے، یہ بتا رہا ہے کہ قیامت کے آنے کا جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے اور جزا و سزا کے واقع ہونے کی تم کو جو خبر دی جارہی ہے، یہ یقینا سچی ہے۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیکھے گا وہ یہ باور کرے گا کہ فی الواقع یہ چیز ہونے والی ہے اور یہ کائنات الل ٹپ نہیں چل رہی ہے۔

وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ o اِِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ o یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ o (۵۱:۷-۹) قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی، (آخرت کے بارے میں) تمھاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔

حُبُک کے دو معنی ہیں۔ اس کے معنی راستے کے بھی ہیں اور متفرق شکلوں کے بھی۔  جس طرح ریگستانی علاقوں میں کثرت سے ہوائیں چلنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں اور ان سے ریت کے تودے ٹوٹ پھوٹ کر لہروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ایسے ہی بعض اوقات آسمان پر بادل کٹے پھٹے ہوکر دُور دُور تک جہاں تک نگاہ جاتی ہے، نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قسم ہے اس آسمان کی جس میں راستے بنے ہوئے ہیں یا کٹے پھٹے بادل نظر آرہے ہیں، تم اپنے احوال میں مختلف ہو۔

یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ، ان مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے، دھوکا کھانے والا شخص یعنی جس آدمی کی طبیعت ہی ایسی ہو اور جس آدمی کا مزاج ہی ایسا ہو کہ وہ دھوکے ہی کو پسند کرتا ہو، اور جو دوسروں کو دھوکا دینے والا ہو اور اسی کی بات سنتا اور قبول کرتا ہو، جو دھوکا دیتا ہے ، وہی شخص مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے۔

یہاں آسمان پر مختلف بادلوں کی اور آسمان پر تاروں کے درمیان مختلف فاصلوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک تارے اور دوسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ پھر دوسرے اور تیسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے اور لامحالہ ان کے درمیان کتنے راستے ہوتے ہیں۔ آسمان پر متفرق طور پر جس طرح تارے بکھرے ہوئے ہیں اور متفرق طور پر آسمان میں یہ بادل بکھرے ہوئے ہیں، اسی طرح سے تمھارے احوال بھی مختلف ہیں۔

احوال سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں آخرت کے بارے میں مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ کسی نے یہ تصور قائم کرلیا ہے کہ کوئی آخرت نہیں ہونی ہے۔ انسان کو مر کر مٹی ہو جانا ہے اور کسی کے سامنے جواب نہیں دینا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ انسان پہلے بھی اس دنیا میں بار بار جنم لیتا رہا ہے اور آیندہ بھی باربار جنم لیتا رہے گا۔ جیسے اس کے اعمال ہوتے ہیں مرنے کے بعد وہ دوبارہ ان کے مطابق جنم لیتا رہے گا۔ کسی جنم میں وہ کتا بن کر اُٹھتا ہے، کسی جنم میں بیوی یا لڑکی   بن کر اُٹھتا ہے۔کسی جنم میں حیوان بن کر اُٹھتا ہے اور کسی جنم میں چوہا بن کر اُٹھتا ہے۔ کوئی شخص جو تناسخ کا قائل ہے وہ اس طرح سے سوچتا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان زندہ تو ہوگا لیکن اللہ کے کچھ ایسے پیارے بندے ہیں خواہ ہم کچھ بھی کرتے رہیں لیکن وہ ہمیں بخشوا لیں گے کہ یہ تو ہمارے خاص بندے ہیں۔ کوئی دوسرا گناہ کرکے آئے تو وہ پکڑا جائے گا اور سزا کا مستحق ٹھیرے گا لیکن یہ بچ جائیں گے۔ اس طرح آخرت کے بارے میں لوگوں نے مختلف تصورات قائم کر رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے آخرت کے بارے میں جو مختلف احوال، عقیدے اور تصورات قائم کر رکھے ہیں، ان سے وہی شخص دھوکا کھاتا ہے جو دھوکا کھانا ہی چاہتا ہے۔

آدمی دھوکا اسی وقت کھاتا ہے جب آدمی کی طبیعت کا میلان اس طرف ہوتا ہے۔ جب اس سے اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو وہ دھوکا کھاتا ہے۔ ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہونا ہے، کوئی آخرت نہیں ہونی، کوئی جواب طلبی نہیں ہونی۔ اس بات کو وہی شخص تسلیم کرتا ہے جس کا یہ دل چاہتا ہے کہ میں زمین میں جو چاہوں کروں، جس ڈگر پر چاہوں چلوں، جس کھیت میں چاہوں منہ مارتا پھروں، جس کے ساتھ جو چاہوں ظلم کروں اور مجھ سے کسی قسم کی جواب دہی نہ ہو اور کوئی جزا و سزا نہ ہو۔ اگر جزا و سزا کو وہ مان لے تو اس کی یہ آزادی ختم ہوجائے گی۔

جزا و سزا کے ماننے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جس کا ہے اس کا ہوجائے۔ اگر اس کے دل میں یہ سوچ راسخ ہوجائے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کی جواب دہی خدا کے سامنے کرسکوں گا یا نہیں،  یا جو کچھ کر رہا ہوں اس کا خمیازہ آخرت میں جا بھگتوں گا، تو یہ سب کچھ پھر اس طرح ہو نہیں سکتا۔ اس وجہ سے اس کا یہ جی چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کرے کہ وہ یہ سب کچھ دنیا میں کرتا رہے۔ جس کا چاہے حق مارے، جس سے جی چاہے زیادتی کرے، اور جس طرح چاہے اپنی خواہشات پوری کرے اور ان اعمال کا کوئی نتیجہ اسے نہ بھگتنا پڑے۔ اس وجہ سے وہ دھوکا کھاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔

اسی طرح سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے جرائم کا کوئی نتیجہ نہ بھگتوں وہ اگر آخرت کو مانتا بھی ہے تو اس کے ساتھ شفاعت کا عقیدہ بھی اختیار کرتا ہے۔ شفاعت کا اسلامی عقیدہ یہ نہیں ہے کہ تم اطمینان سے جو چاہے جرائم کرو اور کوئی صاحب تمھیں آخرت میں بخشوانے کی ذمہ داری لے لیں کہ تمھیں بخشوانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ بس تم ہمارا نذرانہ دیتے رہو اور ہم تمھیں   خدا سے معافی دلوا دیں گے۔ یہ عقیدہ لازماً ایسا ہی شخص قبول کرتا ہے اور جاکر نذرانے دیتا ہے۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ میں دنیا میں چوریاں کروں، بدمعاشیاں کروں، بدکرداریاں کروں، ظلم و ستم کروں اور کوئی صاحب ایسے ہوں جو مجھے وہاں بخشوا دیں، اور وہاں کسی قسم کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔

حقیقت میں نہ کوئی بے وقوفی سے دھوکا کھاتا ہے اور نہ سادہ لوحی سے، جو دھوکا دیتا ہے اور جو دھوکا کھاتا ہے، دھوکا دینے والے اور دھوکا کھانے والے کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے۔ ایک صاحب آخرت کا رونا روتے ہیں اور دل میں اس کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک صاحب جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں اور پھر اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ یااللہ مجھے آیندہ کے لیے بچانے کا انتظام کر۔ لازماً اس طرح کی باتوں پر دھوکا وہی لوگ کھاتے ہیں جو جرائم پیشہ ہوں، جرم کرنا چاہتے ہیں اور جرم کر کے اس کی سزا سے بچنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح سے تناسخ کا عقیدہ وہی شخص اختیار کرتا ہے جس کا اس دنیا سے جانے کو کسی طرح بھی دل نہیں چاہتا۔ دوبارہ اسی دنیا میں آئے اور کسی طرح رہ لے۔ وہ اس دنیا کو کسی طرح چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ اس لیے وہ یہ عقیدہ اختیار کرتا ہے کہ اگر بُرے کام کرو گے تو اس دنیا میں ضرور آئو گے خواہ کتا بن کر آئو۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تمھارے ان مختلف احوال میں دھوکا وہی شخص کھا سکتا ہے جو دھوکا کھانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوچ سمجھ سے کام لے، اس کائنات کے نظام پر غور کرے تو وہ کبھی  نہ تناسخ کے عقیدے کو مان سکتا ہے اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ تم دنیا میں جرائم کرو اور کوئی ہستی وہاں تمھیں بچا لے۔

قُتِلَ الْخَرّٰصُونَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ o (۵۱:۱۰-۱۱) مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے، جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں۔

خرص عربی زبان میں قیاس، اندازہ اور تخمینہ لگانے کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی شخص اگر ایک باغ ٹھیکے پر لینا چاہتا ہے تو وہ باغ میں جاکر ایک نگاہ ڈال کر اندازہ کرے گا کہ اس باغ میں کتنا پھل ہے، اور جو شخص ٹھیکے پر دینا چاہتا ہے وہ بھی اندازہ کرے گا کہ اس میں کتنا پھل ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان ایک فیصلہ ہوتا ہے۔ گویا اس سے مراد کسی چیز کے بارے میں بغیر علم کے محض قیاس کی بنا پر اندازہ لگانا یا اندازے سے حکم لگانا ہے۔ جو شخص باغ کے پھل کا اندازہ لگاتا ہے وہ اسے گنتا اور تولتا نہیں ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ آندھی آنے پر کتنا پھل ٹوٹ جائے گا اور یہ کہ کتنا پھل پرندے کھا جائیں گے۔ ایک اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باغ اتنا پھل دے جائے گا اور اس کی بنیاد پر وہ سودا کرتا ہے۔

ایسے سودے دنیا کے چھوٹے چھوٹے باغوں اور کھیتوں کے بارے میں تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک شخص ایسے اندازے، تخمینے اور اٹکل پچو سے اتنے بڑے معاملے کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کی صفات کیا ہیں؟ اور اگر نہیں ہے تو یہ دنیا کیسے چل رہی ہے؟ اسی تخمینے اور قیاس کی بنا پر وہ یہ بھی فیصلہ کرلیتا ہے کہ اس دنیا میں میری حیثیت کیا ہے؟ میں کسی کا بندہ ہوں یا نہیں یا شتر بے مہار ہوں جو اس دنیا میں اتفاقاً آگیا ہے اور چُھوٹا پھر رہا ہے۔ مجھے کسی کو جواب دینا ہے یا نہیں؟ جس کے سامنے جواب دینا ہے کیا وہ رشوت خوار تو نہیں یا اس کے کوئی ایسے چہیتے تو نہیں ہیں جو اسے بخشوا لیں گے؟ اس طرح کے اتنے بڑے اور دین کے بنیادی معاملات کو اگر کوئی شخص اٹکل پچو سے طے کرے اور ان کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار کرلے اور اس عقیدے پر ایمان رکھے اور لوگوں کو دعوت دے کہ وہ اس کی تصدیق کریں اور اس بات کو مانیں، تو یہ حقیقت میں تباہی کا راستہ ہے۔

اگر ایک باغ کے بارے میں اس نے اندازہ کیا اور اس کے بعد آندھی آئی اور اس کا پھل تباہ ہوگیا تو اس سے جو نقصان ہوگا وہ ایسا تباہ کن نہ ہوگا کہ وہ تباہ و برباد ہوجائے۔ لیکن جو شخص اس کائنات کے بارے میں محض تخمینے اور قیاس کی بنا پر کوئی فیصلہ کرڈالے اور وہ فیصلہ غلط نکلے تو اس آدمی کا کیا حشر ہوگا؟ یا کسی شخص نے یہ فیصلہ کرلیا کہ خدا نہیں ہے، مرنا نہیں ہے، حساب کتاب نہیں دینا ہے۔ اس کے بعد جب وہ مر کر دوسری زندگی یا دوسرے مرحلے میں داخل ہوا اور یکایک اسے جاکر معلوم ہوا کہ خدا بھی ہے، اس کے فرشتے بھی ہیں اور اسے حساب کتاب بھی دینا ہے اور مرنے کے بعد دوسری زندگی بھی ہے۔ دنیا میں اسے جو وقت عمل کے لیے ملا تھا وہ سارا وقت اس نے اپنے اندازے سے ضائع کردیا۔ اب اس سے بڑھ کر تباہی اور بربادی کا سودا اور کیا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ اٹکل پچو لگانے والے مارے گئے اور تباہ ہوگئے، یعنی اپنے ہاتھوں انھوں نے اپنے آپ کو جس خطرے میں ڈال دیا اس سے ان کا سارا کیا کرایا تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کا پوری عمر کا سرمایہ تباہ ہوگیا۔ اس نے پوری عمر جن کاموں پر محنت کی، یہاں آکر معلوم ہوا کہ ان سب کے نتیجے میں ازلی جہنم کی سزا ہوگئی ہے۔ جن چیزوں پر اس نے عمربھر کا سرمایہ لگایا وہ سارے کا سارا یہاں آکر ختم ہوگیا۔

اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقیدے کے معاملے میں محض قیاسات پر بنیاد نہیں رکھنی چاہیے۔ قیاسات پر بنیاد رکھنے والا غلطی کرتا ہے۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عقیدے کی بنیاد علم پر ہونی چاہیے۔ آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے۔

اس کے لیے قرآنِ مجید نے جو راستہ بتایا ہے اسے اگر آپ غور سے دیکھیں گے تو یہ معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نبی ؐ کے ذریعے سے حقیقت کا علم براہِ راست عطا کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام کیا ہے؟ کس نے بنایا ہے؟ اس نظام میں تم کس حیثیت سے آئے ہو؟ تمھاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تمھاری زندگی کا مآل اور انجام کیا ہے؟ تمھارے لیے دنیا میں کام کرنے کی صحیح صورت کیا ہے؟ وہ کیا قانون ہے جس پر چلنا چاہیے؟ کن راہوں پر تمھیں چلنا چاہیے؟ کون سے ضابطے ہیں جن کی پابندی تمھیں کرنی چاہیے؟ کن افعال کا کیا نتیجہ تم دیکھنے والے ہو؟ یہ ساری چیزیں حقیقت کے مطابق امرِواقعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کے سواکوئی صحیح علم رکھنے والا نہیں ہے، اس کے سوا اس حقیقت کو جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ انبیا ؑکے ذریعے اس حقیقت کو اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے۔

آپ کو عقل دی گئی ہے، آپ کو حواس دیے گئے ہیں۔ آپ آنکھیں رکھتے ہیں دیکھنے کے لیے۔ آپ کان رکھتے ہیں سننے کے لیے۔ آپ حواس رکھتے ہیں محسوس کرنے کے لیے۔ یہ ساری دنیا اور کائنات آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جس کا دن رات آپ مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس کے آثار آپ کو نظر آرہے ہیں۔ آپ کے پاس عقل ہے۔ان آثار کا اندازہ لگا کر اور مرتب کر کے آپ منطقی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ ایک طرف یہ صلاحیت آپ کو دی گئی ہے اور دوسری طرف انبیا ؑکے ذریعے علم دیا گیا ہے۔ آپ کو جو حواس دیے گئے ہیں اور جو ذرائع معلومات دیے گئے ہیں وہ   براہِ راست حقیقت تک تو نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن آپ کو اس قابل کرسکتے ہیں کہ جب نبی ؑ کے ذریعے سے آپ کو علم دیا جائے تو آپ اپنے مشاہدے اور حواس سے کام لے کر اسے جانچ اور پرکھ سکیں۔ آپ کے سامنے جو زیادہ سے زیادہ اقوال آتے ہیں انھیں آپ پرکھ سکیں کہ ان میں سے کون سا زیادہ معقول ہے، مثلاً یہ کہ ایک قول یہ آتا ہے کہ خدا نہیں ہے، یا یہ قول آتا ہے کہ بہت سے خدا ہیں، یا نبی ؐکا یہ قول آتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے۔

اب آپ اس کائنات پر غور کریں اور جائزہ لیں کہ کیا اس بات کی کوئی شہادت ملتی ہے کہ اس کائنات کو بہت سے خدا چلا رہے ہیں؟ اب جو شخص عقل سے کام لے گا اور کائنات کا مشاہدہ کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ نبی ؑ جو خبر دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے، وہی بات درست ہے۔ اس کائنات کے بہت سے خدا نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح ایک قول آپ کے کان میں یہ پڑتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔  دوسرے الفاظ میں یہ کائنات کا عظیم الشان نظام خود بخود قائم ہوگیا ہے۔ اگر کوئی عقل سے کام لے اور کائنات کا جو مشاہدہ اسے حاصل ہو رہا ہو اور اس سے جو معلومات اسے مل رہی ہیں اگر وہ اپنی عقل کے مطابق انھیں مرتب کرے، اس کا دل یہ گواہی دے گا بشرطیکہ وہ تعصب میں مبتلا نہ ہو کہ  اتنا عظیم الشان نظام جو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں برس سے چل رہا ہے، وہ نہ بغیر خدا کے بن سکتا ہے اور نہ بغیر خدا کے چل سکتا ہے۔ یقینا انبیا ؑ کی یہ بات صحیح ہے کہ اس نظام کا ایک مالک ہے اور وہی خدا ہے اور وہی اس نظام کو چلا رہا ہے۔

ایسا ہی معاملہ آخرت کا ہے۔ آدمی براہِ راست اپنے تجربے اور مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھنا ہے اور خدا کے ہاں جواب دہی کرنی ہے۔ صرف انبیا ؑ کے ذریعے ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے۔یہ علمی طور پر معلوم ہوتا ہے محض قیاس نہیں، کہ یقینا مرنے کے بعد اُٹھنا ہے۔ نبی ؑ آکر ہمیں خبردیتا ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے۔ اب ہم اپنی عقل اور مشاہدے سے کام لیں اور اس بات کو جانچ کر دیکھیں کہ جو مختلف اقوال ہمارے سامنے آرہے ہیں، کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد بار بار اس دنیا میں آنا ہے، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد خدا کے سامنے جانا ہے، لیکن کچھ سفارشیں کرنے والے ایسے ہیں جو ہمارے بُرے اعمال کے نتیجے سے ہمیں بچالیں گے۔ پھر نبیؐ کا یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد حساب دینا ہے اور اس کے مطابق ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ ہوگا، اور جیسا عمل کرو گے ویسا نتیجہ ہوگا۔ جب آپ اپنی عقل سے کام لے کر ان مختلف اقوال کو جانچیں گے تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انبیا ؑ کا قول ہی صرف معقول ہے۔ نہ یہ بات معقول ہوسکتی ہے کہ انسان دنیا میں ۶۰، ۷۰، ۸۰ برس زندہ رہے اور ہر طرف ظلم و ستم کرتارہے اور کبھی اس کو جاکر کوئی جواب دہی نہ کرنا ہوگی۔

اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ انسان بار بار اس دنیا میں آکر پھر عمل کرے۔ ایک ہی زندگی کے عمل کے نتائج سے انسان فارغ نہیں ہوسکتا کہ دوسری زندگی اور دوسرا عمل شروع ہوجائے۔ لامحالہ اس کا فیصلہ تب ہی ممکن ہوگا کہ اس کا حساب کتاب بند کیا جائے۔ جب یہ بند ہوگا تو تب ہی اس کی جانچ پڑتال ہوگی اور اس کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک عمل کے ختم ہونے سے قبل دوسرا شروع ہوجائے اور دوسرے کے ختم ہونے سے قبل تیسرا شروع ہوجائے۔ اس سے یقینا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت ہونی چاہیے۔ یہی ایک زندگی ہے جس کا موت کے بعد حساب کتاب ہونا ہے اور بار بار کی زندگی نہیں ہوسکتی۔

عقل خود گواہی دے دے گی کہ یہ بات سراسر انصاف کے خلاف ہے کہ ایک آدمی چوری کرے اور اسے کوئی سزا نہ دی جائے اور دوسرا آدمی چوری کرے اور اسے سزا دے دی جائے۔ ایک چور کو محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ اللہ میاں کے کچھ چہیتے کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ یہ میرا متوسِّل ہے ، اور مجھے نذرانے دیتا رہا ہے، لہٰذا اسے نہ پکڑا جائے۔ دوسرا آدمی کسی کو رشوت دے کر نہیں آیا، اس لیے اسے پکڑ لیا جائے اور اسے سزا دے دی جائے۔ انسان کی عقل خود کہہ دیتی ہے کہ یہ بالکل انصاف کے خلاف ہے۔ اگر یہ کائنات کسی حکیم نے بنائی ہے تو اسے ضرور عادل اور منصف ہی ہونا چاہیے، اور اس کے ہاں یہ بے انصافی نہیں چلنی چاہیے کہ لوگوں سے رشوتیں لی جائیں اور سفارشیں سنی جائیں اور اس کی بنا پر ایک گناہ گار چھوڑا جائے اور دوسرے گناہ گار کو پکڑا جائے۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ خراصون ، یعنی جو لوگ محض اٹکل پچو کی بنیاد پر اور اپنے قیاس اور گمان کی بنیاد پر اتنے بڑے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں وہ مارے گئے اور یہ تباہی کا راستہ ہے۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ نبیؐ کے ذریعے سے جو علم آتا ہے اسے اپنی عقل کے ذریعے سے جانچو، پرکھو اور دیکھو اور اس کے بعد جب یہ اطمینان ہوجائے کہ جو شخص اپنے آپ کو نبیؐ کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے وہ فی الواقع بالکل معقول بات کہہ رہا ہے اور اس کی اپنی زندگی بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے اور اس کا کام بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ آدمی واقعی نبی ہونا چاہیے، لہٰذا اس کی نبوت کو مانو اور اس کے کہنے کے مطابق عمل کرو۔

یَسئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ o (۵۱:۱۲) آخر وہ روزِ جزا کب آئے گا؟

اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ روزِ جزا کے متعلق کفار بھی پوچھا کرتے تھے اور آج بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ دن کب آئے گا؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آخرت کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہیں اور ایمان داری سے یہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی، کس سنہ میں، کس ماہ اور  کس روز اور کس وقت برپا ہوگی؟ اور ان کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ نے تاریخ ان کو بتا دی، مثلاً سنہ پانچ ہزار میں، ستمبر کے مہینے میں ہفتے کے روز، صبح ساڑھے آٹھ بجے قیامت برپا ہوگی، تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ یہ ان کی غرض نہیں تھی۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں سنہ اور فلاں مہینے میں قیامت برپا ہوگی تو کسی کے پاس جاننے کا کیا ذریعہ ہے کہ فی الواقع ایسا ہوگا؟

ایمان لانے کے لیے یہ سوال کرنا اور نہ کرنا یکساں اور لاحاصل ہے۔ کسی کو ماننا ہے تو دلیل سے مانے، تاریخ پوچھنے کے کیا معنی؟ درحقیقت جو لوگ تاریخ پوچھتے تھے وہ چیلنج کے انداز میں پوچھتے تھے، نہ کہ ایمان لانے کے لیے۔ وہ مذاق اُڑانے کے لیے اور چیلنج کے طور پر پوچھا کرتے تھے کہ جناب آپ جو فرما رہے ہیں کہ ہم کسی وقت دوبارہ اُٹھیں گے اور اپنے خدا کو حساب دیں گے، ذرا بتایئے تو سہی کہ وہ دن کب آئے گا؟ ہم آپ کو جھٹلا رہے ہیں، پتھر مار رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، اذیتیں دے رہے ہیں، اگر ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی تو وہ عذاب کیوں نہیں آجاتا اور کیوں نہیں ہمیں پکڑ لیتا؟ گویا کہ وہ قیامت کو ایسی حالت میں، جب کہ وہ قیامت کو نہیں مان رہے ہیں، رسولؐ کو جھٹلا رہے ہیں، اس کے باوجود ان کی پکڑ نہیں ہورہی ہے، ان کو جواب دہی نہیں کرنی پڑ رہی ہے، کوئی پولیس نہیں آتی جو انھیں گرفتار کر کے اللہ کے حضور میں لے جائے، اس بات کو وہ اس بات کی دلیل بنانا چاہتے تھے کہ تم بالکل غلط خبر دے رہے ہو کہ کوئی قیامت ہوگی، آخرت ہوگی، جواب دہی کرنا ہوگی اور جزا و سزا ہوگی۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآنِ مجید میں ان لوگوں کے اس سوال کا جواب اس انداز میں دیا گیا ہے کہ بعض اوقات آدمی حیران ہو کر سوچتا ہے کہ کوئی شخص علم حاصل کرنے کے لیے پوچھ رہا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو اسے کیوں نہیں بتا دیا جاتا کہ قیامت کب آئے گی؟ چونکہ وہ علم حاصل کرنے اور ایمان لانے کے لیے نہیں پوچھ رہے تھے اور ایمان لانے کے لیے اور علم حاصل کرنے کے لیے یہ سوال کرنا بالکل بے معنی تھا، وہ تو چیلنج کے انداز میں اور مذاق کے طور پر پوچھتے تھے۔ اب ان کے سوال کا جواب دیکھیے۔اللہ تعالیٰ ان کے سوال کا جواب دیتے ہیں:

یَوْمَ ھُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ o ذُوْقُوْا فِتْنَتَکُمْ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ o(۵۱:۱۳-۱۴) وہ اس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔

اب بجاے اس کے کہ تم یہ بات سن کر اپنے اعمال، اپنے اخلاق اور کردار کو درست کرتے، بلکہ یہ دھمکی لگانا شروع کر دی کہ ہماری شامت کا وہ وقت آجائے، تو لو وہ تمھاری شامت کا وقت آگیا۔ تم جلدی کر رہے تھے کہ وہ دن آئے جب تمھاری خبر لی جائے، تو لو وہ دن آگیا جب تمھاری خبر لی جائے گی۔ یہ جواب اس لیے دیا گیا کہ وہ مذاق اُڑانے کے لیے پوچھ رہے تھے۔ اس لیے ان سے کہا جا رہا ہے کہ جس چیز کا تم مطالبہ کر رہے تھے، لو اب وہ آگئی ہے اور اب اس کا مزا چکھو![جاری]۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: امجد عباسی)

انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان سب کی بنیادی علّت انسان کا اپنے آپ کو خودمختار (independent) اور غیرذمّہ دار (irresponsible) سمجھنا، بالفاظِ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے، یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحب ِ امر تسلیم کرے، خواہ وہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریے کی رُو سے کوئی اُوپری اصلاح، انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دُور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دُور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔   لہٰذا، اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اِسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خودمختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ  ُ تو جس دنیا میں رہتا ہے، وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الواقع اس کا ایک بادشاہ موجود ہے، اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے ، نہ تو اُس کے حدودِ سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اِس اَمٹ اور اَٹل واقعے کی موجودگی میں تیرا خودمختاری کا زَعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لامحالہ تیرے ہی اُوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اُس کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔

دوسری طرف اُس کو واقعے کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اِس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختارِکار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے  ُتو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن، کسی کا حکم نہ مان،  کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ’ہزہائینس‘ نہیں ہے، ’ہائینس‘ صرف ایک ہی کو زیبا ہے۔ یہاں کوئی ’ہزہولی نس‘ نہیں ہے، ’ہولی نس‘ ساری کی ساری اُسی ایک کے لیے خاص ہے۔ یہاں کوئی ’ہزلارڈشپ‘ نہیں ہے، ’لارڈشپ‘ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے۔ یہاں کوئی قانون ساز (Law Giver) نہیں ہے، قانون اُسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار، کوئی اَن داتا، کوئی ولی و کارساز، کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں ہے۔ زمین سے آسمان تک سب بند ے ہی بندے ہیں۔ رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا،  ُتو ہر غلامی، ہر اطاعت، ہر پابندی سے انکار کر دے اور اُسی ایک کا غلام، مطیع اور پابند ِ حکم بن جا۔

یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت اُدھڑ کر ازسرِنو ایک نئے نقشے پر بنتی ہے اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم ؑ سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے، اِسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہِ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی [ایسا] راستہ اختیار نہ کیا کہ پہلے کچھ سیاسی یا سوشل طرز کا کام کر کے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے، پھر اس اثر سے کام لے کر کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اِس مقام تک لے آئیں۔ یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اُٹھا، اور اُس نے لا الٰہ الا اللہ کا اعلان کر دیا۔ اِس سے کم کسی چیز پر ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نظر نہ ٹھیری۔ دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار ہی یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اِس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں۔ جو لوگ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اِس بنیاد پر تعمیرجدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اِس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لا الٰہ الا اللہ کی آواز سن کر ہی آئیں۔ اِسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو، اِسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں اور اِسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اُٹھیں۔ لہٰذا ،اسلامی تحریک کو چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، اس کا تقاضا ہی یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز اِسی دعوتِ توحید سے کیا جائے۔

توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے، جیساکہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں۔    اِس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خودمختاری، یا غیراللہ کی حاکمیت و اُلوہیت کی بنیاد پر بناہو، جڑ بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذن کو اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اِس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکا ررہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اِس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اِس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا، کسی قانون کو مَیں نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدودو اختیارات (jurisdiction) مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات مَیں نہیں مانتا، ایک اللہ کے سوا میں سب کا باغی اور سب سے منحرف ہوں، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درند ے ہی درندے ہیں۔

یہی صورت اُس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکارا تھا اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اِس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اِس کو دبانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا ، ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو   اپنے باپ دادا کے مورثی طریقے کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا۔ اس لیے اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے، اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔( تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۱۷۹-۱۸۲)

ہمارا اپنے آپ کو بندگیِ رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت، شرک، فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذ ِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت و تجارت،انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپناضابطۂ حیات بناکر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آیندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیرممکن ہے۔

  • امامت میں تغیر کی ضرورت: اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندئہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کرے اور صلاح پر قائم کرے۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں اور پھر دنیا میں ظلم، فساد، بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو، یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے، اور آج تجربہ و مشاہدہ سے کالشمس فی النھار ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کردینے اور غلبۂ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
  • امامت میں انقلاب کیسے؟ یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر مومنین صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظامِ دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو تو پھر مشیت الٰہی غیرمومن اور غیرصالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں بھی کفار سے بڑھ جائے جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں، تو مشیت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔

پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کارفرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے۔ (دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار، ص ۱۵-۱۷)

  • صالح گروہ کی تنظیم: ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زُہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے گوشہ گیر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور دنیا کے کاروبار اُن بُرے لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو خلقِ خدا کو دھوکا دینے کے لیے آتا ہے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو، راست باز اور دیانت دار بھی ہو، خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے بھی آراستہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیاداروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت اور قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔

ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے۔ بداخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اُسی وقت تک چرچُگ لینے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہوجاتا۔ جب ایسا گروہ تیار ہوجائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست، معیشت، مالیات، علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی کے ہاتھ میں آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رُونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی اس بات کا یقین بھی ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رُونما ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی ہوجائے.... (رُوداد جماعت اسلامی، حصہ دوم،ص ۵۲-۵۳)

  • صالح عنصر کو منظم کرنا:اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم ۴،۵ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے....

ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے… یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہوجائیں، تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لیے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا ایک بہتر حل، اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھاکر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کردیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جاسکتا....

اگر خیر کے علَم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم برادرانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علَم بردار بھی میدان میں ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علَم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میںبے ایمانی اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۳۵-۳۷)

  •  منزل کے قریب: پچھلے ۳۰، ۴۰ سال کے دوران اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف میں نے ہی نہیں کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہوسکے لیکن اس میں اسلام کی سمجھ اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جو درس گاہیں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے انھی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اسلام سے گہری قلبی عقیدت بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عام آبادی جو اَن پڑھ ہے، اس کے اندر کس طرح اسلام کے علم و فہم کو پھیلایا جائے۔ چونکہ راے دہندگان کی اکثریت اَن پڑھ ہے، اس لیے تعلیم یافتہ لوگوں کی ۱۰۰ فی صد تعداد بھی اگر صحیح کرنا چاہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
  •  تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری: اس مرحلے پر میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور علماے کرام شہروں، قصبوں اور دیہات کی اَن پڑھ آبادیوں میں دین اسلام کی واقفیت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے لیے لوگوں کا خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ حضوؐر کے زمانے میں کتابوں کے ذریعے سے دین نہیں پھیلا تھا، زبانی تلقین سے پھیلا تھا۔ اب بھی یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سب کو پہلے پڑھا لکھا بنائیں، پھر انھیں دین سمجھائیں۔ عہدِرسالتؐ کی طرح آج بھی عام لوگوں کو زبانی تعلیم سے دین سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کے عقائد اور اُصولِ اخلاق سے انھیں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض اور ارکانِ دین کی اہمیت ان کے ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ان میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے گناہوں کے عذاب کا خوف ان کے دلوں میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ نیکیوں کے اجر کی رغبت انھیں دلائی جاسکتی ہے۔ قرآن کی آیات اور رسولؐ اللہ کی احادیث جنھوں نے عرب کی دنیا بدل ڈالی تھی، آج بھی اپنا معجزنما اثر دکھا سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لینا چاہیں۔
  •  جواب دھی کا احساس: بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کی صاف صاف تعلیمات پیش کر کے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کریں کہ تم سب کی نگاہوں سے چھپ سکتے ہو، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ سب کی سزا سے بچ سکتے ہو مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تمھارا پورا پورا اعمال نامہ تیار ہورہا ہے۔ ایک دن تمھیں یقینا مرنا ہے اور قیامت کے روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم نماز ترک کردو، رمضان میں علانیہ کھاپی کر خداکے دین کی توہین کرتے رہو، بے باکی کے ساتھ گناہوں کی گندگی میں لَت پت ہوجائو، لوگوں کے حقوق مار کر خدا کے سامنے جائو، لوگوں کی عزت و آبرو لُوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو، لوگوں کی جانیں لے کر وہاں جائو، اور پھر اللہ کی عدالت سے چھوٹ جائو۔ اس دنیا میں تم چال بازیاں کرکے بچ سکتے ہو، خدا کی گرفت سے کیسے بچو گے۔ یہ چیزیں آپ عام لوگوں کے دماغ میں بٹھائیں تو  رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری عام آبادی کے اندر صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاقی حس پیدا ہوجائے گی۔
  •  اسلامی شعور کی بیداری: [پھر] جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اب ہمیں اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے تو انتخابات کے موقعے پر وہ خود ہی سوچیں گے کہ اس کام کے لیے کیسے لوگوں کو آگے لائیں۔ عام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہوں تو کس ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ پیش آجائے تو کس وکیل کے پاس جائیں۔ اسی طرح جب آپ لوگوں میں اسلام کا شعور اور سمجھ پیدا کردیں گے تو وہ خود ہی دیکھ لیں گے کہ اسلامی نظام چلانے کے لیے وہ کن لوگوں کو منتخب کریں۔ پہلی بار اگر وہ کچھ غلطی کر بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ دوسری مرتبہ نہ کریں گے، بشرطیکہ تعلیمِ عوام کا عمل برابر جاری رہے، اور حکمران اسلام سے ہٹ کر جو کام بھی کریں، اس پر معقول و مدلل تنقید کی جاتی رہے۔ بالفرض اگر غلط آدمیوں کی اکثریت منتخب ہوجائے اور وہ دوسرا انتخاب ناجائز ذریعے سے جیتنے کی کوشش کریں تو انھیں [مزاحمتی] تحریک کا سامنا کرنا ہوگا۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۳-۲۵)
  • انتخابی حکمتِ عملی: جماعت کے اثرات سارے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ براہِ راست خود اپنے انتخابی نظام کے تجویز کردہ آدمیوں کو کامیاب کرالینا ہمارے لیے ممکن ہے۔ لیکن بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جن میں ہماری طاقت اس پیمانے کی تو نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہے کہ ہماری تائید کسی اچھے اور مفید آدمی کی کامیابی کے لیے اور ہماری مخالفت کسی بُرے آدمی کو روکنے کے لیے مؤثر ہوسکتی ہے۔ ایسے حلقوں میں اپنی اس طاقت کو معطل رکھنا اور اسے کسی مصرف میں نہ لانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔

تیسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جماعت اسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں ان تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہوکر مخالف دین عناصر کے لیے مددگار نہ بنیں۔ یہی کوشش ہمیں آیندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آیندہ اسمبلیوں میں اسلامی نقطۂ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہِ راست انتخابی مقابلہ نہیں کر رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجاے کسی حامی دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو، بلکہ ہم اس حد تک بھی جائیں گے کہ جہاں ایسا کوئی گروہ یا فرد نہیں اُٹھ رہا ہے وہاں کسی نیک اور موزوں آدمی کو خود اُٹھنے کا مشورہ دیں اور اپنی تائید سے اس کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں ، بشرطیکہ اس کے اپنے اثرات بھی اس کے حلقے میں کافی ہوں ....

حالات کے ان تینوں پہلوئوں کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہوجائے گا کہ اس قرارداد کی تجویز کردہ انتخابی پالیسی میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ کی گنجایش ٹھیک رکھی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک خلا تھا جو ہماری سابق پالیسی میں پایا جاتا تھا۔ تجربے اور حالات کے مشاہدے نے ہم کو یہ احساس دلایا کہ اس کو بھرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑ کر اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر اور حالات کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّ وبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجایش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اُوپر ان پابندیوں کو کافی سمجھیے جو خدا اور رسولؐ کی شریعت نے آپ پر عائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کرلیجیے۔شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بنا پر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بناچکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کر کے آپ ’اصول پرستی‘کا فخر کرنا چاہیں تو کرلیں، مگر یہ حصولِ مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہوجائے گا اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے لیے آپ خود ذمہ دار ہوں گے، کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے کھڑا نہیں کیا ہے‘‘۔(تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۵۶-۱۵۸)۔ (ترتیب: امجد عباسی)

حج جس کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کر کے دیکھو،اس میں تمھارے لیے کتنے منافع ہیں۔ میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافع گنا سکوں، تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا خاکہ جو مَیں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔ مگر یہ سب کچھ سننے کے بعد ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں بھی سن لو!

تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمھاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے، جن سے محروم ہوکر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اُٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہے، وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھاکر ایک صاف سیدھا راستہ بنادیتا ہے، بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں، اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہوسکے ہیں، تم کو آنکھ کھولتے ہی خودبخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دُور نہیں ہوتی، بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے، جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں، تمھیں وہ اس طرح مل گئی جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنھیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیںہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خداے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کر دے، اور بے شمار نسلوں اور قوموں کو ایک خداپرست، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے ، ہاں ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمھیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا مگر تم نے ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی۔ کیوںکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم اُن سے بالکل اُسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچّہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور انھیں کنکرپتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بُری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اُٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟

میرے عزیزو، تم نے شاعر کا یہ شعر سنا ہی ہوگا کہ    ؎

خر عیسیٰ اگر بمکّہ رود

چُوں باز بآید ہنوز خر باشد

یعنی گدھا خواہ عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکّہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔

نماز روزہ ہو یا حج، یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں، جانوروں کو سدھانے کے لیے نہیں ہیں۔ جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدّعا سے کچھ غرض رکھیں، نہ اُس فائدے کو حاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں جو ان عبادتوں میں بھرا ہوا ہے، بلکہ جن کے دماغ میں اِن عبادتوں کے مقصد و مطلب کا سرے سے کوئی تصور ہی نہ ہو، وہ اگر ان افعال کی نقل اس طرح اُتار دیا کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کر دیا، تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں۔ ہرعبادت کی ظاہری شکل جیسی مقرر کردی گئی ہے ویسی ہی بناکر رکھ دیتے ہیں، مگر وہ شکل روح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔

تم دیکھتے ہو کہ ہرسال ہزارہا زائرین مرکز اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہوکر پلٹتے ہیں، مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِحرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمایش کر کے اسلام کی عزت کو بٹہ لگاتے ہیں۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر بجاے اس کے کہ دین کی بزرگی کا سکّہ غیرپر جمے، خود اپنوں کی نگاہوں میں بھی    وہ بے وقعت ہوجاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھائو۔

 حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔ کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہرسال دنیا کے ہرحصے سے کھینچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں، ملک ملک اور شہرشہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں سے گزریں، وہاں اپنی تحریک کے اصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں، اور یہ سلسلہ ۱۰، ۲۰ برس نہیں بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے۔ بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم! اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سُن لیتے۔ ہرسال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا۔ ہزاروں غیرمسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا اور لاکھوں غیرمسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکّہ بٹھا دیتا۔ مگر بُرا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بُری طرح ضائع ہو رہی ہے۔(’حقیقت ِ حج‘، خطبات، ص ۳۱۲-۳۱۵)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ o ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ o مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُنِیْبِنِ o ادْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ o  (قٓ ۵۰:۳۱-۳۴) اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، کچھ بھی دُور نہ ہوگی۔ ارشاد ہوگا: ’’یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور جو دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔ داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘۔ وہ دن حیاتِ ابدی کا دن ہوگا۔

  •  تقویٰ: [اہلِ جنت کی صفات میں سے پہلی صفت تقویٰ ہے۔] اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جونہی کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ متقی اور جنت کا مستحق ہے، فی الفور وہ جنت کو اپنے سامنے موجود پائے گا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے اُسے کوئی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی کہ پائوں سے چل کر یا کسی سواری میں بیٹھ کر سفر کرتا ہوا وہاں جائے اور فیصلے کے وقت اور دخولِ جنت کے درمیان کوئی وقفہ ہو، بلکہ اِدھر فیصلہ ہوا اور اُدھر متقی جنت میں داخل ہوگیا۔ گویا وہ جنت میں پہنچایا نہیں گیا ہے بلکہ خود جنت ہی اُٹھا کر اس کے پاس لے آئی گئی ہے۔ اس سے کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عالمِ آخرت میں زمان و مکان کے تصورات ہماری اِس دنیا کے تصورات سے کس قدر مختلف ہوں گے۔ جلدی اور دیر اور دُوری اور نزدیکی کے وہ سارے مفہومات وہاں بے معنی ہوں گے جن سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں۔
  •   رجوع الی اللّٰہ: اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کرلیا ہو، جو ہر اُس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے، اور ہر اُس چیز کو اختیار کرلے جو اللہ کو پسند ہے، جو راہِ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اُٹھے اور توبہ کرکے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اُس کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔
  •  اللّٰہ سے تعلق کی نگھداشت: اصل میں لفظ حفیظ  استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں: ’حفاظت کرنے والا‘۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ کے حدود اور اس کے فرائض اور اس کی حُرمتوں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے، جو اُن حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف سے اُس پر عائد ہوتے ہیں، جو اُس عہدوپیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لاکر اُس نے اپنے رب سے کیا ہے ، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غلط کاموں میں ضائع نہ ہو، جو توبہ کرکے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے، جو ہروقت اپنا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں۔
  • بے دیکہے خدا سے ڈرنا: یعنی باوجود اس کے کہ رحمن اُس کو کہیں نظر نہ آتا تھا، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کرسکتا تھا، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زورآور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اُس اَن دیکھے رحمن کا خوف زیادہ غالب تھا۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنابلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اِس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت ِ رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔

اس کے علاوہ اِس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خشیت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے۔ خوف کا لفظ بالعموم اُس ڈر کے لیے استعمال ہوتاہے جو کسی کی طاقت کے مقابلے میں اپنی کمزوری کے احساس کی بناپر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اُس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجاے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خوف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اُس پر ہروقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے۔

  •  دلِ گرویدہ: اصل الفاظ ہیں قلب ِ مُنیب لے کر آیا ہے۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رُخ کرنے اور باربار اُسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رُخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی ہلائیں جلائیں، وہ ہِرپھر کر پھر قطب ہی کی سمت میں آجاتی ہے۔ پس قلب ِ مُنیب سے مراد ایسا دل ہے جو ہر طرف سے رُخ پھیر کر ایک اللہ کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو اَحوال بھی اُس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اِسی مفہوم کو ہم نے دلِ گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اُس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اُسی کا ہوکر رہ جائے۔

[ایسے لوگوں سے کہا جائے گا: ’’داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘]۔ اصل الفاظ ہیں: اُدْخُلُوْھَا بِسَلَامٍ۔سلام کو اگر سلامتی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرقسم کے رنج اور غم اور فکر اور آفات سے محفوظ ہوکر اس جنت میں داخل ہوجائو۔ اور اگر اسے سلام ہی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آئو اس جنت میں اللہ اور اس کے ملائکہ کی طرف سے تم کو سلام ہے۔

اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بتا دی ہیں جن کی بنا پر کوئی شخص جنت کا مستحق ہوتا ہے، اور وہ ہیں: ۱-تقویٰ ۲-رجوع الی اللہ ۳-اللہ سے اپنے تعلق کی نگہداشت ۴-اللہ کو دیکھے بغیر اور اس کی رحیمی پر یقین رکھنے کے باوجود اس سے ڈرنا، اور ۵- قلب مُنیب لیے ہوئے اللہ کے ہاں پہنچنا، یعنی مرتے دم تک انابت کی روش پر قائم رہنا۔(تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص ۱۲۲-۱۲۳)