پورے ۱۴۳۶ سال گزرگئے، سیرتِ اطہرؐ کے تمام ابواب کی طرح باب ہجرت آج بھی سراسر باب رُشد و ہدایت ہے۔ ہجرت کے ایک ہی موڑ نے، اہل ایمان کو ظلم و عذاب سے نجات دلا کر، ایک حقیقی اسلامی انقلاب کی منزل سے آشنا کردیا تھا۔ پھر یثرب، یثرب نہ رہا قیامت تک کے لیے ایک شہر روشن: ’مدینہ منورہ ‘ میں بدل گیا۔ عناد و تکبر کے بت دیکھتے ہی دیکھتے رزق خاک ہوتے چلے گئے اور صرف آٹھ برس بعد قافلۂ حق جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ (حق آگیا اور باطل رسوا ہوگیا) کا سرمدی ترانہ دہراتے ہوئے، بیت اللہ کو اپنے مخلصانہ سجدوں سے آباد کررہا تھا۔
سفر ہجرت یقینا قربانیوں کی ایک بے مثال و لازوال داستان ہے۔ مقصدِ حیات کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا گھر بار، مال و متاع بلکہ اہل و عیال تک قربان کردیے۔ سفر ہجرت، اللہ کی معیت و نصرت اور معجزاتِ نبیؐ کا ایمان افروز تذکرہ بھی ہے۔ غارِ ثور کی سرگوشی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج ( فکر نہ کریں اللہ یقینا ہما رے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹:۴۰)، اُم معبد کا خیمہ اور سراقہ کی سواری سب اس کی تفصیل سناتے ہیں۔ لیکن سفر ہجرت آپؐ کی عظیم منصوبہ بندی اور اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ (ان کے مقابلے کے لیے جتنی تیاری کرسکتے ہو ضرور کرو۔ انفال ۸:۶۰) کی جامع تفسیر بھی ہے۔ خون کے پیاسے دشمن ہی سے نہیں، ان کی طرف سے اعلان کردہ بڑی انعامی رقم کے لالچ میں ہر قدم پر ممکنہ دشمن سے خطرات لاحق تھے۔ آپؐ نے احتیاط و حذر، مناسب سواری، جاں نثار یارِ غار، صحرائی راستوں کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح جاننے والے راہ نما، دشمن کی نقل و حرکت سے آگاہ کرنے والے زیرک خبررساں___ گویا ایک ایک ضرورت کا اہتمام اور انتظام فرمایا تھا۔ پورا سفر خود اذنِ الٰہی سے شروع ہوا تھا، اللہ پر بھروسا اور اعتماد بھی آپؐ سے زیادہ کون کرسکتا تھا، لیکن انسان ہونے کے ناتے ہر وہ تیاری کی گئی جس کا تصور اس دور میں کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ منتظم ہی کرسکتا تھا۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، تو وحی کے انداز و موضوعات بھی بدلتے گئے۔ اب دعوت و تربیت، ایک اُمت اور ایک ریاست میں بدل رہی تھی۔ انسانیت کو عقائد و عبادات کے ساتھ، معاشرت و ریاست کے تفصیلی احکام کی بھی ضرورت تھی۔ یہاں تک کہ ایک روز یہ بشارت مل گئی کہ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے، اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے، اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (المائدہ۵:۳)۔ زندگی کا کوئی گوشہ رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا گیا۔ خالق نے مخلوق کے حقوق بھی تمام تر جزئیات کے ساتھ بیان کردیے۔ یہ اعزاز و سرفرازی اتنی شان دار تھی کہ غیر مسلم بھی حسرت سے کہنے لگے: ’’یہ آیت ہمارے لیے نازل ہوئی ہوتی تو ہم آج کا دن روزِ عید قرار دے دیتے‘‘۔
اسی کامل و اکمل شریعت میں کئی اہم اُمور ایسے ہیں جن کے بارے میں اصولی رہنمائی دے کر بندوں کو فیصلے اور چناؤ کا اختیار دے دیا گیا۔ یہ بھی رحمن و رحیم پروردگار کی رحمت ہی کا ایک پرتو تھا، تاکہ بندے ہر بدلتے حالات میں اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق فیصلہ کرسکیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق:’’ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرائض عائد کردیے، انھیں ضائع نہ کرو۔ تمھارے لیے حدود متعین کردیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ تمھیں کچھ چیزوں سے منع کردیا، ان کا ارتکاب نہ کرو۔ اور کچھ اُمور کے بارے میں اس نے بھولے بغیر او رتم پر رحم کرتے ہوئے سکوت اختیار فرمایا، ان کے بارے میں غیر ضروری تکلف میں پڑے بغیر انھیں قبول کرلو‘‘۔
حکومت سازی اور انتقالِ اقتدار کا معاملہ بھی انھی اہم اُمور میں سے ایک ہے۔ اسلام میں کسی بھی طرح کی آمریت، ظلم و تعدی یا انتشار و فساد کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ مسلم معاشرے کا ہرشہری یکساں حقوق و مواقع رکھتا ہے۔ واضح حکم دے دیا گیا کہ: شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ( ہر اہم کام میں ان سے مشورہ کیا کیجیے۔آل عمران۳:۱۵۹)۔ آپؐ اور آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے اجتماعیت کے اس بنیادی حسن، شورائیت و مشاورت کا حق ادا کردیا۔ اللہ کا نبی اور صاحبِ وحی ہونے کے باوجود صحابہ کرامؓ نے اگر آپؐ کی راے سے مختلف کوئی راے رکھی، تو کامل اخلاص و محبت سے اس کا اظہار کیا۔ آپ نے بھی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ان کی آرا کو تسلیم کیا۔ بدر میں پڑاؤ اور اُحد کے میدان کا انتخاب جیسے درجنوں واقعات اس مشاورتی عمل کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔ آپؐ کی رحلت کے بعد انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آپؐ کی تربیت اور قرآنی تعلیمات پر عمل در آمد کا پہلا کڑا امتحان تھا۔ یہی صورت خلیفۂ اول اور ان کے بعد آنے والوں کو درپیش آئی۔ آئیے! یہاں چاروں خلفاے راشدین کے انتقالِ اقتدار کے واقعات مختصراً تازہ کرلیں۔
’’میں نے اپنے بعد عمر بن الخطاب کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ ان کی بات سنیں اور ان کی اطاعت کریں۔ میں نے اللہ، اس کے رسول، اس کے دین اور خود اپنی بھلائی کے لیے بہترین فیصلہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔ اگر انھوں نے انصاف سے کام لیا تو ان کے بارے میں میرا یہی گمان اور علم ہے۔ اور اگر وہ اس راے سے مختلف نکلیں، تو ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے، مجھے کوئی علم غیب نہیں۔ کیا آپ بھی انھیں تسلیم کرتے ہیں جنہیں میں نے اپنے بعد آپ لوگوں کا خلیفہ بنایا ہے؟‘‘ تمام صحابہ کرام نے بالاجماع اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
بظاہر ان چاروں خلفاے راشدین کے لیے طریق انتخاب مختلف رہا، لیکن سب نے اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح، یعنی آزادانہ راے اور شورائیت کی اعلیٰ مثالیں پیش کیں۔ ان سب قدسی نفوس نے ہمیشہ خود کو عوامی عدالت میں پیش کیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے الفاظ میں کہا: ’’میں آپ کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کریں اور اگر غلطی کروں تو میری اصلاح کردیں‘‘۔ اس ضمن میں صحابہ کرامؓ اس قدر دوٹوک اور بیدار تھے کہ ایک خاتون نے بھی راہ چلتے خلیفۂ راشد کو روک کر کہا: آپ نے کیسے یہ فرمان جاری کردیا کہ خواتین کے لیے حق مہر کی رقم ایک متعین حد سے زیادہ نہیں ہوسکتی حالانکہ خود قرآن کریم ڈھیروں کے ڈھیر مہر ہوسکنے کا ذکر کرتا ہے ۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ وہ خلیفہ تھے کہ کئی مواقع پر ان کی راے کی توثیق خود وحی الٰہی نے کی تھی۔ آپ چند لمحے سوچ کر بولے: أَصَابَت اِمرَأَۃٌ وَ أَخطَأَ عُمَر( ایک خاتون کی راے درست ہے اور عمر کی راے غلط)۔ حق مہر کی رقم محدود کردینے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ پورا دور خلافت راشدہ آزادیِ راے اور حقیقی جمہوریت کی ایسی لاتعداد مثالوں سے درخشاں ہے۔ رسول اکرمؐ نے بھی اس درخشندہ دورِ خلافت راشدہ کی بشارت دیتے ہوئے اسے انسانیت کے لیے رول ماڈل قرار دیا تھا۔ ’’آپ نے مختلف فتنوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’آپ لوگوں میں سے میرے بعد جو زندہ رہا، وہ معاشرے میں بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔ ایسے میں آپ لوگ میری اور میرے بعد آنے والے سراپا ہدایت خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کیجیے گا۔ اسے مضبوطی سے تھامے رکھیے گا‘‘۔ (صححہ الالبانی)
۱۴۳۶ سالوں پر مشتمل تاریخ شاہد ہے کہ اس پورے عرصے میں جو معاشرہ جتنا جتنا اس سرچشمہء خیر سے قریب رہا، اتنا ہی کامران ہوا۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کے اس درست ترین پیمانے سے جو بھی او رجتنا بھی دُور ہوا اتنا ہی برباد و بے آبرو ہوتا چلا گیا۔ تاریخ کے تمام ادوار اور زندگی کے باقی تمام ابواب ایک طرف رکھ کر، ہم اگر عہد حاضر کے مختلف نظام ہاے حکومت ہی پر نگاہ دوڑائیں، تو صرف وہی نظام سرخرو ثابت ہوگا کہ جس میں ان بنیادی اسلامی تعلیمات کی روح کارفرماہوگی۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کا نظام رائج ہو تو غیر مسلم معاشرے بھی امن و خوش حالی کی اعلیٰ مثالیں بن کر دنیا کے سامنے آنے لگتے ہیں۔
دوسری جانب جب آزاد اور پُرامن معاشروں میں اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کرنے کی بات ہو تو یہ تحریکیں مکمل طور پہ پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کی قیادت اور کارکنان کو پھانسیوں پر چڑھادیا گیا اور چڑھایا جارہا ہے۔ ان کے کارکنان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔ مصر، شام، بنگلہ دیش اور یمن سمیت کئی ممالک میں آج بھی ان تحریکوں کے ایک لاکھ سے زائد کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت سہ رہے ہیں، لیکن کسی بھی جگہ انھوں نے دل و دماغ پر دعوت کی دستک دینے کے بجاے، بم دھماکوں یا اپنے مخالفین کو ذبح کردینے کی بات نہیں کی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تین نکات کی صورت دوٹوک اصول واضح کردیے:
۱- آپ اس ملک میں اسلامی نظام زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
۲-آپ جس ملک میں کام کررہے ہیںوہاں ایک آئینی و جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے: انتخابات۔
۳- ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔
اور پھر فرمایا: ’’ان تین حقیقتوں کو ملا کر جب آپ غور کریں گے توبالکل منطقی طور پر وہی نتیجہ نکلے گا جو قرارداد میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ انتخابات میں آج حصہ لیں یا ۱۰،۲۰،۵۰ برس بعد، بہرحال اگر آپ کو یہاں کبھی اسلامی نظام زندگی قائم کرنا ہے تو راستہ آپ کو انتخابات ہی کا اختیار کرنا پڑے گا‘‘۔
رب ذو الجلال کی مشیت ان اسلامی تحریکات کو ایک اور طرۂ امتیاز عطا کرتی ہے۔ مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین یا ترکی و یمن کی جیلیں ہوں یا وہاں کے پھانسی گھاٹ اور عقوبت خانے، جتنا جتنا ان تحریکات کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے، ان تحریکات کو اللہ نے مزید قوت و اہمیت عطا کی ہے۔ وہ تحریک جسے مصر اور پاکستان ہی میں نابود کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، آج نہ صرف پورے عالم اسلام بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی مضبوط و توانا وجود رکھتی ہے۔ ۱۹۴۹ء میں امام حسن البناؒ کو شہید کرکے ساری تحریکی قیادت جیلوں میں بند کردی گئی۔ جیلوں اور شہادتوں کا یہ سلسلہ تب سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ۲۰۱۱ء میں پہلی بار اخوان کو برسرِاقتدار آکر قوم کی رہنمائی و نمایندگی کا موقع ملا تو ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ جو ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں گئے تھے، اب صرف مصر میں ان کی تنظیمی افرادی قوت ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تقریباً یہی عالم دیگر مسلم ممالک میں ہے۔
ترکی میں ملّی نظام پارٹی، ملّی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی اور پھر فضیلت پارٹی پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ لیکن آج ان پابندیوں اور گرفتاریوں کا شکار رہنے والی قیادت ہی ترکی میں اصلاح و استحکام کی شان دار مثالیں قائم کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے کبھی انتخابی نتائج میں وہ سرخروئی حاصل نہیں کی تھی، جو جیلوں میں رہ کر حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی ہے۔ خاکم بدہن بہت ممکن ہے کہ یہ پرچہ آپ تک پہنچنے تک علی احسن مجاہد ( سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش) کی شہادت کی روح فرسا خبر بھی پہنچ جائے، لیکن پیچھے رہ جانے والوں سے زیادہ، ان آگے جانے والوں کو یقین ہے کہ ان کی یہ قربانیاںبالآخر شورائیت پر مبنی حقیقی جمہوریت کے قیام کی بنیاد بنیں گی۔ رہ گئیں ان کی قربانیاں، تو دنیا میں ہر آنے والے کو بہرحال واپس جانا ہے، اور شہادت کی سعادت کے لیے خود رسولِؐ رحمت اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ تمنا اور دُعائیں کرتے رہے۔
یہ حقیقت بھی کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ مادر پدر آزاد معاشروں کی مغربی جمہوریت اور سر پہ ’حاکمیت اعلیٰ‘ کا تاج سجائے مسلمان ممالک کے تصورِ جمہوریت میں ایک جوہری فرق ہے۔ مغربی ممالک کا جمہوری نظام اس حوالے سے یقینا باعث رشک ہے کہ اس میں اب بھی کرپشن، دھاندلی،ہارس ٹریڈنگ، غنڈا گری اور جعل سازی کا عنصر قدرے محدود ہے، جب کہ مصر، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں یہ سب خرابیاں اور انتخابات لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب مفاسد کے باوجود مسلم ممالک، اپنی مجالس شوریٰ، یعنی ایوان ہاے اسمبلی کے ذریعے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہنے کے پابند ہیں۔ مثال کے طور پہ کوئی مسلم معاشرہ اہل مغرب کی طرح اس بہیمیت و حیوانیت کی سطح تک گرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ عورتوں کی عورتوں اور مردوں کی مردوں سے شادی کو جائز و ممکن قرار دینے جیسے جرائم کا ارتکاب کرسکے۔ اصل سوال البتہ یہ ہے کہ مروجہ نظام راے دہی، یعنی انتخابی عمل کی خامیوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟
افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نظام سے زیادہ خود اپنی اور اپنے معاشرے کی خامیاں سامنے آئیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور سکھایا تھا: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ، ہم تیرے نافرمان ہر شخص کی اطاعت کا قلاوہ اتارنے اور اسے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے تھے: ’’جس نے کسی فاجر کو اپنا ذمہ دار چنا تو وہ بھی اسی کی طرح کا فاجر ہے‘‘۔
امام غزالی احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں فرماتے ہیں: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کے بغیر دین پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اور دین جڑواں چیزیں ہیں۔ دین اصل اور اقتدار نگہبان ہے۔ جس عمارت کی اصل و بنیاد نہ ہو، وہ ڈھے جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ ضائع ہوجاتا ہے‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے کہا تھا’’اگر میری ایک ہی دُعا قبول ہونی ہوتی تو میں وہ دُعا حکمران کی اصلاح کے لیے کرتا‘‘۔ لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا دعوے دار ہمارا معاشرہ صرف آپ کی ولادت و بعثت و ہجرت اور مختلف صحابہ کرامؓ کی شہادت کے ایام منانے ہی کو دین کی اصل معراج قرار دیتا ہے۔ انتخاب و اقتدار کو محض ایک کھیل تماشا، اور مفادات کی غلیظ جنگ بنادیا گیا ہے۔ اس پوری جدوجہد کو دینی فریضہ اور عبادت سمجھنے والوں کی اکثریت بھی اس کے تقاضے پورے کرنے کے بجاے اپنے محدود دائرے میں مخصوص سرگرمیوں پر اکتفا کرکے خود کو بری الذمہ قرار دیے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت اور آپؐ کی سراپا عمل و جہاد حیاتِ طیبہ کا ذکر تو کرتے ہیں، لیکن خود آپؐ کے نقوش پا کی پیروی کرنے کا مرحلہ آئے تو صرف طفل تسلیوں سے دل بہلاتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت اخبارات، ٹی وی کے تبصروں، باہمی پسند و ناپسند اور گروہ بندیوں اور افراد کی غلطیوں کی بنا پر پوری تحریک کو مطعون کرتے ہوئے مایوسی پھیلانے کی نذر ہوجاتا ہے۔
بعثت کا اعزاز ملنے کے بعد سے لے کر وصال تک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لمحوں کے لیے بھی اس فریضے کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔مکہ والوں میں سے کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ چھوڑا جس تک آپ نے اپنی دعوت نہ پہنچائی۔ قریبی شہروں میں بھی تشریف لے گئے اور مکہ آنے والے ایک ایک قافلے اور قبیلے کے پاس جاکر انھیں اس قافلہء حق میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ بالآخر ایک شب یثرب کے چھے مبارک نفوس ابتدائی قبولِ دعوت کے بعد واپس چلے گئے۔ اگلے برس موسم حج میں وہ دُگنے (۱۲) ہوکر آئے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ ہوئی۔ اس سے اگلے برس (۷۵) (چھے گنا سے بھی زیادہ) ہوگئے۔ آپ نے ان کے ۱۲ نقیب مقرر کرکے گویا انھیں ۱۲ ذیلی تنظیموں کی لڑی میں پُرو دیا۔ چند ہی ماہ بعد پورا یثرب آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگا۔ اور پھر ایک وقتیَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا منظر نصیب ہوگیا۔
آج ہمارا کام تو نسبتاً آسان ہے۔ ہم نے کسی کو اس کے دینِ آبا سے نکال کر دائرۂ اسلام میں داخل نہیں کرنا۔ ہم نے انھیں صرف حقیقت ِاسلام بتانی اور یاد دلانی ہے۔ خصوصی طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں دین، عبادت، رب اور الٰہ کا حقیقی مفہوم بتانا ہے۔ رسولؐ و بتولؓ کے جگرگوشے نے اپنے ناناؐ کی قائم کردہ اور خلفاے راشدین کی امانت اسلامی ریاست اور نظامِ حکومت کی حفاظت کی خاطر، کربلا میں جو عظیم قربانی پیش کی تھی، اس کے اصل مقصد سے آشنا کروانا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کرکے اس کے حق میں اپنا ووٹ دینے سے انکار ہی تو کیا تھا۔ آج ہمیں اپنے معاشرے اور اس سے پہلے خود کو یہ فرمانِ الٰہی یاد دلانا ہے کہ وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ o(ھود۱۱: ۱۱۳)’’ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے‘‘۔
ہم نے اپنے حصے کا یہ کام کرلیا، بلااستثنا معاشرے کے ہر فرد تک پہنچنے اور انھیں قافلۂ حق میں شریک کرنے کا آغاز کردیا تو ان شاء اللہ بہت جلد ایک اور فرمانِ الٰہی ہمیں بشارت دے رہا ہوگا: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ o(الروم۳۰: ۴۷) ’’اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں گے‘‘۔
’قراردادِ مقاصد‘ ایک تاریخی دستاویز ہی نہیں، ایک ایسا آئینہ بھی ہے، جس میں تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور منزل کی ایک واضح تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے ’دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں دیباچے کے طور پر اسے شامل کرنے کے بعد دیباچے کے دوسرے حصے میں کہا گیا کہ جو دستور منظور اور نافذ کیا جا رہا ہے وہ ’’قادر مطلق اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘‘۔ اور جو تصور ریاست اور حکمرانی کا نظام اس میں تجویز کیا جا رہا ہے، وہ محض اس وقت کی اسمبلی کے احساسات کا عکاس نہیں بلکہ وہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جو انھوں نے برعظیم کے مسلمانوں سے سماجی عدل کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری حکومت کے قیام کے لیے کیا تھا اور جس کے لیے پورے برعظیم کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں اور دے رہے ہیں۔
’قراردادِمقاصد‘ اور اس کی روشنی میں بننے والے دستور کا یہی وہ امتیازی پہلو ہے، جو اس کے اسلامی، جمہوری اور فلاحی تصور کو اس کی ناقابلِ تغیر شناخت بنادیتاہے، اور انتظامی دروبست کو ایک ثانوی حیثیت دیتا ہے، جس میں حسب ِ ضرورت تبدیلی اور ترمیم ہوسکتی ہے، مگر اس مملکت کی نظریاتی بنیاد اور اس کو مستحکم کرنے والی دستوری دفعات میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، جو اس شناخت کو مجروح کرنے والی ہو۔ پاکستان کا وجود تحریکِ پاکستان کا نتیجہ ہے اور اس تحریک میں پورے برعظیم کے مسلمانوں نے کچھ خاص مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی تھی۔ اس ملک کا قیام ایک معاہدۂ عمرانی کا نتیجہ ہے، جسے کسی مصلحت یا وقتی رو کے نتیجے میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس بنیاد کی حفاظت کریں اور اس شناخت کو روشن تر کرنے کی کوششیں کریں اور اس کو کمزور کرنے یا اس کی شکل بگاڑنے کی ہر کوشش کا پوری قوت سے مقابلہ کریں۔ ہر ادارے کی حقانیت (legitimacy) کا انحصار اس بصیرت (vision) سے وفاداری پر ہے۔ ہر ادارہ قرآن و سنت کی بالادستی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کی پاس داری کا ذمہ دار ہے۔ پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ ہی نہیں، پارلیمنٹ کو منتخب کرنے والے عوام بھی ان حدود کے دائرے ہی میں اپنا اختیار استعمال کرنے کے پابند ہیں۔
اللہ کی حاکمیت اور اس کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کا اپنا مزاج اور اپنا نظام ہے۔ اس ریاست کو دوسروں کے معیارات کا تابع کرنا اس عہد سے بے وفائی اور صریح ظلم ہوگا، جو اس مملکت کی بنیاد ہے۔ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے، لیکن یہ اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک شخص محض اس دعوے کی بنیاد پر کہ میں آزاد ہوں، اپنی آزاد مرضی سے اپنے کو کسی دوسرے کی غلامی میں نہیں دے سکتا اور نہ خود اپنی جان لے سکتا ہے۔ خودکشی ہر مہذب نظام میں ایک جرم ہے اور انسانوں کی فروخت رضامندی سے بھی ناقابلِ قبول عمل ہے۔ اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت اور تمام اختیارات کو امانت تسلیم کرنے کے بعد یہ حق مانگنا کہ: ’’فلاں ادارہ ’سپریم‘ ہے، اور وہ دستور میں ترمیم کے نام پر جو تبدیلی چاہے کرسکتا ہے‘‘ فی الحقیقت امانت اور خلافت کے تصور ہی کی نفی ہے۔ اللہ کی حاکمیت کے اقرار کے بعد وہ تمام حدود محترم ہوجاتی ہیں جو قرآن و سنت نے مقرر فرما دی ہیں۔ اس لیے ہماری آزادی کا دائرہ ان حدود کے اندر ہے، ان کے باہر نہیں۔
دستورِ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا بطور دیباچہ اور دفعہ ۲-الف کے طور پر شامل کرنا اسے دستور کا وہ ترازو بنادیتا ہے، جس پر مطلوب اور نامطلوب کا تعین کیا جائے گا۔ جس طرح عدلیہ دستور کی تخلیق (creature) ہے، بالکل اسی طرح پارلیمنٹ، انتظامیہ اور فوج بھی اس کی تخلیق ہیں، حتیٰ کہ عوام بھی دستور کے تحت ہی اپنے حکمرانی کے اختیارات استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔ اسلامی نظریہ اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں جمہوریت، عدلِ اجتماعی، قانون کی حکمرانی اور عوامی فلاح و بہبود کے اہداف وہ ناقابلِ تغیر پہلو ہیں، جن کے بارے میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں قرآن و سنت کے احکام کے خلاف قانون سازی کی واضح طور پر تحدید کر دی گئی ہے۔ اسی طرح بنیادی حقوق کو مجروح کرنے والی قانون سازی کے اختیار سے مقننہ کو محروم کیا گیا ہے۔ دفعہ۶ میں دستور کو توڑنے، اس کو تہ و بالا (subvert) کرنے، معطل (suspend) کرنے، غیرمؤثر کرنے، یا اسی نوعیت کے عمل میں کسی قسم کی معاونت کو جرم اور غداری قرار دیا گیا ہے۔ اس پابندی کا اطلاق ہر فرد اور ادارے پر ہے: بشمول انتظامیہ، فوج، مقننہ اور عدلیہ۔
دستورِ پاکستان میں صرف یہی ایک جرم ایسا ہے، جسے دفعہ۱۲(۲) کی رُو سے اطلاق بہ ماضی کی حُرمت سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، یعنی دستور ۱۹۷۳ء میں بنا ہے مگر اس کا اطلاق ۱۹۵۶ء سے ہوگا، جب پاکستان میں پہلا دستور نافذ ہوا تھا۔ نیز عدالتوں پر بھی ایسے اقدام کے لیے بعد از عمل جواز (validation) پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پھر اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صدرِمملکت، وزیراعظم ، وزرا اور پارلیمنٹ کے ارکان کے حلف نامے میں دستور کی پابندی اور اس کے مطابق کام کرنے کے عہد کے ساتھ ساتھ، دستور کے تحفظ اور دفاع اور اسلامی نظریے کے تحفظ کا عہد بھی لیا جاتا ہے۔ کیا یہ تمام اُمور اس امر کا ثبوت نہیں ہیں کہ اسلام جو پاکستان کی بنیاد ہے اور ’قرادادِ مقاصد‘ نظامِ حکمرانی کے جن اصولوں اور حدود کی نشان دہی کرتے ہیں، وہ دستور کی اساس اور اس کے ناقابلِ تغیر حصوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو روکنے کا کوئی نہ کوئی انتظام ہونا چاہیے۔
قانون کے دائرے میں اس کا معروف طریقہ یہی ہے کہ عدلیہ، دستور کے محافظ کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ البتہ حالات کو دیکھ کر عدلیہ دونوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرسکتی ہے، یعنی یہ کہ وہ ایسی ترمیم کو پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کرنے کے لیے بھیج دے، تاکہ پارلیمنٹ خود اصلاح کرے، جیساکہ اٹھارھویں ترمیم کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے کیا۔ بصورتِ دیگر ایسی ترامیم کو دستور کی اصل سے متصادم ہونے کی حد تک غیرمؤثر کرنے کا اختیار عدلیہ کو حاصل ہونا چاہیے۔ یہ اعتراض کہ اس طرح’ منتخب نمایندوں‘ پر ’غیر منتخب عدلیہ‘ کی بالادستی کا نظام قائم ہوجائے گا، خلطِ مبحث سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اگر دفعہ۸ کے تحت پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو کالعدم قرار دینے سے منتخب نمایندوں کی بے توقیری نہیں ہوتی اور ان پر ’غیرمنتخب‘ کی بالادستی صادق نہیں آتی، اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی رُو سے قرآن و سنت سے متصادم قانون مہلت کے ختم ہوتے ہی غیرمؤثر ہوجاتا ہے، اور اس کے پارلیمنٹ کے اختیارات پر کوئی ضرب نہیں لگتی، تو دستوری ترمیم کے سلسلے میں عدلیہ کے اقدام کو ’عدالتی جارحیت‘ اور عدالتی استبداد‘ (judicial autocracy) کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
اگر غیرمنتخب عدلیہ ،پارلیمنٹ کے اکثریت سے منظور کردہ قانون کو خلافِ قانون قرار دے کر مطلق العنان نہیں بنتی تو دستوری ترمیم کے باب میں کیسے اس الزام کی سزاوار ہوسکتی ہے؟ عام حالات میں دستوری ترمیم سیاسی عمل ہی سے ہونی چاہیے۔ لیکن اگر مقننہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو دستور ہی میں طے کردہ گرفت کرنے اور توازن قائم کرنے (check and balance) کے نظام کے تحت اس کے ہاتھ کو کیسے روکا جاسکتا ہے کہ وہ بھی دستور اور قانون ہی کی پیداوار اور تخلیق ہے اور ان کی پابند بھی ہے۔ پھر عدلیہ بھی اسی دستور سے اپنے اختیارات حاصل کر رہی ہے، جس دستور سے پارلیمنٹ، حکومت اور عوام حاصل کرتے ہیں۔
اگر ایک منتخب صدر، وزیراعظم، رکن پارلیمنٹ کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا غیرمنتخب پولیس اس کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرے؟ کیا غیرمنتخب الیکشن کمیشن، منتخب ارکان کی بے ضابطگیوں پر احتساب نہ کرے؟کیا غیرمنتخب آڈیٹر جنرل منتخب حکومت کی بدعنوانی یا بے قاعدگی پر گرفت نہ کرے؟ ریاست کا ہر ادارہ اپنے دائرے میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ بھی اپنے دائرۂ اختیار سے اگر تجاوز کرتی ہے تو عقل اور عدل کا تقاضا ہے کہ اس پر گرفت کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ عوام کا احتساب اور انتخابات میں محاسبہ بھی ایک حقیقت ہے، لیکن وہ احتساب کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ مختلف معاملات کے سلسلے میں اپنے اپنے دائرے میں احتساب اور گرفت کی دوسری شکلیں بھی ہیں، جو معروف ہیں۔ ایسی تمام صورتیں دستور کے نظام کا حصہ ہیں، اس لیے محض منتخب اور غیرمنتخب کے حوالے سے پارلیمنٹ کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔
بلاشبہہ ایک اسلامی معاشرے میں مسلم آبادی کے لیے یہ ایک طے شدہ امرِواقعہ ہے کہ پوری کائنات پر خودمختاری اور فرماںروائی اللہ وحدہ کو سزاوار ہے۔ لیکن اس الہامی اصول کے حدود کے اندر ان معاملات میں منتخب نمایندے ہی اقدام کرنے کے مجاز ہیں، کوئی اور نہیں۔ اسی کا اطلاق دستوری ترامیم پر بھی ہوتا ہے۔
ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے اور اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ اربابِ اقتدار کے قرآن و سنت سے انحراف کے معاملات پر عوام الناس نے اپنے انداز میں، اور علما، فقہا اور عدلیہ نے اپنے انداز میں احتساب کیا ہے اور ہر دور میں کھلے عام یہ احتساب کرنا ان کی ذمہ داری رہی ہے۔
دورِ خلافت ِ راشدہؓ میں آزاد عدلیہ کا قیام وجود میں آگیا تھا اور خلیفۂ وقت بھی عدلیہ کے سامنے اسی طرح جواب دہ تھا جس طرح کوئی دوسرا فرد۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی عام افراد کی طرح قاضی کے سامنے پیش ہوئے۔ ہماری ساری فقہ آزاد اور غیرسرکاری انتظامات کے تحت وجود میں آئی ہے۔ افتا اور قضا یہ دو اہم ادارے تھے، جن کے ذریعے پورا قانونی سرمایہ وجود میں آیا ہے۔ مہر کی حد مقرر کرنے کے سلسلے میں خود حضرت عمر فاروقؓ کے فیصلے کو ایک محترمہ صحابیہؓ نے چیلنج کیا اور امیرالمومنین نے اپنے طے کردہ قانون کو واپس لیا اور اعتراف فرمایا کہ: ایک خاتون نے مجھے ایک بڑی غلطی سے بچالیا۔ ہماری تاریخ میں، ججوں کے وضع کردہ قوانین ( judge made law) کا ایک بڑا کردار ہے۔ اسلام نے تو اربابِ اختیار کے باب میں اطاعت کے لیے اصول ہی یہ طے کیا ہے کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق ( کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں، اگر اس کے نتیجے میں اللہ کی نافرمانی واقع ہوتی ہو)۔ اسلامی حکمرانی کا ایک بنیادی اصول قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o(النساء ۴:۵۹) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اللہ کے رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر تم اگر کسی معاملے میں تمھارے اور ان کے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم ایمان رکھتے ہو، اللہ اور آخرت کے دن پر۔ یہ بہتر ہے اور بلحاظ انجام بھی اچھا ہے۔
غیرمشروط اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہے۔ اصحابِ امر کے اختلاف اور دلیل سے ان سے مجادلہ اور مباحثہ زندگی کی ایک حقیقت ہی نہیں، بلکہ ایک جائز حق بھی ہے۔ لیکن آخری فیصلے کے لیے معیار: اللہ اور اس کے رسولؐ کے ارشادات ہی ہیں، اور فطری طور پر اس کے جائزے اور تحکیم کے لیے کوئی نہ کوئی ادارہ ہونا چاہیے۔ ہماری تاریخ میں علما، فقہا اور قاضی حضرات یہ خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ آج کے دور میں جب قانون سازی کے ادارے انتخابی بنیادوں پر وجود میں آگئے ہیں، تو ایسے منظم نظام کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔ ہمارے دور کے اہلِ علم نے اس نازک اور بنیادی ذمہ داری کے تعین کے لیے عدلیہ ہی کو مناسب ادارہ تجویز کیا ہے۔ خود ہمارے دستور میں ’وفاقی شرعی عدالت‘ کا وجود اس کی مثال ہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اس سلسلے میں جس راے کا اظہار کیا تھا، اس سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تعبیرِ دستور کے مسئلے پر کلام کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
رہے عام دستوری مسائل، جن میں شریعت کوئی منفی یا مثبت احکام نہیں دیتی، ان میں مقننہ کو آخری فیصلہ کن اختیارات دے دینا بحالاتِ موجودہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک غیر جانب دار ادارہ ایسا موجود ہونا چاہیے، جو یہ دیکھ سکے کہ مقننہ نے کوئی قانون بنانے میں دستور کے حدود سے تجاوز تو نہیں کیا ہے اور ایسا ادارہ ظاہر ہے کہ عدلیہ ہی ہوسکتا ہے۔ (اسلامی ریاست ، مولانا مودودی،ص ۵۳۹)
تاریخی نظائر کا معاملہ بہت نازک ہے۔ ہر دور کے اپنے حالات، مسائل اور امکانات ہوتے ہیں، اور شریعت نے ان کا لحاظ رکھا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملوکیت (بادشاہت) کے باوجود اسلامی قانون کی برکت سے اربابِ اقتدار پر بڑی گرفت رہی۔ یوں قانون کی حکمرانی اور بالادستی کی اعلیٰ نظیریں ہر دور میں مل جاتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے بارے میں امریکی مصنف پروفیسر جان لویئس اسپوزیٹو اور پروفیسر جان وول اپنی کتاب Islam and Democracy میں لکھتے ہیں:
بعد کی صدیوں میں عثمانی سلطنت کے دور میں اس معاہدے کے مفہوم کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ سلطنت ایک اسلامی سلطنت تھی اور اس کا سربراہ سلطان اسلامی قانون کے ماتحت تھا اور اس کا یہ اختیار تسلیم کیا جاتا تھا کہ انتظامی فرمان جاری کرے جو قانون کے مثل ہوتے تھے۔ اِس سلطانی نظام کے علما کو بہرحال یہ حق حاصل تھا جو عموماً سیاسی وجوہ کی بنا پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا کہ بادشاہ کے جاری کردہ کسی ضابطے کو اگر اُن کی راے میں وہ اسلامی قانون کے مطابق نہیں ہے ناجائز قرار دیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر سلطنت میں سرکاری علما کا سربراہ شیخ الاسلام ایسے احکامات جاری کرسکتا تھا جس میں بنیادی اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سلطان کو معزول کیا گیا ہو۔ گو کہ یہ اختیار خال خال ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ اختیار سلطان ابراہیم (۱۶۴۸ئ)، محمد چہارم (۱۶۸۷ئ)، احمد سوم (۱۷۳۰ئ)، سلیم سوم (۱۸۷۷ئ) کی معزولی میں حقیقتاً استعمال کیا گیا۔ اِن رسمی اقدامات میں سلطان کے اختیارات پر تاریخی قدغن اس واقعے کی بنیاد پر عائد کی گئی کہ علما دستور کے نمایندے تھے، یعنی اس میں اسلامی قانون کا مکمل اظہار ہوتا تھا۔ اسلامی ورثے میں یہ اختیارات کے علیحدگی کی امکانی جہتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے، تاریخی نظائر سے مقصود اس امر کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ مختلف اَدوار اور زمانوں میں اپنے اپنے حالات کے مطابق، اصل مسئلے کا حل نکالنے کی کوششیں کی گئی ہیں، اور آج ہمارے اپنے حالات کی روشنی میں اس امر کی ضرورت ہے کہ مقننہ (Legislature) کی قانون سازی کو، دستور کی حدود میں رکھنے اور بنیادی دستوری ڈھانچے کی حفاظت کے لیے اداراتی (institutional)انتظام ہو۔ اعلیٰ عدلیہ یہ خدمت انجام دے سکتی ہے اور اس میں اس کی صلاحیت پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ خود عدلیہ پر بھی عوام، میڈیا، علما اور سول سوسائٹی کی نگاہ اسی طرح ہونی چاہیے، جس طرح پارلیمنٹ اور حکومت پر رکھی جانی ضروری ہے۔ تقسیمِ اختیارات کے ذریعے زیادہ مؤثر انداز میں ایک جدید ریاست میں شریعت کے مقاصد اور اسلامی جمہوری نظام کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔احتساب سے بالاکسی کو بھی نہیں ہونا چاہیے، لیکن یہ تصور کہ قانون سازی اوردستور میں ترمیم کے غیرمحدود اختیارات پارلیمنٹ کو صرف اس لیے دے دیے جائیں کہ وہ منتخب ہے، ایک محل نظر مفروضہ ہے۔ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور مملکت کی نظریاتی، اخلاقی اور جمہوری شناخت کی حفاظت کے لیے عدلیہ کا ایک واضح کردار، مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ البتہ خود عدلیہ کی ساخت ، معیار اور عمل کے باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے کہ وہ معیارِ مطلوب پر پوری اُترے اور خوداحتسابی کی روایت کے فروغ کے ساتھ، آزادانہ احتساب کے لیے بھی عدالت کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب اور مبنی بر حکمت انتظام کا اہتمام بھی مفید ہوگا۔
ہر جج ہی نہیں، ہر صاحب ِ علم کا حق ہے کہ وہ اپنے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں اپنی دیانت دارانہ راے قائم کرے اور اس کا بلاتکلف اظہار کرے۔ اختلاف راے اگر غوروفکر کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بنے تو ایک بڑی نعمت ہے۔ ہر علمی بحث و مباحثے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو ایسے بہت سے گوشوں پر سوچنے کی تحریک ہوتی ہے، جو بالعموم نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ محترم جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے بالعموم اپنی راے کا اظہار دلائل سے اور سلیقے سے کیا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’قراردادِ مقاصد ‘ کی طرح خود ’دستورِ پاکستان‘ کے بارے میں ان کی متعدد آرا نے کچھ ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ چونکا دینے والی ہیں۔ چونکہ ان آرا کا اظہار عدالت ِ عظمیٰ کے ایک بڑے وقیع فیصلے کا حصہ ہے، اس لیے اس پر کلام، تلاشِ حق کی جستجو کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا ہے۔ ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ پاکستان کے دستور، اس کے پس منظر، اور اس کے بنانے والوں کے بارے میں جو کچھ انھوں نے فرمایا ہے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ دستور کے بارے میں ایک خاص نوعیت کا بیانیہ زیربحث مسائل کی تفہیم اور تنقیح کے لیے کہاں تک ضروری تھا۔ نیز بھارت کے دستور کے معتبر اور محترم ہونے اور پاکستانی دستور کے اعتبار نامے (credentials) کے داغ دار ہونے کے تذکرے سے کتنی روشنی ان تین امور پر پڑتی ہے، جن کے بارے میں عدالت کو رہنمائی دینا تھی اور فیصلہ کرنا تھا۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور ایک بار پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور جن حالات میں منظور ہوا، وہ ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ تاہم وہ ایک انسانی کوشش تھی۔ بہت سے پہلوئوں سے اس میں کئی خلا اور سقم تھے، جن میں سے کچھ کو ترامیم کے ذریعے دُور کردیا گیا ہے مگر کچھ اب بھی باقی ہیں، جن کی اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔
’قراردادِ مقاصد‘ ، اسلامی تعلیمات و احکام کی تنفیذ اور دستور کے مندرجات کے سلسلے میں بھی کچھ مسائل اور اُلجھنیں تاحال موجود ہیں۔ خصوصیت سے وہ اُمور جن کا تعلق دفعہ۴۵ اور دفعہ ۲۴۸ سے ہے۔ تمام ہی اصلاح طلب اُمور پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔ پالیسی کے اصولوں میں سے جو چیزیں حقوق کے دائرے میں آنی چاہییں اور جنھیں قابلِ داد رسی (justiciable) ہونا چاہیے، ان کے لیے کوشش جاری رہنی چاہیے لیکن دستور ایک محترم دستاویز ہے، اس کے بارے میں احترام اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔
بھارت میں اس کے بانیوں نے دستور تیار کیا تھا۔ اس لیے بھارت کے دستور کی فکر اور ارتقا میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے (پیرا ۱۸۵-اے) ۔ (ص ۵۳۵)
یاد رہے کہ بھارتی دستور بہت پہلے ۱۹۴۹ء میں تشکیل دیا گیا تھا اور دستور کے بنانے والے وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کی تھی۔ دستور کو اپنی اصل شکل میں بھارت کے دستوری قانون میں اسے خصوصی تقدس کا مقام حاصل ہے۔
ہمیں اعتراف ہے کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی بروقت دستور بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور جب ۱۹۵۴ء میں دستور کا مسودہ تیار ہوگیا تو اس طاقت ور اور بے لگام بیوروکریسی نے، جس کا فی الحقیقت پاکستان کی تحریک میں کوئی حصہ نہ تھا، شب خون مارا اور اسمبلی کو برطرف کردیا۔ لیکن دنیا کا ہر تحریری دستور محترم ہے، اور حکمرانی سے متعلقہ اُمور میں آخری مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔ محض اس بنا پر کہ اس کے بنانے والے تحریکِ آزادی کے قائدین ہیں، وہ غلطیوں اور کمزوروں سے پاک نہیں ہوجاتا۔ ہم بھارت کے دستور کے مشہور ترین شارح پروفیسر باسو کے حوالے سے عرض کرچکے ہیں کہ دستور کے بنانے والے بلاشبہہ تحریکِ آزادی کے قائدین تھے مگر دستور کا تین چوتھائی حصہ ’۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ‘ سے ماخوذ تھا اور باقی حصوں میں بھی دنیا کے کئی دساتیر کی خوشہ چینی کی گئی تھی۔ پھر اسی بھارتی دستور میں ۱۵؍اگست ۲۰۱۵ء تک ۱۰، ۲۰ نہیں پوری ۱۰۰؍ ترامیم ہوچکی ہیں۔ان میں چار ترامیم ایسی ہیں، جنھیں وہاں کی اعلیٰ عدلیہ خلافِ دستور قرار دے چکی ہے۔
واضح رہے کہ مغربی دنیا کا پہلا تحریری دستور امریکا کا ہے، جو ۱۷۸۹ء میں نافذ ہوا اور اس میں ۲۲۶سال میں کل ۲۷ ترامیم ہوئی ہیں۔ پاکستان کے دستور میں جو ۱۹۷۳ء میں نافذ ہوا، ۲۰۱۵ء تک ۲۱؍ ترامیم ہوئی ہیں۔
کسی دستور کے معیاری ہونے کی بنیاد دستور کے مندرجات پر ہے، محض اس امر پر نہیں کہ اس کے بنانے والے تحریکِ آزادی کے قائدین تھے۔ گذشتہ ۷۰سال میں ۱۵۰ ملک آزاد ہوئے ہیں اور بیش تر کے دساتیر ان کی تحریکاتِ آزادی کے قائدین ہی کے بنائے ہوئے ہیں، لیکن کتنے دستور ایسے ہیں، جو باربارناکام ہوچکے ہیں اورکتنے ہیں جو بدترین آمریتوں کے قیام کا ذریعہ بنے ہیں۔
پاکستان کی ’قراردادِ مقاصد‘ بھی تو اس دستورسازاسمبلی نے بنائی تھی جو تحریکِ پاکستان کے قائدین پر مشتمل تھی اور جن کا انتخاب انھی بنیادوں پر اور اسی طریق کار سے ہوا تھا، جن پر بھارت کی دستورساز اسمبلی منتخب ہوئی تھی۔ لیکن ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ’قراردادِ مقاصد‘ اپنے انقلابی پیغام اور منفرد تصورِ ریاست کے باوجود کیوں معتبر نہ تصور کی جائے؟ اور بھارت کا دستور معتبر اور روشنی کا مینار تصور کیا جائے؟
۱۹۷۳ء کا دستور بانیانِ پاکستان کے نظریات کا اظہار نہیں کرتا تھا بلکہ اس وقت کے سیاسی رہنمائوں کے نظریات کا اظہار کرتا تھا۔ اسے ایک ایسی پارلیمنٹ نے بنایا تھا جس کی اکثریت ایک خاص پارٹی کے ممبران پر مشتمل تھی جو کھلے سوشلسٹ منشور پر منتخب ہوئی تھی۔ یہ نکتہ کچھ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ آزادی و خودمختاری کے لیے اصل حرکت کا آغاز ایک بالکل مختلف بنیاد پر ہوا تھا، یعنی قائداعظم کا پیش کیا ہوا وژن کہ برعظیم کے مسلمان ہربامعنی مفہوم میں ایک قوم ہیں اور اس کا حق رکھتے ہیں کہ ایک قومی ریاست بنائیں اور تخلیق کریں۔ تاریخی طور پر بیان کیا جائے کہ اسلامی نظریہ، پاکستان کی تخلیق کا اصل سبب اسلام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن پارٹیوں نے ۱۹۶۵ء کا دستور بننے سے پہلے انتخابات میں حصہ لیا خاص طور پر مذہبی پلیٹ فارم سے وہ پارلیمنٹ میں مناسب مقام حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔(ص ۱۸، ۸۴، ۳۰۸)
جب ہم دستور کا معائنہ کرتے ہیں جیساکہ وہ اصل میں تحریر کیا گیا تھا تو ہم دیکھتے ہیں مذہبی اصول اور ساتھ ہی ساتھ سوشلسٹ نظریات کا عکاس ہے۔ دستور کی دفعہ۲ یہ بیان کرتی ہے کہ اسلام ہی ریاست کا مذہب ہوگا۔ اس کے فوراً بعد دفعہ۳ بتاتی ہے کہ ریاست استحصال کے تمام طریقوں کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور اس بنیادی اصول کی بتدریج تکمیل کو یقینی بنائے گی اور ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے گا۔ اس طرح دفعہ۳دراصل دستور کی سوشلسٹ اصل کا اظہار کرتی ہے۔ ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق لینا اور کام کے مطابق دینا بلاشبہہ مارکسزم اور لینن ازم کا بنیادی اصول ہے (درحقیقت یہ زبانUSSR کے دستور ، جیساکہ وہ اُس وقت تھا، کی دفعہ ۱۲ سے نقل کی گئی ہے جو بلاشبہہ کارل مارکس کی تحریرات پر مبنی تھا)۔ استحصال کے تصور کا ایک فنی مفہوم ہے جیساکہ وہ معاشیات میں کارل مارکس کے نظری کام میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ حوالہ کسی بھی استحصال یا ہر استحصال کے لیے نہیں ہے بلکہ استحصال کی وہ قسم ہے جو سرمایہ دارانہ طبقہ ورکنگ کلاس کے مفادات کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دفعہ۲ اور ۳ کی دفعات میں کس طرح مفاہمت پیدا کی جائے کیونکہ دونوں اصول دستور کے لیے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واضح طور پر یہ بنیادی ثنویت ہے۔ مارکسزم مذہب کی تمام شکلوں کو مسترد کرتا ہے کیونکہ وہ صبر اور تکلیف برداشت کرنے کو بڑی خوبی بتاتا ہے جو ایک پُرتشدد اور انقلابی جدوجہد ہے (کمیونسٹ پارٹی جس کا ہراول دستہ بورژوا کا تختہ اُلٹتا ہے)۔ مارکسزم کے ایک مشہور مقولے کے مطابق: مذہب کو افیون بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ ناپسندیدہ حقیقت برقرار رہتی ہے کہ ہمیں مارکسزم اور اسلام کے عقائد کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے۔
ہم نے فاضل جج صاحب کا یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ان کے ذہن کا وہ مخمصہ جس سے وہ پریشان ہیں، انھی کے الفاظ میں سامنے آجائے اور جس اُلجھن کی وجہ سے وہ دستور کے بنیادی ڈھانچے کے برملا منکر ہیں، اس کی بنیاد کو سمجھا جاسکے اور اس پر گفتگو ہوسکے۔
محترم جج صاحب کے فیصلے کے پیراگراف ۱۸ اور ۱۹ کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱- پاکستان کا ۱۹۷۳ء کا دستور بنانے والے، پاکستان کے اصل معمار نہیں تھے اور وہ صرف ۱۹۷۰ء کے عشرے کی سیاسی نسل کی نمایندگی کرتے تھے۔
۲- یہ دستور ایک خاص جماعت کے ذہن کی تخلیق ہے جو سوشلزم کی علَم بردار تھی۔
۳- پاکستان کے قیام کی تحریک کا محرک نظریاتی تھا۔ اسلام قیامِ پاکستان کی اصل بنیاد ہے۔
۴- ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ان جماعتوں کو قابلِ لحاظ کامیابی نہ ہوئی جو اسلام کے پلیٹ فارم سے شریکِ انتخاب ہوئی تھیں۔
۵- دستور، اسلام اور مارکس ازم، لینن ازم کے دو متحارب تصورات کی زد میں آگیا اور وہ ان دونوں کاملغوبہ ہے، جو باہم متحارب تصورات اور نظریات ہیں۔
۶- ایسے تضادات کی موجودگی میں دستور کا ایک بنیادی ڈھانچا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ایک ایسا تضاد ہے جس نے دستور کو یک رنگی سے محروم کر دیا ہے اور اس میں کسی بنیادی اور مربوط ڈھانچے کا تصور ہی ممکن نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نکتہ ۲۱ میں جناب خالد انور صاحب ایڈووکیٹ کے الفاظ میں اسے ’بے راحت شادی‘ قرار دیا ہے اور یہ فتویٰ بھی اس فیصلے میں موجود ہے کہ ایسی شادی کا مقدر طلاق ہی ہوسکتا ہے۔
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی دستور سازی کی ذمہ داری ادا نہ کرسکی اور پھر ۱۹۵۶ء میں جو پہلا دستور بنا، اسے فوجی قیادت نے بیوروکریسی کے تعاون سے منسوخ کرڈالا۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف وجوہ سے دساتیر منسوخ یا غیرمؤثر ہوتے رہے ہیں اور ہرناکامی کے بعد ہر زندہ قوم نے اپنے لیے نیا دستور بنایا اور اپنے اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے منزل کی جانب گامزن ہوئی۔ فرانس اور جرمنی اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔
فرانس میں تو اس وقت پانچواں دستور نافذ ہے، لیکن اس عمل کی وجہ سے نیا دستور غیرمعتبر نہیں ہوجاتا اور ضروری نہیں کہ نئی نسل کا بنایا ہوا دستور تاریخی حقائق کے ادراک اور قومی عزائم کی ترجمانی کے باب میں اپنے پیش روئوں سے تہی دست ہو۔ فرانس اور جرمنی میں بھی فسطائی قوتوں نے اصل دساتیر کو تار تار کر دیا تھا، مگر پھر فرانس نے اپنے تصور کے مطابق اٹھارھویں صدی کے انقلابِ فرانس ہی کے نعروں اور مقاصد کے اعادے کے لیے نیا دستور بنایا۔ جرمنی اور اٹلی نے ہٹلر اور مسولینی کے دستوروں سے نجات پاکر، اپنے اپنے حالات کے مطابق جمہوری دساتیر کی تدوین کی۔ روس نے کبھی زارِشاہی دور کے دستور کے تحت زندگی گزاری۔ پھر اشتراکی انقلابِ روس کے جلو میں نیا دستور بنا۔ اسی نظام کے تحت ۱۹۳۶ء میں دوسرا دستور وجود میں آیا۔ پھر ۲۰۰۷ء کا دستور بنا۔ زندگی کے ایسے نشیب و فراز سے بہت سی اقوام کو سابقہ رہتا ہے۔
ہماری تاریخ بھی کچھ ایسے ہی حادثات سے عبارت ہے۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ وہ بنیاد کا پتھر ہے جو ہردور میں دستور اور نظامِ حکمرانی کے لیے رہنما قوت رہا ہے اور تسلسل کا ذریعہ ہے۔ ۱۹۵۶ء کا دستور جس اسمبلی نے بنایا، وہ اس وقت کی پیداوار تھی، مگر دستور کے خدوخال کا تعین اس وقت کی سیاسی قوتوں، خصوصیت سے چودھری محمدعلی کی قیادت میں تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور قراردادِ مقاصد کی روشنی میں کیا گیا تھا۔ ۱۹۶۲ء کا دستور ایک فوجی آمر کا مسلط کیا ہوا دستور تھا، مگر اسے بھی نئی اسمبلی کے تحت صدارتی شکل دینے کے باوجود، ۱۹۵۶ء کے نظام کے قریب کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسی طرح جو اسمبلی دستور سازی کے اختیار کے ساتھ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہوئی تھی ، اس نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ۱۹۷۲ء اور ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے عمل کو تیز کیا۔ مسلسل کوشش سے اپریل ۱۹۷۳ء میں نیا دستور منظور کیا، جو ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء سے نافذ ہوا۔ بلاشبہہ یہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کی سیاسی قیادت کا بنایا ہوا دستور ہے ،لیکن محض ان کے دماغ کی اختراع نہیں ہے۔ اس کی بنیاد ۱۹۴۹ء کی ’قراردادِ مقاصد‘ اور ۱۹۵۶ء کا دستور تھے۔ اس طرح اس وقت کی قیادت کے خیالات اور عزائم کے ساتھ تاریخی تسلسل کی قوت بھی ایک کارفرما قوت کی حیثیت سے موجود تھی۔
۱۹۷۳ء کا دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، ۱۹۶۲ء کے دستور سے جوہری طور پر مختلف مگر ۱۹۵۶ء کے دستور سے بھی بہتر دستاویز ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس میں بہت سے معاملات پر سمجھوتا کیا گیا اور کچھ پہلو سے خامیاں رہیں۔ لیکن ۱۹۷۱ء کے بعد کے حالات پر نظر رکھی جائے تو اسے ایک مثبت اور تاریخی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس وقت کے دستور کی کچھ خامیوں کی نشان دہی محترم جج صاحب نے کی ہے، جن میں متعدد حوالوں سے درست نشان دہی ہے۔ ان میں سے بیش تر خامیوں کی اصلاح دستوری ترامیم کے ذریعے کردی گئی ہے۔ خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے اور اس کا اعتراف و اِدراک محترم جج صاحب کے فیصلے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ارتقا کا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن محض اس وجہ سے کہ یہ دستور تحریکِ پاکستان کی قیادت کا بنایا ہوا نہیں ہے، اس سے دستور بے توقیر نہیں ہوجاتا۔ ہماری نگاہ میں تاریخی تسلسل کی وجہ سے اس دستور کو فطری ارتقائی عمل کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس پہلو سے یہ دستور ایک ایسی دستاویز ہے جس پر قوم بجاطور پر فخر کرسکتی ہے۔
جس اسمبلی نے یہ دستور منظور کیا ، اس کے تمام ارکان نے اسے متفقہ طور پر منظور کیا تھا، غالباً صرف ایک رکن ایسا تھا، جس نے دستخط نہیں کیے۔ گویا اسے پوری اسمبلی کی تائید حاصل تھی۔ پھر پوری قوم نے جس طرح اس کو قبول کیا اور بعد کے اَدوار میں ہرانحراف کے بعد اس دستور کی طرف مراجعت کے لیے جو تاریخی جدوجہد کی ہے، اس نے اس دستور کو بجاطور پر ایک تاریخی قومی دستاویز کا درجہ دے دیا ہے۔
ہم پھر یہ بات عرض کریں گے کہ کسی دستور کے معیاری یا غیر معیاری اور معتبر یا غیرمعتبر ہونے کا انحصار محض اس بات پر نہیں ہوتا کہ اس کے بنانے والوں میں کون شریک تھا، جو اپنی جگہ اہم ہے مگر فیصلہ کن نہیں، بلکہ اصل اہمیت دستور کے مندرجات (content) کی ہے اور اسی کسوٹی پر اسے جانچنا چاہیے۔
اس پس منظر میں ہم دو اُمور کی طرف خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتے ہیں:
پہلا یہ کہ ۱۹۷۳ء سے اب تک کے دستوری اور سیاسی تجربات اس بات پر شاہد ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور ہی ملک اور قوم کو مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کر رہا ہے اور ہر انحراف کے بعد اس کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ اس دستور میں ہر تحریف کے بعد اصل کی طرف مراجعت میں نجات کی راہ موجود ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ اور پاکستان کے اصل اہداف کی روشنی میں دستور میں نئی اصلاحات اور اضافے ہوتے رہیں۔
دوسری بات جس پر غور کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ریاست کی نظریاتی تشکیل اور اسلامی نظریے کو دورِ جدید میں ریاست اور حکمرانی کے نظام میں سمونے کے سلسلے میں جو پہلا تاریخی قدم ’قراردادِ مقاصد‘ کی شکل میں ۱۹۴۹ء میں اُٹھایا گیا تھا ، اس نے دستور سازی کے میدان میں وسیع پیمانے پر اثر ڈالا۔ اس کی روشنی میں اللہ کی حاکمیت، قانون سازی میں قرآن و سنت کے کردار، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو میں اسلام کے رہنما اصولوں اور اقدار کا کردار، اسلام کے نظامِ انصاف اور عدلِ اجتماعی کو پالیسی کے اصول بنانے کے باب میں نشانِ منزل متعین کرنے کا جو اقدام پاکستان میں اُٹھایا گیا تھا، اس کے اثرات عالمِ اسلام میں بعد میں بننے والے دساتیر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
۱۹۴۹ء میں پاکستان کی ’قراردادِ مقاصد‘ کی منظوری سے پہلے کے دساتیر پر نگاہ ڈالیے، زیادہ سے زیادہ دو چیزیں چند مسلم ممالک کے دساتیر میں ملتی ہیں، یعنی: ’’ریاست کا مذہب اسلام ہوگا اور سربراہِ مملکت مسلمان ہوگا‘‘۔ لیکن جمہوریت،حقوقِ انسانی، اجتماعی عدل، تعلیم و تربیت، معیشت اور معاشرت کے باب میں اسلام کا کردار کیا ہوگا، اس باب میں دساتیر خاموش تھے۔ اسی طرح مملکت کا نام ملک کے دینی اور نظریاتی تشخص کا آئینہ دار ہو، یہ بھی ہمیں نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس سلسلے میں پہل ’قراردادِمقاصد‘ اور پھر ۱۹۵۶ء کے دستور کی تشکیل میں ہوئی۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ممالک نے اپنے نظریاتی تشخص کے اظہار کے لیے ملک کے نام میں اسلام کو شامل کیا۔ ۱۹۷۹ء کے انقلابِ ایران کے بعد ایران کو ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ قرار دیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں موریتانیا نے اپنے کو ’اسلامی جمہوریہ‘ قرار دیا اور دستور کی ’دفعہ ۱‘ میں اس کی تشریح یوں کی کہ: ’’موریتانیہ ایک اسلامی ، ناقابلِ تقسیم، جمہوری اور سوشل جمہوریہ ہے‘‘۔
اسی طرح افغانستان میں اشتراکی روس کے انخلا کے بعد جو دو نظام قائم ہوئے، ان میں سے ایک میں اسلامی امارت (۱۹۹۶ئ) اور دوسرے میں اسلامی جمہوریہ افغانستان (۲۰۰۴ئ) قراردیا۔ اگر ان ممالک کے دساتیر کے دیباچے کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں اللہ کی حاکمیت کے تصور کا صاف الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے۔ اس طرح ریاست کی پالیسی کے رہنما اصولوں میں بھی اسلام کے اصولوں اور اقدار کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، گویا:
ہم نے جو طرزِ فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
’آج‘ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے
سوشلزم اور اسلام کے ’ملغوبے‘ کا طعنہ؟
محترم جسٹس ثاقب نثار صاحب نے دستور کی ایک اور کمزوری کے طور پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ: وہ ایک خاص جماعت کے ذہن کی تخلیق ہے اور یہ کہ وہ جماعت سوشلزم کی علَم بردار تھی جو اسلام کی ضد ہے۔ اس اسلام کی، جو پاکستان کے قیام کا اصل محرک تھا۔ عدالتی فیصلے میں کیے گئے یہ دونوں دعوے محلِ نظر ہیں۔
۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت گری کا ہرمرحلہ کھلی کتاب کی طرح موجود ہے اور خود اسمبلی کی کارروائی اور دستوری مسودات، کمیٹیوں کی رپورٹیں، اختلافی نوٹ اور پھر متفق علیہ اعلانات پبلک ریکارڈ کا حصہ ہیں، جن سے ہرکوئی استفادہ کرسکتا ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ اتنی معلومات کی موجودگی میں فاضل جج نے یہ دعویٰ کیسے کر دیا کہ یہ دستور محض ایک جماعت کے ذہن کا عکاس ہے۔
اس دستور کی تو سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ متفق علیہ دستاویز ہے اور ہمیں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں اور متعدد اقدامات سے کتنی ہی شکایت ہو، لیکن یہ ان کا ایک تاریخی کارنامہ ہے کہ انھوں نے دستور سازی کو پارٹی کی سیاست کا شکار نہیں ہونے دیا اور پوری کوشش کی کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں اس عمل میں شریک ہوں۔ ان کے نقطۂ نظر کی ہمراہی سے معاملات طے کیے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی اعلان شدہ پوزیشن سے بار بار پیچھے ہٹنا گوارا کرلیا اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے قربانی دی اور دوسروں کو بھی ہم کار اور ہم راہ رکھنے کے لیے دستور سازی میں دعوت دی۔ ان کا یہی وہ عمل ہے جس نے ۱۹۷۳ء کے دستور کو پیپلزپارٹی کا نہیں پاکستان کی تمام جماعتوں کا اتفاق راے سے طے کیا جانے والا دستور بنایا۔ ان کے بعد یہی روایت قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم میں جس کے ذریعے دستور کے بہت سی کج رویوں ( distortions) کو دُور کردیا گیا اور ۱۹۷۳ء کے وژن سے قریب تر کیا گیا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ کے وژن کی روشنی میں آگے قدم بڑھائے گئے اور یہ کام بھی تمام جماعتوں کے مکمل تعاون اور اتفاق راے سے ہوا۔ چند اُمور پر اگر اختلاف رہا بھی تو اسے مشترکات کی بنیاد پر قومی اتفاق راے پیدا کرنے میں حائل نہ ہونے دیا۔
اس سلسلے میں تاریخی حقائق کے نظروں سے اوجھل ہوجانے سے بچنے کے لیے ہم چند اُمور کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں:
۱۹۷۳ء میں دستور سازی کا عمل جب شروع ہوا، تو اس کا آغاز ایک عبوری آئین سے ہوا، جو پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ذہن کا عکاس تھا اور اس میں پارلیمانی نہیں صدارتی نظام کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اسلامی نظریہ، بنیادی حقوق، اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ بھی بہت کمزور تھا۔ لیکن حزبِ اختلاف کی تمام ہی جماعتوں نے ان تمام کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دستور کو صحیح اسلامی جمہوری اور وفاقی اصولوں کے مطابق مرتب کرانے کی جدوجہد کی، چار اُمور مرکزی نوعیت اختیار کرگئے:
۱- اسلامی نظریہ اور ’قراردادِ مقاصد‘ کا کردار۔
۲- انسانی حقوق کا مسئلہ۔
۳- صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور صوبوں کی خودمختاری کی حدود۔
۴- پارلیمنٹ کا کردار اور انتظامیہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اختیارات میں توازن۔
کئی مہینے کے مذاکروں، احتجاجوں، اسمبلی کے بائیکاٹ اور نہ معلوم کس کس عمل کے بعد ۲۰؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو حکومت اور حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں دستور سازی کے لیے کیے گئے ۴۲؍ اصولوں پر اتفاق ہوا۔ وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے دستور کے مسودے پر خطاب کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں اس امر کا اعتراف کیا کہ اسمبلی کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اجتماع میں:
چار دن کی گفتگو اور بحث و مباحثے کے بعد ۴۲ بنیادی اصولوں پر اتفاق راے ہوا، جسے ’’۲۰؍اکتوبر کی دستوری مفاہمت‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان تجاویز کا تعلق کم سے کم ۴۰ فی صد حزبِ اختلاف سے تھا جنھیں اکثریتی پارٹی نے قبول کیا۔ (کارروائی قومی اسمبلی، ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۲۴۶۴)
بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ ان اصولوں کی روشنی میں دستور کے پورے مسودے پر نظرثانی کی گئی اور اس طرح ۲۸۰ دفعات پر مشتمل دستور کا مسودہ تیار ہوا۔ حزبِ اختلاف کے مزید اصرار پر ۱۰ سے ۱۵ دفعات میں ترامیم تسلیم کیں اور پھر آخری مرحلے پر ایک بار پھر پالیسی کے بنیادی اصولوں کے متعلق ۱۲ دفعات میں حزبِ اختلاف کے اصرار پر تبدیلی کی گئی۔ آخری دو دنوں میں ایک بار پھر دستور کی سات دفعات میں حزبِ اختلاف کی ترامیم کو قبول کیا گیا۔ بالکل آخری مرحلے پر ججوں کے احتساب کے بارے میں پارلیمنٹ کے کردار کے مسئلے پر حکومت کے موقف کو حزبِ اختلاف نے ماننے سے انکار کیا اور بھٹوصاحب نے کمال دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے نقطۂ نظر کو قبول کرلیا۔
یہ ہیں اصل تاریخی حقائق___ ان کے باوجود اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اسمبلی کا متفق علیہ دستور نہیں تھا اور وہ صرف ایک جماعت کے ذہن کا عکاس ہے تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو ، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
اس سلسلے کے دوسرے نکتے پر بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ پیپلزپارٹی نے سوشلزم کو اپنی معاشی پالیسی کی بنیاد قرار دیا اور ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے سے سیاسی فائدہ اُٹھایا۔ عالمی سطح پر اور خود ملک میں ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اواخر اور ۱۹۷۰ء کے عشرے کے شروع میں سوشلسٹ فکرنے ایک ہلچل مچائی ہوئی تھی اور جماعت اسلامی پاکستان نے اور دوسری دینی قوتوں نے سوشلزم کی اس یلغار کا سیاسی، علمی اور مکالماتی سطح پر بھرپور مقابلہ کیا۔ لیکن پیپلزپارٹی کو ’مارکسزم اور لینن ازم‘ سے مربوط فکر اور سیاسی اسٹرے ٹیجی کا علَم بردار کہنا اور پاکستان کے دستور میں سوشلزم کے وجود کا دعویٰ کرنا ایسے دعوے ہیں جو دلیل سے محروم ہیں۔
مارکسزم ایک مربوط فلسفہ ہے جس کا اپنا تصورِ کائنات، تصورِ تاریخ، تصورِ زندگی، تصورِ انسان، تصورِ قانون، تصورِ معیشت اور ایک مخصوص تجزیہ اور تنظیم نو کا نقشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس اور لینن اس سوشلزم سے برأت کا اعلان کرتے ہیں، جو ۱۸ویں صدی سے ۲۰ویں صدی تک یورپ میں مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہوئے۔ مارکس کی تصنیف Das Kapital[سرمایہ] محض معاشیات کے موضوع پر ایک کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ تاریخ اور خصوصیت سے صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ دارانہ نظام پر ایک ایسی نقدو جرح (critique) ہے، جو طبقاتی تصادم (class conflict) کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں سوشلزم اور اسلام کو جمع کرنے کی کوشش ضرور کی گئی تھی۔ مگر جہاں تک دستورِ پاکستان کا تعلق ہے، وہ مارکسزم کے فلسفے اور اس کے سیاسی و معاشی نظام سے دُور دُور تک کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ پیپلزپارٹی میں بھی یہ بات صرف سوشلزم کے تذکرے کی حد تک تھی، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی نے جو منشور دیا تھا، اس کے چار ستون تھے جن کی نشان دہی پارٹی کی تمام دستاویزات میں نمایاں طور پر کی گئی تھی اور وہ یہ تھے:
۱۹۷۰ء کے منشور کا دوسرا پیراگراف ہی یہ اعلان کرتا ہے کہ:
پارٹی پروگرام کی روح اور تفصیلات اسلام کی تعلیمات کا تقاضا کرتی ہیں اور سرگرمیاں اُس کے مطابق ہوتی ہیں۔ پارٹی اسلام اور قرآن کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔ پارٹی کی تجاویز: عقیدے میں درج احکامات کے اصول اور روح سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اسلام میں مسلمانوں کے اندر جو مساوات بیان کی گئی ہے، وہ صرف ایک ایسے معاشی اور سماجی ڈھانچے میں ممکن ہے، جو اسے حاصل کرنے کے لیے روبۂ عمل لایا گیا ہو۔ ( پیپلزپارٹی کا منشور ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۷ئ، پی پی پی سرکاری مطبوعات، ۲۰۰۹ئ)
اس منشور میں استحصال (exploitation) سے پاک معاشرے کی بات ہوئی ہے، لیکن مارکس اور لینن کے تصور کے مطابق نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے طور پر۔ ملاحظہ ہو:
ایک سوشلسٹ پروگرام اختیار کرنے ہی میں مسائل کا حقیقی حل ہے، جیساکہ منشور میں بیان کیا گیا ہے۔ پورے پاکستان کی معیشت کو تبدیل کردیا جائے، استحصال کو روک دیا جائے اور دستیاب وسائل کو اختیار کرکے سرمایہ دارانہ مداخلتوں کے بغیر ملک کو ترقی دی جائے۔ یہ اسلام کی سیاسی اور اجتماعی اخلاقیات کا نتیجہ ہے۔ اس طرح پارٹی دراصل مسلم عقیدے کے اعلیٰ اصولوں کو عملاً برپا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ (ایضاً، ص۹)
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پارٹی کے خیالات میں جھول اور تضادات تھے۔ جن کے تحت وہ سوشلزم کو ایک محدود معنی میں لے رہی تھی حالانکہ وہ ایک مکمل نظامِ زندگی کا دعویٰ رکھتا تھا۔ نیز اسلام کے کچھ تصورات کی تشریح کے باب میں بھی اس کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا تھا اور ہم نے کیا۔ لیکن منشور کے ان واضح اعلانات کے علی الرغم یہ کہنا کہ دستور سازی کے عمل میں شریک بڑی جماعت پیپلزپارٹی مارکسزم اور لینن ازم کی علَم بردار تھی اور اس نے دستور میں روس کے نظام کے تصورات کو ٹھونس دیا ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں۔
اسلام اور سوشلزم کو خلط ملط کرنے اور متضاد اور متصادم تصورات کے امتزاج سے ایک ملغوبہ بنانے کے باب میں اگر تنقید کا ہدف اس وقت کی اکثریتی جماعت پیپلزپارٹی کا ۱۹۷۰ء کا منشور ہوتا تو اس میں صداقت ہوتی۔ واضح رہے کہ ۱۹۷۷ء میں اسی پارٹی کے منشور کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اس پارٹی کی قیادت خود سوشلزم کے معروف تصور سے جان چھڑانے اور اسلام کے سہارے سے تعبیرات کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور کے متن میں ایسے تضادات کے اجتماع کا دعویٰ حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا، اور ایک معتبر عدالتی فیصلے میں ایسے دعویٰ کا آنا اور اس کو چیلنج نہ کیا جانا علمی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے بڑے خسارے کا معاملہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تعبیر کی اس غلطی کی اصلاح ضروری سمجھتے ہیں۔
محترم جسٹس صاحب کے پورے فیصلے میں جس ایک بات کو دستور کو سوشلسٹ نظریے سے ہم آہنگ کرنے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’دستور کی دفعہ ۳ میں استحصال اور تقسیم دولت کا جو تصور دیا گیا ہے، وہ اس وقت کی سوویت یونین کے دستور کی دفعہ۱۲ سے ماخوذ ہے۔ گویا یہ ایک مماثلت، دستور کو سوشلسٹ رنگ میں رنگنے کے لیے کافی ہے‘‘۔ دستورِ پاکستان کی دفعہ۳ میں ہے:
ریاست استحصال کی تمام قسموں کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور بتدریج اِس بنیادی اصول کی تکمیل کرے گی کہ ہر ایک سے اُس کی صلاحیت کے مطابق لیا جائے اور ہر ایک کو اُس کے کام کے مطابق دیا جائے۔
سوویت روس کے اُس وقت کے دستور کی دفعہ ۱۲ میں درج تھا:
سوویت یونین میں کام ایک فرض ہے اور ہر مناسب جسامت کے مالک شہری کے لیے عزت کی بات ہے۔ اس اصول کے مطابق جو کام نہیں کرتا وہ کھائے بھی نہیں۔ سوویت یونین میں سوشلزم کے اس اصول پر عمل ہوتا ہے کہ ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے اور کام کے مطابق دیا جائے۔
پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ سوویت یونین کے دستور کی دفعہ۱۲ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اس سے پہلے کی ۱۱ دفعات سے مربوط ہے۔ جس میں سوشلسٹ اسٹیٹ کا پورا نقشہ بیان کیا گیا ہے اور پرولتاریہ کی آمریت اور اس کے لیے جن اداروں اور ریاست کی جس نوعیت کی تنظیم درکار ہے، اس کے خدوخال پیش کیے گئے ہیں۔ پیداوار کے پورے نظام کو سرکاری ملکیت میں لینا اور کمیونسٹ پارٹی اور The Soviets of Working Peoples Deputies کے ذریعے سیاسی اور معاشی عمل کو نئی بنیادوں پر مرتب کرنے کا نقشہ دیا گیا ہے۔ اس انتظامی اور تنظیمی ڈھانچے اور ملکیت کے نظام کی تبدیلی کے بغیر سوشلسٹ معیشت کا قیام ممکن نہیں۔ پاکستان کے دستور میں ان چیزوں کا دُور دُور کوئی وجود نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر روسی دستور کی دفعہ۱۲ پر تنقیدی نظر ڈالی جائے، تو اس میں جو کچھ کہا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں بدترین استحصالی دروبست کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، اس میں اور اس دفعہ میں بیان کردہ ضابطے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
کام اور محنت کا ایک ذمہ داری ہونا ہر نظام کا حصہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ جو کام نہ کرے وہ بھوکا مرے! اس میں سوشلزم نے کون سا تیر مار لیا؟ہرشخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق محنت اور اس کی کارکردگی کے مطابق اُجرت___ اس سے کس کو اختلاف ہوگا؟ سرمایہ دار بھی کم از کم نظری طور پر یہی کہتا ہے: ’’ہر کام کرنے والے کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت کے مطابق اُجرت دی جائے‘‘۔ مارکس کے نظریۂ محنت میں اسے چیلنج کیا گیا کہ محنت کا ایک حصہ سرمایہ دار لے اُڑتا ہے اور مزدور محروم رہتا ہے۔ عدل پر مبنی ہر نظام میں محنت کار کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت کے مطابق اُجرت ملنی چاہیے۔ اس اصول کے تعین میں سوشلزم کو کوئی امتیاز حاصل نہیں۔ مارکس کے افکار کے مطالعے سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سرمایہ داری کے نظامِ استحصال سے نکلنے کے لیے وسائل پیداوار کو قومی ملکیت میں لے کر تقسیمِ دولت کے جو اصول بیان کیے، اس کے دو مراحل بیان کیے تھے: درمیانی(transitional) دور میں یہ اصول ہوگا: ’’ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور محنت کا اجر کارکردگی کے مطابق ہوگا‘‘۔
لیکن جب اشتراکیت طبقات سے پاک معاشرہ بنائے گی تو پھر اصل سوشلزم کا اصول آئے گا جس میں:’’کام صلاحیت کے مطابق لیا جائے گا، اور اُجرت ضرورت کے مطابق دی جائے گی‘‘۔ یہ ہے اشتراکیت یا مارکسزم کا اعلان کردہ موقف۔
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک دوسرے پس منظر میں دستورِ پاکستان کی دفعہ ۳ میں ایک بے ضرر سے جملے کے شامل کیے جانے سے پورا قصر کریملین کیسے تعمیر کیا جاسکتا ہے؟ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں مارکس نے استحصال کا ایک خاص تصور پیش کیا ہے۔ لیکن ہراخلاقی اور مصنفانہ نظام میں استحصال ایک جرم ہے اور اس سے معاشرے کو پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے دستور میں استحصال کی کسی خاص شکل کا ذکر نہیں۔
’استحصال‘ (exploitation) کا لفظ انگریزی زبان میں دو مختلف بلکہ ایک حد تک متضاد مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثبت معنی میں یہ لفظ کسی ’چیز کو دریافت کرنا‘ اور ’ترقی دینے‘ کے مفہوم کی ادایگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ exploit resources of country یا explore new venues ۔ اس کے برعکس دوسرے مفہوم میں، استحصال اور دوسروں کے حقوق پر ناجائز قبضہ یا ان کو حقوق سے محروم رکھنے اور ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اُٹھانا شامل ہے، جس میں ذم کا پہلو ہے اور اس استحصال کی درجنوں شکلیں ہوسکتی ہیں۔ کارل مارکس نے اس کی ایک خاص شکل کو، جو اس کی نگاہ میں نظامِ سرمایہ داری کی پہچان ہے اور طبقہ واریت کی بنیاد پر مظلوم اور کمزور طبقات کے حقوق پر بااثر طبقات خصوصیت سے اہلِ سرمایہ کی دست درازیاں ہیں۔ پاکستان کے دستور کی دفعہ۳ میں یہ لفظ اپنے وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور جس پر all forms of exploition (استحصال کی تمام صورتوں ) کے الفاظ شاہد ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس کو صرف ایک مخصوص شکل تک محدود کردیا جائے اور طلسماتی عینک سے وہ تصویر بھی دیکھ لی جائے، جس میں مارکس اور لینن کی شبیہہ جھلکتی ہو!
محترم جج صاحب نے ایک مقام پر شکایتاً ایک بڑی معقول تنبیہہ ’’قراردادِمقاصد میں زیادہ معنی نکالنے کی ترغیب‘‘ (ص ۵۳۸) کے بارے میں کی ہے۔ بلاشبہہ یہ علمی دیانت کا تقاضا ہے اور اس تنبیہہ کا اطلاق نہ صرف ’قراردادِ مقاصد‘ پر ہوتا ہے بلکہ خود دستورِ پاکستان پر بھی۔ ہماری کوشش ہونا چاہیے کہ جو اس میں ہے اسے من و عن پیش کردیں، نہ کچھ چیزوں کو دیکھنے سے انکار کریں اور نہ وہ کچھ ان میں بڑھا ڈالیں جن کا کوئی وجود نہیں۔
استحصال کی ہرقسم کا ذکر ہے اور یہ وہ تصور ہے جو خود اسلام نے پیش کیا ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں متنبہ کرتا ہے کہ:
وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ o وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ o وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ o وَاتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَo (الشعرا ۲۶: ۱۸۱-۱۸۴) پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس ذات کا خوف کرو جس نے تمھیں اور گذشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo(انفال ۸:۲۷-۲۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامان آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اسلام نے ظلم اور استحصال کی ہرشکل سے اجتناب کا حکم دیا ہے اور ہر حق دار کا حق ادا کرنا اہلِ ایمان پر فرض کیا ہے۔ مزدور کو اس کی محنت کا پورا پورا حق اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اُجرت ادا کردینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی معاشرے اور حکومت پر ڈالی ہے کہ کمزوروں کے لیے سہارا بنیں، ناداروں کی مدد کریں، قرض دار کو قرض سے نجات دلانے میں معاونت کریں، غریب اور مستحق کی مالی معاونت کریں اور معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے بلالحاظ مذہب و نسل و رنگ، جو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو___ اس حکم کا کوئی تعلق اشتراکیت سے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے اخلاقی ، سماجی ، معاشی اور دینی نظام کا بنیادی اصول ہے، جس کی پاس داری ہر مسلمان فرد اور مسلمان حکومت کے لیے ضروری ہے۔ ’قراردادِ مقاصد‘ کے تقاضوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب ِ فکر کے چوٹی کے ۳۱ علما نے اسلامی مملکت کے جو ۲۲نکات مرتب کیے، ان میں یہ تین دفعات بھی شامل تھیں:
یہ ہے اسلام کا مطلوبہ نظام جس کے قیام کا تصور ’قراردادِ مقاصد‘ نے دیا ہے۔ اس کی موجودگی میں مسلمان اُمت کو دوسرے نظریات سے خوشہ چینی کی کیا ضرورت ہے۔
ہم پورے ادب سے عرض کریں گے پاکستان پیپلزپارٹی نے ۱۹۷۰ء میں سوشلزم کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہو، جہاں تک ۱۹۷۳ء کے دستور کا تعلق ہے، اس پر سوشلزم کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ہم پیپلزپارٹی سے اپنے تمام اختلافات کے باوجود اسے اس الزام سے بری سمجھتے ہیں اور اپنے اس دعوے کے ثبوت میں دو مزید شہادتیں پیش کرنا چاہتے ہیں، یعنی خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر جو انھوں نے دستور کے مسودے کی آخری سماعت اور دستور کی منظوری کے موقعے پر کی اور جس میں دستور کے بنیادی ڈھانچے کو انھوں نے اپنے الفاظ میں پیش کر دیا۔ اس پوری تقریر میں سوشلزم یا اس کے کسی جزوی پہلو کا بھی کہیں دُور دُور ذکر نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۲۵سال کے بعد بہت سارے اعتراضات اور جھگڑوں کے بعد ہم ایک ایسے نکتے پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایک بنیادی قانون ہے، ہمارا ایک دستور ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت کی کسی بھی تعریف کے مطابق یہ ایک جمہوری دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک وفاقی دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ صوبائی خودمختاری کے بارے میں ایک مفاہمت ہے، اور اس پر خدا کا شکر ہے۔ کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی ماضی کے دستور سے زیادہ اور مسلمان ملکوں کے علاوہ بادشاہتوں پر مبنی ممالک کے کسی بھی دستور سے زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔ اگر آپ بادشاہتوں پر مبنی ممالک سے اس کا موازنہ کریں تو اس میں پاکستان کے کسی بھی سابقہ دستور سے زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔ (قومی اسمبلی کی رُوداد، ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۲۴۶۸)
چنانچہ میرے دوستو! یہ دستور جو جمہوری ہے، جو وفاقی ہے، جس میں اسلامی نظام کی اہم خصوصیات شامل ہیں، اور اسلامی معاشرے کو تحفظ دیتا ہے، اور عدلیہ کو آزادی فراہم کرتا ہے، یہ دستور شہریوں کے بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ (ایضاً، ص ۲۴۶۹)
اور اپیل کی کہ اس دستور کو پورے قلبی اطمینان کے ساتھ اور مکمل اتفاق راے سے منظور کیجیے، خصوصیت سے تمام اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا:
اب میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ایوان میں واپس آگئے ہیں ایک قدم آگے بڑھانے کے لیے، تاکہ اپنی حاضری کو منطقی انجام تک پہنچائیں اور ہمارے ساتھ پاکستان کے عوام کو ایک ایسا دستور دیں جو ایک متفق علیہ دستور ہو۔(ایضاً، ص ۲۴۶۹)
اور پھر اسمبلی نے مکمل اتفاق راے سے دستور کو منظور کیا اور حزبِ اختلاف کے ایک قائد مولانا مفتی محمود صاحب [سربراہ :جمعیت علماے اسلام] سے دعاے شکرانہ کروا کر اسمبلی کی کارروائی ختم کی۔
۱۹۷۳ء کا دستور ایک متفقہ قومی دستاویز ہے، کسی ایک پارٹی کے خیالات کا عکاس نہیں۔ اس دستور کا بنیادی ڈھانچا جن اصولوں پر مشتمل ہے، وہ پانچ ہیں: l اسلام l جمہوریت l وفاق اور تقسیمِ اختیارات l بنیادی حقوق کا تحفظ l عدلیہ کی آزادی۔
گو بات واضح ہوگئی ہے، لیکن صرف اتمامِ حجت کے لیے ہم ایک شہادت اور پیش کردیتے ہیں اور یہ ہے پیپلزپارٹی کا ۱۹۷۷ء کا منشور، جس میں وہ ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اپنے ایک کارنامے کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیے کہ دستور کی جن چیزوں کی داد طلب کررہے ہیں ، وہ یہ ہیں:
پیپلزپارٹی نے ایک ایسے دستور کا وعدہ کیا تھا جو اسلامی، جمہوری،پارلیمانی اور وفاقی طرزِحکومت کا آئینہ دار ہو۔ ہم نے یہ عہد پورا کردیا ہے۔
۱۲؍اپریل ۱۹۷۳ء کو پاکستان کا پہلا دستور عوام کے ان نمایندوں نے متفقہ طور پر منظور کیا جو بالغ راے دہی کی بنیاد پر براہِ راست منتخب ہوئے تھے اور ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء سے نافذالعمل ہوا۔ (پاکستان پیپلزپارٹی، منشور، ۱۹۷۷ئ، ص ۴۶)
اس منشو ر میں جو بھٹو صاحب کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا، سوشلزم کا ذکر تو صرف ایک دو بار سرسری طور پر وہ بھی اس صراحت کے ساتھ کہ وہ اسلام کے مقدس اور ابدی اصولوں کے مطابق ہوگا، لیکن اسلام کے بارے میں شروع ہی میں بڑے مؤثرانداز میں اپنی خدمات کا ذکر کیا:
پیپلزپارٹی نے اپنے منشورکے آغاز ہی میں یہ اعلان کیا کہ: اسلام ہمارا عقیدہ ہے۔ ہم نے آغاز ہی میں عہد کیا کہ ہمارا پروگرام اسلام کی روح اور احکامات کے مطابق ہوگا۔ گذشتہ پانچ سال میں پیپلزپارٹی کی پالیسیاں ہمارے اسی عہد پر مبنی تھیں اوراسلام کی عظمت و شان کے لیے ایسے جذبے سے نافذ کی گئیں، جس کا کوئی مقابلہ کسی سابقہ حکومت سے نہیں ہوسکتا۔
پہلی دفعہ دستور کی دفعات میں اسلامی نظریۂ حیات ایمان داری سے شامل کیا گیا ہے۔ اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے۔ ہم نے دستور میں اپنا یہ عہد رقم کردیا ہے کہ ہم قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کریں گے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے ٹھوس اقدامات اُٹھائے ہیں:
o ۹۰ سالہ قادیانی مسئلہ، دستور میں یہ اعلان کرکے کہ جو شخص محمدؐ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا مسلمان نہیں ہے، حل کر دیا۔
o فروری ۱۹۷۴ء میں لاہور میں مسلم ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہوں کی سربراہ کانفرنس منعقد کی۔
o اعلان کیا کہ جولائی ۷۷ء سے اتوار کے بجاے ہفتہ وار تعطیل جمعہ کی ہوگی۔
o پہلی بار سیرت کانفرنس منعقد کی اور مسجد نبویؐ کے اماموں کے دوروں کا اہتمام کیا۔
o حاجیوں پر سابقہ حکومتوں کی لگائی ہوئی پابندیاں ختم کیں، جس سے تقریباً ۳لاکھ پاکستانیوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔
o زکوٰۃ کے لیے منصوبہ بند پالیسی بنائی اور اختیار کی۔
o غلطیوں کے بغیر قرآنِ پاک کی طباعت کے لیے قوانین نافذ کیے۔
o جہیز اور شادی کے تحائف پر اسلام کی روح کے مطابق پابندی کا قانون نافذ کیا، جو عام آدمی کو شادی کے موقعے پر کمرتوڑ اخراجات سے نجات دلاتا ہے۔
oریڈ کراس کا نام ہلال احمر سوسائٹی کردیا۔
محترم جج صاحب کے ارشادات کے سلسلے کے پہلے دو نکات پر ہم نے تفصیل سے گفتگو کرلی ہے۔ تیسرے نکتے کے بارے میں ہم اتنا ہی عرض کریں گے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت کا منصفانہ اعتراف ہے اور ہم اس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ البتہ چوتھے نکتے کے بارے میں صرف ریکارڈ درست کرنے کے لیے یہ عرض کریں گے کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم میں بلاشبہہ اسلام اور سوشلزم دونوں کی صداے بازگشت موجود تھی، لیکن یہ بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام متنازع نہیں تھا۔ اختلاف جو بھی تھا، وہ اسلام کے تصور اور تقاضوں کے ادراک کے باب میں تھا۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں بھی اسلام سرفہرست تھا۔ مسلم لیگ کے تین دھڑے میدان میں تھے، مگر ہرایک نے اسلام کو اپنی ترجیح کے طور پر بیان کیا تھا۔
جن جماعتوں کو دینی جماعتیں کہا جاتا ہے، ان کے پلیٹ فارم کا مرکزی نکتہ اسلام اور اس کا نظامِ حیات ہی تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے موازنے میں ان کے تصورِ اسلام کے بارے میں اختلافات اور ترجیحات کے نظام میں فرق کی بات تو معقول اور مناسب ہے، لیکن پاکستان میں اسلام کے کردار کو نزاع کا باعث کہنا حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ رہا معاملہ اسمبلی میں نشستوں اور عوامی مقبولیت کا، تو اس بارے میں عمومی راے کو ایک دوسرے تصور کے مطابق پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔
بلاشبہہ اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل تھی مگر یہ سب سیاسی بساط کے روایتی کھیل کا حصہ ہے کیونکہ اس وقت کے صوبہ سرحد [خیبر پختونخوا] اور بلوچستان میں جمعیت علماے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی (NAP) شریکِ اقتدار تھے اور صوبہ سرحد کی حکومت مولانا مفتی محمودصاحب کی وزارتِ اعلیٰ میں نیشنل عوامی پارٹی کی تائید اور شمولیت سے وجود میں آئی تھی۔ دستور سازی کے باب میں نظریاتی پہلو اور سیاسی گروہ بندی میں اگر فرق رکھا جائے تو حالات کو سمجھنے میں سہولت ہوگی۔
اُوپر کی گزارشات کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ دستور کی یہ تعبیرکہ وہ اسلام اور سوشلزم کا ایک مرکب ہے، قطعاً اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتی۔ اور اگر یہ مفروضہ درست نہیں تو پھر اس غبارے سے بھی ساری ہوا نکل جاتی ہے کہ ان دو متضاد رجحانات کی موجودگی کی وجہ سے دستور میں کسی بنیادی ڈھانچے کی تلاش لاحاصل مشق ہے۔ دستور کا ایک واضح ڈھانچا، اس کی مستحکم واضح بنیاد اور اساسی اصول موجود ہیں اور دستور کی تعبیر میں ان کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے اور رہے گی۔
آخر میں ہم بحث کا خلاصہ ان نکات میں پیش کرتے ہیں:
۱- ’قراردادِ مقاصد‘ ایک مستقل بالذات دستوری دستاویز ہے، جو تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف کی ترجمان اور پاکستان کی منزلِ مقصود کی آئینہ دار ہے۔ یہ قرارداد ہی دستور کی بنیاد اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی اصل صورت گر ہے۔
۲- دستورِ پاکستان اس قرارداد کی روشنی میں مرتب اور مدون کیا گیا ہے۔ ریاست پاکستان جس اصول پر قائم ہے، وہ یہ ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور پاکستانی قوم حدوداللہ کی مکمل پاس داری کے عہدوپیمان کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کو اپنا مقصدِ وجود سمجھتی ہے، اور دستور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک فریم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔
۳- اس دستور کی بنیاد اور اس کے ناقابلِ تغیر پہلو کم از کم پانچ ہیں، یعنی:lاس کا اسلامی کردار اور شناخت ۔ lجمہوری طرزِ حکومت جس میں قانون کی بالادستی اور عوام کی مرضی کے مطابق ان کی فلاح و بہبود اور ان کے اخلاقی، نظریاتی، تہذیبی، معاشی عزائم اور توقعات کی تکمیل کو اولیں حیثیت حاصل ہے۔lبنیادی حقوق کا تحفظ اور اسلام کے اصولِ حکمرانی اور حقوق و فرائض کے نظام کا مکمل احترام ایک بنیادی قدر ہے، جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ lپاکستان کا نظام وفاقی ہے جس میں مرکز اور وفاق کی اکائیوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مکمل احترام اور وسائل کے طے شدہ اصولوں اور شرائط کی روشنی میں استعمال کا اہتمام ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری، جو انصاف کی فراہمی کے ساتھ دستور کے تحفظ اور بنیادی حقوق کی پاس داری کی نگرانی کے نظام کی آخری ذمہ دار ہے۔
یہ دستور کا بنیادی ڈھانچا ہے، جس کی پاس داری مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور عوام سب کی ذمہ داری ہے۔
۴- قرآن و سنت کی بالادستی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیروترقی اصل ہدف اور منزل ہے۔
۵- اخلاقی اقدار کو ہمارے نظام میں مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ قوم و ملک کی ترقی کا وہ نقشہ حقیقت کا رُوپ دھار سکے، جس میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو، انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم ہو، اور اللہ کی زمین فساد سے پاک اور خیر اور فلاح کا گہوارا بن سکے۔
۶- عوام کی اخلاقی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی ترقی ہمارا مقصود ہے اور اس عمل میں عوام ہی کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہرسطح پر عوام کو اختیارات کی منتقلی اور ان اختیارات کے مناسب استعمال کے مواقع کی فراہمی، ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ترجیح اور ریاستی وسائل کے استعمال کا مقصد و محور ہونا چاہیے۔
۷- حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کی حکمرانی، اختیارات کی تقسیم اور توازن، خاندانی نظام کی تقویت اور معاشرے میں امن، برداشت، مشاورت، تعاون باہمی کا فروغ اور اچھی حکمرانی کامیابی کا معیار اور میزان ہوں۔
۸- دستور پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل اور افراد کی اصلاح کے ساتھ اداروں کا استحکام اصل ترجیح ہو۔
۹- آزادی اور قومی سلامتی کے تحفظ کے ساتھ ایک حقیقی جمہوری، فلاحی اور استحصال سے پاک معاشرے کا قیام اور معاشرے کے تمام طبقات کو ترقی کے مساوی مواقعے کی فراہمی کا اہتمام ہو۔
۱۰- اقلیتوں کا تحفظ اور ان کے لیے ایسے مواقع کی فراہمی کہ وہ اپنے مذہب اور ثقافت کے دائرے میں رہتے ہوئے قومی زندگی کی تعمیر اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
یہ وہ اہداف ہیں جو ’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور کے قومی پالیسی کے خطوطِ کار کا تقاضا ہیں اور یہی وہ میزان اور کسوٹی ہے جس پر حکومت، سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچا جانا چاہیے۔
جماعت اسلامی نے ’اسلامی پاکستان خوش حال پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر یہ پیغام دیا ہے کہ خوش حالی اور اسلام کو اختیار کرنا یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام کے بغیر خوش حالی، خوش حالی نہیں۔اسلام اگر مکمل صورت میں آئے گا تو صرف خوش حالی نہیں، عروج کی داستانیں بھی ساتھ لائے گا۔ جب عرب کے بدو اسلام کی دعوت قبول کرکے دنیا میں نکلے تو قیصروکسریٰ کے تخت و تاج گر گئے۔ مسلمانوں نے صدیوں تک اللہ کی زمین پر اللہ کا پیغام سربلند کیے رکھا۔
حکمرانوں کی تقریریں سن کر معلوم ہوتا ہے کہ ترقی میں سب سے اہم معیشت کا دائرہ ہے۔ گویا معاشی ترقی ہی اصل ترقی ہے اور سب سے اہم سالانہ ترقی کی رفتار ہے۔ اس وقت ۴ فی صد پر گزارا ہے اور ۶ سے۸ فی صد کے خواب دیکھتے ہیں، جیسے یہ حاصل ہوگیا تو سب کچھ حاصل ہوگیا۔
اس سے آگے بڑھیں تو ہر بات میں مثال مغربی ممالک کی دی جاتی ہے جیسے ترقی کی معراج یہی ہے۔ سیاسی لیڈر ہر بات میں برطانیہ، امریکا، یورپ کی مثالیں دیتے ہیں۔ بہت کم ذکر خلافت ِ راشدہ کا آتا ہے۔ یہ ساری ترقی سراسر سراب ہے، جس کے پیچھے پوری قوم کو دوڑایا جا رہا ہے۔ اس سے مراد جھوٹی خوش حالی ہے۔ گاڑیاں، کارخانے، سڑکیں تو ہیں لیکن انسان کی زندگی سکون سے محروم ہے۔ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ خواتین کی عزت و عصمت محفوظ نہیں۔ پھر یہ کیسی ترقی ؟
جماعت اسلامی کی دعوت یہ ہے کہ انسان اس جھوٹے سحر سے نکلے، حقیقی دنیا میں آنکھ کھولے۔ قرآن کہتا ہے کہ اس طرح کے خوش حال لوگوں کو اللہ تباہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ حقیقی خوش حالی اس وقت حاصل ہوگی اور ترقی یافتہ معاشرہ وہ ہوگا جہاں لوگ خدا کو ماننے والے ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں، آخرت پر یقین رکھتے ہوں، زمین پر رسولؐ اللہ کا لایا ہوا نظامِ شریعت نافذ ہو۔
ایمان کے بغیر، پاکستان کو خوش حال کرنے کی تدبیریں تباہی کی طرف لے جانا والا راستہ ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایسی قوموں کی مثالیں دی ہیںجو اپنے وقت کی ترقی یافتہ قومیں تھیں، لیکن جب انھوں نے اللہ کے رسولؐ کی دعوت کا انکار کیا تو اللہ کی گرفت میں آگئیں اور تباہ و برباد ہوگئیں۔ آیئے دیکھیے قرآن ہمیں کیا بتاتا ہے:
وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ o وَ لَقَدْ جَآئَ ھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْھُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ o (النحل ۱۶: ۱۱۲ - ۱۱۳) اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔ ان کے پاس ان کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیا مگر انھوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ آخرکار عذاب نے ان کو آلیا، جب کہ وہ ظالم ہوچکے تھے۔
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النحل۱۶: ۱۸) اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ (ابراہیم۱۴:۳۴) اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ کہاں سے شروع کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم، یعنی سب سے اچھی صورت پر پیدا فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین۹۵:۴)ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
پھر انسان کو ساری مخلوق پر فضیلت دی:
وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا (بنی اسرائیل۱۷: ۷۰)یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
انسان کو وہ شعور اور وہ عقل دی جو باقی مخلوق کو نہیں دی۔ انسان مٹی کا پتلا ہے لیکن اسے دل و دماغ کی نعمتیں دی گئیں۔ اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ ، چلنے کے لیے پائوں، کھانے کے لیے منہ، بولنے کے لیے زبان، دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے کے لیے ناک، اور محسوس کرنے والا جسم عطا فرمایا۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں اور ان کی کوئی مارکیٹ نہیں۔ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی درخواست کے عنایت فرمائیں۔ اس کی ذات جو کسی کی محتاج نہیں، محض بندے کے فائدے کے لیے چاہتی ہے کہ بندہ اپنے منعم کو پہچانے۔ جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان نعمتوں کو اسی کی طرف سے سمجھے اور ان نعمتوں کی شکرگزاری کے طور پر اس کی بندگی کرے۔ اس کی غلامی اور اطاعت اور اس کی حکمرانی اپنے جسم و جان اور معاشرے پر قائم کرے۔ اس کے دین پر ایمان لائے اور اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کرے۔ اس کے نتیجے میں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل ۱۶: ۹۷)جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر، ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔
دنیا میں پاکیزہ زندگی میں روٹی، کپڑا، مکان اور بہترین نظم و نسق بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر انعام فرماتے ہیں۔ انھیں شکرگزاری اور بندگی کے لیے مہلت عطا کرتے ہیں۔ جب مہلت کا مقررہ وقت ختم ہوجاتا ہے تو پھر تکالیف اور مصائب سے آزماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(اعراف۷:۹۴) ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو، اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی سختی میں مبتلا نہ کیا اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔
اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام بھیج کر لوگوں کے شعور کو بیدار فرماتے ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی معرفت دیتے ہیں۔ انھیں بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتیں دینے والا ہے۔ اس نے تمھیں نعمتیں دی ہیں تاکہ تم اس کی بندگی کرو، اسے یاد کرو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تکالیف اور مصائب سے دوچار ہوجائو گے۔ تکالیف اور مصائب بھی اس لیے آتے ہیں کہ تم اپنے مالک کی طرف رجوع کرو۔ پھر بھی سیدھے راستے پر نہ آئے تو تباہ و برباد کردیے جائو گے۔ جو نبی بھی آیا اس نے اسی انداز سے لوگوں کو خبردار کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ۴۰سال بعد نبوت ملی۔ انھوں نے ساڑھے نوسوسال لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی۔ انھوں نے فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہٰرًا o مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا o (نوح۷۱:۱۰-۱۴)
میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت و تبلیغ کی۔ جب قوم نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو ان ناپاک لوگوں سے پاک کر دیا اور ساری زمین حضرت نوحؑ اور ان کے پیروکاروں (جو ۸۰ کی تعداد میں تھے) کے قبضے میں دے دی گئی۔ حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت نوحؑ پہلے نبی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ حضرت نوحؑ کو آدمِ ثانی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ زمین میں ان کے بعد انھی کی اولاد آباد ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں ہے:
ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ط اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا (۱۷:۳)اے وہ لوگو جو ان لوگوں کی اولاد ہو جو نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ نوحؑ تو اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے تھے۔
دوسری دفعہ انسان کی آبادی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور دین کی حکمرانی کا نتیجہ ہے جو انسان کو یاد دلاتا ہے کہ تمھارا تو وجودہی اللہ تعالیٰ کی بندگی کی برکت سے ہے۔ اب اگر تم اللہ کے دین کو چھوڑ کر تباہ ہوگے تو تمھارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا۔ تمھیں اللہ کی نافرمانی اور جہالت کے بجاے اپنی اصل کو یاد رکھنا چاہیے۔تمھاری اصل یہ ہے کہ تم نیک لوگوں کی اولاد ہو، جو نیکی کی بدولت زندہ رہے۔
حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ذریعے دنیا میں دوسری بڑی قوم ’عاد‘ کو وجود ملا۔ عاد کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود ؑ کو مبعوث فرمایا لیکن انھوں نے بھی وہی رویہ اختیار کیا جو قومِ نوحؑ نے اختیار کیا تھا ۔ چنانچہ یہ قوم بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی۔ قومِ عاد کے بعد تیسری بڑی قوم ثمود ان لوگوں کی اولاد تھی جو ہود علیہ السلام کی پیروی کی برکت سے قومِ ثمود کے ساتھ تباہی سے بچ گئی۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا لیکن اس قوم نے بھی اپنے ماضی کو بھلا دیا اور صالح علیہ السلام کی نصیحتوں اور معجزات کو ٹھکرا دیا جس کے نتیجے میں یہ قوم بھی تباہی سے دوچار ہوئی۔
قرآن ہمارے سامنے حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ کے حالات پیش کرتا ہے کہ کس طرح انبیا اور ان کی پیروی سے انسان کی دنیا بنتی ہے اور کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا حق دار ٹھیرتا ہے اور کس طرح نمرود اور اس کے پیروکار تباہی سے دوچار ہوئے۔ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ نے فرعون کے سامنے دعوت پیش کی، معجزات دکھائے اورعرصۂ درازتک اسے ہدایت دینے کی جدوجہد کرتے رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آلِ فرعون کو سمندر میں غرق کر دیا اور اس کی لاش کو عبرت کے لیے محفوظ کر دیا جو آج بھی مصر میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام اور ان کے ساتھ ۶ لاکھ بنی اسرائیل کو سمندر میں پانی کو روک کر اور ۱۲ راستے بناکر سمندرپار کرا دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کی برکت تھی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِقریش کے سامنے دین کی دعوت پیش کی۔ جو سعادت مند لوگ تھے انھوں نے اس دعوت پر لبیک کہا، ایمان لائے اور آپ کی اطاعت و فرماںبرداری کی، لیکن جو ضدی اور عنادی تھے، جاہ پرست تھے، اپنی بڑائی اور سرداری قائم رکھنا چاہتے تھے انھوں نے سخت مخالفت کی۔ آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں اور مٹانے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں پہلے تو سخت ترین قحط کی آفت سے دوچار کیا۔ مکہ کی وہ بستی جہاں ہرچیز وافر تھی، دنیا بھر میں پیدا ہونے والے غلے اور پھل وہاں پہنچتے تھے۔ اس بستی میں امن تھا۔ لوگ اطمینان ، چین اور سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب بستی والوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی خصوصاً اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو انھی کی قوم سے تھے، وہ ان کے خاندان کی شرافت اور آپؐ کی سیرت سے واقف اور آپؐ کی صداقت اور امانت و دیانت کے معترف تھے، تو اللہ تعالیٰ نے امن و چین اور دنیا بھر سے پہنچنے والا رزق روک دیا اور قحط کی وجہ سے بھوک اور خوف ان پر مسلط ہوگیا۔ اس آفت نے وقتی طور پر انھیں بیدار کیا۔ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، درخواست کی کہ ہم ایمان لے آئیں گے۔آپؐ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں اس قحط کی ہلاکت سے بچالے۔
آپؐ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے قحط کو دُور کر دیا لیکن کچھ مہینے گزرنے کے بعد وہ پھر اپنی سابقہ کافرانہ روش پر واپس آگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑے عرصے بعد غزوئہ بدر میں ان کے ۷۰سرداروں کو قتل اور ۷۰ کو قید سے دوچار کر دیا۔ پھر چند ہی سال بعد انھوں نے صلح حدیبیہ کی، ہتھیار ڈال دیے۔ بالآخر آٹھ ہجری کو مکہ فتح ہوگیا اور سرزمین عرب دین اسلام کے لیے مسخر ہوگئی۔ اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ نے عزت عطا فرما دی اور کفار ذلت و رُسوائی اور ہلاکت سے دوچار ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہوا اور سرزمینِ عرب سے نکل کر قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو مسخر کرتا چلا گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں آباد دنیا کو مسخر کرلیا۔ تمام عالمی طاقتیں ختم ہوگئیں اور اسلام اور اُمت مسلمہ عالمی طاقت کی حیثیت سے دنیا پر غالب ہوگئی۔
اُمت مسلمہ کی اس سوپرپاور نے دنیا کو امن اور خوش حالی دی، معاشی فراخی دی۔ زکوٰۃ دینے والے اپنی زکوٰۃ لے کر فقرا کی تلاش میں نکلتے لیکن کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلبۂ اسلام اور اس کے ذریعے امن و امان اور معاشی خوش حالی کی پیش گوئی فرما دی تھی۔
حضرت عدیؓ بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپؐ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے فاقے کی شکایت کی۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے ڈاکے کی شکایت کی۔ آپؐ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: عدی! تم نے ’حیرہ‘ کا شہر دیکھا ہے۔ اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ سے سفر پر روانہ ہوگی۔ وہ کعبے کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گی (یعنی ڈاکے ختم ہوجائیں گے مکمل طور پر امن و امان ہوگا)۔ اور اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو تم کسریٰ کے خزانے خرچ کرو گے۔ اور اگر تُو نے لمبی زندگی پائی تو دیکھو گے کہ ایک آدمی اپنا ہاتھ سونے یا چاندی سے بھر کر نکلے گا، تلاش کرے گا کہ کوئی ملے جو اسے قبول کرلے لیکن کوئی نہیں ملے گا۔ تم میں سے ایک آدمی قیامت کے روز اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے: کیا میں نے تیری طرف رسول نہیں بھیجا تھا جو تجھے میرا دین پہنچاتا تو وہ جواب میں کہے گا: کیوں نہیں۔ اے میرے رب! وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو جہنم ہوگا، بائیں دیکھے گا تو جہنم ہوگا۔ پس جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک چھلکا خرچ کر کے بچ سکو۔ یہ بھی نہ پائے تو اچھی بات کرکے۔
عدی کہتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو دیکھ لیا جو حیرہ سے چلتی ہے اور مکہ میں پہنچ کر طواف کرتی ہے، اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ اور میں ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ پھر انھوں نے کہا کہ اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہاتھ کو سونے اور چاندی سے بھر کر نکلنے والے کو دیکھ لو گے کہ اس کے سونے اور چاندی کو قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔(بخاری)
اسلام کی بدولت دنیا میں امن بھی ہوگیا اور معاشی فراوانی بھی۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بیت المال اس قدر بھر گیا کہ حضرت عثمانؓ نے عوام سے کہا کہ اپنی زکوٰۃ خود تقسیم کریں، بیت المال کے پاس پہلے سے جو مال ہے وہ کافی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد سونے اور چاندی کو اموالِ باطنہ قرار دے کر لوگوں کو اس کی زکوٰۃ خود ہی دینا پڑی۔ اور اسلامی حکومتوں میں سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کی تقسیم کا اسی طرح سے سلسلہ جاری رہا۔
آج اُمت مسلمہ ہرجگہ دہشت گردی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ دیہات ہی نہیں شہروں میں بھی دن دہاڑے ڈاکے پڑتے ہیں۔ حکومتیں ڈاکوئوںاور دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اور معاشی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ملکی سودی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ سودی قسط ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ اس وقت پاکستان اربوں ڈالر کے قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سودی قرضوں کے ذریعے ہماری دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام شب و روز محنت کر کے جو سرمایہ حاصل کرتے ہیں وہ ان کے کام آنے کے بجاے یہ عالمی ادارے لے جاتے ہیں جو امریکا کے یہودیوں کی تجوریوں کو بھرتے ہیں۔
فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ o الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ o (قریش۱۰۶:۳-۴) پس عبادت کر اس گھر کے رب کی جس نے ان کی بھوک ختم کی، کھانا دیا اور خوف کو ختم کیا اور امن دیا۔
اسلامی تاریخ بھی گواہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی بھی دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔اگر آج اُمت مسلمہ دہشت گردی اور بھوک و افلاس اور معاشی بحران سے نجات چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی کی طرف لوٹے اور اپنے ملکوں میں اسلامی نظام نافذ کرے۔ پاکستان کے مسائل و مشکلات کا حل بھی اسلامی پاکستان میں ہے۔ پاکستان اسلامی ہوگا تو امن و امان ہوگا اور بھوک و افلاس کا خاتمہ ہوگا۔ اسلامی پاکستان اور خوش حال پاکستان کا ایجنڈا قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ جماعت اسلامی کی یہی دعوت ہے، اور یہی اُمت مسلمہ کے مسائل کا بنیادی حل ہے۔
ہمارے مسائل اور مشکلات کا حل اس میں نہیں ہے کہ ہمارے پاس مال و دولت زیادہ ہوجائے، مادی آسایش اور وسائل زیادہ ہوجائیں۔ کوٹھیاں ، بنگلے، گاڑیاں اور وسائل زیادہ ہوجائیں، بلکہ ہمارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم دین کی طرف لوٹ آئیں۔ اسلام کی اخلاقی قدروں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کے احساس کی طرف لوٹ آئیں۔
اُمتوں کے عروج و زوال میں مال و دولت کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو دخل ہے۔ مال دار اور خوش حال لوگوں کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کو دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب مال دار اور خوش حال لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بستیوں والے انھیں راہِ راست پر نہیں لاتے بلکہ ان کو اپنا سربراہ بنا لیتے ہیں تو ہم ان بستیوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا o(بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہوجاتاہے اور ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں‘‘۔
مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں حکم سے مراد حکمِ طبعی اور قانونِ فطری ہے، یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔ درحقیقت اس آیت میں جس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخرکار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے خوش حال لوگوں اور اُونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب ِ اقتدار لوگ فسق و فجور پر اُتر آتے ہیں۔ ظلم و ستم، بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو، اسے فکر ہونی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاق لوگوں کے ہاتھ میں نہ جانے پائیں‘‘۔ (بنی اسرائیل کی آیت۳، حاشیہ ۱۸)
تاریخ گواہ ہے کہ جب ہم اخلاقی قدروں پر اپنی زندگیوں کو استوار کرتے تھے اور فکرِ آخرت کو اپنے ہر کام کا محور بناتے تھے تو وسائل اور اسباب کی کمی کے باوجود ہمیں ذہنی اور قلبی سکون بھی حاصل تھا اور ہمارے تمام مسائل بھی حل ہوتے تھے۔ حکمران، عدلیہ، اصحاب مال و دولت، رؤسا، سب عدل کرتے تھے اور ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ دینی رہنمائی کے لیے اہلِ علم کی طرف رجوع کرتے تھے۔ قرآن و سنت کے احکام کو سینے سے لگاتے تھے۔ عوام بھی دوسروں کے بجاے اپنی اصلاح کو اہمیت دیتے تھے اور حکمرانوں کو بھی اپنی فکر ہوتی تھی۔ تب حکمران اور عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے ہمدرد تھے۔ جماعت اسلامی اسی طرح کا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے جو اُمت مسلمہ کی ضرورت ہے اور ہماری خوش حالی کا ضامن بھی ہے۔
آیئے جماعت اسلامی کا ساتھ دیجیے۔ اپنی دنیا بھی بنایئے اور آخرت بھی سنوار لیجیے۔
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ، اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں خوش حالی عطا فرما دیجیے اور آخرت میں بھی اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے نجات عطا فرما دیجیے، آمین!
اسلام نے علم و عمل کے ہر میدان میں بڑی بڑی نابغہ روزگار اور قدآور شخصیتیں پیدا کیں۔ ایسی ہی شخصیات نے اپنے علم و فضل، سیرت و کردار، راہ حق و صفا میں بے مثال جدوجہد، اخلاص اور استقامت و عزیمت سے اس تاریخ کو تشکیل دیا۔ اپنی قربانیوں اور سرفروشیوں سے اس کو تابناکی بخشی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا شمار اسلامی تاریخ میں پانچویں خلیفۂ راشد اور مجدد اوّل کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ انھیں جو اسلامی مملکت سلیمان بن عبدالملک سے ملی تھی اور جس مسلمان معاشرے کی نگہبانی اور رہنمائی کا کام اُنھیں سونپا گیا، دونوں اخلاقی، دینی اور معاشرتی و سیاسی بگاڑ کا شکار ہوچکے تھے۔ انھوں نے اس بگاڑ کو دُور کرنے کی جدوجہد کی۔
اجتماعی زندگی کے ایک ایک شعبے میں انقلابی ، اصلاحی اقدامات کیے۔ ان کی یہ جدوجہد بارآور ہوئی۔ آپ کی خلافت حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے جس سے فیض یاب ہوکر وہ اپنی مملکت کو بھی امن و امان کا گہوارا بنا سکتے ہیں اور فلاحِ اُخروی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔
آپ کا پورا نام عبدالعزیز بن مروان اور ابوحفص کنیت تھی اور لقب اشجع بن مروان تھا۔ آپ کے والد کا نام عبدالعزیز بن مروان اور آپ کی والدہ حضرت عمرفاروق.ؓ کے بیٹے عاصم کی بیٹی اُمِ عاصم تھیں۔ آپ کی ولادت ۶۱ہجری بمطابق ۷۸۱ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
عمر بن عبدالعزیزؒ کی پرورش ثروت اور عیش و تنعم کے گہوارے میں ہوئی، جس کے اثرات خلافت ملنے تک باقی تھے۔ بچپن ہی سے علم و تقویٰ کی طرف میلان رہا۔ چھوٹی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ باپ نے طبعی میلان دیکھ کر مدینہ منورہ میں مشہور محدث صالح بن کسیان کے پاس بھیج دیا۔ ان کے علاوہ آپ نے دوسرے صلحاے مدینہ حضرت انس بن مالکؒ، سائب بن یزید، یوسف بن عبداللہ بن سلام، عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر جیسے جلیل القدر صحابہ و تابعین سے بھی استفادہ کیا۔ اکابر اُمت کی محبت کا یہ نتیجہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل کا قول ہے: ’’میں تابعین میں سے بجز عمر بن عبدالعزیز کے کسی کے قول کو حجت نہیں سمجھتا‘‘۔ (تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی)
عمر بن عبدالعزیز عبدالمالک کے بھتیجے اور داماد تھے۔ وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اس دور میں بھی ان کی فطری سعادت نے ساتھ نہ چھوڑا اور وہ جہاں جہاں رہے، اپنے حسنِ عمل کی بہترین یادگاریں چھوڑیں۔ ولید نے جب ان کو مدینہ کا گورنر بنانا چاہا تو آپ نے اس شرط پر قبول کیا کہ وہ دوسرے عمال کی طرح ظلم نہ کریں گے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز ، ابن جوزی، ص۳۲)
خاندانی جاہ و حشمت کا بھی خلافت سے پہلے آپ پر اثر رہا۔ خلافت سے پہلے خوش لباسی اور نفاست کا یہ عالم تھا کہ جو لباس ایک بار پہن لیتے پھر اسے نہ پہنتے تھے۔ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ خوش لباس آدمی مانے جاتے تھے۔ خوشبویات کا بڑا شوق تھا۔ (ایضاً، ص ۱۵۴)
lغیرمعمولی ذھانت:ابوالفرمدینی کا قول ہے کہ میں نے ایک دن سلیمان بن یسار کو عمر بن عبدالعزیز کی قیام گاہ سے نکلتے دیکھا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ انھیں پڑھاتے ہیں؟ سلیمان نے جواب دیا:’’خدا کی قسم وہ تم سب سے زیادہ جانتا ہے‘‘۔امام لیث کہتے ہیں :مجھے اس شخص نے بتایا جو عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کے حلقۂ درس سے استفادہ کر چکے تھے کہ ہم نے جس مسئلے کی بھی تحقیق کی عمر بن عبدالعزیز کو اس کے اصول و فروع میں سب سے زیادہ حاوی پایا۔میمون بن مہران کا قول ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے سامنے علماے وقت کی حیثیت شاگردوں کی سی ہے۔ (مطالعہ تاریخ اسلام، ص ۱۲)
lاضطراب کے بہنور میں:آپؒ نے اقتدار کی بھاری ذمہ داریوں کا آغاز مدینہ کی گورنری سے کیا۔ وہاں کے اکابر فقہا کو بلایا اور کہا کہ: میں نے آپ کو ایسے کام کے لیے زحمت دی ہے کہ اس میں میرا ہاتھ بٹانے سے آپ کو عنداللہ اجر ملے گا اور آپ حامی حق قرار پائیں گے۔ میں آپ لوگوں کی راے اور مشورے کے بغیر کوئی کام سرانجام نہ دوں گا۔ جب آپ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں تو آپ کو خدا کی قسم! مجھے ضرور اس کی خبر کیجیے۔ (ابن سعد، ج۵، ص ۴۴۵)
اس طرح انھوں نے حکومت کا آغاز کیا۔ اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ آپ نے موت کی تلخ حقیقت کو پہچان لیا اور مدینہ کی گورنری سے کنارہ کش ہوگئے۔
آپ نے ولید بن عبدالملک کے حکم پر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے صاحب زادے خبیب کو اپنے سامنے اس حال میں کوڑے لگوائے کہ ان کا جسم بخار میں پُھنک رہا تھا۔ سخت سردی کا موسم تھا اور صبح کا وقت، حکم دیا کہ ٹھنڈے یخ پانی سے بھری مشک ان کے سر پر انڈیل دی جائے اور پھر دن بھر مسجد کے دروازے پر کھڑے رکھا۔ خبیب ان اذیتوں کی تاب نہ لاسکے۔ بے ہوش ہوکر گرپڑے اور ان پر نزع کا عالم طاری ہوگیا اور پھر اسی حال میں انھیں ان کے اہل و عیال کے پاس پہنچا دیا گیا۔ عمر یہ ظلم تو کر بیٹھے مگر پھر آخرت کی بازپُرس کے خوف نے ان کو آلیا۔ انھوں نے ایک اصفہانی غلام کو یہ دیکھنے کے لیے بھیجا کہ خبیب زندہ ہیں یا نہیں۔ انھیں دیکھ کر عروہ بن زبیر کے صاحبزادے عبداللہ بھڑک اُٹھے اور بولے:کیا تمھارے آقا کو ابھی اس کی موت پر شک ہے۔ پھر اپنے عزیزوں سے جو میت کے پاس بیٹھے تھے، کہا: اسے خبیب کا منہ دکھا دو تاکہ گورنر کو یقین آجائے کہ اس کے ظلم کا شکار اپنے خون کا دعویٰ لیے اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ہے۔
غلام پلٹا تو عمرؒ بے قراری کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔جب معلوم ہوا کہ وہ شخص مرچکا ہے، جسم لرزنے لگا، قدم لڑکھڑائے اور گرپڑے۔ پھر سر اُٹھایا اور زبان پر انا للّٰہ وانا الیہ راجعون جاری ہوگیا۔ اپنے کیے پر ندامت اور آخرت میں جواب دہی کا خوف و احساس ، عمر کے اعصاب اور ذہن و قلب پر کچھ اس طرح سے مسلط ہوا کہ گورنری سے استعفا دے دیا اور حکومت اور موروثی سیاست کے جھمیلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ (روشن ستارے، آباد شاہ پوری، ص ۱۴)
lخلافت کا بارِ گراں: عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہاتھ پر باقاعدہ خلافت کی بیعت نہیں کی گئی تھی بلکہ حادثاتی طور پر ان کو خلیفہ بنایا گیا۔ خلیفۂ وقت سلیمان وابق کے علاقے میں تھا کہ مرض الموت میں مبتلا ہوگیا۔ جب حالت زیادہ خراب ہوگئی تو اپنے نابالغ لڑکے ایوب کو ولی عہد نامزد کیا۔ وہاں موجود محدث رجا بن حیواۃ نے کہا: خلیفہ ایسے صالح شخص کو بنانا چاہیے کہ قبر میں امن حاصل رہے۔ اس لیے رجاء کے کہنے پر سلیمان اس مسئلے پر غور کرنے لگا اور دو دن بعد ولایت نامہ چاک کرڈالا اور رجاء بن حیواۃ سے پوچھا کہ میرے لڑکے دائود کے بارے میں کیا راے ہے؟ انھوں نے کہا کہ وہ اس وقت قسطنطنیہ کی مہم پر ہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔
سلیمان نے کہا: پھر کیا راے دیتے ہو؟
رجاء نے کہا کہ اصل راے تو آپ کی ہے۔ آپ نام بتایئے میں غور کروں گا۔
سلیمان نے پوچھا: عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں تمھاری کیا راے ہے؟
رجاء نے عرض کیا: میرے نزدیک وہ نہایت فاضل اور برگزیدہ انسان ہیں۔
سلیمان نے کہا: بخدا! میرا بھی یہی خیال ہے لیکن اگر میں عبدالملک کی اولاد کو بالکل نظرانداز کرکے ان کو خلیفہ بنا دوں تو بڑا فتنہ بپا ہوجائے گا۔ اس لیے عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ اور یزید بن عبدالملک کو ولی عہد نامزد کرتا ہوں۔ رجاء نے اس کی تائید کی اور اسی وقت سلیمان نے خود اپنے قلم سے وصیت نامہ لکھا:
یہ تحریر خدا کے بندے سلیمان امیرالمومنین کی جانب سے عمر بن عبدالعزیز کے لیے ہے۔ میں نے اپنے بعد تم کو خلیفہ بنایا اور تمھارے بعد یزید بن عبدالملک کو۔
مسلمانو! ان کا کہنا سننا، ان کی اطاعت کرنا، خدا سے ڈرنا، آپس میں اختلافات پیدا نہ کرناکہ دوسرے تم پر حرص و طمع کی نگاہ ڈالیں۔
اس وصیت نامے پر مہر کر کے رجاء کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ وہ اہلِ خاندان کو جمع کر کے بغیر نام لیے ہوئے ان سے نامزد کردہ خلیفہ کی بیعت لے لیں۔ (تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی)
سلیمان کی وفات کے بعد رجاء بن حیواۃ نے اس خطرے سے کہ موت کی خبر سننے کے بعد مبادا اہلِ خاندان عمر بن عبدالعزیز کی بیعت میں کچھ لیت و لعل کریں، موت کی خبر کو مخفی رکھا۔ اہلِ خاندان کو دوبارہ جمع کر کے ان سے سلیمان کے وصیت نامے پر بیعت لی۔ بیعت کو مستحکم کرنے کے بعد سلیمان کی موت کا اعلان کیا اور وصیت نامہ پڑھ کر سنایا۔ عمر بن عبدالعزیز کا نام سن کر صرف ہشام بن عبدالملک نے ان کی بیعت سے انکار کیا لیکن رجاء نے کہا کہ خاموشی سے بیعت کرلو ورنہ تمھارا سر قلم کردوں گا اور عمر بن عبدالعزیز کا ہاتھ پکڑ کر منبر پر بٹھا دیا۔
خلافت کا بار سر پر آتے ہی عمر بن عبدالعزیز کی زندگی بالکل بدل گئی اور تخت ِ خلافت پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی ابوذرغفاریؓ اور ابوہریرہؓ کا قالب اختیار کرلیا۔سلیمان کی تجہیزوتکفین سے فراغت کے بعد حسب معمول جب آپ کے سامنے شاہی سواری پیش کی گئی تو آپ نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے۔(ابن سعد، ج۵، ص ۴۴۷)
گھر آئے تو اس بارِعظیم سے چہرہ پریشان تھا۔ غلام نے پوچھا: خیر ہے آپ اتنے متفکر کیوں ہیں؟ فرمایا: اس سے بڑھ کر فکروتشویش کی بات اور کیا ہوگی کہ مشرق و مغرب میں اُمت محمدیہ کا کوئی ایسا فرد نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبے اور اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز،ص ۵۲)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا خلافت کے بارے میں جو نقطۂ نظر تھا، اس کے اعتبار سے آپ کا انتخاب شوریٰ سے نہ ہوا تھا۔ اس لیے دست برداری کے لیے آمادہ ہوگئے اور مسلمانوں کو جمع کر کے اُن سے کہا: لوگو! میری خواہش ہے اور عام لوگوں کی راے لیے بغیر خلافت کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی ہے، اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن پر ہے میں خود اسے اُتار دیتا ہوں۔ تم جسے چاہو خود اپنا خلیفہ منتخب کرلو‘‘۔
یہ تقریر سن کر مجمع نے شور بلند کیا کہ: ’’ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے اور ہم سب آپ کی خلافت پر راضی ہیں۔ آپ خدا کا نام لے کر کام شروع کر دیجیے‘‘۔ جب آپ کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ لوگوں کو آپ کی خلافت سے اختلاف نہیں ہے تو اس وقت آپ نے اس بارِعظیم کو قبول فرمایا اور مسلمانوں کے سامنے تقریر کی۔ اس میں تقویٰ و آخرت کی تلقین کے بعد خلیفۂ اسلام کی اصل حیثیت واضح کی، جسے اُموی فرماں روائوں نے بادشاہت میں گم کر دیا تھا:
امابعد! تمھارے نبی ؑ کے بعد دوسرا نبی ؑ آنے والا نہیں ہے اور خدانے اس پر جو کتاب اُتاری ہے، اس کے بعد دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ خدا نے جو چیز حلال کردی ہے وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو حرام کر دی ہے وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں اپنی جانب سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ صرف احکامِ الٰہی کو نافذ کرنے والا ہوں۔ خود اپنی طرف سے کوئی نئی بات پیدا کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ محض پیرو ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں سے ممتاز آدمی بھی نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں۔ البتہ تمھارے مقابل میں اللہ نے مجھے زیادہ گراں بار کیا ہے‘‘۔(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ابن جوزی)
اپنی حیثیت واضح کرنے کے بعد اُمورِ خلافت کی طرف متوجہ ہوئے۔اس بارے میں آپ کا مطمح نظر اپنے پیش روئوں سے بالکل مختلف تھا۔ آپ اموی حکومت کے پورے نظام میں انقلاب پیدا کرنا چاہتے تھے۔
lشخصی خلافت کے اثرات: جب سے اسلامی خلافت نے شخصی سلطنت کا قالب اختیار کیا تھا، اس وقت سے اس میں آمرانہ حکومتوں کی ساری بُرائیاں آگئی تھیں:
۱- مذہب کی طرف رجحان کمزور پڑگیا تھا۔
۲- رعایا مغلوب ہوکر رہ گئی تھی۔
۳- زکوٰۃ اور ٹیکس کی رقم ذاتی خزانہ بن گئی تھی۔
۴- حکومتی ارکان، خاندان اور امرا کے قبضے میں کروڑوں کی جایدادیں تھیں۔
۵- سرکاری ملازمین اور گورنروں کے افعال و اعمال پر کوئی احتساب و مواخذہ نہ تھا۔
آپ کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبدالملک نے ایک بیش قیمت پتھر دیا تھا۔ عمرؒ نے بیوی سے کہا: ’’اسے بیت المال میں جمع کرو یا مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ اطاعت شعار بیوی نے اسی وقت وہ پتھر بیت المال میں جمع کر دیا۔ (تاریخ الاسلام، شاہ معین الدین ندوی، ص ۳۷۸)
ملکیت کے ثبوت کے لیے بڑی سہولت رکھی گئی تھی۔ معمولی شہادت پر مال واپس مل جاتا تھا(تہذیب الاسمائ،جلداوّل، ص ۲۰)۔ جو لوگ مرچکے تھے ان کے ورثا کو واپس مل جاتا تھا (ابن سعد،ج ۵،ص ۲۵۱)۔ غرض مال و جایداد اور نقد و جنس کی قسم سے جو بھی ناجائز طور پر کسی کے قبضے میں تھا، ایک ایک کر کے ان کے اصلی وارثوں کو واپس کردیا گیا۔(ابن سعد،ج۵،ص ۲۵۲)
آپ کے محاسن اخلاق اور تبلیغ اسلام سے آپ کا شغف سن کر بعض ملکوں نے جن کا اسلام کی طرف میلان تھا، وفد بھیج کر اپنے یہاں مبلّغین بھیجنے کی درخواست کی۔ چنانچہ تبت کے وفد کے ساتھ آپ نے سلیط بن عبداللہ کو چین روانہ کیا۔(یعقوبی،ج۳،ص ۲۶۲)
اس دعوت پر بسطام نے مناظرے کے لیے دو افراد کو بھیجا۔ فریقین میں مناظرہ ہوا، طبری اور ابن اثیر کا بیان ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے حق کا اعتراف کرلیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور دوسرا واپس لوٹ گیا۔ لیکن ابن سعد کا بیان ہے کہ خارجیوں پر اس مناظرے کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور اپنی روش پر قائم رہے۔ اس لیے حضرت عمر عبدالعزیز کو مجبور ہوکر ان شرائط کے ساتھ عبدالحمید کو ان کے مقابلے کی اجازت دینی پڑی کہ:
۱- عورت، بچے اور قیدی قتل نہ کیے جائیں، زخمیوں کا تعاقب نہ کیا جائے۔
۲- فتح کے بعد جو مالِ غنیمت ہاتھ آئے وہ خوارج کے اہل و عیال کو واپس کردیا جائے۔
۳- قیدی صرف اس وقت تک قید میں رہیں جب تک راہِ راست پر نہ آجائیں۔
ان پابندیوں کے ساتھ عبدالحمید نے مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ ان کے بعد مسلمہ بن عبدالملک بھیجے گئے۔ انھوں نے چند دنوں میں قابو حاصل کرلیا۔
والیِ حمص کو لکھا جو لوگ علم کے لیے دنیا چھوڑ بیٹھے ہیں ان کا بیت المال سے سوسو دینار وظیفہ مقرر کردیا جائے تاکہ وہ فکرِ معاش سے بے نیاز ہوکر خدمت ِ علم کرسکیں۔ مختلف ممالک میں تعلیم عام کرنے کے لیے علما کو بھیجا۔ فہم دین کے لیے پوری مملکت میں فقہا اور واعظ مقرر کیے۔ مدینہ کے مشہور فقیہہ اور محدث نافع کو جوحضرت عبداللہ بن عمر کے شاگرد تھے، مصر بھیجا۔ عرب کے بدوئوں کی تعلیم کے لیے یزیدابی مالک اور حارث اشعری کو مقرر کیا۔ (ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ، ثروت صولت، حصہ اول، ص ۱۴۹)
اس حکم پر محدثین کے مجموعے مرتب کیے گئے اور تمام ممالک محروسہ میں بھیجے گئے۔سعد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ ہم نے عمر کے حکم سے دفتر کے دفتر حدیثیں لکھیں اور انھوں نے اس کا ایک ایک مجموعہ تمام ممالک محروسہ کو بھیجا (تہذیب التہذیب، عاصم بن قتادہ)۔مغازی اور مناقب صحابہ کی جانب اس وقت تک کوئی خاص توجہ نہیں کی گئی تھی۔ عمربن عبدالعزیزؒ نے عاصم بن قتادہ کو جو مغازی اور سیرت کے بڑے عالم تھے، حکم دیا کہ جامع دمشق میں ان دونوں چیزوں کا درس دیا کریں۔
عیش و تنعم کے ساتھ شراب نوشی کا رواج بھی ہوچلا تھا۔ حضرت عمرؒ نے ان کا انسداد کیا اور عمال کو لکھا کہ کوئی غیرمسلم مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے اور شراب کی دکانوں کو حکماً بند کردیا۔ بعض حیلہ ساز جو نبیذ کے بہانے شراب پیتے تھے، ان کے بارے میں عدی بن ارطاۃ کو پیغام بھیجا کہ لوگ شراب پی کر بدمستی میں نہایت بُرے کام کرتے ہیں اور اکثر لوگ کہتے ہیں کہ شراب پینے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن جو چیز اس قسم کے کام کراتی ہے ، اس کا استعمال سخت نقصان دہ ہے۔ خدا نے اس کے بدلے میں آبِ شیریں، دودھ اور شہد جیسی چیزیں پیدا کی ہیں۔ جو شخص نبیذ بنائے وہ صرف چمڑے کے مشکیزے میں بنائے، جس پر زفت یا روغن نہ ہو کہ رسولؐ اللہ نے اس قسم کے ظروف سے منع فرمایا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی نے شراب پی تو اس کو سخت سزا دی جائے گی اور جو چھپ کر پیئے گا اس کو خدا عذاب دینے والا ہے۔ (بخاری،کتاب الولاۃ، ص ۶۸)
عدی بن ارطاۃ کو ایک فرمان لکھا کہ دین جہاں چند فرائض ، چند احکام اور چند سنن کا نام ہے، جس نے ان اجزا کی تکمیل کی، اس نے ایمان کو مکمل کرلیا اور جس نے اس کی تکمیل نہیں کی، اس نے ایمان کی تکمیل نہیں کی۔ اگر مَیں زندہ رہا تو ان کے تمام اجزا کو واضح کردوں گا کہ تم اس پر عمل کرسکو۔ اور اگر مر گیا تو مجھے تمھارے ساتھ رہنے کی حرص بھی نہیں ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان )
اس کے برعکس عمر بن عبدالعزیز اس اصول پر قائم رہے کہ مسلمانوں پر خراج (ٹیکس) عائد نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح انھوں نے ایک اور نظریہ یہ پیش کیا کہ سارا مفتوحہ ملک، ملّت کی مشترکہ ملکیت ہے۔ اس لیے نہ تو اس کے ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں اور نہ ذاتی جایداد کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں بِک کر خراج کی ادایگی سے مامون رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ۱۰۰ہجری میں انھوں نے مسلمانوں کو ایسی اراضی خریدنے کی ممانعت کردی جس پر خراج عائد تھا۔
انھوں نے خراسان کے موالی کو جنھوں نے کفار سے جنگ میں حصہ لیا تھا، نہ صرف دوسرے مسلمان سپاہیوں کی طرح مال گزاری کی ادایگی سے مستثنیٰ کر دیا، بلکہ انھیں تنخواہ بھی دی۔ اس طرح انھوں نے خلافت کے مختلف عناصر میں وحدت اور یگانگت پیدا کرنے کے کام کو آگے بڑھایا۔ تاہم انھوں نے اپنے زمانے کی مالی بدنظمی کو دُور کرنے کی ہرامکانی کوشش کی۔
مالِ مغصوبہ کی واپسی کے سلسلے میں شاہی خاندانوں سے ذمّیوں کی زمینیں بھی واپس دلائیں۔ ایک ذمّی کی زمین عباس بن ولید کے قبضے میں تھی۔ اس نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس دعویٰ کیا کہ عباس نے میری زمین پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عباس سے پوچھا: تمھارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟انھوں نے کہا: والد نے مجھے جاگیر میں دی تھی اور میرے پاس اس کی سند موجود ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: خدا کی کتاب ولید کی سند پر مقدم ہے، اور ذمّی کی زمین واپس دلا دی۔(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۳۶۰)
دمشق کا ایک گرجا ایک عرصے سے مسلمان خاندان کی جاگیر میں چلا آتا تھا۔ عیسائیوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس دعویٰ کیا۔ انھوں نے واپس دلا دیا۔ اسی طریقے سے ایک مسلمان نے ایک گرجا کی نسبت عذر داری کی کہ وہ اس کی جاگیر میں ہے۔ انھوں نے فرمایا: اگر عیسائیوں کے معاہدے میں ہے تو تم اسے نہیں پاسکتے۔ (فتوح البلدان،ص ۱۳۰)
جزیے کی وصولی کے سلسلے میں عمال ذمّیوں کے اُوپر جو سختیاں کرتے تھے ان کو بالکل بند کر دیا اور جو بدعنوانیاں ہوچکی تھیں حتی الامکان ان کی تلافی کی۔مقدمات میں ذمّیوں اور شاہی خاندان میں کوئی فرق نہ کرتے تھے۔ دونوں کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ہشام بن عبدالملک نے ایک عیسائی پر مقدمہ درج کردیا۔ عمر بن عبدالعزیز نے دونوں کو برابر کھڑا کیا۔ ہشام کو یہ ناگوار ہوا۔ اس نے تمکنت میں آکر عیسائی کے ساتھ سخت کلامی کی۔ عمر بن عبدالعزیز نے ہشام کو ڈانٹا اور سزا دینے کی دھمکی دی۔ (کتاب العیون والحدائق،ص ۵۲۶)
حضرت عمر بن عبدالعزیز فرمایا کرتے تھے کہ خدا حجاج پر لعنت کرے، نہ اس کو دین کا سلیقہ تھا اور نہ دنیا کا۔ وہ باوجود اپنے مظالم کے عراق سے ۲ کروڑ ۸۰لاکھ سے زیادہ وصول نہ کرسکا اور زمین کی آبادی کے لیے کاشت کاروں کو ۲۰لاکھ قرض دینے کے بعد کُل ایک کروڑ ۷لاکھ کا اضافہ ہوسکا اور میرے زمانے میں بغیر کسی ظلم و زیادتی کے ۱۲کروڑ ۸۰لاکھ آمدنی ہوگئی۔ اگر میں زندہ رہا تو اس آمدنی میں اور اضافہ ہوگا۔ (فتوح البلدان و ذکر سواد، ص ۵۲۶)
خلافت ملنے سے پہلے آپ کی زندگی جس عیش و تنعم میں تھی وہ بے مثال ہے۔ خلافت کے بعد سارے تکلفات سے دست کش ہوگئے اور ابوذر غفاریؓ کا قالب اختیار کرلیا۔ لونڈی، غلام فرش و فروش، لباس وغیرہ جملہ عیش و تکلف کے سامانوں کو بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کردی تھی۔ گزارے کے لیے صرف چار سو دینار سالانہ لیتے تھے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ لیتے تھے۔(ابن سعد،ج۵،ص ۲۹۶)
ایک زمانے میں ۴۰۰ دینار کا کپڑا جسم پر بار معلوم ہوتا تھا اور دن بھر کئی کئی جوڑے بدلے جاتے تھے۔ اب صرف ایک جوڑا رہ گیا تھا۔ اُسی کو دھو دھو کر پہنتے تھے۔مرض الموت میں ایک قمیص کے علاوہ دوسری قمیص نہ تھی کہ بدلوائی جاتی۔ اہلیہ سے کہا گیا کہ لوگ عیادت کو آتے ہیں، دوسری بدل لو، تو بولیں خدا کی قسم! اس کے علاوہ کوئی دوسرا کپڑا نہیں۔(ابن سعد،ج۵،ص ۱۵۴)
یوں تو آپ کا تقویٰ ہر شعبۂ زندگی میں نمایاں تھا لیکن بیت المال کا جو نمونہ آپ نے پیش کیا اس کی مثال سلاطین و فرماں روائوں کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ بیت المال سے معمولی سا فائدہ اُٹھانا بھی گوارا نہ تھا۔ جب تک خلافت کا کام کرتے تھے اس وقت تک بیت المال کی شمع جلاتے تھے۔ اس کے بعد اپنا ذاتی چراغ جلواتے۔ (تاریخ الخلفائ،ابن سعد، ص ۲۳۷، ۲۹۵)
آپ کو لبنان کا شہد بہت مرغوب تھا۔ ایک دفعہ آپ کی بیوی نے لبنان کے حاکم ابن معدی کرب کو لکھ بھیجا۔ انھوں نے بہت سا شہد بھجوا دیا۔ فاطمہ نے اسے عمر بن عبدالعزیز کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے دیکھ کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے تم نے ابن معدیکرب کے پاس کہلا بھیجا تھا۔ چنانچہ اس کو چکھا تک نہیں اور اس کو بکوا کر اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی اور ابن معدیکرب کو لکھ بھیجا کہ خدا کی قسم! گر آیندہ تم نے ایسا کیا تو اپنے عہدے پر نہیں رہ سکتے۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۱۸۸)
عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس کے جواب میں کہا: خدا کی قسم! میں نے ان کا کوئی حق تلف نہیں کیا، البتہ جس مال میں ان کا حق نہ تھا وہ ان کو نہیں دیا۔ تم کہتے ہو ان کے متعلق کسی کو وصیت کرتا جائوں تو اس معاملے میں میرا وصی اور ولی میرا خدا ہے، جو صُلحا کا ولی ہوتا ہے۔ میرے لڑکے اگر خدا سے ڈریں گے تو خدا ان کے لیے کوئی سبیل نکال دے گا، اور اگر وہ گناہ میں مبتلا ہوں گے تو وہ مال دے کر ان کو گناہ کے لیے اور قوی نہ بنائوں گا۔ پھر لڑکوں کو بلا کر باچشم پُرنم فرمایا:
میری جان تم پر قربان جن کو میں نے خالی ہاتھ چھوڑا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے تم کو اچھی حالت میں چھوڑا۔ بچّو! تم کو کوئی ایسا عرب یا ذمّی نہ ملے گا، جس کا تم پر حق ہو۔ بچّو! دو باتوں میں سے ایک بات تمھارے باپ کے اختیار میں تھی، ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجائو اور تمھارا باپ دوزخ میں جائے، دوسرا یہ کہ تم تہی دست رہو اور وہ جنت میں جائے۔ بس خدا حافظ! خدا تم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔(تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی)
انھوں نے اپنی سلطنت کے اندر بہ کثرت سرائیں بنوائیں اور خراسان کے گورنر کو لکھا کہ وہاں کے تمام راستوں میں سرائیں تعمیر کی جائیں اور جو مسلمان ادھر سے گزرے ایک شبانہ یوم اس کی میزبانی کی جائے۔ اس کی سواری کی حفاظت کی جائے۔بیمار مسافر کی دو دن میزبانی کی جائے۔ جس کے پاس گھر پہنچنے کا سامان نہ ہو، اس کا سامان کیا جائے۔ (طبری،ص ۱۳۶۴)
آپ کی اس عوام دوست حکومت کی بدولت آپ کے زمانے میں رعایا بڑی آسودہ حال ہوگئی تھی۔ ملک کے طول و عرض سے غربت و افلاس کا نام و نشان مٹ گیا، اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے۔ مہاجر بن یزید کا بیان ہے کہ ہم لوگ صدقہ تقسیم کرنے پر مقرر تھے۔ ایک ہی سال میں یہ حال ہوگیا کہ ایک سال پہلے جو لوگ صدقہ لیتے تھے، وہ دوسرے سال دوسروں کو صدقہ دینے کے قابل ہوگئے تھے۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۹۰)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی صرف اڑھائی سالہ خلافت کی اس مختصر مدت میں یہ حالت ہوگئی تھی کہ لوگ عمال کے پاس صدقے کا مال تقسیم کرانے لے جاتے تھے، اور کوئی لینے والا نہ ملتا تھا، اور وہ لوگ مجبور ہوکر صدقہ واپس لے جاتے تھے۔
اس مرض سے بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی اس لیے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک جسے سلمان بن عبدالملک نامزد کر گیا تھا، یہ وصیت نامہ لکھوایا:
میں تم کو اس حال میں وصیت نامہ لکھ رہا ہوں کہ مرض نے بالکل لاغر کردیا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ خلافت کی ذمہ داریوں کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جائے گا اور خدا مجھ سے اس کا محاسبہ کرے گا اور میں اس سے کوئی کام نہ چھپا سکوں گا۔
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْھِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ(اعراف ۷:۷) ہم ان لوگوں سے اپنے ذاتی علم سے واقعات بیان کرتے ہیں اور ہم غیرحاضر نہ تھے۔
ایسی حالت میں اگر خدا مجھ سے راضی ہوگیا تو میں کامیاب ہوا اور ایک طویل عذاب سے نجات پائی اور اگر ناراض ہوا تو میرے انجام پر افسوس ہے۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ محض اپنی رحمت سے عذاب دوزخ سے نجات دے اور اپنی رضا سے جنت عطا کرے۔ تم کو بھی تقویٰ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ میری طرح تم بھی تھوڑے ہی دن زندہ رہو گے۔ تم کو اس سے بچنا چاہیے کہ غفلت میں کوئی ایسی لغزش سرزد نہ ہوجائے جس کی تلافی نہ کرسکو۔ سلیمان بن عبدالملک خدا کا ایک بندہ تھا۔ خدا نے اس کو وفات دی۔ اس نے مجھے خلیفہ بنایا اور میرے بعد تم کو نامزد کیا۔ میں جس حال میں تھا اگر وہ اس لیے ہوتا کہ بہت سی بیویوں کا انتخاب کرلوں اور مال و دولت جمع کر لوں تو خدا نے مجھے اس سے بہتر سامان دیے تھے جو وہ اپنے کسی بندے کو دے سکتا تھا، لیکن میں سخت اور نازک سوال سے ڈرتا ہوں، بجز اس کے کہ خدا میری مدد فرمائے۔(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۲۸۰)
آپ حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ فضول پیدا نہیں کیے گئے اور نہ یوں ہی چھوڑ دیے جائیں گے۔ آپ کے لیے ایک جاے بازگشت ہے جہاں اللہ تعالیٰ آپ کا فیصلہ کرنے کے لیے نزول اَجلال فرمائے گا۔ جو شخص کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو ہرشے پر حاوی ہے، سے خارج ہوگیا اور اسے جنت الفردوس سے جس کا عرض آسمان اور زمین ہیں محروم کردیا گیا وہ بلاشبہہ گھاٹے اور نقصان میں رہا۔ کل قیامت کے دن صرف اسی کو امان ملے گی جو اللہ سے ڈرا اور جس نے ختم ہونے والی دنیا کو ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کی خاطر، تھوڑی کو بہت سی کے لیے، اور اندیشے کی چیز کو محفوظ شے کے لیے بیچ ڈالا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ ان لوگوں کی اولاد ہیں جو ہلاک ہوگئے۔ اس طرح اور لوگ آکر آپ کے جانشین ہوجائیں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا یہاں تک کہ پھر سب کے سب اس ذات کی طرف غور کریں جو ہرشے کا بہترین وارث ہے۔ روزانہ صبح و شام اللہ کی طرف آپ لوگ چلے جارہے ہیں۔ جو اپنی مقررہ معیارِ زندگی پوری کرلیتا ہے اسے آپ زمین کے شگاف میں دفن کردیتے ہیں۔ نہ اس کے سر کے نیچے تکیہ رکھتے ہیں اور نہ اس کے نیچے فرش بچھاتے ہیں۔ وہ متوفی اپنے دوستوں اور تمام دوسری دنیاوی اشیا سے قطع تعلق کرکے زمین میں بودوباش اختیار کرلیتا ہے اور اپنے اعمال کے حساب کتاب کا سامنا کرتا ہے۔ بس صرف اس کے اعمال اس کے لیے زادِ راہ ہوتے ہیں جو کام اس نے اپنی زندگی میں کرلیے ہیں ان کا وہ محتاج رہتا ہے اور جو مال و متاع پیچھے چھوڑ جاتا ہے اس سے بالکل بے پروا ہوتا ہے۔ اس لیے موت کے آنے سے پہلے اللہ سے ڈرتے رہیے۔ (ایضاً، ۴۵-۴۶)
۲۰ روز علیل رہنے کے بعد ۱۰۱ہجری کے ختم ہونے میں پانچ راتیں باقی تھیں کہ آپ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔۳۹سال اور چند ماہ عمر پائی، دو سال پانچ ماہ اور چھے روز خلافت پر متمکن رہے اور بئر سمعان میں دفن کیے گئے۔
علامہ محمد اقبالؒ دنیاے اسلام کے ایک عظیم مصلح ہیں۔ اُن کی لافانی فکری و اصلاحی خدمات کی وجہ سے اُن کو عالمِ اسلام میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ مغربی تہذیب پر ان کی نظر گہری اور وسیع تھی۔ وہ مغربی فلسفۂ حیات اور اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر گہری نظر رکھتے تھے اور مغرب کو ایک جامع انسانی نظریے سے محروم سمجھتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ صرف مسلمانوں کے پاس ایسا نظم ہے جو اجتماعی زندگی کی اصلاح کرسکتا ہے اور تہذیب ِانسانی کو ایک ضابطۂ حیات دے سکتا ہے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کو تلقین کی وہ سائنسی اور جدید علوم میں مغرب سے استفادہ کریں مگر یہ بھی نصیحت کی مغربی تہذیب کا شکار ہونے سے بچیں۔
مولانا مودودی کا خیال ہے کہ سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انھوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علماے دین اور اہلِ مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے، مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا تھا اورکیا جاتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان اہلِ علم کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے تو واقف تھے لیکن مغربی علوم، مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ وہ ان سے زیادہ مغرب کو جانتا تھا اور ان سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف تھا۔ اقبال نے مغربیت، مغربی مادہ پرستی، مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی۔ یہ چوٹ اس لیے لگائی کہ مسلم معاشرے بھی مغربی تہذیب اور مغربی مادہ پرستی کی چکاچوند کا شکار ہو رہے تھے۔ اقبال کے فلسفے اور شاعری میں یورپ پر کڑی تنقید دکھائی دیتی ہے اور یورپ کو دنیا پرستی کی علامت کے طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔ اس علامت کے ذریعے اقبال اپنے عہد کے مسلم معاشرے کو مخاطب کرتا ہے اور آنے والے زمانوں میں مسلم معاشرے کو خبردار کرتا ہے کہ وہ اس راہ کو اختیار نہ کرے جو دنیا پرستی کا راستہ ہے اور ان رویوں کو اپنانے سے احتراز کرے جو مذہب کے سطحی مظاہر ہی کو صداقتِ کُل گردانتے ہیں۔ یورپ کی ایسی تصویر دکھانے سے اقبال کا مقصد یہی تھا (اور ہے) کہ مسلم معاشرہ اپنی نشوونما کے دوران ان مصائب سے بچ سکے جو یورپی معاشرے کو اپنے ارتقائی عمل میں پیش آئے ہیں۔
کسی تہذیب کی اساس خاندان ہے اور خاندان کا مرکزِ نگاہ عورت ہے۔ چنانچہ علامہ اقبالؒ نے مغربی تہذیب سے اجتناب کے سلسلے میں مسلمان عورت کو مخاطب کر کے اپنی اجتماعیت اور اپنے معاشرے کی حفاظت کا سبق دیا ہے۔
اسرارِ خودی میں انھوں نے مسلمان عورت سے مخاطب ہوکر جو کچھ کہا، اس کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے: ہمارے بچے نے جب اپنی زبان کھولنی شروع کی تو سب سے پہلے تجھ سے کلمہ لا الٰہ الا اللہ سیکھا۔ ہماری بجلی چمکی تو اُس نے صحرا اور فلک بوس پہاڑوں سب میں ہمارا پیغام پہنچا دیا۔ تہذیب ِ جدید ہمارے دین پر ڈاکا ڈالنے کے درپے ہے۔ یہ بے باک اور بے پروا تہذیب ہے جو کہ معصوم لوگوں کی گھات میں بیٹھی ہے۔ اِس پُرفریب تہذیب کے گرفتار لوگ اپنے آپ کو آزاد اور اِس کے مارے اور ڈسے ہوئے لوگ اپنے آپ کو زندہ و متحرک سمجھتے ہیں۔ ُتو شریعت ِ محمدیؐ جیسی نعمت کی امین ہے، اور ہماری بکھری ہوئی ملّت کو جمع کرنے والی ہے۔ اپنے آپ کو سود و زیاں سے آزاد کرکے اپنے آبا کے نقشِ قدم سے ایک گام بھی نہ ہٹنا۔ زمانے کے دست برد سے ہوشیار رہ کر اپنی نسل کو محفوظ کرلینا۔ نئی نسل کو جو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہو رہی ہے اور اُن کے اندر اپنی اقدار راسخ نہیں ہوئیں، ایسے میں فاطمہؓ کی طرح بن جانااور اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کرلینا کہ ہمارے گلزار کو پھر بہار کی نوید مل جائے اور پھر سے ہماری نسلوں میں ایک حسینؓ نمودار ہوجائے۔
پھر وہ ایک پورا باب امومت اور مامتا کے ادارے پر باندھتے ہیں اور فرماتے ہیں: عورت مرد کے ساز کی آواز ہے۔ مرد کی زندگی کا ساز عورت کے بغیر بے آواز ہے۔ مرد کی صلاحیتیں عورت کے ساتھ دوبالا ہوجاتی ہیں۔ عورت کا وجود مرد کے لیے لباس کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت کے دل کو لبھانے والا حُسن اور عورت کی آغوش حقیقی عشق کی پرورش کرنے والی ہے۔ اُس کے خاموش مضراب (زخم) سے زندگی کا ساز نمودار ہوتا ہے۔ اُس ہستیؐ نے جس پر کائنات کو ناز ہے، عورت کا ذکر خوشبو اور نماز کے ساتھ کیا ہے۔ وہ مسلمان جس نے کہا کہ عورت مرد کی پوجا کرنے والی بنے، اُس نے قرآنِ حکیم کی حکمت کے راز کو سمجھا ہی نہیں۔ اگر تم ٹھیک اور صحیح فکر کے مالک ہو تو جان لو کہ ممتا رحمت ہے کیونکہ اُسے نبوت سے معلمی کی نسبت ہے۔ حضوؐر (جو کائنات کی وجہِ مقصود ہیں) نے فرمایا کہ جنت مائوں کے قدموں تلے ہے۔ زندگی کی رفتار ممتا سے رواں دواں ہے۔ امومت کے فیض سے ہمارے چشمے اُبل رہے ہیں۔ ہمارے چشموں کو موجیں اور تیزرفتاری اور ساری حرکت ممتا کی برکت سے ہیں۔
پھر وہ مغربی تہذیب کی دلدادہ عورتوں اور اُمت کی مطلوب عورتوں کا فرق بیان کرتے ہوئے مثال پیش کرتے ہیں: وہ لڑکی جو کسی دہقان کی گنوار، جاہل اور بدصورت بیٹی ہے اور تہذیب ِ جدید کے آداب اور اس کی رنگینیوں سے ناواقف ہے، وہ کوتاہ نظر، کم زبان اور سادہ مزاج ہے مگر ممتا کی تکلیفوں سے اُس نے اپنا دل خون کیا ہے۔ ماں بننے کے دشوار گزار عمل سے اُس کی آنکھوں کے گرد نیلے حلقے پڑ چکے ہیں، مگر اُس کے وجود سے ملّت کو ایک حق پرست انسان میسر آجاتا ہے۔ لہٰذا ہماری ملّت کا وجود اُسی کے مرہونِ منت ہے۔ اُس کی شام کی وجہ سے ہماری سحر فروزاں ہے۔ اِس کے برعکس وہ نازک صورت پیکر جس کی آنکھیں اپنے حُسن کی وجہ سے حشر برپا کیے ہوئے ہیں مگر اس کی آغوش خالی ہے، اُس کی فکر مغربی تہذیب و دانش سے آراستہ ہے۔ ظاہراً وہ عورت ہے مگر دراصل اُس کا باطن نازن ہے۔ ملّت کے مسلمہ اصولوں اور بندھنوں کو اُس نے توڑا ہے اور اُس کی نازو انداز والی فتنہ گر آنکھوں نے اور اُس کی آزادی اور ڈھٹائی نے فتنے اُبھارے ہیں اور حیا سے ناآشنا آزادی نے اور اُس کے علم نے بارِ امومت کے گراں بار فریضے کو ادا کرنے سے باز رکھا ہے اور اُس کی شام پر ایک ستارہ بھی چمکنے نہ پایا۔ ہمارے ملّت کے باغ میں ایسی عورتوں کے پھول نہ ہی کھِلیں تو بہتر ہے۔ اِس کے وجود کے داغ سے ہماری ملّت کا دامن پاک رہے تو زیادہ بہتر ہے۔
اِن اشعار میں آج کی آزاد اور مغربی اقدار کی دل دادہ خواتین کو علامہ نے آئینہ دکھایا ہے۔ وہ حضرت فاطمہ زہراؓ کو مسلمان خواتین کے لیے نمونۂ کامل اور آئیڈیل راہنما خاتون سمجھتے ہیں، لہٰذا ایک پورا باب حضرت فاطمہ زہراؓ کی نذر کیا ہے۔ وہ ملّت و قوم کا سرمایہ، مال و دولت کو نہیں، بلکہ نئی نسل کو سمجھتے ہیں۔ جب تک انسانی وسائل نہ ہوں تو مادی وسائل کسی کام کے نہیں رہتے:
قوم را سرمایہ ای صاحب نظر
نیست از نقد و قماش سیم و زر
مال او فرزند ہاے تندرست
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چُست
(اے صاحب ِ نظر نقدی، لباس اور چاندی سونا قوم کا سرمایہ نہیں۔ اس قوم کی دولت تندرست بیٹے ہیں جن کے دماغ روشن ہوں اور وہ محنتی اور چاق و چوبند ہوں۔)
حافظ رمز اخوت مادران
قوت قرآن و ملّت مادران
(اخوت کے راز کی حفاظت مائیں کرتی ہیں۔ مائیں ہی قرآن اور ملّت کے لیے باعث ِ قوت ہیں۔)
سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؓ کو مسلم خواتین کو ایک نمونۂ کاملہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت مریمؑ ایک نسبت سے محترم ہیں، سیّدہ فاطمہؓ تین نسبتوں سے محترم ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رسولِؐ پاک جو امام اوّلین اور آخرین تھے، کی صاحبزادی ہیں۔ رسولِؐ پاک نے زمانے کے پیکر میں نئی روح پھونک دی اور ایک ایسا دور وجود میں لائے جس کا آئین تازہ و جدید ہے۔ حضرت فاطمہؓ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی زوجہ محترمہ تھیں، جو سورئہ دہر(ھل اتٰی سے شروع ہوتی ہے) کی آیت کے مصداق تھے۔ سیدنا علیؓ کا لقب شیرخدا ہے۔وہ بادشاہ تھے مگر حجرہ ان کا محل تھا اور ان کا سارا سامان ایک تلوار اور ایک زرہ پر مشتمل تھا۔ حضرت فاطمہؓ کی تیسری نسبت یہ ہے کہ وہ سیدنا حسینؓ کی والدہ تھیں جو پُرکارِ عشق کے مرکز اور کاروان عشق کے سالار تھے۔ آپؓ سیّدنا حسنؓ کی بھی والدہ تھیں جو شبستانِ حرم کی شمع تھے اور جنھوں نے خیرالامم (اُمت مسلمہ) کے اتحاد کی حفاظت فرمائی۔ مائیں بیٹوں کی سیرت و کردار بناتی ہیں اور انھیں صدق کا جوہر عطا کرتی ہیں۔ سیّدہ فاطمہؓ تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور مائوں کے لیے اسوئہ کاملہ ہیں۔ا یک مسکین کے لیے آپؓ کا دل اس طرح تڑپا کہ اپنی چادر یہودی کے پاس فروخت کر کے اس کی مدد کی۔ نوری اور آتشی سب آپؓ کے فرماں بردار تھے۔ آپؓ نے اپنی رضا کو شوہر کی رضا میں گم کر دیا تھا۔ آپؓ نے صبرورضا کی ادب گاہ میں پرورش پائی تھی۔ ہاتھ چکّی پیستے اور لبوں پر قرآنِ پاک کی تلاوت ہوتی تھی۔ آپؓ کے آنسو تکیے پر کبھی نہ گرے (آپؓ نے تنگیِ حالات پرکبھی آنسو نہ بہائے)۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ کا کلام بلاشبہہ قرآن و سنت کی تفسیر ہے۔ وہ اُمت مسلمہ کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ عورت کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتا دیکھنا چاہتے تھے اور اس کی پاک طینت کو دین کی قوت اور ملّت کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اسے زندگی کی حرارت کی پاسباں اور اس کی فطرت کو زندگی کے راز ہاے دروں کی لوح کہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اسے آبرومندانہ زندگی گزارنے کا قرینہ بھی بتاتے ہیں۔ انھوں نے مسلم عورت کے لیے حضرت خدیجہؓ ، حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ کو رول ماڈل قرار دیا ہے، جب کہ بطور ماں اسے حضرت فاطمہؓ کے اسوہ سے روشنی حاصل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں ؎
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری
(حضرت فاطمہؓ کی تقلید اختیار کرو اور اس دورِ جدید کے فتنوں سے چھپ جائو تاکہ تمھاری گود حضرت شبیرؓ جیسے فرزند سے بھر جائے۔)
مزید فرماتے ہیں ؎
مزرعِ تسلیم را حاصل بتولؓ
مادراں را اسوئہ کامل بتولؓ
(حضرت فاطمہؓ تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور مائوں کے لیے اسوئہ کامل ہیں۔)
(تدوین: رفیع الدین ھاشمی)
ڈاکٹر صفدر محمود سیاسیات اور تاریخ کے معلّم رہے ہیں۔ سیاست اور تاریخ کا آپس میں گہرا تعلق ہے، چنانچہ ہماری سیاسی اور ملّی تاریخ کے دو بڑے کرداروں (اقبال اور جناح)اور ایک بڑے محور (پاکستان) سے ان کی دل چسپی فطری ہے___ اگر معلّم صاحب ِ نظر ہو اور قلم و قرطاس سے بھی علاقہ رکھتا ہو، تو وہ معلّمی کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی، اپنے خیالات کے اظہار سے کبھی سبک دوش نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے ہزاروں قارئین کو قومی، ملّی،علمی، تہذیبی اور تعلیمی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے متعلق اپنے خیالات سے مستفید کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے سیکڑوں ہی کالم لکھے ہوں گے۔
ڈاکٹر موصوف کے نسبتاً مفصل مضامین کا مجموعہ اقبال، جناح اور پاکستان کے عنوان سے چند برس پہلے شائع ہوا تھا، جس کا مطالعہ پیشِ نظر ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت بلاشبہہ بہت دل کش تھی۔ انھوں نے پاکستان کا مقدمہ جس قانونی اور سیاسی مہارت سے لڑا اور برعظیم کی ملّت ِاسلامیہ کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کھینچ کر سلامتی سے ساحل پر لے آئے، اس نے انھیں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا محبوب لیڈر بنا دیا۔ قائداعظم، ڈاکٹر صفدر محمود کے بھی محبوب لیڈر ہیں۔
جب انسان کسی شخصیت کا گرویدہ ہو تو وہ کوئی نہ کوئی ’اتفاق‘ یا ’مناسبت‘ تلاش کر لیتا ہے۔ جس کی بظاہر تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی مگر وہ اسے اپنی عقیدت اور گرویدگی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنالیتا ہے۔ دیکھیے، صفدر محمود نے ایک ’اتفاق‘ اور ’مناسبت‘ تلاش کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم کی واحد اولاد، یعنی ان کی بیٹی دِینا جناح نے ۱۴؍اور۱۵؍اگست ۱۹۱۹ء کی درمیانی شب کو جنم لیا۔ ان کی دوسری اولاد اس کے صحیح ۲۸برس بعد ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب کو معرضِ وجود میں آئی اور اس کا نام ’پاکستان‘ رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے‘‘۔ (ص ۳۰)
قائداعظم مغربی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے اور اپنی ظاہری وضع قطع، رہن سہن اور لباس و اَطوار سے وہ ایک جدید اور تہذیبِ مغرب میں ڈھلے ہوئے ماڈرن قسم کے شخص معلوم ہوتے تھے۔ صفدر محمود صاحب نے ان کے کچھ ایسے پہلو دکھائے ہیں جن سے وہ پکّے پیڈے، اوّل و آخر اور مذہبی فرقوں سے ماورا خالص مسلمان نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ محمد علی جناح نے اپنا نکاح ایک سُنّی عالم مولانا نذیراحمد صدیقی سے پڑھوایا (جو مولانا شاہ احمد نورانی کے سگے تایا تھے)۔ یہ معلوم ہے کہ قائداعظم کا خاندانی تعلق اِثناعشری فرقے سے تھا مگر ان کے نزدیک فرقوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ زیرنظر کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک بار کسی نے قائداعظم سے پوچھا: آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ قائداعظم نے جواباً سائل سے پوچھا: آں حضور نبی کریمؐ کا مذہب کیا تھا؟ ظاہر ہے قائداعظم کا جواب بہت معنی خیز اور بلیغ تھا۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے بجا طور پر قائداعظم کو ایک سچا، کھرا اور باوقار انسان قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قائداعظم کے ہاں راست گوئی اور عظمت ِکردار سیرت النبیؐ کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی۔ وہ کہتے ہیں: قائداعظم کی تقریریں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت، اسلام کی بقا اور عظمت، اسوۂ حسنہ، اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی جیسے احساسات و تصورات، اُن کے خون میں شامل تھے۔ ڈاکٹر موصوف، قائداعظم کی ۱۹۳۹ء کی ایک تقریر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انھیں برعظیم کے مسلمانوں کے مسلّمہ راہنما کا مقام اور مرتبہ اس وجہ سے ملا کہ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضاے الٰہی کی تمنا رکھتے تھے (ص ۳۶)۔ وہ سرتاپا سچے مسلمان اور پکّے مومن تھے۔ صفدر محمود صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے‘‘۔ وہ خواب کیا تھا؟ لکھتے ہیں:
مولانا اشرف علی تھانوی نہ صرف عالم و فاضل شخصیت اور مفسر قرآن تھے بلکہ ایک بلند روحانی مرتبہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لاکھوں معتقدین ہندو پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ تعمیر پاکستان اور علماے ربانی کے مصنف منشی عبدالرحمن نے [قائداعظم کا مذہب و عقیدہ کے] ص ۱۱۱ پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہر زادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدانِ حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا، علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا: یہ اس مجمعے میں کیسے شامل ہوگئے؟ تو مجھ سے کہا گیا کہ محمدعلی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں، اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے‘‘۔ یقینا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا سا صلہ تو ضرور ہوگا۔ انھی مولانا اشرف علی تھانوی نے ۴جولائی ۱۹۴۳ء کو مولانا شبیراحمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا: ’’۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ میرا وقت آخری ہے۔ میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا۔ مشیت ِایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم ہو۔ قیامِ پاکستان کے لیے جو کچھ ہوسکے، کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر اُبھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا‘‘۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا، مولانا ظفر عثمانی نے تھانوی صاحب کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پیشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی نمازِ جنازہ مولانا شبیراحمد عثمانی نے پڑھائی۔ (ص ۳۵-۳۶)
ان دنوں ڈاکٹر صفدر محمود ایک کثیر الاشاعت اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ اسی اخبار کے کچھ بزعمِ خویش دانش ور کالم نویس وقتاً فوقتاً ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر شخص تھے اور وہ پاکستان کو بھی سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر بھی بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی تقریروں یا تحریروں میں کبھی لفظ ’سیکولرازم‘ استعمال نہیں کیا۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر (جس کا سیکولرسٹ دانش ور سہارا لیتے ہیں) فی البدیہہ تھی اور خود قائد نے کہا تھا کہ یہ کوئی سوچا سمجھا بیان نہیں ہے۔
جب انھوں نے یہ کہا کہ آپ آزاد ہیں، مندر میں پوجا کریں، یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کس مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق ہے، اس سے حکومت کو سروکار نہیں (ص۴۲)، تو اس کے یہ معنٰی نہیں کہ پاکستان سے اسلام کو بے دخل کردیا جائے گا بلکہ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ بطور شہری، مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صفدرمحمود کہتے ہیں کہ قائداعظم کو اسلام سے گہرا لگائو تھا۔ اسلام ان کے تیقّن اور باطن کا حصہ تھا۔ انھوں نے قرآن اور سیرت کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے قائداعظم کی تقریروں کے کچھ حوالے بھی دیے ہیں، مثلاً:
۱- ’’اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔ (پشاور، نومبر ۱۹۴۵ئ)
۲- ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐ اسلام نے دیا ہے‘‘۔ (سبّی، بلوچستان، ۱۴فروری ۱۹۴۷ئ)
۳- ’’میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں‘‘ ۔ (لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ)
۴- ’’میں ان لوگوں کے عزائم کو نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳۰۰ سال پہلے ہوتا تھا‘‘۔ (کراچی، ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ئ)
اس طویل مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صفدر محمود نے قارئین سے سوال کیا ہے: ’’اب آپ خود فیصلہ کرلیجیے کہ کیا قائداعظم ذہنی طور پر سیکولر تھے اور کیا وہ پاکستان کے لیے کسی سیکولر نظام کا خواب دیکھتے تھے؟‘‘
زیرنظر کتاب میں مصنف نے تصورِ پاکستان کے مختلف پہلوئوں، تعبیرات اور تحریکِ پاکستان کے مختلف عنوانات (تقسیم ہند کی تجویز، خطبۂ الٰہ آباد، قراردادِ لاہور، کابینہ مشن پلان) پر بھی بحث کی ہے۔ ان سب مباحث میں قائداعظم کی ذات، ان کی شخصیت اور ان کے بیانات و تقاریر کا حوالہ بار بار آیا ہے۔ آٹھویں مضمون بہ عنوان: ’قائداعظم سے منسوب غلط بیانات و احکامات‘ میں بعض بے بنیاد اور مشکوک روایات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے، مثلاً قائداعظم سے ایک جملہ منسوب ہے: ’’پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا‘‘۔ ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل ہے، نہ کوئی حوالہ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے ۲۵دسمبر ۲۰۰۱ء کو روزنامہ ڈان میں اپنے ایک مضمون میں قائداعظم سے یہ جملہ منسوب کیا تھا: He said that he and his typwriter made Pakistan۔ ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ جب میں نے سوال کیا کہ حوالہ کیا ہے؟ تو جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے اعتراف کیا کہ اس جملے کی صحت کے لیے ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے، البتہ میں نے یہ بات مسلم لیگی لیڈر احمد سعید کرمانی سے سنی تھی۔ صفدر محمود صاحب کرمانی صاحب کے پاس پہنچے تو کرمانی نے مکمل نفی میں جواب دیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی گفتگو لکھ کر ڈاکٹر مبارک علی کو بھیجی مگر انھوں نے چپ سادھ لی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے غالی اشتراکی کو ایسی ہی حرکت زیبا ہے۔ اس سے پہلے وہ اصلاحِ احوال کے لیے سرسیّداحمد خاں،شبلی اور اقبال جیسے اکابر کی کاوشوں کو رد کرچکے ہیں۔ ان کے خیال میں سرسیّداحمد خاں جاگیردارانہ ذہن رکھتے تھے اور ان کی تمام تر کاوشوں کا مقصود مسلم عوام کی بھلائی نہیں،بلکہ امرا، زمین داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ انھیں تو یہ بات بھی کھٹکتی اور بُری لگتی ہے کہ شبلی نے الفاروق، النعمان اور المامون لکھ کر مسلمانوں کو ان کے ماضی کی عظمت کا احساس دلا کر اپنی شان دار روایات پر ’ بے جا فخر‘ کرنا سکھایا۔ اور عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناول لکھ کر ان میں مسلمانوں کی عظمت اور برتری کو پیش کیا‘۔ وہ مسلم فتوحات کو بھی ’سامراجیت‘ کے ذیل میں شمار کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری، ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک ’مغرب کے خلاف نفرت کے جذبات‘ پیدا کرتی ہے۔ اقبال جمہور دشمن تھے، معاشرے میں عورت کے صحیح مقام کا تعین نہیں کرسکے اور معاشرے کو کوئی مثبت پیغام دینے میں ناکام رہے۔ بحیثیت مجموعی ان کے افکار اور شاعری معاشرے کی ترقی اور شعور بیدار کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ڈاکٹر مبارک علی کا کتابچہ سرسیّد اور اقبال: آگہی پبلی کیشنز، حیدرآباد، سندھ، ۱۹۸۴ئ)
وہ سندھ یونی ورسٹی میں تاریخ کے استاد تھے مگر وہاں ان کی دال نہیں گلی۔ لاہور کے بائیں بازو والوں نے انھیں خوش آمدید کہا۔ درحقیقت مبارک علی کا شمار قائداعظم کے بقول ’جان بوجھ کر شرارت‘ کرنے اور یہ پروپیگنڈا کرنے والوں میں ہونا چاہیے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی (ص ۴۷)۔ صفدر محمود صاحب نے مبارک علی کے اس جھوٹ کی بھی تردید کی ہے کہ قائداعظم کہتے تھے کہ میں پاکستان کا واحد خالق (sole creator) ہوں۔
اسی مضمون میں صفدر محمود صاحب نے قائداعظم سے منسوب اس فقرے ’’میری جیب میں کھوٹے سکّے ڈال دیے گئے ہیں‘‘ پر بھی بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ قائداعظم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مذکورہ بالا جملے کے راوی میاں عبدالعزیز مالواڈہ ہیں، اور ان کا بیان قلم بند کرنے والے سابق سیکرٹری مالیات حکومت ِ پاکستان جناب ممتاز حسن تھے، جو تحریکِ پاکستان کے پُرجوش مؤیّد اور محب ِ وطن پاکستانی تھے اور قائداعظم اور اقبال سے بے پایاں عقیدت رکھتے تھے۔ اس کا حوالہ ہے: نقوش لاہور کا اقبال نمبر، حصہ دوم،ص ۶۲۶،۱۹۷۷ئ۔
پروفیسر محمد منور نے بھی اس فقرے کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے مضامین میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ صفدر محمود صاحب غور فرمائیں کہ اِنھی کھوٹے سکّوں کی کثرت کی وجہ سے آج پاکستان اس حال کو پہنچا ہوا ہے، لہٰذا قائداعظم نے جب اور جس مناسبت سے بھی کھوٹے سکّوں کا ذکر کیا تو کچھ غلط نہیں کیا۔کتاب کے آخر میں تین ضمیمے شامل ہیں۔
چودھری رحمت علی، تحریکِ آزادیِ ہند کے ایک اہم کردار تھے۔ جنوری ۱۹۳۳ء میں انھوں نے Now or Never (اب یا کبھی نہیں) نامی کتابچہ شائع کیا تھا جو ڈاکٹر صفدر محمود کے بقول: ’’پاکستان کے مقدمے کی ایک مکمل دستاویز‘‘ ہے۔ کتاب کے ضمیمہ نمبر ایک میں انھوں نے چودھری رحمت علی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک نازک اور ایک حد تک مایوسی کے دور میں، وہ ایک پُرخلوص والہانہ جذبے سے برطانیہ کے مقتدر حلقوں تک پاکستان کا جواز ثابت کرنے اور پیغام پہنچانے میں لگے رہے۔ باستثناے اقبال اس وقت تک مسلمانوں نے ایک الگ اور آزاد مسلم ریاست کے بارے میں سوچا نہ تھا۔ ’’ Now or Never ہماری تحریکِ آزادی میں جلنے والا وہ چراغ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کی منزل کی نشان دہی کی بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کی سمت بھی متعین کردی۔ اس لحاظ سے ہم بہ حیثیت قوم چودھری رحمت علی کے احسان مند ہیں‘‘ (ص۱۴۷)۔ آخر میں مصنف اظہار افسوس کرتے ہیں کہ چودھری رحمت علی کی جذباتی افتادِ طبع سے معاملہ بگڑ گیا۔ انھیں زمینی حقائق کا احساس نہ ہوا (انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے تقسیم ہند منصوبے کو The greatest betrayal (عظیم ترین غداری) قرار دیا۔ انھوں نے قائداعظم کے خلاف زہر اُگلا۔ کاش تقسیم سے قبل وہ ہندستان آکر عملاً تحریکِ آزادی میں حصہ لیتے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان آئے تو قدرتی طور پر خفیہ اداروں نے ان کی نگرانی کی، مایوس ہوکر واپس برطانیہ چلے گئے۔
ضمیمہ نمبر۲ میں قائداعظم کے اے ڈی بریگیڈیئر نوراے حسین کا ایک مضمون نقل کیا ہے جس میں انھوں نے قائداعظم سے منسوب بعض بے بنیاد باتوں کی تردید کی ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود کے یہ مضامین ان کے برسوں کے غوروفکر اور تحقیق کا ثمر ہیں۔ جیساکہ انھوں نے دیباچے میں لکھا ہے: ان کے اظہارخیال کا انداز واسلوب غیر روایتی ہے۔ بلاشبہہ قاری اس کتاب کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ روپے کے ساتھ، وقت بھی ضائع کیا ہے۔
آخر میں صاحب ِ کتاب سے ایک شکوہ: کتاب کے عنوان میں لفظ ’اقبال‘ سب سے پہلے مگر آزادی یا قیامِ پاکستان میں ان کے حصے اور خدمات پر کوئی مکمل مضمون کتاب میں شامل نہیں ہے۔ قاری کو تیسرے ضمیمے میں خطبۂ الٰہ آباد پر صرف پروفیسر شریف المجاہد کا مضمون میسر آتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے ضمن میں کیا علامہ اقبال کی خدمات، قائداعظم سے کم ہیں؟
(اقبال، جناح اور پاکستان، ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لوئرمال، لاہور)
سبزرنگ کے قیدیوں والے لباس میں ملبوس، سر پر سفید اسکارف اوڑھے ہوئے ایک نحیف و نزار خاتون، جیل اہل کاروں کے گھیرے میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرئہ عدالت میں داخل ہوتی ہے۔ اُس کے ہاتھوں پیروں میں آہنی بیڑیاں ہیں اور ہاتھوں سے خون ٹپک رہا ہے جو اس پر چند لمحوں پہلے کیے گئے تشدد کی علامت ہے۔ کمرئہ عدالت میں موجود یہودی، عیسائی اور مسلمان اس کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اُٹھتے ہیں۔ اُس مظلوم عورت کو دیکھنے کے لیے آنے والی خواتین اشکبار ہوجاتی ہیں۔ مین ہٹن امریکا کی اِس عدالت میں اُس خاتون کو ایک ’خطرناک دہشت گرد‘ کے طور پر جج کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
وہ جج کے سامنے اپنے بیان میں کہتی ہے: ’’میں پاگل نہیں ہوں… میں ایک مسلمان عورت ہوں… مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن کو پھاڑ کر پھینکا جاتا ہے اور مجھے کہا جاتا ہے کہ اِس پر چلو… یہ تو وہ کلامِ پاک ہے جو رسولِ پاکؐ کے سینۂ مبارک پر اُترا تھا۔ میں اس پر کیسے چلوں؟ جیل اہل کار مجھے اس بات پر مجبور کرنے کے لیے کپڑے نہیں دیتے۔ اگر میں اپنے بھائی سے ملنا چاہوں تب بھی یہ کہتے ہیں کہ ہماری بات مان کر قرآن کے اُوپر پائوں رکھ کر چلو۔ اگر وکیل سے ملنے کا کہتی ہوں تو پھر بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں۔ میرا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک یا قوم کے خلاف نہیں ہوں۔ میں دنیا میں امن چاہتی ہوں۔ میں تعلیم یافتہ اور ذہنی طور پر تندرست ہوں۔ مجھے ذہنی امراض کی ادویات مت دی جائیں۔ مجھے امریکا سے نفرت نہیں ہے البتہ اس کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہے۔
۶جولائی ۲۰۰۹ء کو امریکی عدالت میں پیش کی جانے والی یہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔ امریکی قید میں اُن کی پُرصعوبت اور پُرتشدد زندگی کا یہ ساتواں سال تھا۔ ان سات برسوں میں وہ کون سا ستم ہے جو انھوں نے اپنے جسم اور ذہن پر نہیں سہا ہے۔ قرآن سے محبت کی سزا ان کی روح تک کو دی جارہی ہے۔ پاکستانی سینیٹر مشاہدحسین نے ایک مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ’’عافیہ پر تشدد کے انتہائی بھیانک اور غیر روایتی طریقے استعمال کیے گئے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کے ایک انتہائی معزز گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظۂ قرآن خاتون ہیں جنھوں نے ابتدائی عمر میں بچوں کی ذہنی نشوونما کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اور ایک ایسا تعلیمی نصاب مرتب کیا جو اگر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج ہوجاتا تو ہربچہ قرآن کا علم اپنے سینے میں محفوظ کر کے فارغ التحصیل ہوسکتا تھا۔ انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کے لیے، دورانِ تعلیم امریکا میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ قائم کیا۔ جیلوں میں قیدیوں کے لیے ہزاروں کی تعداد میں قرآنِ پاک تقسیم کیے۔ دین کا علم حاصل کرنے کی جستجو میں، پاکستان واپس آکر انھوں نے مختلف مذاہب کے تقابلی جائزے پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے موضوع پر تحقیق کی۔ Islamization in Pakistan and its effects on women کے موضوع پر تحقیق کی جس پر انھوں نے Carrol Wilson ایوارڈ حاصل کیا۔
عمررسیدہ اور ضعیف افراد سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکا میں دورانِ تعلیم وہ Old Women House میں اعزازی طور پر خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ نے بوسنیا کی مظلوم عورتوں اور بچوں کی امداد کے لیے تنِ تنہا ہزاروں ڈالر جمع کیے جو شاید کسی طالبہ کی طرف سے فنڈ جمع کرنے کا عالمی ریکارڈ تھا۔ وہ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے امریکی حکومت کی جانب سے دی گئی شہریت کی پیش کش کو شکریے کے ساتھ واپس کرچکی تھیں۔ وہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو بدلنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی نصاب میں اسلامیات بطور ایک لازمی مضمون نہیں بلکہ ہرمضمون کا لازمی جزو ہونا چاہیے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کی مدد سے ہم زندگی کا ہرشعبہ بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں اور یہی پاکستان کے تمام مسائل کا حقیقی حل ہے ؎
مکتبِ عشق کے دستور نرالے دیکھے
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
اسی شعر کے مصداق جس طرح آج دنیا بھر میں قرآن کو سینوں میں بسانے والوں اور اقامت ِ دین اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں دی جارہی اور سولی پر چڑھایا جا رہا ہے، اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی قرآن فہمی کے ’جرمِ بے گناہی‘ کی سزا ۸۶ سال قیدِتنہائی کی صورت میں دی گئی ہے۔
مارچ ۲۰۰۳ء کے ایک پُرامن دن میں اس باحجاب مسلم خاتون پر یکایک قیامت ٹوٹ پڑی جب وہ اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد جانے کے لیے گلشنِ اقبال میں واقع اپنے گھر سے ٹیکسی میں سوار ہوکر نکلیں۔ انھیں راستے میں روک لیا گیا۔ وہ ۱۵، ۲۰ ؍افراد تھے۔ ان میں سے کچھ مسلح اور کچھ غیرمسلح تھے اور ایک خاتون پولیس آفیسر بھی تھی۔ عافیہ زبانِ حال سے خود اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہیں: ’’ایک دن میں اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ اسلام آباد جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئی تو راستے میں پولیس نے مجھے روک لیا۔ ان کے ساتھ ایف بی آئی کی ایک ٹیم بھی تھی۔ میں نے اپنے جرم کے بارے میں سوال کیا تو میرے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیے گئے اور ایسی غلیظ گالیوں کا زہر میرے کانوں میں انڈیلا گیا جن سے آج تک میرا واسطہ نہ پڑا تھا۔ مجھے گھسیٹ کر ایک گاڑی میں پھینک دیا گیا اور میرے بچوں کو دوسری گاڑی میں بٹھادیا گیا۔ اُن کا جرم یہ تھا کہ وہ میرے گھر میں پیدا ہوئے۔ میں روتی تڑپتی اور سرپٹختی رہی اور اپنے بے گناہ ہونے کا یقین دلاتی رہی لیکن انھیں مجھ پر ترس نہ آیا۔ میرے چہرے سے نقاب نوچا گیا۔ میرے بچوں کے سامنے سرعام میری تذلیل کی گئی۔ کپڑے پھاڑ دیے گئے، دوپٹا لیر لیر کر دیا گیا۔ ایف بی آئی کی خاتون انسپکٹر نے میرے چہرے پر تھپڑ مارے، پائوں سے ٹھڈے مارے۔ میرے بچے بس روتے ہی چلے جارہے تھے۔ رونے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ ماں کے سامنے معصوم بچوں کو بھی تھپڑ، ٹھڈے اور گھونسے مارے جارہے تھے‘‘۔
عافیہ کہتی ہیں کہ: ’’میں بس یہ درخواست کیے جارہی تھی کہ میرے بچوں کو نہ مارو، میرے بچوں کو نہ تڑپائو۔ اس کے جواب میں ایک سیاہ رنگ والے موٹے شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور بُغض ٹپکتا تھا… میرے سینے پر اس زور سے لات ماری کہ میں دُور کھڑی گاڑی سے جاٹکرائی۔ میرے سر میں چوٹ آئی۔ یہ دیکھ کر میرے معصوم بچے اور زیادہ زور زور سے رونے لگے۔ ایک بونے قد کے آدمی نے میرے بچوں کو جانوروں کی طرح ایک گاڑی میں دھکیل دیا اور دروازہ بند کر کے تالا لگادیا۔ پھر ان ۱۰، ۱۵؍ افراد میں سے چھے ہوشیار اور چاق و چوبند کراٹے ماسٹرز نے مجھ نہتی پر یکبارگی حملہ کر دیا۔ گھونسوں، مکوں، لاتوں اور بوٹوں کی بارش کر دی۔ آٹھ مسلح افراد میرے چاروں طرف اسلحہ تانے الرٹ کھڑے تھے۔ جب میں نیم بے ہوش ہوگئی تو میری آنکھوں پر کالی پٹی کس کر باندھ دی گئی اور ہتھکڑیاں لگا کر دھکے دے کر گاڑی میں پھینک دیا گیا‘‘۔(انور غازی کی کتاب عافیہ سے اقتباس)
ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق اغوا کے بعد تین سال تک معلوم نہیں ہوسکا کہ ڈاکٹر عافیہ اور اُس کے بچے کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ ۲۰۰۶ء میں معلوم ہوا کہ افغانستان کے CIA Detention Centre میں ڈاکٹر عافیہ قید ہیں جہاں اُن پر بے پناہ تشدد کے ذریعے یہ بات منوانے کی کوششیں کی گئیں کہ وہ القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم کی رُکن ہیں۔ لیکن یہ اقرار کروانے میں ناکامی پر سی آئی اے اہل کاروں نے ڈاکٹر عافیہ کو جیل سے نکال کر غزنی کے گورنر کے بنگلے کے قریب چھوڑ دیا اور افغان حکام کو اطلاع دی کہ ایک خطرناک دہشت گرد گورنر کے بنگلے کے قریب موجود ہے جسے دیکھتے ہی فوراً گولیاں مار دی جائیں۔ لیکن افغان اہل کاروں نے ڈاکٹر عافیہ کو مسجد کے قریب اس حالت میں پایا کہ وہ عصر کی نماز کے لیے سجدہ ریز تھیں اور تلاشی لینے پر کوئی اسلحہ یا خودکش مواد برآمد نہ ہوسکا۔ یہ واقعہ ۱۷جولائی ۲۰۰۸ء میں ہوا۔ ۱۸جولائی ۲۰۰۸ء میں امریکی اہل کاروں نے افغان حکام کے منع کرنے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا اور انھیں مُردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن افغان حکام کی بروقت طبی امداد کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ کی جان معجزانہ طور پر بچ گئی اور میڈیا کے ذریعے یہ اطلاع عوام الناس کو بھی ملی۔ اس واقعے کے تقریباً ۱۷ دن بعد ۳؍اگست کو امریکی حکام ڈاکٹر عافیہ کو اغو کر کے زخمی حالت میں نیویارک امریکا لے گئے جہاں اُن پر امریکی فوجیوں پر فائرنگ کا بے بنیاد اور جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران امریکی ماہر تفتیش کار نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا جس کے مطابق جاے وقوعہ پر ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے ثابت ہوسکے کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا تھا۔ ایم فور رائفل پر ڈاکٹر عافیہ کے فنگرپرنٹس موجود نہیں تھے اور نہ کسی عام عورت یا مرد کے لیے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اس رائفل کے نمبرسسٹم کے تحت خفیہ لاک کو کھول سکے۔ کیونکہ اس کے خفیہ لاک صرف رائفل کے مالک ہی کو معلوم ہوتے ہیں۔
اس مقدمے کا فیصلہ ۲۳ستمبر ۲۰۱۰ء کو سنایا گیا۔ متعصب جج رچرڈ برمن نے قانون و انصاف کے تمام تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ۸۶برس قید کی سزا سنائی، جب کہ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بھی تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو کہ پاکستانی شہری ہیں، اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عافیہ کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ اس نے امریکی فوجیوں کو قتل کے ارادے سے بندوق اُٹھائی اور ان پر گولیاں چلائیں اور فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہوئی۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بات بھی لکھی کہ باوجود اس کے کہ عافیہ کے خلاف کسی قسم کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن پاکستانی وکلا نے جو دلائل دیے ہیں ان کی روشنی میں عافیہ کو ۸۶برس کی سزاے قید دی جارہی ہے۔ مشہور امریکی تجزیہ نگار اسٹیفن لینڈ نے یہ سزا سن کر بیان دیا کہ ’’عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے‘‘۔
متعصب امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈائونز ، جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تبصرے تحریر کیے تھے، عافیہ کی جرمِ بے گناہی کی سزا سن کر چیخ اُٹھا اور اُس نے کہا: ’’میں ایک مُردہ قوم کی بیٹی کو ملنے والی سزا دیکھنے آیا تھا لیکن اب میں انسانیت کی ماں، ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔
عدالت میں اس فیصلے کے بعد جج کے خلاف شیم شیم کے نعرے بلند ہوئے۔ عدالت میں موجود عیسائی، یہودی اور مسلمانوں نے عافیہ سے یک جہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ آج امریکی عدالت میں انصاف کا قتلِ عام ہوگیا ہے۔
عالمی میڈیا اِس بات کا گواہ ہے کہ امریکی جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے۔ ٹیکساس کی جس جیل میں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا تھا اس کو House of Horror کہا جاتا ہے۔ امریکا کی عدالت میں ایسے مقدمے موجود ہیں جن میں ٹیکساس جیل سے رہائی پانے سے پہلے ہی ایک خاتون کو بھیانک تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا تاکہ وہ جیل سے باہر جاکر دنیا کو جیل میں گزرنے والے بھیانک حالات سے آگاہ نہ کرسکے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مسلسل تشدد، تذلیل اور ادویات کے ذریعے ذہنی طور پر ناکارہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے جسم کو ہی نہیں بلکہ ان کی روح اور فکر کو بھی سزا دی جارہی ہے۔ ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق اپریل ۲۰۱۴ء سے اب تک ان کی صحت اور خیریت کی کوئی اطلاع نہیں ہے، نہ جیل حکام ہی امریکا میں موجود ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کو ان سے ملنے کی اجازت دیتے ہیں۔
امریکی عوام نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اظہارِ یک جہتی کے لیے متعدد بار احتجاجی مظاہرے کیے۔ حال ہی میں ۲۳ستمبر ۲۰۱۵ء کو بھی امریکا میں ڈاکٹر عافیہ کے خلاف مذکورہ عدالتی فیصلے کے دن کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے صدر بارک اوباما کے نام اپیل کی گئی جس پر ایک لاکھ امریکی شہریوں کے دستخط لیے گئے۔ لیکن اِن تمام کارروائیوں کے جواب میں امریکی حکومت ہر بار ایک ہی جواب دیتی ہے کہ پاکستان کی حکومت کے سربراہان عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کریں تو وہ عافیہ صدیقی کو رہا کرنے پر تیار ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حالت ِ زار پر حرمین شریفین مکہ مکرمہ سے استاذ الشیخ ابومحمد عبداللہ الحجازی نے ایک فتویٰ تحریر کیا تھا جس کے مطابق: ’’اگر کوئی مسلمان عورت یہود و نصاریٰ یا غیرمسلموں کے ہاتھوں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمان ملکوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں‘‘۔
امام ابوابکر بن العربی ؒ نے فرمایا: ’’اگر مسلمان غیرمسلموں کے ملک میں قید ہوجائیں تو تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان کمزور مسلمانوں کی رہائی کے لیے بدنی اور مالی ہرممکن تعاون کریں۔ یہاں تک کہ ہرمسلمان غیرمسلموں کی قید سے آزاد ہوجائے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی دولت خرچ کرنا پڑے اور ایک بھی درہم باقی نہ بچے‘‘۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے علماے کرام کے فتوے متعدد بار جاری ہوتے رہے ہیں۔ بے گناہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مسلسل ۱۲سال سے امریکی جیلوں میں پُرصعوبت زندگی گزار رہی ہے اور بے بسی کی تصویر بنی عالمِ اسلام کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن مسلم حکمرانوں کی خاموشی پوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک سوال ہے…!
۲۸ستمبر۲۰۱۵ء کو قندوز پر طالبان کا قبضہ ایک طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا ۔ یہ ۲۰۰۱ء کے بعد ان کی ایک بڑی جنگی کامیابی تھی ۔ قندوز افغانستان کے شمال میں ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی ۵ئ۳ لاکھ ہے ۔ اگر چہ یہ قبضہ عارضی تھا اور محض چند روز تک محدود رہا، لیکن اس نے واشنگٹن میں پینٹاگان کے بزرجمہروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ عالمی نشریاتی اداروں نے اس کو ایک بڑی خبر کے طور پر نمایاں طور پر پیش کیا۔ سی این این کے بین الاقوامی تبصرہ نگار نک روبرٹسن نے اس کو طالبان کے لیے ایک بڑا انعام قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے تدریجی انخلا کے بعد ماہ جنوری میں صدر باراک اوباما نے امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کانگریس سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا تھا کہ: ’’اب ہم خود افغانستان کا گشت کرنے کے بجاے افغان سیکیورٹی فورس کو استعمال کریں گے، جن کی ہم نے خوب تربیت کی ہے‘‘۔ لیکن قندوز کی حد تک افغان فوج یہ ذمہ داری پورا نہ کر سکی، جب کہ شہر سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایئرپورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لڑاکا امریکی فوج موجود تھی ۔نک روبرٹسن نے طالبان کی جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال ماہ اپریل سے اس کا م پر لگے ہوئے تھے اور عید کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں آہستہ آہستہ داخل ہوئے اور بڑا حملہ کر دیا۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے سب سے پہلے دنیا کو یہ خبر سنائی کہ: ’’طالبان نے ۱۰مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا اور گو رنر ہائوس اور پولیس ہیڈ کوارٹرپر پیرکی صبح ہی قبضہ کر لیا تھا۔ افغان آرمی کے جنرل مراد علی نے الزام لگایا کہ ان میں غیر ملکی ازبک بھی شامل تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ میں لکھا کہ: ’’طالبان قندوز میں افغان آرمی کا صفایا کر رہے ہیں۔ عام شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں تک محدود رہیں‘‘۔
l طالبان کی حکمت عملی: طالبان شمالی افغانستان کے کمانڈر حاجی قادر نے جن کا تعلق شمالی صوبے بدخشان سے ہے دعویٰ کیا کہ ہم نے گذشتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جنوب کے بجاے شمال کی طرف جنگ پر توجہ دی جائے گی ۔ اس لیے ہم نے چار شمالی صوبوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ واقعی ایسا لگتا ہے کہ قندوز پر قبضہ ایک طویل حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ کیونکہ جب افغان آرمی نے قبضہ چھڑانے کے لیے نقل و حرکت شروع کی تو اس کو جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قندوز کی جانب رواں افغان فوجی کانوائے بغلان صوبے میں رکاوٹوں اور حملوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوئے۔ سڑک پر پتھر اور ریت کی بوریاں رکھ دی گئی تھیں۔ طالبان نے صرف قندوز شہر پر قبضہ نہیں کیا بلکہ قندوز صوبے کے ایک اہم ضلع چارد رہ پر بھی قبضہ کیا جہاں سے افغانستان کی ایک اہم شاہراہ گزرتی ہے، جو مزار شریف کو قندوز سے ملاتی ہے۔
قندوز شہر پر طالبان کا قبضہ عارضی تھا اورصرف تین دن تک رہا ۔ اس دوران طالبان شہراور بازار کے اہم مقامات پر موجود رہے ۔ ان کے جھنڈے عمارتوں پر لہراتے رہے اور وہ گھر گھر تلاشی لیتے رہے ۔ جمعرات کے دن افغان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں واپس داخل ہو چکی ہے اور اس نے طالبان کو وہاں سے نکال دیا ہے ۔ اس دوران ہزاروں لوگ قندوز سے نکل گئے۔ انھوں نے ایئر پورٹ کا رخ کیا، جہاں سیکیورٹی فورسز بڑی تعداد میں موجود تھیں ۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی ۔ مقامی ٹی وی ا سٹیشن اور ریڈیو کی نشریات بند ہو گئیں تھیں۔ طالبان کی قابض فوجوں نے ایسے افراد کی فہرستیں تیار کیں، جو ان کو مطلوب تھے اور ان کی تلاش میں وہ گھروں پر چھاپے مارتے رہے۔ طالبان لائوڈ سپیکر وں پر دکان داروں کو ہدایات دیتے رہے کہ وہ دکانیں کھول دیں۔
طالبان نے قندوز کے اس عارضی قبضے سے کیا حاصل کیا ؟ ان کے کیا اہداف تھے اور وہ اس کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئے ؟
ایک مقصد تو بڑا واضح طور پر نظر آیا کہ انھوں نے قندوز جیل میں بند اپنے ۶۰۰ساتھیوں کو چھڑا لیا جو کافی عرصے سے وہاں قید تھے۔دوسرا بڑا فائدہ ان کو بھاری تعداد میں اسلحے کی صورت میں ہوا جو انھوں نے سیکڑوں گاڑیوں میں ڈال کر اپنے ٹھکانوں کو روانہ کیا ۔ ان میں وہ بکتر بند امریکی ساختہ گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں شامل تھی جو افغان آرمی اور پولیس کے زیر استعمال رہتی ہیں۔ مال غنیمت میں ۱۵۰ گاڑیوں کے علاوہ بھاری مشین گنوں، مارٹر توپوں ،کلاشنکوف رائفلوں اور بارودی مواد کے بڑے ذخیرے طالبان کے ہاتھ لگے۔ تیسری ا ہم چیز جو طالبان کے ہاتھ آئی وہ بھاری رقوم اور غیر ملکی کرنسی ہے، جو قندوز شہر کے بنکوں اور خزانے میں موجود تھی۔ افغان آرمی نے جب قندوز پر دوبار قبضہ کیا تو انھوں نے ۲۰۰طالبان مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا لیکن طالبان اپنا نقصان بہت کم بتاتے ہیں۔
قندوز ہسپتال بین الاقوامی نوبل انعام یافتہ ادارہ Médecins Sans Frontières International (MSF) چلاتی ہے۔ سرحدی پابندیوں سے آزاد طبی امداد کا یہ ادارہ بنیادی طور پر فرانسیسی این جی او ہے۔ کئی یورپی ملکوں میں اس کی شاخیں قائم ہیں جو پوری دنیا میں شورش زدہ علاقوں میں کام کرتی ہے ۔ قندوز ہسپتال شمالی افغانستان میں اہم ترین طبی مرکز تھا جس سے کئی صوبوں کے عوام استفادہ کرتے ہیں۔ اس جنگ کے دوران بھی انھوں نے اپنی خدمات جاری رکھیںاور زخمی شہریوں ، بچوں ،عورتوں کو طبی امداد بہم پہنچاتے رہے ۔ ہسپتال میں عملے کی تعداد ۲۰۰تھی۔ امریکی حکام نے بعد میں یہ وضاحت پیش کی کہ ہم سے افغان آرمی نے درخواست کی تھی کہ ہسپتال کے احاطے میں طالبان چھپے ہوئے ہیں، اس کو ہدف بنایا جائے ۔ چنانچہ ہم نے فضائی کارروائی کی ۔ لیکن یہ معذرت بذات خود ایک بڑے جرم کا اعتراف ہے کہ یہ کارروائی سوچ سمجھ کر کی گئی اور اس دوران ہسپتال انتظامیہ بھی افغان حکومت سے اپیل کرتی رہی کہ میڈیکل عملے کے ارکان اور مریض مر رہے ہیں،لیکن پھر بھی حملہ جاری رہا ۔ یہ سفاکانہ حملہ مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے جس کا ارتکاب امریکی افواج نے کیا۔ امریکی صدر نے رسماً دوحرفی معذرت پیش کی۔ ایم ایس ایف نے احتجاجاً اپنی خدمات واپس لے لی ہیں۔
قندوز میں افغان آرمی کی شکست کابل حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ اس نے امریکی معاونت سے ملک میں ایک اتحادی سیاسی حکومت تو بنالی ہے لیکن وہ افغانستان کو ایک مؤثر اور مضبوط قیادت فراہم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ طالبان کی اٹھان اور ان کی جنگی حکمت عملی کے مقابلے میں کابل کی افواج کی کمزوریاں اس حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان فوج اور پولیس کی موجودگی میں ایک بڑے شہر پر قبضہ اس کے لیے ایک بڑا تازیانہ ہے، اور ملک میں حکومت کی گرفت کمزور ہونے کے امکان کو بڑھاتا ہے ۔
مُلّا محمد عمر کے دوسال پہلے انتقال کی خبر نے بھی طالبان کی کمزور ی میں اضافہ کیا اور اب داعش افغان نوجوانوں کو جگہ جگہ بھرتی کر رہی ہے۔ بعض مقامات پر طالبان تحریک سے مڈبھیڑ بھی ہو رہی ہے ۔غالباً طالبان کی نئی جنگی حکمت عملی اور مہم جوئی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ بڑی سرگرمیاں دکھا کر افغانستان میں جہاد سے منسلک عنصر کو اپنے سے جوڑ کر رکھنا چاہتی ہے ۔ اس طرح وہ نہ صرف افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرا ر رکھنا چاہتے ہیںبلکہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا اور امریکی دل چسپی کی کمی کی صورت میں ملکی اقتدار پر قبضے کی اپنی خواہش کو بھی پورا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور چین کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا، بدقسمتی سے اس کے دوبارہ احیا کے امکانات معدوم ہو تے جارہے ہیں۔ افغان حکومت واضح طور پر پاکستان مخالف جذبات کی اسیر نظر آتی ہے ۔اس میں یقینا بھارتی لابی کا بھی کردار ہو گا جو افغانستان کے معاملات میں پاکستان اور چین کی شرکت نہیں چاہتی۔ تاہم کابل کی قیادت کو یقینا یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پاکستان سے دُوری او ربگاڑ پیداکر کے وہ پاکستا ن سے زیادہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے، جس کے دور رس نتائج ہو ںگے۔ بلاشبہہ طالبان تحریک اس وقت اتنی قوت نہیں رکھتی کہ وہ بڑے شہروں پر مستقل قبضہ کر سکے، لیکن وہ ایک مستقل مزاحمتی تحریک کی حیثیت سے بھی اگر اپنی حیثیت بر قرار رکھتی ہے تو پھر افغانستان میں امن و سلامتی کا قیام محض ایک خواب ہی رہے گا۔
سوال: میں مشترکہ خاندان میں رہتا ہوں اور شادی کو دو سال ہوچکے ہیں۔ میری بیوی اور گھر کی دیگر خواتین کے درمیان کسی نہ کسی بات پر اَن بن ہوتی رہتی ہے، جس پر میری بیوی مجھ سے الگ رہایش کا مطالبہ کرتی ہے۔ میں یہ انتظام کرنے کی معاشی حیثیت نہیں رکھتا۔البتہ کرایے کے مکان میں رہ سکتا ہوں، مگر میری والدہ اس کے لیے راضی نہیں ہیں۔ راہ نمائی فرمائیں، میں کیا کروں؟
جواب: ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام کی جو صورت رائج ہے، اس میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن سے خادمائوں جیسا برتائو کیاجاتا ہے۔ سُسر، ساس، نند، دیور اور خاندان کے دیگر افراد کی خدمت کرنا اور ان کی چھوٹی بڑی ضرورتیں پوری کرنا اس کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے اور اس معاملے میں اگر اس سے کچھ تھوڑی سی بھی کوتاہی سرزد ہوجائے تو اس کو طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔ اَزدواجی زندگی کی خلوت (privacy)بھی متاثر ہوتی ہے۔
بیوی کی ذمے داری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے، البتہ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ وہ اچھا برتائو کرے گی، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئے گی اور ان سے خوش گوار تعلقات رکھے گی، تو ان کی جانب سے بھی اسے محبت ملے گی اور خاندان کے تمام افراد باہم شیروشکر ہوکر رہیں گے۔اِسی طرح اگر بیوی کا معاملہ دیگر افرادِ خاندان سے درست نہ ہوگا، یا وہ لوگ اس کے ساتھ اپنائیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تو پھر ان کے درمیان اَن بن رہے گی اور گھر میں کشیدگی کی فضا قائم رہے گی۔
اگر مشترکہ خاندان میں کئی جوڑے رہتے ہوں تو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر جوڑے کی پرائیویسی قائم رہے۔ وہ روزمرہ کے کاموں کو آپس میں اس طرح تقسیم کرلیں کہ کسی کے لیے شکایت کا موقع نہ رہے، باہمی معاملات میں محبت اور ایثار کی روش کو اپنائیں، چھوٹی موٹی شکایتوں کو نظرانداز کریں۔ لیکن اگر ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے ان میں اَن بَن رہتی ہو، ایک دوسرے سے شکایت میں اضافہ ہورہا ہو، یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہو تو بیوی کو الگ رہایش فراہم کرنا شوہر کی ذمے داری ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ الگ سے مکان خرید کر بیوی کو دے، بلکہ معاشی تنگی کی صورت میں وہ اسے کرایے کا مکان فراہم کرسکتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے اہلِ خانہ باہم لڑتے جھگڑتے رہیں اور تنائو اور کشیدگی کے ساتھ زندگی گزاریں، اس سے بہتر ہے کہ وہ الگ الگ رہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوش گوار رہیں۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
س: ہمارے یہاں ایک صاحب نے اذان کے آخری کلمہ لاالٰہ الااللہ کے بعد مائک ہی پر دھیمی آواز میں محمد رسول اللہ کہا۔ اس پر میں نے انھیں سخت الفاظ میں ٹوکا اور کہا کہ اگر یہ اضافہ مقصود ہوتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی یہ اضافہ کردیتے۔ جب آپؐ نے اضافہ نہیں کیا ہے تواب ہمیں بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جواب میں ان صاحب نے کہاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار نماز پڑھارہے تھے۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے جب آپؐ نے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فرمایا تو ایک صحابی نے رَبَّنَالَکَ الحَمد کے ساتھ حَمْداً کَثِیراً طَیّباً مُبَارَکاً فِیْہِ کہا۔ اس اضافے پر آپؐ نے نکیر کرنے کے بجاے ان کی تعریف کی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی ایسا اضافہ، جو دین کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہو، غلط نہیں ہے۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج:دین کی جزئیات ہمیں جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں، اسی طرح ان پر عمل مطلوب و مقصود ہے۔ ان میںکسی طرح کی کمی بیشی ہمارے لیے روا نہیں ہے، مثلاً کوئی شخص فجر کی فرض نماز دورکعت کے بجاے چار رکعت پڑھنے لگے، یا فرض روزوں میں اضافہ کرلے تو اس کا یہ عمل دین میںبدعت قرار پائے گا اور قابل رد ہوگا۔ البتہ جو اضافے عہدنبویؐ میں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے اور آپؐ نے ان کی تائید وتصویب فرمائی وہ سنت قرار پائے اور دین کا جز بن گئے۔ مثلاً ایک موقعے پر حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان میں الصَّلاَۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوم کا اضافہ کردیا تو آپؐ نے اسے پسند فرمایا۔ چنانچہ اس کے بعد یہ اضافہ بھی اذان میں شامل ہوگیا (ابن ماجہ، ۷۱۶)۔چوں کہ اذان کا خاتمہ لاالہ الااللہ پر ہوتا ہے، اس پر محمد رسول اللہ کا اضافہ نہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا اور نہ کسی صحابی نے کیا، جس کی آپؐ نے تصویب کی ہو، اس لیے اب کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ دین کے نام پر خودساختہ اضافہ کرتا پھرے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
س: میں سرکاری بسوں کی ورک شاپ میں کاری گر کی حیثیت سے کام کرتا ہوں۔ ہربس کو چیک کرنا اور چھوٹی بڑی خرابی کو دُور کرنا میری ذمہ داری ہے۔ شام کے وقت ڈپو میں آنے والی بسوں کا ہجوم ایک دم بڑھ جاتا ہے۔ اگر میں تھوڑی دیر کے لیے بھی وہاں سے ہٹ جائوں تو بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں اور افسران کی ڈانٹ ڈپٹ الگ۔ اس بنا پر میری عصر اور مغرب کی نمازیں اکثر و بیش تر قضا ہوجاتی ہیں۔ اور پھر اتنا وقت بھی نہیں نکال سکتا کہ ڈیزل اور پٹرول سے لتھڑے کپڑے بدل کر، صاف کپڑے پہنوں اور نماز ادا کروں، اور پھر واپس کام پر آکر دوبارہ ایمان داری سے ڈیوٹی انجام دے سکوں۔ اس طرح نمازیں قضا ہونے سے میں سخت الجھن میں ہوں۔ دفتر میں کسی دوسرے شعبے میں تبدیلی کی کوشش بھی کی ہے لیکن ممکن نہ ہوسکا۔ بعض احباب ملازمت ترک کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ بیوی بچوں کی کفالت فرض ہے، لہٰذا انھیں پریشانی میں مبتلا کرنا مناسب نہیں۔ یاد رہے کہ میں نے باقاعدہ انجینیرنگ کی ڈگری لے رکھی ہے، مگر بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ معمولی نوکری کر رہا ہوں۔مجھے مشورہ دیجیے کہ میں کیا کروں؟
ج: عام حالات میں پنج وقتہ نمازوں کی ادایگی ان کے اوقات میں ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا o(النساء ۴:۱۰۳) نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیِ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔
متعدد صحابہ کرامؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں ادا کرنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ (کسی دوسرے وقت) میں پڑھی ہو۔ سواے دو نمازوں کے‘‘۔(بخاری، کتاب الحج ۱۶۸۲)
تاہم، عذر کی صورت میں بعض نمازیں اکٹھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہروعصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا جائے اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع کے دوران اسی طریقے سے مذکورہ نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا ثابت ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’نمازوں کے اوقات عام لوگوں کے لیے پانچ اور اہلِ عذر کے لیے تین ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ (ھود ۱۱:۱۱۴) ’’نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر‘‘۔
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ(بنی اسرائیل ۱۷:۷۸)’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو‘‘۔ اس آیت میں ’دلوک‘ میں ظہروعصر اور ’غسق‘ میں مغرب و عشاء شامل ہیں۔ ’’اسی اصول کو اختیار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہروعصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع فرمایا تھا‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہؒ، ۲۴-۲۵)
احناف کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنا) جائز نہیں ہے۔ ہاں، ان کو جمع کرنے کی ظاہری صورت اختیار کی جاسکتی ہے، یعنی ایک نماز اس کے آخر وقت میں اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں پڑھی جائے۔ لیکن دیگر فقہا اس کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک جمع تقویم اور جمع تاخیر دونوں صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ دوسری نماز کو مقدم کرکے پہلی نماز کے ساتھ پڑھ لیا جائے، یا پہلی نماز کو مؤخر کر کے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا جائے۔
عذر میں حالت ِ سفر،مرض، طوفانی بارش، خوف یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ احادیث میں ان عذروں کا ذکر آیا ہے، بلکہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر مدینہ میں رہتے ہوئے ظہروعصر کی نمازیں اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، جب کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا، نہ بارش ہوئی تھی (دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا نہ آپ حالت ِ سفر میں تھے)۔ حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد نے ان سے دریافت کیا: پھر آں حضرتؐ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: آپؐ نے ایسا اس لیے کیا تھا، تاکہ آپؐ کی اُمت کا کوئی فرد مشقت میں نہ پڑے‘‘۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلاتین فی السفر)
حالت ِ سفر میں کسی عذر کی بنا پر جمع بین الصلاتین کی اجازت دینے والے فقہا (مثلاً مالکیہ میں سے اشہبؒ، شوافع میں سے ابن المنذرؒ اور ابن سیرینؒ و ابن شبرمہؒ وغیرہ) ساتھ ہی یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے، یعنی کسی شدید عذر کی بنا پر ہی جمع کیا جائے، ورنہ ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا کیا جائے۔ (نووی، المجموع شرح المہذب، طبع جدہ، ۴؍۲۶۴، ابن قدامہ، المغنی، طبع ریاض ۱۹۸۱ئ، ۲؍۲۷۸، الموسوعۃ الفقیہۃ، کویت، ۱۵؍۲۹۲)
آپ نے اپنی جو مخصوص صورت بیان کی ہے اس کا شمار عذر میں ہوسکتا ہے لیکن کوشش کیجیے کہ وہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہے۔ اپنے افسران سے کہیے کہ وہ آپ کی علمی قابلیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو پروموشن دیں، یا کوئی دوسرا کام لیں، جس میں آپ کی ایسی شدید مصروفیت باقی نہ رہے۔ ورک شاپ میں آپ سے متعلق جو کام ہے، اس کی انجام دہی کے لیے آپ کے علاوہ دوسرے افراد بھی ہوں گے۔ آخر آپ کی بیماری یا رخصت کے دنوں میں ورکشاپ میں تالا نہ لگ جاتا ہوگا اور بسیں چلنی بند نہ ہوجاتی ہوں گی۔ ان افراد سے تعاون لیجیے۔ ان کے بعض کام آپ کردیجیے تاکہ وہ آپ کے کچھ کام اپنے ذمے لے کر آپ کو نمازوں کی ادایگی کے لیے مہلت دے دیا کریں۔ دین میں نماز کی اہمیت اور اس کے مقام سے آپ بہ خوبی واقف ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ حتی الامکان آپ کی تمام نمازیں وقت پر ادا ہوں۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
س: ’روضۂ رسولؐ کے سامنے‘ (عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۱۵ئ) میں سلام پیش کرنے کا جو طریقہ لکھا گیا ہے اس سے تو بریلوی حضرات اذان سے قبل جو صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں وہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
ج: روضۂ رسولؐ پر سلام پیش کرنے کا طریقہ وہی ہے جو نبی اکرمؐ نے اہلِ ایمان پر قبرستان میں سلام پیش کرنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں باب ما یقال اذا دخل المقابر، کہ جب قبرستان میں آدمی جائے توکیا کہا جائے؟ عنوان کے تحت امام ابن ماجہ نے حضرت عائشہؓ کی روایت نقل کی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو گم پایا تو دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع میں ہیں اور فرماتے ہیں: سلام ہو تم پر اے وہ لوگو جو ایمان والوں کے گھر میں ہو۔ اس روایت کے مطابق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان والوں کو خطاب کر کے سلام پیش کیا ہے۔ لہٰذا نبی اکرمؐ کے روضے پر آپؐ کو خطاب کر کے الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ، کہنا کیسے ناجائز ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ کے الفاظ میں درود شریف پڑھتا ہے تو وہ بھی درود شریف ہی پڑھتا ہے، البتہ رسولؐ اللہ کو حاضر وناظر سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
’روضۂ رسولؐ کے سامنے‘ (ستمبر۲۰۱۵ئ) میں پروفیسر ظفرحجازی صاحب نے جو صلوٰۃ و سلام ذکر کیا ہے وہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ نبی اکرمؐ کو رسول اللہ کے جملے کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے جو خود نبی اکرمؐ سے ثابت ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ مساجد میں لائوڈاسپیکر پر الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پڑھا جائے تو ایسا کرنا ٹھیک ہوگا۔ آپ نے جو سمجھا ہے وہ درست نہیں سمجھا ہے۔
مزاروں پر مسلمان جہالت کی بنا پر جو کچھ کرتے ہیں اس کی اصلاح کی ضرورت مسلّم ہے اور علماے کرام اور مصلحین اس سلسلے میں لوگوں پر شرک اور کفر کے فتوے لگانے کے بجاے، تذکیر کا ذریعہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ بھی حکمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کریں، فتوے لگانے سے پرہیز کریں۔( مولانا عبدالمالک)
زراعت کے بعد صنعت و تجارت ہی انسان کا قدیم ترین پیشہ ہے لیکن پچھلی دو صدیوں میں تجارت اور خاص طور پر بین الاقوامی تجارت اور کاروبار کو جو فروغ ہوا، اس سے ساری دنیا ایک عالمی منڈی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ تجارت اور کاروبار اب وسیع علم کی شکل اختیار کرچکے ہیں، اور ساری دنیا میں ایسے معتبر ادارے قائم ہوچکے ہیں، جہاں ان علوم کی تعلیم و تدریس نہایت اعلیٰ پیمانے پر کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کا پہلا بڑا ادارہ،امریکی امداد سے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں قائم ہوا تھا۔ اب اس طرح کے کئی ادارے سارے ملک میں قائم ہیں۔ لیکن زندگی کے اور دوسرے شعبوں کی طرح اس میدان میں بھی غیرمذہبی/لادینی اور خالص کاروباری انداز میں تعلیم و تدریس کا اہتمام ہے۔ تقریباً ساری نصابی کتابیں مغرب کے سرمایہ دارانہ اور ’خالصتاً‘ تاجرانہ انداز پر تحریر کردہ اور درآمد شدہ ہیں یا اُن کا چربہ ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ استثنائی مثالیں، ہندستان میں شائع شدہ کتابوں کی ہیں، تاہم ہمارے طلبہ کا سارا تحصیل علم کا عمل (orientation) مغرب کے سرمایہ دارانہ، لوٹ کھسوٹ کے نظام کی تعلیم و تدریس ہی کا ہے۔ ہماری جامعات اور ’مدارسِ تجارت‘ منڈی کی معیشت کے لیے ایسے کرایے کے سپاہی تیار کر رہے ہیں، جو اس غیرمنصفانہ نظام کے چلانے میں اہلِ دولت کے رفیقِ کار ہیں۔
پیش نظر کتاب اس استحصالی حبس کے موسم میں ایک تازہ اور خوش گوار جھونکا محسوس ہوتی ہے۔ مرتبین جو رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ تحقیق سے وابستہ ہیں، اپنی اس کوشش کو ’اسلام کے اخلاقی تناظر میں ایک ابتدائی مکالمہ‘قرار دیتے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ اپنے موضوع پر ایک بنیادی حوالے کی دستاویز ہے۔
کتاب ۱۰؍اکائیوں (units) اور ایک ضمیمے پر مشتمل ہے۔ ان ابواب میں ’اسلام کا تصورِ مال اور رزق‘، ’دولت کا استعمال اور صَرف‘ ، ’وسائل: کیا وسائل فی الواقع محدود ہیں؟‘ تین بڑے نظام ہاے معیشت: سرمایہ داری، اشتراکیت اور اسلام، آبادی اور اس کی تحدید کے مسائل، دولت اور وسائل معاش کی تقسیم، کفالت، صدقہ، خیرات اور فیاضی، نیز زکوٰۃ کی اہمیت، دولت کی گردش کے لیے اِن اداروں کی اہمیت، احتیاج، ضرورت اور خواہش کے ذہنی محرکات، اسراف و تبذیر کی ممانعت اور ایک متوازن زندگی کی ضرورت و اہمیت، زمین اور اس کی تقسیم، زرعی اور صنعتی معاشی مراکز، وسائلِ دولت: زمین، سمندر، شمسی اور ہوائی توانائی، معدنی توانائی کے ذخائر: تیل، کوئلہ اور ان کا استعمال زیربحث لائے گئے ہیں۔ کاروبار اور ’کاروباری شخصیت‘ میں ہمارے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک بہترین نمونہ ہے۔ اس ضمن میں جائز و ناجائز، مطلوب اور غیرمطلوب، نیز سرمایہ کاری کے طریقوں، مضاربہ، مرابحہ، مشارکہ اور ر ٰبواور ’تجارتی سود‘ پر بحث کی گئی ہے۔ آخر میں فکروعمل کی ایک نئی تمثال (paradigm) پر گفتگو کی گئی ہے ، جس میں دنیا اور آخرت، مادہ اور پُرتکلف اور پُرتعیش زندگی، منافع اندوزی اور کفایت، برکت اور فلاح زیربحث ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ، وائس چانسلر، رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی اسلام آباد نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’اسلامی معاشیات، بنیادی طور پر ایک اخلاقی سیاسی معیشت ہے، جس میں سماجی جواب دہی کے تصور پر زور دیا گیا ہے‘‘۔
ضمیمے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ربوٰ (سود) سے متعلق ارشادات جمع کر دیے گئے ہیں۔ یہ اساتذہ کے لیے بھی راہ نمائی کا ایک قیمتی وسیلہ ثابت ہوگی، اور اسلامی نظامِ معیشت کے حوالے سے ایک وقیع دستاویز ہوگی۔
کتاب نہایت خوب صورت، نفیس طباعت کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف کاروبار اور معاشیات کے ہر ادارے اور طالب علم کی ضرورت کو پورا کرتی ہے، بلکہ ہر دینی اسلامی مدرسے کو معلم اور طالب علم کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوجائے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
زیرنظر کتاب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے تمام واقعات تفصیلاً زیربحث نہیں آئے، البتہ بعض اُمور کے متعلق مصنف نے اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے اور اپنی آرا محکم دلائل سے پیش کی ہیں۔ کتاب کے ۵۰؍ابواب میں سیرت النبیؐ کے متعدد پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چند عنوانات یہ ہیں: نظامِ نبوت و رسالت، نبی موعود کی آمد، قریش کی پریشانی اور مسلمانوں پر سختی، رسولؐ اللہ کی شخصیت پر [مشرکین کے] اعتراضات، ہجرت، حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ، قریش کی نئی مہم، اہلِ ایمان کی کردارکشی کی کوششیں، فتح مکہ، ختم نبوت اور جمع و تدوین قرآن، رسولؐ کے فرائض اور رسولؐ اللہ کے حقوق۔
قرآنِ مجید کو سیرت النبیؐ کے اصل ماخذ و مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ مصنف نے اسی خیال کے پیش نظر قرآن و سنت ہی کو مرکزِ توجہ بنایا ہے۔ عام طور پر سیرت نگار مصنّفین نے اپنی اپنی کتاب میں کسی نہ کسی خاص پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیرنظر کتاب میں حضور اکرمؐ کو اللہ کے رسولؐ کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی حیثیت حضور اکرمؐ کو دیگر کامیاب مصلحین، عظیم سپہ سالاروں اور داعیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ رسول اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگرانی میں فرائض نبوت ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزاے خیر عطا کرے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ انھوں نے نہایت محبت و عقیدت سے رسول اکرمؐ کی سیرت ایک اُچھوتے انداز میں پیش کی ہے۔(ظفر حجازی)
علامہ شبلی نعمانی کے تلامیذ میں مولانا سیّد سلیمان ندوی کے بعد مولانا عبدالسلام ندوی کا نام سرفہرست ہے۔ مولانا نے اپنے استاد کی تاریخی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مشاہیر اسلام، فلسفہ اور شعروادب کے میدان میں اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر کبیراحمد جائیسی نے شگفتہ اندازِ تحریر کے ساتھ مولانا کی حیات اور کارناموں کا ایک عمومی جائزہ اس کتاب میں پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے بقول پاکستان میں مولانا عبدالسلام ندوی پر طبع ہونے والی یہ پہلی جامع کتاب ہے۔ڈاکٹر نگار نے علمی تحریرات کی اشاعت کے ذریعے اُردو اور پاکستان میں سنجیدہ علمی موضوعات کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے لیے وہ ہدیۂ تبریک کی مستحق ہیں۔
کتاب میں نقشِ حیات کے زیرعنوان مولانا کا سوانحی خاکہ تیار کیا گیا ہے اور پھر ان کی نثرنگاری خصوصاً مطبوعہ تصانیف کا تعارف شامل ہے۔ ان میں انقلابِ اُمم، سیرت عمر بن عبدالعزیز، اسوئہ صحابہؓ، اسوئہ صحابیاتؓ، شعر الہند اور فقہاے اسلام شامل ہیں۔
مولانا عبدالسلام ندوی برعظیم پاک و ہند میں علامہ شبلی کے تاریخ نگاری کے مدرسے کی علمی روایت کی جامع نمایندگی کرتے ہیں۔ چنانچہ شعروادب، تاریخ ، فلسفہ و کلام پر جامعیت کے ساتھ ہرموضوع کا حق ادا کرتے ہیں۔ ان جیسی جامع شخصیات اب بہت کم نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر جائیسی کی یہ کتاب ہر علمی لائبریری کے سرمایہ میں شامل ہونی چاہیے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
اس طرح کے کارنامے دل کی لگن اور اللہ کی مدد کے بغیر انجام نہیں پاتے۔ خطباتِ مشاہیر جامعہ حقانیہ کی پیش کش ہے جو ۱۰ ضخیم جلدوں میں سامنے آئی ہے۔
عظیم بین الاقوامی یونی ورسٹی جامعہ حقانیہ کے منبرومحراب سے تقریباً پون صدی کے عرصے میں اساطین علم و فضل، علما و محدثین، مشائخ و اکابرینِ اُمت، دانش ور و مصنّفین اور نام وَر خطباے کرام جو خطبات دیتے رہے، مواعظ و نصائح کا علمی، فقہی، روحانی مجموعہ مرتب ہوگیا۔ یوں علم و عمل، معارف و حکم، دعوت و جہاد، حکمرانی و سیاست اور تصوف و ارشاد کا بحرِ ذخار وجود میں آیا جو ۱۰خوب صورت جلدوں پر مشتمل ہے۔ کم سے کم ضخامت ۴۰۰ اور زیادہ سے زیادہ ۷۰۰ صفحات ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ سفید کاغذ پر کھلی مشینی کتابت ہے۔ نظروں کو بھلی لگتی ہے، آسانی سے پڑھی جاتی ہے۔
منبرحقانیہ سے جامعہ کے قیام کے بعد سے جو کچھ سرگرمی ہوئی ہے جو خطابات کیے گئے ہیں، جو کانفرنسیں اور کسی خاص موضوع پر سیمی نار ہوا، کتابوں کی رُونمائی ہوئی ہے، اسے جمع کرنے کا شان دار کام کیا گیا ہے۔پہلی جلد میں دارالعلوم دیوبند کے ۱۰؍اساطین بشمول مولانا حسین احمد مدنی، طیب قاسمی اور انظر شاہ کشمیری، دوسری جلد میں مشاہیر عالمِ اسلام، تیسری جلد میں زعما مشائخ پاکستان، چوتھی جلد میں مولانا عبدالحق، پانچویں جلد میں مولا سمیع الحق، چھٹی اور ساتویں جلد میں اساتذہ جامعہ حقانیہ کے خطبات جمع کیے گئے ہیں۔ آٹھویں جلد میں کُل پاکستان اجتماع کی رُوداد ہے جو دینی مدارس کے نصاب و نظام اور تجاویز کے حوالے سے منعقد ہوا۔ نویں جلد میں کتب کی رُو نمائی کی رُودادیں ہیں اور دسویں جلد میں جلسہ ہاے دستاربندی کے احوال ہیں (غلطی سے اس پر تقریبات راہ نمائی براے مطبوعات لکھ دیا گیا ہے)۔
اس تفصیل سے بہت تھوڑا سا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان ۱۰کتابوں میں کیا کیا خزانے مستور ہیں۔ اگر ہر کتاب کو ایک صفحہ دیا جائے تو تبصرے کے لیے ۱۰صفحے درکار ہیں۔
کون سا دینی موضوع ہے جس پر گفتگو نہ کی گئی ہو۔ جہاد اور طالبان کے بارے میں تبصرہ ملتا ہے کہ مدرسے کے اساتذہ اور طالب علم ان کے شانہ بشانہ جہاد میں حصہ لے رہے ہیں۔ شریعت بل کے بارے میں جدوجہد کی پوری داستان مل جائے گی۔ غرض دین و سیاست کے قومی زندگی کے سارے مراحل نظر سے گزر جاتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ان ۱۰ جلدوں کی جو وسعت ہے اسے کسی تبصرے میں سمیٹنا تبصرہ نگار کے لیے ممکن نہیں۔ کن کن شخصیات کے نام آگئے ہیں، شمار ممکن نہیں۔
یہ برعظیم کے اس دور کی علمی، دینی و سیاسی سرگرمیوں کے طالب علموں کے لیے شان دار تحفہ ہے۔دیگر علمی مراکز کے لیے ایک نمونے کا کام ہے۔ اگر اسی طرح کے مجلدات سب نمایاں مدرسے پیش کریں تو زبردست علمی سرگرمی سامنے آئے گی۔(مسلم سجاد)
’عظیم کھیل‘ (گریٹ گیم) کوئی نئی بات نہیں۔ گذشتہ صدی میں بھی یہ کھیل دوعالمی طاقتوں کے درمیان کھیلا گیا تھا (جو آج صفحۂ ہستی سے مٹ چکیں)، اور آج امریکا عالمی بالادستی کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں اسی روش پر گامزن ہے، جب کہ اُمت مسلمہ اس کا خصوصی ہدف ہے۔
گذشتہ صدی میں اس وقت کی دو عالمی طاقتوں برطانیہ اور سوویت یونین نے افغانستان کو مرکز بناتے ہوئے جس طرح سے یہ ’عظیم کھیل‘ کھیلا، زیرتبصرہ کتاب اس کے دل چسپ تجزیے پر مبنی ہے۔ بقول مترجم: ’’گذشتہ صدی اس گریٹ گیم کی کہانی ان دونوں عالمی استعماری طاقتوں کے مابین کشاکش کی ایک دل چسپ، خوں چکاں اور اسرارو تجسس سے بھرپور ایسی کہانی ہے جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے کے بھرپور لوازم سے آراستہ ہے‘‘(ص۶)۔ پھر یہ کتاب گھر کی گواہی ہے۔ مصنف نے کتاب ان لوگوں کی یادداشتوں سے مرتب کی ہے جو عملاً اس ’عظیم کھیل‘ کا حصہ تھے۔
کتاب کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ استعماری طاقتیں اپنے سامراجی عزائم اور مذموم مقاصد کے لیے کس طرح سے سازشوںکے جال بُنتی ہیں، ایجنٹوں کا جال بچھایا جاتا ہے، حساس اداروں اور حکمرانوں پر اثرانداز ہونے کے لیے افراد کو متعین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے من مانے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ بسااوقات غلط فہمیاں پھیلا کر مختلف ممالک میں جھڑپیں کروائی جاتی ہیں اور انھیں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ معصوم انسانوں کا بے دریغ خون بہایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر بے دردی سے تباہی کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں اصولوں اور نظریات کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے،جیساکہ اسٹالن نے مطلب برآری کے لیے برطانیہ کا اتحادی بنتے ہوئے کیا۔ لمحوں میں ’سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ‘ ’عوامی جنگ‘ اور بالآخر حب الوطنی کی عظیم جنگ کا رُوپ دھار گئی اور اشتراکیت کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
آج امریکا افغانستان، عراق، عالمِ عرب اور بالخصوص پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر ایسا ہی کھیل کھیل رہا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے موجودہ ’عظیم کھیل‘ کی حقیقت اور اُمت مسلمہ جن سازشوں سے دوچار ہے ان کی وجوہات سامنے آجاتی ہیں، نیز سدباب کی حکمت عملی بھی۔توراکینہ قاضی صاحبہ نے عمدہ ترجمہ کر کے مفید علمی خدمت انجام دی ہے۔(امجد عباسی)
محترم شیخ محمد عمرفاروق صاحب کے آخری پارۂ عم کی درس کی ضخیم کتاب کا تازہ ایڈیشن دستیاب ہے۔ جس جگہ احباب گروپ بناکر باقاعدگی سے مطالعۂ قرآن کرتے ہوں، وہ درس کی اس کتاب کو ۵۰ روپے ڈاک ٹکٹ بھیج کر طلب کرسکتے ہیں۔ شیخ عمر فاروق ، 15-B وحدت کالونی، وحدت روڈ، لاہور۔فون: 042-37810845
’قراردادِ مقاصد: دستور سازی اور اعتراضات کا جائزہ‘ (اکتوبر ۲۰۱۵ئ) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے قراردادِ مقاصد کا تاریخی پس منظر واضح کیا ہے اور ایسے گوشے سامنے لائے ہیں جو اکثر و بیش تر لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں، اور اسے محض ایک رسمی سی قرارداد سمجھا جاتا ہے۔
’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور سازی پر پروفیسر خورشیداحمد کے دو مقالات (ستمبر اور اکتوبر ۲۰۱۵ئ) بہت مدلل اور مؤثر ہیں۔ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستورِ پاکستان کی اسلامی شقوں کے بارے میں ہمارے ملک کا بالائی طبقہ اور بعض دانش ور مخالفت یا لاتعلقی کا جو رویہ اپنائے ہوئے ہیں، یہ اس کا رد ہے۔
’اسلام فوبیا، مسلم دنیا اور امریکا‘ (ستمبر ۲۰۱۵ئ) میں طارق مہنا کا ایک امریکی قیدی کی حیثیت سے بیان امریکا کی انصاف پسندی کی حقیقت کھول کر رکھ دیتا ہے اور سیّد قطب شہید کے بارے میں (جولائی اور اگست میں ۲۰۱۵ئ) میں بہترین تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ استقامت فی الدین کے یہ اعلیٰ نمونے عالمِ اسلام کے لیے قیمتی اثاثہ ہیں۔
محترم خرم مراد صاحب کی ’’خرم مراد: حیات و خدمات‘‘ حصہ دوم کے بارے اکتوبر کے شمارے میں ضروری اعلان کیا گیا ہے۔ دسمبر میں اشاعت پیش نظر ہے۔ احباب سے گزارش ہے کہ جو اپنی یادوں کا سرمایہ بھیجنا چاہیں وہ ۲۰؍نومبر تک ضرور بھیج دیں۔ جن احباب نے لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ وہ اسے ملتوی نہ کریں۔ ۲۰ سال بعد یہ موقع مل رہا ہے، اس کا فائدہ اُٹھائیں۔
مسلم سجاد ، منشورات، منصورہ، لاھـور-فون:042-35252211
’قومی زبان: عدالت عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ‘ (اکتوبر ۲۰۱۵ئ) میں درج مصرعہ ذوقؔ کا نہیں داغؔ کا ہے۔
ترجمان القرآن محض ایک رسالہ یا اسلام کے فضائل و برکات کے بیان کا سلسلہ نہیں، بلکہ یہ تحریک برپا کردینے اور قلوب و اذہان کو مسخر کر کے احیاے اسلام کی مؤثر جدوجہد میں شمولیت کا عملی راستہ دکھانے کا باعث رہا۔ آج بھی افکار و عمل کی یہ خوشبو رسالے کی سب سے مؤثر تشہیر کا باعث ہے۔ کیا ہم یہ گل دستہ پیش کرنے میں کامیاب ہیں؟
اکتوبر ۱۹۵۴ء کی ایک شام یکایک یہ خبر لائی کہ گورنر جنرل بہادر نے سرے سے دستورساز اسمبلی ہی توڑ دی.... مگر اس انقلابی کارروائی کے معاً بعد جو آوازیں سننے میں آئیں وہ یہ تھیں کہ امریکی طرز کا ایک دستور نمایندگانِ ملک کے ذریعے سے مدوّن نہیں بلکہ ایک فرمانِ مبارک کے ذریعے سے مسلّط کیا جائے گا ، اور یہ کہ اسلامی ریاست نہ کبھی بنی ہے نہ بن سکتی ہے۔ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہبی لوگ اگر اللہ اللہ چھوڑ کر سیاست میں دخل دیں گے تو کیفرکردار کو پہنچائے جائیں گے، بلکہ شاید ان کا پارسل بھی کہیں روانہ کیا جانے والا تھا ....
انڈی پنڈنس ایکٹ کی نئی قانونی تعبیر ملکۂ برطانیہ کے نمایندے کو مالک الملک بنا چکی ہے اور اس اسمبلی کا وجود و عدم اُس کی مرضی پر منحصر ہے.... ایک فردِ واحد اسے قانون کی حیثیت بھی دے سکتا ہے اور ردّی کی ٹوکری میں بھی پھینک سکتا ہے۔ نئی قانونی تعبیر نے یہ اختیارِ مطلق اُسی ملکۂ برطانیہ کے نمایندے کو سونپا ہے....گذشتہ ماہ جولائی میں اس اسمبلی کے اجلاس شروع ہوئے۔ اس موقعے پر اس کے ارکان کو توجہ دلائی گئی کہ سابق دستور ساز اسمبلی جو کام کرچکی ہے اس پر پانی نہ پھیرا جائے ....مگر اب جو خبریں پردے کے پیچھے سے چھن چھن کر آرہی ہیں وہ یہ ہیں کہ نیا دستوری خاکہ اُن تمام اسلامی دفعات سے خالی ہے جو پچھلی اسمبلی میں طے ہوئی تھیں اور اسلام کا جو تھوڑا بہت نام و نشان اس میں پایا جاتا ہے اُسے بھی خارج کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مخلوط انتخاب کی تجویز اُس پر مزید، اور قراردادِ مقاصد تک کو اُڑا دینے کی افواہیں اس پر مزید علی المزید:__ اب یہ بات کچھ سمجھ میں آنے لگی ہے کہ.... اس مرتبہ ان کی توپوں کا رُخ براہِ راست جماعت اسلامی کی طرف کیوں ہے؟
....لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اگر خدانخواستہ یہ خاکہ ویسا ہی ہے جیسا بیان کیا جاتا ہے تو پچھلے آٹھ سال کی داستان پر یہ تازہ اضافہ گویا ذلّت کے سر پر رُسوائی کا تاج ہے۔
(اس ہشت سالہ رُوداد پر جو شخص بھی غور کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ اس ملک میں خود مسلمانوں کا ایک نہایت بااثر طبقہ ایسا موجود ہے جو ساری قوم کے علی الرغم اسلامی ریاست کے تخیل کی مزاحمت کر رہا ہے اور اسے یہ چیز اتنی ناگوار ہے کہ وہ اسے زک دینے کے لیے اخلاق، دیانت اور حُب ِ وطن کے کسی تقاضے کو بھی پامال کردینے میں باک نہیں رکھتا)۔ (’اشارات‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۵،عدد۳، ربیع الاول ۱۳۷۵ھ ،نومبر ۱۹۵۵ئ، ص۶-۷)
______________