سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


’مطالبۂ پاکستان‘ کو یہود کے ’قومی وطن‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے [۱۹۴۴ء]

سوال: مسلمان، آدم علیہ السلام کی خلافتِ ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ لیکن مسٹرمحمدعلی جناح اور مسلم لیگی بھائی پاکستان کا قیام چاہتے ہیں، ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ، تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چَین کی زندگی گزار سکیں۔

کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ مطالبہ قابلِ اعتراض نہیں ہے؟ یہودی قوم مقہور و مغضوب قوم ہے۔ اللہ پاک نے اس پر زمین تنگ کر دی ہے اور ہرچند کہ اس قوم میں دُنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں، لیکن اُن کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکاوالوں سے۔ میرے خیا ل میں مسلمان، یا بالفاظِ دیگر آل انڈیا مسلم لیگ بھی یہی کر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے؟

جواب: میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر، یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی:

 فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے، اُن کو وہاں سے نکلے ہوئے دوہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگراُن کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے، تو اُسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسطِ ایشیا کواپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک [فلسطین] واقعی اُن کا قومی وطن ہے اور وہ اسےتسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصلی پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے، اور اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ ’’ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں بسایا جائے اور اُسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے‘‘۔

بخلاف اس کے، مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ ’’جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘، اور مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ’’موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کےدوسرے حصوں کے ساتھ لگےرہنے سے، اُن کےقومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اُس سے اس کو محفوظ رکھاجائے، اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجاے، ’ہندو ہندستان‘ اور’مسلم ہندستان‘ کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یعنی بالفاظِ دیگر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ’’ان کا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے، اُس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہوجائے‘‘۔

یہ چیز بعینہٖ وہی ہے، جو آج دُنیا کی ہرقوم چاہتی ہے۔ اور اگرمسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظرانداز کرکے انھیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے، تو اُ ن کے اِس مطالبے کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً یہ ہرقوم کا حق ہے کہ اس کی سیاسی و معاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملے میں یہ مطالبہ صحیح ہے، اسی طرح ان کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی- اکتوبر، ۱۹۴۴ء، ص۱۰۳-۱۰۴)

مسئلہ فلسطین اور جماعت اسلامی [۱۹۴۶ء]

سوال: فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی خود غرضانہ دخل اندازی اور اسلام دشمنی کے نتائج واضح ہیں۔ جماعت اسلامی کی قضیۂ فلسطین کے سلسلے میں پالیسی کیا ہے؟

جواب: ہمارے نزدیک برطانیہ اور امریکا سخت ظلم کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں انھوں نے بے انصافی کی حد کردی ہے۔ اہلِ فلسطین سے ہمدردی کرنا ہرانسان کا انسانی فرض ہے، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ فرض کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کریں۔ پھر فلسطین کا مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر خدانخواستہ وہاں یہودی ریاست بن گئی، تو اس سے مرکز اسلام ، یعنی حجاز کو بھی متعدد قسم کے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں دُنیا کے مسلمان مدافعت کے لیے جو کچھ بھی کریں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔

ہمارے نزدیک اصل مسئلہ کفر و اسلام کی کش مکش کا ہے اور ہم اپناسارا وقت،ساری قوت اور ساری توجہ اسی مسئلے پر صرف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۴۶ء، ص۲۵۱-۲۵۲)

ظلم اور جارحیت کے رکھوالے [۱۹۶۷ء]

[۳۰؍اگست ۱۹۶۷ء کو ایک خط کے جواب میں لکھا:]

کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو جو تجربہ پچھلے [چندبرسوں] سے ہو رہا ہے اور عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت کے بعد جو تجربہ ہوا ہے، اس نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ دُنیا میں آج بھی ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا قاعدہ ہی جاری ہے۔ آج بھی قوت ہی حق ہے، اور کسی قوم کے لیے اس کی اپنی طاقت کے سوا اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد دنیا کو ایک فریب ’مجلس اقوام‘ کے نام سے ایک انجمن بنا کردیا گیا، مگر بہت جلدی یہ بات کھل گئی کہ ’بہرتقسیم قبور انجمنے ساختہ اند‘۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعددوسرا فریب ’اقوام متحدہ‘ کی تنظیم قائم کرکے دیا گیا، مگر آج کسی سے بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ تنظیم چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، جسے وہ حق اور انصاف کے لیے نہیں بلکہ اپنی مصلحتوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کا حق دِلوانا تو درکنار، یہ تنظیم تو ظالم کو ظالم کہنے تک کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ اب تو کھلم کھلا مظلوم کو ’حقیقت پسندی‘ کا درس دیا جارہا ہے، جس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ مظلوم اپنی کمزوری اور ظالم کی زورآوری کو ایک امرواقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرے، اور ظالم نے طاقت کے بل بوتے پر اس کا جو حق مار کھایا ہے،اس پر صبرکرے۔

ان حالات میں یہ اُمید کرنا بالکل لاحاصل ہے کہ کشمیر میں ہندستان نے اور شرقِ اوسط میں اسرائیل نے جو غاصبانہ دست درازیاں کی ہیں، ان کا تدارک محض حق و انصاف کی بنیاد پر کوئی بین الاقوامی طاقت کرائے گی۔ یہاں اخلاق کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون جاری ہے۔ ہمیں خدا پر بھروسا کرکے اپنی طاقت ہی سے غاصبوں کی ان زیادتیوں کا تدارک کرنا ہوگا، اور ان کا تدارک جب بھی ہوگا بزورِ شمشیر ہی ہوگا۔(مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۰۹-۲۱۱)

اسرائیلی جرائم میں مسیحی دنیا کی حصے داری[۱۹۶۷ء]

[رومن کیتھولک مسیحی سربراہ پوپ پال ششم کے نام دسمبر ۱۹۶۷ء کے خط میں لکھا:]

مسیحی دُنیا کے متعلق مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک شدید جذبۂ عناد رکھتی ہے، اور آئے دن ہمیں ایسے تجربات ہوتے رہتے ہیں، جو اس احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین تجربہ وہ ہے جو [جون ۱۹۶۷ء] میں عرب اسرائیل جنگ کے موقعے پر ہوا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فتح پر یورپ اور امریکا کے بیش تر ملکوں میں جس طرح خوشیاں منائی گئیں، انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں۔ آپ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا پائیں گے، جس نے عربوں کی شکست اور اسرائیل کی فتح پر مسیحی دُنیا کے اس علی الاعلان اظہارِ مسرت و شادمانی اور اسرائیل کی کھلی کھلی حمایت کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کیا ہو کہ یہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مسیحیوں کے گہرے جذبۂ عناد کا مظاہرہ تھا۔

فلسطین میں اسرائیل کی ریاست جس طرح بنی ہے ،بلکہ بنائی گئی ہے۔ اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دوہزار برس سے فلسطین عرب آبادی کا وطن تھا۔ موجودہ [۲۰ویں] صدی کے آغاز میں وہاں یہودی ۸ فی صدی سے زیادہ نہ تھے۔ اس حالت میں برطانوی حکومت نے اس کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کیا اور ’مجلسِ اقوام‘ نے نہ صرف اِس فیصلے کی توثیق کی بلکہ برطانوی حکومت کو فلسطین کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ ہدایت کی وہ یہودی ایجنسی کو باقاعدہ شریک ِ حکومت بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اس کے بعد دُنیا بھر کے یہودیوں کو لالاکر، ہرممکن تدبیر سے فلسطین میں بسانے کاسلسلہ شروع کر دیا گیا، یہاں تک کہ ۳۰سال کے اندر ان کی آبادی ۳۳فی صدی تک پہنچ گئی۔ یہ ایک صریح ظلم تھا، جس کے ذریعے سے ایک قوم کے وطن میں زبردستی ایک دوسری اجنبی قوم کا وطن بنایا گیا۔ پھر ایک دوسرا اس سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اُٹھایا گیا اور امریکا نے کھلے بندوں دباؤ ڈال کر اقوامِ متحدہ سے یہ فیصلہ کرایا کہ یہودیوں کے اس مصنوعی قومی وطن کو یہودی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ اس فیصلے کی رُو سے ۳۳فی صدی یہودی آبادی کو فلسطین کا ۵۵ فی صدی، اورعربوں کی ۶۷ فی صدی آبادی کو ۴۵ فی صدی رقبہ الاٹ کیا گیا تھا۔ لیکن یہودیوں نے لڑ کرطاقت کے بل پر اس ملک کا ۷۷ فی صدی رقبہ حاصل کرلیا اور ماردھاڑ اور قتل و غارت کے ذریعے سے لاکھوں عربوں کو گھر سے بے گھر کر دیا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حقیقت۔ کیا دُنیا کا کوئی انصاف پسند اور ایمان دار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک جائز ریاست ہے جو فطری اور منصفانہ طریق سے بنی ہے؟

اس [اسرائیل]کا تو عین وجود ہی ایک بدترین جارحیت ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ یہودی صرف اُن حدود کے اندر محدود رہنے پر بھی راضی نہیں ہیں، جو انھوں نے فلسطین میں زبردستی حاصل کی ہیں، بلکہ وہ سالہا سال سے علانیہ کہہ رہے ہیں کہ نیل سے فرات تک کا پورا علاقہ ان کا قومی وطن ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم ہروقت یہ جارحانہ ارادہ رکھتی ہے کہ اس پورے علاقے پر جبراً قبضہ کرے اور اس کے اصل باشندوں کو زبردستی نکال کر، دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں لاکر بسائے۔

اسی جارحانہ اسکیم کا ایک جز گذشتہ ماہِ جون [۱۹۶۷ء]کا وہ اچانک حملہ تھا، جس کے ذریعے سے اسرائیل نے۲۶ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔ اس پورے ظلم کی ذمہ دار مسیحی دُنیا ہے۔ اُس نے ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن زبردستی بنوایا۔ اُس نے اس مصنوعی قومی وطن کو ایک ریاست میں تبدیل کرایا۔ اُس نے اِس جارح ریاست کو روپے اور ہتھیاروں سے مدددے کراتنا طاقت ور بنایا کہ وہ زبردستی اپنے توسیعی منصوبوں کو عمل میں لاسکے۔ اور اب اس ریاست کی تازہ فتوحات پر یہی مسیحی دُنیا جشنِ شادمانی منارہی ہے۔

 کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد نہ صرف عربوں میں، بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسیحیوں کی انصاف پسندی، اُن کی خیراندیشی اور مذہبی عناد و تعصب سے اُن کی بریت پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا آپ کا خیال ہے کہ دُنیا میں امن قائم کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ یہ دراصل ہمارا نہیں بلکہ آپ کا کام ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اِس رَوش پر شرم دلائیں اور ان کی روح کو اِس گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ (مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۲۱-۲۲۳)

اسرائیل کے حق میں ایک عجیب مذہبی استدلال [۱۹۷۶ء]

سوال: سورئہ بنی اسرائیل ، آیت ۱۰۴ کے متعلق اخبار صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبدالماجد دریابادی [۱۶مارچ ۱۸۹۲ء-۶جنوری ۱۹۷۷ء]نے یہ تشریح کی ہے کہ ’’اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  سے یَوْمُ الْاٰخِرَۃِ نہیںہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اور جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے‘‘۔ پھر جناب دریابادی فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے، یعنی اسرائیلیوں کو بعد ِ واقعۂ فرعون کی خبر دےدی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دُنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیارکیے ہوئے ، سب کو ایک جگہ جمع کردیں گے اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جو ارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہرملک سے ہورہا ہے، کیا یہ اسی غیبی پیش خبری کاظہور نہیں؟‘‘ مولانا دریابادی صاحب کی اس تشریح سے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔

جواب:آیت ِ مذکورہ کی اس تشریح کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ آیت کے الفاظ تو صرف یہ ہیں کہ:

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۝۱۰۴ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۴) اور اس کے بعد (یعنی فرعون کی غرقابی کے بعد) ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ زمین میں رہو بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تم کو اکٹھا کر لائیں گے۔

ان الفاظ میں ’قربِ قیامت کے وقت ِ موعود‘ اور بنی اسرائیل کے وطنِ قدیم میں یہودیوں کے مختلف گروہوں کو ملک ملک سے لاکر جمع کردینے کا، مفہوم آخر کہاں سے نکل آیا؟ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  کاسیدھااور صاف مطلب آخرت کا وعدہ ہے، نہ کہ ’قیامت کے قریب زمانے کا کوئی وقت ِ موعود‘۔ اور سب کو اکٹھا کرکے لانے یاجمع کرلانے سے مراد قیامت کے روز جمع کرنا ہے۔ اس میں کوئی اشارہ تک اس بات کی طرف نہیں ہے کہ اسی دنیا میں بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔

اس پر مزید ستم یہ ہے کہ ’’ایک جگہ جمع کرنے‘‘ کے تصور کو آیت کے الفاظ میں داخل کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ [مولانا دریابادی صاحب نے] یہ بھی طے کردیا [ہے]کہ وہ جگہ ’اسرائیلیوں کے وطنِ قدیم‘ کے سوااور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو بعینہٖ یہودیوں کے اس دعوے کی تائید ہے کہ ’دو ہزار برس تک فلسطین سے بے دخل رہنے کے باوجود اُس پران کا حق فائق ہے، کیونکہ وہ ان کا وطن قدیم ہے، اور اب دو ہزار برس سے یہ ملک جن لوگوں کا حقیقت میں وطن ہے، ان کے مقابلے میں برطانیہ اورروس اور امریکا نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پریہودیوں کے حقِ سکونت کو فائق قرار دے کر انھیں ہرملک سے وہاں جمع کروایا ہے‘۔ اس طرح تو ’اسرائیلی ریاست کا قیام اللہ تعالیٰ کے ایک وعدے کا نتیجہ قرار پاتا ہے، نہ کہ دنیا کی ظالم قوموں کی ایک سازش کا‘۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کے لیے قطعاًکوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۶ء، ص ۳۸-۳۹)

امریکا کی جانب سے اسرائیل کی غیراخلاقی حمایت [۱۹۷۷ء]

سوال: اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن [۱۹۱۳ء-۱۹۹۲ء]نے اپنے دورئہ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیرقانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پرقانونی حیثیت دی ہے۔ مزیدبرآں اسرائیلی حکومت تین اورنئی بستیاں مغربی کنارے پربسارہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردِعمل کیا ہے؟

جواب: امریکی حکومت اگر انصاف اوراخلاق کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرکے یہودیوں کی بے جا حمایت اور امداد و اعانت کرنے پر تلی ہوئی نہ ہوتی، تو اسرائیل کبھی اتنا جری و بے باک نہ ہوسکتا تھا کہ پےدرپے ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکازنی اورغصب و ظلم کے جرائم کاارتکاب کرتا چلاجاتا۔ اس لیےمَیں ’اصل مجرم امریکا کی بےضمیری‘ کو قرار دیتا ہوں، جسے ساری دنیا کے سامنے اس جرائم پیشہ ریاست کی پیٹھ ٹھونکتےہوئے ادنیٰ سی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔

 امریکا، یہودیوں سے اس حد تک دبا ہوا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی آمدکے موقعے پر    ان کے مذہبی پیشوا اور بااثر لیڈر، امریکی صدر پر ہجوم کرکے آتے ہیں۔ [اسرائیلی وزیراعظم]بیگن کی پذیرائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کو درپردہ ہی نہیں اشاروں کنایوں میں یہ احساس بھی دلا دیتے ہیں کہ ’جسے امریکا کا  صدر بننا ہو، وہ یہودی ووٹوں کا محتاج ہے‘۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق اور اخلاق و انصاف کے دعوے دار [امریکی صدر]جمی کارٹر صاحب، بیگن کے اس انتہائی بے شرمانہ بیان کو شیرمادر کی طرح نوش فرما لیتے ہیں کہ ’’دریائے اُردن کے مغربی جانب کا فلسطین، جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں سے چھینا گیا تھا، وہ [اسرائیل کے زیرتسلط کوئی]مقبوضہ (occupied) علاقہ نہیں ہے، بلکہ آزاد کرایا ہوا (lliberated ) علاقہ ہے اور یہ ہماری میراث ہے، جس کا وعدہ چارہزار برس پہلے بائبل میں ہم سے کیا گیا تھا، اس لیے ہم اسے نہیںچھوڑیں گے‘‘۔

یہ کھلی کھلی بے حیائی کی بات، امریکی حکام اور عوام سب کے سب سنتے ہیں اورکوئی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ بائبل کی چالیس صدی قدیم بات آج کسی ملک پر ایک قوم کے دعوے کی بنیاد کیسے بن سکتی ہے؟ اور ایسی دلیلوں سے اگر ایک قوم کے وطن پردوسری قوم کا قبضہ جائز مان لیا جائے،تو  نہ معلوم اورکتنی قومیں اپنے وطن سے محروم کردی جائیں گی۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص۴۱-۴۲)

مسجد ِ اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی [۱۹۷۷ء]

سوال: مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس بارے میں آپ اظہارِ خیال فرمائیں۔

جواب:مسجد اقصیٰ میں جو اکھیڑپچھاڑ یہودی کررہے ہیں ، اور جو کچھ وہ الخلیل میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ کرچکے ہیں، اس کی کوئی روک تھام، بیانات اور قراردادوں اور اقوام متحدہ کےفیصلوں سے نہیں ہوسکتی۔ یہودی یہ سب کچھ طاقت کے بل پر کررہے ہیں اور وہ طاقت اس کو امریکا بہم پہنچا رہا ہے۔ جب تک ہم امریکا پر یہودیوں کے دباؤ سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کے قابل نہ ہوجائیں، اس ڈاکا زنی کا سلسلہ نہیں رُک سکتا۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص ۴۲)

انسانی زندگی اور تاریخ آزمایشوں، مصیبتوں اور ناقابلِ تصور حوادث سے گندھی ہوئی ہے۔ اکثر اوقات یہ آزمایشیں انسانوں کے لیے ایک اچانک حادثہ قرار دی جاتی ہیں کہ ایسے بھیانک منظر کا قبل ازیں تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ پھر لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مصائب و مشکلات بعض اوقات سرزنش اور عذاب کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ مگر عذاب کی سی اُس صورتِ حال کو ظاہربین اور الٰہی ہدایت سے بے نیاز لوگ محض ’حادثہ‘ ہی قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ حادثے سے بہت بڑی افتاد اور ہلامارنے کا لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ اکثر مصائب تو خود انسانوں کے ہاتھوں پرورش پاتے اور پھر اسی انسان کو بلاخیزی سے کچل ڈالتے ہیں۔ ایسے مصائب و حوادث قدرتِ حق کی جانب سے، باغی و سرکش انسان کی بددماغی پر کھلی تنبیہہ ہوتے ہیں۔
بہرحال، گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران اس کرئہ ارضی پر ’’نوول کرونا وائرس‘ اس انداز سے رُونما ہوا، چاروں طرف پھیلا اور جان لیوا تباہی کا طوفان بن کر یوں مسلط ہوا ہے کہ دہشت، خوف، بے بسی اور بےچارگی نے ’انسان عظیم ہے‘ کے غبارے کو ٹکڑوں میں بکھیر کر رکھ دیا ہے۔اس چیز کو آزمایش کہیں یا عذاب قرار دیں؟ قدرتی طور پر یا خود انسان کے ہاتھوں پیدا کردہ آفات کو اللہ کا عذاب قرار دینے کا ہم کو حق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم متعین طور پر فیصلہ نہیں دے سکتے کہ قوموں کی تباہی کے قانون کے رازدان اللہ کے پیغمبر علیہم السلام ہی تھے، لیکن چند در چند علامتوں سے نتائج ضرور اخذ کرسکتے ہیں۔
یہ امرِواقعہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران، ایک طرف انسان نے جہاں سائنس، میڈیکل، خلائی اسرار، فنون اور ضرب و حرب کے میدان میں ناقابلِ تصور ترقی کی۔ دوسری طرف ہزاروں برسوں پر پھیلے اخلاقیات و الٰہی ہدایات پر مبنی فکری و عملی اور تہذیبی و سماجی ڈھانچے کو برباد کرنے کا پاگل پن بھی اسی انسان کے دماغ میں جڑ پکڑنے لگا۔ اس فساد کے پھول، پھل لانے کے لیے خدا کی ہستی کا انکار ضروری قرار دیا گیا اور الٰہی ہدایت کو ایک واہمہ اور افسانہ قرار دینا عقل و دانش کی علامت سمجھا جانے لگا۔ فوجی، سیاسی، مادی، سائنسی اور مالی قوت کو حتمی سچائی قرار دے کر انسانیت کے چیتھڑے اڑانے کو ’طاقت کا قانون‘ قرار دیا گیا، جس کی بدنما مثال ’ویٹو کلب‘ اور عالمی مالیاتی و تجارتی کلب کے کرتا دھرتا ہیں۔ جو من مانے فیصلے کرکے کمزور ملکوں اورقوموں کو روند ڈالتے ہیں۔ جب جی چاہے کیمیائی، جوہری، جراثیمی ہتھیارو آلات بناکر فضائی آلودگی پھیلانے اور ماحولیاتی توازن بگاڑنے کی دھونس جماتے ہیں۔ اس طرح قوت اور اخلاقیات سے بغاوت پر مبنی ’جدیدجاہلیت‘ نے ’عصرجدید‘ کو تشکیل دیا ہے۔ اسی عصرِ جدید کے مظہر ۱۹۸ ممالک، آج ’کرونا وائرس‘ کے نہایت حقیروجود کے سامنے اپنی بے بسی اور درماندگی میں موت اور تباہی کے شکنجے کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
یہاں پر مولانا سیّدابوالاعلیٰ موددی رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۰۳-۱۹۷۹ء) کی دو تحریروں کے کچھ حصے پیش کیے جارہے ہیں، جن کا موضوع براہِ راست موجودہ منظرنامہ تو نہیں ہے، لیکن اس طوفان و آزمایش یا تاریخ کے ناقابلِ تصور امتحان پر غور وفکر کا سامان ضرور موجود ہے: پہلا حصہ انھوں نے ستمبر۱۹۳۳ء میں تحریر فرمایا تھا اور دوسرا حصہ تفہیم القرآن کے لیے اگست ۱۹۶۱ء میں تحریر کیا تھا۔(ادارہ)
[۱]
قرآنِ مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے، جن پر گذشتہ زمانے میں اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہرقوم پر نزولِ عذاب کی صورت مختلف رہی ہے: عاد پر کسی طرح کا عذاب اُترا، ثمود پر کسی اور طرح کا، اہلِ مدین پر کسی دوسری صورت میں، آلِ فرعون پر ایک نئے انداز میں۔ مگر عذاب کی شکلیں اور صورتیں خواہ کتنی ہی مختلف ہوں، وہ قانون جس کے تحت یہ عذاب نازل ہوا کرتا ہے ایک ہی ہے اور ہرگز بدلنے والا نہیں:
سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۶۲(احزاب ۳۳:۶۲) یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آرہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔
نزولِ عذاب کے اس قانون کی تمام دفعات پوری تشریح کے ساتھ قرآنِ مجید میں درج ہیں۔ اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ جب کسی قوم کی خوش حالی بڑھ جاتی ہے، تو وہ غلط کاری اور گمراہی کی طرف مائل ہوجاتی ہے اور خود اس کی عملی قوتوں کا رُخ صلاح سے فساد کی طرف پھر جایا کرتا ہے:
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوْا فِيْہَا فَحَـــقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِيْرًا۝۱۶ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ لوگ اس بستی میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ پھر وہ بستی عذاب کے حکم کی مستحق ہوجاتی ہے ۔ پھر ہم اس کو تباہ و برباد کرڈالتے ہیں۔
دوسرا قاعدئہ کلیہ یہ ہے کہ خدا کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ بدکار قوم خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتی ہے۔ خدا کسی قوم کو نعمت دے کر اس سے کبھی نہیں چھینتا۔ ظالم قوم خود اپنی نعمت کے درپئے استیصال ہوجاتی ہے اور اس کے مٹانے کی کوشش کرتی ہے:
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ (انفال ۸:۵۳) یہ اللہ کی اُس سنت کے مطابق ہے کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔
فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۝۷۰(التوبہ ۹:۷۰) پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا ، مگر وہ آپ ہی اپنے اُوپر ظلم کرنے والے تھے۔
پھر یہ بھی اسی قانون کی ایک دفعہ ہے کہ خدا ظلم (برنفسِ خود) پر مواخذہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور تنبیہیں کرتا رہتا ہے کہ نصیحت حاصل کریں اور سنبھل جائیں:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ (النحل ۱۶:۶۱)اگر کہیں اللہ، لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روے زمین پر کسی متنفّس کو نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّہُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ۝۴۲  فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۴۳ (انعام ۶:۴۲-۴۳) تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول ؑبھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا، تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس ، جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انھوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، خوب کر رہے ہو۔
اس ڈھیل کے زمانے میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظالم قوموں کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس سے دھوکا کھا جاتی ہیں اور واقعی یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ہم ضرور نیکوکار ہیں ورنہ ہم پر نعمتوں کی بارش کیوں ہوتی؟
اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ۝۵۵ۙ نُسَارِعُ لَہُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝۵۶ (المومنون ۲۳:۵۵-۵۶)کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انھیں مال اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں، تو گویا انھیں بھلائیاں (فائدے) دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انھیں شعور نہیں ہے۔
آخرکار جب وہ قوم کسی طرح کی تنبیہہ سے بھی نہیں سنبھلتی اور ظلم کیے ہی جاتی ہے، تو خدا اس کے حق میں نزولِ عذاب کا فیصلہ کردیتا ہے، اور جب اس پر عذاب کا حکم ہوجاتا ہے تو کوئی قوت اس کو نہیں بچاسکتی:
وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدًا۝۵۹ (الکھف ۱۸:۵۹) یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں، انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔
وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَہِىَ ظَالِمَۃٌ ۝۰ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ۝۱۰۲ (ھود۱۱:۱۰۲)اورتیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ۝۱۱ (الرعد ۱۳:۱۱) اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے، تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
یہ عذابِ الٰہی کا اٹل قانون جس طرح پچھلی قوموں پر جاری ہوتا رہا ہے، اسی طرح آج بھی اس کا عمل جاری ہے۔ اور اگر بصیرت ہو تو آج آپ خود اپنی آنکھوں سے اس کے نفاذ کی کیفیت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مغرب کی وہ عظیم الشان قومیں جن کی دولت مندی و خوش حالی، طاقت و جبروت،  شان و شوکت، عقل و ہنر کو دیکھ دیکھ کر نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اور جن پر انعامات کی پیہم بارشوں کے مشاہدے سے یہ دھوکا ہوتا ہے، کہ شاید یہ خدا کے بڑے ہی مقبول اور چہیتے بندے اور خیروصلاح کے مجسّمے ہیں، ان کی اندرونی حالت پر ایک غائر نگاہ ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اس عذابِ الٰہی کے قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔اور انھوں نے اپنے آپ کو خود اپنے انتخاب و اختیار سے اس دیوِ ظلم (ظلم بر نفسِ خود) کے چنگل میں پوری طرح پھنسا دیا ہے، جو تیزی کے ساتھ انھیں تباہی و ہلاکت کی طرف لیے چلا جارہا ہے۔
وہی صنعت و حرفت کی فراوانی، وہی تجارت کی گرم بازاری، وہی وباے سیاست کی کامیابی، وہی علومِ حکمیہ و فنونِ عقلیہ کی ترقی، وہی نظامِ معاشرت کی سربفلک بلندی، جس نے ان قوموں کو دنیا پر غالب کیا ، اور روے زمین پر ان کی دھاک بٹھائی ، آج ایک ایسا خطرناک جال بن کر ان کو لپٹ گئی ہے جس کے ہزاروں پھندے ہیں اور ہرپھندے میں ہزاروں مصیبتیں ہیں۔ وہ اپنی عقلی تدبیروں سے جس پھندے کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا ہرتار کٹ کر ایک نیا پھندا بن جاتا ہے، اور رہائی کی ہرتدبیر مزید گرفتاری کا سبب ہوجاتی ہے  ع
از سر گرہ زند گرہِ ناکشودہ را
یہاں ان تمام معاشی اور سیاسی اور تمدنی مصائب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، جن میں مغربی قومیں اس وقت گرفتار ہیں۔ بیانِ مدّعا کے لیے اس تصویر کا ایک پہلو پیش کیا جاتا ہے، جس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ قومیں کس طرح اپنے اُوپر ظلم کررہی ہیں اور کس طرح اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کیے جارہی ہیں۔
اپنے معاشی، تمدنی اور سیاسی احوال کی خرابی کے اسباب تشخیص کرنے اور ان کا علاج تجویز کرنے میں اہلِ فرنگ سے عجیب عجیب غلطیاں ہورہی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا بڑا بلکہ اصل سبب آبادی کی کثرت کو سمجھنے لگے اور ان کو اس کا صحیح علاج یہ نظر آیا کہ افزایش نسل کو روکا جائے، معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ خیال نہایت تیزی کے ساتھ مغربی ممالک میں پھیلنا شروع ہوا، اور دلوں میں کچھ اس طرح بیٹھا کہ لوگ اپنی نسل کو اپنا سب سے بڑا دشمن  سمجھنے لگے، یا بالفاظِ دیگر اپنی نسل کے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔
چنانچہ، ضبط ِ ولادت کے نئے نئے طریقے جو پہلے کسی کے ذہن میں بھی نہ آتے تھے، عام طور پر رائج ہونے شروع ہوئے۔ اس تحریک کو ترقی دینے کے لیے نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ و اشاعت کی گئی۔ کتابیں، پمفلٹ، رسائل اور جرائد خاص اسی موضوع پر شائع ہونے لگے۔ انجمنیں اور جمعیتیں قائم ہوئیں۔ ہرعورت اور مرد کو اس کے متعلق معلومات بہم پہنچانے ، اور عملی آسانیاں فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا۔ غرض یورپ اور امریکا کے عمرانی ’مصلحین‘ نے اپنی نسلوں کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ دی اور ’جوشِ اصلاح‘ میں ان کو یہ سوچنے کا ہوش بھی نہ آیا کہ آخر یہ جنگ کہاں جاکر رُکے گی۔
اہلِ فرنگ نے کیا اس کا اطمینان کرلیا ہے کہ کسی روز مغربی افریقہ کے مچھر، زردبخار کے جراثیم لیے ہوئے خود انھی کے ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر یورپ نہ پہنچ جائیں گے؟ کیا انھوں نے اس کی کوئی ضمانت لے لی ہے کہ کبھی یورپ میں [یا دُنیا میں کہیں بھی] اچانک انفلوائنزا ، طاعون، ہیضہ اور ایسے ہی دوسرے وبائی امراض میں سے کوئی مرض نہ پھیل جائے گا؟ کیا وہ اس سے بے خوف ہوچکے ہیں کہ ایک دن یکایک فرنگی سیاست کے باروت خانوں میں سے کسی ایک میں ویسی ہی کوئی چنگاری نہ آپڑے گی، جیسی ۱۹۱۴ء میں سرائیوو میں گری تھی اور پھر فرنگی قومیں خود اپنے ہاتھوں سے وہ سب کچھ نہ کرگزریں گی جو کوئی وبا اور کوئی بیماری نہیں کرسکتی؟ اگر ان میں سے کوئی صورت بھی پیش آگئی اور دفعتاً یورپ کی آبادی سے چندکروڑ آدمی قتل یا ہلاک یا ناکارہ ہوگئے تو اس وقت یورپ کے باشندوں کو معلوم ہوگا کہ انھوں نے اپنے آپ کو خود کس طرح تباہ کیا:
اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا بَيَاتًا وَّہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝۹۷ۭ اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّہُمْ يَلْعَبُوْنَ۝۹۸ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ ۝۰ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹۹ (اعراف ۷:۹۷  تا۹۹)پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی، جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے، جو تباہ ہونے والی ہوتی ہے۔
ایسی ہی ایک قوم اب سے تین ہزار برس پہلے عرب کے جنوبی ساحل پر آباد تھی جس کا ذکر قرآن مجید میں سبا کے نام سے کیا گیا ہے۔اس قوم کی گھنی آبادی کا سلسلہ سواحلِ بحرہند سے  سواحلِ بحراحمر تک پھیلا ہوا تھا۔ ہندستان اور یورپ کے درمیان جتنی تجارت اس زمانے میں ہوتی تھی، وہ سب اسی قوم کے ہاتھوں میں تھی۔ اس کے تجارتی قافلے جنوبی ساحل سے مال لے کر چلتے تو مغربی ساحل تک مسلسل بستیوں اور باغوں کی چھاؤں میں چلے جاتے تھے:
وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا قُرًى ظَاہِرَۃً وَّقَدَّرْنَا فِيْہَا السَّيْرَ ۝۰ۭ سِيْرُوْا فِيْہَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ۝۱۸  (السبا۳۴: ۱۸) اور ہم نے ان کے اور اُن بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسادی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں۔ چلو پھرو، ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔
مگر انھوں نے اللہ کی اس نعمت کو مصیبت سمجھا اور چاہا کہ ان کی یہ گھنی، متصل، مسلسل بستیاں کم ہوجائیں اور ان کا باہمی فصل بڑھ جائے:
 فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ (السبا۳۴: ۱۹) انھوں نے کہا: ’’اے ہمارے ربّ، ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کردے‘‘۔ انھوں نے اپنے اُوپر ظلم کیا۔
یہاں لفظ بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا  سے پتا چلتا ہے کہ تجارتی خوش حالی کی وجہ سے جب آبادی بڑھی اور بستیاں گنجان ہوگئیں تو وہاں بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا، جو آج یورپ میں پیدا ہوا ہے۔ اور وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ سے اشارہ ملتا ہے کہ شاید انھوں نے بھی مصنوعی تدبیروں سے آبادی گھٹانے کی کوشش کی ہوگی۔ پھر ان کا حشر کیا ہوا؟
 فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ كُلَّ مُمَــزَّقٍ ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۝۱۹ (السبا: ۱۹) [آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل ہی تتربتر کردیا۔ یقینا، اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے ، جو بڑا صابروشاکر ہو۔]
[یعنی] خدا نے ان کو منتشر اور پارہ پارہ کرکے ایسا تباہ و برباد کیا کہ بس ان کا وجود افسانوں ہی میں رہ گیا۔ [۱۹۳۳ء]
[۲]
وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۲۱ (السجدہ ۳۲:۲۱) اُس ’عذابِ اکبر‘ سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں۔
’عذابِ اکبر‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے، جو کفروفسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ’عذاب ادنیٰ‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے، جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں، جو اِسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں، مثلاً افرد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان،زلزلے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں، جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت [قرآن کریم میں] یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اُس طرزِفکروعمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخرکار وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔
 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اُس سےبالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے، جو اسے اپنی بے بسی اور اپنے سے بالاتر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرماںروائی کا احساس دلاتی ہیں۔یہ آفات ایک ایک شخص کو، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں، کہ اُوپر تمھاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔ سب کچھ تمھارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمھارے اُوپر آئے، تو نہ تمھاری کوئی تدبیر اسے دفع کرسکتی ہے، اور نہ کسی جِنّ یا روح، یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں، جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کرلے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا ط  (السجدہ ۳۲:۲۲)  اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے ربّ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔
’ربّ کی آیات‘ ،یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں، جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آجاتی ہیں۔ قرآنِ مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھے قسموں پر مشتمل ہیں:
    ۱-     وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہرچیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔
    ۲-    وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدایش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہیں۔
    ۳-    وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اس کے لاشعور اور تحت الشعور میں، اور اس کے اخلاقی تصورات میں پائی جاتی ہیں۔
    ۴-    وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔
    ۵-    وہ نشانیاں جو انسان پر آفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔
    ۶-    اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے سے انسان کو انھی حقائق سے آگاہ کیا جائے، جن کی طرف اُوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔
یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی، اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتارہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خدا صرف ایک ہی خدا ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تُو اس دنیا میں آزاد و خودمختار اور غیرذمہ دار بناکر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوکر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانا ہے۔ پس، تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیا علیہم السلام اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس کی پیروی کر اور خودمختاری کی روش سے باز آجا۔
 اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمایش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان اور سوچنے کے لیے دل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کرلیتا ہے، اور اپنے دل و دماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دنیا میں اپنے امتحان کی مدت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھرپور سزا پائے۔[اگست ۱۹۶۱ء/تفہیم القرآن، ج۴، ص ۴۷-۴۸]

حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی،  یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ  نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ادارہ
اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
♦      اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
♦      دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
♦       سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:

قائداعظمؒ کی اس تقریر کے الفاظ خواہ بظاہر پہلے اور دوسرے مفہوم کے حامل ہوں، مگر ہمارے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ان کا منشا بھی حقیقت میں وہی تھا، جو ان کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوں کو بنیاد بناکر لڑتے رہے تھے ، ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوں گے، اور انھی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوں گے، جن کے خلاف انھوں نے اپنی ساری قوم کو ساتھ لے کر جنگ کی تھی۔ نیز ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ قیامِ پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے ان تمام وعدوں سے پھر گئے ہوں گے، جو انھوں نے بارہا، صاف اور صریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے، اور جن کے اعتماد ہی پر قوم ان کو اپنا لیڈر مان کر اپنی جان و مال ان کے اشاروں پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔

پھر ہمارے لیے یہ ماننا بھی ممکن نہیں ہے کہ قائداعظمؒ ایسی متضاد باتیں کرسکتے تھے کہ ۱۱؍اگست کو ایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بار بار اس کے بالکل خلاف باتوں کا مسلمان پبلک کو یقین دلاتے رہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورہ بالا تقریر کو ان کے اگلے اور پچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کا کوئی ایسا مفہوم لیں، جو ان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتا ہے، جو انھوں نے اس سے پہلے فرمائیں اور اس کے بعد بھی فرماتے رہے۔

سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی [انڈین نیشنل]کانگریس سے لڑائی تھی ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر۔ ۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء تک ان کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیرمسلموں کےساتھ مل کر ایک متحدہ وطنی قومیت نہیں بناسکتے۔ اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں سے صرف ایک تحریر کا اقتباس مَیں یہاں نقل کروں گا، جو ۱۵ستمبر۱۹۴۴ء کو  گاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میں لکھی تھی: [قائداعظمؒ اور خان لیاقت علی خانؒ کی تحریروں اور تقریروں سے اقتباسات عدالت میں پیش کردہ بیان میں انگریزی میں تھے۔ یہاں اشاعت کی سہولت کے لیے ان کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔]

ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں، جو ’قوم‘ کی ہرتعریف اور معیار پر پورا اُترتی ہیں۔ ہم ۱۰کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں  ہم ایک ایسی قوم ہیں، جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور  فن تعمیر ، احساس اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج وتقویم (کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویۂ نگاہ ہے، اور بین الاقوامی قانون کی ہردفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(مسٹرجناح کی تقریریں اور تحریریں (بزبانِ انگریزی)، مرتبہ: جمیل الدین احمد، ص ۱۸۱)
اب کیا ہم یہ باور کرلیں کہ ۱۱؍اگست [۱۹۴۷ء] کو یک لخت وہ تمام خصوصیتیں مٹ گئیں، جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے جداکرکے ایک الگ قوم بناتی تھیں اور یکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے، جس میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائداعظمؒ کو اس الزام سے نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے، بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے مَیں توکسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔

بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی قائداعظمؒ مسلمانوں سے ایک اسلامی ریاست کا وعدہ کرتےرہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ اس وعدے کو دُہراتے رہے۔ پہلے کے وعدوں میں سے صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ ۲۱نومبر ۱۹۴۵ء کو فرنٹیرمسلم لیگ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
مسلمان، پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں (حوالہ مذکور، ص۴۳۷)۔
پھر اسی کانفرنس میں انھوں نے ۲۴نومبر کو تقریر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار فرمایا:
ہمارا دین، ہماری تہذیب ، ہمارے اسلامی تصورات ہی وہ اصل طاقت ہیں، جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں(حوالہ مذکور،ص ۴۲۲)۔
 پھر اسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
لیگ، ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کےقیام کی علَم بردار ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، تاکہ وہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں (حوالہ مذکور، ص ۴۴۶)۔
پھر ۱۱؍اگست والی تقریر سے صرف ایک مہینہ ۱۲دن پہلے ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظمؒ ایک بیان میں [انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادیوں] خان عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کی دستورساز اسمبلی، شریعت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردے گی ‘‘ اور بیان دیتے ہیں:
مگر خان برادران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہرآلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے (ڈان، دہلی،۳۰جون ۱۹۴۷ء)۔
دوسری طرف ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے بعد جو ارشادات قائداعظمؒ کی زبان سے سنے گئے، اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی ،اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، ان کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پشاور، ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خانؒ نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظمؒ کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا.... انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں(روزنامہ پاکستان ٹائمز، لاہور،۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)۔
اور پھر ۱۱؍اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں، جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دی گئی، تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت برپا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرر ہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)۔
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ ’’پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو، جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے‘‘ (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء)۔
ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست والی تقریر کا ایک ایسا مفہوم نکالنا، جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو، مرحوم کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔

علاوہ بریں، اگر قائداعظمؒ کی اس تقریر کو اس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میں بھی لے لیا جائے، تو ہمیں جذبات سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ غور کرنا چاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ انھوں نے یہ تقریر خواہ صدرِ مجلس دستورساز کی حیثیت سے کی ہو یا گورنر جنرل کی حیثیت سے، بہرحال کسی حیثیت میں بھی وہ مجلس دستور ساز، ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (Sovereign Body ) کو اس امر کا پابند نہیں کرسکتے تھے کہ وہ دستور انھی خطوط پر بنائے، جو وہ کھینچ دیں۔ رہی قوم، تو اس نے مرحوم کو اس لیے اپنا لیڈر مانا تھا کہ وہ اس کے قومی عزائم اور مقاصد پورے کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنازے کو اٹھانے میں جلدی کرو کیونکہ اگر مرنے والا صالح تھا، تو اس کا جنازہ اٹھانے میں جلدی کرنا ایک بھلائی ہے، جو تم اس کے ساتھ کرو گے۔ اگرمرنے والا اور قسم کا آدمی تھا تو وہ ایک برائی ہے، جسے تم جتنی جلدی کندھوں سے اتار دو ، اتنا ہی بہتر ہے۔[متفق علیہ، مشکوۃ:۱۵۵۶]
لیکن ہمارے ہاں جنازے کو دیر تک گھر میں ڈالے رکھنے کا طریقہ عام ہو چکا ہے ۔ تاخیر کا یہ طریقہ غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جتنی جلدی ممکن ہو جنازے کو اٹھا لیاجائے‘‘۔ اس کے اندر ایک مصلحت تو یہ ہے کہ کہ لاش سڑنے یا گلنے نہ پائے اور اس میں بو نہ پیدا ہو ۔ اور یہ بھی کہ مرنے والے کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ اس کی روح سے ہوتی ہے ۔ روح کے نکلنے کے بعد یہ جسم محض مٹی ہے، اس مٹی کو گھر میں ڈالے رکھنا محبت نہیں ہے۔ اور یہ بات خود مرنے والے کے لیے بھی اچھی نہیں ہے۔ اگر نیک ہے تو جتنی جلدی منزل پر پہنچا دو اتنا ہی بہتر ہے، اور اگر بد ہے تو جتنی جلدی اس بار کو اپنے اوپر سے ہٹا دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔
 حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب جنازہ لا کر رکھا جاتا ہے ، (یعنی گھر سے نکال کر ) پھر لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسے لے کر چلتے ہیں، تو اگر مرنے والا نیک انسان ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’’مجھے جلدی لے چلو‘‘۔ اگر مرنے والا صالح نہیں ہوتا، تو اٹھا کر لے جانے والوں سے کہتا ہے: ’’ہائے میری کم بختی !کہاں لے جا رہے ہیں یہ میرا جنازہ ‘‘۔اس کی آواز ہر چیز سنتی ہے مگر انسان نہیں سنتا۔ اگر انسان اس آواز کو سن لے تو بے ہوش ہو جائے ۔[بخاری، مشکوٰۃ: ۱۵۵۷]
اس سے مراد یہ نہیں کہ خود مردہ بولتا ہے بلکہ روح یہ سمجھتی ہے کہ اب میری شامت آگئی___  اگر نیک انسان ہو تو اسے اللہ کے دربار میںجانے کی خوشی ہوتی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی انسان کو باد شاہ یا حکمران کے دربار میں حاضری کا موقع ملے تو اسے مسرت ہوتی ہے، لیکن اگر وہ مجرم کی حیثیت سے وہاں جائے تو معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے ۔ اگر مرنے والا غیر صالح ہو تو اسے قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں، اور مجھے حوالات میں بند کرنے کے لیے لے جارہے ہیں___ یہ احساس ، یہ سوچ اور چیخنا چلّانا مردہ جسم کا نہیں ہوتا بلکہ یہ روح کہہ رہی ہوتی ہے ___مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ روح کس شکل میں ہوتی ہے ، اورکس زبان میں بولتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ علم ہوتا ہے کہ نیک کو جلدی ہوتی ہے اور بد کو اپنی شامت نظر آتی ہے ___ یہ جو فرمایا کہ ’’اس آواز کو کوئی انسان نہیں سنتا ، باقی ہر چیز سنتی ہے، تو یہ اس لیے ہے کہ انسان سے عالم آخرت کی ہر چیز کو مخفی رکھا گیا ہے۔ اسے تو رسول ؐ کے واسطے سے جو معلومات ملتی ہیں، انھی پر ایمان بالغیب لانا ہوتا ہے۔ اگر انسان کو معلوم ہو جائے کہ مرنے کے بعد کیا کیا ہوتا ہے؟ اور وہ ان سب چیزوں کو آنکھوں سے دیکھ لے، تو پھر کون شخص ہے جو ایمان نہ لائے گا؟ اس عالم کے سارے معاملات کو انسان سے مخفی رکھنے کی غرض اس کا امتحان ہی ہے ۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔ پھر جو جنازے کے ساتھ جائے تو اسے چاہیے کہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے ۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ:۱۵۵۸]
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:ایک تو یہ کہ جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ اب اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا لازم ہے یا ایسا کرنا اچھا ہے ؟ اگر کھڑا ہو تو بہتر ہے ، اور نہ ہو تو کیا گناہ گار ہوگا؟ اس کے بعد جو احادیث آگے آرہی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کھڑا نہ ہو تو گنہگار ہوگا۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ جب جنازہ گزر رہا ہو تو انسان کھڑا ہو جائے اور اس وقت تک کھڑا رہے، جب تک کہ گزر نہ جائے۔ یہ ایک ادب واخلاق کی بات ہے، بجاے خود شرعی حکم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ ’’جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے ، بیٹھو نہیں‘‘۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک قبر میں نہ رکھ دیا جائے ، اس وقت تک نہیں بیٹھنا چاہیے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رکھنے کا مطلب کندھوں سے اتار کر زمین پر رکھنے کا ہے، جاتے ہی بیٹھ جانا درست نہیں ۔
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جنازہ گزر رہا تھا ، اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے ۔ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم نے عرض کیا : یہ تو ایک یہودی عورت کا جنازہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ یہ موت خوف ناک چیز ہے۔ جب جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو‘‘۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ:۱۵۵۹]
یعنی کھڑا ہونا اس وجہ سے ہے کہ جو وقت اس پر آیا ہے، وہ کل ہم سب پر بھی آنے والا ہے۔ یہ گویا اشارہ ہے اس بات کا، کہ دراصل موت کا خوف ہر آدمی کو ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اگر قبرستانوں، مُردوں اور جنازوں کو دیکھ کر بھی کسی انسان کو یہ یاد نہ آئے کہ اسے بھی مرنا ہے اور حساب دینا ہے، تو اس آدمی کی غفلت کی کوئی حد ہی نہیں۔ جنازہ دیکھ کر یہ حقائق سوچنے اور ان احساسات کو اپنے اُوپر طاری ہونے دینے کا ایک بہت بڑا اخلاقی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ انسان عبرت محسوس کرتا ہے ۔ اگر قبرستانوں ، اور جنازوں کو دیکھ کر بھی کوئی شخص اس غلط فہمی میں رہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا، تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اصل بات بار بار یاد دلانے کا انتظام کر رکھا ہے۔
حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازے کے لیے کھڑے ہوتے، تو ہم بھی کھڑے ہوتے۔ جب آپ بیٹھتے، تو ہم بھی بیٹھ جاتے ___  دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے کھڑے ہوتے تھے ، بعد میں بیٹھنے لگے ۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۰]
اس سے معلوم ہوا کہ کھڑا ہونا لازم نہیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام قانون کا ماخذ بننا تھا، اس لیے اگر آپؐ کوئی حکم فرماتے ہیں تو یہ فرض بن جاتا___ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ تو یہ تھا کہ کھڑے ہو جاتے، مگر کبھی کبھی بیٹھے رہتے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ فرض نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ اپنے ایمان اور احتساب (اللہ کی خوش نودی) کی بنا پر رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فارغ ہو جائیں، تو وہ دہرا اجر لے کر پلٹتا ہے، جس کا ایک ایک حصہ اُحد [پہاڑ] کے برابر ہے ۔اور جو شخص نماز پڑھ کر واپس آ جاتا ہے، قبل اس کے کہ میت کو دفن کیا جائے، تو وہ ایک حصہ اجر لے کر آتا ہے۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۱]
یعنی جو صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آ جائے، وہ ایک حصہ اور جو شخص دفن کے بعد لوٹے وہ دو حصے اجر لے کر آتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی نیکی نہیں ہے، بلکہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ایک ایک حصہ اُحد کے برابر ہے، مگر شرط یہ عائد کی گئی ہے کہ یہ کام ایک تو ایمان کے جذبے سے کیا جائے اور دوسرے مقصود یہ ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ اگر اس سے کسی دوست کو راضی کرنا پیش نظر ہو تو لیجیے وہ راضی ہو گیا، مگر ربّ کے ہاں سے تو اجر تب ہی ملے گا، جب اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے کام کیا جائے۔ اللہ کے ہاں اجر پانے کا یہی اصول ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو اپنی محبت کی بنا پر روٹی کھلاتے ہیں، تو آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس خیال سے کھلاتے ہیں کہ ’’یہ بچہ اللہ کا عطا کیا ہوا ہے اور اس کی پرورش اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے‘‘۔ اور اس صورت میں جب آپ روٹی اپنے بچے کو کھلائیں گے، تو اس پر اجر اللہ کی طرف سے ملے گا۔کسی بھی کام میں اللہ کی رضا کو نظر انداز کر کے دنیوی مقاصد کے لیے کیا جائے، تو اس پر اجر کیوں کر مل سکتا ہے؟
پھر حدیث نبویؐ میں جنازے کے ساتھ جانے کی جو ہدایت کی گئی ہے، غور کیا جائے تو ایک معاشرے میں اس کی بڑی بنیادی اہمیت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں ایک دوسرے سے جذبۂ محبت ، رفاقت ، ہمدردی اور غم خواری کا پیدا ہونا ہی وہ اصل چیز ہے، جو اسے باہم مربوط معاشرہ اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اگر معاشرہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہو کہ ان میں سے کسی کو کسی کے ساتھ ہمدردی نہ ہو، وہ ایک دوسرے سے بغض وحسد رکھتے ہوں، ایک دوسرے کو ذلیل کرنے ، گرانے اور ایک دوسرے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی فکر میں لگے رہتے ہوں، تو وہ  مل کر کوئی متحد ہ طاقت بنانے کے قابل نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے ہر وہ چیز جو مسلم معاشرے کو باہم پیوستہ کرنے والی ہو، باہمی اخوت پروان چڑھانے اور برادری کا جذبہ پیدا کرنے والی ہو،ایک دوسرے سے جوڑنے اور وابستہ کرنے والی ہو، اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اجر کا مستحق قرار دیا ہے۔ درحقیقت معاشرہ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جی رہا ہو، تو اس کی ہر حرکت اجر کی مستحق ہو گی۔
غور کیجیے کہ ایک آدمی کے ہاں موت واقع ہو جائے اور اس کے گرد وپیش کوئی حرکت نہ پیدا ہو، تو اس پر کیا بیتے گی۔ ایسا معلوم ہو گا کہ اس معاشرے میں انسان نہیں حیوانات رہتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست بمبئی میں رہتے تھے۔ ایک زمانے میں وہ ملحدانہ خیالات رکھتے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے رہایش بھی بمبئی کے اس محلے میں رکھی جس میں فرنگی رہتے تھے___  اس دوران ان کی بیوی بیمار ہوئی اور رات کے وقت فوت ہو گئی۔ گھر میں ان کے علاوہ ایک بچی تھی ، جو ماں کی موت پر رونے لگی۔ بچی کے رونے کی آوازیں سن کر آس پڑوس والے جاگ گئے اور آ کر کہا کہ ’’ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’میری بیوی مر گئی ہے اور بچی رو رہی ہے‘‘ ۔ وہ کہنے لگے ’’یہ تو ٹھیک ہے مگر ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘ صبح محلے بھر میں جنازہ اٹھانے والا تو کجا، ہمدردی کے دو بول کہنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ وہ وہاں سے دور مسلمانوں کے محلے میں گئے۔ وہاں سے لوگ آئے اور جنازہ اٹھا ۔ اس واقعے نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور یہی واقعہ ان کے لیے کفر سے اسلام کی طرف پلٹنے کا سبب بنا۔ گویا کہ اس طرح کے معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ اگر موت واقع ہو جائے تو کمپنی کو اطلاع دے دی جاتی ہے اور وہ بزنس کے طور پر لاش کو گاڑی میں  رکھ کر لے جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انسانیت نہیں ہے ۔ انسانیت، اخوت اور معاشرتی ہمدردی یہ ہے کہ پورا محلہ جمع ہو، تعزیت کرے، مرنے والے کے رشتہ داروں سے سچے دل سے ہمدردی کرے۔ ان کے ہاں کھانا نہ پک سکے، تو کھانا مہیا کرے۔ اللہ کی رضا کے لیے یہ سارے کام کیے جائیں، تو یقینا یہ ساری چیزیں ایک دوسرے سے پیوستہ کرنے والی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں لوگوں کو نجاشی کے مرنے کی خبر دی، اس روز کہ جس روز وہ مرا اور لوگوں کو لے کر مصلے (وہ کھلا مقام جو نمازِ عید کے لیے مقرر کیا گیا تھا ) کی طرف نکلے۔ انھیں صف بستہ کیا اور چار مرتبہ جنازے میں تکبیریں پڑھیں۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۲]
اس حدیث میںپہلی بات تو یہ ہے کہ نجاشی جو حبشہ کا باد شاہ تھا، جب حبشہ میں وفات پا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما تھے۔ اسی روز آپ نے مدینہ میں لوگوں کو خبر دی کہ تمھارا بھائی نجاشی مر گیا ہے۔ اس زمانے میں کوئی ٹیلی گراف نہ تھا، نہ ریڈیو۔لیکن رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے خبر دے دی گئی۔ دوسرے یہ کہ نجاشی وہی ہے جس کے پاس صحابہ ؓ ہجرت کر کے گئے تھے اور حضرت جعفر طیار ؓ کی تبلیغ سے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ نجاشی نے ہی ام حبیبہ ؓ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھایا (جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام حبشہ پہنچا )اور اپنی طرف سے مہر دیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لوگوں کو نجاشی مرحوم کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے مصلے کی طرف گئے ۔ اس سے دو مسئلے پیدا ہوتے ہیں :  lنماز جنازہ غائبانہ  l نماز جنازہ مسجد نبویؐ میں نہیں بلکہ باہر عید گاہ میں پڑھی گئی ۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین اشخاص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی: ایک نجاشی کی، دوسرے حضرت جعفر ؓ طیار کی، تیسرے ایک اور صحابیؓ کی۔ حنفی مسلک میں ان تین واقعات کی بنا پر غائبانہ نماز جنازہ مسنون نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بکثرت صحابہ ؓ کا مدینہ سے باہر انتقال ہوا،جن کی وفات کی خبریں مدینہ میں پہنچتی رہیں، مگر ان کی غائبانہ نماز جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی ۔ اگر   اس طریقے کو رائج کرنا مقصود ہوتا تو یہ حکم دیا جاتا کہ جو کوئی وفات پائے، تو جہاں جہاں خبر پہنچے وہاں کے لوگ غائبانہ نماز جنازہ پڑھیں۔ اس طرح خلفاے راشدین کی نماز جنازہ تمام دنیاے اسلام میں پڑھی جاتی مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ گویا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کیا ۔ مثال کے طور پر ان واقعات میں غائبانہ نماز جنازہ کا کوئی نہ کوئی سبب موجود تھا۔
نجاشی حبش میں اکیلے مسلمان تھے۔ یہ بھی بعید نہیں کہ عیسائیوں نے انھیں اپنے طریقے کے مطابق دفن کیا ہو۔ حضرت جعفر ؓ طیار کفا ر کے ملک میں شہید ہوئے، وہاں جنازے کا سوال ہی نہ تھا۔ اس طرح کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جاتی ہے ۔ یعنی اس کا پڑھنا ناجائز یا حرام بھی نہیں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر مسجد نبوی میں دی، مگر نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔یہاں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں ہوسکتی ہے، مگر حنفی اور مالکی اس بات کے قائل ہیں کہ مسجد میں نہیں باہر پڑھی جانی چاہیے۔ چنانچہ وہ ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ آںحضور ؐ نے ، جیسا کہ متعدد دوسری احادیث سے ثابت ہے، مسجد نبویؐ سے باہر ایک جگہ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے مقرر کی تھی۔ پہلے گروہ والے اس واقعے سے استدلال کرتے ہیں جس کے مطابق سہیل بن بیضاء کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانے میں آپ ؐ مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھے تھے۔
حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد آپ ؐ نے لوگوں کو صف بستہ کیا اور چار تکبیریں پڑھیں۔ تکبیروں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ احادیث میں تعداد تین سے آٹھ تک ہے۔ مختلف زمانوں میں آپ ؐ نے مختلف طرح سے مختلف تعداد میں تکبیریں پڑھیں۔ صحابہ ؓ نے اس تحقیق کی کوشش کی ہے کہ آخری عمل کیا ہے ؟ معلوم ہوا کہ آخری زمانے میں چار تکبیریں ہی پڑھیں۔ چنانچہ عام طور پر وہی طریقہ رائج ہے، مگر زائد تکبیریں پڑھنا ناجائز بھی نہیں ہے۔
سوالات وجوابات

س:کیا آپ ٹیپ ریکارڈر کو ایک فرشتہ تصور کرتے ہیں ؟
ج: (مسکراتے ہوئے ) میرا خیال ہے کہ کسی بات کو سنتے ہوئے ، سوچنے کا کام کانوں کے بجاے دماغ سے لینا چاہیے ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فرشتے ہماری تمام باتوں کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ریکارڈ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے رکھا جا رہا ہے یا فرشتے کاپی پنسل لے کر ہرچیز لکھ رہے ہیں۔ درحقیقت ریکارڈ رکھنے کی بے شمار شکلیں ہیں جو ہمارے علم سے بالاترہیں۔ جب خود انسان ٹیپ ریکارڈر بنانے پر قادر ہو گیا ہے، جس کے ذریعے انسانی آواز اور لہجہ تک محفوظ ہوجاتا ہے، تو اللہ کے فرشتے نامعلوم کس کس طرح ہماری باتوں کو ریکارڈ کر رہے ہیں ۔

س: کیا انسان کے مرنے کے فوراً بعد جزاو سزا کا عمل شروع ہو جاتا ہے ؟
ج : اصل میں قیامت کا روز تو وہ ہو گا جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی، اور اس عدالت سے فیصلہ ہو گا کہ کون سزا کا مستحق ہے اور کون جزا کا؟ مگر مرنے کے وقت سے یہ فیصلہ تو ہو جاتا ہے کہ یہ آدمی دنیا میں نیکوکار کی حیثیت سے رہا یا مجرم کی حیثیت سے ___ اور اسی سے یہ بات معلوم ہو جاتی کہ آنے والا معزز مہمان ہے یا ’حوالاتی‘ ہے، یعنی اسے مہمان خانے میں اُتارا جائے یا حوالات میں رکھا جائے؟ فرشتوں کا ریکارڈ تو عدالت کے موقعے پر کام آئے گا ۔ مگر ذاتِ باری تعالیٰ کا براہِ راست علم (جسے معلوم ہے کہ کون ہے جو نیک ہے اور کون ہے جو بد ہے ) اس کا م آتا ہے کہ مرنے کے فوراً بعد اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ یہی ثواب وعذابِ برزخ کی حقیقت ہے ۔

س: میرے دل ودماغ میں برے کاموں کی طرف رغبت ہوتی ہے ، نیکی کے بجاے شیطانی کاموں کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے۔ اس سے نجات کا کوئی طریقہ بتائیے؟
ج: اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کریں ۔اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کو پیدا کرنے اور اسے تازہ رکھنے کی کوشش کریں ۔ اس کے سوا اور کوئی ذریعہ شیطان کے پھندے سے نکلنے کا نہیں ہے۔ اگر اس کے باوجود شیطان کے پھندے میں پھنس جائیں تو مایوس نہ ہوں، کبھی ہمت نہ ہاریں، شیطان کی ترغیبات کو برابرresist کرتے رہیں، مسلسل جدوجہد اور کش مکش کرتے رہیں۔ ایک پہلو ان کی طرح اپنے اس دشمن سے برابر لڑتے رہیں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔

س: مجھے نیکی کی بات یاد نہیں رہتی مگر بُری بات پانچ سال گزرنے پر بھی یاد رہتی ہے۔ اس کا کیا علاج ہے؟
ج: اس کے لیے باہر سے کوئی ترکیب نہیں بتائی جاسکتی۔ آپ کو اپنے اندر سے مسلسل کش مکش جاری رکھنی چاہیے۔ آپ کا اس بارے میں دریافت کرنا بھی یہ بتاتا ہے کہ آپ اس مصیبت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور بُرے خیالات سےبچنے اور اچھے خیالات کو اپنانے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ اس صورت میں آپ مسلسل کوشش کرتے رہیں اور مایوس نہ ہوں۔

س: یہ سنا ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ نہیں ہوتی؟
ج: درست سنا ہے، مگر کہنا یہ چاہیے کہ ’مسجد میں نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے‘۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس بات کا خطرہ نہ ہو کہ مُردے کے جسم سے کوئی رطوبت وغیرہ ٹپک کر مسجد کو گندا نہ کردے گی، تو نمازِ جنازہ پڑھ لینی چاہیے۔ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کو حرام کوئی نہیں کہتا۔

س: کیا اس کی ایک صورت یہ نہیں ہوسکتی کہ مسجد کے محراب میں ایک کھڑکی ہو، جنازہ اس کھڑکی کے باہر رکھا جائے، اور نمازِ جنازہ پڑھنے والے مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھیں؟
ج: (مسکراتے ہوئے فرمایا:) آخر اتنے تکلّف کی ضرورت کیا ہے کہ محراب میں سے کھڑکی نکالی جائے اور یہ سارے تکلفات کیے جائیں۔ خدا کی زمین اتنی تنگ تو نہیں ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے۔

س: کیا عورتیں نمازِ جنازہ میں شریک ہوسکتی ہیں؟
ج: نمازِ جنازہ میں عورتوں کی شرکت حرام یا ممنوع نہیں ہے، مگر عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے سعد ابی وقاصؓ کا جنازہ مسجد ِ نبوی میں منگوایا کہ وہ بھی شریک ہوسکیں۔ان معاملات میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ بہتر کیا ہے۔

۱۹۶۴ء میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کی آمرانہ حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی، جسے سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دیا۔ جیل سے رہائی کے بعد مولانا مودودیؒ نومبر ۱۹۶۴ء میں کراچی دورے پر گئے تو وہاں کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں معروف قانون دان اے کے بروہی صاحب نے مولانا مودودی کا استقبال کیا۔ جواب میں مولانا نے یہ مختصر خطاب فرمایا۔ ادارہ

ایک مہذب سوسائٹی اور ایک وحشی سوسائٹی کے درمیان فرق کرنے والی چیز ’قانون‘ ہے۔ وحشی سوسائٹی میں لاقانونیت ہوتی ہے اور مہذب سوسائٹی میں قانون اور اس کی پابندی ہوتی ہے۔
چار بنیادی عوامل
ایک صحیح قسم کی مہذب سوسائٹی کے لیے قانون کے سلسلے میں چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
    l     ایک یہ کہ قانون بجاے خود معقول ہو، منصفانہ ہو اور معروف ہو۔ اس قانون کے بارے میں ہرشخص یہ محسوس کرے کہ یہ عقل و انصاف کے مطابق ہے، اور اس کے خلاف طبیعتیں بغاوت پر آمادہ نہ ہوں۔ اس کے احکام کے متعلق لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بے جا احکام ہیں، اور اس قابل نہیں کہ ان کی پیروی کی جائے، اِلا یہ کہ ان قوانین کو ان کے اُوپر زبردستی ٹھونس دیا جائے۔ گویا ایک مہذب سوسائٹی کی اوّلین ضرورت یہ ہے کہ قانون منصفانہ اور معقول ہو، لوگ اپنے دل سے یہ جانیں کہ یہی قانون ہے اور یہی قانون ہونا چاہیے، اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے اُوپر عمل کریں۔
    l    دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کرنے والی ایک طاقت ایسی ہو جو ایمان دار ہو اور لوگ یہ بھروسا کرسکیں کہ یہ انصاف کے ساتھ اس قانون پر عمل درآمد کرائے گی اور چھوٹے بڑے کی تفریق کو خاطر میں نہ لائے گی۔ اورقانون کے مطابق ہرایک سے یکساں سلوک کرے گی۔
    l    تیسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ کہ ایک آزاد اور باوقار عدلیہ موجود ہونی چاہیے۔ اگر قانون کی تعبیر کے معاملے میں اختلافات پیدا ہوں، یعنی یہ سوال پیدا ہو کہ قانون کے مطابق کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ ایسا جھگڑا یا اختلاف خواہ حکومت اور اشخاص کے درمیان پیدا ہو، یا مختلف طبقوں اور گروہوں کے درمیان ہو، تو ایک عدلیہ ایسی موجود ہونی چاہیے جس پر یہ بھروسا کیا جاسکے کہ وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق قانون کاانطباق کرے گی اور قانون میں ابہام کی صورت میں اس کی درست تعبیر کرے گی۔
    l    اور چوتھی چیز یہ ہے اور یہ ایک لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ پبلک میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں، جو قانون کو جانتے بھی ہوں، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش رکھتے ہوں اور جن کے اندر یہ عزم بھی موجود ہو کہ قانون کے راستے سے سوسائٹی کو ہٹنے نہیں دیں گے۔
انتظامیہ اور آرڈی ننس
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس مہذب سوسائٹی کی دو شرائط بڑی حد تک ساقط ہوچکی ہیں۔ جہاں تک قانون کا تعلق ہے، یہاں کھلم کھلا ایسے آرڈی ننس نافذ کیے اور قوانین بنائے جارہے ہیں، جن کی دفعات کو دیکھ کر ان کے اندر اختلاف بلکہ تضاد نظر آتا ہے۔
دوسری طرف جس انتظامیہ کا کام قانون کو نافذ کرنا ہے اور خود ان پر عمل درآمد کرنا اور پبلک سے کرانا ہے، اس کا طرزِعمل ایسا چلاآرہا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اس کے اُوپر سے اُٹھ چکا ہے۔ کیوں کہ وہ انتظامیہ جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ جو قانون موجود ہے اور جس کو وہ خود بھی مانتے ہیں کہ یہ قانون ہے، اس کی بھی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یہ قانون شکنی اس بھروسے پر کی جاتی ہے کہ ہمارا عدالتی طریق کار اور ضابطہ کار اس سرکشی اور قانون شکنی کو کافی مہلت دیتا ہے کہ آپ ایک زیادتی آج کربیٹھیں تو آٹھ نو مہینے یا سال دو سال تک تو کسی گرفت کے بغیر کام بہرحال چل ہی جائے گا۔ بعد میں عدالت خواہ اس سب کچھ کو خلافِ قانون ہی کیوں نہ قرار دے دے___ انتظامیہ اگر جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ہو، تو اُسے ایک آزاد عدلیہ قانونی ذرائع سے قانون کی خلاف ورزی سے باز رکھ سکتی ہے۔

ہماری عدلیہ

اب ہمارے معاشرے میں صرف دو ہی عنصر ایسے باقی رہ گئے ہیں، جن کے بل پر ہم مہذب معاشرے کی حیثیت سے جی رہے ہیں یا جی سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طاقت ور عنصر عدلیہ ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں، جو اللہ سے ڈر کر انصاف کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہےکہ غلط آرڈی ننسوں اور قوانین سے ان کے ہاتھ ہی باندھ دیے جائیں، لیکن قانون کے اندر وہ جتنی کچھ گنجایش پاتے ہیں، اس کے مطابق انصاف کو بروے کار لانے میں کمی نہیں کرتے۔
یہ بات صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں انتظامی طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ عدالتوں پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش سے نہیں چُوکتے۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے جج موجود ہیں، جو کسی دباؤ کو قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ کسی لالچ اور کسی دباؤ سے اثر لیے بغیر وہ انصاف کرنے والے ہیں۔

قانون دان

آخری چیز جس کا آپ سے ذکر کیا، وہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ کثرت سے موجود ہو ں جن کے اندر قانون کا علم بھی ہو ، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش بھی اور یہ مضبوط ارادہ بھی موجو د ہو کہ سوسائٹی کو ہم قانون کے راستے سے نہیں ہٹنے دیں گے۔ یہ گراں بار ذمہ داری زیادہ تر ہمارے وکلا پر آپڑی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کا لیگل سسٹم پیشہ ور وکیلوں ہی کو چاہتا ہے، اس لیے عام قانون دان اگر اپنی جگہ یہ سمجھتا بھی رہے کہ قانون کیا ہے اور اس کا انطباق کس طرح ہونا چاہیے؟ تو اس کی راے کا اثر کچھ نہیں ہوسکتا، اِلا یہ کہ وہ اخبارات میں مضامین لکھے یا پھر پبلک پلیٹ فارم کا رُخ کرے۔
اس صورتِ حال میں صرف پروفیشنل وکلا کے بس میں یہ ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے سے قانون کی بالادستی کو منوائیں۔ ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ قانون کے راستے سے نہ ہٹنے پائے اور جس جگہ بھی ظلم ہورہا ہو، وہاں انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ واقعہ ہے کہ چندسال پہلے تک یہ محسو س ہوتا تھا کہ ہمارے ملک کے وکلا اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کر رہے ہیں، لیکن گذشتہ ایک دو برسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں دوچار ہی نہیں سیکڑوں کی تعداد میں ایسے وکلا موجود ہیں، جو اپنے اس فرض کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے اندر شعور، بیداری اور احساسِ فرض موجود ہے۔ اس چیز پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کو اب تک یہ دولت نصیب ہے۔

سیاسی پہلو

جہاں تک اس موضوع کے سیاسی پہلو کا تعلق ہے اس سلسلے میں صرف ایک ہی بات آپ سے عرض کروں گا۔ اے کے بروہی صاحب نے برسرِاقتدار گروہ کو یہ دعوت دی ہے کہ ’’وہ ذرا اپوزیشن میں بھی رہ کر کام کرکے دیکھیں‘‘ تو مَیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اقتدار ہاتھ سے چھوڑ دیں تو وہ اپوزیشن تو کیا، کوئی پوزیشن بنانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اگر اقتدار ان کے ہاتھ سے چلا جائے تو ان کی پارٹی میں ایک بندۂ خدا بھی باقی نہیں رہ جائے گا۔
سیاسی پارٹیاں ایک مدت دراز تک کام کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ کسی مرحلے پر پہنچ کر اس قابل ہوتی ہیں کہ اقتدار حاصل کریں۔ اقتدار ہاتھ سے چھن جانے کے بعد بھی وہ پارٹیاں باقی رہتی ہیں اور اپوزیشن کی حیثیت سے کام کرسکتی ہیں۔ یہاں جو پارٹی وجود میں آئی ہے، وہ اقتدار پر قبضہ کرلینے کے کئی برس بعد ، اقتدار کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، نہ کہ کسی پروگرام اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں [یاد رہے، تب فوجی حکومت نے کنونشن مسلم لیگ کی صورت میں ایک پارٹی قائم کرکے، حکومت بنارکھی تھی، یہ اشارہ اس جانب ہے۔ ادارہ]۔
 ظاہر بات ہے کہ جوچیز کسی سبب سے پیدا ہوئی ہو، وہ سبب کے ہٹ جانے کے بعد باقی نہیں رہتی۔ چونکہ اقتدار سبب ہوتا ہے، اس پارٹی کے وجود کا، اس لیے اقتدار چھن جانے کے بعد ایسی پارٹی سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔ ہمیں سوچنا پڑےگا کہ جمہوری نظام چلانا ہے تو اپوزیشن کہاں سے پیدا ہو؟ (ہفت روزہ ایشیا اور آئین، لاہور، نومبر ۱۹۶۴ء)

 

سترہ روزہ پاک بھارت جنگ ستمبر۱۹۶۵ء کے بعد اسی سال ۱۶؍اکتوبر کو انجمن شہریانِ لاہور کے جلسے منعقدہ  وائی ایم سی اے ہال سے خطاب۔ مرتبہ: رفیع الدین ھاشمی

***

ایک دانش مند قوم کو ایسے موقعے پر، جو اس وقت ہمیں درپیش ہے، حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے،کہ حریف کے مقابلے میں ہمارے کمزور پہلو کیا ہیں اور قوت و طاقت کے ذرائع کیا ہیں؟ کیوں کہ عقل مندی کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ اپنی قوت اور طاقت کے ذرائع کو مضبوط کیا جائے، اور کمزور پہلوئوں کی تلافی کی تدابیر سوچی جائیں۔

آپ جانتے ہیں کہ ہندستان تعداد کے لحاظ سے ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی رکھتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بھی کئی گنا بڑا ہے اور ذرائع، وسائل اور اسلحے کی مقدار کے لحاظ سے بھی۔ ان حیثیتوں سے ہم ان اُمور کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ رقبہ بڑھانا چاہیں تو نہیں بڑھا سکتے اور اگر ہم خاندانی منصوبہ بندی سے توبہ کرلیں تب بھی، تعداد کے لحاظ سے اس کے برابر نہیںہوسکتے۔ اسی طرح اس کے اسلحے کی فراہمی کے ذرائع اور وسائل بھی ہم سے زیادہ ہیں۔ ان پہلوئوں سے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس سے بڑھ جائیں یا اس کے برابر ہی پہنچ جائیں۔
اب یہ دیکھیے کہ ہماری طاقت کے ذرائع کیا ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوسکے کہ اگر ہم ان ذرائع کو بڑھائیں تو ہم دشمن سے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ذرائع اگر ہمیں مضبوط بناتے ہیں، تو پھر یقینا انھیں بڑھانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہوگا۔

ہماری طاقت کے اتھاہ ذخیرے: اسلام اور ایمان

ہمارے لیے سب سے اوّلین شعبہ طاقت کا وہ اتھاہ ذخیرہ ہے، جس میں ہندستان بلکہ پوری کافر دنیا ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اور یہ ایمان اور اسلام کی دولت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس چند روزہ جنگ میں ہمیں کامیابی اس لیے ہوئی کہ ہماری فوج دشمن کی فوج کے مقابلے میں زیادہ تربیت یافتہ تھی تو میں اسے غلط نہیں کہتا، مگر واقعہ یہ ہے کہ محض فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کی مہارت ہی وہ چیز نہ تھی، جس نے ہمیں فتح یاب بنایا۔ہماری فوجی تربیت بھی تو وہی تھی، جو انگریزی نظامِ عسکریت کے تحت ہم نے پائی۔ ادھر دشمن نے بھی یہی تربیت حاصل کی تھی۔اگر محض اسی پر ہمارا انحصار ہوتا تو ہم بازی نہیں جیت سکتے تھے۔ تب وہ چیز کیا تھی، جس نے ایک اور دس کے مقابلے میں ہمیں کامیاب کرایا؟  دراصل وہ چیز اللہ پر ایمان، آخرت کا یقین، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی محبت، اور یہ یقین تھا کہ اگر ہم شہید ہوگئے تو ہماری بخشش ہوگی اور ہم جنّت میں جائیں گے۔ اس چیز نے ہمارے سپاہی کو طاقت ور بنایا۔خالص دینی جذبہ ، اللہ و رسولؐ اور آخرت پر یقین اور شہادت کا شوق ہمارے سپاہی کی اصل روح ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نصرت عطا فرمائی ہے۔
آپ دیکھیں کہ ان علاقوں سے جو دشمن کی زد میں تھے، ہماری آبادی اس طرح نہیں بھاگی جس طرح دوسری جنگ ِعظیم کے دوران فرانس کی آبادی ان علاقوں سے بھاگی، جن پر جرمن فوجوں نے حملہ کیا تھا۔ ہمارے تاجر نے اس اخلاق کا ثبوت دیا جو زندہ قوموں کے شایانِ شان ہے۔ اس کی نظیر نہیں ملتی کہ جنگ چھڑ جائے اور ضرورت کی عام چیزیں بازار سے غائب نہ ہوں اور چیزیں نہ صرف ملتی رہیں بلکہ پہلے سے بھی سستی ہوجائیں۔ یہ آخر کس چیز کا فیض ہے۔ بجز ایمان کے اور ان اخلاقیات کے، جو ہمیں اسلام کی بدولت حاصل رہے ہیں۔
غور کیجیے کہ اگر اس موقعے پر خدانخواستہ سارا انحصار فوجی مہارت کے استعمال پر ہوتا اور ایمان کی طاقت نہ ہوتی، یا اسلام کی دی ہوئی بچی کھچی اخلاقی حس بیدار نہ ہوتی اور تاجر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتے، عوام بدحواس ہوکر بھاگنا شروع کر دیتے، بستیوں کو خالی دیکھ کر یا افراتفری کے عالم میں دیکھ کر مجرم اپنے جرائم کی رفتار تیز کردیتے، تو آج ہم کہاں ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے دین، اسلام کے سوا اور کوئی چیز ہمیں بچانے والی نہیں ہے۔

تجربے سے سبق حاصل کریں

ایک عقل مند کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب حریف کے مقابلے میں اسے اپنی طاقت و قوت کے ذرائع کا علم ہوجائے تو انھیں بڑھانے کی کوشش کرے، نہ کہ انھیں ختم کرنے میں لگ جائے۔ یہ تجربہ جو ہمیں اس جنگ میں ہوا ہے، ہم اسے بار بار نہیں دُہرا سکتے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو وہ تعلیم نہیں دے سکتے جو انھیں ذہنی شکوک و شبہات میں مبتلا کرے۔ ہم قوم کو عیاشی کی شراب نہیں پلاسکتے۔ ہم قوم کی اخلاقیات کا ستیاناس نہیں کرسکتے۔ ایک مرتبہ ہم نے تجربہ کرلیا ہے کہ ہماری مسلسل غلطی کے باوجود صرف ایمان اور اخلاق ہی ہمارے کام آئے ہیں۔ اب اگر ہم بار بار اپنی اسی طاقت کو کمزور کرنے والے طریقے اور راستے اختیار کرتے چلے جائیں گے، تو نہ معلوم ہم میں سے کتنے آیندہ بھی مضبوط ثابت ہوں؟ ہرنئی آزمایش کے موقعے پر پہلے سے کمزور ہوتے چلے جانا ایک فطری چیز ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیںہماری کسی غلطی کی سزا نہیں دی۔ اس لیے اب ہمیں اپنی ایمانی قوت کو مضبوط کرنے اور اخلاقی طاقت کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ہمیں خوب سوچ سمجھ کر اپنے نظامِ تعلیم کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیےکہ یہ نظام نوجوانوں میں کس حد تک ایمان کے بیج بوتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں کمزوری ہو، اسے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اخلاق کو سنبھالنے کی فکر کرنی چاہیے۔ نشرواشاعت کے دیگر ذرائع سب کو اس کی فکر کرنی چاہیے اور وہ کام نہ کیے جائیں جو اخلاق کو کمزور کرنے والے ہوں، بلکہ ایک سچّے مسلمان کی سیرت کو نشوونما دینے کی نیت اور جذبے سے کام کیا جانا چاہیے۔

ہمارا فطری اتحادی __ عالمِ اسلام

ہندو قوم چاہے کتنی ہی کثیر تعداد میں کیوں نہ ہو، وہ بھارت تک محدود ہے۔ اس کے برعکس یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہم اس دین حق سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا کے ہرگوشے میں پھیلا ہوا ہے۔ مسلمان جہاں بھی ہیں وہ فطری طور پر ہمارے دوست اور فطری اتحادی ہیں اور یہ بھی اسلام کی بدولت ہے۔ پھر مسلمان ملکوں میں سے جو اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں، ۱۳مسلمان ملکوں کی زبان عربی ہے۔ یہ سب ملک ہمارے فطری اور پیدایشی حامی ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اگر کسی موقعے پر ہماری حمایت نہ بھی کرتی ہوں، تب بھی ان ملکوں کے عوام ہمیشہ ہماری حمایت کرتے ہیں۔ 
جہادِ پاکستان نے عالمِ اسلام پر جو اثر ڈالا ہے، اس مناسبت سے عرب دنیا کے ایک نامور لیڈر ایک عربی اخبار میں لکھتے ہیں کہ: ’’اسرائیل کی آبادی صرف ۲۲لاکھ ہے اور  سات آٹھ کروڑ عرب اس سے ڈرتے ہیں، جب کہ پاکستان نے صرف دس کروڑ کی آبادی کے ساتھ ۴۸کروڑ آبادی کے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے ہیں‘‘۔ پھر انھوں نے یہ سوال عربوں کے سامنے رکھا ہے کہ غور کیجیے کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے جو آپ کو اسرائیل کے مقابلے میں کمزور بنائے ہوئے ہے؟
ان نکات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہادِ پاکستان نے خود عالمِ اسلام پر کیسا عظیم الشان اثر ڈالا ہے۔ فی الحقیقت یہ جو کچھ ہوا ہے، بالکل فطری طور پر ہوا ہے۔ یہ ہماری کوششوں سے نہیں ہوا،لیکن اسے اب نشوونما دینا ہمارا فرض ضرور ہے۔
گذشتہ برسوں میں ہم نے مسلمان ملکوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ پاکستان سے پہلے ہم اس بھروسے پر تھے کہ ہندوئوں کے مقابلے میں دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ ہیں اورتقسیمِ ہند کے بعد بھی ہم اسی بھروسے پر رہے، لیکن بھارت نے مسلم ممالک کو ہم سے توڑنے کی زبردست مہم شروع کر دی۔ اس نے مسلمانوں کو ہم سے توڑنے کے لیے اپنے  عربی دان مسلمانوں کو پروپیگنڈے کے لیے عرب ملکوں میں بھیجا، جنھوں نے وہاں کے دانش وروں اور لیڈروں کو یقین دلایا کہ پاکستان تو انگریزی استعمار کی پیداوار ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس قدر زہر پھیلایا کہ ۱۹۵۶ء میں، جب میں عرب ملکوں میں گیا تو مجھ سے وہاں مقیم پاکستانیوں نے کہا کہ ان ملکوں میں ہمیں خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہاں ہمیں مغربی استعمار کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے لاکھوں روپے خرچ کر کے جو زبردست پروپیگنڈا کیا، یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ اس جنگ کے دوران اس کی کوشش ناکام ہوگئی۔ 

ٹھوس اقدامات کی ضرورت

میں کہتا ہوں کہ اسلام کی بدولت یہ سب کچھ اگر ہمیں اپنی کسی خاص کوشش کے بغیر حاصل ہوا ہے تو عقل مندی یہ ہے کہ اب ہم اپنی خاص کوشش سے اسے بڑھائیں۔ 
اس ضمن میں ہمارے سفارت خانوں نے جو کردار ادا کیاہے، اس کے متعلق نرم سے نرم الفاظ میں مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے کوئی خاص خدمت انجام نہیں دی۔ حج کے لیے جانے والے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ حج کے زمانے میں ہندستان صاف ستھری عربی زبان میں اپنے پروپیگنڈے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرتا ہے کہ ’’بھارت کے مسلمان خیریت سے ہیں اور انھیں ہرطرح کا آرام اور سہولتیں حاصل ہیں‘‘۔ اس کے مقابلے میں حقائق کو سامنے لانے کے لیے ہمیں اوّل تو کوئی چیز  شائع کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی تو نہایت گھٹیا انداز میں کہ اسے کوئی پڑھتا بھی نہیں۔ یہ ایک نہایت ضروری چیز ہے کہ عرب ملکوں میں ہمارے سفارت خانوں میں عربی جاننے والے لوگ موجود ہوں اور دوسرے ملکوں کے سفارت خانوں میں بھی اس ملک کی زبان جاننے والے لوگ ہوں۔ فارن سروس میں لیے جانے والے لوگوں کے لیے یہ چیز لازمی کرنی چاہیے تاکہ وہ اس ملک میں اپنا موقف اور نقطۂ نظر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا عمل جاری رکھیں۔
ایک اور ضروری چیز یہ ہے کہ خود ہمارے نظامِ تعلیم میں عربی زبان کو ایک لازمی زبان کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔ عربی زبان جسے مُلّا کی زبان سمجھا جاتا رہاہے، آج دنیا کے ۱۳ایسے ممالک کی زبان ہے، جو خلیج فارس سے لے کر اٹلانٹک تک پھیلے ہوئے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں۔ ان ملکوں میں ڈاکٹروں، انجینیروں، پروفیسروں اور دیگر ٹیکنیکل عملے کی ضرورت ہے۔ ہم یقینا ایسا عملہ ان ملکوں کو دے سکتے ہیں، لیکن زبان کی اجنبیت مانع ہے۔ وہ لوگ اپنی ضرورت کے تحت ڈاکٹر اور انجینیر وغیرہ منگواتے ہیں، مگر جب وہاں ڈاکٹر اور مریض کے درمیان، انجینیراور اس کے ماتحت عملے کے درمیان زبان کی مشکل حائل ہوتی ہے تو پھر انگریزی مترجمین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں کالجوں میں وظیفے دے کر طلبہ کو عربی پڑھنے پر آمادہ کیا جاسکے، تو یہ ماہرین ہمارے قدرتی سفیر ثابت ہوں گے اور مفید خدمات انجام دیں گے۔ اس طرح کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک ہماری حمایت نہ کریں۔ اگر ہم ایسا کرسکیں تو ان شاء اللہ سارا عالمِ اسلام ہمارے ساتھ ہوگا۔ 
میں نے یہ چند عملی تجاویز مختصر الفاظ میں بیان کردی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ انھیں بروے کار لانے کی توفیق دے۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۵ء، ص ۸-۹)

قربانی کی بحث کے سلسلے میں چند مزید باتیں عرض کرنی ہیں۔ پہلے یہ بتایاجاچکا ہے کہ:

  • قرآنِ مجید کی رُو سے قربانی ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ کے نظامِ عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔
  • قرآن واضح طور پر یہ بھی بتاتا ہے کہ الٰہی شریعتوں کے نظامِ عبادت میں کن وجوہ سے اس طریقِ عبادت کو شامل کیا گیا ہے۔
  • قرآن پچھلی اُمتوں کی طرح اُمت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا حکم دیتا ہے۔
  • مگر قرآن میں اس کا ایک حکمِ عام دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے رسولِ برحق پر چھوڑ دی کہ آپ اس پر عمل درآمد کی ایک شکل متعین کردیں۔

اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے، اور اس کا ثبوت کیا ہےکہ یہ شکل حضوؐر ہی کی متعین فرمائی ہوئی ہے؟

قربانی: سنتِ رسولؐ

اوّلاً، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑی کہ فرداً فرداً جس مسلمان کا جب جی چاہے، اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جانور قربان کردے، بلکہ آپ نے تمام اُمت کے لیے تین دن مقرر فرمادیے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انھی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کردیں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نماز کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کاحکم دیا گیا۔ ہفتے میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی، تاکہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں، اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کی گئیں، تاکہ انھیں ادا کرنے کے لیے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملے میں بھی تمام مسلمانوں کے لیے ایک مہینہ مقرر کر دیا گیا تاکہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔ 
اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اُس خاص عبادت کا ماحول طاری ہوجاتا ہے، جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیز ہوتے ہیں، اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے، جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔

یومِ عید کا تعین

ثانیاً، اس کے لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ایک یومِ عید مقرر فرمایا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں۔ پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں۔ یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔ قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ (انعام ۶:۱۶۲)  اے نبیؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۝۲ۭ (الکوثر ۱۰۸:۲) پس، اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔

پھر یہ مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی پوری کرتی ہے ۔ ہر معاشرہ فطری طور پر  یہ چاہتا ہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں، جن میں اس کے سب افراد مل جل کر خوشیاں منائیں۔ اس سے ان میں ایک جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور تہوار کی یہ خاص صورت کہ اس کا آغاز اللہ کی ایک عبادت، یعنی نماز سے ہو، اور اس کا پورا زمانہ اس طرح گزرے کہ ہروقت کسی نہ کسی گھر میں اللہ کی ایک دوسری عبادت یعنی قربانی انجام دی جارہی ہو، اور اس عبادت کے طفیل ہرگھر کے لوگ اپنے دوستوں، عزیزوں اور غریب ہمسایوں کو ہدیے اور تحفے بھی بھیجتے رہیں۔ یہ اسلام کی روح اور مسلم معاشرے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ناچ رنگ اور لہو ولعب اور فسق و فجور کے میلے نہیں چاہتا۔ وہ اپنے بنائے ہوئے معاشرے کے لیے میلوں کی فطری مانگ ایسی ہی عید سے پوری کرنا چاہتا ہے، جو خدا پرستی اور اُلفت و محبت اور ہمدردی و مواسات کی پاکیزہ روح سے لبریز ہو۔

سنتِ ابراہیمیؑ پر عمل

ثالثاً، اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا، جس دن تاریخِ اسلام کا سب سے زیادہ زرّیں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا۔ یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے ربّ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی کرنا چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی کی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعے کی یادگار بھی بن گئی، جو ایمانی زندگی کے اِس منتہاے مقصود، اُس کے اس آئیڈیل اور مثلِ اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انھیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
قربانی کا حکم بجالانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہوجاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اِس خاص تاریخ کا انتخاب ’بیک کرشمہ دوکار‘ کا مصداق ہے۔ 
ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔  آپ سے پوچھا گیا: مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیُّ،یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ، یہ تمھارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ (مسنداحمد، ترمذی، ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اس واقعے کے بعد ہرسال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضوؐر نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے، اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اُس روز کریں، جس روز حضرت ابراہیمؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے ۔ اپنی تاریخ کےیادگار واقعات کا ’یوم‘ دنیا کی ہرقوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لیے بھی اُس دن کا انتخاب کرتا ہے، جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔

حج کی توسیع

رابعاً، قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بُری طرح کھل رہی تھی کہ کفّار نے اُن پر حرم کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایامِ حج کو مدینے ہی میں ان کے لیے ایامِ عید بنا دیا۔ آپ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ۹ذی الحجہ (یعنی یوم الحج) کی صبح سے، جب کہ حاجی عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہرنماز کے بعد اللہُ اَکْبَرُ  اللہُ اَکْبَرُ  ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاللہُ اَکْبَرُ   اللہُ اَکْبَرُ  وَلِلہِ الْحَمْدُ  کا ورد شروع کریں اور ۱۳ذی الحج تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایامِ تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز ۱۰ ذی الحج کو، جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانۂ نماز ادا کرکے قربانیاں کریں۔
یہ طریقہ فتح مکہ سے پہلے تک تو مسلمانوں کے لیے گویا ایک طرح کی تسلّی کا ذریعہ تھا کہ حج سے محروم کر دیے گئے تو کیا ہوا، ہمارا دل حج میں مشغول ہے اور ہم اپنے گھر ہی میں بیٹھے ہوئے حجاج کے شریکِ حال ہیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد اسے جاری رکھ کر عملاً اس کو تمام دنیاے اسلام کے لیے حج کی توسیع بنا دیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ حج صرف مکہ میں حاجیوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ جس زمانے میں چند لاکھ حاجی وہاں مناسکِ حج ادا کر رہے ہوتے ہیں، اسی زمانے میں ساری دنیاے اسلام کے کروڑوں مسلمان ان کے شریک ِ حال ہوتے ہیں  ۔ ہرمسلمان، جہاں بھی وہ ہے، اس کا دل ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی زبان اللہ اکبر کی تکبیر بلند کرتی رہتی ہے۔ وہ ان کی قربانی اور طواف کے وقت اپنی جگہ ہی نماز اور قربانی ادا کر رہا ہوتا ہے۔

قربانی کی روح

خامساً، قربانی کا جو طریقہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےسکھایا، وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کا دوگانۂ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:

اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، لَا شَرِيْكَ لَہٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِـمِيْنَ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، میں نے یکسو ہوکر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا  سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔

ان الفاظ پر غور کیجیے۔ ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں، جن کی بنیاد پر قرآنِ مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں: 

  • اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتائوں کے لیے قربانیاں کرنے والے مشرکین کے برعکس، ہم صرف خداے وحدہٗ لاشریک کے لیے قربانی کی عبادت بجا لارہے ہیں۔
  • ان میں اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں سے فائدہ اُٹھانے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے یہ نذر ہم اس کے حضور پیش کر رہے ہیں۔
  • ان میں یہ اعلان بھی ہے کہ اس مال کے اصل مالک ہم نہیں ہیں ، بلکہ یہ اللہ کے جانور ہیں جن پر اس نے ہم کو تصرف کا اختیار بخشا ہے، اور اس کی کبریائی کے اعتراف میں یہ نذرانہ ہم اس کے حضور گزران رہے ہیں۔
  • یہ اظہار بھی ہے کہ جس طرح ہمیں حکم دیا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح ہم ابھی صرف اللہ کے لیے نماز ادا کرکے آئے ہیں اور اب خالصتاً اسی کے لیے قربانی کے فرمان کی تعمیل کررہے ہیں۔ 
  • پھر، ان سب سے بڑھ کر ، ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہدوپیمان بھی ہے کہ ہماری نماز اور ہماری قربانی ہی نہیں، ہمارا مرنا اور جینا بھی صرف اسی کی ذاتِ پاک کے لیے ہے۔ اور یہ عہدوپیمان اُس تاریخی دن میں کیا جاتا ہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اپنے عمل سے بتایا تھا کہ جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہونے کا مطلب کیا ہے۔

یہ پانچ نکات جو اُوپر عرض کیے گئے ہیں، انھیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے۔ آپ کو ان میں ایک نبی کی خداداد بصیرت اور ہدایت یافتہ حکمت ایسی نمایاں نظر آئے گی کہ اگر اس قربانی کے سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی کوئی اور شہادت موجود نہ ہوتی، تب بھی اُس کے اِس طریقے کی اندرونی شہادت خود یہ بتا دینے کے لیے کافی تھی کہ اس کو اسی خدا کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے، جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے۔ 
قرآنِ مجید میں قربانی کے متعلق جو کچھ اور جتنا کچھ ارشاد فرمایا گیا تھا، اس کوپڑھ کر کوئی غیر نبی، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم اور دانش مند ہی کیوں نہ ہوتا، اس سے زیادہ کوئی نتیجہ اخذ نہ کرتا کہ مسلمان وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کی عبادت بجا لاتے رہیں۔
وہ کبھی ان ارشادات سے یہ منشا نہ پاسکتا کہ ساری دنیاے اسلام کے لیے قربانی کا ایک دن مقرر کیا جائے، اس دن کو ’یوم العید‘ قرار دیا جائے، وہ دن حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کا دن ہونا چاہیے۔ وہ دن اور اس کے سابق و لاحق ایام زمانۂ حج کے بھی مطابق ہونے چاہییں، اور یہ قربانی ایسے طریقے سے ادا کی جانی چاہیے کہ اس سے اسلام کی پوری روح تازہ ہوجائے۔ یہ منشا ایک نبی کے سوا اور کون پاسکتا تھا؟ اس منشا کو پانا اُس نبی کے سوا اور کس کا کام ہوسکتا تھا، جس پر خدا نے اپنا قرآن نازل فرمایا تھا؟
مگر اس کے سنت ِ رسولؐ ہونے کی اِس اندرونی شہادت کے علاوہ اس کی خارجی شہادتیں بھی اتنی زیادہ اور اتنی مضبوط ہیں کہ بجز ایک ہٹ دھرم آدمی کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔

احادیث سے استدلال

اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں، جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل کرتی ہیں کہ حضوؐر نے عیدالاضحی کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اس کو سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا:

  • حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہرسال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
  • حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ: رسولؐ اللہ نے مجھ کو وصیت کی تھی کہ میں آپؐ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، چنانچہ میں آپؐ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔(ابوداؤد، ترمذی)
  • حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ: اِنَّ اَوَّلُ مَا نَبْدَأُبِہٖ فِیْ یَوْمِنَا ھٰذَا اَنْ نُصَلِّیَ ثُمَّ نَرْجِــعُ فَنَنْحَرُ فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدْ اَصَابَ سُنَّتَنَا(بخاری، کتاب الجمعہ، ابواب العیدین، حدیث:۹۳۹) ’’آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ پس، جس نے اس طریقے کے مطابق عمل کیا، اس نے ہماری سنت پالی‘‘۔ 
  • حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: اَلْاَضْحٰی یَوْمٌ یُضَحِّیْ النَّاسُ(ترمذی) ’’الاضحی وہ دن ہے، جس میں لوگ قربانی کرتے ہیں‘‘۔
  • حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یَذْبَحْ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَـا (مسنداحمد ، ابن ماجہ)’’جو شخص طاقت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘۔
  • حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عَـمَلًا اَحَبَّ اِلَی اللہِ مِنْ ھِرَاقَۃِ دَمٍ  (ترمذی ، ابن ماجہ)’’قربانی کے دن آدم کی اولاد کا کوئی فعل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ خون بہائے‘‘۔
  • حضرت بُریدۃؓ کہتے ہیں کہ: ’’عیدالاضحی کے دن حضوؐر عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے‘‘۔ (مسنداحمد)
  • حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدالاضحی کی نماز پڑھی۔ پھر جب آپؐ پلٹے تو آپؐ کے حضور ایک مینڈھا لایا گیا اور آپؐ نے اسے ذبح فرمایا‘‘۔ (مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی)
  • امام زین العابدین، حضرت ابورافع سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’حضوؐر عیدالاضحی کے لیے   دو موٹے تازے بڑے سینگوں والے چتکبرے مینڈھے خریدتے تھے اور عید کی نماز اور خطبے سے فارغ ہونے کے بعد ایک مینڈھا اپنی تمام اُمت کی طرف سے اور ایک اپنی اور اپنی آل کی طرف سے قربان فرماتے تھے‘‘۔ (مسند  احمد)
  • حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ ہی میں ذبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، نسائی، ابن ماجہ، ابوداؤد)
  • حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی میں دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی‘‘ (بخاری، مسلم)۔اور یہی مضمون حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، بیہقی)
  • براء بن عازب، جندب بن سفیان البجلی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایات یہ ہیں کہ: ’’حضوؐر نے فرمایا کہ جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے سنت ِ مسلمین پر عمل کیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد )
  • حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہم کو قربانی کے دن نماز پڑھائی۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر حضوؐر سے پہلے قربانی کرلی۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ جس کسی نے ایسا کیا ہے اسے پھر قربانی کرنی چاہیے اور کسی کو اس وقت تک قربانی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ نبی اپنی قربانی نہ کرلے‘‘۔ (مسلم، مسند احمد)

یہ روایات اور بکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں ہے، جو یہ بتاتی ہو کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت ِ رسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقعے پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازماً صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔

فقہاے اُمت کی شہادت

دوسری اہم شہادت عہد ِ نبوت سے قریب زمانے کے فقہاے اُمت کی ہے، جو سب بالاتفاق اس قربانی کو مسنون اور مشروع کہتے ہیں، اور کسی ایک فقیہہ کا قول بھی اس کے خلاف نہیں ملتا۔ ان فقہا سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ سب کے سب بلاتحقیق ایک فعل کو سنت مان بیٹھتے، اور وہ ایسے زمانے میں تھے جب یہ تحقیق کرنے کے تمام ذرائع موجود تھے کہ یہ کام جو مسلمان کر رہے ہیں، یہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ سنت ہی ہے یا کسی اور کی رائج کردہ بدعت؟
مثلاً: امام ابوحنیفہؒ کو دیکھیے، وہ ۸۰ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدایش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیان صرف ۷۰سال کا فاصلہ ہے۔ ان کے زمانے میں بعض طویل العمر صحابہ موجود تھے، اور ایسے لوگ تو ہزاروں کی تعداد میں جگہ جگہ پائے جاتے تھے جنھوں نے خلفاے راشدین کا زمانہ دیکھا تھا اور صحابہ کرامؓ کی صحبت پائی تھی۔ پھر کوفہ جو امام صاحب کا وطن تھا، کئی سال تک حضرت علیؓ کا دارالخلافہ رہ چکا تھا۔ امام صاحب کی پیدایش اور حضرت علیؓ کی شہادت کے درمیان صرف ۴۰سال کا زمانہ گزرا تھا۔ اس شہر میں ان لوگوں کا شمار نہ کیا جاسکتا تھا جو خلیفۂ رابع کا عہد دیکھ چکے تھے۔ کیا کوئی شخص تصور کرسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہ  کو یہ تحقیق کرنے میں کوئی مشکل پیش آسکتی تھی کہ قربانی کا یہ طریقہ کب سے اور کیسے شروع ہوا ہے اور کس نے اسے جاری کیا ہے؟
اسی طرح امام مالکؒ کی مثال لیجیے۔وہ ۹۳ہجری میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے اور وہیں ساری عمر گزاری۔ اس شہر میں سیکڑوں خاندان ایسے موجود تھے، جن کے بڑے بوڑھوں اور بڑی بوڑھیوں نے خلافت ِ راشدہ کا عہد دیکھا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی گودوں میں پرورش پائی تھی، اور جن کے اپنے بزرگ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ کیا کوئی شخص باور کرسکتا ہے کہ اس شہر کے لوگ اتنی قلیل مدت میں عہد نبویؐ کی روایات گم کرچکے تھے، اور وہاں کوئی یہ بتانے والا نہ تھا کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی کس نے رائج کی ہے؟
یہی حال پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تمام فقہا کا ہے۔ وہ سب عہد ِ نبوت سے اتنے قریب زمانے میں تھے کہ ان کے لیے سنت اور بدعت کی تحقیق کرنا کوئی بڑا مشکل کام نہ تھا، اور وہ آسانی کے ساتھ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوسکتے تھے کہ جو چیز سنت نہ ہو اسے سنت سمجھ بیٹھیں۔

اُمت کا متواتر عمل

تیسری اہم ترین شہادت اُمت کے متواتر عمل کی ہے۔ عیدالاضحی اور اس کی قربانی جس روز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کی، اسی روز سے وہ مسلمانوں میں عملاً رائج ہوگئی اور  اس وقت سے آج تک تمام دنیا میں پوری مسلم اُمت ہرسال مسلسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کے تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ ہرنسل نے پہلی نسل سے اس کو سنت ِ اسلام کے طور پر لیا ہے اور بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔
یہ ایک عالم گیر عمل ہے، جو ایک ہی طرح دنیا کے ہر اُس گوشے میں ہوتا رہا ہے، جہاں کوئی مسلمان پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے، جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک اس طرح مسلسل قائم ہے کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ویسا ہی تواتر ہے، جس تواتر سے ہم کو قرآن پہنچا ہے اور یہ خبر پہنچی ہے کہ چودہ سو سال پہلے عرب میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ کوئی فتنہ پرداز اس تواتر کو بھی اگر مشکوک ٹھیرا دے تو پھر اسلام میں کیا چیز شک سے محفوظ رہ جاتی ہے۔
اس معاملے کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور ایسا گزرا ہو جس میں قربانی اور اس کی عید رائج نہ رہی ہو، پھر کسی قدیم نوشتے میں اس کا حکم لکھا ہوا مل گیا ہو اور کچھ ملّائوں نے اُٹھ کر لوگوں سے کہا ہو کہ: ’دیکھو فلاں جگہ ہم کو یہ لکھا ملا ہے، لہٰذا اے مسلمانو! آئو ہم عیدالاضحی منایا کریں اور اس میں جانوروں کی قربانی دیا کریں‘۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تاریخ میں کہیں اس کا سراغ ملتا کہ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا اور کون لوگ اس کے ذمہ دار تھے؟ پھر کسی مُلّا کی کبھی مسلمانوں میں یہ حیثیت نہیں رہی ہے کہ وہ کسی پرانے نوشتے سے ایک حکم نکال کر دکھائے اور تمام دنیا کے مسلمان بالاتفاق اور بے چون و چرا اس کی بات مان کر اس کی پیروی شروع کردیں اور کوئی یہ نوٹ تک نہ کرے کہ یہ طریقہ پہلے ہم میں رائج نہ تھا، فلاں مُلّاصاحب کے کہنے سے  اب حال ہی میں اس پر عمل شروع ہوا ہے۔
یہ تین قسم کی شہادتیں ایک دوسری سے پوری طرح مطابقت کر رہی ہیں۔ حدیث کی کثیرالتعداد مستند و معتبر روایات، اُمت کے تمام معتمدعلیہ فقہا کی تحقیقات، اور پوری اُمت کا مسلسل و متواتر عمل، تینوں سے ایک ہی بات ثابت ہورہی ہے۔ اس کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجایش باقی رہ جاتی ہے کہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا مقرر کیا ہوا ہے؟
اب اگر اس کے مقابلے میں کسی شخص کے پاس کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کی شہادت بھی ایسی ہے، جس سے وہ یہ ثابت کرسکے کہ یہ حضوؐر کا مقرر کیا ہوا نہیں ہے، تو وہ اسے سامنے لائے اور ہمیں بتائے کہ اسے کب، کس مُلّا نے، کہاں گھڑا اور کیسے تمام دنیا کے مسلمان اتنا بڑا دھوکا کھاگئے کہ اسے سنت ِ رسولؐ مان لیا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ذہنی انحطاط اور اخلاقی تنزل کی اس سے زیادہ شرمناک تصویر اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے درمیان جو شخص چاہتا ہے اُٹھ کر ہمارے دین کے بالکل ثابت شدہ، مسلّم اور متفق علیہ حقائق کو، بلکہ اس کی بنیادوں تک کو بے تکلف چیلنج کردیتا ہے اور دیکھتے دیکھتے اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں، حالاکہ اس کے پاس اس کے اپنے مجرد دعوے کے سوا نہ کوئی دلیل ہوتی ہے، نہ شہادت۔

روپے کے ضیاع کا الزام

لے دے کر بس یہ ایک بات عوام کو فریب دینے کے لیے بڑی وزنی سمجھ کر باربار پیش کی جاتی ہے کہ: ’قربانی پر ہرسال لاکھوں روپیہ ’ضائع‘ ہوتا ہے۔ اسے جانوروں کی قربانی کے بجاے  رفاہِ عام یا قومی ترقی کے کاموں پر صرف ہونا چاہیے ‘۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے:

  • اوّل یہ کہ جس چیز کا قرآن اور سنت سے حکمِ خدا و رسولؐ ہونا ثابت ہو، اُس کے بارے میں کوئی مسلمان___ اگر واقعی وہ مسلمان ہے ___ یہ خیال نہیں کرسکتا کہ اس پر مال یا وقت یا محنت صرف کرنا اسے ضائع کرنا ہے۔ ایسی بات جو شخص سوچتا ہے، وہ اِن سب سے زیادہ قیمتی چیز ، یعنی اپنا ایمان ضائع کرتا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ اسلام کی نگاہ میں رفاہِ عام اور قومی ترقی کے کاموں کی بھی ایک قیمت ہے، مگر ان سے بدرجہا زیادہ قیمت اس کی نگاہ میں اس بات کی ہے کہ مسلمان شرک سے ہرطرح محفوظ ہوں، توحید پر ان کا عقیدہ ہرلحاظ سے، خیال اور عمل میں مستحکم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی کبریائی کا اعتراف اور اس کی عبادت و بندگی بجالانے کی عادت ان کی زندگی میں پوری طرح جڑ پکڑے رہے، اور وہ اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے مستعد رہیں۔ان مقاصد کے لیے جن کاموں کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ضروری قرار دیا ہے،  ان میں سے ایک یہ قربانی بھی ہے۔ اس پر مال کا صَرف رفاہِ عام اور قومی ترقی کے ہرکام سے بہت زیادہ قیمتی کام پر صَرف ہے۔ اسے ضیاع صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے، جس کی قدریں اسلام کی قدروں سے اصلاً مختلف ہوچکی ہیں۔
  • تیسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عبادت کی جو شکل مقرر کر دی ہے، کوئی چیز اس کا بدل نہیں ہوسکتی، اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحق نے خود ہی دو یا تین مبادل صورتیں تجویز کرکے، ہمیں ان میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا ہو۔ ہمارا فرض ہرحکم کو اسی صورت میں بجا لانا ہے،جو شارع نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ ہم خودمختار بن کر اس کا بدل آپ ہی آپ تجویز نہیں کرسکتے۔ نماز کے بجاے اگر کوئی شخص اپنی ساری دولت بھی خیرات کردے تو وہ ایک وقت کی نماز کا بدل بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قربانی کے بجاے آپ خواہ کوئی بڑی سے بڑی نیکی بھی کرڈالیں، وہ عیدالاضحی کے تین دنوں میں جان بوجھ کر قربانی نہ کرنے کا معاوضہ ہرگز نہ بن سکے گی، بلکہ اگر یہ حرکت اس نظریے کی بناپر کی جائے کہ اس عبادت کے لیے ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ صورت سے بہتر صورت تجویز کی ہے تو یہ نیکی کیسی، ایک بدترین معصیت ہوگی۔

قومی تہواروں کی اہمیت

پھر ذرا دینی نقطۂ نظر سے ہٹ کر محض اجتماعی نقطۂ نظر سے بھی اس ’ضیاع‘ کے عجیب تصور پر غور کیجیے۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو اپنی اجتماعی تقریبات پر، اپنے میلوں پر، اور اپنے قومی اور بین الاقوامی تہواروں پر لاکھوں کروڑوں روپے صرف نہ کرتی ہو۔ اِن چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی قوم محض دولت کے گز سے ان کو ناپے اور روپے کے وزن سے ان کو تولے۔
آپ یورپ اور امریکا کے کسی سخت مادہ پرست آدمی کو بھی اس بات کا قائل نہیں کرسکتے کہ کرسمس پر ہرسال جو بے شمار دولت ساری دنیاے عیسائیت مل کر صرف کرتی ہے، یہ روپے کا ضیاع ہے ۔ وہ آپ کی اس بات کو آپ کے منہ پر مار دے گا اور بلاتامل یہ کہے گا کہ دنیا بھر میں بٹی ہوئی بے شمار فرقوں اور سیاسی قومیتوںمیں تقسیم شدہ مسیحی ملّت کو اگر ایک بین الاقوامی تہوار بالاتفاق منانے کا موقع ملتا ہے، تو اس کے اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہیں۔
ہندوئوں جیسی زرپرست قوم تک اپنے میلوں اور تہواروں کو اُس مال کی میزان میں تولنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان تقریبات پر صرف ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ چیز ان کے اندروحدت پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نہ ہو تو ان کے تفرقے اور اختلافات اور طرح طرح کے باہمی امتیازات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کبھی جمع ہوکر ایک قوم نہ بن سکیں۔
یہی معاملہ ان دوسری اجتماعی تقریبات کا ہے، جو دنیا کی مختلف قومیں وقتاً فوقتاً مشترک طور پر مناتی ہیں۔ ہر ایک تقریب اپنی ایک محسوس صورت چاہتی ہے اور اس صورت کو عمل میں لانے پر بہت کچھ صرف ہوتاہے۔ مگر کوئی قوم بھی یہ حماقت کی بات نہیں سوچتی کہ:’ بس ہسپتال اور مدرسے اور کارخانے ہی ایک چیز ہیں جن پر سب کچھ لگ جانا چاہیے۔ اور یہ تہوار اور تقریبات سب فضول ہیں‘۔ حالانکہ دُنیا کی کسی قوم کی تقریبات اور تہواروں میں وہ بلند اور پاکیزہ روحانی، اعتقادی اور اخلاقی روح موجود نہیں ہے، جو ہماری عیدالاضحی میں پائی جاتی ہے، اور کسی تہوار اور تقریب کے منانے کی صورت ہرطرح کے شرک و فسق اور مکروہات سے اس درجہ خالی نہیں ہے، جتنی ہماری عیدیں ہیں اور کسی تہوار کے متعلق، کسی قوم کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا حکم موجود نہیں ہے جیسا ہمارے پاس ہے۔ اب کیا ہم مادہ پرستی میں سب سے بازی لے جانے کا عزم کرچکے ہیں؟
اور یہ قربانی پر روپیہ ’ضائع‘ ہونے کا آخر مطلب کیا ہے؟ یہ کہاں ضائع ہوتا ہے؟ قربانی کے لیے جو جانور خریدے جاتے ہیں ان کی قیمت ہماری ہی قوم کے ان لوگوں کی جیبوں میں تو جاتی ہے جوان جانوروں کو پالتے اور ان کی تجارت کرتے ہیں۔ اسی کا نام اگر ضائع ہونا ہے تو اپنے ملک کے سارے بازار اور سب دکانیں بند کردیجیے، کیونکہ ان سے مال خریدنے پر کروڑوں روپیہ روز ضائع ہورہا ہے۔ پھر جو جانور خریدے جاتے ہیں کیا وہ زمین میں دفن کر دیے جاتے ہیں یا آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں؟ ان کا گوشت انسان ہی تو کھاتے ہیں۔ یہ اگر ضیاع ہے تو سال بھر انسانی خوراک پر جو کچھ صرف ہوتا رہتا ہے، اس کے بند کرنے کی بھی کوئی سبیل ہونی چاہیے۔ اب کچھ لوگوں نے یہ محسوس کرکے کہ یہ ضائع ہونے کی بات چلتی نظر نہیں آتی، یہ افسانہ تراشا ہے کہ بقرعید میں بہت سا گوشت سڑ کر پِھک جاتا ہے۔ حالانکہ ہم بھی اس ملک میں ایک مدت سے جی رہے ہیں، ہم کو تو کبھی سڑے ہوئے گوشت کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ وہ بتائیں انھیں کہاں ان کا دیدار میسر ہوا ہے؟

’شرعی حیلوں‘ کی حقیقت

حال میں ایک صاحب نے کچھ ’شرعی‘ سہارے اس غرض کے لیے تلاش کیے ہیں کہ  قربانی بند نہ سہی محدود ہی ہوجائے اور حکومت اسے محدود کرکے حدِّ مقرر سے زائد قربانیوں کا روپیہ خیراتی کاموں میں صرف کرنے کا انتظام کردے۔ ان سہاروں کی نوعیت بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
وہ کہتے ہیں کہ ’’قربانی صرف امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے، باقی ائمہ دین اسے صرف سنت مانتے ہیں‘‘۔ حالانکہ ان کی یہ بات بھی غلط ہے کہ اسے صرف امام اعظمؒ واجب قرار دیتے ہیں، اور یہ بھی غلط کہ باقی ائمہ اسے سنت اس معنی میں مانتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ جن ائمہ نے اسے واجب قرار دیا ہے، ان میں امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ  بھی شامل ہیں، اور امام شافعیؒ وغیرہ جنھوں نے اسے سنت مانا ہے، وہ سب اسے ’سنتِ  موکدہ‘ کہتے ہیں جس کا ترک جائز نہیں۔
ان کا بیان ہے کہ: شارع کا منشا قربانی کو محدود کرنا تھا کیونکہ حضوؐر نے قربانی کا حکم صرف ذی استطاعت لوگوں کو دیا ہے اور حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ: عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَۃً وَعَتِیْرَۃً (ہرگھر کے لوگوں پر ہرسال ایک قربانی بقرعید کی اور ایک رجب کی لازم ہے)۔ حالانکہ ترمذی کے بقول یہ حدیث غریب اور ضعیف السند ہے اور ابوداؤد نے صراحت کی ہے کہ رجب کی قربانی کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرما دیا تھا۔
تاہم، اس بحث کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ شارع نے ایک چیز کو لازم کرتے ہوئے اگر اس کی ایک کم سے کم حد مقرر کی ہو، تو کیا واقعی اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع اس پر عمل کو محدودکرنا چاہتا ہے؟ نماز صرف پانچ وقت کی چند رکعتیں فرض ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شارع نماز کو محدود رکھنا چاہتاہے اور فرض رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اسے پسند نہیں؟ روزے صرف رمضان کے فرض ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کو محدود کرنا ہی مقصود ہے اور زائد روزے ناپسندیدہ ہیں؟ زکوٰۃ کی ایک محدود مقدار صرف صاحب ِ نصاب پر لازم کی گئی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کو محدود کرنا پیش نظر ہے اور غیر صاحب ِ نصاب اگر راہِ خدا میں مال صرف کرے یا صاحب ِ نصاب زکوٰۃ کے علاوہ کچھ خیرات کرے تو یہ ناپسندیدہ بات ہوگی؟
وہ قرآن سے بعض نظیریں پیش کرتے ہیں کہ حج کی بعض رعایات سے فائدہ اُٹھانے والوں اور بعض کوتاہیوں کا ارتکاب کرنے والوں پر جو قربانی لازم کی گئی ہے، اس کا بدل روزوں کی شکل میں یا مالی اِنفاق کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمایا ہے۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ بقرعید کی قربانی کا بدل بھی اسی طرح تجویز کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ یہ استدلال اصولاً غلط ہے۔ وہاں شارع نے دو تین متبادل صورتیں ایک واجب سے سبکدوش ہونے کے لیے خود تجویز کی ہیں۔ یہاں آپ شارع کی ایک ہی مقرر کردہ شکلِ عبادت کا بدل تجویز فرما رہے ہیں۔ 
یہ اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ کیا اسی طرح آپ نماز، روزے، زکوٰۃ، حج اور دوسرے فرائض و واجبات کے بدل بھی آپ ہی آپ تجویز کرلینے کے لیے آزاد ہیں؟
پھر وہ ہدایہ کی ایک عبارت سے یہ بالکل غلط مفہوم نکالتے ہیں کہ: ’قربانی کے دنوں میں اگرچہ قربانی ہی کرنا افضل ہے، مگر اس کے بجاے جانور کی قیمت صدقہ کردینا بھی جائز ہے، حالانکہ کوئی فقیہہ اس بات کا قائل نہیں ہے کہ بقرعید کے ایام میں جانور کی قیمت کا صدقہ قربانی کا بدل ہوسکتا ہے۔ صاحب ِ ہدایہ غریب کو اگر معلوم ہوتا کہ کسی وقت ان کے الفاظ اَلتَضْحِیَۃُ فِیْھَا اَفْضَلُ مِنَ التَّصَدُّقِ بِثَمَنِ الْاُضْحِیَۃِ کا مطلب یہ نکالا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کے بجاے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست ہے تو وہ دس بار اس پر توبہ کرتے۔ آخر فقہ حنفی کی ایک کتاب ہدایہ ہی تو نہیں ہے، دوسری بے شمار کتابیں بھی دنیا میں موجود ہیں اور قریب قریب سب ہی میں بالفاظِ صریح یہ بات لکھی گئی ہے کہ اِن دنوں میں کوئی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا۔
ایک دل چسپ استدلال ان کا یہ بھی ہے کہ: ’اب لوگوں کے اندر خلوص و تقویٰ کم ہے اور اس کے بجاے فخر اور ریا اور نام و نمود کی خاطر لوگ قربانیاں کرتے ہیں‘۔ گویا جب یہی لوگ قربانی کے بجاے قومی فنڈ میں___ اور وہ بھی سرکاری فنڈ میں___  بڑھ چڑھ کر چندے دیں گے تو اس وقت یہ کام غایت درجہ خلوص و تقویٰ کے ساتھ ہوگا۔ اس کے بعد بعید نہیں کہ ہرمسجد پر ایک محتسب خلوص پیما آلات لیے ہوئے موجود رہے اور اس سے ناپ ناپ کر ہر ’ریاکار‘ نمازی کو حکم دے کہ نوافل اور سنتیں چھوڑ کر ان کے بدلے قومی فنڈ میں روپیہ داخل کرو۔
اِن کمزور سہاروں پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے کہ قربانی کو محدود کر دینا شریعت کے منشا کے مطابق ہے۔ [اگست ۱۹۵۹ء]

کئی سال سے مسلسل یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہربقرعید کے موقعے پر اخبارات اور رسالوں کے ذریعے سے بھی اور اشتہاروں اور پمفلٹوں کی صورت میں بھی، قربانی کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اُٹھایا جاتا ہے، اور ہزاروں بندگانِ خدا کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا جاتا ہے کہ: ’’یہ کوئی دینی حکم نہیں ہے بلکہ ایک غلط اور نقصان دہ رسم ہے، جو ملاؤں نے ایجاد کرلی ہے‘‘۔
اس وسوسہ اندازی کے خلاف قریب قریب ہرسال ہی علما کی طرف سے مسئلے کی پوری وضاحت کر دی جاتی ہے۔ قربانی کے ایک حکمِ شرعی ہونے اور مسنون اور واجب ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں، اور مخالفین کے استدلال کی کمزوریاں کھول کر رکھ دی جاتی ہیں۔ لیکن ہرمرتبہ    یہ سب کچھ ہوچکنے کے بعد، دوسرے سال پھر دیکھا جاتا ہے کہ وہی لگی بندھی باتیں، اسی طرح دُہرائی جارہی ہیں۔ گویا نہ کسی نے قربانی کے مشروع [یعنی شریعت کے مطابق]ہونے کا کوئی ثبوت دیا اور نہ اس کے خلاف دلیلوں کی کوئی کمزوری واضح کی، بلکہ [بعض افراد نے] تو ایک قدم اور آگے بڑھا کر حکومت کو بے تکلف یہ مشورہ دے دیا ہے کہ: ’وہ قربانی کو ازروے قانون محدود کرنے کی کوشش کرے‘۔


  • آج سے ۶۰ برس پہلے، جب کھلے اور چھپے میں، کچھ مغرب زدہ یا تحریف دین کی خواہش رکھنے والے عناصر نے ’بقرعید‘ کے موقعے پر قربانی کے ’غیرضروری‘ ہونے کی باتیں شروع کیں، تو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور نے اس پروپیگنڈے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے یہ تحریر بطور ’اشارات‘ لکھی ایک مدت تک مخالف محاذ پر خاموشی چھائی رہی۔ افسوس کہ آج ۶۰برس گزرنے کے بعد میڈیا، سوشل میڈیا پہ وہی عناصر قربانی کے حوالے سے اسی نوعیت کی گفتگوئیں پیش کر رہے ہیں، اس کی مناسبت سے یہ تحریر مطالعے کے لیے پیش ہے۔ ادارہ

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جو [اگست ۱۹۴۷ء] تک متحدہ ہندستان کا ایک حصہ تھا۔ ہماری سرحد کے اُس پار ہمارے کروڑوں دینی بھائی اب بھی سابق متحدہ ہندستان کے اُس حصے میں موجود ہیں، جس سے ہم الگ ہوئے تھے۔ ان کو آج بھی اُسی قوم سے سابقہ درپیش ہے جس سے کبھی ہم کو درپیش تھا، بلکہ وہ آج تقسیم سے قبل کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ کمزوری اورمغلوبی کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اُن پر جس قوم کو غلبہ حاصل ہے، وہ سالہا سال سے گائے کی قربانی پر ہمارے ساتھ سر پھٹول کرتی رہی تھی، اور تقسیم کے بعد جب اسے مسلمانوں پر پورا قابو حاصل ہوا تو اس نے سب سے پہلے ان کو اسی حق سے محروم کیا۔
اب یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان جو ہندو تہذیب و تمدن کے تسلط سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کو بچانے کے لیے بنا تھا، وہی آگے بڑھ کر ہندستان کے ہندوئوں کو یہ رہنمائی دے کہ: ’’مہاراج! گائے کی قربانی کیسی؟ آپ تو ہرقسم کی قربانی ازروے قانون بند کرسکتے ہیں۔ یہ چیز سرے سے شعائر اسلام میں داخل ہی نہیں ہے کہ اسے روک دینے پر آپ کو کسی مذہبی تعصب کا الزام دیا جاسکے۔ حق بجانب وہ مسلمان نہیں ہے جو اسے اپنا مذہبی حق کہہ کر اس پر اصرار کرتا ہے، بلکہ وہ ہندو ہے جو اِس غیر مذہبی رسم سے اس کو باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں تو پاکستان میں اس جاہل مسلم اکثریت سے سابقہ ہے، اس لیے یہاں ہم بربناے احتیاط بتدریج اسے محدود کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ آپ کو تو کسی کا ڈر نہیں ہے۔ آپ یک قلم اسے مسدود فرما دیں۔ اس معاملے میں شریعت ِاسلام، مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ آپ کے ساتھ ہوگی!‘‘
کس قدر جلدی بُھولے ہیں ہم اُس حالت کو، جس سے خدا نے ہمیں نکالا اور جس میں ہمارے کروڑوں بھائی اب بھی مبتلا ہیں۔ شاید برطانوی ہند میں ہندوئوں سے ہماری کش مکش صرف اس لیے تھی کہ اپنی تہذیب کا جھٹکا دوسروں سے کرانے کے بجاے ہم خود اسے حلال کرنا چاہتے تھے۔

تفرقے کو ہوا دینے کی کوشش

مسلمانوں میں اختلافات کی پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی۔ یہ تفرقوں کی ماری ہوئی قوم فی الواقع رحم کی مستحق تھی۔ کسی کے دل میں اس کے لیے خیرخواہی کا جذبہ موجود ہوتا تو وہ یہ سوچتا کہ اس کے اختلافات میں اتفاق کی کوئی راہ دریافت کرے۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ جو لوگ خیرخواہی کے ارادے یا دعوے سے اُٹھتے ہیں، وہ ان چیزوں میں بھی اختلاف کی راہیں نکال رہے ہیں، جن میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان ابتدا سے آج تک اتفاق موجود ہے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک دین کی اصل خدمت اور ملّت کی صحیح خیرخواہی یہ ہے کہ متفق علیہ مسائل کو بھی کسی نہ کسی طرح اختلافی بنادیا جائے، اور کوئی چیز ایسی نہ چھوڑی جائے جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ سب مسلمان اس میں متفق ہیں۔
قربانی کا مسئلہ ایسے ہی متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے کے بارے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں ائمہ اربعہ اور    اہلِ حدیث متفق ہیں۔ اس میں شیعہ اور سُنّی متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب فرقے بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیاہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اُٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بے چارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ ’تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے‘۔
پھر یہ اختلاف بھی کسی معمولی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک بہت بڑی فتنہ انگیز بنیاد پر اُٹھایا گیاہے۔  یعنی سوال یہ چھیڑا گیا ہے کہ: ’یہ بقرعید کی قربانی آخر تم کس سند (authority ) پر کرتے ہو،  قرآن میں تو اس کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے؟‘ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ: ’اسلام میں سند   صرف ایک قرآن ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کوئی سند نہیں ہے‘۔ حالانکہ جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے، اسی نے اپنا رسولؐ بھی مبعوث کیا تھا۔ اس کا رسولؐ اسی طرح ایک اتھارٹی ہے، جس طرح اس کی کتاب۔
اس کے رسولؐ کی اتھارٹی کسی طرح بھی اس کی کتاب کی اتھارٹی سے کم نہیں ہے۔ نہ وہ کتاب کے ساتھ کوئی ضمنی حیثیت رکھتی ہے، نہ اس کے ذریعے سے دیے ہوئے کسی حکم کے لیے قرآن کی توثیق کسی درجے میں بھی ضروری ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ قرآن جس کی سند پر کلام اللہ مانا گیا ہے وہ بھی رسولؐ ہی کی سند ہے۔ اگر رسولؐ نے یہ نہ بتایا ہوتا کہ: ’یہ قرآن، خدا نے اس پر نازل کیا ہے، تو ہمارے پاس نہ یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا اور نہ یہ ماننے کی کوئی وجہ تھی کہ یہ کتاب خدا کی کتاب ہے۔ اب یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہو اور جس طریقے پر رسولؐ نے خود عمل کیا اور اہلِ ایمان کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہو، اس کے متعلق یہ کہا جائے کہ: ’اس کا حکم قرآن میں ہو تو ہم مانیں گے، ورنہ پیروی سے انکار کردیں گے؟‘___ اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ: ’خدا کی کتاب تو واجب الاتباع ہے مگر خدا کا رسولؐ واجب الاتباع نہیں ہے‘۔

رسالت کا غلط تصور

یہ بات حقیقت کے خلاف بھی ہے اور سخت فتنہ انگیز بھی۔
حقیقت کے خلاف یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ محض ایک ڈاکیہ بنا کر نہیں بھیجا تھا کہ: ’آپ کا کام اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینے کے بعد ختم ہوجائے اور اس کے بعد بندے، اللہ کے نامۂ گرامی کو لے کر جس طرح ان کی سمجھ میں آئے، اس کی تعمیل کرتے رہیں‘۔
خود قرآن کی رُو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی نوعیت کفّار کے لیے الگ اور اہلِ ایمان کے لیے الگ ہے۔ کفّا رکے لیے آپؐ بے شک صرف مبلّغ اور داعی الی اللہ ہیں، مگر جو لوگ ایمان لے آئیں، ان کے لیے تو آپؐ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے مکمل نمایندے ہیں۔ آپؐ کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے، مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج [النساء۴:۸۰]۔ آپؐ کے اتباع کے سوا اللہ کی خوشنودی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ   [اٰلِ عمرٰن۳:۳۱]۔اللہ نے آپؐ کو اپنی طرف سے معلّم، مربی، رہنما، قاضی، امروناہی اور حاکمِ مطاع، سب کچھ بنا کر مامور فرمایا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ و فکر، مذہب و اخلاق، تمدن و تہذیب، معیشت و سیاست، غرض زندگی کے ہرگوشے کے لیے وہ اصول، طریقے اور ضابطے مقرر کریں، جو اللہ کی پسند کے مطابق ہوں۔ اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ جو کچھ آپؐ نے سکھایا اور مقرر کیا ہے، اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ رسولؐ اللہ جو حکم دیں اس پر ان سے سند طلب کرے۔ رسول ؐ اللہ کی ذات خود  سند ہے۔ اس کا حکم بجاے خود قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ سوال کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہے اس کا حوالہ قرآن میں ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کوئی ہدایت خواہ اپنی کتاب کے ذریعے سے دے یا اپنے رسولؐ کے ذریعے سے، سند اور وزن کے اعتبار سے دونوں بالکل یکساں ہیں اور قانونِ الٰہی ہونے میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

منصبِ رسالتؐ پر حملہ

بالکل غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ: ’محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور فیصلوں اور ہدایات کی قانونی حیثیت صرف اپنے عہد کے رئیس مملکت (Head of the State) ہونے کی بناپر تھی، یعنی جب آپ رئیسِ مملکت تھے اس وقت آپؐ کی اطاعت واجب تھی اور اب جو [فرد] رئیسِ مملکت یا ’مرکز ملّت‘ ہوگا، اس کی اطاعت اب واجب ہوگی۔ یہ [منصب ِ] رسالت کا بدترین تصور ہے جو کسی شخص کے ذہن میں آسکتا ہے۔ اسلامی تصورِ رسالت سے اس کو دُور کا واسطہ بھی نہیں:

  •  رئیسِ مملکت کے منصب کو آخر رسولؐ کے منصب سے کیا نسبت ہے؟ اس [یعنی رئیس مملکت]کو عام مسلمان منتخب کرتے اور وہی معزول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ حالانکہ رسولؐ کو خدا مقرر کرتا ہے اور خدا کے سوا کسی کو اسے معزول کرنے کا اختیار نہیں۔
  • رئیسِ مملکت جس علاقے کا رئیس ہو، اور جب تک اس منصب پر رہے، صرف اسی علاقے میں، اسی وقت تک اس کو رئیس ماننا واجب ہے اور پھر بھی اس پر ایمان لانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اُسے نہ مانے تو ملّت ِ اسلام سے خارج ہوجائے۔ حالانکہ رسولؐ جس آن مبعوث ہوا، اس وقت سے قیامت تک دنیا میں کوئی شخص اس پر ایمان لائے بغیر ملّت اسلامیہ کا فرد نہیں بن سکتا۔
  • رئیسِ مملکت کو آپ دل میں بُرا جان سکتے ہیں، اس کو برملا بُرا کہہ سکتے ہیں، اس کے   قول و فعل کو علانیہ غلط کہہ سکتے ہیں، اور اس کے فیصلوں سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ لیکن رسولؐ کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنا تو درکنار، اس کا خیال بھی اگر دل میں آجائے تو ایمان سلب ہوجائے۔
  •    رئیسِ مملکت کے حکم کو ماننے سے آپ صاف انکار کرسکتے ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ بس ایک جرم ہوگا، مگر رسولؐ کے حکم کو اگر یہ جاننے کے بعد کہ وہ رسولؐ کا حکم ہے، آپ ماننے سے انکار کردیں تو قطعی خارج از اسلام ہوجائیں۔ اس کے حکم پر تو آپ چون و چرا تک نہیں کرسکتے، بلکہ اس کے خلاف دل میں کوئی تنگی تک محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔
  •    رئیسِ مملکت عوام کا نمایندہ ہے اور رسولؐ اللہ کا نمایندہ۔
  •   رئیسِ مملکت کی زبان قانون نہیں ہے، بلکہ اُلٹا قانون اس کی زبان پر حاکم ہے، مگر رسولؐ اللہ کی زبان قانون ہے، کیونکہ خدا اسی زبان سے اپنا قانون بیان کرتا ہے۔ 

اب یہ کیسا سخت طغیانِ جاہلیت ہے کہ رسولؐ کو محض ایک علاقے اور زمانے کے رئیسِ مملکت کی حیثیت دے کر کہا جائے کہ: ’اس کے دیے ہوئے احکام اور ہدایات بس اسی زمانے اور علاقے کے لوگوں کے لیے واجب الاتباع تھے، آج ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘۔

ملّت اسلامیہ کی اساس پر زد

یہ تو ہے حقیقت کے خلاف اس تصور کی بغاوت۔ اب ذرا اس کی فتنہ انگیزی کا اندازہ کیجیے۔ آج جس چیز کو آپ اسلامی نظامِ حیات اور اسلامی تہذیب و تمدن کہتے ہیں، جس کے اصولوں اور عملی مظاہر کی یکسانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملّت بنا رکھا ہے، جس کی یک رنگی نے مسلم کو مسلم سے جوڑا اور کافر سے توڑا ہے، جس کی امتیازی خصوصیات نے مسلمانوں کو ساری دنیا میں غیرمسلموں سے ممیز کیا اور سب سے الگ ایک مستقل اُمت بنایا ہے، اس کا تجزیہ کرکے   آپ دیکھیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کا کم از کم ۱۰/۹ حصہ وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدارِ رسالت سے مسلمانوں میں رائج کیا ہے، اور بمشکل ۱۰/۱  حصہ ایسا ہے جس کی   سند قرآن میں ملتی ہے۔ پھر اس ۱۰/۱  کا حال بھی یہ ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد کی وہ صورت    شریعت ِ واجب الاتباع نہ ہو، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے تو دنیا میں مختلف مسلمان___  افراد بھی اور گروہ بھی اور ریاستیں بھی___ اس پر عمل درآمد کی اتنی مختلف شکلیں تجویز کرلیں کہ ان کے درمیان کوئی وحدت و یک رنگی باقی نہ رہے۔
اب خود اندازہ کرلیجیے کہ اگر وہ سب کچھ ساقط کردیا جائے ، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے رواج دینے سے مسلمانوں میں رائج ہے، تو اسلام میں باقی کیا رہ جائے گا، جسے ہم اسلامی تہذیب و تمدن کہہ سکیں اور جس پر دنیا بھر کے مسلمان مجتمع رہ سکیں؟
مثال کے طور پر دیکھیے۔ یہ اذان جو دنیا بھر میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ نمایاں ملّی شعار ہے، جسے روے زمین کے ہرگوشے میں ہر روز پانچ وقت مسلم اور کافر سب سنتے ہیں، اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے مقرر اور رائج کیا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی حکم نہیں۔ نہ وہ اس کے الفاظ بتاتا ہے، نہ یہ حکم دیتا ہے کہ روزانہ پانچ وقت نمازوں سے پہلے یہ پکار بلند کی جائے:

  •   اس میں ایک جگہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ: اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ [الجمعۃ ۶۲:۹]’’جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے روز تو دوڑو اللہ کی یاد کی طرف‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ پکار سن کر دوڑنے کا حکم ہے، خود اس پکار کا حکم نہیں ہے۔
  •    دوسری جگہ اہلِ کتاب کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ: وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ط[المائدہ ۵:۵۸]’’جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بنالیتے ہیں‘‘۔ یہ سرے سے کوئی حکم ہی نہیں ہے بلکہ صرف ایک رائج شدہ چیز کا مذاق اُڑانےپر ’اہلِ کتاب‘ کی مذمت کی جارہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ اختیار و اقتدار جس نے اس اذان کے الفاظ مقرر کیے اور اسے مسلمانوں میں رواج دیا، دائمی اور عالم گیر شریعت مقرر کرنے کا مجاز نہ ہوتا، تو کیا صرف ان دو آیتوں کی بنیاد پر آج دنیا میں آپ اذان کی آواز کہیں سن سکتے تھے؟
خود یہ نماز باجماعت جس کے لیے اذان دی جاتی ہے، اور یہ نمازِ جمعہ جس کی پکار سن کر دوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ عیدین جو ہزارہا مسلمانوں کو اکٹھا کرتی ہیں، اور یہ مسجدیں جو دنیابھر میں مسلم معاشرے کی اجتماعی زندگی کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہو۔ قرآن صرف نماز کا حکم دیتا ہے ، باقاعدہ نماز باجماعت ادا کرنے کا کوئی صاف حکم نہیں دیتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے وہ صرف یہ کہتا ہے کہ جب اس کے لیے پکارا جائے تو دوڑ پڑو۔ اسے خود نمازِ جمعہ قائم کرنے کا حکم مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔ عیدین کی نمازوں کا تو سرے سے اس میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ رہیں مسجدیں تو ان کے احترام کا حکم ضرور قرآن میں دیا گیا ہے، مگر یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ: ’اے مسلمانو! تم اپنی ہربستی میں مسجد تعمیر کرو اور اس میں ہمیشہ نمازِ باجماعت قائم کرنے کا اہتمام کرو‘۔ یہ ساری چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس اختیار واقتدار کی بنا پر ، جس کے ساتھ اللہ نے آپؐ کو شارع مقرر کیا تھا، مسلمانوں میں رائج کی ہیں۔ اگر یہ اختیارواقتدار مسلّم نہ ہوتا، تو اسلام کے یہ نمایاں ترین شعائر جن کا مسلمانوں کو مجتمع کرنے اور ایک یک رنگ اُمت بنانے اور اسلامی تہذیب کی صورت گری کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ہے، کبھی قائم نہ ہوتے اور مسلمان آج مسیحیوں سے بھی زیادہ منتشر و پراگندہ ہوتے۔
یہ صرف سامنے کی چند مثالیں ہیں۔ ورنہ تفصیل کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک کتاب ہی ملی ہوتی اور اس کے ساتھ اللہ کے رسولؐ نے آکر انفرادی زندگی سے لے کر خاندان، معاشرے اور ریاست تک کے معاملات میں ہمارے لیے تہذیب کی ایک متعین صورت نہ بنا دی ہوتی، تو آج ہم ایک ممتاز عالم گیر ملّت واحدہ کی حیثیت سے موجود نہ ہوتے۔ اب جو شخص اس رسالتؐ کی شرعی حیثیت اور اس کی قانونی سند کو چیلنج کرتا ہے، اس کے اس چیلنج کی زد ایک ’قربانی‘ کے مسئلے یا دوچار منفرد مسئلوں پر نہیں پڑتی، بلکہ اسلامی تہذیب کے پورے نظام اور ملّت اسلامیہ کی اساس و بنیاد پر پڑتی ہے۔ جب تک ہم بالکل خودکشی پر آمادہ نہ ہوجائیں، ہمارے لیے کسی کی یہ بات ماننا محال ہے کہ: ’جس چیز کی سند قرآن میں ملے بس وہی باقی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند پر جتنی چیزوں کا مدار ہے وہ سب ساقط کردی جائیں‘۔

سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے!

اعتراض کی اس غلط بنیاد اور اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ لینے کے بعد اب بجاے خود اس مسئلے کو دیکھیے، جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ’قربانی‘ کے متعلق یہ کہنا کہ: ’قرآن میں سرے سے اس کا کوئی حکم ہی نہیں ہے، خلافِ واقعہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن وہ اصولی حقائق بیان کرتا ہے، جس کی بناپر انسان کو اللہ تعالیٰ کے لیے جانوروں کی قربانی کرنی چاہیے، اور پھر اس کا ایک عام حکم دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ اس کی کوئی تصریح وہ نہیں کرتا۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا کہ آپؐ اُسی خدا کی ہدایت کے تحت، جس نے قرآن آپؐ پر نازل کیا تھا، اس کی عملی صورت، اس کا وقت، اس کی جگہ اور اس کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ مسلمانوں کو بتائیں اور خود اس پر عمل کرکے دکھائیں۔
یہ کام تنہا ایک قربانی کے متعلق ہی نہیں، قرآن کے دوسرے احکام کے متعلق بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نکاح، طلاق، وراثت، غرض مسلم معاشرے کے مذہب اور تمدن و معاشرت اور معیشت و سیاست اور قانون و عدالت اور صلح و جنگ کے تمام معاملات میں یہی کچھ ہوا ہے کہ قرآن نے کسی کے بارے میں مختصر اور کسی کے بارے میں کچھ تفصیل کے ساتھ احکام دیے، یا صرف اشارتاً اللہ تعالیٰ کی مرضی بیان کردی، اور پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملی جامہ پہنانے کی صورتیں واضح حدود کے ساتھ متعین فرمائیں، ان پر خود کام کر کے دکھایا، اور اپنی رہنمائی میں ان کو رائج کیا___ کوئی صاحب ِ عقل آدمی اس میں شک نہیں کرسکتا کہ کتابی رہنمائی کے ساتھ یہ عملی رہنمائی بھی انسانوں کو درکار تھی، اور اس رہنمائی کے لیے اللہ کے رسولؐ کے سوا کوئی دوسرا نہ موزوں ہوسکتا تھا نہ مجاز۔
قربانی کا قرآن میں حکم اور حکمت
قرآن میں [قربانی کے] مسئلے کے متعلق جو اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں،وہ یہ ہیں:

  • ’عبادت کی تمام وہ صورتیں جو انسان نے غیراللہ کے لیے اختیار کی ہیں، دین حق میں وہ سب غیراللہ کے لیے حرام اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے واجب کردی گئیں‘ مثلاً: 

__ انسان غیراللہ کے آگے جھکتا اور سجدے کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے مخصوص کر دیا اور اس کے لیے نماز کی صورت مقرر کر دی۔ 
__ انسان غیراللہ کے سامنے مالی نذرانے پیش کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا اور اس کی عملی صورت ’زکوٰۃ‘ مقرر کر دی۔ 
__ انسان غیراللہ کے نام پر روزے رکھتا تھا۔ دین حق نے اسے بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا اور اس غرض کے لیے رمضان کے روزے فرض کر دیے۔ 
__ انسان غیراللہ کے لیے تیرتھ یاترا کرتا اور استھانوں کے طواف کرتا تھا۔ دین حق نے اس کے لیے ایک بیت اللہ بنایا اور اس کا حج اور طواف فرض کر دیا۔ 
__ اسی طرح انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک غیراللہ کے لیے قربانی کرتا رہا ہے۔ دین حق نے اسے بھی غیراللہ کے لیے حرام کر دیا اور حکم دیا کہ یہ چیز بھی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ 

چنانچہ دیکھیے: ایک طرف قرآنِ مجید مَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ ۝۰ۚ[البقرہ ۲:۱۷۳] ’’جسے غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ اور مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ [المائدہ ۵:۳] ’’جسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ کو قطعی حرام قرار دیتا ہے، اور دوسری طرف حکم دیتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ O [الکوثر۱۰۸:۲] ’’اپنے ربّ ہی کے لیے نماز پڑھ اور اسی کے لیے قربانی کر‘‘۔

  • انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بھی عطا فرمائی ہیں، ان سب کا شکریہ اس پر واجب ہے اور یہ شکریہ ہرنعمت کے لیے قربانی اور نذرانہ کی شکل میں ہونا چاہیے۔ ذہن اور نفس کے عطیے کا شکریہ اسی شکل میں ادا ہوسکتا ہے کہ آدمی ایمان و طاعت کی راہ اختیار کرے۔ جسم اور اس کی طاقتوں کا عطیہ یہی شکریہ چاہتا ہے کہ آدمی نماز اور روزے کی شکل میں اسے ادا کرے۔ مال کے عطیے کا شکریہ زکوٰۃ ہی کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے، اور زکوٰۃ بھی اس طرح کہ سیم و زر کی زکوٰۃ اسی سیم و زر سے، زرعی پیداوار کی زکوٰۃ اسی پیداوار میں سے، اور مواشی کی زکوٰۃ انھی مواشی میں سے نکال لی جائے۔ اسی طرح اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قدرت بخشی ہے اور ان سے طرح طرح کے بے شمار فائدے اُٹھانے کا جو موقع اس نے دیا ہے، اس کے شکریے کی بھی یہی صورت ہے کہ انسان ان جانوروں ہی میں سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرے۔ چنانچہ سورئہ حج میں قربانی کی ہدایت فرمانے کے بعد اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ: كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ [الحج ۲۲:۳۶] ’’اسی طرح ہم نے ان کو تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو‘‘۔
  •  انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں پر جو اقتدار اور تصرف کا اختیار بخشا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بالادستی اور اس کی حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کرتا رہے، تاکہ اسے کبھی یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ سب کچھ میرا ہے اور مَیں ہی اس کا خودمختار مالک ہوں۔ اس بالاتری کے اعتراف کی مختلف شکلیں اللہ کے مختلف عطیوں کے معاملے میں رکھی گئی ہیں۔ جانوروں کے معاملے میں اس کی شکل یہ ہے کہ انھیں اللہ کے نام پر قربان کیا جائے۔ چنانچہ اسی سورئہ حج میں اسی سلسلۂ کلام میں آگے چل کر فرمایا گیا: كَذٰلِكَ سَخَّرَہَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ہَدٰىكُمْ[الحج ۲۲:۳۷]اسی طرح   اللہ نے ان کو تمھارے لیے مسخر کیا ہے، تاکہ تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اس ہدایت پر، جو اس نے تمھیں بخشی۔

یہی تین وجوہ ہیں ، جن کی بنا پر قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ میں تمام اُمتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝۰ۭ [الحج ۲۲:۳۴]اور ہر اُمت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا، تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔
اور یہ طریقہ جس طرح دوسری اُمتوں کے لیے تھا، اسی طرح شریعت محمدی میں اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی مقرر کیا گیا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ  لَا شَرِيْكَ لَہٗ۝۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۱۶۳ (الانعام۶:۱۶۲-۱۶۳) اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے مَیں سرِاطاعت جھکانے والا ہوں۔ 
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ[کوثر۱۰۸:۲]پس، اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
یہ حکمِ عام تھا جو قربانی کے لیے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر یہ واجب ہے، اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں؟ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کرکے بتانے کا کام اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیا کیونکہ رسولؐ اس نے بلاضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔
[جولائی ۱۹۵۹ء]
 

تبلیغ کے لیے قرآن و حدیث کا علم

سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر ہمیں تبلیغ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یا اگر علم تو ہو لیکن عمل نہ ہو، تو اس صورت میں بھی تبلیغ کا کوئی حق نہیں، مثلاً پینٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر تبلیغ کی جاتی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ کیا یہ خیال صحیح ہے؟
جواب :جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر کسی کو تبلیغ کا حق نہیں ہے، ان سے دریافت کیجیے کہ: پورے علم کی تعریف کیا ہے؟ اس کی حد کیا ہے؟ اور اس کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ پیمایش کیسے ہوگی کہ کسی کو پورا علم حاصل ہوگیا کہ نہیں؟ جن لوگوں کی عمریں قرآن و حدیث پڑھتے پڑھاتے ہوئے گزر گئی ہیں، وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ انھیں پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ جو آدمی صحیح معنوں میں عالم ہوتا ہے، وہ مرتے دم تک طالب علم رہتا ہے۔ کبھی اس کے دماغ میں یہ ہوا نہیں بھرتی کہ مَیں پورا عالم ہوگیا ہوں اور مجھے پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں کہ ’پورا علم‘ حاصل کیے بغیر تبلیغ کرنا درست نہیں۔ 
یہ بھی دیکھا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو بدوی آکر مسلمان ہوتے تھے اور پھر اپنے قبیلوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ کب پورے عالم بن کر جاتے تھے۔ بس دین کی بنیادی باتیں انھیں معلوم ہوجاتی تھیں۔ وہ یہ جان لیتےتھے کہ حق کیاہے اور باطل کیا ہے؟ ہمارے فرائض کیا ہیں، کون کون سی چیزیں ہمارے لیے ممنوع ہیں، اور کن کن کی اجازت ہے؟ یہ باتیں وہ جان لیتے تھے اور جاکر لوگوں میں خدا کے دین کی تبلیغ شروع کر دیتے تھے اور پورے پورے قبیلوں کو مسلمان بنا لیتے تھے۔
دوسرا سوال ہے عمل نہ ہوتے ہوئے تبلیغ کرنے کے متعلق___ اس کا جواب یہ ہے کہ  اللہ کے راستے کی طرف بلانا کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ ایک آدمی اگر شیطان کے راستے کے بجاے اللہ کے راستے کی طرف بلا رہا ہے اور اس کے اپنے عمل میں خامی ہے، تو اس کا اللہ کے راستے کی طرف بلانا تو غلط نہیں ہے۔ اسے اس کام سے نہ روکیے اور نہ اس پر اعتراضات کیجیے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جب ایک آدمی یہاں تک آپہنچتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتا ہے، انھیں بُرائیوں سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کے سامنے حق پیش کرتا ہے، تو اُمید رکھنی چاہیے کہ یہ عمل اس کی اپنی زندگی کو بھی درست کردے گا۔ جب وہ یہ کام کرے گا تو وہ خود ہر وقت اپنے عمل اور زندگی پر بھی نظر دوڑائے گا، اور آہستہ آہستہ اپنی اصلاح بھی کرلے گا۔ اب جو آدمی  خود بخود غلط سے صحیح راستے کی طرف آرہا ہے اگر آپ اسے بار بار ٹوکیں گے اور اس طرح اس کے واپس لوٹ جانے کا سبب بنیں گے، تو میرا خیال ہے کہ آپ خدا کے ہاں ماخوذ ہوں گے۔ آپ کے اس طرح ٹوکنے کا نتیجہ یہی تو نکل سکتا ہے کہ وہ خدا کے راستے کی طرف نہ بلائے، حق بات نہ کہے اور لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت نہ دے ۔ظاہر ہے کہ یہ نہایت غلط بات ہے۔ اگر اس کے عمل میں کوئی خرابی ہے تو، توقع کیجیے کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ آں حضوؐر سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ دن کو نمازیں پڑھتا ہے اور رات کو چوریاں کرتا ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو،یا تو چوری اس سے نماز چھڑوا دے گی، یا نماز اس سے چوری چھڑوا دے گی۔ یہ تو ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم۔ اب اگر ایک آدمی اصلاح کے جوش میں آکر ایسے شخص سے یہ کہے کہ:کم بخت جب تو چوری کرتا ہے تو تیری نماز کس کام کی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی اصلاح کی آخری اُمید بھی منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ چوری میں تو و ہ مبتلا ہے ہی، اب آپ اس سے نماز بھی چھڑوانا چاہتے ہیں۔ نماز ایک آخری رشتہ ہے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل بھلائی کی طرف پلٹ آنے میں اس کی مدد کرے۔ لیکن آپ وہ رشتہ بھی جوشِ اصلاح میں کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ اپنے نزدیک تو آپ نے بڑی اصلاح کی بات کی، لیکن حقیقت میں آپ نے اسے جہنم کی طرف دھکیلنے میں حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: جب وہ شخص چوری کرتا ہے تو نماز سے اسے کیا حاصل؟‘ بلکہ یہ فرمایا: اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ایک وقت آئے گا کہ یا تو اس کی نماز اس سے چوری چھڑا دے گی یا چوری نماز چھڑا دے گی‘۔ 
بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ اصلاح کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، لیکن اصلاح کے لیے جس حکمت کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس کے ابتدائی تقاضوں سے بھی واقف نہیں ہوتے، اور بسااوقات اپنے غیرحکیمانہ طرزِعمل سے درست ہوتے ہوئے آدمیوں کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔


’صلعم‘ یا ’   ؐ‘

سوال : آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ازراہِ احترام بعض لوگ ’صلعم‘  لکھ دیتے ہیں اور بعض جگہ صرف ’   ؐ‘ لکھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب : ’صلعم‘ لکھنا تو صحیح نہیں اور آںحضوؐر کے نام کے ساتھ لکھنا نامناسب ہے۔ البتہ  ’   ؐ‘لکھا جاسکتا ہے،لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل لکھا جائے۔


روزہ توڑنا

سوال : روزے کی حالت میں آدمی کسی شدید تکلیف میں مبتلا ہوجائے، تو کیا اس کے لیے روزہ توڑنا جائز ہے؟
جواب : اگر تکلیف ناقابلِ برداشت ہوجائے یا ڈاکٹر اسے بتا دے کہ جان جانے کا خطرہ ہے تو روزہ توڑنا جائز ہے۔
سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ایسی حالت میں انسان روزہ نہ توڑے اور جان دے دے، تو اس کا درجہ بلند ہوجاتا ہے؟
جواب : ایسا نہیں ہوتا، بلکہ شریعت کی رُو سے انسان گناہ گار قرار پاتا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں انسانی جان کے معاملے میں وہی معیار سامنے رکھنا چاہیے اور مومن کی زندگی کو وہی اہمیت دینی چاہیے، جو اسلام دیتا ہے۔ شریعت کا حکم ہے کہ جان پر آبنے یا تکلیف آپے سے باہر ہوجائے، تو روزہ توڑنے میں کوئی حرج نہیں۔


محصول چونگی کا جواز

سوال : ایک فرد جو ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے تو کیا اس کے لیے محصول چونگی کی ادایگی بھی ضروری ہے؟
جواب : محصول چونگی دراصل اس شہر کا حق ہوتا ہے جس میں آپ رہ رہے ہیں۔ یہ ان مصارف کے لیے ہوتا ہے، جن کے ذریعے آپ کو متعدد سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کی ادایگی کرنی چاہیے۔ یہ درست نہیں ہے کہ آپ سہولتوں سے تو استفادہ کریں اور مصارف کی ذمہ داریوں سے بچیں۔


وساوس

سوال : انسان کے دل میں بعض اوقات طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں، ان میں سے بعض بہت بُرے ہوتے ہیں، کیا ان کی بنیاد پر گرفت ہوگی؟
جواب : وسوسہ جب تک دل میں اس طرح جم نہ جائے کہ اس کی بنیاد پر انسان کوئی غلط کام کربیٹھے، اس وقت تک نہیں پکڑا جائے گا۔

سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟
جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیّت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔

خیر اور شر کا وجود

سوال : کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟ 
جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟ 
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔

نماز کے اثرات

سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟ 
جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟ 
جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ  مَنْ یَّفْجُرُکَ  ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔

تقلید اور عدم تقلید

سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟ 
جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟

جہیز کی شرعی حیثیت

سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔

نشہ آور اشیا اور ادویات

سوال : ’خمر‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟ 
جواب :خمر کے معنی عربی لغت میں ڈھانک لینے کے ہوتے ہیں۔ چوں کہ شراب انسانی عقل کو ڈھانک لیتی ہے، یعنی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے، اس لیے کہ یہ لفظ شراب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
سوال : تو کیا اس سے مراد صرف شراب ہے یا اس میں دوسرے نشے بھی آجاتے ہیں؟ 
جواب :خمر کے معنی تو شراب کے ہی ہیں مگر اس کی تشریح حضرت عمرؓ کے بقول یوں ہے کہ وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ  الْعَقْلَ [مسلم:۵۴۸۰] یعنی ’خمر‘وہ ہے جو عقل کو ڈھانک لے۔ گویا  اس میں ساری نشہ آور چیزیں آگئیں، اور خمر کے معنی محض انگوری شراب تک محدود نہیں رہے۔ اسی طرح حدیث میں یہ آیا ہے کہ:[مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ،ابوداؤد:۳۲۱۴] ’’جس شے کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے‘‘۔ گویا اس سے بھی دوسری نشہ آور اشیا کے استعمال کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی، خواہ وہ قلیل مقدار میں استعمال کی جائیں یا کثیر مقدار میں۔
سوال : آج کل بعض لوگ ذہنی سکون کے لیے بعض مُسکّن ادویات استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کا دماغ Dull[کند] سا ہوجاتا ہے۔ ایسی مُسکن ادویات اگر زیادہ مقدار میں استعمال کی جائیں، تو انسان اپنے آپ کو اُونگھتا ہوا، drowsy [خواب آلودہ،    نیم خوابیدہ] سا محسوس کرتا ہے۔ کیا ایسی چیزیں بھی نشے کی ذیل میں آتی ہیں؟
جواب :Dull ہونا اور چیز ہے، اور نشہ اور شے ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ نشے کی تعریف یہ ہے کہ انسان پر ایسی حالت یا کیفیت طاری ہوجائے کہ اسے اپنے ارادے پر اختیار نہ رہے اور اس کی قوتِ فیصلہ اور قوتِ تمیز ختم ہوجائے۔ لیکن وہ کیفیت جسے آپ Dull ہونا کہتے ہیں، وہ اور چیز ہے۔ ان دونوں کے فرق کو اس طرح سمجھ لیجیے کہ: کوکین کے نشے میں مدہوش کوئی شخص اگر برسرِعام برہنہ بھی ہوجائے تو اسے احساس نہیں ہوتا کہ مَیں یہ کیا کر رہا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قوت تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس Dull ذہن کے آدمی کو ایسی حالت میں اپنے ننگے ہونے کا احسا س ہوگا۔ پہلی حالت نشے کی ہے، لیکن دوسری نہیں۔

بنک اور سود

سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟ 
جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔

ٹپ کی شرعی حیثیت

سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟ 
جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔

سائنسی تحقیق کی حد

سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔

عیسائیوں کے ساتھ کھانا

سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟
جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔

دو مساجد

سوال : لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟ 
جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔

الفاظ کا استعمال

سوال : ’لیپاپوتی‘ اور ’لیپ پوت‘ میں کون سا لفظ صحیح ہے؟
جواب :دونوں صحیح ہیں۔ ’لیپاپوتی‘ بول چال کی زبان میں استعمال ہوتا ہے، لکھنے میں نہیں آتا، اور ’لیپ پوت‘ لکھنے میں آتا ہے۔

ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں: 

  • ایک تحفظ ِ نسب، جس کی خاطر زنا کو حرام اور جرم قابلِ تعزیر قرار دیا گیا ہے۔ پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیںاور مرد و زن کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کردیا گیا ہے، جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔
  • دوسرے تحفظ ِ نظامِ عائلہ، جس کے لیے مرد کو گھر کا قوّام بنایا گیا ہے، بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خدا کے بعد والدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔
  • تیسرے حُسنِ معاشرت، جس کی خاطر زن و مرد کے حقوق معین کر دیے گئے ہیں۔ مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اور عدالتوں کو تفریق کے اختیارات دیے گئے ہیں ۔ اور الگ ہونے والے مرد و زن کے نکاحِ ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، تاکہ زوجین یا تو حُسنِ سلوک کے ساتھ رہیں، یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہوکر دوسرا بہتر خاندان بناسکیں۔
  • چوتھا صلۂ رحمی، جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے، اور اس غر ض کے لیے ہرانسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔

          افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظامِ عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دُور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظامِ عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔ رہے طرزِ زندگی کے مظاہر تووہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانیت ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں ردّ و بدل نہ ہو۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’رسائل و مسائل‘، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۶، مارچ ۱۹۵۹ء، ص۵۹-۶۰)

سوال : قرآن پاک میں آیا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ  لِسُنَّۃِ اللہِ  تَبْدِیْلًا   ’’یعنی اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی‘‘ ۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں کوئی exception [استثنا]  نہیں ہے، مثلاً اگر آگ کی خاصیت جلانا ہے تو وہ ہر ایک کو جلائے گی۔ لیکن بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں بھی ہوتا، جیساکہ حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ ہے، اور ایسے ہی بعض دوسرے معجزات ہیں۔ توکیا معجزات کا صدور اس آیت کے خلاف نہیں پڑتا؟

جواب :لوگ دراصل context[سیاق و سباق] سے بات الگ کر کے اس کا مطلب نکالتے ہیں۔ وہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو قوم اللہ کے نبی ؑ کو آخرکار جھٹلا دیتی ہے، اللہ اسے تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اب اس خاص موقعے سے الگ کر کے اس آیت کا مطلب نکالا جائے گا تو صحیح مفہوم خبط ہوجائےگا۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی سنت کیا ہے اور کیا نہیں؟ اس کا تعین اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ آگ ہمیشہ اور ہرمقام پر جلانے ہی کا کام کرے گی؟ اس کی اس چھوٹی سی زمین میں جو ایک بہت بڑی لامحدود کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، یہ بات آپ کو نظر آتی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔ اس پر آپ نے اسے اللہ کا قانون قرار دے لیا، کہ آگ جلاتی ہے اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہوسکتا۔ آخرکار یہ معلوم کرنے کا آپ کے پاس کیا ذریعہ ہے کہ اللہ کا قانون یہی ہے؟

جہاں تک آگ کا جلانا ایک physical law [طبعی قانون] قرار دیا جاتا ہے تو اس ’فزیکل لا‘ کی حیثیت کائنات کے لامحدود حقائق کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے کہ وسیع سمندر کے مقابلے میں چندقطروں کی ہوتی ہے۔ جو حقائق آج آپ کو معلوم ہیں اور آپ انھیں ’فزیکل لا‘ قرار دیتے ہیں۔ جب تک وہ حقائق آپ کو معلوم نہیں تھے تو آپ کا وہ ’فزیکل لا‘ (طبعی قانون) بھی کوئی چیز نہیں تھا۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو پہلے انسان کو معلوم نہ تھیں توفزیکل لا نہ تھیں۔ سوسال پہلے اگر کوئی کہتا کہ ایک ایسی سواری ہےجو ہوا میں اُڑ سکتی ہے تو لوگ اسے کہتے کہ ’تو جھک مارتا ہے‘ کیوں کہ ان کے نزدیک یہ چیز اس وقت تک کے معلوم حقائق کے مطابق ’فزیکل لا‘ کے خلاف تھی۔ ان کے نزدیک تو ’فزیکل لا‘ یہ تھا کہ جوچیز ہوا سے زیادہ بھاری ہو، وہ ہوا میں نہیں ٹھیرسکتی۔ لیکن اب یہی چیز علم کے ذریعے سامنے آگئی ہے تو یہ طبعی قانون بن گیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو مالک اور حاکم ہے، اگر اس کا قانون اسے باندھ دے اور وہ اپنے قانون میں کسی تبدیلی کا اختیار نہ رکھتا ہو، تو یہ چیز اس کی حاکمیت اور قدرت کے خلاف ہوگی۔

اقامت ِ دین اور تبلیغِ دین 

سوال : اقامت ِ دین اور تبلیغ کے فرق کے بارے میں وضاحت فرمایئے؟ 

جواب :تبلیغ بلاشبہہ مفید چیز ہے مگر اس سے وہ تمام حقوق پورے نہیں ہوجاتے جو فریضۂ اقامت ِ دین کی رُو سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ محض کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر آدمی، اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں کہہ دے، مگر ارادہ ہرگز یہ نہ ہو کہ یہ باتیں عمل میں بھی آئیں تو یہ چیز لِمَ  تَقُوْلُوْنَ  مَا لَا تَفْعَلُوْنَ [تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ الصف ۶۱:۲] کے زمرے میں آئے گی۔ 
مثلاً ایک بستی میں ایک شخص چاہتا ہے کہ لوگ نماز پڑھیں، تو کیا وہاں اس کا فرض محض نماز کے لیے کہہ دینا ہی ہے؟ یا ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے یہ بھی اس کا فرض ہے کہ جو لوگ نماز پڑھنے پر آمادہ نظر آئیں، ان کے لیے مناسب جگہ تلاش کرے، انھیں یک جا کرے اور فریضۂ نماز کی بجاآوری میں ان کی مدد کرے۔ پھر وہاں نماز پڑھنے کے لیے مسجد بنانے کی فکر کرے۔ ساتھ ہی اسے یہ فکر بھی ہو کہ وہاں وقت پر اذان دی جائے اور باقاعدہ باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ یہ تمام چیزیں نماز کی تبلیغ کے لوازم ہیں۔ اب اگرکوئی شخص محض نماز کی تبلیغ کرکے بیٹھ رہے اور جب اس سے یہ کہا جائے کہ ان لوازم کے اہتمام کے لیے بھی آگے بڑھو، تو وہ کہے کہ یہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب وہ لوگوں کو نماز پڑھنے کے لیے کہتا ہے تو وہ تبلیغ نہیں کرتابلکہ محض ایک بات کہتا ہے جو کہنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔
اگر کوئی گروہ اقامت ِ صلوٰۃ کے لوازم پورے کرنے کے لیے کنواں کھودتا ہے تاکہ نمازیوں کو وضو کے لیے پانی میسر آسکے، مزدوروں کی طرح اینٹیں ڈھوتا ہے تاکہ مسجد کی تعمیر ہوسکے اور مبلغ یہ سب کچھ دیکھ کر کہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے کنواں کھودنے یا اینٹیں ڈھونے کے لیے تو نہیں کہا تھا، میں نے تو صرف نماز پڑھنے کو کہا تھا، تو ظاہر بات ہے کہ ایسا کہنے والا تبلیغ کے تقاضوں اور فریضۂ اقامت ِ دین کے حقیقی مفہوم ہی سے ناآشنا ہے۔

بھارت میں مسلمان

سوال : بھارت میں مسلمان جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں، اس سے وہاں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ذہن میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

جواب :بھارت میں اس وقت جو مسلمان موجود ہیں، انھیں ملک نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ وہاں رہ کر کام کرناچاہیے۔ میں نے ہندستان کے آخری اجتماع میں بھی کہا تھا کہ جب تک کوئی سخت مجبوری لاحق نہ ہو ، کسی کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔ خود ہم نے پٹھان کوٹ میں فیصلہ کیا تھا کہ ڈٹ کر بیٹھیں گے، لیکن جب وہاں کی اور دُوردُور تک کی ساری آبادیاں مسلمانوں سے خالی کرا لی گئیں تو مجبوراً لاہور آنے کا فیصلہ کیا گیا۔
بھارتی مسلمان صبر کے ساتھ رہیں اور اپنے رویے کو درست رکھیں۔ ان شاء اللہ حالات آج نہیں تو کل تبدیل ہوں گے۔ ہندوئوں کے لیڈر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کے نظریات کا علاج بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ دراصل پہلے انگریز دشمنی اور مسلمان دشمنی کی بنیاد پر ہندو قوم کا تشخص برقرار تھا۔ اب صرف مسلمان دشمنی باقی رہ گئی ہے۔ مسلمان دشمنی کے سوا ان کے پاس کھڑے رہنے کے لیے کوئی پائوں نہیں ہیں۔یہ پائوں اگر آپ نے کاٹ دیے تو پھر وہ ٹھیر نہیں سکیں گے۔ ہندو کا مقابلہ اگر آپ مسلمان قوم پرستی کے ذریعے کرنا چاہیں گے تو یہ غلطی ہوگی۔ ایسی چیزوں سے ہندو قومیت کو غذا ملے گی۔ ہندوئوں میں آپ کو ’مسلمانوں کے مطالبات‘ کے بجاے ’اسلام کے مطالبات‘ لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ساتھ لے کر ہندستانی مسلمان موجودہ مراحل سے گزرتے چلے جائیں تو ان شاء اللہ صورتِ حال بدل جائے گی اور آج کے مسلمان آیندہ نسلوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہندوئوں میں جو لوگ مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرکے فساد برپا کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ خود ہندو اس صورتِ حال سے بیزار ہوجائیں گے۔

ہندو کون؟

سوال : ہندوئوں کے قومی تشخص کو، ہندو لیڈر مسلمان دشمنی کو ہوا دے کر برقرار رکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوئوں کا مذہب ان کے قومی تشخص کے لیے کافی نہیں ہے؟

جواب :ہندوئوں کی کوئی ایسی کتاب یا ایسا عقیدہ نہیں ہے جس پر سب ہندو متفق ہوں۔ ۱۸۸۱ء میں جب مردم شماری ہوئی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ ہندو کس کو قرار دیا جائے؟ کیوں کہ کسی کا کچھ عقیدہ تھا اور کسی کا کچھ۔ آخر یہ طے پایا کہ جس کا مذہب ہندستان سے متعلق ہو اور جو گائے کو مقدس مانے وہ ہندو ہے۔ ان کی کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نہیں جس پر یہ سب متفق ہوں۔ دیوتا بھی ایک نہیں، بلکہ کروڑوں ہیں۔ ان کے لٹریچر میں اپنے گروہ کے لیے کوئی نام بھی نہیں ہے، جس سے انھیں پکارا جائے۔ ہم برصغیر میں آئے اور انھیں ہندو کہنا شروع کیا تو ان کا نام ہندو پڑگیا۔

جہیز کی شرعی حیثیت

سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔

نظامِ عبادات اور جہاد

سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟

جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔

نماز کے فوائد

سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟ 

جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔

سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟ 

جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ  مَنْ یَّفْجُرُکَ  ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔

ٹپ کی شرعی حیثیت

سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟ 

جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔

تقلید اور عدم تقلید

سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟ 

جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟

خیر اور شر کا وجود

سوال : مولانا، کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟ 

جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟ 
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔

عیسائیوں کے ساتھ کھانا

سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟

جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔

سائنسی تحقیق کی حد

سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟

جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔

دو مساجد

سوال : مولانا، لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟ 

جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔

بنک اور سود

سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟ 

جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔