زندگی کے سفر میں گزرنے والا ہرماہ و سال، جانے والے عزیزوں ، دوستوں اور حددرجہ قیمتی انسانوں کی جدائی کا دُکھ دیتا ہےاور باربار زندگی کی ناپایداری کا احساس دلاتا ہے۔ ہرجدائی ایک زخم ہے لیکن کچھ تو اتنے گہرے ہیں کہ ان کی ٹیسیں بے چین کرتی رہتی ہیں اور گاہے مایوسی کے سائے بھی تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جلد ہی خالق کائنات کا حکم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی قدم جما دیتی ہے اور یہ سبق دیتی ہے کہ ہرفرد نے جانا ہے۔ وہ آیا بھی حکمِ الٰہی سے تھا اور گیا بھی خالق کی مرضی سے ہے۔ اللہ کی حکمت ہی غالب ہے، لیکن چشم کا اَشک بار ہونا بھی انسان کی فطری مجبوری ہے۔
ایسے قیمتی افراد میں بہت سی عظیم ہستیاں شامل ہیں۔ تاہم، چودھری غلام محمد صاحب مرحوم [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء]کی یاد ہروقت ساتھ رہتی ہے، جنھوں نے تحریک ِ اسلامی کی دعوت کودنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے افریقہ، عالمِ عرب، جنوبی ایشیا، مشرق بعید اور یورپ و امریکا کے لیے بامعنی منصوبہ سازی کی، حالانکہ ا ن کے چوبیس گھنٹے کراچی میں جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص تھے۔ چودھری صاحب کے ساتھ جن حضرات نے، ان کے دست و بازو کی حیثیت سے تحریک اسلامی کے پیغام کو دُنیابھر میں پھیلایا، ان کے تذکرے میں محترم مسعود عالم ندوی [م: ۱۶مارچ ۱۹۵۴ء]، محترم عاصم الحداد [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۹ء]اور جناب خلیل احمد حامدی [م: ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ء] نمایاں ہیں۔ ان حضراتِ گرامی کی پے درپے جدائی نے دل توڑا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانۂ غیب سے کوئی نہ کوئی بندوبست فرما دیا۔ اسی ضمن میں میرے لیے چھوٹے بھائی اور عزیز بیٹے کی مانند عبدالغفار عزیز اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے۔ ان سے رفاقت کا ۳۰برسوں پر پھیلا زمانہ یوں لگتا ہے کہ ایک لمحے میں سمٹ گیا اور وہ ۵؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو اپنے ربّ کے بلاوے پر ہمیں چھوڑ کر، اللہ کے حضور پیش ہوگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
عبدالغفارعزیز بھائی کو یاد کرتا ہوں تو میرے ذہن میں ان کا خوب صورت، صحت مند اور توانا سراپا اُبھرتا ہے۔ ایساسراپا جو خوش خلقی، حُسنِ اخلاق، فروتنی، ہمدردی، لگن، اپنائیت اور جذبۂ دعوت سے سرشار ہے۔ان کی زندگی، خدمات اور کارکردگی پر نظر ڈالتا ہوں تو سورہ آل عمران کی آخری آیت نظروں کے سامنے آجاتی ہے:
ترجمہ:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پاؤگے‘‘۔
اس میں اہلِ ایمان کے لیے فلاح کی خوش خبری ہے، مگر چار شرائط کے ساتھ، یعنی صبر، ثابت قدمی، دین کی خدمت کے لیے کمربستہ رہنا اور تقویٰ جو نام ہے مقصد زندگی اور دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے استقامت اور استمرار کا۔ باطل کے مقابلے میں ہم قدم رفقا کے ساتھ مل کر، ایک دوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھانا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے عبدالغفار عزیز کو صبر، ثابت قدمی، خدمت ِدین کے لیے کمر بستگی، اور تقویٰ___ ان چاروں خصوصیات کے اعتبار سے اللہ کا سچا بندہ اور دین کا مخلص خادم پایا۔
دعوتِ حق اور ایک بندئہ مومن کی کامیابی کی یہ چاروں صفات بے حد اہم ہیں۔ تاہم مَیں دیگر تین اعلیٰ صفات کے ساتھ دعوتِ دین کے کاموں کے لیے کمربستہ رہنے پر خصوصی توجہ کو بہت اہم سمجھتا ہوں، جنھیں بدقسمتی سے بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مطالعہ، تحقیق، محنت، تیاری اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات شامل ہیں۔ اس پہلو سے میں نےعزیزی عبدالغفار میں وہ کیفیت دیکھی، جو تحریک کی بڑی بنیادی ضرورت ہے۔ آج مطالعے، تحقیق، جستجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش پر وہ توجہ نہیں دی جارہی، جو قرآن کا تقاضا اور تاریخ کا مطالبہ ہے۔ مجھے حالیہ تحریکی زندگی میں عزیزی حسن صہیب مراد [م: ۱۰ستمبر ۲۰۱۸ء] اور عزیزی عبدالغفار عزیز میں یہ کیفیت نظرآئی اور مجھے توقع تھی اور ہرلمحہ یہی دُعا تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت لے۔لیکن ہوتا وہی ہے جو خالق و مالک کو مطلوب ہے۔ یہ دونوں ہی ہم سے رخصت ہوگئے۔ تحریک کی قیادت، نوجوان کارکنوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو اس سلسلے میں بڑی فکرمندی اور عملی کاوش کی ضرورت ہے۔ اللہ کا قانون ہے کہ وہ توکّل اور صبرومصابرت کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور تحقیق و جستجو اور مخالف پر علمی اور عملی برتری کو بھی جدوجہد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرف پوری توجہ دیں۔ عبدالغفار عزیز نے اس سلسلے میں ایک روشن مثال چھوڑی ہے۔
انھوں نے نوجوانی ہی میں، بہت سے روشن معاشی امکانات کو چھوڑتے ہوئے، اور کیرئیر کی قربانی دے کر، اپنا پورا مستقبل تحریک اسلامی کے سپرد کردیا کہ تحریک دین حق کی جدوجہد میں انھیں جہاں اور جس طرح کام کرنے کی ہدایت کرے گی، وہ پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھیں گے۔ ہمارے اس عابد و زاہدبھائی نے واقعی پلٹ کر نہیں دیکھا۔
یاد رہے کہ عبدالغفار عزیز، جماعت اسلامی کے بڑے مخلص رہنما حکیم عبدالرحمان عزیز مرحوم (سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ) کے صاحبزادے تھے۔ گویا کہ انھوں نے تحریک کے ماحول میں آنکھیں کھولیں، لیکن عملاً ان کی ابتدائی تربیت میں براہِ راست جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔ ثانوی درجۂ تعلیم کے بعد ان کی فکری، دینی اور تعلیمی تربیت الاخوان المسلمون کے دامنِ محبت میں ہوئی، جب وہ علّامہ محمدیوسف القرضاوی صاحب کے حلقۂ اثر میں زیرتعلیم تھے اور قطر کی درس گاہوں میں پڑھ رہے تھے۔ اخوان سے گہرے ربط نے ان کی شخصی تعمیر اور صلاحیتوں میں نکھار میں اہم کردار ادا کیا۔ قرآن کریم سے گہرا تعلق اور اذکار و اوراد سے عملی وابستگی ایسی کہ جیسے سانسوں کی آمدورفت، اللہ کی کبریائی اور احسانات کے اعتراف سے بندھی ہو۔ یہ چیز بھی اخوان سے تعلق کا عظیم عطیہ تھا، جسے انھوں نے اپنایا۔ اُردو زبان کا بہترین ذوق، انگریزی پر اچھی قدرت اور عربی زبان وادب سے عشق کی حد تک وابستگی نے ان میں اظہاروبیان کی قدرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔
عزیزی عبدالغفار کی شخصیت کے تحریک اسلامی اور اس کی قیادت سے تعلق کا ایک یادگار واقعہ اس وقت رُونما ہوا، جب بے نظیر صاحبہ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ اور جناب نصیراللہ بابر کے زمانۂ وزارتِ داخلہ میں، بحالی جمہوریت تحریک کے دوران، اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی پُرامن ریلی ہوئی۔ ریلی کے بعد میرے گھرسے اسلام آباد پولیس نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی قیادت میں، محترم امیرجماعت قاضی حسین احمد صاحب اور مجھے گرفتار کیا۔ عجیب منظر تھا کہ ہم نہتے افراد کو گرفتار کرنے کے لیے سو کے قریب مسلح پولیس اہل کار، ہمارے گھر اور گھر کی عقبی گلیوں پر قابض تھے۔ جب پولیس ہمیں لے جانے لگی تو عبدالغفار عزیز نے بڑھ کر ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ محترم امیرجماعت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میں ان کی خدمت کے لیے اختیاری گرفتاری پیش کرتا ہوں‘‘۔ جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے عبدالغفار عزیز کو ہمارے ساتھ لے جانے کا حکم دے دیا اور ہمیں سملی ڈیم کے گیسٹ ہاؤس میں لے جایا گیا ، جہاں ہم نے مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں۔ یہ اور بات ہے کہ نصف شب کے بعد ہمیں رہا کردیا گیا، لیکن جس طرح عبدالغفارعزیز نے امیر جماعت کی رفاقت کا حق ادا کیا، اس کا نقش کبھی دل سے محو نہیں ہوسکتا۔
ملّت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات، اسلامی تحریکوں کے معاملات اور کارکردگی پر گہری نظر نے، انھیں ملکوں اور قوموں کی تقسیم سے بالاتر حیثیت دے کر ملّت کا عزیز، ہمدرد اور مددگار بنا دیا تھا۔
مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر، مسئلہ شیشان ہو یا تقسیم سوڈان کا المیہ، مشرقی تیمور کی مسیحی تخلیق ہو یااراکان، بوسنیا، کوسووا ، سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی، بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی کے رفقا کے لیے پھانسیوں اور قیدوجبر کی کالی آندھی ہو یا بھارت میں مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین، مصرمیں اخوان المسلمون کی جدوجہد، تحریک و انتخابات میں کامیابی اور داروگیر کا سلسلہ ہو یا شام میں قتل عام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، تاجکستان، ترکی، مراکش، تیونس، الجزائر اور صومالیہ میں تحریک اسلامی کو درپیش چیلنج ہو یا یورپ میں پھیلی ہوئی تحریک اسلامی کی تنظیموں میں رابطہ کاری، ہرجگہ عبدالغفار عزیز ایک تازہ دم، ہمہ تن اور اَن تھک رہبراور مددگار کی حیثیت سے یوں کندھے سے کندھا ملا کر چلتے دکھائی دیتے، کہ جیسے وہ انھی ہم مقصد ساتھیوں کے ساتھ مدتوں سے سرگرمِ کار چلے آرہے ہیں۔
اس ضمن میں وہ قلم سے، تقریر سے، ملاقاتوں سے، ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر مکالموں اور مذاکروں کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر تائید و ہمدردی اور ظالم کی مذمت کے لیے میدان میں ہروقت چوکس کھڑے رہتے اور درست موقف پوری قوت سے بیان کرتے ہوئے منظر پر چھا جاتے۔ عالمِ اسلام سے ان کی کمٹ منٹ رسمی نوعیت سے بالاتر اور جسم میں دوڑتے لہو کی مانند تھی۔
عالمِ اسلام کے مسائل اوربحرانوں پر انھوں نے ترجمان القرآن میں نہایت قیمتی مضامین لکھے، جو مصدقہ معلومات اور لکھنے والے کی براہِ راست معاملات کی جڑوں تک رسائی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ یہ مضامین مجرد معلومات سے آگے بڑھ کر جذبات کی گرمی اور عمل کی لگن کو بھی انگیخت کرتے۔ وہ مختلف ممالک میں بروئے کار اسلامی تحریکوں کے اندرونی بحرانوں اور تنظیمی مناقشوں کو حل کرنے کی صلاحیت اور بصیرت رکھتے تھے۔ میں نے انھیں مختلف درجات اور حلقوں میں مشاورت کے دوران بے لاگ اور صاف صاف راہِ عمل کی نشان دہی کرتے دیکھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ حفظ ِ راز اور حفظ ِ مراتب کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔
عالمی محاذ پر پاکستان کے قومی موقف کو پیش کرنے اور پاکستان کے نظریے کا دفاع کرنے اور تاریخ کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگنڈے کی تردید کے میدان میں ان کی خدمات بے پناہ ہیں۔ بلاشبہہ انھوں نے پاکستان کے ایک رضاکار سفیر کا کردار ادا کیا۔
نہ صرف ماہ نامہ ترجمان القرآن ، بلکہ تحریک اسلامی نے عالمی سطح پر ان کی شخصیت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر یہ اللہ کی مرضی کہ عبدالغفار عزیز بھائی ربّ کے بلاوےپر لبیک کہتے ہوئے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم سے رخصت ہوگئے۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے، اور ان کی رحلت سے جو خلا واقع ہوا ہے، اسے پُر کرنے کا انتظام فرمائے، آمین!
یہ امر واقعہ ہے کہ جلد بازی میں اور خوب سوچ بچار کے بغیر مسلط کیے گئے فیصلے قوموں اور ملکوں کی زندگی پر دُور رس منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یوں بظاہر کوئی چھوٹا سا فیصلہ ،بعض اوقات ملکوں کے مستقبل کا نقشہ بدل دیتا ہے۔جموں وکشمیر کاقضیہ، جدید بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی، عالمی طاقتوں کی ظالمانہ لاتعلقی اور بھارت کی عہدوپیمان شکنی اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بدترین فوج کشی نے دنیا کے سامنے ایسا منظر پیش کیا ہے، جس پر ہر درد مند انسان خون کے آنسو روتا ہے۔
بھارت میں برسراقتدار راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کی نسل پرست فسطائی حکومت نے اس ماحول کو حددرجہ درد ناک بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی اداروں کی بے حسی سے شہ پا کربھارتی حکومت نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک تباہ کن یلغار کے ذریعے پورے جموں و کشمیر کو ایک قتل گاہ اور بدترین بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔اس جارحیت پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ پوری قوت سے مسئلے پر عالمی راے عامہ کو متحرک کرتی۔ مگر روایتی سستی اور ترجیحات کی دیرینہ خرابی آڑے آئی۔ بجائے اس کے کہ بھارتی عہد شکنی اور جموں و کشمیر کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی روش کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دنیا کو ہم نوا بنایا جاتا، پاکستان میں ایک دوسرا ہی منظر ابھرتا دکھائی دیتا ہے، اور وہ ہے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت و بلتستان کو پاکستان کا عارضی صوبہ بنانے کا خطرناک منصوبہ۔ اس ضمن میں ہم نہایت درد مندی سے برسرِاقتدار اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار سرگرم افراد اور اداروں کو متنبہ کرتے ہوئے ، بلاکم وکاست اپنی رائے پیش کر رہے ہیں:
تمام بین الاقوامی، سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی شواہد کے مطابق شمالی علاقہ جات ، ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں۔ جموں وکشمیر ایک ایسی وحدت ہے جس میں لداخ ، جموں ،وادیِ کشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک، پاکستان کا یہی موقف ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسی پوزیشن اور قومی اتفاق راے کی بات کی ہے، اور آزاد کشمیر اسمبلی نے تو ۲۰۱۴ء میں ایک متفق علیہ قرارداد کے ذریعے نہ صرف اس کا اعتراف و اظہار کیاہے ، بلکہ اسے پاکستان اور کشمیری عوام کی جانب سےمسئلہ کشمیر پرموقف کا لازمی حصہ قرار دیا ہے، نیز اسی موقف کو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے۔
۱۶جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ۲۲۸ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، تب پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے کہا تھا:
The population of Kashmir is distributed community as follows: in Kashmir proper, apart from Jammu, 93.5 percent are Muslims. 62 percent of the population of Jammu are Muslims. Gilgit, which is the high mountain in region is entirely Muslim. The total area of the state, which is largely composed of high mountains and barren hills, is 82000 square miles.
کشمیر کی آبادی اس طرح سے ایک منقسم آبادی ہے: جموں کے علاوہ کشمیر میں ۹۳ء۵ فی صد مسلمان ہیں۔ جموں کی ۶۲ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ گلگت جو بلندپہاڑی خطہ ہے، مکمل طور پر مسلمان ہے۔ ریاست کا کُل رقبہ جو بڑے پیمانے پر اُونچے اوربنجرپہاڑوں پر مشتمل ہے، ۸۲ہزارمربع میل ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے شمالی علاقہ جات ۷۲ ہزار۹سو ۷۱ مربع کلو میٹر سے زیادہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں،جن کی آبادی ۱۸ لاکھ ہے۔ اورجب بھی جموں و کشمیر میں استصواب راے ہوا، تو یہ سبھی ووٹ ان شاء اللہ، پاکستان سے الحاق کے حق میں جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے چوتھے دور حکومت (۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء) میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے اگست ۲۰۰۹ ء کے دوران میں’ گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورنس‘ ، کے نام سے داخلی خود مختاری ، کا حکم نامہ جاری کیا ۔ اس حکم نامے کے تحت’ شمالی علاقہ جات‘ کو ’گلگت بلتستان‘ کا نام دیتے ہوئے، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے انتظامی عہدے تفویض کیے، جب کہ قانون سازی و مالیاتی اختیارات اس کی مجوزہ منتخب اسمبلی کو دیے گئے، اور اس کی کونسل کا چیرمین وزیر اعظم پاکستان کو قرار دیا گیا۔
ذرا پیچھے چل کر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں ’شملہ معاہدے‘ کے بعد بیوروکریسی نے تب صدر پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یہ تجویز دے کر قائل کرلیا تھا کہ ’’گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا جائے‘‘۔ لیکن جیسے ہی انھوں نےاس تجویز پر عمل درآمد کے منفی اثرات پر جوابی دلائل سنے تو اس تجویز پر پیش رفت روک دی۔ اب انھی سے وابستگی کی دعوے دار پارٹی ایک غلطی کرنے کے بعد، اپنی غلطی کا ازالہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔
جلدبازی میں اٹھائے گئے اس قدم پر آزاد کشمیر ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود شمالی علاقہ جات کی بیش تر سیاسی و سماجی پارٹیوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔
حکومت پاکستان نے ، خود پاکستان کے کئی علاقوں کی طرح، ا س علاقے کے لوگوں کے بھی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور صحت عامہ کے حقوق کی بجا آوری سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا۔ جب یہاں کے شہری معاشی تنگ دستی پر چیخ اُٹھے تو اس کا ملبہ آزاد کشمیر حکومت پر ڈال دیا، اور یہ فلسفہ تخلیق کیا گیا کہ’ پاکستان اس علاقے کو ضم کرے گا تو سماجی، عدالتی، دستوری اور معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی اوربودا عذر تھا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے عاجلانہ فیصلے کے گیارہ برس گزرنے کے باوجود، وہاں حالات جوں کے توںہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ آزاد کشمیر اور اس سے وابستہ شمالی علاقہ جات کی تعمیر وترقی کے لیے آزاد کشمیر کی فراخ دلانہ مدد کرتی، لیکن افسوس کہ کم و بیش ہرحکومت نے اس معاملے میں سرد مہری کا رویہ اختیار کیا، اور بجائے اس کے کہ خرابی کو دُور کیا جاتا، ایک غلط راستے پر چلنے کے حیلے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیے۔
بلاشبہہ گلگت بلتستان اور اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے سبھی حصوں کے احساسِ محرومی کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن خاص طور پر اس علاقے کی معاشی محرومیوں کو دُور کرنے کے نام پر اختیار کیا جانے والا یہ ایک انتہائی نامناسب راستہ ہوگا، جس سے مسئلہ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ قضیۂ کشمیر اور اس کے بارے میں پاکستان کے اور اسٹرے ٹیجک موقف کو نقصان پہنچائے بغیر یہاں کے عوام کو معاشی، سیاسی اورسماجی طورپر کیوں اُوپر نہیں اُٹھایا جاسکتا؟ اگرپس ماندہ علاقوں کی بہتری کےنام پر دستورِ پاکستان سے ہٹ کر حل تلاش کرنے کے لیے ایسی روایت اپنا لی گئی تو معاملات گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ جس طرح آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ وہ مسئلہ حل ہونے تک پاکستان کی زیرنگرانی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہونے کی حیثیت سے یہی مقام رکھتا ہے، اور ان کے مستقبل کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک ہے۔
پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’ ’عالمی مالیاتی ادارے یا بڑے سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا اعتراض دُورکرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے‘‘۔ یہ عذر تو حددرجہ پست ہے۔ کیا کسی معاشی منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک کے سیاسی اور تاریخی موقف کی قربانی دینا کوئی معقول راستہ ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرمایہ کاری کو قومی مفاد کے تابع رکھتے ہوئے قابلِ قبول بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے اَن تھک سفارتی، مذاکراتی اورعلمی سطح پر تگ ودو کی ضرورت ہے،اور یہ کام ہماری اعلیٰ سول اور سیاسی قیادت کو کرنا چاہیے۔
مسئلے کی نزاکت اور غورطلب پہلو
یہ ہے وہ پس منظر، جس میں گذشتہ چند ہفتوں سے راولپنڈی میں چیف آف دی آرمی اسٹاف کی زیر صدارت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں جموں وکشمیر کے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل دینے کی تجویز پر عملاً ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ اُمور وضاحت سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
یہ بات صاف لفظوں میں ہرخاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں کاروبارِ ریاست و حکومت انھی اصولوں کے مطابق چلا یا جائے گا، جو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ ہیں۔ مطلب یہ کہ اس نوعیت کے امور منتخب حکومت، پارلیمنٹ اور دستور کے تابع زیر بحث آئیں گے اور تمام اداروں کو اپنے حدود کار میں ریاست اور قوم کی خدمت کی بجاآوری کرنا ہوگی۔ انتظامیہ ، مقننہ ، عدلیہ ، عسکری اداروں اور سول ملازمین کو متعین شدہ دائرے میں خدمات انجام دینا ہوں گی، اور اسی چیز کا حلف، دستور کے مطابق سبھی ذمہ داران ریاست نے اٹھایا ہے۔
چیف آف دی آرمی اسٹاف ، دفاع وطن کے حوالے سے ایک بڑے محترم اور حددرجہ حساس منصب پر فائز ہیں۔ انھیں سیاسی امور کی بحثوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنی آرا ، وزارت دفاع کی وساطت سے یا دستور میں طے شدہ سلامتی کے اعلیٰ فورم کے ذریعے حکومت کو پیش کرنی چاہییں۔ پھر ان اُمور کو طے کرتے وقت حکومت ،وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور وزارت قانون کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت عملی طے کرتے وقت بجاطورپر مسلح افواج کے مشوروں اور آرا کو بھی زیر غور لائے اور کھلے عام بحث کے بعد مناسب فیصلے کیے جائیں، جن پر ان کی روح کے مطابق، مگر لازمی طور پر دستورِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کیا جائے۔
اس ضمن میں بعض ’دانش مندوں‘ کا یہ کہنا کہ ’’قومی مسلح اداروں نے تو اس معاملے میں محض سہولت کاری کی ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں کھلا مکالمہ نہیں ہورہا‘‘۔ یہ بہت عجیب اور نہایت کمزور مفروضہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کل سپریم کورٹ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کرکے کسی ’اتفاق راے‘ کو ڈھو نڈنے نکلے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت ضد اور اَنا کے باعث اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرنے،سب کو سننے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے معذور ہے تو اس کا حل نئے قومی انتخابات ہیں نہ کہ ریاستی آئینی ڈھانچا تلپٹ کر دینا اور غیرآئینی روایات قائم کرناکوئی معقولیت ہوگی۔
ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ’جوں کے توں‘ (stand still) منظر نامے کو تبدیل کرنا اوراس سے چھیڑ چھاڑ کرنا، بھارتی منصوبہ سازوں کی پرانی خواہشات کی تکمیل ہوگا۔ پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ’’اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد وں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے‘‘۔البتہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ’’پاکستان ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے سرِ مو انحراف کر کے ، جموں و کشمیر کی وحد ت کے ٹکڑے بانٹنے کی میز سجائے‘‘۔ پاکستان نے بھارت کی اس چال کو ہمیشہ ناکام بنایا اور بھارت نے ہر بار یہی کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان ،سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے متن سے باہر نکلے اورپھر بھارت یہ اعلان کرے کہ ’’پاکستان نے قرار دادوں سے دست برداری اختیار کر لی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پاکستان کے اصولی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، بلکہ موقف سرے سے ختم ہوجائے گا۔
اگرچہ پاکستان کے بعض عجلت پسند سفارت کاروں نے مختلف اوقات میں مسئلہ کشمیر پر نہایت خطرناک بیان دیے ، لیکن ان افراد کی حماقتوں پر پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صاحب بازی لے گئے۔ انھوں نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنا چاہتا ہے ‘‘، اور پھر اسی آمر مطلق اور خود ساختہ حاکم نے پاکستان آبزرور کو انٹر ویو دیتے ہوئے انکشاف کیا:’’ میں نے بھارتی وزیرخارجہ نٹور سنگھ سے کہا ہے کہ آیئے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سانچے سے باہر رکھ کر ایک سال کے اندر حل کر دیتے ہیں‘‘۔ جواب میں نٹور سنگھ نے کہا:’’ہم کو اس قدر جلدی نہیں ہے‘‘۔ (روزنامہ پاکستان آبزرور،۳۱ جولائی ۲۰۰۵ء)۔ اسی احمقانہ مہم جوئی کو تب وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے ’آؤٹ آف باکس‘کوشش قرار دیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حاکم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ، کشمیر کے عوام کو نظرانداز کر کے ایسا کوئی قدم اٹھائے، کوئی عہدوپیمان کرے جو مسلّمہ موقف کے برعکس ہو۔
جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف ایسے بیانات دے کر، بلکہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر، اور عملاً بھارتی فوج کی مدد کرکے کشمیر اور پاکستان کے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ اسی نوعیت کی منصوبہ سازی اب گلگت بلتستان کی ’معاشی بہتری‘ وغیرہ کے نام سے نئے صوبے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ جنرل مشرف کا قدم مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت پر خود کش حملہ تھا، تو اب دباؤ ڈال کر یہ فیصلہ لینا، پاکستان اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے غداری کی طرف لے جائے گا، جس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔
اس منصوبے کے پیش کاروں کی طرف سے یہ ایک بالکل بے معنی عذر پیش کیا جا رہا ہے: ’’سی پیک‘‘ (چین پاک معاشی راہداری) کے لیے چین بھی یہ چاہتا ہے کہ شمالی علاقہ جات کو یک طرفہ طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے پالیسی ساز ایسا غیرمنطقی اور غیر آئینی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ جس سے پاکستان کے قومی مفادات پر ضرب کاری لگے اور جموں و کشمیر کی ۷۳ سال پر پھیلی طویل، دلیرانہ جدوجہد اور مظلومانہ قربانیوں کی تاریخ دریابرد ہو جائے۔ آخر ’شاہراہ قراقرم‘ (KKH) اسی ’جوں کی توں‘ صورت حال میں جموں و کشمیر کے متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ’شاہراہِ قراقرم‘ سے بہتر شاہراہ کی تعمیر نے کون سے اور کس طرح سے نئے تقاضے لا کھڑے کیے ہیں کہ بین الاقوامی اور قومی معاملات کوتہہ و بالا کردیا جائے؟یاد رہے ۲۰۰۹ء میں عوامی جمہوریہ چین نے کشمیر ی باشندوں کی چین آمد کے لیے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا ، ’’جموں و کشمیر کے لوگ بھارتی پاسپورٹ کے بجائے سادہ کاغذ پر حلف نامے کے ذریعے چین کا ویزا لے سکتے ہیں‘‘۔ اس پر بھارتی حکومت نے احتجاج کیا تو چین نے بڑا مختصر جواب دیا: ’’کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ، جو بھارتی یونین کا حصہ نہیں ہے‘‘(روزنامہ The Nation ، ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)۔
اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے ، گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دے کر عارضی [اورپھر مستقل] صوبہ بنانے کا فیصلہ کر لیا، تو اس طرح بین الاقوامی سرحد تبدیل ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں پوری لائن آف کنٹرول، خودبخود بین الاقوامی سرحد میں ڈھل جائے گی۔ اس صورت میں سارے علاقے سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ہٹ جائیں گے، اور ان مبصرین کو ہٹانا بھارت کا پرانا مطالبہ ہے۔ یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱)اور قرارداد ۱۲۲، ۱۲۶ (۱۹۵۷) کے یکسر منافی ہوگا، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے انہدام کا سبب بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت بھی مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتِ حال پر عالمی عہدوپیمان کو یکسر توڑنے کا اعلان کرکے، مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے اور آزاد کشمیر پر دست درازی کے جواز کے لیے حکمت عملی وضع کرے گا۔ پاکستان اپنی ناقابلِ فہم عجلت پسندی سے بین الاقوامی تحفظ کے تمام وعدوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔ یوں ایک گناہ بے لذت کے طور پر کشمیر کا مسئلہ ، بھارتی خواہشات کے مطابق، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دفن ہو جائے گا۔
ایک مغالطہ یہ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ ’بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس رویہ اختیار کرکے کشمیر کی انتظامی اور آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے، تو جواب میں اگر پاکستان بھی آزادکشمیر کے ایک محدود علاقے میں ایسا کچھ کرلے تو کون سی قیامت آجائے گی؟‘‘ یہ مفروضہ بھی سخت شرانگیزی کا شاخسانہ ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ یک طرفہ طور پر بین الاقوامی عہدوپیمان سے رُوگردانی کررہا ہے، مگراس کے ایسے منفی رویے سے قراردادیں اور عالمی فیصلے تبدیل نہیں ہوئے۔ لیکن جب دوسرا فریق بھی اسی عہدشکنی کا راستہ اختیار کرے گا تو قراردادوں کی بنیاد ڈھے جائے گی اور عالمی عہدوپیمان کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ مسئلہ کشمیر کی متنازع بین الاقوامی حیثیت صرف اور صرف تقسیم ہند کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر قائم ہے، اور بھارت یہ چاہتا ہے کہ ان بنیادوں کو ختم کر دیا جائے۔
جموں و کشمیر کی وحدت پر اس دست درازی کو زیربحث لاتے ہوئے کشمیر کی مزاحمتی قیادت، جس میں سیّدعلی شاہ گیلانی، محمد یاسین ملک، میرواعظ عمرفاروق اور دوسرے محترم قائدین شامل ہیں، ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوئی بھی تجویز ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ یہ قدم جموں و کشمیر کی وحدت اور بین الاقوامی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔اسی طرح آزادکشمیر کی قیادت، جس میں مسلم لیگ نون، مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی شامل ہیں، انھوں نے ۲۰۱۴ء میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کرکے اس ’پانچویں صوبے‘ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ اگر بھارت نے دھونس جماکر ایک غلط قدم اُٹھایا ہے تو اس کی غلطی کے جواب میں پاکستان کی جانب سے غلطی کا ارتکاب کہیں زیادہ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔
ہم ذرا ماضی میں جائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں نون لیگ حکومت کی قائم شدہ ’سرتاج عزیز کمیٹی‘ نے ’گلگت بلتستان کی پاکستان میں اس طرح شمولیت کی تجویز دی تھی کہ ’’این ایف سی، ایکنک وغیرہ کے ساتھ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی یہاںسے نمایندے لیے جائیں اور دیگر صوبوں کے مساوی حیثیت دی جائے‘‘۔ یوں پانچویں صوبے کا غلغلہ بلند ہوا، تو جموںو کشمیر کے طول و عرض میں اضطراب پھیل گیا اور کشمیری قیادت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ جواب میں وزیراعظم محمدنواز شریف نے ۱۶مارچ ۲۰۱۶ء کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے نام خط میں وضاحت کی: ’’پاکستان، گلگت بلتستان سے وابستہ حساس اُمور سے پوری طرح واقف ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان، جموں و کشمیر کے تنازع پراپنے اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرے گا، وہی موقف کہ جو سلامتی کونسل کی قراردادوں پرمبنی ہے‘‘۔ { FR 1176 }
پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی اور اس کے بنیادی اجزا کو نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں گلگت اور بلتستان کو کسی شکل میں بھی پاکستان کا ایک صوبہ بنانا، اوروہاں سے پارلیمنٹ میں نام نہاد نمایندگی دینا، دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی مخالفت اورقضیۂ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہوگا۔ دستور کے الفاظ ہیں: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے، تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اُس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیےجائیں گے‘‘۔
۱۹۷۳ء کے دستور پاکستان میں درج یہی الفاظ، ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں بھی شامل تھے۔ اس تسلسل سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع اور ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے نام نہاد الحاق کے نام پر اپنے دستور میں جموں و کشمیر کے بارے میں دفعہ ۳۷۰ رکھی، تو پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس بھارتی اندراج کو تسلیم نہیں کیا ، اور اسے متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کا مشترکہ مسئلہ قرار دیا۔
پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور تمام ریاستی ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ دستور ی طور پر طے شدہ وعدے کے مطابق ، مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر پر مشتمل وحد ت کی مرضی کے مطابق حل کرنے میں مدد دیں،اور اس عہدوپیمان کا احترام کریں۔ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر یا الگ الگ ، جموں و کشمیر کے مستقبل کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، تاآنکہ جموں و کشمیر کے مسلّمہ شہری ایک آزادانہ استصواب راے سے اپنی مرضی کا فیصلہ کریں۔
اندریں حالات، ہم پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ، ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اوردانش وروں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اداروں کو دستور اور قانون کا پابند بننے پر مجبور کریں اور جو سیاسی پارٹیاں اپنے غیر دانش مندانہ فیصلوں کے تحت محدود سیاسی فائدے کی اسیر ہیں، انھیںاپنی نا مناسب پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا درس دیں ۔ اگر آج روایتی کاہلی اور عجلت پسندی سے معاملات کو بگاڑا گیا تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
امت مسلمہ تاریخ کے ایک نازک مرحلے سے گزر رہی ہے، مگر یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ امت کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ اسے ہر زمانے میں طرح طرح کے چیلنجوں اور بحرانوں سے واسطہ رہا ہے۔ اُمت کی امتیازی شان ہے کہ وہ بحرانوں سے نبٹتے ہوئے ہربار اپنی قوت کو بحال کرلیتی ہے کیوں کہ اُسے نشاتِ ثانیہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے اس امت کے لیے یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔اسلام، ایک دائمی اور عالم گیر پیغام کے طور پر ، نہ تو بحران کی کیفیت سے بچ سکتا ہے اور نہ مدوجزر اور احیا و تجدید کے مراحل سے دامن چھڑا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ معاملات میں تو تقسیم و تفریق اور پھر اتحاد و اتفاق کی بحالی کے عمل سے بھی گزرنا اس کی تاریخ کا لازمی حصہ رہا ہے۔
در حقیقت، ذات باری تعالیٰ نے انسان کو اختیار اور ارادے کی جس صلاحیت اور نعمت سے نوازا ہے، اس وہبی انتظام و انصرام کے پیش نظر تبدیلی کا یہ عمل ناگزیر ہے۔ اسلامی اسکیم کی ساخت میں کچھ عناصر ایسے ہیں، جو ناقابلِ تغیر اور مستقل حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ ہردور اور ہرعہد کے نظام کے لیے بنیادی حوالے کی تشکیل کا کام کرتے ہیں۔ ان ناقابلِ تبدیل عناصر کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں، جو بنیادی خدائی اسکیم کے اندر رہتے ہوئے، لچک دار ہیں اور ہرزمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
آج کے دور کی صورت حال ،کچھ بنیادی اختلافی اُمور کے باجود، بیسویں صدی کے آغاز کے منظر نامے سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر، مسلم اُمّہ، جس نے ایک ہزار سال تک عالمی طاقت کی حیثیت سے ایک ممتاز کردار ادا کیا تھا، یورپی سامراج کی فوجوں کے حملوں سے مکمل طور پر مغلوب ہو گئی۔ طاقت کا توازن مسلم دنیا کے مفادات کے حوالے سے یکسر تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں پوری مسلم تہذیب کے وسیع دائرے پر اس غلبے کے دُور رس نتائج نکلے۔ مغربی سامراجی طاقتیں، ایک الگ تہذیب اور روایت کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جب ان کے توسیع پسندانہ فکری عزائم نے طاقت کے ذریعے معاشرتی حرکیات پر قابو پانےکی کوشش کی تو معاندانہ تہذیبی رویے کھل کر سامنے آگئے۔ محکومی کے اس دور میں مسلم اُمّہ کی معیشت برباد کر دی گئی، اس کی سیاسی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ انجامِ کار سائنسی، دنیاوی علوم اور ٹکنالوجی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس کی اخلاقی، تہذیبی، روحانی اور فکری طاقت بھی زوال پذیر ہوگئی اور آخرکار ۳مارچ ۱۹۲۴ء کو اس کی تہذیبی شان و شوکت کا جو آخری علامتی نشان خلافت عثمانیہ کی شکل میں بچا ہواتھا ، اسے بھی مٹا دیا گیا۔
یہی وہ پس منظر تھا، جس میں پوری دنیا کے متعدد مسلم رہنماؤں نے اس سوال پر انتہائی غوروفکر کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی، کہ آخر امت مسلمہ سے کہاں غلطی سرزد ہوئی ہے جو اتنی بڑی افتاد آن پڑی ہے؟ کیا آج کے دور میں خدانخواستہ اسلام کی بنیادی تعلیمات واقعی غیرمتعلقہ ہوکر رہ گئی ہیں؟ یا ان تعلیمات کے بارے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر اور ان کے تاریخی کردار و عمل ہی میں کچھ نقائص پیدا ہوگئے ہیں؟ مراد یہ کہ مسلمان اس ہدایت الٰہی کے ساتھ جس طرح کا سلوک کررہے ہیں، کیا یہ اس نافرمانی کا نتیجہ ہے؟ اور آخر کار امت مسلمہ کو بحالی اور تعمیر نو کے راستے پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟
ان سوالات پر جمال الدین افغانیؒ [م:۱۸۹۷ء]، محمدعبدہٗ ؒ[م:۱۹۰۵ء]،امیر شکیب ارسلانؒ [م:۱۹۲۱ء]، سعید حلیم پاشا ؒ[م:۱۹۲۱ء]، رشید رضاؒ [م:۱۹۳۵ء]، محمداقبالؒ [م:۱۹۳۸ء]، حسن البناؒ شہید [م:۱۹۴۹ء]،ابوالکلام آزادؒ [م:۱۹۵۸ء]، بدیع الزمان سعید نورسیؒ [م:۱۹۶۰ء]، مالک بن نبیؒ [م:۱۹۷۳ء] ، ابوالاعلیٰ مودودیؒ [م:۱۹۷۹ء] اور کئی دیگر دانش وَروں اور اصلاح پسندوں نے غورو فکر کیا، اور اُمت مسلمہ کو زوال سے نکالنے کے لیے بعض تجاویز پیش کیں اور راہِ عمل کی نشان دہی کی۔
مفکرین اور مصلحین کی اس جگمگاتی کہکشاں میں ، مولانا مودودی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی عمر بمشکل ۱۷ سال ہوگی، جب انھوں نے ۱۹۲۰ء میں اپنے نازک و ناتواں کندھوں پر امت مسلمہ کی تعمیر نو کے انتہائی بھاری کام کا بوجھ اُٹھانے کا تہیہ کیا۔ دس سال کی ابتدائی صحافتی زندگی کی صف اوّل میں رہنے والے مولانا مودودی نے مسلم فکر کی تشکیل نو کے لیے اور اسلام کو عالمی نظریے اور ایک منفرد طرزِزندگی کے طور پر پیش کرنے کے لیے، اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ان کا بنیادی مقصد احیاے امت کے لیے ایک ایسا نقشۂ کار (روڈ میپ) تیار کرنا تھا، جو مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے منفعت بخش ثابت ہو۔
الجہاد فی الاسلام (۱۹۲۹ء) اس سلسلے میں مولانا مودودی کی طرف سے کی گئی پہلی بھرپور کوشش تھی۔ اس وقت سے لے کر وفات (۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء ) تک،احیاے اسلام اور اصلاحِ ملّت اسلامیہ کے حوالے سے انھوں نے ۴۰ سے زائد کتب، اور سیکڑوں مضامین تحریر کیے، جو اسلامی فکر کے تقریباً ہر پہلو پر محیط ہیں۔ اس علمی سفرمیں ان کا سب سے عظیم کام کئی ہزار صفحات پر مشتمل تفہیم القرآن کی شکل میں وہ تفسیر قرآن ہے جو چھے جلدوں پر مشتمل ہے۔
اسلامی فکر کی تشکیل نو کے علاوہ مولانا مودودی نے امت مسلمہ کے زوال کے اسباب، مسلم معاشرے میں در آنے والی کمزوریوں،اور خرابیوں کی نشان دہی پر مشتمل ایک وسیع تنقیدی لٹریچر بھی تخلیق کیا، اور اس سلسلے میں خرابی کو دُور کرنے کا حل بھی بتایا۔ وہ مغربی تہذیب کے ایک طاقت ور نقاد ، اور مغرب کو اسلام پر عصری حملوں کا اصل کھلاڑی قرار دینے والے اہم مفکر کے طور پر بھی سامنے آئے۔ وہ، مادی دنیا میں، مغربی تہذیب کی کامیابیوں اور اس کے عصری نظریات سے غافل نہیں تھے لیکن وہ ان کامیابیوں کے خوشہ چیں ہونے کے بجائے، اس تہذیب کی فکری اُلجھنوں، اخلاقی پستیوں، اس کے سیاسی اور ثقافتی عدم استحکام اور اس کی معاشی نا انصافیوں اور استحصال پر اس کے سخت ناقد تھے،تاہم اگر انھوں نے مغرب میں کوئی خوبی دیکھی تو اس کا اعتراف کرنے میں تنگ دلی سے کام نہیں لیا۔مولانا مودودی کے افکار نےمسلمانوں کی تین نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ انھیں عصر حاضر میں، احیاے اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کا ایک مرکزی معمار سمجھا جاتا ہے۔
مولانا مودودی کی بنیادی تحریروں کا رواں انگریزی ترجمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۰ء کے دوران میں کچھ کام کیا تھا ۔ بعد ازاں ۱۹۸۰ء میں میرے عزیز ترین رفیق خرم مراد [م: ۱۹۹۶ء] نے بھی اس کارخیر میں بڑا قیمتی اضافہ کیا۔ اور میرے دوسرے نہایت عزیز ساتھی ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری [م: ۲۰۱۶ء] نے بہت جم کر، مولانا مودودی کے علمی کارنامے، یعنی قرآنِ کریم کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترجمہ کرنے میں اپنی آدھی زندگی کے بہترین اوقات صرف کر دیے۔ اللہ تعالیٰ انھیں بلند درجات عطا فرمائے۔ لیکن یہ سارا کام مجموعی طور پر، مولانا مودودی کے کام کا ۲۰ فی صد بھی نہیں تھا، جو اردو سے انگریزی میں منتقل ہوا۔اس سلسلے میں ہم نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ مولانا مودودی نے جو تحریریں بالکل مقامی یا وقتی ضرورتوں کے پیش نظر لکھی تھیں، ان کے علاوہ باقی سب تحریروں کو انگریزی کے قارئین کے لیے پیش کیا جائے، اور پھر دنیا کی دوسری اہم زبانوں میں بھی ان کے تراجم کیے جائیں۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بیسویں صدی میں مولانا مودودی نے جو علمی خدمت انجام دی، اسے کم ازکم بیسویں صدی کی احیاے اسلام کی تحریکوں کے ایک چراغِ راہ کے طور پر ،اور اکیسویں صدی میں امت کی رہنمائی کے لیے ایک روشن مینار کے طور پر دستیاب ہونا چاہیے۔ یہ کام بدلتے ہوئے حالات اور نئے چیلنجوں کے پیش نظر، مستقبل کی نسلوں میں اسلامی تصورات اور حکمت عملی کو مزید ترقی دینے کے لیے مدد اور موقع فراہم کر سکتا ہے۔ ہر انسان خواہ وہ کتنی ہی عظیم خدمات انجام دینے والا ہو، اس کی کچھ نہ کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ان انسانی حدود کے باوجود مولانا مودودی نے ساٹھ سال کے عرصے میں جو کچھ لکھا، وہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، مسلم معاشرے کی بحالی اورمسلم افکار کی تنظیم نو اور مسلم ثقافت کی تعمیر نو کےمسائل اور مشکلات سے لازوال مطابقت رکھتا ہے۔
مولانا مودودی کا کام نہ صرف فکری رہنمائی کے حوالے سے اہم ہے بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسلامی تعلیمات کے پیغام اور مقاصد کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے درکار رہنمائی کے طور پر بھی اہم ہے۔ ان کا کام نہ صرف حقائق اور اصولوں کو جاننے میں رہنمائی کرتا ہے بلکہ ان کے اطلاق کے طریق کار میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
اس حوالے سے مولانا مودودی کے وہ مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں ،جو انھوں نے سیکولرزم کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشرے میں مذہب اور معاشرے کی علیحدگی، خدائی ہدایت اور ریاست، سیکولر اور دینی تصورات پر بحث کرتےہوئے لکھے تھے۔ ان مضامین میں زندگی کے ان امور اور مسائل پر خاص توجہ دی گئی ہے، جن کے بارے میں اسلام اور سیکولرزم کا نقطۂ نظر باہم مختلف اورمتصادم ہے ۔اگرچہ ان تحریروں کو نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور زبان و بیان کے انداز اور بحث کے اسلوب بدل چکے ہیں، اس کے باوجود یہ مباحث آج بھی تروتازہ اور متعلقہ ہیں۔ تاہم، یہاں سوال زبان و بیان کا نہیں بلکہ اصل مواد اور نقطۂ نظر کا ہے۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ مولانا مودودی نے سیکولرزم پر بہت سخت تنقید کی ہے اور اس کے ذیلی مباحث پر بہت جامع گفتگو کی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب آپ کسی غالب طرزِ اظہار اور منہاج فکرو عمل کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر اس میں سب سے پہلے وحشی بیل کو اس کے سینگوں سے پکڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا اور یہی وہ ناگزیر عمل تھا، جو مولانا مودودی نے اپنے ابتدائی مباحث میں سرانجام دیا۔
بنیادی طور پر ان کے مخاطب، سامعین اور قارئین برطانوی مقبوضہ ہندستان کے مسلمان تھے، لیکن عمومی طور پر وہ پوری دنیا کے مسلمانوں سے خطاب کر رہے تھے۔ چونکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے بھی یہ مسائل اور معاملات ایک جیسے ہی ہیں اور اخلاقی اور نظریاتی میدان میں سیکولرزم اورلبرلزم کا چیلنج آج بھی اتنا ہی متعلق ہے، جتنا ۱۹۳۰ءکے عشرے میں تھا، اس لیے مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب پر مشتمل مقالات آج بھی نئی نسلوں کو سوچ اور فکر کے لیے ایک نئی غذا فراہم کر تے ہیں۔ ہماری اس تحریر کو مولانا مودودی کے مذکورہ مضامین پر ایک حاشیہ ہی تصور کیا جانا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ یہ حاشیہ قارئین کو سیکولرزم او ر اس کے ذیلی مباحث، اصطلاحات اور ان کے پس منظر کو جاننے میں مدد فراہم کرے گا۔
______
’سیکولرزم‘ ایک اہم، سیاسی، تاریخی، فکری تحریک کی نمایندگی کرتا ہے ، جس نے گذشتہ تین صدیوں کے دوران یور پ اور امریکا میں تشکیل پانے والے معاشرتی اور سیاسی نظم کی اساس اور خصوصیات کو تبدیل کر دیا ہے ۔ یہ رومن سلطنت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی ایک نئی سوچ ہے، جو خدائی رہنمائی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، پورے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور قانونی نظام کو خالص انسانی عقل اور تجربے کی بنیاد پر چلانےکے ضمن میں تشکیل پائی ہے۔اگر یہ سوچ ،مذہب کو کچھ معمولی جگہ دینے کے لیے تیار بھی ہے تو صرف اس حد تک کہ مردوں اور خواتین کی نجی اور خانگی زندگی میں، چند رسم و رواج یا عبادات وغیرہ کی شکل میں، مذہب اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ لیکن سیکولرزم انسانی زندگی اور معاشرے کے سیاسی و معاشرتی طول و عرض میں پالیسیوں کی بڑی جہتوں کو طے کرنے میں اورقواعد و ضوابط تشکیل دینے میں مذہب کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتا۔ یہ سیکولرزم کےبنیادی اصول کی اصل ہے۔ لیکن جہاں تک فروع کی بات ہے تو تفصیلات کے اندر،سیکولرزم کا کردار، زیادہ متنوع اور کثیر جہتی ہے۔کم از کم ان میں سے تین اہم جہتوں کو واضح طور پر بیان کرنا مفید ہوسکتا ہے جن میں سیکولرزم کی شراکت اوراس کا کردارزیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
پہلی جہت یہ ہے کہ ، چرچ کے اقتدار کے دور میں یورپی مذہبی تجربے کی تاریخی مطابقت جو بھی ہو، عیسائی دنیا کا نظریۂ زندگی (مسیحی ورلڈ ویو)، دنیا کو الوہی اور دنیاوی یا مقدس اورسیکولر کے خانوں میں تقسیم کرنے کےخیال میں مگن رہا۔ ’’جو خدا کا ہے خدا کو دو، اور جو قیصر کا ہے قیصر کو دو‘‘ جیسی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جس میں مذہب کی غرض اور خدا اور انسان کے تعلق کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق سیکولر زندگی کا پورا دائرہ جو دنیاوی اُمور سے متعلق تھا، اسے دنیادار لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیاوی امور کو نظر انداز کرنا ایک حقیقت تھی۔ گویا روحانی دنیا کے ساتھ ان کا تعلق محض ایک جنون اور تقدس کی علامت بن کر رہ گیا ۔ دنیاوی زندگی سے بے رغبتی کا طرزِ عمل دنیا سے نفرت کی علامت بن گیا اور یہ نقطۂ نظر مذہبی اخلاق کا ایک خاصہ بن گیا۔ اس نقطۂ نظر کا فطری نتیجہ رہبانیت اور خانقاہیت کی شکل میں نکلا۔ دنیا وی دائرے کو مقدس دائرے کی نسبت سے اس قدر کم تر اور فروترتصور کیا گیا کہ اسے روحانی لوگوں کے لیے قابل قبول ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کی بدترین اور چشم کشا مثال مغربی مصنّفین نے یہ دی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں عیسائی راہب صرف اَزدواجی زندگی ہی سے اجتناب نہیں کرتے تھے بلکہ صفائی ستھرائی اور غسل تک کو بھی دُنیاداری سمجھتے تھے، نتیجتاً ان کے بدن اور کپڑوں سے بدبو دُور ہی سے آنا شروع ہوجاتی تھی۔
اس کے مقابلے میں بزعمِ خود’روشن خیالی‘ اور ’نشاتِ ثانیہ‘ کی تحریک نے اس نظریے کو چیلنج کیا اورزندگی کے جسمانی اور دنیاوی دائرے کےتقاضوں کو زیادہ اہمیت دی۔ جس کےنتیجے میں ساری توجہ مذہب سے ہٹ کر، دنیاوی معاملات پر مرکوز ہوگئی۔ اس لیے اب مطالعہ اورعمل جیسے شعبہ جات کا محور ’خدا‘ کے بجائے ’انسان‘ اور اُخروی زندگی کے بجائے مادی دنیا قرار پایا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سیکولر تحریک، اُخروی زندگی پر دنیاوی زندگی کے غلبے کی جدوجہد پر مبنی ایک ہمہ پہلو اورجارح تحریک ہے، جس میں فسطائی فکروعمل کے عناصر بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں، انسانی معاشرتی زندگی میں، روحانی دنیا کے معاملات اور اُمور سے لاتعلقی نے ایک مریضانہ رُخ اختیار کیا۔ جس سے دنیاوی ضروریات کی طرف رغبت اور مادہ پرستی و ذاتی مفاد کی پرستش کے جنون نے ایک بھونچال برپا کردیا۔
سیکولر تحریک کی دوسری جہت یہ ہے کہ یورپ میں زمانۂ وسطیٰ (Middle Ages) میں چرچ کی حکومتیں، عدم رواداری، مذہبی و فرقہ وارانہ ظلم و ستم، معمولی جرائم پر شدید سزائیں دینے، حتیٰ کہ پھانسیاں دینے کے حوالے سے مشہور تھیں۔ان کی اس پہچان اور جبر نے مذہب کو ایک ظالمانہ طاقت کے طور پر بدنام کیا۔ اس زمانے میں یورپ کے عیسائی فرقوں کے درمیان بدترین جنگیں برپا ہوئیں، جن میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے، اور محض مسلکی اختلاف کی بناپر خون کے دریا بہائے گئے، جو بالآخر ۲۴؍اکتوبر ۱۶۴۸ء کو ’ویسٹ فالیا معاہدے‘ (Treaty of Westphalia ) پرمنتج ہوئے، جس سے سیکولر دور کا آغاز ہوتا ہے۔
ان حکومتوں کی اس مذہبی عدم رواداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک آبادی نے یورپ سے امریکا کی طرف نقل مکانی بھی کی۔ سیاسی نظام میں پاپائی طاقت کے غلط استعمال سے مذہب کے خلاف بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ اس تناظر میں سیکولر تحریک نے ’کثیرعقیدگی‘ اور’مذہبی تنوع‘ کے اصول کو پیش کیا اور نتیجے کے طور پر سیاست و ریاست سے مذہب کے کردار کو خارج کر دیا۔ اس طرح نہ صرف سیاست میں مذہب کا کردار ختم ہوگیا، بلکہ سیاست سے ان روحانی اور اخلاقی اقدار کا بھی خاتمہ ہوگیا جن کی بنیاد مذہب پر تھی۔یوں چرچ اور سیاست کے مابین کشیدگی اور مسابقت اپنے بدنما انجام کو پہنچی اور دونوں اپنے اپنے دائرے میں خود مختار ہو گئے۔
سیکولر تحریک کی تیسری جہت یہ ہے کہ یہ تحریک مذکورہ دو بڑی تہذیبی تبدیلیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے مزید وسعت اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا منہاج اور ماڈل تشکیل دے دیا، جس میں تمام سیاسی اور معاشرتی امور’خدا‘ سے غیر متعلق ہو گئے۔ کائنات اور فطرت کے قوانین کی ایک نئی تعبیر و تشریح تیار کی گئی، جس میں خدا کو تمام چیزوں کےوجود کے پیچھے کارفرما اصل قوت کے طور پر نظر انداز کرتے ہوئے خارج کر دیا گیا۔ اس کی وضاحت فرانسیسی بادشاہ اور نیوٹن [م: ۱۷۲۷ء] کے مکالمے کی مثال سے بخوبی ہوتی ہے کہ جب فرانسیسی بادشاہ نے نیوٹن سے پوچھا کہ کائنات کے بارے اس کی میکانکی تشریح میں خدا کی طاقت کی کارفرمائی کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہے؟ تو نیوٹن نے سیدھا سادا جواب دیا: جہاں پناہ! مجھے میکانکی دنیا کی وضاحت کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے۔
نیوٹن کی یہ بات ، کائنات کی اس نام نہاد میکانکی وضاحت تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ یہ انسانی زندگی کے وسیع دائرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے مطابق یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کرۂ ارض پر انسانوں کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے صرف انسان کی عقل اور تجربات کی رہنمائی ہی کافی ہے۔ لوگوں کو صرف اس حد تک رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنی انفرادی اور ذاتی زندگی میں خدا پر بھروسا رکھنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں، لیکن جہاں تک معاشرے، معیشت، عدل اور سیاست کے مسائل اور معاملات کا تعلق ہے تو وہ لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر حل کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں صرف انسانی عقل اور تجربے ہی سے رہنمائی لی جائے گی۔ چنانچہ انسان کی حاکمیت اور خود مختاری، ایک نئے تجربے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور یہ انسانی حاکمیت اور خودمختاری، ایک رہنما اصول بن گیا اور انسانی عقل اور تجربے کو ، معاشرے کے ارتقا کے لیے درکار تمام اقدار کے حتمی وسیلے اور بنیاد کے طور پر مان لیا گیا۔
فلسفے کے پروفیسر ورجیلیس فرم (م:۱۹۷۴ء) نے روشن خیالی اور سیکولرزم کے تصورات پر اپنے خیالات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
جمالیاتی اور دانش ورانہ بیداری کی لہر اور سیکولر ثقافت کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ظہور چودھویں صدی عیسوی میں اٹلی میں ہوا___خواہ اس کو بہتر کہیں یا بدتر، مگر نشاتِ ثانیہ کے انقلاب میں اس کا کردار ضرورموجودتھا۔ اور یہ کلیدی کردار سیکولر ہیومن ازم کا تھا، جس کا تعلق انسانی غوروفکر اور دنیاوی اقدار کی پہچان پر مبنی ہے اور یہ مذہبی اور کلیسائی منظوری سے مشروط نہیں ہے (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن، فلسفیانہ لائبریری، نیویارک، ص۶۵۶،۶۵۷)۔
روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے، جو اٹھارھویں صدی کے عام ماحول کی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کے ماخذ کو ، نشاتِ ثانیہ کے دو ر میں تشکیل پانے والے اس انسانی ذہن اور روحانی فضا میں تلاش کرنا چاہیے، جو اپنے مادیت پسندی اور انفرادیت پسندانہ رجحانات کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں منطقی اور عقلی خود مختاری کا فخر اور شعور اجاگر کر رہی تھی۔ ایک تاریخی مظہر کی حیثیت سے، روشن خیالی کی تحریک، حقیقی انسانی زندگی میں عقلی و منطقی کردار کو اپنانے اور اس کا اطلاق کرنے کی جدوجہد کی نمایندگی کرتی ہے۔(حوالہ بالا، ص ۲۵۰)
’سیکولرزم‘ خاص طور پر مختلف افادی معاشرتی نظریۂ اخلاقیات جسے برطانیہ کے معروف سیکولرسٹ جارج جیکب ہولوک نے انیسویں صدی میں تشکیل دیا جو مذہب کے حوالے کے بغیر انسانی ترقی کی بات کرتا ہے ، اور خاص طور پر انسانی عقل ، منطق، سائنس اور سماجی تنظیم کو بنیاد بناتا ہے۔
سوشل سائنس انسائی کلوپیڈیا میں سیکولرزم اور سیکولرائزیشن کے ’اصولوں‘ کی نشان دہی اس طرح کی گئی ہے:’’ سیکولرائزیشن سے مراد معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد، رسم و رواج اور معاشرتی احساس کو تبدیل کرنا ہے ۔ سیکولر سوسائٹی میں روزمرہ زندگی کا ہر تجربہ ، مقدس دعا کے آغاز کے بغیر جاری رہتا ہے۔ تاہم، یہ ’روشن خیالی‘ کا فلسفہ تھا، جس نے مکمل سیکولرائزیشن کا بنیادی محرک فراہم کیا۔ پھر یہ تجویز پیش کی کہ معاشرے کی بنیاد ایسے اخلاقی اصولوں پر رکھی جائے، جو انسانی معاشرتی زندگی کی آفاقی نوعیت کی عقلی تحقیقات کے ذریعے وضع کی جائیں۔ یاد رہے معاشرتی تنظیم کے عقلی اصولوں کو اکثر مذہبی روایات کے خلاف عدم اعتماد کے طور پر پیش کیا جاتا تھا‘‘۔ (سیکولرائزیشن، سوشل سائنس انسائی کلو پیڈیا،ص۷۳۷)
اسی طرح جدید مسلم دنیا کے بارے میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کا انسائیکلوپیڈیا بھی تقریباً اسی موقف کو دُہراتا ہے: ’’سیکولرزم کی اصطلاح اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ مذہبی نہیں ہے۔ اس کی بنیاد لاطینی زبان کے لفظ ’سیکولم‘ میں ہے، جس کے بنیادی معنی’نسل‘،’عمر‘ یا ’زمانہ اور دور‘ کے ہیں۔ بعد میں یہ لفظ اس مادی دنیا کے معاملات سے وابستہ ہو گیا، جو جنت کے حصول کی غرض سے کیے گئے اعمال وغیرہ سے بالکل الگ ہیں۔سیکولرزم یا سیکولرائزیشن کا عمل یورپی تاریخی تجربے سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں اور فکر ی سوچ کو مذہبی تعلق اور کلیسائی مداخلت سے آہستہ آہستہ بالکل آزاد کر دیا جائے‘‘۔ (اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ، مدیر: پروفیسر جان ایل اسپوزیٹو، جلد چہارم، ص۲۰)
اوپر کے اقتباسات میں ’سیکولرزم‘ کے جو تین پہلو بیان کیے گئے ہیں، ان میں پہلے دوپہلوؤں سے اسلام ان معاملات کو مختلف اور منفردطریقے سے مخاطب کرتا ہے ۔تاہم، اس کا اصل فرق معاشرے اور ریاست کے معاملات میں مذہب کے کردار سے متعلق ہے۔ اسلام ، زندگی کو روح اور مادے، مقدس اور غیر مقدس، روحانی اور دنیاوی جیسے خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام، زندگی ’بطور ایک کُل‘ پر یقین رکھتا ہے۔یعنی سیکولر دنیا بھی اسلام سے اتنی ہی متعلق ہے جتنی روحانی دنیا۔ اسلام کے اس طرزِ عمل کا خلاصہ ایک قرآنی دعا میں اس طرح پیش کیا گیا ہے :
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة ۲:۲۰۱)اے ہمارےرب!ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں بہترین چیز عطا فرما۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
اسلام میں یہ دنیا اور اس کے بعد کی دنیا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں،اور وہ دونوں ایک تسلسل کی نمایندگی کرتی ہیں۔اسلام زندگی کے دنیاوی امور سے بھی اسی طرح متعلق ہے، جس طرح وہ روحانی اور اخلاقی جہات سے متعلق ہے۔یہ جہتیں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ہرایک حصہ، دوسرے پر منحصر ہے اور دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ اسلام، کچھ مذاہب یا مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیوی امور کو نظر انداز کرنے کے معاملے کو ، ان کی ناکامی قرار دیتا ہے۔ اسلام نے ان سب امور کو بہت اچھے طریقے سے مخاطب کیا ہے اور ان پر قابو پایا ہے۔
اسلام بنی نوع انسان کی تکریم کرتا ہے کیوںکہ انسانوں کے مابین یہ اس کے دنیاوی عمل اور عدل و انصاف کے کردار کا بڑا دائرہ ہے۔ اس طرح یہاں ان کی مطابقت کے حصول کے لیے کسی مبینہ اور مفروضہ ’روشن خیالی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔یہاں پورے سیکولر یا دُنیوی دائرے کو روحانی شکل دی گئی ہے۔ اسلام روحانی طول و عرض میں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دُنیوی (سیکولر) میدانوں میں بھرپور اظہار کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمین کا پورا منظر نامہ ایک مسجد کی طرح ہے ۔ اس کا محض یہی مطلب نہیں کہ کوئی شخص دنیا میں کہیں بھی عبادت یا دعا کر سکتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کے دُنیاوی یا سیکولر معاملات پوری طرح روحانی معاملات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اسلام نے بھی کثیر العقیدگی ، کثیر الثقافتی آزادی اور متنوع انتخاب کی آزادی کے اصولوں کی واضح اور دلیرانہ تصدیق کی ہے۔ یہ خلافت کے تصور کی ایک فطری شکل ہے، جس کی بنیادیں انسانی آزادی اور صواب دید کے اصول پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہر انسان کو آزادی کی نعمت عطا کی ہے کہ وہ جو بھی چاہے عقیدہ منتخب کرے اور اس پر عمل پیرا ہو: لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶)’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے‘‘۔
اسی طرح ’میثاقِ مدینہ‘ انسانی تاریخ کا پہلا دستور ہے، جس میں مسلمانوں اور مدینہ کے غیرمسلم قبائل کے درمیان سیاسی، عسکری اور اجتماعی معاملات کے خطوطِ کار طے کیے گئے ہیں، اور جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اُمور میں آخری سند (authority) تسلیم کرکے مسلمانوںاور غیرمسلموں کے باہمی حقوق و فرائض کو مرتب کیا گیا ہے۔
یہ مذہبی آزادی کا ایک میثاق ہے، جو انسان کے وقار کی توثیق پر مبنی ہے اور ہر ایک کو عقیدے کے انتخاب کی آزادی کا حق حاصل ہے ۔اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، انسانوں کی رہنمائی کے لیے ، نازل کردہ سچا مذہب ہے، لیکن اگر کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ عقائد کے کسی دوسرے نظام کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور اسلام ان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔
چنانچہ رواداری، اسلامی طریقۂ کار کا بنیادی عنصر ہے۔ عقائد کی کثرت کو فطری رجحان کے طور پر قبول کرنا اسلامی فریم ورک کا لازمی عنصر ہے۔ مسلمان بھی انسان ہیں اور ساڑھے چودہ سو سال پر محیط طویل تاریخ میں ، اس حوالے سے ان کے طرز عمل میں ضرور کچھ غلطیاں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اسلام بطور دین ، دیگر مذاہب اور عقائد کی آزادی کے اس بنیادی اصول کے معاملے میں بہت واضح ہے اور اس حوالے سے اصل فیصلہ اُخروی زندگی میں ہونا ہے نہ کہ اس دنیاوی زندگی میں۔ اس لیے ہرشخص کو، جس طرح اپنے اپنے عقیدے کے مطابق یقین رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اور اسی طرح اس انتخاب کے نتائج کا ذمہ دار بھی وہی شخص ہوگا اور آخرت میں اس کا احتساب کیا جائے گا۔اس لیے جہاں تک اس دنیا میں انسانی تقسیم کا تعلق ہے، تو مذہبی تکثیریت اور ثقافتی بقاے باہمی کےاصول ، اسلام کے سیاسی نظم کے لازمی اجزا ہیں۔
لہٰذا، پہلی دو جہتوں کے حوالے سے اسلام اور سیکولرزم کے مابین اختلاف کے باوجود کوئی بڑا تصادم سامنے نہیں آتا۔اصل فرق تیسری جہت کے حوالے سے ہے، جہاں سیکولرزم ، مذہب اور ریاست ، ایمان اور معاشرے کو الگ الگ کرتا ہے اور اسلام کے نزدیک، انسانی زندگی کی ایسی تقسیم ، خود انسان کی فطری زندگی میں ایک رکاوٹ ہے۔ اسلام کا منہاج بنیادی طور پر ’خدا مرکز‘ (God-Centred) ہے، لیکن اس میں انسان اورخدا کے تعلق، انسان اور کائنات کے تعلق ، اور انسان اور انسان کے تعلق پر بھی بہت توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ خدائی ہدایت اس دنیا اور اگلی دنیا (آخرت) میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے رہنمائی ہے۔ افراد اور اداروں کے درمیان، عدل و انصاف، مساوات اور ہم آہنگی کی بنیاد پر منصفانہ معاشرے کا قیام اور انسانوں کے مابین تعلقات استوار کرنے کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے، جتنی روحانی اور اخلاقی معاملات میں فضیلت کی اہمیت ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق، جس کی بنیاد پر اسلام کا منہاج، سیکولرزم سے بالکل الگ ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ مسلم دنیا میں، سیکولرزم ، نو آبادیاتی حکومت کے لبادے میں چھپ کر آیا ہے۔ جب یورپی سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں چلنے والی ، عیسائی مشنری تحریک خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تو یورپی استعماری حکمرانوں (یعنی برطانوی، ہسپانوی،ولندیزی،فرانسیسی، پرتگیزی، جرمن وغیرہ) نے سیکولرزم کو مسلط کرنے، اور پورے خطے کی سماجی اور سیاسی زندگی میں سے مذہبی اثرورسوخ کو ختم کرنے پر توجہ دی۔ چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقائد اور اُمنگوں کے منافی تھی، لہٰذا مسلم معاشرہ: لبرلز اور روایت پسندوں، تبدیلی پسندوں اور مزاحمت کاروں، سیکولر اور اسلام سے محبت رکھنے والوں میں بٹ گیا۔
یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ لبرلز نے بے دریغ طاقت کے ذریعے سیکولرزم کو ان لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جو اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔یوں سیکولرزم اور استبداد لازم و ملزوم ہو گئے۔ درحقیقت کچھ مغربی مفکرین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’جمہوریت اور اسلامائزیشن ایک ساتھ چل سکتے ہیں، لیکن مسلم ممالک میں سیکولرزم کو صرف آمرانہ طرز حکمرانی کے تحت ہی مسلط کیا جا سکتا ہے‘‘۔
امریکی فلسفی ڈاکٹر فلمر ایس سی نارتھروپ [م: ۱۹۹۲ء] نے ۱۹۵۳ء کے ’کلوکیم آن اسلامک کلچر‘ میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے: ’’کئی دیگر وجوہ میں سے ، میں اس وجہ پر یقین رکھتا ہوں کہ سیکولر قانون کو عام طور پر آمر کے ذریعے نافذ کرنا پڑتا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک سے نہیں آسکتا کیوںکہ عوام پرانی روایت سے جڑے ہوتے ہیں‘‘(پرنسٹن یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹)۔
کمال اتاترک [م:۱۹۳۸ء] کے ماتحت ترکی کی سیکولرائزیشن ،اور رضا شاہ پہلوی [م:۱۹۸۰ء] کے تحت ایران کی سیکولرائزیشن، سوئیکارنو [م:۱۹۷۰ء]کے تحت انڈونیشیا اور جمال ناصر [م:۱۹۷۰ء] کے تحت مصر کی سیکولرائزیشن اسی سفاکانہ عمل کی واضح مثالیں ہیں۔
مسلم عوام میں اخلاقی قدروں کا وجود اور عمل ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نظام سیاست و ریاست چلانے کے لیے، اسلامی احیا اورجمہوری کلچر ایک ساتھ چل سکتے ہیں لیکن مسلم ملکوں میں سیکولرزم کی حمایت کرنے والا لبرل طبقہ سب سے زیادہ استبداد پسند واقع ہوا ہے۔ ان کے برعکس اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
[مدیر کے انگریزی مضمون کا ترجمہ اور تدوین۔ ادارہ]
تاریخ قوموں کا حافظہ اور ان کے نشیب و فراز کی داستان کا آئینہ ہے۔ اس میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں، جنھیں تاریخی موڑ کہا جاتاہے۔ ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء ترکی اور عالمِ اسلام کی تاریخ میں ایسا ہی ایک موڑ ہے۔
’آیا صوفیہ‘ [Hagia Sophia: مقدس دانش] جس میں یکم جون ۱۴۵۳ء کو پہلی نمازِ جمعہ کا انعقاد ہوا تھا اور جو سلسلہ ۱۹۳۱ء میں اس وقت تک جاری رہا، جب ترکی کے نئےسیکولر حاکم مصطفےٰ کمال [م: ۱۹۳۸ء] نے ریاستی جبر کے ذریعے مسجد کو مقفل کیا، اور پھر ۱۹۳۵ء میں اسے عجائب گھر (میوزیم) بنادیا۔ اس طرح ۸۸سال تک یہ مسجد اذان اور سجدوں سے محروم رہی۔ الحمدللہ، ثم الحمدللہ ، ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کو آیا صوفیہ کی رونق ایک بار پھر اذان، خطبے اور نماز سے بحال ہوئی اور مسجد میں اور اس کے نواح میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد نے ربِ کریم کا بہ چشم تر شکر ادا کیا، جب کہ ساری دنیا کے مسلمان عوام نے ان کی آواز سے ہم آواز ہوکر شکر اور مسرت کا اظہار کیا۔
۲۹ مئی ۱۴۵۳ء فتح قسطنطنیہ کا یادگار لمحہ ہے۔ پھر جس طرح یکم جون ۱۴۵۳ء آیا صوفیہ کے ترکی دولت ِ عثمانیہ کے روحانی قلب بننے کا یادگار دن ہے، اسی طرح ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کے روز مسجد کی بحالی، مسلم تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ یہ ہراعتبار سے ایک عظیم ظلم کی تلافی اور مسلمانوں کے ایک بنیادی دینی اور تہذیبی حق پر دست درازی کا خاتمہ ہے۔ اسے کسی مسجد اور چرچ کے تنازعے کی شکل دینا تاریخی بددیانتی ہی نہیں، سیاسی دھوکا دہی بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اختصار سے اس مسئلے کی اصل حقیقت کو واضح کریں تاکہ اس تاریخی تبدیلی کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھا اور سمجھا جاسکے۔
بازنطینی (Byzantine) دورِ حکومت میں ’آیا صوفیہ‘ بلاشبہہ ایک چرچ تھا، جو تاریخی اعتبار سے بازنطینی سلطنت کے اہم مقام کی حیثیت رکھتا تھا، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ محض ایک چرچ نہیں تھا بلکہ سیاسی اقتدار کا مرکز اور فوجی اور استعماری کارروائیوں کی فیصلہ گاہ بھی تھا۔ اس طرح بازنطینی اور یونانی آرتھوڈکس چرچ کی اصل قوت و اقتدار (seat of power) کی حیثیت رکھتا تھا۔(آیا صوفیہ کے زیرعنوان مضمون (history.com) میں لکھا ہے: ’’چونکہ یونانی آرتھوڈوکس، بازنطینی سلطنت کا سرکاری مذہب تھا، آیا صوفیہ کو اس مذہب کا مرکزی چرچ(گرجاگھر) سمجھا جاتا تھا، اوراسی لیے یہ وہ جگہ طے پاگئی تھی، جہاں نئے شہنشاہ کی رسم تاج پوشی سرانجام دی جاتی تھی۔ یہ تقریبات گرجے کے درمیانی حصے یا نافِ کلیسا میں منعقد ہوتی تھیں۔ یہ دراصل رنگارنگ پتھروں پر مشتمل سنگ مرمرسے بنا ہوا مذکورہ حصہ ہے، جو فرش میں آپس میں بل کھاتے ہوئے گندھے ہوئے گول ڈیزائن کی شکل میں ہے۔ آیا صوفیہ نے اپنے وجود کے ۹۰۰برسوں کے زیادہ تر حصے میں بازنطینی ثقافت اور سیاست میں نہایت مرکزی کردار ادا کیا ہے‘‘۔)
یہی وجہ تھی کہ سلطان محمدفاتح نے جہاں عیسائیوں اور تمام مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور ان کے مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کو آزادانہ کام کا پورا پورا موقع دیا، وہیں اس سیاسی اور مذہبی مرکز کو مسجد کبیر کی حیثیت سے عثمانی حکومت کا دینی مرکز قرار دیا۔ البتہ انھوں نے یہ کام غیرمعمولی احتیاط کے ساتھ کیا۔ انھوں نے یہ اقدام سیاسی تسلط کی قوت کو قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی اخلاقی برتری قائم کرنے اور اسلام کی اعلیٰ روایات کا احترام کرتے ہوئے تاریخی روایات کے مطابق اپنی ذاتی دولت سے اس جگہ کی قیمت ادا کرکے خریدا، اور اسے مسجد اور عبادت، تعلیم و تحقیق اور دعوت کے لیے وقف کر دیا۔
اب مسجد کی بحالی کا جو فیصلہ ہوا ہے، وہ ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں ہوا ہے، اور جس میں مصطفےٰ کمال اور اس کی کابینہ کے ۱۹۳۵ء کے فیصلے کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا گیا ہےاور ملکی قانون کے مطابق وقف کی بحالی اور وقف کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے آیا صوفیہ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کیا گیا ہے۔
جہاں تک میں اس مسئلے کا مطالعہ اور تجزیہ کرسکا ہوں، مجھے اس امرکے اظہار میں ذرا بھی تردّد نہیں کہ قانون، اخلاق، اسلامی روایات اورعالمی تعامل، ہراعتبار سے یہ اقدام صحیح اور قابلِ فخر ہے۔ چند حقائق مختصراً عرض ہیں:
اصلاً یہ عمارت ایک Pagan (پاگان: غیرعیسائی بت پرست) قوم کی عبادت گاہ تھی جس میں بتوں اور اَرواح کی پوجا ہوتی تھی۔ عیسائی حکمران جسٹینین نے اس پاگان عبادت گاہ کو ختم کرکے یہاں پر چرچ بنایا اور پرانی عبادت گاہ کے کچھ حصوں کو اس میں شامل کرلیا۔ پھر یہ عمارت مختلف اَدوار سے گزرتی ہوئی، جس میں عیسائیت کے دو بڑے فرقوں کے درمیان اور رومن ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کے عرصۂ تسلط میں ادل بدل ہوتا رہا ہے۔ آخرکار آیاصوفیہ بازنطینی اور یونانی آرتھوڈکس چرچ کا مرکز بنی۔ بلاشبہہ یہ عمارت فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور مغرب اور مشرق دونوں کے نوادرات اس کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ اوّلاً یہ ایک چرچ تھا۔ درست بات یہ ہے کہ یہ جگہ اوّلاً ایک غیرعیسائی بت خانہ تھا، جسے زبردستی چرچ بنایا گیا اور جو بالآخر بازنطینی سلطنت کا سیاسی مرکز بنا، جسے سلطان محمد فاتح نے ۲۹مئی ۱۴۵۳ء کے فاتحانہ اقدام کے ذریعے اسلامی قلمرو کا حصہ بنالیا ۔
اس پس منظرمیں چرچ کی بحالی یا چرچ کے زبردستی مسجد بنانے کے دونوں دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۴۵۳ء سے تاحال کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کبھی یورپی اقوام یا چرچ کے نمایندوں نے اس چرچ کی بحالی کا کوئی دعویٰ کیا ہو، حتیٰ کہ ۲۴جولائی کو ۱۹۲۳ء کے ’معاہدہ لوزان‘ (Treaty of Lausanne) تک میں، جس کے تحت ترکی کی موجودہ حکومت وجود میں آئی اور دولت عثمانیہ کی زمینوں اور علاقوں سے ترکی کو محروم کرکے اس کے لیے نئی اور محدود سرحدیں مقرر کی گئیں، اور غیرمسلموں اور ان کے مذہبی آثارکے سلسلے میں سخت احکامات ضبط ِ تحریر میں لائے گئے۔اس میں بھی جہاں چرچوں، کنیسہ (Synagogues)، قبرستانوں، اقلیتوں، مذہبی اور ثقافتی اداروں کے تحفظ کے بارے میں جو چار دفعات (۴۶، ۴۲، ۴۰، ۴۸) ہیں ،ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ گویا اسے مسجد تسلیم کیا جانا ایک بدیہی امر تھا۔
واضح رہے کہ ۱۹۱۹ء میں جب استنبول پر برطانیہ، فرانس، یونان اور اتحادی اقوام کا قبضہ تھا تو یونان کی افواج نے آیا صوفیہ میں گھسنے کی کوشش کی۔ اس پر شکست خوردہ ترک فوج اور عوام اس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے، اور سرفروشی کی لازوال مثال پیش کرتے ہوئے انھیں اس پر قبضہ نہیں کرنے دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جذبۂ ایمانی سے سرشار ان مجاہدین نے ایک مسجد ہی کے دفاع کے لیے قربانی دی تھی۔ اس صورتِ حال میں دوسری یورپی اقوام نے بھی یونان کو اس سے روکا اور یوں آیا صوفیہ کے مسجد بنانے کی حقیقت کو تسلیم کرلیا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آیاصوفیہ کے مسجد ہونے کا انکار ایک تاریخی بددیانتی اور دھوکا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عیسائی مذہب میں چرچ کی ابدی حیثیت نہیں۔ چرچ ایک خاص عمل کے ذریعے عبادت گاہ بنتا ہے اور اسے ایک خاص عمل کے ذریعے اس حیثیت سے خارج بھی کیا جاسکتا ہے۔ زمانہ حال تک صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔ آج بھی ہزاروں چرچ ہیں، جو فروخت ہوئے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں گذشتہ ۵۰برسوں میں سیکڑوں چرچ مسلمانوں نے خرید کر ان میں مسجد، مدرسہ اور اسلامی مراکز قائم کیے ہیں۔ اس طرح بہت سے چرچ، یہودیوں نے خرید کر سینی گاگز (کنیسہ) بنائے ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ کئی چرچ تو جواخانے (casino)، شراب خانے، تھیٹر وغیرہ بنانے کے لیے بھی فروخت کیے گئے ہیں، جب کہ مسجد کے سلسلے میں اسلامی فقہی پوزیشن یہ ہے کہ جس جگہ ایک بار جائز طور پر مسجد بن جائے اور اس مقصد کے لیے استعمال ہو، وہ ذاتی ملکیت میں نہیں آسکتی اور اس کی خریدوفروخت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ مسجد کی ہرصورت میں حفاظت اجتماعی ذمہ داری ہے۔ معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آیا صوفیہ کی پندرہ سو سالہ تاریخ میں اس پر جب بھی عملاً سخت وقت آئے تو وہ خود عیسائیوں ہی کے اپنے ہاتھوں آئے ہیں ۔ تین بار اس کو آگ لگائی گئی اور بادشاہ کے قانون کے تنازعے کے دوران چرچ ہوتے ہوئے اس کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ پھر سب سے زیادہ تباہی ۱۲۰۴ء میں اس موقعے پر ہوئی جب رومن ایمپائر نے کنسٹنٹن پول پر قبضہ کیا اور چوتھے کروسیڈ (Crusade 4) کے موقعے پر، عیسائیت کے ان دونوں فرقوں کی جنگ کے بعد رومیوں کا تسلط قائم ہوا۔ اس وقت آیا صوفیہ کی بے حُرمتی اور تباہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
مؤرخ لکھتے ہیں:
یہ محض ایک حملہ نہیں تھا۔ شہر کو تین روز تک بُری طرح لوٹ مار اور تاراج کا نشانہ بنایا گیا۔ جنگجوؤں نے آیا صوفیہ میں بھی لُوٹ مار کی۔(حوالے کے لیے دیکھیے: History of Hagia Sophia پر مضمون history.com میں، اور جیفری دوویلار دوین [م: ۱۲۱۳ء] کی کتاب On the Conquest of Constantionple میںاس تباہی اور لُوٹ مار کی تفصیل دی گئی ہے۔)
عیسائی مؤرخین نے جو تفصیلات لکھی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آیا صوفیہ چرچ میں قتل و غارت گری، عمارت کو نقصان پہنچانے، پادریوں کا خون بہانے اور قیمتی چیزوں کو لوٹ لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔جو بے حُرمتی خود عیسائیوں نے اپنے چرچ کی کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس کے مقابلے میں جب سلطان محمدفاتح نے آیا صوفیہ میں قدم رکھا، تو اس نے اس جگہ سے خاک اُٹھا کر اپنے عمامے اور کپڑوں پہ ڈالی، عاجزی کے ساتھ عمارت میں داخل ہوا۔ عمارت میں جن لوگوں نے پناہ لی ہوئی تھی، انھیں عام معافی دی اور وہی الفاظ استعمال کیے جو فتح مکہ کے وقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے، یعنی لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۰ۭ (یوسف ۱۲:۹۲)، آج کے دن تم پر بازپُرس نہیں۔ پھر آیا صوفیہ کی مذہبی نسبت سے احترام کا رشتہ قائم کیا اور اپنی جیب سے قیمت ادا کرکے اسے حاصل کیا۔ ساتھ ہی نہ صرف دوسرے چرچوں کو تحفظ دیا بلکہ شہر کے دوسرے بڑے چرچ، ’کلیسائے حواریاں‘ کو یونانی اور آرتھوڈکس فرقے کا مرکزی چرچ بنانے کا موقع دیا، جو آج تک قائم ہے۔ آج اس وقت بھی ترکی میں ۴۳۵ چرچ پوری آن بان کے ساتھ موجود ہیں حالانکہ عیسائیوں کی تعداد آبادی میں صرف ۰ء۲ فی صد ہے۔
ہمیں یہ اعتراف ہے کہ مسلمانوں سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہردور میں مسلم دنیا میں غیرمسلموں کو جو تحفظ، عزت اور انصاف حاصل رہا اس کی کوئی مثال دوسری تہذیبوں میں نہیں ملتی۔ ایڈورڈگبن [م:۱۷۹۰ء]کی کتاب The History of the Decline and Fall of the Roman Empire، ٹی ڈبلیو آرنلڈ [م:۱۹۳۰ء]کی شہرئہ آفاق کتاب The Spread of Islam in the World اور جوزف آرنلڈ ٹائن بی [م:۱۹۷۵ء]کی تحریریں اس کا ثبوت ہیں۔(اسرائیلی مؤرخ اوڈ پیری اعتراف کرتا ہے: ’’مسلمانوں کی فتح کے چارسوسال بعد یروشلم کا مضافات عیسائی اور عیسائی مذہبی عمارتوں سے بھرپور تھا‘‘۔ پھر دی واشنگٹن پوسٹ (۲۵ جولائی ۲۰۲۰ء) برملا لکھتا ہے:مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف یونانیوں کو مکمل تحفظ دیا بلکہ آرمینی عیسائیوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ استنبول میں عیسائیت کے آثار کی تعمیرنو کرسکیں۔ اسی طرح جلد ہی ہسپانیہ کے یہودیوں کو خوش آمدید کہا، جنھیں کیتھولک عیسائیوں کے مظالم کا سامنا تھا۔)
۲۴جولائی ۲۰۲۰ء میں آیا صوفیہ سے دوبارہ مسجد کبیر بننے کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس امر کا پورا پورا ادراک کیا جائے کہ اصل ظلم تو مصطفےٰ کمال پاشا کے ہاتھوں ہوا تھا جس نے محض مغربی اقوام کو خوش کرنے اور اپنے زعم میں ترکی کو ماڈرن بنانے کے لیے جبر اور قوت کے ذریعے ترک قوم پر سیکولرزم کو مسلط کیا اور قوم کو اس کے اسلامی ماضی سے کاٹنے کی ظالمانہ، قبیح اور تباہ کن کوشش کی، لیکن اس فسطائیت کو ترک قوم نے کبھی قبول نہ کیا اور ہرموقع ملتے ہی، اس سے نجات کی کوشش کی، اور الحمدللہ کامیاب رہی۔
مصطفےٰ کمال ایک کامیاب فوجی کمانڈر تھا اور اس کی قیادت میں ترکی نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی، جس کے باعث اسے قوم نے بجا طور پر ہیرو کا مقام دیا، مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک حقیقت بھی ہے کہ مصطفےٰ کمال نے اپنی حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے، نہ صرف عثمانیہ خلافت کا خاتمہ کیا بلکہ مغرب سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں دین اسلام کے شعائر کو بھی پامال کیا۔ عربی زبان اور رسم الخط کو نہ صرف ختم کیا بلکہ عربی زبان میں اذان تک پر پابندی لگا دی۔ مسجدوں اور مدارس کو بند کردیا، دینی تعلیم کو ختم کردیا۔ عربی میں کتب کی اشاعت پر پابندی لگا دی، لباس کو تبدیل کیا اور جبراً قوم کو مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا۔ عورتوں کے حجاب پر پابندی لگا دی۔ علما کو جیلوں میں ڈال دیا اور پھر آیاصوفیہ جو اسلام کا سمبل تھی، اسے پہلے بند رکھا۔اس کے قیمتی قالین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا اور ایک مینار کو بھی شہید کر دیا گیا۔ پھر اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ یہ سارا کام فوجی قوت کے ذریعے کیا گیا۔ پھر فوج ہی مصطفےٰ کمال کی قیادت میں اصل حکمران قوت بن گئی۔ نیز فوج کو بھی مکمل طور پر سیکولرزم کے رنگ میں رنگ دیااور سرکاری مداخلت کے ذریعے زندگی کے ہرشعبے سے اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو خارج کیا گیا۔
۱۹۳۰ء کے عشرے کے وسط میں اس زعم میں کہ ’’ترک عوام اپنی دینی شناخت میں کمزور ہوکر سیکولر فکروعمل میں ڈھل گئے ہوں گے‘‘ ایک انتخاب منعقد کیا گیا، لیکن اس کے نتیجے کو بھی تسلیم نہ کیا گیا، جس کی تفصیل خود مصطفےٰ کمال کے سوانح نگار ایچ سی آرم سٹرانگ نے Grey Wolf نامی کتاب [۱۹۳۷ء] میں دی ہے۔ اس طرح فوجی آمریت کا سلسلہ ۱۹۵۰ء تک جاری رہا۔ مصطفےٰ کمال کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا، لیکن اس کی پارٹی عصمت انونو [م: ۱۹۷۳ء]کی قیادت میں اسلام دشمنی اور سیکولرزم کی جبری ترویج پر عمل پیرا رہی۔البتہ پہلے ہی آزاد انتخاب میں عوام نے برسرِ اقتدار پارٹی کو شکست دی اور اس کے بعد آج تک وہ کبھی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ عوام نے اس پہلے انتخاب میں عدنان میندرس اور اس کی پارٹی کو قیادت سونپی، جس نے ۱۸سال کے بعداذان کو عربی زبان میں جاری کیا تو ترک عوام اذان کی اس آواز پر، جہاںوہ موجود تھے سجدے میں گر گئے۔ البتہ عدنان میندرس کو ان ’جرائم‘ کی یہ سزا ضرور ملی کہ ۱۹۶۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد ان کو سزاے موت دی گئی اور اس طرح وہ ۱۷ستمبر۱۹۶۱ء کو شہادت سے سرفراز ہوئے۔ ترک عوام بلاشبہہ آج بھی جنگ ِ آزادی میں مصطفےٰ کمال کے کردار پر نازاں ہیں، لیکن اس کے سیکولرزم کو آہستہ آہستہ ترک کر رہے ہیں اور خصوصیت سے نجم الدین اربکان [م:۲۰۱۱ء] اور طیب اردگان کی قیادت میں جو سیاسی اور نظریاتی تحریک برپا ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں آج الحمدللہ آیا صوفیہ دوبارہ مسجد بن گئی ہے۔ اس اقدام میں طیب اردگان اور ان کی پارٹی کا کردار مثالی اور قائدانہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ترک قوم کی عظیم اکثریت کی ان کو تائید حاصل ہے۔
اکانومسٹ،لندن میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ترک عوام کے ۷۳ فی صد نے اس اقدام کی تائید کی ہے۔ ترکی کی کم از کم دو سیکولر پارٹیوں نے کھل کر اس کی تائید کی ہے۔ اسی طرح عالم اسلام میں عوامی سطح پر عظیم اکثریت اس تبدیلی کا خیرمقدم کررہی ہے۔ خاموشی یا ملفوف ناپسندیدگی کا اظہار چند عرب ممالک کی قیادتوں کی طرف سے بھی ہے، لیکن اصل مخالفت کی آوازیں مغربی دنیا سے اُٹھ رہی ہیں، جو ترکی اور خصوصیت سے طیب اردگان کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اسی طرح عیسائی قیادتیں اسے مسجد اورچرچ کا تنازعہ بنا کر پیش کر رہی ہیں، جس میں کوئی صداقت نہیں۔ کچھ مسلمان لبرل دانش وَر بھی اپنے اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں، اور دور از کار خدشات اور خودساختہ ’اخلاقی مصالح‘ پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ روس، یونان اور امریکا کی سیاسی قیادت اور یونیسکو نے بھی تنقید کے تیر چلائے ہیں۔
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان اعتراضات میں کوئی جان نہیں۔ آیا صوفیہ کا بطور مسجد احیا قانونی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی، ہراعتبار سے مبنی برحق ہے اور اس سلسلے میں خود ترکی کی عدالت کے فیصلے میں قانونی نکات کے ساتھ یہ واضح کر دیا گیا ہے اور اس کی عالمی حیثیت اور زائرین کے لیے کھلا ہونا ایک مسلّمہ حقیقت ہے اور رہے گی۔ کسی کے لیے دروازے بند نہیں کیے جارہے اور کسی دوسرے مذہب یا تہذیب کے آثار کو مٹایا نہیں جارہا۔ نہ ایسا ماضی میں ہوا اور نہ آج ہوگا۔ آیا صوفیہ کے مذہبی نوادرات کبھی مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوئے ہیں۔ عثمانی حکمرانوں نے توان کے نقش و نگار اور تصاویر تک کو بھی برباد نہیں کیا کہ جن کا ایک مسجد میں وجود درست نہیں۔ صرف ان پر پلاسٹر لگا کر نظر سے اوجھل کر دیا ہے۔ آیا صوفیہ کی اگر کسی نے بے حُرمتی کی ہے، تو وہ خود عیسائی دور کے مقتدرافراد تھے۔
بی بی سی کے ایک مقالہ نگار نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
صدیوں تک رومن کیتھولک دنیا اور بازنطینی سلطنت کےدرمیان مذہب کی بنیاد پر تنازع رہا ہے۔ ۱۲۰۴ء میں جب یورپی حملہ آوروں نے شہر پر دھاوا بول دیا تو مسیحیت کے مشرقی اور مغربی گروہوں کے درمیان جنگ نے شہر کو تاراج کر دیا۔ انتہائی اہم تاریخی نوادرات اس جنگ کی وجہ سے ضائع ہوگئے، جن میں [مبینہ طور پر] حضرت عیسٰیؑ کے روضے کا پتھر، وہ نیزا جو حضرت عیسٰی ؑ کے جسم میں پیوست ہوا تھا، حضرت عیسٰیؑ کا کفن، جو اصلی صلیب تھی اس کے کچھ ٹکڑے، سینٹ تھامس کی مشتبہ انگلی، اور ہڈیاں شامل تھیں۔ آیا صوفیہ ایک کیتھولک چرچ توبہت کم عرصے کے لیے رہا، لیکن حملہ آوروں کی کارروائیوں کے نتائج دُور رس اور گہرے تھے، جو مشرق میں مسیحیت کی تباہی کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ (بی بی سی اُردو، آیا صوفیہ، ۱۳جولائی ۲۰۲۰ء)
صدر طیب اردگان ، عدالت کے فیصلے اور ترکی کے اسلامی اُمور کے شعبے کے ڈائرکٹر نے صاف الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تاریخی آثار کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ان کو محفوظ رکھا جائے گا اور آیاصوفیہ ترکی کی دوسری مساجد کی طرح دنیا کے تمام انسانوں اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے کھلی رہے گی۔
یونیسکو اور دوسرے اداروں نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، وہ زیادہ تر خود ان کے اپنے دہرے معیار کے ترجمان ہیں۔ عثمانی حکمرانوں کا تاریخی کردار رواداری اور بقاے باہمی (co-existance) کا رہا ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔
البتہ جو ادارے اور مغربی حکمران سوالیہ نشان اُٹھا رہے ہیں، ان کے اپنے کردار پر اگر نظر ڈالی جائے تو بڑی تکلیف دہ اور ناخوش گوار صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ان تمام ممالک میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا جارہا ہے، اس کا نہ کوئی حساب دے رہا ہے اور نہ کوئی اس کا مداوا کر رہا ہے۔ مساجد پر حملے اور مساجد کے قیام میں دشواریاں بے حدوحساب ہیں۔
حد یہ ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکا کی ۲۸ ریاستیں ایسی ہیں، جن میں صوبائی سطح پر یہ متعصبانہ قانون سازی کی گئی ہے کہ مسلمان اپنے معاملات میں بھی شریعت اسلامی کے مطابق معاملات طے نہیں کرسکتے۔ فرانس، ہالینڈ اور کئی یورپی ممالک میں مسلمان خواتین کے لیے نقاب کا استعمال، حتیٰ کہ کچھ مقامات پر حجاب کا استعمال بھی قانونی طور پرممنوع ہے۔ جب کہ آزادی راے کے ان دعوے داروں کا حال یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا میں تاریخی حقائق کی بنیاد پر بھی جرمنی میں یہودیوں کے ’قتل عام‘ (ہولوکاسٹ) کا انکار، حتیٰ کہ اس میں مارے جانے والوں کی تعداد کو چیلنج کرنا بھی قانونی جرم قرار دیتی ہے اور کئی سال کی حراست کا مستحق بنا دیتی ہے۔ آج پوری مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کے تاریک سایے ہرطرف پھیلے نظرآرہے ہیں۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ بظاہر مغربی دنیا سب کی آزادی اور حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کے خلاف جنگ کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن مسلمانوں کے ساتھ اس کا معاملہ بڑا ہی مختلف ہے۔ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے، خواہ و ہ فلسطین ہو یا کشمیر، میانمار ہو یا سنکیانگ، بوسنیا ہو یا کوسوو، سربیا ہو یا چیچنیا۔ اسی طرح فرانس ہو یا اسرائیل، بھارت ہو یا سری لنکا، ان کی زبانیں بند رہتی ہیں۔ دوغلاپن اور ریاکاری (hypocrisy) ان کا شعار ہے۔ اتنے داغ دار دامن کے ساتھ محض ان خیالی اندیشوں پر واویلا کہ آیاصوفیہ کے مسجد بننے سے ترکی میں عیسائیوں پر آسمان ٹوٹ پڑے گا، صریح دھوکا نہیں تو کیا ہے:
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ملّتِ اسلامیہ کے احیا کی طرف پیش رفت
مسئلے کاایک اور پہلو جس کی طرف ہم متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ترک عوام نے کبھی دولت ِ عثمانیہ کے اپنے تابناک ماضی سے تعلق کو منقطع نہیں کیا۔مصطفےٰ کمال اور مغرب کے پرستار عناصر کی ہرزیادتی پر وہ اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں، اور دین اسلام، اسلامی روایات اور اسلامی شعائر کے تحفظ میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تحریک ِ خلافت کی شکل میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جس طرح دولت عثمانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس کا نفش ان کے دل و دماغ پر آج بھی قائم ہے۔ جو مالی اعانت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے کی تھی اس کے لیے ممنونیت وہ آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ خلافت کے خاتمے کے بعد اس رقم سے انھوں نے ایک بنک قائم کیا جو آج تک کام کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام کا دل سے احترام اگر کسی ملک میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے تو وہ ترکی ہے۔ مجھے خود یہ تجربہ باربار ہوا ہے کہ ہوٹل تک یہ جاننے کے بعد کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، ہوٹل والوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور ’مہمان مہمان‘ کہہ کر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ آیا صوفیہ کو مسجد بنانا ان کے دل کی آرزو تھی، اور جس کا اظہار ہرسطح پر کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ضیا گوک الپ [م:۱۹۲۴ء] جو مصطفےٰ کمال کا پسندیدہ شاعر اور اس کا موید تھا آیا صوفیہ کے باب میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتا رہا۔ اسی کے اشعار پڑھنے پر طیب اردگان کو ۱۹۹۷ء میں گرفتار کیا گیا تھا:
The Mosques are our barracks,
The Domes are our helmets,
The Minarets are our bayonets,
And the faithful are our soldiers
مسجدیں ہماری بیرکیں ہیں اور گنبد ہمارے زرئہ سَر ہیں۔
مینار ہمارے نیزے ہیں اور صاحب ِ ایمان ہمارے سپاہی ہیں۔
آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت سے بحالی مسلمانوں کی آرزو، دُعا اور کوشش تھی۔ اس کا عجائب گھر ہونا ان کے دل پر زخم کی حیثیت رکھتا تھا، جس کا اظہار ہرسطح پر کیا جاتا تھا۔بڑےواشگاف الفاظ میں مسجد کی بحالی کے موقعے پر جمعہ کے خطبے میں امام نے ا ن الفاظ میں کیا کہ ’’آج ہمارا برسوں کا دُکھ ختم ہوا، جو ہماری تذلیل ہوئی تھی اس کا خاتمہ ہوا اور اللہ کا کلمہ بلند ہوا‘‘۔ صرف طیب اردوگان ہی نہیں، ترک شعرا اور دانش وَروں نے بھی اس پورے عرصے میں اپنے دُکھ اور مسجد کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا اور اس کا سب سے مؤثر اظہار ایک چوٹی کے شاعر نجپ فاضل کیساکورک نے ۲۹ستمبر ۱۹۶۵ء آیاصوفیہ ہی میں ایک کانفرنس کے دوران کیا کہ سیکولرقیادت نے آیا صوفیہ کو عجائب گھر بناکر ترکی کی خودمختاری کو بدترین حد تک مجروح کیا ہے اور اپنی روح کو مغرب کی جدت پسندی کے قدموں پر ڈال دیا تھا۔ یہ ترکی قوم کی تذلیل کی انتہا تھی:
لادینی جمہوریہ نے ترکی کی خودمختاری کوبُری طرح مجروح کیاہے: جس نے اس کی روح کو مغربی جدیدیت پسندی کی خاطر فروخت کردیاہے۔آیا صوفیہ کی حیثیت کی تبدیلی اس تذلیل کی علامت ہے۔(دی نیو یارک ٹائمز، ۱۴جولائی ۲۰۲۰ء)
اس نے طنزاً کہا تھا کہ مسجد کو عجائب گھر بنانا ترکوں کی روح کو میوزیم میں نظربند کرنا تھا:
آیا صوفیہ کی عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ، ترکوں کی حقیقی روح کو ایک عجائب گھر میں قید کر دینے کے مترادف تھا۔(ایضاً)
اس نے مزید کہا کہ:
مغربی دنیا نے ہمارے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جو کچھ ظلم کیا ہے،وہ نہ صلیبی حملہ آور اور روسی کمیونسٹ کرسکے، نہ کیتھولک عیسائی اور یونانی حملہ آوروں نے وہ ظلم کیا۔(ایضاً)
اسی نے ۱۹۶۵ء میں آیا صوفیہ میں کھڑے ہوکر یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ایک دن یہ پھر مسجد بنے گی اور ہماری قیدی روح آزاد ہوگی۔
طیب اردگان نے تاریخی عمل کے مکمل ادراک کے ساتھ اس کا افتتاح ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کو کیا، جو ’لوزان معاہدے‘ کی ۹۷ویں سالگرہ تھی۔ یہ ہے ترک قوم کا جواب اور ملت اسلامیہ کے احیا کا ایک منظر! مغربی اقوام ،اداروں اور عیسائی دنیا کی قیادت کے اضطراب کو اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔
ترکی میں ہی نہیں، پوری دنیا میں اسلام اور مغرب کے سامراجی نظام کے درمیان کش مکش ہے۔ مغربی دنیا میں جس طرح اسلام کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسے ایک خطرہ بلکہ اصل خطرے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کسی کے حق میں بھی نہیں۔ بلاشبہہ اسلام کا اپنا تہذیبی اور سیاسی نظام ہے اور مسلم اُمت فطری طور پر اس نظام کو قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ہم تہذیبوں کے تصادم کے فلسفے کو ایک شیطانی فلسفہ سمجھتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان صحت مند مسابقت، تعاون اور مکالمہ ہی فطری راستہ ہے۔اختلاف، تنوع کا مظہر ہے، تصادم کا پیش خیمہ نہیں۔ ترکی کا موجودہ اقدام ماضی کی ایک عظیم تاریخی غلطی اور جبری اقدام کی اصلاح ہے، کسی کے خلاف کوئی سازش اور جبری اقدام نہیں۔
ہم ان گزارشات کو صدرطیب اردگان کے ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں جو انھوں نے آیاصوفیہ کے مسجد کے طور پر آغازِ نو کے موقعے پر کہے:
ہم آیا صوفیہ کو اس کی اصل بنیادوں کے مطابق استوار کر رہے ہیں اور اپنے بزرگوں کے ثقافتی ورثے کو مکمل طور پر محفوظ رکھیں گے۔ ہم نے آیا صوفیہ کو ایک نہایت غلط فیصلے کے تحت ایک عجائب گھر بنایا اور اب ہم اسے بجا طور پر دوبارہ مسجد بنا رہے ہیں، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آیا صوفیہ ایک چرچ سے مسجد نہیں بنائی جارہی بلکہ ایک عجائب گھر سے مسجد بنائی جارہی ہے۔ کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے پورے ثقافتی ورثے کی حفاظت کریں گے۔
سیّد منور حسن کا دنیا سے رخصت ہونا ہم سب کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور موت سے کسی کو مفر نہیں۔ ۲۶جون سے آج تک کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ پیارے منور بھائی کا خیال دل و دماغ سے اوجھل ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے، اور انھیں جنّت کے اعلیٰ مقامات پر اَبدی زندگی سے سرفراز فرمائے،آمین!
حقیقت یہ ہے کہ منور بھائی، تحریک ِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور دورِ حاضر میں اسلام کی ایک قیمتی متاع تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ۶۰سال بہت قریب اور ہرحیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا، یعنی: ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، تحریک کے ایک کارکن اور ساتھی کی حیثیت سے، میرے ساتھ علمی کام کرنے والے ایک معاون کی حیثیت سے، اور میرے امیر کی حیثیت سے۔ الحمدللہ، ہرحیثیت سے ہمارا تعلق احترام، محبت اور تعاون کا رہا ہے۔ انھیں ہرحیثیت میں ایک بہت اچھا انسان اور ایک بڑا سچا مسلمان اور تحریک اسلامی کا ایک مخلص اور بہترین خادم پایا۔ بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اللہ سے تعلق کو مضبوط تر بنانے، مقصد کی لگن میں یکسو ہونے، اور شہادتِ حق کے راستے پر ثبات و استقامت سے جدوجہد میں اپنے آپ کو گھلادینے کی منزل پر جاپہنچے تھے۔ اسی طرح جہاں دنیا کو اسلام کے رنگ میں ڈھالنے کا جذبہ، کوشش اور تڑپ تھی، وہیں دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے کنارہ کشی، سادگی، اخلاص، للہیت، قناعت اور درویشی ان کی زندگی کے امتیازی پہلو تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں منور بھائی کی زندگی میں سلف کی زندگی کی ایک جھلک نظر آتی تھی۔
۱۹۶۰ء میں جب وہ عزیزی آصف صدیقی کی دعوتی مساعی کے نتیجے میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے، اسی وقت سے میرا اُن سے قریبی تعلق رہا۔ شروع میں ایک زیرتربیت ساتھی اور اجتماعی مطالعے میں شریک کی حیثیت سے ربط قائم ہوا۔ ۱۹۶۲ء میں جب محترم چودھری غلام محمد مرحوم کے ایما اور داعی تحریک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی سرپرستی میں کراچی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی قائم کی گئی تو وہ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم تھے۔ اس وقت انھوں نے ایم اے سوشیالوجی کیا تھا۔ تب اپنے نوجوان ساتھیوں کی جو پہلی ٹیم بطور اسسٹنٹ میں نے بنائی، اس میں وہ شامل تھے۔ اکتوبر۱۹۶۴ء میں وہ شیخ محبوب علی بھائی کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور نظامت اعلیٰ سے فارغ ہوتے ہی جماعت اسلامی کے رکن بنے اور کراچی جماعت کے نظم کو اپنی خدمات پیش کردیں۔ اسی دوران ۱۹۶۸ء میں مَیں برطانیہ چلا گیا تو اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری کی حیثیت سے انھوں نے اس علمی و تحقیقی ادارے کا نظم سنبھالا۔ انگریزی ماہنامے The Critarion اور پھر Universal Message کے مدیر رہے۔ایک مدت تک کراچی جماعت کے قیم اور پھر کراچی جماعت کے امیر بنے۔ ازاں بعد ۱۹۹۲ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے قیم بنے۔ ۲۰۰۹ء میں امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے اور پھر امارت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بعد ۲۰۱۴ء میں دوبارہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی میں آخری لمحات تک علمی اور اجتماعی خدمات سرانجام دیتے رہے۔
منور بھائی کو میری اور برادرم ڈاکٹر انیس احمد کی طرح مولانا مودودیؒ کی یہ محبت حاصل رہی کہ وہ ہم کو پیار سے خورشیدمیاں، انیس میاں اور منور میاں کہا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد نذیر احمد قریشی صاحب کی طرح منوربھائی کے والد محترم سیّد اخلاق حسن صاحب بھی مولانا کے قیام دہلی کے زمانے کے احباب میں سے تھے اور آخری وقت تک ان کے گہرے ذاتی تعلقات رہے۔
منور بھائی کی زندگی کا سب سے غالب پہلو مقصدیت ہے۔ جس پیغام اور دعوت کو انھوں نے شعور کے ساتھ قبول کیا، پھر زندگی بھر اس پر وہ یکسو ہوگئے۔ جس چیز کو انھوں نے حق سمجھ کر اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، آخر دم تک اس سےوفاداری کا حق ادا کیا، اس کے لیے جدوجہد کرتے رہے، اس کے لیے قربانی دی اور ایسی سعادت کی زندگی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا۔
دوسری قابلِ رشک خوبی اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط (ڈسپلن) تھا۔ ان کی زندگی میں جو بے پناہ نظم پایاجاتا تھا، اس کی مثال سوائے چند لوگوں کے، مَیں کہیںاور نہیں دیکھ سکا۔ ان میں اپنے تمام کاموں کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دینے کی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ وہ ایک ایک لمحہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے سوچتے، پروگرام بناتے اور پھر اس پر عمل درآمد کرتے تھے۔ یعنی منصوبہ سازی، جائزہ، نفاذ اور تنظیمی ڈھانچے کی تیاری۔
مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے کہ آج تحریک میں علمی ذوق کم ہورہا ہے اور مطالعہ تو اس سے بھی کم ہے۔ دوسری طرف منور بھائی کو دیکھتا ہوں تو گو انھوں نے لکھا کم ہے، لیکن ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کی تقریر میں گہرائی اور جذبہ تھا۔ گفتگو میں علمی وژن، حاضردماغی اور دلیل تھی۔ وہ تحریک کے مسائل و معاملات پر مسلسل غوروفکر کرتے تھے کہ یہی ہمارا شعار ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔
منور بھائی ایک غیرمعمولی مقرر تھے۔ فطری خطابت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا تھا۔ تقریر میں وہ سحر باندھ دیتے تھے۔ برجستگی اور مزاح سے، بڑے نپے تلے جملوں اور کم الفاظ میں بڑی بات کہنا ان کا طرئہ امتیازتھا۔ بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ وہ بڑے خوش الحان اور خوش گلو بھی تھے۔ کلامِ اقبال پڑھنے اور سنانے کا شان دار ذوق رکھتے تھے۔
مقصدیت، قیادت، اَن تھک جدوجہد اور محنت کے ساتھ ساتھ نماز سے تعلق میں عشق کی کیفیت کا مظہر تھے۔ عبادت میں خشوع و خضوع کی جو چاشنی میں نے ان کے لڑکپن سے ان میں دیکھی، وہ مثالی تھی۔ کراچی میں ان کوایک ایک مسجد کا پتا تھا کہ کس مسجد میں کس وقت نماز ہوتی تھی؟ اگر کسی ایک مسجد میں جماعت سے نماز چھوٹ جاتی تھی تو دوسری مسجد میں جاکر باجماعت پڑھتے تھے۔ اس پہلو سے منور بھائی اس دور میں الحمدللہ ثم الحمدللہ، اس کی ایک اچھی مثال تھے۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ لَا شَرِيْكَ لَہٗ۰ۚ (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔
تحریک کی قیادت کے دوران ایک طرف انھوں نے بحیثیت امیر اپنی راے کا برملا اظہار کیا، تو وہاں دوسری طرف شوریٰ اور عاملہ نے جو بات طے کردی، انھوں نے پوری وفاداری کے ساتھ اس پر عمل کیا ۔ اپنی امارت کے دوران دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دینے کے ساتھ، طاغوت کی شیطنت کو بے نقاب کرنے میں لمحہ بھر غافل نہ رہے۔
اسی طرح منوربھائی تحریک اسلامی کے تمام طبقات خصوصاً علماے کرام، اساتذہ، صحافتی برادری، ادیبوں،دانش وروں ،مزدور تنظیموں اور یونینوں سےربط اور رہنمائی کے لیے ہروقت مستعد رہتے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان انھیں حددرجہ محبوب تھے، جن کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے دامے، درمے اور سخنے، وہ ان کے ہم قدم رہتے۔ پھر ہزاروں کارکنوں سے بالکل ذاتی سطح پر خط، ملاقات اور پیغام کے ذریعے رابطہ رکھ کر انھیں مقصد ِ زندگی سے جڑے رہنے کے لیے اُبھارتے رہتے تھے۔ یہ فرائض، ان کی منصبی ذمہ داریوں کا حصہ نہ تھے، لیکن ان کے جذبے کا عملی مظہر تھے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں ان کو ایک مجاہد فی سبیل اللہ پایا۔ مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ان کا شمار، اللہ کے ان خوش نصیب بندوں میں ہوگا، جن کے لیے قرآن نے فرمایا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ۙ (احزاب ۳۳:۲۳)ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی اور قربانیوں کو قبول فرمائے، ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، انھیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کے لیے، تحریک اسلامی کے لیے اور دعوتِ حق سے وابستہ افراد کی زندگیوں کو مسلسل جدوجہد کے جذبے سے سرشار کرنے کے لیے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کی نیک اور اچھی روایات کا احترام کرنے اور اس روش پر چلنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور ہم سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ ہمیں دینِ حق پر قائم رکھے اور ایمان پر خاتمہ کرے۔ دعوتِ دین کی تحریک میں، ملک میں اور اُمت اسلامیہ میں، ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ اس خلا کو پُر کرنے کا سامان کردے، آمین!
ایک طرف دنیا بھر میں ’کورونا وائرس‘کی تباہ کاریوں نے ہرانسان کو دہلاکر رکھ دیا ہے، لیکن دوسری جانب بھارت کی سفاک حکومت اور فوج جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی لانے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس موقعے کو غنیمت جان کر، جموں و کشمیر کی سماجی و سیاسی اور قومی صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے پے درپے بڑےجارحانہ اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ اس پس منظر میں دنیا بھر کے منصف مزاج لوگوں کو کشمیر کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہیے، اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے ہرممکن کوشش و کاوش کرنی چاہیے۔
پچھلے ۷۰سال سے میں تحریک آزادی کشمیر کو ہرپہلو سے دیکھ رہاہوں۔ اس کی تاریخ، اور حق خود ارادیت (self determination)کی تحریک کے اُتارچڑھاؤ پر مسلسل غور کرتا آیا ہوں اور ۶۰برس سے اس موضوع پر لکھ بھی رہا ہوں۔ میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ ۲۰۱۶ءکے بعد اس تحریک کا جو دور شروع ہوا ہے اور خصوصی طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو صورتِ حال رونماہوئی ہے، اس سے یہ تحریک بڑی حدتک اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ البتہ یہ فیصلہ کن دور کتنا طویل یا مختصر ہوگا،فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ آثاروشواہد یہ بتا رہے ہیں کہ ان شا ء اللہ یہ فیصلہ کن دور ہے اور اس کےلیے ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر اور مؤثر اور مربوط انداز سے طرزِفکر اور طرزِعمل اختیار کرنا ہوگا۔
اجتماعی زندگی کی جدوجہد میں ہم بہ حیثیت قوم کچھ معاملاتِ زندگی کو مؤخر کرسکتے ہیں، کچھ چیزوں کو حکمت یا مصلحت کی بنیاد پر نظرانداز بھی کرسکتے ہیں،لیکن مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے کشمیر کونہ نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ ثانوی حیثیت دے سکتے ہیں۔ اسے ہرحال میں مرکزی حیثیت حاصل رہنی چاہیے۔ اس معاملے پر جتنا پاکستانی قوم کو بیدار کریں گے، جتنا سیاسی جماعتوں پر اور پھر حکومت پر یاددہانی کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، اتنا ہی اس مقصد کے لیے مفید ہوگا۔ نیز پاکستانی حکومت، عوام اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اُٹھانے اور بھارت پر عالمی دباؤ ڈلوانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ یہ مقصد محض بیانات اور ٹویٹر پیغامات سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلے میں بنیادی اور مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی فکر کریں گے، تو ان شاء اللہ اس کے مثبت اثرات رُونماہوں گے۔
تحریک ِ کشمیر کا موجودہ اُبھار ایک مؤثر اور فیصلہ کن مرحلے کی بنیاد ہے۔ اس کی دونوں سطحیں بہت ٹھوس اور مثبت ہیں: یعنی اس میں مقدار (quantitative) کے اعتبار سے بھی مثبت تبدیلی ہے اور معیار (qualitative) کے لحاظ سے بھی جوہری فرق واقع ہوا ہے۔ معیاری تبدیلی کی نسبت سے مقبوضہ کشمیر کے اندر قابض بھارتی فوجوں اور دہلی کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ جس درجے میں بیدار ہے اور موت کا خوف جس سطح پر ختم ہوا ہے، یہ چیز اس تحریک آزادی کی بڑی نمایاں اور نہایت قابلِ قدر خوبی ہے۔ پھر اسی دوران میں وہاں بھارت نواز مسلم لیڈرشپ جس انداز سے بے نقاب ہوئی ہے، اس نے بھارتی فریم ورک میں کشمیرکے وجود کے بے معنی استدلال کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ بلاشبہہ یہ آکاس بیل پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بنیاد فریب خوردہ لوگوں کی نظروں میں غیر مؤثر ہوئی ہے۔ اپنی جگہ یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے کہ بھارت کے مختلف حلقوں، دانش وروں، میڈیا اور سیاسی گروہوں کی طرف سے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر اظہار خیال ہورہا ہے،جو اس سے پہلے نہیں نظر آتا تھا۔ الحمدللہ، یہ ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ یہ پہلو اپنے اندر بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔
پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کے سیاسی مقام، جغرافیائی کردار اور مختلف ممالک کے تجارتی مفادات کے باوجود، بین الاقوامی محاذ پر تنقید و احتساب کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اگرچہ بظاہر وہ کمزور اور غیرمؤثر ہیں، لیکن بہرحال بلند ہونے لگی ہیں۔ یہ پہلو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک فیصلہ کن دور کی طرف بڑھ رہے ہیں یا اس دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان امکانات کو کس طرح مؤثر انداز سے، مثبت رُخ کی جانب موڑ سکیں؟
سب سے اہم میدان خود مقبوضہ کشمیر کے اندر ہے۔اس وقت تک محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بڑی بصیرت، بڑی ہمت، بڑی قوت اور کمال درجے کی ثابت قدمی کے ساتھ اس تحریک کو درست رُخ پر فعال اور متحرک رکھا ہے۔ لیکن اِن دنوں اُن کی صحت زیادہ ہی مخدوش ہے۔ ان کے لیے خلوصِ دل سے دُعاے صحت کی جائے۔ خرابی صحت اور تمام پابندیوں کے باوجود محترم گیلانی صاحب کو جو معمولی سےمعمولی مواقع ملتے ہیں، ان کو قوم کی رہنمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اب اس بات کی اشدضرورت ہے کہ گیلانی صاحب کی معاون قیادت اس طرح اُبھرے کہ وہ تحریکی سوچ اور صحیح فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ وہ قیادت گیلانی صاحب کی طرح ایمان کی پختگی ، تاریخ کے گہرے شعور، بے پناہ جرأت اور حکمت و تدبر کی حامل ہو۔ جذباتی ردعمل سے بچ کر چلنے والی دُوراندیش قیادت ہو۔ ان حالات میں وہاں پر نچلی سطح تک ایسی تحریک کو منظم اور مؤثر ہونا چاہیے، جو عوامی ہو، جمہوری ہو، مربوط ہو اور منزل و مقصد کا صحیح فہم رکھتی ہو۔ اُن کی آواز میں آواز ملانے کے لیے، دنیابھر میں اُن کے حلیف اور ہم آواز حلقوں کو پوری تندہی سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کہ عالمی منظرنامے پر اُن کی تائید و تحسین اُنھیں قوت فراہم کرسکے۔
اس وقت بھارت یہ کوشش کر رہا ہے کہ مختلف سیاسی محاذوں پر مقامی طور پر ایسی قیادت کو اُبھارے کہ جو بظاہر آزادی کی حامی ہو یا خودمختاری کے گمراہ کن نعروں کو بلندکرے، حالانکہ بھارت کے حالیہ اقدام کا ہدف کشمیر پر اپنے جبری قبضے (occupation) کو مستقل انضمام (annexation) میں بدلنا، کشمیر کی شناخت (identity)کو ختم کرنا اور آبادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے، جو سامراجیت کی بدترین مثال ہے۔ ’خودمختاری‘ کی بات ایک فریب اور دوسری دفاعی لائن ہے، جس کی حقیقت کو سمجھنا اور دُنیا کو سمجھانا ضروری ہے۔ بڑی ہوش مندی سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اصطلاح بنیادی طور پر بھارتی مقاصد کو پورا کرنے کی ایک چال ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ انھیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی ہے، تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ نقب لگائی جائے۔
مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کا پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو بہت اہم مقام حاصل رہنا چاہیے کہ یہ بات لوگوں اور اداروں کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے۔ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کررہا ہے اور وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی رُو سے انسان کشی (Genocides)اور جنگی جرائم (War Crimes) کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس پہلو کو ساری دنیا میں اور خصوصیت سے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور یورپین ہیومن رائٹس کمیشن پر اُٹھانا ازبس ضروری ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات اوربھی زیادہ ضروری ہے کہ اصل ایشو بھارتی غاصبانہ قبضہ ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کا طے شدہ ہدف صرف اور صرف حق خود ارادیت دلانے کے لیے استصواب راے (Plebiscite) ہے۔ یہی ایشو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو لوگ بھول جائیں، بھارت کے وعدوں کو بھی لوگ بھول جائیں، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس کسی نام نہاد ثالثی (Arbitration) سے بٹوارا کرکے معاملے کو رفت گزشت کر دیا جائے۔لیکن نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حق خود ارادیت کے مرکزی ایشو ہی کو ہرسطح پر اُٹھایا جائے اور ہرسطح پر اس کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ نیز ثالثی کے جال (Trap)سے بچنا ازبس ضروری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت پردباؤ ڈلوانا اورمسئلے کے حل کے عمل کومتحرک اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔کشمیر کے مستقبل کا مستقل فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی قیادت کے عہدواقرار کے مطابق ہی انجام دے سکتے ہیں۔
ہم پوری وضاحت اور نہایت واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ تھا، عالمی مسئلہ ہے اور جب تک حل نہ ہوجائے عالمی مسئلہ رہے گا۔ اسے بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اسے طے کیا جائے گا۔ یہ کبھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں تھا۔ اس کے بنیادی فریق بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام ہیں اور اقوامِ متحدہ/ عالمی برادری بھی اس میں برابر کی شریک اور حل کروانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس نکتے کو ہمارے عالمی اقدام (Diplomatic Offences) کا حصہ ہوناچاہیے۔ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کی روشنی میں جہاں ازبس ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ کو مؤثر بنانا چاہیے جس کے لیے عالمی برادری کی سہولت کاری (Facilitation)، مداخلت (Intervention) اور دباؤ (Pressure) ضروری ہوگا،وہیں دوسری جانب ثالثی کے فریب میں پھنسنا مہلک ہوگا، جس سے ہرصورت میں بچنا لازمی ہے۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ کشمیر کے عوام کی راے دہی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔
بلاشبہہ ہماری خارجی سیاست میں بھارت کے فسطائی نظام اور بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں سے جو بدسلوکی اور امتیازی رویہ (discrimination ) روز افزوں ہے، اسے ایکسپوز کرنا بھی چاہیے اور اس کے لیے الگ سے حکمت عملی اور نظامِ کار بناناضروری ہے۔ لیکن کشمیر کے مسئلے کی خصوصی نوعیت کی بناپر اس مسئلے کو اس کے اپنی حرکیات (dynamics ) کی وجہ سے الگ اور مرکزی مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں اور وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی ضروری ہے لیکن اسے مسئلہ کشمیر سے گڈمڈ کرنے سے احتراز برتنا لازم ہوگا۔
حق خود ارادیت اور مزاحمت
یہ معاملہ بھی پوری منطقی ترتیب کے ساتھ مدِنظر رہنا چاہیے کہ جہاں ناجائز قبضہ (occupation) ہوگا، وہاں مزاحمت (resistance) ہوگی۔ غاصبوں سے آزادی حاصل کرنے کا حق (right to liberation) ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے اقوام متحدہ کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۰ ممبر ممالک میں سے ۱۵۰سے زیادہ ملک اسی حق خود ارادیت کی بناپر آزاد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ حق اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا ہے کہ: حق خودارادیت جمہوری طریقے سےنہ ملے اور اس حق کو قوت سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے توآپ کو اپنے تحفظ کے لیے مزاحمت کا بنیادی حق حاصل ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کے استعمال کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن نائن الیون کے بعد بھارت نے کشمیری حُریت پسندوں کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ تو تازہ ترین واقعہ ہے کہ طاقت ور ملکوں کی دھونس، دھاندلی اور ظلم و جبر کو مسترد کرنے والے افغان طالبان کل تک ’دہشت گرد‘ قرار دیے جاتے تھے، لیکن آج ان سے گفتگو اور معاہدہ کرکے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ’کشمیرکمیٹی‘ گذشتہ ۱۵،۲۰ سال سے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے آٹھ مہینےمیں اس کمیٹی کا کوئی سربراہ نہ تھا، اور جب سربراہ مقرر ہوا تو ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کشمیرکمیٹی کا سربراہ کابینہ کی نشستوں میں شریک تو ہوا، لیکن خود کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کا کہیں کوئی وجود تک نہ تھا۔ اب پھر یہ نشست خالی ہوگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی مصالح سے بالاتر ہوکر ’کشمیر کمیٹی‘ کو حقیقی معنی میں قومی کمیٹی بنایا جائے اور ایک لائق اور متحرک شخص کو اس کا سربراہ مقررکیا جائے، جو پوری یکسوئی کےساتھ کشمیر کے کاز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش کرے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ سفارتی تجربہ رکھنے والے کسی شخص کو کشمیر کے سلسلہ میں اسپیشل ایڈوائزر بنانے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ ’کشمیر کمیٹی‘ اور اس کے سربراہ کو بالکل اس جذبے سے اپنا فرض منصبی ادا کرنا اور کمیٹی کو چلانا چاہیے کہ جس طرح غزوئہ اُحدمیں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد پہاڑ کی ایک پوزیشن پر تیرانداز ٹیم کو کھڑا کرکے فرمایا تھا کہ: ’کچھ بھی ہو آپ نے یہ پوزیشن نہیں چھوڑنی‘۔ مگر اُن کے پوزیشن چھوڑ دینے پر ریاست مدینہ کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کشمیرکاز کے فروغ کے لیے جموں و کشمیر اور عالمی سطح پر ایک نیا اور مؤثر کردار ادا کرے۔ اس کے لیے اسے پہل قدمی(initiative) کرکے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔ وہاں اس وقت صدر اوروزیراعظم دونوں دردِ دل رکھنے والے سمجھ دار رہنما ہیں۔ ان سے بات کرکے آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر کمیٹی بنائی جائے، جس میں سابقہ وزراے خارجہ اور خاص طورپرلائق سابق سفارت کاروں سے معاونت لی جائے اور ان کے اشتراک سے ایک ٹیم بنائی جائے۔
یورپ، مشرق بعید، امریکا اور عرب دنیا میں جو لوگ موجود ہیں، انھیں کردار ادا کرنے کی دعوت دی جائے۔ بھارت کے معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کی مہم پر بھی غور ہونا چاہیے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں اس چیز کا کلیدی کردار تھا۔ فلسطین کی آزادی کی موجودہ تحریک اس سلسلے میں مؤثر اقدام کر رہی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹوں، جنرل اسمبلی کی قراردادوں وغیرہ کی بنیاد پر یہ کوشش کی جائے کہ قانونی طور پر بھی کشمیر کا مقدمہ عالمی اداروں اور عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے۔
سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر ا نٹر نیشنل کانفرنس کی اپنی افادیت ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ مختلف ملکوں کے پارلیمنٹیرینز سے براہِ راست ملاقات ہو اور پارلیمنٹس میں کشمیر پر قرارداد لانے کی کوشش ہو ۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز سےرابطے ہوں، ان سے قراردادیں منظور کرانے کی کوشش ہو۔
یہاں پر ایک بار رُک کر یہ بات بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں ،اپنی پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی کو ختم کرکے ایک قومی حکومت بنائیں ؟ یا الگ الگ وجود رکھنے اور اپوزیشن کے باوجود ایک چھت تلے بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ہم صرف اور صرف کشمیر کی آزادی، اور کشمیر میں بہترین حکومت سازی اور ڈسپلن کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور پاکستانی سیاست کو آزادکشمیر کی سیاست میں نہیں لائیں گے۔ یاد رہے کہ ۱۹۷۲ء تک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا یہی موقف تھا۔ لیکن پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو کشمیر کی سیاست میں دھکیلنے کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کی تھی۔ تاہم،۴۸برس کے اس تجربے سے اندازہ ہوا ہے کہ پاکستانی سیاست کے آزاد کشمیر میں عمل دخل نے جدوجہد کو بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔اس لیے اتفاق راے سے تمام پاکستانی سیاسی پارٹیاں ۱۹۷۲ء سے پہلے کی پوزیشن اختیار کرلیں۔یہاں پر مَیں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ۱۹۷۴ء سے آزادکشمیر میں جماعت اسلامی بھی قائم ہے، لیکن جماعت اسلامی پاکستان نے کسی درجے میں اس کی پالیسیوں اور معاملات میں کبھی کوئی دخل اندازی نہیں کی، نام اگرچہ ایک ہے لیکن ہرسطح پر اور ہردرجے میں وہ الگ تنظیم ہے اور پاکستان کی جماعت کی شاخ نہیں ہے۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ آزادکشمیر فوج تو نہ بنائے لیکن پیراملٹری فورس کے بارے میں ضرور اقدام کرے، تاکہ جب ڈی ملٹرائزیشن کی بات کی جائے گی اور پاکستان کی طرف سے فوج کو نکالا جائے گا تو فطری طورپر آزادکشمیر کی اپنی سیکورٹی فورس ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پولیس کے ساتھ ساتھ نیشنل ڈیفنس فورس کی طرح سے ایک پیراملٹری فورس موجود ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اقوام متحدہ کمیشن کی دستاویزات میں اس کا ذکر آیا ہے ۔
اگرچہ پہلے سے متعدد ادارے موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک ’کشمیر ریسرچ گروپ‘ قائم کیا جائے، جو حکومت پاکستان کی کشمیر کمیٹی اور آل پارٹیز کشمیر کانفرنس کو مسئلہ کشمیر پر باخبراور تازہ دم رکھنے کے لیے مسلسل کام کرے۔ وہ کشمیر پر مثبت منفی تحریروں اور بیانات کو جمع کرے، تجزیہ کرے اور درست موقف کو پیش کرے۔ ساتھ ہی مذکورہ بالا اداروں کو متوجہ کرے۔ اس وقت خود بھارت میں بہت سی کتب اور مقالات شائع ہورہے ہیں، جن میں مسئلہ کشمیر کی حقیقی صورتِ حال کو جاننے اور اسے حل کرنے کا احساس نمایاں ہے۔ ا ن کتب میں زور دیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ایسی انسانیت کشی کیوں کر رہی ہے؟ ان چیزوں کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بات کی ضرور ت ہے کہ بہت ہی دوٹوک طور پر مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور تحریک پر تحقیق ہو، سوشل میڈیا پربھی ہر بڑی زبان میں معاملے کی نزاکت کو مؤثر دلائل سے بیان کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ کشمیر پر دستاویزی فلمیں بنوائی جائیں۔ محض تقریری اور سماجی کانفرنسیں نہیں بلکہ عملی اور اقدامی کانفرنسیں منعقد کی جائیں، جن میں اہداف طے ہوں اور حکمت عملی کا تعین ہو۔ پھر معاملہ فہمی (لابنگ) کا محاذ ہے۔اہم سیاسی اور میڈیا کے فورم تک پہنچ کر انھیں ہم آواز (involve) بنانا ہے، انھیں اُبھارنا اور متحرک (motivate) کرنا ہے، انھیں سہولت فراہم (facilitate) کرنی ہے۔ تحقیق اور تحقیق کے نتیجے میں مختلف سطح پر ان چیزوں کی تیاری ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پروجیکشن کرنا اور پہنچا ناایک بڑا ہی اہم کام ہے۔ یہ کام پاکستان اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری بھائیوں کے کرنے کا ہے۔یہ کام مقبوضہ کشمیر کے اندر سے کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے لیے بیرونِ کشمیر سے منصوبہ بندی اور باقاعدگی (systematically) سے کام کیا جانا چاہیے۔
بھارتی حکومت کا ساتھ دینے والے کشمیری مسلمانوں نے بہت کھل کر اعتراف کیا ہے کہ ’’بھارت نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہم اُس پر اعتماد کرنے کی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو پھر جھانسہ دینے کے لیے بھارتی پالیسی ساز ادارے رابطے قائم کر رہے ہیں، تاکہ انھیں اگلی مرتبہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں۔ اس ضمن میں اگر بھارتی عناصر کامیاب ہوجاتے ہیں، تو یہ بہت نقصان دہ عمل ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارتی جارحیت کے مدمقابل قوتوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں ، انھیں تحفظ دیں، ساتھ چلائیں، ممکن حد تک اتفاق راے کے نکات پر اپنا ساتھی بنائیں اور اگر یہ ساتھ نہیں چلتے تو کم از کم یہ دوبارہ بھارتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ بنیں۔ یہ حکمتِ کار بھی ایک مفید عمل ہوگا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھارت بڑی مکاری سے کوشش کر رہا ہے کہ ایک نئی ’بھارت نواز کشمیری قیادت‘ اُبھارے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ کئی افراد میدان میں لاچکا ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص ایسی کوشش کرے اسے بے نقاب کیا جائے۔ اس کے تعلقات اور پس منظر کو نمایاں کیا جائے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان نئے لوگوں سے بھی رابطہ کاری اور مکالمے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔
کشمیر میں املاک کی خریدوفروخت پر محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا ایک فتویٰ ترجمان القرآن (اپریل ۲۰۲۰ء) میں شائع کیا گیا ہے،اسی طرح مسلم اور عرب دنیا کے علما سے فتوے حاصل کیے جائیں ۔مراد یہ ہے کہ بھارت، کشمیر کے مسلمانوں کی زمینوںکو حاصل کرنےاور اس طرح ان کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے جو کام کررہا ہے اور جس طرح وہ اپنے غاصبانہ قبضے کو ایک قبول عام شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مقابلہ سیاسی اور دینی قیادتوں کو مل کر کرنا ہے۔ اس کے لیے سیاسی میدان میں اوردینی دائرے میںبھی راےعامہ بنانا نہایت اہم کام ہے۔
حکومت پاکستان کو محض تنقید کا نشانہ بنانے کے بجاے، حکومت کو آمادہ ، تیار اور مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فعال، مربوط اور مؤثر کام کرے۔ ان کاموں میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے۔ توجہ دلانے کے لیے ملاقاتوں اور مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور کشمیر کے مسئلے پر پارٹی سیاست کی محدود اور گروہی سطح سے بلندہوکر کام کرنا چاہیے۔
مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک ’عالمی کشمیر ریلیف فنڈ‘ کا قیام بھی نہایت ضروری ہے۔ خاص طور پر کورونا کی وجہ سے اور اس سے قبل دس مہینوں کے ’جبری کشمیری لاک ڈاؤن‘ میں مکمل کاروبار کی بندش کی وجہ سےکشمیر کے تاجروں اور عام شہریوں کا بے پناہ معاشی نقصان ہوا ہے، بلکہ معاشی تباہی ہوئی ہے۔ وہ چاروں طرف سے ۹لاکھ فوجیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں، علاج معالجے کی صورتِ حال حددرجہ ابتر ہے۔ ا ن کی سماجی بحالی اور زندگی و صحت کے لیے عالمی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک میں موجود اہلِ خیر کو اس خدمت کے لیے متوجہ کیا جائے۔ وسائل جمع کرکے ان تک پہنچائے جائیں۔ یہ کام بھی فوری توجہ چاہتا ہے۔
مجھے توقع ہے کہ جس مرحلے میں یہ تحریک داخل ہوئی ہے اس سے ان شاء اللہ قدم آگے بڑھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس کامیابی کو دیکھ سکیں۔
(۷دسمبر۱۹۷۰ء کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں مایوس کن نتائج سامنے آئے تو چند روز بعد سیّدمنورحسن صاحب (کراچی) کو برطانیہ سے ایک طویل خط لکھا، جس کا ایک حصہ پیش ہے۔ ادارہ)
کئی دن سے آپ کو خط لکھنے کے لیے بے چین تھا، مگر وقت نہیں مل رہا تھا، نہ طبیعت پر اتنا قابو تھا کہ دل جمعی کے ساتھ کچھ باتیں کروں۔ رمضان المبارک کے آخری ایام خاصی پریشانی سے گزرے۔ سرکا درد اور تکلیف ۱۰؍۱۲دسمبر تک جاری رہی۔ اسی دوران انتخابی نتائج بھی سامنے آئے۔ دل چاہتا تھا کہ فوراً ہی خط لکھوں، لیکن طبیعت پر کچھ ایسا اثر تھا کہ خیالات کو مجتمع کرنا محال ہوگیا۔ میدانِ جنگ سے دُور بیٹھے انسان کا دل کچھ زیادہ ہی بیٹھنے لگتا ہے۔ کش مکش اور جدوجہد جہاں دل و دماغ کی قوتوں کے سامنے ہرلحظہ نئے مطالبات پیش کرتی ہے ، وہاں ان کو تازہ دم کرنے کے لیے نئے نئے چشموں سے سیراب بھی کرتی ہے۔ کار کی بیٹری کی سی کیفیت ہوتی ہے کہ جہاں گاڑی کے چلنے سے ایک جانب بیٹری صرف ہوتی ہے، وہیں اسی عمل سے چارج بھی ہوتی ہے۔ آدمی جب دُور ہو تو ان دونوں نعمتوں سے محروم ہوتا ہے، لیکن افکار و حوادث کا بوجھ دل و دماغ پر برابر پڑتا ہے اور یہ آزمایش زیادہ جاں گسل معلوم ہوتی ہے۔
شب و روز کی جدوجہد کے نتائج بظاہر پریشان کُن اور افسوس ناک ہیں (واضح رہے کہ یہ نتائج صرف ایک بہت ہی محدود دائرے کے ہیں اور اُخروی نتائج تو بہرحال خیرٌ وابقٰی کے حکم میں آتے ہیں)۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری توقعات ہی کچھ زیادہ ہوں، مگر تمام چیزوں کا الاؤنس دینے کے بعد بھی صورتِ حال تشویش ناک ہے۔
جہاں تک دعوتِ اسلامی کا تعلق ہے، اس کے لیے شکست کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ ہماری دعوت، حق اور سرتاسر حق ہے اور اس کا جھنڈا ان شاء اللہ ہرحال میں بلند رہے گا۔ پریشانی اپنی ذات یا اپنے ساتھیوں کی ذات کے بارے میں نہیں کہ حق سے وابستہ ہوجانے کے بعد پھر بفضلِ الٰہی ناکامی کا کیا سوال؟ ہم نے آزمایش کو کبھی دعوت نہ دی، لیکن راہِ حق میں جو آزمایش اور جو مرحلہ بھی آیا ہے، اس کے بارے میں اپنے ربّ سے صبرواستقامت اور توفیق و استعانت کی دُعا بھی کی ہے اور اُمید بھی رکھی ہے۔ بحمداللہ، اس نے ہرحال میں صرف اپنی مدد سے اپنے کمزور بندوں سے اپنا کام لیا ہے۔
ہاں، پریشانی اگر ہے تو اس قوم کے مستقبل اور ملکِ عزیز کے بارے میں ضرور ہے، جو اللہ سے ایک وعدے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، لیکن آج وہی قوم اپنی نادانی کی وجہ سے اس وعدے سے رُوگردانی کررہی ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر دل اگر ڈرتا ہے تو اس غضب ِ الٰہی سے جو غفلت اور بغاوت کے نتیجے میں حرکت میں آتا ہے، اور اس سے دن رات پناہ مانگنا ہمارا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے ہمارے لیے مہلت کی مدت کو طویل تر کردے اور بالآخر ہمیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے، جن کا عہد کرنے کی توفیق بھی اسی نے مرحمت فرمائی تھی، آمین!
قوم کے ’انتخاب‘ کی تفصیلات پر غور کرتے ہوئے بلاتمثیل میرا ذہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف کی اس دُعا کی طرف منتقل ہوگیا، جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ہے:
اللّٰھُمَّ اِلَیْکَ أَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِیْ ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ ، وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ، اَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِیْ ، أَمْ اِلٰی قَرِیْبٍ مَلَّکْتَہ أَمْرِیْ، اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانًا عَلَیَّ ، فَلَا أُبَالِیْ ، اِنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ ، أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ أَنْ تُنْزِلَ بِیْ غضَبَکَ ، أَوْ تُحِلَّ عَلَیَّ سَخَطَکَ ، لَکَ الْعُتْبٰی حَتَّی تَرْضَی ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث ۱۳۶۰۹)
اے اللہ! میں اپنی طاقت کی ناتوانی، اپنی بے سروسامانی اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے، ایسے دشمن کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے، کیا کسی قریب کو تُو نے میری قسمت کا مالک بنا دیا ہے، اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں۔ تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دل کشا ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیرے نُور کے ساتھ جس سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں، (اور میں پناہ مانگتا ہوں) کہ تیرا غضب میرے اُوپر نازل ہو یا تیری ناراضی مجھ پر اُترے۔ میں تیری رضا طلب کرتا رہوں گا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔ تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس نیکی کرنے کی کوئی طاقت ہے، اور نہ بدی سے بچنے کی قوت۔
بلاشبہہ، ہرحال میں ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے مالک و خالق کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اسی سے خیر اور بلندیِ حق کی دُعا مانگیں۔ہمارا کام قوم سے شکایت کرنا نہیں ہے، اسے سمجھانا ہے بلکہ مسلسل اس کی اصلاح کے لیے جدوجہدکرنا ہے۔ ان شاء اللہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے، جس طرح تار یکی بالآخر چھٹتی ہے اور صبح کی روشنی کے آگے اس کا مقدّر ہے کہ وہ چھٹ جائے۔
اس پوری جدوجہد میں ہماری سرگرمیوں کا ایک نمایاں پہلو اپنے ربّ سے دُعا اور مسلسل دُعا رہا ہے۔ نتائج اوردُعا کے اس تعلق پر جب مَیں غور کرتا ہوں تو دل کو بڑی سکینت حاصل ہوتی ہے۔ امام غزالیؒ نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ’’دُعا کی حیثیت صرف التجا ہی کی نہیں بلکہ ہماری خواہشات اور تمناؤں کے بارے میں ربّ سے مشورے کی بھی ہے‘‘۔ ہم اپنی درخواست اللہ کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ گویا ہم اس سے مشورہ اور استصواب کر رہے ہیں، اور وہ اس کو جس درجے میں قبول فرما لیتا ہے،اس درجے میں گویا ہماری درخواست کو منظوری (approval) مل جاتی ہے۔ جو حصہ ابھی قبول نہیں ہوتا، وہ کسی بلندتر حکمت کی بنا پر ہوتا ہے۔ دُعا کے سہارے کیا جانے والا کام گویا بندے کا کام نہیں بلکہ مالک ہی کا کام ہوجاتا ہے، جس کا فیصلہ بلاشبہہ سب سے بہتر فیصلہ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کے اس حصے کو جسے وہ صحیح و مناسب سمجھتا ہے قبول فرما لیتا ہے اور باقی کو (بعدازاں) اس سے بہتر صورت میں قبول فرما لیتا ہے، دُنیا ہی میں یا آخرت میں۔ لہٰذا، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری پوری جدوجہد کی حیثیت ایک دُعا کی سی تھی اور ہے۔ اس دُعا کا ایک حصہ ہم اپنی زبان سے ادا کر رہے ہیں اور ایک حصہ اپنے عمل سے۔ یہ دُعا مالک کے حضور میں ایک استصواب کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم اس کے ہرفیصلے پر خوش اور مطمئن ہیں۔ ہمارا مطمح نظر اس کی رضا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ وہ بالآخر اپنے کلمے کو ضرور بلند کرے گا۔ ہاں، اگر ہمیں اس سعادت کا کچھ حصہ مل گیا تو ہماری خوش نصیبی ہے۔ اس جدوجہد میں شرکت کی سعادت تو اس کے فضل سے حاصل ہوگی اور آخری لمحے تک حاصل رہے گی اور وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ [البقرہ ۲:۱۳۲، لہٰذا مرتے دم تک تم سب مسلم ہی رہنا] کا ادراک تو ہم سب کو حاصل ہے۔
قرآن کے بارے میں بارہا یہ تجربہ ہوا ہے کہ کسی خاص سورۃ کو باربار پڑھا ہے، مگر ایک خاص کیفیت میں پڑھنے سے اس کاکچھ اور ہی لطف آیا ہے۔ اِس زمانے میں تو سورۃ الصف کو باربار پڑھا ہے۔ اصل مسئلہ وہی اللہ کی حاکمیت کا ہے، جسے: سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ [الحدید ۵۷:۱، اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمان میں ہے] میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اصل بگاڑ وہی لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ [الصف ۶۱:۲، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟] کا ہے اوراس کا حل بھی سنت ِ انبیا ؑ کی وہی حکمت ِعملی ہے، جو جہاد یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللہِ [النساء ۴:۷۶، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں] اور محکم تنظیم صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۴ [الصف ۶۱:۴، صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں] کے اصولوں میں بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل بھی کتنا واضح اور صاف ہے:لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ ۰ۭ [الصف ۶۱:۵، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالاں کہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسولؐ ہوں؟] اور فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ہٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ۷۶ [یونس ۱۰:۷۶،پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انھوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے]۔ گمراہی کا ڈھنگ کتنا ’بین الاقوامی‘ اور زمان و مکان کی حدود کا ناپابند ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ اِفْتَرَیٰ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ ۰ۭ [الصف ۶۱:۷،اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالاں کہ اُسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو؟] لیکن ہمارا یقین ہے اور ربّ کا وعدہ ہے کہ:
نُورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اور ان شاء اللہ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ[التوبہ ۹:۳۳، تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے]کی کیفیت ضرور رُونما ہوگی۔ پس ضرورت ایمان اور صبروعزیمت کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔ نجات اُخروی بھی اسی میں ہے اور ان شاء اللہ غلبۂ دُنیوی بھی۔ وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ۰ۭ [الصف۶۱:۱۳، اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح]۔ یعنی صلح حدیبیہ کو ربِ حقیقی نے فتح قرار دیا تھا۔ گو دل اس پر مغموم تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ حضوؐر نے طوافِ کعبہ کا خواب دیکھا تھا۔ کیا وہ سچا تھا؟ نہیں، رسولؐ کا خواب سچا تھا: لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۰ۚ [الفتح ۴۸:۲۷، فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا] اور وہ پورا ہوا۔ البتہ خواب میں یہ کب تھا کہ اسی سال میں وہ پورا ہوگا۔ ضرورت صبر اور مالک کی حکمت ِ بالغہ پر اعتماد کی ہے اور خود کو مکمل سپردگی کے ساتھ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۰ۚ [اٰل عمرٰن۳:۵۲]کی روش پر سرگرم کرلینا ہے۔اسی میں قافلۂ حق کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔
دل کے ان جذبات و کیفیات کے ساتھ اس امر کی ضرورت بھی پوری طرح محسوس کرتا ہوں کہ حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے کہ ’اُونٹ باندھنے‘ اور ’توکّل‘ کرنے دونوں کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ جہاں یہ صحیح ہے کہ ہماری دعوت حق ہے اور اس میں رائی کے برابر بھی شبہہ نہیں اور یہ سچ ہے کہ ہرفیصلہ مالک کا فیصلہ ہے، اور اس پر دل میں ذرا بھی شک نہیں ہونا چاہیے، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرمہم کے بعد یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اپنے رویے اور جدوجہد میں کیا پہلو ایسے تھے جو خام رہے یا معیارِ مطلوب سے فروتر تھے؟
غزوئہ اُحد پر اللہ تعالیٰ نے جوتبصرہ سورۂ آل عمران میں کیا ہے، اس پر تدبر کرنے سے بڑے اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس میں واقعات کا تجزیہ بھی ہے، کمزوریوں کی نشان دہی بھی ہے۔ ان کمزوریوں کی روشنی میں تمدنی اصلاحات کی ضرورت بھی ہے۔ ان کی تلقین بھی ہے اور پھر ان حکمتوں کی طرف اشارہ بھی ہے، جو دُنیوی جدوجہد کے ان نشیب و فراز میں پوشیدہ ہوتی ہیں اور اعتماد اور بھروسا اور جدوجہد کی تلقین بھی (آیات ۱۲۱ تا ۱۷۵)۔ اس حصے کو نکال کر پڑھیں، رہنمائی کی جارہی ہے کہ اللہ کے بھروسے پر ہرخطرے کا مقابلہ کرو۔ وہ تم کو ضرور کامیاب کرےگا۔ آج بھی ساری دنیا کی اور اس کی تمام طاقتوں کی یہی کیفیت ہے، جو اس وقت تھی:
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ۰ۡ وَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۱۲۰) تمھارا بھلا ہوتا ہے توان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔
اندر اور باہر کھلے دشمن اور آستین کے سانپ، اہلِ دنیا اور اہلِ ’دین‘ سب میں یہ نمونے مل جائیں گے، اور یہ اُحد ہی کی ہزیمت تھی، جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۳۹ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۱۳۹-۱۴۰) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتےرہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں۔
قرآن کا یہ اسلوب ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی حالات کا بے لاگ جائزہ لیں اور آیندہ پیش آنے والے معرکوں کی تیاری کریں۔ ہمارے لیے تو زندگی ایک مسلسل جہاد ہے۔کسی ایک لڑائی میں کامیابی یا ناکامی، دونوں کسی اعتبار سے مختلف نہیں۔ اس لیے ہمارے لیے دونوں آزمایش کا درجہ رکھتی ہیں۔ ناکامی بھی دراصل آزمایش ہے، اور کامیابی بھی آزمایش۔ فرق یہ ہے کہ ہردو میں آزمایش کی شکل (form) مختلف ہے، مگراصل مسئلے کی نوعیت (nature) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
پاکستان اپنے قیام کے ۷۲ سال بعد بھی اندرونی خلفشار اور صف بندی (Polarization) کا شکار ہے۔ یہ صورتِ حال بےحد تشویش ناک اور ملکی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوںکے ساتھ بالخصوص اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بالعموم جو خونیں کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کا ایک چشم کشا پہلو اس احساس کا اُجاگر ہونا ہے کہ پاکستان کے قیام نے پاکستانی مسلمانوں کو کن خطرات اور کس عذاب سے بچالیا اور اپنی زندگی کو آزادی اور عزت کے ساتھ ترقی دینے کے کیسے مواقع فراہم کیے۔ اس احساس کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق اپنی سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی زندگی کی تعمیر کریں اور ملک کے دستور میں جس تصور کو واضح الفاظ میں طے کر دیا گیا ہے، اس کے مطابق ہر ادارہ، ہر قوت اور ہرفرد اپنی ذمہ داری اداکرے، تاکہ عوام اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنے عزائم کے مطابق ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرسکے۔
زمینی حقائق جو تصویر اس وقت پیش کر رہے ہیں، وہ پریشان کن ہے اور فوری طور پر اصلاح کی طالب۔ ہم نے چار فوجی حکومتوں اور ایک درجن سے زیادہ نام نہاد جمہوری حکومتوں کا دور دیکھا ہے جس میں: پارلیمانی، صدارتی، اور فوجی نظامِ حکومت کا تجربہ بھی کرلیا ہے۔ فوج، بیوروکریسی اور عدالتی مداخلت کا مزا بھی بار بار چکھا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ۹برسوں کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پانچ پانچ سال بھی بھگتے ہیں اور ان سے نجات پانے کے لیے تحریک انصاف کی شکل میں تبدیلی کے لیے دروازے بھی کھولے ہیں۔ لیکن ان ۱۶مہینوں کا تجربہ بھی تلخیوں، محرومیوں اور مصائب کے سوا قوم کو کچھ نہیں دے سکا۔ اب عوام میں بے چینی، بے یقینی، اضطراب اور مایوسی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جزوی طور پر چند مثبت پہلوؤں کے باوجود بحیثیت مجموعی عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ اور حکومت نےعوام کو مایوس کیا ہے اور مصائب میں کمی کے بجاے مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ہم پاکستان کے مستقبل کے لیے جہاں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور اور جمہوری نظام کی ہرقیمت پر حفاظت کی جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اپنی منزل کا صحیح صحیح تعین کرے۔ اس کے حصول کے لیے صحیح پالیسیاںپوری تحقیق، مشاورت اور عوام کو اعتماد میں لے کر مرتب اور نافذ کی جائیں۔ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں اپنا کام کرے اور اچھی حکمرانی (good governance) کی اعلیٰ مثال قائم کی جائے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے بُری طرح ناکام رہی ہے اور اگر حالات کی فوری اور مؤثر اصلاح کی کوشش نہیں ہوتی تو پھر واحد راستہ نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔
تمام اختلافات اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کی ساری کمزوریوں کے باوجود، ہم نے کھلے دل سے حکومت کو موقع دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس دوران انجام دیے گئے کاموں اور سارے دعوؤں کا جوحشر ہوا ہے، وہ ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیان ہے۔فکری انتشار، پالیسیوں کافقدان، دعوؤں کی بھرمار، الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ، اقوال واعمال میں تضادات ہرسطح پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے اقدامات کی روز افزونی سے ملک کی آزادی، خودمختاری، معاشی ترقی ، قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اورعوام کی خوش حالی بُری طرح مجروح ہورہی ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ آج بھی ڈی چوک والے کنٹینر سے حکومت چلارہے ہیں۔ جوزبان استعمال کی جارہی ہے، اس نے سیاسی فضا کونہ ختم ہونے والی نفرت سے آلودہ کردیا ہے۔ بلاشبہہ اپوزیشن کارویہ بھی تعمیری نہیں ہے اور اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنےمفادات اور اپنی اپنی قیادت کی بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے اور ان سے توجہ ہٹانے کو اپنی اولین ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ ملک کے مسائل اور حالات کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ اور دوسرے تمام میدانوں میں کوئی کردار اداکرنے کے لیے وہ تیار نہیں دکھائی دیتیں۔ لیکن، خود حکومت بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسائل کے ادراک، افراد کے انتخاب، صحیح پالیسیوں کی تشکیل اور اچھی حکمرانی کے باب میں بُری طرح ناکامی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
خود تحریک انصاف کا نظام بھی اسی طرح چل رہا ہے، جس طرح دوسری بڑی جماعتوں میں قیادت، شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر چلائی جارہی تھی۔نہ مرکز میں کوئی مؤثر ٹیم وجود میں آئی ہے اور نہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں مؤثر انداز سے کام کر رہی ہیں۔ اداروں سے تصادم، میڈیا میں مداخلت اور ساتھ ہی میڈیا سے رابطہ کاری، بزنس کمیونٹی کی سرزنش اور بزنس کمیونٹی سے سمجھوتا ___ ۱۶ماہ سے ایک ہی کہانی دُہرائی جارہی ہے۔ملک میں جہاں عام آدمی کو ہرروز سرکاری اداروں سے سابقہ پڑتا ہے عوام حسب سابق کرپشن، بے توجہی، لاقانونیت، جرائم کی بہتات، روزگار سے محرومی اور روزافزوں مہنگائی کا شکار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ:
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رُکاب میں
اس پس منظر میں ہم تین واقعات کی طرف خصوصیت سے توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ بھی اہم ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ایک آئینہ ہیں جس میں اس وقت معاشرہ، حکومت اور ملک کے اہم ترین اداروں کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
پہلا واقعہ لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ۱۱دسمبر کا وہ اندوہناک تصادم ہے، جو سوسائٹی کے دو اعلیٰ طبقوں کے نمایندوں کے درمیان ہوا۔ وہ طبقے جنھیں انسانیت، تہذیب اور شائستگی کی اعلیٰ ترین مثال ہونا چاہیے،یعنی انسان کی جان بچانے والے ڈاکٹر اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کو یقینی بنانے والے وکلا۔
بلاشبہہ مسئلہ ۱۱دسمبر کو شروع نہیں ہوا۔ دونوں کے درمیان مختلف وجوہ سے کشیدگی ایک ماہ سے موجود تھی۔ ینگ ڈاکٹرز کے اپنے مسائل تھے اور دوسری طرف وکلا کا اپنا غروراور احساسِ برتری۔ ان اہم اداروں میں ٹریڈ یونین کے سے طریقوں کا استعمال پریشان کن ہے۔ ڈاکٹر اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے جو حربے استعمال کرتے ہیں وہ کسی خیر کی خبر نہیں دیتے۔ وکلا جس طرح خصوصاً گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں سے اپنی بالادستی اور زورزبردستی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں، وہ بے حد تشویش ناک ہے۔ پھر جس طرح مختلف حکومتوں نے بشمول موجودہ حکومت، ان طبقات سے اصلاحِ احوال کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی اورہربار فقط لیپاپوتی سے کام چلایا ہے، وہ بھی بگاڑ کو اس مقام تک لانے کا ذمہ دار ہے۔۱۱دسمبر کو جو المیہ رُونما ہوا، اس میں بظاہر زیادہ جارحانہ رویہ وکلا کا تھا۔ جس طرح اعلان کرکے وہ منظم انداز میں سات کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہسپتال پر حملہ آور ہوئے اور پھر جو تباہی مچائی، اس میں چار، پانچ افراد جان کی بازی ہارگئے، کروڑوں کا قیمتی سامان برباد اور نہایت قیمتی میڈیکل مشینری کو تباہ کر دیا گیا، سیکڑوں مریض دربدر ہوگئے۔ پھر جس طرح وکیلوں کی تنظیموں نے (چند معزز وکلا کے استثنا کےساتھ) محض گروہی عصبیت کی بنیاد پر اپنے ہم پیشہ افراد کا ساتھ دیا، وہ اتنا تکلیف دہ ہے کہ پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ تین گھنٹے ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی رہی۔ جو انتظامی اور پولیس افسران ڈیوٹی پر موجود تھے، انھوں نے اپنی ذمہ داری انجام دینے میں غفلت برتی:
حادثہ سے بڑا حادثہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اس الم ناک واقعے کو محض ایک حادثہ سمجھنے کے بجاے جان لینا چاہیے کہ یہ معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور ملک کے تعلیمی نظام کے غیرمؤثر ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ گھر، معاشرہ ،اسکول، میڈیا، حکومت اپنے اپنے میدان میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔ مسئلہ سفید کوٹوں اور کالے کوٹوں کے تصادم کا نہیں، معاشرے کی اقدار کے تہ و بالا ہوجانے کا ہے۔ ایک مہذب معاشرے کے لیے جو کم سے کم اجتماعی آداب ہیں، یہ المیہ ان سے بھی محروم ہوجانے کا پتا دیتا ہے۔ اسلام کا تو اصل ہدف انسان کو ایک بہتر انسان بنانا ہے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ کیجیے، کس طرح ذاتی اخلاق اور اجتماعی معاملات میں خیروصلاح کی بنیاد پر تمام اُمور کو انجام دینے کی بہ تکرار ہدایت کی گئی ہے۔ محض قرابت داروں کے نہیں، ہرانسان کے حقوق کے احترام کو مسلمان کی شان قراردیا گیا ہے۔ گفتگو اور میل جول میں الفاظ اور جملوں کے برتاؤ تک کی ہدایت دی گئی ہے۔ اختلاف میں کن حدود کی پاسداری کرنا ہے، تنازعات کے حل کے لیے کیا راستہ خیر اور صلاح کا بتایا گیا ہے۔ افسوس کہ آج ہم ان سب چیزوں سے محروم ہوگئے ہیں اور ہوتے جارہےہیں۔
بات ہم مدینہ کی ریاست کی کرتے ہیں اور اعمال ہمارے اسوئہ رسولؐ اور مدینہ کے مسلم معاشرے کی ضد ہیں۔ حکومت، میڈیا ، دانش ور اوراہلِ علم، علماے کرام اور دینی جماعتوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اتنا بڑا واقعہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہ ہوگا۔ ایسے معاملات میں سمجھوتاکاری اور لیپاپوتی سمِ قاتل ہیں۔ اگر بُرائی کو بروقت روکنے میں تساہل کیا جائے گا تو وہ بُرائی بڑھتی اور غالب آتی جائے گی۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہی وہ طریقہ ہے، جس سے بُرائی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ بُرائی کو اگر بُرائی سے تبدیل کیا جائے گا تو غالب بُرائی ہی رہے گی ۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب بُرائی یا خرابی کو خیر اورفلاح سے تبدیل کیا جائے اورمعاشرے میں بُرائی کو گوارا نہ کیا جائے اور ظلم و زیادتی کے ذمے داران کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ سزا، تعلیم و تربیت اور معاشرے میں قبول اور رَد___ یہ سب بیک وقت اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کا قیام انصاف اور حق پر مبنی معاشرہ اورریاست قائم کرنے کے لیے تھا، ظلم اور استحصال کے راج کے لیے نہیں۔
دوسرا واقعہ جس کی طرف ہم متوجہ کرنا چاہتے ہیں، وہ جنرل پرویز مشرف پر دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ۶ کی خلاف ورزی کے مقدمے کا فیصلہ ہے، جو ہسپتال کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد آیا ہے اور جس میں خصوصی عدالت کی اکثریتی راے (دو جج فیصلے کے حق میں اور ایک اختلاف میں) کے مطابق وہ دستورشکنی کے جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس کے لیے وہ دستور میں بیان کردہ سزا، یعنی سزاے موت کے مستحق ہیں۔ افسوس ہے کہ اس تاریخی فیصلے میں ایک معزز جج نے سزاے موت کے طریقے کے بارے میں جو راے دی ہے، محض اسے اصل موضوع بنالیاگیا اور فیصلے میں جو نہایت اہم تفصیلات اور نتائج درج ہیں، ان سب کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ہمارا تاثر بھی یہی ہے کہ اگرپیراگراف۶۶ میں وہ ایک جملہ نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ لیکن ملک ہی نہیں عالمی سطح پر گذشتہ سیکڑوں برسوں ہی میں نہیں بیسویں صدی میں بھی اور خود مغربی ممالک میں بھی اس انداز میں سزا دی گئی ہے۔ البتہ ہمارا یہ موضوع نہیں۔ ہماری نگاہ میں اگر وہ جملہ نہ ہوتا تو فیصلے کے حقیقی (substantive ) حصے پر ہی توجہ مرکوز رہتی اور اب بھی اسی پر توجہ رہنی چاہیے۔ واضح رہے کہ وہ جملہ فیصلے کا حصہ نہیں، ایک جج کی راے ہے۔ البتہ عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ’’جنرل مشرف دستورشکنی کے مرتکب ہوئے ہیں اورانھیں اس کی سزا ملنی چاہیے‘‘۔
ہم نے اصل فیصلے کا بغور مطالعہ کیاہے اور اس امر کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور قانونی اور دستوری اعتبار سے بڑا جان دار اور محکم فیصلہ ہے۔ افسوس ہے کہ ایک غیرضروری جملے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اصل فیصلہ مرکز توجہ نہیں رہا بلکہ مخصوص طبقوں کی طرف سے اس پرایسے اعتراضات ہورہے ہیں جن کے جواب فیصلے میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اعتراض کہ ’’جنرل پرویز مشرف کو دفاع کا موقع نہیں ملا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے‘‘۔اور یہ کہ ’’فیصلہ آرمی کے خلاف بحیثیت ایک انسٹی ٹیوشن کے ہے‘‘ اس سے غلط الزام کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس فیصلے میں پوری تفصیل موجود ہے کہ کس طرح چھے سال تک مقدمہ چلا ہے، ۱۰۰ سے زائد مرتبہ پرویز مشرف اور ان کے وکلا عدالت گئے اور انھوں نے محض التوا اور فیصلہ مؤخر کرنے کا کھیل کھیلا۔ اس فیصلے میں ’غداری‘ کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں ہوا۔ جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ وہی ہے، جو خود دستور میں استعمال ہوا ہے یعنی، high treason۔ جنرل صاحب نے ۴۰سال فوج کی خدمت کی، اس پر یہاں بحث نہیں۔ پھر جس طرح فوج میں high treason کے الزام میں کئی اعلیٰ فوجی افسران کو سزا دی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے فوج کے ادارے پر کوئی حرف نہیں آتا،ذمہ داری متعلقہ فرد پر ہی جاتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے۔
جس طرح ایک وزیر، وزیراعظم، صدر، جج، اعلیٰ سول ملازم، سیاسی لیڈر کسی جرم سے صرف اس لیے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ وہ وزیر، جج یا افسر ہے، اسی طرح اگر فوج کے کسی بھی افسرنے خواہ اس کی دوسری خدمات کتنی ہی شان دار کیوں نہ ہوں، اگر اس نے ایک بھی مجرمانہ اقدام کیا ہے تو محض خدمات کی بناپر اسے جرم سے تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف اقدام (اور فیصلہ) ہے فوج کےخلاف نہیں۔ فوج کے نمایندوں نے اس سلسلے میں جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، وہ محل نظر ہے۔
کیا فوجی قیادت ماضی قریب کی اس فضا کو بھول گئی کہ جنرل پرویز مشرف صاحب کے زمانۂ اقتدار میں،خصوصیت سے اسلام آباد کی لال مسجد کے واقعے میں مشرف کے ظالمانہ اقدام کے باعث فوج کی ساکھ، عوام کی نگاہ میں اتنی متاثر ہوگئی تھی کہ وردی میں تنہا سفر کرنے سے انھیں سرکاری طورپر منع کردیا گیا تھا۔ حالاںکہ پاکستانی عوام اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی سے محبت کرتے ہیں اور سپاہی ہو یا افسر اور جرنیل انھیں اپنا محسن سمجھتے ہیں۔پرویز مشرف کے چلے جانے کے بعد فوج نے اپنی ساکھ کوبحال کرانے میں اہم اقدامات کیے۔ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر پرویز مشرف اور اس کے اقدام اور فوج بحیثیت ادارہ میں فرق کیا گیا ہے اور پوری جرأت اور وضاحت سے فیصلے میں اس امر کو ثابت کیا گیا ہے: ’’فوج، دستورکے تابع ہے اور دستور کے طے کردہ اصول کے مطابق سول نظام کے تحت کام کرتی ہے‘‘۔ سول معاملات میں مداخلت یا دستور کا تعطل، تبدیلی، یا کُلی اور جزوی تنسیخ اس کے اختیارات سے باہرہیں اور اس جرم کی سزا دستور نےمقرر کردی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس جرم میں اور کون کون شریک تھا؟ اس بات کو بھی اُچھالا جارہا ہے۔حالاں کہ فیصلے میں اس مسئلے کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ مقدمے کے دائرۂ کار سے باہر تھا۔ البتہ حکومت ان تمام افراد پر جب چاہے مقدمہ قائم کرسکتی ہے اور عدالت نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ لیکن اس کی وجہ سےپرویز مشرف جو اصل اور کلیدی کردار ہیں، ان کو کیسے تحفظ دیا جاسکتا ہے؟ ہمارے نام نہاد دانش ور اس فیصلے پرجتنے بھی اعتراضات اُٹھا رہے ہیں، ان سب کا جواب فیصلے کے اندر تحریری طور پر موجود ہے۔ لیکن فیصلہ پڑھے بغیر یااس کے مندرجات کو نظرانداز کرکے فتوے دینے کی جو رسم ہمارے اینکروں اور تبصرہ نگاروں نے قائم کر دی ہے، وہ افسوس ناک ہے۔
فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔اس میں پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا جو کرداررہا ہے، اس پربھرپور گرفت کی گئی ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ فیصلہ ہماری تاریخ کا بڑا اہم اورروشن فیصلہ ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ پڑھا جانا چاہیے اور اس پر مکمل عمل ہونا چاہیے۔ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ پیراگراف ۶۶ کا وہ حصہ جس پر لے دے کی جارہی ہے، ایک راے ہے،فیصلے کا حصہ نہیں۔ اسے اس حد تک رکھا جائے تو بہتر ہے اور اگر ریویو میں عدالتِ عظمیٰ اسے نکال دے تو بہترہے۔
تیسرا مسئلہ جس پر ہم توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، اس کا تعلق عدالت کے اس فیصلے سے ہے، جس میں فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو قانونی جواز سے عاری قرار دیا گیا ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو موقع دیا گیا ہے کہ چھے مہینے کے اندر اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرلے۔
اس معاملے میں حکومتی نااہلی اور اس کی قانونی ٹیم کے پھوہڑپن اورتساہل کا جو بھانڈا پھوڑا گیا ہے، وہ بڑا چشم کشا ہے۔کابینہ کی کارروائی اور اہم اُمورپر سرکاری دستاویزات جس طرح لکھی جارہی ہیں اور جن الفاظ کا استعمال قانونی تقرریوں میں کیا جارہا ہے، انھیں دیکھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہماری سول سروس کو کیا ہوگیا ہے؟ قانون، ضابطہ، طرزِبیان کے سلسلے میں جو تربیت انھیں دی جاتی تھی، وہ اب کہاں چلی گئی ہے؟ تین سرکاری دستاویزات جو پیش کی گئیں، وہ تینوں غلطیوں سے پُر ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار افراد کا احتساب نہیں کیا جاسکتا؟
پاکستان کے موجودہ حالات کا گہرائی میں جاکر جو بھی جائزہ لے گا، وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک سنگین بحران سے دوچار ہیں اور اس سے نکلنےکا کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ اس کے لیےتمام سیاسی اور دینی قوتوں کے درمیان حقیقت پسندانہ مشاورت اور ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے مناسب اور مؤثر لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان صاحب نے ایک تاریخی موقعے کو بڑی بے دردی سے ضائع کیا ہے۔ جولائی ۲۰۱۸ء کے انتخابات، منصفانہ انتخابات نہیں تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ایک بھی انتخاب دیانت اور انصاف کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخاب کے بارے میں دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ وہ منصفانہ تھا، لیکن جن کی نگاہ زمینی حقائق پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ خاص طور پر مشرقی پاکستان میں انتخابات کو بُری طرح عوامی لیگ کا یرغمال بنا دیا گیا۔ تاہم، جو سیاسی لہریں ملک کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھیں، ان کی بھی عکاسی انتخابی نتائج میں پائی جاتی تھی۔
مختصر الفاظ میں، مختلف شکلوں میں اورمختلف طریقوں سے ہرسطح پر، ملک کے ہر انتخاب پر اثرانداز ہوا گیا ہے اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے نتائج میں بھی یہ چیز موجود تھی۔ لیکن اس کے باوجود ایک دو جماعتوں کو چھوڑکر سب نے ایسے داغ دار نتائج کی بنیاد پر بھی پارلیمنٹ کو مؤثر کرنے اور حکومت سازی کی تائید کی۔ ہماری بھی سوچی سمجھی راے یہ تھی کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو کام کا موقع ملنا چاہیے اور انھیں اپنی پوری مدت ملنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ان قوتوں کا ساتھ نہیں دیا جو انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف اور اس کی قیادت نے اس تاریخی موقعے کوضائع کیا ہے اور پارلیمنٹ کو اہمیت دینے اور اپوزیشن سے تعلقاتِ کار قائم کرکے نظام کو چلانے اور مستحکم کرنے کے بجاے ٹکراؤ،کش مکش اور گہری صف بندی (polarization )کا راستہ اختیار کیا۔ اپوزیشن میں خصوصیت سے مسلم لیگ (ن) کا رویہ بھی منفی رہا ہے اور تصادم کی سیاست کے فروغ میں اسے بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔شروع میں پیپلزپارٹی کا رویہ زیادہ متوازن تھا لیکن اب وہ بھی تصادم کے راستے پرچل پڑی ہے۔
ہماری نگاہ میں اس غلطی کی زیادہ ذمہ داری حکومت اور اس کے نمایندوں پر ہے۔ خود وزیراعظم صاحب اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔انھیں دانش مندی سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ راستہ نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ملک اور جمہوریت کے مفاد میں۔ اس صورتِ حال میں پارلیمنٹ غیرمؤثر ہوتی جارہی ہے ۔ سینیٹ کا اجلاس گذشتہ ۱۲۰ دن سے نہیں ہوا ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آرڈی ننسوں کے ذریعے سے حکومت چلائی جارہی ہے۔ یہ دستورکے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیاں بھی اپنا کردار ادا نہیں کررہیں۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ جو ایک دستوری ادارہ اور وفاق کی علامت ہے اور اسے ہرتین ماہ میں ایک بار لازماً ملنا چاہیے۔ اس کا سال بھر میں صرف ایک اجلاس ہوا ہے اوروہ بھی محض صوبوں کے اصرار پر۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں گذشتہ ۱۶ مہینوں میں سب سے کم قانون سازی ہوئی ہے، جو بہت تشویش ناک ہے۔ بلاشبہہ موجودہ حکومت کے دور میں کابینہ کے اجلاس زیادہ باقاعدگی سے ہورہے ہیں اوراس کے لگ بھگ اجلاس حکومتی ترجمانوں کے بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر ترجمان، ابہام پیدا کرنے اور تصادم کی فضا کو پروان چڑھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔
اس اصول کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ حکومتی کابینہ اسی وقت مؤثر ہوسکتی ہےجب وہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہو۔ ارکان کی پارلیمنٹ میں دل چسپی کا یہ حال ہے کہ جو بھولے بسرے اجلاس ہوئے ہیں، ان میں بھی کوئی اجلاس وقت پر شروع نہیں ہوا۔ ارکان کے سوالوں کے جواب بھی پورے نہیں آسکے، بلکہ کچھ اجلاس تو چند منٹ کے بعد مؤخر کرناپڑے۔ یہ پارلیمنٹ کی بڑی تاریک تصویر ہے جو موجودہ حکومت کےدور میں قوم کےسامنےآرہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن جیسے اہم ادارے کے ارکان جنھیں دستورکے مطابق ۴۵دن کے اندر مقرر ہونا چاہیے تھا، چھے مہینے سے زیادہ گزرنے کے باوجود تاحال (۳۱دسمبر ۲۰۱۹ء تک) مقرر نہیں کیے جاسکے ہیں۔اور اس وقت کوئی چیف الیکشن کمشنر بھی موجود نہیں۔ ۳۰ سے زیادہ اہم سرکاری اداروں کے سربراہ مقرر نہیںکیے جاسکے۔جہاں افسر مقرر کیےجاتے ہیں وہاں باربار تبدیلی کا یہ حال ہے کہ مرکز اورپنجاب دونوں میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری اور پولیس افسران ناقابلِ فہم عجلت میں بدلے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ گورننس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ان حالات میںاگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مناسب ہم آہنگی اور تعلقاتِ کار قائم نہیں ہوتے تو پارلیمنٹ کا چلنا مشکل ہے۔ بلاشبہہ ہماری اولین ترجیح پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے کےلیے تھی، لیکن موجودہ حالات میں اگر حکومت اور اپوزیشن رویہ نہیں بدلتے ہیں تو پھر نئے انتخاب اورنئی پارلیمنٹ کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
ہم پوری ذمہ داری سےعرض کریں گے کہ مسئلہ نئی پارلیمنٹ سے بھی حل نہیں ہوگا، کیوں کہ ہماری سیاسی پارٹیاں، جمہوری پارٹیوں کی طرح کام نہیں کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور غالباً اے این پی کے سو ا کسی جماعت میں باقاعدہ اور مؤثر انتخابات نہیںہوتے۔ تاہم اے این پی میں بھی موروثی سیاست اسی طرح براجمان ہے، جس طرح پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں میں مستحکم ہے۔
پارٹیوں کے پاس کوئی واضح پروگرام اور شفاف پالیسی نہیں ہے۔ جس کا تلخ ترین تجربہ تحریک انصاف کی حکومت میں سامنے آیا ہے کہ ۲۲سال کی جدوجہد اور تبدیلی کے حسین خواب دکھانے کے باوجود، جب حکومت ملی، توان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا۔ میرٹ کی بات بہت ہوتی تھی، مگر ان تقرریوں میں جس چیز کا سب سے زیادہ قتلِ عام ہوا، وہ خود میرٹ ہے۔روایتی سیاسی اثرات پوری طرح کارفرمانظر آئے ہیں۔ آدھی کابینہ جنرل مشرف، زرداری اورنوازشریف کی وزارتوں کے سابق ارکان پر مشتمل ہے یا وزیراعظم کے محض ذاتی دوستوں اور معتمدین پر۔پوری معیشت آئی ایم ایف کے اشاروں پر منحصر کردی گئی اور عالمی مالی اداروں سے متعلقہ افراد کو معیشت کی باگ ڈور سونپ دی گئی۔ حکومت کی مجموعی کارکردگی مایوس کن ہے، لیکن ’سب اچھا ہے‘ ثابت کرنے کے لیے وزیروں اور خصوصی نمایندوں کی بڑی تعدادایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
احتساب کا جو حشر کیا گیا ہے، اس میں جو بدسلیقگی برتی گئی ہے، اس کے بارے جتنا کہا جائے کم ہے۔ عوام کا اعتماد اس پر سے اُٹھتا جارہا ہے۔ وہ حکمران اور سرکاری عمال جو قومی خزانے کو لوٹنے یا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار تھے، ملزم سے مجرم ثابت ہونے کے بجاے مظلوم بنتے جارہے ہیں اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی سودے بازی کی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ نیب کاکرداراحتساب سے زیادہ انتقام کا نظر آنے لگاہے اور اس کی کارکردگی بالکل غیرمؤثر رہی ہے۔ نو نو مہینے حراست میں رکھنے کے باوجود،کوئی مناسب شہادتیں فراہم کرنے میں ناکامی اس کا کھلاثبوت ہے۔دعوےنیب چیئرمین کے بھی بہت بلندبانگ، لیکن عملی اقدام کمزور اور غیرمؤثر۔ احتساب جسے عمران خان صاحب نے اپنے انتخابی نعروں میں سرفہرست رکھا تھا، وہ مذاق بنتا جارہا ہے۔
ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو شدید خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک کے حالات کا گہری نظرسے مطالعہ کریں۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کے تعاون سے مسائل کا صحیح ادراک کریںاور ان کے حل کے لیے مناسب اور مؤثر پالیسیاں تشکیل دیں۔ ان پر عوامی بحث و مباحثہ ہو اور سیاسی قیادت میں ایسے لوگوں کو لایا جائے جو دیانت و امانت کےساتھ صلاحیت اور قابلیت بھی رکھتے ہوں۔ پارلیمنٹ میں سوالات اور پارلیمانی کمیٹیاں وہ ادارے ہیں، جہاں معلومات حاصل کرکے سرکاری پالیسیوں اور ان کے نتائج پر گرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کو متحرک کیا جائے۔
ایک مصیبت یہ ہے کہ جناب محمد خان جونیجو کے دورِ حکومت [۸۸-۱۹۸۵ء] میں پارلیمان کےارکان کو ترقیاتی فنڈ فراہم کرنے کی جس لعنت کا آغاز کیا گیا تھا، اس نے پارلیمنٹ کے فطری اور منصبی کیریکٹر ہی کو تباہ کردیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ کام مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کا ہے اور اوّلین ترجیح لوکل باڈیز کےقیام، اور تمام ترقیاتی فنڈز کو لوکل باڈیز کے ذریعے استعمال کرنے کی ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کا کام نہیں ہے۔ انھیں وہ کام کرنا چاہیے جو دستورنے ان کوسونپا ہے اور اس کے کرنے کی انھیں نہ کوئی فکر ہے اور نہ خواہش۔
تحریک ِ اسلامی کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنی نظریاتی اورتہذیبی شناخت کے مطابق ملک کے مسائل اور عوام کے حالات کو بہتربنانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرے اور ایک ایسا موقف اختیار کرے، جس میں عوام اپنے جذبات کی صداے بازگشت سن سکیں۔ ہمارے پاس الحمدللہ دیانت دار اور اپنےمقصدحیات کی خدمت زندگی بھر کرنے کا جذبہ رکھنے والے کارکن اور لیڈر ہیں ۔اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم عوام تک پہنچیں اوراپنے چار نکاتی پروگرام کی روشنی میں، ہرہرنکتے کےمطابق دعوت اورعوام کو متحرک کرنے کا کام انجام دیں۔ زندگی کے ہرہرشعبے کے سلسلےمیں جو متبادل پالیسیاں ہم لانا چاہتے ہیں، انھیں تفصیل سے پیش کریں۔
معاشی میدان میں جماعت نے ایک مفیددستاویز تیار کی ہے،اسے بڑے پیمانے پرپھیلانے اور اس کی مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر سیمی نار منعقد کیے جانے چاہییں۔ اسی طرح ہرہرشعبے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے منصوبۂ کارکا ایک حصہ جہاں فوری تبدیلیوں کا ہونا چاہیے، وہاں اس میں درمیانی اور طویل المدت تبدیلیوں کابھی خاکہ شامل ہونا چاہیے۔ ملک میں نجی تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں اس حوالے سے جو تحقیقی کام ہورہے ہیں، ضروری ہے جماعت کی قیادت اور کارکن اس کام سےواقف ہوں۔
ہمارے سامنے صرف ایک الیکشن یا کسی ایک حکومت کی بدنظمی سے نبٹنے کا چیلنج نہیں ہے، بلکہ پیش نظر ملک کے نظام میں تبدیلی ہے اوراس کا خاکہ ہمارے منشور میں ہے۔ تاہم، اس کا تفصیلی نقشۂ کار تیارکرنے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اُوپر سے لے کر نیچے تک، ہماری قیادت کی گرفت ان تمام موضوعات پر ہونی چاہیے تاکہ اپنی گفتگوؤں، دعوتی ملاقاتوں، تقریروں اورمضامین میں ان کو پیش کرسکیں۔ عمومی تقاریر کا اپنا رول ہے، لیکن جو تبدیلی ہم لانا چاہتے ہیں اور جو ملک کو مطلوب ہے، اس کے لیے یہ دوسرا کام ازبس ضروری ہے۔ اس میدان میں تحریک ِ انصاف کی ناکامی سے جو خلا پیدا ہواہے، وہ جماعت اسلامی ہی کوپُر کرنا چاہیے۔ اس خلا کو پُر کیے بغیر قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق تعمیرنو ممکن نہیں۔ یہ ہمارے ملک و قوم کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے۔ فکری یکسوئی، منظم اجتماعی جدوجہد، راے عامہ کی تسخیر اور راے عامہ کی قوت سے سیاسی نظام کی تبدیلی کے ذریعے ہی پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنایا جاسکتا ہے۔
علامہ اقبال ایک ہمہ گیر صاحب ِکمال اور غیرمعمولی ذہانت کے حامل جوہرِقابل تھے۔ ایک بڑے چمکتے دمکتے ہیرے کی مانند ان کی شخصیت کے بے شمار پہلو نظر کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کی شاعری کے حُسن کمال اور ہنر کی خوب صورتی سے متاثر ہیں۔ کچھ ان کے علم کی وسعت اور خیالات کی گہرائی سے متاثرہیں، جب کہ کچھ ان کی فلسفیانہ سوچ اور سیاسی زکاوت و فراست سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔لیکن،جب عصری تاریخ کا ایک طالب علم اقبال پر نظر ڈالتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر، علاوہ ازیں ایک تیزفہم اور دُوراندیش سیاست دان اور ایک معززونام ورفلسفی بھی تھے،مگر ان سب سے بڑ ھ کر وہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے بانی تھے۔ درحقیقت اسی میں ان کی حقیقی عظمت پوشیدہ ہے۔
مسلم معاشرہ ایک طویل عرصے سے انحطاط کے دور سے گزر رہا تھا۔ جس انتشار نے ’تحریکِ خلافت‘ کے خاتمے پر جنم لیا تھا،اس نے بتدریج اسلامی تہذیب وثقافت کی بنیادوں کو نگل لیا اور اس پر مصائب و پریشانیوں پر مشتمل مایوسی اور شعوری مدہوشی کی تاریک رات چھا گئی۔ تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ گئیں اور سیاسی قوت مضمحل ہوگئی۔اگرچہ مختلف اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا اور بہت سے اصحاب فکر نے بھی مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے علاوہ مسلم معاشرے میں ایک نئی زندگی کی روح پھونکنے کی کوشش کی مگر انھیں بہت کم کامیابی نصیب ہوئی۔ اس صورت حال کا انتہائی المیہ یہ تھا کہ اب اسلام ایک سیاسی وتہذیبی متحرک قوت نہیں رہا تھا۔اب اسلام،محض چند مذہبی رسوم ورواج کا ملغوبہ بن کر رہ گیا تھا، اور المیہ تو یہ تھا کہ اس کے پیروکار بھی اسے تہذیب وتمدن کی نشوونما کے عنصر کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال تھی۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ جب انگریزوں نے ہندستان پر قبضہ کر لیا تو انھوں نے نہایت ہوشیاری سے اس خطے پر مغربی تہذیب وتمدن مسلط کر دیا اور یوں بے شمار مسائل پیدا ہوتے چلے گئے۔ مغرب کی سیاسی ومعاشی برتری اور نظام تعلیم نے ہندستان کے مسلمانوں میں غلامانہ ذہنیت پیدا کر دی۔ وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ان کے سیاسی اعتماد کی آخری نشانیاں بھی مٹ گئیں اوران کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا۔
نئی بیداری کی علامات اس وقت افق پر نمودار ہوئیں جب کامریڈ،الہلال اورزمیندار نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت اور مدہوشی سے جگایا اوران میں حرکت کرنے اور اپنا فرض ادا کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔تحریکِ خلافت ایک عظیم نعمت ثابت ہوئی۔اس نے مسلمانانِ ہند کے جذبات کو مہمیز بخشی او ران کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سیاسی جدوجہد اور تہذیبی انقلاب کے دور میں داخل ہوجائیں۔لیکن یہ نئی بیداری کسی بھی مناسب عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں سے محروم تھی۔یہ اقبال ہی تھے جنھوں نے یہ بنیادیں مہیا کیں۔وہ ہندستان میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے ہدی خواں تھے۔
اقبال واضح نظریے کے حامل اور تحقیقی ذہن کے مالک تھے۔انھوں نے مسلم معاشرے کے حالات کا مطالعہ کیا اور ان کمزوریوں وامراض کا ادراک کیا جو مسلم معاشرے میں سرایت کر چکے تھے۔ وہ انتہائی واضح طور پرمغربی تہذیب وثقافت کے دُور رس اثرات کوسمجھ چکے تھے اور انھوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا۔انھیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کے نقطۂ نظر میں انقلابی تبدیلی،وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگرانھوں نے اپنے دور کے عظیم چیلنج کو نظرانداز کیا، تو وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے اور تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے۔
اس ضمن میں اقبال کی تشخیص یہ تھی کہ تہذیبی وثقافتی انحطاط کے ایک طویل عرصے کے علاوہ جدید مغرب کے اثرونفوذنے مسلم معاشرے کی چولیں ہلا دی ہیں۔مسلمان اس لیے زوال پذیر ہوئے کیونکہ انھوں نے اسلام کو ترک کر دیا اور انھوں نے اتباع اور عدم فعالیت کی آسان زندگی اپنالی۔ مغرب کے زیرِ اثر رہتے ہوئے اپنی اقدار پر ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا اور وہ مغربی طرزِ زندگی اپنانے لگے۔مزیدبرآں ان میں احساسِ کمتری پیدا ہوگیا، جب کہ سماجی زندگی اور مذہبی اقدار کے درمیان کدورت پیدا ہو گئی۔غیراسلامی تصوف نے فعالیت کے پَر مزید کاٹ دیے اور مسلمانوں کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔یہ حالات کا درست ادراک اور تشخیص تھی اور اقبال نے مسلمانوں کو انحطاط کی دلدل سے نکالنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاںصرف کر دیں۔
سب سے پہلے اقبال نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ مغرب کے متعلق اپنے اندازفکر پر نظرثانی کریں۔انھوں نے کہا کہ یورپ میں سب اچھا نہیں۔انھوں نے مغربی تہذیب وثقافت کے بنیادی اصولوں کا تنقیدی جائزہ لیا اور ان کی گمراہ کن نوعیت کو بے نقاب کیا۔انھوں نے ان لوگوں پر تنقید کی جو اندھادھندمغربی تہذیب وثقافت کی تقلید کررہے تھے۔ اقبال نے انھیں کہاکہ وہ اس ضمن میں استدلال اور ادراک سے کام لیں۔اپنے انگریزی خطبات میں انھوں نے کہا: ’’ہمارے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ جدید علم کے متعلق قابل احترام لیکن آزادانہ طرزعمل اپنائیں‘‘۔
انھوںنے اس خوف کا اظہار کیا:’’ یورپی تہذیب وتمدن کا خیرہ کن ظاہر ہمارے وقت کو اپنے حصار میں لے سکتا ہے‘‘۔انھوں نے مغرب کے مادی تہذیب وتمدن کے تباہ کن اثرات اور الحادوبے دینی کے خطرات سے خبردار کیا۔وہ اپنی نظمـ’پس چہ بایدکرداے اقوامِ شرق‘ میں کہتے ہیں:
آدمیت زار نالید از فرنگ
زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق؟
باز روشن می شود ایامِ شرق
در ضمیرش انقلاب آمد پدید
شب گذشت و آفتاب آمد پدید
یورپ از شمشیرِ خود بسمل فتاد
زیر گردوں رسم لادینی نہاد
گر گے اندر پوستینِ برئہ
ہرزماں اندر کمینِ برئہ
مشکلاتِ حضرتِ انساں ازو است
آدمیت را غمِ پنہاں ازوست
درنگاہش آدمی آب و گل است
کاروانِ زندگی بے منزل است
[نوعِ انسانی فرنگیوں کے ہاتھوں سخت فریاد کر رہی ہے۔ زندگی نے اہلِ فرنگ سے کئی ہنگامے پائے ہیں۔ تو اے اقوامِ شرق اب کیا ہونا چاہیے؟ تاکہ مشرق کے ایام پھر سے روشن ہوجائیں۔ مشرق کے ضمیر میں انقلاب ظاہر ہورہا ہے۔ رات گزر گئی اور آفتاب طلوع ہوا۔ یورپ اپنی تلوار سے خود ہی گھائل ہوچکا ہے۔ اس نے دنیا میں رسمِ لادینی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس کی حالت اس بھیڑیے کی سی ہے جس نے بکری کے بچّے کی کھال اوڑھ رکھی ہے۔ وہ ہرلمحہ ایک نئے برہ کی گھات میں ہے۔ نوعِ انسانی کی ساری مشکلات اس کی وجہ سے ہیں۔ اسی کی وجہ سے انسانیت غم پنہاں میں مبتلا ہے۔ اس کی نگاہ میں آدمی محض پانی و مٹی کا مجموعہ ہے اور زندگی بے مقصد ہے]۔
اقبال نے بہت ہی خوب صورتی سے یہ اعلان کیا کہ محض مذہب ہی انسانیت کو سماجی انتشار اور عقلی اُلجھن کے موجودہ ہنگامے سے نجات دلا سکتا ہے۔انھوں نے کہا:اور محض مذہب ہی اخلاقی طور پر دورِحاضر کے انسان کو اس عظیم ذمہ داری کے بوجھ کے لیے تیار کرسکتا ہے جو سائنس کی ترقی کے باعث لازمی طور پر اس کے سپرد کی گئی ہے۔ دین کے اصول و ضوابط اسے یہاںاپنی شخصیت کی تشکیل اور آخرت میں اسے برقرار رکھنے کی اہلیت عطا کرتے ہیں۔ یوں بالآخر وہ ایک ایسی تہذیب و ثقافت پر فتح حاصل کر لے گا،جو اپنی مذہبی اور سیاسی اقدار کے اندرونی اختلاف کے باعث اپنی روحانی یک جہتی کھو چکی ہے۔
مغرب کی روحانی کمزوریوں، مادیت اور سیکولرزم کے کھوکھلے پن کی نشان دہی کرتے ہوئے انھوں نے واضح کیا کہ مغرب کی ترقی کی بنیاد علم و ہنر ہے، نہ کہ بعض سطحی عناصر___ وہ کہتے ہیں:
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے زر قصِ دخترانِ بے حجاب
نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست
نے ز عریاں ساق و نے اَز قطعِ موست
محکمی اورانہ از لادینی است
نے فروغش از خطِ لاطینی است
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع و بریدِ جامعہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمّامہ نیست
[مغرب کی قوت چنگ و رباب سے نہیں۔نہ یہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔ نہ یہ سرخ چہرہ، محبوبوں کے جادو کی وجہ سے اور نہ یہ ان کی عورتوں کی ننگی پنڈلیوں اور بال کٹانے سے ہے۔ نہ اس کا استحکام لادینی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی ترقی رومن رسم الخط کے باعث ہے۔ افرنگ کی قوت ان کے علم اور فن کے سبب سے ہے۔ ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔ ان کی حکمت لباس کی قطع و برید کے سبب سے نہیں۔ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا]۔
یوں اقبال نے عصری نظریاتی منظر نامے کا جائزہ لیا اور مغربی تہذیب وتمدن کی حقیقی کامیابیوں اور اصلی احساسات کو پیش کیا، تاکہ ان کی اندھادھندتقلید کی روک تھام کی جا سکے لیکن انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا۔بلکہ انھوں نے فیصلہ کن انداز میں ان امور میں مغرب کو اسلام کا مقروض دکھایا، جو اس کے عروج اور ترقی کا باعث ہوئے اور پھر انھوں نے مسلمانوں میں ان کی اپنی اقدار پرایک نیااعتماد پیدا کیا۔انھوں نے کہا:
حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست
اصلِ او جز لذتِ ایجاد نیست
نیک اگر بینی مسلماں زادہ است
ایں گہرا ز دستِ ما افتادہ است
چوں عرب اندر اروپا پرکشاد
علم و حکمت را بنا دیگر نہاد
دانہ آں صحرا نشیناں کاشتند
حاصلش افرنگیاں برداشتند
ایں پری از شیشۂ اسلافِ ماست
بازصیدش کن کہ او از قافِ ماست
[اشیا کی ماہیت جاننے کا آغازفرنگیوں سے نہیں ہوا۔ اس کی بنیاد صرف نئی دریافت کی لذت ہے۔ اگر تو غور سے دیکھے، تو یہ چیز مسلمانوں کی پید ا کردہ ہے۔ یہ وہ موتی ہے جو ہمارے ہاتھ سے گرا۔ جب عربوں نے یورپ کے اندر کشورکشائی کی، تو انھوں نے وہاں نئے انداز سے علم و حکمت کی بنیاد رکھی۔ دانہ ان صحرا نشینوں نے بویا، اور فصل کا حاصل افرنگیوں نے اکٹھا کیا۔ اس پری کا تعلق ہمارے آبا و اجداد کے شیشے سے ہے، تُو اسے دوبارہ شکار کر کیونکہ یہ ہمارے کوہِ قاف کی پری ہے]۔
اقبال نے اسلامی فکر کی ازسرنوتشکیل کی ضرورت کا ادراک کر لیا تھا۔انھیںعلم تھا کہ مذہب پر جدید حملے کا مقابلہ صرف اور صرف نئے ہتھیار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔مخالف کا مقابلہ اس کے اپنے میدان میں ہی کرنا ہو گا۔انھوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام ایک متحرک اور انقلابی تحریک ہے لیکن صدیوں کے انجماد نے اس کے مذہبی افکار پر گرد کی کچھ تہیںچڑھا دی ہیں۔ انھوں نے گرد کی اس تہہ کو صاف کرنے کے لیے پیش قدمی کی اور ہیرے کو صاف کیا تاکہ وہ ایک دفعہ پھر اس دنیا کو روشنی مہیا کرسکے جو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاںمار رہی تھی۔
’اسلام میں مذہبی فکر کی ازسرنوتشکیل‘ کے موضوع پر ان کے انگریزی خطبات اس ضرورت کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ان کی تشریح سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے انقلابی پیغام کے زبردست اثر کوتسلیم کرنا چاہیے جو انھوں نے ہندستان کے مسلمانوں پر مرتب کیا۔
لیکن اقبال کے ذہن میںاس سے بھی کہیں ایک بڑا مشن موجزن تھا۔وہ محض فلسفی ہی نہیں تھے جو اسلا م کے نظریے کی سادہ عقلی وعلمی تشریح پر ہی اکتفا کر لیتے۔وہ تو یہ چاہتے تھے کہ وہ قوم کے ہراس طبقے کو حرکت دیں اور بیدار کریں جو خوابِ غفلت میں مدہوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اُمت کے مستقبل کو سنوارنے کی خاطر مسلم معاشرے کا ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے۔ اپنی دومثنویوں ’اسرارِخودی‘ اور ’رموزِ بے خودی‘ میں انھوں نے انفرادی اور سماجی ترقی کے عناصر کا ایک خاکہ پیش کیا۔اقبال نے ملت کے زوال کی وجوہ پر گفتگو کی اور ان بدیسی اثرات پر روشنی ڈالی جنھوں نے ملت کے سیاسی پیکر کومنتشر کر دیا۔اقبال نے مسلمانوں سے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیغام کی طرف واپس لوٹ آئیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلام کے بنیادی عقائد،توحید،رسالت، آخرت اور جہاد ہیں۔توحید اسلامی معاشرے کے تمام ارکان کو فکری اتحاد اور عمل کرنے کی یک جہتی کی بنیاد مہیا کرتی ہے۔دنیا میں یہ انتہائی عظیم قوت ہے:
درجہانِ کیف و کم گردید عقل
پے بہ منزل بُرد از توحید عقل
ورنہ ایں بیچارہ را منزل کجاست
کشتیٔ ادراک را ساحل کجاست
اہلِ حق را رمزِ توحید ازبر است
در اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا مضمراست
تا ز اسرارِ تو بنماید ترا
امتحانش از عمل باید ترا
دیں ازو، حکمت ازو، آئیں ازو
زور ازو، قوت ازو ، تمکیں ازو
عالماں را جلوہ اش حیرت دہد
عاشقاں را بر عمل قدرت دہد
پست اندر سایہ اش گردد بلند
خاک چوں اکسیر گردد ارجمند
[جذبات و پیمایش کی اس دنیا میں عقل آوارہ پھر رہی تھی۔ توحید سے اسے منزل کی طرف رہنمائی حاصل ہوئی، ورنہ عقل کو منزل کہاں نصیب تھی۔ فہم کی کشتی کے لیے کوئی ساحل نہیں تھا۔ اہلِ حق توحید کی رمز کو خوب جانتے ہیں۔ یہی راز سورئہ مریم کی آیت ۹۳ میں مضمر ہے۔ تیرے عقیدۂ توحید کا امتحان عمل سے ہونا چاہیے تاکہ وہ تجھ پر تیری مخفی صلاحیتیں ظاہر کرے۔ دین، حکمت، شریعت، سب توحید ہی سے ہیں۔ اسی سے (افراد و اقوام) میں زور، قوت اور ثبات و استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جلوہ عالموں کو حیرت میں مبتلا کردیتا ہے اور عاشقوں کو عمل کی قدرت عطا کرتا ہے۔ اس کے سایے میں پست بلند ہوجاتے ہیں اور خاک اکسیر کی مانند قیمتی بن جاتی ہے]۔
انھوںنے اسلام کے بنیادی تصورات کا مفصل ادراک کیا اور دین کی مخفی قوتوں کو واضح کردیا۔ان کی شاعری نے قوم کو زندگی کا ایک نیا پیغام دیا جو کافی عرصے سے نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
اقبال کی شاعری اور افکار نے مسلمانانِ ہند کو بیدار کر دیا اور دنیا کی ازسرنوتشکیل کے لیے ان کے خاطرخواہ کردا رادا کرنے کے ضمن میں ان میں حوصلہ پیدا کیا۔قوم کو ایک نئے جذبے سے سرفراز کرنے کے بعد،انھوںنے [خطبہ الٰہ آباد کے ذریعے ہندستان کے شمال مغربی خطے میں ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا تاکہ مسلمان اپنی توانائیاں] اسلام کے لیے ایک وطن حاصل کرنے کی جدوجہد میں صرف کریں۔ یہ حصولِ پاکستان کاتصور تھا۔
اقبال نے مسلمانانِ ہند میں ملّی تشخص کو زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے بہت محنت کی کہ مسلمان ایک قوم اور ایک نظریاتی برادری ہیں، اور یہ ان کے دین کی ہدایت ہے کہ وہ قرآن اور سنت کے فراہم کردہ اصولوں کی روشنی میں ایک ریاست،معاشرہ اور تہذیب و ثقافت قائم کریں۔ انھوں نے مسلمانانِ ہند کے سیاسی مسائل کے لیے متین فکر مہیا کی اور برسوں کے غوروفکر کے بعد ۱۹۳۰ء میں آل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں نظریۂ پاکستان پیش کیا جس میں انھوں نے کہا:’’اس ملک میں ایک تہذیبی وثقافتی قوت کی حیثیت سے اسلام کی زندگی کا زیادہ تر انحصار ایک مخصوص علاقے کی مرکزیت پر ہے۔مسلم ہندستان کے اکثریتی مسلم علاقے کی مرکزیت بالآخر ہندستان کے علاوہ ایشیاکے مسائل بھی حل کر دے گی۔یہ ضروری تھا کیونکہ مسلم ہندستان اپنی تہذیب وثقافت اور روایت کے مطابق ایک بھرپور اور آزاد ترقی کا حق دار ہو سکے‘‘۔
اپنی وفات سے ایک سال پہلے۱۹۳۷ء میں قائداعظم کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا:
مسلم صوبوں کا ایک الگ وفاق ہی، واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم پُرامن ہندستان کو محفوظ رکھ سکتے اور مسلمانوں کو غیرمسلموں کے غلبے سے بچا سکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ شمال مغربی ہندستان اور بنگال کے مسلمانوں کو ایک ایسی قوم نہ تصور کیا جائے جو عین اسی طرح حقِ خوداختیاری کی حق دار ہو جس طرح ہندستان اور بیرون ہندستان کی دیگر اقوام حقِ خوداختیاری کی حق دار ہیں۔
یہ مستقبل کا پیش خیمہ تھا۔قوم نے اقبال کی فراہم کردہ رہنمائی پر عمل کیا اور ایک عظیم کوشش اور قربانی کے بعد پاکستان ایک حقیقت بن گیا اور مسلم نشاتِ ثانیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اقبال کا پیغام،عمل کا پیغام ہے۔وہ برعظیم پاک وہند میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانی تھے اور یہی ان کی حقیقی اہمیت ہے۔ہم نے انتہائی مختصر طور پر اس عظیم الشان کارنامے کا احاطہ کیا جو انھوں نے انجام دیا،یہاں ہم ان کے کام کی چند جھلکیاںہی پیش کرسکے ہیں۔ ان کے کام کو تو مفصل طریقے سے بیان کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس مقالے کا اختتام اس عظیم انقلابی کے ان غیرفانی الفاظ پر کرتے ہیں جس نے قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار اور ایک بلندوبالا مقصد کے حصول کے لیے راہِ عمل پر گامزن کیا:’’قوت کے بغیر فکراور سوچ اخلاقی رفعت تو مہیا کر سکتی ہے لیکن ایک پائیدار کلچر فراہم نہیں کر سکتی۔سوچ وفکرکے بغیر قوت ایک تباہ کن اور غیرانسانی نوعیت اختیار کرلیتی ہے، لیکن انسانیت کی روحانی وسعت کی خاطر ان دونوں کو لازماً اکٹھا کر لینا چاہیے‘‘۔
سچائی کے معیارات کے علَم بردار اپنی بقا مضبوطی ہی کے ذریعے برقرار رکھ سکتے ہیں:
اہلِ حق را زندگی از قوت است
قوتِ ہر ملّت از جمعیت است
راے بے قوت ہمہ مکر و فسوں
قوتِ بے رائے جہل است و جنوں
[اہلِ حق کی زندگی کا دارومدار قوت پر ہے اور ہر ملّت کی قوت اس کی جمعیت پر موقوف ہے۔ ایسی راے جسے منوانے کی قوت نہ ہو، محض مکروفسوں ہے]۔
(انگریزی سے اُردو ترجمہ: ریاض محمود انجم)
مسئلہ کشمیر کسی ’زمینی تنازع‘ کا نام نہیں اور نہ یہ دوملکوں کے درمیان جوع الارض کی کسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جن کی ریاست کے بڑے حصے پر ایک سامراجی ملک بھارت نے محض طاقت کے بل پر، فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرکے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سبوتاژ کیا ہے۔ وہ قوت کے ذریعے آج بھی نہ صرف اس پر قابض ہے بلکہ اس نے اپنے دستور کی دو دفعات (۳۵-الف، اور دفعہ ۳۷۰) کو تبدیل کرنے کے لیے، ترمیمی ضابطے کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور سیاسی عہدوپیمان کا خون کرکے ضم کرنے کا خطرناک کھیل کھیلا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر، بدترین کرفیو اور شہری و کاروباری زندگی کی مکمل معطلی سے دوچار کیا جاچکا ہے۔ پوری ریاست کے مظلوم، نہتے اور بے نوا شہری ۹لاکھ بھارتی مسلح فوجیوں کی سنگینوں تلے ایک ہولناک اجتماعی جیل خانے (Collective Prison) کی چکّی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ لیکن آفرین ہے کہ ان کی تحریک مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد نہ صرف جاری ہے بلکہ وہ ایک فیصلہ کن موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یہ غاصب ملک خود اپنے وعدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو یکسر نظرانداز کرکے فسطائی اور سامراجی فلسفے کی بالادستی قائم کرنے پر بضد ہے۔ اقوام متحدہ بہ حیثیت ادارہ بدستور بزدلانہ لاتعلقی اور مجرمانہ روش پر قائم ہے اور لفظی لیپاپوتی سے زیادہ ایک قدم آگے بڑھنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے مبصروں کی موجودگی اور مسئلے کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود رہنے کے باوجود، ۷۲برسوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششوں سے دست کش ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں قصۂ پارینہ ہیں اور اس عالمی تنظیم کو اپنے چارٹر کے تحت قیامِ امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض نہیں۔ اب لے دے کے دوطرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں، اور ان کا بھارت کی طرف سے وہی ایک جواب ہوگا کہ ’’پہلے فضا سازگار ہو‘‘۔یعنی وہ فضا کہ جو خود بھارت کی سفاکی نے خراب کی ہے۔
بھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں، صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہوگی، جو ۳۰ سالہ تحریک ِ جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج اور ایک حد تک سوچنے سمجھنے والے سیاسی عناصر کسی راہِ نجات کی تلاش میں ہیں۔ بھارتی قیادت پوری عیاری کے ساتھ اصل اسباب کی طرف رجوع کرنے کے بجاے ’دہشت گردی‘، ’انتہاپسندی‘ کا راگ الاپ رہی ہے، اور امریکا اور بہت سے مغربی سیاست کار بھی اسی آواز میں آواز ملاتے نظر آرہے ہیں۔ یہ سب نہ نیا ہے اور نہ غیرمتوقع، البتہ سب سے تشویش ناک پہلو پاکستان کے کچھ رہنمائوں کے متعدد متضاد بیانات اور صحافت کے کچھ قلم کاروں کی مغالطہ انگیز خلافِ جہاد مہم ہے، جس کا بروقت نوٹس لینا بہت ضروری ہے۔
امریکا، بھارت، اسرائیل اور ان کے حواریوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے ’دہشت گردی‘ اور ’تشدد‘ کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ خود پاکستان کی انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بناکر پیش کیا جاتا ہے، اور دفاع پر اخراجات کو غربت اور پس ماندگی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔کبھی دینی مدارس پر پابندیوں کی باتیں کی جاتی ہیں، کبھی ان کو دہشت گردی کے مراکز بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں امریکی سیاسی اور فوجی قیادتوں کی مداخلت بلکہ مداخلت کرنے کی دعوت اور دبے اور کھلے الفاظ میں کشمیر کے مسئلے کے جلد حل ہوجانے کی ہوائیاں اپنے اندر خطرات رکھتی ہیں۔ اس کھیل میں شامل سابق فوجی افسران ہوں یا سفارت کار، سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانانِ جموں و کشمیر، قائداعظم سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں اور جس کے لیے انھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور تنگی اور غربت کے باوجود ایک عظیم الشان فوج کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں اور ملک کو ایک ایٹمی قوت بنایا ہے، وہ اس بارے میں کسی انحراف یا پسپائی یا سمجھوتے کا تصور بھی کرے۔ یہ قوم غریب ہے اور بٹی ہوئی بھی، لیکن جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے یہ اس کے لیے ایمان و اعتقاد اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ زمانے اور وقت کی قید کا بھی پابند نہیں۔ اس جدوجہد کے بارآور ہونے میں جتنی مدت بھی لگے، لیکن مسلمانانِ پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حقِ خود ارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کرسکتے۔
اسی طرح یہ کسی خاص جماعت، گروہ یا طبقے کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں قوم، قومی سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ امریکا کو الگ سے اس عمل میں ملوث کرنے کے طرف دار چند طالع آزمائوں کے سوا کوئی پاکستانی اس بارے میں کسی سمجھوتے کو برداشت نہیں کرے گا۔ ماضی میں بھی، جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے، اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔
خود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ میں یہ بات واضح طور پر تحریر ہے: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات، مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے‘‘۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارے قومی دستور کی رُو سے بھی استصواب راے ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ اور انتظام و انصرام کا دروبست قائم ہوگا۔ اس موقف میں کوئی تبدیلی یا اس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں کیوں کہ یہ حق و انصاف پر مبنی اور عالمی قانون اور عہدوپیمان کے مطابق ہے۔ محض غاصبانہ قبضہ، خواہ وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، اہل جموں و کشمیر کے اس استحقاق کو متاثر نہیں کرسکتا اور پاکستان کے اس موقف کو کمزور یا غیرمتعلق نہیں بناسکتا۔ دستور کی یہ دفعہ اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے کا اختیار، صرف وہاں کے عوام کو حاصل ہے۔ اس طرح کشمیر کے تنازعے کے بنیادی فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام ہیں۔ یہی وہ پوزیشن ہے جسے اقوام متحدہ کی ۱۸ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔
بلاشبہہ پاکستان سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے دلائل اور اس کی تاریخی بنیادیں بھی بڑی محکم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے دونوں کا ملحق ہونا ہی نہیں، سارا فطری اور تہذیبی نظام مشترک ہے۔ دریائوں کے رُخ اور سڑکوں کے تسلسل، رنگ و نسل کی یکسانی، طریق بودوباش کی وحدت، دین و ثقافت، رسوم و رواج، تہذیبی روایات، تاریخی جدوجہد، سیاسی ہم آہنگی، سب نے کشمیر اور پاکستان کو ایک ناقابلِ تقسیم وحدت بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ رکھیں گے۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی شانہ بشانہ شریک تھے اور اصول تقسیم کی رُو سے ۱۷جولائی ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی اسمبلی کے منتخب ارکان کی اکثریت نے الحاق پاکستان کا اعلان تک کر دیا تھا اور پونچھ اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوں نے باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر اپنے کو ڈوگرہ راج سے آزاد اور پاکستان سے وابستہ کیا تھا۔
ہم صرف ان حقائق کی بنیاد پر یہ بات نہیں کر رہے بلکہ اس اصول کو بنیاد بنارہے ہیں جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے، جس کی بنیاد پر خود امریکا کے لوگوں نے برطانیہ کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلح جنگ کے ذریعے اپنے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے حقِ خود ارادی کے اصول کا اعلان، ’فلاڈلفیا کے اعلامیے‘ کی شکل میں کیا تھا۔ اس پر ریاست ہاے متحدہ امریکا کی بنیاد پڑی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا کی قوموں کے لیے اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی اصول پربرعظیم کی تقسیم واقع ہوئی اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔
کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بھی خود یا کسی بیرونی دبائو سے ان کے مستقبل کو طے نہیں کرسکیں گی۔ ان کی اور عالمی ادارے کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی انتظام میں غیرجانب دارانہ استصواب کے ذریعے ان کو حقِ خود ارادیت کے استعمال کا موقع فراہم کردیں۔ اسی حق کی خاطر وہاں کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سیاسی اور پُرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت کو اور عالمی راے عامہ کو اسے ایک زندہ انسانی مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ محض امن ، غربت سے نجات، ایٹمی جنگ کے خطرات سے بچائو اور عالمی کمیونٹی کی خواہشات کے نام پر کسی کنٹرول لائن کو (جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں) مستقل سرحد میں بدلنے یا تقسیم ریاست کے کسی منصوبے کو جموں و کشمیر کے عوام پر مسلط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں، اسے مزید بگاڑنے اور دائمی فساد کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہوگا۔ آزادی کی قوتوں کو خاموش یا کمزور کرنے کی ہرکوشش خدا اور خلق دونوں سے غداری کے مترادف ہے۔
اس لیے مغربی یا بڑی طاقتوں کے دبائو پر کوئی مذاکرات اس وقت تک بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکیں گے، جب تک:
۱- بھارت صاف الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے وعدوں کے مطابق کریں گے۔
۲- مذاکرات کا اصل مقصد ان کی راے کو معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج کے حالات کے مطابق عمل درآمد اور اس کے لیے مناسب انتظام اور اقدامات ہوگا۔
۳- استصواب کے لیے ایک ہی قانونی، سیاسی اور اخلاقی فریم ورک ہے اور وہ اقوام متحدہ کی ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء، ۵جنوری ۱۹۵۱ء اور ۲۴جنوری ۱۹۵۷ء کی قراردادیں ہیں۔ البتہ پاکستان، بھارت اور جموں و کشمیر کے عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل حقِ خودارادیت کے استعمال کے لیے طے کریں اور جو فیصلہ بھی وہاں کے عوام کریں اسے کھلے دل سے قبول کریں۔
پاکستان کی کسی قیادت، اور کسی عالمی رہنما کو ان تاریخی حقائق اور حق و انصاف پر مبنی اس موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے اور جموں و کشمیر کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ جس نے بھی اس کے برعکس کوئی راستہ اختیار کیا، یا کرے گا، اسے بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور وہ حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے کا نہیں مزید بگاڑنے کا باعث ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے جو کسی کی خواہش یا سازش سے بدلا نہیں جاسکتا۔
ماضی میں اقوام متحدہ کے ایک سیکرٹری جنرل کوفی عنان صاحب نے کہا تھا: ’’کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ اس لیے اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں، تب ہی اقوام متحدہ کچھ کرسکتی ہے ورنہ وہ صرف دوطرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کرسکتی ہے‘‘۔اور آج کے امریکی صدر ٹرمپ ہوں یا اقوام متحدہ کے موجودہ ذمہ دار، سبھی ’مذاکرات کی بحالی‘ پر زور دے رہے ہیں، حالاں کہ اصل مسئلہ، جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کا اور مقبوضہ کشمیر میں جبر اور ظلم کے راج اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی ایسی پامالی ہے، جو اَب نسل کشی (Genocide) اور آبادی کی نوعیت (demographic composition) ہی کو تبدیل کرنے کی طرف جارہی ہے۔ ’اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے‘ کی تازہ ترین رپورٹیں، اور ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کی متعدد رپورٹیں اس کا کھلا ثبوت ہیں، جب کہ ’ورلڈ جینوسایڈواچ‘ (WGW) نے تو ان مظلوم کشمیریوں کی اجتماعی قبروں کی بھی نشان دہی کی ہے۔
اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن، قوموں کے درمیان معاہدات اور بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید (Time limitation) کے پابند ہیں؟ ہمارے علم میں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون، اصول یا روایت نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ اس طرح تو قانون محض ایک کھیل بن جائے گا اور معاہدات بے معنی اور بے وقعت ہوکر رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مکائو (Macau) کے علاقے پر پرتگالیوں نے ۱۵۵۷ء میں قبضہ کیا تھا اور وہ ان کے تسلط میں ساڑھے چار سو سال تک رہا۔ مگر یکم دسمبر ۱۸۸۷ء کے ’معاہدہ بیجنگ‘ کے تحت آخرکار ۲۲دسمبر ۱۹۹۹ء کو چین نے اسے حاصل کرلیا، اور محض ایک طویل مدت تک قبضہ حقائق کو بدلنے کے لیے وجۂ جواز نہ بن سکا۔
کیا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد منظور ہونے والی قراداد ۲۴۲ محض وقت گزر جانے سے ازکار رفتہ (out dated) ہوگئی؟ ۱۷۱۳ء میں یوٹرخت کا معاہدہ واقع ہوا جس کے تحت جبرالٹر کی حاکمیت اسپین سے برطانیہ کو منتقل ہوئی۔ اسپین کے دعوئوں کے باوجود کیا محض وقت کے گزرنے سے معاہدہ کالعدم ہوگیا؟ ۱۸۹۸ء میں ہانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے چین سے حاصل کیا تھا، لیکن ۹۹سال گزرنے پر برطانیہ کو معاہدے کو پورا کرنا پڑا۔ تائیوان کا معاہدہ بھی اسی طرح وقت گزرنے کے باوجود ایک زندہ مسئلہ ہے۔ مسلم ریاست انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور ہی کو لے لیجیے، جس پر اقوام متحدہ کی قرارداد تو ۱۹۷۵ء میں منظور ہوئی، لیکن عمل ۲۷سال کے بعد ۲۰مئی ۲۰۰۲ء کو ہوا، اور عیسائی اکثریت پر مشتمل مشرقی تیمور ایک الگ ملک کے طور پر وجود میں آیا۔اسی طرح امریکی دھونس اور دبائو کے نتیجے میں مسلم ریاست سوڈان کو دولخت کرنے کے لیے جنوری ۲۰۱۱ء کو ریفرنڈم کرایا گیا اور ۹جولائی ۲۰۱۱ء کو جنوبی سوڈان پر مشتمل عیسائی ریاست قائم کردی گئی۔ اگر ۲۷ سال میں مشرقی تیمور کی قرارداد غیرمؤثر نہیں ہوئی، تو کشمیر کی قراردادیں کیوں غیرمتعلقہ ہوگئیں؟
پھر کشمیر کی قرارداد کا معاملہ محض ایک قرارداد کا نہیں، ایک اصول کا ہے، یعنی حقِ خود ارادیت۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے۔ دفعہ۱، اقوام متحدہ کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ اس کی شق۲ میں صاف الفاظ میں اس مستقل اصول کو بیان کیا گیا ہے، یعنی:
لوگوں کے حقِ خود ارادی اور مساوی حقوق کے حصول کے احترام میں۔
اسی طرح دفعہ ۲ (۴) تمام رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ:
تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا ملکی سرحدوں کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے احتراز کریں گے، یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کریں گےجو اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف ہو۔
واضح رہے کہ حقِ خود ارادیت اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک ہے۔
کشمیر کی قرارداد کا تعلق حقِ خود ارادیت سے ہے جس پر وقت گزرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۴ء کی دو تاریخی قراردادوں میں بین الاقوامی قانون کو واضح کیا گیا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے تمام ممالک نے بشمول امریکا، بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا اعلامیہ: دوستانہ تعلقات اور تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ ہے اور ۱۹۷۴ء کے اعلامیہ کا عنوان: ’جارحیت کی تعریف پر قرارداد‘ ہے۔ یہ دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے اعلامیے کی مزید اہمیت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ۲۵سال پورے ہونے پر جس جنرل اسمبلی نے اس کا چارٹر قبول کیا تھا، اسی نے اسے منظور کیا ہے۔
ان قراردادوں میں جن دو بنیادی اصولوں کی وضاحت ہے، وہ دراصل اقوام متحدہ کے چارٹر کی توضیح ہے۔ جس میں حقِ خود ارادیت اور طاقت کے استعمال کے اصول سرفہرست ہیں۔ اس میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ: طاقت کے استعمال کے نتیجے میں جو علاقہ حاصل ہوا ہو، اسے جائز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ نہ جارحیت کے نتیجے میں ملنے والے کسی خصوصی فائدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔
ان اعلانات کو اقوام متحدہ ہی کے اجلاس میں آسٹریلیا کے نمایندے نے چارٹر کی دفعہ۱۳ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کا حصہ قرار دیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: بین الاقوامی قانون کی تدوین اور مرحلہ وار ارتقا میں ایک حصہ، نوم چومسکی کی کتاب Power and Prospects ، ۱۹۶۶ء، ص ۲۰۷)
بین الاقوامی قانون کی اس پوزیشن کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴جنوری ۱۹۵۷ء پر نگاہ ڈال لیجیے جس میں مقبوضہ کشمیر کی اُس نام نہاد دستور ساز اسمبلی کو غیرمؤثر قرار دیا گیا ہے جس نے بھارت سے الحاق کی توثیق کی تھی، اورصاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسمبلی کی قرارداد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور اس کے انتظام میں استصواب راے کا بدل نہیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔
اور اگر اس بارے میں کسی کو کوئی شبہہ ہو تو عالمی ماہرین قانون کے کمیشن کی اپریل ۱۹۹۴ء کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جن میں کشمیریوں کے اس حق کا ان صاف الفاظ میں اعتراف کیا گیا ہے اور اسے وقت کی گردش سے آزاد حق مانا گیا ہے:
کشمیریوں کا حق اُس حق کی بنا پر ہے جو کسی علاقے کے غیرملکی غلبے سے آزاد ہوتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے لیے یہ انتخاب کرنے کا ہوتا ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی (Successor) ریاستوں میں سے کس ریاست میں شامل ہوں۔ یہ حق ایک قائم شدہ آزاد ریاست سے علاحدگی کے قابلِ بحث حق سے بالکل ممتاز اور جدا ہے اور یہ ہندستان سے اس کے علاقوں میں سے کسی کی علاحدگی کے لیے مثال نہیں بنتا۔
تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام کو جس حقِ خود ارادی کا استحقاق حاصل ہوا تھا، وہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا اور نہ ختم ہوا ہے اور اس لیے آج بھی قابلِ استعمال ہے۔
اس لیے یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو درپیش ہر خطرے کا خود نوٹس لے اور تمام ارکان کی طرف سے عملی اقدام کرے۔ دفعہ ۲۴ کے مطابق:
اقوامِ متحدہ کی جانب سے فوری اور مؤثر اقدام یقینی بنانے کے لیے اس کے ممبران عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اوّلین ذمہ داری سلامتی کونسل پر ڈالتے ہیں۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے تحت اپنے فرائض کی ادایگی کا عمل سلامتی کونسل ان کی جانب سے کرتی ہے۔
اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہرملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے یا اس کا اطلاق صرف باب ہفتم کی قراردادوں پر ہے۔ اس شرط کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی جارح کے خلاف اقدام نہ ہوسکے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف اقدام کو کیوں قبول کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے:
اقوامِ متحدہ کے ممبران موجودہ چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کرنے اور بجالانے کو تسلیم کرتے ہیں۔
پھر دفعہ ۳۳ میں ہر تنازعے کے تمام فریقوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود، یا اقوامِ متحدہ کے ذریعے، تمام تنازعات کے پُرامن تصفیے کے لیے اقدام کریں گے۔ دفعہ ۳۶ ، اور ۳۷ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات اور طریقۂ کار تجویز کرے، خصوصیت سے ان معاملات میں جہاں دفعہ۳۳ کے تحت کارروائی نہ ہوپارہی ہو۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر ان دفعات پر عمل نہ ہورہا ہو تو یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ باب ہفتم کی دفعہ ۵۱-۳۹ کے تحت کارروائی کا اہتمام کرے۔
یہ یاد دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ اعلانِ لاہور، معاہدۂ تاشقند یا شملہ معاہدہ دو ملکوں کے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء اور ۵جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بارے میں ان کے چارٹر کی دفعہ ۱۰۳ یہ کہتی ہے:
اقوام متحدہ کے ممبران کے فرائض میں، جو موجودہ چارٹر کے مطابق طے ہیں، اور کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت فرائض میں اگر کوئی تنازع ہو، تو موجودہ چارٹر کے تحت متعین فرائض رُوبۂ عمل آئیں گے۔
اس سب کی موجودگی میں اقوامِ متحدہ کے ذمہ داران اور دوسرے قائدین کا، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ سے مجرمانہ پہلوتہی اور محض مذاکرات کی بات اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوامِ متحدہ صرف طاقت ور ملکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ ان کے مفادات کے لیے تو سب دفعات حرکت میں آجاتی ہیں، خواہ معاملہ عراق کا ہو، یا مشرقی تیمور اور سوڈان کا۔ اور اگر ان کا مفاد نہ ہو تو کمزور ملکوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، اور ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو راستہ بھی انھیں نظر آئے خود اختیار کریں۔ چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ یہی رویہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہے:
ایسے لوگوں کی قسمت دائو پر لگی ہے جنھوں نے سخت تکلیفیں اُٹھائی ہیں اور اب بھی اُٹھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون کی بنیادیں بھی دائو پر لگی ہیں بشمول طاقت کے استعمال اور ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادی کے یو این چارٹر کے اہم اصول کے، جو تمام ریاستوں پر لازمی اور فرض ہے۔ (کتاب مذکور، ص ۲۰۴)
جب عالمی طاقتوں اور خود اقوامِ متحدہ کا عملاً یہ حال ہو تو پھر کمزور ملکوں اور قوموں کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے بجز اس کے کہ جو قوت بھی ان کو حاصل ہو ___ سیاسی اور عسکری___ اسے اپنے حق کے دفاع اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ عقل، اخلاق اور بین الاقوامی قانون مظلوم کو ظلم کرنے کے خلاف جدوجہد اور مقبوضہ علاقوں اور لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے ان کا ایک جائز حق تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون طاقت کے ہراستعمال کو تشدد اور دہشت گردی قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی، ایک معروف حقیقت ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور چارٹر کے تحت اجتماعی طور پر قوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حق خو دارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، اقوامِ متحدہ نے ان کی تائید کی اور آزادی کے بعد انھیں آزاد مملکت تسلیم کیا۔ گویا بین الاقوامی قانون نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ایک ماہر کرسٹوفر او کوئے (Christopher O. Quaye) نے اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں کا ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مندانہ قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law، فلاڈلفیا، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۱ء، ص ۲۸۲)
یہی مصنف صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ: ’’دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں‘‘(ص۱۷)۔نیز یہ کہ: ’’اقوام متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ حقِ خود ارادی کی ہرجدوجہد قانونی اور جائز ہے‘‘۔ (ص ۲۶۱)
بین الاقوامی امور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہر استعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک کا دہشت گرد، دوسرے کا آزادی کا سپاہی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کرسکا ہے۔(ص ۱۷۷)
لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حقِ خود ارادیت ایک مسلّمہ حق ہے، جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں:
سیاسی حقِ خود ارادی لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے اعلانِ آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوقِ انسانی میں مضمر ہے۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔(ص ۴۷۷-۴۷۸)
ہارورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب The Clash of Civilizations and The Remaking of World Order (نیویارک، ۱۹۹۷ء) میں دہشت گردی کے خلاف سارے غم و غصے کے باوجود یہ اعتراف کیا ہے:
تاریخی طور پر دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے، یعنی ان لوگوںکا جو روایتی عسکری طاقت نہیں رکھتے۔ (ص۱۸۷)
اور اس خطرے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ:
دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار علاحدہ علاحدہ غیرمغربی کمزور قوموں کے ہتھیار ہیں۔ اگر، یا جب بھی، یہ ایک ہوئے، غیرمغربی کمزور ملک طاقت ور ہوجائیں گے۔ (ص ۱۸۸)
ہن ٹنگٹن کی بات تو ایک جملہ معترضہ تھی لیکن اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حقِ خود ارادیت ایک مسلّمہ قانونی حق ہے اور اگر بھارت، اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس حق سے ان کو محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تو انھیں اپنی آزادی کے لیے ہرطرح کی جدوجہد کا، بشمول قابض دشمن کے خلاف قوت کے استعمال کا، حق حاصل ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بھارت کے ایک چوٹی کے وکیل کے بالاگوپال (K Balagopal) وہاں کے اہم مجلے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی (۱۷ جون ۲۰۰۰ء) میں ’دہشت گردی‘ کے مسئلے پر TADA (بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ٹاڈا‘ کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے ، وہ سیاسی عسکریت ہے۔ سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر، جو ضروری نہیں کہ کم ہو، شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔(ص۲۱۱۵)
بالاگوپال نے سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیزکیا ہے اور بھارتی قیادت کو متنبہ کیا ہے کہ:
اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈمیں عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت، دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ ’’ہم بھارتی نہیں ہیں اور ہم کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو بھارتی سمجھیں‘‘ ۔ یقینا یہ بہت ہی نامناسب ہے کہ اس وسیع البنیاد عوامی احساس پر انھیں سزا دی جائے۔ (ص۲۱۲۲)
موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ’بھارت میں تشکیل کردہ اور نافذ شدہ قوانین جو ظالمانہ، استبدادی ذہنیت کے عکاس ہیں، کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ وہ سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے‘۔
اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ کشمیر میں عسکریت ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیردست رکھنا ممکن نہیں۔ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha) نے لکھا ہے:
یہ قابلِ ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی [مقبوضہ] کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اُٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا، اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کرسکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں CRPF کے انسپکٹر جنرل نے ایک انٹرویو میں کہا : ’’مجھے صاف کہنا چاہیے کہ فدائی حملے کا سرے سے کوئی جواب نہیں ہے۔ فوج کا کم سے کم ایک حلقہ اس بارے میں واضح ہے کہ فدائی حملے جاری رہیں گے، جنگ بندی ہو یا نہ ہو اور کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ کشمیر میں فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ دبائو کے تحت فوجیوں کا اپنے ہی ساتھیوں اور افسروں کا قتل کرنا خود اپنی کہانی کہہ رہے ہیں۔
یہ احساس اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ موصوف نے لکھا ہے:
جو لوگ ظلم و جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہوں، جن کا وجود شناختی کارڈ سے ثابت ہوتا ہو، جن کی نجی زندگی کو جب چاہے برباد کیا جاسکتا ہو، جن کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہو، ایسے لوگوں کے لیے آزادی اپنا ایک معنی رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آزادی ان کی اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہوتا ہے، جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اس عوامی کیفیت (Mood) کی بہترین مثال [کشمیر میں]حزب المجاہدین کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ جو مکمل طور پر سب سے بڑے مقامی عسکری گروپ کی حیثیت سے متحرک نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں عوامی سوچ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی رضامندی نہ ہو تو عسکری اقدامات نہیں کیے جاسکتے۔ وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ اصل فیصلہ کن عامل جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔
جموں و کشمیر کے مسلمان جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کی جرأت کا تو یہ حال ہے کہ وہ جنازوں میں شرکت کرتے وقت بھارتی فوجیوں کی بے رحمانہ فائرنگ تک کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دیتے۔ اسی لیے بھارت کے کچھ تجزیہ نگار اب یہ کہنے کی جرأت بھی کر رہے ہیں کہ ’سرحد پار دہشت گردی‘ کا واویلا مبنی بر کذب ہی نہیں، حماقت ہے۔ نئی دہلی کے اخبار سنڈے پاینیر نے ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے بارے میں کہا ہے:
یہ جھوٹ ہے اور خطرناک حد تک سادہ بات ہے۔ دہشت گردی عوامی بے اطمینانی سے پرورش پاتی ہے اور عوامی بے اطمینانی غیرہمدردانہ حکمرانی سے پھیلتی ہے۔
مزید اعتراف کیا گیا ہے کہ:
تنازع کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بھارتی فوجیں عوام کو قتل کرسکتی ہیں لیکن جدوجہدِ آزادی کو کچل نہیں سکتیں۔ یہ معلوم کرنا بے حد آسان ہے کہ ہم کشمیر پر کب اور کیوں ہولناک غلطی کا شکار ہوئے؟ جو بات آسان نہیں ہے، وہ واپس نکلنے کا راستہ معلوم کرنا ہے۔ جنگ بندی کوئی حل نہیں ہے۔ یہ مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے۔
جس مقام پر اس وقت بھارت کی قیادت اور دانش ور ہیں، وہاں سے اگلا قدم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ پاکستان اور تحریک مزاحمت کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس نازک مرحلے کو صبروہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور تیز تر کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ایک قدم کی لغزش بھی حالات کو متاثر کرسکتی ہے۔
یہاں اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ ’جنگ بندی‘ تسلیم کرلو مگر استصواب اور مسئلے کے حل کی بات مؤخر کردو۔ تاہم، ہمارا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندرونی اور بیرونی دبائو نہ صرف جاری رہے، بلکہ بھارت کے لیے اپنے قبضے کو باقی رکھنا عسکری، سیاسی اور معاشی، ہراعتبار سے ممکن نہ رہے۔ گوتم ناولکھا نے بھارت کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس پر پاکستانی قیادت اور صحافت کے ان کرم فرمائوں کو غور کرنا چاہیے، جو وقت بے وقت غیرمشروط مذاکرات کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ گوتم نے بیان کیا ہے:
ماضی کا ایک پیغام ہے۔ بھارتی حکومت نے کئی بار یہ مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اسی وقت بات سنتی ہے جب لوگ ہتھیار اُٹھا لیں۔ مسلح گروپوں کو سر پہ بٹھاتی ہے، مگر غیرمتشدد تحریکوں کو حقیر گردانتی اور نظرانداز کرتی ہے اور یہ خواہ مخواہ کی بات نہیں ہے۔حُریت کانفرنس نے غیرمتشدد جدوجہد کو اختیار کیا ہے، مگر اسے مسلسل نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسے پُرامن مہم چلانے یا احتجاجی مظاہرے کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ اس کے بالمقابل باغیوں کو تحریک پر حملہ کرنے اور نفرت کی بنیاد پر قائم شیوسینا، سنگھ پری وار اور پَنن کشمیر جیسوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ جنگجو مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر غیرمسلح ہوجائیں، عبث ہے۔ رائفلیں بھی اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گی، جب تک کوئی پُرخلوص کوشش نظر نہیں آتی۔
گذشتہ عشروں سے آزادی کے لیے ناگا تحریک [ناگالینڈ، شمال مشرقی ہند کی بھارتی ریاست ہے جہاں ۸۸ فی صد عیسائی، ۸ فی صد ہندو اور ڈھائی فی صد مسلمان ہیں] کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے، وہ سامنے ہے۔ زیرزمین ناگا تحریک کے ساتھ کئی بار جنگ بندی ہوئی، جس کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات ہوئے (کئی بھارتی وزیراعظم زیرزمین ناگالیڈروں سے مل چکے ہیں)۔ حکومت نے ایسے ہرموقعے کو ان میں تفریق ڈالنے کے لیے استعمال کیا، اور ان کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تصفیہ کا اعلان کیا اور کہا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مسئلہ حل ہوگیا لیکن ناگا عوام ہربار پھر بغاوت کرتے نظر آئے۔ مسلح جدوجہد کو شکست نہ دی جاسکی بلکہ بی ایس ایف خصوصاً فوج پھنس کر رہ گئی۔ بھارتی فوج کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، لیکن وہ پُرعزم عوام کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ تلخ سبق بھارتی فوج نے ناگا زیرزمین سے اپنی جنگ میں سیکھا ہے۔ اب نہ صرف غیرمشروط مذاکرات ہورہے ہیں بلکہ تین سال کی ٹال مٹول کے بعد حکومت نے تسلیم کرلیا ہے کہ مطالبے کے مطابق جنگ بندی تمام ناگاعلاقوں کے لیے ہے۔
اسی طرح حُریت کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کے بغیر امن کا عمل سطحی ہوکر رہ جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں ایک طرف ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ قانون کی حکمرانی بحال ہو اور دوسری طرف ایسے اشارے ہوں جس سے بھارت اور پاکستان میں امن چاہنے والوں کو تقویت ملے۔
بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور چال بازیوں، اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی اور بے توجہی، تحریک مزاحمت کی قربانیاں اور خود بھارت میں ایک نئی سوچ کے آثار تقاضا کرتے ہیں کہ ثابت قدمی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھا جائے۔ اصولی موقف پر دل جمعی اور استقا مت سے تحریک آزادی کی مکمل حمایت اور ممکنہ مددو استعانت کی جائے۔ عالمِ اسلام اور دنیا کی تمام انصاف پرور اور آزادی پسند قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے کی جان دار مہم چلائی جائے۔
کشمیر کے مسلمانوں کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے، تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ بھارتی ظلم کے خلاف ہرممکن ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر کارفرما ہوکر اہل جموں و کشمیر اپنے ایمان، اپنی آزاد ی اور اپنی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد میں مدد ہی کے ذریعے پاکستانی قوم اپنا فرض ادا کرسکتی اور خود اپنی سرحدوں کی حفاظت کرسکتی ہے۔ بلاشبہہ جہاد اور محض جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور خود قرآن نے ’حرب‘ کی اصطلاح کو ترک کرکے ’جہاد‘ کی اصطلاح کو اختیار کرکے ان کے فرق کی ہم کو تعلیم دی ہے۔
جہاد، فی سبیل اللہ کی شرط سے مشروط ہے اور ان آداب اور احکام کے فریم ورک میں اسے انجام دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں۔ نیز جہاد ان ہی حالات میں فرض ہوتا ہے جو شریعت نے طے کر دیے ہیں۔ ان تمام اُمور کی روشنی میں ، فلسطین ہو یا جموں و کشمیر، جو جدوجہد مسلمان کر رہے ہیں، وہ جہاد ہے۔ اس میں ان کی مدد و نصرت تمام مسلمانوں پر اور خصوصیت سے پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے۔
ہم ۲۷ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی مؤثر اور مدلل تقریر کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس معنویت کی تحسین کرتے ہیں کہ انھوں نے ثالثی کی نعرے بازی کو اپنے خطاب میں کوئی جگہ نہیں دی اور پوری توجہ، حقِ خود ارادیت پر مرکوز کیے رکھی۔ یہی درست، قانونی اور اخلاقی موقف ہے۔
تاہم، بھارت اس وقت جس دلدل میں پھنسا ہے، اس سے نکلنے کے لیے حسب ِ روایت وہ جو ہتھکنڈے استعمال کرے گا ، ان کا ادراک ضروری ہے:
اس لیے ہم واضح لفظوں میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بھارت کی جانب سے درندگی اور غیرانسانی اقدامات کی بدترین مثالیں قائم کرنے کے نتیجے میں بھارتی حکومت، عالمی سطح پر دبائو میں آئی ہے۔ ماضی کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ بھارت بہت جلد، ممکن ہےدو ماہ کے اندر ’’مذاکرات شروع کرنے پر راضی‘‘ ہونے کی چمک دکھائے۔ جو درحقیقت مسلم دنیا کے ایک حصے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور عالمی سطح پر اقوام کو فریب دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ایسا موقع جب بھی آئے گا اور جلد آئے گا، تو پاکستان کے حکمرانوں کو ہوشیار رہنا ہوگا کہ وہ موجودہ نفرت پرور بھارتی آر ایس ایس مافیا کے اپنے ایجنڈے کے تحت مذاکراتی پیغام ہوگا۔ اس لیے پاکستانی پارلیمنٹ اور دفترخارجہ اور میڈیا کو ان امکانی چالوں کا پیشگی اندازہ ہونا چاہیے اور کشمیر کی مناسبت سے گذشتہ تمام ’’پاکستان بھارت مذاکرات‘‘ کا ایک زائچہ مرتب کرکے نگاہوں کے سامنے رکھنا چاہیے کہ مذاکرات کب اور کس شکل میں شروع ہوئے؟ ان سے بھارت نے کیا حاصل کیا؟ مذاکرات کیسے اور کن چالوں سے ختم کیے گئے؟ ان کے بعد فضا میں تنائو کو بڑھانے کے لیے کس نوعیت کی نعرے بازی کی گئی؟ اور اس ساری مشق کے دوران کشمیر کے مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے اور عتاب نازل کرنے کا موسم کس طرح گولہ بارود کی بارش کرتا رہا؟
ہم بڑے واشگاف لفظوں میں یہ بیان کیے دیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر نہ دوطرفہ مسئلہ ہے، نہ تولیت کا معاملہ ہے، اور نہ ثالثی کی کاک ٹیل پارٹی کا سامانِ ضیافت۔
اس معاملے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس میں بنیادی فریق کشمیر کے عوام اور ان کی وہ قیادت ہے، جس نے مسلسل جدوجہد آزادی کی قیادت کی، صعوبتیں برداشت کیں اور قربانیاں دی ہیں۔ اس لیے کبھی اور کسی سطح پر اس نوعیت کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے، جیساکہ صدر جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو پیش کشوں کے ذریعے کیا تھا۔ یہ چیز قومی موقف کی نفی اور عالمی فیصلوں سے رُوگردانی تھی اور اگر آیندہ کسی نے ایسا کیا تو وہ گویا آگ سے کھیلے گا۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی حکومت کے غیرآئینی اور غیراخلاقی اقدامات کے بعد، اعلانِ تاشقند اور شملہ معاہدہ کی کھائیوں میں پھنسے مخمصے کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ بھارت نے یک طرفہ طور پر ان معاہدوں میں دوطرفہ مکالمے کے ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ آج ۶۰ روز کے بدترین کرفیو اور بھارتی فیصلوں سے پیدا شدہ تنائو، بھارت کے خلاف فضا کو نام نہاد دو طرفہ مذاکرات کا موضوع نہیں بننا چاہیے۔ تمام ظلم، دھاندلی اور وعدہ خلافیوں سے لتھڑے بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے پاکستان کو’اعتماد سازی‘ جیسی نفاق پر مبنی اصطلاح کا اسیر نہیں بننا چاہیے، بلکہ مسئلہ کشمیر پر اس عالمی بیداری کو، اقوام متحدہ کے تحت حل کرانے اور حقِ خود ارادیت کے حصول کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
اگر آج پھر اس بے معنی مذاکراتی چکّر میں پھنس گئے تو ۳۵-الف کی ترمیم چند برسوں میں مسلم آبادی کا توازن بگاڑ کر رکھ دے گی اور ممکن ہے چند تاجروں کو بھی کچھ مادی فائدہ پہنچ جائے، لیکن اس سے مسئلہ کشمیر پھر ایک طویل عرصے کے لیے مزید گہرے کنویں میں ڈبو دیا جائےگا۔
اندریں حالات دفترخارجہ کو پوری توجہ اور قوت اس جانب لگانی چاہیے کہ ہم کسی ایک بڑے یا چھوٹے ملک، مسلم یا غیرمسلم ملک کی ’ثالثی‘ کے زہر کا پیالہ نہیں پئیں گے، بلکہ ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرائیںگے اور انھی کو مانیںگے۔ اس اصولی موقف سے جب بھی ایک انچ قدم پیچھے ہٹایا گیا تو یاد رکھیے یہ بدترین غداری ہوگی۔
زنیرہ کومل، کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے اپنے مضمون: Untill Kashmir is Free, War It Will Be (Milestones: Commentry on the Islamic World ۲۱؍اگست ۲۰۱۹ء) میں ایک کشمیری نوجوان لڑکی جس کا نام احتیاطاً تبدیلی کے ساتھ عائشہ بتایا گیا ہے کہ اس کے دو بھائی یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور وہ خود ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ وہ اپنے جذبات، احساسات اور عزائم کا اظہار اپنے اشعار میں کرتی ہے۔ ہم اس کے چند اشعار پر اپنی گزارشات کو ختم کرتے ہیں اور اللہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ مظلوموں کی اس جدوجہد کو جلد کامیابی سے ہم کنار فرمائے گا:
کہتے ہیں کشمیر جنّت ہے
جنّت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی
اے کافرو! ہٹ جائو کشمیر ہمارا ہے
سارے کا سارا ہے
میں کہتی ہوں کشمیر کی آزادی تک
جنگ رہے گی، جنگ رہے گی
عائشہ کے اشعار ایک فرد کے نہیں، ایک قوم کے جذبات، احساسات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ دو بھائیوںکی قربانی دے کر اور خود زخم کھا کر پوری قوم کی آواز بن گئے ہیں۔ جس قوم کی ستم زدہ اور زخموں سے چور لڑکیوں کے یہ عزائم اور یہ اُمنگیں ہوں، ان کو گولی اور چھرّوں سے خاموش اور محکوم نہیں بنایا جاسکتا۔
مصر کی تاریخ میں ۱۷جون۲۰۱۹ء نے ایک یادگار حیثیت حاصل کرلی ہے۔
۱۷جون ۲۰۱۲ء وہ روشن دن تھا، جب جدید مصر ( جس کا آغاز ۱۹۵۲ء میں شاہ فاروق کے تخت چھوڑنے سے ہوا تھا) میں پہلاآزاد جمہوری انتخاب منعقد ہوا۔ اس کے نتیجے میں ڈاکٹر محمد مرسی عیسیٰ العیاط صدرِ مملکت منتخب ہوئے۔ وہ ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ (حزب الحریۃ والعدالۃ) کے نامزد اُمیدوار تھے۔ مگر مصر میں جمہوری دور کے آغاز کا جو امکان پیدا ہوا تھا، بدقسمتی سے ایک حریصِ اقتدار جنرل عبدالفتاح السیسی نے بیرونی طاقتوں کے اشارے پر، چند روزہ ہنگاموں کا ڈراما رچایا، اور حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس طرح ایک سال اور تین دن بعد ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو حکومت پر ناجائز قبضہ کرکے جمہوریت کے اس چراغ کو ضوفشاں ہونے سے پہلے ہی بجھا دیا۔ یوں اکیسویں صدی میں فرعونی استبداد اور ریاستی دہشت گردی کا ایسا آغازہوا کہ جس کا نہایت گہرا زخم ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو ٹھیک سات سال بعد منتخب صدرمحمدمرسی کی کمرئہ عدالت میں شہادت ہے۔
اس الم ناک واقعے نے ایک بار پھر ساری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خصوصیت سے مصر کے عوام کو، اور دنیا کے ہرگوشے میں مسلمانوں کو آمرانہ اقتدار اور ظلم کے نظام کے خلاف نئی جدوجہد کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کی زندگی کو، جو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اس خوش فہمی میں تھے کہ ان کی زندگی کے چراغ کو گل کرکے وہ محفوظ ہوجائیں گے، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان شاء اللہ ان کے اقتدار اور ظلم کے اس نظام کے لیے شہید مرسی اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے:وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا (احزاب ۳۳:۶۲)’’اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی‘‘۔
جارج ٹائون یونی ورسٹی،واشنگٹن کے پروفیسر عبداللہ الریان نے ’الجزیرہ ویب پیج‘ میں شائع شدہ اپنے مضمون میں بڑی سچی بات لکھی ہے، جس کے آئینے میں مستقبل کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے:
اوریوں ان کی صدارت،درحقیقت شروع ہونے سے قبل ہی ایک ناخوش گوارانجام کو پہنچ گئی۔مرسی کادورحکومت،ایک جمہوری مستقبل کی خاطر محض ایک وقتی اورموہوم سی امید کا پیکر تھا، جوبے رحم مطلق العنان حکمرانوں کے طویل دورکے بعد، ان [مرسی] کی طرف سے صدرکے پرشکوہ منصب پرفائزہونے میں نظرآیاتھا۔
لیکن ان کے جانشین [جنرل سیسی] کوجلد ہی یہ احساس ہوجائے گاکہ اس موہوم سی اُمید [یعنی جمہوریت کے احیا]کا چراغ بجھانابہت ہی مشکل ہوگا۔اس [نام نہاد] فوجی انقلاب کے چھے برس بعد بھی بہت سے مصری شہری، موجودہ حکومت کو ایک مسلسل غیرقانونی اور ناجائز حکومت تصورکرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ السیسی حکومت جس کاطرۂ امتیاز انسانیت دشمنی ہے، اس نے سابق صدر[ محمد مرسی]کی تدفین بھی کھلے عام نہیں ہونے دی، بلکہ جلدبازی، بدحواسی اور بوکھلاہٹ میں سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ان کی میت کو دفن کردیا،جب کہ مرسی کے خاندان کے محض [آٹھ] افراد کو تدفین میںشرکت کی اجازت دی۔(الجزیرہ،۲۴جون ۲۰۱۹ء)
محمد مرسی، نیل ڈیلٹا میں واقع شمالی مصر کے ایک چھوٹے سے گائوں ’العدوہ‘ میں ۲۰؍اگست ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک دین دار متوسط درجے کے کاشت کار تھے۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے قریبی علاقے میں حاصل کی اور آمدورفت کی مشکلات اور اسکول دُوردراز ہونے کے باعث گدھے پر بیٹھ کر جاتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبہ میٹلرجیکل انجینئرنگ سے حاصل کی۔ بی ایس سی اور ایم ایس سی کے امتحانات امتیازی شان سے پاس کیے۔ سرکاری وظیفہ حاصل کیا اور امریکا کی یونی ورسٹی آف سائوتھ کیرولائنا سے میٹریل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی سند ِفضیلت حاصل کی۔ چندسال امریکا ہی کے تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکا جانے سے پہلے فوجی تربیت بھی حاصل کی اور مصر واپس آکر زقازیق (Zagazig) یونی ورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دینے لگے۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران مصر ہی میں اخوان المسلمون کی دعوت و تحریک سے متاثر ہوئے اور رکنیت اختیار کی۔ امریکا میں قیام کے دوران وہاں پر بھی دعوتِ دین اور خدمت ِ خلق کے کاموں میں مصروف رہے۔
مصر واپس آنے کے بعد ۲۰۰۰ء میں آزاد نمایندے کے طور پر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور بحیثیت رکن پارلیمنٹ اچھی شہرت حاصل کی۔ سابق مصری آمر حسنی مبارک کے دور میں دوبار جیل بھی گئے۔ اخوان کے مرکزی پالیسی ساز ادارے مکتب الارشاد کے رکن رہے۔ ۲۰۰۷ء میں نئی سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے والی کمیٹی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب ۲۰۱۱ء میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ قائم ہوئی، تو اس کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخاب میں متبادل صدارتی اُمیدوار تھے، لیکن جب الیکشن کمیشن نے ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کے صدارتی اُمیدوار محمدخیرت سعدالشاطر کو نااہل قراردے دیا، تو ڈاکٹر محمدمرسی صدارتی اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے، جو دوسرے رائونڈ میں ۵۱ء۷۳ فی صد ووٹ لے کر حسنی مبارک کے دور میں وزیراعظم اور ایئرفورس کے سابق سربراہ احمد شقیق کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔
۳۰جون ۲۰۱۲ءکو صدارتی حلف لے کر ذمہ داری سنبھالی۔ ایک ہی سال بعد ۳۰جولائی ۲۰۱۳ء کو فوجی سربراہ اور وزیردفاع جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کرکے، چار ماہ تک ان کو نامعلوم مقام پر قید تنہائی میں رکھا۔ پھر ان پر متعدد مقدمات قائم کر کے مصر کی بدنام ترین ’الطرۃ جیل‘ میں بھی قیدتنہائی میں ڈال دیا۔ان بے سروپا مقدمات میں، قومی رازوں کے افشا، اہرامِ مصر کی مبینہ فروخت، اور بکریوں کی چوری تک کے مضحکہ خیز الزامات لگاکر دسیوں بار موت اور عمرقید کی سزائوں کا مطالبہ کردیا۔ صدرمرسی کو (جو شہادت کے وقت تک قانونی طور پر مصر کے صدر تھے) لوہے کے ایک پنجرے میں بند رکھا گیا، جس میں وہ دن رات ۲۴گھنٹے محبوس رہتے تھے۔ جسمانی تشدد کے علاوہ خوراک، ادویہ اور علاج کی سہولتوں سے انھیں محروم رکھا گیا۔ اس طرح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ایسے شخص کو، جو ذیابیطس، گردوں، اور بلڈپریشر کا مریض تھا، موت کے منہ میں دھکیلنے کی مذموم حرکت کی۔
الحمدللہ، ڈاکٹر محمد مرسی نے یونی ورسٹی کی تعلیم کے دوران قرآن حفظ کرلیا تھا، اور یہ نُور چالیس سے زیادہ برسوں تک ان کے سینے میں امانت رہا۔ لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں اور جیل کے عملے کا حال یہ تھا کہ رمضان میں ڈاکٹر محمدمرسی نے قرآن پاک کا نسخہ ہاتھ میں پکڑنے، چھونے اور آنکھوں سے لگانے کے لیے مانگا تو اس سے بھی انکار کر دیا گیا۔چھے سال کی قید کے دوران میں انھیں صرف تین بار اہلِ خانہ سے (اہلیہ اور بچوں) اور دوبار وکیل سے ملنے دیا گیا، حتیٰ کہ جب وہ عدالت میں لائے جاتے تھے، تو اس وقت بھی وہ اپنے اہلِ خانہ یا وکیل سے نہیں مل سکتے تھے۔ ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو وہ ایک پنجرے میں بند تھے اور دوسرے بڑے پنجرے میں اخوان کے دوسرے زعما بند تھے۔ جب ڈاکٹر محمد مرسی بے ہوش ہوکر گرے، تو وہ ۳۰ سے ۴۰منٹ تک زمین پر پڑے رہے۔ اخوان کے دوسرے زعما جو دوسرے پنجرے میں تھے، ان میں پانچ ڈاکٹر بھی تھے جو چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ: ’’ہمیں ڈاکٹر مرسی کو دیکھنے دیا جائے‘‘ مگر ظالم جج اور جیل عملے کے ارکان ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ ہسپتال لے جانے اور بے ہوش ہو کر گرنے میں ۴۰منٹ کا فاصلہ ہے، جس میں وہ اللہ کو پیارے ہوگئے: اِنَّـا لِلہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
ہسپتال میں ان کی موت کے تعین کی رپورٹ تک نہیں تیار کی گئی، اور صرف یہ کہا گیا: ’’ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے‘‘۔ حالانکہ ہارٹ اٹیک کی ان کی کوئی ہسٹری نہ تھی۔ ڈاکٹر مرسی کو ذیابیطس اور گردوں کے امراض تو تھے، مگر دل کی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل ہدف، ان کو علاج سے محروم رکھ کر موت کی طرف دھکیلنا تھا۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر مرسی شہید کے صاحبزادے نے بجاطور پر حکومت پر ان کو ارادے سے قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پھر دوسرے تمام اداروں بشمول اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندے، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور وکلا کے وفد نے (جو ایک سال پہلے مارچ ۲۰۱۸ء میں محمدمرسی کو دیکھنے مصر گیا تھا،اور جسے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی) تمام ضروری تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ: ’’ان کو علاج کی ضروری سہولتوں، غذا اور جسمانی راحت سے محروم رکھنے کا جو رویہ اختیار کیا گیا ہے، وہ اگر ایک طرف تشدد (torture ) کی حدود کو چھورہا ہے تو دوسری طرف ان کو موت کی طرف دھکیل رہا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ صدر طیب اردوغان اور پاکستان سینیٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ: ’’ان کی شہادت کے حالات کی آزاد ذرائع سے بلاتاخیر تحقیق ہونی چاہیے‘‘۔ شہید محمد مرسی کے صاحبزادے نے تو الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، جنرل سیسی، تین ججوں، ایڈووکیٹ جنرل اور چند دوسرے افراد کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں چند اداروں اور ان کے ذمہ دار حضرات کے مطالبے کو اپنی اس تحریر کا حصہ بنا لیں، جو الجزیرہ ٹی وی نے اپنی ۱۹جون سے لے کر ۲۳جون کی نشریات میں اُٹھائے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمایندے ریوپرٹ کول ولے نے ڈاکٹر مرسی کے اہلِ خانہ، وکلا اور دوسرے افراد کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالوں اور سرکاری رویے کی روشنی میں مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے معاملے میں آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق ضروری ہے:
ان کی موت کے حالات اوروجوہ کاتعین کرنے کے لیے ایک ایسے عدالتی یاکسی دیگر مجازادارے سے تحقیق کرائی جائے جوحراستی مجازادارے کے اثرسے آزاد ہو، اور اسے فوری،غیرجانب دار اورمؤثر تفتیش کرنے کااختیارحاصل ہو۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)کی شرقِ اوسط کی ڈائرکٹر سارہ لیہہ وہیٹ سن نے کہا ہے کہ: ’مرسی کی موت ایک اندوہناک مگر مکمل طور پر قابلِ فہم واقعہ ہے، جو نتیجہ ہے حکومت کا ان کو طبی سہولتیں نہ دینے کا‘۔ ’الجزیرہ‘ کے مطابق سارہ لیہہ کا موقف ہے:
ہم گذشتہ کئی برس سے جس امر کااظہار کرتے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ: ’وہ [مرسی] انتہائی بدترین حالات کاشکاررہے ہیں۔جب بھی وہ جج کے رُوبرو پیش ہوتے،وہ ذاتی حیثیت سے طبی نگہداشت اورعلاج کے حوالے سے درخواست کرتے‘۔
انھیں مناسب خوراک اورادویات سے محروم رکھاجاتارہا۔مصری [فوجی]حکومت کو ان کی گرتی ہوئی صحت کے متعلق مسلسل باخبر رکھا جاتارہا۔ان کاوزن بہت زیادہ کم ہوگیاتھا اور وہ متعدددفعہ عدالت میں بھی بے ہوش ہوکر گرتے رہے۔
انھیں قیدتنہائی میں رکھاگیا،جہاں انھیں ٹیلی ویژن،ای میل یاپھرکسی دیگرذرائع ابلاغ تک رسائی حاصل نہیں تھی، کہ وہ اپنے دوستوں یاخاندان سے رابطہ کرسکتے۔ وٹسن نے اس بناپر یہ موقف پیش کیا کہ: ’مرسی کی موت کے متعلق کوئی بھی قابل اعتبار آزادانہ تفتیش نہیں ہوگی،کیونکہ ان [مصری حکومت] کاکام اورکرداریہ ہے کہ کسی بھی غلط کاری سے خودکوبری قراردے دیں‘۔ (الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)
ایک بڑی اہم گواہی برطانیہ کے ’انڈی پنڈنٹ ڈی ٹنشن ریویو پینل‘ کی ہے، جس کے سربراہ سر کرسپین بلنٹ ہیں۔ اس پینل میں برطانوی پارلیمنٹ کے تین ارکان اور دو آزاد وکلا تھے، جو مارچ ۲۰۱۸ء میں مصر گئے تاکہ ڈاکٹر مرسی کی صحت اور طبی سہولتوں کا جائزہ لیں۔ مگر انھیں ڈاکٹر محمدمرسی سے ملنے نہیں دیا گیا۔ آزاد ذرائع سے جو معلومات اس وفد نے حاصل کیں، ان کی بنیاد پر انھوں نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔طبی سہولتوں کے فقدان، غذا اور دوسری تمام محرومیوں کی بنا پر صاف الفاظ میں ’قبل از وقت موت‘ (premature death) کے اندیشے کا اظہار کیا اور عالمی راے عامہ کو خبردار کرنے کے لیے آواز بلند کی ۔ مرسی کی شہادت پر سر کرسپین بلنٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے:
مصری حکومت کایہ فرض ہے کہ: ’’وہ ان کی بدقسمت موت کاسبب بتائے اورحراست کے دوران ان کے ساتھ کیے گئے سلوک کی مناسب جواب دہی ہونی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنھوںنے ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا،نہ صرف وہ قابلِ تعزیرہیں بلکہ وہ لوگ بھی سزاکے مستوجب ہیں جنھوںنے اس سازش میںحصہ لیا‘‘۔انھوںنے ایک بیان میںکہا:’’اس صورت کی تلافی کے لیے اس وقت جو قدم ضروری ہے وہ یہ کہ اس کی آزادانہ عالمی تحقیق کی جائے‘‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI)نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے:
ہم مصری حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قیدتنہائی اوربیرونی دنیاسے عدم رابطہ سمیت ان کی موت کے حالات کی ایک غیرجانب داراورشفاف تحقیق کرائی جائے ۔
لندن سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا:
’مصری حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیاگیاکہ مرسی کو فراہم کردہ طبی امدادکی بھی تحقیق کرائی جائے اور جو کوئی بھی ان سے بدسلوکی کا ذمہ دار پایاجائے،اسے سزادی جائے‘۔
ترکی کے صدر طیب اردوغان اور پاکستان کی سینیٹ نے بھی اپنی متفقہ قرارداد میں آزاد تحقیق اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔خود ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنے انتقال سے قبل عدالت کو مخاطب کر کے اپنے ساتھ اس ظالمانہ رویے کی شکایت کی تھی، مگر عدالت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
جج صاحب! مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیں۔ مجھے قتل کیا جارہا ہے، میری صحت بہت خراب ہے۔ ایک ہفتے کے دوران میں دو دفعہ بے ہوش ہوا، لیکن مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا۔ میرے سینے میں راز ہیں، جنھیں اگر ظاہر کروں، میں جیل سے تو چھوٹ جائوں گا، لیکن میرے وطن میں ایک طوفان آجائے گا۔ ملک کو نقصان سے بچانے کے لیے میں ان رازوں سے پردہ نہیں ہٹا رہا۔ میرے وکیل کو مقدمے کے بارے میں کچھ پتا نہیں اور نہ مجھے پتا ہے کہ عدالت میں کیا چل رہا ہے؟
۳۵سیکنڈ کی اس گفتگو کے بعد سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑپوتے الشریف قتادہ بن ادریس کا یہ مشہور زمانہ شعر پڑھا اور بے ہوش ہوکر گرگئے:
بِلَادِی وَ اِنْ جَارَتْ عَلَیً عَزِیْزَۃٌ وَاَھْلِی و اِنْ ضَنَوا عَلَیً کِرَامُ
میرا وطن مجھے عزیز ہے، اگرچہ وہ مجھ پر ظلم کرے۔ اور میرا خاندان قابلِ احترام ہے اگرچہ وہ میرے ساتھ کنجوسی سے پیش آئے۔
مصر کی حکومت نے ڈاکٹر مرسی اور خاندان کی خواہش کے مطابق انھیں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیے جانے کی اجازت نہیں دی۔ عام جنازہ بھی نہ کرنے دیا۔ صرف ان کی اہلیہ، دوبیٹوں اور بھائیوں پر مشتمل صرف آٹھ افراد نے جیل کی مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کی اور قاہرہ کے اس قبرستان میں خاموشی سے دفن کر دیا گیا، جہاں اخوان کے دو سابقہ مرشدعام ابدی نیند سو رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد مرسی سے میرا قریبی تعلق نہیں رہا۔ ایک بار ان سے امریکا میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ملاقات ہوئی، اور دوسری اور آخری بار مارچ ۲۰۱۳ء اسلام آباد میں، جب وہ پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے۔ اس وقت امیرجماعت اسلامی پاکستان، برادر عزیز و محترم سیّد منورحسن کی سربراہی میں جماعت کے وفد نے ان سے ملاقات کی۔ ان کی طبیعت بڑی سادہ اور اندازِگفتگو بڑا دوستانہ اور حکیمانہ تھا۔ تحریکی مسائل پر بہت جچی تلی بات کرتے تھے اور اپنی بات دلیل سے پیش کرتے تھے۔
اخوان نے ۲۰۰۷ء میں اپنی نئی سیاسی حکمت عملی بنانے کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، ڈاکٹر مرسی اس کے ایک اہم رکن تھے اور میرے علم کی حد تک ابتدائی ڈرافٹ انھی نے تیار کیا تھا۔ مجھے بھی اس مسودے کو دیکھنے کا موقع ملا اور جسے میں نے ایک بہت ہی مثبت اور وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش سمجھا۔ بعد میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کا قیام اسی کمیٹی کی تجویز کا حاصل تھا۔ اسلام آباد کی نشست میں انھوں نے ہم سے بہت کھل کر بات کی اور ان سے بات کرکے حالات سمجھنے میں مدد ملی۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اصل اختیار و اقتدار کہیں اور ہے۔ اس لیے اخوان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑرہا ہے اور وہ تصادم سے بچتے ہوئے آہستہ آہستہ اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فلسطین کے بارے میں مرسی حکومت نے جو واضح موقف اختیار کیا تھا، اس پر ہم نے انھیں مبارک باد دی اور میں نے خصوصیت سے کشمیر کے مسئلے پر ان کو کردار ادا کرنے کی دعوت دی، جس پر انھوں نے کہا کہ: ’’ہم ضرور اپنا فرض ادا کریں گے‘‘ اور مجھ سے کہا کہ: ’’ایک نوٹ میرے لیے تیار کردیں، جس میں واضح ہو کہ مصر کیا کرسکتا ہے؟‘‘ میں نے دو ہفتے میں وہ نوٹ بنا کر ان کو بھیج دیا، لیکن بدقسمتی سے اس ملاقات کے تین مہینے کے اندر ہی ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔
ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں نے جو کارنامہ ایک سال کے مختصر وقت میں انجام دیا، وہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ افسوس ہے کہ اس کا ادراک پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کی دنیا کو نہیں۔ امریکا، مغربی میڈیا، عرب میڈیا اور خصوصاً فوجی حکومت نے جو غلط فہمیاں پھیلائی ہیں، اور غلط بیانیاں کی ہیں، ان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت حالات کو قابو نہ کرسکی۔ جن حالات میں ڈاکٹر مرسی اور ان کے ساتھیوں نے زمامِ کار سنبھالی اور جن اندرونی اور بیرونی قوتوں سے ان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، انھیں دیکھا جائے تو میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ ان کا ایک سال ہراعتبار سے کامیاب اور نئی منزل کی طرف لے جانے کی معتبر کوشش تھی۔
سب سے پہلی بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ اخوان اپنی زندگی کے ۹۱ سالوں میں سے کم از کم ۸۰سال کش مکش اور ابتلا کاشکار اور حکومت اور سامراجی قوتوں کا ہدف رہے ہیں۔ اس کش مکش کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے دوران، فلسطین میں برطانوی سامراجی چالوں اور صہیونی قوتوں کے خطرناک کھیل کی وجہ سے ہوا۔ اخوان نے نہرسویز پر برطانوی قبضے، اور فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کو بسانے اور اسرائیل کے قیام کی سازشوں کی مخالفت اور مزاحمت کی، اور یہیں سے برطانیہ، صہیونیت اور مصری حکومت سے اخوان کی ہمہ پہلو کش مکش کا آغاز ہوا۔
امام حسن البنا کو ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو شہید کیا گیا اور شاہ فاروق کی حکومت نے ان کے جنازے تک کی اجازت نہیں دی۔ بالکل وہی منظر تھا، جو ڈاکٹر مرسی کی شہادت کے موقعے پر بھی دیکھنے میں آیا۔ لیکن اخوان نے بڑے صبروتحمل سے اس آزمایش کو برداشت کیا۔ پھر جمال ناصر پر حملے کا ڈراما رچا کر ہائی کورٹ کے سابق جج عبدالقادر عودہ اور مجاہد اعظم شیخ محمدفرغلی سمیت اخوان کے چھے قائدین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اخوان کے ہزاروں کارکنوں، مرد و خواتین کو جیلوں میں ایسی صعوبتوں کا نشانہ بنایا گیا، جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
۱۹۴۹ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک اخوان پر مظالم اور پابندیوں کی المناک تاریخ ہے۔ یہ ایک کرشمۂ قدرت ہے کہ اتنی مخالفت، اتنی تعذیب، اتنے پروپیگنڈے اور سیاسی دہشت گردی کا مسلسل نشانہ بننے کے باوجود تحریک نہ صرف زندہ رہی بلکہ دعوت، تربیت، خدمت اور بالآخر سیاسی اثرورسوخ میں بھی ہر میدان میں نئی بلندیوں کی طرف سفر کرتی رہی۔ اس پورے زمانے میں فوج، پولیس، عدلیہ، انتظامی مشینری، روایتی مذہبی قیادت اور ادارے بشمول الازہریونی ورسٹی، میڈیا اور مفاد پرست اشرافیہ اخوان کے خلاف صف آرا رہے۔
اس پس منظر میں ڈاکٹر مرسی کا صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونا اور پارلیمنٹ میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کی اکثریت کا حصول، جہاں ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے، وہیں یہ مخالف قوتوں کے لیے ایک چیلنج اور اشتعال دلانے والے سرخ رومال کی حیثیت اختیار کر گیا۔ مرسی صاحب کے ۵۲فی صد کے مقابلے میں ۴۸ فی صد ووٹ لینے والی قوتوں نے اپنی شکست قبول نہیں کی تھی۔ ان کی ساری کوشش مرسی حکومت کو ناکام بنانے پر مرکوز ہوگئی۔ فوج، پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ سب نے مل کر اخوان کے خلاف محاذ بنالیا۔ ڈاکٹر مرسی کے صدارت کی ذمہ داری اختیار کرنے سے پہلے ہی فوجی کونسل نے صدر کے تمام اختیارات قومی کونسل کو سونپ دیے۔ عدالت نے بھی انتظامیہ کے اختیارات پر شب خون مارا۔ منتخب پارلیمنٹ کو عدالت کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ مرسی صاحب کو پارلیمنٹ میں حلف تک لینے سے روک دیا گیا۔ اس لیے انھوں نے حلف بھی تحریر اسکوائر پر لیا۔
جب محمد مرسی صدرمنتخب ہوئے تو اس وقت فوج کے ۷۸سالہ سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی ۱۵سال کی توسیع ملازمت لے چکے تھے، اور مزید کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ جنرل طنطاوی کو ہٹا کر صدر مرسی نے جنرل عبدالسیسی کو ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ء کو مصری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔
صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام سے وفاداری کو( جو دستور کا حصہ تھا) اور مصر کی خودانحصاری اور آزادی کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ سادگی کو عملاً اختیار کیا۔ پہلے دن سے صدرمملکت اور ان کی پوری ٹیم نے سرکاری پروٹوکول کو ترک کرکے عوام کے ساتھ برابری کا رویہ اختیار کیا۔ صدرمرسی کی بہن شدید بیمار تھیں، لیکن ان کو علاج کے لیے باہر نہیں بھیجا، اور قاہرہ ہی کے ہسپتال میں زیرعلاج رہیں جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔ صدر مرسی نے مقتدر طبقات کے امتیازی اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی، جس پر انھیں قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مفادپرست عناصر نے ماضی میں حکمرانی کا فائدہ اُٹھانے والے، نیز لبرل اور سیکولر حلقوں کو اسلام کا ہوّا دکھا کر مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے سارے وسائل لگادیے۔ صدافسوس کہ اس میں روایتی مذہبی عناصر، اور سلفی تحریک کی قیادت بھی شامل ہوگئی۔
صدرمرسی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ غزہ اور مغربی فلسطین پر جو پابندیاں مصر کی حکومت نے لگائی ہوئی تھیں اور رفح کی جو سرحد بند کی ہوئی تھی، اسے فوراً کھول دیا۔ حماس پر اسرائیل نے جو زندگی تنگ کی ہوئی تھی، اس کی تلافی کے لیے مؤثر اقدام کیے اور فلسطین کے مسئلے کو مصر کی اوّلین ترجیح قرار دیا، حتیٰ کہ ستمبر ۲۰۱۲ء میں صدر مرسی نے اقوامِ متحدہ میں جو خطاب کیا اس میں سب سے پہلے اور نہایت جان دار الفاظ میں مسئلہ فلسطین کو پیش کیا۔ اس کے حل کا مطالبہ اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے خلاف اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ تصادم سے بچنے کے لیے مرسی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس امر کا بھی اعلان کردیا تھا کہ مصر کے ماضی میں کیے گئے تمام عالمی معاہدات کا احترام کیا جائے گا۔ حماس کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے غزہ کے عوام پر زندگی تنگ کردی تھی، صدرمرسی نے انھیں اس عذاب سے فوری نجات دلائی اور نقل و حرکت اور تجارت کی راہیں ہموار اور کشادہ کیں۔ القدس اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور فلسطین کے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی کھل کر تائید و حمایت کی، جو مصر کے سابق صدر انوارالسادات اور صدر حسنی مبارک کی حکومتوں کی شرم ناک اسرائیل نواز چالوں کے برعکس ۱۰۰ فی صد معکوس تبدیلی (reversal) تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے برملا کہا کہ: ’’ہم نے مرسی حکومت سے معاملہ طے کرنے اور سابقہ مصری حکومت سے جو بندوبست کیا ہوا تھا، اس پر تعاون کے لیے ہرکوشش کی، لیکن مقبوضہ علاقوں کے بارے میں کسی انتظام پر مرسی حکومت تیار نہ ہوئی اور پھر ہماری ساری کوشش اس حکومت سے نجات پر مرکوز ہوگئی‘‘۔ یہی کوشش روس، امریکا اور یورپی ممالک کی تھی اور بدقسمتی سے یہی رویہ خود مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ممالک نے اختیار کیا۔ حتیٰ کہ مرسی حکومت کے خلاف بغاوت کی مالی اعانت اور پشت پناہی کے لیے چندعرب ممالک نے مصر کے غاصب حکمران، جنرل سیسی کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
یہ تھے وہ حالات، جن میں مرسی حکومت نے ایک سال اور تین دن گزارے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان عناصر نے نیا دستور بننے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، عدلیہ نے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالیں، اور عسکری قوتوں نے سول حکومت کو غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر نام نہاد عوامی بغاوت کے تانے بانے بُنے گئے اور وہ سب عناصر جو ماضی کی حکومتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے یا جو نظریاتی طور پر اسلامی قوتوں کے مخالف تھے، سب کو مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ ان تمام حالات میں حکومت کا ایک سال چلنا بھی ایک بڑی کامیابی تھی۔ مخالفت کے اس پورے طوفان اور میڈیا کی یلغار کے باوجود یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مرسی حکومت کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ جس کا اعتراف ۱۸جون ۲۰۱۹ء کو الجزیرہ ٹی وی پہ نشر کیے جانے والے تعزیتی (obituary) پروگرام میں ان الفاظ میں کیا گیا:’’محمدمرسی کا ایوانِ صدارت میں جو وقت گزرا، اس میں ان کی شہرت اور عزت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، اور ان کے لیے عوامی پسندیدگی کا اشاریہ ۶۰ اور ۵۵ فی صد کے درمیان رہا‘‘۔
واضح رہے کہ اس ایک سال میں دو بار فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ البتہ ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو فوج اور نام نہاد عوامی مظاہروں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور پھر ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء کو صدرمرسی کی تائید اور فوجی اقتدار کے خلاف جو عظیم عوامی مظاہرہ ہو رہا تھا، اس کے شرکا کو خود کار رائفلوں کی فائرنگ سے بھون ڈالا گیا اور فوجی گاڑیوں تلے کچل دیا گیا۔ اخوان نے ۲۶۰۰ سے زائد شہدا کی فہرست جاری کی۔ ہزاروں زخمی علاج معالجے کے لیے ترستے رہے۔یوں جنرل سیسی نے اقتدار اپنی مٹھی میں لے کر ایک آمرانہ دستور ملک پر مسلط کردیا، اور اب جنرل سیسی کو ۲۰۳۰ء تک صدر رکھنے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔
یہ سب اپنی جگہ، مگر قدرت کے انتقام کا بھی اپنا ہی نظام ہے۔ بہت سے سیکولر اور جمہوریت پسند عناصر جو اخوان دشمنی میں فوجی سازشوں کے آلہ کار بنے اور جنھوں نے۳جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی، وہ خود بھی بہت جلد حکومت کی دست درازیوں کا نشانہ بن گئے۔ ان کی ایک بڑی تعداد داخلِ زندان کی گئی اور اخوان کے قیدیوں کے ساتھ اب وہ بھی جنرل السیسی کے قیدی ہیں۔ نیز ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد اخوانیوں کی طرح ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور ان میں سے کچھ آج صدر ڈاکٹر مرسی کی شہادت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔
ایمن نُور جو غیراخوانی حزبِ اختلاف کے قائدہیں، انھوں نے بیرونِ مصر سے کہا ہے:
مرسی بلاشبہہ شہید ہوئے اور انھیں سوچ سمجھ کر مارا گیا ہے… میں اپنی اوردنیاکے تمام آزاد لوگوں کی طرف سے آزادی کے راستے کے ایک عظیم معمار (great striver)کی موت پرغم ودکھ کااظہارکرتاہوں۔(الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)
صدرمحمد مرسی کی ایک سخت ناقدمونا الطحاوی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں:
یہ ہے وہ کچھ جوعبدالفتاح السیسی نے حاصل کیا۔جولائی۲۰۱۳ء سے (جب مرسی کی حکومت کاتختہ اُلٹاگیا،اور) جنوری۲۰۱۶ء (جب مصری پارلیمان بحال ہوئی) کے دوران ۱۶ہزار سے ۴۱ہزار کے درمیان لوگ گرفتار کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر اب کالعدم اخوان المسلمون کے حامی تھے۔ البتہ اطلاعات کے مطابق ان میں ایک تعداد ان افراد کی بھی ہے، جو لبرل اور سیکولر (اور اخوان مخالف تحریک میں) سرگرم تھے۔ اس کے بعد سے سزاے موت کے اعلانات کی تکرار ہے، جس پر عمل ہورہا ہے۔ غیرقانونی اور غیرعدالتی اغوا اور قتل اس کے علاوہ ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی کوشش کا نتیجہ ہے، جس سے معاشرے میں اختلاف راے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ایک طرف اخوان کو صفحۂ ہستی ہی سے مٹانے کا اہتمام ہورہا ہے، دوسری طرف ہر شکل میں، ہراختلافی راے اور ہرمدمقابل قوت کو دبانے پر بھی توجہ مرکوز ہے۔(دی نیویارک ٹائمز، ۱۸جون ۲۰۱۹ء)
مگر اب اظہارِ حقیقت کرنے کا فائدہ؟ ع
صبح دَم کوئی اگر بالاسے بام آیا تو کیا
مختصر یہ کہ جو عناصر اخوان المسلمون کے خلاف میدان میں لائے گئے تھے، خود وہ بھی موجودہ فوجی استبدادی حکومت کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب اخوان اور ان کے مخالف سیکولر عناصر، دونوںمصری عقوبت خانوں میں یا مصر سے باہر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
واضح رہے کہ صدر محمدمرسی کے زمانے میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ان سے پہلے صدر حسنی مبارک کے دور میں جنھیں سیاسی بنیادوں پر قید کیا گیا تھا، صدر مرسی نے ان کے لیے بھی جیل کے دروازے کھول دیے تھے، اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ ان کی سیاسی یا مذہبی وابستگی کیا ہے، اور یہ ان کے اوّلین اقدام میں سے ایک تھا۔
اخوان کو جس ’جرم‘ کی سزا دی گئی ہے، وہ اسلامی اور جمہوری اقدار سے ان کی وفاداری اور ہرقیمت پر مصر کے دستور کو اسلام، جمہوریت اور اجتماعی فلاح کی بنیاد بنانے، منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام کی تشکیل اور تمام ریاستی اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش ہے۔ مصر کی قومی خودمختاری اور مسئلہ فلسطین کو انصاف، تاریخی اور زمینی حقائق، اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر مستقل حل، اور فلسطینی سرزمین اور الاقصیٰ کو اسرائیلی قبضے سے نکالنے کے لیے پُرعزم ہونا اور ڈٹ جانا ہے۔ عرب اور اسلامی دنیا کے مسائل کا مل جل کر اور اپنے وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے حل اور دنیا میں ایک مبنی برانصاف معاشی نظام کا قیام ہے جس میں دولت چند ممالک اور چند ہاتھوں میں مرکوز نہ ہو اور وسائل تمام نسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے، غربت کو ختم کرنے اور سماجی فلاح کے لیے استعمال ہوں۔اس سلسلے میں صدرمحمد مرسی کی تقاریر بہت واضح ہیں اور ان تمام نکات کا جامع اور مؤثر استحضار ان کی اس یادگار تقریر میں موجود ہے، جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر۲۰۱۲ء میں انھوں نے کی تھی (یہ تقریر یوٹیوب پر آج بھی سنی جاسکتی ہے)۔
صدر مرسی کی حکومت نے پہلے دن سے تہذیبوں، مذاہب اور ملکوں کے درمیان تصادم کے بجاے ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر مکالمے اور بقاے باہمی کا تصور پیش کیا، اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جو فکری اور تہذیبی جنگ جاری ہے، اسے ختم کرنا اپنا ہدف قرار دیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اور اسلام کی تعلیمات پر جو رکیک حملے کیے جارہے ہیں، ان پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا، ناموسِ رسالت کے سلسلے میں مسلمانوں کے عالمی احتجاج کی مکمل تائید کی اور اقوامِ متحدہ میں برملا اعلان کیا کہ اگر دنیا ہمارے نبیؐ، ہمارے دین اور ہماری اقدار کا احترام نہیں کرے گی، تو ہم سے اپنی تہذیب و ثقافت کے احترام کی توقع نہ رکھے۔ سب کے لیے سلامتی اور آشتی کا راستہ ایک ہی ہے کہ ہم سب مل جل کر تمام انسانوں، تمام علاقوں اور تمام تہذیبوں کا برابری کی بنیاد پر احترام کریں۔ سب کی طرف سے اپنے اپنے موقف کی پیش کاری اور اختلاف، علمی حدود کے اندر ہو، اور کسی کو بھی نفرت کی آگ بھڑکانے اور دوسروں کی تحقیر اور انھیں مشتعل (provocation) کرنے کی کھلی چھٹی حاصل نہ ہو۔ قومی اور بین الاقوامی، ہردائرے کی کچھ اخلاقی حدود ہیں، جن کا احترام ضروری ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے عالمی امن اور تعاون پروان چڑھ سکتا ہے۔
عالمی استعماری قوتیں ہوں یا وہ قومی اور مقامی عناصر، جن کے مفادات پر مندرجہ بالا پالیسی کے خطوطِ کار سے ضرب پڑتی ہے، وہ اخوان اور دوسری اسلامی تحریکات کا راستہ روکنے میں اپنی بقا دیکھتے ہیں، اور ’سیاسی اسلام‘ ، ’اسلامی انتہاپسندی‘ اور ’اسلامی ٹیررازم‘ کے نام پر اسلام اور اسلامی تہذیب کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہی خطرناک کھیل ہے جو مصر میں کھیلتے ہوئے سمجھا جا رہا ہے، وہ یہ کہ محض قوت اور جبرکے ذریعے اسلام کی نظریاتی اور تہذیبی لہر کوروکا جاسکتا ہے۔
اخوان المسلمون محض ایک تنظیم نہیں ہے، بلکہ ایک تصور اور نظریہ، ایک پیغام اور نظامِ حیات ہے، جو ایک طرف انسان کو اپنے ربّ سے جوڑتا ہے، تو دوسری طرف ربّ کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انسانی زندگی کی تشکیل، خیروفلاح، عدل و انصاف، حقوق کی پاس داری اور تعاون اور اخوت کی بنیادوں پر کرنا چاہتا ہے۔ افراد کو قیدوبند اور قتل و غارت گری کا نشانہ تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن افکار اور نظریات کو تیروتفنگ اور جبرواستبداد سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ مصر میں اخوان کو گذشتہ ۸۰سال میں جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سارے ظلم و استبداد کے باوجود اخوان ایک قوت ہیں اوران شاء اللہ رہیں گے، اس لیے کہ:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا ،جتنا کہ دبا دیں گے
حسن البنا، عبدالقادر عودہ، سیّد قطب اور محمد مرسی مر کر بھی زندہ ہیں اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں اور خود کو فراعنہ کے فرزند قرار دینے والوں کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ کوئی اسرائیل سے شکست کھا کر ندامت کی موت مرا، کوئی اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنا، اور کوئی جیل اور ہسپتال کے درمیان ایڑیاں رگڑتا رہا ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ (الحشر ۵۹:۲) ’’پس عبرت حاصل کرو اے دیدئہ بینا رکھنے والو!‘‘
قاہرہ میں روزنامہ لاس اینجلس ٹائمز کی نامہ نگار سلمہ اسلام،۲۴ جون ۲۰۱۹ء کو صدرمرسی کی وفات اور اخوان پر پابندی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے قاہرہ کے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں، جس میں جبرواستبداد کی گرفت ہے، اور وہ ماحول سب کو دعوتِ فکر دے رہا ہے:
قاہرہ کی گلیوں میں لوگ عام طور پر بے چین نظر آتے ہیں۔ اگر کسی سے سیاست بالخصوص حساس یا ممنوع موضوعات، یعنی اخوان المسلمون کے بارے میں راے لینے کی کوشش کی جائے تو جواب میں صرف بے چین نظریں دکھائی دیتی ہیں۔ وسطی قاہرہ میں سیّدہ زینب کے قرب میں، جب کوئی بھی فرد مرسی کی موت کے بارے میں اپنی راے دینے پر راضی نہ ہوا تو ایک شخص نے جو بظاہر ۴۰برس کا لگتا تھا، دوٹوک انداز میں کہا: ’’ہم اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔
اپوزیشن رہنما، مصر کے تیسرے صدر محمدانور السادات کے بھتیجے نے [مرسی کی شہادت پر]کہا: ’اگرچہ اخوان المسلمون، حکومت کی نظر میں یقینا ’دشمن نمبر۱‘ ہے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اخوان المسلمون ایک نظریہ ہے، اور نظریے کے طور پر یہ کبھی نہیں مرسکے گی‘۔
کلیرمونٹ کے اسکرپس کالج میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر سومٹ پاہاوا کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ :
مرسی کی موت کو اخوان المسلمون کی قیادت اپنے وجود کو ایک شہید کے طور پر نئی زندگی بخشنے کے لیے استعمال کرے گی....اخوان کے رہنما یہ توقع رکھتے ہیں کہ مرسی کی موت مصری عوام کے دلوں میں زیادہ ہمدردی پیدا کرے گی۔ اس لیے بھی کہ عوام ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں آج حکومتی دبائو کے نتیجے میں زیادہ بے حال ہیں اور روزانہ بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں مرسی کی گرفتاری کے وقت اتنا زیادہ اشتعال نہیں تھا کہ جس کا اب مستقبل میں امکان ہے۔ (لاس اینجلس ٹائمز، ۲۴جون ۲۰۱۹ء)
امریکا کے مشہور صحافی اور کالم نگار ڈیوڈ ہرسٹ (David Hearst) نے وہاں کے جریدے Middle East Eye ( ۲۵جون۲۰۱۹ء) میں اخوان کے ایک مخالف اور سابق صدارتی اُمیدوار ایمن نُور کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
مرسی کی موت جس طرح واقع ہوئی ہے، اس سے بڑے پیمانے پر حکومت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ دراصل مرسی کو چھے سال مسلسل ایک عمل کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے(Killed slowly over six years)اور حکومت کو اس کی پوری ذمہ داری اُٹھانی پڑے گی اور جواب دہی کرنا ہوگی۔
پروفیسر عبداللہ الاریان الجزیرہ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون: ’محمد مرسی: ایک مصری المیہ‘ میں مرسی حکومت کی کمزوریوں پر گرفت کرنے کے ساتھ بڑے مؤثرانداز میں ان عوامل کی بھی نشان دہی کرتے ہیں، جن کا مرسی حکومت کو مقابلہ کرنا پڑا اور جو گمبھیر مسائل کسی بھی حکومت کے لیے ناقابلِ تسخیر تھے:
تاہم، جو چیز مرسی کے دورِ اقتدار کے ایک متزلزل سال میں ان کے سخت ترین ناقد سمجھنے میں ناکام ہوگئے، درحقیقت وہ تشکیلی ڈھانچے سے متعلق رکاوٹیں تھیں، جو مصر کے ان انقلابیوں کی صفوں میں سے کسی بھی شخصیت کو ناکامی کی بدنصیبی سے دوچار کر دیتے۔
مرسی کے بدقسمت دورِ صدارت کے اکثر تنقیدی جائزوں میں سے اُن چند در چند عوامل و عناصر کا ذکر غائب تھا، جو مصر کی انقلابی تحریک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے یکسو تھے (مثال کے طور:) سابقہ [حسنی مبارک کی آمرانہ] حکومت کے طاقت ور بیوروکریٹ جنھوں نے [مرسی کی] صدارتی پالیسیوں کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا، محدود طبقے کی حکومت سے متعلقہ وہ لوگ کہ جنھوں نے عوامی بے اطمینانی کو بڑھاوا دینے کے لیے توانائی کی کمی کا مصنوعی بحران پیدا کیا، ایک ایسی سیاسی حزبِ مخالف جس نے جب دیکھا کہ وہ مرسی کو یا ان کی جماعت کو انتخابات میں شکست نہیں دے سکے، تو انھوں نے مریضانہ ذہنیت کے ساتھ تخریبی کردار ادا کرنا شروع کردیا، وہ غیرملکی حکومتیں کہ جنھوں نے جوابی [فوجی] انقلاب کی مالی مدد کی، اور بلاشبہہ مصر کی مسلح افواج۔ یہ سب، انقلابی تبدیلی کے عمل کے دوران زیادہ تر مسائل و مشکلات پیدا کرتے رہے۔
اس پس منظر میں کوئی بھی، یقینا مرسی کی قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی کرسکتا ہے، کلیدی فیصلوں کا ان کی طرف سے مناسب طور پر لوگوں تک ابلاغ کا نہ ہونا، اور پھر یہ عدم صلاحیت کہ وہ ایک وسیع تر انقلابی اتحاد نہ تشکیل دے سکے۔ تاہم، اس یلغار کے باوجود، اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ حزبِ مخالف کی کوئی بھی شخصیت کامیاب ہوسکتی۔
اس گفتگو سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:
اخوان المسلمون کی قوت کا اصل سرچشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان ہے۔اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت اور طریقے کو زندگی کا شعار بنانا اس کا اصل مطلوب ہے۔ نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کی تعمیر اس کا اہم ترین ہتھیار ہے۔ خاندان اور معاشرے کی اصلاح اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ خدمت اور حق و انصاف اور زندگی کےسارے معاملات کی صورت گری اس کی قوت کا ذریعہ ہے۔ سیاست اجتماعی زندگی میں اسی اخلاقی انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اصل مقصود اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور جنّت کی تمنا ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
فرد، معاشرہ، ریاست، انسانیت کی تعمیر اس کا ہدف ہیں، لیکن اس کی کامیابی کا اصل راز اور اس کی جدوجہد کا اصل ہدف اللہ کی رضا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی اور قانون کو جاری و ساری کرنے کی جدوجہد ہے۔ حسناتِ دنیا اور حسناتِ آخرت دونوں مطلوب ہیں، لیکن رضاے الٰہی کے ثمرات کی حیثیت سے۔ یہ چیز آزمایشوں میں استقامت کا ذریعہ بنتی ہے اور دُنیوی نشیب و فراز سے بے نیازی اور جہد ِ مسلسل کا شعار بناتی ہے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار قرآن سے تعلق اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اتباع کا رشتہ ہے۔ اس ضمن میں، مَیں نے اخوان المسلمون کو تمام اسلامی تحریکات میں سب سے بہتر اور سب سے بلند پایا ہے۔
گذشتہ ۷۰برس میں مجھے ہرسطح پر اخوان کے ساتھیوں سے قریبی تعلق کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اخوان کے ہرکارکن کا قرآنِ عظیم سے جو تعلق میں نے دیکھا ہے، وہ قابلِ رشک ہے۔ مصری معاشرے میں جو دینی اور اخلاقی تبدیلی گذشتہ ۹۰برسوں میں آئی ہے، اس میں دوسری تمام دینی قوتوں کی کوششوں کے ساتھ امام حسن البنا شہید اور اخوان المسلمون کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور روشن ہے۔ قرآن سے تعلق اور ایک دوسرے سے محبت اور خبرگیری، یہ دو ستون ہیں جن پر اخوان کی تحریک قائم ہے۔ اخوت کا رشتہ، محبت اور خبرگیری کا رشتہ اور بھائی چارے کی فضا، اخوان نے گھرگھر اور محلے محلے میں قائم کی ہے۔ فہم قرآن کے حلقے اور اسرہ کا نظام اخوان کی طاقت کا منبع ہیں اور جب تک یہ تعلق اور نظام موجود ہے، ان شاء اللہ ظلم کی کوئی قوت اس تحریک کو دبا نہیں سکتی، اور بقول جگر مراد آبادی:
یہ خوں جو ہے مظلوموں کا ، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں ،جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں
استقامت اور تحریک کے نظریاتی کردار کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اتنے ظلم و زیادتی، حقوق کی پامالی، ملک کے دستور اور قانون اور اصولِ انصاف سے رُوگردانی کے باوجود تحریک نے اینٹ کا جواب پتھر، اور تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ ہرظلم و زیادتی کو برداشت کرتے ہوئے قانون، اخلاق اور خود اپنے طے کردہ طریق کار سے انحراف کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک اپنے طریق کار کی صحت اور اخلاقی برتری پر یقین رکھتی ہے، اور بُرائی کے جواب میں بُرائی کے راستے کو اصولی اور اخلاقی طور پر غلط سمجھتی ہے۔ اسلامی تحریک کا طریقہ محض مصلحت، بدلہ اور انتقام نہیں بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن کا یہ اصول ہے کہ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ (فصلت۴۱: ۳۴) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہے۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو، جو بہترین ہو‘‘۔
اخوان کی عظیم کامیابی ہے کہ ۸۰سال میں آزمایش کے تین ہولناک اور صبر آزما اَدوار میں جھونک دیے جانے کے باوجود، انھوں نے اپنے تعمیری، اخلاقی، اصلاحی، جمہوری اور عدم تشدد کے طریق سے سرِموانحراف نہیں کیا۔ اس کے باوجود اگر غصّے، ردعمل اور بدلے کے جذبے سے مغلوب ہوکر کسی نوجوان نے تحریک کے معروف طریقے سے ہٹنے کی کوشش کی، تو اس کا ہاتھ روک دیا یا اس کو تنظیم سے خارج کر دیا۔ افسوس کہ مسلم حکومتوں، مقتدر طبقات اور مخالفین نے اس پہلو پر غور نہیں کیا حالانکہ اب تو اس بات کو غیر بھی محسوس کرنے اور اس کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں۔
نیویارک ٹائمز ( ۱۹جون ۲۰۱۹ء) میں اس کے اسٹاف رائٹر پیٹر ہیسلر نے ، جو مصر پر ایک کتاب The Buried: An Archeology of The Egyption Resolution کے مصنف ہیں، اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ: ’’سامراجی حکمرانوں کے خلاف ابتدائی دور میں اخوان کے کچھ ارکان سیاسی تشدد کے مرتکب ہوئےہیں، اور اخوان کے رہنمائوں نے بالآخر ایسی حکمت عملی کو مسترد کر دیا اور عدم تشدد کے اصول کو اختیار کیا‘‘۔اخوان پر مظالم اور ریاستی تشدد کے تازہ دور کے پس منظر میں صاحب ِ مقالہ لکھتا ہے کہ:
یہ بات اہم ہے کہ حکومتی قیادت میں ہونے والے قاہرہ کے مختلف قتل عام اور ان کے نتیجے میں بچ جانے والوں اور (ان کے) رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم افراد نے دہشت گردانہ عمل یا تشدد سے جواب دیا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات جزیرہ نما سینائی کے دُور دراز حصوں میں ہوئے، نہ کہ بالائی مصر کے گنجان آبادی والے حصوں میں، جو کہ ابتدائی نسلوں میں انقلابی اسلام کا گہوارارہے تھے۔ مصری حکومت نے اخوان پر ایک ’دہشت گرد گروہ‘ کے طور پر پابندی لگادی ہے لیکن اس کے پاس کوئی شہادت نہیں کہ اخوان نے متشددانہ مزاحمت کوچال کے طور پر اختیار کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اخوان جس طرح ماضی کے ہولناک اَدوارِ ابتلا سے صبرواستقامت کے ساتھ نبردآزما ہوئے، اسی طرح اس دور کا بھی مقابلہ کریں گے اور بالآخر کامیابی کے ساتھ اپنی اصلاحی اور تعمیری سرگرمیوں کو ایک بار پھر چار چاند لگائیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ بیرونی حلقوں سے بھی اب ایسی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔مثال کے طور پر سی این این کی ایک تازہ رپورٹ، جو صدرمرسی کی شہادت کے اگلے روز (۱۸جون ۲۰۱۹ء) شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں مصر کے حالات کا جائزہ لے کر آخری حصے میں کہا گیا ہے:
اور ابھی تک بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور آمرانہ من مانی ہلاکتوں کے باوجود، اخوان تحریک معدوم ہونے سے کوسوں دُور ہے۔اخوان ظلم و تعذیب سہنے کے عادی ہیں اور خدمت خلق کے لیے ان کا اپنا ایک بے مثل ڈھانچا ہے۔ جیساکہ ’کارنیگی رپورٹ‘ نے کہا ہے: ’’مصر کے سیاسی مقدّر کا تعین بدستور اس تصادم سے ہی ہوتا رہے گا جو حکومت اور اسلام پسندوں کے درمیان جاری ہے‘‘۔
صدر محمد مرسی کی شہادت پر مسلمان عوام، دینی اور سیاسی جماعتوں اور متعدد حکمرانوں کا جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ اُمت مسلمہ اور عالمی سیاسی منظرنامے کے لیے ایک آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ترکی اور اس کے صدر طیب نے سب سے بڑھ کر اور قطر، حماس، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے کھل کر اور چند دوسرے ممالک کے حکمرانوں نے صرف تعزیت کے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت تو خاموش ہے، مگر قومی اسمبلی نے دُعاے مغفرت اور پھر سینیٹ آف پاکستان نے ایک جان دار اور مفصل قرارداد کے ذریعے، جسے قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کے تعاون سے ۳۵ سینیٹروں کے دستخطوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پیش کیا اور سینیٹ نے متفقہ طور پر پاس کیا، وہ پاکستانی عوام کے دل کی آواز ہے۔
مسجد اقصیٰ سے لے کر دنیا کے ہراس ملک میں، جہاں مسلمان آباد ہیں، ہزاروں مقامات پرغائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اُمت نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن عوام اور حکمرانوں اور مفاد پرست اشرافیہ کے درمیان بالعموم جو فاصلہ اور دُوری ہے، و ہ بہت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اسی طرح امریکا اور مغربی دنیا کے حکمرانوں، اور بااثر طبقات پر موت کا سکوت طاری رہا ہے، وہ چشم کشا ہے۔ حکمران ، دانش ور، صحافی اور انسانی حقوق کے علَم بردار جو ہر چھوٹے بڑے حادثے یا معاملے پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، ان کی خاموشی یا پشت پناہی نے ان کے دوغلے پن اور منافقت کا پردہ بھی بُری طرح چاک کردیا ہے۔بلاشبہہ مغربی دُنیا میں چند اداروں اور کچھ اصحابِ ضمیر نے غاصب مصری حکومت کے اس اقدامِ قتل کی مذمت بھی کی ہے، یا کم از کم افسوس کے اظہار کے ساتھ معاملے کی تحقیق کا برملا مطالبہ کیا ہے۔ ہم ان افراد اور اداروں کے لیے تحسین کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا کے وہ حکمران اور سیاسی اور انسانی حقوق کے ان نام نہاد علَم برداروں کو (جو ہرگستاخِ رسولؐ کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں) صدرمرسی کے اس ظالمانہ قتل پر سانپ سونگھ گیا ہے۔ مغربی حکمرانوں اور لبرل ازم اور جمہوریت کے دعوے داروں کے دوغلے پن اور نفاق کا یہی مکروہ رویہ ہے جس کی وجہ سے عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے لوگ ان کے دعوئوں پر یقین نہیں کرتے۔ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے بارے میں ان کی نعرے بازی (sloganeering)کو بجاطور پر محض اقتدار اور مفاد کے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ہم اس مضمون کو رابرٹ فسک کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں، جو روزنامہ انڈی پنڈنٹ اور کاؤنٹر پنچ میں شائع ہوا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘:
اے دیوتائو، محمد مرسی کی پنجرے میں ظالمانہ موت پر ہمارا ردعمل کیا ہی عمدہ تھا! شاید افسوس، پچھتاوے اور غم، نفرت، جبر اور خوف کے تمام الفاظ کو دُہرانا ایک تھکا دینے والا عمل ہو، جو مصر کے واحد منتخب صدر کی اس ہفتے قاہرہ کے کمرئہ عدالت میں موت کی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کے کانوں میں انڈیلے گئے۔ ڈائوننگ سٹریٹ اور وائٹ ہائوس سے لے کر، جرمن چانسلری اور ایلسی پیلس تک اور کہیں ہم برلے مونٹ کو بھول نہ جائیں۔ ہمارے مدبروں اور ہماری خواتین نے ہماری خوب خاطرداری کی۔ مرسی کی موت پر ان کی پشیمانی اور احتجاجوں پر غور کرنا تو حقیقت میں ہمیں تھکا دے گا۔
کیونکہ یہ مطلقاً موجود ہی نہیں تھا۔ خاک اور دھول، کچھ بھی نہیں۔ نہ خاموشی اور نہ کوئی بڑبڑاہٹ، نہ کسی پرندے کی چہچہاہٹ، نہ کسی پاگل صدر کا کوئی ٹویٹر پیغام، یہاں تک کہ بالکل رسمی اور سرسری سے اظہارِ افسوس کا کوئی لفظ تک بھی نہیں۔ وہ جو ہماری نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں،خاموش تھے، گنگ تھے۔ ان کی صدا اسی طرح روک دی گئی تھی جس طرح مرسی (کی صدا) کمرئہ عدالت میں اپنے سائونڈ پروف پنجرے میں۔ اور یہ نمایندے اسی طرح خاموش ہیں جس طرح مرسی اب اپنی قاہرہ کی قبر میں ہے۔
لیکن وہ کوئی بُرا آدمی اور کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ اس نے اپنے جانشین [جنرل سیسی] کی طرح ۶۰ہزار سیاسی قیدیوں کو بند نہیں کیا ہوا تھا۔ وہ جانشین کہ جسے وائٹ ہائوس میں موجود عظیم شخص کی طرف سے عظیم شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات نوٹ کرنا مفید و سبق آموز رہے گا کہ اس انقلابِ مرسی کے ساتھ کتنا مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اسے قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا، وہ اپنے خاندان سے بھی بات نہیں کرسکتا تھا، اس کو طبی امداد سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اب اس گھنائونے سلوک کا ذرا اس سہولت و آسایش سے مقابلہ کرکے دیکھیں، جو اس [صدر مرسی] کے پیش رو [آمرمطلق] حسنی مبارک کو اپنی معزولی کے بعد حاصل رہی۔ مسلسل ہسپتال میں علاج معالجہ، خاندان کے لوگوں کی ملاقاتیں، عوامی ہمدردی کا اظہار، حتیٰ کہ اخبارات کو انٹرویو بھی۔
مرسی کے آخری الفاظ، جو اس نے اپنے دفاع میں کہے کہ:’مَیں مصر کا اب بھی صدر ہوں‘ ان کو مشینی انداز میں سائونڈ پروف پنجرے میں دبا دیا گیا۔ ہماری بے حوصلہ ذلت آمیز خاموشی نہ صرف مغرب میں عوامی عہدے داروں اور انتظامیہ کی شرمناک فطرت کا ثبوت ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے ہر[ظالم]رہنما کی قطعی اور حتمی حوصلہ افزائی [کا اجازت نامہ ]بھی ہے، کہ اس کے بُرے افعال کی اسے کبھی سزا نہیں ملے گی۔ کوئی اس بارے میں سوچے گا بھی نہیں، انصاف کبھی نکھر کر سامنے نہیں لایا جائے گا اور تاریخ کی کتابوں کو کبھی پڑھا نہیں جائے گا۔
ان حالات میں اُمت مسلمہ کے لیے ایک ہی راستہ ہے___ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونا اور اپنے ایمان، اپنی آزادی، اپنی عزت، اپنے دین، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے معاشی مفادات، اپنی خودمختاری اور خودانحصاری کا تحفظ اور ترقی۔ صدر محمدمرسی کی شہادت ہمیں اگر غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنے اور ہمیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے سرگرم ہونے کے لیے مہمیز کا کام کرے، تو ان کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور ان کی موت بھی قابلِ رشک ہے۔ بلاشبہہ وہ کامیاب ہیں اور دل گواہی دیتا ہے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے خالق اور پروردگار نے بشارت دی ہے کہ:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ۙ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہدکو سچا کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
یہی اللہ کے وہ نیک اور کامیاب بندے ہیں جو حق کے علَم بردار بن کر زندگی گزارتے ہیں جو ظلم کے ہر وار کو مردانہ وار سہتے ہیں اور زندگی کے آخری لمحے تک حق و انصاف، عدل و احسان، اطاعت ِ رب اور خیروفلاح کی سربلندی کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ جو نفسِ مطمئنہ کی چلتی پھرتی تصویر ہوتے ہیں، اور جنت جن کا انتظار کر رہی ہے!
بیسویں صدی کی عالم گیر تحریک ِ احیاے اسلامی کے اصل معمار اللہ کے تین برگزیدہ بندے ہیں: ۱- علّامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء] ۲- حسن البنا شہید [م:۱۹۴۹ء] ۳- سیّدابوالاعلیٰ مودودی [م: ۱۹۷۹ء]۔
اس دور کے فکری،تہذیبی اور سیاسی رجحانات کے فہم کی اصل کلید، ان شخصیات کے افکارو خیالات اور اُن کے نظریاتی، اخلاقی،سماجی اور سیاسی اثرات کا معروضی مطالعہ اور تفہیم ہے۔ آج کا تجزیہ نگار اور کل کا مؤرخ ان تاریخ ساز شخصیات اور اُن کی برپا کردہ تحریکات کے آئینے میں اُمت اسلامیہ کی اصل تصویر دیکھ سکتا ہے۔
تاہم، یہاں پر اسلامی مقدمۃ الجیش علّامہ اقبال کے فکری اور تہذیبی کارنامے کے بارے میں کچھ معروضات پیش ہیں:
اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز اُنیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا لیکن قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی کے بعد مرتب ہونے شروع ہوئے۔ اسرارِ خودی کی اشاعت اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ان کی رُوح پرور شرکت نے نہ صرف فکرِ اقبال کے نئے دور کا آغاز کیا ، بلکہ اسی سے ان کی ملّی زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح بھی ہوا۔ اقبال نے اپنا پیغام، نظم و نثر اور زبان و قلم کے ذریعے پیش کیا اور بالآخر عملی سیاست میں شرکت کرکے تغیر اور تعمیر کے عمل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی تعمیرِ جدید، ایک غلام قوم کی آزادی اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ساتویں صدی ہجری میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے دورِحاضر میں اقبال نے اوّلاً اسرارِ خودیاور رموزِ بے خودی اور پھر جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے ذریعے انجام دیا۔
اسرارِ خودی میں جمود اور انحطاط کے بنیادی اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے تصوف پرجو حیات کش تصور مسلمان ذہنوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو بیان کیا گیا ہے اور نفی ذات اور ترکِ دُنیا کی جگہ اثباتِ خودی اور تعمیرحیات کا اسلامی تصور پیش کیا گیا ہے۔
اسرارِ خودی کا مرکز تصور ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان: مردِمومن کی تشکیل ہے۔
رموز بـے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی پس منظر کو بیان کیا گیا ہے،جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافت ِالٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون و شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جاوید نامہ درحقیقت شاعر کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتا ہے۔ دُنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتا ہے اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل اور افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتا ہے۔
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقمیں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید کے خطرے سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے اور ترقی کی راہ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں بالِ جبریل کے ولولہ انگیز تغزل میں اور ضربِ کلیم کے بے باک رجز میں، جسے اقبال نے خود ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ‘ قرار دیا ہے۔
اقبال کی نثر کا غالب حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے میں اُنھوں نے ایران کی مابعد الطبیعی فکر کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔
اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید میں پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور خدا کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے۔ مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ دورِ جدید کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام میں کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کی گئی ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے اور اُن تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے، نیز اسلامی قانون کی مثال کو لے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔
وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات، نجی گفتگوئوں اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے جن کا بیش تر حصہ اب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔
اگرچہ اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن خصوصیت سے اس نے مسلم اُمت کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا ہے۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ دو ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کو ذریعہ بنایا اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کی ضرورت محض عقل کو مطمئن کرنا نہ تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے جس میں ملّت گرفتار تھی۔
ایک مدت سے برعظیم کی ملّت ِ اسلامیہ، انتشار ذات (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی عقیدے اور عمل میں یکسانیت اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔ عقیدہ موجود تھا مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما بھی رہا تھا تو عشق کی روشنی باقی نہیں تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی سی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے حقیقی معنوں میں دین داری کی حس مجروح ہو رہی تھی۔ اس کیفیت میں تبدیلی اور انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی تھی، اس کے لیے جذبے کی آگ بھی درکار تھی۔ اقبال نے جذباتی کیفیت میں انقلاب برپا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اپنے ابتدائی زمانے میں اس کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی طریقہ اختیار کیا تھا۔ ان کے اسلوب کو اس کام سے خاص مناسبت حاصل ہے جو تاریخ ان سے لے رہی تھی، مگر افسوس کہ وہ تسلسل قائم نہ رکھ سکے)۔
علّامہ محمد اقبال کے کارنامے کا مختصر الفاظ میں احاطہ ناممکن ہے، مگر ہم اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنے کی جسارت کر رہے ہیں:
قدیم و جدید کی کش مکش میں راہِ اعتدال: قدیم و جدید کی کش مکش کو اقبال ’دلیل کم نظری‘ سمجھتے ہیں۔ اُنھوں نے دونوں سے پورا پورا استفادہ کیا، مگر کسی ایک کے سامنے سپر نہ ڈالی۔ ان کی نگاہ میں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، جس میں ثبات و تغیر دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔ اقبال کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے راہِ اعتدال کو نمایاں کیا۔ اس نے بتایا کہ صحت مند ارتقا اسی وقت ممکن ہے، جب تمدن کی جڑیں ماضی کی روایت میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ حال کے مسائل اور مستقبل کے رجحانات سے بھی پوری طرح مربوط ہوں۔ اقبال کی نگاہ میں کورانہ تقلید، خواہ وہ ماضی کی ہو یا اپنے ہی زمانے کے چلتے ہوئے نظاموں کی، فرد اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ صرف تعمیری اور تخلیقی تشکیل ہی کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو اقبال نے اختیار کیا۔
ماضی اور حال پر تنقیدی نگاہ: اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقید ی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اُنھوں نے غیراسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِحیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا، جو اسلام کی ضد تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں پراگندہ ہوگئیں اور وہ تاریخ کی اہم ترین تعمیری قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں یونانی اور عجمی مآخذ سے حاصل کیا ہوا تصوف سب سے اہم حیات کش قوت تھی، جس نے زندگی کا غیرحرکی اور جمود زدہ تصور مسلمانوں میں رائج کردیا۔ نفی ذات کے فلسفے نے یہاں بھی گھر کرلیا اور ترکِ دنیا، ترکِ آرزو عمل اور ترکِ عمل کی بنیاد پر جمود اور انحطاط کے مہیب سایے مسلط ہوگئے اور بالآخر ’آگ اس گھر کو لگی ایسی کہ جو تھا ، جل گیا‘۔
اسلام کا حرکی اور انقلابی پہلو: بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی اور انقلابی پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عملِ تخلیق و ارتقا جاری ہے۔ کائنات محض ایک تخلیقی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس میں کُنْ فَیَکُوْنَ کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور ’جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘ اور پھر کائنات کی ’تخلیق اور اَمر‘ کی نوعیت پر غور کرکے ہی اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر خلق میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے، تو اَمر میں سمت اور منزل کی تعیین ہے۔ ہرچیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور وجود کا اساسی پہلو یہی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکیت اور مطلوب کی طرف بڑھنے کا شوقِ آرزو ہے۔ کائنات ، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اُصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے تو روح اَمر کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر، اس حرکی اصول کا تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہو جانا نہیں، بلکہ ربِّ حقیقی سے مطلوب تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان، اس کا نقطۂ آغاز ہے اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔ یہی اُصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی احیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں بلکہ اَبدی اقدار اور تمدنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار سے عبارت ہے۔ انسان اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ کائنات کی ہرشے اس اشرف المخلوقات کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے۔ لیکن یہ انسانی زندگی فی الحقیقت کچھ اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے ہے اور یہ مقصد ہے منصب ِنیابت ِ الٰہی۔ اسلام وہ طریقہ ہے جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ اس حرکت کو صحیح سمت دیتی ہے۔ مردِ مومن اور ملت ِاسلامیہ کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنا وظیفہ انجام نہ دیں تو بگاڑ رُونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔
روحانی اور مادی تقسیم کی نفی:اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی۔ اس نے عقل، تجربے، سائنس اور وجدان، ہر ایک کی اصل حقیقت کو واضح کیا اور اُن کی مجبوریوں اور دقتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ اس نے بتایا کہ جبلت، عقل اور وجدان کے تناقض کو وحی کی روشنی اور تربیت کے ذریعے دُور کیا جاسکتا ہے اور تینوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرکے انسان کی خدمت اور رہنمائی کے صحیح مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے۔یہ نومعتزلائی عقلیت اور مغرب کی بے جان سائنس کے مقابلے میں عقلِ سلیم کی فتح تھی۔ اس طرح نبی کا تجربہ اور مشاہدہ مذہبی فکر میں ایک اساسی حیثیت قرار پایا۔ روحانی اور مادی تقسیم کا باطل نظریہ ترک ہوا اور دونوں کے امتزاج سے متوازن اسلامی زندگی کی تعمیر کی راہ روشن ہوئی۔
مذہب کا انقلابی تصور:ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے میں، اقبال نے غیرمعمولی ندرت کا ثبوت دیا۔ زندگی کا حرکی تصور آپ سے آپ عمل کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ پھر مذہبی تجربے کی اساسی اہمیت بھی اسی سمت میں اشارہ کرتی ہے۔ اثباتِ خودی اور تعمیرِشخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابت ِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیر کائنات اور اصلاح تمدن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ خودی ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدا پرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے اور مادّی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دُنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافت ِ الٰہی ہے، یہی انسان کا مشن ہے۔ اقبال نے دینِ اسلام کا یہی انقلابی تصور اُجاگر کیا اور پوری ملّت میں حرکت پیدا کردی۔
دین اور سیاست کی دُوری کا خاتمہ: اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود ریاست، سیاست، معیشت اور قانون اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دُنیا کی کوئی تقسیم نہیں، بلکہ دین اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی قومیت ان کے دین ہی سے تشکیل پاتی ہے اور اُن کی ریاست، معاشرت اور معیشت دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کا رُوپ دھار لے۔ مسلمانوں کو ایسے خطۂ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیارکے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں اور پھر اس روشنی کو باقی دُنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے ’اسلام کی مرکزیت‘ کہا ہے اور اسی کے لیے ایک آزاد زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔
مغربی فکر پر تنقید اور احیاے اُمت: اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رُونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادیت، قومیت ، سرمایہ داریت اور اشتراکیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں۔ نیز یہ کہ دراصل یہی تحریکیں انسان کے دُکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں بلکہ اپنی خودی کی بازیافت اور اپنے دین کے احیا میں ہے۔ اگر اُنھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ ان کی خودی کے لیے زہرِ قاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ ماضی کی اندھی تقلید ہے اور نہ وقت کے تقاضوں کی کورانہ پیروی، یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے جواثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیرِاخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سیاسی غلامی سے بھی نجات ہوسکے گی، اور اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی۔ پھر وہ جو زمانے کے پیرو بننے پر قناعت کر رہے ہیں، زمانے کی امامت کا فریضہ انجام دے سکیں گے اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔
اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا تو دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی ہے اقبال کا اصل کارنامہ، اور اسی بناپر وہ بیسویں صدی کے اسلامی تشخص کا امام اور اس میں تجدید کی روایت کا بانی ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ اقبال محض ایک فرد کا نام نہیں، وہ ایک دور کی شناخت اور خصوصیت سے مسلمانانِ برعظیم کے جدید دور میں تحریک احیاے اسلامی کا ایک نمایاں معمار ہے۔ اس نے برعظیم کی اُمت ِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے میدانِ حیات میں اپنا تہذیبی اور سیاسی مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کی طرف پکارا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کی انقلابی تحریک کا عنوان ہے اور میرے جیسے ہزاروں متلاشیانِ حق کے افکار و جذبات کی تہذیب میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نے شعور کی آنکھ اقبال کے کلام کی روشنی میں کھولی اور ہمارے فکر اور جذبات کی صورت گری اس کی ضوفشانیوں کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ وہ ایک عظیم شاعر تھا مگر جس چیز نے شعرِاقبال کو ذہنی، فکری، احساساتی اور شعورِ زندگی کی تشکیلِ نو کی جدوجہد میں نئی رُوح پھونکنے کا ذریعہ بنایا، وہ اس کا پیغام ہے جس سے کلامِ اقبال کا ایک ایک حرف روشن اور تابندہ ہے ؎
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارثِ پیغمبری است
[اگر شعر کا مقصد شخصیت کی تعمیر ہے تو شاعری پیغمبری کی وارث ہے]