سلیم منصور خالد


سات عشروں سے کشمیری اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جان کی بازی لگارہے ہیں، اور دوسری طرف انڈیا کی کبھی نام نہاد سیکولر حکومتیں اور کبھی فاشسٹ حکومتیں انھیں کچلتی اور ان کی اولادوں کو عذاب کی مختلف صورتوں میں دھکیلتی چلی آرہی ہیں۔ نئی دہلی کے سفاک حکمرانوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلم دُنیا کے دولت مند ممالک اُن کی نازبرداری کرتے ہوئے انڈین تجارت، کلچر اور دفاعی تعاون تک کے لیے بچھے جارہے ہیں، تو اُنھوں نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و وحشت کے پہیے کو تیز تر کردیا۔ جنوری ۲۰۲۳ء میں جب کشمیر شدید برف باری اور بارشوں میں گھرا ہوا تھا، ظلم اور توہین کی ایک نئی یلغار سے اہل کشمیر کو اذیت سے دوچار کیے جانے کا آغاز ہوا۔ یہ ہے سری نگر سمیت کشمیر کے تمام اضلاع میں، سرکاری املاک پر ’تجاوزات‘ کے نام پر سالہا سال سے مقیم کشمیری مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کرنے اور شہری زندگی کے آثار کچلنے کا وحشیانہ عمل۔ اس پر نعیمہ احمد مہجور نے اخبار دی انڈی پنڈنٹ (۱۷فروری) میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’عنقریب مقامی آبادی کا ایک حصہ سڑکوں یا گلی کوچوں میں پناہ لے رہا ہوگا یا روہنگیا مسلمانوں کی مانند لائن آف کنٹرول کی جانب بھاگنے پر مجبورہوگا‘‘۔

سری نگر سے بی بی سی کے نمایندے ریاض مسرور نے ۱۸فروری ۲۰۲۳ء کو رپورٹ کیا: ’’انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مقبول احمد اُن ہزاروں بے گھر کشمیریوں میں شامل ہیں، جنھوں نے برسوں کی جدوجہد کے بعد دو کمروں کا گھر تعمیر کیا۔ ایسی بستیوں کو حکومت کی طرف سے بجلی، پانی اور سڑکوں جیسی سہولت بھی میسر ہے، مگر اب اچانک کہا جارہا ہے کہ تم سب ناجائز قابضین ہو‘‘۔

 حکومت کی طرف سے ’ناجائز‘ یا ’غیرقانونی‘ قرار دی جانے والی تعمیرات کو گرانے کی مہم زوروں پر ہے اور ہر روز حکومت کے بُلڈوزر تعلیمی اداروں، دکانوں، مکانوں اور دیگر تعمیرات کو منہدم کررہے ہیں۔ اس نئی مہم کے تحت کسی کی دکان جارہی ہے، کسی کا مکان اور کسی کی زرعی زمین چھینی جارہی ہے۔ مقبول احمد کہتے ہیں:’’ہماری تین نسلیں یہاں رہ چکی ہیں۔ ہم کہاں جائیں؟ یہاں کے لوگ خاکروب یا مزدور ہیں۔ اگر یہ گذشتہ ۷۵برس سے غیرقانونی نہیں تھے تو اب کیسے ناجائز قابضین ہوگئے؟ یہ کون سا انصاف ہے‘‘۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے مقامی کشمیری لیڈر الطاف ٹھاکرے نے اس صورتِ حال سے لاتعلق ہوکر کہا:’’بابا کا بلڈوزر تو چلے گا‘‘ حالانکہ عالمی نشریاتی اداروں کی دستاویزی رپورٹوں میں تباہ شدہ گھروں کے ملبے پر کھڑی عورتیں فلک شگاف فریادیں کرتی نظر آتی ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ انصاف کرو ، ہمیں برباد نہ کرو‘‘۔

نئی دہلی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ حکومت نے گذشتہ تین سال کے دوران زمین سے متعلق ۱۲قوانین ختم کیے ہیں، ۲۶قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں اور ۸۹۰ بھارتی قوانین کو جموں کشمیر پر نافذ کر دیا ہے۔اکتوبر ۲۰۲۲ء میں ’’جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن تھرڈ آرڈر‘‘ نافذ کیا گیا، جس کا مقصد مقامی کشمیریوں کو زمین سے بے دخل کرکے ، سرزمین کشمیر کو پورے ہند کی چراگاہ بنانا ہے۔ اس کے بعد دسمبر ۲۰۲۲ء میں ’لینڈ گرانٹس ایکٹ‘ نافذ کیا گیا ہے، جس کے ذریعے تعمیرات کو ناجائز قرار دینے کا یہ سارا فساد برپا کیا گیا ہے۔

ان مسلط کردہ ضابطوں کے مطابق کہا جارہا ہے: ’’کوئی زمین یا عمارت پہلے اگر لیز پر دی گئی تھی تو حکومت حق رکھتی ہے کہ وہ پراپرٹی واپس لی جائے‘‘۔ سرینگر، جموں اور دوسرے اضلاع میں تقریباً سبھی بڑی کمرشل عمارتیں لیز پر ہی تھیں، اب وہ لیز ختم کی جارہی ہے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ ’’سابق وزرا، بڑے افسروں اور حکومت کے حامی تاجروں کی عمارات کو چھیڑا نہیں جارہا۔ مقامی صحافی ماجد حیدری کے بقول: ’’ان بلڈوزروں کا نشانہ صرف غریب مسلمانوں کی جھونپڑیاں ہیں‘‘۔ ’بلڈوزر مہم‘ سے مسلمانوں کی آبادیوں میں سخت خوف پایا جاتا ہے اور کئی علاقوں میں احتجاج بھی ہوئے ہیں، مگر احتجاجیوں کی فریاد سننے کے بجائے ان کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ ’’یہ زمینیں حاصل کر کے انھیں پورے انڈیا کے دولت مند لوگوں میں فروخت کر دیا جائے گا‘‘۔پہلے یہ بات خدشہ تھی، اب عملاً یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

روزنامہ دی گارجین،لندن(۱۹مارچ ۲۰۲۳ء) میں آکاش حسان نے سری نگر سے اور حنان ایلس پیٹرسن نے نئی دہلی سے ایک مشترکہ رپورٹ میں اسی نوعیت کے حقائق پیش کیے ہیں۔

۵۲ برس کے فیاض احمد کا کھردرا باغ میں ۳۰سال پرانا گھر بھی بغیر کسی وارننگ کے منہدم کردیا گیا تو انھوں نے کہا: ’’یہ سب حربے کشمیریوں کو دبانے کے لیے برتے جارہے ہیں‘‘۔ ۳۸سال کے سہیل احمد شاہ اُس ملبے کے سامنے صدمے اور مایوسی کی کرب ناک تصویر بنے کھڑے تھے، جو دوعشروں سے اُن کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہاں وہ اپنی ورکشاپ میں کام میں مصروف تھے کہ ایک ناگوار کرخت آواز سنی، جو دراصل اُن کی ٹین کی چھت کو چڑمڑ ہونے سے پیدا ہورہی تھی، اور وہ چھت اُن کے اُوپر گرا چاہتی تھی کہ بمشکل بھاگ کر جان بچاسکے۔انھوں نے بتایا: ’’نہ ہمیں کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ کوئی پیشگی اطلاع دی گئی۔ ہم مدتوں سے کرایہ دے کر یہاں روزی روٹی کماتے تھے، اور اب تباہ ہوکر یہاں کھڑے ہیں‘‘۔

سری نگر شہر میں پرانی کاروں کے پُرزوں کی مارکیٹ میں اس نوعیت کی تباہی کے آثار بکھرے دکھائی دے رہے ہیں، جسے حکومت ’زمینیں واپس لینے‘ کا نام دے رہی ہے، حالانکہ کشمیر میں رہنے والے اسے ایک مذموم اور مکروہ مہم قرار دے رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندونسل پرست نریندرا مودی وسیع ایجنڈے کے تحت کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل، بے گھر اور بے روزگار کرکے نقل مکانی پر مجبور کرنے میں مصروف ہے۔ یاد رہے، واحد کشمیر ہی وہ علاقہ ہے، جہاں مسلمان واضح اکثریت رکھتے ہیں اور اس پہچان کو ختم کرنا آر ایس ایس کے پیش نظر ہے۔

۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں مودی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی انڈیا کے طول و عرض میں مسلم اقلیت کو ستم کا نشانہ بنانے کا مؤثر ذریعہ بلڈوزر رہے ہیں۔ اترپردیش، دہلی، گجرات اور مدھیہ پردیش میں فعال مسلمانوں کے گھروں کو تہس نہس کرنے کے لیے بلڈوزروں ہی کو ہتھیار کے طور پر برتا گیا ہے۔ جب اس بلا کا رُخ کشمیر کی طرف مڑا تو سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا:’’انہدام کی یہ مہم [کشمیر میں] لوگوں کو ان کے گھروں اور معاش و روزگار کے مراکز کو تباہ کرکے پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ایک مکروہ چال ہے‘‘۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا: ’’انڈیا میں واحد مسلم ریاست کے شہریوں کے استحصال کی یہ نئی لہر درحقیقت ماضی کی زیادتیوں کا ہی تسلسل ہے‘‘۔کانگریس نواز نیشنل کانفرنس کے لیڈر فیصل میر کے مطابق: ’’بی جے پی جموں و کشمیر کو واپس ڈوگرہ دور میں لے جانا چاہتی ہے۔ بلڈوزر سے زمین ہتھیانا اور جائیداد چھیننا اسی پالیسی کا تسلسل ہے‘‘۔

اگست ۲۰۱۹ء میں مودی حکومت کی نسل پرست حکومت نے یک طرفہ طور پر جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت چھین لی اور ریاست کے دروازے تمام بھارتیوں کے لیے کھول دیئے کہ وہ یہاں جائیدادیں خرید سکتے ہیں اور یہاں کے ووٹر بن سکتے ہیں۔ یہ سب کام یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ہیں، تاکہ ووٹوں کا تناسب تبدیل اور من مانی حلقہ بندیاں کرکے، مسلم آبادی کو نام نہاد انتخابی عمل میں بے بس کر دیا جائے۔

ریاست جموں و کشمیر میں آزادیٔ اظہار سلب ہے، سیاسی نمایندگی تارتار ہے، اور کشمیر  اب دُنیا میں سب سے زیادہ فوجیوں کی موجودگی کا علاقہ بن گیا ہے، جس میں ہرچند کلومیٹر کے فاصلے پر مسلح فوجیوں کی چوکیاں موجود ہیں۔  سنسرشپ عائد ہے، جو کوئی سوشل میڈیا پر حکومتی ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، پولیس اسے فوراً گرفتار کرکے جیل بھیج دیتی ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں صحافیوں آصف سلطان، فہدشاہ، سجادگل اور عرفان معراج کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت اُٹھا لیا گیا ہے، جب کہ ہزاروں کشمیریوں کے سر سے چھت چھین لی گئی ہے۔دراصل یہ وہی ماڈل ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں پر مسلط کرکے عرب آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا ہے، اور جسے برہمن نسل پرست، صہیونی نسل پرستوں سے سیکھ کر کشمیر میں نافذ کر رہے ہیں۔ مقامی شواہد کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران تقریباً سات لاکھ غیرکشمیری، یہاں لاکر آباد کیے جاچکے ہیں۔

ظلم کی اس سیاہ رات میں مظلوموں کے گھر روندے جارہے ہیں،وہ کھلے آسمان تلے حسرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ دُنیا کا میڈیا اور مسلمانوں کی حکومتیں، جماعتیں، ادارے اور سوشل میڈیا پر فعال نوجوان اس درندگی اور زیادتی کا کرب محسوس کرنے سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ معلوم نہیں کس قیامت کے ٹوٹنے کا انتظار ہے، حالانکہ ہزاروں کشمیری گھروں پر قیامت تو ٹوٹ بھی چکی ہے۔

برما (میانمار) کے مسلمانوں پر گذشتہ ۸۰برس سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، لیکن گذشتہ دس برسوں کے دوران اس ستم کاری اور بدھ مت کے پیروکاروں کی وحشت انگیزی میں بے پناہ شدت آئی ہے۔ مگر افسوس کہ نام نہاد عالمی ضمیر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔

’’روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ ایک نہایت خطرناک موڑ پر آچکا ہے۔اگر بین الاقوامی رہنماؤں نے فوراً کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا تو خدشہ ہے کہ مہاجرین کی واپسی کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار ناروے کی مہاجرین کونسل کے سیکرٹری جنرل جان ایجی لینڈ نے ستمبر۲۰۲۲ء میں بنگلہ دیش کے دورے کے دوران کیا۔

انھوں نے مزید کہا: ’’یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بنگلہ دیش میں مہاجر روہنگیا برادری ایک ایسے مقام تک پہنچ چکی ہے کہ اگر فوراً ان کی دربدری کا کوئی سدباب نہیں کیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ یہاں بسنے والے خاندان بنی نوع انسان کی بدترین بے حسی کے گواہ ہیں۔ اگر معاملات یونہی رہے تو ان کی میانمار میں اپنے گھروں کو واپسی ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو جائے گی‘‘۔

اگست ۲۰۱۷ء میں میانمار میں تباہ کن مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو ۱۰ لاکھ روہنگیا مہاجرین نے جان بچانے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی اور تاحال یہیں مقیم ہیں۔ مکمل طور پر بیرونی امداد پر گزربسر کرنے والے ان مہاجرین کے لیے ۳۱ عارضی آبادیاں قائم کی گئیں، جنھیں مجموعی طور پر دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ کہا جاتا ہے۔

ان مہاجرین میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ کی تعداد میں بچے، نابالغ اور نوجوان شامل ہیں، جوشاید ایک ’گمشدہ نسل‘ کے طور پر پروان چڑھ رہے ہیں۔ عالمی برادری کی توجہ دوسرے بہت سے مسائل کی طرف بٹ رہی ہے اور امدادی فنڈز کی فراہمی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے،ان حالات میں مہاجرین کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ 

مہاجرین کونسل ناروے نے ۳۱۷ روہنگیا نوجوانوں پر تحقیق کی، جس میں معلوم ہوا کہ ۹۵ فی صد نوجوان بے روزگاری کے سبب شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی روزگار ہے اور نہ زندہ رہنے کا وسیلہ۔ یہ قرض کے بوجھ تلے دب چکے ہیں اور دنیا سے مدد کا انتظار کر کے تھک چکے ہیں۔ شکستہ وعدوں اور مایوسی کے اندھیروں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘‘ ۔ روہنگیا آبادی کی بحالی کا منصوبہ فنڈز کی مسلسل کمی کا شکار رہتا ہے۔ گذشتہ اگست تک درکار امداد کا صرف ۲۵ فی صد ہی مہیا ہو سکا۔ اب تک حاصل ہونے والی رقم ۳۵ سینٹ (۶۰روپے)  یومیہ فی مہاجر بنتی ہے۔

ایجی لینڈ نے کہا:’’میں بنگلہ دیش سے باہر بین الاقوامی قیادت کی اس مسئلے میں عدم دلچسپی دیکھ کر شدید مایوس ہوا ہوں۔ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے اور اس سیاسی بحران کو ختم کرنے کے بجائے ہماری قیادتوں کے درمیان بے حسی کا مقابلہ چل رہا ہے۔جو لوگ باہر کہیں پناہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں انھیں اُلٹا زبردستی واپس دھکیل دیا جاتا ہے۔چین اور اس علاقے کے ممالک کو مل کر اس مسئلے کے حل پر غور کرنا چاہیے۔ روہنگیا مہاجرین ایک گہری کھائی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اگر ہم نے ان کا ہاتھ نہ تھاما اوراگر ہم اس ظلم کو یونہی خاموشی سے دیکھتے اور برداشت کرتے رہے تو آیندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ ہم کو جو کہنا چاہیے تھا، وہ نہیں کہا اور جو کرنا چاہیے تھا، وہ ہم نے نہیں کیا‘‘۔

بنگلہ دیش کی طرف روہنگیا مسلمانوں کی پہلی بڑی ہجرت ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔اس کے بعد ۹۰ء کے عشرے کے آغاز میں اور پھر ۲۰۱۷ء میں بڑے پیمانے پر یہ ہجرت عمل میں آئی۔  روہنگیا مہاجرین کی اکثریت مسلمان ہے۔

روہنگیا آبادی ’راکھائن‘ کے علاقے سے سرحد کو پار کر کے اس طرف کاکس بازار میں آباد ہوئی ہے اور یہ شہر مہاجرین کی مسلسل آمد کے باعث آبادی کے بے پناہ دبائو کا شکار ہو چکا ہے۔ اب بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کو جزیرہ ’بھاشن چار‘ پر منتقل کرنے کا سوچ رہی ہے۔

۲۰۱۷ء کی بڑی نقل مکانی سے پہلے بھی کاکس بازار کے کیمپوں’کٹاپالونگ‘ اور’ نیاپرا‘ میں ہزاروں روہنگیا مہاجرین موجود تھے۔ اکثر فلاحی تنظیمیں مثلاً UNHCR وغیرہ چاہتی ہیں کہ روہنگیا برادری امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزارے۔لیکن بنگلہ دیش کی کمزور معیشت اتنے مہاجرین کو سہارا دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عالمی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق ڈھاکا میں غربت کی شرح ۳۵ فی صد ہے اور کاکس بازار میں۸۵ فی صد۔ اس پر مستزاد یہ خطہ قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور سمندری طوفانوں کی زد میں رہتا ہے،جب کہ یہاں بنیادی صحت اور تعلیم کا نظام بھی موجود نہیں۔

اس وقت بنگلہ دیش میں بنیادی ضروریات کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ بالائی درمیانہ طبقہ بھی سخت متاثر ہو رہا ہے۔ بہت سے کاروبار بند ہو چکے ہیں اور بے روزگاری میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ ۲۰۱۹ء کی ۴ء۳ فی صد شرح بے روزگاری ۲۰۲۰ء میں بڑھ کر۵ء۳  فی صد ہو چکی ہے۔بہت سے کاروبار جو بند ہو گئے تھے وہ دوبارہ شروع نہیں ہو رہے، کیونکہ کوئی سرمایہ موجود نہیں ہے۔

کاروبار شروع یا بحال کرنے کے لیے بنکوں سے قرضہ لینا انتہائی مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ بنگلہ دیش میں ہر طرف پھیلی بدعنوانی ہے اور دوسری وجہ فرسودہ بنکاری نظام۔ پھر بیرونِ ملک سے ہونے والی ترسیلات زر (Remittances) میں کمی نے ہلاکر رکھ دیا ہے، جن پر بنگلہ دیشی معیشت بڑی حد تک منحصر ہے۔

سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ معاشی تباہی کے شکار روہنگیا مسلمانوں کی خواتین کے ایک حصے میں جسم فروشی زہر بن کر پھیل رہی ہے۔ اس موضوع پر شائع شدہ تحقیقی رپورٹوں میں اتنے شرمناک اعدادوشمار اور تفصیلات درج ہیں کہ ہم انھیں یہاں پر پیش کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔

فی الحال اس سیاہ رات کے بعد کسی دن کا اُجالا نظر نہیںآتا۔ لاکھوں مہاجرین کو گن پوائنٹ پر واپس راکھائن کی طرف دھکیلنے کے بجائے اس مسئلے کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش کیا جائے۔

اس وقت کیفیت یہ ہے:

  • میانمار کے مختلف حصوں میں جاری شدید جھڑپوں کے بعد وہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال دگرگوں ہو چکی ہے۔ جس کے نتیجے میں شہریوں کی املاک کے مزید نقصان اور مزید نقل مکانی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔انسانی زندگی کو مزید خطرے درپیش ہیں اور پہلے سے خراب صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔
  • پورے میانمار میں اس وقت تک مجموعی طور پر ۱۳ لاکھ سے زیادہ لوگ دربدر ہو چکے ہیں۔ اس میں گذشتہ سال ہونے والے فوجی شب خون کے بعد نقل مکانی کرنے والے ۸ لاکھ  ۶۶ہزار  لوگ بھی شامل ہیں۔
  • ایک کروڑ ۴۰ لاکھ سے زائد کی آبادی کو زندہ رہنے کے لیے ہنگامی امداد کی ضرورت ہے۔
  • اس صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اس کے لیے درکار رقم کا صرف ۱۷فی صد ہی مہیا ہو سکا ہے۔ مہاجرین کی مدد کے لیے پہنچنے کی راہ میں درپیش مشکلات کے باوجود، کئی فلاحی تنظیمیں شدید خطرات میں گھری آبادی کو انتہائی بنیادی ضروریات مہیا کرنے میں مصروف ہیں۔

(ریلیف ویب اور روزنامہ اسٹار، اور سودا دیس رائے کی معلومات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے)۔

کیا مسئلہ کشمیر ، یوں ہی سلگ سلگ کر، سامراجیت کی نذر ہوجائے گا؟

یہ اذیت ناک سوال جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، اور ہرآنے والا دن اس کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت میں حکومت، فوج، حزبِ اختلاف تینوں ہی یکسوئی کے ساتھ، کشمیر میں انسانیت کے قتل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں، اور دوسری جانب پاکستان میں حکومت، حزبِ اختلاف اور فوج مسئلہ کشمیر کے حل کی جدوجہد کے لیے یکسو اور متحد دکھائی نہیں دیتے۔

اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس فروری میں اچانک کمانڈروں کی سطح پر فائربندی کی یادداشت پر دستخطوں نے تو ہر کسی کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ جنگی صورتِ حال سے دوچار ملکوں کے درمیان ایسے سنگین معاملات حکومتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر عسکری سطح پہ مذاکرات اور معاملہ فہمی کی گئی۔

ہم نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ یہ محض بھارتی چال ہے، جس سے وہ پاکستان کے اندر غلط فہمی کو ہوا دے گا اور وقت گزاری کے بعد، برابر اپنے ایجنڈے پر نہ صرف قدم آگے بڑھائے گا بلکہ جب چاہے گا کشمیر میں قتل و غارت سے دریغ نہیں کرے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ،اپریل ۲۰۲۱ء کے بعد خاص منصوبے کے تحت انسانیت کی تذلیل پر مبنی نام نہاد سول اقدامات پر عمل جاری رہا۔ حتیٰ کہ اسی سال یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو جموں و کشمیر کے عظیم رہنما سیّد علی گیلانی صاحب کے انتقال کے موقعے پر بھارتی حکومت کی جانب سے بدترین ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ۔ گیلانی صاحب کی تجہیزو تدفین توپ و تفنگ کے زیرسایہ جبری طور پر من مانے طریقے سےکی گئی، اوراہلِ خانہ تک کو شرکت سے محروم رکھا گیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان فروری ۲۰۲۱ء کی نام نہاد ’فوجی معاملہ فہمی‘ کے صرف تین ماہ بعد پاکستان کے سپہ سالار صاحب نے بھارت کے ساتھ ’ماضی کو بھلا کر‘ معاملات میں آگے بڑھنے کا نظریہ (doctrine) پیش کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے ’ماضی کو بھلا کر؟‘ یعنی یہ ماضی کہ: بھارت نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، اور بڑے پیمانے پر مسلسل پاکستان کی تخریب کا سامان کر رہا ہے، ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑا، پاکستان میں بار بار مداخلت اور تنگ نظر قوم پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں دہشت گردی کرائی، افغانستان سے پاکستان کی تباہی کا سامان مہیا کیا اور جموں و کشمیر میں مسلسل قتل و غارت اور درندگی و بہیمیت کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب معصوم کشمیری نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں، اور کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اسے ہندو اکثریت کا ایک خطہ بنانے کےمذموم منصوبے پر عمل نہ ہورہا ہو۔

ہماری دانست میں بھارت سے تعلقات پر بات کرتے وقت یہی اذیت ناک ماضی سامنے آتا ہے۔ کیا یہ ماضی یک طرفہ طور پر بھلا دینا اور ان اسباب و علل کو نظرانداز کرنا کوئی واقعی سوچی سمجھی حکمت عملی اور دانش مندی ہے؟ پھر یہ کہ ریاست کے مستقبل سے منسوب معاملات کی پالیسی بنانا کیا عوام کے منتخب نمایندوں کا کام ہے یا طاقت کے کسی ایک یا دو مراکز کے پاس اس نوعیت کے ڈاکٹرائن پیش کرنے اور واپس لینے کا اختیار ہے؟ اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ خود عمران خاں حکومت کا رویہ بھی مسئلہ کشمیر پر چند روایتی تقاریر اور بیانات تک محدود رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح ان کی ’کشمیر کمیٹی‘ بھی نہایت نچلے درجے پر محض خانہ پُری اور بے عملی کی تصویر بنی رہی۔

اب جیسے ہی اپوزیشن پارٹیوں کی صورت میں شہباز شریف حکومت برسرِاقتدار آئی تو اُس نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی توجہ کا اس طرح موضوع بنایا ہے کہ بھارت کے تمام منفی اقدامات کو نظرانداز کرکے، اس سے تجارتی تعلقات پروان چڑھانے کے لیے کمرشل اتاشی مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اگرچہ تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجارتی تعلقات قائم کیے جارہے ہیں‘‘۔ اگر واقعی تجارتی تعلقات قائم نہیں کیے جارہے تو کمرشل اتاشی کیا سیاحت کے لیے دہلی بھیجے جارہے ہیں؟ تاہم، یہ وضاحت اقتدارو اختیار کے سرچشموں پر فائز افراد کی جانب سے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ایک حرکت لگتی ہے۔ اس خدشے کی بنیاد ایک تو شریف حکمرانی میں بنیادی اُمور کو نظرانداز کرکے بھارت سے تعلقات بڑھاتے وقت بزعم خود معاشی پہلو کو مرکزیت دینا ہے اور دوسری طرف طاقت ور ادارے بھی وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ بھارت سے تجارت کھول دی جائے، تو اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ بھارت نے پاکستانی درآمدات پر دو سو فی صد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ بھارت کو پاکستانی برآمدات کا حجم، بھارت سے درآمدات کا صرف پانچواں حصہ رہا ہے، اور اس طرح ہم بھارت کی معاشی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ اس پیش قدمی سے پاکستان کی گھریلو صنعت اور زراعت پر شدید منفی اثرات پڑیں گے، کیونکہ بھارت میں شعبہ زراعت سے متعلق طبقوں کو پانی اور بجلی کے سستے فلیٹ ریٹ پر فراہمی کے نتیجے میں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ یہ حقائق نظرانداز کرکے بھلا ہمارے حکمت کار کس طرح دوطرفہ تجارت کے نام پہ، عملاً یک طرفہ تجارت کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں؟ اس تمام پس منظر میں پاکستانی زرِمبادلہ کا بہائو بھارت ہی کے حق میں ہوگا، نہ کہ پاکستان کی جانب۔خیر، یہ تو جملہ معترضہ ہے، وگرنہ ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ ، مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ تجارت، تعلیم، ثقافت، ثانوی اُمور ہیں، جن کی بنیاد پر اصل مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قالین کے نیچے دھکیلا جاسکتا ہے۔

مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے، جو دو ملکوں کے درمیان زمین کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ ڈیڑھ دو کروڑ انسانوں کی زندگی، تہذیب اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ اس طرح جموں و کشمیر کسی بھی اصول کے تحت نہ بھارت کا حصہ ہے اور نہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔

مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ۱۷ سے زیادہ قراردادیں، عالمی برادری کی فکرمندی کی گواہ ہیں،  اور اس پس منظر میں دوایٹمی طاقتیں ہروقت جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ خدانخواستہ معمولی سی بے احتیاطی پوری انسانیت کے مستقبل کو بربادی کے جہنّم میں دھکیل سکتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بڑی طاقتیں محض بھارت کی مارکیٹ میں حصہ پانے سے دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے ایک ’پسندیدہ‘ ملک کے جرائم پر پردہ ڈال کر غیرانسانی اور غیراخلاقی جرم کا ارتکاب کررہی ہیں۔ اب رفتہ رفتہ پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی اشارے مل رہے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہیں۔

جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ، تقسیم ہند کے طے شدہ ضابطے کے تحت، وہاں کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جسے بار بار اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری پر زور دیا ہے۔ ان تمام وعدوں اور اتفاق رائے کی بنیادوں پر یہ امر بالکل شفاف انداز سے سامنے آتاہے کہ مسئلہ کشمیر نہ تو وہاں بسنے والے لوگوں کے صرف انسانی حقوق کی پاس داری کا معاملہ ہے اور نہ داخلی سیاسی حقوق کے بندوبست کا کوئی معاملہ ہے۔ بلاشبہہ یہ تمام مسائل اپنی جگہ اہم اور حل طلب ہیں، لیکن اصل مسئلہ براہِ راست حقِ خود ارادیت کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، جسے بھارتی حکومتیں بہت ڈھٹائی کے ساتھ ٹالتی چلی آرہی ہیں اور اس کے ساتھ وہاں بسنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں پر انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کررہی ہیں۔

۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی فسطائی حکومت نے عالمی سطح پر منظور کردہ حدود پامال کرتے ہوئے ایک غیر آئینی اقدام سے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس طرح بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کر کے کشمیر کی مقامی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز کر دیا ہے۔

برطانوی سامراجی حکومت کے زمانے سے جموں و کشمیر کے مسلمان ایک وحشیانہ ریاستی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اور جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر وہاں سے نقل مکانی کرکے، امرتسر، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور کی جانب مہاجرت پر مجبور کردیے گئے تھے۔ پھر اگست ۱۹۴۷ء میں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو ریاستیں وجود میں آنے کے فوراً بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں جموں میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کی گئی۔ پھر وقفے وقفے سے بھارتی ریاست نے جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو پے درپے انسانیت سوز مظالم، عورتوں کی بے حُرمتی، قتل و غارت اور سالہاسال تک جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کرکے نوجوانوں کو مارڈالنے اور زندگی بھر کے لیے معذور بنادینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ تین عشروں کے دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جہاں پر ناجائزقبضہ ہوگا، وہاں مزاحمت ہوگی۔ سامراجی اور غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنا، انسانیت کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ آج دُنیا کے نقشے پر موجود دو سو ممالک میں ۱۵۵  سے زیادہ ملکوں نے اپنے حقِ خودارادیت کی بنیاد پر آزادی حاصل کی ہے۔ کہیں مذاکرات سے، کہیں انتخاب سے اور کہیں مسلح مزاحمت سے یہ منزل حاصل کی گئی ہے۔ خود مقبوضہ برطانوی ہند نے بھی انھی ذرائع کو استعمال کرکے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، جسے کوئی فرد نہیں جھٹلا سکتا۔ اسی بنیاد پر کشمیر میں بھی مظلوموں کے ایک حصے نے قلم اور دلیل سے، دوسرے طبقے نے مکالمے اور سیاسی و سفارتی میدان میں، اور تیسرے حصے نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ تینوں راستے درست بھی ہیں اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھنے کا سامان کرتے ہیں۔

یہ ایک ہمہ گیر اور مربوط جدوجہد ہے، جس میں عالمی ضمیر کو جگانے، ابلاغ عامہ کے اداروں کو جھنجھوڑنے اور حکمرانوں کی یادداشت کو تازہ رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کو مربوط کاوشیں کرنی چاہییں، نہ کہ زندگی اور موت کے اس مسئلے کو ابہام اور تضادات کے گرداب میں گم کرنے کا سامان!

 

یہ جملہ ’’ملک شدید بحران سے گزر رہا ہے‘‘ اتنی کثرت سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ اب یہ اپنی معنویت تقریباً کھو چکا ہے، مگر ’’شدید بحران‘‘ کا لفظ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔

قومی زندگی کے صبح و شام پر نظر ڈالیں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ قوم اور ملک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہیں ، اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ حساس دل و دماغ تو زیرزمین زلزلے کی گہری زیریں لہروں کو محسوس کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ قومی قیادت اور خود قوم، قریب آتے ہوئے تباہ کن مستقبل سے بالکل بے خبر ہے۔ سطحیت ہر سطح پر حاوی ہے، جذباتیت کا دور دورہ ہے۔ اجتماعی زندگی ہیجان اور انتشار کا شکار ہے، کہ صاحبانِ اقتدار اور اپوزیشن کے بیانات سے کم علمی اورکج فہمی جھلکتی ہے۔ جاہلیت، اسلامی تہذیب کے خرمن کو جلا رہی ہے۔

تاریخ کا یہ سبق یاد رہنا چاہیے کہ ایسے طوفانوں کے نتیجے میں محض حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ماضی کی تہذیبی قدریں اور تعلقات و معاملات کا پورا نظام اپنی جگہ سے ہل کر رہ جاتا ہے جس کے اثرات دیر تک قومی وجودکو چاٹتے رہتے ہیں۔ گویا کہ چند افراد کی نادانی کے نتیجے میں معاشرے کو بہت قربانی دے کر پھر کہیں بہت مشکل سے راستی اور درستی کا سرا ہاتھ آتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے ۷۵ویں سال، یہ منظر ایک بدقسمتی ہے۔ تاہم، اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود ملک و ملّت کو سنبھالنے والے دماغ موجود تو ہیں، مگر بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر رہنمائی دینے کے لیے آگے بڑھنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے فی الحقیقت سب سے بڑا ادارہ سیاسی جماعتوں کا وجود ہے، لیکن افسوس کہ یہی ادارہ سب سے زیادہ بگاڑ اور عاقبت نااندیشی کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کے مخصوص علاقائی مسائل کے باعث، پارلیمانی جمہوریت کی صورت میں، ملک کے لیے ایک مفید راستہ تجویز کیا گیا تھا، اور اس پر کم و بیش ہر زمانے میں اتفاق رائے پایا گیا۔ تاہم حکومتوں، انتظامیہ اور مقتدر طبقوں کی جانب سے دانستہ طور پر اچھی تعلیم و تربیت سے پہلوتہی اور شرح خواندگی کی حددرجہ کمی نے ملک کی جمہوری اور پارلیمانی زندگی کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، نوابوں، برادریوں اور لسانی و علاقائی تفریقوں کی دلدل میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ انتخابات میں تقریباً ۷۰فی صد یہی لوگ کامیاب ہوکر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔ یوں جمہوریت بے اثر ہوکر رہ گئی ہے۔

’منتخب ہونے کے قابل ناموں‘ (electables) نے جمہور عوام کی رائے کو بے وزن بناکر، پارلیمنٹ کی قوتِ کار کو گھن لگا دیا ہے۔ لوگ پارٹیوں کو تبدیل کر کے یا اپنے شخصی رسوخ کے بل بوتے پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ کے ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر نہ انھیں قانون سازی سے کچھ دلچسپی ہوتی ہے، نہ ملک کی پالیسی سازی میں کوئی کشش نظر آتی ہے اور نہ ان کے اندر کاروبارِ ریاست کا فہم حاصل کرنے کی کوئی اُمنگ ہے۔ اس طرح پارلیمان، کچھ خاندانوں، چند لوگوں اور طاقت ور افسروں کی یرغمال بلکہ غلام نظر آتی ہے۔ایسی پارلیمان کہ جسے جب چاہے کوئی میڈیا ہائوس رام کرلے یا کوئی این جی او زیردام لے آئے۔ سیاسی پارٹیوں کی موروثی قیادتیں، جمہور عوام کے ان نمایندوں کو اپنے تابعِ مہمل کارندوں سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔

اجتماعی اور تمدنی زندگی کی شیرازہ بندی کے لیے ایک دستوری معاہدے کے تحت جس بندوبست نے ملک کی تمام قوتوں کو متحد و متفق کیا ہے، اور جس کے تحت قومی ادارے وجود میں آئے ہیں، افسوس کہ اسی دستوری معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق حکومت چلانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ سب فساد، اسی انکار کے نتیجے میں قومی وجود کو ڈس رہا ہے۔ اس زہر کے تریاق، یعنی دستور کو کچھ وقعت نہیں دی جاتی۔ البتہ جب کسی طبقے، گروہ یا فرد کو اپنے مفاد کے لیے اسے محض ایک عارضی وسیلے کے طور پر برتنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ چند روز دستور کی حُرمت اور احترام کا واویلا ضرور کرتا ہے، اور پھر اسے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ سمجھ کر دُور پرے پھینک دیتا ہے۔

انتخابات کے انعقاد کے دوران، رائے عامہ کی بے توقیری سے یہ مرض شروع ہوتا ہے۔ ناجائز پیسے کی ریل پیل سے انتخابی مہمات چلتی ہیں، ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ امیدواری کے لیے دستوری پابندیوں (دفعہ ۶۲، ۶۳) کے پُرزے اُڑائے جاتے ہیں۔ کہیں انتظامیہ سے  مل کر اور کہیں براہِ راست دھاندلی اور انتخابی انجینئرنگ کا ہتھیار استعمال کر کے، زہریلے دودھ سے  خالص زہریلا مکھن تیار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد یہ ہوگی تو خیروبرکت، دیانت و امانت، عدل و توازن کے پھول وطن عزیز کے آنگن میں کب اور کہاں کھِل سکیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاروں طرف پھولوں کے بجائے کانٹے اُگتے اور جسد ِ قومی کو لہولہان کرتے ہیں۔

پھر معلوم نہیں کیوں اور کس اختیار کے تحت مسلح افواج کے اعلیٰ افسران نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ملکی سیاست اور کاروبارِ ریاست کی نشست و برخواست کو ’درست کرنا‘ یا انھی کی مرضی کے تحت منظم کرانا، مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلح افواج کے لیے ایسی کسی ذمہ داری کی نہ گنجایش دیتا ہے اور نہ اس کا کوئی روزن ہی کھلا رکھتا ہے، تو پھر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یقینا بعض سیاسی قوتیں، اپنی باری پانے کی غرض سے اس غیرآئینی کھیل کے لیے راستہ بناتی اور اپنے مفاد کے لیے اس قومی ادارے کو استعمال کرنے اور اس کا آلۂ کار بننے کا غیرقانونی فعل انجام دیتی ہیں۔ جسے ملازمینِ ریاست خوشی سے انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔

سرحدوں پہ اور پھر داخلی سطح پر ملکی دفاع سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ اس میں سرحدوں کے ان مایہ ناز فرزندوں کے حلف کا تقاضا ہے کہ وہ پوری توجہ دفاعی اُمور پر مرکوز رکھیں، لیکن صدافسوس کہ بعض اعلیٰ عسکری افسران کے ہاں سیاسی مداخلت کےذوق کی تسکین کے لیے سرگرمی دکھائی جاتی ہے۔ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ایک وقت میں ایک سیاسی قوت برسرِعام دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور پھر اپنی باری آنے پر دوسری سیاسی قوت، مسلح افواج کو بحیثیت ادارہ تنقیدو دشنام کا ہدف بناتی ہے، جس کا مجموعی نتیجہ دفاعی حصار میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔  اب پیمانہ سنگین خطرات کی حدود کو چھو رہا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ ہو یا نچلی سطح کی عدالتی تنظیم___ اس کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو عدل و انصاف مہیا کرے۔ دستور کی پامالی اگر طاقت ور طبقے کریں تو ان کے ہاتھ روکے۔معاشرے کو اعتماد ہو کہ اُن کی داد رسی کے لیے عدلیہ کا ادارہ موجود ہے۔ لیکن یہ ہمارے عدالتی نظامِ کار کی بے عملی ہے کہ برسوں تک مقدمات عدالتوں کی فائلوں، اہل کاروں کی آوازوں، وکیلوں کی بے نیازیوں اور جج حضرات کی طویل طویل پیشیوں کے وقفوں میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس اذیت ناک منظرنامے کو  تبدیل کرنے کی جانب عدالت، وکلا اور قانون سازادارے توجہ دینے پر آمادہ نہیں نظر آتے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں براہِ راست تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو عدلیہ نے ایک جانب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے بارے میں فیصلہ دینے سے بے نیازی کا رویہ اختیار کیا، مگر دوسری جانب مداخلت کرکے ایک راستہ نکالا، جسے بعض حلقے پارلیمانی روایت سے ٹکراتا ہوا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود ارکانِ پارلیمان نے کس طرح اور کب، پارلیمانی روایات کی پاس داری کی ہے؟ یہ خود سیاست دان ہی ہیں، جو بعض اوقات دولت کے لالچ میں یا مقتدر قوتوں کے اشارے پر اپنی وفاداریوں کا سودا کرتے ہیں۔

برسوں سے ہماری برسرِاقتدار پارٹیوں نے پارلیمنٹ کو پتلی تماشے کی طرح چلایا ہے۔ نہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور نہ اس کی کارروائی سنجیدگی سے چلائی جاتی ہے۔ کوئی اہم فیصلہ اسمبلی اور سینیٹ کے فلور پر نہ زیربحث لایا جاتا ہے اور نہ ارکانِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے اجلاسوں کے انعقاد پر صرف ہوتے ہیں، مگر یہ اجلاس زیادہ تر سماجی میل جول، پکنک یا سرپھٹول کا سرکس بننے سے آگے نہیں بڑھتے۔ فیصلے پارٹی کے چند مرکزی لوگ یا اپنے اپنے مراکز میں طاقت ور طبقے کرتے ہیں، اور پارلیمنٹ محض ان فیصلوں کی توثیق کا ربڑسٹمپ ثابت ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے جمہوریت کہا جائے یا محض ’جمہوری تماشا؟‘۔ ایسے جعلی نظام پر جمہوریت کی حُرمت کا غلاف چڑھانا اپنی جگہ ایک بدمذاقی ہے۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قوم ایک ہیجانی کیفیت میں تصادم کی سمت بڑھ رہی ہے۔ شعلہ بار تقریریں اور آتشیں بیانات اس آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ جذباتی طرزِ تکلم اور دشنام طرازی نے اداروں کے ڈسپلن ہی نہیں ،خود گھروں کے سکون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاسی اختلاف، اختلاف رائے سے بڑھ کر نفرت کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ مخالف کو زیر کرنے کے لیے بہتان اور الزام، تہمت جیسے تیروتفنگ سے کام لیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہتھیار بہت بُری طرح آزمایا جارہا ہے۔ دُور دُور تک کوئی مردِ دانش نہیں کہ جو اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ دکھائے۔ دشمن اس بھڑکتی آگ پر خوش ہیں اور نادان ہم وطن اس آگ کو پھیلانے میں سرگرم۔

اس فضا میں مسئلے کا واحد اور فوری حل یہ ہے کہ اگلے تین چار ماہ میں منصفانہ انتخابات منعقد کرائے جائیں، اور جو لوگ منتخب ہوں، انھیں باہم مل کر حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ اس حوالے سے ایک اصول پرسختی سے عمل کیا جائے کہ انتخابات سے پہلے یا انتخابات کے دوران کسی صورت فوج کی جانب سے مداخلت کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔انتخابات ہو جائیں تو حکومتیں بنوانے کے لیے بھی فوج کو کسی سیاسی گروہ کی سرپرستی سے سختی سے باز آناچاہیے۔

ایک طرف ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مارکیٹ پر نہ ریاست کا کنٹرول ہے اور نہ صنعت و تجارت کے کارپردازوں کو ریاست کی قوت اور احتساب کا کوئی ڈر۔ اس صورتِ حال میں عام شہری بُری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ بیماری، بے روزگاری، ملاوٹ اور مہنگائی قہر بن کر ہرگھر پر برس رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو نئی منتخب حکومت آنے تک ٹالے رکھنا سفاکیت ہوگی۔ معاملات کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے سول اور مالیاتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

دوسری جانب بڑی خاموشی کے ساتھ کشمیرکے مسئلے پر ایک سرگرمی جاری ہے۔ ’ماضی کو بھلا کر‘ جیسے ناسمجھی کے ’ڈاکٹرائن‘ کی پیشوائی میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت سے تجارت کو بحال کرنے اور کشمیر کی وحدت کو متاثر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم انتباہ کرتے ہیں کہ ایسی کسی کج فہمی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بھارت نے جارحیت اور بڑے تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پامال کرنے کی کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔ اس کے بالمقابل ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے درست تسلسل سے جواب دینے کے بجائے، رفتہ رفتہ اسی راستے پر خود چل پڑنے کا یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔

ہم اُمید رکھتے ہیں کہ مقتدر حلقے اور سیاسی قائدین عبرت پکڑیں گے۔ اپنی ذات، گروہ یا قول کو ضد اور اَنا کو پرستش کا محور بنانے سے اجتناب کریں گے اور قوم سے زیادتی کاارتکاب نہیں کریں گے۔ انھیں تاریخ سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ آج سے پہلے انھی کی طرح اقتدار و اختیار سے چمٹے محض چند لوگوں کی حماقت نے ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچایا اور ایسے کرداروں کے نام تاریخ میں ذلّت کی علامتوں کے سوا کوئی مقام نہ پاسکے: فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ  !

وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر نظر ڈالیں تو سخت تشویش ناک منظر سامنے آتا ہے۔

۲۳ کروڑ آبادی کا ملک بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہے۔ لاکھوں انسانوں کی کتنی عظیم قربانیوں کے بعد یہ وطن حاصل ہوا؟ یوں لگتا ہے کہ اس سوال کو پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل کے ذہنوں سے کھرچ کر مٹا دیا گیا ہے۔ عوام بظاہر بے بس ہیں لیکن وہ اتنے بے گناہ بھی نہیں۔ آخری ذمہ داری بہرحال عوام کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بگاڑ کو فروغ دینے میں ہرکسی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اخبار، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور سماجی محفلوں میں بیٹھیں تو تعمیر کی بات خال خال ہوتی ہے، اور تخریب، جنگ و جدل اور انتقام در انتقام کا تذکرہ ہرچیز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اور ایوانِ حکومت و سیاست کسی مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اہلِ اختیار نے قوم کو ایک ایسی اندھی سرنگ میں دھکیل دیا ہے، جس کے دوسرے سرے پر روشنی کی کوئی کرن بمشکل نظر آتی ہے۔

ہم نہایت اختصار کے ساتھ، قارئین کے سامنے چند معروضات پیش کر رہے ہیں:

  • کچھ بھی کہا جائے، پاکستان کے حالات کو بگاڑنے میں کلیدی کردار اُن مؤثر سیاست دانوں نے ادا کیا، جنھوں نے ملازمینِ ریاست (سول اور فوجی) کو اپنی حدود سے باہر نکل کر اقتدار کے کھیل کا کھلاڑی بننے کا نہ صرف موقع دیا، بلکہ اس میں شریک رہے۔ اگر ہماری سیاسی قیادت اپنے وقتی اقتدار اور ذاتی و گروہی مفاد کی سطح سے بلند ہوکر، قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں آئین سازی پر توجہ مرکوز رکھتی، اور صحیح جمہوری اصولوں کے مطابق ملک کی نظریاتی بنیادوں کو معاشی و سماجی عدل کی بنیاد پر مستحکم کرتی، اور نظامِ حکومت کو اچھی کارکردگی کے ساتھ چلاتی تو عوامی اقتدار کے ایوانوں اور راہداریوں میں غیرسیاسی عناصر کے ناجائز تجاوزات کا وہ ہنگامہ برپا نہ ہوتا، جس کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ مراد یہ ہے کہ پہلے تو ہماری سیاسی قیادت نے دستور سازی میں غفلت برتی اور بعد میں صدقِ دل سے دستور پر عمل نہ کرکے عملاً دستور کو تسلیم کرنے سے نہ صرف پہلوتہی برتی بلکہ اس سے کھلم کھلا انحراف کیا۔

پھر انھی سیاست دانوں نے آنے والے اَدوار میں، اقتدار اور سیاست کو اعلیٰ قومی و تہذیبی  مقاصد و اہداف کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے، محض حصولِ اقتدار، جلب ِ زر اور اپنے سماجی رُتبے کی بلندی کا ذریعہ بنایا۔ قومی و عالمی حالات سے واقفیت، علم و دانش میں وسعت اور مسائل و معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت کو نچلی سطح سے بھی کم تر درجے کا مقام دیا گیا۔ اس طرح کی ناخواندہ اور اَن پڑھ سیاسی قیادت نے اپنے مقام و مرتبہ کو کچھ ملازمین کے ہاتھوں رہن رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی قیادتوں کا اپنی پارٹیوں میں آمریت مسلط کرنا، میرٹ کے بجائے اقرباپروری اور خوشامد کو اوّلیت دینا، مشاورت کی روح کچلنا اور اپنے مفادات کے لیے دن رات وفاداریاں تبدیل کرتے رہنا___ ان علّتوں نے اعتماد اور تعاون کے سرچشموں کو گدلا کر کے رکھ دیا۔

  • دوسری ذمہ داری ہماری اعلیٰ فوجی قیادت پرآتی ہے، جس نے جنرل محمد ایوب خاں کے زمانے سے اقتدار میں بالواسطہ اور پھر بلاواسطہ دراندازی اختیار کی۔ پھر رفتہ رفتہ سیاسی پارٹیوں، صحافیوں اور سول ملازمین میں اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دی اور آخرکار اقتدار پر قابض ہوگئے۔ فوجی حکمران بظاہر تو چار اَدوار میں تقسیم ہیں، یعنی محمد ایوب خاں، آغا یحییٰ خان ، محمد ضیاء الحق، پرویز مشرف اور اقتدار شماری کے ۳۳برس___  مگر یہ گنتی حدرجہ غیرحقیقی ہے۔ حقائق کی دُنیا میں، براہِ راست اور بالواسطہ یہ اقتدار کم و بیش ۶۵برس پر پھیلا ہوا ہے۔ اس چیز نے ایک طرف وطن عزیز کی دفاعی صلاحیت کو نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب خود قومی فوج نہ صرف بار بار متنازع بنی بلکہ سول میدان میں تعامل کے نتیجے میں کئی خرابیوں سے بھی دوچار ہوئی۔ اگرچہ اسی فوج نے وطن عزیز کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے، اور بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جو ہماری تاریخ کا قابلِ فخر باب ہے۔ مگر سیاسی کھیل میں اس براہِ راست یا بالواسطہ شرکت نے مسلح افواج کے کردار کو گہنانے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ چونکہ یہ بات ایک روشن سچ ہے اس لیے ہر آمر اور اس کے ساتھیوں نے وقت گزرنے کے بعد اس مہم جوئی کی مذمت ضرور کی۔
  • تیسری ذمہ داری ہماری اعلیٰ عدلیہ پر آتی ہے۔ ہرچند کہ عدلیہ نے بہت قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں، مگر ملک کو دستور، اصول اور قاعدے کی پٹڑی سے اُتارنے اور ماورائے دستور حکمرانی کی افزایش میں اعلیٰ عدلیہ سے ایسے اقدام بھی سرزد ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں دستور و قانون کی بالادستی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔اسی طرح عدالتی فعالیت نے عوام کی داد رسی کم اور بیان بازی کے کلچر کو زیادہ فروغ دیا ہے۔ یہ سب چیزیں ہمارے عدالتی نظام کو ضُعف پہنچانے کا سبب بنی ہیں۔
  • چوتھی ذمہ داری اہلِ صحافت اور اصحابِ دانش پر عائد ہوتی ہے۔ کسی قوم کا حدردرجہ قیمتی طبقہ اس کے اہلِ صحافت اور دانش وروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد ہماری صحافت، گروہی تقسیم کی اُن گھاٹیوں میں گم ہوئی کہ عوام کو مبالغہ آمیزی کی خوراکیں دی گئیں، تسلسل کے ساتھ جھوٹ سنایا گیا، اور سچ کو بڑی عیّاری سے چھپایا گیا۔ چند قابلِ احترام صحافت کاروں کو چھوڑ کر، ہماری قومی اور علاقائی صحافت، پاکستان میں سیاسی و قومی تخریب کا ذریعہ بنی۔

اہلِ دانش، درحقیقت کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اس کے مستقبل اور وقار کا تاج ہوتے ہیں۔ بلاشبہہ قدرتِ حق نے ہمیں دانش سے آراستہ افراد عطا کیے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کے سادہ لوح شہریوں کو، جن میں تمام علاقوں کے لوگ شامل ہیں، انھی مؤثر دانش وروں نے لڑانے، نفرت کو بڑھاوا دینے اور تعمیر و ترقی کا راستہ روکنے میں وہ رویہ اختیار کیا، جس پر سوائے افسوس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فساد کی صورتِ حال میں وہ کوئی مؤثر قومی خدمت انجام نہ دے پائے۔

  • قومی تعمیر میں اساتذہ، بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کا کردار بڑا مرکزی ہوتاہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یونی ورسٹی اساتذہ، قومی پالیسیوں کی تشکیل میں بہت قیمتی حصہ ڈالتے ہیں اور اس سے بڑھ کر وہ اپنے ہونہار شاگردوں کی صورت میں قوم کو ایسی ٹیم تیار کر کے دیتے ہیں، جو قدم قدم پر قوم کو رہنمائی دینے میں اہم حصہ ادا کرتی ہے۔مگر ہمارے اساتذہ کی اکثریت نے اپنے فرائض سے غفلت برتی۔ اسی لیے جب ہم اپنی اعلیٰ درس گاہوں کے احوال دیکھتے ہیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ یہ درس گاہیں ڈگریوں کی افزائش میں تیز تر، لیکن اعلیٰ ذہن تخلیق کرنے میں سُست تر نظر آتی ہیں۔
  • چھٹی ذمہ داری سول ملازمین (بیوروکریسی) پر عائد ہوتی ہے، کہ ان میں بہت سے مؤثر ملازمین نے اقتدار پرست طبقوں کی ہوس پورا کرنے میں اُنھیں تحفظ دیا اور یوں قوم کو خوار کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ نوکر شاہی کے ان کارندوں نے فوجی اور سیاسی قیادت کو غیرقانونی افعال چھپانے کے گُر سکھائے۔ عوام سے غلاموں کا سا سلوک روا رکھا، اور زندگی کے معاملات مستعدی سے چلانے کے بجائے سُست روی کا رویہ اپنایا۔ یوں اپنے نوکر شاہانہ اقتدار کومستحکم کیا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان چھے طبقوں کے نامناسب رویوں نے وہ صورتِ حال پیدا کردی ہے، جس سے ہم دن رات گزر رہے ہیں۔ اہلِ سیاست اور صاحب ِ اختیار گروہوں اور طبقوں کی نظر میں اگر کوئی سب سے زیادہ بے وزن چیز ہے تو وہ دستورِاسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ انھیں اس چیز سے کچھ غرض نہیں کہ ان کی جنگ ِ اقتدار کے نتیجے میں ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟ انھیں کچھ فکر نہیں کہ ان کی ضد اور محض ہوس اقتدارکے نتیجے میں قوم کے مستقبل کی راہ میں کون کون سے ہمالہ کھڑے ہورہے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ تو بس یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۳کروڑ عوام محض اُن کی غلامی کے لیے ان کو ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔ انجامِ کار بدانتظامی، معاشی بے تدبیری ، قانونی شکنی اور نفرت آمیزی نے فساد کی آگ کو بھڑکا رکھا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں پاکستان امن و سکون اور تعمیروترقی کا گہوارہ بن سکے۔ ذرا سوچیے تو!

اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں کو، اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر چلانے والے انسان خوش نصیب ہوتے ہیں۔ لکھنے اور سنانے والے تو ہزاروں ہیں، مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے والے تھوڑے ہیں۔ ایسے ہی کم یاب لوگوں میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا نام مدتوں یادوں کا عنوان بنارہے گا۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی ۹جولائی ۱۹۳۲ء کو ضلع اٹک (صوبہ پنجاب،پاکستان) کے قصبے ’پرملی‘ میں پیدا ہوئے اور ابھی چار سال کے تھے کہ ۱۹۳۶ء میں ان کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا عبدالقدیم (م:۱۹۸۹ء) اپنے بچوں سمیت بریلی (یوپی) منتقل ہوگئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے حاصل کی، پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں چار برس تک زیرتعلیم رہے،جہاں مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم (۱۹۰۱ء-۱۹۵۸ء) کی شاگردی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اختر احسن وہی ہیں، جن کے بارے میں مولانامودودی نے لکھا ہے: ’’مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب فی الواقع اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے تھے‘‘۔

محمد یوسف صاحب ۱۹۵۱ءمیں مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوئے۔ اصلاحی صاحب، جماعت اسلامی سے متعارف ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں نے گیارہ سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد میرے والدمحترم چاہتے تھے کہ میں صرف علم دین حاصل کروں۔ ہمارے محلّے میں ایک صاحب پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ وہ آتے جاتے مجھے کوئی نہ کوئی کتاب مطالعے کے لیے دے دیا کرتے تھے، لیکن میں ان کی دی ہوئی کتاب کبھی پڑھتا نہیں تھا، اور کتاب لاکر الماری میں رکھ دیا کرتا تھا۔ چندروز بعد وہ مجھ سے کتاب کے بارے پوچھتے تو کتاب لاکر واپس کر دیتا، اور وہ ایک دوسری کتاب دے دیتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک دن نہ جانے کس موڈ میں، میں نے ان کی دی ہوئی ایک کتاب اُٹھائی اور پڑھ ڈالی۔ اس کتاب نے تو میرے خیالات میں ایک انقلاب برپا کر دیا،اور اندر کی دنیا تہ و بالا کرڈالی۔ اس کتاب کا نام تنقیحات تھا، اور مصنف کا نام سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھا‘‘۔

۱۹۵۴ء میں جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے اور ۱۹۵۹ء سے رام پور کو اپنا مستقل مستقر بنا لیا۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے طویل عرصے تک رکن رہے۔ مولانا ابوسلیم عبدالحئی (م: ۱۶ جولائی ۱۹۸۷ء) نے رام پور (اترپردیش) میں جامعہ الصالحات کے نام سے طالبات کی ایک بہترین دینی، اقامتی درس گاہ قائم کی۔ ان کے انتقال کے بعد توسّل خان صاحب اور پھر آخر دم تک محمد یوسف اصلاحی صاحب کی نگرانی میں یہ درس گاہ پورے ہند میں ایک مثالی درس گاہ کے طور پر اپنی پہچان رکھتی اور خدمات انجام دے رہی ہے۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب ۲۱دسمبر ۲۰۲۱ء کو انتقال فرماگئے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مولانا کے انتقال کو اسلام اور اسلامی تحریکات کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سعادت اللہ حسینی کے بقول: ’’مولانا محمد یوسف مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نہایت مقبولِ عام کتابیں ہیں، جنھوں نے بلامبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کی کتاب آدابِ زندگی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اَن گنت مسلمان گھروں کی بک شیلف کا لازمی حصہ ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کو شادیوں کے موقعے پر اس کتاب کا تحفہ اس اُمید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہرطبقے میں مقبول ہیں۔ آسان، سادہ، لیکن دل کش زبان اور پُرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ، اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عطاکیا تھا، اس کی نظیر مشکل ہی سے نظر آتی ہے‘‘۔

ڈاکٹر زاہد حسین بخاری (واشنگٹن) نے بتایا کہ ’’ایک روز مَیں نے مولانا اصلاحی صاحب سے کہا کہ آپ کی ہر تقریر کے تین حصے ہوتے ہیں، مگر موضوعات الگ الگ‘‘۔فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کی تقریر کے پہلے حصے میں قرآن، حدیث اور سیرت پاکؐ کا لازمی حوالہ ہوتا ہے۔ دوسرے حصے میں آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا امریکا آنا، اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ یہاں اسلام کے داعی اور اسلامیت کا نمونہ اورحُسنِ معاشرت کی بہترین مثال بنیں گے، تو آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اور تیسرے حصے میں آپ کسی نہ کسی حوالے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا حوالہ ضرور دیتے ہیں‘‘۔

ایک تقریر میں دُنیا کی حقیقت اور فرد کی ذمہ داری مولانا اصلاحی صاحب نے ان لفظوں میں سمجھائی: ’’کویت کے محل پر ایک جملہ لکھا ہے: لَوْ دَامَتْ لِغَیرِکَ مَا وَصَلَتْ اِلَیْکَ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر یہ [دُنیا] کسی اور کے لیے دائمی ہوتی تو تم کو کبھی نہ ملتی‘‘۔ مراد یہ کہ اگر یہ محل تیرے پچھلوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ہوتا تو تجھے نہ ملتا، اور تجھے اس لیے ملا ہے کہ پچھلے رخصت ہوگئے۔ جب ان کے لیے ہمیشہ کے لیے نہیں تھا، تو تجھے بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ تیرے لیے بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے کہ تیرے بھی جانشین رخصت کا انتظار کر رہے ہیں۔بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ باپ رخصت ہو تو سارے کارخانے اور کاروبار کا مَیں مالک بن جائوں۔ پھر اس کا بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ یہ رخصت ہوجائے تو میں اس کا مالک بن جائوں۔ یہ دُنیا اسی طرح چل رہی ہے۔ ہمارے سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کا زمانہ کیسا گزرا؟ کل ہم نہیں ہوں گے ، تو اللہ کرے ہمارا یہ زمانہ ایسے گزرے کہ لوگ کہیں: کچھ لوگ تھے کہ جنھوں نے نیکیاں پھیلائیں اور بھلائیاں پروان چڑھائیں اور وہ انھیں یاد کرکے دُعائیں دیں کہ اللہ ان کی عاقبت اچھی کرے‘‘۔

اکثر اوقات کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے: ’’جماعت اسلامی والو! تم خوش قسمت ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے، جس نے اپنی کتاب تمھارے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ جب وہ ناراض ہوگا تو یہ کتاب [قرآن] تمھارے ہاتھوں سے لے لے گا‘‘۔ آپ نے اس ایک جملے سے اللہ کی نعمت کی قدر اور اللہ کے فضل سے محرومی و بربادی کا راستہ واضح کر دیا۔

مولانا یوسف اصلاحی دل کش بزرگی اور علم و فضل کی بلندی کے باوجود، ایک خوش گوار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی سنجیدگی میں وقار اور سماجی روابط میں دل بستگی تھی۔ لہجے میں نرمی کے باوجود، جملوں میں بلا کی قوت اور داخلی دنیا کو ہلادینے کی صلاحیت تھی۔ مجلس میں آپ شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے کہ سوال پوچھے جائیں اور اگر کسی چیز کے بارے میں معلومات کم ہوتیں تو بلاتکلف کہہ دیتے، ’’یہ بات معلوم نہیں لیکن معلومات حاصل کرکے بتادوں گا‘‘۔

مولانا اصلاحی کبھی کبھی اپنے وطنِ مالوف کا دورہ کیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں آئے اور ایک ہفتہ لاہور میں، دوسرا ہفتہ اپنے گائوں (پرملی، حضرو) میں گزارا۔ قرب و جوار کے لوگ اُن کی زیارت و ملاقات کے لیے اُمڈ آئے۔ ہرنزدیکی گائوں اور قصبے سے مطالبہ تھا کہ مولانا آئیں اور خطاب کریں۔

آپ نے اپنے پیچھے علم دین اور بہترین انسانی زندگی گزارنے کے اسالیب اور اسباق کا ایک خزانہ چھوڑا ہے، جو مدتوں علم کے متلاشیوں کی تسکین کا باعث بنا رہے گا۔ انھوں نے جو کچھ لکھا، اُردو میں لکھا، اور کیا شان دار اُردو میں لکھا ،ایسی شاندارکہ پڑھتے ہوئے جس میں شیرینی کی سی حلاوت کا احساس ہوتا ہے۔

مولانا مودودیؒ ان کی تحریروں کے قدردان تھے۔ انھوں نے ۲؍اگست ۱۹۶۷ء کو اُن کے نام خط میں لکھا: ’’قرآنی تعلیمات کا سیٹ موصول ہوا۔ آپ نے یہ ایک بڑا مفید مجموعہ مرتب کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور خلقِ خدا کو اس سے فائدہ پہنچائے‘‘۔پھر ۲۳جنوری ۱۹۷۸ء کو لکھا: ’’میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ نے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو مختصر کتاب [داعی اعظمؐ] لکھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو‘‘۔ دل گواہی دیتا ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے اکتوبر۱۹۷۲ء میں رام پور سے ماہ نامہ ذکریٰ   کا اجرا کیا، اور اسے اپریل ۲۰۰۴ء سے ماہ نامہ ذکریٰ جدید کے نام سے دہلی سے شائع کیا جارہا ہے۔ اس میں لکھنے والوں کی تربیت اور پڑھنے والوں کی رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ یہ پرچہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ماخذ ہے کہ اس میں تسلسل سے لکھی جانے والی تحریریں اصلاحی صاحب کی کتب کا ذریعہ بنیں۔بہت سی تصانیف میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: l قرآنی تعلیمات lتفہیم الحدیث lداعی اعظمؐ lگلدستۂ حدیثlآدابِ زندگی lاسلامی توحید lفقہ اسلامی lآسان فقہ lشمع حرم lسچا دین lحُسنِ معاشرت lشعورِ حیات lخاندانی استحکام  lروشن ستارے lمسائل کا اسلامی حل lحج اور اس کے مسائل وغیرہ۔

نائن الیون [۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء]کے افسوس ناک خونیں حملوں کے بعد امریکا نے عملاً پوری دُنیا اور اقوام متحدہ کو یرغمال بنا لیا۔ پھر انسانیت سے عاری جس تباہ کن مہم کا آغاز ’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے کیا، وہ مہم نہ منطقی تھی، نہ منصفانہ تھی، اور نہ انسانیت نواز تھی، بلکہ یہ خونیں مہم، خود اس یلغار کا حصہ بننے اور اس کی قیادت کرنے والوں کے خلاف ہی پلٹ کر ایک جنگ میں تبدیل ہوگئی۔

نائن الیون کے محرکات اور معاملات کو بڑے حُسنِ تدبیر کے ساتھ سمجھنے، ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے اور یوں تشدد کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت تھی، ان اقدامات کے بجائے، دُنیابھر کی طاقتوں نے مجرمانہ حد تک آنکھیں بند کرکے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے امریکا کا ساتھ دیا اور افغانستان کی قانونی حکومت کو بلاجواز خوفناک حملوں کے ساتھ ختم کر دیا گیا (حالانکہ نائن الیون حملوں میں کوئی بھی افغان ملوث نہیں تھا)، اس بے صبری اور بے تدبیری کے نتیجے میں دُنیا کو جھنجھوڑنے والے المیوں نے جنم لیا:

  • آج کی دُنیا، نائن الیون سے پہلے کی دُنیا سے کہیں زیادہ غیرمحفوظ بن کر رہ گئی ہے۔
  • بھارت نے کابل کی کٹھ پتلی امریکی حکومت کے زیرسایہ پاکستان کے خلاف سازشوں اور تخریب کاری کے لیے ۶۶تربیتی مراکز قائم کیے، جہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی ہوتی رہی۔ جس میں ایک لاکھ کے قریب پاکستان کے دفاعی جوان، افسر اور عوام جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
  • مسلم دنیا میں قیادت و سیادت کے سرچشموں پر مسلط غیرنمایندہ حکمرانوں نے، مسلم اُمہ کے بے پناہ مادی وسائل، اس قاتلانہ یلغار کے لیے یوں مختص کردیے کہ آج ان ممالک کی معیشتیں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں گروی بن چکی ہیں۔ ریاستی بجٹ خسارے سے دوچار ہیں۔ خلیج و عرب کی سطحی خوش حالی، کاغذ کے محلات کی صورت میں زمین پر آن گری ہے۔
  • بعض عرب ممالک تو اب باقاعدہ امریکی اور نیٹو افواج کی چھائونیوں کے لیے بڑے بڑے رقبے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیبیا، عراق اور شام جیسے باوسائل مسلم ممالک اور ان کی دفاعی صلاحیت بتاشے کی طرح بیٹھ گئی ہے۔ خون اور بارود کی بارش اور دلدل میں دھنسنے کے بعد ان تینوں ممالک کی حکومتوں اور سرحدوں کو پہچاننا ممکن نہیں رہا۔
  • بیس برس تک افغانستان کے جن طالبان کی بالفعل حکومت کو جبر کی قوت سے ملیامیٹ کیا گیا تھا، انھوں نے دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی مدد اور پشتی بانی کے بغیر (پاکستان نے بہت محدود اخلاقی مدد کی) دُنیا کی عظیم ترین جارحانہ جنگی ٹکنالوجی کا مقابلہ کیا اور آخرکار جارح امریکا ۲۰۲۰ء میں مذاکرات کی میز پر آیا اور طالبان سے معاہدہ کیا، جس کے تحت ۳۱؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان کو چھوڑ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم، سالِ رواں ۱۵؍اگست کو امریکی، بھارتی کٹھ پتلی حکومت بدحواسی میں پسپا ہوگئی اور اس طرح طالبان پندرہ روز پہلے ہی کابل میں داخلے پر مجبور ہوگئے۔
  • طالبان کی یہ کامیابی کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں ہے، اور کسی جائز حکومت کے خلاف بغاوت بھی نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنی حکومت کے ناجائز خاتمے کو ۲۰برس بعد مشیت الٰہی سے پلٹ دیا ہے، جس پر افغانوں کو اور اُمت مسلمہ کو خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے۔
  • طالبان حکومت کی طرف سے، اپنے ہم وطن غداروں، قاتلوں، اپنے خلاف لڑنے والے کرائے کے فوجیوں اور جاسوسوں کے لیے عام معافی کے اعلان نے، عصرحاضر کی بین الاقوامی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش مثال قائم کی ہے۔ یہ روایت فتح مکہ کی اتباع سے وابستہ ایک عظیم الشان تہذیبی قدم ہے، جس کی پوری دُنیا کی طرف سے قدر کی جانی چاہیے تھی، مگر افسوس کہ غیرمسلم ریاستیں تو ایک طرف، خود مسلم دُنیا پر مسلط حکمرانوں نے بھی اس کی قدر نہیں کی، جو باعث ِ ندامت ہے۔
  • پاکستان اور افغانستان، اسلام اور بھائی چارے کے جن گہرے رشتوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں، ان میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی ترجیحات اور ذمہ داریاں، دُنیا کے دوسرے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ اہم، حددرجہ نازک اور فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔
  • حکومتِ پاکستان کی یہ دینی، تہذیبی اور بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ افغانستان کے عوام کی تاریخی جدوجہد کا احترام کرتے ہوئے، افغانستان میں امن و استحکام کو ترجیح اوّل قرار دے اور افغانستان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کرے۔ اس ضمن میں حکومت ِ پاکستان کی تذبذب اور گومگو کی کیفیت قومی مفادات کے قطعی منافی ہے۔
  • طالبان کی حکومت بننے سے پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہوگئی ہیں۔ مگر بھارت اور امریکا کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد یں مسلسل سلگتی رہیں، اور پاکستان بدامنی و اضطراب کے چنگل میں اُلجھا رہے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی افغانستان میں نئی حکومت کو فوری تسلیم کرنا ضروری ہے۔
  • بھارت اور امریکا نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت کا جو زہر گھولا ہے، اس کا حل بھی افغانستان میں امن و آسودگی پیدا کرنے کے لیے، رفاہی کاموں میں افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے سےممکن ہے۔
  • افغانستان کے مالی ذرائع پر امریکی پابندیوں اور عالمی سطح پر عملاً سوشل بائیکاٹ کے نتیجے میں افغانستان میں خوراک اور ادویات اور توانائی کی شدید کمی واقع ہوچکی ہے، جس نے روح فرسا انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انسانی ہمدردی اور اسلامی اخوت کی بنیادوں پر خوراک، ادویات اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پاکستان سے ممکن حد تک مدد فراہم کی جانی چاہیے۔
  • پہلے اشتراکی روسی فوجوں نے اور پھر افغان تنظیموں کی خانہ جنگی نے اور اس کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان کے بچے کھچے نظامِ زندگی اور ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے عالمی فنڈ قائم کیا جائے، تاکہ مواصلات، توانائی کے ذرائع، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیرو مرمت کا کام ہوسکے۔
  • سامراجی فوجوں کی واپسی کے بعد ، افغانستان کی نئی حکومت پر مختلف النوع ذمہ داریوں کا بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے افغان قیادت کو اللہ پر بھروسا رکھتے اور مشاورت کی روح کو زند ہ کرتے ہوئے، اَن تھک محنت، تدبر، دُوراندیشی کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔
  • افغانستان اور پاکستان میں امن ان دونوں ممالک کے باہمی تعلق اور اعتماد سے ممکن ہے۔ یہ ہونہیں سکتا کہ ان میں سے ایک ملک میں بدامنی ہو تو دوسرا ملک امن سے رہ سکے۔ اس لیے جس طرح طالبان نے ملک میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے، اسی طرح حکومت ِ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو عام معافی دے کر انھیں سماجی زندگی کا حصہ بننے کی اجازت دے، جنھوں نے ان ۲۰برسوں کے دوران غیرملکی فوجوں کے افغانستان پر قبضے کے خلاف جدوجہد میں کسی بھی صورت حصہ لیا تھا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک میں بے چینی کا ایک سبب قائم رہے گا، جسے دشمن ممالک گمراہ کن انداز سے برت سکتے ہیں۔ پاکستان کا یہ اقدام ایسے خدشات اور امکانات کو ختم کرسکتا ہے۔
  • دُنیا بھر کے مسلمانوں اور غیرمسلموں میں جو لوگ جنگ زدگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور پُرامن شہری زندگی کے فروغ کے لیے دل و جان سے متحرک ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ بے لوث طریقے سے، سرزمین افغانستان کو امن و آسودگی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے مشورے، فنی سہولیات اور اموال و اشیا کے ذریعے موجودہ افغان حکومت کو مدد فراہم کریں(ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ پاکستان کی ایک قابلِ قدر رفاہی تنظیم ’الخدمت فائونڈیشن‘ نے محدود وسائل کے باوجود افغانستان میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے مقدور بھر عملی قدم اُٹھایا۔ اور ’الخدمت‘ یتیم بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے بھی کوشاں ہے)۔
  • افغانستان خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہے، جس کے لیے تجارت کا سب سے بڑا اور سستا راستہ پاکستان ہے۔ پاکستان نے اپنی بدترین مخالف افغان حکومتوں کے اَدوار میں بھی اس حق کو معطل نہیں کیا، مگر افسوس کہ آج یہ افغان تجارت بند ہے اور کروڑوں روپے کے پھل افغانستان میں تباہ ہورہے ہیں۔ جس سے افغان معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس زیادتی کا ازالہ ہونا چاہیے اور تجارتی آمدورفت کو فی الفور بحال کرنا چاہیے۔
  • حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان پی آئی اے کا کرایہ کو دو ڈھائی سو ڈالر سے بڑھا کر ڈھائی ہزار ڈالر تک کردیا گیا ہے جس نے بداعتمادی کو بڑھایا ہے۔ پھر یہ کہ طورخم بارڈر پر افغانستان سے آنے والے ٹرکوں اور ایمبولینسوں کی پندرہ پندرہ کلومیٹر طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، جن میں مریض تڑپ رہے ہیں اور خوراک کو ترس رہے ہیں۔ معلوم نہیں قانونی طریقے سے آنے اور واپس جانے والے ان مستحق افراد کو کیوں خوار کیا جارہا ہے؟ حالانکہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا۔
  • اسی طرح ہم بہت دل سوزی کے ساتھ دونوں برادر ملکوں کے سیکولر ہم وطنوں سے کہیں گے: (۱) اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ طالبان کوئی ایک باقاعدہ پارٹی نہیں بلکہ یہ عام افغان عوام کے جذبۂ حُریت و آزادی اور عزمِ دین و ترقی اور اجتماعی جدوجہد کا مظہر ہیں، پھر کسان، مزدور، نوجوان،تجارت پیشہ ،دینی تعلیم سے آراستہ اور جدید تعلیم یافتہ افغانوں کی ایک عظیم اکثریت ان کے ہم قدم ہے۔(۲) یہ کہ چالیس برس سے جنگ میں جھلستے اس ملک کے داخلی حالات خراب ہیں، اگر دین دار اور مغربی سامراجیوں کے خلاف لڑنے والوں کے گھر جلیں گے تو ان سامراجیوں کو خیر کی نظروں سے دیکھنے والوں کے گھر بھی تباہی سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس لیے لبرل یا سیکولر ہم وطنوں کو سمجھنا چاہیے کہ طالبان نے اپنے ملک پر قابض ایک ناجائز سامراجی ٹولے کی حکمرانی سے نجات حاصل کی ہے، اپنے ملک پر کوئی قبضہ نہیں کیا، بلکہ سامراجیوں سے قبضہ چھڑایا ہے، جس میں مقابلے اور مذاکرات دونوں کا کردار ہے۔ اس لیے، وہ طالبان کے خلاف گھنائونے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے کا بے فیض کام چھوڑ کر، معقول طریقے سے قومی تعمیروترقی میں ہاتھ بٹائیں۔
  • پاکستان کے اعلیٰ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ میڈیکل، انجینیرنگ، سائنس، ابلاغیات، انتظامیات، علومِ اسلامیہ اور سماجیات میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے افغانستان کے نوجوانوں کے لیے اسکالرشپ پر نشستیں مخصوص کریں، جنھیں میرٹ پر داخلہ اور تربیت دی جائے۔یوں مستقبل میں بھائی چارے میں اضافہ ہوگا، اور افغانستان کی ترقی میں پاکستان کے کردار سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوتے جائیں گے۔
  • اس کے ساتھ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر ہم یہ امر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سرزمینِ پاکستان یا پاکستان کی فضائی حدود، امریکا یا نیٹو افواج کو افغانستان پہ حملے کرنے کے لیے کسی صورت مہیا نہیں کی جانی چاہیے۔ امریکا کے دبائو پر افغانستان کے خلاف کسی قسم کی راہداری دینا، قوم کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ امریکا سے ہم مثبت تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، لیکن امریکا کے اور ہمارے مفادات اس پورے خطے (Region) میں کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں چین، روس اور ایران کے ساتھ مل کر علاقے اور اپنے ملک کے مفادات کے مطابق افغانستان کی طالبان حکومت سے مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ افغانستان کی تقویت اور استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک اور یورپی ملکوں کو بھی امریکا کے دبائو سے نکلنے اور آزاد پالیسی بنانے پر متوجہ کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ترکی اور قطر کا کردار بڑا مثبت ہوسکتا ہے۔ انھیں بھی اس تزویراتی ربط و تعلق میں ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ حکومت ِ پاکستان کو ان اُمور پر فوری اقدامات کرنے چاہییں۔ وقت گزرنے کے بعدکیے گئے اہم ترین اقدامات بھی اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ امریکی دبائو اور بلیک میلنگ میں آکر افغانستان کے حوالے سے تاخیری حربوں سے کام لینا،اس خطے کے لوگوں اور تاریخ و تہذیب سے انتہا درجے کی بے وفائی ہوگی۔

وہ اگست ۱۹۴۱ء تھا اور یہ اگست ۲۰۲۱ء ہے۔

۸۰برس پہلے ایک بیج بویا گیا، جس سے کونپل پھوٹی ، اور پھر ہر کونپل پھل لائی۔ تب پکارنے والا ایک تھا اور اس کی پکار پر لپکنے والے چند ایک تھے۔ اُس آغاز کے وقت پہلا اور واحد ذریعہ ایک رسالہ تھا، ماہ نامہ ترجمان القرآن!

دُنیا بھر کے انسانوں، تمام مسلمانوں اور برصغیر [آج کے بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت]  کے باشندوں کی زندگی اور زندگی کے مسائل، اسی ترجمان القرآن میں مسلسل زیربحث تھے۔ کثیرجہتی موضوعات پر کلام کرنے والے، سوئے ہوئوں کو جگانے، اور پھر جاگنے والوں کو راستہ بتانے والے، اللہ کے ایک بندے سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ ان کے مدلل، مربوط اور بھرپور تجزیے نے ایک اسلامی تحریک برپا کرنے کی ضرورت واضح کردی تھی:

  • اسلام کا مقصد، زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بنیادی طور پر بدل دینا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ کُلی و اساسی تغیر صرف اُسی طریق پر ممکن ہے، جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار فرمایا تھا۔
  • تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے، وہ نہ تو اس مقصد کے لیے ہے اور نہ اس طریقے پر ہے۔(ترجمان القرآن، محرم ۱۳۶۰ھ/ مارچ ۱۹۴۱ء،ص ۸۳)

صفر ۱۳۶۰ھ (اپریل ۱۹۴۱ء) کے ترجمان القرآن میں ، اس تجزیے کی بنیاد پر ایک تحریک کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو دفتر ترجمان  القرآن سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا:

اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں اس فکر کے آدمی موجود ہیں ان کے درمیان ربط پیدا کیا جائے اور ان کے اجتماع کی کوئی صورت نکالی جائے(ص ۱۰۱)۔

اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو یکم شعبان ۱۳۶۰ھ /۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو یک جا ہونے کی دعوت دی گئی اور اس اجتماع کا مقام طے تھا: مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کرائے کا مکان، متصل مبارک مسجد، شبلی سٹریٹ، اسلامیہ پارک، پونچھ روڈ، لاہور___ یہیں پر ماہ نامہ ترجمان القرآن کا دفتر بھی تھا۔ دُوردراز سے آنے والے پہلے ہی چل پڑے اور کچھ حضرات ۲۸ رجب سے ہی آنا شروع ہوگئے تھے۔ یکم شعبان تک ان فرزانوں کی تعداد ساٹھ ہوچکی تھی۔ کچھ لوگ بعد میں آئے اور جب ایک تحریک کا آغاز ہوا تو وہ تعداد میں ۷۵ تھے۔

یکم شعبان کا دن باہم تعارف اور تبادلۂ خیالات میں گزرا۔ مولانا مودودیؒ ان افراد کے  سوالات کے جواب دے رہے تھے اور آنے والے یکسو ہورہے تھے۔


تاسیسی اجتماع کا آغاز

پھر ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ ، ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کا دن روشن ہوا۔

جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع کا آغاز ہوا۔ مولانا مودودیؒ ابتدائی خطاب کے لیے اُٹھے تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ انھوں نے زندگی اور مقصد ِ زندگی کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

دین کوتحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامدو ساکن ہوکر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ و قائم کرنے ، اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ادارہ دارالاسلام کا قیام [مارچ ۱۹۳۸ء] اس سلسلے کا پہلا قدم اُٹھایا گیا، اوراُس وقت صرف چار آدمی رفیق کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اُس وقت بہت حقیرسمجھا گیا، مگر الحمدللہ کہ ہم بددل نہ ہوئے، اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک، دو دو کرکے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲۱۳)

اسلامی تحریک اور دوسری تحریکوں میں فرق

اس مرحلے پر پیش نظر تحریکِ اسلامی اور دوسری تحریکوں کے درمیان اصولی فرق کو دوٹوک الفاظ میں مولانا مودودی نے یوں بیان کیا:

مسلمانوں میں عموماً، جو تحریکیں اُٹھتی رہی ہیں، اور جو اَب چل رہی ہیں، پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کرلینا چاہیے:

  • اُن میں یا تو اسلام کے کسی جزء کو یا دُنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنایا گیا ہے، لیکن ہم، عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اُٹھ رہے ہیں، اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
  • اُن میں ہرقسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کرلیے گئے کہ جب یہ مسلمان قوم میں پیدا ہوئے ہیں تو [عملاً] ’مسلمان‘ ہی ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ارکان سے لے کر کارکنوں اور لیڈروں تک بہ کثرت ایسے آدمی ان جماعتوں میں گھس گئے، جو اپنی سیرت کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد تھے اور کسی بارِ امانت کو سنبھالنے کے لائق نہ تھے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس مفروضے پر نہیں لیتے، بلکہ جب وہ کلمہ طیبہ کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کو جان کر اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے، تب اسے جماعت میں لیتے ہیں۔
  • ان تحریکوں کی نظر صرف مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔ ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے، جو غیرمسلموں کو اپیل کرنے والی ہو، بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیرمسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں اُلٹی سدراہ بن گئی ہیں۔(ایضاً، ص۲۱۴، ۲۱۵)

پھر اپنے اس خطاب میں مولانا مودودی نے دو زبردست اندرونی خطرات سے بھی آگاہ کیا جو ایسی تحریکوں کو پیش آتے رہے ہیں:

  • ایک یہ کہ ایسی جماعت بننے اور ایسی تحریک لے کر اُٹھنے کے بعد بہت جلدی لوگ اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ ان کی جماعت کی حیثیت وہی ہے، جو انبیا علیہم السلام کے زمانے میں اسلامی جماعت کی تھی۔ بالفاظِ دیگر یہ کہ ’جو اس جماعت میں نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے‘ من شذ شذ فی النار [وہ جہنّم کے لائق ہے]۔یہ چیز بہت جلدی اس جماعت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اس کا سارا وقت اصل کام کے بجائے دوسرے مسلمانوں سے اُلجھنے میں کھپ جاتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۱۵)
  • دوسرے یہ کہ ایسی جماعتیں جس کو اپنا امیر یا امام تسلیم کرتی ہیں، اس کے متعلق ان کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس کی وہی حیثیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدینؓ کی تھی، یعنی جس کی گردن میں اس امام کی بیعت کا قِلَادہ نہیں وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخرکار ان کی ساری تگ و دو بس اپنے امیر یا امام کی امارت و امامت منوانے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔
  • ہم کو ان دونوں خطرات سے بچ کر چلنا ہے.... اس معاملے میں ان تمام لوگوں کو جو ہماری جماعت میں شامل ہوں، غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ بہرحال ہم کو مسلمانوں میں ایک ’فرقہ‘ نہیں بننا ہے۔ خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں (ایضاً، ص ۲۱۵، ۲۱۶)۔

تحریکِ اسلامی کا میدانِ عمل

پھر مولانا مودودی نے بڑے اختصار اور جامعیت سے تحریک ِ اسلامی کے دائرۂ عمل کی نشان دہی کرتے ہوئے رہنمائی عطا فرمائی:

  • جماعت اسلامی کے لیے دُنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔
  • اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے، اور ہرچیزجس کا انسان سے کوئی تعلق ہے، اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ لہٰذا، اسلامی تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیتوں اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں، یہاں ہرانسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ہے۔ جو شخص، جو قابلیت بھی رکھتا ہو، اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، اَن پڑھ اور فاضل اجل، سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں، اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کرلیں، اور اس مقصد کو جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بناکر کام کرنے پر تیار ہوجائیں۔
  • البتہ، یہ بات ہراس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے، وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت، ہرچیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے۔ اس کو اگرکوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہرشخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں [الانفال ۸:۱۶] … لہٰذا، جو قدم بڑھائو اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے (ایضاً، ص ۲۱۵-۲۱۷)۔

ایک داعی دین کی ذمہ داری

جماعت اسلامی کی باقاعدہ تشکیل سے چند گھنٹے پہلے اس خطاب میں مولانا مودودی صاف صاف لفظوں میں کام اور ذمہ داری کے سمجھانے کے بعدفرماتے ہیں:

  • میرا کام آپ کو ایک جماعت بنادینے کے بعد پورا ہوجاتا ہے۔ میں صرف ایک داعی تھا، بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کررہا تھا، اور میری تمام مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایسا ایک نظامِ جماعت بن جائے۔ جماعت بن جانے کے بعد مَیں آپ میں کا ایک فرد ہوں۔ اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے، اور پھریہ اس امیر کا کام ہے کہ آیندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اسے عمل میں لائے۔
  • میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آیندہ اس تحریک کی رہنمائی کو بھی میں اپنا ہی حق سمجھتا ہوں۔ ہرگز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ اس نظریے کا قائل ہوں کہ داعی کو ہی آخرکار لیڈر بھی ہونا چاہیے۔ نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے، اور نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئی صاحب ِ عقل آدمی یہ حماقت کرسکتا ہے کہ اس بوجھ کے اپنے کندھوں پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔
  •  درحقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے، کہ ایک صحیح اسلامی نظامِ جماعت موجود ہو، اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظامِ جماعت کے ماتحت ایک چپڑاسی کی خدمت انجام دینا بھی میرے نزدیک اس سے زیادہ قابلِ فخر ہے کہ کسی غیراسلامی نظام میں صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب مجھے حاصل ہو.... لہٰذا جماعت بن جانے کے بعد میری اب تک کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ آیندہ جماعت اپنی طرف سے اس ذمہ داری کو جس کے بھی سپرد کرنے کا فیصلہ کرے، اس کی اطاعت اور خیرخواہی اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ہرفردِ جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا(ایضاً، ص ۲۱۷، ۲۱۸)۔

جماعت کی تشکیل کا لمحہ

۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے روز مولانا مودودی نے ان احباب کے اجتماع میں اس دستور کا مسودہ پڑھنا شروع کیا جس کی کاپیاں چھپوا کر ایک دو روز پہلے ہی تمام آنے والوں کو دے دی گئی تھیں۔ اس کا اب ایک ایک لفظ پڑھا گیا۔ ان احباب کے اجتماع میں سب نے اس بحث میں حصہ لیا۔ شام آتے آتے ہرضروری مسئلہ زیربحث آکر طے ہوچکا تھا۔

اس کے بعد سب سے پہلے سیّدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے۔ کلمہ شہادت: اَشْھَدُ  اَنْ  لَّا اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ  وَاَشْھَدُ  اَنَّ  مُحَمَّدًا  رَّسُوْلُ اللہِ پڑھتے ہوئے کہا:’’لوگو، گواہ رہو کہ میں آج ازسرِنو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں‘‘۔

پھر محمد منظور نعمانی صاحب کھڑے ہوئے، اورآپ نے بھی مولانا مودودی کی طرح تجدید ِایمان کا اعلان کیا۔ پھر ایک ایک کرکے دوسرے افراد اُٹھے، اور اسی طرح تجدیدِ ایمان کے ساتھ جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ عجب سماں تھا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے وقت رقّت طاری ہوگئی تھی۔ہرشخص احساسِ ذمہ داری سے کانپ رہا تھا۔

اللہ کو اور حاضرین کو گواہ بنانے والے ان خوش نصیبوں کی تعداد ۷۵ تھی۔ اور یہی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء، ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کا وہ لمحہ تھا جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کا باقاعدہ اعلان کیا۔


۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء ، ۳شعبان ۱۳۶۰ھ کے صبح آٹھ بجے دوبارہ اجلاس شروع ہوا۔

سب سے پہلے جماعت کے مختلف اُمور کے ضمن میں ہررکن سے مولانا مودودی نے براہِ راست دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت کے کس شعبے میں اور کس کام کے لیے پیش کرتا ہے۔

اجتماعی زندگی کے بنیادی تقاضے

جب یہ فہرست مکمل ہوگئی تو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی تاسیسی ارکان سے مخاطب ہوئے:

’’اب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟ اس سلسلے میں چند  اہم باتیں بیان کروں گا:

  • پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت کے ہرفرد کو نظامِ جماعت کا بحیثیت مجموعی اور جماعت کے افراد کا فرداًفرداً سچے دل سے خیرخواہ ہونا چاہیے۔ جماعت کی بدخواہی، یا افرادِ جماعت سے کینہ، بُغض، حسد، بدگمانی اور ایذا رسانی وہ بدترین جرائم ہیں، جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔
  • دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کی اس جماعت کی حیثیت دُنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے، جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’میری پارٹی، خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ نہیں، آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے، وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں: تَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ص  وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص [المائدہ ۵:۲۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو]۔ اللہ کی طرف سے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہروقت مستعد رہیں، جو نظامِ جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔

                        جماعت کی سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ اس کو راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے، اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے۔ اس میں نفسانی دھڑے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں۔ اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے۔ اس میں کسی دُنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بُت نہ بننےدیا جائے،اور اس کے دستور کو بگڑنے سے بچایا جائے۔

                        اسی طرح اپنے رفقاء جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور منکر میں صرف عدمِ تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن، دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے وہاں اسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ لے۔

                        البتہ، آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری اور تشدد کا طریقہ نہ ہو بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے (ایضاً، ص ۲۲۰-۲۲۱)۔

  • تیسری بات یہ ہے کہ جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں، جتھہ بندیاں، نجویٰ (Canvassing)، عہدوں کی اُمیدواری، حمیت ِجاہلیہ اور نفسانی رقابتیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں، مگراسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیںہے۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں، جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔
  • چوتھی بات یہ ہے کہ باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔ جس شخص کے سپرد کسی جماعتی کام کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقا سے مشورہ لے، اور جس سے مشورہ لیا جائے اُس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہارکرے۔ جو شخص اجتماعی مشاورت میں اپنی صواب دید کے مطابق رائے دینے سے پرہیز کرتا ہے، وہ جماعت پر ظلم کرتا ہے، اور جو کسی مصلحت سے اپنی صوابدید کے خلاف رائے دیتا ہے وہ جماعت کے ساتھ غدر کرتا ہے۔ اور جو مشاورت کے موقعے پر اپنی رائے چھپاتا ہے، اور بعد میں جب اس کے منشا کے خلاف کوئی بات طے ہوجاتی ہے، تو جماعت میں بددلی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ بدترین خیانت کا مجرم ہے (ایضاً، ص ۲۲۱، ۲۲۲)۔
  •  پانچویں بات یہ ہے کہ جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مُصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے، ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا۔بعض نادان لوگ بربنائے جہالت اس کو ’حق پرستی‘ سمجھتے ہیں، حالانکہ   یہ صریح اسلامی احکام اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ  کتاب و سنت کی تعبیر اور نصوص سے کسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہو، یا دُنیوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیربحث رہتا۔ اُس میں ہرشخص اپنے علم اور اپنی صواب دید کے مطابق پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرتا، اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا، مگرجب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا، تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لے لیتا تھا، یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود  فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا۔ جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جہاں ایک ایک شخص اپنی رائے پر اس قدر مُصر ہو کہ جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کردے، وہاں آخرکار پورا نظامِ جماعت درہم برہم ہوکر رہے گا‘‘ (ایضاً، ص۲۲۲)۔

پھر یہاں پر مولانا مودودی نے ارکانِ جماعت کو متوجہ کیا کہ وہ مرحلہ آگیا ہے، جب انھیں اپنے قافلے کا ایک سربراہ منتخب کرنا ہے۔ اس موقعے پر صاف صاف لفظوں میں یہ ہدایت فرمائی:

  • امیرکے انتخاب میں آپ کو جو اُمور ملحوظ رکھنے چاہییں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارت کا اُمیدوار ہو، اسے ہرگز منتخب نہ کیا جائے۔ کیونکہ جس شخص میں اس کارِعظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا، وہ کبھی اس بار کو اُٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا، اور جو اس کی خواہش کرے گا، وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔ انتخاب کے سلسلے میں لوگ ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکتے ہیں، مگرکسی کے حق میں یا کسی کے خلاف نجویٰ اور سعی نہ ہونی چاہیے....
  • اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی جماعت میں امیر کی وہ حیثیت نہیں ہے، جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوتی ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے، اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر نہیں تلاش کی جاتی تو وہ دیانت اور خوفِ خدا کی صفت ہے۔ بلکہ وہاں کا طریق انتخاب ہی ایسا ہے کہ جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑتوڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہرقسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے، وہی برسرِاقتدار آتا ہے...  
  • مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحب ِ امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے، اور اس بنا پر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے.... اگر آپ کسی کو خداترس اور متدین پاکر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتماد کیجیے۔ اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خداترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کہ آپ اُس پر اعتماد نہیں کرسکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجیے۔(ایضاً، ص ۲۲۲، ۲۲۳)

مذکورہ بالا تقریر کے بعد ۳شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء) کو دوپہر تک ارکانِ جماعت کے درمیان امیرجماعت کے انتخاب کی مختلف صورتوں کا مسئلہ زیربحث رہا:

  • ایک خیال یہ تھا کہ فی الحال عارضی طور پر امیرمنتخب کیا جائے اور مستقل امیر کے انتخاب کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔
  • دوسری رائے تھی کہ ابھی سرے سے کوئی امیر منتخب نہیں ہونا چاہیے بلکہ چند افراد پر مشتمل ایک مجلس کو اختیارات دے دیئے جائیں اور اس مجلس کا ایک صدر منتخب کرلیا جائے۔
  • تیسری رائے یہ تھی کہ جماعت، بلاامیر بالکل ہی بے اصل چیز ہے۔ اگر ایک تحریک کا آغاز،قیادت کے بغیر یا کسی عارضی قیادت کی بنیاد پر ہوگا تو ایسے کمزور، سُست، ڈھیلے ڈھالے آغاز کا اس عظیم نصب العین سے کچھ میل نہیں بنتا، اور نہ اس سے کوئی تحریک برپا ہوسکتی ہے۔

جب بحث نے طول پکڑا اور بڑے اجتماع میں کوئی اتفاق رائے حاصل نہ ہوسکا تو تینوں گروہوں نے یہ مسئلہ سات افراد کی ایک منتخب مجلس کے سپرد کر دیا۔ اس سات رکنی مجلس میں مولانا مودودی شامل نہیں تھے۔ یہ مجلس بحث و تمحیص کی تمام منازل سے گزر کر، ایک متفقہ نتیجے پر پہنچی کہ تحریک سربراہ کے بغیر نہ ہو، جماعت بلاامیرنہ رہے۔ مجلس کی تجویز، محمدمنظورنعمانی صاحب نے شام چاربجے اجتماع میں پڑھ کرسنائی اور ’’پوری جماعت نے اسے متفقہ طور پر قبول کرتے ہوئے طے کیا کہ اسے دستورِ جماعت میں باقاعدہ دفعہ دہم کی حیثیت سے بڑھا دیا جائے‘‘۔جب یہ فیصلہ ہوگیا تو سبھی نے متفقہ طور پر مولانا مودودی کو اپنا امیرمنتخب کرلیا۔

امیر جماعت کا انتخاب اور پہلا خطاب

یہ ۳ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۷؍اگست۱۹۴۱ء ہی کا دن تھا۔ بیعت کا رسمی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے سب نے دستور ِ جماعت کی دفعہ دہم کے مطابق اپنے امیر کی اطاعت کا عہد کیا۔ منظرایک بار پھر گذشتہ شام کا تھا۔ لوگ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں روئے اور گڑگڑائے اور التجا کی کہ وہ اس جماعت کو اس کے نصب العین کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تب بحیثیت امیرجماعت مولانا مودودی کا یہ اوّلین خطاب تھا:

میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنےوالا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کرکے اس کارِعظیم کا بارمیرے اُوپر رکھ دیا ہے تو میں اب اللہ سے دُعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دُعا کریں کہ مجھےاس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے.... میں اپنی حدوسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلائوں۔ قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفائے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو، اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کررہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھےسیدھاکرنے کی کوشش کرے۔(ایضاً، ص ۲۲۷)

مولانا مودودی نے امیر پر جماعت کا، اور جماعت پرامیر کا حق ان لفظوں میں بیان کیا:

آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسایش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں۔ جماعت کے نظم کی حفاظت کروں۔ ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں۔ جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں، ان کی حفاظت کروں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صرف کردوں، جس کے لیے جماعت اُٹھی ہے۔

اور میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہِ راست پرچلوں آپ اس میں میرا ساتھ دیں، نیک مشوروں اور امکانی امدادو اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے.... مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں کہ اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں بلکہ اس کو بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔

البتہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو میں بھی نہ اُٹھوں۔ میرےلیے تو یہ تحریک عین مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دُنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔(ایضاً، ص ۲۲۷، ۲۲۸)

اس خطاب کے آخر میں، مولانا مودودیؒ نے ایک نہایت بنیادی بات واضح کرکے بہت سی غلط فہمیوں کے امکانات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے فرمایا:

آخر میں ایک بات کی اور توضیح کردینا چاہتا ہوں۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے، جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بناپر اختیار کیا ہے۔ جو اصحاب ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتےرہے ہیں، وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حیثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی ہے، اس لیے میرے لیے یہ بات صاف کردینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں جو کچھ میں نے پہلے لکھا ہے اور جو کچھ آیندہ لکھوں گا یا کہوں گا، اس کی حیثیت امیرجماعت اسلامی کے فیصلے کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کہ ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہلِ علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اسی کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی تحقیق اور اظہاررائے کی آزادی سلب ہوجائے۔

ارکانِ جماعت کو مَیں خداوند برتر کا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص، فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی، جسے میں نے اپنی تحقیق کی بناپر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلاتحقیق، میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہرشخص کے لیے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں، وہ اپنی تحقیق پر، اور جو علم نہ رکھتے ہوں،وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں، اس کی تحقیق پرعمل کریں۔ نیز ان معاملات میں لوگ مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھے۔(ایضاً، ص ۲۲۸، ۲۲۹)


۴شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۸؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے تشکیل کے بعد پہلا دن تھا۔

بنیادی شعبہ جات اور تقسیم کار

امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ سے مل کر (جن کا انتخاب انھوں نے گذشتہ شام ۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء کو کرلیا تھا) ابتدائی طور پر کام کو پانچ شعبوں میں تقسیم فرمایا:

  • شعبۂ علمی و تعلیمی کا کام یہ ہوگا:اسلام کے نظامِ فکر اور نظامِ حیات کا اس کے مختلف فلسفیانہ اور عملی اور تاریخی پہلوئوں میں گہرا تفصیلی مطالعہ کرے۔ دُنیا کے دوسرے نظاماتِ فکروعمل پر بھی وسیع تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالے، اور اپنے نتائجِ تحقیق کو ایک ایسے زبردست لٹریچر کی شکل میں پیش کرے، جو نہ صرف اسلامی اصول پر ذہنی و فکری انقلاب برپا کرنے والا ہو، بلکہ نظامِ اسلامی کے بالفعل قائم ہونے کے لیے بھی زمین تیار کرسکے۔ ایک ایسا نظریۂ تعلیمی اور نظامِ تعلیم مرتب کرے، جو اسلام کے مزاج سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہو ، اور دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔ اپنے نظریۂ تعلیمی کے مطابق نصاب اور معلمین تیار کرے اور بالآخر درس گاہ قائم کرکے آیندہ نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا کام شروع کر دے۔
  •  شعبۂ نشرواشاعت: شعبۂ علمی و تعلیمی سے جو لٹریچر تیار کیا جائے، اس شعبے کا فرض ہوگا کہ جہاں تک ممکن ہو، خدا کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ ہر جگہ ریڈنگ روم اور بُک ڈپو قائم کرے۔
  • شعبۂ تنظیم جماعت کے فرائض ہوں گے: کارکنوں کو ہدایات دینا،انفرادی شکل میں موجود ارکان، مقامی جماعتوں اور جماعت کے نصب العین کی طرف بڑھنے والے حلقوں سے مکمل رابطہ رکھنا۔ رفتار کا جائزہ لیتےرہنا (ایضاً، ص ۲۲۹-۲۳۱)۔
  •   شعبۂ مالیات کے کام کا آغاز۷۴ روپے چودہ آنے کی نقد رقم سے ہوا، جو اسے ادارہ دارالاسلام کی طرف سے ملی۔ ۱۹۳۸ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے لیے مولانا مودودی نے اپنی تمام کتابیں (الجہاد فی الاسلام اور رسالہ دینیات کے سوا) وقف کر دی تھیں۔ اب اس ادارے میں موجود کتب (مالیت -/۲۰۱۴ روپے) اور تاجروں اور ایجنٹوں کے ذمہ واجب الادا رقوم (۱۳۵۶ روپے دو آنے) بھی جماعت اسلامی کے شعبہ مالیات کا اثاثہ قرارپائیں۔ جماعت کے ذی استطاعت ارکان پر لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ، جس قدر مالی ایثار کرسکتے ہوں کریں۔ رہے جماعت سے باہر کے لوگ، تو اگر وہ بخوشی اور بلاشرط خود کوئی مدد دینا چاہیں، تو قبول کرلی جائے۔ لیکن کوئی بڑی سے بڑی مالی اعانت بھی اس صورت میں قبول نہ کی جائے، جب کہ یہ اندیشہ ہو کہ اس کے معاوضے میں جماعت کی پالیسی پر اثرڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ص ۴۰،۴۱)
  • شعبۂ دعوت و تبلیغ جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے، اور دراصل کامیابی کا انحصار ہی اس شعبے کی کارگزاری پر ہے۔ہرشخص جو جماعت اسلامی کا رکن ہو، لازمی طورپراس شعبے کا کارکن ہوگا۔ اس کو دائماً ایک مبلغ کی زندگی بسرکرنی ہوگی۔اس کے لیے لازم ہوگا کہ جہاں، جس حلقے میں بھی اس کی پہنچ ہوسکتی ہو، نصب العین کی طرف دعوت دے اور جماعت کے نظام کی تشریح کرے۔

                        اس شعبے میں کام کرنے کے لیے آٹھ مختلف حلقے معین کر دیے جائیں، اور جماعت کا ہرکارکن اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے صرف انھی حلقوں میں تبلیغ کرے، جن سے وہ زیادہ مناسبت رکھتا ہو۔ یہ حلقے ہیں:(۱)جدید تعلیم یافتہ لوگوں اور کالجوں کا حلقہ (۲) علمائے کرام اور مدارسِ عربیہ کا حلقہ (۳) صوفیا اور مشائخ طریقت کا حلقہ (۴) سیاسی جماعتوں کا حلقہ (۵) شہری عوام کا حلقہ (۶) دیہاتی عوام کا حلقہ (۷) عورتوں کا حلقہ (۸)غیرمسلموں کا حلقہ(رُوداد، اوّل، ص ۴۲،۴۳)۔

امیرجماعت کی ہدایات

جماعت اسلامی کے لائحہ عمل سے متعلق جب ان شعبوں کا تعین اور اعلان کر دیا گیا، تو امیرجماعت اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے حاضرین کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت کے ارکان کو ایسے تمام طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے، جو ان کو مسلمانوں میں ایک فرقہ بنانے والے ہوں۔ اپنی نمازیں الگ نہ پڑھیے،بحثیں اور مناظرے نہ کیجیے۔ جہاں تحقیق کے لیے نہیں بلکہ ضد اور مخالفت کی بناپر اس تحریک [یعنی جماعت]کو معرضِ بحث میں لایا جائے، وہاں صبروضبط سے کام لیجیے۔ خصوصاً جہاں میری ذات پر حملے کیے جائیں، وہاں تو ہرگز مدافعت نہ کیجیے۔ میں نہ خود اپنی مدافعت کرتا ہوں اور نہ اپنے رفیقوں سے چاہتا ہوں کہ وہ اس فضول کام میں اپنا وقت اوراپنی قوتیں ضائع کریں۔ البتہ جہاں کوئی شخص سنجیدگی سے طالب تحقیق ہو، وہاں اپنی تائید میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔مگر جب بحث میں گرمی آتی محسوس ہو تو سلسلۂ بحث بند کر دیجیے، کیونکہ مناظرہ وہ بلا ہے، جس سے ہزار فتنے پیدا ہوتے ہیں۔(ترجمان القرآن، ایضاً، ص ۲۳۸)

بحیثیت مسلمان کے ایک ذمہ دارانہ زندگی شروع کرنے کا اور اس سے کلمۂ شہادت کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت میں جب کوئی نیا شخص داخل ہو تو اسے پورا احساسِ ذمہ داری دلا کر اَزسرِنو  کلمۂ شہادت ادا کرایا جائے۔ اس تجدید ِایمان کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو عہد اس کے اور خدا کے درمیان پہلے موجود تھا، آج وہ اسے تازہ اور خالص اور مضبوط کر رہا ہے۔  تجدیدِ ایمان کے موقعے پر یہ بات ہرنئے داخل ہونے والے رکن کے ذہن نشین کردینی چاہیے کہ یہ دراصل زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح ہے، آج سے تمھاری ایک بامقصد اور ذمہ دارانہ زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔(ایضاً، ص ۲۳۵، ۲۳۶)
  • جو شخص جماعت میں داخل ہو، اُس کو تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا بیش تر حصہ پڑھوا دیا جائے، تاکہ وہ اس تحریک کے تمام پہلوئوں سے واقف ہوجائے، اور تحریک کے ارکان میں ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ اس معاملے میں کسی کے متعلق یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ وہ پہلے ہی سب کچھ سمجھنا ہوگا۔ اگر اس مفروضے پر ایسے لوگوں کی بڑی تعداد جماعت میں داخل کرلی گئی، جو اس تحریک کے لٹریچر پر نظر نہ رکھتے ہوں، تو اندیشہ ہے کہ جماعت کے ارکان متضاد باتیں اور متضاد حرکات کریں گے۔
  •  ہرجگہ [ہفتے میں ایک بار] ایک جگہ جمع ہونا چاہیے۔ اس اجتماع میں ہفتہ بھر کے کام کا جائزہ لیا جائے، آیندہ کام کے لیے باہمی مشورے سے تجاویز سوچی جائیں۔ بیت المال کے حسابات دیکھے جائیں، اور تحریک کے لٹریچر کے متعلق کوئی نئی چیز شائع ہوئی ہو تو، اس کا مطالعہ کیا جائے۔
  • جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے خاص شغف ہونا چاہیے۔ ان چیزوں کو بار بار، زیادہ سے زیادہ گہری نظرسے پڑھا جائے اور محض عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے نہیں بلکہ ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔جہاں ایسا کوئی آدمی موجود ہو، جو قرآن کا درس دینے کی اہلیت رکھتا ہو، وہاں درسِ قرآن شروع کر دیا جائے۔
  • اس تحریک کی جان دراصل تعلق باللہ ہے۔ اگر اللہ سے آپ کا تعلق کمزور ہو تو آپ حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے اور کامیابی کے ساتھ چلانے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا، فرض عبادات کے ماسوا نفلی عبادات کا بھی التزام کیجیے۔ نفل نماز، نفل روزے، اور صدقات وہ چیزیں ہیں، جو انسان میں خلوص پیدا کرتی ہیں، اور ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ کرنا چاہیے، تاکہ ریا نہ پیدا ہو۔ نماز سمجھ کرپڑھیے، اس طرح نہیں کہ ایک یاد کی ہوئی چیز کو آپ زبان سےدُہرارہے ہیں، بلکہ اس طرح کہ آپ خود اللہ سے کچھ عرض کررہے ہیں۔ نمازپڑھتےوقت اپنے نفس کا جائزہ لیجیے کہ جن باتوں کا اقرار آپ عالم الغیب کے سامنے کر رہے ہیں، کہیں آپ کا عمل ان کے خلاف تو نہیں ہے، اور آپ کا اقرار جھوٹا تو نہیں ہے۔ اس محاسبۂ نفس میں اپنی جو کوتاہیاں آپ کو محسوس ہوں، ان پر استغفار کیجیے اور آیندہ ان خامیوں کو رفع کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • جماعت کے ارکان [اور کارکنان]کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک بہت بڑا دعویٰ لے کر، بہت بڑے کام کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔ اس لیے ہرشخص کو جو اس جماعت میں شامل ہو اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ خدا کے سامنے تو وہ بہرحال ذمہ دار ہے، مگر خلقِ خدا کے سامنے بھی اس کی ذمہ داری بہت سخت ہے۔ جس بستی میں بھی آپ لوگ موجود ہوں، وہاں عام آبادی سے آپ کے اخلاق بلند تر ہونے چاہییں، بلکہ آپ کو بلندیٔ اخلاق، پاکیزگیٔ سیرت اور دیانت و امانت میں ضرب المثل بن جانا چاہیے۔ آپ کی ایک معمولی لغزش نہ صرف جماعت کے دامن پر بلکہ اسلام کے دامن پر دھبہ لائے گی اور بہت سے لوگوں کے لیے سبب گمراہی بن جائے گی۔
  • تحریک اسلامی کا ایک خاص مزاج اور مخصوص طریق کار ہے، جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں، اور اس نوعیت کی تمام چیزیں اُن [دوسری] تحریکوں کی جان ہیں، مگر اس تحریک [اسلامی] کے لیے سمِ قاتل ہیں۔ یہاں کا طریق کار قرآن اور سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرتوں سے سیکھیے، اور اس کی عادت ڈالیے۔ آپ کو زبان یا قلم یا مظاہروں سے عوام پر سحر نہیں کرنا ہے کہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس آجائیں اور آپ انھیں ہانکتے پھریں۔
  • آپ کو یہ عزم پیدا کرنا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور گردوپیش کی اجتماعی زندگی کو حقیقت ِ اسلامی کے مطابق بنائیں اور جو کچھ باطل ہو، اسے مٹانے میں جان و مال کی بازی لگادیں۔ لوگوں کے اندر یہ گہری تبدیلی ساحری اور شاعری سے پیدا نہیں ہوا کرتی۔ آپ میں سے جو مقرر ہوں، وہ پچھلے اندازِ تقریر کو بدلیں اور ذمہ دار مومن کی طرح جچی تلی تقریر کی عادت ڈالیں۔ جو محرّر [لکھنے والے] ہیں، انھیں بھی غیرذمہ دارانہ اندازِ تحریر کو بدل کر اس آدمی کی سی تحریر اختیار کرنی چاہیے، جو لکھتے وقت احساس رکھتا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔
  • مختلف پارٹیوں اور مذہبی فرقوں اور مقامی قبیلوں اور برادریوں کے نزاعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہیے۔ بالکل یک سُو ہوکر اپنے نصب العین کے پیچھے لگ جایئے۔ جو عمل خدا کی راہ میں نہیں ہے، اس میں مشغول ہوکر آپ اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں گے حالانکہ آپ کو اپنے وقت اور اپنی قوتوں کا حساب دینا ہے۔
  • تبلیغ میں حکمت اور موعظۂ حسنہ کو ملحوظ رکھیے: ’حکمت‘ یہ ہے کہ آپ مخاطب کی ذہنیت کو سمجھیں۔ اس کی غلط فہمی یا گمراہی کے اصل سبب کی تشخیص کریں۔ اس کو ایسے طریقے سے تلقین کریں، جو زیادہ سے زیادہ اس کے مناسب حال ہو۔’موعظۂ حسنہ‘ یہ ہے کہ جس [کے سامنے] آپ تبلیغ کریں، اس کے سامنے آپ اپنے آپ کو دشمن اور مخالف کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے بہی خواہ اور دردمند کی حیثیت سے پیش کریں۔ ایسے باوقار، بلیغ اور شیریں انداز سے راہِ راست کی طرف دعوت دیں، جو کم سے کم تلخی پیدا کرنے والا ہو.... یہ کہ بے موقع تبلیغ نہ کیجیے۔ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ دعوت الی الخیر سننے یا کسی نصیحت کو قبول کرنے کے موڈ میں نہ ہو، اس وقت اسے دعوت دینا، یا ایک وقت میں جتنی خوراک وہ قبول کرسکتا ہو، اس سے زیادہ خوراک اس کے اندر اُتارنے کی کوشش کرنا، بجائے مفید اثر ڈالنے کے، اُلٹا خراب اثر ڈالتا ہے۔ اسلام ایک حکیمانہ دین ہے اور اس کے مبلغ کو حکیم ہونا چاہیے۔(ایضاً، ص ۲۳۶-۲۴۰)

۵ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۹؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے اس تاسیسی اجتماع کا آخری دن تھا۔امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ کے مشورے سے جماعت کے ابتدائی پروگرام سے متعلق کچھ اُمور طے کیے، اور یہ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ آنے والے یہ چند فرزانے ایمان، رہنمائی اور جذبوں کی دولت لے کر ہندستان بھر میں پھیل گئے۔


اجتماع میں آنے والوں کا سلسلہ یومِ تاسیس ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے بعد بھی جاری رہا۔ اس کا اشارہ  ترجمان القرآن کے ان اشارات سے ملتا ہے، جو اجتماع کے بعد لکھےگئے:

جماعت اسلامی کی تشکیل کا استقبال مختلف حلقوں میں مختلف طور پرہوا ہے:

__ کچھ اللہ کے بندے تو ایسے ملتے ہیں، جو اس چیز سے واقف ہوتے ہی اسے اس طرح قبول کرتے ہیں، گویا کہ وہ پہلے ہی سے اس کے طالب تھے۔

__کچھ دوسرے لوگ اس پر غور کرتے ہیں اور مختلف قسم کے شبہات پیش کر کے مزید توضیح چاہتے ہیں۔

__ کچھ اور لوگوں کے دل نے گواہی دی ہے کہ مخالفت کے لائق اگر کوئی چیز ہے تو یہی ہے۔

__ اور ایک گروہ کثیر، انتظار کی روش کو ترجیح دے رہا ہے۔

__یہ سب مختلف قسم کے استقبال، خلافِ توقع نہیں ہیں، پہلے ہی ان کا اندازہ تھا۔

البتہ جو چیز ہمارے اندازے سے بڑھ کر نکلی، وہ لبیک کہنے والوں کی تعداداور اُن کی کیفیت ہے۔ [غیرمنقسم]ہندستان کے اس قبرستان میں مشکل ہی سے یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ اس طرز کے ایک نظام کو قبول کرنے اور اس پر کام کرنے کے لیے ڈیڑھ سو سے زیادہ آدمی ابتدا ہی میں اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

__یہ بات اور بھی کم متوقع تھی کہ اس چیز پر لبیک کہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے، جو روح و ضمیر کی ان قتل گاہوں سے سند ِ موت لے کر نکلے تھے، جن کو کالج اور یونی ورسٹی کہتے ہیں۔

__ ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہمت افزا ہے کہ جن لوگوں نے پیش قدمی کی ہے،  ان میں سے اکثر کے طرزِ اقدام سے احساسِ ذمہ داری کا اظہار ہورہا ہے۔ وہ اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے آرہے ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ وہ کھیل کے میدان میں نہیں اُتررہے ہیں بلکہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ وضع احتیاط کے ساتھ اپنے نفس کا احتساب کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں کہ جو قدم بھی خدا کی راہ میں اُٹھے پھر پیچھے نہ پلٹے:ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲)

داعی تحریک ِ اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مذکورہ بالا خطبات میں بیان کردہ اہداف اور ہدایات میں نشانِ منزل بھی ہے، اور منزل کے راستے کا نقشہ بھی۔ ان کلمات میں راستوں کی رکاوٹیں بھی درج ہیں اور عزم و ہمت کے مینار بھی روشن ہیں۔ دردِ دل میں ڈوبی اس رہنمائی میں تنظیم و تحریک سے وابستہ ہرفرد کے لیے احتسابِ ذات اور احتسابِ تحریک کا پورا نصاب بھی صاف صاف درج ہے۔

 آج ۸۰ برس ہوچکے ہیں۔ اس کاروانِ شوق کو منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، جموں و کشمیر میں فکری یگانگت، مگر یکسرطور پر الگ الگ تنظیمی وجود  کے باوجود، حق کے راہی گرمِ سفر ہیں۔ اب پرچم تیسری نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ شجر طیبہ برگ و بار لارہاہے، قربانیاں دے رہا ہے، ہر رکاوٹ میں سےراستے نکال کر منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔

مگر داعی کی پکار اور تاسیسِ جماعت کے مخاطب آج ہم خود اہلِ قافلہ ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہردیکھنے والا دیکھ لے، اور ہر تولنے والا تول لے: قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور کن منزلوں سے ہوتا ہوا کہاں تک پہنچا ہے، اور کتنا سفر باقی ہے!

مسلم اُمہ کے مسائل اور بحران در بحران کیفیت میں ہرمسلمان اُلجھا ہوا ہے۔ اس کا بڑا سبب جہاں سامراجی قوتوں کی عالمی سیاسی و معاشی جتھہ بندی ہے، وہیں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود مسلم ممالک میں سیاسی،فکری اور دفاعی سطح پر مقتدر اور بااختیار قیادتوں کا معاملہ سوالیہ نشان ہے۔ اس کیفیت میں مایوسی کا شکار ہونا اور حالات کے بے رحم دھارے کے سامنے سپرڈال دینا، عظیم اور ناقابلِ تلافی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔ یہ بحران جس قدر شدید ہے، اور مسائل و مشکلات کی یلغار جتنی تباہ کن ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، اور ان آفتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے، کہیں زیادہ بڑھ کر عقل، دانش، فہم و فراست کی ضرورت ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ خوں ریزی ہمارے سامنے ہے، جہاں ہردوڈھائی برس کے بعد مظلوم فلسطینی بھائیوں پر خون، آگ اور بارود کی بارش ہوتی ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے مظلوموں کو کچلنااور آزادی کی اُمنگوں کا قتل عام بھی پوری دُنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل اور بھارت بنیادی طور پر نسل پرست، فسطائی اور وحشی (Rogue) ریاستیں ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت کے صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ بصیرت افرادِ کار کو بھرپور طریقے سے حق کی گواہی دینا ہوگی۔ملّی یک جہتی کو زندہ کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں بیداری کی تحریکیں برپا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مسئلہ کشمیر پر ، بالخصوص گذشتہ دو برسوں کے دوران جس انداز سے پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً متضاد بیانات کا سلسلہ جاری ہے، اس نے بہت تکلیف دہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔

فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک مذاکرات کا اعلان، اور پھر اپریل میں ۲۵، ۳۰ صحافیوں سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کی بظاہر ’آف دی ریکارڈ‘ (اور عملاً آن دی ریکارڈ) ملاقات میں بیان کردہ روایتوں اور حکایتوں نے گہری تشویش کا سامان فراہم کیا ہے۔ مذکورہ ملاقات میں جنرل صاحب کی طرف سے یہ کہا جانا کہ ’ہم بیک ڈور چینل (پس پردہ) مذاکرات کر رہے ہیں‘ اور یہ کہ ’ہمیں ماضی بھلاکر آگے بڑھنا ہے‘ دھماکا خیز خبر ہے۔ جب کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ ’کوئی بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے‘۔ گویا کہ حکومت اور مسلح افواج ایک انداز سے نہیں سوچ رہے۔ یہ متضاد اور متحارب اطلاعات اگر سول حکومت اور پارلیمان کی جگ ہنسائی کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام اور قوم میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔یاد رہے کہ نہ ماضی سے کٹا حال ہوتا ہے اور نہ ماضی سے کٹ کر مستقبل کی صورت گری ہوسکتی ہے۔

اسی مناسبت سے ہم چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

  • اس وقت شروع کیے جانے والے مذاکرات کا جو پہلو کھل کر سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ مذاکرات پاکستان کی طرف سے کسی پیشگی شرط اور کسی روڈمیپ کے تعین کے بغیر ہونے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی انتظامی وحدت پر سفاکانہ یلغار اور بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری کے طے شدہ اُمور کی دھجیاں بکھیرنے والے اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیے بغیر، ان مذاکرات کا حصہ بناجارہا ہے۔ یاد رہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات میں دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے نے جموں و کشمیر میں آبادی کے توازن و تناسب کو تلپٹ کرکے دوسرا اسرائیل بنانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ پھر مقبوضہ کشمیر میں ۸ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی، دُنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین نقشہ پیش کرتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ ایسے غیرمشروط، اور وقت کی قید سے آزاد مذاکرات سے پاکستان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس صورت میں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارتی حکومت کے تمام غیرانسانی اور غیرقانونی اقدامات کو پاکستان کی جانب سے عملاً تحفظ دیا جارہا ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ قطعاً ناممکن ہے۔
  • یہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تو اس کا مقصد کبھی سنجیدہ، بامعنی اور اخلاص پر مبنی مذاکرات کا انعقاد نہیں تھا۔ بین الاقوامی دبائو سے نکلنے اور اندرونِ ملک مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے کاک ٹیل مذاکرات کا کھیل اس سے پہلے بھی ڈیڑھ سو مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔ اس لیے بے فیض نشست و برخاست سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
  • ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت، مذاکرات اور مکالمے کے لیے تیار رہا ہے، اور آج بھی تیار ہے۔ مگر ان مذاکرات میں بھارت کی مخلصانہ شمولیت کا اندازہ لگانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان، مذاکراتی عمل میں (مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، بیرون پاکستان و بھارت) کشمیری نمایندگان کو ساتھ لے کرشریک ہو۔ اگر بھارت مسئلے کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت مذاکرات کو محض وقت گزاری کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس کا مقصد کشمیریوں اور پاکستان میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے، ساتھ ہی وہ پاکستان کے اصولی موقف میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے بے معنی مذاکرات کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
  • اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کا ایجنڈا، صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کو رُوبہ عمل لانے کی تفصیلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے بنائے ہوئے کمیشن ہی کا تقاضا نہیں بلکہ خود بھارت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے اور جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اس عہد وپیمان میں پوری دنیا شریک ہے۔نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں بھی اسی حل کو واحد حل کی حیثیت سے طے کر دیا گیا ہے اور مسئلے کے منصفانہ، پایدار اور قانونی سلجھائو کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا فریم ورک نہیں ہوسکتا۔
  • کسی برادر مسلم یا غیرمسلم دوست ملک کے دبائو میں آکر اگر ہم اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا کرتے ہوئے اور پسپائی اختیار کرنے کی راہ پر چل پڑے،اور خدانخواستہ اگر ’آؤٹ آف باکس‘ کوئی وعدہ کربیٹھے، تو یہ چیز، جدوجہد آزادیِ کشمیر کو برباد کرنے کا ذریعہ بنے گی، اور ایسا کرنے والوں کو پاکستانی اور کشمیری کبھی معاف نہیں کریں گے۔
  • کسی دوست ملک یا کسی طاقت کے دبائو میں آکر ثالثی کے پھندے کو قبول کرنا، کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستانیوں کی قربانیوںکو دریابرد کرنے کےمترادف ہوگا۔
  • اگرچہ موجودہ برسوں میں پاکستان کی معاشی حالت گوناگوں داخلی، خارجی اور انتظامی اسباب کے باعث تسلی بخش نہیں ہے، مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی اخلاقی، قانونی، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ اس لیے معاشی دبائو میں آکر اپنی اخلاقی اور قانونی پوزیشن کو قربان کرنے، اس پر سمجھوتا کرنے، دب کر بات کرنے اور موقف کو ضُعف پہنچانے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
  • اکتوبر ۲۰۲۰ء میں گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہدایات دینا، مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔ اسی لیے ہم نے ایسے کسی عمل سے برأت کا اعلان کرنے پر زور دیا تھا اور جموں و کشمیر کی وحدت برقرار رکھنے کا اعادہ کیا تھا۔
  • بہت واضح الفاظ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کے سامنے ہم یہ بات رکھیں گے کہ پاک بھارت مذاکرات، ہرصورت میں پاکستان کی منتخب حکومت اور دفترخارجہ کی ذمہ داری ہے، جسے مسلح افواج کے مشورے کی ضرورت ہرقدم پر رہے گی۔ لیکن خود افواجِ پاکستان کا ایسے بین الاقوامی مذاکرات کی ذمہ داری لینا، پاکستان، پاکستان کے موقف اور قومی اداروں کی ساکھ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔
  • یہ بات ہمیں اس لیے کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سول حکومت کی موجودگی کے باوجود ۲۰۰۸ء سے لے کر اب تک پہلے جنرل پرویز کیانی ڈاکٹرائن، پھر جنرل راحیل شریف ڈاکٹرائن اور اب جنرل باجوہ ڈاکٹرائن پیش کرنے کا عمل اور اس کی تشہیر یا ذہن سازی ہرگز مناسب قدم نہیں ہے۔ مسلح افواجِ پاکستان کی خدمات، شجاعت اور لازوال قربانیوں کی قدر ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ہرادارے کی حدود کار، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ معاہدۂ عمرانی کے مطابق واشگاف ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنے سے جہاں نظم و ضبط، فساد سے دوچار ہوتا ہے، وہیں پر قومی ساکھ کو صدمہ پہنچتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم کی آیندہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
  • ہمارے مقتدر اداروں اور میڈیا کو ایسے نیم دلانہ مذاکرات سے توقعات وابستہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ افسوس کہ مخصوص این جی اوز اور میڈیا پر کنٹرول رکھنے والی مخصوص لابی قوم کو اس اندھیری سرنگ میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسے عناصر کی جانب سے کی جانے والی بے جا داد و تحسین کی حقیقت کو سمجھیں اور ایسے دام ہم رنگ میں اُلجھنے سے بچیں۔
  • پارلیمنٹ کی ’کشمیر کمیٹی‘ کی تشکیل نو کرتے ہوئے کمیٹی کی قیادت ذمہ دار، متحرک اور مسئلہ کشمیر کا درد رکھنے والے فرد کے سپرد کی جائے۔ جو متعلقہ معاملات پر پوری لگن اور تندہی سے ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، سیاسی، سفارتی اور فکری قیادت کو ساتھ لے کر چلے۔ اس پلیٹ فارم کی تساہل پسندی کے نتیجے میں جو پہلے نقصان ہوچکا ہے، اس کا مداوا کرے۔

ہمیں مسئلہ کشمیرکے باب میں حکومت، حزبِ اختلاف، مسلح افواج اور میڈیا کے متعلقین کے اخلاص کے بارے میں شک نہیں۔ لیکن مخلص فرد بھی اگر درست چیز کو نامناسب انداز سے پیش کرے تو اس سے کئی بار ایسا نقصان پہنچتا ہے، کہ وہ دشمن کے حق میں بہت بڑا نفع بن جاتا ہے، اور پھر ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے ہم: ’نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘۔

جناب وحیدالدین خاں کا انتقال ۲۱؍اپریل ۲۰۲۱ءکو ہوا۔ سانحۂ ارتحال کے اس موقعے پر سبھی حلقے ان کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے، تحسینی کلمات ادا کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی، جو ۱۹۶۳ء یعنی تقریباً ۶۰برس سے کسی نہ کسی رنگ میں اُن کی تنقید کا نشانہ بنتے آرہے تھے، ان میں سے کسی فرد نے ان کے بارے میں کوئی اختلافی بات نہ کہی، بلکہ اسلامی اخلاقیات اور تہذیب وروایات کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے، ان کے صرف مثبت پہلوئوں کو بنیاد بنایا اور مغفرت کی دُعا کی۔ لیکن معلوم نہیں کیوں، انتقال کے ۲۴گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے، جناب وحیدالدین خاں سے فکری قربت اور نیاز مندانہ وابستگی رکھنے والے جاوید احمد غامدی صاحب نے اس موقعے کو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تشہیر کا ذریعہ بنانا شروع کیا اور پھر ان کے ہم نوائوں نے سوشل میڈیا و اخبارات میں اور ادارے ’المورد‘ نے بھی اس مصرع طرح پر گرہ لگاکر ’غزل گوئی‘ شروع کر دی۔

جاوید صاحب نے امریکا سے سوشل میڈیا پر اپنا جو پیغام نشر کیا، انھی الفاظ کو تین گھنٹے بعد مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ٹی وی پروگرام میں مختصراً دہرایا گیا اور پھر وہی پیغام زیادہ مرتب انداز سے، اپنی سرپرستی میں شائع ہونے والے ماہ نامہ اشراق میں بطور اداریہ شائع کیا۔ ملاحظہ کیجیے:

مولانا وحیدالدین خاں ایک بڑی غیر معمولی شخصیت تھے.... میری نسبت تو ان کے ساتھ یہ ہے کہ ہم ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں.... انھوں نے استاذ امام امین احسن اصلاحی سے ان کے ابتدائی دور میں تعلیم پائی اور مجھے یہ شرف استاذ امام کے آخری دور میں حاصل ہوا۔ اُن [یعنی وحیدالدین صاحب] کا بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جو دین [اسلام] کی سیاسی تعبیر کی گئی ہے، انھوںنے خالص علمی سطح پر اس کی غلطی کی۔ ان کی کتاب تعبیر کی غلطی  کو پڑھ کر آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا اعلیٰ درجے کا محققانہ ذوق رکھتے تھے۔ یہ جس کارنامے کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے، یہ بڑا غیر معمولی ہے۔ ہمارے ہاں دین کی ایک تعبیر وہ ہے، جس کو ’صوفیانہ تعبیر‘ کہنا چاہیے۔ اس کے بڑے لوگوںمیں امام غزالی اور آخری زمانے میں شاہ ولی اللہ ہیں۔ اسی طرح ’دین کی سیاسی تعبیر‘ ہے۔ اس کے سب سے بڑے مفکر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ انھوں نے اس کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اِسی کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدّعا و مطلب کو بیان کیا ہے۔[مولانا مودودی پر تنقید کا] یہ ایک بڑا کام ہے جو اُن [خاں صاحب] کے قلم سے صادر ہوا ہے۔ اس وقت بھی میںلوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اگر اعلیٰ درجے کے تنقیدی کام کو دیکھنا چاہیں تو ان کو کتاب تعبیر کی غلطی کو ایک علمی کتاب کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے (ماہ نامہ اشراق، مرتبہ:منظورالحسن،مئی ۲۰۲۱ء، ص۴-۶)

یہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ خاں صاحب کے سانحۂ ارتحال پر جاوید صاحب نے کس مبالغہ آمیز طریقے سے ایک پہلو کو اُن کے سارے کام پر حاوی کرکے، اپنے ایجنڈے کی تشہیر کے لیے برتنا ضروری سمجھا۔ یاد رہے، خاں صاحب اور جاوید صاحب کی طرف سے جماعت اسلامی یا مولانا مودودی پر کی جانے والی ’کرم فرمائیوں‘ کا ترجمان القرآن میں کبھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ مگر اُن کی جانب سے اٹھائی گئی اس حالیہ مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے، چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے۔

جاوید صاحب نے یہ بہت سنگین الزام عائد کیا ہے: ’’[دین کی] سیاسی تعبیر... کے سب سے بڑے مفکر مولانا مودودی نے اس [تعبیر یا فکر]کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اسی [ایک مقصد]کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدعا و مطلب کو بیان کیا ہے‘‘(ص۵)۔ گویا کہ جاوید صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جو لکھا، وہ محض اُن کے وہ ذاتی احساسات و خیالات ہیں، جس میں انھوںنے دین اسلام کو محض کسی سیاسی چیز کے طور پر پیش کیا ہے۔

l امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی کے ہاں اسلام اپنی جامعیت کے ساتھ ہی جلوہ گر رہا ہے، جسے وہ اسلام کے ایمانی، فکری، عملی اور اطلاقی پہلوئوں کے ساتھ سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتےرہے۔ الحمدللہ، اسلام کی اسی کلیّت (totallity)کو انھوںنے دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے اجتناب پر زور دیا۔

l مولانا مودودی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’اسلام کا مقصد صرف اسلامی حکومت قائم کرنا ہے‘‘۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سیاق و سباق سے کاٹ کر جملے پیش کرنے والی بیمار ذہنیت کی جڑ کاٹنے کے لیے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۴کی تشریح کے ذیل میں مستقل طور پر لکھ دیا ہے:

اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ سےہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے.... ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

l مولانا مودودی کے نزدیک نہ تو کوئی ’صوفی اسلام‘ ہے اور نہ کوئی ’سیاسی اسلام‘ بلکہ وہ پورے اسلام ہی کو اسلام کہتے ہیں اور ایسی تقسیم روا رکھنے کو مطلق جاہلیت سے منسوب کرتے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں سے مغربی توسیع پسند سامراجی طاقتوں نے اپنی جارحیت کا مقابلہ کرنے والے جاں نثار مسلمانوں کو برے ناموں سے موسوم کرنے کا دھندا شروع کیا، اور اس مقصد کے لیے خود مسلمانوں ہی سے اپنے ہم نوا کارندوں کو طاقت، وسائل اور پشت پناہی سے نوازا۔ مغربیوں نے اس گھنائونے کھیل کے لیے اپنے خلاف کھڑے ہونے اور مزاحمت کرنے والے مسلمانوں کو کبھی ’وہابی اسلام‘ سے منسوب کیا، کبھی ’وحشی اسلام‘ کے ماننے والے کہا اورپھر ’رجعت پسند اسلام‘ کے علَم بردار قرار دیا۔ گذشتہ ۳۰برسوں کے دوران منفی اصطلاح سازی میں تیزی لاتے ہوئے،’غصّے اور انتقام والا اسلام‘، ’انتہا پسند اسلام‘ اور ’بنیاد پرست اسلام‘ سے مربوط کرنا شروع کیا۔ خصوصاً نائن الیون کے بعد، مغربی سامراج اور ان کے دیسی ہم نوائوں نے ہر اس فرد، ادارے اور مزاحم کار کو ’سیاسی اسلام‘ سے موسوم کر دیا، جس نے ان سفاک اور ظالم قوتوں کی خدائی، انسانیت کی تذلیل اور وحشیانہ قتل و غارت گری کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ واضح رہے کہ خود امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کی نسبت سے ’صوفی اسلام‘ کی نمایندگی کا جو دعویٰ جاوید احمد غامدی صاحب نے کیا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒکی معرکہ آرا کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں خصوصیت سے اسلامی تاریخ کے جس سانحے کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، وہ اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست پر بادشاہت کے غلبے کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح شاہ صاحبؒ اسلام کے اصل سیاسی نظام کو اسلام کے احیا کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اسلام کے مجموعی پیغام،حکم اور مزاج کے مطابق مولانا مودودی نے عصرحاضر میں بیان کی ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہؒ نے ہندوئوں کی عظیم تر مرہٹہ سلطنت کے قیام کا خطرہ بھانپتے ہوئے، احمد شاہ ابدالی کو ہند پر حملے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری جنگ ہوئی اور مرہٹوں کی پسپائی سے ہندو سلطنت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔ کیا کوئی ’صوفی اسلام‘ کا علَم بردار نابغہ، اسلامی نظام سیاست کے موضوع پر لکھتا اور کھلے دشمن کے استیصال کے لیے مسلمانوں کی فوج کو دعوت دیتا ہے؟

lمولانا مودودی نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے،معاشرے میں ہمہ پہلو جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ، خلفائے راشدینؓ اور صلحائے اُمت کے ہاںبکمال وتمام موجود ہے، اور جسے امتداد زمانہ، خصوصاً گوری اقوام کی غلامی کے ماہ و سال نے دھندلادیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جہاں مولانا مودودی ایمان کی آبیاری کی طرف متوجہ کرتے ہیں، وہیں توحید کے مفہوم سے آشنائی اور توحید خالص پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر انقلابِ قیادت، تطہیر افکار اور تعمیر کردار کے ذریعے دعوتِ دین کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ مولانا مودودی، جہاد کے تصورِ اسلام کو روشن الفاظ میں پیش کرتے ہیں اور سامراجی آقائوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کرنے میں کسی مداہنت پسندی، ترمیم پسندی اور بزدلی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ دراصل یہی ہے وہ جرأت مندی، جو مولانا مودودی کو نشانہ بنانے والوں کو بے چین کرتی ہے۔

l مولانا مودودی نے اسلام کو چھوٹے چھوٹے خانوں میں پیش کرنے کے بجائے، اسے جڑ، تنے، ٹہنیوں، پتوں، پھل اور سائے سمیت پیش کیا ہے۔ اس روایت میں تزکیہ نفس بھی آتا ہے اور نظام زکوٰۃ و نظام خدمت عامہ بھی راہ پاتا ہے۔ پھر فتنہ جوئوں کی فکری ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مولانا مودودی کے فکری گلشن میں علم، تحقیق اور دلیل برگ و بار لاتے ہیں۔ نیز نظام معیشت و نظام سیاست اور نظام عدل، گویا عصرحاضر میں اسلامی معاشرے اور ریاست کا خاکہ  جلوہ گر ہوتا ہے۔ چونکہ جدید سامراجی قوتیں، اسلامی ریاست و سیاست کے تصور سے خائف ہیں، اس لیے وہ اسلامی نظامِ حیات سے نسبت رکھنے والوں کو ہدف بنانے پر خاصے وسائل صرف کر رہی ہیں، اور ان کی اس ہمہ پہلو یلغار کا نشانہ مولانا مودودی بھی ہیں۔ بلاشبہہ دشمن کی اس جتھہ بندی کو بہت سے چرب زبان مقرروں کی کمک میسر ہے۔ مگر کاٹھ کی یہ ہنڈیا زیادہ دیر تک چولھے پر چڑھی نہیں رہ سکتی۔ جناب سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد، غلام احمد پرویز وغیرہ کی سالاری میں نام نہاد مذہبیات کا حشر ہمارے سامنے ہے۔

تین مزید باتیں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:

پہلی بات یہ ہے کہ جاویداحمد صاحب کی جانب سے، مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی شاگردی کا دعویٰ ایک پامال افسانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ چند درجن دروس میں شریک ہونے سے کوئی فرد، شاگرد نہیں قرار پاتا۔ دینی روایت میں شاگردی اسی وقت منسوب ہوتی ہے، جب استاد خود اپنے اطمینان کے بعد اجازت عطا فرمائے۔ حالانکہ موصوف کے حوالے سے   مولانا اصلاحی صاحب کے ہاں پائی جانے والی بے زاری مولانا سے ملنے والوں پر واضح ہے، جس کا انھوںنے متعدد افراد کے سامنے وقتاً فوقتاً اظہار بھی فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا اصلاحی صاحب نے خود میرے استفسار پر اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان فرمایا۔ یہ بھی عجیب شاگرد ہیں کہ استاد امین احسن اصلاحی صاحب تو تدبر قرآن میں اسلامی ریاست کے اُمور پر معرکہ آرا مباحث لکھیں، اور پھر اسلامی ریاست  کتاب سپردِقلم کریں، اور اس پر ناز بھی کریں، مگر ’شاگرد‘ اسلام میں کسی ریاست کے عملی وجود ہی سے انکار کرے؟ سچ بات ہے کہ مولانا اصلاحی اور مولانا فراہی صاحبان کو جتنا نقصان، جاوید صاحب کے افسانوی دعوائےشاگردی نے پہنچایا ہے، اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ لوگ موصوف کی باتیں، دعوے اور فیصلہ کن فتوے سن سن کر یہ سوچتے ہیں کہ ’’ہر دم تبدیل ہوتے ایک آزاد خیال ’شاگرد‘ کا  یہ حال ہے، تو اس کے استاد یقینا اس سے بھی زیادہ اسلام میںپیوندکاری و تحریف کے رسیا اور ’چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے سننے کو شاگرد کے دعوے ہی کافی ہیں، استادوں کو چھوڑو‘‘۔ اور سچ بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کے فکری قائد اور نسبتی استاد مولانا اصلاحی صاحب نہیں بلکہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہی ہیں۔

محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب کئی حوالوں سے چونکہ بھارت میں مسلمانوں کی مذمت اور طعنہ زنی سے منسوب رہے ہیں، غالباً اسی لیے بھارتی مقتدر قوتوں کے ہاں وہ قابلِ قدر سمجھے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ۶ستمبر۲۰۱۵ء کو اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA: اسنا) نے اپنے ۵۲ویں سالانہ کنونشن منعقدہ شکاگو میںمولانا وحیدالدین خاں صاحب کو مدعو کیا۔ اس پر امریکا کی یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر ایمریطس صاحب نے ’اسنا‘ انتظامیہ سے دریافت کیا کہ ’’آپ نے خاں صاحب کو کس مناسبت سے دعوتِ خطاب دی ہے، حالانکہ ان کے موقف اور رویے سے خود بھارتی مسلمانوں میں بے زاری پائی جاتی ہے؟‘ جواب میں ’اسنا‘ انتظامیہ نے بتایا:’’یہ ہمارا تجویزکردہ نام نہیں، بلکہ جب ہم نے کنونشن کا پروگرام ترتیب دیا تو امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے فرستادوں نے مقررین کی فہرست دیکھ کر کہا کہ ’ایک مقرر ہماری طرف سے رکھیں‘۔ جب ان سے پوچھا گیا: ’کون صاحب؟‘ تو انھوںنے کہا: ’انڈیا سے وحیدالدین خاں صاحب‘۔ ۲۰۱۶ء کے اکتوبر میں پروفیسر ایمریطس پاکستان آئے تو انھوں نے براہِ راست مجھے یہ تفصیل بتائی۔ اس واقعے سے خاں صاحب کو کسی خانے سے منسوب کرنا مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ان کی وہ کون سی ادا تھی، جو افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر تباہی و بربادی مسلط کرنے والے امریکی سامراجیوں کو پسند آئی تھی؟

تیسری بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کی نسبت سے تحقیق و تجزیہ کے جس بلندمعیار کا بہت شہرہ سنایا جاتا ہے، اس کہانی سے عام آدمی واقعی مرعوب ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے خان صاحب کی جس کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں،اس کتاب پر ایک تبصرہ ہم آیندہ کسی اشاعت میں طبع کریں گے، جس سے موصوف کے ذوقِ مطالعہ اور تحقیقی معیار کی بلندی کے بارے میں خود قارئین اندازہ لگالیں گے۔

یہ امر واقعہ ہے کہ جلد بازی میں اور خوب سوچ بچار کے بغیر مسلط کیے گئے فیصلے قوموں اور ملکوں کی زندگی پر دُور رس منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یوں بظاہر کوئی چھوٹا سا فیصلہ ،بعض اوقات ملکوں کے مستقبل کا نقشہ بدل دیتا ہے۔جموں وکشمیر کاقضیہ، جدید بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی، عالمی طاقتوں کی ظالمانہ لاتعلقی اور بھارت کی عہدوپیمان شکنی اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بدترین فوج کشی نے دنیا کے سامنے ایسا منظر پیش کیا ہے، جس پر ہر درد مند انسان خون کے آنسو روتا ہے۔
بھارت میں برسراقتدار راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کی نسل پرست فسطائی حکومت نے اس ماحول کو حددرجہ درد ناک بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی اداروں کی بے حسی سے شہ پا کربھارتی حکومت نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک تباہ کن یلغار کے ذریعے پورے جموں و کشمیر کو ایک قتل گاہ اور بدترین بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔اس جارحیت پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ پوری قوت سے مسئلے پر عالمی راے عامہ کو متحرک کرتی۔ مگر روایتی سستی اور ترجیحات کی دیرینہ خرابی آڑے آئی۔ بجائے اس کے کہ بھارتی عہد شکنی اور جموں و کشمیر کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی روش کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دنیا کو ہم نوا بنایا جاتا، پاکستان میں ایک دوسرا ہی منظر ابھرتا دکھائی دیتا ہے، اور وہ ہے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت و بلتستان کو پاکستان کا عارضی صوبہ بنانے کا خطرناک منصوبہ۔ اس ضمن میں ہم نہایت درد مندی سے برسرِاقتدار اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار سرگرم افراد اور اداروں کو متنبہ کرتے ہوئے ، بلاکم وکاست اپنی رائے پیش کر رہے ہیں:
        تمام بین الاقوامی، سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی شواہد کے مطابق شمالی علاقہ جات ، ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں۔ جموں وکشمیر ایک ایسی وحدت ہے جس میں لداخ ، جموں ،وادیِ کشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک، پاکستان کا یہی موقف ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسی پوزیشن اور قومی اتفاق راے کی بات کی ہے، اور آزاد کشمیر اسمبلی نے تو ۲۰۱۴ء میں ایک متفق علیہ قرارداد کے ذریعے نہ صرف اس کا اعتراف و اظہار کیاہے ، بلکہ اسے پاکستان اور کشمیری عوام کی جانب سےمسئلہ کشمیر پرموقف کا لازمی حصہ قرار دیا ہے، نیز اسی موقف کو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے۔
        ۱۶جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ۲۲۸ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، تب پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے کہا تھا:
The population of Kashmir is distributed community as follows: in Kashmir proper, apart from Jammu, 93.5 percent are Muslims. 62 percent of the population of Jammu are Muslims. Gilgit, which is the high mountain in region is entirely Muslim. The total area of the state, which is largely composed of high mountains and barren hills, is 82000 square miles.
کشمیر کی آبادی اس طرح سے ایک منقسم آبادی ہے: جموں کے علاوہ کشمیر میں ۹۳ء۵ فی صد مسلمان ہیں۔ جموں کی ۶۲ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ گلگت جو بلندپہاڑی خطہ ہے، مکمل طور پر مسلمان ہے۔ ریاست کا کُل رقبہ جو بڑے پیمانے پر اُونچے اوربنجرپہاڑوں پر مشتمل ہے، ۸۲ہزارمربع میل ہے۔
        ریاست جموں و کشمیر کے شمالی علاقہ جات ۷۲ ہزار۹سو ۷۱ مربع کلو میٹر سے زیادہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں،جن کی آبادی ۱۸ لاکھ ہے۔ اورجب بھی جموں و کشمیر میں استصواب راے ہوا، تو یہ سبھی ووٹ ان شاء اللہ، پاکستان سے الحاق کے حق میں جائیں گے۔
        پیپلز پارٹی کے چوتھے دور حکومت (۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء) میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے اگست ۲۰۰۹ ء کے دوران میں’ گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورنس‘ ، کے نام سے داخلی خود مختاری ، کا حکم نامہ جاری کیا ۔ اس حکم نامے کے تحت’ شمالی علاقہ جات‘ کو ’گلگت بلتستان‘ کا نام دیتے ہوئے، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے انتظامی عہدے تفویض کیے، جب کہ قانون سازی و مالیاتی اختیارات اس کی مجوزہ منتخب اسمبلی کو دیے گئے، اور اس کی کونسل کا چیرمین وزیر اعظم پاکستان کو قرار دیا گیا۔
        ذرا پیچھے چل کر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں ’شملہ معاہدے‘ کے بعد بیوروکریسی نے تب صدر پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یہ تجویز دے کر قائل کرلیا تھا کہ ’’گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا جائے‘‘۔ لیکن جیسے ہی انھوں نےاس تجویز پر عمل درآمد کے منفی اثرات پر جوابی دلائل سنے تو اس تجویز پر پیش رفت روک دی۔ اب انھی سے وابستگی کی دعوے دار پارٹی ایک غلطی کرنے کے بعد، اپنی غلطی کا ازالہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔
        جلدبازی میں اٹھائے گئے اس قدم پر آزاد کشمیر ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود شمالی علاقہ جات کی بیش تر سیاسی و سماجی پارٹیوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔
       حکومت پاکستان نے ، خود پاکستان کے کئی علاقوں کی طرح، ا س علاقے کے لوگوں کے بھی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور صحت عامہ کے حقوق کی بجا آوری سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا۔ جب یہاں کے شہری معاشی تنگ دستی پر چیخ اُٹھے تو اس کا ملبہ آزاد کشمیر حکومت پر ڈال دیا، اور یہ فلسفہ تخلیق کیا گیا کہ’ پاکستان اس علاقے کو ضم کرے گا تو سماجی، عدالتی، دستوری اور معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی اوربودا عذر تھا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے عاجلانہ فیصلے کے گیارہ برس گزرنے کے باوجود، وہاں حالات جوں کے توںہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ آزاد کشمیر اور اس سے وابستہ شمالی علاقہ جات کی تعمیر وترقی کے لیے آزاد کشمیر کی فراخ دلانہ مدد کرتی، لیکن افسوس کہ کم و بیش ہرحکومت نے اس معاملے میں سرد مہری کا رویہ اختیار کیا، اور بجائے اس کے کہ خرابی کو دُور کیا جاتا، ایک غلط راستے پر چلنے کے حیلے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیے۔
        بلاشبہہ گلگت بلتستان اور اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے سبھی حصوں کے احساسِ محرومی کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن خاص طور پر اس علاقے کی معاشی محرومیوں کو دُور کرنے کے نام پر اختیار کیا جانے والا یہ ایک انتہائی نامناسب راستہ ہوگا، جس سے مسئلہ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ قضیۂ کشمیر اور اس کے بارے میں پاکستان کے اور اسٹرے ٹیجک موقف کو نقصان پہنچائے بغیر یہاں کے عوام کو معاشی، سیاسی اورسماجی طورپر کیوں اُوپر نہیں اُٹھایا جاسکتا؟ اگرپس ماندہ علاقوں کی بہتری کےنام پر دستورِ پاکستان سے ہٹ کر حل تلاش کرنے کے لیے ایسی روایت اپنا لی گئی تو معاملات گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ جس طرح آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ وہ مسئلہ حل ہونے تک پاکستان کی زیرنگرانی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہونے کی حیثیت سے یہی مقام رکھتا ہے، اور ان کے مستقبل کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک ہے۔
        پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’ ’عالمی مالیاتی ادارے یا بڑے سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا اعتراض دُورکرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے‘‘۔ یہ عذر تو حددرجہ پست ہے۔ کیا کسی معاشی منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک کے سیاسی اور تاریخی موقف کی قربانی دینا کوئی معقول راستہ ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرمایہ کاری کو قومی مفاد کے تابع رکھتے ہوئے قابلِ قبول بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے اَن تھک سفارتی، مذاکراتی اورعلمی سطح پر تگ ودو کی ضرورت ہے،اور یہ کام ہماری اعلیٰ سول اور سیاسی قیادت کو کرنا چاہیے۔
مسئلے کی نزاکت اور غورطلب پہلو
یہ ہے وہ پس منظر، جس میں گذشتہ چند ہفتوں سے راولپنڈی میں چیف آف دی آرمی اسٹاف کی زیر صدارت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں جموں وکشمیر کے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل دینے کی تجویز پر عملاً ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ اُمور وضاحت سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
        یہ بات صاف لفظوں میں ہرخاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں کاروبارِ ریاست و حکومت انھی اصولوں کے مطابق چلا یا جائے گا، جو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ ہیں۔ مطلب یہ کہ اس نوعیت کے امور منتخب حکومت، پارلیمنٹ اور دستور کے تابع زیر بحث آئیں گے اور تمام اداروں کو اپنے حدود کار میں ریاست اور قوم کی خدمت کی بجاآوری کرنا ہوگی۔ انتظامیہ ، مقننہ ، عدلیہ ، عسکری اداروں اور سول ملازمین کو متعین شدہ دائرے میں خدمات انجام دینا ہوں گی، اور اسی چیز کا حلف، دستور کے مطابق سبھی ذمہ داران ریاست نے اٹھایا ہے۔  
         چیف آف دی آرمی اسٹاف ، دفاع وطن کے حوالے سے ایک بڑے محترم اور حددرجہ حساس منصب پر فائز ہیں۔ انھیں سیاسی امور کی بحثوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنی آرا ، وزارت دفاع کی وساطت سے یا دستور میں طے شدہ سلامتی کے اعلیٰ فورم کے ذریعے حکومت کو پیش کرنی چاہییں۔ پھر ان اُمور کو طے کرتے وقت حکومت ،وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور وزارت قانون کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت عملی طے کرتے وقت بجاطورپر مسلح افواج کے مشوروں اور آرا کو بھی زیر غور لائے اور کھلے عام بحث کے بعد مناسب فیصلے کیے جائیں، جن پر ان کی روح کے مطابق، مگر لازمی طور پر دستورِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کیا جائے۔
       اس ضمن میں بعض ’دانش مندوں‘ کا یہ کہنا کہ ’’قومی مسلح اداروں نے تو اس معاملے میں محض سہولت کاری کی ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں کھلا مکالمہ نہیں ہورہا‘‘۔ یہ بہت عجیب اور نہایت کمزور مفروضہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کل سپریم کورٹ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کرکے کسی ’اتفاق راے‘ کو ڈھو نڈنے نکلے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت ضد اور اَنا کے باعث اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرنے،سب کو سننے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے معذور ہے تو اس کا حل نئے     قومی انتخابات ہیں نہ کہ ریاستی آئینی ڈھانچا تلپٹ کر دینا اور غیرآئینی روایات قائم کرناکوئی معقولیت ہوگی۔
        ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ’جوں کے توں‘ (stand still) منظر نامے کو تبدیل کرنا اوراس سے چھیڑ چھاڑ کرنا، بھارتی منصوبہ سازوں کی پرانی خواہشات کی تکمیل ہوگا۔ پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ’’اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد وں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا  فیصلہ کریں گے‘‘۔البتہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ’’پاکستان ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے سرِ مو انحراف کر کے ، جموں و کشمیر کی وحد ت کے ٹکڑے بانٹنے کی میز سجائے‘‘۔ پاکستان نے بھارت کی اس چال کو ہمیشہ ناکام بنایا اور بھارت نے ہر بار یہی کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان ،سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے متن سے باہر نکلے اورپھر بھارت یہ اعلان کرے کہ ’’پاکستان نے قرار دادوں سے دست برداری اختیار کر لی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پاکستان کے اصولی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، بلکہ موقف سرے سے ختم ہوجائے گا۔
         اگرچہ پاکستان کے بعض عجلت پسند سفارت کاروں نے مختلف اوقات میں مسئلہ کشمیر پر نہایت خطرناک بیان دیے ، لیکن ان افراد کی حماقتوں پر پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صاحب بازی لے گئے۔ انھوں نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنا چاہتا ہے ‘‘، اور پھر اسی آمر مطلق اور خود ساختہ حاکم نے پاکستان آبزرور کو انٹر ویو دیتے ہوئے انکشاف کیا:’’ میں نے بھارتی وزیرخارجہ نٹور سنگھ سے کہا ہے کہ آیئے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سانچے سے باہر رکھ کر ایک سال کے اندر حل کر دیتے ہیں‘‘۔ جواب میں نٹور سنگھ نے کہا:’’ہم کو اس قدر جلدی نہیں ہے‘‘۔ (روزنامہ پاکستان آبزرور،۳۱ جولائی ۲۰۰۵ء)۔ اسی احمقانہ مہم جوئی کو تب وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے ’آؤٹ آف باکس‘کوشش قرار دیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حاکم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ، کشمیر کے عوام کو نظرانداز کر کے ایسا کوئی قدم اٹھائے، کوئی عہدوپیمان کرے جو مسلّمہ موقف کے برعکس ہو۔  
         جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف ایسے بیانات دے کر، بلکہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر، اور عملاً بھارتی فوج کی مدد کرکے کشمیر اور پاکستان کے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ اسی نوعیت کی منصوبہ سازی اب گلگت بلتستان کی ’معاشی بہتری‘ وغیرہ کے نام سے نئے صوبے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ جنرل مشرف کا قدم مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت پر خود کش حملہ تھا، تو  اب دباؤ ڈال کر یہ فیصلہ لینا، پاکستان اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے غداری کی طرف لے جائے گا، جس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔  
        اس منصوبے کے پیش کاروں کی طرف سے یہ ایک بالکل بے معنی عذر پیش کیا جا رہا ہے: ’’سی پیک‘‘ (چین پاک معاشی راہداری) کے لیے چین بھی یہ چاہتا ہے کہ شمالی علاقہ جات کو یک طرفہ طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے پالیسی ساز ایسا غیرمنطقی اور غیر آئینی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ جس سے پاکستان کے قومی مفادات پر ضرب کاری لگے اور جموں و کشمیر کی ۷۳ سال پر پھیلی طویل، دلیرانہ جدوجہد اور مظلومانہ قربانیوں کی تاریخ دریابرد ہو جائے۔ آخر ’شاہراہ قراقرم‘ (KKH) اسی ’جوں کی توں‘ صورت حال میں جموں و کشمیر کے متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ’شاہراہِ قراقرم‘ سے بہتر شاہراہ کی تعمیر نے کون سے اور کس طرح سے نئے تقاضے لا کھڑے کیے ہیں کہ بین الاقوامی اور قومی معاملات کوتہہ و بالا کردیا جائے؟یاد رہے ۲۰۰۹ء میں عوامی جمہوریہ چین نے کشمیر ی باشندوں کی چین آمد کے لیے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا ، ’’جموں و کشمیر کے لوگ بھارتی پاسپورٹ کے بجائے سادہ کاغذ پر حلف نامے کے ذریعے چین کا ویزا لے سکتے ہیں‘‘۔ اس پر بھارتی حکومت نے احتجاج کیا تو چین نے بڑا مختصر جواب دیا: ’’کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ، جو بھارتی یونین کا حصہ نہیں ہے‘‘(روزنامہ The Nation ، ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)۔
        اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے ، گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دے کر عارضی [اورپھر مستقل] صوبہ بنانے کا فیصلہ کر لیا، تو اس طرح بین الاقوامی سرحد تبدیل ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں پوری لائن آف کنٹرول، خودبخود بین الاقوامی سرحد میں ڈھل جائے گی۔ اس صورت میں سارے علاقے سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ہٹ جائیں گے، اور ان مبصرین کو ہٹانا بھارت کا پرانا مطالبہ ہے۔ یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱)اور قرارداد ۱۲۲، ۱۲۶ (۱۹۵۷) کے یکسر منافی ہوگا، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے انہدام کا سبب بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت بھی مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتِ حال پر عالمی عہدوپیمان کو یکسر توڑنے کا اعلان کرکے، مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے اور آزاد کشمیر پر دست درازی کے جواز کے لیے حکمت عملی وضع کرے گا۔ پاکستان اپنی ناقابلِ فہم عجلت پسندی سے بین الاقوامی تحفظ کے تمام وعدوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔ یوں ایک گناہ بے لذت کے طور پر کشمیر کا مسئلہ ، بھارتی خواہشات کے مطابق، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دفن ہو جائے گا۔
        ایک مغالطہ یہ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ ’بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس رویہ اختیار کرکے کشمیر کی انتظامی اور آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے، تو جواب میں اگر پاکستان بھی آزادکشمیر کے ایک محدود علاقے میں ایسا کچھ کرلے تو کون سی قیامت آجائے گی؟‘‘ یہ مفروضہ بھی سخت شرانگیزی کا شاخسانہ ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ یک طرفہ طور پر بین الاقوامی عہدوپیمان سے رُوگردانی کررہا ہے، مگراس کے ایسے منفی رویے سے قراردادیں اور عالمی فیصلے تبدیل نہیں ہوئے۔ لیکن جب دوسرا فریق بھی اسی عہدشکنی کا راستہ اختیار کرے گا تو قراردادوں کی بنیاد ڈھے جائے گی اور عالمی عہدوپیمان کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ مسئلہ کشمیر کی متنازع بین الاقوامی حیثیت صرف اور صرف تقسیم ہند کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر قائم ہے، اور بھارت یہ چاہتا ہے کہ ان بنیادوں کو ختم کر دیا جائے۔
        جموں و کشمیر کی وحدت پر اس دست درازی کو زیربحث لاتے ہوئے کشمیر کی مزاحمتی قیادت، جس میں سیّدعلی شاہ گیلانی، محمد یاسین ملک، میرواعظ عمرفاروق اور دوسرے محترم قائدین شامل ہیں، ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوئی بھی تجویز ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ یہ قدم جموں و کشمیر کی وحدت اور بین الاقوامی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔اسی طرح آزادکشمیر کی قیادت، جس میں مسلم لیگ نون، مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی شامل ہیں، انھوں نے ۲۰۱۴ء میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کرکے اس ’پانچویں صوبے‘ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ اگر بھارت نے دھونس جماکر ایک غلط قدم اُٹھایا ہے تو اس کی غلطی کے جواب میں پاکستان کی جانب سے غلطی کا ارتکاب کہیں زیادہ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔   
        ہم ذرا ماضی میں جائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں نون لیگ حکومت کی قائم شدہ ’سرتاج عزیز کمیٹی‘ نے ’گلگت بلتستان کی پاکستان میں اس طرح شمولیت کی تجویز دی تھی کہ ’’این ایف سی، ایکنک وغیرہ کے ساتھ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی یہاںسے نمایندے لیے جائیں اور دیگر صوبوں کے مساوی حیثیت دی جائے‘‘۔ یوں پانچویں صوبے کا غلغلہ بلند ہوا، تو جموںو کشمیر کے طول و عرض میں اضطراب پھیل گیا اور کشمیری قیادت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ جواب میں وزیراعظم محمدنواز شریف نے ۱۶مارچ ۲۰۱۶ء کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے نام خط میں وضاحت کی: ’’پاکستان، گلگت بلتستان سے وابستہ حساس اُمور سے پوری طرح واقف ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان، جموں و کشمیر کے تنازع پراپنے اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرے گا، وہی موقف کہ جو سلامتی کونسل کی قراردادوں پرمبنی ہے‘‘۔ { FR 1176 }
        پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی اور اس کے بنیادی اجزا کو نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں گلگت اور بلتستان کو کسی شکل میں بھی پاکستان کا ایک صوبہ بنانا، اوروہاں سے پارلیمنٹ میں نام نہاد نمایندگی دینا، دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی مخالفت اورقضیۂ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہوگا۔ دستور کے الفاظ ہیں: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے، تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اُس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیےجائیں گے‘‘۔
        ۱۹۷۳ء کے دستور پاکستان میں درج یہی الفاظ، ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں بھی شامل تھے۔ اس تسلسل سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع اور ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے نام نہاد الحاق کے نام پر اپنے دستور میں جموں و کشمیر کے بارے میں دفعہ ۳۷۰ رکھی، تو پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس بھارتی اندراج کو تسلیم نہیں کیا ، اور اسے متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کا مشترکہ مسئلہ قرار دیا۔
        پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور تمام ریاستی ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ دستور ی طور پر طے شدہ وعدے کے مطابق ، مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر پر مشتمل وحد ت کی مرضی کے مطابق حل کرنے میں مدد دیں،اور اس عہدوپیمان کا احترام کریں۔ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر یا الگ الگ ، جموں و کشمیر کے مستقبل کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، تاآنکہ جموں و کشمیر کے مسلّمہ شہری ایک آزادانہ استصواب راے سے اپنی مرضی کا فیصلہ کریں۔
اندریں حالات، ہم پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ، ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اوردانش وروں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اداروں کو دستور اور قانون کا پابند بننے پر مجبور کریں اور جو سیاسی پارٹیاں اپنے غیر دانش مندانہ فیصلوں کے تحت محدود سیاسی فائدے کی اسیر ہیں، انھیںاپنی نا مناسب پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا درس دیں ۔ اگر آج روایتی کاہلی اور عجلت پسندی سے معاملات کو بگاڑا گیا تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

 

 

آج کل ’یکساں نصابِ تعلیم‘ اور پھر اس میں اسلامیات کے نصاب، اور جولائی۲۰۲۰ء میں ’تحفظ ِ بنیاد اسلام ایکٹ‘ (پنجاب حکومت)کی بحث نے ماضی کے اُفق روشن کردیے۔ پاکستان کا قیام اور نظریۂ پاکستان کی بنیاد دین اسلام اور کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔اس بنیاد کو متنازع بنانے کے لیے سیکولر عناصر نے ہمیشہ اہلِ دین ہی میں غلط فہمی پیدا کرکے پیدا شدہ کش مکش کو عام لوگوں میں بددلی پھیلانے کا کام کیا۔ سادہ لوح علما کا ایک طبقہ، ان عناصر کو ایسے شیطانی کھیل میں آلۂ کاربننے کے لیے ہرمرحلے پر ملتا رہا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک تشویش ناک کارروائی کا احوال ہماری تاریخ کا حصہ ہے، جس میں بہت سے سبق پوشیدہ اور عبرت کے نشانات نمایاں ہیں۔

یہ ۱۹۷۵ء کے اواخر کی بات ہے۔ میں پنجاب یونی ورسٹی کا طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کی تنظیمی ذمہ داری کے لیے، مولانا مودودیؒ کی رہایش گاہ ۵-اے، ذیلدار پارک کے سامنے ۴-ذیلدار پارک میں روزانہ آیا کرتاتھا۔ تب ہم تمام نمازیں مولانا مودودیؒ  کے ساتھ  اُن کے گھر کے لان میں پڑھا کرتے تھے۔ جب مولانا محترمؒ کی طبیعت ٹھیک ہوتی تو وہ نمازِ عصر کے بعد وہیں صفوں پر بیٹھے ملاقاتیوں کے سوالات کے جواب دیتے اور ہلکی پھلکی گفتگو رہتی۔ یہ سلسلہ مغرب سے کچھ دیر پہلے تک چلتا۔

ایک روز ہم نے دیکھا کہ ایک پُرجوش خوبرو نوجوان، خطیبانہ لہجے میں مولانا مودودیؒ سے کہنے لگے: ’’مولانا، بھٹو صاحب کی حکومت نےتو اسلام کو بھی تقسیم کردیا ہے۔چودہ سوسال سے اُمت ایک کلمے پرمتفق چلی آرہی ہے، لیکن اب تو کلمۂ طیبہ بھی شیعہ اور سُنّی میں تقسیم کر دیا گیا ہے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’ایسا حادثہ کب ہوا؟‘‘

نوجوان نے بتایا: ’’مولانا، یہ دیکھیے نہم، دہم اسلامیات لازمی کی کتاب میں کلمہ کے عنوان میں ’کلمہ‘ کے بجاے یہ نوٹ درج ہے: ’’اساتذۂ کرام کلمہ راہنمائے اساتذہ گائیڈ سے دیکھ کر پڑھائیں‘‘۔ اب دیکھیے مولانا ، یہ ہے مرکزی وزارتِ تعلیم اسلام آباد کی شائع کردہ گائیڈ بُک، جس میں سُنّی اور شیعہ طلبہ کے لیے الگ الگ کلمہ درج ہے‘‘۔نوجوا ن کے ہمراہ آنے والے بزرگ نے کہا: ’’مولانا، ہم آپ سے رہنمائی کے لیے حاضر ہوئے ہیں‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’یہ دونوں کتابیں میرے پاس چھوڑ دیں اور کل مغرب کے بعد آئیں‘‘۔

اس واقعے کے بعد میں نے جب اس نوجوان، اور بزرگ کے علاوہ ایک وکیل صاحب کو مولانا مودودیؒ کے ہاں وقتاً فوقتاً ملاقات کے لیے آتے جاتے دیکھا، تو ایک روز نوجوان سے تعارف حاصل کیا۔ معلوم ہوا، وہ مولانا محمد شفیع جوش، ماڈل ٹاؤن ایف بلاک مسجد کے خطیب ہیں۔ ان کے ساتھ جو بزرگ ہیں ان کا نام پیر سیّد ابرارمحمد صاحب ہے اور وکیل صاحب کو ہم جانتے تھے ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ۔

میں نے محمد شفیع صاحب سے پوچھا: ’’اُس روز کی گفتگو پر مولانا نے کیا رہنمائی فرمائی ہے؟‘‘

شفیع جوش صاحب نے بتایا: ’’مولانا نے کہا ہے کہ ’اس مسئلے کو سڑکوں پر احتجاج اور   باہم کشیدگی پیدا کرنے کے بجاے آئینی اور قانونی سطح پر حل کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں‘۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ’قانونی معاونت کے لیے میں ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ کی ذمہ داری لگاتاہوں‘۔ پھر یہ بھی کہا کہ ’اس مسئلے میں ، مَیں علمی، قانونی اور مالی سطح کی تمام ذمہ داریوں کو پورا کروں گا۔آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ عدالت میں پیش ہوں اور پوری ایمانی قوت اور اللہ کی تائیدسے جم کر کھڑے رہیں‘‘۔

ان دنوں وہ تینوں حضرات، رہنمائی حاصل کرنے اوررٹ کی تیاری کے علاوہ قومی سطح پریک جائی کی حکمت عملی بنانے کے لیے مولانا مودودی کے ہاں آیا کرتے تھے: ’’پھر چند ہفتوں کے بعد ایک نہایت جامع رٹ جنوری ۱۹۷۶ء میں لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردی گئی، جو بنیادی طورپر مولانا مودودی مرحوم و مغفور ہی کی تحریر پرمبنی تھی، تاہم اس میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا‘‘۔

اُسی ملاقات میں شفیع جوش صاحب نے مجھ سے کہا: ’’مولانا مودودی نےسختی سے ہدایت کی ہے، کہ لوگوں سے میرا ذکر نہ کیا جائے، کہ اس صورت میں عدالتی عمل کے پاؤں لڑکھڑانے کا خدشہ ہے، جس سے پیش نظر مقصد کو نقصا ن پہنچے گا‘‘۔ یوں نوجوان، جوش صاحب نے ہم عمری کی بے تکلفی سے اس نازک رازداری کا حصے داربنالیا (اس رٹ اور اس کے نتیجے میں عدالت کے فیصلے کو اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)۔

اس واقعے کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے ۴۵برس بعد مولانا محمد شفیع جوش صاحب سے گذشتہ دنوں جو ملاقات ہوئی، تو اس میں متعلقہ اُمور کی وضاحت ممکن ہوئی، جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے: محترم شفیع صاحب نے بتایا: ’’رٹ دائر کرنے کے بعد مولانا مودودی نے مشورہ دیا کہ اب آپ مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ (م:۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء) لاہور، مفتی محمد شفیع ؒصاحب (م: ۶؍اکتوبر ۱۹۷۶ء) کراچی، خواجہ قمرالدین سیال شریف (م: ۲۰ جنوری ۱۹۸۱ء) سے بھی جاکرملیں اورمقدمے کی صورتِ حال پر ذاتی سطح پر بات کریں‘‘۔

 ان اکابر علما سے ملنے کے بعد ہم نے راولپنڈی میں مولانا غلام اللہ خان (م: ۲۶مئی ۱۹۸۹ء) اور پیراختر حسین شاہ علی پوری (م: ۱۶؍اکتوبر ۱۹۸۰ء) سے بھی ملاقات کی، جنھوں نے اپنا تعاون پیش کرتے ہوئے بہ اصرار ہمیں مالی معاونت لینے کے لیے کہا تو ہم نے بڑے ادب سے ان کو بتایا: ’’کلمۂ طیبہ کے تحفظ کے لیے جملہ سفری اور عدالتی اخراجات کا کُلی ذمہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ذاتی طورپراُٹھا لیا ہے، اس لیے اس ضمن میں کسی فرد یا جماعت سے مالی ضرورت کی حاجت نہیں رہی‘‘ تو ان حضرات نےمولانا کی عظمت اور ان کے جذبۂ اسلامی کو سراہتے ہوئے مولانا کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ ہم نے واپسی پر یہ تشکر بھرے جذبات جب مولانا مودودی کی خدمت میں پہنچائے تو مولانا مودودیؒ نے ہمیں انھی قدموں ان حضراتِ علما کے پاس اپنے خرچ پر واپس بھیجا اورفرمایا: ’’انھیں وعلیکم السلام کہیں اور میری طرف سےشکریہ ادا کریں‘‘۔ اکابرین ملّت اسلامیہ کے اس اسوہ کا ایمان افروز مظاہرہ میری زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے‘‘۔

شفیع صاحب نے مزید کہا:’’اتفاق سے ان دنوں امام مسجد نبوی مدینہ منورہ، پاکستان آئے ہوئے تھے اور اُنھوں نے بادشاہی مسجد لاہورمیں نماز جمعۃ المبارک کی امامت فرمائی ، جس میں پنجاب بھرسے لاکھوں اہلِ ایمان شریک ہوئے۔ اس موقعے پر لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ رٹ کا اُردو ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں ہم نے شائع کرکے تقسیم کیا، جو پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ تب ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کا دورِ حکومت تھا۔ اسی دوران شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی بھی پاکستان آئے [۸مارچ ۱۹۷۶ء] تھے۔ ہمارا قیاس ہے کہ انھوں نے دیگراُمور کے علاوہ اس موضوع پر بھی بات کی ہوگی۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر ہم نے رٹ دائر کرنے سے قبل ہی محترم آیت اللہ محمدکاظم شریعت مداریؒ [م: ۳؍اپریل ۱۹۸۹ء]، ایران سےفتویٰ حاصل کرکے شیعہ موقف بھی رٹ میں شامل کرلیا تھا کہ شیعہ بھائیوں کے نزدیک بھی کلمۂ اسلام صرف ’لا الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘ ہے‘‘۔

مولانا جوش صاحب نے بتایا: ’’لیکن حکومت پاکستان دوسری جانب سے دباؤ میں نظر آرہی تھی، جس کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمداقبال [م: ۵مئی ۲۰۰۸ء] کو اسلام آباد طلب کرکے بہرقیمت مقدمے کا فیصلہ کرنے سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی۔ اسی طرح ہمیں بھی خوف اور لالچ سے مقدمے کی پیروی سے باز رکھنے اور دوسری جانب مقدمے کو طوالت کا شکار کرنے کا کام شروع ہوا۔ اسی دوران آل پاکستان شیعہ کانفرنس کے صدراور چند روزپہلے تک فرانس میں پاکستان کے سفیر آغا مظفرعلی خاں قزلباش صاحب [م: ۲۱ستمبر۱۹۸۲ء] نے ایک جلسے میں کلمۂ اسلام کی رٹ دائر کرنے پر ہم دونوں کو ’کانگریسی مُلّا اور پاکستان کا مخالف قراردیتے ہوئے کلمۂ اسلام مقدمے کو پاکستان توڑنے کی سازش‘ قرار دیا۔ آغا قزلباش صاحب کوسابق چیف جسٹس محمد منیر [م: ۲۶جون ۱۹۸۱ء]کی معاونت حاصل تھی۔ ان کو باور کرایا گیا کہ ’’رٹ کنندہ محمد شفیع کی پیدایش تو ستمبر ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی، ان پر پاکستان کی مخالفت کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے؟‘‘ اس طرح یہ الزام اپنی موت آپ مرگیا۔ سماعت سے پہلے ہم پر دباؤ ڈالا گیا کہ یہ رٹ واپس لی جائے، کہ کلمۂ طیبہ پہلی ہی صورت میں نصاب کے اندر شامل کردیا جائے۔ چیف جسٹس سردار محمد اقبال صاحب نے ہمیں چیمبر میں بلایا اور قومی حالات کی طرف توجہ دلا کر فرمایا: ’’یقین دلاتا ہوں واحد کلمے کی بحالی ہوجائے گی، اس لیے رٹ واپس لے لیں اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو میں رٹ خارج کردوں گا‘‘۔ اسی طرح ایک صوبائی سیکرٹری نے کہا کہ ’’رٹ واپس لینے کی صورت میں آپ کو حکومت کچھ انعام و اکرام سے بھی نوازنے کا ارادہ رکھتی ہے۔خواہ مخواہ مسئلے کو آگے نہ بڑھائیں‘‘۔

مولانا شفیع صاحب نے بتایا: ’’جب لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ اور حکومت کے ایک سیکرٹری کی جانب سے دباؤ بڑھا تو ہم نے سوچنے کے لیےوقت مانگا اور اگلی تاریخ کی استدعا کی، جو صرف اگلے روز تک منظور کرلی گئی۔ یوں صرف ایک رات کے وقفے میں ہم نے مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوکرساری رُوداد بیان کی۔ ارشاد احمد قریشی صاحب بھی ہمراہ تھے۔ ہم نے مولانا مودودی سےعرض کیا: ’’حکومت ِ پاکستان نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ کلمۂ اسلام سابقہ پوزیشن پر نصاب میں بحال کردیا جائے گا۔ اور یہ کہ مجوزہ نظرثانی شدہ کتب نصاب، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی پیش کردی گئی ہیں کہ آیندہ کچھ عرصے میں مطالبہ پورا ہورہا ہے،اس لیے رٹ واپس لے لیں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔

مولانا مودودی نے گہری توجہ اور فکرمندی سے تفصیل سننے کے بعد ہم سے ارشادفرمایا: ’’یہ ایک مضبوط مقدمہ ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ حکومت غلطی کا احساس کرکےازالہ کررہی ہے، مگروہ یہ سب باتیں آف دی ریکارڈ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح آپ رٹ واپس لے لیں گے اور آیندہ نصاب میں اگرکبھی ایسی حرکت ہوئی تو پھررجوع کرنا بہت مشکل ہوجائے گا، اب لہٰذا یہ ’رٹ‘  آپ کا ذاتی معاملہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ ملّت اسلامیہ کی ترجمانی اور ایک امانت ہے۔ آپ کو ’رٹ‘ واپس لینے کا شرعی اختیار نہیں ہے۔ اس لیے آپ مکمل ثابت قدمی اختیار کریں اور عدالت میں جاکر کہیں کہ وہ آئین اور قانون کے تحت فیصلہ کرے‘‘۔

اگلے روز ۱۰ بجے سردار محمد اقبال چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کمرئہ عدالت میں مجھ سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آپ کا مطالبہ مان لیا گیا ہے، اس لیے رٹ واپس لے لیں‘‘۔ گذشتہ رات مولانا مودودی کے بیان کردہ الفاظ نے ہمیں ایک ایمانی قوت عطا کردی تھی، اس لیےبھری عدالت میں اعلیٰ حکام، وکلا اور جج صاحب کو مخاطب کرکے رٹ واپس لینے کے بجاے میں نے بیان ریکارڈ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ چیف جسٹس نے غصّے میں فرمایا:’’حکومت تو نصاب  درست کرنے کا مطالبہ مان رہی ہے، تو اب آپ لوگ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے معلوم نہیں کس طرح بھری عدالت میں بلندآواز میں عرض کیا: ’’جناب عزّت مآب چیف جسٹس صاحب! رٹ کلمۂ اسلام پر دعویٰ استقرارِ حق قرار دیا جائے کہ کلمۂ اسلام صرف لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اس لیے فیصلہ دے کر ایمان بچا لیں یا مسترد کرکے نوکری بچالیں‘‘۔ اس پر بھری عدالت میں سناٹا چھاگیا۔ چیف جسٹس صاحب نے غصّے میں عدالت برخواست کردی۔ ہم ہائی کورٹ سے نکل کر سیدھے مولانا مودودی صاحب کے پاس پہنچے۔ شرفِ ملاقات پر مولانا کو مختصر ترین کارروائی کی یہ رُوداد سنائی تو محترم مولانا مودودی نےمسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اب فیصلہ جو بھی ہو، آپ اور ہم بری الذمہ ہیں‘‘۔

مولانا شفیع صاحب نے مزید بتایا: ’’جسٹس صاحب اس روز خلافِ عادت ہائی کورٹ سے ۱۱بجے دن گھرپہنچے تو خود جسٹس سردار اقبال صاحب نے ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد مجھے بتایا کہ ’’یوں گھر خلافِ معمول آمد پر میری اہلیہ نے پوچھا: طبیعت تو ٹھیک ہے، آج آپ بہت جلد گھرآگئے ہیں‘‘۔ کہا کہ ’’ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مولوی جو عدالتی آداب سے یکسرناواقف ہے، اس نے بھری عدالت میں مجھے کہا: ’’رٹ کلمہ منظور کرکے ایمان بچالیں یا مستردکرکے نوکری بچالیں۔ کیسے غیرمہذب ہوتے ہیں یہ مولوی لوگ۔ یہ سن کر طبیعت موزوں نہیں رہی تو گھر آگیا ہوں اور ساتھ ہی وہ فائل قریب رکھے ٹیبل پر دے ماری۔ میری اہلیہ گویا ہوئیں: ’’آپ رٹ منظورکرکے ایمان محفوظ کرلیں، نوکری کی فکر نہ کریں، اللہ مالک ہے‘‘ ۔ سردار اقبال صاحب نے بتایا کہ بیگم کے اس بے ساختہ اورمعصومانہ مشورے نے مجھے پریشانی سے نجات دلا کر غصہ ختم کردیا‘‘۔

شفیع صاحب کے بقول: ’’چیف جسٹس سردار محمد اقبال نے کہا: ’’پھر آپ کو معلوم ہے کہ میں نے کلمۂ طیبہ کیس ایک روز کی سماعت کے بعد منظور کرلیا اور اس ایمانی فیصلے سے طبیعت بحال و مطمئن ہوئی‘‘۔اور اس کے بعد یہ بھی امرواقعہ ہے کہ چند ہی روز بعد حکومت پاکستان کی ناراضی کے باعث، اس ترمیم کی بنیاد پر (کہ چیف جسٹس چارسال تک ہوگا) سردار محمد اقبال صاحب بطورِ چیف جسٹس فارغ کر دیے گئے [یاد رہے کہ حکومت نے جسٹس اقبال صاحب سے کہا تھا کہ آپ سینیر جج کے طور پر عدالت میں کام کرتے رہیں، مگرسردارصاحب نے صرف۵۴برس کی عمر میں عدالت کا منصب چھوڑ کر گھر آجانا پسند فرمایا۔ جو ہماری عدالتی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے،مرتب]۔ واقعی بیگم عفت اقبال کے ایمانی مشورے سے جسٹس سردار محمد اقبال نے رٹ منظور کرکے ایمان بچانے کا ثبوت دیا اور نوکری ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی‘‘۔

مولانا محمد شفیع صاحب نے بتایا: ’’میں نے سردار محمد اقبال صاحب سے کہا: میں بھی آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس مقدمے کے پیچھے دراصل خاموشی سے مولانا مودودی تھے‘‘۔ اس پر سردار صاحب نے کہا: ’’یہ تو بہت ہی اچھاہوا کہ اُس وقت مجھے یہ بات معلوم نہ ہوئی، اوراگر یہ پتا چل جاتا تو مقدمے کے ساتھ میرا رویہ مختلف ہوتا‘‘۔ یوں انھوں نے اُس بے خبری پر مسرت کا اظہار کیا۔

’’سردار محمد اقبال صاحب نے اسی ملاقات میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر کلمۂ پاک کی خدمت میں آپ کو روزِقیامت اجرملے تو مجھےبھی یاد رکھنا۔ یہ کہہ کران کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور مجھ جیسے گنہگار نے نم پلکوں سے وعدہ کیا کہ اگراللہ ربّ العالمین نے میری خطاؤں سے چشم پوشی کرتے ہوئے کلمۂ اسلام کی برکت سے، کرم وفضل سے نوازا تواپنے ربّ سے عرض نوا ہوں گا کہ اس میں پہلے چیف جسٹس محمد اقبال اور اُس کے بعد جو مالک و محبوب کو منظورہو‘‘۔

اب پیش ہے رٹ اور مقدمے کا فیصلہ!

___’رٹ پٹیشن‘___

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 رٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹/۱۹۷۶ء، لاہور ہائی کورٹ

پیرابرار محمدو محمدشفیع جوش بنام حکومت ِ پاکستان بوساطت سیکرٹری تعلیم اسلام آباد (مسؤل الیہ)

رِٹ درخواست براے قراردیے جانے کہ اصل اورحقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اور مسؤل علیہ کا اقدام جس کے ذریعے اس نے ملک کے اندر نہم ودہم جماعت کے طالب علموں کے لیے ایک مختلف کلمہ تجویز اور شائع کیا ہے ، کوئی قانونی جواز اور قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔

مؤدبانہ گزارش ہے:

۱- یہ کہ پاکستان مسلمانانِ بر صغیر کی ان مساعی کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا، جو انھوں نے اسلامی نظام قائم کرنے اور اسلامی احکام کے مطابق ایک حکومت قائم کرنے کے لیے کیں۔

۲- یہ کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر ۲ میں اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا اور آرٹیکل نمبر ۱ میں اسے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا نام دیا گیا ہے۔

۳- یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق اسلام کے پانچ ستون ہیں ، جنھیں ارکان اسلام کہا جاتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

بُنِیَ الْاِسْلَامٌ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ  اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ ، وَاِقَامِ الصَّلوٰۃِ  وَاِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ  وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (بخاری، جلد اول ) اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں : اوّل: شہادت دینا اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ دوم: نماز قائم کرنا، سوم: زکوٰۃ ادا کرنا۔ چہارم: حج کرنا۔ پنجم: رمضان کے روزے رکھنا۔

پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور مستند حدیث میں درج انھی پانچ چیزوں کو اسلام قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

اَلْاِسْلَامُ اَنْ   تَشْھَدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ  وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ وَتُقِیْمَ الصَّلوٰ ۃَ وَتُؤْتِیْ الزَّکٰوۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (مسلم، جلد اول کتاب الایمان) اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر طاقت ہو۔

۴-یہ کہ مذکورہ بالا حوالہ جات سے بالکل واضح ہے کہ ایک غیر مسلم کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے سب سے اوّل کلمے کا علانیہ اقرار کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا، خواہ وہ مذکورہ بالا دیگر چارشرائط پوری کرتا ہو۔ اس لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ کلمے کو اس کے الفاظ اور معانی کے ساتھ تحفظ دیا جائے، اور کلمے کے الفاظ میں کسی قسم کی تبدیلی یا اضافے کی نہ تو اجازت دی جائے، اور نہ ایسا کوئی اقدام برداشت ہی کیا جائے۔

۵- یہ کہ مدّعا علیہ نے اسلامیات کے مضمون کو، جو کہ ثانوی سکول کے امتحانات طلبہ و طالبات کے لیے لازمی ہے، دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے ایک سُنّی مکتبِ فکر کے طالب علموں کے لیے اور دوسرا شیعہ مکتبِ فکر کے لیے تجویز کی گئی ہیں۔

۶- یہ کہ کتاب موسومہ اسلامیات لازمی، جو شیعہ مکتب فکر کے نہم و دہم جماعت کے طالب علموں کے لیے شائع کی گئی ہے، اس کے صفحہ ۴۶ پر ’عبادات‘ کے عنوان کے تحت کلمے کے بارے میں درج ذیل الفاظ تحریر کیے ہیں:

’’استاد صاحب شیعہ بچوں کو ان کے مسلک کے مطابق رہنمائے اساتذہ  میں دیکھ کر کلمہ بتائیں گے‘‘۔

۷- یہ کہ مدّعا علیہ نے رہنمائے اساتذہ  نام کی ایک کتاب نہم ودہم کے اسلامیات کے نصاب کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے شائع کی ہے (یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیعہ اور سُنّی طبقے سے متعلق طالب علموں کے لیے تجویز کردہ کتب اسلامیات میں کلمۂ اسلام کا متن درج ہی نہیں کیا گیا ہے ) اور اساتذہ اسے صرف رہنمائے اساتذہ   نامی کتاب کی مدد سے پڑھائیں گے۔

۸- یہ کہ رہنمائے اساتذہ   نامی کتاب کے صفحہ ۳۵ پر کلمے کا ایک باب ہے، جس کے پہلے پیرا گراف میں مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ہیں:

’کلمہ ‘اسلام کے اقرار اور ایمان کے عہد کا نام ہے ۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہوجاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اقرار امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔ کلمے کے تین حصے ہیں‘‘۔

اسی باب میں صفحہ ۳۶ پر کلمہ کا متن درج ذیل الفاظ میں درج ہے:

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

۹- یہ کہ رہنمائے اساتذہ   کے مذکورہ بالا باب سے یہ بالکل واضح ہے کہ وہ شخص جو اس باب میں دیے (لکھے )گئے کلمہ کا علانیہ اقرار وتصدیق نہیں کرتا ،مسلمان نہیں بن سکتا ۔ اس کی رُو سے زمانۂ رسالتؐ سے لے کر قیامت تک کے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد غیر مسلم اور کافر قرار پاتی ہے۔

۱۰- یہ کہ مذکورہ بالا کلمہ کی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمۂ اسلام کے طور پر کبھی تعلیم نہیں دی اور نہ اس کا کبھی اعلان کیا۔ نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ حیات طیبہ میں اسلام میں داخل ہونے والے کسی شخص نے اس کلمے کا اقرار کیا۔ پھر یہ کلمہ ہرگز وہ کلمہ نہیں ہے، جسے: حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ،  حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے کہ جو نبوت کے ابتدائی دنوں پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام میں داخل ہونے والوں میں اوّلین افراد تھے، کبھی پڑھا ہو۔ اس کلمے کا شیعہ مکتب فکر کی مستند کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی ذکر تک نہیں ملتا ۔ درحقیقت کلمے کے الفاظ اور حروف (متن )کے بارے میں آغاز اسلام سے گذشتہ چند برسوں تک مختلف مکاتب ِفکر کے مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ کچھ عرصہ پیش تر بلاجواز کلمے میں درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے:

عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

مذکورہ بالا اضافی الفاظ بجاے خود اس حقیقت کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ اصل اور حقیقی کلمے کا حصہ نہیں ہو سکتے اور یہ کہ اُن کا بعد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس بحث کے حق میں اہلِ تشیع علما کی تصنیف کردہ کتابوں کے (جن پر شیعہ مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مکمل اعتماد ہے) مندرجہ ذیل اقتباسات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے :

                  (۱)            عَنْ جَمِیْلِ بْنِ  دَرَاجٍ  قَالَ سَاَلْتُ اَبَا عَبْدِاللہِ   عَنِ الْاِ یْمَانِ  فَقَالَ شَھَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا عَمَلٌ قَالَ بَلٰی فَقُلْتُ فَالْعَمَلُ مِنَ الْاِیْمَانِ؟  قَالَ لَا یَثْبُتُ لَہُ  الْاِیْمَانُ اِلَّا بِالْعَمَلِ وَالْعَمَلُ مِنْہُ (اصول کافی، جلددوم، ص ۵۵) جمیل بن دراج سے روایت ہے کہ میں نے ابوعبداللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام) سے ایمان کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’گواہی دینا اس کی، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ہیں‘‘۔ راوی نے کہا کہ کیا یہ عمل نہیں، فرمایا: ’’ہاں ہے‘‘۔ میں نے کہا تو کیا عمل ایمان کا جزوہے ؟فرمایا : ’’ایمان بدونِ عمل ثابت نہیں ہوتا اور عمل اس کا جزو ہے۔

                  (۲)            فَلَمَّا اَذِنَ اللہُ لِمُحَمَّدٍ فِی الْخُرُوْجِ مِنْ مَکَّۃَ اِلَی الْمَدِیْنَۃَ  بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ  وَرَسُوْلُہٗ  وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ   وَ اِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَحَـجِّ  الْبَیْتِ وَصِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ (اصول کافی، جلد دوم، ص ۴۶)

                                    جب اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی تو اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی:۱-گواہی دینا اس کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے عبد اور رسولؐ ہیں،۲- قائم کرنا نماز کا ،۳-زکوٰۃ دینا، ۴-حج کرنا اور، ۵-ماہِ صیام میں روزے رکھنا۔

                  (۳)            پھر وحی کی کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )لوگوں کے پاس جاؤ اور کہو کہ : لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  کا اقرار کریں(حیات القلوب، ج ۲، ص ۴۳، مؤلفہ: علامہ مجلسی ، ترجمہ مولوی سید بشارت حسین کامل)

                  (۴)            اگر کافر شہادتین بگوید ، یعنی بگوید: اَشْھَدُ  اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ  وَرَسُوْلُہٗ  مسلمان می شود (توضیح المسائل مجموعہ فتاوٰی، سید محمد کاظم شریعت مداری، ایران ص۳۹)

۱۱- یہ کہ تمام اسلامی مکاتب ِفکر کی مذہبی کتابوں میں اس کلمے کا کہیں ذکر نہیں جو مذکورہ بالا کتاب رہنمائے اساتذہ  (مطبوعہ:حکومت پاکستان، اسلام آباد ۱۹۷۵ء)کے ص ۳۶ پر درج ہے۔

۱۲- یہ کہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۱ کے تحت مدعا علیہ پر یہ لازم ہے کہ وہ ایسے اقدام کرے، جو مسلمانانِ پاکستان کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی مرتب کرنے میں معاون ہوں اور ایسی سہولتیں فراہم کرے جن کے ذریعے وہ قرآن مجید اور سنت کی منشا کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھیں،مگر اس کے برعکس مدعا علیہ کا یہ فعل آئین کی مذکورہ بالا دفعات کے منافی ہے۔

۱۳-یہ کہ مدعا علیہ اس کلمے کے سوا، جس کی تعلیم پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، کسی اور کلمے کے جاری کرنے کا قانونی طور پر مجاز نہیں ہے۔

۱۴- یہ کہ مدعا علیہ کا فرض ہے کہ نہم ودہم کے طلبہ کے لیے اسی کلمے کی تعلیم دے ، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے مسلمانوں کو پڑھایا ہے۔

۱۵- یہ کہ مدعیان کے لیے سواے اس رٹ پٹیشن گزارنے کے اور کوئی چارۂ کار نہیں رہا ہے۔ ان حالات میں نہایت ادب سے استدعا کی جاتی ہے کہ اس امر کا اعلان کیا جائے کہ اصل اور حقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے ۔ اور مسؤل علیہ کا اقدام جس کے ذریعے اس نے مختلف کلمہ تجویز کیا ہے یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا۔

مزید درخواست کی جاتی ہے کہ مدعا علیہ کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہم دہم کے طلبہ کے لیے مخصوص اسلامیات (لازمی) اور مذکورہ بالارہنمائے اساتذہ  کی کتابوں میں (ہدایات کے مطابق ) مناسب ترامیم کریں۔

نیز یہ بھی استدعا کی جاتی ہے کہ مسؤل علیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے علاوہ کسی دیگر کلمے کا اجرا کرنے ، تسلیم یا شائع کرنے یا طالب علموں کے کورس میں شامل کرنے سے منع کر دیا جائے۔

سائلان

پیر سید ابرار محمد ، محمد شفیع جوش

بذریعہ ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ

___فیصلہ ، اُردو ترجمہ ___

از:جناب محمد اقبال چیف جسٹس

۱۹۷۵ء میں حکومت پاکستان نے وزارت ِ تعلیم کے ذریعے ایک کتاب بنام رہنمائے اساتذہ  شائع کی، تا کہ اس سے ثانوی مدارس کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے خطوط مقرر ہوں۔

اس کتاب کا پہلا حصہ تمہیدی ہے اور بتایا گیا ہے کہ طلبہ کی نوجوان نسل کو کیوں اور کس طریق پر اسلامیات کی تعلیم دی جائے؟ کتاب کے حصہ دوم میں اسلام کے کچھ بنیادی اصول جن پر اہل سنت والجماعت کے مختلف مکاتبِ فکر کا اتفاق ہے، درج کیے گئے ہیں ۔ کتاب کا حصہ سوم صرف شیعہ طلبہ کے لیے ہے۔

کتاب کے حصہ سوم میں جو صفحہ ۳۵ سے شروع ہوتا ہے ، سبق پڑھانے والے استاد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں پر کلمے کی اہمیت اچھی طرح واضح کرے۔ آگے چل کر کتاب کے اسی صفحہ ۳۵ پر من جملہ اور باتوں کے ، یہ کہا گیا ہے:

کلمہ، اسلام کے اقرار وایمان کے عہد کا نام ہے ، کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اقرار اور امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔   ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔

پھر صفحہ ۳۶ کے آخر کے نزدیک بتایا گیا ہے کہ کلمہ یہ ہے:

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

اس کا ترجمہ جو صفحہ ۳۷ پر دیا گیا ہے ،یہ ہے:

یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت علیؑ، اللہ تعالیٰ کے ولی اور رسول کریم کے وصی اور بلا فاصلہ خلیفہ ہیں۔

۲- موجودہ رٹ درخواست میں جو ۲۱ جنوری ۱۹۷۶ء کو پیر سید ابرار محمد صدر تنظیم الائمہ لاہور (خطیب جامع مسجد دارالحق ، ٹاؤن شپ سکیم ، لاہور)اور مولانا محمد شفیع جوش (مہتمم مرکز اشاعت اسلام جامع مسجد ایف بلاک ، ماڈل ٹاؤن ، لاہور)کی طرف سے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت دائر کی گئی ہے ، مدعیان نے کلمے کی اس صورت پر: جس میں وہ محولہ بالا کتاب رہنمائے اساتذہ  کے صفحہ ۳۶ پر درج ہے، اور اس کے ترجمے پر جو صفحہ ۳۷ پر ہوا ہے، اور صفحہ ۳۵ کی اس تحریر پر جو فیصلہ ہٰذا کے پہلے پیراگراف میں دیا گیا ہے ، اعتراض کیا ہے اور استدعا کی ہے کہ عدالت یہ قرار دے کہ اصل اور حقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے اور مسؤل علیہ کا وہ اقدام جس کے ذریعے اس نے ایک مختلف کلمہ تجویز کیا ہے، یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا۔

۳- اس سے پہلے درخواست کی سماعت کے لیے کوئی تاریخ مقرر کی جا سکتی ، درخواست گزاروں نے آئین کی دفعہ ۲۰۴ کے تحت ۲ مارچ ۱۹۷۶ء کو ایک درخواست توہین عدالت (۷۶-۳۱- w) دائر کر دی، جس میں الزام لگایا گیا کہ ’’کل پاکستان شیعہ کانفرنس کے صدر مظفر علی قزلباش نے ۲۷فروری ۱۹۷۶ء کو شیعہ رہنماؤں اور کارکنوں کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی، اور زیر تصفیہ رِٹ درخواست کے نفس مضمون کا حوالہ بھی دیا‘‘۔ اس درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’’اس معاملے پر الزام علیہ کی طرف سے اظہار راے، جب کہ وہ ابھی عدالت میں زیرِ سماعت تھا، عدالت ہٰذا کی سنگین اور سخت توہین کے مترادف ہے۔ لہٰذا، اسے مناسب سزا دی جائے‘‘۔

۴- شیخ مظہر علی جاوید، جنرل سیکرٹری شیعہ میوچل سوسائٹی پاکستان (رجسٹرڈ) نے بھی ایک درخواست توہین عدالت (۷۶-۳۲- w) گزاری ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ’’عوام میں رٹ درخواست کے مندرجات کی نقول تقسیم کر کے بہت زیادہ تشہیر کی گئی، نیز یہ کہ رٹ درخواست کا ترجمہ اردومیں کیا گیا، اور اس کی نقلیں عوام میں وسیع پیمانے پر اس اپیل کے ساتھ تقسیم کی گئیں کہ  وہ ۷ مارچ کو اس مقدمے کی کارروائی سنیں‘‘۔ اس درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’’مقدمے کی تاریخ سماعت کے مقرر کیے جانے سے پہلے اردو اور انگریزی میں رٹ درخواست کی اشاعت اور اس کی تقسیم پاکستان کی ایک خاصی بڑی آبادی کے خلاف ایک تحریک کی صورت پکڑ گئی، چونکہ رٹ درخواست پیش کرنے والوں، ان کے قانونی مشیر اور طابع (قیصر پرنٹرز لاہور) کا یہ فعل مقدمے کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے، لہٰذا ان کے خلاف آئین کی دفعہ ۲۰۴ کے مطابق عدالتی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اب میں ان تینوں مقدمات کا فیصلہ، یعنی رٹ درخواست ۱۵۹ بابت ۱۹۷۶ء ،فوجداری اصل نمبر ۳۱  ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ء اور فوجداری اصل نمبر ۳۲ ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ ء اپنے حکم کے ذریعے کر رہاہوں۔

۵- یہ معاملہ جناب وزیراعظم [ذوالفقار علی بھٹو] کے علم میں آیا، تو انھوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمہ کے لیے، جو قومی سالمیت اور مختلف طبقات میں ہم آہنگی کے لیے لازم ہے، حسب معمول جذبے سے کام لیتے ہوئے فوری کارروائی کی ۔ چنانچہ شیعہ اور سُنّی مکاتب ِفکر کے علما کا ایک اجلاس [وفاقی] وزیر تعلیم کی سرپرستی میں طلب کیا گیا اور معقول بحث وتمحیص کے بعد ایک نئی کتاب اسی نام یعنی رہنمائے اساتذہ کے ساتھ شائع کی گئی ۔ دونوں کتابوں کے فرق کو نمایاں کرنے کے لیے متعلقہ اقتباسات کو ذیل میں ایک دوسرے کے بالمقابل درج کیا جاتا ہے:

پہلے شائع شدہ کتاب

نئی (ترمیم شد ہ )کتاب

’’کلمہ، اسلام کے اقرار اور ایما ن کے عہد کا نام ہے۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے۔ کلمہ توحید ورسالت ماننے کا اقرار اور امامت

’’کلمۂ طیبہ، اسلام کے اقرار کا نام ہے۔ کلمہ  توحید ورسالت کا اقرار ہے‘‘۔ (ص ۳۵)

پہلے شائع شدہ کتاب

نئی (ترمیم شد ہ )کتاب

کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے‘‘۔ (ص ۳۵)

کلمہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ (ص ۳۶) ، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ہیں اور حضرت علی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے ولی اوررسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اوربلافاصلہ خلیفہ ہیں۔(ص ۳۷)

کلمۂ طیبہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ سے کافرمسلمان ہوتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود نہیں مانتے، اور حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسولؐ ہیں۔اُن کے بعد کوئی نبی و رسولؐ نہیں آئے گا۔

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  سے شیعہ، توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اورشیعیت کا اظہار کرتے ہیں‘‘ (ص ۳۶)

رہنمائے اساتذہ  کے ترمیم شدہ ایڈیشن کے ساتھ ہی حکومت نے دو اور کتابیں شائع کیں، جن کا نام ’’اسلامیات (لازمی ) ہے، اور جو نویں اور دسویں جماعتوں کے شیعہ اور سنی طالب علموں کے درسی نصاب پر مشتمل ہیں۔ سنی طلبہ کی کتاب فیصلہ ہٰذا کے ساتھ بطور ’ضمیمہ سی ‘اور شیعہ طلبہ کی کتاب بطور ’ضمیمہ ڈی ‘ منسلک ہیں ۔ضمیمہ جات ’سی ‘ و ’ڈی‘ میں جو کلمۂ طیبہ علی الترتیب صفحات ۴۸ اور ۵۲ پر درج ہوا ہے، وہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ ہے ۔

۶- مقدمات ۹ جون ۱۹۷۶ء کو سماعت کے لیے پیش ہوئے تو مدّعیان نے اپنی رٹ درخواست میں مندرجہ ذیل بیان دیا:بیان منجانب :

(۱) پیر سید ابرار محمد ولد پیر سید اعجاز محمد صدر تنظیم الائمہ لاہور، خطیب جامع مسجد دارالحق، ٹاؤن شپ سکیم لاہور۔

(۲) مولانا محمد شفیع جوش ولد مولانا محمد اعظم، مہتمم مرکزِ اشاعت اسلام جامع مسجد ایف بلاک، ماڈل ٹاؤن لاہور۔

(۱) ہم نے رِٹ درخواست نمبر۱۵۹/۱۹۷۶ کے ذریعے کتاب رہنمائے اساتذہ کی  مندرجہ ذیل تحریروں پر، جو اس کے صفحات ۳۵،۳۷ پر درج ہیں، اعتراض کیا تھا ، یہ کتاب مدّعا علیہ نے وزارت تعلیم کے شعبۂ نصابات کی ری پروڈکشن یونٹ کے ذریعے ۱۹۷۵ء میں اسلام آباد سے شائع کی:

کلمہ :اسلام کے اقرار اور ایمان کے عہد کا نام ہے ۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہوجاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اور اقرار امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔

کلمہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ ،یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت علی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے ولی اور اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اور بلا فاصلہ خلیفہ ہیں‘‘۔

(۲)  یہ رِٹ درخواست ابھی عدالت میں زیر تصفیہ تھی کہ مدّعا علیہ نے ایک اور کتاب اسی نام کے ساتھ شائع کی، جس کا حصہ سوم صرف شیعہ طالب علموں کے لیے ہے۔

اس کے صفحات ۳۵-۳۶ پر مندرجہ ذیل تحریر چھپی ہے :

’’کلمۂ طیبہ، اسلام کے اقرار کا نام ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت کا اقرار ہے‘‘۔

کلمۂ طیبہ : لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے ، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مانتے اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسول ہیں، ان کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں آئے گا‘‘۔

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  سے شیعہ توحید ورسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں۔

چونکہ اس کتاب میں یہ بالکل واضح کردیا گیا ہے کہ کلمۂ طیبہ صرف لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے،اس لیے وہ اعتراض جو ہم نے پہلے اُٹھایا تھا، اب باقی نہیں رہتا۔

دوسرے بیان لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ سے شیعہ توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرر اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں‘‘ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ صرف شیعہ طالب علموں کے لیے ہے۔

(۳) چونکہ نئی کتاب کے شائع ہونے سے ہماری شکایت کا تدارک ہوگیا ہے، اس لیے ہم اپنی رٹ درخواست پر کارروائی کے لیے اصرار نہیں کریں گے۔ لہٰذا ، اس کا فیصلہ ہمارے بیان کے مطابق کردیا جائے۔سیّد افضل حیدر اور سیّد ولایت حسین حیدری نے بھی (جو شیخ مظہرعلی جاوید کی طرف سے درخواست توہین عدالت نمبر۳۲، ڈبلیو، بابت ۱۹۷۶ء میں وکیل ہیں) مندرجہ ذیل بیان داخل کیا:

’’ہم نے کتاب موسومہ رہنمائے اساتذہ کے نئے ترمیم شدہ ایڈیشن کا مطالعہ کیا جس کے حصہ سوم کے ص ۳۶ پر شیعہ طلبہ کے لیے درج ہے:

کلمۂ طیبہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ سے کافر مسلمان ہوتا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں مانتے اور حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسول ہیں۔ اُن کے بعد کوئی نبی و رسولؐ نہیں آئے گا۔ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ سے شیعہ توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اورشیعیت کا اظہار کرتےہیں۔

۶- ہم نے پیر سید ابرار محمد اور مولانا محمد شفیع جوش کے بیانات رِٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹ میں اور مسٹر ارشاد احمد قریشی کا بیان درخواست توہین عدالت نمبر ۷۶ w  ۳۱ میں سن لیا ہے ۔ بطور اظہار خیر خواہی ہم بھی فوجداری اصل نمبر۳۲ ڈبلیو ۱۹۷۶ء پر اب کوئی مزید کارروائی نہیں چاہتے ،لہٰذا درخواست کا فیصلہ بھی ایسے ہی ہو جائے گا‘‘۔

فوجداری اصل نمبر ۳۱ ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ء میں مدّعیان کے وکیل مسٹر ارشاد احمد قریشی نے بھی ایک بیان ان الفاظ میں دیا:

 نئی تالیف کے شائع ہونے کے پیش نظر میرے مؤکلوں نے رِٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹ میں یہ بیان دیا ہے کہ اب چونکہ ان کی شکایت کا تدارک ہو گیا ہے، اس لیے وہ اپنی رِٹ درخواست پر مزید کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔ جذبۂ خیر سگالی کے اظہار کے لیے میں بھی درخواست توہین عدالت میں مزید کارروائی نہیں چاہتا۔ اس کا فیصلہ بھی ایسے ہی کر دیا جائے۔

۷- اس حقیقت کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ تمام مسلمانوں کا کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہی ہے ۔ جہاں تک سُنّی مکتب ِ فکر کا تعلق ہے، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ رہنمائے اساتذہ  کی پہلی کتاب کے تحت شائع ہونے پر یہ شبہہ ہوا کہ گویا شیعہ مکتب ِ فکر کے مطابق کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  ہے، لیکن یہ خیال نہ تو حکومت کے نقطۂ نظر سے کوئی مطابقت رکھتا ہے اور نہ شیعہ علما نے کبھی اس کی تائید کی ہے، کہ کلمۂ طیبہ سواے لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ   کے کچھ اور بھی ہے ۔ حکومت کے ما بعد رویے سے کہ اس غلطی کو درست کرنے کے لیے فوری کارروائی کی گئی، یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ ایک معصومانہ غلطی تھی۔ شیعہ مکتب ِفکر کی نیک نیتی اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے، جس میں سید افضل حیدر نے (جو اس عدالت کے ایک سینئر ایڈووکیٹ ہیں) اور سید ولایت حسین ایڈووکیٹ نے غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ’’کلمۂ طیبہ صرف لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اگر شیعہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل  پڑھتے ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ وہ کلمے کا حصہ ہے بلکہ اس سے وہ محض ’امامت ‘کا اقرار اور ’شیعیت‘ سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لیے اگر شیعہ عقیدے کے متعلق کوئی شکوک کتاب رہنمائے اساتذہ کی پہلی اشاعت سے پیدا ہوئے بھی تھے، تو اب وہ دُور ہوگئے ہیں۔ اب کسی کے دل میں شیعہ عقیدے کے متعلق اس بارے میں کوئی شبہہ نہیں رہنا چاہیے‘‘۔

حافظ کفایت حسین [م:۱۴؍اپریل ۱۹۶۸ء]نے کہ جن کا شمارچوٹی کے شیعہ علما میں ہوتا ہے، تحقیقاتی عدالت کے رُوبرو جو ’پنجاب فسادات (پبلک تحقیقات) ایکٹ مجریہ ۱۹۵۳ء‘ کے تحت وجود میں آئی تھی، مسئلہ زیربحث کے متعلق درج ذیل بیان دیا تھا، جو خصوصی توجہ کے قابل ہے:

ہر اُس شخص کو مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہے جو: (۱) توحید (۲) نبوت اور (۳)قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ وہ تین بنیادی عقیدے ہیں، جن پرمسلمان کہلانے کے لیے یقین رکھنا ضروری ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے متعلق شیعہ اور اہلِ سنت میں کوئی اختلاف نہیں۔

تمام مکاتب ِ فکر کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ کلمۂ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اس کے ذریعے ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے پیغمبر ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے کلمۂ طیبہ یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  پرایمان لانا ضروری ہے، نیز اس کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے ختم ہوجانے کا قطعی اور بلاشرط ایمان رکھنا لازم ہے۔

۸- کتاب رہنمائے اساتذہ  کی نئی اشاعت کےپیش نظر مدّعیان نے یہ بیان دیا ہے کہ ان کی شکایت رفع ہوچکی ہے، اس لیے وہ اپنی رٹ درخواست پر مزید کارروائی کے لیے زورنہیں دیتے۔ درخواست توہین عدالت ۷۶/w   ۳۱ و ۷۶/w  ۳۲ میں ہردوفریق کے وکلا کا بیان ہے کہ وہ جذبۂ حُب الوطنی کے تحت ان پر کارروائی کے لیے زور نہیں دیتے، لہٰذا ان کا فیصلہ ان کے بیانات کے مطابق کیا جاتا ہے۔

۹- مقدمے کے اختتام سے قبل مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس رٹ درخواست کے تصفیے کو  کسی ایک فریق کی کامیابی یا دوسرے کی ناکامی نہ سمجھا جائے۔اس امر پر مکمل اتفاق راے ہے کہ کلمۂ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ ہے۔

مدعیان کا دعویٰ بھی یہی ہے ، حکومت نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے اور شیعوں کا عقیدہ اوراقراربھی یہی ہے۔

۹جون ۱۹۷۶ء         دستخط /محمداقبال

رٹ درخواست منظور کی گئی چیف جسٹس

(بحوالہ PLD ، جلد: XXVIII ، لاہور، ص ۱۱۲۸ - ۱۱۳۵)

_______________

[مولانا محمد شفیع جوش اُس زمانے میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن اور اسلامی نظریاتی کونسل کشمیر کے ممبر تھے۔ آج کل جوہرٹاؤن، لاہور میں مقیم ہیں]۔