سلیم منصور خالد


’’ایک ،دو، تین___ نہیں، یہ تو چار، پانچ، چھے درجن سے بھی زیادہ ہیں، جنھوں نے  بی اے کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات میں نشستیں حاصل کی ہیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ خود ہارنے والے امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ایسے ہی حلفیہ بیان داخل کرائے ہوں گے، جس میں غلط اعداد و شمار کے سچا ہونے کی قسم کھائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ ایسے جھوٹے ارکانِ اسمبلی کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کے ساتھ گذشتہ اسمبلیاں (۰۷-۲۰۰۲ئ) پانچ سال مکمل کرچکی ہیں، اور دوسری اسمبلیوں نے دو سال پورے کرلیے ہیں۔

یہ امر جس قدر افسوس ناک ہے، اپنے نتائج کے اعتبار سے اس سے بہت زیادہ سنگین ہے۔ جعلی ڈگریوں کے اجرا سے پیدا شدہ جرائم کا یہ سلسلہ، ان جعلی اور جھوٹے دعووں سے جاملتا ہے، جنھیں بعض مہاجرین نے متروکہ املاک کو ہتھیانے کے لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اس لوٹ کھسوٹ میں چند بااثر تو مال و متاع لے اُڑے، مگر مہاجرین کی بہت بڑی تعداد اپنے جائز حق سے بھی محروم رہ گئی۔ نتیجہ یہ کہ حسرت، ناکامی اور محرومی کے اس زہر    نے ہزاروں خاندانوں کے مستقبل کو ڈس لیا۔ جھوٹ کے اس کاروبار نے آنے والے دنوں میں  قسم قسم کی سماجی بیماریاں پیدا کیں۔ مثال کے طور پر:

۱- پس ماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے کوٹے کی محفوظ نشستوں پر شب خون مارنے    کے لیے جعلی ڈومیسائل تیار کر کے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینیریا سول سرونٹ بنانا۔

۲- پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگریاں حاصل کر کے معاشرے پر دھونس جمانا، ملازمت میں ترقیاں پانا، گریڈ حاصل کرنا، اور ماہانہ دس پندرہ ہزار روپے بھتہ وصول کرنا (اس قماش کی دھاندلی زدہ ڈگریوں میں خون پسینہ ہمسایے کا، سفارش دوست کی، ماہانہ وظیفہ ریاست کا اور صرف نام اپنا استعمال ہوتا ہے)۔

۳- صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے ۲۰۰۲ء میں لازم کیا گیا کہ کم از کم گریجوایٹ فرد اس انتخاب میں حصہ لے سکے گا۔ اس قانون کا احترام کرنے اور معقول طریقے سے اس کو تبدیل کرانے کے بجاے، قومی قیادت کے لیے سامنے آنے والوں کی ایک تعداد نے جعل سازی کا ارتکاب کیا اور جعلی ڈگریوں کے ساتھ کاغذات نامزدگی داخل کرائے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔

خاص طور پر ۱۹۵۵ء کے بعد وحدتِ مغربی پاکستان (ون یونٹ) کے زمانے سے، اور پھر بعد میں بھی جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کی ملی بھگت نے پس ماندہ علاقوں میں احساسِ محرومی کو    نہ صرف بڑھایا، بلکہ اس کے نتیجے میں مرکز گریز قوتوں کو وجود بخشا اور تقویت دی۔ دیکھا جائے تو اس دھاندلی سے محض چند سو طالب علموں نے حق داروں کی حق تلفی کی، لیکن جوابی ردعمل میں وہاں سے ملک کے کروڑوں شہریوں کو نفرت کا پیغام ملا۔ جن لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اور جو ریاست کے معاملات کے امین ہیں، ان کا یہ اقدام ملک سے بے وفائی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دھاندلی کا مرتکب قرار پایا، مگر قوم بے بسی میں ان کا احتساب تک نہ کرسکی۔

جعلی ڈگریوں کے اجرا میں اس نوعیت کی مثالیں سامنے آئی ہیں:

پہلی یہ کہ کچھ لوگوں کو وہم ہے کہ نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لگانے سے غالباً عزت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس سے زندگی ذرا لمبی ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں فضول وہم ہیں۔ جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کی حکومت میں وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لیے چند ہزار روپوں کا اضافی الائونس دینے کا اعلان کیا، تو اس چیز نے ’عزت‘ کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ’جیب‘ گرم کرنے کا دروازہ بھی کھول دیا۔ یوں جائز، اہل اور محنتی محققین کے ساتھ فراڈ، نالائق اور جعلی ’ڈاکٹروں‘ کی بھی ایک فصل تیزی سے پک پک کر تیار ہونا شروع ہوئی۔

حکومت نے لوگوں کو تحقیق کے راستے پر چلنے کے لیے اُبھارا مگر یونی ورسٹیوں کے   بعض اساتذہ نے یہاں بھی جرم کا ارتکاب کیا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے متعدد جعل سازوں کو ڈاکٹریٹ کی عباے فضیلت پہنانے کا گناہ کیا۔ اس ضمن میں اپنے گروہ کو نوازنے کے ’بے لوث‘ جذبے اور تعلقات کی برکھا نے جل تھل کردیا۔ ایسی ’پی ایچ ڈیوں‘ میں عموماً شعبہ ہاے اسلامیات، اور شعبہ ہاے ادبیات، پھر سماجیات، نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو  مذہبی طبقے کے ایک گروہ نے ایسی ڈاکٹریٹ حاصل کرنے میں زیادہ سرگرمی دکھائی ہے۔ بعض مقالے تو کسی ’گھوسٹ محقق‘ نے لکھے، پروف دوسرے لوگوں نے پڑھا اور بعض مقالے دس بارہ لوگوں نے انٹ شنٹ ٹکڑے جوڑ کر تیار کیے اور مستقبل کے ڈاکٹر صاحب نے، محض کمپوزنگ کرانے اور جِلد بنوانے کا کرب برداشت کیا۔ دوسری طرف ۵سو ڈالرفیس دے کراسپین یا امریکا سے ڈگریاں حاصل کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ ایسے مقالات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعلان کرنے کے ساتھ، مقالے کی قدروپیمایش کرنے والے محققین کی اس راے کا پورا احترام کیا جاتاہے: ’’ڈگری دے دی جائے، مقالہ شائع کرنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔ کیا ایسے مقالات میں ریاست کا کوئی خفیہ راز پوشیدہ ہوتا ہے یا کوئی مخرب اخلاق حوالہ؟ اصل میں یہ مقالے اس قابل نہیں ہوتے کہ اشاعت کے بعد یونی ورسٹی کی نیک نامی کا سبب بن سکیں۔ بعض دُوراندیش ڈاکٹر صاحبان تو انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے اپنے مقالے کی کاپی لائبریری تک پہنچنے ہی نہیں دیتے، اور مقالے کا اسقاط اپنے یا یونی ورسٹی کلرکوں سے کراد یتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں: آزادی! کس وقت شوکت تھانوی کا افسانہ ’سودیشی ریل‘ یاد آیا ہے۔

ان دوسری قسم کا تعلق بعض مذہبی عناصر سے جڑتا ہے۔ اگرچہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام، تقویٰ، للہیت اور علم و ایثار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر دے دیا کرتے تھے کہ: ’’اس برخوردار سے مَیں نے سنا اور اسے پڑھانے کی اجازت دی‘‘ تو وہ فرد علما کی صف میں شامل ہوجاتا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے بجاطور پر  دینی مدارس سے درسِ نظامی پاس کرنے والے طالب علموں کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے برابر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ، تو اس چیز پر اظہارِ تشکر کے بجاے، مختلف فرقہ وارانہ مسالک نے اپنے امتحانی نظام میں لچک پیدا کی یا نمبر دینے میں سخاوت کا مظاہرہ کیا، یا اپنے ہم مسلکوں کو ڈگری دینے میں فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ اس طرح وہ فضا پیدا ہوئی، جس میں خود دینی مدارس کے   علماے کرام کو سخت دل گرفتگی میں یہ کہنا پڑا: ’’اس ایم اے کے برابر درجے کی ڈگری نے تو ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس دوڑ میں شرکت کی خواہش نے حصولِ علم کی خواہش کو بُری طرح پامال اور گریڈ ۱۷ کی نوکری حاصل کرنے کی بھوک میں اضافہ کیا ہے‘‘۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ بعض دینی مدارس کے بورڈوں نے اور بعض منتظمین نے وہ راستہ اختیار کیا، جس پر ندامت کے پسینے کے سوا اور کیا بہایا جاسکتا ہے۔ ان جملوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تمام وفاق یا دینی مدارس کا ہرطالب علم اسی طرح کر رہا ہے، حاشا وکلا ایسا نہیں ہے، مگر اُوپر جو صورت بیان کی گئی ہے، اس کے بھی خاطرخواہ شواہد موجود ہیں۔ نقل یا دھاندلی ہر جگہ جرم ہے، لیکن اگر اس بیماری کا چلن مذہبی طبقے میں جڑ پکڑ لے تو صورت حال دھماکا خیز ہوجاتی ہے۔

تیسری قسم ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے ان پروفیسر صاحبان پر مشتمل ہے، جنھوں نے ترقیاں پانے کے لیے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول میں ایسی خیانت کاری (plagarism) کی مثالیں پیش کی ہیں کہ سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ ان ’ڈاکٹروں‘ نے مقالوں کی تیاری میں حددرجہ جادوگری دکھائی ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر الگ مضمون کی گنجایش ہے۔

پھر چوتھی صورت یہ سامنے آئی کہ جب بی اے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے براہِ راست ایم اے کی ڈگری کے برابر مذہبی وفاق کی ڈگری مل سکتی ہے تو اس سے کیوں نہ استفادہ کیا جائے۔ اسی باعث ایک تعداد نے مذہبی بورڈوں کی ڈگری سے اپنی امیدواری کو ’جائز‘ بنایا۔ اگرچہ ایسی مثالیں درجن بھر ہی کیوں نہ ہوں، مسند ِ ارشاد و تقویٰ کے وارثوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی ساکھ کو کن ظالموں نے نقصان پہنچا کر جگ ہنسائی کا سامان مہیا کیا ہے۔

اس کے بعد ہے باری اُس نوعیت کی، جس کے تحت بی اے کی جعلی ڈگریاں لے کر دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔ ایسے ہرکیس کو بدترین جعل سازی بلکہ ڈاکا زنی اور   دہشت گردی کا کیس تصور کرتے ہوئے تحقیقات کی جانی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ، سقراط کے الفاظ میں: ان لوگوں کا گڑھ نہیں ہے جو عوام کے بجاے صرف اپنے ہی مفاد پر نظر رکھتے ہیں۔ تو پھر انھیں اس بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ وگرنہ عدالت، عوام اور میڈیا اپنا راستہ خود تلاش کرلیں گے۔ اس پس منظر میں صرف ۲۰۱۰ء کی چند خبریں ملاحظہ فرمایئے:

  • ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ء دی نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد میں عثمان منظور نے رپورٹ کیا: ’’جعلی ڈگریوں کے حامل مزید ارکانِ پارلیمنٹ خطرے کی زد میں آگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے   رکن قومی اسمبلی جمشید دستی اور مسلم لیگ ق کے رکن اسمبلی نذیر جٹ نے سپریم کورٹ میں جعلی ڈگری ثابت ہونے کے بعد استعفا دے دیا ہے، مگر یہیں پر ایک دل چسپ منظر یہ بھی دیکھیے: صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف علی زرداری کی جانب سے یہ چیز ریکارڈ پر لائی گئی تھی کہ انھوں نے پیڈنٹن [Pedinton] اسکول، لندن سے ’کاروباری انتظامیات‘ اور معاشیات میں ڈگری لی تھی۔ تاہم ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے یہ ثبوت ہٹا دیا گیا۔ دراصل تحقیق کاروں نے پیڈنٹن اسکول کو لندن ہی نہیں بلکہ پورے برطانیہ میں تلاش کرنے کی بارہا کوشش کی، مگر کسی جگہ اس ادارے کو موجود نہ پایا گیا۔ برٹش کونسل نے بھی برطانیہ میں ایسے کسی ادارے کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم اس سے ملتا جلتا ایک ادارہ پیڈنگٹن [Pedington] سڈنی، آسٹریلیا میں مل گیا، مگر وہاں پر صرف نرسری سے انٹرمیڈیٹ تک تدریس ہوتی ہے۔  اندریں اثنا صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا صاحبہ نے دی نیوز کے رپورٹر عمرچیمہ کو بتایا کہ: ’’میرے بھائی آصف نے سینٹ پیٹرکس کالج کراچی سے ڈگری کا امتحان پاس کیا تھا‘‘، مگر معلوم کرنے پر کالج انتظامیہ نے اپنے ریکارڈ میں ایسے کسی فرد کا نام نہ پایا۔

اسی طرح پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر عدل و قانون جناب بابر اعوان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بارے میں قوی شکوک و شبہات موجود ہیں، جب کہ وہ اس بات سے انکاری ہیں۔ بابر اعوان نے مونٹی سیلو [Monticello] یونی ورسٹی سے ڈگری لینے کا دعویٰ کر رکھا ہے، اور صورت یہ ہے کہ امریکی ایجوکیشنل فائونڈیشن (USEF) نے تصدیق کی ہے کہ: ’’یہ یونی ورسٹی نہ تو ڈگری پروگرام کرا سکتی ہے اور نہ پی ایچ ڈی کے کورس ہی پیش کرسکتی ہے، بلکہ اس نام نہاد    یونی ورسٹی کو ۲۰۰۰ء میں اس نوعیت کے فراڈ کرنے پر ۱۷ لاکھ ڈالر جرمانہ کرکے بند کر دیا گیا تھا‘‘۔ پھر ہائرایجوکیشن کمیشن بھی اس یونی ورسٹی کو جعلی قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک کے رکن قومی اسمبلی میاں طارق محمود (گجرات) کی ڈگری بھی مشکوک ہے۔ اس میں     دل چسپ امر یہ ہے کہ میاں طارق محمود (پیدایش: ۵مئی ۱۹۵۵ئ) ۱۹۷۱ء میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کا امتحان دینے کے لیے رجسٹرڈ ہوئے، مگر وہ میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے۔ انھوں نے جس طارق محمود کی ۲۰۰۳ء کی گریجوایشن کی ڈگری جمع کروا کے نامزدگی منظور کرائی، اس طارق محمود کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۷۸ء ہے، اور اس نے گوجرانوالہ بورڈ سے ۱۹۹۵ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا تھا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی حاجی ناصر ایسی جعلی مذہبی ڈگری لینے کے جرم میں نااہل قرار پاچکے ہیں۔ جنرل مشرف کابینہ کے دو وزراے مملکت بھی جعلی ڈگریوں سے آراستہ تھے۔ سابق سینیٹر پری گل آغا کی ڈگری کو بھی چیلنج کیا گیا، مگر کوئی جواب دینے کے بجاے ۱۷ویں ترمیم جیسا کارنامہ انجام دے کر، وہ اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوئی ہیں۔ (روزنامہ، دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ئ)

  • پنجاب صوبائی اسمبلی کے ۲۹ ارکان کی جعلی ڈگریوں پر مشتمل کیس لاہور ہائی کورٹ کے انتخابی ٹریبونل میں زیرسماعت ہیں، جس میں تینوں پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے وابستگان شامل ہیں۔ یاد رہے ان مبینہ ۲۹ ملزم ارکانِ اسمبلی میں پانچ خواتین  ارکانِ اسمبلی بھی جعلی ڈگریوں کی حامل قرار دی جارہی ہیں (The Peninsula،قطر، ۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • منڈی بہائوالدین سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی محمدطارق تارڑ، ملتان یونی ورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے دعوے دار ہیں، مگر وہ اپنا نام تک انگریزی میں نہیں لکھ سکتے۔ ان کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں زیرسماعت ہے ( دی نیشن، لاہور، ۱۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • مسلم لیگ (ن) نے پنجاب صوبائی اسمبلی کے ان ۵۴ ارکان اسمبلی کی فہرست تیار کی ہے، جو اگرچہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان میں قدر مشترک ایک ہی ہے، اور  وہ ہے گریجوایشن کی جعلی ڈگریاں۔ (روزنامہ ڈیلی ٹائمز، لاہور، ۷مئی ۲۰۱۰ئ)

ذرا غور کیجیے کہ جن لوگوں نے جھوٹ کے بل بوتے پر حقِ نمایندگی حاصل کیا، ان کے ہاتھوں قانون سازی کی حیثیت کیا ہوگی۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو ایسے لوگوں کو دوبارہ اپنی پارٹیوں میں نہ صرف شامل کر رہے ہیں، بلکہ انھیں پارٹی ٹکٹ اور عہدے بھی دے رہے ہیں (جعل سازی پر نااہل قرار پانے والے جمشید دستی کو بڑی دیدہ دلیری سے پیپلزپارٹی نے پھر   قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نامزد کیا اور وہ جیت بھی گئے)۔ اس میں زیادہ افسوس ناک طرزِعمل الیکشن کمیشن کا رہا ہے کہ جس نے ایسی عذرداریوں کی سماعت کے لیے سال ہا سال ضائع کیے، حالانکہ یہ مقدمے دو، تین پیشیوں سے زیادہ بحث و تفتیش کے متقاضی نہ تھے۔ یعنی یہی معلوم کرنا تھا کہ فلاں فرد نے جو بی اے کی ڈگری جمع کرائی ہے، کیا متعلقہ یونی ورسٹی اسے اپنے ریکارڈ کے مطابق درست قرار دیتی ہے؟ (ارکانِ اسمبلی کی ایسی دستاویزات کے اندرجات الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر بھی مہیا کرسکتا تھا)۔ اسی طرح مذہبی بورڈوں سے منسوب ایسے مشکوک امیدواروں سے، عدالت میں قرآن، حدیث اور سبع معلقہ سے آٹھ آٹھ سطروں کا ترجمہ سن کر ان کی اہلیت کو متعین کیا جاسکتا تھا، بلکہ خود براہِ راست دینی امور پر بحث بھی اُن کی حقیقت کو بے نقاب کرسکتی تھی۔ (یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے میڈیکل کالجوں اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں میں داخلے کے لیے حافظِ قرآن امیدواروں کی محض سند کی بنیاد پر اہلیت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، بلکہ    تین رکنی بورڈ براہِ راست ان امیدواروں سے قرآن سن کر ان کی اہلیت کا فیصلہ کرتا ہے)۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، اور یہ نمایندے فریب کاری کرتے ہوئے، عزت کے مقام اور قانون سازی کی مسند پر بیٹھے مزے اُڑاتے رہے۔

یہاں لازم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو دیکھیں: ارشاد ہے:

  • ’’ایک بندئہ مومن کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کا وجود ممکن نہیں‘‘ (مسنداحمد، بیہقی)۔
  • ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات بیان کرو، حالانکہ وہ تم کو اس بیان میں سچا سمجھتا ہو‘‘(ابوداؤد)۔
  •  ’’جس شخص نے حاکم کے سامنے جھوٹی قسم کھائی، تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال مار لے، تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اس کی پیشی ہوگی کہ اللہ اس پر سخت غضب ناک اور ناراض ہوگا‘‘(بخاری، مسلم)۔ l ’’جو شخص خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے تو وہ بھی اسی [خیانت کار] کی مانند ہے‘‘ (ابودائود)___ ان احادیث مبارکہ سے ایسے جعل ساز ڈگری یافتگان کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اور اب یہ خبر ملاحظہ ہو:

  •  ’’پاکستان الیکشن کمیشن نے ان ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کے بارے میں، جنھوں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا، انھیں سبق سکھانے اور سیاسی عمل سے باہر نکال دینے کے لیے حکم جاری کیا ہے۔ قائم مقام چیئرمین الیکشن کمیشن جسٹس جاوید اقبال نے ہدایت کی ہے کہ جعلی ڈگریوں والے ممبران اسمبلی کے خلاف فوج داری مقدمات درج کیے جائیں، ایسے مقدمات قانون کے مطابق فوری طور پر نمٹائے جائیں، اور انھیں آیندہ الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ جعلی دستاویزات اور جھوٹے بیاناتِ حلفی داخل کرنا سنگین بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، ان کے خلاف عوامی ایکٹ ۱۹۷۶ء (سیکشن ۷۸) کے تحت سیشن جج کے روبرو جانا لازم ہے‘‘ (روزنامہ ایکسپریس، نواے وقت، جنگ، ۷ مئی ۲۰۱۰ئ)

کیا جناب جاوید اقبال کی اس خواہش کا حشر بھی ’این آر او‘ والے فیصلے پر عمل درآمد کے نام پر بلی چوہے کا کھیل تو نہیں بنا دیا جائے گا؟ مگر ظاہر ہے دعوے کا جواب دعویٰ بھی ہوتا ہے اور بقول ہیگل: Thesis کا Anti-Thesis۔ اسی کا نتیجہ دیکھیے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن کے بیان کے چھے روز بعد اسی الیکشن کمیشن کے سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن میں ۷۰ پیٹشنز جعلی ڈگریوں سے متعلق تھیں۔ الیکشن کمیشن ان میں سے ۲۴ پر فیصلے دے چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے نااہل نہیں ہیں‘‘ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۱۳ مئی ۲۰۱۰ئ)۔ اس اُڑتی ہوئی دھول میں چیئرمین صاحب کا فرمایا سچ سمجھا جائے یا سیکرٹری صاحب کو معتبر جانا جائے۔ قانون کا احترام کیا جائے یا احکامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس داری کی جائے۔

موشگافیوں کو چھوڑ کر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو، جو جعلی ڈگریاں لے کر مسندِ تدریس پر بیٹھے ہیں یا مسندِ حکومت پر براجمان ہیں، ان کو نااہل قرار دینے کے ساتھ، ان سے تمام وصول شدہ تنخواہوں، الائونسوں اور تحفوں کو نہ صرف واپس لے، بلکہ بھاری جرمانے بھی وصول کرے۔ مزید یہ کہ فراڈ کے جرم کی جو سخت ترین سزا ممکن ہے، اسے بھی ان پر نافذ کرے۔ احتساب اور شفافیت نے آخر کہیں سے تو اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام اس قافلۂ عدل کے مدتوں سے منتظر ہیں۔ شاید وہ گھڑی آن پہنچی ہے ، جب کہہ سکیں کہ ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔

اسلامی چھاترو شبر کے تین کارکن شہید اور:’’ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاریاں ڈھاکہ، سلہٹ، چٹاگانگ، راج شاہی، پبنہ، تنگائل، برہمنا باڑیہ، چاندپور، رنگ پور وغیرہ سے  عمل میں لائی گئیں‘‘ (دی ڈیلی اسٹار، ۱۳ فروری۲۰۱۰ئ)۔ فروری کا مہینہ بنگلہ دیش میں طالب علموں کی اسلامی تحریک اور جماعت اسلامی کے لیے ابتلاو آزمایش کا کڑا موسم لے کر آیا۔

اگرچہ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران میں عوامی لیگ کا بنیادی ہدف بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر ہی رہی ہے، لیکن یہ ساری یلغار منفی پروپیگنڈے، بیانات اور دھمکیوں تک محدود تھی۔ تاہم فروری ۲۰۱۰ء کے پہلے عشرے میں لیگی حکومت نے ان پر دائرۂ حیات کو تنگ کرنے کے لیے گوناگوں اقدامات شروع کیے۔ ان واقعات کے ذکر سے ذرا پیچھے نظر دوڑاتے ہیں تو     یہ حقائق سامنے آتے ہیں۔

بھارت کا تھنک ٹینک سائوتھ ایشین اینلسز گروپ (SAAG) اپنی ۲۷ جون ۲۰۰۷ء کی تحقیقی رپورٹ نمبر۲۲۷۵ میں بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کو ’خبردار‘ کرتا ہے: ’’بنگلہ دیش میں جمہوریت کے لیے خطرہ: اسلامی چھاترو شبرہے‘‘۔ بھارت کی سرزمین سے اس نوعیت کی پروپیگنڈا رپورٹ میں لکھا ہے: ’’۱۹۷۱ء میں جب بنگالی عوام نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے تھے، تو اسلامی چھاتروشبر کی پرانی تنظیم اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) نے اس کی مزاحمت کی تھی… اسلامی چھاترو شبر فروری ۱۹۷۷ء کوڈھاکہ یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں تشکیل دی گئی، اور اس نے ۱۹۸۲ء میں چٹاگانگ یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن جیت کر تعلیمی اداروں میں اسلامی فکر کی ترویج کا کام شروع کیا۔ آج وہ بنگلہ دیش میں جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘‘___ اس طرح بھارت کی طرف سے واضح ہدف دیا گیا کہ آیندہ کیا کرنا مطلوب ہے، یعنی شبر اور جماعت اسلامی کو نشانہ بنانا۔ یہ ہے وہ کھیل جوقدم بہ قدم آگے بڑھتا ہوا آج کے بنگلہ دیش کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا منظر بھی دیکھیے۔ ۲۰۰۸ء سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور چھاترو شبر مسلسل عوامی لیگ کے نہایت زہریلے بلکہ گالیوں اور بے ہودہ الزامات سے آلودہ پروپیگنڈے کی زد میں رہیں، کیونکہ وہ سال انتخابات کا سال تھا۔ اسی سال الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق اپنے دستور، منشور اور لائحہ عمل میں تبدیلی کرے۔ یہ نفسیاتی، ابلاغی اور اداراتی سطح پر عجیب نوعیت کا دبائو تھا، جس نے جماعت اور اس کی برادر تنظیمات کے لیے پریشانی پیدا کی۔

۱۹ جنوری ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے ’بنگلہ دیش- بھارت مشترکہ اعلامیے‘ کو اہلِ بنگلہ دیش کی معاشی زندگی کے لیے بُری طرح نقصان دہ معاہدہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ’’جماعت اسلامی: بھارت-بنگلہ دیش معاہدے، آئین میں پانچویں ترمیم کی منسوخی اور مجوزہ تعلیمی پالیسی کے منفی پہلوئوں کے خلاف عوام میں بیداری پیداکرنے کی مہم چلائے گی‘‘(دی ڈیلی اسٹار، ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ئ)۔ اس بیان کے صرف پانچ روز بعد، یعنی ۲۴ جنوری کو ’’بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا کہ وہ جماعت اسلامی کا چارٹر تبدیل کریں، اپنے پروگرام میں سے اس نکتے کو حذف کریں کہ جماعت، بنگلہ دیش میں منظم جدوجہد کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ پھر جماعت اسلامی کے دستور کی ان بہت سی دفعات کو ختم کیا جائے جو اپنے وابستگان کو اسلامی نظام کے نفاذ کی راہیں دکھاتی ہیں، ایسا لائحہ عمل ریاستی دستور کے مزاج کے یک سر منافی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں اور تمام تنظیمی سطحوں پر قائم شدہ کمیٹیوں میں عورتوں کو ۳۳ فی صد نمایندگی دینے کا بھی اہتمام نہیں کیا ہے۔ پھر جماعت اسلامی نے غیرمسلموں کو پارٹی ممبرشپ دینے کے اعلان کے باوجود انھیں پارٹی پروگرام کا پابند بنایا ہے، اور وہ پروگرام اسلامی نظام کا نفاذ ہے، یہ بات ان غیرمسلموں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی دلیل ہے۔ ان تمام نکات کی روشنی میں اگر جماعت اسلامی نے اپنے معاملات کو دی گئی ہدایات کے مطابق درست نہ کیا توری پریزنٹیشن آف دی پیپلزآرڈر (RPO) کے تحت جماعت اسلامی کی موجودہ حیثیت تحلیل کر دی جائے گی‘‘ (ایضاً، ۲۵ جنوری ۲۰۱۰ئ)

ابھی الیکشن کمیشن کے اس نادر شاہی حکم کی صداے بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ آناً فاناً ۳فروری کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکن ابوبکر صدیق کو قتل کر دیا گیا۔ ۱۱فروری کو پولیس ہی کی موجودگی میں اسٹوڈنٹس لیگ کے غنڈا عناصر نے راج شاہی یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن اور ایم اے فائنل کے طالب علم حفیظ الرحمن کو گردن میں گولی مار کر قتل کیا، اور دیر تک میت کو گھیرے رکھا مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ ۱۲فروری کو چٹاگانگ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن محی الدین کو قتل کر دیا گیا، اور تادمِ تحریر تدفین کے لیے میت نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو چٹاگانگ میڈیکل کالج، چٹاگانگ یونی ورسٹی اور محسن کالج سے گرفتار کرنا شروع کیا ،اور پہلے ہی ہلے میں ۹۶کارکنوں کو جیل میں دھکیل دیا گیا۔ ۹فروری کو راج شاہی یونی ورسٹی میں چھاترولیگ کا حامی  جاں بحق ہوا، اور اس واقعے کو بنیاد بناکر پورے ملک میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی اندھادھند گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن، اخبارات، وزرا اور پولیس افسران کے بیانات نے فضا کو مزید دھواںدار بنا دیا۔ داخلہ امور کے وزیرمملکت شمس الحق ٹوکو نے کہا: ہم راج شاہی یونی ورسٹی اور راج شاہی شہر سے اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی کو ختم کر کے دم لیں گے‘‘۔ اس کے پہلو بہ پہلو یہ خبر بڑے تسلسل کے ساتھ نشر کرنا شروع کی گئی: ’’امریکا، اسلامی چھاترو شبر کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کر رہا ہے‘‘۔

جماعت اسلامی کے امیرمطیع الرحمن نظامی اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے بیانات میں مطالبہ کیا کہ ’’راج شاہی یونی ورسٹی کے الم ناک واقعے کے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں میں قتل و غارت گری کے تمام واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ ذمہ داران کا تعین ہوسکے، اور اس منفی پروپیگنڈے سے پیدا شدہ فضا کو صاف اور حقائق کو منظرعام پر لایا جاسکے۔ جماعت اسلامی پُرامن، جمہوری، عوامی اور دعوتی پروگرام پر یقین رکھتی ہے، جس میں تشدد کا راستہ اپنانے کی کوئی گنجایش نہیں۔ (ایضاً، ۱۲فروری ۲۰۱۰ئ)

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے اس کرب ناک صورت حال پر ۱۷فروری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا: ’’جوں ہی مَیں نے ’بنگلہ دیش بھارت معاہدے‘ پر نقدو جرح کی تو بنگلہ دیش کی اسلامی قوتوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو قتل کیا گیا، جماعت اسلامی اور شبر کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، کالجوں اور ہاسٹلوں سے پکڑ کر جیل خانوں میں پھینکا گیا ہے۔ حکمران عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کے مسلح غنڈوں کو من مانی، پُرتشدد کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے‘‘۔ اس مضمون میں بیان کردہ دیگر واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد جناب نظامی نے یہ بھی بتایا کہ: ’’۱۱فروری کو جہاں ایک طرف اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو مارا گیا، وہاں دوسری جانب راج شاہی میں جماعت اسلامی کے امیر اور اسکول ٹیچر عطاء الرحمن کو کمرۂ امتحان سے تشدد کرتے ہوئے گرفتار کیا، اور پانچ روزتک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ ۱۲ فروری کو جماعت اسلامی چٹاگانگ کے امیر اور ممبر پارلیمنٹ شمس الاسلام کو پُرامن احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے پر اس حالت میں گرفتار کیا کہ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے پولیس کی موجودگی میں جلوس پر دھاوا بول دیا اور ۱۰۰ سے زیادہ کارکنوں کو مارتے پیٹتے ہوئے جیل میں دھکیل دیا۔ ۱۲ فروری ہی کو جماعت اسلامی سلہٹ کے پُرامن اجلاس پر لاٹھی چارج کیا گیا اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے حملہ کرکے بیسیوں کارکنوں کو پکڑپکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ مسلح غنڈوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی شبر کے کارکنوں کے گھروں پر حملے کیے، دکانوں اور تعلیمی اداروں میں گھس کر کارکنوں کو سڑکوں پر لایا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقعے پر پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ یہ واقعات فسطائیت کی تصویر اور جمہوریت کی توہین اور انسانیت کی تذلیل ہیں، جنھیں کوئی باشعور فرد برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔

ان واقعات کی کڑیوں کو ملانے سے پیداشدہ صورت حال، مستقبل کے ایک سنگین منظرنامے کی طرف توجہ دلاتی ہے:

                ۱-            سیکولر قوتیں، موجودہ عالمی فضا سے فائدہ اُٹھا کر، دینی قوتوں کو میدان سے باہر نکالنے کے لیے ہرمنفی حربہ استعمال کریں گی۔

                ۲-            اس شاطرانہ عمل کے لیے امریکا اور بھارت سے ہمدردی کا دم بھرتے ہوئے ، ان کی ڈپلومیٹک حیثیت سے فائدہ اٹھائیں گی۔

                ۳-            مسلم دنیا میں چونکہ ایسی پٹھو حکومتوں کو امریکا، بھارت اور اسرائیل وغیرہ کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لیے ان کے لیے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرنا سلامتی کونسل کی نظر میں جائز تصور ہوں گے۔

                ۴-            اسلام اور اسلامی پروگرام کی اشاعت و ترویج کے جملہ اداروں کے خاتمے کے لیے مسلم قومی حکومتیں کسی بھی انتہا تک جاسکتی ہیں۔

                ۵-            یہ حکومتیں، اسلامی پارٹیوں کے پروگرام کے چھوٹے سے چھوٹے جملوں تک کے خاتمے کی کوشش کریں گی۔ جہاں جہاں اسلامی تحریک، مقتدر قوتوں کے لیے سیاسی چیلنج بنیں گی، وہاں پر انھیں اسی نوعیت کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

                ۶-            مسلم اُمہ میں اس صورت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا تو یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک میں بھی روبۂ عمل آسکتا ہے۔

اندریں حالات بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے مظلوم کارکنوں اور حامیوں سے یک جہتی کے ساتھ اس سوال پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ ایسے کسی خطرے کا مداوا کس طرح کیا جائے؟___ اس سوال کا جواب ایک ہی ہے: اور وہ یہ کہ: ’’ایمان اور کردار کی مضبوطی، تنظیم کی پختگی، دعوتِ دین کا شوق، علم و فضل میں گہرائی اور اپنے دائرے میں سمٹنے کے بجاے معاشرے کے اندر پھیل جانے کا جذبہ‘‘۔ اگر یہ چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوں گی تو یقینا ایسی یلغار کو روکا بلکہ پسپا ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

امریکا اور مغرب یا ان کے چہیتے حکمرانوں کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کتنی حقیقی ہے اور کتنی خودساختہ، ان مفروضوں پر بحث سے قطع نظر ایک اور سخت اذیت ناک چیلنج درپیش ہے۔ اس چیلنج کو ’مغرب کی عریاں دہشت گردی‘ کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے!

ایک زمانہ تھا کہ مسلم خواتین مکمل حجاب کااہتمام کرتیں، اور اس مقصد کے لیے برقعہ پہنتیں۔ مگر آج کا ’مہذب مغرب‘ ان باحیا و پاک باز خواتین سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ برقعہ اتاریں، حجاب کو نوچ کر پرے پھینکیں، بلکہ ’دہشت گردی‘ کی نام نہاد جنگ میں مغرب کا خوف دُور کرنے کے لیے خود کو بے لباس کرکے تصویریں بنوائیں۔ جدید تعلیم اور ابلاغی یلغار کے زیراثر برقعہ و حجاب پر نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے وہ بڑی حد تک تیار دکھائی دیتی ہیں، لیکن اس تیسرے حملے کو برداشت کرنے کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہوسکتیں، بلکہ اس کاتصور کرکے زندہ رہنے سے زیادہ وہ موت کے انتخاب کوترجیح دینے سے بھی گریز نہ کریں گی۔ یہ فیصلہ تو مسلم خواتین کا ہے___ مگر امریکا یہ کہتا ہے: ’’تم اپنی جگہ غیرت کو محفوظ رکھو، مگر ہم مشینوں کے ذریعے تمھیں بے لباس کرکے تصویریں بنائیں گے‘‘۔ صاحبو، آج امریکی فضائی اڈوں پر ایسی مشینوں (naked body scanners)کی تنصیب کر دی گئی ہے (اور تیزی سے اس تنصیباتی عمل کو وسعت دی جارہی ہے) تاکہ خوف زدہ مغربیوں کے ہاتھوں حیا کا پردہ تار تار ہوتا رہے، اور پھر دنیا کے مظلوم اور مسلم اُمہ کے مجبور عوام اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرلیں۔

اپنی سرزمین پر یہ بیہودہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ خودمسلم ممالک سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں سے امریکا جانے والے مسافروں کو ’مکمل جسمانی سکین‘ کر کے طیاروں میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ آخرکار منصوبہ یہ ہے کہ تمام ہوائی اڈوں پر فضائی مسافروں کی عریاں اسکیننگ کی مشینیں لگا دی جائیں۔ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟

جواب میں امریکی حکام کہتے ہیں کہ: دسمبر ۲۰۰۹ء کے کرسمس کے موقع پر نائیجیریا کے ۲۳سالہ افریقی مسلمان عمرفاروق عبدالمطلب کو مبینہ طور پر آتش گیر پائوڈر کمر سے باندھے ہوئے ڈیٹرایٹ (مشی گن) کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرنے کا واقعہ ہی اس جبر کا باعث بنا ہے۔ (یاد رہے یہ مسافر ایمسٹرڈم کے ہوائی اڈے سے طیارے (فلائٹ ۲۵۳) پر سوار ہوا تھا، اور سیکورٹی کی ذمہ داری اسی ہوائی اڈے کے حکام پر تھی)۔ جواب میں مسلم رہنما کہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض ایک ڈراما تھا، جسے اسٹیج کر کے ایک بہانہ تراشا گیا تاکہ مذکورہ پروگرام کے نفاذ کا جواز پیدا کیاجاسکے اور اس شک کی بنیاد بڑی مضبوط ہے۔

مبینہ طور پر یہ واقعہ تو دسمبر ۲۰۰۹ء میں ہوتا ہے، مگر سی این این نے اب سے سات ماہ   پیش تر ہی یہ خبر دے دی تھی کہ: ’’مسافروں کی عریاں تصویرکشی (naked pictures) کی جاری ہے‘‘ (۱۸ مئی ۲۰۰۹ء، cnn.com)۔ اسٹاف رپورٹر جرمی حسو نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا: ’’جسم کی مکمل تصویرکشی کی مشینوں سے، فرد کے کپڑوں کے نیچے سے ہر دھاتی اور غیردھاتی چیز دیکھی جاسکتی ہے بلکہ زیرجامہ نقوش تک نظر کے سامنے آجاتے ہیں اور یہ ۳ ڈی عکس بندی چند سیکنڈ میں کرلی جاتی ہے‘‘ (یکم اپریل ۲۰۰۹ء، livescience.com)۔ آگے چلیے، معروف صحافی جیفری لایب نے تو اس سے بھی ایک سال پہلے دی ڈینورپوسٹ میں بتایا تھا: ’’ڈینور بین الاقوامی ہوائی اڈے کے علاوہ امریکا کے دیگر پانچ ہوائی اڈوں پر مکمل جسمانی عریاں تصویر سازی کی مشینیں لگادی گئی ہیں‘‘۔(۲۹ مئی ۲۰۰۹ء، denverpost.com)

اسی طرح تھامس فرینک نے اب سے ڈیڑھ سال قبل ۶جون ۲۰۰۸ء کو امریکا کے مشہور جریدے یو ایس ٹوڈے میں رپورٹ دی تھی کہ: ’’انسانی بدن کو اسکین کرنے والی وہ مشینیں، جو لوگوں کے کپڑوں سے بھی نیچے کی تصویریں بنا سکتی ہیں، معروف ترین ہوائی اڈوں پر نصب کر دی گئی ہیں‘‘ (۶ جون ۲۰۰۸ء- USA Today)۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی اور امریکی حکمرانوں کی بدنیتی اور قانون شکنی تو کب سے اپنا رنگ دکھا رہی تھی، مگر اس شیطانی سلسلے کو    بڑے پیمانے پر روبہ عمل لانے کے لیے ’کرسمس ڈراما ۲۰۰۹ء‘ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے یہاں پر مسلم دنیا سے نہیں بلکہ خود امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ ہی سے چند تجزیاتی رپورٹوں کے اقتباسات اور بیانات پیش کیے جاتے ہیں:

  • پال ایڈورڈ پاکر کے مطابق: ’’یہ اسکینر مشینیں، کپڑے پہننے کے باوجود، مسافروں کی کپڑوں سے بے نیاز تصویر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘‘(۳۱دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اس ضمن میں ٹیلی ویژن ایسی رپورٹیں پیش کر کے، کہ جن میں اسکینر سے گزرنے والے لوگوں کے چہروں اور تناسلی اعضا (genitals) کو دھندلا کردکھایا جا رہا ہے، عام ناظرین کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ پیچھے کمرے میں بیٹھ کر دیکھنے والے عملے کے لوگ، اس عکس کو ایک معمولی سے اُلٹ پلٹ (inversion) کے عمل سے بالکل اس طرح دیکھ سکتے ہیں، جیسے وہ بالکل عریاں کیفیت میں، اپنے حقیقی خدوخال اور رنگ و حالت میں ان کے سامنے ہوں۔ اور ان کی یہ تصویریں، اسی حالت میں ہوبہو ریکارڈ کا مستقل حصہ بھی بن جاتی ہیں‘‘۔ (۸ جنوری ۲۰۱۰ء، پال جوزف واٹسن، prisionplanet.com)
  • ’’مکمل انسانی جسم کی اس خفیہ تصویرکشی کا ایک خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہوائی اڈے سے سفر شروع کرنے یا سفر مکمل کر کے باہر نکلنے والا مسافر خطرناک ریڈیائی لہروں میں غسل کرکے نکلتا ہے۔ افسوس کہ اس انتہائی نقصان دہ عمل کے باوجود امریکی انتہاپسند (نیوکونز) اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ ایسی مشینیں بڑے پیمانے پر نصب کی جائیں‘‘۔ (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، infowars.com)
  • خود امریکا میں ’ٹکنالوجی اور آزادی‘کے عنوان سے شائع شدہ ایک فکرانگیز مضمون بتاتا ہے کہ:’’یہ ٹکنالوجی، انسان کی آزادی، خلوت اور پوشیدہ وجود پر براہِ راست حملہ ہے۔ جس کے ذریعے خواتین و حضرات کو ان کی مرضی کے بغیر اور ان کی سفری مجبوریوں سے ناجائز طور پر    فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کی شرم گاہوں تک کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ عملی شکل یہ ہے کہ سفر کے   دوران میں ایئرپورٹ کی چیک پوسٹ سے گزرتی سواری کو یہ مشینیں عریاں حالت میں چلتا دکھاتی ہیں۔ یہ انسانوں کی نجی زندگی اور وقار پر ایک بدترین جارحیت ہے۔ مانا کہ کچھ افراد دوسروں کے سامنے عریاں ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے، مگر انسانوں کی عظیم ترین اکثریت، اس بے حیائی کو   نفرت سے دیکھتی ہے۔ اس طرح یہ سارا قصہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ایسے  توہین آمیز عمل کو کوئی بھی مہذب انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ سفری حفاظت کے ادارے میں ۴۳ہزار افسران اور لاتعداد خفیہ ایجنٹ، صرف امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈوں پر روزانہ ڈیوٹی دیتے ہیں، جب کہ امریکا ہوائی اڈوں پر روزانہ ۲۰ لاکھ مسافر، سفر کی غرض سے آتے ہیں‘‘۔ (۸جنوری ۲۰۱۰ء، aclu.org)
  • ’’مانچسٹر ایئرپورٹ (برطانیہ) پر ایک سال سے تجرباتی طور پر عریاں تصویرکشی کرنے والی ان مشینوں پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ بچوں کی ایسی تصویریں نہ بنائیں، کیونکہ اس طرح ’بچوں کی عریاں کشی کے قانون‘ کی خلاف ورزی ہوتی ہے‘‘ (mailonsunday.co.uk)۔ اسی خبر کو اخبار دی گارڈین، لندن (۴ جنوری ۲۰۱۰ء) نے زیادہ تفصیل سے پیش کیا۔
  • ’’سفری حفاظت کی انتظامیہ (TSA) یہ بھی کہتی ہے کہ اس تصویری مواد میں دیگر جسمانی تفصیلات پر زور نہیں دیا جاتا، بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں کسی فرد نے جسم کے ساتھ اسلحہ تو نہیں باندھ رکھا، حالانکہ یہ بہانہ گمراہ کن ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ یہ تصویریں سامنے سے اور عقب سے بناتے ہیں اور ان تصویروں کو جتنا چاہیں بڑا کر کے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ (۸؍اپریل ۲۰۰۹ء، ولیم سیلٹن، slate.com)
  • جینی میسریو اور مائیک اہلرز کی رپورٹ کے مطابق: ’’سفری حفاظتی انتظامیہ (TSA) لوگوں کو جتنا چاہے دھوکا دے لے، لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ انسانی شرف اور احترام کی تذلیل کا یہ پورا بندوبست ہے۔ خود ٹی ایس اے کی دستاویزات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان اسکینر مشینوں میں یہ بھرپور صلاحیت ہے کہ وہ مسافروں کی [عریاں] تصویریں بناکر محفوظ رکھیں اور دوسری جگہ منتقل کریں۔ ایسی تصویریں جو زیب تن کپڑوں کے نیچے کی عکس بندی کرلیتی ہیں۔ کمپیوٹر ہیکروں یا دوسرے کارکنوں کے ہاتھوں ان تصویروں کے غلط طور پر استعمال ہونے کا ہرآن خدشہ موجود رہے گا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
  • یہ امرواقعہ ہے کہ انتظامیہ اپنے شہریوں کے ساتھ دھوکا دہی کا ثبوت دیتے ہوئے دوسری بات کہہ رہی ہے، حالانکہ یہ بات ایک معلوم حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ ’جسمانی جائزے‘ کے ان اسکینروں سے بنے ہوئے عکس آپ کی عریاں حالت میں تصویر بناکر، آپ کے تناسلی اعضا تک کی باریک سے باریک تفصیل کو ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ (godlikeproductions.com)
  • ’’ایسے بہت سے منصوبوں کے طرف دار یہودی تک اس صورتِ واقعہ پر تڑپ   اُٹھے ہیں۔ مثلاً صہیونی اخبار دی یروشلم پوسٹ کے نمایندہ میتھیو ویگز نے رپورٹ کیا: ’’یہودی مذہبی رہنمائوں کے مطابق مکمل جسمانی اسکیننگ سے عورتوں کی حیا اور احترام پر بہت منفی اثر پڑے گا‘‘ (۷جنوری ۲۰۱۰ء، jpost.com)۔ اسی طرح جرمنی کی ’پائی ریٹ پارٹی‘ نے بھی عریاں اسکینروں کے خلاف مظاہرہ کیا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، thelocal.de)
  • ’’ہالینڈ میں سلامتی کے مشیر نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ جلد از جلد فنڈز جاری کرے تاکہ ’عریاں جسمانی‘ تصویرکشی کے ایسے سفری (موبائل) اسکینرز استعمال میں لائے جائیں کہ جن کے ذریعے بازاروں میں چلنے، فٹ بال کھیلنے اور اسٹیڈیم وغیرہ میں کھیلوں سے لطف اندوز ہونے والے تماشائیوں وغیرہ تک کو عریاں حالت میں دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جاسکے۔ (۲۰جنوری ۲۰۱۰ء، dutchnews.nl)
  • ایک اسکینر جو ایک لاکھ ۳۰ ہزار ڈالر سے ایک لاکھ ۷۰ ہزار ڈالر کی قیمت رکھتا ہے، امریکا کے ۱۹ ہوائی اڈوں پر ۴۰ کی تعداد میں نصب اور زیراستعمال ہیں۔ ۱۵۰ مزید نصب کیے جارہے ہیں، جب کہ امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈے ہیں (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اسی طرح سی این این نے ان تفصیلات کی تائید کرنے کے ساتھ یہ خبر دی ہے: ’’۲۰۱۱ء تک پورے امریکا میں یہ مشین لگا دی جائیں گی۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
  • ایک جانب ’سفری حفاظت کی انتظامیہ‘ کے ترجمان کرسٹن لی نے یہ کہا ہے: ’’ہم یہ اقدامات سلامتی کی غرض سے کر رہے ہیں، ہمیں کسی مذہب یا قومیت سے کچھ نہیں لینا دینا‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء،cnn.com)۔ دوسری طرف دنیا کی معروف اخباری ایجنسی اے ایف پی  کے مطابق: ’’جن ممالک کے باشندوں کو خاص طور پر ان مشینوں کے ذریعے دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جارہا ہے، ان میں شامل ہیں: سعودی عرب، پاکستان، ایران، سوڈان، شام، افغانستان، الجزائر، عراق، لبنان، لیبیا، صومالیہ، یمن، نائیجیریا اور کیوبا‘‘ (france24.com)۔ امریکی ٹیلی ویژن سی این این نے ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو انھی ممالک کے نام ایک اعلیٰ امریکی افسر کے حوالے سے دہراے ہیں۔ [یاد رہے کہ ان میں۱۳ مسلم ممالک کی کل آبادی ۷۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے]
  • امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز‘ (CAIR) کے نیشنل ایگزیکٹو نہاد عواد (Nihad Awad) نے اس صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی این این کو بتایا: ’’ان اسکینروں کی تنصیب کے تحت مسلم اکثریتی آبادی رکھنے والے ۱۳ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان میں سے بھی خصوصی ہدف وہ لوگ ہیں، جو اَب امریکی قومیت اختیار کرچکے ہیں، مگر ان کی پیدایشی اور نسلی شناخت ان ۱۳ ملکوں سے منسوب ہے۔ یوں نسلی اور اعتقادی سطح پر وہ بجاطور پر مسلم دنیا سے فطری اور روحانی وابستگی رکھتے ہیں۔ اس بندوبست کے بعد یہ امریکی مسلمان جب کبھی کبھار اپنے پیدایشی ملک میں عزیزوں سے ملنے جائیں گے تو ایسی تضحیک کا ہدف بنیں گے، اور وہ بھی خودبخود مذکورہ تذلیل کا نشانہ بنیں گے جو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب کا سفر کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچیں گے‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)

مغرب کے خوف زدہ حکمرانوں نے دنیا بھر میں ایک ہسٹیریائی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اسی کیفیت میں وہ اپنے مذموم سیاسی و معاشی مفادات کا تحفظ کرتے اور اعلیٰ انسانی اور تہذیبی اقدار کو کچلے جارہے ہیں۔ اُوپر مذکورہ اسکیننگ مشینوں کے اس استعمال کا مطلب یہ ہے کہ:

                ۱-            اہلِ مغرب کے خیال میں حیا اور انسانی حق خلوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

                ۲-            خاص علاقے اور نشان زدہ مذہب کے لوگ اہلِ مغرب کی نظر میں ملزم کا درجہ رکھتے ہیں۔

                ۳-            مغربی حکمرانوں کو بلاروک ٹوک یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقتدار اور قوت پر قابض ہونے کی بنیاد پر، جب، جس طرح اور جس پیمانے پر چاہیں___ انسانی جان، مال اور آبرو پر حملہ کرسکتے ہیں۔

                ۴-            اپنے اقتدار کی بھیک مانگنے والے مسلم حکمران، مغرب کی ظالم حکومتوں کے اندھے، بہرے اور وحشی قوانین کے نفاذ ہی کو ’روشن خیالی‘ تصور کرتے ہیں۔

کیاانسانی تاریخ نے کبھی پہلے بھی یہ منظر دیکھا تھا؟ کیا جنگل میں درندوں نے بھی کبھی ایسے ظالمانہ اختیار کو استعمال کیا تھا؟ کیا اکیسویں صدی کا انسان اتنا بے بس، مجبور اور مقہور ہے کہ چند انسان، چند ادارے اور چند مشینیں انھیں مَسل کر رکھ دیں۔ اور اگروہ اُف بھی کریں تو انھیں وحشی، غیرمہذب، تہذیب دشمن، تنگ نظر اور دہشت گرد کہہ کر، ان کا منہ بند کردیں؟ کیا ایسے  توہین آمیز اقدامات کے نتیجے میں دنیا کو امن کی فضا مل جائے گی؟ معمولی سی بھی عقل رکھنے والے انسان کا جواب ہوگا: ’نہیں‘___ یہ انسانی تاریخ کا سبق ہے کہ ذلت، جبر اور ظلم کرنے والے    اگر ایک دروازہ بند کرتے ہیں توردعمل کے لیے مظلوم دس مزید دروازے کھول لیتے ہیں۔ اس لیے اگراصلاح اور انسانیت کی فلاح مطلوب ہے تو پھر قوموں کے حق حکمرانی کا احترام کیا جائے، ان پر جارحیت و استعماریت ختم کی جائے تو خود بخود ’خوف‘ کے یہ بادل چھٹ جائیں گے۔

اندریں حالات بے حیائی، تذلیل اور ظلم کے اس بندوبست کو مسلم دنیا کا شدید ترین احتجاج ہی روک سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ مسلم دنیا میں اس حوالے سے لاتعلقی،بے بسی، یا چشم پوشی کا رویہ ایک عذاب کی صورت مسلط ہے۔ ہاں، البتہ امریکا کے بالکل قریب ایک چھوٹے سے کمیونسٹ ملک کیوبا نے ۶جنوری ۲۰۱۰ء کو ضرور امریکا سے احتجاج کیا ہے، یا پھر ایک بے بس عراقی مسلمان خاتون نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اس تقابلی صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا میں مذکورہ مسئلے پر باخبر کرنے کی مہم چلائی جائے۔ احتجاج منظم کیا جائے اور علمی وفکری سطح پر شرفِ انسانیت کے بھولے سبق کو یاد دلایا جائے، کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، جانور نہیں!

مسلم دنیا کی سیکولر قوتوں کا عجب معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے وسائل، بڑی طاقتوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی معاونت کے باوجود، میدان میں کھلے اور پُرامن مقابلے سے جی چرانا ان قوتوں کا کلچر ہے۔ ریاستی مشینری پر قبضہ جماکر مدمقابل قوتوں کو باندھ کر اُکھاڑے میں اُترنا،ان سورمائوں کا طرزِ حکمرانی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا ہے۔

وہ عوامی لیگ جو پاکستان توڑنے کے لیے بھارت کی فوجی امداد کے ساتھ میدان میں اُتری، اب اسی عوامی لیگ نے مقامی ہندو آبادی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور   اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایک جانب مغربی ملک سویزرلینڈ میں اینٹوں سے بنے چند فٹ بلند میناروں سے یورپی سیکولرزم لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش جیسے مشرقی اور مسلم اکثریتی ملک میں لفظ اسلام کی پہچان سے کام کرنے والی سیاسی یا دینی پارٹیوں کا وجود ناقابلِ قبول ہے۔ کیا یہ اتفاقِ زمانہ ہے یا شرارِ بولہبی کی نفرت بھری آگ؟

عوامی لیگ نے اگرچہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے ہندوئوں، کمیونسٹوں اور بھارت کی مدد لی تھی، مگر اس پارٹی کے دل میں یہ خوف گہری جڑیں پیوست کرچکا ہے کہ اس نے اسلامیانِ بنگال سے بے وفائی کرکے اسے بھارت کا طفیلی ملک بنایا ہے، سو اس کے خلاف ردعمل بہرحال اسلامی قوتوں ہی کی جانب سے اُٹھے گا۔ اس لیے ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرنے کے بعد اگست ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی منظم ترین اسلامی پارٹی: جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ۳۷ سال پہلے سقوطِ مشرقی پاکستان کے دنوں میں پاکستان کا ساتھ دینے کے اقدام کے خلاف مقدمے چلائے گی۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد بدترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی عوامی لیگ سے کچھ اور بن نہ پایا تو اس نے اعلان کر دیا: بنگلہ دیش میں کوئی پارٹی، مذہبی پہچان کا نام نہیں    رکھ سکے گی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو عوامی لیگ حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: ’’سپریم کورٹ نے ۵ویں ترمیم کو غیر قانونی قرار دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں جو پارٹی بھی مذہبی پہچان کا نام رکھے گی، اس پر پابندی عائد کردی جائے گی‘‘۔ اس اعلان پر بنگلہ دیش کے عام شہری ششدر رہ گئے۔

وہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیاد دوقومی نظریے پر وجود پانے والی تقسیم بنگال کے فیصلے پر رکھی گئی ہے۔ دو قومی نظریے کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ۱۹۰۶ء میں خود ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گویا کہ اس آزادی کو وجود بخشنے والی پارٹی کا نام ہی مذہبی پہچان، یعنی ’مسلم‘ کے لفظ سے موسوم ہے۔ پہلے پہل، یعنی قیامِ پاکستان کے بعد انھی بنگالی قوم پرستوں کا ایک دھڑا جب مسلم لیگ سے الگ ہوا تو اس نے اپنا نام ’عوامی مسلم لیگ‘ رکھا اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندوئوں کے زیراثر لفظ ’مسلم‘ کو اُڑا کر اسے عوامی لیگ بنا دیا۔

خود عوامی لیگ بھی یہ جانتی ہے کہ ۹۱ فی صد مسلم آبادی کے اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے کسی مذہب کے حوالے سے کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے، اور بجاطور پر مسلمان وطن عزیز کی بنیاد اور پہچان کی مناسبت سے اپنی پارٹیوں کے ناموں میں ’اسلام‘، ’مسلم‘، ’اسلامی‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو ان کا آئینی اور دنیابھر میں مانا ہوا مسلّمہ حق ہے۔ اس خانہ زاد فیصلے کی روشنی میں، جو بہرحال سیاسی دبائو میں کیا گیا ہے، عوامی لیگ چاہتی ہے کہ دنیا میں آبادی کے   لحاظ سے تیسرے سب سے بڑے مسلم ملک میں مذکورہ پارٹیوں پر پابندی عائد کرے۔

’اسلام‘ نہ عوامی لیگ کا وضع کردہ ہے اور نہ لفظ ’مسلمان‘عوامی لیگ کی ٹکسال میں گھڑا گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ، اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم نے عطا کیا ہے اور انھی   کے احکام کی اِتباع میں دنیا کے گوشے گوشے میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اسلام اپنا ایک مکمل نظامِ عبادات، بھرپور نظامِ فکر، قابلِ عمل نظام زندگی رکھتا ہے۔ جس کے نفاذ کی کوشش کرنے اور  ان کی تنظیم و رہنمائی کے لیے اجتماعی کوششوں کی پہچان بہرحال اسلام،اسلامی اور مسلم وغیرہ الفاظ ہی سے متعین ہوگی۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ چند سیاسی طالع آزما اپنے دل کے چور کی تسکین کے لیے اسلامیانِ عالم اور اسلامیانِ بنگلہ دیش اپنے حقِ شناخت سے دست بردار ہوجائیں؟

دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیرقانون کے اسی بیان میں یہ حصہ متضاد حوالہ رکھتا ہے کہ: ’’دستور کے آغاز میں ’بسم اللہ‘ اور ریاست کے مذہب کا ’اسلام‘ ہونا برقرار رکھا جائے گا‘‘۔ ایک جانب اسلامی پہچان کے ناموں سے پارٹیوں پر پابندی اور دوسری جانب ان دو چیزوں کو برقرار رکھنے کی بات، اسلامیانِ بنگلہ دیش کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل وزیرموصوف کے  اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی لیگ، اسلامی افکار و اقدار کی علَم بردار جماعتوں کو قومی زندگی اور سیاست سے باہر نکال دینے کے شیطانی منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اگر بہت سے نظریات پر مشتمل سیاسی پارٹیاں کام کرسکتی ہیں تو صرف اسلام کے مقاصد حیات اور طرزِ زندگی کو پیش کرنے والی پارٹیوں پر کیوں پابندی لگائی جائے گی؟ خود بنگلہ دیش کے ہمسایے میں بھارت اور یورپ کے کتنے ممالک میں، برطانیہ و جرمنی میں مذہب کی شناخت سے پارٹیاں برسرِکار ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی بھی حکومت، جو جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہو، بنگلہ دیش میں اسلامی پارٹیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکتی، جہاں متعدد پارٹیاں سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جس کے شہریوں نے جمہوریت کے پودے کو سینچنے اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس لیے یہاں کے شہری ایسے کسی غیرجمہوری فیصلے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے‘‘۔

پاکستان میں پالیسی سازی پر وقتی، ہنگامی اور عارضی اقدامات کا سایہ مدتوں سے چھایا ہوا ہے۔ پہلی تعلیمی کانفرنس نومبر،دسمبر ۱۹۴۷ء نے جو رہنما اصول متعین کیے تھے، اگر انھیں خوش دلی سے اپنا لیا جاتا اور راستہ بنانے کی کوشش کی جاتی تو تیرہ بختی سے بچاجاسکتا تھا، مگر تعلیم، بدقسمتی سے ثانوی درجے کا موضوع ہی رہا۔ پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت نے ۹ستمبر ۲۰۰۹ء کو جو تعلیمی پالیسی منظور کی ہے، اس کا مطالعہ سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں متعدد مثبت چیزیں ہیں، کئی منفی چیزیں ہیں اور بہت سی چیزیں غیرواضح اور مبہم ہیں۔

  •   پالیسی کے پہلے باب میں تسلیم کیا گیا ہے: ’’اہلِ پاکستان کی اکثریت اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلام سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ اس لیے نظامِ تعلیم کو سماجی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے مضبوط بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی حقیقی اساس مذہب اور ایمان پر ہی قائم ہوسکتی ہے‘‘ (ص ۹)۔ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’اسلامی اقدار کی اہمیت کو یہ پالیسی تسلیم کرتی ہے، جس کے تمام عناصر اس امر کا پاس و لحاظ رکھیں گے کہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۳، ۳۶، ۳۷ اور ۴۰ کی روح کے مطابق اس عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ یہی ضابطے قابلِ فخر پاکستانیوں اور دین اسلام پر مضبوط ایمان اور عمل کے ساتھ پاکستانی ثقافت اور معاشرت کی اعلیٰ قدروں کو ترقی دے سکتے ہیں‘‘۔ (ص ۹)

اسی سلسلۂ کلام کو باب چہارم میں ’اسلامی تعلیم‘ کے زیرعنوان زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان (ص۳۱-۳۳) کیا گیا ہے: ’’اسلامی نظریہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں میں موجود ہے، جس کی وضاحت قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں کر دی گئی ہے اور اسی قرارداد مقاصد نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بنایا ہے، جو اس امر کا اہتمام کرے گا کہ اہلِ پاکستان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور قرآن وسنت کے مطابق بنائیں۔ قرآن کی تعلیمات اور اسلامیات کو لازمی بنایا جائے۔ عربی زبان کی ترویج کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں‘‘ (ص ۳۱)۔ ’’اسلامی تعلیمات کو نصاب میں سمونے کے علاوہ، ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ ثانوی درجے تک اسلامی تعلیمات اور نظریۂ پاکستان کو بامقصد طریقے سے پڑھایا جائے گا‘‘۔ (ص ۳۲)

پالیسی کے ’منصوبہ عمل‘ میں وعدہ کیا گیا ہے: ’’اسلامیات کی تدریس میں اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ مسلمانوں کے تمام بچوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے گا‘‘ (ص ۳۲)۔ درجہ اول سے کلاس ہفتم اور پھر گریجوایشن اور پیشہ ورانہ اداروں تک، اسلامیات لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے گی (کلاس اول اور دوم میں مربوط مضمون اور کلاس سوم سے اگلے درجوں تک اسے الگ مضمون کی حیثیت دی جائے گی)۔ اسلامیات کا اعلیٰ نصاب نویں، دسویں اور گیارہویں بارہویں جماعت میں بطور اختیاری مضمون بھی دستیاب ہوگا‘‘ (ص ۳۲)۔ اس کے ساتھ نصابی تقسیم کی تفصیلات درج ہیں، جن میں: قرآن، عبادات، سیرتِ طیبہ، اخلاقیات و حُسنِ سلوک، حقوق العباد شامل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے: ’’تربیت اساتذہ اور تربیت کے دوسرے اداروں کے نصاب میں اسلامی تعلیمات کو حصہ بنایا جائے گا۔ اس امر کا خصوصاً خیال رکھا جائے گا کہ نصابی اور تدریسی لوازمے میں اسلامی تعلیمات اور ضابطوں کے بارے میں متنازع فیہ چیزیں شامل نہ ہوں۔ غیرمسلم طلبہ کو اسلامیات کے متبادل کے طور پر اخلاقیات کی تعلیم دی جائے گی‘‘۔ (ص ۳۳)

واقعہ یہ ہے کہ اس امر کا تفصیل سے اعلان کر کے وفاقی حکومت نے عوامی اُمنگوں کی بجاطور پر پاسداری کی ہے، جس کی تحسین کرنا اور اس اعلان کو تقویت دینا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جنرل مشرف دور کی تعلیمی پالیسی دستاویزات، وائٹ پیپرز اور پھر ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء تک تعلیمی پالیسی کی جاری کردہ دونوں دستاویزات رسمی طور پر بھی ایسے کسی اعلان اور عزم سے کوسوں دُور تھیں۔ حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داری اور عوام کے مطالبے کو تسلیم کر کے بجاطور پر ان عزائم کو پالیسی کا حصہ بنایا ہے۔ تاہم، اس ضمن میں دو قابل توجہ پہلو ضرور ہیں: پہلا یہ کہ اس امر کی جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی سسٹم (جس کا تعلق بیرونِ پاکستان امتحانی نظام سے ہے) میں اسے کس طرح سمویا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں کیا ’معیاری یا کوالٹی کی تعلیم‘پانے والے طالب علم، اس فیصلے سے فارغ البال ہی رہیں گے۔ سو،اس جانب عملی اقدامات کے لیے وضاحت سے بات آنی چاہیے۔

دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سیکولر اور نام نہاد ’روشن خیال اقلیت‘ کو اس پالیسی کے انھی حصوں نے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی ہے، جس میں پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور اسلامی تعلیم کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پالیسی کا اعلان ہونے کے اگلے روزانگریزی روزنامہ ڈان نے اداریے میں لکھا (۱۱ستمبر): آخرکار تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے، لیکن بہت سی تعلیمی این جی اوز اس پر خوش نہیں ہیں، کیونکہ انھوں نے اصلاحِ تعلیم کے لیے جو تجاویز دی تھیں وہ اس کا حصہ نہیں بنائی گئیں۔ پالیسی بنانے والوں نے پیشہ ور عناصر کی آرا پر توجہ دینے کے بجاے سیاسی اپروچ کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی اس پر بحث کرے اور میڈیا اس بحث کو اُبھارے۔ پالیسی کا وہ پہلو اپنے اندر گہرے مضمرات رکھتا ہے، جس میں نظریاتی آہنگ کی بات کرتے ہوئے اسے دستاویز میں سمویا گیا ہے۔ نصابات میں اسلامی تعلیم کا اہتمام سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہم روشن خیالی کو پروان چڑھانے کی توقع رکھتے تھے، مگر یہاں پر تو معاملہ دوسرا سامنے آیا ہے۔ (قرآنی سورتوں کو) حفظ کرانے پر تو زور دیا گیا ہے مگر مذہب کے نام پر فہم بڑھانے کی بات نہیں کی گئی‘‘۔ [ظاہر ہے آخری چند سورتیں تو یاد ہی کی جائیں گی اور فہم دین کو بڑھانے کے لیے پالیسی میں وضاحت موجود ہے، جسے اخبار نے دانستہ نظرانداز کیا ہے]۔ اسی طرح انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز نے اداریے (۱۱ستمبر) میں لکھا ہے: ’’اسلامیات اور مطالعہ پاکستان، پاکستان کو بھرپور طریقے سے مذہبی رنگ دینے والے ایک جیسے مضامین ہیں، جن کا ایک بار پھر اعلان کردیا گیا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو پہلے ہی انتشار کا شکار ہے، اس میں ایسے مضامین کو اس مفروضے پر شامل کیا جا رہا ہے کہ شاید عقیدے کی تلقین پر اندھادھند زور نہ دینے کے نتیجے میں یہ انتشار پیدا ہوا ہے، حالانکہ یہ درست اپروچ نہیں‘‘۔

  •  طبقاتی نظامِ تعلیم کی وجہ سے امیر اور غریب طبقے کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے: نادار بچوں کا حد سے بڑا احساس عدمِ تحفظ اور امیر بچوں میں آسمانوں کو چھوتا احساسِ برتری، نفرت کی آگ پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ اس میں بنیادی کردار تعلیم ادا کر رہی ہے۔ پالیسی دستاویز میں جابجا اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ نجی شعبے کی ترقی کا موجودہ رُخ اس فساد کو بڑھا رہا ہے، لیکن اس پر کوئی معقول قدغن لگانے یا تحدید کرنے کا کوئی بامعنی نظام تجویز کرنے کے بجاے، اُلٹا اسی نجی شعبے کو پروان چڑھانے کا پیغام دیا گیا ہے۔
  •  اسی طرح اس پالیسی کا سب سے کمزور پہلو یکساں نظامِ تعلیم کی وضاحت سے منسلک ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پالیسی ساز اس مسئلے کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ یکساں نظامِ تعلیم سے مراد نصاب، امتحان، ذریعۂ تعلیم اور سہولیات میں یکساں معیار پیش کرنا ہے۔ جس کے بعد ہر ادارہ اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں اضافہ کرنے کی آزادی برت سکے۔ مگر یہاں پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرملکی امتحانی نظام سسٹم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ہم یکساں نظامِ تعلیم کی جانب بڑھ رہے ہیں تو یہ خود فریبی ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم کے لیے لازم ہوگا کہ اس غیرملکی امتحانی سسٹم کو بے دخل کر کے اپنے امتحانی نظام کو بہتر اور مؤثر بنایا جائے۔ نصاب کو جامع اور سہولیات کو وافر تعداد میں مہیا کیا جائے۔ لیکن اگر یہ چیزیں نہیں ہوتیں تو محض یہ کہہ دینا کہ ہم اپنے نصاب کو اے لیول تک پہنچا کر دم لیں گے، دیوانے کی بڑ سے زیادہ وزن نہیں رکھتی، کیونکہ اُس نصابی سسٹم کے اپنے تقاضے ہیں، جنھیں پورا کرنا حکومت کے بس میں نہیں، البتہ اپنے سسٹم کو بنانا ممکن ہے۔
  •  ’ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم، کے باب میں اس تجویز نے تو اہلِ پاکستان کو چکرا کر رکھ دیا ہے کہ: ’’گیارھویں اور بارھویں جماعت کا تعلق اب کالج کی سطح پر تعلیم سے نہیں ہوگا، بلکہ اسے موجودہ ہائی اسکولوں میں ضم کردیا جائے گا… تفصیلی مطالعے اور جائزے کے بعد اس فیصلے پر عمل کیا جائے گا، کہ اس نوعیت کی کوششیں ماضی میں ناکام کیوں رہیں‘‘ (ص ۳۸)۔ یہاں پر ڈیڑھ سو سال کی اس تعلیمی انتظامی تقسیم کو بہ یک جنبش قلم ختم کرنے کی خواہش کے پیچھے کم علمی یا حد سے بڑھی مرعویت اور مغرب زدگی کارفرما ہے۔

یہ چند سو انگریزی میڈیم اسکولوں کا شاخسانہ ہے کہ اہلِ حل و عقد کو چاروں طرف اُسی نوعیت کی چیزیں بھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ بارھویں تک کلاسوں کو ہائی اسکولوں کے سپرد کرنے کی تجویز کے پیچھے کسی باقاعدہ مطالعے کو پیش نہیں کیا گیا۔ چونکہ تجویز کنندگان برطانوی جی سی ای (A/O) سسٹم ہی سے واقف ہیں، اور وہ سسٹم بہرحال اسکول ہی میں بارھویں تک تعلیم کی ذمہ داری لیتا ہے، اس لیے انھوں نے یہاں کے لیے بھی اسی لاٹھی کو گھماکر بلاسوچے سمجھے تعلیمی معیار بلندکرنے کا خواب دیکھا اور زمینی حقائق کو بالکل ہی نظرانداز کردیا۔

یہاں بدقسمتی سے اسکول کی تعلیم پر خوف اور ڈر کے سایے حاوی رہتے ہیں۔جونہی  طالب علم اسکول سے نکل کر کالج کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اسے کچھ آزادی اورآسودگی نصیب ہوتی ہے۔ یہ چیز اس کی ذہنی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ موجودہ تجویز اس فضا کا خاتمہ کر دے گی۔ پھر اسکولوں کی لائبریری، لیبارٹریاں، اساتذہ کی علمی اور تربیتی استعداد، ہرچیز میں موجود کمی کو نظرانداز کرکے یہ کہہ دیا ہے کہ انٹرکلاسوں کا کالج سے تعلق نہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اسکولوں میں اتنے بڑے پیمانے پر کالج کے اساتذہ کو کس معیار پر تبدیل کرکے بھیجا جائے گا، یا ان اسکولوں کے لیے انٹر کے مزید اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کلاسیں ہائی اسکولوں میں چل سکیں گی یا نہیں چل سکیں گی، مگر یہ ضرور ہوگا کہ دو چار سال میں ایک نسل کے دو پورے گروپ تباہ کرنے کے بعد دوبارہ انھی کالجوں میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کو لایا جائے گا۔ اس نوعیت کے اُلٹے تجربے اسی بے چارے قومی نظامِ تعلیم کے ساتھ روا رکھے جا رہے ہیں، اور اب تو وہ بھی عوامی نمایندوں کے ذریعے۔ مزید یہ بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کالجوں کی عمارات اور سہولیات سے کیا کام لیاجائے گا؟ پالیسی اس باب میں خاموش ہے۔ اگر چارسالہ ڈگری کورس کالجوں میں متعارف کرانا ہے تو اس کے لیے ۳۰ ارب روپے سے زیادہ رقم اور کم از کم چار سال کی تیاری درکار ہے۔ مگر ایسے کسی متبادل بندوبست کو بھی پالیسی میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کالج کی انٹرکلاسوں کو اسکولوں میں دفن کر کے کالجوں کی باقی عمارتیں، ڈیڑھ ارب سالانہ امریکی ڈالروں کے ذریعے ’سرکاری نجی شراکت‘ کے ہاتھوں این جی اوز یا پراپرٹی مافیا کی بھینٹ چڑھ جائیں گی (یاد رہے امریکا نے حکم دیا ہے کہ وہ یہ خطیر رقم حکومتی ایجنسیوں یااداروں کے ذریعے نہیں بلکہ امریکی سفارت خانہ براہِ راست پاکستان کے نجی اداروں کو دے گا۔ اور افسوس کہ کشکول بکف حکمرانوں نے یہ ذلت آمیز حکم نامہ بھی تسلیم کرلیا ہے)۔ ظاہر ہے کہ ڈگری کالج کی اتنی بڑی عمارت سو ڈیڑھ سو بی اے کے طالب علموں کے لیے مخصوص کرکے، باقی حصے کو بھوتوں کا مسکن تو نہیں بنایا جائے گا۔ اور جب اسکولوں سے انٹرکلاسیں خوار ہونے کے بعد آخرکار واپس کالج میں آئیں گی تو واقعی عالمی بھوتوں نے اس کالج کے خاصے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا ہوگا اور ان کے ہاتھوں میں حکومت سے معاہدے کی دستاویزات ہوں گی، جنھیں آئینی تحفظ مل چکا ہوگا۔ یقین نہیں آتا کہ ایک عوامی جمہوری حکومت، تاک میں بیٹھے مفاد پرستوں کی اس سازش سے بے خبر ہوگی۔ یہ بھی درحقیقت اسی نوعیت کا تماشا ہے کہ کبھی نہم دہم اور گیارھویں بارھویں کا امتحان الگ الگ اور کبھی دو دو سال بعد، پھر چند برسوں بعد وہی سالانہ امتحان بورڈ کے تحت۔ یہ ظالمانہ تجربے اس جاں بہ لب سرکاری نظامِ تعلیم پر ہی کیے جاتے ہیں جیسے اس کا کوئی والی وارث نہ ہو، اور اعلیٰ طبقاتی تعلیمی نظام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔

  •  اساتذہ کے حوالے سے بہت سی عملی تجاویز پالیسی میں درج ہیں۔ مثال کے طور پر: ’’دیہی اور دُور دراز علاقوں میں جانے والے اساتذہ کو اضافی الائونس دیے جائیں گے‘‘ (ص ۴۴)۔    یہ ایک درست قدم ہے۔ پھر یہ کہ ’’پبلک سروس کمیشن سے منتخب کردہ لیکچروں کو قبل از ملازمت ۶ماہ کی تدریسی تربیت دی جائے گی‘‘ (ص ۶۰)۔ اسی طرح متعدد مثبت تجاویز پیش کی گئی ہیں، لیکن تربیت اساتذہ کے بہت سے سرکاری اداروں کی موجودگی میں: ’’تربیت اساتذہ کے لیے ’سرکاری نجی شعبے کی شراکت‘ سے کام کرنے‘‘ (ص ۴۴) کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ دراصل اس ’معصوم‘ تجویز کے ذریعے تربیت اساتذہ کے سیکڑوں ادارے، این جی اوز اور نجی شعبے کے دست برد میں آجائیں گی (یاد رہے کہ ان اداروں کی نہایت قیمتی جگہیں، عمارتیں اور ہاسٹل شہروں کے قلب میں واقع ہیں)۔ یوں بڑی تیزی سے تربیت اساتذہ کا شعبہ بھی کسی یو ایس ایڈ یا ان کی کسی این جی او کے ذریعے عالمی ساہوکاری کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ مناسب صورت یہی ہے کہ ان سرکاری تربیتی اداروں کے نصاب، معیار اور سہولتوں کو بہتر بناکر اساتذہ کو تربیت دی جائے، اور نجی شعبے کے تعاون کی مذکورہ کثافت سے قوم کو محفوظ رکھا جائے۔
  •  تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی منتخب یونینوں کے قیام کا مطالبہ ایک مدت سے اٹھایا جا رہا ہے۔ فروری ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے معیارِ تعلیم میں بلندی اور تعلیمی اداروں میں تصادم کی فضا ختم کرنے کے دعوے سے یہ پابندی عائد کی تھی۔ مگر حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی حلقوں نے اس پابندی کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے بجاے، اسے: تعلیمی نج کاری، نجی شعبے کی گرفت کو مضبوط بنانے، تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کے عمل کو تیز کرنے، فیسوں میں من مانے اضافے کرنے، ورلڈ بنک کے ’تعلیمی ذمہ داری سے دُور بھاگو‘ منصوبے پر عمل درآمد اور تعلیمی ذمہ داری سے حکومت کے فراری رویے کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا۔ ۲۰۰۷ء میں پیپلزپارٹی نے انتخابی منشور میں وعدہ کیا کہ وہ اسٹوڈنٹس یونین کے ادارے کو بحال کرے گی، تاہم اس سمت میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ زیربحث پالیسی دستاویز میں اس وعدے کو ایفا کرنے کی نیت کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے: ’’ایک ضابطہ اخلاق تجویز کیا جائے گا، جس کے تحت اسٹوڈنٹس یونین تعلیمی اداروں کا ماحول متاثر کیے بغیر صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دے سکے گی‘‘(ص ۴۹)۔ گویا کہ فیصلہ اب بھی بحالی کا نہیں ہوا، اور نہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین صرف سرکاری اداروں میں کام کریںگی یا ان کا انعقاد نجی تعلیمی اداروں اور نجی یونی ورسٹیوں میں بھی ہوگا؟ اگر یہ صرف سرکاری شعبے تک محدود رکھی جاتی ہیں تو اس ادارے کی بحالی کا مقصد فوت ہوجائے گا۔
  •  نصابی اصلاحات کے باب میں یہ بات درست نہیں ہے :’’۲۰۰۵ء میں اسکولوں کے نصاب کے جامع تجزیے کا کام شروع کیا گیا، جس میں پہلی سے ساتویں جماعت تک کے ۲۵بنیادی مضامین کا جائزہ لیا گیا‘‘ (ص ۴۴)۔ درحقیقت نصابی جائزے کے اس عمل پر ماہرین تعلیم کو شدید اختلاف اور بجا طور پر ذہنی تحفظات تھے کہ یہ آئینی طریقے اور ضابطے کی کارروائی سے ہٹ کر، مخصوص لابی کا عمل تھا۔ جس نے تاریخ، اخلاق اور متن کے حوالے سے شدید خرابیاں پیدا کردی تھیں، ایسے متنازع عمل کی تحسین ایک نامناسب قدم ہے۔ تاہم پالیسی ایکشن کے تحت یہ درست بات کہی گئی ہے: ’’نصابی ترقی اور تجزیے مع نصابی کتب کے جائزے کا کام ۱۹۷۶ء کے تعلیمی ایکٹ کی روشنی میں کیا جائے گا‘‘ (ص ۴۵)۔ یہی درست طریق کار ہے، جسے ضابطے اور جمہوری روح کے مطابق روبہ عمل آنا چاہیے۔ آگے چل کر یہ کہا گیا ہے: ’’انٹرپراونشنل اسٹینڈنگ کمیٹی آن ٹیکسٹ بک پالیسی قائم کی جائے گی جو متعلقہ معاملات کی نگرانی کرے گی‘‘ (ص ۴۷)۔ ایسی کمیٹی لازمی طور پر تضیع اوقات، پیچیدگی اور بے جا اختلاف کو پیدا کرنے کا سبب بنے گی، موزوں طریقہ وہی ہے کہ: ’’۱۹۷۶ء کے فیڈرل سپرویژن آف کریکولا، ٹیکسٹ بکس اینڈ مینٹی ننس آف سٹینڈرڈز آف ایجوکیشن ایکٹ کے دائرۂ عمل کو بروے کار لایا جائے گا‘‘۔
  •  ’’وسائل کو تعلیم کی طرف موڑنے کے لیے: پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ (ص ۲۰) پر زور دیا گیا ہے۔ یہ تجویز ایسی دو دھاری تلوار ہے کہ جس میں اُونٹ کی زبردستی والی کہاوت کے صادق آنے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ مناسب یہی ہوگا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو سرکاری انتظام ہی میں وسائل اور سہولیات کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے اور نجی شعبے کو کسی ضابطے کے تحت اور ریاستی قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے تعلیمی خدمات میں حصہ ادا کرنے کو کہا جائے۔ لیکن یہ سرکاری اداروں میں نجی شعبے کی شراکت، بیرونی مداخلت اور آخرکار قبضے کا راستہ کھولے گی اور سرکاری شعبہ رفتہ رفتہ سکڑ کر رہ جائے گا اور خود حکومت بھی یہ سمجھ کر چپ سادھ لے گی کہ چلیں ادارے کا نظام کسی نہ کسی شکل میں نجی شعبہ چلا رہا ہے، اس لیے اس کو چلنے دیا جائے، مگر یہ جان چھڑانے والا رویہ درست نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی تعلیمی اثاثہ جات کی حفاظت کرے اور انھیں ترقی دینے کے لیے موزوں حکمت عملی ترتیب دے، نہ کہ این جی اوز کو سپرد کر کے پُرسکون ہوبیٹھے۔
  •  ’’یونی ورسٹیاں چارسالہ مربوط ڈگری پروگرام متعارف کرائیںگی‘‘ (ص ۵۹)۔ یہ عجیب شتر گربگی ہے کہ پاکستان میں بہ یک وقت دو سالہ اور چار سالہ ڈگری پروگرام چل رہے ہیں۔ اگر چار سالہ پروگرام چلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اسے مناسب تیاری کے ساتھ پورے ملک میں بہ یک وقت شروع کرنا چاہیے، لیکن اگر اس کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں تو پھر انھیں محض چند  یونی ورسٹیوں کی مرضی پر چھوڑ دینا مناسب نہیں ہوگا (چار سالہ ڈگری کورسوں کا متعدد اداروں میں جو حشر ہو رہا ہے، اگر اس کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جائے گی)۔ گویا کہ مہنگے تعلیمی اداروں میں فیس دینے والا چار سالہ کورس پڑھے اور غریب و نادار دو سالہ ڈگری پروگرام پاس کر کے بے کار بیٹھے۔ یہ ہماری تعلیمی زندگی کا نہایت اہم پہلو ہے، جس میں لاکھوں طالب علم معلق ہوکر رہ گئے ہیں۔
  •  ’’فرار ذہانت (brain drain) پاکستان کا سخت تکلیف دہ مسئلہ ہے‘‘ (ص ۵۷)۔ پالیسی میں یہ نوحہ تو لکھ دیا گیا ہے، مگر پوری پالیسی درحقیقت تیاری ہی اس چیز کی کر رہی ہے کہ پاکستان سے انسانی جوہرخالص فرار ہوجائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی ادارے ایسی نسل کو تیار کرنے میں ناکام ہیں جو تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں رہنا پسند کرے۔ یہ اے /او لیول کے فارغ التحصیل  طالب علم اپنی تعلیم کے ابتدائی زمانے ہی سے پیرس، لندن اور شکاگو کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، اور پھر ان کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہمارے پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے معاون بھی ثابت نہیں ہوتے۔ یوں بڑی خوشی سے پڑھی لکھی سستی لیبر ہر سال باہر دھکیل دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’فرار ذہانت‘ کے المیے سے نمٹنے کے لیے قومی تعلیمی پالیسی کو نہ صرف مضبوط، توانا اور ترقی یافتہ بنانے والی دستاویز کی شکل دی جائے بلکہ اسے اسلامی اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار بھی کیا جائے۔ مگر افسوس کہ خود حکمران طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے اعلیٰ طبقاتی نظامِ تعلیم کی طرف کوئی انگلی اُٹھائے۔ تعلیمی پالیسی کے اعلان ہونے کے دوسرے روز پاکستان کے ایک دانش ور نے وفاقی وزیرتعلیم سے کہا: ’’جناب سرکاری تعلیمی ادارے اس وقت درست ہوجائیں گے جب مقتدر طبقہ، سیکرٹری حضرات اور ارکانِ پارلیمنٹ و وزرا اپنے بچوں کو ان اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجیں گے‘‘۔ اس پر جناب وزیرتعلیم ہزارخاں بجارانی نے فوراً کہا: ’’ہم اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں بھیج سکتے‘‘(روزنامہ جنگ، ۱۱ستمبر ۲۰۰۹ء)۔ ان کا یہ بے ساختہ ردعمل ہی قومی تعلیمی نظام کے بارے میں حکمرانوں کی سنجیدگی کو ظاہر کردیتا ہے۔
  •  ذریعہ تعلیم کے مسئلے کو بھی اس پالیسی میں ابہام کی نذر کیا گیا ہے۔ انگریزی کی اچھی تعلیم سے کوئی انکاری نہیں، لیکن جس انداز سے انگریزی کی تعلیم دی جارہی ہے، وہ قوم کو فاضل بنانے کے بجاے، محرومی، ناکامی اور مایوسی کے غار میں دھکیلنے کا ذریعہ ہے۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ابتدائی زمانے ہی میں انگریزی کا بوجھ لاد دیا جائے۔ ابتدائی زمانے میں بچوں کو قومی زبان میں پڑھنے اور زیادہ دوستانہ ماحول میں سمجھنے کی سہولت دی جائے۔ قومی زبان میں دین، اخلاقیات، تاریخ، روایات، کلچر وغیرہ کے بارے زیادہ سے زیادہ ذخیرہ الفاظ، بچوں کی یادداشت کا حصہ بنا دیا جائے، تاہم جماعت ششم سے انگریزی کی تدریس کو زیادہ بہتر بنایا جائے۔ یہ چیز ان میں لیاقت پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ محض انگریزی کے چند ابواب کو پانچویں تک پڑھا دینے سے انگریزی میں کوئی بہتر استعداد پیدا نہ ہوگی۔ لیکن افسوس کہ غیرحکیمانہ طریقے سے مسئلے کا حل یہی سمجھ لیا گیا ہے کہ انگریزی کو پہلی سے لازم کردیا گیا تو تمام دکھوں کا مداوا ہوجائے گا۔ یہ ایک غیرسائنسی اور غیرتعلیمی رویہ ہے۔ اس پالیسی میں بھی اسی کے آثار دکھائی دیتے ہیں جن پر نظرثانی ضروری ہے۔
  •  صحت، صفائی اور علاج معالجے کی بنیادی معلومات ایک پڑھے لکھے فرد کے لیے ضروری ہیں، تاہم اس ضرورت کے نام پر جب یہ کہا جاتا ہے: ’ایڈز اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں نصاب میں لوازمہ شامل کیا جائے گا‘‘ (ص ۴۵) تو بات دوسری سامنے آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ اسکولوں کالجوں میں جنسی تعلیم دی جائے گی۔ ابھی یہ پالیسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں پہنچی کہ: ’’سندھ حکومت نے کالجوں میں جنسی تعلیم کے پروگرام پر عمل درآمد کی ہدایت کردی ہے‘‘ (روزنامہ ڈان، ۱۶ستمبر ۲۰۰۹ء)۔ کمرۂ تدریس میںیہ تفصیلات کس اسلوب میں بیان کی جائیں، اس پر کچھ زیادہ بحث کی ضرورت نہیں، البتہ ’روشن خیالی‘ کی ایک اور منزل ضرور سر ہوجائے گی۔
  •  اسی طرح زیرنظر تعلیمی پالیسی نے مسائل کا جامع حل پیش کرنے کے بجاے کوئی نصف درجن کمیٹیوں اور کمشنوں کی نوید سنائی ہے کہ جو مختلف مسائل کا حل پیش کریں گے۔اگر تمام اہم معاملات پر تحقیق اور فیصلے کرنے ابھی باقی ہیں، تو پھر اس ادھوری پالیسی کو پیش کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا باقی تمام مرکزی موضوعات (مثلاً ذریعہ تعلیم، نصاب، اسٹوڈنٹس یونین، امتحانی نظام، چارسالہ ڈگری وغیرہ) بعدازاں ایک سیکشن آفیسر کے آرڈر سے پالیسی بننے جارہے ہیں؟ اس ایڈہاک ازم کے بجاے مناسب ہوگا کہ پالیسی دستاویز کو ان معاملات کے حل کے ساتھ ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے، تاکہ جامع پیکج پر قوم کے نمایندے کوئی فیصلہ کرسکیں۔

پاکستان کا مستقبل محض تعلیمی تجربات و خوش کن اعلانات سے تابناک نہیں ہوسکتا۔ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسی کو تشکیل دینا ہوگا۔ اسے مثالی پالیسی قرار دینا اس لیے ممکن نہیں کہ مختلف ٹکڑے غیرمربوط انداز سے جوڑکر پیش کر دیے گئے ہیں۔ تاہم، اس کے اچھے پہلو قابلِ تحسین ہیں اور مبہم یا منفی پہلوئوں میں بہتری لانی چاہیے۔ یاد رہنا چاہیے کہ یہ پالیسی کسی پارٹی کا وثیقہ نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کی امانت ہے، اور اسے قرار واقعی توجہ ملنی چاہیے۔ اس لیے حقائق کی دنیا سے اس پالیسی کا تعلق جوڑنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

 

انسانی معاشرہ کسی جامد چیز کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ وجود کا نام ہے۔ جس طرح انسان اچھی یا بُری چیز سے تاثر لیے بغیر نہیں رہتا، اسی طرح ایک معاشرہ بھی اچھی یا بُری قدروں سے لازماً متاثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھیں تو پاکستانی معاشرہ بھی ہر دو طرح کے رویوں سے اثرپذیری کا زندہ ثبوت پیش کرتا ہے۔ ایک جانب اگر اسلامی تہذیب، معاشرت اور اخلاقیات سے بغاوت اور اباحیت پسندی کا رویہ طوفان اُٹھا رہا ہے، تو دوسری جانب نمازِ جمعہ کی طرف رجوع، عمرے اور حج کا شوق، اعتکاف کے لیے تڑپ، نعت کی شبینہ مجالس کی کثرت، مذہبی اجتماعات اور مذہبی پارٹیوں سے وابستگی کا رجحان بھی روز افزوں ہے۔

دوسری طرف یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مذہبی شعائر پر عمل کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود، دینی اور اسلامی تہذیبی اقدار کے مخالف عناصر، ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جارحیت اور  بے باکی کا رویہ اپنائے نظر آتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں اسلامی اور تہذیبی اقدار کے علَم بردار طبقے اور افراد عمومی طور پر لاتعلق، بے حِس یا اس یلغار کے سامنے بے عمل نظر آتے ہیں، یعنی اکثریت بے بسی کی تصویر اور اقلیت جارحیت کے جذبے سے سرشار اور درجہ بہ درجہ آگے بڑھنے کی علامت۔ یہ تو نہیں کہ جارحیت کا جواب جارحیت سے دیا جائے، مگر یہ ضروری ہے کہ اسلامی تہذیبی اقدار پر اس جارحانہ یلغار کو جرأت، دلیل، بالغ نظری اور منظم طریقے سے بے نقاب کیا جائے۔مثال کے طور پر:

۱- ہمارے ہاں، نجی شعبے میں موجود سفری سہولتوں (کوچز، بسوں اور ویگنوں) میں اگرچہ پہلے تو ٹیپ ریکارڈر پر گانوں کے شور نے اذیت ناک صورت حال پیدا کر رکھی تھی، لیکن جب ٹرانسپورٹروں اور ڈرائیور حضرات نے دیکھا کہ معاشرے نے خاموشی کے ساتھ اس طوفانِ بدتمیزی کو ہضم کر لیا ہے تو اگلے قدم کے طور پر ان میں وی سی آر پر فلموں کی نمایش کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں ذرا جھجک تھی تو کچھ ڈراموں، کارٹون اور دستاویزی فلموں سے ابتدا کی گئی، مگر جلد ہی بھارتی فلموں اور گانوں کی نہ ختم ہونے والی ریکارڈنگ نے جگہ لے لی۔ آج حالت یہ ہے کہ کوئی معقول انسان اس بے حیائی کے ہم قدم سفر کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ان آلایشوں کے ساتھ سفر کرنا تو ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے۔ انسان مجبوری کے تحت سفر کرتا ہے، غصہ پی کر  رہ جاتا ہے۔ اُس کی اس مجبوری پر آوارگی اور بے حیائی حملہ آور ہوتی ہے تو وہ بے بسی میں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ دورانِ سفر اگر کوئی فرد ہمت کرکے کہہ بیٹھے کہ ’’ڈرائیور صاحب اسے بندکردیجیے‘‘، تو پہلے ڈرائیور صاحب اور پھر متعدد مسافر اس فرد کو یوں دیکھتے ہیں، جیسے یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے۔ ایک دو تو آوازہ بھی کس دیتے ہیں، حالانکہ اس کوچ میں اکثریت ان  لوگوں کی ہوتی ہے جو اسے دیکھنا نہیں چاہتے، مگر وہ سب غیرت اور حیا کو تھپک کر سلاتے اور پھر آنسو بہاکر شیطنت کا نظارہ کرنے یا اہلِ خانہ کو نظارہ کرانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

ایسا ہی معاملہ بعض اوقات ان گانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے، جنھیں ڈرائیور حضرات پوری آواز کے ساتھ مسافروں کے کانوں میں انڈیل رہے ہوتے ہیں، اور اس پر غضب یہ کہ نہایت لچر اور واہیات بول آگ برسا رہے ہوتے ہیں۔ مگر اپنی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے، مجسم غلامی کی تصویر سواریاں خاموشی سے سفر کرتی رہتی ہیں۔ اب مصیبت یہ دَر آئی ہے کہ چھوٹی ویگنوں میں بھی چھوٹی اسکرین پر گانے دکھانے اور دھماچوکڑی کا ظلم ڈھانے کا کلچر ترقی کر رہا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ  یہ چیزیں ہماری سماجی زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں اور شرافت منہ چھپا کر کڑھنے کو اپنا نصیب قرار دے رہی ہے۔ کیا واقعی حیا اور شرافت کا مطلب بے بسی اور بے عملی ہے؟

۲- اسی طرح بڑے اور چھوٹے شہروں میں خواتین کے کپڑے فروخت کرنے والوں کی دکانوں پر عورتوں کی شبیہیں، بت یا ڈمّیاں (dummies) بہ کثرت دکھائی دیتی ہیں۔ ان    دکان داروں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ان بتوں کے سہارے ہی ان کا کاروبار چل سکتا ہے۔     ایسی اُمت کہ جس کے رسولؐ نے فتح مکہ کے موقع پر بتوں کو گرایا، انھی کے نام لیوا دولت کی ہوس کے لیے نہ صرف بتوں بلکہ شرمناک بتوں کا سہارا لیتے اور اسے ’کاروباری مجبوری‘ قرار دیتے ہیں    ؎

بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

اب سے ۲۵، ۳۰ سال قبل جن دکانوں پر ایسے ماڈل رکھے ہوتے تھے، لوگ انھیں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے اور توجہ بھی دلاتے تھے، مگر اب یہ ’ڈمی کلچر‘ اس پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ بت شکن اُمت کی نئی نسل یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ شاید روزِ اوّل سے کاروبارِ زندگی میں یوں ہی ہوا کرتا تھا، حالانکہ یہ چیز حالیہ عشروں میں ہمارے ہاں زبردستی در آئی ہے۔ ان مظاہر کا سامنا کرتے ہوئے کوئی بھی معقول انسان نظریں نیچی کیے اور شرمندگی کے پسینے میں نہائے بغیر رہ نہیں سکتا۔

۳- خاص طور پر بڑے شہروں کے بس اسٹاپوں پر بعض اوقات یہ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ کوئی خاتون یا طالبہ بس، ویگن کے انتظار میں کھڑی ہے۔ اچانک کسی کار یا موٹرسائیکل پر سوار کوئی مرد اسے گُھورتا، گاڑی کو کبھی آگے اور کبھی پیچھے کرکے، ایسی گھٹیا نظروں سے اشارے کرتا نظر آئے گا کہ بے چاری خاتون تو سہم جائے گی اور شرمندگی کے احساس میں کانپ رہی ہوگی، مگر   اسی بس اسٹینڈ پر کھڑے بیسیوں نوجوان، شریف اور باوقار مرد اس جارحانہ ڈرامے سے لاتعلق دکھائی دے رہے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ نہایت ضروری کام اور مجبوری کے ہاتھوں اگر کوئی شریف زادی سواری کا انتظار کرنے کے لیے اسٹاپ پر کھڑی ہے تو وہ ایسے توہین آمیز رویے کو کیسی بے بسی میں برداشت کرے گی اور شریف اکثریت، ریت میں منہ دھنسائے اپنی راہ لے گی؟ کیا غنڈا کلچر کے سامنے شرافت نے یوں ہی زندگی بسر کرنی ہے؟

۴- کیبل سروس کے ذریعے بیسیوں چینل ایک انگوٹھے کی ضرب سے تمام برے بھلے پروگراموں کے ذریعے ٹیلی ویژن اسکرین پر آموجود ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی سامنے رہے کہ اکثر ٹیلی ویژن اور اخبارات نے منظم دبائو کے ساتھ پورے معاشرے کو فکری اور تہذیبی طور پر یرغمال بنالیا ہے۔ پریس کی آزادی کے تمام تر احترام اور ایک صحت مند معاشرے کے لیے اس کی کماحقہٗ ضرورت کا پاس و لحاظ رکھنے کے باوجود، یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا تہذیب اسی کو کہتے ہیں کہ اس سے وابستہ چند سو افراد، ۱۷ کروڑ افراد کو جس انداز سے چاہیں، ہانکتے چلے جائیں مگر یہ عظیم اکثریت ان سے سوال کربیٹھے تو ’آزادیِ صحافت‘ پر حملے کی دہائی دی جاتی ہے۔

کیبل سروس کے حوالے سے دو باتیں قابلِ غور ہیں: اوّل یہ کہ کیبل آپریٹر کون سے چینل فراہم کر رہا ہے اور دوم: یہ کہ خود کیبل کے ذریعے در آنے والے ٹیلی ویژن چینل کیا دکھا رہے ہیں؟ ان چینلوں پر نمایاں طور پر تین چیزیں توجہ طلب ہیں: اشتہارات، ڈرامے اور ٹاک شو___ اشتہارات کے سلسلے میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ جب تک اشتہار لچرپن سے آلودہ نہیں ہوگا، وہ اپنا مدعا بیان نہیں کرسکے گا؟ خصوصاً کثیر قومی (multi national) کمپنیوں کے اشتہار، وہ کمپنیاں جو دنیا بھر سے مال ودولت جمع کرکے اپنی تجوریاں بھرنے نکل کھڑی ہوئی ہیں۔ ان کے نزدیک اصل چیز پیسہ ہے، وہ جس طرح اور جس قیمت پر بھی آئے۔ ان کے نزدیک صارف ممالک کی رعایا، ان کے سامنے بے بس اور ’بے وقوف شکار‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ان کے ہاں   اخلاقی یا تہذیبی قدروں کا مسئلہ تو سرے سے خارج از بحث ہے۔

اب اہلِ وطن کو سوچنا ہے کہ ہم اپنا پیسہ دینے اور فنی سہولت حاصل کرنے کے ہمراہ، تہذیبی اور ایمانی سطح پر کیا لے رہے ہیں؟ ماہرین ابلاغیات کے نزدیک اشتہار ایک مختصر، مگر نہایت مؤثر ڈراما ہوتا ہے اور اس ڈرامے کے سب سے بڑے شکار بچے ہوتے ہیں اور پھر دوسرے درجے میں خواتین۔ ان اشتہاروں میں متعدد ایسے ہیں کہ جنھیں کوئی غیرت مند انسان ایک بار بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا، مگر وہ بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوسری جانب بچے ان کی گرفت میں مسحور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا پورا معاشرہ ان عالمی ساہوکاروں کے سامنے محض ایک ایسا گونگا گاہک ہے، جو حمیت، دولت اور تہذیب کو ان کی چوکھٹ پہ قربان کرنے پر مجبور ہے!

ایک اور اہم چیز ٹی وی کے ڈرامے ہیں جن کا ہماری عمومی سماجی زندگی سے تو تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، مگر گلیمر، فیشن، بے ہودہ لباس، بے باکی اور بدیسی طرزِ زندگی کا ایک   چلتا پھرتا سرکس بن کر یہ ڈرامے انسانوں کو فتح کرنے اور اپنے رنگ میں رنگنے کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ ڈراما بہرحال مقامی ڈراما نویسوں اور مقامی پروڈیوسروں کے دماغ کی اختراع ہوتا ہے۔ اسی طرح دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی معاشرت میں اس طبقے کا کیا حجم ہے کہ جہاں بیٹی چیخ اور چلّا کر اپنے ابّا اور امّی سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ: ’’زندگی میری ہے، جیسے چاہوں اسے بسر کروں‘‘۔ یا یہ جملہ کہے: ’’ٹھیک، شادی نہیں کرتے، مگر اچھے دوستوں کی طرح تو ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں گے‘‘۔ یہ دو جملے جس طرزِ زندگی اور طرزِ فکر کی نشان دہی کرتے ہوئے، نوجوان بچوں اور بچیوں کو اپنی تقلید کی طرف مائل کرتے ہیں، کیا وہ یہاں کے کروڑوں انسانوں کی زندگی کا چلن ہے یا ایک نہایت قلیل اباحیت پسند ٹولے کا ذہنی فتور؟ انھی ڈراموں میں غیرحقیقی امیرانہ شان و شوکت اور بے زاری و بے قراری کے طوفان___ کہاں ہے یہ پاکستانی معاشرے کی تصویر؟ مگر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’سفلی محبت‘ کے ان ریفریشر کورسوں کو درست سمت عطا کرنے کے لیے کتنے شرفا نکلتے، لکھتے یا اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہیں؟ شاید کوئی بھی نہیں۔

اسی طرح مباحث یا ’ٹاک شوز‘ میں اکثر توازن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کسی ایک ہی فکر کے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے اور اکثر تو خود ’اینکرپرسن‘ کا رویہ نہایت تحکمانہ اور گاہے توہینِ آمیز ہوتا ہے، جب کہ بحث میں حصہ لینے والے حضرات اور گلی میں لڑتے جھگڑتے بچوں کے طرزِعمل میں کوئی بنیادی فرق نہیں نظر آتا۔ ظاہر ہے ٹیلی ویژن، استاد کی طرح بڑے پیمانے پر افکار کی تشکیل کرنے اور شائستگی یا ناشائستگی سکھانے کا کام انجام دے رہا ہے۔ مذکورہ صورت حال کسی صحت مند مستقبل کی طرف نہیں، بلکہ عدمِ برداشت کے کلچر کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ کیا کوئی توانا اور باوقار آواز اس رویے کو درست کرنے کے لیے توجہ دلاتی نظر آتی ہے؟ شاید کوئی نہیں۔

۵- اگرچہ بدکاری ایک معاشرتی ناسور کی شکل میں موجود تھی، تاہم نومبر ۲۰۰۷ء میں  ’روشن خیال‘ جنرل مشرف کی زیرقیادت مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے حدود قوانین کا جو حلیہ بگاڑا ہے، اس نے اس گھنائونے جرم کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے۔ اس کاروبار کی حرکیات اور مظاہر پر تفصیلات بیان کرنے کی یہاں گنجایش نہیں، فقط ایک دوحوالوں سے معروضات پیش ہیں:

پہلی بات تو یہ کہ ’حدود قوانین‘ میں ترمیم ۲۰۰۷ء کے بعد عمومی سطح پر یہی تاثر عوام تک منتقل ہوا کہ: ’’اب بالرضا بدکاری، قابلِ دست اندازیِ پولیس نہیں رہی ہے۔ اور اس تاثر کو گہرا کرنے کے لیے روزنامہ جنگ، جیو ٹیلی ویژن اور خودساختہ ’علماے کرام‘ کی دو سال پر محیط جارحانہ، یک رُخی اور مسلسل مہم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس قانون کی منظوری کے بعد لاری اڈوں، بازاروں، بعض ہوٹلوں اور کئی گیسٹ ہائوسوں تک میں بے باکی اور ’کاروباری فعالیت‘ کے مناظر ترقی پانے لگے۔ اس تاثراتی دبائو کے نتیجے میں خود پولیس دس قدم پیچھے ہٹی ہے، اور انسانیت کی تذلیل کے ایجنٹ بیس قدم آگے بڑھے ہیں۔

دوسری بات: اس ناسور کی جارحیت کا اندازہ اہلِ پاکستان کو اُس وقت ہوا جب جولائی ۲۰۰۹ء میں کراچی میں جنسی کنونشن منعقد ہوا۔ جس کی بہت سی تفصیلات بیان کرنا قرین مصلحت نہیں ہیں، بہرحال بی بی سی لندن نے ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء کو اس کنونشن کے بارے میں جو رپورٹ نشر کی، اس کے چند اقتباسات اُس کے نمایندے ارمان صابر کے حوالے سے پیش ہیں:’’جنسی کارکنوں کے کنونشن کی ایک ۲۸سالہ مندوب نے بتایا: اب معاشرے نے ہمارے وجود کا احساس کرلیا ہے، تاہم بدکاری ابھی تک اس مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں غیرقانونی دھندا ہے۔ اگرچہ اس کا   وجود تو صدیوں سے ہے، مگر کبھی اس کے لیے سپاس و اعتراف کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ہرچند کہ  گذشتہ دوعشروں کے دوران میں، پاکستان میں اسلامیت میں اضافہ ہوا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارا یہ دھندا بھی ترقی پا رہا ہے۔ پہلے ہم چوری چھپے یہ کاروبار کرتے تھے، لیکن اس کنونشن نے ہمیں مل بیٹھنے، تبادلۂ خیال کرنے اور اپنے تجربات بیان کرنے کا موقع اور تقویت دی ہے۔ہمیں کشادہ روی کا احساس دیا ہے۔ اب ہم اپنے حقوق کے لیے بھی آواز اُٹھا سکیں گے‘‘۔

بی بی سی کے نمایندے کے بقول: این جی او، جینڈر اینڈ ری پروڈکٹیو ہیلتھ فورم (GRHF) نے یہ کنونشن اقوامِ متحدہ کے ادارے فنڈ فار پاپولیشن (UNFP) سے مل کر منعقد کیا ہے۔ ایک سو طوائفوں پر مشتمل اس کنونشن کے احوال بیان کرتے ہوئے نمایندے نے رپورٹ دی ہے:

کنونشن میں شریک پیشہ وروں میں سے بہت سی ایسی تھیں، جنھوں نے کیمرے کی تصویر بنانے سے روک دیا اور کہا: ’’ہمیں خوف ہے کہ اپنے اہلِ خاندان کے سامنے بے نقاب ہوجائیں گے‘‘۔ بہت سی کہہ رہی تھیں: ہمارے خاوند اور اہلِ خانہ نہیں جانتے کہ ہم اس کاروبار سے منسلک ہیں، وہ یہی جانتے ہیں کہ ہم نجی کمپنیوں میں ملازم ہیں‘‘۔ ایک مقامی این جی او کے سروے کے مطابق کراچی میں ایسی فاحشہ عورتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے، لاہور میں ۷۵ ہزار اور فوجیوں کے شہر راولپنڈی میں ۲۵ ہزار‘‘۔

اسی رپورٹ کو انگریزی روزنامہ دی نیوز نے ۴؍اگست ۲۰۰۹ء کو ہوش ربا تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہی گروپ آیندہ لاہور اور دوسرے شہروں میں ’کنونشن‘ منعقد کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایک این جی او ’عمل ہیومن ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ: ’’ہم نے ۲۰۰۶ء میں ایسی ۹۱۸ شرکا کی، ملک بھر میں ’تربیت‘ کی تھی۔ اس    تربیتی پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا تھا‘‘۔

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ یہاں بہت سی تفصیلات عمداً بیان نہیں کی جارہی، فقط چند سطور  نقل کی گئی ہیں۔ اس مناسبت سے چند امور توجہ طلب ہیں:

___ پہلا یہ کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی دیکھ کر نہ صرف اس جرم میں اضافہ ہورہا ہے، بلکہ اس جرم کو ایک ’کاروبار‘ اور ’کارکن‘ یا ’مزدوری‘ سے منسوب کرکے، ایک معمول کی چیز کا قرار دیا جا رہا ہے۔

___ دوسرا یہ کہ عالمی اداروں کی امداد پر چلنے والی این جی اوز معاشی اور سماجی استحصال سے پاک معاشرے کے قیام سے زیادہ دل چسپی اس امر میں رکھتی ہیں کہ جو خرابی موجود ہے، اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے، تاہم کچھ آرایشی اقدامات کرکے سبک دوش ہوا جائے۔ انھیں اس چیز کی کوئی فکر نہیں کہ کسی ستھرے متبادل کاروبار کا بندوبست کیا جائے، بلکہ دل چسپی اس سے ہے کہ گندگی خوش نما نام سے برقرار رہے۔

___ تیسرا یہ کہ اپنے ہدف کی ایسی مبالغہ آمیز تصویر پیش کی جائے کہ عامۃ الناس    ذہنی شکست سے دوچار ہوجائیں۔ ایسے مبالغہ آمیز اعداد وشمار کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں، تاہم اُوپر بیان کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار کا ذرا تجزیہ کریں، مثلاً کراچی کی آبادی ایک کروڑ ۱۰لاکھ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہرعمر کی خواتین کی تعداد تقریباً ۵۵ لاکھ ہوگی۔ تو کیا مذکورہ رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ ایک لاکھ عورتیں اس ’کاروبار‘ کا حصہ ہیں تو گویا وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہر۱۰۰میں ۲عورتیں ایسی ہیں۔ کیا عقل اور مشاہدہ ان گھنائونے اعداد و شمار کی تائید کرتا ہے؟ بالکل یہی فی صد لاہور کے بارے میں پیش کیا گیا ہے اور اسی سے ملتی جلتی شرح راولپنڈی سے منسوب کی گئی ہے۔ یہ کون سی این جی اوز ہیں، اور ان کی ایسی مبالغہ آمیز تصویرکشی کے کیا مقاصد ہیں؟     یہ ثابت کرنا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اخلاق باختہ اور اخلاقی و جنسی اعتبار سے گندا ملک ہے۔ یہ کہ یہاں اس صورت حال کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کرلیا گیا ہے اور ایسی مبالغہ آمیز صورت  کے سامنے اخلاقی اور دینی پہچان رکھنے والی قوتیں عملاً شکست کھاچکی ہیں۔

___ چوتھا یہ کہ بی بی سی کی رپورٹ نے ’ بے نقاب‘ ہونے سے بچنے کے لیے شرکا کی جس ’مجبوری‘ کی طرف اشارہ کیا ہے، اس نے توگویا محنت، دفتر اور ہُنر سے وابستہ دیگر خواتین کی ساکھ کو دائو پر لگا دینے کی کوشش کی ہے۔ شک، بے اعتمادی اور جرم کے اس منظرنامے کو پیش کرکے این جی او نے کارکن اور محنت کش خواتین کی پوزیشن خراب کی ہے۔

___ پانچواں یہ کہ ان لوگوں کو: ’’ایسے پروگراموں سے تقویت ملی ہے اور وہ معاشرے میں اپنی تمام آلایشوں کے باوجود ’’باقاعدہ حقوق کے امیدواربھی ہیں‘‘۔

ان افسوس ناک اور شرم ناک حالات میں اہلِ ایمان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟

یہ سوال دنیا میں کامیابی اور آخرت میں جواب دہی دونوں اعتبار سے اہم ہے۔ تاریخ کا ناقابلِ فراموش سبق یہ ہے کہ برائی کو اگر برداشت کیا جائے تو وہ پنپتی اور بڑھتی ہے اور اگر نیکی کی قوتیں اس کا مقابلہ کریں تو بالآخر اسے پسپا ہونا پڑتا ہے۔ خاموشی اور بے غیرتی سے برائی کو گوارا کرنا اگر ایک طرف اخلاقی جرم ہے تو دوسری طرف تہذیبی بگاڑ اور اجتماعی تباہی کا ذریعہ اور    پیش خیمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دے کر بگاڑ کے غلبے کا راستہ بند کیا ہے۔ منکر کے مقابلے میں مداہنت محض بے غیرتی ہی کا رویہ نہیں بلکہ ایمان کے تقاضوں کے بھی منافی ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے اپنی تعلیمات اور اسوئہ مبارکہ دونوں کے ذریعے اہلِ ایمان کو بدی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے سے روکا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ صرف انفرادی نیکی ان کو اجتماعی تباہی اور آخرت کی جواب دہی سے نہیں بچاسکتی۔

جس معاشرے میں خدا کی نافرمانی اور فحش کا رواج عام ہوجائے اس کے دن گنے جاتے ہیں اور اس معاشرے کے وہ افراد جو صرف اپنے دامن کو بدی سے بچانے پر قناعت کرلیتے ہیں اور بدی سے معاشرے کو پاک کرنے کی مناسب سعی و جہد نہیں کرتے وہ بھی اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ جن اصولوں کو بیان کیا گیا ہے، ان میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں: ایک یہ کہ برائی، بدی، فحش اور بداخلاقی، اخلاقی اور اجتماعی جرم ہیں اور ان سے بچنا   دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ صرف خود بچنا کافی نہیں  بلکہ معاشرے کو ان سے پاک کرنا اور ان کے فروغ کے آگے بند باندھنا ایمان کا تقاضا اور   اجتماعی زندگی کو بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  •  اے نبیؐ! ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام ___ خواہ کھلے ہوں یا چھپے ___  اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے۔(الاعراف ۷: ۳۳)
  •  نیز ارشاد ربانی ہے کہ: جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں     فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (النور ۲۴: ۱۹)___ فحش اور منکر شیطان کے حربے ہیں اور ان سے بچنا اور اللہ کے بندوں کو ان سے بچانا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے۔
  •  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ (النور ۲۴: ۲۱)
  •  پھر یہ صاف صاف انتباہ کہ اگر تم انفرادی نیکی پر قناعت کرو گے اور اجتماعی بگاڑ سے معاشرے کو پاک کرنے کی سعی و جہد نہ کرو گے تو اس تباہی سے نہ بچ سکو گے جو اس بگاڑ کا لازمی نتیجہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔(الانفال ۸: ۲۴-۲۵)

اس قاعدہ کلیے کو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن میں اسی آیت کی تشریح میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’اس سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وباے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو  گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں، ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہوجاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سَمِیّت [زہریلاپن] پھیل جاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے اور گندے ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں۔ لیکن جب سوسائٹی کا  اجتماعی ضمیر کمزور ہوجاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اُس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان بُرے اور بے حیا اور بداخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو علانیہ اُچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی (passive attitude) اختیار کر کے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہوجاتے ہیں، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنۂ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسولؐ جس اصلاح و ہدایت کے کام کے لیے اُٹھا ہے، اور تمھیں جس خدمت میں ہاتھ بٹانے کے لیے بلا رہا ہے، اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمھارے لیے زندگی ہے۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جو سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے، تو وہ فتنۂ عام برپا ہوگا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی، خواہ بہت سے افراد تمھارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۳۸-۱۳۹)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصولی ہدایت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ: اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامۃ الناس کی یہ حالت نہ ہوجائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بُرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہارِ ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہارِ ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (مسنداحمد، ۴؍۱۹۲، مشکوٰۃ المصابیح)

  •  اندریں حالات اس امر کو تسلیم کرنا ہوگا کہ گونگی شرافت، اپاہج نیکی اور جمود زدہ حیا کے لشکری اس سیلابِ بلا کو نہیں روک سکتے بلکہ اس مقصد کے لیے شرافت، نیکی اور حیا کی قوتوں کو منظم، فعال اور گروہی سطح سے بلند ہوکر چلنا پڑے گا۔۱؎
  •  یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ بے حیائی کا تعلق اس وطن سے نہیں ہے۔ یہاں کے شہریوں کو بے حیائی کے مقابلے میں اجنبی بن کر رہنے کے بجاے، اس لعنت کے تمام ماڈلوں (مقامی، بھارتی، مغربی) کو دیس سے نکالنا ہوگا۔ اس جدوجہد کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ پہلے ایمان اور شعور کا جذبہ بیدار اور قوی کیا جائے، پھر تنظیم اور دلیل کی قوت سے یہ مسئلہ حل کرنے کی تدبیر کی جائے۔
  •  حدود قوانین اور شعائر دینی کے مخالف چند سو افراد منظم ہوکر اور پورے پاکستانی معاشرے کو یرغمال بناکر من مانے فیصلے کرا سکتے ہیں، تو کیا یہاں کی عظیم اکثریت ایمانی اورجمہوری بنیاد پر اس اقلیت کی ایسی پیش رفت کا مداوا نہیں کر سکتی؟

۱- سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ریاست پاکستان نے ٹریفک کے کیا اصول وضع کیے ہیں؟ کیا ان قوانین کے تحت سڑک پر دوڑتی گاڑیوں میں ریکارڈنگ اور فلم بینی کی گنجایش موجود ہے؟ اگر قوانین میں سقم ہے تو اسے بدلوانے کے لیے کاوش کرنا ہوگی اور اگر پابندی ہے تو انھی قوانین کی بنیاد پر ٹریفک پولیس، ہائی وے پولیس، موٹروے پولیس وغیرہ کو فون کر کے مسلسل اطلاع دینا ہوگی۔ اس شعور کی بیداری کے لیے قوانین اور ٹیلی فون نمبروں پر مشتمل پمفلٹ اڈوں پر تقسیم کرنے ہوں گے۔ جب بھی گاڑی میں بیٹھیں، گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے بیٹھیں اور اگر ایسی بے راہ روی ہو تو فون کر کے پولیس کو اطلاع کریں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انتہائی نرمی سے ڈرائیور یا کنڈکٹر سے کہیں کہ آپ کی مہربانی ہوگی، یہ نہ چلائیں۔ ڈرائیور الجھنا چاہے تو الجھنے سے اجتناب کریں۔ ممکن ہو تو اکیلے بات کرنے کے بجاے کسی اور سواری کو بھی ساتھ لے لیں۔ ممکن ہے آپ کی فوری طور پر یہ کاوشیں کامیاب نہ ہوں، لیکن اس کے باوجود اس کوشش کا اثر ضرور ہوگا۔

۲- دکانوں پر عورتوں کی ڈمیاں رکھنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے: اگر دکان دار رشتہ دار ہیں تو سمجھائیں، اگر محلے دار ہیں تو جاکر توجہ دلائیں، اگر بازار میں ہیں تو کچھ شہریوں پر مشتمل، کسی بھی نام کی انجمن کی شکل میں، اکٹھے جاکر متوجہ کریں۔ اگر گاہک ہیں تو سودا لیتے وقت یا سودا لینے کے بعد مالکِ دکان سے کہیے۔ اگر اس کام کو تسلسل کے ساتھ بار بار لوگ کریں گے تو لازماً اس کا مثبت نتیجہ نکلے گا۔ اگر استاد ہیں تو اپنے طلبہ و طالبات کے ذہن نشین کرائیں کہ اس خرابی کو پروان چڑھتے یوں ہی دیکھتے رہے تو یہ بت فروش اور بت پرست معاشرہ بن کر رہ جائے گا۔

۳-بس اسٹاپوں پر جو لوگ خواتین کو اس طرح تنگ کریں، انھیں سمجھانے کے لیے آگے بڑھیں۔ اگر جذبات پر کنٹرول رکھ کر متوجہ کریں گے تو یقینا جھگڑا نہیں ہوگا۔ اگر آگے بڑھ کر روک نہیں سکتے تو کم از کم ان کی گاڑیوں کے نمبر نوٹ کرکے پولیس کو ۱۵ پر اطلاع کریں۔

۴- کیبل والوں سے جاکر اجتماعی طور پر بات کی جاسکتی ہے کہ کن چینلوں کو آگے نہ بھیجیں۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے مالکان یا ان کے علاقائی دفاتر کولگاتار فون کرکے، وفود کی  صورت میں مل کر اور میمورنڈم بناکر بھی متوجہ کیا جاسکتا ہے کہ کون سے اشتہار قابلِ اعتراض ہیں۔ مخربِ اخلاق پروگرام کون سے ہیں اور کون سے ٹاک شو دینی، تہذیبی اور قومی حوالے سے غلط پیغام پہنچا رہے ہیں۔ پھر مختلف کمپنیوں سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کے یہ اشتہار اور مخرب اخلاق ماڈلوں پر مشتمل بڑے بڑے ہورڈنگ ہماری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تاجر لوگ آپ کے ایسے چند سو ٹیلی فونوں کی بنیاد پر اپنی اشتہاری مہم کو تبدیل کردیںگے۔ پھر اشتہار بنانے والی کمپنیوں سے مرد حضرات، خواتین کے وفود اور طالب علموں کی ٹیمیں جاکر ملیں، دلیل سے بات سمجھائیں تو یقینا اس کا اثر ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ٹیلی ویژن چینلوں کے پتے، افراد کے رابطہ نمبر، کثیر قومی کمپنیوں کے دفاتر اور ڈائرکٹروں، ڈراما نویسوں اور پروڈیوسروں کے رابطہ نمبر اور اشتہارساز کمپنیوں کے پتے، پمفلٹوں کی صورت میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔

۵- بے راہ روی کے اڈوں یا کرداروں کے بارے میں بھی یہی حکمت عملی مناسب رہے گی کہ اہلِ محلہ اس بارے میں مشترکہ کاوش کریں، پہلے سمجھائیں ورنہ انتظامیہ کو اطلاع دیں۔ یہی رویہ بازاروں میں اپنانا چاہیے۔

نہایت اہم بات یہ ہے کہ یہ ساری جدوجہد، آئین، قانون اور اخلاقی دائرے کے اندر رہتے ہوئے مگر زوردار اور دبنگ انداز میں ہونی چاہیے۔اگر قانون کو ہاتھ میں لیں گے تو نتائج ضائع ہوسکتے ہیں۔ اس سمت میں پیش رفت کے لیے لازم ہے کہ تشدد کا راستہ ہرگز نہ اپنایا جائے اور بے جا اشتہاربازی سے اجتناب کیا جائے۔ تحقیق و تجزیے اور ضروری معلومات کی فراہمی کے لیے انتظامی دفاتر، اور وکلا سے مدد لی جاسکتی ہے، جب کہ استدلال کے لیے اجتماعی بحث و تمحیص مددگار ہوسکتی ہے۔ ان پانچوں نکات کے بارے میں تمام مکاتبِ فکر کے علما کو اعتماد میں لیا جائے، اساتذہ کو متوجہ کیا جائے، اپنے اپنے محلے، قصبے یا گلی میں درسِ قرآن (مردوں اور عورتوں) کے حلقوں میں شعوری طور پر خیر پھیلانے کی جانب راغب کیا جائے۔ اس کام کو گروہی اور سیاسی مفادات سے بالاتر رہتے ہوئے، تمام شہریوں کی مدد سے آگے بڑھایا جائے۔

بلاشبہہ معاشرے کی اصلاح اور اسے اخلاق سے عاری رویوں اور حرکات سے پاک رکھنا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولیں ذمہ داری ہے، لیکن اجتماعی زندگی کی اصلاح کے تمام کام صرف حکومت اور انتظامیہ پر نہیں چھوڑے جاسکتے۔ جس طرح کہ گھر کو آگ لگ جائے تو فائربریگیڈ کی آمد سے پہلے آگ بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور سیلاب آجائے تو انتظامیہ کی مدد آنے سے پہلے جان و مال کو بچانے کے لیے کاوشیں کی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح ایمان، اخلاق، تہذیب اور خاندان کے ادارے کو بچانے کے لیے ہرشہری کو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ معاشرے کے سنجیدہ طبقوں کو بھی قانون اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اپنے جس فرض کو انتظامیہ پورا نہ کر رہی ہو، اس کی تکمیل کے لیے امداد باہمی سے منزل سر کی جاسکتی ہے۔

 

سیکولر قوم پرستی کتنی بزدل اور موقع پرست ہوتی ہے، اس کی مثالیں مسلم دنیا میں بڑی کثیر تعداد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ آج کے پاکستان میں اس کی قابلِ ذکر مثال مہاجر قوم پرستی کی صورت میں سامنے ہے اور پاکستان میں سب سے پہلے سر اُٹھانے والی بنگلہ قوم پرستی، ایسی موقع پرستی اور بزدلی کے ثبوت قدم قدم پر پیش کر رہی ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آیا، جو سابقہ ہندستان میں مسلم اکثریت کے دو خطوں پر مشتمل تھا: ایک موجودہ پاکستان جسے مغربی پاکستان کہتے تھے اور دوسرا مشرقی بنگال، جسے مشرقی پاکستان کہتے تھے۔ ایک تلخ حکومتی کلچر، بنگلہ قوم پرستی اور بھارت کی براہِ راست مداخلت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، بھارت کی فوجی یلغار اور عوامی لیگ کی زیرقیادت بنگلہ قوم پرستی کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان سے الگ ہوکر ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو   بنگلہ دیش بن گیا۔ بنگلہ دیش میں بہت سے سیاسی نشیب و فراز آئے، لیکن ۳۸ برس گزرنے کے بعد  آج ایک نئے روپ میں بنگلہ قوم پرستی جو راگ الاپ رہی ہے، اس کا ایک نمونہ یہ اعلامیہ ہے:

بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ۱۹۷۱ء کی جدوجہدِ آزادی کی مخالفت کرنے اور پاکستانی فوج و حکومت کا ساتھ دینے والوں پر ’جنگی جرائم‘ کے مقدمے چلانے میں مدد دے۔ بنگلہ دیش حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: اس حوالے سے ہمیں سیکڑوں افراد مطلوب ہیں۔ ہم نے اپنے انتخابی منشور میں اس امر کا عہد کر رکھا ہے کہ یہ مقدمات ہم ضرور چلائیں گے۔  شیخ مجیب نے [۱۹۷۲ء میں] اس ضمن میں ۳۷ ہزار افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں بڑی تعداد اسلام پرستوں (اسلامسٹوں) پر مشتمل تھی، جو نہ تو [مشرقی پاکستان کی] پاکستان سے علیحدگی چاہتے تھے، اور نہ بنگلہ دیش کو ایک سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ ان گرفتار شدگان میں سے چند ایک پر مقدمے بھی چلائے گئے، تاہم بعدازاں شیخ مجیب نے ۱۱ ہزار افراد کو معاف کر دیا، جب کہ دوسرے ۲۶ ہزار افراد کو شیخ مجیب الرحمن کے قتل [۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء] کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ایک نجی تحقیقاتی کمیٹی نے ایسے ۱۵۹۷ افراد کی فہرست تیار کی ہے، جو جنگی مجرم ہیں۔ ان مجرموں میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت بھی شامل ہے۔ ہم اپنی مدتِ حکومت کے دوران ان مقدمات کا فیصلہ کریں گے (One World South Asia،۲۸ جنوری ۲۰۰۹ء)

یہ ہیں وہ عزائم، جنھیں عوامی لیگ کی قیادت ایک سیاسی سٹنٹ اور شوشے کے طور پر وقتاً فوقتاً اچھالتی آرہی ہے اور اس کے مددگار اس کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ ۱۰ ماہ کے اخبارات، عوامی لیگ کی اس پروپیگنڈا مہم سے سیاہ نظر آتے ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے بنگلہ دیشی   عام انتخابات میں بھی عوامی لیگ نے اس مسئلے کواپنی انتخابی تقاریر میں مرکزی حیثیت دے رکھی تھی۔ ہر قاری اور ناظر کے لیے یہ سوال دل چسپی کا باعث ہے کہ ۳۸برس بعد اچانک یہ مسئلہ کیوں   بنگلہ دیش کی سیاست میں زندگی اور موت کا موضوع بنایا جا رہا ہے جس میں عوام کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ عوامی لیگ کہ جس نے بنگلہ دیش جیسی عظیم مسلم اکثریتی ریاست کو بھارت کی   تابع مہمل اور اقتداراعلیٰ کی نچلی سطح پر کھڑی ریاست بنا رکھا ہے، وہاں کے لوگ عوامی لیگ سے اپنی قومی خودمختاری اور غیرت و حمیت پر مبنی زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر وہ اس سیدھے سوال کا جواب دینے کے بجاے، ۴۰سال پرانے واقعات پر مبنی جھوٹے مقدمات چلانے کو تمام قومی مسائل کا حل قرار دے رہی ہے۔ دراصل یہ مسئلہ اتنا سادا نہیں، بلکہ اس بنگلہ دیشی قوم پرستی کی پشت پناہی، درپردہ بھارتی اور امریکی حکومتیں بھی کر رہی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ان اسلامیانِ مملکت کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے، جو اپنے اپنے معاشروں میں، قومی غیرت و حمیت کا تحفظ اور اپنے قومی دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں اور کسی غیر ملکی قوت کی غلامی نہیں چاہتے۔ اس لیے عوامی لیگ کی جارحانہ پروپیگنڈا مہم بھی نام نہاد امریکی جنگ دہشت کا ایک شاخسانہ ہے۔

البتہ اس کی فوری و جہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ ۲۰۰۱ء کے قومی انتخابات میں ’چار جماعتی اتحاد‘ میں شامل جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) نے بھرپور کامیابی حاصل کی (جماعت کے ۱۷ ارکان اور چار خواتین پارلیمنٹ کی ارکان منتخب ہوئیں)۔ جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو حکومت میں دو وزارتوں کے قلم دان سونپے گئے۔ ان میں مطیع الرحمن نظامی (امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش) وزیر زراعت اور علی احسن مجاہد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش) وزیر سماجی امور مقرر ہوئے۔ ان دونوں وزرا نے پانچ برس تک بنگلہ دیش میں جس لگن، دیانت داری، بے پناہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر وزارتی ذمہ داریاں ادا کیں، انھوں نے پورے ملک کے سوچنے سمجھنے والے حضرات پر گہرے مثبت اثرات مرتب کیے، جب کہ بنگلہ  قوم پرستی کی علَم بردار عوامی لیگ کے ریکارڈ میں کرپشن اور بددیانتی پر مبنی بُری حکومت گردی کے گہرے داغ، مٹائے نہیں مٹ پاتے۔ اس صورت حال نے بھی عوامی لیگ اور اس کے سرپرستوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا، کہ کسی طرح وہ جماعت اسلامی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیں۔

اس مضمون کے شروع میں عوامی لیگ کا جو جارحانہ پالیسی بیان دیا گیا ہے ، اس کو دیکھیں تو یہ نکات سامنے آتے ہیں: 

  • ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کا ساتھ نہ دینے والے قومی مجرم ہیں، ان پر مقدمے چلائے جائیں گے۔ 
  • علیحدگی کے مخالفین کی بڑی تعداد اسلامی سوچ کی حامل تھی۔ 
  • ان ملزموں کو پکڑنے کے لیے اقوامِ متحدہ مدد کرے۔
  • شیخ مجیب نے ایک تہائی افراد کو معاف کیا تھا، جب کہ دیگر افراد شیخ کے قتل کے بعد رہا ہوئے۔
  • ایک نجی تنظیم کے مطابق ایسے جنگی مجرموں کی تعداد ۱۵۹۷ ہے۔ 
  • جنگی مجرموں میں جماعت اسلامی کی قیادت شامل ہے۔   یہ فہرست تو صرف اس بیان کی بنیاد پر بنائی گئی ہے، وگرنہ عوامی لیگ کی اس فہرست میں ہر دوسرے روز کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جس سے بدنیتی اور شرانگیزی واضح ہے۔

اس ’فردِ جرم‘ کی حقیقت پر بات کرنے سے پیش تر چند باتوں کو بیان کرنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم کے دوران میں عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں غنڈا گردی کا ایسا بازار گرم کیے رکھا کہ کوئی بھی مدِمقابل پارٹی کھل کر اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکی۔ دوسرا یہ کہ اس فضا میں بلاشرکت غیرے تمام نشستوں پر وہ انتخاب جیت گئی۔ تیسرا یہ کہ صدر جنرل یحییٰ خان، مغربی پاکستان سے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن [والد: حسینہ واجد] نے جس غیرلچک دار رویے کو اپنایا، اس نے دو ماہ کے اندر اندر مشرقی پاکستان کی سیاسی فضا کو سخت کشیدہ بنا دیا۔ چوتھا یہ کہ جب بھٹو صاحب کے ایما پر جنرل یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تو عوامی لیگ کے اُکسانے پر پورے مشرقی پاکستان میں یکم مارچ سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران میں ایسی سول نافرمانی شروع ہوئی کہ جس میں عوامی لیگیوں نے اُردو بولنے والے ہم وطنوں کے ساتھ پنجابی اور پٹھان پاکستانیوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا۔ عورتوں کی بے حرمتی کی، ان کے بے لباس جلوس نکالے، بڑے بڑے مذبح خانے بناکر ان مظلوم ہم وطنوں کی گردنیں کاٹیں، ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینکیں اور ان کے خون سے بڑے بڑے ڈرم بھر ڈالے۔ یہ تمام شرم ناک تفصیلات سیکولر قوتوں کے لیے بائبل کا سا درجہ رکھنے والے رسائل (ٹائم، نیوزویک، لائف، اکانومسٹ وغیرہ) کی مارچ ۱۹۷۱ء کی اشاعتوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان لاکھوں بے گناہ مظلوموں کے بہیمانہ قتل میں عوامی لیگ کی مرکزی قیادت شامل تھی۔ مگر اس خون کا حساب کوئی مانگ نہیں رہا۔ پانچویں یہ کہ ۲۵ مارچ کو جنرل یحییٰ خاں نے فوجی ایکشن کا آغاز کیا، جس کے بعد ۱۲ روز کے دوران بڑی تعداد میں بنگالی شہری مارے گئے۔ چھٹے یہ کہ اپریل ۱۹۷۱ء سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے دوران میں بھارتی فوج کی کھلی اور چھپی پشت پناہی کے ساتھ مکتی باہنی اور بھارتی گوریلا فورس نے مل کر گوریلا جنگ شروع کی۔ ساتویں یہ کہ پاکستانی فوج اور محب وطن بنگالیوں کے خلاف یہ    بے بنیاد اور انتہائی فحش پروپیگنڈا کیا گیا کہ ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو مارا اور ۳ لاکھ عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ایسے چند انتہائی افسوس ناک واقعات کو لاکھوں میں تبدیل کر دینا، سیکولر روشن خیالی کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آٹھواں یہ کہ۲۱ نومبر ۱۹۷۱ء کو بھارت نے کھلے عام مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ نواں یہ کہ ۱۶ دسمبر کو پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد پھر مکتی باہنی نے بھارتی فوج کے تعاون سے محب وطن بنگالیوں، اسلامی عناصر اور غیربنگالی پاکستانیوں کے خون کی ہولی کھیلی۔ اس قتلِ عام کا کوئی حساب نہیں۔

یادرہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ اور بھارتی فوج کی مزاحمت کرنے کے لیے جن قوتوں نے اپنے دوٹوک اصولی موقف کا اعلان کیا، ان میں جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ، نظامِ اسلام پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی اور جمعیت العلما شامل تھے۔ تاہم بنگلہ دیش بن گیا اور پاکستان دو لخت ہوگیا۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بلاشرکت غیرے حکومت قائم ہوگئی۔ انتقامی کارروائیوں کا دور دورہ شروع ہوا۔ ایک مدت تک قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ پاکستان کے ۹۰ہزار جنگی قیدی (فوجی اور سویلین) بھارت کی جیلوں میں منتقل ہوگئے۔

۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب کی حکومت نے کولیبوریٹرز ایکٹ (Collaborators Act) بناکر ان افراد کی پکڑدھکڑ شروع کی، جنھوں نے پاکستان توڑنے کی مہم کا ساتھ دینے کے بجاے، ایک پاکستان کا ساتھ دیا، اور بھارتی افواج کی مدد کر کے دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ نہیں بنے۔ اس ایکٹ کے تحت ۳۴ہزار ۴ سو ۷۱ افراد پر چارج شیٹ لگائی گئی۔ ۳۰ہزار ۶سو ۲۳ افراد کے نام فہرستوں میں تو لکھے مگر ان پر کوئی الزام نہ عائد کیا جاسکا۔ کُل ۲ہزار۸سو ۴۸ افراد پر مقدمہ چلایا گیا۔ ان میں سے بھی ۲ ہزار ۹۶ افراد پر کوئی جرم ثابت نہ کیا جاسکا، اس لیے ان کو رہا کردیا گیا۔ جب کہ ۷۵۲ افراد کو مجرم قرار دیا گیا۔ اس مشق کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے نومبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ماضی کو دفن کرتے ہیں، اب ہم سب مل کر بنگلہ دیش کی تعمیروترقی کا کام کریں گے۔ آج کے بعد یہ باب بند ہوتا ہے‘‘ (تاہم جماعت اسلامی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد رکھنے اور جماعت کے مرکزی قائد پروفیسر غلام اعظم [پ: ۷ نومبر ۱۹۲۲ء] کی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان برقرار رکھا)۔ اس طرح بنگلہ دیش کے بانی نے ’جدوجہدِ آزادی‘ کی حمایت یا مخالفت کرنے والوں کی تقسیم کے انتقامی کلچر کو ختم کرنے کا عہد کیا۔ گویا کہ تقریباً دو سال تک بھرپور ریاستی طاقت استعمال کرکے انھوں نے ۷۵۲ افراد کو سزا کے لیے چن لیا تھا۔ یہ تمام پیش کردہ اعداد و شمار خود مجیب حکومت نے پیش کیے تھے، لیکن دوسری جانب عوامی لیگ کے نئے وزیرقانون شفیق احمد جنوری ۲۰۰۹ء میں جن اعداد و شمار کو پیش کر رہے ہیں، انھیں مجیب کے اعداد و شمار سے کوئی نسبت نہیں۔ معلوم نہیں ان میں درست کون ہے اور غلط کون؟ (تاہم ۷ نومبر ۱۹۷۵ء کے تیسرے فوجی انقلاب میں مکتی باہنیکے ہیرو جنرل ضیاء الرحمن نے عنانِ حکومت سنبھالی اور ۳۱ دسمبر ۱۹۷۵ء کو اس کولیبوریٹر ایکٹ کو صدارتی آرڈر کے ذریعے منسوخ کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نومبر ۱۹۷۳ء سے لے کر دسمبر ۱۹۷۵ء کے دوران میں اس ایکٹ کے تحت نہ کوئی مقدمہ قائم ہوا، اور نہ کسی قیدی کو سزا ہوئی۔ اس لیے منطقی طور پر یہ ایکٹ اپنی افادیت کھو چکا تھا)۔

۱۷؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمن نے پارلیمنٹ میں ایک خصوصی ٹریبونل بنانے کا اعلان کیا، اور یہ کہا: ’’پاکستانی افواج اور ان کے مددگار عناصر کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام، انسانی بے حرمتی اور دیگر جرائم کی تحقیقات کرنے اور جنیوا کنونشن کے آرٹیکل ۳ کی روشنی میں مقدمات چلانے کے لیے ۱۹۵ افراد کی فہرست تیار کرلی گئی ہے اور مئی ۱۹۷۳ء کے اواخر تک اس ٹریبونل کے سامنے مذکورہ تمام جنگی مجرموں کو پیش کر دیا جائے گا‘‘ (مجیب حکومت کی اس فہرست میں درج ذیل تمام افراد کا تعلق مسلح افواج پاکستان سے تھا اور وہ تمام مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک نام بھی کسی سویلین مغربی پاکستانی یا سویلین بنگالی کا شامل نہیں تھا)۔

اس مقصد کے لیے پہلے تو ۱۵ جولائی ۱۹۷۳ء کو ان شہری حقوق کو سلب کیا گیا کہ جو اسے تنظیم سازی، آزادی راے اور دفاعِ ذات کا حق دیتے ہیں، پھر ۱۹ جولائی ۱۹۷۳ء کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ نے انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ پاس کیا، تاکہ ۱۹۵ پاکستانی فوجی افسروں کے خلاف جنگی مقدمات چلائے جاسکیں۔ لیکن اس دوران میں پاکستان اور بھارت کے درمیان وزارتی سطح کے مذاکرات شروع ہوگئے۔ بھارت کی نمایندگی سردار سورن سنگھ اور ڈی پی دھر نے کی، جب کہ پاکستان کی نمایندگی عزیز احمد اور آغا شاہی کر رہے تھے۔ بعدازاں بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ کمال حسین بھی ان مذاکرات کا حصہ بن گئے اور ۹؍ اپریل ۱۹۷۴ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے آرٹیکل ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ کے مطابق مذکورہ ۱۹۵ جنگی ملزموں کو بھی عملاً معاف کر دیا گیا اور اس مسئلے کو ریاستی سطح پر حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا (یاد رہے کہ ان ۱۹۵ افراد میں کوئی ایک فرد بھی جماعت اسلامی سے متعلق نہیں تھا)۔

اسی طرح یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مدتوں تک جماعت اسلامی کی قیادت کو کسی ’مجرمانہ سرگرمی‘ میں ماخوذ نہیں کیا گیا کہ مقدمات چلائے جاتے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت دینی، سماجی، سیاسی اور آئینی اصلاحات و خدمات کی سرگرمیوں میں بھرپور انداز سے شریک رہی۔ ان میں سے اکثر قائدین نے قومی دھارے کی سیاست میں حصہ  لیا اور انتخابات میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۳ء کے انتخابات میں اس لیے حصہ نہ لیا کہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد تھی، لیکن ۱۹۷۹ء کے عام انتخابات میں ’’اسلامک ڈیموکریٹک لیگ‘‘ (IDL) کے نام سے حصہ لیا اور چھے نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۸۶ء کے عام انتخابات میں ۱۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۹۱ء کے انتخابات میں ۱۸ نشستوں پر جماعت اسلامی کے ممبران اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۶ء میں ۳ نشستیں جیتیں اور پھر ۲۰۰۱ء کے انتخابات میں بی این پی (خالدہ) کے ساتھ مل کر دو تہائی اکثریت سے کامیابی ملی۔ عوامی لیگ، ہندو کمیونٹی اور مغربی ایجنڈے کی حامل این جی اوز کے نہایت زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود دسمبر ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں بھی جماعت کے تمام قائدین نے حصہ لیا۔ بنگلہ دیش میں امیدواری کے قوانین کے مطابق جنگی جرائم میں ماخوذ کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ لیکن چونکہ جماعت کے قائدین ایسے جرائم میں ملوث نہیں تھے، اس لیے ان میں سے کسی ایک امیدوار کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد نہ ہوئے۔

دراصل یہ ’جنگی جرائم کا ڈراما‘ رچایا صرف اس مقصد کے لیے جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی  طرح جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی قوتوں کو قومی دھارے سے نکال باہر کیا جائے، جب کہ جماعت اسلامی جمہوری، پُرامن، آئینی اور خدمتِ خلق کی جدوجہد کا وسیع ریکارڈ رکھتی ہے۔ اسے کسی طور عوامی رابطے سے روکنا ممکن نہیں رہا ہے۔

یاد رہے اس سے قبل جماعت اسلامی کو ایک بڑی صبرآزما آزمایش سے گزرنا پڑا اور وہ آزمایش تھی بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ہر دل عزیز اور مرکزی لیڈر پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کا مسئلہ۔ نومبر ۱۹۷۱ء میں پروفیسر غلام اعظم، مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے کہ دوسرے روز بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس طرح ڈھاکہ جانے کے تمام فضائی رابطے کٹ گئے، اور وہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں معلق ہوکر رہ گئے۔ دو سال کے بعد سعودی عرب گئے اور پھر لندن منتقل ہوگئے۔ بعد میں جنرل ضیاء الرحمن نے جماعت اسلامی پر عائد پابندیاں ختم کرکے پروفیسر غلام اعظم کو پاکستانی پاسپورٹ پر ڈھاکہ آنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب وہ جولائی ۱۹۷۸ء میں وطن واپس آئے تو ایک عرصے تک انھیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حق سے محروم رکھا گیا کہ: ’’وہ بنگلہ دیشی شہریت نہیں رکھتے‘‘۔ پھر ایک عرصے تک انھیں قیدوبند سے گزرنا اور سخت عدالتی عمل کا سامنا کرنا پڑا، جس میں بنیادی سوال ان کی شہریت کا تھا۔ ڈھاکہ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس محمد اسماعیل الدین سرکار نے ان کی اپیل پر فیصلے میں لکھا: ’’درخواست گزار، پروفیسر غلام اعظم کو پریس فوٹو میں بلاشبہہ پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خاں اور جنرل ٹکا خاں سے ملاقات کرتے دیکھا گیا ہے، مگر کسی جنگی اقدام میں ان کا کوئی کردار ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، اس لیے ان کی شہریت کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے‘‘ (غلام اعظم بنام بنگلہ دیش Dhaka Law Report، نمبر۴۵، ہائی کورٹ ڈویژن، ص ۴۳۳)۔ اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے حکومت سپریم کورٹ میں گئی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے، پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کو بحال رکھنے کا حکم جاری کیا۔ (غلام اعظم بنام بنگلہ دیش Dhaka Law Report، نمبر۴۶، اپیلیٹ بنچ ، ص ۱۹۲)

اگر تاریخ کے ریکارڈ کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی بحالی، انسانی حقوق کے تحفظ اور آئین کی عمل داری کے لیے جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے پہلے مشرقی پاکستان میں اور پھر بنگلہ دیش میں مل جل کر جدوجہد کی۔ شفاف انتخابات کے لیے ’نگران حکومت‘ کے قیام کی تجویز پروفیسر غلام اعظم نے پیش کی، جس کی تائید تقریباً تمام پارٹیوں نے کی اور وہ تجویز دستور کا حصہ بن گئی۔ ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات میں بی این پی (خالدہ) نے ۱۴۰ نشستیں جیتیں، عوامی لیگ نے ۸۸ اور جماعت اسلامی نے ۱۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جماعت نے بی این پی کی حمایت کی جس سے یہ حکومت ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۶ء تک قائم رہی۔ اس عمل سے عوامی لیگ ناراض ہوگئی۔ آخرکار عوامی لیگ، جاتیوپارٹی (ارشاد) اور جماعت اسلامی نے ۱۹۹۶ء میں پارلیمنٹ سے استعفے دے دیے اور تینوں پارٹیوں نے مل کر سیاسی جدوجہد کی۔ مطیع الرحمن نظامی اور علی احسن مجاہد، حسینہ واجد کے گھر اجلاسوں میں جماعت اسلامی کی نمایندگی کرتے رہے، مشترکہ جلوس نکالتے اور پریس کانفرنسیں کرتے رہے۔ تب موصوفہ کو ان رہنمائوں کے چہروں پر ’جنگی جرائم‘ کا کوئی داغ دکھائی   نہ دیا۔ لیکن جوں ہی ۲۰۰۱ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے بی این پی کے ساتھ چار جماعتی اتحاد میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تو عوامی لیگ کو ۱۹۷۱ء کی یاد ستانے لگی، حالانکہ ان کے والدگرامی اس دریا کو عبور کر چکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اپنی گھٹی میں پڑے فاشی اور آمرانہ جذبے کے ہاتھوں مغلوب ہوکر جون ۱۹۷۵ء میں تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کرکے    واحد سیاسی پارٹی: ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ (BKSAL) قائم کی اور تمام اخبارات پر پابندی عائد کر کے صرف چار سرکاری اخبارات کی اشاعت کی اجازت برقرار رکھی۔ صرف ڈھائی ماہ ہی گزرے تھے کہ فوج نے بغاوت کر کے ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء کو انھیں اہلِ خانہ سمیت قتل کر دیا۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی [پ: ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء] نے   عوامی لیگ کی اس تازہ پروپیگنڈا مہم کے جواب میں Probe میگزین کو بتایا: ’’گذشتہ مدتِ حکومت کے دوران میں جماعت اسلامی کی کامیابی اور دو وزارتوں میں کامیاب حکمرانی نے سیکولر قوتوں کے اوسان خطا کردیے۔ پہلے انھوں نے اسٹیج کردہ دھماکوں میں بددیانتی سے جماعت اسلامی کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کی۔ کوئی فرد جماعت کے لٹریچر سے ایسا ایک لفظ بھی نہیں پیش کرسکتا کہ جس میں تشدد پسندی کو فروغ دینے اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا کوئی جواز اور حوالہ پیش کیا جاسکتا ہو۔ اسی طرح عوامی لیگ دومرتبہ حکومت میں رہی، سب سے پہلے ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۵ء تک، جب کہ اس کے سربراہ خود شیخ مجیب الرحمن تھے اور دوسری مرتبہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران میں، جب کہ اس کی سربراہ حسینہ واجد تھیں۔ پہلے دور میں تو کوئی فرد انھیں چیلنج بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کیا اُس زمانے میں وہ جماعت اسلامی کے خلاف کوئی ایک مقدمہ بھی دائر کرسکے؟ ایک بھی نہیں۔ اسی طرح جب میجر رفیق وزیرداخلہ نے جنگی مجرموں کی فہرست تیار کی تو جماعت اسلامی کے کسی ایک رکن کا بھی نام اس میں شامل نہ کرسکے۔ اس لیے یہ مقدمات چلانے کی سطحی نعرے بازی دراصل جماعت اسلامی کو خوف زدہ کرنے کے لیے سیاسی مخالفین کی ایک اوچھی چال اور سیاسی دہشت گردی ہے۔ یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ ساتھ دو تو ٹھیک، اور ساتھ نہ چلو تو مجرم۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی آمریت کے خلاف عوامی لیگ کے ۱۵ پارٹی اتحاد اور خالدہ ضیاء کے سات پارٹی اتحاد سے مل کر ہم نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کی، اور پھر ’کیر ٹیکر گورنمنٹ‘ [نگران حکومت] کا قانون پاس کرانے کے لیے بھی جماعت اسلامی سے عوامی لیگ نے مل کر خالدہ ضیاء حکومت پر دبائو ڈالا کہ وہ دستور میں ترمیم کریں‘‘(۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ اسی طرح ٹائمز آف انڈیا (۷ مئی)کو انٹرویو دیتے ہوئے، مطیع الرحمن نظامی نے کہا: ’’۱۹۷۱ء میں پاکستان ایک ملک تھا اور برملا ہم اس کے ساتھ وفادار تھے۔ اب بنگلہ دیش ایک ملک ہے، اور ہم اس کے شہری ہوتے ہوئے، اس کے ساتھ حب الوطنی سے وابستہ ہیں۔ البتہ سوچنے کا مقام ان لوگوں کے لیے ہے جو سیاسی دیوالیہ پن کے شکار ہیں اور اپنی فاشی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بے جا الزام تراشی پر اُتر آئے ہیں‘‘۔

اب بنگلہ قوم پرستی کے اس سیکولر دھارے کے ان اقدامات اور عزائم پر نظر ڈالیں:

  •  بھارت کے احسان تلے دبی عوامی لیگ، غیر متعلق مسائل کو اُچھال کر دراصل اپنے ان اقدامات پر پردہ ڈال رہی ہے جن کے نتیجے میں اس نے عملاً بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی اور ایک طفیلی ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔ ۸ فی صد بنگالی ہندوئوں کی خوشی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے اسلامی قوتوں کو مسلسل ہدف بناکر اپنی بھارت نوازی کا ثبوت فراہم کرنا اس کی حکمت عملی ہے۔
  •  ۲۵ جون ۲۰۰۹ء کو بنگلہ دیش مسلح افواج کے بریگیڈیئر عبداللہ الاعظمی کو کوئی جواز بتائے بغیر، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل معین نے برطرف کر دیا۔ بریگیڈیئر اعظمی، نیشنل ڈیفنس کالج کے سربراہ تھے۔ ان کی شہرت ایک انتہائی ذہین، ایمان دار، شریف النفس، محب وطن اور فرض شناس افسر کی تھی۔ البتہ ’جرم‘ صرف ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ وہ جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما پروفیسر غلام اعظم کے بڑے بیٹے ہیں، جنھیں تنگ نظر قوم پرستی نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔
  •  بعدازاں ۹ جولائی ۲۰۰۹ء کو بنگلہ دیش پارلیمنٹ نے وار کرائمز ایکٹ ۲۰۰۹ء منظور کیا ہے، کہ جس کے تحت گڑے مُردے اُکھاڑنے، اور ۴۰ سال پرانے الزامات گھڑتے ہوئے، اُبھرتی اسلامی قوت جماعت اسلامی کو دبانا مطلوب ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اس حکمت عملی سے جہاں ایک طرف جماعت اسلامی کی قیادت شخصی سطح پر نقصان پہنچ سکتا ہے، وہاں دوسری جانب خود اسلامیانِ بنگلہ دیش میں ان کی پذیرائی کے دائرے میں بے پناہ وسعت آئے گی، اور مشرق سے اُبھرتے ہوئے مسلم قومیت و توانا اسلامیت کے اس سورج پر ڈالی جانے والی  یہ کمندیں، موم کی رسیاں ثابت ہوں گی، ان شاء اللہ!

 

قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ کا جومسودہ وفاقی وزارتِ تعلیم، حکومت پاکستان نے مشتہر کیا ہے، وہ ۱۱ ابواب اور ۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پیش کردہ حقائق کا مطالعہ اور بیان کردہ اہداف کا تجزیہ کرتے ہوئے چند باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں، جنھیں اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے:

  •  اس دستاویز کو تعلیمی پالیسی کہنا نامناسب ہوگا۔اس کا بیش تر حصہ، ماضی کے تعلیمی عمل پر غیر مربوط تنقید پہ مشتمل ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اندازہ نہیں ہوتا کہ کوئی صحت مند تعلیمی منصوبۂ عمل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی تیاری میں نہ قومی مشاورت کی گئی ہے، اور نہ پہلے سے موجود تعلیمی دستاویزات کو اہمیت دی گئی ہے۔
  •  اس میں پاکستان کے نظامِ تعلیم کا جو مقصد اور وژن متعین کیا گیا ہے(ص۱۹)، وہ پالیسی سازوں کی سیکولر ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ اس میں خاص طور پر ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جن سے کسی درجے میں پاکستان کی اسلامی شناخت کا شائبہ تک نہ دکھائی دے۔ کہا گیا ہے:’’پاکستانیوں کی اکثریت اپنی تہذیبی اقدار اسلام سے اخذ کرتی ہے۔ کوئی بھی نظامِ تعلیم کسی بھی معاشرے کی سماجی ،ثقافتی اور اخلاقی قدروں کے اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں بڑی مداخلت تو ایمانی اقدار کی بنا پر ہے… قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے، تاہم پالیسی کے اصول، دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۹، ۳۰، ۳۳، ۳۶، ۳۷، ۴۰ کی روشنی میں وضع کیے جائیں گے‘‘(ص۹) اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ پہلے آرٹیکل تو ریاست کی حکمت عملی سے متعلق ہیں اور اگلے آرٹیکلز کا تعلق پس ماندہ علاقوں اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ سے ہے۔ یہاں پر پالیسی سازوں کی جانب سے آرٹیکل ۲۹ سے آرٹیکل ۴۰ کے اس سفر میں دانستہ طور پر، آرٹیکل ۳۱ کو بھلا دینے، نظر انداز کر دینے، چھوڑ دینے یا کوئی بے کار چیز سمجھنے کا شعوری تاثر دیا گیا ہے۔ اب دیکھیے دستور پاکستان کا آرٹیکل۳۱:

۱- پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت [رسولؐ] کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میںمملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا، اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔ (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیارات کی پابندی کو فروغ دینا۔

اس پالیسی دستاویز میںدستور پاکستان کا حوالہ دیتے وقت دانستہ طورپراس آرٹیکل کو نظر انداز کرنا خود ایک مشکوک عمل ہے۔ یہ ایک طرح سے قرآن، سنت ِ رسولؐ، اسلامی تصورِ زندگی اور عربی سے چھٹکارا پانے کی خواہش کا اظہار ہے۔

  •  یہ دستاویز اُن تمام بکھرے اور غیر منطقی بیانات کا مجموعہ ہے، جسے جنرل (ر) پرویز مشرف کی سرپرستی میں ،۲۰۰۶ کے دوران تعلیم کا وائٹ پیپر کی صورت میں متعارف کرایا گیا تھا، اور جسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔  اسی لیے وہ تعلیمی شب خون پالیسی نہ بن سکا، لیکن اب وزارت تعلیم اسی فکری و تعلیمی تخریب کو نافذ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔
  •   مختلف بلائیں ایک ہی وقت میں نازل ہوں تو خطرات اور تباہی کی شدت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ گذشتہ ۸ برسوں کے دوران میں امریکی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی  پے در پے دستاویزات میں یہ سفارش کی جا رہی ہے کہ: مسلم دنیا کے نظامِ تعلیم کو سرکاری کنٹرول سے نکال باہر کیاجائے۔ یہی سفارش نائن الیون کمیشن نے بھی کی ہے، اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس پالیسی دستاویز نے بھی ’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘ (PPP) یعنی سرکاری نجی شراکت کو ترویج دینے کے لیے خوش نما الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ ایک جگہ کہا ہے: ’’اس مقصد کے لیے تمام صوبائی بجٹوں میں رقوم مختص کی جائیں گی، تاکہ خیراتی تنظیمیں اس میدان میں خدمات انجام دے سکیں‘‘ (ص۲۱) ’’صوبائی حکومتیں، نجی شعبہ تعلیم کی حوصلہ افزائی کریں گی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو ابھارا جائے گا کہ وہ نجی شعبۂ تعلیم سے استفادہ کریں‘‘ [ص۲۶] ۶۷ ہزار نجی تعلیمی اداروں میں کتنے خیراتی یا غریب پرور تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب پوری قوم جانتی ہے، اور یہ حقیقت بھی ہرکس و ناکس پر واضح ہے کہ خیرات، انسان دوستی اور تعلیم کے نام پر ارب پتی اور کروڑ پتی حضرات یا بیگمات کس کس حربے سے سرکاری وسائل ہڑپ کرکے، اندھیروں میں ڈوبے عوام کو مزید اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ مگراس کے ساتھ جس دوسری بلاکا ذکر ضروری ہے، اس کا تعلق امریکا کی جانب سے دیے جانے والے اس ڈیڑھ ارب ڈالرسالانہ قرضے سے ہے، جسے تعلیم اور صحت کے نام پر، امریکی حکومت براہ راست، غیر سرکاری عناصر کے ذریعے پاکستان کے طول و عرض میں خرچ کرے گی۔ جو ظاہر ہے مالی رشوت، سماجی و ثقافتی تخریب کاری اور سرکاری تعلیمی اداروں پر نام نہاد این جی اوز کے قبضے اور عوامی سطح پر امریکی رشوت ستانی کا ایکشن پلان ہے۔
  •   اہل وطن کو جاننا چاہیے کہ جس رقم کو حکومتیں ’امداد ‘ (Aid)کا نام دیتی ہیں، یہ بیرون ممالک سے کوئی تحفہ یا خیرات نہیں ہوتی، بلکہ یہ قرضے ہوتے ہیں جنھیں بھاری سود کے ساتھ واپس لوٹایا جاتا ہے۔ ایک طرف نجی شعبے کو آگے بڑھ کر سبھی کچھ سمیٹنے کی دعوت دی جا رہی ہے، جب کہ دوسری جانب اربوں روپے خرچ کرنے کے منصوبے بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے: ’عالمی ترقیاتی معاونین‘ سے مل کر اسکولوں کو بہترین شکل دی جائے گی‘‘ (ص۳۲)۔ کیا یہ سب کام عالمی امدادوں سے ہوگا؟کیا یہ رقوم خرچ کرکے اسکولوں کو این جی اوز کے سپرد کیاجاے گا یا بیچ دیا جائے گا، یا پھر اس رقم کا بڑا حصہ ’پڑھا لکھا پنجاب‘ جیسی تشہیری مہمات پر خرچ کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جائے گا اور چند سو گھرانوں میں دولت کو منتقل کرنے کا اہتمام کیا جائے گا؟
  •  ’دہشت گردی‘ کے خلاف موجودہ نام نہاد ’جنگ‘ میں دینی مدارس کا کتنا کردار ہے، اس سوال کا جواب ہر پاکستانی جانتا ہے :’نہ ہونے کے برابر‘، مگر اسی امریکی ’خوف‘ کو سامنے رکھتے ہوئے مال اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری پیرس میں انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’پاکستان کے مذہبی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو متبال تعلیم کے مواقع دینے کے لیے سالانہ دوبلین ڈالر [یعنی ایک کھرب ۶۲ ارب روپے] چاہییں‘‘ (روزنامہ نوائے وقت، جنگ،۱۸ مئی ۲۰۰۹ء)۔ دوسری طرف تعلیمی پالیسی میں کہا جا رہا ہے: ’’مرکزی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایسی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گی، کہ جس کے تحت، دینی مدارس کے طالب علموں کو ایسے مضامین پڑھائے جائیں گے کہ ان کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں‘‘ (ص۲۸)۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان مدارس نے کبھی حکومتوں سے امداد یا ملازمتوں کی درخواست نہیں کی، تو پھر بن مانگے یہ عنایات کیوں؟ ظاہر ہے کہ دینی تعلیم سے چونکہ امریکا کو چڑ ہے، اس لیے امریکی امداد کے بل بوتے پر، اور خود ساختہ ہمدردی کے نام پر رفتہ رفتہ ان اداروں کے خود کار نظام کو جکڑنا مطلوب ہے۔ حالانکہ جدید تعلیم کے جن اداروںپر یہ برسر اقتدار گروہ فخر کرتے نظر آتے ہیں، ان کا اپنا حال خاصا پتلا ہے، نہ تعلیم کے معقول مواقع، نہ نظم و ضبط کا اچھا معیار اور نہ روزگار کی کوئی ضمانت، مگر ان کے بجاے فکرمندی بے چارے دینی مدارس کی؟
  •  اردو کی قومی شناخت کو گم اور علاقائی زبانوں کو نعرہ بازی کا شکار کرنے کے پردے میں، انگریزی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کا عزم اس پالیسی میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلے کہا گیا ہے: ’’پہلی کلاس سے نصاب میں انگریزی بطور مضمون، اردو، ایک علاقائی زبان اور ریاضی شامل ہوگی‘‘ (ص۲۷)۔ اگلی شق میں کہا گیا ہے:’’ علاقائی شعبہ ہاے تعلیم یا صوبے اس  امر کا اختیار رکھیں گے کہ پانچویں تک جو چاہیں ذریعۂ تعلیم منتخب کریں‘‘ (ص۲۷)۔ اس کے بعد لکھا ہے: ’’کلاس چہارم سے اگلے درجوں تک سائنس اور ریاضی کے مضامین انگریزی میں پڑھائے جائیں گے‘‘ (ص۲۷)۔ اس سے اگلی شق میں پھر یہ کہا گیا ہے: ’’۵ سال تک، صوبوں کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ ریاضی اور سائنس کو انگریزی، اردو یا سرکاری طور پرمنظور شدہ علاقائی زبان میں پڑھائیں، مگر پانچ سال بعد وہ یہ مضامین صرف انگریزی میں پڑھائیں گے‘‘۔ (ص۲۷)

ایک ہی صفحے پر متضاد اور غیر حقیقی دنیا کے مشورے دینے والے اِن حضرات سے کسی معقول پالیسی سازی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ باتیں وہی لوگ کر سکتے ہی جو چند بڑے شہروں کے امیر علاقوں کے رہایشی ہوں اور جنھیں پاکستان کے طول وعرض کے سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات کا کچھ علم نہ ہو۔ ایک جانب خود سرکاری کا لجوں اور ہائی اسکولوں میں انگریزی کے معقول اساتذہ کا قحط، اور دوسری جانب بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لیے تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ہے۔ اس صورت حال میں دیہی علاقوں کا بچہ جسے اردو پڑھنے کے مواقع بھی پوری طرح میسرنہیں ہیں، وہ بھلا کس طرح انگریزی میں ریاضی پڑھ سکے گا۔ ریاضی ،سائنس اور غور وفکر کے حامل مضامین کے لیے جتنا بے ساختہ اور فطری ابلاغی عمل مادری یا قومی زبان میں ممکن ہے، انگریزی یا بدیسی زبان میں ممکن نہیںہے۔ کیا اس غیر سائنسی اقدام کے ذریعے بچوں کو ابتدائی درجے ہی میںاسکولوں سے بھگانے یا رٹہ لگا کر بے سمجھے بوجھے ، انگریزی اور سائنس و ریاضی سے بے بہرہ کرنے کے عمل کو دانش مندی تصور کیا جا سکتا ہے؟ یادرہے ۱۹۷۳ میں نافذ ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۲۵۱ میں قوم سے وعدہ کیا گیا تھا: (۱) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یومِ آغاز سے ۱۵ برس [یعنی ۱۹۸۸] کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال ہونے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ (۲) شق (۱) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک دفتری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی، جب تک کہ اس کو اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں‘‘ … بجاے اس کے کہ دستور کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اقدام کیا جاتا، تجویز یہ کیا جا رہا ہے کہ اس ہدف سے جتنا ممکن ہودور ہوا جائے۔ جمہوری حکومت اور دستور کا یہ انہدام عبرت کا مقام ہے۔

  •  پالیسی میں تجویز کردہ درسی اور نصابی کتب کے لیے حکمت عملی، بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ اگر اس پالیسی میں ’فیڈرل سپر ویژن آف ٹیکسٹ بکس اینڈ مین ٹیننس آف سٹینڈرڈز آف ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۷۶ء‘ ہی کو نکتۂ آغاز بنا لیا جاتا، تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے لیکن اس ایکٹ کا نام لینے (ص۳۹) کے باوجود جو تجاویز (ص ۴۰-۴۱) دی گئی ہیں، وہ نہ صرف قومی مفادات سے ٹکراتی ہیں، بلکہ خود ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے منظورکردہ مذکورہ ایکٹ کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہیں۔ یہ ایکٹ، نصاب اور درسی کتب کو ایک قومی معیار اور ضابطے کا پابند بناتا ہے، جب کہ زیربحث دستاویز، صرف نصابی خاکے کو تجویز کرکے، درسی کتب میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کا پھاٹک کھولتی ہے۔ جس کے متعدد مضمرات ہیں، مثلاً: کتب کا غیر معیاری ہونا، کتب کا مہنگا ہونا، کتب کا آپس میں متحارب ہونا، اور چند اداروں کی اجارہ داری اور فکر و دانش کی دنیا میں انتشار کو پروان چڑھانا۔ بھارت جیسا کثیر آبادی کا ملک ایک نصاب، ایک نوعیت کی درسی کتب اور ایک امتحانی نظام کے ساتھ پورے تعلیمی عمل کو چلا سکتا ہے تو ہمارے لیے آخر یہ کیوں مشکل ہے؟ کیا اس کا بڑا سبب یہ نہیں ہے کہ ہمارے عالمی نگران یہ چاہتے ہیں کہ قوم میں یک رنگی اور فکری حسنِ توازن پیدا نہ ہو، قوم اور اس کی آیندہ نسلیں چار پانچ نہیں بلکہ بیسیوں طبقوں میں تقسیم ہو کر باہم جنگ وجدل کا منظر پیش کریں۔ ظاہر ہے کہ نصابی خاکے کی بنیادپر تو پرچے ترتیب نہیں دیے جائیں گے،بلکہ کسی مصنف کی درسی کتاب کو بنیاد بنایا جائے گا۔ ہمارے ملک کا بکھرا ہوا نظامِ تعلیم اور اس کا طالب علم اس مناسبت سے جس ذہنی اذیت اور مایوسی کی کیفیت سے گزرے گا، اس کا اندازہ بیوروکریسی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے منتخب عوامی نمایندوںکو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور ایک ملک، ایک ذریعۂ تعلیم اور ایک نصاب تعلیم یا یکساں نظامِ تعلیم کی پالیسی کو نافذ کرنا ہوگا۔
  •  اس پالیسی میں اعلیٰ طبقاتی نظام ہاے تعلیم کو تو پورا تحفظ حاصل ہے، لیکن غریب اہل وطن کا تعلیمی ڈھانچا مسلسل تجربوں کی بھینٹ چڑھتا نظر آتا ہے، اور یہ بھی کوئی حادثاتی عمل نہیں ہے بلکہ ایک سوچا سمجھا رویہ ہے۔ کبھی میٹرک میں نہم دہم کا امتحان جدا جدا، پھر اکٹھا، اس کے بعد دوبارہ جدا جدا۔ یہی حال انٹر میڈیٹ کے امتحانی عمل کا کیا جاتا رہا ہے۔ بیان کیا گیاہے: ’’۱۱ویں اور ۱۲ویں جماعت کے طلبہ کوکالج نہیں بلکہ اسکول کا حصہ بنایا جائے گا‘‘(ص ۳۳)… ظاہر ہے کہ  یہ بات چلے گی نہیں، مگر اس اکھاڑ پچھاڑ میں کم از کم دو تین بیج خوار بلکہ برباد ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان کالجوں کا مصرف آخر کیا ہوگا؟ کیا ۴سالہ ڈگری کورس۔ اگر دیکھیں تو جن چند تعلیمی اداروں کو خود مختاری دے کر ۴ سالہ ڈگری کی راہ پر لگایا گیا ہے، وہ بھی ابھی تک اسے وضع نہیں کرسکے، ایسے میں کالج سے انٹر کلاسیں نکال کر کیا کارنامہ انجام دیا جائے گا؟ یوںہزاروں کالجوں کویا تو اس ادھورے اور ناکام تجربے کی بھینٹ چڑھایا جائے گا، یا پھر سیدھا این جی اوز اور امریکی یا دولت مند اقلیت کے ہاتھوں ان کالجوں کو ۹۹ سالہ لیز پر فروخت کر دیا جائے گا۔ یہ باتیں کسی وہم کی بنا پر نہیں بلکہ گذشتہ ۱۲ سال کے تعلیمی ڈراموں اور ڈی نیشنلایزیشن کے ملفوف ماڈل کو دیکھ کر کہنا پڑ رہی ہیں۔
  •  صحت و صفائی اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت ہر پڑھے لکھے فرد کو ضرورملنی چاہیے، لیکن یہاں اس باب میں موضوع بحث بنایا گیا ہے: ’ایڈز، اور بچوں کی بے حرمتی‘ کو (ص۴۰)۔ حالانکہ دیگر خوفناک بیماریاں (ہیپاٹائٹس، تپ دق وغیرہ)اور طبی مسائل اور ماحولیات کے معاملات وغیرہ بھی نمایاں طور پر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، مگر مذکورہ ۲ ایشوز کی بنیاد پر کلاس روم میں بہت کچھ ناگفتی کہنے کی مشق، کھلے عام جنسی مکالمے کو راہ دے گی۔ پالیسی سازوں کے پیش نظر غالباً اسی  آزاد خیالی کی مکالمہ گوئی کو پروان چڑھاناہے۔
  •  ایک اور دل چسپ صورت حال اعلیٰ تعلیم کے باب (ص۴۸-۵۳) میں ہے۔ بحث کا آغاز بڑی بلندی سے ہوتا ہے، لیکن تان اس بات پر توڑی جا رہی ہے کہ گویااعلیٰ تعلیم عوام الناس کا مسئلہ نہیں ہے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے میدان میں نجی و سرکاری شعبے کی جانب سے قوم کو جس استحصالی صورت حال کا سامنا ہے، اس کا کوئی جواب اس دستاویز میں موجودنہیں۔ کہیں ۴سالہ اور کہیں ۲سالہ ڈگری کورس، کہیں سمسٹر سسٹم اور کہیں کمپوزٹ پاس کورس۔ ایک ہی وقت میں بھانت بھانت کے ماڈل اور فیس لاکھوں میں۔ قوم پریشان ہے کہ کس طرف جائے، کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ اس صورت حال کا نہ جائز ہ پیش کیا گیا ہے اور نہ روشنی کی کوئی کرن ہی دکھائی گئی ہے۔ مزید یہ کہ گذشتہ دورِ حکومت میں جو کروڑوں اربوں روپے وظائف کی صورت میں جھونک دیے گئے، ان کے بارے میں بھی کسی شفاف پالیسی کا اعلان نظر نہیں آتا۔
  •  ’اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی‘ (ص۴۳) کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، مگر کیا صرف سرکاری اداروں میں یہ انتخابات ہوں گے یا تمام نجی اداروں میں بھی؟ دوسری جانب خود وائس چانسلر یونین بحالی کی مخالفت کر چکے ہیں۔مسئلہ کیسے حل ہو؟ اس کا کوئی جواب موجود نہیں۔

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پالیسی دستاویز سرتاپا محض منفی چیزوں کا ملغوبہ ہے، بہرحال جا بجا اس میں مناسب اور اچھی تجاویز بھی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ہیئت ِ حاکمہ کا جو رویہ اپنی تاریخ رکھتا ہے، وہ یہی ہے کہ اچھی چیزوں پر عمل ہو یا نہ ہو، مگر منفی چیزوں پر تو پوری قوت سے عمل کرہی لیا  جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک اس دستاویز میںموجود روشنی پر اندھیرا غالب ہے۔جس سے بچنے کے لیے سیاہ رُو چیزوں کو ابتدا ہی میں نکال دینا چاہیے۔ قومی تعلیمی پالیسی کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا نہیں، بلکہ پوری قوم اور اس کی آیندہ نسلوں کا حق ہے۔ اس لیے تمام منتخب عوامی نمایندوں کو کھلے دل و دماغ کے ساتھ اس پر غور و فکر کرنا اور قوم کوراستہ دکھانا چاہیے۔

 

بے نظیر بھٹو کی زیرتبصرہ کتاب میں سید قطب شہید، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ اس حصے میں ایسے چند مقامات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔

سید قطب شھید، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی

یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کو مطعون کرنے، انھی کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دینے اور امریکا بہادر کو عظمت کا دیوتا ثابت کرنے کا ایسا استعارہ ہے، جس میں تاریخ کو مسخ اورحقائق کو کچلا گیا ہے۔ جن دو شخصیتوں کو خاص طور پر نشانے پر رکھا گیا ہے، ان میں سید قطب شہید (۶۶-۱۹۰۶ء) اور سید ابوالاعلیٰ مودودی (۷۹-۱۹۰۳ء) نمایاں ہیں۔ ذرا یہ سطور دیکھیے:

اسلامی انتہا پسندی کے پس پردہ کارفرما مضبوط ترین قوتوں میں ایک سید قطب تھے، جن کا تعلق مصر کی اخوان المسلمون سے تھا۔ انھوں نے موجودہ دور کے لیے ’جاہلیہ‘ کی اصطلاح (درحقیقت یہ اصطلاح اسلام سے پہلے کی دنیا کے دورِ جاہلیت کو بیان کرنے کے لیے قرآنی اصطلاح ہے) استعمال کی۔ قطب کو مغربی ثقافت اور اسلامی دنیا کی آمرانہ حکومتوں سے نفرت تھی۔ وہ مغرب کو اسلام کے تاریخی دشمن کے طور پر دیکھتے تھے، اور مسلمانوں کی حکمران اشرافیہ کو بدعنوان بھی سمجھتے تھے۔ اسلامی دنیا میں زیادہ تر حکومتیں آمرانہ تھیں… انھوں [قطب] نے اسلامی دنیا میں چھوٹی تبدیلیوں کے بجاے ایک جارح، متشدد جہاد کو نئی عالمی اسلامی اُمت کے اپنے نظریے کے اطلاق کا واحد ذریعہ سمجھا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا (ص ۲۸، ۲۹)--- سید قطب کو کئی جدید دہشت گرد تنظیموں کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ مصر کی عوامی سیاست میں ایک بڑی قوت رکھنے والے سید قطب کو مصری حکومت اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتی تھی،اس لیے مذکورہ نظریات کے باعث انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ وہ [یعنی قطب] لکھتے ہیں: ’’مغربی فرد کے ہاتھوں انسانیت کی قیادت اب زوال پذیر ہے… مغربی نظام کا دور بنیادی طور پر اس لیے اختتام کو آپہنچا ہے کہ یہ حیات بخش اقدار و اوصاف سے محروم ہوگیا ہے‘‘۔ (ص ۲۴۶، ۲۴۷)

معلوم نہیں کیوں مصنفہ نے اس بات کو نظرانداز کردیا ہے کہ قرآن نے سابقہ اقوام کے حوالے سے جس جاہلیت کا ذکر کیا ہے، ویسی ہی جاہلیت عصرِحاضر کی تہذیب و معاشرت بلکہ پوری زندگی اور اس کی بنیادی فکر میں موجود ہے۔ وہ جاہلیت، حق اور باطل کی تفریق سے ظاہر ہے۔ وہ جاہلیت، قافلہ حسین ؓ اور افواجِ یزید کی معرکہ آرائی سے ظاہر ہے۔ وہ جاہلیت چہارسو ظلم و ستم ڈھاکر اور عدل و انصاف کی پامالی سے اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ قرآن کریم صرف دو راستوں کی نشان دہی کرتا ہے: حق اور باطل، باطل اس کے نزدیک جاہلیت ہے اور ’غیر جانب دار‘ بھی دراصل باطل ہی کا طرف دار ہے۔ ’جاہلیت‘ صرف اس چیز کا نام نہیں کہ پہلے انسان جھونپڑی میں گزر بسر کرتا تھا اور آج آراستہ و پیراستہ کوٹھیوں میں رہ رہا ہے۔ پھر جاہلیت یہ بھی نہیں کہ پہلے وہ اُونٹ اور گھوڑے پر سفر کرتا تھا، آج کیڈلک کاروں اور طیاروں میں فراٹے بھرتا ہے۔ اس لیے آج کی جاہلیت کے لیے سید قطب اور مولانا مودودی نے کوئی خاص یا نیا اصول وضع نہیں کیا ہے،یہ تو قانونِ قدرت کا برملا اعلان اور اعادہ ہے۔

’مغربی ثقافت‘ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہی کہ کمزور اقوام کے وسائل ہڑپ کرو، ان کی تاریخ کو مسخ کرو اور تہذیب کو تاراج کرو، ان کے ہاں اقتدار اور دولت کو بلاواسطہ یا بالواسطہ اپنے قبضے میں رکھو اور ان کے نظامِ اقدار کو پامال کرو۔ کیا کوئی غیرت مند شخص، اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی تاریخ اور اپنے اقتدارِاعلیٰ کو چند ہزار ڈالروں کے عوض فروخت کر کے یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ بھائی تم ہی ٹھیک اور اعلیٰ و ارفع ہو، ہم تو غلام ابن غلام ابن غلام، تمھارے عطا کردہ زخم دھونے کے لیے تمھارے دَر پر دست بستہ کھڑے ہیں۔ سید قطب شہید یہ نہیں کہہ سکتے تھے، اس لیے انھوں نے مغرب کی باج گزار مسلم اشرافیہ کی آمریت کے اس ’حق‘ کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ کیا ان غلام حکمرانوں کی غلامی قبول کرنے سے ان کا یہ انکار گناہ ہے؟انھوں نے باطل کی غلامی قبول کرنے سے انکار کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھ جانا گوارا کیا، مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ اب اگر پوری دنیا میں اقتدار کے سرچشموں پر گورے یا کالے انگریزوں کا قبضہ ہے تو بتایا جائے کہ اسے چیلنج کرنا کس قانون کے تحت جرم قرار پاتا ہے؟ ہر ظالم نے اپنے ظلم کے لیے کوئی نہ کوئی جواز اور اپنی کھال بچانے کے لیے کوئی نہ کوئی پناہ گاہ بنا رکھی ہے۔ کیا موجودہ اور آنے والی نسلوں پر لازم ہے کہ ظلم کے ان ضابطوں کو من و عن تسلیم کریں؟ اگر ایسا ہے توپھر جدید تاریخ میں ’روشن خیال‘ طبقہ آزادی و حریت کے رہنمائوں کے بارے میں کیا فتویٰ پیش کرتا ہے؟

’جدید روشن خیالی‘ ایک ظالم اور سخت بے رحم رویے کا نام ہے، جو زندگی میں سانس نہیں لینے دیتی اور مرنے کے بعد بھی کسی خوبی کو نمایاں نہیں ہونے دیتی۔ یہی معاملہ شہید مظلوم سید قطب کے ساتھ بھی برتا جا رہا ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اس عظیم ادیب، دانش ور اور مفسرِقرآن کو قوم پرست آمر مطلق صدر جمال ناصر (م: ۱۹۷۰ء) نے برسوں جیل میں ڈالے رکھا۔ انھوں نے جیل ہی میں اپنی معرکہ آرا تفسیر فی ظلال القرآن تحریر کی، اور پھر ناصر نے خانہ زاد عدالت سے انھیں سزاے موت دلوا کر ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر کھینچ دیا۔

گذشتہ برسوں سے مغرب کے استعماری اداروں نے بالخصوص سیدقطب شہید کو اپنے منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنایا ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب میں سیدقطب شہید کو جس زبان میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یہی زبان ڈینیل پائپس، برنارڈ لیوس،فوکویاما، ہن ٹنگٹن اور ان کے حواریوں نے استعمال کی ہے۔

سید قطب کو ’انتہاپسند‘ کہہ کر مصنفہ نے علمی دیانت کا قتل اور عدل کا خون کیا ہے۔     اس مقدمے کے لیے کوئی دلیل پیش کرنے کے بجاے ’جنگ جُو‘ استعماریوں کے پروپیگنڈے پر انحصار کیا ہے۔ سید قطب نے دعوت، تنظیم اور تقویٰ کے ذریعے ظلم و آمریت اور مسلم اُمہ سے غداری کے مرتکب صاحبانِ اقتدار کو تبدیل کرنے کی بات کر کے اپنا فرض ادا کیا۔ انھوں نے   مسلح اور پُرتشدد تحریک اٹھانے کے لیے لوگوں کو نہیں اُبھارا۔ چونکہ ان کی اپیل میں ایمان کی طاقت اور عزم و یقین کی حرارت موجود ہے، اس لیے آج جبر اور ظلم کے شکار مسلمانوں کے بعض پُرتشدد گروہوں سے منسوب کر کے سید قطب شہید کی فکری پکار کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور   مغربی تہذیب کے بارے میں جو بات انھوں نے آج سے ۵۵ برس پہلے کہی ہے، یہی بات ۹۰سال پیش تر علامہ محمد اقبال اپنے آتش نوا اشعار اور فکر سے بھرپور اقوال میں کہہ چکے ہیں___ مزید ارشاد ہوتا ہے:

یہ تین رجعت پسند [یعنی سید قطب، سید مودودی، اسامہ بن لادن ] ردعمل کی اس سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں، جو اس وقت اسلامی دنیا کے چند حصوں میں مقبول ہے۔ ان کے نزدیک: ’’مغرب، مسلم اشرافیہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے اسلامی ملکوں کو بگاڑ رہا ہے‘‘۔ قرآن کی غلط تشریحات کا سہارا لے کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے معصوموں، اہلِ کتاب [یعنی عیسائیوں اور یہودیوں] اور یہاں تک کہ مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں کا جواز حاصل کرسکتے ہیں۔ حالانکہ قرآن ان رجعت پسند مذہبی رہنمائوں کی تعلیمات کی تائید نہیں کرتا۔ یہ [محض] دہشت گردی کی تحریک کے لیے بنیادی ڈھانچا فراہم کرتے ہیں۔ (ص ۲۹)

اسامہ بن لادن کی حکمت عملی کیا ہے؟ نہ ہمیں اس سے اتفاق ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی بات کرنے کے مکلف ہیں، تاہم مصنفہ کا سید مودودی اور سیدقطب کو اسی صف میں کھڑا کرنا سخت ناانصافی اور تعصب پر مبنی واویلاہے۔ سید قطب شہید،سید مودودی اور حسن البنا شہید کے رفقا نے مسلسل جدوجہد کرکے دین کی حقیقی شکل مسلمانوں کے سامنے پیش کی، اور مغربی نوآبادیاتی حکمرانوں کے مددگاروں کی سازشوں کو دلیل، تحریر،تنظیم اور تسلسل کے ساتھ مسلم دنیا کے سامنے یوں وضاحت سے پیش کیا کہ اُمہ میں اس کی اپنی نظریاتی اور تہذیبی شناخت پر مبنی، اور استعماری طاقتوں کی گرفت سے آزاد ریاست کے قیام کا عزم پیدا ہونے لگا۔ اس پُرامن اور مؤثر حکمت عملی کی تاثیر سے بوکھلا کر، مغرب نے دوطرفہ تشدد کو درمیان میں لانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے، تاکہ وہ ساری کاوش دھندلا دی جائے۔ کچھ ایسے عناصر کی غیرمعتدل اور اسلامی تعلیمات سے سراسر ٹکراتی کارروائیوں سے بے جا طور پر اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی یا سیدقطب اور مولانا مودودی کو منسوب کر کے اس پُرامن جدوجہد کو نشانہ بنایا جائے کہ جس جدوجہد کو ان عظیم رہنمائوں کی حکمت و دانش نے وقار اور قبولیت بخشی ہے۔

۲۹ اگست ۲۰۰۸ء کے پاکستانی اخبارات یہ روح فرسا خبریں شائع کر رہے تھے کہ صوبہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیر ہائوسنگ و تعمیرات مسٹرصادق عمرانی کے بھائی اور پیپلزپارٹی کے لیڈر عبدالستار عمرانی، ضلع جعفرآباد میں پانچ عورتوں کو زندہ دفن کرنے کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔ (ان کے پشت پناہ سینیٹر میراسرار اللہ زہری اور اب وفاقی وزیر پوسٹل سروسز نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا تھا کہ اخلاقی الزام میں ملوث عورتوں کو زندہ دفن کرنا ہماری روایات کا حصہ ہے)، جب کہ ۲۰۰۶ء میں صوبہ سندھ سے پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما، اوکسفرڈ کے گریجوایٹ اور وفاقی وزیرتعلیم میرہزار خاں بجارانی نے بطور سربراہِ قبیلہ ۲ سے ۵ سال کی کم سن بچیوں کو ’سانگ چٹی‘ (خون بہا کے طور پر مقتول کے پس ماندگان کی غلامی میں دینے) کی بھینٹ چڑھا دیا۔ باوجود یہ کہ، یہ دونوں بلکہ تینوں حضرات پیپلزپارٹی کے لیڈروں میں شامل ہیں۔ مگر جماعت اسلامی یا کسی انصاف پسند شخص نے یہ نہیں کہا کہ: ’’پیپلزپارٹی ایسے قابلِ نفرت اقدام کرنے والی پارٹی ہے، اس لیے اس کو نفرت کا نشان بنا دو‘‘___ اب ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں۔

جماعت اسلامی اگرچہ ۲۴ ہزار ارکان پر مشتمل تنظیم ہے، مگر اس کی حمایت کرنے اور ووٹ دینے والے لاکھوں لوگ ہیں۔ فطری سی بات ہے کہ ان میں ہر ذوق، مذاق اور طبیعت کا فرد ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا جماعت اسلامی اپنے ان لاکھوں حامیوں اور ووٹروں کے تمام افعال و اقدامات کی بھی ذمہ دار یا جواب دہ ہے؟ اگر اس کے کسی حامی نے جماعت کی پالیسی، عقیدے اور حکمت عملی کے برعکس کوئی فعل انجام دیا ہے تو کیا اُس فرد کے اقدام پر پوری جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کو نشانہ بنانا کوئی شریفانہ اور منصفانہ قدم ہوسکتا ہے؟ اب دیکھیے، مصنفہ لکھتی ہیں:

۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد ہر بڑا مطلوبہ دہشت گرد، مودودی کی جماعت کے کسی نہ کسی رکن کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ (ص ۶۹)... [مطلوبہ ماسٹرمائنڈ] خالد شیخ محمد، جماعت اسلامی کے ایک حامی (سپورٹر) کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔۱؎ (ص ۲۰۵)

ان عبارتوں کے اندر شرارت کا پورا سامان چھپا ہوا ہے۔ وہ طریقہ کہ جس سے جماعت اسلامی، اصولی اور عملی اعتبار سے ۱۰۰ فی صد اختلاف رکھتی ہے، اس طرزِ بیان سے اس کو اُسی گروہ سے جوڑا جا رہا ہے، جب کہ جماعت نے تو پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے ایسے ’تذلیل نسواں، پر مبنی اقدامات‘ کا سزاوار پیپلزپارٹی کو قرار نہیں دیا، مگر دوسری جانب غیرمتعلق امور کو بھی مولانا مودودی مرحوم اور پوری جماعت اسلامی کے سرمنڈھا جا رہا ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے:

مودودی نے مسلمانوں کو ایک ایسی بین الاقوامی جماعت کے طور پر دیکھا ہے، جسے اسلام کا انقلابی پروگرام بروے کار لانے کے لیے منظم کیا گیا ہے، اور جہاد کو ایک ایسی اصطلاح کے طور پر اسلامی انقلاب لانے کے لیے ضروری انتہائی کوشش اور جدوجہد کے طور پر بیان کیا ہے۔ (ص ۲۸)

مسلمانوں کو ایک بین الاقوامی کمیونٹی (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) مولانا مودودی نے نہیں، خود قرآن مجید اور رسول کریمؐ نے قرار دیا ہے۔ انھیں جسدِواحد اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر اُمہ قرار دیا ہے۔ اس لیے مولانا مودودی مسلم اُمہ کو بین الاقوامی کمیونٹی قرار دیتے ہیں اور علامہ محمد اقبال بھی ’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘ جیسا نغمۂ جاں فزا بلند کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے اس اُمت میں زندگی کی لہر دوڑانے کے لیے ہتھیار بکف نکلنے کا درس نہیں دیا، بلکہ حق کی دعوت، فریضۂ اقامت ِدین، منظم نیکی، اور پوری زندگی میں پھیلے تزکیۂ نفس کا سبق دیا ہے۔ وہ دعوت اور جمہوریت کے ذریعے اس منزل کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ افسوس کہ اس افسانے میں رنگ بھرتے ہوئے کہا ہے:

[مغربی اور اسلامی تہذیبوں کے] تصادم کاروں کی اس دوڑ میں صرف مغرب کے انقلاب پسند دانش ور [مراد ہن ٹنگٹن ہے] ہی نہیں ہیں، بلکہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی شامل ہیں۔ مودودی کا بھی یہی یقین ہے کہ اسلامی شریعت کی حکمرانی کی راہ میں حائل تمام اقوام کو، بہ شمول مغرب ’پُرتشدد جہاد‘ کے ذریعے ختم کردیا جانا چاہیے۔ مغرب کے متعلق ان کا نقطۂ نظر اتنا ہی یک طرفہ اور مسخ شدہ ہے، جتنا کہ تصادم کا نقطۂ نظر اسلام کے متعلق۔ (ص ۲۴۶)

اس بیان میں شرانگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مصنفہ نے مولانا مودودی کے واضح طور پر منصفانہ اور پُرامن نقطۂ نظر کو ’پُرتشدد جہاد‘ اور ’اقوام کے خاتمے‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ مصنفہ کے ذہن میں برطانوی نوبل انعام یافتہ ادیب رڈیارڈ کپلنگ (۱۸۶۵ء- ۱۹۳۶ء) کا وہ قول نہیں آیا، جس میں وہ کہتا ہے: ’’مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق۔ یہ دونوں آپس میں کبھی نہیں مل سکتے‘‘۔ بلکہ اس نسل پرست نے تو ۱۸۹۹ء میں اپنی نظم The White Man's Burden لکھ کر غیرمغربی ’جاہلوں‘ کو درسِ انسانیت دینے کی ذمہ داری کو اس انداز سے پیش کیا تھا کہ ان گوروں کے علاوہ باقی سب انسان دھرتی کا بوجھ ہیں۔ لیکن مولانا مودودی مغرب کو کسی جغرافیائی علاقے یا گوری اقوام کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ وہ مغرب کو اس کے فکری، سیاسی، اقداری، اخلاقی، ثقافتی اور عسکری پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ اور خود مغرب، دنیا کو جس نظر سے دیکھتا اور جس سطح سے اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، اسی کو بنیاد بناکر، مولانا مودودی وہاں کے انسانوں کو حق کی راہ پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں، ہتھیاروں سے خوف زدہ نہیں کرتے۔

مصنفہ نے اپنے مذکورہ اقتباس (ص۲۴۶) کے لیے مولانا مودودی کی جس تحریر سے دلیل فراہم کی ہے، اس میں ایسا کوئی تاثر موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس یہ تحریر تو مولانا مودودی کے متوازن اندازِ فکر کی دلیل پیش کرتی ہے۔ یہ تحریر ستمبر ۱۹۳۴ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباد، دکن میں شائع ہوئی تھی اور اب مضمون ’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘ کی صورت میں تنقیحات میں شامل ہے۔ مصنفہ نے بطور دلیل مولانا مودودی کی یہ تحریر پیش کی ہے:

یہ [مغربی تہذیب] خالص مادی تہذیب ہے۔ اس کا پورا نظام خداترسی، راست روی، صداقت پسندی، حق جوئی، اخلاق، دیانت، امانت، نیکی، حیا، پرہیزگاری اور پاکیزگی کے اُن تصورات سے خالی ہے، جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کا نظریہ [حیات]، اسلام کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ اس کا راستہ اس راستے کی عین مخالف سمت میں ہے، جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ اسلام جن چیزوں پر انسانی اخلاق اور تمدن کی بنیاد رکھتا ہے، ان کو یہ تہذیب بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینا چاہتی ہے، اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی عمارت قائم کرتی ہے، ان پر اسلام کی عمارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھیرسکتی۔ گویا اسلام اور مغربی تہذیب، دوایسی کشتیاں ہیں، جو بالکل مخالف سمتوں میں سفر کر رہی ہیں۔

اس بیان میں مولانا مودودی روحانی،فکری، عمرانی اور سماجی سطح پر مغربی تہذیب کے بنیادی رویے کی نشان دہی کر رہے ہیں، مگر مصنفہ ان سطروں میں آج کی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ کا جواز نکال کر دکھا رہی ہیں۔ مولانا مودودی نے اس بیان میں اُس حقیقت کو صاف صاف لفظوں میں بیان کیا ہے، جو ایک کھلی سچائی ہے۔ ۲۰ویں صدی کی دو عالم گیر جنگوں، ۱۹۴۵ء میں جاپان پر ایٹمی بم باری اور گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں مظلوم انسانوں کے ساتھ کھیلی جانے والی خون کی ہولی کو کون نظرانداز کرسکتا ہے۔ کیا وہ یہ کہتے کہ: ’’اسلام، مغربی تہذیب کا ضمیمہ ہے، یااسلام ایک ایسی مومی تہذیب ہے جسے مغرب جب چاہے جس سانچے میں ڈھال دے، اس کو تو بس ڈھلنا اور ہوا کے رُخ پر اڑنا ہی ہے‘‘۔ کیا ایسی بات قرآن اور سنت کا فرمان ہے یا مغرب کے بھوکے شیر کے سامنے ممیاتی بھیڑ بکریوں کے جرمِ ضعیفی کی التجا ہے یا حکمرانی کی بھیک مانگنے والوں کی ملّت دشمنی کا ثبوت؟___ مصنفہ آگے چل کر مولانا مودودی کے رفیق کے بارے میں لکھتی ہیں:

خورشیداحمد ایک ممتاز پاکستانی پروفیسر اور اسکالر تھے (was)، جو اسلامی دنیا پر اپنی اقدار، ثقافت اور نظام ہاے حکومت مسلط کرنے کے مغربی عزم کا ناگزیر نتیجہ تہذیبوں کے تصادم کو قرار دیتے تھے: [خورشیداحمد کے بقول] ’’اگرمسلم ذہن میں اور مسلم   نقطۂ نظر میں، مغربی طاقتیں مغربی ماڈل کو مسلم معاشرے پر ٹھونسنے کی قومی اور     بین الاقوامی سطح پر، مسلمانوں کو مغربی غلبے کے نظام سے باندھے رکھنے کی اور اس طرح مسلم ثقافت اور معاشرے کو بالواسطہ یابلاواسطہ غیرمستحکم کرنے کی کوششوں سے وابستہ رہتی ہیں تو یقینا کشیدگی میں اضافہ ہوگا، یوں اختلافات کا بڑھنا ناگزیر ہے‘‘۔ (ص ۲۴۷)

پروفیسر خورشیداحمد (پ: ۱۹۳۲ء)، اللہ کے فضل سے مغرب کی اس جارحانہ اورانسانیت کُش یلغار کا فکری، قومی اور ملّی سطح پر بلاخوف و خطر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ۱۹۹۵ء میں ان کی محولہ بالا تحریر ’امریکی نیوورلڈ آرڈر‘ کے تجزیے پر مشتمل تھی۔ جس کی بنیاد پر مصنفہ نے انھیں مغرب سے تصادم کی آگ بھڑکانے کا ایک ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی ہے، حالانکہ اس بیان میں توازن، بُردباری، احساسِ عدل اور ملّی و قومی شعور بدرجۂ اتم موجود ہے۔ پروفیسر صاحب نے مغرب کی جانب سے مسلم دنیا پر استعماری یا استعماریوں کے گماشتہ ماڈل کو مسلط کرنے اور مسلم اقوام کو غلامی میں باندھنے کی مذمت کی ہے، اور کہا ہے کہ مغربی حکمران تاریخ سے سبق سیکھیں اور ان مسلم معاشروں کو اپنے معاملات خود چلانے دیں۔ کیا ان کا یہ کہنا ’وار آن ٹیرر‘ کے شعلے بھڑکانے کا سبب ہے یا اپنے ملّی اور جمہوری حق کو منوانے کے لیے کلمۂ حق؟___ پھر یہ اقتباس پڑھنے کو ملتا ہے:

جنوبی ایشیا میں انتہاپسند گروہ جماعت اسلامی کے بانی، مولانا مودودی کو یقین تھا کہ جنوبی ایشیا میں قوم پرستی کے اُبھرنے سے مسلم پہچان کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کے نزدیک قوم پرستی ایک ایسا مغربی نظریہ تھا، جو یک طرفہ طور پر مسلمانوں پر ٹھونس دیا گیا ہے، تاکہ عالمی اُمت مسلمہ کی جگہ زبان، نسل اور علاقے کی بنیاد پر استوار کی جانے والی انفرادی قوم پرستی کو ہوا دے کر انھیں کمزور اور تقسیم در تقسیم کیا جاسکے۔ (ص ۲۸)

ان سطور میں مصنفہ نے یہ ناانصافی اور ظلم کرتے ہوئے مولانا مودودی کو انتہاپسند اور انتہاپسند گروہ کا بانی قرار دے کر اپنی بے خبری بلکہ انتہاپسندانہ سوچ کا بھی ثبوت دیا ہے۔ مولانا مودودی کے ہاں توازن، بُردباری، تہذیب و شائستگی اور قانون پسندی ضرب المثل ہے۔ انھوں نے تشدد اور انتہاپسندی سے نہ صرف دامن بچائے رکھا، بلکہ اپنے رفقا کو بھی اس سے بچنے کی مسلسل تلقین کی۔ انھوں نے یہ پیغام طالب علموں کو، عرب نوجوانوں کو اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو دیا کہ وہ زیرزمین اور قانون شکنی پر مبنی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بچائیں اور کھلے عام کام کرنے میں انھیں جو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے اسے برداشت کرلیں، مگر تشدد اور خفیہ طبع آزمائی کا راستہ اختیار نہ کریں۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کی تحریروں سے بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی، نظامِ زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے کس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اس کے لیے سب سے پہلے دیکھیے: دستور جماعت اسلامی پاکستان کی دفعہ ۵:

جماعت اسلامی کا مستقل طریق کار یہ ہوگا کہ:

۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔

۳- جماعت اپنے پیش نظر، اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی…

۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی، بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔

اسی طرح مولانا مودودی نے ۱۶ ذوالحج ۱۳۸۲ھ (۱۰ فروری ۱۹۶۳ء)کو مسجد دہلوی مکہ معظمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے تلقین کی تھی:

اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے  اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، لوگوں کے خیالات بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا،وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب   رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء،ص ۲۸، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲-۳۶۳)

اپنی زندگی میں جماعت اسلامی کے آخری کُل پاکستان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، ۳۱ مارچ ۱۹۷۴ء کو سید مودودی نے کہا:

جماعت اسلامی کیوں جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور کسی غیر جمہوری ذریعے کے استعمال کی مخالف ہے، اس کو میں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:

خدا کی قسم ہے، اور قسم میں بہت کم کھایاکرتا ہوں، کہ جماعت اسلامی نے جو یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ: کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، یہ قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، اور ہمارے اُوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔

اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کردیے جائیں، جب تک کہ لوگوں کے افکار، لوگوں کے اخلاق اور لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کردیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں اور جھوٹ کے ساتھ، انتخابات جیت لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کردیا جائے، توچاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔  (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۷ اپریل ۱۹۷۴ء)

جہاں تک یہ کہنا ہے کہ مولانا مودودی نے قوم پرستی کو ایک مغربی نظریہ قرار دے کر اس کی مذمت کی تھی تو یہ انھوں نے بالکل درست بات لکھی تھی۔ مسلم اُمت کو ان چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں بانٹنے اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ’راجواڑوں‘ کے سپرد کرنے اور اقتدار کے سرچشموں پر اپنے منظورنظر دیسی وفاداروں کو مسلط کرنے کا کام ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں مغربی استعمار نے کیا تھا۔ ان کے قومی اور قدرتی وسائل ہڑپ کیے، باہمی تعلقات میں تصادم کی فضا کو پیدا کرکے انھیں مسلسل جنگ و جدل کی دلدل میں پھنسادیا اور قومی دولت کا بڑا حصہ اسلحے کی خریدوفروخت میں جھونک دینے کا بندوبست کیا۔مولانا مودودی نے، مغربی استعمار کی اس شیطانی چال کو ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۹ء کے دوران اپنی مشہور کتب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (تین حصوں) اور مسئلۂ قومیت میں پوری وضاحت کے ساتھ بے نقاب کیا، تو کچھ غلط نہ کیا تھا___ اب مصنفہ کے سوقیانہ پن کا یہ رنگ دیکھیے:

موجودہ دور میں وہابی پیسے کی خصوصی وصول کنندہ جماعت اسلامی رہی ہے۔ یہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے جس کی بنیاد مولانا مودودی نے رکھی ہے۔ زیادہ تر وہابی سرمایہ اب بھی ان اسکولوں کو جاتا ہے جو جماعت اسلامی کے زیرانتظام کام کر رہے ہیں۔ اپنے بچپن کے دور میں، مَیں جماعت اسلامی کو بالواسطہ طور پر امداد فراہم کرنے کی کہانیاں اکثر سنا کرتی تھی کہ: سعودی مذہبی رہنما، مولانا مودودی کی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں خریدتے، ان کی قیمت ادا کرتے اور پھر ان کتابوں کو سمندر میں پھینک دیتے، کیونکہ دراصل انھیں پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ پھر جنرل ضیا الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی۔ (ص ۵۲)

پاکستانی فوج کے عناصر اور مذہبی سیاسی پارٹی [یعنی جماعت] کے درمیان اتحاد [جنرل] ضیا کے دور سے پہلے شروع ہوا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جماعت اسلامی کو سعودی عرب سے معقول امداد ملنا شروع ہوئی۔ (ص ۱۹۴)

۱۹۶۴ء میں صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی، دفاتر سربمہر، ریکارڈ ضبط اور قیادت کو قید کرلیا گیا۔ اس کے حسابات کی جانچ پڑتال ہوتی رہی، اس کے ذرائع آمدن کا کھوج لگایا جاتا رہا، مگر کوئی قابلِ گرفت بات ہاتھ نہ آئی۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان، بھٹو صاحب، خود بے نظیر اور جنرل پرویز مشرف بھی اپنے پورے ریاستی کرّوفر اور اقتدار کے باوجود ایسے کسی مفروضے کو طشت ازبام نہیں کرسکے۔ آج آصف علی زرداری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ’وہابی‘ اور ’سعودی‘ سرمایے سے چلنے والے ’جماعت اسلامی کے اسکولوں‘ کی مع رقم نشان دہی کریں۔ اپنے بچپن کی جس پروپیگنڈا کہانی کا ذکر مصنفہ نے کیا ہے، اس افسانے کو انھوں نے بے جا طور پر مسخ بھی کیا ہے۔ اُن کے بچپن میں کہانی یہ نہیں تراشی گئی تھی کہ: ’’سعودی عرب، مولانا مودودی کی کتب خرید کر سمندر میں پھینکتا ہے‘‘، بلکہ یہ جھوٹا افسانہ تراشا گیا تھا:’’امریکا، مولانا مودودی کی کتب خرید کر سمندر میں پھینکتا ہے‘‘۔ چونکہ وہ کہانی آج کل ’آئوٹ آف فیشن‘ ہوگئی ہے اس لیے ’امریکا‘ کا لفظ نکال کر ’سعودی عرب‘ کا نام ڈال کر اسے ’حسبِ حال ‘بنا دیا گیا ہے ___ ’ارشاد‘ ہوتا ہے:

جماعت اسلامی کے رہنما مولانا مودودی، آمر ضیاء الحق کے روحانی باپ تھے۔ سعودی مذہبی رہنمائوں سے ان کا تعلق بڑا گہرا تھا۔ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد، ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے اور ان کے لیے جنگ جُو بھرتی کرنے کے کام میں ان [یعنی مولانا مودودی] کی مدد طلب کی۔ (ص ۶۸)

مولانا مودودی مرحوم، جنرل ضیا کے تو کبھی روحانی سرپرست نہیں رہے، مگر معلوم نہیں کس بنیاد پر یہ کہانی تصنیف کی گئی ہے۔ دنیا بھر کے دینی اسلامی بھائیوں سے مولانا مودودی کا گہرا قلبی تعلق تھا۔ جن میں افریقہ، امریکا،یورپ، وسطی ایشیا، انڈونیشیا، بھارت، ایران، ترکی اور افغانستان وغیرہ سبھی شامل تھے۔ مولانا مودودی کی رحلت ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء کو ہوئی اور افغانستان پر کمیونسٹ روس نے حملہ ۲۹دسمبر ۱۹۷۹ء کو کیا۔ گویا مصنفہ کہنا  یہ چاہتی ہیں کہ اپنے انتقال کے تین ماہ بعد رونما ہونے والے المیے میں کردار ادا کرنے کے لیے مولانا مودودی جنگ جُو بھرتی کرنے کے لیے رابطے کر رہے تھے، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔ اب یہ حوالہ بھی دیکھیے:

مولانامودودی نے میرے والد [بھٹوصاحب] کے انتخاب کی مخالفت کی۔ اسلام کے نقاب تلے پوشیدہ سیاسی نظام جسے [جنرل] ضیا نے ترتیب دیا تھا، یہ مودودی،     آئی ایس آئی، پاکستانی فوج اور ریاست کا پُراسرار اتحاد تھا، جس نے میرے وطن   اور پوری دنیا کی سیاسیات پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ (ص ۶۸)

مصنفہ کو شاید علم نہیں کہ بھٹو صاحب نے اور ان کے حواریوں نے مولانا مودودی کی مخالفت میں کون سی زبان استعمال کی تھی اور کس نوعیت کی اخلاق باختہ اخباری مہم چلائی تھی؟ ظاہر ہے مولانا مودودی نے اپنی مدمقابل سیاسی پارٹیوں کے پروگرام پر نقد کرتے ہوئے اپنا پروگرام تو پیش کرنا تھا۔ البتہ مولانا مودودی کو دوسری جانب سے جس لچر پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑا اس کو بیان کرنے سے یہ قلم عاجز ہے۔ ۱۹۷۰ء میں پورے سال پر پھیلی انتخابی مہم میں مولانا مودودی نے کُل ۸ تقاریر کیں۔ ان میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے اخلاق و تہذیب سے ٹکراتا ہوا کہا جاسکے۔ اس کے مقابلے میں بھٹوصاحب کی تقریروں سے مرصع اخبارات و جرائد: شھاب، نصرت، مساوات، آزاد اور الفتح کے اوراق ابتذال کی حدوں کو چھوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ خود پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو تو بھٹوصاحب نے بلوچستان پر فوجی یلغار اور سیاسی قیادت کو کچلنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہی جنرل ضیاء الحق، بھٹو صاحب کی دھاندلی زدہ حکومت کو تحفظ دیتے ہوئے، ۲۰اپریل ۱۹۷۷ء سے تین شہروں میں مارشل لگاکر حکومت مخالف مظاہرین کو کچلتے رہے، مگر آخرکار جولائی ۱۹۷۷ء میں ایک وقت ایسا آیا کہ ان دونوں میں دُوری ہوگئی، لیکن اس وصل و فصل میں مولانا مودودی کا کردار کہاں سے آگیا؟

آیئے سنیے: ۱۹۷۷ء میں بھٹو حکومت کی انتخابی دھاندلی کے خلاف جب ۱۴ مارچ سے احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو ۲۹ مارچ کو مولانا مودودی سے مجیدنظامی صاحب نے ملاقات کی۔ مولانا نے بحران سے نکلنے کے لیے نظامی صاحب کے ذریعے بھٹوصاحب کو تجاویز بھیجیں کہ وہ اصرار نہ کریں اور الیکشن دوبارہ کروا دیں، مگر وہ نہیں مانے۔ جب ۹ اپریل کو بھٹوحکومت کی جانب سے لاہور میں قتل عام کے بعد حالات خراب ہوگئے تو بھٹوصاحب، مولانا مودودی سے ملنے کے لیے ۱۴اپریل کو مولانا مودودی کے گھر پر آئے، تب بھی مولانا نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ قوت کے بے جا استعمال سے حالات کو خراب نہ کریں۔ مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ۲۰ اپریل ۱۹۷۷ء کو بھٹوصاحب نے کراچی، حیدرآباد اور لاہور میں مارشل لا نافذ کردیا۔ ۲۴اپریل کو مولانا مودودی نے قومی اور عالمی اخباری نمایندوں کی پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں بی بی سی کے نمایندے اینڈریو وٹلے نے مولانا سے سوال کیا:

Would you kindly consider the take of Army as a peaceful revolution?

[فوج اگر اقتدار پر قبضہ کرلے تو کیا آپ اسے پُرامن انقلاب قرار دیں گے؟]

مولانا مودودی نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر، مضبوط لہجے میں جواب دیا:

Army has no right to take over. Army is the servant of the people, not their master.

[فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ فوج قوم کی ملازم ہے،  آقا نہیں۔]

صفدر علی چودھری صاحب کی ہدایت پر راقم نے اس پریس کانفرنس کو ریکارڈ کیا تھا۔ دوسرے روز یہ الفاظ قومی پریس میں شائع ہوئے اور عالمی نشریاتی اداروں نے انھیں نمایاں طور پر پیش کیا۔ مراد یہ ہے کہ مولانا نے انفرادی سطح پر اور عوام کے سامنے بھی مارشل لا سے بچنے کے لیے بار بار اپیل کی۔ بعدازاں بھٹوصاحب نے ۲۷ اپریل کو مسلح افواج پاکستان کے اعلیٰ افسران کا مشترکہ بیان نشر کرایا کہ وہ بھٹو کی حکومت کے پشتی بان ہیں۔

ایک اور شرمناک الزامی افسانے کو ان الفاظ میں پڑھیے:

مولانا مودودی نے قائداعظم کو کافر قرار دیا تھا، مگر ہندستان کے مسلمانوں نے مودودی کو مسترد کردیا اور ان کے بجاے محمدعلی جناح، اور مذہب و سیاست کے متعلق ان کے زیادہ سیکولر نقطۂ نظر کی حمایت کی۔ (ص ۶۸، ۶۹)

کتاب میں بیان کردہ یہ ایک ایسا اذیت ناک بہتان ہے کہ جس کی تائید میں کوئی فرد ایک سطر بھی پیش نہیں کرسکتا۔ ماسوا اس اخلاق باختہ مہم کے ایندھن کے، جسے خود ہی اکٹھا کرکے وقفے وقفے سے سلگایا جاتا ہے۔ قائداعظم تو ایک طرف، مولانا مودودی نے زندگی بھر کسی ایک فرد پر بھی کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا، بلکہ کفر سازی کے کلچر کی بھرپور مخالفت کی۔۲؎ یہ کام احرار کے لیڈر مظہرعلی اظہر ایڈووکیٹ [۱۳ مارچ ۱۸۹۵ء-۲نومبر ۱۹۷۴ء] نے کیا تھا، اور جو مسلک کے اعتبار سے   شیعہ اور ایک شعلہ نوا مقرر تھے۔ لیکن کچھ گروہوں نے کمالِ بددیانتی سے اور وہ بھی پاکستان بننے کے ۱۰برس بعد، مظہر علی کے الفاظ مولانا مودودی سے منسوب کرکے وقفے وقفے سے دہرانا شروع کردیے۔ مولانا مودودی کے ساتھ اس بدترین زیادتی کا ارتکاب کرنے والے خود کو ’روشن خیال‘ اور ’معروضیت‘ کا علَم بردار قرار دیتے ہیں، جب کہ دوسری جانب خود قائداعظم کو کفر کی گالی دینے  کا بھی گاہے گاہے ارتکاب کرتے ہیں___ ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے جسٹس محمدمنیر اور  جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل انکوائری کمیٹی رپورٹ ۱۹۵۳ء (انگریزی میں صفحہ ۱۱)دیکھیے:

The authorship of the couplet:

اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا

یہ قائداعظم ہے کہ ، ہے […]

is attributed to Maulana Mazhar Ali Azhar, a leading personality in the Ahrar Organization. Who had the sudacity to assert before us that he still held the view.

[یہ شعر مولانا مظہر علی اظہر سے منسوب ہے جو تنظیم احرار میں ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ انھوں نے ہمارے سامنے نہایت ڈھٹائی سے یہ اظہار کیا کہ [قائداعظم کے متعلق] وہ اب تک اسی خیال پر قائم ہیں۔ (انکوائری کمیٹی رپورٹ، اُردو، ص ۱۱)]

مولانا مودودی پر یہ بہتان لگانے کے بعد مصنفہ لکھتی ہیں:

مولانا مودودی نے میرے والد [بھٹوصاحب] کی سیاست کو انتہا پسندوں کے ایجنڈے سے ہم آہنگ نہ پاکر ۱۹۷۰ء میں انھیں بھی کافر قرار دے دیا۔ (ص ۶۹)

اب یہ مصنفہ کے ساتھیوں پر لازم ہے کہ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے کوئی ایک سطر بھی ایسی نکال کر پیش کریں جس میں انھوں نے مسٹربھٹو کو کافر قرار دیا ہو۔ عجیب بات ہے کہ ’مفاہمت‘ کے نام پر لکھی جانے والی اس کتاب میں عمومی اور سماجی سطح پر رواداری ہی کو تہس نہس کرنے کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔ دوسری طرف مارچ ۱۹۶۹ء میں یہ بھٹوصاحب ہی تھے، جنھوں نے عبدالمجید بھاشانی کے ساتھ مل کر انتہاپسندی،گھیرائو، جلائو اور توڑ پھوڑ کی مہم چلاکر ’پاکستان تحریک جمہوریت‘ (PDM) اور ’جمہوری مجلس عمل‘ (DAC) کی قومی جمہوری تحریک کو پٹڑی سے اُتارا، اور جنرل آغا یحییٰ خاں کے مارشل لا کا راستہ صاف کیا تھا۔ تب مولانا مودودی قومی قیادت کے ساتھ مل کر آئینی جدوجہد کر رہے تھے۔ ایوب خان کے ساتھ گول میز کانفرنس کامیاب بھی ہوگئی تھی کہ آئینی ترامیم کے ذریعے انتقالِ اقتدار اور عام انتخاب ہوجاتا، مگر انتہاپسندوں کی سربراہی کرتے ہوئے بھٹوصاحب اور بھاشانی صاحب نے اس پُرامن حل کو ناکام ہی نہیں بنایا، بلکہ جنرل آغا یحییٰ خاں کے مارشل لا کا سب سے پہلے خیرمقدم بھی کیا۔ بالکل ویسا ہی خیرمقدم کیا جس طرح کہ خود بے نظیر بھٹو نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو نوازشریف کی حکومت کی برطرفی اور جنرل مشرف کی آمد کا خیرمقدم کیا تھا___ مصنفہ نے اگلی سطور میں یہ بھی لکھ دیا ہے:

۱۹۸۸ء میں جب میں نے وزیراعظم کا انتخاب لڑا تو مودودی کی جماعت نے مجھے بھی کافر قرار دے دیا، بالکل ویسے جس طرح کہ انھوں نے مجھ سے پہلے میرے والد کو قرار دیا تھا۔ (ص ۶۹)

۱۹۸۸ء تو ابھی کل کی بات ہے۔ جماعت اسلامی کے کسی لیڈر، جماعت کی کسی قرارداد اور جماعت کے کسی اخبار سے اس نوعیت کی بات پیش نہیں کی جاسکتی تو پھر سوال یہ ہے کہ مصنفہ نے اس کتاب میں کیوں کافر، کافر کی تکرار کی ہے؟ دراصل مغرب کی جنگ جُو اور متعصب قیادت کے سامنے موجود نظریاتی چیلنج کو ایک خوف ناک ثبوت بناکر پیش کرنا مطلوب ہے ___آگے بڑھیں:

مودودی نے فاطمہ جناح کی حمایت کی، جو ۱۹۶۰ء کے عشرے میں صدر پاکستان کے عہدے کی خاتون امیدوار تھیں (لیکن بعدازاں میرے وزیراعظم بننے کے خلاف ان کا مخالفانہ انکشافِ حق مذہبی سے زیادہ سیاسی تھا)۔ (ص ۶۹)

۱۹۶۵ء میں قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں ایوب خاں کو چیلنج کیا۔ اگرچہ انھیں شکست ہوئی، لیکن انھوں نے ایوب اقتدار کی کمزوری کو واضح کردیا۔ میرے والد، فاطمہ جناح کے قریبی حلقے میں شامل تھے۔ (ص ۱۷۱، ۱۷۲)

یہ بھی ایک ہوش ربا داستان ہے۔ مصنفہ نے یہاں پر وہ سارا قصہ ہی دھندلا دیا ہے کہ جس میں ان کے والدگرامی بھٹوصاحب، آمرمطلق جنرل ایوب خاں کی حکمران پارٹی کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے، اور انھوں نے صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کو شکست دینے اور انتخاب کو اغوا کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دیا تھا۔ یہ بھی عجب تر بات ہے کہ ’قریبی حلقے میں شامل‘ بھٹوصاحب انھی فاطمہ جناح کو شکست دلوانے اور نتائج کو ’ترقی پسند‘ بنانے میں پیش پیش تھے۔ انھی دھاندلی زدہ انتخابات نے مشرقی پاکستان کے عوام کو پاکستان کے فوجی حکمرانوں اور ان کے جاگیردار رفیقوں کی آمریت سے بے زار اور وفاقِ پاکستان سے مایوس کردیا تھا۔ اسی نوعیت کی’جمہوری روایت‘ کی وارث لکھتی ہیں:

جب جنرل ضیا کی آمریت، حزبِ اختلاف کو کچل رہی تھی، مودودی کی جماعت کے قائدین ضیا کی کابینہ کے ارکان تھے۔ (ص ۷۰)

جماعت اسلامی کبھی خود جنرل ضیا حکومت کا حصہ نہیں بنی، بلکہ یہ پاکستان قومی اتحاد (PNA) کی ۲۴ رکنی وزارت تھی، (ان میں چار وزرا کا تعلق جماعت سے تھا)۔ جنرل ضیاء الحق نے عام انتخابات کے انعقاد، سول اقتدار کی جانب بڑھنے کی غرض سے پاکستان قومی اتحاد کی قیادت سے تعاون کے لیے کہا تھا۔ تب اُس وزارت میں مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام کے نمایندے شامل تھے۔۲۳ اگست ۱۹۷۸ء سے ۱۵ اپریل ۱۹۷۹ء، یعنی ۸ ماہ کی مدت پر محیط اس وزارت نے جنرل ضیا سے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کروایا اور اعلان کے اگلے ہفتے وزارتوں کو چھوڑ کر عوام میں آگئے (جب کہ بھٹوصاحب اکتوبر ۱۹۵۸ء سے جون ۱۹۶۶ء، یعنی ۷ سال اور ۸ ماہ تک آمرمطلق ایوب خان کی کابینہ کا حصہ بنے رہے)۔ اس اقتباس میں دیگر سیاسی جماعتوں کا ذکر چھوڑ کر صرف جماعت اسلامی کو تنقید کا ہدف بنانا سیاسی تعصب کے شاخسانے کے سوا اور کیا ہے؟

جنرل محمد ضیاء الحق سے مصنفہ کی نفرت کئی حوالوں سے کتاب میں جھلکتی ہے، جس کا ایک  سبب یہ تھا کہ انھوں نے قتل کے ایک مقدمے میں، مرحومہ کے والد کوسپریم کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزاے موت کو معاف نہیں کیا تھا۔ مگر اس نفرت کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ناکردہ کاموں کا بوجھ بھی اپنے ہدف کے پلڑے میں ڈال دیا جائے۔ اب یہ سطریں ملاحظہ ہوں:

میرے والد [یعنی بھٹوصاحب]، جماعت اسلامی کے مولانا مودودی کے ساتھ جنرل ضیا کے رابطوں سے واقف نہ تھے۔ بعدازاں جنرل ضیا نے مسلح افواج میں مولانا مودودی کی کتابوں کو پڑھنا لازمی قرار دے دیا۔ یوں پیشہ ورانہ افواج، مذہب کی سیاست کے حلقے میں داخل ہوگئیں۔(ص ۱۸۷)… جنرل ضیا نے جلد ہی فوج کا ماٹو بدل کر: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کردیا۔ (ص ۱۸۸)… ضیاء الحق نے دعویٰ کیا کہ پاکستان، اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ (ص ۱۸۸)

آخر کوئی تو خوبی ہوگی جنرل ضیاء الحق میں، کہ جس کی بنا پر ۸سینیر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے، وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یکم مارچ ۱۹۷۶ء کو انھیں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا۔ یہ جانچ پرکھ تو انھی کی ذمہ داری تھی، اس میں مولانا مودودی کا کیا قصور ہے؟ پھر جولائی ۱۹۷۷ء میں مارشل لا لگانے سے قبل جنرل محمد ضیاء الحق کی مولانا مودودی سے نہ کبھی کوئی ملاقات ہوئی اور نہ کسی قسم کا رابطہ ہی قائم ہوا۔ ظاہر ہے مولانا مودودی اسی معاشرے میں ایک اسلامی فکری تحریک کے قائد اور راہنما تھے۔ لوگ ان کے خیالات اور کتب سے ناواقف تو نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر کسی کتاب کو پڑھنے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ وہ فرد کسی گہرے رابطے کا حصہ بن گیا ہے۔

جہاں تک مولانا مودودی کی کتب اور پاکستانی فوج کے مابین تعلق جوڑنے کا معاملہ ہے تو یہ کام سروسز بُک کلب نے کیا ہے، جو افسروں کی ضرورت اور طلب کے مطابق دنیا بھر کے مصنفین کی کتابیں چھاپ کر، انھیں لاگت پر فراہم کرتا ہے۔ کیا دنیا بھر کے مسلم اور غیرمسلم مصنفین میں مولانا مودودی ہی ایسی شخصیت ہیں کہ ان کی کوئی کتاب سروسز بُک کلب چھاپ دے، تو اس پر بلاول ہائوس سے لے کر وہائٹ ہائوس تک لرزہ طاری ہوجائے۔ آزادیِ اظہار کی باتیں کرتے ہوئے نہ تھکنے والے ’جدیدیت پسندوں‘ میں اتنی وسعت ِ نظر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی نفرت کا نشان بننے والی شخصیت کی کتاب کو پڑھ سکیں، یا دوسرا جو اسے پڑھے، وہ اس کے حق مطالعہ کو تسلیم کریں۔ افسوس کہ یہ ساری ’روشن خیالی‘ دوچار قدم چل کر تنگ نظری کی دلدل پہ ڈھیر ہوجاتی ہے۔

پاکستانی فوج کے ماٹو کو بدل کر: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کرنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ جنرل محمد ضیاء الحق سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف [۷۶-۱۹۷۲ء] جنرل ٹکاخاں [جو بعدازاں پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے، ایک پابند صوم و صلوٰۃ انسان تھے] نے فوجی چھائونیوں، میس اور پارٹیوں میں شراب پر پابندی عائد کر دی تھی، حالانکہ ملک میں شراب پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ پھر یکم مارچ ۱۹۷۶ء کو جنرل ٹکاخان کے بعد فوج کی قیادت سنبھالنے کے ایک ہی ماہ بعد جنرل محمد ضیاء الحق نے پاکستان بھر کی چھائونیوں میں: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا ماٹو لکھوا دیا تھا۔ اس لیے جس طرح قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا اور ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنا، مئی ۱۹۷۷ء میں جمعے کی چھٹی اور ملک میں شراب پر پابندی عائد کرنا جناب بھٹو ہی کے کارنامے ہیں، اسی طرح مسلح افواج کے ماٹو میں یہ مثبت تبدیلی بھی ذوالفقار علی بھٹو کے عہدِ حکومت کا مبارک قدم ہے، جو اس وقت مسلح افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر تھے۔

جہاں تک ’پاکستان اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا، کے انکشاف کا تعلق جنرل ضیا سے جوڑنے کا معاملہ ہے، تو اس ضمن میں تحریکِ پاکستان میں اور قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم مرحوم کی تقریروں کو دیکھ لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ مثال کے طور پر یہاں صرف ایک تقریر کا اقتباس پیش ہے۔ یہ تقریر قائداعظم نے ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو، کراچی بار ایسوسی ایشن کے سامنے کی تھی:

میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت نہیں ہوگی۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق آج بھی ہم پر اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح ۱۳۰۰ صدیوں پہلے ہوتا تھا۔ اس سے کسی کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پروپیگنڈا کرنے والے حضرات ’شرارتی‘ اور ’منافق‘ ہیں۔ (قائداعظم کی تقاریر، مرتبہ: ڈاکٹر رفیق افضل، ص ۴۵۵)

پھر بانیانِ پاکستان کے ہاتھوں مارچ ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری کا عمل بھی پرکھ لیا جائے، آم اپنی خوشبو اور مٹھاس کی خبر دے دیں گے، پیڑ گننے کی ضرورت نہ رہے گی۔

اب دیکھیے، یہ ۲ مارچ ۱۹۸۱ء کی بات ہے۔ کراچی سے پشاور جاتے ہوئے پی آئی اے کی پرواز پی کے۳۲۶ بوئنگ ۷۲۰ کو الذوالفقار نامی تنظیم نے اغوا کیا۔ الذوالفقار: پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سوشلسٹ نوجوانوں پر مشتمل ایک دہشت گرد تنظیم تھی۔ جس کی سربراہی بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کر رہے تھے۔ مسافر طیارہ اغوا کر کے کابل پہنچایا گیا، اس کے فضائی قزاق سلام اللہ ٹیپو نے بی بی سی لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا: ’’[۲۶ فروری ۱۹۸۱ء کو]   ہم ہی نے کراچی یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم حافظ اسلم کو گولی مار کر قتل کیا تھا‘‘۔  اس تنظیم کے خدوخال کو دیکھنا ہو تو وعدہ معاف گواہ راجا انور کی کتاب The Terrorist Prince(دہشت گرد شہزادہ) دیکھ لی جائے۔ اب زیرتبصرہ کتاب کا  یہ حصہ پڑھیے:

ضیا نے جماعت اسلامی کے غنڈوں کو [پاکستانی] یونی ورسٹیوں میں ترقی پسند طالب علموں کو گولی سے اڑانے کے لیے استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کو اپنے طلبہ ونگ [یعنی جمعیت] سے یونی ورسٹی پروفیسروں اور انٹیلی جنس افسروں کی تقرری کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی… کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ضیا نے سیکولر پروفیسروں کو نکال باہر پھینکا، اور ان کی جگہ جماعت اسلامی کے حمایتی ارکان بٹھا دیے گئے۔ (ص ۱۸۹)

اس اقتباس کا مطالعہ کرتے ہوئے الذوالفقار تنظیم کا حوالہ ذہن میں رکھا جائے، کیونکہ یہ ضیاء الحق کے دور کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں بھٹو صاحب کے اس دور (۷۷-۱۹۷۱ء) کی بات نہیں کی جارہی کہ جس میں پیپلزگارڈز، پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن، اور فیڈرل سیکورٹی فورس کے ہاتھوں عوام، بلوچستان، طالب علموں اور حزب مخالف کو کس کس انداز سے اپنے خون میں نہانا پڑا تھا۔ یہاں اس تاریخ کا اعادہ بھی نہیں کیا جا رہا کہ جس میں پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن وغیرہ کے جیالوں نے یک طرفہ طور پر ایک خونیں جنگ کا آغاز کیا تھا۔ یہ بتانا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جنھوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ جمعیت نے اس زمانے میں ترقی پسند طالب علموں کو گولی سے اُڑایا۔ اور یہ بتانا بھی انھی کی ذمہ داری ہے کہ کس کس اعلیٰ تعلیمی ادارے سے کتنے پروفیسر صاحبان، جمعیت نے نکلوائے تھے۔ اگر ایسے چار پانچ پروفیسر صاحبان نکالے بھی گئے تو وہ مارشل لا حکام نے نکالے تھے، ان میں جمعیت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اسی طرح یہ گوشوارہ پیش کرنا بھی پیپلزپارٹی کی ذمہ داری ہے کہ کتنی تعداد میں جماعت کے’حمایتی‘ پروفیسر بھرتی ہوئے۔ سچی بات ہے کہ کتاب کے اس اقتباس کو پڑھ کر یوں لگ رہا ہے کہ یہاں طالب علموں کے قتل و غارت کا ایک طوفان، ترقی پسند اساتذہ سے تعلیمی اداروں کا صفایا اور ان کی جگہ من پسند پروفیسروںکی فوج کو بھرتی کرنے کا ہنگامہ برپا تھا۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ یا یہ سب تخیل کے زور پر ایسا واویلا ہے، جس کی نہ کوئی جڑ ہے اور نہ کوئی بنیاد! اور جمعیت کے کارکنوں کو جتنی بڑی تعداد میں قوم پرست، سوشلسٹ اور غنڈہ عناصر نے اس زمانے میں قتل کیا ، اس کی مثال کسی دوسرے عشرے میں نہیں ملتی۔

کتاب کا سب سے تکلیف دہ حصہ وہ ہے، جس میں مصنفہ نے یہ کہا ہے:

۱۹۴۷ء میں مذہبی تقسیم کی پیداوار ہونے کے ناتے سے جنوبی ایشیا اور فلسطین کے حالات کے درمیان پائی جانے والی مماثلتوں نے مجھے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ ہرتقسیم نے دو اقوام کو جنم دیا، یعنی فلسطین اور اسرائیل___ بھارت اور پاکستان۔ برعظیم کی تقسیم کو قبول کرلیا گیا، مگر شرق اوسط میں ایک فریق نے اسے رد کردیا۔ یہ استرداد دانش مندانہ تھا یا نہیں، ایک غیرمتعلق سی بات ہے۔ متعلقہ بات یہ ہے کہ آج کے فساد کے تمام معقول فریقوں نے دو ریاستی حل کو قبول کرکے دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو ایک طرف دھکیل دیا ہے۔ (ص ۳۱۶)

اس نثرپارے میں متعدد مغالطے دَر آئے ہیں۔ فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے (اسرائیل) کی بنیاد ۱۹۱۷ء کے شرم ناک اعلان بالفور میں رکھی گئی، جس کی رُو سے سیکڑوں برسوں سے وہاں آباد مسلمانوں کی بے دخلی شروع ہوئی اور ۱۹۴۸ء میں زبردستی اسرائیل کی ریاست کا ناجائز قیام عمل میں لایا گیا۔ کیا اس ظالمانہ عمل کو قیامِ پاکستان کے ایک پُرامن آئینی حل کے  مماثل قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر کیا واقعی بھارت نے قیامِ پاکستان کو دل سے (نہ کہ زبان سے) تسلیم کرلیا ہے؟ اگر واقعی صدقِ دل سے تسلیم کیا ہوتا تو کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا اور پہلے روز سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پودے کو دہلی سرکار یوں نہ سینچتی۔ اور کیا بے چارے مظلوم فلسطینیوں نے نادانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ’تقسیم‘ کو رَد کرنے کا جرم کیا ہے کہ جس پر یوں ان لاکھوں خانماں بربادوں کی دانش پرمصنفہ کو حیرت ہورہی ہے؟ کیا فلسطین اور مقبوضہ فلسطین کا مسئلہ ایسا ہی حل تھا، جیسا کہ پاکستان اور بھارت___ تو پھر بے نظیر بھٹو کے ممدوحین قائداعظم، علامہ محمد اقبال، ذوالفقار علی بھٹو، فیض احمد فیض وغیرہ کیوں کر اس ظلم پر تڑپتے رہے۔ انھوں نے کیوں نہ فلسطینیوں سے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرلو؟ پاکستان تو بے خانماں، نہتے اور لٹے پٹے مہاجروں کا ملک تھا، مگر اسرائیل کو تو یورپ و امریکا کی مالی، فوجی اور سیاسی پشت پناہی کے آہنی ہاتھوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا اور لاکھوں انسانوں کی لاشوں کا ڈھیر لگاکر انسانیت کو ہر روز قتل کیا گیا۔ کیا واقعی پاکستان اور اسرائیل کے مابین کوئی مماثلت موجود ہے؟ اور کیا فلسطینیوں نے اسرائیل کو تسلیم نہ کر کے فساد کا بیج بویا ہے؟ یہ استدلال خود مذمتی اور بے بنیاد ’روشن خیالی‘ کا عبرت ناک نمونہ ہے جس نے مغربیوں کے ظلم کو سہارا اور تباہ حال فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اہلِ پاکستان کو ایک ذلت آمیز مماثلت کا طعنہ دے کر دکھ پہنچایا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر قائداعظم کے نام علامہ محمد اقبال کے خط مورخہ ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کا آخری ٹکڑا پیش کیا جائے:

مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے ذہنوں میں بہت اضطراب پیدا کر رہا ہے… مجھے قوی امید ہے کہ لیگ اس مسئلے (فلسطین) پر ایک بہت ہی سخت قرارداد منظور کرے گی… ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے۔ (پروفیسر احمدسعید، اقبال اور قائداعظم، اقبال اکادمی ، لاہور، ص ۱۱۰)

اسی طرح بے نظیر کے نقطۂ نظر کے برعکس مولانا مودودی کا موقف جاننا متعدد حوالوں سے اشد ضروری ہے۔ جنھوں نے اسرائیل اور پاکستان میں مماثلت پیدا کرنے والے ایسے ہی ایک روشن خیال کو جواب دیتے ہوئے، ماہنامہ ترجمان القرآن جولائی ۱۹۴۴ء میں لکھا تھا:

میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ ان کو وہاں سے نکلے ہوئے ۲ہزار برس گزر چکے ہیں۔ اسے اگر ان کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے تو اسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک واقعی ان کا قومی وطن ہے اور وہ اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصل پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں لابسایا جائے، اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے، اور متحدہ ہندستان کے بجاے ہندو ہندستان اور مسلم ہندستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ (دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۲۱۸، ۱۹۷۳ء، اور رسائل و مسائل، اوّل، ص ۲۷۹، ۲۸۰)


بے نظیر بھٹو کی زیرنظر کتاب کے مطالعے سے جو تاثر سامنے آتا ہے، اسے حسبِ ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:

  •    کتاب کا موضوع مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان مفاہمت پیدا کرنا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس میں امریکی جارحیت کے جواز کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مجرم بناکر پیش کیا گیا ہے، گویا کہ یہ کتاب مسلم اُمہ کے ایک وعدہ معاف گواہ کا حلفیہ بیان ہے۔
  •    مندرجات کی پیش کش سے خود کتاب کی مصنفہ کے سماجی شعور، تاریخ کے مطالعے اور وسعت ِ نظر کے بارے میں سنجیدہ سوال پیدا ہوتے ہیں۔
  •     اپنے حق یا دوسرے کی مخالفت میں لکھتے وقت خوب رنگین بیانی سے کام لیا گیا ہے، جو کہیں کہیں بہتان اور صریح کذب بیانی کی شکل اختیار کرگئی ہے۔
  •       واقعات و حوادث کو معروضی پس منظر کے ساتھ پیش کرنے کے بجاے گروہی یا ذاتی تعصبات سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے، اور کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ ’ان‘ کے افکار و خیالات کو محض دہرا دیا ہے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو حقیقت تصور کر لیا گیا ہے۔
  •    کھلے حقائق تک کو گرد آلود کیا گیا، اور متعدد بے جواز موازنے پیش کیے گئے ہیں۔
  •     اس تجزیے سے خود ہارورڈ اور اوکسفرڈ یونی ورسٹیوں کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کے تربیت یافتہ ماہرین ایسے یک رُخے ہوتے ہیں (یاد رہے کہ کتاب میں ان مراکزِ دانش کا تذکرہ بار بار اور والہانہ انداز میں کیا گیا ہے)۔ یوں لگتا ہے کہ واقعی یہ ادارے غیرمغربی معاشروں کے طالب علموں میں ان کے اپنے ہی معاشروں کے بارے میں تنگ نظری اور مغرب کے لیے حد سے بڑھی ہوئی مرعوبیت پیدا کرتے ہیں۔
  •      دینی مدارس کے بارے میں بے جا طور پر شک کا عنصر اور زیادہ گہرا ہوتا ہے، حالانکہ مدارس کی بڑی عظیم اکثریت کا اس فردِ جرم سے کوئی تعلق ہی نہیںہے۔
  •     اس تناظر میں یہ کتاب تاریخ کا عکس نہیں، بلکہ تاریخ کا قتل ہے۔ چیزوں کو مسخ شدہ حالت میں پیش کرنے کی ایک مبتدیانہ کوشش ہے۔

جیساکہ ابتدا میں بتایا تھا، کہ ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کی شام بے نظیر بھٹو کا بہیمانہ قتل ہوا، دوسرے روز ۲۸دسمبر کو مارک اے سیگل نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر فرمایا اور ۳ جنوری ۲۰۰۸ء یعنی ساتویں روز جناب آصف زرداری، بیٹے بلاول اور بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے اس کتاب کا اختتامیہ سپردِقلم کیا۔ رہ رہ کر یہ سوال کاٹنے کو دوڑتا ہے کہ بے نظیر صاحبہ کے قتل کے سانحے کے دوسرے روز (جب کہ تعزیت کنندگان ہجوم در ہجوم آرہے تھے اور) ابھی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی، تو کس طرح دیباچہ لکھا گیا اور تدفین کے پانچویں روز ان کے غم زدہ شوہر اور دکھ میں نڈھال بیٹے بیٹیوں کو کس طرح وہ ذہنی کیفیت نصیب ہوگئی کہ جس میں وہ اختتامیہ قلم بند کرپاتے۔ یہ سب باتیں کتاب کے متن کے بارے میں بجاطور پر شک پیدا کرتی ہیں، کہ جس طرح خود مرحومہ کی وصیت کے بارے میں بھی شک پایا جاتا ہے۔

مصنفہ کی قومی خدمات کا اعتراف کرنے کے باوجود، یہ باتیں بادل ناخواستہ تحریر کرنا پڑی ہیں۔ اب دوسری جانب دیکھیے: مغرب میں پلی بڑھی، نومسلمہ اے وان رِڈلی کو یہ کیسا شعور نصیب ہوا ہے کہ جو مسلم دنیا میں مغربی آقائوں کے کاسہ لیس اور اقتدار کے بھوکے امیدواروں اور حکمرانوں کو بے نقاب کرتی اور ان کی خواہشاتِ اقتدار پر تازیانے برساتی چلی جارہی ہے۔ یہ چند روزہ زندگی ہی سب کچھ نہیں، اور نہ چند برسوں کی حکومت انسانی زندگی کا حاصل ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ قومی قیادت کے مقام پر فائز افراد اپنی داخلی جنگ کو بڑھانے اور پھیلانے کے بجاے داخلی یک جہتی ، بہتر تعلیم و تربیت اور قومی و ملّی موقف میں مضبوطی کی راہوں پر چلیں۔ ملامتیہ رنگ چھوڑیں، ایک دوسرے پر تیراندازی کرکے جگ ہنسائی کا کھیل ترک کریں، اور عظمت ِ دانش کا پرچم تھام کر قوم کی قیادت کریں۔

 

بے نظیر بھٹو کی زندگی کا آخری سیاسی کارنامہ ’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘ (NRO- National Reconciliation Ordinance) تھا اور آخری کتاب Reconciliation۔ [کتاب کا پورا نام: مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب ہے۔] وہ ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء    کی شام جلسۂ عام میں رونما ایک الم ناک حملے میں جاں بحق ہوئیں۔ اگلے روز ۲۸دسمبر کو     مارک اے سیگل نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا، جب کہ ساتویں روز ۳ جنوری ۲۰۰۸ء کو ان کے شوہر  آصف علی زرداری، بیٹے بلاول اور بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے کتاب کا اختتامیہ قلم بند کیا۔ ۳۲۸صفحات پر مشتمل یہ کتاب سائمن اینڈ شسٹر نے لندن، نیویارک اور ٹورنٹو سے ۲۰۰۸ء کے اوائل میں شائع کی ہے۔

عجیب اتفاق ہے کہ اس کتاب کا عنوان ہے: ’مفاہمت‘ مگر کتاب کے مندرجات میں کہیں کسی ایک سطر میں بھی مذکورہ ’مفاہمتی آرڈی ننس‘ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، حالانکہ اسی آرڈی ننس کی بنیاد پر نہ صرف ان کی جلاوطنی ختم ہوئی بلکہ ان پر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر قائم کرپشن کے مقدمات ختم ہوئے اور سیاست میں ان کی واپسی ممکن ہوئی اور اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو نئی زندگی اور زرداری صاحب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت ملی۔ ’مفاہمت‘ (deal) کے بارے میں یہ پُراسرار خاموشی بہت معنی خیز ہے۔

اس کتاب میں جو چیز زیربحث ہے وہ مغرب بلکہ امریکا اور مسلمان ہیں، مسلمان بھی وہ، جنھیں کٹہرے میں کھڑے ملزم بلکہ مجرم بن کر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے مباحث کی تکرار، اس میں موجود پیغام کے رنگ اور اس کے اسلوبِ نگارش کو دیکھ کر بسااوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ  اس کتاب کا بیش تر حصہ بے نظیر بھٹو کا لکھا ہوا نہیں ہے، تاہم پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر نے اس کتاب کو بے نظیر بھٹو کی: ’’وراثت کی آخری کڑی اور نعرئہ حق کی ایسی صدا قرار دیا ہے، جس کی بازگشت آنے والے زمانوں میں بھی گونجتی رہے گی‘‘۔ پاکستان کی ایک اہم سیاسی پارٹی کی رہنما سے منسوب اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس میں بیان کردہ وژن کو سمجھا جائے، اور جسے وصیت یا وراثت کہا گیا ہے، اس میں پائے جانے والے پیغام کے مضمرات کا احاطہ کیا جائے۔

کتاب میں متعدد مقامات ایسے ہیں کہ ان تحریروں کے اثرات مستقبل پر اثرانداز ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ حق کی گواہی دی جائے۔ انسانی جان کا قتل جتنا بڑا جرم ہے، کم و بیش اتنا ہی بڑا جرم تاریخ کا قتل ہے۔ علمِ تاریخ، انسانی تجربے، اجتماعی زندگی کے حادثے، اور کارنامے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا محضرنامہ ہوتا ہے۔ کیا ’مفاہمت‘ کے نام پر ’نفرت‘ کا درس دینا کوئی مناسب عمل ہے؟ اگرچہ کتاب کے دو تہائی مباحث اس امر کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر غور کرکے ان کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے۔ مگر زیرنظر صفحات میں اس قدر تفصیل کی گنجایش نہیں، اس لیے ہم اپنے تجزیے کو صرف دو ایک مرکزی موضوعات ہی تک محدود رکھیں گے۔ اس مبحث کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے: ۱-اسلام اور عالمِ اسلام ۲- سید قطب، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی۔

اسلام اور عالمِ اسلام

یہ درست ہے کہ دینی امور پر بات کرنا کسی فرد کی اجارہ داری نہیں ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب میں متعدد جگہ دینی معاملات پر اپنے نتیجہ ٔ فکر کو پیش کیا ہے۔ اپنی بات کہنا ان کا حق ہے، مگر اس میں بہرحال یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ وہ بات درست ہے یا نہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے:

قرآن کی تفسیر میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تفسیر کون کر رہا ہے۔ کئی مسلمان، خصوصاً جن کا تعلق مذہبی حکومتوں سے ہے، یقین رکھتے ہیں کہ صرف چند مخصوص لوگوں ہی کو قرآن کی تفسیرکرنے کا حق حاصل ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن کی تفسیر کو کسی ایک فرد یا مجلس تک محدود نہیں رکھا گیا۔ قرآن کی تفسیر کرنے کی آزادی ہرمسلمان کو حاصل ہے۔ تمام مسلمانوں کو قرآن کی تفسیر کرنے کا حق دینے کی ضمانت (یعنی حق اجتہاد) حاصل ہے۔ (ص ۶۵)

یہ لطیف نکتہ تو بڑے بڑے روشن خیالوں کو بھی نہ سوجھا تھا کہ قرآن کی تفسیر کرنے کا حق ہرفرد کو ہے۔ علما نے کہیں نہیں کہا کہ تفسیر کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے، بلکہ انھوں نے صرف یہ کہا ہے کہ تفسیر کے لیے علم اور تقویٰ، عربی اور دینی نظائر پر گہری دسترس حاصل ہونی چاہیے، اور جو فرد بھی یہ دسترس حاصل کرلے وہ تفسیر کرسکتا ہے۔علما نے یہ بھی کہیں نہیں کہا کہ کسی مخصوص نسلی طبقے کو  یہ حق حاصل ہے، مگر انھوں نے یہ ضرور کہا کہ قرآن کے مفسر کو دین دار اور خدا ترس بھی ہونا چاہیے۔ مذکورہ پیراگراف میں مصنفہ نے ’اجتہاد‘ کو بھی ہرشہری کا ایسا حق قرار دینے کی کوشش کی ہے، جیساکہ وہ قانون کی تشریح کے لیے علم سے بے بہرہ ہرکس و ناکس کو حق دینے کے لیے    آمادہ نہیں ہوسکتیں، آخر یہ آزاد روی صرف دین اسلام کے ساتھ ہی کیوں؟مصنفہ نے برعظیم پاک و ہند میں جن افراد کو علمِ دین کی وضاحت کے لیے نامزد فرمایا ہے، وہ ہیں: ’’مولانا وحیدالدین اور خالد مسعود جیسے زندہ مصلح، جو اپنے جدت پسند علمِ دین کو ریاست کے ظلم وستم یا دھونس کا نشانہ بنائے بغیر پڑھا سکتے ہیں‘‘ (ص ۲۸۴)___ عورتوں کے حقوق پر بحث کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ پردے (veil) یا برقعے کا تعلق زیادہ تر قبائلی روایات سے ہے۔ روایت پرست ماضی میں صاحب ِ ثروت خواتین صرف عزیزوں کی شادیوں یا جنازوں میں شریک ہونے کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں۔ یہ اُس وقت اِس خطے کا عام چلن تھا، مگر کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں تھا۔ (ص ۴۲)

اگر پردہ کرنا قبائلی روایت کا حصہ ہے تو پھر پردہ نہ کرنا بھی تو کسی قبیلے کی روایت کا حصہ ہوسکتا ہے۔ کیا عہد ِ رسالتؐ و عہدصحابہؓ میں یہ چیزیں محض قبائلی سلسلے کی کڑیاں تھیں یا ان کے لیے قرآن و سنت اور اسلامی روایات کا ایک گراں قدر تسلسل ہمیں رہنمائی دیتا آیا ہے؟ تاہم پردے یا حجاب کی شکلیں مختلف ادوار میں لوگوں کے ذوق اور ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ یہ چیز روایت کی اسیری یا دولت کے اظہار کا ذریعہ بھی نہیں تھی۔ مسلمان عورتیں کبھی جنازوں میں نہیں جایا کرتیں۔ اور آخر میں ان کا یہ لکھنا کہ ’’پردہ کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں‘‘۔ ایک بے بنیاد جسارت اور ایک غلط فتویٰ ہے ___ آگے چل کر وہ کہتی ہیں:

عورتوں کے لباس سے متعلق قرآن کی دو بڑی آیات کو حجاب کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور فقہا انھی کو استعمال کر کے عورتوں سے حجاب پہننے کا تقاضا کرتے ہیں--- حالانکہ آیت (الاحزاب:۶۷) خاص رسولؐ کے اہلِ بیت کے لیے ہے۔ (ص ۴۲)

مصنفہ کے نزدیک پردہ صرف بعد کے فقہا کی ذہنی اُپج ہے اور یہ کہ قرآن کا حکم صرف اور صرف رسولِؐ پاک کے اہلِ بیت اور بیویوں کے لیے تھا۔ یہ بصیرت افروز انکشاف، عبرت کے  کئی پہلو رکھتا ہے۔ انھوں نے مزید یہ بیان کیا ہے:

جب میں عُنفُوانِ شباب کو پہنچی تو میری والدہ [بیگم نصرت بھٹو صاحبہ] نے مجھ سے برقع (burqa) پہننے کے لیے کہا۔ [یہ سن کر] مجھے اچانک دنیا دھندلائی دھندلائی سی نظر آنے لگی۔ کپڑے کی اِن بندشوں تلے مجھے گرمی اور سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔ میرے والد [ذوالفقار علی بھٹو صاحب] نے مجھ پر صرف ایک نگاہ ڈالی اور کہا: ’’میری بیٹی کو پردہ (veil) کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ میری والدہ نے فیصلہ کیا، اگر یہ پوری طرح لپیٹ لینے والا برقع نہیں پہنے گی تو پھر میں بھی نہیں پہنوں گی۔ اس طرح روایت شکنی کا آغاز ہوا--- اور رسولؐ نے تو کہا ہے کہ بہترین پردہ ’نظر کا پردہ‘ ہے۔ (ص ۴۳)

یہ واقعی انکشاف ہے کہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو برقعہ پہننے کے لیے کہا، مگر بھٹوصاحب نے پردے کی تجویز کو جھٹک دیا اور پھربیگم صاحبہ نے بھی برقع پہننے سے انکار کردیا۔ یوں روایت شکنی کا علَم بلند ہوا۔ اس میں توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ بیگم صاحبہ ایک اصفہانی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایران نژاد ماڈرن خاتون تھیں، جو بے نظیر کے سنِ بلوغت سے پہلے بھی کھلے چہرے کے ساتھ، سماجی مجالس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ جب انھوں نے خود برقع پہنا ہی نہیں تو ایسے میں، ان کی جانب سے ردعمل میں آکر برقع چھوڑنے کا اعلان ایک نئی بات ہے۔ اور جو بھٹو صاحب نے کہا یا جس تصور سے بے نظیر لرزاں و ترساں ہوئیں، وہ ان کا ذاتی احساس ہے، اس پر مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے، تاہم قرآن، سنت، حدیث اور اسلامی سماجی روایات کو چھوڑ بھی دیں، تب بھی کم از کم ان تین حضرات کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنی وسیع المشربی کے باوجود پردے بلکہ برقعے کے قائل تھے، مراد ہیں: جدیدیت کے حدی خواں سرسیداحمد خاں، روشن خیالی کے ’امام‘ نیاز فتح پوری اور مغرب کے ظاہروباطن کے رازداں علامہ محمداقبال۔ کیا یہ لوگ بھی ’قبائلی طرزِ احساس کے قیدی‘ تھے؟ ___

مسلمانوں میں انتہا پسندی کا کھوج لگاتے ہوئے لکھتی ہیں:

ازمنہ وسطیٰ کے عالم احمد ابن تیمیہ [۱۲۶۲ء-۱۳۲۸ء]نے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان ایک واضح حدِفاصل قائم کی اور کہا: ’’مسلم شہریوں کا یہ فرض ہے کہ ان [غیرمسلموں] کے خلاف بغاوت کریں اور جہاد کریں۔ اس فتوے کو کئی گروہوں نے نقل کیا۔ یوں ان کے نزدیک غیر مسلموں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنا جائز ہے۔ (ص ۲۷-۲۸)

پہلی بات تو یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ کو وحشی منگولوں کی بے رحمانہ یلغار روکنے کے لیے تلوار اٹھانا پڑی۔ اسلامی تاریخ کے اس عظیم محسن نے بذاتِ خود اس درندگی کو ایک ایسی سطح پر دیکھا، جس کا مشاہدہ ہمارے مغرب پلٹ اہلِ دانش نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ حالت ِ جنگ اور تلواروں کی بارش میں وہ پھول کی پتیاں تو نچھاور نہیں کرسکتے تھے، بلکہ ایسی صورت حال میں اسلام جو رہنمائی دیتاہے، انھیں اس سے روشنی حاصل کرنا تھی۔ اب یہ مصنفہ یا ان کے مددگار اسکالروں کی تحقیق اور تخیل کی کرشمہ سازی ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک ایک مسلمان کا کام ہروقت، ہر جگہ اورہر حالت میں یہی ہے کہ وہ غیرمسلموں پر جہاد کی تلواریں برساتا رہے۔ آگے چل کر ابن تیمیہ کو ان مجاہدین سے جوڑا گیا جو یہودی، نصرانی اور ہندو استعمار سے آزادی کے لیے مصروفِ جہاد ہیں۔ جو بات امام ابن تیمیہ نے کہی نہیں، اس کے لیے ان کو ذمہ دارکیوں قرار دیا جائے اور ان احوال و ظروف کو نظرانداز کیوں کیا جائے جس میں انھوں نے فتویٰ دیا اور تلوار اٹھانے کی بات کی تھی۔

اکیسویں صدی میں اہلِ مغرب کی تاریخ کروٹ لے رہی ہے، اور وہ سعودی حکمران جو ماضی میں ان کے ہاں ’اعتدال‘ کی علامت قرار دیے جاتے تھے، اب نئی عالمی صف بندی میں ان کے خلاف مغرب کی جانب سے گاہے گولہ باری دیکھنے میں آتی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اسرائیل کی پشت پناہی کرنے پر امریکا کو تیل کی سپلائی روکنے کی بات کی تو امریکی انتظامیہ نے ایک طرف دوستی اور دوسری جانب دشمنی اختیار کرنے کی دو رُخی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سعودی مملکت کو نفرت کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس کے ساتھ دوسرا شکار ’وہابیت‘ ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعماریوں نے ان کی اطاعت نہ کرنے والے مسلمانوں کو ’وہابی‘ کا نام دیا۔ اور ’وہابی‘ لفظ کے ساتھ متعدد بے بنیاد روایات منسوب کر کے مسلمانوں میں عمومی سطح پر نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ موجودہ سعودی عرب کے علاقے نجد میں شیخ محمد بن عبدالوہاب (۹۲-۱۷۰۳ء) کے رفقا موجود تھے، تاہم بھارت، انڈونیشیا، چیچنیا، افریقہ وغیرہ میں جہاں بھی مسلم سرفروشوں نے گوری اقوام کے استعماری اقتدار کو للکارا تو انھیں وہابی کہہ کر بدنام کیا اور: ’’مارنے سے پہلے دشمن کو بُرا نام دینے‘‘ کی روایت کو آگے بڑھایا۔ مصنفہ نے لکھا ہے:

سُنّی اسلام میں اسلامی سُنّی شریعت کے چار مکاتب ہیں: حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی۔ سُنّی فرقے کے بیج سے ایک اور فرقہ نکل کر اُبھر رہا ہے جنھیں ’وہابی‘ کہا جاتا ہے، جو موجودہ دور میں سعودی عرب میں غالب اکثریت اور قوت رکھتا ہے۔ اس کے بانی محمد بن عبدالوہاب حنبلی مسلک کے پیرو تھے۔ سعودی بادشاہت، خاندانِ سعود پر مشتمل ہے اور وہابیت سلطنت کا سرکاری مذہب ہے۔ وہابیوں نے غیروہابی مسلمانوں کی قبریں مسمار کردیں۔ انھوں نے باجماعت نماز میں شرکت کو لازمی قرار دے دیا۔ وہابی خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے خلاف تھے۔ ۱۸۰۲ء میں وہابی افواج نے عراق میں کربلا پر قبضہ کرلیا اور اپنے ہتھے چڑھنے والے ہرمعلوم شیعہ مرد، عورت اور بچے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا--- وہابیت ایک سخت گیر اور کٹّر مسلک ہے۔ یہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے چند فرقوں کو بھی مرتد قرار دیتا ہے۔ بعض وہابیوں کا کہنا ہے کہ شیعوں کو قتل کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ (ص ۵۱)

بلاشبہہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے رفقا نے ایسے مزار مسمار کیے تھے کہ جن پر ضعیف الاعتقادی کے باعث نذرونیاز اور توسّل و التجا کے عمل نے قبرپرستی کے قریب پہنچا دیا تھا مگر اس میں وہابی اور غیروہابی کی تمیز نہ تھی۔ اسی طرح باجماعت نماز کی ادایگی کسی وہابی کا حکم نہیں، بلکہ مردوں کے لیے یہ اللہ کے رسولؐ کا حکم ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھیں۔ ’وہابی سعودیوں‘ کو شیعہ مسلمانوں کا جانی دشمن قرار دینا بھی ایک افسانہ ہے اور کربلا پر ان کی یلغار کا جو نقشہ اس کتاب میں کھینچا گیا ہے وہ بذات خود فرقہ واریت کے شعلوں پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس آگ کو بھڑکانے کے لیے مغرب کے پالیسی ساز نت نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ ہم یہاں پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ شیعہ حضرات پر وقتاً فوقتاً افسوس ناک حملے کرنے والے چھوٹے سے جنگ جُو گروہ کا تعلق اہلِ حدیثوں (’وہابیوں‘) سے نہیں، بلکہ اس گروہ سے ہے کہ جس کے سیاسی گروپ کے ساتھ اکثر پیپلزپارٹی شراکتِ اقتدار کرتی چلی آرہی ہے۔ چونکہ سعودی مملکت اور خاص طور پر سلفیوں کو نشانہ بنانا آج کے مغربی حکمرانوں کو مطلوب ہے، اس لیے خاص طور پر اہلِ مغرب کے اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں کہا گیا ہے کہ وہ ’عیسائیوں اور یہودیوں‘ کے دشمن ہیں۔ یہ اعلان مغربی تھنک ٹینک باربار کررہے ہیں، اور ان کی صداے بازگشت یہاں بھی موجود ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:

ترکی سے پاکستان تک کی مسلم آبادیوں میں مغرب، خصوصاً ریاست ہاے متحدہ امریکا کے لیے تحقیر اور دشمنی کے جذبات روز افزوں ہیں اور عراق کی جنگ [۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء تاحال] کو اس کی وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فلسطین کی صورت حال کو ایک اور سبب کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ مغرب کی نام نہاد انحطاط پذیر اقدار کو بھی اکثر ایک حصے کے طور پر شاملِ بحث رکھا جاتا ہے۔ اپنے مسائل کے لیے دوسروں پر الزام دھرنا، اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ [مغرب کے] غیرملکیوں اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت بڑی آسانی اور بڑی تیزی سے کی جاتی ہے، مگر مسلم دنیا میں اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنی غلطیوں کو پہچاننے کے معاملے میں اتنی ہی کم آمادگی پائی جاتی ہے۔ (ص ۴)

’دانش وری‘ اور ’ٹھنڈے دل و دماغ‘ پر مبنی یہ بیان بھی مسلم دنیا کی مذمت اور امریکی حکومت کے لیے انسانیت سوز اقدامات کی طرف داری کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اصل بات آخر میں کی گئی ہے کہ مغرب اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت ’بڑی آسانی اور بڑی تیزی‘سے کی جاتی ہے، مگر ’اپنے گریبان میں نہیں جھانکا جاتا‘۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اپنی غلطیوں کو پہچاننے ، اور اپنے گریبان میں جھانک کر  اپنی خرابیوں کو دُور کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف مغرب یا امریکا وغیرہ نہیں، بلکہ امریکا وغیرہ کے وہ دیسی ٹھیکے دار ہیں، جو سیاست اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں، اور جنھیں استعماری حکمرانوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی چیز کا شعور رکھتے ہوئے مظلوم مسلمان، اپنے دکھوں کا سبب مغرب کی طاقتوں کو قرار دیتے ہیں اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ جس طرح وہ خود بھی گذشتہ برسوں میں پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف کو خرابی کا سبب قرار دیتی تھیں اور اس کا اہم ذمہ دار مغرب اور امریکا کو قرار دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کرتی تھیں کہ وہ مشرف کی پشت پناہی چھوڑ دیں۔ یہ بات عام لوگ کہیں تو غلط، لیکن اگر وہ کہیں تو درست۔ غالباً اسی چیز کو ’خودمختاری‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ بھی لکھا ہے:

دنیا بھر میں ایک ارب مسلمان جنگ ِ عراق پر غم و غصے کے اظہار میں اور اقوامِ متحدہ کی تائید کے بغیر امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرنے میں تو یک جا نظر آتے ہیں، مگر اس فرقہ وارانہ خانہ جنگی پر، جو اس سے کہیں زیادہ ہلاکتوں کا موجب بنی ہے، ایسے غم و غصے کا اظہار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلم قائدین، عوام اور یہاں تک کہ دانش ور بھی شرم ناک طور پر اپنے برادر مسلمانوں کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان پر تنقید کرنے میں خاصی سہولت محسوس کرتے ہیں، مگر [اس کے برعکس] جب مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر تشدد کی بات آتی ہے تو [ان پر] موت جیسی خاموشی چھا جاتی ہے۔ (ص ۳)

مسلمانوں کا زوال محض نوآبادیاتی نظام کی ناانصافی یا طاقت کی عالمی تقسیم کی وجہ سے نہیں ہوا۔ مسلم معاشروں کو خود بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ مسلم ممالک کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ (ص ۳۰۰)

چلیے، ان کم ظرف مسلمانوں کو تو مطلوبہ تنقید کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی، مگر اس کتاب کے اوراق پر یہ کارِعظیم بار بار کیا گیا ہے۔ کہاں عراق اور افغانستان میں مجموعی طور پر ۲۶لاکھ مسلمانوں کا قتل (جس میں پہلے روسی کمیونسٹ فوجوں کے ہاتھوں ۱۳ لاکھ افغانوں کے لیے موت اور پھر ۲۰۰۱ء کے بعد ان دونوں ملکوں میں مزید ۱۳ لاکھ بے گناہ انسانوں کا بہیمانہ قتل اور وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر)۔ اس قتل پر احتجاج کرنے میں اس لیے مستقبل کے ’مسلم حکمران‘ لوگ خاصے محتاط ہیں کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے لیے امریکا بہادر کی خوش نودی میں رخنہ آئے گا۔ مسلم دانش پر ماتم کناں مصنفہ کو یہ بات بھول گئی کہ جو فرقہ وارانہ خانہ جنگی انھیں نظر آرہی ہے،   وہ المیہ بھی دراصل اسی امریکی قبضے و یلغار اور مقامی لوگوں کا حق حکمرانی سلب کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے مسلم دانش اس المیے کو الگ حقیقت، جب کہ امریکی فوجی مداخلت اور اس سے پیدا شدہ وحشت و درندگی کو دوسری چیز سمجھتی ہے، تاہم مبالغہ آمیز فرقہ واریت کے افسانوی تذکرے سے بھری پڑی مسلم دنیا اسی کتاب کے اوراق پر نظر آتی ہے، حقائق کی دنیا میں نہیں:

مسلم دنیا کے اندر فرقوں، نظریوں اور اسلام کی تشریحات کے مابین ایک اندرونی خلیج، ایک متشدد محاذ آرائی موجود ہے، اور ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اس تباہ کن کشیدگی نے بھائی کو بھائی کے خلاف لاکھڑا کیا ہے۔ آج مسلمانوں کے مابین یہ فرقہ وارانہ تشدد اس مجنونانہ، اور اپنی ہی جڑوں کو کاٹنے والی فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں پوری طرح نظر آتا ہے۔ اور مسلم دنیا میں فرقہ واریت ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ (ص ۲)

میرے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے جدید دور کے اہم ترین تصادم اسلام اور مغرب کے درمیان نہیں، بلکہ اسلامی ریاستوں کے اندر اعتدال پسندوں اور جدیدیت کی قوتوں اور انتہا پسند اور جنونی قوتوں کے درمیان داخلی لڑائیوں کی صورت میں رونما ہوئے ہیں۔ (ص ۲۵۶)

مسلم دنیا، نظریوں اور فرقوں کی ایسی کسی عالم گیر اور متشدد محاذ آرائی کی تصویر پیش نہیں کرتی۔ اختلاف ہمیشہ اور ہر معاشرے میں رہا ہے، لیکن یہ گلے کاٹنے کا بحیثیت مجموعی ہولناک منظر یا تو اس کتاب میں نظر آتا ہے یا پھر سیکولر حلقوں کی اس خواہش کا پرتو ہے کہ دین کو اور دین دار طبقے کو بُرا کہنے کے لیے یہ بہانا تراشا جائے کہ دین اسلام تو بس فرقہ وارانہ لڑائیوں کا مذہب ہے۔ جس جنگ یا قتل و غارت کو کتاب میں پوری مسلم دنیا کا سرطان قرار دیا گیا ہے، وہ الم ناک فضا ’مہذب‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں اور مسلم دنیا میں اس کے باج گزار حکمرانوں کی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے، اور وہ افسوس ناک صورت حال بھی انھی علاقوں میں ہے جہاں انھوں نے استعماری قبضہ جما رکھا ہے___ وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں نے تصورِ خلافت سے تحریک حاصل کرنے والی خوں ریز محاذآرائی کے ہراول دستے، یعنی صلیبی جنگوں کی آمد کا اعلان کیا۔ جب جڑواں ٹاوروں کے جلنے اور منہدم ہونے کی تصویر ٹیلی وژن پر دکھائی گئی تو مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم دو مختلف طریقوں سے کیا گیا: ایک بڑی تعداد کا، اگرچہ بہت بڑی تعداد نہیں، ردِعمل خوف، خفت اور شرمندگی کا تھا، جب [اس پر] یہ واضح ہوا کہ تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے بڑا واقعہ اللہ اور جہاد کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ مگر ایک ردعمل اور بھی تھا اور وہ یہ کہ کچھ لوگوں نے فلسطین کی گلیوں میں خوشی سے رقص کیا، کچھ نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مٹھائیاں بانٹیں… (ص ۳)

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے المیے پر دنیا کے کسی مسلمان ملک یا شہر نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ اگر فلسطین کے کسی شہری نے اسرائیلی مظالم کے دکھ سہتے سہتے، اس کے پشتی بان کو پہنچنے والے نقصان پر لمحہ بھر کے لیے کوئی مسرت کا اظہار کردیا، تو اسے ایک ارب اور ۳۰ کروڑ مسلمانوں کے ’ذہنی افلاس‘ کا حوالہ بنانا ظلمِ عظیم ہے۔ اس سانحے کو تو آج تک کسی ذمہ دار مسلمان لیڈر نے ’اللہ اور جہاد‘ کا مظہر قرار نہیں دیا۔ حادثے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر امریکی صدربش نے اسامہ اور افغانستان سے اس کا رشتہ جوڑ ڈالا، اور تقریباً ۹ برس گزر جانے کے باوجود آج تک کسی کھلی عدالت میں اس الزام کو جرم کے طور پر ثابت نہیں کیا جاسکا۔ البتہ کروڑوں مسلمانوں پر الزام تراشی اور لاکھوں پر کسی تامّل اور جواز کے بغیر تعزیر جاری کرنے کا کام ضرور کیا گیا۔ بعدازاں مسلم دنیا میں امریکی مظالم کے خلاف جو ردعمل سامنے آیا، اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، پوری دنیا کے خوددار، غیرت مند اور بہادر انسان شریک ہیں، جنھوں نے رنگ و نسل اور قوم و مذہب کی تفریق سے بالاتر رہتے ہوئے، افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بدترین بم باری اور قتل و غارت گری کی نہ صرف مذمت کی، بلکہ جب بھی ان قاتل فوجوں کو نقصان پہنچا تو انھوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس لیے امریکی فوجیوں سے ہمدردی اور مسلم اُمہ کی مذمت کا یہ یک طرفہ فتویٰ عدل سے خالی، حقائق سے رُوگردانی اور بے رحمانہ خود مذمتی کی دلیل ہے۔ اسی طرح ’صلیبی جنگوں‘ کی اصطلاح کو صدربش نے استعمال کیا تھا، کسی مسلمان لیڈر نے نہیں۔

کتاب میں مسلک دیوبند کے بارے میں درج یہ اقتباس بھی دل چسپ ہے:

دیوبند مسلک ایک قدامت پسند فرقہ ہے۔ دیوبندی، مسلم اقدار پر مغربی اثر کے حوالے سے متفکر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مغربی‘ بننے کے بجاے ’مسلمانوں کو  اپنی پہچان، برقرار رکھنی چاہیے۔ یہ حنفی مسلک کی پیروی کرنے اور غیراسلامی افعال ترک کرنے کے حامی ہیں۔ (ص ۵۱- ۵۲)

حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی ہی نہیں، یہاں کا ہر دین دار اپنے آپ کو مغرب کے فکری اور اعتقادی رنگ میں رنگنے کو دین کے تقاضوں کے منافی سمجھتا ہے، غیراسلامی افعال کو ترک کرنے کی تلقین اور تربیت کرتا ہے۔ اس بنیادی بات کو صرف اہلِ دیوبند سے منسوب کرنا، مشاہدے کی خامی، دین سے وابستگی رکھنے والے عام مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی اور دینی تعلیمات کے تقاضوں کو سمجھنے میں سوے فہم کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ پھر یہ لکھنا کہ:

دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ دینی اور دنیاوی معاملات کے درمیان کوئی حدِفاصل نہیں، اور یہ کہ اسلام زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ جنوبی ایشیا میں داخلے کے لیے وہابی تحریک ایک عرصے سے دیوبندی مدرسوں میں سرمایہ کاری کرتی چلی آرہی ہے۔ (ص ۵۲)

دین اور دنیا کی تفریق کا قائل مغرب ہے، اسلام نہیں، بقول اقبال: ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘۔ اسلام کا سارا معاشی وعدالتی اور وراثتی نظام ایسی تفریق و تقسیم کو کسی درجے میں بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام اہلِ مغرب کی خواہش کے مطابق دو رنگی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اسی یک جائی فکر کو اہلِ مغرب کبھی ’انقلابی اسلام‘ اور کبھی ’سیاسی اسلام‘ کا نام دیتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ تاہم، اس ذیل میں دیوبند سے منسلک سب سے بڑی تبلیغی جماعت اور تصوف کے سلسلوں کا مسلک ’دین و دنیا‘ کے تعلق پر خاصا مختلف ہے، مگر اس نقطۂ نظر کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:

مجھے خاص طور پر یاد آتا ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک ’الرشید‘ [ٹرسٹ] نے افغانستان کے طالبانی علاقوں میں جابجا تندور، یعنی اوون بیکریاں قائم کر رکھی تھیں۔ ہرروز مائیں اور باپ ان بیکریوں پر آکر اپنے گھرانوں کے لیے مختص کردہ ہرفرد    کے لیے ۳،۳نان لے کر جاتے۔ یہ خاندان بھوک سے مر رہے تھے، اب [’الرشید‘ کے طفیل] ان کے پیٹ بھرنے لگے تھے۔ ’الرشید‘ کی قائم کردہ ہر تندور بیکری میں اسامہ کی تصویر آویزاں ہوتی تھی، جو ماں باپ اس روٹی کا راشن یہاں سے حاصل کرتے، وہ اس کا کریڈٹ اسامہ بن لادن کو دیتے۔ (ص ۳۰۴- ۳۰۵)

یہ بیان بھی کذب آمیز رنگین بیانی کا شاہکار ہے۔ دیوبندی مسلک سے وابستہ ایک رضاکار تنظیم افغانستان کے بے آب وگیاہ ویرانوں میں ایسے کتنے تندور قائم کرسکتی تھی کہ انھیں افغانوں کی پوری نسلوں کو روٹی کے بدلے دہشت گردی کی فوج کا سپاہی بننے کا سبب قرار دیا جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ’الرشید‘ والے اپنے رسالوں اور کتابوں میں خود اپنے بانی کی تصویر چھاپنے کو درست نہیں سمجھتے، تو بھلا اسامہ کی تصویر کو کیوں اپنی رضاکارانہ خدمت کا حوالہ بنائیں گے۔  یہ جھوٹ کسی مغربی پروپیگنڈا ٹکسال میں گھڑا گیا، جسے مبالغہ آمیز وسعت دے کر یہاں تھوپ دیا گیا ہے، اور ان کے تمام تر رفاہی و تعلیمی نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔   یاد رہے کہ نائن الیون کمیشن رپورٹ کی سفارشات (باب ۱۲) میں متعین طور پر یہ کہا گیا ہے: مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں کی شہ رگ کاٹ دی جائے، مسلم عورتوں میں آزاد روی کے فروغ   کے لیے ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ثانوی درجے تک تعلیم پر مسلم ریاستوں کا کنٹرول کمزور بلکہ ختم کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ پہلے نکتے کی تکمیل کے لیے مذکورہ بالا مثال پیش کرنا سمجھ میں آتا ہے___ مصنفہ نے بیان کیا ہے:

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کے پروگرام کی بدولت ہزاروں غیرملکی نوجوان ، جن میں سے کئی ایک کو آگے چل کر اپنے اپنے ملک کی قیادتیں سنبھالنی تھیں، امریکا پڑھنے، سیر کرنے، اور سیکھنے کے لیے آئے۔ اور جب یہ لوگ واپس [اپنے ممالک میں] پہنچے تو ہمیشہ آزاد اور قابل مواخذہ معاشروں کے مبلّغ بن کر سامنے آئے۔ وہ جو صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے مجھ جیسے لوگ، انھوں نے تعلیم کے دوران میں حاصل ہونے والے جمہوری، صنفی مساوات اور آزادیِ اظہار کے اسباق کو اپنی اقوام کے طرزِعمل پر لاگو کیا۔ اپنے ساتھی [امریکی] طالب علموں کے ساتھ ہمارے گرم جوشانہ تعلقات آج بھی زندہ ہیں۔ اس لیے نوجوان لیڈروں کو مطالعاتی دوروں پر یہاں [امریکا] لانے اور یہاں کے خاندانوں کے ساتھ ٹھیرانے سے انھیں اپنی آنکھوں سے مغربی زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ (ص ۳۱۲- ۳۱۳)

کتاب میں جگہ جگہ اسی طرح کے مشورے امریکی حکومت کو دیے گئے ہیں۔ شاید مصنفہ کو   علم نہیں تھا (مگر مغرب سے قربت رکھنے والی مصنفہ کیوں کر لاعلم ہوسکتی ہیں؟) کہ یہی تجاویز اور   کم و بیش انھی الفاظ اور انھی اہداف کے ساتھ، عرب اور مسلم دنیا کے مستقبل کو قابو کرنے کے لیے اکتوبر ۲۰۰۳ء میں امریکی ایوانِ نمایندگان کی رپورٹ Changing Minds Winning Peace میں امریکی سفیروں، دانش وروں اور The Muslim World after 9/11 میں رینڈ کارپوریشن ۲۰۰۴ء نے پیش کی تھیں، جن کو مؤثر ’تریاق زہر‘ سمجھ کر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ پیش نظر یہی رکھا گیا ہے کہ: مسلمان اقوام کو امریکی مرضی کے تابع بنانے کے لیے وہاں کے    مؤثر طبقوں کی اولادوں کو یہاں لاکر ذہنی غسل دیا جائے اور یہاں کی تہذیب کا دل دادہ بنایا جائے، اور یہاں کے ’لوگوں‘ [غالباً خفیہ ایجنسیوں] سے مضبوط رابطے قائم کرائے جائیں،تاکہ وہ     واپس جاکر، بدلے ہوئے دل و دماغ اور تطہیرشدہ فکرونظر کے ساتھ اپنی ریاستوں کو امریکا کے تابع بناسکیں___ آگے بڑھیں تو انکشاف ہوتا ہے:

مغرب میں مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلندہے۔ بہت سی جگہوں پر یہ غیرمسلموں کے برابر یا ان سے بھی بلند تر ہے… مسلمانوں نے ان مغربی ممالک میں نہ صرف اپنے لیے خیرمقدمی جذبات محسوس کیے، بلکہ کوئی انکار نہیں کرے گا کہ انھیں وہاں اپنے مذہب اور ثقافت پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ (ص ۳۱۵)

اس بیانیے کو ٹھنڈے دل سے دیکھیں تو یہ کسی امریکی سفارت خانے کے پروپیگنڈا پمفلٹ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ ’چند مسلمانوں‘ کو مجموعی طور پر وہاں محنت مشقت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کی حالت زار کی بہتری سے تشبیہہ وہی قارون دے سکتا ہے، جو خود اپنی آسایش و آسودگی کے مماثل سبھی لوگوں کو سُکھ چین کی زندگی گزارتے ہوئے محسوس کر رہا ہو۔ آج مغرب اور امریکا میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت قدم قدم پر جس مذہبی و سماجی تعصب کا شکار ہے، جس طوفانی پروپیگنڈے کا ہدف ہے اور جس کے نتیجے میں کم و بیش ہرمسلمان مشکوک انسان قرار پا رہا ہے، بھلا ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہاں رہنے والے: ’’مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلند ہے‘‘۔ اپنے استدلال کے لیے ہم مختلف مثالوں اور خود مغربی آرا پر مبنی سروے رپورٹوں سے نظائر پیش کرنے کے بجاے، سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ: ’مذہب اور ثقافت پر عمل کرنے کی مکمل آزادی‘ کا کون سا نمونہ ہے کہ مغرب ایک مسلمان بچی کے سر پر ڈیڑھ فٹ کا اسکارف بھی برداشت نہیں کر رہا، مگر دوسری طرف مکمل عریانی کو وسعتِ نظر قرار دے رہا ہے۔ کتاب کے اختتامی اوراق میں اس بیانیے سے کون سا پیغام دینا مقصود ہے؟

بھارت سے مرعوبیت تو کئی حوالوں سے اس کتاب کا حصہ ہی ہے، لیکن کیا ضروری ہے کہ تواریخ کا حوالہ بھی غلط درج کیا جائے۔ لکھا ہے:

بھارت نے ۱۹۴۹ء میں دستور منظور کیا اور ۱۹۴۹ء ہی میں عام انتخابات منعقد کرائے، جب کہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات ۱۹۷۰ء میں ہوئے۔ (ص ۱۶۹)

پہلی بات یہ ہے کہ بھارتی دستور ۲۶نومبر ۱۹۴۹ء کو منظور اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذ ہوا، اور عام انتخابات ۱۹۵۱ء میں ہوئے۔ جہاں تک دستورِ پاکستان کا تعلق ہے اس کی منظوری میں بیوروکریسی کی سازش اور دستور ساز اسمبلی کے جاگیردار ارکان کی عدم دل چسپی نے مسلسل روڑے اٹکائے، تاہم جب ۱۹۵۶ء میں دستور پاکستان منظور ہوکر نافذ ہوگیا اور ۱۹۵۹ء کے اوائل میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی، لیکن اس مرحلے تک پہنچنے سے قبل ہی میجر جنرل اسکندر مرزا نے بحیثیت صدر، ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کرکے جنرل ایوب خان کو سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا، دستور پاکستان کو منسوخ کیا اور ۲۴ اکتوبر کو جمہوریت پر شب خون مارنے والے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی آٹھ رکنی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو نامی نوجوان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ پھر ۲۸ اکتوبر کو دوبارہ وزارت تشکیل دی تو اس میں بھی بھٹوصاحب کو وزیر مقرر کیا گیا، جو جون ۱۹۶۶ء تک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے دست ِ راست بنے۔ بے نظیر صاحبہ نے اس کتاب میں جمہوریت کی پامالی کا بہت رونا رویا ہے۔ مقامِ عبرت ہے کہ جمہوریت کے قتل میں اور ان کے والد ِ گرامی، فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ شامل تھے۔

کتاب میں تاریخ کے ساتھ مختلف مقامات پر دل چسپ کھیل کھیلا گیا ہے۔ اس مناسبت سے بہت سی متنازع فیہ باتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں:

  • لاڑکانہ کے دوروں (tours)کے دوران میں قائداعظم میرے دادا [سر شاہ نواز بھٹو] کے ہاں ان کے گھر میں قیام کیا کرتے تھے۔ (ص ۱۶۳) 
  • مارشل لا نومبر ۱۹۶۹ء تک جاری رہا۔ (ص ۱۷۵)
  • مجیب اپنی بات پر اڑا رہا، وہ تنہا پرواز چاہتا تھا،  وہ جنرل یحییٰ خاں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا، اور یکم مارچ کو جنرل یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔ (ص ۱۷۹) 
  • ۲۵ مارچ کو یحییٰ خاں نے فوجی کریک ڈائون کا حکم دیا، ایک بے رحمانہ فوجی کریک ڈائون۔ (ص ۱۸۰)  
  • ۱۹۷۱ء کی جنگ نے دو ہفتوں کے اندر اندر پاکستانی افواج کو اکھاڑ پھینکا۔ (ص ۱۸۱) 
  • ۹۰ ہزار سے زائد پاکستانی فوجی جنگی قیدی بن گئے۔ (ص ۱۸۲)

تحریکِ پاکستان پر لکھی جانے والی کتابوں میں قائداعظم کے لاڑکانہ کے دوروں کا سراغ نہیں ملتا۔ نومبر ۱۹۶۹ء کے برعکس یحییٰ خان کا مارشل لا دسمبر ۱۹۷۱ء تک ہی نہیں، بلکہ بعد میں بھٹوصاحب کے دورِ حکومت میں۱۹۷۲ء تک جاری رہا۔ شیخ مجیب تو ضد میں جتنا اَڑے رہے، وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے، لیکن فروری ۱۹۷۱ء میں خود بھٹوصاحب نے ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ اور ’’۳ مارچ [۱۹۷۱ء] کے طے شدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی ڈھاکا گیا، مَیں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ جیسی دھمکیاں دے کر جنرل یحییٰ کی فوجی جنتا کے ہاتھ مضبوط کیے،اس پر دبائو ڈالا اور یکم مارچ کو اجلاس ملتوی کرا دیا۔ اس اعلان سے مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیربنگالیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا سامان کیا گیا۔ اور پھر جب ڈھاکا میں جنرل یحییٰ خاں نے فوجی ایکشن کا حکم دیا تو اُس وقت جنرل موصوف سے ملاقات کر کے نکلنے والے آخری فرد کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔

اس بے رحمانہ فوجی ایکشن کے چندگھنٹوں بعد بھٹوصاحب نے مغربی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یہ بیان دیا: ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔ (روزنامہ مساوات اور روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۲۷ مارچ ۱۹۷۱ء) اور جس پاکستانی فوج کو دو ہفتوں کے اندر اندر اُکھاڑ پھینکنے کی بات کی گئی ہے، وہ عملاً چھے ماہ سے بغیر تازہ کمک کے لڑ رہی تھی، جسے تین اطراف سے بھارتی فوج، روسی مدد، کمیونسٹ گوریلا فورس اور مکتی باہنی گھیرے ہوئے تھی۔ اسی طرح ۹۰ہزار فوجی، جنگی قیدی نہیں بنے تھے، بلکہ لگ بھگ ۴۵ہزار فوجی قید ہوئے تھے___ درمیان کی کڑیوں کو اُڑا کر اور من پسند واقعات کو بلاسیاق و سباق نمایاں کرکے بیان کرنا تاریخ نگاری نہیں، دیانت سے عاری منفی پروپیگنڈا ہے۔

وطن عزیز میں یہ ایک غلط روایت ہے کہ حکومتیں نصابِ تعلیم پر طبع آزمائی کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے بھی نصابِ تعلیم کو دو مرتبہ ترمیم و اضافے کی مشق سے گزارا۔ مگر یہ کام فوج کے ہیڈکوارٹر نے نہیں بلکہ ’صوبائی نصابی بورڈوں‘ اور ’قومی نصابی ادارے‘ نے کیا تھا۔ وہ کتابیں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں کہ ان میں کس ’جرم‘ کا کتنا ارتکاب کیا گیا۔ اب زیرتبصر کتاب کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:

جنرل ضیاء اپنے انتہا پسند اتحادیوں کا وفادار دوست ثابت ہوا، اس نے اسکولوں کی نصابی کتابوں کو بھی تبدیل کردیا اور تحریکِ پاکستان اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان کے منفی کردار کو سفید چولا پہنا دیا۔ نصاب میں شامل ہونے والی کتب پاکستان میں فوجی حکومت کی حمایت کرتیں، ہندوئوں کے خلاف نفرت پھیلاتیں، [مسلم] جنگوں کو شان و شوکت کا مظہر بناکر پیش کرتیں اور پاکستان پر مشتمل علاقے کی ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرتیں۔ (ص ۱۸۹)

یہ سارا بھاشن، اصل میں امریکی حکومت کی اس ’فکرمندی‘ کا مبالغہ آمیز اظہار ہے کہ جس کے تحت پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالمِ اسلام کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو گذشتہ ۹برس سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں ایس ڈی پی آئی کی بدنامِ زمانہ رپورٹ میں قومی نصابِ تعلیم کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ: ’’دو قومی نظریے کی تدریس یہاں پر انتہاپسندی کو پروان چڑھا رہی ہے‘‘۔ پھر یہ کہا گیا کہ: ’’محمدبن قاسم اور پاک بھارت جنگوں میں نشانِ حیدر لینے والے کرداروں کے حالات پڑھ کر بچوں میں بھارت سے دشمنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں کہا گیا کہ: ’’نصابی کتابیں پڑھ کر طالب علموں میں برطانیہ کے نوآبادیاتی دور کے حوالے سے انگریزوں کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ یہ سب باتیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت (۱۹۹۹ء-۲۰۰۸ء) میں، امریکی منشا کے مطابق مشتہر کی گئی تھیں۔ مذکورہ بالا اقتباس بھی انھی خیالات کی نمایندگی کر رہا ہے۔

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کی اتحادی اور ’اعلانِ جمہوریت‘ پر دستخط کرنے والی ایک حلیف پارٹی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران میں میاں محمد نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے کسی سابقہ دورِحکومت کو کسی شکوے اور طعنے کا موضوع نہیں بنایا، مگر اس کتاب میں ایک حلیف ہونے کے باوجود نوازشریف مسلسل سوقیانہ تنقید کا نشانہ بنے نظر آتے ہیں۔ بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، تاہم صرف ایک مثال دیکھیں: ’’نواز شریف نے آئی ایس آئی کو طالبان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے فروغ کی اجازت دے رکھی تھی‘‘ (مفاہمت، ص ۲۱۱)۔۱؎ ان امور پر وضاحت پیش کرنا مسلم لیگ (ن) کی ذمے داری ہے، تاہم مصنفہ کتاب میں طالبان حکومت کی آمد کا پورا ملبہ فوج اور میاں نوازشریف پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ کر الگ جاکھڑی ہوئی ہیں۔ مگر کیا غلط بیانیوں سے تاریخی حقائق کا چہرہ مسخ کیا جاسکتا ہے؟

واقعاتی ترتیب دیکھیں تو ۱۹۹۳ء کے وسط میں پیپلزپارٹی نے صدر غلام اسحاق خاں اور فوج کی مدد سے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرادیا، پھر ۱۹۹۳ء میں ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور نومبر ۱۹۹۶ء تک بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ دوسری طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ: ۱۹۹۴ء کے اوائل میں طالبان پارٹی کے طور پر وجود میں آتے اور نومبر ۱۹۹۴ء میں وہ قندھار کا کنٹرول سنبھالتے ہیں۔ ستمبر ۱۹۹۵ء میں ہرات ان کے زیرنگیں ہوتا ہے اور ستمبر۱۹۹۶ء میں وہ کابل پر قبضہ کرلیتے ہیں___ اس پورے عرصے میں پیپلزپارٹی کے وفاقی وزیرداخلہ میجر جنرل نصیراللہ بابر بڑے فخریہ انداز سے اس آپریشن کی   سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کی حکومت بھی خوش نظر آتی ہے کہ اس نے مجاہدین کا ’علاج بالمثل‘ کرکے انھیں بے اثر کردیا ہے۔ امریکی حکومت بھی پیپلزپارٹی کے ذریعے طالبان کے اس طلوع میں مددگار بنتی اور سُکھ کا سانس لیتی ہے۔ ان حقائق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ  اُس زمانے میں فوجی قیادت سے ان کے تعلقات خوش گوار تھے۔ موصوفہ نے اعتراف کیا ہے:

اپنے دوسرے دورِ حکومت [۹۶-۱۹۹۳ء] میں فوج کے سربراہوں جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ میرے اچھے تعلقات تھے… اسی طرح جب تک جنرل جاوید اشرف قاضی آئی ایس آئی کے سربراہ رہے، اس وقت تک آئی ایس آئی سے بھی میرے اچھے تعلقات تھے۔ (ص ۲۰۸)

تاریخ پر نظر ڈالیں تو طالبان کا آغاز، طلوع اور افغانستان پر قبضہ، پیپلزپارٹی کے دورِحکومت میں ہوا، مگر ان کی ذمہ داری صرف فوج اور نواز شریف پر ڈالتے ہوئے یوں دامن بچالینے کو کسی طرح بھی معروضی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور  گل بدین حکمت یار کو ۱۹۷۳ء ہی کے وسط میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد میں لے کر افغانستان میں کمیونسٹ روس اور بھارت کے گہرے اثرات کو نشانہ بنانے کا کام شروع کردیا تھا جب سردار دائود نے ظاہرشاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ جمایا تھا۔ افغانستان پر بھارتی اور روسی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے بھٹوصاحب کے رابطہ کار کی ذمہ داری جنرل نصیراللہ بابر ہی ادا کررہے تھے۔ (جاری)

 

سماجی زندگی میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تعلیم فرد کے تصورِ زندگی کو مثبت بنیادوں پر تعمیر اورانسانیت کو بلندیوں سے ہم کنار کرتی ہے، اور پھر تعلیم ہی کے ہاتھوں ایک اچھا بھلا انسان، خاصا مختلف بلکہ انسانیت کُش رویوں کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس مفروضے کی بنیادیں بڑی گہری اور وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیں کہ اسی معاشرے میں، انھی گلیوں اور دیہات میں بیک وقت پروان چڑھنے والے وہ بچے جنھیں عام مدارس اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ بچے جنھیں اعلیٰ طبقاتی اور عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے مواقع میسر آتے ہیں، فی الحقیقت دو مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس چیز کا اصل سبب تعلیم و تربیت، ماحول اور اس سے بڑھ کر تصورِ زندگی ہے۔

آج کے پاکستان میں، بجاے اس کے کہ زبوں حالی کے شکار قومی نظامِ تعلیم کو درست بنیادوں پر تعمیر کیا جاتا اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کا ازالہ کیا جاتا، اہلِ اقتدار نے اس قومی نظامِ تعلیم کو تباہی کے بھنور میں دھکیل کر، برطانیہ کی سرزمین سے دوسرے درجے کا نظامِ تعلیم ایک برتر نظام کے طور پر متعارف کرانے کا راستہ منتخب کیا۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے لیے جی سی ایس ای (GCSE) نظام ہے، جب کہ ہم جیسے کالے انگریزوں کے لیے وہاں کی ایک یونی ورسٹی نے جی سی ای (GCE) نظام دیا ہے، جسے برطانیہ میں تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ اس نظامِ تعلیم کے دریچے ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول ہیں، جو ہمارے ہاں حکمرانی، شائستگی، علم اور معیارِ معاشرت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔

گذشتہ دو برسوں کے دوران میں قومی نظام تعلیم میں بالخصوص اسلامیات کے نصاب کو فوجی حکمرانوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور بار بار یہ فرمایا کہ: ’’اسلامیات کے نصاب میں تاریخ اور اختلاف کی چیزیں نہیں ہونی چاہییں، بلکہ اس کی جگہ معاملاتِ زندگی سے متعلق دینی ہدایات پڑھائی جانی چاہییں‘‘۔

اس پروپیگنڈے کے زور پر قومی نصابِ تعلیم کی کافی ’تطہیر‘ کی گئی اور بہت سے بنیادی دینی اور تاریخی حقائق کو قلم زد کرکے نصاب سے خارج کردیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایس ڈی پی آئی (Sustainable Development Policy Institute) کی رپورٹ کو ’فتویٰ دانش‘ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ انھی مغرب پرست حکمرانوں نے خود مغرب کے پروردہ نظام جی سی ای یا ’او‘ لیول میں اسلامیات کی جس کتاب کو متعارف کرایا ہے، وہ حددرجہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو پروان چڑھانے کا سامان مہیا کرتی ہے۔

اس کتاب کا نام ہے Islamiat for Students۔ فرخندہ نورمحمد اس کی مؤلفہ ہیں اور اسے فیروز سنز، لمیٹڈلاہور نے ۲۰۰۸ء میں پانچویں اڈیشن کی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ’او‘لیول کے پاکستانی بچوں اور بچیوں کو اسلامیات کا فہم عطا کرنے کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔ اس میں فنی اعتبار سے جو کوتاہیاں موجود ہیں، سردست وہ زیربحث نہیں ہیں۔

اس مختصر تحریر کا مقصد اس پہلو کی جانب توجہ دلانا ہے کہ یہ کتاب درحقیقت، خود مسلمانوں کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بن جائے گی۔خلافت، امامت، دورِ صحابہ اور تدوین حدیث کے اختلافات کو جس غیر دانش مندانہ، غیرحکیمانہ اور حددرجہ غیرمحتاط انداز سے بیان کیا گیا ہے، وہ ۱۳برس کے بچوں کے لیے کلاس روم کی فضا کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ،   خود پڑھانے والے اساتذہ کے لیے آزمایش اور ہر دو مکاتب فکر کے بچوں کے مابین محبت و یگانگت اور دینی بھائی چارے کی فضا کو بھی ضعف پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس تدریسی مواد کی فراہمی  کسی مکتب ِفکر کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے، لیکن فضا کی خرابی میں چاروناچار مذہبی افراد کو وہ بوجھ اٹھانا پڑے گا، جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔

دراصل ایک مخصوص طبقہ اس نوعیت کی کاری گری کے ذریعے ان راہوں کو کشادہ کرتا ہے، جن پر براہِ راست چل کر حملہ آور ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کتاب کے مندرجات میں یہی     اہتمام   بہ کمال کیا گیا ہے کہ اسلامیات کے مضمون سے جان چھڑانے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے متنازع بنادیا جائے، اور پھر کہا جائے کہ: ’’جب بھی اسلام پر بات ہوگی تو لوگوں کے درمیان دُوریاں بڑھیں گی،اس لیے اس مضمون ہی کو ختم کردیا جائے‘‘۔ یہ ماڈل مغرب نے بالعموم اور امریکا نے بالخصوص مسلم دنیا میں بڑی کامیابی سے آزمایا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مختلف مکاتب فکر ایک مضبوط تشخص کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، وہاں پر حکمت اور دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم تعلیمی اداروں میں اشتعال پھیلانے اور بچوں کے دلوں کو مذہبی سطح پر زخمی کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ ایمانیات، تاریخ اور معاملاتِ زندگی کے ایسے متناسب نصاب کو کلاس روم میں پیش کیا جائے کہ استاد، طالب علم اور والدین میں سے کسی کے لیے بھی نصابی متن باعثِ آزار نہ بنے۔

اس نوعیت کی ایک بڑی کامیاب کاوش مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشید احمد نے چھٹے عشرے میں کی تھی۔ انھوں نے کراچی یونی ورسٹی کے بی اے، بی ایس سی اور بی کام کے    طلبہ و طالبات کے لیے اسلامی نظریۂ حیات کے نام سے ایسی درسی و علمی کتاب مرتب کرکے متلاشیانِ حق کے سامنے پیش کی تھی، جسے تمام مکاتب ِفکر کے جید علما کے رشحاتِ قلم سے سجایا گیا تھا۔ تمام مکاتب ِفکر اسے اپنا موقف سمجھتے تھے اور تمام مکاتبِ فکر کے طالب علموں کے لیے اس میں اسلامی نظامِ زندگی کے سرچشموں کے بارے میں رہنمائی موجود تھی۔ کراچی یونی ورسٹی کی اس   پیش کش کو آج بھی ایک زندہ درسی کتاب کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔

آج کی ضرورت یہ ہے کہ ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول کے لیے بھی اسی انداز کی معیاری کتب تیار کی جائیں اور حکومت زیرنظر کتاب کا فی الفور جائزے کا اہتمام کرے، اور اسے تبدیل کرے۔

۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو پاکستان میں شروع ہونے والے عدالتی انقلاب کے قائد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں‘ جب کہ مصر میں اس انقلاب کے لیے مدتوں سے جدوجہد جاری ہے۔

۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو مصر کے دو جج صاحبان نے اس پیرایے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جسٹس محمود مکی کے بقول: ’’ہمیں جھکانے میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلاشبہہ ہمیں معاشی اعتبار سے قتل کیا گیا ہے‘ مگر ہمیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں ہماری عزت موجود ہے‘ اس وقت تک ہمیں کسی بات کی پروا نہیں ہے‘‘۔ جسٹس ہشام بستاوسی بیان دیتے ہیں: ’’ہم پر چلائے جانے والے مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ اصل اہمیت تو اس سوال کو حاصل ہے کہ: مصری عوام کو ایک خودمختار عدلیہ‘ شفاف انتخابات اور قانون کی حکمرانی کب نصیب ہوتی ہے؟ ہماری جدوجہد انھی سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہے‘‘___ مصر کے ججز کلب (judges club) کے ان اہم ارکان کے یہ جذبات ججوں کی تحریک کی پوری داستان بیان کردیتے ہیں جنھیں ۲۰۰۶ء میں برطرف کردیا گیا تھا۔

مصر میں بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے جج حضرات نے ۱۹۳۹ء میں اپنی تنظیم ججز کلب کی رجسٹریشن کرائی تھی۔ پہلے پہل یہ تنظیم محض ایک رسمی سا ادارہ تھی‘ لیکن ۱۹۶۸ء میں ججزکلب نے آزاد عدلیہ کے ذریعے‘ شہری آزادیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ درحقیقت مصری جج‘ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست سے پیدا شدہ سیاسی ‘ سماجی اور معاشی صورت حال سے سخت دل برداشتہ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں واحد حکمران پارٹی ’عرب سوشلسٹ یونین‘ میں پورا عدالتی نظام جذب ہوکر نہ رہ جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب صدر جمال عبدالناصر کی بدترین آمریت کے مقابلے میں اخوان کے علاوہ کسی دوسری قوت نے آواز بلند کی‘ جب کہ اخوان المسلمون کی صورت حال یہ تھی کہ حکمرانوں نے اگست ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دے دی تھی۔ ہزاروں کارکن پابند سلاسل تھے اور ریاستی دہشت پورے ماحول پر مسلط تھی۔ ججوں کے اسی گروہ نے‘ ججوں کی یونین کا الیکشن بھی جیت لیا جس کے جواب میں ۱۹۶۹ء میں صدر ناصر نے ’عدلیہ کے قتل عام‘ کا راستہ منتخب کیا اور چھوٹی بڑی عدالتوں کے ۱۸۹ ججوں کو منصب عدل کی ذمہ داریوں سے برطرف کردیا۔ تاہم ستمبر ۱۹۷۰ء میں‘ ناصر کی موت کے بعد‘ ججوں کی تحریک کے نتیجے میں انورالسادات اور پھر   حسنی مبارک نے عدالتی آزادیوں کو کسی حد تک بحال کیا۔

۱۹۸۶ء میں ججز کلب نے ’قومی کانفرنس براے عدل‘ منعقد کی، جس نے عدالتی عمل میں دُوررس اثرات کے حامل مطالبے پیش کیے۔ ۱۹۹۱ء میں ججزکلب نے عدالتی عمل کے لیے ایک   جامع دستور منظور کیا‘ لیکن فعال قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ’سفارشات و اصلاحات عدلیہ‘ کی تحریک کچھ عرصے کے لیے کمزور پڑ گئی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں ایک نئے عزم کے ساتھ ججزکلب نے ۱۹۹۱ء کے عدالتی دستور میں دوٹوک انداز میں ترامیم کرکے‘ مطالبات کو واضح الفاظ میں بیان کیا تاکہ عدالتی عمل میں سے انتظامیہ کی مداخلت اور اتھارٹی کے دبائو سے نجات حاصل ہوسکے۔ ۲۰۰۴ء کے   اس دستورِ عدل میں کہا گیا ہے:

  •   عدلیہ کو مکمل مالی خودمختاری دی جائے۔ انھیں بجٹ سازی کا حق دیا جائے تاکہ وہ پارلیمنٹ کے پہلو بہ پہلو ریاست کی ایک مؤثر قوت کے طور پر اپنی ذمہ داری ادا کرسکے۔
  •  وزارتِ عدل سے عدالتی ذمہ داریوں کا توازن سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف منتقل کیا جائے۔ کسی بھی انضباطی مسئلے میں عدالتی ارکان کے مقدمات اور تنازعات کی سماعت کا اختیار اسی عدالتی مقتدرہ کو حاصل ہونا چاہیے۔
  •   پنشن کے ضوابط میں ترمیم کی جائے اور بوقت ریٹائرمنٹ ججوں کو بے جا کٹوتیوںسے نجات دی جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔

دراصل جج حضرت اس نوعیت کے چارٹر کے ذریعے: عدالتی آزادی کو یقینی بنانے اور حکومت و ریاست کی بے جا مداخلتوں اور فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے واقعات کا سدباب چاہتے ہیں۔ ججز کلب بنیادی طور پر نظریاتی فورم نہیں‘ بلکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر عدالتی اصلاح کے علَم برداروں کی تنظیم اور تحریک ہے۔ مصری آمر جمال ناصر کے پرستار صحافی عبدالحلیم قندیل نے لکھا تھا: ’’ججوں کے ’انقلاب‘ کا مطلب انتظامیہ کی موت ہوتا ہے‘‘۔ اس جملے میں شرارت کا ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اس حوالے سے مصر کے دانش ور حلقوں میں یہ بات زیربحث آئی کہ: ’’اس تحریک کو ججوں کا انقلاب کہا جائے یا ججوں کی لہر۔ انقلاب ایک سخت لفظ ہے‘ لیکن لہر ذرا نرم لفظ ہے‘ اور لہر کے نتیجے میں سیاسی نظام کے تلپٹ ہونے کا تاثر نہیں ملتا‘‘۔ ویسے بھی ججوں کی یہ تحریک‘ حکومت کے متوازی کسی مقتدرہ کے قیام کی خواہش کا اظہار نہیں ہے‘ بلکہ ان کی اصلاحات کا محور آئینی اور قانونی اختیارات کے آزادانہ استعمال کا حق حاصل کرنا ہے‘ جسے مصری آمروں نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔

مصر کا دستور حکومت کو اس چیز کا پابند بناتا ہے کہ تمام انتخابات لازماً عدلیہ کی نگرانی میں ہوں لیکن ججزکلب نے اس شق کی بے حرمتی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’پورے حلقۂ انتخاب میں بظاہر انتخابی عمل کا نگران ایک جج ہوتا ہے‘ لیکن انتخاب کے روز نیچے پورا عملہ حکومتی مشینری کا مقرر کیا ہوتا ہے‘ جس سے جو کام چاہے‘ لیا جاتا ہے۔ جب اور جہاں حکومت‘ پولیس یا مسلح فوجی دستے چاہتے ہیں‘ بے بس جج کو مفلوج بناکر من مانی کرتے اور نتائج کو تلپٹ کردیتے ہیں اور جج بے چارا صداے احتجاج بلند کرنے کے حق سے بھی محروم رہتا ہے‘ چہ جائیکہ وہ اس انتخاب کو منسوخ کرے کہ جس میں انتخاب نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔

ہشام بستاوسی اور محمود مکی‘ ججزکلب کے دو مرکزی قائدین ہیں‘ جنھیں عدلیہ کی آزادی    کے لیے طویل جدوجہد کا اعزاز حاصل ہے۔ مصری حکومت ان کی بے باکی‘ حق گوئی اور پُرعزم بہادری سے خائف رہتی تھی۔ ان دونوں حضرات نے نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء میں منعقد ہونے والے مصری پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے طریقے اور اعلان کردہ نتائج کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اور کہا: ’’حکومت نے قوم سے خیانت کی ہے‘ دھاندلی کا راستہ کشادہ کیا ہے‘ عوامی راے کو دفن کیا ہے‘  پولنگ اسٹیشن پر جانے والے لوگوں کو پولیس کے دستوں کے ذریعے روکا گیا ہے‘ اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے اہل کاروں نے مخالف راے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر انتخاب سے دُور رکھا ہے۔ راے عامہ کے اس قتل عام کو انتخاب کہنا عوام کی توہین ہے‘‘۔

ان ججوں کے مذکورہ بیان پر حسنی مبارک حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر دیوانگی پر اتر آئی اور ۱۳ فروری ۲۰۰۶ء کو اس بیان کو ’ججوں کی سرکشی‘ (judges rebellion) سے موسوم کیا۔ اعلیٰ عدالتی کونسل نے انھیں عدالتی خدمات انجام دینے سے روک دیا۔ حق گو ججوں نے ’کورٹ آف اپیل‘ میں درخواست دائر کی‘ تاکہ وہ اپنا موقف وضاحت سے پیش کرسکیں۔

اب یہ ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ء کا منظر ہے۔ قاہرہ کے وسط میں ہائی کورٹ کی عمارت ہے‘ جس کے قرب و جوار میں ججزکلب کا دفتر ہے۔ اس روز ججوں کے کیس کی سماعت تھی۔ لوگ اپنے محسن ججوں کے خلاف روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۰ہزار پولیس اہل کاروں نے احتجاج کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار کرتے ہوئے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہیں پر ۸۰ ججوں نے درجنوں حامیوں کے ساتھ ہفتے بھر کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا اور شاہراہ پر بیٹھ گئے۔ پولیس نے وحشیانہ انداز سے ان قانون دانوں پر چڑھائی کردی‘ یوں نظر پڑا جیسے حکومتی سیکورٹی عناصر کسی دشمن ملک کی فوج پر پل پڑے ہوں۔ حالانکہ وہ جج تو محض اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اظہار  یک جہتی کے لیے آئے تھے‘ ان کے ہاتھ میں نہ پتھر تھے اور نہ ڈنڈے۔

حسنی مبارک حکومت‘ عدلیہ کی اس تنقید سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی جس کے تحت وہ حکومتی طور طریقوں‘ حقوق کی پامالی اور بے ضابطگیوں کو زیربحث لاتے ہیں۔ وہ ملک جہاں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں‘ حزبِ اختلاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے‘ انتخابات میں دھاندلی کو حکومتی حق قرار دے دیا گیا ہے اور مالی خیانت کو جدید مصری انتظامیہ کا استحقاق تسلیم کرایا جا رہا ہے‘ وہاں پر صرف ایک جگہ  رہ جاتی ہے‘ اور وہ ہیں عدالت کے ایوان‘ جہاں پر بہادر جج وقتاًفوقتاً اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فیصلے دیتے ہیں۔ ان کا یہی عمل حکومت کے اعصاب کو شل اور دماغ کو پاگل کیے دیتا ہے۔ دراصل مصر میں صرف عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے‘ جس نے ۶۰کے عشرے میں کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ خودمختاری حاصل کرلی تھی‘ جس کا اظہار عدالتی کارروائی اور ججزکلب کی سرگرمیوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔

۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو جوڈیشل کونسل نے ہر دو ججوں کے مقدمے کا فیصلہ سنایا‘ جس میں    ہشام بستاوسی کے بارے میں چند سخت جملے لکھے اور محمود مکی کو بری کردیا گیا۔ اس کے بعد ججوں کی تحریک نے سڑکوں کے بجاے عدالت کی کرسی اور اخبارات کے اوراق کو اپنے موقف کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ مصر میں ججوں کی یہ تحریک بہرطور روشنی کی ایک کرن ہے۔ اخوان المسلمون کے جہاں دیدہ رہنما اور پُرعزم کارکن اس تحریک کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔

اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا‘ اور اب ۴۰ برس گزرنے کے باوجود ان میں کسی مایوسی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان ججوں نے کبھی سُست روی سے اور گاہے بہ گاہے برق رفتاری سے  حق گوئی اورپُرعزم جدوجہد کا علَم بلند کیے رکھا ہے۔ جسے کچھ لوگ ’عدالتی بغاوت‘ بعض افراد ’عدالتی انتفاضہ‘ اور کچھ حضرات ’عدالتی جہاد‘ کہتے ہیں۔ نام جو بھی دیا جائے‘ بہرحال اس تحریک نے غلامی کے رزق پر عدل کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ ملازمت سے برطرفی‘ ڈنڈوں کی بوچھاڑ اور زخموں کی سوغات سے عدلیہ کی سربلندی اور قوم کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کی امید باندھی ہے۔ اس تحریک میں مسلم دنیا پر مسلط موت کے سناٹے اور غلامی کے جال کو توڑنے کا پیغام موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کے جج غلامی کے رزق پر آزادی کی آزمایش کو خوشی خوشی قبول کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ اور ان خالی ہاتھ ججوں کے پشتی بان بننے کا اعزاز کن سیاسی و سماجی قوتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جاری عدلیہ کی بالادستی کی تحریک اور اس کے لیے سرگرم عناصر کے لیے مصر کے ججز کی ’عدالتی جہاد‘ کی یہ تحریک اُمید کی کرن اور روشنی کا پیغام ہے!