عدلیہ ریاست کا ایک اہم ستون اور انصاف کے قیام اور جمہوری حقوق اور روایات کے فروغ بلکہ ان کی تنفیذ کی گراں قدر ذمہ داری کی امین ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور ساکھ دونوں قانون اور اصولِ انصاف کی پاسداری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کا انتظامیہ کی گرفت اور اثراندازیوں سے پاک ہونا اولیں شرائط میں سے ایک ہے۔ عدلیہ کے لیے سیاسی جانب داری اور کرپشن دونوں سے محفوظ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور اسے انصاف سے کام کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ضروری تحفظ فراہم کرتا ہے۔
عدلیہ کو اس کا اصل مقام اور احترام محض قانونی جکڑبندیوں سے نہیں‘ اس کی اعلیٰ صلاحیت‘ مکمل غیر جانب داری‘ انصاف کے معاملے میں بے لاگ رویے‘ حکومتی‘ سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالا ہوکر اپنے فرائض کی انجام دہی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ دستور اور قوم نے عدلیہ سے جو توقعات بجا طور پر وابستہ کی ہیں ان کے کماحقہ پورا نہ ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس کا ثبوت وہ نصف درجن کے قریب خود نوشت ہیں جو خود ریٹائر ہونے والے ججوں کے قلم سے نکلی ہیں اور جن میں وہ واقعات بھی بہ زبان خود بیان ہوئے ہیں جن میں عدلیہ کے قابلِ احترام ججوں کو متاثر کرنے اور ان کے متاثر ہونے کا ذکر ہے۔ حال ہی میں جو کش مکش وکلا اور ججوں کے درمیان رونما ہوئی ہے اور جس کی انتہا ایک طرف وہ تالہ بندیاں ہیں جن کا تماشا اعلیٰ ترین عدالتوں میں ہو رہا ہے‘ اور دوسری طرف وہ قرطاس ابیض ہے جو عدلیہ کے کردار کے بارے میں پاکستان بار کونسل نے تیار کیا ہے جو وکلا کی اعلیٰ ترین تنظیم ہے اور جسے نظامِ عدل و قانون میں ایک باوقار مقام حاصل ہے۔ اسی طرح ایل ایف او کے ایک ضمیمے کے ذریعے جس طرح اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہے اس نے عدلیہ کے وقار اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق کے بارے میں بڑے پریشان کن سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
اس پس منظر میں‘ بظاہر کسی غیرمعمولی ضرورت کے بغیر‘ ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ۱۹۷۶ء کے توہینِ عدالت ایکٹ کو‘ جسے پارلیمنٹ نے بحث کے بعد منظور کیا تھا‘ منسوخ کر کے صدارتی فرمان کے ذریعے دستورکی دفعہ ۸۹ کا سہارا لے کر نیا قانون فی الفور لاگو کر دیا گیا ہے جس نے فطری طور پر سیاسی اور قانونی حلقوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا توہینِ عدالت کے قانون میں کسی ترمیم کی ضرورت تھی؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اس نئی قانون سازی کی ایسی کیا جلدی تھی کہ پارلیمنٹ کا انتظار کیے بغیر اور عوامی بحث اور بار سے مشورے کے اہتمام کو نظرانداز کرکے چار ملکوں کے سفر سے واپسی اور تین ملکوں کے سفر پر روانگی کے قلیل وقفے میں ایک نہایت بنیادی قانون کو آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے۔ یہ دونوں سوال بڑے اہم ہیں اور ان پر علمی‘ قانونی اور سیاسی‘ ہر سطح پر گفتگو ہونی چاہیے کہ جمہوریت نام ہی کھلی بحث اور مشورے کے بعد‘ عوام اور متعلقہ حلقوں سے بھرپور استفادہ کرنے‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر قانون سازی کا ہے۔
عدلیہ کے وقار کا اصل محافظ عدلیہ کااپنا کردار اور کارکردگی ہے۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر اب ایک لاعلاج مرض کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں کے بارے میں بھی مختلف حلقوں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے جن کے اہم سیاسی مضمرات ہیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی مکمل اور حتمی علیحدگی کا مسئلہ بھی دستور کے واضح احکامات اور طے شدہ میقات (time limit)کے گزرنے کے باوجود معرض التوا میں ہے۔ ججوں کی تقرری کا مسئلہ اور اس میں انتظامیہ کے کردار کو بھی شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں خود عدلیہ نے ججوں کے فیصلے میں جو راہ اختیار کی تھی اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ قانون میں اب بھی سیکرٹری کا عہدہ بنچ پر موجود جج کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام امور عدلیہ کے مقام‘ وقار اور کردار سے متعلق ہیں اور توہینِ عدالت کے مسئلے کو ان سے جدا کر کے نہیں لیا جا سکتا۔ پھر نئے آرڈی ننس میں صحت مند اور غیرصحت مند تنقید کا باب کھولا گیا ہے‘ جب کہ ان کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے حذف شدہ مواد کو بھی گواہی کے لیے پیش کرنے کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ scandalizeکرنے کی اصطلاح بھی بڑی مبہم اور مختلف المعنی ہوسکتی ہے۔ نہ معلوم ایسی کیا جلدی تھی کہ اتنا اہم قانون عوامی بحث اور جائزے اور پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بنانے کی بجاے آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کر دیا گیا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ توہینِ عدالت کے سلسلے میں عدالت کے اختیارات ہر قانونی نظام کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے قانون سازی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ برطانیہ اور چند دیگر ممالک میں اس سلسلے میں قوانین پائے جاتے ہیں لیکن امریکہ اور دوسرے بہت سے ممالک میں یہ معاملہ دستور کی ضمانت کے تحت‘ قانونی روایات اور عدلیہ کے ضمیر پر چھوڑا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتی فیصلوں اور معاملات کے بارے میں عوامی اور علمی بحث و گفتگو میں لچک پیدا ہوئی ہے۔ اسلامی قانونی روایات کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عدلیہ کا احترام اور انتظامیہ سے مکمل علیحدگی خود ہماری روایت کا حصہ ہے مگر اس کے ساتھ قاضی کے فیصلوں پر بحث و تعدیل اور عدلیہ کے اپنے احتساب کا بھی موثر نظام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پر زیادہ گہرائی میں جاکر اور سارے پہلوئوں کا احاطہ کر کے قانون سازی کی ضرورت ہے اور جلدی میں یک طرفہ انداز میں قانون سازی کے اچھے اثرات نہیں ہو سکتے۔
برطانیہ میں ججوں کے تقرر کے طریقوں پر آج کل عام مباحثہ جاری ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی ضرورت ہے کہ اس نوعیت کے تمام امور کو پہلے تجویز کی شکل میں لایا جائے تاکہ تمام متعلقہ حلقے ان کا جائزہ لے لیں۔ پھر پارلیمنٹ میں کھلی بحث کے بعد قانون سازی کی جائے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ انصاف کا حصول‘ حقوق کی حفاظت کا اہتمام اور عدلیہ پر اعتماد اور اس کی آزادی کا تحفظ اور صلاحیت کار میں اضافہ حقیقت سے زیادہ محض ایک تمنا رہیں گے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جنرل پرویز مشرف امریکہ اور تین یورپی ممالک کے دورے پر ایک نرالی شان سے روانہ ہوئے۔ داخلی طور پر انھوں نے بیک وقت دو محاذِ جنگ گرم کیے اور پے بہ پے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ کے ذریعے ایک طرف اس جمہوری عمل کو تابڑ توڑ حملوں سے نوازا جس کا خالق ہونے کا وہ خود ہی دعویٰ کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی تحقیر میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کبھی اس کے ارکان کو ’’غیرمہذب‘‘کے خطاب سے نوازا اور کبھی اس پر فوج کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنی مجوزہ قومی سلامتی کونسل اور وردی کی ضرورت کو پوری شان تحکم کے ساتھ بیان فرمایا۔ مرکز اور صوبوں کے دستور پر مبنی معاہدہ باہمی (contractual relationship) کو مجروح کیا‘ ضلعی قیادت کے نظام کو مرکز میں اپنے اقتدار کی تائید کے لیے استعمال کیا اور پھر بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی کو جو انٹرویو دیا اس کے مطابق: انتخابات کے بعد پاکستان میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی جو شکل سامنے آئی ہے‘ اس پر انھوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا ملک ایک برسرِکار جمہوریت لانے میں ناکام رہا ہے۔ خود اپنے ریفرنڈم کے بارے میں جنرل صاحب نے کہا کہ یہ ایک غلطی تھا۔ (نواے وقت‘ لاہور‘ ۱۴ جون ۲۰۰۳ئ)
جنرل صاحب نے دوسرا محاذ صوبہ سرحد میں شریعت بل کی منظوری کو ہدف بناکر بظاہر ایم ایم اے کے لیکن دراصل اسلام اور اس کے نظام قانون و تہذیب و تمدن کے خلاف کھولا ہے اور اس کے لیے صوبہ سرحد میں لائی جانے والی اصلاحات کو ’’طالبانائزیشن‘‘ (Talibanization) کا نام دے کر صوبے کی حکومت اور اسمبلی تک کی بساط لپیٹ دینے کی دھمکی دی ہے۔
ان دو داخلی محاذوں کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بھی انھوں نے ضروری سمجھا کہ چند ایسے واضح اشارے دے دیں جن میں ان کے مستقبل کے عزائم کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان اشاروں کو ایک خاص معنویت اس سے حاصل ہوتی ہے کہ ان کا اظہار قوم کو ان حادثات کے لیے تیار کرنا ہے جن کے لیے کیمپ ڈیوڈ کی محفل سجائی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ صدر جارج بش نے جنرل صاحب کو کیمپ ڈیوڈ کی صدارتی آرام گاہ میں دن گزاری کی جو دعوت دی ہے اسے ان کے حواری ایک سفارتی اعزاز قرار دے رہے ہیں مگر اہل نظر اس میں بڑے خطرات دیکھ رہے ہیں--- ویسے ہی خطرات جن میں آج عالم عرب اور خصوصیت سے اہل فلسطین گھرے ہوئے ہیں اور جن کا آغاز ۱۹۷۸ء میں انورالسادات اور یاسرعرفات کی کیمپ ڈیوڈ میں شرف بازیابی سے ہوا تھا۔ انورالسادات کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سزا ان کی اپنی قوم نے دی اور یاسرعرفات آج نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں کہ کل کا کیمپ ڈیوڈ کا یہ مہمان آج اس لائق بھی نہیں کہ اس کا منہ بھی دیکھا جائے۔
جنرل پرویز مشرف کے بیانات میں جن اشاروں کو صاف دیکھا جا سکتا ہے وہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی‘ کشمیر کے ایک اصولی حل سے ہٹ کر دس بارہ حل کی بات‘ عراق میں امریکی افواج کے منہ پر جو کالک ملی جا رہی ہے اس میں پاکستان کے حصے کی تلاش‘ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کے خلاف محاذ آرائی اور اس اہم سفر میں وزیرخارجہ کی جگہ ان وزیرخزانہ کی ہم سفری جو کہوٹہ کی حساس تنصیبات کا تازہ تازہ معائنہ کر کے جا رہے ہیں اور باخبر حلقوں کے بقول پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کا رشتہ امریکہ کی جوہری توانائی کی حکمت عملی کی چھتری سے جوڑنے کے خواہش مند ہیں۔ اس طرح جناب شریف الدین پیرزادہ کا ہم سفر ہونا بھی بڑا معنی خیز ہے کہ وہ ایل ایف او کے مصنف اور ہرفوجی حکمران کے مشیر اور اس کے لیے سندجواز فراہم کرنے کے ماہر شمار کیے جاتے ہیں۔
داخلی اور خارجی محاذ پر فوج کے خود مقرر کردہ (self-appointed) سربراہ کی‘ جو صدر مملکت ہونے کا بھی مدعی ہے‘ یہ ترک تازیاں بڑی چشم کشا اور ایک خطرناک صورت حال کی غماز ہیں۔ اس لیے اصل مسائل کے بارے میں کلام کرنے سے پہلے ہم اس اصولی بات کو پوری وضاحت اور قوت سے قوم اور دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک فرد کو یہ اختیار نہیں کہ قوم اور اس کی پارلیمنٹ کے فیصلے کے بغیر ایسے اہم امور پر کوئی من مانا موقف اختیار کرے۔
جنرل صاحب بڑے شوق سے ان ممالک کا دورہ کریں لیکن انھیں پاکستانی قوم اور اسلامی مملکت پاکستان کی طرف سے ان معاملات پر پارلیمنٹ اور قوم کی منظوری کے بغیر کسی معاہدے اور پالیسی کی تبدیلی کے اقرار و اعلان کا حق نہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی ایک فرد اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق پوری قوم کو پابند کرنے کا اختیار نہیںرکھتا۔ جنرل صاحب کو دستور اور قانون کے اعتبار سے اقتدار کا کوئی جواز (legitimacy) حاصل نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے نامزد کردہ صدر ہیں بلکہ چیف آف اسٹاف کی توسیع بھی خود ہی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے دستور میں صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ خود خارجہ اور داخلہ پالیسی بنائے۔ دستوری ڈھانچے میں تو وہ کابینہ کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ایل ایف او‘ جو خود متنازع ہے‘ اور زیادہ سے زیادہ ایک دستوری تجویز ہے‘ وہ دستور کا حصہ نہیں‘ اس کے تحت بھی داخلی اور خارجی پالیسی کے ان بنیادی امور اور ان کے بارے میں پالیسی فیصلے (policy decisions) اور معاہدے کرنے کا اختیار کابینہ کو حاصل ہے‘ صدر کو نہیں۔
یہاں پر دستور میں پائے جانے والے اس سقم کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ ایسے اہم معاملات کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توثیق کی کوئی شرط نہیں حالانکہ دنیا کے بیشترممالک میں پالیسی سازی کا آخری اختیار اور بین الاقوامی معاہدات کی توثیق کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے جو کھلی بحث کے بعد یہ ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے مسائل اور مشکلات کی ایک بنیادی وجہ یہی فردِواحد کی حکمرانی کا اسلوب ہے جسے اب ختم ہونا چاہیے ورنہ یہاں جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکتی۔ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں پر بظاہر وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی دبے الفاظ میں مضطرب نظرآتے ہیں مگر کھل کر عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام اور خود اپنے صحیح مقام کے حصول کی کوئی کوشش کرتے نظرنہیں آتے۔ کشمیرپالیسی کے دس بارہ حل‘ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پرنظرثانی اور نیوکلیر صلاحیت کے بارے میں نئی سوچ کے بارے میں کیے جانے والے سوالوں کے جواب میں دی نیشن کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دل کی بات اس طرح ان کی زبان پر آجاتی ہے کہ:
اللہ تعالیٰ معاف کرے‘ ایسے فیصلے کرنے والا ظفراللہ جمالی آخری شخص ہوگا۔ کسی بھی حکومت کو ایسے ایشوز پر پوری قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ (نواے وقت‘ ۱۸ جون ۲۰۰۳ئ)
اس لیے ہم سب سے پہلے جس بات کا برملا اظہار ضروری سمجھتے ہیں وہ پالیسی سازی اور بین الاقوامی معاہدات اور عالمی قوتوں سے قول و قرار کے بارے میں صحیح طریق کار کے بارے میں حتمی فیصلہ ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اولیں اہمیت اس امر کو دینی چاہیے اور اس بارے میں ایک پروٹوکول پر فوری طور پر اتفاق رائے ضروری ہے جسے پہلی فرصت میں دستور کا حصہ بنا لیا جائے۔ اس طرح ہر حکمران ایک ضابطے کا پابند ہوگا اور قوم اور پارلیمنٹ ہر اہم فیصلے کی ذمہ دار ہوسکے گی۔
اسلام کی درست تعبیر
جنرل پرویز مشرف نے لاہور میں وکلا کے نام نہاد کنونشن میں‘ پھر کوہاٹ میں پاک جاپان دوستی سرنگ کے افتتاح کے موقع پر‘ اس کے بعد بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی اور بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اور لندن میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جسے وہ ’’اسلامی انتہاپسندی‘‘ اور طالبان کا ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں‘ خصوصیت سے نشانہ بنایا ہے۔ داڑھی‘ شلوارقمیض‘ حجاب‘ عورت کی اشتہاری نمایش پر گرفت وغیرہ پر بڑے سطحی اور تلخ انداز میں تنقید بلکہ تضحیک کی ہے۔ اس پر ’’دقیانوسی اسلام‘‘ کا فتویٰ لگایا ہے اور بزعم خود لبرل‘ ترقی پسند‘ روشن خیال اسلام کی باتیں کی ہیں اور وہی گھسی پٹی بات کہی ہے کہ اقبال اور قائداعظم تھیوکریسی کے مخالف تھے اور پروگریسو اسلام قائم کرنا چاہتے تھے۔ صوبہ سرحد میں شریعت بل کے کتابِ قانون کا حصہ بننے پر اپنی برافروختگی کے اظہار میں یہاں تک فرما گئے ہیں کہ اگر طالبانائزیشن کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو وہ اسمبلی توڑنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ جنرل صاحب کے ان ہی ارشادات کا آج ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
پہلی بات جنرل صاحب اور ان کے فکری ہم سفروں اور موید قلم کاروں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے یہ ارشادات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے مغربی استعمار نے مسلم دنیا پر تسلط حاصل کیا ہے‘ ایک طبقہ اپنی روشن خیالی اور ترقی پسندی کے زعم میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتا رہا ہے اور اسے مغرب کے حلقوں میں جو بھی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اُمت اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے اس لبرلزم اور روشن خیالی کو مغرب کی کورانہ تقلید اور استعماری آقائوں کی چاکری قرار دیا ہے۔ اس طرزِفکر کو کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ یہ ایک نہایت مختصر اقلیت کی سوچ تو رہی ہے لیکن اُمت نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ جس اقبال کا جنرل صاحب بار بار ذکر کرتے ہیں اس نے اس طرزِفکر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور جن قائداعظم کے اسلام کی وہ بات کرتے ہیں‘ وہ اپنی تمام تر مغربی تعلیم اور قانونی مہارت کے باوجود اسلام کے بارے میں وہی نقطۂ نظر رکھتے تھے جس پر اُمت کا اجماع ہے اور جس کا اساسی اصول یہ ہے کہ اسلام محض ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کی پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے‘ جس میں اصول واقدار اور بنیادی ادارات سے لے کر شکل و شباہت‘ رہن سہن‘ لباس اور خوراک‘ ہر پہلو کے لیے ہدایت اور ضابطے ہیں۔ دین و دنیا کی وحدت اور سیاست اور مذہب کی یک رنگی اس کا طرئہ امتیاز ہے۔ اسلام نہ ملّا کا ہے اور نہ طالبان کا‘ نہ کسی مسٹر کی اختراع ہے اور نہ کسی جرنیل کی--- اسلام اللہ کا دین ہے جو قرآن پاک کی شکل میں محفوظ اور متعین ہے اور جس کا ماڈل صرف ایک ذاتِ پاک ہے یعنی اللہ کے برگزیدہ نبی اور ہمارے حقیقی قائد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اور قرآن و سنت ہی ہر دور اور ہر علاقے کے لیے اسلام کا اصل ماخذ ہیں۔ بلاشبہہ اسلام کی اپنی حکمت انقلاب ہے لیکن جس چیز کو قرآن و سنت نے طے کر دیا وہ حتمی ہے اور اس میں تراش خراش کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔
طالبان کی بات تو ہم بعد میں کریں گے لیکن اصل ایشو یہ ہے کہ اسلام وہی معتبر ہے جو قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اسلام اور اس کا نمونہ ہے--- وہ نہیں جو بش کو پسند ہو یا جسے مغرب کے سیاست دان یا دانش ور پروگریسو اور لبرل قرار دیں۔ آج امریکہ کا اصل ہدف ہی قرآن وسنت کا اسلام ہے جسے کبھی ’’فرسودہ مذہب‘‘ کہا جاتا ہے‘ کبھی ’’جہادی دین‘‘ کہہ کر اسے انتہاپسندی قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل اس پر لگایا جاتا ہے اور کبھی ’’طالبان کا اسلام‘‘ یا ’’ملّا کا اسلام‘‘ کہہ کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔ یہ سب مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے حربے ہیں۔ اسلام ایک ہے اور ہمارا ماڈل نہ طالبان ہیں‘ نہ ایران ہے‘ نہ سعودی عرب اور نہ سوڈان کا اسلام۔ ہمارے لیے اصل سرچشمہ ء ہدایت قرآن و سنت ہیں۔ جہاں تک طالبان‘ ایران‘ سعودی عرب‘ سوڈان یا باقی مسلم دنیا کے ممالک اور تحریکات قرآن و سنت کے مطابق عمل پیرا ہیں وہ معتبر ہے اور جہاں وہ اس سے ہٹے ہوئے ہیں وہ اصلاح طلب ہے اور ہمارا مطلوب و مقصود نہیں۔ البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ہمارا اور اُمت مسلمہ کا مقصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی ہے۔ بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہونا اور ان سے داد و دہش کی طلب ہماری منزل نہیں۔ معیار صرف ایک ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور رہنمائی ہے۔ اس لیے کہ اللہ کا پسند کردہ طریقہ ہمارے لیے اسلام ہے:
تھیوکریسی کا اسلام میں کوئی وجود نہیں لیکن تھیوکریسی کا نام لے کر اسلامی نظامِ زندگی‘ اس کے قانون‘ معاشرتی اقدار‘ سیاسی احکام‘ معاشی ضابطوں‘ ثقافتی حدود و اہداف کو نظرانداز کرنا اور مذہب کو محض افراد کا ذاتی معاملہ قرار دینا اسلام سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت ہے۔ اور اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا سہارا لینا بدترین علمی بددیانتی ہے۔ انگریز دانش ور بیورلی نکلسن اپنی کتاب Verdict on India (مطبوعہ ۱۹۴۴ئ) میں قائداعظم سے تحریک پاکستان کے مقاصد اور مذہب اور ریاست کے تعلق کے بارے میں اپنے انٹرویو کا حال یوں بیان کرتا ہے:
قائداعظم : آپ یہ حقیقت کبھی نظرانداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظامِ حیات دیتا ہے۔میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ میں اپنی تاریخ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظامِ عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر ہندوئوں سے انقلابی طور پر نہ صرف مختلف ہے بلکہ بسااوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگیوں میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر‘ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مقصد وجود کے بارے میں قائداعظم نے صاف الفاظ میں کہا کہ: ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ضابطہ حیات ‘ اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘۔
اور انھی خیالات کا اظہار اور بھی شدت کے ساتھ قائداعظم نے میلادنبویؐ کے موقع پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کیا اور صاف الفاظ میں شریعت کا لفظ استعمال کرکے کیا کہ تیرہ سو سال پہلے انسانیت کو دیے جانے والے اصول اور قوانین آج بھی اتنے ہی قابلِ عمل اور آج کے انسان کے لیے ضروری ہیں جتنے تیرہ سو سال پہلے تھے۔
بات اسلام کی ہے ‘ کسی خاص گروہ یا طبقے کی خواہشات اور عادات کی نہیں۔ محض طالبان کا ہوّا دکھا کر شریعت اسلامی سے فرار کی کوئی کوشش بھی مقبول و محترم نہیں ہوسکتی۔ رہا معاملہ علامہ اقبال کا تو ان کا تو سارا فلسفہ‘ سارا شعری سرمایہ دین ودنیا کی وحدت اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کے مطابق مسلمانوں کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھال دینے کے لیے وقف ہے۔ ترقی پسند اور لبرل اسلام کے داعیوں کے لیے ان کے پاس تنقید اور ترہیب کے سوا کچھ نہیں ؎
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
وہ مغرب کی ذہنی‘ ثقافتی اور سیاسی ہر قسم کی غلامی سے بغاوت کی دعوت دیتے ہیں اور کس طنز سے فرماتے ہیں ؎
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
لبرل اسلام کے دعوے داروں سے اقبال کا خطاب کچھ اس طرح ہے ؎
ترا وجود سراپا تجلّی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکرخاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو‘ زرنگار و بے شمشیر
لبرل اسلام کے داعی آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ نماز‘ روزہ اور داڑھی کی اجازت ہے۔ پھر یہ شریعت کے نفاذ کی بات چہ معنی ؟ لیکن دیکھیے اقبال نے کس طرح اس کا جواب دیا ہے ؎
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اقبال ہوں یا قائداعظم یا اُمت مسلمہ پاک و ہند--- انھوں نے کسی ایسے اسلام کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی جو بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہو۔ جس چیز کو جنرل پرویز دقیانوسی اور ازکار رفتہ کہہ رہے ہیں وہ وہ ابدی اور لازوال ہدایت ہے جس کا سرچشمہ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور نمونہ ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں صرف وہی معتبر اور مقبول ہے۔ استعماری قوتوں نے اسلام کو ’’ریفارم‘‘ (reform)کرنے کا کھیل ماضی میں بھی کھیلا ہے اور آج بھی کھیل رہی ہیں اور ان کا آلہ کار بننے والے کل بھی ناکام و نامراد رہے اور ان شاء اللہ آج بھی رہیں گے۔
دوسری بات ہم طالبان کے حوالے سے بھی بہت صاف طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ طالبان کا افغانستان میں ظہور اور غلبہ خاص حالات کا رہین منت تھا۔ پاکستانی حکمران‘ پاکستانی فوج کی قیادت‘ اور سعودی عرب اور امریکہ کے سیاست کار یہ سب ان کی پشت پر تھے۔ ’’طالبان کا اسلام‘‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو وجود میں نہیں آیا۔ اپنے فہم اور شعور کے مطابق وہ پہلے دن سے ایک خاص انداز میں اپنا اجتماعی نظام چلا رہے تھے‘ جس کے کچھ پہلو نہایت روشن اور تابندہ تھے اورکچھ پہلوئوں سے ان کے نظام میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں تھیں۔
افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور طالبان اسی قبائلی نظام کا حصہ تھے جو پشتون آئین‘ قانون‘ روایات اور ضوابط سے عبارت ہے۔ بلاشبہہ اس کی صورت گری میں اسلامی شریعت کا بھی ایک نمایاں حصہ ہے لیکن طالبان کا تصور اجتماعیت بنیادی طور پر پشتون آئین اور روایات پر مبنی تھا اور جس حد تک اسلام اس کا حصہ ہے وہ اس میں شامل تھا۔ تاہم ان کی پالیسیوں کا ایک حصہ ان کی اپنی روایات پر مبنی تھا‘ جو پاکستان یا دنیا کے دوسرے ممالک اور علاقوںکے لیے متعلق (relevant) نہیں۔ اس لیے صوبہ سرحد میں جو اصلاحات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان پر طالبان کے حوالے سے کی پھبتی کسی طرح بھی صادق نہیں آتی۔
کہنے والے آج طالبان کو جوچاہے کہہ لیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے اس افغانستان کو امن و انصاف دیا جو شدید اور خون آشام خانہ جنگی کی گرفت میں تھا اور جہاں لوٹ مار کا دور دورہ تھا اور وار لارڈز (war lords) نے زندگی اجیرن کر دی تھی۔ طالبان کے دور میں وہ سارا علاقہ جو ان کے زیرحکومت تھا امن اور انصاف کا گہوارا بن گیا تھا اور وار لارڈز کو بے اثر کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح افیون کی کاشت کو چندسال میں ختم کر کے انھوں نے ایک بڑی لعنت سے افغانستان ہی نہیں پوری دنیا کو نجات دلائی اور ان کے اس کارنامے کا خود امریکہ تک نے اعتراف کیا۔یہ بجا کہ معاشی ترقی‘ تعلیم کے فروغ اور خصوصیت سے خواتین کی تعلیم اور ملک کی دوسری قومیتوں سے مصالحت کے سلسلے میں ان کی پالیسیوں میں خامی موجود تھی۔ پاکستان اور عالمِ اسلام کی دینی شخصیات اور تحریکات نے ان کے اچھے کاموں کی قدرافزائی کے ساتھ ان کو ان کمزوریوں کی طرف متوجہ کیا تھا اور وہ تعلیم‘ ترقی اور مصالحت کی راہ پر چل بھی پڑے تھے۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو آج ان پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء سے پہلے ان کو طالبان میںکوئی خامی نظر نہیں آتی تھی اور آج انھیں کوئی خوبی نظر نہیں آ رہی ہے۔ طالبان کا عروج پیپلز پارٹی جیسی نام نہاد لبرل سیاسی جماعت کے دور میں اور اس کی مکمل تائید سے ہوا‘ فوج کی قیادت بھی ان کی پشت پر تھی۔ امریکہ بھی ان کا موید تھا اور مئی ۲۰۰۱ء تک ان سے گہرے سیاسی‘ سفارتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں مصروف تھا۔ سارا نزلہ اس لیے گرا کہ انھوں نے امریکی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا اور جس شخص یا گروہ کو پناہ دی تھی دلیل اور ثبوت کے بغیر اسے امریکہ کو پیش کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کے لیے طالبان حلیف اور ساتھی تھے اور پاکستان سے کوئی بے وفائی انھوں نے نہیں کی۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ہی امریکہ کی خوشنودی کے لیے یوٹرن لیا اور اپنے ہی دوستوں اور بھائیوں کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ کو اپنی زمین اور اپنا کندھا فراہم کردیا۔ امریکہ کی نارتھ کمانڈ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے عوام پر امریکی افواج نے ۵۷ ہزار سے زیادہ فضائی حملے ہماری سرزمین یا ہماری فضائی حدود کو استعمال کرکے کیے اور ہم بھی ان کے اس ظلم اور فساد میں شریک ہوئے اور جو دوست اور حلیف تھے ان کو دشمن بنالیا۔
طالبان کا اسلام نہ ۱۱ستمبر کے بعد رونما ہوا اور نہ۱۱ ستمبر سے پہلے اس کا وجود تھا۔ پاکستان کے ان سے ہم رنگ اور ہم ساز ہونے کا قصہ تو سب ہی کے سامنے ہے لیکن امریکہ بھی اس میں کتنا شریک تھا اور طالبان سے کس کس طرح کی پینگیں بڑھا رہا تھا اس کا پورا حال اگر کبھی پوشیدہ تھا تو اب نہیں ہے۔ دسیوں کتابیں گذشتہ دو سال میں اس پر آچکی ہیں اور دو فرانسیسی صحافیوں کی کتاب Forbidden Truth: U.S. - Taliban Secret Oil Diplomacy جو فرانس ہی نہیں امریکہ میں بھی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی (best seller) کتاب ہے اور جس کا انگریزی ایڈیشن امریکہ اور برطانیہ سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا ہے‘ ایک اہم دستاویزی ثبوت ہے۔ بلاشبہہ ان کتب میں حقائق اور افسانے‘ واقعات اور اختراعات سب کچھ موجود ہیں مگر جو بات ناقابلِ تردید ہے وہ ۱۱ستمبر کے سانحے سے پہلے طالبان سے تعلقات‘ دوستی اور اپنے مفادات کے لیے ان سے پینگیں بڑھانا ہے۔ اس وقت ’’طالبان کا اسلام‘‘ کسی کو پریشان نہیں کر رہا تھا اور سیاسی تائید‘ معاشی مفادات کا حصول‘ اور مالی امداد کی فراوانی یہ سب جائز تھا۔
رہا ہمارا معاملہ‘ تو ہماری تحریریں گواہ ہیں کہ ہم نے طالبان کے اچھے کاموں کی تعریف کی اور ان کی خامیوں پر ان کو دلسوزی کے ساتھ متوجہ کیا اور ان خامیوں سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ آج ہم ان کی مظلومیت کی بنا پر ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے بزدلی ہی نہیں‘ بداخلاقی بھی سمجھتے ہیں کہ محض امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے مظلوم بھائیوں کے حق میں کلمہ خیر بھی کہنے سے اجتناب کریں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اپنے رویے پر شرمسار ہونا چاہیے‘ چہ جائیکہ وہ طالبان کو ان کی مظلومیت کے اس دور میں نشانۂ تضحیک بنائیں۔
جہاں تک صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی انتخابی کامیابی اور صوبائی حکومت کی نفاذِ اسلام کی کوششوں کا تعلق ہے‘ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ متحدہ مجلسِ عمل عوام کی بھرپور تائید اور جمہوری ذریعے سے برسرِاقتدار آئی ہے۔ وہ کسی چوردروازے سے اقتدار پر قابض نہیں ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کی صدارت کو کوئی دستوری یا اخلاقی جواز بھی حاصل نہیں۔ وہ ایک خود مقرر کردہ (self-appointed) صدر ہیں۔ اس طرح دوسری ٹرم کی حد تک انھوں نے خود ہی اپنے آپ کو چیف آف اسٹاف بنا لیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نام نہاد صدارتی ریفرنڈم کے بارے میں وہ صرف اپنی شرمندگی کا اظہار ہی کرنے پر مجبور نہیں ہوئے‘ اب وہ اس کو ایک غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں گو اس غلطی کے منطقی تقاضوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ متحدہ مجلسِ عمل نے ان کو دستور کے مطابق صدر منتخب ہونے کا ہر موقع دیا اور تعاون تک وعدہ کیا بشرطیکہ وہ غیرقانونی اور غیردستوری اختیارات اور ناجائز دستوری ترمیمات سے دستبردار ہوجائیں لیکن وہ دستوری اور قانونی طریقہ اختیار کرنے سے اب تک گریزاں ہیں اور اس طرح صرف قوت اور فوجی اتھارٹی کے ناجائز استعمال کے ذریعے اقتدار پر رہنے پر مصر ہیں۔ اس کے برعکس متحدہ مجلسِ عمل نے خالص قانونی اور جمہوری راستہ اختیار کیا ہے اور عوام کے ووٹ کے ذریعے برسرِاقتدار آئے ہیں۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کے گرجنے برسنے کا اور ہی انداز ہے۔ وہ منتخب اسمبلی کو صرف اس لیے توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ ان کے مزعومہ ترقی پسند اسلام کو دین سے انحراف سمجھتی ہے اور جو مینڈیٹ قوم نے اس کو دیا ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انھیں اس کام پر نعوذ باللہ‘ اللہ تعالیٰ نے مامور کیا ہے۔ اس طرح وہ ظل الٰہی (divine right of kings) کے فرسودہ نظریے کا احیا کرنے کا جرم کر رہے ہیں۔
ایک طرف جنرل صاحب ہیں جنھیں غیرمنتخب اور خودساختہ صدرکے سوا کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ دوسری طرف صوبے کی منتخب اسمبلی اور قیادت ہے جو اسمبلی کے ذریعے‘ ملک کے دستور کے مطابق‘ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور اقبال اور قائداعظم کے قوم سے کیے ہوئے وعدوں کی تعمیل میں جمہوری اور تعلیمی ذرائع سے شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ قوم کے سامنے یہ دو ماڈل بالکل واضح ہیں اور قوم یا دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیںجھونکی جاسکتی۔
سرحد کی حکومت کے خلاف صرف سیاسی دبائو اور معاشی اور مالیاتی وسائل سے محرومی ہی کے وار نہیں کیے جا رہے بلکہ سب سے بڑھ کر‘ ایک پروپیگنڈا وار پہلے دن سے شروع کردی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پھیلایا جاتا ہے اور مثبت اور تعمیری کاموں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
صوبہ سرحد کی حکومت نے پہلے دن سے سادگی اور کفایت شعاری کو اختیار کیا۔ متعدد وزیروں نے سرکاری مکان تک نہ لیے‘ اپنے دفتر اور گھر دونوں کے دروازے عام انسانوں کے لیے کھول دیے۔ اپنے رہن سہن کا انداز وہی رکھا جو پہلے تھا اورملک کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ اور سینیروزیر نے بجٹ میں اپنی تنخواہیں دو ہزار روپے ماہانہ اور باقی تمام وزرا نے ایک ہزار روپے ماہانہ کی کمی کی جب کہ مرکز اور پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے وزیروں کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کا راستہ اختیار کیا اور نئی گاڑیوں اور مہنگی رہایش گاہوں پر غریب عوام کی دولت کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ صوبے میں قومی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے اختیار کیا اور عملاً کاروبار حکومت میں اس کے نفاذ کا آغاز کر دیا۔ جرائم کی رفتار صوبے میں باقی تمام ملک سے نصف ہے اور امن و امان کی صورت حال سب سے بہتر ہے۔ آٹے کی قیمت میں کمی ہوئی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم شعبۂ حادثات میں فوری امداد اور مفت ادویہ کی فراہمی کا آغاز کر دیا ہے۔ ترقیاتی اور عمومی بجٹ میں تعلیم کو اولیت دی ہے اور سرحد وہ واحد صوبہ ہے جس نے تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا ۴.۲۸ فی صد مختص کیا ہے‘ جب کہ پنجاب اور سندھ میں یہ حصہ ۱۹ اور ۵.۱۳ فی صد ہے اور مرکز میں صرف ۶فی صد کے قریب۔ خواتین کی تعلیم کو واضح ترجیح دی گئی ہے اور صحت کے میدان میں بھی ان کے لیے خصوصی انتظامات کا اعلان کیا ہے۔
سرحد کا بجٹ اس پہلو سے بھی منفرد ہے کہ کسی صوبے نے پہلی بار بجٹ سازی کے بارے میں ایک نیا وژن پیش کیا ہے کہ عمومی انتظامی اور ترقیاتی بجٹ کی دوگونہ تقسیم کو آیندہ کے لیے بدل کر بجٹ کے لیے تین دھاروں (streams)کو متعین کیا ہے‘ یعنی انتظامی‘ فلاحی اور ترقیاتی۔ یہ اسلام کی اولیں روایات سے مطابقت رکھتا ہے جب حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میںباقاعدہ بیت المال کا آغاز ہوا تو اس کے دو شعبے تھے اموال المسلمین اور اموال الصدقہ۔ اس وژن کو سرحد کے بجٹ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
نفاذِ شریعت کے یہ وہ تمام پہلوہیں جن کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور چند ضمنی باتوں کو جن کے بارے میں بھی ایک ہمدردانہ تعبیرممکن ہے‘ ایم ایم اے کے تصور اسلام کا نام دے کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ خود جنرل پرویز اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے دو اسلاموں کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک انتہا پسند اسلام اور دوسرا لبرل اسلام--- اور امریکہ اور یورپی ممالک سے انتہاپسند اسلام کو کچلنے اور لبرل اسلام کی پشتی بانی کرنے کے لیے واویلا کر رہے ہیں اور اس طرح محض اپنی ذات کی خاطر اسلام اور پاکستان دونوں کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال اگر کہیں خراب ہے تو وہ کراچی ہے جہاں ماہنامہ ہیرالڈ کراچی کے ایک تازہ جائزے کے مطابق ہر روز صرف پولیس کی سرپرستی میں پچاس کاریں لوٹی جا رہی ہیں۔ صوبے میں ایم کیو ایم کے حکومت میں آتے ہی اور گورنر عشرت کا اقتدار نازل ہوتے ہی بھتّے کا کاروبار شروع ہو گیا ہے۔ قتل اور بوریوں میں لاشوں کا سلسلہ ایک بار پھر شہر میں خوف و ہراس کا باعث بن گیا ہے۔
ہیرالڈ ہی کی رپورٹ ہے کہ صوبائی محکمہ انصاف کے مطابق روزانہ بنیادوں پر خود پولیس کے خلاف دسیوں کیس درج ہو رہے ہیں۔ ۲۰ مارچ ۲۰۰۱ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۲ء تک ۳۲۸ شکایات پولیس کے خلاف درج کی گئی لیکن ۲۰ مارچ ۲۰۰۲ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۳ء تک کے عرصے کے دوران کراچی پولیس کے خلاف ۴۸۰ کیسوں کی شناخت کی گئی۔ کراچی کے بارے میں ٹائم کی رپورٹ میں اگر مبالغہ بھی ہو تو بھی یہ شہر ایک بار پھر مخدوش حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بلوچستان اور پنجاب میں فرقہ وارانہ قتل کے واقعات روز افزوں ہیں۔ گیس پائپ لائن ایک ہی مہینے میں دو بار میزائلوں سے اڑائی جاتی ہے اور کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے اپنے علاقے میں پولیس کا ڈی آئی جی دن دھاڑے مار دیا جاتا ہے اور کوئٹہ میں پولیس کے زیر حراست نوجوان قتل کیے جاتے ہیں۔ یہ سب جنرل صاحب کے لیے کسی تشویش کا سامان نہیں فراہم کرتے البتہ ان کی نینداگر اڑ جاتی ہے تو اس پر کہ پیپسی کے بورڈوں پر عورتوں کی تصویروں پر کپڑا کیوں چڑھا دیا گیا۔ یہ ہے بالغ نظر (mature) قیادت کا احساسِ تناسب (sense of proportion) !
سرحد اسمبلی نے جو شریعت بل منظور کیا ہے غالباً جنرل پرویز اور ان کے قلم بکف گوریلوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا‘ اس لیے کہ اس میں طالبان کا کوئی ’’سایہ‘‘ (ghost) موجود نہیں۔ وہ بل دستور کے تحت منتخب اسمبلی میں پیش کیا گیا جس کو اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ سیکولر پارٹیوں نے ۲۱ ترامیم بل میں پیش کیں جن کو بعد میں واپس لے لیا اور ساری جماعتوں نے مکمل اتفاق راے سے اسے منظور کیا۔ ایک بھی ووٹ اس کے خلاف نہیں آیا۔ قانون کا آپ تجزیہ کرلیں اس میں تعلیم‘ عورتوں کے حقوق‘ غیرمسلموں کے حقوق‘ انصاف کے حصول کو آسان بنانا اور معاشی اور اجتماعی زندگی کو فساد‘ ناہمواریوں اور استحصال سے پاک کرنے کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ تمام کام قانون کے دائرے میں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے سے کرنے کا خاکہ مرتب کیا گیا ہے۔ پوری منصوبہ سازی اور قانون سازی‘ باہمی مشاورت سے کرنے کا عندیہ ہے۔ تین کمیشن بنائے جا رہے ہیں جو مشورے سے اپنی سفارشات دیں گے اور پھر ان کی روشنی میں اسمبلی مزید قانون سازی کرے گی۔ اس پورے عمل میں یہ عوام کی شرکت‘ راے عامہ کی تربیت اور تعلیمی انقلاب کے ذریعے تبدیلی کو اولیت دی گئی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایسے تعمیری انداز کو’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’طالبانائزیشن‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ بدنیتی پر مبنی نہیں تو کم علمی اور غلط فہمی کے بارے میں تو کوئی شبہہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ راستہ قوموں کی ترقی کا راستہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم پوری قوم اور خصوصیت سے حکمران پارٹی کے ارکان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کھلے ذہن سے قانون کے مسودے کو پڑھیں اور علم اور دیانت کے ساتھ اس بحث میں حصہ لے۔ یہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔
آخر میں ہم قوم کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے اس احساس کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات میں حصہ لینے والی جنرل صاحب کی ٹیم میں جناب شریف الدین پیرزادہ کی شرکت سے یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ ایل ایف او کا رشتہ اب اسلام آباد سے بڑھ کر واشنگٹن سے استوار ہو رہا ہے۔ ویسے تو امریکہ کو جمہوریت پر بڑا ناز ہے اور دنیا بھر میں وہ جمہوریت کی ترویج ہی کو اپنے استعماری پروگرام کا اصل ہدف قرار دیتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کے لیے زبانی جمع خرچ اپنی جگہ‘ لیکن امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے بادشاہوں‘ ڈکٹیٹروں اور فوجی حکمرانوں کو استعمال کیا ہے۔ تازہ ترین مثال جنرل پرویز مشرف سے دوستی بلکہ یاری کا رشتہ ہے۔ کیا وہ وقت تھا کہ کلنٹن صاحب ملاقات کے روادار نہ تھے‘ آئے تو اسے دورہ نہیں stop over قرار دیا۔ شرط لگا دی کہ وردی میں ملاقات نہیں ہوگی۔ اور سوٹ والی ملاقات کا مصافحہ تک کا فوٹو نہ تصویر کی صورت میں آئے گا اور نہ ٹی وی کیمرے کی آنکھ کا تارہ بنے گا۔ مفاد کی ہوائوں کے رخ کی ذرا سی تبدیلی نے انھی جنرل صاحب کو اب دوست بنا دیا اور کیمپ ڈیوڈ کی قربت کا سزاوار کردیا۔ ترکی میں پارلیمنٹ نے جو جمہوری کردار ادا کیا اس پر امریکی قیادت ناراض ہے اور امریکی وزیر دفاع ریمز فیلڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ترکی کی فوج نے ہماری توقعات پوری نہیں کیں‘‘۔ یہ ہے امریکہ کی جمہوریت نوازی!
لگتا یوں ہے کہ اب ’’وردی والی جمہوریت‘‘ کو امریکہ کی سند ملنے والی ہے۔ لیکن جنرل صاحب اور بش صاحب دونوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فیصلے پاکستانی قوم کرے گی‘ کیمپ ڈیوڈ یا لندن میں یہ معاملات طے نہیں ہوں گے۔ پاکستانی قوم ملک میں حقیقی جمہوریت کی خواہش مند ہے اور وہ فوج کو وہ احترام اور مقام دینا چاہتی ہے جو دفاع وطن کے لیے ضروری ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو اب ختم ہونا چاہیے‘ ورنہ ڈر ہے کہ فوج روز بروز زیادہ سے زیادہ متنازع بنتی جائے گی اور بالآخر فوجی قیادت کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں قوم اور فوج میں بُعدپیدا ہوگا جو دونوں کے لیے برا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانوں کاکردار کسی طرح بھی قابل رشک نہیں رہا اور آج ہم بہت دکھ سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پہلے تو عوام کے غم و غصے کا نشانہ صرف وہ حکمران ہوتے تھے جو فوج کو زینہ بنا کر حکومت پر قابض ہوتے تھے مگر اب بے چینی اور اضطراب کا رخ فوج کی طرف بحیثیت ایک ادارے کے ہوتا جا رہا ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ ان حالات میں جنرل صاحب کے ذہن اور عزائم کی جو جھلکیاں ان کے امریکہ جانے سے پہلے کے بیانات سے مترشح ہیں وہ ملک اور فوج دونوں کے لیے نہایت پریشان کن ہیں۔ ذرا غور کریںکہ جنرل صاحب کیا پیغام دے رہے ہیں:
یہ صرف چند نمونے ہیں لیکن موصوف کا ذہن سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ قرآن کے استعارے میں اس بدقسمت خاتون کی راہ پر بڑھ رہے ہیں جو سوت بڑی محنت سے خودکاتتی ہے۔ پھر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط (النحل ۱۶:۹۲) خدا کرے ایسا نہ ہو لیکن ہے یہ سب کے لیے لمحۂ فکریہ! ان سارے خدشات اور امکانات کی روشنی میں پارلیمنٹ کے تمام ارکان کو غور کرنا چاہیے کہ ہوا کا رُخ کیا ہے اور کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تمام سیاسی قوتیں دستور اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں اور محض فوجی طالع آزمائوں کو سہارا دینے کی روش ترک کریں۔ جمہوریت کبھی بھی جرنیلوں کی سرپرستی (tutelage) کے ذریعے فروغ نہیں پاسکتی۔ جمہوری استحکام کا انحصار دستور اورملکی اداروں کے استحکام کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر سیاست دان مراعات اور وزارتوں کی خاطر جرنیلوں کے آلہ کار بننے کو ترجیح دیں اور عدالت کے ججوں کو دستور میں ایسی دفعات نظرنہ آئیں جو حاضرسروس (in service) فوجی کے صدر ہونے میں مانع ہوں تو پھر جمہوریت کا مستقبل روشن کیسے ہوسکتا ہے؟ سرکاری پارٹی اور عدلیہ نے قوم کو مایوس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن سوال کسی ایک پارٹی اور ایک ادارے کا نہیں‘ اس ملک کے ۱۴کروڑ انسانوں کی آزادی‘خودمختاری‘ ان کے حقوق اور ان کے مستقبل کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقوق اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب ان کے لیے جدوجہد کی جائے اور قربانیاں دی جائیں اور آزادی کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد اپنی اور قوم کی آزادی کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو۔ اقبال نے اس حقیقت کو کتنے صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر
آج اگر ہمیںاپنی آزادی اور اپنے حقوق کی خود اپنوں کی دست درازیوں سے حفاظت کرنی ہے تو اس کے لیے ایمان‘ استقامت‘ ایثار و قربانی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ؎
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں‘ لا الٰہ الا اللہ
(اشاعت عام کے لیے کتابچہ دستیاب ہے: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
اس مہینے راے عامہ کے دو بہت اہم اوردل چسپ جائزے سامنے آئے ہیں۔ پہلا وہ ہے جس کا اہتمام بی بی سی نے آئی سی ایم کے ذریعے کیا ہے اور جو انگلستان کے روزنامہ گارڈین نے شائع کیا ہے۔ یہ سروے ۱۱ ممالک میں ۱۱۰۰ افراد کی رائے پر مبنی ہے۔ ۱۱ ممالک میں صرف دو مسلمان ملک ہیں‘ یعنی اُردن اور انڈونیشیا۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ گو امریکہ کو بحیثیت ایک جمہوری ملک کے لوگ پسند کرتے ہیں اور اس پہلو سے اس ملک میں ایک مقناطیسی کشش اب بھی موجود ہے لیکن امریکی پالیسیوں اور خصوصیت سے صدربش کو خارجہ سیاست کے اعتبار سے سخت ناپسند کرتے ہیں بلکہ ان پر برافروختہ (infuriated) ہیں۔
امریکہ کی جن چیزوں کو اس کے مثبت پہلو کہا جا سکتا ہے وہ اس کا آئیڈیل ازم ‘ اس کی دولت اور اس میں پائی جانے والی آزادیاں ہیں۔ اس کے برعکس جن چیزوں کی وجہ سے دنیا کے لوگ اس سے خائف ہیں اور جس میدان میں وہ عوامی تائید کی جنگ ہار رہا ہے وہ اس کا دوغلاپن اور اہم عالمی مسائل‘ جیسے نیوکلیر ہتھیاروں کے عدم پھیلائو‘ عالمی غربت کا خاتمہ اور ماحول کے بگاڑ کے اسباب کے بارے میں عدم دل چسپی اور مایوس کن کارکردگی ہے۔ عراق کی جنگ اور صدام کو گرانے کے بارے میں عالمی رائے کی اکثریت امریکہ کے دعووں اور اقدام کے مخالف تھی‘ جب کہ مسلمان ممالک میں امریکہ کو القاعدہ کے مقابلے میں زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک دل چسپ بات اس سروے میں یہ بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ امریکہ کی دولت اور اس کی آزادیوں کو پسندکرتا ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ میں رہنا پسند کریں گے تو انھوں نے اس سے انکار کیا۔ انھوں نے امریکی فاسٹ فوڈ اور مشروبات کو ناپسند کیا‘ جب کہ امریکی گانوں اور فلموں کو پسند کیا۔
اس سروے کا ایک اوردل چسپ پہلو یہ ہے کہ امریکہ‘برطانیہ اور سروے میں شامل دوسرے انگریزی بولنے والے ممالک میں بحیثیت مجموعی اکثریت کی رائے میں امریکہ عالمی میدان میں ’’خیر کی ایک قوت‘‘ (a force for good in the world) ہے۔ اس کے مقابلے میں اُن ممالک کے لوگوں کی رائے مختلف ہے جو انگریزی نہیں بولتے ہیں۔ فرانس‘ روس‘ اُردن‘کوریا اور انڈونیشیا کے لوگوں کی اکثریت امریکہ کو دنیا کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ سروے سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ یہ ہے:
اس سب سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟ یہ کہ اصل مسئلہ امریکی اقدار نہیں بلکہ واشنگٹن کے اقدامات اور پالیسیاں ہیں۔ اصل قصور جارج بش کا ہے۔ کیچڑ اُچھالنا اور کائوبوائے جیسا اندازِ گفتگو بیرونی دنیا میں امریکہ کے امیج کو بہتر نہیں بناتا۔دنیا کے لیے امریکہ کم مسئلہ ہے‘ بش زیادہ ہے۔
دوسرا راے عامہ کا سروے اے بی سی نیوز پول اور گیلپ پول پر مبنی ہے جس میں امریکہ کے لوگوں کی رائے اس بارے میں معلوم کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی رائے کا کہاں تک لحاظ کرتے ہیں۔ دونوں جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کو اپنی رائے پر زیادہ اعتماد ہے اور اس کی فکر کم ہے کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ ۱۰ میں سے چھ افراد کو اس کی قطعاً فکر نہیں کہ فرانس‘ جرمنی اور روس کیا سوچتے ہیں اور عراق پر جنگ سے ان کے تعلقات کس طرح مجروح ہورہے تھے۔ اسی طرح دو تہائی افراد نے امریکہ میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ان کا اپنا طرزِزندگی ہر حال میں محفوظ رہنا چاہیے اور اسے غیرملکی اثرات سے مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔
ساری دنیا میں لوگ امریکیوں کو درحقیقت پسند کرتے ہیں اور وہ ہمارے بارے میں مسلسل سوچتے ہیں۔ لیکن ہم مشکل ہی سے ان کا کوئی وجود تسلیم کرتے ہیں۔ ۱۱ستمبر کے بعد رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے لیکن ابھی بھی خود مرکزیت کی کیفیت ہے۔ ہم ہر بات کو اپنے تجربات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ہم ایک طویل عرصے سے اپنے آپ میں مگن ہیں۔ لیکن صرف ہم ہی وہ ملک نہیں جو ایسا کرتے ہیں!
یہ دونوں جائزے امریکیوں کی خود اپنے بارے میں سوچ اور امریکہ اور اس کی قیادت کے بارے میں دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگوں کی سوچ کا آئینہ ہیں۔
تاریخ سے کم ہی سبق سیکھا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقبولیت اور عزت محض طاقت سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال بھی ضروری ہے۔ زبان خلق کو نظرانداز کرنے والے خلق کی محبت اور تعاون سے محروم ہی رہتے ہیں۔ خوداعتمادی ایک اچھی صفت ہے مگر رعونت اور خود پسندی تعلقات کو بالآخر خراب کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ امریکہ اور باقی دنیا کے درمیان اعتماد کی فضا کمزور سے کمزور ہو رہی ہے اور ان کے درمیان بے اعتمادی‘ خوف اور نفرت کی خلیج حائل ہو رہی ہے۔ اگر امریکہ کی قیادت اس تبدیلی کا ادراک کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ امریکہ اور دنیا دونوں ہی کے لیے مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔
قومی بجٹ کسی بھی ملک کی اہم ترین دستاویزات میں سے ایک ہوتا ہے۔ یہ محض آمدنی اور خرچ کا بیان نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی معیشت کی اقتصادی و مالیاتی صورت حال کا آئینہ دار اور اس حوالے سے حکومت کی پالیسیوں کا مصدقہ بیان ہوتا ہے۔ ’’میگنا کارٹا‘‘ سے لے کر جدید جمہوری مملکتوں کے ابھر کر سامنے آنے تک‘ یہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے کہ قومی خزانے کو استعمال
اسلامی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو بیت المال کا انتظام چلانے والوں کا عوامی احتساب‘ اسلامی معاشیات کا سب سے اہم اصول رہا ہے۔ اسلام نے اول روز ہی سے اجتماعی اور ریاستی وسائل کے لیے امانت‘ ذمہ داری اور ایک باقاعدہ نظام کی تشکیل پر زور دیا ہے۔ جمہوری نظام بھی ’’قانون سازی کے بغیر کوئی ٹیکس نہ لینے‘‘ کے اصول کی توقع کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ صرف پارلیمنٹ کو مملکت کی آمدن اور خرچ کی اجازت دینے اور اس کی نگرانی کا اختیار حاصل ہے‘ تاہم بادشاہت‘ سامراجی یا آمرانہ حکومتوں میں انتظامیہ ہی پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کو نظرانداز کر کے بجٹ کنٹرول کرتی ہے۔ برطانوی دور میں جب منتخب نمایندوں کو بجٹ پر بحث کرنے کی سہولت (luxury) حاصل تھی‘ اصل اختیار انتظامیہ کے پاس تھا جو اس وقت غیر ملکی حکمرانوں پر مشتمل تھی۔
بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی یہی صورت حال چل رہی ہے۔ جہاں تک فنانس بل کا تعلق ہے‘ پاکستان کے تینوں آئین بھی اسی فریم ورک میں ہیں‘ جو ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں دیا گیا تھا۔ اس فریم ورک کا اہم پہلو اخراجات کی charged (وضع شدہ) اور non-charged (غیروضع شدہ) میں تقسیم ہے۔ وہ اخراجات جو دفاع‘ قرض اور اداے قرض اور مرکز یا صوبوں دونوں میں چند ایک اہم سرکاری اداروں (صدر‘ گورنر اور عدلیہ وغیرہ) سے متعلق ہیں charged اخراجات کی ذیل میں آتے ہیں۔ بجٹ کا یہ حصہ جو اس وقت کل بجٹ کے ۵۰ فی صدسے زائد ہے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے اور پارلیمنٹ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ حتیٰ کہ بجٹ کے اس حصے کے لیے پارلیمنٹ کے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ جہاں تک باقی امور کا تعلق ہے‘ اگرچہ ان میں کٹوتی کی تحریکوں کی اجازت ہے‘ لیکن یہ محض علامتی اور عوام کو خوش کرنے والی اجازت ہے۔ ایک عام تصور یہ ہے کہ کوئی بھی کٹوتی کی تحریک جس کو حکومتی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو‘ وہ عدم اعتماد کے ووٹ کے مترادف ہے۔ اس لیے ایک بھی ایسی مثال نہیں دی جاسکتی جب کٹوتی کی تحریکوں سے بجٹ میں کوئی حقیقی تبدیلی آئی ہو۔ اس طرح بجٹ سازی کا عمل محض ایک دکھاوا‘ شو پیس اور رابطہ عوام کی مشق بن کر رہ گیا ہے اور مملکت کے مالیات پر عوام یا ان کے نمایندوں ‘یعنی پارلیمنٹ کا کوئی کنٹرول نہیں۔
دوسرا پہلو بجٹ سازی کے عمل سے متعلق ہے۔ دنیا کے زیادہ تر جمہوری ممالک میں بجٹ سازی چار سے چھ ماہ کے عرصے پر محیط ہوتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں اور انتظامیہ کی طرف سے تجاویز آتی ہیں۔ برطانیہ میں Ways and Means Committe بجٹ کے بنیادی خصائص سامنے آنے سے قبل چار مہینے اجلاس کرتی ہے۔ بجٹ بند کمروں میں نہیں بنائے جاتے۔ حتیٰ کہ اگلے تین سے آٹھ سال کے ٹیکس پروگرام بھی سامنے لائے جاتے ہیں اور ان پر عام بحث کی جاتی ہے۔ ایس آر او (قانونی باضابطہ حکم نامہ ہے) اور مالیاتی قانون سازی کسی اور ذیلی ادارے کو تفویض کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ہر چیز کافیصلہ پارلیمنٹ کی بحث اور کانٹ چھانٹ کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں انتظامیہ ہی بجٹ بناتی ہے اور یہ پارلیمنٹ میں عملاً ایک طے شدہ دستاویز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔پہلے پارلیمنٹ کو بجٹ پر بحث کرنے اور ووٹ کے لیے تین سے چار ہفتے دیے جاتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اس کا بھی اہتمام نہیںکیا۔ ۷ جون ۲۰۰۳ء کو بجٹ پیش کیا گیا ہے اور پانچ دن میں منظور کرلیا گیا۔ یہ بجٹ پر پارلیمنٹ کی نگرانی کا تمسخر ہے۔ بجٹ سازی کے سارے عمل کو جمہوری بنانے کے لیے ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں انتظامیہ آئین کے تقاضوں پر کم ہی توجہ دیتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۱۶۰ اس کو ضروری قرار دیتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی حدود (parameters)طے کرنے کے لیے نیشنل فنانس کمیشن ہونا چاہیے۔ آئین اس کو ضروری قرار دیتا ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن کی ہر پانچ سال بعد تشکیل نو کی جانی چاہیے اور بجٹ اس کے طے کردہ حدود کے اندر بنایا جانا چاہیے۔ فنانس کمیشن کی میعاد ۲۰۰۲ء میں ختم ہو گئی تھی۔ حکومت نے چھ ماہ ضائع کر دیے ہیں اور ابھی تک اسے تشکیل نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سال ۰۴-۲۰۰۳ء کا بجٹ ۱۹۹۷ء کے ایوارڈ کی روشنی میں بنایا گیا ہے جوکہ آئینی طور پر منسوخ ہو چکا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل ۱۶۱ اور ۱۶۲ کی دفعات کی پیروی بھی معقول طریقے سے نہیں کی جا رہی۔ آرٹیکل ۱۶۶ بھی فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی پڑتال کے بعد وفاق کے قرض لینے کے اختیار اور پارلیمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً اس کی حدود طے کرنے کے بارے میں بہت اہم سوال اٹھاتا ہے۔ آئین کے اس تقاضے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے اور یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جیسے فنانس بل کی منظوری اس آرٹیکل کے تقاضے کو بطور امر واقعہ پورا کر دیتی ہے‘ جوکہ صحیح نہیں ہے۔
ان نکات کی روشنی میں بجٹ سازی کا عمل اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کی نگرانی اور عوامی نمایندوں کے سامنے احتساب دہی کے انتظامات پر نظرثانی اور ان کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
پاک بھارت مذاکرات کی ضرورت اور افادیت کا کون کافر منکر ہوگا۔ اس سلسلے میں جو بھی پیش رفت ہو سر آنکھوں پر‘ چشم ما روشن دلِ ماشاد! البتہ جو بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ مذاکرات نہ محض ملاقات کا نام ہیں اور نہ خود کلامی کے انداز میں اپنی اپنی پوزیشن کے اعادے کا۔ مذاکرات اسی وقت مفید اور نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں جب کم از کم تنازعے کا ادراک اور اعتراف ہو اور حل کی تلاش کی خواہش اور جستجو۔ اگر عالم یہ ہو کہ ایک طرف شاعرانہ گم گشتگی کے ساتھ ’’دوستی کاہاتھ‘‘ بڑھایا جائے اور دوسری طرف ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا جائے اور ’’سرحد پار دراندازی‘‘ بلکہ ’’دہشت گردی‘‘ کا راگ مسلسل الاپا جائے تو پھر بات چیت اور افہام تفہیم کا دروازہ کیسے کھلے؟ بقول غالب ؎
حضرت ناصح گر آئیں‘ دیدہ و دل فرشِ راہ
پاک بھارت تعلقات میں استحکام اور سدھار کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ وہ غیر حقیقت پسندانہ انداز ہے جس میں دوستی اور مخالفت دونوں کا رنگ آہنگ رچا بسا نظر آتا ہے۔ مخالفت ہو تو تلخی اتنی بڑھتی ہے کہ چشم زدن میں بات گالم گلوچ اور تیغ و تفنگ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اگر دوستی کی ہوائیں چلتی ہیں تو پل بھر میں رازو نیازاور لطف و التفات کا کچھ ایسا سماں بندھ جاتا ہے گویا تلخی اور تصادم کے کوئی اسباب ہی نہ تھے اور نہ جسم پر کوئی زخم لگے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے امیدوں کے قصرتعمیر ہونے لگتے ہیں‘ شاعرانہ بلند خیالیاں فضا پر چھا جاتی ہیں اور لاہور کی پُرفریب الفت رانیوں اور آگرہ کی ’’ایسی بلندی‘ ایسی پستی‘‘ کی کیفیات طاری ہو جاتی ہیں۔ کبھی معاہدوں کے لیے میزیں سجائی جاتی ہیں اور کبھی الوداع کہنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ کبھی پیش ضرب کاری (pre-emptive strike) کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ۱۶ ماہ تک فوجیں کیل کانٹے سے لیس آنکھیں چار کیے رہتی ہیں اور نیوکلیر اسلحہ اپنے خول میں کلبلانے لگتا ہے اور کبھی ایک طرف سے دوستی کے پھول ’’زندگی کی آخری خواہش‘‘ بن کر سرحد پار گل پاشی کرنے لگتے ہیں تو دوسری طرف ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘کے دریا دریافت ہو جاتے ہیں اور توقعات کے تاج محل ریت کی زمین پر بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔
یہ جذباتیت اورعدم توازن‘ اور زمینی حقائق اور تلخ تاریخی عوامل کو نظرانداز کرکے خیالی ترک تازیاں بھی مسائل کی تفہیم اور حالات کے سدھار میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نہ ایسی دوستی حقیقت پر مبنی ہے اور نہ ایسی دشمنی واحد آپشن۔ حریف سنگ ہونے کے لیے زندگی کے حقائق پر نظر ضروری ہے۔ جذباتی انداز میں ’’چوٹی کی ملاقاتیں‘‘ راہ کی مشکلات کا حقیقی جواب نہیں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف ٹھنڈے دل سے معاملات اور تنازعات کا تجزیہ اور ٹھوس اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوم ورک سے حل کی راہیں استوارہوسکتی ہیں۔ جو حقیقی قوتیں اور دبائو مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنی ہیں‘ ان کے موثر ترہوئے بغیر مذاکرات کی کوئی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
اعتماد بحال کرنے والے نام نہاد اقدامات کے چکر میں ہم ۱۹۴۹ء کے لیاقت نہرو معاہدے سے لے کر ۱۹۶۵ء کے معاہدہ تاشقند‘ ۱۹۷۳ء کے شملہ معاہدہ اور ۱۹۹۹ء کے ’’اعلانِ لاہور‘‘ تک گھرے رہے ہیں اور معاملہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا ہے۔ ہماری نگاہ میں کلیدی مسئلے دو ہیں‘ باقی تمام امور ضمنی یا ذیلی ہیں۔
پہلا بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے۔ محض مینارِ پاکستان پر حاضری کا نہیں۔ بھارت نے پہلے دن سے ملک کی تقسیم کو ایک ’’ناجائز عمل‘‘ سمجھا اور صاف الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ ۳ جون ۱۹۴۷ء کی تقسیمِ ہند کی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور اس کی تمام لیڈرشپ نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ یہ عارضی ہے اور بھارت کو پھرایک ہونا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بہ زور (ہماری اپنی غلطیوں کے سہارے) پاکستان سے جدا کرنے پر اندرا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں سے ان کے ہزارسالہ اقتدار اور تقسیم ملک کے ’’ظلم‘‘ دونوں کا بدلہ لے لیا۔ بی جے پی‘ آر ایس ایس اور ہندو بنیاد پرست جماعتوں کا منشور ہی یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے اور تقسیم کی لکیر کو مٹانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اہل علم کی ایک تعداد پاکستان کو برعظیم میں برطانوی اقتدار کی ایک جانشین ریاست (succeeding state) قرار نہیں دیتے بلکہ اسے ایک علیحدگی پسند اور باغی ریاست (seceeding state) قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا سوچا سمجھا ذہن (mind set) ہے جس سے پالیسی اور رویے دونوں کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ اس ذہن کو تبدیل کیے بغیر‘ اور ایک دوسرے کو مبنی برحق ریاست تسلیم کیے بغیر‘ حالات میں بنیادی تبدیلی مشکل ہے۔
گذشتہ سال گجرات کے انتخابات میں صرف مسلمانوں کاقاتل مودی ہی نہیں‘ ایڈوانی اور واجپائی سمیت پوری بی جے پی کی قیادت نے ساری الیکشن کی مہم مشرف ‘پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی اور اپنی سر پر لٹکتی شکست کو کامیابی میں بدل دیا۔ ابھی ۲ مئی ۲۰۰۳ء کو بی بی سی کے Question Time India پروگرام میں بی جے پی /شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نے فخر سے کہا کہ بھارت کو پاکستان میں خودکش حملہ آور بھیجنے چاہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ خودخودکش حملہ آوروں کے ایسے گروہ میں شرکت کے لیے آمادہ ہیں۔ جب ایشین ایج کی ایڈیٹر نے اسے مہذب معاشرے کے آداب کے خلاف قرار دیا تو حاضرین کی ۷۰ فی صد نے (واضح رہے کہ بی بی سی کے ان پروگراموں میں مختلف طبقات کے مہذب پڑھے لکھے لوگ ہی بلائے جاتے ہیں) بڑے جوش و خروش سے پاکستان کو ایسے حملوں کا نشانہ بنانے کی تائید کی۔نیز جب ایک ای میل کے ذریعے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کی تجویز آئی تو بی جے پی کے نائب وزیر خارجہ دج وی جے سنگھ نے نفرت اور غصے سے یہ اعلان کیا کہ ہمیں پورا کشمیر چاہیے ‘محض لائن آف کنٹرول کو سرحد نہیں مان سکتے!
یہ وہ ذہنیت ہے جو تعلقات کی راہ میں سدّ سکندری کی طرح حائل ہے۔ پاکستان میں بھی بھارت کے خلاف شعلہ بیانیاں کرنے والے موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان کی ریاست‘ اس کی کسی بھی حکومت اور اہم سیاسی قیادت نے ریڈکلف ایوارڈ کی ساری زیادتیوں اور حق تلفیوں کے باوجود‘ بھارت کے کسی علاقے پر کوئی دعویٰ نہیں کیا اور کشمیر کے مسئلے کے سوا جو متنازعہ ہے‘ ہمارے درمیان سیاسی جغرافیے کے بارے میں کوئی جھگڑا نہیں۔ پاکستان بھارت کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے البتہ برابر کی خودمختار حیثیت کی بنیاد پرمعاملہ کرنا چاہتا ہے‘ جب کہ بھارت پاکستان کو جسم میں کانٹے کی حیثیت دیتا ہے اور ایک باج گزار ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنا ہی کٹا ہوا انگ قرار دیتا ہے۔
پہلا مسئلہ جس پر حقیقت پسندی کے ساتھ افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو برابری کے ساتھ تسلیم کرنا اور نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو تحقیر کی نظر سے نہیںاحترام کی نظر سے دیکھنے کی روایت ڈالنا ہے۔ دو قومی نظریہ جو ہماری ریاست کی بنیاد ہے‘ ان کی نگاہ میں وہی بِس کی گانٹھ ہے۔ نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو وہ معتبر ماننے کو تیار نہیں اور یہی ان کی عدم رواداری بلکہ جارحیت کا منبع ہے۔ اگر اختلاف کو معتبرمان کر برابری کی بنیاد پر دوستی کی بات ہو تو پاکستان اس کے لیے کافی حد تک آگے (more than half way) جانے کے لیے تیار ہے اور اس میں پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ بھارت کو اپنا نظریاتی اور تہذیبی تسلط قائم کرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا‘ اسے ہماری سیاسی اور تہذیبی شناخت کے مبنی برحق ہونے پر حرف گیری ختم کرنا ہوگی اور علاقے میںاپنی اپنی تہذیبی و ثقافتی انفرادیت کی بنیاد ایک دوسرے سے تعاون کی روایت مستحکم کرنا ہوگی۔ ثقافتی اور معاشی رشتے--- محض اعتماد بحال کرنے کے اقدامات نہیں---صرف اسی وقت بارآور ہوسکتے ہیں جب تعلقات برابری اور احترام کی بنیادوں پہ استوارہوں ورنہ یا ان پر نفاق کا سایہ ہرلمحہ موجود رہے گا یا پھر وہ سامراجی اور برتری اور کمتری کے کسی نہ کسی فریم ورک کے اسیر رہیں گے جو صحت مند اور باوقار تعاون کے منافی ہے۔
دوسرا بنیادی اور کلیدی مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل سے متعلق ہے۔ دستور‘ قانون اور بین الاقوامی عہدوپیمان ہر اعتبار سے کشمیر کا پورا علاقہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جو تقسیم ملک کے ایجنڈے کا نامکمل حصہ ہے۔ بھارت صرف قوت سے ریاست کے بڑے حصے پر قابض ہے اور شملہ معاہدہ کے بعد اس کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے دھوکے سے سیاچین پر بھی قابض ہو گیا ہے۔ سیاچین یا وولربیرج یا سر کریک کے مسائل کوئی مستقل بالذات مسائل نہیں ہیں‘ مسئلہ کشمیر ہی کا ایک حصہ ہیں۔ کشمیری عوام نے ہر دور میں اور خاص کر گذشتہ چودہ سالوں میں سیاسی اور عسکری جدوجہد کے ذریعے بھارت سے اپنی مکمل علیحدگی (alienation) کا بھرپوراظہار کردیا ہے۔ یہ حقیقت دنیا کے سامنے ہے جس کی شہادت ۶۰‘۷۰ ہزار افراد نے اپنے خون سے دی ہے کہ نہ وہ بھارت کا حصہ ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی ایسا انتظام قابلِ قبول ہے جس میں وہ بھارت کے دستور کے تحت ہوں۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے اور جو حق شمالی آئرلینڈ اور مشرقی تیمور کو دیا گیا ہے‘ وہی ان کو دیا جائے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کو طے کرسکیں۔
مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اور مسئلے کا کوئی حل اس کے سوا نہیں کہ یہ تینوں کھلے دل سے مذاکرات کریں۔ حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق ریاست کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا آزادانہ موقع دیں اور اس کے تفصیلی عملی طریق کار کو باہمی مشاورت سے خود طے کریں یا غیرجانب دار عالمی انتظام کے تحت اس کا راستہ نکالیں۔
مذاکرات کا موضوع یہی دونوں کلیدی معاملات ہیں اور مذاکرات کا ہدف ان دونوں معاملات کے مبنی برحق اور افہام و تفہیم سے طے ہونے والے متفقہ لائحہ عمل کو ہونا چاہیے۔بیرونی دبائو‘ قوت کے مظاہرے اور سیاسی عجلت پسندی سے ایسے بنیادی مسائل نہ ماضی میں طے ہوئے ہیں اور نہ آج ہوسکتے ہیں۔ ’’کچھ کر دکھانے‘‘ کا جذبہ اور نوبل انعام کا مستحق بننے کی خواہشات خواہ کتنی ہی دل پسند ہوں‘ تاریخی حقائق اور عوامی خواہشات کا بدل نہیں ہوسکتیں۔ ڈپلومیسی کے کتنے ہی راستے (tracks) کیوں نہ ہوں‘زمینی حقائق اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور ان کے حصہ لینے ہی سے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ روڈمیپ اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب روڈ ہو--- اور روڈ صرف ایک ہے‘ یعنی بین الاقوامی معاہدات کے مطابق استصواب رائے۔ اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام نے جس تاریخی شعور کا مظاہرہ کیا ہے‘ بیرونی تسلط کے خلاف جس جرأت‘ استقلال سے مزاحمت کی تاریخ رقم کی ہے‘ آزادی کے لیے قربانیوںکا جو نذرانہ پیش کیا ہے اور غیرمنصفانہ سمجھوتے کے ہر راستے کو جس طرح رد کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان کو اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع دیا جائے۔ نیز بھارت اور پاکستان دونوں کو‘ اگر وہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘ وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں اور جو فیصلہ بھی وہ کرلیں اسے کھلے دل سے قبول کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستانی عوام اور جموں و کشمیر کے عوام کے درمیان مکمل یک جہتی ہے اور پاکستانی حکومتیں بھی اسی موقف کو اپنا اصولی موقف اور قومی پالیسی قرار دیتی رہی ہیں۔ اگر ۵۵ سال ہم اس پر قائم رہے ہیںتوکوئی وجہ نہیں کہ آج اس سے انحرف کر کے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ دوستی وہی پایدار اور مستحکم ہوسکتی ہے جو حقائق اور انصاف پر مبنی ہو۔ دبائو یا مصلحت کے تحت ہونے والے معاملات تارِ عنکبوت کی طرح ہوتے ہیں اور زندہ قومیں وقتی مصلحتوں کی خاطر اصولی موقف ترک نہیں کیا کرتیں۔
آج پاکستان کی قیادت اور قوم دونوں کا امتحان ہے کہ وہ ایک نسبتاً معاندانہ بین الاقوامی ماحول میں بھی کس حد تک ایمان‘ استقامت اور تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مذاکرات ضرور کیجیے اور جتنی بار موقع ملے‘ کیجیے لیکن تاریخی حقائق ‘ اصول انصاف اور اہل کشمیر کے حق پر سمجھوتہ کرنے کے ظلم سے اپنے دامن کو بچائے رکھیے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کبھی ایک قوم کسی دوسری قوم کو محض قوت اور جبر سے ہمیشہ کے لیے مغلوب نہیں رکھ سکی ہے۔ فرعون کے دور میں بنی اسرائیل سے لے کر دورِ جدید کے استعماری نظام کے زیرتسلط اقوام کی تاریخ تک اس پر شاہد ہے: ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا، اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وقت ہمارے ساتھ ہے‘ ضرورت یکسوئی‘ صبر اور استقامت کی ہے۔
پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی تازہ نام نہاد دوستی اور مذاکرات کی پیش کش کے اصل مقاصد اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرے۔ نیز امریکہ کا اس علاقے اور خصوصیت سے چین‘ بھارت اور پاکستان کے سلسلے میں کیا منصوبہ اور پالیسی ہے اس کا بھی گہری نظر سے جائزہ لے اور تاریخی حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرے۔ پھر اپنے قومی مفادات اور علاقے کے بارے میں اپنے وژن کی روشنی میں پالیسی کے مقاصد طے کرے‘ ان کے حصول کی حکمت عملی کا تعین کرے اور ان پر موثرانداز میں عمل کرنے کے لیے نقشہ کار مرتب کرے۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ وزیراعظم ظفراللہ جمالی‘وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اور شیخ رشیداحمد جس نوعیت کے اور جس رفتار سے بیانات دے رہے ہیں ان سے ژولیدہ فکری‘ عجلت پسندی‘ رومانوی توقعات اور آج تک کی اس پالیسی سے عملی انحراف کے واضح خطوط نظر آرہے ہیں جس پر ملک میں اتفاق رائے تھا۔ ایک طرف اصولی موقف میں عدم تبدیلی کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف وہ سب کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے جس کا اس اصولی موقف سے کوئی علاقہ نہیں بلکہ اس سے صریح انحراف ہے۔ یہ صورت حال بڑی خطرناک ہے۔
یہ سب کچھ بڑی حد تک ایک فردِ واحد کے اشارہ چشم و آبرو پر ہو رہا ہے‘ نہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور نہ کسی معقول اور موثر قومی سطح کی افہام و تفہیم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ملک پر امریکی قیادت کی یلغار ہے اور ہدف محض ۱۱ ستمبر اور نام نہاد عالمی دہشت گردی ہی نہیں‘ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کا امریکی منصوبے کے مطابق ’’حل‘‘ یا بہ الفاظ صحیح تر ’’تحلیل‘‘ بھی ہے‘ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم کے سامنے ان چاروں پہلوئوں یعنی بھارت کے اہداف‘ امریکہ کا منصوبہ‘ پاکستانی قیادت کی لچک اور منتشرخیالی اور اقبال اور قائداعظم کے وژن کے مطابق مسئلہ کشمیر پر اصل قومی موقف اور اس کے حصول کے لیے صحیح حکمت عملی کے بارے میں ضروری گزارشات پیش کریں۔
بھارت نے آگرہ کے بعد کشمیر کے بارے میں اپنی پرانی حکمت عملی کو ایک نیا رنگ دیا۔ ایک طرف ریاستی تشدد میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ پوٹا (POTA)کے ذریعے کشمیری قیادت کی زبان بندی اور ان کو دہشت گردی کے نام پر حراست اور تشدد کا نشانہ بنانے کی جارحانہ پالیسی پر عمل شروع کیا تو دوسری طرف پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا (isolate) کرنے کے لیے سفارتی مہم تیز تر کی اور تیسری طرف جموں و کشمیرمیں نئے انتخابات کا ڈھونگ رچا کر نیشنل کانفرنس کی جگہ نئے چہروں کو پرانا سیاسی کردار ادا کرنے پر مامور کیا۔ اس زمانے میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ پیش آیا اور بھارت نے اس کے سہارے امریکہ سے رشتے کو مضبوط تر کرنے‘امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ نیا گٹھ جوڑ قائم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ کا دست راست بننے اور پاکستان کو کارنر کرنے کی بازی چلی۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنا کندھا پیش کردیا‘ اس سے بھارت اپنے تمام مقاصد تو حاصل نہیں کر سکا البتہ تین مقاصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگیا۔ پہلا: امریکہ سے strategic partnership‘ جب کہ ہم سے صرف tactical alliance ہے۔ دوسرا: اسرائیل سے قریبی تعاون‘ پالیسی میں باہمی ربط‘ انٹیلی جنس کی شراکت اور مشترک فوجی ٹریننگ کے نظام کا قیام ۔اور تیسرا: کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی کی صف میں شامل کرانا۔
اس میں سب سے افسوس ناک اور ناقابلِ فہم رویہ جنرل پرویز مشرف صاحب کا رہا جنھوں نے ۱۱ستمبر کے سلسلے میں امریکہ سے تعاون بلکہ امریکہ کے آگے سپرڈالنے کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب کچھ انھوں نے تین ضمانتوں کے ساتھ کیا ہے‘ یعنی اول: افغانستان میں امریکی ایکشن مختصر اور متعین اہداف تک محدود ہوگا‘ دوم: کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے موقف کا تحفظ اور سوم: پاکستان کے strategic resources یعنی ایٹمی صلاحیت کا دفاع۔ لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ تینوں ضمانتیں پادر ہوا ثابت ہوئیں اور ایک ایک کرکے ہر بات کی نفی ہوگئی۔ افغانستان میں آج تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور خون خرابے کے اس سلسلے کی کوئی انتہا نظر نہیں آرہی۔کشمیر کے سلسلے میں جنوری اور پھر مئی ۲۰۰۳ء میں جنرل صاحب نے پسپائی اختیار کی اور ’سرحد پار دراندازی‘ مجاہد تنظیموں پر پابندی اور پاکستان کی سرزمین کے نام نہاد دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کیے جانے کی ضمانت‘ یہ سب کچھ انھوں نے خود طشتری پر رکھ کر امریکہ اور بھارت کو دے دیا اور اس کے ساتھ یہ بھی گردان جاری رہی کہ اصولی موقف میں تبدیلی نہیں کی گئی۔
اس پورے معاملے کا سب سے نقصان دہ پہلو یہی ہے کہ جنگ آزادی اور دہشت گردی کا اصولی اور مسلمہ فرق نظرانداز کر دیا گیا اور بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے شاطرانہ کھیل میں پروپیگنڈے کی حد تک کامیاب رہا۔ واجپائی صاحب اپنی اس کامیابی کا اظہاربھارتی پارلیمنٹ میں ۸ مئی ۲۰۰۳ء کو یوں کرتے ہیں:
میں نے بڑی کامیابی کے ساتھ عالمی برادری کوقائل کر لیا ہے کہ پاکستان کو کشمیر میں دراندازی روکنی چاہیے۔
بھارت مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں جس مسئلے کو سب سے اہم اور کلیدی سمجھتا ہے وہ ’سرحد پار دہشت گردی‘ ہے اور امریکہ کے صدر‘ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور ان کے پورے طائفے نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور بالآخر جنرل پرویز مشرف سے یہ یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ ’’پاکستان کی طرف سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پار کرنے کی اجازت یا موقع کسی کو نہ دیا جائے اور یہ کہ آزاد کشمیر میں کشمیری مجاہدین کا کوئی کیمپ نہیں اور اگر کوئی ہیں تو وہ کل ختم کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیج کے الفاظ ہیں۔
۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کو واجپائی صاحب نے اس شاعرانہ انداز میں کہ ’’منہ پھیرکر اِدھر کو‘ اُدھر کو بڑھائے ہاتھ‘‘ سری نگر سے پاکستان کے لیے دوستی کا سندیسہ دیا جس پر پاکستان کی قیادت بغلیں بجا رہی ہے اور ان کی ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘ کے گیت گا رہی ہے۔ لیکن واجپائی صاحب نے ۸ مئی کو اپنی پارلیمنٹ میں صاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ ’’جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور نئے حالات میں بھی رہے گا۔ اب تقسیم کا زمانہ نہیں اس لیے کشمیر کی بھی تقسیم نہیں ہوگی۔ کشمیرہم سے کوئی چھین نہیں سکتا‘‘۔ نیز یہ بھی کہ سرحد پار دراندازی بندکرنا ہوگی۔ اس کے بغیر مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہیں۔ اور وہی پرانی بات کہ بھارت مرحلہ بہ مرحلہ (step by step) اپروچ پر کاربند ہوگا جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے اعتماد بحال کرنے والے اقدام (سی بی ایم) ہوں‘ تجارت بڑھے‘ بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک (most favoured nation) کا مقام دیا جائے‘ ہوائی راستے کھولے جائیں‘ ثقافتی تبادلے ہوں۔ پھر باقی امور پر بات چیت ہوگی۔ یہی لفظ بہ لفظ وہ حکمت عملی ہے جس پر بھارت ۱۹۴۹ء سے مصر ہے۔ شملہ معاہدے میں اسی کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ دو طرفہ گفتگو کا وعدہ کیا گیا تھا مگر ۱۹۷۲ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان ۴۵ بار بھارت اور پاکستان کے نمایندے ملے‘ جن میں ایک تجزیے کے مطابق چھ بار اور دوسرے کے مطابق آٹھ بار کشمیر کا نام لیا گیا‘ مگر فی الحقیقت صرف ایک بار۔ وہ بھی ۱۹۹۴ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں جہادی تحریک اپنے عروج پر تھی‘ عملاً بات چیت ہوئی جو حسب توقع نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ یہ ہے بھارت کی حکمت عملی اور اس کا ریکارڈ۔
۱۸ اپریل کی پیش کش کے بعد واجپائی‘ ایڈوانی‘ جارج فرنانڈس اور یشونت سنہا سب نے بعینہٖ وہی بات کہی ہے جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے ہیں حتیٰ کہ فرنانڈس نے ۱۷ مئی کو سری نگر میں صاف کہا ہے سیزفائرکا سوال نہیں۔ ایڈوانی نے ۹ مئی کو پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ:
میں ان (واجپائی) کے ساتھ بالکل متفق ہوں۔ اگر دہشت گردی کا انفراسٹرکچر ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہو سکتی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں پوری بھارتی قیادت نے بشمول واجپائی ۱۹۹۴ء کے پارلیمنٹ کے ریزولیوشن پر قائم رہنے کا اعادہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی پوری ریاست بشمول آزاد کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور ریاست کی تقسیم کا کوئی سوال ہی نہیں۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ پاکستان سے مذاکرات کی بنیاد ۱۹۹۴ء کا یہ ریزولیوشن ہوگا۔ انھی باتوں کا اعادہ ۱۹ مئی کو بھارتی وزیرخارجہ یشونت سنہا نے کیا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے وزیراعظم‘ وزیرخارجہ اور وزیراطلاعات بھارت کی سنجیدگی اور خلوص کی باتیں کر رہے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کے حل کی نوید سنا رہے ہیں بلکہ اس مژدہ جانفزا کی متوقع تاریخ پیدایش کے بارے میں بھی اشارے کر رہے ہیں حالانکہ بھارت کی قیادت اپنے موقف اور حکمت عملی سے سرمو ہٹتی نظر نہیں آرہی ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتہ تسبیح شیخ
ار بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
۱- دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر اتنا دبائو کہ وہ جہاد کشمیر اور تحریکِ مزاحمت سے دست کش ہو جائے اور عملاً اسی قسم کا یوٹرن کرا لیا جائے جس طرح افغانستان میں ۲۰۰۱ء میں ہوا۔
۲- پاکستان کو مرحلہ وار راستے پر ڈال کر ہوائی سفر‘ تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوںمیں بھارت کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔
۳- امریکہ اور اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرکے ایک موثر اتحاد: امریکہ اسرائیل بھارت محورکے طور پر قائم کیا جائے اور کشمیر میں خونی حکمت عملی جاری رکھی جائے جس پر اسرائیل فلسطین میں عمل پیرا ہے۔ اس کے لیے صرف اسرائیلی انٹیلی جنس کا تعاون نہیں‘ بلکہ اسرائیلی حربے (tactics) اور ٹکنالوجی دونوں کو استعمال کیا جائے۔
۴- پاکستان کو غیر جانب دار (neutralize)کر کے ریاستی قوت اور تشدد کے ذریعے (واضح رہے کہ ۱۸ اپریل کے بعد بھارت نے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے ہیں اور ایک ہی ہلّے میں ۵۶ افراد شہید کیے ہیں) کشمیر کی تحریک مزاحمت کو پاکستان سے مایوس کر کے نرمی اور سختی (carrot and stick) کی پالیسی کے تحت بھارت کے دستور کے تحت خودمختاری کے نام پر کسی انتظام کو قائم کر دیا جائے اور اس کے لیے امریکی اور عالمی تائید حاصل کرلی جائے۔
۵- لائن آف کنٹرول کوعملاً سرحد بنا دیا جائے البتہ پاکستان پر دبائو جاری رکھا جائے کہ آزاد کشمیربھی بھارت کے زیرتسلط کشمیر کا حصہ ہے۔
۶- اگر اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر کشمیر کی معاشی ترقی کے نام پر کشمیر سے پاکستان آنے والے دریائوں پر بجلی اور زراعت کے لیے بند (dams) بنائے جائیں اور پاکستان کو اس کے پانی سے محروم کر کے شدید معاشی دبائو کاشکار کیا جائے۔
۷- امریکی اور اسرائیلی تائید سے بالآخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کے لیے مستقل نشست حاصل کی جائے‘ مستقل نشست کی بنیاد پر اپنی ایٹمی صلاحیت کو تحفظ دیا جائے اور پاکستان کی ایٹمی طاقت کی حیثیت ختم (de-nuclearize) کرنے کے امریکی منصوبے کے لیے عالمی دبائو استعمال کیا جائے۔
۸- بالآخر علاقے پر بھارت کی بالادستی قائم کی جائے اور پاکستان کو یا توکسی نوع کی کنفیڈریشن میں لایا جائے یا کم از کم سیاست‘ تجارت‘ ثقافت اور میڈیا کے ذریعے تقسیم کی لائن کو عملاً غیرموثر بنا دیاجائے۔ اس کے لیے پاکستان کو ایک جمہوری اور سیکولر ملک بنانے کے لیے دبائو ڈالا جائے۔
یہ ہے بھارت کا وہ عظیم منصوبہ جس پر عمل کا آغاز ۱۸ اپریل کی دوستی کی پیش کش سے ہوا ہے۔ ورنہ کسی پہلو سے بھی بھارت کے رویے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی ہے جس سے مسئلہ کشیر کو کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے اور پاکستان سے بھارت کے تعلقات دو آزاد مساوی ممالک کی حیثیت سے استوار ہونے کا کوئی اشارہ بھی ملتا ہو ؎
نہ وہ بدلے‘ نہ دل بدلا‘ نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلابِ آسماں کر لوں
امریکہ کے اہداف اور عزائم کے بارے میں ہمیں کوئی شبہہ نہیں ہوناچاہیے۔ بلاشبہہ افغانستان پر اپنے حملے میں اس نے دل کھول کر پاکستان کو استعمال کیا۔ اور ہم نے عملاً امریکہ کی ایک کالونی کی حیثیت سے اپنے کو استعمال ہونے دیا۔ اسی ہفتے امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کی جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس نے وہ تمام تفصیلات دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں جن پر آج تک پردہ پڑا ہوا تھا۔ امریکہ نے پاکستان سے ۵۷ ہزار اڑانیں (sorties)کیں اور ملک کو اس دوستی اور تعاون میں ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اہل پاکستان اس بارے میں کسی شک میں نہ تھے لیکن اس خدمت کے باوجود پاکستان‘ اس کے نیوکلیر اثاثہ جات اور مسلمانوں کا جذبۂ جہاد امریکہ کی موجودہ قیادت کی آنکھوں میںکانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ صدر جارج بش نے ریاض اور دارالبیضاکے واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جن ملکوں تک پہنچنے کا اعلان کیا ہے‘ ان میں شام‘ کوریا‘ ایران‘ صومالیہ‘ سعودی عرب‘ کینیا کے ساتھ پاکستان کا نام نامی بھی موجود ہے۔
بھارت اور اسرائیل اس وقت امریکہ کے اہم ترین اتحادی (strategic partners) ہیںاور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس کی نگاہ میں ایک ناقابلِ برداشت خطرہ ہے۔ ایک طرف دوستی کے دعوے ہیں اور دوسری طرف سی آئی اے نے برعظیم کا جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کو ’انڈین اسٹیٹ آف جموں و کشمیر‘ کہا گیا ہے‘ جب کہ آزاد کشمیر کو Pakistan controlled areas of Kashmir قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ آنکھیں کھول دینے والی وہ قرارداد ہے جو ۷ مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی کانگریس کے ایوان نمایندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ اور جس میں امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ:
کانگریس کو بتائیں کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرنے ‘آزاد جموں و کشمیر میں دہشت گردی کیمپ ختم کرنے اور جوہری پھیلائو روکنے کے دعووں کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔
یہ اس سے بھی زیادہ بدتر‘ شرم ناک اور جارحانہ قرارداد ہے جو پریسلر نے افغان جہاد کے آخری ایام میں منظور کرائی تھی اور جس کے تحت ۱۹۸۹ء سے پاکستان کے خلاف امریکی پابندیاںلگائیگئی تھیں۔
امریکہ کا ہدف پاکستان کو بے بس (corner) کرنا‘اس کی ایٹمی صلاحیت پر قابو حاصل کرنا اور مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد کو کمزور اور بالآخر ختم کرنا ہے۔ خود ملک میں سیکولر نظریات کا فروغ اور لادین قوتوں کی تائید و تقویت اس کا حصہ ہے۔ موجودہ قیادت امریکہ پر اعتماد اور اس سے دوستی کا ایک خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ نہ توامریکہ سے دوستی کی تاریخ سے کوئی سبق سیکھ رہی ہے اور نہ عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے موجودہ عزائم کا اسے کوئی شعور و ادراک ہے۔
ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیںکہ اس قیادت پر بھروسا نہ کرے اور اپنے مفاد اور اپنے دین و ایمان‘ ثقافت و تمدن اور سلامتی کے تحفظ کے لیے خود موثر اقدام کرے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ ایل ایف او کے معاملے میں جو خطرناک کھیل برسرِاقتدار قوتیں کھیل رہی ہیں وہ بھی علاقے کے لیے امریکی عزائم سے غیرمتعلق نہیں۔ فوج جسے کبھی قوم کی مکمل تائید حاصل تھی اور جس کا آج بھی موٹو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ اسے عوام کے اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ قوم اور فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہ ہوں بلکہ باہم دست و گریباں اور تصادم کا شکار ہو جائیں۔ جو بالآخر پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کا باعث اور علاقہ میں قوت کا توازن بھارت کے حق میں کرنے پر منتج ہوسکتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف اور مرکزی حکومت کے دوسرے ذمہ دار حضرات کے چند بیانات کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ ان بیانات میں تضاد اور انتشار فکری کا سماں نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان بیانات میں بھارت اور امریکہ کی موجودہ قیادت کے بارے میں خوش خیالیوں اور خوش فہمیوں کی اتنی کثیر مقدار دیکھی جا سکتی ہے جس کی کوئی توجیہ سفارتی آداب کے نام پر نہیں کی جا سکتی۔ ایک طرف اصولی موقف پر استقامت کا دعویٰ ہے‘ کشمیر کی مرکزی حیثیت کا اعلان ہے‘ تقسیم کشمیر اور لائن آف کنٹرول کو سرحد بنانے سے برأت کا اظہار ہے تو دوسری طرف کبھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات ہے، اور کبھی ان کی تقریروں اور تحریروں میں’’پاکستان یا کشمیر؟‘‘ جیسے فتنہ انگیز جملے یا اعلان کی بھی بازگشت ہے۔ اسی طرح feelerکے طور پر چناب پلان کا ذکر ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں سہل انگاری کا رویہ ہے‘ جہاد پر معذرت اور جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ ہے‘ جہادی تنظیموں پر پابندیاں اور مجاہدین کے کیمپوں سے گلوخلاصی کی باتیں ہیں۔ کبھی کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر تجارت کا لفظ سننے کے لیے تیار نہ تھے اور اب ’’تجارت اورثقافت پہلے‘‘ کے بھارتی مطالبے پر سجدہ ریز ہیں--- اور ان سب پر مستزاد بھارت کے مذاکرات کے ۵۵ سالہ ناکام تجربات اور امریکہ کی دوستیوں اور بے وفائیوں کی الم ناک تاریخ کے باوجود‘ دونوںسے خوش فہمی اور خوش اعتقادی کا ایسا اظہار ہے جو خود فریبی کی حدود کو چھونے لگتا ہے۔ اگر یہ سب ناتجربہ کاری اور پاک ہند تاریخ اور امریکہ کی دو سو سالہ کارگزاریوں سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہے تو سخت خطرناک ہے اور اگر اس زعم پر مبنی ہے کہ جو قائداعظم اور آج تک کی قیادت نہیں کرسکی وہ ہم کر دکھائیں گے تو اس کا نام خود اعتمادی نہیں‘ خودفریبی ہے۔ اس پس منظرمیں ضروری ہوگیا ہے کہ قوم اور موجودہ قیادت کے سامنے چند بنیادی حقائق کو بلاکم وکاست رکھ دیا جائے اور پارلیمنٹ‘ سیاسی اور دینی قوتوں اور ملک کے بالغ نظرصحافیوںاور دانش وروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اجتماعی احتساب کے ذریعے قیادت کو راہِ ثواب سے نہ ہٹنے دیں۔
۱- پہلی اہم ترین بات یہ ہے کہ مذاکرات میں اصولی موقف پر ذرا سی بھی لچک نہایت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارا موقف مبنی برحق ہے اور بین الاقوامی قانون‘اقوامِ متحدہ کی قراردادیں‘ یو این او اور غیر جانب دار تحریک (NAM) کا چارٹر اور بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدے (commitments) اور سب سے بڑھ کر جموں اور کشمیر کے عوام کی کھلی تائید ہمارے موقف کے حق میں ہے تو پھر ہمارے لیے کسی قسم کی بھی کمزوری دکھانے اور انصاف کی راہ سے پیچھے ہٹنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع نہیںہے‘ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے اور ایک کروڑ ۴۰ لاکھ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ مرور زمانہ سے یہ حق نہ کمزور پڑتا ہے اور نہ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ قومیں اس کے لیے برسوں نہیں‘ صدیوں لڑتی ہیں۔ اور کشمیری عوام نے اپنے خون کی گواہی دے کر حصولِ آزادی کے عزم کا ایسا مظاہرہ کیا ہے جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ یہ سیاسی جنگ کے ساتھ اعصابی جنگ بھی ہے اور اس میں فتح اسی کا مقدر ہے جو اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اعصاب کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔معاشی ترقی اور دفاع پر اخراجات کا ہّوا دکھا کر جو لوگ پسپائی کی باتیں کرتے ہیں وہ حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں۔
معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہماری غلط معاشی پالیسیاں‘ بدانتظامی اور کرپشن ہیں اور سود پر حاصل کیے جانے والے قرضوں کی جونکیں ہیں جو ملک کی معیشت کے خون کو چوس رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف‘ اس سود کی نذر ہو جاتا ہے ‘ جب کہ دفاعی اخراجات بجٹ کا صرف ۳۰ فی صد ہیں۔ معاشی ترقی کے ان متوالوں کو ترقی کا دشمن یہ bottom less sink نظرنہیں آتا اور نہ اپنی غلط کاریاں اور عیاشیاں دکھائی دیتی ہیں۔ نزلہ کشمیر اور اس کی تابناک جنگ ِ آزادی پر گرتا ہے۔ یہ خلط مبحث نہیں تو اور کیا ہے؟ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات بھی کی جاتی ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کے بغیرپاکستان نامکمل اور خالص اسٹرے ٹیجک اور معاشی اعتبار سے شدید خطرے میں (vulnerable)ہے۔ اگر کشمیر بقول قائداعظم‘پاکستان کی شہ رگ ہے تو پاکستان اور شہ رگ میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟ قائدعظم نے تو کشمیر میں ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء ہی کو پاکستان کی فوجیں بھیجنے کے احکام جاری کر دیے تھے مگر افسوس کہ اس وقت کے برطانوی کمانڈر ان چیف نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا اور خود مرکزی کابینہ کے کوتاہ نظر ارکان نے قائد کی رائے کے خلاف فیصلہ دیا۔ قائداعظم نے چودھری غلام عباس کو خود یہ بتایا کہ:
اس کے بعد میں نے کابینہ کا اجلاس طلب کر کے یہی تجویز اپنے رفقا کے سامنے رکھ دی۔ لیکن تم جانتے ہو کہ کیا نتیجہ نکلا؟ کابینہ نے میری تجویز مسترد کر دی۔ اس لیے کشمیر کے معاملے میں ہم نہ صرف صحیح بس کھو بیٹھے بلکہ غلط بس میں بٹھائے گئے۔
لیکن کچھ بھی ہو کشمیر کے متعلق مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ان شاء اللہ ہم کشمیر لے کر رہیںگے (ملاحظہ ہو: کشمیری مسلمانوںکی جدوجہد آزادی‘ ۱۸۹۴ء سے ۱۹۴۷ء تک‘ از پروفیسر محمد سرور عباس‘ صفحہ ۴۵۴-۴۵۵)
۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ بھارت سے مذاکرات میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بھارتی قیادت کی نفسیات‘ ان کے مذاکراتی حربوں اور چالوں سے واقفیت ہو۔ برطانوی دور میں جس طرح قائداعظم نے کانگریس سے معاملات طے کیے ہیں اس کی تاریخ سے آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات کی دل خراش داستان کے نشیب و فراز جاننا بھی ناگزیر ہے۔ قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنا راستہ الگ بنائے بغیر‘ کوئی چارئہ کار نہیں۔ قائداعظم نے شیخ عبداللہ کو بہت سمجھایا لیکن اُس وقت اس نے ان کی ایک نہ سنی اور پھر اسے خود اعتراف کرنا پڑا کہ بھارت کی قیادت کی سیاست کس طرح دھوکے اور عیاری پر مبنی ہے۔ شیخ عبداللہ کی خودنوشت کا مطالعہ اس پہلو سے چشم کشا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور جناب ظفراللہ جمالی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ سمجھ سکیں کہ بھارت سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔
شیخ عبداللہ! میںنے اپنے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں۔ تمھیں باپ کی حیثیت سے سمجھا رہا ہوں۔ وقت آئے گا تو تم مجھے یاد کرو گے۔
شیخ عبداللہ اس وقت تو قائد کی نصیحت کو نہ سمجھے لیکن پنڈت نہرونے‘ جو ان کے جگری دوست بھی تھے نے جب چانکیا سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور استصواب سے برأت کا اعلان کیا تب شیخ عبداللہ کو ان کی سیاست کا اصل چہرہ نظر آیا۔ ۱۳سال بھارت کی جیل میں گزارنے کے بعد ۱۹۶۸ء کے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:
ہندستان نے عارضی شمولیت کا وعدہ توڑ کر یہ اعلان کر دیا کہ کشمیر ہندستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ میںنے پریشان ہوکر نہرو سے جو آزادی اور جمہوریت کے بہت بڑے علم بردار تھے‘ کہا کہ ہندستان کے وہ وعدے کیا ہوئے جو اس نے عارضی شمولیت کے بعد کیے تھے۔ جواب میں پنڈت نہرو نے کہا: ’’شیخ محمد عبداللہ! وہ سب تو تماشا تھا‘‘ اور میں بیان نہیں کر سکتا کہ پنڈت نہرو کا جواب سن کر مجھے کتنی حیرت ہوئی‘ میرا دل کس بری طرح ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ (ماہنامہ شبستان‘ دہلی)
بھارت سے مذاکرات کرنے والی ہر ٹیم کو یہ تاریخ نظر میں رکھنی چاہیے۔
۳- بھارت سے مذاکرات میں سب سے بڑا جال (trap) مرحلہ بہ مرحلہ اپروچ اور مسائل پر الگ الگ بات چیت ہے۔ یہی کھیل فلسطین میں اسرائیل اور امریکہ نے کھیلا ہے اور یہی اب کشمیر میں کھیلا جانے والا ہے۔ اصل مسئلے کو مؤخر کرنا اور جزوی معاملات پر کچھ لو اور کچھ دو کا رویہ اختیار کرنا وہ خطرناک سانپ ہے جو مسئلے کے حل کے ہر امکان کو ہڑپ کر جائے گا اور حاصل کچھ نہ ہوگا۔ بھارت سے معاملہ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اوروہ یہ کہ کشمیر میں تحریکِ مزاحمت کا دبائو ناقابلِ برداشت ہو جائے‘ عالمی دبائو جس حد تک ممکن ہو موثر بنایا جائے‘ پاکستان دفاعی حیثیت سے مستعد ہو اور تمام متعلقہ امور پر ایک جامع منصوبے کے ذریعے معاملات کو طے کیا جائے۔ اس سے ہٹ کر راستہ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا راستہ ہے جس کا انجام ہماری زمین پر مخالف کا قبضہ‘ دائمی محکومی اور پاکستان کو ٹکڑے کر کے غیر موثر حصوں میں تقسیم کرنا (balkanization) ہے۔ فلسطین کی زبوں حالی سے اگر کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جزواً جزواً (piecemeal) معاملات سے احتراز کیا جائے اور جامع منصوبے (comprehensive package) پر اصرار کیا جائے ‘ خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے۔
۴- چوتھا مسئلہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (سی بی ایم) کا ہے۔ لیکن ہمارے لیے اعتماد مضبوط کرنے والے اصل عوامل اور اقدامات وہ نہیں جن کا مطالبہ بھارت کر رہا ہے اور ہررعایت اور نرمی کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے بلکہ وہ ہیں جو جموں اور کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے جانبازوں کے اعتماد کو مضبوط کریں اور انھیں مزید حوصلہ دیں۔ آج ہماری حکومت ہر وہ اقدام کر رہی ہے جس سے کشمیر کے عوام مایوس ہوں‘ مجاہدین آزادی کی ہمتوں پر اوس پڑے اور بھارت کے ایوانوں میں خوشی کے چراغ روشن ہوں۔ اس سے زیادہ غیرحقیقت پسندانہ اور تباہ کن حکمت عملی کوئی نہیں ہوسکتی اور قوم تحریکِ آزادی پر ضرب لگانے والے ان اقدامات پر حکومت اوران عناصرکو جو ان کی تائید کر رہے ہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہم کو اس وقت ماضی سے بڑھ کر اس سے یک جہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور انھیں جدوجہد تیز تر کرنے کا حوصلہ دینا چاہیے۔ ہمیں عالمی راے عامہ اور اپنی خارجہ سیاست کو اس رخ پر موڑنا چاہیے کہ بھارت فی الفور پوٹا (POTA)جیسے جابرانہ قوانین کو منسوخ کرے جن پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سخت احتساب کیا ہے‘ ریاستی تشدد کو روکے‘ فوجوں اور بارڈر سیکورٹی فورس اور اسپیشل فورس جن کو ختم کرنے کا وعدہ خود مفتی نے انتخابات کے موقع پر کیا تھا کو فوراً ختم کرے‘ تمام اسیروں کو رہا کرے اور عوام کو سیاسی آزادی دے تاکہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔
اگر آج بھارت مذاکرات کی بات کررہا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اس کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے یا امریکہ کے دبائو میں ایسا کر رہا ہے بلکہ اصل دبائواگر کوئی ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کا ہے۔ بھارت نے دیکھ لیا ہے کہ ۷ لاکھ فوج اور اربوں روپے کو آگ لگا دینے کے باوجود وہ اس تحریک کو کمزور نہیں کر سکا ہے۔ جو لولے لنگڑے اور طے شدہ نتائج حاصل کرنے والے انتخابات پچھلے سال جموں و کشمیر میں ہوئے تھے وہ بھی دراصل بھارت کے اقتدار اور اس کی قتلِ کشمیر میں شریک نیشنل کانفرنس کے خلاف تھے‘ کسی مفتی یا کسی کانگریس کے حق میں نہ تھے۔آج اگر پاکستان کی عاقبت نااندیش قیادت کے مختلف اقدامات سے تحریکِ آزادی کشمیر کمزور ہوتی ہے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اصل ضرورت ایسے اقدامات (سی بی ایم) کی ہے جو اس تحریک کو تقویت دیں۔ یہی وہ چیز ہے جو بھارت کو مذاکرات اور بالآخر اصل مسئلے کے حل پر اسی طرح مجبور کرے گی‘ جس طرح گذشتہ صدی میں دنیا کے ۱۵۰ ممالک میں آزادی کی تحریکات نے کیا۔ آخر جب ۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ قائم ہوئی ہے تو اس میں شریک ممالک کی تعداد صرف ۴۵ تھی اور آج یہ ۱۹۲ ہے جس میں سے بیشتر نے لڑکر اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ اور یہی جذبہ کشمیر میں آج بھی موجزن ہے۔ اسی ہفتے حریت کانفرنس کے اجلاس میں حریت کے قائدین ہی نہیں بلکہ کشمیرٹائمز کے ہندو ایڈیٹر تک نے مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ہماری قیادت کے لیے چشم کشا ہوسکتا ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ ہے:
ہندو اکثریتی علاقے جموں کے ایک معروف دانش ور ویدبھاسن نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنا ہے‘ نہ کہ بھارت یا پاکستان کو۔ اگر آپ آزادی کا نصب العین حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا‘ اتحاد برقرار رکھنا ہوگا‘ اور تحریک کو مثبت سمت دینا ہوگی۔ انھوں نے کہا: آزادی کے لیے لڑنے والوں کو اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے امریکہ یا کسی ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ کو مدد طلب ہی کرنا ہے تو دنیا کے لوگوں سے طلب کیجیے نہ کہ مختلف ملکوں کی حکومتوں سے۔ (دی نیوز‘ ۲۰ مئی ۲۰۰۳ئ)
اصل میدان جموں و کشمیر ہے‘ اسلام آباد یا دہلی نہیں۔ اور جو بھی اس مقصد سے مخلص ہے اسے ایسے اقدامات کی فکر کرنی چاہیے جو جہاد آزادی کی تقویت کا باعث ہوں۔
۵- ہمارا ایک بڑا اہم محاذ خود ملک کی راے عامہ کو متحرک کرنا اور اسے اتنا قوی کرنا ہے کہ حکومت وقت کوئی غلط اقدام نہ کر ڈالے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران بڑی عجلت میں ہیں اور امریکہ جو کبھی ۲۰۰۴ء کی بات کرتا ہے اور کبھی ۲۰۰۵ء کی‘ اس کے چکر میں یہ حضرات ایک تاریخی جدوجہد کو مصلحتوں کے پتھر سے پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے قدم روکنا اور تحریک کو اس کے اصل مقاصد کے لیے جاری رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
۶- ایک اہم کام عالمی راے عامہ تک اصل حقائق پہنچانا اور اسے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے حق میں ہموار کرنا ہے۔ غضب ہے کہ یکم جون کو ہونے والی جی-ایٹ کے سربراہی اجلاس میں بھارت کو دعوت دی گئی ہے جہاں وہ نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کا مسئلہ اٹھانے کے دعوے کر رہا ہے اور ہماری وزارتِ خارجہ خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ ہم اصل حقائق بھی دنیا کے سامنے رکھنے سے قاصر ہیں حالانکہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے صاف الفاظ میں جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے۔ سیکورٹی کونسل کی صدارت کے باوجود ہم مسئلہ اٹھانے میں شرما رہے ہیں حالانکہ اس وقت ایک عالم گیر سفارتی مہم کی ضرورت ہے جس میں ہمارے سفارت کاروں کے ساتھ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے نمایندوں کو بھی شریک کرکے دنیا کو حقائق سے آگاہ کرنا ناگزیرہے۔
۷- آخری بات یہ کہ ہماری قیادت اقبال اور قائداعظم کا نام صبح و شام لیتی ہے لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور ان کے وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرسے مجرمانہ تغافل برتتی ہے۔ اقبال نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا تھا اور یہ راستہ دکھا دیا تھا کہ جہاد آزادی ہی کے ذریعے کشمیر اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ اقبال اور قائداعظم نے کشمیر اور پاکستان کے ناقابلِ انقطاع تعلق کو واضح کر دیا تھا۔ ان کی وصیت ہی یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے بلکہ اپنی شہ رگ کو دشمن کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ ہم ان اشارات کو اقبال اور قائداعظم کے تاریخی الفاظ پر ختم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور اس کی قیادت ‘خصوصیت سے مذاکرات کرنے والے تمام افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ ان الفاظ کو حرزِ جان بنالیں اور قائد کے اس وژن سے ہٹ کر ہرگز کوئی سمجھوتا نہ کریں۔
کشمیر کا مسئلہ تمام مسلمانان ہندستان کی سیاسی حیات اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہل کشمیر سے ناروا سلوک‘ ان کی جائز اور دیرینہ شکایات سے بے اعتنائی اور ان کے سیاسی حقوق کا تسلیم نہ کرنا‘ مسلمانانِ ہند کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ حق بات بھی یہی ہے کہ اہل خطہ کشمیر ملت اسلامیہ کا جزولاینفک ہے۔ ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کو تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندستان میں ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو دو نکتوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اول یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہند کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو مذہب اور کلچر کی حیثیت سے خالصتاًاسلامی ہے۔ دوسری بات جسے مسلمانان ہند کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ ان کی پوری قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنرمندی اور تجارت کو بخوبی پھیلانے کے جوہر نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ اس خطے کا گروہ ہے۔ بہرحال وہ قوم اسلامی ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں۔ اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملت فراغت کی نیند سوجائیں۔ (بحوالہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی‘ ص ۴۷۱)
کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظر انداز نہیں کر سکتا کہ کشمیر تمدنی‘ ثقافتی‘ جغرافیائی‘ معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ جب بھی اور جس نقطہ نظرسے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے گی یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ کشمیر سیاسی اور دفاعی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے دے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ریڈکلف ایوارڈ میں مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ (ایضًا‘ص ۴۷۲)
ایک طرف لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کر رہی تھی اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف‘ وزیراعظم ظفراللہ جمالی‘ چودھری شجاعت حسین‘ شیخ رشیداحمد‘ چودھری پرویز الٰہی اور جنرل صاحب کے لے پالک ناظمین نے ایک کورس کی شکل میں یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ عوام کو ایل ایف او سے کوئی دل چسپی نہیں ہے اور یہ کہ حزب اختلاف عوامی مسائل میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتی اور ایک non-issue پر قوم اور پارلیمنٹ کا وقت ضائع کر رہی ہے۔ اس سیاسی ناٹک میں فوجی دھنوں کا اضافہ کرنے کے لیے یہ سُربھی شامل باجا کر دیے گئے کہ پوری فوجی قیادت جنرل صاحب کی وردی کی پشت پر ہے اور قوم کا اصل مسئلہ ایل ایف او اوراس کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور سیاسی نظام پر بری فوج کے چیف آف اسٹاف کا تسلط نہیں بلکہ روزگار‘ افلاس اور امن و امان وغیرہ ہیں۔ یہ ایک خطرناک خلط مبحث ہے اور اس کا تجزیہ اور اصل ایشو کی تنقیح ازبس ضروری ہے۔
امن وامان‘ روزگار‘ غربت و افلاس بنیادی مسائل ہیں اور ان سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ ہماری توجہ کا مرکز و محور ہیں اور ہونے چاہییں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ان مسائل سے اغماض‘ حزب اختلاف نہیں برسرِاقتدار قوتیں برت رہی ہیں۔اگر امن و امان کی صورت حال خراب ہے‘ غربت و افلاس میں اضافہ ہوا ہے اور اگر بے روزگاری روز افزوں ہے تو اس کی بڑی وجہ موجودہ اور سابق حکومتوں کی غلط پالیسیاں اور شاہ خرچیاں ہیں‘ اور اس کی بڑی ذمہ داری خود فوجی حکومت پر آتی ہے جس نے معاشی استحکام کی آئی ایم ایف کی بتائی ہوئی پالیسی پر آنکھ بند کر کے عمل کیا اور پیداوارمیں اضافہ‘ زراعت کی ترقی‘ روزگار کی فراہمی‘ غربت سے نجات اور تقسیم دولت کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کی تلافی کی کوئی فکرنہ کی‘ اور اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایل ایف او پر حزب اختلاف کی گرفت اور تنقید کو ہدف بنا رہی ہے جو ماروگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف ہے۔ اس طرح قوم کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔
ایل ایف او کا مسئلہ بڑا بنیادی اور اصولی ہے۔ فرد کی زندگی کے معاملات ہوں یا ملک اور حکومت میں اصحابِ اختیار کا حق حکمرانی‘ سب کے باب میں بنیادی امر یہ ہے کہ جو بھی اقدام کیا جا رہا ہے اس کا جواز کیا ہے۔ مہذب معاشرہ اور جنگل میں فرق ہی قانون کی حکمرانی اور اختیار اور اقتدار کے لیے سندِجواز (legitimacy)کا ہے۔ آپ کو اپنی مِلک پر تصرف کا حق حاصل ہے اور دوسرے کی املاک پر دست درازی جرم ہے۔ نکاح اور زنا میں فرق عمل کا نہیں جوازِ عمل کا ہے۔ خود فوج میں اتھارٹی کی بنیاد دستور اور آرمی ایکٹ ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ آرمی ایکٹ میں جو چاہے ترمیم کر لے یا اسے محض ایک نظری چیز قرار دے کر فوجیوں کے مسائل حل کرنے کے شوق اور دعوے کے ساتھ جوچاہے کھل کھیلے۔ خود جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت تک ان کے اقتدار کو جواز میسر نہ تھا جب تک سپریم کورٹ نے مشروط جواز (validation) نہ دے دیا ‘اور اس سترپوشی کے پتے (fig leaf) کے سہارے وہ تین سال حکمرانی کرتے رہے اور خود ایل ایف او کا جواز بھی اس سے حاصل کررہے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی قانون کی حکمرانی ہے اصل ایشو صاحب ِ اختیار کے سندِ جواز ہی کا ہے۔ آج امریکہ قوت کے زور پر عراق پر قابض ہوگیا ہے لیکن اس کا اقتدار سندِجواز سے محروم ہے اور وہ دھونس اور دھاندلی ہی سے سہی اقوام متحدہ سے کسی نہ کسی شکل میں جواز حاصل کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ افسر مائیکل اسٹینر نے حال ہی میں اس مسئلے پر بڑی دل چسپ بحث کی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ صرف اقوام متحدہ کے ذریعے ہی بین الاقوامی معاملات میں سندِجواز کا حصول ممکن ہے:
جہاں تک سندِ جواز کا سوال ہے اقوام متحدہ کو بالکل منفرد اخلاقی اختیار حاصل ہے کیونکہ اس کے ارکان سیاسی نظاموں اور اقدار کے وسیع تناظر کی نمایندگی کرتے ہیں۔ بیشتر دنیا کسی ایک ملک یا اتحاد کے مقابلے میں اقوام متحدہ پر زیادہ اعتماد کرتی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ کسی آمریت یا خاندانی حکومت کے مقابلے میں جمہوریت پر زیادہ بھروسا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ آمر وقت پر کام مکمل کرلیتے ہیں‘ لیکن احکامات کی تعمیل کا نظام‘سندِجواز نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر بنیادوں سے اکھڑجاتا ہے۔ جیسا کہ سردجنگ میں مغربی جمہوریتوں کی فتح سے ثابت ہوتا ہے‘ تہذیبی اقدار میں شرکت کا احساس پیدا کرنے کی ان کی صلاحیت بالآخر زیادہ خوش حالی اور استحکام کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ مستقل اخلاقی اختیار پر مستزاد‘ اقوام متحدہ کو کسی تنازعے کے اختتام کے بعد کسی نئے سیاسی نظام کو قائم کرنے کا منفرد قانونی اختیار بھی حاصل ہے… تاہم امن کا اصل انحصار سندِجواز پر ہے اور اس میں اقوامِ متحدہ کا کوئی ہمسر نہیں۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ مئی ۱۹‘ ۲۰۰۳ئ)
عراق میں فوجی تسلط حاصل کرنے کے باوجود امریکہ کو سندِجواز حاصل نہیں ہورہی۔ یہی مسئلہ ہمارا ہے۔ مسئلہ ٹرین چلانے یا عوامی مسائل حل کرنے کا نہیں‘ ان تمام کاموں کو انجام دینے والوں کے حق اختیار کا ہے۔ ایل ایف او اپنی ساری خامیوں کے باوجود جمہوریت اور دستوری نظام کی بحالی کے لیے ایک ذریعہ اور ایک پُل تو ہو سکتا ہے لیکن آپ سے آپ دستور کا حصہ نہیں بن سکتا‘ اور جب تک پارلیمنٹ اسے جس شکل میں چاہے اور جن ترامیم کے ساتھ قبول کرنا چاہے‘ قبول کر کے دستوری ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ نہیں بناتی پورا نظام سندِجواز سے محروم رہے گا۔
یہ دلیل مضحکہ خیز ہے کہ اصل مسئلہ عوامی مسائل کو حل کرنے کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسائل کے حل کرنے کے نام پر دستور‘ قانون‘ حق حکمرانی‘ ضابطے اور قاعدے کو بالاے طاق رکھ کرجو جو چاہے کرے۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر کل کوئی ڈاکو اس دلیل کی بنیاد پر لوگوں کی دولت کو لوٹنے کا ’’حق‘‘ تسلیم کرا سکتا ہے کہ وہ اس دولت کو غریبوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ اسی ’’دلیل‘‘ کی بنیاد پر سامراجی اقوام دنیا کے دوسرے ممالک کو غلام بناتی تھیں کہ ان کی ترقی کا سامان کر رہی ہیں اور ریلوں کا جال بچھا رہی ہیں‘ سڑکیں بنا رہی ہیں اور بجلی کی روشنی فراہم کر رہی ہیں۔ اس سے کمزور اور لچر دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟
اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ایمان کے بغیر اچھے اعمال بھی قابل قبول نہیں۔ اہل کفر کی تو دلیل ہی یہ ہوتی ہے کہ نیک کام کرو‘ خدا اور رسول پر ایمان کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن قرآن کا فیصلہ یہی ہے کہ ایمان کے بغیر اعمال اکارت ہیں اور بظاہر نیکی اور خدمت کے کام بھی ‘سمت درست ہوئے بغیر‘ اور سندِجواز جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے اس کے بغیر‘ قابلِ قبول نہیں۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرِبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْ ئٍط ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ o (ابراھیم ۱۴:۱۸) جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے۔
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا (النور ۲۴:۳۹) جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت ِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔
جس طرح ایمان کے بغیر اچھے اعمال بے سود ہیں اسی طرح سندِجوازکے بغیر زندگی کے تمام میدانوں میں کسی خیر کی کوئی توقع نہیں۔ ایل ایف او کے سلسلے میں اصل ایشو اس سندِجواز کا فقدان ہے۔ حزبِ اختلاف کی پوری کوشش ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے دستور اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کرے تاکہ ملک کا ہر ادارہ دستور کے فریم ورک میں اپنے فرائض انجام دے سکے۔ عوام کے مسائل کے حل کا یہی صحیح طریقہ ہے اور یہی عوام کی دلی خواہش ہے جنھوں نے جنرل صاحب کے حسب منشاپارلیمنٹ منتخب نہیں کی بلکہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے نمایندے بھیجے‘ اور ساری دھاندلی اور لوٹاکریسی کے باوجود جنرل صاحب کی پارٹی کو دستور میں من مانی تبدیلی کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہو سکا۔ اب انھیں سیدھے سیدھے عوام کے فیصلے کو قبول کر لینا چاہیے اور ان حدود کے اندر ملک کے معاملات کو چلانے کی کوشش کرنی چاہیے جو دستور اور عوام کی رائے نے متعین کیے ہیں۔ اسی میں ملک اور فوج دونوں کی بھلائی ہے---
کیا وہ قوم کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ تصادم کا راستہ اختیار کرے جس کا آخری نتیجہ تو ان شاء اللہ عوام کی فتح ہی کی شکل میں رونما ہوگا لیکن اس میں فوج اور اس کی قیادت کی ساکھ بُری طرح مجروح ہو جائے گی جو ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس سے بچنا سب کے لیے اولیٰ ہے۔ جنرل صاحب کو ضد اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور ملک کو تصادم اور انتشار سے بچانے کے لیے اس راستے کی طرف پیش قدمی میں قوم سے تعاون کرنا چاہیے جو حزب اختلاف اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل نے اختیار کیا ہے۔
عراق پر امریکی افواج نے جس جارحانہ فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا ہے اس نے اس باب میں کوئی شبہہ باقی نہیں چھوڑا کہ امریکہ اب پورے عالمِ اسلامی کے خلاف برسرِجنگ ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور اس کی امریکی تائید ومعاونت‘ سرپرستی اور مالی اور سیاسی مدد تو ایک کھلی حقیقت تھی لیکن اب گذشتہ ۲۲ سال سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکہ دنیا پر صرف اپنی بالادستی قائم کرنے ہی کی جدوجہد میں مصروف نہیں بلکہ شرق اوسط پر اسرائیل کی بالادستی اور علاقے میںعظیم تراسرائیل کے قیام کی جنگ میں بھی کھلا کھلا شریک ہے۔ جس کا تازہ ترین ثبوت امریکی کانگریس کی ۱۰ ارب ڈالر کی وہ امداد ہے جو سالانہ ۳ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ صرف عراق پر فوج کشی کے موقع پر اسرائیل کو دی گئی ہے۔ عراق پر امریکی قبضہ جنگ کا خاتمہ نہیں‘ جنگ کے ایک نئے اور دیرپا دَور کا آغاز ہے۔
اُمت مسلمہ کی حقیقی قیادتوں نے دنیا کے ہر حصے میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ مسلمان اس جنگ میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ انھیں خود اور دنیا کے دوسرے امن پسند انسانوں کے ساتھ مل کر جہاں اس نئی سامراجی یلغار کے خلاف سیاسی جدوجہد اور عوامی مزاحمت (resistance) میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے‘ وہیں امریکی ‘ برطانوی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے معاشی دبائو کا ہتھیار بھی استعمال کرنا چاہیے۔ عالم عرب کے تمام ہی اہم علما نے بائیکاٹ کا فتویٰ دیا ہے اور انڈونیشیا سے مراکش تک تمام اہم دینی جماعتوں نے بائیکاٹ کی کال دی ہے۔ پاکستان میں بھی متحدہ مجلس عمل نے اس سلسلے میں قوم کو رہنمائی دی ہے اور دوسرے امن پسند عناصر اس کی تائید کر رہے ہیں اور عملاً اس جدوجہد میں شریک ہیں۔ اس موقع پر ایک لابی بڑے معصوم انداز میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ کہہ رہی ہے کہ بائیکاٹ سے امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ خود پاکستان اور مسلم ممالک کے تاجر اس سے متاثر ہوں گے‘ نیز اسی طرح ہم امریکہ کے عتاب کا نشانہ بنیں گے‘ جس سے بچنا اولیٰ ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ اب عملاً اسرائیل کی معیت میںمسلمانوں کی سرزمین پر قابض ہے اور مزید کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ اس موقع پر خاموشی اور مقابلے کی کارروائی سے اجتناب بے غیرتی ہی نہیں‘ سیاسی اور معاشی خودکشی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس چیلنج کا بروقت مقابلہ کیا جائے اور مزید مقابلے کی تیاری کی جائے۔ اس کے لیے کم سے کم چیزیں دو ہیں: ایک یہ کہ سیاسی اور سفارتی سطح پر امریکی‘ اسرائیلی جنگی حکمت عملی کی بھرپور مخالفت ہو‘ راے عامہ کو بیدار کیا جائے اور عالمی جمہوری مزاحمت میں شرکت اور اس کی تقویت کے لیے جدوجہد کی جائے۔ دوسری چیز معاشی میدان میں بائیکاٹ کے ذریعے صرف احتجاج ہی نہ کیا جائے بلکہ اسے اتنا موثر بنایا جائے کہ امریکی اسرائیلی معیشت اس کا دبائو محسوس کرسکے۔
دوسری بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ معاشی مقاطعہ ایک معروف احتجاجی حربہ ہے جسے دنیا کی ہر قوم نے استعمال کیا ہے اور یہ مظلوم اقوام کا حق ہے۔ مغربی اقوام نے تو اس کو ناروا انداز میں اور خود ظلم کے لیے استعمال کیا ہے۔ آخر معاشی پابندیاں (economic sanctions) کیا چیز ہیں؟ پاکستان کے خلاف یہ پابندیاں موقع بہ موقع ۱۹۶۵ء سے استعمال کی جا رہی ہیں اور خصوصیت سے ۱۹۷۶ء کے بعد تو کم ہی زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ہم پر کچھ نہ کچھ پابندیاں نہ ہوں۔ اور ابھی حال ہی میں کہوٹہ لیبارٹریز پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ آخر کس چیز کی غماز ہیں؟ خود عراق پر ۱۹۹۱ء سے پابندیاں ہیں جن کے نتیجے میں یونیسیف کے مطابق ۵ لاکھ سے زیادہ بچے ہلاک ہوئے ہیں اور عراق کی فی کس آمدنی ۸۰ فی صد کم ہوگئی ہے اور غربت نے آبادی کے ۶۰فی صد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ مغربی اقوام کا تو حال یہ ہے کہ امریکہ نے فرانس اور جرمنی کی مصنوعات کے خلاف صرف اس جرم میں مہم چلا دی ہے کہ انھوں نے عراق کے خلاف جارحیت میں ساتھ نہیں دیا۔ امریکی کانگریس نے فرانس‘ جرمنی اور روس تک کو عراق کے نام نہاد تعمیرنو کے ٹھیکوں کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے اور حد یہ ہے کہ french fries کے نام تک سے french کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر امریکہ دوسروں کے ساتھ یہ معاملہ کر رہا ہے تو حیف ہے ہم پر کہ ہم اس کی کھلی کھلی جارحیت کے جواب میں اس کی مصنوعات تک کا بائیکاٹ کرنے میں تغافل کا شکار ہوں۔
مصنوعات کا بائیکاٹ احتجاج کا ایک معروف طریقہ ہے اور اس کے نتیجے میں‘ اگر یہ موثرانداز میں کیا جائے تو‘ مطلوبہ نتائج رونما ہوتے ہیں: جس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اس کی معیشت پر اثرات کی شکل میں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر ان مصنوعات کو تیار کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے حکومت کی پالیسی کو متاثر کرنے کے ذریعے۔ پھر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بائیکاٹ خود اپنی قوم کی تعلیم‘ شعور کی بیداری اور اسے عالمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لائق بنانے کا ذریعہ بنتا ہے‘ اور ملکی مصنوعات کے فروغ اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مقامی صنعت و تجارت کو موقع فراہم کرنا ہے جو بالآخر معاشی ترقی اور خودانحصاری پر منتج ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ بائیکاٹ موثر ہو اور وسیع پیمانے پر اسے کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گذشتہ چار ہفتوں میں صرف سعودی عرب میں بائیکاٹ کے نتیجے میں امریکی مصنوعات کی کھپت میں ۲۵ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی چند چیزوں کے استعمال کے بارے میں بڑی واضح شہادتیں سامنے آ رہی ہیں۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بائیکاٹ کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے اور پُرامن ذرائع سے صرف عوامی تائید ہی حاصل نہ کی جائے بلکہ کاروباری مراکز میں مظاہروں کے ذریعے عوام کو اسے کامیاب بنانے کی ترغیب دی جائے۔ متعین اہداف کے بارے میں لوگوں کی تعلیم اور راے عامہ کی بیداری کا اہتمام کیا جائے اور موثر عوامی مظاہروں کی شکل میں امریکی مصنوعات کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اپنے ملک کی مصنوعات کے استعمال کی ترغیب دی جائے۔ یہ وہ کم سے کم شرکت ہے جو امریکہ کی عالمِ اسلام کے خلاف جنگ کے مقابلے میں ہم کرسکتے ہیں۔
یہ ایک عام دن نہیں ہے کہ جس کے شمار سے کوئی پہلو بچا کر نکل جائے۔ اسلامی‘ عالمی اور سیاسی تاریخ میں یہ دن کئی اعتبار سے حوالے‘ عبرت اور نئی منزلوں کی تلاش کا دن قرار پائے گا۔ اور اگر کوئی عبرت پکڑنے کے لیے تیار ہو تو قدرتِ حق کا یہ تازیانہ‘ بے عملی اور نفاق میں مبتلا قوموں کو راست رو بنا دے گا‘ اگر شکستہ جسم و جان کے باوجود ذہن و ضمیر میں زندگی کی رمق موجود ہوئی تو اس یوم سے وابستہ دکھ ‘ نہ صرف صف بندی کرائے گا‘ بلکہ منزل پر پہنچنے اور شکست و خجالت کے داغ دھونے کاکام بھی کرے گا۔
گذشتہ ایک صدی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بظاہر ایسی اُمید افزا بات کہنے کے لیے کوئی بڑے قابلِ قدر حوالے دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے ۹ اپریل کی شام بغداد کی دھواں دار فضا‘ اور تحیّروصدمے سے پتھرایاہوا شہر---جہاں ۵۰ لاکھ انسانوں کے اس شہر میں صرف ۱۵۰ افراد دیوانگی یا مسرت کا اظہار کر رہے ہیں‘ نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
اس روز بغداد کی تیسری تباہی کا علامتی سطح پر اظہار ہوا‘ جسے برقی خبر رسانی اور تصویرکشی کے سہارے کروڑوں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تاتاری لشکروں کی بغداد میں خوں آشامی تو ماضی بعید کی تاریخ کا ایک حصہ ہے‘مگر آج کا انسان جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے اسے بہ چشم سر دیکھ رہا ہے ‘ اور انسان کی پستی‘ ظلم‘ زیادتی‘ بے بسی و بے چارگی کا بار بار مشاہدہ کر رہا ہے۔
میں ان معنوں میں تو تاریخ کا طالب علم نہیں جن معنوں میں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کوئی مورخ ہوتا ہے‘ لیکن اُمت مسلمہ کے بہی خواہ اور تاریخ کے موضوع میں دل چسپی رکھنے والے ایک شخص کی حیثیت سے اس کی کئی سطحیں میرے سامنے آتی ہیں۔
بغداد کی پہلی تباہی (۱۲۵۸ئ) اپنے اندر بڑے سبق رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔ اس کے بعد پہلی جنگ ِ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ئ) کے اختتام پر دولت ِ عثمانیہ کا انتشار‘ لارنس آف عریبیا کی زیرقیادت عرب قومیت کے فریب کی پرورش‘ اور پھر برطانیہ کی عراق پر فوج کشی اور بغداد پر قبضہ اور اب سقوطِ بغداد کا وہ واقعہ جو ہم میں سے بیشترنے ٹی وی پر دیکھا ہے ‘ یہ ہماری تاریخ کے وہ الم ناک لمحے ہیں جن پر آنسو بہائے گئے ہیں اور آنسو بہائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دکھ‘ کرب اور غصے کی حالت میں مقید رہنے کے بجائے آگے بڑھیں‘ قرآن عزیز کے اوراق پر قوموں کے عروج و زوال اور ناکامی و کامرانی کا قانون پڑھیں۔ اس سے جو سبق سیکھنا چاہیے‘ اُس کی طرف توجہ دیں۔
یہی بغداد چار ساڑھے چار سو سال تک علم‘ تہذیب‘ سیاسی قوت اور عسکری طاقت کا مرکز و محور رہا ہے‘ جو مسلمانوں کی سطوت کی علامت اور پہچان تھا۔ بلاشبہہ اس باوقار ماضی کا ایک بڑا محرک وہ تعلیمی نظام تھا‘ جس نے ہر ہر میدان میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو پیدا کیا تھا۔ مفسرین‘ محدثین‘ فقہا‘ متکلمین‘ منتظمین ‘ مالیات کے ماہر‘ فوجی جرنیل‘ یہ سب اس نظامِ تعلیم کی پیداوار تھے‘ جسے آج مدرسے کا نظام کہتے ہیں۔ کبھی یہی مدرسہ ان تمام چیزوں کا جامع تھا۔ میرے محدود علم کی حد تک جامعہ کا تصور نہ یونان میں تھاکہ جنھوں نے تعلیم کی شمعیں روشن کیں‘ نہ چین میں تھا جو تعلیم کے میدان میں دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں دنیا کے دوسروں ملکوں سے بہت آگے تھے۔ تعلیم کو زندگی کے اجتماعی معاملات میں اہمیت دینے والوں میں‘ اُس عہدکے مسلمان بہت اُونچے مقام پر تھے۔ یہ تصور کہ تمام علوم کو ایک محور کے گرد جمع ہونا چاہیے‘ ایک منبع سے انھیں روشنی حاصل کرنی چاہیے‘ حتیٰ کہ ایک چھت کے نیچے ان سب کو جمع کیا جائے--- یہ تھا جامعہ کا تصور‘ جسے انگریزی میں یونی ورسٹی کہا گیا۔ یونی ورسٹی کا مفہوم ہی یہی تھا کہ پوری ’ورس‘ کو ہم ایک وحدت میں لا رہے ہیں۔ وہ مدرسہ جس کو آج تحقیر کے ساتھ پکارا جاتا ہے‘ اپنے آغاز میں دراصل یہی مدرسہ اس انقلابی تصورکا علم بردار اور نمونہ تھا۔
پھر اس زمانے کی مسلم قیادت نے پلٹی کھائی‘ جس کے نتیجے میں فکری آزادی‘ جمود اور تقلید کا شکار ہوگئی۔ وہ الہامی ہدایت ‘ جسے زندگی کے ہر شعبے میں اصل رہنما اور صورت گر ہونا چاہیے تھا‘ وہ گروہ بندی‘ فرقہ بندی‘ مسلک بندی کی نذر ہوگئی۔ تحقیق‘ جستجو‘ سائنس و ٹکنالوجی‘ عمرانی علوم‘ اخلاقی پہلو‘ جن میں ہم آگے تھے روایت پسندی اور بے عملی کی یخ بستگی کا نشان بن کر رہ گئے۔ جارج سارٹنس اپنی کتاب ’ہسٹری آف سائنس‘ میں ہر ۵۰ سال پر ایک باب (chapter) باندھتا ہے اور ہر باب کے لیے ایک مفکر کو اس دور کا سب سے بڑا فکرساز اور مفکر قرار دیتا ہے۔ اس زمانے کے پانچ ابواب کے سرعنوان میں ہمیں مسلمان مفکر نظر آتے ہیں۔
اسی بغداد نے یہ بھی دیکھا کہ تعیش‘ نفس پرستی‘ فرقہ بندی‘ اندھی تقلید‘ قبرپرستی اور اکابر پرستی ‘ محسن ناشناسی کے ایک طاعون نے انھیں گھیرلیا۔ اپنے محسنوں کی قدرافزائی ایک بڑی قیمتی قدر ہے اور کوئی فرد اور کوئی قوم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ لیکن جب یہی محسن شناسی‘ قبرپرستی اور شخصیت پرستی میں بدل جاتی ہے تو پھر فکری آزادی کے سوتے سوکھ جاتے ہیں۔ وہاں پر بھی یہی المیہ رونما ہوا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب منگولوں کی سفاک فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ‘کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے۔ بغداد کی نہریں انسانی خون سے سرخ ہو رہی تھیں‘ اس وقت مسلمانوں کے خوف کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی حملہ آور منگول‘ مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم زمین پر لیٹ جائو‘ تاکہ میں تمھیں مارنے کے لیے نیا خنجر یا تلوار اپنے خیمے سے لے آئوں‘ تو وہ اُس حملہ آور کے ’’احترام‘‘ میں وہیں لیٹا رہتا‘تاآنکہ وہ اپنی تلوار لائے اور اس کو ذبح کر ڈالے۔
آج بھی ’آیندہ کون؟‘ (Who Next?) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ آج اس کرئہ ارضی پر ۵۶ آزاد مسلمان ملک اور ایک ارب پچیس تیس کروڑ مسلمان ہیں۔ کس مپرسی کے عالم میں اس منظر کو دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک یہ سوچ رہا ہے کہ ’آیندہ کون؟‘ کسی کو خیال نہیں آتا کہ اگر ہم مل کر اپنی قوت‘ اور اپنے وسائل کو استعمال کریں تو پھربے بسی‘ موت اور بربادی کے انتظار کا یہ لمحہ ختم ہو سکتا ہے۔
دوسرا واقعہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ کو تین یا چار دن کے فاقے کی حالت میں زنجیروں سے باندھ کر دربار میں لایا گیا تو فاتح تاتاری جرنیل نے حقارت سے پوچھا: ’’تمھیں کیا چاہیے؟‘‘ تو عباسی خلیفہ نے بے ساختہ کہا: ’’مجھے پانی چاہیے‘ کچھ کھانے کو دو‘‘۔ تو تاتاری جرنیل نے سونے کا ایک ٹکڑا اس کے سامنے ڈال دیا۔ خلیفہ نے کہا: ’’میں اس کو تو نہیں کھاسکتا‘‘۔ اس لمحے وہ دشمن یہ تاریخی الفاظ کہتا ہے: ’’اگر تم نے اس سونے کو اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہوتا تو آج تمھیں ان حالات سے دوچار نہیں ہونا پڑتا‘‘--- ایسی صورت آج ہماری بھی ہے۔ ہم اپنے اسلحے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔ہمیں اپنے دفاع کے لیے یہ اختیار بھی نہیں کہ اپنے قومی وسائل سے جو دفاعی ذرائع ہم کو درکار ہیں انھیں حاصل کر سکیں‘ یا ان کی بنیاد پر ہم اپنا دفاعی اسلحہ تیار کر سکیں اور اپنا دفاع کر سکیں۔ برطانیہ کے وزیردفاع نے ۹ اپریل ۲۰۰۳ء ہی کی شام ڈنمارک میں یہ کہہ دیا کہ ’’عراق ہی نہیں‘ جس کے پاس بھی ہم سمجھیں گے کہ مہلک ہتھیار ہیں اور وہ ہمارے لیے خطرہ ہے تو ہم ان پر بھی پیشگی حملے کا حق استعمال کریں گے‘‘۔
یہ وہ ماحول ہے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں۔ جس طرح امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراقی عوام کے لیے بیان دیا ہے: ’’ہم آپ کی آزادی کے لیے آئے ہیں‘ آپ بالکل پریشان نہ ہوں‘‘، اگر تاریخ کے ورق اُلٹیں تو برطانیہ کے وزیراعظم نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد فوج کشی کے موقع پر بھی یہی کہا تھا: ’ہم عربوں کو ترکوں سے آزادی دلانے کے لیے آ رہے ہیں‘ بعینہٖ وہی الفاظ ہیں‘ بلیئرکے بیان میں درج ہیں۔اُس وقت کے وزیراعظم کا بیان ملا کر دیکھ لیجیے‘ زبان و بیان ایک ہے‘ اگرچہ زمانہ بدلا ہوا ہے۔
میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ تعلیم کسی غار میں نہیں دی جاتی۔ تعلیم کاتعلق تہذیب سے ہے‘ معاشرے ‘سیاست ‘عسکریت اور زندگی کے ہر پہلو سے ہے۔ تعلیم کا یہ رشتہ اگر کٹ جائے تو پھر وہ تعلیم‘ زندگی سے لاتعلق ہو جاتی ہے‘ محض وقت کاضیاع اور محکومی و غلامی کا دعوت نامہ بن جاتی ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اس میں اس بات کا بڑا دخل تھا کہ عرصہ گزرا ہمارا تعلیمی نظام‘ زندگی کے تقاضوں اور اس کے مطالبات سے اس طرح مربوط نہیں رہا کہ جس طرح اسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کا نتیجہ وہ زوال کے حادثات بنے ۔ آج بھی ہم اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔
پچھلے ۲۰۰ سال کے حالات پر خصوصاً بیسویں صدی کے حالات و واقعات پر غور کرتے ہوئے ‘میں بڑی شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتا ہوں کہ اُمت مسلمہ کو جو حالات درپیش ہیں ایک بنیادی فرق کے ساتھ ان میں غیرمعمولی مشابہت ہمارے اولین دور سے ہے۔
بڑا بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور ان کے ذریعے وحی کے نور سے انسانیت کی زندگی کو منور کرنے کا دور تھا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک نئی تحریک اورایک نئی تہذیب اور ایک نئی عالمی رو کے اُبھرنے کا دور تھا۔ اس بنیادی فرق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں اور جوں ہی اسلامی دعوت جزدانوں سے نکلی اور فکرورہنمائی سامنے آئی تونئی تہذیب‘ نئی ٹکنالوجی‘ حکمرانی اور قانون کے نئے نظام نے‘ ایرانی و رومی تہذیبوں یا دوسری تہذیبوں کو متاثر ہی نہیں‘ بلکہ مسخر کیا۔ ایک طرف انھوں نے اس تحریک‘ پیغام اور انقلابی رو کو مستحکم کیا اور آگے بڑھایا اور دوسری طرف نئے ادارے قائم کیے اور جو ادارے پہلے سے موجود تھے ان کا احتساب کیا۔ رد و قبول کا سلسلہ شروع کیا ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جو چار بڑے علم اس زمانے میں پروان چڑھے: علمِ تفسیر‘علمِ حدیث‘ اصول فقہ اور کلام‘ کچھ پہلو سے ان میں اصول فقہ سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ ان سب نے ہماری فکر اور تہذیب کو استحکام عطا کیا۔
پھر قیادت‘ تعلیم‘قوت کا حصول اور قوت کے تمام ذرائع‘ جن میں علم‘ ایمان و کردار‘ سائنس و ٹکنالوجی ‘ انتظام و انصرام‘ تنظیمی مہارت‘ عسکری قوت‘ اسلحہ سازی‘ یہ چیزیں تقریباً چار صدیوں تک ہماری وسعت اور استحکام کے لیے جوہری بنیاد بنی رہیں۔ تہذیبی انتشارکے شروع ہو جانے کے باوجود امام غزالی ؒنے کوشش کی کہ فکری اعتبار سے اس وقت کی تمام تحریکوں کو جوڑ کر ایک مربوط شکل دیں۔ اس کے برعکس اگر آپ پچھلے ۲۰۰ سالوں کو دیکھیں تو ایک بالکل اُلٹے پائوں چلتی ہوئی تحریک نظر آتی ہے ‘ جس کی بنیاد ‘اندرونی کمزوریوں پر استوار ہے۔
میں اس خیال کا علم بردار نہیں ہوں کہ اُمت مسلمہ کا انتشار اور ہماری سیاسی قوت کا محکوم اور منتشر ہو جانا محض بیرونی اسباب کی وجہ سے ہے۔ بلاشبہہ اس میں بیرونی اسباب ایک بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ لیکن بہرحال یہ ہماری اندرونی کمزوری تھی‘ جس نے بیرونی قوتوں کو ایک موثر کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ پھر ہم برابر پیچھے ہوتے چلے گئے۔ انجامِ کار جو کچھ ہوا‘ اس کا آغاز انیسویں صدی کے ابتدا میں ہوا‘ اور جس کا آخری باب ۱۹۲۴ء میں سقوطِ خلافت عثمانیہ کی شکل میں نظر آیا۔
اس زمانے میں وہ اُلٹا عمل شروع ہوا کہ جو کچھ ہم نے پہلے تین یا چار صدیوں میں حاصل کیا تھا‘ وہ رفتہ رفتہ ہم سے چھن گیا۔ اندرونی انتشار اور کمزوری‘ سیاسی شکست‘ عسکری میدان میں ہزیمت‘ ایک ایک کر کے مسلمان ممالک مغربی (یعنی: برطانوی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی‘پرتگالی‘ روسی‘ ولندیزی) سامراج کی زد میں آگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں صرف چار بیمار مسلمان ملک باقی رہ گئے جنھیں نام کا آزاد کہا جا سکتا تھا۔ یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ قوت‘ اقتدار اور عالمی حکمرانی کے کردار سے مسلمانوں کی گرفت ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے ۱۲۰۰ سال میں نشیب و فراز تو بہت آئے ‘ لیکن بے کسی و محکومی کا یہ سانحہ کبھی پیش نہیں آیا۔
دوسری چیز یہ کہ‘ پہلی صدی سے ہم نے جو ادارے قائم کیے تھے‘ وہ ایک ایک کر کے تباہ ہو گئے۔ بغدادکے پہلے سقوط کے بعد ہماری سیاسی قوت کو شکست ہوئی تھی‘ لیکن ہماری ایمانی اور تہذیبی اور اخلاقی قوت نے اس کو دوبارہ حاصل کیا اور اقبال نے اسی مناسبت سے فرمایا: ؎
سبق ملا ہے یہ تاتار کے فسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ہماری تاریخ میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ مغربی سامراج نے گذشتہ ۲۰۰برسوں کے دوران سیاسی قوت اور فوجی برتری حاصل کرنے کے ساتھ‘ ان اداروں کو تباہ ہی نہیں کیا‘ بلکہ ان کی جگہ متبادل ادارے مسلط (impose) بھی کیے۔ لے دے کر ۲۰۰ سال میں مجروح اور مضمحل شکل میں اگر کوئی چیز باقی رہی تو وہ تین ادارے تھے: مسجد‘ مدرسہ اور گھر۔ انھوں نے اس پورے زمانے میں ہم کو سنبھالا ہے۔ یہ بھی اپنی اصل شکل میں نہیں رہے‘ بلکہ مضمحل اور مجروح شکل میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن باقی سارے ادارے ہمارے ہاتھ سے نکل گئے!
پھر تیسرا سانحہ یہ ہوا کہ اس زمانے میں ایک نئی قیادت اُبھری۔ یہ قیادت بظاہر مسلمانوں میں سے اُبھاری گئی اور صرف سیاسی میدان میں نہیں‘ بلکہ ہر شعبے میں فکری‘ معاشی اور سیاسی سطح پر یہ قیادت‘ حکمران قوت کے طور پر تیار کر کے مسلط کر دی گئی۔ جو شکل اور نام سے مسلم دنیا کا حصہ دکھائی دیتی ہے‘ مگر ذہن‘ کردار‘ فکر اور مفادات کے حوالے سے مغربی استعمار کی نسل در نسل آلۂ کار بن کر خدمات انجام دیتی نظر آتی ہے۔ یہی قیادت اُمت مسلمہ کو ٹکڑیوں میں توڑنے اور غلامی و بربادی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔
پچھلے ۵۰ سال میں ۵۶ مسلمان آزاد ملک وجودمیں آئے ہیں۔ معاشی اعتبار سے بھی توازن میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوت پر ہماری گرفت‘ اداروں کی تباہی اور استعماریت کی کاسہ لیس قیادت کی معزولی میں ناکامی ہمارے بحران کے تین بڑے محورہیں۔
اللہ کی رحمتیں ہوں‘ ان انسانوں پر جنھوں نے دینی پس منظر میں بھی اور سیاسی پس منظر میں بھی‘ اس زمانے میں مسلمانوں میں بیداری کی تحریکوں کو جنم دیا۔ جمال الدین افغانی‘ پرنس حلیم پاشا‘ علامہ محمد اقبال‘مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی محمد عبدہ‘ امیرشکیب ارسلان‘ رشید رضا‘ امام حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘ مالک بن نبی رحمہم اللہ الاجمعین روشنی کے وہ مینار ہیں جنھوں نے دو صدیوں کی تاریکی کو چھاننے کا مشکل کام انجام دیا اور نئی راہیں کھول دیں۔بظاہر مایوس کن منظرنامہ ہونے کے باوجود مجھے امکانات نظر آرہے ہیں‘ لیکن ابھی منزل بہت دُور ہے‘ مسائل گمبھیرہیں اور ہمیں اپنے آپ کو اس ہمہ گیر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔
اس وقت بغداد کا سقوط ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ آمریت کا نظام کبھی استحکام نہیں دے سکتا۔ اس کے استحکام کے دعوے بڑے بودے اور بڑے دھوکا دینے والے ہوتے ہیں۔ آمریت کے علم بردار لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے استحکام دے دیا ہے‘ لیکن وہ استحکام چشمِ زدن میں زمین بوس ہو جاتا ہے۔ دراصل استحکام وہی ہے جو اعتماد‘ مشاورت‘ محبت‘ تعاون اور باہم شراکت کی بنیاد پر ہو اور جس کا انحصار افراد نہیں قوم اور اس کے اداروں پر ہو۔ پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ ہر وہ فوج جو فنی مہارت پر مشتمل فوج کے دائرے سے نکل کرسیاسی قوتوں کی آلہ کار بنی ‘ خواہ وہ ۱۹۶۷ء میں مصر کی فوج ہو‘ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی فوج ہو‘ یا ۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء میں عراق کی فوج--- اس فوج نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔ عوام ہی نے بری بھلی مزاحمت کی ہے۔
وہ تمام اندازے‘ خواہشات‘ توقعات اور پروپیگنڈا جو استعماری قوتیں اپنے میڈیا کی طاقت کے زور پر کرا رہی تھیں ان میں کوئی اندازہ پورا نہیں ہوا۔ سبھی نے صدام حسین کے علامتی بت کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھا ‘کہ ۵۰ لاکھ کے شہر میں ۱۵۰ سے زیادہ افراد دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ لیکن وہ فوج کہاں گئی جس کی طرف سے مزاحمت کی بات کی گئی تھی۔ اگرچہ فوجی قوت اور ٹکنالوجی کے مابین کوئی مقابلہ نہیں تھا ‘ لیکن تاریخ میں اس سے پہلے بھی قوت میں عدمِ توازن کے ساتھ مقابلے ہوئے ہیں‘ بے جگری سے ہوئے ہیں اور وہ مقابلے سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں۔ کیا اسی عراق کی سرزمین پر شہید کربلا کا مقابلہ تاریخ کا حصہ اور تاریخ سازی کا عنوان نہیں؟ لیکن یاد رکھیے وہ فوج لڑنے کے لائق نہیں رہتی جو کسی ایک شخص کی وفاداری کے لیے اپنی قوتیں وقف کردے‘ جسے سیاست میں ملوث کیا جائے‘ جو اپنے لوگوں کو دھوکا دینے‘ اور ان کے اُوپر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کی جائے۔ ایسا عمل خود‘ فوج اور قوم دونوں کے لیے ایک بڑے خطرے کا پیغام ہے۔ اگر ہم آج بھی کوئی سبق نہیں سیکھتے تو پھر معلوم نہیں کون سی چیز ہماری آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بنے گی؟ اور کتنے زلزلے‘ کتنی قیامتیں برپا ہوں گی کہ جن سے آنکھیں کھلیں گی اور ضمیر بیدار ہوں گے۔
اس المیے کی کتنی ہی تہہ در تہہ پرتیں ہیں۔ چند ایک تو آشکارا ہوئی ہیں‘ اور بہت سی پرتیں وقت کا تندوتیز دھارا کھول کر رکھ دے گا۔ امریکہ کی قیادت میں‘ استعمار کی بدترین یلغار اور عراق کے بے بس مسلمانوں کی حسرت ناک موت و حیات‘ وہ دو انتہائیں ہیں ‘ جنھیں دیکھنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ ڈارون ازم کی فکری بنیادوں پر اُٹھنے والی مغربی تہذیب کا بے رحمانہ طوفان دیکھ کر‘ علامہ اقبال نے خواب دیکھا تھا ع
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہاے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
کیا واقعی بحیثیت مسلمان ہم اس خواب کی تعبیر پیش کرنے کے لیے کوئی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے مقتدر طبقے‘ مذہبی قیادتیں‘ اہل قرطاس و قلم اور اساتذہ کرام‘ اس طوفانِ مغرب بلکہ عذابِ مغرب کی طوفان خیزیوںکو محسوس کر رہے ہیں۔ اگر واقعی ان میں یہ احساس پیدا ہوا ہے تو یہ نقصانِ عظیم‘ فلاح و کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے اور گذشتہ ۳۰۰برس سے مسلمان جس عبرت کدے کی مجبور پتلیاں بنے ہوئے ہیں‘ اسے پیغامِ حق کا مرکز ثقل بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یہ سب کچھ کسی خوف ناک فلم کے دہشت انگیز منظر کی طرح ذہن کی اسکرین سے محو ہو جانے کا ایک عام واقعہ ہی ہے تو پھر اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھے بغیر چارہ نہیں۔
ایک کے بعد دوسرے کی باری ضروری نہیں کہ ڈرٹی بموں اور میزائلوں یا نیپام بموں کی بارش کی صورت ہی میں سامنے آئے ‘ بلکہ ان کے بغیر بھی وہ سب کچھ ہو سکتا ہے کہ ایک رات قوم سو کر اُٹھے‘ تو اس کے حکمران‘ محض جدید فرعون و نمرود کی خوشنودی پر پھولے نہ سمائے ہوئے قوم کے مستقبل کا سودا کر دیں‘ اور وہ بے بس لوگ تڑپ بھی نہ سکیں۔ کل ایسا ہوا ہے اور آنے والے کل میں ایسا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غداری اور بے وفائی کے ان مقامی کٹھ پتلیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کون کیا کردار ادا کرے گا؟
۱- جن مسلم ممالک میں اسلام کو محض اپنے اقتدار کی مدت دراز کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ وہاں اسلام کا سایہ انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
۲- پروپیگنڈے کے زور پر‘ خود کو دھوکا دیا جا سکتا ہے لیکن قضا کو نہیں ٹالا جا سکتا۔
۳- ایمان کی دولت اور آخرت میں کامیابی کی خوشبو سے کٹے ہوئے مسلم معاشرے کبھی کامرانی حاصل نہیں کر سکتے۔
۴- قدرت کے خزانوں کو تعیش اور بے کار کی مہم جوئی پر صرف کرنے سے انسان خود اپنی نفی کرتا ہے‘ اور آخرکار عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔
۵- تعلیمی و تحقیقی دنیا کو روایتی سست روی کا نشان بنانے سے کبھی حریت اور آزادی کے پرچم نہیں لہلہایا کرتے۔
۶- اسلام کا سب سے بڑا موضوع انسان ہے۔ اسلام کا انسانِ مطلوب تیار کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو پھر وہی ہوتا ہے ‘ جو مظلوم اہل عراق کے ساتھ اُن لٹیرے ہم وطنوں نے کیا۔ کیا یہ لوگ اَن پڑھ تھے‘ کیا یہ جدید روشنی سے بے خبر تھے‘ مگر انھیں کیا ہوگیا کہ اپنے ہی بے بس و بے کس لوگوں کے گھروں کو لشکروں کی صورت میں لوٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ اصل انقلاب سڑکوں‘ ڈیموں‘ بموں اور بڑے ایئرپورٹوں کی تعمیر سے نہیںرونما ہوتا‘ بلکہ انسان کے اندر حیوانی جبلت کو اشرف المخلوقات اور ایک ذمہ دار ہستی کے قالب میں ڈھالنے سے روپذیر ہوتا ہے۔
۷- حکمرانوں کے ظلم پر خاموش رہنے والے حکمران ہی نہیں‘ بلکہ گونگے بہرے معاشرے‘ قانون الٰہی کے تحت خود ظالم کے طرف دار اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔
۸- آج بھی اگر مسلم دنیا بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص ان امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ‘ نئے سرے سے اپنے معاملات اور عوام کے تعلقاتِ کار کو درست نہیں کرتے ‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ قومِ یہود کی عبرت انگیزیوں سے فرار کا کوئی راستہ مل سکے۔
اس موقع پر ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران‘ بلکہ حکمرانی کے سرچشموں پر قابض رہنے پر مصر پاکستانی پینٹاگون کے چند ’’راج دلاروں‘‘ کو عبرت کے چوراہوں پر گھسٹنے سے پہلے توبہ کر کے اپنی اصل جگہ چلے جانا چاہیے۔ قدرتِ حق کی جانب سے عبرت کے یہ چابک کبھی تاتاروں سے‘ کبھی یہودیوں سے‘ کبھی ہندو مہاشوں کے ہاتھوں اور اب مسیحی جنگ بازوں کے ذریعے‘ جسدِملّی پر پڑے ہیں۔ کیا ایسا انجام دیکھنے کے باوجود ‘ اپنوں کو محکوم بنانے کا نشۂ قوت ابھی تک ہرن نہیں ہوا؟
] آرمڈ [ سروسز سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تعلیم یافتہ لوگ ہیں‘ دین کی نہیں تو کم از کم دنیا کی سمجھ رکھنے کا تو آپ کو بڑا دعویٰ ہے۔ خدارا‘ کبھی اس بات پر غور کریں کہ جن انگریزوں سے آپ نے تعلیم اور حکمرانی کی تربیت پائی ہے‘ ان کی سروسز کے اخلاق و کردار کے مقابلے میں آپ کس قدر گھٹیا اور قابلِ شرم کردارپیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی قوم‘ اور اس کے آئین اور اس کی پارلیمنٹ کے وفادار تھے۔ اس کا مظاہرہ ایک دو دن نہیں‘ پورے ۱۹۰ سال انھوں نے آپ کی اسی سرزمین میں کر کے دکھا دیا… جب ان کی پارلیمنٹ نے آئینی طریقے سے اتنی بڑی سلطنت سے دست بردار ہو جانے کا فیصلہ کر لیا تو ان کی سول سروس نے بھی‘ اور ان کی فوج نے بھی پورے ڈسپلن کے ساتھ اس فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ ایک انگریز افسر بھی ایسا نہ تھا جو اَڑ کر بیٹھ گیا ہو‘ اور اس نے کہا ہو کہ میں لڑے بغیر اتنی بڑی سلطنت ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مگر آپ نے دنیا بھر کو یہ دکھا دیا کہ آپ کے اندر نہ قوم کی وفاداری ہے‘ نہ اس کے آئین کی‘ نہ اس کی پارلیمنٹ کی۔ آپ نے ہر موقع پر ان اشخاص کا ساتھ دیا ہے جنھوں نے آئین کو توڑ کر‘ قوم کی مرضی کو نظراندازکرکے‘ اور پارلیمنٹ کو پاے استحقار سے ٹھکرا کر‘ یہاں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ہر آزمایش کے موقع پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ کو قانون کی حکمرانی کے اصول کی ہوا تک نہیں لگی ہے۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلسہ عام سے خطاب‘ لاہور‘ ۲۵مئی ۱۹۶۸ئ)
اپنی قوم کے لوگوں سے مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ اپنی آزادی کی حفاظت اس وقت تک قطعاً نہیں کرسکتے ‘جب تک آپ کے اندر یہ مضبوط اور غیرمتزلزل قومی ارادہ پیدا نہ ہو جائے کہ آپ اپنے افراد کو‘ اور اپنے ] سول اور فوجی [ ملازمین کو اپنی اجتماعی مرضی کے تابع بنا کر چھوڑیں گے۔ کسی کو اس سے منحرف نہ ہونے دیں گے۔ آپ کے ملک میں آپ کی اپنی ہی پسند کا آئین چلے گا۔ کسی شخص یا گروہ یا طبقے کے بنائے ہوئے آئین کو آپ ہرگز نہ مانیں گے‘ اور جو آئین آپ کی مرضی سے بنے اس کی پیروی اس سرزمین میں ہر شخص کو کرنی پڑے گی‘ اور اس سے انحراف کرنے والے کے ساتھ آپ قطعاًکوئی رعایت‘ کوئی مداہنت اور کوئی مصالحت نہ کریں گے۔ یہ عزم اور یہ ارادہ آپ کے اندر پیدا نہ ہوا توآئے دن کوئی نہ کوئی طاقت ور آپ پر مسلط ہوتا رہے گا اور آپ کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے ایک گلے کے سوا کچھ نہ ہوگی‘ جسے ہر لاٹھی والا جدھر چاہے ہانک کر لے جا سکے گا۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ تحریک جمہوریت: اسباب اور مقاصد‘ ۱۹۶۸ئ‘ ص ۸۷)
عالِم کی موت عالَم کی موت کے مترادف ہے۔ موۃ العالِم موۃ العالَم، محض عربی زبان کا ایک مقولہ ہی نہیں انسانی زندگی کی ایک بڑی بنیادی حقیقت کا اعتراف اور اعلان ہے۔ زندگی صرف ہوا اور پانی کا نام نہیں‘ اس کا اصل جوہر علم کی روشنی ہے اور اہل علم میں سے کسی ایک چراغ کا بجھ جانا بھی انسانیت کے لیے بڑے خسارے کا معاملہ ہے چہ جائیکہ ایک بقعۂ نورسے محروم ہو جانا---! بلاشبہہ شیخ القرآن والحدیث مولانا گوہر رحمن کا ہمارے درمیان سے رخصت ہوجانا علمی دنیا کا ایک ناقابلِ تلافی خسارہ ہے اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے علمی اور نظریاتی حلقے میں تو ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جسے برسوں محسوس کیا جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محترم مولانا مودودیؒ اور جناب ملک غلام علیؒ کے اٹھ جانے کے بعد جس شخص نے ہر علمی محاذ پر تحقیق اور تفقہ کے جوہر دکھائے اور اپنا لوہا منوایا وہ مولانا گوہر رحمن ہی تھے اور ان کے انتقال سے ایسا لگتا ہے جیسے ع
مولانا گوہررحمن مرحوم سے ملاقاتوں اور بحث و استفادہ کا سلسلہ ۱۹۶۳ء میں ان کے مرکزی مجلس شوریٰ میں آنے سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن زیادہ قریبی تعلق ۱۹۸۵ء میں ان کے قومی اسمبلی میں انتخاب سے بنا۔ شوریٰ کے اولین دور میں وہ نسبتاً کم گو تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا contribution بڑھتا گیا اور ہر میدان میں--- علمی‘ تنظیمی‘ دعوتی اور احتسابی--- انھوں نے اپنا منفرد مقام بنالیا۔گذشتہ ۲۰‘ ۲۵ سال میں مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے‘ گھنٹوں ان سے بحث و گفتگو کرنے اور ان کی تحریروں کو بغور پڑھنے کا موقع ملا اور تعلق خاطر گہرے سے گہرا ہوتاچلا گیا۔ اس زمانے میں ان سے ہر ملاقات حتیٰ کہ ہر اختلاف کے بعد ان کی عظمت کا نقش اور بھی تابندہ ہوتا رہا۔ مولانا کے تبحرعلمی اور عظمت کردار دونوں نے ان کا گرویدہ بنا لیا۔ نصف صدی کے اس دریچے میں جتنا بھی دیکھتا ہوں ان کی علمی عظمت‘ اخلاقی وجاہت‘ تحریکی معاملات میں فہم و فراست اور دینی حمیت ہی کے نقوش نظر آتے ہیں۔ کچھ معاملات میں مولانا کے مزاج میں سختی بھی تھی لیکن اس کا تعلق ان کی ذات سے نہیں‘ دین اور تحریک کے مفاد اور اس کے مزاج کے تحفظ کے جذبے سے تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کے احکام کے بارے میں ان کی بے لاگ وفاداری کا غماض تھا۔ وہ ہمارے دور میں سلف کا نمونہ تھے اور تحریک کا قیمتی سرمایہ۔ ان کی تنقید اور ان کا احتساب ان کے علمی افادات سے کچھ کم ہماری متاع نہ تھے۔
مولانا گوہر رحمن ایک غریب مگر صاحب ِ علم دینی گھرانے میں مانسہرہ کے ایک چھوٹے سے گائوں (چمراسی درہ شنگلی) میں ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے۔ والد محترم مولوی شریف اللہ کے انتقال کے بعد‘ جو آبائی گائوں سے کوئی ۱۰ میل دُور کوبائی نام کے ایک گائوں میں امام تھے‘ عالم طفولیت ہی میں والدہ‘ ایک بھائی اور تین بہنوں کے ساتھ‘ دنیوی سہارے سے محروم ہو کر‘ ننھیال منتقل ہو گئے اور بڑی عسرت کی زندگی گزاری۔ ماں کی محبت اور محنت سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا‘ پرائمری تعلیم کے بعددینی تعلیم حاصل کی اور ۱۵ سال کی عمر میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کر لی۔ اس زمانے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’کھانا تو مسجد میں کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتا تھا اگرچہ ہشت نگر کے گائوں شیخوتروسردھڑی کے دورانِ قیام میں بعض اوقات ہفتوں تک دن کا فاقہ کرنا پڑتا تھا لیکن کپڑوں اور جوتوں کے لیے اسباق کے اوقات کے بعد مزدوری کرتا تھا‘‘۔
ایسی پُرمشقت زندگی کے باوجود انھوں نے حصولِ علم میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا اور ۱۹۵۱ء میں تحصیل صوابی کی ایک مسجد میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔ پھر مولانا غلام اللہ خان مرحوم کے دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی اور دارالعلوم سلفیہ فیصل آباد میں مختصر مدت کے لیے درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد بالآخر مولانا غلام حقانی امیرجماعت اسلامی صوبہ سرحد کے مشورے سے ۱۹۶۷ء میں دارالعلوم تفہیم القرآن کی بنیاد ڈالی جو مولانا گوہر رحمن کی مسلسل محنت‘اللہ تعالیٰ کے فضل اور ساتھیوں کی تائید و معاونت سے آج صوبہ سرحد کی ایک عظیم جامعہ کا مقام حاصل کرچکی ہے۔ اس سے ہزاروں طلبا دین کا علم حاصل کر کے ملک ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ دارالعلوم تفہیم القرآن آج ایک منفرد تعلیمی ادارہ ہے جس میں مخلص اور صاحب ِ نظر اہل علم جمع ہیں اور جو قدیم کے ساتھ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔
مولانا گوہر رحمن کا جماعت اسلامی سے تعلق ۱۹۵۲ء میں قائم ہوا اور رکنیت کا رشتہ ۱۹۶۳ء میں استوار ہوا جس کے بعد وہ تحریک میں اہم سے اہم تر ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ وہ ۱۹۶۳ء سے وفات تک مرکزی شوریٰ کے رکن رہے‘ کئی کمیٹیوں کے سربراہ بنے، ۱۲‘ ۱۳ سال صوبہ سرحد کے امیر رہے‘ جمعیت اتحادالعلما کے سرپرست اعلیٰ منتخب ہوئے اور ۱۹۸۷ء سے رابطہ المدارس کے صدر رہے۔ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۸ء تک مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے شریعت بل (مئی ۱۹۸۵ئ) کا مسودہ اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز بل کے طور پر پیش کیا جو سینیٹ میں شریعت بل کی بنیاد بنا۔ ملک میں نفاذِ شریعت کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مولانا گوہر رحمن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا۔
فکری اعتبار سے مولانا مرحوم اپنے کو دیوبندی مکتب ِ فکر کا حصہ سمجھتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے پورے علمی ورثے کے وارث تھے۔ طالب علمی ہی کے دور میں شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب تقویۃ الایمان سے متاثر ہوئے۔ امام ابن تیمیہؒ، امام ابن قیمؒ اور شاہ ولیؒ اللہ کی فکر میں رچ بس گئے۔ مولانا مودودیؒ کی کتاب الجہاد فی الاسلام، ان کو مولانا کے حلقے میں لے آئی اور وہ تحریک کی فکر کے صاحب ِ نظر ترجمان بن گئے۔ فقہ حنفی سے خصوصی نسبت کے باوجود ان کے خیالات میں بڑی وسعت تھی اور خود ایک مقام پر کہتے ہیں کہ ’’ذہن میں بحمدللہ جموداور گروہی عصبیت نہیں ہے‘‘۔ امام عبدالوہاب شعرانی ؒ کے مکاشفے نے جو انھوں نے اپنی کتاب المیزان الکبریٰ میں نقل فرمایا ہے‘ ذہن وفکر کی وسعت کو اور بڑھا دیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ علم رسولؐ کی مثال ایک بڑے اور وسیع حوض کی ہے جس کے چاروں طرف نالیاں ہیں اور ہر ایک میں اس کی وسعت کے مطابق حوض کا پانی بہہ رہا ہے۔ مگرایک بڑی نالی ہے جس میں سب سے زیادہ پانی بہہ رہاہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ بڑی نالی امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے اور باقی نالیاں دوسرے ائمہ کی فقہ ہے‘‘۔
مولانا گوہر رحمن نے دورۂ تفسیرقرآن کی روایت ۱۹۶۷ء سے قائم کی۔ پہلے‘ سال میں دو بار پورے قرآن کی تفسیر بیان فرماتے تھے۔پھر تحریکی ذمہ داریوں کی وجہ سے اسے سال میں ایک بار کر دیا۔ منصورہ میں ۱۰ سال ۱۵ شعبان سے ۲۷ رمضان تک ڈیڑھ مہینے میں ہر سال سیکڑوں مرد و خواتین کو مکمل قرآن کا درس دیا ۔ درس کا یہ سلسلہ روزانہ ۸ سے ۱۰ گھنٹے چلتا تھا جو محض روایتی درس قرآن نہ تھا بلکہ قرآن کے پیغام و معانی کے ساتھ عصری مسائل و معاملات پر ان تعلیمات کے اطلاق اور قرآن کی روشنی میں مطلوبہ انسان اور معاشرے کے قیام تک کے مباحث پر محیط ہوتا اورایمان‘ علم‘اخلاق اور تحریکیت‘ ہر ایک کو جلا بخشنے کا ذریعہ بنتا تھا۔
توحید اور اسلامی سیاست کے موضوع پر انھوں نے بڑی معرکہ آرا کتابیں تحریر کی ہیں جو اہل علم کے لیے ایک مدت تک سرمایۂ جان رہیں گی۔ ان کے مقالات اور وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں ریفرنسوں کا مجموعہ تفہیم المسائل کے عنوان سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے جو بیک وقت مولانا مودودیؒ کی تفہیمات اور رسائل و مسائل کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اپنے اپنے موضوع پر ہر تحریر معرکے کی چیز ہے۔ سود‘ اسلامی ریاست میں شوریٰ کا مقام‘ اسلام اور جمہوریت کے تعلق کی صحیح نوعیت‘ جدید اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کے وجود اور کردار کا مسئلہ‘ اقامت ِ دین کا حقیقی مفہوم اور غلبۂ دین کی جدوجہد کی اصل حیثیت وہ موضوعات جن پر مولانا نے صرف دادِ تحقیق ہی نہیں دی بلکہ بالغ نظری سے جدید حالات کو سامنے رکھ کر دین کے احکام کی تشریح کی ہے اور تطبیق کے میدان میں اجتہادی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جدید میڈیکل مسائل کے بارے میں بھی ان کی تحقیق روایت اور جدت کا امتزاج ہے۔ وہ جدید دور کے تقاضوں کا کھلے دل سے ادراک کرتے مگر روایت کے فریم ورک میں ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی رائے سے کہیں کہیں پورے ادب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی رائے کے وزن اور علمی ثقاہت کے بارے میں دو رائے ممکن نہیں۔ میں نے اسلامی سیاست کے طرز پر ’’اسلامی معیشت‘‘ پر لکھنے کے لیے ان سے بار بار درخواست کی لیکن بدقسمتی سے اس موضوع پر انھیں مربوط کتاب لکھنے کی مہلت نہ ملی۔ اگرچہ سود کی بحثوں میں معاشی معاملات پر انھوں نے اپنی جچی تلی آرا کا اظہار کیا ہے۔
مولانا گوہر رحمن بڑی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دلیل کو سننے اور اس پر غور کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے‘ گو اپنی رائے پر دلیل کی بنیاد پر ہی قائم رہتے تھے۔ اجتماعی زندگی کے مسائل کے سلسلے میں افہام و تفہیم کے لیے آمادہ رہتے لیکن جدید کے ادراک کے باوصف اپنے کردار کو قدیم اور روایت ہی کی ترجمانی قرار دیتے۔ دعوت کے میدان میں بے حد سرگرم اور اَن تھک محنت کے عادی تھے۔ علم کا ایک بحربے کراں تھے اور الحمدللہ استحضار علمی کے باب میں منفرد تھے۔ بات منطقی ترتیب سے پیش کرتے اوردین کے معاملے میں کبھی مداہنت سے کام نہ لیتے۔ احتساب کے باب میں بھی ان کی گرفت مضبوط اور بے لاگ ہوتی۔ تدبیر کے معاملات میں اختلاف بھی پوری قوت سے کرتے اور پھر جو فیصلہ ہو جائے اس پر دیانت داری سے عمل کرتے‘ البتہ جس چیز کو شریعت کے باب میں راہ صواب کے مطابق نہ پاتے اس پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے لیکن شریعت کے دائرے میں جو حل نکلتا اسے خوش دلی سے قبول کر لیتے۔ اپنے اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات پر اثرانداز نہ ہونے دیتے جو ان کے کردار کی عظمت کی نشانی ہے۔
مجھے مولانا گوہر رحمن سے متعدد امور پر علمی استفادے کا موقع ملا اور میں نے ان کو ہمیشہ ایک روشن دماغ صاحب ِ علم پایا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن سے استفادہ بھی ایک سعادت تھی اور اختلاف بھی ایک درس کا درجہ رکھتا تھا۔ تحریکی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا جس میں مولانا شدید اضطراب کا شکار تھے۔ کچھ چیزوں پر انھیں شدید عدمِ اطمینان تھا لیکن اس کے ساتھ تحریک سے وفاداری اور تعلق کے متاثر نہ ہونے دینے کی خواہش بھی تھی۔ ایک بہت ہی نازک مرحلے پر میں نے اور محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب نے مردان کا سفر صرف اس لیے کیا کہ مولانا کے نقطۂ نظر کو سمجھیں اور اختلاف کے باوجود تحریک سے تعلق کی استواری میں کمی نہ آنے کی درخواست کریں۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اجرعظیم دے کہ اپنے انقباض کے باوجود ہماری اور دوسرے احباب کی کوششوں سے‘ اور سب سے بڑھ کر اللہ کے فضل و کرم سے‘ وہ اس دور سے جلد نکل آئے اور پھر اس کا کوئی سایہ ان کے تحریکی کردار پر باقی نہ رہا۔ جزاھم اللّٰہ خیرالجزائ۔
وہ کئی سال سے بیمار تھے۔ قوتِ کار برابر کم ہو رہی تھی۔ کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے تھے لیکن ان کے عزم اور شوقِ کار میں کوئی کمی نہ آئی۔ اپنی زندگی کے شوریٰ کے آخری اجلاس میں بھی شریک تھے اورکھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور اپنے خیالات کا اظہار اسی شان سے اور دلیل اور جرأت سے کیا جو اُن کا شعار تھا۔ زیربحث موضوع پر اپنی جچی تلی رائے کا اظہار دلائل کے ساتھ اور نکات کی تعداد کے تعین کے ساتھ کیا۔ البتہ ان کی نقاہت اور آواز کے گلوگیر ہوجانے سے دل کودھچکا لگا اور ان کے لیے صحت اور درازیٔ عمر کی دعا کی۔ آخری ملاقات ان کے لائق فرزند ڈاکٹر عطاء الرحمن کی پارلیمانی لاج کی قیام گاہ پر جنوری کے مہینے میں ہوئی۔ کیا خبر تھی کہ اس کے بعد ان سے ملنے کی سعادت حاصل نہ ہوگی اور ۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو ان کے انتقال کی خبر ملے گی--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی گراں قدر خدمات کو قبول فرمائے‘ جو چراغ انھوں نے روشن کیے ہیں وہ تادیر روشن رہیں۔ ان کی کتب‘ ان کے خطبات‘ ان کے تیار کردہ انسان‘ اُس مشن کے فروغ کا ذریعہ بنیں جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے اعلیٰ مدارج میں جگہ دے اور ان کو اپنے مقرب بندوں کی معیت عطا فرمائے اور اس اُمت پر اپنا کرم جاری رکھے اور جو جگہ خالی ہوئی ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے۔ ان کے اُٹھ جانے سے اپنی محرومی کا احساس کچھ اور بھی شدید ہوگیا ہے ع
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
مولانا گوہر رحمن کا غم ابھی دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا کہ تحریک کے ایک اولیں خادم اور مثالی کارکن مولانا مصاحب علی کے انتقال (۱۷ اپریل ۲۰۰۳ئ) کی خبر نے غم و الم کو اور بھی گراں بار کر دیا۔ نئی نسل تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو لیکن میں نے تو ان کو اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک کے سرگرم قائدین کی صف میں دیکھا ہے اور جماعت کے اولیں دور کا سراپا ان کے اور ان جیسے تحریکی رہبروں کی زندگی میں دیکھا ہے۔ اپنے جمعیت کے زمانے میں‘ نواب شاہ میں‘ مجھے ان سے ملنے اور ان کی شفقت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ پھر ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کا سب سے اہم حاصل ان کی دعوتی تڑپ اور اصلاحِ احوال کا شوق تھا۔ تحریک سے وفاداری‘ کام کی لگن‘ بے لوث تنقید اور محاسبہ‘ جرأتِ اظہار---کس کس بات کا انسان ذکر کرے۔ ایک طرف ذاتی شفقت اور محبت اور دوسری طرف بڑے سے بڑے انسان پر بھرپور تنقید اور احتساب۔ ان کا خلوص‘ ان کی یکسوئی‘ ان کی اصابت ِرائے‘ ہر ایک کا نقش دل پر مرتسم ہے۔
مولانا مصاحب علی مرحوم ہمارے لیے ایک مثالی کارکن اور ان لوگوں کا ایک نمونہ تھے جن کو سید مودودی کی انقلابی ؒتحریک نے سب سے پہلے متاثر کیا اور جو اس کا ہراول دستہ بنے۔ ان کی زندگی میں دنیا طلبی کا کوئی شائبہ نظر نہ آیا۔ انھوں نے دین‘ دعوت اور تحریک کے لیے اپنے اللہ سے عہد کر کے اپنے کو وقف کر دیا‘ اور پھر آخری لمحے تک انھوں نے اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کیا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج (الاحزاب ۳۳:۲۳)
مولانا مصاحب علی ایک کھاتے پیتے گھرانے کے فرد تھے جو سب کچھ لٹا کر سندھ آئے لیکن تبادلے میں حاصل کی جا سکنے والی جایداد تک کے بارے میں ‘ جو ان کا حق تھا‘کسی کوشش اور تگ و دو سے مجتنب رہے۔ استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور جماعت اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ دعوت ان کی زندگی تھی اور قناعت ان کا شعار۔ اولاد کو بھی اسی راستے کی تعلیم دی اور عزیزی عبدالملک مجاہد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے اور آج کل امریکہ میں سمعی و بصری ادارے سائونڈ وژن کے ذریعے خدمت دین کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی اولاد بھی الحمدللہ دین اور تحریک کی خدمت کے لیے کوشاں ہے۔ مولانا مصاحب علی نے احیاے دین کی جدوجہد اور انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیا اور دنیا سے حتیٰ کہ تحریک سے کسی صلے کی تمنا نہیں کی۔ ان کی سوچ‘ ان کی تگ و دو‘ ان کے اضطراب اور احتساب‘ غرض ہرایک کا محور بس یہی تھا کہ جس چیز کو زندگی کا مشن بنایا ہے اس کے حصول کے لیے سب کچھ تج دیں ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
مولانامصاحب علی ہماری تاریخ کا ایک روشن باب تھے۔ ایک مدت سے صاحب ِ فراش تھے۔ آخری ملاقات ان کے صاحبزادے کے گھر پر پچھلے سال ہوئی۔ زبان بند تھی۔ بار بار بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ مگر جب ہوش آیا اور پہچانا تو بے حد خوش ہوئے۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے ہاتھ سے اشاروں کو بھول نہیں سکتا۔ شفقت کا یہ عالم کہ اس عالم میں بھی بچوں کو تواضع کی ہدایات دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے‘ ان کے درجات کو بلند کرے اور انھیں جنت الفردوس سے نوازے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سپریم کورٹ نے انتخابات اور جمہوریت کی مکمل بحالی کے لیے جنرل پرویز مشرف کو فوجی دخل اندازی کے جواز (validation) کی فراہمی (۱۲ مئی ۲۰۰۰ئ) کے موقع پر تین سال کی جو مہلت دی تھی وہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو گئی۔ قومی اسمبلی نومبر میں‘ صوبائی اسمبلیاں دسمبر میں اور سینیٹ ۱۲ مارچ کو معرضِ وجود میں آیا ۔ اس طرح فوجی اقدام کے ۴۱ ماہ اور سپریم کورٹ کی دی ہوئی مدت کے پانچ ماہ بعد دستور اور اس کے بنیادی ادارے (organs) اللہ اللہ کر کے بحال ہوئے۔ مگر یہ بحالی اس طرح ہوئی ہے کہ صدر کے انتخاب کے لیے دستور نے جو واحد طریقہ متعین کیاہے اس کے برعکس ایک نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعہ جنرل صاحب بزعمِ خود صدر بن گئے اور پھر سپریم کورٹ کے کندھوں پر زبردستی سوار ہو کر اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے کے قطعاً برعکس انھوں نے ایل ایف او کے ذریعے دستور میں ایسی بنیادی ترامیم کا آمرانہ انداز میں اعلان کر ڈالا جس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور کا حلیہ بگڑ گیا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ جو پارلیمانی جمہوریت سے عبارت تھا تہ و بالا ہو گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر اب دعویٰ ہے کہ محض فردِواحد کے فرمان کے ذریعے ایل ایف او آپ سے آپ دستور کا حصہ بن گیا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں جو کش مکش برپا ہے‘ اس کی بنیادی وجہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کی ایک سرتاسر غیرآئینی ‘ غیر جمہوری اور غیراخلاقی پوزیشن کے بارے میں ہٹ دھرمی اور ضد ہے۔
ہم اس امر کا بلاتکلف اعتراف کرتے ہیں کہ ایک فوجی آمریت سے جمہوری نظام کی طرف مراجعت کی اپنی نزاکتیں اور الجھنیں ہیں جن سے بڑی تدبیر اور افہام و تفہیم کے عمل سے ہی نمٹا جا سکتاہے۔ ملک کی تمام ہی سیاسی قوتوں نے تصادم کی جگہ ایک تدریجی اور قانونی طریقے سے جمہوریت کی بحالی کے راستے کو قبول کیا ہے اور اس میں بہت سی ایسی چیزوں کو بھی گوارا کیا ہے جو عام حالات میں روا نہیں رکھی جا سکتی تھیں۔ انتخابات کے انعقاد اور قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے قیام اور مرکز اور صوبوں میں منتخب حکومتوں کے برسرِاقتدارآجانے کے باوجود بحالیِ جمہوریت کا مرحلہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں ملک میں شدید بے چینی ہے اور ملک کے باہر ہمارے عزت و وقار پر تاریک سائے ابھی تک منڈلا رہے ہیں۔
ان حالات میں پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا ہے‘ وہ بہت مناسب اور بروقت ہے اور یہ بھی خوش آیند ہے کہ خاصے پس و پیش اور ردّ و کد کے بعد حزبِ اقتدار نے بھی گفت و شنید کے ذریعے اختلاف کے حل پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دونوں حالات کا تقاضا ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ذاتی مفادات اور حزبی ترجیحات سے بالا ہو کر‘ مذاکرات کے ذریعے دلیل اور اصولوں کی روشنی میں بنیادی اختلافی امور کو طے کریں‘ تاکہ اس طرح ملک حقیقی جمہوری راستے پر گامزن ہو۔ دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی حاکمیت اس ملک کے اور تمام سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وقتی مصلحتوں سے بالا ہو کر اس مسئلے کا حل ضروری ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ لیگل فریم ورک آرڈر اور دستور میں ترمیم کے مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور اصول‘ حق و انصاف اور ملک و ملّت کے مفاد میں اس مسئلے کو دلیل کی بنیاد پر طے کیا جائے۔ محض دھونس اور ہٹ دھرمی حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں‘ اصلاح کا نہیں!
سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۳ء تک کے زمانے کی دستوری اور قانونی حیثیت کو متعین کیا جائے۔ ہمارے ملک میں دستور بننے کے بعد‘ چار بار فوجی حکمرانی کے ادوار آئے ہیں۔ ان میں پہلے دو یعنی جنرل ایوب کا مارشل لا اور جنرل یحییٰ کا مارشل لا جوہری اعتبار سے دوسرے دو یعنی جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور سے مختلف تھے۔ جنرل ایوب نے ۱۹۵۶ء کے دستور کو منسوخ کر دیا اور خود ایک نیا دستور ملک پر مسلط کیا۔ جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کے دستور کو منسوخ کر دیا اور ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے نیا انتخاب کرایا اور ایک نئے نظام کے قیام کی راہ پیدا کی۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس اسمبلی نے بنایا جو جنرل یحییٰ کے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے وجود میں آئی تھی لیکن ۱۹۷۱ء کے سانحے کی روشنی میں اس اسمبلی اور اس وقت کی قیادت نے ایک بڑا دانش مندانہ اقدام کیا اور وہ یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور محض اکثریت کی بنیاد پر مرتب و مدون نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک قومی اتفاق رائے (national concensus) کی دستاویز بنایاگیا۔ اس کی بنیاد قرارداد مقاصد تھی جو تحریک پاکستان کے مقاصد اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی اُمنگوں کی مظہر تھی۔ اس دستور کی تین بنیادیں ہیں یعنی اسلام‘ پارلیمانی نظام اور ریاست کا وفاقی کردار۔ بلاشبہ یہ بھی ایک انسانوں کی تیار کردہ دستاویز ہے اور اس میں تبدیلی اور تجربات کی روشنی میں اصلاح و تغیر کی گنجایش ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کو قوم کے ہر طبقۂ خیال کی تائید حاصل ہے اور جس پر اس ملک کا شیرازہ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور میں‘ اور دونوں مواقع پر سپریم کورٹ کے واضح اعلان کے مطابق ان ادوار میں دستور صرف جزوی طور پر معطل (in abeyance) رہا ہے اور ایمرجنسی اور عبوری دستوری انتظام کے باوجود ۱۹۷۳ء کا دستور ہی بالاتر قانون قرار پایا ہے اور آخرالذکر دونوں ادوار کو ایک قسم کا دستوری انحراف (constitutional deviation) تصور کیا گیا ہے۔ نصرت بھٹوبنام چیف آف آرمی اسٹاف (پی ایل ڈی ۱۹۷۷‘ ایس سی ۶۵۷) میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یہی تھا کہ:
نتیجتاً جو صحیح قانونی صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔
عمل دستور کو اٹھا پھینکنے کے بجائے دستوری انحراف کی نوعیت کا تھا۔
یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔
یہ ایسی صورت نہیں ہے کہ جہاں پرانا قانونی نظام مکمل طور پر دبا دیا گیا ہو یا تباہ کر دیا گیا ہوبلکہ عارضی مدت کے لیے دستوری انحراف کی صورت ہے تاکہ چیف ایگزیکٹو اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل کر سکے۔
سپریم کورٹ نے ان مقاصد کی تحدید بھی واضح الفاظ میں جنرل پرویز مشرف کے ۱۳ اور ۱۷اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بیانات کی صورت میں کر دی۔ نیز یہ وضاحت بھی کر دی کہ اس عبوری دور میں بھی نظامِ حکومت ۱۹۷۳ء کے دستور کے قریب قریب چلایا جائے گا‘ اور اگر کسی مشکل کو رفع کرنے کے لیے کوئی ترمیم دستور میں ضروری سمجھی گئی تو وہ بھی لازماً ایسی ہوگی جو اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہ کرے‘ بنیادی حقوق کو متاثر نہ کرے‘ عدالتوں کے نظام کو کمزور نہ کرے اور فوجی حکومت کے تمام اقدامات اور احکام عدالتی جائزے (judicial review) کے حق کے تابع ہوں۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فوجی حکومت کا دور بھی نہ صرف یہ کہ دستور سے مستغنی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ اسے دستور کے مکمل احیا پر بھی منتج ہونا تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا یہ زمانہ ۱۹۷۳ء کے دستور سے انحراف کے عبوری دور کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی طرف مراجعت کے سوا کوئی دوسری سمت اختیار کرنے کا مجاز نہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور کا ہم ماضی میں بھی جائزہ لے چکے ہیں اور آیندہ بھی اس پر نقدواحتساب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت دستوری مسئلے کے پس منظر میں ہم ان کے تین اقدامات پر توجہ کو مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
پہلی چیز ۳۰ اپریل ۲۰۰۲ء کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے دستور کے طے کردہ طریق کار کے خلاف اور صدر کے لیے دستور کی متعین کردہ شرائط کے علی الرغم‘ قومی اسمبلی کے وجود میں آنے کی تاریخ سے ۵ سال کے لیے صدر بن جانے کا اقدام ہے۔ اول تو جس طرح صدر رفیق تارڑ صاحب کو رخصت کیا گیا اور صدارت پر قبضہ کیا گیا ‘وہ بجائے خود نہایت معیوب تھا لیکن رہی سہی کسر اپریل ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے پوری ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف کی جو کچھ بھی اخلاقی پوزیشن تھی وہ اس طرح پارہ پارہ ہو گئی اور وہ بھی ذاتی اقتدار کے جویا سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ ریفرنڈم میں جس طرح اور جس پیمانے پر دھاندلی کی گئی اس نے ملک کے اور خود ان کے وقار کو خاک میں ملا دیا۔ اس ریفرنڈم کو ملک اور ملک کے باہر ہر کسی نے ایک عظیم فراڈ سمجھا اور جمہوریت کی بحالی کے سفر کے لیے اسے ایک نہایت منفی اقدام قرار دیا۔
ہم اس مرحلے پر ان سوالات میں جانا پسند نہیں کریں گے اور ان کو مناسب وقت پر مناسب فورم میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔
ایسے مشکوک و مشتبہ ریفرنڈم کا تاج پہن کر جنرل پرویز مشرف نے دوسری جسارت یہ کی کہ اپنے تین سالہ دور کے اختتام سے تین ماہ قبل لیگل فریم ورک آرڈر کی شکل میں دستور پر ۲۹ ترامیم کا تیشہ چلا ڈالا جس نے دستور کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ان ترامیم کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو ان کو تین حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے۔ چند چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے مقاصد اور روح سے مطابقت رکھتی ہیں اور مناسب مشورے کے ساتھ انھیں دستور میں ترمیم کے جائز طریقے کے مطابق قبول کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ووٹر کی عمر‘ اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد میں اضافہ جیسی نوعیت کی ترامیم کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ترامیم ایسی ہیں جن پر بحث و گفتگو کے ذریعے اور مناسب رد و بدل کے بعد قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے مگر کچھ نہایت بنیادی چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح سے کلی طور پر متصادم ہیں اور جنھیں کسی صورت میں بھی اپنی موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں بنیادی امور یہ ہیں:
۱- مخلوط انتخاب کا اصول جو نظریہ پاکستان کی ضد ہے۔ اس پر مستزاد ایک طرف اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے مخلوط انتخاب کا اجرا اور دوسری طرف ان کے لیے مخصوص نشستوں کا تعین جو ان کو دوہرا ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ اگر اقلیتیں اپنے جداگانہ تشخص کی قائل ہی نہیں اور مجموعی دھارے سے ہی سیاست میں شرکت کرنا چاہتی ہیں توپھر نشستوں کی تعین کے کیا معنی؟
۲- صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جن کے نتیجے میں پارلیمانی نظام ایک طرح سے صدارتی نظام میں تبدیل ہو گیا ہے اور سیاسی نظام ایک قسم کی ثنویت (diarchy) کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کے اختیارات پر شب خون کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تصادم کا دروازہ کھولنے کا باعث ہوگا۔
۳- پارلیمنٹ اور کابینہ سے بالا ایک نیشنل سیکورٹی کونسل کا قیام جس کا سربراہ صدر ہوگا اور جس میں جوائنٹ چیف آف سٹاف اور تینوں افواج کے سربراہ شریک ہوں گے۔ اسے ہزار مشاورتی ادارہ ہی کہا جائے یہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا واضح راستہ ہے جو افواجِ پاکستان کے دستور میں طے کردہ رول کے منافی اور پارلیمانی نظام کو خاکی نظام میں بدلنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ پھر اس ادارے کو ایک دستوری ادارہ بناکر پارلیمانی نظام کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔
۴- سب سے زیادہ خطرناک تجویز جنرل پرویز مشرف کو بیک وقت صدر اور بری فوج کا سربراہ رکھنا ہے جس سے بحالیِ جمہوریت اور سول حکمرانی کا پورا تصور ہی پراگندا ہو جاتا ہے۔ یہ قانون اور معقولیت ہر دو اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ جس ملک کا سربراہ فوج کا حاضرسروس افسر ہو اسے جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ دستور فوج کے ہر افسر سے یہ حلف لیتاہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہیں ہوگا۔ صدر دستور کی حفاظت اور اطاعت کا حلف لیتا ہے اور صرف سیاست ہی اس کا کیریر ہوتا ہے اور چیف آف اسٹاف کے لیے سیاست میں آنا ایک دستوری جرم ہے۔ دونوں ساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ پھر یہ فوج کے ساتھ بھی زیادتی ہے جسے ایک ہمہ وقتی سربراہ کی ضرورت ہے۔ نیز فوج کا سربراہ تین سال کے لیے مقرر ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے تین سال ۲۰۰۱ء میں پورے کرچکے ہیں‘ خود ہی اپنی مدت میں غیرمعینہ اضافہ کرچکے ہیں اور اب صدر اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے مزید پانچ سال تک فوجی وردی اور صدارت کی خلعت دونوں کو زیب تن کرنے پر مصر ہیں۔ پھر مسلح افواج کے درمیان‘ جو تین افواج سے عبارت ہے‘ یہ امتیازی رجحان کو پرورش دینے کا ذریعہ ہوگی۔ تینوں افواج کے سربراہ صدر مملکت کے ماتحت ہیں جو سپریم کمانڈر ہے۔ اس انتظام میں بری فوج کے سربراہ کو ایک ایسی فوقیت حاصل ہو جاتی ہے جو دفاعی نظام کے لیے کسی اعتبار سے بھی مفید قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ بری فوج کا سربراہ‘ صدر‘ وزیردفاع اور سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہے اور گریڈ ۲۲ کے افسرکے برابر ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف بحیثیت صدر‘وزیر دفاع اور سیکرٹری دفاع کے اعلیٰ افسر ہیں اور بحیثیت بری فوج کے سربراہ ان کے ماتحت اور ان کے سامنے جواب دہ ہیں۔تعجب ہے کہ وہ اس کی غیرمعقولیت کو محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں؟
بنیادی اور مرکزی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ بحیثیت صدر مملکت وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جو صدر‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور صدر کا حلقہ انتخاب قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ بحیثیت صدر ان کا حلقہ یہ سیاسی ادارے ہیں۔ جب کہ بری فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا ابتدائی حلقہ فوج بن جاتی ہے۔ وہ دو کشتیوں میں سوار رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں ایک حلقے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جناب محمدخان جونیجو نے وزیراعظم بننے کے بعد صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آج پھر یہی مسئلہ درپیش ہے۔ جنرل پرویز مشرف فوجی حکومت اور اس کے دورِاقتدار کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور صدارت اور پارلیمان پر فوج کا سایہ بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔
فوج کا جو مقام ہے وہ سرآنکھوں پر۔ اس کی جو ضروریات ہیں ان کا پورا کرنا قوم اور پارلیمنٹ کا فرض ہے۔ سلامتی کے معاملات میں اس کا مشورہ اور اس کے وژن سے استفادہ بھی ایک قومی ضرورت ہے۔ اور فوج کا ہر سیاسی تنازع سے بالا ہو کر پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور ہونا بھی اس کی دفاعی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب بجا لیکن اس سے آگے بڑھ کر فوجی وردی کے ساتھ صدارت‘ نیشنل سیکورٹی کونسل میں فوجی صدر اور سربراہانِ افواج کی شرکت‘ اور قومی صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جو انتظامیہ کا اصل سربراہ اسے بنادیں‘ یہ پارلیمانی اور جمہوری نظام میں ممکن نہیں۔ یا قومی حکومت ہوگی یا جمہوریت--- فوجی جمہوریت ایک تضاد اور مسلسل فساد کا ذریعہ ہوگی‘ ملک کے لیے خیروفلاح اور دستوری پارلیمانی جمہوریت کی کوئی شکل نہیں ہو سکتی۔
جنرل پرویز مشرف‘ فوج کی قیادت اور پارلیمنٹ تینوں کو اسی بنیادی سوال کا ایمان داری سے جواب دینا ہے اور دونوں میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے۔ ورنہ دستوری حکومت اور اچھی حکومت اور عوام کی بالادستی محض ایک خواب رہیں گے اور قوم اور اربابِ اقتدار میں مسلسل کش مکش اور تصادم کی صورت رہے گی۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کی تیسری جسارت ان کی اور ان کے مشیروں کی دیدہ دلیری کا بھی شاہکار ہے اور وہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ایل ایف او محض ان کے فرمان سے دستور کا آپ سے آپ حصہ بن گیا۔ یہ جسارت توجنرل ضیاء الحق نے بھی نہیں کی تھی۔ انھوں نے بھی اپنے Revival of Constitutional Orderکو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ میں ۳۴ دن بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کی شکل میں اسے منظور کرایا۔
دستوری اعتبار سے اگر ان کی فوجی حکمرانی کا دور صرف ایک دستوری انحراف (constitutional deviation) کا دور ہے اور وہ ایک قانونی نظام کی جگہ دوسرا قانونی نظام نہیں لا رہے (جیساکہ حقیقت ہے‘ جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی واضح ہے) تو پھر دستور کا آپ سے آپ حصہ بن جانے کی بات دراصل دستور کے خلاف ایک کاری وار کی حیثیت رکھتا ہے جو دستور کی دفعہ ۶ کے مطابق دستور کی تخریب (subversion) کے مترادف ہے۔ دستور میں ترمیم صرف دستور کے ترمیم کے طریقے کے مطابق ہی ہو سکتی ہے جو دفعہ ۲۳۸ اور ۲۳۹ میں مرقوم ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا دستوری اور قانونی طریقہ نہیں۔
سپریم کورٹ کے ۱۲ مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے سے جس اختیار کے حاصل کرنے کی بات کی جا رہی ہے‘ اس میں کوئی وزن نہیں۔ سپریم کورٹ خود دستور میں ترمیم نہیں کر سکتی اور جو ادارہ خود قانون سازی کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دوسرے کو یہ حق کیسے دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت واضح ہے۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ اسمبلی اور سینیٹ موجود نہیں ہے جو دستور میں ترمیم کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ ریاست کے نظام کو چلانا ضروری ہے اس لیے نظریہ ضرورت کے تحت اگر دستوری انحراف کے اس دور میں کوئی حقیقی مشکل آتی ہے تو اس کی حد تک فوجی حکمران ترمیم کرسکتا ہے لیکن دستور کے ڈھانچے‘ بنیادی حقوق‘ عدالت کے مقام اور عدالتی جائزے کے اختیار کو ہاتھ لگائے بغیر۔ اور گویہ بات ۱۲ مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے میں نہیں کہی گئی لیکن یہ ایک دستوری مسلمہ ہے اور خود پاکستان کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ خواہ ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے مارشل لا کا دور ہو یا ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دستوری انحراف والی فوجی حکومت کا--- ان تمام ادوار میں جو بھی قوانین لاگو کیے گئے ہیں بحالیِ جمہوریت کے بعد دستور میں ان کو indemnity (تحفظ) دیے بغیر ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ دستور میں دفعہ ۲۶۹‘ ۲۷۰ اور ۲۷۰‘ اے باقاعدہ دستور کی تدوین یا دستور کی ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے جادوگروں نے دستور پر حملہ آور ہو کر بزور شمشیر اپنی ترامیم کو دستور کا حصہ بنانے کی جسارت کی ہے جو دستور کے ساتھ دراز دستی کی شرمناک مثال ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش غلام محمد صاحب نے بھی ۱۹۵۴ء میں کی تھی لیکن فیڈرل کورٹ نے جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں اسے غیرقانونی قرار دیا تھا اور ان کے دستوریہ توڑنے کے اقدام کو سندِجواز فراہم کرنے کے باوجود ان کے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ فردِواحدایک نیا دستوری‘ یا قانونی نظام‘ حتیٰ کہ کوئی بھی نیا قانون ملک پر مسلط کر سکتا ہے۔ یہ صرف دستورساز اسمبلی اور مقننہ کا کام ہے کہ وہ دستور اور قانون کے مطابق قانون سازی کرے۔ اور اگر دستوری انحراف کے دور میں بہ صورت مجبوری اور ضرورت کچھ قانون سازی کی بھی جاتی ہے تو اسے سندِجواز صرف اس وقت مل سکتی ہے جب نئی دستوریہ /مقننہ ان قوانین کو قبول کر کے انھیں تحفظ (indemnity) دے دے۔ یہ قانون کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور فیڈرل کورٹ نے Usif Patel vs. The Crown میں اس اصول کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔
گورنر جنرل دستورساز اسمبلی کے قانون کی منظوری دے سکتا ہے‘ یا روک سکتا ہے لیکن وہ خود دستورساز اسمبلی نہیں ہے اور اس کی غیرموجودگی میں وہ ان اختیارات کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو اسے کبھی حاصل نہ تھے اور نہ اسمبلی کے اختیارات سنبھالنے کا دعویٰ کر سکتا ہے (پی ایل ڈی ۱۹۵۵‘ فیڈرل کورٹ ۳۸۷‘ ص ۳۹۲)۔
حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے تھی کہ ایک دوسرے نمایندہ ادارے کو وجود میں لائے جو دستورساز اسمبلی کے اختیارات استعمال کرے تاکہ تمام بلاجواز قوانین کو نیا ادارہ فوراً جواز دے سکے۔ ایسا طریق کار دستوری روایت کے مطابق ہونا چاہیے جو پیش آمدہ ایسی صورت کے لیے ہے۔
فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے ریفرنس کے جواب میں بھی اسی پوزیشن کو ایک بار پھر واضح کیا اور گورنر جنرل مجبور ہوا کہ نئی دستورساز اسمبلی لائی جائے اور وہ اس دور کے قوانین کو سندِجواز دے۔ جسٹس منیر نے ریفرنس کے جواب میں جو بات کہی اور جس کی فیڈرل کورٹ کے تمام ججوں نے تائید کی وہ یہ ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم صرف جسٹس منیر کی رائے پر اکتفا کرتے ہیں:
That the free exercise of a discretionary or prerogative power at a critical juncture is essential to the executive Government of every civilised country, the indispensable condition being that the exercise of that power is always subject to the legislative authority of parliament, to be exercised ex post facto..........
The emergency legislative power, however, cannot extend to matters which are not the product of the necessity, as for instance changes in the constitution which are not directly referable to the emergency.
کسی نازک بحران میں ہر مہذب ملک میں حکومت کا انتظام چلانے کے لیے صواب دیدی یا خصوصی اختیارات کا آزادانہ استعمال ضروری ہے‘ لیکن اس لازمی شرط کے ساتھ کہ ان اختیارات کا استعمال ہمیشہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارکے مشروط ہوگا جو بعد از وقت استعمال کیا جائے۔… قانون سازی کے ہنگامی اختیار کو ان معاملات تک توسیع نہیں دی جا سکتی جو ضرورت کی پیداوار نہیں‘ مثلاً دستور میں تبدیلیاںجو ہنگامی حالات سے براہِ راست متعلق نہیں۔ (ایضاً‘ ص ۴۸۵-۴۸۶)
عدالت عالیہ کے ان واضح احکامات اور دستور کی دفعہ ۲۶۹-۲۷۰ اور۲۷۰-اے کی روشنی میں ایل ایف او کے خود بخود یا فردِواحد کے فرمان سے دستور کا حصہ بن جانے کا دعویٰ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ جنرل صاحب اور حزبِ اقتدار کے لیے ایک ہی قانونی اور اخلاقی راستہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ انھیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں اس لیے حزبِ اختلاف سے مذاکرات کے ذریعے دستوری ترامیم کا پیکج تیار کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے جو چیزیں قابلِ قبول ہیں انھیں دستور کا حصہ بنا لیں اور جن چیزوں پر اتفاق رائے نہیں ہو سکتا ان سے دست بردار ہو جائیں تاکہ قوم اور پارلیمنٹ کے تصادم سے بچیں اور ملکی مسائل کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔
یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ کے انتخابات ان ترامیم کے تحت ہوئے ہیںاس لیے حزبِ اختلاف نے ایل ایف او کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ بات دستوری اور سیاسی روایات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ جب بھی ایک فوجی نظام سے کوئی ملک اور قوم ایک دستوری اور جمہوری نظام کی طرف مراجعت کرتی ہے تو عبوری دور میں کسی نہ کسی ضابطے اور قاعدے کے مطابق ہی یہ کام ہوتا ہے۔ لیکن جب دستوری ادارے وجود میں آجاتے ہیں تو پھر وہ بعد از وقت (ex post facto) ان اقدامات کو سندِجواز دیتے ہیں۔ محض ان پر عمل سے ان کو جواز نہیں مل جاتا۔
قانون اور سیاسی تجربہ دونوں اس بارے میں بہت واضح ہیں۔ شریعت کے بھی اضطرار کے اصول سے اسی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ مجبوری کے عالم میں ایک حرام چیز بھی استعمال کی جاسکتی ہے لیکن رغبت اور طلب کے بغیر اور صرف حدِ ضرورت تک۔ ضرورت کے ختم ہوتے ہی اس کے استعمال کا جواز ختم ہو جاتا ہے اور مقدار ضرورت و حاجت سے تجاوز ناقابلِ قبول ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌُ رَّحِیْمٌ o (پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیراس کے کہ وہ حدِضرورت سے تجاوز کرے تو یقینا تمھارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ الانعام ۶:۱۴۵)
ہمیں توقع ہے کہ اگر ہمارے اربابِ اقتدار ان گزارشات پر دیانت اور کھلے دل و دماغ سے غور کریں گے تو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے اور پارلیمنٹ کے ذریعے تمام متعلقہ امور پر بحث و گفتگو کے ذریعے قابلِ قبول ترمیمات کے ذریعے دستوری تنازع کا حل نکال لیں گے۔
ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت دستوری مسئلے کے علاوہ پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے دو دوسرے بڑے اہم مسائل ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک ملک کی سیاسی اور معاشی آزادی کا تحفظ اور دنیا میں واحد سوپرپاور کی بالادستی کا جو سامراجی نظام قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے پس منظر میں اپنی آزادی اور حاکمیت کا تحفظ اور ایسی خارجہ پالیسی کی تشکیل جو ہماری اور تمام کمزور اقوام خصوصیت سے مسلم ممالک کی آزادی اور خودمختاری کی ضامن ہو سکے اور دنیا ایک نئے سامراجی دور کے عذاب اور آزمایش سے بچ سکے اور یک قطبی نظام کی جگہ ایک کثیر قطبی نظام (multi polar system) وجود میں آسکے جس میں قانون کی حکمرانی اور انصاف اور برابری کی بنیادوں پر قوموں کے درمیان معاملات طے ہوسکیں۔
دوسرا مسئلہ ملک کے اندرونی مسائل کا ہے جن میں امن و امان‘ جان و مال و آبرو کا تحفظ اور عوام کی معاشی مشکلات اور مسائل کا حل ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے‘ قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ ملکی پیداوار اور پیداآوری دونوں کی حالت غیرتسلی بخش ہے۔
ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی ۲۰۰۲ء کی رپورٹوں کی رو سے ۱۹۸۹ء میں آبادی کا صرف ۱۲ فی صد غربت کی سطح سے نیچے تھا (یعنی ایک ڈالر یومیہ آمدنی) جب کہ یہ تعداد ۱۹۹۷ء میں ۳۱ فی صد ہوگئی اور اب ۲۰۰۱ء میں ۳۸-۳۷ فی صد کے قریب ہے۔ قحط اور فاقہ کشی اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ کچھ علاقوں میں موت اور خودکشی کی نوبت آگئی ہے۔ دولت کی غیرمساوی تقسیم بھی روز افزوں ہے جس سے معاشی ظلم اور بے اطمینانی کا طوفان ہی نہیں اُمنڈ رہا بلکہ معاشرتی اور ثقافتی تصادم کی صورت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ سارے مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی اور اقتدار کو عوام کی خدمت اور ان کی آرزوئوں کے مطابق معاشرے اور معیشت کی تشکیل کے لیے متحرک ہونا ہے۔ ان بیرونی و قدرتی مسائل کے حل کے لیے قومی یک جہتی اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکومت اور سیاسی جماعتیں سب کی آزمایش اس میں ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے کس طرح عہدہ برا ہوتی ہیں۔
سامراجی قوتوں نے ہمیشہ اور دنیا کے ہر حصے میں تعلیم کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ‘اس لیے کہ جسم پر قبضہ تو فوج اور مالی قوت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر دل و دماغ اور فکروخیال کو صرف تعلیم ہی کے ذریعے پابند سلاسل کرنا ممکن ہے۔ استعمار کے جدید دور میں تعلیم کی اس قوت کو سیکولر تہذیب کے علم برداروں نے بھی استعمال کیا ہے اور مغربی تہذیب نے اپنے تمام سیکولر دعاوی کے علی الرغم اسے مذہب اور مشن کی چھتری تلے استعمال کیا ہے۔ عیسائی مشنری تحریک اور ان کے تعلیمی اداروں کا یہ کردار اب تاریخی حقائق اور ناقابل انکار شواہد سے ثابت ہے۔ خود مغربی جامعات میں دسیوں تحقیقی مقالے اس موضوع پر لکھے جا چکے ہیںاور مذہبی اور فکری تحریکوں کی اعلیٰ قیادت بھی اس کے اعتراف پر مجبور ہوئی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں سوئٹزرلینڈ میں شمباسی (Chambasy) کے مقام پر جو کرسچن مسلم مشاورت ہوئی تھی اور جس کے داعی ورلڈ کانگریس آف چرچز جنیوا اور اسلامک فائونڈیشن لسٹر تھے اور خود راقم کو اس کا شریک صدر نشین ہونے کا شرف حاصل ہے‘ اس کے اعلامیے میں اس حقیقت کا اعتراف چوٹی کی عیسائی مشنری قیادت نے ان الفاظ میں کیا تھا:
مسیحی شرکا اپنے مسلمان بھائیوں سے ان زیادتیوں پر ہمدردی کا اعلان کرتے ہیں جو مسلم دنیا کے ساتھ نوآبادکاروں اور ان کے شرکاے جرم کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ کانفرنس آگاہ ہے کہ مسلم عیسائی تعلقات بے اعتمادی‘ شبہات اور خوف سے متاثر ہوئے ہیں۔ اپنی مشترکہ بھلائی کے لیے تعاون کرنے کے بجائے مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے سے اجنبی اور علیحدہ رہے ہیں۔ استعمار کی ایک صدی کے بعد جس کے دوران بہت سی مشنریوں نے جانتے بوجھتے یا لاعلمی میں نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کی خدمت کی‘ مسلمان عیسائیوں سے تعاون میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں جن سے وہ اپنے اُوپر ظلم کرنے والوں کے آلۂ کار کے طور پر لڑے۔ گو کہ ان تعلقات میں نیا ورق اُلٹنے کا وقت یقینا آگیا ہے‘ مسلمان اب بھی قدم اٹھاتے ہوئے رکتے ہیں کیونکہ مسیحی اداروں کے بارے میں ان کے خدشات موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بہت سی مسیحی مشنری خدمات کو آج بھی ناپسندیدہ محرکات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی جہالت ‘ تعلیم‘ صحت‘ ثقافتی اور معاشرتی خدمات کی ضرورت‘ مسلمانوں کے سیاسی بحران اور دبائو‘ ان کی معاشی محتاجی‘ سیاسی تقسیم‘ عمومی کمزوری اور زدپذیری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقدس تبلیغ کے علاوہ دوسرے مقاصد کی خاطرمشنری خدمات انجام دی ہیں‘ یعنی مذہب کی کشش کے علاوہ دوسری وجوہات سے عیسائی آبادی میں اضافہ کرنا۔ ان میں سے بعض خدمات کے بارے میں حال ہی میں معلوم ہونے والی اس بات نے کہ ان کے رابطے بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں سے ہیں‘ پہلے سے موجود خراب صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کانفرنس ان خدمات کے اس طرح کے غلط استعمال کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔ (کانفرنس کی روداد‘ جلد Lxv ‘ اکتوبر ۱۹۷۶ئ)
ہم نے اس حقیقت کا اعادہ اس لیے ضروری سمجھا کہ سامراج اپنے نئے دور میں‘ جس میں اب امریکہ ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے‘ ایک بار پھر مشنری تعلیمی اداروں اور این جی اوز کی چھتری تلے مغرب کی تہذیبی یلغار کو مؤثر بنانے کے لیے پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں بالخصوص اور افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں بالعموم ایک نئے جارحانہ اقدام کا آغاز کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں ایک محاذ این جی اوز نے سنبھالا ہے تو دوسری طرف عیسائی مشنری ادارے تعلیم کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر میدان میں آگئے ہیں۔ ایف سی کالج لاہور اور اس کے متعلقہ اداروں کو امریکہ کے پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کیا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس ناپاک مہم میں عیسائی مشنری اداروں کے پڑھے ہوئے سول اور فوجی افسران ایک نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایف سی کالج ایک مثالی معاملہ (test case) ہے۔ حکومت نے امریکی اثرات‘ اور ملک کے ذہنی غلامی کے شکار اور مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد کی چالوں کا شکار ہو کر اس اہم تعلیمی ادارے کو چرچ کو واپس کر دیا ہے جس نے اس کے لیے امریکہ سے نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس ادارے کو نج کاری کے نام پر مشنری طاقتوں کو سونپا جا رہا ہے جو صاف اعلان کر رہے ہیں کہ جلد اس ادارے کی مکمل نج کاری ہوجائے گی اور اسے قومی تعلیمی دھارے سے نکال کر مارکیٹ کے نام پر فیسوں کے نئے نظام کے ذریعے اشرافیہ اور دولت مند طبقوں کی اولاد کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ایف سی کالج ہی وہ ادارہ ہے جس کے ایک سابق پرنسپل سے انگریزی حکومت کے دور میں جب اس ادارے کے مشنری سربراہ اورمالیات فراہم کرنے والے نے سوال کیا کہ ہم نے اس ادارے پر اتنا سرمایہ اور اتنا وقت صرف کیا ہے‘ بتائو تم نے کتنے طلبہ کو عیسائی بنایا تو اس پرنسپل کا جواب (جو آج تاریخ کا حصہ اور ملّت اسلامیہ پاکستان کے لیے ایک تازیانہ ہے) یہ تھا: ’’مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ کتنے طلبہ کو ہم نے عیسائی بنایا؟ یہ پوچھو کہ کتنوں کو اسلام پر قائم نہیں رہنے دیا۔ ہم نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو اب اسلام سے وفادار نہیں رہی اور یہی ہماری محنتوں کا حاصل اور ہماری اصل کامیابی ہے‘‘۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے غلط کام کیے لیکن جن چند اچھے کاموں کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے ان میں دستور ۱۹۷۳ء کو ایک متفقہ دستاویز بنانے اور نیوکلیر استعداد کے لیے ڈٹ جانے کے ساتھ عیسائی مشنری تعلیمی اداروں کو قومی دھارے میں لانا اور استعماری چھتری کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ ایف سی کالج کو بھی دوسرے مشنری تعلیمی اداروں کی طرح قومی تحویل میں لیا گیا اور اس طرح یہ سامراجی چوکیاں ختم ہو گئیں۔ افسوس کہ پچھلے دو فوجی حکمرانوںکے ادوار میں بیرونی اثرات کے تحت ان اداروں کو بار بار سابق مشنری قوتوں کی تحویل میں دینے کی کوشش ہوئی اور بالآخر اب ایف سی کالج کو پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کرنے سے اس خطرناک کھیل کو عمل کا جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ اس تہذیبی حملے اور مفاد پرست طبقے کے جاں گسل وار کے خلاف سینہ سپرہوگئے ہیں اور پولیس کی لاٹھیاں کھا کر بھی اس خطرناک کھیل کو روکنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن محض ان کو ہدیہ تبریک پیش کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ ان کا ساتھ دینا اور اسے ایک قومی قرارداد کی شکل دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم ملک کی تمام دینی اور محب وطن قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ گربہ کشتن روزاول کے اصول پر اس رجعت قہقہری کو رکوانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ خود اس پر ناخوش ہیں مگر ’’اُوپروالوں‘‘ کے اشاروں پر یہ کچھ ہونے دے رہے ہیں اور خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سب اس خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے اور اس کے آگے سدسکندری بننے کی تحریک میں سرگرم ہوں اور ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ کو تنہا نہ چھوڑیں۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور ایک بڑی سازش کا حصہ۔ یہی موقع ہے کہ اس کو ناکام بنا دیا جائے اورایف سی کالج اور ایسے تمام اداروں کو قومی تعلیمی دھارے کا حصہ رکھا جائے اور ان کے تعلیمی معیار اور تعلیمی سہولتوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں ترقی دینے کی کوشش کی جائے۔ وزیراعظم صاحب ایک طرف تو نظریہ پاکستان اور حب الوطنی پر مبنی مشترک تعلیمی نصاب کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ۳۰ سال سے قومی دھارے کا حصہ ہونے والے تعلیمی اداروں کو محض باہر والوں یا اُوپر والوں کے اشاروں پر عالمی سامراجی اور تہذیبی فوج کشی کا نشانہ بننے کا بے بسی سے نظارہ کر رہے ہیں۔ اسے برداشت کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہوگا ؎
اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا