تاریخ کا شاید ہی کوئی دور ایسا ہو جس میں اقوامِ عالم خطرات کی یورش سے محفوظ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم کی زندگی میں خطرات کی یلغار سے بھی کہیں زیادہ خطرناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب اسے خطرات کا صحیح اِدراک اور شعور ہی نہ ہو اور وہ ان کے مقابلے کے لیے مؤثر حکمت عملی اور نقشۂ کار سے محروم اور غافل ہو، اصل ایشوز سے صرفِ نظر کرے، اپنے قومی مقاصد اور مفادات کے بارے میں سہل انگاری یا بے اعتنائی و بے نیازی کا رویہ اختیار کرے اور محض جزوی یا ثانوی امور میں اُلجھ جائے، یا اس سے بھی بدتر صورت یہ ہے کہ محض شخصی اور ذاتی مفادات کی ادھیڑبن میں مصروف رہے۔ شاید اقبال نے ایسے ہی تغافل سے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎
فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
پاکستان بحیثیت ملک و ملّت اور اس کی قیادت آج ایک ایسی ہی اندوہ ناک صورت حال سے دوچار نظر آرہی ہے___ دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے، عالمی قوتیں اپنے اپنے عزائم اور مفادات کے لیے نئے نئے نقشہ ہاے جنگ ترتیب دے رہی ہیں، پاکستان کے گرد گھیرا بڑی چابک دستی سے تنگ کیا جا رہا ہے مگر اس وقت وطنِ عزیز کی زمامِ کار جن ہاتھوں میں ہے، ان کو نہ خطرات کا اِدراک ہے اور نہ مقابلے کے لیے وژن، تیاری اور صف بندی کا۔ ہرکوئی ذاتی مفادات کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور ملک بچانے، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کی فکر کرنے اور عوامی مسائل و مشکلات کے حل کے لیے صبح و شام ایک کرنے کے بجاے کرسی بچانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
بلاشبہہ افغانستان پر قابض امریکی اور ناٹوافواج کے لیے رسد کی بحالی یا اس دروازے کو مزید مضبوطی کے ساتھ بند کرنے کا مسئلہ اصولی اور عملی سیاست، ہردو اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اسے جذباتی انداز میں یا بیرونی دبائو اور معاشی بول تول کے فریم ورک میں حل کرنے کی کوشش نہ صرف غیرحقیقت پسندانہ ہوگی بلکہ یہ کھلی کھلی تباہی کا راستہ ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سوال کو اس کے اصل پس منظر اور تمام متعلقات سے کاٹ کر توجہ کا مرکز بنانے اور پاک امریکا تعلقات کے گمبھیر مسئلے کو مختصر بتاکر اس پر منحصر ہونے کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اُسے سمجھا جائے۔ قومی زندگی کے اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر تمام متعلقہ امور اور پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور صرف پاکستان کی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور اس کے اپنے قومی مفادات اور مستقبل کے امکانات کی روشنی میں فوری اور دیرپا پالیسی سازی کے اقدام کیے جائیں۔
امریکا اور ناٹو افواج کا ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کا پاکستان کے خلاف اقدام کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔ اس کا ایک طویل پس منظر ہے اور علاقے کے بارے میں امریکا کی حکمت عملی میں اس کا ایک کلیدی مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر قوم کا ردعمل ملک کے حقیقی مفادات اور اہداف کا تقاضا تھا اور اسے قوم کی مکمل تائید حاصل تھی، اور یہ تائید ایسی محکم اور واضح تھی کہ امریکی اور لبرل لابی کے لیے بھی چپ سادھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت نے چھے قیمتی مہینوں میں نئی حکمت عملی بنانے اور قومی اتفاق راے کے ساتھ امریکا سے تعلقات کے سلسلے میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے کے بجاے وہی مفادات کا کھیل کھیلا، نان ایشوز(non-issues) میں قوم کو اُلجھایا، بشمول نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ، مرکز اور صوبوں میں کھچائو، عدالت اور دوسرے قومی اداروں سے ٹکرائو، لاقانونیت کے عفریت کو کھل کھیلنے اور نت نئے مواقع فراہم کرنا، سیاسی انتقام اور تصادم کی سیاست کے نئے پھندے، بھارت سے تجارت کے نام پر ان مسائل سے اغماض جن پر پاکستان کے وجود اور مستقبل کا انحصار ہے، یعنی کشمیر اور پانی کا مسئلہ ، نیز کرپشن اور بدعنوانی کے نئے ریکارڈوں کا قیام۔ امریکا سے تعلقات کی نئی شرائط اور خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کا ڈراما بھی اسی کھیل کا حصہ نظر آتا ہے۔ اب ساری بحث کو ملک میں اور بیرونِ ملک حکومت کے کارپرداز، امریکا نواز دانش ور اور میڈیا میں اس کی فکر کے ترجمان اور سب سے بڑھ کر خود امریکی حکومت اور عالمی میڈیا رسد کی بحالی کو اصل مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں جس کا نمایاں ترین ثبوت شکاگو میں منعقد ہونے والی ناٹو کی ۲۵ویں سربراہی کانفرنس اور اس کی کارروائی ہے۔ پورے سیاسی تناظر کو جھٹلانے (falsify) کی یہ مکروہ کوشش ایک بہت ہی خطرناک سیاسی اور خونیں کھیل کا حصہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر دلیل کے ساتھ بات کی جائے اور یہ مسئلہ جن دوسرے مسائل سے جڑا ہوا ہے اور جن کے سلسلے میں صحیح حکمت عملی اختیار کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی فیصلہ ممکن نہیں اس پر قرارواقعی توجہ دی جائے ، اس لیے کہ ع
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے
معروضی حقائق اور حکومتی موقف
۱- جناب سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج نے جو فضابنانے کی کوشش کی ہے، اس پر گرفت سب سے پہلی ضرورت ہے۔ یہ تو انھوں نے بالکل بجا فرمایا کہ قوموں کی زندگی کے ایسے اہم فیصلے جذباتی انداز میں نہیں ہوتے اور نہیں ہونے چاہییں۔ ہم اگر اس سوال کو نظرانداز بھی کردیں کہ اس ’ارشادِ عالیہ‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی، اور کیا ان کا خیال ہے کہ ۲۶نومبر کی امریکی جارحیت کے ردعمل میں جو فیصلہ قوم اور قیادت نے کیا وہ کوئی ’جذباتی فیصلہ‘ تھا جسے اب عقل و فراست اور تاریخ اور تجربے کی میزان پر پرکھنے اور ان کی نگاہ میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ اس بارے میں انھوں نے ابہام رکھا ہے اس لیے ہم بھی اسے نظرانداز کرتے ہیں، تاہم ان کی اس دعوت کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ فیصلے ٹھوس حقائق، حقیقی تاریخی تجربات، عالمی قوتوں کے عزائم اور ایجنڈے کے بارے میں علم و تحقیق اور دیانت اور فراست پر مبنی جائزوں اور خود اپنے قومی مفادات اور مقاصد و اہداف کی روشنی میں ہونے چاہییں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلے اور شفاف انداز میں، بے لاگ بحث و مباحثے اور قومی ڈائیلاگ کے ذریعے ہونے چاہییں، اور عوام کی خواہش اور عزائم کے مطابق اور ان کو اعتماد میں لے کر ہونے چاہییں۔ اس میں پارلیمنٹ، تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں، اہلِ علم و تجربہ اور میڈیا ہر ایک کا کردار ہے۔ بلاشبہہ فیصلے بروقت ہونے چاہییں اور لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پالیسی سازی کے لیے صحیح طریقہ کار اختیار کیا جائے، اس لیے کہ تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت اور اطمینان کے بغیر جو فیصلے ہوتے ہیں وہ جلد پادر ہوا ہوجاتے ہیں اور انھیں کبھی بھی جواز اور ساکھ حاصل نہیں ہوپاتی۔
ہم صاف الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں فیصلے محض جذبات کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کے جذبات، اس کے عزائم اور تصورات، اس کے مقاصد اور حقیقی مفادات، زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف، تاریخی تجربات اور راہ کے موانع اور مشکلات میں سے ہر ایک کا احاطہ ضروری ہے ،اس لیے کہ ان معاملات میں ہر ایک کا کردار ہے اور کسی ایک کو بھی نظرانداز کرنا مہلک ہوسکتا ہے۔ توازن اور تمام اُمور کو سامنے رکھ کر جو فیصلے کیے جاتے ہیں، وہی موجوں کے تلاطم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جو فیصلے بیرونی دبائو اور اندرونی لابیز (lobbies) کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں کیے جاتے ہیں، وہ صرف اور صرف نقصان کا سودا ثابت ہوتے ہیں، جیساکہ پرویز مشرف کے دور میں کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں ہوا، جس کا اعتراف آج وہ ’گل ہاے سرسبد‘ بھی کر رہے ہیں جو اس وقت پرویز مشرف کے حلقہ یاراں کا حصہ تھے اور اس وقت اس کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔ اقبال نے اس خطرے سے بہت پہلے آگاہ کیا تھا کہ ؎
محکوم کے اِلہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورت چنگیز
ہم حکومت اور اس کے کارپردازوں کی اس روش پر بھی گرفت کرنا چاہتے ہیں کہ جذباتیت کی بات کرنے کے ساتھ چند ایسے اعلانات بھی کیے گئے ہیں جن کا دلیل اور دیانت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، لیکن جو غالباً ہوا کے رُخ کی تبدیلی اور حکومت کے بدلتے اطوار کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اگر گذشتہ چند دن خیریت سے گزر گئے ہیں اور شکاگو کانفرنس کے لیے جو ڈراما تیار کیا جارہا تھا وہ اسٹیج نہ کیا جاسکا، تو اس کی وجہ وہ عوامی ردعمل اور ملک کی دینی اور بعض سیاسی قوتوں کا بروقت انتباہ تھا جس نے شرم ناک ہزیمت سے ملک کو بچا لیا۔ نیز یہ امریکا کی قیادت کا غرور اور نشۂ قوت کا خمار تھا جس نے آخری وقت میں قوم کو پھسلنے سے بچا لیا۔ ورنہ وہی وزیرخارجہ صاحبہ جو قومی مفاد اور وقار پر ڈٹ جانے کی بات کر رہی تھیں اور جس پر امریکی سفارت کار مارک گراسمین نے صرف ایک مہینہ پہلے میڈیا کو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’وہ ناتجربہ کار ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا مشکل ہے‘‘۔ (دی ٹائمز، اسلام آباد،۱۵مئی ۲۰۱۲ئ)
ان کی مئی ۲۰۱۲ء کی برطانیہ یاتراکے واپسی کے موقع پر ہوائی جہاز ہی میں ایسی قلب ماہیت ہوگئی کہ ’آگے بڑھنے‘ کی باتیں کرنے لگیں اور ان پر یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ معاملہ صرف امریکا کا نہیں، دوسرے ۴۸ ممالک کا بھی ہے اور ان میں ہمارا جگری دوست ترکی بھی شامل ہے۔ پتا نہیں ان تمام حقائق کا انکشاف برطانیہ کے سفر میں ہو، یا یہ ۴۸ممالک بشمول ترکی ۲۰۱۲ء میں افغانستان کی امریکی جنگ میں شریک ہوئے ہیں اور ۲۰۰۴ء سے جاری ڈرون حملوں کی بارش، پاکستان کی حاکمیت اور سرحدات کی مسلسل خلاف ورزی، ۲مئی کے سنگین واقعات اور ۲۶نومبر کے خونیں حملے کی ان کو ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ وزیراعظم گیلانی اور حناربانی کھر ملک کی حاکمیت، قومی مفاد اور عزت و وقار کی دہائی دیتے نہیں تھکتے تھے اور اب مفاہمت، حقیقت پسندی، معاشی مجبوریوں اور عالمی سطح پر تنہائی کے ڈرائونے خواب ان پر سایہ فگن ہوگئے ہیں۔ وزیردفاع پاکستان اور اس کے مفادات اور خود اپنی فوج پر کیے جانے والے حملوں کا دفاع کرنے کے بجاے یہ درس دے رہے تھے: ’’رسد روکنا بین الاقوامی قانون اور معاہدات سے متصادم ہے‘‘۔ وزیرخارجہ صاحبہ یہاں تک فرماگئی ہیں کہ ناٹوسپلائی بالآخر کھولنا ہوگی اور اگر اسے بحال نہ کیا گیا تو بڑی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہے، ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے، ہم نے خارجہ پالیسی کو مسلسل ارتقائی عمل بنادیا ہے۔ وزیراطلاعات تو سب پر بازی لے گئے ہیں، فرماتے ہیں کہ ڈرون حملوں پر اسلام آباد، لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں احتجاج زیادہ اور فاٹا میں کم ہوتا ہے، اور ہم پہلے دن سے ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا سے روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں مگر وہ ہماری بات نہیں مانتا۔ اس سے بڑھ کر وہ بات ہے جو امریکی اور مغربی سفارت کار کہتے ہیں اور جس کی تائید و تصدیق وکی لیکس سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت زرداری صاحب اور گیلانی صاحب سمیت بلکہ کیانی صاحب بھی اس میں شامل ہیں، یہ کہتی ہے کہ ہم عوامی سطح پر ان کی مخالفت کرتے رہیں گے اور آپ عملاً اپنا کام جاری رکھیں اور ہمارے اس زبانی واویلا کی فکر نہ کریں۔
یہ دوغلاپن اور اپنی قوم اور پارلیمنٹ اور تاریخ سے مذاق ہی وہ مرض ہے جس کے نتیجے میں امریکا شیر ہورہا ہے اور پاکستان دہشت گردی کی آماج گاہ بن گیا ہے۔ ۴۰ ہزار سے زیادہ عام شہری بشمول خواتین اور بچے اور ۵ہزار سے زیادہ فوجی جوان اور افسر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور خود اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے والوں کی مجموعی تعداد ۳۰سے ۴۰ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس پر مستزاد وہ معاشی اور مالی نقصان ہے جو ان ۱۱ برسوں میں ملک اور اس کے عوام نے اٹھایا ہے اور جو وزارتِ خزانہ کے اپنے اندازے کے مطابق صرف پہلے آٹھ سال میں ۶۷ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ اگر ۱۱ برسوں کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو ۱۰۰ارب ڈالر سے کسی طرح کم نہیں۔ اس کے علاوہ ناٹو کی سپلائز سے جو نقصان ملک کی سڑکوں، پُلوں اور دوسرے انفراسٹرکچر کو پہنچا ہے وہ ۱۰۰؍ارب روپے سے زیادہ ہے اور ان تمام نقصانات میں وہ مستقل نقصان شامل نہیں ہے جو ۴۵ہزار افراد کی ہلاکت اور ایک لاکھ کی معذوری کی شکل میں اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں ملک اور قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے۔
اس سب کے باوجود امریکا نے جس طرح پاکستان پر اپنی سیاسی، معاشی اور ثقافتی گرفت مضبوط کی ہے، جاسوسی کا جو نظام پورے ملک کے اندر بچھایا ہے، تجربہ کار عناصر کو جس طرح مضبوط کیا ہے، مسلح کیا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور دنیا کے سامنے خود پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ملک کی حیثیت سے پیش کیا ہے، اور جس کھلے انداز میں ملک و قوم اور خود اس قیادت کی جو ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، تضحیک اور تحقیر کی جارہی ہے، وہ اس انتہا پر پہنچ گئی ہے کہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ملک کی آزادی، بقا اور استحکام ممکن نہیں رہا۔
یہ ہے اصل پس منظر جس میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین کے ذریعے رسد کے مسئلے کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ چند ڈالروں کی فیس کا نہیں___مسئلہ کہیں زیادہ گمبھیر اور ہمہ جہتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کی غیرمشروط اور تباہ کن شرکت، افغانستان اور وسط ایشیا میں امریکی عزائم اور اس کھیل میں بھارت کا کھلا اور خفیہ کردار اور خود افغانستان کے اپنے استحکام اور علاقے کے امن سے اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ امریکا اور پاکستان کے مجموعی تعلقات اور بدلتی ہوئی عالمی سیاسی بساط میں امریکا، اُمت مسلمہ، ایشیا اور خصوصیت سے چین کے مستقبل کے کردار اور اس میں پاکستان کے مفادات کے تعین اور ان کی حفاظت کا پہلو بھی ہے۔ سوال عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کا نہیں، رسد کی بحالی کے مسئلے کو باقی تمام اُمور سے الگ (isolate) کرکے کوئی شکل دینے کے خطرناک کھیل کو سمجھنے اور اس چیلنج کی روشنی میں معاملات کا حل تلاش کرنے کا ہے جو بحیثیت مجموعی ملک اور اس پورے خطے کو درپیش ہیں۔
پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی خواہ کتنی بھی مایوس کن رہی ہو لیکن کم از کم اس مسئلے پر پارلیمنٹ کی قراردادیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کی رپورٹیں بہت واضح ہیں۔ نیز اس میں آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے جس میں پارلیمنٹ سے باہر جماعتوں کی قیادت نے بھی شرکت کی۔ ان سب میں جو اُمور مشترک ہیں، وہ یہ ہیں:
۱- پاکستان کی آزادی اور خودمختاری معرضِ خطر میں ہے اور اس کے لیے فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ پرویزمشرف کے دور میں جو خارجہ پالیسی اور ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جو کردار پاکستان نے اختیار کیا اسے فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ ا س پالیسی کا جاری رکھنا ملک، قوم ، علاقے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کی تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
۲- پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے اور اسے امریکا کے ایجنڈے سے بے تعلق(de-link) کرکے پاکستان کے اپنے مقاصد، مفادات اور سیاسی، معاشی، انسانی اور علاقائی سلامتی کے تصورات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف جو جنگ امریکا نے نائن الیون کے بعد شروع کی، وہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ سیاسی حل کے لیے مذاکرات ہی صحیح راستہ ہیں۔ انتہاپسندی اور تشدد نامطلوب ہیں لیکن ان پر قابو پانے کے لیے ان کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا اور جب تک ان اسباب کو دُور نہ کیا جائے، صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی۔
۴- اصل مسئلہ جنگ کو جاری رکھنا نہیں، جنگ کو ختم کرنا اور امن کے لیے حالات کو سازگار بنانا ہے، چاہے یہ بات کھلے الفاظ میں نہ کہی گئی ہو لیکن اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت راے عامہ کے ہر جائزے میں یہ بات واضح کرچکی ہے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی حیثیت قابض افواج کی ہے اور جب تک بیرونی قبضہ ختم نہیں ہوتا، علاقے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہر وہ اقدام جو جنگ کو تقویت دینے والا ہو، ہمارے قومی مفاد اور علاقے کے سلامتی کے خلاف ہوگا۔
۵- اس جنگ میں شرکت سے پاکستان نے پایا کم اور کھویا زیادہ ہے۔ جان، مال، عزت و آبرو اور آزادی اور قومی سلامتی، سب دائو پر لگ گئے ہیں۔ اس پر مستزاد ملک کے معاملات میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت اور کھلے بندوں ہماری حاکمیت پر حملے اور سرحدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ڈرون حملے جن میں اضافہ ہی ہوا ہے، امریکی فوجوں کی زمینی کارروائیاں، فضائی حدود کی پامالی اور ہماری سرزمین پر کھلے (overt) اور خفیہ (covert)، دونوں قسم کے اقدامات (operations) اس کا بین ثبوت ہیں۔ یہ سب ناقابلِ برداشت ہیں لیکن احتجاج کے باوجود نہ صرف یہ کہ امریکا اور اس کے اعوان و انصار نے اپنی روش میں سرمو تبدیلی نہیں کی بلکہ مزید رعونت سے ان میں اضافہ کیا اور ملک اور اس کی قیادت کی تحقیر و تذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
پارلیمنٹ کی قراردادوں میں آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کی راہوں کی تلاش، قومی سلامتی کے پورے تصور پر نظرثانی، مسئلے کے فوجی حل کی جگہ سیاسی حل کی طرف مراجعت، تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت اور ڈائیلاگ میں شریک کرکے نئی راہوں کی تلاش اور ملک میں امن و امان کے قیام، انصاف کی فراہمی، معاشی ترقی اور سماجی فلاح کو پالیسی کے اصل اہداف بنانے کی ہدایت کی گئی۔ پہلی قرارداد ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی اور آخری ۱۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو۔
سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور اسے رہنمائی اور پالیسی سازی کا سرچشمہ بنانے کے دعوے داروں نے پارلیمنٹ کی قراردادوں پر کتنا عمل کیا اور عوام کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھا یا انھیں بُری طرح پامال کیا؟
حکومت کے کچھ ترجمان دبی زبان سے اور پاکستان میں امریکی لابی کے سرخیل ببانگ دہل بلکہ پوری سینہ زوری کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کا کام خارجہ پالیسی بنانا نہیں۔ یہ تو ایک بہت ہی پیشہ ورانہ (professional) کام ہے جسے خارجہ امور کے ماہرین ہی انجام دے سکتے ہیں۔ ان تمام موشگافیوں کی اصل وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ اور کُل جماعتی کانفرنس کی قراردادوں میں جن اصولوں اور اہداف کا تعین کیا گیا ہے، اور جن امور کو قومی مفاد اور ترجیحات قرار دیا گیا ہے، وہ ان کے مفیدمطلب نہیں، اور پارلیمنٹ کی ہدایات اور عوام کی خواہشات سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ خارجہ پالیسی کے امور کو پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر نکالا جائے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا تو بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ تمام پالیسیوں کا سرچشمہ عوام کی مرضی کو ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ ہرپارٹی کے منشور میں داخلی امور، نظریاتی اہداف، تعلیمی، ثقافتی اور فلاحی پروگرام کے ساتھ خارجہ پالیسی کے خدوخال بھی قوم کے سامنے رکھے جاتے ہیں اور ان تمام اُمور پر ان سے مینڈیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔ دستور میں خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال واضح الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں اور ریاست کی پالیسی کے بنیادی اصول کے طور پر ان کو دستور کی دفعہ ۴۰ میں بیان کیا گیا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں داخلہ پالیسی، معاشی اور مالیاتی پالیسی کی طرح خارجہ پالیسی پر بھی بحث ہوتی ہے اور قراردادوں اور قانون سازی کی شکل میں پارلیمنٹ واضح ہدایات دیتی اور حکومت کو پابند کرتی ہے۔ امریکا میں ایک ایک ملک سے تعلقات کا مسئلہ قانون سازی کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور صدرمملکت صلح و جنگ کے معاملات میں کانگریس کی ہدایات کا پابند ہے۔ امریکی دستور کے تحت اعلانِ جنگ کانگریس کی منظوری کے بغیر نہیں کیا جاسکتا اور یہ جو ہر روز کمیٹیوں میں اور پھر قوانین کی شکل میں بیرونی امداد کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں اور سیاسی بنیادوں پر ان میں کمی بیشی کی جاتی ہے، یہ خارجہ پالیسی کی تشکیل نہیں تو کیا ہے؟
کیری لوگر بل کا بڑا چرچا ہے مگر کیا اس بل کے ذریعے امریکا نے پاکستان سے اپنے خارجی اور معاشی تعلقات کے دروبست طے نہیں کیے۔ یہ جو رسد کا مسئلہ ہے اس پر امریکا کی پارلیمنٹ نے فوراً ہی ترامیم کے ذریعے نئی شرطیں لگائی ہیں اور رسد نہ کھولنے پر امریکی امداد میں کمی، حتیٰ کہ ملک کے ایک غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی، جسے ایبٹ آباد کمیشن نے اور پھر ملک کی ایک عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سزا دی ہے، اس کی پشت پناہی میں ۳۳سال کی قید کے جواب میں ۳۳ملین ڈالر کی تخفیف کا بل فوری طور پر منظور کردیا گیا ہے ،یہ خارجہ پالیسی کو لگام دینا نہیں تو کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ہدایات اس حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہیں جسے وہ نہ نگل پارہی ہے اور نہ اُگل پا رہی ہے!
ملکی بحران اور مایوس کن حکومتی کارکردگی
حالات جس مقام پر آگئے ہیں اور آگے جو خطرات درپیش ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ پاک امریکا تعلقات کے سلسلے میں موجودہ حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے اس کا کھل کر جائزہ لیا جائے، اور قوم کو شعور دلایا جائے کہ اس قیادت نے ملک کو کس خطرناک دلدل میں پھنسا دیا ہے۔
اب سوال یہ نہیں ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کیا کیا تھا، اس نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے، اب اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ان ساڑھے چار برسوں میں کیا کیا؟ اور قوم کے واضح مطالبات اور پارلیمنٹ کی کھلی کھلی ہدایات کے باجود اس حکومت کا کیا کردار رہا؟
۱- عوام نے مشرف ہی کو نہیں اس کی پالیسیوں کو بھی رد کیا تھا لیکن زرداری گیلانی حکومت نے ان تمام ہی پالیسیوں کو، ان کے تباہ کن نتائج، عوام کے احتجاج اور پارلیمنٹ کی آہ و بکا کے باوجود جاری رکھا بلکہ ان کو اور بھی تباہ کن بنا دیا۔ امریکا کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی۔ امریکی سفارت کاروںاور خفیہ اداروں کو زیادہ دیدہ دلیری سے اپنا کھیل کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ بلاتحقیق ہزاروں ویزے دیے گئے۔ امریکی کارندوں پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام قائم نہ کیا گیا۔ ریمنڈڈیوس کے واقعے نے تو صرف واضح حقائق کے صرف سرے (tip of the iceberg) کو بے نقاب کیا جو ہمارے ملک کی سلامتی روندنے کا ذریعہ بنا ہوا تھا اور ایک حد تک اب بھی ہے۔ ڈرون حملوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ ملک میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا طوفان آگیا۔ فاٹا ہو یا بلوچستان یا کراچی___سب کے ڈانڈے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور ناٹو کے لیے سپلائی فراہم کرنے والے کنٹینرز سے جاملتے ہیں۔ ابھی لیاری آپریشن میں جس اسلحے کا استعمال ہوا ہے، جو راکٹ داغے گئے ہیں اور جو پستول پکڑے گئے ہیں، ان سب پر امریکی ساخت کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔
ان ساڑھے چار برسوں کا ریکارڈ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو اس کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے جس میں پرویز مشرف اور اس کے ساتھی ہیں___اور یہ بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ پرویز مشرف کے بہت سے سابق ساتھی، اس حکومت کے بھی ساتھی اور سانجھی ہیں!
۲- پارلیمنٹ، عوام اور قومی اُمور پر نگاہ رکھنے والوں کے بار بار کے مطالبات کے باوجود اس حکومت نے امریکا سے تعلقات کے شرائط کار (terms of engagement) اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کی شکلوں (modalities) پر کوئی نظرثانی نہیں کی، بلکہ قوم کو اسی طرح اصل حقائق سے تاریکی میں رکھا جو مشرف کی فوجی اور شخصی آمریت کے دور میں کیا جا رہا تھا۔ ہم پوری ذمہ داری سے قوم کے علم میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں تک کو صحیح معلومات بار بار مطالبات کے باوجود نہیں دی گئیں ۔ ہم چند مثالوں سے بات کو واضح کرنا چاہیں گے:
۱- مشرف کے دور میں امریکا سے کیا معاہدات ہوئے، نیز کن کن اُمور پر کوئی قول و قرار ہوا، اس سے وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ نے پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کی کمیٹی کو مطلع نہیں کیا اور ہمیشہ یہی کہا کہ کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے۔ حالانکہ حکومت کے ضابطۂ کار میں یہ موجود ہے کہ معاہدات تحریری ہوتے ہیں جن کی منظوری کوئی فرد نہیں بلکہ کابینہ دیتی ہے، اور جو اُمور صرف زبانی طے ہوتے ہیں ان کی بھی تحریری روداد رکھی جاتی ہے اور وہ ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے۔ صرف سلالہ کے واقعے کے بعد وزارتِ دفاع مجبور ہوئی اور بڑے ردوکد کے بعد دو معاہدات کے کچھ مندرجات سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔ ایک مفاہمتی یادداشت (MOU) ۱۹جون ۲۰۰۲ء کی ہے جو وزارتِ دفاع اور ایساف (ISAF) کے درمیان ہے جس پر ایساف کی طرف سے برطانیہ کی حکومت نے دستخط کیے ہیں۔ دوسرا ۹فروری ۲۰۰۲ء کا امریکا کی وزارتِ دفاع کے ساتھ ہے جو فروری ۲۰۱۲ء میں اپنی ۱۰ سالہ مدت پوری کرکے ختم ہوگیا لیکن کمیٹی کو بھی ۲۰۱۲ء سے پہلے اس کی کوئی ہوا نہیں لگنے دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کمیٹی نے سختی سے یہ ہدایت دی ہے کہ امریکا ہی نہیں، کسی بھی ملک یا ادارے سے جو بھی معاہدہ ہے وہ لازماً تحریری شکل میں ہونا چاہیے، تمام متعلقہ وزارتوں کے مشورے سے ہونا چاہیے، کابینہ کی منظوری سے ہونا چاہیے، اور پارلیمنٹ یا کم از کم قومی سلامتی کی کمیٹی کو اس سے مطلع ہونا چاہیے۔
۲- کمیٹی کے بار بار کے مطالبات کے باوجود وزارتِ دفاع نے ان ہوائی اڈوں کے بارے میں کوئی معلومات کمیٹی کو نہیں دیں جو امریکی افواج کے زیراستعمال تھے، بلکہ ہردفعہ یہی کہا گیا کہ کسی تحریری معاہدے کے بغیر یہ سہولت دی گئی تھی جو اب جاری نہیں۔ بس ٹریننگ کے لیے کچھ سہولتیں باقی ہیں۔ لیکن ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد بلوچستان میں شمسی ایئربیس کو خالی کرانے کا اقدام کیا گیا اور گیلانی زرداری حکومت اس کا کریڈٹ لے رہی ہے۔ لیکن سوال خالی کرانے کا نہیں، سوال جنوری ۲۰۱۲ء تک اس حکومت اور اس فوجی قیادت کی ناک تلے اس ایئربیس کی موجودگی، اس پر امریکا کی مکمل مطلق حاکمیت (sovereignty) کہ اس کی حدود میں پاکستانی فوج اور ایئرفورس کا سربراہ بھی پَر نہیں مار سکتا تھا، کی جواب دہی اسی حکومت کو کرنا ہوگی۔ کم از کم اس اڈے کے حوالے سے تو اب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس اڈے سے ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء تک ڈرون حملے کیے جاتے رہے۔ کیا حکومت کو ۲۶نومبر کے بعد اس اڈے کا علم ہوا اور یہ بھی ایبٹ آباد میں اسامہ کے موعود قیام گاہ کی طرح اس کی نظروں سے اوجھل رہا؟ یا یہ اس کی مرضی سے امریکا کے زیرتصرف تھا اور حکومت قوم اور پارلیمنٹ کو گمراہ (mislead) کر رہی تھی؟ قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ یہ دھوکا دہی غداری (high treason) کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی جواب دہی کون کرے گا؟
۳- امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان کی سرزمین پر سرگرمی اور امریکی سفارت کاروں کا کردار بھی قومی سلامتی کو متاثر کرنے والے اہم امور میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں بلاتحقیق ویزے جاری کیے جانا اور اس حوالے سے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے اور دبئی میں پاکستان کے سفارت خانے کا کردار بھی ایسا نہیں جسے قومی جواب دہی کے سلسلے میں نظرانداز کیا جاسکے۔
۴- امریکا نے افغانستان میں تو جو کچھ کیا، وہ سب کے سامنے ہے اور ہمارا کردار اس میں بالواسطہ ہے جس نے افغان عوام کو ہم سے بدگمان کیا اور افغانستان پر امریکی قبضے کا مقابلہ کرنے والے تمام عناصر کو ہمارا بھی دشمن بنا دیا، حالانکہ سارے اختلافات اور مختلف پاکستانی قیادتوں کی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کے باوجود، افغان عوام بحیثیت مجموعی پاکستان کے بہترین دوست تھے۔ ان مواقع پر بھی جب ہمارے تعلقات افغان حکومت سے کشیدہ تھے۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغان حکومت نے واضح طور پر یقین دلایا کہ آپ اپنی ساری توجہ بھارت کی سرحد پر رکھیں، افغان سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، اور اپنے اس قول پر وہ پکے رہے۔ لیکن مشرف کے زمانے میں جو کردار ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا رہا اور جس کا تسلسل زرداری گیلانی دور میں باقی رہا، اس نے دوستوں کو دشمن بنا دیا اور جنھیں ’بنیاد پرست‘ سمجھ رہے تھے وہ دشمنوں سے بھی بدتر نکلے۔ اس ہمالیہ جیسی غلطی کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر بھی اتنی ہی ہے جتنی مشرف حکومت پر تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ اسے تبدیلی کا جو موقع ملا تھا، اس نے اسے ضائع کر دیا اور جو دبائو نائن الیون کے معاً بعد تھا اس دبائو کے کم ہوجانے کے باوجود ملک کی آزادی، خودمختاری، سلامتی، عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے اس نے کچھ نہ کیا۔ اور جو تحقیروتذلیل پہلے دن ہورہی تھی یا بہت کم تھی وہ اب سکہ رائج الوقت بن گئی۔
۵- قوم کے علم میں اب یہ بھی آجانا چاہیے کہ مشرف دور میں اور اس کے بعد موجودہ دور میں کوئی کوشش کسی بھی سطح پر ایسی نہیں ہوئی کہ امریکا کو جو جو مراعات اور سہولتیں آنکھیں بند کرکے دے دی گئی تھیں، اور جن کی وجہ سے ملک معاشی، سیاسی اور تہذیبی، ہراعتبار سے تباہی کا شکار تھا ان کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے، بلکہ جن دو معاہدات کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے خود ان پر امریکا اور ایساف سے جو ٹیکس اور خدمات کا معاوضہ وصول کیا جاسکتا ہے اور جو سالانہ اربوں روپے میں ہوسکتا ہے، ان کے بارے میں کوئی کوشش کی جائے۔ امریکا ہر ٹرک اور کنٹینر پر جو وسط ایشیا کے ذریعے افغانستان پہنچاتا تھا آٹھ سے دس ہزار ڈالر خرچ کر رہا تھا، جب کہ پاکستان میں اس کا خرچ صرف ۲۵۰ ڈالر فی کنٹینر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ رقم سرکاری، نیم فوجی اور دوسرے مفاد پرست عناصر وصول کر رہے تھے لیکن ملک کے خزانے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہماری نگاہ میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر افغانستان پر قبضے کے اس شرم ناک کھیل میں کسی بھی شکل میں تعاون کوئی جائزعمل نہیں تھا لیکن جو اس کھیل میں شریک تھے اور رہے ہیں، ان کی عقل کو کیا ہوگیا تھا کہ ع قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند!
معاشی امداد کی بھیک مانگتے رہے اور ان ’خدمات‘ کا کوئی معاوضہ وصول نہ کیا۔ ان کی جنگ میں شرکت پر اپنے غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر (تقریباً ۱۳۵؍ارب روپے سالانہ) خرچ کرتے رہے جس کی ادایگی امریکا بڑی ردوکد اور کٹوتیوں کے بعد سال دوسال کے بعد کرتا رہا اور یہ اپنے پروفیشنلزم پر بغلیں بجاتے رہے___مشرف اور زرداری و گیلانی اور کیانی کسی کو نظر نہ آیا کہ ع ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا!
۶- وزیردفاع احمدمختار صاحب نے ایک شام خاموشی سے یہ اعلان بھی فرمایا: امریکا اور ناٹو کی رسد رسانی پر پابندی صرف زمینی راستے سے ہے، فضائی راستے سے کبھی پابندی نہیں لگائی گئی حالانکہ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اعلان کے مطابق پابندی کلّی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے بھی کبھی یہ بات نہیں آئی کہ فضائی راستے سے رسد جاری ہے، بلکہ کمیٹی کی اولین سفارشات میں یہ شامل تھا کہ: ’’پاکستان کے کسی اڈے یا فضائی حدود کے غیرملکی فوجوں کے استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری کی ضرورت ہوگی‘‘۔
وزارتِ دفاع نے کمیٹی کو کبھی اس امر سے آگاہ نہیں کیا کہ فضائی حدود کا استعمال ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی کمیٹی کی ان ترمیم شدہ سفارشات میں سے جو ۱۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو منظور ہوئی ہیں، یہ جملہ نکال دیا گیا ہے۔
کم از کم یہ چھے اُمور ایسے ہیں جن پر موجودہ حکومت کو بھی قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کرنا ہوگی اور آیندہ انتخابات میں قوم ان سے پوچھے گی کہ مشرف نے تو جو کیا، وہ کیا___یہ بتائیں کہ خود آپ کا ریکارڈ کیا ہے؟
حکومت کی کارکردگی کا جائزہ نامکمل رہے گا اگر اس حقیقت کو واشگاف نہ کیا جائے کہ، گو امریکا کا رویہ شروع ہی سے جارحانہ، جانب دارانہ ، مغرورانہ اور پاکستان کے لیے حقارت پر مبنی تھا، مگر زرداری گیلانی دور میں ان چاروں پہلوئوں میں اضافہ ہوا، اور یہ حکومت، پاکستان کے مفادات اور عزت و وقار کی حفاظت میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ صرف چند تازہ معاملات ان پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے اور ریکارڈ کی درستی کے لیے پیش کیے جاتے ہیں:
۱- امریکا کا رویہ یک رُخا (unilateral) رہا ہے اور ہماری قیادت پاکستان کے مفادات، ترجیحات اور تحفظات کسی کے بارے میں بھی کوئی گنجایش (space) حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت سے جس طرح امریکا نے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ قائم کی، اسے نیوکلیر سہولت فراہم کرنے کا راستہ اختیار کیا، کشمیر کے مسئلے پر اوباما نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ وعید کرنے کے باوجود سارا وزن بھارت کی تائید کے پلڑے میں ڈال دیا، پانی کے مسئلے کو جس طرح نظرانداز کیا اور ممبئی کے واقعے کو بنیاد بناکر جو جو دبائو پاکستان پر ڈالا، وہ بڑی الم ناک داستان ہے۔ اس کا آخری وار وہ بیان ہے جو ہیلری کلنٹن نے کولکتہ میں حافظ محمدسعید کے سر کی قیمت ۱۰ ملین ڈالر کی شکل میں رکھ کر کیا ۔ پھر ہمیں طعنہ بھی دیا کہ ایمن ظواہری پاکستان میں ہے اور ہماری قیادت کا حال یہ رہا ہے کہ ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم!
ریمنڈ ڈیوس کو امریکا چھڑا کر لے گیا اور جان کیری نے سب کے سامنے کھلا وعدہ کیا کہ امریکا خود اس پر مقدمہ چلا کر انصاف کا تقاضا پورا کرے گا، دونوں باتیںکس طرح ہوا میں تحلیل ہوئیں اور یہ باتیں ہر سچے پاکستانی کے دل پر نقش ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ کیری لوگر بل میں جو جو پابندیاں پاکستان اور اس کی افواج پر لگائی گئی ہیں، وہ شرم ناک داستان ہے لیکن اس حکومت نے ان سب پر آمنا وصدقنا کی روش اختیار کی۔ ڈرون حملوںمیں پاکستان کے ہراحتجاج اور پارلیمنٹ کی ہرقرارداد کے بعد اضافے ہوئے، اور بالآخر جنوری ۲۰۱۲ء میں صدراوباما نے پہلی بار ان کی ذمہ داری قبول کی اور وہائٹ ہائوس کے ایڈوائزر جان برینن نے پوری ڈھٹائی سے ووڈرو ولسن سنٹر فار اسکالرز میں ایک خطاب میں ان کا دفاع کیا اور فرمایا کہ: ’’وہ قانونی، اخلاقی اور دانش مندانہ اقدام ہیں‘‘۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے درجنوں ماہر صاف الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون، جنگی روایات، حتیٰ کہ خود امریکی دستور اور قانون کے خلاف ہیں۔ تازہ ترین اعلان ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۵۰ ویں سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے مسلسل کیے جانے والے ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کے قتل کے لیے مہلک جنگی قوت کے استعمال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکی حکومت کی جانب سے کسی مزید وضاحت نہ ہونے کی صورت میں، اسامہ بن لادن کا قتل بظاہر غیرقانونی تھا‘‘۔
ایمنسٹی نے امریکا کے اس دعوے کی کھل کر نفی کی ہے کہ وہ ’عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر انسانی حقوق کے تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا حق رکھتا ہے۔
امریکا جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ ڈرون حملے کر رہا ہے اور اس کا جس بے بسی سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نظارہ کر رہی ہے، وہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر ہی کاری ضرب نہیں بلکہ ملک و قوم کی کھلی کھلی تذلیل و تحقیر بھی ہے۔
امریکا کے سیکرٹری دفاع لیون پانیٹا نے پاکستان کے سارے احتجاج، پاکستانی قوم میں امریکا مخالف جذبات کے سارے طوفان کو نظرانداز کرتے ہوئے، اور عالمی راے عامہ اور ماہرین قانون کی آرا کو حقارت کے ساتھ رد کرتے ہوئے ۶مئی ۲۰۱۲ء کو اعلان کیا ہے کہ: ’’امریکا جنگ جوئوں کی پناہ گاہوں پر ڈرون حملے جاری رکھے گا خواہ ملک کی حکومت ان کی مخالفت کرتی رہے‘‘۔
یہ رعونت اور یہ کھلی دھونس اس کے باوجود ہے کہ ۸۰۰سے زیادہ ڈرون حملوں اور ۳ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے اتلاف کے باوجود، نہ اُن کی تعداد میں کوئی کمی ہوئی ہے جن کو ’دہشت گرد‘ کہا جارہا ہے، اور نہ کسی بھی محاذ پر امریکا کو فوجی یا سیاسی کامیابی (باقی: ص ۱۰۰)
[اس سورۃ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو طلاق اور عدّت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہوچکی ہیں: ’’طلاق دوبار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے‘‘ (البقرہ ۲:۲۲۹) ۔’’اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں… اور اُن کے شوہر اس مدّت میں اُن کو اپنی (زوجیت) میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں‘‘(البقرہ ۲:۲۲۸)۔’’ پھر اگر وہ (تیسری بار) اُس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اُس کے لیے حلال نہ ہوگی، یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہوجائے‘‘(البقرہ ۲:۲۳۰) ۔’’ جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدّت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کرسکو گے‘‘ (الاحزاب ۳۳:۴۹)۔’’ اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں‘‘(البقرہ ۲:۲۳۴)۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورئہ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اُس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے: ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اسے استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جن سے حتی الامکان علیحدگی کی نوبت نہ آنے پائے، اور علیحدگی ہو توبدرجۂ آخر ایسی حالت میں ہو، جب کہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہوچکے ہوں۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورئہ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اِس شعبے کی تکمیل کردی جائے۔(دیکھیے: تفہیم القرآن، جلد۵، سورئہ طلاق، ص۵۵۰- ۵۵۲)
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ ج لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَـیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا o (الطلاق ۶۵:۱) اے نبیؐ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنھیں اُن کی عدّت کے لیے طلاق دیا کرو، اور عدّت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے۔ (زمانۂ عدّت میں) نہ تم اُنھیں اُن کے گھروں سے نکالواَ ور نہ وہ خود نکلیں، اِلاّ یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے۔
یہ سورئہ طلاق کی پہلی آیت ہے۔ اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو، تو اُن کی عدّت کے لیے طلاق دو۔ عدّت کہتے ہیں اس مدت کو جو طلاق کے بعد، یا شوہر کی وفات کے بعد، اس غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے کہ اس کے دوران میں عورت دوسرا نکاح نہ کرے۔ اس مدت کو شریعت کی اصطلاح میں عدّت کہتے ہیں۔
’’عدّت کے لیے طلاق دو‘ ‘ کے دو معنی ہیں: ایک معنی یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں طلاق مت دو بلکہ ایسی حالت میں طلاق دو، جب کہ وہ پاک ہوں۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے طلاق دو۔ یہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اگر عورت کو طلاق دینی ہو تو ایامِ ماہواری میں طلاق نہ دی جائے بلکہ جب وہ ایام گزر جائیں تو حالت ِ طُہر میں طلاق دی جائے، اگر طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو ایسی حالت میں طلاق دی، جب کہ وہ حالت ِ حیض میں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے اس طرح (طلاق دینے کا) حکم نہیں دیا ہے، بلکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ طلاق حالت ِ طُہر میں دی جائے۔ یہ مضمون کہ ’’اُن کو اُن کی عدّت کے لیے طلاق دو‘‘ اس بات سے نکلتا ہے کہ عدّت کا شمار طُہر سے ہوتا ہے، (ایامِ) حیض سے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب یہ فرمایا کہ ان کی عدّت کے لیے ان کو طلاق دو تو آپ سے آپ یہ بات نکل آئی کہ طلاق حالت ِ طُہر میں دینی چاہیے نہ کہ حالت ِ حیض میں۔
اس بات پر غور کیجیے کہ اس حکم کے اندر کتنی بڑی حکمت ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں عورت اور اس کے شوہر کے درمیان ایک طرح کی دیوار حائل ہوتی ہے۔ اگر عورت حالت ِ طُہر میں ہو تو فریقین کو ایک دوسرے کی طرف رغبت ہوگی۔ اس صورت میں طبیعت طلاق کی طرف کم مائل ہوگی، اِلاّ یہ کہ نفرت اور ناراضی کا کوئی بڑا گہرا سبب ہو۔ لیکن ایامِ ماہواری میں جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے دُور ہوتے ہیں، اس زمانے میں اگر شوہر کے دل میں بیوی کی طرف سے کوئی کراہت یا نفرت یا اور اس قسم کی کوئی حالت پیدا ہو تو عورت کے پاس اس نفرت کو دُور کرنے کا کوئی مؤثر چارئہ کار نہیں ہوتا۔ اس لیے فرمایا کہ اگر طلاق دینی ہی ہو تو حالت ِ طُہر میں دو، جس میں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان آسانی سے موافقت پیدا ہونے کی سبیل نکل سکتی ہے۔
دوسری اس سے بھی زیادہ گہری حکمت اس معاملے میں یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں بالعموم عورت کی طبیعت میں غصہ، چڑچڑاپن اور ہٹ سی پیدا ہوجاتی ہے۔یہ ایک طبّی حقیقت ہے، حتیٰ کہ موجودہ زمانے کے ڈاکٹر تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی عورت سے کوئی جرم سرزد ہوا ہو تو پہلے اُس کا طبی معائنہ کرکے یہ تحقیق کرلی جائے کہ اس زمانے میں کہیں وہ ایامِ ماہواری میں تو نہیں تھی کیونکہ بعض اوقات اس زمانے میں اس کو اپنے اُوپر قابو نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں موجودہ زمانے کی جتنی سائنٹی فک تحقیقات ہیں وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ایامِ ماہواری میں عورت معمول کی حالت میں (normal) نہیں ہوتی۔ یہ ایک غیرطبعی (abnormal) حالت ہوتی ہے۔ اس حالت میں اگر عورت، مثلاً موٹر چلائے تو غلطی کرجائے گی، ٹائپ کرے تو غلطی کرجائے گی۔ گویا اس حالت میں اس سے بہت سے کاموں کے اندر غلطی سرزد ہوجاتی ہے۔ ان ایام میں بعض اوقات نہایت شریف اور نیک عورتوں سے چوری کا فعل سرزد ہوجاتا ہے۔ اگر وہ کسی چیز کو اچھی نگاہ سے دیکھ لیں، وہ چیز اُن کو پسند آجائے تو بعض اوقات اس کو اُڑا لیتی ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان ایام میں ان کو اپنے اُوپر قابو نہیں ہوتا۔ یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں وہ کوئی ایسی حرکت نہ کرجائے جس سے میاں بیوی کے درمیان کوئی نزاع اور بُعد پیدا ہوجائے۔ اس طرح اگر ایک طرف تو یہ صورت ہو، اور دوسری طرف یہ صورت ہو کہ جو چیز ان کو ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رکھتی اور ایک دوسرے کی طرف راغب کرتی ہے وہ اس دوران میں موجود نہ ہو، تو اس بنا پر حکم دیا گیا کہ حالت ِ حیض میں کبھی عورت کو طلاق نہ دو۔
اس حکم میں دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ طلاق عدّت کی گنجایش رکھتے ہوئے دی جائے۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دے کر نکاح کا جھٹکا مت کردو، بلکہ اتنی گنجایش رکھو کہ عدّت کے دوران میں رُجوع کرسکو۔ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے تو عدّت کے دوران میں وہ جس وقت چاہے رُجوع کرسکتا ہے۔ اگر وہ دو طلاق دے تب بھی عدّت کے دوران میں وہ رُجوع کرسکتا ہے۔ اگر وہ تین طلاق دے دے تو پھر رُجوع کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ اس طرح طلاقِ مغلظ ہوجائے گی۔ پھر بیوی اس کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گئی، اِلاّ یہ کہ اس کا کسی اور مرد سے نکاح ہو اور وہ شوہر اس کو اپنی مرضی سے طلاق دے دے۔ تب کہیں جاکر اگر یہ پہلے میاں بیوی چاہیں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اس لیے شریعت کا منشا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلاق دے بھی تو اس کو کم سے کم تین مہینے کی مدت ایسی مل جائے گی جس میں وہ باربار اچھی طرح غور کرسکتا ہے کہ آیا اسے اس عورت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہے یا اس سے نباہ کی کوئی صورت ممکن ہے۔ اس دوران میں عورت کے لیے بھی یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے شوہر کو راضی اور مطمئن کرلے کہ اب تک جو وجوہ نااتفاقی کے تھے آیندہ وہ نہیں ہوں گے۔
یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ طلاق کا لفظ آدمی کو زبان سے نکالنا ہی اس وقت چاہیے، جب کہ وہ واقعتا اس کو چھوڑنے کا ارادہ اور فیصلہ کرچکا ہو، ورنہ طلاق دینا کوئی کھیل نہیں۔ یہ بات اس کو اچھی طرح یاد رہنی چاہیے کہ اگر ایک آدمی ایک عورت کو تین مرتبہ طلاق دینے کا حق استعمال کرلیتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوجائے گی۔ اس وجہ سے ایک آدمی طلاق کا لفظ زبان سے نکالتے ہوئے دس مرتبہ اس پر سوچ لے کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ سلامتی اس میں ہے کہ اگر وہ یہ لفظ زبان سے نکالے بھی تو ایک مرتبہ نکالے تاکہ اس کے بعد اگر عدّت گزر بھی جائے، یا دوطلاق کی وجہ سے طلاق بائن ہوجائے اور وہ میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے حلالہ وغیرہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ چنانچہ دو مرتبہ بھی اگر آدمی نے طلاق دی ہو تو عدّت کے دوران میں رُجوع بھی ہوسکتا ہے اور اگر عدّت گزر جائے تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتا ہے، لیکن تین مرتبہ طلاق دینے کے بعد قصہ ختم ہوجاتا ہے، اور رُجوع کی کوئی گنجایش نہیں رہتی۔ پھر لوگ ایسے مفتی تلاش کرتے پھرتے ہیں جو ان کے لیے بغیر تحلیل (حلالہ) کے رُجوع کی گنجایش پیدا کردیں، یا پھر حلالہ کی ایسی شکلیں تجویز کریں جو شریعت کے ساتھ کھیل کرنے سے کم نہیں ہوتیں، اور جن کا کوئی اخلاقی یا شرعی جواز نہیں ہوتا۔ شریعت میں ایسی سازشی تحلیل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔
رسولؐ اللہ کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین مرتبہ طلاق دے دی تو حضوؐر نے فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ گویا یہ فعل اس قدر بُرا فعل ہے کہ نبیؐ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ہاتھ اُٹھا کر فرمایا کہ کیا تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلنے لگے ہو درآں حالیکہ میں ابھی تمھارے درمیان موجود ہوں۔
حضرت عمرؓ اُس شخص کو مارتے تھے جو بیک وقت تین طلاق دیتا تھا اور دُرّے سے اس کی خبر لیتے تھے۔ یہ ایک طرح سے جرم ہے کہ آدمی ایک ہی وقت میں تین مرتبہ طلاق دے دے۔ قرآن مجید ہدایت دیتا ہے کہ اگر طلاق دو تو عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے دو۔
اس کے بعد فرمایا گیا: اَحْصُوْا الْعِدَّۃَ(۶۵:۱) ’’عدّت کا شمار کرو‘‘، یعنی جس روز طلاق دی جائے وہ تاریخ نوٹ کرلی جائے اور اس کو یاد رکھا جائے۔ میاں اور بیوی دونوں یاد رکھیں تاکہ عدّت کا ٹھیک وقت پر آغاز ہو اور ٹھیک وقت پر ختم ہو۔ مثلاً فرض کیجیے عدّت ختم ہونے میں تین دن رہ گئے ہیں تو شوہر آخری مرتبہ سوچ لے کہ اس بیوی کو رکھنا ہے یا رخصت کرنا ہے۔ برابر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اب اتنا وقت باقی ہے۔ اس دوران میں عورت بھی سوچ لے کہ آیا مجھے اُس شخص کے گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہونا ہے، اور مرد بھی سوچ لے کہ کیا مجھے اُس کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہے۔ اس طرح آخر وقت تک اس کا خیال رکھا جائے، کیونکہ عدّت کے خاتمے سے پہلے کسی وقت بھی رُجوع ہوسکتا ہے۔ ایک رات یا چند گھنٹے پہلے بھی رُجوع ہوسکتا ہے۔
وَاتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ (۶۵:۱)،’’اور ڈرو اللہ سے جو تمھارا رب ہے‘‘۔یعنی ان چیزوں کو کھیل نہ بنائو۔ یہ بڑے سنجیدہ معاملات ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ایک آدمی اگر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ بڑا نازک اور اہم کام ہے۔ اگر زوجین کے بچے ہوں تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کے مستقبل کو ہمیشہ کے لیے خطرے میں ڈال دیا گیا۔ اگر بچے نہیں ہیں تب بھی اس مرد کے لیے دوبارہ نکاح آسان کام نہیں ہوتا، اور اسی طرح عورت کے لیے بھی بڑی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ جس شخص نے طلاق دی ہو اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں فوراً یہ شک پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ آدمی جھگڑا لو معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ ایک بیوی کو چھوڑ چکا ہے تو کوئی دوسرا شخص ا س کو اپنی بیٹی دیتے ہوئے گھبرائے گا۔ کوئی دوسری عورت اس سے نکاح کرتے ہوئے گھبرائے گی کہ معلوم نہیں یہ کس مزاج کا آدمی ہے۔ یہ ایک عورت کو چھوڑ چکا ہے تو کیا خبر مجھے بھی چھوڑ دے۔عورت کے متعلق بھی ہزار قسم کی بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ تو نہ آدمی کے لیے دوبارہ نکاح کرنا آسان ہوتا ہے اور نہ اس عورت کے لیے آسان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور ان چیزوں کو کھیل مت بنائو۔ اور اگر کسی کو طلاق دینی ہی ہو تو___ جیساکہ فرمایا کہ:عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے دو اور عدّت کا شمار ملحوظ رکھو۔
لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ(۶۵:۱)،اور اُن کو گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔
مطلب یہ ہے کہ عدّت کا زمانہ بیوی شوہر کے گھر میں ہی گزارے۔ طلاق دے کر اس کو رخصت نہ کردیا جائے۔ دونوں اسی گھر میں رہیں تاکہ اگر طبیعت میں ذرہ برابر بھی میلان باقی ہے تو اس مدت کے اندر وہ رُجوع کرلیں۔ رخصت کردینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے رُجوع کے امکانات کو خود ختم کردیا۔ اور اگر عورت خود نکل گئی تو بھی نتیجہ ظاہر ہے، اور یہ بات دونوں کے لیے حماقت اور عاقبت نااندیشی کی بات ہے۔
اس لیے یہ ہدایت کی گئی کہ طلاق کے بعد نہ عورت خود گھر سے نکلے اور نہ تم اس کو نکالو، بلکہ اس دوران میں اسے اپنے گھر میں ہی رکھو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر طلاق بائن ہوجائے تب بھی عورت گھر سے نہ جائے، اگرچہ اس دوران میں اس کا نفقہ شوہر کے ذمّے نہیں ہوتا۔ لیکن اگر طلاق رجعی ہے، یعنی جس کے اندر رُجوع کی گنجایش ہے، تو جس زمانے میں عورت عدّت شوہر کے گھر میں گزار ر ہی ہو تو اس زمانے کا اس کا نان نفقہ شوہر کے ذمے ہے۔
اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط(۶۵:۱)،اِلا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔
عورت کو گھر سے نکالنا صرف اس صورت میں صحیح ہے، جب کہ وہ کسی کھلی فحش حرکت کا اِرتکاب کرے۔ کھلی فحش حرکت کا اِطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک تو ایسی سخت بدزبانی، جو ناقابلِ برداشت ہو اور دوسرے بدکاری۔ بدکاری ضروری نہیں کہ وہ عملی ہو بلکہ اگر اس سے بداخلاقی کسی ایسی شکل میں ظاہر ہو جس سے اس کے شوہر کے دل میں اس کے لیے دوبارہ میلان کی گنجایش ختم ہوجائے یا اس کی وفا پر اعتماد باقی نہ رہے۔ ان دو چیزوں کے سوا کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ اجازت ہو کہ عورت کو طلاق دینے کے بعد گھر سے رخصت کردیا جائے۔
وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط (۶۵:۱)، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپرخود ظلم کرے گا۔
دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ حدیں تمھاری بھلائی کے لیے مقرر کی ہیں، تمھاری مصلحتوں کو ملحوظ رکھ کر حکیمانہ حدود کا تعین کیا ہے تاکہ تمھاری زندگیاں خراب نہ ہوں۔ اب اگر تم اِن حدود کو توڑتے ہو تو اپنا ہی کچھ بگاڑتے ہو، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتے۔ اللہ کی حدود کو توڑنے والا اللہ کا کیا نقصان کرتا ہے؟ مثلاً اگر کوئی شخص حفظانِ صحت کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جن سے اس کی صحت خراب ہوجائے تو سوال یہ ہے کہ اس نے اللہ کا یا کسی کا کیا نقصان کیا، اس نے اپنی ہی صحت بگاڑی اور اپنا ہی نقصان کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو حدیں انسان کی معاشرتی زندگی کے لیے مقرر کی ہیں وہ اس کی بھلائی کے لیے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔
اب آپ دیکھیے کہ اگر کوئی شخص غصے میں آکر بیوی کو تین طلاق دیتا ہے تو ایک غلط کام کرتا ہے جس کا نقصان اسی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگوں نے بیوی سے لڑائی جھگڑے کا مطلب لازمی طور پر یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب دونوں کے درمیان بات بگڑے تو ایک دفعہ تو طلاق کا لفظ زبان پر آئے گا ہی! یعنی لڑائی کی اور کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ انسان بُرا بھلا بھی کہہ سکتا ہے یا کسی اور طریقے سے بھی اپنا غصہ نکال سکتا ہے لیکن لوگوں کے نزدیک لڑائی کے معنی ہی گویا یہ ہوگئے ہیں کہ چھوٹتے ہی طلاق کے الفاظ بول دیے جائیں۔ اوّل تو یہی حماقت ہے، اور پھر اس سے بھی آگے بڑ ھ کر ایک دفعہ نہیں بلکہ بیک وقت تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کہہ کر طلاق کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ تو ہزار ہزار طلاق دے ڈالتے ہیں۔ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہزار مرتبہ طلاق دی تو حضوؐر نے فرمایا کہ تین تو تیری بیوی کے اُوپر پڑ گئیں باقی جتنی ہیں وہ جس پر چاہے تقسیم کردے۔ اس طرح کی جو احمقانہ حرکتیں ہیں اُن سے خدا کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، آدمی اپنا ہی گھر بگاڑتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ غصے میں آکر تین طلاق دے بیٹھتے ہیں اور پھر اس کے بعد پوچھتے پھرتے ہیں کہ بچائو کی کوئی صورت ہے کہ نہیں۔ خدا کے بندے، اگر تمھیں پچھتاناہی تھا تو کس احمق نے تمھیں یہ کہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق دو۔ جو کام تین طلاق سے چلتا ہے وہی ایک سے بھی چلتا ہے۔ اگر ایک آدمی عورت کو چھوڑنا ہی چاہے تو ایک طلاق کا بھی وہی حاصل ہے جو تین طلاق کا ہے لیکن فائدہ یہ ہے کہ عدّت گزر جانے کے باوجود دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگ تین طلاق دینے کے بعد پوچھتے پھرتے ہیں کہ اب بچنے کی کیا صورت ہے۔ چلو کسی اہل حدیث سے پوچھتے ہیں یا فلاں سے فتویٰ لیتے ہیں۔ اس سے بھی کام نہیں چلتا تو پھر حلالہ کرنے کے لیے لوگوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ سب لغو باتیں ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی حدوں کو توڑتے ہیں، وہ اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔
لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا(۶۵:۱)،. ُتو نہیں جانتا، ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی صورت پیدا کردے (کوئی راستہ نکال دے)۔
اُوپر جو ہدایات دی گئی ہیں کہ عورت کو حالت ِ حیض میں طلاق نہ دی جائے، عدّت کی گنجایش رکھی جائے، اور طلاق دینے کے بعد عورت کو گھر سے نہ نکال دیا جائے، تو اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمھیں کیا خبر ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ملاپ اور صلح کی کوئی صورت پیدا کردے۔ اسی غرض کے لیے یہ حدود مقرر کی گئی ہیں کہ اگر صلح کی کوئی گنجایش ہو تو اس سے فائدہ اُٹھانا ممکن رہے۔
فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ ط ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا o (۶۵:۲-۳)، پھر جب وہ اپنی (عدّت کی) مدت کے خاتمے پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے پر اُن سے جدا ہوجائو۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب ِ عدل ہوں۔ اور (اے گواہ بننے والو) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیے ادا کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے، ہراُس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے، اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
پہلی بات یہ فرمائی کہ جب مطلقہ عورتیں اپنی عدّت کو پہنچیں تو یا اُن کو بھلے طریقے سے روک رکھو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔ عدّت کو پہنچنے سے مراد یہ ہے کہ جب عدّت ختم ہونے کے قریب آئے تو اگر اُن کو روکنا چاہو تو بھلے آدمیوں کی طرح روک لو، یا رخصت کرنا چاہو تو بھلے آدمیوں کی طرح رخصت کردو___ یعنی کسی جھگڑے ٹنٹے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمھارا نباہ نہیں ہوتا تو ٹھیک ہے، تم نے طلاق دے دی ہے، تو اب ان کو بھلے طریقے سے رخصت کردو، کسی لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر رکھنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح رکھ لو۔
دوسرے الفاظ میں شریعت یہ بات سکھاتی ہے کہ آدمی کو دنیا میں ایک معقول انسان کی طرح زندگی گزارنی چاہیے ۔ کسی حالت میں بھی نامعقول آدمی کا سا رویّہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آدمی کسی سے نہیں نباہ سکتا ہے تو صاف کہہ دے کہ بھائی السلام علیکم، تمھارا راستہ الگ، ہمارا راستہ الگ۔ کسی طرح کی کھینچاتانی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص سے موافقت کرنا ممکن ہے تو پھر شریف آدمی کی طرح موافقت کرلی جائے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ خواہ مخواہ بات بڑھائی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ صبح تو ایک دوسرے کو بُری بھلی سنائی جارہی ہے اور شام کو گھل مل کے باتیں ہورہی ہیں، اور اگلے روز پھر وہی جھک جھک شروع ہوجائے۔ یہ بھلے آدمیوں کا کام نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات سمجھائی گئی کہ عدّت کی مدت ختم ہونے سے پہلے آدمی اچھی طرح سوچ لے کہ بھئی اس عورت سے نباہ ہوسکتا ہے یا نہیں، یا ہم بھلے طریقے سے مل کر رہ سکتے ہیں یا نہیں، یہ فیصلہ کرلیجیے۔ اگر مل کر رہ سکتے ہیں تو فبہا، ورنہ علیحدگی کا فیصلہ کر کے بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔
وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ(۶۵:۲)،’’اور جو تمھارے صاحب ِ عدل آدمی ہوں ان میں سے دو کو گواہ بنائو‘‘۔ صاحب ِ عدل سے مراد ہے نیک، معقول اور سچا آدمی۔ گویا کسی اَیرے غیرے کو گواہ نہ بنایا جائے۔ گواہ بنانا ہے تو دو معقول شریف آدمیوں کو بنایئے۔ ان کے سامنے یہ بات واضح طور پر کہی جائے کہ آج میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ اگر بعد میں رُجوع کرنے کا فیصلہ کرو تو اس پر پھر گواہ بنا لیجیے کہ مَیں رُجوع کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، اور اگر بعد میں کوئی قضیّہ پیدا ہوجائے تو شہادت قائم کرنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔ اگر بالآخر رخصت کرنا ہے تو لوگوں سے کہہ دیجیے کہ آج عدّت ختم ہوئی اور میں اس عورت کو رخصت کر رہا ہوں۔ اوّل تو اس طرح سے آیندہ چل کر جھگڑے کھڑے نہیں ہوتے، اور اگر کوئی جھگڑا پیدا بھی ہوتو دو ایسے راست باز اور قابلِ اعتماد آدمی ایسے موجود ہوں گے جو صحیح شہادت دے دیں گے اور جھگڑے کا خاتمہ ہوجائے گا۔
وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِط(۶۵:۲)، اور شہادت کو ٹھیک ٹھیک قائم کرو اللہ کے لیے۔
شہادت کو ٹھیک ٹھیک قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو گواہ بنایا جا رہا ہے اس کو صحیح صحیح اطلاع دی جائے، کوئی غلط اطلاع نہ دی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی نے آج طلاق دی ہے اور گواہی دو تین دن کے بعد قائم کر رہا ہے تو یہ بات غلط ہوجائے گی۔ کیونکہ اس صورت میں اگر آدمی یہ کہے کہ گواہ رہو کہ میں نے بیوی کو طلاق دے دی ہے تو چونکہ ان دو تین دنوں کی وضاحت نہیں ہوگی، اس لیے گواہوں کا یہ کہنا کہ اس نے فلاں تاریخ کو طلاق دی ہے خلافِ واقعہ بات ہوگی، جب کہ وہ دو تین دن پہلے طلاق دے چکا تھا۔ اس لیے یہ طلاق دینے والے کی طرف سے شہادت کے قواعد کی خلاف ورزی ہوگی۔ اسی طرح جن کو گواہ بنایا جائے ان کی شہادت بھی خلافِ اصول ہوگی۔ اس لیے کہ ان کا بھی یہ کام ہے کہ وہ طلاق کی تاریخ کو ٹھیک ٹھیک یاد رکھیں اور جب ضرورت پیش آئے تو ٹھیک ٹھیک گواہی دیں۔
ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط (۶۵:۲)، اس چیز کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے، تم میں ہر اُس شخص کو جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی خلاف ورزیاںکرتا ہے، اس کا یہ فعل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ حرکتیں ایمان کے منافی ہیں کہ آدمی کہے کہ میں خدا کو خدا مانتا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں کہ آخرت میں مجھے خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، پھر بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرے اور اس کی حدود کو توڑے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر ایک شخص صحیح ایمان رکھتا ہو تو اس کا یہ کام ہے کہ پھر ایمان داری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حدود کی پابندی کرے۔
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا(۶۵:۲)، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کردیتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب آدمی اینچ پینچ کی باتیں کرتا ہے تو دراصل وہ بعض عملی پیچیدگیوں کے ڈر سے ایسا کرتا ہے۔ اسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر میں نے ٹھیک ٹھیک بات کی تو میرے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی، جیساکہ آج کل بہت سے لوگ عدالت میں جاکر اس لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ اگر ہم نے سچ بات کہی تو فلاں پیچیدگی پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح وہ عملاً حدود اللہ کو توڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ تمھارے لیے پیچیدگیوں سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا۔ اس لیے کسی قسم کی پیچیدگی اور اُلجھن کا خوف تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اللہ سے بے خوف ہوکر اس کے حدود توڑنے پر اُتر آئو۔ اگر عملاً کوئی اُلجھن پیدا بھی ہوگی تو اللہ کے ذمے یہ ہے کہ وہ اس سے نکلنے کا راستہ تمھارے لیے پیدا کردے گا۔
وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط(۶۵:۳)، ’’اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اس کا خیال بھی نہ گیا ہو‘‘۔ یہ اشارہ ہے اس طرف کہ طلاق کے معاملے میں زیادہ تر پیچیدگیاں مالی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ نان نفقہ کا خرچ، مہر کا خرچ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے آدمی بہت سی پیچیدگیاں اپنے لیے خود پیدا کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا یہ گیا کہ کسی قسم کی مالی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حدود مت توڑو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ایسی جگہ سے دے گا جس طرف تمھارا خیال بھی نہیں گیا۔ جو ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے اس کو ایمان داری کے ساتھ اُٹھائو، اسے ٹھیک طرح سے ادا کرو۔ یہ مت خیال کرو کہ اگر میں نے اس ذمہ داری کا بوجھ اُٹھا لیا تو میری مالی حالت خراب ہوجائے گی اور میں بڑی مشکل میں پڑ جائوں گا۔ اس طرح سوچنا درست نہیں ہے۔ دینے والا اللہ ہے، آدمی کو اس کے بھروسے پر کام کرنا چاہیے۔
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط(۶۵:۳)، اور جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا پھر اللہ اس کے لیے کافی ہے۔
دوسرے الفاظ میں آدمی کا کام یہ ہے کہ جو قواعد اور قوانین اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں وہ اللہ کے بھروسے پر اس کی پوری پوری پابندی کرے۔ اگر کسی قسم کی مشکل پیدا ہونے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو کوئی پروا نہ کرے۔ اللہ پر بھروسا رکھے کہ اس نے جو قوانین اور قاعدے مقرر کیے ہیں وہ میری ہی بھلائی، مصلحت اور فائدے کے لیے ہیں۔ اس لیے میرا یہ کام ہے کہ میں ان کی پابندی کروں اور باقی معاملہ اللہ پر چھوڑ دوں۔
اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط،’’اللہ کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ کا فیصلہ تمھاری کسی تدبیر سے ٹل نہیں جائے گا۔ اگر کسی مصلحت اور حکمت کی بنا پر اللہ کو تمھیں کسی نقصان میں ڈالنا ہو توو ہ ڈال کر رہے گا، اور دراصل وہ تمھاری بہتری کے لیے ہوگا۔ تم لاکھ تدبیریں اس کو ٹالنے کی کر دیکھو، اس کو نہیں ٹال سکو گے لیکن ہوگا یہ کہ تم نقصان بھی اُٹھائو گے اور خدا کے قوانین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرکے گناہ گار بھی ہوگے۔
اگر ایک آدمی ایسی حالت میں نقصان اُٹھائے کہ وہ اللہ کے قوانین کی پوری پابندی کر رہا ہو تو وہ گنہگار تو نہ ہوا۔نقصان اس کو ضرور ہوا لیکن نقصان وہ ہوا جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں پہلے سے طے تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک آدمی خدا کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے نقصان تو اُٹھاتا ہے لیکن گنہگار نہیں ہوتا، صرف نقصان اُٹھاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نقصان اس نے خدا کے قوانین کو توڑ کر اُٹھایا ہے تو گویا دوہرا نقصان اُٹھایا۔ یہاں بھی نقصان اُٹھایا اور آخرت میں بھی سزا پائے گا۔ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو جو کچھ کرنا ہے اس کو وہ کرکے رہتا ہے۔ اس کے فیصلے تمھاری تدبیروں سے ٹلنے والے نہیں۔ اس لیے تمھارا کام ہرچیز سے بے نیاز ہوکر صرف اس کے احکام و ہدایات کی پابندی کرنا ہے۔
قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا(۶۵:۳)،’’اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک قدر مقرر کررکھی ہے‘‘۔ قدر کے معنی تقدیر کے بھی ہیں اور مقدار کے بھی۔ گویا اللہ کے سارے کام ایک قاعدے اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس طرح ہرچیز کے لیے اللہ نے ایک تقدیر بھی مقرر کر رکھی ہے اور ہر چیز کی ایک مقدار بھی مقرر کر رکھی ہے، اور وہ اس کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔
وَّالِّٰٓیْٔ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِ کُمْ اِِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍلا وَّالِّٰٓیْٔ لَمْ یَحِضْنَ ط وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا o (۶۵:۴) اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اُن کے معاملے میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) اُن کی عدّت تین مہینے ہے، اور یہی حکم اُن کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔ اور حاملہ عورتوںکی عدّت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضعِ حمل ہوجائے اور جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملے میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے۔
عدّت کے متعلق چونکہ سورئہ بقرہ میں بتایا گیا ہے کہ عدّت کا شمار حیض کے حساب سے ہوگا، تو ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن عورتوں کو حیض نہ آیا ہو یا جن کو حیض آنا بند ہوچکا ہو ان کی عدّت کس طرح شمار ہوگی؟ اس کا قانون یہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی عورتوں کے لیے یہ مدت تین مہینے ہوگی۔ اور یہ مدت ہلالی مہینے کے حساب سے ہوگی نہ کہ شمسی مہینے کے حساب سے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جہاں شرعی قوانین کا معاملہ ہو، ان میں ہلالی مہینے شمار ہوتے ہیں نہ کہ شمسی۔ لہٰذا ایسی عورتوں کے معاملے میں عدّت ہلالی مہینے کے حساب سے تین مہینے ہے۔
یہاں ایک اور بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جن عورتوں کو حیض نہیں آیا ہے ان کی عدّت کی مدت بھی بتا دی ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کے قانون کی رُو سے ایک ایسی لڑکی کا نکاح جائز ہے جس کو حیض ابھی نہ آیا ہو۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ زمانے میں فیملی لاز آرڈی ننس کے ذریعے سے جو قانون بنایا گیا ہے کہ فلاں عمر سے کم عمر کی لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا، تو یہ صریح طور پر قرآن مجید کے حکم سے ٹکراتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ایسی لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن یہ قانون کہتا ہے کہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد آخر اللہ کے قانون سے لڑائی کی اور کیا شکل باقی رہ جاتی ہے؟ پھر فرمایا: وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ط ’’اور جو حاملہ عورتیں ہیں ان کی عدّت وضعِ حمل ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ خواہ وضعِ حمل میں نو مہینے لگ جائیں یا طلاق دینے کے دوسرے ہی دن وضعِ حمل ہوجائے اس وقت عدّت ختم ہوجائے گی۔ عورت نکاحِ ثانی کے لیے آزاد ہوجائے گی۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا، ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے معاملات کو آسان کرتا ہے‘‘۔گویا کوئی پیچیدگی ایسی نہیں ہے جس سے آدمی کو واقعی سابقہ پیش آتا ہو اور اللہ نے اس سے نکلنے کا راستہ نہ بتایا ہو۔
ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنزَلَہٗٓ اِِلَیْکُمْ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّـٰاتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًاo (۶۵:۵) ، یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے، جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دُور کردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔
اللہ سے ڈرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں جو مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اللہ ان سے بچ نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی صورت میں آدمی ان غلطیوں میں مبتلا نہیں ہوتا جو اس کی حدود کو توڑنے کی صورت میں رُونما ہوتی ہیں: دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّـٰاتِہٖ ’’وہ اس کی برائیاں دُور کردیتاہے‘‘۔
بُرائیاں دُور کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر جو اخلاقی کمزوریاں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کو دُور کردیتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرلیا، اس کی خرابیاں آپ سے آپ دُور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ایک طرف اس کی خطائیں دُور ہوں گی اور دوسری طرف اللہ کا خوف اپنے اندر پیدا کرنے کے بعد آدمی کی اخلاقی تربیت بھی اِسی خوف کی بدولت شروع ہوجاتی ہے۔ جب بھی وہ کسی برائی کی طرف مائل ہوگا اس کو یاد آئے گا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اور ایک روز مجھے اسی کے حضور جانا ہے۔ اس احساس سے وہ برائی کے ارتکاب سے بچ جائے گا۔ اگر اس کے اندر کوئی بُری عادت راسخ ہوچکی ہے تو جب بھی اس سے بشری کمزوری کی بنا پر بلاارادہ اس کا صُدور ہوجائے گا تو رب کے حضور جواب دہی کا احساس آیندہ اس کو بچنے پر آمادہ کر ے گا، اور متعدد بار اس کوتاہی میں مبتلا ہونے کے بعد بالآخر اس سے پوری طرح بچنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر ان ساری کوششوں کے باوجود، جو وہ تقویٰ کی بدولت اپنی اصلاح کے لیے کرتا ہے، اگر کچھ برائیاں رہ جائیں گی تو اللہ آخرت کے حساب سے اس کی ان برائیوں کو ساقط کردے گا، کیونکہ اس نے دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہے۔ اس کے بعد اگر اس سے کچھ غلطیاں اور خطائیں سرزد ہوتی بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی اُن خطائوں سے درگزر فرمائے گا، اس کو معاف کردے گا۔چوتھا فائدہ اس کا یہ ہے کہ: یُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا، ’’اور وہ اس کو بڑا اجر دے گا‘‘۔گویا اس کو اس بات کا اجرِعظیم بھی دیا جائے گا کہ اس نے دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری___ اس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنے فوائد ہیں جو ان آیات میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے بیان کیے گئے ہیں۔
اس مقام پر نکاح و طلاق کے سلسلے میں اسلام کی حکمت ِ تشریع کو ایک بار پھر سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طلاق کو جائز ہونے کے باوجود ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ شَیْئًا اَبْغَضَ اِلَیْہِ مِنَ الطَّلَاقِ، ’’اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو‘‘ (ابوداؤد، بحوالہ تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۵۵۲)۔ اس کی وجہ یہ ہے اور یہ سامنے کی بات ہے کہ طلاق کے نتیجے میں میاں بیوی کی علیحدگی کی وجہ سے بچوں کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے ماں یا باپ میں سے کس کے پاس جائیں گے؟ جب مرد اور عورت نیا نکاح کرلیں گے تو سوتیلے ماں باپ کے ہاں بچوں کی زندگیاں بالعموم خرابی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان کو صحیح محبت اور سرپرستی نہیں ملتی جس کی وجہ سے ان کے دلوں سے محبت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جب ماں باپ آپس میں نہ نباہ سکے تو وہ کس کی شخصیت کو اپنے لیے نمونہ بنائیں۔ ایسے ہی حالات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ بچوں کے اندر جرائم پیشگی کے رجحانات پرورش پاتے ہیں۔ اگر جدا ہونے والے مرد و زن کے ہاں اولاد نہ ہو تب بھی نئے نکاح کی صورت میں عام طور پر زندگی دونوں کے لیے تلخ ہوجاتی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہورہی ہو تو پھر اُن کو غیرفطری طور پر جوڑ کر رکھنے سے اور طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں، جب کہ نکاح کے مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں، مردوزن کی علیحدگی ہی صحیح حل ہوتی ہے اور اس حکمت کے تحت طلاق کو جائز رکھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا حکیمانہ قانون دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں ہوا۔ جن قوموں کے ہاں طلاق کو عملاً ایک گناہ اور جرم قرار دے دیا گیا ہے وہاں خانگی زندگی جس طرح کے مفاسد کا شکار ہوئی ہے اس کا مشاہدہ آج کل کے یورپی اور برعظیم کے ہندی معاشرے میں کیا جاسکتا ہے۔(جاری)
حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات کو پڑائو فرماتے تو اپنے دائیں بازو پر لیٹ جاتے اور جب صبح کے قریب پڑائو فرماتے تو اپنا بازو کھڑا کر کے اپنا سرمبارک اس پر رکھ دیتے۔ (مسلم)
نماز کی فکر میں آپؐ لیٹنے کے بجاے بازو کھڑا کر کے اس پر سرمبارک رکھتے تھے تاکہ گہری نیند کے سبب نماز قضا نہ ہوجائے۔ نبی کریمؐ کے سفر دن رات جاری رہتے تھے اور آپؐ کے یہ سفر جہادی سفر تھے۔ جہادی سفر کے دوران میں بھی ذکرالٰہی اور نمازوں کی اسی طرح پابندی ہوتی تھی جس طرح مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران میں ہوتی۔ آج کے دور میں دعوتی مہمات جلسوں، جلوسوں اور سیاسی اجتماعات میں نمازوں کی پوری پابندی کرنا چاہیے اور نماز باجماعت کا ٹھیک طرح سے اہتمام کرنا چاہیے۔ نمازوں کے سلسلے میں نبی کریمؐ کے اسوئہ حسنہ کو پوری طرح پیش نظر رکھ کر اس کے مطابق اپنے معمولات کو ترتیب دینا چاہیے۔
o
حضرت ابوذرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک آدمی اچھا عمل کرتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تعریف مومن کے لیے نقد بشارت ہے۔ (مسند احمد)
نیک لوگوں کی تعریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کی علامت ہے۔ جب ایک آدمی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہوجاتا ہے، نیک کام کرتا ہے، اس کی نیت رضاے الٰہی کا حصول ہوتی ہے، ریاکاری کی نیت سے نیکی نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں اور لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ ایمان کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نیک لوگوں کی قدر کی جائے اور ان کی صحبت اختیار کی جائے، ان کا ساتھ دیا جائے، ان کی جماعت کو مضبوط کیا جائے۔ ایمان کے اس تقاضے کے سبب نیک لوگوں کی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں اور وہ مل جل کر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے ہیں۔ نیک لوگوں کی زندگی میں بھی ان کی تعریف ہوتی ہے اور ان کے فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کا ذکر خیر جاری رہتا ہے۔ ان کے تذکروں سے لوگ اپنے ایمان کو تازگی اور قوت دیتے ہیں۔ یہ نیک لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقد بشارت کا انتظام ہے۔
o
حضرت مغیرہ بن سعد اپنے باپ یا چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ عرفات میں تھے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپؐ کی اُونٹنی کی باگ پکڑنا چاہی تو مجھے ہٹا دیا گیا۔ یہ دیکھ کر آپؐ نے فرمایا: اسے آنے دو، کوئی بڑی حاجت ہے جو اسے لائی ہے۔تب میں آپؐ کے قریب آیا اور عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سن کر اپنا سرمبارک آسمان کی طرف اُٹھایا، پھر فرمایا: تو نے بات تو بہت مختصر پوچھی ہے لیکن درحقیقت یہ بہت طویل اور عظیم بات ہے۔ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، بیت اللہ کا حج کرو، رمضان المبارک کے روزے رکھو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرو جیسا سلوک لوگوں سے چاہتے ہو اور جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتے ہو وہ لوگوں کے لیے بھی ناپسند کرو۔ (مسند احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا جامع نسخہ عنایت فرما دیا۔ قدم قدم پر جس رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آپؐ نے اس کا ضابطہ بیان فرما دیا ہے۔ آدمی کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ لے کہ وہ جو کام کرنے لگا ہے، اس سے کسی کو تکلیف تو نہ ہوگی، اس سے کسی کا حق تو نہیں مارا جائے گا۔ اگر ایسا کام ہو تو اسے چھوڑ دے۔ جنت میں جانے اوردوزخ سے بچنے کا راستہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکام کی پیروی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور احکام کی اطاعت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ حرام کے ارتکاب اور لوگوں کو تکلیف دینے سے بچے گا، تو وہ سیدھا جنت میں جانے کا سامان کرے گا، اور کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوگا۔ خالق بھی اس سے راضی ہوگا اور خلقِ خدا بھی خوش ہوگی۔
o
حضرت ابوالدردائؓ پودے لگا رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا۔ اس نے آپ کو پودے لگاتے دیکھ کر کہا کہ آپ پودے لگا رہے ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: ٹھیرجائو، جلدی نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ایسے پودے لگائے جن سے انسان اور اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق کھائے تو اس کے لیے صدقہ ہوگا۔(مسند احمد)
دیکھنے والے کی نظر میں صحابی ٔ رسولؐ کو کوئی اعلیٰ کام کرنا چاہیے تھا۔ نماز، تلاوت، ذکرواذکار، وعظ و نصیحت، دعوت و جہاد کے کاموں کو اس نے اعلیٰ سمجھا۔ پودے لگانے کو اس نے حقیر کام جانا۔ حضرت ابوالدردائؓ نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ پودے لگانا بھی اعلیٰ کام ہے۔ یہ پودے لگانے والے کے لیے صدقۂ جاریہ ہے اور خلقِ خدا کی خدمت ہے۔ عبادت صرف ذکرواذکار، تلاوت ، نماز، روزہ، دعوت و تبلیغ اور جہاد کا نام نہیں بلکہ خلقِ خدا کی خدمت بھی عبادت ہے۔ خلقِ خدا کی خدمت کی جو بھی شکل ہو، اس میں اجر ہے۔ آج بھی لوگوں کو غلط فہمی ہے، وہ خلقِ خدا کی خدمت کو، زراعت، دکان داری اور ملازمت کو عبادت نہیں سمجھتے حالانکہ یہ تمام چیزیں عبادت ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کاموں کو کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور رزقِ حلال ساتھ خلقِ خدا کی خدمت کی نیت ہو، اور ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے جس میں شریعت کی خلاف ورزی ہو۔
o
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ نے لوگوں کو غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ میں بھی اس غزوے میں جارہا ہوں۔ میرے لیے شہادت کی دُعا فرمایئے۔ آپؐ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! انھیں سلامتی عطا فرما اور غنیمت سے نواز۔ ہم غزوہ میں گئے اور صحیح سالم، مالِ غنیمت لے کر واپس لوٹے۔ اس کے بعد پھر آپؐ نے ایک غزوے پر لوگوں کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا ،اور عرض کیا کہ میرے لیے شہادت کی دُعا کیجیے۔ آپؐ نے پھر وہی دُعا دی جو پہلی مرتبہ دی تھی۔ ہم غزوے میں گئے اور بسلامت مالِ غنیمت لے کر واپس آئے۔ تیسری مرتبہ آپؐ نے ایک غزوے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا اور شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ آپؐ نے پھر وہی دُعا دی۔ ہم غزوے میں چلے گئے اور مالِ غنیمت لے کر بسلامت لوٹے۔
میں ایک بار پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلسل تین مرتبہ حاضر ہوا، شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی تو آپؐ نے سلامتی اور مالِ غنیمت لے کر لوٹنے کی دُعا فرمائی۔ اب مجھے کوئی ایسا حکم دیجیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے۔ آپؐ نے فرمایا: روزے رکھو، اس کی کوئی مثل نہیں ہے (یعنی تزکیۂ نفس کا بہترین نسخہ ہے)۔ چنانچہ ابوامامہؓ کے گھر میں دن کے وقت دھواں نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی ان کے گھر میں دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے ہاں مہمان ہیں۔ ابوامامہؓ اور ان کے اہلِ خانہ روزے سے رہتے تھے۔ اس لیے دن کو کھانا نہیں پکتا تھا۔ ابوامامہؓ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے مجھے ایسا حکم دیا ہے مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نفع دے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور حکم بھی عنایت فرمائیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: نوافل پڑھا کرو۔ اس حقیقت کو جان لو کہ جتنے سجدے کرو گے ہرسجدہ ایک خطا کو مٹا دے گا اور ایک درجہ بڑھا دے گا۔(مسند احمد)
صحابہ کرامؓ کو جامِ شہادت نوش کرنے کا شوق تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک صحابی کے لیے شہادت کی دُعا نہیںکی۔ بعض کے لیے شہادت کی دُعا بھی کی ہے اور انھوں نے جامِ شہادت نوش کرکے شہادت کا درجہ پایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سارے پہلوئوں پر تھی۔ ہر ایک مجاہد کے لیے شہادت مطلوب نہیں ہے بلکہ اکثر کے لیے سلامتی اور کامیابی کے ساتھ واپسی مطلوب ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو اور دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے کامیابی کے بعد علاقے کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے کر خلقِ خدا کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور خلقِ خدا کی ضروریات اور مسائل حل ہوں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوامامہؓ کو شہادت کے بجاے غازی ہونے کی دُعا دی۔ حضرت ابوامامہؓ نے سمجھا کہ ابھی مہلت عمل اچھی خاصی باقی ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا نسخہ دریافت کیا جائے جس کے نتیجے میں زندگی بارآور اور بابرکت اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روزہ اور اس کے بعد نوافل کی تلقین فرمائی کہ روزہ اور نماز سے ایمان کو قوت اور جِلا ملتی ہے اور نیکیاں آسان اور برائیاں مشکل ہوجاتی ہیں۔
سورج نصف النہار پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلچلاتی دھوپ میں گھر سے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچے۔ انھوں نے دور سے آپؐ کو دیکھ کر کہا: ’’اس وقت آمد؟___ ضرور کوئی اہم بات ہے‘‘، اور پھر آگے بڑھ کر استقبال کرتے ہوئے اپنی چارپائی پر لابٹھایا۔ آپؐ نے کوئی بات کہنے سے پہلے فرمایا: ’’گھر میں کوئی اور ہے تو اسے رخصت کردیں‘‘۔ صدیق اکبر ؓ نے عرض کی ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ! اور تو کوئی نہیں، صرف میری دونوں صاحبزادیاں (حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہما) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے اہم ترین اطلاع دیتے ہوئے بتایا:اِنَّہٗ قَدْ أذِنَ لِی فِيْ الْخُرْوجِ وَ الْہِجْرَۃ، ’’مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے‘‘۔ صدیق اکبرؓ نے کوئی بھی مزید تفصیل پوچھنے کے بجاے فوراً عرض کیا: اَلصُّحْبَۃُ یَارَسُولَ اللّٰہ؟،’’یا رسول اللہ رفاقت؟‘‘ آپ نے فرمایا:اَلصُّحْبَۃ، ’’ہاں رفاقت‘‘۔ مژدہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ بے اختیار رو دیے۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ’’اس سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کوئی شخص خوشی کی انتہا پر بھی روسکتا ہے۔ اس روز ابوبکرؓ کو خوشی سے روتے دیکھا تو یہ راز کھلا‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاں نثار صحابہ کو یثرب ہجرت کرجانے کا حکم دیا، تو حضرت ابوبکرؓ صدیق نے بھی حکم بجا لانے کی اجازت چاہی تھی۔ تب آپؐ نے فرمایا تھا: لَا تَعجَل، لَعَلَّ اللّہَ یَجعَلُ لَکَ صَاحِبا ’’جلدی نہ کریں، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے لیے رفیق سفر کا انتظام کردے‘‘۔ صدیق اکبرؓ نے فرمان نبویؐ سنتے ہی اپنے اور اپنے نامعلوم ساتھی کے سفر کی تیاری شروع کردی۔ دو اونٹنیاں خرید کر ان کی دیکھ بھال شروع کردی اور ممکنہ زاد راہ جمع کرنا شروع کردیا۔ چار ماہ کے انتظار کے بعد یہ موقع آیا تھااور اب کسی بھی لمحے سفر شروع ہوسکتا تھا۔ سفر بھی کیسا کہ جس میں ایک طرف محبوب ترین ہستی کی رفاقت نصیب تھی، تو دوسری طرف ہر قدم پر دشمن کا دھڑکا اور گرفتار یا قتل کیے جانے پر بیش قیمت انعام کے لالچ کا شکار ہونے والے افراد و قبائل تھے۔ مکہ ہی سے اس حال میں نکلے تھے کہ تقریبا تمام قبائل کے ماہر ترین شمشیر زن، تلواریں سونتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے سے لگے بیٹھے تھے کہ جیسے ہی باہر آئیں گے سب تلواریں اکٹھی لپکیں گی اور خدانخواستہ...
رات کی تاریکی گہری ہوگئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لٹا کر وَ جَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo(’’ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔ ہم نے انھیں ڈھانک دیا ہے، انھیں اب کچھ نہیں سوجھتا‘‘۔ یٰسٓ ۳۶:۹)کی تلاوت کرتے ہوئے، تلواروں کے درمیان سے گزر کر صدیق اکبرؓ کے گھر پہنچ گئے۔ سفر کا ضروری سامان باندھا گیا اور دونوں مبارک ہستیاں گھر کے پچھواڑے سے نکل کر یثرب کی جانب والے راستے کی مخالف سمت میں واقع غار ثور کی طرف روانہ ہوگئیں۔ حکمت عملی یہ طے پائی تھی کہ تین روز تک اسی غار ثور میں قیام رہے گا، یہاں تک کہ پیچھا کرنے والے دشمن تھک ہار کر نامراد ہوجائیں۔
دوسری طرف جب دشمن کو معلوم ہوا کہ دروازے کی درزوں سے دکھائی دینے والے بستر پر دراز ہستی، محمد ابن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں، علی ابن طالب (کرم اللہ وجہہ) ہیں تو پاگل ہواُٹھے۔ چہار جانب ہرکارے جاسوس، ایلچی اور مسلح نوجوان دوڑادیے کہ ہر صورت یثرب جانے سے روکنا اور ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دینا ہے۔ کئی لوگ غار ثور کے دہانے تک بھی جاپہنچے۔ یارِغار نے بے قرار ہوکر سرگوشی کی: ’’یا رسولؐ اللہ! اگر دشمن کی نگاہ اپنے پاؤں کی جانب اُٹھ گئی تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل یقین و سکون سے جواب دیا: مَا ظَنُّکَ یَااَبَابَکَر بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا؟ ’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں آپ کا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسری ذات خود اللہ تعالیٰ کی ہے؟‘‘ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا(التوبۃ۹: ۴۰) ’’پریشان نہ ہوں اللہ یقینا ہمارے ہمراہ ہے‘‘۔ دشمن کا دھیان غار کی طرف گیا بھی، لیکن غار کے منہ پر تنے مکڑی کے جالے کو دیکھ کر، خود ہی وہاں آپؐ کی موجودگی کے امکان کو رد کردیا، کہ اگر اس کے اندر کوئی گیا ہوتا تو یہ جالا نہ رہتا۔
اب غارِ ثور کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ کے قیمتی ترین تین روز شروع ہوتے ہیں۔ فداکار رفیق سفر نے غار کو صاف کیا اور دونوں قدسی نفوس اللہ سے مناجات، گذشتہ واقعات کے جائزے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں لگ گئے۔ آبادی سے دور اور مکہ کے پورے ماحول میں سخت اشتعال و کشیدگی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام فرمایا تھا کہ خوراک بھی پہنچتی رہے، مکہ میں ہونے والی سازشوں اور مشرکین کی بھنّاہٹ کا حال بھی معلوم ہوتا رہے، دشمن کو ان تمام سرگرمیوں کی ہوا تک بھی نہ لگ پائے اور یثرب تک سفر کے انتظام و عمل درآمد میں بھی کوئی کسر نہ رہ جائے۔ ذرا یہ انتظامات ملاحظہ کیجیے:
اب آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ایک اور اہم سفر کا حال دیکھیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’عام الحزن‘ (یعنی اُم المومنین حضرت خدیجہؓ اور چچا ابوطالب کے انتقال کا سال)کے صدموں اور اہل طائف کی جفا سے دل گیر ہیں۔ رب کائنات اپنے حبیب کی دل جوئی اور تکریم کے لیے جبریل امین ؑ کو براق دے کر بھیجتے ہیں۔ رحمۃ للعالمینؐ کو چشم زدن میں مکہ سے بیت المقدس لے جایا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاے کرام ؑکو جمع کرتے ہوئے آپؐ کی امامت کا اعلان کیا جاتا ہے، پھر براق آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں کہ اس کا ایک ایک قدم یوں فاصلے طے کرتا تھا کہ تاحد نگاہ دکھائی دینے والے افلاک سمٹتے چلے جاتے تھے۔ ہرآسمان پر آپؐ کے لیے علم کے نئے ابواب وا کیے جاتے ہیں۔ جنت، دوزخ کے کئی مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ خالق کائنات سے راز و نیاز ہوتے ہیں اور پھر بسلامت مسجد اقصیٰ سے ہوتے ہوئے مکہ واپس تشریف لاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسراء و معراج کا سفر کہ جس کی مسافت کا اندازہ تک بھی نہیں کیا جاسکتا، اور جس میں کوئی دشمن جان کے درپے نہ تھا، وہ سارا سفر و مشاہدہ تو پل جھپکنے میں طے کروادیا گیا، لیکن سفر ہجرت میں جہاں قدم قدم پر خطرات منہ کھولے کھڑے تھے، اپنے حبیب بندے کو وہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے لیے کہا گیا جو کسی بھی زیرک و بیدار ذہن اور جفاکش انسان کے بس میں ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالی یہاں بھی کوئی براق بھیج کر پلک جھپکنے میں آپؐ کو مسجد حرام سے یثرب پہنچا دیتا۔ سیرت طیبہ کے خوشہ چین لکھتے ہیں کہ اسراء و معراج میں مقصود اپنے نبی کی تکریم، پے درپے صدموں اور طائف کے زخموں پر ان کی دل جوئی اور اہل دنیا کو آپؐ کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا تھا۔ یہ اعلان کرنا تھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے تمام گذشتہ شرائع کی جگہ لے لی ہے، جب کہ سفر ہجرت میں مقصود، دنیا کے سامنے ایک بہترین قائد و رہنما اور داعی و کارکن کا بہترین اسوہ پیش کرنا تھا۔ نبوت و رسالت کی نشانیاں بھی قدم بہ قدم ساتھ رہیں۔ تلواریں سونتے سورماؤں کے درمیان سے نکال لے جانا، غار کے منہ پر مکڑی کا جالا اور کبوتر کا گھونسلہ بننا، اُم معبد کے خیمے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بکری کو تازگی و برکت عطا کرنا ، سراقہ بن جعثم کے تیز رفتار گھوڑے کا دھنس جانا، معجزات نبویؐ ہی کا تسلسل تھا۔ لیکن اُمت کو تعلیم دینا تھی کہ کارِ دعوت اور اسلامی ریاست کی تشکیل کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے، تمھیں ہر وہ کوشش کرنا ہوگی جو کسی انسان کے بس میں ہوسکتی ہے۔ معجزات اور مافوق الفطرت اُمور کا انجام پانا انسانوں کے اصول نہیں، رب ذو الجلال کی عطا ہے۔ انسان کے لیے سنت الٰہی یہ ہے کہ جو فرد یا قوم بھی اسباب فراہم کرے گی وہ اس کے نتائج حاصل کرے گی۔ ہاں، اگر عمل کی بنیاد ایمان پر رکھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی شامل ہوجائے گی۔
جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) حق آگیا اورباطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔
آج پوری دنیا جس معاشی بحران سے عالمی سطح پر دوچار ہے اور جس کی وجہ سے امریکا اور یورپ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں، اس کا بنیادی سبب سرمایہ داری نظام اور سود پر مبنی معیشت ہے۔ خود پاکستان کی معاشی صورت حال دن بدن بگڑتی چلی جارہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھ ہا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار ہے اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافے اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اشیا کی قیمتوں اور بے تحاشا لوڈشیڈنگ سے صنعت اور ترقی کا پہیہ رُکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، معیشت تنگ ہوکر رہ گئی ہے، اور پھر یہ سلسلہ کہیں رُکتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے علاوہ اس کا بنیادی سبب بھی سود اور قرضوں پر مبنی معیشت ہے۔ یہ سودی معیشت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کے ذمے ۱۲؍ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے، یعنی ہر پاکستانی ۶۰ہزارروپے کا مقروض ہے۔
قائداعظم نے محض اس مسئلے کی نشان دہی ہی نہیں کی تھی بلکہ اسلامی اقتصادی نظام کے نفاذ کے لیے عملاً اسٹیٹ بنک کا قیام عمل میں لائے اور اس کے شعبۂ تحقیق کو اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کے لیے عملی خاکہ اور ماڈل کی تیاری کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔ انھوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا:
[سٹیٹ بنک] کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا مَیں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچاسکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ برعکس اس کے گذشتہ نصف صدی میں دو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کی شکار ہے وہ ا س سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچا سکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلد چہارم، ص ۵۱)
یہ بات غور طلب ہے کہ اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر قائداعظم نے اسلام کے اقتصادی نظام کوتلاش کر کے نافذ کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اور یہ ذمہ داری اسٹیٹ بنک کے شعبۂ تحقیق کی لگائی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع جیسے علماے کرام کی موجودگی میں قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی ذمہ داری کیوں لگائی کہ اسلام کا اقتصادی نظام تلاش کرے؟
اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب تھے: ایک سبب تو یہ تھا کہ پاکستان جب بناتھا تو اس کا سٹیٹس ڈومینین (dominion) ( حکومت کے زیراثر )کا سا تھا نہ کہ ایک آزاد ملک کا۔ لہٰذا برطانیہ کے زیراثر ہونے کی وجہ سے وہاں کے قوانین ہم نے اپنا لیے اور آج تک ان پر عمل پیرا ہیں۔
دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر اگر انگلستان کے مالیاتی نظام کو جو کہ سودی نظام تھا،فی الفور ختم کردیا جائے تو پھر ملک کا اقتصادی نظام کیسے چلے گا؟ راتوں رات یہ تبدیلی ممکن نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کی ذمہ داری قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی لگائی۔ یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ سود حرام ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم سود نہیں لیتے تو متبادل نظام کیا ہو؟ یہ کام اسٹیٹ بنک ہی کرسکتا تھا۔ درس نظامی کے نصاب میں بنکاری بطور مضمون نہیں پڑھائی جاتی۔ اس لیے اس مسئلے پر علما پوری طرح نظر نہیں رکھتے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ایک اور عملی مسئلے کا بھی سامنا تھا۔ تقسیم کے بعد یہاں سے ہندو چلے گئے تو ایک ہزار شاخوں پر مشتمل بنکاری نظام جس میں کوآپریٹو بنک بھی شامل تھے، بیٹھ گیا۔ ان حالات میں قائداعظم نے سنٹرل بنک کے نظام کو اپنی بصیرت کے ذریعے اسلام کے اقتصادی نظام میں داخل کر دیا، اور اسٹیٹ بنک کے قیام کے ذریعے اس راہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔
اس طرح یہ تین بنیادی مسائل تھے جن کا ابتدا ہی میں پاکستان کے مالیاتی نظام کو سامنا تھا۔ آئین بنائے بغیر ڈومینین سٹیٹس کو خودمختاری کا اسٹیٹس نہیں مل سکتا تھا۔ اگر آئین بنتا تو کرنسی یا مالیاتی نظام کا متبادل پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت تک یہ مسائل حل نہ ہوئے تھے، لہٰذا قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی بنیاد پہلے رکھی تاکہ مالیاتی نظام وضع کیا جاسکے۔ جب آئین بنا تو اس میں سود کو حرام قرار دیا گیا لیکن اسٹیٹ بنک کا ایکٹ بنایا گیا تو اس کے آرٹیکل ۱۳ تا ۲۱ کے تحت سود کو تحفظ دے دیا گیا۔ بنکاری آرڈی ننس ۶۲ بنایا گیا تو اس کے سیکشن ۲۵ یا ۲۶ وغیرہ میں سود کو تحفظ دے دیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم آج تک سود کے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ یہ بات غور طلب ہے کہ قائداعظم کی بصیرت کیا تھی اور ہم نے کیا کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بنکاری کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی (’بنکاری نظام، ایک تاریخی جائزہ‘ آئی اے فاروق، ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۵ئ)۔ ۱۹۸۵ء میں ایس ڈی گوے ٹی ئین (S.D. Goitien) نے ایک کتاب Mediterranean Society (بحیرۂ روم کے خطے کا معاشرہ) کے نام سے لکھی۔ اس نے واضح طور پر لکھا ہے کہ بنکاری عربوں کا کھیل ہے (ص۳۲۵)۔ اگر ریاضی وجود میں نہ آتا تو بنکاری ممکن ہی نہ ہوتی۔ اگر صفر نہ ہو تو حساب کتاب ممکن نہیں اور کمپیوٹر کی اکائونٹس کی کمیونی کیشن ممکن نہیں ہے۔ صفر اور ریاضی کے ایجاد کرنے والے مسلمان ہیں۔
ملک کو درپیش معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے آج بھی یہی راستہ ہے کہ سود کی لعنت سے نجات حاصل کرتے ہوئے سود سے پاک اسلام کے اقتصادی نظام کو نافذ کیا جائے۔ بگڑتی ہوئی ملکی معاشی صورت حال کا تقاضا ہے کہ فوری اقدام اُٹھایا جائے۔ خدانخواستہ معیشت کی تباہی کے نتیجے میں کسی فوجی یلغار کے بغیر ہی ملک و قوم غلامی اور انحطاط و زوال سے دوچار ہوسکتے ہیں!
یہ بات باعث ِ حیرت ہے کہ جب ۲۰۰۴ء میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے لیے بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تو سخت ردعمل سامنے آیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ سود جو شرعاً حرام ہے اور قرآن نے اسے اللہ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، ملک کا آئین بھی اس بات کا پابندکرتا ہے، اور معاشی مسائل سے نجات کا ناگزیر تقاضا ہے، لیکن ارکان اسمبلی اس مسئلے پر تعاون کے لیے تیار نہ تھے۔ چار سال تک مختلف حیلوں بہانوں سے بل کو زیرالتوا رکھا گیا۔ اس کے حق میں آواز اُٹھانے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ۔ کبھی میٹنگ نہ ہوتی اور کبھی کورم پورا نہ ہوتا تھا۔ اگر کبھی میٹنگ ہوتی تو طرح طرح کے اعتراضات اُٹھائے جاتے۔ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے لوگ دھمکاتے تھے۔ سودخور مافیا کی طرف سے بھی دھمکیاں ملتی تھیں۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا اور منظور ہوا۔
’بیع سلم‘ اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا عملی ماڈل ہے۔ بیع سلم زراعت کو سود سے پاک کرنے کا وہ نظام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو حرام کرنے کے بعد متبادل کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ اس نظام میں کسان سے فصل پیشگی خرید لی جاتی ہے اور اسے رقم ادا کردی جاتی ہے۔ ایک معاہدہ یا عقد لکھا جاتا ہے جس میں فصل اُگانے سے قبل فصل کی کوالٹی، مقدار، قیمت اور فصل کی حوالگی کی تاریخ کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جاتا۔ کسان کو فصل کی قیمت ادا کردی جاتی ہے اور وہ بآسانی فصل کاشت کرسکتا ہے۔ یہ ایک آسان اور قابلِ عمل نظام ہے اور اس کے نتیجے میں سود اور اس کی بہت سی قباحتوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں کسانوں کا استحصال ختم ہوگا اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکے گا، وہاں بتدریج سود سے پاک اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کی راہ بھی ہموار ہوسکے گی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: ’بیع سلم‘ جسٹس ملک غلام علی، عالمی ترجمان القرآن، جنوری ۲۰۱۲ئ، ص ۱۹۶-۱۰۷۔ ’زراعت کی مالی ضروریات اور بیع سلم‘، آئی اے فاروق ، ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص ۷۷-۸۰)
’بیع سلم‘ کے تحت چونکہ کسان کو ایک معاہدے کے تحت فصل کی قیمت پیشگی ادا کی جاتی ہے، اس لیے اسے کٹائی کے بعد کئی کئی ماہ تک فصل کی قیمت کے انتظار سے نجات مل جاتی ہے۔ دوسری طرف یک مشت ادایگی کی بنا پر فصل کی کاشت پر لاگت بھی کم آئے گی اور کھاد اور زرعی ادویات وغیرہ بھی نقد ادایگی پر کسان کو سستی ملیں گی۔ حکومت خود بیع سلم کرے یا مختلف بنکوں یا کمپنیوں کے ذریعے بیع سلم کیا جائے اور پھر حکومت فصل خرید لے تو اس طرح آڑھتی جو کسان کا استحصال کرتا ہے، اس کا کردار بھی ختم ہوجائے گا۔ حکومت خود مارکیٹ میں گندم فراہم کرے گی تو ذخیرہ اندوزی کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ فصل کی کاشت پر لاگت میں کمی، آڑھتی کے کردار کے خاتمے اور حکومت کی طرف سے مارکیٹ میں فصل کی فراہمی کی وجہ سے آٹا، چینی اور چاول وغیرہ کی قیمتیں بھی کم ہوں گی جس سے عوام کو بھی براہِ راست فائدہ ہوگا اور سستی چیزیں ملیں گی۔
’بیع سلم‘ سے چھوٹے کسان جو کم زمین کی وجہ سے نقدآور فصل نہیں اُگا سکتے، ان کو بھی فائدہ ہوگا۔ چند کسانوں کی زمینوں کو یک جا کر کے بھی بیع سلم کیا جاسکتا ہے۔ اس کوآپریٹو فارمنگ کے نتیجے میں چھوٹا کسان بھی گندم اور چاول وغیرہ کاشت کرسکے گا۔ اسلامی بنکاری میں اجارہ سکیم کے تحت چھوٹے کسانوں کو ٹریکٹر، ٹیوب ویل اور دیگر زرعی ضروریات کی بلاسود فراہمی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔
بیع سلم کے نتیجے میں کسان اور بنک یا حکومت چونکہ فصل کے مالک ہوں گے، لہٰذا فصل کی بہتر کاشت، زرعی تحقیق اور جدید زرعی ٹکنالوجی سے استفادے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ اس سے میدانِ زراعت میں تحقیق اور نئی ٹکنالوجی اور جدید ذرائع اپنانے کا رجحان بھی آگے بڑھے گا جو زراعت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے بعدوزارتِ عشر اب صوبائی حکومت کے تحت ہے۔ لہٰذا اگر بیع سلم کے تحت زراعت کی سطح سے سود کے خاتمے کے لیے کوشش ہوگی تو اس میں مرکز یا اسٹیٹ بنک رکاوٹ نہیں بن سکتا۔دوسرا یہ کہ بیع سلم منصوبے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں مختلف اعتراضات اُٹھائے گئے، بیوروکریسی نے ٹیکنیکل اعتراضات اُٹھائے لیکن وضاحت کے بعد اس پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ اس کے قابلِ عمل ہونے کی رپورٹ (فزیبلٹی رپورٹ) بن چکی ہے، نفاذ کے لیے عملی ڈھانچا کیا ہوگا اس کی وضاحت بھی پیش کی جاچکی ہے، اور خود وزیراعلیٰ کو دو مرتبہ پریزنٹیشن دی جاچکی ہے۔ کسی بھی مرحلے پر یہ اعتراض نہیں اُٹھایا گیا کہ یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں ہے۔ اسی منصوبے کے تحت عشر بڑے پیمانے پر جمع ہوسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰؍ارب روپے تک عشر جمع ہوسکتا ہے، جب کہ گذشتہ سال حکومت نے ۱۶۰ ؍ارب روپے عشر جمع کیا تھا۔ علما کی طرف سے بھی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا بلکہ انھوں نے فتویٰ دے کر اس کی تائید کی ہے۔
بیع سلم منصوبے کے لیے بیرونِ ملک سے بھی پیش کش ہو رہی ہے۔ مڈل ایسٹ ڈویژن پول کے فنڈز ہیں۔ ان میں او آئی سی، آئی سسکو اور اسلامک ڈویلپمنٹ بنک شامل ہیں۔ یہ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ اس مَد میں وہ ایک ملین ڈالر فنڈ بلاسود دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زراعت کی سطح پر پہلی بار بیع سلم کے ذریعے بلاسود منصوبہ سامنے آیا ہے۔ اس طرح عالمی سطح پر بھی ایک تبدیلی کا آغاز ہوسکتا ہے اور عالمی بحران سے نجات کے لیے ایک راہ نکل سکتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومت اس منصوبے کی تائیداور نفاذ کے بجاے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔
معاشی خودانحصاری، آئی ایم ایف سے نجات، اور خاص طور پر بیرونی قرضوں کی ادایگی کی راہ بھی بیع سلم کے نفاذ سے ہموار ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرض دینے کا بڑا سبب عالمِ عرب کا سرمایہ ہے جو ان تک پہنچتا ہے۔ اگر ملک میں بیع سلم نظام کو نافذ کردیا جائے تو پھر عرب دنیا کے وسائل کا رُخ بھی پاکستان کی طرف ہوسکتا ہے۔ جیساکہ اُوپر ذکر کیا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ سے نجی شعبے کے سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ ان سے مضاربہ اور مشارکہ کی بنا پر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور ہم قرض کے بوجھ سے بھی نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ کر کوئی اقدام تو اُٹھائیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سی راہیں کھل سکتی ہیں۔
اس بحث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بیع سلم منصوبہ شرعی، تحقیقی اور عملی حوالے سے قابلِ عمل ہے۔ اس کے قابلِ عمل ہونے کی فزیبلٹی رپورٹ بھی پیش کی جاچکی ہے۔لیکن اب یہ بل بیوروکریسی کے روایتی تاخیری حربوں کی نذر ہورہا ہے۔ بیوروکریسی چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس میں سود کے عنصر کو شامل کیا جائے لیکن علما کے تحریری فتووں کی وجہ سے عملاً ایسا ممکن نہیں ہوپا رہا۔ یہ سود سے پاک نظام ہے۔ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں نہ صرف غریب کسان کے استحصال کا خاتمہ ہوگا بلکہ مہنگائی کے مارے عوام کو بھی سستی اشیا کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ اس اقدام کے نتیجے میں مالیاتی نظام تبدیل ہوگا اور سود کے نظام سے نجات کی راہ ہموار ہوگی۔حکومت پنجاب کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے بیع سلم کے نفاذ کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔ دینی و سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنایاجاسکے۔ عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے آگاہی بڑھ رہی ہے۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے علما، ماہرین اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مختلف کالم نگاروں نے اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاہم میڈیا کو مزید مؤثر انداز میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
آج دنیا میں جو اقتصادی بحران ہے وہ سود کی وجہ سے ہی ہے۔ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کا سبب قرض ہے۔ آج ہر چیز قرض پر مل رہی ہے۔گاڑی ہو یا ہوم فنانس، سب قسطوں پر مل رہے ہیں اور یوں یہ نظام مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی سرمایہ داری نظام اور سود کی لعنت سے نجات کے لیے آغاز بیع سلم سے ہوسکتا ہے۔ اس طرح قائداعظم نے اسلام کے اقتصادی نظام کو تلاش کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی تھی اس سے بھی عہدہ برآ ہوا جاسکے گا، اور ہم دنیا کے سامنے بھی اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً پیش کرسکیں گے۔
دنیا کی تمام معلوم تہذیبوں میں کسی نہ کسی شکل میں مذہب اور جنس کا تصور پایا جاتا ہے۔ مغربی مذہبی مفکرین عموماً اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ مذاہب سے صدیوں قبل بھی انسان کسی نہ کسی ماورا ہستی کی طرف اپنے تحفظ اور اپنی ضرریات کے حصو ل کے لیے متوجہ ہوتا تھا۔ ان تمام تہذیبوں اور مذاہب نے جنس کے بارے میں عموماً دو طرزِ فکر اختیار کیے۔ بعض تہذیبوں نے جنس کو نظرانداز کرنے کو روحانیت سے تعبیر کیا، اور بعض نے جنس کو قابلِ پرستش خیال کیا۔ کلاسیکل ہندوازم میں جنس پرستی مذہب کا ایک جزولاینفک رہی۔ دوسری جانب اسی شدومد کے ساتھ ہندوازم میں ایسے واضح رجحانات بھی موجود رہے ہیں جن میں جنس کو دبا کر اور بالخصوص عائلی زندگی کو ترک کرکے جنگل، بیابان یا صحرا اور پہاڑوں میں جاکر تجرد اختیار کرنے کو روحانیت کی معراج قرار دیا گیا ہے۔
یہ افراط و تفریط اور جنس کے بارے میں دو انتہائیںدیگر مذاہب میں ہی نہیں، مسلم معاشرے میں بھی نظرآتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنس کے موضوع پر بات کرنا، اور وہ بھی کھلی محفل میں، مہذب معاشروں میں عموماً معیوب اور غیراخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنس کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے کسی بھی انسانی معاشرے کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ پھر انسان کیا کرے؟ اسلام افراط و تفریط کی جگہ توازن و اعتدال کی راہ کو انسانیت کا منشور قرار دیتا ہے، اور اُمت مسلمہ کو ’اُمت وسط‘ کہنے کے ساتھ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں عدل کو اختیار کرے۔ اسی بنا پر اسلام کا تصورِ جنس مشرق و مغرب کے مروجہ تصورات سے بنیادی طور پر مختلف ہونے کے سبب ایک الگ تشخص کا حامل ہے۔
جدید دنیا یا دورِ جدید سے عموماً وہ دور مراد لیا جاتا ہے جو یورپ میں نشاتِ ثانیہ کے بعد مادہ پرستی ( Materialism)، افادہ پرستی (Utilitarianism)، انفرادیت پسندی (Individualism) اور لادینیت (Secularism) کی چار بنیادوں پر تعمیر ہوا۔ جدیدیت کے اس روایتی طرزِفکر نے اس تصور کی فلسفیانہ بنیادوں کو معرضِ بحث میں لاتے ہوئے ایک جدید تثلیث کو جنم دیا۔ یہ تثلیث اُس روایتی تصور سے بالکل مختلف تھی جس نے قرونِ وسطیٰ میں کلیسائی چرچ کو عروج دیا اور جس کی بنیاد عیسائی عقیدہ تھا۔ اس قدیم روایتی تثلیث میں خدا، روح القدس اور حضرت عیسٰی ؑ تین بنیادی عناصر تھے۔ نوجدیدیت نے جس تثلیث پر اپنی بنیاد رکھی اس میں اثباتیت (Positvism)، ارتقائیت (Evolutionism) اور جنسیت بنیادی ارکان قرار پائے۔ چنانچہ آگسٹ کومٹے August Comte(۱۷۹۸ئ-۱۸۵۷ئ) کی فکر نے مادے کی صداقت اور حسّی تجربے کی قطعیت کا پرچار کیا جس کی کوکھ سے کارل مارکس (۱۸۱۸ئ-۱۸۸۷ئ) کی فکر نکلی۔ ایسے ہی چارلس ڈارون (۱۸۰۹ئ-۱۸۸۲ئ) نے حیاتیاتی ارتقا (Biological Evolution) کو بنیاد بناتے ہوئے نہ صرف حیوانات و نباتات، بلکہ علومِ عمرانی میں بھی ارتقائی فکر کے متعارف ہونے کی راہ ہموار کردی۔ اسی دوران سگمنڈ فرائڈ (۱۸۵۶ئ-۱۹۴۰ئ) نے جنس، لاشعور اور تحت الشعور کی بنیاد پر انسانی رویوں اور طرزِعمل کی تعبیر کا تصور پیش کیا۔ نتیجتاً اس کی فکر میں شعوری عمل کی اہمیت کو کم اور تحت الشعور اور لاشعور کو زیادہ بنیادی مقام حاصل ہوگیا۔
جدیدیت (Modernity)، نوجدیدیت (Post Modernity) اور ماوراے نوجدیدیت (Beyond Post Modernism) کی تحریکات پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بعض اجزا مشترک نظر آتے ہیں۔ ان اجزا میں اوّلین مقام مادیت اور حسّی تجربے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے علم کو حاصل ہے۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یورپی فکر کے ان تینوں ارتقائی اَدوار کی بنیاد محدود اور قابلِ یقین تصورِ علم (epistimology)پر ہے جو حسّی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا اہم عنصر انفرادیت پسندی، اور اس سے ملحقہ تیسرا عنصر اخلاقی اضافیت (ethical relativism)ہے۔
یورپ میں جنس کے حوالے سے بیداری، آزادی اور انحراف کی فکری بنیاد حسّی تصورِ علم ہی ہے۔ اس بنا پر یورپ میں انسانی معاشرتی علوم کی بنیاد بعض ایسے مشاہدات پر رکھی گئی ہے جو بنیادی طور پر حیوانی مشاہدات کہے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ روایتی نفسیات کی بنیاد چوہوں کا بھول بھلیوں کے پیچ دار راستوں سے گزر کر پنیر کے ٹکڑے تک پہنچنا، انسانی نفسیات کے بہت سے مفروضوں کی بنیاد بنا۔ اس کے نتیجے میں انسان کا مخالف جنس کی طرف جبلّی طور پر ملتفت ہونا، یا انسان کا معاشی حیوان ہونا، یا انسان کا معاشرتی حیوان ہونا وہ اصطلاحات ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ مغرب میں علوم عمرانی انسان کو بنیادی طور پر حیوان تصور کرتے ہوئے اس کے رجحانات، ترجیحات، ضروریات، حاجات اور تحینات کا اندازہ قائم کرتے ہیں۔
دورِ جدید کی اس تثلیث میں انسانی تہذیب کو جن تین بنیادی ستونوں پر تعمیر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کا تعلق انسان کے وجود کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اسے بتایا گیا کہ انسان ایک ارتقا یافتہ حیوان ہے۔ اس لحاظ سے اس میں بے انتہا حیوانیت پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی اعمال بھی کرسکتا ہے۔ دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک معاشی حیوان ہے اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور معاشی فلاح ہونی چاہیے۔ تیسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک جبلی انسان ہے۔ اس کے اندر بعض instincts (فطری جبلتیں) اور drives (کچھ کرنے کا جذبہ) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ جو کام بھی کرتا ہے ان کی وجہ سے کرتا ہے۔
انسان فطری طور پر اقتدار اور قوت اپنی جبلی قوت کی بنا پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جرمنی کے بعض مشہور مفکرین نے جہاں اسے اپنی فکر کی بنیاد بنایا، وہاں فرائڈ نے یہ تصور پیش کیا کہ انسانی اعمال کے پسِ پشت ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے جس کا اصل مقصد اور اصل محور ایک ناقابلِ تعبیر (ineffable) چھپی ہوئی طاقت ہے جس کو آپ الفاظ سے واضح نہیں کرسکتے۔ فرائڈ اس کو Libido (مخفی قوت) کا نام دیتا ہے، اس کے مطابق یہ انسان کے ان تمام افعال کے پسِ پشت قوتِ محرکہ ہے جو وہ معاشرے میں کرتا ہے۔
ان تین بنیادی تصورات نے مغرب کی لادینی تہذیب کو اس کا تشخص دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام تصورات جو قدیم کہلاتے تھے، جن میں خاندان کی اقدار کا احترام تھا، معیشت کے حوالے سے یہ احساس تھا کہ وہ محض منفعت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور مقاصد بھی ہونے چاہییں، ان تمام چیزوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک ایسی تہذیب وجود میں آئی جس نے انسان کی حیوانیت کو، خواہ وہ انسان کی ساخت کی بنیاد پر ہو ، یا معاشی بنیاد پر، یا جنس کی بنیاد پر، انسان کی اصل پہچان قرار دیا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا اصل کارنامہ اس کا وہ تصورِ علم نظر آتا ہے جس نے روایت پرست انسان کو الہامی علم کے ذریعے توہمات سے نکال کر، حیوانیت کی سطح سے بلند کر کے اشرف المخلوقات قرار دیا، اور جنس کے موضوع کو بجاے ایک جبلت کے، یا ایک instinctive drive کے، ایک شعوری اور اخلاقی عمل قرار دیا۔ اس غرض کے لیے نہ صرف اخلاقیات کا ایک ضابطہ فراہم کیا گیا، بلکہ اس کے لیے اجر اور ثواب کو بھی متعین کردیا گیا، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس لحاظ سے یہ انقلابی فکر تھی جو اسلام نے پیش کی ، لیکن اس سارے کام کو کرتے ہوئے جو دائرہ کار مقرر کیا گیا وہ جنس کو آزاد کر کے اور اسے انسانی دائرے سے نکال کر نہیں، بلکہ جنس کو خاندان کے اخلاقی دائرے میں رکھتے ہوئے زیربحث لاتا ہے۔
آج جب جنسیت، sexulaity ، libido کی بات ہوتی ہے تو ہم اکثر مغربی فکر کے ارتقائی مراحل اور فکری پس منظر کو نظرانداز کرجاتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ جنس ایک مستقل موضوع ہے جو خاندان سے الگ ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ جنس پر اخلاقی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے بات کرے اور خاندان کے تناظر میں جنس کو زیربحث لائے۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کے ایک انعام کے طور پر، ایک امانت کے طور پر اور ایک احسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’اور اللہ ہی نے تمھارے گھروں کو تمھارے لیے سکون کی جگہ بنایا‘‘ (النحل ۱۶: ۸۰)۔ ایسے ہی فرمایا گیا: ’’اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ اس نے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔ بلاشبہہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں‘‘ (الروم ۳۰:۲۱)۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِنکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا۔
اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ رشتہ جو جنس کے ذریعے قائم ہونے جا رہا ہے، اس رشتے سے قبل ایک اخلاقی تعلق پیدا کیا جائے جو سکون، رحمت اور مؤدت کا ہو ، جس کے نتیجے میں انسانیت کو بھلائی مل سکے۔ یہ وہ فریم ورک ہے جو اسلام نے فراہم کیا ہے۔ اس فریم ورک میں رہتے ہوئے اس نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر حلال و حرام کے دائرے کو سمجھتے ہوئے لذت کا حصول ہو، تو وہ ایک بُری چیز نہیں ہے، بلکہ ایک اچھی اور مطلوب چیز ہے جو آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کرتی ہے، لیکن اس لذت کے حصول میں بھی اصل مقصد سامنے رہنا چاہیے۔
ہمارے ہاں یہ سوال بار بار اُٹھایا جاتا ہے کہ اگر دورِ جدید میں ہمیں جنسی بے راہ روی کو روکنا ہے تو اس کے لیے جنسی تعلیم لازمی کردینی چاہیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک منفی فکر کی علامت ہے۔ تعلیمی نصاب میں الگ سے جنسی تعلیم فراہم کرنا اور ’محفوظ طریقوں‘ سے اپنی خواہش پوری کرنا سکھانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ خود مسئلہ ہے۔ مسئلے کا اصل حل تعلیمی حکمت عملی ہے۔ جب تک ہم اپنے نصاب کے اندر خاندان کی اہمیت، خاندان کے حقوق اور فرائض کو شامل نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ سمجھنا کہ اگر بچوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ خاندانی منصوبہ بندی کیا ہوتی ہے، جنسی امراض کیا ہوتے ہیں اور ان سے کس طرح سے بچا جائے، اس سے ایک باعفت اور باعصمت معاشرہ وجود میں آجائے گا تو یہ سراسر ایک واہمہ ہے۔ یہ صداقت سے خالی مفروضہ ہے! اس لیے ہمیں اپنے فکری زاویے کو تبدیل کرنا ہوگا اور بجاے اس بات کو دہرانے کے جو مغرب بار بار کہہ رہا ہے، یعنی اگر ایڈز کے مہلک اور جان لیوا مرض کو روکنا ہے تو جنسی آگاہی ( sexual awareness) پیدا کی جائے، کنڈوم کلچر کو عام کیا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح سے محفوظ جنسی بے راہ روی اختیار کرسکتے ہیں(گویا ناجائز جنسی تعلق بجاے خود کوئی بُری بات نہیں ہے)۔ اس نوعیت کے تمام نعرے اسلامی تصورِحیات کے منافی ہیں۔ جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دے دیا ہو آخر اس کو ’محفوظ سیکس‘ کہہ کر کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ اختیار فرد یا معاشرے یا ریاست کو کس نے دیا ہے؟ گویا جو بات مغرب کہہ رہا ہے ہم اسے کسی بھی انداز میں کہیں، وہ نقصان ، خرابی اور تباہی کی طرف ہی لے کر جائے گی۔
مسئلے کو اصولی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ہمیں خاندان کی اہمیت کو اپنے نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔ قرآن و حدیث میں جہاں کہیں بھی جنس سے متعلق بات کی گئی ہے اس کا انداز تعلیمی اور اسلوب اخلاقی ہے۔ اسلامی فقہ طہارت، بلوغ اور اس سے وابستہ مسائل کا ذکر کرتا ہے اور ہر موقع پر حلال اور اخلاقی طریقوں پر زور دیتا ہے اور لذت کے حرام طریقوں کو فحش سے تعبیر کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی کا تعلق ہو یا ایک نوجوان کا شادی سے قبل صالحیت کے ساتھ زندگی گزارنا، اسلام زندگی کے ہر دور میں اخلاقی ضابطے کے ذریعے اس کی خواہشات کو تعمیری انداز میں ترقی کے موقع فراہم کرتا ہے۔
احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں سے ایک کا تعلق جوانی گزارنے سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے،ا س سے قبل نہیں۔حدیث یہ بھی تعلیم دیتی ہے کہ جب بچہ عمر کے اس مرحلے میں داخل ہو رہا ہو جب جنسی لذت کا احساس جنسِ مخالف کے جسم سے مَس کرکے ہوسکتا ہے تو بچوں کے بستر الگ کردیے جائیں۔یہ ایک مہذب طریقہ ہے جس سے بچے کو یہ احساس ہوگا کہ وہ اب بلوغ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ فقہی کتب کے ذریعے احتلام اور ماہواری کی تعلیم دینی فرائض میں سے ہے۔ ایسے ہی جسم سے فاضل بالوں کے صاف کرنے کا تعلق نہ صرف طہارت سے بلکہ اعضا کی صحت سے ہے۔ یہ سب اُمور تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے فقہ کے حوالے سے بغیر جنسی تعلق پیدا کرنے کی خواہش بیدار کیے سمجھائے جاسکتے ہیں۔ ان کے لیے پوشیدہ اعضا کی تصویرکشی کی نہ ضرورت ہے اور نہ حکمت۔
جنس کے حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی جنس کی بات کرتے ہیں تو اسے ہم عام طور پر خواتین سے وابستہ کردیتے ہیں لیکن انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنسی تعلق ان دو اکائیوں کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ جن میں سے ایک اکائی ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہرلحاظ سے پُرکشش بنایا ہے۔ اس بنا پر ہمارا ادب ہو یا زمینی حقائق، وہ اس کا انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس بنا پر صنفِ نازک کو کمرشلائز کردینا، اس کو ایک object بنا دینا، یہ لازمی طور پر ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے لازماً بچنا چاہیے۔ اسی طرح مرد کو بھی حُسن دیا گیا ہے۔ اس میں بھی کشش پائی جاتی ہے لیکن اگر مقابلتاً دیکھا جائے تو ہمارے ادب اور شعر کا مرکز اگر کوئی رہا ہے تو وہ خاتون ہی رہی ہے اور اس میں دونوں پہلو شامل رہے ہیں ، جمال کے بھی اور جنس کے بھی۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلامی تصورِ حیات کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کے بارے میں بجاے جنسِ محض ہونے کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی مخلوق کی حیثیت سے جسے اخلاقی وظیفے سے آراستہ کیا گیا ہے، غور کیا جائے۔ گویا برتری اور فضیلت کی بنیاد نہ محض جنسی کشش ہو، نہ کسی کا مونث یا مذکر ہونا بلکہ اخلاقی تفضیل۔ یہی وہ فضیلت و برتری ہے جسے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر وضاحت سے بیان کیا ہے۔ خصوصاً سورئہ احزاب میں (۳۳:۳۵) جہاں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاقی طرزِعمل کی بنیاد پر اجر و انعام کا وعدہ فرمایا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔
بچوں میں جنس کے بارے میں فطری طور پر تجسس ہوتا ہے جسے نہ دبانے کی ضرورت ہے نہ اُبھارنے کی، بلکہ تعلیمی نفسیات کی روشنی میں عمر کے مرحلے کے لحاظ سے تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کسی دوسرے کے اعضا کی طرف اس لیے نہیں دیکھیں کہ یہ گناہ ہے، اپنے اعضا کسی کو دکھائیں نہیں کہ یہ بھی اللہ کو پسند نہیں ہے۔ انھیں جس جنس میں پیدا کیا ہے اس پر اللہ کا شکر کریں اور بلوغ کے قریب، جب جنسی اعضا کا زیادہ احساس ہوتا ہے، ذمہ داری اور ضبطِ نفس کے ساتھ پیش آئیں۔ عصمت و عفت کی تعلیم اور شرم و حیا کا تصور دراصل جنسی تعلیم ہی کے اجزا ہیں۔ اس کے برخلاف جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر پانچویں اور چھٹی جماعت کے بچوں کو تولیدی عمل سے آگاہ کرنا انھیں پریشان خیالی اور بے راہ روی کی طرف لے جانے کا ایک بہت ’کامیاب‘ طریقہ ہے جس سے لازمی طور پر بچنا ہوگا۔ ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کو مل کر ان مسائل پر مناسب لوازمہ تیار کرنا ہوگا۔
بے خبری میں سرزد ہونے والا غیر قانونی قدم بھی قانون کی نظر میں جرم ہی قرار پاتا ہے۔ قانون اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ: ’’ملزم بے چارے نے بے خبری میں ارتکابِ جرم کیا تھا‘‘۔
اہلِ پاکستان کے سامنے مسلسل یہ ڈراما پیش کیا جا رہا ہے کہ حکمران تاریخ کا کوئی زیادہ گہرا شعور نہیں رکھتے، اس لیے جوشِ جذبات میں اگر وہ کوئی غلط اقدام کر بیٹھیں، تو انھیں کام کے دبائو اور بے خبری کی رعایت دے کر معاف کر دیا جاتا ہے___ یہ معاملہ اور یہ ظلم، اس مظلوم اور مجبور قوم کے ساتھ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ قوم اس لیے بھی ’مظلوم‘ اور ’مجبور‘ ہے کہ اس کے اکثر صحافی اور اینکر پرسن بے لگام ہیں، اور قوم کے معاملات میں ان کا رویہ ذاتی پسند و ناپسند کے گرد گھومتا ہے۔ اگر واقعی وہ قوم اور اہل وطن کے بہی خواہ ہوتے، تو نئی پود کے مستقبل کے اس تعلیمی قتل عام پر خاموش نہ بیٹھتے اور پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومتوں کی جانب سے انگریزی کی نام نہاد بالادستی کے ذریعے قوم کے برباد ہوتے ہوئے مستقبل کو یوں ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرتے۔ غالباً ہماری حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگو، اور ہر سراب کی طرف لپکو، چاہے یہ بھاگ دوڑ کسی کھائی میں ہی کیوں نہ جاگرائے۔
اس طرزِ عمل کا ایک افسوس ناک نمونہ، صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں سامنے آیا ہے اور وہ معاملہ ہے پنجاب بھر میں، پرائمری سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کا آمرانہ فیصلہ، جو نہایت عجلت میں بغیر سوچے سمجھے اور ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ سیاسی پارٹی نے اپنے ۲۰۰۸ء کے انتخابی منشور میں ’انگریزی ذریعۂ تعلیم‘ کی شق شامل نہیں کی تھی۔ پھر اس غیرحکیمانہ فیصلے کے نفاذ کا اعلان کرنے سے متوسط طبقے کی اس قیادت نے نے صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی پارٹیوں سے بھی کوئی تبادلۂ خیال نہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سوچا، یا کسی عاقبت نااندیش نے انھیں ایسا سوچنے کی راہ سجھائی اور موصوف نے فقط چند جونیئر، ناتجربہ کار بیوروکریٹوں سے مشورہ فرما کر، شاہانہ اعلان کر دیا کہ پنجاب بھر میں آیندہ تعلیم انگریزی میں ہوا کرے گی۔ یہ نہ سوچا کہ کیوں؟ اور پھر انگریزی کس طرح تمام بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن سکے گی؟
پنجاب کی صوبائی حکومت کا یہ حکم نامہ (۶۷) ۲۸مارچ ۲۰۰۹ء کو جاری ہوا: ’’چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے انگریزی میڈیم کے نام پر قوم کا استحصال کر رہے ہیں، اس لیے اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے نچلے درجے تک تمام اسکولوں میں انگریزی میڈیم کیا جا رہا ہے۔ یکم اپریل ۲۰۰۹ء سے منتخب اسکولوں میں انگریزی میڈیم میں تعلیم دی جائے گی۔ ‘‘
دو دن کے نوٹس پر حکمِ حاکم کی اطاعت کی معجزانہ توقع رکھنے والی حکومت نے ۱۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو اپنے اگلے حکم نامے نمبر ۱۷۶ میں نوید دی : ’’حکومت پنجاب ، ہر اسکول میں سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھائے گی۔ پہلے مرحلے میں ۵۸۸ ہائی اسکول، ۱۱۰۳ گورنمنٹ کمیونٹی ماڈل گرلز پرائمری اسکول، انگریزی میڈیم میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک یہ تعداد دوگنا کی جائے گی، اور آخر کار یکم اپریل ۲۰۱۱ء تک پنجاب کے تمام اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے مضامین انگریزی میں پڑھانے شروع کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہی حکم نامہ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے بتاتا ہے:’’ابتدائی درجے میں ۱۷۶۴ اسکولوں میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک انگریزی میڈیم میں تعلیم کا آغاز کر دیا جائے گا۔جس کے تحت: نرسری، اول اور دوم کلاسوں سے ان بچوں کو معلومات عامہ، ریاضی، سائنس کی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی‘‘۔
حکم نامہ چونکہ شاہانہ ہے، اس لیے پیراگراف نمبر ۵ میں خسروانہ عنایت کرتے ہوئے ان الفاظ میں اجازت عطا کرتا ہے: ’’ یہ بات صاف لفظوں میں بیان کی جاتی ہے کہ پرائمری سے لے کرہائی اسکولوں تک کے ہیڈماسٹر صاحبان، اس امر کے لیے مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ انگریزی میڈیم کو نافذ کرنے کے لیے انھیں کسی اتھارٹی سے اجازت لینے کے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ (no permission is required from any authority for this purpose)
یہ اور اس قسم کے حکم نامے، اعلانات اور اخبارات کو جاری کردہ کروڑوں روپے کے اشتہارات نے پرویز الٰہی دور کی ’پڑھا لکھا پنجاب‘ مہم کی یاد تازہ کردی ہے۔ جنابِ وزیر اعلیٰ اس کارنامے کی انجام دہی کے وقت بھول گئے کہ ایسی حماقت اُن سے قبل ۱۹۹۴ء میں اقلیتی پارٹی کے پیپلز پارٹی نواز وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو فرما چکے تھے، اور یہ غنچے کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئے تھے، یعنی معاملہ رفت گذشت ہوگیاتھا۔ معلوم نہیں کس دانش مند نے انھیں یہ سبق پڑھایا کہ انگریزی میڈیم کا اعلان کر دینے سے طبقاتی نظام تعلیم کے فسادِ آدمیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جس چیز نے پہلے ہی قومی وجود کو سرطان زدہ کر رکھا ہے، اس غیر حکیمانہ اور تعلیمی دانش سے عاری اقدام سے جسدِ اجتماعی پر فسادِ خون مکمل طور پر حاوی ہوجائے گا۔
بچے کو اگر بچپن ہی سے اپنی زبان میں سوچنے اور اپنی زبان میں بات کرنے سے روک دیں گے تو اس طرح آپ نہایت سفاکی سے، اس کے تخلیقی وجود کو قتل کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ دنیا کی کون سی قوم ایسی ہے، کہ جس نے سائنس، ٹکنالوجی، میڈیکل، عمرانیات اور ادبیات میں اپنی زبان کے علاوہ کسی بدیسی زبان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو؟ تخلیق کا جو ہر تو کھلتا ہی اُس زبان میں ہے، جو آپ کے خواب اور آپ کے ماحول اور معاشرت کی زبان ہوتی ہے، اور جس میں آپ بے تکلف تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔
پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحقیق سے متعلق تمام شعبہ جات میں کام کرنے والوں میں انگریزی میڈیم کے تعلیم یافتہ طبقے کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حاکمانہ وسیلے سے انگریزی میڈیم چہروں کو اداروں کی سربراہی سونپ دی جاتی ہے، لیکن نیچے اتر کر دیکھیں تو سائنسی،زرعی، ایٹمی، اسلحہ سازی، میڈیکل، عمرانی علوم، صحافت اور اچھی تعلیم کے دیگر شعبہ جات تک میں نہایت بڑی تعداد انھی دیسی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی ہے۔ نہ صرف یہ لوگ اس سخت ناہموار اور ناقدر شناس ماحول میں کام کر رہے ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کو کسی نہ کسی درجے میں آزادی اور عزت کا سانس لینے کی نعمت بھی عطا کر رہے ہیں۔
وہ مسلم لیگ جس کی سربراہی قائداعظمؒ نے کی، اور جنھوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد: ’’اسلام، مسلم قومیت اور اردو زبان‘‘ پر رکھی تھی،انھی قائد محترم کی نام لیوا پارٹی، وطن عزیز میں جہالت اور بے خبری کے اندھیروں کو گہرا کرنے کے لیے انگریزی میڈیم کے نام پر تعلیمی بربادی کے غیر شریفانہ اقدام کا باعث بن رہی ہے۔ خادمِ اعلیٰ ذرا معلوم کرکے دیکھیں تو سہی کہ اُن کے اس ایک فیصلے نے کتنے لاکھ بچوں کی آنکھوں سے علم کا نور چھین لیا ہے۔ اُن کے اس ایک تجربے نے کتنی زندگیوں کو تعلیم اور تخلیق کی نعمت سے دور کر دیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزی میڈیم کے نام پرجو ڈراما ہمارے معاشرے کے اسکولوں میں اسٹیج کرکے والدین کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، اسے کسی کمیشن کے ذریعے تحقیق و تجزیے کے تحت دستور پاکستان اور شہداے پاکستان کی امنگوں کے مطابق ڈھالا جاتا اور سرکاری اسکولوں کو یتیم خانوں کے بجاے تعلیم گاہوں میں تبدیل کیا جاتا، اُلٹا ان اداروں کو بے تعلیمی کی آماج گاہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان اداروں کو سنبھالا دینے کے بجاے پرائیویٹ شعبے کو اندھی چھوٹ دینے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر اقدام کیے جارہے ہیں (بذاتِ خود پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے کروڑوں روپے کے وظائف اس مقصد کے لیے جھونکے جا رہے ہیں کہ سرکاری اسکول ختم ہوں اور نام نہاد انگریزی میڈیم نجی اسکول قائم ہوں بلکہ پھلیں پھولیں)۔ اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کرکے تعلیم کو بازیچۂ اطفال بنانے والوں کے پیچھے غالباً کوئی اور بھی ہے۔ اندازہ ہورہا ہے کہ سرکاری اداروں کو برباد کرنے والے، تعلیم دشمن بڑی تعداد میں ہمارے اردگرد منڈ لا رہے ہیں۔
اس سارے قضیے میں ایک اور معاملہ گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت تو جمہوریت کے نام پر قائم ہے مگر تعلیم کے معاملات میں فیصلے محض دوچار بے دماغ افراد کی آمریت کرتی ہے۔ فوجی آمریتوں پر چار حرف بھیجئے، بجا ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ یہی کہ صوبائی اور مرکزی حکومت میں صرف دو چار افراد اپنی من مانی کرتے، حکومت چلاتے اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمانی نظام حکومت کی اصل خوبی یہی ہے کہ اُس میں چیزیں، کہیں زیادہ وسیع مشاورت کے ساتھ طے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں سول پارلیمانی جمہوری حکومتوں کا مرغوب طرزِ حکمرانی بھی فوجی آمروں کا سا ہے۔ اس رویے نے جمہوری نظام کو نام نہاد جمہوری اور دراصل آمرانہ جمہوری تماشے میں بدل دیا ہے۔ضرورت یہ ہے کہ ناتجربہ کار، غلامی کے رسیا اور شہزادگی کے خوگر حکمرانوں کے بجاے جہاں دیدہ، مستقبل بین، دانش مند اور زیرک حکمران اور سول سرونٹ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوں۔ بھارت نے اب سے ۵۵ برس پیش تر زبان کے مسئلے پر اپنی قومی پالیسی مرتب کر لی، مگر ہمارے ہر دستور نے آج کے کام کو کل پر ڈال کر اپنا بوجھ اگلے لوگوں پر ڈال دیا اور آنے والے راہ فرار اختیار کر بیٹھے۔ اس مسئلے میں دیکھیے: کہ ۱۹۶۲ء کے دستور میں کہا گیا تھا: ۱۹۷۲ء تک اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہو جائے گی (ظاہر ہے کہ ذریعۂ تعلیم اس کا حصہ ہونا تھا، مگرعمل نہ ہوا)۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں طے کیا کہ :۱۹۸۸ء تک اردو سرکاری زبان ہو گی، لیکن جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۲ء میں (خدا جانے کس مجبوری یا مصلحت کے تحت)نجی اور انگریزی میڈیم سرکاری اداروں کو کھلی چھوٹ دے کر اس سب کیے کراے پر پانی پھیر دیا۔ ازاں بعد آنے والے بھٹو اور شریف خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا۔
قیام پاکستان کے بعد بظاہر گورے انگریز حاکموں سے جان چھوٹ گئی، لیکن ان کے جاتے ہی انگریزی کی حاکمیت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس حاکمیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ مقابلے کے امتحانات اور ترقی کے مواقع کو انگریزی سے اس طرح مربوط کر دیا گیا کہ ملک کالے اور کرپٹ انگریزوں کی سفاکانہ حاکمیت میں سسکنے لگا۔ آج عدالتوں ، دفتروں، افواج اور کاروبار ریاست کی زبان انگریزی ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ استعماری حاکمیت کو دوام ملے۔ اگر اردو کو اس طرح دن دیہاڑے قتل کرنے کا عمل یوں ہی جاری رہا، تو وہ ملک جو پہلے ہی ہچکولے کھا رہا ہے، انتشار اور افتراق کے گہرے عذاب سے کبھی نہ نکل سکے گا۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کے جسدِ ملی کو یہ زخم کسی دشمن ملک کے جرنیل یا ان کے آلہ کار سیاست دان نہیں لگا رہے، بلکہ محب وطن مگر نادان حکمران یہ ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں، جو سنجیدگی کے ساتھ کسی مسئلے پر مشاورت کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنی سوچ کی کچی پکّی لہر کو حکم نامے کی شکل دے کر نافذ کردیتے ہیں۔
سید غلام اکبر (۱۶ مارچ ۱۹۳۵ئ-۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ئ) ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ مختلف بیماریوں کے شکار ہونے کے باوجود اُن کی خوش مزاجی میں آخر وقت تک کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔شگفتہ مزاجی اُن کی شخصیت کا حصہ تھی۔ تعلیم اور پیشہ کے لحاظ سے مکینیکل اور الیکٹریکل انجینیر تھے ۔ حیدرآباد سے انجینئرنگ کی دو ڈگریاں حاصل کر نے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے روس گئے اور اینٹی کروزین انجینئرنگ میں تخصص کیا۔ روس میں تعلیم کے دوران روسی زبان کی بول چال میں اتنی مہارت حاصل کر لی، کہ اس لیاقت کی وجہ سے کلکتہ کی ایک بڑی کمپنی جس کے معاملات روس کی ایک کمپنی سے تھے، اس میں اُنھیں اچھی ملازمت ملی ۔ کلکتہ کے قیام کے دوران ہی وہ جماعت اسلامی سے زیادہ قریب ہوئے۔ یوں تو جماعت سے اُن کی قربت پہلے سے تھی اور اسی وجہ سے دفتر حلقہ مغربی بنگال شام کے اوقات میں اکثرجایا کرتے تھے اور اپنے مزاج کے مطابق وہاں کا ماحول گلزار بنا رہتا تھا۔ ایک شام اُس وقت کے امیر حلقہ عبدالفتاح مرحوم نے ان سے فرمایا: ’’ایسا لگتا ہے کہ آپ نے جماعت کا قریبی مطالعہ نہیں کیاہے۔ آپ یہاں مکتبے سے جماعت کی رودادیں خرید لیں اور اُن کامطالعہ کرلیں تو اچھا ہے‘‘۔ موصوف نے رودادیں حاصل کرلیں اور اُن کا مطالعہ کر ڈالا۔ اُن کے مطالعے اور تحریر و تقریر کی رفتاربہت تیز تھی۔ جس تیزی سے ان کا ذہن کام کرتا تھا اُسی تیزی سے وہ گفتگو کرتے تھے اور قدم بھی ویسے ہی تیز اُٹھاتے تھے۔
رودادجماعت کے مطالعے کے بعد ان کا تحریک سے رشتہ پختہ شعور کے ساتھ قائم ہوگیا۔ ۱۹۹۱ء میں جماعت کے رکن بن گئے۔ رودادجماعت کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ یہ اپنے قاری کے اندر تحریکی شعور اور اسپرٹ پیدا کر دیتی ہے۔ ا س کے مطالعے کے بغیر تحریکی شعور میں پختگی نہیں آتی اور نہ کام کی صحیح اسپرٹ کا رکن کے اندر پیدا ہو پاتی ہے۔ موصوف کو مطالعے کا شوق تھا۔ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ مختلف علوم و فنون پر جو بھی کتاب ملتی، اسے خریدتے بھی اورپڑھتے بھی۔ ان کا ذاتی دارالمطالعہ کئی الماریوں پر مشتمل تھا۔ دینی و تحریکی لٹریچر کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ قرآن کی تفاسیر ، سیرت پر مختلف مصنفین کی کتابیں اور احادیث کی مختلف کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کا لٹریچر جو بھی اردو و انگریزی زبان میں دستیاب تھا بالعموم ان کے مطالعے میںآچکا تھا، اور تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات او رتبادلۂ خیال کا اُنھیں شرف حاصل ہو اتھا۔ علمی موضوعات پر اہل علم اور اہم شخصیات کو بھی اُن سے تبادلۂ خیال کرنے میں خوشی ہوتی تھی۔ ان کے روابط ہندستان، پاکستان ،بنگلہ دیش، سری لنکا ، کشمیر ، ایران ، ترکی، سوڈان، ملایشیا، انڈونیشیا، عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک ، برطانیہ ، امریکا ، کنیڈا وغیرہ کے تحریکی افراد و ذمہ داران اور بعض دیگر اہم شخصیات اور بعض ممالک کے سربراہان سے بھی رہے ۔ لوگ ان سے گرچہ جماعتی رشتے سے متعارف ہوتے تھے لیکن اُنھیں شخصی طور سے بھی یاد رکھتے تھے۔
میٹھے کے بہت شوقین تھے۔ شوگر کے مریض ہونے کے باوجود مٹھائیوں کا بہت کثرت سے استعمال کرتے تھے اور اس میں بھی اُن کا اعلیٰ ذوق نمایاں تھا۔ عمدہ قسم کی کھجور اکثر استعمال میں رہتی تھی، خوب کھاتے تھے اور خوب کھلاتے تھے، بلکہ کھانے سے زیادہ کھلانے کا شوق تھا۔ جیب میں ہمیشہ عمدہ قسم کی ٹافیاں بھری رہتی تھیں اور راہ چلتے بچوں پر بھی اس کی عنایتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے پیر کے زخم نے جب خطرناک صورت اختیار کر لی تو ڈاکٹر نے کہاکہ اب میٹھا لازماً چھوڑنا پڑے گا ورنہ اگر دوا سے تین چار دنوں میں مزید یہ انفکشن نہ رکا توپیر کاٹنا پڑے گا۔ وہ اس احساس سے بہت مغموم نظر آئے کہ اپاہج ہو کر زندہ رہنا پڑے گالیکن چند ہی گھنٹوں میں وہ اس احساس سے باہر نکل آئے اور مٹھائی منھ میں رکھتے ہوئے خوش مزاجی سے فرمایا کہ پیر کٹنے سے زیادہ غم اس بات کا رہے گا کہ ایک پیر کی خاطر مٹھائی کی نعمت سے محروم ہو گیا اور یہ مجھے منظور نہیں۔ کہتے تھے میٹھے سے توبہ کرنے کے بجائے میٹھاکھا کر توبہ کی جائے تو بارگاہ الٰہی میں زیادہ مقبول عمل ہوگا اور جنت میں کھانے کے لیے میٹھا ہی ملے گا۔ اس لیے اس کی مشق نہیں چھوٹنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں شہد کی نہروں کے قریب رکھے اور من پسند میٹھے پھل عطا فرمائے۔ آمین!
شوگر کے مرض نے ان کے اعضاے رئیسہ کو بھی متاثر کر رکھا تھا، قلب و جگر کے ساتھ ساتھ گردہ بھی متاثر ہو گیا تھا۔ سوفی صد پیس میکر (pacemaker) پر تھے۔ اس کے باوجود دل کے آپریشن کرانے پڑے تھے اور ایک سے زیادہ مرتبہ ہارٹ اٹیک کے شکار ہو چکے تھے ۔اُن کا انتقال بھی ہارٹ اٹیک ہی کی وجہ سے ہوا ،گرچہ انھیں اسپتال میں گردہ کی ڈایلیسس کے لیے داخل کرنا پڑا تھا لیکن وہاں پہنچ کر اُن پر قلب کا جان لیوا حملہ ہوا۔ ۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون
کلکتہ کی ملازمت کے بعد موصوف نے بوکارو اسٹیل پلانٹ میں، جو اُس وقت ریاست بہار میں تھا اوراب جھارکھنڈ میں ہے، کئی سال ملازمت کی ۔اس کے بعد سعودی عرب تشریف لے گئے اور ریاض میں وزارتِ داخلہ میں ایک طویل عرصے تک بحیثیت انجینئر ملازمت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری سابق امیر جماعت اسلامی ہند کی قیادت میں، جب کہ وہ ریاض یونی ورسٹی میں استاد کے فرائض انجام دے رہے تھے، جماعتی رفقا کو منظم کرنے میں نمایاں کردار کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب ہندستان واپس آگئے تو سعودی حلقے کی نظامت کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی ۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا جب سعودی حکومت کا رُخ جماعت کے لوگوں کے خلاف ہوگیا تو بعض دیگر رفقا کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور قیدوبند کے اس مرحلے میں اُن کے رویے اورصاف گوئی سے تعینات افسر بہت متاثر رہا۔ چنانچہ وہ اُن سے برابر معافی طلب کرتا رہا اور حکومت کے احکام کی وجہ سے اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتا رہا۔
جب سعودی حکومت نے انھیں ملک سے نکالنے کا حکم جاری کیا تو بہت ہی عزت و احترام کے ساتھ انھیں ہوائی جہاز تک پہنچایا۔ حکومت نے ان کی ملازمت کے سارے حقوق سلب کر لیے اور وہ تقریباً خالی ہاتھ اپنے وطن لوٹے اور اپنی خدمات مرکز جماعت کو پیش کر دیں، حالانکہ انھیں یہاں بعض کمپنیوں نے اچھی تنخواہ کی پیش کش کی لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں کیااور بہت ہی قلیل اعزازیے پرسکریٹری تنظیم اور سکریٹری مالیات مرکز کے فرائض انجام دینے لگے۔ اس ذمہ داری پر تقریباً ۱۴ سال مامور رہے۔ شعبہ تنظیم اور شعبہ مالیات کے استحکام میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ اس دوران میں انھوں نے جماعت کی مالیات کے استحکام کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، بیماروں اور ہر طرح کے ضرور ت مندوں کے مسائل کو حل کرنے میں بڑی فکر مندی کا مظاہرہ کیا۔ جماعت کے معمولی کارکن سے لے کر بڑے سے بڑے ذمہ دار سے گہرا ذاتی تعلق رکھتے تھے اور سب کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لینا اور اُن کے کام آنا موصوف کا معمول تھا۔ ہر شخص ان سے اپنائیت کا احساس رکھتا تھا۔ اپنوں سے لے کر غیر تک ان سے امیدیں وابستہ رکھتے تھے اور کوئی مایوس ہو کر نہیںجاتا تھا۔ اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی جیب سے بھی ضرور ت مندوں کی مدد کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ لُٹنے اور لٹانے میں انھیں مزہ آتا تھا۔ حساب دانی میں بڑی مہارت تھی لیکن اپنے ذاتی پیسے بے حساب خرچ کرتے تھے ۔ ملک و بیرون ملک کی اونچی تنخواہوں والی ملازمت کے باوجود آخر تک اپنا کوئی مکان بنا سکے اور نہ کوئی قطعۂ زمین خریدا ، کرایے کے مکان سے ہی جنازہ اٹھا۔
سید غلام اکبر صاحب ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ کے بھی سکریٹری تھے۔ اس ٹرسٹ کے تحت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزکے فروغ کی بھی اُنھوں نے کامیاب کوشش کی۔ اس ٹرسٹ کے تحت قائم الشفاء اسپتال کی مینیجنگ کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے اور اسپتال کے قیام میں بھی اچھا کردار ادا کیا۔
موصوف کے لباس، وضع قطع اور دسترخوان کا معیار بھی بہت بلند تھا اور مہمان نوازی کا جذبہ بھی خوب تھا ۔ حیدرآباد میں رہتے اور کوئی وہاں پہنچتا اور جب وہ دہلی آتے اور کوئی یہاں آتا تو اس کی مہمان نوازی ضرور کرتے۔ ہم لوگ جب جماعت کے کام سے حیدرآباد جاتے اور شدید بیماری کی حالت میں ان کی عیادت کے لیے جاتے تو اُس وقت بھی بہ اصرار ایک وقت کے کھانے کی دعوت دیتے اور اس حالت میں بھی، جب کہ ان کے لیے بیٹھنا مشکل ہوتا خود بیٹھ کر پُرتکلف کھانا کھلانے سے باز نہ آتے تھے۔
اپنے ذاتی حالات اور معاملات و مسائل میں وہ بالکل بے فکر رہتے، لیکن جماعت کے معاملات و مسائل کی فکر ہر آن دامن گیر رہتی۔ بارہا جماعتی احوال پر گفتگو کرتے وقت انھیں آب دیدہ ہوتے دیکھا ہے ۔ذاتی معاملے میں انھیں صرف اُس وقت پریشان اور فکر مند دیکھا جب ڈاکٹر نے اُن کی اہلیہ محترمہ کو کینسر کے مرض کی تشخیص کی ،لیکن اس فکر مندی پر بھی انھوں نے جلد قابو پا لیا اور اُن کے علاج پر خصوصی توجہ دے کر الحمدللہ انھیں اس موذی مرض سے نجات دلائی۔ اُن کی بیوی بھی اُن کی بہترین رفیقۂ حیات ثابت ہوئیں۔ بہت ہی خاموش طبع اور خوش اخلاق اور شوہر کا ہرحال میں ساتھ دینے والی۔ بہت بڑے گھرانے سے آئی تھیں، محل نما مکان سے شوہر کے کرایے کے معمولی مکان میں آئیں اور پوری زندگی اسی حال میں گزار دی ۔دونوں بچے بھی ما شاء اللہ شاکر او رناصر اسم بامسمیٰ اور سعادت مند نکلے۔ تینوں بچیاں اور داماد بھی اُن سے بڑے بے تکلف اور اُن سے خوب پیار کرنے والے ملے ۔وہ بھی بیٹی داماد، پوتے پوتی، نواسی نواسے سب سے بہت بے تکلف رہتے تھے۔ ان سب سے اسی طرح ہنسی مذاق کرتے جیسے بے تکلف دوستوں سے کرتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ خلوت و جلوت ہر جگہ وہ باغ و بہار رہتے اور ماحول کو گلزار بنائے رہتے ۔ یقینا اُن کی یاد بہت دنوں تک ستاتی رہے گی اور انھیں بھولنا تو ممکن ہی نہیں۔
انسان کی خوبیاں اور خامیاں یا تو معاملات میں نمایاں ہوتی ہیں یا ہم سفری میں۔ معاملات کے تو الحمد للہ وہ صاف تھے ہی، کبھی کسی سے اُن پر کسی معاملے میں کوئی دعویٰ تو درکنار شکوہ بھی کرتے نہیں سنا گیا۔ کئی اسفار میں اُن کا ساتھ ہوا۔ ملک و بیرون ملک ہر جگہ سفر کے بہترین ساتھی ثابت ہوئے ۔ ہر وقت اپنے سفر کے ساتھی کا خیال اپنی ذات سے کہیں زیادہ رکھتے۔
اُن کے تعلقات اصحاب خیر سے خصوصاً بیرون ملک میں اچھے خاصے ہو گئے تھے، لیکن کبھی کسی سے کوئی ذاتی منفعت حاصل نہیں کی ۔ تحائف قبول کرنے میں بھی محتاط رہتے ۔ جماعتی وقار کا ہمیشہ خیال رہتا۔ جماعت کا تعارف ایسے احسن انداز میں کراتے کہ جماعت کی مالیات کے لیے لوگ پیش کش کرنے پر تیار ہو جاتے، لیکن ان کی طرف سے استغنا کا مظاہرہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے لوگ اُن کا بہت احترام کرتے تھے۔
کویت کی معروف صاحب ِخیر شخصیت شیخ عبداللہ علی المطوع مرحوم کو اُن کا غیر معمولی عقیدت مند پایا۔ لوگ ھیتہ الخیریہ کی میٹنگ میں شیخ مطوع سے ملنے کے لیے کوشاں تھے اور شیخ مطوع میٹنگ سے فارغ ہو کر شیخ اکبر شیخ اکبر پکارتے ہوئے سید غلام اکبر صاحب کے پیچھے دوڑتے نظر آئے۔شیخ مطوع کے انتقال کے بعد اُن کے صاحب زادے کا فون آیا کہ اُن کے والد نے اپنی ڈائری میںیہ لکھا ہے کہ خیر کے کاموں میں امداد کے سلسلے میں جو نام اُن کی ڈائری میں نہ ملیں ان افراد یا اداروں سے کیا اور کتنا تعاون کیا جائے، اس کے لیے مشورے میں سید غلام اکبر صاحب سے بھی رجوع کرو، چنانچہ بہ ا صرار انھیں کویت بلایا اور اُن سے مشورے کیے۔
موصوف بہت ہی خو ش خط اور خوش کلام تھے۔ بڑی مؤثر اور پوری تیاری کے ساتھ تقریر کرتے تھے۔ تقریر میں دلائل اور جذبات دونوں کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔ تربیتی تقریر میں اکثر اُن پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور سامعین بھی آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ گجرات کے فساد کے بعد جب ہم لوگوںکا امریکا کا سفر ہوا، تو ہم جہاں کہیں بھی گئے اُن کی تقریر خواہ اُردو میں ہو یا انگریزی میں یکساں طور پر سامعین ان سے متاثر ہوتے اور اُن کی پیش کش کے انداز سے اس قدر متاثر ہوتے کہ بغیر کسی اپیل کے بڑھ بڑھ کر ریلیف کے لیے رقوم پیش کرتے ۔
حفظ مراتب کا بڑا خیال رکھتے ۔ عمر میں بہت بڑے ہونے کے باوجود اتنے احترام اور محبت سے پیش آتے کہ شرمندگی ہوتی۔ اُن کی وضع داری اور انکسار میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔ جب انسان زیادہ قریب ہوتا ہے اور بے تکلفی بڑھ جاتی ہے تو انسان کے کمزور پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ انسان خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ جب کوئی اُن کی کسی کمزوری کی نشان دہی کرتا تو بڑی خندہ پیشانی سے اُس کا اعتراف کرتے اور کھلے دل سے اظہار معذرت کرتے۔ اُن کی یہ ادا بہت پسند آتی۔
یقینا ہماری طرح اُن کے اندر بھی کمزوریاں تھیں لیکن میرا خیال ہے کہ اگر جائزہ لیاجائے تو اُن کی کمزوریوں پر اُن کی خوبیاں بہت بھاری تھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور بھلائیوں کا پلڑا بھاری رکھے۔ اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے،اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین!جس وقت نماز جنازہ ہو رہی تھی، اُن کی میت ایک درخت کے سایے میں رکھی تھی اور درخت پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ بار بار خیال آرہا تھا اللہ تعالیٰ نے گویاانھیں بھی موصوف کے حق میں تسبیح و مناجات کی ہدایت فرمادی ہے۔ نماز جنازہ اُن کے بڑے لڑکے شاکر سلمہٗ نے پڑھائی جو انجینئر بھی ہیں اور حافظ قرآن بھی ۔ موصوف کے دونوں ہی بیٹے رکن جماعت ہیں۔ موصوف گرچہ دنیا سے خالی ہاتھ گئے لیکن سرمایۂ آخرت صالح اولاد کی شکل میںچھوڑ گئے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ صدقۂ جاریہ ثابت ہوں گے اور اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا ہی خوش نصیب بنائے۔ آمین!
مضمون نگار نائب امیر جماعت اسلامی ہند ہیں
اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن جنوبی افریقہ کی طرف سے ان کے سالانہ کنونشن میں شرکت کا دعوت نامہ کافی دن پہلے مل چکا تھا۔ کنونشن سے قبل کئی ایک دیگر پروگرام بھی منتظمین نے طے کررکھے تھے۔۱۴؍اپریل کوجوہانس برگ پہنچا ۔ ۳۰؍اپریل کو تین دن کے لیے جوہانس برگ سے نیروبی گیا۔ یہ تین دن صبح شام مصروفیت میں گزرے۔ اسلامک فاؤنڈیشن، ینگ مسلم ایسوسی ایشن اور دیگر اسلامی تنظیموں نے کئی پروگرام مرتب کررکھے تھے۔ ۴ مئی کو واپس جوہانس برگ پہنچا۔ ایک دو پروگرام جو رہتے تھے، بالخصوص پریٹوریا میں اسلامک سرکل کے اجتماع میں حاضر ی دی۔ نیروبی کا قیام مختصر مگر بہت دل چسپ تھا، تاہم اس کے بارے میں کچھ کہنے کی یہاں گنجایش نہیں۔ ان سطور میں انتہائی اختصار کے ساتھ جنوبی افریقہ کے کچھ احوال پیش خدمت ہیں۔
براعظم افریقہ کا سب سے طاقت ور اور موثر ملک جنوبی افریقہ ہے۔ سفید فام اقلیت سے ۱۹۹۴ء میں آز ادی کے بعد اس کا سرکاری نام بھی ری پبلک آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ یہاں برطانوی سامراج کئی صدیوں تک مسلط رہا۔آج سے ایک صدی قبل مقامی سفید فام لوگوں نے جن کا مجموعی آبادی میں تناسب ۲۰سے ۲۵فی صد تھا، یک طرفہ طور پر برطانوی سامراج سے علیحدہ ہوکر اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ کم وبیش ایک صدی تک ان لوگوں نے مقامی آبادی پر نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے ذریعے بے انتہا مظالم ڈھائے۔ سب سے زیادہ آبادی مقامی افریقی لوگوں کی تھی، دوسرے نمبر پر سفید فام، تیسرے نمبر پر مخلوط نسل جن کو کلرڈ کہا جاتا ہے، اور سب سے چھوٹی اقلیت ایشیائی آبادی پر مشتمل تھی جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ یہ مسلمان ہندستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاقوں سے مختلف وجوہات کی بنا پر وہاں منتقل ہوئے تھے۔ افریقی بلکہ غیر سفید فام تمام آبادی، ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم تھی۔ ان کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔
بیسیویں صدی کے آغاز ہی سے آزادی کے لیے لوگوں نے خفیہ طو رپر جدوجہد شروع کردی تھی۔ اس صدی کے پانچویں عشرے میں باقاعدہ تحریک آزادی نے اپنا وجود قائم کیا اور خود کو منوایا۔ نیلسن منڈیلا قومی وحدت کی علامت بن کر ابھرا اور تمام مظلوم طبقات اس کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ منڈیلا کو بے انتہا اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ کم وبیش ۲۸ برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا۔ وہ خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ قرار پایا۔ نسلی امتیاز کی بنیاد پر قائم نظام حکومت نے تحریک آزادی کے کارکنان کو بری طرح کچلا، مگر طلبہ جب اس تحریک میں شامل ہوئے تو تحریک نے زور پکڑ لیا۔ طویل جدوجہد کے بعد پوری دنیا کی توجہ بھی اس مظلوم خطے کی طرف مبذول ہوئی۔ آخر اقلیتی حکمرانوں کے ساتھ تحریک آزادی کے کئی معاہدوں کے بعد جن میں عالمی اداروں نے بھی کردار ادا کیا، ۱۹۹۴ء کے انتخابات میں افریقن نیشنل کانگریس، نیلسن منڈیلا کی قیادت میں بھاری اکثریت سے جیت گئی اور آزادی کا سورج طلوع ہوا۔
نیلسن منڈیلا باباے قوم اور انتہائی مقبول شخصیت ہے۔ چار چار سال کی دو میقات صدارتی محل میں گزارنے کے بعد پوری قوم کے مطالبے کے باوجود اس نے جارج واشنگٹن کی طرح تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ اس کے نائب مسٹر مبیکی تھابو نے بھی اسی روایت کو قائم رکھا۔ اس وقت تیسرا صدر مسٹر زوما برسراقتدار ہے۔ یہ اس کی پہلی میقات ہے۔ ملک میں کثیر الجماعتی جمہوریت ہے۔انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں، سفید فام پارٹی بھی انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور پارلیمان میں موجود ہے۔ میدانِ سیاست میں حکمران پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کے سامنے کوئی بڑا چیلنج نہیں مگر مختلف افریقی گروپوں نے اپنی اپنی پارٹیاں قائم کررکھی ہیں جو آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی حصہ امور مملکت میں حاصل ہے۔ یہ بجا طور پر تحریک آزادی میں ان کی شرکت کا صلہ ہے۔ حلال فوڈ اور گوشت بھی مجلس علما کے دوگروپوں کے سرٹیفکیٹ سے فراہم کیا جاتا ہے۔
جنوبی افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ افریقہ میں سب سے مضبوط اقتصادی حالت اسی کی ہے، جب کہ پوری دنیا میں معاشی میدان میں اس کا ۲۸واں نمبر ہے۔ سفید فام آبادی میں یہودی خاصی تعداد میں ہیں اور دنیا کے مال دار ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ذرائع آمدنی میں زراعت، معدنیات، بالخصوص سونا اور ہیرے، صنعت، اور سیاحت اہم شعبے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی اڑھائی سے تین فی صد ہے۔ مسلمان بڑے شہروں میں مقیم ہیں اور مالی لحاظ سے خوش حال ہیں۔ مقامی آبادی میں دعوت اسلام کے بڑے مواقع ہیں۔ مسلمانوں نے اس میدان میں آزادیِ اظہار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظم منصوبہ بندی کرکے کوئی کام نہیں کیا۔ الحمدللہ اب کچھ پیش رفت شروع ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کافی منظم اور مؤثر ہیں۔ ان کا بہت مضبوط نیٹ ورک پورے ملک میں موجود ہے۔ یہاں کی مساجد بہت خوب صورت اور صاف ستھری ہیں۔ مدارس میں بھی بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ ہندی الاصل مسلمانوں کی مساجد میں تمام سہولیات کے باجود عمومی طور پر خواتین کے لیے پروگراموں میں شرکت کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس مرتبہ البتہ یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض مساجد کے ساتھ خواتین کے لیے بھی نماز اور اجتماعات کا اہتمام کیا جارہا ہے، یہ بہت خوش آیند ہے۔
جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی تنظیم اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن ہے۔ یہ تنظیم بھی آزادی سے قبل قائم ہوئی تھی اور اس نے فلاحی کاموں کے علاوہ تعلیمی اور دعوتی میدان میں بھی اب قدم رکھ دیا ہے۔ یہ ایسوسی ایشن مسلمان ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم فیما (فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز) کی بھی ممبر ہے۔ اس فیڈریشن میں عمومی طور پر فلسطین، اردن، ترکی، پاکستان، ملائیشیا اور جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر زیادہ فعال اور منظم ہیں۔ اس کے موجودہ صدر اردن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد احمد مشعل ہیں۔ پاکستان کے ڈاکٹر تنویرالحسن زبیری اور ڈاکٹر حفیظ الرحمان بھی اس کے مرکزی ذمہ داران میں شامل ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جسمانی لحاظ سے معذور مگر انتہائی فعال اور باہمت ڈاکٹر اشرف جی دار بھی فیڈریشن کی مرکزی مجلس میں شامل ہیں۔
ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے مسلمان ہی نہیں عام افریقی اور حکومت بھی فلسطینیوں کے ساتھ بہت زیادہ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ نسلی امتیاز کی پالیسی نے ان کو کس قدر اذیت پہنچائی تھی۔ وہ صہیونیوں کے شدید مخالف ہیں۔ اسی طرح یہاں کے مسلمان طالبانِ افغانستان کے حامی اور امریکا و ناٹو کے سخت خلاف ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے یہاں کوئی خاص دل چسپی نہیں پائی جاتی اور اس کی وجوہ ہیں۔
اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ساؤتھ افریقہ گذشتہ ۳۰ برس سے باقاعدگی کے ساتھ اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرتی ہے۔ یہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا ہے۔ اس کی کل حاضری عموماً ۴۰۰،۵۰۰ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ غیرڈاکٹر شرکا جو ڈاکٹروں کے اہل خانہ میں سے ہوتے ہیں، بھی شریک محفل ہوتے ہیں۔ یوں تعداد کافی زیادہ ہوجاتی ہے۔ مجھے کئی مرتبہ اس سالانہ کنونشن میں شرکت کی دعوت ملتی رہی، مگر میں اس میں دو مرتبہ ہی شریک ہوسکا۔ پہلی بار ۱۹۹۷ء میں اور دوسری مرتبہ اس سال ماہِ اپریل میں۔ ڈاکٹر حضرات تین دن کے سالانہ کنونشن میں بہت سلیقے اور ترتیب کے ساتھ اپنا پروگرام مرتب کرتے ہیں۔ بعض پروگرام اکٹھے ایک ہال میں ہوتے ہیں، جب کہ کئی ایک پروگرام تین چار مختلف ہالوں میں شرکا کو تقسیم کرکے متنوع موضوعات پر منظم کیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں کی جامعیت یہ ہے کہ ان میں دروس قرآن وحدیث بھی ہوتے ہیں اور مختلف اسلامی موضوعات پر ڈاکٹر اور دیگر حضرات کے لیکچر بھی رکھے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ میڈیکل کے تمام شعبوں کے متعلق ماہرین کے نہایت اعلیٰ علمی و تکنیکی لیکچر ہوتے ہیں۔ ہر پروگرام کے بعد سوال وجواب کا دل چسپ سلسلہ بھی چلتا ہے۔ نماز باجماعت کا مثالی اہتمام ہوتا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے احباب ڈاکٹروں، پروفیسروں، تاجر، صنعت کار اور محنت مزدوری کرنے والے طبقات پر مشتمل ہیں۔ پاکستانی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ بیش تر لوگ یہاں کا پاسپورٹ حاصل کرچکے ہیں۔ یہاں تحریکی احباب نے اپنا ایک نظم قائم کیا ہے جو آہستہ آہستہ منظم ہورہا ہے۔ اس کا نام اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ ۱۷،۱۸ مقامات پر اس کے وابستگان کسی نہ کسی صورت میں خود کو حلقے کی صورت دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہر مقام کے ذمہ داران سے رپورٹ لی جاتی ہے۔ مرکزی دفتر جوہانس برگ میں ہے۔ اس وقت ڈاکٹر سید شبیرحسین صدر، ڈاکٹر فیاض حمید سیکرٹری اور ڈاکٹر طاہر مسعود خازن ہیں۔ خواتین میں بھی کام منظم ہورہا ہے۔ میرے لیے آئی ایم اے کی دعوت میں کشش اس وجہ سے تھی کہ اپنے تحریکی احباب کے کام کی کارکردگی، جس کا بیج ۱۵برس پہلے ڈالا گیا تھا،دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ الحمدللہ میڈیکل ایسوسی ایشن کے کنونشن کے علاوہ آئی ایم اے کے پروگراموں کے تحت کیپ ٹاؤن، ڈربن، کلارک سٹاپ، پولک وین (پرانا نام پیٹرزبرگ) وغیرہ میں جانے اور ڈاکٹروں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ گذشتہ سال برادرم اظہر اقبال کو دو مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا اور انھوں نے کام کو منظم کرنے میں مقامی ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مقامات پر کوئی پاکستانی ڈاکٹر تو نہیں تھا، البتہ ہندی الاصل برادران وخواہران ہر جگہ پروگراموں میں شریک ہوتے رہے۔ ان مقامات پر جہاں کہیں مساجد میں پروگرام ہوئے وہاں پاکستانی احباب نے بھی شرکت کی۔اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ کے تحت دو بڑے پروگرام ہوئے۔ ایک جوہانس برگ میں جس میں گردونواح سے مختلف صوبوں اور شہروں سے احباب نے شرکت کی۔ دوسرا بڑا پروگرام گراہمز ٹاؤن میں تھا، اس میں اس علاقے کے گردونواح سے بیش تر صوبوں اور شہروں سے لوگ آئے تھے۔ ہر دو مقامات پر خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ کنگ ولیمز ٹائون اور کوئینز ٹائون میں بھی پروگرام کیے گئے۔
اسلامک سرکل کے پروگرام اردو میں ہوتے تھے، جب کہ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور مساجد کے تمام پروگرام انگریزی میں۔ ہرجگہ یہ بات زیر غور آئی کہ مقامی آبادی میں کام کیسے کیا جائے؟ اس وقت مجموعی طو رپر اس ملک میں بہت امن وسکون ہے مگر چونکہ مقامی آبادی معاشی لحاظ سے محرومی کا شکار ہے، اس لیے وہ اپنی اس کیفیت اور حالت زار کو بہت محسوس کرتے ہیں۔ آزادی ملنے اور سیاہ فام آبادی کی اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ابھی تک عام افریقی شہری معاشی و تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے۔ کبھی کبھار ردعمل میں کچھ باتیں خاموش سمندر کی سطح پر آجاتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اور معاشی وسماجی ارتقا کا اہتمام نہ ہوا تو کسی وقت بھی یہ لاوا پھٹ سکتا ہے۔ مسلمانوں نے ایسے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جن میں مقامی آبادی کے وہ بچے جن کے والدین کا پتا نہیں، یا جن کی مائیں ہیں اور باپ نامعلوم، یا جن کے والدین بہت ہی غربت کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کا اہتمام نہیں کرسکتے، ان اداروں میں داخل کیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ان بچوں کے لیے ان اداروں میں آنے کے بعد رہایش، خوراک، لباس اور تعلیم کی مکمل ذمہ داری اسلامی تنظیمیں اپنے ذمے لے لیتی ہیں۔ ان کے والدین اور مقامی آبادی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی کہ انھیں مسلمان بنالیا جائے۔ مجھے ڈربن کے علاقے میں ایک چھوٹی دیہاتی آبادی انچانگا میں،وہاں کے اسلامک سنٹر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک صاحب ِخیر میڈیکل ڈاکٹر جناب غلام حسین تتلہ اس کے روح رواں ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ پر مشتمل رقبے پر اس مرکز کی عمارات بھی بہت قابل دید ہیں۔ کچھ کلاسوں میں جاکر ۵ سے ۱۰سال کی عمر کے بچے بچیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تو طبیعت خوش ہوگئی۔ ان سب نے اتنی خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور شش کلمات پڑھ کر سنائے کہ بے ساختہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کا لہجہ بھی بہت اچھا تھا، مخارج بھی درست اور لحنِ بلالی تو تھا ہی!
اس طرح کے مراکز جگہ جگہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ تمام باعمل مسلمان اس ضرورت کا احساس وادراک رکھتے ہیں۔ دوردراز کی افریقی آبادیوں میں آئی ایم اے کی موبائل ڈسپنسریاں بھی فعال دیکھیں۔ ایک دیہاتی علاقے میں ۳۰، ۴۰ خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو بہت صاف ستھری جگہ پر بٹھانے کی سہولت کے ساتھ ڈسپنسری کو برسرِعمل دیکھا، تو اُن مخیر حضرات کے لیے جو مالی ایثار کر رہے ہیں اور اُن رضاکاروں کے لیے جو میدان عمل میں سرگرم ہیں، دل سے دعائیں نکلیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی خدمت کی جارہی ہے وہ اس پر ممنون احسان ہیں، ورنہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خدمت کرنے والوں کو تحسین کے بجاے شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیں اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر شبیر حسین اور کئی دیگر مسلمان ڈاکٹر آنکھوں میں موتیے کے بلامعاوضہ آپریشن کرنے کے لیے کیمپ لگاتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے بھی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ایک کیمپ میں ۹۰کے قریب شفایافتہ مریضوں کے درمیان تقسیم تحائف کی محفل میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں اسلام کاتعارف بھی کرایا گیا۔ تمام مریض انتہائی خوش اور ڈاکٹر شبیر اور ان کی ٹیم کے لیے رطب اللسان تھے۔ دیگر تحائف کے علاوہ انھیں قرآن مجید اور رسالہ دینیات کے انگریزی ترجمے دیے گئے۔ یہ بڑا بنیادی کام ہے مگر ذاتی روابط اور اسلام کی عملی تعلیم و تربیت اس سے اگلی اور اصل ذمہ داری ہے۔
سوال: میں کافی عرصے سے شرق اوسط میں مقیم ہوں۔ جدہ (سعودیہ) اور دوحہ (قطر) میں بھی رہنے کا موقع ملا۔ تحریک کے ساتھ وابستگی کے باوجود حصولِ علم کے لیے مقامی خواتین کے مراکز اور مساجد میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ یہاں پر کوئی مسجد ایسی نہیں دیکھی جہاں خواتین کے لیے نماز کی جگہ موجود نہ ہو۔ رمضان المبارک اور جمعۃ المبارک کے موقع پر خواتین کی کثیر تعداد مسجد آتی ہے۔ میں نے عرب خواتین کو دورانِ نماز اپنے پائوں مکمل طور پر چھپائے ہوئے دیکھا ہے، اور عرب مُدرسات کے بقول عورت کے پائوں ستر میں شامل ہیں۔ حالت ِ نماز میں ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ پورا جسم، حتیٰ کہ پائوں بھی ڈھکے ہونے چاہییں۔ اس سلسلے میں وہ حدیث سے حوالہ بھی دیتی ہیں۔ دوسری طرف برعظیم پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی خواتین کی اکثریت کھلے پائوں سے نماز پڑھتی ہے، بلکہ وہ اس مسئلے سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ میں نے کچھ علما سے رابطہ کیا تو اُن کی راے کے مطابق باقی تینوں فقہوں کے برعکس فقہ حنفی میں عورت کے پائوں ستر میں شامل نہیں ہوتے۔ جب اُن سے حدیث کا حوالہ مانگا گیا تو انھوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا۔
اس بارے میں رہنمائی دیجیے کہ نماز کے دوران عورت کے جسم پر پہنا ہوا لباس اُوپر کی چادر سے کتنا ڈھکا ہوا ہونا چاہیے، جب کہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین کا لباس بہت باریک اور چست ہوتا ہے، اور ایک دوپٹے سے سر اور سینے کا صرف کچھ حصہ ڈھکاہوتا ہے۔ کبھی تو وہ دوپٹہ بھی بہت باریک ہوتا ہے اور قمیص کے آستین بھی پورے بازو کو ہاتھ تک ڈھانپ نہیں رہے ہوتے۔ عرب خواتین اپنے لباس کے اُوپر عبایہ، یا اتنی بڑی چادر اُوڑھتی ہیں کہ اُن کے ہاتھ اور چہرے کے علاوہ پورا لباس چھپ جاتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ میں نے عرب خواتین کو بالکل اسی طرح سجدہ کرتے دیکھا ہے جس طرح مرد حضرات اُونچا سجدہ کرتے ہیں، جب کہ اُن کا جسم پوری طرح ڈھکا ہوتا ہے اور کہیں سے بھی چادر کے کھلنے یا سرکنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ فقہ حنفی کی کچھ کتابوں میں عورت کے سجدے کی کیفیت مختلف لکھی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر خواتین اپنے پیٹ کو زانوں سے ملا کر اور بچھ کر سجدہ کرتی ہیں اور قعدہ کے دوران اپنے پائوں دائیں طرف نکال کر زمین پر بیٹھتی ہیں۔ اکثر اوقات دایاں پائوں ٹخنے سمیت ننگا ہو رہا ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایسی حدیث موجود ہے جس میں عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی کیفیت سے مختلف بیان کی گئی ہو، جب کہ یہاں پر دروس میں بار بار یہ حدیث سنائی جاتی ہے کہ صَلُّو کَمَا رَأَیتُمُونِی أَصَلِّی ، نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو۔
جواب: ۱- نماز میں عورت کے لیے پاؤں مکمل طور پر چھپانا حنبلی فقہا کے نزدیک تو ضروری ہے، مگر دیگر فقہا اس کے قائل نہیں۔ خود ایک بڑے حنبلی فقیہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (جن کی آرا کو سعودی عرب میں بہت اہمیت دی جاتی ہے) بھی اس کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک عورت کے لیے پاؤں چھپانا ضروری نہیں، ورنہ ان کے بقول رسولؐ اللہ عورت کو دورانِ نماز جرابیں یا موزے پہننے کا حکم دیتے۔ حنبلی فقہا نے استدلال میں جو احادیث پیش کی ہیں وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں جن سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔
۲- دورانِ نماز عورت کا لباس باریک اور چست نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں عبایہ، یا لمبی چادر سے (چہرہ اور ہاتھ پاؤں کے سوا) پورا جسم چھپا لینا چاہیے، ورنہ نماز میں خلل آئے گا۔
۳-شریعت میںکئی احکام مرد اور عورت میں مشترک ہونے کے باوجود بعض تفصیلات میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر مرد کے برعکس عورت پرحج کی فرضیت کے لیے زادِراہ کے علاوہ محرم یا خاوند ساتھ ہونے کی شرط بھی ہے۔ عورت اذان و اقامت نہیں کہہ سکتی۔ مرد کے برعکس عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی۔ مرد اور عورت کے ستر میں بھی فرق ہے۔ نماز جمعہ مرد پر فرض ہے عورت پر نہیں۔ نماز میں کوئی بات پیش آئے تو مرد تسبیح کہے اور عورت ہاتھ سے کھٹکا کرے، وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان سب مسائل میں سنتوں بلکہ فرائض تک کے معاملے میں عورت کے ستر اور پردے کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے صرف حنفی فقہاہی نے نہیں بلکہ ائمہ اربعہ نے رکوع و سجود اور قعدہ کی ہیئت میں مرد اور عورت کے فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور اس میں اصل وجہ ستر پوشی کو قرار دیا ہے۔
امام شافعی کتاب الأُم (ج ۱، ص ۱۱۵) میں کہتے ہیں: عورت کے لیے پسندیدہ یہی ہے کہ سمٹ کر سجدہ کرے، کیونکہ یہ زیادہ باعث ستر ہے۔ مالکیہ میں سے ابو زید قیروانی نے الرسالہ میں صراحت کی ہے کہ صحیح روایت کے مطابق امام مالک کا قول ہے کہ عورت سمٹ کر سجدہ کرے۔
حنابلہ کی معتبر کتاب المغنی ( از ابن قُدامہ) میں بھی اس فرق کی صراحت موجود ہے کہ ’’مرد و عورت اس میں (کیفیت نماز میں) برابر ہیں سواے اس کے کہ عورت رکوع و سجود کی حالت میں اپنے آپ کو اکٹھا کرے (سکیڑے) … اصل یہ ہے کہ عورت کے حق میں نماز کے وہی احکام ہیں جو مرد کے لیے ثابت ہیں، کیونکہ خطاب (حکم) دونوں کو شامل ہے۔ اس کے باوجود (بعض کیفیات میں) عورت مرد کے برعکس کرے گی۔ ( مثال کے طور پر) عورت مرد کی طرح رانوں کو پیٹ سے دور نہیں رکھے گی بلکہ ملائے گی، کیونکہ عورت ستر کی چیز ہے، لہٰذا اس کے لیے اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھنا مستحب ہے، تاکہ یہ اس کے لیے زیادہ ستر کا باعث ہو۔ وجہ یہ ہے کہ عورت کے لیے رانوں کو پیٹ سے جدا رکھنے میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عضو کھل نہ جائے‘‘۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اقوال روایت ہوئے ہیں کہ انھوں نے عورتوں کو حکم دیا کہ جب تم سجدہ کرو تو خوب سمٹ کر سجدہ کرو اور اپنی رانوں کو (پیٹ سے) ملا لو۔
نامور اہل حدیث عالم مولانا عبدالجبار غزنویؒ سے عورتوں کے نماز میں سمٹ کر سجدہ کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو پہلے انھوں نے بیہقی اور مراسیل ابوداؤد کی یہ روایت نقل کی کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ خوب کھل کر سجدہ کریں اور عورتوں کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ خوب سمٹ کر سجدہ کیا کریں‘‘۔ پھرلکھتے ہیں: اس پر اہل سنت کے چاروں ائمہ کا تعامل چلا آیا ہے۔ (فتاویٰ غزنویہ ، فتاویٰ علماے اہل حدیث)
خلاصہ یہ ہے کہ تمام فقہا نے صَلُّو کَمَا رَأَیتُمُونِی أَصَلِّی کی طرح کی احادیث سے عموم مراد نہیں لیا ہے ، بلکہ بعض کیفیات میں دیگر دلائل کی بنا پر مرد اور عورت میں فرق ملحوظ رکھا ہے، اور یہ فرق نماز کے بعض آداب کاہے، کسی بنیادی رکن یا شرط کا نہیں۔ لہٰذا اس سے اس حدیث کے ساتھ کسی تعارض یا ٹکراؤ کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی، واللّٰہ اعلم۔ (ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)
س: اسلام نے جسم و لباس کی طہارت و نظافت کا جو لحاظ رکھا ہے اس کی قدروقیمت سے عقلِ انسانی انکار نہیں کرسکتی لیکن اس سلسلے میں بعض جزئیات بالکل ناقابلِ فہم معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً ریح کے نکلنے سے وضو کا ٹوٹ جانا، حالانکہ جسم کے ایک حصہ سے محض ایک ہوا کے نکل جانے میں بظاہرکوئی ایسی نجاست نہیں ہے جس سے وضو ساقط ہوجائے۔ آخر اس ہوا سے کیا چیز گندی ہوجاتی ہے؟ اسی طرح پیشاب کرنے سے وضو کا سقوط، حالانکہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے اور پھر اچھی طرح دھو لیا جائے تو کہیں کوئی نجاست لگی نہیں رہ جاتی۔ یہی حال دوسرے نواقضِ وضو کا ہے، جس سے وضو ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ براہِ کرام اس اُلجھن کو اس طرح دُور کیجیے کہ مجھے عقلی اطمینان حاصل ہوجائے۔
ج: نواقضِ وضو کے مسئلے میں آپ کو جو شبہات پیش آئے ہیں انھیں اگر آپ حل کرنا چاہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ شریعت میں جن جن باتوں سے وضو کے ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کا حکم لگایا گیا ہے پہلے ان سب کو اپنے ذہن سے نکال دیجیے، پھر خود اپنے طور پر سوچیے کہ عام انسانوں کے لیے (جن میں عالم اور جاہل عاقل اور کم عقل، طہارت پسند اور طہارت سے غفلت کرنے والے ، سب ہی قسم کے لوگ مختلف درجات و حالات کے موجود ہیں) آپ کو ایک ایسا ضابطہ بنانا ہے جس میں حسب ذیل خصوصیات موجود ہوں:
۱- لوگوں کو بار بار صاف اور پاک ہوتے رہنے پر مجبور کیا جائے اور ان میں نظافت کی حس اس قدر بیدار کردی جائے کہ وہ نجاستوں اور کثافتوں سے خود بچنے لگیں۔
۲- خدا کے سامنے حاضر ہونے کی اہمیت اور امتیازی حیثیت ذہن میں بٹھائی جائے تاکہ نیم شعوری طور پر آدمی خود بخود اپنے اندر یہ محسوس کرنے لگے کہ نماز کے قابل ہونے کی حالت دنیا کی دوسری مشغولیتوں کے قابل ہونے کی حالت سے لازماً مختلف ہے۔
۳- لوگوں کو اپنے نفس اور اس کے حال کی طرف توجہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ اپنے پاک یا ناپاک ہونے، اور ایسے ہی دوسرے احوال سے جو ان پر وارد ہوتے رہتے ہیں، بے خبر نہ ہونے پائیں اور ایک طرح سے خود اپنے وجود کا جائزہ لیتے رہیں۔
۴- ضابطے کی تفصیلات کو ہرشخص کے اپنے فیصلے اور راے پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ ایک طریق کار معین ہو تا کہ انفرادی طور پر لوگ طہارت میں افراط و تفریط نہ کریں۔
۵- ضابطہ اس طرح بنایا جائے کہ اس میں اعتدال کے ساتھ طہارت کا مقصد حاصل ہو، یعنی نہ اتنی سختی ہو کہ زندگی تنگ ہوکر رہ جائے اور نہ اتنی نرمی کہ پاکیزگی ہی باقی نہ رہے۔
ان پانچ خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر آپ خود ایک ضابطہ تجویز کریں اور خیال رکھیں کہ اس میں کوئی بات اس نوعیت کی نہ آنے پائے جس پر وہ اعتراضات ہوسکتے ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں۔
اس قسم کا ضابطہ بنانے کی کوشش میں اگر آپ صرف ایک ہفتہ صرف کریں گے تو آپ کی سمجھ میں خود بخود یہ بات آجائے گی کہ ان خصوصیات کو ملحوظ رکھ کر صفائی و طہارت کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا جس پر اس نوعیت کے اعتراضات وارد نہ ہوسکتے ہوں جو آپ نے پیش کیے ہیں۔ آپ کو بہرحال کچھ چیزیں ایسی مقرر کرنی پڑیں گی جن کے پیش آنے پر ایک طہارت کو ختم شدہ فرض کرنا اور دوسری طہارت کو ضروری قرار دینا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی متعین کرنا ہوگا کہ ایک طہارت کی مدت قیام (duration) کن حدود تک رہے گی اور کن حدود پر ختم ہوجائے گی۔ اس غرض کے لیے جو حدیں بھی آپ تجویز کریں گے ان میں ناپاکی ظاہر اور نمایاں اور محسوس نہ ہوگی بلکہ فرضی اور حکمی ہی ہوگی اور لامحالہ بعض حوادث ہی کو حدبندی کے لیے نشان مقرر کرنا ہوگا۔ پھر آپ خود غور کیجیے کہ آپ کی تجویز کردہ حدیں ان اعتراضات سے کس طرح بچ سکتی ہیں جو آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔
جب آپ اس زاویۂ نظر سے اس مسئلے پر غور کریں گے تو آپ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ شارع نے جو ضابطہ تجویز کردیا ہے وہی ان اغراض کے لیے بہترین اور غایت درجہ معتدل ہے۔ اس کے ایک ایک جزئیہ کو الگ الگ لے کر علّت و معلول اور سبب و مسبب کا ربط تلاش کرنا معقول طریقہ نہیں ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا بحیثیت مجموعی ان اغراض و مصالح کے لیے جو اُوپر بیان ہوئی ہیں، اس سے بہتر اور جامع تر کوئی ضابطہ تجویز کیا جاسکتا ہے؟ لوگوں کو احکامِ وضو میں جو غلط فہمی پیش آتی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس بنیادی حکمت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو بحیثیت مجموعی ان احکام میں ملحوظ رکھی گئی ہے، بلکہ ایک ایک جزئی حکم کے متعلق یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں فعل میں آخر کیا بات ہے کہ اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی ضرب آخر کس طرح شکست ِوضو کا سبب بن جاتی ہے۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، اوّل، ص ۱۲۲-۱۲۴)
آج ہم روحانی قلب کی بیماری کے ساتھ بڑے پیمانے پر جسمانی قلب کی بیماری کا شکار ہیں۔ روحانی قلب پر مشق ستم کرنے والوں میں صحافی، سیاست دان اور علمِ دین سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والا ایک طبقہ اپنا کام دکھا رہا ہے، جب کہ دوسری جانب دل کی طبّی بیماری کے کشتگانِ ستم، مختلف عطائیوں کی چرب زبانی اور متعدد ڈاکٹروں کی جلب زر کے ہاتھوں زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں۔
زیرنظر کتاب کے مصنف ڈاکٹر سیداسلم نے میڈیکل کی تعلیم کنگ ایڈورڈ میڈیکل لاہور، کینیڈا اور امریکا کی اعلیٰ یونی ورسٹیوں سے حاصل کی۔ امراضِ دل کے ماہر معالج کی حیثیت سے ۵۵برس سے بنی نوعِ انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کا ایک اور قابلِ تحسین کارنامہ یہ کتاب ہے، جس میں انھوں نے مرضِ دل کے آغاز، علاج، صحت کی بحالی اور مرض سے بچائو کی تدابیر عام فہم، مؤثر اور دل چسپ اسلوبِ بیان میں تحریر کی ہیں۔کتاب پڑھتے ہوئے قاری محض امراضِ دل کے آغاز اور نتائج ہی سے واقف نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ سماجیات، صحت، نفسیات اور زندگی گزارنے کی سائنس تک سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔
وطنِ عزیز میں تحریر و تقریر میں انگریزی زبان کا غلبہ ہے۔ مصنف نے اُردو اور وہ بھی شُستہ، شائستہ اور عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی اُردو میں سائنس اور طب کے پیچیدہ ترین مسائل و مباحث کو ایسے عمدہ پیرایے میں بیان کیا ہے کہ میڈیکل سائنس کا موضوع بھی ادب اور ابلاغیات کی طرح آسان محسوس ہوتا ہے۔ یہ کتاب تندرست لوگوں کو دل کے مرض سے بچانے اور مرضِ قلب کا شکار مریضوں کو صحت یاب کرنے کا جیبی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اگر کوئی دل چسپی رکھنے والا فرد انگریزی طبّی اصطلاحوں کے اُردو متبادل لفظوں کو اس کتاب سے اخذ کرلے تو میڈیکل کے طالب علموں کو حیرت ہوگی کہ وہ پیچیدہ چیزوں کو کتنے آسان لفظوں میں واضح کرسکتے اور مریضوں کو بات سمجھا سکتے ہیں۔(سلیم منصور خالد)
ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا، اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ، نیز رمضان کے تقاضے اور تزکیہ و تربیت پر مبنی مختصر تحریریں، زکوٰۃ کی معاشرتی اہمیت اور ادایگی اور دیگر روزمرہ مسائل کا تذکرہ اور قرآنی و مسنون دعائیں بلامعاوضہ دستیاب ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات عام ڈاک کے لیے ۱۵ روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے ۳۵روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ بنام ڈاکٹرممتاز عمر، T-473 ، کورنگی نمبر۲، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔
دانش یار، لاہور
’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ (مئی ۲۰۱۲ئ) کے تحت عملی تجویز پیش کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود اُردو زبان کی حیات اس تفسیر کے وجود کی محتاج ہے۔ اس وقت اوّلین ضرورت ہے کہ قوم کو اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل اوّل اور دوم کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ نیز قومی زبان سے حکمران طبقے کے مسلسل اعراض سے ہونے والے تہذیبی انحطاط کا عوام کو شعور دلائیں۔ کم از کم اپنے گھروں پر نام کی تختیاں ، شادی کے دعوتی کارڈ، ملاقاتی کارڈ، تجارتی فرمیں اپنے کیلنڈر اور ڈائریاں ہی اُردو میں چھپوانا شروع کر دیں۔
نورمحمد کھوسہ، تھاروشاہ ، سندھ
’پارلیمنٹ اور پاکستان کو درپیش چیلنج‘ (اپریل ۲۰۱۲ئ) میں پروفیسر خورشیداحمد نے بجاطور پر توجہ دلائی ہے کہ سینیٹ اور ملکی انتخابات متناسب نمایندگی کے تحت ہونے چاہییں۔ حقیقتاً یہی طریق انتخاب قوم کی صحیح نمایندگی کرسکتا ہے۔ اگر ابتدا ہی سے متناسب نمایندگی کا طریقۂ انتخاب ہوتا، تو مشرقی پاکستان ہم سے کسی بھی صورت میں علیحدہ نہ ہوسکتا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی اعدادوشمار کے لحاظ سے عوامی لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر بھرپور نمایندگی کر رہی تھی اور مشرقی پاکستان کی مجموعی سیٹوں کے ۴۰سے ۴۵ فی صد تک سیٹیں حاصل کرسکتی تھی لیکن حلقہ وار الیکشن کے طریقۂ انتخاب کی وجہ سے محب وطن افراد کی قوت ظاہر نہ ہوسکی۔ اس طرح علیحدگی پسند عناصر اور بھارت کو کھلا میدان مل گیا اور علیحدگی کا سانحہ ظہور میں آیا۔ ملک میں جس طرح سے عصبیت اور صوبائیت سر اُٹھا رہی ہے متناسب نمایندگی ہی موجودہ پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔
ڈاکٹر طاہر فاروق، سعودی عرب
’تحریک اسلامی کا پیغام‘ (اپریل ۲۰۱۲ئ) میں سید مودودیؒ کی فکر کے عالم گیر اثرات کے حوالے سے مغربی مفکرین مثلاً: پروفیسر جان ایل ایسپوزیٹو، مارشل جی ایس ہوڈگن اور گیلس کیپل کی تحریروں سے اقتباس بھی پیش کیے گئے ہیں (ص ۶۴)۔ اگر حوالوں کا اہتمام بھی کیا جاتا تو مزید مطالعے کے لیے سہولت ہوتی۔
دعوتی اشتھار: عالمی ترجمان القرآن میں دعوتی اشتہارات کے تحت قرآن و حدیث، مولانا مودودی کی تحریروں اور تحریکی لٹریچر پر مبنی اقتباسات شائع کیے جاتے ہیں۔دعوتی اشتہارات کے لیے دیگر افراد اور ادارے بھی اسپانسر کرنا چاہیں تو مینیجرترجمان سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ فون: 042-37587916
(بقیہ: ص ۱۸- اشارات)حاصل ہوسکی ہے جس کا سب سے واضح ثبوت عالمی میڈیا اور آزاد مبصرین کا تقریباً متفق علیہ اعتراف ہے کہ افغانستان میں امریکا جنگ ہارچکا ہے۔ طالبان اس وقت ملک کے ۵۰ سے ۷۰ فی صد پر اصل حکمران ہیں اور کابل میں امریکی، ناٹو اور افغان فوج کے پانچ حصاروں کے باوجود طالبان جب چاہیں قصرصدارت ناٹو کے ہیڈکوارٹر اور خود امریکی اور مغربی ممالک کے سفارت خانوں پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ خود امریکا میں اس وقت ۶۷ فی صد عوام افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلد از جلد انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں اور شکاگو کانفرنس کے ہال کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا، اس کے باہر ہزاروں امریکی جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ افغانستان اور عراق کی جنگ سے واپس آنے والے فوجی (veterans) اپنے وہ تمغے ندامت کے ساتھ حکومت کو واپس کر رہے تھے جو جنگی خدمات پر ان کو دیے گئے تھے، اور ان کا اعلان بش اور اوباما کی جنگی پالیسیوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ایک عوامی استصواب کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔
کتنے ہی میڈل، ربن اور جھنڈے کیوں نہ ہوں، جنگ نے جس پیمانے پر انسانوں کو اذیت میں مبتلا کیا ہے، اس کو چھپا نہیں سکتے۔ میرے پاس صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے شرم! یہ افغانستان اور عراق کے عوام کے لیے ہے۔ مجھے افسوس ہے۔ میں آپ سب کے سامنے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ آج میں اپنا تمغہ واپس کررہا ہوں، کیونکہ میں اپنی زندگی اپنے ضمیر کے مطابق گزارنا چاہتا ہوں، نہ کہ ایک ضمیر کے مجرم کی طرح۔ میں عراقی اور افغان عوام سے ان کے ممالک کو تباہ کرنے پر ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں۔
افسوس صد افسوس امریکا کی قیادت اور اس کے شرکاے جرم بشمول قیادتِ پاکستان کے ضمیر میں کوئی چبھن نظر نہیں آتی، بلکہ پاکستان کی قیادت تو روایتی جوتے اور پیاز دونوں ہی کھارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا کے گن بھی گائے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری اور سزا پر جس طرح امریکا نے ایک قومی مجرم اور پاکستان کے غدار کا دفاع کیا ہے، اور پاکستان کی معاشی مدد میں تخفیف کا جو طمانچا ہمارے منہ پر رسید کیا ہے، وہ بھی ایک آئینہ ہے جس میں امریکا پاکستان کو جو مقام دیتا ہے، اس کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان پر دوغلی پالیسیوں کا الزام، ۲مئی ۲۰۱۲ء کو افغانستان سے اسٹرے ٹیجک معاہدہ اور اس پورے عمل میں پاکستان کو نظرانداز کرنا، افغانستان میں بھارت کے مشکوک کردار کے بارے میں پاکستان کے تحفظات سے مکمل لاپروائی، حتیٰ کہ طالبان سے گفتگو میں بھی پاکستان کو نظرانداز کرنے کی کھلی کھلی کوششیں، صرف پاکستان اور امریکا میں اعتماد کی کمی (trust deficit) ہی کا مظہر نہیں بلکہ اس پورے علاقے اور اس کے مستقبل کے بارے میں دونوں کے وژن اور نقشۂ کار میں بُعدالمشرقین کی گواہی دیتے ہیں۔ امریکا جس طرح پاکستان پر معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو ڈال رہا ہے، اس کے بعد اسے دوست ملک سمجھ کر معاملہ کرنا اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کی تحقیر و تذلیل اور خود زرداری صاحب کو ان کی اوقات دکھانے کے لیے جو کچھ امریکا اور ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے شکاگو کانفرنس میں کیا وہ بھی ایک درسِ عبرت ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
جس طرح پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آنے سے پہلے برطانیہ، امریکا اور متحدہ امارات کے ذریعے جنرل پرویز مشرف سے معاملہ کیا، معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح شکاگو کانفرنس سے پہلے برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے توسط سے اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکا سے معاملات طے کرنے کے لیے ایک کھیل (gimmick) کھیلا گیا۔ زرداری صاحب اور ان کے وزرا کے بیانات جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں وہ اس کھیل کا حصہ بلکہ تمہید تھے۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل اور امریکی قیادت نے سارا دبائو اس امر پر ڈالا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مستقبل اور علاقے کے بارے میں علاقے کے ممالک کے مشورے سے سلامتی کے معاملات پر غوروفکر کو مؤخر کرکے صرف ناٹو کی سپلائی روٹس کی بحالی کے مسئلے پر توجہ مرکوز کی جائے اور اسے محض ڈالروں کے بارے میں مسودہ کاری کا مسئلہ بنالیا جائے۔ شکاگو کانفرنس کی پاکستان کے لیے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بون کانفرنس میں ۸۰ اقوام نے شرکت کی تھی اور اس کا پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا۔ شکاگو کانفرنس تو ایک ایسے وقت ہورہی تھی جب مغربی اقوام ایک نئے معاشی اور مالیاتی بحران کی گرفت میں تھے اور ناٹو ممالک تک اس سے براہِ راست متاثر ہورہے تھے۔ یہی وجہہے کہ اس کانفرنس سے پہلے کیمپ ڈیوڈ میں جی-۸ کی کانفرنس منعقد کی جارہی تھی۔ عملاً اس کانفرنس سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا، حتیٰ کہ امریکا جو ۲۰۱۴ء کے بعد افغانستان میں اپنے کردار اور فوجوں کی وہاں موجودگی اور اس کے مصارف کے بارے میں دوسرے ممالک سے شراکت داری کے اہداف حاصل کرنا چاہ رہا تھا، وہ بھی ٹھیک سے حاصل نہیں ہوسکے۔ لیکن پاکستان کی تحقیر اور تذلیل کے لیے اسے بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا۔ پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا کہ پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا ہے اور جب تک پاکستان ناٹو کی رسد بحال نہیں کرتا، اسے بلایا نہیں جائے گا۔ پھر لندن میں گیلانی کیمرون ملاقات کے فوراً بعد دعوت نامہ دیا گیا اور ۴۸گھنٹے کے نوٹس پر زرداری صاحب ’حاضر جناب‘ کہتے ہوئے واشنگٹن پہنچ گئے۔
الحمدللہ ملک کی دینی قوتوں نے بروقت خطرات کو بھانپ لیا، اور ناٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف قوم کو متحرک کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئے۔ اس میں جماعت اسلامی اور دفاعِ پاکستان کونسل نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ تحریکِ انصاف نے بھی اپنے انداز میں اس متوقع اقدام کو چیلنج کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماے اسلام (ف) نے بھی برملا اختلاف کا اظہار کیا۔ ہمارا گمان ہے کہ خود پی پی پی میں بھی دبے لفظوں میں اس مسئلے پر اختلاف تھا۔ امریکا کی رعونت اور ہاتھ مروڑنے کی حکمت عملی (arm twisting) کے اس باب میں شکاگو کانفرنس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے، اور زرداری صاحب کی طرف سے جو عندیہ دیا گیا تھا یا جو توقعات ناٹو کی قیادت اور امریکا کو ہوگئی تھیں، وہ پوری نہ ہوسکیں۔ امریکا نے اس موقعے کو پاکستان کی مزید تحقیر اور تذلیل کے لیے استعمال کیا۔ اوباما نے اپنی تقریر میں پاکستان کا ذکر تک نہ کیا۔ پریس کانفرنس میں بھی سوال کے جواب میں رویہ تحکمانہ رکھا اور اسے حل کے بجاے مسئلے کے طور پر پیش کیا۔ زرداری صاحب سے ملاقات کی درخواست کو درخوراعتنا بھی نہ سمجھا، جب کہ صدر کرزئی سے کانفرنس سے پہلے ایک گھنٹے کی ملاقات کی۔ کانفرنس ہال کے باہر بھی زرداری صاحب کو کوئی خاص اہمیت نہ دی اور رسمی مصافحے کے موقع پر کچھ نصیحت ہی پلانے کو ترجیح دی۔ تمام شرکا اور میڈیا نے اسے SNUB (ڈانٹ ڈپٹ) اور پاکستان کو cut to size (اپنی اوقات میں رہو) کرنا قرار دیا۔ حد یہ ہے کہ کرزئی صاحب نے بھی سی این این کی اسکرین پر جو بیان دیا اس میں یہ فرما دیا کہ پاکستان اور امریکا کی دو طرفہ یا پاکستان، امریکا اور افغانستان کی سہ طرفہ ملاقات ولاقات میں کوئی صداقت نہیں۔ یہ تو بس اتفاقی مصافحہ اور فوٹو کھنچوانے کا موقع تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلس ٹائمز، گارڈین، ڈیلی ٹیلی گراف، غرض پورے میڈیا نے اوباما کی طرف سے زرداری کے لیے اسے ایک SNUB اور پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام قرار دیا۔
ناٹو کی سپلائی کی بحالی کا معاملہ اس وقت تو اللہ کی بالاتر تدبیر سے ٹل گیا مگر خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اور قوم کو چوکنا اور متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارا موقف کیا ہو؟ اور دلدل سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ اس پر مختصر گفتگو کرنے سے پہلے ہم دل پر جبر کرکے لیکن قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک واقعے کو ریکارڈپر لانا ضروری سمجھتے ہیں جس نے کم از کم راقم الحروف کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا کردی، اور پی پی پی کی قیادت کے بارے میں جو خوش فہمی تھی، اسے پارہ پارہ کر دیا۔ امریکا اس وقت جس طرح ہر ممکن دبائو ڈال رہا ہے اور جس طرح ہر حد کو پھلانگ جانے کا عندیہ دے رہا ہے، اس میں حالات کہاں تک جاسکتے ہیں، ان خطرات سے متنبہ کرنے کے لیے ہم اس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں۔
سابق سفیر ظفرہلالی ان سفارت کاروں میں سے ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہت قریب تھے اور ان کے بارے میں کوئی یہ شبہہ بھی نہیں کرسکتا کہ وہ محترمہ کے سلسلے میں کوئی غلط بیانی کریں گے۔ وہ اپنے ایک تازہ مضمون On Divergent Paths میں لکھتے ہیں کہ: محترمہ تو پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کے قیام اور کارفرمائی کے لیے بھی تیار ہوگئی تھیں جس سے زرداری صاحب گریزاں ہیں:
مجھے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کی ایک گفتگو یاد آتی ہے۔ سوات کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم (سوات میں) طالبان کو نہیں روک سکتے، یا نہیں روکیں گے، اس لیے ان کا ارادہ ہے کہ ’’خود آئیں اور یہ کام کر یں‘‘۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا: ’’سوات میں امریکی؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، اور جتنی جلدی ہم اس خطرے سے آگاہ ہوجائیں اتنا ہی بہتر ہے‘‘۔ پھر بے نظیر بھٹو نے وضاحت کی کہ کیوں یہ ایک امکان ہے اور کیوں یہ ایسی بُری بات بھی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہم اس سے اکیلے نہیں نمٹ سکتے‘‘۔ اس جنگ میں امریکی فوجی اور مالیاتی پشت پناہی ناگزیر ہے اور اس کے بغیر ہم اس میں بُری طرح پھنس جائیں گے۔ بجاے اس کے کہ یہ ہونے دیا جائے، بی بی امریکی امداد قبول کرنے کے لیے تیار تھیں اور اس آنے والی امریکی مالی امداد کو استعمال کرکے معیشت بحال کرنا چاہتی تھیں، خواہ اس کی وجہ سے انھیں امریکا کا ساتھی (collaborator) ہی قرار دیا جائے۔
زرداری صاحب کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اگر وہ اس لائحہ عمل پر اصرار کرتے جس پر چلنے کا بی بی نے فیصلہ کرلیا تھا، یعنی پاکستان میں بڑے پیمانے پر امریکی فوج کے قدم، تو قیامت گزر جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بہت زیادہ مخالفت تھی۔(دی نیوز، ۱۷مئی ۲۰۱۲ئ)
ظفرہلالی صاحب نے ملاقات کی تاریخ اور گفتگو کا حاصل تو بیان کردیا ہے لیکن وہ پس منظر کی طرف اشارہ نہ کرسکے جس میں این آر او، اور بش اور مشرف کی سیاست اور بیساکھیاں نمایاں تھیں۔ آج زرداری صاحب سوئٹزرلینڈ میں مخفی دولت سے محرومی کے خاتمے اور گیلانی صاحب نااہلی کی تلوار تلے وقت گزار رہے ہیں، اور ایسے ہی وہ حالات ہیں جن میں سامراجی قوتیں محکوم حکمرانوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان حکمرانوں کے اندھے مقلد ، کچھ دانش ور اور میڈیا کے بہت سے ’لائوڈاسپیکر‘ سامراج کے اس پورے ایجنڈے کو وقت کی ضرورت اور معاشی وجوہ سے ایک ناگزیر تدبیر اور دنیا میں مقبول ہونے کا نادر نسخہ قرار دیتے ہیں۔ ۲۰۰۷ء کی طرح ۲۰۱۲ء بھی ایک منظرنامے کی خبر دے رہا ہے۔ العیاذ! یارب العالمین!
ہم نے زیربحث مسئلے کے ان چند اہم پہلوئوں کی طرف قوم کو متوجہ کیا ہے جو بالعموم نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور توجہ کا مرکز بس وہ بات بن جاتی ہے جو اولین ہدف ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج کے لیے رسد کی فراہمی کا مسئلہ اصل مسئلہ نہیں ہے، اور ۲۵۰ڈالر یا ۵ہزار ڈالر یہ کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ وہ تباہ کن جنگ ہے جو امریکا نے افغانستان اور اس خطے پر مسلط کردی ہے اور جس کا کوئی تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ طالبان سے جن کے نام پر اس آگ کو بھڑکایا گیا ہے۔ امریکا افغانستان سے فوجی انخلا اپنی معاشی اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کرنا بھی چاہتا ہے اور افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔اس کے لیے جہاں ایک طرف اس جنگ سے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کو بچانا مقصود ہے تاکہ امریکا میں انسانی جانوں کے اتلاف اور جنگ کے زخم خوردہ افراد کو عتاب سے بچاسکیں، وہیں ٹکنالوجی کی مدد سے اور مقامی فوج کو توپوں کا بارود بناکر اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ڈرون ٹکنالوجی اور ریموٹ کنٹرول جنگی اسلحہ اس نقشۂ جنگ میں مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں، اور لوکل اشرافیہ سے گٹھ جوڑ اور مفادات کے اشتراک کا ایک جال بچھا کر ان ممالک کے وسائل کا ناجائز انتفاع اور افغانستان اور پاکستان کی جغرافیائی سہولتوں کے ذریعے وسط ایشیا میں اپنے اثرات کو مستحکم کرنا پیش نظر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں فوجیوں کی واپسی کے پردے کے پیچھے ۲۰۲۴ء تک فوجی اڈوں کا وجود، تعلیم و تربیت اور نگرانی کے نام پر ۲۰ہزار یا اس سے کچھ زیادہ فوجیوںکا قیام، اور اس کے ساتھ مارکیٹ اکانومی کا قیام اور بیرونی سرمایہ کاری کے سازگار ماحول اُس اسٹرے ٹیجک معاہدے کا اہم حصہ ہیں جو ۲مئی ۲۰۱۲ء کو بگرام ایئربیس پر افغانستان پر مسلط کیا گیا ہے اور جس کی طالبان اور حزبِ اسلامی نے مخالفت کا برملا اعلان کیا ہے۔ امریکا کا ہدف جنگ کے اس نئے دور کے لیے پاکستان کو مجبور کرنا ہے، جب کہ پاکستان کا حقیقی مفاد اس میں مضمر ہے کہ امریکا کا افغانستان سے مکمل انخلاہو، امریکا کے ساتھ افغانستان میں بھارت کے کردار سے بھی نجات پائی جائے، اور افغانستان صحیح معنوں میں خود اپنے پائوں پر کھڑا ہو اور علاقے کے ممالک کے تعاون سے اپنا استحکام بھی حاصل کرے اور علاقے کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور اسے سامراجی قوتوں کے کھیل سے پاک کیا جاسکے۔ امریکا کا ہدف نئی شکل میں جنگ کے تسلسل کے لیے شرائط کار کا تعین ہے، جب کہ پاکستان اور خود افغانستان اور علاقے کے دوسرے ممالک خصوصیت سے ایران اور چین کا مفاد اس میں ہے کہ امن، اور بیرونی کھیل سے پاک سلامتی اور ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پوری بحث اور جستجو کا اصل مرکزی نکتہ جنگ سے امن، تصادم سے تعاون، اور مداخلت سے مفاہمت کی طرف منتقل کیا جائے۔ امریکا سے تصادم اور دشمنی کی پالیسی نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ علاقے کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکا کے ٹینک پر بیٹھ کر اس کے جنگی اور سیاسی و معاشی ایجنڈے کے حصول میں شریک بننا بھی ہمارے اور علاقے کے مفاد میں نہیں۔
سب سے پہلی بات مقصد اور منزل کا تعین ہے۔ اس وقت سب سے اہم ایشو یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کس طرح جلد از جلد ختم ہو، امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، اور افغان قوم اپنے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لے۔
دوسری بات افغانستان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ کے کھیل سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اور باہم اعتماد کو مستحکم کرتے ہوئے قومی مفاہمت کے عمل کو تقویت دینا اور اس کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔
تیسری بات جو پاکستان کے مستقبل کے اعتبار سے بہت اہم ہے، وہ پوری شائستگی سے امریکا سے یہ کہنا ہے کہ ہمیں آپ کی معاشی اور فوجی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم تجارتی اور سیاسی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، اور دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر مشترکات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن غلامی اور محکومی کا جو فریم ورک بن گیا ہے اس سے نکلنا بے حد ضروری ہے۔ امریکا اور پاکستان کے وسائل اور سیاسی، عسکری اور معاشی قوت میں فرق ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہم اپنے کو محکومی کی زنجیروں میں جکڑ ڈالیں۔ پاکستان کی ۱۷۵؍ارب ڈالر کی معیشت کے لیے ایک ارب ڈالر کی معاشی امداد کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے لیے ہم اپنی سیاسی آزادی، نظریاتی تشخص، معاشی خودانحصاری اور تہذیبی شناخت کو دائو پر لگادیں۔ اگر ہم اپنے وسائل کو دیانت، محنت اور اعلیٰ صلاحیت سے ترقی دیں تو بہت کم وقت میں اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ آج بھی امریکا کی ایک ارب ڈالر سالانہ کی معاشی امداد کے مقابلے میں بیرونِ ملک پاکستانی ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ اپنے ملک بھیج رہے ہیں اور اگر صحیح پالیسیاں اختیار کی جائیں تو اسے دگنا کیا جاسکتا ہے۔
اچھی حکومت، کرپشن سے پاک قیادت، تعلیم اور انصاف کی مرکزیت پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی، عوام پر اعتماد اور عوام کی بہبود کے لیے تمام مساعی کا اہتمام ہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنے اصل مقصد کے حصول اور اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتا ہے۔ یہ وہ اہداف ہیں جو حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ملک کو ایک دیانت دار اور باصلاحیت قیادت میسر آجائے اور قوم کے تمام مادی اور انسانی وسائل لوٹ کھسوٹ اور تصادم کے بجاے ایسی ترقی کے لیے صرف ہوں جس میں سب کا بھلا ہو۔ موجودہ حالات میں یہ اسی وقت ممکن ہے جب روایتی سیاسی شکنجوں سے ہم اپنے کو آزاد کریں اور نظریاتی اور اخلاقی سیاست کا راستہ اختیار کریں۔ موجودہ قیادت نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے لیکن جمہوری عمل اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود تبدیلی کا بہترین طریقہ ہے۔ موجودہ حکومت حکمرانی کے اُس مینڈیٹ سے محروم ہوچکی ہے جو اسے فروری ۲۰۰۸ء میں حاصل ہوا تھا۔ اس پس منظر میں پانچ سال پورے کرنے کی رَٹ لگانا ملک کو بحران میں مبتلا رکھنے کا نسخہ ہے۔ حکومت کے لیے سوا چار سال بہت بڑا وقت ہے۔ اگر اس حکومت نے عوام کی ’خدمت‘ کی ہے تو اسے انتخابات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر اسے بھی یقین ہے کہ عوام اس سے بے زار ہیں تو اس کے لیے بھی معقولیت کا راستہ یہی ہے کہ عوام کو نئی قیادت بروے کار لانے کا موقع دے۔ ہماری نگاہ میں ملک کی فوری ضرورت امریکا کی محکومی کے سایے سے نکلنا اور افغانستان میں جنگ نہیں امن کے عمل کو متحرک کرنا ہے۔ یہی عوام کی طرف جلد از جلد رجوع کی ضرورت ہے تاکہ نئی قیادت نئی سندجواز (مینڈیٹ) کے ساتھ ملک کو اس دلدل سے نکال سکے جس میں وہ اس وقت پھنسا ہوا ہے۔
(منشورات، منصورہ، لاہور سے کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۹ روپے۔ سیکڑے پر رعایت)
مرد اور مرد کی جنسی محبت جتنابڑا گناہ ہے ، عورت اور عورت کی جنسی محبت بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ اخلاقی حیثیت سے ان د ونوںبرائیوں میں نہ نوعیت کا فرق ہے اور نہ درجے کا۔ افسوس ہے کہ یہ نام نہاد ’ادب لطیف‘ جو رسالوں اور افسانوں اور ناولوں کی شکل میں گھرگھر پہنچ رہا ہے، اور یہ فحش تصویریں اور فلمیں جنھیں آزادی کے ساتھ مردوں کی طرح عورتیں بھی دیکھ رہی ہیں، اور یہ عشق آموز گانے جو ریڈیو کی برکت سے بچے بچے کی زبان پر چڑھ رہے ہیں، اور یہ اختلاطِ مردوزن جس کو روز بروز ہماری سوسائٹی میں فروغ نصیب ہو رہا ہے، اِن ساری چیزوں نے مل جل کر نوجوان مردوں کی طرح نوجوان لڑکیوں کو بھی غیرمعمولی جذباتی ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے۔ شہوانی جذبات کی ایک بھٹی ہے جو سینوں میں بھڑکا دی گئی ہے اور بہت سی دھونکنیاں ہر آن اسے زیادہ اور زیادہ بھڑکانے میں لگی ہوئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بگاڑ اب تک زیادہ تر مردوں میں پایا جاتا تھا، وہ ایک وبا کی طرح شریف گھروں کی لڑکیوں اور درس گاہوں کی طالبات اور استانیوں میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ جن خواتین کو زنانہ درس گاہوں کے حالات قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ان کی اطلاع یہ ہے کہ آج لڑکیوں میں جو بے حیائی، بے باکی، جنسی مسائل پر کھلی کھلی گفتگو کرنے کی جرأت اور جنسی رجحانات ___ فطری اور غیرفطری، ہر دو طرح کے رجحانات___ کے اظہار و اعلان کی عام جسارت پائی جاتی ہے، چند سال پہلے تک اس کا تصور کرنا مشکل تھا۔ اب لڑکیوں میں یہ چرچے عام ہو رہے ہیں کہ کون سی صاحب زادی کس ’استانی کی منظورِنظر ہیں‘ اور کون سی صاحب زادی کسی دوسری صاحب زادی کے عشق میں مبتلا ہیں، اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
لُطف یہ ہے کہ اس جہنم کی طرف جو لوگ اپنی قوم کو دھکیل رہے ہیں وہ اپنی اب تک کی کوششوں کے نتائج سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ انھیں حسرت یہ ہے کہ کاش ملّا کی مخالفت و مزاحمت راہ میں حائل نہ ہوتی تو وہ ترقی کے مزید قدم ذرا جلدی جلدی اُٹھا سکتے!(’رسائل و مسائل‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۳-۴،رمضان ۱۳۷۱ھ، جون ۱۹۵۲ء ، ص ۱۱۸-۱۱۹)