سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


دنیا کا نظام جن الٰہی قوانین پر قائم ہے، ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اشیا کو اُن کے کمالات کی طرف ترقی دینے میں، جس طرح مبداء فیاض کی طرف سے علی قدرِ مراتب، جودوبخشش کا فیضان ہوتا ہے، اُسی طرح خود اشیا کو بھی کمال کے ہر نئے مرتبے میں اپنے پچھلے مرتبے کے لوازم اور مالوفات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور اس قربانی کے بغیر تحصیلِ کمالات کے سفر میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔

بخار [بخارات] کو پانی بننے کے لیے اپنی آزادی اورہوائیت کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور وہ تقیّدات قبول کرنا ہوتے ہیں، جو مائیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پانی کو برف بننے کے لیے پھر اپنی رہی سہی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اپنے بہت سے آبی خواص کی قربانی دینی ہوتی ہے، تب جاکر اُسے پتھر کی سی سختی اور شیشے کی سی صفائی اور چمک میسر ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بخار کے لیے حالت ِبخار میں رہتے ہوئے اور ہوا کی سی آزادی و لطافت رکھتے ہوئے وہ کمالات بھی جمع ہوجائیں جو صورتِ مائیّہ کے ساتھ مخصوص ہیں، اور وہ کمالات بھی جو برف کے لیے مقدر کیے گئے ہیں۔

یہ سنتُ اللہ ہے جس میں کوئی استثنا اور تغیر و تبدل نہیں، وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۲۳ (الفتح  ۴۸:۲۳)۔تمام مخلوقاتِ عالم پر یہی قانون جاری ہے، اور سب کی طرح انسان بھی اسی کے زیراثر ہے۔ نطفہ اپنی صورتِ نطفیہ کو قربان کر کے صورتِ انسانیہ حاصل کرتا ہے، بچہ اپنے بچپن کو قربان کر کے جوانی حاصل کرتا ہے، اور جوان اپنی جوانی کھو کر بڑھاپے کی بزرگی حاصل کرتا ہے۔ پھر زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ترقی کرنے اور اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ قربانیاں نہ دینی پڑتی ہوں۔

بڑائی اور بزرگی کا دامن ہر میدان میں قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک بڑے فائدے کے لیے بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں، ایک بڑی لذت کے لیے بہت سی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں، ایک اعلیٰ مرتبے کے لیے بہت سے اُن مزوں کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے جو ادنیٰ مراتب میں حاصل تھے۔ جس علامہ کی جلالتِ علمی پر آپ رشک کرتے ہیں، اُس سے پوچھیے کہ اس نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں اور کتنا خونِ جگر تحقیق و اکتشاف کی راہ میں کھپایا ہے؟ جس مَلِکُ التُّجَّار کی دولت کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھرا آتا ہے، اس سے پوچھیے کہ روپیہ کمانے کی جدوجہد میں کس طرح اس نے دن کے آرام اور رات کے چین کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے؟ جس مدبّرِسلطنت کے اقتدار اور شان و شوکت کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اس سے پوچھیے کہ اسے کتنی کش مکش، کتنی پریشانیوں، کتنی ٹھوکروں، اور کتنی روحانی و جسمانی اذیتوں کے بعد اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے؟

غرض زندگی کا کوئی میدان لے لیجیے، ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ کمال اور ترقی کا ہیولیٰ لذتوں کے خون سے تیار ہوتا ہے اور کمال کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں، ان کے لیے قربانیاں بھی اتنی ہی زیادہ درکار ہوتی ہیں۔

نفس کی قربانی

دنیوی کمالات سب کے سب جزئی کمالات ہیں، اس لیے وہ قربانیاں بھی صرف جزئی چاہتے ہیں۔ دنیوی کمالات جتنے ہیں سب مادّی ہیں یا ان میں مادّے کی آمیزش ہے، اس لیے وہ قربانیاں بھی ایسی ہی چاہتے ہیں جو مادّی قسم کی ہوں یا مادّے سے لگائو رکھتی ہوں۔ دنیوی کمالات کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس کے لیے فوائد کا حصول ہوتا ہے، لہٰذا ان کے لیے صرف وہ چیزیں قربان کی جاتی ہیں جو نفس اور اس کے محبوبات و مطلوبات سے ماسوا ہیں۔ مگر کمالِ حقیقی کا معاملہ  سب سے جداگانہ ہے۔ یہ کلّی کمال ہے، قربانی بھی کلّی چاہتا ہے۔ مادّے سے مجرد و منزہ ہے، اس لیے جسم کی نہیں نفس و روح کی قربانی چاہتا ہے۔ گو ظاہری شکل کے اعتبار سے اس کے لیے بھی بہت سی ایسی قربانیاں دیناپڑتی ہیں جو مادّی قسم کی ہیں، یا مادّے سے لگائو رکھتی ہیں، لیکن دراصل وہ مادّے کی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان محبتوں، ان دل چسپیوں، ان لذتوں اور ان علائق کی قربانیاں ہیں جو انسانی روح اس دنیا کی مادّی اشیا کے ساتھ رکھتی ہو۔ اس کمال کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس نہیں، بلکہ حق ہے، اس لیے وہ خود نفس کی قربانی چاہتا ہے، اور بشرطِ ضرورت نفس کے ساتھ ہر وہ شے اس کے لیے قربان کرنی پڑتی ہے جو نفس کو مرغوب ہو۔

یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۥۭ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲)، یعنی تم نیکی کے مقامِ رفیع تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ چیزیں نہ خرچ کرو جنھیںتم عزیز و محبوب رکھتے ہو۔ یہ مِمَّا تُحِبُّوْنَ  کا لفظ اتنی وسعت رکھتا ہے کہ جان، مال، اولاد، رشتہ دار،دوست،وطن، قوم،عزت، شہرت، ہردلعزیزی، لذت و مسرت، عیش و آرام، عقائد و افکار، حریتِ خیال و آزادیِ عمل، غرض ہر محبوب شے اس میں داخل ہے، اور ان سب چیزوں کو مِمَّا تُحِبُّوْنَ کے دائرے میں لے کر حکم لگایا گیا ہے کہ اگر تم ’نیکی‘ کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمھیں حق کی خاطر ان میں سے ہر چیز قربان کرنا پڑے گی۔

حق سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ تم اس سے محبت رکھو، وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط(البقرہ۲:۱۶۵)۔جو چیز تمھارے دل میں اتنا گھر کر لے گی کہ اس کی محبت، حق کی محبت سے بڑھ جائے اور حق کے مقابلے میں تم اس کو عزیز رکھنے لگو،وہی بت ہے، صنم ہے، بنائے شرک و کفر ہے، نیکی کے مقام تک پہنچنے میں وہی سنگِ راہ ہے۔ اس کمال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلی ضرب اِسی بت پر لگائو اور اسے پاش پاش کر کے حق کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کر دو۔

غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں اوّل سے لے کرآخر تک جو کچھ ہے قربانی ہی قربانی ہے۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے، انسان کو آزادیِ فکروآزادیِ عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ’اسلام، لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب آپ اس کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ جو عقیدہ چاہیں اختیار کریں اور جو راہِ عمل پسند کریں اس پر چلنے لگیں، بلکہ آپ کا کام وہ اعتقاد رکھنا ہے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے، اور ان احکام و قوانین کے مطابق چلنا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے مقرر کر دیے ہیں:

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۝۰ۭ (الاعراف ۷:۳)جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری جانب اُتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر ان کی پیروی نہ کرو جن کو تم نے دوست بنا لیا ہے۔

یہ ’اسلام‘ ،یا ’نیکی‘ کے راستے میں پہلا قدم ہے، اور اسی پر اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کہ اچھے اچھے اِسی مقام پر ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں حلال اور حرام کے حدود ہیں، خبیث اور طیب کے امتیازات ہیں، فرائض و طاعات ہیں، حقوق و واجبات ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے۔ داعیاتِ نفس قدم قدم پر انسان کو اِثم وعُدوان کی طرف کھینچتے ہیں، مگر اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ حدود اللہ پر نفس کی ساری خواہشوں کو بھینٹ چڑھائو، لذتوں کا خون کرو، فائدوں کو قربان کر دو۔ یہ تقویٰ اور پاکیزگی کی راہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس پر ایک قدم بھی انسان اپنے جذبات و داعیات، اپنے لطف اور اپنے فوائد کی قربانی دیے بغیر نہیں چل سکتا۔ فضل و احسان کا مقام تو بہت بلند ہے، فرائض و واجبات کے ٹھیک ٹھیک بجا لانے میں حقوق کو پوری طرح ادا کرنے، اور گناہ کے راستوں سے بچ نکلنے ہی میں نفس پر کچھ کم جبر نہیں کرنا پڑتا۔

اسلام __ حق پر فدا ہوجانے کا نام !

جیساکہ عرض کیا گیا، یہ تو صرف پہلا ہی قدم ہے، یہ پورا اسلام نہیں ہے،بلکہ اسے محض اسلام میں داخلے کا امتحان سمجھیے۔ اسلام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، بشرطِ استطاعت حج اور زکوٰۃ ادا کریں، معاصی سے محترز رہیں اور حقوق ادا کرتے رہیں، بلکہ اسلام کی اصلی روح   یہ ہے کہ آپ حق کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز رکھیں اور جب موقع آئے تو کسی چیز کو بھی حق پر فدا کر دینے میں دریغ نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ ایک طرف حق ہو اور اس کے ساتھ جان و مال کا زیاں ہو، مصیبتیں اور تکلیفیں ہوں، رسوائیاں اور ٹھوکریں ہوں، اور دوسری طرف باطل ہو، اور اس کے ساتھ عیش و آرام ہو، لطف و مسرت ہو، اور ہر طرح کے فائدے ہوں، تو مسلمان وہی ہے جو حق کے پہلو کو اختیار کرے، اور اس کی خاطر ان سب مصائب کو بخوشی برداشت کرلے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۶) ہم ضرور تم کو کچھ خوف اور بھوک اور جان و مال اور ثمرات کے زیاں سے آزمائیں گے، اور (اے نبیؐ) تو ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے جن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔

اگر کسی وقت خود اپنے باپ، بھائی، اہلِ خاندان اور دوست، حق کے دشمن ہوجائیں تو مسلمان وہی ہے جو حق کے لیے ان سب کو چھوڑ دے اور کسی سے تعلق نہ رکھے:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۲) تُو کوئی قوم ایسی نہ پائے گا جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے محبت بھی رکھے، چاہے وہ دشمنانِ خدا و رسولؐ ان کے باپ یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔

اگر کسی وقت قوم اور وطن کی حق سے دشمنی ہوجائے تو مسلمان وہی ہے جو حق کی خاطر قوم سے قطع تعلق کرلے اور وطن کو خیرباد کہہ دے، ورنہ اس کو منافق کہا جائے گا خواہ وہ کیسا ہی نمازی و پرہیزگار ہو:

فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۝۰ۭ (النساء۴:۸۹) تم ان کو ہرگز دوست نہ بنانا جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔

اگر کسی وقت دشمنانِ اسلام کے خلاف جنگ کی ضرورت پیش آجائے تو مسلمان وہی ہے جو سر ہتھیلی پر لے کر مرنے اور مارنے کے لیے نکل آئے، اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے میں  ذرا دریغ نہ کرے۔ جس نے اس موقعے پر کوتاہی کی، اس کا دعویٰ ٔ اسلام جھوٹا ہے خواہ کتنا ہی بڑا    عابد و زاہد کیوں نہ ہو:

وَمَآ اَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِـاِذْنِ اللہِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۶۶ۙ وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ نَافَقُوْا ۝۰ۚۖ (اٰل عمرٰن۳:۱۶۶-۱۶۷)جس روز دونوں جماعتوں کی مُڈبھیڑ ہوئی، اس دن تم پر جو مصیبت آئی وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے تھی کہ مومنوں اور منافقوں کا فرق معلوم ہوجائے۔

غرض اسلام کچھ نہیں ہے مگر حق پر فدا ہوجانے اور ہر عزیز سے عزیز شے فدا کردینے کا ایک عاشقانہ جذبہ۔ جس شخص میں یہ جذبہ موجود نہ ہو، جو شخص حق کے مقابلے میں جان یا مال، یا اولاد، یا ملک و قوم، یا کسی اور دنیوی چیز کو عزیز رکھتا ہو، اس کا اسلام ادھ موا بلکہ بے جان ہے۔

انبیا ؑ و صالحین کی قربانی

قرآن مجید میں طرح طرح سے اس سچی اسلامی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اسی غرض کے لیے پچھلی اُمتوں کے انبیا ؑ اور صالحین کے فداکارانہ واقعات کو مؤثر پیرائے میں دُہرایا گیا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے ہیں، سالہا سال بلکہ قرنہا قرن تک شدید مصائب برداشت کرتے ہیں اور جب وہ نہیں مانتی تو خدا سے عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ان کافروں میں سے ایک کو بھی جیتا نہ چھوڑ، رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا۝۲۶ (نوح ۷۱:۲۶)۔ ان کی آنکھوں کے سامنے بیٹا غرق ہوتا ہے، بیوی ہلاک ہوتی ہے، مگر ایمان میں ذرا فرق نہیں آتا۔

حضرت لوط علیہ السلام اپنی بدکار قوم کو چھوڑ کر ہجرت اختیار کرتے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور قیدوذلت کی دھمکی دی جاتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے گناہ کے مقابلے میں قید زیادہ محبوب ہے، رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِـمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ  اِلَیْہِ ج (یوسف ۱۲:۳۳)۔

فرعون کے ساحر حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد بے تکلف اعلان کردیتے  ہیں کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۲۱ۙ رَبِّ مُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۱۲۲ (الاعراف۷:۱۲۱-۱۲۲) ’’ہم پروردگارِ عالم پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا خدا ہے‘‘۔ فرعون ان کو سخت عذاب دے کر ہلاک کر دینے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۝۰ۭ اِنَّمَا تَقْضِيْ ہٰذِہِ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۷۲ۭ   (طٰہٰ۲۰:۷۲) ’’تجھے جو کچھ کرنا ہے کر گزر۔ تیرا حکم تو بس اسی دنیا کی زندگی پر چل سکتا ہے‘‘۔

اصحابِ کہف اپنی قوم کے مذہب سے علانیہ تبریٰ کرتے ہیں کہ ہم خداوند ارض و سما کو چھوڑ کر کسی کی عبادت نہ کریں گے، رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا (الکہف ۱۸:۱۴)۔اورجب قوم کے راستے سے ان کا راستہ الگ ہوجاتا ہے تو گھر بار، عزیز و اقارب سب کو چھوڑ کر ایک غار میں جابیٹھتے ہیں۔

امامِ انسانیت حضرت ابراہیم ؑ کا اسوہ

ان سب سے بڑھ کر حضرت ابراہیم ؑکی فداکاریاں تھیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسوئہ حسنہ فرمایا ہے۔ انھوں نے حق کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتا ہے۔ باپ دادا کے مذہب کو چھوڑا اور صاف اعلان کیا کہ تمھارے معبودوں سے مجھے کچھ سروکار نہیں، اِنَّنِيْ بَرَاۗءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ۝۲۶ (الزخرف۴۳:۲۶)۔ قوم اور سلطنت اور خود اپنے باپ سے دشمنی مول لی۔ ان کے بتوں کو توڑا، قوم نے ان کو آگ کا عذاب دینا چاہا تو انھوں نے آگ کے گڑھے میں گرنا قبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ پھر اپنے باپ،اپنے خاندان اور اپنی قوم سب کو چھوڑ کر وطن سے تن بہ تقدیر نکل کھڑے ہوئے اور سب سے کہہ دیا کہ ہمارا اب تم سے کچھ  تعلق نہیں ، ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی ہوگئی، تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لائو، كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ۶۰:۴)۔

یہ سب محبتیں قربان کر دینے کے بعد ایک محبت باقی رہ گئی تھی جو حق کی محبت کے پہلو بہ پہلو دل میں جاگزیں تھی۔ حکم ہوا کہ اس بت کو بھی توڑو۔ خواب میں دکھایا گیا کہ اپنے ہاتھوں اپنے عزیز بیٹے کو جو بڑھاپے کی لکڑی تھا، ذبح کر رہے ہیں۔ حضرتِ حق آزمانا چاہتے تھے کہ یہ دوستی کا مدعی اولاد کی محبت کو بھی ہماری محبت پر قربان کرتا ہے یا نہیں، مگر وہ سچا مسلمان اس آزمایش میں بھی پورا اُترا۔ اس کا دعویٰ ٔعشق سچا تھا۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا، بیداری میں بھی کردکھانے پر آمادہ ہوگیا۔

اس طرح جب حق کی محبت پر ساری محبتیں قربان ہوگئیں، تب بارگاہِ خداوندی سے اپنے اس بندے کو ایمان کی سند دی گئی، اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۱۱(الصّٰفّٰت ۳۷:۱۱۱)، اور اسے نوع بشری کا امام بنایا گیا، اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۴)۔اور تمام عالم کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمھارے لیے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے،  قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ  فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ  وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ (الممتحنہ۶۰:۴)۔

عیدالاضحی کا تہوار اسی روح کو سال بہ سال تازہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کی ظاہری شکل، جانور پر چھری چلانا، اس کا خون بہانا فی نفسہٖ مقصود نہیں ہے، بلکہ ان ظاہری اعمال سے دراصل اُس سب سے بڑی قربانی کی یاد تازہ کرنا مقصود ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے  محبوبِ حقیقی کے لیے دی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ فعل عبث ہے، ایک جانور کو ذبح کر دینے سے کیا فائدہ؟ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ مہذب قومیں جو بڑے بڑے آدمیوں کے مجسمے نصب کرتی ہیں اور ان کی برسیاں مناتی ہیں، ان سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہی نا کہ ان ظاہری علامتوں سے ان کے کارناموں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی تقلید کا جذبہ دلوں میں زندہ ہوتا ہے۔

 بس یہی فائدہ اس قربانی کا بھی ہے۔ خدا کو جانور کا گوشت پوست اور اس کا خون نہیں پہنچتا، بلکہ وہ ایثار و فدویت کی روح اس کو عزیز ہے جو اس کے پاک بندے ابراہیم ؑکے رگ و پے میں جاری و ساری تھی، اور وہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان میں یہی روح پیدا ہو، ہر مسلمان اسی طرح اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے:

لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۝۰ۭ (الحج ۲۲:۳۷)اللہ کو ان کے گوشت اور ان کے خون نہیں پہنچتے بلکہ اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔(ترجمان القرآن، فروری ۱۹۳۴ء)

سوال: کیا حج کے موقع پر پردہ ضروری نہیں ہے؟

جواب: دراصل احرام کی حالت میں چہرے کو اس طرح نہیں ڈھانپنا چاہیے کہ کپڑا جِلد کو چھوتا رہے۔ بہت سی خواتین نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ وہ چہرے کے آگے پنکھا رکھ لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جاتا ہے۔ بعض گھونگھٹ اس طرح نکال لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جائے اور کپڑا منہ سے نہ لگے۔ خود اَزواجِ مطہراتؓ جب حج کو جاتی تھیں، تو جہاں مرد نہیں ہوتے تھے وہ چہرہ کھول دیتی تھیں، جہاں مرد ہوتے وہاں چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ مزیدبرآں بعض موقعے ایسے بھی ہوتے ہیں جب یہ اہتمام نہیں کیا جاتا، مثلاً طواف کے دوران اگر منہ کھلا رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ وہاں مہلت نہیں ملتی کہ لوگ عورتوں کو دیکھتے رہیں۔

سوال: کیا شرعاً اس دلیل میں وزن ہے کہ دونوں جنسوں(Genders) کے مل کر پڑھنے سے مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور معیارِ تعلیم بلند ہوتا ہے؟

جواب: مخلوط تعلیم سے دونوں جنسوں میں تعلیمی مسابقت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ غیرتعلیمی اور غیراخلاقی موانست و ملامست کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جوعلم و اخلاق کے لیے سمِ قاتل ہے۔

سوال: چونکہ مسلم خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے، تو کیا اس سے مخلوط جدوجہد کا جواز ثابت نہیں ہوتا ہے؟ اس لیے کیا تعلیم بالخصوص فنی تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم دی جاسکتی ہے؟

جواب: یہ بات غلط ہے کہ مسلمان خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے۔ کچھ عورتیں بعض اوقات ساتھ ہوجاتی تھیں اور اپنے محرم مردوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری کرتی تھیں۔ ان میں سے بعض نے ناگزیر حالات میں حرب و ضرب میں بھی حصہ لیا ہے، مگر یہ سب استثنائی صورتیں ہیں اور حالاتِ جنگ پر، عام شہری زندگی کے دوران میں تعلیمی مشاغل کو قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔(تصریحات)

اجتماعی زندگی میں ایک درجہ ان خرابیوں کا ہے جن کے لیے موزوں ترین نام ’مزاج کی بے اعتدالی‘ ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک ’معصوم نوعیت‘ کی کمزوری ہے، کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی بُرے جذبے ، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بسااوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں، جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔

مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظروفکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے، اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اوربہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دُنیا میںا نسان رہتا ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہرایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے، اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے، اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس زندگی میں کام کرنے کے لیے فکرونظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے، جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔

حالات کے ہرپہلو پر نگاہ رکھی جائے، معاملات کے ہررُخ کو دیکھا جائے، ضرورت کے ہرگوشے کو اس کا حق دیا جائے، فطرت کے ہرتقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کے لیے بہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا اتنا ہی مفید ہوگا، اور جس قدر وہ اس سے دُور ہوگا، اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے گا۔ دُنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رُونما ہوا ہے اور آج رُونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیرمتوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو یک رُخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوششیں کیں، ان کو حل کرنے کے لیے غیرمتوازن اسکیمیں بنائیں، اور ان کو نافذ کرنے کے لیے غیرمعتدل طریقے اختیار کیے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے، اور بنائو کا جو کچھ کام بھی ہوسکتا ہے فکرونظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے ہوسکتا ہے۔

یہ وصف خاص طور پر تعمیرواصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے، کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دُنیا میں منتقل کرنے کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہوسکتے ہیں، جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔

نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اُٹھیں، آپ کی کامیابی کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پرمطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابلِ عمل ہونے پر مطمئن کردیں، اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں، جس سے لوگوں کی اُمیدیں اور غایتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے، جو نظروفکر میں بھی متوازن اور طریقِ عمل میں بھی متوازن ہو۔

ایک انتہاپسندانہ اسکیم جو انتہاپسندانہ طریقوں سے چلائی جائے، عام انسانوں میں اپنے لیے رغبت اور اُمید پیدا کرنے کے بجائے معترض اور غیرمطمئن بناتی ہے، اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کریتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے کچھ انتہاپسندلوگ اکٹھے ہوجائیں، تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہاپسند بنا لینا اور دُنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔خود اس جماعت کے لیے یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے، جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اُٹھی ہو اور یہ آسان کام نہیں ہے۔

  • یک رُخا پن:مزاج کی بے اعتدالی کا اوّلین مظہر انسان کے ذہن کا یک رُخا پن ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہوکر آدمی بالعموم ہرچیز کا ایک رُخ دیکھتا ہے، دوسرے رُخ کو نہیں دیکھتا۔ ہرمعاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے، دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے، اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا جاتا ہے، دوسری سمتوں کی جانب توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کا عدم توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے بس اسی کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں اس کے نزدیک غیروقیع ہوجاتی ہیں۔ جس چیز کو بُرا سمجھ لیتا ہے، اسی کے پیچھے پڑجاتا ہے، دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی بُرائیاں اس کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں ہوتیں۔ اصولیت اختیار کرتاہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے اور کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے، اور کامیابی کو مقصود بالذات بنا کر اس کے لیے ہرقسم کے ذرائع وسائل استعمال کر ڈالنا چاہتا ہے۔
  • انتہا پسندی:یہ کیفیت اگر اس حد پر نہ رُک جائے تو آگے بڑھ کر یہ سخت انتہاپسندی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے۔ اختلاف رائے میں شدت برتنے لگتا ہے۔ دوسروں کے نقطۂ نظر کو انصاف کے ساتھ نہ دیکھتا ہے ، اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ ہرمخالف رائے کو بدتر سے بدتر معنی پہناکر ٹھکرانا اور ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ چیز روزبروز اسے دوسروں کے لیے اور دوسروں کو اس کے لیے ناقابلِ برداشت بناتی چلی جاتی ہے۔

اس مقام پر بھی بے اعتدالی رُک جائے تو خیریت ہے۔ لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کیا جائے، تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیززبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے، جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔

  • اجتماعی بـے اعتدالی:ایک آدمی یہ رَوش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوگا کہ وہ اکیلا جماعت سے کٹ جائے گا، اور اس مقصد کی خدمت سے محروم ہوجائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے وابستہ ہوا تھا۔ اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہوگا، مگر جب کسی اجتماعی ہیئت میں بہت سے غیرمتوازن ذہن اور غیرمعتدل مزاج جمع ہوجائیں، تو پھر ایک ایک قسم کا عدم توازن، ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں، پھوٹ پڑتی ہے، دھڑے بندی ہوتی ہے، اور اس کش مکش میں وہ کام خراب ہوکر رہتا ہے، جسے بنانے کے لیے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے، بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انھیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہرایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لیے کسرواِنکسار ناگزیر ہے اور یہ کسرواِنکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے، جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی۔ متوازن اور غیرمتوازن لوگ جمع بھی ہوجائیں تو زیادہ دیر تک جمع رہ نہیں سکتے۔ ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ، اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض جمع ہوں گے،ان میں پھر تفرقہ رُونما ہوگا، یہاں تک کہ آخرکار ایک ایک امام، مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔

جن لوگوں کو اسلام کے لیے کام کرنا ہو اور جنھیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کرکے اس بے اعتدالی کی ہرشکل سے خود بھی بچنا چاہیے، اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشوونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی وہ ہدایات ان کے پیش نظررہنی چاہییں، جو انتہاپسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں۔

قرآن جس چیز کو اہل کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ غلو فِی الدِّیْن ہے، يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ (المائدہ ۵:۷۷)،اور اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

اِیَّاکُمْ  وَالْغُلُوَّ  فَاِنَّمَا ھَلَکَ  مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ  بِالْغُلُوِ فِی الدِّیْنِ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عباسؓ،حدیث:۳۱۴۴)، خبردار! انتہاپسندی میں نہ پڑنا، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہاپسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں۔

ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطاب میں تین بار فرمایا: ھَلَکَ الْمُتَنِطِّعُوْنَ ’’برباد ہوگئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے‘‘۔ دعوتِ محمدیؐ کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ بُعِثْتُ  بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ ، یعنی آپ پچھلی اُمتوں کے افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی کے ہرپہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علَم برداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیے وہ اس کے داعی اوّلؐ نے یہ سکھایا ہے:

  • یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا  وَبَشِّـرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا (مسلم) سہولت دو، تنگ نہ کرو، بشارت دو، نفرت نہ دلائو۔
  • اِنَّمَا  بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ  وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِرِّیْنَ (بخاری) تم سہولت دینے کے لیے بھیجے گئے ہو، تنگ کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔
  • مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ بَیْنَ اَمْرَیْنِ قَـــطُّ  اِلَّا أَخَذَ  اَیْسَرَھُمَا  مَالَمْ  یَکُنْ  اِثْـمًا (بخاری و مسلم) کبھی ایسا نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دومعاملوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا موقع دیا گیا ہو اور آپؐ نے ان میں سے آسان ترین کو نہ اختیار کیا ہو، اِلا یہ کہ وہ گناہ ہو۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ (بخاری و مسلم) اللہ نرم خو ہے۔ ہرمعاملے میں نرم رویے کو پسند کرتا ہے۔
  • مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحَرْمُ الْخَیْرَ (مسلم) جو نرم خوئی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے بالکل محروم ہوگیا۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُـحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِی عَلٰی مَا سِوَاہُ (مسلم) اللہ نرم خُو ہے اور نرم خُو آدمی کو پسند کرتا ہے۔ وہ نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو شدت پر اور کسی دوسرے رویے پر عطا نہیں کرتا۔

ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ، اسلامی نظامِ زندگی کے لیے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں ، تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دُنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لیے درکار ہے۔

  • تنگ دلی:مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے، جسے ’تنگ دلی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اسے قرآن میں ’شحِ نفس‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کے لیے ہے، جو اس سے بچ گیا: وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۶ (التغابن ۶۴:۱۶)، اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۝۰ۭ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۲۸ ( النساء ۴:۱۲۸)۔ [نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آئو اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمھارے اس طرزِعمل سے بے خبر نہ ہوگا۔]

اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجایش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے، اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہررعایت چاہتا ہے، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں، اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے، جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری اور عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے، [مگر]  جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔

اسی ’تنگ دلی‘ کی ایک اور شکل ’زُود رنجی‘، ’نک چڑھاپن‘ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔

کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے۔ اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی اُلفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے، جس کے بغیر چار آدمی مل کر بھی کام نہیں کرسکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں، بسااوقات ختم کردیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی، اور ساتھیوں کو آپس میں اُلجھا دینے والی چیز ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں، وہ عام معاشرتی زندگی کے لیے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا یہ کہ کسی مقصد ِ عظیم کی خدمت کے لیے موزوں قرار پاسکیں۔

خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے، جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔ جو تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر، اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لیے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہیں، جن کی سختی اپنے لیے اور نرمی دوسروں کے لیے ہو، جو خود کم سے کم الائونس چاہیں، اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الائونس دیں، جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں، جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں، اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔

جو جماعت ایسے لوگ پر مشتمل ہوگی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی، بلکہ اپنے گردوپیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا، اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دُور بھگا دے گا۔ (تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط)

عام انسان اور رسول میں فرق

سوال: ایمان بالغیب کے حوالے سے عام انسان اور رسول میں کیا فرق ہے؟

جواب: ایمان بالغیب کے لحاظ سے عام انسان اور رسول میں یہ فرق ہے کہ عام انسانوں کو اللہ تعالیٰ وہ علم نہیں دیتا جو رسول کو دیتا ہے۔ اس وجہ سے عام انسانوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ رسول پر ایمان لائیں، اور جو علم رسول انھیں دیتا ہے اسے تسلیم کریں، اور اس کی پیروی کریں۔ ایمان بالغیب عام انسانوں کے لیے اور رسولوں کے لیے علم بالشہادۃ ہوتا ہے۔(آئین، ۲۱؍اپریل ۱۹۷۶ء)

                          


                       

والدہ کی خدمت اور شادی

سوال: بوڑھی والدہ کی خدمت کے خیال سے اگر شادی نہ کی جائے تو شریعہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: شادی کرنا فرض تو نہیں ہے، ہاں سنت ہے، اور ایک بڑی اہم سنت ہے۔ اگر شادی نہ کی جائے تو اس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کئی دائروں میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ والدہ ضعیف ہیں تو ان کی خدمت کرنا آپ کا فرض ہے۔ لیکن محض اس بنیاد پر شادی نہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ شادی کرنے کے بعد آپ اپنی والدہ کی خدمت اور زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

سوال: ایک ملازم روزہ رکھتا ہے، مگر اس کا مسلمان مالک بلاعُذر شرعی روزہ نہیں رکھتا۔ کیا ملازم کا اپنے مالک کے لیے کھانا پکانا اور کھلانا درست ہے؟

جواب: ملازم اس صورت میں گنہگار نہیں ہوگا۔ روزہ ترک کرنے اور ملازم سے کھانا پکوانے کا گناہ مالک کے ذمے ہے۔افسوس کہ ایسے مسلمان آقائوں اور مشرکین و کفّار آقائوں کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہا۔ البتہ ملازم ایسے آقا کو توجہ ضرور دلائے کہ وہ روزہ رکھے۔

روزہ اور نماز

سوال: بعض لوگ روزہ تو رکھتے ہیں، لیکن نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ایسی صورت میں روزے کا اجر انھیں مل جائے گا؟

جواب: میرے علم میں ایسے آدمی کے روزے کا کوئی اجر نہیں ہے، جو نماز ترک کردے اور روزے رکھے۔


’انذار اور ’خشیت‘

سوال: ’انذار‘ اور’خشیت‘ میں کیا فرق ہے؟

جواب: ’انذار‘ کے معنی ہیں ڈرانا اور ’خشیت‘ کے معنی ڈرنا۔ لیکن ڈرانا، دہشت زدہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ تنبیہ [وارننگ] کے لیے ہے۔ ’خشیت الٰہی‘ کا یہی مطلب ہے کہ خدا کی عظمت و جلال سے متاثر اور مرعوب ہوکر اس کی رضا طلب کی جائے۔

سوال : برادری کے نام پر ووٹ طلب کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟قطع نظر اس کے کہ اُمیدوار بھلا ہو یا بُرا؟

جواب:اسلامی نقطۂ نگاہ سے اگر برادری کے نام پر ووٹ دینا یا لینا جائز ہوتا تو ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش کے جو لوگ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، وہ آپؐ کے رشتے دار ہی تو تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے برادری کے نام پر تعاون کی اپیل کرسکتے تھے۔ لیکن ووٹ لینے کا کیا سوال، آپؐ نے ان کے خلاف تلوارکھینچنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

جماعت اسلامی سے قطع نظر، ووٹ دینے والے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ جسے وہ ووٹ دے رہا ہے وہ اسلام کے اصولوں کا پابند بھی ہے یا نہیں؟ اور وہ کامیاب ہونے کے بعد خدا کے دین کی خدمت کرےگا یا اپنے نفس کی خدمت میں لگ جائے گا؟ کیا اس کی ظاہری زندگی اس کے دعوئوں کی شہادت دے رہی ہے؟ جو آدمی اس کا اہل نظر آئے، ووٹ دینے والے کو چاہیے کہ وہ اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرے، اور جو آدمی اس کا اہل نہ ہو تو خواہ وہ ووٹر کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو، اسلام اس کے حق میں رائے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام، دوستی اور برادری کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ حق اور باطل کی بنیاد پر دوٹوک فیصلہ دیتا ہے۔(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۵؍اکتوبر ۱۹۷۰ء)

پورا معاشرہ توحید کی بنیاد پر قائم ہوجائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض ہرشعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہوجائیں، جو خداوند ِ عالم نے اپنی کتاب اور رسولؐ کے ذریعے سے دیئے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتاہے، قانون اسی کو جرم قراردے،حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم وتربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیارکرے، منبرومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہرکاروبار میں وہ ممنوع ہوجائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے، قانون اس کی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے، منبرومحراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کردے، اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اورمادّی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اس میں بندگی ٔربّ اور بندگی ٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہوجاتا ہے۔

اسلام کی دعوت اگرچہ ہرہر فردکو یہی ہے کہ بہرحال وہ توحیدہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی صورت پیدا کرنا ہے، اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدّعا یہی رہا ہے کہ ایک اُمت ِ مسلمہ وجود میں آئے، جو کفر اور کفّار کے غلبے سے آزاد ہوکر ’من حیث الجماعت‘ اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاعلیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ و قائم کرنا سرے سے ان کا مقصود ہی نہیں رہا ہے۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۴، جنوری ۱۹۶۴ء، ص ۲۴-۲۵)

اللہ کے لیے دین کو خالص کرکے اُس کی بندگی کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی، اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں، بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اُس کی بھی پرستش اور اُس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے......

دُنیا بھر کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت اُن کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی بارگاہ بہت اُونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہوسکتی ہے۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دُعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں۔

اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ دُنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں؟ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتائوں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند، سورج، مریخ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے؟ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اِن مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ ’فلاں فلاں اشخاص ہمارے مقربِ خاص ہیں، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بنائو‘۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے، جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۳، دسمبر ۱۹۶۳ء)

اسلام خالص توحیدی مذہب ہے، جو اللہ کے سوا سرے سے کسی کو معبود ہی نہیں مانتا اور نہ اس بات کا قائل ہے کہ اللہ نے کسی کے اندر حلول کیا ہے، یا وہ کسی مادّی مخلوق کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ خانۂ کعبہ کو اگر غیرمسلموں نے نہیں دیکھا ہے تو اس کی تصویریں تو بہرحال انھوں نے دیکھی ہی ہیں۔ کیا وہ راست بازی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بُت ہے جس کی ہم پرستش کر رہے ہیں؟ کیا کوئی شخص بہ درستیٔ ہوش و حواس یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ چوکور عمارت اللہ ربّ العالمین کی شکل پر بنائی گئی ہے؟ رہا حجر اَسود کا بوسہ، تو اُسے بُت پرستی کے قبیل کی کوئی چیز سمجھنا تو اور بھی زیادہ نادانی کی بات ہے۔ حجراسود ایک چھوٹا سا پتھر ہے، جو خانۂ کعبہ کی چاردیواری کے ایک کونے میں لگا ہوا ہے۔ مسلمان اُس کی طرف رُخ کرکے سجدہ نہیں کرتے، بلکہ خانۂ کعبہ کا طواف اس مقام سے شروع کرکے اسی مقام پر ختم کرتے ہیں، اور ہر طواف پر اسے بوسہ دے کر، یا اس کی طرف اشارہ کرکے شروع کرتے ہیں۔ اس کا آخر بُت پرستی سے کیا تعلق ہے؟

اب رہی یہ بات کہ دُنیا بھر کے مسلمان خانۂ کعبہ ہی کی طرف رُخ کرکے کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ مرکزیت اور تنظیم کی خاطر ہے۔ اگر تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز اور ایک رُخ متعین نہ کردیا گیا ہوتا تو ہر نماز کے وقت عجیب افراتفری برپا ہوتی۔ انفرادی نمازیں ادا کرتے وقت ایک مسلمان کا منہ مغرب کی طرف ہوتا تو دوسرے کا مشرق کی طرف، تیسرے کا شمال کی طرف اور چوتھے کا جنوب کی طرف۔ اور جب مسلمان نمازِ باجماعت کے لیے کھڑے ہوتے تو ہرمسجد میں ہرنماز سے پہلے اس بات پر ایک کانفرنس ہوتی کہ آج کس طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہرمسجد کی تعمیر کے وقت ہرمحلّے میں یہ جھگڑا برپا ہوتا کہ مسجد کا رُخ کس طرف ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ان سارے امکانات کو ایک قبلہ مقرر کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ اور قبلہ اُسی جگہ کو بنایا جسے فطرتاً مرکزیت حاصل ہونی چاہیے تھی، اور خدائے واحد کی پرستش کے لیے دُنیا میں سب سے پہلا معبد وہیں بنایا گیا تھا۔(’رسائل و مسائل‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۲، نومبر ۱۹۶۳ء، ص ۶۱-۶۲)

مکّی دور کے آغاز سے ہجرت تک کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈال کر [دیکھیں تو اس قافلۂ حق] کاابتدائی، یا صحیح تر الفاظ میں بنیادی، سرمایہ صرف محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپؐ کی شخصیت اور آپؐ کی نبوت سے پہلے کی چہل سالہ زندگی تھی۔

حضورؐ کی عالی نسبی

ذاتی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ایک شریف ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کے حسب و نسب کو تمام اہلِ عرب جانتے تھے۔ عرب کے بہ کثرت قبائل، جن کو اپنے نسب پر فخر تھا، اس بات سے واقف تھے کہ پدری اور مادری سلسلوں میں کہیں نہ کہیں جاکر اُن کا نسب آپؐ کے نسب سے مل جاتا ہے۔ اس لیے آپؐ کی حیثیت یہ نہ تھی کہ کوئی مجہول النسب، غیرمعروف، گمنام، یا کم اصل آدمی یکایک لوگوں کے سامنے ایک بہت بڑے دعوے کے ساتھ آکھڑا ہوا ہو، جسے دیکھتے ہی کہنے والے کہہ دیں کہ اس حیثیت کے آدمی پر تو یہ دعویٰ کسی طرح نہیں سجتا۔

پورے عرب میں کوئی شخص آپؐ کی شرافت ِنسبی پر شمّہ برابر بھی حرف گیری نہ کرسکتا تھا۔ خود شہر مکہ میں جتنے خانوادے اپنی عزت کے غرور میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، ان سب سے آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کی رشتہ داریاں تھیں۔ اُن میں سے بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپؐ اپنے حسب و نسب اور معاشرتی مرتبے میں اُس سے کسی طرح کم تر ہیں۔ قریش جس کے ایک فرد آپؐ تھے، عرب میں سرداری کا مقام رکھتا تھا، اس کا اولادِ اسماعیلؑ سے ہونا ہر شک و شبہے سے بالاتر تھا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر دور دور تک اس کے تجارتی روابط پھیلے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کی تولیت اور حج کی کشش کے باعث عرب کے دور دراز گوشوں تک کے لوگوں کو بہر حال اُس سے سابقہ پیش آتا تھا۔

اِن وجوہ سے اِس قبیلے کو عرب میں وہ بلند مرتبہ حاصل تھا جو کسی دوسرے قبیلے کو حاصل نہ تھا۔ پس مکہ جیسے مرکزی مقام پر، قریش جیسے ایک قبیلے میں پید اہونا، عرب کے ماحول میں اس تحریک کے رہنما کے لیے مثالی موقع و محل تھا۔

آپؐ کا بنی اسماعیل میں سے ہونا

اسماعیلی خاندان کی بزرگی و شرافت اور عزت و منزلت کے ساتھ یہ بات بھی خاص اہمیت رکھتی تھی کہ ڈھائی ہزار سال کی پوری تاریخ میں حضرت اسماعیلؑ کے بعد اس خاندان کے کسی فرد نے کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اِسی بات کی نشان دہی بنی عامر بن صعصعہ کے ایک جہاں دیدہ شیخ نے اُس وقت کی تھی، جب اس کے قبیلے کے لوگوں نے حج سے واپس آکر رسولؐ اللہ سے اپنی ملاقات اور گفتگو کا ذکر اُس سے کیا تھا۔ انھوں نے جب اُس کو بتایا کہ قریش کے ایک صاحب ہمیں ملے تھے، جنھوں نے نبی کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اور ہم سے یہ چاہا کہ ہم انھیں اپنے ساتھ اپنے علاقے میں لے چلیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں ان کی مدد کریں، مگر ہم نے ان کی بات قبول نہ کی، تو اُس مردِ کہن سال نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہا ’’اُس وقت تمھاری عقل کہاں چرنے چلی گئی تھی؟ خدا کی قسم! آج تک کسی اسماعیلی نے ایسی بات، جھوٹ گھڑ کر کبھی نہیں کہی ہے‘‘۔ یہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اولادِ اسماعیلؑ میں سے ہونے کا ایک اور فائدہ تھا۔ تاریخ یہ شہادت دے رہی تھی کہ آپؐ کا دعوائے نبوت برحق ہے، کیوں کہ اس خاندان کا کوئی شخص کبھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ لے کر نہیں اٹھا تھا۔

آپؐ کی شخصیت

جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعلق تھا، آپؐ کی شکل و صورت اور وضع و ہیئت اور نشست و برخاست اور رفتار و گفتار اور شائستہ اطوار کو دیکھ کر بچپن ہی سے عرب کے قیافہ شناس یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی غیر معمولی ہستی ہے، جو عبد المطلب کے خاندان میں پیدا ہوئی ہے۔ آپؐ کی والدۂ ماجدہ، آپؐ کے جدِّامجد، آپؐ کے چچا، آپؐ کی رضاعی والدہ، سب کے تاثرات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں جو لوگ آپ کو قریب سے دیکھ رہے تھے، وہ آپؐ کے اندر ایک نمایاں عظمت محسوس کر رہے تھے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک بالکل اجنبی آدمی بیک نظر آپؐ کو دیکھ کر پکار اٹھتا کہ ’خدا کی قسم! یہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہے‘۔

جب آپؐ جوانی کی عمر کوپہنچے تو آپؐ کی شان ہی کچھ ایسی تھی کہ آپؐ کے اہلِ وطن اور اہلِ قبیلہ آپؐ کی شخصیت سے مرعوب ہوتے چلے گئے۔ لوگ خود بہ خود آپؐ کا احترام کرتے تھے، کیوں کہ وہ اپنے معاشرے کی عام سطح سے آپؐ کو بہت بلند پاتے تھے۔ آپؐ کی وجاہت، آپؐ کا وقار، آپؐ کی سنجیدگی، آپؐ کی نفاست و پاکیزگی، آپؐ کی عالی ظرفی، آپؐ کی کریم النفسی اور آپؐ کی بے داغ سیرت ایسی نمایاں تھی کہ جن لوگوں کو بھی آپؐ سے سابقہ پیش آیا تھا،وہ آپؐ کی تکریم و عزت کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ یہ رُعب اُس وقت بھی کار فرما رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے قریش کے لوگ آپؐ کی جان کے دشمن ہوگئے تھے۔ دشمنی کے جوش میں پاگل ہوکر وہ بسا اوقات آپؐ کے ساتھ بڑی بڑی بے ہودگیاں کر بیٹھتے تھے۔ لیکن جس درجے کی دشمنی اُن کے سینوں میں آگ کی طرح بھڑک رہی تھی، اور جس دشمنی کی بنا پر وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور قریب ترین رشتہ داروں تک کو اذیت ناک مظالم سے معاف نہیں کر رہے تھے، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص رُعب تھا ،جوآپؐ کے مقابلے میں آکر انھیں بے بس کر دیتا تھا۔

 آپؐ نے دعوتِ عام شروع کرنے کے بعد سخت سے سخت حالات میں بھی کھلم کھلا اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ شعبِ ابی طالب میں محصور ہوجانے کے باوجود آپؐ برابر اس حصار سے نکل کر دعوت کا کام انجام دیتے رہے۔ مکہ کے آخری تین سال، جو انتہائی سخت تھے، ان میں بھی آپؐ صرف مکے میں آنے والوں ہی سے نہیں، عُکاظ، اور مَجنَّہ اور ذی المجاز، اور منیٰ کے اجتماعات میں قبائل اور ان کے سرداروں سے بھی علانیہ ملاقاتیں کرکے اسلام کی دعوت پیش کرتے رہے۔ لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ آپؐ کی شخصیت میں کوئی ایسی زبردست طاقت تھی، جس کی وجہ سے کوئی آپؐ کو فرائضِ رسالت انجام دینے سے باز نہ رکھ سکا۔

نبوت سے پہلے کی زندگی

اب دیکھئے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال تک آپؐ کی جو زندگی مکے میں گزری تھی، اُس کے اثرات کیا تھے؟

یہ زندگی صرف بے داغ ہی نہ تھی بلند ترین سیرت و کردار کا ایک نمونہ تھی۔ جس معاشرے میں آپؐ بچپن سے ادھیڑ عمر تک رہے بسے تھے، جس کے لوگوں کو ہر پہلو سے آپؐ کے ساتھ رشتہ داری، ہمسایگی، میل جول، دوستی، لین دین، غرض طرح طرح کے معاملات میں شب و روز سابقہ پیش آتا رہا تھا، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو آپؐ کی سچائی، آپؐ کی دیانت، آپؐ کی شرافت، آپؐ کی اخلاقی پاکیزگی، آپؐ کے حسن سلوک، آپؐ کی رحم دلی اور آپؐ کی ہمدردی و فیاضی کا معترف نہ ہو۔ آپؐ مجسم خیر تھے، کسی کو آپؐ سے شرکا تجربہ تو درکنار، اُس کا اندیشہ تک کبھی نہ ہوا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لوگوں کو اتنا اعتماد تھا کہ وہ آپؐ کو ’’امین‘‘ کہتے تھے، اور یہ اعتماد اُس وقت بھی قائم رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے لوگ آپؐ کے دشمن ہوگئے تھے۔ اِس حالت میں بھی دوست دشمن، سب اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے رہے۔ کسی کو آپؐ سے خیانت کا خطرہ نہ تھا، اور آپؐ نے قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی ان کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کا اہتمام فرما کر اپنا کامل و اکمل امین ہونا قطعی طور پر ثابت کردیا۔

آپؐ کی صداقت اُس معاشرے میں اِس درجہ مسلّم تھی کہ جب آپؐ نے اسلام کی دعوت شروع کی اور قریش کے لوگوں نے اُس کو پورے زور شور کے ساتھ جھٹلایا، اُس وقت بھی مخالفین آپؐ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکے، بلکہ اُس دعوت ہی کو جھوٹ کہتے رہے جو آپؐ نے پیش فرمائی تھی۔ بدترین عداوت کے دور میں بھی کوئی آپؐ کی سیرت و کردار پر کسی ادنیٰ درجے میں بھی حرف زنی نہ کرسکا۔ آپؐ سے قریب ترین تعلق جن لوگوں کا تھا، جن سے کوئی عیب نہ چھپ سکتا تھا اگر معاذ اللہ وہاں کوئی عیب ہوتا، وہی سب سے بڑھ کر آپؐ کے گرویدہ اور آپؐ کے فضائلِ اخلاق سے متاثر تھے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے لیے قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی درخواستیں رَدّکردیں، اور خود خواہش کرکے آپؐ سے اِسی بنا پر شادی کی کہ وہ آپؐ کی اخلاقی خوبیوں پر فدا ہوگئی تھیں۔ پندرہ برس کی ازدواجی زندگی اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے عیب و صواب سے خوب واقف ہوجائے، خصوصاً جب کہ وہ شوہر سے عمر میں بڑی بھی ہو، عاقل و فرزانہ بھی ہو، اور شوہر اُسی کے مال سے کاروبارِ تجارت بھی کر رہا ہو۔ لیکن  رسولؐ اللہ کے معاملے میں حضرت خدیجہ ؓ کے اِس طویل اور انتہائی قریبی مشاہدے اور تجربے کا نتیجہ جو کچھ نکلا وہ یہ تھا کہ انھوں نے آپؐ کو محض ایک بلند پایہ انسان ہی نہیں، بلکہ اتنا عالی مرتبہ انسان پایا کہ اُنھیں آپؐ کو رسولِ ربّ العالمین مان لینے اور آپؐ پر ایمان لے آنے میں ایک لمحہ بھر بھی تامُّل نہ ہوا۔ حالاں کہ ایک بناؤٹی آدمی کی دنیا دار بیوی اس کے مکر اور اس مکر کے فوائد میں چاہے کتنا ہی حصہ لیتی رہے،مگر وہ دل سے نہ کبھی ان کی معتقد ہوسکتی ہے اور نہ اس پر ایمان لاسکتی ہے۔

حضرت زیدؓ بن حارثہ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غلامی کی حالت میں شروع ہوا تھا۔ آقا اور غلام کے درمیان خوش گوار رابطہ بھی ایک نادر الوقوع چیز ہے، کجا کہ غلام کو آقا سے محبت ہو، کیوں کہ وہ بالکل بے بس ہوتا ہے، اور آقا اُس سے ہر طرح خدمت لینے کا حق دار ہوتا ہے، خواہ وہ خدمت اُس کے لیے کتنی ہی شاق اور اس کی طبیعت پر کتنی ہی گراں ہو۔ اس کے علاوہ غلام کو آقا کی زندگی کے اچھے اور بُرے سب پہلو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، اور ایک بے اختیار خادم کی حیثیت سے اس کے سامنے اپنے مختارِ مطلق آقا کی زندگی کے بُرے پہلو زیادہ آتے ہیں۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم ایسے آقا تھے کہ غلام آپؐ کا گرویدہ ہوتا چلا گیا، حتیّٰ کہ جب اس کے باپ اور چچا اسے غلامی سے چھڑانے کے لیے آئے، تو اس نے آزاد ہوکر اپنے باپ کے ہاں جانے کی بہ نسبت حضورؐ کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔

 ۱۵ سال آپؐ کی خدمت میں رہ کر یہ غلام، جسے آپؐ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا،آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنا متأثر ہوا کہ جب اُسے آپؐ کے منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے کا علم ہوا تو اُس نے بھی حضرت خدیجہؓ کی طرح آپؐ پر ایمان لانے میں ایک لمحہ بھر بھی توقف نہ کیا۔ وہ کوئی ناسمجھ بچہ نہ تھا بلکہ ۳۰ برس کا جوان تھا، اور ایسا ذکی و دانش مند تھا کہ ۸ ھ میں وہ اس فوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا گیا، جس میں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت خالدؓ بن ولید جیسے لوگ اُس کے ماتحت تھے۔ اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی کم عقل خادم تھا، جسے نبوت و رسالت کی اہمیت معلوم نہ تھی اور محض اپنے مخدوم کی شخصیت سے مرعوب ہوکر وہ بے سمجھے بوجھے ایمان لے آیا تھا۔ بلکہ در حقیقت اُس نے اپنے پندرہ سال کے طویل تجربے میں آپؐ کو اِتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ اسے آپؐ کے رسولِ خدا ہونے میں ذرہ برابر شک لاحق نہ ہوا۔ حضورؐ کی اِسی اخلاقی فضیلت کو چند سال پہلے وہ اپنے باپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ بتا چکا تھا۔

ایسا ہی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا تھا جو بیس سال سے آپؐ کے ہم نشین ہی نہیں بلکہ گہرے دوست تھے۔ حضرت علیؓ ابن ابی طالب کا تھا، جنھوں نے آپؐ کے گھر ہی میں پرورش پائی تھی۔ وَرقہ بن نوفل کا تھا جو بچپن سے حضورؐ کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے اور حضرت خدیجہؓ کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنھیں آپؐ کو اور زیادہ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ حضرت عثمانؓ آپؐ کی پھوپھی کے نواسے تھے۔ حضرت زبیرؓ آپؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت ابوسلمہؓ آپؐ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے اور پھوپھی زاد بھائی بھی۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص آپؐ کی والدۂ ماجدہ کے رشتے دار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو آپؐ کی سیرت و کردار کے ہر پہلو کو قریب سے نہ دیکھ چکا ہو، اور یہی لوگ آپؐ کی نبوت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والوں میں سے تھے۔

نبوت کے بعد آپؐ کے اوصافِ عالیہ کا ظہور

کسی تحریک کا آغاز ہی اگر ایسی عظیم و جلیل ہستی کی رہنمائی میں ہوتو یہ بجائے خود بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن شروع ہونے کے وقت سے ۱۳ سال تک اِس ابتدائی سرمایے میں جو مزید اضافے ہوئے، وہ اتنے قیمتی تھے کہ انسانی تاریخ اُن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن اوصاف کو دیکھیے، جو اِس دور میں نمایاں ہوکر سامنے آئے اور سب سے بڑھ کر اِس دعوت کو فروغ دینے کے موجب بنے۔

  • آپؐ کا مالی ایثار:آپؐ کا اوّلین وصف وہ ایثار تھا، جو آپؐ نے اِس کارِ عظیم کے لیے کیا۔ آغازِ نبوت کے وقت آپؐ ایک نہایت کامیاب اور خوش حال تاجر تھے۔ ایک طرف حضرت خدیجہؓ کا مال تھا جو قریش کے دوسرے تاجروں کے مجموعی مال سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف آپؐ کی ذہانت و فراست اور حسنِ تدبیر اور راست بازی کی ساکھ تھی، جس کا مقابلہ کوئی دوسرا نہ کرسکتا تھا۔ یہ دونوں چیزیں جس کاروبار میں یک جا جمع ہوگئی ہوں، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیسی زبردست ترقی کر رہا ہوگا۔ لیکن نبوت سے پہلے اس مال کو حضورؐ اور آپؐ کی شریکِ حیاتؓ نے محض اپنے عیش و آرام کے لیے مخصوص نہیں کر رکھا تھا، بلکہ نہایت دریا دلی کے ساتھ آپؐ اسے حاجت مندوں کی مدد، بے کسوں کی دست گیری اور مسافروں کی مہمان نوازی پر خرچ کرتے رہے تھے اور ہر کارِ خیر میں آپؐ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اِس لیے آغازِ نبوت میں کوئی بہت بڑا اندوختہ آپؐ کے پاس نہ تھا۔

پھر جب فرائض نبوت کا بار آپؐ پر ڈالا گیا تو رفتہ رفتہ آپؐ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دیا، اور آپؐ کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ تبلیغِ دین کے ساتھ اپنی تجارت بھی چلا سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جب آپؐ طائف تشریف لے گئے تو آپؐ کو پیدل ہی جانا پڑا، کوئی سواری آپؐ کومیسر نہ تھی۔ ہجرت کی تو اس کے سارے مصارف حضرت ابوبکرؓ نے برداشت کیے، حتیّٰ کہ اہل و عیال کو مدینے بلانے کے لیے بھی آپؐ کو ۵۰۰ درہم جنابِ ابوبکر صدیقؓ سے لینے پڑے۔ آپؐ کا دست مبارک درہم و دینار سے بالکل خالی تھا۔

ظاہر ہے کہ جب ایک دعوت کا پیش کرنے والا خود اُس دعوت کے کام پر اپنے ذاتی مفاد کو اس طرح قر بان کر رہا ہو، تو ہر دیکھنے والا اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل مخلص اور بے غرض ہے، حتیّٰ کہ دشمن اور مخالف تک زبانوں سے خواہ کچھ ہی کہتے رہیں، اپنے دلوں میں یہ مان جاتے ہیں کہ اِس دعوت کے ساتھ اُس کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کے ساتھ آتے ہیں، ان کے لیے ان کے رہنما کی مثال ایسی سبق آموز ہوتی ہے کہ وہ بھی حق کو محض حق ہونے کی بناپر مانتے ہیں، کسی ذاتی غرض کا لوث ان کے ایمان کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہوتا، اور ایثار و قربانی میں بھی وہ اپنے ہادی و رہبر کی پیروی کرتے ہیں۔

  • آپؐ کا زبردست عزم:دوسری چیز آپؐ کے عزم کی پختگی تھی، جسے مشکلات ومصائب اور مخالفتوں کا کوئی بڑے سے بڑا طوفان بھی شکست نہ دے سکا، جسے نہ کوئی خوف اپنی جگہ سے ہٹاسکا، نہ کوئی لالچ پھسلا کر راہِ حق سے منحرف کرسکا، اور نہ کسی قسم کے سخت سے سخت حالات مایوسی و دل شکستگی میں تبدیل کرسکے۔ وہ آپؐ کی پہاڑ جیسی استقامت ہی تھی جس سے ٹکرا کر ساری مخالف طاقتیں آخرکار اس بات سے مایوس ہوگئیں کہ اپنے کسی حربے، کسی مظاہرۂ قوت، کسی ظلم و ستم، کسی تحریص و ترغیب، کسی افترا پردازی اور الزام تراشی کی مہم، اورکسی بُرے سے بُرے ہتھکنڈے سے وہ آپؐ کو اس کام سے باز رکھ سکیں گے، جسے لے کر آپ اُٹھے ہیں۔ دیکھنے والے آپؐ کی اس اُولوالعزمی کو سال ہا سال تک بالکل بے لچک پاکر یہ اثرلیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے حق پر ہونے کا کامل یقین نہ ہو، اورجب تک کوئی شخص ذاتی اغراض کی کھوٹ سے بالکل پاک نہ ہو، وہ اپنے عزم میں اتنا مضبوط نہیں ہوسکتا۔ اِسی چیز نے آپؐ کے ساتھیوں میں بھی ایمان کی مضبوطی اور راہِ حق میں استقامت پیداکی، او راسی نے تمام غیر جانب دارلوگوں کو بھی قائل کر دیا کہ آپؐ جو دعوت پیش کررہے ہیں، وہ خالص حق پرستی پرمبنی ہے۔
  • آپؐ کی بـے نظیر شجاعت:تیسری چیزآپؐ کی بے خوفی اور شجاعت و بہادری تھی کہ جو کسی بڑی سے بڑی طاقت سے دب جانا اور کسی بڑے سے بڑے خطرے سے ڈر جانا، جانتی ہی نہ تھی۔ کفارِ قریش کا ایک بپھرا ہوا مجمع آپؐ کو حرم میں تنہا گھیر لیتا ہے اور آپؐ سے کہتا ہے کہ ’تم وہ ہو جو یہ کہتے ہو، اور تم وہ ہو جو یہ کہتے ہو‘۔ ان ساری باتوں کے جواب میں آپؐ بے جھجک فرماتے چلے جاتے ہیں کہ ’ہاں، میں یہ کہتا ہوں اور میں یہ بھی کہتا ہوں‘۔ جان کے دشمن لوگوں میں اپنے آپ کو گھرا ہوا پاکر آپؐ پر ذرا سی گھبراہٹ تک طاری نہیں ہوتی۔

غارِ ثور کے عین دہانے پر دشمن پہنچ جاتے ہیں، اور آپؐ پورے اطمینان کے ساتھ اُس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ ظالم اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپؐ بڑے ٹھنڈے دل سے، کسی ادنیٰ درجے کی پریشان خاطری کے بغیر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکر! تمھارا اُن دو آدمیوں کے متعلق کیا خیال ہے، جن میں تیسرا اللہ ہو؟ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ دشمنوں نے آپؐ کے سرِ مبارک کے لیے انعام مقرر کر رکھا ہے۔ ہر طرف انعام کے لالچ میں آپؐ کی تلاش کے لیے لوگ دوڑے پھر رہے ہیں اور آپؐ اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سفر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی طرف مڑکر بھی یہ نہیں دیکھتے کہ کہیں کوئی تعاقب میں تو نہیں چلا آرہا ہے۔

ایسے بہادر رہنما کے ساتھ بہادر لوگ ہی آتے ہیں، اور اس کی بہادری دیکھ دیکھ کر ان کی بہادری میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دشمن بھی خواہ دشمنی میں کتنا ہی اندھا ہوچکا ہو، اُس کے اِس وصف کی قدر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس [دشمن]کی ہمت بیٹھ جاتی ہے، جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سابقہ ایک ایسے شخص سے ہے، جو ڈر نام کی کسی چیز کو جانتا ہی نہیں___ کسی تحریک کے لیے، اور خصوصاً اسلامی تحریک کے لیے اس کے رہنما کا نڈر اور بے خوف اور شجاع ہونا ایک بڑا اہم وصف ہے۔ رہنما کی بزدلی، بلکہ اس کی شجاعت میں ذرا سی کمزوری بھی آزمائش کے مواقع پر پوری تحریک کو لے بیٹھتی ہے۔

  • آپؐ کی عالی ظرفی:چوتھا اہم ترین وصف آپؐ کاصبر وتحمل، ضبطِ نفس اور بلند حوصلہ تھا۔ آپؐ مخالفین کی کسی رکیک سے رکیک حرکت پر بھی کبھی غصے میں آپے سے باہر نہ ہوئے۔ کسی گالی کا جواب آپؐ نے گالی سے نہ دیا۔ کسی بد زبانی اورکسی بےہودہ الزام کے جواب میں آپؐ کی زبانِ مبارک سے ایک لفظ بھی شائستگی سے گرا ہوا نہ نکلا۔ دشمنوں نے بارہا ایسی حرکتیں کیں، جو سخت دل آزار، سخت توہین آمیز اور سخت اشتعال انگیز تھیں، مگر آپؐ بڑی عالی ظرفی کے ساتھ ہر بات کوپی گئے، اور ان کی برائی کا جواب برائی کے بجائے بھلائی ہی سے دیتے رہے۔ مکہ معظمہ کے طویل دورِ مصائب میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں تہذیب و شرافت کا دامن آپؐ کے ہاتھ سے چھوٹ گیاہو۔

یہ وہ چیزتھی جو گرد وپیش کے معاشرے میں آپؐ کا اخلاقی وقار بڑھاتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کو ہر اُس شخص کی نظر سے گراتی چلی گئی، جس کے اندر ذرہ برابر بھی اخلاق و شرافت کا کوئی جوہر موجود تھا۔ طائف سے زیادہ سخت وقت آپؐ پر کبھی نہ گزرا تھا۔ مگر اُس وقت بھی آپؐ کے دل اور زبان سے دعا ہی نکلی اور آپؐ اس پر راضی نہ ہوئے کہ اس ظلم کے بدلے میں ظالموں پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میدانِ جنگ سے پہلے اخلاق کے میدان میں آپؐ اپنے مخالفوں کو شکست دے چکے تھے، اور اس شکست پر آخری مہر اُس وقت لگ گئی جب قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی آپؐ نے اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کو واپس دینے کی فکر فرمائی۔ کوئی بالکل ہی مردہ ضمیر ہوگا جو اس کردار کو دیکھ کر اپنے دل میں مان نہ گیا ہو کہ جاہلیت کے حامی اُس شخص سے لڑ رہے ہیں، جو ان کی قوم ہی کا نہیں، ساری دنیا کا شریف ترین انسان ہے۔

اسلامی تحریک میں شامل ہونے والوں کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی ہزار وعظوں سے بڑھ کر اپنے ہادی و رہبر کی یہ عملی مثال مؤثر تھی۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ جس نے بھی آپؐ کی پیروی اختیار کی وہ اخلاق کے اعتبار سے اپنے معاشرے میں اتنا بلند ہوگیا کہ ہر دیکھنے والا علانیہ بُت پرست اور خُدا پرست کے فرق کو دیکھ سکتا تھا۔

  • آپؐ کے قول اور عمل میں کامل مطابقت:پانچواں ، اور سب سے زیادہ اہم وصف یہ تھا کہ آپؐ کے قول اور عمل میں برائے نام بھی کوئی تضاد نہ تھا۔ جو کچھ آپؐ کہتے تھے وہی کرتے بھی تھے۔ جن چیزوں کو آپؐ نے برا کہا اور لوگوں کو اُن سے منع کیا، اُن کا ادنیٰ شائبہ تک آپؐ کی سیرت و کردار میں نہ پایا جاتا تھا۔

مکے کے لوگ آپؐ کی گھر سے باہر کی زندگی ہی کو نہیں، گھر کے اندر کی زندگی کو بھی دیکھ سکتے تھے، کیوں کہ ان میں کتنے ہی لوگ آپؐ کے والد ماجد، یا آپؐ کی والدۂ ماجدہ، یا آپؐ کی اہلیہ محترمہ کے رشتے دار تھے۔ لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ آپؐ دوسروں کو جن برائیوں سے روکتے ہیں وہ، یا ان میں سے کوئی ایک کم سے کم درجے کی برائی بھی آپؐ کی اپنی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جن نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف آپؐ لوگوں کو دعوت دیتے تھے، سب سے بڑھ کر آپؐ خود اُن پر عمل پیرا تھے۔ آپؐ کی زندگی اُن کا مجسّم عملی نمونہ تھی۔ کوئی اس امر کی کبھی نشان دہی نہ کرسکا کہ آپؐ سے اُن بھلائیوں پر عمل کرنے میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی کوتاہی ظاہر ہوئی ہے۔

کسی تحریک کی کامیابی کے لیے عموماً اور اسلامی تحریک کے لیے تو خصوصاً، یہ بہترین ضمانت ہے کہ اس کا رہنما قول و عمل کے تضاد سے بالکل پاک ہو، اور اس کی تعلیم محض زبانی جمع خرچ نہ ہو بلکہ اس کی اپنی عملی زندگی اس تعلیم کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اِس کا گہرا اثر لازماً ان لوگوں پر بھی پڑتا ہے، جو ایسے رہنما کی پیروی اختیار کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جوغیر متعصب نگاہ سے جستجوئے حق کی خاطر اسے دیکھتے ہیں، حتّیٰ کہ متعصب مخالفین میں سے بھی ایک بڑی تعداد بالآخر اس سے مسخر ہو کر رہتی ہے۔

  • آپؐ کا تمام تعصبات سے پاک ہونا:چھٹا وصف جو اپنی اہمیت میں کسی دوسرے وصف سے کم نہیں، یہ تھا کہ آپؐ ہر تعصب سے پاک تھے۔ قبیلے، قوم، وطن، زبان، رنگ، نسل، غرض کسی چیز کا تعصب بھی آپؐ کے اندر نہ تھا۔ نہ آپؐ امیری و غریبی کے لحاظ سے انسان اور انسان کے درمیان فرق کرتے تھے، اور نہ معاشرتی مرتبے کی اونچ نیچ آپؐ کے لیے کوئی معنی رکھتی تھی۔ آپؐ انسان کو صرف انسان ہونے کی حیثیت سے دیکھتے تھے، اور انسانوں میں سے جو بھی حق کو قبول کرلیتا، اسے آپؐ کی جماعت میں بالکل برابر کا درجہ حاصل ہوتا تھا، خواہ وہ قریشی ہو یا غیرقریشی، خواہ وہ عرب ہو یا حبشی یا رومی، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ غریب ہو یا امیر، خواہ وہ جاہلیت کے معاشرتی نظام کی رو سے ’’شریف‘‘ ہو یا ’’کمین‘‘۔

 یہی وہ چیز تھی جس نے اسلامی تحریک کے یومِ آغاز ہی سے اس کے ایک عالم گیر تحریک ہونے کی بنا ڈال دی تھی، اُمتِ مسلمہ کو ایک بین الاقوامی اُمت کی حیثیت بخش دی تھی، اسلام قبول کرنے والوں کے اندر سے اسلام و کفر کے سوا ہر دوسری بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کا احساس مٹا دیا تھا اور ان کی جماعت میں غلام اور آزاد، غریب اور امیر، برتر اور کم تر، عرب اور غیر عرب، سب بالکل مساوی حیثیت سے شریک تھے، اور شریک ہوسکتے تھے جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہوں۔ عرب کے قلیل التعداد متکبروں کو چھوڑ کر باقی عام آبادی کے لیے یہ چیز اپنے اندر ایک فطری کشش رکھتی تھی، جو بالآخر کارگر ثابت ہوکر رہی۔

یہ تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اوصاف جو ۱۳ برس کے مکی دور میں ظاہر ہوئے اور  جن کی زبردست قوتِ تاثیر سے دشمنوں کی ساری کوششوں کے علی الرغم اسلامی تحریک آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ مزید اوصافِ عالیہ ابھی آپؐ کے اندر مخفی تھے اور اپنے ظہور کے لیے دوسرے حالات کے متقاضی تھے جو آگے چل کر اسلامی تحریک کو مدینے میں میسر آئے۔

قرآن کی قوتِ تسخیر

اِس تحریک کا دوسرا عظیم ترین سرمایہ قرآن مجیدتھا، جس کا دو تہائی سے کچھ کم حصہ مکّہ معظمہ میں نازل ہوا۔ عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان کے عاشق تھے۔ یہی عشق انھیں عُکاظ جیسے میلوں میں شعرا اور فصحا کا کلام سننے کے لیے کھینچ لے جاتا تھا۔ مگر قرآن سن کر ان کی نگاہ میں بڑے سے بڑے زبان آوروں کی کوئی وقعت باقی نہ رہی۔ شاعر و خطیب اس کے آگے گنگ ہوگئے۔ ادب کے لحاظ سے اس کی زبان اتنی بلند تھی کہ کوئی اس سے بلند تر تو درکنار، اس کے برابر بھی اونچے ادب کا تصور نہ کرسکتا تھا۔ اس کا بیان ایسا وجد آور تھا کہ لوگ ا س کو سن کر سردھننے لگتے تھے، مخالفین اسے سحر (جادو) کہتے تھے، اور غیر متعصب لوگ پکار اٹھتے تھے کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔

اس کی شدت تاثیر کا حال یہ تھا کہ حضرت عمرؓ جیسے سخت دشمنِ اسلام کا دل اس نے پگھلا دیا اور انھیں رسول اکرمؐ کے قدموں میں لا ڈالا۔ قریش کے ایک نامور سردار جُبیرؓ بن مُطعم جنگِ بدر کے بعد اسیروں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے مدینے گئے۔ وہاں نبیؐ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورۂ طور زیر ِتلاوت تھی۔ بخاری و مسلم میں ان کا اپنا قول منقول ہوا ہے کہ ’’آیات (۳۵ تا ۳۹ )جب حضورؐ پڑھ رہے تھے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا‘‘۔ بعد میں   ان کے مسلمان ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ اِسی لیے دشمن کوشش کرتے تھے کہ لوگ اسے نہ سنیں، مگر خود اُن سے رہا نہ جاتا تھا اور چھپ چھپ کر اسے سنتے تھے۔

اِس انتہائی مؤثر کلام کے ذریعے سے شرک اور جاہلیت کے ایک ایک پہلو پر ایسی مدلل تنقید کی گئی کہ کسی معقول آدمی کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ اُن عقائد اور رسوم اور اخلاقی برائیوں کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ سکتا، جن پر قریش اور عرب کے مذہب اور تمدن کی بنا قائم تھی۔ پھر اِسی کلام کے ذریعے سے کمال درجہ دل نشین پیرائے میں اسلام کے عقائد، اس کے اصولِ تہذیب و تمدّن اور اس کی اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا، جن کی تردید میں کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی زبان کھولنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس کے بعد کفّار مجبور ہوگئے کہ اسلام کو زک دینے کے لیے مارپیٹ، ظلم و ستم، گالی گلوچ، کذب و افترا اور شور و شغب کے ہتھیاروں سے کام لیں۔ مگر یہ بجائے خود اُن کی طرف سے دلیل و حجت اور اخلاق و شرافت کے میدان میں اپنی شکست کا عملی اعتراف تھا۔

ہر وہ شخص جس میں ذرا بھی معقولیت کا شائبہ پایا جاتا تھا، اس معرکے کے دونوں فریقوں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتا چلا گیا کہ منکرین و مخالفین کے پاس قرآن کے دلائل اور اس کی پاکیزہ تعلیم کا کوئی جواب اوچھے ہتھکنڈوں اور انسانیت سے گری ہوئی چالوں کے سوا نہیں ہے۔ یہ کھلا کھلا معرکہ صرف مکے ہی میں لوگوں کے سامنے برپا نہ تھا، بلکہ تمام عرب کی نگاہیں بھی اس کو دیکھ رہی تھیں۔ مکے میں تو خیر شب و روز ہی عوام و خواص سب کسی نہ کسی طرح قرآن بھی سن رہے تھے، اور ان کارروائیوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو سردارانِ قریش اور ان کے زیرِ اثر اوباش لوگ قرآن کے جواب میں کر رہے تھے۔ لیکن دس برس تک ہر سال رسولؐ اللہ عُکاظ سے منیٰ تک کے اجتماعات میں تشریف لے جاکر، عرب کے ہر حصے سے آئے ہوئے لوگوں کو قرآن سناتے رہے، اور ابو جہل اور ابولہب جیسے لوگ برسرِ عام آپؐ کو پتھر مار کر آپؐ پر خاک دھول اڑا کر اُن کو یہ بتاتے رہے کہ اس کلام کا جواب اُن کے پاس کیا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکے میں بھی ساری رکاوٹوں کے باوجود اسلام پھیلتا چلا گیا، اور سرزمینِ عرب میں بھی کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا، جس میں کچھ نہ کچھ لوگ اسلام سے متاثر نہ ہوگئے ہوں۔ مکّی دور میں صورتِ حال یہ تھی کہ علانیہ اسلام قبول کرلینے والے لوگ تو کم تھے، مگر اُن سے بیسیوں گُنے زیادہ ایسے اشخاص معاشرے میں موجود تھے، جن کے دلوں میں قرآن کی تعلیم، اور رسول اکرمؐ کی عظمت و تکریم، اور آپؐ کے مظلوم ساتھیوں کے لیے ہمدردی، اور قریش کے سراسر بے جا ظلم و ستم کے لیے نفرت جاگزیں نہ ہوگئی ہو۔ اِس دور کا یہ کام بھی پوری طرح بار آور ہونے کے لیے ایک مدینے کا طالب تھا، جو ٹھیک اپنے وقت پر اُس کے لیے آغوش کھول کر سامنے آگیا۔

حضورؐپر ایمان لانے والوں کے اوصاف

تیسرا بڑا سرمایہ ایمان لانے والے مسلمانوں کا وہ چیدہ گروہ تھا، جو اِس تحریک کو ۱۳ سال کے دوران میںمیسر آیا۔ یہ وہ صاف دماغ اور سلجھے ہوئے ذہن کے لوگ تھے، جنھوں نے شرک و جاہلیت کے اُس تاریک ماحول میں پرورش پانے کے باوجود قرآن مجید کی تعلیمات سن کر اپنے دینِ آبائی کا غلط اور دینِ اسلام کا برحق ہونا تسلیم کرلیا اور کوئی تعصب انھیں ایمان لانے سے نہ روک سکا۔

اُن کو معلوم تھا کہ اپنے خاندان، اپنے قبیلے اور اپنے شہر کے عام لوگوں کی رائے کے خلاف اسلام قبول کرنے اور محمدؐ کی پیروی اختیار کرنے کے کیا معنی ہیں۔ ایمان لانے والوں پر جو عذاب توڑے جا رہے تھے وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ مگر وہ اِس دل گردے کے لوگ تھے کہ کوئی خوف انھیں باطل کو رد اور حق کو قبول کرنے سے نہ روک سکا۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم صرف اس لیے سہے کہ جس چیز کو وہ باطل سمجھ چکے تھے، اس کی پیروی کرنا انھیں کسی حال میںگوارا نہ تھا، اور جس چیز کا حق ہونا انھیں معلوم ہوچکا تھا، اُسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔

انھیں بُری طرح مارا پیٹا گیا۔ اُنھیں الٹا لٹکایا گیا۔ انھیں بھوک پیاس کی مار دی گئی۔ انھیں باندھ کر قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اُن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا۔ ان کے بڑے بڑے باعزت لوگوں کو برسرِ عام ذلیل کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ انھوں نے محض حق کی خاطر برداشت کرلیا اور ان میں سے کسی ایک مرد یا عورت کو بھی ایمان سے کفر کی طرف نہ پھیرا جاسکا۔ انھوں نے اپنا ایمان بچانے کے لیے دو دفعہ حبش کی طرف اور آخر میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔ گھر بار، مال اسباب، عزیز رشتہ دار، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں سے بکثرت ایسے تھے، جو تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ لے جاسکے۔ ان کے اس طرزِ عمل نے ثابت کردیا کہ اسلامی تحریک کو وہ انتہائی مخلص و جاں نثار فدائی مل گئے ہیں، جو اگرچہ مٹھی بھر ہیں، مگر ایسے بہادر ہیں کہ اپنے دین کے لیے ہر قربانی دے سکتے ہیں، ہر مصیبت جھیل سکتے ہیں، ہرتکلیف و اذیت برداشت کرسکتے ہیں، اور ہر بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔

اِن خوبیوں کے ساتھ ایسا عظیم اخلاقی انقلاب قرآن کی تعلیم اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے ان کی زندگی میں رونما ہوگیا کہ اپنی راست بازی و دیانت، اپنی پرہیزگاری و طہارت، اپنی خداترسی و خدا پرستی، اپنی عفت و پاک دامنی، اپنی شرافت و شائستگی، اور اپنی مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے اعتبار سے صرف عرب ہی میں نہیں، دنیابھر میں ان کا جواب نہ پایا جاتا تھا۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس معاشرے میں ایک منارۂ نور کی طرح نمایاں تھے، اسی طرح آپؐ کے ساتھیوں کی زندگی کا اخلاقی انقلاب بھی اِس قدر ظاہر و باہر تھا کہ دیکھنے والی آنکھ کفار کی اخلاقی حالت اور اُن کی اخلاقی حالت کا فرق علانیہ دیکھ سکتی تھی۔ تعصب اور عناد کی بناپر مخالفین زبان سے اس کا انکار کرسکتے تھے، مگر ان کے دل جانتے تھے کہ قدیم جاہلیت کیا سیرت و کردار پیدا کرتی تھی، اور یہ نیا دین کس سیرت و کردار کے انسان پیدا کر رہا ہے۔

انصارِ مدینہ کے اوصاف

چوتھا عظیم اور بیش قیمت سرمایہ جو مکّی دور کے آخری تین سالوں میں اسلامی تحریک کو ملا، وہ مدینے کے انصار کا خلوصِ ایمانی تھا۔ ان لوگوں کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت میسر آئی تھی، نہ آپؐ کی اور آپؐ کے صحابہؓ کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، نہ قرآن پاک کا اُتنا علم حاصل ہوا تھا جو مکے کے اہلِ ایمان کو حاصل تھا، لیکن یہ ایسے سلیم الطبع اور صحیح الدماغ لوگ تھے، جو حق کی ایک جھلک دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگئے۔ صدیوں کی رَچی بسی مشرکانہ جاہلیت کو انھوںنے اسلام کی صراطِ مستقیم کا نشان پاتے ہی اپنے دل ودماغ سے گرد کی طرح جھٹک کرنکال پھینکا۔ وہ پکے پھلوں کی طرح اسلام کی جھولی میں یوں جھڑتے چلے گئے کہ ۱۳ سال کے اندر مکّے میں جتنے لوگ ایمان لائے تھے، تین سال میں ان سے بہت زیادہ مردوں اور عورتوں اور جوانوں اور بوڑھوں نے مدینے میں ایمان قبول کرلیا۔

انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وہ ایسے خلوص کے ساتھ ایمان لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے ساتھی تمام اہلِ ایمان کو انھوں نے اپنے ہاں ہجرت کر آنے کی دعوت دے دی، حالاں کہ یہ دعوت دیتے وقت وہ خوب جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں انھیں تمام عرب کی دشمنی مول لینی ہوگی، جیسا کہ آخری بیعتِ عقبہ کے موقعے پر اُن کی تقریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ انھوں نے حضورؐ اور آپ کے مکّی صحابہؓ کے لیے اپنے شہر کو دار الہجرت کے طور پر پیش کردیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے پوری خوش دلی اور رضامندی سے آپؐ کو اپنا حاکم و فرماں روا تسلیم کیا، آپؐ کی وفا دار رعیت اور جاں نثار فوج بن گئے، آپؐ کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو اپنے شہر میں اپنے ساتھ برابر کے حقوق دیے اور اپنے گھر، اپنے مال اور اپنی جائیدادوں تک کو ان کے لیے پیش کردیا۔

اسی چیز نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔ اسلام کو ایک دعوت اور تحریک کے مقام سے اٹھا کر ایک معاشرے اور ریاست کی حیثیت دے دی، اور رسولؐ اللہ کو یہ موقع بہم پہنچا دیا کہ آپؐ ایک آزاد و خود مختار دارالاسلام میں اسلام کے ایک ایک پہلو کو عملی جامہ پہنا کر ساری دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کردیں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کابھیجا ہوا یہ دین، کیسے افراد تیار کرتا ہے؟ کیسا معاشرہ بناتا ہے؟ کس قسم کی تہذیب اور کس قسم کا تمدن پیدا کرتا ہے؟ کیسی اخلاقی روح پورے معاشرے میں جاری و ساری کردیتا ہے؟ معیشت، معاشرت، تعلیم، سیاست، قانون اور عدالت کا کیسا نظام قائم کرتا ہے؟ جنگ میں اس کی تہذیب کیا ہے؟ فتح پاکر وہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ معاہدے کرکے وہ ان کی کیسی پابندی کرتا ہے، اور بین الاقوامی تعلقات میں اس کا رویہ کیا ہے؟

[  سیرتِ سرورِ عالمؐ، دوم، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور/ ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۷ء]

ہر عبادت کا ایک ’ظاہر‘ ہوتا ہے اور ایک ’باطن‘۔

ظاہر سے مراد وہ عملی شکل ہے، جو کسی عبادت کو ادا کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے، اور باطن سے مراد وہ معنی ہیں، جو اس عملی شکل میں مضمر ہوتے ہیں اور جن کے اظہار کی خاطر عمل کی وہ خاص شکل مقرر کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر نماز کا ظاہر یہ ہے کہ آدمی قبلہ رُخ کھڑا ہو، رکوع کرے، سجدہ کرے، بیٹھے اور اِن ظاہری افعال سے نماز کی جو شکل قائم کی جاتی ہے، اُس سے مقصود دراصل اس معنی کا اظہار ہے کہ بندہ اپنے ربّ کے حضور بندگی کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہوا ہے، اس کے مقابلے میں اپنی انانیت سے دست بردار ہورہا ہے، اس کی بڑائی اور اپنی عاجزی تسلیم کر رہا ہے، اور اس کے آگے اپنے وہ معروضات پیش کر رہا ہے، جو اس کی زبان سے ادا ہورہے ہیں۔

اب دیکھیے جو شخص نماز کی ظاہری شکل کو ٹھیک ٹھیک احکام و ہدایات کے مطابق قائم کردے، وہ بلاشبہہ ادائے نماز کی قانونی شرائط پوری کردیتا ہے۔ اس کے متعلق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز نہیں پڑھی، یا اس کے ذمے فرض باقی رہ گیا۔ لیکن آپ غور کریں گے تو خود محسوس کریں گے کہ نماز کا پورا پورا فائدہ وہی شخص اُٹھا سکتا ہے، جو نماز کے اعمال میں سے ہرعمل کرتے وقت اُس کی روح کو بھی نگاہ میں رکھے، اور نماز کے اذکار میں سے ہر ذکر کو زبان سے ادا کرتے ہوئے اس کے معنی کی طرف بھی متوجہ رہے۔(’خطباتِ حرم‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۱، اکتوبر۱۹۶۳ء، ص ۳۴)

سوال : موجودہ قانون میں کورٹ میں اپیل کے بعد بھی اگر قاتل کو پھانسی کی سزا تجویز ہوجائے تو پھر صدر حکومت یا گورنر جنرل کے سامنے رحم کی اپیل ہوتی ہے، جس میں سزا کے تغیر کا امکان رہتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صورت کس حد تک جائز ہے؟

جواب :یہ بات اسلامی تصورِ عدل کے خلاف ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کسی کو سزا کے معاف کرنے یا بدلنے کا اختیار حاصل ہو۔ عدالت اگر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی کرے، تو امیر یا صدرِ حکومت کی مدد کے لیے پریوی کونسل کی طرز کی ایک آخری عدالت مرافعہ قائم کی جاسکتی ہے، جس کے مشورے سے وہ ان بے انصافیوں کا تدارک کرسکے، جو نیچے کی عدالتوں کے فیصلوں میں پائی جاتی ہوں۔ مگر مجرد ’رحم‘کی بناپر عدالت کے فیصلوں میں رد و بدل کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل غلط ہے۔ یہ ان بادشاہوں کی نقالی ہے جو اپنے اندر کچھ شانِ خدائی رکھنے کے مدعی تھے یا دوسروں پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔(ترجمان القرآن، جون و جولائی ۱۹۵۲ء)

اسلامی نظام تعلیم

سوال :  پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟

جواب : پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینے سے ہوسکتا ہے کہ ملک و قوم کی قیادت ہمیشہ تعلیم یافتہ طبقے ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اَن پڑھ یا نیم خواندہ طبقے اپنے قائدین ہی کے پیچھے چلتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے بنائو اور بگاڑ میں نظامِ تعلیم کو جو مقام حاصل ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)