درود [کے] الفاظ میں چند اہم نکات ہیں، جنھیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے:
اوّلاً، ان سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ ’مجھ پر درود بھیجنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرو کہ اے خدا، تو محمدؐ پر درود بھیج‘۔ نادان لوگ جنھیں معنی کا شعور نہیں ہے، اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی، اللہ تعالیٰ تو ہم سے فرمارہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھیجو، مگر ہم اُلٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تُو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایاہے کہ تم مجھ پر ’صلوٰۃ‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کرسکتے۔ اس لیے اللہ ہی سے دُعا کرو کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ کے مراتب بلند نہیں کرسکتے،اللہ ہی بلند کرسکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے، اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفعِ ذکر کے لیے اور آپ کے دین کو فروغ دینے کے لیےخواہ کتنی ہی کوشش کریں، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اُس میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی، حتیٰ کہ حضوؐر کی محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہوسکتی ہے۔ ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کرسکتا ہے، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔لہٰذا ،حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ سے آپؐ پر صلوٰۃ کی دُعا کی جائے۔ جو شخص اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد کہتا ہے، وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خدایا، تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس میں نہیں ہے، تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔
ثانیاً، حضوؐر کی شانِ کرم نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دُعا کے لیے مخصوص فرما لیں، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور اَزواج اور ذُریت کو بھی آپؐ نے شامل کرلیا۔ اَزواج اور ذُریت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا ’آل‘ کا لفظ، تو وہ محض حضوؐر کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپؐ کے پیرو ہوں اور آپؐ کے طریقے پرچلیں۔
عربی لُغت کی رُو سے ’آل‘ اور ’اہل‘ میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی ’آل‘ وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں، جو اس کے ساتھی، مددگار اور متّبع ہوں، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں، اور کسی شخص کے ’اہل‘ وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں، جو اس کے رشتہ دار ہوں، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبّع ہوں یا نہ ہوں۔قرآنِ مجید میں ۱۴ مقامات پر ’آلِ فرعون‘ کا لفظ استعمال ہواہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی ’آل‘ سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں، بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت موسٰی کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے۔پس،آلِ محمدؐ سے ہروہ شخص خارج ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ ہو، خواہ وہ خاندانِ رسالتؐ ہی کا ایک فرد ہو، اوراس میں ہروہ شخص داخل ہےجو حضورؐ کے نقش قدم پر چلتا ہو، خواہ وہ حضوؐر سے کوئی دُور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا ہو۔ البتہ خاندانِ رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آلِ محمدؐ ہیں جو آپؐ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپؐ کے پیروبھی ہیں۔
ثالثاً، ہر درود جو حضوؐ ر نے سکھایا ہے، اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ ’آپؐ پر ویسی ہی مہربانی فرمائی جائے، جیسی ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پرفرمائی گئی ہے‘۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ) کہ اللہ تعالیٰ نےحضرت ابراہیمؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذ ِ ہدایت مانتے ہیں، وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاؑ کے پیرووں کا مرجع بنایا ہے، اسی طرح مجھے بھی بنادے۔
یہ امر کہ حضوؐر پر درود بھیجنا سنت ِ اسلام ہے، جب آپؐ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے، اور خصوصاً نماز میں اس کا پڑھنا مسنون ہے، اس پر تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضوؐر پر درود بھیجنا فرض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ (تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۱، اپریل ۱۹۶۲ء، ص ۲۴-۲۵)
مغربی میڈیا کے سوالوں کے جواب
[مختلف اوقات میں مختلف مغربی ذرائع ابلاغ کے نمایندوں نے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے انٹرویو لیے۔ یہاں ہم انھی سوال و جواب کا ایک انتخاب مرتب کرکے پیش کر رہے ہیں۔ س م خ]
۲۵ نومبر ۱۹۷۵ء اور ۱۵جنوری ۱۹۷۶ء: بی بی سی ، لندن کے نمایندے ولیم کرالے نے یہ انٹرویو لیا، جسے حفیظ الرحمٰن احسنؒ [م:۲۲ فروری۲۰۲۰ء] نے ٹیپ کرلیا۔ یہ مکالمہ زیادہ تر اردو میں ہوا تھا۔[ہفت روزہ آئین،لاہور]
قانونی نظام کے ساتھ ایک بڑا تعلق ملک کے تعلیمی نظام کا ہے۔ اگر نظامِ تعلیم افرادِ قوم کو مسلمان بنانے والا نہ ہو تو محض قانونی نظام کے نفاذ سے اِسلامی معاشرے کی تشکیل کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہی معاملہ ملک کے معاشی نظام کا ہے۔ اگر اسے صحیح اِسلامی خطوط پر استوار نہ کیا جائے تواس صورت میں محض قانونی نظام کی اصلاح مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس بنا پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پوری معاشرتی زندگی ، اِسلام کے مطابق ہو۔ ہماری حکومت کی نمایاں پالیسیاں اسلام کے مطابق ہوں اور حکومت کے سارے معاملات صحیح اِسلامی خطوط پر انجام پائیں۔
اس مقصد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سروسز کی ٹریننگ کے تمام اداروں کا تعلیمی اور تربیتی ڈھانچا تبدیل کیا جائے۔ سِول سروس کے تمام شعبوں اور فوج کی تربیت کے اداروں میں بھی اسلام کی اخلاقی تعلیم دینے کا انتظام کیا جائے اور زیرِ تربیت افسروں کے دِلوں میں اِسلام کا صحیح شعور [creed] بٹھایا جائے۔ اِن کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس صورتِ حال یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے زمانے میں سروسز کو جس طرز پر ٹریننگ دی جاتی تھی، اسی طرز پر اب بھی دی جا رہی ہے۔ اِسلامی تربیت کی کوئی فکر اب تک نہیں کی گئی۔ اس لیے ہمارے نقطۂ نظر سے محض لیگل سسٹم [قانونی نظام] میں تبدیلی کافی نہیں ہے۔ ہم مکمل تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔
Truth is always truth, it can not be old or new, at any time and at every place it is truth
[صداقت ہرحال میں صداقت ہے، اس کے قدیم یا جدید ہونے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ صداقت ہر عہد میں اور ہر مقام پر صداقت ہے۔]
اس کے برعکس ایک مسلمان ملک میں، جہاں اِسلام کا قانون صرف ایک حد تک ہی نافذ کیا گیاہے، یعنی چوری پر اِسلامی تعزیرات نافذ کی گئی ہیں، وہاں اس نے چوری کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہاں کیفیت یہ ہے کہ اگر آپ اپنا سامان سڑک پر چھوڑ کر چلے جائیں اور تین دن کے بعد واپس آئیں تو وہ آپ کو وہیں پڑا ملے گا، کوئی اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اگر آپ اپنا گھر کھلا چھوڑ کر چلے جائیں اور کئی ہفتے کے بعد واپس آئیں تو آپ کو سارے گھر کا سامان جوں کا توں ملے گا۔ کوئی شحص گھر میں داخل تک نہیں ہو گا۔ یہ صرف اس چیز کا نتیجہ ہے کہ سعودی عرب میں ان سزائوں کے نفاذ پر شروع میں جو چند ہاتھ کاٹے گئے، ان کی وجہ سے چوری کا وہاں خاتمہ ہو گیا، تو کیا چند مجرموں کے ہاتھ کاٹ کر چوری ختم کر دینا بہتر ہے، یا یہ بہتر ہے کہ مجرموں کو جیل بھیج بھیج کر ان کو عادی مجرم بنایا جائے؟ وہ جیل سے نکلیں تو پھر چوری کریں اور پھر جیل جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے موجودہ تعزیری قوانین جرائم کی پرورش کر رہے ہیں، لیکن ہم اِسلامی قوانین کے نفاذ کے ساتھ جرائم کو ختم کر سکتے ہیں۔ اب کیا یہ بہتر ہے کہ ہم جرائم کو ختم کر دیں یا یہ بہتر ہے کہ جرائم ہوتے رہیں اور ان کے مؤثر انسداد کی کوئی تدبیر نہ کی جائے؟
ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اسلام کی تجویز کردہ سزائیں معاشرے سے جرائم کا مکمل انسداد کر سکتی ہیں اور ہم یہ چاہتے کہ پاکستان کے اندر اسلام کا مکمل ضابطۂ حیات جاری ہو اور اسلامی تعزیرات نافذ ہوں، پھر ہم دُنیا کو بتائیں گے کہ ہمارے ہاں جرائم کس طرح ختم ہو گئے ہیں۔ اگر ہمیں اس بات کا موقع ملا کہ ہم پاکستان میں صحیح اسلامی نظام قائم کر سکیں، ہم عملاً دُنیا پر یہ بات ثابت کر دیں گے کہ اِسلام کی بنیادوں پر ایک جدید ریاست چل سکتی ہے اور زیادہ بہتر طریقے سے چل سکتی ہے اور اِسلام کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتاہے، جو جرائم سے پاک اور امن و امان کا گہوارہ ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص کا بچہ کوئی اغوا کر کے لے جاتا ہے اور پھر اس کو اطلاع دیتا ہے کہ ’’اتنے ملین ڈالر مجھے دے دو تو بچّہ تمھیں مل جائے گا، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا‘‘ اور بعض اوقات وہ ایسا کر بھی گزرتا ہے، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اِس طرح کے آدمی کو پکڑ کر اگر کوئی سخت سزا دی جائے، مثلاً اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے یا اس کی گردن اڑا دی جائے تو کیایہ وحشیانہ فعل ہو گا؟ یعنی آپ کے نزدیک والدین کو ان کے بچوں سے محروم کر دینا کوئی وحشیانہ حرکت نہیں، البتہ اس حرکت کے مرتکب کو اس کے جرم کی سزا دینا وحشیانہ فعل اور ظالمانہ فعل ہے، جس کی کم از کم ریاست کو ذمہ داری نہیں لینی چاہیے۔ آپ کی ساری ہمدردی اس شخص کے ساتھ ہے، جس نے ایک مجرمانہ اور غیر انسانی فعل کے ذریعے سے اپنے آپ کو مستوجبِ سزا ٹھیرایا ہے اور اس شخص کے بارے میں آپ بے حس ہیں، جسے ظلم اور سنگ دلی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص معاشرے کے اندر جرم کا ارتکاب کر کے معاشرے کے امن و سکون کو غارت کرتاہے، وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اتنی سخت سزا دی جائے کہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو اور وہ اس قسم کے جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کر سکیں، یعنی ہمارے نزدیک سزا صرف سزا ہی نہیں ہے، بلکہ وہ ارتکاب جرم کو روکنے کا ذریعہ بھی ہے۔ وہ جرم کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے، چنانچہ ہماری ہمدردی مجرم کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ اس شخص کے ساتھ ہے جس پر ارتکابِ جرم کیا جاتا ہے اور اُس معاشرے کے ساتھ ہے جس کے اندر ارتکابِ جرم سے ناہمواری اور عدم ِتحفظ کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔
You think it is more social and more cultured to be a criminal. It is human to kill a man and it is inhuman to kill a murderer.
لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں موقع ملے تو ہم اِسلامی قوانین کو رائج کر کے دُنیا کو دکھا دیں کہ اِس طرح ایک پرامن معاشرہ [peaceful society] وجود میں آتا ہے۔ وہ معاشرہ مہذب اور ماڈرن بھی ہو گا اور امن و سلامتی کا گہوارہ بھی۔ اس کے قیام کے بعد آپ کے یہ سارے نام نہاد جدید تصورات و نظریات محض ایک داستانِ پارینہ بن جائیں گے۔ چنانچہ، اگر ہم اسلامی نظام زندگی کے قائل اور اسے دُنیا میں قائم کرنے کے آرزومند ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ ہمارا قدیم مذہبی یا قومی نظام ہے، اور اس بنا پر اس کے ساتھ ہمیں محبت ہے، بلکہ اس کو ہم اس وجہ سے مانتے ہیں کہ وہ سرا سر ایک معقول اور عادلانہ نظام ہے، اور یہ ایک بالکل مطابق انصاف اور معقول بات ہے کہ سوسائٹی کو جرائم سے پاک کیا جائے۔ ہمارے نزدیک وہ معاشرہ نہایت بُرا ہے جس کے اندر جرائم پرورش پاتے ہوں، اور لوگوں کی ہمدردی کا اصل مرکز مجرم ہوں، نہ کہ وہ جن پر جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔
[جی ہاں، لیکن اہلِ مغرب کے نظریے کے مطابق نہیں۔ مغربی فلسفۂ سیاست میں تو اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہوتے ہیں، لیکن اِسلام میں اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔]
اس بنیادی فرق کے باوجود ہمارا نظامِ حکومت ایسا ہو گا کہ اس میںریاست کے سربراہ کا انتخاب لوگوں کی کثرتِ رائے کے ذریعے سے ہو گا۔ لوگوں کے نمائندے ان کی رائے سے منتخب ہوں گے، اور پارلیمنٹ ان منتخب نمائندوں پر مشتمل ہو گی۔ کوئی حکومت،عوام الناس کا اِعتماد کھودینے کے بعد قائم نہیں رہ سکے گی۔ اس حد تک جمہوریت ہمارے ہاں موجود ہے۔ گویا، اللہ تعالیٰ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کی مشینری جمہوری طریقے پر اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین نافذ کرے گی، عوام خود مقتدرِ اعلیٰ نہیں ہوں گے۔
آپ کی جدید تہذیب یہی ہے نا کہ آپ نے اپنے ہاں خاندانی نظام کا خاتمہ کر دیاہے۔ آپ نے عورت کا جو مقام و مرتبہ سوسائٹی کے اندر متعین کیا، اِس کا نتیجہ یہی نکلا ہے کہ آپ نے عورتوں کے اخلاق بھی برباد کیے اور مردوں کے بھی۔ آپ نے لوگوں کو اخلاقی پستی کی انتہا تک گرا دیا۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی وہاں تک گر جائیں؟ ہم اس کے لیے تیار نہیں۔ ہم اپنی سوسائٹی کو ان تمام برائیوں سے پاک رکھنا چاہتے ہیں، جو آپ کی ماڈرن سوسائٹی میں پائی جاتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ترقی اور چیز ہے اور نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کی بُری عادات و اطوار او رچیز۔ ہم ترقی کے قائل ہیں اور وہ ہم ضرور کریں گے، لیکن اس شکل میں نہیں کہ جِس طرح آپ کر رہے ہیں، ہم اس کو غلط سمجھتے ہیں۔ اس کے بجائے ہم اپنے اصولوں پر تعمیر و ترقی کریں گے اور وہی صحیح معنوں میں تعمیر و ترقی شمار ہو گی۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ عورتیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معلمات اور لیڈی لیکچرار اور پروفیسر بنیں، تاکہ وہ ہماری بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دے سکیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری عورتوں کو مرد پڑھائیں۔ چنانچہ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار کالج موجود ہیں، جن میں صِرف خواتین پڑھاتی ہیں اور تمام علوم و فنون کی تعلیم دیتی ہیں۔ وہ سائنس بھی پڑھاتی ہیں اور دوسرے جدید علوم بھی۔ اِسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی جہاں ضروری ہو ،ہم اپنی خواتین کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے ہیں۔ لیکن ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ ہم اس اصول کو ہر گز تبدیل نہیں کریں گے کہ مسلمان عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے۔ مسلمان عورت سے ہم جو بھی کام لیں گے، وہ اس کے گھر کے اندر اور عورتوں کی سوسائٹی کے اندر لیں گے۔
ہمار ے یہاں تو کبھی اتفاق سے یہ سننے میں آتا ہے کہ کِسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس پر ہم حیران ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس طرح طلاق ہمارے ہاں آسان ہونے کے باوجوود عملاً ایک rare [کم یاب ] چیز ہے۔٭ لیکن آپ کے ہاں جو حالات ہیں وہ آپ خود جانتے ہیں کہ وہاں طلاقوں کی کِس قدر بھَر مار ہو رہی ہے۔
[٭یہ اب سے تقریباً نصف صدی پہلے کی بات ہے، لیکن اتنے عرصے میں مغربی تہذیب کی محبت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی تمدن کی غلامی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب یہاں پر بھی طلاق و خلع کی رفتار کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔]
آپ یہ تسلیم کریں گے کہ ایسی بات خُدا کے فضل سے ہمارے ہاں تقریباً ناپید ہے، اور ایسا شاذو نادر ہی کبھی ہوتا ہو گا کہ کِسی خاندان میں طلاق کے نتیجے میں بچے بگڑ کر مجرم بن جائیں۔ تو اس لحاظ سے ہم اپنے آپ کو مغربی معاشرے سے کہیں زیادہ بہتر اور قابلِ رشک پوزیشن میں پاتے ہیں اور یہ چیز اِسلام کے ان معاشرتی اصولوں کی بدولت ہے، جو ہمارے معاشرے میں اب تک برقرار ہیں اور ان کی پابندی کی جاتی ہے۔
[٭ نصف صدی گزرنے کے بعد آج، بھارت میں مسلمانوں کے وجود کو لاحق خطرات کی شدت میں وسعت آئی ہے۔ راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) کی فسطائی حکمرانی کو جمہوری ووٹ کی مدد میسر ہے اور دنیا بھر کے کاروباری مفادات کے بھوکے ملکوں اور کثیر ملکی کمپنیوں کی معاشی ہوس بھی ساتھ ساتھ ہے۔ لیکن اقوام متحدہ اور مسلم دنیا کے سیاہ و سفید پر قابض حکمران طبقے بے حس خاموش تماشائی ہیں۔مرتب]
[٭جرمن نژاد ڈاکٹر پیٹرشمڈ نے ۲۴ جون ۱۹۶۸ء کو Swiss TV کے لیے یہ انٹرویو فلم بند کیا، جس کا انگریزی سے اُردو ترجمہ پیش ہے۔ (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۲۱ جولائی ۱۹۶۸ء)]
اعلانِ آزادی کے بعد قدرتی طور پر اس ملک کے مسلمانوں کی خواہش یہ تھی اور اس خواہش کے لیے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا تھا، کہ اس خطۂ زمین میں اُنھیں اپنے طرزِ تمد ّن اور اپنے قوانین، اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع ملے، لیکن ۱۹۰سالہ انگریزی دَورِ غلامی اور مروّجہ نظامِ تعلیم کی وجہ سے ملک میں وہ لوگ موجود نہیں تھے اور نہ تیار کیے گئے تھے جو اسلامی قوانین کو اچھی طرح سمجھتے ہوں اور ان پر نظامِ مملکت کو چلا سکیں۔ معدودے چند لوگ جو یہ صلاحیت رکھتے تھے ، اُنھیں اس نظام کو عملاً چلانے کا نہ موقع ملا اور نہ کوئی اختیار ان کے پاس تھا، اور جن لوگوں کے پاس اختیارات تھے، وہ زیادہ تر ایسے تھے کہ اسلام کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے سمجھتے ہی نہ تھے کہ اس کے مطابق معاملات چلاسکیں، اور ان میں سے کچھ اسلام کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا ارادہ ہی نہ رکھتے تھے۔
ہم اس اصل سبب کو سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے بڑے صبر کے ساتھ مدّت سے اُن اسباب کو دُور کرنے کی فکر کر رہے ہیں، جو اس راہ میں اصل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اسی طرح صبر اور حکمت کے ساتھ مسلسل کام کیا جائے تو ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا جب پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی اسٹیٹ بن جائے گا اور ایک صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں آجائے گا۔
ہماری قومی روایات ملک کی صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیںاور نہ ہمارا دین مغربی ٹکنالوجی یا سائنسی ترقی کی راہ میں حائل ہے،بلکہ ہمارا دین صرف اسلامی اخلاقی اورسماجی اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے اگر صحیح نہج پر کام کیا جائے تو ہماری اپنی مثبت روایات، مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات پر چھا جائیں گی۔ بیرونی نظریات کو پھر اس ملک میں پنپنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
تاہم، جو بات مَیں یہاں کے مسلمانوں سے کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اس ملک میں اِخلاص اور فرض شناسی کے جذبے کے ساتھ کام کریں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے مخلص اور سچّے پَیرو بنیں۔ یہاں کے لوگوں کے سامنے ایک اچھا نمونہ پیش کریں۔ اور یہ بات خاص طور سے سامنے رکھیں کہ وہ یہاں کسی قیمت پر بھی اپنی تہذیبی روایات سے اِنحراف نہیں کریں گے۔
- مثلاً، آج خاندانی زندگی کا نظام موجودہ تہذیب ہی کی وجہ سے درہم برہم ہو رہا ہے۔
- مثلاً، اسی تہذیب و تمدّن کی بدولت رنگ اور نسل کے امتیازات اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ دُنیا میں کبھی انسانیت پراتنا ظلم و ستم نہیںہوا جتنا اس رنگ و نسل کے امتیاز کی بدولت آج ہورہا ہے۔
- مثلاً، اس تہذیب نے نیشنل ازم کا طوفان بَرپا کر دیا جس کی بدولت دُنیا میں دو عظیم جنگیں ہو چکی ہیں اور مزید ہوتی نظر آرہی ہیں۔
یہ سب کچھ اسی وجہ سے تو ہے کہ انسان نے علوم ِطبیعی کی طرح اپنی اجتماعی زندگی کے لیے بھی اپنی عقل ہی کو کافی سمجھ لیا ہے اور اپنی زندگی کا نظام اپنی عقل سے تصنیف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس فطری نظام کو اختیار کیاجائے جو انسان کے لیے خُدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہو ں، اور اگر کبھی پیدا ہو بھی جائیں تو ان کو آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔
اسلام ایسے تمام تعصبات کو ’جاہلیّت‘ قرار دیتاہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوئے ہیں اور انسان اور انسان کے درمیان فرق کی بنیاد اس کی پیدایش نہیں بلکہ اس کے اخلاق ہیں۔ اگر ایک انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق رکھتا ہے تو خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ افریقا میں پیدا ہوا ہو یا امریکا میں یا ایشیا میں بہرحال وہ قابلِ قدر انسان ہے۔ اور اگر ایک انسان اخلاق کے اعتبار سے بُرا آدمی ہے تو خواہ کسی جگہ پیدا ہوا ہو اور اس کا رنگ خواہ کچھ ہی ہو اور اس کا تعلق خواہ کسی نسل سے ہو، وہ ایک بُرا انسان ہے۔ اسی بات کو محمد رسول اللہﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :’’کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اگر ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے‘‘۔
جو شخص خدا کی صحیح صحیح بندگی کرتا ہے اور خدا کے قانون کی صحیح صحیح پیروی کرتا ہے، خواہ وہ گورا ہو یا کالا ،بہرحال وہ اس شخص سے افضل ہے جو خُدا ترسی اور نیکی سے خالی ہو۔
اسلام نے اسی بنیاد پر تمام نسلی اور قومی امتیازات کو مٹایا ہے۔ وہ پوری نوع ِانسانی کو ایک قرار دیتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ قرآن وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کے بنیادی حقوق کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔اسلام وہ پہلا دین ہے، جس نے تمام انسانوں کو جو کسی مملکت میں شامل ہوں، ایک جیسے بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست چوں کہ ایک نظریے اور اصُول [Ideology] پر قائم ہوتی ہے، اس لیے اس نظریے کو جو لوگ مانتے ہوں ،اسلامی ریاست کو چلانے کا کام انھی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیوںکہ جو لوگ اسے مانتے اور سمجھتے ہیں وہی اس پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، لیکن انسان ہونے کی حیثیت سے اسلام تمام ان لوگوں کو یکساں تمد ّنی حقوق عطاکرتا ہے جو کسی اسلامی ریاست میں رہتے ہوں۔
اسی بنیاد پر اسلام نے ایک عالم گیر اُمت [World Community] بنائی ہے ، جس میں ساری دُنیا کے انسان برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ حج کے موقعے پر ہر شخص جا کر دیکھ سکتا ہے کہ ایشیا، افریقہ، امریکا، یورپ اور مختلف ملکوں کے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں پایا جاتا۔ ان کو دیکھنے والا ایک ہی نظر میں یہ محسوس کر لیتا ہے کہ یہ سب ایک اُمت ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاشرتی امتیاز نہیںہے۔ اگر اِس اصُول کو تسلیم کر لیا جائے تو دُنیا میں رنگ و نسل کی تفریق کی بنا پر آج جو ظلم و ستم ہو رہا ہے، اس کا یک لخت خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اسی لیے اسلام نے شراب نوشی کو قطعی طور پرممنوع قرار دیا ہے اور یہ اصول قرار دیا ہے کہ جو چیز حرام ہے، اس کی کم سے کم مقدار بھی حرام ہے کیونکہ اس کی کم مقدار کو حلال قرار دینے کے بعد کوئی خط ایسا نہیں کھینچا جاسکتا، جہاں جواز کی حد ختم ہو سکے اور عدمِ جواز کی حد شروع ہو جائے۔ لہٰذا، قابلِ عمل صورت یہی ہے کہ اس کو قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا جائے۔ اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب یا نظامِ تہذیب ایسا نہیں ہے جس نے انسان کو الکوہلزم سے بچانے میں وہ کامیابی حاصل کی ہو جو اسلام نے حاصل کی ہے۔ امریکا نے اسی صدی میں اس بات کی کوشش کی تھی کہ امریکی قوم کو شراب کے نقصانات سے بچایا جائے۔ چنانچہ، امریکی دستور میں ایک ترمیم کے ذریعے سے شراب کو ممنوع قرار دیا گیا، لیکن یہ تجربہ ناکام ہوگیا۔[امریکی کانگریس نے۱۸دسمبر ۱۹۱۷ء کو شراب پر پابندی کی ترمیم پیش کی، جو ۱۸ویں ترمیم کے طور پر، ۱۶جنوری ۱۹۱۹ء کو منظور ہوئی۔ ۱۷جنوری ۱۹۲۰ء سے اس پر عمل شروع ہوا۔مگر شدید عوامی ردعمل کے نتیجے میں دسمبر ۱۹۳۳ء کو ۲۱ویں ترمیم کی صورت میں یہ پابندی واپس لے لی گئی۔ یہاں مولانا محترم نے اس جانب اشارہ کیا ہے۔]
اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ شراب کا ساینٹی فک معیار پر ’مضر ہونا پہلے ثابت ہو گیا تھا اور بعد میں اس کا غیر مضر ہونا ثابت ہو گیا، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ امریکا کی حکومت اور اس کا پورا قانونی نظام اپنا سارا زور لگا کر بھی لوگوں کو شراب نوشی چھوڑنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ یہ دراصل امریکی تہذیب کے نظام کی کمزوری تھی۔ اس کے برعکس اسلام کا تہذیبی نظام اتنا طاقت ور تھا کہ ایک حکم مسلمانوں کو شراب سے روک دینے کے لیے کافی ہو گیا اور اس حکم میں آج تک اتنی طاقت ہے کہ دُنیا کی کوئی قوم اب بھی شراب سے اجتناب کے معاملے میں مسلمانوں کی برابری نہیں کر سکتی۔
جہاں تک سُود کا تعلق ہے، تمام آسمانی شریعتوں میں وہ ہمیشہ سے حرام رہا ہے۔ آج بھی بائبل میں اس کی حُرمت کا حکم موجود ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’میں آج سے سُود کو حلال قرار دیتا ہوں‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عیسائیت نے بھی اس حکم کو برقرار رکھا، جو پہلے سے بائبل میں سُود کی حرمت کے لیے موجود تھا۔ اگر سود کسی وقت بھی حلال کیا گیاہوتا تو اس کا ثبوت موجود ہوتا کہ فلاں پیغمبر نے یا خدا کی فلاں کتاب نے اس کو حلال قرار دیا ہے لیکن میرے علم میں نہیں ہے کہ کبھی خدا کی کسی کتاب میں اس کے حلال ہونے کا حکم آیا ہو۔
اب رہا یہ سوال کہ سُود کیوں حرام ہے؟ اس کے بارے میں یہ اُصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ انسان ان چیزوں کی برائی کو تو جان سکتا ہے جو جسمانی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ ہوں، لیکن وہ آج تک کبھی یہ جاننے پر قادرنہیں ہوا ہے کہ کون سی غذائیں اس کے اخلاق پر بُرا اثر ڈالتی ہیں اور روحانی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ غذائوں کے اخلاقی اثرات جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کو متعین کرنے کے ذرائع انسان کو حاصل نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ کام خُدا نے اپنے ذمے لیا ہے کہ جو چیزیں انسان کے اخلاق اور اس کی رُوح کے لیے نقصان دہ ہیں، ان کی نشان دہی وہ خود کر دے اور انھیں حرام قرار دے۔ اب اگر کوئی شخص خدا پر اعتماد کرتا ہو تو اسے وہ چیزیں چھوڑ دینی چاہییں، جن سے اس نے منع کیا ہے اور جو خُدا پر اعتماد نہ رکھتا ہو وہ جو کچھ چاہے کھاتا رہے۔
[پمفلٹ، منشورات سے دستیاب ہے،]
خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم!
قرآنِ مجید سے پتا چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں، جن میں انبیا ؑ مبعوث ہوئے ہیں:
اب یہ ظاہر ہے کہ قرآن خود کہہ رہا ہے کہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دُنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے،اور دُنیا کی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپؐ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپؐ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہروقت پہنچ سکتی ہے۔
قرآن اس پر گواہ ہے، اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اِس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا۔ جو کتاب آپؐ لائے تھے، اس میں ایک لفظ کی بھی کمی بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ جو ہدایت آپؐ نے اپنے قول و عمل سے دی، اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپؐ کے زمانے میں موجود ہیں۔ پھر قرآنِ مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دین کی تکمیل کردی گئی ہے ،لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۵، فروری ۱۹۶۲ء، ص۵۰-۵۱)
سوال : غیرمسلموں کے برتنوں میں کھانا اور پینا درست ہے یا نہیں؟
جواب :ان کے صاف دھلے ہوئے برتنوں میں آپ کھانا کھاسکتے ہیں، اگر آپ کو اطمینان ہو کہ وہ کسی حرام چیز سے ملوث نہیں ہیں۔ اطمینان نہ ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ دعوت وصول ہوتے ہی، اپنی اوّلین فرصت میں داعی کو اپنے اصول اور مسلک سے آگاہ فرما دیں، اور ان کو لکھ بھیجیں کہ آپ کے ساتھ دعوت میں ان اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔(اپریل ۱۹۶۰ء)
سوال : غذائوں اور دوائوں کی حلت و حُرمت کے بارے میں شرعی احکام کیا ہیں؟
جواب :دوائوں اور غذائوں میں کیا چیزیں پاک ہیں اور کیا ناپاک؟ اس کو جاننے کے لیے آپ کو کچھ نہ کچھ حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک احکامِ قرآنی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں آپ کو تفہیم القرآن سے کافی مدد مل جائے گی۔ مگر پھر بھی حدیث اور فقہ کے مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے ، تاکہ آپ اصولی احکام سے بھی واقف ہوجائیں اور جزوی مسائل سے بھی۔ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اب تک میڈیکل کالج کی تعلیم میں شرعی احکام کی تعلیم شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ آخر ہم کیسے اُس چیز کی ضرورت محسوس کرلیں، جسے ہمارے ’استاد‘ (انگریز) نے غیر ضروری سمجھا تھا۔(جون ۱۹۵۳ء)
سوال : کسی مریض کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا بعض علما کے نزدیک ناجائز ہے۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟
جواب :آدمی کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا میرے نزدیک تو جائز ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس کو حرام کہنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ غالباً اسے خون پینے اور کھانے پر قیاس کرکے کسی صاحب نے حرام کہا ہوگا۔ لیکن میرے نزدیک ان دونوں چیزوں میں فرق ہے۔ غذا کے طور پر خون پینا اور کھانا بلاشبہہ حرام ہے، مگر جان بچانے کے لیے مریض یا زخمی آدمی کے جسم میں خون داخل کرنا اسی طرح جائز ہے، جس طرح حالت ِ اضطرار میں مُردار یا خنزیر کھانا۔(جون ۱۹۵۳ء)
سوال : ڈاکٹر کے لیے فیس کا تعین یا اس کا مطالبہ جائز ہے یا اسے مریض کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے؟
جواب :ڈاکٹر کی فیس اُصولاً تو جائز ہے ، مگر ڈاکٹروں نے بالعموم فیس کے معاملے میں ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں، جو گناہ اور ظلم، اور سخت قساوت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی بنا پر ہماری یہ رائے ہے کہ تمام ڈاکٹروں کو حکومت کی طرف سے کافی وظیفے ملنے چاہییں، اور انھیں مریضوں کا مفت علاج کرنا چاہیے۔(جون ۱۹۵۳ء)
سوال : نفس (mind) دماغ (brain) اور جسم کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دماغ اور جسم مادے سے مرکب ہیں اور نفس یا ذہن ایک غیرمادی چیز ہے؟
جواب :’دماغ‘ ذہن کا محل اور اس کا وہ مادی آلہ ہے، جس کے ذریعے سے ’ذہن‘ اپنا کام کرتا ہے، اور ’جسم‘ وہ مشین ہے جو اُن احکام کی تعمیل کرتی ہے، جو دماغ کے ذریعے سے ذہن اس کو دیتا ہے۔ اس کو ایک بھدی (crude) مثال کے ذریعے سے یوں سمجھیے کہ انسان کی ذات گویا مجموعہ ہے ڈرائیور اور موٹرکار کا۔ ڈرائیور ’ذہن‘ ہے ۔ انجن اور اسٹیرنگ ویل میں لگے ہوئے آلات بحیثیت مجموعی ’دماغ‘ ہیں۔ وہ قوت و توانائی جو انجن کے اندر کام کرتی ہے، روح اور موٹرکار کی باڈی ’جسم‘ ہے۔ (مارچ ۱۹۶۷ء)
انتظامی اُمور اور مملکتی نظام(Civil Administration) میں فوج کا داخل ہونا، فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔
فوج، بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے، ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔
اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف، خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔
علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں، خواہ وہ سیاست کار ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم(Civil Administrators)، ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ ان سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔
فوج کا اس میدان میں اُترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقعے پر ملک کا ہرفرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔
دُنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کومفید ثابت نہیں کیا ہے، بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے بُرے نتائج ظاہر کر دیئے ہیں۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۴، جنوری ۱۹۶۲ء، ص۵۰-۵۱)
اجتہاد کا دروازہ کھولنے سے کسی ایسے شخص کو انکار نہیں ہوسکتا، جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے اجتہاد کی اہمیت و ضرورت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ لیکن اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔
اجتہاد کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہے، جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں، بلکہ اس کو دفترِ بے معنی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہوں۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں فقہائے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اور اس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں۔ پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات واقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے، تو اسلام کو مسخ کرکے رکھ دیں گے اور مسلمان، جب تک اسلامی شعور کی رمق بھی ان کے اندر موجود ہے، ایسے لوگوں کے اجتہاد کو ہرگز ضمیر کے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کریں گے۔
اس طرح کے اجتہاد سے جو قانون بھی بنایا جائے گا، وہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی قوم پر مسلط کیا جاسکے گا ،اور ڈنڈے کے ساتھ ہی وہ رخصت ہوجائے گا۔ قوم کا ضمیر اس کو اس طرح اُگل کر پھینک دے گا، جس طرح انسان کا معدہ نگلی ہوئی مکھی کو اُگل کر پھینک دیتا ہے۔
مسلمان اگر اطمینان کے ساتھ کسی اجتہاد کو قبول کرسکتے ہیں، تو وہ صرف ایسے لوگوں کا اجتہاد ہے، جن کے علمِ دین اور خدا ترسی اور احتیاط پر ان کو اطمینان اور بھروسا ہو، اور جن کے متعلق وہ یہ جانتے ہوں کہ یہ لوگ غیر اسلامی نظریات و تصورات کو اسلام میں نہیں ٹھونسیں گے۔
جو اجتہادی اصول آج سے ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے وہ صرف اس لیے رَد کردینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانے ہیں۔ معقولیت کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھیے کہ وہ اصول تھے کیا اور اِس [زمانے] میں ان کے سوا اور کچھ اصول ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۳،دسمبر ۱۹۶۱ء، ص۵۷-۵۸)
یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی، اندلس (Spain) جاکر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔ اب معاملہ اُلٹا ہوگیا ہے کہ مسلمان یو رپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے؟ حتیٰ کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔ مغربی ممالک سے استاد درآمد کرکے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں، نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرّہ برابر بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہودیوں نے اپنی انسائیکلوپیڈیا (Jewish Encyclopedia) شائع کی ہے۔ اس میں کوئی ایک مضمون (Article) بھی کسی مسلمان تو درکنار کسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائیبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمے کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنّفین، اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ’’ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق وہ محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں‘‘۔
یہ صورتِ حال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے۔اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان یتیم بھی ہوں، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویّہ مسلمانوں کی ’غیراسلامی حکومت‘ ہی کو مبارک رہے! (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۲،نومبر ۱۹۶۱ء، ص۵۵-۵۶)
اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز نافذ ہونے سے روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سدِّراہ ہیں، ان کا اگر تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ انھیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبے نے پیدا کیا ہے۔
مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلّط ہوئیں تو انھوں نے ہمارے قانون کو ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو معطل کرکے اپنا نظامِ تعلیم رائج کیا۔ تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے اُن سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار تھے اور ہرملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کردی جو اُن کے قائم کردہ نظامِ تعلیم سے فارغ ہوکر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طور طریقے رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی رفتہ رفتہ اُن لوگوں کے لیے مخصوص ہوگیا جنھوں نے مغربی تہذیب و تعلیم کو اختیار کیا تھا۔ اس طریقہ سے انھوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کردی، جو اسلام اور اس کی تاریخ، اس کی تعلیمات اور اس کی روایات ہرچیز سے علمی طور پر بھی بیگانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بیگانہ۔
یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے۔جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیراسلامی طریقے پر دی گئی ہو وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابلِ عمل نہیں ہے ۔ جس نظامِ زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں اسی کو وہ قابلِ عمل تصور کرسکتے ہیں۔ اب لامحالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں: یا تو ہم من حیث القوم کافر ہوجانے پر تیار ہوجائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دُنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں۔ یا پھر خلوص اور ایمان داری کے ساتھ (منافقانہ طریق سے نہیں) اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقہ سے تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے قابل لوگ تیار کرسکیں۔ (’رسائل و مسائل‘ ، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۱،اکتوبر ۱۹۶۱ء، ص۵۰-۵۱)
مرتبہ : سلیم منصور خالد
علم کے حصول اور ہدایت کی نعمت پانے کے لیے سوال کو بہت بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒنے جب قافلۂ راہِ حق کو منظم کیا، تو پھر بھرپور ساتھ دینے والے اور قافلے کو دُور سے دیکھنے والے، دونوں، مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے پاس اپنے سوال لے کر آئے۔
سوال پوچھا اسی سے جاتا ہے کہ جس پہ اعتبار ہو اور جس کی بات پر اعتماد ہو۔ جس کے علم اور جس کی دیانت پر دل کو اطمینان ہو۔ سو، کارکنان، کارزارِ زندگی میں دعوت و تنظیم کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے، جب بھی کوئی اُلجھن یا خلش دل میں پاتے تو مولانا محترم کی مجالس میں پہنچ جاتے یا خط کی صورت میں ذہن کی مشکلات، دل کے وسوسے اور راہوں کے کانٹے مولانا کے سامنے بلاجھجک ڈھیر کر دیتے۔مولانا مودودی کمالِ شفقت، حددرجہ محبت اور نہایت توجہ سے سوالات سنتے، بلکہ سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی کرتے اور پھر نہایت نرمی سے جواب عطا فرماتے۔ یہاں ان کی مجالس میں، کارکنوں کے سوالات، مولاناؒ کے جوابات اور کچھ تقریروں کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں رہنمائی کے نقوش روشن ہیں۔
دسمبر ۱۹۷۰ء میں پہلے عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان کے نامزد اُمیدواروں کو ناکافی ووٹ ملے۔ اس صورتِ حال نے کارکنوں کے ذہنوں میں چند در چند اُلجھنیں پیدا کیں۔ متعدد نشستوں میں کارکنوں کی جانب سے اُٹھائے جانے والے حسب ذیل سوالات کی روشنی میں دیکھا، سمجھا اور راہِ عمل کے لیے زادِ راہ بنایا جاسکتا ہے:
انتخابات میں کامیابی کے لیے ہم ناجائز تدابیر کبھی اختیار نہیں کریں گے، خواہ ایک صدی تک کامیابی نہ ہو۔ ہم صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے ہی کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس قوم کی قسمت میں ایک صحیح عادلانہ نظام کا قیام ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طریقے سے ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کی قسمت میں دھوکے ہی کھانا لکھا ہے، تو ہم وہ لوگ نہیں بننا چاہتے، جو اس کو دھوکا دینے والے ہوں۔ ہم اس کو بچانے والے تو بننا چاہتے ہیں، لیکن اس کو ٹھوکریں کھلانے والے نہیں بن سکتے۔
اس لیے محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ہم جماعت اسلامی کی ایسی توسیع کرنے،اور اسے اس طرح کی عوامی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کرسکتے، جو ہمارے کارکن کا معیارِ اخلاق گرا دے، اوروہ عوام کی اصلاح کرنے کے بجائے صرف کسی نہ کسی طرح انھیں بہا کر اپنے ساتھ لے آنے کے قابل بن جائے۔
جماعت اسلامی صرف انتخابی جماعت نہیں ہے، نہ اس کی حیثیت اُن سیاسی پارٹیوں کی سی ہے، جو محض انتخابات کے لیے کام کرتی ہیں۔ اسے ایک پورے معاشرے کو ہرپہلو سے تیار کرنا ہے، اور یہ کام ایسا ہے، جسے سال کے بارہ مہینوں کے ۳۶۵ دن ہمہ وقت جاری رہنا ہے۔اس کے لیے بلاشبہہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کارکن اس کے لیے درکار ہیں۔ مگر لازماً، وہ ایسے ہی کارکن ہونے چاہییں جو مخلص ہوں، بے لوث ہوں، اخلاقی لحاظ سے کھرے ہوں اور سیرت و کردار کی اتنی مضبوطی رکھتے ہوں کہ سخت نامساعد ماحول میں بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلسل محنت کرتے چلے جائیں، خواہ دُور دُور تک انھیں کامیابی کے آثار نظر نہ آتے ہوں۔
جمہوریت کی بحالی ہو یا اسلامی نظام کا قیام، اس کے لیے ہم فساد کا راستہ کبھی اختیار نہیں کریں گے، کیونکہ وہ تباہی کا راستہ ہے، جس سے کچھ تعمیر نہیں ہوتی، تخریب ہوتی ہے۔ اس لیے فساد کا راستہ ہم اختیار نہیں کریں گے، بالکل آئینی اور قانونی طریقے سے، بالکل سلامت روی کے ساتھ اس ملک کے حالات کو درست کرنے کی جس حد تک کوشش کرسکتے ہیں، وہ کریں گے… جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی شخص کو کسی سُستی اور تساہل و تغافل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سُستی سے کام لیا تو اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔ پوچھا جائے گا کہ کیا عہد کرکے شامل ہوئے تھے، اور تمھارے سامنے پوری اُمت برباد ہورہی تھی، تم نے کیا کیا؟
بہرحال، ہمیشہ ہنگامہ خیز پروگرام زیادہ عرصے تک نہیں چلا کرتے۔ جماعت کو جس بات کی تربیت دی جاتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ تعمیری کام کرے اور صبر کے ساتھ کرے۔ جماعت اسلامی ہنگامے برپا کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی تھی۔ اگر ہنگامی زندگی کا آپ لوگوں کو کوئی چسکا پڑگیا ہو تو اس کو اب دُور کیجیے۔ صبر کے ساتھ اپنی قوم کی اور اپنے ملک کی اصلاح کرنے کی فکر کیجیے۔
ہم اسلامی نظریۂ حیات پر ایمان رکھنے والی جماعت ہیں۔ یہ ایک جہانی اور عالمی جماعت ہے، یہ تمام نوعِ انسانی کی جماعت ہے۔اس نظریے کے لیے ہم کوشش کریں گے اور آخر وقت تک کوشش کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی اس کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ میرے ساتھی کتنا کچھ اور کیا کر رہے ہیں۔ ہرایک آدمی یہ دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ اور میرا کیا فریضہ ہے؟ اگر کوئی دوسرا اپنا فرض انجام نہ دے رہا ہو، تب بھی آپ کو اپنا فرض انجام دینا ہے۔ کوئی دوسرا کوشش نہیں کر رہا ہے تو آپ کو کرنا ہوگا۔ اگر سارے کے سارے بیٹھ جائیں تو آپ کے اندر یہ عزم ہونا چاہیے کہ میں اکیلا ساری دُنیا کی اصلاح کے لیے لڑوں گا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہم متوسّط تعلیم یافتہ طبقے کے خیالات کو بدلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ عوام کے خیالات کی اصلاح ہے، جن کے اندر بڑے پیمانے پر جہالت پھیلی ہوئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اب پہلے سے زیادہ جان مار کے کوشش کرنا پڑے گی۔
جتنی ’عوامی‘ جماعت اسلامی ہے، اتنی ہی رہے گی، اس سے زیادہ ’عوامی‘ نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اسے عوامی جماعت اسلامی ہی بنانا چاہتے ہیں، تو پھر اسے جماعت اسلامی کا نام دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے مسلم لیگ کا نام دے دیجیے۔ یہ جماعت اسلامی کے نظم کا ہی نتیجہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا کام ایک مؤثر طریقے سے ہورہاہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آپ اس جماعت میں بھی وہی بھانت بھانت کی بولیاںسنتے، جو دوسری جماعتوں میں آپ سنا کرتے ہیں، اور آپ کو ایک ہی جماعت کا نام لے کر لوگ طرح طرح کے راستے پر چلتے ہوئے نظر آتے۔ آخر آپ نے مسلم لیگ کا حشر دیکھ لیا۔ اس میں سے عوامی لیگ نکلی اور پھر کئی لیگیں بن گئیں۔ اسی کے اندر سے ری پبلکن پارٹی اور نہ جانے کون سی پارٹیاں نکلیں۔ یہ سب اس کے عوامی پن ہی کا نتیجہ ہے۔
ہم جماعت اسلامی کو ہرگز اس طرح کی عوامی جماعت نہیں بنائیں گے۔ جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف وہ لوگ اس کے اندر کام کریں، جو خوب سوچ سمجھ کر اسلام کو شعوری طور پر مانتے ہوں۔ اگر جماعت اسلامی کا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہرشخص مسلمان کے نام سے اس کے اندر آکھڑا ہوگا اور وہی کچھ کرے گا، جو دوسرے مسلمان دُنیا میں کر رہے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ جو شخص جماعت اسلامی میں شامل ہو، وہ شعوری مسلمان ہو۔ سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو اور پھر اس کے بعد وہ کسی نظم کے تحت کام کرے۔ اس جماعت میں جس شخص کو بھی کام کرنا ہے اسے Personal Ambitions [ذاتی جاہ طلبی] کو دل سے نکال دینا چاہیے۔ آدمی کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ وہ ذاتی مفاد اور اپنی شخصیت کا کبر، یہ ساری چیزیں قربان کردے، اور اپنے مقصد کے لیے ایک نظم کے تحت کام کرے۔ نظم کو خراب کرنے والی کسی قسم کی حرکت، درحقیقت اس جماعت کو خراب کرنے کا گناہ ہے۔ اگر نظم اور ضبط کے ساتھ ہم کام کریں گے، تو ان شاء اللہ، آخرکار حالات بدل جائیں گے، خواہ معاشرے میں کتنی ہی خرابیاں کیوں نہ پیدا ہوگئی ہوں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲، لاہور]
یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے دی ہے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمدسے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یا اُسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمّہ سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی، جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ شخصیت کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتی کہ ہم دُنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔
رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو کوئی ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اِس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیاء علیہم السلام بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے ہی کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کررہے۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ؑکا فرض یہ بیان کیا گیا ہے: اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ [الشورٰی ۴۲: ۱۳]، ’’اس دین کو قائم کرو او اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔
اسی طرح سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے۔ تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ [الفتح۴۸: ۲۸]’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ پورے دین پر اُسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کا مقصدِ وجود نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے مختلف بھی کچھ ہوسکتا ہے! [۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس میں شک نہیں کہ ہم جس ملک میں، جس قوم میں، جس زمانے میں، اور جن حالات میں کام کر رہے ہیں، ہمیں کوئی پروگرام بناتے ہوئے اُن سب کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ لیکن ان تمام احوال میں ہماری اصولی دعوت لازماً ایک ہی رہے گی۔ ہمارا بنیادی مقصد بھی قطعاً ناقابلِ تغیر ہوگا ، اور اپنا عملی پروگرام بناتے ہوئے ہم ان چیزوں کو صرف اِس حیثیت سے ملحوظ رکھیں گے کہ اس ملک میں، اس زمانے کے حالات میں، ہم اپنی دعوت کو کس طریقے سے فروغ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس قوم کے اچھے رجحانات سے کس طرح فائدہ اُٹھائیں، اوراِس کے بُرے رجحانات کو کس طرح بدلیں کہ وہ ہمارے مقصد کی راہ میں کم از کم رکاوٹ تو نہ بن سکیں۔
اس نقطۂ نظر سے اِن چیزوں کو ملحوظ رکھنا تو عین تقاضائے حکمت ہے۔ لیکن اگر ہم زمان و مکان کے حالات اور لوگوں کے رجحانات کو دیکھ کر اپنی دعوت اور اپنے مقصد ہی پر نظرثانی کرنے بیٹھ جائیں، تو یہ سراسر گمراہی ہے جس کا خیال تک ہمارے ذہن میں نہ آنا چاہیے۔ طریقِ کار حالات کے لحاظ سے بدلا جاسکتا ہے۔حکمت ِعملی میں لوگوں کے اچھے یا بُرے رجحانات کے لحاظ سے تغیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور اس کی دعوت کے جو اصول مقرر کر دیے ہیں، ان میں ذرّہ برابر کوئی ردّ و بدل لوگوں کے رجحانات یا زمانے کے حالات کو دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں ہرحال میں اُسی کو قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔یہ الگ بات ہے کہ ہم جس ملک میں کام کر رہے ہوں، اُس کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اس مقصد کے لیے سعی و جہد کے ایک طریقے کو موزوں پاکر اختیار کرلیں اور دوسرے طریقے کو ناموزوں سمجھ کر ترک کر دیں۔
اِسی طرح جن چیزوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مٹانا چاہتے ہیں، ان کو مٹانا ہی ہماری کوششوں کا ہمیشہ مقصود رہے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی استطاعت اور ملک کے حالات، اور عوام کی مزاجی کیفیات کو دیکھ کر یہ طے کریں کہ کن چیزوں کو مٹانے کی کوشش مقدّم اور کن کے مٹانے کی کوشش مؤخر رکھنی جانی چاہیے۔ نیز یہ کہ اس غرض کے لیے ہم کون سی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں اور کن تدابیر کا اختیار کرنا غیرممکن، غیرمفید، یا غیرمناسب ہے۔ [۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس وقت صورت یہ ہے کہ ملک کی دولت اور وسائل اور اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ پوری طرح بگاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ یہاں بھلائی نہ پھیلے اور بُرائی ہی پرورش پائے۔ اب ظاہر ہے کہ ہم، جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ وسائل و اختیارات، ان کو کیسے روک سکتے ہیں؟ جو ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم پر اس کی جواب دہی بھی نہیں ہے۔ ہم جواب دہ اس بات کے ہیں کہ جو چیز ہمارے امکان میں تھی، اس کے انجام دینے میں ہم نے کہاں تک اس کا حق ادا کیا ہے یا اس میں کمی کی ہے؟ چنانچہ، آپ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور مسلسل اصلاحِ احوال اور اصلاحِ خلق کے لیے کام کرتے رہیں۔
یہ تو تھی اصولی بات! لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کے لیے اسلامی نظام کا گہوارہ بننا مقدر فرما دیا ہے۔ گذشتہ حالات کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوکر رہے گا۔ ہندستان میں مسلمانوں کی ہرگز یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ پاکستان بنا سکیں۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور معجزہ تھا کہ اس نے ہندستان کے ایک حصے کو پاکستان بنایا اور ایسی شکل میں بنایا، جو کسی اسکیم میں نہیں تھا۔ اسکیم تو یہ تھی کہ ملک تقسیم ہوگا اور ہندو اکثریت کے علاقے ہندستان میں اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ نقلِ آبادی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اگر ایسی شکل ہی قائم رہتی تو یہاں اسلامی نظام کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا تھا، مگر یہ اللہ کی مشیت تھی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی اور اس طرح یہ علاقہ واضح مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ گویا فسادات کے شر سے اللہ نے خیر کا یہ پہلو اسلامی نظام کے لیے مقدّرفرمایا اور اسلامی نظام کے امکانات واضح فرمائے۔
دوسرے یہ کہ آپ نے خود دیکھ لیا کہ یہاں جو بھی اسلامی نظام کی راہ میں مزاحم بنا ہے، وہ ذلیل و خوار ہوا ہے۔ نہ اس سے پہلے اسلامی نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے والے زیادہ دیر تک ٹھیر سکے ہیں اور نہ ان شاء اللہ آیندہ ٹھیر سکیں گے۔ میرا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے اور میں یہ سوچ کر کبھی پریشان نہیں ہوتا کہ یہ لوگ جو اس قدر بگاڑ پیدا کر رہے ہیں تو شاید یہاں اسلامی نظام قائم نہ ہوسکے۔بہرحال، یہ صورتِ حال قوم کے لیے آزمایش کا درجہ رکھتی ہے خدا کرے کہ ہم اس آزمایش پر پورا اُتریں۔
پھر میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جتنی کوششیں اس قوم کو بگاڑنے کے لیے ہورہی ہیں، ان کے تناسب سے لوگوں میں بُرائی نہیں پھیل رہی۔ اس قوم میں خیر اب بھی موجود ہے۔ اب جس حدتک خیر موجود ہے، آپ ا س سے استفادہ کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی جب آپ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔ وہ آپ سے نفرت نہیں کرتے بلکہ غلط راستے پر چلنے والوں اور چلانے والوں کو ہی بُرا سمجھتے ہیں۔ اصل میں مسلمانوں کی قدریں نہیں بدلیں، ان کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں اور یہ مرض لاعلاج نہیں ہے۔[۲۷ جنوری، ۱۹۷۳ء، لاہور]
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ ’غیرجمہوری طریقوں‘ کے مقابلے میں جب ’جمہوری طریقوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کرکے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائیدسے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔
اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنالینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہرحال میں صرف انتخابات ہی پر انحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی رائے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنادیا گیا ہو، وہاں جباروں کو ہٹانے کے لیے رائے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہرشعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جباروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا، جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیرمقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیرجمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونساجاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے، اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ ’انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے‘۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اورفسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن، اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، اندازِ فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکتے۔
یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی۔ بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کرکے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں۔ ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی Values (قدریں) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ ’جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے‘ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا، جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کرسوچنے لگیں گے کہ ’اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں‘۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں:
جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے برسوں میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہرشعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہرشعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر خیر کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوں کی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں۔ دوسرا کام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کرکے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔
پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے، اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے، مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کیجیے۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمت ِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے، اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ ’جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیاجاسکتا ہے؟‘
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہرطرح کی کڑیاں [مصائب و مشکلات کے سلسلے] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ ’’جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں‘‘۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا، جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق،دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل،اورانسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیزدرحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے افراد لے کر،عام لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم و ستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہرحالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رُونما ہوتے ہیں:
ظلم و جَور کا ماحول جہاں بھی ہو، اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رُونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے۔ آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اُس وقت چونکہ ارکانِ جماعت نے امارت کا بار میرے اُوپر ہی رکھ دیا، اس لیے میں نے اُسے اُٹھا لیا۔ اب میری خرابی ٔ صحت نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ اِس ذمہ داری کا حق ادا کرسکوں، اس لیے میں نے ایمان داری کے ساتھ اپنے آپ کو اس سے سبک دوش کرا لیا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی ذمہ داری میں اپنے سر کیسے لے لوں، جب کہ نظامِ جماعت کی رُو سے اب میں اس کا حامل نہیں رہا ہوں ؟ البتہ خادمِ جماعت ہونے کی حیثیت سے میرا جو فرض ہے، اُسے جب تک زندہ ہوں، ان شاء اللہ ادا کرتا رہوں گا۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدجہد کر رہے ہیں، وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں۔ آپ کی واحد فکرمندی آپ کا وہ کام ہو، جسے آپ کو انجام دینا ہے۔ یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، جو اس نظام کا تقاضا ہے۔
جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں؟ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا اس کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی نظم کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہدکرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا، وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں، آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، آپ کے اندر نظمِ جماعت کی اطاعت پائی جاتی ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں۔ چاہے یہ کام آپ کو برسوں بھی کرنا پڑے، لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔[۳۱مارچ، ۱۹۷۴ء، لاہور]
البتہ جو چیز مَیں ان کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے، اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرکے بھی علانیہ، پُرامن اعلائے کلمۃ الحق کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قیدوبند سے دوچار ہونا پڑے یا پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آجائے۔ [نومبر ۱۹۶۸، لندن]
کسی خفیہ تحریک کے ذریعے کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا، کیونکہ اس تحریک میں جو خرابیاں پرورش پاتی ہیں، ان کا کسی کو پتا نہیں چلنے پاتا، اور جب وہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے، تو یہ خرابیاں ایکا ایکی اُبھر کر پورے ملک کے لیے آزمایش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اسی خفیہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ اسٹالن جیسا ظالم آدمی اشتراکی روس میں برسرِ اقتدار آگیا، اور روس کے عوام نے ایک زار [یعنی پرانے روسی بادشاہ]سے چھٹکارا حاصل کیا تو دوسرے سرخ زار نےان کی گردن دبوچ لی۔
خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کا وفادار نہیں ہے تو اسے بلاتکلف قتل کردیا جاتا ہے ، اور یہ قتل و غارت گری اس تحریک کا عام مزاج بن جاتا ہے۔
بہرکیف، یہ ایک بلا ہے، جو ہمارے ملک میں پرورش پارہی ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ’ہم بھی ایک جوابی بلا بننے کی کوشش کریں‘۔ہمارا کام یہ ہے کہ کھلے بندوں لوگوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کریں۔ گائوں گائوں جاکر، ایک ایک کسان کو بتائیں کہ یہاں سوشلسٹ انقلاب آگیا تو ایک بیگھہ زمین بھی تمھارے پاس نہیں رہے گی۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسان یہ بات سمجھ جائیں تو کوئی کمیونسٹ بھی ان کے گائوں میں داخل نہیں ہونے پائے گا، اور یہ لوگ کمیونسٹوں کی وہ خبر لیں گے کہ ان کے حواس درست ہوجائیں گے۔
جہاں تک ہتھیار بند ہونے کا تعلق ہے، اگر آپ کو لائسنس کا ہتھیار مل سکتا ہو تو ضرور رکھیے، نشانہ بازی کی مشق بھی کیجیے، لیکن غیرقانونی اسلحہ نہ رکھیے۔ مدافعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا کوئی اخلاقی، شرعی یا قانونی جرم نہیں ہے، بلکہ اس کی اجازت ہے۔ لیکن خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپا کرنا، اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی خطرناک۔[۹نومبر ۱۹۶۹ء، لاہور]
جہاں تک توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کا تعلق ہے، اس ملک میں ایک ایسا عنصر موجود ہے، جو ایسی کارروائیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے اشتراکی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے۔ تبدیلی کے لیے ان کا فلسفہ تو یہی ہے کہ ’بندوق کی نالی انقلاب کا سرچشمہ ہے‘۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پائے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکا اور افریقا کے اُن ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے، اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے، اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔
دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک میں اصلاح کے لیے اُٹھے ہیں، اسے خراب کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کے فضل سے تحریک ِ اسلامی ایک منظم تحریک ہے، اور وہ صرف ایسے عناصر سے مل کر کام کرے گی، جو مفسد اور غارت گر نہیں ہیں۔ تحریک ِ اسلامی نہ تو کسی تخریب کار گروہ سے تعاون کرے گی، اور نہ اسے یہاں کام کرنے دے گی۔[نومبر ۱۹۶۸ء، لندن]
بہت بُرا کیا گیا کہ غیرآئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے، اور بہت بُرا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیرآئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
ایک ’علانیہ‘ اور دوسری ’خفیہ‘۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟
علانیہ طور پر غیرآئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ بُرا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے، اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہندستان میں تحریک ِ آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکا۔
اگر خفیہ طریقے سے غیرآئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے، تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کُل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک انھی کی مرضی پرچلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہارِ بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسرِاقتدار آئیں گے، تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹاکر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں، تو خلقِ خدا کےلیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ،تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کاربھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ ہم نے ہمیشہ اسی طریقے کو اپنایا ہے۔ پہلے چند سال میں ہمارے اُوپر مسلسل غیرقانونی حملے ہوتے رہے ہیں، مگر ان کے جواب میں ہم نے کبھی کوئی غیرقانونی ذریعہ اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود انھی کا منہ کالا ہوا کہ جنھوں نے غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی طریقے روا رکھے، مگر خدا کے فضل و کرم سے ہمارے اُوپر کوئی دھبّا ثابت نہ کرسکے۔ اِس چیز کا زبردست اخلاقی اثر مرتب ہوا۔ خود ان لوگوں کا ضمیر بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔
آپ سے میری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیرآئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲ء، لاہور]
جماعت اسلامی کا یہ موقف کیوں ہے، اور اسے اپنے اس موقف پر کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع ہی سے اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، اور وہ غیر جمہوری ذرائع کے استعمال کی کیوں مخالف ہے؟ اس کو مَیں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
خدا کی قسم! اور مَیں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے، اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، یہ مسلک قطعاً کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بناپر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کَہْ سکیں کہ ’’ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کاالزام نہ لگایا جائے‘‘۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر اسلامی انقلاب ہے، اور اسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں۔ جب تک لوگوں کے افکار، اور ان کے اخلا ق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی، کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا، اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔ پھر اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر، یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کرکے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن جب وہ اُکھڑتا ہے تو اس طرح اکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔
ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اورافکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ،ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پائے دار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر، مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رُونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔
جب ہم نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا، تو ہمیں اندازہ اس سے بہت زیادہ سخت رکاوٹوں کا تھا۔ ہمیں یہ اندازہ تھا کہ ہمارا زمین پر جینا اور سانس لینا مشکل کردیا جائے گا۔ اُس وقت ہم نے اس تحریک کو شروع کیا تھا اس ارادے کے ساتھ، اور اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس ارادے کو تقویت عطا کرے، کہ جان جس کی دی ہوئی ہے، اس کی راہ میں چلی جائے تو کوئی پروا نہیں۔ ہم اپنی جگہ اس سے بہت بدتر حالات کے لیے تیار ہوکر اُٹھے، اور اللہ کا شکر ہے کہ جن بدتر حالات کا ہم نے اندازہ کیا تھا، ابھی تک وہ پیش نہیں آئے۔
اس لیے میں آپ سے صرف ایک بات کہوں گا کہ آپ یہ تدبیریں سوچنے کی فکر چھوڑ دیں کہ ان سماجی حالات میں اور ان پابندیوں میں کیسے کام کیا جائے؟ یہ فکر چھوڑ کر اپنے اس عزم کو تازہ کریں کہ اگر پہاڑ بھی ہمارے راستے میں آئے تو ہم اس کے اندر بھی سرنگ کھودیں گے۔ اس عزم کے ساتھ آپ اپنا کام کریں کہ جو طاقت بھی راستے میں حائل ہو، اس کے ہوتے ہوئے ہم اپنا کام کرکے رہیں گے۔
ضرورت باہر کے حالات سازگار ہونے کی نہیں ہے، ضرورت اندر کے عزم اور ایمان اور ارادے کے پختہ ہونے کی ہے۔ اگر وہ پختہ ہو تو باہر کے حالات خواہ کیسے ہی ہوں، آخرکار ان کے اندر سے آپ اپنا راستہ نکال ہی لیں گے۔
یہ بات اس سے پہلے بارہا کَہْ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ اسلام کا کام کرنے والوں کے لیے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے، اندھادھند کام کریں۔ ان کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ کام کریں، عقل سے کام لیں، اور عقل سے کام لے کر دیکھیں کہ جو رکاوٹیں ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں؟ اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ان رکاوٹوں کے اندر سے ہم اپنا راستہ کیسے نکال سکتے ہیں؟
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا جو کچھ بھی کام ہے، اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہماری اپنی تنظیم مضبوط ہو۔ کیونکہ وہ مشینری، جس سے ہم نے کام لینا ہے، وہی اگر کمزور پڑگئی ہو، ڈھیلی ہوگئی ہو، اس کے کچھ پیچ نکل گئے ہوں یا کچھ پیچ ڈھیلے پڑگئے ہوں، تو ہم کام کس چیز سے لیں گے؟
جس قسم کے ہنگامی کام ہم کو کرنے پڑے، ان سے یہ بات صاف طور پر محسوس ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اندر سے کمزور پڑگئی ہے۔ اس لیے دوسرے تمام کاموں سے پہلے آپ کو اپنی تنظیم مضبوط کرلینی چاہیے۔ اب تک جو مشکلات آپ کو پیش آچکی ہیں، اس سے کہیں زیادہ مشکلات آگے چل کر پیش آسکتی ہیں۔ اس لیے اب آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ جماعت کی تنظیم زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو، اور جو ڈھیل پیدا ہوگئی ہے، وہ رفع ہو۔ اس غرض کے لیے اگر آپ کو کچھ لوگوں کو نکال دینا پڑے تو کوئی پروا نہ کریں۔ سختی کے ساتھ نظم کی پابندی کرائیں۔ جو نظم کی پابندی نہ کرے اس کو نکال باہر کریں۔ آپ نظم کی پابندیوں پر پورا زور دیں۔ جو احکام دیے جائیں، جو ضوابط مقرر کیے جائیں، ان کی پابندی کروایئے۔ اجتماعات کے اندر لوگوں کو باقاعدگی سے آنا چاہیے۔ اگرکوئی رکن اجتماعات میں مسلسل حاضر نہیں ہوتا تو ہرایسے شخص کو بلاتامل خارج کردیں، اِلا یہ کہ وہ توبہ کرے اور آیندہ نظم کی پابندی کا وعدہ کرے۔
مولانا مودودیl نے بڑے واضح الفاظ میں ان ہدایات کو زور دے کر ذہن نشین کیا:
انکارِ سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے ’خوارج‘ اور ’معتزلہ‘ تھے:
’خوارج‘ کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی، جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضوؐر کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں’ خوارج‘ کے انتہاپسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔
’معتزلہ‘ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، انھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر ’عقل‘ کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کے عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے، جس سے وہ ان نام نہاد ’عقلی تقاضوں کے مطابق‘ ہوجائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انھوں نے بھی ’خوارج‘ کی طرح ’حدیث‘ کو مشکوک ٹھیرایا اور ’سنت‘ کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اُس نظام فکروعمل سے جو خدا کے پیغمبرؐ نے اپنی رہنمائی میں قائم کر دیا تھا۔ الگ کرکے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے اور پھر اس کی من مانی تاویلات کرکے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ (منصب رسالت نمبر، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۶،ستمبر ۱۹۶۱ء، ص ۹-۱۰)
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْـرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکےہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمدؐ) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔
یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کرکے اسے سمجھا جائے۔
فرمایا کہ شَرَعَ لَكُمْ ’’مقررکیا تمھارے لیے‘‘۔شرع کے لغوی معنی ’راستہ بنانے‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد ’طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا‘ ہے۔ عربی زبان میں اسی اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ’تشریع‘ کا لفظ قانون سازی (Legislation) کا، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا اور ’شارع‘ کا لفظ واضع قانون (Law-Giver )کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریعِ خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ہے، اُن اصولی حقائق کا، جو اُوپر آیت نمبر ۱، ۹ اور ۱۰ میں بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہرچیز کا مالک ہے، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون وضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کردیا ہے۔
پھر فرمایا: مِّنَ الدِّيْنِ ،’’ازقسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اس کا ترجمہ ’’از آئین‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ لفظ ’’دین‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورئہ زمر، حاشیہ نمبر۳ میں کرچکے ہیں، وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی اُلجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کرکے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مُطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ و نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا، وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح ، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اُسی کی ہدایت اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہِ راست ہرانسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کرکے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اُس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ اُن لوگوں کی رسالت کو ماننا جن کے ذریعے یہ تشریع بھیجی گئی ہے اور اُس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے، اِس دین کا لازمی جز ہے، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جُز ہونا چاہیے، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic ) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاءؑ کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ’’قائم رکھو دین کو‘‘۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہوجائے یا پہلے سے قائم ہو، وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اُس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہوچکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنا پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔
اب ہمارے سامنے دو سوالات آئے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اُٹھانا ہوتا ہے، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اُٹھانا یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کرکے اسے بلند کرنا ہوتا ہے، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا۔ لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں اُن کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد اُس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور اُسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کرلیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کردی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جارہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآنِ مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت وتبلیغ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود اداکرو، بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہلِ ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہوجائے۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑجائے۔
اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں، بلکہ یہ بھی تھی کہ جب لوگ اسے تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورے کا پورا دین اُن میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آسکتا۔ لیکن ہر صاحب ِ عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت وتبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے۔کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاءؑ کے مشن کا مقصد وحید قرار دے بیٹھے۔
اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی اُمت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو ، تو لامحالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیراہم اور اس کی اقامت کو غیرمقصود بالذات سمجھ کر نظرانداز کردیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کو لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے، آیا اس سے مرا د صرف ایمانیات اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں یا شرعی احکام بھی۔
دین کیا ہـے؟
قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں:
۱- وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۵(البینہ ۹۸:۵) اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہوکر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی راست رو ملّت کا دین ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہیئت، یہی اس کے اجزا ، یہی اس کی رکعتیں، یہی اس کا قبلہ، یہی اُس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔
۲- حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ …اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ …(المائدہ ۵:۳)’’تمھارے لیے حرام کیا گیا مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے ، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا…‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکامِ شریعت بھی دین ہی ہیں۔
۳- قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ (التوبہ ۹:۲۹)’’جنگ کرو اُن لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے‘‘۔
معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور اُن کی پابندی کرنا بھی دین ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیئے ہیں۔
۴- اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۚ (النور ۲۴:۲) ’’زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ (یوسف۱۲:۷۶) ’’یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔
یہ چارتو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظِ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنّم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خوری، قتلِ مومن، یتیم کا مال کھانا، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا، وغیرہ) اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عملِ قومِ لوط اور لین دین میں قومِ شعیبؑ کا رویّہ) اُ ن کا سدِّباب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے، اس لیے کہ دین اگر جہنّم اور عذابِ الٰہی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکامِ شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خُلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۰۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۱۴ۧ (النساء۴: ۱۴) ’’جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اُس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن عذاب ہے‘‘۔ اسی طرح جن چیزوں کی حُرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حُرمت، شراب کی حُرمت، چوری کی حُرمت، جوئے کی حرمت، جھوٹی شہادت کی حُرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت ِ دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیرضروری احکام بھی دے دیئے ہیں جن کا اِجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے، مثلاً روزہ اور حج، اُن کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامتِ دین سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ رمضان کے ۳۰ روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے، اور کعبے کا حج تو صرف اُس شریعت میں تھا جو اولادِ ابراہیم ؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔
دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے ہوئی ہے کہ آیت لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا (ہم نے تم میں سے ہراُمت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کردی) کا اُلٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیئے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہراُمت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاءؑ کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت ِ دین کے حکم میں اقامت ِ شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ درحقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہے۔
سورئہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت ۴۱ سے آیت ۵۰ تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبیؐ کی اُمت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی، وہ اُس اُمت کے لیے دین تھی اور اُس کے دورِ نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی اور اب چونکہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ نبوت ہے اس لیے اُمت محمدیہؐ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اِس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوںمیں فرض رہی ہے، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہرشریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے ۳۰ روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت ِ دین میں شامل ہے، مگر ایک خاص طریقے سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہرنبی کی اُمت کے لیے اُس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے، انھی کے مطابق اُس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت ِ دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہؐ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انھیں ادا کیا جائے۔ انھی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکامِ شریعت کو بھی قیاس کرلیجیے۔
قرآنِ مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفراور کفّار کی رعیت فرض کرکے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اپنے پیروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دینِ حق کو فکری ، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔
یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۰ۭ(النساء۴: ۱۰۵) ’’اے نبیؐ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اُس روشنی میں جو اللہ نے تمھیں دکھائی ہے‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیئے گئے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ ۹: ۶۰،۱۰۳)۔اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سودخواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلانِ جنگ کیا گیا ہے (البقرہ ۲:۲۷۵- ۲۷۹)، وہ اسی صورت میں رُوبہ عمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ ۲:۱۷۸)، چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ ۵:۳۸) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور ۲۴: ۲-۴)، اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفّار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس کتاب میں کفّار سے قتال کا حکم (البقرہ ۲: ۱۹۰-۲۱۶)یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا ہے کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوجی بھرتی کرکے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم (التوبہ ۹:۲۹)اس مفروصے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے اُن سے جزیہ وصول کریں گے اور اُن کی حفاظت کا ذمّہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکّی سورتوں میں بھی دیدئہ بینا کو علانیہ یہ نظر آسکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہلِ دین کے ذمّی بن کر رہنے کا....
سب سے بڑھ کر جس چیزسے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کام ہے، جو حضوؐر نے ۲۳برس کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپؐ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اُس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق ، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔
اگر حضوؐر کے اس پورے کام کو ’اقامت دین‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپؐ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں۔
یا تو معاذ اللہ، حضوؐر پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپؐ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے، مگر آپؐ نے اس سے تجاوزکرکے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بناڈالا جو شرائع انبیاءؑ کی قدرِ مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔
یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورئہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کرچکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہوگیا اور اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’اقامت دین‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کیا)، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔ان دوصورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’اقامت ِ دین‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسولؐ پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔(تفہیم القرآن، چہارم، ص۴۸۶- ۴۹۲)
کسی مسئلے میں کسی شخص یا گروہ سے اختلاف کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی اس شخص یا گروہ کا مخالف ہے، یا اس کا دشمن ہے، یا جملہ مسائل میں اسے غلط کار سمجھتا ہے۔ آخر آپ حضرات خود شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کی بہت سی آرا سے اختلاف کرتے ہیں، اور بسااوقات بڑے زور شور سے ان کی آراء کے خلاف استدلال کرتے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی لینے میں کوئی شخص حق بجانب ہوگا کہ آپ ان ائمۂ ثلاثہ اور ان کے پیرو علما کے مخالف ہیں اور ان کو قاطبۃً خطاکار قرار دیتے ہیں اور ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں؟
اس لیے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے اس طرزِ فکر پر نظرثانی فرمائیں اور اختلاف رائے کو مخالفت و عداوت اور عناد کے ساتھ خلط ملط نہ فرمائیں۔
میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اصلاحِ باطن اور تزکیۂ نفس کا جو طریقہ قرآن و سنت اور عملِ صحابہؓ سے ثابت ہے وہی کافی ہے اور اسی پر ہمیں اکتفا کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے اور اس میں کمی و بیشی کرنا نہ درست ہے، نہ مفید۔ اس سے ہٹ کر جو طریقے جس نے بھی ایجاد کیے ہیں، یا دوسرے ادیان و ملل کے متبعین سے اخذ کیے ہیں، ان سے اجتناب کرناچاہیے۔ اس رائے میں اگر کوئی غلطی ہے تو آپ اس پر مجھے دلائل کے ساتھ متنبہ فرمائیں۔ میں پھر اس پر غور کروں گا۔ لیکن میں اس الزام سے براءت ظاہر کرتا ہوں کہ اس اختلاف رائے کی وجہ سے میں صوفیا کا مخالف ہوں، یا تصوف کا دشمن ہوں، یا اہلِ تصوف کو بالکلیہ مطعون کرتا ہوں۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۵،اگست ۱۹۶۱ء، ص ۴۷-۴۸)