بدیع الزماں سعید نورسی کے رسائل اور ان کی جماعت جو آن کی آن میں قوت پکڑگئی اور مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ مصطفےٰ کمال کے لیے ایک لادینی معاشرہ وجود میں لانے کے راستے میں پہلا روڑا ثابت ہوئی۔ چنانچہ مصطفےٰ کمال نے بدیع الزماں کو اسپارٹا کے ایک دُورافتادہ علاقہ ’بارلا‘ میں جلاوطن کردینے کے احکام صادر کر دیئے۔ وہاں موصوف کو شدید پہروں کے ساتھ یکہ و تنہا رکھا گیا۔ مگر بدیع الزماں کی پُرکشش شخصیت نے خود پہرہ داروں کے دلوں میں اُترنا شروع کردیا اور تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ پہرے داروں کا ایک گروہ آپ کی دعوت کا حامی اور آپ کے اسلامی نظریات کا علَم بردار ہوگیا۔ اس موقعے سے موصوف نے فائدہ اُٹھایا اور اپنے اُن رسائل کی تصحیح میں وقت گزارنے لگے، جو تلامذہ کی طرف سے اُن کے پاس پہنچتے رہتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے الحاد و لادینیت کے خلاف بھی بھرپور تنقیدیں تیار کیں۔
بدیع الزماں نے ’بارلا‘ کے قیدخانے میں آٹھ سال گزارے۔ جیل میں موصوف اپنا کھانا خود ہی تیار کرتے تھے، خود ہی اپنے کپڑے دھوتے تھے اور دوسرے تمام اُمورخود ہی سرانجام دیتے رہے۔ مصطفےٰ کمال نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا۔ چونکہ بدیع الزماں کے قلب ِ حق پرست سے اُٹھنے والی دینی شعاعیں برابر لوگوں کے اندر بکھر رہی تھیں اور ان کے رسائل کی اشاعت روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ اس لیے مصطفےٰ کمال نے بذریعۂ حکم بدیع الزماں کو اور ان کے ۱۲۰ طلبہ کو سخت پہروں کے ساتھ ’اسکی شہر‘ کی جیل میں منتقل کروا دیا۔ طویل تحقیقات کے بعد حکومت کو کوئی ایسا ثبوت نہ ملا جو موصوف پر عائد شدہ الزامات کو درست قرار دے سکے۔ اس کے باوجود عدالت نے موصوف کو گیارہ ماہ قید کی سزا دی۔ (’ترکی کے مردِ مجاہد بدیع الزماں کی شخصیت و دعوت، ترجمہ: مولانا خلیل احمد حامدی، ترجمان القرآن، ج۵۹، عدد۴،جنوری ۱۹۶۳ء،ص ۳۹-۴۰)
محترم حضرات! کلچر کے مسئلے پر علمی حیثیت سے بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ذہن اُلجھنوںسے محفوظ ہوں، اور ذہن میں غلط فہمیاں موجود نہ رہیں۔ اس قسم کے موضوع کو سمجھنے کے لیے صاف ذہن ضروری ہے۔ جہاں تک کلچر اور اسلامی کلچر کا تعلق ہے، یہ موضوع حقیقت میں ایک علمی موضوع ہے، لیکن نہ صرف اس موضوع کے متعلق، بلکہ اس قسم کے دوسرے موضوعات پر بھی بعض لوگوں کے ذہنوں میں اُلجھنیں موجود ہیں، مختصراً پہلے ان اُلجھنوں کو صاف کرنے کی کوشش کروں گا۔
جہاں تک مسلمان ہونے کا تعلق ہے، خلفائے راشدینؓ ، عمر بن عبدالعزیز، خلفائے بنواُمیہ، تاناشاہ، واجد علی شاہ اور محمد شاہ رنگیلا یہ سب ہی مسلمان تھے، لیکن ان سب کے طرزِعمل کو یکساں طور پر ’اسلامی‘ سمجھنے کے معنی تو یہ ہوئے کہ اسلام سرے سے کسی اصول اور ضابطے کا قائل ہی نہیں ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ جو فعل ایک مسلمان سے سرزد ہو، وہی ’اسلامی‘ ہے، مثال کے طور پر یہ کہ اگر ایک مسلمان شراب خانہ قائم کرے تو کیا یہ اسلامی شراب خانہ ہوگا؟ اس لیے یہ غلط فہمی دُور ہونی چاہیے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک ضابطۂ اخلاق کا نام ہے۔ اس لیے جو کچھ اس کے مطابق کیا جائے گا، وہی اسلامی ہوگا اور اس کی حدود سے باہر رہ کر جو کچھ کیا جائے گا وہ غیراسلامی ہوگا۔
اس سلسلے میں دوسری غلط فہمی جسے دُور کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بعض مسلمان ایک مدت سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جو چیز ان کے اندر کہیں سے آکر رواج پاجائے اور جسے وہ اپنے لیے دلچسپ، فائدہ بخش یا نفع بخش محسوس کریں، اسلام کا فرض ہے کہ وہ اسے ’اسلامی‘ تسلیم کرے اور اسے ’اسلامی‘ قرار دے کر اسے اس حیثیت میں پوری قوم پر مسلط کردیا جائے۔
ایسے لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ اسلام نے جس چیز کو حلال قرار دیا ہے، وہ اسے اسلام ہی کا لبادہ اُوڑھ کر حرام قرار دیں اور جسے اسلام بُرا قرار دے، وہ اسے اسلام کی رُو سےجائز بلکہ لازمی قرار دے دیں۔ یہ چیز ہراعتبار سے غلط ہے۔ اس لیے سیدھی طرح یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ اگر ہم خدا اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتے تو ایسی باتوں کو اسلام کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی سمجھ کر ہی کیا جائے اور اپنی غیراسلامی حرکات کو مباح جاننے کی عادت کو ترک کیا جائے۔
اس سلسلے میں تیسری چیز یہ ہے کہ ہم نے ترقی کا تصور مغربی افکار سے لیا ہے اور اپنے طور پر ’ترقی پسند اسلام‘ کو جنم دے رہے ہیں۔ مغرب سے اصلاح کا ایک اور تصور یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہلِ مغرب نے جو کچھ اصول بنائے ہیں، وہ سب کے سب معیاری ہیں۔ اس غلط فہمی کو بھی رفع ہونا چاہیے۔
ترقی کے معاملے میں یہ ضروری ہے کہ ہمارا ایک واضح اور متعین نصب العین ہو، تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ کیا واقعی ہم اس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر ہم اس منزل کی سمت بڑھ رہے ہیں تو یہ ہماری ترقی ہورہی ہوگی، ورنہ ہمارے قدم ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف اُٹھ رہے ہوں گے۔ اگر ہماری منزل کراچی ہے اور ہم لاہور سے چل کر اوکاڑہ اور منٹگمری [موجودہ نام: ساہیوال] پہنچ رہے ہیں تو یہ ترقی ہوگی، لیکن اگر منزل کراچی ہو اور ہم لاہور سے سیالکوٹ کی طرف جارہے ہوں تو یہ ترقی نہیں ہے۔
ان تمام باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہم کلچر کے مسئلے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
جہاں تک انسانی تمدن کا تعلق ہے۔ انسانی زندگیوں میں جو خوبیاں پیدا کرنا اور پروان چڑھانا مطلوب ہیں، ضرورت ہے کہ انسانی ذہن اور زندگی کو ان خوبیوں کے لیے تیار کیا جائے،اور جو بُرائیاں ان کی ضدپڑتی ہیں انھیں دبایا جائے۔ یہ کلچر کا مستعار اور مجازی مفہوم ہے۔ اسی طرح سے ثقافت ہے اور اسی طرح سے تہذیب۔ آپ ان کی بنیاد پر غور کریں تو لامحالہ آپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک ہمارے سامنے خوبی کا کوئی معیار نہ ہو، اور کوئی فلسفۂ حیات، بنیادی نقطۂ نظر اور کوئی فکر سامنے نہ ہو ، جس پر بُرائی اور خوبی کا فیصلہ کیا جاسکے، اس وقت تک تہذیب اور ثقافت وجود میں نہیں آتی۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ ہم آدمی کو کیا بناناچاہتے ہیں؟ اسے کن بُرائیوں سے بچانے کے خواہاں ہیں؟ پہلے یہ فیصلہ کیجیے تب کلچر کا مفہوم سمجھ میں آئے گا۔ دُنیا میں انفرادی سطح پر کبھی انسان کا ایک کلچر نہیں رہا اور نہ اب ہے۔ ہر انسان کو اپنا کلچر بھلائی یا بُرائی کے ایک معیار کے ضابطے میں لانا ہوتا ہے۔
کلچر کا جائزہ لیتے ہوئے تین بنیادیں ہیں:
اوّل یہ کہ آپ کا تصورِ حیات کیا ہے اور آپ انسان کو زمین پر اور کائنات کے نقشے میں کیا مقام دیتے ہیں؟
دوم یہ کہ آپ کا مقصد ِ حیات کیا ہے؟ یہ سوال تصورِ حیات کے تابع ہے۔ یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ آپ کی جدوجہد، کوششوں اور محنتوں کا مقصود کیا ہے؟
سوم یہ کہ کن اصولوں اور ضابطوں کے مطابق آپ اپنی زندگی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور وہ کون سا اصول آپ کی زندگی میں کارفرما ہے جو بُرائی اور بھلائی کا فیصلہ کرتا ہے؟
یہ تین چیزیں مل کرانسانی تمدن کو معرضِ وجود میں لاتی ہیں اور تمدن کے گلِ سرسبزکا نام کلچر ہے۔
اسلامی تہذیب کے اصول و ضوابط، مشرکانہ اور مادہ پرستانہ تہذیب سے بہت مختلف ہیں۔ مقصد کے فرق کے لحاظ سے وہ شخص بڑا ناکام ہے، جو دوسری تہذیب کی چیز لے کر یہاں آئے اور اسے ’اسلامی‘ قرار دے کر فخر کرے۔گناہ تو گناہ ہے ہی مگر گناہ کو ثواب ثابت کرنا تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔
اسلامی کلچر مسجدوں میں جاکر دیکھیے جہاں چپراسی، اعلیٰ حاکم سے اگلی صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کے تہوار منانے کی بھی اپنی ایک شان ہے۔ عیدالفطر پر مسلمان سب سے پہلے فطرانہ کی رقم الگ کرتا ہے، تاکہ اس کے پڑوس میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ پھر رنگ کی پچکاریاں پھینکنے اور شراب پینے کے بجائے وہ اپنے پروردگار کے حضور سجدئہ شکر بجا لاتا ہے اور دن بھر اپنے بزرگوں اور بھائیوں سے مل کر محبت کے رشتے استوار کرتا ہے۔
اس کے برعکس دوسری ثقافتوں میں بعض چیزیں ایسی ہیں، جنھیں اسلام جائز قرار نہیں دیتا۔ اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی عورت، مردوں کے سامنے رقص اور شرمناک حرکات کرے اور اپنے جسمانی اعضا کی نمایش کرے۔
چونکہ غنائیت کی طرف انسان کی فطری رغبت ہے، اس لیے اسلام نے ایک راستہ کھولا ہے اور یہ راستہ قراءت کی حوصلہ افزائی ہے۔ اسلام، انسان کے ذوق کی نفی نہیں کرتا۔ قراءت کے علاوہ گانے بجانے کی کوئی شکل مباح تو ثابت کی جاسکتی ہے مگر اسے اسلامی کلچر کا گُلِ سرسبد نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام نے کسی تان سین پر فخر نہیں کیا۔ اسے فخر و شرف ہے تو حضرت عمرفاروقؓ پر۔ مسلمانوں کے ہاں پائے جانے والے ذوقِ مصوری نے نقاشی، گلکاری اور خطاطی کی صورتیں اختیار کیں۔ مسلمانوں نے مجسمہ سازی کی بجائے سنگ تراشی کو رواج دیا۔ مسلمانوں نے بُت گری و بُت سازی کو کبھی جائز قرار نہیں دیا تھا۔ یہ اس صدی کی بدعت ہے کہ مجسمہ سازی کو مسلمانوں کے ہاں کلچر کا جزو بنایا جارہا ہے۔ مختصر یہ کہ اس سے آپ میرا مدعا اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے امتیازی خصائص اور ضابطوں کے اندر رہ کر جو کچھ کیا جائے گا، وہی اسلامی ہے۔ اس کے باہر جو کچھ ہوگا وہ ہرگز اسلامی نہیں۔
سوال : امانت رکھنے اور رکھوانے والے کو کیا کیا اصول ملحوظ رکھنے چاہییں؟
جواب :امانت اصل میں دو آدمیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی بنا پر ہوتی ہے۔ جو شخص کسی کے پاس کوئی امانت رکھتا ہے، وہ گویا اس پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ اپنی حد ِ استطاعت تک پوری ایمان داری کے ساتھ اس کی حفاظت کرے گا۔ اور جو شخص اس امانت کو اپنی حفاظت میں لینا قبول کرتا ہے، وہ بھی امانت رکھنے والے پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ ایک جائز قسم کی امانت اس کےپاس رکھ رہا ہے، کوئی چوری کا مال یا خلافِ قانون چیز نہیں رکھ رہا ہے، نہ اس امانت کے ذریعے سے کسی قسم کا دھوکا یا فریب کرکے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پس دونوں پر اس کے سوا کسی اور چیز کی پابندی لازم نہیں ہے کہ وہ اس اعتماد کا پورا پورا حق ادا کریں۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)
سوال : قرضِ حسن دینے اور لینے میں کن اُمور کا لحاظ ضروری ہے؟
جواب : قرض دینے اور لینے میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حتی الامکان فریقین کے درمیان شرائط ِقرض صاف صاف طے ہوں، مدت کا تعین ہوجائے، تحریر اور شہادت ہو۔ جوشخص قرض دے وہ اس قرض کے دبائو سےکسی قسم کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ مقروض کو احسان رکھ کر نہ ذلیل کرے اور نہ اذیت پہنچانے کی کوشش کرے۔ اور اگر مدت گزر جائے اور فی الواقع مقروض شخص قرضہ ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کو جہاں تک ممکن ہو مہلت دے اور اپنے قرض کی وصولی میں زیادہ سختی نہ کرے۔ دوسری طرف قرض لینے والے کو لازم ہے کہ جس وقت وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہو اسی وقت ادا کردے اور جان بوجھ کر ادائے قرض میں تساہل یا ٹال مٹول نہ کرے۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)
سوال : مشترک کاروبار جس میں صالحین و فاجرین ملے جلے ہوں، پھرفاجرمیں شراب نوشی ، سودی کاروبار وغیرہ شامل ہوں، اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
جواب :تجارت اگر بجائے خود حلال نوعیت کی ہو اور جائز طریقوں سے کی جائے، تو اس میں کسی پرہیزگار آدمی کی شرکت محض اس وجہ سے ناجائز نہیں ہوسکتی کہ دوسرے شُر کا اپنا مال حرام ذرائع سےکماکر لائے ہیں۔ آپ کا اپنا سرمایہ اگر حلال ہے، اور کاروبار حلال طریقوں سے کیا جارہا ہے، تو جو منافع آپ کو اپنے سرمایے پر ملے گا، وہ آپ کے لیے حلال ہوگا۔(فروری ۱۹۴۴ء)
سوال : کاسب ِ حرام کے ہاں ملازم رہنا یا اس کے ہاں سے کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب : کاسب ِ حرام کی دو نوعیتیں ہیں: ایک تو وہ جس کا پیشہ فحشا کی تعریف میں آتا ہے، مثلاً زنان بازاری کا کسب۔ اس کے قریب جانا بھی جائز نہیں ، کجا کہ اس کے ہاں نوکر ہونا۔ دوسرا وہ کاسب ِ حرام ہے جس کا پیشہ حرام تو ہے ، مگر فحشا کی تعریف میں نہیں آتا، جیسے وکیل یا سودی ذرائع سے کمانے والا۔ اس کے کسی ایسے کام میں نوکری کرنا جس میں آدمی کو خود بھی حرام کام کرنے پڑتے ہوں، مثلاً سود خور کی سودی رقمیں فراہم کرنے کا کام یا وکیل کے محرّر کا کام، یہ حرام ہے۔ لیکن اس کے ہاں ایسے کام پر نوکری یا مزدوری کرنا جو بجائے خود حلال نوعیت کا ہو، مثلاً اس کی روٹی پکادینا یا اس کے ہاں سائیس یا ڈرائیور کا کام کرنا ہو، یا اس کا مکان بنانے کی مزدوری، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ رہا اس کے ہاں کھانا کھانا تو اس سے پرہیز ہی اولیٰ ہے۔(فروری ۱۹۴۴ء)
مسٹر جارج برناڈشا نے جب مشرق کا سفر کیا تو اس کے دوران میں سنگاپور کے عربی اخبار الہدٰی کا نامہ نگار، ان سے ملا۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام، آزادی اور دستوری و ذہنی حریت کا دین ہے۔ اجتماعی نقطۂ نظر سے مسیحیت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کسی مذہب کا نظامِ اجتماعی اتنا مکمل نہیں ہے، جتنا اسلام کا نظام ہے۔ دنیائے اسلام کا تنزل اسلام سے دُور ہٹ جانے کی بدولت ہے۔ مسلمان جب صرف اسلام کی بنیادوں پر جدوجہد کریں گے تو عالم اسلامی کا خواب، بیداری سے بدل جائے گا‘‘۔
اِن خیالات کے سننے کے بعد نامہ نگار نے سوال کیا کہ ’’جب آپ اسلام کو اچھا سمجھتے ہیں تو پھر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جو فطری طور پر ان بیانات کے بعد پیدا ہوتا ہے، کیونکہ ایک سلیم الطبع آدمی کے لیے کسی چیز کے اعترافِ قبح اور اس کو ترک کر دینے اور کسی چیز کے اعترافِ حسن اور اس کو قبول و تسلیم کرلینے میں کوئی حد فاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن مسٹر شانے جو کچھ جواب دیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قبولِ اسلام کے لیے تیار نہیں ہیں، اور ایسا نہ کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں، بلکہ صرف اس چیز کی کمی [تھی] جس کو شرح صدر کہتے ہیں۔
ایک مسٹر شا ہی پر موقوف نہیں ہے، بہت سے اہل فکر و نظرپہلے بھی گزر چکے ہیں، اور اب بھی موجود ہیں، جنھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کیا۔ اس کے دنیوی یا دینی یا دونوں حیثیتوں سے مفید ہونے کا اقرار کیا، اس کی تہذیب، اس کے نظام اجتماعی، اس کی علمی صداقت اور اس کی عملی قوت کی برتری تسلیم کی، مگر جب ایمان لانے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کا سوال سامنے آیا، تو کسی چیز نے ان کو قدم آگے بڑھانے سے روک دیا، اور وہ اسلام کی سرحد پر پہنچ کر ٹھیر گئے۔
برعکس اس کے، بہت سے آدمی ایسے بھی ہو گزرے ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسلام کی مخالفت اور اس کی دشمنی میں صرف کر دیا، لیکن اسی مخالفت کے سلسلے میں اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے حقیقتِ اسلام ان پر منکشف ہوگئی، اور اس انکشاف کے بعد کوئی چیز ان کو ایمان لانے سے نہ روک سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت [گمراہی] کا راز بھی ایک عجیب راز ہے۔
ایک ہی بات ہے جو ہزاروں آدمیوں کے سامنے کہی جاتی ہے، مگر کوئی اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ کوئی توجہ کرتا ہے لیکن وہ اس کے پردۂ گوش پر سے اچٹ کر چلی جاتی ہے۔ کوئی اس کو سنتا اور سمجھتا ہے، مگر مانتا نہیں۔ کوئی اس کی تعریف و تحسین کرتا ہے، مگر قبول و تسلیم نہیں کرتا، اور کسی کے دل میں وہ گھر کر جاتی ہے اور وہ اس کی صداقت پر ایمان لے آتا ہے۔
ہمارا شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کو بازار میں چوٹ لگ کر گرتے ہوئے سیکڑوں آدمی دیکھتے ہیں۔ بہت سے اس کو معمولی واقعہ سمجھ کر یونہی بس دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ بہتوں کے دل میں رحم آتا ہے ،مگر وہ افسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے اس کا تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ اور بعض اللہ کے بندے ایسے نکلتے ہیں جو بڑھ کر اسے اٹھاتے ہیں، اس سے ہمدردی کرتے ہیں اور اس کو مدد پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک مجرم کو پا بہ زنجیر جاتے ہوئے بہت سے آدمی دیکھتے ہیں۔ کوئی اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتا، کوئی اس پر حقارت کی نظر ڈالتا ہے، کوئی اس پر ترس کھاتا ہے، کوئی اس کی ہنسی اُڑاتا ہے، کوئی اس کے انجام پر خوش ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ جیسا کیا ویسا بھرا، اور کوئی اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتا ہے اور جرم سے بچنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ تو مختلف لوگوں کی مختلف نفسی کیفیات و تاثرات ہیں، جن کا اختلاف زیادہ تعجب خیز نہیں۔ اس سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ ایک ہی شخص کے تاثر اور اس پر ایک ہی چیز کے اثر کی نوعیت مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے۔ وہی ایک بات ہے جس کو ایک شخص ہزاروں مرتبہ سنتا ہے اور نہیں مانتا، مگر ایک ایسا موقع آتا ہے کہ یکایک اس کے دل کا بند کھل جاتا ہے۔ جو بات کان کے پردے میں اٹک کر رہ جاتی تھی،وہ سیدھی دل تک پہنچ جاتی ہے، اور وہ خود حیران ہوتا ہے کہ یہی بات میں پہلے بھی بارہا سن چکا ہوں، پھر آج یہ کیا ہوگیا کہ یہ خود بخود دل میں اتری چلی جارہی ہے؟
ایک ہی شخص کو بارہا آفت رسیدہ آدمیوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، اور وہ ان کی طرف التفات بھی نہیں کرتا۔ لیکن ایک موقعے پر کسی شخص کی مصیبت دیکھ کر دفعتاً اس کا دل بھر آتا ہے، شقاوت کا پردہ چاک چاک ہو جاتا ہے، اور وہ سب سے زیادہ ہمدرد، رحیم اور نرم دل بن جاتا ہے۔ ایک شخص کو اپنی عمر میں بے شمار عبرت ناک مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، کبھی وہ ان کو تماشا سمجھ کر دیکھتا ہے، کبھی ایک حسرت و افسوس کی نگاہ ڈالتا ہے، اور کبھی ایک معمولی نظر سے اس پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ دل پر ایک مستقل نقش بیٹھ جاتا ہے۔
یہی حال ہدایت و ضلالت کا بھی ہے۔
وہی ایک قرآن تھا، وہی ایک اس کی تعلیم تھی، وہی ایک اس کو سنانے والی زبان تھی۔ ابوجہل اور ابولہب تمام عمر اس کو سنتے رہے، مگر کبھی وہ ان کے کانوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ خدیجۃ الکبریٰ ؓ، ابوبکرؓ، اور علی ؓابن ابی طالب نے سنا اور پہلے ہی لمحے میں اس پر ایمان لے آئے، بغیر اس کے کہ ان کے دل میں شک کا شائبہ بھی گزرتا۔ عمرؓ ابن الخطاب نے بیسیوں مرتبہ اس کو سنا اور صرف یہی نہیں کہ تسلیم نہ کیا بلکہ جوں جوں سنتے رہے مخالف اور دشمن ہوتے چلے گئے۔ لیکن ایک مرتبہ انھی کانوں نے اس چیز کو سنا تو کان اور دل کے درمیان جتنی مضبوط دیواریں چنی ہوئی تھیں، یکایک منہدم ہوگئیں، اور اس چیز نے ان کے دل میں ایسا اثر کیا کہ ان کی زندگی کی بالکل کایا پلٹ دی۔
ہر چند، نفسی نقطۂ نظر سے اس اختلافِ کیفیت اور اختلافِ اثر و تاثر کی بہت سی توجیہیں کی جاسکتی ہیں، اور وہ سب اپنی اپنی جگہ درست بھی ہیں۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو چیز چشم و گوش اور دل و دماغ کے درمیان کہیں ایک مستقل حجاب بن جاتی ہے۔ کہیں ایک مدت تک حجاب بنی رہتی ہے، اور ایک نفسی موقعے پر خود بخود چاک ہو جاتی ہے۔ کہیں سرے سے حجاب بنتی ہی نہیں، کہیں کسی بات کے لیے حجاب بنتی ہے، اور کسی بات کے لیے نہیں بنتی، وہ ہرگز انسان کے ارادے و اختیار کے تابع نہیں ہے، بلکہ فطری و جبلی طور پر خود بخود انسان میں پیدا ہوتی ہے۔
یہی نکتہ ہے جس کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ (الانعام۶:۱۲۵) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ رکھنا چاہتا ہے، اس کے سینے کو ایسا تنگ کرتا اور ایسا بھینچتا ہے کہ گویا وہ آسمان پر چڑھا چلا جارہا ہے۔ یہ طریقہ ہے جس سے ایمان نہ لانے والوں پر اللہ کی طرف سے ناپاکی مسلط کی جاتی ہے۔
ایک اور موقعے پر اس کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ:
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (النحل۱۶:۹۳)اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا۔ مگر وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔اور ضرور تم سے تمھارے اعمال کی بازپرس ہو کر رہے گی۔
پھر اس ہدایت کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے کہ:
قُلْ اِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَـابَ ۲۷ۖۚ (الرعد۱۳:۲۷)ان سے کہو کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔
اور ضلالت کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ:
وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۴۵ۙ وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِـہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷: ۴۵-۴۶) جب تم نے قرآن پڑھا تو ہم نے تمھارے اور آخرت کا یقین نہ رکھنے والوں کے درمیان ایک گاڑھا پردہ ڈال دیا اور ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دئیے کہ قرآن نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی۔
اِن آیات میں اس فطری کیفیت کو، جو ایک حق بات سن کر اسے قبول کر لینے کے لیے اضطراری طور پر دل میں پیدا ہوتی ہے، اور جو آخر کار انسان کو ایمان کی طرف کھینچ لاتی ہے، خدائی ہدایت اور اس کے پیدا ہونے کو ’شرحِ صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس ہدایت کے برعکس انسان کے دل میں حق سے انکار اور اعراض کرنے پر آمادگی کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کو اللہ کی طرف سے مسلط کی ہوئی گمراہی قرار دیا گیا ہے، اور ’شرح صدر‘ کے مقابل جو انقباضی کیفیت دل میں پیدا ہوتی ہے، اسے ’ضیق صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
پھر اس ’ہدایت و ضلالت‘ اور ’شرحِ صدر‘ اور ’ضیقِ صدر‘ کے پیدا ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ انسان جب ایک مرتبہ خدا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، تو اس کو خود بخود وہ راستہ دکھائی دینے لگتا ہے، جو اسے سیدھا خدا کی جانب لے جاتا ہے، اور جو شخص سرے سے یہ احساس ہی نہیں رکھتا کہ مجھے کبھی خدا کے حضور میں حاضر ہونا اور اپنے قلب و جوارح کے افعال کا حساب دینا ہے، اس کو لاکھ کوئی شخص کلمۂ حق سنائے اور وعظ و تلقین کرے، کوئی بات اس کے دل میں نہیں اترتی اور وہ کسی طرح راہِ راست پر نہیں آتا۔
یہاں پھر دو باتیں مل گئی ہیں، جن کو الگ الگ سمجھ لینے سے قرآن مجید کے وہ مقامات بآسانی حل ہو جاتے ہیں، جن میں یہ مضمون مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے:
ایک طرف ہدایت و شرح صدر اور ضلالت و ضیق صدر کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اس ہدایت و شرح صدر کے عطا کرنے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ انسان خدا کی طرف رجوع اور توجہ کرے۔ اور ضلالت و ضیق صدر کے مسلط کر دینے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ گمراہ شخص خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اس کے سامنے مسئول و جواب دہ ہونے کا احساس نہیں رکھتا۔
ان دونوں چیزوں کے باہمی تعلق کو یوں سمجھیں کہ انسان کی فطرت میں خدا نے ایک ایسی قوت رکھ دی ہے، جو اس کو حق و باطل کے امتیاز اور صحیح و غلط کا فرق سمجھنے میں مدد دیتی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسے حق کی طرف بڑھنے اور باطل سے احتراز کرنے پر مائل کرتی ہے۔ یہی قوت وہ فطری ہدایت ہے، جسے خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور جس کی طرف ارشاد خداوندی: فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط (الروم۳۰: ۳۰) [اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے] میں اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کے خلاف ایک اور قوت بھی انسان میں کام کر رہی ہے، جو اس کو برائی کی طرف کھینچتی ہے، غلطی اور کج روی کی طرف مائل کرتی ہے اور جھوٹ اور باطل کو اس کے سامنے مزّ ین کرکے پیش کرتی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ بہت سی خارجی اور داخلی قوتیں ایسی ہیں، جن میں سے بعض ہدایت کی قوت کو مدد پہنچانے والی ہوتی ہیں، اور بعض ضلالت کی قوت کو۔ اکتسابِ علم اور اس کے مختلف مدارجِ تربیت اور اس کی مختلف کیفیات، سوسائٹی اور اس کے مختلف احوال، وہ چیزیں ہیں جو باہر سے اس پر اثرانداز ہوتی ہیں، اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے کسی ایک میں اپنا وزن ڈالتی رہتی ہیں۔ اور انسان کا اپنے اختیارِ تمیزی، اپنی فہم و فراست، اپنی عقل و بصیرت، اپنے ذرائع اکتسابِ علم سے صحیح یا غلط کام لینا، اور اپنی قوت فیصلہ کو بجا یا بے جا استعمال کرنا، یہ وہ چیز ہے جو خود اس کے ارادے کے تابع ہے، اور جس سے وہ ہدایت و ضلالت کی متضاد قوتوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ خدا کی بخشی ہوئی ہدایت اور اس کی مسلط کی ہوئی ضلالت، دونوں غیر محسوس طور پر اپنا عمل کرتی رہتی ہیں۔ ہدایت کی قوت اسے راہ راست کی طرف لطیف اشارے کیا کرتی ہے، اور ضلالت کی قوت اسے باطل کے ملمع پر رجھائے جاتی ہے۔
مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اثرات سے متاثر ہو کر اور خود اپنی اختیاری قوتوں کو غلط طریقے سے استعمال کرکے ضلالت کے پھندے میں گرفتار ہو جاتا ہے اور ہدایت کی پکار پر کان ہی نہیں دھرتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا ہوتا ہے، اور اس دوران میں کچھ بیرونی اثرات اور کچھ خود اس کی اپنی عقل و بصیرت، دونوں مل جل کر اسے گمراہی سے بے زار کر دیتے ہیں۔ اور اس وقت ہدایت کی وہی روشنی جو پہلے مدھم تھی دفعتاً تیز ہو کر اس کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مدت تک انسان ہدایت اور ضلالت کے درمیان مذبذب رہتا ہے، کبھی اِدھر کھنچتا ہے، کبھی اُدھر۔ قوت فیصلہ اتنی قوی نہیں ہوتی کہ بالکل کسی ایک طرف کا ہو جائے۔
بعض بدقسمت اسی تذبذب کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بعض کا آخری فیصلہ ضلالت کے حق میں ہوتا ہے، اور بعض ایک طویل کش مکش کے بعد ہدایت الٰہی کا اشارہ پا لیتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ خوش قسمت وہ سلیم الفطرت، صحیح القلب، اور سدید النظر لوگ ہوتے ہیں، جو خدا کی دی ہوئی عقل، اس کی عطا کی ہوئی آنکھوں، اس کے بخشے ہوئے کانوں اور اس کی ودیعت کی ہوئی قوتوں سے ٹھیک ٹھیک کام لیتے ہیں۔ مشاہدات اور تجربات سے درست نتائج اخذ کرتے ہیں۔ آیات الٰہی کو دیکھ کر ان سے صحیح سبق حاصل کرتے ہیں۔
باطل کی زینت اُن کو رجھانے میں ناکام ہوتی ہے۔ جھوٹ کا فریب ان کو اپنا گرویدہ نہیں بناسکتا۔ ضلالت کی کج راہیوں کو دیکھتے ہی وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ آدمی کے چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ پھر جونہی وہ حق کی طرف رجوع کرتے اور اس کی طلب میں آگے بڑھتے ہیں، حق ان کے استقبال کو آتا ہے۔ ہدایت کا نور ان کے سامنے چمکنے لگتا ہے اور حق کو حق سمجھ لینے اور باطل کو باطل جان لینے کے بعد پھر دنیا کی کوئی قوت ان کو راہ راست سے پھیرنے اور گمراہی کی طرف لگانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔
ایک اور بات بھی اس سلسلے میں قابلِ بیان ہے، اور ضرورت ہے کہ مسلمان اس کو ذہن نشین کرلیں۔
عام طور پر جب غیر مسلم مشاہیر کی جانب سے اسلام کے متعلق کچھ اچھے خیالات کا اظہار ہوتا ہے، تو مسلمان بڑے فخر سے ان خیالات کو شہرت دیتے ہیں، گویا ان کا اسلام کو اچھا سمجھنا اسلام کی خوبی کے لیے کوئی گراں قدر سرٹیفکیٹ ہے۔ لیکن یہ حقیقت فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت اس سے بے نیاز ہے کہ کوئی اس کا اعتراف کرے۔ جس طرح آفتاب کا روشن ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کو روشن کہے اور جس طرح آگ کا گرم ہونا اور پانی کا سیال ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کی گرمی اور اس کے سیلان کو تسلیم کرے، اسی طرح اسلام کا برحق ہونا اس کا حاجت مند نہیں ہے کہ کوئی اس کے برحق ہو نے کو مان لے۔ خصوصاً ایسے لوگوں کی تحسین اور مدح تو کوئی بھی وقعت نہیں رکھتی، جن کے دل ان کی زبانوں کا ساتھ نہیں دیتے، اور جو خود اپنے اعراض و انکار سے اپنی مدح و تحسین کی تکذیب کرتے ہیں۔ اگر حقیقت میں وہ اسلام کی خوبی کے معترف ہوتے تو اس پر ایمان لے آتے۔ لیکن جب انھوں نے زبانی اعتراف کے باوجود ایمان لانے سے انکار کر دیا تو اہل عقل کی نگاہ میں ان کی حیثیت بالکل اس شخص کی سی ہے، جو طبیب کی صداقت کو تسلیم کرے، اس کے تجویز کردہ نسخے کی صحت کا اعتراف کرے، مگر اپنی بیماری کا علاج کسی عطائی طبیب سے کرائے۔
مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بڑے سے بڑے غیر مسلم کا اعتراف بھی اسلام کے لیے قابلِ فخر نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ہی فخر کافی ہے، اور وہ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن۳:۱۹) [اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے] اور رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ط (المائدہ۵:۳) [تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا] کا فخر ہے۔
کسی حدیث کو رَد کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ آدمی اس کے مضمون پر تھوڑا سا غور کرے اور اگر بات سمجھ میں نہ آئے، یا اس کا کوئی غلط مفہوم ذہن میں پیدا ہوجائے، تو بے تکلف یہ فیصلہ کردے کہ’ حدیث گھڑی ہوئی ہے‘، اور ایک نظریہ یہ بھی ساتھ ساتھ قائم کرے کہ ’فلاں فلاں وجوہ سے یہ گھڑی گئی ہوگی‘۔ اس طریقے سے احادیث پرکھی جانے لگیں تو نہ معلوم کتنی صحیح حدیثوں کو دریابُرد کرڈالا جائے گا۔ حدیثوں کو پرکھنے کے لیے علمِ حدیث کی گہری واقفیت ضروری ہے اور اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی میں بات کے مغز کو پہنچنے کی عمدہ صلاحیت ہو۔ اس طرح جب روایت اور درایت میں صحیح توازن قائم ہوجائے، تب انسان اس قابل ہوسکتا ہے کہ احادیث کو جانچ کر ان کی صحت و سقم اور ان کے مضمون کی معنوی حیثیت کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔
جس حدیث کے متعلق آپ نے تنقید کی ہے وہ مسلم، ترمذی اور مُسنداحمد میں متعدد طریقوں سے منقول ہوئی ہے اور روایت کے اعتبار سے اس پر کوئی وزنی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ رہا اس کا مضمون، تو اس موضوع سے متعلق جو دوسری احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سب کے ساتھ ملا کر اسے پڑھاجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ’’آدمی کو جان جان کر گناہ کرنا چاہیے اور پھر توبہ کرلینی چاہیے‘‘۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’انسان بالکل بے خطا اور بے گناہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اصل خوبی یہ نہیں ہے کہ اس سے کبھی گناہ سرزد ہی نہ ہو، بلکہ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ جب بھی اس سے گناہ سرزد ہوجائے ، وہ نادم ہو اور اپنے خدا سے معافی مانگے‘‘۔ اس مضمون کو ذہن نشین کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کو بے گناہ مخلوق ہی پیدا کرنی ہوتی، تو انسانوں کے بجائے کوئی اور مخلوق پیدا کرتا۔ انسان کو تو خدا نے نیکی اور گناہ دونوں کی صلاحیت و استعداد کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نوعیت کی مخلوق سے بے گناہی مطلوب نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو بڑے سے بڑا مقام یہی ہوسکتا ہے کہ بتقاضائے بشریت جب بھی اس سے قصور سرزد ہو، اس پر اصرار نہ کرے بلکہ نادم ہوکر استغفار کرے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۹، عدد۲، نومبر ۱۹۶۲ء، ص۵۶-۵۷)
شریعت کا منشا [اسلام کی] اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کرکے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے، اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت دین کے بالکل خلاف ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شریعت اپنے نفاذ کے لیے مومن و متقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق و فاجر لوگ، اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں؟
اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدم جواز کی قانونی بحث کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہو تو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمت ِ دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ کیا حکمت دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکامِ شرعیہ کا اجرا ایسے حُکام کے ذریعے سے کرایا جائے، جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے، اور جن میں ایک بڑی تعداد عقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ اسلام کو دُنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اِن لوگوں کے ہاتھوں احکامِ شریعت جاری کرائےجائیں۔ اگر چند بندگانِ خدا پر بھی جھوٹے مقدمے بنا کر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی، تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدودِ شرعیہ کا نام لینا مشکل ہوجائے گا اور دُنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔
اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے تو پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے ، جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں، اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور حدودِ شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔
یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے ۔ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلس قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اور کل حدود ِ شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسودئہ قانون پیش کردیا گیا۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۹، عدد۱، اکتوبر ۱۹۶۲ء، ص۵۸-۵۹)
سوال : حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے بعض شاگردوں کو دیکھا کہ وہ ذکر کے لیے ایک مقررہ جگہ پر جمع ہوا کرتے ہیں، تو غصے میں فرمایا کہ ’’کیا تم اصحابِ رسولؐ اللہ سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟‘‘ دوسری روایت میں ہے: حضر ت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ’’رسولؐ اللہ کے زمانے میں تو مَیں نے اس طرح کا ذکر نہیں دیکھا، پھر تم لوگ کیوں یہ نیا طریقہ نکال رہے ہو؟‘‘دوسری طرف صحیح البخاری اور مسلم میں ہے کہ ’’فرشتے ذکر ِ الٰہی کی مجالس کو ڈھونڈتے ہیں اور ان میں بیٹھتے ہیں‘‘۔ ان احادیث کی روشنی میں ’حلقۂ ذکر‘ کا بدعت ہونا سمجھ میں نہیں آتا؟
جواب : لفظ ’ذِکر‘ کا اطلاق بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے: اس کے ایک معنی ’دل میں اللہ کو یاد کرنے‘، یا ’یاد رکھنے‘ کے ہیں۔ دوسرے معنی ’اُٹھتے بیٹھتے ہرحال میں طرح طرح سے اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں، مثلاً: موقع بہ موقع الحمدللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ، سبحان اللہ وغیرہ کہنا۔ بات بات میں کسی نہ کسی طریقے سے اللہ کا نام لینا، رات دن کے مختلف احوال میں اللہ سے دُعا مانگنا، اور اپنی گفتگوئوں میں اللہ کی نعمتوں اور حکمتوں اور اس کی صفات اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر کرنا‘۔ تیسرے معنی ’قرآن مجید اور شریعت ِ الٰہیہ کی تعلیمات بیان کرنے کے ہیں، خواہ وہ درس کی شکل میں ہوں، یا باہم مذاکرہ کی شکل میں، یا وعظ و تقریر کی شکل میں‘۔ چوتھے معنی’تسبیح و تہلیل و تکبیر کے ہیں‘۔
جن احادیث میں ذکر ِ الٰہی کے حلقوں اور مجلسوں پر حضوؐر کے اظہارِ تحسین کا ذکر آیا ہے، اُن سے مراد تیسری قسم کے حلقے ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جس چیز پر اظہارِ ناراضی کیا ہے، اس سے مراد چوتھی قسم کا حلقہ ہے ، کیونکہ رسول ؐ اللہ کے عہد میں حلقے بنا کر تسبیح و تہلیل کا ذکر جہری کرنا رائج نہ تھا، نہ حضورؐ نے اس کی تعلیم دی، اور نہ صحابہؓ نے یہ طریقہ کبھی اختیار کیا۔ رہا پہلے دو معنوں میں ذکر ِ الٰہی ، تو ظاہر ہے کہ وہ سرے سے حلقے بنا کر ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ لازماً انفرادی ذکر ہی ہوسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۶ء)
سوال : اس سے قبل میں مبتلائے کبائر تھا، مگر اس کے بعد توبہ نصوح کرلی ہے اور اب آپ کی تحریک سے متاثر ہوکر اللہ کا شکر ہے کہ ایک ’شعوری مسلمان‘ ہوگیا ہوں۔ لیکن دن رات اپنے اُخروی انجام سے ہراساں رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آخرت کے بجائے دُنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا بھگت لوں، مگر افسوس کہ اسلامی سزا کا قانون رائج نہیں ہے۔ آپ میری مدد کریں اور کوئی مناسب راہ متعین فرمائیں۔
جواب : اللہ تعالیٰ ہر اس گناہ کو بخش دیتا ہے جس پر ایک مومن سچّے دل سے نادم ہو کر تائب ہو اور پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے۔ توبہ کے ساتھ ساتھ اگر آدمی راہِ خدا میں کچھ صدقہ بھی کرے یا اللہ کی راہ میں کوئی قربانی اس نیت سے کرے کہ اللہ اپنی رحمت سے اس کا گناہ معاف فرما دے، تو یہ چیز توبہ کی قبولیت میں اور زیادہ مددگار ہوتی ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ آپ کی توبہ قبول فرمائے اور آپ کو استقامت بخشے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۲ء)
پاکستان کی تاسیس کے ۷۵ برس پورے ہونے پر، ہم یہاں اُس قلمی مذاکرے سے چند حصے پیش کر رہے ہیں، جسے ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی نے ۱۹۶۱ء کے ’نظریۂ پاکستان نمبر‘ میں شائع کیا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ۶۲برس گزر جانے کے بعد آج تک ہم اسی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ بدقسمتی سے قومی، سیاسی، عسکری، انتظامی، صحافتی اور تعلیمی قیادت نہ بنیادی مسئلے کو سمجھنا چاہتی ہے اور نہ ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم رفتہ رفتہ ایک پاکستانی قوم سے ہٹ کر تنگ نظر قومیتوں کی طرف بڑھنے، مفادات کے گرداب میں پھنسنے اور وقتی و عارضی اہداف کے پیچھے بھاگنے والی قوم کا ثبوت دینے پر مُصر ہیں۔ مذاکرے کے تین محترم شرکا: lسیّدابوالاعلیٰ مودودی lڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی lجسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے جوابات یہاں دیئے جارہے ہیں۔(پروفیسر خورشیداحمد)
۱ آپ کی نگاہ میں پاکستان کے بقا اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے؟
۲ اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے میں کون سی قوتیں مزاحمت کر رہی ہیں؟
۳ آپ کے خیال میں گذشتہ برسوں میں پاکستان، اسلامی نظریے سے قریب آیا ہے یا اس سے دور ہٹا ہے؟
۴ آپ کے نزدیک اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ سیاسی اور تہذیبی زندگی پر اس نظریے کے کیا اثرات مرتب ہونے چاہییں؟
۱ پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ایک مسلمان قوم کا نظریہ اسلامی نہ ہو تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ: ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہو سکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیر اسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیں اور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟
دوسری چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم نے متحدہ ہندستان میں سے ’پاکستان‘ کے نام کا ایک الگ خطہ زمین کاٹ کر حاصل کرنے کے لیے جو لڑائی لڑی تھی، وہ تمام دنیا کے سامنے ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ کر لڑی تھی کہ: ہم ایک جداگانہ تہذیب و تمدن رکھنے والی قوم ہیں۔ متحدہ ہندستان میں غیر مسلم اکثریت کے ساتھ ایک مشترک نظامِ زندگی ہم نہیںبنا سکتے۔ ہمیں اپنے نظامِ زندگی کے مطابق کام کرنے کے لیے ایک الگ علاقہ چاہیے، جہاں ہم اپنی تہذیب اور اپنے تمدن اور اپنے قوانینِ حیات کے مطابق کام کر سکیں ___ اب ایک سخت لڑائی لڑنے کے بعد جب وہ پاکستان ہمیں حاصل ہو گیا، جس کے لیے ہم نے یہ سارے پاپڑ بیلے تھے، تو یہ ایک بالکل عجیب حرکت ہو گی کہ ہم یہاں اسی تہذیب و تمدن اور نظامِ زندگی سے منہ موڑ لیں، جس کا ہم نے نام لیا تھا اور وہی سب کچھ کرنا شروع کر دیں جو متحدہ ہندستان میں بھی بآسانی کیا جا سکتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تمام دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک جھوٹی اور مکار، یا احمق اور بوالفضول قسم کی قوم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ آخر دنیا یہ نہ سوچے گی کہ یہ عجیب قوم ہے کہ جس مقصد کا نام لے کر یہ لڑی تھی، لڑائی میں کامیاب ہو کر اسی مقصد کو فراموش کر بیٹھی اور جو کام یہ لڑے بغیر کر سکتی تھی، وہی اس نے جان و مال اور آبرو کے بے شمار نقصانات اٹھانے کے بعد کرنا شروع کر دیا۔ ہماری سوسائٹی میں جن باتوں پر بے چارے سکھوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ہماری یہ حرکت ان سے بدرجہا زیادہ بڑھی ہوئی ہو گی اور دنیا کے سامنے ہم اپنے آپ کو مہاسکھ کی حیثیت سے پیش کریں گے۔
تیسری چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ پاکستان مختلف عناصر سے مرکب ہے، اور جن عناصر سے یہ مرکب ہے اُن کے درمیان آج تک اپنی جداگانہ خصوصیات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ ان کے اندر حقیقت میں کوئی امتزاج ایسا نہیںہو سکا ہے، جو ان عناصر کو بالکل یک جان اور یک رنگ کر چکا ہو: ان کی زبانیں مختلف ہیں، لباس، عادات، طرز معاشرت مختلف ہے، نسلیں مختلف ہیں۔ ایک بڑی حد تک اُن کے مفاد بھی نہ صرف مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ ان کے اندر جدا جدا ہونے کا احساس نہ صرف موجود ہے، بلکہ زندہ اور متحرک ہے، اور ایک ذرا سے اشارے پر بہ آسانی ابھر آتا ہے، اور سب سے زیادہ یہ کہ پاکستان جغرافی حیثیت سے ایک وطن بھی نہیں ہے۔ اس کے دو بڑے ٹکڑے ، جن میں اس کی آبادی تقریباً نصف نصف بٹی ہوئی ہے[جب یہ جوابات لکھے گئے تب پاکستان، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (آج کل بنگلہ دیش) پر مشتمل تھا]، ایک دوسرے سے ہزار میل [ ڈیڑھ ہزار کلو میٹر] کے فاصلے پر ہیں اور بیچ میں ایک ایسی طاقت حائل ہے جس کے ساتھ ہمارے کچھ بہت اچھے تعلقات بھی نہیں ہیں۔ کسی وقت بھی ان تعلقات کی خرابی کی وجہ سے ان دونوں ٹکڑوں میں مواصلات کے سارے رشتے کٹ سکتے ہیں۔ اس حالت میں پاکستان کو ایک وحدت بنا کر رکھنے والی قوت سوائے اسلام کے کوئی نہیں ہے۔ محض سیاسی نظام کی وحدت کوئی چیز نہیں۔ کیا اسی طرح کی وحدت آسٹریا اور ہنگری میں نہ تھی؟ کیا اسی طرح کی وحدت عثمانی سلطنت میں نہ تھی؟ اسی طرح کی وحدت برٹش ایمپائر [برطانوی سلطنت] میں نہ تھی؟ اس وحدت کے بل پر مختلف الجنس عناصر کو ایک ’بنیان مرصوص‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے زبان کی وحدت مددگار ہوسکتی ہے، مگر اس کا یہاں دور دور کوئی امکان نہیں۔ اس کے لیے معاشی مفاد کی وحدت بھی مددگار ہوسکتی ہے، لیکن ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان یہ موجود نہیں ہے۔ اب سوائے ایک عقیدے اور دین کی وحدت اور اصول اخلاق و تہذیب کی وحدت کے اور کیا ایسی چیز ہے جو پاکستان کے مختلف عناصر کو جوڑ کر رکھ سکتی ہو؟
چوتھی اور آخری چیز یہ ہے کہ ملک کی عظیم مسلم اکثریت، جو دراصل پاکستان کی بانی اور اس کی پشت پناہ ہے، سچے دل سے یہ ایمان رکھتی ہے کہ اس کی زندگی کے مسائل کا حل فی الواقع اسلامی نظام ہی میں ہے، اور اس نظام سے بہتر دوسرا نظام نہیں ہے۔ جن لوگوں کا اصلی عقیدہ یہ نہیں ہے، جو محض مسلمان گھرانوں میں پیدا ہو جانے کی وجہ سے مسلمان بنے ہوئے ہیں، مگر اپنے عقائد اور خیالات اور نظریات کے اعتبار سے غیر مسلم ہو چکے ہیں، ان کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ تو بلا شبہہ یہی چاہیں گے کہ ہم اپنے ساتھ بس مسلمان کا نام لگائے رکھیں، مگر کام کسی غیر اسلام نظریہ پر کریں۔ لیکن ایسے لوگ آخر ہماری آبادی میں ہیں کتنے؟ بمشکل ان کا تناسب ایک دو یا دس پانچ فی لاکھ ہوگا۔
آخر عقل و منطق، یا انصاف یا جمہوریت کے کس قاعدے سے اس چھوٹی سی اقلیت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یہاں کوئی نظام زندگی اس کے نظریات کے مطابق اختیار کیا جائے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس وقت یہی چھوٹی سی اقلیت ہمارے ہاں بڑے بڑے مناصب پر مسلط رہی ہے۔ لیکن یہ حالت خواہ کتنی ہی پریشان کن ہو، بہر حال اسے کوئی حقیقی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ ملک میں ایسی ایک اقلیت کے برسر اقتدار ہونے کی حیثیت ایک اجنبی قوم کے برسرِ اقتدار آنے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ انگریز بھی جب اس ملک پر حکومت کر رہا تھا تو اس کے کارفرماؤں اور کار پردازوں کی تعداد اس ملک میں اس سے زیادہ نہ تھی۔ اگر وہ اجنبی اقتدار یہاں مستحکم نہ ہو سکا تو یہ اجنبی اقتدار بھی یہاں مستحکم نہیں ہو سکتا۔
جب تک یہ اقتدار یہاں مسلط رہے گا، پاکستان کے باشندوں کی عظیم اکثریت کے جذبات، احساسات اور ان کی گہری جڑوں پر جمی ہوئی روایات سے اس چھوٹی سی اقلیت کے منصوبے پیہم متصادم ہوتے رہیں گے۔ تصادم کی وجہ سے یہ ملک ایک انچ بھی ترقی کے راستے پر آگے نہ بڑھ سکے گا، بلکہ جو کچھ پہلے کا بنا ہوا ہے وہ بھی بگڑتاچلا جائے گا۔ قوم کا دلی تعاون جس طرح بدیسی اجنبیوں کو کبھی حاصل نہ ہو سکا، اسی طرح ان دیسی اجنبیوں کو بھی کبھی حاصل نہ ہو سکے گا۔ ان کی حیثیت بالکل ایسی ہی رہے گی، جیسے کوئی شخص ایک ایسے گھوڑے پر سوار ہو، جو اسے سواری نہ دینا چاہتا ہو، اور سوار اور سواری میں مسلسل کش مکش جاری رہے۔ اس حالت میں کسی نظریے کے مطابق بھی ہماری زندگی کے کسی مسئلے کا حل نہ ہو سکے گا، نہ اسلامی نظریے کے مطابق اور نہ غیر اسلامی نظریے کے مطابق۔ جو کچھ حکمران بنانا چاہیں گے قوم کا عدم تعاون اس کو نہ چلنے دے گا۔ جو کچھ قوم بنانا چاہے گی حکمرانوں کی جبری اور بعض حالات میں مسلح مزاحمت اس کو نہ چلنے دے گی۔ اس کش مکش کو کسی کا جی چاہے تو جب تک چاہے طول دیتا رہے۔ آخر کار پاکستان کی تعمیر کے لیے اگر کوئی کام ہو سکے گا تو اسی وقت ہو سکے گا، جب کہ قوم اور اس کے حکمرانوں کا مقصد اور مسلک ایک ہو، اور وہ اسلام اور صرف اسلام ہی ہو سکتا ہے۔
ایک اعتراض : اس تجزیے پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر اسلام نے مسلمانوں کو ایک نظام تمدن دیا ہے اور اس کی روایات ہماری قوم میں بڑی مضبوط ہیں تو پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہو گا کہ پاکستان کے مختلف عناصر کی معاشرت اور ان کا مفاد ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم ہے؟
اس کے جواب میں مَیں کہوں گا کہ جہاں تک تمدن و معاشرت کے مختلف ہونے کا تعلق ہے اس کی وجہ تو بہ آسانی سمجھ میں آ سکتی ہے، اگر ہم اس ملک میں مسلمانوں کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس ملک میں اسلام کو پوری طرح کام کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا کہ وہ یہاں کے مسلمانوں کو مکمل طور پر ایک تہذیب و تمدن میں رنگ دیتا۔ اسلام کے ساتھ ساتھ دوسری تمدنی قوتیں بھی یہاں کار فرما رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم برعظیم ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہمیں صاف یہ نظر آتا ہے کہ ان کے اندر وحدت کے جتنے عناصر ہیں وہ تو سارے اسلام نے فراہم کیے ہیں، مثلاً: عقائد، اذان، نماز، روزہ، جمعہ اور عیدین، حج، ختنہ، نکاح و طلاق و وراثت کے قوانین، لباس میں ستر کے حدود، کھانے پینے میں حرام و حلال کے قیود، معاشرت میں پردہ، وغیرہ۔
اس کے برعکس ان کی زندگی میں اختلاف اور پچ رنگی کے جتنے عناصر ہیں، وہ سارے کے سارے دوسری تمدنی قوتوں کے فراہم کردہ ہیں۔ اب اگر یہاں اسلام کو کام کرنے کا پورا موقع ملے اور نظامِ تعلیم و تربیت میں، قوانین میں، حکومت کی پالیسی میں اور دوسرے معاملات میں وہ پوری طرح یہاں کارفرما ہو تو وحدت پیدا کرنے والی طاقت زور پکڑتی جائے گی اور اختلاف پیدا کرنے والی طاقتیں کمزور ہوتی جائیں گی۔ لیکن اگر اس کے برعکس وحدت کا یہ واحد رشتہ تعلیم و تمدن، قانون اور دوسرے مؤثر ادارات سے بے دخل رہے تو لا محالہ اختلاف پیدا کرنے والی طاقتیں زور پکڑتی جائیں گی اور ہماری آبادی کے مختلف عناصر کو بکھیر کر رکھ دیں گی۔
رہا معاشی مفاد کا مسئلہ ،تو وہ قدرتی اسباب سے مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان تصادم پیدا کرتا ہے۔ اگر اسلام کی رہنمائی میں ہم اپنے معاشی مسائل کو منصفانہ طریقے پر حل کر لیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے اندر اعتقادی اور اخلاقی وحدت کو بھی بڑھائیں تو یہ تصادم روز بر وز خفیف ہوتا جائے گا اور کبھی نازک صورت اختیار نہ کرنے پائے گا۔ لیکن بصورت دیگر اس کو کوئی طاقت روز بروز بڑھنے اور پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم دست و گریبان کر دینے سے نہ روک سکے گی۔
ایک ضمنی سوال: اس سلسلے میں ضمناً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگراسلامی نظریے کی یہی اہمیت ہے تو آخر دوسرے مسلم ممالک اس کو چھوڑ کر دیگر نظریات کیوں اختیار کر رہے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر وہی ایک بلا مسلط ہے جو ہمارے اس ملک پر مسلط رہی ہے، یعنی کارفرمائی کی طاقتیں ہر جگہ ان لوگوں کے ہاتھوں میںہیں، جنھوں نے نہ کوئی اسلامی تعلیم و تربیت پائی ہے اور نہ اسلامی ذہنیت ان میں موجود ہے۔ قوم ہر جگہ مسلمان ہے، اسلامی جذبات رکھتی ہے اور اسلامی روایات اس میں گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہیں۔ لیکن سیاسی اور معاشی طاقت ہر جگہ ایک ایسی مختصر سی اقلیت کے ہاتھ میں ہے، جس نے یا تو براہِ راست مغربی استعمار کی گود میں پرورش پائی ہے یا مغربی استعمار سے چوٹ کھا کر اس کے آگے پوری طرح سپر ڈال دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ [مسلم] قوم اور ان استعمار زادوں کے درمیان کش مکش برپا ہے، اور ہر جگہ مغربی نظام زندگی کا اجنبی پودا بالکل ایک دوسری سر زمین اور مخالف آب و ہوا میں لا کر زبردستی لگایا اور پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
۲ ایک مزاحم طاقت کا تو میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ تین مزاحم طاقتیں اور قابلِ ذکر ہیں:
ایک، عام مسلمانوں کی جہالت اور اسلامی تربیت سے محرومی۔ ہم جب کبھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں اور اسی طرح پاکستان میں بھی مسلمان من حیث القوم اسلام کے دلدادہ ہیں، تو اس سے ہماری مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ ان کے جذبات و احساسات اسلامی ہیں، اور روایات کا گہرا اثر ان کو اسلام سے وابستہ رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بالکل ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ان عام مسلمانوں کی عظیم اکثریت جس اسلام کی دلدادہ ہے، اس سے نہ تو یہ اچھی طرح واقف ہے اور نہ اس کے اصولوں کے مطابق اس کو اخلاقی تربیت ملی ہے۔ یہ ہماری بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ مغربی استعمار کی آمد سے کئی صدیاں پہلے سے مسلمانوں کی حکومتیں اپنے بنیادی فرائض سے غافل رہیں، اور انھوں نے مسلم عوام کو اسلامی تعلیم و تربیت دینے کا فرض پوری طرح انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد جب مغربی استعمار مختلف اسلامی ملکوں میں اور خود ہمارے ملک میں آیا تو اس نے ہمارے عقائد، اخلاق اور تہذیب و تمدن کی جڑیں ہلاڈالیں، اور ہم پر ایک ایسا نظام تعلیم اور نظام سیاست و معیشت اور نظام قانون و تمدن مسلط کیا جو ہمارے فلسفۂ حیات اور نظامِ زندگی سے پوری طرح متصادم تھا۔
ان ساری چیزوں کے اثرات مسلمان قوموں میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور اپنے ملک میں بھی ہم ان سے بری طرح متاثر ہیں۔ ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اگر یہاں اسلامی نظامِ حکومت قائم ہو جائے تو عوام کے جذبات و احساسات ان شاء اللہ اس کا ساتھ دیں گے۔ لیکن ہمیں یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ قوم کی جہالت و جاہلیت اس کے قائم ہونے اور چلنے میںمزاحم نہ ہو گی۔ لا محالہ، اسلام کے لیے کام کرنے والوں کوکافی مدت تک جان مار کر محنت کرنا ہو گی، تاکہ قوم کی بگڑی ہوئی عادات و خصائل کو درست کر کے اس نظام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، جسے وہ جذباتی طور پر دل سے پسند کرتی ہے۔ اس معاملے میں اصلاح کرنے والوں کوبڑی حکمت کے ساتھ ایک تدریجی پروگرام اختیار کرنا ہو گا۔ اگر حکمت اور تدریج کو وہ ملحوظ نہ رکھیں اور کسی وقت بھی اصلاح کی پوری خوراک [dose] بیک وقت دے ڈالنے کی کوشش کریں تو سارا کام بگاڑ کر رکھ دیں گے۔
دوسری مزاحم قوت ہمارے مذہبی طبقوں کا جمود ہے۔ ان لوگوں کو پوری طرح اس بات کا احساس و ادراک نہیں ہے کہ اسلام میں درحقیقت ثبات اور حرکت کے درمیان کس طرح توازن قائم کیا گیا ہے۔ کتاب و سنت کی رُو سے مستقل طور پر ثابت و قائم کیا چیزیں رہنی چاہییں اور حرکت کن پہلوؤں اور کن امور میں ہونی چاہیے، جس سے ہم زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ آگے چل سکیں۔ ان کے نزدیک کلیات و اصول اور منصوص احکام سے لے کر استنباطی جزئیات و فروع تک ہر چیز اٹل ہے۔ اس جمود کی وجہ سے بھی بہت سی رکاوٹیں اب تک پیش آئی ہیں اور آگے بھی پیش آنے کا خطرہ ہے۔ اگر اصلاح کے لیے کام کرنے والے لوگ وہ ہوں جو قرآن و سنت اور فقہ اور اسلامی تاریخ پر اچھی نظر رکھتے ہوں، فرقہ بندی کے تعصبات میں مبتلا نہ ہوں اور اپنے مزاج میں حکیمانہ اعتدال اور صبر و تحمل بھی رکھتے ہوں تو یہ مزاحمت تھوڑی یا بہت مشکلات کے باوجود رفع ہو سکتی ہے۔ ورنہ کم علم اور غیر معتدل لوگوں کے ہاتھوں یہ کام ہونے کی صورت میں سخت اندیشہ ہے کہ ہم اصلاح کرنے کے بجائے ملک میں مذہبی جھگڑے برپا کر دیں گے۔
تیسری مزاحم طاقت ملک کے اندر نہیں بلکہ باہر ہے۔ ہمارے مغربی دوست، جن کے ساتھ ہم بہت سے مالی و معاشی و سیاسی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور جنھیں ہمارے آزاد ہو جانے کے باوجود ہماری قسمت پر اثر ڈالنے کے بہت سے مواقع حاصل ہیں۔ وہ خود چاہے کتنے ہی عیسائی ہوں اور عیسائیت پر فخر کریں اور کمیونزم کے مقابلے میں مذہب کے علَم بردار بنیں، مگر مسلمان قوموں کو وہ مسلمان نہیں دیکھنا چاہتے۔ میرا احساس یہ ہے کہ وہ اب تک کمیونزم کے مقابلے میں اسلام کو زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ تو ضرور ہے کہ مسلمان قومیں مذہب کی بنیاد پر کمیونزم کی مخالف ہوں اور اس کے مقابلے میں ان کا ساتھ دیں۔ لیکن جب کبھی کسی ملک کو وہ اسلام کی طرف پلٹتے دیکھتے ہیں اور انھیں خطرہ ہوتا ہے کہ اب یہاں اسلام کا بول بالا ہونے والا ہے تو اپنی تمام جمہوریت نوازی کو چھوڑ کر اور اپنے تمام اصول، آئین و قانون کو نظر انداز کر کے وہ اس قوم کے اندر غیر آئینی انقلاب کی ہمت افزائی کرنے پر اُتر آتے ہیں، جمہوریت کے مقابلے میں ڈکٹیٹرشپ کی حمایت کرنے لگتے ہیںاور انتہائی وحشیانہ ظلم و ستم جو دینی رہنماؤں اور دینی کارکنوں پر کیا جائے، اس پرنعرہ ہائے تحسین و آفریں بلند کرتے ہیں۔ یہ تماشاہم کئی برس سے مسلسل دیکھ رہے ہیں، اور ہمیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ مسلم ممالک کے اندر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے راستے میں صرف اندرونی طاقتیں ہی مزاحم نہیں ہیں، بلکہ ان کی پشت پر یہ بیرونی طاقتیں بھی ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ہماری جنگ آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، ہمیں آزادی کے لیے ابھی مزید لڑائی لڑنی ہے۔
پھر بد قسمتی سے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی طاقت، یعنی امریکا پر ایک شیطان کا سایہ بھی ہے اور اس شیطان کا نام ہے ’’یہود‘‘۔ بین الاقوامی سازشیوں کے اس خطرناک گروہ کے ہاتھ میں بہت بڑی معاشی طاقت بھی ہے اور پریس کی طاقت بھی۔ خصوصیت کے ساتھ امریکا کی خارجہ سیاست پر اس کو جو تسلط حاصل ہے، اس نے تمام امریکیوں کو ان کی خواہش اور ارادے کے بغیر نہ صرف عربوں سے بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں سے زبردستی بھڑا دیا ہے۔ یہ یہودی حقیقت میں امریکا کے لیے انگریزی محاورہ کے مطابق evil genius ،نفس امّارہ بنے ہوئے ہیں۔ جس مسلمان قوم کے اندر مذہبی احیا کے کچھ آثار نمودار ہوتے ہیں، یہ اس کے متعلق فوراً دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجانے لگتے ہیں اور اس کی خبریں دنیا کو اس طرح سناتے ہیں جیسے دنیا میں کوئی بڑی آفت آنے والی ہے۔ اگر کسی مسلمان قوم میں الحاد اور بے دینی کا زور ہو رہا ہو تو یہ اس پر بغلیں بجاتے ہیں اور دنیا بھر کو خبر کر دیتے ہیں کہ وہ قوم بڑی ’ترقی‘ کر رہی ہے، بہت progressive [ترقی پسند] ہو گئی ہے۔ اگر کہیں کسی دینی تحریک کو کچلا جا رہا ہو، مقدمے چلائے بغیر لوگوں کو قید کیا جا رہا ہو، فوجی عدالتوں میں بالکل مضحکہ خیز طریقوں پر مقدمات چلا کر لوگوں کو پھانسیوں کی سزائیں دی جا رہی ہوں، تو یہ اس کی خبریں دنیا کو اس انداز سے دیتے ہیں گویا کوئی بہت بڑا نیک کام کیا جارہا ہے، اور کوئی شرم ان کو ایسے افعال کی تحسین کرتے وقت لا حق نہیں ہوتی۔
اگر کسی مسلمان ملک میں جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر اور آئین و قانون کی مٹی پلید کرکے کوئی ڈکٹیٹرشپ قائم کر دی جائے تو یہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اور دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ مسلمان قومیںجمہوریت کے قابل ہی نہیں ہیں، ان کے لیے توڈکٹیٹرشپ ہی موزوں ہے۔ امریکا کے عام باشندے ذرا محسوس نہیں کرتے کہ اس طرح اپنی اغراض کے لیے یہودی سرمایہ دار اور یہودی پریس ان کو گواہ کر کے ایک خطرناک بین الاقوامی اُلجھن میں مبتلا کر رہا ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کو اس سے کیا بحث کہ پس پردہ کون تار ہلا رہا ہے۔ وہ تو دیکھتے ہیں کہ عملاً یہی اس وقت امریکا کی پالیسی ہے اور یہودیوں کے زیر اثر اس کی سیاسی طاقت اسی پالیسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے امریکا کی وہ تمام مالی اور فنی امداد جو وہ مسلمان ملکوں کو دیتا ہے بجائے کوئی good will [اچھا تاثر] پیدا کرنے کے الٹا اثر مرتب کر رہی ہے۔
اس کی وجہ سے، مسلمان اس کے باوجود کہ کمیونزم کے مقابلے میں ان کا مفاد مغربی طاقتوں سے متحد ہے، اپنے اندر ان کی حمایت کے لیے کوئی جذبہ نہیں پاتے، بلکہ ان کے دلوں میں کمیونسٹ بلاک سے کچھ کم نفرت مغربی بلاک کے لیے نہیں ہے۔ مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ ہم آخر کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں مغربی بلاک کا ساتھ کیوں دیں؟ اگر ہماری عزیز اور محبوب قدریں دونوں کے ہاتھوں سے یکساں طور پر پامال ہوتی ہیں تو ہمارے عمل میں ایک کے مقابلے میں دوسرے کے لیے ہمدردی پیدا ہونے کی کیا معقول وجہ ہے! ایک قوم کے خواص تو اپنے مخصوص مفادات کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، لیکن ایک قوم کے عوام میں لڑنے کا جذبہ صرف اسی حالت میں ابھرتا ہے،جب کہ وہ اپنی عزیز و محبوب چیزوں کو خطرے میں دیکھتے ہیں، تو ان کو بچانے کے لیے اٹھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مسلمان عوام بہرحال مغربی بلاک کے لیے کرائے کے سپاہی [mercenaries] نہیں بن سکتے کہ محض مالی امداد لے کر وہ ان کی خاطر کمیونسٹ بلاک سے لڑیں۔ وہ اگر سچے جذبے کے ساتھ لڑ سکتے ہیں تو صرف دینی تہذیب، اپنے تمدن اور اپنے عقائد و نظریات کو بچانے کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ لیکن اگر اسی چیز کو مغربی طاقتیں اپنی مداخلت یا ریشہ دوانیوں سے مسلمان ممالک میں پا مال کرا دیں، تو پھر انھیں مسلمان قوموں سے کسی تائید کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ نوری السعید [م: ۱۹۵۸ء] اور چیانگ کائی شیک[م:۱۹۷۵ء] کی قسم کے لوگ مختلف مسلمان ملکوں میں کھڑے کر کے وہ کچھ دنوں ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔
بہرحال یہ تیسری مزاحمت مسلمان ممالک میں اسلام کا احیا چاہنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا دردِ سر بنی ہوئی ہے، اور جس کو بھی اس مقصد کے لیے ان ملکوں میں کام کرنا ہو وہ اس کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ اس کو اپنے حساب میں رکھ کر ہی اسے اپنا پروگرام بنانا ہوگا۔
۳ قریب بھی آیا ہے اور دُور بھی ہٹا ہے۔
قریب اس لحاظ سے آیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اسلامی نظام کے حق میں مسلسل اتنا کام، اتنے وسیع پیمانے پر ہوا ہے کہ نہ اس سے پہلے اس ملک میں کبھی ہوا تھا اور نہ کسی دوسرے مسلمان ملک میں اس کی کوئی نظیر پائی جاتی ہے۔ ا س کام کی وجہ سے ایک طرف علمی حیثیت سے اسلامی نظام کے تمام گوشے اچھی طرح روشنی میں آ گئے ہیں، اور اب ساون کے چند اندھوں کو چھوڑ کر اس ملک کے ایمان دار اہل علم و اصحابِ فکر میں کوئی ایسا نہیں رہا ہے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ ’اسلامی نظام‘ کوئی مبہم سا تخیل ہے جس کا نقشہ ہمارے سامنے واضح نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کے اندر اس مسئلے پر اتنی بیداری پیدا ہو چکی ہے او را س کے حق میں ایسی مضبوط رائے عام تیار ہوگئی ہے کہ اب کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ کھل کر اس ملک میں لا دینی نظام لانے کا ارادہ ظاہر کرسکے۔
اس کے علاوہ دو چیزیں اور بھی ہیں، جنھوں نے اسلامی نظریے کے لیے یہاں راہ ہموار کرنے میں بہت بڑا حصہ لیا ہے: ایک یہ کہ بے شمار مذہبی اختلافات کے باوجود تمام اہلِ دین شروع سے اب تک اسلامی نظام کے مطالبے اور اس کی اصولی صورت کے بارے میں پوری طرح متفق رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ لا دینی کے حامی مغربیت زدہ طبقے کے ہر عنصر کو پچھلے [تمام عرصے کے دوران] میں یہاں اپنا امتحان دینے کا پورا موقع مل چکا ہے اور انھوں نے اپنا ایسا برا حساب ساری قوم کے سامنے پیش کیا ہے کہ ان کی کوئی اخلاقی ساکھ اب باقی نہیں رہی ہے۔ حقیقتاً قوم اب ان سے پوری طرح مایوس ہو چکی ہے اور ان کے اندر اب کوئی عنصر ایسا نہیں رہ گیا ہے جس کو آزمایش کا موقع دینے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہو۔
دُور اس لحاظ سے ہوا ہے کہ [ان برسوں] میں بر سر اقتدار مغرب پرست طبقے کی مختلف تدبیروں سے اور اس کے بیرونی حامیوں کی مالی امداد اور ’’قومی ترقی‘‘ کے پروگراموں سے قوم کے اخلاق میں اتنا بگاڑ رونما ہو چکا ہے، جتنا آزادی سے پہلے غلامی کی پوری ڈیڑھ صدی میں بھی نہیں ہو سکا تھا۔ تعلیم و تربیت کا ناقص نظام نئی نسل کا ستیا ناس کر چکا ہے اور کرتا چلا جا رہا ہے۔ ’ثقافت‘ کے نئے رنگ ڈھنگ اور اس کے ساتھ ریڈیو، سینما [ ٹیلی ویژن] اور فحش لٹریچر، اونچے طبقوں سے لے کر دیہاتی عوام تک کو رنگیلا اور عیاش اور جرائم پیشہ بنانے میں شب و روز سرگرم ہیں، اور ان کی بدولت اخلاقی پستی کا زہر قوم کی رگ رگ میں اتر گیا ہے۔
اُونچے طبقوں کی بد ترین مثالوں سے متاثر ہو کر عورتوں میں بے پردگی بڑھ رہی ہے۔ مرد و زن کے اختلاط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بے حیائی کے مظاہروں کا ایک سیلاب امڈا چلا آ رہا ہے، اور ان سب اسباب کے ساتھ مل جل کر ’ضبط ولادت‘ کی تحریک وہ خطرناک ’خدمت‘ا نجام دے رہی ہے، جو ہماری آبادی میں زنا اور اس کے قدرتی نتائج کو نقطۂ عروج پر پہنچا دے گی اور ہمارے عائلی نظام کی جڑیں ہلا ڈالے گی۔
پھر ہمارے سرکاری افسروں اور ملازموں میں، تاجروں اور صنعت کاروں میں اور دوسرے طبقات میں حرام خوری، خیانت، فرض ناشناسی اور آئین و قانون کی بے احترامی ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے، جسے روکنے کی ہر تدبیر، مرض میں مزید اضافے ہی کی موجب ثابت ہوئی ہے۔ یہ حالات، ظاہر ہے کہ اسلامی نظریے کے مطابق اصلاح کو روز بروز مشکل سے مشکل تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔
۴ سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ تو اس ملک میں جمہوریت کی بحالی ہے۔ اس لیے کہ اگر اس ملک کی حیثیت اس گھوڑے کی ہی ہو جس کے منہ میں لگام ڈال کر ہر طاقت ور شخص اس پر زبردستی سوار ہو جائے اور اسے اپنے راستے پر چلانا شروع کر دے، تو ایسی حالت میں گھوڑے غریب کے لیے یہ سوچنا ہی لا حاصل ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے اور اپنی مرضی کے راستے پر جانے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے___ ہمیں سب سے پہلے اس حالت کو بدلنا چاہیے۔
ہم کو یہاں ایک آزادانہ جمہوری ماحول درکار ہے جس میں اظہار خیال، اجتماع، تنظیم اور سعی و جہد کی آزادی ہو، جس میں ہر شخص اپنے خیالات کے مطابق رائے عام کو ہموار کرنے کی کوشش کر سکے۔ جس میں رائے عام کا کسی نظریے کے حق میں ہموار ہو جانا ہی اُس نظریے کے مطابق قیادت میں تبدیلی ہو جانے کے لیے کافی ہو، اور جس میں قیادت کی تبدیلی کے لیے ایک پُرامن آئینی راستہ موجود ہو۔ ایسے ماحول میں تو یہ ممکن ہے کہ میں اپنے نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے کچھ اقدامات سوچ سکوں، انھیں بیان کر سکوں، لوگ ان کے صحیح یا غلط ہونے کے متعلق کوئی رائے قائم کر سکیں، اور جن کے نزدیک وہ صحیح ہوں وہ میرے ساتھ مل کر عملاً ان اقدامات کے لیے کوشش کر سکیں۔ لیکن اگر یہ ماحول موجود نہ ہو تو میرا اور آپ کا کسی قسم کے اقدامات کو سوچنا بے کار ہے۔ پھر تو سوچنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو گھوڑے پر سوار ہونے کی طاقت رکھتے ہوں۔
یہ لازمی اور ابتدائی شرط پوری ہونے کے بعد جو اقدامات اس نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے درکار ہیں، وہ تین بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہونے چاہییں، یا دوسرے الفاظ میں اس مقصد کے لیے بیک وقت تین سمتوں میں متوازن طریقے سے کوشش کی جانی چاہیے:
سوال کا آخری حصہ بڑی تفصیلی بحث چاہتا ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مختصر طور پر بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری قومی زندگی پر اس نظریے کے یہ اثرات مرتب ہونے چاہییں کہ ہم ’من حیث القوم‘ دنیا میں دین حق کے سچے نمائندے بن کر کھڑے ہو سکیں۔ آج تو یہ ہمارا محض دعویٰ ہی ہے کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں، ورنہ عملاً ہم اپنی زندگی کے ہر شعبے میں وہی سب کچھ کررہے ہیں جو کوئی غیر مسلم قوم کرتی ہے، بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے لوگ ہمیں بالکل اپنے ہی جیسا پائیں اور ہم کو اپنی نقل مطابق اصل دیکھ کر داد دیں۔ لیکن اسلامی نظام زندگی کو شعوری طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے اخلاق اور معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں، ادب اور فنون میں، معیشت اور مالی معاملات میں، قانون اور عدالت میں، سیاست اور بین الاقوامی رو یے میں، غرض ہماری ہر چیز میں اسلام کا اثر اتنا نمایاں ہو کہ کتابوں کو پڑھنے کے بجائے صرف ہمیں دیکھ کر ہی دنیا یہ جان لے کہ اسلام کیا ہے اور وہ انسان کو کیا کچھ بنانا چاہتا ہے۔
۱ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے بغیر پاکستان ہرگز قائم نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ پاکستان کی وحدت کا [واحد] سبب صرف اسلام ہے، بلکہ اس وحدت میں اور عناصر بھی شامل ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت اسلام کو حاصل ہے۔ اگر اسلام نہ ہو تو پاکستان کے شیرازے کو جمع رکھنا بہت دشوار ہو جائے گا۔
۲ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ اہم قوت جو اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے میں مزاحمت کر رہی ہے، اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام میں کارفرما ہے وہ ایک ہی ہے، خواہ پاکستان ہو، عرب ممالک ہوں یا کوئی اور ملک، اصل مزاحم قوت مغربیت کا غلط تصور ہے۔ مغربی ممالک کی وہ خوبیاں جو اُن کی ترقی میں معاون ہیں، اسلام کی مزاحم نہیں ہیں۔ لیکن مغربی اثرات کی وجہ سے بعض غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں اور ہم نے ان غلط نظریات کو بھی تقلیداً بغیر کسی قسم کے غور و فکر کے اختیار کر لیا ہے ۔ہم میں ذہنی خود اعتمادی نہیں ہے، ایمان کی وہ قوت نہیں ہے جو ہمیں اچھے بُرے اور کھرے کھوٹے کو پرکھنے کے قابل بنائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے دین کی اقدار اور اُن کے تقاضوں سے واقف ہوں اور انھیں مقدم رکھیں، مؤخر نہ کر دیں۔
اس کے برعکس ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو بھی دوسروں کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ کسوٹی سچی بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہماری ذہنیت ٹھیک ہو جائے اور یہ ایک ذہنی انقلاب ہی سے ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر میرے خیال میں کوئی قوت ایسی نہیں جو ہمارے صحیح اسلامی رجحانات کو روک سکے اور اسلام کی طرف پیش قدمی کی راہ میں حائل ہو سکے۔ میرے ان الفاظ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم روشن خیالی یا ترقی کے تصورات سے دور ہو جائیں ، لیکن بے سوچے سمجھے مغرب کی ہر معاملے میں تقلید کا نام ترقی یا روشن خیالی نہیں ہے۔ خصوصاً،جب کہ مغرب خود بعض غلط نظریوں اور عقیدوں کے مضر اثرات کے پنجے میں گرفتار ہے۔
۳ اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اورجو رائے بھی ظاہر کی جائے وہ ایک تعصب سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ بغیر کسی عملی جائزے اور سائنسی مطالعے کے، کسی عمرانی مسئلے کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جائے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں یقینا پاکستان اسلامی نظریے کے قریب آیا ہے اور بعض ایسی بھی ہیں جن میں پاکستان اسلامی نظریے سے دور ہوا ہے۔ لیکن ایک چیز ضرور ایسی ہے جس سے مجھے تشویش پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے کالجوں اور اسکولوں کے طالب علموں میں اسلام کی طرف سے ایک بد ذوقی پیدا ہو رہی ہے۔ اس رجحان کی وسعت کا صحیح اندازہ تو نہیں لگا سکتا، تاہم میرا اندازہ صرف اس چیز پر قائم ہے کہ جن نوجوانوں سے میری ملاقات ہوتی ہے، ان سے گفتگو کے دوران مجھے یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ اپنے دین کی طرف سے بد عقیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہمارے اساتذہ کے کردار میں اسلام کو دخل نہ ہو۔
اس بحرانی کیفیت کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کہیں بھی صحیح طریقے پر نہیں دی جا رہی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں اور ان کی تعلیم بڑی ناقص ہے۔ اسلام کی تعلیم محض دینیات کی چند کتابیں پڑھا دینے سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ دینیات تو ایک ایسی چیز ہے کہ اگر انسان میں صحیح ذوق ہو تو اس کی تعلیم وہ خود بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ طالب علموں میں صحیح دینی ذوق پیدا کریں اور ان میں ٹھیٹھ اسلامی ذہنیت اور اسلامی رجحانات کو ترقی دیں۔فرائض کی تعلیم کاانتظام ضرورہوناچاہیے، لیکن محض اسی پرقناعت کرلیناہرگز درست نہیں۔ یہ تو اور بھی مناسب نہیں ہے کہ صرف فرائض کی شدبد کو دینی تعلیم کا اہم ترین جزو تصور کر لیا جائے۔ زیادہ اہم چیز تو یہ ہے کہ طلبہ میںجوش ایمانی پیدا کیا جائے، ان کے اسلامی رجحانات کو مضبوط بنایا جائے اور اسلام کی خدمت اور تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا جائے۔ اس قسم کی تعلیم ہماری ذہنیتوں کو بدل دے گی اور من حیث القوم ہم اسلام کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے لگیں گے۔
۴کچھ عرصہ پیش تر مجھے ڈیوک یونی ورسٹی [درہام، شمالی کیرولینا، امریکا] نے ایک مذاکرے کے لیے بلایا تھا، جہاں پر مَیں نے ایک مقالہ اسی عنوان سے پیش کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھا: پاکستان میں آئین ناکام نہیں رہا ہے بلکہ آئین کو چلانے والے ناکام رہے ہیں، ہماری ناکام حکومتیں کردار کی خامی کے سبب سے صحیح نہ چل سکیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ کمی کردار کی تھی، اگر کردار درست ہوتا اور آئین ناقص بھی ہوتا تو ہم کردار کے زور پر اسے کامیاب بنا سکتے تھے۔ لیکن اگر آئین اچھا بھی ہو اور کردار ناقص ہو تو آئین کبھی نہیں چل سکتا، اس لیے کہ ہرآئین اور ہر حکومت کو چلانے والے بہرحال انسان ہوتے ہیں، اگر یہ انسان ایمان داری سے کام لیں اور صحیح طریقے پر کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو نہ پا لیں۔
اگر ان میں ایمان داری کا، حب اسلام اور حب وطن کا سچا جذبہ نہ ہو، اگر وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کریں تو پھر اچھے سے اچھا آئین بھی ناکام ہو کر رہ جائے گا اور ان کی کوئی مدد اور رہنمائی نہ کر سکے گا۔ آخر یہ کردار ہی تو ہے کہ ایک شخص مسجد میں جا کر نماز پڑھتا ہے اور اسی مسجد میں قدم رکھنے والا دوسرا فرد جوتیاں چراتا ہے۔ اب اس میں مسجد بے چاری کا کیا قصور؟ اگر کوئی شخص وہاں جا کر جوتیاں ہی چراتا ہے تو یہ کردار کی خرابی ہے، مسجد کی نہیں، مسجد کا اگر کچھ اثر ہے تو وہ نماز کی ترغیب دینے کی طرف ہے کسی اور سمت نہیں!
اس سوال کے آخری حصے کے سلسلے میں میری گزارش یہ ہے کہ سب سے بنیادی چیز کردار ہے۔ کردار کے بغیر دنیا میں کوئی چیز کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آپ غور کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ اگر لوگوں میں اسلام ہوتا اور ان کے دل میں ایمان کا جذبہ ہوتا اور اگر وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے، تو یہ نا ممکن تھا کہ وہ تمام خرابیاں پیدا ہوتیں جو نہ صرف ہماری سیاست بلکہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں پیدا ہو گئی ہیں۔ ہماری حکومت اصل میں ہماری قوم کے کردار کا آئینہ بھی تھی۔ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں خود غرضی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہم اپنی چھوٹی سے چھوٹی غرض کو پورا کرنے کے لیے بڑے سے بڑے اصول کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بالکل ظاہر ہے کہ اگر ہمارے ہاں پچھلی حکومتیں ناکام رہیں تو وہ اسلام کی وجہ سے یا اسلامی اصولوں کی وجہ سے ناکام نہیں رہیں، بلکہ اس وجہ سے ناکام رہیں کہ انھوں نے اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ رشوت لو، اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ رشوت نہ لو۔ اسلام یہ بتاتا ہے کہ انسان پر سب سے بڑا فریضہ جو عائد ہوتا ہے وہ حقوق العباد ہیں، مگر ہم نے حقوق العباد کو پس پشت ڈالا اور کسی مظلوم غریب کا کام ہم نے بغیر رشوت کے نہیں کیا۔ ہم نے فرائض کو فرائض نہ سمجھا۔ ہمارے دل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا احساس ہی ختم ہوتا چلا گیا۔ جس قوم کے دل سے اللہ کا خوف چلا جائے اور جس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ اس نے تو صرف اسی دنیا کو بنانا ہے___ دنیا بھی ایسی نہیں بنانی جس سے ساری قوم کو یا ملک کو فائدہ پہنچے بلکہ مقصود محض ذاتی منفعت ہو ، ایسی قوم لازماً اپنے آپ کو تباہ کرلیتی ہے۔ وہ لوگ جو اپنی خود غرضیوں ہی کو اصول اور ایمان سمجھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو بھی یقینا تباہ کر لیتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی۔ پھر اس سے بڑی کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ قوم تباہ ہوتی ہے تو ہو جائے اور وہ تو خوش حال رہے گا۔ ایسے خود غرض افراد، ملت کی قبر کھودتے ہیں اور اسلام کو ضعیف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، وہ اسلامی اصول سے بالکل قطع تعلق کر لینے کی وجہ سے، محض اسلام کا نام زبان سے لینے اور اسے عمل کی دنیا میں کسی طرح داخل نہ ہونے دینے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے کون سا طریقہ اور کون سے اقدامات ضروری ہیں، تو انھیں مختصراً بیان کر دیتا ہوں:
ہمیں سب سے بڑی ضرورت عمل کی ہے۔ ہر شعبے میں اور ہر دائرہ زندگی میںمحض زبانی جمع خرچ سے لوگوں پر اثر نہیں ہوتا۔ جب تک کہ وہ اچھا عمل نہ د یکھیں، وہ کسی چیز پر حقیقی اعتماد نہیں کرتے۔ بہترین عمل کی مثال پیش کیے بغیر عوام میں حرکت پیدا نہیں کی جا سکتی۔ آپ دیکھیے کہ اگر عمل کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ، قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں بھیج دیتا اور اس کتاب ہدایت کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوۂ حسنہ بنا کر نہ بھیجتا۔ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہی تھا کہ جس نے لوگوں کو قرآن کی تعلیم کا گرویدہ کیا۔ اپنے متن اور الفاظ میں قرآن کریم اب بھی وہی ہے، لیکن ہمارے دلوں میں وہ اس وجہ سے گھر نہیں کرتا کہ ہم میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہوں، اور جو اچھا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے رہنما، ہمارے تاجر، ہمارے اساتذہ، ہمارے والدین ___ اور وہ تمام افراد جو کسی نہ کسی دائرے میں زندگی کی رہنمائی کر رہے ہیں، اسلامی کردار کا بہترین نمونہ پیش کریں اور اپنے عمل سے قوم کی رہنمائی کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت کے کردار میں ایک انقلاب پیدا کیا جائے، اور اس انقلاب کو پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ اسلام کو محض ایک عقیدے کے طور پر پیش نہ کیا جائے، بلکہ اس پر زور دیا جائے کہ اسلام ایک طریقۂ زندگی ہے جس کے بغیر فلاح ممکن نہیں ہے۔
ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہم نے اس دوران میں اسلامی کردار کو چھوڑا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بالکل تباہی کے کنارے پر پہنچ گئے اور اگر اب ہمیں اس تباہی کے کنارے سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے کردار کو درست کرنا پڑے گا، اور اس کے لیے استاد کو، والدین کو اور ہر شخص کو کمر بستہ ہونا پڑے گا۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھول گئے ہیں، کاش! ہمیں وہ آج یاد آئے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
تم سب راعی (یعنی حاکم، صاحب امر اور منتظم) ہو اور ہر ایک سے اس کی رعیت (یعنی وہ چیز جس پر تم کو اختیار دیا گیا ہے) کی بابت باز پرس ہو گی۔ حکمران راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے حقوق ادا کرنے کی بابت پوچھا جائے گا۔ اور ہر مرد اپنے عیال میں راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت دریافت کیا جائے گا اور ہرعورت اپنے خاوند کے گھر کی منتظمہ ہے اور اس سے اس کے مفوضہ فرائض کی بابت پوچھا جائے گا اور خدمت گار اپنے آقا کے مال و اسباب کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت سوال کیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)
پس، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص امیر [منتظم] ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ۔ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہییں۔ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں کچھ اختیار ہے یا جو دوسروں پر اثر انداز ہو سکتا ہے، جس کے نمونے سے دوسرے لوگوں کے کردار بہتر ہو سکتے ہیں، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے کردار کو درست کرے، یہی اسلام کا راستہ ہے۔
اگر پوری قوم اس طرف توجہ نہیں کرتی تو ہماری حکومت کا فرض ہے کہ صحیح کردار کو اسلام کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کر دے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا فرض ہے کہ اس بنیادی سبق کو ذہن نشین کرا دیں۔ سب سے زیادہ اُن سمجھ دار لوگوں کا فرض ہے کہ جو ان چیزوں کو سمجھتے ہیں۔ یہ فرض کہ وہ اپنے کردار سے اصول کی پابندی کا نمونہ قائم کریں۔ ممکن ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ اصول کی پابندی سے [ مالی] نقصان پہنچتا ہے، لیکن ایسا سوچنا ایک خام خیالی ہے۔ اصول کی پابندی سے نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی پہنچتا ہے۔ بد کرداری سے ذرا سی مدت کے لیے تھوڑا سا فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن آخر میں اس کا نتیجہ نقصان ہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصول ہماری رہنمائی کے لیے پیش کیے ہیں، انھی میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے:
اللہ تعالیٰ کوئی ایسا جابر بادشاہ نہیں ہے جو محض اپنے کو خوش کرنے کے لیے دوسروں سے اطاعت چاہتا ہے، وہ اطاعت اس لیے چاہتا ہے کہ اس کی اطاعت ہی میں لوگوں کا بھلا ہے۔ اس کی اطاعت میں افراد کا بھی بھلا ہے اور اس کی اطاعت میں قوموں کا بھی بھلا ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)
اگر اس نقطۂ نظر کو ہم لوگوں کے سامنے پیش کریں، پورے استدلال سے پیش کریں، جوش و خروش سے پیش کریں، نرمی سے پیش کریں، غرض اُس طرح جس طرح سے پیش کرنا ممکن ہے تو کچھ عرصے میں ہماری حالت ان شاء اللہ درست ہو جائے گی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی دین بغیر تبلیغ کے قائم نہیں رہ سکتا۔ دین اسلام تو مسلسل تبلیغ ہی کا نام ہے۔ یہ تبلیغ صحیح ہونی چاہیے۔ بچپن ہی سے مسلمان بچوں کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جانا چاہیے، خواہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے یا اس کے باہر، چھوٹے دائرے میں کام کرے یا پوری انسانیت کے سامنے، اسی طرح ان لوگوں او رمعاشروں میں اسلام زندہ رہ سکتا ہے اور ملت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی روح اور اسلام کی تعلیمات ایسی چیزیں ہیں جو ہر زمانے اور ہر دور کے مسائل پر قابو پا سکتی ہیں، بشرطیکہ ان پر صحیح طریقے سے عمل ہو۔ ایک زمانہ ایسا تھا، جب انسانی زندگی میں اتنی پیچیدگی نہیں تھی جتنی موجودہ زمانے میں ہے۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ نے بجا طور پر یہ فرمایا ہے:
جتنا زمانہ گزرتا جاتا ہے معاشرت میں اتنی ہی پیچیدگی پیدا ہوتی جاتی ہے، اور جتنی معاشرت پیچیدہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر معاملات کو سلجھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔(ایضاً)
آج کی دنیا میں حکومت اور ریاست کا دائرہ عمل وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کا حلقۂ اقتدار اور اس کے ذرائع و وسائل بھی وسیع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے وسائل کا اسلامی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہونا بے حد ضروری ہے۔ جب تک ریاست کا دائرہ عمل مختصر تھا اور انسان کی زندگی پر اس کا اثر کم پڑتا تھا، اس صورت میں اگر ریاست گمراہ بھی ہوتی اور اس میں ضلالت بھی ہوتی تو اس کے باوجود لوگوں کی زندگی پر گہرا اثر نہیں پڑتا تھا۔ چھوٹی بستیاں اپنی زندگی کے پرانے طریقے پر قائم رہتی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں انگریز کی حکومت آئی اور چلی گئی۔ اس کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان بھی پہنچا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی کتنی ایسی چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں جن کی دینی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا، اور وہ اپنی زندگی ویسے ہی گزارتی رہیں، جیسے پہلے گزارتی تھیں۔ مگر آج یہ بات ناممکن ہے۔ اس لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ ریاست کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں میں اسلام کو دخل ہو۔
عقلی بنیاد پر بھی اگر آپ غور کریں تو یہ حقیقت صاف ظاہر ہے کہ حکومت کا لائحہ عمل اور دائرۂ کار جتنا بڑھتا جاتا ہے، اتنا ہی یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اخلاقی قدریں حکومت کے پیش نظر رہیں، ورنہ حکومت کا وسیع تر اختیار ظلم و استبداد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح اخلاقی اقدار اور نظریات وہی ہیں جو اسلام نے پیش کیے ہیں۔
اس کے ساتھ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اسلام کے دو پہلو ہیں: ایک انفرادی، دوسرا اجتماعی۔ جہاں تک انفرادی پہلو کا سوال ہے، اس کا تعلق میری اپنی ذات یا میرے اللہ سے ہے اور اس میں کسی دوسرے شخص کا کوئی دخل نہیں۔ لیکن دوسرا پہلو وہ ہے جو میرے ان تعلقات پر حاوی ہے جو میرے اور دوسرے مسلمانوں کے، تمام انسانوں کے، زندگی کی تمام وسعتوں کے درمیان قائم ہیں۔ ان تمام تعلقات کو درست کرنا اسلام کا اولین مشن ہے۔ اسلام محض بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کا نام نہیں ہے۔ وہ ایک اجتماعی نظریہ بھی ہے، بلکہ اس کا اصل کام ہی خاص دائرے میں ہے۔ اسی لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَارَھَبا نِیَّۃَ فَیْ اِلْاِسَلَامِ ’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے‘‘۔ اسی وجہ سے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہم ان تعلقات کو جو ہمارے اور دوسرے افراد کے درمیان ہیں، نظر انداز کر دیں۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم ان تعلقات کو صحیح بنیادوں پر استوار کریں، اور اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارے کار فرما اصول وہی ہو سکتے ہیں جو اسلام نے مقرر کیے ہیں۔
یاد رکھیے کہ اسلام کے اصولوں میں بہت گنجایش ہے اور وسعت بھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ معاشی تعلقات کے لیے جو نظریات کچھ عرصہ قبل قائم ہوئے تھے، ان میں کسی توسیع کی یا تبدیلی کی ضرورت یا گنجایش نہیں ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اسلام کو موجودہ دور کے حالات کے مطابق سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب کی ضرورت ہے، لیکن اس کام کے لیے سچے ایمان اور صحیح فہم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو ہماری روایات ہیں، اُنھیں ہم ناکارہ سمجھ کر اور بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ ان میں کیا خوبی ہے، پس پشت نہ ڈال دیں۔ اس لیے کہ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو گی کہ تیرہ سو سال کی جو پونجی ہمارے پاس موجود ہے اسے ہم بغیر سوچے سمجھے پھینک دیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمیں اس کے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بعض جگہ اس پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تمام کام ایمان داری، اخلاص اور فہم کے ساتھ ہو سکتے ہیں، اندھی نقالی کے ساتھ نہیں۔
۱ پاکستان کو اپنی بقا اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اہمیت اور ضرورت اس لیے ہے کہ اس ملک میں مختلف قومیں آباد ہیں، جو مختلف زبانیں بولتی ہیں اور جو جغرافیائی طور پر ایک دوسری کے متصل نہیں۔ اُن میں اگر کوئی جذبہ مشترک ہے تو فقط اسلامی جذبہ ہے۔ اگر اس جذبے کو مٹا دیا جائے تو پاکستان بھی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔
۲ اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے کی راہ میں جو قوتیں مزاحمت کر رہی ہیں، اُن میں سب سے بڑی قوت ’خوف‘ ہے۔ ہم بحیثیت مجموعی ایک ’خوف زدہ‘ قوم ہیں۔
۳ گذشتہ برسوں میں پاکستان اسلامی نظریے سے قریب نہیں بلکہ دور ہٹا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منافقت ہماری قومی خصوصیت بن چکی ہے۔
پاکستان کے دستور اس لحاظ سے ناکام رہے کہ یہ بد قسمت قوم صحیح رہنما پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس قوم میں صحیح رہنما خال خال پیدا ہوتے ہیں۔ اس دوران میں جو سیاسی رہنما ملکی سیاست کے میدان میں آئے ہیں، اُن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو قوم کی قیادت کے اہل نہ تھے، جن کا کوئی اصول نہ تھا، جو محض ذاتی طاقت کے حصول کے درپے تھے، جن کا قوم سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا، جو قوم کی ضرورت کو نہ سمجھتے تھے اور جو منافق تھے۔ اگر کسی قوم کا دستور ’منافقت‘ کے اصولوں پر قائم کیا جائے تو وہ دیر پا ثابت نہیں ہو سکتا۔
۴ اسلامی نظریے کو عملاً بروئے کار لانے کے لیے ذہنیتوں میں انقلاب کی ضرورت ہے۔ اگر مستقبل قریب میں ایسا انقلاب وجود میں آ جائے تو اس ملک کی سیاسی اور تمدنی زندگی کی ارتقا کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور اگر نہیں تو ہمارا مستقبل تاریک ہے۔
عقیدۂ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے، جو اِس دُنیا میں انسان کو راہِ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہوسکتی ہو۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مرکر دوبارہ اُٹھنا ہے، اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ لازماً گمراہ و بدراہ ہوکر رہے گا، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساسِ ذمہ داری پیدا ہی نہ ہوسکے گا جو آدمی کو راہِ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے۔
اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے۔ اُس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پرراضی نہ ہوگا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دُنیا کی اِس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کردے۔
بخلاف اس کے جو شخص شیطان کےدام میں آکر آخرت کا منکر ہوجائے، یا کم از کم اُس کی طرف سے شک میں پڑجائے، اُسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ جو نقد سودا اِس دُنیا میں ہورہا ہے، اُس سے صرف اس لیے ہاتھ اُٹھا لے کہ اُس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
دُنیا میں جو شخص بھی کبھی گمراہ ہوا ہے اسی انکارِ آخرت یا شک فی الآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرزِعمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے۔(تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۵، اگست ۱۹۶۲ء، ص ۲۸)
سوال : کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں، جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کرکے ترقی نہیں کرسکتا، غیر ممالک سے مطلق اقتصادی، فوجی،فنی امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قراردے گی؟ پھر مادّی، صنعتی، زرعی اور سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص مسلم ممالک یا اس ایٹمی دور میں Have اور Have Not کے درمیان حائل ہے، کس طرح پُر ہوسکے گی؟ نیز کیا اندرونِ ملک تمام بنکنگ و انشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع اور گڈوِل (Good Will) اور خریدوفروخت میں دلالی و کمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟
جواب : اسلامی حکومت نے کسی دور میں بھی غیرمسلم ممالک سے قطع تعلق کی پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ آج کرے گی۔ لیکن قرض کے معنی قرض مانگتے پھرنے کے نہیں ہیں اور وہ بھی اُن کی شرائط پر۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ یہ تعلق، اِس زمانے کے کم ہمت لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر کسی ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ مادّی ترقی سے پہلے اپنی قوم کی اخلاقی حالت سُدھارنے کی کوشش کرے گی۔
اخلاقی حالت سُدھرنے کےمعنی یہ ہیں کہ قوم کے حکمران اور اس کی انتظامی مشینری کے کارپرداز اور قوم کے افراد ایمان دار ہوں۔اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو ملحوظ رکھنے اور سمجھنے والے ہوں۔ اور سب کے سامنے ایک بلند نصب العین ہو، جس کے لیے جان و مال اور وقت اور محنتیں اور قابلیتیں سب کچھ قربان کرنے کے لیے وہ تیار ہوں۔ نیز یہ کہ حکمرانوں کو قوم پر اور قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ہو، اور قوم ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ درحقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔
یہ صورتِ حال اگر پیدا ہوجائے تو ایک قوم کو باہر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آسکتی۔ ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے، وہ سو فی صدی وصول ہوں گے اور سو فی صدی ہی وہ قوم کی ترقی پر صرف ہوں گے۔ نہ ان کی وصول یابی میں بے ایمانی ہوگی اور نہ ان کے خرچ میں ہی بے ایمانی ہوگی۔ اس پر بھی اگر قرض کی ضرورت پیش آئے تو قوم خود سرمایے کا ایک بڑا حصہ رضاکارانہ چندے کی صورت میں، اور ایک اچھا خاصا حصہ غیرسودی قرض کی صورت میں، اور ایک حصہ منافعے میں شرکت کے اصول پر فراہم کرنے کو تیار ہوجائے گی۔
میرا اندازہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے، تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کے بجائے دوسروں کو قرض دینے کے لیے تیار ہوجائے گا۔
بالفرض اگر ہمیں بیرونی قوموں سے سود پر قرض لینے کی ناگزیر صورت پیش آہی جائے، یعنی ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا بھی لازم ہو اور اس کے لیے ملک میں سرمایہ بھی نہ مل سکے، تو مجبوراً دوسروں سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر سودی لین دین جاری رکھنے کا پھر بھی کوئی جواز نہیں۔ ملک میں سود بند کیاجاسکتا ہے اور پورا مالی نظام (Financial System) سود کے بغیر چلایا جاسکتا ہے۔ میں اپنی کتاب سود میں یہ ثابت کرچکا ہوں کہ بنکنگ کا نظام سود کے بجائے منافع میں شرکت (Profit Sharing) کے اصول پر چلایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح انشورنس کے نظام میں ایسی ترمیمات کی جاسکتی ہیں، جن سے انشورنس کے سارے فوائد غیر اسلامی طریقے اختیار کیے بغیر حاصل ہوسکیں۔ دلالی، منافع، پگڑی، کمیشن یا گڈوِل (Good Will) وغیرہ کی علیحدہ علیحدہ شرعی پوزیشن ہے۔ جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا تو اس کا جائزہ لے کر یا تو سابق پوزیشن بحال رکھی جائے گی یا پھر ضروری اصلاحات کی جائیں گی۔ یہ کام لامحالہ ماہرینِ شریعت اور ماہرینِ مالیات کو مل جل کر کرنا ہوگا۔(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۶۱ء)
جو دولت جائز حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی ہو، اس کے بارے میں یہ سوال اُٹھانے کا مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ مِن این لک ھٰذا (یہ تجھے کہاں سے ملا؟)۔ اس دولت کے بارے میں قانونی تحقیق ہونی چاہیے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ وہ جائز ذرائع سے حاصل نہیں ہوئی ہے، تو اسے ضبط کرنے کا اسلامی حکومت کو پورا حق پہنچتا ہے۔
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے، بلکہ اس پر کچھ قانونی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، تاکہ کوئی فرد اپنی ملکیت میں کسی ایسے طریقے پر تصرف نہ کرسکے، جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، یا جس میں خود اُس فرد کے دین و اخلاق کا نقصان ہو۔
اسلام میں کوئی شخص اپنی دولت کو فسق و فجور میں صرف نہیں کرسکتا۔ شراب نوشی اور قماربازی اور زنا کا دروازہ بھی اس کے لیے بند ہے۔ اِسراف اور حد سے زیادہ ترفّہ اور تنعُّم پر بھی وہ حدود عائد کرتا ہے۔ اور وہ اسے بھی جائز نہیں رکھتا کہ تم خود عیش کرو اور تمھارا ہمسایہ رات کو بھوکا سوئے۔ اسلام صرف مشروع اور معروف طریقے پر ہی دولت سے متمتع ہونے کا آدمی کو حق دیتا ہے۔ اور اگر ضرورت سے زائد دولت کو مزید دولت کمانے کے لیے کوئی شخص استعمال کرنا چاہے تو وہ کسب ِ مال کے صرف حلال طریقے ہی اختیار کرسکتا ہے۔
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اُس فرد پر، جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے۔ نیز وہ اموالِ تجارت پر، زمین کی پیداوار پر، مواشی پر، اور بعض دوسرے اموال پر بھی، ایک خاص شرح سے زکوٰۃ مقرر کرتا ہے۔
اس کے بعد جو دولت کسی ایک فرد کے پاس مرتکز ہوگئی ہو، اسلام اس کے مرتے ہی اس دولت کو وراثت میں تقسیم کردیتا ہے، تاکہ یہ ارتکاز ایک دائمی اور مستقل ارتکاز بن کر نہ رہ جائے۔ (’اسلام اور عدل اجتماعی‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۴، جولائی ۱۹۶۲ء، ص ۴۵-۴۶)
سوال: کیا’عائلی قوانین‘ کے نفاذ کے بعد کوئی شخص اگر شریعت کے مطابق کسی قسم کی طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی؟ متذکرہ قوانین کی رُوسے تو طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کچھ خاص شرائط عائد کردی گئی ہیں؟
جواب: کسی حکومت کے قوانین سے نہ تو شریعت میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے، اور نہ وہ شریعت کے قائم مقام بن سکتے ہیں۔ اس لیے جو طلاق شرعی قواعد کی رُو سے دے دی ہو، وہ عنداللہ اور عندالمسلمین نافذ ہوجائے گی، خواہ ان [حکومتی] قوانین کی رُو سے وہ نافذ نہ ہو۔ اور جو طلاق شرعاً قابلِ نفاذ نہیں ہے، وہ ہرگز نافذ نہ ہوگی، خواہ یہ [عائلی] قوانین اس کو نافذ کریں۔
اب مسلمانوں کو خود سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے نکاح و طلاق کے معاملات، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق کرنا چاہتے ہیں یا ان عائلی قوانین کے مطابق؟ (’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۲، مئی ۱۹۶۲ء، ص ۵۹)