کورونا کی تباہ کاریاں دُنیا بھر میں موت کے سائے پھیلا رہی ہیں، لیکن بھارت کی نسل پرست فسطائی حکومت، جموں و کشمیر میں خون کی بارش اور ظلم و زیادتی کی جملہ کارروائیوں میں، پہلے سے بڑھ کر مصروف ہے۔ یہاں پر چار مختصر مضامین میں حالات کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ
سلیم منصور خالد
یہ رمضان المبارک بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مظلوم عوام کے لیے تشدد، بے حُرمتی، ظلم، گھروں کی آتش زدگی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ۲۵شہادتوں اور ۲۴۹زخمیوں کا دُکھ دے کر گیا ہے۔ تاہم، یہاں پر دو مثالیں پیش ہیں:
۶مئی ۲۰۲۰ء (۱۲رمضان) کو حزب المجاہدین کےچیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ، اپنے ہی گاؤں میں بڑے خون ریز معرکے میں شہید کردیے گئے۔ موضع بیگ پورہ اونتی پورہ، ضلع پلوامہ (مقبوضہ جموں و کشمیر) میں پیدا ہونے والے ریاض شہید کی زندگی اپنے اندر عمل اور عزیمت کے پہاڑ سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے ڈگری کالج پلوامہ سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے، ایک نجی اسکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ان کا ارادہ ریاضی میں ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کا تھا کہ بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ۲۰۱۰ء میں گرفتارکرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اور پھر رہائی کے ۲۰ روز بعد ۲۰۱۲ء میں حزب کا حصہ بن کر جدوجہد کے لیے اسکول اور گھر چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں نکل گئے۔
وہ بُرہان مظفروانی کے قریبی ساتھی تھے۔ بُرہانی وانی کی شہادت کے چند ہی روز بعد ۱۳؍اگست ۲۰۱۶ء کو جب حزب کے چیف آپریشنل کمانڈر منصور الاسلام شہید ہوگئے تو یہ ذمہ داری ریاض نائیکو کے سپرد کی گئی، جنھوں نے خاص طور پر جنوبی وادیِ کشمیر میں جاں بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو مؤثر بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
ریاض شہید کے والد صاحب نے ایک بار بی بی سی کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بیٹے نے جس راستے کا انتخاب کیاہے، وہ درست راستہ ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخرہے۔ ہم ہروقت اس کی شہادت کی خبرسننے کے لیے ذہنی طورپر تیارہیں‘‘۔
ریاض ایک سنجیدہ معلّم اور متوازن طبیعت کے حامل نوجوان تھے۔ وہ نمایاں ہونے کے بجاے پیچھے رہ کر اور خاموشی سے مصروفِ کار رہنے پر کاربند تھے۔ تاہم، دو سال قبل ’الجزیرہ‘ کے نمایندے نے بڑی کوشش کرکے ان سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس سے گفتگو میں یہ الفاظ کہے تھے: ’’غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں نشیب وفراز آتےرہتے ہیں ، لیکن پورے خلوص کے ساتھ اگر نگاہیں منزل پر لگی رہیں اورقدم اُس سمت بڑھ رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے اور ہماری منزل دُور نہیں ہے، ان شاء اللہ‘‘۔
اپنی اس جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، لیکن کامیابی سے گھیراتوڑ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ان کے والدگرامی کو بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ تب اسی سال ستمبر میں ریاض نائیکو نے اتنے جبر اور بہت سارے ناکوں کے باوجود ایک پولیس افسر اور گیارہ اہل کاروں اور رشتے داروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جس پر قابض بھارتیوں نے ان کے والدصاحب کو رہا کردیا۔ ساتھ ہی ریاض شہید نے ان لوگوں کو رہا کر دیا اور رہائی کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ مجاہدین نے کوئی بُرا سلوک نہیں کیا‘‘۔ اس دوران ریاض شہیدنے کئی ویڈیو اور آڈیو پیغام سوشل میڈیا پرنشر کیے، جن میں جموں و کشمیر پولیس اہل کاروں کو آزادی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی باربار اپیل کی۔
یہ جدوجہد چونکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے اس دوران جہاں دشمن کے مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ریاض شہید کا تعاقب کرتی رہیں وہاں بھارتیوں کا ایک دام ہم رنگ بھی برابر متحرک رہا۔ یاد رہے ۱۹۹۲ء میں بھارت نے مجاہدین کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے’الاخوان‘ کے نام سے اپنے آلہ کاروں اور قاتلوں کا گروہ تیار کیا تھا، جنھوں نے ایک جانب مجاہدین کے بہت سے قیمتی افراد کو شہید کیا، تو دوسری جانب مجاہدین کی جدوجہد کوبدنام کرنے کے لیےکبھی صحافیوں کو اغوا کیا اور کبھی یورپی سیاحوں کو اُٹھا لیا اور پھر انھیں قتل کرکے مجاہدین کو بدنام کیا۔ اس امرکی سیّدعلی گیلانی اورمجاہدقیادت نے باربار مذمت کی اور بتایا کہ اخوان المسلمون کے نہایت محترم نام کو بدنام کرنے اور حُریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور یہ ایک بھارتی سازش ہے، جس سے حُریت پسندوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ افسوس کہ گذشتہ تین برسوں سے بالکل یہی کام’داعش‘ کےنام ، پرچم اور نشان کو استعمال کرکے کیا جارہا ہے، حالانکہ جموں و کشمیر میں برسرِ زمین کہیں داعش موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنی وضع کردہ تصاویر میں، خاص طور پر داعشی نشان دکھا کر،مجاہدین آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہیں، جن سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
ریاض نائیکو گذشتہ آٹھ برسوں میں دوسری بار اپنی والدہ سے ملنےخفیہ طور پر اپنے گھر آئے، تو داعش کے رُوپ میں مخبروں نےبھارتی ایجنسیوں کو خبر دے دی۔ اس موقعے پر یہ چار مجاہد: ریاض احمد، جنیدصحرائی ، ڈاکٹرسیف اللہ اور محمد عادل بھٹ موضع بیگ پورہ (پلوامہ) میں موجود تھے۔ ریاض نےفیصلہ کیا کہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ اس طرح کیا جائے گا کہ دومجاہد جنیدصحرائی اورسیف اللہ اس گھیرے کو توڑ کر نکل جائیں ، جب کہ محمد عادل بھٹ ان کے ہمراہ مقابلہ کرکے غاصب فوجیوں کو مصروف رکھیں۔ جنید اور سیف اپنے کمانڈر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،لیکن ریاض نے سختی سے حکم دےکر انھیں نکل جانے کو کہا۔
ریاض نے گھرکےنچلے کمرے اورعادل نے مکان کے اُوپروالےکمرے سے مقابلہ شروع کیا۔ اسی دوران قصبے کے سیکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے نکل آئے اور جارح فوجیوں کے خلاف احتجاج اور پتھراؤ کرنے لگے۔ جواب میں پیلٹ گن فائرنگ، آنسوگیس اورفائرنگ کے نتیجے میں احتجاجی دباؤ کم ہوا۔ اسی دوران میں چاروں طرف سے گھیرکر بے تحاشا فائرنگ کرکے ریاض اور عادل شہید کردیے گئے۔ بھارتی فوجیوں نے ان دونوں کی میتیں قبضے میں لے لیں۔ انھیں لواحقین کے سپرد نہیں کیا اور ضلع گاندربل میں سونہ مرگ کے مقام پردفن کردیا۔
پھر ۱۹مئی کو جنید صحرائی اور طارق احمد کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں گھیرے میں لیتے ہوئے اس طرح شہید کردیا کہ اس کارروائی کے دوران ۱۵ گھروں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے تباہی مچادی۔ یاد رہے جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ(ایم بی اے) ۲۹سالہ نوجوان تھے، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں عسکریت کا راستہ منتخب کیا۔ وہ تحریک حُریت کے نہایت محترم رہنما اشرف صحرائی کے بیٹے ہیں۔ یادرہے کہ صحرائی صاحب، محترم سیّد علی گیلانی کے دست ِ راست اور کئی عشروں سے رفیق کار ہیں۔
غازی سہیل خان
۱۱مارچ ۲۰۲۰ء میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوںاور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ہائی کورٹ نے پیلٹ گن (Pellet Gun) پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک اپیل کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر پابندی لگانے کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’بے قابو بھیڑ کو طاقت سے قابو کرنا نا گزیر ہوتا ہے ‘‘۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں وادیِ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے فورسزاہل کاروں کی طرف سے پیلٹ گن استعمال کرنے کے خلاف یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی، جب وادی میںمعروف عسکری کمانڈر برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا، جس کے سبب بہت سے زخمیوں کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’کس جگہ، کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے، یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر ہے ،جو اس جگہ تعینات ہے جہاں ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے‘‘ ۔
’پیلٹ گن‘ کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف استعمال میں اُ س وقت لائی جانے لگی جب ۱۱ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو، راجوری کدل، سرینگرمیں آنسوگیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا۔ تب وہ کوچنگ کلاس میں جا رہا تھا۔اس سے قبل ۱۳ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔
ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا استعما ل کرنا شروع کیا تھا۔ پھر زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوںکی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پیلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان چھرّوں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرّے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرّے دُور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن جب یہ ۵۰۰میٹر کی دُوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں، جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
۲۰۱۰ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان پیلٹ بندوق کی چھرّہ فائرنگ سے جزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور پر اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’’حکومت ہند، اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے، لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن Pump Action Shotgun)) ہے‘‘ ۔ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ:’ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے‘‘۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بارہا حکومت ہند سے کہا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔
وادیِ کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین ،بزرگ اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں، تاہم متاثرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی حبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی۔اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوکر محتاج ہو گئی ہے۔ یوں درجنوں نوجوان بینائی سے محرومی کے سبب زندگی محتاجی کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثر ہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک اُمید تھی وہ بھی چلی گئی اور ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو، کوئی نوجوان زندگی بھر کے لیے محتاج نہ ہو، مگر عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے‘‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں۔ اس نے کہا کہ’’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے،وہ محتاج ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثر ہ نے گذشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا اور یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا، جس کی خود اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق: ’’پیلٹ متاثرین میں سے ۸۵ فی صد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں۲۵ء۷۹ فی صد معاشرے میں احساس تنہائی کا شکار،۱۵ء۷۹ فی صد پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر،۲۱ء۹ فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹروں نے ۳۸۰پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران نوٹ کیا: ’’۲۰۱۶ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔
پیلٹ گن متاثرین میں سے ۹۳ فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے شمار متاثرین اپنے آپ کو ذہنی امراض کا شکار نہیں سمجھتے ۔تاہم، بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میںناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور انتظامیہ کو من مانی کے لیے مزید کھلی اجازت مل گئی ہے۔
سہیل بشیر کار
چند دن قبل ایک معروف ٹی وی اینکر رویش کمار پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ’’ Covid 19 لاک ڈاؤن اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اصل میں کچھ لوگ غیر حقیقت پسندانہ طور پر ان دونوں لاک ڈاؤنز کوبرابر کی چیز قرار دے رہے ہیں‘‘۔ رویش نے کہا کہ ’’کشمیر کا لاک ڈاؤن کچھ اور ہی تھا، بے مثل تھا، یعنی کہ جبر اور ظلم کی بے مثال صورت‘‘۔ یہ سن کر جی چاہا کہ کیوں نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کا نقشہ کھینچوں اور کیوں نہ یہ پہلو بھی بیان ہو کہ کشمیریوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اور وہ بڑے بھیانک اَدوار کو برداشت کرکے نہ صرف زندہ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئے۔
یوں تو کشمیر میں ۹۰ کے عشرے سےہی ظلم و جبر کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کشمیر نے کچھ ایسے اَدوار اور واقعات بھی دیکھے جن سے یوں لگا کہ شاید اس دور سے باہر آنا ناممکن ہے۔ چاہے وہ Catch and Kill آپریشن ہو، یا حکومت کی پشت پناہی میں اخوانی دہشت گردوں کا ظلم و قہر۔ چاہے ایک منصوبے کے تحت خواتین کی عصمت دری ہو یا ۱۰ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اس طرح غائب کرنا کہ ان مظلوموں کا نام و نشان بھی نہ ملے۔
کئی برسوں تک بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو نظربند رکھنا، یا تفتیشی سنٹروں میں لوگوں کو ناقابلِ بیان اور شرم ناک اذیتیں دینا، یہ سب کشمیریوں نے دیکھا، بھگتا اور مسلسل برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود لوگ پُرعزم اور زندہ رہے ہیں۔ جس علاقے میں ہزاروں جواں بیٹوں کی میّتوں کو ان کے باپ کندھا دیں، اس علاقے کے لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ یہ سوچ ہی اذیت ناک حدتک انسان کو مضطرب کر دیتی ہے، لیکن کشمیریوں نے یہ اندوہناک مناظر بھی انگیز کیے۔
گذشتہ برسوں میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن سے نہ صرف ظلم کی ساری حدود پار ہوگئیں بلکہ کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ۲۰۱۶ء سے ہی حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے، جن میں حریت قائدین کو فرضی مقدمات میں پھنسانا وغیرہ وغیرہ، لیکن جولائی ۲۰۱۹ء کے آخری ہفتہ سے ہی وادیِ کشمیر میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ ہر کشمیری کہنے لگا: ’’کچھ انہونی ہونے والی ہے‘‘۔ اگست کی پہلی تاریخ سے ان اقدامات میں اور شدت آئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بہت کچھ خراب ہونے والا ہے، خوف و دہشت کا ماحول چاروں طرف چھا گیا، ۱۰ لاکھ فوجیوں کے باوجود یہاں اضافی طور پر پیراملٹری فورسز منگوائی گئی۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈلائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب بند تھا، حتیٰ کہ کیبل نیٹ ورک بھی بند۔ جماعت اسلامی پر تو بہت پہلے ہی پابندی لگادی گئی تھی۔ جے کے ایل ایف پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے اکثر کارکن گرفتار تھے۔ حریت کی چھوٹی اور بڑی قیادت کو نظر بند کیا گیا تھا۔ ۵؍اگست کو مختلف ذرائع سے معلوم ہونے لگا کہ کشمیر میں ۱۸ ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی۔ تین سابق وزراےاعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی نظر بند کیے گئے۔ وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینوں پہلے بی جے پی کی حکومت میں ساتھی اور حلیف تھیں۔ شاہ فیصل جو کبھی ’نوجوان قیادت‘ کی حیثیت سے کُل ہند میں اُبھارے جارہے تھے، وہ بھی نظر بند کر دیے گئے ۔ انھوں نے کچھ مہینے قبل بھارتی سول سروس سے استعفا دیا تھا اور کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنے انداز سے میدان میں اتر چکے تھے۔
ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس کسی فرد کی ۵۰ یا اس سے زیادہ افراد پر گرفت تھی وہ گرفتار کرلیا گیا ۔ایسا لاک ڈاؤن کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ دکانیں، کاروباری ادارے آٹھ ماہ تک بند رہے۔ میرے ماموں حج پر تھے، ہمیں یا انھیں ہماری کوئی اطلاع نہ تھی۔ میرے انتہائی قریبی دوست اپنی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور کافی بیمار بھی، کے ساتھ سری نگر میں تھے، ان کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ ان کے نوزائیدہ بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے انھیں خود میرے گھر آنا پڑا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ لوگوں کو کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۷۱ دن تک فون بند تھے۔ آج کے دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے ایسی زندگی کا؟ اب بھی انٹرنیٹ محض 2G سپیڈ پر چل رہا ہے۔
اخبارات کے مالکان کو یہ حکم دیا گیا کہ ’’خبر وہی چھپے جو حکومت کے خلاف نہ ہو‘‘۔ کئی دنوں تک تو اخبارات کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ پھر اخبارات میں اداریہ لکھنا اور شائع کرنا بھی بند کیا گیا۔ انھیں سخت ہدایت دی گئی کہ کوئی ایسا مضمون نہ چھپے، جس میں موجودہ حالات کا تذکرہ ہو۔ بی بی سی نے جب مقامی احتجاج کی رپورٹ کی، تو کشمیر کے گورنر نے کھلے عام انھیں دھمکی دی۔ ایسے حالات میں کشمیریوں نے نہایت ہی دانش مندانہ رویہ دکھایا۔ وہ کسی بڑے احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندستان اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرے گا۔ ہزاروں جانیں لے گا اور دنیا کو ذرائع ابلاغ پر اس شدید پابندی کے باعث کوئی خبر بھی نہ ہوگی۔
اگرچہ ہر کوئی دُکھی اور مجروح ہے، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ ہمیں جینا ہوگا، ہماری جدوجہد طویل ہوگی۔ ان مشکل حالات میں کشمیر کے لوگوں نے اگرچہ دکانیں بند رکھیں، لیکن سڑکوں پر نہیں آئے۔ انھوں نے معاشرے کے کمزور افراد کا خاص خیال رکھا۔ معمولات اگرچہ متاثر رہے لیکن زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسکول بند رہے، لیکن یہ قوم جانتی ہے کہ ترقی اور عروج کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم یافتہ افراد نے مفت ٹیوشن سنٹر کھولے، جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں طویل جدوجہد کرنی ہے، اور تازہ دم ہونے کے لیے کبھی پلٹنا بھی پڑتا ہے، غرض کشمیریوں نے جینا سیکھا۔
آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن گرفتاریاں نہیں ہیں، ظلم و جبر نہیں ہے، انٹرنیٹ چل رہا ہے، لوگ فون کے ذریعے اپنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، حکومتی امداد ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن کشمیریوں کے لیے سخت ہولناک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتا۔ کشمیری تو سخت جاں آزمایش میں بھی جینا سیکھ چکا ہے۔کہاں وہ لاک ڈاؤن اور کہاں یہ والا کورونا لاک ڈاؤن!
عارف بہار
بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اورجغرافیائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ ’جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر۲۰۲۰‘ کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔
ماضی میں ۳۵-اے کے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بنکوں، بھارتی یونی ورسٹیوں کے اہل کاروںکے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذالعمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں مشتہر کردہ اور غیر مشتہر شدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغامات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے کہ ’’ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘‘۔
وزیراعظم پاکستان نے اس قانون کو’’ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے اسے ’’چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘، اور ’’بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے‘‘۔آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم فاروق حیدرنے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔
اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اتر رہی ہے تو جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر سامنے کھڑا نظر آیا۔
اس خطرے کو جموں میں پوری طرح محسوس کرتے ہوئے جموں کے علاقے کے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ ’کورونا وائرس‘ کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول کو اُبھرتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے فوراً ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ’’گریڈ ایک سے ۱۷ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی‘‘۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔
اس دوران بھارت میں آباد کشمیری پنڈت اور معروف اداکار انوپم کھیر نے کشمیری زبان میں کشمیری مسلمانوں کو ایک زہر آلود پیغام دیا ہے۔ یادرہے انوپم کھیر مسلمان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہائی قریب ہے۔ اس نے کشمیری زبان کے تین الفاظ ’’رلو(ہم سے مل جاؤ)، گلیو (مرجاؤ)، ژلیو(بھاگ جاؤ)‘‘ پر مشتمل پیغام میں کشمیری مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’تمھیں بھارت میں گھل مل جانا چاہیے، بصورتِ دیگر تمھارے سامنے مرنے یا بھاگ جانے ہی کے دوراستے ہیں‘‘۔ انوپم کھیر کی یہ سوچ ایک فرد کے خیالات کی نہیں، بلکہ ایک پورے نسل پرست فسطائی نظام اور نفرت انگیز ذہنیت کی عکاس ہے، اور بھارتی حکومت کے تمام اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ اس سوچ میں وہی ہٹلر، مسولینی اور راتگو ملادیچ جھلکتے اور جھانکتے نظر آرہے ہیں، جن کی جانب حکومت ِ پاکستان ۵؍ اگست کے بعد سے دنیا کی توجہ مبذول کراتی آئی ہے۔
بھارت کے نئے قانونِ کشمیر پر بھارت کا اصل اور طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین اسٹائل پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اور مسلم شناخت کو آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے ذریعے بدلنا تھا۔ بھارت ۷۱برس تک اس راستے پر کبھی کچھوے، تو کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نریندر مودی نے اس سمت میں خرگوش کی چال سے پیش قدمی کرنا شروع کی ہے۔
بھارت جس طرح کشمیر میں اپنا ایجنڈا یک طرفہ طور پر نافذکرنا چاہتا ہے، یہ دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ امریکا اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ٹھوس بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اب بھارت نے کورونا کا فائدہ اُٹھا کر اس جانب عملی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ یہ کشمیری مسلمان آبادی کو اپنے علاقے میں اقلیت میں بدلنے کی جانب اُٹھایا جانے والا ایک ٹھوس قدم ہے۔ اس کے بعد بھارت کے بڑے کاروباری گروپ کشمیریوں سے اونے پونے داموں زمینوں کی خریداری کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کردیں گے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی مدتوں سے نشان دہی کی جاتی رہی۔ بھارت کی اس منظم کوشش کو حالات کی قید میں پھنسے صرف کشمیری ناکام نہیں بنا سکتے۔ اس کام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس سلسلے میں بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔
عصرِحاضر جسے زعم ہے کہ وہ’جدید‘ ہے، لیکن ظلم و زیادتی کے باب میں یہ ’جدید‘ اُتنا ہی بھیانک اور قدیم ہے، جتنا کہ ظلم و ستم سے لتھڑا تاریک ماضی ہوا کرتا تھا۔ ظلم کی طرف داری اور ظلم کی پردہ داری کےلیے عصرِحاضر کے مقتدر ملکوں، طبقوں اور ’غیرسرکاری تنظیموں‘ کی سیاہ کاری کا گندا کھیل برابر عروج پر ہے۔ اس ظلم کی ایک شرم ناک مثال بنگلہ دیش میں موجودہ عشرے میں برابر پیش کی جارہی ہے۔ لیکن عالمی ادارے، ملکوں کے حکمران اور انسانی حقوق کے ’سوداگر‘ سب خاموشی سے آنکھیں بند کیے دکھائی دیتے ہیں۔ ظلم کے اس طوفان نے ایک اور سعید روح مولانا عبدالسبحان کو نگل لیا ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالسبحان ۱۹فروری ۱۹۳۶ء کو مومن پارہ، ضلع پبنہ مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی نعیم الدین احمد ایک دینی اسکالر تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم رام چندر پور سے حاصل کی، ۱۹۵۲ءمیں مدرسہ عالیہ سراج گنج سے فاضل اور ۱۹۵۴ء میں کامل کی سند اس اعزاز سے حاصل کی کہ مدرسہ بورڈ کے مشرقی پاکستان بھر کے امتحان میں ساتویں پوزیشن پر آئے۔ بنگلہ کے علاوہ، عربی، اُردو میں دسترس کے ساتھ انگریزی اور فارسی کا اچھا فہم رکھتے تھے۔ فاضل کی سند لیتے ہی خداداد قابلیت کی بنیاد پر ، اپنے مدرسے میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے لگے، اور اس کے ساتھ مزید تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کی کتب اورکلامِ اقبال سے والہانہ عشق پیدا ہوا، اورپھر جماعت اسلامی کے قافلے کے ہراوّل دستے میں دعوت، تربیت اور خدمت پر مبنی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ مولانا عبدالسبحان ضلع پبنہ میں جماعت اسلامی کے دعوت و تنظیم میں تاسیسی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔
۱۹۶۵ء میں پبنہ شہر منتقل ہوگئے، جہاں جماعت کے تنظیمی اور رفاہی نظم و ضبط کے ذمہ دار مقرر ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ بعد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی حکمرانوں کی بے تدبیری، سیاست دانوں کی خودغرضی اوربھارتی پشت پناہی سے شروع ہونے والی بدامنی اور تخریب کاری کے دوران امن کمیٹی پبنہ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس دوران مولانا عبدالسبحان نے غیربنگالی اہلِ وطن کو عوامی لیگی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل و غارت سے بچانے کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگادی اور تخریب کاری روکنے کے لیے شہری سطح پر انتظامات کیے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کرکے مغربی پاکستان آگئے اور پھر ۱۹۷۵ء میں واپس بنگلہ دیش چلے گئے۔
۲۰۰۱ء کے پارلیمانی انتخابات میں پبنہ سے پانچویں بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اس کے دو سال بعد۲۰۰۳ء میں ، یعنی ۱۹۷۱ء کے ۳۲برس بعد عوامی لیگ نے ان کے خلاف اچانک ایک فوجداری ’مقدمہ‘ درج کرا دیا، جس میں کہا گیا کہ:’’ اپریل تا اکتوبر ۱۹۷۱ء انھوں نے ۴۵۰؍افراد کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ گھروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کی‘‘۔ جب حسینہ واجد (عوامی لیگ) کی حکومت ایک باقاعدہ سازش کے تحت قائم کی گئی تو اس حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف تواترکے ساتھ مقدمات چلانے کے لیے ۲۰۱۰ء میں نام نہاد کرائمز ٹریبونل (ICT) بنائے۔
اِس شیطانی کھیل کو آگے بڑھانے کے لیے ۲۰ستمبر ۲۰۱۲ء کو، جب مولانا عبدالسبحان ڈھاکہ سے اپنے گھر پبنہ شہر جارہے تھے کہ راستے میں پڑنے والے بنگ بندو پُل پر انھیں گرفتار کرلیا گیا، اور یہ بتایا گیا: ’’۲۰۰۳ء کے قائم شدہ مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ اگلے روز خصوصی ٹریبونل میں پیش کرکے مقدمے کی کارروائی شروع کی۔
اس خانہ ساز عدالت نے ۳۱دسمبر ۲۰۱۳ء کو مقدمے کا ڈراما شروع کیا اور ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو آپ کو سزاے موت سنائی۔ ۱۸مارچ ۲۰۱۵ء کو مولانا عبدالسبحان نے جھوٹے مقدمے، یک طرفہ کارروائی اور سرکاری گواہوں پر جرح کرنے کے حق کو سلب کرنے کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی۔ظاہر ہے کہ جب سب چیزیں ہی ایک جہل اور حددرجہ جعل پر مبنی تھیں تو شریک ِ جرم بنگلہ دیش سپریم کورٹ کیسے اپیل کا میرٹ پرفیصلہ دیتی؟ یوں اپیل مسترد ہوئی اور مولانا عبدالسبحان تب سے اب تک جیل کی پھانسی گھاٹ کوٹھڑی میں قید تھے اور کسی بھی وقت تختۂ دار کے لیے بلیک وارنٹ کے اجرا کے منتظر تھے۔
بڑھاپے اور مسلسل قید کی وجہ سے مولانا عبدالسبحان متعدد امراض کے شکارہوچکے تھے۔ ۲۴جنوری ۲۰۲۰ء کو جب صحت کی حالت بہت زیادہ بگڑگئی تو جیل حکام کی سفارش پرڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں ۱۴فروری ۲۰۲۰ء کو دن ڈیڑھ بجے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر ، بزرگ پارلیمنٹیرین ، دینی رہنما اور ۸۴سال کے بزرگ مولانا عبدالسبحان انتقال فرماگئے۔ یوں ۱۹۷۱ء میں برہمنی سامراجیت کےخلاف کھڑے رہنے اور پھر آخردم تک بھارت کی طفیلی اور ’را‘ کی پروردہ حکومت کے سامنے ڈٹ کر دیوار بننے اور اسلامی اُمت کے موقف کی تائید کرنے والے مجاہد نے جان کانذرانہ دے کر عہد ِ وفا نبھایا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جو انسانی حقوق کے نام پر دکان سجاتے ہیں، انھیں نہ ایسے بے معنی فوجداری مقدمات میں کوئی خرابی نظر آتی ہے، نہ انھیں جعلی عدالتی عمل میں کچھ قباحت دکھائی دیتی ہے، اور نہ ایسی اموات اور پھانسیوں پر ان کے ضمیر پہ کچھ بار پڑتا ہے۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے تعزیتی بیان میں کہا: ’’مولانا عبدالسبحان صاحب ایک متنازعہ اور سیاسی تعصب سے آلودہ انتقامی مقدمے میں جعلی اور عوامی لیگی گواہیوں کی بنیاد پر سزاے موت سے منسوب کیے گئے۔ وہ گذشتہ آٹھ برس سے جیل میں قید تھے۔ حالانکہ ۱۹۷۲ء سے لے کر اب سے چند برس پہلے تک، بنگلہ دیش میں کبھی کسی نے، مولانا عبدالسبحان کو کسی فوجداری جرم کا ملزم قرار نہیں دیا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے بنگلہ دیش کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور دینی ترقی کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ بنگلہ دیش میں اسلامی شعائر کی سربلندی اور عدل و انصاف کا دور دورہ دیکھنا ان کا خواب تھا۔ ایک مدت سے وہ شدید بیمار تھے۔ اہلِ خانہ نے بار بار اپیل کی کہ انھیں علاج کی سہولت مہیا کی جائے، لیکن موجودہ حکومت نے کسی اپیل پر دھیان نہ دیا۔ اور جب حالت بہت بگڑگئی تو چند روز کے لیے اس طرح ہسپتال بھیجا کہ علاج ان کے لیے بے معنی ہو کر رہ گیا‘‘۔
پاکستان اور عالم اسلام ،عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں دوستانہ رجحان اور خوش گوار سوچ رکھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے بارے میں یہ تصور موجود ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور توسیع پسندانہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی معروف ہے کہ چین دوسرے ملکوں کے تعلقات میں ان کی قومی عزت نفس اور وقار کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر پاکستان سے چین کے اور چین سے پاکستان کے تعلقات کی ایک قابلِ قدر تاریخ ہے۔ ان تمام امور کی بنیاد پر ہم عوامی جمہوریہ چین کی تعمیر ، امن اور یک جہتی کو دوستی کا مرکزی نکتہ تصور کرتے ہیں۔
اسی طرح ہم یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ چین کی دور اندیش قیادت واقعات اور حوادث کو مدنظر رکھتے اور اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے وقت چند پہلوئوں پر نظرثانی کرے۔ بلاشبہہ عمومی طور پر انھیں مذہب اور مذہبی جذبات سے کچھ نسبت نہیں، لیکن بہرحال، وہ انسانی تہذیب اورانسانی معاشرے میں مذہب کے گہرے اثرات سے واقف ہیں۔
اسی طرح باریک بین چینی حاکموں کو اس چیز کا بھی علم ہے کہ ستاون ،اٹھاون مسلمان حاکم، مسلم اُمت کے جذبات سے جتنے بھی دُور اور سامراجیوں کے قریب تر ہوں، وہ ایک الگ اکائی ہیں۔ حاکموں کے بر عکس مسلم امت کے دل ایک وجود کی حیثیت سے دھڑکتے ہیں۔ رنگ ونسل اور علاقے یا زبان کی تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ ایک تہذیب ہیں۔ یہ بات بھی چین کے دُوراندیش حاکم جانتے ہیں اور پھر زمینی حقائق بھی یہ ہیں:چینی ترکستان ،وسطی ایشیا ، ترکی، جنوبی ایشیا، انڈونیشیا سے بوسنیا اور مراکش تک ایک جغرافیائی وحدت ،مسلم اُمہ کے نام سے منسوب ہے۔ یہ وحدت نہ امریکا کی ہمسایہ ہے اور نہ یورپ سے منسلک، بلکہ اس کی بڑی آبادیاں چین ہی سے متصل اور قریب تر ہیں (جیسے مسلمانوں کے تینوں بڑی آبادیوں کے ممالک ،انڈونیشیا ،پاکستان، بنگلہ دیش)۔ اس لیے ،ایک تو اس فطری ہمسائیگی کا تقاضا ہے کہ ہمسایے کے جذبات کا پاس ولحاظ رکھا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے مسلمان حاکموں کے بجاے کھیتوں، قصبوں، کہساروں،میدانوں اور صحرائوں میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کے لیے، جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر ہوکر ، غور وفکر کی کوشش کریں۔
جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا ہے، ہم چین کی جغرافیائی وحدت کا احترام کرتے ہیں۔اس کی ترقی پر خوشی محسوس کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ: چینی حکومت ،چین سے منسلک سنکیانگ اور وہاں بسنے والے اویغور مسلمانوں کے ساتھ شفقت، احترام اور ان کی اقدار کے پاس ولحاظ کی راہ پر چلے، تو یہ قدم نہ صرف چین کے داخلی استحکام ،بلکہ خود مسلم امت سے چین کے خوش گوار تعلقات کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بعض مغربی ممالک کے اس پراپیگنڈے کا سدِّباب بھی ہوسکے گا جو وہ جدید چینی سلطنت میں پیدا ہونے والے تضاد کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں ۴۰۳ صفحات پر مشتمل خود چین کے جو خفیہ سرکاری کاغذات The Xinjiang Papers کے نام سے دنیا کے سامنے آئے ہیں ۔ ہم ان کی تفصیلات اور جزئیات پر بحث سے قطع نظر، یہاں پر پاکستان کے مؤقر روز نامہ Dawn کا اداریہ پیش کر رہے ہیں، تاکہ معاملے کی گمبھیرصورتِ حال کا اندازہ ہو سکے:
’’یہ ۳۰۴ صفحات، بہت واضح الفاظ میں ایک ایسا ہوش ربا اور منجمد کر دینے والا منظر پیش کرتے ہیں، جس سے یہ نظر آتا ہے کہ چینی مسلمانو ں پر مشتمل اقلیت کی شناخت کو مٹادینے کا پروگرام پیش نظر ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ انھیں نکال پھینکنے کی یہ حکمت عملی چینی حکومت کی پالیسی کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی ان خفیہ دستاویزات کو ایک گم نام ذریعے نے نیویارک ٹائمز [۱۶نومبر ۲۰۱۹ء] کے ذریعے بے نقاب کیا ہے ، اور یوں اس سوچ اور اس عمل پر روشنی ڈالی ہے، جس کے تحت چینی مسلمانوں اور خاص طور پر اویغور مسلمانوں کو ’دوبارہ سبق سکھانے‘ [یا پڑھانے] کی غرض سے بڑے پیمانے پر نظر بند کیا گیا ہے اور انھیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کاغذات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ چین، پُرامن باشعور مسلمانوں اور انتہا پسندوں سے متصادم ہے، جسے مذہبی حوالے سے جبر کی خالص ترین شکل کہا جا سکتا ہے۔ خفیہ صفحات میں ان تقاریر کے متن بھی شامل ہیں، جن میں مبینہ طور پر صدر ژی چن پنگ نے سنکیانگ میں انتہا پسندی کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کے ذریعے کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی ایک تقریر میں ’انتہا پسندی ‘ سے ’متاثر‘ افراد کی امداد کے لیے ’تکلیف دہ علاج معالجے ‘ کی حمایت کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے ’ہرگز رحم نہیں کرنا ‘۔ منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق سرکاری اہل کاروں کی رہنمائی کے لیے ایک گائڈ کا کردار سامنے آتا ہے کہ جب پریشان حال اور دکھی اویغور [مسلمان]اپنے خاندان کے لوگوں کی ’گم شدگی ‘ کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، تو وہ [گائڈ] بتاتا ہے کہ ’’سرکاری حکام کی ہدایت ہے کہ وہ لوگ اسلام پسندانہ وائرس اور ’انقلابیت‘ سے ’متاثر‘ ہو چکے تھے، اس لیے ان کی صحت کی درستی اور انھیں ٹھیک کرنے کے لیے ’قرنطینہ ‘[متعدی امراض سے بچائو کے مرکز ] میں رکھنے کی ضرورت تھی‘‘۔ مزید برآں ، نہ چاہنے کے باوجود اویغور افراد خانہ کے پاس، سرکاری اہل کاروں کے ان بیانات کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ زیادہ پریشانی واضطراب کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے عزیزواقارب کی نظر بندی کا زمانہ زیادہ لمبا ہو سکتا ہے ۔
’’کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ پر یہ بات بڑے تسلسل سے سامنے آ رہی ہے کہ ’نظربندی‘ یا حراستی کیمپوں میں ۱۰ لاکھ اویغور قیدوبند سے دو چار ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت [چین ] سے اعلیٰ معاشی مفادات وابستہ رکھنے والے ممالک ، ان اطلاعات کو عام طور پر پراپیگنڈا کہانیاں کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں ، اور انھیں مسترد کر دیتے ہیں ۔ خود چین نے ان پیپرز کو ’بے نقاب‘ کرنے والے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ انتہا پسندی کے خلاف ہماری جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، جسے سنکیانگ میں ہی بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے‘‘۔ جو دراصل رحم کی قدر سے مکمل طو ر پر خالی ہے۔ تاہم، اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ [چین نے ] ان دستاویزات کو متنازعہ کہنے سے گریز کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے چینی مسلمانو ں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بے خبری ظاہر کرنے کو ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔ دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح اگرچہ خود پاکستان میں بھی انسانی حقوق کا باب داغ دار ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ کشمیریوں اور روہنگیا [مسلمانوں ] کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بات کر سکتا ہے، تو کیا وہ اویغور وں کے بارے میں خاموش رہ سکتا ہے ؟‘‘ (اداریہ روز نامہ Dawn، کراچی،۲۰ نومبر ۲۰۱۹ء )
’چینی دستاویزات‘ اور اس اداریے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ چینی مسلمانوں اور اویغور مسلم آبادی ، دونوں ہی کے حوالے سے یہ دستاویزات، مخصوص ریاستی رجحان کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان دستاویزات میں ’سخت تادیبی کارروائی‘ اور ’دماغ درست‘ کرنے کا اسلوبِ بیان واضح ہے۔ تیسرا یہ کہ لفظ ’انتہا پسندی‘ کو مسلمانوں کے قائم مقام کے طور پر برتنے کا مغربی رجحان یہاں پر بھی موجود ہے۔چوتھا یہ کہ دنیا کے ممالک اپنے مادی مفادات کو عزیز تر رکھتے اور انسانی مسئلے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ دنیا اور پاکستان کو اس معاملے میں تادیب اور تعذیب سے بچانے کے لیے ہمدردانہ کوششیں کرنی چاہییں۔ چھٹا یہ کہ چین نے ان دستاویزات کی مذمت تو کی ہے لیکن متنازعہ نہیں کہا۔
دنیا کے حالات اور خصوصاً ہمارے اس علاقے کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ، ان کا تقاضا ہے کہ نہ صرف چین میں بقاے باہم کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جائے، بلکہ اویغور مسلمانوں کے داخلی وتہذیبی تشخص کا اعتراف واحترام کیا جائے۔ مبینہ طور پر اویغور مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور غالب ’ہان چینی نسل‘ کی سنکیانگ میں آبادکاری، ممکن ہے کہ چند برسوں میں ممکن بناکر مقامی آبادی کا توازن تبدیل کردیا جائے، لیکن اس کاوش کے منفی اثرات بہت دُور رس ہوں گے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اویغور آبادی کو ہمدردی سے اپنے مذہبی، ثقافتی اور معاشی معاملات چلانے کے لیے شریک ِ سفر بنایا جائے ، جس طرح کہ چین کی جرأت مند حکومت نے ’ایک ملک، اور دو نظام ‘ کا تجربہ کر کے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اسی طرح ضرورت یہ ہے کہ ’ایک ملک اور باہم احترام‘ کے راستے پر بھی چلاجائے۔ اس طرح چین زیادہ مضبوط ہو گا اور ان تضادات کو گہرا کرنے کی مغربی سازشوں کو ناکام بھی بنا یا جاسکے گا اور مسلم اُمت میں تشویش کو ختم کیا جاسکے گا۔
_______________
بنگلہ دیش میں انتخابی عمل، ہوبہو تصویر ہے مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد انتخابی ڈراموں کی۔ بنگلہ دیش کا ۱۱واں پارلیمانی الیکشن ایک ایسا کھیل تھا کہ جس میں ہر مدمقابل کھلاڑی کے ہاتھ بندھے تھے، جب کہ محبوب کھلاڑی کے ہاتھ کھلے ہوئے تھے اور پھر منصف بھی کھلے ہاتھ والی ٹیم کا رکن تھا۔ حسینہ واجد کی قیادت میں عوامی لیگ ۲۰۰۹ء میں برسرِاقتدار آئی، جس نے ۲۰۱۴ء میں جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر اگلے پانچ سال حکمرانی کی، اور اب اسے تیسری مرتبہ بھی ووٹ کی ضرورت تھی۔ حقائق اور واقعات چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ اس انتخابی ڈرامے کو عملاً بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے ڈیزائن کیا۔
گذشتہ سات برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو پھانسیاں دینے کے لیے افسانوی مقدموں کو نام نہاد ’خصوصی عدالتوں‘ میں چلایا۔ پھر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر(اسلامی جمعیت طلبہ )کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈالنے، بہیمانہ تشدد کرکے سیکڑوں کارکنوں کو معذور اور اپاہج بنانے، ملازمتوں سے برطرف کرنے کے علاوہ، جماعت کے اداروں اور نجی کاروباروں کو تباہ کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگا دیا۔ پھر جماعت اسلامی کی حلیف ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘ (بی این پی) کی قیادت کو میدان سے نکال باہر کرنے کے لیے، اس کی سربراہ خالدہ ضیا بیگم کو ۱۷سال کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا۔
اس پس منظر میں بنگلہ دیش میں ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو ایسا نام نہاد انتخاب ہوا کہ پارلیمنٹ کی ۳۰۰نشستوں میںسے ۲۸۸ سیٹیں جتوا کر، ۹۸ فی صد کامیابی حکمران عوامی لیگ کے نام کی گئی، جسے ہر عاقل انسان اور حسِ انصاف رکھنے والے فرد نے مسترد کیا۔ تاہم، نئی دہلی اور بیجنگ حکومتوں نے سربراہی سطح سے فوری طور پر انتخابی نتائج کو قبو ل کرکے مبارک باد کے پیغامات روانہ کیے، اور چند روز بعد ’اسلامی تعاون تنظیم‘(OIC) کے سیکرٹری جنرل نے بھی یہی کیا۔
حزبِ اختلاف نے اگرچہ الیکشن سے پہلے ہی دنیا بھر کی حکومتوں کے سامنے اور ذرائع ابلاغ پر یہ دہائی دی تھی کہ قبل از انتخاب دھونس دھاندلی کا طوفان اُٹھایا جا رہا ہے۔ ستمبر۲۰۱۸ء میں ’ڈجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘ پاس کر کے اخبارات و ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کرلی گئی۔ پھر مدمقابل پارٹیوں کے اُمیدواروں اور لیڈروں کو قیدوبند، مقدمات کی بھرمار اور پولیس یا باقاعدہ منظم غنڈوں کے ذریعے ڈرا دھمکا کر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی مہم چلائی گئی۔ حتیٰ کہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، اور جب کاغذات داخل ہوگئے تو آدھے سے زیادہ حلقوں میں اُمیدواروں کو ایک روز کے لیے بھی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اور جس روز رسمی انداز سے الیکشن کا انعقاد ہوا، اسی روز : ’’اندرونِ ملک مختلف حلقوں میں عوام کو ڈرا دھمکا کر عوامی لیگ کے انتخابی نشان ’کشتی پر مُہر لگانے پر مجبور کیا گیا‘۔(ڈیلی اسٹار، ڈھاکا، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
۳۰ دسمبر یومِ انتخاب کو بی بی سی کے نمایندے نے آنکھوں دیکھا حال دنیا بھر میں پہنچایا اور سنایا کہ: ’’ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ اسٹیشنوں میں لائے جارہے ہیں‘‘۔ اور جب بنگلہ دیش کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں متعین بی بی سی کے نامہ نگار نے لکھن بازار میں ایک بھرا بیلٹ بکس، قبل از الیکشن دیکھ کر پریذائیڈنگ افسر سے سوال کیا: ’جناب یہ کیا ہے؟‘ تو متعلقہ افسر نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ چٹاگانگ کے اس پولنگ اسٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی کا نمایندہ موجود تھا، اور یہی حال دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کا ہے‘‘(بی بی سی ویب سائٹ، ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء)۔’’خود ڈھاکا شہر کے متعدد مقامات پر عوامی لیگ نے انتخابات شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس، ووٹوں سے بھر دیے، اور لوگوں کو مصروف رکھنے کے لیے گھنٹوں تک لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رکھا گیا، تاکہ ہجوم سے تنگ اور تھکن سے مجبور ہوکر لوگ ووٹ ڈالے بغیر خود ہی گھروں کو واپس لوٹ جائیں‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
انتخابات کے روز بھی لوگ اس ظلم پر بڑے پیمانے پر چیخ پکار کرتے رہے، لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی: ’’یاد رہے، قانون نافذ کرنے والے چھے لاکھ سیکورٹی اہل کاروں کی نگرانی میں انتخابات ہورہے تھے۔ انتخابی عملے اور کئی جگہوں پر سیکورٹی اہل کاروں نے عوامی لیگ کے لیے مُہریں لگاکر ’انتخاب‘ کو ’محفوظ‘ بنایا۔ ڈھاکا یونی ورسٹی میں قانون کے پروفیسر آصف نذرل نے بیان کیا : بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کے اُمیدواروں کو ذاتی طور پر یا ان کے پولنگ ایجنٹوں تک کو نہ بیٹھنے دیا گیا اور نہ انتخابی عمل کے معائنے کی اجازت دی گئی۔ اور جو پولنگ ایجنٹ کسی طرح، کسی مقام پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے، ان کی اکثریت کو گنتی شروع کرتے وقت بھگا دیا گیا۔ بنگلہ دیش کے لوگ احمق نہیں ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے ووٹ پر کس انداز سے، اُن کی آنکھوں کے سامنے ڈاکا زنی کی گئی ہے۔اس طرح عملاً ایک پارٹی کی حکومت مسلط کی جارہی ہے‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
حزبِ اختلاف نے بدانتظامی، بدنظمی اور بددیانتی تمام مظاہر کو دیکھ کر، اس انتخابی ڈھونگ کو فراڈ، جعل سازی اور دھاندلی زدہ ڈراما قرار دیا، مسترد کیا اور کہا کہ: ’’یہ موت کے سکوت اور خوف کے بھوت کا کھیل تھا‘‘ (ڈیلی واشنگٹن پوسٹ ، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یاد رہے کہ الیکشن کے روز ۲۲؍افراد قتل کر دیے گئے اور سیکڑوں افراد کو زخمی کرکے دہشت پھیلائی گئی۔ ملک کے سنجیدہ حلقے بنگلہ دیش میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے شدید صدمے اور مایوسی سے دوچار ہیں۔
بنگلہ دیش لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس (LDA)نے ۸۲اُمیدواروں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کی قیادت نے ڈھاکا پریس کلب میں بتایا: ’’پورا ملک عینی شاہد ہے کہ حکمران ٹولے نے انتخابی عمل کو برباد کرکے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا ہے‘‘۔ اور کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش (CPB) کا موقف ہے: ’’عوامی لیگ نے الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد جبر، دھوکے، دھاندلی اور جھوٹ کا طوفان برپا کیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۲جنوری۲۰۱۹ء)
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)نے انتخابات سے قبل، حسینہ حکومت کی بدنیتی کی نشان دہی کر دی تھی، اور الیکشن کے بعد اس کے ڈائرکٹر ایشیا، مسٹربریڈ ایڈمز نے گواہی دی: ’’حزبِ اختلاف کے اہم لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے، بعض کو قتل کر کے اور بعض کو لاپتا کرکے جس خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا کیاگیا، اس میں کسی بھی لحاظ سے یہ قابلِ اعتبار انتخابات نہیں ہیں‘‘ (بی بی سی لندن، ۳۱دسمبر ۲۰۱۸ء)۔ بنگلہ دیش میں سابق امریکی سفیر اور ولسن سنٹر کے سینئر اسکالر ولیم بی میلان نے کہا: ’’بنگلہ دیش کے انتخابات پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ یہ انتخابات سراسر بددیانتی کی ایک مجسم مثال ہیں اور حسینہ واجد کی حکومت غیرقانونی ہے‘‘ (ڈیلی نیونیشن، ڈھاکا، ۱۷جنوری ۲۰۱۹ء)۔’’برطانیہ، امریکا اور یورپی یونین نے بھی انتخابات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا‘‘(رائٹر، ۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔ البتہ اپنا روایتی’ریکارڈ‘ برقرار رکھتے ہوئے یہ ممالک چند ہفتوں بعد اس جعلی انتخاب کو تسلیم کرکے حسب ِ معمول تعاون شروع کردیں گے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی ان انتخابات کی صداقت کو مشکوک اور فساد زدہ قرار دیا ہے کہ: ’’جس میں بدعنوانی کے بے شمار شواہد اپنی کہانی آپ بیان کر رہے ہیں‘‘ (ڈیلی بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جمع کردہ حقائق کی بنیاد پر بیان دیا: ’’بنگلہ دیش کے موجودہ انتخابی نتائج کو مسترد کرنے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کے لیے منطقی اور اصولی بنیادیں موجود ہیں‘‘۔ (ڈیلی نیو ایج، ڈھاکا، ۱۷ جنوری ۲۰۱۹)
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گڑیس نے اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات درست نہیں ہوئے۔ ہم بنگلہ دیش میں سیاسی عمل اور شہری زندگی کو پُرسکون بنانے کے لیے بامعنی کردار کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‘‘۔(ڈیلی نیو ایج، ۱۹ جنوری ۲۰۱۹)
امرِواقعہ ہے کہ خاص طور پر۲۰۰۹ء کے بعد، جب سے حسینہ واجد کی عوامی لیگ برسرِاقتدارہے، بنگلہ دیش پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھارتی گرفت میں جکڑا گیا ہے۔ وہ بہت سے مفادات جو بھارت ابتدائی ۳۷برسوں میں حاصل نہ کرسکا تھا، گذشتہ ۱۰ برسوں میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں (اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ، تری پور اور سکم) تک، بنگلہ دیش کی سرزمین سے گزر کر نئی دہلی انتظامیہ کی براہِ راست رسائی ہے۔ اسی لیے حسینہ واجد نے کہا کہ: ’’ہمارے برسرِاقتدار رہنے سے بھارت سے تعلقات مضبوط اور باثمر ہوں گے اور تجزیہ نگار ہرانمے کارلیکر نے دعویٰ کیا ہے کہ:’’ ضیاء الرحمان، حسین محمد ارشاد اور خالدہ ضیا کے اَدوارِ حکومت میں بنگلہ دیش، بھارت سے فاصلے پر اور پاکستان سے قربت کی طرف گیا تھا‘‘ (ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ اسی اخبار نے بھارتی مقتدر قوتوں کی خواہشات کے آئینہ دار مضمون Why We need Hasina? میں وضاحت سے بتایا کہ: ’’خالدہ ضیا نے کبھی بھارتی مفادات کے لیے کام نہیں کیا ہے بلکہ یہ جماعت اسلامی کی حمایت سے برسرِاقتدار آتی ہے اور بھارتی مفادات کے برعکس پاکستان سے قربت کی طرف بڑھتی ہے‘‘۔(ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۷جنوری ۲۰۱۹ء)
بھارت اور دوسری طاقتیں بنگلہ دیش کو تجرباتی طور پر اسلامی قوتوں کی بیخ کنی کا میدانِ کارزار بنانا چاہتی ہیں۔ جب اسلامی شناخت کا ذکر آتا ہے تواس علاقے میں خودبخود پاکستان کا نام نمایاں ہوتا ہے۔ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حسینہ واجد کے لیے تیسری بار اقتدارکا راستہ ہموار کرنے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بنگلہ دیشی نیشنلسٹ قیادت کو بُری طرح دبایا، منتشر اور بے اثر کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ۲۰۲۱ء کو، جب کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ۵۰سال مکمل ہوں، تو اس مناسبت سے پاکستان کے خلاف زیادہ منظم طریقے سے، تسلسل کے ساتھ مہم چلاکر اسے بدنام کیا اور دبائو میں لایا جائے۔
حسینہ واجد کے سیاسی مشیر اور ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ کے ایچ ٹی امام نے برملا کہا: ’’بی این پی نے جماعت اسلامی سے تعاون جاری رکھا ہے۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ پارٹی چین اور پاکستان کی حامی ہے، اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست میں بھارت کسی بھی صورت، بی این پی پر بھروسا نہیں کرسکتا‘‘(دی اسٹار آن لائن، ۱۶ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ سوچ بنگلہ دیش سے زیادہ بھارت کے ان استعماری رویوں کی گواہی پیش کرتی ہے کہ برسرِزمین نئی دہلی کس انداز سے بنگلہ دیش کی سیاست اور ریاست کے معاملات میں دخیل ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے حسینہ واجد سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے مبارک دُہرائی اور کہا کہ: ’’حسینہ واجد کی صورت میں، بھارت کے لیے مشرقی محاذ محفوظ اور مامون ہے‘‘ (ڈیلی ایشین ایج، ۱۷جنوری)۔ دیکھیے: ’’حکومت ِ ہند اور بھارتی سیاست دان اور میڈیا کے لوگ بہت مسرور ہیں کہ عوامی لیگ کی کامیابی کی وجہ سے بنگلہ دیش، اسلامی بلاک میں جانے سے بچ گیا ہے‘‘۔ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
بنگلہ دیش کے اخبارات کے مطابق نئی حکومت کی شروعات کے طور پر بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے کہا: ’’عوامی لیگ کی حکومت ایسی قانون سازی کرے گی کہ جس کے تحت جماعت اسلامی کو سزا دینے کا عمل تیزتر ہوگا۔ اس قانونی ترمیم کا مسودہ، وزیراعظم حسینہ واجد کی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیا جارہا ہے اور جلد کابینہ میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس ترمیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ تاحال بنگلہ دیش جماعت اسلامی کو پوری طرح سزائیں نہیں دی جاسکیں۔ فروری ۲۰۱۳ء کے ترمیمی ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں افراد کو سزائیں دینے کا ذکر ہے، مگر پارٹی کو عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ مذکور نہیں ہے۔ اب ہمارے پیش نظر یہ ہدف حاصل کرنا ہے‘‘ (ڈیلی اسٹار،۱۰جنوری ۲۰۱۹ء)۔یاد رہے کہ: ’’حسینہ واجد کی حکومت، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے کئی اہم لیڈروں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے باوجود جماعت اسلامی کی کمر نہیں توڑ سکی‘‘ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ نامرادی نئی دہلی اور ڈھاکا کی حکومتوں کے لیے غصّے اور شرمندگی کا باعث ہے۔
اس تسلسل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھی اور عملاً ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے بھارت نواز ڈاکٹر کمال حسین نے منصوبے کے مطابق پہلے تو ایک جعلی انتخاب کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، بڑی مہارت سے سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کا کام کیا۔ اور پھر منصوبہ سازی شروع کی ہے کہ: ’’بی این پی کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنے ۱۵سالہ اتحاد و اتفاق کو ترک کرکے، جماعت سے الگ ہوجائے‘‘ (ڈیلی سن، ڈھاکا، ۱۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔حسینہ واجد نے سیاسی پارٹیوں کو مذاکرات کی دعوت دی، جس پر تمام پارٹیاں شرکت کرنے یا شرکت نہ کرنے پر غور کرر ہی ہیں، لیکن کمال حسین نے فوراً شرکت کا عندیہ دیا۔(ڈیلی اسٹار، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
یہ تمام حقائق اور حوادث بتاتے ہیں کہ بھارت کسی صورت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش میں ایسی امن و سکون کی فضا پروان چڑھے کہ وہاں کے لوگ امن اور خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں۔ اس طرح وہ بھارت کا دست ِ نگر رہے۔ دوسرا یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری نہ آئے اور باہم فاصلے بڑھتے رہیں۔ تیسرا یہ کہ جماعت اسلامی کے تنظیمی ہیکل کو تباہ اور بی این پی کے سیاسی وجود کو ختم کیا جائے۔ ان حالات میں مسلم اُمہ کے فہمیدہ افراد اور اداروں کو بنگلہ دیشی بھائیوں کی اس انداز سے دست گیری کرنی چاہیے کہ وہ بھارتی تسلط سے آزاد اور مسلم اُمت سے قریب تر ہوسکیں۔
پروفیسرفواد سیزگین (Fuat Sezgin )موجودہ زمانے کے ایک عظیم محقق اور اسلامی اسکالر تھے۔ مقصد سے لگن، کام کے حجم اور حددرجہ محنت کے حوالے سے ان کا مقام و مرتبہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔افسوس کہ وہ بر صغیر پاک و ہند میں معروف نہیں تھے، جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے اور ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عربی اور فارسی سے بے بہرہ اور انگریزی کی حاکمیت سے مرعوب ہیں، اس لیے انگریزی کے علاوہ دیگرزبانوں میں علوم تک رسائی نہیں رکھتے۔
فواد سیزگین ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی کے صوبے بطلیس میں پیدا ہوئے۔ انٹرسائنس تک تعلیم اناطولیہ کے شہر ارض روم (Erzurum ) میں حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انجینیرنگ فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران میں ایک واقعے نے زندگی کا دھارا بدل دیا، اور وہ انجینیرنگ کے بجاے دوسرے عظیم ترین میدان کی طرف چلے آئے۔ ان دنوں ایک مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر ہیلمیٹ ریٹر (۱۸۹۲ء-۱۹مئی۱۹۷۱ء) اورینٹل فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں پڑھا رہے تھے، جنھیں عربی، فارسی اور ترکی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ وہ تصوف اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ایک روز فواد کے قریبی عزیز نے کہا کہ: ’کسی روز یونی ورسٹی میں ہیلمیٹ نامی جرمن ماہر علوم اسلامیہ کا لیکچر سنو‘۔ اس ہدایت پر فواد نے ہیلمیٹ کے ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ دورانِ گفتگو پروفیسر ہیلمیٹ نے کہا کہ: ’’اسلامی تاریخ اور عربی ادب کی عظمتوں اور وسعتوں کا کوئی حساب نہیں۔ مسلمانوں نے سائنس میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان سے دُنیا ناواقف ہے، کاش! کوئی اس طرف توجہ دے؟‘‘فواد نے متاثرکن استاد کی یہ بات سن کر اسی وقت دل میں عہد کیا: ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ اور اگلے روز انجینیرنگ چھوڑ کر اورینٹل فیکلٹی میں داخلے کے لیے درخواست دے دی، اور یہ سوچا تک نہ کہ داخلے کی تاریخ ختم ہوچکی ہے۔ پھر پروفیسر ہیلمیٹ سے التجا کرکے داخلہ لے لیا۔ استاد نے کہا: ’’عربی سیکھنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ لیکن جب شاگرد کو پُرعزم پایا تو استاد نے فواد کو سب سے پہلے قدیم عربی میں دسترس کی طرف متوجہ کیا، جو واقعی ایک مشکل کام تھا۔ تاہم وفورِشوق میں فواد نے ۱۷، ۱۷ گھنٹے عربی سیکھنے پر صرف کیے۔
اسی دوران دوسری جنگ ِعظیم میں۱۹۴۳ء میں ہٹلر کی فوجیں بلغاریہ تک آپہنچیں، تو یونی ورسٹی طویل عرصے کے لیے بند ہوگئی۔ ان چھٹیوں میں فواد نے عربی سیکھنے کے ساتھ تفسیرطبری کو براہِ راست عربی سے پڑھنا اور قرآن پر غوروفکر شروع کیا۔ چھے ماہ بعد جب یونی ورسٹی کھلی تو استاد نے عربی میں استعداد جانچنے کے لیے امام غزالیؒ (۱۰۵۸ء-۱۱۱۱ء)کی احْیَاء عُلُومُ الدِّین سامنے رکھی۔ فواد نے اس کے مقامات پر اس طرح گفتگو کی جیسے کوئی روزنامہ پڑھ رہے ہوں۔ اس چیز سے متاثر ہوکر استاد نے ایک اور پہاڑ لاسامنے کھڑا کیا: ’’اگر علم اور مسلمانوں کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہو تو ساتھ ساتھ ہرسال ایک نئی زبان سیکھنے کی کوشش بھی کرو اور کم از کم ۳۰زبانیں تو ضرور سیکھو۔ یہ لسانی علم تمھیں فکر، دانش اور معلومات کی ان دُنیائوں تک لے جائےگا، جس کا کوئی شمار نہیں کرسکتا‘‘۔ اس توجہ پر بھی فواد نے عملی طور پر کام شروع کر دیا۔یوں ترکی کے علاوہ جرمن، فرانسیسی، عربی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور انگریزی سیکھ لی، البتہ لکھنے کا زیادہ تر کام جرمنی زبان میں کیا۔
انجینیرنگ کا سابق طالب علم اب پوری دل جمعی سے دینی اور عربی علوم کے ہفت خواں طے کر رہا تھا۔ جب ۱۹۵۰ء میں ایم اے علومِ اسلامیہ پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تحقیق کا مرحلہ آیا تو فواد اس نتیجے پر پہنچے کہ مستشرقین اور پادری حضرات، دین اسلام پر حملہ کرتے وقت بنیادی ہدف ذخیرۂ حدیث کو بناتے اور کہتے ہیں: ’سنی سنائی باتوں کا علم‘، اور بخاری ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔ فواد نے بدنیتی پر مبنی اس حملے کا جواب علمی سطح پردینے کا عزم کیا۔ پروفیسر ہیلمیٹ کی رہنمائی میں تحقیق کرتے ہوئے البخاری کے ماخذ کے موضوع پر ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جب ۱۹۵۶ء میں استنبول سے یہ تحقیقی مقالہ شائع ہوا تو علمی حلقوں کی توجہ کا موضوع بنا۔
ڈاکٹر فواد نے ذخیرئہ حدیث کی تدوین پر ’محض زبانی سنے سنائے‘ علم کے تاثر کا جواب دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ: ’’مجموعہ ہاے حدیث میں ابتدائی زمانوں ہی سے لفظ کتاب بطوراصطلاح مکاتبت کے معنوں میں استعمال ہواہے، جس سے مراد روایت ِ حدیث کو زبانی سنے سنائے بغیر تحریری شکل میں منتقل کرنا ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے اسناد میں کتب الی یا من کتاب کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ یوں اسناد بظاہر زبانی روایت کا حوالہ رکھنے کے باوجود بسااوقات باقاعدہ تصانیف سے حرف بہ حرف نقل اور اقتباس کی جاتی تھیں‘‘۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول : ’’ڈاکٹر سیزگین کی شہرت کا ایک خصوصی حوالہ علمِ حدیث میں اسناد کے طریق کار اور اس کی حقیقت و اہمیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر ہے، جس نے مغرب کے علمی حلقوں میں بازگشت پیدا کی اور گولڈ زیہر [۱۸۵۰ء-۱۹۲۱ء] کے گمراہ کن نتیجۂ فکر اور دیگر مغربی تحقیق کاروں کے تصورات پر سنجیدہ تجزیے اور محاکمے کی ضرورت کا احساس دلایا‘‘۔
اس دوران ڈاکٹر فواد اورینٹل فیکلٹی، استنبول یونی ورسٹی میں بطورِ استاد خدمات انجام دیتے رہے کہ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ترک جرنیل جنرل جمال گرسل (۱۸۹۵ء-۱۹۶۶ء)نے فوجی انقلاب برپا کیا۔ یہ انقلاب سخت گیر لادینی نظریات کا علَم بردار تھا۔ یہ وہی جنرل گرسل ہیں، جنھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک دومرتبہ منتخب ترک وزیراعظم عدنان میندریس (پ:۱۸۹۹ء) کو برطرف کیا اور ۱۷ستمبر ۱۹۶۱ء کو، عدنان کابینہ کے وزیرخارجہ فطین رشدی زورلو (پ:۱۹۱۰ء) کے ہمراہ پھانسی دے دی تھی۔ عدنان میندریس شہید کا ایک ’جرم‘ یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں ۱۷جون ۱۹۵۰ء کو عربی میں اذان پر پابندی ختم کی، پھر مسجد یں کثرت سے تعمیر کیں، حج پر عائد پابندیاں ختم کیں اور محکمہ مذہبی امور قائم کیا۔ اس محکمے نے نئی اور پرانی اسلامی کتب کی اشاعت کے ساتھ، مولانا مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء)اور سیّد قطبؒ (شہادت:۱۹۶۶ء)کی بھی چند کتب ترکی زبان میں شائع کیں۔
’ترک فوجی حکومت‘ نے ۱۴۷ پروفیسروں کو ترکی یونی ورسیٹیوں سے نظریاتی اختلاف بلکہ اسلامی غیرت و حمیت کی پاداش میں برطرف کردیا، جن میں فواد سیزگین بھی شامل تھے۔ مارشل لا حکومت سے انصاف مل نہیں سکتا تھا، اس لیے فواد نے جلاوطنی اختیار کی۔ جرمنی چلے گئے اور فرینکفرٹ یونی ورسٹی میں استاد مقررہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں انھوں نے فلسفی، ریاضی دان اور کیمیا دان جابر بن حیان [۷۲۱ء-۸۱۵ء]پر دوسری ڈاکٹریٹ حاصل کی، تو پروفیسر کے درجے میں ترقی مل گئی۔پھر ۱۹۶۷ء میں ایک ذہین اور محنتی نومسلم جرمن مستشرقہ ارسل سے شادی کی۔ ان کے ہاں ۱۹۷۰ء میں ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام ’ہلال‘ رکھا۔ (مغربی دنیا میں ’ہلال‘ [کریسنٹ] اسلام کی علامت ہے اور نام رکھتے وقت یہی پہلو پیش نظر تھا)۔
پروفیسر سیزگین کا یادگار کارنامہ عربی زبان میں علمی ذخیرے کی کیفیت کی تدوین ہے۔ جس میں ہر کتاب کے بارے اشاعت، عدم اشاعت کے ساتھ تفصیل مذکور ہے کہ یہ مخطوطہ کہاں موجود ہے۔ اس کام کی ابتدا محمد بن اسحاق الندیم (م:۹۹۵ء ) نے الفہرست کے نام سے کی تھی۔ درحقیقت ڈاکٹر فواد کا کام جرمن محقق کارل بروکلمان (Carl Brockelmann: ۱۸۶۸ء- ۱۹۵۶ء) کی اسی نام سے کتاب Geschichte der Arabischen Litteratur کی تکمیل ہے، جو ۱۸۹۸ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں اکثر کتب خانوں کی فہرستیں تیار اور شائع شدہ نہیں تھیں، اس لیے بروکلمان کی کتاب میں بہت سی کمیاں رہ گئی تھیں۔ حتیٰ کہ استنبول میں موجود قیمتی مخطوطات کا بھی ذکر نہیں تھا۔
اس بھاری بھرکم کام کی ابتدا فواد سیزگین نے ۱۹۵۴ء میں پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کی خواہش پر کی تھی۔ انھوں نے مجوزہ کتاب Geschichte des Arabischen Shrifttums [تاریخ التراث العربی، عربی ورثے کی تاریخ) پر ۱۹۶۱ء میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ء میں اور ۱۷ویں جلد فروری ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی۔ اب وہ ۱۸ویں جلد کی اشاعت پر کام کر رہے تھے کہ زندگی کی ساعتیں ختم ہوگئیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھے جانے والے ایک بڑے علمی ورثے کا احاطہ کرتی ہے، جس میں: قرآن پاک،تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علم کلام، عربی شاعری، طب، علم حیوان، کیمیا، زراعت، نباتیات، ریاضیات، فلکیات، موسمیات، تصوف، نفسیات، فلسفہ، اجتماعیات، نحو، بلاغت، لغت، کائناتی مطالعہ، منطق، ارضیات، موسیقی، ادویہ سازی، حیوانیات، نجوم، عربی زبان، جغرافیہ، نقشوں جیسے گوناگوں علوم پر عربی مخطوطات و کتب کا تذکرہ شامل ہے۔
پروفیسر فواد سیزگین نے ۱۹۸۲ء میں جرمنی کی گوئٹے یونی ورسٹی میں ’عربی واسلامی تاریخ انسٹی ٹیوٹ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۸۴ء میں تحقیقی مجلّے Journal of Arab and Islamic Sciences کا اجرا کیا اور مدت تک ادارت کی۔ سائنسی علوم کے بارے میں مسلمان علما و فضلا کے لکھے چار لاکھ قدیم مخطوطوں کے آثار اور قدیم کتب کو، ۳۰سال کی مدت میں، یورپ، افریقہ، بھارت، ترکی، ایران، مصر، روس اور مشرق وسطیٰ کی لائبریریوں، ذاتی کتب خانوں اور دیہات تک میں پہنچ کر اکٹھا کیا یا معلومات لیں۔ جمع شدہ کتب کی تعداد ۴۵ہزار سے زیادہ ہے، جب کہ ۱۳ سو اصل مخطوطے اور ۷ہزار مخطوطات کے عکس شامل ہیں۔پھر ان مخطوطات و معلومات کو ایک ہزار مطبوعات کی صورت میں شائع کیا۔
ایک مشہور جرمن ماہر طبیعیات اور سائنسی علوم کے مؤرخ ڈاکٹر ایلہارڈ ویڈمین (۱۸۵۳ء-۱۹۲۸ء) نے ۱۸۹۹ء میں طے کیا کہ:’ ’میں مسلمانوں کے ایجاد کردہ ان سائنسی آلات کو جن کا تذکرہ کتب میں پڑھا ہے، عملی شکل اور نمونوں (ماڈلوں) کی صورت دوں گا‘‘۔ ڈاکٹر ایلہارڈ نے ۱۹۲۸ء تک ۳۰برسوں کی شبانہ روز کاوش سے ایسے پانچ ماڈل تیار کیے۔ اس مثال کوسامنے رکھ کر پروفیسر فواد نے دوستوں سے کہا : ’’میں کوشش کروں گا کہ کم از کم ۳۰ ماڈل اور آلات کے نمونے بناکر اس کمرے کی خالی جگہ کو پُر کروں‘‘۔ پھر اسی انسٹی ٹیوٹ میں انھوں نے اگلے سال ایک میوزیم قائم کیا، جس میں مسلمانوں کے سنہرے دور میں ایجاد اور استعمال ہونے والے آٹھ سو (۸۰۰) سائنسی آلات اور مشینوں کے اصل کے مطابق نمونے بنواکر رکھے۔
جرمن حکومت نے پروفیسر سیزگین کے ذاتی کتب خانے کو قومیا لیا تھا اور بدلے میں معقول مالی معاوضہ دیا تھا۔ ترکی منتقل ہونے کے بعد پروفیسر سیزگین نے دوبارہ ایک ایک کتاب اکٹھی کر کے استنبول میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بنایا۔ ترکی کی موجودہ حکومت اس لائبریری کے لیے استنبول میں ایک خصوصی بلڈنگ تعمیر کر رہی ہے۔ یہاں پر ۲۰۰۸ء میں ایک میوزیم بھی قائم کیا۔ اس میوزیم میں انھوں نے اسی طرح کے ۷۰۰ماڈل اور آلات تیار کر کے رکھوائے جیسے جرمن میوزیم میں رکھے تھے۔ پھر ۲۰۱۰ء میں استنبول میں اسلامی وعربی تاریخ کا ٹرسٹ قائم کیا۔
پروفیسر فواد نے متعین کیا ہے کہ :’’ کرسٹوفر کولمبس [م: ۱۵۰۶ء]سے بہت پہلے عربوں نے شمالی امریکا دریافت کیا تھا اور ۱۸ویں صدی کے اوائل تک دنیا کے تمام نقشے مسلمانوں ہی کے بنائے ہوئے نقشوں کی نقل تھے‘‘… پھر بتایا کہ: ’’عباسی خلیفہ مامون الرشید [م: ۸۳۳ء] نے تقریباً ستّر جغرافیا دانوں کو پوری دنیا کے مطالعے کے لیے بھیجا، جنھوں نے کئی برس گھوڑوں، اُونٹوں اور سمندری جہازوں پر گھوم پھر کر دنیا بھر کے بارے معلومات اکٹھا کیں اور نقشے بنائے‘‘۔
پروفیسر سیزگین کہا کرتے تھے: ’’ مجھے اتنی سی بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں عربوں اور مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں آج ہم محض انھی پر فخر کریں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج کے مسلمان سمجھیں کہ ان کے آباء کتنے عظیم لوگ تھے، جو صرف اپنی انگلیوں پر گنتی کرکے اتنی زیادہ ترقی کرگئے۔ ہم ان سے اور دوسروں سے بہت کچھ سیکھ کر خوداعتمادی سے اپنی مشکلات پر قابوپا سکتے ہیں۔ ہم کو ان علما سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جنھوں نے ہم سے کہیں زیادہ محنت کی اور لکھا۔ اتنی مشقت کے باوجود وہ زندگی میں ہم سے کہیں زیادہ خوش تھے‘‘۔
پروفیسر سیزگین نے لکھا ہے: ’’مسلمانوں میں نتیجہ خیز فکری و عملی سرگرمی کا آغاز پہلی صدی ہجری ہی میں ہوگیا تھا۔ علم کے بارے میں اہلِ اسلام کا رویہ بڑا فراخ دلانہ تھا۔ انھوں نے بغیر کسی نفسیاتی رکاوٹ کے، اپنے پیش روؤں کے علوم کو قبول کیا۔ اس طرح اسلامی تہذیب، مختلف قوموں کی ثقافتوں ، زبانوں اور علمی میراث کا نقطۂ اتصال ثابت ہوئی، جس سے انسانی فکر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مسلمان اپنے پیش روؤں کے مقلّد محض نہ تھے بلکہ جانچ پرکھ اور تنقید کے صحت مند معیارات کے قائل تھے۔ مسلمانوں نے اجنبی اقوام سے علمی فیض حاصل کرنے کا آغاز ان قوموںسے کیا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے،اس لیے ان کے استفادے میں تعصب کا عنصر نہیں پایا جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس لاطینیوں[اہل مغرب] نے عربوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان کے علوم سے استفادہ کیا، جس نے ان میں نفسیاتی اُلجھائو، تعصب اور سرقے کی روایت پیدا کی۔ اس طرح اعتراف کے بجاے دانستہ طور پر مسلمانوں کی دریافتوں کا سہرا بھی مغربیوں کے سر باندھنے کا رویہ شامل ہوگیا‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین کے کارناموں کو دُنیا بھر کے اہل علم نے سراہا۔ ۱۹۷۹ء میں جب ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ کا اجرا ہوا تو پہلے ہی سال سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسلام کے لیے خدمات پر اور پروفیسر فواد سیزگین کو ان کی کتاب تاریخ التراث العربی (عربی ورثے کی تاریخ) پر یہ ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح جرمن حکومت نے اعلیٰ ترین اعزاز ’آرڈر آف میرٹ آف جرمنی‘ دیا۔ ’اسلام میں سائنسی اور تکنیکی علوم‘ (پانچ جلدوں) پر ایک خوب صورت کتاب پر ایران نے ۲۰۰۶ء میں ’کتاب کا عالمی ایوارڈ‘ دیا۔ یہ کتاب علمی تفصیلات کے ساتھ تصویروں اور خاکوں سے مرصع ہے، اور جرمن، ترکی، انگریزی اور فرانسیسی میں شائع ہوچکی ہے۔
۱۹۷۹ء میں امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی ، ریاض کی دعوت پر ڈاکٹر فواد نے سات خطبے دیے، جو محاضرات فی تاریخ العلوم کے عنوان سے شائع ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے ان خطبات کا اُردو ترجمہ تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام کے نام سے کیا، جسے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا ہے۔
پروفیسر فواد نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’علومِ اسلامیہ کے مطالعے اورعربی فہمی کے لیے یکسوئی عطا کرنے میں میرے استاد پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کا مجھ پر بے حد احسان ہے۔ جن علمی کاموں کے لیےمیں نے قدم اُٹھایا، ان راہوں کی مشکلات کو دیکھ کر ممکن ہے دوسروں کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہو۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے باطن کی دنیا میں گہری طمانیت اور تشکر کے جذبات رکھتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے خوش نصیب ترین بندوں میں سےہوں، کہ جس کی توفیق اور مدد سے یہ کام کر رہا ہوں‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو ۹۵ برس کی عمر میں استنبول کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ جامع سلیمانیہ میں ان کی نمازِ جنازہ میں ترکی کے صدر طیب اردوان بھی موجود تھے، جنھوں نے حاضرینِ جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا: ’’میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ ہمارے عظیم محسن پروفیسر فواد کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے ہمیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے بیداری کی بہترین دولت دی۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے سائنسی علوم میں، زمانوں پر پھیلی ہوئی اسلامیانِ عالم کی خدمات کو وضاحت سے پیش کیا۔ میں ۲۰۱۹ء کو فواد سیزگین کے سال سے منسوب کرتا ہوں کہ : جب ہم اپنی نسل کو اسلامی علوم کی واقفیت دینے اور شوق پیدا کرنے کے لیے کانفرنسیں، سیمی نار، نمایشیں اور علمی پروگرام کریں گے‘‘۔
ایمان، عزم ، ارادے، محنت اور اَن تھک جستجو کے زادِراہ سے سفر کا آغاز کرنے والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جو بسترمرگ پر بھی علمی فریضہ انجام دیتا رہا۔ اس اکیلے فرد نے حالیہ زمانے میں وہ کارنامہ انجام دیا، جو کئی ادارے بھی مل کر انجام نہ دے سکے۔ کیا ہماری نوجوان نسل، عشق و جنوں کی اس وادی میں قدم رکھنے کے لیےتیار ہے؟
یہاں بھارت سے ۴۹چوٹی کے سابق اعلیٰ افسروں [جن میں مسلمان صرف تین ہیں]کا مشترکہ خط پیش ہے۔ یہ خط انھوں نے کٹھوعہ (جموں) اور اناؤ (یوپی) میں جنسی زیادتی کے ہولناک اور گھنائونے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی بے حسی کے خلاف بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو لکھا۔ اس خط کے تین پہلو ہیں: lپہلا یہ کہ بدترین جبری ماحول، نام نہاد جمہوریت اور برہمنی فسطائیت کے باوجود ایسے باضمیر لوگ موجودہ ہیں، جو اپنی جان و مال کی پروا کیے بغیر مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے ہم آواز کھڑے ہیں۔
ہم سرکاری خدمات سے سبک دوش افسروں کا ایک گروپ ہیں، جو ’انڈین دستور‘ میں موجود سیکولر اور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ (decline)پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے گذشتہ سال اکٹھا ہوئے تھے۔ایسا کرکے ہم مزاحمت کی ان آوازوں کے ہم آواز ہیں، جو سرکاری نظام کی سرپرستی میں نفرت، ڈراور بےرحمی کے خوف ناک ماحول کے خلاف اُٹھ رہی ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہتے ہیں، ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، نہ کسی سیاسی نظریے کے پیروکار ہیں، سواے ان قدروں کے جو ہمارے آئین میں موجود ہیں۔
آپ نے بھی چوں کہ آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، اس لیے ہم امید رکھتے تھے کہ آپ کی حکومت اور وہ سیاسی جماعت جس کے آپ ممبر ہیں، اس خطرناک رجحان سے باخبر ہونے کی کوشش کریں گے ، اس پھیلتی سڑاند کو روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کریں گے اور سب کو اعتماد دلائیں گے، بالخصوص اقلیت اور کمزور طبقے کو کہ وہ اپنے جان و مال اور انفرادی آزادی کے حوالے سے بے خوف رہیں۔ مگر افسوس کہ یہ اُمید مٹ چکی ہے۔ اس کے بجاے، کٹھوعہ اور اناؤ کے حادثات میں پائی جانے والی ناقابل بیان دہشت اہلِ وطن کو یہ بتاتی ہے کہ [آپ کی] حکومت اپنے بنیادی فرائض سرانجام دینے میں بالکل ناکام رہی ہے۔
ایک ایسا ملک کہ جس کو اپنی اخلاقی، روحانی اور ثقافتی وراثت پر بڑا ناز رہا ہے اور جس نے مدتوں تک اپنی تہذیبی رواداری اور ہمدردی جیسی قدروں کو سنبھال کر رکھا، افسوس کہ اسے برقرار رکھنے میں ہم سب ناکام رہے ہیں۔ ’ہندوؤں کی عظمت قائم کرنے‘ کے نام پر ایک انسان کے حق میں، جب کہ دوسرے انسانوں کے لیے جانوروں جیسی بےرحمی پالنے کی روش اپنانے کا ہرلمحہ ہماری انسانیت کو شرمسارکر رہا ہے۔ ایک آٹھ سال کی بچی سے وحشیانہ طور پر جنسی درندگی اور قتل کا اندوہ ناک واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم کمینگی کی کن گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ سب سے بڑا اندھیر ہے، جس میں ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کا رد عمل ناکافی اور مُردنی و بے حسی لیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام کہ جہاں پر ہمیں اندھیری سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی کی کرن نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں۔
ہماری شرمندگی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ جوان دوست بھی، جو ابھی حکومتی و ریاستی مشینری میں خدمات انجام دے رہے ہیں، بالخصوص وہ جو اضلاع میں کام کر رہے ہیں اور قانونی طور پر دلتوں (شیڈیول کاسٹ) اور کمزور لوگوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے پُرعزم ہیں، وہ اپنا فرض نبھانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب، ہم یہ خط آپ کو صرف اپنی اجتماعی شرم کی وجہ سے یا اپنی تکلیف یا غم کو آواز دینے یا اپنی ثقافتی قدروں کے خاتمے کا ماتم کرنے کے لیے نہیں لکھ رہے ہیں، بلکہ ہم لکھ رہے ہیں اپنے غصّے کا اظہار کرنے کے لیے، معاشرے کی خوف ناک تقسیم اور نفرت کو بڑھاوا دینے کے اس ایجنڈے کے خلاف، جو آپ کی پارٹی اور اس کے بےشمار وقت بےوقت پیدا ہوتے معروف ،غیر معروف اداروں نے ہمارے سیاسی قواعد میں، ہماری ثقافتی و سماجی زندگی اور روز مرہ میں شامل کر دیا ہے۔
یہی ہے نفرت کی وہ آگ اور اسی کے نتیجے میں کٹھوعہ اور اناؤ جیسے گھنائونے واقعات کو سماجی حمایت حاصل ہوتی اور جواز ملتا ہے۔ کٹھوعہ میں، ’سنگھ پریوار‘ کے ذریعے پُرجوش اکثریت کی جارحیت اور ان کی بداخلاقی نے نسل پرست وحشی عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ ان کی بداخلاقی کوان سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہے گی، جنھوں نے خود ہندو مسلم تفریق کو گہرا کر کے اور ان میں پھوٹ ڈال کر اپنی سیاسی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسے مافیا اور غنڈوں کے سہارے پر ووٹ اور سیاسی اقتدار کو طول دینے کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ ان کے کارندوں کو ریپ، قتل ،زورزبردستی اور لوٹ کھسوٹ کی کھلی آزادی حاصل ہوئی ہے اور انھیں اپنی طاقت کو جمانے اور پھیلانے کے لیے شہ ملی ہے۔
لیکن، اقتدار کے اس غلط استعمال سے زیادہ کلنک کی بات، [جموں کی] ریاستی حکومت کے ذریعے متاثرہ فیملی کے بجاے مبینہ ملزم کی پشت پناہی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری نظام کتنا خراب اور گل سڑچکا ہے۔ انائو کے شرم ناک واقعے پر یوپی ریاستی حکومت نے تبھی کچھ کیا، جب عدالت نے اس کو مجبور کیا۔ یہ ایک ایسا فعل ہے، جس سے [یوپی] حکومت کے ارادوں کا فریب صاف ظاہر ہوتا ہے۔دونوں اندوہ ناک واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے ہیں، وزیراعظم! جہاں آپ کی پارٹی حکمراں ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری اور آپ کے مرکزی کنٹرول کی وجہ سے، اس خوف ناک صورتِ حال کے لیے کسی اور سے زیادہ آپ ہی کو ذمہ دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔
ان واقعات کی سچائی تسلیم کرنے اور متاثرین کے آنسو پونچھنے کے بجاے آپ مسلسل خاموش رہے۔ آپ کی خاموشی اس وقت ٹوٹی جب ملک اور غیرممالک میں عوامی غصے نے اس حد تک زور پکڑا کہ جس کو آپ کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔تب بھی آپ نے بدکاری کی مذمت اور شرم کا اظہار تو کیا ہے، مگر آپ نے اس کے پیچھے گھٹیا نسلی فرقہ پرستی کی مذمت نہیں کی ہے، نہ آپ نے ان سماجی، سیاسی، انتظامی حالات کو بدل دینے کا عزم کیا ہے کہ جن کے زیرسایہ نسل پرستانہ فسطائیت پھلتی پھولتی ہے۔
ہم محض ڈانٹ، پھٹکار اور انصاف دلوانے کے وعدوں سے عاجز آ چکے ہیں، جب کہ ’سنگھ پریوار‘ کی سرپرستی میں پلنے والے رنگ دار کارندے،نسل پرستانہ نفرت کی ہانڈی کو لگاتار اُبال رہے ہیں۔وزیر اعظم صاحب، یہ دوحادثے محض معمولی جرائم نہیں ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ جس سے ہماری سماجی چادر کے داغ دُھل جائیں گے، ہماری قومیت اور اخلاقیات پر لگے زخم بھر جائیں گے، اور پھر وہی رام کہانی شروع ہو جائے گی بلکہ یہ ہمارے وجود پر اُمڈ آنے والے بحران کا ایک موڑ ہے۔ اس میں [آپ کی] حکومت کا رد عمل طے کرے گا کہ ایک ملک اور جمہوریت کے روپ میں کیا ہم آئینی قدروں، انتظامی اور اخلاقی نظام پر ٹوٹ پڑنے والے بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ فوری طور پر ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ درج ذیل کارروائی کریں :
ممکن ہے کہ یہ دیر آید درست آید نہ ہو، مگر اس سے نظام کچھ تو دوبارہ قائم ہوگا اور کچھ تو بھروسا ملے گا کہ بدنظمی اور مسلسل گراوٹ کو اب بھی روکا جا سکتا ہے۔ ہم پُرامید ہیں۔ [The Deccan Chronicle، حیدرآباد، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، The Outllook India، نئی دہلی، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، اُردو ترجمہ: سلیم منصور خالد]
جب کوئی ہم نفس، ہم مقصد ساتھی زندگی کا سفر مکمل کر کے چلاجاتا ہے تو بہت کچھ کھونے کے صدمے، تنہائی اور اجنبیت کے احساس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوستی کی نعمت تو۳۰برس کی عمر سے پہلے ہی ملتی ہے، بعد میں ممکن ہے بہت سے اچھے لوگ حلقۂ احباب میں شامل ہوں، لیکن دوستی کی تعریف پہ کم ہی پورے اُترتے ہیں۔ انسانی زندگی، دوستی کی خوشبو سے معطر نہ ہو تو وہ بجاے خود ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے، او ر بے بسی کا پہاڑ اپنی ہیبت طاری کرتا دکھائی دینے لگتاہے۔
صفدر علی چودھری اپنے منصب اور مصروفیات کے اعتبار سے جماعت اسلامی پاکستان کے ناظمِ نشرواشاعت تھے، لیکن مزاجاً وہ دوستیاں بنانے اور پالنے والے شخص تھے__ سب کے دوست اور سب سے دوستی۔ ہرفرد کا اپنا تجربہ ہوگا۔ راقم کے سامنے مشاہدات و تعلقات کی ایک کہکشاں ہے، اور اس ’منوہر‘ بھائی کے طرزِ تعلقات، مقصد کی لگن اور ایثار و قربانی کے پہلو اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ انھیں بیان کرنا مشکل اور ان کی شدت و گہرائی کو لفظوں میں سمونا مشکل ترین عمل ہے۔
صفدر چودھری صاحب فی الحقیقت کارکن تھے اور ایسا کارکن کہ جس میں قیادت کی صلاحیت تو موجود ہو مگر وہ کارکن کی حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھنا نہ چاہے۔ وہ کہا کرتے تھے: ’’میں نہ صاحب ِ قلم ہوں، نہ عالم ہوں، نہ کچھ صحافتی تجربہ رکھتا ہوں، اور نہ مکالمے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود نعیم صدیقی صاحب اور مصباح الاسلام فاروقی صاحب کی نشست پر دھکا دے کر بٹھا دیا گیا ہوں‘‘۔
’’جب یہ ذمہ داری پڑگئی ہے تو پھر اسے نبھانے کا ڈھنگ کیسے اپنایا ہے؟‘‘ جواب میں کہنے لگے: ’’اس زیادتی کا ایک ہی حل سوچا ہے کہ اس میدان میں بھاگ بھاگ کر لکھنے والوں کی خدمت کروں، اگر کوئی میرے مقصد ِ زندگی کی تائید میں ایک جملہ بھی لکھے تو اس کا خادم بن جائوں اور اگر وہ سنگ زنی کرے تو اس کے پتھر کو چُوم کر ایک طرف رکھ دوں اور کہوں: میرے بھائی! مزا نہیں آیا، ایک اور مگر ذرا زور سے۔ ممکن ہے وہ اس صبر کے نتیجے میں شرمندہ ہوکر دوسرا پتھر نہ مارے اور مارے تو زیادہ شدت سے نہ مارے‘‘۔
یہ گفتگو ۱۹۷۲ء کے نومبر میں ہوئی تھی، جب میں سالِ سوم کا طالب علم اور اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ کا کارکن تھا۔ تب وہاں سے البدر کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ مولانا مودودیؒ کو لکھا کہ رسالے کے لیے پیغام عنایت کریں۔ جوابی پیغام ڈاک کے ذریعے نہیں آیا، بلکہ دستی طور پر دینے کے لیے صفدر صاحب بس کا سفر کرکے تشریف لائے۔ میری حیرانی و ندامت دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’بھائی، میں نے رضاکارانہ طور پر یہ اپنی ذمہ داری سمجھ رکھی ہے کہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے ساتھی کی موجودگی دیکھوں تو اُس سے جاکر ملوں‘‘۔ یہ سن کر مَیں مزید زیربار ہوگیا کیوں کہ یہاں لکھنے پڑھنے والی تو کوئی بات نہیں تھی، مگر وہ سراب کو دیکھ کر نکل پڑے تھے۔ بہرحال، اُس روز سے دوستی کا ایسا رشتہ قائم ہوا کہ آخر دم تک برقرار رہا اور اس سارے عرصے میں کبھی دُوری محسوس نہ ہوئی۔
جب مَیں لاہور آگیا تو دیکھا کہ مولانا مودودی اُن سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔ صفدرصاحب دبے دبے لفظوں میں بے تکلفی سے باتیں کرتے اور انتہا درجے کی برخورداریت سے خدمت کرتے۔ کتنی ہی بار وہ مولانا کے پاس مجھے لے کر گئے اور ان کے ساتھ مولانا کی شفقت ِپدری دیکھ کر رشک آتا۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دورِ حکومت [۱۹۷۲ء- ۱۹۷۷ء] سخت تکلیف دہ اور خوف و دہشت کی علامت بلکہ سراپا دَورِ فسطائیت تھا۔ یہ زمانہ صحافت کے لیے بڑی کٹھن بلکہ تاریک رات کا ہم معنی تھا۔ آزمایش میں گھِرے صحافیوں کی دل جوئی کے لیے صفدر صاحب اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر جیلوں، حوالاتوں اور ان کے اہلِ خانہ تک پہنچتے۔ اس ضمن میں ان کے نزدیک جماعت اسلامی کے حامی یا مخالف کی کوئی تفریق نہ تھی، وہ سبھی کے لیے سراپا خدمت ہوتے۔
صفدر صاحب کی ذمہ داری تو نشرواشاعت کی تھی، لیکن وہ بہ یک وقت غیراعلان شدہ ناظم تنظیم اور سیاسی و سماجی رابطہ کار بھی تھے، بلکہ درست لفظوں میں وہ ناظم خدمت ِ خلق اور ناظم مہمان داری بھی تھے۔ منصورہ میں ان کا گھر اسلامی جمعیت طلبہ کے دُور دراز سے آنے والے کارکنوں کے لیے ’نعمت کدہ‘، اسلامی جمعیت طالبات کے لیے ’اپنا گھر‘، صحافیوں کی بے تکلفانہ گفتگو کے لیے ’پریس کلب‘، بیماروں کے لواحقین کی رہنمائی کے لیے ’پڑائو‘، حتیٰ کہ جماعت کے کارکنوں کا تعاقب کرنے والے پولیس اہل کاروں کو ٹھنڈا پانی پلانے کی ’سبیل‘ تھا!
وہ صحافی برادری کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروف رہتے اور اس مقصد کے لیے ذاتی سطح پہ مالی طور پر زیربار ہونے سے بھی نہ گھبراتے۔ کئی بار ناظمِ مالیات (پہلے شیخ فقیر حسین صاحب ، پھر مسعود احمد خاں صاحب اور ابراہیم صاحب) کو خبردار کرتے دیکھا اور سنا: ’’صفدرصاحب، آپ پر قرض چڑ ھ گیا ہے اور آپ اگلے مہینے کا اعزاز یہ بھی لے چکے ہیں، کیسے اُتاریں گے یہ قرض؟‘‘
قصّہ دراصل یہ ہوتا کہ کسی صحافی بھائی کے والدین کی عیادت کرنے جاتے تو صفدربھائی علاج کے لیے کچھ رقم دے آتے، کسی کی شادی پر جاتے تو کوئی تحفہ پیش کردیتے۔ ایسے تحفے وصول کرنے والے صحافی سمجھتے تھے یا سمجھتے ہوں گے کہ یہ ’جماعت کے کسی فنڈ‘ سے ہورہا ہے، لاریب، جماعت نے اپنے بجٹ میں ایسا کوئی فنڈ نہیں رکھا تھا۔ صفدر صاحب یہ سب کچھ اپنے بیوی بچوں کے حق اور اپنی ضروریاتِ زندگی کی قربانی دے کر ایسا بار بار کرتے تھے۔ وہ اس خدمت کا کہیں تذکرہ بھی نہ کرتے کہ کسی کی عزتِ نفس زیربار نہ ہو، مگر قربت کے سبب ہم کبھی کبھی معاملہ جان لیتے۔
یہ منظر میرے مشاہدے میں کئی مرتبہ آیا کہ صحافی بھائیوں کا ایک حلقہ تو بے تکلفانہ احترام سے انھیں پکارتا اور دوسرا گاہے بے تکلفانہ بدتمیزی سے مخاطب ہوتا۔ ایک روز میں نے جل کر کہا: ’’صفدر صاحب، فلاں صاحب نے جس توہین آمیز طریقے سے آپ کو پکارا ہے، میرے لیے یہ ناقابلِ برداشت ہے‘‘۔ ایک دم میرے منہ پر ہاتھ رکھا اور سینے سے لگاکر کہنے لگے:’ایک بات ذہن میں رکھیں، یہ شہر ہے۔ جب میں نے مولانا کی ہدایت پر اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو اسی وقت خوب سوچ سمجھ لیا تھا کہ: ’’عزّت، نامی چیز تو ایک اضافی شے ہے، جو آپ کو اپنے گائوں برادری ہی میں مل سکتی ہے۔ یہاں تو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ہوگا، اس لیے یہ دونوں کھانے پڑیں گے۔ مجھے عزّت عزیز ہوتی تو اپنے گائوں میں، اپنی برادری ہی میں رہتا۔ اس لیے عزّت کی توقع کسی سے نہیں رکھتا۔ کوئی عزّت کرے تو اس کی مہربانی، نہ کرے تو جہاں رہے خوش رہے۔ آپ میرے بارے میں پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے پلے بھی اسی بات کو باندھ رکھیں، زندگی کا سفر اچھا کٹے گا‘‘۔ اور پھر اپنا روایتی گھٹاگھٹا قہقہہ فضا میں بکھیر دیا۔
ان کا گھر، وقت بے وقت، اِکا دُکا یا بڑی تعداد میں، تحریکی دوستوں کی مہمان نوازی کا مرکز بنا رہتا۔ ایک روز بے چین ہوکر میں نے پوچھا: ’’چلیے، آپ تو یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، مگر آپ کے بیوی بچوں کا کیا قصور کہ انھیں رات دن چولھے کچن میں جھونکے رکھتے ہیں اور ان کے حقِ زندگی کی زبردستی قربانی لیتے ہیں؟ گھر والے دوپہر یا رات گئے آرام کر رہے ہوتے ہیں تو چائے روٹیاں پکانے کے لیے اُٹھا دیتے ہیں، بچے کمرے میں سوئے ہوتے ہیں تو انھیں بے آرام کرکے اندر دھکیل دیتے ہیں۔ یہ بڑی نامناسب بات ہے‘‘۔
کہنے لگے: ’’اس گھر میں ہم سب ایک ہیں، جس میٹھی آگ میں مَیں جلوں گا، اس کی تپش سے بھلا وہ کس طرح الگ رہ سکتے ہیں؟‘‘ پھر مسکرا کر کہنے لگے: ’’وہ بھی خوش رہتے ہیں کہ میں خوش ہوں، اور آپ بھی آکرخوش ہوا کریں‘‘۔ اسی بناپر قاضی حسین احمد مرحوم ، صفدرصاحب کے گھر کو ’خوش حال گھرانا‘ کہا کرتے تھے۔
شعبہ نشرواشاعت میں ہم نے کئی پوسٹر تیار کیے، بہت سے پمفلٹ اور کئی بیانات لکھے۔ پوسٹر کی تیاری اور کتابت کے لیے وہ کاتب اور ڈیزائنر کو اپنی جیب سے اضافی طور پر بھی ہدیہ دیا کرتے تھے کہ: ’’تخلیق کار کی تالیف ِ قلب ضروری ہے‘‘۔ البتہ کاغذ کے تاجروں سے رقم کم کرانے کے لیے متعدد دکانوں پر جاکر باقاعدہ بحث کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے اجتماعِ ارکان کے موقعے پر ایک پوسٹر تیار کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپتے ہوئے کہا: ’’اس پر کیا خاص بات لکھی جائے؟‘‘ عرض کیا:’’اس بار پوسٹر پر آیت دیتے ہیں: اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً‘‘۔ صفدرصاحب نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے کے لیے کوئی آئیڈیا ہمارے ذہن میں نہیں تھا، بس پوسٹر کی تیاری پیش نظر تھی۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے طالب علم اور محترم دوست سیّد مبین الرحمٰن صاحب کے پاس حاضر ہوا، اور مدعا بیان کیا۔ مبین صاحب نے دو تین روز بعد پوسٹر تیار کیا۔ چاند اور خانہ کعبہ کے ساتھ آیت ِ مقدسہ کو ایک خاص اسلوب میں نقش کیا۔ میں جب پوسٹر کا یہ ڈیزائن لے کر منصورہ آیا ، تو اسے دیکھ کر صفدرصاحب پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کھینچ کر گھر لے گئے، بڑے جوش سے کھانا کھلایا اور ڈیزائن کو دیکھ کر بار بار کہتے رہے: ’’سبحان اللہ! سبحان اللہ!‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیا ہوگیا ہے؟ ڈیزائن ہی تو ہے‘‘۔ کہنے لگے: ’’جماعت اسلامی کا مونوگرام نہیں تھا۔ آج جماعت کو اپنا مونوگرام (طغرا) مل گیا ہے۔ میں اسے چلا دوں گا‘‘۔ صفدر صاحب نے اسے بڑے تسلسل کے ساتھ جماعت اسلامی کی مطبوعات پر شائع کرنا شروع کر دیا۔ ایک سال میں یہ ڈیزائن اتنا استعمال کیا کہ اس کے بعد سے یہ جماعت اسلامی پاکستان کی پہچان اور جماعت کا پارٹی مونوگرام بن گیا ہے___ سیّد مبین الرحمٰن کا ڈیزائن اور صفدر صاحب کا انتخاب۔
صفدر صاحب کی شخصیت جہاں خلوص سے سرشار تھی، وہیں ان کے چہرے پر ہرآن موجِ تبسم کھیلتی تھی۔۱۵؍ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو ان کا جوانِ رعنا، دوسرا بیٹا مظفرنعیم، جہادِ کشمیر میں حصہ لیتے ہوئے سوپور میں شہید ہوگیا۔ وہ ہمارے سامنے کھیلتے کھیلتے جوان ہوا تھا۔ سروقامت، سدابہار مسکراہٹ اور اپنی پیاری شخصیت کے باعث جدائی کا گہرا گھائو لگاگیا۔ ہم احباب گریۂ جدائی پر قابو نہ رکھ سکے، مگر صفدر صاحب سب کو اس وقار سے دلاسہ دے رہے تھے کہ نہ آنسو اور نہ آہیں بلکہ خلوصِ نظر کا وقا ر انھیں تھامے رہا۔
تحریکیں اور خاص طور پر نظریاتی تحریکیں ایسے ہی کارکنوں کے دم سے آباد، شاداب اور ثمربار بنتی ہیں۔ صفدر صاحب پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد، ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۷ء تک جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی ناظم نشرواشاعت رہے (ازاں بعد ناظم تعلقاتِ عامہ اور پھر جنوری ۱۹۹۰ء سے جولائی ۱۹۹۶ء تک ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے)۔ ۱۹برس کی نظامت میں، بطور ناظم نشرواشاعت اُن کے زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھے محض چند سطری وضاحتی سے بیان آئے۔ اس گریزپائی و بے نیازی کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’کارکن بیان نہیں دیا کرتا، یہ کام قیادت کا ہے‘‘۔ خلوص و محبت کی یہ گھنگھور گھٹا جو ۱۹۴۱ء میں ضلع جالندھر کے گائوں کرتارپور (بابا گورونانک کا مقامِ وفات) سے اُٹھی تھی، برستے برستے ۱۳جنوری ۲۰۱۸ء کو لاہور میں چھٹ گئی۔ لیکن یہ گھٹا جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گئی کہ کیا زندگی بھر اپنی جان گھلانے، دوسروں کی عزت کرنے اور احترام بانٹنے والے کارکن دمِ واپسیں اور زمانۂ معذوری میں محبت، توجہ اور احترام کا بھی کچھ حق رکھتے ہیں؟
سرزمین بنگال کی قسمت میں قربانی، سازش اور ظلم ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل انگریزوں اور ہندوئوں کے ظلم سہتے ہوئے بنگالی مسلمانوں نے گراں قدرقربانیاںپیش کیں اور غیرت و حمیت پر آنچ نہ آنے دی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انھی ہندوئوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے مشرقی پاکستان کی بڑی سیاسی قوت نے خودسپردگی کا ایک ایسا رویہ اختیار کیا، جس نے انھیں تاحال سکون اور قومی خوداختیاری کی دولت سے محروم رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی عوامی لیگی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں، جن پر یہ معروضات پیش ہیں:
o
اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کو عوامی لیگی حکومت مسلسل نشانۂ ستم بنائے ہوئے ہے ، لیکن ستمبر کے آخری ہفتے میں جماعت اسلامی پر عتاب کا نیا وار کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کی اچانک پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ۲۷ستمبر کو ضلع پبنہ کی سانتھیا تحصیل کے امیرمستفیض الرحمٰن فیروز اور جماعت اسلامی کی حلقہ خواتین کی فعال کارکنان کو بلاجواز گرفتار کرلیا۔ اسی طرح ضلع سرسنگدی کی تحصیل پولاش کے امیر مولانا امجد حسین کو بھی زیرحراست لے لیا گیا۔
۹؍اکتوبر کو نمازِ عشاء سے تھوڑی دیر پہلے، حکومت نے جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد، نائب امیر و سابق رکن پارلیمنٹ میاں غلام پروار اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، محمد شاہ جہاں (امیرچٹاگانگ)، نذرالاسلام، سیف الاسلام، جعفرصادق اور نذرالاسلام ثانی کو گرفتار کرلیا۔ جماعت اسلامی نے تمام حکومتی مظالم، دھاندلیوں اور خوف ناک زیادتیوں کے باوجود جمہوری، پُرامن اور ایک اصولی پارٹی کے طور پر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ ان قائدین کو گرفتار کرتے وقت الزام یہ لگایا گیا کہ ’’ڈھاکا کے ایک گھر میں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا جارہا تھا‘‘، جب کہ جماعت کے ترجمان نے اس شرم ناک الزام کی تردید اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’وہ ایک گھر کے احاطے میں سماجی تقریب میں شریک تھے، خفیہ یا تخریب کاری جیسے گھنائونے الزام کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم ایک جمہوری پارٹی ہیں اور جمہوری طریقوں سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو جھوٹے الزامات اور غیرمنصفانہ اور یک طرفہ مقدمات میں مطیع الرحمٰن نظامی سمیت جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں (سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قمرالزمان خان، اسسٹنٹ سیکرٹری عبدالقادر مُلّا، مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن میرقاسم علی) کو پھانسی پر لٹکادیا گیا، مگر جماعت نے کوئی غیرقانونی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اور جو پُرامن احتجاج کیے، ان میں بھی جماعت کے بہت سے کارکنوں کو حکومت کے ایما پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پھر شہید مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے بعد منتخب امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبول احمد صاحب نے بوجوہ بڑے جلسوں میں شرکت سے گذشتہ پورے سال کے دوران میں اجتناب برتا ہے، مگر اس کے باوجود انھی پر شرم ناک الزام لگانا، حکومتی حلقوں کا ذہنی دیوالیہ پن ہے‘‘۔ یاد رہے ۲۰۱۳ء سے جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ: ’’جب تک وہ اپنے دستور اور منشور کو سیکولر نہیں بناتی وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی‘‘۔
جناب مقبول احمد کی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی نے سابق ممبر پارلیمنٹ پروفیسر مجیب الرحمٰن کو قائم مقام امیر اور جناب اے ٹی ایم معصوم کو قائم مقام سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے۔
۹؍اکتوبر ہی کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کے تین لیڈروں کی نظرثانی کی اپیلوں پر کارروائی ۲۱نومبر تک ملتوی کی گئی۔ یاد رہے کہ ان میں اے ٹی ایم اظہرالاسلام، سیّدمحمد قیصر اور عبدالسبحان کو بنگلہ دیش کی خصوصی [جعلی] عدالتیں سزاے موت کی سزا سنا چکی ہیں۔ (روزنامہ ڈیلی اسٹار، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
قائم مقام امیرجماعت اسلامی کی اپیل پر ۱۲؍اکتوبر کو پورے ملک میں پُرامن ہڑتال کی گئی۔ابتدا میں تو نہیں، البتہ ہڑتال کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا (NTV ڈھاکا، ۱۲؍اکتوبر)۔ اسی دوران میں جماعت کے بہت سے احتجاجی کارکنوں کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کردیا گیا۔ نیڑو تحصیل کے امیر ماسٹر نذرالاسلام ، سراج گنج کے امیر پروفیسر شاہدالاسلام اور رنگ پور سے تین مقامی لیڈروں کو پولیس نے اُٹھا لیا۔ ۱۵؍اکتوبر کو ست خیرا میں جماعت کے امیر پروفیسر عبدالغفار کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح کومیلا کے امیر قاضی دین محمد سمیت گیارہ ارکان، چاندپورسے امیرجماعت محمد حسین اور یہیں سے حلقہ خواتین کی ناظمہ فردوسی سلطانہ اور سیکرٹری فرزانہ اختر کو قید کر دیا گیا۔یاد رہے ریمانڈ کا پروانہ لے کر کارکنوں کو پولیس ٹارچر سیلز میں لے جاتی اور انسانیت سوز مظالم ڈھاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ظلم پر میڈیا خاموش، عدالت تماشائی اور قوم بے بس نظر آتی ہے۔
جماعت اسلامی کے ۸۰ سالہ امیر جماعت مقبول احمد کی جیل میں صحت بُری طرح خراب ہے۔ وہ ذیابیطس ، بلڈپریشر اور امراضِ دل میں مبتلا ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد کے باعث ان کے لیے سیدھے کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں سخت مشکل پیش آتی ہے، اس لیے روزانہ فزیوتھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادویات میں بے قاعدگی، پرہیزی خوراک کے خاتمے اور جسمانی مشق کی کمی کے باعث ان کی صحت بگڑ گئی ہے، مگر حکومت آج ۲۵؍اکتوبر تک انھیں ہسپتال بھیجنے کے لیے تیار نہیں۔
حسینہ واجد کی کٹھ پتلی حکومت نے اخلاق اور جمہوری روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ۱۸؍اکتوبر کو ڈھاکا سے اسلامی جمعیت طالبات بنگلہ دیش (اسلامی چھاترو شنگھستا) کی ۲۱ کارکنان اور عہدے داران کو درسِ قرآن کی ہفتہ وار کلاس سے گرفتار کرلیا۔ یہ طالبات اعلیٰ درجوں میں میڈیکل، سماجیات اور انجینیرنگ کے شعبہ جات سے وابستہ ہیں۔ اس ’روشن خیال اور لبرل‘ حکومت کے مطالبے پر ڈھاکا ہائی کورٹ نے طالبات کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے انھیں پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا، اور دو روز کے ریمانڈ کے بعد جیل بھیج دیا۔
راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاترو شبر کے آٹھ کارکنان کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا الزام لگایا۔ اسلامی چھاتروشبر کے مرکزی صدر یاسین عرفات نے اس پر کہا ہے کہ: ’’ایک غیرقانونی حکومت، اندھی قوت کے نشے میں بدمست ہوکر گھٹیا الزام لگاتے ہوئے اخلاق، قانون اور قومی اداروں کو تباہ کررہی ہے۔ یہ گرفتاریاں، تشدد اور پھانسیاں تحریک ِ اسلامی کا راستہ نہیں روک سکتیں‘‘۔
o
حسینہ واجد حکومت نے پہلے بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدلیہ کو اپنی باج گزار بناکر اس سے خاص طور پر ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کی کارروائی کی تائید اور انصاف کے قتل کے لیے زرخرید غلاموں کی طرح کام لیا۔ یوں بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے آنکھیں بند کرکے، نام نہاد خصوصی ٹریبونلی فیصلوں پر ایک ایک کر کے عمل کرایا اور جماعت اسلامی کے پانچ رہنمائوں اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی پر لٹکا دیا، جب کہ قائدتحریک اسلامی پروفیسر غلام اعظم اور ان کے دو رفقا کو جیل کے اندر ہی موت کی وادی میں اُتار دیا۔ حالیہ عرصے میں اسی بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے سات ججوں سمیت بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی ۱۶ویں ترمیم کو اس کی اصل شکل میں نامنظور کرتے ہوئے، ۳جولائی ۲۰۱۷ء کو ۷۹۹صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا اور ۳؍اگست ۲۰۱۷ء کو ۳۹نکاتی فارمولا تجویز کرتے ہوئے متفقہ فیصلے کا اعلان کیا۔
عوامی لیگی حکومت کی طرف سے دراصل یہ ترمیم اس مقصد کے لیے کی گئی تھی کہ :’’آیندہ پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا مواخذہ (impeachment) کرسکیں گے‘‘۔ فیصلے کے متن میں چیف جسٹس نے ایک جگہ ۱۹۷۱ء کے ہنگامی حالات میں شیخ مجیب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ یہ جملہ بھی لکھا کہ ’’وہ جدوجہد فردِ واحد کا ثمر نہیں تھی بلکہ اس میں پوری قوم نے حصہ لیا تھا‘‘۔ اس جملے کو عوامی لیگ نے مجیب کی توہین قرار دے کر چیف جسٹس کے خلاف مخالفانہ بلکہ توہین آمیز مہم چلانے اور دبائو بڑھانے کا آغاز کیا ،تاکہ وہ استعفا دیں۔
یہ مسئلہ اُس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا، جب جسٹس سنہا نے چند روز قبل ایک عدالتی کارروائی کے دوران یہ کہہ دیا کہ: ’’ہمیں جذبات پر قابو رکھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے تو وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر دیا ہے، لیکن کیا وہاں پر سپریم کورٹ کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے؟‘‘ اس جملے کا میڈیا پہ آنا تھا کہ حسینہ واجد نے اسی روز شدید غصے اور برہمی میں چیف جسٹس سنہا کا نام لیے بغیر کہا:’’اسے اب سپریم کورٹ چھوڑنا ہی پڑے گا، اس لیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا موازنہ کیا ہے۔ کسی معاملے میں پاکستان کی مثال پیش کرنا ہمارے لیے توہین آمیز اور ناقابلِ برداشت فعل ہے‘‘۔ مزید کہا: ’’عوام کی عدالت زیادہ بڑی عدالت ہے۔ کوئی فرد عوام کی عدالت کو نظرانداز نہیں کرسکتا، میں عوام ہی کی عدالت سے انصاف کی طالب ہوں‘‘۔ حسینہ واجد کے مذکورہ بیان کے چند گھنٹوں بعد ۱۹۶۹ء کی عوامی لیگی اسٹوڈنٹ لیڈر موتیا چودھری، جو آج کل وزیرزراعت ہیں، نے بیان داغا: ’’چیف جسٹس کو ملک چھوڑ دینا چاہیے یا پھر دماغی امراض کے ہسپتال سےعلاج کرانا چاہیے‘‘۔ اُدھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی مذمت کی کہ: ’’عوامی لیگی حکومت نے عملاً چیف جسٹس کو قیدی بنا رکھا ہے‘‘۔ (India TV News Desk، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
ڈھائی ماہ پر پھیلی اس دھماچوکڑی کے بعد ۱۳؍اکتوبر کو چیف جسٹس سنہا نے ایک ماہ کی رخصت پر آسٹریلیا جاتے ہوئے اخبار نویسوں کو چند سطروں پر مشتمل یہ تحریر دی: ’’میں بیمار نہیں ہوں بلکہ صحت مند ہوں۔ میں بھاگ نہیں رہا بلکہ واپس آئوں گا۔ اگرچہ مجھے حکومتی رویے سے دُکھ پہنچا ہے لیکن عدلیہ کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے میں اپنا کردارادا کروں گا‘‘ (ڈیلی نیوایج، ۱۴؍اکتوبر)۔ چیف جسٹس کی پرواز کے صرف تین گھنٹے بعد ان کے خلاف گیارہ الزامات کی فہرست جاری کردی گئی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ان کے متعدد ساتھی ججوں نے ان الزامات کی موجودگی میں چیف جسٹس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ (بی ڈی نیوز، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
مزید یہ کہ قائم مقام چیف جسٹس محمد عبدالوہاب میاں نے چیف جسٹس سریندرکمار سنہا کے آسٹریلیا روانہ ہونے کے ۴۸گھنٹے کے اندر اندر سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ۲۵اعلیٰ افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر تبادلے کر دیے ہیں۔ ان عدالتی افسروںمیں جسٹس سنہا کے قریبی رفقا شامل ہیں۔ اس اقدام سے ایک ہی روز قبل وزیرقانون انیس الحق اور اٹارنی جنرل محبوب عالم نے بیان دیا تھا کہ ’’قائم مقام چیف جسٹس تمام اقدامات اور فیصلے کرسکتا ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶؍اکتوبر)
جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم معصوم نے اس صورتِ حال کو: ’’عدالتی معاملات میں حکومت کی سیاسی، حکومتی اور غیراخلاقی مداخلت قرار دیا، اور کہا کہ دراصل حسینہ حکومت عدالتی افسروں، ججوں اور عدالتی عمل پر مکمل گرفت قائم کرنا چاہتی ہے‘‘،جب کہ قائم مقام چیف جسٹس نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ: ’’جسٹس سنہا کو جاتے جاتے منصب کے احترام میں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا‘‘ (ڈیلی اسٹار ، ۱۷؍اکتوبر)۔ پیش نظر رہے کہ جسٹس سنہا نے ڈھائی ماہ تک عوامی لیگی طوفانی پروپیگنڈے، گندے کارٹونوں اور گھنائونے الزامات کے جواب میں صرف یہی تین جملے لکھے۔
اس صورتِ حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے، بھارت اپنی نوآبادی بنگلہ دیش کا نظام ٹھیک طور سے نہیں چلنے دینا چاہتا۔ اس کی یہی کوشش ہے کہ ۱۶کروڑ آبادی کا یہ ملک ہرآن کسی نہ کسی افراتفری کا شکار رہے ، تاکہ معاشی، سماجی اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں وہ ایک مجبور اور غیرمستحکم ریاست کے طور پر تاجِ دہلی کا دست ِ نگر رہے۔ اس آئینے میں، اس خطّے ہی کے نہیں بلکہ خود عرب دنیا کے نام نہاد علاقائی قوم پرستوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب بڑی طاقت ، نفرت کے بل پر نام نہاد آزادی دلاتی ہے تو بنیادی کنٹرول اپنے ہاتھ ہی میں رکھتی ہے۔ اپنی ملّت سے غداری کرنے والوں کو محض علامتی اختیار دیتی ہے اور لیلاے اقتدار سے نہیں نوازتی۔
o
بنگلہ دیش کے ہمسایہ ملک برما (میانمار) میں ایک عرصے سے مسلمانوں کی نسل کشی کا گھنائونا کھیل جاری ہے۔ اس دوران عوامی لیگی حکومت نے بھی عزت، آبرو اور جان بچاکر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیل کر موت کی لہروں کے سپرد کیا۔ تاہم، گذشتہ چندماہ میں بنگلہ دیشی حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی آئی، جس کا بڑا سبب عالمی اور ملکی راے عامہ کا دبائو بھی تھا۔
روہنگیا مسلمانوں کی وحشیانہ نسل کشی کے خلاف راے عامہ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حتی المقدور کوششیں شروع کیں۔ جماعت اسلامی کے امیرمقبول احمد نے روہنگیا مسلمانوں کی ناقابلِ بیان صورتِ حال، میانمار حکومت، میانماری فوج اور بدھ بھکشوئوں کی جانب سے بدترین قتل و غارت گری و بے چارگی پر دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے ہم وطن اہلِ درد سے اپیل کی کہ وہ مظلوموں کی مدد کریں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق، دنیابھر کے مؤثر اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ مقبول احمد صاحب نے اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیامسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام کو رُکوانے میں وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ میں عالمی تنظیموں، مسلمان ملکوں اور رفاہی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مدد کے لیے تڑپتے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کا ہاتھ بٹائیں۔ اس بحران میں پوری بنگلہ دیشی قوم یک آواز اور ہم قدم ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲ستمبر ۲۰۱۷ء)
عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) کے مطابق:’’ ۲۰ستمبر تک میانمار میں مسلمانوں کے ۲۴۴ گائوں مکمل طور پر تباہ کردیے گئے تھے‘‘(ڈیلی نیونیشن، ۲۰ستمبر)۔ بنگلہ دیشی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ۵لاکھ ۳۶ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش آچکے ہیں۔ اسی دوران حسینہ واجد کے سیاسی مشیر حسان توفیق امام نے مغالطہ انگیزی پیدا کرتے ہوئے کہا: ’اراکان روہنگیا مجاہدین آزادی‘، بنگلہ دیش اور برما دونوں کے دشمن ہیں، ہم انھیں قدم نہیں جمانے دیں گے‘‘(مِزما نیوز،میانمار، ۲۱ستمبر)۔ اس کاغذی تنظیم کا تذکرہ کرکے بنگلہ دیشی حکومت نے روہنگیا مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کی اور ان کے دُکھ درد میں اضافہ کیا۔ یہ طرزِ بیان بھارت کی بی جے پی، آر ایس ایس اور برمی فوج کا ہے، جسے ڈھاکا حکومت نے اپنی طرف سے نشر کیا۔ حسینہ واجد حکومت کے اسی دوغلے پن کو نظام احمد نے اپنے مضمون: ’ڈھاکا دہلی رومانس اینڈ روہنگیا‘ میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا(ڈیلی آبزرور ، ۲۰ستمبر)۔ پھر ۲۰ روز بعد روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی تین رفاہی تنظیموں: مسلم ایڈ بنگلہ دیش ، اسلامک ریلیف اور علامہ فضل اللہ فائونڈیشن پر پابندی عائد کر دی گئی اور صحافیوں نے اس انتہائی اقدام کا سبب جاننا چاہا، تو ڈائرکٹر رجسٹریشن نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
درحقیقت بنگلہ دیشی حکومت ، جہاں ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِ زار کے نام پر دنیا سے مدد حاصل کر رہی ہے، وہیں نہ صرف عالمی سطح کی بلکہ مقامی رفاہی تنظیموں کو بھی ان کی مدد کے لیے ہاتھ بٹانے سے روک رہی ہے۔ روزانہ کوئی نئے سے نیا حکم نامہ آکر، بے لوث خادموں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صحافتی حلقے یہ بات برملا کہتے ہیں کہ: ’’ستمبر سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر قیدوبند کی حالیہ یلغار کے پیچھے ایک یہ سبب بھی ہے کہ کہیں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی اَن تھک کوششوں سے اس کی نیک نامی میں مزید اضافہ نہ ہوجائے اور حکومتی اداروں کی بدانتظامی کا پول کھل نہ جائے‘‘۔
کسی قوم، معاشرے یا اجتماعیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہوتا ہے کہ اس میں اصحابِ علم و دانش کی فراوانی ہوتی ہے اور ارباب تدبر و تفکر کا وجود پایا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی اجتماعیت میں یہ جنس گراں مایہ کم ہو یا موجود ہی نہ ہو، تو سمجھ لیجیے کہ اس کی اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، چاہے ظاہربین نظریں اس کی شان و شوکت، ہائوہو اور کثرتِ تعداد سے کتنا ہی دھوکا کھا بیٹھیں۔
مسلم اُمہ کے لیے عام طور پر اور اسلامی تحریک ِ احیاے اسلام کے لیے خاص طور پر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ایسی ہی سرمایۂ ملّت ہستی تھی۔ ایک صاحب ِ علم و فضل اور تحریک ِ پاکستان سے وابستہ عظیم شخصیت مولانا ظفراحمد انصاری صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستہ ہوئے، اور اس تنظیم کی علمی، فکری اور تہذیبی تشکیل کا بنیادی کردار ادا کرنے والی سہ رکنی ٹیم (دو ارکان خرم مراد اور خورشیداحمد) میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ جمعیت کا انگریزی ترجمان Student's Voice درحقیقت خورشیداحمد صاحب اور ظفرصاحب کی رفاقت کا چشمۂ فیض تھا۔ اسی عرصے میں جناب خرم مراد، جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تو جمعیت کے دستور کی تدوین و تشکیل کا بنیادی کام بڑی جاں کاہی کے ساتھ اسی سہ رکنی ٹیم نے انجام دیا۔
ظفراسحاق تعلیم مکمل کرکے تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہوئے۔ گیارہ برس کراچی یونی ورسٹی میں پڑھایا، ڈاکٹریٹ کے لیے میک گل یونی ورسٹی کینیڈا گئے اور پھر تدریس و تحقیق کے لیے بیرونِ ملک بھی خدمات انجام دیں۔ دل و جان، فکروخیال اور مال و حال کی دولت لیے زندگی کی آخری ساعت تک تحریک ِ اسلامی کا حصہ بنے رہے۔ تاہم، اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنا میدانِ کار، جلسہ اور جلوس کے بجاے تعلیم، تربیت، تحقیق اور رابطے کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا اور پوری زندگی اسی مورچے پر ڈٹے رہے اور اسی عالم میں ۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو رحلت فرمائی، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی کے مدیر جناب سیّد عزیز الرحمٰن شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے قارئین کو ایسی دل کش، علم پرور او ر تہذیب و شائستگی سے مملو شخصیت سے متعارف کرانے کے لیے یہ اشاعت ِ خاص پیش کی ہے۔ وہ آغاز میں لکھتے ہیں: ’’یہ اشاعت دراصل ڈاکٹر صاحب کو ایک طالب علمانہ خراجِ عقیدت ہے، اور بس۔ گزرنے والوں کو یاد رکھنا اور بھول جانے والوں کو ان گزرے ہوئوں کی یاد دلاتے رہنا… اور کسی اِدعا کے بغیر یہ خدمت انجام دینا، اس اشاعت [کا مقصد] ہے… حضرت ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کا دائرہ وسیع بھی تھا اور متنوع بھی۔ ہم اس کا احاطہ تو کیا، سرسری تذکرہ بھی نہیں کرسکے۔ یہ صرف ابتدائی نوعیت کا یادنامہ ہے‘‘(ص۹)۔ ہمارے خیال میں یہ سرسری تذکرہ نہیں بلکہ بے قدری اور مردم ناشناسی کے سنگین ماحول میں، ایک بھرپور خراجِ عقیدت ہے، جس پر جناب عزیز الرحمٰن مبارک باد کے مستحق ہیں۔
یہ خصوصی شمارہ جناب ظفر اسحاق انصاریؒ کی یاد میں مطبوعہ اور کچھ غیرمطبوعہ مضامین کے علاوہ ان کی چند تحریروں، کچھ دیباچوں اور خطوط پر مشتمل ہے۔ مشمولہ مضامین کی خوشبو کا رچائو، شخصی خوبیوں کے اعتراف کا بہائو اور ایک رشکِ دوراں شخصیت کی اُلفت، قاری کے ہم رکاب ہوتی ہے۔ ان احوال و آثار پر مشتمل ۲۸مضامین میں سے چند اقتباسات مطالعے کے لیے حاضر ہیں:
ظفرصاحب کے ۶۷ برس کے رفیق لبیب، پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں: ’’راجا بھائی [ظفراسحاق] اور خرم بھائی، تحریکِ اسلامی میں میرے پیش رو ہی نہیں بلکہ راستہ دکھانے والے بھی تھے۔خرم بھائی کو قرآن سے عشق تھا اور راجا بھائی سیاست اور اجتماعی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جب وہ بی اے کے طالب علم تھے، اس وقت کراچی کے ایک روزنامے کی عملاً ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے‘‘ (ص ۴۸)۔ ڈاکٹرسیّد سلمان ندوی نے بتایا ہے: ’’وہ مجلسی آدمی نہیں تھے، لیکن علمی راے پیش کرنے اور مدلل گفتگو کا عمدہ سلیقہ رکھتے تھے۔ انھوں نے تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ کیا… [جو] قرآنِ کریم کے چند بہترین انگریزی ترجموں میں سے ایک ہے‘‘ (ص ۳۹، ۴۰)۔ پروفیسر خورشید احمد کے بقول: ’’مولانا مودودی نے ترجمۂ قرآن، اُردوے مبین میں کیا تھا، اور ظفراسحاق نے اسے انگریزیِ مبین میں ڈھال دیا، جو ایک سدابہار یادگاری کارنامہ ہے‘‘۔ (ص ۵۱)
طبعی طور پر: ’’[ظفرصاحب] ان چند افراد میں سے ایک تھے، جو اکثر و بیش تر وقت، کسی گہری سوچ بچار اور اسے احاطۂ تحریر میں لانے میں صرف فرماتے ہیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنا سرمایۂ تحریر، صدقۂ جاریہ کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر حافظ افتخار احمد،ص ۲۵)۔ ایک کرم فرما کہتے ہیں: ’’ان کی دل چسپی صرف فقہی احکام تک محدود نہیں تھی، وہ دین کے تمام بنیادی تصورات کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہتے تھے‘‘ (ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ص ۷۲)۔ سچی بات یہ ہے کہ: ’’انصاری صاحب کا شمار اہلِ علم کے قبیلے کے ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے، جو جدید مغربی علوم اور افکار و علومِ اسلامی دونوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں‘‘ (احمد حاطب صدیقی، ص ۱۴۸)۔ اسی طرح مفتی محمد زاہد بیان کرتے ہیں: ’’ان کے انہماکِ علمی کا اندازہ تو ان کے علمی و تحقیقی کام کی وسعت اور گہرائی سے لگایا جاسکتا ہے… ایک طرف تو علم و تحقیق میں فنائیت کی حدتک پہنچا ہوا یہ انہماک، دوسری طرف ملنساری اور خوش خلقی ایسی کہ اس علمی انہماک نے خشکی نام کی کوئی چیز ان [کے مزاج] میں پیدا نہیں ہونے دی‘‘ (ص ۸۳)۔ پھر یہ کہ: ’’وہ زندگی کے آخری لمحات تک علمی کام کرتے اور دوسروں کو علمی کام پر [لگاتے] رہے۔ شدید بیماری کے زمانے میں بھی انھوں نے علمی کام مکمل کیے‘‘۔ (علی طارق، ص ۱۵۹)
کتب کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیا، یعنی دوسروں کی تحریروں کے معیار کو بلند تر بنانے کے لیے انتہا درجے تک محویت اور لگن کی راہ اپنائی۔ نصیراحمد سلیمی بتاتے ہیں: ’’کتب کی ایڈیٹنگ میں ان جیسی محنت کرنے والا خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظرثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتب پر مختلف مصنّفین کے نام لکھے ہیں، لیکن حقیقت میں مصنّف کہلانے کے حق دار انصاری صاحب ہی تھے‘‘۔ (ص ۱۰۸)
خود میرا بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ میں نے ذاتی شوق کے تحت جمعیت کے ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد صاحب سے اجازت لی، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے پروفیسر عبدالحمد صدیقی صاحب سے درخواست کی۔ انھوں نے علالت کے باعث انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب کو یہ کام سونپ دیا۔ جوں ہی ترجمہ ہاتھ میں آیا،تو میں نے زندگی میں پہلی بار تخاطب کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ازراہِ احتیاط وہ ترجمہ انصاری صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا۔ پھر کیا تھا، جناب! انھوں نے مذکورہ ترجمے کی ایک ایک سطر ادھیڑ کر رکھ دی۔ سارا ترجمہ جگہ جگہ سے تبدیل کر کے واپس بھیجا۔ میں نے کمپوز کرایا تو خط آیا: ’’جوں ہی پروف نکلیں دوبارہ بھیجیں‘‘۔ ایک بار بھیجا اور پھر دوبارہ، سہ بارہ بھیجا، قصّہ کوتاہ ڈیڑھ سال میں آٹھ پروف انھوں نے ٹھیک کرکر کے واپس بھیجے۔ شائع ہونے کے بعد اپنی دل چسپی کے لیے میںنے بنیادی مسودے کے ساتھ موازنہ کیا تو سواے دفعات کی گنتی اور جمعیت کے نام کے، ہر چیز تبدیل تھی۔ یہ محنت، یہ توجہ، یہ جز رسی اور ایسی ذمہ داری کہ مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔
تہذیبی ترفع ظفرصاحب کی شخصیت کا امتیازی پہلو تھا: ’’سلام میں پہل، مسکرا کر ملنا، محبت سے مصافحہ اور تمام متعلقین کے حال اَحوال دریافت کرنا ان کی مخصوص عادتیں تھیں…ایک مرتبہ جب وہ بہ طور صدرِ جامعہ (بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی) فرائض انجام دے رہے تھے، اطلاع ملی کہ طلبہ کے احتجاجی جلوس میں مخلوط ماحول دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کا انھوں نے فوری نوٹس لیا اور سختی سے ہدایت کی کہ آیندہ اس قسم کا ماحول جامعہ میں برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ (ڈاکٹر سہیل حسن، ص۷۹)۔ اور یہ کہ: ’’ڈاکٹر صاحب بلاشبہہ ایسے خوش نصیبوں میں سے تھے، جو حق کو دائرۂ شعور کا زندہ مرکز بنا لیتے ہیں اور خیر کو دائرۂ وجود کا… بارہا دیکھا کہ کسی نے منہ پر ان کی تعریف کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ابتدائی فقرہ بھی پورا نہ ہونے دیا۔اپنی مدح سننے سے گریز کا یہ عمل رسمی عاجزی کے ساتھ نہیں، بلکہ بے تکلفی اور قدرے ناگواری کے ساتھ ہوا کرتا تھا‘‘ (احمد جاوید، ص ۴۴)۔ پھر یہ کہ: ’’ایک بہترین انسان اور تحقیق و تعلیم میں ہمہ تن مشغول رہنے والی شخصیت تھے، جو کسی طبعی علالت کو علمی و تحقیقی کام میں سنگِ گراں نہیں بننے دیتے تھے‘‘۔ (ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ص ۹۱)
طبیعت میں ایسی انسان پروری، شگفتگی اور دل آویزی کہ: ’’یوں ہی خیال آتا ہے کہ اگر مولانا مودودی صاحب کے پیش کردہ نظریا ت کے نتیجے میں [ظفراسحاق] انصاری صاحب جیسے لوگ پیدا ہونے لگیں، تو ہم جیسے [تصوف کے طرف دار] لوگ اسی پر مطمئن ہوجائیں، کیوںکہ تصوف کا منشا بھی تو یہی ہے کہ ایسا معاشرہ قائم ہو، جس میں انسان انسان کی ڈھال بنے، اس کے لیے تلوار نہ بن جائے‘‘۔ (ڈاکٹر نجیبہ عارف، ص ۱۱۹)
قرآنِ عظیم سے محبت اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے شیفتگی کے مظاہر ان کی زندگی میں کئی حوالوں سے سامنے آتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب انتہائی رقیق القلب تھے۔ میں نے خود دیکھا جب ایک محفل میں نعت ِ رسولؐ پڑھی جارہی تھی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے‘‘ (ڈاکٹر ضیاء الدین رحمانی، ص ۱۴۶)۔ ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمٰن لکھتے ہیں: ’’نعتیہ اشعار سناتے وقت ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے والہانہ عشق کے غماز ہوا کرتے تھے۔ گاہے کوئی پسندیدہ شعر سنانے کو جی چاہتا تو دفتر بلواتے اور محبت سے سناتے۔ ایک مرتبہ آسی جونپوری کا ایک شعر رندھی ہوئی آواز میں سنایا ؎
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد
تیرے نام کی رَٹ ہے ، خدا کے نام کے بعد
ایک مرتبہ طلب فرمایا اور ماہرالقادری کا یہ شعر سنایا:
تاروں سے یہ کہہ دو کوچ کریں، خورشید منور آتے ہیں
قوموں کے پیمبر آ تو چکے، اب سب کے پیمبر آتے ہیں
(ص ۶۷)
وہ ایک بہترین مترجم، شان دار مصنّف،اعلیٰ پاے کے دانش ور، شفیق استاد اور نجیب الطرفین انسان تھے۔ کارِ تحقیق اور اشاعت ِ دین ہی کے جذبے نے انھیں اُردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر دسترس کے حصول پہ اُبھارا۔ان کی وفات پر جناب مجیب الرحمٰن شامی نے دُکھ کا اظہار اس آہ کی صورت میں کیا: ’’ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری رخصت ہوئے تو اربابِ صحافت اور سیاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کسی نے ایک کان سے سنا بھی، تو دوسرے سے اُڑا دیا۔ نہ صدر مملکت کا کوئی بیان نظر سے گزرا، نہ وزیراعظم کی توجہ ہوئی، اور سراج صاحب بھی لاتعلق نظر آئے… شوروغوغا کو زندگی سمجھ لینے والے معاشرے بالآخر کہاں پہنچ جاتے ہیں، یہ جانے والے کے لیے نہیں، یہاں رہ جانے والوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے‘‘۔ (ص ۹۶)
اس مختصر تبصراتی مضمون میں اسی قدر ذکرِ یار ممکن ہے، جب کہ راہروانِ عشق، اس داستانِ لذیذ کو مذکورہ اشاعت کے مطالعے ہی سے آویزئہ گوش بنا سکتے ہیں۔ [اشاعت ِ خاص، ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی]، مدیر:سیّد عزیز الرحمٰن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز ۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰- ۰۲۱۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔
ہر موسم کے اپنے پھل اور ہر زمانے کے اپنے ’نمونے‘ (ماڈل) ہوتے ہیں۔ ہمارے موجودہ زمانے کا نمونہ ’بیانیہ‘ سے منسوب ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے ۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو ایک غیر معروف مصنف کی شرانگیزی کو ایجابی طور پر اپنے ’بیانیہ‘ میں پیش کیا اور ایمن الظواہری سے منسوب قول دہرایا: ’’سید قطب کی کتابیں وہ بارود تھیں، جنھوں نے امت میں جہادی سوچ پیدا کی… [سید قطب] کی کتب اور رسائل میں بہت سے مقامات پر تکفیر کی تپش محسوس ہوتی ہے‘‘۔
یہ نقل کرنے کے بعد ندیم صاحب نے لکھا ہے: ’’میں اگر یہ پڑھ کر چونکا تو اس کا سبب سید قطب کے خیالات نہیں ہیں۔ [ان] کی کتاب معالم فی الطریق کا اردو ترجمہ میں نے بچپن میں پڑھا [تھا، جس] کے تعارف میں لکھا ہے، جب فوجی عدالت نے سید قطب سے پوچھا کہ اُن کے اور مولانا مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟ سید صاحب نے جواب دیا ’لافرق‘ (کوئی فرق نہیں ہے)‘‘۔ موصوف نے اپنے ’بیانیے‘ میں زور پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے: ’’میں سید قطب کے ان خیالات سے بہت پہلے سے واقف ہوں۔ یہ بحث بھی نئی نہیں ہے کہ دور جدید میں جہادی اور تکفیری سوچ کے بانی سید قطب ہیں… اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں، جو مسلمان حکمرانوں کو مرتد قرار دیتی ہیں، اور ان کی تکفیر کرتی ہیں۔دیکھیے، اب جماعت اسلامی کا کیا موقف سامنے آتا ہے؟ وہ بھی خود کو اس سوچ سے الگ کرتی ہے یا پھر بدستور ’لافرق‘ کے نقطۂ نظر ہی کو اختیار کرتی ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، ۱۵؍اپریل۲۰۱۷ء)
درحقیقت یہ کالم ایک چارج شیٹ سے بڑھ کر ایک تہمت ہے، جس میں یہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں سے منسوب جتنی قتل و غارت گری ہورہی ہے، اس کا منبع سیّد قطب شہید اور اخوان المسلمون کی فکر ہے۔ چوںکہ سیّدقطب نے اپنے آپ کو مولانا مودودی کا ہم خیال قرار دیا ہے، اس لیے جماعت اسلامی والے اس ’مذموم سوچ‘ سے اپنی علیحدگی کی وضاحت کریں ورنہ وہ بھی اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔
کسی فرد کے لکھنے اور بولنے پر تو کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ موصوف اپنے ہر اس کالم میں، جو وہ اہلِ مذہب کی ’اصلاح‘ کے جذبے سے لکھتے ہیں، ان میں اِدعا کی کثافت اور سرزنش کا انداز پایا جاتا ہے، اور اکثر احساسِ ذمہ داری سے بے نیاز ہو کر لکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ انھوں نے اس تحریر میں ہوشیاری بلکہ سفاکی سے، مغرب کے اُس بیانیے کو دُہرا ڈالا ہے، جسے وہ گذشتہ ۲۵برس سے ہر آن مسلم دانش کے سرتھوپے چلے جا رہا ہے، اور سید قطب شہید کو حالیہ زمانے کی تمام ’دہشت گردی کا مرکز‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔
مولانا مودودی اور سیّد قطب شہید کے حوالے سے پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ان دونوں حضرات نے کبھی تکفیر اور کفرسازی کا اسلوب اختیار نہیں کیا، بلکہ اس سے ہمیشہ پہلو بچایا ہے۔ کیا کالم نگار کا کوئی ہم نوا یہ بے بنیاد دعویٰ کرسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے تکفیری فکر کی ترویج یا تائید کی ہے؟ جس طرح سید مودودیؒ کے بارے میں برعظیم جنوبی ایشیا کا کوئی باشعور شخص یہ دعویٰ تسلیم نہیں کرسکتا، بالکل اسی طرح سید قطب شہید کا لٹریچر ان الزامات کا جواب خود دیتا ہے۔
ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں:یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ چند جیّد علما کی طرف سے مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمیدالدین فراہی کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے تڑپ کر اس کے جواب میں لکھا: ’’مومن کو کافر کہنے میں اتنی ہی احتیاط کرنی چاہیے، جتنی کسی شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کرنے میں کی جاتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کسی کوقتل کرنے سے کفر میں مبتلا ہونے کا خوف تو نہیں ہے، مگر مومن کو کافر کہنے میں یہ خوف بھی ہے کہ اگر فی الواقع وہ شخص کافر نہیں ہے، اور اس کے دل میںذرہ برابر بھی ایمان موجود ہے، تو کفر کی تہمت خود اپنے اوپر پلٹ آئے گی۔ پس، جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہو، اور جس کو اس کا کچھ بھی احساس ہو… وہ کبھی کسی مسلم کی تکفیر کی جرأت نہیں کر سکتا… جو شخص، مسلمان کی تکفیر کرتا ہے، وہ دراصل اللہ کی اُس رسی پر قینچی چلاتا ہے، جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو جوڑ کر ایک قوم بنایا گیا ہے… اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ علماے دین میں کافروں کو مسلمان بنانے کا اتنا ذوق نہیں، جتنا مسلمانوں کو کافر بنانے کا ذوق ہے‘‘… (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۳۶ء)
ہم دیکھتے ہیں، سیّد قطب شہید نے سہ طرفہ جبر، یعنی: مغربی سامراجی سازشیوں،اشتراکیت کے پرچم برداروں اور عرب قوم پرستی کے نشے میں مدہوش عرب فوجی حاکموں کا جبر دیکھا اور اس کا سامنا بھی کیا، مگر اس کے باوجود سید قطب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ: ’’میرے ہم نواؤ، اُٹھو اور سوشلسٹ عرب قوم پرست ڈکٹیٹر ناصر کی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو قتل کر ڈالو‘‘۔ نہ یہ کہا کہ: ’’جہاں کوئی امریکی یا یہودی نظر آئے، اسے پھڑکا دو‘‘۔ نہ انھوں نے اُس جاہلیت کوجو اشتراکیت، سرمایہ دارانہ مادہ پرستی اور نسلی قوم پرستی کے مرکب سے سرطان کا پھوڑا بن چکی ہے اور اس نے نوعِ انسانی کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، اس کے بارے میں کہا کہ: ’’اِس کے فرستادوں کو اڑا دو‘‘۔ ہرگز نہیں، بلکہ انھوںنے اس کے لیے دعوت، تنظیم اور اخلاقی تربیت ہی کو بنیاد بنانے کی دعوت دی۔
دوسری طرف مولانا مودودی نے اپنے عزیز از جاںکارکنوں [اللہ بخش ۱۹۶۳ء لاہور، محمدعبدالمالک ۱۹۶۹ء ڈھاکہ ، ڈاکٹر نذیراحمد۱۹۷۲ ء ڈیرہ غازی خان] کی لاشیں اُٹھا کر بھی بار بار یہی تلقین کی: ’’ہم نے کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیںکرنا، دعوت کا راستہ ہی اصلاح اور تبدیلی کا راستہ ہے۔ ہم نے کسی سازش کا حصہ نہیں بننا اور آئینی و جمہوری راستے ہی سے منزل کی طرف گامزن رہنا ہے‘‘۔ مولانا مودودی نے ۹مئی ۱۹۶۳ء کو مکہ مکرمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب میں ہدایت فرمائی تھی: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے‘‘ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲)۔جماعت اسلامی تو اگست ۱۹۴۱ء میں بنی، لیکن مولانا مودودی کی وہ تحریریں، جو انھوں نے اپنے دورِ نوجوانی میں اخبارات مسلم اور الجمعیۃ میں ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۸ء کے زمانے میں لکھیں، ان میں بھی تشدد کے عمل کی تائید و تحسین نہیں کی، بلکہ گرفت اور مذمت کی۔
کالم نگار نے جماعت اسلامی کو اپنا ’موقف واضح‘ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی تاریخ، عمل اور اس کا دستور اس پر واضح ہیں۔ ’دستور جماعت اسلامی پاکستان‘ کی دفعہ ۵ (شق۳،۴) میں درج ہے: ’’جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔(دستور، ص ۱۵)
اسی طرح سیّد قطب کے فکری وارثوں، یعنی الاخوان المسلمون نے کبھی بغاوت اور تکفیر اور قتل و غارت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کا یہ تاریخ ساز جملہ اخوانی فکر کا حقیقی عکاس ہے، جو انھوں نے اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے میدان رابعہ میں فرمایا تھا کہ: ’’ہم پُر امن ہیں، پُرامن رہیں گے، اور ہمارا پُرامن رہنا تمھاری گولیوں اور توپوں سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوگا‘‘۔ مرشد عام اور ان کے ۴۵ ہزار جاں نثار آج بھی، مصر کی جیلوں میں صبر و ثبات کا نشان بن کر ہمارے معذرت خواہی کے دل دادہ دانش وروںکی تخیل آفرینی کا عملی جواب ہیں۔
سیّد قطب شہید نے اپنی کتاب معالم فی الطریق میں یہ اصولی بات بیان کی ہے: ’’اسلام، جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرسکتا۔ معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریے کا ہو اور خواہ اس تصور اور نظریے پر مرتب ہونے والے قوانینِ حیات کا۔ اسلام رہے گا یا جاہلیت‘‘ (اردو ترجمہ: جادہ و منزل، ص ۳۶۴-۳۶۵)۔ یہ اصولی بات سیّدقطب نے قرآن اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبّع میں کہی ہے، جس کی بازگشت صحابہؓ اور صلحاؒ کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور حق اور باطل کو گڈمڈ نہ کرو‘‘ (البقرہ۲: ۴۲)۔ مزید فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کو سارے ادیان پر غالب کردے، ان مشرکوں کے علی الرغم‘‘ (التوبہ۹:۳۳)۔ یہ ابدی حقیقت قرآن میں موجود ہے تو سیّدقطب اپنی شہادت کے ۵۰سال بعد بھی کیوں گردن زدنی ہیں؟
اگر ایمن ظواہری نے اپنی صواب دید پر یہ کہا ہے کہ انھوں نے سیّد قطب کی تحریروں سے اپنی منزل کا سراغ پایا ہے، تو کسی بھی فرد کی جانب سے ایسا من مانا دعویٰ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ماضی میں خوارج نے ایک منفی رول ادا کیا تھا اور آج منکرینِ حدیث یا درست لفظوں میں امریکی مرضی کے مطابق ’اسلام پیش کرنے والے‘ بھی قرآن ہی کو اپنے لیے ’ذریعۂ رہنمائی‘ قرار دینے کا دعویٰ کرکے اُمت کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں۔ تو اب کیا یہ کہا جائے گا کہ خارجیوں اور منکرینِ حدیث کی جدید ترین قسموں کا ذمہ دار (نعوذباللہ) قرآن ہے؟ اگر ایک فرد، سیّدقطب شہید یا علامہ محمد اقبال یا مولانامودودی کی تحریروں سے وہ شگوفہ نکالتا ہے، کہ جس پودے کو کبھی انھوں نے پانی دیا ہی نہیں تھا، تو وہ، ایسے کم فہم فرد یا شرانگیز گروہ کی حرکات کے کیسے ذمہ دار قرار پاتے ہیں؟
معذرت خواہ دانش ور، نہ تو سیّد قطب شہید کے عہد کے جبر کو جان سکتے ہیں، نہ وہ زمان و مکان اُن کے تجزیے کی گرفت میں آسکتے ہیں، جن میں انھوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ شکوک و شبہات کی فصلیں بونے والے قلم کار، بھلا نہتے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں؟ یک قطبی امریکی سامراجی عہد میں سانس لینے والے ’مغرب زدہ علما‘ کے لیے انسانی حقوق، امن، عدل، رواداری کے کاغذی الفاظ میں ’بڑی قوت‘ ہے، مگر ناصر اور سیسی کی جیلوں میں سسکتی انسانیت اور صلیبوں پر لٹکتے لاشے اور جیل میں کتوں کے جبڑوں میں بھنبھوڑی جاتی عفت مآب خواتین کی کوئی آوازکانوں سے نہیں ٹکراتی۔
ہمارے ان پارا صفت قلم کاروں کو نہ توسامراجی سلطنتوں میں وسعت لانے والی مغربی سامراجی طاقتیں یاد آتی ہیں ، نہ اقوامِ متحدہ کی بارگاہ سے نازل ہونے اور قتل و غارت مسلط کرنے والی خونیں قراردادیں متوجہ کرتی ہیں، اورنہ ڈیزی کٹر اور بموں کی ماں یاد آتی ہے۔یاد آتا ہے تو بس یہ کہ کسی طرح شرق و غرب کے غاصبوں کو چیلنج کرنے والی کوئی آہ، چیخ بن کر فضا کو نہ چیر دے۔
یہی کالم نگار اس سے قبل متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ یا ’اسلام کی سیاسی تعبیر موجودہ المیے کی ذمہ دار ہے،سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے پہلے انھی اصحابِ قلم کی تحریروں نے وہ قیامت کیوں نہ ڈھائی، جو آج ان کے سر تھوپی جارہی ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان مظلوم مفکرین نے نہ وہ ’نظریہ‘ دیا تھا اور نہ وہ ’تنظیمیں‘ بنائی تھیں، جنھیں آج ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ دراصل یہ دانستہ مغالطہ انگیزی اس حقیقی مجرم اور سامراج کو بچانے کی یاوہ گوئی ہے، جس سے اصل قاتل سے توجہ ہٹاکر قتل اور آلۂ قتل کو، خود مقتول کے ذمے لگایا جارہا ہے۔
اہلِ صدق و صفا جانتے ہیں کہ ایسی وعدہ معاف دانش کی عمر مچھر کی زندگی سے زیادہ حقیر ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے اگرچہ سیدقطب شہید دل اور سیّد مودودی دماغ کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ہم ان کی باتوں کو آخری سند نہیں مانتے، یہ مقام تو صرف کلام اللہ اور سنت اور حدیث رسولؐ اللہ کو حاصل ہے۔
دنیا نے ظلم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ظالم، ظلم کی آخری حدوں کو چھونے کا کھیل پوری شدت سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کے بنگلہ دیش کا ہر دن ظلم کی نئی داستان لیے طلوع ہوتا ہے۔ یوں تو اُس سرزمین پر برپا ظلم کی ان داستانوں کے کئی عنوان ہیں، تاہم یہاں چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:
۱۸؍نومبر کو جماعت اسلامی جمال پور کے ۸۵ سالہ بزرگ رہنما ایس ایم یوسف علی، قید کے دوران ڈھاکا میڈیکل کالج میں انتقال کر گئے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل انھیں بنگلہ دیشی ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی تھی۔
مرحوم یوسف علی ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کے جمال پور سے قومی اسمبلی کے لیے اُمیدوار تھے۔ اُن دنوں وہ سنگھ جانی باہمکھی ہائی اسکول جمال پور میں ہیڈماسٹر تھے۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھی وہ مسلسل اسی اسکول میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس پورے زمانے میں ان کے خلاف کبھی کوئی فوجداری یا جنگی جرم کی نہ کوئی بات سنی گئی اور نہ کسی نے ان پر الزام لگایا اور نہ کہیں کوئی معمولی درجے کا مقدمہ ہی درج کیا گیا۔
۲۰۱۳ء میں یوسف علی صاحب کو ۸۲سال کی عمر میں ایک روز انھیں اچانک قید کر کے ڈھاکا سنٹرل جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر خانہ زاد مقدمے کے تحت پہلے جنگی ملزم بنایا اور ۲۰۱۶ء میں جنگی مجرم قرار دے کر عمربھر کے لیے قید کی سزا سنا دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ظالموں کی قید سے رہائی دلا دی، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
اس سے ٹھیک ۲۴ روز قبل اسی طرح کا ایک اور افسوس ناک واقعہ یہ رُونما ہوا کہ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو مسلم لیگ کے ۸۵سالہ سلیمان مُلّا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ۶۵سالہ ادریس علی کے خلاف متنازعہ ٹریبونل میں مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہوا۔ ۲۶؍ اکتوبر کو سماعت شروع ہوئی تو سرکاری وکیل نے ٹریبونل کو آگاہ کیا: ’’مسلم لیگ شریعت پور سے تعلق رکھنے والے امن کمیٹی سے وابستہ ملزم سلیمان مُلّا کا گذشتہ رات جیل میں انتقال ہوگیا ہے۔ جس پر ٹریبونل نے یکم نومبر تک مقدمے کی سماعت ملتوی کردی‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۲۷؍اکتوبر)
اس سے پیش تر بھی بنگلہ دیش کی قاتل حکومت اور سفاک عدالت کے ہاتھوں تین اور رہنما اسی طرح موت کی آغوش میں چلے گئے، جن میں:
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ۸۵سالہ بزرگ رہنما عبدالعلیم خان کو ۹؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی گئی تھی، وہ پھیپھڑوں کے کینسر کے مریض تھے۔ اسی مرض میں قید کے دوران ۲۹؍اگست ۲۰۱۴ء کو انتقال کرگئے۔
جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما اے کے ایم یوسف (پ:۱۹ مارچ ۱۹۲۶ء) کو قید کے دوران مذکورہ ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی۔ انھوں نے ۸۷برس کی عمر میں جیل ہی میں ۲فروری ۲۰۱۴ء کو رحلت فرمائی۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر اور عالم اسلام کے مایہ ناز فرزند پروفیسر غلام اعظم (پ:۷نومبر ۱۹۲۲ء) کو اس ٹریبونل نے ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کے روز ’موت تک سزاے قید‘ سنائی تھی۔ پروفیسر صاحب نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ۹۱برس کی عمر میں دورانِ اسیری انتقال فرمایا۔
دوسری طرف ۲۶؍اکتوبر کو بنگلہ دیشی فورسز اور پولیس نے بہیمانہ کارروائی کرکے ضلع جھیناہدہ سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے سات کارکنوں کو شہید کر دیا۔ اس طرح گذشتہ چار ماہ کے دوران اسی ضلع سے تحریکِ اسلامی کے ۱۴کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے۔ (’BD جماعت‘ ، ۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو خفیہ بیلٹ کے ذریعے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ۴۰ہزار ارکان نے جناب مقبول احمد کو امیرجماعت منتخب کیا۔ مقبول احمد، فینی کے ایک معروف مقامی اسکول میں بطورِ استاد ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ اُن کے بارے میں والدین، بچوں اور اساتذہ کی راے ہے کہ وہ ایک شریف النفس انسان، متوازن، مشفق عالم اور سراپا معلم ہیں۔ جب امیرجماعت مطیع الرحمٰن نظامی کو حکومت نے قید کر دیا تو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے انھیں چھے برس (۲۰۱۱ء-۲۰۱۶ء) تک بنگلہ دیش جماعت اسلامی کا قائم مقام امیر جماعت مقرر کیا۔
مقبول احمد صاحب جیسے ہی امیرجماعت منتخب ہوئے تو اگلے ہی روز انٹرنیٹ پر کسی نے یہ جملہ اُچھالا: ’’مقبول احمد بھی جنگی مجرم ہیں‘‘۔ پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر جعلی کہانیوں اور جھوٹے الزامات کی ایک طوفانی مہم برپا کر دی گئی اور انھیں ’جنگی جرائم‘ میں گھیرنے کے لیے دائرہ تنگ کیا جانے لگا، حالانکہ ۱۹۷۱ء میں وہ جماعت کے کوئی نمایاں فرد نہیں تھے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ قائم مقام امارت کے پورے چھے برس ہی میں نہیں بلکہ اُس سے پہلے ۱۹۷۱ء سے ۲۰۱۱ء تک مقبول صاحب کو کبھی کسی فوجداری الزام کا سزاوار قرار نہ دیا گیا۔
چونکہ یہ سب کام اس منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی کو کسی بھی اعتبار سے قدم جمانے نہ دیے جائیں۔ اس لیے مقبول احمد صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے ۲۲ویں روز ’جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت‘ کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر نورالاسلام نے ضلع فینی کا دورہ شروع کیا۔ یہاں پر جماعت کے مخالف اخبار کی یہ رپورٹ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے: ’’نورالاسلام نے منگل کی سہ پہر سرکٹ ہائوس پہنچ کر جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد کے خلاف ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم کی تلاش کا آغاز کیا‘‘ (ڈھاکا ٹربیون، ۸نومبر ۲۰۱۶ء)۔
پھر عوامی لیگی لیڈر میر عبدالحنان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں اعلان کیا:’’ہم مقبول احمد کے خلاف شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اور اس کے لیے انٹرنیٹ، اخبارات پر گردش کرنے والی رپورٹوں کو بنیاد بنارہے ہیں‘‘(ڈھاکا ٹربیون، ۱۵نومبر ۲۰۱۶ء)۔سوال یہ ہے کہ اگر اُن پر واقعی ایک نہیں بلکہ ۱۰ہندوئوں کو قتل کرنے کا الزام تھا،تو اس جنگی جرم کے خلاف ۴۶ برس تک کیوں کسی نے آواز نہ اُٹھائی؟ کس فائل میں یہ کیس دبا ہوا تھا، کہ اس کی تلاش کا آغاز پانچویں عشرے میں کیا جارہا ہے؟ مقتولین کے کسی وارث نے کیوں ۴۶برس تک کہیں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی؟ ان سوالوںکا جواب دینے کے بجاے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل یہی پروپیگنڈا کرکے جماعت کی قیادت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت کے حامل قانون دان بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹریبونل اپنے قیام کے پہلے روز سے سیاسی انتقام اور عدل و انصاف کے قتل کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ گذشتہ مہینے بنگلہ دیشی وزیرخارجہ محمدشہریار عالم نے اسٹیٹس پارٹیز کی ۱۵ویں اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب ہمیں جنگی جرائم کے لیے عالمی سطح پر عدالت لگانے کے لیے ماضی کا رواج ترک کر دینا چاہیے، اور ملکی سطح پر ہی ایسے مقدمات چلانے کے رواج کو فروغ دینا چاہیے‘‘۔ یہ بیان عالمی انصاف اور عدالتی روح سے متصادم ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیشی حکومت کی بدنیتی آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی دوران میں بنگلہ دیشی حکومت کی انتقامی سوچ نے جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر مقبول احمد کو بے بنیاد الزامات اور مقدمات کے گرداب میں پھنسانے کا عمل شروع کر دیا۔ وہ ہے بنگلہ دیش کہ جہاں ایک گھنائونے عدالتی ڈرامے میں انصاف کا قتل اور جماعت اسلامی سے انتقام ہرقیمت پر‘‘۔(ہوفنگسٹن پوسٹ، ۲۲نومبر ۲۰۱۶ء)
یہ چیز بھارت کے سیاسی عزائم اور مستقبل بینی کی دلیل ہے، جس میں عالمِ اسلام اور خود پاکستان کے لیے سبق موجود ہے کہ وہ اپنی یونی ورسٹیوں میں بنگلہ دیشی طالب علموں کے لیے وظائف کا اجرا کرکے انھیں اُمت سے جوڑنے کی بامعنی کوشش کریں۔
یہ بے سروپا تحقیق جہاں مذکورہ پروفیسر کی ناقص معلومات کی دلیل ہے، وہیں خود بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کو انتقام کا ہتھیار تھمانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس بیان نے بھارت اور بنگلہ دیش میں مسلم ہندو آبادیوں کے مابین تنائو کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خصوصاً برما کے مسلمان مہاجرین اور آسام میں مسلمانوں کے لیے سخت ناخوش گوار صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ’تحقیق ‘ کمیونسٹ بہی خواہوں کی ذہنی اُپج اور انتشار پروری کی منفرد مثال ہے (مخصوص این جی اوز کی جانب سے وقتاً فوقتاً اسی نوعیت کا پروپیگنڈا سندھ میں ہندو آبادی کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اور بھارت میں حقائق جانے بغیر مسلمانوں کو طعنے دیے جاتے ہیں کہ: ’’تم مسلمان پاکستان میں ہندوئوں کو تنگ کر رہے ہو‘‘۔ حالانکہ سندھ میں اس نوعیت کی کوئی فضا نہیں)۔
یہ ’تحقیق‘ اس پس منظر میں اُچھالی گئی ہے کہ ۳۰؍اکتوبر کو برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں پر حملے ہوئے، جن پر پہلے ہی بھارت اور بنگلہ دیش کی ہندو آبادی میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات میں، عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کو ملوث کرنے کی شرانگیز کوشش کی، جسے نہ صرف جماعت اسلامی نے مسترد کیا بلکہ مظلوم ہندوئوں کی بحالی کے لیے کوششیں کیں۔ دوسری طرف ڈھاکا کے ایک میڈیا ہائوس کی تحقیق کے مطابق: ’’برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں میں اور دکانوں پر حملے کا سرغنہ عوامی لیگی ممبر پارلیمنٹ عبدالمقتدر چودھری ہے‘‘۔ (بی ڈی نیوز24، ۱۲نومبر ۲۰۱۶ء)
مذکورہ خبر پڑھ کر بنگلہ دیش کے قیام کو مکتی باہنی کا کارنامہ سمجھنے والوں کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ دراصل مشرقی پاکستان کو چاروں طرف سے بھارتی فوجی یلغار کا سامنا تھا، اور ان کا مقابلہ پاکستان کے محض ۳۵ہزار جوان کر رہے تھے، جو عملاً آٹھ ماہ سے محصور تھے، جنھیں نہ تازہ کمک حاصل تھی، نہ اسلحے کی وافر کھیپ میسر تھی، بلکہ سفارتی و ابلاغی سطح پر بھارتی اور اشتراکی پروپیگنڈے کی زد میں تھے۔ گذشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا ڈھاکا میں یہ اعلان کہ پاکستان توڑنے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا، اور بنگلہ دیشی وزیراعظم کی یہ سپاس گزاری کہ: ’’ہم آنجہانی بھارتی فوجیوں کو اعزازت سے نوازیں گے‘‘، اصل کہانی بیان کرتے ہیں۔
یہ تمام پہلو بنگلہ دیش کی قومی اور سماجی زندگی پر چھائےظلم کے گہرے بادلوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ انصاف کے نام پر قتل کی داستانیں سناتے اور محکومی کی زنجیروں کی جھنکارکا پتا دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں ظلم کا دریا بہے جا رہا ہے۔ ظالم بے حیا ہوتا ہے اور ہٹ دھرم بھی۔ یہی رویہ بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض ایک غیر نمایندہ ٹولہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہاں کے مسلمان اپنے لہو کے گھونٹ پیتے ہوئے، بے بسی کے عالم میں دنیاے اسلام اور عالمی ضمیر کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
سرزمینِ بنگال پر تحریکِ اسلامی نے ۱۵؍اگست ۱۹۶۹ء کو ڈھاکا یونی ورسٹی سے اپنے پہلے شہید محمد عبدالمالک کی میت اُٹھائی تھی، تو داعیِ تحریک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا تھا: ’’اس راہ میں یہ پہلی شہادت تو ہوسکتی ہے آخری نہیں‘‘۔
درحقیقت وہ مستقبل بین نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان کی سرزمین پر بے دینی، بنگلہ قوم پرستی، اشتراکیت اور ہندو انتہا پسندی نے جس زہر کا بیج بویا ہے، اس کے زہریلے پودے معلوم نہیں اور کتنے حق پرستوں کا لہو پئیں گے۔
اس ہفتے کے اختتام پر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ، جماعت اسلامی کے سب سے بڑے مالی معاون کی زندگی کے خاتمے کا راستہ صاف کردے گی، وہ جماعت جو بنگلہ دیش میں سب سے بڑی اسلامی پارٹی ہے۔ ایک عدالت [؟] نے میرقاسم علی کو ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے علیحدگی کی مزاحمت کرنے پر سزاے موت دے رکھی ہے۔ ان کو پھانسی دینے کا عمل، بے بنیاد (flawed) مقدموں کے سلسلے کی ایک کڑی کو مکمل کرے گا، جسے حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء سے شروع کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کی تقریباً تمام قیادت کو چور دروازے سے پکڑ کر ڈھاکا سنٹرل جیل میں قید کررکھا ہے۔ …اصول کی بات ہے کہ ظالمانہ آمریت، انتہاپسندی کو جنم دیتی ہے۔ اس طرح کانٹوں سے لتھڑا ’انصاف‘ بنگلہ دیش کو زہریلے کنویں پر کھڑا کرنے جا رہا ہے کہ جہاں سے اسے زہر کے گھونٹ ہی پینا پڑیں گے۔(۲۶؍اگست ۲۰۱۶ء)
اور پھر بنگلہ دیش کی ’سپریم کورٹ‘ نے ۳۰؍اگست کو نام نہاد عدالتی ٹریبونل کے اُس فیصلے (۲نومبر ۲۰۱۴ء) کی توثیق کرتے ہوئے نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی، جس کے تحت میرقاسم علی کو سزاے موت سنائی گئی تھی۔ میرقاسم علی کے وکیل خوندکر محبوب حسین نے عدالت کے صدردروازے پر کھڑے ہوکر واشگاف الفاظ میں کہا:
یہ جھوٹے الزامات اور جھوٹی گواہیوں پر مبنی ایک فیصلہ ہے۔ مستقبل میں اور مستقبل کی نسلوں میں جو افراد شعبہ عدل و انصاف میں خدمات انجام دیں گے، ان کے سامنے یہ سوال ،جواب طلب رہے گا کہ کیا واقعی یہ فیصلہ جائز تھا؟ (ڈیلی اسٹار، یکم ستمبر۲۰۱۶ء)
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے اسی لمحے اخباری نمایندے سے کہا: ’’یہ حکومت ایک سازش کے تحت جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو ایک ایک کرکے پھانسی کے گھاٹ اُتار رہی ہے، اور میرقاسم علی کو بھی اسی سفاکی کی بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے۔ حالاں کہ یہ تمام مقدمات جھوٹے، الزامات جعلی اور گواہان کِذب و افترا کی بدترین تصویر پیش کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف سپریم کورٹ حکومت کے خانہ ساز گواہوں اور جعلی ریکارڈ پر مبنی الزامات اورغیرعدالتی عمل پر مبنی فیصلوں کی توثیق کیے جارہی ہے۔ میرقاسم علی ۱۹۷۱ء کے پورے زمانے میں ڈھاکا میں تھے، لیکن ان پر قائم شدہ اور اب سزا کی بنیاد بنائے جانے والے مقدمے چٹاگانگ میں، اور چٹاگانگ ہی کے حوالے سے قائم کیے گئے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس جھوٹے ڈرامے کے لیے، جھوٹے ڈرامائی گواہوں کو تیار کیا اور ان جعلی گواہوں کو وکلاے صفائی کی جرح سے بچاکر میرقاسم کی موت کے لیے مرضی کا فیصلہ لیا گیا ہے، جسے کوئی بھی باضمیر فرد قبول نہیں کرسکتا‘‘۔ (جماعت ویب: ۳۰؍اگست)
یورپی پارلیمنٹ کے ۳۵ ممبران نے حسینہ واجد کو ایک مشترکہ خط میں لکھا: ’’ہم اپنی اس فکرمندی کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے تحت بنگلہ دیش میں ایک مقامی اور غیرقانونی عدالت میں عدل و انصاف کی دھجیاں اُڑاتے عمل کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ ہم بنگلہ دیش حکومت کو انسانی حقوق کی پامالی پر باربار متوجہ کر رہے ہیں، اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ آپ کا خصوصی ٹریبونل عدل، قانون اور بین الاقوامی قانون کے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اُترتا، لیکن آپ کے ہاں سے اس عدالت کے نام پر اب تک ۱۷؍افراد کو موت کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں، (جن میں سے کچھ پھانسی پاچکے ہیں، کچھ جیلوں میں پھانسی کے منتظر ہیں اور کچھ بیرونِ ملک ہیں)۔ ہم خبردار کرتے ہیں کہ جب تک بنگلہ دیشی انتظامیہ، شفاف عدالتی اور قانونی عمل کے ذریعے میرقاسم علی کے مقدمے کو نہیں سن لیتی، اس وقت تک انھیں انتہائی سزا دینے سے اجتناب برتے۔ اسی طرح ہم میرقاسم علی کے بیٹے بیرسٹر میراحمد بن قاسم کے غیرقانونی اغوا و گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں، جو اپنے والد کے مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ یہ ایک خوف ناک بات ہے کہ اس نوجوان وکیل کو ۹؍اگست [۲۰۱۶ء] سے غائب کرکے، اپنے والد کی وکالت کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ ہم احمد بن قاسم کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں‘‘۔ (۳۵؍ارکانِ پارلیمنٹ کے دستخط)
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان ۳۵؍افراد میں کسی ایک فرد کو پاکستانی نہیں کہہ سکتے، کوئی ایک فرد بھی بنگلہ دیشی نہیں، اور کوئی ایک ممبر مسلمان بھی نہیں۔ یہ معزز ارکان پارلیمنٹ، (جو یورپ کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں) صرف عدل اور انصاف اور انسانیت کے نام پر، بھارت نواز حسینہ واجد کو توجہ دلا رہے ہیں کہ وہ گھنائونے اقدامات سے گریز کرے۔
۳ستمبر کی صبح عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے ایک طویل بیان میں، میرقاسم علی کے مقدمے میں بدنیتی اور عدالتی معاملات میں قانون شکنی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: ’’سیاسی انتقام بازی کے بجاے قانونی طریق کار کو اختیار کیا اور دنیا بھر کے تسلیم شدہ قانونی اصولوں کو اپنایا جائے‘‘۔ مگر کہاں؟ ڈھاکا کے ایوانِ اقتدار میں ایک ہی زبان بولی جارہی ہے: ’موت!‘
قاسم پور سنٹرل جیل نمبر۲ ڈھاکا کے سپرنٹنڈنٹ پرشانتا کمار نے ۲ستمبر کو۱۱بجے اپنی جیل میں قید میرقاسم علی کو پیغام دیا کہ: ’’صدر سے رحم کی اپیل کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔ اگر اپیل نہیں کریں گے تو کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے‘‘۔ میرقاسم علی نے بڑے پُرسکون انداز میں موصوف کو جواب دیا: ’’کس جرم پر رحم کی اپیل؟ اور کس سے رحم کی اپیل؟ میں کسی صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا، جب کہ مَیں نے ایسا کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے‘‘۔ پرشانتاکمار نے سہ پہر کے وقت یہ بات ڈھاکا ٹربیون کے نمایندے کو بتائی۔
پھر سپرنٹنڈنٹ نے ساڑھے تین بجے سہ پہر میرقاسم علی کے اہلِ خانہ کو اس امر کی اطلاع دے دی کہ: ’’صدر سے رحم کی اپیل کی رعایت نہ لینے کے سبب وہ آخری ملاقات کے لیے تیار ہوں‘‘۔ اور اس کے ساتھ ہی ڈھاکا سے شمال کی جانب ۴۰کلومیٹر دُور قاسم پور جیل میں پھانسی دینے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔
میرقاسم کی اہلیہ نے آخری ملاقات کے بعد کہا: ’’مَیں اپنے اللہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میرقاسم کو پھانسی دینے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ میرقاسم بے گناہ ہیں اور اسلام کے لیے جان دے رہے ہیں‘‘۔
آخرکار اس دنیا میں کالے قانون کے علَم برداروں اور کالی حکمرانی کے سوداگروں نے ۳ستمبر ۲۰۱۶ء کو پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے نوبجے رات میرقاسم علی کو پھانسی دے دی___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ ان کی میت پونے تین بجے گائوں مانگ گنج پالا پہنچائی گئی، جہاں ساڑھے تین بجے تدفین عمل میں آئی۔ بنگلہ دیش بھر میں ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
میرقاسم علی ۳۱دسمبر ۱۹۵۲ء کو مانک گنج میں پیدا ہوئے اور ہائی اسکول میں ۱۹۶۷ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستگی اختیار کی۔ چند برسوں بعد اس کے رکن بن گئے۔ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں تھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اپنے گائوں چلے گئے اور پھر ڈھاکا آکر تعلیم کی مکمل کی۔ ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ’اسلامی چھاترو شبر‘ کی تاسیس کی۔
میرقاسم علی رفاہِ عام کے کاموں میں ایک بڑی سرگرم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اسلامی بنک بنگلہ دیش کے ڈائرکٹر تھے۔ دگنتا میڈیا کارپوریشن کے چیئرمین تھے، جس کے زیرانتظام بنگلہ دیش کا مشہور نجی چینل ’دگنتا ٹی وی‘ کام کر رہا تھا۔ انھوں نے ’ابن سینا ٹرسٹ‘ کے نام سے ایک بڑا نیک نام ادارہ قائم کیا۔ ’اسلامی انشورنس‘ کے نظام کی داغ بیل ڈالی۔ نظامت ِ دینی مدارس قائم کر کے دینی تعلیم کے نظام کو جدید تعلیم سے ہم آہنگ کیا۔ تعمیرِ مساجد کے لیے تنظیم قائم کی۔ بنگلہ دیش میں رابطہ عالمِ اسلامی کے مرکزی رہنما تھے۔ وہ بنگلہ دیش کی ایسی اوّلین شخصیت تھے، جس نے بڑے پیمانے پر غریبوں کے لیے معیاری ادویات کی مفت اور نہایت سستے داموں ترسیل کا خودکار نظام تشکیل دیا۔
دیانت، محنت، لگن اور حُسنِ سلوک پر مبنی انتظامی صلاحیت کے بل پر، وہ بلاشبہہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی سے وابستہ ایک امیرترین شخص تھے، لیکن انھوں نےاپنی دولت کو اپنی آسایش و آرام پر خرچ کرنے کے بجاے جماعت اسلامی کے رفاہی کاموں، یتیموں اور مسکینوں کی امداد کے علاوہ دعوتی کاموں پر خرچ کرنے کو ترجیح دی۔ کروڑپتی انسان ہونے کے باوجود معمولی مکان میں نہایت قلیل سہولیات کے ساتھ قناعت کی زندگی بسر کی۔
۲۰۰۹ء کے بعد جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو، عوامی لیگی حکومت نے جسمانی، تعلیمی اور کاروباری سطح پر بدترین ظلم کا نشانہ بنایا۔ کارکنوں کو بے روزگار کیا۔ بہت سوں کو دانستہ طور پر دائمی معذوری کے غار میں دھکیل کر زندگی اجیرن بنادی۔ لیکن ایسے ہرکارکن کے لیے میرقاسم علی، ان کی اہلیہ، ان کے بیٹے اور ان کی بیٹیاں ایک دست گیر، ہمدرد اور دردآشنا رفیق کے طور پر، ایک مالی سرپرست اور شفیق معاون کی شکل میں حتی الوسع اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے رہے۔ ان کے بارے میں برطانیہ کے اخبار نے درست لکھا: ’’میرقاسم نے جماعت اسلامی کو اس بحرانی صورتِ حال میں کھڑا رہنے کے لیے گراں قدر رقوم دیں‘‘۔(ڈیلی میل، ۳ستمبر ۲۰۱۶ء)
ایسی بے لوثی اور اتنی بے مثال قربانی کا نُور، ظلم کے سوداگروں کو مجبور کرتا رہا کہ وہ اپنا منہ نوچ کر رہ جائیں۔ مادہ پرستی میں ڈوبی معاشرت میں ایسا سخی، نہ ان کے تصور میں آسکتا تھا اور نہ وہ اسے برداشت کرسکتے تھے۔ آخر شیطان نے یہی فیصلہ کیا کہ: ’’اس کی جان ہی لی جائے کہ یہ جیل میں قید رہنے کے باوجود، وسائل کو دوسروں پر لُٹا رہا ہے۔ اس کے اداروں کو تباہ اور اس کی جان کو ختم کرنا ہی ’روشن خیالی‘ ہوگی‘‘۔
غربت و ناداری سے برسرِجنگ اس سپہ سالار نے رسولِؐ رحمت کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے، رحمت کی چھائوں سے سبھی کو سیراب کیا، جن میں: مسلمان، ہندو، عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے سبھی شامل تھے۔ ان کا یہ جگمگاتا کردار، بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ تھا۔ اندھیروں کے پجاریوں کے لیے شاید یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ اس مشعل کو گُل کردیں۔
حالات کا دھارا بتاتا ہے کہ ظلم کی اس داستان کو ابھی: lشہید عبدالقادر مُلّا [۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء]l شہید قمرالزماں [۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء]l شہید علی احسن محمد مجاہد [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء] lشہید صلاح الدین قادر چودھری [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء]l شہید مطیع الرحمٰن نظامی [۱۱مئی ۲۰۱۶ء] اور lشہید میرقاسم علی [۳ستمبر ۲۰۱۶ء] تک نہیں رُکنا تھا، اس لیے یہ بادِ سموم اپنی زہر ناکیوں کے ساتھ اپنے رُوپ بدل بدل کر موجود ہے۔
ایک طرف غم کا یہ پہاڑ اور دوسری جانب میرقاسم بھائی کی شہادت کے اگلے روز بنگلہ دیشی وزیرداخلہ اسدالزماں کا یہ بیان کہ: ’’حکومت وہ تمام اقدامات اُٹھا رہی ہے، جن کے تحت اسلامی چھاترو شبر پر پابندی عائد کر دی جائے گی‘‘(روزنامہ پروتھم آلو، ۵ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ ایسے اقدامات جنگل کے قانون اور پاگل پن کے مترادف ہوں گے، جنھیں سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے: ’’یہ سیکولر فاشسٹوں کی جاہلیت پر مبنی وحشت کے سوا کچھ نہیں، گویا کہ آج کا ’روشن خیال‘ ذہن، اپنے آپ کو تاریکی کے کنویں سے نکالنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔
میرقاسم کی شہادت کے چوتھے روز یعنی ۷ستمبر کو بنگلہ دیشی وزیرقانون و پارلیمانی اُمور انیس الحق نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا:’’حکومت بڑی عرق ریزی سے ’جنگی مجرموں‘ کی جایدادوں کو ضبط کرنے کا قانون بنارہی ہے‘‘۔ اور ان کے ساتھیوں نے اعلان کیا: ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان ’جنگی مجرموں‘ کی جایدادوں اور دولت کو ضبط کرکے ۱۹۷۱ء کے متاثرین میں تقسیم کیا جائے‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۸ستمبر ۲۰۱۶ء)
یاد رہے، دو نام نہاد جنگی ٹربیونلوں نے اب تک ۲۶فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔ ۵۰ کے مقدمات چل رہے ہیں، جب کہ ۱۷؍افراد کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ مذکورہ بالا وزیرقانون نے کہا: اسلامی قانونِ وراثت کے تحت ’مجرموں‘ کے وارثوں میں جایدادیں تقسیم ہوچکی ہیں، جنھیں موجودہ قانون کے تحت واپس نہیں لیا جاسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جنگی جرائم کے تحت ایک نیا قانون وضع کر کے یہ وسائل ان کے وارثوں سے واپس ضبط کرلیے جائیں‘‘ (ڈیلی اسٹار، ۸ستمبر ۲۰۱۶ء)۔اگلے روز یہی وزیرقانون کہتے ہیں: ’’جنگی جرائم کے مجرموں کے بچے معصوم نہیں ہیں۔ وہ سازشوں میں مصروف رہتے ہیں، مگر ہم ان کو بھی نہیں چھوڑیںگے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۹ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ اس سنگ دلی پر کیا تبصرہ کیا جائے!
نئی دہلی حکومت کے تابع بنگلہ دیشی آلۂ کار انتظامیہ اس کے سوا اور کر ہی کیا سکتی ہے کہ جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے قوم کو تقسیم، پریشان اور متحارب رکھے۔ اسی ذریعے سے بھارت کے لیے سہولت پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ ۱۶کروڑ کے بنگلہ دیش کو معاشی و صنعتی ترقی سے محروم اور اپنی تجارتی منڈی بنائے رکھے۔ باہمی فساد کو بنیاد بنا کر اپنی فوجی و سیاسی موجودگی کا جواز قائم کیے رکھے۔
ہماری یہ فکرمندی بے وزن بھی نہیں ہے۔ بھارت جو اپنے تئیں دنیا کی سب سے ’بڑی سیکولرجمہوریہ‘ کہلاتا ہے،وہ عدل کے قتل اور جمہوریت کی بربادی کی ’دہکتی چتا‘ بنگلہ دیش کے بارے میںیہ کہتا ہے:’’بھارتی حکومت بنگلہ دیش میں، ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم کے مقدمات کی بھرپور تائید کرتی ہے‘‘ (وایکاس سروپ، ترجمان وزارتِ خارجہ، دی ہندستان ٹائمز، ۱۰ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ اس بیان میں پوشیدہ ڈھٹائی سے کون صاحب ِ نظر انکار کرسکتا ہے۔
اس پر بنگلہ دیش جماعت اسلامی مرکزی شوریٰ کے رکن حمید الرحمان آزاد نے جواب میں کہا: ’’بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش میں متنازع مقدمات کی حمایت کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ بھارت جنگی جرائم کے نام پر جماعت اسلامی کی قیادت کو چُن چُن کر مارنے کے اس شیطانی منصوبے کی تائید کر کے: جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے عالمی اصولوں کو قتل کرنے کا طرف دار ہے‘‘۔ (جماعت ویب: ۱۱ستمبر ۲۰۱۶ء)
مزید ظلم و زیادتی کا یہ پہلو کہ حسینہ واجد حکومت کی ہدایت پر بنگلہ دیش یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے ۲۳ستمبر ۲۰۱۶ء کو تمام یونی ورسٹیوں کے نام یہ حکم نامہ جاری کیا:’’ یونی ورسٹی کیمپس میں اسلامی جمعیت طالبات [اسلامی چھاتری شنگھستا] کی جملہ سرگرمیوں کو سختی سے روک دیا جائے‘‘۔
ان تکلیف دہ حالات میں جماعت اسلامی سے وابستہ افراد اور ادارے نبردآزما ہیں۔